Maktaba Wahhabi

آیت نمبرترجمہسورہ نام
1 بسم اللہ سورہ نمل کی ایک آیت یا؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے اللہ کی کتاب کو اسی یعنی ( «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» ) سے شروع کیا ۔ علماء کا اتفاق ہے کہ آیت «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» سورۃ نمل کی ایک آیت ہے ۔ البتہ اس میں اختلاف ہے کہ وہ ہر سورت کے شروع میں خود مستقل آیت ہے ؟ یا ہر سورت کی ایک مستقل آیت ہے جو اس کے شروع میں لکھی گئی ہے ؟ یا ہر سورت کی آیت کا جزو ہے ؟ یا صرف سورۃ فاتحہ ہی کی آیت ہے اور دوسری سورتوں کی نہیں ؟ صرف ایک سورت کو دوسری سورت سے علیحدہ کرنے کے لیے لکھی گئی ہے ؟ اور خود آیت نہیں ہے ؟ علماء سلف اور خلف کا ان آرا میں اختلاف چلا آتا ہے ان کی تفصیل اپنی جگہ پر موود ہے ۔ سنن ابوداؤد میں صحیح سند کے ساتھ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سورتوں کی جدائی نہیں جانتے تھے جب تک آپ پر «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» نازل نہیں ہوتی تھی} ۱؎ ۔ (سنن ابوداود:788،قال الشیخ الألبانی:صحیح) یہ حدیث مستدرک حاکم میں بھی ہے ۲؎ (مستدرک حاکم:231/1) ایک مرسل حدیث میں یہ روایت سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے بھی مروی ہے ۔ چنانچہ صحیح ابن خزیمہ میں سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے «بِسْمِ اللہِ » کو سورۃ فاتحہ کے شروع میں نماز میں پڑھا اور اسے ایک آیت شمار کیا} ۳؎ (ابن خزیمہ:493:ضعیف) لیکن اس کے ایک راوی عمر بن ہارون بلخی ضعیف ہیں اسی مفہوم کی ایک روایت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے ۴؎ ۔ (دارقطنی:312/1:ضعیف) سیدنا علی ، سیدنا ابن عباس ، سیدنا عبداللہ بن عمر ، سیدنا عبداللہ بن زبیر ، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہم ، عطا ، طاؤس ، سعید بن جبیر ، مکحول اور زہری رحمہم اللہ کا یہی مذہب ہے کہ «بِسْمِ اللہِ » ہر سورت کے آغاز میں ایک مستقل آیت ہے سوائے سورۃ برات کے ۔ ان صحابہ اور تابعین کے علاوہ عبداللہ بن مبارک ، امام شافعی ، امام احمد اور اسحٰق بن راہویہ اور ابوعبیدہ قاسم بن سلام رحمہم اللہ کا بھی یہی مذہب ہے ۔ البتہ امام مالک رحمہ اللہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے ساتھی کہتے ہیں ۔ کہ «بِسْمِ اللہِ » الخ نہ تو سورۃ فاتحہ کی آیت ہے نہ کسی اور سورت کی ۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا ایک قول یہ بھی ہے کہ «بِسْمِ اللہِ » الخ سورۃ فاتحہ کی تو ایک آیت ہے لیکن کسی اور سورۃ کی نہیں ۔ ان کا ایک قول یہ بھی ہے کہ ہر سورت کے اول کی آیت کا حصہ ہے لیکن یہ دونوں قول غریب ہیں ۔ داؤد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ ہر سورت کے اول میں «بِسْمِ اللہِ » ایک مستقل آیت ہے سورت میں داخل نہیں ۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے بھی یہی روایت ہے ۱؎ اور ابوبکر رازی رحمہ اللہ نے ابوحسن کرخی رحمہ اللہ کا بھی یہی مذہب بیان کیا ہے جو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے بڑے پایہ کے ساتھی تھے ۔ یہ تو تھی بحث «بِسْمِ اللہِ » کے سورۃ فاتحہ کی آیت ہونے یا نہ ہونے کی ۔ [ صحیح مذہب یہی معلوم ہوتا ہے کہ جہاں کہیں قرآن پاک میں یہ آیت شریفہ ہے وہاں مستقل آیت ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» مترجم ] بسم اللہ با آواز بلند یا دبی آواز سے؟ اب اس میں بھی اختلاف ہے کہ آیا اسے با آواز بلند پڑھنا چاہیئے یا پست آواز سے ؟ جو لوگ اسے سورۃ فاتحہ کی آیت نہیں کہتے وہ تو اسے بلند آواز سے پڑھنے کے بھی قائل نہیں ۔ اسی طرح جو لوگ اسے سورۃ فاتحہ سے الگ ایک آیت مانتے ہیں وہ بھی اس کے پست آواز سے پڑھنے کے قائل ہیں ۔ رہے وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ یہ ہر سورت کے اول سے ہے ۔ ان میں اختلاف ہے ۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا تو مذہب ہے کہ سورۃ فاتحہ اور ہر سورت سے پہلے اسے اونچی آواز سے پڑھنا چاہیئے ۔ صحابہ ، تابعین اور مسلمانوں کے مقدم و مؤخر امامین کی جماعتوں کا یہی مذہب ہے صحابہ میں سے اسے اونچی آواز سے پڑھنے والے سیدنا ابوہریرہ ، سیدنا ابن عمر ، سیدنا ابن عباس ، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہم ہیں ۔ بیہقی رحمہ اللہ اور ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے سیدنا عمر اور سیدنا علی رضی اللہ عنہما سے بھی روایت کیا ۱؎ اور سیدنا ابوبکر ، سیدنا عمر ، سیدنا عثمان اور سیدنا علی رضی اللہ عنہم سے بھی غریب سند سے امام خطیب بغدادی نے نقل کیا ہے۔ تابعین میں سے سعید بن جبیر ، عکرمہ ، ابوقلابہ ، زہری ، علی بن حسن ان کے لڑکے محمد ، سعید بن مسیب ، عطاء ، طاؤس ، مجاہد ، سالم ، محمد بن کعب قرظی ، عبید ، ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم ، ابووائل ابن سیرین ، محمد بن منکدر ، علی بن عبداللہ بن عباس ان کے صاحبزادے محمد نافع ابن عمر کے مولیٰ زید بن اسلم ، عمر بن عبدالعزیز ، ارزق بن قیس ، حبیب بن ابی ثابت ، ابوشعثا ، مکحول ، عبداللہ بن معقل بن مقرن اور بروایت بیہقی ، عبداللہ بن صفوان ، محمد بن حنفیہ اور بروایت ابن عبدالبر عمرو بن دینار رحمہم اللہ سب کے سب ان نمازوں میں جن میں قرأت اونچی آواز سے پڑھی جاتی ہے «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» بھی بلند آواز سے پڑھتے تھے ۔ ایک دلیل تو اس کی یہ ہے کہ جب یہ آیت سورۃ فاتحہ میں سے ہے تو پھر پوری سورت کی طرح یہ بھی اونچی آواز سے ہی پڑھنی چاہیئے ۔ علاوہ ازیں سنن نسائی ، صحیح ابن خزیمہ ، صحیح ابن حبان ، مستدرک حاکم میں مروی ہے کہ {سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھائی اور قرأت میں اونچی آواز سے «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» بھی پڑھی اور فارغ ہونے کے بعد فرمایا میں تم سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز میں مشابہ ہوں} ۱؎ ۔ (سنن نسائی:906،تخریج دارالدعوہ:صحیح) اس حدیث کو دارقطنی ، خطیب اور بیہقی وغیرہ نے صحیح کہا ہے ۲؎ ۔ ابوداؤد اور ترمذی میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کو «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» سے شروع کیا کرتے تھے} ۳؎ ۔ (سنن ترمذی:245،قال الشیخ الألبانی:ضعیف الإسناد) امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ حدیث ایسی زیادہ صحیح نہیں ۔ مستدرک حاکم میں انہی سے روایت ہے کہ {نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» کو اونچی آواز سے پڑھتے تھے} ۴؎ ۔ (مستدرک حاکم:208/1:ضعیف جدا) امام حاکم نے اسے صحیح کہا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انداز قرات صحیح بخاری میں ہے کہ {انس رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت کس طرح تھی ۔ فرمایا کہ ہر کھڑے لفظ کو آپ لمبا کر کے پڑھتے تھے پھر «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» پڑھ کر سنائی «بِسْمِ اللہِ » پر مد کیا «الرَّحْمٰنِ» پر مد کیا «الرَّحِیمِ» پر مد کیا} ۱؎ ۔ (صحیح بخاری:5046) مسند احمد ، سنن ابوداؤد ، صحیح ابن خزیمہ اور مستدرک حاکم میں سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر ہر آیت پر رکتے تھے اور آپ کی قرأت الگ الگ ہوتی تھی جیسے «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» پھر ٹھہر کر «الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ» پھر ٹھہر کر «لرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» پھر ٹھہر کر «مَالِکِ یَوْمِ الدِّینِ»} ۲؎ ۔ (سنن ترمذی:2927،قال الشیخ الألبانی:صحیح) دارقطنی اسے صحیح بتاتے ہیں ۳؎ ۔ امام شافعی ، امام حاکم نے انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ {معاویہ رضی اللہ عنہ نے مدینہ میں نماز پڑھائی اور «بِسْمِ اللہِ » نہ پڑھی تو جو مہاجر اصحاب رضی اللہ عنہم وہاں موجود تھے انہوں نے ٹوکا ۔ چنانچہ پھر وہ جب نماز پڑھانے کو کھڑے ہوئے تو «بِسْمِ اللہِ » پڑھی} ۴؎ ۔ (مسند شافعی:80/1:حسن) غالباً اتنی ہی احادیث و آثار اس مذہب کی حجت کے لیے کافی ہیں ۔ باقی رہے اس کے خلاف آثار ، روایات ، ان کی سندیں ، ان کی تعلیل ، ان کا ضعف اور ان کی تقاریر وغیرہ ان کا دوسرے مقام پر ذکر اور ہے ۔ دوسرا مذہب یہ ہے کہ نماز میں «بِسْمِ اللہِ » کو زور سے نہ پڑھنا چاہیئے ۔ خلفاء اربعہ اور عبداللہ بن معقل رضی اللہ عنہم ، تابعین اور بعد والوں کی جماعتوں سے یہ ثابت ہے ۔ امام ابوحنیفہ ، امام ثوری ، امام احمد بن حنبل کا بھی یہی مذہب ہے ۔ امام مالک کا مذہب ہے کہ سرے سے «بِسْمِ اللہِ » پڑھے ہی نہیں نہ تو آہستہ نہ بلند ۱؎ ۔ ان کی دلیل ایک تو صحیح مسلم والی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کو تکبیر سے اور قرأت کو «الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ» سے ہی شروع کیا کرتے تھے} ۲؎ ۔ (صحیح مسلم:498) صحیحین میں ہے انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں {میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر اور عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے پیچھے نماز پڑھی یہ سب «الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ» سے ہی شروع کرتے تھے} ۳؎ ۔ (صحیح بخاری:743) صحیح مسلم میں ہے کہ {«بِسْمِ اللہِ » نہیں پڑھتے تھے نہ تو قرأت کے شروع میں نہ اس قرأت کے آخر میں} ۴؎ ۔ (صحیح مسلم:399) سنن میں عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے بھی یہی مروی ہے ۵؎ ۔ (سنن ترمذی:244،قال الشیخ الألبانی: ضعیف) یہ ہے دلیل ان ائمہ کے «بِسْمِ اللہِ » آہستہ پڑھنے کی ۔ یہ خیال رہے کہ یہ کوئی بڑا اختلاف نہیں ہر ایک فریق دوسرے کی نماز کی صحت کا قائل ہے ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» [ «بِسْمِ اللہِ » کا مطلق نہ پڑھنا تو ٹھیک نہیں ۔ بلند و پست پڑھنے کی احادیث میں اس طرح تطبیق ہو سکتی ہے کہ دونوں جائز ہیں ۔ گو پست پڑھنے کی احادیث قدرے زور دار ہیں «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ مترجم ] فصل بسم اللہ کی فضیلت کا بیان تفسیر ابن ابی حاتم میں ہے کہ {عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے «بِسْمِ اللہِ » کی نسبت سوال کیا آپ نے فرمایا : ”یہ اللہ تعالیٰ کا نام ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے بڑے ناموں اور اس میں اس قدر نزدیکی ہے جیسے آنکھ کی سیاہی اور سفیدی میں“} ۱؎ ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:21/1:موضوع باطل) ابن مردویہ میں بھی اسی طرح کی روایت ہے ۔ اور یہ روایت بھی ابن مردویہ میں ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جب عیسیٰ علیہ السلام کو ان کی والدہ نے معلم کے پاس بٹھایا تو اس نے کہا لکھئے «بِسْمِ اللہِ » عیسیٰ علیہ السلام نے کہا «بِسْمِ اللہِ » کیا ہے ؟ استاد نے جواب دیا میں نہیں جانتا ۔ آپ نے فرمایا : «ب» سے مراد اللہ تعالیٰ کا «بہا» یعنی بلندی ہے اور «س» سے مراد اس کی «سنا» یعنی نور اور روشنی ہے اور «م» سے مراد اس کی مملکت یعنی بادشاہی ہے اور «اللہ» کہتے ہیں معبودوں کے معبود اور اور «رحمن» کہتے ہیں دنیا اور آخرت میں رحم کرنے والے کو «رحیم» کہتے ہیں ۔ آخرت میں کرم و رحم کرنے والے کو“} ۲؎ ۔ (الکامل لابن عدی:303/1:موضوع باطل) ابن جریر میں بھی یہی روایت ہے ۳؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:140:موضوع باطل) لیکن سند کی رو سے یہ بے حد غریب ہے ، ممکن ہے کسی صحابی وغیرہ سے مروی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ بنی اسرائیل کی روایتوں میں سے ہو ۔ مرفوع حدیث نہ ہو «وَاللہُ اَعْلَمُ»۔ ابن مردویہ میں منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ پر ایک ایسی آیت اتری ہے جو کسی اور نبی پر سوائے سلیمان علیہ السلام کے نہیں اتری ۔ وہ آیت «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» ہے ۔ جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب یہ آیت «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» اتری بادل مشرق کی طرف چھٹ گئے ۔ ہوائیں ساکن ہو گئیں ۔ سمندر ٹھہر گیا جانوروں نے کان لگا لیے ۔ شیاطین پر آسمان سے شعلے گرے اور پروردگار عالم نے اپنی عزت و جلال کی قسم کھا کر فرمایا کہ جس چیز پر میرا یہ نام لیا جائے گا اس میں ضرور برکت ہو گی ۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جہنم کے انیس داروغوں سے جو بچنا چاہے وہ «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» پڑھے ، اس کے بھی انیس حروف ہیں ، ہر حرف ہر فرشتے سے بچاؤ بن جائے گا ۔ اسے ابن عطیہ نے بیان کیا ہے ۔ اس کی تائید ایک اور حدیث سے بھی کی ہے جس میں {آپ نے فرمایا :”میں نے تیس سے اوپر فرشتوں کو دیکھا کہ وہ جلدی کر رہے تھے یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت فرمایا تھا جب ایک شخص نے «رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ حَمْدًا کَثِیرًا طَیِّبًا مُبَارَکًا فِیہِ» پڑھا تھا“} ۱؎ ۔ (صحیح بخاری:799) اس میں بھی تیس سے اوپر حروف ہیں اتنے ہی فرشتے اترے اسی طرح «بِسْمِ اللہِ » میں بھی انیس حروف ہیں اور وہاں فرشتوں کی تعداد بھی انیس ہے وغیرہ وغیرہ ۔ مسند احمد میں ہے {نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے جو صحابی سوار تھے ، ان کا بیان ہے کہ آپ کی اونٹنی ذرا پھسلی تو میں نے کہا شیطان کا ستیاناس ہو ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”یہ نہ کہو اس سے شیطان پھولتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ گویا اس نے اپنی قوت سے گرایا ۔ ہاں «بِسْمِ اللہِ » کہنے سے وہ مکھی کی طرح ذلیل و پست ہو جاتا ہے“} ۱؎ ۔ (سنن ابوداود:4982،قال الشیخ الألبانی:صحیح) نسائی نے اپنی کتاب «عمل الیوم واللیلہ» میں اور ابن مردویہ نے اپنی تفسیر میں بھی اسے نقل کیا ہے اور صحابی کا نام اسامہ بن عمیر بتایا ہے اس میں یہ لکھا ہے کہ {«بِسْمِ اللہِ » کہہ کر «بِسْمِ اللہِ » کی برکت سے شیطان ذلیل ہو گا} ۲؎ ۔ (النسائی فی عمل الیوم واللیہ:559:صحیح بالشواھد) اسی لیے ہر کام اور ہر بات کے شروع میں «بِسْمِ اللہِ » کہہ لینا مستحب ہے ۔ خطبہ کے شروع میں بھی «بِسْمِ اللہِ » کہنی چاہیئے ۔ حدیث میں ہے کہ {جس کام کو «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» سے شروع نہ کیا جائے وہ بے برکتا ہوتا ہے} ۳؎ ۔ (سنن ابن ماجہ:1894،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) بیت الخلاء [پاخانہ] میں جانے کے وقت «بِسْمِ اللہِ » پڑھ لے ۱؎ ۔ (سنن ترمذی:606،قال الشیخ الألبانی: صحیح) حدیث میں یہ بھی ہے کہ وضو کے وقت بھی پڑھ لے ۔ مسند احمد اور سنن میں ابوہریرہ ، سعید بن زید اور ابوسعید رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جو شخص وضو میں اللہ کا نام نہ لے اس کا وضو نہیں ہوتا“} ۲؎ ۔ (سنن ابن ماجہ:399،قال الشیخ الألبانی:حسن) یہ حدیث حسن ہے بعض علماء تو وضو کے وقت آغاز میں «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» پڑھنا واجب بتاتے ہیں ۔ بعض مطلق وجوب کے قائل ہیں ۔ جانور کو ذبح کرتے وقت بھی اس کا پڑھنا مستحب ہے ۔ امام شافعی رحمہ اللہ اور ایک جماعت کا یہی خیال ہے ۔ بعض نے یاد آنے کے وقت اور بعض نے مطلقاً اسے واجب کہا ہے اس کا تفصیلی بیان عنقریب آئے گا «ان شاءاللہ تعالیٰ» ۔ امام رازی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں اس آیت کی فضیلت میں بہت سی احادیث نقل کی ہیں ۔ ایک میں ہے کہ ” جب تو اپنی بیوی کے پاس جائے اور «بِسْمِ اللہِ » پڑھ لے اور اللہ کوئی اولاد بخشے تو اس کے اپنے اور اس کی اولاد کے سانسوں کی گنتی کے برابر تیرے نامہ اعمال میں نیکیاں لکھی جائیں گی ۔“ لیکن یہ روایت بالکل بے اصل ہے ، میں نے تو یہ کہیں کسی معتبر کتاب میں نہیں پائی ۔ کھاتے وقت بھی «بِسْمِ اللہِ » پڑھنی مستحب ہے ۔ صحیح مسلم [و بخاری] میں ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر بن ابوسلمہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا : ”[ جو آپ کی پرورش میں ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے اگلے خاوند سے تھے ] کہ «بِسْمِ اللہِ » کہو اور اپنے داہنے ہاتھ سے کھایا کرو اور اپنے سامنے سے نوالہ اٹھایا کرو“} ۱؎ ۔ (صحیح بخاری:5376) بعض علماء اس وقت بھی «بِسْمِ اللہِ » کا کہنا واجب بتلاتے ہیں ۔ بیوی سے ملنے [جماع] کے وقت بھی «بِسْمِ اللہِ » پڑھنی چاہیئے ۔ صحیحین میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جب تم میں سے کوئی اپنی بیوی سے ملنے کا ارادہ کرے تو یہ پڑھے «بِاسْمِ اللہِ ، اللہُمَّ جَنِّبْنَا الشَّیْطَانَ، وَجَنِّبْ الشَّیْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا» یعنی اے اللہ ہمیں اور جو ہمیں تو دے اسے شیطان سے بچا ۔“ فرماتے ہیں کہ اگر اس جماع سے حمل ٹھہر جائے تو اس بچہ کو شیطان کبھی نقصان نہ پہنچا سکے گا} ۱؎ ۔ (صحیح بخاری:141) یہاں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ «بِسْمِ اللہِ » کی «ب» کا تعلق کس سے ہے نحویوں کے اس میں دو قول ہیں اور دونوں ہی تقریباً ہم خیال ہیں ۔ بعض اسم کہتے ہیں اور بعض فعل ، ہر ایک کی دلیل قرآن سے ملتی ہے جو لوگ اسم کے ساتھ متعلق بتاتے ہیں وہ تو کہتے ہیں کہ «بِسْمِ اللہِ اِبْتِدَائِی» یعنی اللہ کے نام سے میری ابتداء ہے ۔ قرآن میں ہے «وَقَالَ ارْکَبُوا فِیہَا بِسْمِ اللہِ مَجْرَاہَا وَمُرْسَاہَا إِنَّ رَبِّی لَغَفُورٌ رَحِیمٌ» ۲؎ (11-ہود:41) اس میں اسم یعنی مصدر ظاہر کر دیا گیا ہے اور جو لوگ فعل مقدر بتاتے ہیں چاہے وہ امر ہو یا خبر ۔ جیسے کہ «أَبْدَأُ بِسْمِ اللہِ » اور «ابتدات بِسْمِ اللہِ » ان کی دلیل آیت «قْرَأْ بِاسْمِ» ۳؎ الخ ہے۔ دراصل دونوں ہی صحیح ہیں ، اس لیے کہ فعل کے لیے بھی مصدر کا ہونا ضروری ہے تو اختیار ہے کہ فعل کو مقدر مانا جائے اور اس کے مصدر کو مطابق اس فعل کے جس کا نام پہلے لیا گیا ہے ۔ کھڑا ہونا ہو، بیٹھنا ہو ، کھانا ہو ، پینا ہو ، قرآن کا پڑھنا ہو ، وضو اور نماز وغیرہ ہو ، ان سب کے شروع میں برکت حاصل کرنے کے لیے امداد چاہنے کے لیے اور قبولیت کے لیے اللہ تعالیٰ کا نام لینا مشروع ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم میں روایت ہے ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ {جب سب سے پہلے جبرائیل علیہ السلام ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی لے کر آئے تو فرمایا : اے محمد ! کہئے «أَسْتَعِیذ بِاَللَّہِ السَّمِیع الْعَلِیم مِنْ الشَّیْطَان الرَّجِیم» پھر کہا کہئے «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» مقصود یہ تھا کہ اٹھنا ، بیٹھنا ، پڑھنا سب اللہ کے نام سے شروع ہو} ۱؎ ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:137:ضعیف منقطع) بے معنی بحث اسم یعنی نام ہی «مُسَمَّی» یعنی نام والا ہے یا کچھ اور اس میں اہل علم کے تین قول ہیں ایک تو یہ کہ اسم ہی «مُسَمَّی» ہے ۔ ابوعبیدہ کا اور سیبویہ کا بھی یہی قول ہے ۔ باقلانی اور ابن فورک کی رائے بھی یہی ہے ۔ ابن خطیب رازی اپنی تفسیر کے مقدمات میں لکھتے ہیں ۔ حشویہ اور کرامیہ اور اشعریہ تو کہتے ہیں اسم نفس «مُسَمَّی» ہے اور نفس «تَّسْمِیَۃ» کا «غَیْر» ہے اور معتزلہ کہتے ہیں کہ اسم «مُسَمَّی» کا «غَیْر» ہے اور نفس «تَّسْمِیَۃ» ہے ۔ ہمارے نزدیک اسم «مُسَمَّی» کا بھی «غَیْر» ہے اور «تَّسْمِیَۃ»ہ کا بھی ۔ ہم کہتے ہیں کہ اگر اسم سے مراد لفظ ہے جو آوازوں کے ٹکڑوں اور حروف کا مجموعہ ہے تو بالبداہت ثابت ہے کہ یہ «مُسَمَّی» کا «غَیْر» ہے اور اگر اسم سے مراد ذات «مُسَمَّی» ہے تو یہ وضاحت کو ظاہر کرتا ہے جو محض بیکار ہے ۔ ثابت ہوا کہ اس بیکار بحث میں پڑنا ہی فضول ہے ۔ اس کے بعد جو لوگ اسم اور «مُسَمَّی» کے فرق پر اپنے دلائل لائے ہیں ، ان کا کہنا ہے محض اسم ہوتا ہے «مُسَمَّی» ہوتا ہی نہیں ۔ جیسے «مَعْدُوم» کا لفظ ۔ کبھی ایک «مُسَمَّی» کے کئی اسم ہوتے ہیں جیسے مترادف کبھی اسم ایک ہوتا ہے اور «مُسَمَّی» کئی ہوتے ہیں جیسے مشترک ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسم اور چیز ہے اور «مُسَمَّی» اور چیز ہے یعنی نام الگ ہے ۔ اور نام والا الگ ہے ۔ اور دلیل سنئیے کہتے ہیں اسم تو لفظ ہے دوسرا عرض ہے ۔ «مُسَمَّی» کبھی ممکن یا واجب ذات ہوتی ہے ۔ اور سنئیے اگر اسم ہی کو «مُسَمَّی» مانا جائے تو چاہیئے کہ آگ کا نام لیتے ہی حرارت محسوس ہو اور برف کا نام لیتے ہی ٹھنڈک ۔ جبکہ کوئی عقلمند اس کی تصدیق نہیں کرتا ۔ اور دلیل سنئیے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے «وَلِلہِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَیٰ فَادْعُوہُ بِہَا» کہ ’اللہ کے بہت سے بہترین نام ہیں ، تم ان ناموں سے اسے پکارو‘ ۱؎ ۔ (7-الأعراف:180) حدیث شریف ہے کہ ’اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں‘ ۲؎ (صحیح مسلم:2677) تو خیال کیجئے کہ نام کس قدر بکثرت ہیں حالانکہ «مُسَمَّی» ایک ہی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ «وحدہ لاشریک لہ» ہے اسی طرح «اسماء» کو اللہ کی طرف اس آیت میں مضاف کرنا ۔ اور جگہ فرمانا : «فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّکَ الْعَظِیمِ» ۳؎ (56-الواقعۃ:74) وغیرہ یہ اضافت بھی اسی کا تقاضا کرتی ہے کہ اسم اور ہو اور «مُسَمَّی» اور کیونکہ اضافت کا مقتضا مغائرت کا ہے ۔ اسی طرح یہ «وَلِلہِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَیٰ فَادْعُوہُ بِہَا» یعنی ’اللہ تعالیٰ کو اس کے ناموں کے ساتھ پکارو‘ ۴؎ (7-الأعراف:180) یہ بھی اس امر کی دلیل ہے کہ نام اور ہے نام والا اور ۔ اب ان کے دلائل بھی سنئیے جو اسم اور «مُسَمَّی» کو ایک ہی بتاتے ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : «تَبَارَکَ اسْمُ رَبِّکَ ذِی الْجَلَالِ وَالْإِکْرَامِ» ’جلال و اکرام والے تیرے رب کا بابرکت نام ہے‘ ۵؎ (55-الرحمن:78) تو نام برکتوں والا فرمایا حالانکہ خود اللہ تعالیٰ برکتوں والا ہے ۔ اس کا آسان جواب یہ ہے کہ اس مقدس ذات کی وجہ سے اس کا نام بھی عظمتوں والا ہے ۔ ان کی دوسری دلیل یہ ہے کہ جب کوئی شخص کہے کہ زینب پر طلاق ہے تو طلاق اس کی بیوی جس کا نام زینب ہے ہو جاتی ہے ۔ اگر نام اور نام والے میں فرق ہوتا تو نام پر طلاق پڑتی ، نام والے پر کیسے پڑتی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس سے مراد یہی ہوتی ہے کہ اس ذات پر طلاق ہے جس کا نام زینت ہے ۔ تسمیہ کا اسم سے الگ ہونا اس دلیل کی بنا پر ہے کہ تسمیہ کہتے ہیں کسی کا نام مقرر کرنے کو اور ظاہر ہے یہ اور چیز ہے اور نام والا اور چیز ہے ۔ رازی کا قول یہی ہے کہ یہ سب کچھ تو لفظ «باسم» کے متعلق تھا ۔ اب لفظ «اللہ» کے متعلق سنئے ۔ اللہ خاص نام ہے رب تبارک و تعالیٰ کا ۔ کہا جاتا ہے کہ اسم اعظم یہی ہے اس لیے کہ تمام عمدہ صفتوں کے ساتھ ہی موصوف ہوتا ہے ۔ جیسے کہ قرآن پاک میں ہے «ہُوَ اللہُ الَّذِی لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ عَالِمُ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ ہُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیمُ * ہُوَ اللہُ الَّذِی لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ الْمَلِکُ الْقُدٰوسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُہَیْمِنُ الْعَزِیزُ الْجَبَّارُ الْمُتَکَبِّرُ سُبْحَانَ اللہِ عَمَّا یُشْرِکُونَ * ہُوَ اللہُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَہُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَیٰ یُسَبِّحُ لَہُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَہُوَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ» ۶؎ (59-الحشر:22-23-24) یعنی ’وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں جو ظاہر و باطن کا جاننے والا ہے ، جو رحم کرنے والا مہربان ہے ، وہی اللہ جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ، جو بادشاہ ہے پاک ہے ، سلامتی والا ہے ، امن دینے والا ہے ، محافظ ہے ، غلبہ والا ہے ، زبردست ہے ، بڑائی والا ہے ، وہ ہر شرک سے اور شرک کی چیز سے پاک ہے ۔ وہی اللہ پیدا کرنے والا ، مادہ کو بنانے والا ، صورت بخشنے والا ہے ۔ اس کے لیے بہترین پاکیزہ نام ہیں ، آسمان و زمین کی تمام چیزیں اس کی تسبیح بیان کرتی ہیں ۔ وہ عزتوں اور حکمتوں والا ہے‘ ۔ ان آیتوں میں تمام نام صفاتی ہیں ، اور لفظ اللہ ہی کی صفت ہیں یعنی اصلی نام «اللہ» ہے ۔ دوسری جگہ فرمایا کہ اللہ ہی کے لیے ہیں پاکیزہ اور عمدہ عمدہ نام ۔ اللہ تعالٰی نے اپنے تمام (صفاتی) نام خود تجویز فرمائے ہیں پس تم اس کو ان ہی ناموں سے پکارو ۔ اور فرماتا ہے «ادْعُوا اللہَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ أَیًّا مَا تَدْعُوا فَلَہُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَیٰ» الخ یعنی ’اللہ کو پکارو ۔ یا رحمن کو پکارو ، جس نام سے پکارو ، اسی کے پیارے پیارے اور اچھے اچھے نام ہیں‘ ۱؎ (17-الإسراء:110) بخاری و مسلم میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں ۔ ایک کم ایک سو جو انہیں یاد کر لے جنتی ہے} ۲؎ ۔ (صحیح بخاری:7392) ترمذی اور ابن ماجہ کی روایت میں ان ناموں کی تفصیل بھی آئی ہے ۳؎ ۔ (سنن ترمذی:3507،قال الشیخ الألبانی:صحیح، ضعیف بسرد الأسماء) اور دونوں کی روایتوں میں الفاظ کی کچھ تبدیلی کچھ کمی زیادتی بھی ہے ۔ رازی نے اپنی تفسیر میں بعض لوگوں سے روایت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پانچ ہزار نام ہیں ۔ ایک ہزار تو قرآن شریف اور صحیح حدیث میں ہیں اور ایک ہزار توراۃ میں اور ایک ہزار انجیل میں اور ایک ہزار زبور میں اور ایک ہزار لوح محفوظ میں ۔ اللہ کے مترادف المعنی کوئی نام نہیں «اللہ» ہی وہ نام ہے جو سوائے اللہ تبارک و تعالیٰ کے کسی اور کا نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک عرب کو یہ بھی معلوم نہیں کہ اس کا اشتقاق کیا ہے اس کا باب کیا ہے بلکہ ایک بہت بڑی نحویوں کی جماعت کا خیال ہے کہ یہ اسم جامد ہے اور اس کا کوئی اشتقاق ہے ہی نہیں ۔ قرطبی رحمہ اللہ نے علماء کرام کی ایک بڑی جماعت کا یہی مذہب نقل کیا ہے جن میں امام شافعی رحمہ اللہ، امام خطابی رحمہ اللہ، امام الحرمین امام غزالی رحمہ اللہ بھی شامل ہیں ۔ خلیل اور سیبویہ سے روایت ہے کہ «الف لام» اس میں لازم ہے ۔ امام خطابی رحمہ اللہ نے اس کی ایک دلیل یہ دی ہے کہ «یااللہ» تو کہہ سکتے ہیں مگر «یاالرَّحْمٰنِ» کہتے کسی کو نہیں سنا اگر لفظ «اللہ» میں «الف لام» اصل کلمہ کا نہ ہوتا تو اس پر ندا کا لفظ «یا» داخل نہ ہو سکتا کیونکہ قواعد عربی کے لحاظ سے حرف ندا کا لفظ لام والے اسم پر داخل ہونا جائز نہیں ۔ بعض لوگوں کا یہ قول بھی ہے کہ یہ مشتق ہے اور اس پر روبہ بن عجاج کا ایک شعر دلیل لاتے ہیں جس میں «مَصْدَرِ التَّأَلٰہ» ، کا بیان ہے جس کا ماضی مضارع «أَلِہ» «یَأْلَہُ» ، «إِلَاہَۃً» اور «تَأَلٰہًا» ہے جیسے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ وہ «وَیَذَرَکَ وَإِلَاہَتَکَ» پڑھتے تھے ، مراد اس سے عبادت ہے ۔ یعنی اس کی عبادت کی جاتی ہے اور وہ کسی کی عبادت نہیں کرتا ۔ مجاہد وغیرہ کہتے ہیں ۔ بعض نے اس پر اس آیت سے دلیل پکڑی ہے کہ آیت «وَہُوَ اللہُ فِی السَّمَاوَاتِ وَفِی الْأَرْضِ» ۱؎ (6-الأنعام:3) الخ یعنی ’وہی اللہ ہے آسمانوں میں اور زمین میں‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَہُوَ الَّذِی فِی السَّمَاءِ إِلٰہٌ وَفِی الْأَرْضِ إِلٰہٌ» ۲؎ (43-الزخرف:84) الخ یعنی ’وہی ہے جو آسمان میں معبود ہے اور زمین میں معبود ہے‘ ۔ سیبویہ خلیل سے نقل کرتے ہیں کہ اصل میں یہ «إِلَاہٌ» تھا جیسے «فِعَالٍ» پھر ہمزہ کے بدلے «الف و لام» لایا گیا جیسے «النَّاسِ» کہ اس کی اصل «أُنَاسٌ» ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس لفظ کی اصل «إِلَاہٌ» ہے «الف لام» حرف تعظیم کے طور پر لایا گیا ہے ۔ سیبویہ کا بھی پسندیدہ قول یہی ہے ۔ عرب شاعروں کے شعروں میں بھی یہ لفظ ملتا ہے ۔ کسائی اور فرا کہتے ہیں کہ اس کی اصل «الْإِلَہُ» تھی ہمزہ کو حذف کیا اور پہلے «لام» کو دوسرے میں ادغام کیا جیسے کہ آیت «لٰکِنَّا ہُوَ اللہُ رَبِّی وَلَا أُشْرِکُ بِرَبِّی أَحَدًا» ۳؎ (18-الکہف:38) میں «لَکِنَّ أَنَا» کا «لَکِنَّا» ہوا ہے ۔ چنانچہ حسن کی قرأت میں «لَکِنَّ أَنَا» ہی ہے اور اس کا اشتقاق «وَلِہَ» سے ہے اور اس کے معنی «تَحَیَّرَ» ہیں «وَلَہُ» عقل کے چلے جانے کو کہتے ہیں ۔ عربی میں «رَجُلٌ وَالِہٌ» اور «امْرَأَۃٌ وَلْہَی» اور «مَاءٌ مُولَہٌ» اس وقت کہتے ہیں جب وہ جنگل میں بھیج دیا جائے ۔ چونکہ ذات باری تعالیٰ میں اور اس کی صفتوں کی تحقیق میں عقل حیران و پریشان ہو جاتی ہے اس لیے اس پاک ذات کو اللہ کہا جاتا ہے ۔ اس بنا پر اصل میں یہ لفظ «وَلَّاہُ» تھا ۔ «واؤ» کو «ہمزہ» سے بدل دیا گیا جیسے کہ «وِشَاحٌ» اور «وَوِسَادَۃٍ» میں «أَشَاحُ» اور «أَسَادَۃٌ» کہتے ہیں ۔ رازی کہتے ہیں کہ یہ لفظ «أَلِہْتُ إِلَی فُلَانٍ» سے مشتق ہے جو کہ معنی میں «سَکَنْتُ» کے ہے ۔ یعنی میں نے فلاں سے سکون اور راحت حاصل کی ۔ چونکہ عقل کا سکون صرف ذات باری تعالیٰ کے ذکر سے ہے اور روح کی حقیقی خوشی اسی کی معرفت میں ہے اس لیے کہ علی الاطلاق کامل وہی ہے ، اس کے سوا اور کوئی نہیں اسی وجہ سے اللہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن مجید میں ہے : «اَلَا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَـطْمَیِٕنٰ الْقُلُوْبُ» ۴؎ (13-الرعد:18) یعنی ’ایمانداروں کے دل صرف اللہ تعالیٰ کے ذکر سے ہی اطمینان حاصل کرتے ہیں‘ ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ «لَاہَ یَلُوہُ» سے ماخوذ ہے جس کے معنی چھپ جانے اور حجاب کرنے کے ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ «أَلِہَ الْفَصِیلُ» سے ہے چونکہ بندے اسی کی طرف تضرع اور زاری سے جھکتے ہیں اسی کے دامن رحمت کا پلہ ہر حال میں تھامتے ہیں ، اس لیے اسے اللہ کہا گیا ایک قول یہ بھی ہے کہ عرب «أَلِہَ الرَّجُلُ یَأْلُہُ» اس وقت کہتے ہیں جب کسی اچانک امر سے کوئی گھبرا اٹھے اور دوسرا اسے پناہ دے اور بچا لے چونکہ تمام مخلوق کو ہر مصیبت سے نجات دینے والا اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہے ، اس لیے اس کو اللہ کہتے ہیں ۔ جیسے کہ قرآن کریم میں ہے : «وَّہُوَ یُجِیْرُ وَلَا یُجَارُ عَلَیْہِ» ۱؎ (23-المؤمنون:89) الخ یعنی ’وہی بچاتا ہے اور اس کے مقابل میں کوئی نہیں بچایا جاتا‘ ۔ «وَہُوَ الْمُنْعِمُ» حقیقی «الْمُنْعِمُ» وہی ہے ، فرماتا ہے «وَمَا بِکُمْ مِنْ نِعْمَۃٍ فَمِنَ اللہِ » ۲؎ (16-النحل:53) الخ یعنی ’تمہارے پاس جنتی نعمتیں ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہیں‘ ، وہی «مُطْعِمُ» ہے ، فرمایا ہے «وَہُوَ یُطْعِمُ وَلَا یُطْعَمُ» ۳؎ (6-الأنعام:14) الخ یعنی ’وہ کھلاتا ہے اور اسے کوئی نہیں کھلاتا‘ ۔ وہی «موجد» ہے فرماتا ہے «قُلْ کُلٌّ مِنْ عِنْدِ اللہِ » ۴؎ (4-النساء:78) الخ یعنی ’ہر چیز کا وجود اللہ کی طرف سے ہے‘ ۔ رازی کا مختار مذہب یہی ہے کہ لفظ اللہ مشتق نہیں ہے ۔ خلیل ، سیبویہ اکثر اصولیوں اور فقہاء کا یہی قول ہے ، اس کی بہت سی دلیلیں بھی ہیں اگر یہ مشتق ہوتا تو اس کے معنی میں بہت سے افراد کی شرکت ہوتی حالانکہ ایسا نہیں ۔ پھر اس لفظ کو موصوف بنایا جاتا ہے اور بہت سی اس کی صفتیں آتی ہیں جیسے « اللہُ» ، «الرَّحْمَنُ» ، «الرَّحِیمُ» ، «الْمَلِکُ» ، «الْقُدٰوسُ» وغیرہ تو معلوم ہوا کہ یہ مشتق نہیں ۔ قرآن میں ایک جگہ «الْعَزِیزِ الْحَمِیدِ اللہ» ۱؎ (14-إبراہیم:1-2) الخ جو آتا ہے وہاں یہ «عَطْفِ» بیان ہے ۔ ایک دلیل ہے اس کے مشتق نہ ہونے کی یہ بھی ہے «ہَلْ تَعْلَمُ لَہُ سَمِیًّا» ۲؎ (19-مریم:65) الخ یعنی ’کیا اس کا ہم نام بھی کوئی جانتے ہو ؟‘ لیکن یہ غور طلب ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ بعض لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ لفظ عبرانی ہے لیکن رازی رحمہ اللہ نے اس قول کو ضعیف کہا ہے اور فی الواقع ضعیف ہے بھی ۔ رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مخلوق کی دو قسمیں ہیں ایک وہ جو معرفت الٰہی کے کنارے پر پہنچ گئے دوسرے وہ جو اس سے محروم ہیں جو حیرت کے اندھیروں میں اور جہالت کی پرخار وادیوں میں پڑے ہیں وہ تو عقل کو رو بیٹھے اور روحانی کمالات کو کھو بیٹھے ہیں لیکن جو ساحل معرفت پر پہنچ چکے ہیں جو نورانیت کے وسیع باغوں میں جا ٹھہرے جو کبریائی اور جلال کی وسعت کا اندازہ کر چکے ہیں وہ بھی یہاں تک پہنچ کر حیران و ششدر رہ گئے ہیں ۔ غرض ساری مخلوق اس کی پوری معرفت سے عاجز اور سرگشتہ و حیران ہے ۔ ان معانی کی بنا پر اس پاک ذات کا نام اللہ ہے ۔ ساری مخلوق اس کی محتاج ، اس کے سامنے جھکنے والی اور اس کی تلاش کرنے والی ہے ۔ اس حقیقت کی وجہ سے اسے اللہ کہتے ہیں ۔ جیسا کہ خلیل کا قول ہے عرب کے محاورے میں ہر اونچی اور بلند چیز کو «لَاہً» کہتے ہیں ۔ سورج جب طلوع ہوتا ہے تب بھی وہ کہتے ہیں «الشَّمْسُ لَاہَتْ» چونکہ پروردگار عالم بھی سب سے بلند و بالا ہے اس کو بھی اللہ کہتے ہیں ۔ اور «الْإِلَہُ» کے معنی عبادت کرنے اور «تَأَلَّہَ» کے معنی حکم برداری اور قربانی کرنے کے ہیں اور رب عالم کی عبادت کی جاتی ہے اور اس کے نام پر قربانیاں کی جاتی ہیں اس لیے اسے اللہ کہتے ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی قرأت میں ہے «وَیَذَرک وَإِلَاہَتک» اس کی اصل «الْإِلَہ» ہے پس صرف کلمہ کی جگہ جو ہمزہ ہے وہ حذف کیا گیا ۔ پھر نفس کلمہ کا «لام» زائد «لام» سے جو تعریف کے لیے لایا گیا ہے مل گیا اور پھر ایک کو دوسرے میں مدغم کر دیا تو ایک لازم مشدد رہ گیا اور تعظیماً اللہ کہا گیا ۔ یہ تو تفسیر لفظ «اللہ» کی تھی ۔ اَلرَّحمن اور الرحیم کے معنی «الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» کا بیان آئے گا یہ دونوں نام رحمت سے مشتق ہیں ۔ دونوں میں مبالغہ ہے «الرَّحْمٰنِ» میں «الرَّحِیمِ» سے زیادہ مبالغہ ہے ۔ علامہ ابن جریر رحمہ اللہ کے قول سے معلوم ہوتا ہے وہ بھی ان معنوں سے متفق ہیں گویا اس پر اتفاق ہے ۔ بعض سلف کی تفسیروں سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے ان معنوں پر مبنی عیسیٰ علیہ السلام کا قول بھی پہلے گزر چکا ہے کہ «الرَّحْمٰنِ» سے مراد دنیا اور آخرت میں رحم کرنے والا اور «الرَّحِیمِ» سے مراد آخرت میں رحم کرنے والا ہے ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ «رحمٰن» مشتق نہیں ہے اگر یہ اس طرح ہوتا تو مرحوم کے ساتھ ملتا ۔ حالانکہ قرآن میں «بِالْمُؤْمِنِینَ رَحِیمًا» ۱؎ (33-الأحزاب:43) الخ آیا ہے ۔ مبرد کہتے ہیں «رحمٰن» عبرانی نام ہے عربی نہیں ۔ ابواسحاق زجاج معانی القرآن میں کہتے ہیں کہ احمد بن یحییٰ کا قول ہے کہ «رحیم» عربی لفظ ہے اور «رحمٰن» عبرانی ہے دونوں کو جمع کر دیا گیا ہے ۔ لیکن ابواسحٰق فرماتے ہیں ” اس قول کو دل نہیں مانتا “ ۔ قرطبی فرماتے ہیں اس لفظ کے مشتق ہونے کی یہ دلیل ہے کہ ترمذی کی صحیح حدیث ہے {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ میں رحمٰن ہوں میں نے رحم کو پیدا کیا اور اپنے نام میں سے ہی اس کا نام مشتق کیا ۔ اس کے ملانے والے کو میں ملاؤں گا اور اس کے توڑنے والے کو کاٹ دوں گا} ۲؎ (سنن ترمذی:1908،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اس صریح حدیث کے ہوتے ہوئے مخالفت اور انکار کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ۔ رہا کفار عرب کا اس نام سے انکار کرنا یہ محض ان کی جہالت کا ایک کرشمہ تھا ۔ قرطبی کہتے ہیں کہ ” «رحمٰن» اور «رحیم» کے ایک ہی معنی ہیں اور جیسے «نَدْمَانَ» اور «نَدِیمٍ» “ ابوعبید کا بھی یہی خیال ہے ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ «فَعْلَانَ فَعِیلٍ» کی طرح نہیں ۔ «فَعْلَانَ» میں مبالغہ ضروری ہوتا ہے جیسے «غَضْبَانُ» اسی شخص کو کہہ سکتے ہیں ۔ جو بہت ہی غصہ والا ہو اور «فَعِیلٌ» صرف فاعل اور صرف مفعول کے لیے بھی آتا ہے ۔ جو مبالغہ سے خالی ہوتا ہے ۔ ابوعلی فارسی کہتے ہیں کہ ” «رحمٰن» عام اسم ہے جو ہر قسم کی رحمتوں کو شامل ہے اور صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے ۔ «رحیم» باعتبار مومنوں کے ہے فرمایا ہے «وَکَانَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَحِیْمًا» ۱؎ (33-الأحزاب:43) ’مومنون کے ساتھ رحیم ہے‘ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ” یہ دونوں رحمت و رحم والے ہیں ، ایک میں دوسرے سے زیادہ رحمت و رحم ہے ۔ “ ۱؎ (تفسیر قرطبی:105/1) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی اس روایت میں لفظ «ارق» ہے اس کے معنی خطابی وغیرہ «أَرَقٰ» کرتے ہیں جیسے کہ حدیث میں ہے کہ {اللہ تعالیٰ «رفق» یعنی شفیق اور مہربانی والا ہے وہ ہر کام میں نرمی اور آسانی کو پسند کرتا ہے وہ دوسروں پر نرمی اور آسانی کرنے والے پر وہ نعمتیں مرحمت فرماتا ہے جو سختی کرنے والے پر عطا نہیں فرماتا} ۲؎ ۔ (صحیح مسلم:2593) ابن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” «رحمٰن» اسے کہتے ہیں کہ جب اس سے جو مانگا جائے عطا فرمائے اور «رحیم» وہ ہے کہ جب اس سے نہ مانگا جائے وہ غضبناک ہو ۔ “ ترمذی کی حدیث میں ہے {جو شخص اللہ تعالیٰ سے نہ مانگے اللہ تعالیٰ اس پر غضبناک ہوتا ہے} ۳؎ ۔ (سنن ترمذی:3373،قال الشیخ الألبانی:حسن) بعض شاعروں کا قول ہے : « اللہُ یَغْضَبُ إِنْ تَرَکْت سُؤَالَہُ ... وَبُنَیٰ آدَمَ حِینَ یُسْأَلُ یَغْضَبُ» یعنی اللہ تعالیٰ سے نہ مانگو تو وہ ناراض ہوتا ہے اور بنی آدم سے مانگو تو وہ بگڑتے ہیں ۔ عزرمی فرماتے ہیں کہ «رحمٰن» کے معنی تمام مخلوق پر رحم کرنے والا اور «رحیم» کے معنی مومنوں پر رحم کرنے والا ہے ۱؎ ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:127/1) دیکھئیے قرآن کریم کی دو آیتوں «ثُمَّ اسْتَوَیٰ عَلَی الْعَرْشِ» ۲؎ (25-الفرقان:59) اور «الرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوَیٰ» ۳؎ (20-طہ:5) میں «اسْتَوَیٰ» کے ساتھ «رحمٰن» کا لفظ ذکر کیا تاکہ تمام مخلوق کو یہ لفظ اپنے عام رحم و کرم کے معنی سے شامل ہو سکے اور مومنوں کے ذکر کے ساتھ لفظ «رحیم» فرمایا :«وَکَانَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَحِیْمًا» ۴؎ (33-الأحزاب:43) الخ پس معلوم ہوا کہ «رحمٰن» میں مبالغہ بہ نسبت «رحیم» کے بہت زیادہ ہے ۔ لیکن حدیث کی ایک دعا میں «رَحْمَنَ الدٰنْیَا وَالْآخِرَۃِ وَرَحِیمَہُمَاا» ۵؎ (سلسلۃ احادیث ضعیفہ البانی:5287،موضوع) بھی آیا ہے ۔ «رحمٰن» یہ نام بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے ، اس کے سوا کسی دوسرے کا نام نہیں ۔ جیسے کہ فرمان ہے کہ «اللہ» کو پکارو یا «رحمٰن» کو جس نام سے چاہو اسے پکارو اس کے بہت اچھے اچھے نام ہیں ۔ ایک اور آیت میں ہے : «وَاسْأَلْ مَنْ أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رُسُلِنَا أَجَعَلْنَا مِنْ دُونِ الرَّحْمٰنِ آلِہَۃً یُعْبَدُونَ» ۶؎ (43-الزخرف:45) یعنی ’ان سے پوچھ لو کہ تجھ سے پہلے ہم نے جو رسول بھیجے تھے کیا انہوں نے «رحمٰن» کے سوا کسی کو معبود کہا تھا کہ ان کی عبادت کی جائے‘ ۔ جب مسیلمہ ، کذاب نے بڑھ چڑھ کر دعوے شروع کئے اور اپنا نام «رحمٰن العیامہ» رکھا تو پروردگار نے اسے بے انتہا رسوا اور برباد کیا ، وہ جھوٹ اور کذب کی علامت مشہور ہو گیا ۔ آج اسے مسیلمہ کذاب کہا جاتا ہے اور ہر جھوٹے دعویدار کو اس کے ساتھ تشبیہ دی جاتی ہے ۔ ہر دیہاتی اور شہری ہر کچے پکے گھر والا اسے بخوبی جانتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ «رحیم» میں «رحمٰن» سے زیادہ مبالغہ ہے اس لیے کہ اس لفظ کے ساتھ اگلے لفظ کی تاکید کی گئی ہے اور تاکید بہ نسبت اس کے کہ جس کی تاکید جائے زیادہ قوی ہوتی ہے ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں تاکید ہے ہی نہیں بلکہ یہ تو صفت ہے اور صفت میں یہ قاعدہ نہیں ۔ پس اللہ تعالیٰ کا نام لیا گیا جس نام میں بھی اس کا کوئی شریک نہیں ، سب سے پہلے اس کی صفت «رحمٰن» بیان کی گئی اور یہ نام رکھنا بھی دوسروں کو ممنوع ہے جیسے فرما دیا کہ «اللہ» کو یا «رحمٰن» کو پکارو جس نام سے چاہو پکارو اس کے لیے اسماء حسنیٰ بہت سارے ہیں ۔ مسیلمہ نے بدترین جرأت کی لیکن برباد ہوا اور اس کے گمراہ ساتھیوں کے سوا اس کی کسی قدر کسی کے دل میں نہ آئی ۔ «رحیم» کے وصف کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے دوسروں کو بھی موصوف کیا ہے ، فرماتا ہے : «لَقَدْ جَاءَکُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِکُمْ عَزِیزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتٰمْ حَرِیصٌ عَلَیْکُم بِالْمُؤْمِنِینَ رَءُوفٌ رَّحِیمٌ» ۷؎ (9-التوبۃ:128) اس آیت میں اپنے نبی کو رحیم کہا ، اسی طرح اپنے بعض ایسے ناموں سے دوسروں کو بھی اس نے یاد کیا ہے ۔ جیسے آیت «إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن نٰطْفَۃٍ أَمْشَاجٍ نَّبْتَلِیہِ فَجَعَلْنَاہُ سَمِیعًا بَصِیرًا» ۸؎ (76-الإنسان:2) میں انسان کو «سمیع» اور «بصیر» کہا ہے ۔ حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بعض نام تو ایسے ہیں کہ دوسروں پر بھی ہم معنی ہونے کا اطلاق ہو سکتا ہے اور بعض ایسے ہیں کہ نہیں ہو سکتا جیسے «اللہ» اور «رحمٰن» ، «خالق» اور «رزاق» وغیرہ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنا پہلا نام اللہ پھر اس کی صفت «رحمٰن» سے کی ۔ اس لیے کہ «رحیم» کی نسبت یہ زیادہ خاص ہے اور زیادہ مشہور ہے ۔ قاعدہ ہے کہ اول سب سے زیادہ بزرگ نام لیا جاتا ہے ، اس لیے سب سے پہلے سب سے زیادہ خاص نام لیا گیا پھر اس سے کم ، پھر اس سے کم ، اگر کہا جائے کہ جب «رحمٰن» میں «رحیم» سے زیادہ مبالغہ موجود ہے پھر اسی پر اکتفا کیوں نہ کیا گیا ؟ تو اس کے جواب میں عطا خراسانی کا یہ قول پیش کیا جا سکتا ہے کہ چونکہ کافروں نے «رحمٰن» کا نام بھی غیروں کا رکھ لیا تھا اس لیے «رحیم» کا لفظ بھی ساتھ لگایا گیا تاکہ کسی قسم کا وہم ہی نہ رہے ۔ «رحمٰن و رحیم» صرف اللہ تعالیٰ ہی کا نام ہے ۔ ابن جریر نے تاہم اس قول کی تصدیق کی ہے ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جاہلیت کے زمانے کے عرب «رحمٰن» سے واقف ہی نہ تھے ، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کی آیت «قُلِ ادْعُوا اللہَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ أَیًّا مَا تَدْعُوا فَلَہُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَیٰ» ۱؎ (17-الإسراء:110) نازل فرما کر ان کی تردید کی ۔ حدیبیہ والے سال جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا کہ «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» لکھو تو کفار نے کہا تھا کہ ہم «رحمٰن» اور «رحیم» کو نہیں جانتے ۲؎ ۔ (صحیح بخاری:حدیث2731) بخاری میں یہ روایت موجود ہے ۔ بعض روایتوں میں ہے کہ انہوں نے کہا تھا کہ ہم «رحمٰن یمامہ» کو جانتے ہیں کسی اور «رحمٰن» کو نہیں جانتے ۔ اسی طرح قرآن پاک میں ہے «وَإِذَا قِیلَ لَہُمُ اسْجُدُوا لِلرَّحْمٰنِ قَالُوا وَمَا الرَّحْمٰنُ أَنَسْجُدُ لِمَا تَأْمُرُنَا وَزَادَہُمْ نُفُورًا» ۳؎ (25-الفرقان:60) یعنی ’جب ان سے کہا جاتا ہے کہ «رحمٰن» کے سامنے سجدہ کرو تو وہ حیران زدہ ہو کر جواب دیتے ہیں کہ «رحمٰن» کون ہے ؟ جسے ہم تیرے قول کی وجہ سے سجدہ کریں‘ ۔ درحقیقت یہ بدکار لوگ صرف عناد ، تکبر ، سرکشی اور دشمنی کی بنا پر «رحمٰن» سے انکار کرتے تھے نہ کہ وہ اس نام سے ناآشنا تھے ۔ اس لیے کہ جاہلیت کے زمانے کے پرانے اشعار میں بھی اللہ تعالیٰ کا نام «رحمٰن» موجود ہے جو انہی کے شاعروں کے شعر ہیں ۔ سلامہ اور دوسرے شعراء کے اشعار میں ملاحظہ ہو ۔ تفسیر ابن جریر میں ہے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے کہ «رحمٰن» «فعلان» کے وزن پر رحمت سے ماخوذ ہے اور کلام عرب سے ہے ۔ وہ اللہ رفیق اور رقیق ہے جس پر رحم کرنا چاہے اور جس سے غصے ہو اس سے بہت دور اور اس پر بہت سخت گیر بھی ہے اسی طرح اس کے تمام نام ہیں ۔ حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں «رحمٰن» کا نام دوسروں کے لیے منع ہے ۔ خود اللہ تعالیٰ کا نام ہے لوگ اس نام پر کوئی حق نہیں رکھتے ۔ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا والی حدیث جس میں کہ {ہر آیت پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہرا کرتے تھے} ۴؎ ۔ (سنن ابوداود:4001،قال الشیخ الألبانی:صحیح) پہلے گزر چکی ہے ۔ اور ایک جماعت اسی طرح «بِسْمِ اللہِ » کو آیت قرار دے کر آیت «الْحَمْدُ» کو الگ پڑھتی ہے اور بعض ملا کر پڑھتے ہیں ۔ «میم» کو دو ساکن جمع ہو جانے کی وجہ سے زیر دیتے ہیں ۔ جمہور کا بھی یہی قول ہے ۔ کوفی کہتے ہیں کہ بعض عرب «میم» کے زیر سے پڑھتے ہیں ، ہمزہ کی حرکت زبر «میم» کو دیتے ہیں ۔ جیسے آیت «الم» * « اللہُ لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ الْحَیٰ الْقَیٰومُ» ۵؎ (3-آل عمران:1-2) ابن عطیہ کہتے ہیں کہ زبر کی قرأت کسی سے بھی میرے خیال میں مروی نہیں ۔ آیت «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» کی تفسیر ختم ہوئی ۔ اب آگے سنئیے ۔ الفاتحة
2 الحمد اللہ کی تفسیر ساتوں قاری «الْحَمْدُ» کو دال پر پیش سے پڑھتے ہیں اور «الْحَمْدُ لِلہِ» کو مبتدا خبر مانتے ہیں ۔ سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ اور روبہ بن عجاج رحمہ اللہ کا قول ہے کہ «دال» پر زبر کے ساتھ ہے اور فعل یہاں مقدر ہے ۔ ابن ابی عبلہ رحمہ اللہ «الْحَمْدُ» کی «دال» کو اور «اللہ» کے پہلے «لام» دونوں کو پیش کے ساتھ پڑھتے ہیں اور اس «لام» کو پہلے کے تابع کرتے ہیں اگرچہ اس کی شہادت عربی زبان میں ملتی ہے ، مگر شاذ ہے ۔ حسن رحمہ اللہ اور زید بن علی رحمہ اللہ ان دونوں حرفوں کو زیر سے پڑھتے ہیں اور «لام» کے تابع «دال» کو کرتے ہیں ۔ ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں «الْحَمْدُ لِلہِ» کے معنی یہ ہیں کہ صرف اللہ تعالیٰ کا شکر ہے اس کے سوا کوئی اس کے لائق نہیں ، خواہ وہ مخلوق میں سے کوئی بھی ہو اس وجہ سے کہ تمام نعمتیں جنہیں ہم گن بھی نہیں سکتے ، اس مالک کے سوا اور کوئی ان کی تعداد کو نہیں جانتا اسی کی طرف سے ہیں ۔ اسی نے اپنی اطاعت کرنے کے تمام اساب ہمیں عطا فرمائے ۔ اسی نے اپنے فرائض پورے کرنے کے لیے تمام جسمانی نعمتیں ہمیں بخشیں ۔ پھر بےشمار دنیاوی نعمتیں اور زندگی کی تمام ضروریات ہمارے کسی حق بغیر ہمیں بن مانگے بخشیں ۔ اس کی لازوال نعمتیں ، اس کے تیار کردہ پاکیزہ مقام جنت کو ہم کس طرح حاصل کر سکتے ہیں ؟ یہ بھی اس نے ہمیں سکھا دیا پس ہم تو کہتے ہیں کہ اول آخر اسی مالک کی پاک ذات ہر طرح کی تعریف اور حمد و شکر کے لائق ہے ۱؎ ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:125/1) «الْحَمْدُ لِلہِ» یہ ثنا کا کلمہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ثنا و خود آپ کی ہے اور اسی ضمن میں گویا یہ فرما دیا ہے کہ تم کہو «الْحَمْدُ لِلہِ» بعض نے کہا کہ «الْحَمْدُ لِلہِ» کہنا اللہ تعالیٰ کے پاکیزہ ناموں اور اس کی بلند و بالا صفتوں سے اس کی ثنا کرنا ہے ۔ اور «الشٰکْرُ لِلہِ» کہنا اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کے احسان کا شکریہ ادا کرنا ہے ۱؎ ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:138/1) لیکن یہ قول ٹھیک نہیں ۔ اس لیے کہ عربی زبان کو جاننے والے علماء کا اتفاق ہے ۔ کہ شکر کی جگہ حمد کا لفظ اور حمد کی جگہ شکر کا لفظ بولتے ہیں ۔ جعفر صادق رحمہ اللہ ، ابن عطا صوفی رحمہ اللہ بھی فرماتے ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ہر شکر کرنے والے کا کلمہ «الْحَمْدُ لِلہِ» ہے ۔ قرطبی رحمہ اللہ نے ابن جریر رحمہ اللہ کے قول کو معتبر کرنے کے لیے یہ دلیل بھی بیان کی ہے کہ اگر کوئی «الْحَمْدُ لِلہِ شُکْرًا» کہے تو جائز ہے ۔ دراصل علامہ ابن جریر رحمہ اللہ کے اس دعویٰ میں اختلاف ہے ، پچھلے علماء میں مشہور ہے کہ «حَمْدَ» کہتے ہیں زبانی تعریف بیان کرنے کو خواہ جس کی حمد کی جاتی ہو اس کی لازم صفتوں پر ہو یا متعدی صفتوں پر اور شکر صرف متعدی صفتوں پر ہوتا ہے اور وہ دل زبان اور جملہ ارکان سے ہوتا ہے ۔ عرب شاعروں کے اشعار بھی اس پر دلیل ہیں ۔ ہاں اس میں اختلاف ہے کہ «حَمْدَ» کا لفظ عام ہے یا «شٰکْر» کا اور صحیح بات یہ ہے کہ اس میں عموم اس حیثیت سے خصوص ہے کہ «حَمْدَ» کا لفظ جس پر واقع ہو وہ عام طور پر «شٰکْر» کے معنوں میں آتا ہے ۔ اس لیے کہ وہ لازم اور متعدی دونوں اوصاف پر آتا ہے شہ سواری اور کرم دونوں پر «حَمِدْتُہُ» کہہ سکتے ہیں لیکن اس حیثیت سے وہ صرف زبان سے ادا ہو سکتا ہے یہ لفظ خاص اور «شٰکْر» کا لفظ عام ہے کیونکہ وہ قول ، فعل اور نیت تینوں پر بولا جاتا ہے اور صرف متعدی صفتوں پر بولے جانے کے اعتبار سے «شٰکْر» کا لفظ خاص ہے ۔ شہ سواری کے حصول پر «شَکَرْتُہُ» نہیں کہہ سکتے البتہ «شَکَرْتُہُ عَلَی کَرَمِہِ وَإِحْسَانِہِ إِلَیَّ» کہہ سکتے ہیں ۔ یہ تھا خلاصہ متاخرین کے قول کا ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ابونصر اسماعیل بن حماد جوہری کہتے ہیں «حمد» مقابل ہے «ذم» کے ۔ لہٰذا یوں کہتے ہیں کہ «حَمِدْتُ الرَّجُلَ أَحْمَدُہُ حَمْدًا وَمَحْمَدَۃً فَہُوَ حَمِیدٌ وَمَحْمُودٌ» تحمید میں «حمد» سے زیادہ مبالغہ ہے ۔ «حمد» «شکر» سے عام ہے ۔ کسی محسن کی دی ہوئی نعمتوں پر اس کی ثنا کرنے کو «شکر» کہتے ہیں ۔ عربی زبان میں «شَکَرْتُہُ» اور «شَکَرْتُ لَہُ» دونوں طرح کہتے ہیں لیکن «لام» کے ساتھ کہنا زیادہ فصیح ہے ۔ مدح کا لفظ «حمد» سے بھی زیادہ عام ہے اس لیے کہ زندہ مردہ بلکہ جمادات پر بھی مدح کا لفظ بول سکتے ہیں ۔ کھانے اور مکان کی اور ایسی اور چیزوں کی بھی مدح کی جاتی ہے احسان سے پہلے ، احسان کے بعد ، لازم صفتوں پر ، متعدی صفتوں پر بھی اس کا اطلاق ہو سکتا ہے تو اس کا عام ہونا ثابت ہوا ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» حمد کی تفسیر اقوال سلف سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ «سُبْحَانَ اللہِ » اور «لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ» اور بعض روایتوں میں ہے کہ « اللہُ أَکْبَرُ» کو تو ہم جانتے ہیں لیکن یہ «الْحَمْدُ لِلہِ» کا کیا مطلب ؟ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ اس کلمہ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے پسند فرما لیا ہے اور بعض روایتوں میں ہے کہ اس کا کہنا اللہ کو بھلا لگتا ہے ۱؎ ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:15/1:ضعیف) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یہ کلمہ شکر ہے اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میرا شکر کیا ۲؎ ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:151) اس کلمہ میں شکر کے علاوہ اس کی نعمتوں ، ہدایتوں اور احسان وغیرہ کا اقرار بھی ہے ۔ کعب احبار رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ یہ کلمہ اللہ تعالیٰ کی ثنا ہے ۔ ضحاک کہتے ہیں یہ اللہ کی چادر ہے ۔ ایک حدیث میں بھی ایسا ہی ہے {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب تم «الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ» کہہ لو گے تو تم اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کر لو گے اب اللہ تعالیٰ تمہیں برکت دے گا} ۳؎ ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:152:ضعیف) {اسود بن سریع ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ میں نے ذات باری تعالیٰ کی حمد میں چند اشعار کہے ہیں اگر اجازت ہو تو سناؤں فرمایا : اللہ تعالیٰ کو اپنی حمد بہت پسند ہے} ۴؎ ۔ (مسند احمد:435/3:حسن) ترمذی ، نسائی اور ابن ماجہ میں سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ افضل ذکر «لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ» ہے اور افضل دعا «الْحَمْدُ لِلہِ» ہے } ۱؎ ۔ (سنن ترمذی:3383،قال الشیخ الألبانی:حسن) امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو حسن غریب کہتے ہیں ۔ ابن ماجہ کی ایک حدیث ہے کہ {جس بندے کو اللہ تعالیٰ نے کوئی نعمت دی اور وہ اس پر «الْحَمْدُ لِلہِ» کہے تو دی ہوئی نعمت لے لی ہوئی سے افضل ہو گی} ۲؎ ۔ (سنن ابن ماجہ:3805،قال الشیخ الألبانی:حسن) فرماتے ہیں اگر میری امت میں سے کسی کو اللہ تعالیٰ تمام دنیا دے دے اور وہ «الْحَمْدُ لِلہِ» کہے تو یہ کلمہ ساری دنیا سے افضل ہو گا ۔ قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ ساری دنیا دے دینا اتنی بڑی نعمت نہیں جتنی «الْحَمْدُ لِلہِ» کہنے کی توفیق دینا ہے اس لیے کہ دنیا تو فانی ہے اور اس کلمہ کا ثواب باقی ہی باقی ہے ۱؎ ۔ (سلسلۃ احادیث ضعیفہ البانی:876،ضعیف) جیسے کہ قرآن پاک میں ہے «الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِینَۃُ الْحَیَاۃِ الدٰنْیَا وَالْبَاقِیَاتُ الصَّالِحَاتُ خَیْرٌ عِنْدَ رَبِّکَ ثَوَابًا وَخَیْرٌ أَمَلًا» ۲؎ (18-الکہف:46) الخ یعنی ’مال اور اولاد دنیا کی زینت ہے اور نیک اعمال ہمیشہ باقی رہنے والے ، ثواب والے اور نیک امید والے ہیں‘ ۔ ابن ماجہ میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ایک شخص نے ایک مرتبہ کہا «یَا رَبِّ ، لَکَ الْحَمْدُ کَمَا یَنْبَغِی لِجَلَالِ وَجْہِکَ وَعَظِیمِ سُلْطَانِکَ» تو فرشتے گھبرا گئے کہ ہم اس کا کتنا اجر لکھیں ۔ آخر اللہ تعالیٰ سے انہوں نے عرض کی کہ تیرے ایک بندے نے ایک ایسا کلمہ کہا ہے کہ ہم نہیں جانتے اسے کس طرح لکھیں ، پروردگار نے باوجود جاننے کے ان سے پوچھا کہ اس نے کیا کہا ہے ؟ انہوں نے بیان کیا کہ اس نے یہ کلمہ کہا ہے ، فرمایا : ”تم یونہی اسے لکھ لو میں اس اسے اپنی ملاقات کے وقت اس کا اجر دے دوں گا“} ۳؎ ۔ (سنن ابن ماجہ:3801،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) قرطبی رحمہ اللہ ایک جماعت علماء سے نقل کرتے ہیں کہ «لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ» سے بھی «الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ» افضل ہے کیونکہ اس میں توحید اور حمد دونوں ہیں ۔ اور علماء کا خیال ہے کہ «لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ» افضل ہے اس لیے کہ ایمان و کفر میں یہی فرق کرتا ہے ، اس کے کہلوانے کے لیے کفار سے لڑائیاں کی جاتی ہیں ۔ جیسے کہ صحیح بخاری و مسلم حدیث میں ہے ۱؎ (صحیح بخاری:1399) ایک اور مرفوع حدیث میں ہے کہ {جو کچھ میں نے اور مجھ سے پہلے کے تمام انبیاء کرام نے کہا ہے ان میں سب سے افضل «لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیکَ لَہُ» ہے} ۲؎ ۔ (سنن ترمذی:3585،قال الشیخ الألبانی:حسن) سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی ایک مرفوع حدیث پہلے گزر چکی ہے کہ {افضل ذکر «لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ» ہے اور افضل دعا «الْحَمْدُ لِلہِ» ہے} ۳؎ ۔ (سنن ترمذی:3383،قال الشیخ الألبانی:حسن) ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے ۔ الحمد میں «الف» «لام» استغراق کا ہے یعنی حمد کی تمام تر قسمیں سب کی سب صرف اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ثابت ہیں ۔ جیسے کہ حدیث میں ہے کہ باری تعالیٰ تیرے ہی لیے تمام تعریفیں ہیں اور تمام ملک ہے ۔ تیرے ہی ہاتھ تمام بھلائیاں ہیں اور تمام کام تیری ہی طرف لوٹتے ہیں ۱؎ ۔ (مسند احمد:346/5:ضعیف) «رب» کہتے ہیں «مَالِکُ» اور «مُتَصَرِّفُ» کو لغت میں اس کا اطلاق سردار اور اصلاح کے لیے تبدیلیاں کرنے والے پر بھی ہوتا ہے اور ان سب معانی کے اعتبار سے ذات باری تعالیٰ کے لیے یہ خوب جچتا ہے ۔ «رب» کا لفظ بھی سوائے اللہ تعالیٰ کے دوسرے پر نہیں کہا جا سکتا ہاں اضافت کے ساتھ ہو تو اور بات ہے جیسے «رَبٰ الدَّارِ» یعنی گھر والا وغیرہ ۔ بعض کا تو قول ہے کہ اسم اعظم یہی ہے ۔ عالمین سے مراد «الْعَالَمِینَ» جمع ہے «عَالَمٍ» کی اللہ تعالیٰ کے سوا تمام مخلوق کو «عَالَمٍ» کہتے ہیں ۔ لفظ «عَالَمٍ» بھی جمع ہے اور اس کا واحد لفظ ہے ہی نہیں ۔ آسمان کی مخلوق خشکی اور تری کی مخلوقات کو بھی «عَوَالِمُ» یعنی کئی «عَالَمٍ» کہتے ہیں ۔ اسی طرح ایک ایک زمانے ، ایک ایک وقت کو بھی «عَالَمٍ» کہا جاتا ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس آیت کی تفسیر میں مروی ہے کہ اس سے مراد کل مخلوق ہے خواہ آسمانوں کی ہو یا زمینوں کی یا ان کے درمیان کی ، خواہ ہمیں اس کا علم ہو یا نہ ہو ۔ «علی ہذا القیاس» اس سے جنات اور انسان بھی مراد لیے گئے ہیں ۔ سعید بن جیر مجاہد اور ابن جریح رحمہ اللہ علیہم سے بھی یہ مروی ہے ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بھی غیر معتبر سند سے یہی منقول ہے اس قول کی دلیل قرآن کی آیت «لِیَکُونَ لِلْعَالَمِینَ نَذِیرًا» ۱؎ (25-الفرقان:1) بھی بیان کی جاتی ہے یعنی تاکہ وہ «عَالَمِینَ» یعنی جن اور انس کے لیے ڈرانے والا ہو جائے ۔ فراء اور ابوعبید کا قول ہے کہ سمجھدار کو عالم کہا جاتا ہے ۔ لہٰذا انسان ، جنات ، فرشتے ، شیاطین کو عالم کہا جائے گا ۔ جانوروں کو نہیں کہا جائے گا ۔ سیدنا زید بن اسلم رضی اللہ عنہ ، ابو محیص رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہر روح والی چیز کو عالم کہا جاتا ہے ۔ قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں ۔ ہر قسم کو ایک عالم کہتے ہیں مروان بن محمد عرف جعد جن کا لقب حمار تھا جو بنوامیہ میں سے اپنے زمانے کے خلیفہ تھے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے سترہ ہزار عالم پیدا کئے ہیں ۔ آسمانوں والے ایک عالم ، زمینوں والے سب ایک عالم اور باقی کو اللہ ہی جانتا ہے مخلوق کو ان کا علم نہیں ۔ ابوالعالیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں انسان کل ایک عالم ہیں ، سارے جنات کا ایک عالم ہے اور ان کے سوا اٹھارہ ہزار یا چودہ ہزار عالم اور ہیں ۔ فرشتے زمین پر ہیں اور زمین کے چار کونے ہیں ، ہر کونے میں ساڑھے تین ہزار عالم ہیں ۔ جنہیں اللہ تعالیٰ نے صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے ۔ یہ قول بالکل غریب ہے اور ایسی باتیں جب تک کسی صحیح دلیل سے ثابت نہ ہوں ماننے کے قابل نہیں ہوتیں ۔ حمیری رحمہ اللہ کہتے ہیں ایک ہزار امتیں ہیں ، چھ سو تری میں اور چار سو خشکی میں ۔ سعید بن مسیب سے یہ بھی مروی ہے ۔ ایک ضعیف روایت میں ہے کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خلافت کے زمانے میں ایک سال ٹڈیاں نہ نظر آئیں بلکہ تلاش کرنے کے باوجود پتہ نہ چلا ۔ آپ غمگین ہو گئے یمن ، شام اور عراق کی طرف سوار دوڑائے کہ کہیں بھی ٹڈیاں نظر آتی ہیں یا نہیں تو یمن والے سوار تھوڑی سی ٹڈیاں لے کر آئے اور امیر المؤمنین کے سامنے پیش کیں آپ نے انہیں دیکھ کر تکبیر کہی اور فرمایا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ، آپ فرماتے تھے اللہ تعالیٰ نے ایک ہزار امتیں پیدا کی ہیں جن میں سے چھ سو تری میں ہیں اور چار سو خشکی میں ان میں سے سب سے پہلے جو امت ہلاک ہو گی وہ ٹڈیاں ہوں گی بس ان کی ہلاکت کے بعد پے در پے اور سب امتیں ہلاک ہو جائیں گی جس طرح کہ تسبیح کا دھاگا ٹوٹ جائے اور ایک کے بعد ایک سب موتی جھڑ جاتے ہیں ۱؎ ۔ (مجمع الزوائد:322/7:باطل موضوع) اس حدیث کے راوی محمد بن عیسیٰ ہلالی ضعیف ہیں ۔ سعید بن میب رحمہ اللہ سے بھی یہ قول مروی ہے ۔ وہب بن منبہ فرماتے ہیں اٹھارہ ہزار عالم ہیں ، دنیا کی ساری کی ساری مخلوق ان میں سے ایک عالم ہے ۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں چالیس ہزار عالم ہیں ساری دنیا ان میں سے ایک عالم ہے ۔ زجاج کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے دنیا آخرت میں جو کچھ پیدا کیا ہے وہ سب عالم ہے ۔ قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ قول صحیح ہے اس لیے کہ یہ تمام عالمین پر مشتمل لفظ ہے ۔ جیسے فرعون کے اس سوال کے جواب میں رب العالمین کون ہے ؟ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ «رَبٰ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَیْنَہُمَا» ۱؎ (26-الشعراء:23) ”آسمانوں زمینوں اور دونوں کے درمیان جو کچھ ہے ان سب کا رب“ ۔ «عالم» کا لفظ علامت سے مشتق ہے اس لیے کہ «عالم» یعنی مخلوق اپنے پیدا کرنے والے اور بنانے والے پر نشان اور اس کی وحدانیت پر علامت ہے ۲؎ ۔ (تفسیر قرطبی:139/1) جیسے کہ ابن معتز شاعر کا قول ہے ۔ «فَیَا عَجَبًا کَیْفَ یُعْصَی الْإِلَہُ ... أَمْ کَیْفَ یَجْحَدُہُ الْجَاحِدُ ... وَفِی کُلِّ شَیْءٍ لَہُ آیَۃً ... تَدُلٰ عَلَی أَنَّہُ وَاحِدُ» یعنی تعجب ہے کس طرح اللہ کی نافرمانی کی جاتی ہے اور کس طرح اس سے انکار کیا جاتا ہے حالانکہ ہر چیز میں نشانی ہے جو اس کی وحدانیت پر دلالت کرتی ہے «الْحَمْدُ» کے بعد اب «الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» کی تفسیر سنئے ۔ الفاتحة
3 بہت بخشش کرنے والا بڑا مہربان اس کی تفسیر پہلے پوری گزر چکی ہے اب اعادہ کی ضرورت نہیں ۔ قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں آیت «رَبِّ الْعَالَمِینَ» کے وصف کے بعد آیت «الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» کا وصف ترہیب یعنی ڈراوے کے بعد ترغیب یعنی امید ہے ۔ جیسے فرمایا : «نَبِّئْ عِبَادِی أَنِّی أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِیمُ» ۱؎ (15-الحجر:49) الخ یعنی ’میرے بندوں کو خبر دو کہ میں ہی بخشنے والا مہربان ہوں اور میرے عذاب بھی درد ناک عذاب ہیں‘ ۔ اور فرمایا «إِنَّ رَبَّکَ سَرِیعُ الْعِقَابِ وَإِنَّہُ لَغَفُورٌ رَحِیمٌ» ۲؎ (6-الأنعام:165) الخ یعنی ’تیرا رب جلد سزا کرنے والا اور مہربان اور بخشش بھی کرنے والا ہے‘ ۔ «رب» کے لفظ میں ڈراوا ہے اور «رحمن» اور «رحیم» کے لفظ میں امید ہے ۔ صحیح مسلم میں بروایت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اگر ایماندار اللہ کے غضب و غصہ سے اور اس کے سخت عذاب سے پورا وقف ہوتا [تو اس وقت] اس کے دل سے جنت کی طمع ہٹ جاتی اور اگر کافر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کی رحمتوں کو پوری طرح جان لیتا تو کبھی ناامید نہ ہوتا“} ۳؎ ۔ (صحیح مسلم:2755) الفاتحة
4 حقیقی وارث مالک کون ہے؟ بعض قاریوں نے «مَلِکِ» پڑھا ہے اور باقی سب نے «مَالِکِ» اور دونوں قراتیں صحیح اور متواتر ہیں اور سات قراتوں میں سے ہیں اور «مَالِکِ» کے «لام» کے زیر اور اس کے سکون کے ساتھ ۔ اور «مَلِیکٌ» اور «مَلَکِی» بھی پڑھا گیا ہے پہلے کی دونوں قراتیں معانی کی رو ترجیح ہیں اور دونوں صحیح ہیں اور اچھی بھی ۔ زمخشری نے «مَلِکِ» کو ترجیح دی ہے اس لیے کہ حرمین والوں کی یہ قرأت ہے ۔ اور قرآن میں بھی «لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ» ۱؎ (40-غافر:16) اور «قَوْلُہُ الْحَقٰ وَلَہُ الْمُلْکُ» ۲؎ (6-الأنعام:73) ہے ۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے بھی حکایت بیان کی گئی ہے کہ انہوں نے «مَلِکِ» پڑھا اس بنا پر کہ «فِعْلٌ» اور «فَاعِلٌ» اور «مَفْعُولٌ» آتا ہے لیکن یہ شاذ اور بےحد غریب ہے ۔ ابوبکر بن داؤد رحمہ اللہ نے اس بارے میں ایک غریب روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے تینوں خلفاء اور معاویہ رضی اللہ عنہم اور ان کے لڑکے «مَالِکِ» پڑھتے تھے ۔ ابن شہاب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سب سے پہلے مروان نے «مَالِکِ» پڑھا ۔ میں کہتا ہوں مروان کو اپنی اس قرأت کی صحت کا علم تھا راوی راوی حدیث ابن شہاب رحمہ اللہ کو علم نہ تھا ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ابن مردویہ نے کئی سندوں سے بیان کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم «مَالِکِ» پڑھتے تھے ۔ «مَالِکِ» کا لفظ «مَلِکِ» سے ماخوذ ہے جیسے کہ قرآن میں ہے : «إِنَّا نَحْنُ نَرِثُ الْأَرْضَ وَمَنْ عَلَیْہَا وَإِلَیْنَا یُرْجَعُونَ» ۱؎ (19-مریم:40) الخ یعنی ’زمین اور اس کے اوپر کی تمام مخلوق کے مالک ہم ہی ہیں اور ہماری ہی طرف سب لوٹا کر لائے جائیں گے‘ ۔ اور فرمایا : «قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ * مَلِکِ النَّاسِ» ۲؎ (114-الناس:1-2) الخ یعنی ’کہہ کہ میں پناہ پکڑتا ہوں لوگوں کے رب اور لوگوں کے مالک کی‘ ۔ اور «مَلِکِ» کا لفظ «مُلْکُ» سے ماخوذ ہے ، جیسے فرمایا : «لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ لِلہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِ» ۳؎ (40-غافر:16) الخ یعنی ’آج ملک کس کا ہے صرف اللہ واحد غلبہ والے کا‘ ۔ اور فرمایا : «قَوْلُہُ الْحَقٰ وَلَہُ الْمُلْکُ» ۱؎ (6-الأنعام:73) الخ یعنی ’اسی کا فرمان ہے اور اسی کا سب ملک ہے‘ ۔ اور فرمایا : «الْمُلْکُ یَوْمَئِذٍ الْحَقٰ لِلرَّحْمٰنِ وَکَانَ یَوْمًا عَلَی الْکَافِرِینَ عَسِیرًا» ۲؎ (25-الفرقان:26) یعنی ’آج ملک رحمن ہی کا ہے اور آج کا دن کافروں پر بہت سخت ہے‘ ۔ اس فرمان میں قیامت کے دن ساتھ ملکیت کی تخصیص کرنے سے یہ نہ سمجھنا چاہیئے کہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے ، اس لیے کہ پہلے اپنا وصف «رَبٰ الْعَالَمِینَ» ہونا بیان کر چکا ہے دنیا اور آخرت دونوں کو شامل ہے ۔ قیامت کے دن کے ساتھ اس کی تخصیص کی وجہ یہ ہے کہ اس دن تو کوئی ملکیت کا دعویدار بھی نہ ہو گا ۔ بلکہ بغیر اس حقیقی مالک کی اجازت کے زبان تک نہ ہلا سکے گا ۔ جیسے فرمایا : «یَوْمَ یَقُومُ الرٰوحُ وَالْمَلَائِکَۃُ صَفًّا لَا یَتَکَلَّمُونَ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَہُ الرَّحْمٰنُ وَقَالَ صَوَابًا» ۳؎ (78-النبأ:38) یعنی ’جس دن روح القدس اور فرشتے صف بستہ کھڑے ہوں گے اور کوئی کلام نہ کر سکے گا ۔ یہاں تک کہ رحمن اسے اجازت دے اور وہ ٹھیک بات کہے گا‘ ۔ دوسری جگہ ارشاد ہے : «وَخَشَعَتِ الْأَصْوَاتُ لِلرَّحْمٰنِ فَلَا تَسْمَعُ إِلَّا ہَمْسًا» ۴؎ (20-طہ:108) الخ یعنی ’سب آوازیں رحمن کے سامنے پست ہوں گی اور گنگناہٹ کے سوا کچھ نہ سنائی دے گا‘ ، اور فرمایا : «یَوْمَ یَأْتِ لَا تَکَلَّمُ نَفْسٌ إِلَّا بِإِذْنِہِ فَمِنْہُمْ شَقِیٌّ وَسَعِیدٌ» ۵؎ (11-ہود:105) یعنی ’جب قیامت آئے گی اس دن بغیر اللہ تبارک و تعالیٰ کی اجازت کے کوئی شخص نہ بول سکے گا ۔ بعض ان میں سے بدبخت ہوں گے اور بعض سعادت مند‘ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اس دن اس کی بادشاہت میں اس کے سوا کوئی بادشاہ نہ ہو گا جیسے کہ دنیا میں مجازاً تھے ۔ «یَوْمِ الدِّینِ» سے مراد مخلوق کے حساب کا یعنی قیامت کا دن ہے جس دن تمام بھلے برے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا ہاں اگر رب کسی برائی سے درگزر کر لے یہ اس کا اختیاری امر ہے ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم ، تابعین اور سلف صالحین رحمہ اللہ علیہم سے بھی یہی مروی ہے ۔ بعض سے یہ بھی منقول ہے کہ مراد اس سے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت قائم کرنے پر قادر ہے ۔ ابن جریر رحمہ اللہ نے اس قول کو ضعیف قرار دیا ہے ۔ لیکن بظاہر ان دونوں اقوال میں کوئی تضاد نہیں ، ہر ایک قول کا قائل دوسرے کے قول کی تصدیق کرتا ہے ہاں پہلا قول مطلب پر زیادہ دلالت کرتا ہے ۔ جیسے کہ فرمان ہے : «لْمُلْکُ یَوْمَئِذٍ الْحَقٰ لِلرَّحْمٰنِ» ۱؎ (25-الفرقان:26) الخ اور دوسرا قول اس آیت کے مشابہ ہے ۔ جیسا کہ فرمایا : «وَیَوْمَ یَقُولُ کُنْ فَیَکُونُ» ۲؎ (6-الأنعام:73) الخ یعنی ’جس دن کہے گا ”ہو جا“ بس اسی وقت ”ہو جائے گا“ ‘ ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» حقیقی بادشاہ اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ جیسے فرمایا : «ہُوَ اللہُ الَّذِی لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ الْمَلِکُ الْقُدٰوسُ السَّلَامُ» ۱؎ (59-الحشر:23) صحیحین میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”بدترین نام اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس شخص کا ہے جو شہنشاہ کہلائے حقیقی بادشاہ اللہ کے سوا کوئی نہیں“} ۲؎ ۔ (صحیح بخاری:6205) ایک اور حدیث میں ہے کہ {اللہ تعالیٰ زمین کو قبضہ میں لے لے گا اور آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے پھر فرمائے گا میں بادشاہ ہوں کہاں گئے زمین کے بادشاہ کہاں ہیں تکبر والے} ۳؎ (صحیح بخاری:4812) قرآن عظیم میں ہے «لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ لِلہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِ» الخ یعنی ’کس کی ہے آج بادشاہی ؟ فقط اللہ اکیلے غلبہ والے کی‘ اور کسی کو «مَلِکِ» کہہ دینا یہ صرف مجازاً ہے ۔ جیسے کہ قرآن میں طالوت کو «مَلِکِ» کہا گیا اور «وَکَانَ وَرَاءَہُمْ مَلِکٌ» ۴؎ (18-الکہف:79) کا لفظ آیا ۔ اور بخاری مسلم میں «مُلُوکِ» کا لفظ آیا ہے ۵؎ (صحیح مسلم:1912) اور قرآن کی آیت میں «إِذْ جَعَلَ فِیکُمْ أَنْبِیَاءَ وَجَعَلَکُمْ مُلُوکًا» ۶؎ (5-المائدۃ:20) الخ یعنی ’تم میں انبیاء کئے اور تمہیں بادشاہ بنایا‘ ، آیا ہے ۔ دین کے معنی بدلے جزا اور حساب کے ہیں ۔ جیسے قرآن پاک میں ہے : «یَوْمَئِذٍ یُوَفِّیہِمُ اللہُ دِینَہُمُ الْحَقَّ وَیَعْلَمُونَ» ۷؎ (24-النور:25) الخ یعنی ’اس دن اللہ تعالیٰ انہیں پورا پورا بدلہ دے گا اور وہ جان لیں گے‘ ۔ اور جگہ ہے : «أَإِنَّا لَمَدِینُونَ» ۸؎ (37-الصافات:53) الخ یعنی ’کیا ہم کو بدلہ دیا جائے گا ؟‘ حدیث میں ہے {دانا وہ ہے جو اپنے نفس سے خود حساب لے اور موت کے بعد کام آنے والے اعمال کرے} ۹؎ (سنن ترمذی:2459،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) جیسے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ تم خود اپنی جانوں سے حساب لو اس سے پہلے کہ تمہارا حساب لیا جائے اور اپنے اعمال کا خود وزن کر لو اس سے پہلے کہ وہ ترازو میں رکھے جائیں اور اس بڑی پیشی کے لیے تیار ہو جاؤ جب تم اس اللہ کے سامنے پیش کئے جاؤ گے جس سے تمہارا کوئی عمل پوشیدہ نہیں جیسے خود رب عالم نے فرما دیا : «یَوْمَئِذٍ تُعْرَضُونَ لَا تَخْفَیٰ مِنْکُمْ خَافِیَۃٌ» ۱۰؎ (69-الحاقۃ:18) یعنی ’جس دن تم پیش کئے جاؤ گے کوئی چھپی ڈھکی بات چھپے گی نہیں‘ ۔ الفاتحة
5 عبادت کا مفہوم ساتوں قاریوں اور جمہور نے اسے «إِیَّاکَ» پڑھا ہے ۔ عمرو بن فائد نے «اِیَاکَ» پڑھا ہے ۔ لیکن یہ قراۃ شاذ اور مردود ہے ۔ اس لیے کہ «اِیاَ» کے معنی سورج کی روشنی کے ہیں اور بعض نے «أَیَّاکَ» پڑھا ہے اور بعض نے «ہَیَّاکَ» پڑھا ہے ۔ عرب شاعروں کے شعر میں بھی «َھیَّاکَ» ہے ۔ «نَسْتَعِینُ» کی یہی قرأت تمام کی ہے ۔ سوائے یحییٰ بن وثاب اور اعمش کے ۔ یہ دونوں پہلے نون کو زیر سے پڑھتے ہیں ۔ قبیلہ بنو اسد ، ربیعہ بنت تمیم کی لغت اسی طرح پر ہے ۔ لغت میں عبادت کہتے ہیں ذلت اور پستی کو طریق معبد اس راستے کو کہتے ہیں جو ذلیل ہو ۔ اسی طرح «بَعِیرٌ مُعَبَّدٌ» اس اونٹ کو کہتے ہیں جو بہت دبا اور جھکا ہوا ہو اور شریعت میں عبادت نام ہے محبت ، خشوع ، خضوع اور خوف کے مجموعے کا ۔ لفظ «اِیَّاکَ» کو جو مفعول ہے پہلے لائے اور پھر اسی کو دہرایا تاکہ اس کی اہمیت ہو جائے اور عبادت اور طلب مدد اللہ تعالیٰ ہی کے لیے مخصوص ہو جائے تو اس جملہ کے معنی یہ ہوئے کہ ہم تیرے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتے اور نہ کریں گے اور تیرے سوا کسی پر بھروسہ نہیں کرتے اور نہ کریں گے ۔ کامل اطاعت اور پورے دین کا حاصل صرف یہی دو چیزیں ہیں ۔ بعض سلف کا فرمان ہے کہ سارے قرآن کا راز سورۃ فاتحہ میں ہے اور پوری سورت کا راز اس آیت «إِیَّاکَ نَعْبُدُ وَإِیَّاکَ نَسْتَعِینُ» میں ہے ۔ آیت کے پہلے حصہ میں شرک سے بیزاری کا اعلان ہے اور دوسرے جملہ میں اپنی طاقتوں اور قوتوں کے کمال کا انکار ہے اور اللہ عزوجل کی طرف اپنے تمام کاموں کی سپردگی ہے ۔ اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں قرآن پاک میں موجود ہیں ۔ جیسے فرمایا : «فَاعْبُدْہُ وَتَوَکَّلْ عَلَیْہِ وَمَا رَبٰکَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ» ۱؎ (11-ہود:123) الخ یعنی ’اللہ ہی کی عبادت کرو اور اسی پر بھروسہ کرو تمہارا رب تمہارے اعمال سے غافل نہیں‘ ۔ فرمایا : «قُلْ ہُوَ الرَّحْمٰنُ آمَنَّا بِہِ وَعَلَیْہِ تَوَکَّلْنَا» ۲؎ (67-الملک:29) الخ یعنی ’کہہ دے کہ وہی رحمان ہے ہم اس پر ایمان لے آئے اور اسی پر ہم نے توکل کیا‘ ۔ فرمایا : «رَبٰ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ فَاتَّخِذْہُ وَکِیلًا» ۳؎ (73-المزمل:9) الخ یعنی ’مشرق مغرب کا رب وہی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں تو اسی کو اپنا کارساز سمجھ‘ ۔ یہی مضمون اس آیۃ کریمہ میں ہے اس سے پہلے کی آیات میں تو خطاب نہ تھا لیکن اس آیت میں اللہ تعالیٰ سے خطاب کیا گیا ہے جو نہایت لطافت اور مناسبت رکھتا ہے اس لیے کہ جب بندے نے اللہ تعالیٰ کی صفت و ثنا بیان کی تو قرب الہٰی میں حاضر ہو گیا اللہ جل جلالہ کے حضور میں پہنچ گیا ، اب اس مالک کو خطاب کر کے اپنی ذلت اور مسکینی کا اظہار کرنے لگا اور کہنے لگا کہ ”الہٰ“ ہم تو تیرے ذلیل غلام ہیں اور اپنے تمام کاموں میں تیرے ہی محتاج ہیں ۔ اس آیت میں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ اس سے پہلے کے تمام جملوں میں خبر تھی ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی بہترین صفات پر اپنی ثناء آپ کی تھی اور بندوں کو اپنی ”ثناء“ انہی الفاظ کے ساتھ بیان کرنے کا ارشاد فرمایا تھا اسی لیے اس شخص کی نماز صحیح نہیں جو اس سورت کو پڑھنا جانتا ہو اور پھر نہ پڑھے ۔ جیسے کہ بخاری مسلم کی حدیث میں سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اس شخص کی نماز نہیں جو نماز میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھے“} ۱؎ ۔ (صحیح بخاری:756) صحیح مسلم میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان [نصف نصف] بانٹ لیا ہے اس کا آدھا حصہ میرا ہے اور آدھا حصہ میرے بندے کے لیے ہے اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جو وہ طلب کرے ۔ جب بندہ «الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ» کہتا ہے ، تو اللہ فرماتا ہے «حَمِدَنِی عَبْدِی» میرے بندے نے میری حمد بیان کی ۔ جب کہتا ہے «الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» ، اللہ فرماتا ہے «أَثْنَی عَلَیَّ عَبْدِی» میرے بندے نے میری ثنا کی ۔ جب وہ کہتا ہے «مَالِکِ یَوْمِ الدِّینِ» ، اللہ فرماتا ہے «مَجَّدَنِی عَبْدِی» میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی ۔ جب وہ «إِیَّاکَ نَعْبُدُ وَإِیَّاکَ نَسْتَعِینُ» کہتا ہے ، تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے «ہَذَا بَیْنِی وَبَیْنَ عَبْدِی وَلِعَبْدِی مَا سَأَلَ» یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جو وہ مانگے ۔ پھر وہ آخر سورت تک پڑھتا ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے «ہَذَا لِعَبْدِی وَلِعَبْدِی مَا سَأَلَ» یہ میرے بندے کے لیے ہے اور میرا بندہ جو مجھ سے مانگے اس کے لیے ہے“} ۲؎ ۔ (صحیح مسلم:395) عبادت اور طلب مدد سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں «إِیَّاکَ نَعْبُدُ» کے معنی یہ ہیں کہ اے ہمارے رب ہم خاص تیری ہی توحید مانتے ہیں اور تجھ سے ڈرتے ہیں اور تیری اسی ذات سے امید رکھتے ہیں تیرے سوا کسی اور کی نہ ہم عبادت کریں ، نہ ڈریں ، نہ امید رکھیں ۔ اور «إِیَّاکَ نَسْتَعِینُ» سے یہ مراد ہے کہ ہم تیری تمام اطاعت اور اپنے تمام کاموں میں تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:19/1) قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا حکم ہے کہ تم سب اسی کی خالص عبادت کرو اور اپنے تمام کاموں میں اسی سے مدد مانگو ۲؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:20/1) «إِیَّاکَ نَعْبُدُ» کو پہلے لانا اس لیے ہے کہ اصل مقصود اللہ تعالیٰ کی عبادت ہی ہے اور مدد کرنا یہ عبادت کا وسیلہ اور اہتمام اور اس پر پختگی ہے اور یہ ظاہر ہے کہ زیادہ اہمیت والی چیز کو مقدم کیا جاتا ہے اور اس سے کمتر کو اس کے بعد لایا جاتا ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» اگر یہ کہا جائے کہ یہاں جمع کے صیغہ کو لانے کی یعنی ہم کہنے کی کیا ضرورت ہے ؟ اگر یہ جمع کے لیے ہے تو کہنے والا تو ایک ہے اور اگر تعظیم کے لیے ہے تو اس مقام پر نہایت نامناسب ہے کیونکہ یہاں تو مسکینی اور عاجزی ظاہر کرنا مقصود ہے اس کا جواب یہ ہے کہ گویا ایک بندہ تمام بندوں کی طرف سے خبر دے رہا ہے ۔ بالخصوص جبکہ وہ جماعت میں کھڑا ہو یا امام بنا ہوا ہو ۔ پس گویا وہ اپنی اور اپنے سب مومن بھائیوں کی طرف سے اقرار کر رہا ہے کہ وہ سب اس کے بندے ہیں اور اسی کی عبادت کے لیے پیدا کیے گئے ہیں اور یہ ان کی طرف سے بھلائی کے لیے آگے بڑھا ہوا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ تعظیم کے لیے ہے گویا کہ بندہ جب عبادت میں داخل ہوتا ہے تو اسی کو کہا جاتا ہے کہ تو شریف ہے اور تیری عزت ہمارے دربار میں بہت زیادہ ہے تو اب «إِیَّاکَ نَعْبُدُ وَإِیَّاکَ نَسْتَعِینُ» کہا یعنی اپنے تئیں عزت سے یاد کر ۔ ہاں اگر عبادت سے الگ ہو تو اس وقت ہم نہ کہے چاہے ہزاروں لاکھوں میں ہو کیونکہ سب کے سب اللہ تعالیٰ کے محتاج اور اس کے دربار کے فقیر ہیں ۔ بعض کا قول ہے کہ «إِیَّاکَ نَعْبُدُ» میں جو تواضع اور عاجزی ہے وہ «إِیَّاکَ عَبَدنَا» میں نہیں اس لیے کہ اس میں اپنے نفس کی بڑائی اور اپنی عبادت کی اہلیت پائی جاتی ہے حالانکہ کوئی بندہ اللہ تعالیٰ کی پوری عبادت اور جیسی چاہے ویسی ثنا و صفت بیان کرنے پر قدرت ہی نہیں رکھتا ۔ کسی شاعر کا قول ہے [ترجمہ] کہ مجھے اس کا غلام کہہ کر ہی پکارو کیونکہ میرا سب سے اچھا نام یہی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول [ صلی اللہ علیہ وسلم ] کا نام عبد یعنی غلام ان ہی جگہوں پر لیا جہاں اپنی بڑی بڑی نعمتوں کا ذکر کیا جیسے قرآن نازل کرنا ، نماز میں کھڑے ہونا ، معراج کرانا وغیرہ ، فرمایا : «الْحَمْدُ لِلہِ الَّذِی أَنْزَلَ عَلَیٰ عَبْدِہِ الْکِتَابَ» ۱؎ (18-الکہف:1) الخ ، فرمایا : «وَأَنَّہُ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللہِ یَدْعُوہُ» ۲؎ (72-الجن:19) الخ ، فرمایا : «سُبْحَانَ الَّذِی أَسْرَیٰ بِعَبْدِہِ لَیْلًا» ۳؎ (17-الإسراء:1) الخ ، ساتھ ہی قرآن پاک نے یہ تعلیم دی کہ اے نبی جس وقت تمہارا دل مخالفین کے جھٹلانے کی وجہ سے تنگ ہو تو تم میری عبادت میں مشغول ہو جاؤ ۔ فرمان ہے : «وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّکَ یَضِیقُ صَدْرُکَ بِمَا یَقُولُونَ» * «فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَکُنْ مِنَ السَّاجِدِینَ» * «وَاعْبُدْ رَبَّکَ حَتَّیٰ یَأْتِیَکَ الْیَقِینُ» ۴؎ (15-الحجر:97-98-99) یعنی ’ہم جانتے ہیں کہ مخالفین کی باتیں تیرا دل دکھاتی ہیں تو ایسے وقت اپنے رب کی تسبیح اور حمد بیان کر اور سجدہ کر اور موت کے وقت تک اپنے رب کی عبادت میں لگا رہ‘ ۔ رازی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں بعض لوگوں سے نقل کیا ہے کہ عبودیت کا مقام رسالت کے مقام سے افضل ہے کیونکہ عبادت کا تعلق مخلوق سے خالق کی طرف ہوتا اور رسالت کا تعلق حق سے خلق کی طرف ہوتا ہے اور اس دلیل سے بھی کہ عبد کی کل اصلاح کے کاموں کا متولی خود اللہ تبارک و تعالیٰ ہوتا ہے اور رسول اپنی امت کی مصلحتوں کا والی ہوتا ہے ۔ لیکن یہ قول غلط ہے اور اس کی یہ دونوں دلیلیں بھی بودی اور لاحاصل ہیں ۔ افسوس رازی نے نہ تو اس کو ضعیف کہا نہ اسے رد کیا ۔ بعض صوفیوں کا قول ہے کہ عبادت یا تو ثواب حاصل کرنے کے لیے ہوتی ہے یا عذاب دفع کرنے کے لیے ، وہ کہتے ہیں یہ کوئی فائدے کی بات نہیں اس لیے کہ اس وقت مقصود خود اپنی مراد کا حاصل کرنا ٹھہرا ۔ اس کی تکالیف کے لیے آمادگی کرنا یہ بھی ضعیف ہے ۔ اعلیٰ مرتبہ عبادت یہ ہے کہ انسان اس مقدس ذات کی جو تمام کامل صفتوں سے موصوف ہے محض اس کی ذات کے لیے عبادت کرے اور مقصود کچھ نہ ہو ۔ اسی لیے نمازی کی نیت نہ نماز پڑھنے کی ہوتی ہے اگر وہ ثواب پانے اور عذاب سے بچنے کے لیے ہو تو باطل ہے ۔ دوسرا گروہ ان کی تردید کرتا ہے اور کہتا ہے کہ عبادت کا اللہ تعالیٰ کے لیے ہونا کچھ اس کے خلاف نہیں کہ ثواب کی طلب اور عذاب کا بچاؤ مطلوب نہ ہو اس کی دلیل یہ ہے کہ {ایک اعرابی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا کہ اے اللہ کے رسول ! میں نہ تو آپ جیسا پڑھنا جانتا ہوں نہ معاذ جیسا ، میں تو اللہ تعالیٰ سے جنت کا سوال کرتا ہوں اور جہنم سے نجات چاہتا ہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اسی کے قریب قریب ہم بھی پڑھتے ہیں“} ۵؎ ۔ (سنن ابوداود:792،قال الشیخ الألبانی:صحیح) الفاتحة
6 حصول مقصد کا بہترین طریقہ جمہور نے «صِّرَاطَ» پڑھا ہے ۔ بعض نے «ِسرَاطَ» کہا ہے اور «زے» کی بھی ایک قراۃ ہے ۔ فراء کہتے ہیں بنی عذرہ اور بنی کلب کی قراۃ یہی ہے چونکہ پہلے ثنا و صفت بیان کی تو اب مناسب تھا کہ اپنی حاجت طلب کرے ۔ جیسے کہ پہلے حدیث میں گزر چکا ہے کہ اس کا آدھا حصہ میرے لیے ہے اور آدھا میرے بندے کے لیے اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جو وہ طلب کرے ۔ خیال کیجئے کہ اس میں کس قدر لطافت اور عمدگی ہے کہ پہلے پروردگار عالم کی تعریف و توصیف کی ، پھر اپنی اور اپنے بھائیوں کی حاجت طلب کی ۔ یہ وہ لطیف انداز ہے جو مقصود کو حاصل کرنے اور مراد کو پا لینے کے لیے تیر بہدف ہے ، اس کامل طریقہ کو پسند فرما کر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کی ہدایت کی ۔ کبھی سوال اس طرح ہوتا ہے کہ سائل اپنی حالت اور حاجت کو ظاہر کر دیتا ہے ۔ جیسے موسیٰ علیہ السلام نے کہا تھا : «رَبِّ إِنِّی لِمَا أَنْزَلْتَ إِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیرٌ» ۱؎ (28-القصص:24) الخ یعنی ’پروردگار جو بھلائیاں تو میری طرف نازل فرمائے میں اس کا محتاج ہوں‘ ۔ یونس علیہ السلام نے بھی اپنی دعا میں کہا : «لَا إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَکَ إِنِّی کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِینَ» ۲؎ (21-الأنبیاء:87) الخ یعنی ’الٰہی تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ہے میں ظالموں میں سے ہوں‘ ۔ کبھی سوال اس طرح بھی ہوتا ہے کہ سائل صرف تعریف اور بزرگی بیان کر کے چپ ہو جاتا ہے جیسے کسی شاعر کا قول ہے «أَأَذْکُرُ حَاجَتِی أَمْ قَدْ کَفَانِی ... حَیَاؤُکَ إِنَّ شِیمَتَکَ الْحَیَاءُ ... إِذَا أَثْنَی عَلَیْکَ الْمَرْءُ یَوْمًا ... کَفَاہُ مِنْ تَعَرٰضِہِ الثَّنَاءُ» کہ مجھے اپنی حاجت کے بیان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تیری مہربانیوں بھری بخشش مجھے کافی ہے میں جانتا ہوں کہ داد و دہش تیری پاک عادتوں میں داخل ہے لیکن تیری پاکیزگی بیان کر دینا ، تیری حمد و ثنا کرنا ہی مجھے اپنی حاجت پوری کرنے کے لیے کافی ہے ۔ ہدایت کے معنی یہاں پر ارشاد اور توفیق کے ہیں ۔ کبھی تو ہدایت بنفسہ متعدی ہوتی ہے جیسے یہاں ہے تو معنی «أَلْہِمْنَا ، وَفِّقْنَا ، ارْزُقْنَا» اور «اعْطِنَا» یعنی ہمیں عطا فرمائے ہوں گے اور جگہ ہے : «وَہَدَیْنٰہُ النَّجْدَیْنِ» ۳؎ (90-البلد:10) الخ یعنی ’ہم نے اسے دونوں راستے دکھا دئیے‘ بھلائی اور برائی دونوں کے ۔ اور کبھی ہدایت «الیٰ» کے ساتھ متعدی ہوتی ہے ، جیسے فرمایا : «اجْتَبَاہُ وَہَدَاہُ إِلَیٰ صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ» ۴؎ (16-النحل:121) اور فرمایا : «فَاہْدُوہُمْ إِلَیٰ صِرَاطِ الْجَحِیمِ» ۵؎ (37-الصافات:23) یہاں ہدایت ارشاد اور دلالت کے معنی میں ہے ۔ اسی طرح فرمان ہے : «وَإِنَّکَ لَتَہْدِی إِلَیٰ صِرَاطٍ مٰسْتَقِیمٍ» ۶؎ (42-الشوری:52) الخ یعنی ’تو البتہ سیدھی راہ دکھاتا ہے‘ ، اور کبھی ہدایت «لام» کے ساتھ متعدی ہوتی ہے جیسے جنتیوں کا قول قرآن کریم میں ہے : «الْحَمْدُ لِلہِ الَّذِی ہَدَانَا لِہٰذَا» ۷؎ (7-الأعراف:43) الخ یعنی ’اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اس کی راہ دکھائی یعنی توفیق دی اور ہدایت والا بنایا‘ ۔ «صِّرَاطُ الْمُسْتَقِیمُ» کے معنی سنئے ۔ امام ابو جعفر بن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں مراد اس سے واضح اور صاف راستہ ہے جو کہیں سے ٹیڑھا نہ ہو ۔ عرب کی لغت میں اور شاعروں کے شعر میں یہ معنی صاف طور پر پائے جاتے ہیں اور اس پر بےشمار شواہد موجود ہیں ۔ «صِّرَاطَ» کا استعمال بطور استعارہ کے قول اور فعل پر بھی آتا ہے اور پھر اس کا وصف استقامت اور ٹیڑھ پن کے ساتھ بھی آتا ہے ۔ سلف اور متاخرین مفسرین سے اس کی بہت سی تفسیریں منقول ہیں اور ان سب کا خلاصہ ایک ہی ہے اور وہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور تابعداری ہے ۔ صراط مستقیم کیا ہے؟ ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ {صراط مستقیم کتاب اللہ ہے} ۱؎ ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:174:ضعیف جدا) ابن ابی حاتم اور ابن جریر نے بھی روایت کی ہے ۔ فضائل قرآن کے بارے میں پہلے حدیث گزر چکی ہے کہ {اللہ تعالیٰ کی مضبوط رسی ، حکمتوں والا ذکر اور سیدھی راہ یعنی صراط مستقیم یہی اللہ کی کتاب قرآن کریم ہے} ۲؎ ۔ (سنن ترمذی:2906،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا قول بھی یہی ہے اور مرفوع حدیث کا بھی موقوف ہونا ہی زیادہ مشابہ ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے بھی یہی روایت ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم «اہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیمَ» کہئے یعنی ہمیں ہدایت والے راستہ کا الہام کر اور اس دین قیم کی سمجھ دے جس میں کوئی کجی نہیں ۔ آپ سے یہ قول بھی مروی ہے کہ اس سے مراد اسلام ہے ۔ سیدنا ابن عباس ، سیدنا ابن مسعود اور بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم سے بھی یہی تفسیر منقول ہے ۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں «صِّرَاطُ الْمُسْتَقِیمُ» سے مراد اسلام ہے جو ہر اس چیز سے جو آسمان اور زمین کے درمیان ہے زیادہ وسعت والا ہے ۔ ابن حنفیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا وہ دین ہے جس کے سوا اور دین مقبول نہیں ۔ عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم رحمہ اللہ کا قول ہے کہ «صِّرَاطُ الْمُسْتَقِیمُ» اسلام ہے ۔ مسند احمد کی ایک حدیث میں بھی مروی ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک مثال بیان کی کہ «صِّرَاطُ الْمُسْتَقِیمُ» کے دونوں طرف دو دیواریں ہیں ، ان میں کئی ایک کھلے ہوئے دروازے ہیں اور دروازوں پر پردے لٹک رہے ہیں ، «صِّرَاطُ الْمُسْتَقِیمُ» کے دروازے پر ایک پکارنے والا مقرر ہے ، جو کہتا ہے کہ اے لوگو ! تم سب کے سب اسی سیدھی راہ پر چلے جاؤ ، ٹیڑھی ترچھی ادھر ادھر کی راہوں کو نہ دیکھو نہ ان پر جاؤ ۔ اور اس راستے سے گزرنے والا کوئی شخص جب ان دروازوں میں سے کسی ایک کو کھولنا چاہتا ہے تو ایک پکارنے والا کہتا ہے خبردار اسے نہ کھولنا ۔ اگر کھولا تو اس راہ لگ جاؤ گے اور «صِّرَاطُ الْمُسْتَقِیمُ» سے ہٹ جاؤ گے ۔ پس «صِّرَاطُ الْمُسْتَقِیمُ» تو اسلام ہے اور دیواریں اللہ کی حدیں ہیں اور کھلے ہوئے دروازے اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزیں ہیں اور دروازے پر پکارنے والا قرآن کریم ہے ، اور راستے کے اوپر سے پکارنے والا زندہ ضمیر ہے جو ہر ایماندار کے دل میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور واعظ کے ہوتا ہے} ۱؎ ۔ (سنن ترمذی:2859،قال الشیخ الألبانی:صحیح) یہ حدیث ابن ابی حاتم ، ابن جریر ، ترمذی اور نسائی میں بھی ہے اور اس کی اسناد حسن صحیح ہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے مراد حق ہے ۔ ان کا قول سب سے زیادہ مقبول ہے اور مذکورہ اقوال کا کوئی مخالف نہیں ۔ ابوالعالیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد کے آپ کے دونوں خلیفہ ہیں ۔ حسن رحمہ اللہ اس قول کی تصدیق اور تحسین کرتے ہیں ۔ دراصل یہ سب اقوال صحیح ہیں اور ایک دوسرے سے ملے جلے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے دونوں خلفاء صدیق و فاروق رضی اللہ عنہما کا تابعدار حق کا تابع ہے اور حق کا تابع اسلام کا تابع ہے اور اسلام کا تابع قرآن کا مطیع ہے اور قرآن اللہ کی کتاب اس کی طرف سے مضبوط رسی اور اس کی سیدھی راہ ہے ۔ لہٰذا «صِّرَاطُ الْمُسْتَقِیمُ» کی تفسیر میں یہ تمام اقوال صحیح ہیں اور ایک دوسرے کی تصدیق کرتے ہیں ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : «صِّرَاطُ الْمُسْتَقِیمُ» وہ ہے جس پر ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوڑا ۔ امام ابوجعفر بن جریر رحمہ اللہ کا فیصلہ ہے کہ میرے نزدیک اس آیت کی تفسیر میں سب سے اولیٰ یہ ہے کہ ہم کو توفیق دی جائے اس کی جو اللہ کی مرضی کی ہو اور جس پر چلنے کی وجہ سے اللہ اپنے بندوں سے راضی ہوا ہو اور ان پر انعام کیا ہو ، «صِّرَاطُ الْمُسْتَقِیمُ» یہی ہے ۔ اس لیے کہ جس شخص کو اس کی توفیق مل جائے ، جس کی توفیق اللہ کے نیک بندوں کو تھی جن پر اللہ تعالیٰ کا انعام ہوا تھا جو نبی ، صدیق ، شہید اور صالح لوگ تھے انہوں نے اسلام کی اور رسولوں کی تصدیق کی ، کتاب اللہ کو مضبوط تھام رکھا ، اللہ تعالیٰ کے احکام کو بجا لائے ۔ اس کے منع کیے ہوئے کاموں سے رک گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے چاروں خلیفوں رضی اللہ عنہم اور تمام نیک بندوں کی راہ کی توفیق مل جائے گی تو یہی «صِّرَاطُ الْمُسْتَقِیمُ» ہے ۔ اگر یہ کہا جائے کہ مومن کو تو اللہ کی طرف سے ہدایت حاصل ہو چکی ہے پھر نماز اور غیر نماز میں ہدایت مانگنے کی کیا ضرورت ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ مراد اس سے ہدایت پر ثابت قدمی اور رسوخ اور بینائی اور ہمیشہ کی طلب ہے اس لیے کہ بندہ ہر ساعت اور ہر حالت میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا محتاج ہے وہ خود اپنی جان کے نفع نقصان کا مالک نہیں بلکہ دن رات اپنے اللہ کا محتاج ہے اسی لیے اسے سکھایا کہ ہر وقت وہ اللہ تعالیٰ سے ہدایت طلب کرتا رہے اور ثابت قدمی اور توفیق چاہتا رہے ۔ بھلا اور نیک بخت انسان وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ اپنے در کا بھکاری بنا لے وہ اللہ ہر پکارنے والے کی پکار کے قبول کرنے کا کفیل ہے ۔ بالخصوص بےقرار محتاج اور اس کے سامنے اپنی حاجت دن رات پیش کرنے والے کی ہر پکار کو قبول کرنے کا ضامن ہے ۔ اور جگہ قرآن کریم میں ہے : «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آمَنُوا آمِنُوا بِ اللہِ وَرَسُولِہِ وَالْکِتَابِ الَّذِی نَزَّلَ عَلَیٰ رَسُولِہِ وَالْکِتَابِ الَّذِی أَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ» ۱؎ (4-النساء:136) الخ یعنی ’اے ایمان والو ! اللہ پر ، اس کے رسولوں پر ، اس کی اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول کی طرف نازل فرمائی اور جو کتابیں اس سے پہلے نازل ہوئیں ، سب پر ایمان لاؤ ۔ اس آیت میں ایمان والوں کو ایمان لانے کا حکم دینا اور ہدایت والوں کو ایمان لانے کا حکم دینا ایسا ہی ہے جیسے یہاں ہدایت والوں کو ہدایت کی طلب کرنے کا حکم دینا ۔ مراد دونوں جگہ ثابت قدمی اور اور استمرار ہے اور ایسے اعمال پر ہمیشگی کرنا جو اس مقصد کے حاصل کرنے میں مدد پہنچائیں ۔ اس پر یہ اعتراض وارد ہو بھی نہیں سکتا کہ یہ حاصل شدہ چیز کا حاصل کرنا ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» اور دیکھئیے اللہ رب العزت نے اپنے ایماندار بندوں کو حکم دیا ہے کہ وہ کہیں : «رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ ہَدَیْتَنَا وَہَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْکَ رَحْمَۃً إِنَّکَ أَنْتَ الْوَہَّابُ» ۱؎ (3-آل عمران:8) الخ یعنی ’اے ہمارے رب ہمارے دلوں کو ہدایت کے بعد ٹیڑھا نہ کر اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما تو بہت بڑا دینے والا اور عطا کرنے والا ہے‘ ۔ یہ بھی وارد ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نماز مغرب کی تیسری رکعت سورۃ فاتحہ کے بعد اس آیت کو پوشیدگی سے پڑھا کرتے تھے پس «اہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیمَ» کے معنی یہ ہوئے کہ الہٰ ہمیں صراط مستقیم پر ثابت قدم رکھ اور اس سے ہمیں نہ ہٹا ۔ الفاتحة
7 انعام یافتہ کون؟ اس کا بیان پہلے گزر چکا ہے کہ بندے کے اس قول پر اللہ کریم فرماتا ہے یہ میرے بندے کے لیے ہے اور میرے بندے کے لیے ہے جو کچھ وہ مانگے یہ آیت «صِّرَاطُ الْمُسْتَقِیمُ» کی تفسیر ہے اور نحویوں کے نزدیک یہ اس سے بدل ہے اور عطف بیان بھی ہو سکتی ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» اور جن پر اللہ کا انعام ہوا ان کا بیان سورۃ نساء میں آ چکا ہے فرمان ہے : «وَمَنْ یُطِعِ اللہَ وَالرَّسُولَ فَأُولٰئِکَ مَعَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللہُ عَلَیْہِمْ مِنَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشٰہَدَاءِ وَالصَّالِحِینَ وَحَسُنَ أُولٰئِکَ رَفِیقًا» * «ذٰلِکَ الْفَضْلُ مِنَ اللہِ وَکَفَیٰ بِ اللہِ عَلِیمًا» ۱؎ (4-النساء:69-70) الخ یعنی ’اللہ اور اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کہے پر عمل کرنے والے ان کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ کا انعام ہے جو نبی ، صدیق ، شہید ، صالح لوگ ہیں ، یہ بہترین ساتھی اور اچھے رفیق ہیں ۔ یہ فضل ربانی ہے اور اللہ جاننے والا کافی ہے‘ ۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ اللہ جل شانہ تو مجھے ان فرشتوں ، نبیوں ، صدیقوں ، شہیدوں اور صالحین کی راہ پر چلا جن پر تو نے اپنی اطاعت و عبادت کی وجہ سے انعام نازل فرمایا ۔ یہ آیت ٹھیک «وَمَنْ یُطِعِ اللہَ وَالرَّسُولَ فَأُولٰئِکَ مَعَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللہُ عَلَیْہِمْ» ۱؎ (4-النساء:69) کی طرح ہے ۔ ربیع بن انس رحمہ اللہ کہتے ہیں اس سے مراد انبیاء ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے مراد مومن ہیں ۔ وکیع رحمہ اللہ کہتے ہیں مسلمان مراد ہیں ۔ عبدالرحمٰن رحمہ اللہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ مراد ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول زیادہ معقول اور قابل تسلیم ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» جمہور کی قرأت میں «غَیْرِ» «رے» کے زیر کے ساتھ ہے اور صفت ہے ۔ زمحشری کہتے ہیں «رے» کی زبر کے ساتھ پڑھا گیا ہے اور حال ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی قرأت یہی ہے اور ابن کثیر رحمہ اللہ سے بھی یہی روایت کی گئی ہے ۔ «عَلَیْہِمْ» میں جو ضمیر ہے وہ اس کا ذوالحال ہے اور «أَنْعَمْتَ» عامل ہے ۔ معنی یہ ہوئے کہ اللہ جل شانہ تو ہمیں سیدھا راستہ دکھا ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام کیا ۔ جو ہدایت اور استقامت والے تھے اور اللہ ، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اطاعت گزار ، اس کے حکموں پر عمل کرنے والے ، اس کے منع کئے ہوئے کاموں سے رک رہنے والے تھے ۔ مغضوب کون؟ ان کی راہ سے بچا ، جن پر غضب و غصہ کیا گیا ، جن کے ارادے فاسد ہو گئے ، حق کو جان کر پھر اس سے ہٹ گئے اور گم گشتہ راہ لوگوں کے طریقے سے بھی ہمیں بچا لے جو سرے سے علم نہیں رکھتے مارے مارے پھرتے ہیں راہ سے بھٹکے ہوئے حیران و سرگرداں ہیں اور راہ حق کی طرف رہنمائی نہیں کئے جاتے «لَا» کو دوبارہ لا کر کلام کی تاکید کرنا اس لیے ہے کہ معلوم ہو جائے کہ یہاں دو غلط راستے ہیں ، ایک یہود کا دوسرا نصاریٰ کا ۔ بعض نحوی کہتے ہیں کہ «غَیْرَ» کا لفظ یہاں پر استثناء کے لیے ہے تو استثناء منقطع ہو سکتا ہے کیونکہ جن پر انعام کیا گیا ہے ان میں سے استثناء ہونا تو درست ہے ۔ مگر یہ لوگ انعام والوں میں داخل ہی نہ تھے لیکن ہم نے جو تفسیر کی ہے یہ بہت اچھی ہے ۔ عرب شاعروں کے شعر میں ایسا پایا جاتا ہے کہ وہ موصوف کو حذف کر دیتے ہیں اور صرف صفت بیان کر دیا کرتے ہیں ۔ اسی طرح اس آیت میں بھی صفت کا بیان ہے اور موصوف محذوف ہے ۔ «غَیْرِ الْمَغْضُوبِ» سے مراد «غَیْرِ صِرَاطِ الْمَغْضُوبِ» ہے ۔ مضاف «إِلَیْہِ» کے ذکر سے کفایت کی گئی اور مضاف بیان نہ کیا گیا اس لیے کہ نشست الفاظ ہی اس پر دلالت کر رہی ہے ۔ پہلے دو مرتبہ یہ لفظ آ چکا ہے ۔ بعض کہتے ہیں «وَلَا الضَّالِّینَ» میں «لَا» زائد ہے اور ان کے نزدیک تقدیر کلام اس طرح ہے «غَیْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیْہِمْ وَالضَّالِّینَ» اور اس کی شہادت عرب شاعروں کے شعر سے بھی ملتی ہے لیکن صحیح بات وہی ہے جو ہم پہلے لکھ چکے ہیں ۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے «غَیْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیْہِمْ وَغَیْرِ الضَّالِّینَ» پڑھنا صحیح سند سے مروی ہے اور اسی طرح سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے اور یہ محمول ہے اس پر کہ ان بزرگوں سے یہ بطور تفسیر صادر ہوا ۔ تو ہمارے قول کی تائید ہوئی کہ «لَا» نفی کی تاکید کے لیے ہی لایا گیا ہے تاکہ یہ وہم ہی نہ ہو کہ یہ «أَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ» پر عطف ہے اور اس لیے بھی کہ دونوں راہوں کا فرق معلوم ہو جائے تاکہ ہر شخص ان دونوں سے بھی بچتا رہے ۔ اہل ایمان کا طریقہ تو یہ ہے کہ حق کا علم بھی ہو اور حق پر عمل بھی ہو ۔ یہودیوں کے ہاں علم نہیں اور نصاریٰ کے ہاں عمل نہیں اسی لیے یہودیوں پر غضب ہوا اور نصرانیوں کو گمراہی ملی ۔ اس لیے کہ علم کے باوجود عمل کو چھوڑنا غضب کا سبب ہے اور نصرانی گو ایک چیز کا قصد تو کرتے ہیں مگر اس کے باوجود صحیح راستہ کو نہیں پا سکتے اس لیے کہ ان کا طریقہ کار غلط ہے اور اتباع حق سے ہٹے ہوئے ہیں یوں تو غضب اور گمراہی ان دونوں جماعتوں کے حصہ میں ہے لیکن یہودی غضب کے حصہ میں پیش پیش ہیں ۔ جیسے کہ اور جگہ قرآن کریم میں ہے : «مَنْ لَعَنَہُ اللہُ وَغَضِبَ عَلَیْہِ» ۱؎ (5-المائدۃ:60) الخ اور نصرانی ضلالت میں بڑھے ہوئے ہیں ۔ فرمان الٰہی ہے : «قَدْ ضَلٰوا مِنْ قَبْلُ وَأَضَلٰوا کَثِیرًا وَضَلٰوا عَنْ سَوَاءِ السَّبِیلِ» ۲؎ (5-المائدۃ:77) الخ یعنی ’یہ پہلے ہی سے گمراہ ہیں اور بہتوں کو گمراہ کر بھی چکے ہیں اور سیدھی راہ سے بھٹکے ہوئے ہیں‘ ۔ اس کی تائید میں بہت سی حدیثیں اور روایتیں پیش کی جا سکتی ہیں ۔ مسند احمد میں ہے ۔ سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لشکر نے میری پھوپھی اور چند اور لوگوں کو گرفتار کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا تو میری پھوپھی نے کہا میری خبرگیری کرنے والا غائب ہے اور میں عمر رسیدہ بڑھیا ہوں جو کسی خدمت کے لائق نہیں آپ مجھ پر احسان کیجئے اور مجھے رہائی دیجئیے ۔ اللہ تعالیٰ آپ پر بھی احسان کرے گا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ تیری خیر خبر لینے والا کون ہے ؟ اس نے کہا عدی بن حاتم آپ نے فرمایا وہی جو اللہ اور اس کے رسول سے بھاگتا پھرتا ہے ؟ پھر آپ نے اسے آزاد کر دیا ۔ جب لوٹ کر آپ آئے تو آپ کے ساتھ ایک شخص تھے اور غالباً وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ تھے آپ نے فرمایا : لو ان سے سواری مانگ لو ۔ میری پھوپھی نے ان سے درخواست کی جو منظور ہوئی اور سواری مل گئی ۔ وہ یہاں سے آزاد ہو کر میرے پاس آئیں اور کہنے لگیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت نے تیرے باپ حاتم کی سخاوت کو بھی ماند کر دیا ۔ آپ کے پاس جو آتا ہے وہ خالی ہاتھ واپس نہیں جاتا ۔ یہ سن کر میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا میں نے دیکھا کہ چھوٹے بچے اور بڑھیا عورتیں بھی آپ کی خدمت میں آتی جاتی ہیں اور آپ ان سے بھی بےتکلفی کے ساتھ بولتے چالتے ہیں ۔ اس بات نے مجھے یقین دلایا دیا کہ آپ قیصر و کسریٰ کی طرح بادشاہت اور وجاہت کے طلب کرنے والے نہیں ۔ آپ نے مجھے دیکھ کر فرمایا : ”عدی «لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ» کہنے سے کیوں بھاگتے ہو ؟ کیا اللہ کے سوا اور کوئی عبادت کے لائق ہے ؟ « اللہُ أَکْبَرُ» کہنے سے کیوں منہ موڑتے ہو ؟ کیا اللہ عزوجل سے بھی بڑا کوئی ہے ؟“ مجھ پر ان کلمات نے آپ کی سادگی اور بےتکلفی نے ایسا اثر کیا کہ میں فوراً کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیا ۔ جس سے آپ بہت خوش ہوئے اور فرمانے لگے «الْمَغْضُوبِ عَلَیْہِمْ» سے مراد یہود ہیں اور «الضَّالِّینَ» سے مراد نصاریٰ ہیں} ۱؎ ۔ (سنن ترمذی:2954،قال الشیخ الألبانی:حسن) ایک اور حدیث میں ہے کہ سیدنا عدی رضی اللہ عنہ کے سوال پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تفسیر ارشاد فرمائی تھی ۲؎۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:209،195:حسن) اس حدیث کی بہت سی سندیں ہیں اور مختلف الفاظ سے مروی ہے ۔ بنوقین کے ایک شخص نے وادی القریٰ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی سوال کیا آپ نے جواب میں یہی فرمایا ۳؎ ۔ (مسند احمد:5/32:حسن بالشواھد) بعض روایتوں میں ان کا نام عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ابن مردویہ میں سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے بھی یہی روایت ہے ۔ سیدنا عبداللہ بن عباس ، سیدنا ابن مسعود اور بہت سے صحابیوں رضی اللہ عنہم سے بھی یہ تفسیر منقول ہے ۔ ربیع بن انس ، عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم وغیرہ بھی یہی فرماتے ہیں بلکہ ابن ابی حاتم تو فرماتے ہیں مفسرین میں اس بارے میں کوئی اختلاف ہی نہیں ۔ ان ائمہ کی اس تفسیر کی دلیل ایک تو وہ حدیث ہے جو پہلے گزری ۔ دوسری سورۃ البقرہ کی یہ آیت جس میں بنی اسرائیل کو خطاب کر کے کہا گیا ہے : «بِئْسَمَا اشْتَرَوْا بِہِ أَنْفُسَہُمْ أَنْ یَکْفُرُوا بِمَا أَنْزَلَ اللہُ بَغْیًا أَنْ یُنَزِّلَ اللہُ مِنْ فَضْلِہِ عَلَیٰ مَنْ یَشَاءُ مِنْ عِبَادِہِ فَبَاءُوا بِغَضَبٍ عَلَیٰ غَضَبٍ وَلِلْکَافِرِینَ عَذَابٌ مُہِینٌ» ۱؎ (2-البقرۃ:90) اس آیت میں ہے کہ ان پر غضب پر غضب نازل ہوا ۔ اور سورۃ المائدہ کی آیت «قُلْ ہَلْ أُنَبِّئُکُمْ بِشَرٍّ مِنْ ذٰلِکَ مَثُوبَۃً عِنْدَ اللہِ مَنْ لَعَنَہُ اللہُ وَغَضِبَ عَلَیْہِ وَجَعَلَ مِنْہُمُ الْقِرَدَۃَ وَالْخَنَازِیرَ وَعَبَدَ الطَّاغُوتَ أُولٰئِکَ شَرٌّ مَکَانًا وَأَضَلٰ عَنْ سَوَاءِ السَّبِیلِ» ۲؎ (5-المائدۃ:60) میں بھی ہے کہ ان پر غضب الہٰی نازل ہوا اور جگہ فرمان الہٰی ہے : «لُعِنَ الَّذِینَ کَفَرُوا مِنْ بَنِی إِسْرَائِیلَ عَلَیٰ لِسَانِ دَاوُودَ وَعِیسَی ابْنِ مَرْیَمَ ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَکَانُوا یَعْتَدُونَ * کَانُوا لَا یَتَنَاہَوْنَ عَنْ مُنْکَرٍ فَعَلُوہُ لَبِئْسَ مَا کَانُوا یَفْعَلُونَ» ۳؎ (5-المائدۃ:79) یعنی ’بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کیا ان پر لعنت کی گئی ۔ دواؤد علیہ السلام اور عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کی زبانی یہ ان کی نافرمانی اور حد سے گزر جانے کی وجہ سے ہے ۔ یہ لوگ کسی برائی کے کام سے آپس میں روک ٹوک نہیں کرتے تھے یقیناً ان کے کام بہت برے تھے‘ ۔ اور تاریخ کی کتابوں میں ہے کہ زید بن عمرو بن نفیل جو کہ دین خالص کی تلاش میں اپنے ساتھیوں سمیت نکلے اور ملک شام میں آئے تو ان سے یہودیوں نے کہا کہ آپ ہمارے دین میں تب تک داخل نہیں ہو سکتے جب تک غضب الہٰی کا ایک حصہ نہ پا لو ۔ انہوں نے جواب دیا کہ اس سے بچنے کے لیے تو دین حق کی تلاش میں نکلے ہیں پھر اسے کیسے قبول کر لیں ؟ پھر نصرانیوں سے ملے انہوں نے کہا جب تک اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا مزا نہ چکھ لو تب تک آپ ہمارے دین میں نہیں آ سکتے ۔ انہوں نے کہا ہم یہ بھی نہیں کر سکتے چنانچہ وہ اپنی فطرت پر ہی رہے ۔ بتوں کی عبادت اور قوم کا دین چھوڑ دیا لیکن یہودیت یا نصرانیت اختیار نہ کی ۔ البتہ زید کے ساتھیوں نے عیسائی مذہب قبول کر لیا ۔ اس لیے کہ یہودیوں کے مذہب سے یہ ملتا جلتا تھا ۔ انہی میں ورقہ بن نوفل تھے انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا زمانہ ملا اور ہدایت الہٰی نے ان کی رہبری کی اور یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اور جو وحی اس وقت تک اتری تھی اس کی تصدیق کی [رضی اللہ عنہ] ۔ مسئلہ «ضَّادِ» اور «ظَّاءِ» کی قرأت میں بہت باریک فرق ہے اور ہر ایک کے بس کا نہیں ۔ اس لیے علمائے کرام کا صحیح مذہب یہ ہے کہ یہ فرق معاف ہے ، «ضَّادِ» کا صحیح مخرج تو یہ ہے کہ زبان کا اول کنارہ اور اس کے پاس کی داڑھیں اور «ظَّاءِ» کا مخرج زبان کا ایک طرف اور سامنے والے اوپر کے دو دانت کے کنارے ۔ دوسرے یہ کہ یہ دونوں حرف «مَجْہُورَۃِ» اور «رِّخْوَۃِ» اور «مُطْبَقَۃِ» ہیں پس اس شخص کو جسے ان دونوں میں تمیز کرنی مشکل معلوم ہو ، اسے معاف ہے کہ «ضَّادِ» کو «ظَّاءِ» کی طرح پڑھ لے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ {میں «ضَّادِ» کو سب سے زیادہ صحیح پڑھنے والا ہوں} ۱؎ (کشف الخفاء:200/1:لااصل لہ) لیکن یہ حدیث بالکل بے اصل اور لاپتہ ہے ۔ الحمد کا تعارف و مفہوم یہ مبارک سورت نہایت کار آمد مضامین کا مجموعہ ہے ان سات آیتوں میں اللہ تعالیٰ کی حمد ، اس کی بزرگی ، اس کی ثنا و صفت اور اس کے پاکیزہ ناموں اور اس کی بلند و بالا صفتوں کا بیان ہے ساتھ ہی قیامت کے دن کا ذکر ہے اور بندوں کو ارشاد ہے کہ وہ اس مالک سے سوال کریں اس کی طرف تضرع و زاری کریں اپنی مسکینی اور بےکسی اور بےبسی کا اقرار کریں اور اس کی عبادت خلوص کے ساتھ کریں اور اس کی توحید الوہیت کا اقرار کریں ۔ اسے شریک، نظیر اور مثل سے پاک اور برتر جانیں۔ صراط مستقیم اور اس پر ثابت قدمی اس سے طلب کریں تاکہ یہی ہدایت انہیں قیامت والے دن پل صراط سے بھی پار اتارے اور نبیوں ، صدیقوں ، شہیدوں اور صالحوں کے پڑوس میں جنت الفردوس میں جگہ دلائے ۔ ساتھ ہی اس سورت میں نیک اعمال کی ترغیب ہے تاکہ قیامت کے دن نیکوں کا ساتھ ملے اور باطل راہوں پر چلنے سے ڈراوا پیدا ہو تاکہ قیامت کے دن بھی یہ باطل پرست یہود و نصاریٰ کی جماعت سے دور ہی رہیں ۔ اس باریک نکتہ پر بھی غور کیجئے کہ انعام کی اسناد تو اللہ تعالیٰ کی طرف کی گئی اور «أَنْعَمْتَ» کہا گیا لیکن غضب کی اسناد اللہ کی طرف نہیں کی گئی یہاں فاعل حذف کر دیا اور «الْمَغْضُوبِ عَلَیْہِمْ» کہا گیا اس میں پروردگار عالم کی جناب میں ادب کیا گیا ہے ۔ دراصل حقیقی فاعل اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ جیسے اور جگہ ہے : «غَضِبَ اللہُ عَلَیْہِمْ» ۱؎ (58-المجادلۃ:14) اور اسی طرح ضلالت کی اسناد بھی ان کی طرف کی کئی جو گمراہ ہیں ۔ حالانکہ اور جگہ ہے : «وَمَنْ یَہْدِ اللہُ فَہُوَ الْمُہْتَدِ وَمَنْ یُضْلِلْ» ۲؎ (17-الإسراء:97) الخ یعنی ’اللہ جسے راہ دکھائے وہ راہ یافتہ ہے اور جسے وہ گمراہ کر دے اس کا رہنما کوئی نہیں‘ ۔ اور جگہ فرمایا : «مَنْ یُضْلِلِ اللہُ فَلَا ہَادِیَ لَہُ» (7-الأعراف:186) ۳؎ الخ یعنی ’جسے اللہ گمراہ کر دے اس کا ہادی کوئی نہیں وہ تو اپنی سرکشی میں بہکے رہتے ہیں‘ ۔ اسی طرح کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں جن سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ راہ دکھانے والا گمراہ کرنے والا صرف سبحانہ و تعالیٰ ہی ہے ۔ قدریہ فرقہ جو ادھر ادھر کی متشابہ آیتوں کو دلیل بنا کر کہتا ہے کہ بندے خود مختار ہیں وہ خود جو پسند کرتے ہیں وہی کرتے ہیں ۔ یہ غلط ہے ، صریح اور صاف صاف آیتیں ان کے رد میں موجود ہیں لیکن باطل پرست فرقوں کا یہی قاعدہ ہے کہ صراحت کو چھوڑ کر متشابہ کے پیچھے لگا کرتے ہیں ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو متشابہ آیتوں کے پیچھے لگتے ہیں تو سمجھ لو کہ انہی لوگوں کا اللہ تعالیٰ نے نام لیا ہے تم ان کو چھوڑ دو ۱؎ ۔ (صحیح بخاری:4547) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اشارہ اس فرمان میں اس آیت شریف کی طرف ہے «فَأَمَّا الَّذِینَ فِی قُلُوبِہِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَہَ مِنْہُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَۃِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِیلِہِ» ۲؎ (3-آل عمران:7) الخ یعنی ’جن لوگوں کے دل میں کجی ہے وہ متشابہ ہے کے پیچھے لگتے ہیں فتنوں اور تاویل کو ڈھونڈنے کے لیے‘ ۔ پس «الْحَمْدُ لِلّٰہ» بدعتیوں کے لیے قرآن پاک میں صحیح دلیل کوئی نہیں ۔ قرآن کریم تو حق و باطل ہدایت و ضلالت میں فرق کرنے کے لیے آیا ہے اس میں تناقض اور اختلاف نہیں ۔ یہ تو اللہ حکیم و حمید کا نازل کردہ ہے ۔ آمین اور سورہ فاتحہ سورۃ فاتحہ کو ختم کر کے آمین کہنا مستحب ہے ۔ آمین مثل «یاسین» کے ہے اور آمین بھی کہا گیا ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ ”اے اللہ تو قبول فرما“ ۔ آمین کہنے کے مستحب ہونے کی دلیل وہ حدیث ہے جو مسند احمد ، ابوداؤد اور ترمذی میں سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں {میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم «غَیْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّالِّینَ» کہہ کر «آمِینَ» کہتے تھے اور آواز دراز کرتے تھے} ۱؎ ۔ (سنن ترمذی:248،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابوداؤد میں ہے {آواز بلند کرتے تھے} ۲؎ ۔ (سنن ابوداود:392،قال الشیخ الألبانی:صحیح) امام ترمذی رحمہ اللہ اس حدیث کو حسن کہتے ہیں ۔ سیدنا علی ، سیدنا ابن مسعود ، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمین پہلی صف والے لوگ جو آپ کے قریب ہوتے سن لیتے} ۳؎ ۔ (سنن ابوداود:934،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ابوداؤد اور ابن ماجہ میں یہ حدیث ہے ۔ ابن ماجہ میں یہ بھی ہے کہ {آمین کی آواز سے مسجد گونج اٹھتی تھی} ۴؎ ۔ (سنن ابن ماجہ:853،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) دارقطنی میں بھی یہ حدیث ہے ۵؎ ۔ (دارقطنی:335/1:حسن) اور امام دارقطنی رحمہ اللہ بتاتے ہیں کہ {سیدنا بلال رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے تھے ۔ مجھ سے پہلے آمین نہ کہا کیجئے} ۶؎ ۔ (سنن ابوداود:937،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) حسن بصری اور جعفر صادق رحمہ اللہ علیہم سے آمین کہنا مروی ہے ۔ جیسے کہ «آمِّینَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ» ۷؎ (5-المائدۃ:2) قرآن میں ہے ۔ ہمارے اصحاب وغیرہ کہتے ہیں جو نماز میں نہ ہو اسے بھی آمین کہنا چاہیئے ۔ ہاں جو نماز میں ہو اس پر تاکید زیادہ ہے ۔ نمازی خود اکیلا ہو ، خواہ مقتدی ہو ، خواہ امام ہو ، ہر حالت میں آمین کہے ۔ صحیحین میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جب امام آمین کہے تم بھی آمین کہو جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے مل جائے اس کے تمام سابقہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں“} ۱؎ ۔ (صحیح بخاری:786) صحیح مسلم میں ہے کہ {نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جب تم میں سے کوئی اپنی نماز میں آمین کہتا ہے اور فرشتے آسمان میں آمین کہتے ہیں اور ایک کی آمین دوسرے کی آمین سے مل جاتی ہے تو اس کے تمام پہلے گناہ معاف ہو جاتے ہیں“} ۲؎ ۔ (صحیح مسلم:410) مطلب یہ ہے کہ اس کی آمین کا اور فرشتوں کی آمین کا وقت ایک ہی ہو جائے یا موافقت سے مراد قبولیت میں موافق ہونا ہے یا اخلاص میں ۔ صحیح مسلم میں سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ {جب امام «وَلَا الضَّالِّینَ» کہے تو آمین کہو اللہ قبول فرمائے گا} ۳؎ ۔ (صحیح مسلم:404) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے {نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا آمین کے کیا معنی ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اے اللہ تو کر“} ۱؎ ۔ (تفسیر کشاف:18/1:ضعیف) جوہری کہتے ہیں اس کے معنی ”اسی طرح ہو“ ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں اس کے معنی ہیں کہ ”ہماری امیدوں کو نہ توڑ“ ۔ اکثر علماء فرماتے ہیں اس کے معنی ”اے اللہ تو ہماری دعا قبول فرما“ کے ہیں ۔ مجاہد ، جعفر صادق ، ہلال بن سیاف رحمہ اللہ علیہم فرماتے ہیں کہ آمین اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً بھی یہ مروی ہے لیکن صحیح نہیں ۲؎ ۔ (عبدالرزاق:2651) امام مالک رحمہ اللہ کے اصحاب کا مذہب ہے کہ امام آمین نہ کہے مقتدی آمین کہے کیونکہ موطا مالک کی حدیث میں ہے کہ {جب امام «وَلَا الضَّالِّینَ» کہے تو تم آمین کہو} ۳؎ ۔ (صحیح بخاری:796) اسی طرح ان کی دلیل کی تائید میں صحیح مسلم والی سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی یہ روایت بھی آتی ہے کہ {نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جب امام «وَلَا الضَّالِّینَ» کہے تو تم آمین کہو“} ۴؎ ۔ (صحیح مسلم:404) لیکن بخاری و مسلم کی حدیث پہلے بیان ہو چکی کہ {جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو} ۵؎ ۔ (صحیح بخاری:786) اور یہ بھی حدیث میں ہے کہ {نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم «وَلَا الضَّالِّینَ» پڑھ کر آمین کہتے تھے} ۶؎ ۔ (سنن ترمذی:248،قال الشیخ الألبانی:صحیح) آمین باآواز بلند جہری نمازوں میں مقتدی اونچی آواز سے آمین کہے یا نہ کہے ، اس میں ہمارے ساتھیوں کا اختلاف ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر امام آمین کہنی بھول گیا ہو تو مقتدی باآواز بلند آمین کہیں ۔ اگر امام نے خود اونچی آواز سے آمین کہی ہو تو نیا قول یہ ہے کہ مقتدی باآواز بلند نہ کہیں ۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا یہی مذہب ہے ۔ اور ایک روایت میں امام مالک رحمہ اللہ سے بھی مروی ہے اس لیے کہ نماز کے اور اذکار کی طرح یہ بھی ایک ذکر ہے تو نہ وہ صرف بلند آواز سے پڑھے جاتے ہیں نہ یہ بلند آواز سے پڑھا جائے ۔ لیکن پہلا قول یہ ہے کہ آمین بلند آواز سے کہی جائے ۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا بھی یہی مذہب ہے اور امام مالک رحمہ اللہ کا بھی دوسری روایت کے اعتبار سے یہی مذہب ہے اور اس کی دلیل وہی حدیث ہے جو پہلے بیان ہو چکی کہ آمین کی آواز سے مسجد گونج اٹھتی تھی ۔ ہمارے یہاں پر ایک تیسرا قول بھی ہے کہ اگر مسجد چھوٹی ہو تو مقتدی باآواز بلند آمین نہ کہیں اس لیے کہ وہ امام کی قرأت سنتے ہیں اور اگر بڑی ہو تو اونچی آواز سے آمین کہیں تاکہ مسجد کے کونے کونے میں آمین پہنچ جائے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» [صحیح مسئلہ یہ ہے کہ جن نمازوں میں اونچی آواز سے قرأت پڑھی جاتی ہے ان میں اونچی آواز سے آمین کہنی چاہیئے ۔ خواہ مقتدی ہو خواہ امام ہو ، خواہ منفرد ، مترجم] مسند احمد میں صرف سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہودیوں کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ ہماری تین چیزوں پر یہودیوں کو اتنا بڑا حسد ہے کہ کسی اور چیز پر نہیں ۔ ایک تو جمعہ پر کہ اللہ نے ہمیں اس کی ہدایت کی اور یہ بہک گئے دوسرے قبلہ ، تیسرے ہمارا امام کے پیچھے آمین کہنا} ۱؎ ۔ (سلسلۃ احادیث صحیحہ البانی:691،صحیح بالشواھد) ابن ماجہ کی حدیث میں یوں ہے کہ {یہودیوں کو سلام پر اور آمین پر جتنی چڑ ہے اتنی کسی اور چیز پر نہیں} ۲؎ ۔ (سنن ابن ماجہ:856،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اور سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارا جس قدر حسد یہودی آمین پر کرتے ہیں اس قدر حسد اور امر پر نہیں کرتے تم بھی آمین بکثرت کہا کرو} ۳؎ ۔ (سنن ابن ماجہ:857،قال الشیخ الألبانی:ضعیف جدا) اس کی اسناد میں طلحہ بن عمرو راوی ضعیف ہیں ۔ ابن مردویہ میں بروایت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ {آپ نے فرمایا آمین اللہ تعالیٰ کی مہر ہے اپنے مومن بندوں پر} ۴؎ ۔ (سلسلۃ احادیث ضعیفہ البانی:1487،ضعیف) سیدنا انس رضی اللہ عنہ والی حدیث میں ہے کہ {نماز میں آمین کہنی اور دعا پر آمین کہنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے عطا کی گئی ہے جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئی ۔ ہاں اتنا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کی ایک خاص دعا پر ہارون علیہ السلام آمین کہتے تھے ۔ تم اپنی دعاؤں کو آمین پر ختم کیا کرو۔ اللہ تعالیٰ انہیں تمہارے حق میں قبول فرمایا کرے گا} ۵؎ ۔ (ابن خزیمہ:1586:ضعیف) اس حدیث کو پیش نظر رکھ کر قرآن کریم کے ان الفاظ کو دیکھئے جن میں موسیٰ علیہ السلام کی دعا : «رَبَّنَا إِنَّکَ آتَیْتَ فِرْعَوْنَ وَمَلَأَہُ زِینَۃً وَأَمْوَالًا فِی الْحَیَاۃِ الدٰنْیَا رَبَّنَا لِیُضِلٰوا عَنْ سَبِیلِکَ رَبَّنَا اطْمِسْ عَلَیٰ أَمْوَالِہِمْ وَاشْدُدْ عَلَیٰ قُلُوبِہِمْ فَلَا یُؤْمِنُوا حَتَّیٰ یَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِیمَ» ۶؎ (10-یونس:88) ہے الخ یعنی ’الہٰی تو نے فرعون اور فرعونیوں کو دنیا کی زینت اور مال دنیا زندگانی میں عطا فرمایا ہے جس سے وہ تیری راہ سے دوسروں کو بہکا رہے ہیں ۔ اللہ ان کے مال برباد کر اور ان کے دل سخت کر ، جب تک درد ناک عذاب نہ دیکھ لیں یہ ایمان نہ لائیں‘ ۔ موسیٰ علیہ السلام کی اس دعا کی قبولت کا اعلان ان الفاظ میں ہوتا ہے : «قَدْ أُجِیبَتْ دَعْوَتُکُمَا فَاسْتَقِیمَا وَلَا تَتَّبِعَانِّ سَبِیلَ الَّذِینَ لَا یَعْلَمُونَ» ۷؎ (10-یونس:89) الخ یعنی ’تم دونوں کی دعا قبول کی گئی ، تم مضبوط رہو اور بےعلموں کی راہ نہ جاؤ‘ ۔ دعا صرف موسیٰ علیہ السلام کرتے تھے اور ہارون علیہ السلام صرف آمین کہتے تھے لیکن قرآن نے دعا کی نسبت دونوں کی طرف کی ۔ اس سے بعض لوگوں نے استدلال کیا ہے کہ جو شخص کسی دعا پر آمین کہے وہ گویا خود وہ دعا کر رہا ہے ۔ اب اس استدلال کو سامنے رکھ کر وہ قیاس کرتے ہیں کہ مقتدی قرأت نہ کرے ، اس لیے کہ اس کا سورۃ فاتحہ کے بعد آمین کہنا پڑھنے کے قائم مقام ہے اور اس حدیث کو بھی دلیل میں لاتے ہیں کہ جس کا امام ہو تو اس کے امام کی قرأت اس کی قرأت ہے ۔ ( مسند احمد ) سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آمین میں مجھ سے سبقت نہ کیا کیجئے اس کھینچا تانی سے مقتدی پر جہری نمازوں میں «الْحَمْدُ» کا نہ پڑھنا ثابت کرنا چاہتے ہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» [یہ یاد رہے کہ اس کی مفصل بحث پہلے گزر چکی ہے] سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جب امام «غَیْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّالِّینَ» کہہ کر آمین کہتا ہے آسمان والوں کی آمین زمین والوں کی آمین سے مل جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ بندے کے تمام پہلے گناہ معاف فرما دیتا ہے ۔ آمین نہ کہنے والے کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص ایک قوم کے ساتھ مل کر غزوہ کرے ، غالب آئے ، مال غنیمت جمع کرے ، اب قرعہ ڈال کر حصہ لینے لگے تو اس شخص کے نام قرعہ نکلے ہی نہیں اور کوئی حصہ نہ ملے وہ کہے ” یہ کیوں ؟ “ تو جواب ملے تیرے آمین نہ کہنے کی وجہ سے “} ۱؎ ۔ (ابویعلی فی مسندہ:6411:ضعیف) الفاتحة
0 البقرة
1 حروف مقطعات اور ان کے معنی «الم» جیسے حروف مقطعات ہیں جو سورتوں کے اول میں آئے ہیں ۔ ان کی تفسیر میں مفسرین کا اختلاف ہے بعض تو کہتے ہیں ان کے معنی صرف اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہیں اور کسی کو معلوم نہیں ۔ اس لیے وہ ان حروف کی کوئی تفسیر نہیں کرتے ۔ قرطبی رحمہ اللہ نے سیدنا ابوبکر ، سیدنا عمر ، سیدنا عثمان ، سیدنا علی ، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہم اجمعین سے یہی نقل کیا ہے ۔ عامر ، شعبی ، سفیان ثوری ، ربیع بن خیثم رحمہم اللہ بھی یہی کہتے ہیں ابوحاتم بن حبان رحمہ اللہ کو بھی اسی سے اتفاق ہے ۔ بعض لوگ ان حروف کی تفسیر بھی کرتے ہیں لیکن ان کی تفسیر میں بہت کچھ اختلاف ہے ۔ عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ سورتوں کے نام ہیں ۔ علامہ ابوالقاسم محمود بن عمر زمحشری رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں اکثر لوگوں کا اسی پر اتفاق ہے ۔ سیبویہ نے بھی یہی کہا ہے اور اس کی دلیل بخاری و مسلم کی وہ حدیث ہے جس میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن صبح کی نماز میں «الم السجدۃ» اور «ہَلْ أَتَیٰ عَلَی الْإِنْسَان» پڑھتے تھے } ۔ (صحیح بخاری:891) مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں «الم» اور «حم» اور «المص» اور «ص» یہ سب سورتوں کی ابتداء ہے جن سے یہ سورتیں شروع ہوتی ہیں ۔ انہی سے یہ بھی منقول ہے کہ «الم» قرآن کے ناموں میں سے ایک نام ہے ۔ قتادہ اور زید بن اسلم رحمہ اللہ علیہم کا قول بھی یہی ہے اور شاید اس قول کا مطلب بھی وہی ہے جو عبدالرحمٰن بن زید اسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ سورتوں کے نام ہیں اس لیے کہ ہر سورت کو قرآن کہہ سکتے ہیں اور یہ نہیں ہو سکتا کہ سارے قرآن کا نام «المص» ہو کیونکہ جب کوئی شخص کہے کہ میں نے سورۃ «المص» پڑھی تو ظاہر یہی سمجھا جاتا ہے کہ اس نے سورۃ الاعراف پڑھی نہ کہ پورا قرآن ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کے نام ہیں ۔ شعبی ، سالم بن عبداللہ ، اسماعیل بن عبدالرحمٰن ، سدی کبیر رحمہ اللہ علیہم یہی کہتے ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ «الم» اللہ تعالیٰ کا بڑا نام ہے ۔ اور روایت میں ہے کہ «حم» ، «طس» اور «الم» یہ سب اللہ تعالیٰ کے بڑے نام ہیں ۔ سیدنا علی اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما دونوں سے یہ مروی ہے ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی قسم ہے اور اس کا نام بھی ہے ۔ عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ قسم ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ بھی مروی ہے کہ اس کے معنی «أَنَا اللہُ أَعْلَمُ» ہیں یعنی ’میں ہی ہوں اللہ زیادہ جاننے والا‘ ۔ حضرت سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے بھی یہ مروی ہے ۔ سیدنا ابن عباس ، سیدنا ابن مسعود اور بعض دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے ناموں کے الگ الگ حروف ہیں ۔ ابوالعالیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ تین حرف «الف» اور «لام» اور «میم» انتیس حرفوں میں سے ہیں جو تمام زبانوں میں آتے ہیں ۔ ان میں سے ہر ہر حرف اللہ تعالیٰ کی نعمت اور اس کی بلا کا ہے اور اس میں قوموں کی مدت اور ان کے وقت کا بیان ہے ۔ عیسیٰ علیہ السلام کے تعجب کرنے پر کہا گیا تھا کہ وہ لوگ کیسے کفر کریں گے ان کی زبانوں پر اللہ تعالیٰ کے نام ہیں ۔ اس کی روزیوں پر وہ پلتے ہیں ۔ «الف» سے اللہ کا نام ، «اللہ» شروع ہوتا ہے اور «لام» سے اس کا نام «لطیف» شروع ہوتا ہے اور «میم» سے اس کا نام «مجید» شروع ہوتا ہے اور «الف» سے مراد «آلَاء» یعنی نعمتیں ہیں اور «لام» سے مراد اللہ تعالیٰ کا «لُطْف» ہے اور «میم» سے مراد اللہ تعالیٰ کا «مَجْد» یعنی بزرگی ہے ۔ «الف» سے مراد ایک سال ہے «لام» سے تیس سال اور «میم» سے چالیس سال ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:28/1) امام ابن جریر رحمہ اللہ نے ان سب مختلف اقوال میں تطبیق دی ہے یعنی ثابت کیا ہے کہ ان میں ایسا اختلاف نہیں جو ایک دوسرے کے خلاف ہو ۔ ہو سکتا ہے یہ سورتوں کے نام بھی ہوں اور اللہ تعالیٰ کے نام بھی ، سورتوں کے شروع کے الفاظ بھی ہوں اور ان میں سے ہر ہر حرف سے اللہ تعالیٰ کے ایک ایک نام کی طرف اشارہ بھی ، اور اس کی صفتوں کی طرف اور مدت وغیرہ کی طرف بھی ہو ۔ ایک ایک لفظ کئی کئی معنی میں آتا ہے ۔ جیسے لفظ «أُمَّۃٍ» کہ اس کے ایک معنی ہیں «دِّینُ» جیسے قرآن میں ہے : «إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَیٰ أُمَّۃٍ» (43-الزخرف:22) الخ یعنی ’ہم نے اپنے باپ دادوں کو اسی دین پر پایا‘ ۔ دوسرے معنی ہیں ، اللہ کا اطاعت گزار بندہ ، جیسے فرمایا : «إِنَّ إِبْرَاہِیمَ کَانَ أُمَّۃً قَانِتًا لِلہِ حَنِیفًا وَلَمْ یَکُ مِنَ الْمُشْرِکِینَ» (16-النحل:120) یعنی ’ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے مطیع اور فرمانبردار اور مخلص بندے تھے اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھے‘ ۔ تیسرے معنی ہیں «الْجَمَاعَۃُ» ، جیسے فرمایا : «وَجَدَ عَلَیْہِ أُمَّۃً مِنَ النَّاسِ یَسْقُونَ» (28-القصص:23) الخ یعنی ’ایک جماعت کو اس کنویں پر پانی پلاتے ہوئے پایا‘ ۔ اور جگہ ہے : «وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِی کُلِّ أُمَّۃٍ رَسُولًا» (16-النحل:36) الخ یعنی ’ہم نے ہر جماعت میں کوئی رسول یقیناً بھیجا‘ ۔ چوتھے معنی ہیں مدت اور زمانہ ۔ فرمان ہے : «وَادَّکَرَ بَعْدَ اُمَّۃٍ» (12-یوسف:45) یعنی ’ایک مدت کے بعد اسے یاد آیا‘ ۔ پس جس طرح یہاں ایک لفظ کے کئی معنی ہوئے اسی طرح ممکن ہے کہ ان حروف مقطعہ کے بھی کئی معنی ہوں ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ کے اس فرمان پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ابوالعالیہ رحمہ اللہ نے جو تفسیر کی ہے اس کا مطلب تو یہ ہے کہ یہ ایک لفظ ، ایک ساتھ ، ایک ہی جگہ ان سب معنی میں ہے اور لفظ امت وغیرہ جو کئی کئی معنی میں آتے ہیں جنہیں اصطلاح میں الفاظ مشترکہ کہتے ہیں ۔ ان کے معنی ہر جگہ جدا جدا تو ضرور ہوتے ہیں ، لیکن ہر جگہ ایک ہی معنی ہوتے ہیں جو عبارت کے قرینے سے معلوم ہو جاتے ہیں ایک ہی جگہ سب کے سب معنی مراد نہیں ہوتے اور سب کو ایک ہی جگہ محمول کرنے کے مسئلہ میں علماء اصول کا بڑا اختلاف ہے اور ہمارے تفسیری موضوع سے اس کا بیان خارج ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» دوسرے یہ کہ امت وغیرہ الفاظ کے معنی بہت سارے ہیں اور یہ الفاظ اسی لیے بنائے گئے ہیں کہ بندش کلام اور نشست الفاظ سے ایک معنی ٹھیک بیٹھ جاتے ہیں لیکن ایک حرف کی دلالت ایک ایسے نام پر ممکن ہے جو دوسرے ایسے نام پر بھی دلالت کرتا ہو اور ایک کو دوسرے پر کوئی فضیلت نہ ہو نہ تو مقدر ماننے سے ، نہ ضمیر دینے سے ، نہ وضع کے اعتبار سے اور نہ کسی اور اعتبار سے ایسی بات علمی طور پر تو نہیں سمجھی جا سکتی البتہ اگر منقول ہو تو اور بات ہے لیکن یہاں اختلاف ہے اجماع نہیں ہے اس لیے یہ فیصلہ قابل غور ہے ۔ اب بعض اشعار عرب کے جو اس بات کی دلیل میں پیش کئے جاتے ہیں ایک کلمہ کو بیان کرنے کے لیے صرف اس کا پہلا حرف بول دیتے ہیں ۔ یہ ٹھیک ہے لیکن ان شعروں میں خود عبارت ایسی ہوتی ہے جو اس پر دلالت کرتی ہے ۔ ایک حرف کے بولتے ہی پورا کلمہ سمجھ میں آ جاتا ہے لیکن یہاں ایسا بھی نہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں ایک حدیث میں ہے کہ {جو مسلمان کے قتل پر آدھے کلمہ سے بھی مدد کرے}(سنن ابن ماجہ:2620 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف جدا) مطلب یہ ہے کہ «اقْتُلْ» پورا نہ کہے بلکہ صرف «إِقْ» کہے مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں : سورتوں کے شروع میں جو حروف ہیں مثلاً «ق» ، «ص» ، «حم» ، «طسم الر» وغیرہ یہ سب حروف «ہِجَا» ہیں ۔ بعض عربی دان کہتے ہیں کہ یہ حروف الگ الگ جو اٹھائیس ہیں ان میں سے چند ذکر کر کے باقی کو چھوڑ دیا گیا ہے جیسے کوئی کہے کہ میرا بیٹا «ا ب ت ث» لکھتا ہے تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ تمام اٹھائیس حروف لکھتا ہے لیکن ابتداء کے چند حروف ذکر کر دئیے اور باقی کو چھوڑ دیا ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:208/1) سورتوں کے شروع میں اس طرح کے کل چودہ حروف آئے ہیں «ا ل م ص ر ک ہ ی ع ط س ح ق ن» ان سب کو اگر ملا لیا جائے تو یہ عبارت بنتی ہے ۔ «نَصٌّ حَکِیمٌ قَاطِعٌ لَہُ سِرٌّ» تعداد کے لحاظ سے یہ حروف چودہ ہیں اور جملہ حروف اٹھائیس ہیں اس لیے یہ پورے آدھے ہوئے بقیہ جن حروف کا ذکر نہیں کیا گیا ان کے مقابلہ میں یہ حروف ان سے زیادہ فضیلت والے ہیں اور یہ صناعت تصریف ہے ایک حکمت اس میں یہ بھی ہے کہ جتنی قسم کے حروف تھے اتنی قسمیں باعتبار اکثریت کے ان میں آ گئیں یعنی مہموسہ مجہورہ وغیرہ ۔ سبحان اللہ ہر چیز میں اس مالک کی حکمت نظر آتی ہے ۔ یہ یقینی بات ہے کہ اللہ کا کلام لغو ، بے ہودہ ، بےکار ، بےمعنی الفاظ سے پاک ہے جو جاہل لوگ کہتے ہیں کہ سرے سے ان حروف کے کچھ معنی ہی نہیں وہ بالکل خطا پر ہیں ۔ اس کے کچھ نہ کچھ معنی یقیناً ہیں ۔ اگر نبی معصوم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے معنی کچھ ثابت ہوں ، تو ہم وہ معنی کریں گے اور سمجھیں گے ورنہ جہاں کہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ معنی بیان نہیں کئے ہم بھی نہ کریں گے اور ایمان لائیں گے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تو اس بارہ میں ہمیں کچھ نہیں ملا ۔ اور علماء کا بھی اس میں بےحد اختلاف ہے ۔ اگر کسی پر کسی قول کی دلیل کھل جائے تو خیر وہ اسے مان لے ورنہ بہتر یہ ہے کہ ان حروف کے کلام اللہ ہونے پر ایمان لائے اور یہ جانے کہ اس کے معنی ضرور ہیں جو اللہ ہی کو معلوم ہیں اور ہمیں معلوم نہیں ہوئے ۔ دوسری حکمت ان حروف کے لانے میں یہ بھی ہے کہ ان سے سورتوں کی ابتداء معلوم ہو جائے لیکن یہ وجہ ضعیف ہے اس لیے کہ اس کے بغیر ہی سورتوں کی جدائی معلوم ہو جاتی ہے جن سورتوں میں ایسے حروف ہی نہیں کیا ان کی ابتداء انتہا معلوم نہیں ؟ پھر سورتوں سے پہلے «بِسْمِ اللہِ » الخ کا پڑھنے اور لکھنے کے اعتبار سے موجود ہونا کیا ایک سورت کو دوسری سے جدا نہیں کرتا ؟ امام ابن جریر رحمہ اللہ نے اس کی حکمت یہ بھی بیان کی ہے کہ چونکہ مشرکین کتاب اللہ کو سنتے ہی نہ تھے اس لیے انہیں سنانے کے لیے ایسے حروف لائے گئے تاکہ جب ان کا دھیان کان لگ جائے تو باقاعدہ تلاوت شروع ہو لیکن یہ وجہ بھی بودی ہے اس لیے اگر ایسا ہوتا تو تمام سورتوں کی ابتداء انہی حروف سے کی جاتی حالانکہ ایسا نہیں ہوا ۔ بلکہ اکثر سورتیں اس سے خالی ہیں پھر جب کبھی مشرکین سے کلام شروع ہو یہی حروف چاہئیں ۔ نہ کہ صرف سورتوں کے شروع میں ہی یہ حروف ہوں ۔ پھر اس پر بھی غور کر لیجئے کہ یہ سورت یعنی سورۃ البقرہ اور اس کے بعد کی سورت یعنی سورۃ آل عمران یہ تو مدینہ شریف میں نازل ہوتی ہیں اور مشرکین مکہ ان کے اترنے کے وقت وہاں تھے ہی نہیں پھر ان میں یہ حروف کیوں آئے ؟ ہاں یہاں پر ایک اور حکمت بھی بیان کی گئی ہے کہ ان حروف کے لانے میں قرآن کریم کا ایک معجزہ ہے جس سے تمام مخلوق عاجز ہے ۔ باوجود یہ کہ یہ حروف بھی روزمرہ کے استعمالی حروف سے ترکیب دئیے گئے ہیں لیکن مخلوق کے کلام سے بالکل نرالے ہیں ۔ مبرد رحمہ اللہ اور محققین کی ایک جماعت اور فراء رحمہ اللہ اور قطرب رحمہ اللہ سے بھی یہی منقول ہے ، زمخشری رحمہ اللہ نے تفسیر کشاف میں اس قول کو نقل کر کے اس کی بہت کچھ تائید کی ہے ۔ شیخ امام علامہ ابوالعباس ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور حافظ مجتہد ابوالحاج مزی رحمہ اللہ نے بھی یہی حکمت بیان کی ہے ۔ زمحشری رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہی وجہ ہے کہ تمام حروف اکٹھے نہیں آئے ۔ ہاں ان حروف کو مکرر لانے کی یہ وجہ ہے کہ باربار مشرکین کو عاجز اور لاجواب کیا جائے اور انہیں ڈانٹا اور دھمکایا جائے جس طرح قرآن کریم میں اکثر قصے کئی کئی مرتبہ لائے گئے ہیں اور باربار کھلے الفاظ میں بھی قرآن کے مثل لانے میں ان کی عاجزی کا بیان کیا گیا ہے ۔ بعض جگہ تو صرف ایک حرف آیا ہے جیسے «ص» «ن» «ق» کہیں دو حروف آئے ہیں جیسے «حم» کہیں تین حروف آئے ہیں جیسے «الم» کہیں چار آئے ہیں جیسے «المر» اور «المص» اور کہیں پانچ آئے ہیں جیسے «کھیعص» اور «حم عسق» اس لیے کہ کلمات عرب کے کل کے کل اسی طرح پر ہیں یا تو ان میں ایک حرفی لفظ ہیں یا دو حرفی یا سہ حرفی یا چار حرفی یا پانچ حرفی کے پانچ حرف سے زیادہ کے کلمات نہیں ۔ جب یہ بات ہے کہ یہ حروف قرآن شریف میں بطور معجزے کے آئے ہیں تو ضروری تھا کہ جن سورتوں کے شروع میں یہ حروف آئے ہیں وہاں ذکر بھی قرآن کریم کا ہو اور قرآن کی بزرگی اور بڑائی بیان ہو چنانچہ ایسا ہی انتیس سورتوں میں یہ واقع ہوا ہے ۔ سنیے فرمان ہے : «الم» * «ذٰلِکَ الْکِتَابُ لَا رَیْبَ فِیہِ ہُدًی لِلْمُتَّقِینَ» (2-البقرۃ:1-2) یہاں بھی ان حروف کے بعد ذکر ہے کہ اس قرآن کے اللہ جل شانہ کا کلام ہونے میں کوئی شک نہیں۔ اور جگہ فرمایا : «الم» « اللہُ لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ الْحَیٰ الْقَیٰومُ» * «نَزَّلَ عَلَیْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِمَا بَیْنَ یَدَیْہِ وَأَنْزَلَ التَّوْرَاۃَ وَالْإِنْجِیلَ» (3-آل عمران:1-2-3) یعنی ’وہ اللہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں جو زندہ اور دائم و قائم ہے جس نے تم پر حق کے ساتھ یہ کتاب تھوڑی تھوڑی نازل فرمائی ہے جو پہلے کی کتابوں کی بھی تصدیق کرتی ہے‘ یہاں بھی ان حروف کے بعد قرآن کریم کی عظمت کا اظہار کیا گیا ۔ اور جگہ فرمایا : «المص» * «کِتَابٌ أُنْزِلَ إِلَیْکَ فَلَا یَکُنْ فِی صَدْرِکَ حَرَجٌ مِنْہُ لِتُنْذِرَ بِہِ وَذِکْرَیٰ لِلْمُؤْمِنِینَ» (7-الأعراف:1-2) یعنی ’یہ کتاب تیری طرف اتاری گئی ہے تو اپنا دل تنگ نہ رکھ ‘ ۔ اور جگہ فرمایا: «الر کِتَابٌ أَنْزَلْنَاہُ إِلَیْکَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظٰلُمَاتِ إِلَی النٰورِ بِإِذْنِ رَبِّہِمْ إِلَیٰ صِرَاطِ الْعَزِیزِ الْحَمِیدِ» (14-إبراہیم:1) یعنی ’ یہ کتاب ہم نے تیری طرف نازل کی تاکہ تو لوگوں کو اپنے رب کے حکم سے اندھیروں سے نکال کر اجالے میں لائے ، زبردست اور تعریفوں والے اللہ کی طرف ‘ ۔ ارشاد ہوتا ہے : «الم» * «تَنْزِیلُ الْکِتَابِ لَا رَیْبَ فِیہِ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِینَ» (32-السجدۃ:1-2) یعنی ’اس کتاب کے رب العالمین کی طرف سے نازل شدہ ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں‘ ۔ فرماتا ہے : «حم» * «تَنْزِیلٌ مِنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» (41-فصلت:1-2) ’بخششوں اور مہربانیوں والے اللہ نے اسے نازل فرمایا ہے‘ ۔ فرمایا : «حم» * «عسق» * «کَذٰلِکَ یُوحِی إِلَیْکَ وَإِلَی الَّذِینَ مِنْ قَبْلِکَ اللہُ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ» (42-الشوری:1-2-3) یعنی ’اسی طرح وحی کرتا ہے اللہ تعالیٰ غالب حکمتوں والا تیری طرف اور ان نبیوں کی طرف جو تجھ سے پہلے تھے‘ ۔ اسی طرح اور ایسی سورتوں کے شروع کو بغور دیکھئیے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان حروف کے بعد کلام پاک کی عظمت و عزت کا ذکر ہے جس سے یہ بات قوی معلوم ہوتی ہے کہ یہ حروف اس لیے لائے گئے ہیں کہ لوگ اس کے لیے معارضے اور مقابلے میں عاجز ہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» بعض لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ان حروف سے مدت معلوم کرائی گئی ہے اور فتنوں لڑائیوں اور دوسرے ایسے ہی کاموں کے اوقات بتائے گئے ہیں ۔ لیکن یہ قول بھی بالکل ضعیف معلوم ہوتا ہے اس کی دلیل میں ایک حدیث بھی بیان کی جاتی ہے ۔ لیکن اول تو وہ ضعیف ہے دوسرے اس حدیث سے اس قول کی پختگی کا ایک طرف اس کا باطل ہونا زیادہ ثابت ہوتا ہے ۔ وہ حدیث محمد بن اسحاق بن یسار نے نقل کی ہے جو تاریخ کے مصنف ہیں ۔ اس حدیث میں ہے کہ ابویاسر بن اخطب یہودی اپنے چند ساتھیوں کو لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت سورۃ البقرہ کی شروع آیت «الم» * «ذٰلِکَ الْکِتَابُ لَا رَیْبَ فِیہِ» (2-البقرۃ:1-2) الخ تلاوت فرما رہے تھے وہ اسے سن کر اپنے بھائی حیی بن اخطب کے پاس آیا اور کہا میں نے آج آپ [صلی اللہ علیہ وسلم] کو اس آیت کی تلاوت کرتے ہوئے سنا ہے ۔ وہ پوچھتا ہے تو نے خود سنا ؟ اس نے کہا : ہاں میں نے خود سنا ہے ۔ حیی ان سب یہودیوں کو لے کر پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے حضور کیا یہ سچ ہے کہ آپ اس آیت کو پڑھ رہے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سچ ہے ۔ اس نے کہا سنیے ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جتنے نبی آئے کسی کو بھی نہیں بتایا گیا تھا ۔ کہ اس کا ملک اور مذہب کب تک رہے گا لیکن آپ کو بتا دیا گیا پھر کھڑا ہو کر لوگوں سے کہنے لگا سنو ! «الف» کا عدد ہوا ایک ، «لام» کے تیس ، «میم» کے چالیس ۔ کل اکہتر ہوئے ۔ کیا تم اس نبی کی تابعداری کرنا چاہتے ہو جس کے ملک اور امت کی مدت کل اکہتر سال ہو ؟ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف متوجہ ہو کر دریافت کیا کہ کیا کوئی اور آیت بھی ایسی ہے ؟ آپ نے فرمایا : ہاں «المص» ، کہنے لگا یہ بڑی بھاری اور بہت لمبی ہے ۔ «الف» کا ایک ، «لام» کے تیس ، «میم» کے چالیس ، «صواد» کے نوے یہ سب ایک سو اکسٹھ سال ہوئے ۔ کہا اور کوئی بھی ایسی آیت ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں ۔ «الر» کہنے لگا یہ بھی بہت بھاری اور لمبی ہے ۔ «الف» کا ایک ، «لام» کے تیس اور «رے» کے دو سو ۔ جملہ دو سو اکتیس برس ہوئے ۔ کیا اس کے ساتھ کوئی اور بھی ایسی ہے ۔ آپ نے فرمایا «المر» ہے کہا یہ تو بہت ہی بھاری ہے «الف» کا ایک ، «لام» کے تیس ، «میم» کے چالیس ، «رے» کے دو سو ، سب مل کر دو سو اکہتر ہو گئے ۔ اب تو کام مشکل ہو گیا اور بات خلط ملط ہو گئی ۔ ” لوگو ! اٹھو ، ابویاسر نے اپنے بھائی سے اور دوسرے علماء یہود سے کہا ۔ “ کیا عجب کہ ان سب حروف مجموعہ کی مدت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی ہو اکہتر ایک ، سو ایک ، ایک سو اکتیس ایک ، دو سو اکتیس ایک ، دو سو اکہتر ایک ، یہ سب مل کر سات سو چار برس ہوئے ۔ انہوں نے کہا اب کام خلط ملط ہو گیا ۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ آیتیں انہی لوگوں کے حق میں نازل ہوئیں : «ہُوَ الَّذِی أَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتَابَ مِنْہُ آیَاتٌ مُحْکَمَاتٌ ہُنَّ أُمٰ الْکِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِہَاتٌ» (3-آل عمران:7) یعنی الخ ’وہی اللہ جس نے تجھ پر یہ کتاب نازل فرمائی جس میں محکم آیتیں ہیں جو اصل کتاب ہیں اور دوسری آیتیں مشابہت والی بھی ہیں‘ ۔(تفسیر ابن جریر الطبری:216/1:ضعیف جدا) اس حدیث کا دارومدار محمد بن سائب کلبی پر ہے اور جس حدیث کا یہ اکیلا راوی ہو محدثین اس سے حجت نہیں پکڑتے اور پھر اس طرح اگر مان لیا جائے اور ہر ایسے حرف کے عدد نکالے جائیں تو جن پر چودہ حروف کو ہم نے بیان کیا ان کے عدد بہت ہو جائیں گے اور جو حروف ان میں سے کئی کئی بار آئے ہیں اگر ان کے عدد کا شمار بھی کئی کئی بار لگایا جائے تو بہت ہی بڑی گنتی ہو جائے گی ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» البقرة
2 تحقیقات کتاب سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یہاں «ذَلِکَ» معنی میں «ہَذَا» کے ہیں ۔ مجاہد ، عکرمہ ، سعید ، جبیر سدی ، مقاتل بن حیان ، زید بن اسلم اور ابن جریج کا بھی یہی قول ہے ۔ یہ دونوں لفظ ایک دوسرے کے قائم مقام عربی زبان میں اکثر آتے رہتے ہیں ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ابوعبیدہ رحمہ اللہ سے بھی یہی نقل کیا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ «ذَلِکَ» اصل میں ہے تو دور کے اشارے کے لیے جس کے معنی ہیں ”وہ“ لیکن کبھی نزدیک کے لیے بھی لاتے ہیں اس وقت اس کے معنی ہوتے ہیں ”یہ“ یہاں بھی اس معنی میں ہے ۔ زمخشری کہتے ہیں اس سے اشارہ «الم» کی طرف ہے ۔ جیسے اس آیت میں ہے «لَا فَارِضٌ وَلَا بِکْرٌ عَوَانٌ بَیْنَ ذٰلِکَ» ۱؎ (2-البقرۃ:68) الخ یعنی ’نہ تو وہ گائے بڑھیا ہے نہ بچہ ہے بلکہ اس کے درمیانی عمر کی جوان ہے‘ ۔ دوسری جگہ فرمایا : «ذٰلِکُمْ حُکْمُ اللہِ یَحْکُمُ بَیْنَکُمْ وَ اللہُ عَلِیمٌ حَکِیمٌ» ۲؎ (60-الممتحنۃ:10) الخ یعنی ’یہ ہی ہے اللہ کا حکم جو تمہارے درمیان حکم کرتا ہے‘ ۔ اور جگہ فرمایا : «ذٰلِکُمُ اللہُ» ۳؎ (6-الأنعام:102) یہ ہی ہے اللہ تعالیٰ اور اس کی مثال اور مواقع پہلے گزر چکے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» بعض مفسرین نے کہا ہے کہ یہ اشارہ قرآن کریم کی طرف ہے جس کے اتارنے کا وعدہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا تھا ۔ بعض نے توراۃ کی طرف کسی نے انجیل کی طرف بھی اشارہ بتایا ہے اور اسی طرح کے دس قول ہیں لیکن ان کو اکثر مفسرین نے ضعیف کہا ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» «کِتَابُ» سے مراد قرآن کریم ہے جن لوگوں نے کہا ہے کہ آیت «ذٰلِکَ الْکِتَابُ» کا اشارہ توراۃ اور انجیل کی طرف ہے انہوں نے انتہائی بھول بھلیوں کا راستہ اختیار کیا ، بڑی تکلیف اٹھائی اور خواہ مخواہ بلا وجہ وہ بات کہی جس کا انہیں علم نہیں ۔ «رَیْبَ» کے معنی ہیں شک و شبہ ۔ سیدنا ابن عباس ، سیدنا ابن مسعود اور کئی ایک صحابہ رضی اللہ عنہم سے یہی معنی مروی ہیں ۱؎ ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:228/1) سیدنا ابودرداء ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہم ، مجاہد ، سعید بن جبیر ، ابو مالک نافع جو سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے مولا ہیں ، عطا ، ابوالعالیہ ، ربیع بن انس ، مقاتل بن حیان ، سدی ، قتادہ ، اسماعیل بن ابوخالد سے بھی یہی مروی ہے ۔ ابن ابی حاتم فرماتے ہیں مفسرین میں اس میں اختلاف نہیں ۲؎ ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:31/1) «رَیْبَ» کا لفظ عرب شاعروں کے شعروں میں تہمت کے معنی میں بھی آیا ہے اور حاجت کے معنی میں بھی اس کا استعمال ہوا ہے ۔ اس جملہ کے معنی یہ ہوئے کہ اس قرآن کو اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہونے میں کچھ شک نہیں ۔ جیسے سورہ سجدہ میں ہے : «الم» * «تَنْزِیلُ الْکِتَابِ لَا رَیْبَ فِیہِ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِینَ» ۳؎ (32-السجدۃ:1-2) یعنی ’بیشک یہ قرآن کریم تمام جہانوں کے پالنے والے اللہ کی طرف سے ہے‘ ، یعنی اس میں شک نہ کرو ۔ بعض قاری «لَا رَیْبَ» پر وقف کرتے ہیں اور «فِیہِ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِینَ» کو الگ جملہ پڑھتے ہیں ۔ لیکن «لَا رَیْبَ فِیہِ» پر ٹھہرنا بہت بہتر ہے کیونکہ یہی مضمون اسی طرح سورۃ السجدہ کی آیت میں موجود ہے اور اس میں بہ نسبت «فِیہِ ہُدًی» کے زیادہ مبالغہ ہے ۔ «ہُدًی» نحوی اعتبار سے صفت ہو کر مرفوع ہو سکتا ہے اور حال کی بنا پر منصوب بھی ہو سکتا ہے ۔ اس جگہ ہدایت کو متقیوں کے ساتھ مخصوص کیا گیا ۔ جیسے دوسری جگہ فرمایا : «قُلْ ہُوَ لِلَّذِینَ آمَنُوا ہُدًی وَشِفَاءٌ وَالَّذِینَ لَا یُؤْمِنُونَ فِی آذَانِہِمْ وَقْرٌ وَہُوَ عَلَیْہِمْ عَمًی أُولٰئِکَ یُنَادَوْنَ مِنْ مَکَانٍ بَعِیدٍ» ۴؎ (41-فصلت:44) الخ یعنی ’یہ قرآن ہدایت اور شفاء ہے ایمان والوں کے لیے اور بے ایمانوں کے کان بوجھل ہیں اور آنکھیں اندھی ہیں یہ بہت دور کی جگہ سے پکارے جاتے ہیں‘ ۔ اور فرمایا : «وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا ہُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَۃٌ لِلْمُؤْمِنِینَ وَلَا یَزِیدُ الظَّالِمِینَ إِلَّا خَسَارًا» ۵؎ (17-الإسراء:82) الخ یعنی ’یہ قرآن ایمان داروں کے لیے شفاء اور رحمت ہے اور ظالم لوگ تو اپنے خسارے میں ہی بڑھتے جاتے ہیں‘ ۔ اسی مضمون کی اور آیتیں بھی ہیں ان سب کا مطلب یہ ہے کہ گو قرآن کریم خود ہدایت اور محض ہدایت ہے اور سب کے لیے ہے لیکن اس ہدایت سے نفع اٹھانے والے صرف نیک بخت لوگ ہیں ۔ جیسے فرمایا : «یَا أَیٰہَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْکُمْ مَوْعِظَۃٌ مِنْ رَبِّکُمْ وَشِفَاءٌ لِمَا فِی الصٰدُورِ وَہُدًی وَرَحْمَۃٌ لِلْمُؤْمِنِینَ» ۶؎ (10-یونس:57) یعنی ’تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی نصیحت اور سینے کی بیماریوں کی شفاء آ چکی جو مومنوں کے لیے شفاء اور رحمت ہے‘ اور سیدنا ابن عباس ، سیدنا ابن مسعود اور بعض دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ ہدایت سے مراد نور ہے ۔ متقین کی تعریف سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : متقی وہ ہیں جو ایمان لا کر شرک سے دور رہ کر اللہ تعالیٰ کے احکام بجا لائیں ۔ ایک اور روایت میں ہے متقی وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے عذابوں سے ڈر کر ہدایت کو نہیں چھوڑتے اور اس کی رحمت کی امید رکھ کر اس کی طرف سے جو نازل ہوا اسے سچا جانتے ہیں ۔ حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”متقی وہ ہے جو حرام سے بچے اور فرائض بجا لائے ۔ “ اعمش ابوبکر بن عیاش سے سوال کرتے ہیں ۔ ”متقی کون ہے ؟ “ آپ یہی جواب دیتے ہیں پھر میں نے کہا ”ذرا کلبی سے بھی تو دریافت کر لو ! “ وہ کہتے ہیں متقی وہ ہیں جو کبیرہ گناہوں سے بچیں ۔ اس پر دونوں کا اتفاق ہوتا ہے ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں متقی وہ ہے جس کا وصف اللہ تعالیٰ نے خود اس آیت کے بعد بیان فرمایا کہ «الَّذِینَ یُؤْمِنُونَ بِالْغَیْبِ وَیُقِیمُونَ الصَّلَاۃَ وَمِمَّا رَزَقْنَاہُمْ یُنْفِقُونَ» ۱؎ (2-البقرۃ:3) امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ سب اوصاف متقیوں میں جمع ہوتے ہیں ۔ ترمذی اور ابن ماجہ کی حدیث میں ہے {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں بندہ حقیقی متقی نہیں ہو سکتا جب تک کہ ان چیزوں کو نہ چھوڑ دے جن میں حرج نہیں اس خوف سے کہ کہیں وہ حرج میں گرفتار نہ ہو جائے} ۲؎ ۔ (سنن ترمذی:2451،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) امام ترمذی اسے حسن غریب کہتے ہیں ۔ ابن ابی حاتم میں ہے ، سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جبکہ لوگ ایک میدان میں قیامت کے دن روک لیے جائیں گے ، اس وقت ایک پکارنے والا پکارے گا کہ متقی کہاں ہیں ؟ اس آواز پر وہ کھڑے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ اپنے بازو میں لے لے گا اور بےحجاب انہیں اپنے دیدار سے مشرف فرمائے گا ۔ ابوعفیف نے پوچھا متقی کون لوگ ہیں ؟ آپ نے فرمایا جو لوگ شرک اور بت پرستی سے بچیں اور اللہ کی خالص عبادت کریں وہ اسی عزت کے ساتھ جنت میں پہنچائے جائیں گے ۔ ہدایت کی وضاحت ہدایت کے معنی کبھی تو دل میں ایمان پیوست ہو جانے کے آتے ہیں ایسی ہدایت پر تو سوائے اللہ جل و علا کی مہربانی کے کوئی قدرت نہیں رکھتا ۔ فرمان ہے : «إِنَّکَ لَا تَہْدِی مَنْ أَحْبَبْتَ» ۱؎ (28-القصص:56) الخ یعنی ’اے نبی جسے تو چاہے ہدایت نہیں دے سکتا‘ ۔ فرماتا ہے : «لَیْسَ عَلَیْکَ ہُدَاہُمْ» ۲؎ (2-البقرۃ:272) الخ یعنی ’تجھ پر ان کی ہدایت لازم نہیں‘ ۔ فرماتا ہے : «مَنْ یُضْلِلِ اللہُ فَلَا ہَادِیَ لَہُ» ۳؎ (7-الأعراف:186) الخ یعنی ’جسے اللہ گمراہ کرے اسے کوئی ہدایت پر لانے والا نہیں‘ ۔ فرمایا : «مَنْ یَہْدِ اللہُ فَہُوَ الْمُہْتَدِ وَمَنْ یُضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَہُ وَلِیًّا مُرْشِدًا» ۴؎ (18-الکہف:17) الخ یعنی ’جسے اللہ ہدایت دے وہی ہدایت والا ہے اور جسے وہ گمراہ کرے تم ہرگز نہ اس کا کوئی ولی پاؤ گے نہ مرشد‘ ۔ اس قسم کی اور آیتیں بھی ہیں اور ہدایت کے معنی کبھی حق کے اور حق کو واضح کر دینے کے اور حق پر دلالت کرنے اور حق کی طرف راہ دکھانے کے بھی آتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : «وَإِنَّکَ لَتَہْدِی إِلَیٰ صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ» ۵؎ (42-الشوری:52) الخ یعنی ’تو یقیناً سیدھی راہ کی رہبری کرتا ہے‘ ۔ اور فرمایا : «إِنَّمَا أَنْتَ مُنْذِرٌ وَلِکُلِّ قَوْمٍ ہَادٍ» ۶؎ (13-الرعد:7) الخ یعنی ’تو صرف ڈرانے والا ہے اور ہر قوم کے لیے کوئی ہادی ہے‘ ۔ اور جگہ فرمان ہے : «وَأَمَّا ثَمُودُ فَہَدَیْنَاہُمْ فَاسْتَحَبٰوا الْعَمَیٰ عَلَی الْہُدَیٰ» ۷؎ (41-فصلت:17) الخ یعنی ’ہم نے ثمودیوں کو ہدایت دکھائی لیکن انہوں نے اندھے پن کو ہدایت پر ترجیح دے کر پسند کر لیا ۔ فرماتا ہے : «وَہَدَیْنٰہُ النَّجْدَیْنِ» ۱؎ (90-البلد:10) ’ہم نے اسے دونوں راہیں دکھائیں‘ یعنی بھلائی اور برائی کی ۔ تقویٰ کے اصلی معنی بری چیزوں سے بچنے کے ہیں ۔ اصل میں یہ «وقوی» ہے «وقایت» سے ماخوذ ہے نابغہ وغیرہ کے اشعار میں بھی آیا ہے ۔ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ تقویٰ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا کبھی کانٹے دار راستے میں چلے ہو ؟ جیسے وہاں کپڑوں کو اور جسم کو بچاتے ہو ایسے ہی گناہوں سے بال بال بچنے کا نام تقویٰ ہے ۔ ابن معتز شاعر کا قول ہے ۔ «خل الذنوب صغیرھا .... وکبیرھا ذاک التقی .... واصنع کماش فوق ارض .... الشوک یحدذر مایری .... لا تحقرن صغیرۃ .... ان الجبال من الحصی» یعنی چھوٹے اور بڑے اور سب گناہوں کو چھوڑ دو یہی تقویٰ ہے ۔ ایسے رہو جیسے کانٹوں والی راہ پر چلنے والا انسان ۔ چھوٹے گناہ کو بھی ہلکا نہ جانو ۔ دیکھو پہاڑ کنکروں سے ہی بن جاتے ہیں ۔ سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ اپنے اشعار میں فرماتے ہیں انسان اپنی تمناؤں کا پورا ہونا چاہتا ہے اور اللہ کے ارادوں پر نگاہ نہیں رکھتا حالانکہ ہوتا وہی ہے جو اللہ کا ارادہ ہو ۔ وہ اپنے دینوی فائدے اور مال کے پیچھے پڑا ہوا ہے حالانکہ اس کا بہترین فائدہ اور عمدہ مال اللہ سے تقویٰ ہے ۔ ابن ماجہ کی حدیث میں ہے {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سب سے عمدہ فائدہ جو انسان حاصل کر سکتا ہے وہ اللہ کا ڈر ہے ۔ اس کے بعد نیک بیوی ہے کہ خاوند جب اس کی طرف دیکھے وہ اسے خوش کر دے اور جو حکم دے اسے بجا لائے اور اگر قسم دے دے تو پوری کر دکھائے اور جب وہ موجود نہ ہو تو اس کے مال کی اور اپنے نفس کی حفاظت کرے} ۲؎ ۔ (سنن ابن ماجہ:1857،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) البقرة
3 ایمان کی تعریف سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ”ایمان کسی چیز کی تصدیق کرنے کا نام ہے“ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بھی یہی فرماتے ہیں ۔ زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”ایمان کہتے ہیں عمل کو“ ، ربیع بن انس رحمہ اللہ کہتے ہیں ۔ ”یہاں ایمان لانے سے مراد ڈرنا ہے“ ۱؎ ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:235/1) ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں ۔ یہ سب اقوال مل جائیں تو مطلب یہ ہو گا کہ زبان سے ، دل سے ، عمل سے ، غیب پر ایمان لانا اور اللہ سے ڈرنا ۔ ایمان کے مفہوم میں اللہ تعالیٰ پر ، اس کی کتابوں پر ، اس کے رسولوں پر ایمان لانا شامل ہے اور اس اقرار کی تصدیق عمل کے ساتھ بھی کرنا لازم ہے ۔ میں کہتا ہوں لغت میں ایمان کہتے ہیں صرف سچا مان لینے کو ، قرآن میں بھی ایمان اس معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ جیسے فرمایا «یُؤْمِنُ بِ اللہِ وَیُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِینَ» ۲؎ (9-التوبۃ:61) الخ یعنی ’اللہ کو مانتے ہیں اور ایمان والوں کو سچا جانتے ہیں‘ ۔ یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے اپنے باپ سے کہا تھا «وَمَا أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنَا وَلَوْ کُنَّا صَادِقِینَ» ۳؎ (12-یوسف:17) الخ یعنی ’تو ہمارا یقین نہیں کرے گا اگرچہ ہم سچے ہوں‘ ۔ اس طرح ایمان یقین کے معنی میں آتا ہے جب اعمال کے ذکر کے ساتھ ملا ہوا ہو ۔ جیسے فرمایا : «إِلَّا الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ» ۴؎ (84-الانشقاق:25) ہاں جس وقت اس کا استعمال مطلق ہو تو ایمان شرعی جو اللہ کے ہاں مقبول ہے وہ اعتقاد قول اور عمل کے مجموعہ کا نام ہے ۵؎ ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:35/1) اکثر ائمہ کا یہی مذہب ہے بلکہ امام شافعی ، امام احمد اور امام ابوعبیدہ رحمہ اللہ علیہم وغیرہ نے اس پر اجماع نقل کیا ہے کہ ایمان نام ہے زبان سے کہنے اور عمل کرنے کا ۔ ایمان بڑھتا گھٹتا رہتا ہے اور اس کے ثبوت میں بہت سے آثار اور حدیثیں بھی آئی ہیں جو ہم نے بخاری شریف کی شرح میں نقل کر دی ہیں ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» بعض نے ایمان کے معنی اللہ سے ڈر خوف کے بھی کیے ہیں ۔ جیسے فرمان ہے : «إِنَّ الَّذِینَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَیْبِ» ۱؎ (67-الملک:12) الخ یعنی ’جو لوگ اپنے رب سے در پردہ ڈرتے رہتے ہیں‘ ۔ اور جگہ فرمایا : «مَنْ خَشِیَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَیْبِ وَجَاءَ بِقَلْبٍ مُنِیبٍ» ۲؎ (50-ق:33) یعنی ’جو شخص اللہ تعالیٰ سے بن دیکھے ڈرے اور جھکنے والا دل لے کر آئے‘ ۔ حقیقت میں اللہ کا خوف ایمان کا اور علم کا خلاصہ ہے ۔ جیسے فرمایا : «إِنَّمَا یَخْشَی اللہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَاءُ» ۳؎ (35-فاطر:28) الخ یعنی ’جو بندے ذی علم ہیں صرف اللہ سے ہی ڈرتے ہیں‘ ۔ بعض کہتے ہیں وہ غیب پر بھی ایسا ہی ایمان رکھتے ہیں جیسا حاضر پر اور ان کا حال منافقوں جیسا نہیں کہ جب ایمان والوں کے سامنے ہوں تو اپنا ایماندار ہونا ظاہر کریں لیکن جب اپنے والوں میں ہوتے ہیں تو ان سے کہتے ہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں ہم تو ان کا مذاق اڑاتے ہیں ۔ ان منافقین کا حال اور جگہ اس طرح بیان ہوا ہے : «إِذَا جَاءَکَ الْمُنَافِقُونَ قَالُوا نَشْہَدُ إِنَّکَ لَرَسُولُ اللہِ وَ اللہُ یَعْلَمُ إِنَّکَ لَرَسُولُہُ وَ اللہُ یَشْہَدُ إِنَّ الْمُنَافِقِینَ لَکَاذِبُونَ» ۴؎ (63-المنافقون:1) یعنی ’منافق جب تیرے پاس آئیں گے تو کہیں گے کہ ہماری تہ دل سے شہادت ہے کہ تو اللہ کا رسول ہے اللہ خوب جانتا ہے کہ تو اس کا رسول ہے لیکن اللہ کی گواہی ہے کہ یہ منافق تجھ سے جھوٹ کہتے ہیں‘ ۔ اس معنی کے اعتبار سے «بِالْغَیْبِ» حال ٹھہرے گا یعنی وہ ایمان لاتے ہیں درآنحالیکہ لوگوں سے پوشیدہ ہوتے ہیں ۔ «غیب» کا لفظ جو یہاں ہے ، اس کے معنی میں بھی مفسرین کے بہت سے اقوال ہیں اور وہ سب صحیح ہیں اور جمع ہو سکتے ہیں ۔ ابوالعالیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے مراد اللہ تعالیٰ پر ، فرشتوں پر ، کتابوں پر ، رسولوں پر ، قیامت پر ، جنت دوزخ پر ، ملاقات اللہ پر ، مرنے کے بعد جی اٹھنے پر ، ایمان لانا ہے ۔ قتادہ رحمہ اللہ کا یہی قول ہے ۔ سیدنا ابن عباس ، سیدنا ابن مسعود اور بعض دیگر اصحاب رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ اس سے مراد وہ پوشیدہ چیزیں ہیں جو نظروں سے اوجھل ہیں جیسے جنت ، دوزخ وغیرہ ۔ وہ امور جو قرآن میں مذکور ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اللہ کی طرف سے جو کچھ آیا ہے وہ سب غیب میں داخل ہے ۔ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس سے مراد قرآن ہے ۔ عطا ابن ابورباح رحمہ اللہ فرماتے ہیں اللہ پر ایمان لانے والا ، غیب پر ایمان لانے والا ہے ۔ اسماعیل بن ابوخالد رحمہ اللہ فرماتے ہیں اسلام کی تمام پوشیدہ چیزیں مراد ہیں ۔ زید بن اسلم رحمہ اللہ کہتے ہیں مراد تقدیر پر ایمان لانا ہے ۔ پس یہ تمام اقوال معنی کی رو سے ایک ہی ہیں اس لیے کہ سب چیزیں پوشیدہ ہیں اور غیب کی تفسیر ان سب پر مشتمل ہے اور ان سب پر ایمان لانا واجب ہے ۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی مجلس میں ایک مرتبہ صحابہ کے فضائل بیان ہوتے ہیں تو آپ فرماتے ہیں ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دیکھنے والوں کو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا ہی تھا لیکن اللہ کی قسم ایمانی حیثیت سے وہ لوگ افضل ہیں جو بغیر دیکھے ایمان لاتے ہیں ۔ پھر آپ نے «الم» سے لے کر «مُفْلِحُونَ» تک آیتیں پڑھیں ۱؎ ۔ (سنن سعید بن منصور:544/2) [ابن ابی حاتم ، ابن مردویہ ، مستدرک ، حاکم] ۲؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:34/1) امام حاکم رحمہ اللہ اس روایت کو صحیح بتاتے ہیں ۔ مسند احمد میں بھی اس مضمون کی ایک حدیث ہے ۔ ابو جمعہ صحابی رضی اللہ عنہ سے ابن محریز رحمہ اللہ نے کہا کہ کوئی ایسی حدیث سناؤ جو آپ نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو ۔ فرمایا : میں تمہیں ایک بہت ہی عمدہ حدیث سناتا ہوں ، {ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک مرتبہ ناشتہ کیا ، ہمارے ساتھ ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہا بھی تھے ، انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! کیا ہم سے بہتر بھی کوئی اور ہے ؟ ہم آپ پر اسلام لائے ، آپ کے ساتھ جہاد کیا ، آپ نے فرمایا ہاں وہ لوگ جو تمہارے بعد آئیں گے ، مجھ پر ایمان لائیں گے حالانکہ انہوں نے مجھے دیکھا بھی نہ ہو گا} ۱؎ ۔ (سلسلۃ احادیث صحیحہ البانی:907) تفسیر ابن مردویہ میں ہے ۔ صالح بن جبیر کہتے ہیں کہ ابو جمعہ انصاری رضی اللہ عنہ ہمارے پاس بیت المقدس میں آئے ۔ رجاء بن حیوہ رضی اللہ عنہ بھی ہمارے ساتھ ہی تھے ، جب وہ واپس جانے لگے تو ہم انہیں چھوڑنے کو ساتھ چلے ، جب الگ ہونے لگے تو فرمایا تمہاری ان مہربانیوں کا بدلہ اور حق مجھے ادا کرنا چاہیئے ۔ سنو ! میں تمہیں ایک حدیث سناتا ہوں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے ہم نے کہا اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرے ضرور سناؤ ۔ کہا سنو ! {ہم رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے ساتھ تھے ، ہم دس آدمی تھے ، معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بھی ان میں تھے ، ہم نے کہا یا رسول اللہ ! کیا ہم سے بڑے اجر کا مستحق بھی کوئی ہو گا ؟ ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور آپ کی تابعداری کی ۔ آپ نے فرمایا تم ایسا کیوں نہ کرتے ؟ اللہ کا رسول تم میں موجود ہے ، وحی الٰہی آسمان سے تمہارے سامنے نازل ہو رہی ہے ۔ ایمان تو ان لوگوں کا افضل ہو گا جو تمہارے بعد آئیں گے دو گتوں کے درمیان یہ کتاب پائیں گے ، اس پر ایمان لائیں گے اور اس پر عمل کریں گے ، یہ لوگ اجر میں تم سے دگنے ہوں گے} ۱؎ ۔ (طبرانی کبیر:3540:ضعیف) اس حدیث میں «وجاوہ» کی قبولت کی دلیل ہے جس میں محدثین کا اختلاف ہے ۔ میں نے اس مسئلہ کو بخاری شریف میں خوب واضح کر دیا ہے بعد والوں کی تعریف اسی بنا پر ہو رہی ہے اور ان کا بڑے اجر والا ہونا اسی حیثیت کی وجہ سے ہے ورنہ علی الاطلاق ہر طرح سے بہتر اور افضل تو صحابہ رضی اللہ عنہم ہی ہیں ۔ ایک اور حدیث میں ہے {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ صحابہ سے پوچھا : ”تمہارے نزدیک ایمان لانے میں کون زیادہ افضل ہے “ ، انہوں نے کہا ، فرشتے ۔ فرمایا : ”وہ ایمان کیوں نہ لائیں وہ تو اپنے رب کے پاس ہی ہیں “ ، لوگوں نے پھر کہا انبیاء ، فرمایا : ”وہ ایمان کیوں نہ لائیں ان پر تو وحی نازل ہوتی ہے “ ۔ کہا پھر ہم ۔ فرمایا : ” تم ایمان کو قبول کیوں نہ کرتے ؟ جب کہ میں تم میں موجود ہوں سنو ! میرے نزدیک سب سے زیادہ افضل ایمان والے وہ لوگ ہوں گے جو تمہارے بعد آئیں گے ۔ صحیفوں میں لکھی ہوئی کتاب پائیں گے اس پر ایمان لائیں گے “} ۲؎ ۔ (مسند ابویعلی:160:ضعیف) اس کی سند میں مغیرہ بن قیس ہیں ۔ ابوحاتم رازی انہیں منکر الحدیث بتاتے ہیں ۔ لیکن اسی کے مثل ایک اور حدیث ضعیف سند ہے ۔ مسند ابویعلیٰ تفسیر ابن مردویہ مستدرک حاکم میں بھی مروی ہے اور حاکم اسے صحیح بتاتے ہیں ۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے بھی اسی کے مثل مرفوعاً مروی ہے ۳؎ ۔ (مسند بزار:2840:ضعیف) «وَاللہُ اَعْلَمُ» ابن ابی حاتم میں ہے {سیدہ بدیلہ بنت اسلم رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ، بنو حارثہ کی مسجد میں ہم ظہر یا عصر کی نماز میں تھے اور بیت المقدس کی طرف ہمارا منہ تھا دو رکعت ادا کر چکے تھے کہ کسی نے آ کر خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ شریف کی طرف منہ کر لیا ہے ہم سنتے ہی گھوم گئے ۔ عورتیں مردوں کی جگہ آ گئیں اور مرد عورتوں کی جگہ چلے گئے اور باقی کی دو رکعتیں ہم نے بیت اللہ شریف کی طرف ادا کیں ۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا : ” یہ لوگ ہیں جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں “} ۱؎ ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:36/1:ضعیف جدا) یہ حدیث اس اسناد سے غریب ہے ۔ قیام صلوٰۃ کیا ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : فرائض نماز بجا لانا ۱؎ ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:241/1) رکوع سجدہ ، تلاوت خشوع اور توجہ کو قائم رکھنا نماز کو قائم رکھنا ہے ۔ قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں وقتوں کا خیال رکھنا ، وضو اچھی طرح کرنا ، رکوع ، سجدہ پوری طرح کرنا ، اقامت صلوٰۃ ہے ۔ مقاتل رحمہ اللہ کہتے ہیں وقت کی نگہبانی کرنا ۔ مکمل طہارت کرنا ، رکوع ، سجدہ پورا کرنا ، تلاوت اچھی طرح کرنا ۔ التحیات اور درود پڑھنا اقامت صلوٰۃ ہے ۲؎ ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:37/1) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : «وَمِمَّا رَزَقْنٰہُمْ یُنْفِقُوْنَ» ۳؎ (2-البقرۃ:3) کے معنی زکوٰۃ ادا کرنے کے ہیں ۔ ۴؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:243/1) سیدنا ابن عباس ، سیدنا ابن مسعود اور بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا ہے اس سے مراد آدمی کا اپنے بال بچوں کو کھلانا پلانا ہے ، خرچ میں قربانی دینا جو قرب الہٰی حاصل کرنے کے لیے دی جاتی ہے ۔ اپنی استعداد کے مطابق بھی شامل ہے جو زکوٰۃ کے حکم سے پہلے کی آیت ہے ۔ ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ زکوٰۃ کی سات آیتیں جو سورۃ برأت میں ہیں ان کے نازل ہونے سے پہلے یہ حکم تھا کہ اپنی اپنی طاقت کے مطابق تھوڑا بہت جو میسر ہو دیتے رہیں ۵؎ ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:243/1) قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ مال تمہارے پاس اللہ کی امانت ہے عنقریب تم سے جدا ہو جائے گا ۔ اپنی زندگی میں اسے اللہ کی راہ میں لگا دو ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت عام ہے زکوٰۃ کو اہل و عیال میں خرچ اور جن لوگوں کو دینا ضروری ہے ان سب کو دنیا بھی شامل ہے اس لیے کہ پروردگار نے ایک عام وصف بیان فرمایا اور عام تعریف کی ہے ۔ لہٰذا ہر طرح کا خرچ شامل ہو گا ۔ میں کہتا ہوں قرآن کریم میں اکثر جگہ نماز کا اور مال خرچ کرنے کا ذکر ملا جلا آتا ہے اس لیے کہ نماز اللہ کا حق اور اس کی عبادت ہے جو اس کی توحید ، اس کی ثناء ، اس کی بزرگی ، اس کی طرف جھکنے ، اس پر توکل کرنے ، اس سے دعا کرنے کا نام ہے اور خرچ کرنا مخلوق کی طرف احسان کرنا ہے جس سے انہیں نفع پہنچے ۔ اس کے زیادہ حقدار اہل و عیال اور غلام ہیں ، پھر دور والے اجنبی ۔ لہٰذا تمام واجب خرچ اخراجات اور فرض زکوٰۃ اس میں داخل ہیں ۔ صحیحین میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اسلام کی بنیادیں پانچ ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی توحید اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دینا ۔ نماز قائم رکھنا ، زکوٰۃ دینا ، رمضان کے روزے رکھنا اور بیت اللہ کا حج کرنا ۱؎ (صحیح بخاری:8) ، اس بارے میں اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں ۔ عربی لغت میں «صلوٰۃ» کے معنی دعا کے ہیں ۔ عرب شاعروں کے شعر اس پر شاہد ہیں ۔ پھر شریعت میں اس لفظ کا استعمال نماز کے لیے ہونے لگا جو رکوع سجود اور دوسرے خاص افعال کا نام ہے جو مخصوص اوقات میں جملہ شرائط صفات اور اقسام کے ساتھ بجا لائی جاتی ہے ۔ ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں ۔ نماز کو «صلوٰۃ» اس لیے کہا جاتا ہے کہ نمازی اللہ تعالیٰ سے اپنے عمل کا ثواب طلب کرتا ہے اور اپنی حاجتیں اللہ تعالیٰ سے مانگتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ جو دو رگیں پیٹھ سے لے کر ریڑھ کی ہڈی کی دونوں طرف آتی ہیں انہیں عربی میں «صلوین» کہتے ہیں چونکہ نماز میں یہ ہلتی ہیں اس لیے اسے «صلوٰۃ» کہا گیا ہے ۔ لیکن یہ قول ٹھیک نہیں بعض نے کہا یہ ماخوذ ہے «صلی» سے ، جس کے معنی ہیں جھک جانا اور لازم ہو جانا ۔ جیسے قرآن میں آیت «لَا یَصْلَاہَا إِلَّا الْأَشْقَی» ۲؎ (92-اللیل:15) الخ یعنی ’جہنم میں ہمیشہ نہ رہے گا مگر بدبخت‘ ۔ بعض علماء کا قول ہے کہ جب لکڑی کو درست کرنے کے لیے آگ پر رکھتے ہیں تو عرب «تصلیہ» کہتے ہیں چونکہ نمازی بھی اپنے نفس کی کجی کو نماز سے درست کرتا ہے اس لیے اسے «صلوٰۃ» کہتے ہیں ۔ جیسے قرآن میں ہے : «إِنَّ الصَّلَاۃَ تَنْہَیٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْکَرِ» ۳؎ (29-العنکبوت:45) الخ یعنی ’نماز ہر بےحیائی اور برائی سے روکتی ہے‘ لیکن اس کا دعا کے معنی میں ہونا ہی زیادہ صحیح اور زیادہ مشہور ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» لفظ زکوٰۃ کی بحث «ان شاءاللہ تعالیٰ» اور جگہ آئے گی ۔ البقرة
4 اعمال مومن سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : مطلب یہ ہے کہ جو کچھ اللہ کی طرف سے تم پر نازل ہوا اور تجھ سے پہلے کے انبیاء پر نازل ہوا وہ ان سب کی تصدیق کرتے ہیں ایسا نہیں کہ وہ کسی کو مانیں اور کسی سے انکار کریں بلکہ اپنے رب کی سب باتوں کو مانتے ہیں اور آخرت پر بھی ایمان رکھتے ہیں یعنی بعث و قیامت ، جنت و دوزخ ، حساب و میزان سب کو مانتے ہیں ۱؎ ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:39/1) قیامت چونکہ دنیا کے فنا ہونے کے بعد آئے گی اس لیے اسے آخرت کہتے ہیں ۔ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ جن کی پہلے ایمان بالغیب وغیرہ کے ساتھ صفت بیان کی گئی تھی انہی کی دوبارہ یہ صفتیں بیان کی گئی ہیں ۔ یعنی ایماندار خواہ عرب مومن ہوں خواہ اہل کتاب وغیرہ ۔ مجاہد ، ابوالعالیہ ، ربیع بن انس اور قتادہ کا یہی قول ہے ۔ بعض نے کہا ہے یہ دونوں ہیں تو ایک مگر مراد اس سے صرف اہل کتاب ہی نہیں ۔ ان دونوں صورتوں میں «واؤ» عطف کو ہو گا اور صفتوں کا عطف صفتوں پر ہو گا جیسے «سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلَی» * «الَّذِی خَلَقَ فَسَوَّیٰ» * «وَالَّذِی قَدَّرَ فَہَدَیٰ» * «وَالَّذِی أَخْرَجَ الْمَرْعَیٰ» * «فَجَعَلَہُ غُثَاءً أَحْوَیٰ» ۲؎ (87-الأعلی:1-5) میں صفتوں کا عطف صفتوں پر ہے اور شعراء کے شعروں میں بھی آیا ہے ۔ تیسرا قول یہ ہے کہ پہلی صفتیں تو ہیں عرب مومنوں کی اور آیت «وَالَّذِینَ یُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَیْکَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ وَبِالْآخِرَۃِ ہُمْ یُوقِنُونَ» ۳؎ (2-البقرۃ:4) سے مراد اہل کتاب مومنوں کی صفتیں ہیں ۔ سدی رحمہ اللہ نے سیدنا ابن عباس ، سیدنا ابن مسعود اور بعض دیگر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نقل کیا ہے اور ابن جریر رحمہ اللہ نے بھی اسی سے اتفاق کیا ہے اور اس کی شہادت میں یہ آیت لائے ہیں : «وَإِنَّ مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ لَمَنْ یُؤْمِنُ بِ اللہِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَیْکُمْ وَمَا أُنْزِلَ إِلَیْہِمْ خَاشِعِینَ لِلہِ لَا یَشْتَرُونَ بِآیَاتِ اللہِ ثَمَنًا قَلِیلًا» ۴؎ (3-آل عمران:199) الخ یعنی ’اہل کتاب میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ پر اور اس وحی پر جو تمہاری طرف نازل ہوئی اور اس وحی پر جو اس سے پہلے ان کی طرف اتاری گئی ایمان لاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی آیتوں کو تھوڑی تھوڑی قیمت پر بیچتے بھی نہیں‘ ۔ اور جگہ ارشاد ہے : «الَّذِینَ آتَیْنَاہُمُ الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِہِ ہُمْ بِہِ یُؤْمِنُونَ» * «وَإِذَا یُتْلَیٰ عَلَیْہِمْ قَالُوا آمَنَّا بِہِ إِنَّہُ الْحَقٰ مِنْ رَبِّنَا إِنَّا کُنَّا مِنْ قَبْلِہِ مُسْلِمِینَ» * «أُولٰئِکَ یُؤْتَوْنَ أَجْرَہُمْ مَرَّتَیْنِ بِمَا صَبَرُوا وَیَدْرَءُونَ بِالْحَسَنَۃِ السَّیِّئَۃَ وَمِمَّا رَزَقْنَاہُمْ یُنْفِقُونَ» ۵؎ (28-القصص:52-54) یعنی ’جنہیں اس سے پہلے ہم نے کتاب دی تھی وہ اس کے ساتھ ایمان رکھتے اور جب ان کو [یہ قرآن] پڑھ کر سنایا جاتا ہے تو کہتے ہیں ۔ ہم اس پر بھی ایمان لائے اور اور اسے اپنے رب کی طرف سے حق جانا ۔ ہم تو اس سے پہلے ہی مسلمان تھے ۔ انہیں ان کے صبر کرنے اور برائی کے بدلے بھلائی کرنے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی وجہ سے دوہرا اجر ملے گا یہ نیکی سے بدی کو ٹال دیتے ہیں اور ہم نے جو انہیں دے رکھا ہے اس میں سے دیتے رہتے ہیں‘ ۔ بخاری و مسلم میں ہے {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تین شخصوں کو دوہرا اجر ملے گا ، ایک اہل کتاب جو اپنے نبی پر ایمان لائیں اور مجھ پر بھی ایمان رکھیں ۔ دوسرا وہ غلام جو اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرے اور اپنے مالک کا بھی ۔ تیسرا وہ شخص جو اپنی لونڈی کو اچھا ادب سکھائے پھر اسے آزاد کر کے اس سے نکاح کر لے} ۱؎ ۔ (صحیح بخاری:97) امام جریر رحمہ اللہ کے اس فرق کی مناسبت اس سے بھی معلوم ہوتی ہے کہ سورت کے شروع میں مومنوں اور کافروں کا بیان ہوا ہے تو جس طرح کفار کی دو قسمیں ہیں کافر اور منافق ۔ اسی طرح مومنوں کی بھی دو قسمیں ہیں ۔ عربی مومن اور کتابی مومن ۔ میں کہتا ہوں ظاہراً یہ ہے کہ مجاہد رحمہ اللہ کا یہ قول ٹھیک ہے کہ سورۃ البقرہ کی اول چار آیتیں مومنوں کے اوصاف کے بیان میں ہیں اور دو آیتیں اس کے بعد کی کافروں کے بارے میں ہیں اور ان کے بعد کی تیرہ آیتیں منافقوں سے متعلق ہیں پس یہ چاروں آیتیں ہر مومن کے حق میں عام ہیں ۔ عربی ہو یا عجمی ، کتابی ہو یا غیر کتابی ، انسانوں میں سے ہو یا جنات میں سے ۔ اس لیے کہ ان میں سے ہر ایک وصف دوسرے کو لازم اور شرط ہے ایک بغیر دوسرے کے نہیں ہو سکتا ۔ غیب پر ایمان لانا ، نماز قائم کرنا ، اور زکوٰۃ دینا اس وقت تک صحیح نہیں جب تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اور اگلے انبیاء پر جو کتابیں اتری ہیں ۔ ان پر ایمان نہ ہو اور ساتھ ہی آخرت کا یقین کامل نہ ہو جس طرح پہلی تین چیزیں بغیر پچھلی تین چیزوں کے غیر معتبر ہیں ۔ اسی طرح پچھلی تینوں بغیر پہلی تینوں کے صحیح نہیں ۔ اسی لیے ایمان والوں کو حکم الٰہی ہے : «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آمَنُوا آمِنُوا بِ اللہِ وَرَسُولِہِ وَالْکِتَابِ الَّذِی نَزَّلَ عَلَیٰ رَسُولِہِ وَالْکِتَابِ الَّذِی أَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ» ۱؎ (4-النساء:136) الخ یعنی ’ایمان والو اللہ پر ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اور جو کتاب اس پر اتری ہے اس پر اور جو کتابیں ان سے پہلے اتری ہیں ان پر ایمان لاؤ‘ ۔ اور فرمایا : «وَلَا تُجَادِلُوا أَہْلَ الْکِتَابِ إِلَّا بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ إِلَّا الَّذِینَ ظَلَمُوا مِنْہُمْ وَقُولُوا آمَنَّا بِالَّذِی أُنْزِلَ إِلَیْنَا وَأُنْزِلَ إِلَیْکُمْ وَإِلٰہُنَا وَإِلٰہُکُمْ وَاحِدٌ» ۲؎ (29-العنکبوت:46) الخ یعنی ’اہل کتاب سے جھگڑنے میں بہترین طریقہ برتو اور کہو کہ ہم ایمان لائے ہیں اس پر جو ہم پر نازل کیا گیا اور جو تمہاری طرف اتارا گیا ہے ہمارا اور تمہارا معبود ایک ہی ہے‘ ۔ ارشاد ہے : «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ أُوتُوا الْکِتَابَ آمِنُوا بِمَا نَزَّلْنَا مُصَدِّقًا لِمَا مَعَکُمْ» ۳؎ (4-النساء:47) یعنی ’اے اہل کتاب جو ہم نے اتارا ہے اس پر ایمان لاؤ اس کو سچا کرنے والا ہے جو تمہارے پاس ہے‘ ۔ اور فرمایا : «قُلْ یَا أَہْلَ الْکِتَابِ لَسْتُمْ عَلَیٰ شَیْءٍ حَتَّیٰ تُقِیمُوا التَّوْرَاۃَ وَالْإِنْجِیلَ وَمَا أُنْزِلَ إِلَیْکُمْ مِنْ رَبِّکُمْ» ۴؎ (5-المائدۃ:68) الخ یعنی ’اے اہل کتاب تم کسی چیز پر نہیں ہو جب تک توراۃ ، انجیل اور جو کچھ تمہاری طرف تمہارے رب کی جانب سے اتارا گیا ہے قائم نہ رکھو‘ ۔ دوسری جگہ تمام ایمان والوں کی طرف سے خبر دیتے ہوئے قرآن پاک نے فرمایا : «آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَیْہِ مِنْ رَبِّہِ وَالْمُؤْمِنُونَ کُلٌّ آمَنَ بِ اللہِ وَمَلَائِکَتِہِ وَکُتُبِہِ وَرُسُلِہِ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِہِ» ۵؎ (2-البقرۃ:285) الخ یعنی ’ہمارے رسول ایمان لائے اس پر جو ان کی طرف ان کے رب کی طرف سے نازل ہوا اور تمام ایمان والے بھی ہر ایک ایمان لایا اللہ تعالیٰ پر ، اس کے فرشتوں پر ، اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ۔ ہم رسولوں میں فرق اور جدائی نہیں کرتے‘ ۔ اسی طرح ارشاد ہوتا ہے : «وَالَّذِینَ آمَنُوا بِ اللہِ وَرُسُلِہِ وَلَمْ یُفَرِّقُوا بَیْنَ أَحَدٍ مِنْہُمْ أُولٰئِکَ سَوْفَ یُؤْتِیہِمْ أُجُورَہُمْ» ۶؎ (4-النساء:152) الخ یعنی ’جو لوگ اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لاتے ہیں اور رسولوں میں سے کسی میں تفریق نہیں کرتے‘ ۔ اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں جن میں ایمان والوں کا اللہ تعالیٰ پر اس کے تمام رسولوں اور سب کتابوں پر ایمان لانے کا ذکر کیا گیا ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ اہل کتاب کے ایمان والوں کی ایک خاص خصوصیت ہے کیونکہ ان کا ایمان اپنے ہاں کتابوں میں تفصیل کے ساتھ ہوتا ہے اور پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر وہ اسلام قبول کرتے ہیں تو قرآن کریم پر بھی تفصیل کے ساتھ ایمان لاتے ہیں ۔ اس لیے ان کو دوہرا اجر ملتا ہے اور اس امت کے لوگ بھی اگلی کتابوں پر ایمان لاتے ہیں لیکن ان کا ایمان اجمالی طور پر ہوتا ہے ۔ جیسے صحیح حدیث میں ہے کہ {جب تم سے اہل کتاب کوئی بات کریں تو تم نہ اسے سچ کہو نہ جھوٹ بلکہ کہہ دیا کرو کہ ہم تو جو کچھ ہم پر اترا اسے بھی مانتے ہیں اور جو کچھ تم پر اترا اس پر بھی ایمان رکھتے ہیں} ۱؎ ۔ (صحیح بخاری:4485) بعض موقع پر ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاتے ہیں ان کا ایمان بہ نسبت اہل کتاب کے زیادہ پورا ، زیادہ کمال والا ، زیادہ راسخ اور زیادہ مضبوط ہوتا ہے اس حیثیت سے ممکن ہے کہ انہیں اہل کتاب سے بھی زیادہ اجر ملے چاہے وہ اپنے پیغمبر اور پیغمبر آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے سبب دوہرا اجر پائیں لیکن یہ لوگ کمال ایمان کے سبب اجر میں ان سے بھی بڑھ جائیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» البقرة
5 ہدایت یافتہ لوگ یعنی وہ لوگ جن کے اوصاف پہلے بیان ہوئے مثلاً غیب پر ایمان لانا ، نماز قائم رکھنا ، اللہ کے دئیے ہوئے میں سے دینا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جو اترا اس پر ایمان لانا ، آپ سے پہلے جو کتابیں اتریں ان کو ماننا ، دار آخرت پر یقین رکھ کر وہاں کام آنے کے لیے نیک اعمال کرنا ۔ برائیوں اور حرام کاریوں سے بچنا ۔ یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں جنہیں اللہ کی طرف سے نور ملا ، اور بیان و بصیرت حاصل ہوا اور انہی لوگوں کے لیے دنیا اور آخرت میں فلاح و نجات ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ہدایت کی تفسیر ”نور“ اور ”استقامت“ سے کی ہے اور ”فلاح“ کی تفسیر اپنی چاہت کو پا لینے اور برائیوں سے بچ جانے کی کی ہے ۔ ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ لوگ اپنے رب کی طرف سے نور ، دلیل ، ثابت قدمی ، سچائی اور توفیق میں حق پر ہیں اور یہی لوگ اپنے ان پاکیزہ اعمال کی وجہ سے نجات ، ثواب اور دائمی جنت پانے کے مستحق ہیں اور عذاب سے محفوظ ہیں ۔ ابن جریر رحمہ اللہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ دوسرے «أُولٰئِکَ» کا اشارہ اہل کتاب کی طرف ہے جن کی صفت اس سے پہلے بیان ہو چکی ہے جیسے پہلے گزر چکا ۔ اس اعتبار سے آیت «وَالَّذِینَ یُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَیْکَ» ۱؎ (2-البقرۃ:4) الخ ، پہلے کی آیت سے جدا ہو گا اور مبتدا بن کر مرفوع ہو گا اور اس کی خبر آیت «وَأُولٰئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ» ۲؎ (2-البقرۃ:5) ہو گی لیکن پسندیدہ قول یہی ہے کہ اس کا اشارہ پہلے کے سب اوصاف والوں کی طرف ہے اہل کتاب ہوں یا عرب ہوں ۔ سیدنا ابن عباس ، سیدنا ابن مسعود اور بعض صحابہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ آیت «یُؤْمِنُونَ بِالْغَیْبِ» ۳؎ (2-البقرۃ:3) سے مراد عرب ایماندار ہیں اس کے بعد کے جملہ سے مراد اہل کتاب ایماندار ہیں ۔ پھر دونوں کے لیے یہ بشارت ہے کہ یہ لوگ ہدایت اور فلاح والے ہیں ۔ اور یہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ یہ آیتیں عام ہیں اور یہ اشارہ بھی عام ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ مجاہد ، ابوالعالیہ ، ربیع بن انس ، اور قتادہ سے یہی مروی ہے ۔ {ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ اے اللہ کے رسول! قرآن پاک کی بعض آیتیں تو ہمیں ڈھارس دیتی ہیں اور امید قائم کرا دیتی ہیں اور بعض آیتیں کمر توڑ دیتی ہیں اور قریب ہوتا ہے کہ ہم ناامید ہو جائیں ۔ آپ نے فرمایا ”لو میں تمہیں جنتی اور جہنمی کی پہچان صاف صاف بتا دوں“ ، پھر آپ نے «الم» سے «مُفْلِحُونَ» ۴؎ (2-البقرۃ:1-5) تک پڑھ کر فرمایا یہ تو جنتی ہیں صحابہ رضی اللہ عنہم نے خوش ہو کر فرمایا «الْحَمْدُ لِلّٰہ» ہمیں امید ہے کہ ہم انہی میں سے ہوں ، پھر آیت «إِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا» سے «عَظِیمٌ» ۱؎ (2-البقرۃ:6-7) تک تلاوت کی اور فرمایا یہ جہنمی ہیں ، انہوں نے کہا ہم ایسے نہیں آپ نے فرمایا ” ہاں ۔ “ } ۶؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:40/1:ضعیف) البقرة
6 بدقسمت لوگ یعنی جو لوگ حق کو پوشیدہ کرنے یا چھپا لینے کے عادی ہیں اور ان کی قسمت میں یہی ہے کہ انہیں نہ آپ کا ڈرانا سود مند ہے اور نہ ہی نہ ڈرانا ۔ یہ کبھی اللہ تعالیٰ کی اس وحی کی تصدیق نہیں کریں گے جو آپ پر نازل ہوئی ہے ۔ جیسے اور جگہ فرمایا : «إِنَّ الَّذِینَ حَقَّتْ عَلَیْہِمْ کَلِمَتُ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُونَ» * «وَلَوْ جَاءَتْہُمْ کُلٰ آیَۃٍ حَتَّیٰ یَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِیمَ» ۱؎ (10-یونس:96-97) یعنی ’جن لوگوں پر اللہ کی بات ثابت ہو چکی ہے وہ ایمان نہ لائیں گے اگرچہ تمام آیتیں دیکھ لیں یہاں تک کہ درد ناک عذاب دیکھیں‘ ۔ ایسے ہی سرکش اہل کتاب کی نسبت فرمایا : «وَلَیِٕنْ اَتَیْتَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ بِکُلِّ اٰیَۃٍ مَّا تَبِعُوْا قِبْلَتَکَ» ۲؎ (2-البقرۃ:145) الخ یعنی ’ان اہل کتاب کے پاس اگرچہ تمام دلائل لے آؤ تاہم وہ تمہارے قبلہ کو نہیں مانیں گے‘ ۔ یعنی ان بدنصیبوں کو سعادت حاصل ہی نہیں ہو گی ۔ ان گمراہوں کو ہدایت کہاں ؟ تو اے نبی ان پر افسوس نہ کر ، تیرا کام صرف رسالت کا حق ادا کر دینا اور پہنچا دینا ہے ۔ ماننے والے نصیب ور ہیں وہ مالا مال ہو جائیں گے اور اگر کوئی نہ مانے تو نہ سہی ۔ «فَإِنَّمَا عَلَیْکَ الْبَلَاغُ وَعَلَیْنَا الْحِسَابُ» ۳؎ (13-الرعد:40) ’تیرا فرض ادا ہو گیا ہم خود ان سے حساب لے لیں گے‘ ۔ «إِنَّمَا أَنْتَ نَذِیرٌ وَ اللہُ عَلَیٰ کُلِّ شَیْءٍ وَکِیلٌ» ۴؎ (11-ہود:12) ’تو صرف ڈرانے والا ہے ، ہر چیز پر اللہ تعالیٰ ہی وکیل ہے‘ ۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کو اس بات کی بڑی ہی حرص تھی کہ تمام لوگ ایماندار ہو جائیں اور ہدایت قبول کر لیں لیکن پروردگار نے فرمایا کہ یہ سعادت ہر ایک کے حصہ نہیں ۔ یہ نعمت بٹ چکی ہے جس کے حصے میں آئی ہے وہ آپ کی مانے گا اور جو بدقسمت ہیں وہ ہرگز ہرگز اطاعت کی طرف نہیں جھکیں گے ۱؎ ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:253/1) پس مطلب یہ ہے کہ جو قرآن کو تسلیم نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ ہم اگلی کتابوں کو مانتے ہیں انہیں ڈرانے کا کوئی فائدہ نہیں ۔ اس لیے کہ وہ تو خود اپنی کتاب کو بھی حقیقتاً نہیں مانتے کیونکہ اس میں تیرے ماننے کا عہد موجود ہے تو جب وہ اس کتاب کو اور اس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت کو نہیں مانتے جس کے ماننے کا اقرار کر چکے تو بھلا وہ اے نبی ! تمہاری باتوں کو کیا مانیں گے ؟ ابوالعالیہ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ یہ آیت جنگ احزاب کے ان سرداروں کے بارے میں اتری ہے جن کی نسبت فرمان باری ہے : «اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ کُفْرًا وَّاَحَلٰوْا قَوْمَہُمْ دَارَ الْبَوَارِ» ۲؎ ۔ (14-إبراہیم:28) الخ لیکن جو معنی ہم نے پہلے بیان کیے ہیں وہ زیادہ واضح ہیں اور دوسری آیتوں کے مطابق ہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» اس حدیث پر جو ابن ابی حاتم کے حوالے سے ابھی بیان ہوئی ہے دوبارہ نظر ڈال جائیے «لَا یُؤْمِنُونَ» پہلے جملہ کی تاکید ہے یعنی ڈرانا نہ ڈرانا دونوں برابر ہیں ، دونوں حالتوں میں ان کا کفر نہ ٹوٹے گا ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ «لَا یُؤْمِنُونَ» خبر ہو اس لیے کہ تقدیر کلام «إِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَیْہِمْ أَأَنذَرْتَہُمْ أَمْ لَمْ تُنذِرْہُمْ لَا یُؤْمِنُونَ» ۳؎ (2-البقرۃ:6) ہے اور «سَوَاءٌ عَلَیْہِمْ» جملہ معترضہ ہو جائے گا ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» البقرة
7 مہر کیوں لگا دی گئی؟ سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں «ختم» سے مراد «طبع» ہے یعنی مہر لگا دی ۱؎ ، (تفسیر ابن ابی حاتم:44/1) قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں یعنی ان پر شیطان غالب آ گیا وہ اسی کی ماتحتی میں لگ گئے یہاں تک کہ مہر لگا دی قتادہ فرماتے ہیں یعنی ان پر شیطان غالب آ گیا وہ اسی کی ماتحتی میں لگ گئے یہاں تک کہ مہر الٰہی ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر لگ گئی اور آنکھوں پر پردہ پڑ گیا ۔ ہدایت کو نہ دیکھ سکتے ہیں ، نہ سن سکتے ہیں ، نہ سمجھ سکتے ہیں ۲؎ ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ گناہ لوگوں کے دلوں میں بستے جاتے ہیں اور انہیں ہر طرف سے گھیر لیتے ہیں ۔ بس یہی «طبع» اور «ختم» یعنی مہر ہے ۳؎ ۔ دل اور کان کے لیے محاورہ میں مہر آتی ہے ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں قرآن میں «رَاَن» کا لفظ ہے «طبع» کا لفظ ہے اور «اقفال» کا لفظ ہے ۔ «رَاَن» ، «طبع» سے کم ہے اور «طبع» ، «اقفال» سے کم ہے ، «اقفال» سب سے زیادہ ہے ۱؎ ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:259/1) مجاہد رحمہ اللہ نے اپنا ہاتھ دکھا کر کہا کہ دل ہتھیلی کی طرح ہے اور بندے کے گناہ کی وجہ سے وہ سمٹ جاتا ہے اور بند ہو جاتا ہے ، اس طرح کہ ایک گناہ کیا تو گویا چھنگلیا بند ہو گئی پھر دوسرا گناہ کیا دوسری انگلی بند ہو گئی یہاں تک کہ تمام انگلیاں بند ہو گئیں اور اب مٹھی بالکل بند ہو گئی جس میں کوئی چیز داخل نہیں ہو سکتی ۔ اسی طرح گناہوں سے دل پر پردے پڑ جاتے ہیں مہر لگ جاتی ہے پھر اس پر کسی طرح حق اثر نہیں کرتا ۔ اسے «زین» بھی کہتے ہیں مطلب یہ ہوا کہ تکبر کی وجہ ان کا حق سے منہ پھیر لینا بیان کیا جا رہا ہے جیسے کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص اس بات کے سننے سے بہرا بن گیا ۔ مطلب یہ ہوتا ہے کہ تکبر اور بےپرواہی کر کے اس نے اس بات کی طرف دھیان نہیں دیا ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ مطلب ٹھیک نہیں ہو سکتا اس لیے کہ یہاں تو خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ۔ زمحشری رحمہ اللہ نے اس کی تردید کی ہے اور پانچ تاویلیں کی ہیں لیکن سب کی سب بالکل بےمعنی اور فضول ہیں اور صرف اپنے معتزلی ہونے کی وجہ سے اسے یہ تکلفات کرنے پڑے ہیں کیونکہ اس کے نزدیک یہ بات بہت بری ہے کہ کسی کے دل پر اللہ قدوس مہر لگا دے لیکن افسوس اس نے دوسری صاف اور صریح آیات پر غور نہیں کیا ۔ ایک جگہ ارشاد ہے : «فَلَمَّا زَاغُوا أَزَاغَ اللہُ قُلُوبَہُمْ وَ اللہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْفَاسِقِینَ» ۱؎ (61-الصف:5) یعنی ’جب وہ ٹیڑھے ہو گئے تو اللہ نے ان کے دل ٹیڑھے کر دئیے‘ ۔ اور فرمایا : «وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَہُمْ وَأَبْصَارَہُمْ کَمَا لَمْ یُؤْمِنُوا بِہِ أَوَّلَ مَرَّۃٍ وَنَذَرُہُمْ فِی طُغْیَانِہِمْ یَعْمَہُونَ» ۲؎ (6-الأنعام:110) ’ہم ان کے دلوں کو اور ان کی نگاہوں کو الٹ دیتے ہیں گویا کہ وہ سرے سے ایمان ہی نہ لائے تھے اور ہم انہیں ان کی سرکشی میں بھٹکتے ہوئے ہی چھوڑ دیتے ہیں‘ ، اس قسم کی اور آیتیں بھی ہیں ۔ جو صاف بتاتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے اور ہدایت کو ان سے دور کر دیا ہے ۔ ان کے حق کو ترک کرنے اور باطل پر جم رہنے کی وجہ سے جو یہ سراسر عدل و انصاف ہے اور عدل اچھی چیز ہے نہ کہ بری ۔ اگر زمخشری بھی بغور ان آیات پر نظر ڈالتے تو تاویل نہ کرتے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : امت کا اجماع ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنی ایک صفت مہر لگانا بھی بیان کی ہے جو کفار کے کفر کے بدلے ہے ۔ فرمایا ہے : «بَلْ طَبَعَ اللّٰہُ عَلَیْہَا بِکُفْرِہِمْ فَلَا یُؤْمِنُوْنَ اِلَّا قَلِیْلًا» ۱؎ (4-النساء:155) بلکہ ان کے کفر کی وجہ سے اللہ نے ان پر مہر لگا دی ۔ حدیث میں بھی ہے کہ { اللہ تعالیٰ دلوں کو الٹ پلٹ کرتا ہے ۔ دعا میں ہے «یَا مُقَلِّبَ القُلُوبِ ثَبِّت قَلْبِی عَلَی دِینِکَ» یعنی ” اے دلوں کے پھیرنے والے ہمارے دلوں کو اپنے دین پر قائم رکھ “ } ۲؎ ۔ (سنن ابن ماجہ:199،قال الشیخ الألبانی:صحیح) حذیفہ رضی اللہ عنہا والی حدیث میں ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : دلوں پر فتنے اس طرح پیش ہوتے ہیں جیسے ٹوٹے ہوئے بورے کا ایک ایک تنکا جو دل انہیں قبول کر لیتا ہے اس میں ایک سیاہ نکتہ ہو جاتا ہے اور جس دل میں یہ فتنے اثر نہیں کرتے ، اس میں ایک سفید نکتہ ہو جاتا ہے جس کی سفیدی بڑھتے بڑھتے بالکل صاف سفید ہو کر سارے دل کو منور کر دیتی ہے ۔ پھر اسے کبھی کوئی فتنہ نقصان نہیں پہنچا سکتا اسی طرح دوسرے دل کی سیاہی [جو حق قبول نہیں کرتا] پھیلتی جاتی ہے یہاں تک کہ سارا دل سیاہ ہو جاتا ہے ۔ اب وہ الٹے کوزے کی طرح ہو جاتا ہے ، نہ اچھی بات اسے اچھی لگتی ہے نہ برائی بری معلوم ہوتی ہے } ۱؎ ۔ (صحیح بخاری:6497) امام ابن جریر رحمہ اللہ کا فیصلہ وہی ہے جو حدیث میں آ چکا ہے کہ {مومن جب گناہ کرتا ہے اس کے دل میں ایک سیاہ نکتہ ہو جاتا ہے اگر وہ باز آ جائے توبہ کر لے اور رک جائے تو وہ نکتہ مٹ جاتا ہے اور اس کا دل صاف ہو جاتا ہے اور اگر وہ گناہ میں بڑھ جائے تو وہ سیاہی بھی پھیلتی جاتی ہے یہاں تک کہ سارے دل پر چھا جاتی ہے ، یہی وہ «رَاَن» ہے جس کا ذکر اس آیت میں ہے «کَلَّا بَلْ رَانَ عَلَیٰ قُلُوبِہِمْ مَا کَانُوا یَکْسِبُونَ» ۲؎ (83-المطففین:14) یعنی ’ یقیناً ان کے دلوں پر «رَاَن» ہے ، ان کی بداعمالیوں کی وجہ سے ‘ } ۳؎ ۔ (سنن ترمذی:3334،قال الشیخ الألبانی:حسن) [ترمذی ، نسائی ، ابن جریر] امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو حسن صحیح کہا ہے تو معلوم ہوا کہ گناہوں کی زیادتی دلوں پر غلاف ڈال دیتی ہے اور اس کے بعد مہر الہٰی لگ جاتی ہے جسے «ختم» اور «طبع» کہا جاتا ہے ۔ اب اس دل میں ایمان کے جانے اور کفر کے نکلنے کی کوئی راہ باقی نہیں رہتی ۔ اسی مہر کا ذکر اس آیت : «خَتَمَ اللہُ عَلَیٰ قُلُوبِہِمْ وَعَلَیٰ سَمْعِہِمْ» ۱؎ (2-البقرۃ:6) میں ہے ، وہ ہماری آنکھوں دیکھی حقیقت ہے کہ جب کسی چیز کا منہ بند کر کے اس پر مہر لگا دی جائے تو جب تک وہ مہر نہ ٹوٹے نہ اس میں کچھ جا سکتا ہے نہ اس سے کوئی چیز نکل سکتی ہے ۔ اسی طرح جن کفار کے دلوں اور کانوں پر مہر الہٰی لگ چکی ہے ان میں بھی بغیر اس کے ہٹے اور ٹوٹے نہ ہدایت آئے ، نہ کفر جائے ۔ «سَمْعِہِمْ» پر پورا وقف ہے اور آیت «وَعَلَیٰ أَبْصَارِہِمْ غِشَاوَۃٌ» ۲؎ (2-البقرۃ:7) الگ پورا جملہ ہے ۔ «ختم» اور «طبع» دلوں اور کانوں پر ہوتی ہے اور «غِشَاوَۃ» یعنی پردہ آنکھوں پر پڑتا ہے ۔ جیسے کہ سیدنا عبداللہ بن عباس ، سیدنا عبداللہ بن مسعود اور دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے ۳؎ ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:266/1) قرآن میں ہے : «فَإِنْ یَشَإِ اللہُ یَخْتِمْ عَلَیٰ قَلْبِکَ وَیَمْحُ اللہُ الْبَاطِلَ وَیُحِقٰ الْحَقَّ بِکَلِمَاتِہِ» ۔ ۴؎ (42-الشوری:24) اور جگہ ہے : «وَخَتَمَ عَلَیٰ سَمْعِہِ وَقَلْبِہِ وَجَعَلَ عَلَیٰ بَصَرِہِ غِشَاوَۃً» ۵؎ (45-الجاثیۃ:23) ان آیتوں میں دل اور کان پر «ختم» کا ذکر ہے اور آنکھ پر «غِشَاوَۃً» پردے کا ۔ بعض نے یہاں «غِشَاوَۃً» زبر کے ساتھ بھی پڑھا ہے تو ممکن ہے کہ ان کے نزدیک فعل «جَعَلَ» مقصود ہو اور ممکن ہے کہ نصب محل کی اتباع سے ہو جیسے «وَحُورٌ عِینٌ» ۱؎ (56-الواقعۃ:22) میں ۔ شروع سورت کی چار آیتوں میں مومنین کے اوصاف بیان ہوئے پھر ان دو آیتوں میں کفار کا حال بیان ہوا ۔ اب منافقوں کا ذکر ہوتا ہے جو بظاہر ایماندار بنتے ہیں لیکن حقیقت میں کافر ہیں چونکہ ان لوگوں کی چالاکیاں عموماً پوشیدہ رہ جاتی ہیں ۔ اس لیے ان کا بیان ذرا تفصیل سے کیا گیا اور بہت کچھ ان کی نشانیاں بیان کی گئیں انہی کے بارے میں سورۃ برات اتری اور انہی کا ذکر سورۃ النور وغیرہ میں بھی کیا گیا تاکہ ان سے پورا بچاؤ ہو اور ان کی مذموم خصلتوں سے مسلمان دور رہیں ۔ البقرة
8 منافقت کی قسمیں دراصل نفاق کہتے ہیں بھلائی ظاہر کرنے اور برائی پوشیدہ رکھنے کو ۔ نفاق کی دو قسمیں ہیں اعتقادی اور عملی ۔ پہلی قسم کے منافق تو ابدی جہنمی ہیں اور دوسری قسم کے بدترین مجرم ہیں ۔ اس کا بیان تفصیل کے ساتھ ان شاءاللہ کسی مناسب جگہ ہو گا ۔ امام ابن جریج رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” منافق کا قول اس کے فعل کے خلاف ، اس کا باطن ظاہر کے خلاف اس کا آنا جانے کے خلاف اور اس کی موجودگی عدم موجودگی کے خلاف ہوا کرتی ہے ۱؎ ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:270/1) نفاق مکہ شریف میں تو تھا ہی نہیں بلکہ اس کے الٹ تھا یعنی بعض لوگ ایسے تھے جو زبردستی بہ ظاہر کافروں کا ساتھ دیتے تھے مگر دل میں مسلمان ہوتے تھے ۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مکہ چھوڑ کر مدینہ تشریف لائے اور وہاں پر اوس اور خزرج کے قبائل نے انصار بن کر آپ کا ساتھ دیا اور جاہلیت کے زمانہ کی مشرکانہ بت پرستی ترک کر دی اور دونوں قبیلوں میں سے خوش نصیب لوگ مشرف بہ اسلام ہو گئے لیکن یہودی اب تک اللہ تعالیٰ کی اس نعمت سے محروم تھے ۔ ان میں سے صرف سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے اس سچے دین کو قبول کیا تب تک بھی منافقوں کا خبیث گروہ قائم نہ ہوا تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان یہودیوں اور عرب کے بعض قبائل سے صلح کر لی تھی ۔ غرض اس جماعت کے قیام کی ابتداء یوں ہوئی کہ مدینہ شریف کے یہودیوں کے تین قبیلے تھے بنو قینقاع ، بنو نضیر اور بنو قریظہ ۔ بنو قینقاع تو خزرج کے حلیف اور بھائی بند بنے ہوئے تھے اور باقی دو قبیلوں کا بھائی چارہ اوس سے تھا ۔ جب جنگ بدر ہوئی اور اس میں پروردگار نے اپنے دین والوں کو غالب کیا ۔ شوکت و شان اسلام ظاہر ہوئی ، مسلمانوں کا سکہ جم گیا اور کفر کا زور ٹوٹ گیا تب یہ ناپاک گروہ قائم ہوا چنانچہ عبداللہ بن ابی بن سلول تھا تو خزرج کے قبیلے سے لیکن اوس اور خزرج دونوں اسے اپنا بڑا مانتے تھے بلکہ اس کی باقاعدہ سرداری اور بادشاہت کے اعلان کا پختہ ارادہ کر چکے تھے کہ ان دونوں قبیلوں کا رخ اسلام کی طرف پھر گیا اور اس کی سرداری یونہی رہ گئی ۱؎ ۔ (صحیح بخاری:4566) یہ خار تو اس کے دل میں تھا ہی ، اسلام کی روز افزوں ترقی میں لڑائی اور کامیابی نے اسے مخبوط الحواس بنا دیا ۔ اب اس نے دیکھا کہ یوں کام نہیں چلے گا اس نے بظاہر اسلام قبول کر لینے اور باطن میں کافر رہنے کی ٹھانی اور جس قدر جماعت اس کے زیر اثر تھی سب کو یہی ہدایت کی ، اس طرح منافقین کی ایک جمعیت مدینہ اور مدینہ کے آس پاس قائم ہو گئی ۔ ان منافقین میں بحمدللہ مکی مہاجر ایک بھی نہ تھا بلکہ یہ بزرگ تو اپنے اہل و عیال ، مال و متاع کو نام حق پر قربان کر کے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دے کر آئے تھے ۔ «فرضی اللہ عنہم اجمعین» سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں ” یہ منافق اوس اور خزرج کے قبیلوں میں سے تھے اور یہودی بھی جو ان کے طریقے پر تھے ۲؎ ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:269/1) قبیلہ اوس اور خزرج کے نفاق کا ان آیتوں میں بیان ہے ۔ “ ابوالعالیہ ، حسن ، قتادہ ، سدی رحمہ اللہ علیہم نے یہی بیان کیا ہے ۔ پروردگار عالم نے منافقوں کی بہت سی بدخصلتوں کا یہاں بیان فرمایا ۔ تاکہ ان کے ظاہر حال سے مسلمان دھوکہ میں نہ آ جائیں اور انہیں مسلمان خیال کر کے اپنا نہ سمجھ بیٹھیں ۔ جس کی وجہ سے کوئی بڑا فساد پھیل جائے ۔ یہ یاد رہے کہ بدکاروں کو نیک سمجھنا بھی بجائے خود بہت برا اور نہایت خوفناک امر ہے جس طرح اس آیت میں فرمایا گیا ہے کہ یہ لوگ زبانی اقرار تو ضرور کرتے ہیں مگر ان کے دل میں ایمان نہیں ہوتا ۔ اسی طرح سورۃ المنافقون میں بھی کہا گیا ہے کہ «إِذَا جَاءَکَ الْمُنَافِقُونَ قَالُوا نَشْہَدُ إِنَّکَ لَرَسُولُ اللہِ وَ اللہُ یَعْلَمُ إِنَّکَ لَرَسُولُہُ وَ اللہُ» ۱؎ (63-المنافقون:1) الخ یعنی ’منافق تیرے پاس آ کر کہتے ہیں کہ ہماری گواہی ہے کہ آپ رسول اللہ ہیں اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ تو اس کا رسول ہے‘ لیکن چونکہ حقیقت میں منافقوں کا قول ان کے عقیدے کے مطابق نہ تھا اس لیے ان لوگوں کے شاندار اور تاکیدی الفاظ کے باوجود اللہ تعالیٰ نے انہیں جھٹلا دیا ۔ اور سورۃ المنافقون میں فرمایا : «وَاللّٰہُ یَشْہَدُ اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَکٰذِبُوْنَ» ۲؎ (63-المنافقون:1) یعنی ’اللہ تعالیٰ گواہی دیتا ہے کہ بالیقین منافق جھوٹے ہیں‘ اور یہاں بھی فرمایا : «وَمَا ہُم بِمُؤْمِنِینَ» ۳؎ (2-البقرۃ:8) یعنی دراصل ’وہ ایماندار نہیں‘ وہ اپنے ایمان کو ظاہر کر کے اور اپنے کفر کو چھپا کر اپنی جہالت سے اللہ تعالیٰ کو دھوکہ دیتے ہیں اور اسے نفع دینے والی اور اللہ کے ہاں چل جانے والی کاریگری خیال کرتے ہیں ۔ جیسے کہ بعض مومنوں پر ان کا یہ مکر چل جاتا ہے ۔ قرآن میں اور جگہ ہے : «یَوْمَ یَبْعَثُہُمُ اللہُ جَمِیعًا فَیَحْلِفُونَ لَہُ کَمَا یَحْلِفُونَ لَکُمْ وَیَحْسَبُونَ أَنَّہُمْ عَلَیٰ شَیْءٍ أَلَا إِنَّہُمْ ہُمُ الْکَاذِبُونَ» ۴؎ (58-المجادلۃ:18) یعنی ’قیامت کے دن جبکہ اللہ تعالیٰ ان سب کو کھڑا کرے گا تو جس طرح وہ یہاں ایمان والوں کے سامنے قسمیں کھاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے سامنے بھی قسمیں کھائیں گے اور سمجھتے ہیں کہ وہ بھی کچھ ہیں ، خبردار یقیناً وہ جھوٹے ہیں‘ ۔ یہاں بھی ان کے اس غلط عقیدے کی وضاحت میں فرمایا کہ دراصل وہ اپنے اس کام کی برائی کو جانتے ہی نہیں ۔ یہ دھوکہ خود اپنی جانوں کو دے رہے ہیں ۔ جیسے کہ اور جگہ ارشاد ہوا : «اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ یُخٰدِعُوْنَ اللّٰہَ وَھُوَ خَادِعُھُمْ» ۵؎ (4-النساء:142) یعنی ’منافق اللہ کو دھوکہ دیتے ہیں حالانکہ وہ انہیں کو دھوکہ میں رکھنے والا ہے‘ ۔ بعض قاریوں نے «یَخْدَعُوْنَ» پڑھا ہے اور بعض «یُخَادِعُونَ» مگر دونوں قرأتوں کے معنی کا مطلب ایک ہی ہوتا ہے ۔ ابن جریر رحمہ اللہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کو اور ایمان والوں کو منافق دھوکہ کیسے دیں گے ؟ وہ جو اپنے دل کے خلاف اظہار کرتے ہیں وہ تو صرف بچاؤ کے لیے ہوتا ہے تو جواباً کہا جائے گا کہ اس طرح کی بات کرنے والے کو بھی جو کسی خطرہ سے بچنا چاہتا ہے عربی زبان میں «مُخَادِع» کہا جاتا ہے چونکہ منافق بھی قتل ، قید اور دنیاوی عذابوں سے محفوظ رہنے کے لیے یہ چال چلتے تھے اور اپنے باطن کے خلاف اظہار کرتے تھے اس لیے انہیں دھوکہ باز کہا گیا ۔ ان کا یہ فعل چاہے کسی کو دنیا میں دھوکا دے بھی دے لیکن درحقیقت وہ خود اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں ۔ کیونکہ وہ اسی میں اپنی بھلائی اور کامیابی جانتے ہیں اور دراصل یہ سب ان کے لیے انتہائی برا عذاب اور غضب الہٰی ہو گا جس کے سہنے کی ان میں طاقت نہیں ہو گی پس یہ دھوکہ حقیقتاً ان پر خود وبال ہو گا ۔ وہ جس کام کے انجام کو اچھا جانتے ہیں وہ ان کے حق میں برا اور بہت برا ہو گا ۔ ان کے کفر ، شک اور تکذیب کی وجہ سے ان کا رب ان سے ناراض ہو گا لیکن افسوس انہیں اس کا شعور ہی نہیں اور یہ اپنے اندھے پن میں ہی مست ہیں ۔ ابن جریج رحمہ اللہ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ «لا الہ الا اللہ» کا اظہار کر کے وہ اپنی جان اور مال کا بچاؤ کرنا چاہتے ہیں ، یہ کلمہ ان کے دلوں میں جاگزیں نہیں ہوتا ۱؎ ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:46/1) قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں منافقوں کی یہی حالت ہے کہ زبان پر کچھ ، دل میں کچھ ، عمل کچھ ، عقیدہ کچھ ، صبح کچھ اور شام کچھ کشتی کی طرح جو ہوا کے جھونکے سے کبھی ادھر ہو جاتی ہے کبھی ادھر ۲؎ ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:47/1) البقرة
9 البقرة
10 شک و شبہ بیماری ہے بیماری سے مراد یہاں شک و شبہ ہے ۱؎ ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:280/1) سیدنا ابن عباس ، سیدنا ابن مسعود اور چند صحابہ رضی اللہ عنہم سے یہی مروی ہے ۔ مجاہد عکرمہ ، حسن بصری ، ابوالعالیہ ، ربیع بن انس ، قتادہ رحمہ اللہ علیہم کا بھی یہی قول ہے ۔ ۲؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:48/1) عکرمہ اور طاؤس رحمہ اللہ علیہم نے اس کی تفسیر سے ریا اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس کی تفسیر نفاق بھی مروی ہے ۔ عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہاں دینی بیماری مراد ہے نہ کہ جسمانی ۔ انہیں اسلام میں شک کی بیماری تھی اور ان کی ناپاکی میں اللہ تعالیٰ نے اور اضافہ کر دیا ۳؎ ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:280/1) جیسے قرآن میں اس کا ذکر ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ ہے «فَأَمَّا الَّذِینَ آمَنُوا فَزَادَتْہُمْ إِیمَانًا وَہُمْ یَسْتَبْشِرُونَ» ۴؎ (9-التوبۃ:124) «وَأَمَّا الَّذِینَ فِی قُلُوبِہِم مَّرَضٌ فَزَادَتْہُمْ رِجْسًا إِلَیٰ رِجْسِہِمْ» ۵؎ (9-التوبۃ:125) یعنی ’ایمان والوں کے ایمان کو تقویت پہنچاتی اور وہ خوشیاں مناتے ہیں لیکن بیماری والوں کی ناپاکی اور پلیدی کو اور زیادہ کر دیتی ہے‘ یعنی اس کی ابدی اور گمراہی بڑھ جاتی ہے ، یہ بدلہ بالکل ان کے عمل کے مطابق ہے ۔ یہ تفسیر ہی درست ہے ، ٹھیک اسی کے مثل یہ فرمان بھی ہے : «وَالَّذِیْنَ اہْتَدَوْا زَادَہُمْ ہُدًی وَّاٰتٰیہُمْ تَقْوٰیہُمْ» ۶؎ (47-محمد:17) یعنی ’ہدایت والوں کو ہدایت میں بڑھا دیتا ہے اور ان کو تقویٰ عطا فرماتا ہے‘ ۔ «یَکْذِبُونَ» کو «یُکَّذِبُونَ» بھی قاریوں نے پڑھا ہے ، یہ دونوں خصلتیں ان میں تھیں جھٹلاتے بھی تھے اور جھوٹے بھی تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض منافقوں کو اچھی طرح جاننے کے باوجود بھی قتل نہ کرنے کی وجہ وہی ہے جو بخاری و مسلم کی روایت میں ہے کہ {نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا میں اس بات کو ناپسند کرتا ہوں کہ لوگوں میں یہ چرچے ہوں کہ محمد رسول اللہ [صلی اللہ علیہ وسلم] اپنے ساتھیوں کو قتل کر ڈالتے ہیں } ۷؎ ، (صحیح بخاری:3518) مطلب یہ ہے کہ جو اعرابی آس پاس ہیں انہیں یہ تو معلوم نہ ہو گا کہ ان منافقوں کے پوشیدہ کفر کی بنا پر انہیں قتل کیا گیا ہے ان کی نظریں تو صرف ظاہر داری پر ہوں گی جب ان میں یہ بات مشہور ہو جائے گی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو قتل کر ڈالتے ہیں تو خوف ہے کہ کہیں وہ اسلام کے قبول کرنے سے رک نہ جائیں ۔ قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ہمارے علماء وغیرہ کا بھی یہی قول ہے ۔ ٹھیک اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم «مولفتہ القلوب» کو جن کے دل اسلام کی جانب مائل کئے جاتے تھے ۔ مال عطا فرمایا کرتے تھے حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ ان کے اعتقاد بد ہیں ۔ امام مالک رحمہ اللہ بھی منافقوں کو قتل نہ کرنے کی یہی وجہ بیان فرماتے ہیں جیسے محمد بن جہم ، قاضی اسماعیل اور ابہری رحمہ اللہ علیہم نے نقل کیا ہے ۔ امام مالک رحمہ اللہ سے بقول ابن ماجشون رحمہ اللہ ایک وجہ یہ بھی نقل کی گئی ہے کہ یہ اس لیے تھا کہ آپ کی امت کو معلوم ہو جائے کہ حاکم صرف اپنے علم کی بناء پر فیصلہ نہیں کر سکتا ۔ قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ علماء کو تمام مسائل میں اختلاف ہو لیکن اس مسئلہ میں سب کا اتفاق ہے کہ قاضی صرف اپنی ذاتی معلومات کی بناء پر کسی کو قتل نہیں کر سکتا ۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے ایک اور وجہ بھی بیان کی ہے ۔ آپ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا منافقین کو قتل کرنے سے رکنے کا سبب ان کا اپنی زبان سے اسلام کو ظاہر کرنا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم تھا کہ ان کے دل اس کے الٹ ہے لیکن ظاہری کلمہ اس پہلی بات کی تردید کرتا تھا جس کی تائید میں بخاری و مسلم وغیرہ کی یہ حدیث بھی پیش کی جا سکتی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ {مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے لڑوں یہاں تک کہ وہ «لا الہ الا اللہ» کہیں جب وہ اسے کہہ دیں تو وہ مجھ سے اپنی جان اور مال کی امان پا لیں گے اور ان کا حساب اللہ عزوجل پر ہے} ۱؎ ۔ (صحیح بخاری:25) مطلب یہ ہے کہ اس کلمہ شریف کے کہتے ہی ظاہری احکام اسلام ان پر جاری ہو جائیں گے ۔ اب اگر ان کا عقیدہ بھی اس کے مطابق ہے تو آخرت والے دن نجات کا سبب ہو گا ورنہ وہاں کچھ بھی نفع نہ ہو گا لیکن دنیا میں تو مسلمانوں کے احکام ان پر جاری رہیں گے گو یہ لوگ یہاں مسلمانوں کی صفوں میں اور ان کی فہرست میں نظر آئیں گے لیکن آخرت میں عین پل صراط پر ان سے دور کر دئیے جائیں گے اور اندھیروں میں حیران و پریشان ہوتے ہوئے با آواز بلند مسلمانوں کو پکار کر کہیں گے کہ کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے ؟ لیکن انہیں جواب ملے گا کہ تھے تو سہی مگر تم فتنوں میں پڑ گئے اور انتظار میں ہی رہ گئے اور اپنی من مانی خواہشوں کے چکر میں پڑ گئے یہاں تک کہ حکم الہٰی آ پہنچا ۔ غرض دار آخرت میں بھی مسلمانوں کے پیچھے پڑے لپٹے رہیں گے لیکن بالآخر ان سے الگ کر دئیے جائیں گے اور ان کی امیدوں پر پانی پھر جائے گا وہ چاہیں گے کہ مسلمانوں کے ساتھ سجدے میں گر پڑیں لیکن سجدہ نہیں کر سکیں گے ۔ جیسے کہ احادیث میں مفصل بیان آ چکا ہے ۱؎ ۔ (صحیح بخاری:7439) بعض محققین نے کہا ہے کہ ان کے قتل نہ کیے جانے کی یہ وجہ تھی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں ان کی شرارتیں چل نہیں سکتی تھیں ۔ مسلمانوں کو باری تعالیٰ اپنی وحی کے ذریعہ ان کی برائیوں سے محفوظ کر لیتا تھا لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اگر اللہ نہ کرے ایسے لوگ ہوں کہ ان کا نفاق کھل جائے اور مسلمان بخوبی معلوم کر لیں تو وہ قتل کر دئیے جائیں گے ۔ امام مالک رحمہ اللہ کا فتویٰ ہے کہ نفاق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھا لیکن آج کل وہ بےدینی اور زندیقیت ہے یہ بھی یاد رہے کہ زندیق کے بارے میں بھی علماء کا اختلاف ہے کہ جب وہ کفر ہی پر مرے تو اس کے قتل سے پہلے توبہ پیش کی جائے یا نہیں؟ اور وہ زندیق جو لوگوں کو بھی اس کی تعلیم دیتا ہو اور وہ زندیق جو معلم نہ ہو ان دونوں میں فرق کیا جائے گا یا نہیں ؟ اور یہ ارتداد کئی کئی مرتبہ ہوا تب یہ حکم ہے یا صرف ایک مرتبہ ہونے پر ہی ؟ پھر اس میں بھی اختلاف ہے کہ اسلام لانا اور رجوع کرنا خود اس کی اپنی طرف سے ہو یا اس پر غلبہ پا لینے کے بعد بھی یہی حکم ہے ؟ غرض اس باتوں میں اختلاف ہے لیکن اس کے بیان کی جگہ احکام کی کتابیں ہیں نہ کہ تفسیریں ۔ چودہ شخصوں کے نفاق کا تو آپ کو قطعی علم تھا ، یہ وہ بدباطن لوگ تھے جنہوں نے غزوہ تبوک میں مشورہ کر کے یہ امر طے کر لیا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دغا بازی کریں اور آپ کے قتل کی پوری سازش کر چکے تھے طے ہوا تھا کہ رات کے اندھیرے میں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فلاں گھاٹی کے قریب پہنچیں تو آپ کی اونٹنی کو بدکا دیں وہ بھڑک کر بھاگے گی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھاٹی میں گر پڑیں گے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی طرف اسی وقت وحی بھیج کر ان کی اس ناپاک سازش کا علم عطا کر دیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کو بلا کر اس واقعہ کی خبر دی اور ان غداروں کے نام بھی بتلا دئیے پھر بھی آپ نے ان کے قتل کے احکام صادر نہ فرمائے ۱؎ ۔ (صحیح مسلم:2779) ان کے سوا اور منافقوں کے ناموں کا آپ کو علم نہ تھا ۔ چنانچہ قرآن کہتا ہے : «وَمِمَّنْ حَوْلَکُمْ مِنَ الْأَعْرَابِ مُنَافِقُونَ وَمِنْ أَہْلِ الْمَدِینَۃِ مَرَدُوا عَلَی النِّفَاقِ لَا تَعْلَمُہُمْ نَحْنُ نَعْلَمُہُمْ» ۲؎ (9-التوبۃ:101) الخ یعنی ’تمہارے آس پاس کے بعض اعرابی منافق ہیں اور بعض سرکش منافق مدینہ میں بھی ہیں تم انہیں نہیں جانتے لیکن ہم جانتے ہیں‘ ، اور دوسری جگہ فرمایا : «لَئِنْ لَمْ یَنْتَہِ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِینَ فِی قُلُوبِہِمْ مَرَضٌ وَالْمُرْجِفُونَ فِی الْمَدِینَۃِ لَنُغْرِیَنَّکَ بِہِمْ ثُمَّ لَا یُجَاوِرُونَکَ فِیہَا إِلَّا قَلِیلًا» ۳؎ (33-الأحزاب:60) یعنی ’اگرچہ منافق گندے دل والے اور فساد و تکبر والے اپنی شرارتوں سے باز نہ آئے تو ہم بھی انہیں نہ چھوڑیں گے اور مدینہ میں بہت کم باقی رہ سکیں گے‘ ، فرمایا : «مَلْعُونِینَ أَیْنَمَا ثُقِفُوا أُخِذُوا وَقُتِّلُوا تَقْتِیلًا» ۴؎ (33-الأحزاب:61) یعنی ’بلکہ ان پر لعنت کی جائے گی جہاں پائے جائیں گے ، پکڑے جائیں گے اور ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے جائیں گے‘ ۔ ان آیتوں سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان منافقوں کا علم نہ تھا کہ کون کون ہے ؟ ہاں ان کی مذموم خصلتیں جو بیان ہوئی تھیں یہ جس میں پائی جاتی تھیں اس پر نفاق صادق آتا تھا ۔ جیسے اور جگہ ارشاد فرمایا : «وَلَوْ نَشَاءُ لَأَرَیْنَاکَہُمْ فَلَعَرَفْتَہُمْ بِسِیمَاہُمْ وَلَتَعْرِفَنَّہُمْ فِی لَحْنِ الْقَوْلِ» ۱؎ (47-محمد:30) الخ یعنی ’اگر ہم چاہیں تو ہم تمہیں ان کو دکھا دیں لیکن تم ان کی نشانیوں اور ان کی دبی بچی زبان سے ہی انہیں پہچان لو گے‘ ، ان منافقوں میں سب سے زیادہ مشہور عبداللہ بن ابی بن سلول تھا ۔ سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے اس کی منافقانہ خصلتوں پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے گواہی بھی دی تھی ۲؎ (صحیح بخاری:4900) ، باوجود اس کے جب وہ مر گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جنازے کی نماز پڑھائی اور اس کے دفن میں شرکت کی ۳؎ (صحیح بخاری:1269) ، ٹھیک اسی طرح جس طرح اور مسلمان صحابیوں کے ساتھ بلکہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ذرا زور سے یاد دلایا تو {آپ نے فرمایا : ” میں نہیں چاہتا کہ لوگ چہ میگوئیاں کریں کہ محمد [صلی اللہ علیہ وسلم] اپنے صحابیوں کو مار ڈالا کرتے ہیں“} ۴؎ (صحیح بخاری:3518) ، اور ایک صحیح روایت میں ہے {استغفار کرنے یا نہ کرنے کا مجھے اختیار دیا گیا ، تو میں نے استغفار کو پسند کیا} ۵؎ (صحیح بخاری:1366) ، ایک اور روایت میں ہے {اگر ستر مرتبہ سے زیادہ استغفار کرنے میں بھی اس کی بخشش جانتا تو یقیناً اس سے زیادہ مرتبہ استغفار کرتا} ۶؎ ۔ (صحیح بخاری:1366) البقرة
11 سینہ زور چور سیدنا عبداللہ بن عباس ، سیدنا عبداللہ بن مسعود اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ یہ بیان بھی منافقوں سے ہی متعلق ہے ان کا فساد ، کفر اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی تھی ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:288/1) مطلب یہ ہے کہ زمین میں اللہ کی نافرمانی کرنا یا نافرمانی کا حکم دینا زمین میں فساد کرنا ہے اور زمین و آسمان میں اصلاح سے مراد اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے ۲؎ ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:50/1) مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ انہیں جب اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے روکا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ ہم تو ہدایت و اصلاح پر ہیں ۔ سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس خصلت کے لوگ اب تک نہیں آئے ۔ مطلب یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہ بدخصلت لوگ تھے تو سہی لیکن اب جو آئیں گے وہ ان سے بھی بدتر ہوں گے یہ نہ سمجھنا چاہیئے کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ اس وصف کا کوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھا ہی نہیں ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” ان منافقوں کا فساد برپا کرنا یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانیاں کرتے تھے جس کام سے اللہ تعالیٰ منع فرماتا تھا ، اسے کرتے تھے ۔ فرائض ربانی ضائع کرتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ کے سچے دین میں شک و شبہ کرتے تھے ۔ اس کی حقیقت اور صداقت پر یقین کامل نہیں رکھتے تھے ۔ مومنوں کے پاس آ کر اپنی ایمانداری کی ڈینگیں مارتے تھے حالانکہ دل میں طرح طرح کے وسوسے ہوتے تھے موقع پا کر اللہ کے دشمنوں کی امداد و اعانت کرتے تھے اور اللہ کے نیک بندوں کے مقابلہ میں ان کی پاسداری کرتے تھے اور باوجود اس مکاری اور مفسدانہ چلن کے اپنے آپ کو مصلح اور صلح کل کے حامی جانتے تھے “ ۱؎ ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:20/1) قرآن کریم نے کفار سے موالات اور دوستی رکھنے کو بھی زمین میں فساد ہونے سے تعبیر کیا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے : «وَالَّذِینَ کَفَرُوا بَعْضُہُمْ أَوْلِیَاءُ بَعْضٍ إِلَّا تَفْعَلُوہُ تَکُنْ فِتْنَۃٌ فِی الْأَرْضِ وَفَسَادٌ کَبِیرٌ» ۱؎ (8-الأنفال:73) یعنی ’کفار آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اگر تم ایسا نہ کرو گے یعنی آپس میں دوستی نہ کرو گے تو اس زمین میں بھاری فتنہ اور بڑا فساد پھیل جائے گا‘ ، اس آیت نے مسلمان اور کفار کے دوستانہ تعلقات منقطع کر دئیے اور جگہ فرمایا : «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْکَافِرِینَ أَوْلِیَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِینَ أَتُرِیدُونَ أَنْ تَجْعَلُوا لِلہِ عَلَیْکُمْ سُلْطَانًا مُبِینًا» ۲؎ (4-النساء:144) یعنی ’اے ایمان والو ! مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست نہ بناؤ کیا تم چاہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کی تم پر کھلی حجت ہو جائے‘ یعنی تمہاری دلیل نجات کٹ جائے ، پھر فرمایا : «إِنَّ الْمُنَافِقِینَ فِی الدَّرْکِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ وَلَن تَجِدَ لَہُمْ نَصِیرًا» ۳؎ (4-النساء:145) یعنی ’منافق لوگ تو جہنم کے نچلے طبقے میں ہوں گے اور ہرگز تم ان کے لیے کوئی مددگار نہ پاؤ گے‘ ۔ چونکہ منافقوں کا ظاہر اچھا ہوتا ہے ، اس لیے مسلمانوں سے حقیقت پوشیدہ رہ جاتی ہے وہ ایمانداروں کو اپنی چکنی چپڑی باتوں سے دھوکہ دے دیتے ہیں اور ان کے بےحقیقت کلمات اور کفار سے پوشیدہ دوستیوں سے مسلمانوں کو خطرناک مصائب جھیلنے پڑتے ہیں پس بانی فساد یہ منافقین ہوئے ۔ اگر یہ اپنے کفر پر ہی رہتے تو ان کی خوفناک سازشوں اور گہری چالوں سے مسلمانوں کو اتنا نقصان ہرگز نہ پہنچتا اور اگر پورے مسلمان ہو جاتے اور ظاہر باطن یکساں کر لیتے تب تو دنیا کے امن و امان کے ساتھ آخرت کی نجات و فلاح بھی پا لیتے باوجود اس خطرناک پالیسی کے جب انہیں یکسوئی کی نصیحت کی جاتی تو جھٹ کہ اٹھتے کہ ہم تو صلح کن ہیں ، ہم کسی سے بگاڑنا نہیں چاہتے ، ہم فریقین کے ساتھ اتفاق رکھتے ہیں ۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ وہ کہتے تھے ”ہم ان دونوں جماعتوں یعنی مومنوں اور اہل کتاب کے درمیان صلح کرانے والے ہیں ۴؎ “ (تفسیر ابن ابی حاتم:52/1) لیکن اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ ان کی نری جہالت ہے جسے یہ صلح سمجھتے ہیں وہ عین فساد ہے لیکن انہیں شعور ہی نہیں ۔ البقرة
12 البقرة
13 خود فریبی کے شکار لوگ مطلب یہ ہے کہ جب ان منافقوں کو صحابہ کی طرح اللہ تعالیٰ پر ، اس کے فرشتوں پر ، کتابوں اور رسولوں پر ایمان لانے ، موت کے بعد جی اٹھنے پر ، جنت دوزخ کی حقانیت کے تسلیم کرنے پر ، اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری کر کے نیک اعمال بجا لانے اور برائیوں سے رکے رہنے کو کہا جاتا ہے تو یہ ملعون فرقہ ایسے ایمان والوں کو بےوقوف قرار دیتا ہے ۔ سیدنا ابن عباس ، سیدنا ابن مسعود اور بعض دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم ، ربیع بن انس ، عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم رحمہ اللہ علیہم وغیرہ نے یہی تفسیر بیان کی ہے ۱؎ ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:293/1) «سٰفَہَاءٌ» «سَفِیْہٌ» کی جمع ہے جیسے «حکماء» «حکیم» کی اور «حلماء» «حلیم» کی ۔ جاہل ، کم عقل اور نفع نقصان کے پوری طرح نہ جاننے والے کو «سفیہ» کہتے ہیں ۔ قرآن میں اور جگہ ہے : «وَلَا تُؤْتُوا السٰفَہَاءَ أَمْوَالَکُمُ الَّتِی جَعَلَ اللہُ لَکُمْ قِیَامًا» ۲؎ (4-النساء:5) الخ یعنی ’بیوقوفوں کو اپنے وہ مال نہ دے بیٹھو جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے قیام کا سبب بنایا ہے‘ ۔ عام مفسرین کا قول ہے کہ اس آیت میں «سٰفَہَاءُ» سے مراد عورتیں اور بچے ہیں ۔ ان منافقین کے جواب میں یہاں بھی خود پروردگار عالم نے جواب دیا اور تاکیداً «حصر» کے ساتھ فرمایا کہ بیوقوف تو یہی ہیں لیکن ساتھ ہی جاہل بھی ایسے ہیں کہ اپنی بیوقوفی کو جان بھی نہیں سکتے ۔ نہ اپنی جہالت و ضلالت کو سمجھ سکتے ہیں ، اس سے زیادہ ان کی برائی اور کمال اندھا پن اور ہدایت سے دوری اور کیا ہو گی ؟ البقرة
14 فریب زدہ لوگ مطلب یہ ہے کہ یہ بدباطن مسلمانوں کے پاس آ کر اپنی ایمان دوستی اور خیر خواہی ظاہر کر کے انہیں دھوکے میں ڈالنا چاہتے ہیں تاکہ مال و جان کا بچاؤ بھی ہو جائے ، بھلائی اور غنیمت کے مال میں حصہ بھی قائم ہو جائے ۔ اور جب اپنے والوں میں ہوتے ہیں تو ان ہی کی سی کہنے لگتے ہیں ۔ «خَلَوْا» کے معنی یہاں ہیں «انْصَرَفُوا» «اذَہَبُوا» «خَلَصُوا» اور «مَضَوْا» یعنی لوٹتے ہیں اور پہنچتے ہیں اور تنہائی میں ہوتے ہیں اور جاتے ہیں پس «خَلَوْا» جو کہ «إِلَی» کے ساتھ متعدی ہے اس کے معنی لوٹ جانے کے ہیں ۔ فعل مضمر اور ملفوظ دونوں پر یہ دلالت کرتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں «إِلَی» معنی میں «مَعَ» کے مترادف ہے مگر اول ہی ٹھیک ہے ، ابن جریر رحمہ اللہ کے کلام کا خلاصہ بھی یہ ہے کہ شیاطین سے مراد «رؤسا» بڑے اور سردار ہیں جیسے یہود علماء اور سرداران کفار قریش و منافقین ۔ سیدنا ابن عباس ، سیدنا ابن مسعود اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کا قول ہے کہ یہ شیاطین ان کے امیر امراء اور سرداران کفر تھے اور ان کے ہم عقیدہ لوگ بھی ۔ شیاطین یہود بھی انہیں پیغمبری کے جھٹلانے اور قرآن کی تکذیب کرنے کا مشورہ دیا کرتے تھے ۔ مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں «شَیَاطِینِ» سے مراد ان کے وہ ساتھی ہیں جو یا تو مشرک تھے یا منافق ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو برائیوں میں اور شرک میں ان کے سردار تھے ۔ ابوالعالیہ ، سدی ، ربیع بن انس رحمہ اللہ علیہم بھی یہی تفسیر کرتے ہیں ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” ہر بہکانے اور سرکشی کرنے والے کو شیطان کہتے ہیں ۔ جنوں میں سے ہو یا انسانوں میں سے ۔ قرآن میں بھی «وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیَاطِینَ الْإِنسِ وَالْجِنِّ یُوحِی بَعْضُہُمْ إِلَیٰ بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا » ۱؎ (6-الأنعام:112) آیا ہے “ ۔ حدیث شریف میں ہے کہ {ہم جنوں اور انسانوں کے شیطانوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں ، ابوذر رضی اللہ عنہ نے پوچھا : یا رسول اللہ ! کیا انسان کے شیطان بھی ہیں ؟ آپ نے فرمایا ” ہاں “ } ۱؎ (سنن نسائی:5509،قال الشیخ الألبانی:ضعیف الإسناد) جب یہ منافق مسلمانوں سے ملتے تو کہتے ہیں «قَالُوا إِنَّا مَعَکُمْ» ’ہم تمہارے ساتھ ہیں‘ یعنی جیسے تم ہو ویسے ہی ہم ہیں ۔ اور اپنوں سے کہتے ہیں کہ ہم تو ان کے ساتھ ہنسی کھیل کرتے ہیں ۲؎ ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:300/1) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما ، ربیع بن انس رحمہ اللہ اور قتادہ رحمہ اللہ کی یہی تفسیر ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان کو جواب دیتے ہوئے ان کے اس مکروہ فعل کے مقابلہ میں فرماتا ہے : «یَوْمَ یَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ لِلَّذِینَ آمَنُوا انْظُرُونَا نَقْتَبِسْ مِنْ نُورِکُمْ قِیلَ ارْجِعُوا وَرَاءَکُمْ فَالْتَمِسُوا نُورًا فَضُرِبَ بَیْنَہُمْ بِسُورٍ لَہُ بَابٌ بَاطِنُہُ فِیہِ الرَّحْمَۃُ وَظَاہِرُہُ مِنْ قِبَلِہِ الْعَذَابُ» ۳؎ (57-الحدید:13) ’اللہ تعالیٰ بھی ان سے ٹھٹھا کرے گا اور انہیں ان کی سرکشی میں بہکنے دے گا جیسے دوسری جگہ ہے ، کہ قیامت کے روز منافق مرد و عورت ایمان والوں سے کہیں گے ذرا ٹھہر جاؤ ہم بھی تمہارے نور سے فائدہ اٹھائیں ، کہا جائے گا اپنے پیچھے لوٹ جاؤ اور نور کی تلاش کرو ، اس کے لوٹتے ہی درمیان میں ایک اونچی دیوار حائل کر دی جائے گی جس میں دروازہ ہو گا ، اس طرف تو رحمت ہو گی اور دوسری طرف عذاب ہو گا‘ ۔ فرمان الٰہی ہے : «وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا أَنَّمَا نُمْلِی لَہُمْ خَیْرٌ لِأَنْفُسِہِمْ إِنَّمَا نُمْلِی لَہُمْ لِیَزْدَادُوا إِثْمًا وَلَہُمْ عَذَابٌ مُہِینٌ» ۴؎ (3-آل عمران:178) یعنی ’کافر لوگ ہماری دی ہوئی مہلت کو اپنے حق میں بہتر نہ سمجھیں، یہ مہلت تو اس لئے ہے کہ وہ گناہوں میں اور بڑھ جائیں، ان ہی کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہے‘ پس قرآن میں جہاں «اسْتِہْزَاءِ» «سُخْرِیَّتِہِ» مسخریت یعنی مذاق ، «مَکْرِ» ، «خَدِیعَتِ» یعنی دھوکہ کے الفاظ آئے ہیں وہاں یہی مراد ہے ۔ ایک اور جماعت کہتی ہے کہ یہ الفاظ صرف ڈانٹ ڈپٹ اور تنبیہہ کے طور پر استعمال کئے گئے ہیں ان کی بدکرداریوں اور کفر و شرک پر انہیں ملامت کی گئی ہے ۔ اور مفسرین کہتے ہیں یہ الفاظ صرف جواب میں لائے گئے ہیں جیسے کوئی بھلا آدمی کسی مکار کے فریب سے بچ کر اس پر غالب آ کر کہتا ہے کہو میں نے کیسا فریب دیا حالانکہ اس کی طرف سے فریب نہیں ہوتا ۔ اسی طرح یہ فرمان الٰہی ہے کہ «وَمَکَرُوا وَمَکَرَ اللہُ وَ اللہُ خَیْرُ الْمَاکِرِینَ» ۱؎ (3-آل عمران:54) اور آیت «اَللّٰہُ یَسْتَہْزِیُٔ بِہِمْ وَیَمُدٰھُمْ فِیْ طُغْیَانِہِمْ یَعْمَھُوْنَ» ۲؎ (2-البقرۃ:15) ورنہ اللہ کی ذات مکر اور مذاق سے پاک ہے ، مطلب یہ ہے کہ ان کا فن فریب انہی کو برباد کرتا ہے ۔ ان الفاظ کا یہ بھی مطلب بیان کیا گیا ہے کہ اللہ ان کی ہنسی ، دھوکہ ، تمسخر اور بھول کا ان کو بدلہ دے گا تو بدلے میں بھی وہی الفاظ استعمال کئے گئے دونوں لفظوں کے دونوں جگہ معنی جدا جدا ہیں ۔ دیکھئیے قرآن کریم میں ہے : «وَجَزَاءُ سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِثْلُہَا» ۳؎ (42-الشوری:40) یعنی ’برائی کا بدلہ ویسی ہی برائی ہے‘ ، «فَمَنِ اعْتَدَیٰ عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوا عَلَیْہِ» ۴؎ (2-البقرۃ:194) یعنی ’جو تم پر زیادتی کرے تم بھی اس پر زیادتی کرو‘ تو ظاہر ہے کہ برائی کا بدلہ لینا حقیقتاً برائی نہیں ۔ زیادتی کے مقابلہ میں بدلہ لینا زیادتی نہیں ۔ لیکن لفظ دونوں جگہ ایک ہی ہے حالانکہ پہلی برائی اور زیادتی ”ظلم“ ہے اور دوسری برائی اور زیادتی ”عدل“ ہے لیکن لفظ دونوں جگہ ایک ہی ہے ۔ اسی طرح جہاں جہاں کلام اللہ میں ایسی عبارتیں ہیں وہاں یہی مطلب ہے ۔ ایک اور مطلب بھی سنیے دنیا میں یہ منافق اپنی اس ناپاک پالیسی سے مسلمانوں کے ساتھ مذاق کرتے تھے اللہ نے بھی ان کے ساتھ یہی کیا کہ دنیا میں انہیں امن و امان مل گیا اور یہ مست ہو گئے حالانکہ یہ عارضی امن ہے ، قیامت والے دن انہیں کوئی امن نہیں ملے گا گو یہاں ان کے مال اور جانیں بچ گئیں لیکن اللہ کے ہاں یہ درد ناک عذاب کا شکار بنیں گے ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ نے اسی قول کو ترجیح دی ہے اور اس کی بہت تائید کی ہے اس لیے کہ مکر ، دھوکہ اور مذاق جو بلاوجہ ہو اس سے تو اللہ کی ذات پاک ہے ہاں انتقام ، مقابلے اور بدلے کے طور پر یہ الفاظ اللہ کی نسبت کہنے میں کوئی حرج نہیں ۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بھی یہی فرماتے ہیں کہ یہ ان کا بدلہ اور سزا ہے ۔ «یَمُدٰہُمْ» کا مطلب ڈھیل دینا اور بڑھانا بیان کیا گیا ہے ۵؎ ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:311/1) جیسے فرمایا : «أَیَحْسَبُونَ أَنَّمَا نُمِدٰہُمْ بِہِ مِنْ مَالٍ وَبَنِینَ» ۶؎ (23-المؤمنون:55) ، «نُسَارِعُ لَہُمْ فِی الْخَیْرَاتِ بَلْ لَا یَشْعُرُونَ» ۷؎ (23-المؤمنون:56) یعنی ’کیا یہ یوں سمجھ بیٹھے ہیں کہ ان کے مال اور اولاد کی کثرت ان کے لیے باعث خیر ہے نہیں ! نہیں ! انہیں صحیح شعور ہی نہیں ‘ ۔ اور فرمایا : «سَنَسْـتَدْرِجُہُمْ مِّنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُوْنَ» ۸؎ (7-الأعراف:182) الخ یعنی ’اس طرح ہم انہیں آہستہ آہستہ پکڑیں گے کہ انہیں پتہ بھی نہ چلے‘ غرض کہ ادھر یہ گناہ کرتے ہیں ادھر دنیوی نعمتیں زیادہ ہوتی ہیں جن پر یہ پھولے نہیں سماتے حالانکہ وہ حقیقت میں عذاب ہی کی ایک صورت ہوتی ہے ۔ قرآن پاک نے اور جگہ فرمایا : «فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُکِّرُوا بِہِ فَتَحْنَا عَلَیْہِمْ أَبْوَابَ کُلِّ شَیْءٍ حَتَّیٰ إِذَا فَرِحُوا بِمَا أُوتُوا أَخَذْنَاہُمْ بَغْتَۃً فَإِذَا ہُمْ مُبْلِسُونَ» ۹؎ (6-الأنعام:44) یعنی ’پھر جب وہ لوگ ان چیزوں کو بھولے رہے جن کی ان کو نصیحت کی جاتی تھی تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کشادہ کردئے یہاں تک کہ جب ان چیزوں پر جو کہ ان کو ملی تھیں وہ خوب اترا گئے ہم نے ان کو دفعتاً پکڑ لیا، پھر تو وہ بالکل مایوس ہو گئے‘ «فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِینَ ظَلَمُوا وَالْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ» ۱۰؎ (6-الأنعام:45) یعنی ’ظالموں کی بربادی ہوئی اور کہہ دیا گیا کہ تعریفیں رب العالمین کے لیے ہی ہیں‘ ۔ ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ انہیں ڈھیل دینے اور انہیں اپنی سرکشی اور بغاوت میں بڑھنے کے لیے ان کو مہلت دی جاتی ہے ۔ جیسے اور جگہ فرمایا «وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَہُمْ وَأَبْصَارَہُمْ کَمَا لَمْ یُؤْمِنُوا بِہِ أَوَّلَ مَرَّۃٍ وَنَذَرُہُمْ فِی طُغْیَانِہِمْ یَعْمَہُونَ» ۱؎ (6-الأنعام:110) «طٰغْیَانُ» کہتے ہیں کسی چیز میں گھس جانے کو ۲؎ ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:307/1) جیسے فرمایا : «إِنَّا لَمَّا طَغَی الْمَاءُ حَمَلْنَاکُمْ فِی الْجَارِیَۃِ» ۳؎ (69-الحاقۃ:11) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں وہ اپنے کفر میں گرے جاتے ہیں ۔ «عمہ» کہتے ہیں گمراہی کو ۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ ضلالت و کفر میں ڈوب گئے اور اس ناپاکی نے انہیں گھیر لیا اب یہ اسی دلدل میں اترتے جاتے ہیں ، اسی ناپاکی میں پھنسے جاتے ہیں اور اس سے نجات کی تمام راہیں ان پر بند ہو جاتی ہیں ۔ بھلا ایسی دلدل میں جو ہو اور پھر اندھا بہرا اور بیوقوف ہو وہ کیسے نجات پا سکتا ہے ۔ آنکھوں کے اندھے پن کے لیے عربی میں «عمی» کا لفظ آتا ہے اور دل کے اندھاپے کے لیے «عمہ» کا لیکن کبھی دل کے اندھے پن کے لیے بھی «عمی» کا لفظ آتا ہے جیسے قرآن میں ہے :« وَلٰکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصٰدُوْرِ» ۴؎ (22-الحج:46) ۔ البقرة
15 البقرة
16 ایمان فروش لوگ سیدنا ابن عباس ، سیدنا ابن مسعود اور بعض دیگر صحابہ رضوان اللہ علیہم سے مروی ہے کہ انہوں نے ہدایت چھوڑ دی اور گمراہی لے لی ۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں انہوں نے ایمان کے بدلے کفر قبول کیا ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ایمان لائے پھر کافر ہو گئے ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” ہدایت پر گمراہی کو پسند کرتے ہیں ۔ “ جیسے اور جگہ قوم ثمود کے بارے میں ہے «وَاَمَّا ثَمُوْدُ فَہَدَیْنٰہُمْ فَاسْتَــحَبٰوا الْعَمٰی عَلَی الْہُدٰی» (32-السجدۃ:17) یعنی ’ باوجود اس کے کہ ہم نے قوم ثمود کو ہدایت سے روشناس کر دیا مگر پھر بھی انہوں نے اس رہنمائی کی جگہ اندھے پن کو پسند کیا ‘ ۔ مطلب یہ ہوا کہ منافقین ہدایت سے ہٹ کر گمراہی پر آ گئے اور ہدایت کے بدلے گمراہی لے لی گویا ہدایت کو بیچ کر گمراہی خرید لی ۔ اب ایمان لا کر پھر کافر ہوئے ہوں خواہ سرے سے ایمان ہی نصیب نہ ہوا ہو اور ان منافقین میں دونوں قسم کے لوگ تھے ۔ چنانچہ قرآن میں ہے آیت« ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ اٰمَنُوْا ثُمَّ کَفَرُوْا فَطُبِعَ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ» ۱؎ (63-المنافقون:3) ’ یہ اس لیے ہے کہ یہ لوگ ایمان لا کر پھر کافر ہو گئے پس ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی ‘ اور ایسے بھی منافق تھے جنہیں ایمان نصیب ہی نہ ہوا پس نہ تو انہیں اس سودے میں فائدہ ہوا ، نہ راہ ملی ، بلکہ ہدایت کے چمنستان سے نکل کر گمراہی کے خارزار میں ، جماعت کے مضبوط قلعہ سے نکل کر تنہائیوں کی تنگ جیل میں ، امن کے وسیع میدان سے نکل کر خوف کی اندھیری کوٹھری میں اور سنت کے پاکیزہ گلشن سے نکل کر بدعت کے سنسان جنگل میں آ گئے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:316/1) البقرة
17 شک، کفر اور نفاق کیا ہے؟ مثال کو عربی میں «مثیل» بھی کہتے ہیں اس کی جمع «امثال» آتی ہے ۔ جیسے قرآن میں ہے : «وَتِلْکَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُہَا لِلنَّاسِ وَمَا یَعْقِلُہَآ اِلَّا الْعٰلِمُوْنَ» (29-العنکبوت:43) یعنی ’ یہ مثالیں ہم لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں جنہیں صرف عالم ہی سمجھتے ہیں ‘ ۔ اس آیت شریف کا مطلب یہ ہے کہ جو منافق گمراہی کو ہدایت کے بدلے اور اندھے پن کو بینائی کے بدلے مول لیتے ہیں ان کی مثال اس شخص جیسی ہے جس نے اندھیرے میں آگ جلائی اس کے دائیں بائیں کی چیزیں اسے نظر آنے لگیں ، اس کی پریشانی دور ہو گئی اور فائدے کی امید بندھی کہ دفعتاً آگ بجھ گئی اور سخت اندھیرا چھا گیا نہ تو نگاہ کام کر سکے ، نہ راستہ معلوم ہو سکے اور باوجود اس کے وہ شخص خود بہرا ہو ۔ کسی کی بات کو نہ سن سکتا ہو ۔ گونگا ہو کسی سے دریافت نہ کر سکتا ہو ، اندھا ہو جو روشنی سے کام نہ چلا سکتا ہو ۔ اب بھلا یہ راہ کیسے پا سکے گا ؟ ٹھیک اسی طرح یہ منافق بھی ہیں کہ ہدایت چھوڑ کر راہ گم کر بیٹھے اور بھلائی چھوڑ کر برائی کو چاہنے لگے ۔ اس مثال سے پتہ چلتا ہے کہ ان لوگوں نے ایمان قبول کر کے کفر کیا تھا ۔ جیسے قرآن کریم میں کئی جگہ یہ صراحت موجود ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» امام رازی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں سدی رحمہ اللہ سے یہی نقل کیا ہے ۔ پھر کہا ہے کہ یہ تشبیہ بہت ہی درست اور صحیح ہے ، اس لیے کہ اولاً تو ان منافقوں کو نور ایمان حاصل ہوا پھر ان کے نفاق کی وجہ سے وہ چھن گیا اور یہ حیرت میں پڑ گئے اور دین گم ہو جانے کی حیرت سے بڑی حیرت اور کیا ہو گی ؟ امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جن کی یہ مثال بیان کی گئی ہے انہیں کسی وقت بھی ایمان نصیب ہی نہ ہوا تھا کیونکہ پہلے فرمان الٰہی گزر چکا ہے کہ «وَمَا ہُم بِمُؤْمِنِینَ» (2-البقرۃ:8) یعنی گو یہ زبان سے اللہ تعالیٰ پر اور قیامت پر ایمان لانے کا اقرار کرتے ہیں مگر حقیقتاً یہ ایماندار نہیں ۔ درحقیقت اس آیۃ مبارکہ میں ان کے کفر و نفاق کے وقت کی خبر دی گئی ہے اس سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ اس حالت کفر و نفاق سے پہلے کبھی انہیں ایمان حاصل ہی نہیں ہوا ۔ ممکن ہے ایمان لائے ہوں ، پھر اس سے ہٹ گئے ہوں اور اب دلوں میں مہریں لگ گئی ہوں ۔ دیکھئیے دوسری جگہ قرآن کریم میں ہے «ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ اٰمَنُوْا ثُمَّ کَفَرُوْا فَطُبِعَ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ فَہُمْ لَا یَفْقَہُوْنَ» (63-المنافقون:3) الخ یعنی ’ یہ اس لیے ہے کہ انہوں نے ایمان کے بعد کفر کیا ، پھر ان کے دلوں پر مہر لگ گئی ۔ اب وہ کچھ نہیں سمجھتے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس مثال میں روشنی اور اندھیرے کا ذکر ہے یعنی کلمہ ایمان کے ظاہر کرنے کی وجہ سے دنیا میں کچھ نور ہو گیا ، کفر کے چھپانے کی وجہ سے پھر آخرت کے اندھیروں نے گھیر لیا ۔ ایک جماعت کی مثال شخص واحد سے اکثر دی جاتی ہے۔ قرآن پاک میں اور جگہ ہے «رَاَیْتَہُمْ یَنْظُرُوْنَ اِلَیْکَ تَدُوْرُ اَعْیُنُہُمْ کَالَّذِیْ یُغْشٰی عَلَیْہِ مِنَ الْمَوْتِ» (32-السجدۃ:19) یعنی ’ تو دیکھے گا کہ وہ تیری طرف آنکھیں پھیر پھیر کر اس طرح دیکھتے ہیں جس طرح وہ شخص جو سکرات موت میں ہو ‘ ۔ اور اس آیت کو بھی دیکھئیے «مَا خَلْقُکُمْ وَلَا بَعْثُکُمْ اِلَّا کَنَفْسٍ وَّاحِدَۃٍ» (31-لقمان:28) یعنی ’ تم سب کا پیدا کرنا اور مار ڈالنے کے بعد پھر زندہ کر دینا ایسا ہی ہے جیسے ایک جان کو دوبارہ زندہ کرتا ‘ ۔ تیسری جگہ توراۃ سیکھ کر عملی عقیدہ اس کے مطابق نہ رکھنے والوں کی مثال میں کہا گیا ہے «کَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ اَسْفَارًا» (62-الجمعۃ:5) یعنی ’ گدھے کی مانند ہیں جو کتابیں لادے ہوئے ہو ‘ ۔ سب آیتوں میں جماعت کی مثال ایک ہی دی گئی ہے ۔ اسی طرح مذکورہ بالا آیت میں منافقوں کی جماعت کی مثال ایک شخص سے دی گئی ۔ بعض کہتے ہیں تقدیر کلام یوں ہے «مثل قصتھم کقصۃ الذین استو قدوا نارا» یعنی ان کے واقعہ کی مثال ان لوگوں کے واقعہ کی طرح ہے جو آگ روشن کریں ۔ بعض کہتے ہیں کہ آگ جلانے والا تو ایک ہے ۔ لیکن مجموعی طور پر پوری جماعت اس سے محظوظ ہوتی ہے جو اس کے ساتھ ہے اور اس قسم کا اور «الذی» یہاں «الذین» کے معنی میں ہیں جیسے کہ شاعروں کے شعروں میں بھی میں بھی آتا ہے میں کہتا ہوں اس مثال میں بھی واحد کے صیغہ کے بعد ہی جمع کے صیغہ بھی ہیں ۔ «بنورھم» اور «ترکھم» اور «لا یرجعون» ملاحظہ ہوں ۔ اس طرح کلام میں اعلیٰ فصاحت اور بہترین خوبی بھی آ گئی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان کی روشنی لے گیا اس سے مطلب یہ ہے کہ جو نور نفع دینے والا تھا وہ تو ان سے ہٹا لیا اور جس طرح آگ کے بجھ جانے کے بعد تپش اور دھواں اور اندھیرا رہ جاتا ہے اسی طرح ان کے پاس نقصان پہنچانے والی چیز یعنی شک و کفر و نفاق رہ گیا تو راہ راست کو نہ خود دیکھ سکیں نہ دوسرے کی بھلی بات سن سکیں نہ کسی سے بھلائی کا سوال کر سکیں ۔ اب پھر لوٹ کر ہدایت پر آنا محال ہو گیا ۔ اس کی تائید میں مفسرین کے اقوال سنئیے ۔ سیدنا ابن عباس ، سیدنا ابن مسعود اور بعض اور صحابہ رضوان اللہ علیہم فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ تشریف لانے کے بعد کچھ لوگ اسلام لے آئے مگر پھر منافق بن گئے ۔ ان کی مثال اس شخص جیسی ہے جو اندھیرے میں ہو پھر آگ جلا کر روشنی حاصل کرے اور آس پاس کی بھلائی برائی کو سمجھنے لگے اور معلوم کرے کہ کس راہ میں کیا ہے ؟ کہ اچانک آگ بجھ جائے روشنی جاتی رہے ۔ اب معلوم نہیں ہو سکتا کہ کس راہ میں کیا کیا ہے ؟ اسی طرح منافق شرک و کفر کی ظلمت میں تھے پھر اسلام لا کر بھلائی برائی یعنی حلال حرام وغیرہ سمجھنے لگے مگر پھر کافر ہو گئے اور حرام و حلال خیر و شر میں کچھ تمیز نہ رہی ۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں نور سے مراد ایمان اور ظلمت سے مراد ضلالت و کفر ہے یہ لوگ ہدایت پر تھے لیکن پھر سرکشی کر کے بہک گئے ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ایمانداری اور ہدایت کی طرف رخ کرنے کو اس مثال میں آس پاس کی چیز کے روشنی کرنے سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ عطا خراسانی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ منافق کبھی کبھی بھلائی کو دیکھ لیتا ہے اور پہچان بھی لیتا ہے لیکن پھر اس کے دل کی کور چشمی اس پر غالب آ جاتی ہے ۔ حضرت عکرمہ ، عبدالرحمٰن ، حسن ، سدی اور ربیع رحمہ اللہ علیہم سے بھی یہی منقول ہے ۔ عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں منافقوں کی یہی حالت ہے کہ ایمان لاتے ہیں اور اس کی پاکیزہ روشنی سے ان کے دل جگمگا اٹھتے ہیں جیسے آگ کے جلانے سے آس پاس کی چیزیں روشن ہو جاتی ہیں لیکن پھر کفر اس روشنی کو کھو دیتا ہے جس طرح آگ کا بجھ جانا پھر اندھیرا کر دیتا ہے ۔ مندرجہ بالا اقوال تو ہماری اس تفسیر کی تائید میں تھے کہ جن منافقوں کی یہ مثال بیان کی گئی ہے وہ ایمان لا چکے تھے پھر کفر کیا ۔ اب امام ابن جریر رحمہ اللہ کی تائید میں جو تفسیر ہے اسے بھی سنئے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ یہ مثال منافقوں کی ہے کہ وہ اسلام کی وجہ سے عزت پا لیتے ہیں ۔ مسلمانوں میں نکاح ، ورثہ اور تقسیم مال غنیمت میں شامل ہوتے ہیں لیکن مرتے ہی یہ عزت چھن جاتی ہے جس طرح آگ کی روشنی آگ بجھتے ہی جاتی رہتی ہے ۔ ابوالعالیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں جب منافق «لا الہ الا اللہ» پڑھتا ہے تو دل میں نور پیدا ہوتا ہے پھر جہاں شک کیا وہ نور گیا ، جس طرح لکڑیاں جب تک جلتی رہیں روشنی رہی ، جہاں بجھ گئیں نور گیا ۔ ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں نور سے مراد یہاں ایمان ہے جو ان کی زبانوں پر تھا ۔ قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں «لا الہ الا اللہ» ان کے لیے روشنی کر دیتا تھا امن و امان ، کھانا پینا ، بیوی بچے سب مل جاتے تھے لیکن شک و نفاق ان سے یہ تمام راحتیں چھین لیتا ہے جس طرح آگ کا بجھنا روشنی دور کر دیتا ہے ۔ قتادہ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ «لا الہ الا اللہ» کہنے سے منافق کو ( دنیوی نفع مثلاً مسلمانوں میں لڑکے لڑکی کا لین دین ، ورثہ کی تقسیم ، جان و مال کی حفاظت وغیرہ ) مل جاتا ہے لیکن چونکہ اس کے دل میں ایمان کی جڑ اور اس کے اعمال میں خلوص نہیں ہوتا اس لیے موت کے وقت وہ سب منافع سلب ہو جاتے ہیں جیسے آگ کی روشنی بجھ جائے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اندھیروں میں چھوڑ دینا سے مراد مرنے کے بعد عذاب پانا ہے ۔ یہ لوگ حق کو دیکھ کر زبان سے اس کا اقرار کرتے ہیں اور ظلمت کفر سے نکل جاتے ہیں لیکن پھر اپنے کفر و نفاق کی وجہ سے ہدایت اور حق پر قائم رہنا ان سے چھن جاتا ہے ۔ سدی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ اندھیرے سے مراد ان کا نفاق ہے ۔ حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں موت کے وقت منافقین کی بد اعمالیاں اندھیروں کی طرح ان پر چھا جاتی ہیں اور کسی بھلائی کی روشنی ان کے لیے باقی نہیں رہتی جس سے ان کی توحید کی تصدیق ہو ۔ وہ بہرے ہیں ، حق کے سننے اور راہ راست کو دیکھنے اور سمجھنے سے اندھے ہیں ۔ ہدایت کی طرف لوٹ نہیں سکتے ۔ نہ انہیں توبہ نصیب ہوتی ہے نہ نصیحت حاصل کر سکتے ہیں ۔ البقرة
18 البقرة
19 منافقین کی ایک اور پہچان یہ دوسری مثال ہے جو دوسری قسم کے منافقوں کے لیے بیان کی گئی ہے ۔ یہ وہ قوم ہے جن پر کبھی حق ظاہر ہو جاتا ہے اور کبھی پھر شک میں پڑ جاتے ہیں تو شک کے وقت ان کی مثال برسات کی سی ہے ۔ صیب کے معنی مینہ اور بارش کے ہیں ۔ بعض نے بادل کے معنی بھی بیان کئے ہیں لیکن زیادہ مشہور معنی بارش کے ہی ہیں جو اندھیرے میں برسے ۔ ظلمات سے مراد شک ، کفرو نفاق ہے اور رعد سے مراد یعنی گرج ہے جو اپنی خوفناک آواز سے دل دہلا دیتی ہے ۔ یہی حال منافق کا ہے کہ اسے ہر وقت ڈر خوف گھبراہٹ اور پریشانی ہی رہتی ہے ۔ جیسے کہ اور جگہ فرمایا آیت «یَحْسَبُوْنَ کُلَّ صَیْحَۃٍ عَلَیْہِمْ» ( 63 ۔ المنافقون : 4 ) یعنی ہر آواز کو اپنے اوپر ہی سمجھتے ہیں ایک اور جگہ ارشاد ہے کہ «وَیَحْلِفُونَ بِ اللہِ إِنَّہُمْ لَمِنکُمْ وَمَا ہُم مِّنکُمْ وَلٰکِنَّہُمْ قَوْمٌ یَفْرَقُونَ لَوْ یَجِدُونَ مَلْجَأً أَوْ مَغَارَاتٍ أَوْ مُدَّخَلًا لَّوَلَّوْا إِلَیْہِ وَہُمْ یَجْمَحُونَ» ( 9-التوبۃ : 56 ، 57 ) یہ منافقین اللہ کی قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں کہ وہ تم میں سے ہیں دراصل وہ ڈرپوک لوگ ہیں اگر وہ کوئی جائے پناہ یا راستہ پا لیں تو یقیناً اس میں سمٹ کر گھس جائیں ۔ بجلی کی مثال سے مراد وہ نور ایمان ہے جو ان کے دلوں میں کسی وقت چمک اٹھتا ہے ، اس وقت وہ اپنی انگلیاں موت کے ڈر سے کانوں میں ڈال لیتے ہیں لیکن ایسا کرنا انہیں کوئی نفع نہ دے گا ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی ارادے کے ماتحت ہیں ، یہ بچ نہیں سکتے ۔ جیسا کہ اور جگہ فرمایا آیت «ہَلْ اَتٰیکَ حَدِیْثُ الْجُــنُوْدِ فِرْعَوْنَ وَثَمُــوْدَ بَلِ الَّذِینَ کَفَرُوا فِی تَکْذِیبٍ وَ اللہُ مِن وَرَائِہِم مٰحِیطٌ» ( 85 ۔ البروج : 20-17 ) یعنی کیا تمہیں لشکر کی ، فرعون اور ثمود کی روایتیں نہیں پہنچیں ، بیشک پہنچی تو ہیں لیکن یہ کافر پھر بھی تکذیب ہی کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بھی انہیں ان کے پیچھے سے گھیر رہا ہے ۔ بجلی کا آنکھوں کو اچک لینا ، اس کی قوت اور سختی کا اظہار ہے اور منافقین کی بینائی کی کمزوری اور ان کا ضعف ایمان ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ قرآن کی مضبوط آیتیں ان منافقوں کی قلعی کھول دیں گی اور ان کے چھپے ہوئے عیب ظاہر کر دیں گی اور اپنی نورانیت سے انہیں مبہوت کر دیں گی ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:349/1) جب ان پر اندھیرا ہو جاتا ہے تو کھڑے ہو جاتے ہیں یعنی جب ایمان ان پر ظاہر ہو جاتا ہے تو ذرا روشن دل ہو کر پیروی بھی کرنے لگتے ہیں لیکن پھر جہاں شک و شبہ آیا ، دل میں کدورت اور ظلمت بھر گئی اور بھونچکے ہو کر کھڑے رہ گئے ۔ اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ اسلام کو ذرا عروج ملا تو ان کے دل میں قدرے اطمینان پیدا ہوا لیکن جہاں اس کے خلاف نظر آیا یہ الٹے پیروں کفر کی طرف لوٹنے لگے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:349/1) جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے آیت «وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّعْبُدُ اللّٰہَ عَلٰی حَرْفٍ» ( 22 ۔ الحج : 11 ) یعنی بعض لوگ وہ بھی ہیں جو کنارے پر ٹھہر کر اللہ کی عبادت کرتے ہیں اگر بھلائی ملے تو مطمئن ہو جائیں اور اگر برائی پہنچے تو اسی وقت پھر گئے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما یہ بھی فرماتے ہیں کہ ان کا روشنی میں چلنا حق کو جان کر کلمہ اسلام پڑھنا ہے اور اندھیرے میں ٹھہر جانا کفر کی طرف لوٹ جانا ہے ۔ دیگر بہت سے مفسرین کا بھی یہی قول ہے اور زیادہ صحیح اور ظاہر بھی یہی قول ہے ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:75/1) «وَاللہُ اَعْلَمُ» روز قیامت بھی ان کا یہی حال رہے گا کہ جب لوگوں کو ان کے ایمان کے اندازے کے مطابق نور ملے گا بعض کو کئی کئی میلوں تک کا ، بعض کو اس سے بھی زیادہ ، کسی کو اس سے کم ، یہاں تک کہ کسی کو اتنا نور ملے گا کہ کبھی روشن ہو اور کبھی اندھیرا کچھ لوگ ایسے بھی ہوں گے جو ذرا سی دور چل سکیں گے پھر ٹھہر جائیں گے پھر ذرا سی دور کا نور ملے گا پھر بجھ جائے گا اور بعض وہ بے نصیب بھی ہوں گے کہ ان کا نور بالکل بجھ جائے گا یہ پورے منافق ہوں گے جن کے بارے میں فرمان الٰہی ہے آیت «یَوْمَ یَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ لِلَّذِینَ آمَنُوا انظُرُونَا نَقْتَبِسْ مِن نٰورِکُمْ قِیلَ ارْجِعُوا وَرَاءَکُمْ فَالْتَمِسُوا نُورًا فَضُرِبَ بَیْنَہُم بِسُورٍ لَّہُ بَابٌ بَاطِنُہُ فِیہِ الرَّحْمَۃُ وَظَاہِرُہُ مِن قِبَلِہِ الْعَذَابُ» ( 57 ۔ الحدید : 13 ) یعنی جس دن منافق مرد اور منافق عورتیں ایمان والوں کو پکاریں گے اور کہیں گے ذرا رکو ! ہمیں بھی آ لینے دو تاکہ ہم بھی تمہارے نور سے فائدہ اٹھائیں تو کہا جائے گا کہ اپنے پیچھے لوٹ جاؤ اور نور ڈھونڈ لاؤ ۔ مومنوں کے بارے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آیت «یَوْمَ تَرَی الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ یَسْعٰی نُوْرُہُمْ بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَبِاَیْمَانِہِمْ بُشْرٰیکُمُ الْیَوْمَ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا» ( 57 ۔ الحدید : 12 ) یعنی اس دن تو دیکھے گا کہ مومن مرد اور عورتوں کے آگے آگے اور دائیں جانب نور ہو گا اور کہا جائے گا تمہیں آج باغات کی خوشخبری دی جاتی ہے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ۔ اور فرمایا جس دن نہ رسوا کرے گا اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اور ان لوگوں کو جو ان کے ساتھ ایمان لائے ، ان کا نور ان کے آگے اور دائیں ہو گا ۔ وہ کہہ رہے ہوں گے اے ہمارے رب ! ہمارے لیے ہمارا نور پورا کر اور ہمیں بخش یقیناً تو ہرچیز پر قادر ہے ۔ (66-التحریم:8) ان آیتوں کے بعد اب اس مضمون کی حدیثیں بھی سنئے ۔ احادیث میں تذکرۂ نور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں “ بعض مومنوں کو مدینہ سے لے کر عدن تک نور ملے گا ۔ بعض کو اس سے کم یہاں تک کہ بعض کو اتنا کم کہ صرف پاؤں رکھنے کی جگہ ہی روشن ہو گی ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:33614:ضعیف و مرسل) سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایمان والوں کو ان کے اعمال کے مطابق نور ملے گا بعض کو کھجور کے درخت جتنا ، کسی کو قد آدم جتنا ، کسی کو صرف اتنا ہی کہ اس کا انگوٹھا ہی روشن ہو ، کبھی بجھ جاتا ہو ، کبھی روشن ہو جاتا ہو ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:179/23) سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں “ انہیں نور ملے گا ان کے اعمال کے مطابق جس کی روشنی میں وہ پل صراط سے گزریں گے ۔ بعض لوگوں کا نور پہاڑ جتنا ہو گا ، بعض کا کھجور جتنا اور سب سے کم نور والا وہ ہو گا جس کا نور اس کے انگوٹھے پر ہو گا کبھی چمک اٹھے گا اور کبھی بجھ جائے گا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں “ کہ تمام اہل توحید کو قیامت کے دن نور ملے گا ۔ جب منافقوں کا نور بجھ جائے گا تو موحد ڈر کر کہیں گے آیت «رَبَّنَآ اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا وَاغْفِرْ لَنَا» ( 66 ۔ التحریم : 8 ) ” یا رب ہمارے نور کو پورا کر ۔ (حاکم:490/2) ضحاک رحمہ اللہ بن مزاحم کا بھی یہی قول ہے ۔ ان احادیث سے معلوم ہوا کہ قیامت والے دن لوگ کئی قسم کے ہوں گے ۔ خالص مومن وہ جن کا بیان اگلی چار آیتوں میں ہوا ، خالص کفار جن کا ذکر اس کے بعد کی دو آیتوں میں ہے اور منافق جن کی دو قسمیں ہیں ۔ ایک تو خالص منافق جن کی مثال آگ کی روشنی سے دی گئی ۔ دوسرے وہ منافق جو تردد میں ہیں کبھی تو ایمان چمک اٹھتا ہے کبھی بجھ جاتا ہے ، ان ہی کی مثال بارش سے دی گئی ہے یہ پہلی قسم کے منافقوں سے کچھ کم ہیں ۔ ٹھیک اسی طرح سورۃ النور میں بھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے مومن کی اور اس کے دل کے نور کی مثال اس منور چراغ سے دی ہے جو روشن فانوس میں ہو اور خود فانوس بھی چمکتے ہوئے تارے کی طرح ہو ۔ چنانچہ ایماندار کا ایک تو خود دل روشن ، دوسرے خالص شریعت کی اسے امداد ، بس روشنی پر روشنی ، نور پر نور ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح دوسری جگہ کافروں کی مثال بھی بیان کی جو اپنی نادانی کی وجہ سے اپنے آپ کو کچھ سمجھتے ہیں اور حقیقت میں وہ کچھ نہیں ہوتے ۔ فرمایا کافروں کے اعمال کی مثال ریت کے چمکیلے ٹیلوں کی طرح ہے جنہیں پیاسا پانی سمجھتا ہے یہاں تک کہ پاس آ کر دیکھتا ہے تو کچھ بھی نہیں پاتا ۔ (24-النور:39) ایک اور جگہ پر ان جاہل کافروں کی مثال بیان کی جو جہل بسیط میں گرفتار ہیں ۔ فرمایا مانند سخت اور اندھیروں کے جو گہرے سمندر میں ہوں جو موجوں پر موجیں مار رہا ہو پھر ابر سے ڈھکا ہوا ہو اور اندھیروں پر اندھیرے چھائے ہوئے ہوں ، ہاتھ نکالے تو دیکھ بھی نہیں سکتا ۔ حقیقت یہ ہے کہ جس کے لیے اللہ کی طرف بلانے والے دوسرے ان کی تقلید کرنے والے ۔ جیسے سورۃ الحج کے شروع میں ہے آیت «وَمِنَ النَّاسِ مَن یُجَادِلُ فِی اللہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَلَا ہُدًی وَلَا کِتَابٍ مٰنِیرٍ» ( 22 ۔ الحج : 8 ) بعض وہ لوگ ہیں جو اللہ کے بارے میں بغیر علم کے جھگڑتے ہیں اور ہر سرکش شیطان کی پیروی کرتے ہیں ۔ ایک اور جگہ فرمایا آیت «وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یٰجَادِلُ فِی اللّٰہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّیَتَّبِـعُ کُلَّ شَیْطٰنٍ مَّرِیْدٍ» ( 22 ۔ الحج : 3 ) بعض لوگ علم ہدایت اور روشن کتاب کے بغیر اللہ کی بارے میں لڑتے جھگڑتے ہیں ۔ سورۃ الواقعہ کے شروع اور آخر میں اور سورۃ انسان میں مومنوں کی بھی دو قسمیں بیان کی ہیں ۔ سابقین اور اصحاب یمین یعنی مقربین بارگاہ ربانی اور پرہیزگار و نیک کار لوگ ۔ پس ان آیتوں سے معلوم ہوا کہ مومنوں کی دو جماعتیں ہیں مقرب اور ابرار ۔ اور کافروں کی بھی دو قسمیں ہیں کفر کی طرف لانے والے اور ان کی تقلید کرنے والے ۔ منافقوں کی بھی دو قسمیں ہیں خالص اور پکے منافق اور وہ منافق جن میں نفاق کی ایک آدھ شاخ ہے ۔ صحیحین میں حدیث ہے سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ ” تین خصلتیں ایسی ہیں جس میں یہ تینوں ہوں وہ پختہ منافق ہے اور جس میں ایک ہو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے جب تک اسے نہ چھوڑے ۔ بات کرنے میں جھوٹ بولنا ، وعدہ خلافی کرنا ، امانت میں خیانت کرنا ، (صحیح بخاری:34:صحیح) اس سے ثابت ہوا کہ انسان میں کبھی نفاق کا کچھ حصہ ہوتا ہے خواہ وہ نفاق عملی ہو خواہ اعتقادی جیسے کہ آیت و حدیث سے معلوم ہوتا ہے ۔ سلف کی ایک جماعت اور علماء کرام کے ایک گروہ کا یہی مذہب ہے اس کا بیان پہلے بھی گزر چکا ہے اور آئندہ بھی آئے گا ۔ ان شاءاللہ تعالیٰ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “ دل چار قسم کے ہیں ایک تو صاف دل جو روشن چراغ کی طرح چمک رہا ہو دوسرے وہ دل جو غلاف آلود ہیں ، تیسرے وہ دل جو الٹے ہیں ، چوتھے وہ دل جو مخلوط ہیں پہلا دل مومن کا ہے جو پوری طرح نورانی ہے ، دوسرا کافر کا دل ہے جس پر پردے پڑے ہوئے ہیں ، تیسرا دل خالص منافقوں کا ہے جو جانتا ہے اور انکار کرتا ہے ، چوتھا دل اس منافق کا ہے جس میں ایمان و نفاق دونوں جمع ہیں ۔ ایمان کی مثال اس سبزے کی طرح ہے جو پاکیزہ پانی سے بڑھ رہا ہو اور نفاق کی مثال اس پھوڑے کی طرح ہے جس میں پیپ اور خون بڑھتا ہی جاتا ہو اب جو مادہ بڑھ جائے وہ سرے پر غالب آ جاتا ہے ۔ (مسند احمد:17/3:ضعیف) اس حدیث کی اسناد بہت ہی عمدہ ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اگر اللہ چاہے تو ان کے کان اور آنکھیں برباد کر دے ۔ مطلب یہ ہے کہ جب انہوں نے حق کو جان کر اسے چھوڑ دیا تو اللہ ہر چیز پر قادر ہے یعنی اگر چاہے تو عذاب و سزا دے چاہے تو معاف کر دے ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:76/1) یہاں قدرت کا بیان اس لیے کیا کہ پہلے منافقوں کو اپنے عذاب ، اپنی جبروت سے ڈرایا اور کہہ دیا کہ وہ انہیں گھیر لینے پر قادر ہے اور ان کے کانوں کو بہرا کرنے اور آنکھوں کو اندھا کرنے پر قادر ہے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:361/1) قدیر کے معنی قادر کے ہیں جیسے علیم کے معنی عالم کے ہیں ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ دو مثالیں ایک ہی قسم کے منافقوں کی ہیں او معنی میں و کے ہے جیسے فرمایا آیت «وَلَا تُطِعْ مِنْہُمْ اٰثِمًا اَوْ کَفُوْرًا» ( 76 ۔ الانسان : 24 ) یا لفظ او اختیار کے لیے ہے یعنی خواہ یہ مثال بیان کرو ، خواہ وہ مثال بیان کرو اختیار ہے ۔ قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اور یہاں پر تساوی یعنی برابری کے لیے ہے جیسے عربی زبان کا محاورہ ہے ” جالس الحسن او ابن سیرین “ زمخشری بھی یہی توجیہ کرتے ہیں تو مطلب یہ ہو گا کہ ان دونوں مثالوں میں سے جو مثال چاہو بیان کرو دونوں ان کے مطابق ہیں ۔ میں کہتا ہوں یہ باعتبار منافقوں کی اقسام کے ہے ، ان کے احوال و صفات طرح طرح کے ہیں ۔ جیسے کہ سورۃ برات میں «وَمِنْھُمْ ، وَمِنْھُمْ ، وَمِنْھُمْ» کر کے ان کی بہت سی قسمیں بہت سے افعال اور بہت سے اقوال بیان کئے ہیں ۔ تو یہ دونوں مثالیں دو قسم کے منافقوں کی ہیں جو ان کے احوال اور صفات سے بالکل مشابہ ہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» جیسے کہ سورۃ النور میں دو قسم کے کفار کی مثالیں بیان کیں ۔ ایک کفر کی طرف بلانے والے دوسرے مقلد ۔ فرمایا آیت «وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَعْمَالُہُمْ کَسَرَابٍ بِقِیْعَۃٍ یَّحْسَبُہُ الظَّمْاٰنُ مَاءً حَتَّیٰ إِذَا جَاءَہُ لَمْ یَجِدْہُ شَیْئًا وَوَجَدَ اللہَ عِندَہُ فَوَفَّاہُ حِسَابَہُ وَ اللہُ سَرِیعُ الْحِسَابِ» (24-النور:39) پھر فرمایا آیت «أَوْ کَظُلُمَاتٍ فِی بَحْرٍ لٰجِّیٍّ یَغْشَاہُ مَوْجٌ مِّن فَوْقِہِ مَوْجٌ مِّن فَوْقِہِ سَحَابٌ ظُلُمَاتٌ بَعْضُہَا فَوْقَ بَعْضٍ إِذَا أَخْرَجَ یَدَہُ لَمْ یَکَدْ یَرَاہَا وَمَن لَّمْ یَجْعَلِ اللہُ لَہُ نُورًا فَمَا لَہُ مِن نٰورٍ» ( 24 ۔ النور : 40 ) پس پہلی مثال یعنی ریت کے تودے کی کفر کی طرف بلانے والوں کی ہے جو جہل مرکب میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ دوسری مثال مقلدین کی ہے جو جہل بسیط میں مبتلا ہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» البقرة
20 البقرة
21 تعارف اللہ بزبان اللہ یہاں سے اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی الوہیت کا بیان شروع ہوتا ہے وہی اپنے بندوں کو عدم سے وجود میں لایا ، اسی نے ہر طرح کی ظاہری و باطنی نعمتیں عطا فرمائیں ، اسی نے زمین کو فرش بنایا اور اس میں مضبوط پہاڑوں کی میخیں گاڑ دیں اور آسمان کو چھت بنایا ۔ جیسے کہ دوسری آیت میں آیا کہ آیت «وَجَعَلْنَا السَّمَاءَ سَقْفًا مَّحْفُوْظًا ښ وَّہُمْ عَنْ اٰیٰـتِہَا مُعْرِضُوْنَ» ( 21 ۔ الانبیآء : 32 ) یعنی آسمان کو محفوظ چھت بنایا اس کے باوجود وہ نشانیوں سے منہ موڑ لیتے ہیں ، آسمان سے پانی اتارنے کا مطلب بادل نازل فرمانا ہے ۔ اس وقت جبکہ لوگ اس کے پورے محتاج ہوں ۔ پھر اس پانی سے طرح طرح کے پھل پھول پیدا کرنا ہے جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں اور ان کے جانور بھی ۔ جیسے کہ قرآن مجید میں جگہ جگہ اس کا بیان آیا ہے ۔ ایک جگہ فرمایا ہے آیت «اَللّٰہُ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْاَرْضَ قَرَارًا وَّالسَّمَاءَ بِنَاءً وَّصَوَّرَکُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَکُمْ وَرَزَقَکُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ» ( 40 ۔ غافر : 64 ) اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت بنایا اور تمہیں پیاری پیاری صورتیں عطا فرمائیں اور طرح طرح کی غذائیں پہنچائیں یہی اللہ ہے جو برکتوں والا اور تمام عالم کو پالنے والا ہے پس سب کا خالق ، سب کا رازق ، سب کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے اور اس لیے شرک سے مبرا ہر قسم کی عبادت کا وہی مستحق ہے ۔ اور فرمایا اللہ تعالیٰ کے شریک نہ ٹھہراؤ جبکہ تم جانتے ہو ۔ “ صحیحین میں حدیث ہے “ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ پوچھتے ہیں یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بڑا گناہ کون سا ہے ۔ فرمایا اللہ تعالیٰ کے ساتھ جو تمہارا خالق ہے کسی کو شریک ٹھہرانا ۔ “ (صحیح بخاری:6001:صحیح) سیدنا معاذ رضی اللہ عنہما والی حدیث میں ہے جانتے ہو کہ اللہ کا حق بندوں پر کیا ہے ؟ یہ کہ اسی کی عبادت کریں اور کسی کو اس کی عبادت میں شریک نہ کریں ۔ “ (صحیح بخاری:3856:صحیح) دوسری حدیث میں ہے ” تم میں سے کوئی یہ نہ کہے کہ جو اللہ چاہے اور فلاں چاہے بلکہ یوں کہے جو کچھ اللہ اکیلا چاہے ، پھر جو فلاں چاہے ۔ “ (سنن ابوداود:4980 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) طفیل بن سنجرہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے سوتیلے بھائی فرماتے ہیں میں نے خواب میں چند یہودیوں کو دیکھا اور ان سے پوچھا تم کون ہو ؟ انہوں نے کہا تم بھی اچھے لوگ ہو لیکن افسوس تم کہتے ہو جو اللہ چاہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم چاہیں پھر میں نصرانیوں کی جماعت کے پاس گیا اور ان سے بھی اسی طرح پوچھا انہوں نے بھی یہی جواب دیا ۔ میں نے ان سے کہا افسوس تم بھی مسیح علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا مانتے ہو ۔ انہوں نے بھی یہی جواب دیا میں نے صبح اپنے اس خواب کا ذکر کچھ لوگوں سے کیا پھر دربار نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی یہی خواب بیان کیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا کسی اور سے بھی تم نے اس کا ذکر کیا ہے ؟ میں نے کہا ہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اب آپ کھڑے ہو گئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا طفیل رضی اللہ عنہ نے ایک خواب دیکھا اور تم میں سے بعض کو بیان بھی کیا میں چاہتا تھا کہ تمہیں اس کلمہ کے کہنے سے روک دوں لیکن فلاں فلاں کاموں کی وجہ سے میں اب تک نہ کہہ سکا ۔ یاد رکھو ” اب ہرگز ہرگز اللہ چاہے اور اس کا رسول “ کبھی نہ کہنا بلکہ یوں کہو کہ صرف اللہ تعالیٰ اکیلا جو چاہے ۔ (مسند احمد:72/5:صحیح) ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا جو اللہ تعالیٰ چاہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تو مجھے اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتا ہے یوں کہہ جو اللہ تعالیٰ اکیلا چاہے ۔ (النسائی فی السنن الکبرٰی:10825:حسن) ایسے تمام کلمات توحید کے سراسر خلاف ہیں ۔ توحید باری کی اہمیت کے بارے میں یہ سب احادیث بیان ہوئی ہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» تمام کفار اور منافقوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کا حکم دیا اور فرمایا اللہ کی عبادت کرو یعنی اس کی توحید کے پابند ہو جاؤ ، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو جو نہ نفع دے سکے نہ نقصان پہنچا سکے اور تم جانتے ہو کہ اس کے سوا کوئی رب نہیں جو تمہیں روزی پہنچا سکے اور تم جانتے ہو کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں اس توحید کی طرف بلا رہے ہیں جس کے حق اور سچ ہونے میں کوئی شک نہیں ۔ شرک اس سے بھی زیادہ پوشیدہ ہے جیسے چیونٹی جو رات کے اندھیرے میں کسی صاف پتھر پر چل رہی ہو ، قسم ہے اللہ کی اور قسم ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات کی یہ بھی شرک ہے ، انسان کا یہ کہنا اگر یہ کتیا نہ ہوتی تو چور رات کو ہمارے گھر میں گھس آتے یہ بھی شرک ہے ۔ آدمی کا یہ قول کہ اگر بطخ گھر میں نہ ہوتی تو چوری ہو جاتی یہ بھی شرک کا کلمہ ہے ، کسی کا یہ قول کہ جو اللہ چاہے اور آپ یہ بھی شرک ہے ، کسی کا یہ کہنا کہ اگر اللہ نہ ہوتا اور فلاں نہ ہوتا ۔ یہ سب کلمات شرک ہیں ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا جو اللہ چاہے اور جو آپ چاہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تو مجھے اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتا ہے ؟ دوسری حدیث میں ہے تم اچھے لوگ ہوتے اگر تم شرک نہ کرتے تم کہتے ہو جو اللہ چاہے اور فلاں چاہے ۔ (مسند احمد:394/1) ابو العالیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں «اَنْدَاداً» کے معنی شریک اور برابر کے ہیں ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں تم توراۃ و انجیل پڑھتے ہو اور جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ ایک اور لا شریک ہے ، پھر جانتے ہوئے کیوں اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتے ہو ؟ پانچ احکام مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ عزوجل نے یحییٰ علیہ السلام کو پانچ چیزوں کا حکم دیا کہ ان پر عمل کرو اور بنی اسرائیل کو بھی ان پر عمل کرنے کا حکم دو ، قریب تھا کہ وہ اس میں غفلت کریں تو عیسیٰ علیہ السلام نے انہیں یاد دلایا کہ آپ علیہ السلام کو پروردگار عالم کا حکم تھا کہ ان پانچ چیزوں پر خود کاربند ہو کر دوسروں کو بھی حکم دو ۔ لہٰذا یا تو آپ علیہ السلام کہہ دیجئیے یا میں پہنچا دوں ۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام نے فرمایا مجھے ڈر ہے کہ اگر آپ سبقت لے گئے تو کہیں مجھے عذاب نہ دیا جائے یا زمین میں دھنسا نہ دیا جاؤں پس یحییٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو بیت المقدس کی مسجد میں جمع کیا ، جب مسجد بھر گئی تو آپ علیہ السلام اونچی جگہ پر بیٹھ گئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کر کے کہا اللہ تعالیٰ نے مجھے پانچ باتوں کا حکم کیا ہے کہ خود بھی عمل کروں تم سے بھی ان پر عمل کراؤں ۔ ایک یہ کہ اللہ ایک کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ ، اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص خاص اپنے مال سے کسی غلام کو خریدے اور غلام کام کاج کرے لیکن جو کچھ حاصل ہوا ہے اسے کسی اور کو دیدے ۔ کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کا غلام ایسا ہو ؟ ٹھیک اسی طرح تمہارا پیدا کرنے والا ، تمہیں روزی دینے والا ، تمہارا حقیقی مالک اللہ تعالیٰ وحدہ لا شریک ہے ۔ پس تم اسی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ ۔ دوسری یہ کہ نماز کو ادا کرو اللہ تعالیٰ کی نگاہ بندے کی طرف ہوتی ہے ۔ جب تک کہ وہ نماز میں ادھر ادھر منہ پھیرے جب تم نماز میں ہو تو خبردار ادھر ادھر التفات نہ کرنا ۔ تیسرا حکم یہ ہے کہ روزے رکھا کرو اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص کے پاس مشک کی تھیلی بھری ہوئی ہو جس سے اس کے تمام ساتھیوں کے دماغ معطر رہیں ۔ یاد رکھو روزے دار کے منہ کی خوشبو اللہ تعالیٰ کو مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ پسند ہے ۔ چوتھا حکم یہ ہے کہ صدقہ دیتے رہا کرو ، اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص کو دشمنوں نے قید کر لیا اور گردن کے ساتھ اس کے ہاتھ باندھ دئیے گردن مارنے کے لیے لے جانے لگے تو وہ کہنے لگا کہ تم مجھ سے فدیہ لے اور مجھے چھوڑ دو چنانچہ جو کچھ تھا کم زیادہ دے کر اپنی جان چھڑا لی ۔ پانچواں اس کا حکم یہ ہے کہ بکثرت اس کے نام کا ذکر کیا کرو اس کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس کے پیچھے تیزی کے ساتھ دشمن دوڑتا آتا ہے اور وہ ایک مضبوط قلعہ میں گھس جاتا ہے اور وہاں امن و امان پا لیتا ہے اسی طرح بندہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کے وقت شیطان سے بچا ہوا ہوتا ہے یہ فرما کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب میں بھی تمہیں پانچ باتوں کا حکم کرتا ہوں جن کا حکم جناب باری نے مجھے دیا ہے مسلمانوں کی جماعت کو لازم پکڑے رہنا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمان حاکم وقت کے احکام سننا اور جاننا ہجرت کرنا اور جہاد کرنا جو شخص جماعت سے ایک بالشت بھر نکل جائے گویا وہ اسلام کے پٹے کو اپنے گلے سے اتار پھینکے گا ہاں یہ اور بات ہے کہ رجوع کر لے جو شخص جاہلیت کی پکار پکارے وہ جہنم کا کوڑا کرکٹ ہے ، لوگوں نے کہا یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم اگرچہ وہ روزے دار اور نمازی ہو فرمایا اگرچہ نماز پڑھتا ہو اور روزے بھی رکھتا ہو اور اپنے آپ کو مسلمان سمجھتا ہو ۔ مسلمانوں کو ان کے ان ناموں کے ساتھ پکارتے رہو جو خود اللہ تبارک و تعالیٰ نے رکھے ہیں مسلمین مومنین اور عباد اللہ ۔ (مسند احمد:123/4-202:صحیح) یہ حدیث حسن ہے اس آیت میں بھی یہی بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی نے تمہیں پیدا کیا ہے وہی تمہیں روزی دیتا ہے پس عبادت بھی اسی کی کرو ۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو ۔ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ عبادت میں توحید باری تعالیٰ کا پورا خیال رکھنا چاہیئے کسی اور کی عبادت نہ کرنی چاہیئے ہر ایک عبادت کے لائق صرف وہی ہے ۔ اثبات وجود الہ العلمین امام رازی رحمہ اللہ وغیرہ نے اللہ تعالیٰ کے وجود پر بھی اس آیت سے استدلال کیا ہے ۔ اور فی الواقع یہ آیت «أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللہَ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجْنَا بِہِ ثَمَرَاتٍ مٰخْتَلِفًا أَلْوَانُہَا وَمِنَ الْجِبَالِ جُدَدٌ بِیضٌ وَحُمْرٌ مٰخْتَلِفٌ أَلْوَانُہَا وَغَرَابِیبُ سُودٌ وَمِنَ النَّاسِ وَالدَّوَابِّ وَالْأَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ أَلْوَانُہُ کَذٰلِکَ إِنَّمَا یَخْشَی اللہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَاءُ إِنَّ اللہَ عَزِیزٌ غَفُورٌ» ( 35-فاطر : 27 ، 28 ) اللہ تعالیٰ کے وجود پر بہت بڑی دلیل ہے زمین اور آسمان کی مختلف شکل و صورت مختلف رنگ مختلف مزاج اور مختلف نفع کی موجودات ان میں سے ہر ایک کا نفع بخش ہونا اور خاص حکمت کا حامل ہونا ان کے خالق کے وجود کا اور اس کی عظیم الشان قدرت ، حکمت ، زبردست سطوت اور سلطنت کا ثبوت ہے کسی بدوی سے پوچھا گیا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی موجودگی کی کیا دلیل ہے ؟ تو اس نے کہا دعا «یا سبحان اللہ ان البعر لیدل علی البعیر ۔ وان اثر الا قدام لیدل علی المسیر ۔ فسماء ذات ابراج وارض ذات فجاج ۔ وبحار ذات امواج الا یدل ذالک علی وجود اللطیف الخبیر ۔ » یعنی مینگنی سے اونٹ معلوم ہو سکے اور پاؤں کے نشان زمین پر دیکھ کر معلوم ہو جائے کہ کوئی آدمی گیا ہے تو کیا یہ برجوں والا آسمان یہ راستوں والی زمین یہ موجیں مارنے والے سمندر اللہ تعالیٰ باریک بین اور باخبر کے وجود پر دلیل نہیں ہو سکتے ؟(تفسیر الفخر الرازی «المعروف بمفاتیح الغیب» :91/2) امام مالک رحمہ اللہ سے ہارون رشید نے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کے وجود پر کیا دلیل ہے آپ رحمہ اللہ نے فرمایا زبانوں کا مختلف ہونا ، آوازوں کا جداگانہ ہونا ، نغموں کا الگ ہونا ، ثابت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہے ۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے بھی یہی سوال ہوتا ہے تو آپ رحمہ اللہ جواب دیتے ہیں کہ چھوڑو میں کسی اور سوچ میں ہوں ۔ لوگوں نے مجھ سے کہا ہے کہ ایک بہت بڑی کشتی جس میں طرح طرح کی تجارتی چیزیں ہیں نہ کوئی اس کا نگہبان ہے نہ چلانے والا ہے باوجود اس کے وہ برابر آ جا رہی ہے اور بڑی بڑی موجوں کو خودبخود چیرتی پھاڑتی گزر جاتی ہے ٹھہرنے کی جگہ پر ٹھہر جاتی ہے چلنے کی جگہ چلتی رہتی ہے نہ اس کا کوئی ملاح ہے نہ منتظم ۔ سوال کرنے والے دہریوں نے کہا آپ کس سوچ میں پڑ گئے کوئی عقلمند ایسی بات کہہ سکتا ہے کہ اتنی بڑی کشتی اتنے بڑے نظام کے ساتھ تلاطم والے سمندر میں آئے جائے اور کوئی اس کا چلانے والا نہ ہو آپ رحمہ اللہ نے فرمایا افسوس تمہاری عقلوں پر ایک کشتی تو بغیر چلانے والے کے نہ چل سکے لیکن یہ ساری دنیا آسمان و زمین کی سب چیزیں ٹھیک اپنے کام پر لگی رہیں اور ان کا مالک حاکم خالق کوئی نہ ہو ؟ یہ جواب سن کر وہ لوگ ہکا بکا ہو گئے اور حق معلوم کر کے مسلمان ہو گئے ۔ امام شافعی رحمہ اللہ سے بھی یہی سوال ہوا تو آپ رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ توت کے پتے ایک ہی ہیں ایک ہی ذائقہ کے ہیں کیڑے اور شہد کی مکھی اور گائیں بکریاں ہرن وغیرہ سب اس کو چباتے کھاتے اور چرتے چگتے ہیں اسی کو کھا کر ریشم کا کیڑا ریشم تیار کرتا ہے مکھی شہد بناتی ہے ، ہرن میں مشک پیدا ہوتا ہے اور گائیں بکریاں مینگنیاں دیتی ہیں ۔ کیا یہ اس امر کی صاف دلیل نہیں کہ ایک پتے میں یہ مختلف خواص پیدا کرنے والا کوئی ہے ؟ اور اسی کو ہم اللہ تبارک و تعالیٰ مانتے ہیں وہی موجد اور صانع ہے ۔ حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے بھی ایک مرتبہ وجود باری تعالیٰ پر دلیل طلب کی گئی تو آپ رحمہ اللہ نے فرمایا ۔ سنو یہاں ایک نہایت مضبوط قلعہ ہے جس میں کوئی دروازہ نہیں نہ کوئی راستہ ہے بلکہ سوراخ تک نہیں باہر سے چاندی کی طرح چمک رہا ہے اور اندر سے سونے کی طرح دمک رہا ہے اوپر نیچے دائیں بائیں چاروں طرف سے بالکل بند ہے ہوا تک اس میں نہیں جا سکتی اچانک اس کی ایک دیوار گرتی ہے اور ایک جاندار آنکھوں کانوں والا خوبصورت شکل اور پیاری بولی والا چلتا پھرتا نکل آتا ہے ۔ بتاؤ اس بند اور محفوظ مکان میں اسے پیدا کرنے والا کوئی ہے یا نہیں ؟ اور وہ ہستی انسانی ہستیوں سے بالاتر اور اس کی قدرت غیر محدود ہے یا نہیں ؟ آپ کا مطلب یہ تھا کہ انڈے کو دیکھو چاروں طرف سے بند ہے پھر اس میں پروردگار خالق یکتا جاندار بچہ پیدا کر دیتا ہے ۔ یہی دلیل ہے اللہ کے وجود پر اور اس کی توحید پر ۔ حضرت ابو نواس رحمہ اللہ سے جب یہ مسئلہ پوچھا گیا تو آپ رحمہ اللہ نے فرمایا آسمان سے بارش برسنا ، اس سے درختوں کا پیدا ہونا اور ان ہری ہری شاخوں پر خوش ذائقہ میووں کا لگنا ہی اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی وحدانیت کی کافی دلیل ہے ابن المعتز رحمہ اللہ فرماتے ہیں افسوس اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور اس کی تکذیب پر لوگ کیسے دلیر ہو جاتے ہیں حالانکہ ہر چیز اس پروردگار کی موجود اور لاشریک ہونے پر گواہ ہے ۔ بزرگوں کا مقولہ ہے کہ آسمانوں کو دیکھو ان کی بلندی ان کی وسعت ، ان کے چھوٹے بڑے چمکیلے اور روشن ستاروں پر نظریں ڈالو ۔ ان کے چمکنے دمکنے ان کے چلنے پھرنے ، ٹھہر جانے ، ظاہر ہونے اور چھپ جانے کا مطالعہ کرو ۔ سمندروں کو دیکھو ، جو موجیں مارتے ہوئے زمین کو گھیرے ہوئے ہیں ۔ اونچے نیچے مضبوط پہاڑوں کو دیکھو جو زمین میں گڑے ہوئے ہیں اور اسے ہلنے نہیں دیتے ، جن کے رنگ ، جن کی صورتیں مختلف ہیں ۔ قسم قسم کی دوسری مخلوقات پر نظر ڈالو ، ادھر سے ادھر پھر جانے والی کھیتیوں اور باغوں کو شاداب کرنے والی خوشنما نہروں کو دیکھو ۔ کھیتوں ، باغوں کی سبزیوں٠ اور ان کے طرح طرح کے پھل پھول مزے مزے کے میووں پر غور کرو زمین ایک پانی ایک ، لیکن شکلیں صورتیں ، خوشبوئیں ، رنگ ذائقہ ، فائدہ الگ الگ ۔ کیا یہ تمام مصنوعات تمہیں نہیں بتاتیں کہ ان کا صانع کوئی ہے ؟ کیا یہ تمام موجودات با آواز بلند نہیں کہہ رہیں کہ ان کا موجد کوئی ہے ؟ کیا یہ ساری مخلوق اپنے خالق کی ہستی اس کی ذات اور اس کی توحید پر دلالت نہیں کرتی ۔ یہ ہیں وہ زور دار دلائل جو اللہ جل و علا نے اپنی ذات کے منوانے کے لیے ہر نگاہ کے سامنے پیش کر دئیے ہیں جو اس کی زبردست قدرتوں ، اس کی پرزور حکمتوں ، اس کی لاثانی رحمتوں ، اس کے بے نظیر انعاموں ، اس کے لازوال احسانوں پر دلالت کرنے کے لیے کافی وافی ہیں ۔ ہم اقرار کرتے ہیں کہ نہ اس کا کوئی پالنے والا ہے ، نہ اس کے سوا کوئی پیدا کرنے اور حفاظت کرنے والا ، نہ اس کے سوا کوئی معبود برحق نہ اس کے سوا کوئی مسجود لاشک ۔ ہاں دنیا کے لوگو ! سن لو میرا توکل اور بھروسہ اسی پر ہے میری انابت اور التجا اسی کی طرف ہے ، میرا جھکنا اور پست ہونا اسی کے سامنے ہے ، میری تمناؤں کا مرکز ، میری امیدوں کا آسرا ، میرا ماویٰ ، ملجا وہی ایک ہے اس کے دست رحمت کو تکتا ہوں اور اسی کا نام جپتا ہوں ۔ البقرة
22 البقرة
23 تصدیق نبوت اعجاز قرآن توحید کے بعد اب نبوت کی تصدیق کی جا رہی ہے کفار مکہ کو خطاب کر کے فرمایا جا رہا ہے کہ ہم نے جو قرآن پاک اپنے بندے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اتارا ہے اسے اگر تم ہمارا کلام نہیں مانتے تو تم اور تمہارے مددگار سب مل کر پورا قرآن نہیں صرف ایک سورت تو اس جیسی بنا لاؤ ۔ جب تم ایسا نہیں کر سکتے اور اس سے عاجز ہو تو پھر اس قرآن کے کلام اللہ ہونے میں کیوں شک کرتے ہو ؟ «شُھَدَاءَ» سے مراد مددگار اور شریک ہیں ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:376/1) جو ان کی مدد اور موافقت کیا کرتے تھے ، مطلب یہ ہے کہ جنہیں تم اپنا معبود بنا رکھا ہے انہیں بھی بلا لو اور اان سے بھی مدد چاہو پھر اس جیسی ایک سورت ہی تو بنا لاؤ ۔ حضرت مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ تم اپنے حاکموں اور اپنے زبان دانوں فصیح و بلیغ لوگوں سے بھی مدد لے لو ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:85/1) قرآن پاک کے اس معجزے کا اظہار اور ایسا انداز خطاب کئی جگہ ہے سورۃ قص میں ہے آیت «قُلْ فَاْتُوْا بِکِتٰبٍ مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ ہُوَ اَہْدٰی مِنْہُمَآ اَتَّبِعْہُ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ» ( 28 ۔ القصص : 49 ) یعنی اگر تم سچے ہو تو ان دونوں سے ( یعنی توریت و قرآن سے ) زیادہ ہدایت والی کوئی اور اللہ کی کتاب لاؤ تو میں بھی اس کی تابعداری کروں گا ۔ سورۃ بنی اسرائیل میں فرمایا آیت «قُلْ لَّیِٕنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنٰ عَلٰٓی اَنْ یَّاْتُوْا بِمِثْلِ ہٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا یَاْتُوْنَ بِمِثْلِہٖ وَلَوْ کَانَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ ظَہِیْرًا» ( 17 ۔ الاسراء : 88 ) یعنی اگر تمام جنات اور انسان جمع ہو کر اور ہر ایک دوسرے کی مدد کے ساتھ یہ چاہیں کہ اس جیسا قرآن بنائیں تو بھی ان کے امکان میں نہیں سورۃ ہود میں فرمایا آیت «اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰیہُ قُلْ فَاْتُوْا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِہٖ مُفْتَرَیٰتٍ وَّادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ» (11-ہود:13) یعنی کیا یہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ قرآن کو خود اس پیغمبر نے گھڑ لیا تم کہو کہ اگر تم سچے ہو تو تم سب مل کر اور اللہ کے سوا جنہیں تم بلا سکتے ہو بلا کر اس جیسی دس سورتیں ہی بنا لاؤ ۔ سورۃ یونس میں ہے آیت «وَمَا کَانَ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ اَنْ یٰفْتَرٰی مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَلٰکِنْ تَصْدِیْقَ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْہِ وَتَفْصِیْلَ الْکِتٰبِ لَا رَیْبَ فِیْہِ مِنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ أَمْ یَقُولُونَ افْتَرَاہُ قُلْ فَأْتُوا بِسُورَۃٍ مِّثْلِہِ وَادْعُوا مَنِ اسْتَطَعْتُم مِّن دُونِ اللہِ إِن کُنتُمْ صَادِقِینَ» ( 10 ۔ یونس : 38 ، 37 ) یعنی یہ قرآن اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی کی طرف سے گھڑا ہوا نہیں بلکہ یہ اگلی کتابوں کی تصدیق کرنے والا اور کتاب تفصیل ہے جس کے اللہ کا کلام ہونے میں کوئی شک نہیں جو رب العالمین کی طرف سے ہے کیا یہ لوگ اسے خود ساختہ کہتے ہیں ان سے کہو کہ اللہ کے سوا ہر شخص کو بلا کر اس قرآن کی سینکڑوں سورتوں میں سے ایک چھوٹی سی سورت جیسی سورت تو بنا لاؤ تاکہ تمہارا سچ ظاہر ہو ۔ یہ تمام آیتیں مکہ مکرمہ میں نازل ہوئیں اور اہل مکہ کو اس کے مقابلہ میں عاجز ثابت کر کے پھر مدینہ شریف میں بھی اس مضمون کو دہرایا گیا اوپر کی آیت «َمْثِلہِ» کی ضمیر کو بعض نے قرآن کی طرف لوٹایا ہے یعنی کوئی سورت اس قرآن جیسی لاؤ ۔ بعض نے یہ ضمیر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹائی ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا کوئی امی ایسا ہو ہی نہیں سکتا ہے کہ کچھ پڑھا ہوا نہ ہونے کے باوجود وہ کلام کہے جس کا مثل کسی سے نہ بن سکے لیکن صحیح قول پہلا ہی ہے ۔ مجاہد ، قتادہ رحمہ اللہ علیہما ، سیدنا عمرو بن مسعود ابن عباس رضی اللہ عنہما ، حسن بصری رحمہ اللہ اور اکثر محققین کا یہی قول ہے امام ابن جریر ، طبری ، زمحشری ، رازی رحمہ اللہ علیہم نے بھی اسی کو پسند کیا ہے اس کی ترجیح کی وجوہات بہت سی ہیں ۔ ایک تو یہ کہ اس میں سب کو ڈانٹ ڈپٹ بھی ہے اجتماعی اور الگ الگ بھی ۔ خواہ وہ امی اور ان پڑھ ہوں یا اہل کتاب اور پڑھے لکھے ہوں اس میں اس معجزے کا کمال ہے اور بہ نسبت اس کے کہ صرف ان پڑھ لوگوں کو عاجز کیا جائے اس میں زیادہ مبالغہ ہے پھر دس سورتوں کا مطالبہ کرنا اس کی مثل نہ لا سکنے کی پیشنگوئی کرنا بھی اسی حقیقت کو ثابت کرتا ہے کہ اس سے مراد قرآن ہے نہ کہ ذات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پس اس عام اعلان سے جو باربار کیا گیا اور ساتھ ہی پیشنگوئی بھی کر دی گئی کہ یہ لوگ اس پر قادر نہیں ۔ مکہ میں اور مدینہ میں بار ہا اس کا اعادہ کیا گیا اور وہ لوگ جن کی مادری زبان عربی تھی جنہیں اپنی فصاحت اور بلاغت پر ناز تھا جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی دشمنی پر ادھار کھا بیٹھے تھے وہ درحقیقت اس سے عاجز آ گئے نہ پورے قرآن کا جواب دے سکے نہ دس سورتوں کا ، نہ ایک سورت کا ۔ پس ایک معجزہ تو یہ ہے کہ اس جیسی ایک چھوٹی سی سورت بھی وہ نہ بنا سکے دوسرا معجزہ یہ ہے کہ پیشنگوئی سچ ثابت ہوئی کہ یہ ہرگز اس جیسا نہیں بنا سکتے چاہے سب جمع ہو جائیں اور قیامت تک محنت کر لیں ۔ پس ایسا ہی ہوا نہ تو اس زمانہ میں کسی کی یہ جرات ہوئی نہ اس کے بعد سے آج تک اور نہ قیامت تک کسی سے یہ ہو سکے گا اور بھلا کیسے ہو سکتا ؟ جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات بے مثل اسی طرح اس کا کلام بھی ۔ حقیقت بھی یہ ہے کہ قرآن پاک کو بیک نظر دیکھنے سے ہی اس کے ظاہری اور باطنی لفظی اور معنوی ایسے ایسے کمالات ظاہر ہوتے ہیں جو مخلوق کے بس کے نہیں خود رب العالمین فرماتا ہے آیت «الرٰ کِتٰبٌ اُحْکِمَتْ اٰیٰتُہٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَکِیْمٍ خَبِیْرٍ» (11-ہود:1) یعنی اس کتاب کی آیتیں جو حکمت والے ہر طرح کی خبریں جاننے والے اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے محکم مضبوط اور مفصل الگ الگ ہیں ۔ پس الفاظ محکم اور معانی مفصل یا الفاظ مفصل اور معانی محکم پس قرآن اپنے الفاظ میں اور اپنے مضامین میں بے نظیر ہے جس کے مقابلے ، معارضے اور مثل سے دنیا عاجز اور بے بس ہے ۔ اس پاک کلام میں اگلی خبریں جو دنیا سے پوشیدہ تھیں وہ ہو بہو بیان کی گئیں آنے والے امور کے تذکرے کئے گئے جو لفظ بہ لفظ پورے اترے ۔ تمام بھلائیوں کا حکم تمام برائیوں سے ممانعت اس میں ہے ۔ سچ ہے آیت «وَتَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ صِدْقًا وَّعَدْلًا» ( 6 ۔ الانعام : 115 ) یعنی خبروں میں صداقت اور احکام میں عدل تیرے رب کے کلام میں پورا پورا ہے ۔ پاکیزہ قرآن تمام تر حق و صداقت و ہدایت سے پر ہے نہ اس میں واہی تواہی باتیں ہیں نہ ہنسی مذاق نہ کذب و افترا جو شاعروں کے کلام میں عموماً پایا جاتا ہے بلکہ ان کے اشعار کی قدر و قیمت ہی اس پر ہے مقولہ مشہور ہے کہ «اعذبہ اکذبہ» جوں جھوٹ زیادہ اتنا ہی مزید ۔ سر تم دیکھو گے کہ لمبے لمبے پر زور قصیدے مبالغہ اور کذب آمیز یا تو عورتوں کی تعریف و توصیف میں ہوں گے یا گھوڑوں کی اور شراب کی ستائش میں ہوں گے یا کسی انسان کی بڑھی چڑھی مدح و تعریف میں ہوں گے یا اونٹنیوں کی آرائش و زیبائش یا بہادری کے مبالغہ آمیز گیت یا لڑائیوں کی چالبازیوں یا ڈر خوف کے خیالی منظروں کے بیان میں ہوں گے جن سے کوئی فائدہ نہیں ۔ نہ دین کا نہ دنیا کا صرف شاعر کی زبان دانی اور اس کی قدرت کلام ظاہر ہوتی ہے ۔ نہ اخلاق پر ان سے کوئی عمدہ اثر نہ اعمال پر ۔ پھر نفس مضمون کے ساتھ پورے قصیدے میں بمشکل دو ایک شعر ہوتے ہیں ۔ باقی سب بھرتی کے اور ادھر ادھر کی لایعنی اور فضول بکواس برخلاف اس کے قرآن پاک کے اس پر نظر ڈالو تو دیکھو گے کہ اس کا ایک ایک لفظ فصاحت و بلاغت سے دین و دنیا کے نفع سے ، خیر و برکت سے پر ہے ۔ پھر کلام کی ترتیب و تہذیب الفاظ کی بندش ، عبارت کی روانی ، معانی کی نورانیت ، مضمون کی پاکیزگی ، سونے پر سہاگہ ہے ۔ اس کی خبروں کی حلاوت ، اس کے بیان کردہ واقعات کی سلاست ، مردہ دلوں کی زندگی ہے ۔ اس کا اختصار کمال کا اعلیٰ نمونہ اور اس کی تفصیل معجزے کی جان ہے اس کا کسی چیز کا دہرانا قند مکرر کا مزہ دیتا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے گویا سچے موتیوں کی بارش برس رہی ہے ۔ باربار پڑھو دل نہ اکتائے ، مزے لیتے جاؤ اور ہر وقت نیا مزہ پاؤ ۔ مضامین سمجھتے جاؤ اور ختم نہ ہوں ۔ یہ قرآن پاک کا ہی خاصہ ہے اس چاشنی کا ذائقہ ، اس مٹھاس کا مزہ کوئی اس سے پوچھے جنہیں عقل و حواس علم و فضل کا کچھ حصہ قدرت نے عطا فرمایا ۔ اس کی تنذیر دھمکاوا تعذیب اور پکڑ دھکڑ کا بیان مضبوط پہاڑوں کو ہلا دے ۔ انسانی دل کیا ہیں اس کے وعدے اور خوشخبریاں ، نعمتوں اور رحمتوں کا بیان دلوں کی پژمردہ کلی کو کھلا دینے والا ، شوق و تمنا کے دبے جذبات کو ابھار دینے والا جنتوں اور راحتوں کے پیارے پیارے مناظر کو آنکھوں کے سامنے لانے والا ہے ۔ دل کِھل جاتے ہیں کان لگ جاتے ہیں اور آنکھیں کھُل جاتی ہیں ۔ رغبت دیتے ہوئے وہ فرماتا ہے آیت «فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِیَ لَہُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ جَزَاءً بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ» ( 22 ۔ السجدہ : 17 ) کوئی کیا جانے کہ اس کے نیک اعمال کے بدلے اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک کا کیا کیا سامان چپکے چپکے تیا کیا جا رہا ہے ۔ فرماتا ہے : «وَفِیہَا مَا تَشْتَہِیہِ الْأَنفُسُ وَتَلَذٰ الْأَعْیُنُ» (43-الزخرف:71) الخ اس دائمی جنت میں ہر وہ چیز ہے جو دل کو بھائے اور آنکھوں میں اتر جائے ۔ ڈراتے اور دھمکاتے ہوئے فرمایا آیت «اَفَاَمِنْتُمْ اَنْ یَّخْسِفَ بِکُمْ جَانِبَ الْبَرِّ» ( 17 ۔ الاسرآء : 68 ) فرمایا «ءَاَمِنْتُمْ مَّنْ فِی السَّمَاءِ اَنْ یَّخْسِفَ بِکُمُ الْاَرْضَ فَاِذَا ہِیَ تَمُوْرُ اَمْ اَمِنْتُمْ مَّنْ فِی السَّمَاءِ اَنْ یٰرْسِلَ عَلَیْکُمْ حَاصِبًا فَسَتَعْلَمُوْنَ کَیْفَ نَذِیْرِ» ( 67 ۔ الملک : 17-16 ) کیا تم اپنے دھنسائے جانے یا آسمان سے پتھر برسائے جانے سے نڈر ہو گئے ہو ؟ کیا آسمانوں والا اس پر قادر نہیں ؟ اسے محض دھمکی ہی نہ سمجھو بلکہ اس کی حقیقت عنقریب تم پر کھل جائے گی ۔ زجر و تو بیخ ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے ۔ آیت «فَکُلًّا اَخَذْنَا بِذَنْبِہٖ» ( 29 ۔ العنکبوت : 40 ) ایک ایک کو ہم نے اس کی بدکرداریوں میں پکڑ لیا ۔ بطور وعظ و نصیحت بیان ہوتا ہے آیت «أَفَرَأَیْتَ إِن مَّتَّعْنَاہُمْ سِنِینَ ثُمَّ جَاءَہُم مَّا کَانُوا یُوعَدُونَ مَا أَغْنَیٰ عَنْہُم مَّا کَانُوا یُمَتَّعُونَ» ( 26 ۔ الشعرآء : 207-205 ) اگر ہم نے کچھ سال انہیں فائدہ نہیں دیا تو کیا ہوا ؟ آخر وعدے کی گھڑی آ پہنچی اور اس جاہ و جلال نے کوئی نفع نہ بخشا ۔ غرض کوئی کہاں تک بیان کرے جس مضمون کا ذکر کیا ۔ اسے کمال تک پہنچا کر چھوڑا اور طرح طرح کی فصاحت و بلاغت ، حلاوت و حکمت سے معمور کر دیا احکام کے حکم اور روک ٹوک کو دیکھئیے ہر حکم اچھائی بھلائی نفع اور پاکیزگی کا جامع ہے ۔ ہر ممانعت قباحت رذالت اور خباثت کی قاطع ہے ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہا وغیرہ اسلاف امت کا قول ہے کہ جب قرآن میں آیت «یا أَیٰہَا الَّذینَ آمَنُوا» آئے تو کان لگا دو یا تو کسی اچھائی کا حکم ہو گا یا کسی برائی سے منع کیا جائے گا خود پروردگار عالم فرماتا ہے آیت «یَاْمُرُہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہٰیہُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُحِلٰ لَہُمُ الطَّیِّبٰتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْہِمُ الْخَـبٰیِٕثَ وَیَضَعُ عَنْہُمْ اِصْرَہُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْہِمْ» (7-الأعراف:157) یعنی بھلائیوں کا حکم دیتا ہے برائیوں سے روکتا ہے پاکیزہ چیزیں حلال قرار دیتا ہے خبیث چیزیں حرام کرتا ہے وہ بوجھل بیڑیاں جو پاؤں میں تھیں وہ سخت طوق جو گلوں میں تھے اتار پھینکتا ہے قیامت کے بیان کی آیتیں ہیں کہ ہولناک مناظر جنت و دوزخ کا بیان رحمتوں اور زحمتوں کا پورا پورا وصف ۔ اولیاء اللہ کے لیے طرح طرح کی نعمتیں ۔ دشمنان اللہ کے لیے طرح طرح کے عذاب ۔ کہیں بشارت ہے کہیں ڈراوا ہے کہیں نیکیوں کی طرف رغبت ہے ۔ کہیں بدکاریوں سے ممانعت ہے ۔ کہیں دنیا کی طرف سے زہد کرنے کی ، کہیں آخرت کی طرف رغبت کرنے کی تعلیم ہے ۔ یہی وہ تمام آیتیں ہیں جو راہ راست دکھاتی ہیں اور بہتر رہنمائی کرتی ہیں اللہ کی پسندیدہ شریعت کی طرف جھکاتی ہیں اور دلوں کو جلا دیتی ہیں اور شیطانی دروازوں کو بند کر دیتی ہے اور برے اثرات کو زائل کرتی ہیں ۔ صحیح بخاری مسلم میں بروایت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر نبی کو ایسے معجزے دئیے گئے کہ جنہیں دیکھ کر لوگ اس پر ایمان لائے اور میرا معجزہ اللہ کی وحی یعنی قرآن پاک ہے اس لیے مجھے امید ہے کہ میرے تابعدار بہ نسبت اور نبیوں کے بہت زیادہ ہوں گے ۔ (صحیح بخاری:4981:صحیح) اس لیے کہ اور انبیاء علیہم السلام کے معجزے ان کے ساتھ چلے گئے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معجزہ قیامت تک باقی رہے گا ۔ لوگ اسے دیکھتے جائیں گے اور اسلام میں داخل ہوتے جائیں گے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ میرا معجزہ وحی ہے جو مجھ کو دی گئی ہے کا مطلب یہ ہے کہ مجھ کو اس کے ساتھ مخصوص کیا گیا ہے اور قرآن کریم مجھی کو ملا ہے جو اپنے معارضے اور مقابلے میں تمام دنیا کو عاجز کر دینے والا ہے ۔ بخلاف دوسری آسمانی کتابوں کے وہ اکثر علماء کے نزدیک اس وصف سے خالی ہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اور دین اسلام کی حقانیت پر اس معجزے کے علاوہ بھی اس قدر دلائل ہیں جو گنے بھی نہیں جا سکتے ۔ للہ الحمد والمنتہ ۔ بعض متکلمین نے قرآن کریم کے اعجاز کو ایسے انداز سے بیان کیا ہے جو اہل سنت کے اور معتزلہ کے قول پر مشترک ہے وہ کہتے ہیں کہ یا تو یہ قرآن فی نفسہ معجزہ ہے جو انسان کے امکان میں ہی نہیں کہ اس جیسا بنا لا سکے انہیں اس کا معارضہ کرنے کی قدرت و طاقت ہی نہیں ۔ یا یہ کہ گو اس کا معارضہ ممکن ہے اور انسانی طاقت سے باہر نہیں لیکن باوجود اس کے انہیں معارضہ کا چیلنج دیا جاتا ہے اس لیے کہ وہ عداوت اور دشمنی میں بڑھے ہوئے ہیں دین حق کو مٹانے ، ہر وقت ہر طاقت کے خرچ کرنے اور ہر چیز کے برباد کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن تاہم قرآن کا معارضہ اور مقابلہ ان سے نہیں ہو سکتا ۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن اللہ کی جانب سے ہے اگر قدرت و طاقت ہو بھی تو بھی وہ انہیں روک دیتا ہے اور وہ قرآن کی مثل پیش کرنے سے عاجز ہو جاتے ہیں ۔ گو یہ پچھلی وجہ اتنی پسندیدہ نہیں تاہم اگر اسے بھی مان لیا جائے تو اس سے بھی قرآن پاک کا معجزہ ہونا ثابت ہوئے جو بطریق تنزل حمایت حق اور مناظرے کی خاطر صلاحیت رکھتا ہے ۔ امام رازی رحمہ اللہ نے بھی چھوٹی چھوٹی سورتوں کے سوال کے جواب میں یہی طریقہ اختیار کیا ہے ۔ جہنم کا ایندھن وقود کے معنی ایندھن کے ہیں جس سے آگ جلائی جائے ۔ جیسے چپٹیاں لکڑیاں وغیرہ قرآن کریم میں ایک جگہ ہے آیت «وَأَمَّا الْقَاسِطُونَ فَکَانُوا لِجَہَنَّمَ حَطَبًا» ( 72 ۔ الجن : 15 ) ظالم لوگ جہنم کی لکڑیاں ہیں اور جگہ فرمایا تم اور تمہارے معبود جو اللہ کے سوا ہیں جہنم کی لکڑیاں ہیں تم سب اس میں وارد ہو گے اگر وہ سچے معبود ہوتے تو وہاں وارد نہ ہوتے دراصل یہ سب کے سب اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں ۔ اور حجارہ کہتے ہیں پتھر کو یہاں مراد گندھک کے سخت سیاہ اور بڑے بڑے اور بدبودار پتھر ہیں جن کی آگ بہت تیز ہوتی ہے اللہ تعالیٰ ہمیں محفوظ رکھے ۔ (آمین) سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ان پتھروں کو زمین و آسمان کی پیدائش کے ساتھ ہی آسمان اول پر پیدا کیا گیا ہے ۔ ( ابن جریر ابن ابی حاتم مستدرک حاکم ) سیدنا ابن عباس ، سیدنا ابن مسعود اور چند اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے سدی رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے کہ جہنم میں یہ سیاہ گندھک کے پتھر بھی ہیں جن کی سخت آگ سے کافروں کو عذاب کیا جائے گا ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ان پتھروں کی بدبو مردار کی بو سے بھی زیادہ ہے محمد بن علی اور ابن جریج رحمہ اللہ بھی کہتے ہیں کہ مراد گندھک کے بڑے بڑے اور سخت پتھر ہیں ۔ بعض نے کہا ہے مراد وہ پتھر جن کی مورتیاں بنائی جاتی ہیں اور پھر ان کی پرستش کی جاتی تھی جیسے اور جگہ ہے آیت «اِنَّکُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ حَصَبُ جَہَنَّمَ اَنْتُمْ لَہَا وٰرِدُوْنَ» ( 21 ۔ الانبیآء : 98 ) تم اور تمہارے وہ معبود جو اللہ کے سوا ہیں جہنم کی لکڑیاں ہیں ، قرطبی اور رازی رحمہ اللہ نے اسی قول کو ترجیح دی ہے اور کہا ہے کہ گندھک کے پتھر جو کسی شکل میں بھی اللہ کے سوا پوجے جاتے ہوں لیکن یہ وجہ کوئی قوی وجہ نہیں اس لیے کہ جب آگ گندھک کے پتھروں سے سلگائی جائے تو ظاہر ہے کہ اس کی تیزی اور حرارت معمولی آگ سے بہت زیادہ ہو گی اس کا بھڑکنا جلنا سوزش اور شعلے بھی بہت زیادہ ہوں گے علاوہ اس کے پھر سلف سے بھی اس کی تفسیر یہی مروی ہے اسی طرح ان پتھروں میں آگ کا لگنا بھی ظاہر ہے ۔ اور آیت کا مقصود آگ کی اور اس کی سوزش کا بیان کرنا ہے اور اس کے بیان کے لیے بھی یہاں پتھر سے مراد گندھک کے پتھر لینا زیادہ مناسب ہے تاکہ وہ آگ تیز ہو اور اس سے بھی عذاب میں سختی ہو قرآن کریم میں ہے آیت «کُلَّمَا خَبَتْ زِدْنٰہُمْ سَعِیْرًا» ( 17 ۔ الاسرآء : 97 ) جہاں شعلے ہلکے ہوئے کہ ہم نے اور بھڑکا دیا ۔ ایک حدیث میں ہے ہر موذی آگ میں ہے لیکن یہ حدیث محفوظ اور معروف نہیں ۔ قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس کے دو معنی ہیں ایک یہ کہ ہر وہ شخص جو دوسروں کو ایذاء دے جہنمی ہے دوسرے یہ کہ ہر ایذاء دہندہ چیز جہنم کی آگ میں موجود ہو گی جو جہنمیوں کو عذاب دے گی ۔ اعدت یعنی تیار کی گئی ہے مراد بظاہر یہی معلوم ہوتی ہے کہ وہ آگ کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مراد پتھر ہوں یعنی وہ پتھر جو کافروں کے لیے تیار کئے گئے ہیں ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما کا یہی قول ہے اور فی الحقیقت دونوں معنی میں کوئی اختلاف نہیں اس لیے کہ پتھروں کا تیار کیا جانا آگ کے جلانے کے لیے ہے ۔ لہٰذا آگ کی تیاری کے لیے پتھروں کا تیار کیا جانا ضروری ہے ۔ پس دونوں ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ہر وہ شخص جو کفر پر ہو اس کے لیے وہ آگ تیار ہے ۔(تفسیر ابن جریر الطبری:383/1) اس آیت سے استدلال کیا گیا ہے کہ جہنم اب موجود اور پیدا شدہ ہے کیونکہ ”اعدت“ کا لفظ ہی اس کی دلیل میں آیا ہے بہت سی حدیثیں بھی ہیں ۔ ایک مطول حدیث میں ہے جنت اور دوزخ میں جھگڑا ہوا ، (صحیح بخاری:4850:صحیح) دوسری حدیث میں ہے جہنم نے اللہ تعالیٰ سے دو سانس لینے کی اجازت چاہی اور اسے سردی میں ایک سانس لینے اور گرمی میں دوسرا سانس لینے کی اجازت دے دی گئی ۔ (صحیح بخاری:537) تیسری حدیث میں ہے صحابہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں ہم نے ایک مرتبہ بڑے زور کی ایک آواز سنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یہ کس چیز کی آواز ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ستر سال پہلے ایک پتھر جہنم میں پھینکا گیا تھا آج وہ تہہ کو پہنچا ۔ (صحیح مسلم:2844) چوتھی حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج گرہن کی نماز پڑھتے ہوئے جہنم کو دیکھا ۔ (صحیح بخاری:1052) پانچویں حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شب معراج میں جہنم کو اس میں عذابوں کے سلسلے کو ملاحظہ فرمایا اسی طرح اور بہت سی صحیح متواتر حدیثیں مروی ہیں معتزلہ اپنی جہالت کی وجہ سے انہیں نہیں مانتے قاضی اندلس منذر بن سعید بلوطی نے بھی ان سے اتفاق کیا ہے ۔ مگر یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ یہاں اور سورۃ یونس میں جو کہا گیا ہے کہ ایک ہی سورت کے مانند لاؤ اس میں ہر چھوٹی بڑی آیت شامل ہے اس لیے عربیت کے قاعدے کے مطابق جو اسم نکرہ ہو اور شرط کے طور پر لایا گیا ہو وہ عمومیت کا فائدہ دیتا ہے جیسے کہ نکرہ نفی کی تحت میں استغراق کا فائدہ دیتا ہے پس لمبی سورتوں اور چھوٹی سورتوں سب میں اعجاز ہے اور اس بات پر سلف و خلف کا اتفاق ہے ۔ امام رازی رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اگر کوئی کہے کہ سورت کا لفظ سورۃ الکوثر اور سورۃ العصر اور سورۃ «قُلْ یَا أَیٰہَا الْکَافِرُونَ» جیسی چھوٹی سورتوں پر بھی مشتمل ہے اور یہ بھی یقین ہو کہ اس جیسی یا اس کے قریب قریب کسی سورت کا بنا لینا ممکن ہے تو اسے انسانی طاقت سے خارج کہنا نری ہٹ دھرمی اور بے جا طرف داری ہے تو ہم جواب دیں گے کہ ہم نے اس کے معجزہ نما ہونے کے دو طریقے بیان کر کے دوسرے طریقہ کو اسی لیے پسند کیا ہے ۔ ہم کہتے ہیں کہ اگر یہ چھوٹی سورتیں بھی فصاحت و بلاغت میں اسی پایہ کی ہیں کہ وہ معجزہ کہی جا سکیں اور انکار تعارض ممکن نہ ہو تو مقصود حاصل ہو گیا اور اگر یہ سورتیں ایسی نہیں تو بھی ہمارا مقصود حاصل ہے اس لیے کہ ان جیسی سورتوں کو بنانے کی انسانی قدرت ہونے پر بھی سخت دشمنی اور زبردست کوششوں کے باوجود ناکام رہنا ہے ۔ اس بات کی صاف دلیل ہے کہ یہ قرآن مع اپنی چھوٹی چھوٹی سورتوں کے سراسر معجزہ ہے یہ تو رازی رحمہ اللہ کا کہنا ہے ۔ لیکن صحیح قول یہ ہے کہ قرآن پاک کی ہر بڑی چھوٹی سورت فی الواقع معجزہ ہے اور انسان اس کی مانند بنانے سے محض عاجز اور بالکل بے بس ہے ۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اگر لوگ غورو تدبر سے عقل و ہوش سے سورۃ والعصر کو سمجھ لیں تو انتہائی کافی ہے ۔ سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ جب وفد میں شامل مسیلمہ کذاب کے پاس گئے ( تب یہ خود بھی مسلمان نہیں ہوئے تھے ) تو مسیلمہ نے ان سے پوچھا کہ تم مکہ سے آ رہے ہو بتاؤ تو آج کل کوئی تازہ وحی بھی نازل ہوئی ہے ؟ انہوں نے کہا ابھی ابھی ایک مختصر سی سورت نازل ہوئی ہے جو بے حد فصیح و بلیغ اور جامع اور مانع ہے ۔ پھر سورۃ والعصر پڑھ کر سنائی تو مسلیمہ نے کچھ دیر سوچ کر اس کے مقابلے میں کہا ۔ مجھ پر بھی ایک ایسی ہی سورت نازل ہوئی ہے انہوں نے کہا ہاں تم بھی سناؤ تو اس نے کہا «یاوبریا وبرانما انت اذنان وصدر وسائک حقر فقر» یعنی اے جنگلی چوہے اے جنگلی چوہے تیرا وجود سوائے دو کانوں اور سینے کے اور کچھ بھی نہیں باقی تو سراسر بالکل ناچیز ہے پھر فخریہ کہنے لگا کہو اے عمرو کیسی کہی ؟ انہوں نے کہا مجھ سے کیا پوچھتے ہو تو خود جانتا ہے کہ یہ سراسر کذب و بہتان ہے بھلا کہاں یہ فضول کلام اور کہاں حکمتوں سے بھرپور وہ کلام ؟ البقرة
24 البقرة
25 اعمال وجہ بشارت چونکہ پہلے کافروں اور دشمنان دین کی سزا عذاب اور رسوائی کا ذکر ہوا تھا اس لیے یہاں ایمانداروں اور نیک صالح لوگوں کی جزا ثواب اور سرخروئی کا بیان کیا گیا ہے ۔ قرآن کے مثانی ہونے کے ایک معنی یہ بھی ہیں جو صحیح تر قول بھی ہے کہ اس میں ہر مضمون تقابلی جائزہ کے ساتھ ہوا ہے اس کا مفصل بیان بھی کسی مناسب جگہ آئے گا مطلب یہ ہے کہ ایمان کے ساتھ ہی کفر کا ۔ کفر کے ساتھ ایمان کا ۔ نیکوں کے ساتھ بدوں کا ۔ اور بدوں کے ساتھ نیکوں کا ذکر ضرور آتا ہے جس چیز کا بیان ہوتا ہے اس کے مقابلہ کی چیز کا بھی ذکر کر دیا جاتا ہے چاہے معنی میں متشابہ ہوں ، یہ دونوں لفظ قرآن کے اوصاف میں وارد ہوئے ہیں اسے مثانی بھی کہا گیا ہے اور متشابہ بھی فرمایا گیا ہے ۔ جنتوں میں نہریں بہنا اس کے درختوں اور بالاخانوں کے نیچے بہنا ہے حدیث شریف میں ہے کہ نہریں بہتی ہیں لیکن گڑھا نہیں ، (ابو نعیم فی الحلیۃ:205/6:صحیح موقوفاً ضعیف مرفوعاً) اور حدیث میں ہے کہ نہر کوثر کے دونوں کنارے سچے موتیوں کے قبے ہیں اس کی مٹی مشک خالص ہے اور اس کی کنکریاں لولو اور جواہر ہیں ۔ (صحیح بخاری:6581:صحیح) اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ہمیں بھی یہ نعمتیں عطا فرمائے وہ احسان کرنے والا بڑا رحیم ہے ۔ حدیث میں ہے جنت کی نہریں مشکی پہاڑوں کے نیچے سے جاری ہوتی ہیں ۔ (صحیح ابن حبان:7408:حسن صحیح) سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی یہ مروی ہے جنتیوں کا یہ قول کہ پہلے بھی ہم کو یہ میوے دیے گئے تھے اس سے مراد یہ ہے کہ دنیا میں بھی یہ میوے ہمیں ملے تھے صحابہ رضی اللہ عنہم اور ابن جریر رحمہ اللہ نے بھی اس کی تائید کی ہے بعض کہتے ہیں مطلب یہ ہے کہ ہم اس سے پہلے یعنی سابقہ کل بھی یہی دیے گئے تھے ، یہ اس لیے کہیں گے کہ ظاہری صورت و شکل میں وہ بالکل مشابہ ہوں گے ۔ یحییٰ بن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک پیالہ آئے گا کھائیں گے پھر دوسرا آئے گا تو کہیں گے یہ تو ابھی کھایا ہے فرشتے کہیں گے کھائیے تو اگرچہ صورت شکل میں یکساں ہیں لیکن مزہ اور ہے ۔ فرماتے ہیں جنت کی گھاس زعفران ہے اس کے ٹیلے مشک کے ہیں ۔ چھوٹے چھوٹے خوبصورت غلمان ادھر ادھر سے میوے لا لا کر پیش کر رہے ہیں وہ کھا رہے ہیں وہ پھر پیش کرتے ہیں تو یہ کہتے ہیں اسے تو ابھی کھایا ہے وہ جواب دیتے ہیں رنگ روپ ایک ہے لیکن ذائقہ اور ہی ہے چکھ کر دیکھئیے کھاتے ہیں تو اور ہی لطف پاتے ہیں یہی معنی ہیں کہ ہم شکل لائیں جائیں گے ۔ دنیا کے میووں سے بھی اور نام شکل اور صورت میں بھی ملتے جلتے ہوں گے لیکن مزہ کچھ دوسرا ہی ہو گا ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:90/1) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ صرف نام میں مشابہت ہے ورنہ کہاں یہاں کی چیز کہاں وہاں کی ؟ یہاں تو فقط نام ہی ہے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:392/1) عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم رحمہ اللہ کا قول ہے دنیا کے پھلوں جیسے پھل دیکھ کر کہہ دیں گے کہ یہ تو دنیا میں کھا چکے ہیں مگر جب چکھیں گے تو لذت کچھ اور ہی ہو گی ۔ وہاں جو بیویاں انہیں ملیں گی وہ گندگی ناپاکی حیض و نفاس پیشاب ، پاخانہ ، تھوک ، رینٹ ، منی وغیرہ سے پاک صاف ہوں گی ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:396/1) حواء علیہما السلام بھی حیض سے پاک تھیں لیکن نافرمانی سرزد ہوتے ہی یہ بلا آ گئی (تفسیر ابن جریر الطبری:550) یہ قول سنداً غریب ہے ایک غریب مرفوع حدیث میں ہے کہ حیض پاخانہ تھوک رینٹ سے وہ پاک ہیں ۔ (ابو نعیم فی صفۃ الجنۃ:363) اس حدیث کے راوی عبدالرزاق بن عمر یزیعی ہیں مستدرک حاکم میں بیان کیا جنہیں ابوحاتم البستی نے احتجاج کے قابل نہیں سمجھا ۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ مرفوع حدیث نہیں بلکہ قتادہ رحمہ اللہ کا قول ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ان تمام نعمتوں کے ساتھ اس زبردست نعمت کو دیکھئیے کہ نہ یہ نعمتیں فنا ہوں ۔ نہ نعمتوں والے فنا ہوں نہ نعمتیں ان سے چھنیں نہ یہ نعمتوں سے الگ کئے جائیں ۔ نہ موت ہے نہ خاتمہ ہے نہ آخر ہے نہ ٹوٹنا اور کم ہونا ہے ، اللہ رب العالمین جواد و کریم برورحیم سے التجا ہے کہ وہ مالک ہمیں بھی اہل جنت کے زمرے میں شامل کرے اور انہیں کے ساتھ ہمارا حشر کرے ۔ (آمین) ۔ البقرة
26 اللہ جل شانہ کی مثالیں اور دنیا سیدنا ابن عباس ، سیدنا ابن مسعود اور چند صحابہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ جب اوپر کی تین آیتوں میں منافقوں کی دو مثالیں بیان ہوئیں یعنی آگ اور پانی کی تو وہ کہنے لگے کہ ایسی ایسی چھوٹی مثالیں اللہ تعالیٰ ہرگز بیان نہیں کرتا ۔ اس پر یہ دونوں آیتیں نازل ہوئیں ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:398/1) قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں جب قرآن پاک میں مکڑی اور مکھی کی مثال بیان ہوئی تو مشرک کہنے لگے بھلا ایسی حقیر چیزوں کے بیان کی قرآن جیسی اللہ کی کتاب میں کیا ضرورت تو جواباً یہ آیتیں اتریں ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:399/1) اور کہا گیا کہ حق کے بیان سے اللہ تعالیٰ نہیں شرماتا خواہ وہ کم ہو یا زیادہ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت مکہ میں اتری حالانکہ ایسا نہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» اور بزرگوں سے بھی اس طرح کا شان نزول مروی ہے ۔ ربیع بن انس رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ خود ایک مستقل مثال ہے جو دنیا کے بارے میں بیان کی گئی ۔ مچھر جب تک بھوکا ہوتا ہے زندہ رہتا ہے جہاں موٹا تازہ ہوا مرا ۔ اسی طرح یہ لوگ ہیں کہ جب دنیاوی نعمتیں دل کھول کر حاصل کر لیتے ہیں وہیں اللہ کی پکڑ آ جاتی ہے جیسے اور جگہ فرمایا آیت «فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُکِّرُوْا بِہٖ فَتَحْنَا عَلَیْہِمْ اَبْوَابَ کُلِّ شَیْءٍ» ( 6 ۔ الانعام : 44 ) جب یہ ہماری نصیحت بھول جاتے ہیں تو ہم ان پر تمام چیزوں کے دروازے کھول دیتے ہیں یہاں تک کہ اترانے لگتے ہیں اب دفعتہً ہم انہیں پکڑ لیتے ہیں ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:398/1) امام ابن جریر رحمہ اللہ نے پہلے قول کو پسند فرمایا ہے اور مناسبت بھی اسی کی زیادہ اچھی معلوم ہوتی ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» تو مطلب یہ ہوا کہ مثال چھوٹی سے چھوٹی ہو یا بڑی سے بڑی بیان کرنے سے اللہ تعالیٰ نہ رکتا ہے نہ جھجھکتا ہے ۔ لفظ ما یہاں پر کمی کے معنی بتانے کے لیے ہے اور «بعوضۃ» کا زیر بدلیت کی بنا پر عربی قاعدے کے مطابق ہے جو ادنیٰ سے ادنیٰ چیز پر صادق آ سکتا ہے یا ” ما “ نکرہ موصوفہ ہے اور «بعوضہ» صفت ہے ابن جریر ” ما “ کا موصولہ ہونا اور “ بعوضہ “ کا اسی اعراب سے معرب ہونا پسند فرماتے ہیں اور کلام عرب میں یہ بکثرت رائج ہے کہ وہ ما اور من کے صلہ کو انہی دونوں کا اعراف دیا کرتے ہیں اس لیے کہ کبھی یہ نکرہ ہوتے ہیں اور کبھی معرفہ جیسے سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے شعروں میں ہے ۔ «یکفی بنا فضلا علی من غیرنا حب النبی محمد ایانا» ہمیں غیروں پر صرف یہی فضیلت کافی ہے کہ ہمارے دل حُبِّ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پر ہیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ “ بعوضہ “ منصوب ہو حذف جار کی بنا پر اور اس سے پہلے اور بین کا لفظ مقدر مانا جائے ۔ کسائی رحمہ اللہ اور فراء رحمہ اللہ اسی کو پسند کرتے ہیں ضحاک رحمہ اللہ اور ابراہیم بن عبلہ رحمہ اللہ «بعوضہ» پڑھتے ہیں ۔ ابن جنبی رحمہ اللہ کہتے ہیں یہ «ما» کا صلہ ہو گا اور عائد حذف مانی جائے گی جیسے آیت «تَمَامًا عَلَی الَّذِی أَحْسَنَ» ( 6-الأنعام : 154 ) میں «فما فوقھا» کے دو معنی بیان کئے ہیں ایک تو یہ کہ اس سے بھی ہلکی اور ردی چیز ۔ جیسے کسی شخص کی بخیلی کا ایک شخص ذکر کرے تو دوسرا کہتا ہے وہ اس سے بھی بڑھ کر ہے تو مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ اس سے بھی زیادہ گرا ہوا ہے ۔ کسائی رحمہ اللہ اور ابوعبیدہ رحمہ اللہ یہی کہتے ہیں ۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ اگر دنیا کی قدر اللہ کے نزدیک ایک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو کسی کافر کو ایک گھونٹ پانی بھی نہ پلاتا ۔ (سنن ترمذی:2320 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) دوسرے یہ معنی ہیں کہ اس سے زیادہ بڑی اس لیے کہ بھلا مچھر سے ہلکی اور چھوٹی چیز اور کیا ہو گی ؟ قتادہ بن دعامہ رحمہ اللہ کا یہی قول ہے ۔ ابن جریر رحمہ اللہ بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں ۔ صحیح مسلم میں حدیث ہے کہ جس کسی مسلمان کو کانٹا چبھے یا اس سے زیادہ تو اس پر بھی اس کے درجے بڑھتے ہیں اور گناہ مٹتے ہیں ۔ (صحیح مسلم:2572:صحیح) اس حدیث میں بھی یہی لفظ «فوقھا» ہے تو مطلب یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ ان چھوٹی بڑی چیزوں کے پیدا کرنے سے شرماتا نہیں اور نہ رکتا ہے ۔ اسی طرخ انہیں مثال کے طور پر بیان کرنے سے بھی اسے عار نہیں ۔ ایک جگہ قرآن میں کہا گیا ہے «یَا أَیٰہَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوا لَہُ إِنَّ الَّذِینَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللہِ لَن یَخْلُقُوا ذُبَابًا وَلَوِ اجْتَمَعُوا لَہُ وَإِن یَسْلُبْہُمُ الذٰبَابُ شَیْئًا لَّا یَسْتَنقِذُوہُ مِنْہُ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ» ( 22-الحج : 73 ) کہ اے لوگو ایک مثال بیان کی جاتی ہے کان لگا کر سنو جنہیں اللہ کے سوا پکار سکتے ہو وہ سارے کے سارے جمع ہو جائیں تو بھی ایک مکھی بھی پیدا نہیں کر سکتے بلکہ مکھی اگر ان سے کچھ چھین لے جائے تو یہ اس سے واپس نہیں لے سکتے ۔ عابد اور معبود دونوں ہی بے حد کمزور ہیں ۔ دوسری جگہ فرمایا «مَثَلُ الَّذِینَ اتَّخَذُوا مِن دُونِ اللہِ أَوْلِیَاءَ کَمَثَلِ الْعَنکَبُوتِ اتَّخَذَتْ بَیْتًا وَإِنَّ أَوْہَنَ الْبُیُوتِ لَبَیْتُ الْعَنکَبُوتِ لَوْ کَانُوا یَعْلَمُونَ» ( 29-العنکبوت : 41 ) ان لوگوں کی مثال جو اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو مددگار بناتے ہیں مکڑی کے جالے جیسی ہے جس کا گھر تمام گھروں سے زیادہ بودا اور کمزور ہے ۔ اور جگہ فرمایا اللہ تعالیٰ نے «أَلَمْ تَرَ کَیْفَ ضَرَبَ اللہُ مَثَلًا کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ أَصْلُہَا ثَابِتٌ وَفَرْعُہَا فِی السَّمَاءِ ؤْتِی أُکُلَہَا کُلَّ حِینٍ بِإِذْنِ رَبِّہَا وَیَضْرِبُ اللہُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُونَ مَثَلُ کَلِمَۃٍ خَبِیثَۃٍ کَشَجَرَۃٍ خَبِیثَۃٍ اجْتُثَّتْ مِن فَوْقِ الْأَرْضِ مَا لَہَا مِن قَرَارٍ یُثَبِّتُ اللہُ الَّذِینَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیَاۃِ الدٰنْیَا وَفِی الْآخِرَۃِ وَیُضِلٰ اللہُ الظَّالِمِینَ وَیَفْعَلُ اللہُ مَا یَشَاءُ» ( 14-إبراہیم : 24 - 27 ) کلمہ طیبہ کی مثال پاک درخت سے دی جس کی جڑ مضبوط ہو اور جس کی شاخیں آسمان میں ہوں جو بحکم اللہ ہر وقت پھل دیتا ہو ۔ ان مثالوں کو اللہ تعالیٰ لوگوں کے غورو تدبر کے لیے بیان فرماتا ہے اور ناپاک کلام کی مثال ناپاک درخت جیسی ہے جو زمین کے اوپر اوپر ہی ہو اور جڑیں مضبوط نہ ہوں اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو مضبوط بات کے ساتھ دنیا اور آخرت میں برقرار رکھتا ہے اور ظالموں کو گمراہ کرنا ہے اللہ جو چاہے کرے ۔ دوسری جگہ فرمایا «ضَرَبَ اللہُ مَثَلًا عَبْدًا مَّمْلُوکًا لَّا یَقْدِرُ عَلَیٰ شَیْءٍ وَمَن رَّزَقْنَاہُ مِنَّا رِزْقًا حَسَنًا» ( 16-النحل : 75 ) اللہ تعالیٰ اس مملوک غلام کی مثال پیش کرتا ہے جسے کسی چیز پر اختیار نہیں ۔ اور جگہ فرمایا «وَضَرَبَ اللہُ مَثَلًا رَّجُلَیْنِ أَحَدُہُمَا أَبْکَمُ لَا یَقْدِرُ عَلَیٰ شَیْءٍ وَہُوَ کَلٌّ عَلَیٰ مَوْلَاہُ أَیْنَمَا یُوَجِّہہٰ لَا یَأْتِ بِخَیْرٍ ہَلْ یَسْتَوِی ہُوَ وَمَن یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ » ( 16-النحل : 76 ) دو شخصوں کی مثال اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے جن میں سے ایک تو گونگا اور بالکل گرا پڑا بےطاقت ہے جو اپنے آقا پر بوجھ ہے جہاں جائے برائی ہی لے کر آئے اور دوسرا وہ جو عدل و حق کا حکم کرے ، کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں ؟ دوسری جگہ ہے «ضَرَبَ لَکُم مَّثَلًا مِّنْ أَنفُسِکُمْ ہَل لَّکُم مِّن مَّا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُم مِّن شُرَکَاءَ فِی مَا رَزَقْنَاکُمْ» ( 30-الروم : 28 ) اللہ تعالیٰ تمہارے لیے خود تمہاری مثال بیان فرماتا ہے کیا تم اپنی چیزوں میں اپنے غلاموں کو بھی اپنا شریک اور برابر کا حصہ دار سمجھتے ہو ؟ اور جگہ ارشاد ہے «ضَرَبَ اللہُ مَثَلًا رَّجُلًا فِیہِ شُرَکَاءُ مُتَشَاکِسُونَ وَرَجُلًا سَلَمًا لِّرَجُلٍ» ( 39-الزمر : 29 ) ان مثالوں کو ہم لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں اور «وَتِلْکَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُہَا لِلنَّاسِ وَمَا یَعْقِلُہَا إِلَّا الْعَالِمُونَ» ( 29-العنکبوت : 43 ) انہیں ( پوری طرح ) صرف علم والے ہی سمجھتے ہیں ۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی مثالیں قرآن پاک میں بیان ہوئی ہیں ۔ بعض سلف صالحین فرماتے ہیں جب میں قرآن کی کسی مثال کو سنتا ہوں اور سمجھ نہیں سکتا تو مجھے رونا آتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ ان مثالوں کو صرف عالم ہی سمجھ سکتے ہیں ۔ مجاہدرحمہ اللہ فرماتے ہیں مثالیں خواہ چھوٹی ہوں خواہ بڑی ایماندار ان پر ایمان لاتے ہیں اور انہیں حق جانتے ہیں اور ان سے ہدایت پاتے ہیں ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:93/1) قتادہ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ وہ انہیں اللہ کا کلام سمجھتے ہیں ۔ «انہ» کی ضمیر کا مرجع مثال ہے یعنی مومن اس مثال کو اللہ کی جانب سے اور حق سمجھتے ہیں اور کافر باتیں بناتے ہیں جیسے سورۃ المدثر میں آیت «وَمَا جَعَلْنَآ اَصْحٰبَ النَّارِ اِلَّا مَلٰیِٕکَۃً» ( 74 ۔ المدثر : 31 ) یعنی ہم نے آگ والے فرشتوں کی گنتی کو کفار کی آزمائش کا سبب بنایا ہے ۔ اہل کتاب یقین کرتے ہیں اور ایماندار ایمان میں بڑھ جاتے ہیں ۔ ان دونوں جماعتوں کو کوئی شک نہیں رہتا لیکن بیمار دل اور کفار کہہ اٹھتے ہیں کہ اس مثال سے کیا مراد ؟ اسی طرح اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے ۔ تیرے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ یہاں بھی اسی ہدایت و ضلالت کو بیان کیا ۔ ایک ہی مثال کے دو ردعمل کیوں؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ اس سے گمراہ منافق ہوتے ہیں اور مومن راہ پاتے ہیں ۔ گمراہ اپنی گمراہی میں بڑھ جاتے ہیں کیونکہ اس مثال کے درست اور صحیح ہونے کا علم ہونے کے باوجود اسے جھٹلاتے ہیں اور مومن اقرار کر کے ہدایت ایمان کو بڑھا لیتے ہیں ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:408/1) فاسقین سے مراد منافق ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کافر مراد ہیں جو پہچانتے ہیں اور انکار کرتے ہیں ۔ سعد کہتے ہیں مراد خوارج ہیں ۔ اگر اس قول کی سند سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ تک صحیح ہو تو مطلب یہ ہو گا کہ یہ تفسیر معنوی ہے اس سے مراد خوارج نہیں ہیں بلکہ یہ ہے کہ یہ فرقہ بھی فاسقوں میں داخل ہے ۔ جنہوں نے نہروان میں سیدنا علی رضی اللہ عنہما پر چڑھائی کی تھی تو یہ لوگ گو نزول آیت کے وقت موجود نہ تھے لیکن اپنے بدترین وصف کی وجہ سے معناً فاسقوں میں داخل ہیں ۔ انہیں خارجی اس لیے کہا گیا ہے کہ امام کی اطاعت سے نکل گئے تھے اور شریعت اسلام کی پابندی سے آزاد ہو گئے تھے ۔ لغت میں فاسق کہتے ہیں اطاعت اور فرمانبرداری سے نکل جانے کو ۔ جب چھلکا ہٹا کر خوشہ نکلتا ہے تو عرب کہتے ہیں «فسقت» چوہے کو بھی «فویسقہ» کہتے ہیں کیونکہ وہ اپنے بل سے نکل کر فساد کرتا ہے ۔ صحیحین کی حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پانچ جانور فاسق ہیں حرم میں اور حرم سے باہر کے قتل کر دئیے جائیں ۔ کوا ، چیل ، بچھو ، چوہا اور کالا کتا ۔ (صحیح بخاری:3314:صحیح) پس لفظ فاسق کافر کو اور ہر نافرمان کو شامل ہے لیکن کافر فسق زیادہ سخت اور زیادہ برا ہے اور آیت میں مراد فاسق سے کافر ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» اس کی بڑی دلیل یہ ہے کہ بعد میں ان کا وصف یہ بیان فرمایا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا عہد توڑتے ہیں ۔ اس کے فرمان کاٹتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں اور یہ سب اوصاف کفار کے ہیں ۔ مومنوں کے اوصاف تو اس کے برخلاف ہوتے ہیں جیسے سورۃ الرعد میں بیان ہے کہ آیت «أَفَمَن یَعْلَمُ أَنَّمَا أُنزِلَ إِلَیْکَ مِن رَّبِّکَ الْحَقٰ کَمَنْ ہُوَ أَعْمَیٰ إِنَّمَا یَتَذَکَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ الَّذِینَ یُوفُونَ بِعَہْدِ اللہِ وَلَا یَنقُضُونَ الْمِیثَاقَ وَالَّذِینَ یَصِلُونَ مَا أَمَرَ اللہُ بِہِ أَن یُوصَلَ وَیَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ وَیَخَافُونَ سُوءَ الْحِسَابِ» ( 13-الرعد : 19 - 21 ) کیا پس وہ شخص جو جانتا ہے کہ جو کچھ تیرے رب کی طرف سے تجھ پر اترا وہ حق ہے کیا اس شخص جیسا ہو سکتا ہے جو اندھا ہو ؟ نصیحت تو صرف عقلمند حاصل کرتے ہیں جو اللہ کے وعدوں کو پورا کرتے ہیں اور میثاق نہیں توڑتے اور اللہ تعالیٰ نے جن کاموں کے جوڑنے کا حکم دیا ہے انہیں جوڑتے ہیں اپنے رب سے ڈرتے رہتے ہیں اور حساب کی برائی سے کانپتے رہتے ہیں ۔ آگے چل کر فرمایا «وَالَّذِینَ صَبَرُوا ابْتِغَاءَ وَجْہِ رَبِّہِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاۃَ وَأَنفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاہُمْ سِرًّا وَعَلَانِیَۃً وَیَدْرَءُونَ بِالْحَسَنَۃِ السَّیِّئَۃَ أُولٰئِکَ لَہُمْ عُقْبَی الدَّارِ جَنَّاتُ عَدْنٍ یَدْخُلُونَہَا وَمَن صَلَحَ مِنْ آبَائِہِمْ وَأَزْوَاجِہِمْ وَذُرِّیَّاتِہِمْ وَالْمَلَائِکَۃُ یَدْخُلُونَ عَلَیْہِم مِّن کُلِّ بَابٍ سَلَامٌ عَلَیْکُم بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ وَالَّذِینَ یَنقُضُونَ عَہْدَ اللہِ مِن بَعْدِ مِیثَاقِہِ وَیَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللہُ بِہِ أَن یُوصَلَ وَیُفْسِدُونَ فِی الْأَرْضِ أُولٰئِکَ لَہُمُ اللَّعْنَۃُ وَلَہُمْ سُوءُ الدَّارِ» ( 13-الرعد : 22 - 25 ) جو لوگ اللہ کے عہد کو اس کی مضبوطی کے بعد توڑ دیں اور جس چیز کو ملانے کا اللہ کا حکم ہو وہ اسے نہ ملائیں اور زمین میں فساد پھیلائیں ان کے لیے لعنتیں ہیں اور ان کے لیے برا گھر ہے ۔ یہاں عہد سے مراد وہ وصیت ہے جو اللہ نے بندوں کو کی تھی جو اس کے تمام احکام بجا لانے اور تمام نافرمانیوں سے بچنے پر مشتمل ہے ۔ اس کا توڑ دینا اس پر عمل نہ کرنا ہے ۔ بعض کہتے ہیں عہد توڑنے والے اہل کتاب کے کافر اور ان کے منافق ہیں اور عہد وہ ہے جو ان سے تورات میں لیا گیا تھا کہ وہ اس کی تمام باتوں پر عمل کریں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کریں جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا اقرار کریں اور جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی جانب سے لے کر آئیں اس کی تصدیق کریں اور اس عہد کو توڑ دینا یہ ہے کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا علم ہونے کے باوجود الٹا اطاعت سے انکار کر دیا اور باوجود عہد کا علم ہونے کے اسے چھپایا دنیاوی مصلحتوں کی بنا پر اس کا الٹ کیا ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ اس قول کو پسند کرتے ہیں اور مقاتل بن حیان رحمہ اللہ کا بھی یہی قول ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد کوئی خاص جماعت نہیں بلکہ شک و کفر و نفاق والے سب کے سب مراد ہیں ۔ عہد سے مراد توحید اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا اقرار کرانا ہے جن کی دلیل میں کھلی ہوئی نشانیاں اور بڑے بڑے معجزے موجود ہیں اور اس عہد کو توڑ دینا توحید و سنت سے منہ موڑنا اور انکار کرنا ہے یہ قول اچھا ہے زمحشری رحمہ اللہ کا میلان بھی اسی طرح ہے وہ کہتے ہیں عہد سے مراد اللہ تعالیٰ کی توحید ماننے کا اقرار ہے جو فطرت انسان میں داخل ہونے کے علاوہ روز میثاق بھی منوایا گیا ہے ۔ فرمایا گیا تھا کہ آیت «وَإِذْ أَخَذَ رَبٰکَ مِن بَنِی آدَمَ مِن ظُہُورِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ وَأَشْہَدَہُمْ عَلَیٰ أَنفُسِہِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوا بَلَیٰ شَہِدْنَا» (7-الأعراف:172) کیا میں تمہارا رب ہوں ؟ تو سب نے جواب دیا تھا «بَلَیٰ» بیشک تو ہمارا رب ہے ۔ پھر وہ کتابیں دی گئیں ان میں بھی اقرار کرایا گیا جیسے فرمایا آیت «وَأَوْفُوا بِعَہْدِی أُوفِ بِعَہْدِکُمْ وَإِیَّایَ فَارْہَبُونِ» ( البقرۃ : 40 ) میرے عہد کو نبھاؤ میں بھی اپنے وعدے پورے کروں گا ۔ بعض کہتے ہیں وہ عہد مراد ہے جو روحوں سے لیا گیا تھا جب وہ آدم علیہ السلام کی پیٹھ سے نکالی گئی تھیں جیسے فرماتا ہے آیت «وَاِذْ اَخَذَ رَبٰکَ مِنْ بَنِیْٓ اٰدَمَ مِنْ ظُہُوْرِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ وَاَشْہَدَہُمْ عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ قَالُوا بَلَیٰ ۛ شَہِدْنَا» (7-الأعراف:172) جب تیرے رب نے اولاد آدم سے وعدہ لیا کہ میں ہی تمہارا رب ہوں اور ان سب نے اقرار کیا ۔ اور اس کا توڑنا اس سے انحراف ہے ۔ یہ تمام اقوال تفسیر ابن جریر میں منقول ہیں ۔ ابوالعالیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں عہد اللہ کو توڑنا منافقوں کا کام ہے جن میں یہ چھ خصلتیں ہوتی ہیں ۔ بات کرنے میں جھوٹ بولنا ، وعدہ خلافی کرنا ، امانت میں خیانت کرنا ، اللہ کے عہد کو مضبوطی کے بعد توڑ دینا ، اللہ تعالیٰ نے جن رشتوں کے ملانے کا حکم دیا ہے ، انہیں نہ ملانا ، زمین میں فساد پھیلانا ۔ یہ چھ خصلتیں ان کی اس وقت ظاہر ہوتی ہیں جب کہ ان کا غلبہ ہو اور جب وہ مغلوب ہوتے ہیں تو تین اگلے کام کرتے ہیں ۔ سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں قرآن کے احکام کو پڑھنا جاننا سچ کہنا پھر نہ ماننا بھی عہد کو توڑنا تھا اللہ تعالیٰ نے جن کاموں کے جوڑنے کا حکم دیا ہے ان سے مراد صلہ رحمی کرنا ، قرابت کے حقوق ادا کرنا وغیرہ ہے ۔ جیسے اور جگہ قرآن مجید میں ہے آیت «فَہَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ تَوَلَّیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَتُـقَطِّعُوْٓا اَرْحَامَکُمْ» ( 47 ۔ محمد : 22 ) قریب ہے کہ تم اگر لوٹو تو زمین میں فساد کرو اور رشتے ناتے توڑ دو ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:416/1) ابن جریر رحمہ اللہ اسی کو ترجیح دیتے ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آیت عام ہے یعنی جسے ملانے اور ادا کرنے کا حکم دیا تھا انہوں نے اسے توڑا اور حکم عدولی کی ۔ «خاسرون» سے مراد آخرت میں نقصان اٹھانے والے ہیں ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:101/1) جیسے فرمان باری ہے ۔ آیت «اُولٰیِٕکَ لَہُمُ اللَّعْنَۃُ وَلَہُمْ سُوْءُ الدَّارِ» ( 13 ۔ الرعد : 25 ) ان لوگوں کے لیے لعنت ہے اور ان کے لیے برا گھر ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے کہ اہل اسلام کے سوا جہاں دوسروں کے لیے یہ لفظ آیا ہے وہاں مراد گنہگار ہیں ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:417/1) خاسرون جمع ہے خاسر کی ۔ چونکہ ان لوگوں نے نفسیاتی خواہشوں اور دنیوی لذتوں میں پڑ کر رحمت اللہ سے علیحدگی کر لی اس لیے انہیں نقصان یافتہ کہا گیا جیسے وہ شخص جسے اپنی تجارت میں گھاٹا آئے اسی طرح یہ کافر و منافق ہیں یعنی قیامت والے دن جب رحم و کرم کی بہت ہی حاجت ہو گی اس دن رحمت الٰہی سے محروم رہ جائیں گے ۔ البقرة
27 البقرة
28 ٹھوس دلائل پر مبنی دعوت اس بات کا ثبوت دیتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ موجود ہے وہ قدرتوں والا ہے ۔ وہی پیدا کرنے والا اور اختیار والا ہے ۔ اس آیت میں فرمایا تم اللہ تعالیٰ کے وجود سے انکار کیسے کر سکتے ہو ؟ یا اس کے ساتھ دوسرے کو عبادت میں شریک کیسے کر سکتے ہو ؟ جبکہ تمہیں عدم سے وجود میں لانے والا ایک وہی ہے ۔ دوسری جگہ فرمایا کیا یہ بغیر کسی چیز کے پیدا کئے گئے ؟ یا یہ خود پیدا کرنے والے ہیں ؟ انہوں نے زمین و آسمان بھی پیدا کیا ہے ؟ ہرگز نہیں بلکہ یہ بےیقین لوگ ہیں ۔ اور جگہ ارشاد ہوتا ہے آیت «ہَلْ أَتَیٰ عَلَی الْإِنسَانِ حِینٌ مِّنَ الدَّہْرِ لَمْ یَکُن شَیْئًا مَّذْکُورًا» ( 76-الإنسان : 1 ) یقیناً انسان پر وہ زمانہ بھی آیا ہے جس وقت یہ قابل ذکر چیز ہی نہ تھا ۔ اور بھی اس طرح کی بہت سی آیتیں ہیں ۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کفار جو کہیں گے آیت «قَالُوا رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَیْنِ وَأَحْیَیْتَنَا اثْنَتَیْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوبِنَا فَہَلْ إِلَیٰ خُرُوجٍ مِّن سَبِیلٍ» ( 40 ۔ غافر : 11 ) اے اللہ دو دفعہ تو نے ہمیں مارا اور دو دفعہ جلایا ہمیں اپنے گناہوں کا اقرار ہے ۔ اس سے مراد یہی ہے جو اس آیت «وَکُنتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْیَاکُمْ ثُمَّ یُمِیتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیکُمْ ثُمَّ إِلَیْہِ تُرْجَعُونَ» ( 2 ۔ البقرہ : 28 ) میں ہے مطلب یہ ہے کہ تم اپنے باپوں کی پیٹھ میں مردہ تھے یعنی کچھ بھی نہ تھے ۔ اس نے تمہیں زندہ کیا یعنی پیدا کیا پھر تمہیں مارے گا یعنی موت ایک روز ضرور آئے گی پھر تمہیں قبروں سے اٹھائے گا ۔ پس ایک حالت مردہ پن کی دنیا میں آنے سے پہلے پھر دوسری دنیا میں مرنے اور قبروں کی طرف جانے کی پھر قیامت کے روز اٹھ کھڑے ہونے کی ۔ دو زندگیاں اور دو موتیں ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:419/1) ابوصالح رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ قبر میں انسان کو زندہ کر دیا جاتا ہے ۔ عبدالرحمٰن بن زید رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ آدم علیہ السلام کی پیٹھ میں انہیں پیدا کیا پھر ان سے عہد و پیمان لے کر بے جان کر دیا پھر ماں کے پیٹ میں انہیں پیدا کیا پھر دنیوی موت ان پر آئی پھر قیامت والے دن انہیں زندہ کرے گا لیکن یہ قول غریب ہے ۔ پہلا قول ہی درست ہے ۔ سیدنا ابن مسعود ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور تابعین رحمہ اللہ کی ایک جماعت کا یہی قول ہے ۔ قرآن میں اور جگہ ہے آیت «قُلِ اللّٰہُ یُحْیِیْکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یَجْمَعُکُمْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ لَا رَیْبَ فِیْہِ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ» ( 45 ۔ الجاثیۃ : 26 ) اللہ ہی تمہیں پیدا کرتا ہے پھر مارتا ہے پھر تمہیں قیامت کے دن جمع کرے گا ۔ ان پتھروں اور تصویروں کو جنہیں مشرکین پوجتے تھے قرآن نے مردہ کہا ۔ فرمایا اموات غیر احیاء وہ سب مردہ ہیں زندہ نہیں ۔ زمین کے بارے میں فرمایا آیت «وَآیَۃٌ لَّہُمُ الْأَرْضُ الْمَیْتَۃُ أَحْیَیْنَاہَا وَأَخْرَجْنَا مِنْہَا حَبًّا فَمِنْہُ یَأْکُلُونَ» ( 36 ۔ یس : 33 ) ان کے لیے مردہ زمین بھی ہماری صداقت کی نشانی ہے جسے ہم زندہ کرتے ہیں اور اس سے دانے نکالتے ہیں جسے یہ کھاتے ہیں ۔ البقرة
29 کچھ اور دلائل اوپر کی آیات میں ان دلائل قدرت کا بیان تھا جو خود انسان کے اندر ہیں اب اس مبارک آیت میں ان دلائل کا بیان ہو رہا ہے جو روز مرہ آنکھوں کے سامنے ہیں ۔ «اسْتَوَیٰ» یہاں قصد کرنے اور متوجہ ہونے کے معنی میں ہے اس لیے کہ اس کا صلہ «الی» ہے «سَوَّاہُنَّ» کے معنی درست کرنے اور ساتوں آسمان بنانے کے ہیں «سماء» اسم جنس ہے ۔ پھر بیان فرمایا کہ اس کا کا علم محیط کل ہے جیسے ارشاد آیت «اَلَا یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ» ( 67 ۔ الملک : 14 ) وہ بےعلم ہو کیسے سکتا ہے جو خالق ہو ؟ سورۃ حم سجدہ کی آیت «قُلْ أَئِنَّکُمْ لَتَکْفُرُونَ بِالَّذِی خَلَقَ الْأَرْضَ فِی یَوْمَیْنِ وَتَجْعَلُونَ لَہُ أَندَادًا ذٰلِکَ رَبٰ الْعَالَمِینَ وَجَعَلَ فِیہَا رَوَاسِیَ مِن فَوْقِہَا وَبَارَکَ فِیہَا وَقَدَّرَ فِیہَا أَقْوَاتَہَا فِی أَرْبَعَۃِ أَیَّامٍ سَوَاءً لِّلسَّائِلِینَ ثُمَّ اسْتَوَیٰ إِلَی السَّمَاءِ وَہِیَ دُخَانٌ فَقَالَ لَہَا وَلِلْأَرْضِ ائْتِیَا طَوْعًا أَوْ کَرْہًا قَالَتَا أَتَیْنَا طَائِعِینَ فَقَضَاہُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ فِی یَوْمَیْنِ وَأَوْحَیٰ فِی کُلِّ سَمَاءٍ أَمْرَہَا وَزَیَّنَّا السَّمَاءَ الدٰنْیَا بِمَصَابِیحَ وَحِفْظًا ذٰلِکَ تَقْدِیرُ الْعَزِیزِ الْعَلِیمِ» ( 41-فصلت : 9 - 12 ) گویا اس آیت کی تفصیل ہے جس میں فرمایا ہے کیا تم اس اللہ کے ساتھ کفر کرتے ہو ؟ جس نے زمین کو صرف دو دن میں پیدا کیا تم اس کے لیے شریک ٹھہراتے ہو ؟ جو رب العالمین ہے جس نے زمین میں مضبوط پہاڑ اوپر سے گاڑ دئیے جس نے زمین میں برکتیں اور روزیاں رکھیں اور چار دن میں زمین کی سب چیزیں درست کر دیں ۔ جس میں دریافت کرنے والوں کی تشفی ہے پھر آسمانوں کی طرف متوجہ ہو کر جو دھویں کی شکل میں تھے فرمایا کہ اے زمینو اور آسمانو خوشی یا ناخوشی سے آؤ تو دونوں نے کہا باری تعالیٰ ہم تو برضا و خوشی حاضر ہیں ۔ دو دن میں ان ساتوں آسمانوں کو پورا کر دیا اور ہر آسمان میں اس کا کام بانٹ دیا اور دنیا کے آسمان کو ستاروں کے ساتھ مزین کر دیا اور انہیں ( شیطانوں سے ) بچاؤ کا سبب بنایا ۔ یہ ہے اندازہ اس اللہ کا جو بہت بڑا غالب اور بہت بڑے علم والا ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ پہلے زمین پیدا کی پھر ساتوں آسمان ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہر عمارت کا یہی قاعدہ ہے کہ پہلے نیچے کا حصہ بنایا جائے پھر اوپر کا مفسرین نے بھی اس کی تصریح کی ہے جس کا بیان بھی ابھی آئے گا ۔ ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ لیکن یہ سمجھ لینا چاہیئے کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے ۔ آیت «ءَاَنْتُمْ اَشَدٰ خَلْقًا اَمِ السَّمَاءُ بَنٰیہَا» ( 79 ۔ النازعات : 27 ) تمہاری پیدائش مشکل ہے یا آسمانوں کی ؟ اللہ تعالیٰ نے اس کے خلا کو بلند کر کے اسے ٹھیک ٹھاک کیا اور ان میں سے رات دن پیدا کئے پھر اس کے بعد زمین پھیلائی اس سے پانی اور چارہ نکالا اور پہاڑوں کو گاڑا جو سب تمہارے اور تمہارے جانوروں کے کام کی چیزیں ہیں ۔ اس آیت میں یہ فرمایا ہے کہ زمین کی پیدائش آسمان کے بعد ہے تو بعض بزرگوں نے تو فرمایا ہے کہ مندرجہ بالا آیت میں «ثم» صرف عطف خبر کے لیے ہے عطف فعل کے لیے نہیں ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:437/1) یعنی یہ مطلب نہیں کہ زمین کے بعد آسمان کی پیدائش شروع کی بلکہ صرف خبر دینا مقصود ہے کہ آسمانوں کو بھی پیدا کیا اور زمینوں کو بھی ۔ عرب شاعروں کے اشعار میں یہ موجود ہے کہ کہیں «ثم» صرف خبر کا خبر پر عطف ڈالنے کے لیے ہوتا ہے تقدیم تاخیر مراد نہیں ہوتی ۔ اور بعض بزرگوں نے فرمایا ہے کہ آیت «ءَاَنْتُمْ» میں آسمانوں کی پیدائش کے بعد زمین کا پھیلانا اور بچھانا وغیرہ بیان ہوا ہے نہ کہ پیدا کرنا ۔ تو ٹھیک یہ ہے کہ پہلے زمین کو پیدا کیا پھر آسمان کو پھر زمین کو ٹھیک ٹھاک کیا اس طرح دونوں آیتیں ایک دوسرے کے مخالف نہ رہیں گی ۔ اس عیب سے اللہ کا کلام بالکل محفوظ ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہی معنی بیان فرمائے ہیں ( یعنی پہلے زمین کی درستی وغیرہ یہ بعد کی چیز ہے ) سیدنا ابن مسعود ، سیدنا ابن عباس اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا عرش پانی پر تھا اور کسی چیز کو پیدا نہیں کیا تھا جب اور مخلوق کو پیدا کرنا چاہا تو پانی سے دھواں بلند کیا وہ اونچا چڑھا اور اس سے آسمان بنائے پھر پانی خشک ہو گیا اور اس کی زمین بنائی پھر اس کو الگ الگ کر کے سات زمینیں بنائیں اتوار اور پیر کے دو دن میں یہ ساتوں زمینیں بن گئیں ۔ زمین مچھلی پر ہے اور مچھلی وہ ہے جس کا ذکر قرآن مجید کی اس آیت میں ہے آیت ( ن والقلم ) مچھلی پانی میں ہے اور پانی صفاۃ پر ہے اور صفاۃ فرشتے پر اور فرشتے پتھر پر زمین کانپنے لگی تو اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کو گاڑ دیا اور وہ ٹھہر گئی ۔ یہی معنی میں اللہ تعالیٰ کے فرمان آیت «وَجَعَلْنَا فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَ بِہِمْ» ( 21 ۔ الانبیآء : 38 ) زمین نہ ہلے اس لیے ہم نے اس میں پہاڑ جما دئیے ہیں ۔ پہاڑ زمین کی پیداوار درخت وغیرہ زمین کی کل چیزیں منگل اور بدھ کے دو دنوں میں پیدا کیں اسی کا بیان آیت «قُلْ أَئِنَّکُمْ لَتَکْفُرُونَ بِالَّذِی خَلَقَ الْأَرْضَ فِی یَوْمَیْنِ وَتَجْعَلُونَ لَہُ أَندَادًا ذٰلِکَ رَبٰ الْعَالَمِینَ وَجَعَلَ فِیہَا رَوَاسِیَ مِن فَوْقِہَا وَبَارَکَ فِیہَا وَقَدَّرَ فِیہَا أَقْوَاتَہَا فِی أَرْبَعَۃِ أَیَّامٍ سَوَاءً لِّلسَّائِلِینَ ثُمَّ اسْتَوَیٰ إِلَی السَّمَاءِ وَہِیَ دُخَانٌ فَقَالَ لَہَا وَلِلْأَرْضِ ائْتِیَا طَوْعًا أَوْ کَرْہًا قَالَتَا أَتَیْنَا طَائِعِینَ فَقَضَاہُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ فِی یَوْمَیْنِ وَأَوْحَیٰ فِی کُلِّ سَمَاءٍ أَمْرَہَا وَزَیَّنَّا السَّمَاءَ الدٰنْیَا بِمَصَابِیحَ وَحِفْظًا ذٰلِکَ تَقْدِیرُ الْعَزِیزِ الْعَلِیمِ» ( 41-فصلت : 9 - 12 ) والی آیت میں ہے پھر آسمان کی طرف توجہ فرمائی جو دھواں تھا آسمان بنایا پھر اسی میں ساتھ آسمان بنائے جمعرات اور جمعہ کے دو دنوں میں جمعہ کے دن کو اس لیے جمعہ کہا جاتا ہے کہ اس میں زمین و آسمان کی پیدائش جمع ہو گئی ہر آسمان میں اس نے فرشتوں کو پیدا کیا اور ان ان چیزوں کو جن کا علم اس کے سوا کسی کو نہیں کہ دنیا آسمان کو ستاروں کے ساتھ زینت دی اور انہیں شیطان سے حفاظت کا سبب بنایا ان تمام چیزوں کو پیدا کر کے پروردگار نے عرش عظیم پر قرار پکڑا ۔ جیسے فرماتا ہے آیت «خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ» (7-الأعراف:54) یعنی چھ دن میں آسمانوں اور زمین کو پیدا کر کے پھر عرش پر مستوی ہو گیا اور جگہ فرمایا آیت «کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰہُمَا» ( 21 ۔ الانبیآء : 30 ) یعنی یہ دونوں دھواں سے تھے ہم نے انہیں پھاڑا اور پانی سے ہر چیز کو زندگی دی ( تفسیر سدی ) ( یہ موقوف قول جس میں کئی قسم کا احتمال ہے بہ ظاہراً ایسی اہم بات میں حجت تامہ نہیں ہو سکتا ) ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ابن جریر رحمہ اللہ میں ہے سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اتوار سے مخلوق کی پیدائش شروع ہوئی ۔ دو دن میں زمینیں پیدا ہوئیں دو دن میں ان میں موجود تمام چیزیں پیدا کیں اور دو دن میں آسمانوں کو پیدا کیا جمعہ کے دن آخری وقت ان کی پیدائش ختم ہوئی اور اسی وقت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اور اسی وقت میں قیامت قائم ہو گی ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے زمین کو آسمان سے پہلے پیدا کیا اس سے جو دھواں اوپر چڑھا اس کے آسمان بنائے جو ایک پر ایک اس طرح سات ہیں ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:436/1) اور زمینیں ایک نیچے ایک اوپر اس طرح سات ہیں ۔ اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ زمین کی پیدائش آسمانوں سے پہلے ہے جیسے سورۃ السجدہ کی آیت میں ہے ۔ علماء کی اس پر متفق ہیں ۔ صرف قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ آسمان زمین سے پہلے پیدا ہوئے ہیں ۔ قرطبی رحمہ اللہ اس میں توقف کرتے ہیں آیت «وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذٰلِکَ دَحَاہَا أَخْرَجَ مِنْہَا مَاءَہَا وَمَرْعَاہَا وَالْجِبَالَ أَرْسَاہَا» ( 79-النازعات : 30 - 32 ) کی آیت کی وجہ سے یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہاں آسمان کی پیدائش کا ذکر زمین سے پہلے ہے ۔ صحیح بخاری میں ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے جب یہ سوال ہوا تو آپ رضی اللہ عنہما نے جواب دیا کہ زمین پیدا تو آسمانوں سے پہلے کی گئی ہے لیکن بعد میں پھیلائی گئی ہے ۔ (صحیح بخاری:555/8-مع الفتح) یہی جواب اگلے پچھلے علماء کا ہے ۔ سورۃ النازعات کی تفسیر میں بھی اس کا بیان آئے گا ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ حاصل امر یہ ہے کہ زمین کا پھیلانا اور بچھانا بعد میں ہے اور «دحھا» کا لفظ قرآن میں ہے اور اس کے بعد جو پانی چارہ پہاڑ وغیرہ کا ذکر ہے یہ گویا اس لفظ کی تشریح ہے جن جن چیزوں کی نشوونما کی قوت اس زمین میں رکھی تھی ان سب کو ظاہر کر دیا اور زمین کی پیداوار طرح طرح کی مختلف شکلوں اور مختلف قسموں میں نکل آئی ۔ اسی طرح آسمان میں بھی ٹھہرے رہنے والے چلنے والے ستارے وغیرہ بنائے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» صحیح مسلم اور نسائی میں حدیث میں ہے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور فرمایا مٹی کو اللہ تعالیٰ نے ہفتہ والے دن پیدا کیا ، پہاڑوں کو اتوار کے دن ، درختوں کو پیر کے دن ، برائیوں کو منگل کے دن نور کو ، بدھ کے دن ، جانوروں کو جمعرات کے دن ، آدم کو جمعہ کے دن اور عصر کے بعد جمعہ کی آخری ساعت میں عصر کے بعد سے رات تک ۔ (صحیح مسلم:2789:صحیح) یہ حدیث غرائب میں سے ہے ۔ امام ابن مدینی رحمہ اللہ ، امام بخاری رحمہ اللہ وغیرہ نے اس پر بحث کی ہے اور فرمایا ہے کہ سیدنا کعب رضی اللہ عنہ کا اپنا قول اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہما نے سیدنا کعب رضی اللہ عنہ کا یہ قول سنا ہے اور بعض راویوں نے اسے غلطی سے مرفوع حدیث قرار دے لیا ہے ۔ امام بیہقی رحمہ اللہ یہی کہتے ہیں ۔ البقرة
30 خلافت آدم کا مفہوم اللہ تعالیٰ کے اس احسان کو دیکھو کہ اس نے آدم علیہ السلام کو پیدا کرنے سے پہلے فرشتوں میں ان کا ذکر کیا جس کا بیان اس آیت میں ہے ۔ فرماتا ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم یاد کرو اور اپنی امت کو یہ خبر پہنچاؤ ۔ ابوعبیدہ تو کہتے ہیں کہ لفظ «اِذْ» یہاں زائد ہے لیکن ابن جریر رحمہ اللہ وغیرہ مفسرین اس کی تردید کرتے ہیں خلیفہ سے مراد یہ ہے کہ ان کے یکے بعد دیگرے بعض کے بعض جانشین ہوں گے اور ایک زمانہ کے بعد دوسری زمانہ میں یونہی صدیوں تک یہ سلسلہ رہے گا ۔ جیسے اور جگہ ارشاد ہے ۔ آیت «ہُوَ الَّذِیْ جَعَلَکُمْ خَلٰیِٕفَ فِی الْاَرْضِ» ( 35 ۔ فاطر : 39 ) دوسری جگہ فرمایا آیت «وَیَجْعَلُکُمْ خُلَـفَاءَ الْاَرْضِ» ( 27 ۔ النمل : 62 ) یعنی تمہیں اس نے زمین کا خلیفہ بنا دیا اور ارشاد ہے کہ ان کے بعد ان کے خلیفہ یعنی جانشین برے لوگ ہوئے ۔ (19-مریم:59) ایک شاذ قرأت میں خلیفہ بھی ہے ۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ خلیفہ سے مراد صرف آدم ہیں لیکن اس بارے میں تفسیر رازی کے مفسر نے اختلاف کو ذکر کیا ہے ۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ مطلب نہیں ۔ اس کی ایک دلیل تو فرشتوں کا یہ قول ہے کہ وہ زمین میں فساد کریں گے اور خون بہائیں گے تو ظاہر ہے کہ انہوں نے اولاد آدم علیہ السلام کی نسبت یہ فرمایا تھا نہ کہ خاص آدم کی نسبت ۔ یہ اور بات ہے کہ اس کا علم فرشتوں کو کیونکر ہوا ؟ یا تو کسی خاص ذریعہ سے انہیں یہ معلوم ہوا یا بشری طبیعت کے اقتضا کو دیکھ کر انہوں نے یہ فیصلہ کیا ہو گا کیونکہ یہ فرما دیا گیا تھا کہ اس کی پیدائش مٹی سے ہو گی یا لفظ خلیفہ کے مفہوم سے انہوں نے سمجھ لیا ہو گا کہ وہ فیصلے کرنے والا مظالم کی روک تھام کرنے والا اور حرام کاموں اور گناہوں کی باتوں سے روکنے والا ہو گا یا انہوں نے پہلی مخلوق کو دیکھا تھا اسی بنا پر اسے بھی قیاس کیا ہو گا ۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ فرشتوں کی یہ عرض بطور اعتراض نہ تھی نہ بنی آدم سے حسد کے طور پر تھی ۔ جن لوگوں کا یہ خیال ہے وہ قطعی غلطی کر رہے ہیں ۔ فرشتوں کی شان میں قرآن فرماتا ہے آیت «لَا یَسْبِقُوْنَہٗ بِالْقَوْلِ وَہُمْ بِاَمْرِہٖ یَعْمَلُوْنَ» ( 21 ۔ الانبیآء : 27 ) یعنی جس بات کے دریافت کرنے کی انہیں اجازت نہ ہو اس میں وہ لب نہیں ہلاتے ( اور یہ بھی ظاہر ہے کہ فرشتوں کی طبیعت حسد سے پاک ہے ) بلکہ صحیح مطلب یہ ہے کہ یہ سوال صرف اس حکمت معلوم کرنے کے لیے اور اس راز کے ظاہر کرانے کے لیے تھا جو ان کی سمجھ سے بالاتر تھا ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:464/1) یہ تو جانتے تھے کہ اس مخلوق میں فسادی لوگ بھی ہوں گے تو اب با ادب سوال کیا کہ پروردگار ایسی مخلوق کے پیدا کرنے میں کون سی حکمت ہے ؟ اگر عبادت مقصود ہے تو عبادت تو ہم کرتے ہی ہیں ، تسبیح و تقدیس و تحمید ہر وقت ہماری زبانوں پر ہے اور پھر فساد وغیرہ سے پاک ہیں تو پھر اور مخلوق جن میں فسادی اور خونی بھی ہوں گے کس مصلحت پر پیدا کی جا رہی ہے ؟ تو اللہ تعالیٰ نے ان کے سوال کا جواب دیا کہ باوجود اس کے فساد کے اسے جن مصلحتوں اور حکمتوں کی بنا پر میں پیدا کر رہا ہوں انہیں میں ہی جانتا ہوں تمہارا علم ان حکمتوں تک نہیں پہنچ سکتا میں جانتا ہوں کہ ان میں انبیاء اور رسول ہوں گے ان میں صدیق اور شہید ہوں گے ۔ ان میں عابد ، زاہد ، اولیاء ، ابرار ، نیکوکار ، مقرب بارگاہ ، علماء ، صلحاء ، متقی ، پرہیزگار ، خوف الٰہی ، حب باری تعالیٰ رکھنے والے بھی ہوں گے ۔ میرے احکام کی بسر و چشم تعمیل کرنے والے ، میرے نبیوں کے ارشاد پر لبیک پکارنے والے بھی ہوں گے ۔ صحیحین کی حدیث میں ہے کہ دن کے فرشتے صبح صادق کے وقت آتے ہیں اور عصر کو چلے جاتے ہیں ۔ تب رات کے فرشتے آتے ہیں اور صبح کو جاتے ہیں ۔ آنے والے جب آتے ہیں تب بھی اور جب جاتے ہیں تب بھی صبح کی اور عصر کی نماز میں لوگوں کو پاتے ہیں اور دربار الٰہی میں پروردگار کے سوال کے جواب میں دونوں جماعتیں یہی کہتی ہیں کہ گئے تو نماز میں پایا اور آئے تو نماز میں چھوڑ کر آئے ۔ (صحیح بخاری:555:صحیح) یہی وہ مصلحت اللہ ہے جسے فرشتوں کو بتایا گیا کہ میں جانتا ہوں اور تم نہیں جانتے ۔ ان فرشتوں کو اسی چیز کو دیکھنے کے لیے بھیجا جاتا ہے اور دن کے اعمال رات سے پہلے اور رات کے دن سے پہلے الٰہ العالمین کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں ۔ (صحیح مسلم:179:صحیح) غرض تفصیلی حکمت جو پیدائش انسان میں تھی اس کی نسبت فرمایا کہ یہ میرے مخصوص علم میں ہے ۔ جو تمہیں معلوم نہیں بعض کہتے ہیں یہ جواب فرشتوں کے اس قول کا ہے کہ ہم تیری تسبیح وغیرہ کرتے رہتے ہیں تو انہیں فرمایا گیا کہ میں ہی جانتا ہوں تم جیسا سب کو یکساں سمجھتے ہو ایسا نہیں بلکہ تم میں ایک ابلیس بھی ہے ۔ ایک تیسرا قول یہ ہے کہ فرشتوں کا یہ سب کہنا دراصل یہ مطلب رکھتا تھا کہ ہمیں زمین میں بسایا جائے تو جواباً کہا گیا کہ تمہاری آسمانوں میں رہنے کی مصلحت میں ہی جانتا ہوں اور مجھے علم ہے کہ تمہارے لائق جگہ یہی ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» حسن رحمہ اللہ قتادہ رحمہ اللہ وغیرہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو خبر دی ۔ سدی رحمہ اللہ کہتے ہیں مشورہ لیا ۔ لیکن اس کے معنی بھی خبر دینے کے ہو سکتے ہیں ۔ اگر نہ ہوں تو پھر یہ بات بے وزن ہو جاتی ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب مکہ سے زمین پھیلائی اور بچھائی گئی تو بیت اللہ شریف کا طواف سب سے پہلے فرشتوں نے کیا اور زمین میں خلیفہ بنانے سے مراد مکہ میں خلیفہ بنانا ہے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:599:ضعیف جداً) یہ حدیث مرسل ہے پھر اس میں ضعف ہے اور مدرج ہے یعنی زمین سے مراد مکہ لینا راوی کا اپنا خیال ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ زمین سے ساری زمین مراد ہے ۔ فرشتوں نے جب یہ سنا تو پوچھا تھا کہ وہ خلیفہ کیا ہو گا ؟ اور جواب میں کہا گیا تھا کہ اس کی اولاد میں ایسے لوگ بھی ہوں گے جو زمین میں فساد کریں ، حسد و بغض کریں ، قتل و خون کریں ان میں وہ عدل و انصاف کرے گا اور میرے احکام جاری کرے گا تو اس سے مراد آدم ہیں ۔ جو ان کے قائم مقام اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور مخلوق میں عدل و انصاف کرنے کی بنا پر فساد پھیلانے اور خون بہانے والے خلیفہ نہیں ۔ لیکن یہ یاد رہے کہ یہاں مراد خلافت سے ایک زمانہ جو دوسرے زمانہ کے بعد آتا ہے ۔ خلیفہ فعیلہ ، کے وزن پر ہے ۔ جب ایک کے بعد دوسرا اس کے قائم مقام ہو تو عرب کہتے ہیں ۔ «خَلَفَ فُلاَنٌ فُلاَنًا» فلاں شخص کا خلیفہ ہوا جیسے قرآن میں ہے کہ ہم ان کے بعد تمہیں زمین کا خلیفہ بنا کر دیکھتے ہیں کہ تم کیسے عمل کرتے ہو ۔ (10-یونس:14) اور اسی لیے سلطان اعظم کو خلیفہ کہتے ہیں اس لیے کہ وہ اگلے بادشاہ کا جانشین ہوتا ہے محمد بن اسحٰق رحمہ اللہ کہتے ہیں مراد یہ ہے کہ زمین کا ساکن اس کی آبادی کرنے والا ہے ۔ یہ آثار اہل کتاب سے لیے گئے ہیں ان میں سے کوئی چیز حجت نہیں اور ضحاک کی ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ملاقات ثابت نہیں نیز بشر بن عمارہ ضعیف ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں پہلے زمین میں جنات بستے تھے ۔ انہوں نے اس میں فساد کیا اور خون بہایا اور قتل و غارت کیا ابلیس کو بھیجا گیا اس نے اور اس کے ساتھیوں نے انہیں مار مار کر جزیروں اور پہاڑوں میں بھگا دیا آدم علیہ السلام کو پیدا کر کے زمین میں بسایا تو گویا یہ ان پہلے والوں کے خلیفہ اور جانشین ہوئے ۔ پس فرشتوں کے قول سے مراد اولاد آدم علیہ السلام ہیں ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:603) جس وقت ان سے کہا گیا کہ میں زمین کو اور اس میں بسنے والی مخلوق کو پیدا کرنا چاہتا ہوں ۔ اس وقت زمین تھی لیکن اس میں آبادی نہ تھی ۔ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم سے یہ بھی مروی ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں معلوم کروا دیا تھا کہ اولاد آدم ایسے ایسے کام کرے گی تو انہوں نے یہ پوچھا ، اور یہ بھی مروی ہے کہ جنات کے فساد پر انہوں نے بنی آدم کے فساد کو قیاس کر کے یہ سوال کیا ۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آدم علیہ السلام سے دو ہزار سال پہلے سے جنات زمین میں آباد تھے ۔ ابوالعالیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں فرشتے بدھ کے دن پیدا ہوئے اور جنات کو جمعرات کے دن پیدا کیا اور جمعہ کے دن آدم علیہ السلام پیدا ہوئے حسن اور قتادہ رحمہ اللہ علیہما کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں خبر دی تھی کہ ابن آدم ایسا ایسا کریں گے ، اس بنا پر انہوں نے سوال کیا ۔ ابو جعفر محمد بن علی رحمہ اللہ فرماتے ہیں سجل نامی ایک فرشتہ ہے جس کے ساتھی ہاروت ماروت تھے ۔ اسے ہر دن تین مرتبہ لوح محفوظ پر نظر ڈالنے کی اجازت تھی ۔ ایک مرتبہ اس نے آدم علیہ السلام کی پیدائش اور دیگر امور کا جب مطالعہ کیا تو چپکے سے اپنے ان دونوں ساتھیوں کو بھی اطلاع کر دی ۔ اب جو اللہ تعالیٰ نے اپنا ارادہ ظاہر فرمایا تو ان دونوں نے یہ سوال کیا لیکن یہ روایت غریب ہے اور صبح مان لینے پر بھی ممکن ہے کہ ابو جعفر رحمہ اللہ نے اسے اہل کتاب یہود و نصاریٰ سے اخذ کیا ہو ۔ بہر صورت یہ ایک واہی تواہی روایت ہے اور قابل تردید ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» پھر اس روایت میں ہے کہ دو فرشتوں نے یہ سوال کیا ۔ یہ قرآن کی روانی عبارت کے بھی خلاف ہے ۔ یہ بھی روایت مروی ہے کہ یہ کہنے والے فرشتے دس ہزار تھے اور وہ سب کے سب جلا دئیے گئے ۔ یہ بھی بنی اسرائیلی روایت ہے اور بہت ہی غریب ہے امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سوال کی انہیں اجازت دی گئی تھی اور یہ بھی معلوم کرا دیا گیا تھا کہ یہ مخلوق نافرمان بھی ہو گی تو انہوں نے نہایت تعجب کے ساتھ اللہ کی مصلحت معلوم کرنے کے لیے یہ سوال کیا نہ کہ کوئی مشورہ دیا یا انکار کیا یا اعتراض کیا ہو ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب آدم علیہ السلام کی پیدائش شروع ہوئی تو فرشتوں نے کہا ناممکن ہے کہ کوئی مخلوق ہم سے زیادہ بزرگ اور عالم ہو تو اس پر یہ امتحان اللہ کی طرف سے آیا اور کوئی مخلوق امتحان سے نہیں چھوٹی ۔ زمین اور آسمان پر بھی امتحان آیا تھا اور انہوں نے سرخم کر کے اطاعت الٰہیہ کے لیے آمادگی ظاہر کی فرشتوں کی تسبیح و تقدیس سے مراد اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرنا نماز پڑھنا بے ادبی سے بچنا ، بڑائی اور عظمت کرنا ہے ۔ فرماں برداری کرنا «سبوح قدوس» وغیرہ پڑھنا ہے ۔ قدس کے معنی پاک کے ہیں ۔ پاک زمین کو مقدس کہتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوتا ہے کہ کون سا کلام افضل ہے جواب دیتے ہیں وہ جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں کے لیے پسند فرمایا سبحان اللہ وبحمدہ ( صحیح مسلم:2731:صحیح ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج والی رات آسمانوں پر فرشتوں کی یہ تسبیح سنی «سبحان العلی الاعلی سبحانہُ تعالیٰ» ۔ خلیفہ کے فرائض اور خلافت کی نوعیت امام قرطبی رحمہ اللہ وغیرہ نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ خلیفہ کا مقرر کرنا واجب ہے تاکہ وہ لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ کرے ، ان کے جھگڑے چکائے ، مظلوم کا بدلہ ظالم سے لے ، حدیں قائم کرے ، برائیوں کے مرتکب لوگوں کو ڈانٹے ڈپٹے وغیرہ ، وہ بڑے بڑے کام جو بغیر امام کے انجام نہیں پا سکتے ۔ چونکہ یہ کام واجب ہیں اور یہ بغیر امام کے پورے نہیں ہو سکتے اور جس چپز کے بغیر واجب پورا نہ ہو وہ بھی واجب ہو جاتی ہے لہٰذا خلیفہ کا مقرر کرنا واجب ثابت ہوا ۔ امامت یا تو قرآن و حدیث کے ظاہری لفظوں سے ملے گی جیسے کہ اہل سنت کی ایک جماعت کا سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی نسبت خیال ہے کہ ان کا نام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خلافت کے لیے لیا تھا یا قرآن و حدیث سے اس کی جانب اشارہ ہو ۔ جیسے اہل سنت ہی کی دوسری جماعت کا خلیفہ اول کی بابت یہ خیال ہے کہ اشارۃً ان کا ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خلافت کے لیے کیا ۔ یا ایک خلیفہ اپنے بعد دوسرے کو نامزد کر جائے جیسے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو اپنا جانشین مقرر کر دیا تھا ۔ یا وہ صالح لوگوں کی ایک کمیٹی بنا کر انتخاب کا کام ان کے سپرد کر جائے جیسے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کیا تھا یا اہل حل و عقد ( یعنی بااثر سرداران لشکر علماء و صلحاء وغیرہ ) اس کی بیعت پر اجماع کر لیں یا ان میں سے کوئی اس کی بیعت کر لے تو جمہور کے نزدیک اس کا لازم پکڑنا واجب ہو جائے گا ۔ امام الحرمین نے اس پر اجماع نقل کیا ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ یا کوئی شخص لوگوں کو بزور و جبر اپنی ماتحتی پر بے بس کر دے تو بھی واجب ہو جاتا ہے کہ اس کے ہاتھ پر بیعت کر لیں تاکہ پھوٹ اور اختلاف نہ پھیلے ۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے صاف لفظوں میں فیصلہ کیا ہے ۔ اس بیعت کے وقت گواہوں کی موجودگی کے واجب ہونے میں اختلافات ہے بعض تو کہتے ہیں یہ شرط نہیں ، بعض کہتے ہیں شرط ہے اور دو گواہ کافی ہیں ۔ جبائی کہتا ہے بیعت کرنے والے اور جس کے ہاتھ پر بیعت ہو رہی ہے ان دونوں کے علاوہ چار گواہ چاہئیں ۔ جیسے کہ سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ نے شوریٰ کے چھ ارکان مقرر کئے تھے پھر انہوں نے سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کو مختار کر دیا اور آپ رضی اللہ عنہ نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر باقی چاروں کی موجودگی میں بیعت کی لیکن اس استدلال میں اختلاف ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» امام کا مرد ہونا ، آزاد ہونا ، بالغ ہونا ، عقلمند ہونا ، مسلمان ہونا ، عادل ہونا ، مجتہد ہونا ، آنکھوں والا ہونا ، صحیح سالم اعضاء والا ہونا ، فنون جنگ سے اور رائے سے خبردار ہونا ، قریشی ہونا واجب ہے اور یہی صحیح ہے ۔ ہاں ہاشمی ہونا اور خطا سے معصوم ہونا شرط نہیں ۔ یہ دونوں شرطیں متشدد رافضی لگاتے ہیں امام اگر فاسق ہو جائے تو اسے معزول کر دینا چاہیئے یا نہیں ؟ اس میں اختلاف ہے اور صحیح یہ ہے کہ معزول نہ کیا جائے کیونکہ حدیث میں آ چکا ہے کہ جب تک ایسا کھلا کفر نہ دیکھ لو جس کے کفر ہونے کی ظاہر دلیل اللہ کی طرف سے تمہارے پاس ہو ، (صحیح بخاری:7056:صحیح) اسی طرح خود امام اپنے آپ معزول ہو سکتا ہے یا نہیں ؟ اس میں بھی اختلاف ہے ۔ سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما خودبخود آپ ہی معزول ہو گئے تھے اور امر امامت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو سونپ دیا تھا لیکن یہ عذر کے باعث تھا جس پر ان کی تعریف کی گئی ہے ۔ روئے زمین پر ایک سے زیادہ امام ایک وقت میں نہیں ہو سکتے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جب تم میں اتفاق ہو اور کوئی اگر تم میں جدائی ڈالنی چاہے تو اسے قتل کر دو خواہ کوئی بھی ہو ۔ (صحیح مسلم:1856:صحیح) جمہور کا یہی مذہب ہے اور بہت سے بزرگوں نے اس پر اجماع نقل کیا ہے جن میں سے ایک امام الحرمین ہیں ۔ کرامیہ ( شیعہ ) کا قول ہے کہ دو اور زیادہ بھی ایک وقت میں امام ہو سکتے ہیں جیسے کہ سیدنا علی اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہما دونوں اطاعت کے لائق تھے ۔ یہ گروہ کہتا ہے کہ جب ایک وقت میں دو دو اور زیادہ نبیوں کا ہونا جائز ہے تو اماموں کا جائز ہونا جائز کیوں نہ ہو ؟ نبوت کا مرتبہ تو یقیناً امامت کے مرتبے سے بہت زیادہ ہے ( لیکن صحیح مسلم والی حدیث آپ ابھی اوپر چڑھ چکے ہیں کہ دوسرے کو قتل کر ڈالو ۔ اس لیے صحیح مذہب وہی ہے جو پہلے بیان ہوا ) امام الحرمین نے استاذ ابواسحاق رحمہ اللہ سے بھی حکایت کی ہے کہ وہ دو اور زیادہ اماموں کا مقرر کرنا اس وقت جائز جانتے ہیں جب مسلمانوں کی سلطنت بہت بڑی وسیع ہو اور چاروں طرف پھیلی ہوئی ہو اور دو اماموں کے درمیان کئی ملکوں کا فاصلہ ہو ۔ امام الحرمین اس میں تردد میں ہیں ، خلفائے بنی عباس کا عراق میں اور خلفائے بنی فاطمہ کا مصر میں اور خاندان بنی امیہ کا مغرب میں میرے خیال سے یہی حال تھا ۔ اس کی بسط و تفصیل ان شاءاللہ کتاب الاحکام کی کسی مناسب جگہ ہم کریں گے ۔ البقرة
31 آدم علیہ السلام کی وجہ فضیلت یہاں سے اس بات کا بیان ہو رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک خاص علم میں آدم علیہ السلام کو فرشتوں پر بھی فضیلت دی ۔ یہ واقعہ فرشتوں کے سجدہ کرنے کے بعد کا ہے لیکن اللہ کی جو حکمت آپ علیہ السلام کے پیدا کرنے میں تھی اور جس کا علم فرشتوں کو نہ تھا اور اس کا اجمالی بیان اوپر کی آیت میں گزرا ہے اس کی مناسبت کی وجہ سے اس واقعہ کو پہلے بیان کیا اور فرشتوں کا سجدہ کرنا جو اس سے پہلے واقعہ ہوا تھا بعد میں بیان کر دیا تاکہ خلیفہ کے پیدا کرنے کی مصلحت اور حکمت ظاہر ہو جائے اور یہ معلوم ہو جائے کہ یہ شرافت اور فضیلت آدم کو اس لیے ملی کہ انہیں وہ علم حاصل ہے جس سے فرشتے خالی ہیں ۔ فرمایا کہ آدم علیہ السلام کو تمام نام بتائے یعنی ان کی تمام اولاد کے علاوہ سب جانوروں ، زمین ، آسمان ، پہاڑ ، تری ، خشکی ، گھوڑے ، گدھے ، برتن ، چرند ، فرشتے ، تارے وغیرہ تمام چھوٹی بڑی چیزوں کے (تفسیر ابن جریر الطبری:458/1) ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ فرشتوں اور انسانوں کے نام معلوم کرائے گئے تھے کیونکہ اس کے بعد «عرضھم» آتا ہے اور یہ ذی عقل لوگوں کے لیے آتا ہے ۔ لیکن یہ کوئی ایسی معقول وجہ نہیں جہاں ذی عقل اور غیر ذی عقل جمع ہوتے ہیں وہاں جو لفظ لایا جاتا ہے وہ عقل و ہوش رکھنے والوں کا ہی لایا جاتا ہے جیسے قرآن میں ہے آیت «وَاللّٰہُ خَلَقَ کُلَّ دَابَّۃٍ مِّنْ مَّاءٍ» ( 24 ۔ النور : 45 ) اللہ تعالیٰ نے تمام جانوروں کو پانی سے پیدا کیا جن میں سے بعض تو پیٹ کے بل گھسٹتے ہیں بعض دو پیروں پر چلتے ہیں بعض چارپاؤں پر چلتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے وہ ہر چیز پر قادر ہے پس اس آیت سے ظاہر ہے کہ غیر ذی عقل بھی داخل ہیں مگر صیغے سب ذی عقل کے ہیں ۔ علاوہ ازیں «عَرْضَھُنَّ» بھی سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کی قرأت میں ہے اور سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی قرأت میں «عَرَضھَا» بھی ہے ۔ صحیح قول یہی ہے کہ تمام چیزوں کے نام سکھائے تھے ذاتی نام بھی صفاتی نام بھی اور کاموں کے نام بھی ، جیسے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ گوز کا نام تک بھی بتایا گیا تھا ۔ صحیح بخاری کتاب التفسیر میں اس آیت کی تفسیر میں امام بخاری رحمہ اللہ یہ حدیث لائے ہیں ۔ مسئلہ شفاعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ایماندار قیامت کے دن جمع ہوں گے اور کہیں گے کیا اچھا ہو گا اگر کسی کو ہم اپنا سفارشی بنا کر اللہ کے پاس بھیجیں چنانچہ یہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور ان سے کہیں گے کہ آپ ہم سب کے باپ ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اپنے فرشتوں سے آپ کو سجدہ کرایا آپ کو تمام چیزوں کے نام سکھائے ۔ آپ اللہ تعالیٰ کے سامنے ہماری سفارش لے جائیں ۔ جو ہم اس سے راحت پائیں ۔ آدم علیہ السلام یہ سن کر جواب دیں گے کہ میں اس قابل نہیں ۔ انہیں اپنا گناہ یاد آ جائے گا ۔ تم نوح علیہ السلام کے پاس جاؤ وہ پہلے رسول ہیں جنہں اللہ تعالٰی نے زمین والوں کی طرف بھیجا ۔ سب لوگ یہ جواب سن کر حضرت نوح علیہ السلام کے پاس آئیں گے آپ بھی یہی جواب دیں گے اور اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف اپنے بیٹے کے لیے اپنا دعا مانگنا یاد کر کے شرما جائیں گے اور فرمائیں گے تم خلیل الرحمن ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ ۔ یہ سب آپ علیہ السلام کے پاس آئیں گے لیکن یہاں سے بھی یہی جواب پائیں گے ۔ آپ علیہ السلام فرمائیں گے تم موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ جن سے اللہ نے کلام کیا اور جنہیں تورات عنایت فرمائی ۔ یہ سن کر سب کے سب موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور آپ سے بھی یہی درخواست کریں گے لیکن یہاں سے بھی جواب پائیں گے آپ علیہ السلام کو بھی ایک شخص کو بغیر قصاص کے مار ڈالنا یاد آ جائے گا اور شرمندہ ہو جائیں گے اور فرمائیں گے تم عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول اور کلمۃ اللہ اور روح اللہ ہیں ۔ یہ سب ان کے پاس بھی جائیں گے لیکن یہاں سے بھی یہی جواب ملے گا کہ میں اس لائق نہیں تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ جن کے تمام اگلے پچھلے گناہ بخش دئیے گئے ہیں ۔ اب وہ سارے کے سارے میرے پاس آئیں گے میں آمادہ ہو جاؤں گا اور اپنے رب سے اجازت طلب کروں گا ۔ مجھے اجازت دے دی جائے گی میں اپنے رب کو دیکھتے ہی سجدے میں گر پڑوں گا جب تک اللہ کو منظور ہو گا سجدے میں ہی پڑا رہوں گا پھر آواز آئے گی کہ سر اٹھائیے سوال کیجئے پورا کیا جائے گا ، کہئے سنا جائے گا ، شفاعت کیجئے قبول کی جائے گی ۔ اب میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور اللہ تعالیٰ کی وہ تعریفیں بیان کروں گا جو اسی وقت اللہ تعالیٰ مجھے سکھائے گا پھر میں شفاعت کروں گا ۔ میرے لیے حد مقرر کر دی جائے گی میں انہیں جنت میں پہنچا کر پھر آؤں گا ۔ پھر اپنے رب کو دیکھ کر اسی طرح سجدہ میں گر پڑوں گا ۔ پھر شفاعت کروں گا پھر حد مقرر ہو گی انہیں بھی جنت میں پہنچا کر تیسری مرتبہ آؤں گا پھر چوتھی بار ضرور ہوں گا یہاں تک کہ جہنم میں صرف وہی رہ جائیں گے جنہیں قرآن نے روک رکھا ہو اور جن کے لیے جہنم کی مداومت واجب ہو گئی ہو (صحیح بخاری:4476:صحیح) ( یعنی شرک و کفر کرنے والے ) صحیح مسلم شریف میں نسائی میں ابن ماجہ وغیرہ میں یہ حدیث شفاعت موجود ہے ۔(صحیح مسلم:193:صحیح) یہاں اس کے وارد کرنے سے مقصود یہ ہے کہ اس حدیث میں یہ جملہ بھی ہے کہ لوگ آدم علیہ السلام سے کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام چیزوں کے نام سکھائے ۔ پھر ان چیزوں کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور ان سے فرمایا کہ لو اگر تم اپنے قول میں سچے ہو کہ تم ساری مخلوق سے زیادہ علم والے ہو یا اپنی اس بات میں سچے ہو کہ اللہ تعالیٰ زمین میں خلیفہ نہ بنائے گا تو ان چیزوں کے نام بتاؤ ۔ یہ بھی مروی ہے کہ اگر تم اپنی اس بات میں کہ ” بنی آدم فساد کریں گے اور خون بہائیں گے “ سچے ہو تو ان کے نام بتاؤ ۔ (عبدالرزاق:42/1) لیکن قول پہلا ہی ہے ۔ گویا اس میں انہیں ڈانٹا گیا کہ بتاؤ تمہارا قول کہ تم ہی زمین کی خلافت کے لائق ہو اور انسان نہیں ۔ تم ہی میرے تسبیح خواں اور اطاعت گزار ہو اور انسان نہیں ۔ اگر تم صحیح ہو تو لو یہ چیزیں جو تمہارے سامنے موجود ہیں ۔ انہی کے نام بتاؤ ۔ اور اگر تم نہیں بتا سکتے تو سمجھ لو کہ جب موجودہ چیزوں کے نام بھی تمہیں معلوم نہیں تو آئندہ آنے والی چیزوں کی نسبت تمہیں علم کیسے ہو گا ؟ فرشتوں نے یہ سنتے ہی اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی اور بڑائی اور اپنے علم کی کمی بیان کرنا شروع کر دی اور کہہ دیا کہ جسے جتنا کچھ اے اللہ تو نے سکھا دیا اتنا ہی علم اسے حاصل ہے تمام چیزوں پر احاطہٰ رکھنے والا علم تو صرف تجھی کو ہے تو ہر چیز کا جاننے والا ہے اپنے تمام احکام میں حکمت رکھنے والا ہے جسے جو سکھائے وہ بھی حکمت سے اور جسے نہ سکھائے وہ بھی حکمت سے تو حکمتوں والا اور عدل والا ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں سبحان اللہ کے معنی اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی کے ہیں کہ وہ ہر برائی سے منزہ ہے ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہما اور اپنے پاس کے دوسرے اصحاب سے ایک مرتبہ سوال کیا کہ آیت «لا الہ الا اللہ» تو ہم جانتے ہیں لیکن دعا «سبحان اللہ» کیا کلمہ ہے ؟ تو سیدنا علی رضی اللہ عنہما نے جواب دیا کہ اس کلمہ کو باری تعالیٰ نے اپنے نفس کے لیے پسند فرمایا ہے اور اس سے وہ خوش ہوتا ہے اور اس کا کہنا اسے محبوب ہے ۔ میمون بن مہران رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی تعظیم ہے اور تمام برائیوں سے پاکیزگی کا بیان ہے ۔ آدم نے نام بتا دیے کہ تمہارا نام جبرائیل ہے تمہارا نام میکائیل ہے ، تم اسرافیل ہو یہاں تک کہ چیل کوے وغیرہ سب کے نام بھی جب ان سے پوچھے گئے تو انہوں نے بتا دیے ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:118/1-119) جب آدم علیہ السلام کی یہ فضیلت فرشتوں کو معلوم ہوئی تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا دیکھو میں نے تم سے پہلے نہ کہا تھا کہ میں ہر پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا ہوں ۔ جیسے اور جگہ ہے آیت «وَاِنْ تَجْــہَرْ بِالْقَوْلِ فَاِنَّہٗ یَعْلَمُ السِّرَّ وَاَخْفٰی» ( 20 ۔ طہٰ : 7 ) تم بلند آواز سے کہو ( یا نہ کہو ) اللہ تو پوشیدہ سے پوشیدہ حیز کو جانتا ہے اور ارشاد فرمایا آیت «أَلَّا یَسْجُدُوا لِلہِ الَّذِی یُخْرِجُ الْخَبْءَ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَیَعْلَمُ مَا تُخْفُونَ وَمَا تُعْلِنُونَ اللہُ لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ رَبٰ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ» ( 27-النمل : 25 ، 26 ) کیوں یہ لوگ اس اللہ تعالیٰ کو سجدہ نہیں کرتے جو آسمانوں اور زمین کی چھپی چیزوں کو نکالتا ہے اور جو تمہارے ہر باطن اور ظاہر کو جانتا ہے اللہ تعالیٰ اکیلا ہی معبود ہے اور وہی عرش عظیم کا رب ہے ۔ جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو چھپاتے تھے اسے بھی میں جانتا ہوں ۔ مطلب یہ ہے کہ ابلیس کے دل میں جو تکبر اور غرور تھا اسے میں جانتا تھا ۔ فرشتوں کا یہ کہنا کہ زمین میں ایسی شخصیت کو کیوں پیدا کرتا ہے جو فساد کرے اور خون بہائے یہ تو وہ قول تھا جسے انہوں نے ظاہر کیا تھا اور جو چھپایا تھا وہ ابلیس کے دل میں غرور اور تکبر تھا ۔ سیدنا ابن عباس ، سیدنا ابن مسعود اور بعض صحابہ رضی اللہ عنہم اور سعید بن جبیر اور مجاہد اور سدی اور ضحاک اور ثوری رحمہ اللہ علیہم کا یہی قول ہے ۔ ابن جریر رحمہ اللہ بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں اور ابوالعالیہ رحمہ اللہ ربیع بن انس حسن اور قتادہ رحمہ اللہ علیہم کا قول ہے کہ ان کی باطن بات ان کا یہ کہنا تھا کہ جس مخلوق کو اللہ تعالیٰ پیدا کرے گا ہم اس سے زیادہ عالم اور زیادہ بزرگ ہوں گے لیکن بعد میں ثابت ہو گیا اور خود انہوں نے بھی جان لیا کہ آدم علیہ السلام کو علم اور فضیلت دونوں میں ان پر فوقیت حاصل ہے ۔ عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا جس طرح تم ان چیزوں کے ناموں سے بے خبر ہو اسی طرح تم یہ بھی نہیں جان سکتے کہ ان میں بھلے برے ہر طرح کے ہوں گے ۔ فرمانبردار بھی ہوں گے اور نافرمان بھی ۔ اور میں پہلے ہی لکھ چکا ہوں کہ مجھے جنت دوزخ دونوں کو بھرنا ہے لیکن تمہیں میں نے اس کی خبر نہیں دی ۔ اب جب کہ فرشتوں نے آدم کو دیا ہوا علم دیکھا تو ان کی بندگی کا اقرار کر لیا ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں سب سے اولیٰ قول سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ہے کہ آسمان و زمین کے غیب کا علم تمہارے ظاہر و باطن کا علم مجھے ہے ان کے ظاہری قول کو اور ابلیس کے باطنی عجب و غرور کو بھی جانتا تھا ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:498/1) اس میں چھپانے والا صرف ایک ابلیس ہی تھا لیکن صیغہ جمع کا لایا گیا ہے اس لیے کہ عرب میں یہ دستور ہے اور ان کے کلام میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ ایک کے یا بعض کے ایک کام کو سب کی طرف نسبت کر دیا کرتے وہ کہتے ہیں کہ لشکر مار ڈالا گیا یا انہیں شکست ہوئی حالانکہ شکست اور قتل ایک کا یا بعض کا ہوتا ہے اور صیغہ جمع کا لاتے ہیں ۔ بنو تمیم کے ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرے کے آگے سے پکارا تھا لیکن قرآن میں اس کا بیان ان لفظوں میں ہے کہ آیت «اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَکَ مِنْ وَّرَاءِ الْحُـجُرٰتِ» ( 49 ۔ الحجرات : 4 ) جو لوگ تمہیں اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حجروں کے آگے سے پکارتے ہیں تو دیکھئیے کہ پکار نے والا ایک تھا اور صیغہ جمع کا لایا گیا ۔ اسی طرح آیت «وَاللّٰہُ مُخْرِجٌ مَّا کُنْتُمْ تَکْتُمُوْنَ» ( 2 ۔ البقرہ : 72 ) میں بھی اپنے دل میں بدی کو چھپانے والا صرف ایک ابلیس ہی تھا لیکن صیغہ جمع کا لایا گیا ۔ البقرة
32 البقرة
33 البقرة
34 آدم علیہ السلام پر اللہ تعالٰی کے احسانات حضرت آدم علیہ السلام کی اس بہت بڑی بزرگی کا ذکر کر کے اللہ تعالیٰ نے انسانوں پر اپنا بہت بڑا احسان فرمایا اور خبر دی کہ اس نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ آدم علیہ السلام کو سجدہ کریں ۔ اس کی تصدیق میں بہت سی حدیثیں ہیں ایک تو حدیث شفاعت جو ابھی بیان ہوئی ۔ دوسری حدیث میں ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی کہ میری ملاقات آدم علیہ السلام سے کرا دیجئیے جو خود بھی جنت سے نکلے اور ہم سب کو بھی نکالا ۔ جب دونوں پیغمبر جمع ہوئے تو موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ تم وہ آدم علیہ السلام ہو کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور اپنی روح تم میں بھی پھونکی اور اپنے فرشتوں سے تمہیں سجدہ کرایا(سنن ابوداود:4702 ، قال الشیخ الألبانی:حسن) ( آخر تک ) پوری حدیث عنقریب بیان ہو گی ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ابلیس فرشتوں کے ایک قبیلہ میں سے تھا جنہیں جن کہتے تھے جو آگ کے شعلوں سے پیدا ہوئے تھے ۔ اس کا نام حارث تھا اور جنت کا خازن تھا ۔ اس قبیلے کے سوا اور فرشتے سب کے سب نوری تھے ۔ قرآن نے بھی ان جنوں کی پیدائش کا ذکر کیا ہے اور فرمایا ہے آیت «وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مَّارِجٍ مِّنْ نَّارٍ» ( 55 ۔ الرحمن : 15 ) آگ کے شعلے کی جو تیزی سے بلند ہوتے ہیں اسے مارج کہتے ہیں جس سے جن پیدا کئے گئے تھے اور انسان مٹی سے پیدا کیا گیا ۔ زمین میں پہلے جن بستے تھے ۔ انہوں نے فساد اور خون ریزی شروع کی تو اللہ تعالیٰ نے ابلیس کو فرشتوں کا لشکر دے کر بھیجا انہی کو ” جن “ کہا جاتا تھا ۔ ابلیس نے لڑ بھڑ کر مارتے اور قتل کرتے ہوئے انہیں سمندر کے جزیروں اور پہاڑوں کے دامنوں میں پہنچا دیا اور ابلیس کے دل میں یہ تکبر سما گیا کہ میں نے وہ کام کیا ہے جو کسی اور سے نہ ہو سکا ۔ چونکہ دل کی اس بدی اور اس پوشیدہ خودی کا علم صرف اللہ تعالیٰ ہی کو تھا ۔ جب پروردگار نے فرمایا کہ زمین میں خلیفہ پیدا کرنا چاہتا ہوں تو ان فرشتوں نے عرض کیا کہ ایسے کو کیوں پیدا کرتا ہے جو اگلی قوم کی طرح فساد و خونریزی کریں تو انہیں جواب دیا گیا کہ میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے یعنی ابلیس کے دل میں جو کبر و غرور ہے اس کا مجھی کو علم ہے تمہیں خبر نہیں ۔ پھر آدم علیہ السلام کی مٹی اٹھائی گئی جو چکنی اور اچھی تھی ۔ جب اس کا خمیر اٹھا تب اس سے آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور چالیس دن تک وہ یونہی پتلے کی شکل میں رہے ابلیس آتا تھا اور اس پر لات مار کر دیکھتا تھا تو وہ بجتی مٹی ہوتی جیسے کوئی کھوکھلی چیز ہو پھر منہ کے سوراخ سے گھس کر پیچھے کے سوراخ سے اور اس کے خلاف آتا جاتا رہا اور کہتا رہا کہ درحقیقت یہ کوئی چیز نہیں اور اگر میں اس پر مسلط کیا گیا تو اسے برباد کر کے چھوڑ دوں گا اور اسے مجھ پر مسلط کیا گیا تو میں ہر گز تسلیم نہ کروں گا ۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے ان میں روح پھونکی اور وہ سر کی طرف سے نیچے کی طرف آئی تو جہاں جہاں تک پہنچتی گئی خون گوشت بنتا گیا ۔ جب ناف تک روح پہنچی تو اپنے جسم کو دیکھ کر خوش ہوئے اور فوراً اٹھنا چاہا لیکن نیچے کے دھڑ میں روح نہیں پہنچتی تھی اس لیے اٹھ نہ سکے اسی جلدی کا کا بیان اس آیت میں ہے آیت «وَکَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا» ( 17 ۔ الاسرآء : 11 ) یعنی انسان بےصبرا اور جلد باز ہے نہ تو خوشی نہ رنج میں ۔ جب روح جسم میں پہنچی اور چھینک آئی تو کہا آیت «الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ» اللہ تعالیٰ نے جواب دیا دعا «یرحمک اللہ» پھر صرف ابلیس کے ساتھی فرشتوں سے فرمایا کہ آدم کے سامنے سجدہ کرو تو ان سب نے سجدہ کیا لیکن ابلیس کا وہ غرور و تکبر ظاہر ہو گیا اس نے نہ مانا اور سجدے سے انکار کر دیا اور کہنے لگا میں اس سے بہتر ہوں اس سے بڑی عمر والا ہوں ۔ اور اس سے قوی اور مضبوط ہوں ۔ یہ مٹی سے پیدا کیا گیا ہے اور میں آگ سے بنا ہوں اور آگ مٹی سے قوی ہے ۔ اس کے انکار پر اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی رحمت سے ناامید کر دیا اور اسی لیے اسے ابلیس کہا جاتا ہے ۔ اس کی نافرمانی کی سزا میں اسے راندہ درگاہ شیطان بنا دیا ۔ پھر آدم علیہ السلام کو انسان جانور زمین سمندر پہاڑ وغیرہ کے نام بتا کر ان کو ان فرشتوں کے سامنے پیش کیا جو ابلیس کے ساتھی تھے اور آگ سے پیدا شدہ تھے اور ان سے فرمایا کہ اگر تم اس بات میں سچے ہو کہ میں زمین میں اسے خلیفہ نہ بناؤں تو ذرا مجھے ان چیزوں کے نام تو بتا دو ۔ جب ان فرشتوں نے دیکھا کہ ہماری اگلی بات سے الٰہ العالمین ناراض ہے تو وہ کہنے لگے کہ اللہ عزوجل تو اس بات سے پاک ہے کہ تیرے سوا کوئی اور غیب کو جانے ہماری توبہ ہے اور اقرار ہے کہ ہم غیب داں نہیں ۔ ہم تو صرف وہی جان سکتے ہیں جس کا علم تو ہمیں دیدے ۔ جیسے تو نے ان کے نام صرف آدم علیہ السلام کو ہی سکھائے ہیں ۔ اب اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام سے فرمایا کہ تم انہیں ان تمام چیزوں کے نام بتا دو چنانچہ انہوں نے بتا دئیے تو فرمایا اے فرشتو ! کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ آسمان و زمین کے غیب کا جاننے والا صرف میں اکیلا ہی ہوں اور کوئی نہیں ۔ میں ہر پوشیدہ چیز کو بھی ویسا ہی جانتا ہوں جیسے ظاہر کو اور تم سب اس سے بے خبر ہو لیکن یہ قول بھی غریب ہے اور اس میں بہت سی باتیں ایسی ہیں جن میں خامیاں ہیں ہم اگر انہیں الگ الگ بیان کریں تو مضمون بہت بڑھ جائے گا اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما تک اس اثر کی سند بھی وہی ہے جس سے ان کی مشہور تفسیر مروی ہے ۔ ایک اور حدیث میں بھی اسی طرح مروی ہے جس کے متن میں کچھ کمی زیادتی بھی ہے اور اس میں یہ بھی ہے کہ زمین کی مٹی لینے کے لیے جب جبرائیل علیہ السلام گئے تو زمین نے کہا کہ میں اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتی ہوں کہ تو مجھ میں سے کچھ گھٹائے وہ واپس چلے گئے پھر ملک الموت کو بھیجا ۔ زمین نے ان سے بھی یہی کہا لیکن انہوں نے جواب دیا کہ میں بھی اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آتا ہوں کہ میں اللہ کا حکم پورا کئے بغیر واپس چلا جاؤں چنانچہ انہوں نے تمام روئے زمین سے ایک ایک مٹھی مٹی لی ۔ چونکہ مٹی کا رنگ کہیں سرخ تھا کہیں سفید کہیں سیاہ اسی وجہ سے انسانوں کی رنگتیں بھی طرح طرح کی ہوئیں لیکن یہ روایت بھی بنو اسرائیل کی روایات سے ماخوذ ہے غالباً اس میں بہت سی باتیں نیچے کے لوگوں کی ملائی گئی ہیں ۔ صحابی کا بیان ہی نہیں اگر صحابی کا قول بھی ہو تو بھی انہوں نے بعض اگلی کتابوں سے لیا ہو گا ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» تعارف ابلیس حاکم اپنی مستدرک میں بہت سی ایسی روایتیں لائے ہیں اور ان کی سند کو بخاری سے مشروط کیا ہے ۔ (مستدرک حاکم:261/2:صحیح) مقصد یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ تم آدم کو سجدہ کرو تو اس خطاب میں ابلیس بھی داخل تھا اس لیے کہ گو وہ ان میں سے نہ تھا لیکن ان ہی جیسا اور ان ہی جیسے کام کرنے والا تھا اس لیے اس خطاب میں داخل تھا اور پھر نافرمانی کی سزا بھگتی ۔ اس کی تفصیل ان شاءاللہ تعالیٰ آیت «إِلَّا إِبْلِیسَ کَانَ مِنَ الْجِنِّ» ( 18-الکہف : 50 ) کی تفسیر میں آئے گی ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں نافرمانی سے پہلے وہ فرشتوں میں تھا ۔ عزازیل اس کا نام تھا زمین پر اس کی رہائش تھی اجتہاد اور علم میں بہت بڑا تھا اور اسی وجہ سے دماغ میں رعونت تھی اور اس کی جماعت کا اور اس کا تعلق جنوں سے تھا ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:502/1) اس کے چار پر تھے ۔ جنت کا خازن تھا زمین اور آسمان دونوں کا سلطان تھا ۔ حسن فرماتے ہیں ابلیس کبھی فرشتہ نہ تھا اس کی اصل جنات سے ہے جیسے کہ آدم علیہ السلام کی اصل انس سے ہے اس کی اسناد صحیح ہے ۔ عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم اور شہر بن حوشب رحمہ اللہ علیہما کا بھی یہی قول ہے ۔ سعد بن مسعود رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ فرشتوں نے جنات کو جب مارا تب اسے قید کیا تھا اور آسمان پر لے گئے تھے وہاں کی عبادت کی وجہ سے رہ پڑا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ بھی مروی ہے کہ پہلے ایک مخلوق کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا انہیں آدم کو سجدہ کرنے کو کہا ۔ انہوں نے انکار کیا جس پر وہ جلا دئیے گئے پھر دوسری مخلوق پیدا کی ان کا بھی یہی حشر ہوا پھر تیسری مخلوق پیدا کی انہوں نے تعمیل ارشاد کی لیکن یہ اثر بھی غریب ہے اور اس کی اسناد بھی تقریباً غیر صحیح ہے ۔ اس میں ایک راوی مبہم ہے اس وجہ سے یہ روایت قابل حجت نہیں کافرین سے مراد نافرمان ہے ۔ ابلیس کی ابتداء آفرینش ہی کفر و ضلالت پر تھی کچھ دن ٹھیک ٹھاک رہا لیکن پھر اپنی اصلیت پر آ گیا ۔ سجدہ کرنے کا حکم بجا لانا اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور آدم علیہ السلام کا اکرام تھا ۔ بعض لوگوں کا قول ہے کہ یہ سجدہ سلام اور عزت و اکرام کا تھا جیسے کہ یوسف علیہ السلام کے بارے میں فرمان ہے ۔ کہ انہوں نے اپنے ماں باپ کو تخت پر بٹھا لیا اور سب کے سب سجدہ میں گر پڑے اور یوسف علیہ السلام نے فرمایا ابا جان یہی میرے اس خواب کی تعبیر ہے جسے میرے رب نے سچا کر دکھایا ۔ (12-یوسف:100) اگلی امتوں میں سجدہ تعظیم جائز تھا لیکن ہمارے دین میں یہ منسوخ ہو گیا ۔ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے شامیوں کو اپنے سرداروں اور علماء کے سامنے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے گزارش کی کہ یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم آپ اس کے زیادہ حقدار ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ کیا جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میں کسی انسان کو کسی انسان کے سامنے سجدہ کرنے کی اجازت دینے والا ہوتا تو عورتوں کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوندوں کو سجدہ کریں کیونکہ ان کا ان پر بہت بڑا حق ہے ۔ (سنن ابن ماجہ:1852 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) امام رازی رحمہ اللہ نے اسی کو ترجیح دی ہے بعض کہتے ہیں کہ سجدہ اللہ تعالیٰ ہی کے لیے تھا ۔ آدم بطور قبلہ ( یعنی سمت ) کے تھے جیسے قرآن کریم میں ہے آیت «اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِدُلُوْکِ الشَّمْسِ اِلٰی غَسَقِ الَّیْلِ وَقُرْاٰنَ الْفَجْرِ» ( 17 ۔ الاسرآء : 78 ) لیکن اس میں بھی اختلاف ہے اور پہلے ہی قول کا زیادہ صحیح ہونا اچھا معلوم ہوتا ہے ۔ یہ سجدہ آدم علیہ السلام کے اکرام بڑائی احترام اور سلام کے طور پر تھا اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے ماتحت تھا کیونکہ اس کا حکم تھا جس کی بجا آوری ضروری تھی ۔ امام رازی رحمہ اللہ نے بھی اسی قول کو قوی قرار دیا ہے اور اس کے سوا دوسرے اقوال کو ضعیف قرار دیا ہے ایک تو آدم علیہ السلام کا بطور قبلہ کے ہونا جس میں کوئی بڑا شرف ظاہر نہیں ہوتا ۔ دوسرے سجدے سے مراد پست عاجز ہونا نہ کہ زمین میں ماتھا ٹکا کر حقیقی سجدہ کرنا لیکن یہ دونوں تاویلیں ضعیف ہیں ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں سب سے پہلا گناہ یہی تکبر ہے جو ابلیس سے سرزد ہوا ۔ صحیح حدیث میں ہے جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر تکبر ہو گا وہ جنت میں داخل نہ ہو گا ۔ (صحیح مسلم:91:صحیح) اسی تکبر کفرو عناد کی وجہ سے ابلیس کے گلے میں طوق لعنت پڑا اور رحمت سے مایوس ہو کر جناب باری سے دھتکارا گیا ۔ یہاں «کان صار» کے معنی میں بتلایا گیا ہے جیسے کہ آیت «فَکَانَ مِنَ الْمُغْرَقِیْنَ» (11-ہود:43) اور آیت «فَتَکُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ» (7-الأعراف:19) شاعروں کے شعروں میں بھی اس کا ثبوت ہے تو معنی یہ ہوئے کہ وہ کافر ہو گیا ابن فورک رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے علم میں کافروں میں سے تھا ۔ قرطبی رحمہ اللہ اسی کو ترجیح دیتے ہیں اور یہاں ایک مسئلہ بیان فرماتے ہیں کہ کسی شخص کے ہاتھ سے کچھ کرامتیں سرزد ہو جانا اس کے ولی اللہ ہونے کی دلیل نہیں گو بعض صوفی اور رافضی اس کے خلاف بھی کہتے ہیں کہ اس لیے کہ ہم اس بات کا کسی کے لیے فیصلہ نہیں کر سکتے کہ وہ ایمان ہی کی حالت میں اللہ سے جا ملے گا اسی شیطان کو دیکھئیے ولی ہی نہیں بلکہ فرشتہ بنا ہوا تھا لیکن آخر سردار کفر و کفار ہو گیا ۔ علاوہ ازیں ایسی خلاف عادت و عقل باتیں جو بظاہر کرامات نظر آتی ہیں اولیاء اللہ کے سوا اور لوگوں کے ہاتھوں سے بھی سرزد ہوتی ہیں بلکہ فاسق فاجر مشرک کافر سے بھی ظاہر ہو جاتی ہیں ۔ مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت «فَارْتَـقِبْ یَوْمَ تَاْتِی السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مٰبِیْنٍ» (44-الدخان:10) کی آیت دل میں سوچ کر جب ابن صیاد کافر سے پوچھا کہ میں نے کیا سوچا ہے تو اس نے کہا تھا دُخْ ۔ (صحیح بخاری:1354:صحیح) بعض روایات میں ہے کہ غصہ کے وقت وہ اتنا پھول جاتا کہ اس کے جسم سے تمام راستہ رک جاتا تھا ۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اسے مارا ۔ (صحیح مسلم:2932:صحیح) دجال کی تو ایسی بہت سی باتیں احادیث میں وارد ہیں مثلاً اس کا آسمان سے بارش برسانا زمین سے پیداوار اگانا زمین کے خزانوں کا اس کے پیچھے لگنا ایک نوجوان کو قتل کر کے پھر جلانا وغیرہ وغیرہ ۔ (صحیح بخاری:7122:صحیح) سیدنا لیث بن سعد رضی اللہ عنہما اور امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اگر تم کسی کو پانی پر چلتے ہوئے اور ہواؤں میں اڑتے ہوئے دیکھو تو اسے ولی نہ سمجھ بیٹھو جب تک کہ اس کے تمام اعمال و افعال قرآن و حدیث کے مطابق نہ پاؤ ۔ اس سجدے کا حکم زمین و آسمان کے تمام فرشتوں کو تھا گو ایک جماعت کا قول یہ بھی ہے کہ صرف زمین کے فرشتوں کو یہ حکم تھا لیکن یہ ٹھیک نہیں قرآن کریم میں ہے آیت «فَسَجَدَ الْمَلٰیِٕکَۃُ کُلٰہُمْ اَجْمَعُوْنَ» ( 15 ۔ الحجر : 31-30 ) یعنی ابلیس کے سوا تمام فرشتوں نے سجدہ کیا پس اول تو جمع کا صیغہ لانا پھر «کلھم» سے تاکید کرنا پھر «اجمعون» کہنا اس کے بعد صرف ابلیس کا استثناء کرنا ان چاروں وجوہات سے صاف ظاہر ہے کہ یہ حکم عام تھا ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» البقرة
35 اعزاز آدم علیہ السلام آدم علیہ السلام کی یہ اور بزرگی بیان ہو رہی ہے کہ فرشتوں سے سجدہ کرانے کے بعد انہیں جنت میں رکھا اور ہر چیز کی رخصت دے دی ابن مردویہ کی روایت کردہ حدیث میں ہے کہ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا آدم علیہ السلام نبی تھے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ! نبی بھی ، رسول بھی ، بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان سے آمنے سامنے بات چیت کی اور انہیں فرمایا کہ تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو ۔ (ابن حبان:361:صحیح) عام مفسرین کا بیان ہے کہ آسمانی جنت میں انہیں بسایا گیا تھا لیکن معتزلہ اور قدریہ کہتے ہیں کہ یہ جنت زمین پر تھی ۔ سورۃ الاعراف میں اس کا بیان آئے گا ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ اس عبارت قرآنی سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جنت میں رہنے سے پہلے حواء پیدا کی گئی تھیں ۔ محمد بن اسحاق رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اہل کتاب وغیرہ کے علماء سے بروایت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما مروی ہے کہ ابلیس کے مردود قرار دینے کے بعد آدم علیہ السلام کے علم کو ظاہر کر کے پھر ان پر اونگھ کی فوقیت طاری کر دی گئی اور ان کی بائیں پسلی سے حواء کو پیدا کیا ۔ جب آنکھ کھول کر آدم علیہ السلام نے انہیں دیکھا تو اپنے خون اور گوشت کی وجہ سے ان میں انس و محبت ان کے دل میں پیدا ہوئی ۔ پھر پروردگار نے انہیں ان کے نکاح میں دیا اور جنت میں رہائش کا حکم عطا فرمایا ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:514/1) بعض کہتے ہیں کہ آدم علیہ السلام کے جنت میں داخل ہو جانے کے بعد حواء پیدا کی گئیں ۔ سیدنا ابن عباس ، سیدنا ابن مسعود وغیرہ صحابہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ ابلیس کو جنت سے نکالنے کے بعد آدم علیہ السلام کو جنت میں جگہ دی گئی ۔ لیکن تن تنہا تھے اس وجہ سے ان کی نیند میں حواء کو ان کی پسلی سے پیدا کیا گیا ۔ جاگے ، انہیں دیکھا تو پوچھا تم کون ہو اور کیوں پیدا کی گئی ہو ؟ حواء علیہا السلام نے فرمایا میں ایک عورت ہوں اور آپ علیہ السلام کے ساتھ رہنے اور تسکین کا سبب بننے کے لیے پیدا کی گئی ہوں تو فوراً فرشتوں نے پوچھا فرمائیے ان کا نام کیا ہے ؟ آدم علیہ السلام نے کہا «حوا» انہوں نے کہا اس نام کی وجہ تسمیہ کیا ہے ؟ فرمایا اس لیے کہ یہ ایک زندہ سے پیدا کی گئی ہیں ۔ اسی وقت اللہ تعالیٰ کی آواز آئی ، اے آدم اب تم اور تمہاری بیوی جنت میں با آرام و اطمینان رہو اور جو چاہو کھاؤ ۔ لیکن ایک خاص درخت سے روکنا دراصل امتحان تھا ۔ بعض کہتے ہیں یہ انگور کی بیل تھی ۔ کوئی کہتا ہے ۔ گیہوں کا درخت تھا ۔ کسی نے سنبلہ کہا ہے ۔ کسی نے کھجور ، کسی نے انجیر کہا ہے ۔ کسی نے کہا ہے اس درخت کے کھانے سے انسانی حاجت ہوتی تھی جو جنت کے لائق نہیں ۔ کسی نے کہا ہے ، اس درخت کا پھل کھا کر فرشتے ہمیشہ کی زندگی پا گئے ہیں ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کوئی ایک درخت تھا جس سے اللہ نے روک دیا ۔ نہ قرآن سے اس کا تعین ثابت ہوتا ہے نہ کسی صحیح حدیث سے ۔ مفسرین میں اختلاف ہے اور اس کے معلوم ہونے سے کوئی اہم فائدہ اور نہ معلوم ہونے سے کوئی نقصان نہیں ۔ لہٰذا اس کی جستجو کی کیا ضرورت ؟ اللہ ہی کو اس کا بہتر علم ہے ۔ امام رازی رحمہ اللہ وغیرہ نے بھی یہی فیصلہ کیا ہے اور ٹھیک بات بھی یہی معلوم ہوتی ہے ۔ «عنھا» کی ضمیر کا مرجع بعض نے جنت کہا ہے اور بعض نے شجرہ ۔ ایک قرأت «فازالھما» بھی ہے تو معنی یہ ہوئے کہ اس جنت سے ان دونوں کو بے تعلق اور الگ کر دیا اور دوسرے معنی یہ بھی ہوئے کہ اسی درخت کے سبب شیطان نے انہیں بہکا دیا ۔ سفر ارضی کا آغاز لفظ «عن» سبب کے معنی میں بھی آیا ہے آیت «یُؤْفَکُ عَنْہُ» میں ۔ (51-الذاریات:9) اس نافرمانی کی وجہ سے جنتی لباس اور وہ پاک مکان ، نفیس روزی وغیرہ سب چھن گئی اور دنیا میں اتار دئیے گئے اور کہہ دیا گیا کہ اب تو زمین میں ہی تمہارا رزق ہے ، قیامت تک یہیں پڑے رہو گے اور اس سے فائدہ حاصل کرتے رہو گے ۔ سانپ اور ابلیس کا قصہ ، یعنی ابلیس کس طرح جنت میں پہنچا ۔ کس طرح وسوسہ ڈالا وغیرہ ، اس کے بارے میں لمبے چوڑے قصے مفسرین نے لکھے ہیں لیکن وہ سب بنی اسرائیل کے ہاں کا خزانہ ہے ، تاہم ہم انہیں سورۃ الاعراف میں بیان کریں گے کیونکہ اس واقعہ کا بیان وہاں کسی قدر تفصیل کے ساتھ ہے ۔ ابن ابی حاتم کی ایک حدیث میں ہے کہ درخت کا پھل چکھتے ہی جنتی لباس اتر گیا ۔ اپنے تئیں ننگا دیکھ کر ادھر ادھر دوڑنے لگے لیکن چونکہ قد طویل تھا اور سر کے بال لمبے تھے ، وہ ایک درخت میں اٹک گئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے آدم کیا مجھ سے بھاگتے ہو ؟ عرض کیا نہیں الٰہی میں تو شرمندگی سے منہ چھپائے پھرتا ہوں ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:139/1) ایک روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے آدم ! میرے پاس سے چلے جاؤ ، مجھے میری عزت کی قسم میرے پاس میرے نافرمان نہیں رہ سکتے ، اگر اتنی مخلوق تم میں پیدا کروں کہ زمین بھر جائے اور پھر وہ میری نافرمانی کرے تو یقیناً میں اسے بھی نافرمانوں کے گھر میں پہنچا دوں ۔ یہ روایت غریب ہے اور ساتھ ہی اس میں انقطاع بلکہ اعضال بھی ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آدم علیہ السلام نماز عصر کے بعد سے لے کر سورج کے غروب ہونے تک کی ایک ساعت ہی جنت میں رہے ۔ (مستدرک حاکم: 542/2: حسن) حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ ایک ساعت ایک سو تیس سال کی تھی ۔ ربیع بن انس رحمہ اللہ فرماتے ہیں نویں یا دسویں ساعت میں آدم کا اخراج ہوا ۔ ان کے ساتھ جنت کی ایک شاخ تھی اور جنت کے درخت کا ایک تاج سر پر تھا ۔ سدی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ آدم ہند میں اترے ، آپ علیہ السلام کے ساتھ حجر اسود تھا اور جنتی درخت کے پتے جو ہند میں پھیلا دئیے اور اس سے خوشبودار درخت پیدا ہوئے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ہند کے شہر ” دھنا “ میں اترے تھے ۔ (مستدرک حاکم: 542/2: ضعیف) ایک روایت میں ہے کہ مکہ اور طائف کے درمیان اترے تھے ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:131/1) حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں آدم علیہ السلام ہند میں اور مائی حوا جدہ میں اتریں اور ابلیس بصرہ سے چند میل کے فاصلہ پر دست میساں میں پھینکا گیا اور سانپ اصفہان میں ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:132/1) سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ آدم علیہ السلام صفا پر اور حواء مروہ پر اترے ۔ اترتے وقت دونوں ہاتھ گھٹنوں پر تھے اور سر جھکا ہوا تھا اور ابلیس انگلیوں میں انگلیاں ڈالے آسمان کی طرف نظریں جمائے اترا ۔ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں تمام صفتیں سکھا دیں اور پھلوں کا توشہ دیا ۔ (مستدرک حاکم543/2:موقوف) ایک حدیث میں ہے کہ تمام دنوں میں بہتر دن جمعہ کا دن ہے ، اسی میں آدم علیہ السلام پیدا کئے گئے ، اسی میں جنت میں داخل کئے گئے ۔ اور اسی دن نکالے گئے ملاحظہ ہو صحیح مسلم اور نسائی ۔ (صحیح مسلم:854:صحیح) امام رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی ناراضی کی وجوہات مضمر ہیں ۔ اول تو یہ سوچنا چاہیئے کہ ذرا سی لغزش پر آدم علیہ السلام کو کس قدر سزا ہوئی ۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ تم گناہوں پر گناہ کئے جاتے ہو اور جنت کے طالب ہو کیا تم بھول گئے کہ تمہارے باپ آدم علیہ السلام کو محض ایک ہلکے سے گناہ پر جنت سے نکال دیا گیا ۔ ہم تو یہاں دشمن کی قید میں ہیں ، دیکھئیے ! کب صحت و سلامتی کے ساتھ اپنے وطن پہنچیں ۔ فتح موصلی کہتے ہیں ہم جنتی تھے ، ابلیس کے بہکانے میں آ کر دنیا کی قید میں آ پھنسے ، اب سوائے غم و رنج کے یہاں کیا رکھا ہے ؟ یہ قید و بند اسی وقت ٹوٹے گی جب ہم وہیں پہنچ جائیں جہاں سے نکالے گئے ہیں ۔ اگر کوئی معترض اعتراض کرے کہ جب آدم علیہ السلام آسمانی جنت میں تھے اور ابلیس راندہء درگاہ ہو چکا تھا تو پھر وہ وہاں کیسے پہنچا ؟ تو اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ وہ جنت زمین میں تھی لیکن اس کے علاوہ اور بھی بہت سے جواب ہیں کہ بطور اکرام کے اس کا داخل ہونامنع تھا نہ کہ بطور اہانت اور چوری کے ۔ چنانچہ توراۃ میں ہے کہ سانپ کے منہ میں بیٹھ کر جنت میں گیا اور یہ بھی جواب ہے کہ وہ جنت میں نہیں گیا تھا بلکہ باہر ہی سے اس نے وسوسہ ان کے دل میں ڈالا تھا ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ زمین سے ہی وسوسہ ان کے دل میں ڈالا ۔ قرطبی رحمہ اللہ نے یہاں پر سانپوں کے بارے میں اور ان کے مار ڈالنے کے حکم سے متعلق حدیثیں بھی تحریر کی ہیں جو بہت مفید اور باموقع ہیں ۔ البقرة
36 البقرة
37 اللہ تعالٰی کے عطا کردہ معافی نامہ کا متن جو کلمات آدم علیہ السلام نے سیکھے تھے ان کا بیان خود قرآن میں موجود ہے ۔ آیت «قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ» (7-الأعراف:23) یعنی ان دونوں نے کہا اے ہمارے رب ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اگر تو ہمیں نہ بخشے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو یقیناً ہم نقصان والے ہو جائیں گے ۔ اکثر بزرگوں کا یہی قول ہے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:543/1) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے احکام حج سیکھنا بھی مروی ہے ۔ عبید بن عمیر کہتے ہیں وہ کلمات یہ تھے کہ انہوں نے کہا الٰہی جو خطا میں نے کی کیا اسے میرے پیدا کرنے سے پہلے میری تقدیر میں لکھ دیا گیا تھا ؟ یا میں نے خود اس کی ایجاد کی ؟ جواب ملا کہ ایجاد نہیں بلکہ پہلے ہی لکھ دیا گیا اسے سن کر آپ علیہ السلام نے کہا پھر اے اللہ مجھے بخشش اور معافی مل جائے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ بھی روایت ہے کہ آدم علیہ السلام نے کہا الٰہی کیا تو نے مجھے اپنے ہاتھ سے پیدا نہیں کیا ؟ اور مجھ میں اپنی روح نہیں پھونکی ؟ میرے چھینکنے پر «یرحمک اللہ» نہیں کہا ؟ کیا تیری رحمت غضب پر سبقت نہیں کر گئی ؟ کیا میری پیدائش سے پہلے یہ خطا میری تقدیر میں نہیں لکھی تھی ؟ جواب ملا کہ ہاں ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:543/1) یہ سب میں نے کیا ہے تو کہا پھر یا اللہ میری توبہ قبول کر کے مجھے پھر جنت مل سکتی ہے یا نہیں ؟ جواب ملا کہ ہاں ۔ یہ کلمات یعنی چند باتیں تھیں جو آپ علیہ السلام نے اللہ سے سیکھ لیں ۔ ابن ابی حاتم ایک ایک مرفوع روایت میں ہے کہ آدم علیہ السلام نے کہا الٰہی اگر میں توبہ کروں اور رجوع کروں تو کیا جنت میں پھر بھی جا سکتا ہوں ؟ جواب ملا کہ ہاں ۔ اللہ سے کلمات کی تلقین حاصل کرنے کے یہی معنی ہیں ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:410:منقطع و ضعیف) لیکن یہ حدیث غریب ہونے کے علاوہ منقطع بھی ہے ۔ بعض بزرگوں سے مروی ہے کہ کلمات کی تفسیر ربنا ظلمنا اور ان سب باتوں پر مشتمل ہے مجاہد رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ وہ کلمات یہ ہیں دعا «اللھم لا الہ الا انت سبحانک وبحمدک رب انی ظلمت نفسی فاغفرلی انک خیر الغافرین اللھم لا الہ الا انت سبحانک وبحمدک رب انی ظلمت نفسی فارحمنی انک خیرالراحمین اللھم لا الہ الا انت سبحانک وبحمدک رب انی ظلمت نفسی فتب علی انک انت التواب الرحیم» قرآن کریم میں اور جگہ ہے کیا لوگ نہیں جانتے کہا اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے ؟ اور جگہ ہے جو شخص کوئی برا کام کر گزرے یا اپنی جان پر ظلم کر بیٹھے پھر توبہ استغفار کرے تو وہ دیکھ لے گا کہ اللہ اس کی توبہ قبول کر لے گا اور اسے اپنے رحم و کرم میں لے لے گا ۔ (4-النساء:110) اور جگہ ہے آیت «وَمَنْ تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَاِنَّہٗ یَتُوْبُ اِلَی اللّٰہِ مَتَابًا» ( 25 ۔ الفرقان : 71 ) ان سب آیتوں میں ہے کہ اللہ تعالیٰ بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے ، اسی طرح یہاں بھی یہی فرمان ہے کہ وہ اللہ توبہ کرنے والوں کی توبہ قبول کرنے والا اور بہت بڑے رحم و کرم والا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے اس عام لطف و کرم ، اس کے اس فضل و رحم کو دیکھو کہ وہ اپنے گنہگار بندوں کو بھی اپنے در سے محروم نہیں کرتا ۔ سچ ہے اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، نہ اس سے زیادہ کوئی مہر و کرم والا نہ اس سے زیادہ کوئی خطا بخشنے والا اور رحم و بخشش عطا فرمانے والا ۔ البقرة
38 جنت کے حصول کی شرائط جنت سے نکالتے ہوئے جو ہدایت آدم علیہ السلام حواء اور ابلیس کو دی گئی اس کا بیان یہاں ہو رہا ہے کہ ہماری طرف سے کتابیں انبیاء اور رسول بھیجے جائیں گے ، معجزات ظاہر کئے جائیں گے ، دلائل بیان فرمائے جائیں گے ، راہ حقوق واضح کر دی جائے گی ، نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی آئیں گے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کریم بھی نازل فرمایا جائے گا ، جو بھی اپنے زمانے کی کتاب اور نبی کی تابعداری کرے گا اسے آخرت کے میدان میں کوئی خوف نہ ہو گا اور نہ ہی دنیا کے کھو جانے پر کوئی غم ہو گا ۔ سورۃ طہٰ میں بھی یہی فرمایا گیا ہے کہ میری ہدایت کی پیروی کرنے والے نہ گمراہ ہوں گے ، نہ بدبخت و بے نصیب ۔ مگر میری یاد سے منہ موڑنے والے دنیا کی تنگی اور آخرت کے اندھا پن کے عذاب میں گرفتار ہوں گے ۔ یہاں بھی فرمایا کہ انکار اور تکذب کرنے والے ہمیشہ جہنم میں رہیں گے ۔ ابن جریر رحمہ اللہ کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو اصلی جہنمی ہیں انہیں تو جہنم میں نہ موت آئے گی ، نہ ہی خوشگوار زندگی ملے گی ، ہاں جن موحد ، متبع سنت لوگوں کو ان کی بعض خطاؤں پر جہنم میں ڈالا جائے گا یہ جل کر کوئلے ہو ہو کر مر جائیں گے اور پھر شفاعت کی وجہ سے نکال لیے جائیں گے ۔ (صحیح مسلم185) صحیح مسلم شریف میں بھی یہ حدیث ہے کہ بعض تو کہتے ہیں دوسری دفعہ جنت سے نکل جانے کے حکم کو ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ یہاں دوسرے احکام بیان کرنا تھے اور بعض کہتے ہیں پہلی مرتبہ جنت سے آسمان اول اتار دیا گیا تھا دوبارہ آسمان اول سے زمین کی طرف اتارا گیا لیکن صحیح قول پہلا ہی ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» البقرة
39 البقرة
40 بنی اسرائیل سے خطاب ان آیتوں میں بنی اسرائیل کو اسلام قبول کرنے اور حضور علیہ السلام کی تابعداری کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور انتہائی لطیف پیرایہ میں انہیں سمجھایا گیا ہے کہ تم ایک پیغمبر کی اولاد میں سے ہو تمہارے ہاتھوں میں کتاب اللہ موجود ہے اور قرآن اس کی تصدیق کر رہا ہے پھر تمہیں نہیں چاہیئے کہ سب سے پہلے انکار تمہیں سے شروع ہو ۔ اسرائیل یعقوب علیہ الصلٰوۃ والسلام کا نام تھا تو گویا ان سے کہا جاتا ہے کہ تم میرے صالح اور فرمانبردار بندے کی اولاد ہو ۔ تمہیں چاہیئے کہ اپنے جدِامجد کی طرح حق کی تابعداری میں لگ جاؤ ۔ جیسے کہا جاتا ہے کہ تم سخی کے لڑکے ہو سخاوت میں آگے بڑھو تم پہلوان کی اولاد ہو داد شجاعت دو ۔ تم عالم کے بچے ہو علم میں کمال پیدا کرو ۔ دوسری جگہ اسی طرز کلام کو اسی طرح ادا کیا گیا ہے ۔ آیت «ذُرِّیَّــۃَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ اِنَّہٗ کَانَ عَبْدًا شَکُوْرًا» ( 17 ۔ الاسرآء : 3 ) یعنی ہمارے شکر گزار بندے نوح کے ساتھ جنہیں ہم نے ایک عالمگیر طوفان سے بچایا تھا یہ ان کی اولاد ہے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ یہودیوں کی ایک جماعت سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ کیا تم نہیں جانتے کہ اسرائیل یعقوب علیہ السلام کا نام تھا ۔ وہ سب قسم کھا کر کہتے ہیں کہ واللہ یہ سچ ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا اے اللہ تو گواہ رہ ۔ (ابو داؤد طیالسی:356:حسن) اسرائیل کے لفظی معنی عبداللہ کے ہیں ، (تفسیر ابن جریر الطبری:553/1) ان نعمتوں کو یاد دلایا جاتا ہے جو قدرت کاملہ کی بڑی بڑی نشانیاں تھیں ۔ مثلاً پتھر سے نہروں کو جاری کرنا ۔ من و سلٰوی اتارنا ۔ فرعونیوں سے آزاد کرنا ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:556/1) انہیں میں سے انبیاء اور رسولوں کو مبعوث کرنا ۔ ان میں سلطنت اور بادشاہی عطا فرمانا وغیرہ ان کو ہدایت دی جاتی ہے میرے وعدوں کو پورا کرو یعنی میں نے جو عہد تم سے لیا تھا کہ جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے پاس آئیں اور ان پر میری کتاب قرآن کریم نازل ہو تو تم اس پر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر ایمان لانا ۔ وہ تمہارے بوجھ ہلکے کریں گے اور تمہاری زنجیریں توڑ دیں گے اور تمہارے طوق اتار دیں گے اور میرا وعدہ بھی پورا ہو جائے گا کہ میں تمہیں اس دین کے سخت احکام کے متبادل آسان دین دوں گا ۔ دوسری جگہ اس کا بیان اس طرح ہوتا ہے آیت «وَقَالَ اللّٰہُ اِنِّیْ مَعَکُمْ لَیِٕنْ اَقَمْــتُمُ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَیْتُمُ الزَّکٰوۃَ وَاٰمَنْتُمْ بِرُسُلِیْ وَعَزَّرْتُمُوْہُمْ وَاَقْرَضْتُمُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَـنًا» (5-المائدۃ:12) یعنی اگر تم نمازوں کو قائم کرو گے ، زکوٰۃ دیتے رہو گے میرے رسولوں کی ہدایت مانتے رہو گے ، مجھے اچھا قرضہ دیتے رہو گے ، تو میں تمہاری برائیاں دور کر دونگا اور تمہیں بہتی ہوئی نہروں والی جنت میں داخل کروں گا ۔ یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے کہ توراۃ میں وعدہ کیا گیا تھا کہ میں اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ایک اتنا بڑا عظیم الشان پیغمبر پیدا کر دونگا جس کی تابعداری تمام مخلوق پر فرض ہو گی ان کے تابعداروں کو بخشوں گا انہیں جنت میں داخل کروں گا اور دوہرا اجر دوں گا ۔ امام رازی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں بڑے بڑے انبیاء علیہم السلام سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت پیشنگوئی نقل کی ہے یہ بھی مروی ہے کہ اللہ کا عہد اسلام کو ماننا اور اس پر عمل کرنا تھا ۔(تفسیر ابن جریر الطبری:558/1) اللہ کا اپنے عہد کو پورا کرنا ان سے خوش ہونا اور جنت عطا فرمانا ہے ۔(تفسیر ابن ابی حاتم:143/1) مزید فرمایا مجھ سے ڈرو ایسا نہ ہو جو عذاب تم سے پہلے لوگوں پر نازل ہوئے کہیں تم پر بھی نہ آ جائیں ۔ اس لطیف پیرایہ کو بھی ملاحظہ فرمائیے کہ ترغیب کے بیان کے ساتھ ہی کس طرح ترہیب کے بیان کو ملحق کر دیا گیا ہے ۔ رغبت و رہبت دونوں جمع کر کے اتباع حق اور نبوت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت دی گئی ۔ قرآن کے ساتھ نصیحت حاصل کرنے اس کے بتلائے ہوئے احکام کو ماننے اور اس کے روکے ہوئے کاموں سے رک جانے کی ہدایت کی گئی ۔ اسی لیے اس کے بعد ہی فرمایا کہ تم اس قرآن حکیم پر ایمان لاؤ جو تمہاری کتاب کی بھی تصدیق اور تائید کرتا ہے جسے لے کر وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم آئے ہیں جو امی ہیں عربی ہیں ، جو بشیر ہیں ، جو نذیر ہیں ، جو سراج منیر ہیں جن کا اسم شریف محمد ہے صلی اللہ علیہ وسلم ۔ جو توراۃ کی سچائی کی دلیل تھی اس لیے کہا گیا کہ وہ تمہارے ہاتھوں میں موجود کتابوں کی تصدیق کرتے ہیں ۔ علم ہونے کے باوجود تم ہی سب سے پہلے انکار نہ کرو۔ بعض کہتے ہیں «بِہِ» کی ضمیر کا مرجع قرآن ہے اور پہلے آ بھی چکا ہے «بما انزلت» اور دونوں قول درحقیقت سچے اور ایک ہی ہیں ۔ قرآن کو ماننا رسول کو ماننا ہے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق قرآن کی تصدیق ہے ۔ اول کافر سے مراد بنی اسرائیل کے اولین منکر ہیں کیونکہ کفار قریش بھی انکار اور کفر کر چکے تھے ۔ لہٰذا بنی اسرائیل کا انکار اہل کتاب میں سے پہلی جماعت کا انکار تھا اس لیے انہیں اول کافر کہا گیا ان کے پاس وہ علم تھا جو دوسروں کے پاس نہ تھا ۔ میری آیتوں کے بدلے تھوڑا مول نہ لو یعنی دنیا کے بدلے جو قلیل اور فانی ہے میری آیات پر ایمان لانا اور میرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کرنا نہ چھوڑو اگرچہ دنیا ساری کی ساری بھی مل جائے جب بھی وہ آخرت کے مقابلہ میں تھوڑی بہت تھوڑی ہے اور یہ خود ان کی کتابوں میں بھی موجود ہے ۔ سنن ابوداؤد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص اس علم کو جس سے اللہ کی رضا مندی حاصل ہوئی ہے اس لیے سیکھے کہ اس سے دنیا کمائے وہ قیامت کے روز جنت کی خوشبو تک نہ پائے گا ۔(سنن ابوداود:3664،قال الشیخ الألبانی:صحیح) علم سکھانے کی اجرت بغیر مقرر کئے ہوئے لینا جائز ہے اسی طرح علم سکھانے والے علماء کو بیت المال سے لینا بھی جائز ہے تاکہ وہ خوش حال رہ سکیں اور اپنی ضروریات پوری کر سکیں ۔ اگر بیت المال سے کچھ مال نہ ملتا ہو اور علم سکھانے کی وجہ سے کوئی کام دھندا بھی نہ کر سکتے ہوں تو پھر اجرت مقرر کر کے لینا بھی جائز ہے اور امام مالک امام شافعی ، امام احمد اور جمہور علماء رحمہ اللہ علیہم کا یہی مذہب ہے اس کی دلیل وہ حدیث بھی ہے جو صحیح بخاری شریف میں سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہما کی روایت سے ہے کہ انہوں نے اجرت مقرر کر لی اور ایک سانپ کے کاٹے ہوئے شخص پر قرآن پڑھ کر دم کیا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ قصہ پیش ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حدیث «ان احق ما اخذتم علیہ اجرا کتاب اللہ» یعنی جن چیزوں پر تم اجرت لے سکتے ہو ان سب میں زیادہ حقدار کتاب اللہ ہے ۔(صحیح بخاری:5737:صحیح) دوسری مطول حدیث میں ہے کہ ایک شخص کا نکاح ایک عورت سے آپ کر دیتے ہیں اور فرماتے ہیں حدیث «زوجتکھا بما معک من القران» میں نے اس کو تیری زوجیت میں دیا۔(صحیح بخاری:5149:صحیح) اور تو اسے قرآن حکیم جو تجھے یاد ہے اسے بطور حق مہر یاد کرا دے ۔ ابو داؤد کی ایک حدیث میں ہے ایک شخص نے اہل صفہ میں سے کسی کو کچھ قرآن سکھایا اس نے اسے ایک کمان بطور ہدیہ دی اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تجھے آگ کی کمان لینی ہے تو اسے لے چنانچہ اس نے اسے چھوڑ دیا ۔ (سنن ابوداود:3416 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہما سے بھی ایسی ہی ایک مرفوع حدیث مروی ہے ۔ (سنن ابن ماجہ:2158 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) ان دونوں احادیث کا مطلب یہ ہے کہ جب اس نے خالص اللہ کے واسطے کی نیت سے سکھایا پھر اس پر تحفہ اور ہدیہ لے کر اپنے ثواب کو کھونے کی کیا ضرورت ہے ؟ اور جبکہ شروع ہی سے اجرت پر تعلیم دی ہے تو پھر بلا شک و شبہ جائز ہے جیسے اوپر کی دونوں احادیث میں بیان ہو چکا ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» صرف اللہ ہی ہے ڈرنے کے یہ معنی ہیں کہ اللہ کی رحمت کی امید پر اس کی عبادت و اطاعت میں لگا ہے اور اس کے عذابوں سے ڈر کر اس کی نافرمانیوں کو چھوڑ دے اور دونوں حالتوں میں اپنے رب کی طرف سے دئیے گئے نور پر گامزن رہے ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:147/1) غرض اس جملہ سے انہیں خوف دلایا گیا کہ وہ دنیاوی لالچ میں آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی تصدیق کو جو اس کی کتابوں میں ہے نہ چھپائیں اور دنیوی ریاست کی طمع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت پر آمادہ نہ ہوں بلکہ رب سے ڈر کر اظہار حق کرتے رہیں ۔ البقرة
41 البقرة
42 بدخو یہودی یہودیوں کی اس بدخصلت پر ان کو تنبہیہ کی جا رہی ہے کیونکہ وہ جاننے کے باوجود کبھی تو حق و باطل کو خلط ملط کر دیا کرتے تھے کبھی حق کو چھپا لیا کرتے تھے ۔ کبھی باطل کو ظاہر کرتے تھے ۔ لہٰذا انہیں ان ناپاک عادتوں کے چھوڑنے کو کہا گیا ہے اور حق کو ظاہر کرنے اور اسے کھول کھول کر بیان کرنے کی ہدایت کی حق و باطل سچ جھوٹ کو آپس میں نہ ملاؤ اللہ کے بندوں کی خیر خواہی کرو ۔ یہودیت و نصرانیت کی بدعات کو اسلام کی تعلیم کے ساتھ نہ ملاؤ ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت پیشنگوئیاں جو تم کتابوں میں پاتے ہو انہیں عوام الناس سے نہ چھپاؤ ۔ «تَکْتُمُوْا» مجزوم بھی ہو سکتا ہے اور منصوب بھی یعنی اسے اور اسے جمع نہ کرو ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما کی قرأت میں «تَکْتُمُونْ» بھی ہے ۔ یہ حال ہو گا اور اس کے بعد کا جملہ بھی حال ہے معین یہ ہوئے کہ حق کو حق جانتے ہوئے ایسی بے حیائی نہ کرو ۔ اور یہ بھی معنی ہیں کہ علم کے باوجود اسے چھپانے اور ملاوٹ کرنے کا کیسا عذاب ہو گا ۔ اس کا علم ہو کر بھی افسوس کہ تم بدکرداری پر آمادہ نظر آتے ہو ۔ پھر انہیں حکم دیا جاتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نمازیں پڑھو زکوٰۃ دو اور امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رکوع و سجود میں شامل رہا کرو ، انہیں میں مل جاؤ اور خود بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی امت بن جاؤ ، (تفسیر الکشاف:133/1) اطاعت و اخلاص کو بھی زکوٰۃ کہتے ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت کی تفسیر میں یہی فرماتے ہیں زکوٰۃ دو سو درہم پر ۔ پھر اس سے زیادہ رقم پر واجب ہوتی ہے نماز و زکوٰۃ و فرض و واجب ہے ۔ اس کے بغیر سبھی اعمال غارت ہیں ۔ زکوٰۃ سے بعض لوگوں نے فطرہ بھی مراد لیا ہے ۔ رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو سے مراد یہ ہے کہ اچھے اعمال میں ایمانداروں کا ساتھ دو اور ان میں بہترین چیز نماز ہے اس آیت سے اکثر علماء نے نماز باجماعت کے فرض ہونے پر بھی استدلال کیا ہے اور یہاں پر امام قرطبی رحمہ اللہ نے مسائل جماعت کو سبط سے بیان فرمایا ہے ۔ البقرة
43 البقرة
44 دوغلاپن اور یہودی یعنی اہل کتاب اس علم کے باوجود جو کہے اور نہ کرے “ اس پر کتنا عذاب نازل ہوتا ہے پھر تم خود ایسا کرنے لگے ہو ؟ جیسا دوسروں کو تقویٰ طہارت اور پاکیزگی سکھاتے ہو خود بھی تو اس کے عامل بن جاؤ لوگوں کو روزے نماز کا حکم دینا اور خود اس کے پابند نہ ہونا یہ تو بڑی شرم کی بات ہے دوسروں کو کہنے سے پہلے انسان کو خود عامل ہونا ضروری ہے اپنی کتاب کے ساتھ کفر کرنے سے لوگوں کو روکتے ہو لیکن اللہ کے اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلا کر تم خود اپنی ہی کتاب کے ساتھ کفر کیوں کرتے ہو ؟ یہ بھی مطلب ہے کہ دوسروں کو اس دین اسلام کو قبول کرنے کے لیے کہتے ہو مگر دنیاوی ڈر خوف سے خود قبول نہیں کرتے ۔ سیدنا ابوالدردا رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں انسان پورا سمجھ دار نہیں ہو سکتا جب تک کہ لوگوں کو اللہ کے خلاف کام کرتے ہوئے دیکھ کر ان کا دشمن نہ بن جائے اور اپنے نفس کا ان سے بھی زیادہ ۔ ان لوگوں کو اگر رشوت وغیرہ نہ ملتی تو حق بتا دیتے لیکن خود عامل نہ تھے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کی مذمت کی ۔ مبلغین کے لئے خصوصی ہدایت یہاں پر یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ اچھی چیز کا حکم دینے پر ان کی برائی نہیں کی گئی بلکہ خود نہ کرنے پر برائی بیان کی گئی ہے اچھی بات کو کہنا تو خود اچھائی ہے بلکہ یہ تو واجب ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ انسان کو خود بھی اس پر عمل کرنا چاہیئے جیسے شعیب علیہ السلام نے فرمایا تھا آیت «وَمَا أُرِیدُ أَنْ أُخَالِفَکُمْ إِلَیٰ مَا أَنْہَاکُمْ عَنْہُ إِنْ أُرِیدُ إِلَّا الْإِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِیقِی إِلَّا بِ اللہِ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَإِلَیْہِ أُنِیبُ» ( 11-ہود : 88 ) یعنی میں ایسا نہیں ہوں کہ تمہیں جس کام سے روکوں وہ خود کروں میرا ارادہ تو اپنی طاقت کے مطابق اصلاح کا ہے میری توفیق اللہ کی مدد سے ہے میرا بھروسہ اسی پر ہے اور میری رغبت و رجوع بھی اسی کی طرف ہے ۔ پس نیک کاموں کے کرنے کے لیے کہنا بھی واجب ہے اور خود کرنا بھی ۔ ایک واجب کو نہ کرنے سے دوسرا بھی چھوڑ دینا نہیں چاہیئے ۔ علماء سلف و خلف کا قول یہی ہے گو بعض کا ایک ضعیف قول یہ بھی ہے کہ برائیوں والا دوسروں کو اچھائیوں کا حکم نہ دے لیکن یہ قول ٹھیک نہیں ، پھر ان حضرات کا اس آیت سے دلیل پکڑنا تو بالکل ہی ٹھیک نہیں بلکہ صحیح یہی ہے کہ بھلائی کا حکم کرے اور برائی سے روکے اور خود بھی بھلائی کرے اور برائی سے رکے ۔ اگر دونوں چھوڑے گا تو دوہرا گنہگار ہو گا ایک کے ترک پر اکہرا ۔ طبرانی کی معجم کبیر میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو عالم لوگوں کو بھلائی سکھائے اور خود عمل نہ کرے اس کی مثال چراغ جیسی ہے کہ لوگ اسی کی روشنی سے فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔ لیکن وہ خود جل رہا ہے ۔ (طبرانی کبیر:1681:جید) یہ حدیث غریب ہے مسند احمد کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ۔ معراج والی رات میں نے دیکھا کہ کچھ لوگوں کے ہونٹ آگ کی قینچیوں سے کاٹے جا رہے ہیں میں نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں تو کہا گیا کہ یہ آپ کی امت کے خطیب اور واعظ اور عالم ہیں جو لوگوں کو بھلائی سکھاتے تھے مگر خود نہیں کرتے تھے علم کے باوجود سمجھتے نہیں تھے ۔ (مسند احمد:12879:صحیح بالشواھد) دوسری حدیث میں ہے کہ ان کی زبانیں اور ہونٹ دونوں کاٹے جا رہے تھے یہ حدیث صحیح ہے ابن حبان ابن ابی حاتم ابن مردویہ وغیرہ میں موجود ہے ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:476:صحیح) سیدنا ابووائل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک مرتبہ سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ آپ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہما سے کچھ نہیں کہتے آپ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ تمہیں سنا کر ہی کہوں تو ہی کہنا ہو گا میں تو انہیں پوشیدہ طور پر ہر وقت کہتا رہتا ہوں لیکن میں کسی بات کو پھیلانا نہیں چاہتا اللہ کی قسم میں کسی شخص کو سب سے افضل نہیں کہوں گا اس لیے کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ایک شخص کو قیامت کے دن لایا جائے گا اور اسے جہنم میں ڈالا جائے گا اس کی آنتیں نکل آئیں گی اور وہ اس کے اردگرد چکر کھاتا رہے گا جہنمی جمع ہو کر اس سے پوچھیں گے کہ آپ تو ہمیں اچھی باتوں کا حکم کرنے والے اور برائیوں سے روکنے والے تھے یہ آپ کی کیا حالت ہے ؟ وہ کہے گا افسوس میں تمہیں کہتا تھا لیکن خود نہیں کرتا تھا میں تمہیں روکتا تھا لیکن خود نہیں رکتا تھا ( مسند احمد ) بخاری مسلم میں بھی یہ روایت ہے ۔ (صحیح بخاری:3267:صحیح) مسند کی ایک اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ ان پڑھ لوگوں سے اتنا درگزر کرے گا جتنا جاننے والوں سے نہیں کرے گا بعض آثار میں یہ بھی وارد ہے کہ عالم کو ایک دفعہ بخشا جائے تو عام آدمی کو ستر دفعہ بخشا جاتا ہے عالم جاہل یکساں نہیں ہو سکتے قرآن کریم میں ہے آیت «قُلْ ہَلْ یَسْتَوِی الَّذِینَ یَعْلَمُونَ وَالَّذِینَ لا یَعْلَمُونَ إِنَّمَا یَتَذَکَّرُ أُوْلُوا الأَلْبَابِ» ( 39-سورۃ الزمر : 9 ) جاننے والے اور انجان برابر نہیں نصیحت صرف عقلمند لوگ ہی حاصل کر سکتے ہیں ابن عساکر میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (طبرانی کبیر:150:22:ضعیف) نے فرمایا ۔ جنتی لوگ جہنمیوں کو دیکھ کر کہیں گے کہ تمہاری نصیحتیں سن سن کر ہم تو جنتی بن گئے مگر تم جہنم میں کیوں آ پڑے وہ کہیں گے افسوس ہم تمہیں کہتے تھے لیکن خود نہیں کرتے تھے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک شخص نے کہا میں بھلائیوں کا حکم کرنا اور برائیوں سے لوگوں کو روکنا چاہتا ہوں آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا کیا تم اس درجہ تک پہنچ گئے ہو ؟ اس نے کہا ہاں آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا اگر تم ان تینوں آیتوں کی فضیحت سے نڈر ہو گئے ہو تو شوق سے وعظ شروع کرو ۔ اس نے پوچھا وہ تین آیتیں کیا ہیں ؟ آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا ایک تو آیت «أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنسَوْنَ أَنفُسَکُمْ وَأَنتُمْ تَتْلُونَ الْکِتَابَ أَفَلَا تَعْقِلُونَ» ( البقرہ : 44 ) کیا تم لوگوں کو بھلائیوں کا حکم دیتے ہو اور خود اپنے تئیں بھولے جا رہے ہو ؟ دوسری آیت آیت «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ کَبُرَ مَقْتًا عِندَ اللہِ أَن تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ» ( 61-سورۃ الصف-2 ، 3 ) کیوں تم وہ کہتے ہو جو خود نہیں کرتے ؟ اللہ کے نزدیک یہ بڑی ناپسندیدہ بات ہے کہ تم وہ کہو جو خود نہ کرو ۔ تیسری آیت شعیب علیہ السلام کا فرمان آیت «وَمَا أُرِیدُ أَنْ أُخَالِفَکُمْ إِلَیٰ مَا أَنْہَاکُمْ عَنْہُ إِنْ أُرِیدُ إِلَّا الْإِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِیقِی إِلَّا بِ اللہِ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَإِلَیْہِ أُنِیبُ» ( 11-ہود : 88 ) یعنی میں جن کاموں سے تمہیں منع کرتا ہوں ان میں تمہاری مخالفت کرنا نہیں چاہتا ، میرا ارادہ صرف اپنی طاقت بھر اصلاح کرنا ہے کہو تم ان تینوں آیتوں سے بے خوف ہو ؟ اس نے کہا نہیں فرمایا پھر تم اپنے نفس سے شروع کرو ۔ ( تفسیر مردویہ ) ایک ضعیف حدیث طبرانی میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو لوگوں کو کسی قول و فعل کی طرف بلائے اور خود نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کے غضب و غصہ میں رہتا ہے یہاں تک کہ وہ خود آپ عمل کرنے لگ جائے ۔ (ابو نعیم فی الحلیۃ7/2:ضعیف) ابراہیم نخعی رحمہ اللہ (تفسیر قرطبی:367/1) نے بھی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما والی تینوں آیتیں پیش کر کے فرمایا ہے کہ میں ان کی وجہ سے قصہ گوئی پسند نہیں کرتا ۔ البقرة
45 صبر کا مفہوم اس آیت میں حکم فرمایا جاتا ہے کہ تم دنیا اور آخرت کے کاموں پر نماز اور صبر کے ساتھ مدد طلب کیا کرو ، فرائض بجا لاؤ اور نماز کو ادا کرتے رہو روزہ رکھنا بھی صبر کرنا ہے اور اسی لیے رمضان کو صبر کا مہینہ کہا گیا ہے ۔ (مسند احمد:263/2-384:) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں روزہ آدھا صبر ہے - (سنن ترمذی:3519 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) صبر سے مراد گناہوں سے رک جانا بھی ہے ۔ اس آیت میں اگر صبر سے یہ مراد لی جائے تو برائیوں سے رکنا اور نیکیاں کرنا دونوں کا بیان ہو گیا ، نیکیوں میں سب سے اعلیٰ چیز نماز ہے ۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں صبر کی دو قسمیں ہیں مصیبت کے وقت صبر اور گناہوں کے ارتکاب سے صبر اور یہ صبر پہلے سے زیادہ اچھا ہے ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:155/1:منقطع) حضرت سعید بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں انسان کا ہر چیز کا اللہ کی طرف سے ہونے کا اقرار کرنا ۔ ثواب کا طلب کرنا اللہ کے پاس مصیبتوں کے اجر کا ذخیرہ سمجھنا یہ صبر ہے اللہ تعالیٰ کی مرضی کے کام پر صبر کرو اور اسے بھی اللہ تعالیٰ کی اطاعت سمجھو نیکیوں کے کاموں پر نماز سے بڑی مدد ملتی ہے خود قرآن میں ہے «اتْلُ مَا أُوحِیَ إِلَیْکَ مِنَ الْکِتَابِ وَأَقِمِ الصَّلَاۃَ إِنَّ الصَّلَاۃَ تَنْہَیٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنکَرِ وَلَذِکْرُ اللہِ أَکْبَرُ وَ اللہُ یَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ» ( 29 ۔ العنکبوت : 45 ) ۔ نماز کو قائم رکھ یہ تمام برائیوں اور بدیوں سے روکنے والی ہے اور یقیناً اللہ کا ذکر بہت بڑی چیز ہے ۔ سیدنا حذیفہ فرماتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی کام مشکل اور غم میں ڈال دیتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا کرتے فوراً نماز میں لگ جاتے ۔ (سنن ابوداود:1319 ، قال الشیخ الألبانی:حسن) چنانچہ جنگ خندق کے موقع پر رات کے وقت جب سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ خدمت نبوی میں حاضر ہوتے ہیں ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں پاتے ہیں ۔ (تعظیم قدر الصلاۃ) سیدنا علی رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ بدر کی لڑائی کی رات میں نے دیکھا کہ ہم سب سو گئے تھے مگر اللہ کے رسول «اللھم صلی وسلم علیہ» ساری رات نماز میں مشغول رہے صبح تک نماز میں اور دعا میں لگے رہے ۔ (تعظیم قدر الصلاۃ:213:حسن) ابن جریر رحمہ اللہ میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ بھوک کے مارے پیٹ کے درد سے بیتاب ہو رہے ہیں آپ نے ان سے ( فارسی زبان میں ) دریافت فرمایا کہ درد شکم داری ؟ کیا تمہارے پیٹ میں درد ہے ؟ انہوں نے کہا ہاں آپ نے فرمایا اٹھو نماز شروع کر دو اس میں شفاء ہے ۔ (سنن ابن ماجہ:3458 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو سفر میں اپنے بھائی قثم کے انتقال کی خبر ملتی ہے تو آپ رضی اللہ عنہما «إِنَّا لِلہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ» ( البقرہ : 156 ) پڑھ کر راستہ سے ایک طرف ہٹ کر اونٹ بٹھا کر ، نماز شروع کر دیتے ہیں اور بہت لمبی نماز ادا کرتے ہیں پھر اپنی سواری کی طرف جاتے ہیں اور اس آیت کو پڑھتے ہیں غرض ان دونوں چیزوں صبرو صلوٰت سے اللہ کی رحمت میسر آتی ہے ۔ اِنَّھاَ کی ضمیر کا مرجع بعض لوگوں نے تو صلوٰۃ یعنی نماز کو کہا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ کہ مدلول کلام یعنی وصیت اس کا مرجع ہے جیسے قارون کے قصہ میں «وَلَا یُلَقَّاہَا(28-القصص:80)» کی ضمیر اور برائی کے بدلے بھلائی کرنے کے حکم میں «وما یلقھا» کی ضمیر ۔ مطلب یہ ہے کہ صبرو صلوٰۃ ہر شخص کے بس کی چیز نہیں یہ حصہ اللہ کا خوف رکھنے والی جماعت کا ہے ۔ یعنی قرآن کے ماننے والے سچے مومن کانپنے والے متواضع اطاعت کی طرف جھکنے والے وعدے وعید کو سچا ماننے والے ہیں اس وصف سے موصوف ہوتے ہیں جیسے حدیث میں ایک سائل کے سوال پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا یہ بری چیز ہے لیکن جس پر اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہو اس پر آسان ہے ، (سنن ترمذی:2616 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابن جریر رحمہ اللہ نے اس آیت کے معنی کرتے ہوئے اسے بھی یہودیوں سے ہی خطاب قرار دیا ہے لیکن ظاہر بات یہ ہے کہ گو یہ بیان انہی کے بارے میں لیکن حکم کے اعتبار سے عام ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» آگے چل کر خاشعین کی صفت ہے اس میں ظن معنی میں یقین کے ہے گو ظن شک کے معنی میں بھی آتا ہے جیسے کہ سدفہ اندھیرے کے معنی میں بھی آتا ہے اور روشنی کے معنی میں بھی اور صارخ کا لفظ بھی فریاد رس اور فریاد کن دونوں کے لیے بولا جاتا ہے اور اسی طرح کے بہت سے نام ہیں جو ایسی دو مختلف چیزوں پر بولے جاتے ہیں ۔ «ظن» یقین کے معنی میں عرب شعراء کے شعروں میں بھی آیا ہے خود قرآن کریم میں «وَرَأَی الْمُجْرِمُونَ النَّارَ فَظَنٰوا أَنَّہُم مٰوَاقِعُوہَا وَلَمْ یَجِدُوا عَنْہَا مَصْرِفًا» ( 18 ۔ الکہف : 53 ) یعنی گنہگار جہنم کو دیکھ کر یقین کر لیں گے کہ اب ہم اس میں جھونک دئیے جائیں گے یہاں بھی «ظن» یقین کے معنی میں ہے بلکہ مجاہد فرماتے ہیں قرآن میں ایسی جگہ «ظن» کا لفظ یقین اور علم کے معنی میں ہے ابوالعالیہ بھی یہاں «ظن» کے معنی یقین کرتے ہیں ۔ حضرت مجاہدرحمہ اللہ ، سدی رحمہ اللہ ، ربیع رحمہ اللہ بن انس اور قتادہ رحمہ اللہ کا بھی یہی قول ہے ۔ ابن جریج بھی یہی فرماتے ہیں ۔ قرآن میں دوسری جگہ ہے «اِنِّیْ ظَنَنْتُ اَنِّیْ مُلٰقٍ حِسَابِیَہْ» ( 69 ۔ الحاقہ : 20 ) یعنی مجھے یقین تھا کہ مجھے حساب سے دو چار ہونا ہے ۔ ایک صحیح حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن ایک گنہگار بندے سے اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا میں نے تجھے بیوی بچے نہیں دئیے تھے ؟ کیا تجھ پر طرح طرح کے اکرام نہیں کئے تھے ؟ کیا تیرے لیے گھوڑے اور اونٹ مسخر نہیں کئے تھے ؟ کیا تجھے راحت و آرام کھانا پینا میں نے نہیں دیا تھا ؟ یہ کہے گا ہاں پروردگار یہ سب کچھ دیا تھا ۔ پھر کیا تیرا علم و یقین اس بات پر نہ تھا کہ تو مجھ سے ملنے والا ہے ؟ وہ کہے گا ہاں اللہ تعالیٰ اسے نہیں مانتا تھا ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا بس تو جس طرح مجھے بھول گیا تھا آج میں بھی تجھے بھلا دوں گا ۔ (صحیح مسلم:2968) اس حدیث میں بھی لفظ ظن کا ہے اور معنی میں یقین کے ہیں اس کی مزید تحقیق و تفصیل ان شاءاللہ تعالیٰ آیت «نَسُوا اللّٰہَ فَاَنْسٰـیہُمْ اَنْفُسَہُمْ» ( 59 ۔ الحشر : 19 ) کی تفسیر میں آگے آئے گی ۔ البقرة
46 البقرة
47 بنی اسرائیل کے آباؤ اجداد پر اللہ تعالٰی کے انعامات بنی اسرائیل کے آباؤ اجداد پر جو نعمت الٰہیہ انعام کی گئی تھی اس کا ذکر ہو رہا ہے کہ ان میں سے رسول ہوئے ان پر کتابیں اتریں انہیں ان کے زمانہ کے دوسرے لوگوں پر مرتبہ دیا گیا جیسے فرمایا «وَلَــقَدِ اخْتَرْنٰہُمْ عَلٰی عِلْمٍ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ» ( 44 ۔ الدخان : 32 ) یعنی انہیں ان کے زمانے کے ( اور لوگوں پر ) ہم نے علم میں فضیلت دی ۔ اور فرمایا «وَاِذْ قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہٖ یٰقَوْمِ اذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ جَعَلَ فِیْکُمْ اَنْبِیَاءَ وَجَعَلَکُمْ مٰلُوْکًا ڰ وَّاٰتٰیکُمْ مَّا لَمْ یُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ» (5-المائدۃ:20) یعنی موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا اے میری قوم تم اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کو یاد کرو جو تم پر انعام کی گئی ہے تم میں اس نے پیغمبر پیدا کئے تمہیں بادشاہ بنایا اور وہ دیا جو تمام زمانے کو نہیں دیا ۔ تمام لوگوں پر فضیلت ملنے سے مراد ان کے زمانے کے تمام اور لوگ ہیں اس لیے کہ امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے یقیناً افضل ہے اس امت کی نسبت فرمایا گیا ہے «کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ» ( 3 ۔ آل عمران : 110 ) تم بہتر امت ہو جو لوگوں کے لیے بنائی گئی ہو تم بھلائیوں کا حکم کرنے والے اور برائیوں سے روکنے والے ہو اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو اگر اہل کتاب بھی ایمان لاتے تو ان کے لیے بہتر ہوتا ۔ مسانید اور سنن میں مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تم سترویں امت ہو اور سب سے بہتر اور بزرگ ہو ۔ (مسند احمد:447/4:حسن) اس قسم کی اور بہت سی احادیث کا ذکر ان شاءاللہ «کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ» ( 3 ۔ آل عمران : 110 ) کی تفسیر میں آئے گا اور کہا گیا ہے کہ تمام لوگوں پر خاص قسم کی فضیلت مراد ہے جس سے ہر قسم کی فضیلت لازم نہیں آتی ، رازی نے یہی کہا ہے مگر یہ غور طلب بات ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کی فضیلت اور تمام امتوں پر ہے اس لیے کہ انبیاء کرام انہی میں سے ہوتے چلے آئے ہیں لیکن اس میں بھی غورو خوض کی ضرورت ہے اس لیے کہ اس طرح کے اطلاق کے اجتماعی اعزاز کو اگلے لوگوں پر بھی ہوتا ہے ۔ اور حقیقت میں اگلے انبیاء ان میں شمار نہ تھے جیسے ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام اور نبی کریم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جو ان سب کے بعد ہوئے لیکن تمام مخلوق سے افضل تھے اور جو تمام اولاد آدم علیہ السلام کے سردار ہیں دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ، «صلوٰۃ اللہ وسلامہ علیہ» ۔ البقرة
48 حشر کا منظر نعمتوں کو بیان کرنے کے بعد عذاب سے ڈرایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ کوئی کسی کو کچھ فائدہ نہ دے گا جیسے فرمایا آیت «وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی» ( 35 ۔ فاطر : 18 ) یعنی کسی کا بوجھ کسی پر نہ پڑے گا اور فرمایا «لِکُلِّ امْرِۍ مِّنْہُمْ یَوْمَیِٕذٍ شَاْنٌ یٰغْنِیْہِ» ( 80 ۔ عبس : 37 ) یعنی اس دن ہر شخص نفسا نفسی میں پڑا ہوا ہو گا اور فرمایا ، اے لوگو اپنے رب کا خوف کھاؤ اور اس دن سے ڈرو جس دن باپ بیٹے کو اور بیٹا باپ کو کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچا سکے گا ۔ ارشاد ہے «وَّلَا یُقْبَلُ مِنْہَا شَفَاعَۃٌ وَّلَا یُؤْخَذُ مِنْہَا عَدْلٌ وَّلَا ھُمْ یُنْصَرُوْنَ» ( 2 ۔ البقرہ : 48 ) یعنی کسی کافر کی نہ کوئی سفارش کرے نہ اس کی سفارش قبول ہو اور فرمایا ان کفار کو شفاعت کرنے والوں کی شفاعت فائدہ نہ دے گی.(74-المدثر:48) دوسری جگہ اہل جہنم کا یہ مقولہ نقل کیا گیا ہے کہ افسوس آج ہمارا نہ کوئی سفارشی ہے نہ دوست ۔ (26-الشعراء:101-100) یہ بھی ارشاد ہے فدیہ بھی نہ لیا جائے گا اور جو لوگ کفر پر مر جاتے ہیں وہ اگر زمین بھر کر سونا دیں اور ہمارے عذابوں سے چھوٹنا چاہیں تو یہ بھی نہیں ہو سکتا.(3-آل عمران:91) اور جگہ ہے کافروں کے پاس اگر تمام زمین کی چیزیں اور اس کے مثال اور بھی ہوں اور قیامت کے دن وہ اسے فدیہ دے کر عذابوں سے بچنا چاہیں تو بھی کچھ قبول نہ ہو گا اور درد ناک عذابوں میں مبتلا رہیں گے.(5-المائدۃ:36) اور جگہ ہے ۔ گو وہ زبردست فدیہ دیں پھر بھی قبول نہیں ۔ (6-الأنعام:70) دوسری جگہ ہے آج تم سے نہ بدلہ لیا جائے نہ ہی کافروں سے تمہارا ٹھکانا جہنم ہے اسی کی آگ تمہاری وارث ہے ۔ (57-الحدید:15) مطلب یہ ہے کہ ایمان کے بغیر سفارش اور شفاعت کا آسرا بیکار محض ہے قرآن میں ارشاد ہے اس دن سے پہلے نیکیاں کر لو جس دن نہ خرید و فروخت ہو گی نہ دوستی (2-البقرۃ:254) اور شفاعت مزید فرمایا «یَوْمٌ لَّا بَیْعٌ فِیْہِ وَلَا خِلٰلٌ» ( 14 ۔ ابراہیم : 31 ) اس دن نہ بیع ہو گی نہ دوستی ۔ عدل کے معنی یہاں بدلے کے ہیں اور بدلہ اور فدیہ ایک ہے علی والی حدیث میں صرف کے معنی نفل اور دل کے معنی فریضہ مروی ہیں ۔(صحیح بخاری:1870) لیکن یہ قول یہاں غریب ہے اور صحیح قول پہلا ہی ہے ایک روایت میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عدل کے کیا معنی ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا فدیہ ۔(تفسیر ابن جریر الطبری:887:مرسل و منقطع) ان کی مدد بھی نہ کی جائے گی یعنی کوئی حمایتی نہیں ہو گا ، قرابتیں کٹ جائیں گی جاہ و حشم جاتا رہے گا کسی کے دل میں ان کے لیے رحم نہ رہے گا نہ خود ان میں کوئی قدرت و قوت رہے گی اور جگہ ہے « وَّہُوَ یُجِیْرُ وَلَا یُجَارُ عَلَیْہِ» ( 23 ۔ المؤمنون : 88 ) وہ پناہ دیتا ہے اور اس کی پکڑ سے نجات دینے والا کوئی نہیں ، ایک جگہ ہے آج کے دن نہ اللہ کا سا کوئی عذاب دے سکے نہ اس کی سی قید و بند ۔ ارشاد ہے آیت« مَا لَکُمْ لَا تَنَاصَرُونَ بَلْ ہُمُ الْیَوْمَ مُسْتَسْلِمُونَ» ( 37-الصافات : 25 ، 26 ) تم آج کیوں ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتے بلکہ وہ سب کے سب آج گردنیں جھکائے تابع فرمان بنے کھڑے ہیں۔ اور آیت میں ہے « فَلَوْلَا نَــصَرَہُمُ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ قُرْبَانًا اٰلِہَۃً فَلَوْلَا نَصَرَہُمُ الَّذِینَ اتَّخَذُوا مِن دُونِ اللہِ قُرْبَانًا آلِہَۃً ۖ بَلْ ضَلٰوا عَنْہُمْ ۚ وَذٰلِکَ إِفْکُہُمْ وَمَا کَانُوا یَفْتَرُونَ » ( 46 ۔ الاحقاف : 28 ) اللہ کے نزدیکی کے لیے وہ اللہ کے سوا جن کی پوجا پاٹ کرتے تھے آج وہ معبود اپنے عابدوں کی مدد کیوں نہیں کرتے ؟ بلکہ وہ تو غائب ہو گئے مطلب یہ ہے کہ محبتیں فنا ہو گئیں رشوتیں کٹ گئیں ، شفاعتیں مٹ گئیں ، آپس کی امداد و نصرت نابود ہو گئی معاملہ اس عادل حاکم جبار و قہار اللہ تعالیٰ مالک الملک سے پڑا ہے جس کے ہاں سفارشیوں اور مددگاروں کی مدد کچھ کام نہ آئے بلکہ اپنی تمام برائیوں کا بدلہ بھگتنا پڑے گا ، ہاں یہ اس کی کمال بندہ پروری اور رحم و کرم انعام و اکرام ہے کہ گناہ کا بدلہ برابر دے اور نیکی کا بدلہ کم از کم دس گنا بڑھا کر دے ۔ قرآن کریم میں ایک جگہ ہے کہ«وَقِفُوہُمْ ۖ إِنَّہُم مَّسْئُولُونَ مَا لَکُمْ لَا تَنَاصَرُونَ بَلْ ہُمُ الْیَوْمَ مُسْتَسْلِمُونَ» ( 37-الصافات : 24 - 26 ) وقفہ لینے دو تاکہ ان سے ایک سوال کر لیا جائے گا کہ آج یہ ایک دوسرے کی مدد چھوڑ کر نفسا نفسی میں کیوں مشغول ہیں ؟ بلکہ ہمارے سامنے سر جھکائے اور تابع فرمان ہیں ۔(تفسیر ابن جریر الطبری:35/1) البقرة
49 احسانات کی یاد دہانی ان آیتوں میں فرمان باری ہے کہ اے اولاد یعقوب علیہ السلام میری اس مہربانی کو بھی یاد رکھو کہ میں نے تمہیں فرعون کے بدترین عذابوں سے چھٹکارا دیا ، فرعون نے ایک خواب دیکھا تھا کہ بیت المقدس کی طرف سے ایک آگ بھڑکی جو مصر کے ہر ہر قبطی کے گھر میں گھس گئی اور بنی اسرائیل کے مکانات میں وہ نہیں گئی جس کی تعبیر یہ تھی کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص پیدا ہو گا جس کے ہاتھوں اس کا غرور ٹوٹے گا اس کے ” اللہ “ کے دعویٰ کی بدترین سزا اسے ملے گی اس لیے اس ملعون نے چاروں طرف احکام جاری کر دئیے کہ «یَسُومُونَکُمْ سُوءَ الْعَذَابِ وَیُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَکُمْ وَیَسْتَحْیُونَ نِسَاءَکُمْ » ( 14-إبراہیم : 6 ) بنی اسرائیل میں جو بچہ بھی پیدا ہو ، سرکاری طور سے اس کی دیکھ بھال رکھی جائے اگر لڑکا ہو تو فوراً مار ڈالا جائے اور لڑکی ہو تو چھوڑ دی جائے ۔ علاوہ ازیں بنی اسرائیل سے سخت بیگار لی جائے ہر طرح کی مشقت کے کاموں کا بوجھ ان پر ڈال دیا جائے ۔ یہاں پر عذاب کی تفسیر لڑکوں کے مار ڈالنے سے کی گئی اور سورۃ ابراہیم میں ایک کا دوسری پر عطف ڈالا جس کی پوری تشریح ان شاءاللہ سورۃ قصص کے شروع میں بیان ہو گی اللہ تعالیٰ ہمیں مضبوطی دے ہماری مدد فرمائے اور تائید کرے آمین ۔ «یَسُومُونَکُمْ» کے معنی مسلسل اور کرنے کے آتے ہیں یعنی وہ برابر دکھ دئیے جاتے تھے چونکہ اس آیت میں پہلے یہ فرمایا تھا کہ میری انعام کی ہوئی نعمت کو یاد کرو اس لیے فرعون کے عذاب کی تفسیر کو لڑکوں کے قتل کرنے کے طور پر بیان فرمایا اور سورۃ ابراہیم علیہ السلام کے شروع میں فرمایا تھا کہ تم اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو ۔ (14-إبراہیم:5) اس لیے وہاں عطف کے ساتھ فرمایا تاکہ نعمتوں کی تعداد زیادہ ہو ۔ یعنی متفرق عذابوں سے اور بچوں کے قتل ہونے سے تمہیں موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں نجات دلوائی ۔ مصر کے جتنے بادشاہ عمالیق وغیرہ کفار میں سے ہوئے تھے ان سب کو فرعون کہا جاتا تھا جیسے کہ روم کے کافر بادشاہ کو قیصر اور فارس کے کافر بادشاہ کو کسریٰ اور یمن کے کافر بادشاہ کو تبع اور حبشہ کے کافر بادشاہ کو نجاشی اور ہند کے کافر بادشاہ کو بطلیموس ۔ اس فرعون کا نام ولید بن مصعب بن ریان تھا ۔ بعض نے مصعب بن ریان بھی کہا ہے ۔ عملیق بن اود بن ارم بن سام بن نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے تھا اس کی کنیت ابومرہ تھی ۔ اصل میں اصطخر کے فارسیوں کی نسل میں تھا اللہ کی پھٹکار اور لعنت اس پر نازل ہو ۔ پھر فرمایا کہ اس نجات دینے میں ہماری طرف سے ایک بڑی بھاری نعمت تھی «بَلَاءٌ» کے اصلی معنی آزمائش کے ہیں لیکن یہاں پر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما ، مجاہد ، ابوالعالیہ ، ابومالک سدی رحمہ اللہ علیہم وغیرہ سے نعمت کے معنی منقول ہیں ، امتحان اور آزمائش بھلائی برائی دونوں کے ساتھ ہوتی ہے لیکن «بلوتہ بلاء» کا لفظ عموماً برائی کی آزمائش کے لیے اور «ابلیہ, ابلا ,وبلاء» کا لفظ بھلائی کے ساتھ کی آزمائش کے لیے آتا ہے یہ کہا گیا ہے کہ اس میں تمہاری آزمائش یعنی عذاب میں اور اس بچوں کے قتل ہونے میں تھی ۔ قرطبی اس دوسرے مطلب کو جمہور کا قول کہتے ہیں تو اس میں اشارہ ذبح وغیرہ کی طرف ہو گا اور بلاء کے معنی برائی کے ہوں گے پھر فرمایا کہ ہم نے فرعون سے بچا لیا ۔ تم موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ شہر سے نکلے اور فرعون تمہیں پکڑنے کو نکلا تو ہم نے تمہارے لیے پانی کو پھاڑ دیا اور تمہیں اس میں سے پار اتار کر تمہارے سامنے فرعون کو اس کے لشکر سمیت ڈبو دیا ۔ ان سب باتوں کا تفصیل وار بیان سورۃ الشعراء میں آئے گا ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ عمرو بن میمون اودی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو لے کر نکلے اور فرعون کو خبر ہوئی تو اس نے کہا کہ جب مرغ بولے تب سب نکلو اور سب کو پکڑ کر قتل کر ڈالو لیکن اس رات اللہ تعالیٰ کی قدرت سے صبح تک کوئی مرغ نہ بولا مرغ کی آواز سنتے ہی فرعون نے ایک بکری ذبح کی اور کہا کہ اس کی کلیجی سے میں فارغ ہوں اس سے پہلے چھ لاکھ قبطیوں کا لشکر جرار میرے پاس حاضر ہو جانا چاہیئے چنانچہ حاضر ہو گیا اور یہ ملعون اتنی بڑی جمعیت کو لے کر بنی اسرائیل کی ہلاکت کے لیے بڑے کروفر سے نکلا اور دریا کے کنارے انہیں پا لیا ۔ اب بنی اسرائیل پر دنیا تنگ آ گئی پچھے ہٹیں تو فرعونیوں کی تلواروں کی بھینٹ چڑھیں آگے بڑھیں تو مچھلیوں کا لقمہ بنیں ۔ اس وقت یوشع بن نون نے کہا کہ اے اللہ کے نبی اب کیا کیا جائے ؟ آپ نے فرمایا حکم الٰہی ہمارا راہنما ہے ، یہ سنتے ہی انہوں نے اپنا گھوڑا پانی میں ڈال دیا لیکن گہرے پانی میں جب غوطے کھانے لگا تو پھر کنارے کی طرف لوٹ آئے اور پوچھا اے موسیٰ علیہ السلام رب کی مدد کہاں ہے ؟ ہم نہ آپ علیہ السلام کو جھوٹا جانتے ہیں نہ رب جلیل کو تین مرتبہ ایسا ہی کہا ۔ اب موسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی آئی کہ اپنا عصا دریا پر مارو عصا مارتے ہی پانی نے راستہ دے دیا اور پہاڑوں کہ طرح کھڑا ہو گیا۔(26-الشعراء:63) موسیٰ علیہ السلام اور آپ کے ماننے والے ان راستوں سے گزر گئے انہیں اس طرح پار اترتے دیکھ کر فرعون اور فرعونی افواج نے بھی اپنے گھوڑے اسی راستہ پر ڈال دئیے ۔ جب تمام کے تمام میں داخل ہو گئے پانی کو مل جانے کا حکم ہوا پانی کے ملتے ہی تمام کے تمام ڈوب مرے بنی اسرائیل نے قدرت الٰہی کا یہ نظارہ اپنی آنکھوں سے کنارے پر کھڑے ہو کر دیکھا جس سے وہ بہت ہی خوش ہوئے اپنی آزادی اور فرعون کی بربادی ان کے لیے خوشی کا سبب بنی ۔ یہ بھی مروی ہے کہ یہ دن عاشورہ کا تھا یعنی محرم کی دسویں تاریخ ۔ مسند احمد میں حدیث ہے کہ جب حضور علیہ السلام مدینہ شریف میں تشریف لائے تو دیکھا کہ یہودی عاشورہ کا روزہ رکھتے ہیں پوچھا کہ تم اس دن کا روزہ کیوں رکھتے ہو ؟ انہوں نے کہا اس لیے کہ اس مبارک دن میں بنی اسرائیل نے فرعون کے ظلم سے نجات پائی اور ان کا دشمن غرق ہوا جس کے شکریہ میں موسیٰ علیہ السلام نے یہ روزہ رکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم سے زیادہ حقدار موسیٰ علیہ السلام کا میں ہوں پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی اس دن روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا ۔ بخاری مسلم نسائی ابن ماجہ وغیرہ میں بھی یہ حدیث موجود ہے ۔ (صحیح بخاری:2004) ایک اور ضعیف حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے لیے سمندر کو پھاڑ دیا تھا اس حدیث کے راوی زید العمی ضعیف ہیں اور ان کے استاد یزید رقاشی ان سے بھی زیادہ ضعیف ہیں ۔ (مسند ابویعلیٰ:4094:ضعیف جدًا) البقرة
50 البقرة
51 چالیس دن کا وعدہ یہاں بھی اللہ برترو اعلیٰ اپنے احسانات یاد دلا رہا ہے جب کہ تمہارے نبی موسیٰ علیہ السلام چالیس دن کے وعدے پر تمہارے پاس سے گئے اور اس کے بعد تم نے گوسالہ پرستی شروع کر دی پھر ان کے آنے پر جب تم نے اس شرک سے توبہ کی تو ہم نے تمہارے اتنے بڑے کفر کو بخش دیا اور قرآن میں ہے «وَوَاعَدْنَا مُوسَیٰ ثَلَاثِینَ لَیْلَۃً وَأَتْمَمْنَاہَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِیقَاتُ رَبِّہِ أَرْبَعِینَ لَیْلَۃً » (7-الأعراف:142) یعنی ہم نے موسیٰ سے تیس راتوں کا وعدہ کیا اور دس بڑھا کر پوری چالیس راتوں کا کیا ، کہا جاتا ہے کہ یہ وعدے کا زمانہ ذوالقعدہ کا پورا مہینہ اور دس دن ذوالحجہ کے تھے یہ واقعہ فرعونیوں سے نجات پا کر دریا سے بچ کر نکل جانے کے بعد پیش آیا تھا ۔ کتاب سے مراد توراۃ ہے اور فرقان ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو حق و باطل ہدایت و ضلالت میں فرق کرے یہ کتاب بھی اس واقعہ کے بعد ملی جیسے کہ سورۃ الاعراف اس کے اس واقعہ کے طرز بیان سے ظاہر ہوتا ہے دوسری جگہ آیت «مِنْ بَعْدِ مَآ اَہْلَکْنَا الْقُرُوْنَ الْاُوْلٰی» ( 28 ۔ القصص : 43 ) بھی آیا ہے یعنی ہم نے اگلے لوگوں کو ہلاک کرنے کے بعد موسیٰ علیہ السلام کو وہ کتاب دی جو سب لوگوں کے لیے بصیرت افزا اور ہدایت و رحمت ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ واؤ زائد ہے اور خود کتاب کو فرقان کہا گیا ہے لیکن یہ غریب ہے بعض نے کہا ہے کتاب پر ” فرقان “ کا عطف ہے یعنی کتاب بھی دی اور معجزہ بھی دیا ۔ دراصل معنی کے اعتبار سے دونوں کا مفاد ایک ہی ہے اور ایسی ایک چیز دو ناموں سے بطور عطف کے کلام عرب میں آیا کرتی ہے شعراء عرب کے بہت سے اشعار اس کے شاہد ہیں ۔ البقرة
52 البقرة
53 البقرة
54 سخت ترین سزا یہاں ان کی توبہ کا طریقہ بیان ہو رہا ہے انہوں نے بچھڑے کو پوجا اور اس کی محبت نے ان کے دلوں میں گھر کر لیا پھر موسیٰ علیہ السلام کے سمجھانے سے ہوش آیا اور نادم ہوئے اور اپنی گمراہی کا یقین کر کے توبہ استغفار کرنے لگے تب انہیں حکم ہوا کہ تم آپس میں قتل کرو ۔ چنانچہ انہوں نے یہی کیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کی اور قاتل و مقتول دونوں کو بخش دیا ۔ اس کا پورا بیان سورۃ طہٰ کی تفسیر میں آئے گا ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ موسیٰ علیہ السلام کا یہ فرمان کہ اپنے خالق سے توبہ کرو بتا رہا ہے کہ اس سے بڑھ کر ظلم کیا ہو گا کہ تمہیں پیدا اللہ تعالیٰ کرے اور تم پوجو غیروں کو ۔ ایک روایت میں ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے انہیں حکم الٰہی سنایا اور جن جن لوگوں نے بچھڑا پوجا تھا انہیں بٹھا دیا اور دوسرے لوگ کھڑے رہ گئے اور قتل کرنا شروع کیا قدرتی طور پر اندھیرا چھایا ہوا تھا جب اندھیرا ہٹا تو انہیں روک دیا گیا ۔ شمار کرنے پر معلوم ہوا کہ ستر ہزار آدمی قتل ہو چکے ہیں اور ساری قوم کی توبہ قبول ہوئی ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:167/1-168) یہ ایک سخت فرمان تھا جس کی ان لوگوں نے تعمیل کی اور اپنوں اور غیروں کو یکساں تہہ تیغ کیا یہاں تک کہ رحمت الٰہی نے انہیں بخشا اور موسیٰ علیہ السلام سے فرما دیا کہ اب بس کرو ۔ مقتول کو شہید کا اجر دیا قاتل کی اور باقی ماندہ تمام لوگوں کی توبہ قبول فرمائی اور انہیں جہاد کا ثواب دیا ۔ موسیٰ علیہ السلام اور ہارون نے جب اسی طرح اپنی قوم کا قتل دیکھا تو دعا کرنی شروع کی کہ اللہ عزوجل اب تو بنی اسرائیل مٹ جائیں گے چنانچہ انہیں معاف فرما دیا گیا اور پروردگار عالم نے فرمایا کہ اے میرے پیغمبر مقتولوں کا غم نہ کرو وہ ہمارے پاس شہیدوں کے درجہ میں ہیں وہ یہاں زندہ ہیں اور غذا پا رہے ہیں اب آپ علیہ السلام کو اور آپ کی قوم کو صبر آیا اور عورتوں اور بچوں کی گریہ و زاری موقوف ہوئی ۔ تلواریں نیزے چھرے اور چھریاں چلنی بند ہوئیں آپس میں باپ بیٹوں بھائیوں ، بھائیوں میں قتل و خون موقوف ہوا اور اللہ تواب و رحیم نے ان کی توبہ قبول فرمائی ۔ البقرة
55 ہم بھی اللہ عزوجل کو خود دیکھیں گے موسیٰ علیہ السلام جب اپنے ساتھ بنی اسرائیل کے ستر شخصوں کو لے کر اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق کوہ طور پر گئے اور ان لوگوں نے کلام الٰہی سنا تو موسیٰ علیہ السلام سے کہنے لگے ہم تو جب مانیں جب اللہ تعالیٰ کو اپنے سامنے خود دیکھ لیں ۔ اس گستاخانہ سوال پر ان پر آسمان سے ان کے دیکھتے ہوئے بجلی گری اور ایک سخت ہولناک آواز ہوئی جس سے سب کے سب مر گئے ۔ موسیٰ علیہ السلام یہ دیکھ کر گریہ و زاری کرنے لگے اور رو رو کر جناب باری میں عرض کرنے لگے کہ اللہ بنی اسرائیل کو میں کیا جواب دوں گا یہ جماعت تو ان کے سرداروں اور بہترین لوگوں کی تھی پروردگار اگر یہی چاہت تھی تو انہیں اور مجھے اس سے پہلے ہی مار ڈالتا ۔ اللہ تعالیٰ بیوقوفوں کی بیوقوفی کے کام پر ہمیں نہ پکڑ ۔ (7-الأعراف:155) یہ دعا مقبول ہوئی اور آپ کو معلوم کرایا گیا کہ یہ بھی دراصل بچھڑا پوجنے والوں میں سے تھے انہیں سزا مل گئی ۔ پھر انہیں زندہ کر دیا اور ایک کے بعد ایک کر کے سب زندہ کئے گئے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:173/1) ایک دوسرے کے زندہ ہونے کو ایک دوسرا دیکھتا رہا ۔ محمد بن اسحاق رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کے پاس آئے اور انہیں بچھڑا پوجتے ہوئے دیکھا اور اپنے بھائی کو اور سامری کو تنبیہہ کی ۔ بچھڑے کو جلا دیا اور اس کی راکھ دریا میں بہا دی اس کے بعد ان میں سے بہترین لوگوں کو چن کر اپنے ساتھ لیا جن کی تعداد ستر تھی اور کوہ طور پہ توبہ کرنے کے لیے چلے ان سے کہا کہ تم توبہ کرو ورنہ روزہ رکھو پاک صاف ہو جاؤ کپڑوں کو پاک کر لو جب بحکم الٰہی طور سینا پر پہنچے تو ان لوگوں نے کہا کہ اے اللہ کے پیغمبر اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ اپنا کلام ہمیں بھی سنائے جب موسیٰ علیہ السلام پہاڑ کے پاس پہنچے تو ایک بادل نے آ کر سارے پہاڑ کو ڈھک لیا اور آپ اسی کے اندر اندر اللہ تعالیٰ کے قریب ہو گئے جب کلام رب ذوالجلال شروع ہوا تب موسیٰ علیہ السلام کی پیشانی نور سے چمکنے لگی اس طرح کہ کوئی اس طرف نظر اٹھانے کی تاب نہیں رکھتا تھا ۔ بادل کی اوٹ ہو گئی اور سب لوگ سجدے میں گر پڑے اور موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے آپ کے ساتھی بنی اسرائیل بھی اللہ تعالیٰ کا کلام سننے لگے کہ انہیں حکم احکام ہو رہے ہیں جب کلام الہ العالمین ختم ہوا بادل چھٹ گیا اور موسیٰ علیہ السلام ان کے پاس چلے آئے تو یہ لوگ کہنے لگے موسیٰ ہم تو ایمان نہ لائیں گے جب تک اپنے رب کو اپنے سامنے نہ دیکھ لیں ۔ اس گستاخی پر ایک زلزلہ آیا اور سب کے سب ہلاک ہو گئے ۔ اب موسیٰ علیہ السلام نے خلوص دل کے ساتھ دعائیں شروع کیں اور کہنے لگے اس سے تو یہی اچھا تھا کہ ہم سب اس سے پہلے ہی ہلاک ہو جاتے ۔ بیوقوفوں کے کاموں پر ہمیں ہلاک نہ کر یہ لوگ ان کے چیدہ اور پسندیدہ لوگ تھے جب میں تنہا بنی اسرائیل کے پاس جاؤں گا تو انہیں کیا جواب دوں گا کون میری بات اس کو سچا سمجھے گا اور پھر اس کے بعد کون مجھ پر ایمان لائے گا ؟ اللہ ہماری توبہ ہے ۔ تو قبول فرما ۔ اور ہم پر فضل و کرم کر ، موسیٰ علیہ السلام یونہی خشوع و خضوع سے دعا مانگتے رہے یہاں تک کہ پروردگار نے ان کی اس دعا کو قبول فرمایا اور ان مردوں کو زندہ کر دیا ، اب سب نے ایک زبان ہو کر بنی اسرائیل کی طرف سے توبہ شروع کی ان سے فرمایا گیا کہ جب تک یہ اپنی جانوں کو ہلاک نہ کریں اور ایک دوسرے کو قتل نہ کریں میں ان کی توبہ قبول نہیں فرماؤں گا ۔ سدی کبیر کہتے ہیں یہ واقعہ بنی اسرائیل کے آپس میں لڑانے کے بعد کا ہے ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ خطاب گو عام ہے لیکن حقیقت میں اس سے مراد وہی ستر شخص ہیں ۔ رازی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں ان ستر شخصوں کے بارے میں لکھا ہے کہ انہوں نے اپنے جینے کے بعد کہا کہ اے نبی اللہ علیہ السلام ، اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ ہمیں نبی بنا دے ۔ آپ علیہ السلام نے دعا کی اور وہ قبول بھی ہوئی لیکن یہ قول غریب ہے موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں سوائے ہارون علیہ السلام کے اور اس کے بعد یوشع بن نون علیہ السلام کے کسی اور کی نبوت ثابت نہیں ۔ اہل کتاب کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ان لوگوں نے اپنی دعا کے مطابق اللہ تعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے اسی جگہ دیکھا یہ بھی غلط ہے اس لیے کہ خود موسیٰ علیہ السلام نے جب دیدار باری تعالیٰ کا سوال کیا تو انہیں منع کر دیا گیا پھر بھلا یہ ستر اشخاص دیدار باری تعالیٰ کی تاب کیسے لاتے ؟ اس آیت کی تفسیر میں ایک دوسرا قول بھی ہے کہ موسیٰ علیہ السلام توراۃ لے کر آئے جو احکام کا مجموعہ تھی اور ان سے کہا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اس پر عمل کرو اور مضبوطی کے ساتھ اس کے پابند ہو جاؤ تو وہ کہنے لگے کہ ہمیں کیا خبر اللہ تعالیٰ خود آ کر ظاہر ہو کر ہم سے کیوں نہیں کہتا ؟ کیا وجہ ہے کہ وہ آپ سے باتیں کرے اور ہم سے نہ کرے ؟ جب تک ہم اللہ کو خود نہ دیکھ لیں ہرگز ایمان نہ لائیں گے اس قول پر ان کے اوپر غضب الٰہی نازل ہوا اور ہلاک کر دئیے گئے پھر زندہ کئے گئے پھر موسیٰ علیہ السلام نے انہیں کہا کہ اب تو اس توراۃ کو تھام لو انہوں نے پھر انکار کیا اب کی مرتبہ فرشتے پہاڑ اٹھا کر لائے اور ان کے سروں کے اوپر معلق کر دیا کہ اگر نہ مانو گے تو یہ پہاڑ تم پر گرا دیا جائے گا اور تم سب پیس ڈالے جاؤ گے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:88/2 ) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مرنے کے بعد یہ جی اٹھے اور پھر بھی مکلف رہے یعنی احکام الٰہی ان پر پھر بھی جاری رہے ماوردی نے کہا ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کی یہ زبردست نشانی دیکھ لی مرنے کے بعد زندہ ہوئے تو پھر تکلیف شرعی ان پر سے ہٹ گئی اس لیے کہ اب تو یہ مجبور تھے کہ سب کچھ مان لیں ۔ خود ان پر یہ واردات پیش آئی اب تصدیق ایک بے اختیاری امر ہو گیا ۔ دوسری جماعت کہتی ہے کہ نہیں بلکہ باوجود اس کے وہ احکام شرع کے مکلف رہے کیونکہ ہر عاقل مکلف ہے ۔ قرطبی کہتے ہیں ٹھیک قول یہی ہے یہ امور ان پر قدرتی طور سے آئے تھے جو انہیں پابندی شرع سے آزاد نہیں کر سکتے خود بنی اسرائیل نے بھی بڑے بڑے معجزات دیکھے خود ان کے ساتھ ایسے ایسے معاملات ہوئے جو بالکل نادر اور خلاف قیاس اور زبردست معجزات تھے باوجود اس کے وہ بھی مکلف رہے اسی طرح یہ بھی ٹھیک قول ہے اور واضح امر بھی یہی ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» البقرة
56 البقرة
57 یہود پر احسانات الہیہ کی تفصیل سابقہ آیات میں بیان ہوا تھا کہ فلاں فلاں بلائیں ہم نے تم پر سے دفع کر دیں اب بیان ہو رہا ہے کہ فلاں فلاں نعمتیں بھی ہم نے تمہیں عطا فرمائیں «غمام» «غمامتہ» کی جمع ہے چونکہ یہ آسمان کو چھپا لیتا ہے اس لیے اسے غمامہ کہتے ہیں یہ ایک سفید رنگ کا بادل تھا جو وادی تیہ میں ان کے سروں پر سایہ کئے رہتا تھا جیسے نسائی وغیرہ میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک لمبی حدیث میں مروی ہے ، ابن ابی حاتم کہتے ہیں کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ، ربیع بن انس ابو مجاز ضحاک اور سدی رحمہ اللہ علیہم نے بھی یہی کہا ہے حسن اور قتادہ رحمہ اللہ علیہما بھی یہی کہتے ہیں اور لوگ کہتے ہیں کہ یہ بادل عام بادلوں سے زیادہ ٹھنڈک والا اور زیادہ عمدہ تھا ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ وہی بادل تھا جس میں اللہ تعالیٰ قیامت کے دن آئے گا ابوحذیفہ کا قول بھی یہی ہے «ھَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ یَّاْتِیَہُمُ اللّٰہُ فِیْ ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَالْمَلٰیِٕکَۃُ وَقُضِیَ الْاَمْرُ وَاِلَی اللّٰہِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ» ( 2 ۔ البقرہ : 210 ) اس آیت میں اس کا ذکر ہے کہ کیا ان لوگوں کو اس کا انتظار ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے بادل میں آئے ۔ یہی وہ بادل ہے جس میں بدر والے دن فرشتے نازل ہوئے تھے ۔ جو ” من “ ان پر اترا وہ درختوں پر اترا تھا ۔ یہ صبح جاتے تھے اور جمع کر کے کھا لیا کرتے تھے وہ گوند کی قسم کا تھا ۔ کوئی کہتا ہے شبنم کی وضع کا تھا قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں اولوں کی طرح ” من “ ان کے گھروں میں اترتا تھا جو دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا تھا ۔ صبح صادق سے لے کر آفتاب نکلنے تک اترتا رہتا تھا ہر شخص اپنے گھربار کے لیے اتنی مقدار میں جمع کر لیتا تھا جتنا اس دن کافی ہو اگر کوئی زیادہ لیتا تو بگڑ جاتا تھا ۔ جمعہ کے دن وہ دو دن کا لے لیتے تھے جمعہ اور ہفتہ کا اس لیے کہ ہفتہ ان کا بڑا دن تھا ربیع بن انس کہتے ہیں من شہد جیسی چیز تھی جس میں پانی ملا کر پیتے تھے شعبی فرماتے ہیں تمہارا یہ شہد اس ” من “ کا سترواں حصہ ہے شعروں میں یہی ” من “ شہد کے معنی میں آیا ہے یہ سب اقوال قریب قریب ہیں غرض یہ ہے کہ ایک ایسی چیز تھی جو انہیں بلا تکلیف و تکلف ملتی تھی اگر صرف اسے کھایا جائے تو وہ کھانے کی چیز تھی اور اگر پانی میں ملا لی جائے تو پینے کی چیز تھی اور اگر دوسری چیزوں کے ساتھ مرکب کر دی جاتی تو اور چیز ہو جاتی تھی ۔ لیکن یہاں ” من “ سے مراد یہی ” من “ مشہور نہیں ۔ صحیح بخاری شریف کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کھمبی من میں سے ہے اور اس کا پانی آنکھ کے لیے شفاء ہے ۔ (صحیح بخاری:4478) ترمذی اسے حسن صحیح کہتے ہیں ترمذی میں ہے کہ عجوہ جو مدینہ کی کھجوروں کی ایک قسم ہے وہ جنتی چیز ہے اور اس میں زہر کا تریاق ہے اور کھمبی من میں سے ہے اور اس کا پانی آنکھ کے درد کی دوا ہے ۔ (سنن ترمذی:2066 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) یہ حدیث حسن غریب ہے ۔ دوسرے بہت سے طریقوں سے بھی مروی ہے ۔ ابن مردویہ کی حدیث میں ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس درخت کے بارے میں اختلاف کیا جو زمین کے اوپر ہوتا ہے جس کی جڑیں مضبوط نہیں ہوتیں ۔ بعض کہنے لگے کھمبی کا درخت ہے آپ نے فرمایا کھمبی تو “ من “ میں سے ہے اور اس کا پانی آنکھ کے لیے شفاء ہے ۔ (ابن عدی فی الکامل 370/2صحیح بالشواھد) «سلویٰ» ایک قسم کا پرند ہے چڑیا سے کچھ بڑا ہوتا ہے ۔ سرخی مائل رنگ کا جنوبی ہوائیں چلتی تھی اور ان پرندوں کو وہاں لا کر جمع کر دیتی تھیں بنی اسرائیل اپنی ضرورت کے مطابق انہیں پکڑ لیتے تھے اور ذبح کر کے کھاتے تھے اگر ایک دن گزر کر بچ جاتا تو وہ بگڑ جاتا تھا اور جمعہ کے دن دو دن کے لیے جمع کر لیتے تھے کیونکہ ہفتہ کا دن ان کے لیے عید کا دن ہوتا تھا اس دن عبادتوں میں مشغول رہنے اور شکار وغیرہ سے بچنے کا حکم تھا ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:179/1) بعض لوگوں نے کہا ہے کہ یہ پرند کبوتر کے برابر ہوتے تھے ایک میل کی لمبائی چوڑائی میں ایک نیزے کے برابر اونچا ڈھیر ان پرندوں کا ہو جاتا تھا ۔ یہ دونوں چیزیں ان پر وادی تیہ میں اتری تھیں ۔ جہاں انہوں نے اپنے پیغمبر علیہ السلام سے کہا تھا کہ اس جنگل میں ہمارے کھانے کا بندوبست کیسے ہو گا تب ان پر «مَنَّ وَالسَّلْوَیٰ» اتارا گیا اور پانی کے لیے جب موسیٰ علیہ السلام سے درخواست کی گئی تو پروردگار عالم نے فرمایا کہ ” اس پتھر پر اپنا عصا مارو “ (2-البقرۃ:60) عصا لگتے ہی اس سے بارہ چشمے جاری ہو گئے اور بنی اسرائیل کے بارہ ہی فرقے تھے ۔ ہر قبیلہ نے ایک ایک چشمہ اپنے لیے بانٹ لیا ، پھر سایہ کے طالب ہوئے کہ اس چٹیل میدان میں سایہ بغیر گزر مشکل ہے تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے طور پہاڑ کا ان پر سایہ کر دیا ، رہ گیا لباس تو قدرت الٰہی سے جو لباس وہ پہنے ہوئے تھے وہ ان کے قد کے بڑھنے کے ساتھ بڑھتا رہتا تھا ایک سال کے بچہ کا لباس جوں جوں اس کا قدوقامت بڑھتا لباس میں بڑھتا جاتا نہ پھٹتا نہ خراب ہوتا نہ میلا ہوتا ، ان تمام نعمتوں کا ذکر مختلف جگہ قرآن پاک میں موجود ہے جیسے یہ آیت اور آیت «وَإِذِ اسْتَسْقَیٰ مُوسَیٰ لِقَوْمِہِ فَقُلْنَا اضْرِب بِّعَصَاکَ الْحَجَرَ» ( البقرہ : 60 ) والی آیت وغیرہ ۔ ہذلی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سلویٰ شہد کو کہتے ہیں لیکن ان کا یہ قول غلط ہے اور جوہری نے بھی یہی کہا ہے اور اس کی شہادت میں عرب شاعروں کے شعر اور بعض لغوی محاورے بھی پیش کئے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ ایک دوا کا نام ہے ۔ کسائی رحمہ اللہ کہتے ہیں سلویٰ واحد کا لفظ ہے اور اس کی جمع سلاوی آتی ہے اور بعض کہتے ہیں کہ جمع میں اور مفرد میں یہی صیغہ رہتا ہے یعنی لفظ سلویٰ ۔ غرض یہ اللہ کی دو نعمتیں تھیں جن کا کھانا ان کے لیے مباح کیا گیا لیکن ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کی ناشکری کی اور یہی ان کا اپنی جانوں پر ظلم کرنا تھا باوجودیکہ اس سے پہلے بہت کچھ اللہ کی نعمتیں ان پر نازل ہو چکی تھیں ۔ تقابلی جائزہ بنی اسرائیل کی حالت کا یہ نقشہ آنکھوں کے سامنے رکھ کر پھر اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت پر نظر ڈالو کہ باوجود سخت سے سخت مصیبتیں جھیلنے اور بے انتہا تکلیفیں برداشت کرنے کے وہ اتباع نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اور عبادت الٰہی پر جمے رہے نہ معجزات طلب کئے نہ دنیا کی راحتیں مانگیں نہ اپنے تعیش کے لیے کوئی نئی چیز پیدا کرنے کی خواہش کی ، جنگ تبوک میں جبکہ بھوک کے مارے بیتاب ہو گئے اور موت کا مزہ آنے لگا تب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ یا رسول اللہ اس کھانے میں برکت کی دعا کیجئے اور جس کے پاس جو کچھ بچا کھچا تھا جمع کر کے حاضر کر دیا جو سب مل کر بھی نہ ہونے کے برابر ہی تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے قبول فرما کر اس میں برکت دی انہوں نے خوب کھایا بھی اور تمام توشے دان بھر لیے ، پانی کے قطرے قطرے کو جب ترسنے لگے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے ایک ابر آیا اور ریل پیل کر دی ، پیا پلایا اور مشکیں اور مشکیزے سب بھر لیے ۔ پس صحابہ رضی اللہ عنہم کی اس ثابت قدمی اوالوالعزمی کامل اتباع اور سچی توحید نے ان کی اصحاب موسیٰ علیہ السلام پر قطعی فضیلت ثابت کر دی ۔ البقرة
58 یہود کی پھر حکم عدولی جب موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو لے کر مصر سے آئے اور انہیں ارض مقدس میں داخل ہونے کا حکم ہوا جو ان کی موروثی زمین تھی ان سے کہا گیا کہ یہاں جو عمالیق ہیں ان سے جہاد کرو تو ان لوگوں نے نامردی دکھائی جس کی سزا میں انہیں میدان تیہ میں ڈال دیا گیا جیسے کہ سورۃ المائدہ میں ذکر ہے «یَا قَوْمِ ادْخُلُوا الْأَرْضَ الْمُقَدَّسَۃَ الَّتِی کَتَبَ اللہُ» ( 5-المائدۃ : 21 - 24 ) الخ ، قریہ سے مراد بیت المقدس ہے ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:181/1) سدی ، ربیع ، قتادہ ، ابو مسلم رحمہ اللہ علیہم وغیرہ نے یہی کہا ہے ، قرآن میں ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم اس پاک زمین میں جاؤ جو تمہارے لیے لکھ دی گئی ہے بعض کہتے ہیں اس سے مراد ” اریحا “ ہے بعض نے کہا ہے مصر مراد ہے لیکن صحیح قول پہلا ہی ہے کہ مراد اس سے بیت المقدس ہے یہ واقعہ تیہ سے نکلنے کے بعد کا ہے جمعہ کے دن شام کو اللہ تعالیٰ نے انہیں اس پر فتح عطا کی بلکہ سورج کو ان کے لیے ذرا سی دیر ٹھہرا دیا تھا تاکہ فتح ہو جائے فتح کے بعد انہیں حکم ہوا کہ اس شہر میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہوں ۔ جو اس فتح کی اظہار تشکر کا مظہر ہو گا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے سجدے سے مراد رکوع لیا ہے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:113/2) راوی کہتے ہیں کہ سجدے سے مراد یہاں پر خشوع خضوع ہے کیونکہ حقیقت پر اسے محمول کرنا ناممکن ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں یہ دروازہ قبلہ کی جانب تھا اس کا نام باب الحطۃٰ تھا ۔ رازی رحمہ اللہ نے یہ بھی کہا ہے کہ دروازے سے مراد جہت قبلہ ہے ۔ بجائے سجدے کے اس قوم نے اپنی رانوں پر کھسکنا شروع کیا اور کروٹ کے بل داخل ہونے لگے سروں کو جھکانے کے بجائے اور اونچا کر لیا ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:183/1) حطتہ کے معنی بخشش کے ہیں ۔ (ایضاً) بعض نے کہا ہے کہ یہ امر حق ہے عکرمہ رحمہ اللہ کہتے ہیں اس سے مراد ( لا الہٰ الا اللہ ) کہنا ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں ان میں گناہوں کا اقرار ہے حسن اور قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس کے معنی یہ ہیں اللہ ہماری خطاؤں کو ہم سے دور کر دے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:185/1)پھر ان سے وعدہ کیا جاتا ہے کہ اگر تم اسی طرح یہی کہتے ہوئے شہر میں جاؤ گے اور اس فتح کے وقت بھی اپنی پستی اور اللہ کی نعمت اور اپنے گناہوں کا اقرار کرو گے اور مجھ سے بخشش مانگو تو چونکہ یہ چیزیں مجھے بہت ہی پسند ہیں میں تمہاری خطاؤں سے درگزر کر لوں گا ۔ فتح مکہ کے موقع پر فرمان الٰہی سورۃ اذا جاء نازل ہوئی تھی ۔ (110-النصر:1) اور اس میں بھی یہی حکم دیا گیا تھا کہ جب اللہ کی مدد آ جائے مکہ فتح ہو اور لوگ دین اللہ میں فوج در فوج آنے لگیں تو اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تم اپنے رب کی تسبیح اور حمد و ثنا بیان کرو اس سے استغفار کرو وہ توبہ قبول کرنے والا ہے ۔ اس سورت میں جہاں ذکرو استغفار کا ذکر ہے وہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری وقت کی خبر تھی ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہم کے سامنے اس سورت کا ایک مطلب یہ بھی بیان کیا تھا ۔ (صحیح بخاری:4294) جسے آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا جب مکہ فتح ہونے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہر میں داخل ہوئے تو انتہائی تواضع اور مسکینی کے آثار آپ پر تھے یہاں تک کے سر جھکائے ہوئے تھے اونٹنی کے پالان سے سر لگ گیا تھا ۔ شہر میں جاتے ہی غسل کر کے ضحیٰ کے وقت آٹھ رکعت نماز ادا کی ۔ (صحیح بخاری:1103 ) جو ضحیٰ کی نماز بھی تھی اور فتح کے شکریہ کی بھی دونوں طرح کے قول محدثین کے ہیں ۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے جب ملک ایران فتح کیا اور کسری کے شاہی محلات میں پہنچے تو اسی سنت کے مطابق آٹھ رکعتیں پڑھیں دو دو رکعت ایک سلام سے پڑھنے کا بعض کا مذہب ہے اور بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ آٹھ ایک ساتھ ایک ہی سلام سے پڑھیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» صحیح بخاری شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں بنی اسرائیل کو حکم کیا گیا کہ وہ سجدہ کرتے ہوئے اور (حِطَّۃٌ) کہتے ہوئے دروازے میں داخل ہوں لیکن انہوں نے بدل دیا اور اپنی رانوں پر گھسٹتے ہوئے اور (حِطَّۃٌ) کے بجائے (حَبَّۃٌ فِیْ شَعْرَۃٍ) کہتے ہوئے جانے لگے ۔ (صحیح بخاری:4479) نسائی ، عبدالرزاق ، ابوداؤد ، مسلم اور ترمذی میں بھی یہ حدیث بہ اختلاف الفاظ موجود ہے اور سنداً صحیح ہے ۔ (صحیح بخاری:4479) سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جا رہے تھے ۔ ذات الحنطل نامی گھاٹی کے قریب پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس گھاٹی کی مثال بھی بنی اسرائیل کے اس دروازے جیسی ہے جہاں انہیں سجدہ کرتے ہوئے اور حِطَّۃٌ کہتے ہوئے داخل ہونے کو کہا گیا تھا اور ان کے گناہوں کی معافی کا وعدہ کیا گیا تھا ۔ (مسند بزار 1812:ضعیف) برآء فرماتے ہیں سَیَقُوْلُ السٰفَہَاءُ میں السٰفَہَاءُ یعنی جاہلوں سے مراد یہود ہیں جنہوں نے اللہ کی بات کو بدل دیا تھا سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حِطَّۃٌ کے بدلے انہوں نے حنطۃ حبتہ حمراء فیھا شعیرۃ کہا تھا ان کی اپنی زبان میں ان کے الفاظ یہ تھے ھطا سمعانا ازبتہ مزبا سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بھی ان کی اس لفظی تبدیلی کو بیان فرماتے ہیں کہ رکوع کرنے کے بدلے وہ رانوں پر گھسٹتے ہوئے اور حِطَّۃٌ کے بدلے حنطۃ کہتے ہوئے داخل ہوئے عطا ، مجاہد ، عکرمہ ، ضحاک ، حسن ، قتادہ ، ربیع ، یحییٰ رحمہ اللہ علیہم نے بھی یہی بیان کیا ہے مطلب یہ ہے کہ جس قول و فعل کا انہیں حکم دیا گیا تھا انہوں نے مذاق اڑایا جو صریح مخالفت اور معاندت تھی اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنا عذاب نازل فرمایا ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے ظالموں پر ان کے فسق کی وجہ سے آسمانی عذاب نازل فرمایا ۔ رجز سے مراد عذاب ہے کوئی کہتا ہے غضب ہے کسی نے طاعون کہا ہے ایک مرفوع حدیث ہے طاعون رجز ہے اور یہ عذاب تم سے اگلے لوگوں پر اتارا گیا تھا ۔ (صحیح مسلم:2218) بخاری اور مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب تم سنو کہ فلاں جگہ طاعون ہے تو وہاں نہ جاؤ الخ(صحیح بخاری:5728) ابن جریر میں ہے کہ یہ دکھ اور بیماری رجز ہے تم سے پہلے لوگ انہی سے عذاب دئیے گئے تھے ۔ (صحیح بخاری:3473) البقرة
59 البقرة
60 یہود پر تسلسل احسانات یہ ایک اور نعمت یاد دلائی جا رہی ہے کہ جب تمہارے نبی علیہ السلام نے تمہارے لیے پانی طلب کیا تو ہم نے اس پتھر سے چشمے بہا دئیے جو تمہارے ساتھ رہا کرتا تھا اور تمہارے ہر قبیلے کے لیے اس میں سے ایک ایک چشمہ ہم نے جاری کرا دیا جسے ہر قبیلہ نے جان لیا اور ہم نے کہہ دیا کہ من و سلویٰ کھاتے رہو اور ان چشموں کا پانی پیتے رہو بے محنت کی روزی کھا پی کر ہماری عبادت میں لگے رہو نافرمانی کر کے زمین میں فساد مت پھیلاؤ ورنہ یہ نعمتیں چھن جائیں گی ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یہ ایک چکور پتھر تھا جو ان کے ساتھ ہی تھا ۔ موسیٰ علیہ السلام نے بحکم اللہ اس پر لکڑی ماری چاروں طرف سے تین تین نہریں بہ نکلیں ۔ یہ پتھر بیل کے سر جتنا تھا جو بیل پر لاد دیا جاتا تھا ۔ جہاں اترتے رکھ دیتے اور عصا کی ضرب لگتے ہی اس میں سے نہریں بہ نکلیں ۔ جب کوچ کرتے اٹھا لیتے نہریں بند ہو جاتیں اور پتھر کو ساتھ رکھ لیتے ۔ یہ پتھر طور پہاڑ کا تھا ایک ہاتھ لمبا اور ایک ہاتھ چوڑا تھا بعض کہتے ہیں یہ جنتی پتھر تھا دس دس ہاتھ لمبا چوڑا تھا دو شاخیں تھیں جو چمکتی رہتی تھیں ۔ ایک اور قول میں ہے کہ یہ پتھر آدم کے ساتھ جنت سے آیا تھا اور یونہی ہاتھوں ہاتھ پہنچتا ہوا شعیب کو ملا تھا انہوں نے لکڑی اور پتھر دونوں موسیٰ علیہ السلام کو دئے تھے بعض کہتے ہیں یہ وہی پتھر ہے جس پر موسیٰ علیہ السلام اپنے کپڑے رکھ کر نہا رہے تھے اور بحکم الٰہی یہ پتھر آپ کے کپڑے لے کر بھاگا تھا اسے موسیٰ علیہ السلام نے جبرائیل علیہ السلام کے مشورے سے اٹھا لیا تھا جس سے آپ کا معجزہ ظاہر ہوا ۔ زمخشری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ حجر پر الف لام جنس کے لیے ہے عہد کے لیے نہیں یعنی ک سی ایک پتھر پر عصا مارو یہ نہیں کہ فلاں پتھر ہی پر مارو حسن سے بھی یہی مروی ہے اور یہی معجزے کا کمال اور قدرت کا پورا اظہار ہے آپ کی لکڑی لگتے ہی وہ بہنے لگتا اور پھر دوسری لکڑی لگتے ہی خشک ہو جاتا بنی اسرائیل آپس میں کہنے لگے کہ اگر یہ پتھر گم ہو گیا تو ہم پیاسے مرنے لگیں گے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم لکڑی نہ مارو صرف زبانی کہو تاکہ انہیں یقین آ جائے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ہر ایک قبیلہ اپنی اپنی نہر کو اس طرح جان لیتا کہ ہر قبیلہ کا ایک ایک آدمی پتھر کے پاس کھڑا رہ جاتا اور لکڑی لگتے ہی اس میں سے چشمے جاری ہو جاتے جس شخص کی طرف جو چشمہ جاتا وہ اپنے قبیلے کو بلا کر کہہ دیتا کہ یہ چشمہ تمہارا ہے یہ واقعہ میدان تیہ کا ہے سورۃ الاعراف میں بھی اس واقعہ کا بیان ہے«وَقَطَّعْنَاہُمُ اثْنَتَیْ عَشْرَۃَ أَسْبَاطًا أُمَمًا ۚ وَأَوْحَیْنَا إِلَیٰ مُوسَیٰ إِذِ اسْتَسْقَاہُ قَوْمُہُ أَنِ اضْرِب بِّعَصَاکَ الْحَجَرَفَانبَجَسَتْ» (7-الأعراف:160) لیکن چونکہ وہ سورت مکی ہے اس لیے وہاں ان کا بیان غائب کی ضمیر سے کیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے جو احسانات ان پر نازل فرمائے تھے وہ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دہرائے ہیں اور یہ سورت مدنی ہے اس لیے یہاں خود انہیں خطاب کیا گیا ہے ۔ سورۃ الاعراف میں «فَانبَجَسَتْ»(7-الأعراف:160) کہا اور یہاں «فَانفَجَرَتْ» کہا اس لیے کہ وہاں اول اول جاری ہونے کے معنی میں ہے اور یہاں آخری حال کا بیان ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» اور ان دونوں جگہ کے بیان میں دس وجہ سے فرق ہے جو فرق لفظی بھی ہے اور معنوی بھی زمخشری نے اپنے طور پر ان سب وجوہ کو بیان کیا ہے اور حقیقت اس میں قریب ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» البقرة
61 احسان فراموش یہود یہاں بنی اسرائیل کی بے صبری اور نعمت اللہ کی ناقدری بیان کی جا رہی ہے کہ من و سلویٰ جیسے پاکیزہ کھانے پر ان سے صبر نہ ہو سکا اور ردی چیزیں مانگنے لگے ایک طعام سے مراد ایک قسم کا کھانا یعنی من و سلویٰ ہے ۔ «فوم» کے معنی میں اختلاف ہے سیدنا ابن مسعود کی قرأت میں «ثوم» ہے ، مجاہدرحمہ اللہ نے «فوم» کی تفسیر «ثوم» کے ساتھ کی ہے ۔ یعنی لہسن ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی یہ تفسیر مروی ہے ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:193/1) اگلی لغت کی کتابوں میں «فوموالنا» کے معنی «اختبروا» یعنی ہماری روٹی پکاؤ کے ہیں امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں اگر یہ صحیح ہو تو یہ حروف مبدلہ میں سے ہیں جیسے «عاثور شر» ، «عافور شر» ، «اثافی» ، «اثاثی» ، «مفافیر» ، «مغاثیر» وغیرہ جن میں ف سے ث اور ث سے ف بدلا گیا کیونکہ یہ دونوں مخرج کے اعتبار سے بہت قریب ہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» (تفسیر ابن جریر الطبری:130/2) اور لوگ کہتے ہیں فوم کے معنی گیہوں کے ہیں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی یہی تفسیر منقول ہے اور احیحہ بن جلاح کے شعر میں بھی فوم گیہوں کے معنی میں آیا ہے بنی ہاشم کی زبان میں فوم گیہوں کے معنی میں مستعمل تھا ۔ فوم کے معنی روٹی کے بھی ہیں بعض نے سنبلہ کے معنی کئے ہیں ۔ حضرت قتادہ اور عطا رحمہ اللہ علیہما فرماتے ہیں جس اناج کی روٹی پکتی ہے اسے فوم کہتے ہیں بعض کہتے ہیں فوم ہر قسم کے اناج کو کہتے ہیں موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو ڈانٹا کہ تم ردی چیز کو بہتر کے بدلے کیوں طلب کرتے ہو ؟ پھر فرمایا شہر میں جاؤ وہاں یہ سب چیزیں پاؤ گے جمہور کی قرأت «مصرا» ہی ہے اور تمام قرأتوں میں یہی لکھا ہوا ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ شہروں میں سے کسی شہر میں چلے جاؤ ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:194/1) سیدنا ابی بن کعب اور سیدنا ابن مسعود سے مصر کی قراء ت بھی ہے اور اس کی تفسیر مصر شہر سے کی گئی ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مصراً سے بھی مراد مخصوص شہر مصر لیا گیا ہو اور یہ الف مصرا کا ایسا ہو جیسا «قواریرا قواریرا» (76-الإنسان:15-16)میں ہے مصر سے مراد عام شہر لینا ہی بہتر معلوم ہوتا ہے تو مطلب یہ ہوا کہ جو چیز تم طلب کرتے ہو یہ تو آسان چیز ہے جس شہر میں جاؤ گے یہ تمام چیزیں وہاں پا لو گے میری دعا کی بھی کیا ضرورت ہے ؟ کیونکہ ان کا یہ قول محض تکبر سرکشی اور بڑائی کے طور پر تھا اس لیے انہیں کوئی جواب نہیں دیا گیا ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» پاداش عمل مطلب یہ ہے کہ ذلت اور مسکینی ان پر کا مقدر بنا دی گئی ۔ اہانت و پستی ان پر مسلط کر دی گئی جزیہ ان سے وصول کیا گیا مسلمانوں کے قدموں تلے انہیں ڈال دیا گیا فاقہ کشی اور بھیک کی نوبت پہنچی اللہ کا غضب و غصہ ان پر اترا “ بَآءَ “ کے معنی لوٹنے اور “ رجوع کیا “ کے ہیں بَآءَ کبھی بھلائی کے صلہ کے ساتھ اور کبھی برائی کے صلہ کے ساتھ آتا ہے یہاں برائی کے صلہ کے ساتھ ہے یہ تمام عذاب ان کے تکبر عناد حق کی قبولیت سے انکار ، اللہ کی آیتوں سے کفر انبیاء اور ان کے تابعداروں کی اہانت اور ان کے قتل کی بنا پر تھا اس سے زیادہ بڑا کفر کون سا ہو گا ؟ کہ اللہ کی آیتوں سے کفر کرتے اور اس کے نبیوں علیہ السلام کو بلاوجہ قتل کرتے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تکبر کے معنی حق کو چھپانے اور لوگوں کو ذلیل سمجھنے کے ہیں ۔ (صحیح مسلم:91) ۔ مالک بن مرارہ رہاوی رضی اللہ عنہ ایک روز خدمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں عرض کرتے ہیں کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں خوبصورت آدمی ہوں میرا دل نہیں چاہتا کہ کسی کی جوتی کا تسمہ بھی مجھ سے اچھا ہو تو کیا یہ تکبر اور سرکشی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں بلکہ تکبر اور سرکشی حق کو رد کرنا اور لوگوں کو حقیر سمجھنا ہے ۔ (مسند احمد:385/1:صحیح) چونکہ بنی اسرائیل کا تکبر کفرو قتل انبیاء تک پہنچ گیا تھا اس لیے اللہ کا غضب ان پر لازم ہو گیا ۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک ایک بنی اسرائیل ان میں موجود تین تین سو نبیوں کو قتل کر ڈالتے تھے پھر بازاروں میں جا کر اپنے لین دین میں مشغول ہو جاتا ۔ ( ابوداؤد طیالسی ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سب سے زیادہ سخت عذاب قیامت کے دن اس شخص کو ہو گا جسے کسی نبی نے قتل کیا ہو یا اس نے کسی نبی کو مار ڈالا ہو اور گمراہی کا وہ امام جو تصویریں بنانے والا یعنی مصور ہو گا ۔(مسند احمد:47/1:صحیح) یہ ان کی نافرمانیوں اور ظلم و زیادتی کا بدلہ تھا یہ دوسرا سبب ہے کہ وہ منع کئے ہوئے کام ہی کرتے تھے اور حد سے بڑھ جاتے تھے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» البقرة
62 فرماں برداروں کے لئے بشارت اوپر چونکہ نافرمانوں کے عذاب کا ذکر تھا تو یہاں ان میں جو لوگ نیک تھے ان کے ثواب کا بیان ہو رہا ہے نبی کی تابعداری کرنے والوں کے لیے یہ بشارت تاقیامت ہے کہ نہ مستقبل کا ڈر نہ یہاں حاصل نہ ہونے والی اشیاء کا افسوس و حسرت ۔ آیت «اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَاءَ اللّٰہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ» ( 10 ۔ یونس : 62 ) یعنی اللہ کے دوستوں پر کوئی خوف و غم نہیں اور وہ فرشتے جو مسلمان کی روح نکلنے کے وقت آتے ہیں یہی کہتے ہیں «اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ» ( 41 ۔ فصلت : 30 ) تم ڈرو نہیں تم اداس نہ ہو تمہیں ہم اس جنت کی خوشخبری دیتے ہیں جس کا تم سے وعدہ کیا تھا ۔ سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے سے پہلے جن ایمان والوں سے ملا تھا ان کی عبادت اور نماز روزے وغیرہ کا ذکر کیا تو یہ آیت اتری ( ابن ابی حاتم ) ایک اور روایت میں ہے کہ سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ نے ان کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ نمازی روزہ دار ایماندار اور اس بات کے معتقد تھے کہ آپ مبعوث ہونے والے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ جہنمی ہیں ، (تفسیر ابن جریر الطبری:1114:ضعیف و منقطع) سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ کو اس سے بڑا رنج ہوا وہیں یہ آیت نازل ہوئی لیکن یہ واضح رہے کہ یہودیوں میں سے ایماندار وہ ہے جو توراۃ کو مانتا ہو اور سنت موسیٰ علیہ السلام کا عامل ہو لیکن جب عیسیٰ علیہ السلام آ جائیں تو ان کی تابعداری نہ کرے تو پھر بےدین ہو جائے گا ۔ اسی طرح نصرانیوں میں سے ایماندار وہ ہے جو انجیل کو کلام اللہ مانے شریعت عیسوی پر عمل کرے اور اگر اپنے زمانے میں پیغمبر آخرالزمان محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو پا لے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی تصدیق کرے اگر اب بھی وہ انجیل کو اور اتباع عیسوی کو نہ چھوڑے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو تسلیم نہ کرے تو ہلاک ہو گا ۔ ( ابن ابی حاتم ) سدی رحمہ اللہ نے یہی روایت کی ہے اور سعید بن جبیر رحمہ اللہ بھی یہی فرماتے ہیں ، مطلب یہ ہے کہ ہر نبی کا تابعدار اس کا ماننے والا ایماندار اور صالح ہے اور اللہ کے ہاں نجات پانے والا لیکن جب دوسرا نبی آئے اور وہ اس سے انکار کرے تو کافر ہو جائے گا ۔ قرآن کی ایک آیت تو یہ جو آپ کے سامنے ہے اور دوسری وہ آیت جس میں بیان ہے آیت «وَمَنْ یَّبْتَـغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یٰقْبَلَ مِنْہُ وَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ» ( 3 ۔ آل عمران : 85 ) یعنی جو شخص اسلام کے سوا کسی اور دین کا طالب ہو اس سے قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں وہ نقصان اٹھانے والا ہو گا ۔ ان دونوں آیتوں میں یہی تطبیق ہے کسی شخص کا کوئی عمل کوئی طریقہ مقبول نہیں تاوقتیکہ وہ شریعت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق نہ ہو مگر یہ اس وقت ہے جب کہ آپ مبعوث ہو کر دنیا میں آ گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جس نبی کا جو زمانہ تھا اور جو لوگ اس زمانہ میں تھے ان کے لیے ان کے زمانے کے نبی کی تابعداری اور اس کی شریعت کی مطابقت شرط ہے ۔ یہود کون ہیں؟ لفظ یہود «ہوداۃ» سے ماخوذ ہے جس کے معنی «مودۃ» اور دوستی کے ہیں یا یہ ماخوذ ہے «تہود» سے جس سے کے معنی توبہ کے ہیں جیسے قرآن میں ہے «إِنَّا ہُدْنَا إِلَیْکَ» (7-الأعراف:156) موسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں ہم اے اللہ تیری طرف توبہ کرتے ہیں پس انہیں ان دونوں وجوہات کی بنا پر یہود کہا گیا ہے یہودا یعقوب کے بڑے لڑکے کا نام تھا ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ توراۃ پڑھتے وقت ہلتے تھے ۔ اس بنا پر انہیں یہود یعنی حرکت کرنے والا کہا گیا ہے ۔ جب عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت کا زمانہ آیا تو بنی اسرائیل پر آپ کی نبوت کی تصدیق اور آپ علیہ السلام کے فرمان کی اتباع واجب ہوئی تب ان کا نام نصاریٰ ہوا کیونکہ انہوں نے آپس میں ایک دوسرے کی نصرت یعنی تائید اور مدد کی تھی انہیں انصار بھی کہا گیا ہے ۔ عیسیٰ علیہ السلام کا قول ہے «مَنْ اَنْصَارِیْٓ اِلَی اللّٰہِ قَالَ الْحَوَارِیٰوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہِ» ( 3 ۔ آل عمران : 52 ) اللہ کے دین میں میرا مددگار کون ہے ؟ حواریوں نے کہا ہم ہیں بعض کہتے ہیں یہ لوگ جہاں اترتے تھے اس زمین کا نام ناصرہ تھا اس لیے انہیں نصاریٰ کہا گیا قتادہ اور ابن جریج رحمہ اللہ علیہما کا یہی قول ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی مروی ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» نصاریٰ «نصران» کی جمع ہے جیسے «نشوان» کی جمع نشاوی اور سکران کی جمع سکاری اس کا مونث نصراتہ آتا ہے اب جبکہ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام دنیا کی طرف رسول و نبی بنا کر بھیجے گئے تو ان پر بھی اور دوسرے سب پر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق و اتباع واجب قرار دی گئی اور ایمان و یقین کی پختگی کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کا نام مومن رکھا گیا اور اس لیے بھی کہ ان کا ایمان تمام اگلے انبیاء پر بھی ہے اور تمام آنے والی باتوں پر بھی ۔ صابی کے معنی ایک تو بےدین اور لامذہب کئے گئے ہیں اور اہل کتاب کے ایک فرقہ کا نام بھی یہ تھا جو زبور پڑھا کرتے تھے ۔ اسی بنا پر ابوحنیفہ اور اسحٰق رحمہ اللہ علیہما کا مذہب ہے کہ ان کے ہاتھ کا ذبیحہ ہمارے لیے حلال ہے اور ان کی عورتوں سے نکاح کرنا بھی ۔ حسن اور حکم فرماتے ہیں یہ گروہ مجوسیوں کے مانند ہے یہ بھی مروی ہے کہ یہ لوگ فرشتوں کے پجاری تھے ۔ زیاد نے جب یہ سنا تھا کہ یہ لوگ پانچ وقت نماز قبلہ کی جانب رخ کر کے پڑھا کرتے ہیں تو ارادہ کیا کہ انہیں جزیہ معاف کر دے لیکن ساتھ ہی معلوم ہوا کہ وہ مشرک ہیں تو اپنے ارادہ سے باز رہے ۔ ابوالزناد رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ لوگ عراقی ہیں ۔ بکوثی کے رہنے والے سب نبیوں کو مانتے ہیں ہر سال تیس روزے رکھتے ہیں اور یمن کی طرف منہ کر کے ہر دن میں پانچ نماز ہیں پڑھتے ہیں وہب بن منبہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو یہ لوگ جانتے ہیں لیکن کسی شریعت کے پابند نہیں اور کفار بھی نہیں عبدالرحمٰن بن زید رحمہ اللہ کا قول ہے کہ یہ بھی ایک مذہب ہے جزیرہ موصل میں یہ لوگ تھے ( لا الہٰ الا اللہ ) پڑھتے تھے اور کسی کتاب یا نبی کو نہیں مانتے تھے اور نہ کوئی خاص شرع کے عامل تھے ۔ مشرکین اسی بنا پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو ( لا الہ اللہ صابی ) کہتے تھے یعنی کہنے کی بنا پر ۔ ان کا دین نصرانیوں سے ملتا جلتا تھا ان کا قبلہ جنوب کی طرف تھا یہ لوگ اپنے آپ کو نوح علیہ السلام کے دین پر بتاتے تھے ایک قول یہ بھی ہے کہ یہود مجوس کے دین کا خلط ملط یہ مذہب تھا ان کا ذبیحہ کھانا اور کی عورتوں سے نکاح کرنا ممنوع ہے قرطبی فرماتے ہیں مجھے جہاں تک معلوم ہوا ہے کہ یہ لوگ موحد تھے لیکن تاروں کی تاثیر اور نجوم کے معتقد تھے ۔ ابوسعید اصطخری نے ان پر کفر کا فتویٰ صادر کیا ہے رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ ستارہ پرست لوگ تھے کشرانبین میں سے تھے جن کی جانب ابراہیم علیہ السلام بھیجے گئے تھے حقیقت حال کا علم تو محض اللہ تعالیٰ کو ہے مگر بظاہر یہی قول اچھا معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ نہ یہودی تھے نہ نصرانی نہ مجوسی نہ مشرک بلکہ یہ لوگ فطرت پر تھے کسی خاص مذہب کے پابند نہ تھے اور اسی معنی میں مشرکین اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صابی کہا کرتے تھے یعنی ان لوگوں نے تمام مذاہب ترک کر دئیے تھے بعض علماء کا قول ہے کہ صابی وہ ہیں جنہیں کسی نبی کی دعوت نہیں پہنچی ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» البقرة
63 عہد شکن یہود ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل کو ان کے عہد و پیمان یاد دلا رہا ہے کہ میری عبادت اور میرے نبی کی اطاعت کا وعدہ میں تم سے لے چکا ہوں اور اس وعدے کو پورا کرانے اور منوانے کے لیے میں نے طور پہاڑ کو تمہارے سروں پر لا کر کھڑا کر دیا تھا جیسے اور جگہ ہے «وَاِذْ نَتَقْنَا الْجَبَلَ فَوْقَہُمْ کَاَنَّہٗ ظُلَّـۃٌ وَّظَنٰوْٓا اَنَّہٗ وَاقِعٌ بِہِمْ» (7-الأعراف:171) جب ہم نے ان کے سروں پر سائبان کی طرح پہاڑ لا کر کھڑا کیا اور وہ یقین کر چکے کہ اب پہاڑ ان پر گر کر انہیں کچل ڈالے گا اس وقت ہم نے کہا ہماری دی ہوئی چیز کو مضبوط تھامو اور اس میں جو کچھ ہے اسے یاد کرو تو بچ جاؤ گے “ طور “ سے مراد پہاڑ ہے جیسے سورۃ الاعراف کی آیت میں ہے اور جیسے صحابہ اور تابعین نے اس کی تفسیر کی ہے(تفسیر ابن ابی حاتم:203/1) .ثابت یہی ہے کہ طور اس پہاڑ کو کہتے ہیں جس پر سبزہ اگتا ہو ۔ (ایضاً) حدیث فتون میں بروایت ابن عباس مروی ہے کہ جب انہوں نے اطاعت سے انکار کرنے کے باعث ان کے سر پر پہاڑ آ گیا لیکن اسی وقت یہ سب سجدے میں گر پڑے اور مارے ڈر کے کنکھیوں سے اوپر کی طرف دیکھتے رہے اللہ تعالیٰ نے ان پر رحم فرمایا اور پہاڑ ہٹا لیا اسی وجہ سے وہ اسی سجدے کو پسند کرتے ہیں کہ آدھا دھڑ سجدے میں ہو اور دوسری طرف سے اونچے دیکھ رہے ہوں ۔ جو ہم نے دیا اس سے مراد توراۃ ہے قوت سے مراد طاعت ہے یعنی توراۃ پر مضبوطی سے جم کر عمل کرنے کا وعدہ کرو ورنہ پہاڑ تم پر گرا دیا جائے گا اور اس میں جو ہے اسے یاد کرو اور اس پر عمل کرو یعنی توراۃ پڑھتے پڑھاتے رہو ۔ لیکن ان لوگوں نے اتنے پختہ میثاق اتنے اعلیٰ عہد اور اس قدر زبردست وعدے کے بعد بھی کچھ پرواہ نہ کی ۔ اور عہد شکنی کی اب اگر اللہ تعالیٰ کی کرم فرمائی اور رحمت نہ ہوتی اگر وہ توبہ قبول نہ فرماتا اور نبیوں کے سلسلہ کو برابر جاری نہ رکھتا تو یقیناً تمہیں زبردست نقصان پہنچتا اس وعدے کو توڑنے کی بنا پر دنیا اور آخرت میں تم برباد ہو جاتے ۔ البقرة
64 البقرة
65 صورتیں مسخ کر دی گئیں اس واقعہ کا بیان تفصیل کے ساتھ سورۃ الاعراف میں ہے جہاں فرمایا «وَسْــــَٔـلْہُمْ عَنِ الْقَرْیَۃِ الَّتِیْ کَانَتْ حَاضِرَۃَ الْبَحْرِ» (7-الأعراف:163) وہیں اس کی تفسیر بھی پوری بیان ہو گی ۔ ان شاءاللہ تعالیٰ یہ ایلہ بستی کے باشندے تھے ان پر ہفتہ کے دن تعظیم ضروری کی گئی تھی اس دن کا شکار منع کیا گیا تھا ۔ اور حکم باری تعالیٰ سے مچھلیاں اسی دن بکثرت آیا کرتی تھیں تو انہوں نے مکاری کی ۔ گڑھے کھود لیے ۔ رسیاں اور کانٹے ڈال دئیے ۔ ہفتہ والے دن وہ آ گئیں ۔ یہاں پھنس گئیں ۔ اتوار کی رات کو جا کر پکڑ لیا ۔ اس جرم پر اللہ نے ان کی شکلیں بدل دیں ۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں صورتیں نہیں بدلی تھیں بلکہ دل مسخ ہو گئے تھے یہ صرف بطور مثال کے ہے ، جیسے «کَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ أَسْفَارًا» ( 62-الجمعۃ : 5 ) عمل نہ کرنے والے علماء کو گدھوں سے مثال دی ہے ، لیکن یہ قول غریب ہے اور عبارت قرآن کے ظاہر الفاظ کے بھی خلاف ہے اس آیت پر پھر سورۃ الاعراف کی آیت «وَسْــــَٔـلْہُمْ عَنِ الْقَرْیَۃِ الَّتِیْ» (7-الأعراف:163) اور آیت «وَجَعَلَ مِنْہُمُ الْقِرَدَۃَ وَالْخَـنَازِیْرَ وَعَبَدَ الطَّاغُوْتَ» (5-المائدۃ:60) پر نظر ڈالو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جوان لوگ بندر بن گئے اور بوڑھے سور بنا دئیے گئے ۔(تفسیر ابن ابی حاتم:210/1) حضرت قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ تمام مرد اور عورت دم والے بندر بنا دئیے گئے ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:209/1)آسمانی آواز آئی کہ تم سب بندر بن جاؤ چنانچہ سب کے سب بندر بن گئے جو لوگ انہیں اس مکروہ حیلہ سے روکتے تھے وہ اب آئے اور کہنے لگے دیکھو ہم پہلے سے تمہیں منع کرتے تھے ؟ تو وہ سر ہلاتے تھے یعنی ہاں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں تھوڑی مدت میں وہ سب ہلاک ہو گئے ان کی نسل نہیں ہوئی ۔(تفسیر ابن ابی حاتم:209/1) تین دن سے زیادہ کوئی مسخ شدہ قوم زندہ نہیں رہتی یہ سب بھی تین دن میں ہی یونہی ناک رگڑتے رگڑتے مر گئے کھانا پینا اور نسل سب منقطع ہو گئی ۔ یہ بندر جو اب ہیں اور جو اس وقت بھی تھے یہ تو جانور ہیں جو اسی طرح پیدا کئے گئے تھے اللہ تعالیٰ جو چاہے اور جس طرح چاہے پیدا کرتا ہے اور جسے جس طرح کا چاہے بنا دیتا ہے۔(تفسیر ابن ابی حاتم:2/167) اللہ اپنے غضب و غصہ سے اور اپنی پکڑ دھکڑ سے اور اپنے دینوی اور اخروی عذاب سے نجات دے ۔ ( آمین ) «خاسین» کے معنی ذلیل اور کمینہ ۔ ان کا واقعہ تفصیل کے ساتھ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ نے جو بیان کیا ہے وہ سب سن لیجئے ۔ ان پر جمعہ کی عزت و ادب کو فرض کیا گیا لیکن انہوں نے جمعہ کے دن کو پسند نہ کیا اور ہفتہ کا دن رکھا اس دن کی عظمت کے طور پر ان پر شکار کھیلنا وغیرہ اس دن حرام کر دیا گیا ۔ ادھر اللہ کی آزمائش کی بنا پر ہفتہ والے دن تمام مچھلیاں اوپر آ جایا کرتی تھیں اور کودتی اچھلتی رہتی تھیں لیکن باقی دنوں میں کوئی نظر ہی نہیں آتی تھی ۔ ایک مدت تک تو یہ لوگ خاموش رہے اور شکار کرنے سے رکے رہے ۔ بعد ازاں ان میں سے ایک شخص نے یہ حیلہ نکالا کہ ہفتہ والے دن مچھلی کو پکڑ لیا اور پھندے میں پھانس کر ڈوری کو کنارے پر کسی چیز سے باندھ دیا اتوار والے دن جا کر نکال لایا اور پکا کر کھائی ۔ لوگوں نے خوشبو پا کر پوچھا تو اس نے کہا میں نے تو آج اتوار کو شکار کیا ہے آخر یہ راز کھلا تو اور لوگوں نے بھی اس حیلہ کو پسند کیا اور اس طرح وہ سب مچھلیوں کا شکار کرنے لگے پھر تو بعض نے دریا کے آس پاس گڑھے کھود لیے ہفتہ والے دن جب مچھلیاں اس میں آ جاتیں تو اسے بند کر دیتے اور اتوار والے دن پکڑ لاتے کچھ لوگ جو ان میں نیک دل اور سچے مسلمان تھے وہ انہیں روکتے اور منع کرتے رہے لیکن ان کا جواب یہی ہوتا تھا کہ ہم ہفتہ کو شکار ہی نہیں کھیلتے ہم تو اتوار والے دن پکڑتے ہیں ان شکار کھیلنے والوں اور ان کو منع کرنے والوں کے سوا ایک گروہ ان میں اور بھی تھا جو مصلحت وقت برتنے والا اور دونوں فرقوں کو راضی رکھنے والا وہ تو پورا ساتھ دیتا تھا ۔ ان کا نہ شکار کھیلتے تھے نہ شکاریوں کو روکتے تھے بلکہ روکنے والوں سے کہتے تھے کہ اس قوم کو کیوں وعظ و نصیحت کرتے ہو جنہیں اللہ ہلاک کرے گا یا سخت عذاب کرے اور تم اپنا فرض بھی ادا کر چکے انہیں منع کر چکے جب نہیں مانتے تو اب انہیں چھوڑو ۔ یہ جواب دیتے کہ ایک تو اللہ کے ہاں ہم معذور ہو جائیں اس لیے اور دوسرے اس لیے بھی کہ شاید آج نہیں تو کل اور کل نہیں تو پرسوں یہ مان جائیں اور عذاب اللہ سے نجات پائیں ۔ بالآخر اس مسلم جماعت نے اس حیلہ کو جو فرقہ کا بالکل بائیکاٹ کر دیا اور ان سے بالکل الگ ہو گئے ۔ بستی کے درمیان ایک دیوار کھینچ لی اور دروازہ اپنے آنے جانے کا رکھا اور ایک دروازہ ان حیلہ جو نافرمانوں کے لیے اس پر بھی ایک مدت اسی طرح گزر گئی ایک دن صبح مسلمان جاگے دن چڑھ گیا لیکن اب تک ان لوگوں نے اپنا دروازہ نہیں کھولا تھا اور نہ ان کی آوازیں آ رہی تھیں یہ لوگ متحیر تھے کہ آج کیا بات ہے ؟ آخر جب زیادہ دیر لگ گئی تو ان لوگوں نے دیوار پر چڑھ کر دیکھا تو وہاں عجب منظر نظر آیا دیکھا کہ وہ تمام لوگ مع عورتوں بچوں کے بندر بن گئے ہیں ان کے گھر جو راتوں کو بند تھے اسی طرح بند ہیں اور اندر وہ کل انسان بندر کی صورتوں میں ہیں جن کی دمیں نکلی ہوئی ہیں ۔ بچے چھوٹے بندروں کی شکل میں مرد بڑے بندروں کی صورت میں عورتیں بندریاں بنی ہوئی ہیں اور ہر ایک پہچانا جاتا ہے کہ یہ فلاں مرد ہے یہ فلاں عورت ہے یہ فلاں بچہ ہے وغیرہ یہ بھی یاد رہے کہ جب یہ عتاب آیا تو نہ صرف وہی ہلاک ہوئے جو شکار کھیلتے تھے بلکہ ان کے ساتھ وہ بھی ہلاک ہوئے جو انہیں منع نہ کرتے تھے اور خاموش بیٹھے ہوئے تھے اور میل جول ترک نہ کیا تھا صرف وہ بچے جو انہیں منع کرتے رہے اور ان سے الگ تھلگ ہو گئے تھے یہ تمام اقوال اور قرآن کریم کی کئی ایک آیتیں وغیرہ شاہد ہیں کہ صحیح بات یہی ہے کہ ان کی صورتیں بدل دی گئی تھیں سچ مچ بندر بنا دئیے گئے نہ یہ کہ معنوی مسخ تھا یعنی ان کے دل بندروں جیسے ہو گئے تھے جیسے کہ مجاہد کا قول ہے ٹھیک تفسیر یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں سور اور بندر بنا دیا تھا اور ظاہری صورتیں بھی ان کی ان بدجانوروں جیسی ہو گئیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» «فجعلناھا» میں «ھا» کی ضمیر کا مرجع «قِرَدَۃً» ہے یعنی ہم نے ان بندروں کو سبب عبرت بنایا اس کا مرجع «حَیتان» ہے یعنی ان مچھلیوں کو یا اس کا مرجع «عُقُوْبَۃ» ہے یعنی اس سزا کو اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس مرجع کا «قِرَدَۃً» ہے یعنی اس بستی کو ہم نے اگلے پچھلوں کے لیے عبرتناک امر واقعہ بنا دیا اور صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ قریہ مراد ہے اور قریہ سے مراد اہل قریہ ہیں ۔ «نَکَالَ» کہتے ہیں عذاب و سزا کو جیسے اور جگہ ہے «فَاَخَذَہُ اللّٰہُ نَکَالَ الْاٰخِرَۃِ وَالْاُوْلٰی» ( 79 ۔ النازعات : 25 ) اس کو عبرت کا سبب بنایا آگے پیچھے والی بستیوں کے لیے جیسے اور جگہ ہے «وَلَقَدْ اَہْلَکْنَا مَا حَوْلَکُمْ مِّنَ الْقُرٰی وَصَرَّفْنَا الْاٰیٰتِ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ» ( 46 ۔ الاحقاف : 27 ) ہم نے تمہارے آس پاس کی بستیوں کو ہلاک کیا اور اپنی نشانیاں بیان فرمائیں تاکہ وہ لوگ لوٹ آئیں اور ارشاد ہے «اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّا نَاْتِی الْاَرْضَ نَنْقُصُہَا مِنْ اَطْرَافِہَا» ( 13 ۔ الرعد : 41 ) اور یہ بھی مطلب بیان کیا گیا ہے کہ اس وقت کے موجود لوگوں کے لیے اور بعد میں آنے والوں کے لیے یہ عبرت ناک واقعہ دلیل راہ بن جائے ۔ گو بعض لوگوں کے یہ بھی کہا ہے کہ اگلوں بعد میں آنے والوں کے لیے یہ واقعہ گو کتنا ہی زبردست عبرتناک ہو دلیل نہیں بن سکتا اس لیے کہ وہ تو گزر چکے تو ٹھیک قول یہی ہے کہ یہاں مراد مکان اور جگہ ہے یعنی آس پاس کی بستیاں اور یہی تفسیر ہے ابن عباس رضی اللہ عنہا اور سعید بن جبیر رحمۃ اللہ کی ۔ واللہ اعلم ۔ اور یہ بھی معنی بیان کئے گئے ہیں کہ ان کے اگلے گناہ اور ان کے بعد آنے والے لوگوں کو ایسے ہی گناہوں کے لیے ہم نے اس سزا کو عبرت کا سبب بنایا ، لیکن صحیح قول وہی ہے جس کی صحت ہم نے بیان کی ، یعنی آس پاس کی بستیاں ، قرآن فرماتا ہے «وَلَقَدْ اَہْلَکْنَا مَا حَوْلَکُمْ مِّنَ الْقُرٰی وَصَرَّفْنَا الْاٰیٰتِ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ» ( 46 ۔ الاحقاف : 27 ) اور فرمان ہے «وَلَا یَزَالُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فِیْ مِرْیَۃٍ مِّنْہُ حَتّٰی تَاْتِیَہُمُ السَّاعَۃُ بَغْتَۃً اَوْ یَاْتِیَہُمْ عَذَابُ یَوْمٍ عَقِیْمٍ» ( 22 ۔ الحج : 55 ) اور فرمان ہے آیت «اَفَلَا یَرَوْنَ اَنَّا نَاْتِی الْاَرْضَ نَنْقُصُہَا مِنْ اَطْرَافِہَا اَفَـہُمُ الْغٰلِبُوْنَ» ( 21 ۔ الانبیآء : 44 ) ۔ غرض یہ عذاب ان کے زمانے والوں کے لیے اور بعد میں آنے والوں کے لیے ایک سبق ہے ۔ اور اسی لیے فرمایا «وَمَوْعِظَۃً لِّلْمُتَّقِیْنَ» ( 2 ۔ البقرہ : 66 ) یعنی یہ جو بعد میں آئیں گے ان پرہیزگاروں کے لیے موجب نصیحت ہو ۔ موجب نصیحت یہاں تک کہ امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی کہ یہ لوگ ڈرتے رہیں کہ جو عذاب و سزائیں ان پر ان کے حیلوں کی وجہ سے ، ان کے مکر و فریب سے حرام کو حلال کر لینے کے باعث نازل ہوئیں ان کے بعد بھی جو ایسا کریں گے ایسا نہ ہو کہ وہی سزا اور وہی عذاب ان پر بھی آ جائیں ۔ ایک صحیح حدیث امام ابوعبداللہ بن بطہٰ رحمہ اللہ نے وارد کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حدیث «لا ترتکبوا ما ارتکبت الیھود فستحلوا محارم اللہ بادنی الحیل» یعنی تم وہ نہ کرو جو یہودیوں نے کیا یعنی حیلے حوالوں سے اللہ کے حرام کو حلال نہ کر لیا کرو ۔ یعنی شرعی احکام میں حیلہ جوئی سے بچو ۔ یہ حدیث بالکل صحیح ہے ۔ (تحذیب السنن :103/5:جید )اور اس کے سب راوی ثقہ ہیں۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» البقرة
66 البقرة
67 قاتل کون؟ اس کا پورا واقعہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص بہت مالدار اور تونگر تھا اس کی کوئی نرینہ اولاد نہ تھی صرف ایک لڑکی تھی اور ایک بھیتجا تھا بھتیجے نے جب دیکھا کہ بڈھا مرتا ہی نہیں تو ورثہ کے لالچ میں اسے خیال آیا کہ میں ہی اسے کیوں نہ مار ڈالوں ؟ اور اس کی لڑکی سے نکاح بھی کر لوں قتل کی تہمت دوسروں پر رکھ کر دیت بھی وصول کروں اور مقتول کے مال کا مالک بھی بن جاؤں اس شیطانی خیال میں وہ پختہ ہو گیا اور ایک دن موقع پا کر اپنے چچا کو قتل کر ڈالا ۔ بنی اسرائیل کے بھلے لوگ ان کے جھگڑوں بکھیڑوں سے تنگ آ کر یکسو ہو کر ان سے الگ ایک اور شہر میں رہتے تھے شام کو اپنے قلعہ کا پھاٹک بند کر دیا کرتے تھے اور صبح کھولتے تھے کسی مجرم کو اپنے ہاں گھسنے بھی نہیں دیتے تھے ، اس بھتیجے نے اپنے چچا کی لاش کو لے جا کر اس قلعہ کے پھاٹک کے سامنے ڈال دیا اور یہاں آ کر اپنے چچا کو ڈھونڈنے لگا پھر ہائے دہائی مچا دی کہ میرے چچا کو کسی نے مار ڈالا ۔ آخر کار ان قلعہ والوں پر تہمت لگا کر ان سے دیت کا روپیہ طلب کرنے لگا انہوں نے اس قتل سے اور اس کے علم سے بالکل انکار کیا ، لیکن یہ اڑ گیا یہاں تک کہ اپنے ساتھیوں کو لے کر ان سے لڑائی کرنے پر تل گیا یہ لوگ عاجز آ کر موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئے اور واقعہ عرض کیا کہ یا رسول اللہ یہ شخص خواہ مخواہ ہم پر ایک قتل کی تہمت لگا رہا ہے حالانکہ ہم بری الذمہ ہیں ۔ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی وہاں سے وحی نازل ہوئی کہ ان سے کہو ایک گائے ذبح کریں انہوں نے کہا اے اللہ کے نبی علیہ السلام کہاں قاتل کی تحقیق اور کہاں آپ گائے کے ذبح کا حکم دے رہے ہیں ؟ کیا آپ ہم سے مذاق کرتے ہیں ؟ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا اعوذ باللہ ( مسائل شرعیہ کے موقع پر ) مذاق جاہلوں کا کام ہے۔ اللہ عزوجل کا حکم یہی ہے اب اگر یہ لوگ جا کر کسی گائے کو ذبح کر دیتے تو کافی تھا لیکن انہوں نے سوالات کا دروازہ کھولا اور کہا وہ گائے کیسی ہونی چاہیئے ؟ اس پر حکم ہوا کہ وہ نہ بہت بڑھیا ہے نہ بچہ ہے جوان عمر کی ہے انہوں نے کہا ایسی گائیں تو بہت ہیں یہ بیان فرمائیے کہ اس کا رنگ کیا ہے ؟ وحی اتری کہ اس کا رنگ بالکل صاف زردی مائل ہے باہر دیکھنے والے کی آنکھوں میں اترتی جاتی ہے پھر کہنے لگے ایسی گائیں بھی بہت سی ہیں کوئی اور ممتاز وصف بیان فرمائیے وحی نازل ہوئی کہ وہ کبھی ہل میں نہیں جوتی گئی ، کھیتوں کو پانی نہیں پلایا ہر عیب سے پاک ہے یک رنگی ہے کوئی داغ دھبہ نہیں جوں جوں وہ سوالات بڑھاتے گئے حکم میں سختی ہوتی گئی ۔ احترام والدین پر انعام الٰہی اب ایسی گائے ڈھونڈنے کو نکلے تو وہ صرف ایک لڑکے کے پاس ملی ۔ یہ بچہ اپنے ماں باپ کا نہایت فرمانبردار تھا ایک مرتبہ جبکہ اس کا باپ سویا ہوا تھا اور نقدی والی پیٹی کی کنجی اس کے سرہانے تھی ایک سوداگر ایک قیمتی ہیرا بیچتا ہوا آیا اور کہنے لگا کہ میں اسے بیچنا چاہتا ہوں لڑکے نے کہا میں خریدوں گا قیمت ستر ہزار طے ہوئی لڑکے نے کہا ذرا ٹھہرو جب میرے والد جاگیں گے تو میں ان سے کنجی لے کر آپ کو قیمت ادا کر دونگا اس نے کہا ابھی دے دو تو دس ہزار کم کر دیتا ہوں اس نے کہا نہیں میں اپنے والد کو جگاؤں گا نہیں تم اگر ٹھہر جاؤ تم میں بجائے ستر ہزار کے اسی ہزار دوں گا یونہی ادھر سے کمی اور ادھر سے زیادتی ہونی شروع ہوتی ہے یہاں تک کہ تاجر تیس ہزار قیمت لگا دیتا ہے کہ اگر تم اب جگا کر مجھے روپیہ دے دو میں تیس ہزار میں دیتا ہوں لڑکا کہتا ہے اگر تم ٹھہر جاؤ یا ٹھہر کر آؤ میرے والد جاگ جائیں تو میں تمہیں ایک لاکھ دوں گا آخر وہ ناراض ہو کر اپنا ہیرا واپس لے کر چلا گیا باپ کی اس بزرگی کے احساس اور ان کے آرام پہنچانے کی کوشش کرنے اور ان کا ادب و احترام کرنے سے پروردگار اس لڑکے سے خوش ہو جاتا ہے اور اسے یہ گائے عطا فرماتا ہے ۔ جب بنی اسرائیل اس قسم کی گائے ڈھونڈنے نکلتے ہیں تو سوا اس لڑکے کے اور کسی کے پاس نہیں پاتے اس سے کہتے ہیں کہ اس ایک گائے کے بدلے دو گائیں لے لو یہ انکار کرتا ہے پھر کہتے ہیں تین لے لو چار لے لو لیکن یہ راضی نہیں ہوتا دس تک کہتے ہیں مگر پھر بھی نہیں مانتا یہ آ کر موسیٰ سے شکایت کرتے ہیں آپ فرماتے ہیں جو یہ مانگے دو اور اسے راضی کر کے گائے خریدو آخر گائے کے وزن کے برابر سونا دیا گیا تب اس نے اپنی گائے بیچی یہ برکت اللہ نے ماں باپ کی خدمت کی وجہ سے اسے عطا فرمائی جبکہ یہ بہت محتاج تھا اس کے والد کا انتقال ہو گیا تھا اور اس کی بیوہ ماں غربت اور تنگی کے دن بسر کر رہی تھی غرض اب یہ گائے خرید لی گئی اور اسے ذبح کیا گیا اور اس کے جسم کا ایک ٹکڑا لے کر مقتول کے جسم سے لگایا گیا تو اللہ تعالیٰ کی قدرت سے وہ مردہ جی اٹھا اس سے پوچھا گیا کہ تمہیں کس نے قتل کیا ہے اس نے کہا میرے بھتیجے نے اس لیے کہ وہ میرا مال لے لے اور میری لڑکی سے نکاح کر لے بس اتنا کہہ کر وہ پھر مر گیا اور قاتل کا پتہ چل گیا اور بنی اسرائیل میں جو جنگ وجدال ہونے والی تھی وہ رک گئی اور یہ فتنہ دب گیا اس بھتیجے کو لوگوں نے پکڑ لیا اس کی عیاری اور مکاری کھل گئی اور اسے اس کے بدلے میں قتل کر ڈالا گیا یہ قصہ مختلف الفاظ سے مروی ہے بہ ظاہراً یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ بنی اسرائیل کے ہاں کا واقعہ ہے جس کی تصدیق ، تکذیب ہم نہیں کر سکتے ہاں روایت جائز ہے تو اس آیت میں یہی بیان ہو رہا ہے کہ اے بنی اسرائیل میری اس نعمت کو بھی نہ بھولو کہ میں نے عادت کے خلاف بطور معجزے کے ایک گائے کے جسم کو لگانے سے ایک مردہ کو زندہ کر دیا اس مقتول نے اپنے قاتل کا پتہ بتا دیا اور ایک ابھرنے والا فتنہ دب گیا ۔ البقرة
68 حجت بازی کا انجام بنی اسرائیل کی سرکشی سرتابی اور حکم اللہ امر الٰہی وضاحت کے ساتھ یہاں بیان ہو رہا ہے کہ حکم پاتے ہی اس پر عمل نہ کر ڈالا بلکہ شقیں نکالنے اور باربار سوال کرنے لگے ۔ ابن جریج فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے { کہ حکم ملتے ہی وہ اگر کسی گائے کو بھی ذبح کر ڈالتے تو کافی تھا لیکن انہوں نے پے در پے سوالات شروع کئے اور کام میں سختی بڑھتی گئی یہاں تک کہ آخر میں وہ ان شاءاللہ نہ کہتے تو کبھی بھی سختی نہ ٹلتی اور مطلوبہ گائے ملنا اور مشکل ہو جاتی ۔ } ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:1246) پہلے سوال کے جواب میں کہا گیا کہ نہ تو وہ بڑھیا ہے نہ بالکل کم عمر ہے ۔ بلکہ درمیانی عمر کی ہے پھر دوسرے سوال کے جواب میں اس کا رنگ بیان کیا گیا کہ وہ زرد اور چمکدار رنگ کی ہے جو دیکھنے والوں کے دل کو بہت پسند آئے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ جو زرد جوتی پہنے وہ ہر قیمت خوش و خرم رہے گا اور اس جملہ سے استدلال کیا ہے تسر الناظرین بعض نے کہا ہے کہ مراد سخت سیاہ رنگ ہے لیکن اول قول ہی صحیح ہے ہاں یہ اور بات ہے کہ ہم یوں کہیں کہ اسی کی شوخی اور چمکیلے پن سے وہ مثل کالے رنگ کے لگتا تھا ۔ وہب بن منبہ رحمہ اللہ کہتے ہیں اس کا رنگ اس قدر شوخ اور گہرا تھا کہ یہ معلوم ہوتا تھا گویا سورج کی شعائیں اس سے اٹھ رہی ہیں ۔ توراۃ میں اس کا رنگ سرخ بیان کیا گیا ہے لیکن شاید عربی کرنے والوں کی غلطی ہے ۔ «واللہ اعلم» چونکہ اس رنگ اور اس عمر کی گائیں بھی انہیں بکثرت نظر آئیں تو انہوں نے پھر کہا اے اللہ کے نبی کوئی اور نشانی بھی پوچھئے تاکہ شبہ مٹ جائے ان شاءاللہ اب ہمیں رستہ مل جائے گا ، اگر یہ ان شاءاللہ نہ کہتے تو انہیں قیامت تک پتہ نہ چلتا اور اگر یہ سوالات ہی نہ کرتے تو اتنی سختی ان پر عائد نہ ہوتی بلکہ جس گائے کو ذبح کر دیتے کفایت ہو جاتی ۔ یہ مضمون ایک مرفوع حدیث میں بھی ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:727:ضعیف) لیکن اس کی سند غریب ہے صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ یہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہما کا اپنا کلام ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» اب کی مرتبہ اس کے اوصاف بیان کئے گئے کہ وہ ہل میں نہیں جتی ، پانی نہیں سینچا ، اس کے چمڑے پر کوئی داغ دھبہ نہیں ، یک رنگی ہے ، سارے بدن میں کہیں دوسرا رنگ نہیں ، اس کے ہاتھ پاؤں اور کل اعضاء بالکل درست اور توانا ہیں ۔ بعض کہتے ہیں کہ وہ گائے کام کرنے والی نہیں ہاں کھیتی کا کام کرتی ہے لیکن پانی نہیں پلاتی مگر یہ قول غلط ہے اس لیے کہ { ذَلُوْلٌ} کی تفسیر یہ ہے کہ وہ ہل نہیں جوتتی اور نہ پانی پلاتی ہے ، اس میں نہ کوئی داغ دھبہ ہے اب اتنی بڑی کدوکاوش کے بعد بادل ناخواستہ وہ اس کی قربانی کی طرف متوجہ ہوئے اسی لیے فرمایا کہ یہ ذبح کرنا نہیں چاہتے تھے اور ذبح نہ کرنے کے بہانے تلاش کرتے تھے ۔ کسی نے کہا ہے اس لیے کہ انہیں اپنی رسوائی کا خیال تھا کہ نہ جانیں کون قاتل ہو بعض کہتے ہیں اس کی قیمت سن کر گھبرا گئے تھے لیکن بعض روایتوں میں آیا ہے کہ کل تین دینار اس کی قیمت لگی تھی لیکن یہ تین دینار والی گائے کے وزن کے برابر سونے والی دونوں روایتیں بنی اسرائیل روایتیں ہیں ۔ ٹھیک بات یہی ہے کہ ان کا ارادہ حکم کی بجا آوری کا تھا ہی نہیں لیکن اب اس قدر وضاحت کے بعد اور قتل کا مقدمہ ہونے کی وجہ سے انہیں یہ حکم ماننا ہی پڑا ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» اس آیت سے اس مسئلہ پر بھی استدلال ہو سکتا ہے کہ جانوروں کو دیکھے بغیر ادھار دینا جائز ہے اس لیے کہ صفات کا حصر کر دیا گیا اور اوصاف پورے بیان کر دیئے گئے ، جیسے امام مالک ، امام اوزاعی امام لیث ، امام شافعی ، امام احمد اور جمہور علماء رحمہ اللہ علیہم کا مذہب ہے اسلاف اور متاخرین کا بھی اور اس کی دلیل بخاری و مسلم کی یہ حدیث بھی ہے کہ { کوئی عورت کسی اور عورت کے اوصاف اس طرح اپنے خاوند کے سامنے بیان نہ کرے کہ گویا وہ اسے دیکھ رہا ہے ۔ } (صحیح بخاری:5240) ایک حدیث میں { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیت کے اونٹوں کے اوصاف بھی بیان فرمائے ہیں قتل خطا اور وہ قتل جو مشابہ “ عمد “ کے ہے ۔ } (سنن ابوداود:4547 ، قال الشیخ الألبانی:حسن) ہاں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور دوسرے کوفی اور امام ثوری رحمہ اللہ وغیرہ بیع مسلم کے قائل نہیں وہ کہتے ہیں کہ جانوروں کے اوصاف و احوال پوری طرح ضبط نہیں ہو سکتے اسی طرح کی حکایت ابن مسعود ، حذیفہ بن یمان اور عبدالرحمٰن بن سمرہ رضی اللہ عنہم وغیرہ سے بھی کی جاتی ہے ۔ البقرة
69 البقرة
70 البقرة
71 البقرة
72 بلاوجہ تجسس موجب عتاب ہے صحیح بخاری شریف میں «فَادَّارَأْتُمْ» کے معنی تم نے اختلاف کیا کے ہیں ۔ (صحیح بخاری:کتاب احادیث الانبیاء) مجاہد رحمہ اللہ وغیرہ سے بھی یہی مروی ہے ۔ مسیب بن رافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جو شخص سات گھروں میں چھپ کر بھی کوئی نیک عمل کرے گا اللہ اس کی نیکی کو ظاہر کر دے گا اسی طرح اگر کوئی سات گھروں میں گھس کر بھی کوئی برائی کرے گا اللہ تعالیٰ اسے بھی ظاہر کر دے گا ۔ پھر یہ آیت تلاوت کی «وَاللّٰہُ مُخْرِجٌ مَّا کُنْتُمْ تَکْتُمُوْنَ» ( 2 ۔ البقرہ : 72 ) یہاں وہی واقعہ چچا بھتیجے کا بیان ہو رہا ہے جس کے باعث انہیں ذبیحہ گاؤ کا حکم ہوا تھا اور کہا جاتا ہے کہ اس کا کوئی ٹکڑا لے کر مقتول کے جسم پر لگاؤ وہ ٹکڑا کون سا تھا ؟ اس کا بیان تو قرآن میں نہیں ہے نہ کسی صحیح حدیث میں اور نہ ہمیں اس کے معلوم ہونے سے کوئی فائدہ ہے اور معلوم نہ ہونے سے کوئی نقصان ہے سلامت روی اسی میں ہے کہ جس چیز کا بیان نہیں ہم بھی اس کی تلاش و تفتیش میں نہ پڑیں بعض نے کہا ہے کہ وہ غضروف کی ہڈی نرم تھی کوئی کہتا ہے ہڈی نہیں بلکہ ران کا گوشت تھا کوئی کہتا ہے دونوں شانوں کے درمیان کا گوشت تھا کوئی کہتا ہے زبان کا گوشت کوئی کہتا ہے دم کا گوشت وغیرہ لیکن ہماری بہتری اسی میں ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مبہم رکھا ہے ہم بھی مبہم ہی رکھیں ۔ اس ٹکڑے کے لگتے ہی وہ مردہ جی اٹھا اور اللہ تعالیٰ نے ان کے جھگڑے کا فیصلہ بھی اسی سے کیا اور قیامت کے دن جی اٹھنے کی دلیل بھی اسی کو بنایا ۔ اسی سورت میں پانچ جگہ مرنے کے بعد جینے کا بیان ہوا ہے ایک تو «ثُمَّ بَعَثْنٰکُمْ مِّنْ بَعْدِ مَوْتِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ» ( 2 ۔ البقرہ : 56 ) میں اور دوسرا اس قصے میں ، تیسرے ان کے قصے میں جو ہزاروں کی تعداد میں نکلے تھے اور ایک اجاڑ بستی پر ان کا گزر ہوا تھا چوتھے ابراہیم علیہ السلام کے چار پرندوں کے مار ڈالنے کے بعد زندہ ہو جانے میں پانچویں زمین کی مردنی کے بعد روئیدگی کو موت و زیست سے تشبیہ دینے میں ۔ ابو داؤد طیالسی کی ایک حدیث میں ہے { ابوزرین عقیلی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کو اللہ تعالیٰ کس طرح جلائے گا فرمایا کبھی تم بنجر زمین پر گزرے ہو ؟ کہاں ہاں فرمایا پھر کبھی اس کو سرسبز و شاداب بھی دیکھا ہے ؟ کہا ہاں فرمایا اسی طرح موت کے بعد زیست ہے ۔} ۱؎ (مسند طیالسی:1089:حسن) قرآن کریم میں اور جگہ ہے «وَآیَۃٌ لَّہُمُ الْأَرْ‌ضُ الْمَیْتَۃُ أَحْیَیْنَاہَا وَأَخْرَ‌جْنَا مِنْہَا حَبًّا فَمِنْہُ یَأْکُلُونَ وَجَعَلْنَا فِیہَا جَنَّاتٍ مِّن نَّخِیلٍ وَأَعْنَابٍ وَفَجَّرْ‌نَا فِیہَا مِنَ الْعُیُونِ لِیَأْکُلُوا مِن ثَمَرِ‌ہِ وَمَا عَمِلَتْہُ أَیْدِیہِمْ أَفَلَا یَشْکُرُ‌ونَ» ۱؎ (36-یس:33) یعنی ’ ان منکرین کے لیے مردہ زمین میں بھی ایک نشانی ہے جسے ہم زندہ کرتے ہیں اور اس میں سے دانے نکالتے ہیں جسے یہ کھاتے ہیں اور جس میں ہم کھجوروں اور انگوروں کے باغ پیدا کرتے ہیں اور چاروں طرف نہروں کی ریل پیل کر دیتے ہیں تاکہ وہ ان پھلوں کو مزے مزے سے کھائیں حالانکہ یہ ان کے ہاتھوں کا بنایا ہوا یا پیدا کیا ہوا نہیں کیا پھر بھی یہ شکر گزاری نہ کریں گے ؟ ‘ اس مسئلہ پر اس آیت سے استدلال کیا گیا ہے اور امام مالک رحمہ اللہ کے مذہب کو اس سے تقویت پہنچائی گئی ہے اس لیے مقتول کے جی اٹھنے کے بعد اس نے دریافت کرنے پر جسے قاتل بتایا اسے قتل کیا گیا اور مقتول کا قول باور کیا گیا ظاہر ہے کہ دم آخر ایسی حالت میں انسان عموماً سچ ہی بولتا ہے اور اس وقت اس پر تہمت نہیں لگائی جاتی ۔ { سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک یہودی نے ایک لڑکی کا سر پتھر پر رکھ کر دوسرے پتھر سے کچل ڈالا اور اس کے کڑے اتار لے گیا جب اس کا پتہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس لڑکی سے پوچھو کہ اسے کس نے مارا ہے ۔ لوگوں نے پوچھنا شروع کیا کہ کیا تھے فلاں نے مارا فلاں نے مارا ؟ وہ اپنے سر کے اشارے سے انکار کرتی جاتی تھی یہاں تک کہ جب اسی یہودی کا نام آیا تو اس نے سر کے اشارے سے کہا ہاں ، چنانچہ اس یہودی کو گرفتار کیا گیا اور باصرار پوچھنے پر اس نے اقرار کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اس کا سر بھی اس طرح دو پتھروں کے درمیان کچل دیا جائے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:6879) امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک جب یہ برانگیختگی کے باعث ہو تو مقتول کے وارثوں کو قسم کھلائی جائے گی بطور قسامہ کے لیکن جمہور اس کے مخالف اور مقتول کے قول کو اس بارے میں ثبوت نہیں جانتے ۔ البقرة
73 البقرة
74 پتھر دل لوگ اس آیت میں بنی اسرائیل کو زجر و توبیخ کی گئی ہے کہ اس قدر زبردست معجزے اور قدرت کی نشانیاں دیکھ کر پھر بھی بہت جلد تمہارے دل سخت پتھر بن گئے ۔ اسی لیے ایمان والوں کو اس طرح کی سختی سے روکا گیا اور کہا گیا « أَلَمْ یَأْنِ لِلَّذِینَ آمَنُوا أَن تَخْشَعَ قُلُوبُہُمْ لِذِکْرِ‌ اللہِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ وَلَا یَکُونُوا کَالَّذِینَ أُوتُوا الْکِتَابَ مِن قَبْلُ فَطَالَ عَلَیْہِمُ الْأَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُہُمْ وَکَثِیرٌ‌ مِّنْہُمْ فَاسِقُونَ » ۱؎ (57-الحدید:16) یعنی ’ کیا اب تک وہ وقت نہیں آیا کہ ایمان والوں کے دل اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اللہ کے نازل کردہ حق سے کانپ اٹھیں ؟ اور اگلے اہل کتاب کی طرح نہ ہو جائیں جن کے دل لمبا زمانہ گزرنے کے بعد سخت ہو گئے اور ان میں سے اکثر فاسق ہیں ۔ ‘ ۔ { سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ اس مقتول کے بھتیجے نے اپنے چچا کے دوبارہ زندہ ہونے اور بیان دینے کے بعد جب مر گیا تو کہا کہ اس نے جھوٹ کہا ۔ } ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:234/2) اور پھر کچھ وقت گزر جانے کے بعد بنی اسرائیل کے دل پھر پتھر سے بھی زیادہ سخت ہو گئے کیونکہ پتھروں سے تو نہریں نکلتی اور بہنے لگتی ہیں بعض پتھر پھٹ جاتے ہیں ان سے چاہے وہ بہنے کے قابل نہ ہوں بعض پتھر خوف اللہ سے گر پڑتے ہیں لیکن ان کے دل کسی وعظ و نصیحت سے کسی پند و موعظت سے نرم ہی نہیں ہوتے ۔ یہاں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ پتھروں میں ادراک اور سمجھ ہے اور جگہ ہے «تُسَبِّحُ لَہُ السَّمٰوٰتُ السَّـبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِیْہِنَّ وَاِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّایُسَبِّحُ بِحَمْدِہٖ وَلٰکِنْ لَّا تَفْقَہُوْنَ تَسْبِیْحَہُمْ اِنَّہٗ کَانَ حَلِیْمًا غَفُوْرًا» ۱؎ ( 17 ۔ الاسرآء : 44 ) یعنی ’ ساتوں آسمان اور زمینیں اور ان کی تمام مخلوق اور ہر ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتی ہے لیکن تم ان کی تسبیح سمجھتے نہیں ہو ۔ اللہ تعالیٰ حلم و بردباری والا اور بخشش و عفو والا ہے ‘ ۔ ابوعلی جیانی نے پتھر کے خوف سے گر پڑنے کی تاویل اولوں کے برسنے سے کی ہے لیکن یہ ٹھیک نہیں رازی رحمہ اللہ بھی غیر درست بتلاتے ہیں اور فی الواقع یہ تاویل صحیح نہیں کیونکہ اس میں لفظی معنی بے دلیل کو چھوڑنا لازم آیا ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ نہریں بہہ نکلنا زیادہ رونا ہے ۔ پھٹ جانا اور پانی کا نکلنا اس سے کم رونا ہے گر پڑنا دل سے ڈرنا ہے ، بعض کہتے ہیں یہ مجازاً کہا گیا جیسے اور جگہ ہے «یُرِ‌یدُ أَن یَنقَضَّ فَأَقَامَہُ» ۱؎ (18-الکہف:77) یعنی ’ دیوار گر پڑنا چاہ رہی تھی ‘ ۔ ظاہر ہے کہ یہ مجاز ہے ۔ حقیقتاً دیوار کا اردہ ہی نہیں ہوتا ۔ رازی قرطبی رحمہ اللہ علیہما وغیرہ کہتے ہیں ایسی تاویلوں کی کوئی ضرورت نہیں اللہ تعالیٰ جو صفت جس چیز میں چاہے پیدا کر سکتا ہے ۔ دیکھئیے اس کا فرمان ہے «اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَہَا وَاَشْفَقْنَ مِنْہَا وَحَمَلَہَا الْاِنْسَانُ» ۱؎ ( 33 ۔ الاحزاب : 72 ) یعنی ’ ہم نے امانت کو آسمانوں زمینوں اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا انہوں نے اس کے اٹھانے سے مجبوری ظاہر کی اور ڈر گئے ، اور آیت گزر چکی کہ تمام چیزیں اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتی ہے ‘ ۔ اور جگہ ہے «وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ یَسْجُدَانِ» ۱؎ ( 55-سورۃ الرحمن-6 ) یعنی ’ اکاس بیل اور درخت اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتے ہیں ‘ ۔ اور فرمایا «یَتَفَیَّأُ ظِلَالُہُ عَنِ الْیَمِینِ وَالشَّمَائِلِ سُجَّدًا لِّلَّـہِ وَہُمْ دَاخِرُونَ» ۱؎ ( 16-النحل-48 ) اور فرمایا «قَالَتَآ اَتَیْنَا طَایِٕعِیْنَ» ۱؎ ( 41 ۔ فصلت : 11 ) یعنی ’ زمین و آسمان نے کہا ہم خوشی خوشی حاضر ہیں ‘ ۔ اور جگہ ہے کہ پہاڑ بھی قرآن سے متاثر ہو کر ڈر کے مارے پھٹ پھٹ جاتے اور جگہ فرمان ہے «وَقَالُوا لِجُلُودِہِمْ لِمَ شَہِدتٰمْ عَلَیْنَا قَالُوا أَنطَقَنَا اللہُ الَّذِی أَنطَقَ کُلَّ شَیْءٍ وَہُوَ خَلَقَکُمْ أَوَّلَ مَرَّۃٍ وَإِلَیْہِ تُرْجَعُونَ» ۱؎ ( 41-سورۃ فصلت-21 ) یعنی ’ گناہ گار لوگ اپنے جسموں سے کہیں گے تم نے ہمارے خلاف شہادت کیوں دی ؟ وہ جواب دیں گے کہ ہم سے اس اللہ نے بات کرائی جو ہر چیز کو بولنے کی طاقت عطا فرماتا ہے ‘ ۔ ایک صحیح حدیث میں ہے کہ احد پہاڑ کی نسبت { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ پہاڑ ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم بھی اس سے محبت رکھتے ہیں ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:2889) ایک اور حدیث میں ہے کہ { جس کھجور کے تنے پر ٹیک لگا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کا خطبہ پڑھا کرتے تھے جب منبر بنا اور وہ تنا ہٹا دیا گیا تو وہ تنا پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:918) صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں مکہ کے اس پتھر کو پہچانتا ہوں جو میری نبوت سے پہلے مجھے سلام کیا کرتا تھا ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:2277) { حجر اسود کے بارے میں ہے کہ جس نے اسے حق کے ساتھ بوسہ دیا ہو گا یہ اس کے ایمان کی گواہی قیامت والے دن دے گا ۔ } ۱؎ (سنن ترمذی:961 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) اور اس طرح کی بہت سی آیات اور حدیثیں ہیں جن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان چیزوں میں ادراک و حس ہے اور یہ تمام باتیں حقیقت پر محمول ہیں نہ کہ مجاز پر ۔ آیت میں لفظ «او» جو ہے اس کی بابت قرطبی اور رازی رحمہ اللہ علیہما تو کہتے ہیں کہ یہ تخییر کے لیے ہے یعنی ان کے دلوں کو خواہ جیسے پتھر سمجھ لو یا اس سے بھی زیادہ سخت ۔ رازی رحمہ اللہ نے ایک وجہ یہ بھی بیان کی ہے کہ یہ ابہام کے لیے ہے گویا مخاطب کے سامنے باوجود ایک بات کا پختہ علم ہونے کے دو چیزیں بطور ابہام پیش کی جا رہی ہیں ۔ بعض کا قول ہے کہ مطلب یہ ہے کہ بعض دل پتھر جیسے اور بعض اس سے زیادہ سخت ہیں «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اس لفظ کے جو معنی یہاں پر ہیں وہ بھی سن لیجئے اس پر تو اجماع ہے کہ آؤ شک کے لیے نہیں یا تو یہ معنی میں واو کے ہے یعنی ان کے دل پتھر جیسے اور اس سے بھی زیادہ سخت ہو گئے جیسے «وَلَا تُطِعْ مِنْہُمْ اٰثِمًا اَوْ کَفُوْرًا» ۱؎ ( 76 ۔ الانسان : 24 ) میں اور «عُذْرًا أَوْ نُذْرًا» ۱؎ ( المرسلات : ٦ ) میں شاعروں کے اشعار میں اور واؤ کے معنی میں جمع کے لیے آیا ہے یا او یہاں پر معنی میں بل یعنی بلکہ کے ہے جیسے «کَخَشْیَۃِ اللّٰہِ اَوْ اَشَدَّ خَشْـیَۃً» ۱؎ ( 4 ۔ النسآء : 77 ) میں اور «وَاَرْسَلْنٰہُ اِلٰی مِائَۃِ اَلْفٍ اَوْ یَزِیْدُوْنَ» ۱؎ ( 37 ۔ الصافات : 147 ) میں اور «فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰی» ۱؎ ( 53 ۔ النجم : 9 ) میں بعض کا قول ہے کہ مطلب یہ ہے کہ وہ پتھر جیسے ہیں یا سختی میں تمہارے نزدیک اس سے بھی زیادہ بعض کہتے ہیں صرف مخاطب پر ابہام ڈالا گیا ہے اور یہ شاعروں کے شعروں میں بھی پایا جاتا ہے کہ باوجود پختہ علم و یقین کے صرف مخاطب پر ابہام ڈالنے کے لیے ایسا کلام کرتے ہیں ۔ قرآن کریم میں اور جگہ ہے «وَاِنَّآ اَوْ اِیَّاکُمْ لَعَلٰی ہُدًی اَوْ فِیْ ضَلٰلٍ مٰبِیْنٍ» ۱؎ ( 34 ۔ سبأ : 24 ) یعنی ’ ہم یا تم صاف ہدایت یا کھلی گمراہی پر ہیں ‘ ۔ تو ظاہر ہے کہ مسلمانوں کا ہدایت پر ہونا اور کفار کا گمراہی پر ہونا یقینی چیز ہے لیکن مخاطب کے ابہام کے لیے اس کے سامنے کلام مبہم بولا گیا ۔ یہ بھی مطلب ہو سکتا ہے کہ تمہارے دل ان دو سے خارج نہیں یا تو وہ پتھر جیسے ہیں یا اس سے بھی زیادہ سخت یعنی بعض ایسے اس قول کے مطابق یہ بھی ہے «کَمَثَلِ الَّذِی اسْـتَوْقَدَ نَارًا» ۱؎ ( 2 ۔ البقرہ : 17 ) پھر فرمایا «او کصیب» اور فرمایا ہے «کسراب» پھر فرمایا «او کظلمات» مطلب یہی ہے کہ بعض ایسے اور بعض ایسے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ تفسیر ابن مردویہ میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ کے ذکر کے سوا زیادہ باتیں نہ کیا کرو کیونکہ کلام کی کثرت دل کو سخت کر دیتی ہے اور سخت دل والا اللہ سے بہت دور ہو جاتا ہے۔ } ۱؎ (سنن ترمذی:2411،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) امام ترمذی رحمہ اللہ نے بھی اس حدیث کو بیان فرمایا ہے اور اس کے ایک طریقہ کو غریب کہا ہے ۔ بزار میں انس رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ { چار چیزیں بدبختی اور شقاوت کی ہیں خوف اللہ سے آنکھوں سے آنسو نہ بہنا ، دل کا سخت ہو جانا ، امیدوں کا بڑھ جانا ، لالچی بن جانا ۔ } ۱؎ (بزار فی کشف الاستار:343:ضعیف) البقرة
75 یہودی کردار کا تجزیہ اس گمراہ قوم یہود کے ایمان سے اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کو ناامید کر رہے ہیں جب ان لوگوں نے اتنی بڑی نشانیاں دیکھ کر بھی اپنے دل سخت پتھر جیسے بنا لیے اللہ تعالیٰ کے کلام کو سن کر سمجھ کر پھر بھی اس کی تحریف اور تبدیلی کر ڈالی تو ان سے تم کیا امید رکھتے ہو ؟ ٹھیک اس آیت کی طرح اور جگہ فرمایا «فَبِمَا نَقْضِہِمْ مِّیْثَاقَہُمْ لَعَنّٰہُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوْبَہُمْ قٰسِـیَۃً» ۱؎ ( 5 ۔ المائدہ : 13 ) یعنی ’ ان کی عہد شکنی کی وجہ سے ہم نے ان پر لعنت کی اور ان کے دل سخت کر دئے یہ اللہ کے کلام کو رد و بدل کر ڈالا کرتے تھے ‘ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یہاں اللہ تعالیٰ نے کلام اللہ سننے کو فرمایا اس سے مراد موسیٰ علیہ السلام کے صحابیوں کی وہ جماعت ہے جنہوں نے آپ علیہ السلام سے اللہ کا کلام اپنے کانوں سے سننے کی درخواست کی تھی اور جب وہ پاک صاف ہو کر روزہ رکھ کر موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ طور پہاڑ پر پہنچ کر سجدے میں گر پڑے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنا کلام سنایا جب یہ واپس آئے اور نبی اللہ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کا یہ کلام بنی اسرائیل میں بیان کرنا شروع کیا تو ان لوگوں نے اس کی تحریف اور تبدیلی شروع کر دی ۔ سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ان لوگوں نے توراۃ میں تحریف کی تھی یہی عام معنی ٹھیک ہیں جس میں وہ لوگ بھی شامل ہو جائیں گے اور اس بدخصلت والے دوسرے یہودی بھی ۔ قرآن میں ہے «فَأَجِرْہُ حَتَّیٰ یَسْمَعَ کَلَامَ اللہِ ثُمَّ أَبْلِغْہُ مَأْمَنَہُ» ۱؎ ( 9-التوبہ-69 ) یعنی ’ مشرکوں میں سے کوئی اگر تجھ سے پناہ طلب کرے تو تو اسے پناہ دے یہاں تک کہ وہ کلام اللہ سن لے ‘ ۔ تو اس سے یہ مراد نہیں کہ اللہ کا کلام اپنے کانوں سے سنے بلکہ قرآن سنے تو یہاں بھی کلام اللہ سے مراد توراۃ ہے ۔ یہ تحریف کرنے والے اور چھپانے والے ان کے علماء تھے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:245/2) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جو اوصاف ان کی کتاب میں تھے ان سب میں انہوں نے تاویلیں کر کے اصل مطلب دور کر دیا تھا اسی طرح حلال کو حرام ، حرام کو حلال ، حق کو باطل ، باطل کو حق لکھ دیا کرتے تھے ۔ رشوتیں لینی اور غلط مسائل بتانے کی عادت ڈال لی تھی ہاں کبھی کبھی جب رشوت ملنے کا امکان نہ ہوتا ، ریاست جانے کا خوف نہ ہوتا ، مریدوں سے الگ ہوتے تو حق بات بھی کہہ دیا کرتے تھے ۔ مسلمانوں سے ملتے تو کہہ دیا کرتے کہ تمہارے نبی علیہ السلام سچے ہیں ۔ یہ برحق رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:250/2) لیکن پھر آپس میں بیٹھ کر کہتے ، عربوں سے یہ باتیں کیوں کہتے ہو ۔ پھر تو یہ تم پر چھا جائیں گے ۔ اللہ کے ہاں بھی تمہیں لاجواب کر دیں گے ۔ تو ان کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان بیوقوفوں کو اتنا علم نہیں کہ ہم پوشیدہ اور ظاہر سب جانتے ہیں ۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” مدینہ میں ہمارے پاس سوائے ایمان والوں کے اور کوئی نہ آئے “ ۔ تو ان کافروں اور یہودیوں نے کہا کہ جاؤ کہہ دو ہم بھی ایمان لاتے ہیں اور جب یہاں آؤ تو ویسے ہی رہے جیسے تھے ۔ پس یہ لوگ صبح آ کر ایمان کا دعویٰ کرتے تھے اور شام کو جا کر کفار میں شامل ہو جاتے تھے ۔ قرآن میں ہے «وَقَالَتْ طَّایِٕفَۃٌ مِّنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ اٰمِنُوْا بِالَّذِیْٓ اُنْزِلَ عَلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَجْہَ النَّہَارِ وَاکْفُرُوْٓا اٰخِرَہٗ لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ» ( 3 ۔ آل عمران : 72 ) یعنی ’ اہل کتاب کی ایک جماعت نے کہا ایمان والوں پر جو اترا ہے اس پر دن کے شروع حصہ میں ایمان لاؤ پھر آخر میں کفر کرو تاکہ خود ایمان والے بھی اس دین سے پھر جائیں ‘ ۔ یہ لوگ اس فریب سے یہاں کے راز معلوم کرنا اور انہیں اپنے والوں کو بتانا چاہتے تھے اور مسلمانوں کو بھی گمراہ کرنا چاہتے تھے مگر ان کی یہ چالاکی نہ چلی اور یہ راز اللہ نے کھول دیا جب یہ یہاں ہوتے اور اپنا ایمان اسلام و ظاہر کرتے تو صحابہ ان سے پوچھتے کیا تمہاری کتاب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت وغیرہ نہیں ؟ وہ اقرار کرتے ۔ جب اپنے بڑوں کے پاس جاتے تو وہ انہیں ڈانٹتے اور کہتے اپنی باتیں ان سے کہہ کر کیوں ان کی اپنی مخالفت کے ہاتھوں میں ہتھیار دے رہے ہو ؟ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قریظہ والے دن یہودیوں کے قلعہ تلے کھڑے ہو کر فرمایا اے بندر اور خنزیر اور طاغوت کے عابدوں کے بھائیو ! تو وہ آپس میں کہنے لگے یہ ہمارے گھر کی باتیں انہیں کس نے بتا دیں خبردار اپنی آپس کی خبریں انہیں نہ دو ورنہ انہیں اللہ کے سامنے تمہارے خلاف دلائل میسر آ جائیں گے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:1348:مرسل) اب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ گو تم چھپاؤ لیکن مجھ سے تو کوئی چیز چھپ نہیں سکتی تم جو چپکے چپکے اپنوں سے کہتے ہو کہ اپنی باتیں ان تک نہ پہنچاؤ اور اپنی کتاب کی باتیں کو چھپاتے ہو تو میں تمہارے اس برے کام سے بخوبی آگاہ ہوں ۔ تم جو اپنے ایمان کا اظہار کرتے ہو ۔ تمہارے اس اعلان کی حقیقت کا علم بھی مجھے اچھی طرح ہے ۔ البقرة
76 البقرة
77 البقرة
78 امی کا مفہوم اور ویل کے معنی امی کے معنی وہ شخص جو اچھی طرح لکھنا نہ جانتا ہو امیون اس کی جمع ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفتوں میں ایک صفت «أمی» بھی آئی ہے اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی لکھنا نہیں جانتے تھے ۔ قرآن کہتا ہے «وَمَا کُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِہٖ مِنْ کِتٰبٍ وَّلَا تَخُــطٰہٗ بِیَمِیْنِکَ اِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَ» ۱؎ ( 29 ۔ العنکبوت : 48 ) یعنی ’ تو اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس سے پہلے نہ تو پڑھ سکتا نہ لکھ سکتا تھا اگر ایسا ہوتا تو شاید ان باطل پرستوں کے شبہ کی گنجائش ہو جاتی ‘ ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہم امی اور ان پڑھ لوگ ہیں نہ لکھنا جانیں نہ حساب ، مہینہ کبھی اتنا ہوتا ہے اور کبھی اتنا پہلی بار تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھوں کی کل انگلیاں تین بار نیچے کی طرف جھکائیں یعنی تیس دن کا دوبار اور تیسری مرتبہ میں انگوٹھے کا حلقہ بنا لیا ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1913) یعنی انتیس دن کا ، مطلب یہ ہے کہ ہماری عبادتیں اور ان کے وقت حساب کتاب پر موقوف نہیں ۔ قرآن کریم نے ایک اور جگہ فرمایا «ہُوَ الَّذِی بَعَثَ فِی الْأُمِّیِّینَ رَسُولًا مِّنْہُمْ» ۱؎ ( 62-الجمعۃ : 2 ) یعنی ’ اللہ تعالٰی نے ان پڑھوں میں ایک رسول انہی میں سے بھیجا ‘ ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس لفظ میں بےپڑھے آدمی کو ماں کی طرف منسوب کیا گیا ۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک روایت ہے کہ یہاں پر “ امی “ نہیں کہا گیا ہے جنہوں نے نہ تو کسی رسول علیہ السلام کی تصدیق کی تھی نہ کسی کتاب کو مانا تھا اور اپنی لکھی ہوئی کتابوں کو اوروں سے کتاب اللہ کی طرح منوانا چاہتے تھے لیکن اول تو یہ قول محاورات عرب کے خلاف ہے دوسرے اس قول کی سند ٹھیک نہیں ۔ امانی کے معنی باتیں اور اقوال ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے ” کذب “ ” آرزو “ ” جھوٹ کے “ معنی بھی کئے گئے ہیں ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:261/2) تلاوت اور ظاہری الفاظ کے معنی بھی مروی ہیں جیسے قرآن مجید میں اور جگہ سے «إِلَّا إِذَا تَمَنَّیٰ» ۱؎ ( 22-الحج : 52 ) یہاں تلاوت کے معنی صاف ہیں شعراء کے شعروں میں بھی یہ لفظ تلاوت کے معنی میں ہے اور وہ صرف گمان ہی پر ہیں یعنی حقیقت کو نہیں جانتے اور اس پر ناحق کا گمان کرتے ہیں اور اوٹ پٹانگ باتیں بناتے ہیں ۔ پھر یہودیوں کی ایک دوسری قسم کا بیان ہو رہا ہے جو پڑھے لکھے لوگ تھے اور گمراہی کی طرف دوسروں کو بلاتے تھے اور اللہ پر جھوٹ باندھتے تھے اور مریدوں کا مال ہڑپ کرتے تھے ۔ ویل کے معنی ہلاکت اور بربادی کے ہیں اور جہنم کے گڑھے کا نام بھی ہے جس کی آگ اتنی تیز ہے کہ اگر اس میں پہاڑ ڈالے جائیں تو دھول ہو جائیں ۔ ابن ابی حاتم کی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جہنم کی ایک وادی کا نام ویل ہے جس میں کافر ڈالے جائیں گے چالیس سال کے بعد تلے میں پہنچیں گے ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3164 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) اتنی گہرائی ہے لیکن سند کے اعتبار سے یہ حدیث غریب بھی ہے منکر بھی ہے اور ضعیف بھی ہے ۔ اور ایک غریب حدیث میں ہے کہ جہنم کے ایک پہاڑ کا نام ویل ہے یہودیوں نے توراۃ کی تحریف کر دی اس میں کمی یا زیادتی کی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نکال ڈالا اس لیے اللہ کا غضب ان پر نازل ہوا اور توراۃ اٹھا لی گئی اور اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ ان کے ہاتھوں کے لکھے اور ان کی کمائی برباد اور ہلاک ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:1389:ضعیف) ویل کے معنی سخت عذاب برائی ، ہلاکت ، افسوس ، درد ، دکھ ، رنج و ملال وغیرہ کے بھی آتے ہیں ۔ ویل ، ویح ، ویش ، ویہ ، ویک ، ویب سب ایک ہی معنی میں ہیں گو بعض نے ان الفاظ کے جدا جدا معنی بھی کئے ہیں لفظ ویل نکرہ ہے اور نکرہ مبتدا نہیں بن سکتا لیکن چونکہ یہ معنی میں بد دعا کے ہے اس لیے اسے مبتدا بنا دیا گیا ہے بعض لوگوں نے اسے نصب دینا بھی جائز سمجھا ہے لیکن ویلا کی قرأت نہیں ۔ یہاں یہودیوں کے علماء کی بھی مذمت ہو رہی ہے کہ وہ اپنی باتوں کو اللہ تعالیٰ کا کلام کہتے تھے اور اپنے والوں کو خوش کر کے دنیا کماتے تھے ۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ تم اہل کتاب سے کچھ بھی کیوں پوچھو ؟ اللہ تعالیٰ کی تازہ کتاب تمہارے ہاتھوں میں ہے ۔ اہل کتاب نے تو کتاب اللہ میں تحریف کی اپنی ہاتھ کی لکھی ہوئی باتوں کو اللہ عزوجل کی طرف منسوب کر دیا اس کی تشہیر کی پھر تمہیں اپنی محفوظ کتاب کو چھوڑ کر ان کی تبدیل کردہ کتاب کی کیا ضرورت ؟ افسوس کہ وہ تم سے نہ پوچھیں اور تم ان سے دریافت کرتے پھرو ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2685) تھوڑے مول سے مراد ساری دنیا مل جائے تو بھی آخرت کے مقابلہ میں کمتر ہے اور جنت کے مقابلہ میں بے حد حقیر چیز ہے ۔پھر فرمایا کہ ان کے اس فعل کی وجہ سے کہ وہ اپنی باتوں کو اللہ رب العزت کی باتوں کی طرح لوگوں سے منواتے ہیں اور اس پر دنیا کماتے ہیں ہلاکت اور بربادی ہے ۔ البقرة
79 البقرة
80 چالیس دن کا جہنم سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یہودی لوگ کہا کرتے تھے کہ دنیا کل مدت سات ہزار سال ہے ۔ ہر سال کے بدلے ایک دن ہمیں عذاب ہو گا تو صرف سات دن ہمیں جہنم میں رہنا پڑے گا اس قول کی تردید میں یہ آیتیں نازل ہوئیں ، بعض کہتے ہیں یہ لوگ چالیس دن تک آگ میں رہنا مانتے تھے ۱؎ .(تفسیر ابن جریر الطبری:276/2) کیونکہ ان کے بڑوں نے چالیس دن تک بچھڑے کی پوجا کی تھی بعض کا قول ہے کہ یہ دھوکہ انہیں اس سے لگا تھا کہ وہ کہتے تھے کہ توراۃ میں ہے کہ جہنم کے دونوں طرف زقوم کے درخت تک چالیس سال کا راستہ ہے تو وہ کہتے تھے کہ اس مدت کے بعد عذاب اٹھ جائیں گے ۔ ایک روایت میں ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آ کر کہا کہ چالیس دن تک تو ہم جہنم میں رہیں گے پھر دوسرے لوگ ہماری جگہ آ جائیں گے یعنی آپ کی امت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سروں پر ہاتھ رکھ کر فرمایا نہیں بلکہ تم ہی تم ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں پڑے رہو گے اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:1409:ضعیف و مرسل) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں فتح خیبر کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خدمت میں بطور ہدیہ بکری کا پکا ہوا زہر آلود گوشت آیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہاں کے یہودیوں کو جمع کر لو پھر ان سے پوچھا تمہارا باپ کون ہے انہوں نے کہا فلاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جھوٹے ہو بلکہ تمہارا باپ فلاں ہے انہوں نے کہا بجا ارشاد ہوا وہی ہمارا باپ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دیکھو اب میں کچھ اور پوچھتا ہوں سچ سچ بتانا انہوں نے کہا اے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم اگر جھوٹ کہیں گے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نہ چل سکے گا ہم تو آزما چکے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بتاؤ جہنمی کون لوگ ہیں ؟ انہوں نے کہا کچھ دن تو ہم ہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا غلو ہرگز نہیں پھر فرمایا اچھا بتلاؤ اس گوشت میں تم نے زہر ملایا ہے ؟ انہوں نے کہا ہاں اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہیں تو یہ زہر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہرگز ضرر نہ دے گا اور اگر جھوٹے ہیں تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نجات حاصل کر لیں گے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3169 ) البقرة
81 جہنمی کون؟ مطلب یہ ہے کہ جس کے اعمال سراسر بد ہیں جو نیکیوں سے خالی ہے وہ جہنمی ہے اور جو شخص اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اور سنت کے مطابق عمل کرے وہ جنتی ہے ۔ جیسے ایک جگہ فرمایا «لَّیْسَ بِأَمَانِیِّکُمْ وَلَا أَمَانِیِّ أَہْلِ الْکِتَابِ مَن یَعْمَلْ سُوءًا یُجْزَ بِہِ وَلَا یَجِدْ لَہُ مِن دُونِ اللہِ وَلِیًّا وَلَا نَصِیرًا» ۱؎ ( 4 ۔ النسآء : 123 ) یعنی ’ نہ تو تمہارے منصوبے چل سکیں گے اور نہ اہل کتاب کے ۔ ہر برائی کرنے والا اپنی برائی کا بدلہ دیا جائے گا اور ہر بھلائی کرنے والا ثواب پائے گا اپنی نیکو کاری کا اجر پائے گا مگر برے کا کوئی مددگار نہ ہو گا ‘ ۔ کسی مرد کا ، عورت کا ، بھلے آدمی کا کوئی عمل برباد نہ ہو گا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یہاں برائی سے مطلب کفر ہے اور ایک روایت میں ہے کہ مراد شرک ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:252/1:ضعیف) ابووائل ابوالعالیہ ، مجاہد ، عکرمہ ، حسن ، قتادہ ، ربیع بن انس رحمہ اللہ علیہم وغیرہ سے یہی مروی ہے ۔ سدی رحمہ اللہ کہتے ہیں مراد کبیرہ گناہ ہیں جو تہ بہ تہ ہو کر دل کو گندہ کر دیں ۔ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:153/2) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ وغیرہ فرماتے ہیں مراد شرک ہے جس کے دل پر بھی قابض ہو جائے ۔ ربیع بن خثیم رحمہ اللہ کا قول ہے جو گناہوں پر ہی مرے اور توبہ نصیب نہ ہو ۔ مسند احمد میں حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں گناہوں کو حقیر نہ سمجھا کرو وہ جمع ہو کر انسان کی ہلاکت کا سبب بن جاتے ہیں دیکھتے نہیں ہو کہ اگر کئی آدمی ایک ایک لکڑی لے کر آئیں تو انبار لگ جاتا ہے پھر اگر اس میں آگ لگائی جائے تو بڑی بڑی چیزوں کو جلا کر خاکستر کر دیتی ہے ۔ ۱؎ (مسند احمد:402/1:صحیح لغیرہ) پھر ایمانداروں کا حال بیان فرمایا کہ جو تم جیسا عمل نہیں کرتے بلکہ تمہارے کفر کے مقابلہ میں ان کا ایمان پختہ ہے تمہاری بد اعمالیوں کے مقابلہ میں ان کے پاکیزہ اعمال مستحکم ہیں انہیں ابدی راحتیں اور ہمیشہ کی مسکن جنتیں ملیں گی ۔اور اللہ کے عذاب و ثواب دونوں لازوال ہیں ۔ البقرة
82 البقرة
83 معبودان باطل سے بچو بنی اسرائیل کو جو حکم احکام دیئے گئے اور ان سے جن چیزوں پر عہد لیا گیا ان کا ذکر ہو رہا ہے ان کی عہد شکنی کا ذکر ہو رہا ہے انہیں حکم دیا گیا تھا کہ وہ توحید کو تسلیم کریں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے کی عبادت نہ کریں ، یہ حکم نہ صرف بنو اسرائیل کو ہی دیا گیا بلکہ تمام مخلوق کو دیا گیا ہے فرمان ہے «وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِیْٓ اِلَیْہِ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ» ۱؎ ( 21 ۔ الانبیآء : 25 ) یعنی ’ تمام رسولوں کو ہم نے یہی حکم دیا کہ وہ اعلان کر دیں کہ عبادت کے لائق میرے سوا اور کوئی ، نہیں سب لوگ میری ہی عبادت کریں ‘ ۔ اور فرمایا «وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ» ۱؎ ( 16 ۔ النحل : 36 ) یعنی ’ ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے سوا دوسرے معبودان باطل سے بچو ‘ ۔ سب سے بڑا حق اللہ تعالیٰ ہی کا ہے اور اس کے تمام حقوق میں بڑا حق یہی ہے کہ اس کی عبادت کی جائے اور دوسرے کسی کی عبادت نہ کی جائے اب حقوق اللہ کے بعد حقوق العباد کا بیان ہو رہا ہے ۔ بندوں کے حقوق میں ماں باپ کا حق سب سے بڑا ہے اسی لیے پہلے ان کا حق بیان کیا گیا ہے ارشاد ہے «اَنِ اشْکُرْ لِیْ وَلِوَالِدَیْکَ» ۱؎ ( 31 ۔ لقمان : 14 ) یعنی ’ میرا شکر کرو اور اپنے ماں باپ کا بھی احسان مانو ‘ ۔ اور جگہ فرمایا «وَقَضَیٰ رَبٰکَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا» ۱؎ ( 17-الإسراء : 23 ) یعنی ’ تیرے رب کا فیصلہ ہے کہ اس کے سوا دوسرے کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ احسان اور سلوک کرتے رہو ‘ ۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ { سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہا نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کون سا عمل سب سے افضل ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نماز کو وقت پر ادا کرنا پوچھا اس کے بعد فرمایا ماں باپ کے ساتھ سلوک و احسان کرنا پوچھا پھر کون سا پھر اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:527) { ایک اور صحیح حدیث میں ہے کسی نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں کس کے ساتھ اچھا سلوک اور بھلائی کروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنی ماں کے ساتھ ، پوچھا پھر کس کے ساتھ ؟ فرمایا اپنی ماں کے ساتھ ، پھر پوچھا کس کے ساتھ ؟ فرمایا ! اپنے باپ کے ساتھ اور قریب والے کے ساتھ پھر اور قریب والے کے ساتھ ۔} ۱؎ (صحیح بخاری:5971) آیت میں «لا تعبدون» فرمایا اس لیے کہ اس میں بہ نسبت «لاتعبدوا» کے مبالغہ زیادہ ہے ۔ «طلب» یہ خبر معنی میں ہے بعض لوگوں نے «ان لا تعبدوا» بھی پڑھا ہے ابی اور ابن مسعود رضی اللہ عنہما سے یہ بھی مروی ہے کہ وہ «لا تعبدوا» پڑھتے تھے یتیم ان چھوٹے بچوں کو کہتے ہیں جن کا سر پرست باپ نہ ہو ۔ مسکین ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اپنی اور اپنے بال بچوں کی پرورش اور دیگر ضروریات پوری طرح مہیا نہ کر سکتے ہوں اس کی مزید تشریح ان شاءاللہ العظیم سورۃ نساء کی اس معنی کی آیات میں آئے گی پھر فرمایا لوگوں کو اچھی باتیں کہا کرو ۔ یعنی ان کے ساتھ نرم کلامی اور کشادہ پیشانی کے ساتھ پیش آیا کرو بھلی باتوں کا حکم اور برائی سے روکا کرو ۔ حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں بھلائی کا حکم دو ۔ برائی سے روکو ۔ بردباری ، درگزر اور خطاؤں کی معافی کو اپنا شعار بنا لو یہی اچھا خلق ہے جسے اختیار کرنا چاہیئے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:258/1) { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اچھی چیز کو حقیر نہ سمجھو اگر اور کچھ نہ ہو سکے تو اپنے بھائیوں سے ہنستے ہوئے چہرے سے ملاقات تو کر لیا کرو } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2626) پس قرآن کریم نے پہلے اللہ کی عبادت کا حکم دیا پھر لوگوں کے ساتھ بھلائی کرنے کا ۔ پھر اچھی باتیں کہنے کا ۔ پھر بعض اہم چیزوں کا ذکر بھی کر دیا نماز پڑھو زکوٰۃ دو ۔ پھر خبر دی کہ ان لوگوں نے عہد شکنی کی اور عموماً نافرمان بن گئے مگر تھوڑے سے پابند عہد رہے ۔ اس امت کو بھی یہی حکم دیا گیا فرمایا «وَاعْبُدُوا اللّٰہَ وَلَا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَـیْـــــًٔـا وَّبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا» ( 4 ۔ النسآء : 36 ) یعنی ’ اللہ کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو ۔ ماں باپ کے ساتھ رشتہ داروں کے ساتھ یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ ، قرابت دار پڑوسیوں کے ساتھ ، اجنبی پڑوسیوں کے ساتھ ، ہم مشرب مسلک کے ساتھ مسافروں کے ساتھ لونڈی غلاموں کے ساتھ ، حسن سلوک احسان اور بھلائی کیا کرو ۔ یاد رکھو تکبر اور فخر کرنے والوں کو اللہ پسند نہیں کرتا ۔ «اَلْحَمْدُ لِلہِ» کہ یہ امت بہ نسبت اور امتوں کے ان فرمانوں کے ماننے میں اور ان پر عمل پیرا ہونے میں زیادہ مضبوط ثابت ہوئی ۔ اسد بن وداعہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ یہودیوں اور نصرانیوں کو سلام کیا کرتے تھے اور یہ دلیل دیتے تھے کہ فرمان باری ہے «وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْـنًا وَّاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ» ( 2 ۔ البقرہ : 83 ) لیکن یہ اثر غریب ہے اور حدیث کے خلاف ہے حدیث میں صاف موجود ہے کہ یہود نصاریٰ کو ابتداً سلام علیک نہ کیا کرو ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2167) «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ البقرة
84 اوس و خزرج اور دیگر قبائل کو دعوت اتحاد اوس اور خزرج انصار مدینہ کے دو قبیلے تھے اسلام سے پہلے ان دونوں قبیلوں کی آپس میں کبھی بنتی نہ تھی ہمیشہ آپس میں جنگ و جدال رہتا تھا ۔ مدینے کے یہودیوں کے بھی تین قبیلے تھے بنی قینقاع بنو نضیر اور بنو قریظہ ، بنو قینقاع اور بنی نضیر تو خزرج کے طرف دار اور ان کے بھائی بند بنے ہوئے تھے ، بنی قریظہ کا بھائی چارہ اوس کے ساتھ تھا ۔ جب اوس و خزرج میں جنگ ٹھن جاتی تو یہودیوں کے یہ تینوں گروہ بھی اپنے اپنے حلیف کا ساتھ دیتے اور ان سے مل کر ان کے دشمن سے لڑتے ، دونوں طرف کے یہودی یہودیوں کے ہاتھ مارے بھی جاتے اور موقعہ پا کر ایک دوسرے کے گھروں کو بھی اجاڑ ڈالتے ، دیس نکالا بھی دے دیا کرتے تھے اور مال و دولت پر بھی قبضہ کر لیا کرتے تھے ۔ جب لڑائی موقوف ہوتی تو مغلوب فریق کے قیدیوں کا فدیہ دے کر چھڑا لیتے اور کہتے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ ہم میں سے جب کوئی قید ہو جائے تو ہم فدیہ دے کر چھڑا لیں اس پر جناب باری تعالیٰ انہیں فرماتا ہے کہ اس کی کیا وجہ کہ میرے اس ایک حکم کو تو تم نے مان لیا لیکن میں نے کہا تھا کہ آپس میں کسی کو قتل نہ کرو گھروں سے نہ نکالو اسے کیوں نہیں مانتے ؟ کسی حکم پر ایمان لانا اور کسی کے ساتھ کفر کرنا یہ کہاں کی ایمانداری ہے ؟ آیت میں فرمایا کہ اپنے خون نہ بہاؤ اور اپنے آپ کو اپنے گھروں سے نہ نکالو یہ اس لیے کہ ہم مذہب سارے کے سارے ایک جان کے مانند ہیں حدیث میں بھی ہے کہ تمام ایماندار دوستی ، اخوت ، صلہ رحمی اور رحم و کرم میں ایک جسم کے مثل ہیں کسی ایک عضو کے درد سے تمام جسم بیتاب ہو جاتا ہے بخار چڑھ جاتا ہے راتوں کی نیند اچاٹ ہو جاتی ہے ۔ (صحیح بخاری:6011 ) اسی طرح ایک ادنیٰ مسلمان کے لیے سارے جہان کے مسلمانوں کو تڑپ اٹھنا چاہیئے ۔ عبد خیر رحمہ اللہ کہتے ہیں ہم سلمان بن ربیعہ رحمہ اللہ کی ماتحتی میں “ بلنجر “ میں جہاد کر رہے تھے محاصرہ کے بعد ہم نے اس شہر کو فتح کیا جس میں بہت سے قیدی بھی ملے ۔ سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہما نے ان میں سے ایک یہودیہ لونڈی کو سات سو میں خریدا ۔ راس الجالوت کے پاس جب ہم پہنچے تو سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہما اس کے پاس گئے اور فرمایا یہ لونڈی تیری ہم مذہب ہے میں نے اسے سات سو میں خریدا ہے اب تم اسے مجھ سے خرید لو اور آزاد کر دو اس نے کہا بہت اچھا میں چودہ سو دیتا ہوں آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں تو چار ہزار سے کم نہیں بیچوں گا اس نے کہا پھر میں نہیں خریدتا آپ رضی اللہ عنہ نے کہا سن یا تو تو اسے خرید ورنہ تیرا دین جاتا رہے گا توراۃ میں لکھا ہوا ہے کہ بنو اسرائیل کا کوئی بھی شخص گرفتار ہو جائے تو اسے خرید کر آزاد کیا کرو ۔ اگر وہ قیدی ہو کر تمہارے پاس آئیں تو فدیہ دے کر چھڑا لیا کرو اور انہیں ان کے گھر سے بےگھر بھی نہ کیا کرو اب یا تو توراۃ کو مان کر اسے خرید یا توراۃ کا منکر ہونے کا اقرار کر ! وہ سمجھ گیا اور کہنے لگا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم شاید عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ ہو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہاں چنانچہ وہ چار ہزار لے آیا آپ رضی اللہ عنہ نے دو ہزار لے لیے اور دو ہزار لوٹا دیئے ۔ بعض روایتوں میں ہے کہ راس الجالوت کوفہ میں تھا یہ ان لونڈیوں کا فدیہ نہیں دیتا تھا جو عرب سے نہ بچی ہوں اس پر سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اسے توراۃ کی یہ آیت سنائی غرض آیت میں یہودیوں کی مذمت ہے کہ وہ احکام الٰہیہ کو جانتے ہوئے پھر بھی پس پشت ڈال دیا کرتے تھے امانت داری اور ایمانداری ان سے اٹھ چکی تھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نشانیاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی تصدیق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے پیدائش جائے ہجرت وغیرہ وغیرہ سب چیزیں ان کی کتاب میں موجود تھیں لیکن یہ ان سب کو چھپائے ہوئے تھے اور اتنا ہی نہیں بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتے تھے اسی باعث ان پر دنیوی رسوائی آئی اور کم نہ ہونے والے اور دائمی آخرت کا عذاب بھی ۔ البقرة
85 البقرة
86 البقرة
87 خود پرست اسرائیلی بنی اسرائیل کے عناد و تکبر اور ان کی خواہش پرستی کا بیان ہو رہا ہے کہ توراۃ میں تحریف و تبّدل کیا موسیٰ علیہ السلام کے بعد انہی کی شریعت آنے والے انبیاء کی بھی مخالفت کی چنانچہ فرمایا «اِنَّآ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰیۃَ فِیْہَا ہُدًی وَّنُوْرٌ» ( 5 ۔ المائدہ : 44 ) یعنی ہم نے توراۃ نازل فرمائی جس میں ہدایت اور نور تھا جس پر انبیاء علیہ السلام بھی خود بھی عمل کرتے اور یہودیوں کو بھی ان کے علماء اور درویش ان پر عمل کرنے کا حکم کرتے تھے غرض پے در پے یکے بعد دیگرے انبیاء کرام بنی اسرائیل میں آتے رہے یہاں تک کہ یہ سلسلہ عیسیٰ علیہ السلام پر ختم ہوا انہیں انجیل ملی جس میں بعض احکام توراۃ کے خلاف بھی تھے اسی لیے انہیں نئے نئے معجزات بھی ملے جیسے مردوں کو بحکم رب العزت زندہ کر دینا مٹی سے پرند بنا کر اس میں پھونک مار کر بحکم رب العزت اڑا دینا ، بیماروں کو اپنے دم جھاڑے سے رب العزت کے حکم سے اچھا کر دینا ، بعض بعض غیب کی خبریں رب العزت کے معلوم کرانے سے دینا وغیرہ ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:268/1) آپ کی تائید پر روح القدس یعنی جبرائیل علیہ السلام کو لگا دیا لیکن بنی اسرائیل اپنے کفر اور تکبر میں اور بڑھ گئے اور زیادہ حسد کرنے لگے اور ان تمام انبیاء کرام کے ساتھ برے سلوک سے پیش آئے ۔ کہیں جھٹلاتے اور کہیں مار ڈالتے تھے محض اس بنا پر کہ انبیاء علیہ السلام کی تعلیم ان کی طبیعتوں کے خلاف ہوا کرتی تھی ان کی رائے اور انہیں ان کے قیاسات اور ان کے بنائے ہوئے اصول و احکام ان کی قبولیت سے ٹکراتے تھے اس لیے دشمنی پر تل جاتے تھے ۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ محمد بن کعب اسمٰعیل بن خالد سدی ربیع بن انس عطیہ عوفی اور قتادہ رحمہ اللہ علیہم وغیرہ کا قول یہی ہے کہ روح القدس سے مراد جبرائیل ہیں ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:270/1) جیسے قرآن شریف میں اور جگہ ہے «نَزَلَ بِہِ الرٰوْحُ الْاَمِیْنُ» ( 26 ۔ الشعرآء : 193 ) یعنی اسے لے کر روح امین اترے ہیں ۔ صحیح بخاری میں تعلیقاً مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسان شاعر کے لیے مسجد میں منبر رکھوایا وہ مشرکین کی ہجو کا جواب دیتے تھے اور آپ ان کے لیے دعا کرتے تھے کہ اے اللہ عزوجل حسان کی مدد روح القدس سے فرما جیسے کہ یہ تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جواب دیتے ہیں ۔ (سنن ابوداود:5015 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح ) بخاری و مسلم کی ایک اور حدیث میں ہے کہ سیدنا حسان رضی اللہ عنہا خلافت فاروقی کے زمانے میں ایک مرتبہ مسجد نبوی میں کچھ اشعار پڑھ رہے تھے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ عنہ کی طرف تیز نگاہیں اٹھائیں تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں تو اس وقت بھی ان شعروں کو یہاں پڑھتا تھا جب یہاں تم سے بہتر شخص موجود تھے پھر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہا کی طرف دیکھ کر فرمایا سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ تمہیں اللہ کی قسم کیا تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے نہیں سنا ؟ کہ اے حسان تو مشرکوں کے اشعار کا جواب دے اے اللہ تعالیٰ تو حسان رضی اللہ عنہ کی تائید روح القدس سے کر ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہاں اللہ کی قسم میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا ہے ۔ (صحیح بخاری:3212 ) بعض روایتوں میں یہ بھی ہے کہ حضور نے فرمایا حسان رضی اللہ عنہ تم ان مشرکین کی ہجو کرو جبرائیل علیہ السلام بھی تمہارے ساتھ ہیں ۔ (صحیح بخاری:3213) سیدنا حسان رضی اللہ عنہ کے شعر میں بھی جبرائیل کو روح القدس کہا گیا ہے ایک اور حدیث میں ہے کہ جب یہودیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روح کی بابت پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہیں اللہ کی قسم اللہ کی نعمتوں کو یاد کر کے کہو کیا خود تمہیں معلوم نہیں کہ وہ جبرائیل علیہ السلام ہیں اور وہی میرے پاس بھی وحی لاتے ہیں ان سب نے کہا بیشک ( ابن اسحاق ) ابن حبان میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جبرائیل علیہ السلام نے میرے دل میں کہا کہ کوئی شخص اپنی روزی اور زندگی پوری کئے بغیر نہیں مرتا ۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور دنیا کمانے میں دین کا خیال رکھو ۔ (بغوی فی شرح السنۃ:4111:صحیح بالشواھد) بعض نے روح القدس سے مراد اسم اعظم لیا ہے بعض نے کہا ہے فرشتوں کا ایک سردار فرشتہ ہے بعض کہتے ہیں قدس سے مراد اللہ تعالیٰ اور روح سے مراد جبرائیل علیہ السلام ہے کسی نے کہا ہے قدس یعنی برکت کسی نے کہا ہے پاک کسی نے کہا ہے روح سے مراد انجیل ہے جیسے فرمایا «وَکَذٰلِکَ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا» ( 42 ۔ الشوری : 52 ) یعنی اسی طرح ہم نے تیری طرف روح کی وحی اپنے حکم سے کی ۔ امام ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ کا فیصلہ یہی ہے کہ یہاں مراد روح القدس سے جبرائیل ہیں جیسے اور جگہ ہے «إِذْ قالَ اللہُ یا عِیسَی ابْنَ مَرْیَمَ اذْکُرْ نِعْمَتِی عَلَیْکَ وَعَلی والِدَتِکَ إِذْ أَیَّدْتُکَ بِرُوحِ الْقُدُسِ» ( 5-المائدہ-110 ) اس آیت میں روح القدس کی تائید کے ذکر کے ساتھ کتاب و حکمت توراۃ و انجیل کے سکھانے کا بیان ہے معلوم ہوا کہ یہ اور چیز ہے اور وہ اور چیز علاوہ ازیں روانی عبارت بھی اس کی تائید کرتی ہے ۔ قدس سے مراد مقدس ہے جیسے [ ھَاتِمٌ جُوْدٌ اور رَجُلٌ صِدٗقٌ] میں روح القدس کہنے میں اور رُوحٌ مِّنْہُ ۔ (4-النساء:171) کہنے میں قربت اور بزرگی کی ایک خصوصیت پائی جاتی ہے یہ اس لیے بھی کہا گیا ہے کہ یہ روح مردوں کی پیٹھوں اور حیض والے رحموں سے بے تعلق رہی ہے ۔ بعض مفسرین نے اس سے مراد عیسیٰ علیہ السلام کی پاکیزہ روح لی ہے پھر فرمایا کہ ایک فرقے کو تم نے جھٹلایا اور ایک فرقے کو تم قتل کرتے ہو جھٹلانے میں ماضی کا صیغہ لائے لیکن قتل میں مستقبل کا اس لیے کہ ان کا حال آیت کے نزول کے وقت بھی یہی رہا چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض الموت میں فرمایا کہ اس زہر آلود لقمہ کا اثر برابر مجھ پر رہا جو میں نے خیبر میں کھایا تھا اس وقت اس نے رک رک کر جان کاٹ دی ۔ (صحیح بخاری:4428) البقرة
88 غلف کے معنی یہودیوں کا ایک قول یہ بھی تھا کہ ہمارے دلوں پر غلاف ہیں یعنی یہ علم سے بھرپور ہیں اب ہمیں نئے علم کی کوئی ضرورت نہیں ۔ (تفسیر قرطبی:25/2) اس لیے جواب ملا کہ غلاف نہیں بلکہ لعنت الہیہ کی مہر لگ گئی ہے ایمان نصیب ہی نہیں ہوتا خلف کو خلف بھی پڑھا گیا ہے یعنی یہ علم کے برتن ہیں اور جگہ قرآن کریم میں ہے «وَقَالُوا قُلُوبُنَا فِی أَکِنَّۃٍ مِّمَّا تَدْعُونَا إِلَیْہِ وَفِی آذَانِنَا وَقْرٌ وَمِن بَیْنِنَا وَبَیْنِکَ حِجَابٌ فَاعْمَلْ إِنَّنَا عَامِلُونَ» ( 41 ۔ فصلت : 5 ) یعنی جس چیز کی طرف تم ہمیں بلا رہے ہو اس چیز سے ہمارے دل پردے اور آڑ میں اور ہمارے دلوں کے درمیان پردہ ہے آڑ ہے ان پر مہر لگی ہوئی ہے وہ اسے نہیں سمجھتے اسی بنا پر وہ نہ اس کی طرف مائل ہوتے ہیں نہ اسے یاد رکھتے ہیں ۔ایک حدیث میں بھی ہے کہ بعض دل غلاف والے ہوتے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہوتا ہے یہ کفار کے دل ہوتے ہیں۔(مسند احمد:17/3-18:ضعیف) سورۃ نساء میں بھی ایک آیت اسی معنی کی ہے «وَقَوْلِہِمْ قُلُوبُنَا غُلْفٌ» ( 4-النسأ-155 ) تھوڑا ایمان لانے کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ ان میں سے بہت کم لوگ ایماندار ہیں اور دوسرے معنی یہ بھی ہیں کہ ان کا ایمان بہت کم ہے یعنی قیامت ثواب عذاب وغیرہ کا قائل ۔ موسیٰ علیہ السلام پر ایمان رکھنے والے توراۃ کو اللہ تعالیٰ کی کتاب مانتے ہیں مگر اس پیغمبر آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کو مان کر اپنا ایمان پورا نہیں کرتے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کفر کر کے اس تھوڑے ایمان کو بھی غارت اور برباد کر دیتے ہیں تیسرے معنی یہ ہیں کہ یہ سرے سے بے ایمان ہیں کیونکہ عربی زبان میں ایسے موقعہ پر بھی ایسے الفاظ بولے جاتے ہیں مثلاً میں نے اس جیسا بہت ہی کم دیکھا مطلب یہ ہے کہ دیکھا ہی نہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ البقرة
89 انکار کا سبب جب کبھی یہودیوں اور عرب کے مشرکین کے درمیان لڑائی ہوتی تو یہود کہا کرتے تھے کہ عنقریب اللہ تعالیٰ کی سچی کتاب لے کر اللہ عزوجل کے ایک عظیم الشان پیغمبر تشریف لانے والے ہیں ہم ان کے ساتھ مل کر تمہیں ایسا قتل و غارت کریں گے کہ تمہارا نام و نشان مٹ جائے گا ۔ اللہ تعالیٰ سے دعائیں کیا کرتے تھے کہا اے اللہ تو اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جلد بھیج جس کی صفتیں ہم توراۃ میں پڑھتے ہیں تاکہ ہم ان پر ایمان لا کر ان کے ساتھ مل کر اپنا بازو مضبوط کر کے تیرے دشمنوں سے انتقام لیں ۔ مشرکوں سے کہا کرتے تھے کہ اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ اب بالکل قریب آ گیا ہے لیکن جس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تمام نشانیاں آپ میں دیکھ لیں ۔ پہچان بھی لیا ۔ دل سے قائل بھی ہو گئے ۔ مگر چونکہ آپ عرب میں سے تھے ۔ حسد کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے انکار کر دیا اور اللہ تعالیٰ کے لعنت یافتہ ہو گئے بلکہ وہ مشرکین مدینہ جو ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے بارے میں سنتے چلے آتے تھے انہیں تو ایمان نصیب ہوا اور بالاخر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر وہ یہود پر غالب آ گئے ۔ ایک مرتبہ سیدنا معاذ بن جبل بشر بن براء داؤد بن سلمہ رضی اللہ عنہم نے ان یہود مدینہ سے کہا بھی کہ تم تو ہمارے شرک کی حالت میں ہم سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا ذکر کیا کرتے تھے بلکہ ہمیں ڈرایا کرتے تھے اور اب جب کہ وہ عام اوصاف جو تم بیان کرتے تھے وہ تمام اوصاف آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں ہیں ۔ پھر تم خود ایمان کیوں نہیں لاتے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ کیوں نہیں دیتے ؟ تو سلام بن مشکم نے جواب دیا کہ ہم ان کے بارہ میں نہیں کہتے تھے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:333/2) اسی کا ذکر اس آیت میں ہے کہ پہلے تو مانتے تھے منتظر بھی تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کے بعد حسد اور تکبر سے اپنی ریاست کے کھوئے جانے کے ڈر سے صاف انکار کر بیٹھے ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:276/1 ) البقرة
90 برا ہو حسد کا مطلب یہ ہے کہ ان یہودیوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کے بدلے تکذیب کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے بدلے کفر کیا ۔ آپ کی نصرت و امداد کے بدلے مخالفت اور دشمنی کی اس وجہ سے اپنے آپ کو جس غضب الٰہی کا سزاوار بنایا وہ بدترین چیز ہے جو بہترین چیز کے بدلے انہوں نے لی اور اس کی وجہ سے سوائے حسد و بغض تکبر و عناد کے اور کچھ نہیں چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے قبیلہ میں سے نہ تھے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عرب میں سے تھے اس لیے یہ منہ موڑ کر بیٹھ گئے حالانکہ اللہ پر کوئی حاکم نہیں وہ رسالت کے حقدار کو خوب جانتا ہے وہ اپنا فضل و کرم اپنے جس بندے کو چاہے عطا فرماتا ہے پس ایک تو توراۃ کے احکام کی پابندی نہ کرنے کی وجہ سے ان پر غضب نازل ہوا دوسرا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کفر کرنے کے سبب نازل ہوا ۔ یا یوں سمجھ لیجئے کہ پہلا غضب عیسیٰ علیہ السلام کو پیغمبر نہ ماننے کی وجہ سے اور دوسرا غضب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغمبر تسلیم نہ کرنے کے سبب ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:278/1) سدی رحمہ اللہ کا خیال ہے ۔ کہ پہلا غضب بچھڑے کے پوجنے کے سبب تھا دوسرا غضب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی بناء پر ۔ چونکہ یہ حسد و بغض کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے منکر ہوئے تھے اور اس حسد بغض کا اصلی باعث ان کا تکبر تھا اس لیے انہیں ذلیل عذابوں میں مبتلا کر دیا گیا تاکہ گناہ کا بدلہ پورا ہو جائے جیسے فرمان ہے «اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَہَنَّمَ دٰخِرِیْنَ» ( 40 ۔ غافر : 60 ) میری عبادت سے جو بھی تکبر کریں گے وہ ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں متکبر لوگوں کا حشر قیامت کے دن انسانی صورت میں چیونٹیوں کی طرح ہو گا جنہیں تمام چیزیں روندتی ہوئی چلیں گی اور جہنم کے ” بولس “ نامی قید خانے میں ڈال دیئے جائیں گے جہاں کی آگ دوسری تمام آگوں سے تیز ہو گی اور جہنمیوں کا لہو پیپ وغیرہ انہیں پلایا جائے گا ۔ (سنن ترمذی:2492 ، قال الشیخ الألبانی:حسن ) البقرة
91 خود پسند یہودی مورد عتاب یعنی جب ان سے قرآن پر اور نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کو کہا جاتا ہے تو کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں توراۃ انجیل پر ایمان رکھنا کافی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ اس میں بھی جھوٹے ہیں قرآن تو ان کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے اور خود ان کی کتابوں میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق موجود ہے ، جیسے فرمایا «اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰھُمُ الْکِتٰبَ یَعْرِفُوْنَہٗ کَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَاءَھُمْ» ( 2 ۔ البقرہ : 146 ) یعنی اہل کتاب آپ کو اس طرح جانتے ہیں جس طرح اپنی اولاد کو پہچانتے ہیں پس آپ سے انکار کا مطلب توراۃ انجیل سے بھی انکار کے مترادف ہے ۔ اس حجت کو قائم کر کے اب دوسری طرح حجت قائم کی جاتی ہے کہ اچھا توراۃ اور انجیل پر اگر تمہارا ایمان ہے پھر اگلے انبیاء جو انہی کی تصدیق اور تابعداری کرتے ہوئے بغیر کسی نئی شریعت اور نئی کتاب کے آئے تو تم نے انہیں قتل کیوں کیا ؟ معلوم ہوا کہ تمہارا ایمان نہ تو اس کتاب پر ہے نہ اس کتاب پر ۔ تم محض خواہش کے بندے نفس کے غلام اپنی رائے قیاس کے غلام ہو ۔ پھر فرمایا کہ اچھا موسیٰ علیہ السلام سے تو تم نے بڑے بڑے معجزے دیکھے طوفان ، ٹڈیاں ، جوئیں ، مینڈک ، خون وغیرہ جو ان کی بد دعا سے بطور معجزے ظاہر ہوئے لکڑی کا سانپ بن جانا ہاتھ کا روشن چاند بن جانا ، دریا کو چیر دینا اور پانی کو پتھر کی طرح بنا دینا ، بادلوں کا سایہ کرنا ، من و سلویٰ کا اترنا ، پتھر سے نہریں جاری کرنا وغیرہ تمام بڑے بڑے معجزات جو ان کی نبوت کی اور اللہ کی توحید کی روشن دلیلیں تھیں سب اپنی آنکھوں سے دیکھیں لیکن ادھر موسیٰ علیہ السلام طور پہاڑ پر گئے ادھر تم نے بچھڑے کو اللہ بنا لیا اب بتاؤ کہ خود توراۃ پر اور خود موسیٰ علیہ السلام پر بھی تمہارا ایمان کہاں گیا ؟ کیا یہ بدکاریاں تمہیں ظالم کہلوانے والی نہیں ؟ «مِن بَعْدِہِ» سے مراد موسیٰ علیہ السلام کے طُور پر جانے کے بعد ہے ۔ دوسری جگہ ارشاد ہے «وَاتَّخَذَ قَوْمُ مُوسَیٰ مِن بَعْدِہِ مِنْ حُلِیِّہِمْ عِجْلًا جَسَدًا لَّہُ خُوَارٌ» ( 7-الاعراف-148 ) یعنی موسیٰ علیہ السلام کے طور پر جانے کے بعد آپ علیہ السلام کی قوم نے بچھڑے کو معبود بنا لیا اور اپنی جانوں پر اس گوسالہ پرستی سے واضح ظلم کیا جس کا احساس بعد میں خود انہیں بھی ہوا جیسے فرمایا «وَلَمَّا سُقِطَ فِی أَیْدِیہِمْ وَرَأَوْا أَنَّہُمْ قَدْ ضَلٰوا قَالُوا لَئِن لَّمْ یَرْحَمْنَا رَبٰنَا وَیَغْفِرْ لَنَا لَنَکُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِینَ» ( 7-الاعراف-149 ) یعنی جب انہیں ہوش آیا نادم ہوئے اور اپنی گمراہی کو محسوس کرنے لگے اس وقت کہا اے اللہ اگر تم ہم پر رحم نہ کرے اور ہماری خطا نہ بخشے تو ہم زیاں کار ہو جائیں گے ۔ البقرة
92 البقرة
93 صدائے باز گشت اللہ تبارک و تعالیٰ بنی اسرائیل کی خطائیں مخالفتیں سرکشی اور حق سے روگردانی بیان فرما رہا ہے کہ طور پہاڑ جب سروں پر دیکھا تو اقرار کر لیا جب وہ ہٹ گیا تو پھر منکر ہو گئے ۔ اس کی تفسیر بیان ہو چکی ہے بچھڑے کی محبت ان کے دلوں میں رچ گئی ۔ جیسے کہ حدیث میں ہے کہ کسی چیز کی محبت انسان کو اندھا بہرا بنا دیتی ہے ۔ (سنن ابوداود:5130 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) موسیٰ علیہ السلام نے اس بچھڑے کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے جلا کر اس کی راکھ کو ہوا میں اڑا کر دریا میں ڈال دیا تھا جس پانی کو بنی اسرائیل نے پی لیا اور اس کا اثر ان پر ظاہر ہوا گو بچھڑا نیست و نابود کر دیا گیا لیکن ان کے دلوں کا تعلق اب بھی اس معبود باطل سے لگا رہا دوسری آیت کا مطلب یہ ہے کہ تم ایمان کا دعویٰ کس طرح کرتے ہو ؟ اپنے ایمان پر نظر نہیں ڈالتے ؟ باربار کی عہد شکنیاں کئی بار کے کفر بھول گئے ؟ موسیٰ علیہ السلام کے سامنے تم نے کفر کیا ان کے بعد کے پیغمبروں کے ساتھ تم نے سرکشی کی یہاں تک کہ افضل الانبیاء ختم المرسلین محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو بھی نہ مانا جو سب سے بڑا کفر ہے ۔ البقرة
94 مباہلہ اور یہودی مع نصاریٰ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں کہ ان یہودیوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زبانی پیغام دیا گیا کہ اگر تم سچے ہو تو مقابلہ میں آؤ ہم تم مل کر اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ ہم میں سے جو جھوٹا ہے اسے ہلاک کر دے ۔ لیکن ساتھ ہی پیشنگوئی بھی کر دی کہ یہ لوگ ہرگز اس پر آمادہ نہیں ہوں گے چنانچہ یہی ہوا کہ یہ لوگ مقابلہ پر نہ آئے اس لیے کہ وہ دل سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آسمانی کتاب قرآن کریم کو سچا جانتے تھے اگر یہ لوگ اس اعلان کے ماتحت مقابلہ میں نکلتے تو سب کے سب ہلاک ہو جاتے ۔ روئے زمین پر ایک یہودی بھی باقی نہ رہتا ۔ ایک مرفوع حدیث میں بھی آیا ہے کہ اگر یہودی مقابلہ پر آتے اور جھوٹے کے لیے موت طلب کرتے تو سب کے سب مر جاتے اور اپنی جگہ جہنم میں دیکھ لیتے اسی طرح جو نصرانی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تھے وہ بھی اگر مباہلہ کے لیے تیار ہوتے تو وہ لوٹ کر اپنے اہل و عیال اور مال و دولت کا نام و نشان بھی نہ پاتے ۔ (مسند احمد:248/1:صحیح) سورۃ الجمعہ میں بھی اسی طرح کی دعوت انہیں دی گئی ہے آیت «قُلْ یٰٓاَیٰہَا الَّذِیْنَ ہَادُوْٓا اِنْ زَعَمْتُمْ اَنَّکُمْ اَوْلِیَاءُ لِلہِ مِنْ دُوْنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ» ( 62 ۔ الجمعہ : 6 ) آخر تک پڑھئے ان کا دعویٰ تھا کہ آیت «نَحْنُ اَبْنٰؤُا اللّٰہِ وَاَحِبَّاؤُہٗ» ( 5 ۔ المائدہ : 18 ) ہم تو اللہ کی اولاد اور اس کے پیارے ہیں یہ کہا کرتے تھے آیت «لَنْ یَّدْخُلَ الْجَنَّۃَ اِلَّا مَنْ کَانَ ھُوْدًا اَوْ نَصٰرٰی» ( 2 ۔ البقرہ : 111 ) جنت میں صرف یہودی اور نصاریٰ ہی جائیں گے اس لیے انہیں کہا گیا کہ آؤ اس کا فیصلہ اس طرح کر لیں کہ دونوں فریق میدان میں نکل کر اللہ سے دعا کریں کہ اسے جھوٹے کو ہلاک کر لیکن چونکہ اس جماعت کو اپنے جھوٹ کا علم تھا اس لیے تیار نہ ہوئی اور اس کا کذب سب پر کھل گیا اسی طرح جب نجران کے نصرانی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے بحث مباحثہ ہو چکا تو ان سے بھی یہی کہا گیا کہ آیت «تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَاءَنَا وَاَبْنَاءَکُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَکُمْ وَاَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَہِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰہِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَ» ( 3 ۔ آل عمران : 61 ) آؤ ہم تم دونوں اپنی اپنی اولادوں بیویوں کو لے کر نکلیں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ جھوٹوں پر اپنی لعنت نازل فرمائے لیکن وہ آپس میں کہنے لگے کہ ہرگز اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مباہلہ نہ کرو فوراً برباد ہو جاؤ گے چنانچہ مباہلہ سے انکار کر دیا جھک کر صلح کر لی اور دب کر جزیہ دینا منظور کر لیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسیدنا بوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہا کو ان کے ساتھ امین بنا کر بھیج دیا ۔ اسی طرح مشرکین عرب سے بھی کہا گیا آیت «قُلْ مَن کَانَ فِی الضَّلَالَۃِ فَلْیَمْدُدْ لَہُ الرَّحْمٰنُ مَدًّا» ( 19 ۔ مریم : 75 ) یعنی ہم میں سے جو گمراہ ہو اللہ تعالیٰ اس کی گمراہی بڑھا دے اس کی پوری تفسیر اس آیت کے ساتھ بیان ہو گی ان شاءاللہ تعالیٰ مندرجہ بالا آیت کی تفسیر میں ایک مرجوع قول یہ بھی ہے کہ تم خود اپنے جانوں کے لیے موت طلب کرو کیونکہ بقول تمہارے آخرت کی بھلائیاں صرف تمہارے لیے ہی ہیں انہوں نے اس سے انکار کیا لیکن یہ قول کچھ دل کو نہیں لگتا ۔ اس لیے کہ بہت سے اچھے اور نیک آدمی بھی زندگی چاہتے ہیں بلکہ حدیث میں ہے کہ تم میں سے بہتر وہ ہے جس کی لمبی عمر ہوئی ہو اور اعمال اچھے ہوں ۔ (سنن ترمذی:2330 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) علاوہ ازیں یہی قول یہودی بھی کہہ سکتے تھے تو بات فیصلہ کن نہ ہوتی ٹھیک تفسیر وہی ہے جو پہلے بیان ہوئی کہ دونوں فریق مل کر جھوٹ کی ہلاکت اور اس کی موت کی دعا کریں اور اس اعلان کے سنتے ہی یہود تو ٹھنڈے پڑ گئے اور تمام لوگوں پر ان کا جھوٹ کھل گیا اور وہ پیشنگوئی بھی سچی ثابت ہوئی کہ یہ لوگ ہرگز موت طلب نہیں کریں گے اس مباہلہ کا نام اصطلاح میں «تمنی» رکھا گیا کیونکہ ہر فریق باطل پرست کی موت کی آرزو کرتا ہے ۔ پھر فرمایا کہ یہ تو مشرکین سے بھی زیادہ طویل عمر کے خواہاں ہیں کیونکہ کفار کے لیے دنیا جنت ہے اور ان کی تمنا اور کوشش ہے کہ یہاں زیادہ رہیں خواجہ حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں منافق کو حیات دنیوی کی حرص کافر سے بھی زیادہ ہوتی ہے یہ یہودی تو ایک ایک ہزار سال کی عمریں چاہتے ہیں حالانکہ اتنی لمبی عمر بھی انہیں ان عذابوں سے نجات نہیں دے سکتی چونکہ کفار کو تو آخرت پر یقین ہی نہیں ہوتا مگر انہیں یقین تو تھا لیکن ان کی اپنی سیاہ کاریاں بھی ان کے سامنے تھیں اس لیے موت سے بہت زیادہ ڈتے تھے ۔ لیکن ابلیس کے برابر بھی عمر پالی تو کیا ہوا عذاب سے تو نہیں بچ سکتے ۔(تفسیر ابن جریر الطبری:376/2) اللہ تعالیٰ ان کے اعمال سے بیخبر نہیں تمام بندوں کے تمام بھلے برے اعمال کو وہ بخوبی جانتا ہے اور ویسا ہی بدلہ دے گا ۔ البقرة
95 البقرة
96 البقرة
97 خصومت جبرائیل علیہ السلام موجب کفر و عصیان امام جعفر طبری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس پر تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ جب یہودیوں نے جبرائیل علیہ السلام کو اپنا دشمن اور میکائیل علیہ السلام کو اپنا دوست بتایا تھا اس وقت ان کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی۔(تفسیر ابن جریر الطبری:377/2) لیکن بعض کہتے ہیں کہ امر نبوت کے بارے میں جو گفتگو ان کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی تھی اس میں انہوں نے یہ کہا تھا ۔ بعض کہتے ہیں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کا جو مناظرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے بارے میں ہوا تھا اس میں انہوں نے یہ کہا تھا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں یہودیوں کی ایک جماعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے چند سوال کرتے ہیں جن کے صحیح جواب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا اور کوئی نہیں جانتا اگر آپ سچے نبی ہیں تو ان کے جوابات دیجئیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بہتر ہے جو چاہو پوچھو مگر عہد کرو کہ اگر میں ٹھیک ٹھیک جواب دوں گا تو تم میری نبوت کا اقرار کر لو گے اور میری فرمانبرداری کے پابند ہو جاؤ گے انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ کیا اور عہد دیا ۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یعقوب کی طرح اللہ جل شانہ کی شہادت کے ساتھ ان سے پختہ وعدہ لے کر انہیں سوال کرنے کی اجازت دی ، انہوں نے کہا پہلے تو یہ بتائے کہ توراۃ نازل ہونے سے پہلے اسرائیل علیہ السلام نے اپنے نفس پر کس چیز کو حرام کیا تھا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب یعقوب علیہ السلام عرق السناء کی بیماری میں سخت بیمار ہوئے تو نذر مانی کہ اگر اللہ مجھے اس مرض سے شفاء دے تو میں اپنی کھانے کے سب سے زیادہ مرغوب چیز اور سب سے زیادہ محبوب چیز پینے کی چھوڑ دوں گا جب تندرست ہو گئے تو اونٹ کا گوشت کھانا اور اونٹنی کا دودھ پینا جو آپ علیہ السلام کو پسند خاطر تھا چھوڑ دیا ، تمہیں اللہ کی قسم جس نے موسیٰ علیہ السلام پر تورات اتاری بتاؤ یہ سچ ہے ؟ ان سب نے قسم کھا کر کہا کہ ہاں حضور سچ ہے بجا ارشاد ہوا اچھا اب ہم پوچھتے ہیں کہ عورت مرد کے پانی کی کیا کیفیت ہے ؟ اور کیوں کبھی لڑکا پیدا ہوتا ہے اور کبھی لڑکی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سنو مرد کا پانی گاڑھا اور سفید ہوتا ہے اور عورت کا پانی پتلا اور زردی مائل ہوتا ہے جو بھی غالب آ جائے اسی کے مطابق پیدائش ہوتی ہے اور شبیہ بھی ۔ جب مرد کا پانی عورت کے پانی پر غالب آ جائے تو حکم الٰہی سے اولاد نرینہ ہوتی ہے اور جب عورت کا پانی مرد کے پانی پر غالب آ جائے تو حکم الٰہی سے اولاد لڑکی ہوتی ہے تمہیں اللہ تعالیٰ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں سچ بتاؤ میرا جواب صحیح ہے ؟ سب نے قسم کھا کر کہا بیشک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بجا ارشاد فرمایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو باتوں پر اللہ تعالیٰ کو گواہ بنایا ۔ انہوں نے کہا اچھا یہ فرمائیے کہ تورات میں جس نبی امی کی خبر ہے اس کی خاص نشانی کیا ہے ؟ اور اس کے پاس کون سا فرشتہ وحی لے کر آتا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کی خاص نشانی یہ ہے کہ اس کی آنکھیں جب سوئی ہوئی ہوں اس وقت میں اس کا دل جاگتا رہتا ہے تمہیں اس رب کی قسم جس نے موسیٰ علیہ السلام کو توراۃ دی بتاؤ تو میں نے ٹھیک جواب دیا ؟ سب نے قسم کھا کر کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بالکل صحیح جواب دیا ۔ اب ہمارے اس سوال کی دوسری شق کا جواب بھی عنایت فرما دیجئیے اسی پر بحث کا خاتمہ ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرا ولی جبرائیل علیہ السلام ہے وہی میرے پاس وحی لاتا ہے اور وحی تمام انبیاء کرام علیہ السلام کے پاس پیغام باری تعالیٰ لاتا رہا ۔ سچ کہو اور قسم کھا کر کہو کہ میرا یہ جواب بھی درست ہے ؟ انہوں نے قسم کھا کر کہا کہ جواب تو درست ہے لیکن چونکہ جبرائیل علیہ السلام ہمارا دشمن ہے وہ سختی اور خون ریزی وغیرہ لے کر آتا رہتا ہے اس لیے ہم اس کی نہیں مانیں گے نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مانیں ہاں اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس میکائیل صلی اللہ علیہ وسلم وحی لے کر آتے جو رحمت ، بارش ، پیداوار وغیرہ لے کر آتے ہیں اور ہمارے دوست ہیں تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری اور تصدیق کرتے اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔(طیالسی:2331:حسن) بعض روایتوں میں ہے کہ انہوں نے یہ بھی سوال کیا تھا کہ رعد کیا چیز ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ ایک فرشتہ ہے جو بادلوں پر مقرر ہے جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق انہیں ادھر ادھر لے جاتا ہے ۔ انہوں نے کہا یہ گرج کی آواز کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ اسی فرشتے کی آواز ہے ملاحظہ ہو مسند احمد وغیرہ ۔(مسند احمد:274/1:حسن) صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے اس وقت سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہما اپنے باغ میں تھے اور یہودیت پر قائم تھے ۔ انہوں نے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی خبر سنی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور کہا یا رسول اللہ !صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرمائیے کہ قیامت کی پہلی شرط کیا ہے ؟ اور جنتیوں کا پہلا کھانا کیا ہے ؟ اور کون سی چیز بچہ کو کبھی ماں کی طرف کھینچتی ہے اور کبھی باپ کی طرف ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان تینوں سوالوں کے جواب ابھی ابھی جبرائیل صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بتلائے ہیں سنو ، عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے کہا وہ تو ہمارا دشمن ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی پھر فرمایا پہلی نشانی قیامت کی ایک آگ ہے جو لوگوں کے پیچھے لگے گی اور انہیں مشرق سے مغرب کی طرف اکٹھا کر دے گی ۔ جنتیوں کی پہلی خوراک مچھلی کی کلیجی بطور ضیافت ہو گی ۔ جب مرد کا پانی عورت کے پانی پر سبقت کر جاتا ہے تو لڑکا پیدا ہوتا ہے اور جب عورت کا پانی مرد کے پانی سے سبق لے جاتا ہے تو لڑکی ہوتی ہے یہ جواب سنتے ہی عبداللہ رضی اللہ عنہ مسلمان ہو گئے اور پکار اٹھے حدیث «اشھدان لا الہٰ الا اللہ وانک رسولہ اللہ» پھر کہنے لگے حضور یہودی بڑے بیوقوف لوگ ہیں ۔ اگر انہیں میرا اسلام لانا پہلے معلوم ہو جائے گا تو وہ مجھے کہیں گے آپ پہلے انہیں ذرا قائل کر لیجئے ۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب یہودی آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ تم میں کیسے شخص ہیں ؟ انہوں نے کہا بڑے بزرگ اور دانشور آدمی ہیں بزرگوں کی اولاد میں سے ہیں وہ تو ہمارے سردار ہیں اور سرداروں کی اولاد میں سے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا اگر وہ مسلمان ہو جائیں پھر تو تمہیں اسلام قبول کرنے میں کوئی تامل تو نہیں ہو گا ؟ کہنے لگے اعوذ باللہ اعوذ باللہ وہ مسلمان ہی کیوں ہونے لگے ؟ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ جو اب تک چھپے ہوئے تھے باہر آ گئے اور زور سے کلمہ پڑھا ۔ تو تمام کے تمام شور مچانے لگے کہ یہ خود بھی برا ہے اس کے باپ دادا بھی برے تھے یہ بڑا نیچے درجہ کا آدمی ہے خاندانی کمینہ ہے ۔ سیدنا عبداللہ نے فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی چیز کا مجھے ڈر تھا ۔ (صحیح بخاری:3329) صحیح بخاری میں ہے عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں «جبر ، میک ، اسراف ، » کے معنی «عبد» یعنی بندے کے ہیں ۔ (صحیح بخاری:4480) اور «ایل» کے معنی اللہ کے ہیں تو جبرائیل وغیرہ کے معنی عبداللہ ہوئے بعض لوگوں نے اس کے معنی الٹ بھی کئے ہیں وہ کہتے ہیں ایل کے معنی عبد کے ہیں اور اس سے پہلے کے الفاظ اللہ کے نام ہیں ، جیسے عربی میں «عبداللہ ، عبدالرحمٰن ، عبدالملک ، عبدالقدوس ، عبدالسلام ، عبدالکافی ، عبدالجلیل» وغیرہ لفظ «عبد» ہر جگہ باقی رہا اور اللہ کے نام بدلتے رہے اس طرح «ایل» ہر جگہ باقی ہے اور اللہ کے اسماء حسنہ بدلتے رہتے ہیں ۔ غیر عربی زبان میں مضاف الیہ پہلے آتا ہے اور مضاف بعد میں ۔ اسی قاعدے کے مطابق ان ناموں میں بھی ہے جیسے جبرائیل میکائیل اسرافیل عزرائیل علیہم السلام وغیرہ ۔ اب مفسرین کی دوسری جماعت کی دلیل سنیے جو لکھتے ہیں کہ یہ گفتگو جناب عمر رضی اللہ عنہ سے ہوئی تھی شعبی رحمہ اللہ کہتے ہیں سیدنا عمررضی اللہ عنہ روحاء میں آئے ۔ دیکھا کہ لوگ دوڑ بھاگ کر ایک پتھروں کے تودے کے پاس جا کر نماز ادا کر رہے ہیں پوچھا کہ یہ کیا بات ہے جواب ملا کہ اس جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا کی ہے ، آپ بہت ناراض ہوئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جہاں کہیں نماز کا وقت آتا تھا پڑھ لیا کرتے تھے پہلے چلے جایا کرتے تھے اب ان مقامات کو متبرک سمجھ کر خواہ مخواہ وہیں جا کر نماز ادا کرنا کس نے بتایا ؟ پھر آپ اور باتوں میں لگ گئے فرمانے لگے میں یہودیوں کے مجمع میں کبھی کبھی چلا جایا کرتا اور یہ دیکھتا رہتا تھا کہ کس طرح قرآن توراۃ کی اور توراۃ قرآن کو سچائی کی تصدیق کرتا ہے یہودی بھی مجھ سے محبت ظاہر کرنے لگے اور اکثر بات چیت ہوا کرتی تھی ۔ ایک دن میں ان سے باتیں کر ہی رہا تھا تو راستے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نکلے انہوں نے مجھ سے کہا تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہ جا رہے ہیں ۔ میں نے کہا میں ان کے پاس جاتا ہوں لیکن تم یہ تو بتاؤ تمہیں اللہ وحدہ کی قسم اللہ جل شانہ برحق کو مدنظر رکھو اس کی نعمتوں کا خیال کرو ۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب تم میں موجود ہے رب کی قسم کھا کر بتاؤ کیا تم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول نہیں مانتے ؟ اب سب خاموش ہو گئے ان کے بڑے عالم نے جو ان سب میں علم میں بھی کامل تھا اور سب کا سردار بھی تھا اس نے کہا اس شخص نے اتنی سخت قسم دی ہے تم صاف اور سچا جواب کیوں نہیں دیتے ؟ انہوں نے کہا آپ ہی ہمارے بڑے ہیں ذرا آپ ہی جواب دیجئیے ۔ اس بڑے پادری نے کہا سنئے جناب ! آپ نے زبردست قسم دی ہے لہٰذا سچ تو یہی ہے کہ ہم دل سے جانتے ہیں کہ حضور اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں میں نے کہا افسوس جب یہ جانتے ہو تو پھر مانتے کیوں نہیں کہا صرف اس وجہ سے کہ ان کے پاس آسمانی وحی لے کر آنے والے جبرائیل علیہ السلام ہیں جو نہایت سختی ، تنگی ، شدت ، عذاب اور تکلیف کے فرشتے ہیں ہم ان کے اور وہ ہمارے دشمن ہیں اگر وحی لے کر میکائیل علیہ السلام آتے جو رحمت و رافت تخفیف و راحت والے فرشتے ہیں تو ہمیں ماننے میں تامل نہ ہوتا ۔ میں نے کہا اچھا بتاؤ تو ان دونوں کی اللہ کے نزدیک کیا قدر و منزل ہے ؟ انہوں نے کہا ایک تو جناب باری کے داہنے بازو ہے اور دوسرا دوسری طرف میں نے کہا اللہ کی قسم جس کے سوا اور کوئی معبود نہیں جو ان میں سے کسی کا دشمن ہو ۔ اس کا دشمن اللہ بھی ہے اور دوسرا فرشتہ بھی کیونکہ جبرائیل علیہ السلام کے دشمن سے میکائیل علیہ السلام دوستی نہیں رکھ سکتے اور میکائیلعلیہ السلام کا دشمن جبرائیل علیہ السلام کا دوست نہیں ہو سکتا ۔ نہ ان میں سے کسی ایک کا دشمن اللہ تبارک و تعالیٰ کا دوست ہو سکتا ہے نہ ان دونوں میں سے کوئی ایک باری تعالیٰ کی اجازت کے بغیر زمین پر آ سکتا ہے نہ کوئی کام کر سکتا ہے ۔ واللہ مجھے نہ تم سے لالچ ہے نہ خوف ۔ سنو جو شخص اللہ تعالیٰ کا دشمن ہو اس کے فرشتوں اس کے رسولوں اور جبرائیل و میکائیل علیہم السلام کا دشمن ہو تو اس کافر کا اللہ وحدہ لاشریک بھی دشمن ہے اتنا کہہ کر میں چلا آیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھتے ہی فرمایا اے ابن خطاب رضی اللہ عنہ مجھ پر تازہ وحی نازل ہوئی ہے میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سنائیے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی آیت پڑھ کر سنائی ۔ میں نے کہا اے اللہ کے رسول !صلی اللہ علیہ وسلم آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں یہی باتیں ابھی ابھی یہودیوں سے میری ہو رہی تھیں ۔ میں تو چاہتا ہی تھا بلکہ اسی لیے حاضر خدمت ہوا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع کروں مگر میری آنے سے پہلے لطیف و خبیر سننے دیکھنے والے اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر پہنچا دی ملاحظہ ہو ابن ابی حاتم وغیرہ مگر یہ روایت منقطع ہے سند متصل نہیں شعبی رحمہ اللہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ (تفسیر ابن جریر الطبری:390/3:مرسل) کا زمانہ نہیں پایا ۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ جبرائیل علیہ السلام اللہ کے امین فرشتے ہیں اللہ کے حکم سے آپ کے دل میں اللہ کی وحی پہنچانے پر مقرر ہیں ۔ وہ فرشتوں میں سے اللہ کے رسول ہیں کسی ایک رسول سے عداوت رکھنے والا سب رسولوں سے عداوت رکھنے والا ہوتا ہے جیسے ایک رسول پر ایمان سب رسولوں پر ایمان لانے کا نام ہے اور ایک رسول کے ساتھ کفر تمام نبیوں کے ساتھ کفر کرنے کے برابر ہے خود اللہ تعالیٰ نے بعض رسولوں کے نہ ماننے والوں کو کافر فرمایا ہے ۔ فرماتا ہے آیت «اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْفُرُوْنَ بِاللّٰہِ وَرُسُلِہٖ وَیُرِیْدُوْنَ اَنْ یٰفَرِّقُوْا بَیْنَ اللّٰہِ وَرُسُلِہٖ وَیَقُوْلُوْنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّنَکْفُرُ بِبَعْضٍ وَّیُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَّخِذُوْا بَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیْلًا» ( 4 ۔ النسآء : 150 ) یعنی جو لوگ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور اس کے رسولوں کے ساتھ کفر کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان تفریق کرنا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم بعض کو مانتے ہیں اور بعض کو نہیں مانتے دوسری آیت کے آخر تک پس ان آیتوں میں صراحتاً لوگوں کو کافر کہا جو کسی ایک رسول کو بھی نہ مانیں ۔ اسی طرح جبرائیل علیہ السلام کا دشمن اللہ کا دشمن ہے کیونکہ وہ اپنی مرضی سے نہیں آتے قرآن فرماتا ہے «وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلَّا بِأَمْرِ رَبِّکَ» ( 19-المریم-64 ) فرماتا ہے آیت «وَإِنَّہُ لَتَنزِیلُ رَبِّ الْعَالَمِینَ» ( 26 ۔ الشعرآء : 192 ) یعنی ہم اللہ کے حکم کے سوا نہیں اترتے ہیں نازل کیا ہوا رب العالمین کا ہے جسے لے کر روح الامین آتے ہیں اور تیرے دل میں ڈالتے ہیں تاکہ تو لوگوں کو ہوشیار کر دے. صحیح بخاری کی حدیث قدسی میں ہے میرے دوستوں سے دشمنی کرنے والا مجھ سے لڑائی کا اعلان کرنے والا ہے ۔ (صحیح بخاری:6502) قرآن کریم کی یہ بھی ایک صفت ہے کہ وہ اپنے سے پہلے کے تمام ربانی کلام کی تصدیق کرتا ہے اور ایمانداروں کے دلوں کی ہدایت اور ان کے لیے جنت کی خوشخبری دیتا ہے جیسے فرمایا آیت «قُلْ ہُوَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ہُدًی وَّشِفَاءٌ» ( 41 ۔ فصلت : 44 ) فرمایا آیت «وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا ہُوَ شِفَاءٌ وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ وَلَا یَزِیْدُ الظّٰلِمِیْنَ اِلَّا خَسَارًا» ( 17 ۔ الاسرآء : 82 ) یعنی یہ قرآن ایمان والوں کے لیے ہدیات و شفاء ہے ۔ رسولوں میں انسانی رسول اور ملکی رسول سب شامل ہیں جیسے فرمایا آیت «اَللّٰہُ یَصْطَفِیْ مِنَ الْمَلٰیِٕکَۃِ رُسُلًا وَّمِنَ النَّاسِ اِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ بَصِیْرٌ» ( 22 ۔ الحج : 75 ) اللہ تعالیٰ فرشتوں میں سے اور انسانوں میں سے اپنے رسول چھانٹ لیتا ہے جبرائیل علیہ السلام اور میکائیل علیہ السلام بھی فرشتوں میں ہیں لیکن ان کا خصوصاً نام لیا تاکہ مسئلہ بالکل صاف ہو جائے اور یہ بھی جان لیں کہ ان میں سے ایک کا دشمن دوسرے کا دشمن ہے بلکہ اللہ بھی اس کا دشمن ہے میکائیل علیہ السلام بھی کبھی کبھی انبیاء کے پاس آتے رہے ہیں جیسے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شروع شروع میں تھے لیکن اس کام پر مقرر جبرائیل علیہ السلام ہیں جیسے میکائیل علیہ السلام روئیدگی اور بارش وغیرہ پر اور جیسے اسرافیل علیہ السلام صور پھونکنے پر ۔ ایک صحیح حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو جب تہجد کی نماز کے لیے کھڑے ہوتے تب یہ دعا پڑھتے ۔ دعا « اللہُمَّ رَبَّ جِبْرِیلَ , وَمِیکَائِیلَ , وَإِسْرَافِیلَ فَاطِرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ , عَالِمَ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ أَنْتَ تَحْکُمُ بَیْنَ عِبَادِکَ فِیمَا کَانُوا فِیہِ یَخْتَلِفُونَ ، اللہُمَّ اہْدِنِی لِمَا اخْتُلِفَ فِیہِ مِنَ الْحَقِّ , إِنَّکَ تَہْدِی مَنْ تَشَاءُ إِلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ» اے اللہ اے جبرائیل میکائیل اسرافیل علیہم السلام کے رب اے زمین و آسمان کے پیدا کرنے والے اے ظاہر باطن کو جاننے والے اپنے بندوں کے اختلاف کا فیصلہ تو ہی کرتا ہے ، اے اللہ اختلافی امور میں اپنے حکم سے حق کی طرف میری رہبری کر تو جسے چاہے سیدھی راہ دکھا دیتا ہے ۔(صحیح مسلم:770) لفظ جبرائیل علیہ السلام وغیرہ کی تحقیق اور اس کے معانی پہلے بیان ہو چکے ہیں ۔ حضرت عبدالعزیز بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں فرشتوں میں جبرائیل علیہ السلام کا نام خادم اللہ ہے ۔ ابوسلیمان دارانی یہ سن کر بہت ہی خوش ہوئے اور فرمانے لگے یہ ایک روایت میری روایتوں کے ایک دفتر سے مجھے زیادہ محبوب ہے ۔ جبرائیل علیہ السلام اور میکائیل علیہ السلام کے لفظ میں بہت سارے لغت ہیں اور مختلف قرأت ہیں جن کے بیان کی مناسب جگہ کتب لغت ہیں ہم کتاب کے حجم کو بڑھانا نہیں چاہتے کیونکہ کسی معنی کی سمجھ یا کسی حکم کا مفاد ان پر موقف نہیں ۔ اللہ ہماری مدد کرے ۔ ہمارا بھروسہ اور توکل اسی کی پاک ذات پر ہے ۔ آیت کے خاتمہ میں یہ نہیں فرمایا کہ اللہ بھی ان لوگوں کا دشمن ہے بلکہ فرمایا اللہ کافروں کا دشمن ہے ۔ اس میں ایسے لوگوں کا حکم بھی معلوم ہو گیا اسے عربی میں مضمر کی جگہ مظہر کہتے ہیں اور کلام عرب میں اکثر اس کی مثالیں شعروں میں بھی پائی جاتی ہیں گویا یوں کہا جاتا ہے کہ جس نے اللہ کے دوست سے دشمنی کی اس نے اللہ سے دشمنی کی اور جو اللہ کا دشمن اللہ بھی اس کا دشمن اور جس کا دشمن خود اللہ قادر مطلق ہو جائے اس کے کفر و بربادی میں کیا شبہ رہ گیا ؟ صحیح بخاری کی حدیث پہلے گزر چکی کہ اللہ فرماتا ہے میرے دوستوں سے دشمنی رکھنے والے کو میں اعلان جنگ دیتا ہوں ۔(صحیح بخاری:6502) میں اپنے دوستوں کا بدلہ لے لیا کرتا ہوں اور حدیث میں ہی ہے جس کا دشمن میں ہو جاؤں وہ برباد ہو کر ہی رہتا ہے ۔(سنن ابن ماجہ:2442،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) البقرة
98 البقرة
99 سلیمان علیہ السلام جادوگر نہیں تھے یعنی اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے ایسی نشانیاں جو آپ کی نبوت کی صریح دلیل بن سکیں نازل فرما دی ہیں یہودیوں کی مخصوص معلومات کا ذخیرہ ان کی کتاب کی پوشیدہ باتیں ان کی تحریف و تبدیل احکام وغیرہ سب ہم نے اپنی معجزہ نما کتاب قرآن کریم میں بیان فرما دیئے ہیں جنہیں سن کر ہر زندہ ضمیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی تصدیق کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے ہاں یہ اور بات ہے کہ یہودیوں کو ان کا حسد و بغض روک دے ورنہ ہر شخص جان سکتا ہے کہ ایک امی شخص سے ایسا پاکیزہ خوبیوں والا حکمتوں والا کلام کہا نہیں جا سکتا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ابن صوریا قطوبنی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا کہ آپ بطور نبوت کوئی ایسی چیز نہیں لائے جس سے ہم پہچان لیں نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی ایسی خاص روشن دلیلیں ہیں اس پر یہ آیت پاک نازل ہوئی چونکہ یہودیوں نے اس بات سے انکار کر دیا تھا کہ ہم سے پیغمبر آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت کوئی عہد لیا گیا ہے اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ تو ان کی عادت ہی ہے کہ عہد کیا اور توڑا بلکہ ان کے اکثریت تو ایمان سے بالکل خالی ہے ” نَبَذَ “ کا معنی پھینک دینا ہے چونکہ ان لوگوں نے کتاب اللہ کو اور عہد باری تعالیٰ کو اس طرح چھوڑ رکھا تھا گویا پھینک دیا تھا اس لیے ان کی مذمت میں یہی لفظ لایا گیا البقرة
100 البقرة
101 1 دوسری جگہ صاف بیان ہے کہ ان کی کتابوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر موجود تھا فرمایا آیت «یَجِدُوْنَہٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَہُمْ فِی التَّوْرٰیۃِ وَالْاِنْجِیْلِ» ( 7 ۔ الاعراف : 157 ) یعنی یہ لوگ توراۃ وانجیل میں حضور کا ذکر موجود پاتے ہیں یہاں بھی فرمایا ہے کہ جب ان کی کتاب کی تصدیق کرنے والا ہمارے پیغمبر ان کے پاس آیا تو ان کے ایک فریق نے اللہ رب العزت کی کتاب سے بےپرواہی برت کر اس طرح اسے چھوڑ دیا جیسے کوئی علم ہی نہیں ۔ البقرة
102 1 بلکہ جادو کے پیچھے پڑ گئے اور خود حضور پر جادو کیا جس کی اطلاع آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جناب باری تعالیٰ نے دی اور اس کا اثر زائل ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شفاء ملی ۔ توراۃ سے تو حضور کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے اس لیے کہ وہ تو اس کی تصدیق والی تھی تو اسے چھوڑ کر دوسری کتابوں کی پیروی کرنے لگے اور اللہ کی کتاب کو اس طرح چھوڑ دیا کہ گویا کبھی جانتے ہی نہ تھے نفسانی خواہشیں سامنے رکھ لیں اور کتاب اللہ کو پیٹھ پیچھے ڈال دیا یہ بھی کہا گیا ہے کہ راگ باجے کھیل تماشے اور اللہ کے ذکر سے روکنے والی ہر چیز آیت «وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُو الشَّیَاطِینُ عَلَیٰ مُلْکِ سُلَیْمَانَ وَمَا کَفَرَ سُلَیْمَانُ وَلٰکِنَّ الشَّیَاطِینَ» ( 2-البقرہ : 102 ) میں داخل ہے ۔ سیدنا عبداللہ بن عباس سیدنا فرماتے ہیں کہ سلیمان علیہ السلام کے پاس ایک انگوٹھی تھی جب آپ علیہ السلام بیت الخلاء جاتے تو اپنی بیوی جرادہ کو دے جاتے جب سلیمان علیہ السلام کی آزمائش کا وقت آیا اس وقت ایک شیطان جن آپ علیہ السلام کی صورت میں آپ علیہ السلام کی بیوی صاحبہ کے پاس آیا اور انگوٹھی طلب کی جو دے دی گئی اس نے پہن لی اور تخت سلیمانی پر بیٹھ گیا تمام جنات وغیرہ حاضر خدمت ہو گئے حکومت کرنے لگا ادھر جب سلیمان علیہ السلام واپس آئے اور انگوٹھی طلب کی تو جواب ملا تو جھوٹا ہے انگوٹھی تو سلیمان لے گئے آپ علیہ السلام نے سجھ لیا کہ یہ اللہ کی طرف سے آزمائش ہے ان دنوں میں شیاطین نے جادو ، نجوم ، کہانت ، شعر و اشعار اور غیب کی جھوٹی سچی خبروں کی کتابیں لکھ لکھ کر سلیمان علیہ السلام کی کرسی تلے دفن کرنی شروع کر دیں آپ علیہ السلام کی آزمائش کا یہ زمانہ ختم ہو گیا آپ پھر تخت و تاج کے مالک ہوئے عمر طبعی کو پہنچ کر جب رحلت فرمائی تو شیاطین نے انسانوں سے کہنا شروع کیا کہ سلیمان کا خزانہ اور وہ کتابیں جن کے ذریعہ سے وہ ہواؤں اور جنات پر حکمرانی کرتے تھے ان کی کرسی تلے دفن ہیں چونکہ جنات اس کرسی کے پاس نہیں جا سکتے تھے اس لیے انسانوں نے اسے کھودا تو وہ کتابیں برآمد ہوئیں بس ان کا چرچا ہو گیا اور ہر شخص کی زبان پر چڑھ گیا کہ سلیمان علیہ السلام کی حکومت کا راز یہی تھا بلکہ لوگ سلیمان علیہ السلام کی نبوت سے منکر ہو گئے اور آپ علیہ السلام کو جادوگر کہنے لگے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو عقدہ کشائی کی اور فرمان باری تعالیٰ نازل ہوا کہ جادوگری کا یہ کفر تو شیاطین کا پھیلایا ہوا ہے سلیمان علیہ السلام اس سے بری الذمہ ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس ایک شخص آیا آپ رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہاں سے آئے ہو ؟ اس نے کہا عراق سے ! فرمایا عراق کے کس شہر سے ؟ اس نے کہا کوفہ سے ! پوچھا وہاں کی کیا خبریں ہیں ؟ اس نے کہا وہاں باتیں ہو رہی ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ انتقال نہیں کر گئے بلکہ زندہ روپوش ہیں اور عنقرب آئیں گے آپ کانپ اٹھے اور فرمانے لگے اگر ایسا ہوتا تو ہم ان کی میراث تقسیم نہ کرتے اور ان کی عورتیں اپنا دوسرا نکاح نہ کرتیں سنو شیاطین آسمانی باتیں چرا لایا کرتے تھے اور ان میں اپنی باتیں ملا کر لوگوں میں پھیلایا کرتے تھے ، سلیمان علیہ السلام نے یہ تمام کتابیں جمع کر کے اپنی کرسی تلے دفن کر دیں ۔ آپ علیہ السلام کے انتقال کے بعد جنات نے وہ پھر نکال لیں وہی کتابیں عراقیوں میں پھیلی ہوئی ہیں اور ان ہی کتابوں کی باتیں وہ بیان کرتے اور پھیلاتے رہتے ہیں اسی کا ذکر اس آیت «وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُو الشَّیَاطِینُ عَلَیٰ مُلْکِ سُلَیْمَانَ» ( 2-البقرہ : 102 ) میں ہے ۔ اس زمانہ میں یہ بھی مشہور ہو گیا تھا کہ شیاطین علم غیب جانتے ہیں سلیمان علیہ السلام نے ان کتابوں کو صندوق میں بھر کر دفن کر دینے کے بعد یہ حکم جاری کر دیا کہ جو یہ کہے گا اس کی گردن ماری جائے گی بعض روایتوں میں ہے کہ جنات نے ان کتابوں کو سلیمان علیہ السلام کے انتقال کے بعد آپ علیہ السلام کی کرسی تلے دفن کیا تھا اور ان کے شروع صفحہ پر لکھ دیا تھا کہ یہ علمی خزانہ آصف بن برخیا کا جمع کیا ہوا ہے جو سلیمان بن داؤد علیہ السلام کے وزیر اعظم مشیر خاص اور دلی دوست تھے. یہودیوں میں مشہور تھا کہ سلیمان علیہ السلام نبی نہ تھے بلکہ جادوگر تھے اس بنا پر یہ آیتیں نازل ہوئیں اور اللہ کے سچے نبی علیہ السلام نے ایک سچے نبی کی برات کی اور یہودیوں کے اس عقیدے کا ابطال کیا وہ سلیمان علیہ السلام کا نام نبیوں کے زمرے میں سن کر بہت بدکتے تھے اس لیے تفصیل کے ساتھ اس واقعہ کو بیان کر دیا ۔ ایک وجہ یہ بھی ہوئی کہ سلیمان نے تمام موذی جانوروں سے عہد لیا تھا جب انہیں وہ عہد یاد کرایا جاتا تھا تو وہ ستاتے نہ تھے پھر لوگوں نے اپنی طرف سے عبارتیں بنا کر جادو کی قسم کے منتر تنتر بنا کر ان سب کو آپ علیہ السلام کی طرف منسوب کر دیا جس کا بطلان ان آیات کریمہ میں ہے یاد رہے کہ «علی» یہاں پر «فی» کے معنی میں ہے یا «تتلو» متضمن ہے تکذب کا ، یہی اولیٰ اور احسن ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» خواجہ حسن بصری رحمہ اللہ کا قول ہے کہ سلیمان علیہ السلام کے زمانہ میں جادوگروں کا ہونا قرآن سے ثابت ہے اور سلیمان علیہ السلام کا موسیٰ علیہ السلام کے بعد ہونا بھی قرآن سے ظاہر ہے ۔ داؤد علیہ السلام اور جالوت کے قصے میں ہے «أَلَمْ تَرَ إِلَی الْمَلَإِ مِن بَنِی إِسْرَائِیلَ مِن بَعْدِ مُوسَیٰ» ( البقرہ : 246 ) بلکہ ابراہیم علیہ السلام سے بھی پہلے صالح علیہ السلام کو ان کی قوم نے کہا تھا آیت «قَالُوا إِنَّمَا أَنتَ مِنَ الْمُسَحَّرِینَ» ( 26-الشعرأ : 153 ) یعنی تو جادو کئے گئے لوگوں میں سے ہے ۔ پھر فرماتا ہے آیت «وَمَا أُنزِلَ عَلَی الْمَلَکَیْنِ بِبَابِلَ ہَارُوتَ وَمَارُوتَ» ( البقرہ : 102 ) الخ بعض تو کہتے ہیں یہاں پر «ما »نافیہ ہے یعنی انکار کے معنی میں ہے اور اس کا عطف «ماکفر سلیمان» پر ہے یہودیوں کے اس دوسرے اعتقاد کی کہ جادو فرشتوں پر نازل ہوا ہے اس آیت میں تردید ہے ۔ ہاروت ، ماروت لفظ شیاطین کا بدل ہے تثنیہ پر بھی جمع کا اطلاق ہوتا ہے جیسے آیت «فَإِن کَانَ لَہُ إِخْوَۃٌ» ( 4-النساء : 11 ) میں یا اس لیے جمع کیا گیا کہ ان کے ماننے والوں کو بھی شامل کر لیا گیا ہے اور ان کا نام ان کی زیادہ سرکشی کی وجہ سے سرفہرست دیا گیا ہے قرطبی تو کہتے ہیں کہ اس آیت کا یہی ٹھیک مطلب ہے اس کے سوا کسی اور معنی کی طرف التفات بھی نہ کرنا چاہیئے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:419/2) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جادو اللہ عزوجل کا نازل کیا ہوا نہیں ۔ سیدنا ربیع بن انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ان پر کوئی جادو نہیں اترا ۔ (ایضاً) اس بناء پر آیت کا ترجمہ اس طرح پر ہو گا کہ ان یہودیوں نے اس چیز کی تابعداری کی جو سلیمان علیہ السلام کے زمانہ میں شیطان پڑھا کرتے تھے سلیمان علیہ السلام نے کفر نہیں کیا نہ اللہ تعالیٰ نے جادو کو ان دو فرشتوں پر اتارا ہے ( جیسے اے یہودیوں تمہارا خیال جبرائیلعلیہ السلام و میکائیل علیہ السلام کی طرف ہے ) بلکہ یہ کفر شیطانوں کا ہے جو بابل میں لوگوں کو جادو سکھایا کرتے تھے اور ان کے سردار دو آدمی تھے جن کا نام ہاروت و ماروت تھا ۔ عبدالرحمٰن بن ابزی رحمہ اللہ اسے اس طرح پڑھتے تھے آیت «وما انزل علی الملکین داود وسلیمان» یعنی داؤد و سلیمان دونوں بادشاہوں پر بھی جادو نہیں اتارا گیا یا یہ کہ وہ اس سے روکتے تھے کیونکہ یہ کفر ہے ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ نے اس کا زبردست رد کیا ہے وہ فرماتے ہیں «ما» معنی میں «الذی» کے ہے اور ہاروت ماروت دو فرشتے ہیں جنہیں اللہ نے زمین کی طرف اتارا ہے اور اپنے بندوں کی آزمائش اور امتحان کے لیے انہیں جادو کی تعلیم دی ہے لہٰذا ہاروت ماروت اس فرمان باری تعالیٰ کو بجالا رہے ہیں ۔ ایک غریب قول یہ بھی ہے کہ یہ جنوں کے دو قبیلے ہیں مَلِکیٗنِ یعنی دو بادشاہوں کی قرأت پر انزال خلق کے معنی میں ہو گا جیسے فرمایا آیت «وَأَنزَلَ لَکُم مِّنَ الْأَنْعَامِ ثَمَانِیَۃَ أَزْوَاجٍ» ( 39-الزمر : 6 ) اور فرمایا آیت «وَأَنزَلْنَا الْحَدِیدَ فِیہِ بَأْسٌ شَدِیدٌ» ( 57-الحدید : 25 ) اور کہا آیت «وَیُنَزِّلُ لَکُم مِّنَ السَّمَاءِ رِزْقًا» ( 40 ۔ غافر : 13 ) یعنی ہم نے تمہارے لیے آٹھ قسم کے چوپائے پیدا کئے ، لوہا بنایا ، آسمان سے روزیاں اتاریں ۔ حدیث میں ہے دعا «مَا أَنْزَلَ اللَّہُ دَاءً إِلا أَنْزَلَ لَہُ شِفَاءً» یعنی اللہ تعالیٰ نے جتنی بیماریاں پیدا کی ہیں ان سب کے علاج بھی پیدا کئے ہیں مثل مشہور ہے کہ بھلائی برائی کا نازل کرنے والا اللہ ہے یہاں سب جگہ انزال یعنی پیدائش کے معنی میں ہے ایجاد یعنی لانے اور اتارنے کے معنی میں نہیں اسی طرح اس آیت میں بھی اکثر سلف کا مذہب یہ ہے کہ یہ دونوں فرشتے تھے ایک مرفوع حدیث میں بھی یہ مضمون بسط و طول کے ساتھ ہے جو ابھی بیان ہو گی ان شاءاللہ تعالیٰ کوئی یہ اعتراض نہ کرے کہ فرشتے تو معصوم ہیں وہ گناہ کرتے ہی نہیں چہ جائیکہ لوگوں کو جادو سکھائیں جو کفر ہے اس لیے کہ یہ دونوں بھی عام فرشتوں میں سے خاص ہو جائیں گے ۔ جیسے کہ ابلیس کی بابت آپ آیت «وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِکَۃِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِیسَ» ( البقرہ : 34 ) الخ ، کی تفسیر میں پڑھ چکے ہیں ۔ سیدنا علی ابن مسعود ابن عباس ابن عمر کعب احبار رضی اللہ عنہم ، سدی ، کلبی رحمہ اللہ علیہما یہی فرماتے ہیں ۔ اب اس حدیث کو سنیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے زمین پر اتارا اور ان کی اولاد پھیلی اور زمین میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہونے لگی تو فرشتوں نے کہا کہ دیکھو یہ کس قدر برے لوگ ہیں کیسے نافرمان اور سرکش ہیں ہم اگر ان کی جگہ ہوتے تو ہرگز ہرگز اللہ کی نافرمانی نہ کرتے اللہ تعالیٰ نے فرمایا اچھا تم اپنے میں سے دو فرشتوں کو پسند کر لو میں ان میں انسانی خواہشات پیدا کرتا ہوں اور انہیں انسانوں میں بھیجتا ہوں پھر دیکھتا ہوں کہ وہ کیا کرتے ہیں چنانچہ انہوں نے ہاروت و ماروت کو پیش کیا اللہ تعالیٰ نے ان میں انسانی طبیعت پیدا کی اور ان سے کہہ دیا کہ دیکھو بنی آدم کو تو میں نبیوں کے ذریعہ اپنے حکم احکام پہنچاتا ہوں لیکن تم سے بلاواسطہ خود کہہ رہا ہوں کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا زنا نہ کرنا ، شراب نہ پینا ، اب یہ دونوں زمین پر اترے اور زہرہ کو ان کی آزمائش کے لیے حسین و شکیل عورت کی صورت میں ان کے پاس بھیجا جسے دیکھ کر یہ مفتوں ہو گئے اور اس سے زنا کرنا چاہا اس نے کہا اگر تم شرک کرو تو میں منظور کرتی ہوں انہوں نے جواب دیا کہ یہ تو ہم سے نہ ہو سکے گا وہ چلی گئی پھر آئی اور کہنے لگی اچھا اس بچے کو قتل کر ڈالو تو مجھے تمہاری خواہش پوری کرنی منظور ہے انہوں نے اسے بھی نہ مانا وہ پھر آئی اور کہا کہ اچھا یہ شراب پی لو انہوں نے اسے ہلکا گناہ سمجھ کر اسے منظور کر لیا ۔ اب نشہ میں مست ہو کر زناکاری بھی کی اور اس بچے کو بھی قتل کر ڈالا جب ہوش حواس درست ہوئے تو اس عورت نے کہا جن جن کاموں کا تم پہلے انکار کرتے تھے سب تم نے کر ڈالے ۔ یہ نادم ہوئے انہیں اختیار دیا گیا کہ یا تو عذاب دنیا کو اختیار کرو یا عذاب اخروی کو ۔ انہوں نے دنیا کے عذاب پسند کیے ۔ صحیح ابن حبان مسند احمد ابن مردویہ ابن جریر عبدالرزاق میں یہ حدیث مختلف الفاظ سے مروی ہے ۔ (مسند احمد:134/2:باطل) مسند احمد کی یہ روایت غریب ہے اس میں ایک راوی موسیٰ بن جبیر انصاری سلمی کو ابن ابی حاتم نے مستور الحال لکھا ہے ۔ ابن مردویہ کی روایت میں یہی ہے کہ ایک رات کو اثناء سفر میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا نے حضرت نافع رحمہ اللہ سے پوچھا کہ کیا زہرہ تارا نکلا ؟ اس نے کہا نہیں دو تین مرتبہ سوال کے بعد کہا اب زہرہ طلوع ہوا تو فرمانے لگے اس سے نہ خوشی ہو نہ بھلائی ملے ۔ حضعر نافع رحمہ اللہ نے کہا ایک ستارہ جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے طلوع و غروب ہوتا ہے آپ رضی اللہ عنہ اسے برا کہتے ہیں ؟ فرمایا میں وہی کہتا ہوں اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے پھر اس کے بعد مندرجہ بالا حدیث باختلاف الفاظ سنائی ۔ (الموضوعات لابن الجوزی:187/1:باطل) لیکن یہ بھی غریب ہے سیدنا کعب رضی اللہ عنہ والی روایت مرفوع سے زیادہ صحیح موقوف ہے اور ممکن ہے کہ وہ بنی اسرائیلی روایت ہو ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ صحابہ اور تابعین سے بھی اس قسم کی روایتیں بہت کچھ منقول ہیں بعض میں ہے کہ زہرہ ایک عورت تھی اس نے ان فرشتوں سے یہ شرط کی تھی کہ تم مجھے وہ دعا سکھا دو جسے پڑھ کر تم آسمان پر چڑھ جاتے ہو انہوں نے سکھا دی یہ پڑھ کر چڑھ گئی اور وہاں تارے کی شکل میں بنا دی گئی ۔ (مستدرک حاکم:265/2) بعض مرفوع روایتوں میں بھی یہ ہے لیکن وہ منکر اور غیر صحیح ہیں ۔ ایک اور رویات میں ہے کہ اس واقعہ سے پہلے تو فرشتے صرف ایمان والوں کی بخشش کی دعا مانگتے تھے لیکن اس کے بعد تمام اہل زمین کے لیے دعا شروع کر دی بعض روایتوں میں ہے کہ جب ان دونوں فرشتوں سے یہ نافرمانیاں سرزد ہوئیں تب اور فرشتوں نے اقرار کر لیا کہ بنی آدم جو اللہ تعالیٰ سے دور ہیں اور بن دیکھے ایمان لاتے ہیں جن سے خطاؤں کا سرزد ہو جانا کوئی ایسی انوکھی چیز نہیں ان دونوں فرشتوں سے کہا گیا کہ اب یا تو دنیا کا عذاب پسند کر لو یا آخرت کے عذابوں کو اختیار کر لو ۔ انہوں نے دنیا کا عذاب چن لیا چنانچہ انہیں بابل میں عذاب ہو رہا ہے ۔ ایک رویات میں ہے کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے جو احکام دیئے تھے ان میں قتل سے اور مال حرام سے ممانعت بھی کی تھی اور یہ حکم بھی تھا کہ حکم عدل کے ساتھ کریں یہ بھی وارد ہوا ہے کہ یہ تین فرشتے تھے لیکن ایک نے آزمائش سے انکار کر دیا اور واپس چلا گیا پھر دو کی آزمائش ہوئی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یہ واقعہ سلیمان علیہ السلام کے زمانہ کا ہے ۔ یہاں بابل سے مراد بابل دنیاوند ہے اس عورت کا نام عربی میں زہرہ تھا اور نبطی زبان میں اس کا نام بیدخت تھا اور فارسی میں ناہید تھا ۔ یہ عورت اپنے خاوند کے خلاف ایک مقدمہ لائی تھی جب انہوں نے اس سے برائی کا ارادہ کیا تو اس نے کہا پہلے مجھے میرے خاوند کے خلاف حکم دو تو مجھے منظور ہے انہوں نے ایسا ہی کیا پھر اس نے کہا مجھے یہ بھی بتا دو کہ تم کیا پڑھ کر آسمان پر چڑھ جاتے ہو اور کیا پڑھ کر اترتے ہو ؟ انہوں نے یہ بھی بتا دیا چنانچہ وہ اسے پڑھ کر آسمان پر چڑھ گئی اترنے کا وظیفہ بھول گئی اور وہیں ستارے کی صورت میں مسخ کر دی گئی ۔ سیدنا عبداللہ بن عمر جب کبھی زہرہ ستارے کو دیکھتے تو لعنت بھیجا کرتے تھے اب ان فرشتوں نے جب چڑھنا چاہا تو نہ چڑھ سکے سمجھ گئے کہ اب ہم ہلاک ہوئے ۔ حضرت مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں پہلے پہل چند دنوں تک تو فرشتے ثابت قدم رہے صبح سے شام تک فیصلہ عدل کے ساتھ کرتے رہتے شام کو آسمان پر چڑھ جاتے پھر زہرہ کو دیکھ کر اپنے نفس پر قابو نہ رکھ سکے زہرہ ستارے کو ایک خوبصورت عورت کی شکل میں بھیجا الغرض ہاروت ماروت کا یہ قصہ تابعین میں سے بھی اکثر لوگوں نے بیان کیا ہے جیسے مجاہد ، سدی ، حسن بصری ، قتادہ ، ابوالعالیہ ، زہری ، ربیع بن انس ، مقتل بن حیان وغیرہ وغیرہ رحم اللہ اجمعین اور متقدمین اور متاخیرن مفسرین نے بھی اپنی اپنی تفسیروں میں اسے نقل کیا ہے لیکن اس کا زیادہ تر دار و مدار بنی اسرائیل کی کتابوں پر ہے کوئی صحیح مرفوع متصل حدیث اس بات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں اور نہ قرآن کریم میں اس قدر بسط و تفصیل ہے پس ہمارا ایمان ہے کہ جس قدر قرآن میں ہے صحیح اور درست ہے اور حقیقت حال کا علم اللہ تعالیٰ کو ہی ہے ( قرآن کریم کے ظاہری الفاظ مسند احمد ابن حبان بیہقی وغیرہ کی مرفوع حدیث علی ابن عباس بن مسعود وغیرہ کی موقوف روایات تابعین وغیرہ کی تفاسیر وغیرہ ملا کر اس واقعہ کی بہت کچھ تقویت ہو جاتی ہے نہ اس میں کوئی محال عقلی ہے نہ اس میں کسی اصول اسلامی کا خلاف ہے پھر ظاہر سے بیجا ہٹ اور تکلفات اٹھانے کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی ۔ واللہ اعلم ) ( فتح البیان ) ابن جریر میں ایک غریب اثر اور ایک عجیب واقعہ ہے اسے بھی سنیے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ دومتہ الجندل کی ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے تھوڑے ہی زمانہ کے بعد آپ کی تلاش میں آئی اور آپ کے انتقال کی خبر پا کر بے چین ہو کر رونے پیٹنے لگی میں نے اس سے پوچھا کہ آخر کیا بات ہے ؟ تو اس نے کہا کہ مجھ میں اور میرے شوہر میں ہمیشہ ناچاقی رہا کرتی تھی ایک مرتبہ وہ مجھے چھوڑ کر لاپتہ کہیں چلا گیا ، ایک بڑھیا سے میں نے یہ سب ذکر کیا اس نے کہا جو میں کہوں وہ کر وہ خودبخود تیرے پاس آ جائے گا میں تیار ہو گئی وہ رات کے وقت دو کتے لے کر میرے پاس آئی ایک پر وہ خود سوار ہوئی اور دوسرے پر میں بیٹھ گئی ۔ تھوڑی ہی دیر میں ہم دونوں بابل پہنچ گئیں میں نے دیکھا کہ دو شخص ادھر لٹکے ہوئے ہیں اور لوہے میں جکڑے ہوئے ہیں اس عورت نے مجھ سے کہا ان کے پاس جا اور ان سے کہہ کہ میں جادو سیکھنے آئی ہوں ۔ میں نے ان سے کہا انہوں نے کہا سن ہم تو آزمائش میں ہیں تو جادو نہ سیکھ اس کا سیکھنا کفر ہے میں نے کہا میں تو سیکھوں گی انہوں نے کہا اچھا پھر جا اور اس تنور میں پیشاب کر کے چلی آ میں گئی ارادہ کیا لیکن کچھ دہشت سی طاری ہوئی میں واپس آ گئی اور کہا میں فارغ ہو آئی ہوں انہوں نے پوچھا کیا دیکھا ؟ میں نے کہا کچھ نہیں انہوں نے کہا تو غلط کہتی ہے ابھی تو کچھ نہیں بگڑا تیرا ایمان ثابت ہے اب بھی لوٹ جا اور کفر نہ کر میں نے کہا مجھے تو جادو سیکھنا ہے انہوں نے پھر کہا جا اور اس تنور میں پیشاب کر آ میں پھر گئی لیکن اب کی مرتبہ بھی دل نہ مانا واپس آئی پھر اسی طرح سوال جواب ہوئے میں تیسری مرتبہ پھر تنور کے پاس گئی اور دل کڑا کر کے پیشاب کرنے کو بیٹھ گئی میں نے دیکھا کہ ایک گھوڑے سوار منہ پر نقاب ڈالے نکلا اور آسمان پر چڑھ گیا ہے ۔ واپس چلی آئی ان سے ذکر کیا انہوں نے کہا ہاں اب کی مرتبہ تو سچ کہتی ہے وہ تیرا ایمان تھا جو تجھ میں سے نکل گیا اب جا چلی جا میں آئی اور اس بڑھیا سے کہا انہوں نے مجھے کچھ بھی نہیں سکھایا اس نے کہا بس تجھے کچھ آ گیا اب تو جو کہے گی ہو جائے گا میں نے آزمائش کے لیے ایک دانہ گیہوں کا لیا اسے زمین پر ڈال کر کہا اگ جا وہ فوراً اگ آیا میں نے کہا تجھ میں بال پیدا ہو جائے چنانچہ ہو گئے میں نے کہا سوکھ جا وہ بال سوکھ گئے میں نے کہا الگ الگ دانہ ہو جا وہ بھی ہو گیا پھر میں نے کہا سوکھ جا تو سوکھ گیا پھر میں نے کہا آٹا بن جا تو آٹا بن گیا میں نے کہا روٹی پک جا تو روٹی پک گئی یہ دیکھتے ہی میرا دل نادم ہونے لگا اور مجھے اپنے بے ایمان ہو جانے کا صدمہ ہونے لگا ۔ اے ام المؤمنین قسم اللہ کی نہ میں نے اس جادو سے کوئی کام لیا نہ کسی پر کیا میں یونہی روتی پیٹتی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہوں لیکن افسوس بدقستمی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی میں نے نہ پایا اب میں کیا کروں ؟ اتنا کہہ کر چپ ہو گئی سب کو اس پر ترس آنے لگا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی متحیر تھے کہ اسے کیا فتویٰ دیں ؟ آخر بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا اب اس کے سوا کیا ہو سکتا ہے کہ تم اس فعل کو نہ کرو توبہ استغفار کرو اور اپنے ماں باپ کی خدمت گزاری کرتی رہو ۔ یہاں یہ بھی خیال رکھنا چاہیئے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم فتویٰ دینے میں بہت احتیاط کرتے تھے کہ چھوٹی سی بات بتانے میں تامل ہوتا تھا آج ہم بڑی سے بڑی بات بھی اٹکل اور رائے قیاس سے گھڑ گھڑا کر بتانے میں بالکل نہیں رکتے اس کی اسناد بالکل صحیح ہیں بعض لوگ کہتے ہیں کہ «عین» چیز جادو کے زور سے پلٹ جاتی ہے اور بعض کہتے ہیں نہیں صرف دیکھنے والے کو ایسا خیال پڑتا ہے اصل چیز جیسی ہوتی ہے ویسی ہی رہتی ہے جیسے قرآن میں ہے آیت «سَحَرُوا أَعْیُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْہَبُوہُمْ وَجَاءُوا بِسِحْرٍ عَظِیمٍ» ( 7-الأعراف : 116 ) یعنی انہوں نے لوگوں کی آنکھوں پر جادو کر دیا اور فرمایا آیت «یُخَیَّلُ إِلَیْہِ مِن سِحْرِہِمْ أَنَّہَا تَسْعَیٰ» ( 20-طہ : 66 ) موسیٰ علیہ السلام کی طرف خیال ڈالا جاتا تھا کہ گویا وہ سانپ وغیرہ ان کے جادو کے زور سے چل پھر رہے ہیں ۔ اس واقعہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آیت میں لفظ بابل سے مراد بابل عراق ہے بابل دنیاوند نہیں ۔ ابن ابی حاتم کی ایک روایت میں ہے کہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما بابل کی زمین میں جا رہے تھے عصر کی نماز کا وقت آ گیا لیکن آپ رضی اللہ عنہ نے وہاں نماز ادا نہ کی بلکہ اس زمین کی سرحد سے نکل جانے کے بعد نماز پڑھی اور فرمایا میرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے قبرستان میں نماز پڑھنے سے روک دیا ہے اور بابل کی زمین میں نماز پڑھنے سے بھی ممانعت فرمائی ہے یہ زمین ملعون ہے ۔ ابوداؤد میں بھی یہ حدیث مروی ہے ۔ (سنن ابوداود:490 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) اور امام صاحب نے اس پر کوئی کلام نہیں کیا اور جس حدیث کو امام ابوداؤد اپنی کتاب میں لائیں اور اس کی سند پر خاموشی کریں تو وہ حدیث امام صاحب کے نزدیک حسن ہوتی ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ بابل کی سر زمین میں نماز مکروہ ہے جیسے کہ ثمودیوں میں نہ جاؤ اگر اتفاقاً جانا پڑے تو خوف الٰہ سے روتے ہوئے جاؤ ۔ (صحیح بخاری:433) ہئیت دانوں کا قول ہے کہ بابل کی دوری بحر غربی اوقیانوس سے ستر درجہ لمبی اور وسط زمین سے نوب کی جانب بخط استوا سے تئیس درجہ ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ چونکہ ہاروت ماروت کو اللہ تعالیٰ نے خیر و شر کفر و ایمان کا علم دے رکھا ہے اس لیے ہر ایک کفر کی طرف جھکنے والے کو نصیحت کرتے ہیں اور ہر طرح روکتے ہیں جب نہیں مانتا تو وہ اسے کہہ دیتے ہیں اس کا نور ایمان جاتا رہتا ہے ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے شیطان اس کا رفیق کار بن جاتا ہے ایمان کے نکل جانے کے بعد اللہ تعالیٰ کا غضب اس کے روم روم میں گھس جاتا ہے حضرت ابن جریج رحمہ اللہ فرماتے ہیں سوائے کافر کے اور کوئی جادو سیکھنے کی جرات نہیں کرتا ۔ فتنہ کے معنی یہاں پر بلا آزمائش اور امتحان کے ہیں ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:443/2) موسیٰ علیہ السلام کا قول قرآن پاک میں مذکور ہے آیت «إِنْ ہِیَ إِلَّا فِتْنَتُکَ» ( 7-الاعراف : 155 ) اس آیت سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ جادو سیکھنا کفر ہے حدیث میں بھی ہے جو شخص کسی کاہن یا جادوگر کے پاس جائے اور اس کی بات کو سچ سمجھے اس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اتری ہوئی وحی کے ساتھ کفر کیا (مجمع الزوائد:117/5) یہ حدیث صحیح ہے اور اس کی تائید میں اور حدیثیں بھی آئی ہیں ۔ پھر فرمایا کہ لوگ ہاروت ماروت سے جادو سیکھتے ہیں جس کے ذریعہ برے کام کرتے ہیں عورت مرد کی محبت اور موافقت کو بغض اور مخالفت سے بدل دیتے ہیں ۔ صحیح مسلم میں حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں شیطان اپنا عرش پانی پر رکھتا ہے پھر اپنے لشکروں کو بہکانے کے واسطے بھیجتا ہے سب سے زیادہ مرتبہ والا اس کے نزدیک وہ ہے جو فتنے میں سب سے بڑھا ہوا ہو ۔ یہ جب واپس آتے ہیں تو اپنے بدترین کاموں کا ذکر کرتے ہیں کوئی کہتا ہے میں نے فلاں کو اس طرح گمراہ کر دیا ۔ کوئی کہتا ہے میں نے فلاں شخص سے یہ گناہ کرایا ۔ شیطان ان سے کہتا ہے ۔ کچھ نہیں یہ تو معمولی کام ہے یہاں تک کہ ایک آ کر کہتا ہے کہ میں نے فلاں شخص کے اور اس کی بیوی کے درمیان جھگڑا ڈال دیا یہاں تک کہ جدائی ہو گئی شیطان اسے گلے لگا لیتا ہے اور کہتا ہے ہاں تو نے بڑا کام کیا اسے اپنے پاس بٹھا لیتا ہے اور اس کا مرتبہ بڑھا دیتا ہے ۔ (صحیح مسلم:2813) پس جادوگر بھی اپنے جادو سے وہ کام کرتا ہے جس سے میاں بیوی میں جدائی ہو جائے مثلاً اس کی شکل صورت اسے بری معلوم ہونے لگے یا اس کے عادات و اطوار سے جو غیر شرعی نہ ہوں یہ نفرت کرنے لگے یا دل میں عداوت آ جائے وغیرہ وغیرہ رفتہ رفتہ یہ باتیں بڑھتی جائیں اور آپس میں چھوٹ چھٹاؤ ہو جائے “ مرا “ کہتے ہیں اس کا مذکر مونث اور تثنیہ تو ہے جمع نہیں بنتا پھر فرمایا یہ کسی کو بھی بغیر اللہ کی مرضی کے ایذاء نہیں پہنچا سکتے یعنی اس کے اپنے بس کی بات نہیں اللہ تعالیٰ کی قضاء و قدر اور اس کے ارادے کے ماتحت یہ نقصان بھی پہنچتا ہے ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:311/1) اگر اللہ نہ چاہے تو اس کا جادو محض بے اثر اور بے فائدہ ہو جاتا ہے یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ یہ جادو اسی شخص کو نقصان دیتا ہے جو اسے حاصل کرے اور اس میں داخل ہو پھر ارشاد ہوتا ہے وہ ایسا علم سیکھتے ہیں جو ان کے لیے سراسر نقصان دہ ہے جس میں کوئی نفع نہیں اور یہ یہودی جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری چھوڑ کر جادو کے پیچھے لگنے والوں کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:314/1) نہ ان کی قدر و وقعت اللہ تعالیٰ کے پاس ہے نہ وہ دیندار سمجھے جاتے ہیں پھر فرمایا اگر یہ اس کام کی برائی کو محسوس کرتے اور ایمان و تقویٰ برتتے تو یقیناً ان کے لیے بہت ہی بہتر تھا مگر یہ بےعلم لوگ ہیں اور فرمایا کہ اہل علم نے کہا تم پر افسوس ہے اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا ثواب ایمانداروں اور نیک اعمال والوں کے لیے بہت ہی بہتر ہے لیکن اسے صبر کرنے والے ہی پا سکتے ہیں ۔ اس آیت سے یہ بھی استدلال بزرگان دین نے کیا ہے کہ جادوگر کافر ہے کیونکہ آیت میں آیت «وَلَوْ اَنَّھُمْ اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَمَثُوْبَۃٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ خَیْرٌ» ( 2 ۔ البقرہ : 103 ) فرمایا ہے امام احمد اور سلف کی ایک جماعت بھی جادو سیکھنے والے کو کافر کہتی ہے بعض کافر تو نہیں کہتے لیکن فرماتے ہیں کہ جادوگر کی حد یہ ہے کہ اسے قتل کر دیا جائے ۔ بجالہ بن عبید کہتے ہیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک فرمان میں لکھا تھا کہ ہر ایک جادوگر مرد عورت کو قتل کر دو چنانچہ ہم نے تین جادوگروں کی گردن ماری ۔ (صحیح بخاری:3156) صحیح بخاری شریف میں ہے کہ ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا پر ان کی ایک لونڈی نے جادو کیا جس پر اسے قتل کیا گیا ۔ (مؤطا:871/2:کتاب العقول:باب ما جآء فی الغیلۃ و سحر ، 14) امام احمد حنبل رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں تین صحابیوں سے جادوگر کے قتل کا فتویٰ ثابت ہے ۔ (تفسیر قرطبی:48/2) ترمذی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جادوگر کی حد تلوار سے قتل کر دینا ہے ۔ (سنن ترمذی:1460 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) اس حدیث کے ایک راوی اسمعیل بن مسلم ضعیف ہیں صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ غالباً یہ حدیث موقوف ہے لیکن طبرانی میں ایک دوسری سند سے بھی یہ حدیث مرفوع مروی ہے ۔ [ الطبرانی فی الکبیر(1666)] «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ ولید بن عقبہ کے پاس ایک جادوگر تھا جو اپنے کرتب بادشاہ کو دکھایا کرتا تھا بظاہر ایک شخص کا سر کاٹ لیتا پھر آواز دیتا تو سر جڑ جاتا اور وہ موجود ہو جاتا مہاجرین صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے ایک بزرگ صحابی نے یہ دیکھا اور دوسرے دن تلوار باندھے ہوئے آئے جب ساحر نے اپنا کھیل شروع کیا آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی تلوار سے خود اس کی گردن اڑا دی اور فرمایا لے اب اگر سچا ہے تو خود جی اٹھ پھر قرآن پاک کی یہ آیت پڑھ کر لوگوں کو سنائی آیت «اَفَتَاْتُوْنَ السِّحْرَ وَاَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ» ( 21 ۔ الانبیآء : 3 ) کیا تم دیکھتے بھالتے جادو کے پاس جاتے ہو ؟ چونکہ اس بزرگ صحابی رضی اللہ عنہ نے ولید کی اجازت اس کے قتل میں نہیں لی تھی اسلئے بادشاہ نے ناراض ہو کر انہیں قید کر دیا پھر چھوڑ دیا ۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کے فرمان اور سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے واقعہ کے متعلق یہ کہا ہے کہ یہ حکم اس وقت ہے جب جادو شرکیہ الفاظ سے ہو ۔ معتزلہ جادو کے وجود کے منکرین وہ کہتے ہیں جادو کوئی چیز نہیں بلکہ بعض لوگ تو بعض دفعہ اتنا بڑھ جاتے ہیں کہ کہتے ہیں جو جادو کا وجود مانتا ہو وہ کافر ہے لیکن اہل سنت جادو کے وجود کے قائل ہیں یہ مانتے ہیں کہ جادوگر اپنے جادو کے زور سے ہوا پر اڑ سکتے ہیں اور انسان بظاہر گدھا اور گدھے کو بظاہر انسان بنا ڈالتے ہیں مگر کلمات اور منتر تنتر کے وقت ان چیزوں کو پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے آسمان کو اور تاروں کو تاثیر پیدا کرنے والا اہل سنت نہیں مانتے ، فلسفے اور نجوم والے اور بےدین لوگ تو تاروں کو اور آسمان کو ہی اثر پیدا کرنے والا جانتے ہیں اہل سنت کی ایک دلیل تو آیت «وما ہم بضارین» ہے اور دوسری دلیل خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا جانا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اس کا اثر ہونا ہے تیسرے اس عورت کا واقعہ جسے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان فرمایا ہے جو اوپر ابھی ابھی گزرا ہے ۔ اور بھی بیسیوں ایسے ہی واقعات وغیرہ ہیں ۔ رازی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ جادو کا حاصل کرنا برا نہیں محققین کا یہی قول ہے اس لیے کہ وہ بھی ایک علم ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آیت «قُلْ ہَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ» ( 39 ۔ الزمر : 9 ) یعنی علم والے اور بےعلم برابر نہیں ہوتے اور اس لیے کہ یہ علم ہو گا تو اس سے معجزے اور جادو میں فرق پوری طرح واضح ہو جائے گا اور معجزے کا علم واجب ہے اور وہ موقوف ہے جادو کے سیکھنے پر جس سے فرق معلوم ہو پس جادو کا سیکھنا بھی واجب ہوا رازی رحمہ اللہ کا یہ قول سرتا پا غلط ہے اگر عقلاً وہ اسے برا نہ بتائیں تو معتزلہ موجود ہیں جو عقلاً بھی اس کی برائی کے قائل ہیں اور اگر شرعاً برا نہ بتاتے ہوں تو قرآن کی یہ آیت شرعی برائی بتانے کے لیے کافی ہے صحیح حدیث میں ہے جو کسی شخص کسی جادوگر یا کاہن کے پاس جائے وہ کافر ہو جائے گا ۔ (صحیح مسلم:2230) جادو کے جواز اور عدم جواز کی بحث سنن میں حدیث ہے کہ جس نے گرہ لگائی اور اس میں پھونکا ، اس نے جادو کیا ۔ (سنن نسائی:4084 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) لہٰذا رازی رحمہ اللہ کا یہ کہنا کہ محققین کا قول یہی ہے یہ بھی ٹھیک نہیں آخر ان محققین کے ایسے اقوال کہاں ہیں ؟ ائمہ اسلام میں سے کس نے ایسا کہا ہے ؟ پھر آیت ( ھل یستوی الذین ) آیت کو پیش کرنا بھی نری جرات ہے کیونکہ آیت میں علم سے مراد دینی علم ہے اسی آیت میں شرعی علم والے علماء کی فضیلت بیان ہوئی ہے ، پھر ان کا یہ کہنا کہ اسی علم سے کہ اسی سے معجزے کا علم تقابلی حاصل ہوتا ہے یہ تو بالکل واہی محض غلط اور فاسد ہے اس لیے کہ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا معجزہ قرآن پاک ہے جو باطل سے سراسر محفوظ ہے لیکن اس کا معجزہ ماننے کے لیے جادو جاننا ضروری نہیں ہے وہ لوگ جنہیں جادو سے دور کا بھی تعلق نہیں وہ بھی اسے معجزہ مان گئے صحابہ تابعین ائمہ مسلمین بلکہ عام مسلمان بھی اسے معجزہ مانتے ہیں حالانکہ ان تمام میں سے کوئی ایک بھی جادو جانتا تو کیا جادو کے پاس تک نہیں پھٹکا جادو سیکھا نہ سیکھایا ۔ نہ کیا نہ کرایا ۔ بلکہ ان سب کاموں کو کفر کہتے رہے پھر یہ دعویٰ کرنا کہ جادو کا جاننا واجب ہے اس لیے کہ جادو کے علم سے معجزہ کا فرق معلوم ہو سکتا ہے اس لیے اس کا سیکھنا واجب ۔ کس قدر مہمل دعویٰ ہے ۔ جادو کی اقسام اب جادو کی قسمیں سنیے جنہیں ابوعبداللہ رازی رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے ( ا ) ایک جادو تو ستارہ پرست فرقہ کا ہے وہ سات ستاروں کی نسبت عقیدہ رکھتے ہیں کہ بھلائی برائی انہی کے باعث ہوتی ہے اس لیے ان کی طرف خطاب کے مقرر الفاظ پڑھا کرتے ہیں اور انہیں کی پرستش کرتے ہیں اسی قوم میں ابراہیم علیہ السلام آئے اور انہیں ہدایت کی ۔ رازی رحمہ اللہ نے اس فن میں ایک خاص کتاب تصنیف کی ہے جس کا نام السر المکتوم فی مخاطبہ الشمس والنجوم رکھا ہے ملاحظہ ہو ابن خلکان وغیرہ بعض کہتے ہیں کہ انہوں نے بعد میں اس سے توبہ کر لی ہے اور بعض کہتے ہیں کہ صرف لوگوں کو اس علم سے آشنا کرنے اور خود کو اس کا عالم ثابت کرنے کیلئے یہ کتاب لکھی تھی ورنہ ان کا اپنا اعتقاد یہ تھا جو سراسر کفر ہے اس کتاب میں ان لوگوں کے طور طریقے لکھے ہیں ۔ ( 2 ) دوسرا جادو قوی نفس اور قوت واہمہ کے طاقتور لوگوں کا فن ہے وہم اور خیال کا زندگی میں بڑا اثر ہوتا ہے دیکھئیے اگر ایک تنگ پل زمین پر رکھ دیا جائے تو اس انسان پر سے بہ آسانی گزر جائے گا لیکن یہی تنگ پل اگر کسی دریا پر ہو تو نہیں گزر سکے گا اس لیے کہ اس وقت خیال ہو گا کہ اب گرا اب گرا تو واہمہ کی کمزوری کے باعث جتنی جگہ پر زمین میں چل پھر سکتا تھا اتنی جگہ پر ایسے ڈر کے وقت نہیں چل سکتا حکیموں اور طبیبوں نے بھی مرعوف ( جس کو نکسیر بہنے کی بیماری ہو ) شخص کو سرخ چہروں کو دیکھنے سے روک دیا ہے اور مرگی والوں کو زیادہ روشنی والی اور تیز حرکت کرنے والی چیزوں کے دیکھنے سے منع کیا ہے جس سے ظاہر ہے کہ قوت واہمہ کا ایک خاص اثر طبیعت پر پڑتا ہے عقلمند لوگوں کا اس پر بھی اتفاق ہے کہ نظر لگتی ہے ۔ صحیح حدیث میں بھی آیا ہے کہ نظر کا لگنا حق ہے اگر کوئی چیز تقدیر ہے سبقت کرنے والی ہوتی تو نظر ہوتی ۔ (صحیح مسلم:2188) اب اگر نفس قوی ہے تو ظاہری سہاروں اور ظاہری کاموں کی کوئی ضرورت نہیں اور اگر اتنا قوی نہیں تو پھر اسے آلات کی بھی ضرورت پڑتی ہے جس قدر نفس کی قوت بڑھتی جائے گی وہ روحانیات میں ترقی کرتا جائے گا اور تاثیر میں بڑھتا جائے گا اور جس قدر یہ قوت کم ہوتی جائے گی اسی قدر گھٹتا جائے گا یہ کیفیت کبھی غذا کی کمی سے اور لوگوں کے میل جول سے ترک کرنے سے بھی حاصل ہو جاتی ہے کبھی تو قوت کو حاصل کر کے انسان نیکی کے کام یعنی شریعت کے مطابق اس سے کام لیتا ہے اس حال کو شریعت کی اصطلاح میں کرامت کہتے ہیں جادو نہیں کہتے اور کبھی اس حال سے باطل میں اور خلاف شرع کاموں میں مدد لیتا ہے اور دین سے دور پڑ جاتا ہے ایسے لوگوں کے ایسے قابل حیرت کاموں سے کسی کو دھوکا کھا کر انہیں ولی نہ سمجھ لینا چاہیئے کیونکہ شریعت کے خلاف چلنے والا ولی اللہ نہیں ہو سکتا آپ دیکھتے نہیں کہ صحیح احادیث میں دجال کی بابت کیا کچھ آیا ہے ؟ وہ کیسے کیسے خلاف عادت کام کر کے دکھائے گا لیکن ان کی وجہ سے وہ اللہ کا ولی نہیں بلکہ ملعون و مردود ہے ۔ ( 3 ) تیسری قسم کا جادو جنات کے ذریعہ زمین والوں کی روحوں سے امداد و اعانت طلب کرنے کا ہے معتزلہ اور فلاسفہ اس کے قائل نہیں ان روحوں سے بعض مخصوص الفاظ اور اعمال سے تعلق پیدا کرتے ہیں اسے سحر یا بالعزائم اور عمل تسخیر بھی کہتے ہیں ۔ ( 4 ) چوتھی قسم خیالات کا بدل دینا آنکھوں پر اندھیرا ڈال دینا اور شعبدہ بازی کرنا ہے جس سے حقیقت کے خلاف دکھائی دینے لگتا ہے تم نے دیکھا ہو گا کہ شعبدہ باز پہلے ایک کام شروع کرتا ہے جب لوگ دلچسپی کے ساتھ اس طرف نظریں جما دیتے ہیں اور ان کی باتوں کی طرف متوجہ ہو کر ہمہ تن اس میں مصروف ہو جاتے ہیں وہ پھرتی سے ایک دوسرا کام کر ڈالتا ہے جو لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ رہتا ہے اور اسے دیکھ کر وہ حیران رہ جاتے ہیں ، بعض مفسرین کا قول ہے کہ فرعون کے جادوگروں کا جادو بھی اسی قسم کا تھا اسی لیے قرآن میں ہے آیت «سَحَرُوْٓا اَعْیُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْہَبُوْہُمْ وَجَاءُوْ بِسِحْرٍ عَظِیْمٍ» ( 7 ۔ الاعراف : 116 ) لوگوں کی آنکھوں پر جادو کر دیا اور ان کے دلوں میں ڈر بٹھا دیا اور جگہ ہے یخیل الیہ موسیٰ علیہ السلام کے خیال میں وہ سب لکڑیاں اور رسیاں سانپ بن کر دوڑتی ہوئی نظر آنے لگیں حالانکہ درحقیقت ایسا نہ تھا ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ( 5 ) پانچویں قسم بعض چیزوں کی ترکیب دے کر کوئی عجیب کام اس سے لینا مثلاً گھوڑے کی شکل بنا دیا اس پر ایک سوار بنا کر بٹھا دیا اس کے ہاتھ میں ناقوس ہے جہاں ایک ساعت گزری اور اس ناقوس میں سے آواز نکلی حالانکہ کوئی اسے نہیں چھیڑتا ، اسی طرح انسانی صورت اس کاریگری سے بنائی کہ گویا اصلی انسان ہنس رہا ہے یا رو رہا ہے ، فرعون کے جادوگروں کا جادو بھی اسی قسم میں سے تھا کہ وہ بنائے ہوئے سانپ وغیرہ زئبق کے باعث زندہ حرکت کرنے والے دکھائی دیتے تھے گھڑی اور گھنٹے اور چھوٹی چھوٹی چیزیں جن سے بڑی بڑی وزنی چیزیں کھینچ آتی ہیں سب اسی قسم میں داخل ہیں حقیقت میں اسے جادو ہی نہ کہنا چاہیئے کیونکہ یہ تو ایک ترکیب اور کاریگری ہے جس کے اسباب بالکل ظاہر ہیں جو انہیں جانتا ہو وہ ان اسباب و فنون سے یہ کام لے سکتا ہے اسی طرح کا وہ حیلہ بھی ہے کہ جو بیت المقدس کے نصرانی کرتے تھے کہ پر اسرار طریقہ سے گرجے کی قندیلیں جلا دیں اور اسے گرجے کی کرامت مشہور کر دی یا اور لوگوں کو اپنے دین کی طرف جھکا لیا بعض کرامیہ صوفیوں کا بھی خیال ہے کہ اگر ترغیب و ترہیب کی حدیثیں گھڑ لی جائیں اور لوگوں کو عبادت کی طرف مائل کیا جائے تو کوئی حرج نہیں ، لیکن یہ بڑی غلطی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ” فرماتے ہیں جو شخص مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولے وہ اپنی جگہ جہنم میں مقرر کر لے۔(صحیح بخاری:110) اور فرمایا میری حدیثیں بیان کرتے رہو لیکن مجھ پر جھوٹ نہ باندھو مجھ پر جھوٹ بولنے والا قطعاً جہنمی ہے “ ۔(صحیح بخاری:106) ایک نصرانی پادری نے ایک مرتبہ دیکھا کہ ایک پرند کا چھوٹا سا بچہ جسے اڑنے اور چلنے پھرنے کی طاقت نہیں ایک گھونسلے میں بیٹھا ہے جب وہ اپنی ضعیف اور پست آواز نکالتا ہے تو اور پرندے اسے سن کر رحم کھا کر زیتون کا پھل اس گھونسلے میں لا لا کر رکھ جاتے ہیں اس نے اسی صورت کا ایک پرندہ کسی چیز کا بنایا اور نیچے سے اسے کھوکھلا رکھا اور ایک سوراخ اس کی چونچ کی طرف رکھا جس سے ہوا اس کے اندر گھستی تھی پھر جب نکلتی تھی تو اسی طرح کی آواز اس سے پیدا ہوتی تھی اسے لا کر اپنے گرجے میں ہوا کے رخ رکھ دیا چھت میں ایک چھوٹا سوراخ کر دیا تاکہ ہوا اس سے جائے اب جب ہوا چلتی اور اس کی آواز نکلتی تو اس قسم کے پرندے جمع ہو جاتے اور زیتون کے پھل لا لا کر رکھ جاتے اس نے لوگوں میں شہرت دینی شروع کی کہ اس گرجے میں یہ کرامت ہے یہاں ایک بزرگ کا مزار ہے اور یہ کرامت انہی کی ہے لوگوں نے بھی جب اپنی آنکھوں یہ ان ہونی عجیب بات دیکھی تو معتقد ہو گئے اور اس قبر پر نذر نیاز چڑھانے لگے اب کرامت دور دور تک مشہور ہو گئی حالانکہ کہ کوئی کرامت نہ تھی نہ معجزہ تھا صرف ایک پوشیدہ فن تھا جسے اس ملعون شخص نے پیٹ بھرنے کے لیے پوشیدہ طور پر رکھا تھا اور ایک لعنتی فرقہ اس پر ریجھا ہوا تھا ۔ ( 6 ) چھٹی قسم جادو کی بعض دواؤں میں عجیب عجیب خاصیتیں ہیں مقناطیس ہی کو دیکھو کہ لوہا کس طرح اس کی طرف کھچ جاتا ہے اکثر صوفی اور فقیر اور درویش انہی حیلہ سازیوں کو کرامت کر کے لوگوں کو دکھاتے ہیں اور انہیں مرید بناتے پھرتے ہیں ۔ ( 7 ) ساتویں قسم دل پر ایک خاص قسم کا اثر ڈال کر اس سے جو چاہنا منوا لینا ہے مثلاً اس سے کہدیا کہ مجھے اسم اعظم یاد ہے یا جنات میری قبضہ میں ہیں اب اگر سامنے والا کمزور دل کچے کانوں اور بودے عقیدے والا ہے تو وہ اسے سچ سمجھ لے گا اور اس کی طرف سے ایک قسم کا خوف ڈر ہیبت اور رعب اس کے دل پر بیٹھ جائے گا جو اس کو ضعیف بنا دے گا اب اس وقت جو چاہے کرے گا اور اس کا کمزور دل اسے عجیب عجیب باتیں دکھاتا بیٹھ جائے گا جو اس کو ضعیف بنا دے گا اب اس وقت جو چاہے کرے گا اور اس کا کمزور دل اسے عجیب عجیب باتیں دکھاتا جائے گا اسی کو تمبلہ ( عام زبان میں اسے معمول ) کہتے ہیں اور یہ اکثر کم عقل لوگوں پر ہو جایا کرتا ہے اور علم فراست سے کامل عقل والا اور کم عقل والا انسان معلوم ہو سکتا ہے اور اس حرکت کا کرنے والا اپنا یہ فعل اپنی قوت قیافہ کے ذریعہ سے کم عقل شخص کو پہچان کر کے ہی کرتا ہے ۔ ( 8 ) آٹھویں قسم چغلی کرنا جھوٹ سچ ملا کر کسی کے دل میں اپنا گھر کر لینا اور خفیہ چالوں سے اسے اپنا گرویدہ کر لینا یہ چغل خوری اگر لوگوں کو بھڑکانے بدکانے اور ان کے درمیان عداوت و دشمنی ڈالنے کے لیے ہو تو شرعاً حرام ہے جب اصلاح کے طور پر اور آپس میں ایک دوسرے مسلمان کو ملانے کے لیے کوئی ایسی بات ظاہر کہہ دی جائے جس سے ایک فریق دوسرے فریق سے خوش ہو جائے یا کوئی آنے والی مصیبت مسلمانوں پر سے ٹل جائے یا کفار کی قوت زائل ہو جائے ان میں بد دلی پھیل جائے اور مخالف و پھوٹ پڑے تو یہ جائز ہے جیسے حدیث میں ہے کہ وہ شخص جھوٹا نہیں جو بھلائی کے لیے ادھر کی ادھر لے جاتا ہے ۔ (صحیح بخاری:2692) اور جیسے حدیث میں ہے کہ لڑائی مکر کا نام ہے ۔ (صحیح بخاری:3030) اور جیسے سیدنا نعیم بن مسعود رضی اللہ عنہما نے جنگ احزاب کے موقعہ پر کفار عرب اور کفار یہود کے درمیان کچھ ادھر ادھر کی اوپری باتیں کہہ کر جدائی ڈلوا دی تھی اور انہیں مسلمانوں کے مقابلہ میں شکست ہوئی یہ کام بڑے عالی دماغ زیرک اور معاملہ فہم شخص کا ہے ۔ یہ یاد رہے کہ امام رازی رحمہ اللہ نے جادو کی جو یہ آٹھ قسمیں بیان کی ہیں یہ صرف با اعتبار لفظ کے ہیں کیونکہ عربی زبان میں سحر یعنی جادو ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو بہت لطیف اور باریک ہو اور ظاہربین انسان کی نگاہوں سے اس کے اسباب پوشیدہ رہ جائیں اسی واسطے ایک حدیث میں ہے کہ بعض بیان بھی جادو ہوتا ہے ۔ (صحیح بخاری:5146) اور اسی لیے صبح کے اول وقت کو سحور کہتے ہیں کہ و مخفی ہوتا ہے اور اس رگ کو بھی سحر کہتے ہیں جو غذا کی جگہ ہے ۔ ابوجہل نے بدر والے دن یہی کہا تھا کہ اس کی سحر یعنی رگ طعام مارے خوف کے پھول گئی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میرے سحر و نحر کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے ۔ (صحیح بخاری:3100) تو نحرے سے مراد سینہ اور سحر سے مراد رنگ غذا ۔ قرآن میں بھی ہے آیت «سَحَرُوْٓا اَعْیُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْہَبُوْہُمْ وَجَاءُوْ بِسِحْرٍ عَظِیْمٍ» ( 7 ۔ الاعراف : 116 ) یعنی لوگوں کی نگاہوں سے اپنا جادو کے وقت جو چاہتا ہے کہ دیتا ہے کہ معتزلہ اور ابواسحاق اسفراینی شافعی اس کے قائل نہیں اور جادو کبھی ہاتھ کی چالاکی سے بھی ہوتا ہے اور کبھی ڈوروں دھاگوں سے بھی کبھی اللہ کا نام پڑھ کر دم کرنے سے بھی اس میں ایک خاص اثر ہوتا ہے ۔ جادو اور شعر کبھی شیاطین کا نام لے کر شیطانی کام سے بھی لوگ کرتے ہیں کبھی دواؤں وغیرہ کے ذریعہ سے بھی جادو کیا جاتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے مطابق کہ بعض بیان جادو ہیں دو مطلب ہو سکتے ہیں ایک تو یہ کہ بطور تعریف کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ بطور مذمت کے یہ ارشاد ہوا ہو کہ وہ اپنی غلط بات اس طرح بیان کرتا ہے کہ سچ معلوم ہوتی ہے جیسے ایک اور حدیث میں ہے کہ کبھی میرے پاس تم مقدمہ لے کر آتے ہو تو ایک اپنی چرب زبانی سے اپنے غلط دعویٰ کو صحیح ثابت کر دیتا ہے ۔ (صحیح بخاری:2458) وزیر ابو المظفر یحییٰ بن محمد بن ہبیر رحمتہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب ” الاشراف علی مذاہب الاشراف “ میں سحر کے باب میں کہا ہے کہ اجماع ہے کہ جادو ایک حقیقت ہے لیکن ابوحنیفہ رحمہ اللہ اس کے قائل نہیں جادو کے سیکھنے والے اور اسے استعمال میں لانے والے کو امام ابوحنیفہ امام مالک اور امام احمد رحمہم اللہ تو کافر بتاتے ہیں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے بعض شاگردوں کا قول ہے کہ اگر جادو کو بچاؤ کے لیے سیکھے تو کافر نہیں ہوتا ہاں جو اس کا اعتقاد رکھے اور نفع دینے والا سمجھے ۔ وہ کافر ہے ۔ اور اسی طرح جو یہ خیال کرتا ہے کہ شیاطین یہ کام کرتے ہیں اور اتنی قدرت رکھتے ہیں وہ بھی کافر ہے ۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں جادوگر سے دریافت کیا جائے اگر وہ بابل والوں کا سا عقیدہ رکھتا ہو اور سات سیارہ ستاروں کو تاثیر پیدا کرنے والا جانتا ہو تو کافر ہے اور اگر یہ نہ ہو تو بھی اگر جادو کو جائز جانتا ہو تو بھی کافر ہے امام مالک اور امام احمد رحمہ اللہ علیہما کا قول یہ بھی ہے کہ جادوگر نے جب جادو کیا اور جادو کو استعمال میں لایا وہیں اسے قتل کر دیا جائے امام شافعی اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہما فرماتے ہیں کہ اس کا قتل بوجہ حد کے ہے مگر امام شافعی رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ بوجہ قصاص کے ہے ۔ امام مالک امام ابوحنفیہ رحمہ اللہ علیہما اور ایک مشہور قول میں امام احمد رحمہ اللہ کا فرمان ہے کہ جادوگر سے توبہ بھی نہ کرائی جائے اس کی توبہ سے اس پر سے حد نہیں ہٹے گی اور امام شافعی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ اس کی توبہ مقبول ہو گی ۔ امام احمد رحمہ اللہ کا ہی صحیح قول ہے ۔ ایک روایت میں یہ ہے کہ اہل کتاب کا جادوگر بھی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک قتل کر دیا جائے گا لیکن تینوں اور اماموں کا مذہب اس کے برخلاف ہے لبید بن اعصم یہودی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے قتل کرنے کو نہیں فرمایا۔(صحیح بخاری:5763) اگر کوئی مسلمان عورت جادوگرنی ہو تو اس کے بارے میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہ قید کر دی جائے اور تینوں کہتے ہیں اسے بھی مرد کی طرح قتل کر دیا جائے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» حضرت زہری رحمہ اللہ کا قول ہے کہ مسلمان جادوگر قتل کر دیا جائے اور مشرک قتل نہ کیا جائے ۔ امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں اگر ذمی کے جادو سے کوئی مر جائے تو ذمی کو بھی مار ڈالنا چاہیئے یہ بھی آپ سے مروی ہے کہ پہلے تو اسے کہا جائے کہ توبہ کر اگر وہ کر لے اور اسلام قبول کرے تو خیر ورنہ قتل کر دیا جائے اور یہ بھی آپ سے مروی ہے کہ اگرچہ اسلام قبول کر لے تاہم قتل کر دیا جائے اس جادوگر کو جس کے جادو میں شرکیہ الفاظ ہوں اسے چاروں امام کافر کہتے ہیں کیونکہ قرآن میں ہے «فَلَا تَکْفُرْ» (2-البقرۃ:102) امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں جب اس پر غلبہ پا لیا جائے پھر وہ توبہ کرے تو توبہ قبول نہیں ہو گی جس طرح زندیق کی توبہ قبول نہیں ہو گی ہاں اس سے پہلے اگر توبہ کر لے تو قبول ہو گی اگر اس کے جادو سے کوئی مر گیا پھر تو بہر صورت مارا جائے گا امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اگر وہ کہے کہ میں نے اس پر جادو مار ڈالنے کے لیے نہیں کیا تو قتل کی خطا کی دیت ( جرمانہ ) لے لیا جائے ۔ جادوگر سے اس کے جادو کو اتروانے کی سعید بن مسیب رحمہ اللہ نے اجازت دی ہے جیسے صحیح بخاری شریف میں ہے ۔ (صحیح بخاری:تعلیقاکتاب الطب ھل یستخرج السحر) عامر شعبی رحمہ اللہ بھی اس میں کوئی حرج نہیں بتلاتے لیکن خواجہ حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ اسے مکروہ بتاتے ہیں ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا تھا کہا آپ کیوں جادو کو افشاء نہیں کرتے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے تو اللہ تعالیٰ نے شفاء دے دی اور میں لوگوں پر برائی افشاء کرنے سے ڈرتا ہوں ۔ (صحیح بخاری:5766) حضرت وہب رحمہ اللہ فرماتے ہیں بیری کے سات پتے لے کر سل بٹے پر کوٹ لیے جائیں اور پانی ملا لیا جائے پھر آیت الکرسی پڑھ کر اس پر دم کر دیا جائے اور جس پر جادو کیا گیا ہے اسے تین گھونٹ پلا دیا جائے اور باقی پانی سے غسل کرا دیا جائے ان شاءاللہ جادو کا اثر جاتا رہے گا یہ عمل خصوصیت سے اس شخص کے لیے بہت ہی اچھا ہے جو اپنی بیوی سے روک دیا گیا ہو جادو کو دور کرنے اور اس کے اثر کو زائل کرنے کے لیے سب سے اعلیٰ چیز آیت «قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ مَلِکِ النَّاسِ إِلٰہِ النَّاسِ مِن شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ الَّذِی یُوَسْوِسُ فِی صُدُورِ النَّاسِ مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ» ( 114-سورۃ الناس : 1-6 ) اور آیت «قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ مِن شَرِّ مَا خَلَقَ وَمِن شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ وَمِن شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِی الْعُقَدِ وَمِن شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ» ( 113-الفلق : 1-5 ) کی سورتیں ہیں حدیث میں ہے کہ ان جیسا کوئی تعویذ نہیں ۔ (سنن نسائی:544 ، قال الشیخ الألبانی:حسن صحیح) اسی طرح آیت الکرسی بھی شیطان کو دفع کرنے میں اعلیٰ درجہ کی چیز ہے ۔ (صحیح بخاری:0) البقرة
103 البقرة
104 مسلمانوں کافروں کی صورت لباس اور زبان میں مشابہت سے بچو! اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو کافروں کی بول چال اور ان کے کاموں کی مشابہت سے روک رہا ہے یہودی بعض الفاظ زبان دبا کر بولتے تھے اور مطلب برا لیتے تھے جب انہیں یہ کہنا ہوتا کہ ہماری سنیے تو کہتے تھے راعنا اور مراد اس سے رعونت اور سرکشی لیتے تھے جیسے اور جگہ بیان ہے آیت «مِّنَ الَّذِینَ ہَادُوا یُحَرِّفُونَ الْکَلِمَ عَن مَّوَاضِعِہِ وَیَقُولُونَ سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا وَاسْمَعْ غَیْرَ مُسْمَعٍ وَرَاعِنَا لَیًّا بِأَلْسِنَتِہِمْ وَطَعْنًا فِی الدِّینِ وَلَوْ أَنَّہُمْ قَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا وَاسْمَعْ وَانظُرْنَا لَکَانَ خَیْرًا لَّہُمْ وَأَقْوَمَ وَلٰکِن لَّعَنَہُمُ اللہُ بِکُفْرِہِمْ فَلَا یُؤْمِنُونَ إِلَّا قَلِیلًا» ( 4-النساء : 46 ) یعنی یہودیوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جو باتوں کو اصلیت سے ہٹا دیتے ہیں اور کہتے ہیں ہم سنتے ہیں لیکن مانتے نہیں اپنی زبانوں کو موڑ توڑ کر اس دین میں طعنہ زنی کے لیے «راعنا» کہتے ہیں اگر یہ کہتے کہ ہم نے سنا اور مانا ہماری بات سنیے اور ہماری طرف توجہ کیجئے تو یہ ان کے لیے بہتر اور مناسب ہوتا لیکن ان کے کفر کی وجہ سے اللہ نے انہیں اپنی رحمت سے دور پھینک دیا ہے اس میں ایمان بہت ہی کم ہے ۔ احادیث میں یہ بھی آیا ہے کہ جب یہ لوگ سلام کرتے ہیں تو السام علیکم کہتے ہیں اور سام کے معنی موت کے ہیں تو تم ان کے جواب میں وعلیکم کہا کرو ۔ (صحیح بخاری:6257) ہماری دعا ان کے حق میں قبول ہو گی اور ان کی بد دعا ہمارے حق میں مقبول نہیں ہو گی ۔ (صحیح مسلم:2166) الغرض قول و فعل میں ان سے مشابہت کرنا منع ہے مسند احمد کی حدیث میں ہے میں قیامت کے قریب تلوار کے ساتھ بھیجا گیا ہوں میری روزی حق تعالیٰ نے میرے نیزے تلے لکھی ہے اس کے لیے ذلت اور پستی ہے مگر جو میرے احکام کے خلاف چلے کرے اور جو شخص کسی ( غیر مسلم ) قوم سے مشابہت کرے وہ انہی میں سے ہے ۔ (مسند احمد:50/2:حسن بالشواھد) ابوداؤد میں بھی یہ پچھلا حصہ مروی ہے ۔ (سنن ابوداود:4031 ، قال الشیخ الألبانی:حسن صحیح) اس آیت اور حدیث سے ثابت ہوا کہ کفار کے اقوال وافعال لباس عید اور عبادت میں ان کی مشابہت کرنا جو ہمارے لیے مشروع اور مقرر نہیں سخت منع ہے ایسا کرنے والوں کو شریعت میں عذاب کی دھمکی سخت ڈراوا اور حرمت کی اطلاع دی گئی ہے ۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب تم قرآن کریم میں آیت «یا أَیٰہَا الَّذینَ آمَنُوا» سنو تو کان لگا دو اور دل سے متوجہ ہو جایا کرو کیونکہ یا تو کسی بھلائی کا حکم ہو گا یا کسی برائی سے ممانعت ہو گی خیثمہ فرماتے ہیں توراۃ میں بنی اسرائیل کو خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے «یَا أَیّہَا الْمَسَاکِین» فرمایا ہے لیکن امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آیت «یا أَیٰہَا الَّذینَ آمَنُوا» کے معزز خطاب سے یاد فرمایا ہے «راعنا» کے معنی ہماری طرف کان لگانے کے ہیں بروزن «عاطنا» ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:461/2) مجاہد فرماتے ہیں اس کے معنی خلاف کے بھی ہیں ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:318/1) یعنی خلاف نہ کہا کرو اس سے یہ بھی مروی ہے کہ مطلب یہ کہ آپ ہماری سنئے اور ہم آپ کی سنیں ۔ انصار نے بھی یہی لفظ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کہنا شروع کر دیا تھا جس سے قرآن پاک نے انہیں روک دیا ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:318/1) حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں «راعن» کہتے ہیں ( راعن مذاق کی بات کو کہتے ہیں ) یعنی تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں اور اسلام سے مذاق نہ کیا کرو ۔ ابو صخررحمہ اللہ کہتے ہیں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جانے لگتے تو جنہیں کوئی بات کہنی ہوتی وہ کہتے اپنا کان ادھر کیجئے اللہ تعالیٰ نے اس بےادبی کے کلمہ سے روک دیا اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کرنے کی تعلیم فرمائی ۔ سدی رحمہ اللہ کہتے ہیں رفاعہ بن زید یہودی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے باتیں کرتے ہوئے یہ لفظ کہا کرتا تھا مسلمانوں نے بھی یہ خیال کر کے یہ لفظ ادب کے ہیں یہی لفظ استعمال کرنے شروع کر دیئے جس پر انہیں روک دیا گیا جیسے سورۃ نساء میں ہے ۔ مقصد یہ ہے کہ اس کلمہ کو اللہ نے برا جانا اور اس کے استعمال سے مسلمانوں کو روک دیا جیسے حدیث میں آیا ہے کہ انگور کو کرم اور غلام کو عبد نہ کہو وغیرہ ۔ (صحیح مسلم:2248) اب اللہ تعالیٰ ان بد باطن لوگوں کے حسد و بغض کو بیان فرماتا ہے کہ اے مسلمانو ! تمہیں جو اس کامل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ کامل شریعت ملی ہے اس سے یہ تو جل بھن رہے ہیں ان سے کہہ دو کہ یہ تو اللہ کا فضل ہے جسے چاہے عنایت فرمائے وہ بڑے ہی فضل و کرم والا ہے ۔ البقرة
105 البقرة
106 تبدیلی یا تنسیخ ، اللہ تعالٰی مختار کل ہے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نسخ کے معنی بدل کے ہیں ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:473/2) حضرت مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں مٹانے کے معنی ہیں ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:321/1) جو ( کبھی ) لکھنے میں باقی رہتا ہے اور حکم بدل جاتا ہے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگرد اور ابوالعالیہ اور محمد بن کعب قرظی رحمہ اللہ سے بھی اسی طرح مروی ہے ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:322/1) ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں بھلا دینے کے معنی ہیں عطا فرماتے ہیں چھوڑ دینے کے معنی ہیں سدی رحمہ اللہ کہتے ہیں اٹھا لینے کے معنی ہیں جیسے «الشَّیْخُ وَالشَّیْخَۃُ إِذَا زَنَیَا فَارْجُمُوہُمَا الْبَتَّۃَ» یعنی زانی مرد و عورت کو سنگسار کر دیا کرو ۔ (سنن نسائی:7145 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) اور جیسے «لَوْ کَانَ لِابْنِ آدَمَ وَادِیَانِ مِنْ مَالٍ لَابْتَغَی وَادِیًا ثَالِثًا»(صحیح بخاری:6440) یعنی ابن آدم کو اگر دو جنگل سونے کے مل جائیں جب بھی وہ تیسرے کی جستجو میں رہے گا ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:324/1) امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ احکام میں تبدیلی ہم کر دیا کرتے ہیں حلال کو حرام حرام کو حلال جائز کو ناجائز ناجائز کو جائز وغیرہ امر و نہی روک اور رخصت جائز اور ممنوع کاموں میں نسخ ہوتا ہے ہاں جو خبریں دی گئی ہیں واقعات بیان کئے گئے ہیں ان میں رد و بدل و ناسخ و منسوخ نہیں ہوتا ۔ نسخ کے لفظی معنی نقل کرنے کے بھی ہیں جیسے کتاب کے ایک نسخے سے دوسرا نقل کر لینا ۔ اسی طرح یہاں بھی چونکہ ایک حکم کے بدلے دوسرا حکم ہوتا ہے اس لیے نسخ کہتے ہیں خواہ وہ حکم کا بدل جانا ہو خواہ الفاظ کا ۔ علماء اصول کی عبارتیں اس مسئلہ میں گو مختلف ہیں مگر معنی کے لحاظ سے سب قریب قریب ایک ہی ہیں ۔ نسخ کے معنی کسی حکم شرعی کا پچھلی دلیل کی رو سے ہٹ جانا ہے کبھی ہلکی چیز کے بدلے بھاری اور کبھی بھاری کے بدلہ ہلکی اور کبھی کوئی بدل ہی نہیں ہوتا ہے نسخ کے احکام اس کی قسمیں اس کی شرطیں وغیرہ ہیں اس کے لیے اس فن کی کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہیئے تفصیلات کی بسط کی جگہ نہیں طبرانی میں ایک روایت ہے کہ دو شخصوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک سورت یاد کی تھی اسے وہ پڑھتے رہے ایک مرتبہ رات کی نماز میں ہر چند اسے پڑھنا چاہا لیکن یاد نے ساتھ نہ دیا گھبرا کر خدمت نبوی میں حاضر ہوئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ منسوخ ہو گئی اور بھلا دی گئی دلوں میں نکال لی گئی تم غم نہ کرو ۔ بے فکر ہو جاؤ ۔ حضرت زہری رحمہ اللہ نون خفیفہ پیش کے ساتھ پڑھتے تھے اس کے ایک راوی سلیمان بن ارقم ضعیف ہیں ۔ (مجمع الذوائد:11592) ابوبکر انباری نے بھی دوسری سند سے اسے مرفوع روایت کیا ہے ۔ (تفسیر قرطبی:62/2-619) جیسے قرطبی رحمہ اللہ کا کنا ہے ۔ «ننسھا» کو «ننساھا» بھی پڑھا گیا ہے ۔ «ننساھا» کے معنی مؤخر کرنے پیچھے ہٹا دینے کے ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں یعنی ہم اسے چھوڑ دیتے ہیں منسوخ کرتے ہیں ابن کے شاگرد کہتے ہیں یعنی ہم اس کے الفاظ کو باقی رکھتے ہیں لیکن حکم کو بدل دیتے ہیں ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:473/2) عبد بن عمیر ، مجاہد ، اور عطا رحمہ اللہ علیہم سے مروی ہے ہم اسے مؤخر کرتے ہیں اور ملتوی کرتے ہیں عطیہ عوفی رحمہ اللہ کہتے ہیں ۔ یعنی منسوخ نہیں کرتے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:477/2) سدی اور ربیع رحمہ اللہ علیہما بھی یہی کہتے ہیں ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں ناسخ کو منسوخ کے پیچھے رکھتے ہیں ابوالعالیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں اپنے پاس اسے روک لیتے ہیں عمر نے خطبہ میں «نُنٗسِھَا» پڑھا اور اس کے معنی مؤخر ہونے کے بیان کئے «ننسھا» جب پڑھیں تو یہ مطلب ہو گا کہ ہم اسے بھلا دیں ۔ اللہ تعالیٰ جس حکم کو اٹھا لینا چاہتا تھا وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھلا دیتا تھا اس طرح وہ آیت اٹھ جاتی تھی ۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ «ننسھا» پڑھتے تھے تو ان سے قسم بن ربیعہ رحمہ اللہ نے کہا کہ سعید بن مسیب رحمہ اللہ تو «ننساھا» پڑھتے ہیں تو آپ رحمہ اللہ نے فرمایا سعید پر یا سعید کے خاندان پر تو قرآن نہیں اترا ؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آیت «سَنُقْرِئُکَ فَلَا تَنْسٰٓی» ( 87 ۔ الاعلی : 6 ) ہم تجھے پڑھائیں گے جسے تو نہ بھولے گا اور فرماتا ہے آیت «وَاذْکُرْ رَّبَّکَ اِذَا نَسِیْتَ» ( 18 ۔ الکہف : 24 ) جب بھول جائے تو اپنے رب کو یاد کر ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سب سے اچھا فیصلہ کرنے والے ہیں اور ابی رضی اللہ عنہ سب سے زیادہ اچھے قرآن کے قاری ہیں اور ہم ابی رضی اللہ عنہ کا قول چھوڑ دیتے ہیں اس لیے کہ ابی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے تو جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے اسے نہیں چھوڑوں گا اور فرماتے ہیں «مَا نَنسَخْ مِنْ آیَۃٍ أَوْ نُنسِہَا نَأْتِ بِخَیْرٍ مِّنْہَا أَوْ مِثْلِہَا» ( البقرہ : 106 ) یعنی ہم جو منسوخ کریں یا بھلا دیں اس سے بہتر لاتے ہیں یا اس جیسا (صحیح بخاری:4481) اس سے بہتر ہوتا ہے یعنی بندوں کی سہولت اور ان کے آرام کے لحاظ سے یا اس جیسا ہوتا ہے لیکن مصلحت الٰہی اس سابقہ چیز میں ہوتی ہے ۔ مخلوق میں تغیر و تبدل کرنے والا پیدائش اور حکم کا اختیار رکھنے والا ۔ ایک اللہ تعالیٰ ہی ہے جس طرح جسے چاہتا ہے بناتا ہے جسے چاہے نیک بختی دیتا ہے جسے چاہے بدبختی دیتا ہے جسے چاہے تندرستی جسے چاہے بیماری ، جسے چاہے توفیق جسے چاہے بے نصیب کر دے ۔ بندوں میں جو حکم چاہے جاری کرے جسے چاہے حلال جسے چاہے حرام فرما دے جسے چاہے رخصت دے جسے چاہے روک دے وہ حاکم مطلق ہے جیسے چاہے احکام جاری فرمائے کوئی اس کے حکم کو رد نہیں کر سکتا جو چاہے کرے کوئی اس سے بازپرس نہیں کر سکتا وہ بندوں کو آزماتا ہے اور دیکھتا ہے کہ وہ نبیوں اور رسولوں کے کیسے تابعدار ہیں کسی چیز کا کسی مصلحت کی وجہ سے حکم دیا پھر مصلحت کی وجہ سے ہی اس کو ہٹا دیا اب آزمائش ہو جاتی ہے نیک لوگ اس وقت بھی اطاعت کے لیے کمربستہ تھے اور اب بھی ہیں لیکن بدباطن لوگ باتیں بناتے ہیں اور ناک بھوں چڑھاتے ہیں حالانکہ تمام مخلوق کو اپنے خالق کی تمام باتیں ماننی چاہئیں اور ہر حال میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنی چاہیئے اور جو وہ کہے اسے دل سے سچا ماننا چاہیئے ، جو حکم دے بجا لانا چاہیئے جس سے روکے رک جانا چاہیئے ۔ اس مقام پر بھی یہودیوں کا زبردست رد ہے اور ان کے کفر کا بیان ہے کہ وہ نسخ کے قائل نہ تھے بعض تو کہتے تھے اس میں عقلی محال لازم آتا ہے اور بعض نقلی محال بھی مانتے تھے اس آیت میں گو خطاب فخر عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے مگر دراصل یہ کلام یہودیوں کو سنانا ہے جو انجیل کو اور قرآن کو اس وجہ سے نہیں مانتے تھے کہ ان میں بعض احکام توراۃ کے منسوخ ہو گئے تھے اور اسی وجہ سے وہ ان نبیوں کی نبوت کے بھی منکر ہو گئے تھے اور صرف عناد و تکبر کی بنا تھی ورنہ عقلاً نسخ محال نہیں اس لیے کہ جس طرح وہ اپنے کاموں میں با اختیار رہے اسی طرح اپنے حکموں میں بھی با اختیار رہے جو چاہے اور جب چاہے پیدا کرے جسے چاہے اور جس طرح چاہے اور جس وقت چاہے رکھے ۔ اسی طرح جو چاہے اور جس وقت چاہے حکم دے اس حاکموں کے حاکم کا حاکم کون ؟ اسی طرح نقلاً بھی یہ ثابت شدہ امر ہے اگلی کتابوں اور پہلی شریعتوں میں موجود ہے ۔ حضرت آدم کی بیٹیاں بیٹے آپس میں بھائی بہن ہوتے تھے لیکن نکاح جائز تھا پھر اسے حرام کر دیا نوح علیہ السلام جب کشتی سے اترتے ہیں تب تمام حیوانات کا کھانا حلال تھا لیکن پھر بعض کی حلت منسوخ ہو گئی دو بہنوں کا نکاح اسرائیل اور ان کی اولاد پر حلال تھا لیکن پھر توراۃ میں اور اس کے بعد حرام ہو گیا ابراہیم علیہ السلام کو بیٹے کی قربانی کا حکم دیا پھر قربان کرنے سے پہلے ہی منسوخ کر دیا بنو اسرائیل کو حکم دیا جاتا ہے کہ بچھڑا پوجنے میں جو شامل تھے سب اپنی جانوں کو قتل کر ڈالیں لیکن پھر بہت سے باقی تھے کہ یہ حکم منسوخ ہو جاتا ہے اسی طرح کے اور بہت سے واقعات موجود ہیں اور خود یہودیوں کو ان کا اقرار ہے لیکن پھر بھی قرآن اور نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہہ کر نہیں مانتے کہ اس سے اللہ کے کلام میں نسخ لازم آتا ہے اور وہ محال ہے ۔ بعض لوگ جو اس کے جواب میں لفظی بحثوں میں پڑ جاتے ہیں وہ یاد رکھیں کہ اس سے دلالت نہیں بدلتی اور مقصود وہی رہتا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت یہ لوگ اپنی کتابوں میں پاتے تھے آپ کی تابعداری کا حکم بھی دیکھتے تھی یہ بھی معلوم تھا کہ آپ کی شریعت کے مطابق جو عمل نہ ہو وہ مقبول نہیں ہو گا یہ اور بات ہے کہ کوئی کہے کہ اگلی شریعتیں صرف آپ کے آنے تک ہی تھیں اس لیے یہ شریعت ان کی ناسخ نہیں یا کہے کہ ناسخ ہے بہر صورت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری کے بغیر کوئی چارہ نہیں ۔ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری کتاب اللہ کے پاس سے ابھی ابھی لے کر آئے ہیں پس اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نسخ کے جواز کو بیان فرما کر اس ملعون گروہ یہود کا رد کیا ۔ سورۃ آل عمران میں بھی جس کے شروع میں بنی اسرائیل کو خطا کیا گیا ہے نسخ کے واقع ہونے کا ذکر موجود ہے فرماتا ہے آیت «کُلٰ الطَّعَامِ کَانَ حِلًّا لِّبَنِی إِسْرَائِیلَ إِلَّا مَا حَرَّمَ إِسْرَائِیلُ عَلَیٰ نَفْسِہِ مِن قَبْلِ أَن تُنَزَّلَ التَّوْرَاۃُ» ( 3-آل عمران : 93 ) یعنی سبھی کھانے بنی اسرائیل پر حلال تھے مگر جس چیز کو اسرائیل علیہ السلام نے اپنے اوپر حرام کر لیا تھا اس کی مزید تفسیر وہیں آئے گی ان شاءاللہ تعالیٰ مسلمان کل کے کل متفق ہیں کہ احکام باری تعالیٰ میں نسخ کا ہونا جائز ہے بلکہ واقع بھی ہے اور پروردگار کی حکمت بالغہ کا دستور بھی یہی ہے ابو مسلم اصبہانی مفسر نے لکھا ہے کہ قرآن میں نسخ واقع نہیں ہوتا لیکن اس کا یہ قول ضعیف اور مردود اور محض غلط اور جھوٹ ہے جہاں نسخ قرآن موجود ہے اس کے جاب میں گو بعض نے بہت محنت سے اس کی تردید کی ہے لیکن محض بےسود دیکھیے پہلے اس عورت کی عدت جس کا خاوند مر جائے ایک سال تھی لیکن پھر چار مہینے دس دن ہوئی اور دونوں آیتیں قرآن پاک میں موجود ہیں قبلہ پہلے بیت المقدس تھا ۔ پھر کعبۃ اللہ ہوا اور دوسری آیت صاف اور پہلا حکم بھی ضمناً مذکور ہے پہلے کے مسلمانوں کو حکم تھا کہ ایک ایک مسلمان دس دس کافروں سے لڑے اور ان کے مقابلے سے نہ ہٹے لیکن یہ پھر حکم منسوخ کر کے دو دو کے مقابلہ میں صبر کرنے کا حکم ہوا اور دونوں آیتیں کلام اللہ میں موجود ہیں پہلے حکم تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سرگوشی کرنے سے پہلے کچھ صدقہ دیا کرو پھر یہ حکم منسوخ ہوا اور دونوں آیتیں قرآن کریم میں موجود ہیں وغیرہ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ البقرة
107 البقرة
108 کثرت سوال حجت بازی کے مترادف ہے! اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو روکتے ہوئے فرماتا ہے کہ کسی واقعہ کے ہونے سے پہلے میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فضول سوال نہ کیا کو ۔ یہ کثرت سوال کی عادت بہت بری ہے جیسے اور جگہ ارشاد ہے آیت «یٰٓاَیٰھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْــــَٔـلُوْا عَنْ اَشْیَاءَ» ( 5 ۔ المائدہ : 101 ) ایمان والو ان چیزوں کا سوال نہ کیا کرو جو اگر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں برا لگے گا اور اگر تم قرآن کے نازل ہونے کے زمانہ میں ایسے سوالوں کا سلسلہ جاری رکھو گے تو یہ باتیں ظاہر کر دی جائیں گی ۔ کسی بات کے واقع ہونے سے پہلے اس کی نسبت سوال کرنے میں خوف یہ ہے کہ کہیں اس سوال کی وجہ سے وہ حرام نہ ہو جائیں صحیح حدیث میں ہے کہ مسلمانوں میں سے بڑا مجرم وہ ہے جو اس چیز کے بارے میں سوال کرے جو حرام نہ تھی پھر اس کے سوال سے حرام ہو گئی ۔ (صحیح بخاری:7289) ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا ۔ کہ ” ایک شخص اپنی بیوی کے ساتھ غیر مرد کو پائے تو کیا کرے ؟ اگر لوگوں کو خبر کرے تو یہ بھی بڑی بے شرمی کی بات ہے اور اگر چپ ہو جائے تو بڑی بے غیرتی کی بات ہے ؟ “ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ سوال بہت برا معلوم ہوا آخر اسی شخص کو ایسا واقعہ پیش آیا اور لعان کا حکم نازل ہوا ۔ (صحیح بخاری:5259) صحیحین کی ایک حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فضول بکواس ، مال کو ضائع کرنے اور زیادہ پوچھ گچھ سے منع فرمایا کرتے تھے ۔ (صحیح بخاری:2408) صحیح مسلم میں ہے میں جب تک کچھ نہ کہوں ، تم بھی نہ پوچھو تم سے پہلے لوگوں کو اسی بدخصلت نے ہلاک کر دیا کہ وہ بکثرت سوال کرتے تھے اور اپنے نبیوں کے سامنے اختلاف کرتے تھے ۔ جب میں تمہیں کوئی حکم دوں تو اپنی طاقت کے مطابق بجا لاؤ اور اگر منع کروں تو رک جایا کرو یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت فرمایا تھا جب لوگوں کو خبر دی کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے تم پر حج فرض کیا ہے تو کسی نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے اس نے پھر پوچھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہ دیا اس نے تیسری دفعہ پھر یہی سوال کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر سال نہیں لیکن اگر میں ہاں کہہ دیتا تو ہر سال فرض ہو جاتا اور پھر تم کبھی بھی اس حکم کو بجا نہ لا سکتے ۔ (صحیح مسلم:1337) پھر آپ نے مندرجہ بالا فرمان ارشاد فرمایا ۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب ہمیں آپ سے سوال کرنے سے روک دیا گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھتے ہیں ہیبت کھاتے تھے چاہتے تھے کہ کوئی بادیہ نشین ناواقف شخص آ جائے وہ پوچھے تو ہم بھی سن لیں ۔ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں کوئی سوال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کرنا چاہتا تھا تو سال سال بھر گزر جاتا تھا کہ مارے ہیبت کے پوچھنے کی جرات نہیں ہوتی تھی ہم تو خواہش رکھتے تھے کہ کوئی اعرابی آئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کر بیٹھے پھر ہم بھی سن لیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بہتر کوئی جماعت نہیں انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف بارہ ہی مسئلے پوچھے جو سب سوال مع جواب کے قرآن پاک میں مذکورہ ہیں جیسے شراب وغیرہ کا سوال حرمت والے مہینوں کی بابت کا سوال ، یتیموں کی بابت کا سوال وغیرہ وغیرہ ۔ یہاں پر «ام» یا تو «بل» کے معنی میں ہے یا اپنے اصلی معنی میں ہے یعنی سوال کے بارے میں جو یہاں پر انکاری ہے یہ حکم مومن کافر سب کو ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت سب کی طرف تھی قرآن میں اور جگہ ہے آیت «یَسْأَلُکَ أَہْلُ الْکِتَابِ أَن تُنَزِّلَ عَلَیْہِمْ کِتَابًا مِّنَ السَّمَاءِ فَقَدْ سَأَلُوا مُوسَیٰ أَکْبَرَ مِن ذٰلِکَ فَقَالُوا أَرِنَا اللہَ جَہْرَۃً فَأَخَذَتْہُمُ الصَّاعِقَۃُ بِظُلْمِہِمْ» ( 4 ۔ النسآء : 153 ) اہل کتاب تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ تو ان پر کوئی آسمانی کتاب اتارے انہوں نے موسیٰ علیہ السلام سے اس سے بھی بڑا سوال کیا تھا کہ اللہ کو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے ہیں جس ظلم کی وجہ سے انہیں ایک تند و تیز آواز سے ہلاک کر دیا گیا ۔ رافع بن حرملہ اور وہب بن زید نے کہا تھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی آسمانی کتاب ہم پر نازل کیجئے جسے ہم پڑھیں اور ہمارے شہروں میں دریا جاری کر دیں تو ہم آپ کو مان لیں اس پر یہ آیت اتری ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:490/2) ابو العالیہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاش کہ ہمارے گناہوں کا کفارہ بھی اسی طرح ہو جاتا جس طرح بنی اسرائیل کے گناہوں کا کفارہ تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنتے ہی تین دفعہ جناب باری تعالیٰ میں عرض کی کہ ” نہیں اللہ نہیں “ ہم یہ نہیں چاہتے پھر فرمایا سنو بنو اسرائیل میں سے جہاں کوئی گناہ کرتا اس کے دروازے پر قدرتاً لکھا ہوا پایا جاتا اور ساتھ ہی اس کا کفارہ بھی لکھا ہوا ہوتا تھا اب یا تو دنیا کی رسوائی کو منظور کر کے کفارہ ادا کر دے اور اپنے پوشیدہ گناہوں کو ظاہر کرے یا کفارہ نہ دے اور آخرت کی رسوائی منظور کرے لیکن تم سے اللہ تعالیٰ نے فرما دیا آیت «وَمَنْ یَّعْمَلْ سُوْءًا اَوْ یَظْلِمْ نَفْسَہٗ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللّٰہَ یَجِدِ اللّٰہَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا» ( 4 ۔ النسآء : 110 ) یعنی جس سے کوئی برا کام ہو جائے یا وہ اپنی جان پر ظلم کر بیٹھے پھر استغفار کرے تو وہ اللہ کو بہت بڑا بخشش اور مہربانی کرنے والا پائے گا ۔ اسی طرح ایک نماز دوسری نماز تک گناہوں کا کفارہ ہو جاتی ہے پھر جمعہ دوسرے جمعہ تک کفارہ ہو جاتا ہے۔(صحیح مسلم:233) سنو جو شخص برائی کا ارادہ کرے لیکن برائی نہ کرے تو برائی لکھی نہیں جاتی اور اگر کر گزرے تو ایک ہی برائی لکھی جاتی ہے اور اگر بھلائی کا ارادہ کرے پھر گو نہ کرے لیکن بھلائی لکھ لی جاتی ہے اور اگر کر بھی لے تو دس بھلائیاں لکھی جاتی ہیں اب بتاؤ تم اچھے رہے یا بنی اسرائیل ؟ تم بنی اسرائیل سے بہت ہی اچھے ہو ہاں باوجود اتنے کرم اور رحم کے پھر بھی کوئی ہلاک ہو تو سمجھو کہ یہ خود ہلاک ہونے والا ہی تھا اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔(تفسیر ابن جریر الطبری:1786:مرسل و ضعیف) قریشیوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اگر صفا پہاڑ سونے کا ہو جائے تو ہم ایمان لاتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا لیکن پھر مائدہ ( آسمانی دستر خوان ) مانگنے والوں کا جو انجام ہوا وہی تمہارا بھی ہو گا اس پر وہ انکاری ہو گئے اور اپنے سوال کو چھوڑ دیا ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:1783:مرسل و ضعیف) مراد یہ ہے کہ تکبر عناد سرکشی کے ساتھ نبیوں سے سوال کرنا نہایت مذموم حرکت ہے جو کفر کو ایمان کے بدلے مول لے اور آسانی کو سختی سے بدلے وہ سیدھی راہ سے ہٹ کر جہالت و ضلالت میں گھر جاتا ہے اسی طرح غیر ضروری سوال کرنے والا بھی جیسے اور جگہ ہے آیت «اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ کُفْرًا وَّاَحَلٰوْا قَوْمَہُمْ دَارَ الْبَوَارِ جَہَنَّمَ یَصْلَوْنَہَا وَبِئْسَ الْقَرَارُ» ( 14-إبراہیم : 28 ، 29 ) کیا تو انہیں نہیں دیکھتا جو اللہ کی نعمت کو کفر سے بدلتے ہیں اور اپنی قوم کو ہلاکت میں ڈالتے ہیں وہ جہنم میں داخل ہوں گے اور وہ بڑی بری قرار گاہ ہے ۔ البقرة
109 قومی عصبیت باعث شقاوت ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حی بن اخطب اور ابویاسر بن اخطب یہ دونوں یہودی سب سے زیادہ مسلمانوں کے حاسد تھے لوگوں کو اسلام سے روکتے تھے اور عربوں سے جلتے تھے ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی کعب بن اشرف کا بھی یہی شغل تھا زہری رحمہ اللہ کہتے ہیں اس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے یہ بھی یہودی تھا اور اپنے شعروں میں صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کیا کرتا تھا ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:331/1) گو ان کی کتاب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق موجود تھی اور یہ بخوبی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفتیں جانتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اچھی طرح پہچانتے تھے پھر یہ بھی دیکھ رہے تھے کہ قرآن ان کی کتاب کی تصدیق کر رہا ہے ایک امی اور ان پڑھ وہ کتاب پڑھتا ہے جو سراسر معجزہ ہے لیکن صرف حسد کی بنا پر کہ یہ عرب میں آپ کیوں مبعوث ہوئے کفر و افکار پر آمادہ ہو گئے بلکہ اور لوگوں کو بھی بہکانا شروع کر دیا پس اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو حکم دیا کہ تم درگزر کرتے رہو اور اللہ کے حکم کا اور اس کے فیصلے کا انتظار کرو ۔ جیسے اور جگہ فرمایا تمہیں مشرکوں اور اہل کتاب سے بہت کڑوی باتیں سننی پڑیں گی مگر بعد میں حکم نازل فرما دیا کہ ان مشرکین سے اب دب کر نہ رہو ان سے لڑائی کرنے کی تمہیں اجازت ہے ۔ (9-التوبۃ:5) سیدنا اسامہ بن زید کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم مشرکین اور اہل کتاب سے درگزر کرتے تھے اور ان کی ایذاء اور تکلیف سہتے تھی اور اس آیت پر عمل پیرا تھے یہاں تک کہ دوسری آیتیں اتریں اور یہ حکم ہٹ گیا اب ان سے بدلہ لینے اور اپنا بچاؤ کرنے کا حکم ملا اور پہلی ہی لڑائی جو بدر کے میدان میں ہوئی اس میں کفار کو شکست فاش ہوئی اور ان کے بڑے بڑے سرداروں کی لاشیں میدان میں بچھ گئیں ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:333/1) پھر مومنوں کو رغبت دلائی جاتی ہے کہ تم نماز اور زکوٰۃ وغیرہ کی حفاظت کرو یہ تمہیں آخرت کے عذابوں سے بچانے کے علاوہ دنیا میں بھی غلبہ اور نصرت دے گی پھر فرمایا کہ اللہ تمہارے اعمال سے غافل نہیں ہر نیک و بدعمل کا بدلہ دونوں جہاں میں دے گا اس سے کوئی چھوٹا ، بڑا ، چھپا ، کھلا ، اچھا ، برا ، عمل پوشیدہ نہیں یہ اس لیے فرمایا کہ لوگ اطاعت کی طرف توجہ دیں اور نافرمانی سے بچیں «مبصر» کے بدلے «بصیر» کہا جیسے «مبدع» کے بدلے «بدیع» اور «مولم» کے بدلے «الیم» ۔ ابن ابی حاتم میں حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت میں «سَمِیعٌ بَصِیرٌ» پڑھتے تھے اور فرماتے تھے اللہ تعالیٰ ہر چیز کو دیکھتا ہے ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:336/1) البقرة
110 البقرة
111 شیطان صفت مغرور یہودی یہاں پر یہودیوں اور نصرانیوں کے غرور کا بیان ہو رہا ہے کہ وہ اپنے سوا کسی کو کچھ بھی نہیں سمجھتے اور صاف کہتے ہیں کہ ہمارے سوا جنت میں کوئی نہیں جائے گا سورۃ المائدہ میں ان کا ایک قول یہ بھی بیان ہوا ہے کہ«نَحْنُ أَبْنَاءُ اللہِ وَأَحِبَّاؤُہُ» ( 5-المائدہ : 18 ) ہم اللہ تعالیٰ کی اولاد اور اس کے محبوب ہیں ،(5-المائدۃ:18) جس کے جواب میں قرآن نے کہا کہ پھر تم پر قیامت کے دن عذاب کیوں ہو گا ؟ اسی طرح کے مفہوم کا بیان پہلے بھی گزرا ہے کہ ان کا دعویٰ یہ بھی تھا کہ ہم چند دن جہنم میں رہیں گے جس کے جواب میں ارشاد باری ہوا کہ یہ دعویٰ بھی محض بے دلیل ہے اسی طرح یہاں ان کے ایک دعویٰ کی تردید کی اور کہا کہ لاؤ دلیل پیش کرو ، انہیں عاجز ثابت کر کے پھر فرمایا کہ ہاں جو کوئی بھی اللہ کا فرمانبردار ہو جائے اور خلوص و توحید کے ساتھ نیک عمل کرے اسے پورا پورا اجر و ثواب ملے گا ، جیسے اور جگہ فرمایا کہ«فَإِنْ حَاجٰوکَ فَقُلْ أَسْلَمْتُ وَجْہِیَ لِلہِ وَمَنِ اتَّبَعَنِ» ( 3-آل عمران : 20 ) یہ اگر جھگڑیں تو ان سے کہ دو کہ میں اور میرے ماننے والوں نے اپنے چہرے اللہ کے سامنے متوجہ کر دیئے ہیں ۔(3-آل عمران:20) غرض یہ ہے کہ اخلاص اور مطابقت سنت ہر عمل کی قبولیت کے لیے شرط ہے تو «أَسْلَمَ وَجْہَہ» سے مراد خلوص(تفسیر ابن ابی حاتم:3371/1) اور «وَہُوَ مُحْسِنٌ» سے مراد اتباع سنت ہے نرا خلوص بھی عمل کو مقبول نہیں کرا سکتا جب تک سنت کی تابعداری نہ ہو حدیث شریف میں ہے جو شخص ایسا عمل کرے جس پر ہمارا حکم نہ ہو وہ مردود ہے ۔ (صحیح مسلم:1718) پس رہبانیت کا عمل گو خلوص پر مبنی ہو لیکن تاہم اتباع سنت نہ ہونے کی وجہ سے وہ مردود ہے ایسے ہی اعمال کی نسبت قرآن کریم کا ارشاد ہے آیت «وَقَدِمْنَآ اِلٰی مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَـعَلْنٰہُ ہَبَاءً مَّنْثُوْرًا» ( 25 ۔ الفرقان : 23 ) یعنی انہوں نے جو اعمال کئے تھے ہم نے سب رد کر دیئے دوسری جگہ فرمایا کافروں کے اعمال ریت کے چمکیلے تودوں کی طرح ہیں جنہیں پیاسا پانی سمجھتا ہے لیکن جب اس کے پاس جاتا ہے تو کچھ نہیں پاتا ۔ (24-النور:39) اور جگہ ہے کہ قیامت کے دن بہت سے چہروں پر ذلت برستی ہو گی جو عمل کرنے والے تکلیفیں اٹھانے والے ہوں گے اور بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہوں گے اور گرم کھولتا ہوا پانی انہیں پلایا جائے گا ۔ (88-الغاشیۃ:2-5)امیر المؤمنین عمر بن خطاب نے اس آیت کی تفسیر میں مراد یہود و نصاریٰ کے علماء اور عابد لیے ہیں ۔ یہ بھی یاد رہے کہ کوئی عمل گو بظاہر سنت کے مطابق ہو لیکن عمل میں اخلاص نہ ہو مقصود اللہ کی خوشنودی نہ ہو تو وہ عمل بھی مردود ہے ریا کار اور منافق لوگوں کے اعمال کا بھی یہی حال ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ «إِنَّ الْمُنَافِقِینَ یُخَادِعُونَ اللہَ وَہُوَ خَادِعُہُمْ وَإِذَا قَامُوا إِلَی الصَّلَاۃِ قَامُوا کُسَالَیٰ یُرَاءُونَ النَّاسَ وَلَا یَذْکُرُونَ اللہَ إِلَّا قَلِیلًا» ( 4-النسأ : 142 ) منافق اللہ کو دھوکہ دیتے ہیں اور وہ انہیں دھوکہ دیتا ہے اور نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو سستی سے کھڑے ہوتے ہیں صرف لوگوں کو دکھانے کے لیے عمل کرتے ہیں اور اللہ کا ذکر بہت ہی کم کرتے ہیں اور فرمایا آیت «فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّینَ الَّذِینَ ہُمْ عَن صَلَاتِہِمْ سَاہُونَ» ( 107-الماعون : 4 ، 7 ) ان نمازیوں کے لیے ویل ہے جو اپنی نماز سے غافل ہیں جو ریاکاری کرتے ہیں اور چھوٹی چھوٹی چیزیں بھی روکتے پھرتے ہیں اور جگہ ارشاد ہے آیت «فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَاءَ رَبِّہٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّلَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖٓ اَحَدًا» ( 18 ۔ الکہف : 110 ) جو شخص اپنے رب کی ملاقات کا آرزو مند ہو اسے نیک عمل کرنا چاہیئے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرنا چاہیئے ۔ پھر فرمایا انہیں ان کا رب اجر دے گا اور ڈر خوف سے بچائے گا آخرت میں انہیں ڈر نہیں اور دنیا کے چھوڑنے کا ملال نہیں ۔ پھر یہود و نصاریٰ کی آپس کی بغض و عداوت کا ذکر فرمایا ، نجران کے نصرانیوں کا وفد جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو ان کے پاس یہودیوں کے علماء بھی آئے اس وقت ان لوگوں نے انہیں اور انہوں نے ان کو گمراہ بتایا حالانکہ دونوں اہل کتاب ہیں توراۃ میں انجیل کی تصدیق اور انجیل میں توراۃ کی تصدیق موجود ہے پھر ان کا یہ قول کس قدر لغو ہے ، اگلے یہود و نصاریٰ دین حق پر قائم تھے لیکن پھر بدعتوں اور فتنہ پردازیوں کی وجہ سے دین ان سے چھن گیا اب نہ یہود ہدایت پر تھے نہ نصرانی ۔ پھر فرمایا کہ نہ جاننے والوں نے بھی اسی طرح کہا اس میں بھی اشارہ انہی کی طرف ہے اور بعض نے کہا مراد اس سے یہود و نصاریٰ سے پہلے کے لوگ ہیں ۔ بعض کہتے ہیں عرب لوگ مراد ہیں ۔ امام ابن جریر اس سے عام لوگ مراد لیتے ہیں گویا سب شامل ہیں اور یہی ٹھیک بھی ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ پھر فرمایا کہ اختلاف کا فیصلہ قیامت کو خود اللہ تعالیٰ کرے گا جس دن کوئی ظلم و زور نہیں ہو گا اور یہی مضمون دوسری جگہ بھی آیا ہے سورۃ الحج میں ارشاد ہے آیت «اِنَّ اللّٰہَ یَفْصِلُ بَیْنَہُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ» ( 22 ۔ الحج : 17 ) یعنی مومنوں اور یہودیوں اور صابیوں اور نصرانیوں اور مجوسیوں اور مشرکوں میں قیامت کے دن اللہ فیصلہ فرمائے گا اللہ تعالیٰ ہر چیز پر گواہ اور موجود ہے اور جگہ ارشاد ہے آیت «قُلْ یَجْمَعُ بَیْـنَنَا رَبٰنَا ثُمَّ یَفْتَـحُ بَیْـنَنَا بِالْحَقِّ وَہُوَ الْفَتَّاحُ الْعَلِـیْمُ» ( 34 ۔ سبأ : 26 ) کہہ دے کر ہمارا رب ہمیں جمع کرے گا پھر حق کے ساتھ فیصلہ کرے گا ۔ وہ باخبر فیصلے کرنے والا ہے ۔ البقرة
112 البقرة
113 البقرة
114 نصاریٰ اور یہودی مکافات عمل کا شکار! اس آیت کی تفسیر میں دو قول ہیں ایک تو یہ کہ اس سے مراد نصاریٰ ہیں دوسرا یہ کہ اس سے مراد مشرکین ہیں نصرانی بھی بیت المقدس کی مسجد میں پلیدی ڈال دیتے تھے اور لوگوں کو اس میں نماز ادا کرنے سے روکتے تھے ، بخت نصر نے جب بیت المقدس کی بربادی کے لیے چڑھائی کے تھی تو ان نصرانیوں نے اس کا ساتھ دیا تھا اور مدد کی تھی ، بخت نصر بابل کا رہنے والا مجوسی تھا اور یہودیوں کی دشمنی پر نصرانیوں نے بھی اس کا ساتھ دیا تھا اور اس لیے بھی کہ بنی اسرائیل نے یحییٰ بن زکریا علیہ السلام کو قتل کر ڈالا تھا اور مشرکین نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حدیبیہ والے سال کعبۃ اللہ سے روکا تھا یہاں تک کہ ذی طویٰ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قربانیاں دینا پڑیں اور مشرکین سے صلح کرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہیں سے واپس آ گئے حالانکہ یہ امن کی جگہ تھی باپ اور بھائی کے قاتل کو بھی یہاں کوئی نہیں چھیڑتا تھا اور ان کی کوشش یہی تھی کہ ذکر اللہ اور حج و عمرہ کرنے والی مسلم جماعت کو روک دیں ۔(تفسیر ابن جریر الطبری:521/2) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا یہی قول ہے ابن جریر رحمہ اللہ نے پہلے قول کو پسند فرمایا ہے اور کہا ہے کہ مشرکین کعبۃ اللہ کو برباد کرنے کی سعی نہیں کرتے تھے یہ سعی نصاری کی تھی کہ وہ بیت المقدس کی ویرانی کے درپے ہو گئے تھے ۔ لیکن حقیقت میں دوسرا قول زیادہ صحیح ہے ، ابن زید رحمہ اللہ اور سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کا قول بھی یہی ہے اور اس بات کو بھی نہ بھولنا چاہیئے کہ جب نصرانیوں نے یہودیوں کو بیت المقدس سے روکا تھا اس وقت یہودی بھی محض بےدین ہو چکے تھے ان پر تو داؤد اور عیسیٰ بن مریم علیہم السلام کی زبانی لعنتیں نازل ہو چکی تھیں وہ نافرمان اور حد سے متجاوز ہو چکے تھے اور نصرانی مسیح کے دین پر تھے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت سے مراد مشرکین مکہ ہیں اور یہ بھی ایک وجہ ہے کہ اوپر یہود و نصاریٰ کی مذمت بیان ہوئی تھی اور یہاں مشرکین عرب کی اس بدخصلت کا بیان ہو رہا ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابیوں کو مسجد الحرام سے روکا مکہ سے نکالا پھر حج وغیرہ سے بھی روک دیا ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ کا یہ فرمان کہ مکہ والے بیت اللہ کی ویرانی میں کوشاں نہ تھے اس کا جواب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم کو وہاں سے روکنے اور نکال دینے اور بیت اللہ میں بت بٹھا دینے سے بڑھ کر اس کی ویرانی کیا ہو سکتی ہے ؟ خود قرآن میں موجود ہے آیت «وَہُمْ یَصُدٰوْنَ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ» ( 8 ۔ الانفال : 34 ) اور جگہ فرمایا آیت «مَا کَانَ لِلْمُشْرِکِیْنَ اَنْ یَّعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اللّٰہِ شٰہِدِیْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ بِالْکُفْرِ أُولٰئِکَ حَبِطَتْ أَعْمَالُہُمْ وَفِی النَّارِ ہُمْ خَالِدُونَ إِنَّمَا یَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللہِ مَنْ آمَنَ بِ اللہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلَاۃَ وَآتَی الزَّکَاۃَ وَلَمْ یَخْشَ إِلَّا اللہَ فَعَسَیٰ أُولٰئِکَ أَن یَکُونُوا مِنَ الْمُہْتَدِینَ» ( التوبۃ : 17 ، 18 ) یعنی یہ لوگ مسجد الحرام سے روکتے ہیں مشرکوں سے اللہ کی مسجدیں آباد نہیں ہو سکتیں جو اپنے کفر کے خود گواہ ہیں جن کے اعمال غارت ہیں اور جو ہمیشہ کے لیے جہنمی ہیں مسجدوں کی آبادی ان لوگوں سے ہوتی ہے جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والے اور نماز و زکوٰۃ کے پابند اور صرف اللہ ہی سے ڈرنے والے ہیں یہی لوگ راہ راست والے ہیں اور جگہ فرمایا آیت «ہُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَصَدٰوْکُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَالْہَدْیَ مَعْکُوْفًا اَنْ یَّبْلُغَ مَحِلَّہٗ» ( 48 ۔ الفتح : 25 ) ان لوگوں نے بھی کفر کیا اور تمہیں مسجد الحرام سے بھی روکا اور قربانیوں کو ان کے ذبح ہونے کی جگہ تک نہ پہنچنے دیا اگر ہمیں ان مومن مردوں عورتوں کا خیال نہ ہوتا جو اپنی ضعیفی اور کم قوتی کے باعث مکہ سے نہیں نکل سکے ۔ جنہیں تم جانتے بھی نہیں ہو تو ہم تمہیں ان سے لڑ کر ان کے غارت کر دینے کا حکم دیتے لیکن یہ بےگناہ مسلمان پیس نہ دیئے جائیں اس لیے ہم نے سردست یہ حکم نہیں دیا لیکن یہ کفار اپنی شرارتوں سے باز نہ آئے تو وہ وقت دور نہیں جب ان پر ہمارے درد ناک عذاب برس پڑیں ۔ پس جب وہ مسلمان ہستیں جن سے مسجدوں کی آبادی حقیقی معنی میں ہے وہ ہی روک دیئے گئے تو مسجدوں کے اجاڑنے میں کون سی کمی رہ گئی ؟ مسجدوں کی آبادی صرف ظاہری زیب و زینت رنگ و روغن سے نہیں ہوتی بلکہ اس میں ذکر اللہ ہونا اس میں شریعت کا قائم رہنا اور شرک اور ظاہری میل کچیل سے پاک رکھنا یہ ان کی حقیقی آبادی ہے پھر فرمایا کہ انہیں لائق نہیں کہ بے خوف ہو کر یہ مسجد میں آئیں ۔ مطلب یہ ہے کہ اے مسلمانو انہیں بے خوفی اور بے باکی کے ساتھ بیت اللہ میں آنے دو ہم تمھیں غالب کر دیں گے اس وقت یہی کرنا چنانچہ جب مکہ فتح ہو گیا اگلے سال ۹ہجری اعلان کرا دیا کہ اس سال کے بعد حج میں کوئی مشرک نہ آنے پائے اور بیت اللہ شریف کا طواف کوئی ننگا ہو کر نہ کرے جن لوگوں کے درمیان صلح کی کوئی مدت مقرر ہوئی ہے وہ قائم ہے ۔ (صحیح بخاری:365) یہ حکم دراصل تصدیق اور عمل ہے اس آیت پر آیت «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنَّمَا الْمُشْرِکُونَ نَجَسٌ فَلَا یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِہِمْ ہٰذَا» ( 9 ۔ التوبہ : 28 ) یعنی مشرک لوگ نجس ہیں اس سال کے بعد انہیں مسجد الحرام میں نہ آنے دو اور یہ معنی بھی بیان کئے گئے ہیں کہ چاہیئے تو یہ تھا کہ یہ مشرک کانپتے ہوئے اور خوف زدہ مسجد میں آئیں لیکن برخلاف اس کے الٹے یہ مسلمانوں کو روک رہے ہیں یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ ایمانداروں کو بشارت دیتا ہے کہ عنقریب میں تمہیں غلبہ دوں گا اور یہ مشرک اس مسجد کی طرف رخ کرنے سے بھی کپکپانے لگیں گے چنانچہ یہی ہوا اور حضور علیہ السلام نے وصیت کی کہ جزیرہ عرب میں دو دین باقی نہ رہنے پائیں اور یہود و نصاریٰ کو وہاں سے نکال دیا جائے ۔(مؤطا:کتاب الجامع892/2:مرسل) الحمداللہ کہ اس امت کے بزرگوں نے اس وصیت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل بھی کر دکھایا اس سے مسجدوں کی فضیلت اور بزرگی بھی ثابت ہوئی بالخصوص اس جگہ کی اور مسجد کی جہاں سب سے بڑے اور کل جن و انس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھیجے گئے تھے ۔ ان کافر پر دنیا کی رسوائی بھی آئی ، جس طرح انہوں نے مسلمانوں کو روکا جلا وطن کیا ٹھیک اس کا پورا بدلہ انہیں ملا یہ بھی روکے گئے ، جلا وطن کئے گئے اور ابھی اخروی عذاب باقی ہیں کیونکہ انہوں نے بیت اللہ شریف کی حرمت توڑی وہاں بت بٹھائے غیر اللہ سے دعائیں اور مناجاتیں شروع کر دیں ۔ ننگے ہو کر بیت اللہ کا طواف کیا وغیرہ اور اگر اس سے مراد نصرانی لیے جائیں تو بھی ظاہر ہے کہ انہوں نے بھی بیت المقدس کی بے حرمتی کی تھی ، بالخصوص اس صخرہ ( پتھر ) کی جس کی طرف یہود نماز پڑھتے تھے ، اسی طرح جب یہودیوں نے بھی نصرانیوں سے بہت زیادہ ہتک کی اور تو ان پر ذلت بھی اس وجہ سے زیادہ نازل ہوئی دنیا کی رسوائی سے مراد امام مہدی کے زمانہ کی رسوائی بھی ہے اور جزیہ کی ادائیگی بھی ہے حدیث شریف میں ایک دعا وارد ہوئی ہے ۔ دعا «اَللّٰھُمَّ اَحْسِنْ عَاقِبَتَنَا فِیْ الْاُمُوْرِ کُلِّھَا وَاَجِرْ نَا مِنْ خِزْیِ الدٰنْیَا وَعَذَابِ الْآخِرَۃِ» اے اللہ تو ہمارے تمام کاموں کا انجام اچھا کر اور دنیا کی رسوائی اور آخرت کے عذاب سے نجات دے ۔ (مسند احمد:181/4:ضعیف) یہ حدیث حسن ہے مسند احمد میں موجود ہے صحاح ستہ میں نہیں اس کے راوی بسر بن ارطاۃ رضی اللہ عنہ بن ارطاۃ صحابی ہیں ۔ ان سے ایک تو یہ حدیث مروی ہے دوسری وہ حدیث مروی ہے جس میں ہے کہ غزوے اور جنگ کے موقعہ پر ہاتھ نہ کاٹے جائیں ۔ (سنن ابوداود:4408 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) البقرة
115 کعبہ صرف علامت وحدت و سمت ہے اللہ کا جمال و جلال غیر محدود ہے اس آیت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان اصحاب رضی اللہ عنہم کو تسلی دی جاری ہے جو مکہ سے نکالے گئے اور اپنی مسجد سے روکے گئے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ شریف میں نماز بیت المقدس کی طرف منہ کر کے پڑھتے تو کعبۃ اللہ بھی سامنے ہی ہوتا تھا جب مدینہ تشریف لائے تو سولہ سترہ ماہ تک تو ادھر ہی نماز پڑھتے رہے مگر پھر اللہ تعالیٰ نے کعبۃ اللہ کی طرف متوجہ ہونے کا حکم دیا ۔ (صحیح بخاری:399) امام ابوعبیدہ قاسم بن سلام رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ناسخ منسوخ میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ سے روایت کی ہے کہ قرآن میں سب سے پہلا منسوخ حکم یہی قبلہ کا حکم ہے «وَلِلہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ» والی آیت نازل ہوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نمازیں پڑھنے لگے پھر آیت «وَمِنْ حَیْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْہَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ» ( 2 ۔ البقرہ : 149 ) نازل ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کی طرف متوجہ ہو کر نماز ادا کرنی شروع کی ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:346/1) مدینہ میں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے لگے تو یہود بہت خوش ہوئے لیکن جب یہ حکم چند ماہ کے بعد منسوخ ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی چاہت ، دعا اور انتظار کے مطابق کعبۃ اللہ کی طرف منہ کر کے نمازیں پڑھنے کا حکم دیا گیا تو ان یہودیوں نے طعنے دینے شروع کر دیئے کہ اب اس قبلہ سے کیوں ہٹ گئے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ مشرق و مغرب کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے پھر یہ اعتراض کیا ؟ جدھر اس کا حکم ہو پھر جانا چاہیئے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:1835:ضعیف و منقطع) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ مشرق مغرب میں جہاں کہیں بھی ہو منہ کعبہ کی طرف کرو ، بعض بزرگوں کا بیان ہے کہ یہ آیت کعبہ کی طرف متوجہ ہونے کے حکم سے پہلے اتری ہے اور مطلب یہ ہے کہ مشرق مغرب جدھر چاہو منہ پھیرو سب جہتیں اللہ کی ہیں اور سب طرف اللہ موجود ہے اس سے کوئی جگہ خالی نہیں جیسے فرمایا آیت «وَلَآ اَدْنٰی مِنْ ذٰلِکَ وَلَآ اَکْثَرَ اِلَّا ہُوَ مَعَہُمْ اَیْنَ مَا کَانُوْا» ( 58 ۔ المجادلہ : 7 ) تھوڑے بہت جو بھی ہوں اللہ ان کے ساتھ ہے ۔ پھر یہ حکم منسوخ ہو کر کعبۃ اللہ کی طرف متوجہ ہونا فرض ہوا ۔ اس قول میں جو یہ لفظ ہیں کہ اللہ سے کوئی جگہ خالی نہیں اگر اس سے مراد علم اللہ ہو تو صحیح ہے کوئی مکان اللہ کے علم سے خالی نہیں اور اگر ذات باری مراد ہو تو ٹھیک نہیں اللہ تعالیٰ کی پاک ذات اس سے بہت بلند و بالا ہے کہ وہ اپنی مخلوق میں سے کسی چیز میں محصور ہو ایک مطلب آیت کا یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ یہ آیت سفر اور راہ روی اور خوف کے وقت کے لیے ہے کہ ان وقتوں میں نفل نماز کو جس طرف منہ ہو ادا کر لیا کرو ۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ان کی اونٹنی کا منہ جس طرح ہوتا تھا نماز پڑھ لیتے تھے اور فرماتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ یہی تھا اور اس آیت کا مطلب بھی یہی ہے آیت کا ذکر کئے بغیر یہ حدیث مسلم ترمذی نسائی ابن ابی حاتم ابن مردویہ وغیرہ میں مروی ہے اور اصل اس کی صحیح بخاری صحیح مسلم میں بھی موجود ہے ۔ (صحیح بخاری:1096) صحیح بخاری شریف میں ہے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے جب نماز خوف کے بارے میں پوچھا جاتا تو نماز خوف کو بیان فرماتے اور کہتے کہ جب اس سے بھی زیادہ خوف ہو تو پیدل اور سوار کھڑے پڑھ لیا کرو منہ خواہ قبلہ کی جانب ہو خواہ نہ ہو نافع رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما میرے خیال سے اسے مرفوع بیان کرتے تھے ۔ (صحیح بخاری:4535) امام شافعی رحمہ اللہ کا مشہور فرمان اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ سفر خواہ پر امن ہو خواہ خوف ڈر اور لڑائی کا ہو سواری پر نفل ادا کر لینے جائز ہیں امام مالک رحمہ اللہ اور آپ رحمہ اللہ کی جماعت اس کے خلاف ہے ۔ امام ابو یوسف رحمہ اللہ اور ابوسعید اصطخری بغیر سفر کے بھی اسے جائز کہتے ہیں ۔ سیدنا انس سے بھی یہ روایت ہے امام ابو جعفر طبری رحمہ اللہ بھی اسے پسند فرماتے ہیں یہاں تک کہ وہ تو پیدل چلنے والے کو بھی رخصت دیتے ہیں ۔ بعض اور مفسرین کے نزدیک یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جنہیں قبلہ معلوم نہ ہو سکا اور انہوں نے قیاس سے مختلف جہتوں کی طرف نماز پڑھی جس پر یہ آیت نازل ہوئی اور ان کی وہ نماز ادا شدہ بتائی گئی سیدنا ربیعہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے ایک منزل پر اترے رات اندھیری تھی لوگوں نے پتھر لے لے کر بطور نشان کے قبلہ رخ رکھ کر نماز پڑھنی شروع کر دی صبح اٹھ کر روشنی میں دیکھا تو نماز قبلہ کی طرف ادا نہیں ہوئی تھی ، ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی ، یہ حدیث ترمذی شریف میں ہے ۔(سنن ترمذی:345،قال الشیخ الألبانی:حسن) امام صاحب نے اسے حسن کہا ہے اس کے دو راوی ضعیف ہیں ایک اور روایت میں ہے کہ اس وقت گھٹا ٹوپ اندھیرا چھایا ہوا تھا اور ہم نے نماز پڑھ کر اپنے اپنے سامنے خط کھینچ دیئے تھے تاکہ صبح روشنی میں معلوم ہو جائے کہ نماز قبلہ کی طرف ادا ہوئی یا نہیں ؟ صبح معلوم ہوا کہ قبلہ جاننے میں ہم نے غلطی کی لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں وہ نماز لوٹانے کا حکم نہیں دیا اور یہ آیت نازل ہوئی اس روایت کے بھی دو راوی ضعیف ہیں یہ روایت دارقطنی وغیرہ میں موجود ہے ۔(دار قطنی:271/1:ضعیف) ایک روایت میں ہے کہ ان کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہ تھے یہ بھی سنداً ضعیف ہے ایسی نماز کے لوٹانے کے بارے میں علماء کے دو قول میں سے ٹھیک قول یہی ہے کہ دوہرائی نہ جائے اور اسی قول کی تائید کرنے والی یہ حدیثیں ہیں جو اوپر بیان ہوئیں ۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ اس کے نازل ہونے کا باعث نجاشی ہے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی موت کی خبر دی اور کہا ان کے جنازہ کی غائبانہ نماز پڑھو تو بعض نے کہا کہ وہ تو مسلمان نہ تھا نصرانی تھا اس پر آیت نازل ہوئی کہ آیت «وَإِنَّ مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ لَمَن یُؤْمِنُ بِ اللہِ وَمَا أُنزِلَ إِلَیْکُمْ وَمَا أُنزِلَ إِلَیْہِمْ خَاشِعِینَ لِلہِ لَا یَشْتَرُونَ بِآیَاتِ اللہِ ثَمَنًا قَلِیلًا» ( 3-آل عمران : 199 ) یعنی بعض اہل کتاب اللہ تعالیٰ پر اور اس چیز پر جو اے مسلمانو تمہاری طرف نازل ہوئی اور اس چیز پر جو ان پر نازل کی گئی ایمان لاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہتے ہیں (تفسیر ابن جریر الطبری:1846:ضعیف و مرسل) صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم وہ قبلہ کی طرف تو نماز نہیں پڑھتا تھا اس پر یہ آیت نازل ہوئی لیکن یہ روایت غریب ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اس کے معنی یہ بھی کئے گئے ہیں کہ وہ بیت المقدس کی طرف اس لیے نمازیں پڑھتے رہے کہ انہیں اس کے منسوخ ہو جانے کا علم نہیں ہوا تھا ، قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ان کے جنازے کی نماز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھی اور یہ دلیل ہے کہ جنازے کی نماز غائبانہ ادا کرنی چاہیئے ۔ اور اس کے نہ ماننے والے اس حکم کو مخصوص جانتے ہیں اور اس کی تین تاویلیں کرتے ہیں ایک تو یہ کہ آپ نے اس کے جنازے کو دیکھ لیا زمین آپ کے لیے سمیٹ لی گئی تھی ، دوسری یہ کہ چونکہ وہاں ان کے پاس ان کے جنازہ کی نماز پڑھنے والا اور کوئی نہ تھا اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں غائبانہ ادا کی ابن عربی اسی جواب کو پسند کرتے ہیں قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ ناممکن ہے کہ ایک بادشاہ مسلمان ہو اور اس کی قوم کا کوئی شخص اس کے پاس مسلمان نہ ہو ، ابن عربی اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ شاید ان کے نزدیک جنازے کی نماز ان کی شریعت میں نہ ہو ، یہ جواب بہت اچھا ہے ، تیسری یہ کہ نماز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے ادا کی کہ دوسرے لوگوں کی رغبت کا سبب ہو اور اس جیسے دوسرے بادشاہ بھی دین اسلام کی طرف مائل ہوں ۔ ( لیکن یہ تینوں تاویلیں ظاہر کے خلاف ہونے کے علاوہ صرف احتمالات کی بنا پر ہیں اور انہیں مان لینے کے بعد بھی مسئلہ وہیں رہتا ہے کیا جنازہ غائبانہ پڑھنا چاہیئے کیونکہ گو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جنازے کا مشاہدہ کر لیا لیکن صحابہ رضی اللہ عنہم کی نماز تو غائبانہ ہی رہی ۔ اگر ہم دوسرا جواب مان لیں تو بھی جنازہ تو غائبانہ نہ ہی ہوا جو لوگ سرے سے نماز جنازہ غائبانہ کے قائل ہی نہیں وہ تو اس صورت میں بھی قائل نہیں ہیں اور یہ بات تو دل کو لگتی ہی نہیں کہ ان کے نزدیک نماز جنازہ شروع نہ ہو شریعت ان کی بھی اسلام ہی تھی نہ کہ کوئی اور تیسرا جواب بھی کچھ ایسا ہی ہے اور برتقدیر تسلیم اب بھی وہ وجہ باقی ہے کہ جنازہ غائبانہ ادا کیا کریں تاکہ دوسرے لوگوں کی رغبت اسلام کا باعث ہو «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ مترجم ) ابن مردویہ میں حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اہل مدینہ اہل شام اہل عراق کا قبلہ مشرق و مغرب کے درمیان ہے ۔ (سنن ترمذی:342 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) یہ روایت ترمذی میں بھی دوسرے الفاظ سے مروی ہے اور اس کے ایک راوی ابومعشر کے حافظہ پر بعض اہل علم نے کلام کیا ہے امام ترمذی نے اسے ایک اور سند سے بھی وارد کیا ہے اور اسے حسن صحیح کہا ہے ۔ (سنن ترمذی:344 ، قال الشیخ الألبانی:حسن صحیح) سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ ابن ابوطالب سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی یہ مروی ہے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب تو مغرب کو اپنی دائیں جانب اور مشرق کو بائیں جانب کر لے تو تیرے سامنے کی جہت قبلہ ہو جائے گا عمر سے بھی اوپر کی طرح حدیث مروی ہے کہ مشرق و مغرب کے درمیان قبلہ ہے (سنن ترمذی:344) ملاحظہ ہو دارقطنی بیہقی وغیرہ (دار قطنی :270/1)امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ مطلب بھی اس آیت کا ہو سکتا ہے کہ تم مجھ سے دعائیں مانگنے میں اپنا منہ جس طرف بھی کرو میرا منہ بھی اسی طرف پاؤ گے اور میں تمہاری دعاؤں کو قبول فرماؤں گا ، مجاہد سے مروی ہے کہ جب یہ آیت «ادْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ» ( 40 ۔ غافر : 60 ) مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا اتری تو لوگوں نے کہا کس طرف رخ کر کے دعا کریں اس کے جواب میں آیت «فَاَیْنَـمَا تُوَلٰوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ» ( 2 ۔ البقرہ : 115 ) نازل ہوئی پھر فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام وسعتوں پر غالب ، گنجائش والا اور علم والا ہے جس کی کفایت سخاوت اور فضل و کرم نے تمام مخلوق کا احاطہٰ کر کھا ہے وہ سب چیزوں کو جانتا بھی ہے کوئی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی اس کے علم سے باہر نہیں بلکہ وہ تمام چیزوں کا عالم ہے ۔ البقرة
116 اللہ ہی مقتدر اعلیٰ ہے کے دلائل یہ اور اس کے ساتھ کی آیت نصرانیوں کے رد میں ہے اور اس طرح ان جیسے یہود و مشرکین کی تردید میں ہے جو اللہ کی اولاد بتاتے تھے ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین و آسمان وغیرہ تمام چیزوں کا تو اللہ مالک ہے ان کا پیدا کرنے والا انہیں روزیاں دینے والا ان کے اندازے مقرر کرنے والا انہیں قبضہ میں رکھنے والا ان میں ہر تغیر و تبدل کرنے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے پھر بھلا اس مخلوق میں سے کوئی اس کی اولاد کیسے ہو سکتا ہے ؟ نہ عزیر اور نہ ہی عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بیٹے بن سکتے ہیں جیسے کہ یہود و نصاریٰ کا خیال تھا نہ فرشتے اس کی بیٹیاں بن سکتے ہیں جیسے کہ مشرکین عرب کا خیال تھا ۔ اس لیے دو برابر کی مناسبت رکھنے والے ہم جنس سے اولاد ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کا نہ کوئی نظیر نہ اس کی عظمت و کبریائی میں اس کا کوئی شریک نہ اس کی جنس کا کوئی اور «بَدِیعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَنَّیٰ یَکُونُ لَہُ وَلَدٌ وَلَمْ تَکُن لَّہُ صَاحِبَۃٌ وَخَلَقَ کُلَّ شَیْءٍ وَہُوَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیمٌ» ( 6-الانعام : 101 ) وہ تو آسمانوں اور زمینوں کا پیدا کرنے والا ہے اس کی اولاد کیسے ہو گی ؟ اس کی کوئی بیوی بھی نہیں وہ ہر چیز کا خالق اور ہر چیز کا عالم ہے ۔ «وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا لَّقَدْ جِئْتُمْ شَیْئًا إِدًّا تَکَادُ السَّمَاوَاتُ یَتَفَطَّرْنَ مِنْہُ وَتَنشَقٰ الْأَرْضُ وَتَخِرٰ الْجِبَالُ ہَدًّا أَن دَعَوْا لِلرَّحْمٰنِ وَلَدًا وَمَا یَنبَغِی لِلرَّحْمٰنِ أَن یَتَّخِذَ وَلَدًا إِن کُلٰ مَن فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِی الرَّحْمٰنِ عَبْدًا لَّقَدْ أَحْصَاہُمْ وَعَدَّہُمْ عَدًّا وَکُلٰہُمْ آتِیہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَرْدًا» ( 19-مریم : 88 - 95 ) یہ لوگ رحمن کی اولاد بتاتے ہیں یہ کتنی بے معنی اور بے ہودہ بے تکی بات تم کہتے ہو ؟ اتنی بری بات زبان سے نکالتے ہو کہ اس سے آسمانوں کا پھٹ جانا اور زمین کا شق ہو جانا اور پہاڑوں کا ریزہ ریز ہو جانا ممکن ہے ۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اللہ تعالیٰ صاحب اولاد ہے اللہ کی اولاد تو کوئی ہو ہی نہیں سکتی اس کے سوا جو بھی ہے سب اس کی ہی ملکیت ہے زمین و آسمان کی تمام ہستیاں اس کی غلامی میں ظاہر ہونے والی ہیں جنہیں ایک ایک کر کے اس نے گھیر رکھا ہے اور شمار کر رکھا ہے ان میں سے ہر ایک اس کے پاس قیامت والے دن تنہا تنہا پیش ہونے والی ہے ۔ پس غلام اولاد نہیں بن سکتا ملکیت اور ولدیت دو مختلف اور متضاد حیثیتیں ہیں دوسری جگہ پوری سورت میں اس کی نفی فرمائی ارشاد ہوا آیت «قُلْ ہُوَ اللہُ أَحَدٌ اللہُ الصَّمَدُ لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُولَدْ وَلَمْ یَکُن لَّہُ کُفُوًا أَحَدٌ» ( 112-الاخلاص : 1-4 ) کہ دو کہ اللہ ایک ہی ہے اللہ بے نیاز ہے اس کی نہ اولاد ہے نہ ماں باپ اس کا ہم جنس کوئی نہیں ۔ ان آیتوں اور ان جیسی اور آیتوں میں اس خالق کائنات نے اپنی تسیح و تقدیس بیان کی اور اپنا بے نظیر بے مثل اور لا شریک ہونا ثابت کیا اور ان مشرکین کے اس گندے عقیدے کو باطل قرار دیا اور بتایا کہ وہ تو سب کا خالق و رب ہے پھر اس کی اولاد بیٹے بیٹیاں کہاں سے ہوں گی ؟ سورۃ البقرہ کی اس آیت کی تفسیر میں صحیح بخاری شریف کی ایک قدسی حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مجھے ابن آدم جھٹلاتا ہے اسے یہ لائق نہ تھا مجھے وہ گالیاں دیتا ہے اسے یہ نہیں چاہیئے تھا اس کا جھٹلانا تو یہ ہے کہ وہ خیال کر بیٹھتا ہے کہ میں اسے مار ڈالنے کے بعد پھر زندہ کرنے پر قادر نہیں ہوں اور اس کا گالیاں دینا یہ ہے کہ وہ میری اولاد بتاتا ہے حالانکہ میں پاک ہوں اور میری اولاد اور بیوی ہو,(صحیح بخاری:4482) اس سے بہت بلند و بالا ہوں یہی حدیث دوسری سندوں سے اور کتابوں میں بھی با اختلاف الفاظ مروی ہے صحیین میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں بری باتیں سن کر صبر کرنے میں اللہ تعالیٰ سے زیادہ کوئی کامل نہیں ۔ لوگ اس کی اولاد بتائیں اور وہ انہیں رزق و عافیت دیتا رہے,(صحیح بخاری:6099) پھر فرمایا ہر چیز اس کی اطاعت گزار ہے اس کی غلامی کا اقرار کئے ہوئے ہے اس کے لیے مخلص ۔ اس کی سرکار میں قیامت کے روز دست بستہ کھڑی ہونے والی اور دنیا میں بھی عبادت گزار ہے جس کو کہے یوں ہو جاؤ یا اس طرح بن ۔ فوراً وہ اسی طرح ہو جاتی اور بن جاتی ہے ۔ اس طرح ہر ایک اس کے سامنے پست و مطیع ہے کفار نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے مطیع ہیں ہر موجود کے سائے اللہ کے سامنے جھکتے رہتے ہیں ، قرآن نے اور جگہ فرمایا آیت « وَلِلہِ یَسْجُدُ مَن فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ طَوْعًا وَکَرْہًا وَظِلَالُہُم بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ» ( 13-سورۃ الرعد : 15 ) آسمان و زمین کی کل چیزیں خوشی ناخوشی اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتی ہیں ان کے سائے صبح شام جھکتے رہتے ہیں۔ ایک حدیث میں مروی ہے کہ جہاں کہیں قرآن میں «قنوت» کا لفظ ہے وہاں مراد اطاعت ہے ۔(تفسیر ابن ابی حاتم:1135:ضعیف) لیکن اس کا مرفوع ہونا صحیح نہیں ممکن ہے صحابی کا یا اور کسی کا کلام ہو اس سند سے اور آیتوں کی تفسیر بھی مرفوعاً مروی ہے لیکن یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ ضعیف ہے کوئی شخص اس سے دھوکہ میں نہ پڑے۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ پھر فرمایا وہ آسمان و زمین کو بغیر کسی سابقہ نمونہ کے پہلی ہی بار کی پیدائش میں پیدا کرنے والا ہے لغت میں بدعت کے معنی نو پیدا کرنے نیا بنانے کے ہیں حدیث میں ہے ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔ (سنن ابوداود:4607 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) یہ تو شرعی بدعت ہے کبھی بدعت کا اطلاق صرف لغتہً ہوتا ہے شرعاً مراد نہیں ہوتی ۔ جیسے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو نماز تراویح پر جمع کیا اور پھر اسے اسی طرح جاری دیکھ کر فرمایا تھا اچھی بدعت ہے ۔ (صحیح بخاری:2010) بدیع کا مبدع سے تصرف کیا گیا ہے جیسے «مولم» سے «الیم» اور «مسمع» سے «سمیع» معنی مبدع کے انشا اور نو پیدا کرنے والے کے ہیں بغیر مثال بغیر نمونہ اور بغیر پہلی پیدائش کے پیدا کرنے والے بدعتی کو اس لیے بدعتی کہا جاتا ہے کہ وہ بھی اللہ کے دین میں وہ کام یا وہ طریقہ ایجاد کرتا ہے جو اس سے پہلے شریعت میں نہ ہو اسی طرح کسی نئی بات کے پیدا کرنے والے کو عرب مبتدع کہتے ہیں ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ اولاد سے پاک ہے وہ آسمان و زمین کی تمام چیزوں کا مالک ہے ہر چیز اس کی وحدانیت کی دلیل ہے ہر چیز اس کی اطاعت گزاری کا اقرار کرتی ہے ۔ سب کا پیدا کرنے والا ، بنانے والا ، موجود کرنے والا ، بغیر اصل اور مثال کے انہیں وجود میں لانے والا ، ایک وہی رب العالمین ہے اس کی گواہی ہر چیز دیتی ہے خود مسیح علیہ السلام بھی اس کے گواہ اور بیان کرنے والے ہیں جس رب نے ان تمام چیزوں کو بغیر نمونے کے اور بغیر مادے اور اصل کے پیدا کیا اس نے عیسیٰ علیہ السلام کو بھی بے باپ پیدا کر دیا پھر کوئی وجہ نہیں کہ انہیں تم خواہ مخواہ اللہ کا بیٹا مان لو پھر فرمایا اس اللہ کی قدرت سلطنت سطوت و شوکت ایسی ہے کہ جس چیز کو جس طرح کی بنانا اور پیدا کرنا چاہیئے اسے کہہ دیتا ہے کہ اس طرح کی اور ایسی ہو جا وہ اسی وقت ہو جاتی ہے جیسے فرمایا آیت «اِنَّمَآ اَمْرُہٗٓ اِذَآ اَرَادَ شَـیْـــــًٔا اَنْ یَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ» ( 36 ۔ یس : 82 ) دوسری جگہ فرمایا آیت «اِنَّمَا قَوْلُــنَا لِشَیْءٍ اِذَآ اَرَدْنٰہُ اَنْ نَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ» ( 16 ۔ النحل : 40 ) اور ارشاد ہوتا ہے آیت «وَمَآ اَمْرُنَآ اِلَّا وَاحِدَۃٌ کَلَمْحٍۢ بِالْبَصَرِ» ( 54 ۔ القمر : 50 ) شاعر کہتا ہے ۔ «ذا ما اراد اللہ امرا فانما یقول لہ کن قولہ فیکون» مطلب اس کا ہے کہ ادھر کسی چیز کا اللہ نے ارادہ فرمایا اس نے کہا ہو جا وہیں وہ ہو گیا اس کے ارادے سے مراد جدا نہیں۔ پس مندرجہ بالا آیت میں عیسائیوں کو نہایت لطیف پیرایہ میں یہ بھی سمجھا دیا گیا کہ عیسیٰ علیہ السلام بھی اسی کن کے کہنے سے پیدا ہوئے ہیں دسری جگہ صاف صاف فرما دیا آیت «اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰی عِنْدَ اللّٰہِ کَمَثَلِ اٰدَمَ ۭخَلَقَہٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ» ( 3 ۔ آل عمران : 59 ) یعنی عیسیٰ علیہ السلام کی مثال اللہ تعالیٰ کے نزدیک آدم جیسی ہے جنہیں مٹی سے پیدا کیا پھر فرمایا ہو جا وہ ہو گئے ۔ البقرة
117 البقرة
118 طلب نظارہ ، ایک حماقت رافع بن حریملہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا کہ اگر آپ سچے ہیں تو اللہ تعالیٰ خود ہم سے کیوں نہیں کہتا ؟ ہم بھی تو خود اس سے اس کا کلام سنیں ، اس پر یہ آیت اتری (تفسیر ابن ابی حاتم:352/1:) مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں یہ بات نصرانیوں نے کہی تھی ، ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہی ٹھیک بھی معلوم ہوتا ہے اس لیے کہ آیت انہی سے متعلق بیان کے دوران میں ہے لیکن یہ قول سوچنے کے قابل ہے قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے کہا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی اطلاع خود جناب باری ہمیں کیوں نہیں دیتا ؟ یہی بات ٹھیک ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ بعض اور مفسر کہتے ہں یہ قول کفار عرب کا تھا اسی طرح بےعلم لوگوں نے بھی کہا تھا ان سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں ، (تفسیر ابن ابی حاتم:353/1) قرآن کریم میں اور جگہ ہے آیت «وَإِذَا جَاءَتْہُمْ آیَۃٌ قَالُوا لَن نٰؤْمِنَ حَتَّیٰ نُؤْتَیٰ مِثْلَ مَا أُوتِیَ رُسُلُ اللہِ ۘ اللہُ أَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہُ سَیُصِیبُ الَّذِینَ أَجْرَمُوا صَغَارٌ عِندَ اللہِ وَعَذَابٌ شَدِیدٌ بِمَا کَانُوا یَمْکُرُونَ» ( 6 ۔ الانعام : 124 ) ان کے پاس جب کبھی کوئی نشانی آتی ہے تو کہتے ہیں ہم تو نہیں مانیں گے جب تک ہم کو بھی وہ نہ دیا جائے جو اللہ کے رسولوں کو دیا گیا اور جگہ فرمایا آیت «وَقَالُوْا لَنْ نٰؤْمِنَ لَکَ حَتّٰی تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْاَرْضِ یَنْبُوْعًا» ( 17 ۔ الاسرآء : 90 ) یعنی انہوں نے کہا کہ ہم آپ پر ہرگز ایمان نہ لائیں گے جب تک کہ آپ ہمارے لیے ان زمینوں میں چشمے جاری نہیں کر دیں اور جگہ فرمایا آیت «وَقَالَ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَاءَنَا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَیْنَا الْمَلٰیِٕکَۃُ اَوْ نَرٰی رَبَّنَا» ( 25 ۔ الفرقان : 21 ) یعنی ہماری ملاقات کے منکر کہتے ہیں ہم پر فرشتے کیوں نہیں اتارے جاتے اللہ تعالیٰ ہمارے سامنے کیوں نہیں آتا اور جگہ فرمایا آیت «بَلْ یُرِیْدُ کُلٰ امْرِۍ مِّنْہُمْ اَنْ یٰؤْتٰی صُحُفًا مٰنَشَّرَۃً» ( 74 ۔ المدثر : 52 ) ان میں سے ہر شخص چاہتا ہے کہ اس کے پاس کھلی ہوئی کتاب آئے وغیرہ وغیرہ ۔ آیتیں جو صاف بتاتی ہیں کہ مشرکین عرب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف تکبر و عناد کی بنا پر ایسی ایسی چیزیں طلب کیں اسی طرح یہ مطالبہ بھی انہی مشرکین کا تھا ، ان سے پہلے اہل کتاب نے بھی ایسے ہی بے معنی سوالات کئے تھے ارشاد ہوتا ہے آیت «یَسْــَٔــلُکَ اَہْلُ الْکِتٰبِ اَنْ تُنَزِّلَ عَلَیْہِمْ کِتٰبًا مِّنَ السَّمَاءِ فَقَدْ سَاَلُوْا مُوْسٰٓی اَکْبَرَ مِنْ ذٰلِکَ» ( 4 ۔ النسآء : 153 ) اہل کتاب تم سے چاہتے ہیں کہ تم ان پر کوئی آسمانی کتاب اتارو اور موسیٰ علیہ السلام سے انہوں نے اس سے بھی بڑا سوال کیا تھا ان سے تو کہا تھا کہ ہمیں اللہ کو ہماری آنکھوں سے دکھا اور جگہ فرمان ہے کہ «وَإِذْ قُلْتُمْ یَا مُوسَیٰ لَن نٰؤْمِنَ لَکَ حَتَّیٰ نَرَی اللہَ جَہْرَۃً» ( البقرۃ : 55 ) جب تم نے کہا اے موسیٰ علیہ السلام ہم تجھ پر ہرگز ایمان نہ لائیں گے جب تک اپنے رب کو سامنے نہ دیکھ لیں پھر فرمایا ان کے اور ان کے دل یکساں اور مشابہ ہو گئے یعنی ان مشرکین کے دل سابقہ کفار جیسے ہو گئے اور جگہ فرمایا ہے کہ «کَذٰلِکَ مَا أَتَی الَّذِینَ مِن قَبْلِہِم مِّن رَّسُولٍ إِلَّا قَالُوا سَاحِرٌ أَوْ مَجْنُونٌ» ( 53-الذاریات : 52 ) پہلے گزرنے والوں نے بھی اپنے انبیاء کو جادوگر اور دیوانہ کہا تھا انہوں نے بھی ان ہی باتوں کو دہرایا تھا ۔ پھر فرمایا ہم نے یقین والوں کے لیے اپنی آیتیں اسی طرح بیان کر دیں ہیں جن سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق عیاں ہے کسی اور چیز کی وضاحت باقی نہیں رہی یہی نشانیاں ایمان لانے کے لیے کافی ہیں ہاں جن کے دلوں پر مہر لگی ہوئی ہو انہیں کسی آیت سے کوئی فائدہ نہ ہو گا جیسے فرمایا آیت «إِنَّ الَّذِینَ حَقَّتْ عَلَیْہِمْ کَلِمَتُ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُونَ وَلَوْ جَاءَتْہُمْ کُلٰ آیَۃٍ حَتَّیٰ یَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِیمَ» ( 10-یونس : 96 ، 97 ) جن پر تیرے رب کی بات ثابت ہو چکی ہے وہ ایمان نہ لائیں گے گو ان کے پاس تمام آیتیں آ جائیں جب تک کہ وہ درد ناک عذاب نہ دیکھ لیں ۔ البقرة
119 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نصیحت کی حد تک مسؤل ہیں حدیث میں ہے خوشخبری جنت کی اور ڈراوا جہنم سے (تفسیر ابن ابی حاتم:354/1) «لا تسئل» کی دوسری قرأت ما تسئل بھی ہے اور سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی قرأت میں «لن تسئل» بھی ہے یعنی تجھ سے کفار کی بابت سوال نہیں کیا جائے گا جیسے فرمایا آیت «فَإِنَّمَا عَلَیْکَ الْبَلَاغُ وَعَلَیْنَا الْحِسَابُ» ( 13-الرعد : 40 ) یعنی تجھ پر صرف پہنچا دینا ہے حساب تو ہمارے ذمہ ہے اور فرمایا آیت «فَذَکِّرْ إِنَّمَا أَنتَ مُذَکِّرٌ لَّسْتَ عَلَیْہِم بِمُصَیْطِرٍ» 88 ۔ الغاشیہ : 22 ، 21 ) تو نصیحت کرتا رہ تو صرف نصیحت کرنے والا ہے ان پر داروغہ نہیں اور جگہ فرمایا آیت «نَّحْنُ أَعْلَمُ بِمَا یَقُولُونَ وَمَا أَنتَ عَلَیْہِم بِجَبَّارٍ فَذَکِّرْ بِالْقُرْآنِ مَن یَخَافُ وَعِیدِ» ( 50-ق : 45 ) ہم ان کی باتیں بخوبی جانتے ہیں تم ان پر جبر کرنے والے نہیں ہو تو قرآن کی نصیحتیں انہیں سنا دو جو قیامت سے ڈرتے ہوں اسی مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں ایک قرأت اس کی «ولا تسائل» بھی ہے یعنی ان جہنمیوں کے بارے میں اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے کچھ نہ پوچھو ۔ عبدالرزاق میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کاش کہ میں اپنے ماں باپ کا حال جان لیتا ، کاش کہ میں اپنے ماں باپ کا حال جان لیتا ، کاش کہ میں اپنے ماں باپ کا حال جان لیتا ۔ اس پر یہ فرمان نازل ہوا ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:1877:ضعیف و مرسل) پھر آخری دم تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے والدین کا ذکر نہ فرمایا ابن جریر رحمہ اللہ نے بھی اسے بروایت موسیٰ بن عبیدہ وارد کیا ہے لیکن اس راوی پر کلام ہے قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں مطلب یہ ہے کہ جہنمیوں کا حال اتنا بد اور برا ہے کہ تم کچھ نہ پوچھو ، تذکرہ میں قرطبی رحمہ اللہ نے ایک روایت نقل کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین زندہ کئے گئے اور ایمان لے آئے اور صحیح مسلم میں جو حدیث ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کے سوال پر فرمایا ہے کہ میرا باپ اور تیرا باپ آگ میں ہیں ۔ (صحیح مسلم:203) ان کا جواب بھی وہاں ہے لیکن یاد رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماں باپ کے زندہ ہونے کی روایت کتب صحاح ستہ وغیرہ میں نہیں اور اس کی اسناد ضعیف ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ ابن جریر رحمہ اللہ کی ایک مرسل حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن پوچھا کہ میرے باپ کہاں ہیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی ، (تفسیر ابن جریر الطبری:1879:مرسل و ضعیف) ابن جریر رحمہ اللہ نے اس کی تردید کی ہے اور فرمایا ہے کہ یہ محال ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ماں باپ کے بارے میں شک کریں پہلی ہی قرأت ٹھیک ہے لیکن ہمیں امام ہمام پر تعجب آتا ہے کہ انہوں نے اسے محال کیسے کہہ دیا ؟ ممکن ہے یہ واقعہ اس وقت کا ہو جب آپ اپنے ماں باپ کے لیے استفسار کرتے تھے اور انجام معلوم نہ تھا پھر جب ان دونوں کی حالت معلوم ہو گئی تو آپ اس سے ہٹ گئے اور بیزاری ظاہری فرمائی اور صاف بتا دیا کہ وہ دونوں جہنمی ہیں جیسے کہ صحیح حدیث سے ثابت ہو چکا ہے اس کی اور بھی بہت سی مثالیں ہیں ۔ مسند احمد میں ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاصی رضی اللہ عنہما سے عطا بن یسار رحمہ اللہ نے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت و ثنا توراۃ میں کیا ہے تو آپ رحمہ اللہ نے فرمایا ہاں اللہ کی قسم جو صفتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرآن میں ہیں وہی توراۃ میں بھی ہیں ، توراۃ میں بھی ہے اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے تجھے گواہ اور خوشخبریاں دینے والا اور ڈرانے والا اور ان پڑھوں کا بچاؤ بنا کر بھیجا ہے تو میرا بندہ اور میرا رسول ہے میں نے تیرا نام متوکل رکھا ہے تو نہ بدزبان ہے نہ سخت گو نہ بدخلق نہ بازاروں میں شور غل کرنے والا ہے نہ تو برائی کے بدلے برائی کرنے والا ہے بلکہ معاف اور درگزر کرنے والا ہے اللہ تعالیٰ انہیں دنیا سے نہ اٹھائے گا جب تک کہ تیرے دین کو تیری وجہ سے بالکل ٹھیک اور درست نہ کر دے اور لوگ «لا الہ الہ اللہ» کا اقرار نہ کر لیں اور ان کی اندھی آنکھیں کھل نہ جائیں اور ان کے بہرے کان سننے نہ لگ جائیں اور ان کے زنگ آلود دل صاف نہ ہو جائیں ۔ (مسند احمد:174/2:صحیح) بخاری کی کتاب البیوع میں بھی یہ حدیث ہے اور کتاب التفسیر میں بھی ابن مردویہ میں اس روایت کے بعد مزید یہ ہے کہ میں نے پھر جا کر سیدنا کعب رضی اللہ عنہ سے یہی سوال کیا تو انہوں نے بھی ٹھیک یہی جواب دیا ۔ (دلائل النبوۃ للبیہقی:373/1-374) البقرة
120 دین حق کا باطل سے سمجھوتہ جرم عظیم ہے آیت بالا کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ تجھ سے ہرگز راضی نہیں ہوں گے لہٰذا تو بھی انہیں چھوڑ اور رب کی رضا کے پیچھے لگ جا تو نے انہیں دعوت رسالت پہنچا دیں ۔ دین حق وہی ہے جو اللہ نے تجھے دیا ہے تو اس پر جم جا ۔ حدیث شریف میں ہے میری امت کی ایک جماعت حق پر جم کر دوسروں کے مقابلہ میں رہے گی اور غلبہ کے ساتھ رہے گی یہاں تک کہ قیامت آئے ۔ (صحیح مسلم:156) پھر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کر کے دھمکایا کہ ہرگز ان کی رضا مندی اور ان سے صلح جوئی کے لیے اپنے دین میں سست نہ ہونا ان کی طرف نہ جھکنا ان کی نہ ماننا فقہاء کرام نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ کفر ایک ہی مذہب ہے خواہ وہ یہود ہوں نصرانی ہوں یا کوئی اور ہوں اس لیے کہ ملت کا لفظ یہاں مفرد ہی رکھا جیسے اور جگہ ہے آیت «لَکُمْ دِینُکُمْ وَلِیَ دِینِ» ( 109-الکافرون : 6 ) تمہارے لیے تمہارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین ہے اس استدلال پر اس مسئلہ کی بنا ڈالی ہے کہ مسلمان اور کفار آپس میں وارث نہیں ہو سکتے اور کفر آپس میں ایک دوسرے کے وارث ہو سکتے ہیں گو وہ دونوں ایک ہی قسم کے کافر ہوں یا دو الگ الگ کفروں کے کافر ہوں ، امام شافعی اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہما کا یہی مذہب ہے اور امام احمد رحمہ اللہ سے بھی ایک روایت میں یہی قول منقول ہے اور دوسری روایت میں امام احمد رحمہ اللہ کا اور امام مالک رحمہ اللہ کا یہ قول مروی ہے کہ دو مختلف مذہب والے آپس میں ایک دوسرے کے وارث نہ ہوں ایک صحیح حدیث میں بھی یہی مضمون ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ (سنن ابن ماجہ:2731قال الشیخ الألبانی:صحیح) حق تلاوت سے کیا مراد ہے؟ پھر فرمایا کہ جنہیں ہم نے کتاب دی ہے وہ حق تلاوت ادا کرتے ہوئے پڑھتے ہیں ، قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں اس سے مراد یہود نصاریٰ ہیں اور روایت میں ہے کہ اس سے مراد اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حق تلاوت یہ ہے کہ جنت کے ذکر کے وقت جنت کا سوال کیا جائے اور جہنم کے ذکر کے وقت اس سے پناہ مانگی جائے(تفسیر قرطبی:95/2) سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حلال و حرام کو جاننا کلمات کو ان کی جگہ رکھنا تغیر و تبدل نہ کرنا وغیرہ یہی تلاوت کا حق ادا کرنا ہے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:567/2) حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کھلی آیتوں پر عمل کرنا متشابہ آیتوں پر ایمان لانا مشکلات کو علماء کے سامنے پیش کرنا حق تلاوت کے ساتھ پڑھنا ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس کا مطلب حق اتباع بجا لانا بھی مروی ہے پس تلاوت بمعنی اتباع ہے جیسے آیت «وَالْقَمَرِ اِذَا تَلٰیہَا» ( 91 ۔ الشمس : 2 ) میں ایک مرفوع حدیث میں بھی اس کے یہی معنی مروی ہیں لیکن اس کے بعض راوی مجہول ہیں گو معنی ٹھیک ہے سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں قرآن کی اتباع کرنے والا جنت کے باغیچوں میں اترنے والا ہے ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی تفسیر کے مطابق یہ بھی مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی رحمت کے ذکر کی آیت پڑھتے تو ٹھہر جاتے اور اللہ سے رحمت طلب کرتے اور جب کبھی کسی عذاب کی آیت تلاوت فرماتے تو رک کر اللہ تعالیٰ سے پناہ طلب فرماتے ۔ (صحیح مسلم:772 ) پھر فرمایا اس پر ایمان یہی لوگ رکھتے ہیں یعنی جو اہل کتاب اپنی کتاب کی سوچ سمجھ کر تلاوت کرتے ہیں وہ قرآن پر ایمان لانے پر مجبور ہو جاتے ہیں جیسے اور جگہ آیت «وَلَوْ اَنَّہُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰیۃَ وَالْاِنْجِیْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِمْ مِّنْ رَّبِّہِمْ لَاَکَلُوْا مِنْ فَوْقِہِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِہِمْ» ( 5 ۔ المائدہ : 66 ) اگر یہ توراۃ انجیل پر اور اللہ کی ان کی طرف نازل کردہ چیز پر قائم رہتے تو ان کے اوپر سے اور پیروں تلے سے انہیں کھانا ملتا اور فرمایا «قُلْ یَا أَہْلَ الْکِتَابِ لَسْتُمْ عَلَیٰ شَیْءٍ حَتَّیٰ تُقِیمُوا التَّوْرَاۃَ وَالْإِنجِیلَ وَمَا أُنزِلَ إِلَیْکُم مِّن رَّبِّکُمْ» ( 5-المائدۃ : 68 ) اے اہل کتاب جب تک تم توراۃ و انجیل کو اور جو تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے اترا اس کو قائم نہ کر لو تب تک تم کسی چیز پر نہیں ہو ۔ ان کا قائم کرنا مستلزم ہے کہ تم اس میں جو ہے اسے سچا جانو اور اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کی صفات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری کا حکم آپ کی اتباع کی رغبت سب کچھ موجود ہے ۔ اور جگہ«الَّذِینَ یَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِیَّ الْأُمِّیَّ الَّذِی یَجِدُونَہُ مَکْتُوبًا عِندَہُمْ فِی التَّوْرَاۃِ وَالْإِنجِیلِ» ( 7-الأعراف : 157 ) فرمایا جو لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم امی کی تابعداری کرتے ہیں جس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر اور تصدیق اپنی کتاب توراۃ و انجیل میں بھی لکھا دیکھتے ہیں اور جگہ فرمایا آیت «اِنَّ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِہٖٓ اِذَا یُتْلٰی عَلَیْہِمْ یَخِرٰوْنَ لِلْاَذْقَانِ سُجَّدًا وَیَقُولُونَ سُبْحَانَ رَبِّنَا إِن کَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُولًا» ( 17 ۔ الاسرآء : 108 ، 107 ) یعنی تم ایمان لاؤ یا نہ لاؤ جنہیں اس سے پہلے علم دیا گیا ہے ان پر جب اللہ کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں منہ کے بل سجدے میں گر پڑتے ہیں اور زبانی کہتے ہیں کہ ہمارا رب پاک ہے ہمارے رب کا وعدہ بالکل سچا اور صحیح ہے اور جگہ ہے جنہیں ہم نے اس سے اگلی کتاب دی ہے وہ بھی اس پر ایمان لاتے ہیں اور ان پر یہ پڑھی جاتی ہیں منہ کے بل سجدے میں گر پڑتے ہیں اور زبانی کہتے ہیں کہ ہمارا رب پاک ہے ہمارے رب کا وعدہ بالکل سچا اور صحیح ہے اور جگہ ہے«الَّذِینَ آتَیْنَاہُمُ الْکِتَابَ مِن قَبْلِہِ ہُم بِہِ یُؤْمِنُونَ وَإِذَا یُتْلَیٰ عَلَیْہِمْ قَالُوا آمَنَّا بِہِ إِنَّہُ الْحَقٰ مِن رَّبِّنَا إِنَّا کُنَّا مِن قَبْلِہِ مُسْلِمِینَ أُولٰئِکَ یُؤْتَوْنَ أَجْرَہُم مَّرَّتَیْنِ بِمَا صَبَرُوا وَیَدْرَءُونَ بِالْحَسَنَۃِ السَّیِّئَۃَ وَمِمَّا رَزَقْنَاہُمْ یُنفِقُونَ » ( 28-القص : 52 - 54 ) جنہیں ہم نے اس سے اگلی کتاب دی ہے وہ بھی اس پر ایمان لاتے ہیں اور ان پر یہ پڑھی جاتی ہے تو اپنے ایمان کا اقرار کر کے کہتے ہیں ہم تو پہلے ہی سے ماننے والوں میں ہیں انہیں ان کے صبر کا دوہرا اجر دیا جائے گا یہ لوگ برائی کو بھلائی سے ہٹاتے ہیں اور ہمارے دیئے ہوئے میں سے دوسروں کو دیتے ہیں اور جگہ ارشاد ہے آیت «وَقُلْ لِّلَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ وَالْاُمِّیّٖنَ ءَاَسْلَمْتُمْ ۭ فَاِنْ اَسْلَمُوْا فَقَدِ اھْتَدَوْا» ( 3 ۔ آل عمران : 20 ) یعنی پڑھے لکھے اور بے پڑھے لوگوں سے کہہ دو کہ کیا تم اسلام قبول کرتے ہو ؟ اگر مان لیں تو راہ پر ہیں اور اگر نہ مانیں تو تجھ پر صرف تبلیغ ہے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو خوب دیکھ رہا ہے اسی لیے یہاں فرمایا کہ ساتھ کفر کرنے والے خسارے والے ہیں ، جیسے فرمایا آیت «وَمَنْ یَّکْفُرْ بِہٖ مِنَ الْاَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُہٗ» ( 11 ۔ ہود : 17 ) جو بھی اس کے ساتھ کفر کرے اس کے وعدے کی جگہ آگ ہے صحیح حدیث میں اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس امت میں سے جو بھی مجھے سنے خواہ یہودی ہو خواہ نصرانی ہو پھر مجھ پر ایمان نہ لائے وہ جہنم میں جائے گا ۔(صحیح مسلم:153) البقرة
121 البقرة
122 انتباہ پہلے بھی اس جیسی آیت شروع سورت میں گزر چکی ہے اور اس کی مفصل تفسیر بھی بیان ہو چکی ہے یہاں صرف تاکید کے طور پر ذکر کیا گیا اور انہیں نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری کی رغبت دلائی گئی جن کی صفتیں وہ اپنی کتابوں میں پاتے تھے جن کا نام اور کام بھی اس میں لکھا ہوا تھا بلکہ ان کی امت کا ذکر بھی اس میں موجود ہے پس انہیں اس کے چھپانے اور اللہ کی دوسری نعمتوں کو پوشیدہ کرنے سے ڈرایا جا رہا ہے اور دینی اور دنیوی نعمتوں کو ذکر کرنے کا کہا جا رہا ہے اور عرب میں جو نسلی طور پر بھی ان کے چچا زاد بھائی ہیں اللہ کی جو نعمت آئی ان میں جس خاتم الانبیاء کو اللہ نے مبعوث فرمایا ان سے حسد کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت اور تکذیب پر آمادہ نہ ہونے کی ہدایت کی گئی ہے ۔ البقرة
123 البقرة
124 امام توحید اس آیت میں خلیل اللہ ابراہیم علیہ السلام کی بزرگی کا بیان ہو رہا ہے جو توحید میں دنیا کے امام ہیں انہوں نے تکالیف پر صبر کر کے اللہ تعالیٰ کے حکم کی بجا آوری میں ثابت قدمی اور جوان مردی دکھائی. فرماتا ہے اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تم ان مشرکین اور اہل کتاب کو جو ملت ابراہیم کے دعویدار ہیں ذرا ابراہیم علیہ السلام کی فرماں برداری اور اطاعت گزاری کے واقعات تو سناؤ تاکہ انہیں معلوم ہو جائے کہ دین حنیف پر اسوۂٕٕ ابراہیمی پر کون قائم ہے وہ یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم ؟ قرآن کریم کا ارشاد ہے آیت «وَاِبْرٰہِیْمَ الَّذِیْ وَفّیٰٓ» ( 53 ۔ النجم : 37 ) ابراہیم وہ ہیں انہوں نے پوری وفاداری دکھائی اور فرمایا آیت «اِنَّ اِبْرٰہِیْمَ کَانَ اُمَّۃً قَانِتًا لِّلّٰہِ حَنِیْفًا وَلَمْ یَکُ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ شَاکِرًا لِّأَنْعُمِہِ اجْتَبَاہُ وَہَدَاہُ إِلَیٰ صِرَاطٍ مٰسْتَقِیمٍ وَآتَیْنَاہُ فِی الدٰنْیَا حَسَنَۃً وَإِنَّہُ فِی الْآخِرَۃِ لَمِنَ الصَّالِحِینَ ثُمَّ أَوْحَیْنَا إِلَیْکَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّۃَ إِبْرَاہِیمَ حَنِیفًا وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِینَ» ( 16-النحل : 120 ، 123 ) ابراہیم لوگوں کے پیشوا اللہ تعالیٰ کے فرماں بردار مخلص اور نعمت کے شکر گزار تھے جنہیں اللہ عزوجل نے پسند فرما کر راہ راست پر لگا دیا تھا جنہیں ہم نے دنیا میں بھلائی دی تھی اور آخرت میں بھی صالح اور نیک انجام کار بنایا تھا ۔ «قُلْ إِنَّنِی ہَدَانِی رَبِّی إِلَیٰ صِرَاطٍ مٰسْتَقِیمٍ دِینًا قِیَمًا مِّلَّۃَ إِبْرَاہِیمَ حَنِیفًا وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِینَ» ( 6-الانعام : 161 ) پھر ہم نے تیری طرف اے نبی وحی کی کہ تو بھی ابراہیم حنیف کی ملت کی پیروی کر جو مشرکین میں سے نہ تھے ۔ اور جگہ ارشاد ہے کہ «مَا کَانَ إِبْرَاہِیمُ یَہُودِیًّا وَلَا نَصْرَانِیًّا وَلٰکِن کَانَ حَنِیفًا مٰسْلِمًا وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِینَ إِنَّ أَوْلَی النَّاسِ بِإِبْرَاہِیمَ لَلَّذِینَ اتَّبَعُوہُ وَہٰذَا النَّبِیٰ وَالَّذِینَ آمَنُوا وَ اللہُ وَلِیٰ الْمُؤْمِنِینَ» ( 3-آل عمران : 67 ، 68 ) ابراہیم علیہ السلام نہ تو یہودی تھے نہ نصرانی تھے نہ مشرک تھے بلکہ خالص مسلمان تھے ان سے قربت اور نزدیکی والا وہ شخص ہے جو ان کی تعلیم کا تابع ہو اور یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ایمان والے ان ایمان والوں کا دوست اللہ تعالیٰ خود ہے ۔ ابتلاء کے معنی امتحان اور آزمائش کے ہیں ۔ کلمات سے مراد شریعت حکم اور ممانعت وغیرہ ہے کلمات سے مراد کلمات تقدیریہ بھی ہوتی ہے جیسے مریم علیہما السلام کی بابت ارشاد ہے صدقت بکلمات ربھا یعنی انہوں نے اپنے رب کے کلمات کی تصدیق کی ۔ کلمات سے مراد کلمات شرعیہ بھی ہوتی ہے ۔ آیت «وَتَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ صِدْقًا وَّعَدْلًا لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِہٖ وَہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ» ( 6 ۔ الانعام : 115 ) یعنی اللہ تعالیٰ کے شرعی کلمات سے سچائی اور عدل کے ساتھ پورے ہوئے یہ کلمات یا تو سچی خبریں ہیں یا طلب عدل ہے غرض ان کلمات کو پورا کرنے کی جزا میں انہیں امامت کا درجہ ملا ، ان کلمات کی نسبت بہت سے اقوال ہیں مثلاً احکام حج ، مونچھوں کو کم کرنا ، کلی کرنا ، ناک صاف کرنا ، مسواک کرنا ، سر کے بال منڈوانا یا رکھوانا تو مانگ نکالنا ، ناخن کاٹنا ، زیر ناف کے بال کاٹنا ، ختنہ کرانا ، بغل کے بال کاٹنا ، پیشاب پاخانہ کے بعد استنجاء کرنا ، جمعہ کے دن غسل کرنا ، طواف کرنا ، صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنا ، رمی جمار کرنا ، طواف افاضہ کرنا ۔ مکمل اسلام سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اس سے مراد پورا اسلام ہے جس کے تیس حصے ہیں دس کا بیان سورہ براءت میں ہے «التَّائِبُونَ الْعَابِدُونَ الْحَامِدُونَ السَّائِحُونَ الرَّاکِعُونَ السَّاجِدُونَ الْآمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّاہُونَ عَنِ الْمُنکَرِ وَالْحَافِظُونَ لِحُدُودِ اللہِ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِینَ» (9-التوبۃ:112) یعنی ’ توبہ کرنا ، عبادت کرنا ، حمد کرنا ، اللہ کی راہ میں پھرنا ، رکوع کرنا ، سجدہ کرنا ، بھلائی کا حکم دینا ، برائی سے روکنا ، اللہ کی حدود کی حفاظت کرنا ، ایمان لانا ‘ ۔ دس کا بیان «قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ» * «الَّذِینَ ہُمْ فِی صَلَاتِہِمْ خَاشِعُونَ» * «وَالَّذِینَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ» * «وَالَّذِینَ ہُمْ لِلزَّکَاۃِ فَاعِلُونَ» * «وَالَّذِینَ ہُمْ لِفُرُوجِہِمْ حَافِظُونَ» * «إِلَّا عَلَیٰ أَزْوَاجِہِمْ أَوْ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُہُمْ فَإِنَّہُمْ غَیْرُ مَلُومِینَ» * «فَمَنِ ابْتَغَیٰ وَرَاءَ ذٰلِکَ فَأُولٰئِکَ ہُمُ الْعَادُونَ» * «وَالَّذِینَ ہُمْ لِأَمَانَاتِہِمْ وَعَہْدِہِمْ رَاعُونَ» * «وَالَّذِینَ ہُمْ عَلَیٰ صَلَوَاتِہِمْ یُحَافِظُونَ» * «أُولٰئِکَ ہُمُ الْوَارِثُونَ» (23-سورۃالمؤمنون:1-10) «یُحَافِظُونَ» تک ہے ۔ اور سورۃ المعارج میں ہے یعنی نماز کو خشوع خضوع سے ادا کرنا لغو اور فضول باتوں اور کاموں سے منہ پھیر لینا ، زکوٰۃ دیتے رہا کرنا ، شرمگاہ کی حفاظت کرنا ، امانت داری کرنا ، وعدہ وفائی کرنا ، نماز پر ہمیشگی اور حفاظت کرنا قیامت کو سچا جاننا ، عذابوں سے ڈرتے رہنا سچی شہادت پر قائم رہنا ۔ اور دس کا بیان سورۃ الاحزاب میں آیت «اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمٰتِ وَالْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ وَالْقٰنِتِیْنَ وَالْقٰنِتٰتِ وَالصّٰدِقِیْنَ وَالصّٰدِقٰتِ وَالصّٰبِرِیْنَ وَالصّٰبِرٰتِ وَالْخٰشِعِیْنَ وَالْخٰشِعٰتِ وَالْمُتَصَدِّقِیْنَ وَالْمُتَصَدِّقٰتِ وَالصَّایِٕـمِیْنَ وَالـﮩـیِٕمٰتِ وَالْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَہُمْ وَالْحٰفِظٰتِ وَالذّٰکِرِیْنَ اللّٰہَ کَثِیْرًا وَّالذّٰکِرٰتِ اَعَدَّ اللّٰہُ لَہُمْ مَّغْفِرَۃً وَّاَجْرًا عَظِیْمًا» (33۔الاحزاب:35) تک ہے یعنی اسلام لانا ، ایمان رکھنا ، قرآن پڑھنا ، سچ بولنا ، صبر کرنا ، عاجزی کرنا ، خیرات دینا ، روزہ رکھنا ، بدکاری سے بچنا ، اللہ تعالیٰ کا ہر وقت بکثرت ذکر کرنا ، ان تینوں احکام کا جو عامل ہو وہ پورے اسلام کا پابند ہے اور اللہ کے عذابوں سے بری ہے ۔ کلمات ابراہیمی میں اپنی قوم سے علیحدگی کرنا بادشاہ وقت سے نڈر ہو کر اسے بھی تبلیغ کرنا پھر اللہ تعالیٰ کی راہ میں جو مصیبت آئے اس پر صبر کرنا سہنا پھر وطن اور گھربار کو اللہ کی راہ میں چھوڑ کر ہجرت کرنا مہمانداری کرنا اللہ کی راہ میں جانی اور مالی مصیبت راہ اللہ برداشت کرنا یہاں تک کہ بچہ کو اللہ کی راہ قربان کرنا اور وہ بھی اپنے ہی ہاتھ سے یہ کل احکام خلیل الرحمن علیہ السلام بجا لائے ۔ سورج چاند اور ستاروں سے بھی آپ علیہ السلام کی آزمائش ہوئی امامت کے ساتھ بیت اللہ بنانے کے حکم کے ساتھ حج کے حکم اور مقام ابراہیم کے ساتھ بیت اللہ کے رہنے والوں کی روزیوں کے ساتھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ علیہ السلام کے دین پر بھیجنے کے ساتھ بھی آزمائش ہوئی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے خلیل میں تمہیں آزماتا ہوں دیکھتا ہوں تم کیا ہو ؟ تو آپ علیہ السلام نے فرمایا مجھے لوگوں کا امام بنا دے ، اس کعبہ کو لوگوں کے ثواب اور اجتماع کا مرکز بنا دے ، یہاں والوں کو پھلوں کی روزیاں دے یہ تمام باتیں اللہ عزوجل نے پوری کر دیں اور یہ سب نعمتیں آپ علیہ السلام کو عطا ہوئیں صرف ایک آرزو پوری نہ ہوئی وہ یہ کہ میری اولاد کو بھی امامت ملے تو جواب ملا ظالموں کو میرا عہد نہیں پہنچتا کلمات سے مراد اس کے ساتھ کی آیتیں بھی ہیں ۔ موطا وغیرہ میں ہے کہ سب سے پہلے ختنہ کرانے والے سب سے پہلے مہمان نوازی کرنے والے سب سے پہلے ناخن کٹوانے والے سب سے پہلے مونچھیں پست کرنے والے سب سے پہلے سفید بال دیکھنے والے ابراہیم ہی ہیں علیہ السلام سفید بال دیکھ کر پوچھا کہ اے اللہ یہ کیا ہے ؟ جواب ملا وقار و عزت ہے کہنے لگے پھر تو اے اللہ اسے اور زیادہ کر ۔ (مؤطا:کتاب صفۃ النبی922/2:مقطوع) سب سے پہل منبر پر خطبہ کہنے والے ، سب سے پہلے قاصد ، بھیجنے والے ، سب سے پہلے تلوار چلانے والے ، سب سے پہلے مسواک کرنے والے سب سے پہلے پانی کے ساتھ استنجاء کرنے والے ، سب سے پہلے پاجامہ پہننے والے ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام ہیں ۔ ایک غیر ثابت حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر میں منبر بناؤں تو میرے باپ ابراہیم علیہ السلام نے بھی بنایا تھا اور اگر میں لکڑی ہاتھ میں رکھوں تو یہ بھی میرے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے ۔ (بزار:633:منکر و ضعیف) مختلف بزرگوں سے کلمات کی تفسیر میں جو کچھ ہم نے نقل کر دیا اور ٹھیک بھی یہی ہے کہ یہ سب باتیں ان کلمات میں تھیں کسی خاص تخصیص کی کوئی وجہ ہمیں نہیں ملی ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» صحیح مسلم شریف میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے دس باتیں فطرت کی اور اصل دین کی ہیں مونچھیں کم کرنا ، داڑھی بڑھانا ، مسواک کرنا ، ناک میں پانی دینا ، ناخن لینا ، پوریان دھونی ، بغل کے بال لینا ، زیر ناف کے بال لینا ، استنجاء کرنا راوی کہتا ہے میں دسویں بات بھول گیا شاید کلی کرنا تھی ۔ (صحیح مسلم:261) صحین میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں پانچ باتیں فطرت کی ہیں ختنہ کرانا ، موئے ( بال ) زہار لینا ، مونچھیں کم کرنا ، ناخن لینا ، بغل کے بال لینا ۔ (صحیح بخاری:5889) ایک حدیث میں ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کو وفا کرنے والا اس لیے فرمایا ہے کہ وہ ہر صبح کے وقت پڑھتے تھے آیت «فَسُـبْحٰنَ اللّٰہِ حِیْنَ تُمْسُوْنَ وَحِیْنَ تُصْبِحُوْنَ وَلَہُ الْحَمْــدُ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَعَشِـیًّا وَّحِیْنَ تُظْہِرُوْنَ یُخْرِجُ الْـحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَیُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْـحَیِّ وَیُـحْیِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا وَکَذٰلِکَ تُخْرَجُوْنَ» ( 30 ۔ الروم : 17 ) ایک اور روایت میں ہے کہ ہر دن چار رکعتیں پڑھتے تھے ۔(تفسیر ابن جریر الطبری:15/3:ضعیف جدا) لیکن یہ دونوں حدیثیں ضعیف ہیں اور ان میں کئی کئی راوی ضعیف ہیں اور ضعف کی بہت سی وجوہات ہیں بلکہ ان کا بیان بھی بیبیان ضعف جائز نہیں متن بھی ضعف پر دلالت کرتا ہے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی امت کی خوشخبری سن کر اپنی اولاد کے لیے بھی یہی دعا کرتے تھے جو قبول تو کی جاتی ہے لیکن ساتھ ہی خبر کر دی جاتی ہے کہ آپ کی اولاد میں ظالم بھی ہوں گے جنہیں اللہ تعالیٰ کا عہد نہ پہنچے گا وہ امام نہ بنائے جائیں گے نہ ان کی اقتدار اور پیروی کی جائے گی سورۃ العنکبوت کی آیت میں اس مطلب کو واضح کر دیا گیا ہے کہ خلیل اللہ کی یہ دعا بھی قبول ہوئی وہاں ہے آیت «وَجَعَلْنَا فِیْ ذُرِّیَّتِہِ النٰبُوَّۃَ وَالْکِتٰبَ وَاٰتَیْنٰہُ اَجْرَہٗ فِی الدٰنْیَا» ( 29 ۔ العنکبوت : 27 ) یعنی ہم نے ان کی اولاد میں نبوت اور کتاب رکھ دی ۔ ابراہیم علیہ السلام کے بعد جتنے انبیاء اور رسول آئے وہ سب آپ علیہ السلام ہی کی اولاد میں تھے اور جتنی کتابیں نازل ہوئیں سب آپ علیہ السلام ہی کی اولاد میں ہوئی دعا «صلوات اللہ وسلامہ علیہم اجمعین» یہاں یہ بھی خبر دی گئی ہے کہ آپ علیہ السلام کی اولاد میں ظلم کرنے والے بھی ہوں گے ، ظالم سے مرد بعض نے مشرک بھی لیا ہے عہد سے مراد امر ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ظالم کو کسی چیز کا والی اور بڑا نہ بنانا چاہیئے گو وہ اولاد ابراہیم علیہ السلام میں سے ہو ، خلیل اللہ کی دعا ان کی نیک اولاد کے حق میں قبول ہوئی ہے یہ بھی معنی کئے گئے ہیں کہ ظالم سے کوئی عہد نہیں کہ اس کی اطاعت کی جائے اس کا عہد توڑ دیا جائے پورا نہ کیا جائے اور یہ بھی مطلب ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نے اسے کچھ دینے کا عہد نہیں کیا دنیا میں تو کھا پی رہا ہے اور عیش و عشرت کر رہا ہے ۔ بس یہی ہے عہد سے مراد دین بھی ہے یعنی تیری کل اولاد دیندار نہیں جیسے اور جگہ ہے آیت «ووَمِن ذُرِّیَّتِہِمَا مُحْسِنٌ وَظَالِمٌ لِّنَفْسِہِ مُبِینٌ» ( 37 ۔ الصافات : 113 ) یعنی ان کی اولاد میں بھلے بھی ہیں اور برے بھی اطاعت کے معنی بھی کئے گئے ہیں یعنی اطاعت صرف معروف اور بھلائی میں ہی ہو گی اور عہد کے معنی نبوت کے بھی آئے ہیں ابن خویز منذاذ مالکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ظالم شخص نہ تو خلیفہ بن سکتا ہے نہ حاکم نہ مفتی نہ گواہ نہ راوی ۔ البقرة
125 شوق زیارت اور بڑھتا ہے «مثابتہ» سے مراد باربار آنا ۔ حج کرنے کے بعد بھی دل میں لگن لگی رہتی ہے گویا حج کرنے کے بعد بھی ہر بار دل میں ایک بار اور حج کرنے کی تمنا رہتی ہے دنیا کے ہر گوشہ سے لوگ بھاگے دوڑے اس کی طرف جوق در جوق چلے آ رہے ہیں یہی جمع ہونے کی جگہ ہے اور یہی امن کا مقام ہے جس میں ہتھیار نہیں اٹھایا جاتا جاہلیت کے زمانہ میں بھی اس کے آس پاس تو لوٹ مار ہوتی رہتی لیکن یہاں امن و امان ہی رہتا کوئی کسی کو گالی بھی نہیں دیتا ۔ یہ جگہ ہمیشہ متبرک اور شریف رہی ۔ نیک روحیں اس کی طرف مشتاق ہی رہتی ہیں گو ہر سال زیارت کریں لیکن پھر بھی شوق زیارت کم نہیں ہوتا ہے ۔ یہ ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا اثر ہے ۔ آپ علیہ السلام نے دعا مانگی تھی کہ آیت «فَاجْعَلْ اَفْیِٕدَۃً مِّنَ النَّاسِ تَہْوِیْٓ اِلَیْہِمْ وَارْزُقْہُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّہُمْ یَشْکُرُوْنَ» ( 14 ۔ ابرہیم : 37 ) تو لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف جھکا دے ۔ یہاں باپ اور بھائی کے قاتل کو بھی کوئی دیکھتا تو خاموش ہو جاتا ۔ سورۃ المائدہ میں «جَعَلَ اللہُ الْکَعْبَۃَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ قِیَامًا لِّلنَّاسِ» ( 5-المائدۃ : 97 ) یعنی یہ لوگوں کے قیام کا باعث ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اگر لوگ حج کرنا چھوڑ دیں تو آسمان زمین پر گرا دیا جائے ۔ اس گھر کے اس شرف کو دیکھ کر پھر اس کے بانی اول ابراہیم خلیل علیہ السلام کے شرف کو خیال فرمائے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آیت «وَاِذْ بَوَّاْنَا لِاِبْرٰہِیْمَ مَکَانَ الْبَیْتِ اَنْ لَّا تُشْرِکْ بِیْ شَیْـــــًٔا وَّطَہِّرْ بَیْتِیَ لِلطَّایِٕفِیْنَ وَالْقَایِٕمِیْنَ وَالرٰکَّعِ السٰجُوْدِ» ( 22 ۔ الحج : 26 ) ہم نے بیت اللہ کی جگہ ابراہیم کو بتا دی ( اور کہہ دیا ) کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا اور جگہ ہے آیت «اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وٰضِــعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبٰرَکًا وَّھُدًی لِّـلْعٰلَمِیْنَ فِیہِ آیَاتٌ بَیِّنَاتٌ مَّقَامُ إِبْرَاہِیمَ وَمَن دَخَلَہُ کَانَ آمِنًا» ( 3 ۔ آل عمران : 97 ، 96 ) اللہ جل شانہ کا پہلا گھر مکہ میں جو برکت و ہدایت والا نشانیوں والا مقام ابراہیم والا امن و امان والا ہے مقام ابراہیم بھی ہے ۔ اور حج کل کا کل بھی ہے مثلاً عرفات ، مشعر الحرام ، منیٰ ، رمی ، جمار ، صفا مروہ کا طواف ، مقام ابراہیم دراصل وہ پتھر ہے جسے اسمٰعیل علیہ السلام کی بیوی صاحبہ نے ابراہیم علیہ السلام کے نہانے کے لیے ان کے پاؤں کے نیچے رکھا تھا ، (تفسیر ابن جریر الطبری:35/3) لیکن سعید بن جیر رحمہ اللہ کہتے ہیں یہ غلط ہے ۔ دراصل وہ یہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہو کر حضرات ابراہیم علیہ السلام کعبہ بناتے تھے سیدنا جابر رضی اللہ تعالیٰ کی لمبی حدیث میں ہے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف کر لیا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مقام ابراہیم کی طرف اشارہ کر کے کہا ۔ کیا یہی ہمارے باپ ابراہیم علیہ السلام کا مقام ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں کہا پھر ہم اسے قبلہ کیوں نہ بنا لیں ؟ اس پر آیت نازل ہوئی ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:35/3) ایک اور روایت میں ہے کہ فاروق رضی اللہ عنہ کے سوال پر تھوڑی ہی دیر گزری تھی جو حکم نازل ہوا۔(النسائی فی السنن الکبریٰ:10998) ایک اور حدیث میں ہے کہ فتح مکہ والے دن مقام ابراہیم کے پتھر کی طرف اشارہ کر کے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا یہی ہے جسے قبلہ بنانے کا ہمیں حکم ہوا ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں یہی ہے ۔(تفسیر ابن ابی حاتم:370:صحیح) صحیح بخاری شریف میں ہے ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے اپنے رب سے تین باتوں میں موافقت کی جو اللہ تعالیٰ کو منظور تھا وہی میری زبان سے نکلا میں نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاش کہ ہم مقام ابراہیم علیہ السلام کو قبلہ بنا لیتے تو حکم آیت «وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰہٖمَ مُصَلًّی» ( 2 ۔ البقرہ : 125 ) نازل ہوا میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاش کہ آپ امہات المؤمنین کو پردے کا حکم دیں اس پر پردے کی آیت اتری جب مجھے معلوم ہوا کہ آج نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں سے خفا ہیں تو میں نے جا کر ان سے کہا کہ اگر تم باز نہ آؤ گی تو اللہ تعالیٰ تم سے اچھی بیویاں تمہارے بدلے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دے گا اس پر فرمان بازی نازل ہوا کہ آیت «عَسَیٰ رَبٰہُ إِن طَلَّقَکُنَّ أَن یُبْدِلَہُ أَزْوَاجًا خَیْرًا مِّنکُنَّ» ( 66-التحریم : 5 ) اس حدیث کی بہت سی اسناد ہیں اور بہت سی کتابوں میں مروی ہے ۔(صحیح مسلم:2399)ایک روایت میں بدر کے قیدیوں کے بارے میں بھی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی موافقت مروی ہے آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ اس سے فدیہ نہ لیا جائے بلکہ انہیں قتل کر دیا جائے اللہ سبحانہ تعالیٰ کو بھی یہی منظور تھا ۔ (صحیح مسلم:1218) عبداللہ بن ابی بن سلول منافق جب مر گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے جنازے کی نماز ادا کرنے کے لیے تیار ہوئے تو میں نے کہا تھا کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس منافق کافر کا جنازہ پڑھیں گے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ڈانٹ دیا اس پر آیت «وَلَا تُصَلِّ عَلٰٓی اَحَدٍ مِّنْہُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَا تَقُمْ عَلٰی قَبْرِہٖ» ( 9 ۔ التوبہ : 84 ) نازل ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسوں کے جنازے سے روکا گیا ۔ ابن جریج میں روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے طواف میں تین مرتبہ رمل کیا یعنی دوڑ کی چال چلے اور چار پھیرے چل کر کئے پھر مقام ابراہیم کے پیچھے آ کر دو رکعت نماز ادا کی اور یہ آیت تلاوت فرمائی آیت «وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰہٖمَ مُصَلًّی» ( 2 ۔ البقرہ : 125 ) سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ مقام ابراہیم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اور بیت اللہ کے درمیان کر لیا تھا ۔ ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مقام ابراہیم سے مراد وہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہو کر ابراہیم علیہ السلام کعبہ بنا رہے تھے اسماعیل علیہ السلام آپ کو پتھر دیتے جاتے تھے اور آپ علیہ السلام کعبہ کی بنا کرتے جاتے تھے اور اس پتھر کو سرکاتے جاتے تھی جہاں دیوار اونچی کرنی ہوتی تھی وہاں لیجاتے تھے اسی طرح کعبہ کی دیواریں پوری کیں اس کا پورا بیان ابراہیم علیہ السلام کے واقعہ میں آئے گا ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ اس پتھر پر آپ علیہ السلام کے دونوں قدموں کے نشان ظاہر تھے عرب کی جاہلیت کے زمانہ کے لوگوں نے بھی دیکھے تھے ۔ ابوطالب نے اپنے مشہور قصیدہ میں کہا ہے و «موطی ابراہیم فی الصخر رطبتہ» «علی قدمیہ حایا غیر ناعل» یعنی اس پتھر میں ابراہیم علیہ السلام کے دونوں پیروں کے نشان تازہ بتازہ ہیں جن میں جوتی نہیں بلکہ مسلمانوں نے بھی اسے دیکھا تھا سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے مقام ابراہیم میں خلیل اللہ کے پیروں کی انگلیوں اور آپ علیہ السلام کے تلوے کا نشان دیکھا تھا پھر لوگوں کے چھونے سے وہ نشان مٹ گئے حضرت قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں حکم اس کی جانب نماز ادا کرنے کا ہے تبرک کے طور پر چھونے اور ہاتھ لگانے کا نہیں اس امت نے بھی اگلی امتوں کی طرح بلا حکم الہ العالمین بعض کام اپنے ذمہ لازم کر لیے جو نقصان رساں ہیں وہ نشان لوگوں کے ہاتھ لگانے سے مٹ گئے ۔ یہ مقام ابراہیم پہلے دیوار کعبہ کے متصل تھا کعبہ کے دروازے کی طرف حجر اسود کی جانب دروازے سے جانے والے کے دائیں جانب مستقل جگہ پر تھا جو آج بھی لوگوں کو معلوم ہے خلیل اللہ نے یا تو اسے یہاں رکھوا دیا تھا یا بیت اللہ بناتے ہوئے آخری حصہ یہی بنایا ہو گا اور یہیں وہ پتھر رکھا ہے ۔ امیرالمؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کے زمانہ میں اسے پیچھے ہٹا دیا اس کے ثبوت میں بہت سی روایتیں ہیں پھر ایک مرتبہ پانی کے سیلاب میں یہ پتھر یہاں سے بھی ہٹ گیا تھا خلیفہ ثانی نے اسے پھر اپنی جگہ رکھوا دیا حضرت سفیان رحمہ اللہ فرماتے ہیں مجھے معلوم نہیں ہوا کہ یہ اصلی جگہ سے ہٹایا گیا اس سے پہلے دیوار کعبہ سے کتنی دور تھا ایک روایت میں ہے کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اصلی جگہ سے ہٹا کر وہاں رکھا تھا جہاں اب ہے لیکن یہ روایت مرسل ہے ٹھیک بات یہی ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسے پیچھے رکھا ، «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ عہد جو مترادف حکم ہے یہاں عہد سے مراد وہ حکم ہے جس میں کہا گیا ہے گندی اور نجس اور بری چیزوں سے پاک رکھنا ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:373/1) عہد کا تعدیہ الی سے ہو تو معنی ہم نے وحی کی اور پہلے سے کہہ دیا کہ پاک رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اسے بتوں سے بچانا غیر اللہ کی عبادت نہ ہونے دینا لغو کاموں فضول بکواس جھوٹی باتوں شرک و کفر ، ہستی اور مذاق سے اسے محفوظ رکھنا بھی اسی میں شامل ہے ۔ طائف کے ایک معنی طواف کرنے والوں کے ہیں دوسرے معنی باہر سے آنے والوں کے ہیں اس تقدیر پر عاکفین کے معنی مکہ کے باشندے ہوں گے ایک مرتبہ لوگوں نے کہا کہ امیر وقت سے کہنا چاہیئے کہ لوگوں کو بیت اللہ شریف میں سونے سے منع کریں کیونکہ ممکن ہے کوئی کسی وقت جنبی ہو جائے ممکن ہے کبھی آپس میں فضول باتیں کریں تو ہم نے سنا کہ انہیں نہ روکنا چاہیئے ۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ انہیں بھی عاکفین کہتے تھے ایک صحیح حدیث میں ہے کہ مسجد نبوی فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے عبداللہ رضی اللہ عنہ سویا کرتے تھے وہ جوان اور کنوارے تھے ۔ (صحیح بخاری:440) رکع السجود سے مراد نمازی ہیں ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:376/1) پاک رکھنے کا حکم اس واسطے دیا گیا کہ اس وقت بھی بت پرستی رائج تھی دوسرے اس لیے کہ یہ بزرگ اپنی نیتوں میں خلوص کی بات رکھیں دوسری جگہ ارشاد ہے آیت «وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَاہِیمَ مَکَانَ الْبَیْتِ أَن لَّا تُشْرِکْ بِی شَیْئًا وَطَہِّرْ بَیْتِیَ لِلطَّائِفِینَ وَالْقَائِمِینَ وَالرٰکَّعِ السٰجُودِ» ( 22-الحج : 26 ) اس آیت میں بھی حکم ہے کہ میرے ساتھ شریک نہ کرنا اور میرے گھر کو پاک صاف رکھنا فقہاء کا اس میں اختلاف ہے کہ بیت اللہ کی نماز افضل ہے یا طواف ؟ امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں باہر والوں کے لیے طواف افضل ہے اور جمہور کا قول ہے کہ ہر ایک کے لیے نماز افضل ہے اس کی تفصیل کی جگہ تفسیر نہیں ۔ مقصد اس سے مشرکین کو تنبیہ اور تردید ہے کہ بیت اللہ تو خاص اللہ کی عبادت کے لیے بنایا گیا ہے اس میں اوروں کی عبادت کرنا اور خالص اللہ کی عبادت کرنے والوں کو اس سے روکنا کس قدر صریح بےانصافی ہے اور اسی لیے قرآن میں فرمایا کہ ایسے ظالموں کو ہم درد ناک عذاب چکھائیں گے مشرکین کی اس کھلی تردید کے ساتھ ہی یہود و نصاریٰ کی تردید بھی اس آیت میں ہو گئی کہ اگر وہ ابراہیم و اسماعیل سلام اللہ علیہما کی افضیلت ، بزرگی اور نبوت کے قائل ہیں اور یہ بھی جانتے اور مانتے ہیں کہ یہ شریف گھرانے کے متبرک ہاتھوں کا بنا ہوا ہے جب وہ اس کے بھی قائل ہیں کہ یہ محض نماز و طواف و دعا اور عبادت اللہ کے لیے بنایا گیا ہے حج و عمرے اور اعتکاف وغیرہ کے لیے مخصوص کیا گیا ہے تو پھر ان نبیوں کی تابعداری کے دعوے کے باوجود کیوں حج و عمرے سے رکے ہوئے ہیں ؟ کیوں بیت اللہ شریف میں حاضری نہیں دیتے ؟ بلکہ خود موسیٰ علیہ السلام نے اس گھر کا حج کیا جیسا کہ حدیث میں صاف موجود ہے ۔ (صحیح مسلم:166) آیۃ کریمہ سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اور مسجدوں کو بھی پاک صاف رکھنا چاہیئے اور جگہ قرآن میں ہے آیت «فِیْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ وَیُذْکَرَ فِیْہَا اسْمُہٗ یُسَبِّحُ لَہٗ فِیْہَا بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ» ( 24 ۔ النور : 36 ) اللہ تعالیٰ نے مسجدوں کو بلند کرنے کی اجازت دی ہے ان میں اس کا نام ذکر کیا جائے ان میں صبح شام اس کی تسبیح اس کے نیک بندے کرتے ہیں ۔ حدیث شریف میں بھی ہے کہ مسجدیں اسی کام کے لیے ہیں ۔ (صحیح مسلم:285) اور احادیث میں بہت ہی تاکید کے ساتھ مسجدوں کی پاکیزگی کا حکم آیا ہے امام ابن کثیر نے اس بارے میں ایک خاص رسالہ تصنیف فرمایا ہے ۔ بعض لوگ تو کہتے ہیں سب سے پہلے کعبۃ اللہ فرشتوں نے بنایا تھا لیکن یہ سنداً غریب ہے بعض کہتے ہیں آدم علیہ السلام نے سب سے پہلے بنایا تھا حرا ، طور سینا ، طور زیتا ، جبل لبنان اور جودی ان پانچ پہاڑوں سے بنایا تھا لیکن یہ بھی سنداً غریب ہے بعض کہتے ہیں شیث علیہ السلام نے سب سے پہلے بنایا تھا لیکن یہ بھی اہل کتاب کی بات ہے ۔ حدیث شریف میں ہے ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرام بنایا اور فرمایا میں مدینہ منورہ کو حرام قرار دیتا ہوں ۔ اس میں شکار نہ کھیلا جائے یہاں کے درخت نہ کاٹے جائیں یہاں ہتھیار نہ اٹھائے جائیں ۔ (صحیح مسلم:1362) صحیح مسلم شریف کی ایک حدیث میں ہے کہ لوگ تازہ پھل لے کر خدمت نبوی میں حاضر ہوتے تھے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے لے کر دعا کرتے کہ اے اللہ ہمارے پھلوں میں ہمارے شہر میں ہمارے ناپ تول میں بھی برکت دے ۔ اے اللہ ابراہیم علیہ السلام تیرے بندے تیرے خلیل اور تیرے رسول تھے میں بھی تیرا بندہ تیرا رسول ہوں انہوں نے تجھ سے مکہ کے لیے دعا کی تھی میں تجھ سے مدینہ ( منورہ ) کے لیے دعا کرتا ہوں جیسے انہوں نے مکہ مکرمہ کے لیے کی تھی بلکہ ایسی ہی ایک اور بھی ۔ آپ کسی چھوٹے بچہ کو بلا کر وہ پھل اسے عطا فرما دیا کرتے ۔ (صحیح مسلم:1373) سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ جاؤ اپنے بچوں میں سے کسی ایک کو ہماری خدمت کے لیے آؤ سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ مجھے لے کر حاضر ہوئے میں اب سفرو حضر میں حاضر خدمت رہنے لگا ۔ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر سے آ رہے تھے جب احد پہاڑ پر نظر پڑی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ پہاڑ ہم سے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں ۔ جب مدینہ نظر آیا تو فرمانے لگے یا اللہ میں اس کے دونوں کنارے کے درمیان کی جگہ کو حرم مقرر کرتا ہوں جیسے ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم بنایا اے اللہ ان کے مد اور صاع میں اور ناپ میں برکت دے ۔ (صحیح بخاری:2889) اور روایت میں ہے یا اللہ جتنی برکت تو نے مکہ میں دی ہے اس سے دگنی برکت مدینہ میں دے ۔ (صحیح بخاری:1885) اور روایت میں ہے مدینہ میں قتل نہ کیا جائے اور چارے کے سوا اور پتے بھی یہاں کے درختوں کے نہ جھاڑے جائیں اسی مضمون کی حدیثیں جن سے ثابت ہوتا ہے مدینہ بھی مثل مکہ کے حرم ہے اور بھی بہت سی ہیں ۔ یہاں ان احادیث کے وارد کرنے سے ہماری غرض مکہ شریف کی حرمت اور یہاں کا امن بیان کرنا ہے ، بعض تو کہتے ہیں کہ یہ شروع سے حرم اور امن ہے بعض کہتے ہیں خلیل اللہ کے زمانہ سے لیکن پہلا قول زیادہ ظاہر ہے بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ والے دن فرمایا جب سے اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین پیدا کئے تب سے اس شہر کو حرمت و عزت والا بنایا ہے اب یہ قیامت تک حرمت و عزت والا ہی رہے گا اس میں جنگ وقتال کسی کو حلال نہیں میرے لیے بھی آج کے دن ہی ذرا سی دیر کے لیے حلال تھا اب وہ حرام ہی حرام ہے سنو اس کے کانٹے نہ کاٹے جائیں اس کا شکار نہ بھگایا جائے اس میں کسی کی گری پڑی چیز نہ اٹھائی جائے جو پہنچوائی جائے اس کے لیے اٹھانا جائز ہے اس کی گھاس نہ کاٹی جائے دوسری روایت میں ہے کہ یہ حدیث آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اثنائے خطبہ میں بیان فرمائی تھی اور سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے سوال پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اذخر نامی گھاس کے کاٹنے کی اجازت دی تھی ۔ (صحیح بخاری:1834) سیدنا ابن شریح عدوی رضی اللہ عنہ نے عمر بن سعید سے اس وقت کہا جب وہ مکہ کی طرف لشکر بھیج رہا تھا کہ اے امیر سن فتح مکہ والے دن صبح ہی صبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبہ میں فرمایا جسے میرے کانوں نے سنا دل نے یاد رکھا اور میں نے آنکھوں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حمد و ثنا کے بعد فرمایا کہ مکہ کو رب ذوالجلال نے حرام کیا ہے لوگوں نے نہیں کیا ، کسی ایماندار کو اس میں خون بہانا اس کا درخت کاٹنا حلال نہیں ۔ اگر کوئی میری اس لڑائی کو دلیل بنائے تو کہہ دینا کہ میرے لیے صرف آج ہی کے دن کی ایسی ساعت یہاں جہاد حلال تھا ۔ پھر اس شہر کی حرمت آ گئی ہے جیسے کل تھی ۔ خبردار ہر حاضر غائب کو یہ پہنچا دے لیکن عمرو نے یہ حدیث سن کر صاف جواب دے دیا کہ میں تجھ سے زیادہ اس حدیث کو جانتا ہوں ۔ حرم نافرمان کو اور خونی کو اور بربادی کرنے والے کو نہیں بچانا ۔ (صحیح بخاری:1832) ان دونوں احادیث میں کوئی تعارض نہ سمجھے تطبیق یوں ہے کہ مکہ روز اول سے حرمت والا تھا لیکن اس حرمت کی تبلیغ خلیل اللہ نے کی جس طرح نبی کریم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو اس وقت سے تھے جب کہ آدم علیہ السلام کا خمیر گوندھ رکھا تھا بلکہ آپ اس وقت بھی خاتم الانبیاء لکھے ہوئے تھے ۔ (مسند احمد:127/4صحیح بالشواھد) لیکن تاہم ابراہیم علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی دعا کی کہ آیت «رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ» ( 2 ۔ البقرہ : 129 ) ان ہی میں سے ایک رسول ان میں بھیج جو اللہ نے پوری کی اور تقدیر کی لکھی ہوئی وہ بات ظاہر و باہر ہوئی ۔ ایک حدیث میں ہے کہ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ابتداء نبوت کا تو کچھ ذکر کیجئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے باپ ابراہیم علیہ السلام کی دعا اور عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کی بشارت اور میری ماں کا خواب وہ دیکھتی ہیں کہ ان سے گویا ایک نور نکلا جس نے شام کے محلات کو روشن کر دیا اور وہ نظر آنے لگے ۔ (طیالسی:1140:حسن) مدینہ منورہ افضل یامکہ مکرمہ؟ اس بات کا بیان کہ مکہ افضل ہے یا مدینہ ؟ جیسا کہ جمہور کا قول ہے جیسے کہ حضرت امام مالک رحمہ اللہ اور ان کے تابعین کا مذہب ہے مدینہ افضل ہے مکہ سے ۔ اسے دونوں طرف کے دلائل کے ساتھ عنقریب ہم بیان کریں گے ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ ابراہیم علیہ السلام دعا کرتے ہیں کہ باری تعالیٰ اس جگہ کو امن والا شہر بنا یعنی یہاں کے رہنے والوں کو نڈر اور بے خوف رکھ ۔ اللہ تعالیٰ اسے قبول فرماتا ہے جیسے کہ فرمایا آیت «وَمَنْ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا» ( 3 ۔ آل عمران : 97 ) اس میں جو آیا وہ امن والا ہو گیا اور جگہ ارشاد ہے آیت «أَوَلَمْ یَرَوْا أَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا آمِنًا وَیُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِہِمْ أَفَبِالْبَاطِلِ یُؤْمِنُونَ وَبِنِعْمَۃِ اللہِ یَکْفُرُونَ» ( 29-العنکبوت : 67 ) کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے حرم کو امن والا بنایا لوگ اس کے آس پاس سے اچک لیے جاتے ہیں اور یہاں وہ پر امن رہتے ہیں ۔ اسی قسم کی اور آیتیں بھی ہیں اور اس مضمون کی بہت سی حدیثیں بھی اوپر گزر چکی ہیں کہ مکہ شریف میں قتال حرام ہے ۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کسی کو حلال نہیں کہ مکہ میں ہتھیار اٹھائے (صحیح مسلم:1356) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا حرمت کعبۃ اللہ کی بنا سے پہلے تھی اس لیے کہا کہ اے اللہ اس جگہ کو امن والا شہر بنا ، سورۃ ابراہیم میں یہی دعا ان لفظوں میں ہے آیت «رَبِّ اجْعَلْ ہٰذَا الْبَلَدَ اٰمِنًا» ( 14 ۔ ابراہیم : 35 ) شاید یہ دعا دوبارہ کی تھی ۔ جب بیت اللہ شریف تیار ہو گیا اور شہر بس گیا اور اسحاق علیہ السلام جو اسمٰعیل علیہ السلام سے تین سال چھوٹے تھے تولد ہو چکے اسی لیے اس دعا کے آخر میں ان کی پیدائش کا شکریہ بھی ادا کیا ۔ «ومن کفر» سے آخر تک اللہ تعالیٰ کا کلام ہے بعض نے اسے بھی دعا میں دخل کیا ہے تو اس تقدیر پر یہ مطلب ہو گا کہ کفار کو بھی تھوڑا سا فائدہ دے پھر انہیں عذاب کی طرف بی بس کر اس میں بھی حضرات ابراہیم علیہم السلام کی خلت ظاہر ہوتی ہے کہ وہ اپنی بری اولاد کے بھی مخالف ہیں اور اسے کلام اللہ ماننے کا یہ مطلب ہو گا کہ چونکہ امامت کا سوال جب اپنی اولاد کے لیے کیا اور ظالموں کی محرومی کا اعلان سن چکے اور معلوم ہو گیا کہ آپ پیچھے آنے والوں میں بھی اللہ کے نافرمان ہوں گے تو مارے ڈر کے ادب کے ساتھ بعد میں آنے والی نسلوں کو روزی طلب کرتے ہوئے صرف ایماندار اولاد کے لیے کہا ۔ ارشاد باری ہوا کہ دنیا کا فائدہ تو کفار کو بھی دیتا ہے جیسے اور جگہ ہے آیت «کُلًّا نٰمِدٰ ہٰٓؤُلَاءِ وَہٰٓؤُلَاءِ مِنْ عَطَاءِ رَبِّکَ وَمَا کَانَ عَطَاءُ رَبِّکَ مَحْظُوْرًا» ( 17 ۔ الاسرآء : 20 ) یعنی ہم انہیں اور ان کو بھی فائدہ دیں گے تیرے رب کی بخشش محدود نہیں ۔ اور جگہ ہے جو لوگ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں وہ فلاح نہیں پاتے دنیا کا کچھ فائدہ گو اٹھا لیں لیکن ہماری طرف آ کر اپنے کفر کے بدلے سخت عذاب چکھیں گے ۔ (10-یونس:70) اور جگہ ہے کافروں کا کفر تجھے غمگین نہ کرے جب یہ ہماری طرف لوٹیں گے تو ان کے اعمال پر ہم انہیں تنبیہ کریں گے اللہ تعالیٰ سینوں کی چھپی باتوں کو بخوبی جانتا ہے ہم انہیں یونہی سا فائدہ پہنچا کر سخت غلیظ عذابوں کی طرف بے قرار کریں گے اور جگہ ہے آیت «وَلَوْلَآ اَنْ یَّکُوْنَ النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً لَّجَعَلْنَا لِمَنْ یَّکْفُرُ بِالرَّحْمٰنِ لِبُیُوْتِہِمْ سُقُفًا مِّنْ فِضَّۃٍ وَّمَعَارِجَ عَلَیْہَا یَظْہَرُوْنَ» ( 43 ۔ الزخرف : 33 ) اگر یہ خطرہ نہ ہو تاکہ لوگو ایک ہی امت ہو جائیں تو ہم کافروں کی چھتیں اور سیڑھیاں چاندی کی بنا دیتے اور ان کے گھر کے دروازے اور تخت جن پر ٹیکے لگائے بیٹھے رہتے اور سونا بھی دیتے لیکن یہ سب دنیوی فوائد ہیں آخرت کا بھلا گھر تو صرف پرہیزگاروں کے لیے ہے ۔ یہی مضمون پرہیز گاروں کے لیے ہے یہی مضمون اس آیت میں بھی ہے کہ ان کا انجام برا ہے یہاں ڈھیل پا لیں گے لیکن وہاں سخت پکڑ ہو گی ۔ جیسے اور جگہ ہے آیت «فَکَاَیِّنْ مِّنْ قَرْیَۃٍ اَہْلَکْنٰہَا وَہِیَ ظَالِمَۃٌ فَہِیَ خَاوِیَۃٌ عَلٰی عُرُوْشِہَا وَبِئْرٍ مٰعَطَّلَۃٍ وَّقَصْرٍ مَّشِیْدٍ» ( 22 ۔ الحج : 45 ) بہت سی ظالم بستیوں کو ہم نے مہلت دی پھر پکڑ لیا انجام کو تو ہمارے ہی پاس لوٹنا ہے بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے گندی باتوں کو سن کر صبر کرنے میں اللہ سے بڑھ کر کوئی نہیں لوگ اس کی اولاد بتاتے ہیں لیکن تاہم وہ انہیں رزق و عافیت دے رہا ہے (صحیح بخاری:6099) اور حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ ظالم کو ڈھیل دیتا ہے پھر اسے اچانک پکڑ لیتا ہے (فتح الباری:205/8) پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی آیت «وَکَذٰلِکَ اَخْذُ رَبِّکَ اِذَآ اَخَذَ الْقُرٰی وَہِیَ ظَالِمَۃٌ اِنَّ اَخْذَہٗٓ اَلِیْمٌ شَدِیْدٌ» ( 11 ۔ ہود : 102 )(صحیح بخاری:4686) اس جملہ کو ابراہیم علیہ السلام کی دعا میں شامل کرنا شاذ قرأت کی بنا پر ہے جو ساتوں قاریوں کی قرأت کے خلاف ہے اور ترکیب سیاق و سباق بھی یہی ظاہر کرتی ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اس لیے کہ قال کی ضمیر کا مرجع اللہ کی طرف ہے اور اس شاذ قرأت کی بنا پر اس کے فاعل اور قائل بھی ابراہیم علیہ السلام ہی ہوتے ہیں جو نظم کلام سے بظاہر مخالف ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ قواعد جمع ہے قاعدہ کی ترجمہ اس کا پایہ اور نیو ( بنیاد ) ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے والوں کو بنائے ابراہیمی کی خبر دو ، ایک قرأت میں «واسمعیل» کے بعد «ویقولان» بھی ہے اسی دلالت میں آگے لفظ «مسلمین» بھی ہے دونوں نبی نیک کام میں مشغول ہیں اور قبول نہ ہونے کا کھٹکا ہے تو اللہ تعالیٰ سے قبولیت کی دعا کرتے ہیں وہیب بن ورد رحمہ اللہ جب اس آیت کی تلاوت کرتے تو بہت روتے اور فرماتے آہ ! خلیل الرحمن علیہ السلام جیسے اللہ کے مقبول پیغمبر اللہ کا کام اللہ کے حکم سے کرتے ہیں اس کا گھر اس کے فرمان سے بناتے ہیں اور پھر خوف ہے کہ کہیں یہ قبولیت سے گر نہ جائے سچ ہے مخلص مومنوں کا یہی حال ہے آیت «وَالَّذِیْنَ یُؤْتُوْنَ مَآ اٰتَوْا وَّقُلُوْبُہُمْ وَجِلَۃٌ اَنَّہُمْ اِلٰی رَبِّہِمْ رٰجِعُوْنَ» ( 23 ۔ المومنون : 60 ) وہ نیک کام کرتے ہیں صدقے خیرات کرتے ہیں لیکن پھر بھی خوف اللہ سے کانپتے رہتے ہیں [ کہ ایسا نہ ہو کہ قبول نہ ہوں] ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے سوال پر اس آیت کا یہی مطلب زبان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان ہوا ہے ۔(سنن ترمذی:3175،قال الشیخ الألبانی:صحیح) بعض مفسرین نے کہا ہے کہ بنیادیں ابراہیم علیہ السلام اٹھاتے تھے اور دعا اسماعیل علیہ السلام کرتے تھے لیکن صحیح یہی ہے کہ دونوں ہر ایک کام میں شریک تھے۔ صحیح بخاری شریف کی ایک روایت اور بعض اور آثار بھی اس واقعہ کے متعلق یہاں ذکر کئے جانے کے قابل ہیں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ کمر بند باندھنا عورتوں نے اسمٰعیل علیہ السلام کی والدہ محترمہ سے سیکھا ہے انہوں نے باندھا تھا کہ مائی سارہ کو ان کا نقش قدم نہ ملے انہیں اور ان کے جگر کے ٹکڑے اپنے اکلوتے فرزند اسمٰعیل علیہ السلام کو لے کر ابراہیم علیہ السلام نکلے جبکہ یہ پیارا بچہ دودھ پیتا تھا ۔ سناٹے کی آغوش میں زندگی اب جہاں پر بیت اللہ بنا ہوا ہے یہاں ایک ٹیلہ تھا اور سنسان بیابان تھا کوئی اپنے سہنے والا وہاں نہ تھا یہاں پہنچ کر ماں بیٹے کو بٹھا کر پاس تھوڑی سی کھجوریں اور مشکیزہ پانی کا رکھ کر آپ چلے گئے جب خلیل اللہ علیہ السلام نے پیٹھ موڑی اور جانے لگے تو مائی حاجرہ سلام اللہ علیہا نے آواز دی اے خلیل اللہ ہمیں اس دہشت و وحشت والے بیابان میں یکہ و تنہا چھوڑ کر جہاں ہمارا کوئی مونس و ہمدم نہیں آپ علیہ السلام کہاں تشریف لے جا رہے ہیں ؟ لیکن ابراہیم علیہ السلام نے کوئی جواب نہ دیا بلکہ اس طرف توجہ تک نہ کی ، منہ موڑ کر بھی نہ دیکھا ۔ حضرت ہاجرہ سلام اللہ علیہا کے باربار کہنے پر بھی آپ علیہ السلام نے التفات نہ فرمایا تو آپ سلام اللہ علیہا فرمانے لگیں اللہ کے خلیل آپ ہمیں کسے سونپ چلے ؟ آپ علیہ السلام نے کہا اللہ تعالیٰ کو کہا اے خلیل اللہ کیا اللہ تعالیٰ کا آپ کو یہ حکم ہے ؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا ہاں مجھے اللہ کا یہی حکم ہے یہ سن کر ام اسمٰعیل سلام اللہ علیہا کو تسکین ہو گئی اور فرمانے لگیں پھر تشریف لے جائیے وہ اللہ جل شانہ ہمیں ہرگز ضائع نہ کرے گا اسی کا بھروسہ اور اسی کا سہارا ہے ۔ ہاجرہ لوٹ گئیں اور اپنے کلیجہ کی ٹھنڈک اپنی آنکھوں کے نور ابن نبی اللہ کو گود میں لے کر اس سنسان بیابان میں اس ہو کے عالم میں لاچار اور مجبور ہو کر بیٹھ رہیں ۔ ابراہیم علیہ السلام جب ثنیہ کے پاس پہنچے اور یہ معلوم کر لیا کہ اب ہاجرہ پیچھے نہیں اور وہاں سے یہاں تک ان کی نگاہ کام بھی نہیں کر سکتی تو بیت اللہ شریف کی طرف متوجہ ہو کر ہاتھ اٹھا کر دعا کی اور کہا آیت «رَبَّنَآ اِنِّیْٓ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ» ( 14 ۔ ابراہیم : 37 ) الہٰ العالمین میں نے اپنے بال بچوں کو ایک غیر آباد جنگل میں تیرے برگزیدہ گھر کے پاس چھوڑا ہے تاکہ وہ نماز قائم کریں تو لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف جھکا دے اور انہیں پھلوں کی روزیاں دے شاید وہ شکر گزاری کریں آپ علیہ السلام نے یہ دعا کر کے حکم اللہ بجا لا کر اپنی اہل و عیال کو اللہ کے سپرد کر کے چلے گئے ۔ ادھر ہاجرہ سلام اللہ علیہا صبر و شکر کے ساتھ بچے سے دل بہلانے لگییں جب تھوڑی سی کھجوریں اور ذرا سا پانی ختم ہو گیا اب اناج کا ایک دانہ پاس ہے نہ پانی کا گھونٹ خود بھی بھوکی پیاسی ہیں اور بچہ بھی بھوک پیاس سے بیتاب ہے یہاں تک کہ اس معصوم نبی زادے کا پھول سا چہرہ کمھلانے لگا اور وہ تڑپنے اور بلکنے لگا مامتا بھری ماں کبھی اپنی تنہائی اور بے کس ی کا خیال کرتی ہے کبھی اپنے ننھے سے اکلوتے بچے کا یہ حال بغور دیکھتی ہے اور سہمی جاتی ہے معلوم ہے کہ کسی انسان کا گزر اس بھیانک جنگل میں نہیں ، میلوں تک آبادی کا نام و نشان نہیں کھانا تو کہاں ؟ پانی کا ایک قطرہ بھی میسر نہیں آ سکتا ۔ آخر اس ننھی سی جان کا یہ ابتر حال نہیں دیکھا جاتا تو اٹھ کر چلی جاتی ہیں اور صفا پہاڑ جو پاس ہی تھا اس پر چڑھ جاتی ہیں اور میدان کی طرف نظر دوڑاتی ہیں کہ کوئی آتا جاتا نظر آ جائے لیکن نگاہیں مایوسی کے ساتھ چاروں طرف ڈالتی ہیں اور کسی کو بھی نہ دیکھ کر پھر وہاں سے اتر آتی ہیں اور اسی طرح درمیانی تھوڑا سا حصہ دوڑ کر باقی حصہ جلدی جلدی طے کر کے پھر صفا پر چڑھتی ہیں اسی طرح سات مرتبہ کرتی ہیں ہر بار آ کر بچہ کو دیکھ جاتی ہیں اس کی حالت ساعت بہ ساعت بگڑتی جا رہی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں صفا مروہ کی سعی جو حاجی کرتے ہیں اس کی ابتداء یہی سے ساتویں مرتبہ جب ہاجرہ مروہ پر آتی ہیں تو کچھ آواز کان میں پڑتی ہے آپ خاموش ہو کر احتیاط کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہوتی ہیں کہ یہ آواز کیسی ؟ آواز پھر آتی ہے اور اس مرتبہ صاف سنائی دیتی ہے تو آپ آواز کی طرف لپک کر آتی ہیں اور اب جہاں زمزم ہے وہاں جبرائیل علیہ السلام کو پاتی ہیں ۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام پوچھتے ہیں تم کون ہو ؟ آپ جواب دیتی ہیں میں ہاجرہ ہوں میں ابراہیم علیہ السلام کے لڑکے کی ماں ہوں فرشتہ پوچھتا ہے ابراہیم علیہ السلام تمہیں اس سنسان بیابان میں کسے سونپ گئے ہیں ؟ آپ سلام اللہ علیہا فرماتی ہیں اللہ کو فرمایا پھر تو وہ کافی ہے ہاجرہ سلام اللہ علیہا نے فرمایا اے غیبی شخص آواز تو میں نے سن لی کیا کچھ میرا کام بھی نکلے گا ؟ جبرائیل علیہ السلام نے اپنی ایڑی زمین پر رگڑی وہیں زمین سے ایک چشمہ پانی کا ابلنے لگا ۔ حضرت ہاجرہ علیہما السلام نے ہاتھ سے اس پانی کو مشک میں بھرنا شروع کیا مشک بھر کر پھر اس خیال سے کہ پانی ادھر ادھر بہ کر نکل نہ جائے آس پاس باڑ باندھنی شروع کر دی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ ام اسمٰعیل علیہ السلام پر رحم کرے اگر وہ اس طرح پانی کو نہ روکتیں تو زمزم کنویں کی مثل میں نہ ہوتا بلکہ وہ ایک جاری نہر کی صورت میں ہوتا اب ہاجرہ نے پانی پیا اور بچہ کو بھی پلایا اور دودھ پلانے لگیں فرشتے نے کہ دیا کہ تم بے فکر رہو اللہ تمہیں ضائع نہ کرے گا جہاں تم بیٹھی ہو یہاں اللہ کا ایک گھر اس بچے اور اس کے باپ کے ہاتھوں بنے گا ہاجرہ اب یہیں رہ پڑیں زمزم کا پانی پیتیں اور بچہ سے دل بہلاتیں بارش کے موسم میں پانی کے سیلاب چاروں طرف سے آتے لیکن یہ جگہ ذرا اونچی تھی ادھر ادھر سے پانی گزر جاتا ہے اور یہاں امن رہتا کچھ مدت کے بعد جرہم کا قبیلہ خدا کے راستہ کی طرف سے اتفاقاً گزرا اور مکہ شریف کے نیچے کے حصہ میں اترا ان کی نظریں ایک آبی پرند پر پڑیں تو آپس میں کہنے لگے یہ پرندہ تو پانی کا ہے اور یہاں پانی کبھی نہ تھا ہماری آمدورفت یہاں سے کئی مرتبہ ہوئی یہ تو خشک جنگل اور چٹیل میدان ہے یہاں پانی کہاں ؟ چنانچہ انہوں نے اپنے آدمی اصلیت معلوم کرنے کے لیے بھیجے انہوں نے واپس آ کر خبر دی کہ وہاں تو بہترین اور بہت سا پانی ہے اب وہ سب آئے اور ام اسمعٰیل سلام اللہ علیہا سے عرض کرنے لگے کہ مائی صاحبہ اگر آپ اجازت دیں تو ہم بھی یہاں ٹھہر جائیں پانی کی جگہ ہے آپ نے فرمایا ہاں شوق سے رہو لیکن پانی پر قبضہ میرا ہی رہے گا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہاجرہ تو چاہتی تھیں کہ کوئی ہم جنس مل جائے چنانچہ یہ قافلہ یہاں رہ پڑا ۔ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام بھی بڑے ہو گئے ان سب کو آپ علیہ السلام سے بڑی محبت ہو گئی یہاں تک کہ آپ علیہ السلام بالغ ہوئے تو انہی میں نکاح بھی کیا اور انہی سے عربی بھی سیکھی مائی ہاجرہ علیہما السلام کا انتقام یہیں ہوا جب ابراہیم علیہ السلام کو اللہ کی طرف سے اجازت ملی تو آپ علیہ السلام اپنے لخت جگر کی ملاقات کے لیے تشریف لائے بعض روایات میں ہے کہ آپ علیہ السلام کا یہ آنا جانا براق پر ہوتا تھا ملک شام سے آتے تھے اور پھر واپس جاتے تھے یہاں آئے تو اسمٰعیل علیہ السلام گھر پر نہ ملے اپنی بہو سے پوچھا کہ وہ کہاں ہیں ؟ تو جواب ملا کہ کھانے پینے کی تلاش میں یعنی شکار کو گئے ہیں آپ علیہ السلام نے پوچھا تمہارا کیا حال ہے ؟ کہا برا حال ہے بڑی تنگی اور سختی ہے فرمایا اچھا تمہارے خاوند آویں تو انہیں سلام کہنا اور کہہ دینا کہ اپنے دروازے کی چوکھٹ بدل ڈالیں ۔ حضرت ذبیح اللہ علیہ السلام جب واپس آئے تو گویا آپ علیہ السلام کو کچھ انس سا معلوم ہوا پوچھنے لگے کیا کوئی صاحب تشریف لائے تھے ؟ بیوی نے کہا ہاں ایسی ایسی شکل و شباہت کے ایک عمر رسیدہ بزرگ آئے تھے ؟ آپ کی نسبت پوچھا میں نے کہا وہ شکار کی تلاش میں باہر گئے ہیں پھر پوچھا کہ گزران کیسی چلتی ہے ؟ میں نے کہا بڑی سختی اور تنگی سے گزر اوقات ہوتی ہے پوچھا کچھ مجھ سے کہنے کو بھی فرما گئے ہیں ؟ بیوی نے کہا ہاں کہہ گئے کہ وہ جب وہ آئیں میرا سلام کہنا اور کہہ دینا کہ اپنے دروازے کی چوکھٹ بدل ڈالیں آپ علیہ السلام فرمانے لگے بیوی سنو یہ میرے والد صاحب تھے اور جو فرما گئے ہیں اس سے مطلب یہ ہے کہ ( چونکہ تم نے ناشکری کی ) میں تم کو الگ کر دوں جاؤ میں نے تمہیں طلاق دی انہیں طلاق دے کر آپ علیہ السلام نے اسی قبیلہ میں اپنا دوسرا نکاح کر لیا ۔ ایک مدت کے بعد پھر ابراہیم علیہ السلام باجازت الٰہی یہاں آئے اب کی مرتبہ بھی اتفاقاً ذبیح علیہ السلام سے ملاقات نہ ہوئی بہو سے پوچھا تو جواب ملا کہ ہمارے لیے رزق کی تلاش میں شکار کو گئے ہیں آپ آئیے ، تشریف رکھئے جو کچھ حاضر ہے تناول فرمائیے ۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا یہ تو بتاؤ کہ گزر بسر کیسی ہوتی ہے ؟ کیا حال ہے ؟ جواب ملا الحمدللہ ہم خیریت سے ہیں اور بفضل رب کعبہ کشادگی اور راحت ہے اللہ کا بڑا شکر ہے ابراہیم علیہ السلام نے کہا تمہاری خوراک کیا ہے ؟ کہا گوشت پوچھا تم پیتے کیا ہو ؟ جواب ملا پانی آپ علیہ السلام نے دعا کی کہ پروردگار انہیں گوشت اور پانی میں برکت دے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اگر اناج ان کے پاس ہوتا اور یہ کہتیں تو خلیل علیہ السلام ان کے لیے اناج کی برکت کی دعا بھی کرتے اب اس دعا کی برکت سے اہل مکہ صرف گوشت اور پانی پر گزر کر سکتے ہیں ۔ اور لوگ نہیں کر سکتے آپ علیہ السلام نے فرمایا اچھا میں تو جا رہا ہوں تم اپنے میاں کو میرا سلام کہنا اور کہنا کہ وہ اپنی چوکھٹ کو ثابت اور آباد رکھیں بعد ازاں اسمٰعیل علیہ السلام آئے سارا واقعہ معلوم ہوا آپ علیہ السلام نے فرمایا یہ میرے والد مکرم تھے مجھے حکم دے گئے ہیں کہ میں تمہیں الگ نہ کروں ( تم شکر گزار ہو ) ۔ تعمیر کعبہ پھر ایک مدت کے بعد ابراہیم علیہ السلام کو اجازت ملی اور آپ تشریف لائے تو اسمٰعیل علیہ السلام کو زمزم کے پاس ایک ٹیلے پر تیر سیدھے کرتے ہوئے پایا ، اسمٰعیل علیہ السلام باپ کو دیکھتے ہی کھڑے ہو گئے اور با ادب ملے جب باپ بیٹے ملے تو خلیل اللہ علیہ السلام نے فرمایا اے اسماعیل مجھے اللہ کا ایک حکم ہوا ہے آپ علیہ السلام نے فرمایا ابا جان جو حکم ہوا ہو اس کی تعمیل کیجئے ، کہا بیٹا تمہیں بھی میرا ساتھ دینا پڑے گا ۔ عرض کرنے لگے میں حاضر ہوں اس جگہ اللہ کا ایک گھر بنانا ہے کہنے لگے بہت بہتر اب باپ بیٹے نے بیت اللہ کی نیو رکھی اور دیواریں اونچی کرنی شروع کیں ، اسمٰعیل علیہ السلام پتھر لا لا کر دیتے جاتے تھے اور ابراہیم چنتے جاتے تھے جب دیواریں قدرے اونچی ہو گئیں تو ذبیح اللہ یہ پتھر یعنی مقام ابراہیم کا پتھر لائے ، اس اونچے پتھر پر کھڑے ہو کر ابراہیم علیہ السلام کعبہ کے پتھر رکھتے جاتے تھے اور دونوں باپ بیٹا یہ دعا مانگتے جاتے تھے کہ باری تعالیٰ تو ہماری اس ناچیز خدمت کو قبول فرمانا تو سننے اور جاننے والا ہے.(صحیح بخاری:3365) یہ روایت اور کتب حدیث میں بھی ہے کہیں مختصر اور کہیں مفصلاً ایک صحیح حدیث میں یہ بھی ہے کہ ذبیح اللہ کے بدلے جو دنبہ ذبح ہوا تھا اس کے سینگ بھی کعبۃ اللہ میں تھے ۔ (مسند احمد:601/1:صحیح) اوپر کی لمبی روایت بروایت سیدنا علی رضی اللہ عنہ بھی مروی ہے اس میں یہ بھی ہے کہ ابراہیم علیہ السلام جب بھی کعبۃ اللہ شریف کے قریب پہنچے تو آپ علیہ السلام نے اپنے سر پر ایک بادل سا ملاحظہ فرمایا جس میں سے آواز آئی کہ اے ابراہیم جہاں جہاں تک اس بادل کا سایہ ہے وہاں تک کی زمین بیت اللہ میں لے لو کمی زیادتی نہ ہو اس روایت میں یہ بھی ہے کہ بیت اللہ بنا کر وہاں ہاجرہ اور اسمٰعیل علیہ السلام کو چھوڑ کر آپ علیہ السلام تشریف لے گئے لیکن روایت ہی ٹھیک ہے اور اس طرح تطبیق بھی ہو سکتی ہے کہ بناء پہلے رکھدی تھی لیکن بنایا بعد میں ، اور بنانے میں بیٹا اور باپ دونوں شامل تھے جیسے کہ قرآن پاک کے الفاظ بھی ہیں ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ لوگوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بناء بیت اللہ شروع کیفیت دریافت کی تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا کہ میرا گھر بناؤ ابراہیم علیہ السلام گھبرائے کہ مجھے کہاں بنانا چاہیئے کس طرح اور کتنا بڑا بنانا چاہیئے وغیرہ اس پر سکینہ نازل ہوا اور حکم ہوا کہ جہاں یہ ٹھہرے وہاں تم میرا گھر بناؤ آپ علیہ السلام نے بنانا شروع کیا جب حجر اسود کی جگہ پہنچے تو اسمٰعیل علیہ السلام سے کہا بیٹا کوئی اچھا سا پتھر ڈھونڈ لاؤ تو دیکھا کہ آپ اور پتھر وہاں لگا چکے ہیں ، پوچھا یہ پتھر کون لایا ؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا اللہ کے حکم سے یہ پتھر جبرائیل علیہ السلام آسمان سے لے کر آئے ، سیدنا کعب احبار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اب جہاں بیت اللہ ہے وہاں زمین کی پیدائش سے پہلے پانی پر بلبلوں کے ساتھ جھاگ سی تھی یہیں سے زمین پھیلائی گئی ، سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کعبۃ اللہ بنانے کے لیے خلیل علیہ السلام آرمینیہ سے تشریف لائے تھے حضرت سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں حجر اسود جبرائیل علیہ السلام ہند سے لائے تھے اس وقت وہ سفید چمکدار یاقوت تھا جو آدم علیہ السلام کے ساتھ جنت سے اترا تھا ھر لوگوں کے خطا کار ہاتھوں سے اس کا رنگ سیاہ ہو گیا اس روایت میں یہ بھی ہے کہ نیو اور بنیادیں ہلے سے موجود تھیں انہی پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بناء کی ۔ مسند عبدالرزاق میں ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام ہند میں اترے تھے اس وقت ان کا قد لمبا تھا زمین میں آنے کے بعد فرشتوں کی تسبیح نماز و دعا وغیرہ سنتے تھے جب قد گھٹ گیا اور وہ پیاری آوازیں آنی بند ہو گئیں تو آپ علیہ السلام گھبرانے لگے حکم ہوا کہ مکہ کی طرف رکھا اور اسے اپنا گھر قرار دیا ، آدم علیہ السلام یہاں طواف کرنے لگے اور مانوس ہوئے گھبراہٹ جاتی رہی حضرت نوح علیہ السلام کے طوفان کے زمانہ میں یہ پھر اٹھ گیا اور ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں پھر اللہ تعالیٰ نے بنوایا آدم علیہ السلام نے یہ گھر حرا طور زیتا جبل لبنان طور سینا اور جودی ان پانچ پہاڑوں سے بنایا تھا لیکن ان تمام روایتوں میں تفاوت ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» بعض روایتوں میں ہے کہ زمین کی پیدائش سے دو ہزار سال پہلے بیت اللہ بنایا گیا تھا ، ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ بیت اللہ کے نشان بتانے کے لیے جبرائیل علیہ السلام چلے تھے اس وقت یہاں جنگلی درختوں کے سوا کچھ نہ تھا کس دور عمالیق کی آبادی تھی یہاں آپ علیہ السلام ام اسماعیل کو اور اسمٰعیل علیہ السلام کو ایک چھپر تلے بٹھا گے ایک اور روایت میں ہے کہ بیت اللہ کے چار ارکان ہیں اور ساتویں زمین تک وہ نیچے ہوتے ہیں ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ ذوالقرنین جب یہاں پہنچے اور ابراہیم علیہ السلام کو بیت اللہ بناتے ہوئے دیکھا تو پوچھا یہ کیا کر رہے ہو ؟ تو انہوں نے کہا اللہ کے حکم سے اس کا گھر بنا رہے ہیں پوچھا کیا دلیل ؟ کہا یہ بھیڑیں گواہی دیں گی پانچ بھیڑوں نے کہا ہم گواہی دیتی ہیں کہ یہ دونوں اللہ کے مامور ہیں ، ذوالقرنین خوش ہو گئے اور کہنے لگے میں نے مان لیا ۔ الرزقی کی تاریخ مکہ میں ہے کہ ذوالقرنین نے خلیل اللہ علیہ السلام اور ذبیح اللہ علیہ السلام کے ساتھ بیت اللہ کا طواف کیا ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» صحیح بخاری میں ہے قواعد بنیاد اور اساس کو کہتے ہیں یہ قاعدہ کی جمع ہے قرآن میں اور جگہ آیت «وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَاءِ الّٰتِیْ لَا یَرْجُوْنَ نِکَاحًا فَلَیْسَ عَلَیْہِنَّ جُنَاحٌ اَنْ یَّضَعْنَ ثِیَابَہُنَّ غَیْرَ مُتَبَرِّجٰتٍ بِزِیْنَۃٍ» ( 24 ۔ النور : 60 ) بھی آیا ہے اس کا مفرد بھی قاعدۃ ہے ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم نہیں دیکھتیں کہ تمہاری قوم نے جب بیت اللہ بنایا تو قواعد ابراہیم علیہ السلام سے گھٹا دیا میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ اسے بڑھا کر اصلی بنا پر کر دیں فرمایا کہ اگر تیری قوم کا اسلام تازہ اور ان کا زمانہ کفر کے قریب نہ ہوتا تو میں ایسا کر لیتا ۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو جب یہ حدیث پہنچی تو فرمانے لگے شاید یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجر اسود کے پاس کے دوستونوں کو چھوتے نہ تھے(صحیح بخاری:4484) صحیح مسلم شریف میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اے عائشہ رضی اللہ عنہا اگر تیری قوم کا جاہلیت کا زمانہ نہ ہوتا تو میں کعبہ کے خزانہ کو اللہ کی راہ میں خیرات کر ڈالتا اور دروازے کو زمین دوز کر دیتا اور حطیم کو بیت اللہ میں داخل کر دیتا ۔ (صحیح مسلم:1333) صحیح بخاری میں یہ بھی ہے کہ میں اس کا دوسرا دروازہ بھی بنا دیتا ایک آنے کے لیے اور دوسرا جانے کے لیے چنانچہ سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانہ خلافت میں ایسا ہی کیا ۔ (صحیح بخاری:126) اور ایک روایت میں ہے کہ اسے میں دوبارہ بنائے ابراہیمی علیہ السلام پر بناتا ۔ (صحیح مسلم:398) دوسری روایت میں ہے کہ ایک دروازہ مشرق رخ کرتا اور دوسرا مغرب رخ اور چھ ہاتھ حطیم کو اس میں داخل کر لیتا جسے قریش نے باہر کر دیا ہے ۔ (صحیح مسلم:1333) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے پانچ سال پہلے قریش نے نئے سرے سے کعبہ بنایا تھا اس کا مفصل ذکر ملاحظہ ہو اس بناء میں خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی شریک تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر پینتیس سال کی تھی اور پتھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اٹھاتے تھے محمد بن اسحاق بن یسار رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک پینتیس سال کی ہوئی اس وقت قریش نے کعبۃ اللہ کو نئے سرے سے بنانے کا ارادہ کیا ایک تو اس لیے کہ اس کی دیواریں بہت چھوٹی تھیں چھت نہ تھی دوسرے اس لیے بھی کہ بیت اللہ کا خزانہ چوری ہو گیا تھا جو بیت اللہ کے بیچ میں ایک گہرے گڑھے میں رکھا ہوا تھا یہ مال ” دویک “ کے پاس ملا تھا جو خزائمہ کے قبیلے بنی ملیح بن عمرو کا مولی تھا ۔ ممکن ہے چوروں نے یہاں لا رکھا ہو لیکن اس کے ہاتھ اس چوری کی وجہ سے کاٹے گئے ایک اور قدرتی سہولت بھی اس کے لیے ہو گئی تھی کہ روم کے تاجروں کی ایک کشتی جس میں بہت اعلیٰ درجہ کی لکڑیاں تھیں وہ طوفان کی وجہ سے جدہ کے کنارے آ لگی تھی یہ لکڑیاں چھت میں کام آ سکتی تھیں اس لیے قریشیوں نے انہیں خرید لیا اور مکہ کے ایک بڑھئی جو قبطی قبیلہ میں سے تھا کو چھت کا کام سونپا یہ سب تیاریاں تو ہو رہی تھیں لیکن بیت اللہ کو گرانے کی ہمت نہ پڑتی تھی اس کے قدرتی اسباب بھی مہیا ہو گئے بیت اللہ کے خزانہ میں ایک بڑا اژدھا تھا جب کبھی لوگ اس کے قریب بھی جاتے تو وہ منہ پھاڑ کر ان کی طرف لپکتا تھا یہ سانپ ہر روز اس کنویں سے نکل کر بیت اللہ کی دیواروں پر آ بیٹھتا تھا ایک روز وہ بیٹھا ہوا تھا تو اللہ تعالیٰ نے ایک بہت بڑا پرندہ بھیجا وہ اسے پکڑ کر لے اڑا قریشیوں نے سمجھ لیا کہ ہمارا ارادہ مرضی مولا کے مطابق ہے لکڑیاں بھی ہمیں مل گئیں بڑھئی بھی ہمارے پاس موجود ہے سانپ کو بھی اللہ تعالیٰ نے دفع کیا ۔ اب انہوں نے مستقل ارادہ کر لیا کہ کعبۃ اللہ کو گرا کر نئے سرے سے بنائیں ۔ سب سے پہلے ابو وھب بن عمرو کھڑا ہوا اور ایک پتھر کعبۃ اللہ کو گرا کر اتارا جو اس کے ہاتھ سے اڑ کر پھر وہیں جا کر نصب ہو گیا اس نے تمام قریشیوں سے خطاب کر کے کہا سنو بیت اللہ کے بنانے میں ہر شخص اپنا طیب اور پاک مال خرچ کرے ۔ اس میں زناکاری کا روپیہ سودی بیوپار کا روپیہ ظلم سے حاصل کیا ہوا مال نہ لگانا ، بعض لوگ کہتے ہیں یہ مشورہ ولید بن مغیرہ نے دیا تھا ۔ (سیرت ابن ھشام:204/1) اب بیت اللہ کے حصے بانٹ لیے گئے دروازہ کا حصہ بنو عبد مناف اور زہرہ بنائیں حجر اسود اور رکن یمانی کا حصہ بنی مخزوم بنائیں ۔ قریش کے اور قبائل بھی ان کا ساتھ دیں ۔ کعبہ کا پچھلا حصہ بنو جمح اور سہم بنائیں ۔ حطیم کے پاس کا حصہ بنو عبدالدار بن قصی اور بنو اسد بن عبد العزی اور بنو عدی بن کعب بنائیں ۔ یہ مقرر کر کے اب بنی ہوئی عمارت کو ڈھانے کے لیے چلے لیکن کسی کو ہمت نہیں پڑتی کہ اسے مسمار کرنا شروع کرے آخر ولید بن مغیرہ نے کہا لو میں شروع کرتا ہوں کدال لے کر اوپر چڑھ گئے اور کہنے لگے اے اللہ تجھے خوب علم ہے کہ ہمارا ارادہ برا نہیں ہم تیرے گھر کو اجاڑنا نہیں چاہتے بلکہ اس کے آباد کرنے کی فکر میں ہیں ۔ یہ کہہ کر کچھ حصہ دونوں رکن کے کناروں کا گرایا قریشیوں نے کہا بس اب چھوڑو اور رات بھر کا انتظار کرو اگر اس شخص پر کوئی وبال آ جائے تو یہ پتھر اسی جگہ پر لگا دینا اور خاموش ہو جانا اور اگر کوئی عذاب نہ آئے تو سمجھ لینا کہ اس کا گرانا اللہ کو ناپسند نہیں پھر کل سب مل کر اپنے اپنے کام میں لگ جانا چنانچہ صبح ہوئی اور ہر طرح خیریت رہی اب سب آ گئے اور بیت اللہ کی اگلی عمارت کو گرا دیا یہاں تک کہ اصلی نیو یعنی بناء ابراہیمی تک پہنچ گئے یہاں سبز رنگ کے پتھر تھے کے ہلنے کے ساتھ ہی تمام مکہ کی زمین ہلنے لگی تو انہوں نے سمجھ لیا کہ انہیں جدا کر کے اور پتھر ان کی جگہ لگانا اللہ کو منظور نہیں اس لیے ہمارے بس کی بات نہیں اس ارادے سے باز رہے اور ان پتھروں کو اسی طرح رہنے دیا ۔ (سیرت ابن ھشام:207/1) پھر ہر قبیلہ نے اپنے اپنے حصہ کے مطابق علیحدہ علیحدہ پتھر جمع کئے اور عمارت بننی شروع ہوئی یہاں تک کہ باقاعدہ جنگ کی نوبت آ گئی فرقے آپس میں کھچ گئے اور لڑائی کی تیاریاں میں مشغول ہو گئے بنو عبد دار اور بنو عدی نے ایک طشتری میں خون بھر کر اس میں ہاتھ ڈبو کر حلف اٹھایا کہ سب کٹ مریں گے لیکن حجر اسود کسی کو نہیں رکھنے دیں گے اسی طرح چار پانچ دن گزر گئے پھر قریش مسجد میں جمع ہوئے کہ آپس میں مشورہ اور انصاف کریں تو ابو امیہ بن مغیرہ نے جو قریش میں سب سے زیادہ معمر اور عقلمند تھے کہا سنو لوگو تم اپنا منصف کسی کو بنا لو وہ جو فیصلہ کرے سب منظور کر لو ۔ لیکن پھر منصف بنانے میں بھی اختلاف ہو گا اس لیے ایسا کرو کہ اب جو سب سے پہلے یہاں مسجد میں آئے وہی ہمارا منصف ۔ اس رائے پر سب نے اتفاق کر لیا ۔ اب منتظر ہیں کہ دیکھیں سب سے پہلے کون آتا ہے ؟ پس سب سے پہلے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے ہی یہ لوگ خوش ہو گئے اور کہنے لگے ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ منظور ہے ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر رضامند ہیں ۔ یہ تو امین ہیں یہ تو محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں ۔ پھر سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہہ سنایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جاؤ کوئی موٹی اور بڑی سی چادر لاؤ وہ لے آئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر اسود اٹھا کر اپنے دست مبارک سے اس میں رکھا پھر فرمایا ہر قبیلہ کا سردار آئے اور اس کپڑے کا کونہ پکڑ لے اور اس طرح ہر ایک حجر اسود کے اٹھانے کا حصہ دار بنے اس پر سب لوگ بہت ہی خوش ہوئے اور تمام سرداروں نے اسے تھام کر اٹھا لیا ۔ جب اس کے رکھنے کی جگہ تک پہنچے تو اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے لے کر اپنے ہاتھ سے اسی جگہ رکھ دیا اور وہ نزاع و اختلاف بلکہ جدال و قتال رفع ہو گیا اور اس طرح اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ اپنے گھر میں اس مبارک پتھر کو نصب کرایا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہونے سے پہلے قریش آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو امین کہا کرتے تھے ۔ اب پھر اوپر کا حصہ بنا اور کعبۃ اللہ کی عمارت تمام ہوئی ابن اسحاق موررخ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کعبہ اٹھارہ ہاتھ کا تھا ۔ قباطی کا پردہ چڑھایا جاتا تھا پھر چادر کا پردہ چڑھنے لگا ۔ ریشمی پردہ سب سے پہلے حجاج بن یوسف نے چڑھایا ۔ (سیرت ابن ھشام:211/1) کعبہ کی یہی عمارت رہی یہاں تک کہ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی خلافت کی ابتدائی زمانہ میں ساٹھ سال کے بعد یہاں آگ لگی اور کعبہ جل گیا ۔ یہ یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ کی ولایت کا آخری زمانہ تھا اور اس نے سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ کا مکہ میں محاصرہ کر رکھا تھا ۔ ان دنوں میں خلیفہ مکہ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے اپنی خالہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے جو حدیث سنی تھی اسی کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمنا پر بیت اللہ کو گرا کر ابراہیمی قواعد پر بنایا حطیم اندر شامل کر لیا ، مشرق و مغرب دو دروازے رکھے ایک اندر آنے کا دوسرا باہر جانے کا اور دروازوں کو زمین کے برابر رکھا آپ کی امارت کے زمانہ تک کعبۃ اللہ یونہی رہا یہاں تک کہ ظالم حجاج کے ہاتھوں آپ شہید ہوئے ۔ اب حجاج نے عبدالملک بن مروان کے حکم سے کعبہ کو پھر توڑ کر پہلے کی طرح بنا لیا ۔ صحیح مسلم شریف میں یزید بن معاویہ کے زمانہ میں جب کہ شامیوں نے مکہ شریف پر چڑھائی کی اور جو ہونا تھا وہ ہوا ۔ اس وقت سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیت اللہ کو یونہی چھوڑ دیا ۔ موسم حج کے موقع پر لوگ جمع ہوئے انہوں نے یہ سب کچھ دیکھا بعد ازاں آپ رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے مشورہ لیا کہ کیا کعبۃ اللہ سارے کو گرا کر نئے سرے سے بنائیں یا جو ٹوٹا ہوا ہے اس کی اصلاح کر لیں ؟ تو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا میری رائے یہ ہے کہ آب جو ٹوٹا ہوا ہے اسی کی مرمت کر دیں باقی سب پرانا ہے رہنے دیں ۔ آپ نے فرمایا اگر تم میں سے کسی کا گھر جل جاتا تو وہ تو خوش نہ ہوتا جب تک اسے نئے سرے سے نہ بناتا پھر تم اپنے رب عزوجل کے گھر کی نسبت اتنی کمزور رائے کیوں رکھتے ہو ؟ اچھا میں تین دن تک اپنے رب سے استخارہ کروں گا پھر جو سمجھ میں آئے گا وہ کروں گا ۔ تین دن کے بعد آپ رضی اللہ عنہ کی رائے یہی ہوئی کہ باقی ماندہ دیواریں بھی توڑی جائیں اور از سرے نو کعبہ کی تعمیر کی جائے چنانچہ یہ حکم دے دیا لیکن کعبے کو توڑنے کی کسی کی ہمت نہیں پڑتی تھی ۔ ڈر تھا کہ جو پہلے توڑنے کے لیے چڑھے گا اس پر عذاب نازل ہو گا لیکن ایک باہمت شخص چڑھ گیا اور اس نے ایک پتھر توڑا ۔ جب لوگوں نے دیکھا کہ اسے کچھ ایذاء نہیں پہنچی تو اب ڈھانا شروع کیا اور زمین تک برابر یکساں صاف کر دیا اس وقت چاروں طرف ستون کھڑے کر دئیے تھے اور ایک کپڑا تان دیا تھا ۔ اب بناء بیت اللہ شروع ہوئی ۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا وہ کہتی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اگر لوگوں کا کفر کا زمانہ قریب نہ ہوتا اور میرے پاس خرچ بھی ہوتا جس سے میں بنا سکوں تو حطیم میں سے پانچ ہاتھ بیت اللہ میں لے لیتا اور کعبہ کے دو دروازے کرتا ایک آنے کا اور ایک جانے کا ۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے یہ روایت بیان کر کے فرمایا اب لوگوں کے کفر کا زمانہ قریب کا نہیں رہا ان سے خوف جاتا رہا اور خزانہ بھی معمور ہے میرے پاس کافی روپیہ ہے پھر کوئی وجہ نہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمنا پوری نہ کروں چنانچہ پانچ ہاتھ حطیم اندر لے لی اور اب جو دیوار کھڑی کی تو ٹھیک ابراہیمی بنیاد نظر آنے لگی جو لوگوں نے اپنی آنکھوں دیکھ لی اور اسی پر دیوار کھڑی کی بیت اللہ کا طول اٹھارہ ہاتھ تھا اب جو اس میں پانچ ہاتھ اور بڑھ گیا تو چھوٹا ہو گیا اس لیے طول میں دس ہاتھ اور بڑھایا گیا اور دو دروازے بنائے گئے ایک اندر آنے کا دوسرا باہر جانے کا ۔ سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حجاج نے عبدالملک کو لکھا اور ان سے مشورہ لیا کہ اب کیا کیا جائے ؟ یہ بھی لکھ بھیجا کہ مکہ شریف کے عادلوں نے دیکھا ہے ٹھیک ابراہیم علیہ السلام کی نیو پر کعبہ تیار ہوا ہے لیکن عبدالملک نے جواب دیا کہ طول کو تو باقی رہنے دو اور حطیم کو باہر کر دو اور دوسرا دروازہ بند کر دو ۔ حجاج نے اس حکم کے مطابق کعبہ کو تڑوا کر پھر اسی بنا پر بنا دیا ۔ (صحیح مسلم:1333) لیکن سنت طریقہ یہی تھا کہ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی بناء کو باقی رکھا جاتا اس لیے کہ حضور علیہ السلام کی چاہت یہی تھی لیکن اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خوف تھا کہ لوگ بدگمانی نہ کریں ابھی نئے نئے اسلام میں داخل ہوئے ہیں ۔ لیکن یہ حدیث عبدالملک بن مروان کو نہیں پہنچی تھی اس لیے انہوں نے اسے تڑوا دیا جب انہیں حدیث پہنچی تو رنج کرتے تھے اور کہتے تھے کاش کہ ہم یونہی رہنے دیتے اور نہ تڑاتے چنانچہ صحیح مسلم شریف کی ایک اور حدیث میں ہے کہ حارث بن عبیداللہ جب ایک وفد میں عبدالملک بن مروان کے پاس پہنچے تو عبدالملک نے کہا میرا خیال ہے کہ ابو حبیب یعنی سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے ( اپنی خالہ ) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ حدیث سنی ہو گی حارث نے کہا ضرور سنی تھی خود میں نے بھی ام المومنین رضی اللہ عنہا سے سنا ہے پوچھا تم نے کیا سنا ہے ؟ کہا میں نے سنا ہے آپ رضی اللہ عنہا فرماتی تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ مجھ سے فرمایا کہ عائشہ تیری قوم نے بیت اللہ کو تنگ کر دیا ۔ اگر تیری قوم کا زمانہ شرک کے قریب نہ ہوتا تو میں نئے سرے سے ان کی کمی کو پورا کر دیتا لیکن آؤ میں تجھے اصلی نیو بتا دوں شاید کسی وقت تیری قوم پھر اسے اس کی اصلیت پر بنانا چاہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدیقہ رضی اللہ عنہا کو حطیم میں سے قریباً سات ہاتھ اندر داخل کرنے کو فرمایا اور فرمایا میں اس کے دروازے بنا دیتا ایک آنے کے لیے اور دوسرا جانے کے لیے اور دونوں دروازے زمین کے برابر رکھتا ایک مشرق رخ رکھتا دوسرا مغرب رخ جانتی بھی ہو کہ تمہاری قوم نے دروازے کو اتنا اونچا کیوں رکھا ہے ؟ آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم مجھے خبر نہیں فرمایا محض اپنی اونچائی اور بڑائی کے لیے کہ جسے چاہیں اندر جانے دیں اور جسے چاہیں داخل نہ ہونے دیں جب کوئی شخص اندر جانا چاہتا تو اسے اوپر سے دھکا دے دیتے وہ گر پڑتا اور جسے داخل کرنا چاہتے اسے ہاتھ تھام کر اندر لے لیتے ۔ عبدالملک نے کہا اسے حارث نے خود سنا ہے تو تھوڑی دیر تک تو عبدالملک اپنی لکڑی ٹکائے سوچتے رہے پھر کہنے لگے کاش کہ میں اسے یونہی چھوڑ دیتا ۔ (مسند احمد:253/6:صحیح) صحیح مسلم شریف کی ایک اور حدیث میں ہے کہ عبدالملک بن مروان نے ایک مرتبہ طواف کرتے ہوئے عبداللہ کو کوس کر کہا کہ وہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ پر اس حدیث کا بہتان باندھنا تھا تو حارث نے روکا اور شہادت دی کہ وہ سچے تھے میں نے بھی صدیقہ سے یہ سنا ہے اب عبدالملک افسوس کرنے لگے اور کہنے لگے اگر مجھے پہلے سے معلوم ہوتا تو میں ہرگز اسے نہ توڑتا ۔ (صحیح مسلم:1333) قاضی عیاض اور امام نووی رحمہ اللہ نے لکھا ہے خلیفہ ہارون رشید نے امام مالک رحمہ اللہ سے پوچھا تھا کہ اگر آپ اجازت دیں تو میں پھر کعبہ کو ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے بنائے ہوئے کے مطابق بنا دوں ، حضرت امام مالک رحمہ اللہ سے پوچھا تھا کہ اگر آپ اجازت دیں تو پھر کعبہ کو سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کے بنائے ہوئے کے مطابق بنا دوں ، حضرت امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا آپ ایسا نہ کیجئے ایسا نہ ہو کہ کعبہ بادشاہوں کا ایک کھلونا بن جائے جو آئے اپنی طبیعت کے مطابق توڑ پھوڑ کرتا رہے چنانچہ خلیفہ اپنے ارادے سے باز رہے یہی بات ٹھیک بھی معلوم ہوتی ہے کہ کعبہ کو باربار چھیڑنا ٹھیک نہیں ۔ بخاری و مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کعبہ کو دو چھوٹی پنڈلیوں والا ایک حبشی پھر خراب کرے گا ۔ (صحیح بخاری:1591) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں گویا میں اسے دیکھ رہا ہوں وہ سیاہ فام ایک ایک پتھر الگ الگ کر دے گا ۔ (صحیح بخاری:1595) اس کا غلاف لے جائے گا اور اس کا خزانہ بھی وہ ٹیڑھے ہاتھ پاؤں والا اور گنجا ہو گا میں دیکھ رہا ہوں کہ گویا وہ کدال بجا رہا ہے اور برابر ٹکڑے کر رہا ہے ۔ (مسند احمد:220/2:صحیح بالشواھد) غالباً یہ ناشدنی واقعہ ( جس کے دیکھنے سے ہمیں محفوظ رکھے ) یاجوج ماجوج کے نکل چکنے کے بعد ہو گا ۔ صحیح بخاری شریف کی ایک حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تم یاجوج ماجوج کے نکلنے کے بعد بھی بیت اللہ شریف کا حج و عمرہ کرو گے ۔ (صحیح بخاری:1593) ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام اپنی دعا میں کہتے ہیں کہ ہمیں مسلمان بنا لے یعنی مخلص بنا لے مطیع بنا لے موحد بنا ، ہر شر سے بچا ۔ ریا کاری سے محفوظ رکھ خشوع وخضوع عطا فرما ۔ حضرت سلام بن ابی مطیع رحمہ اللہ فرماتے ہیں مسلمان تو تھے ہی لیکن اسلام کی ثابت قدمی طلب کرتے ہیں جس کے جواب میں ارشاد باری ہوا «قد فعلت» میں نے تمہاری یہ دعا قبول فرمائی پھر اپنی اولاد کے لیے بھی یہی دعا کرتے ہیں جو قبول ہوتی ہے ۔ بنی اسرائیل بھی آپ علیہ السلام کی اولاد میں ہیں اور عرب بھی قرآن میں ہے آیت «وَمِنْ قَوْمِ مُوْسٰٓی اُمَّۃٌ یَّہْدُوْنَ بِالْحَقِّ وَبِہٖ یَعْدِلُوْنَ» ( 7 ۔ الاعراف : 159 ) یعنی موسیٰ علیہ السلام کی قوم میں ایک جماعت حق عدل پر تھی ۔ لیکن روانی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ عرب کے لیے یہ دعا گو عام طور پر دوسروں پر بھی مشتمل ہو اس لیے کہ اس کے بعد دوسری دعا میں ہے کہ ان میں ایک رسول بھیج اور اس رسول سے مراد محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں چنانچہ یہ دعا بھی پوری ہوئی جیسے فرمایا آیت «ہُوَ الَّذِی بَعَثَ فِی الْأُمِّیِّینَ رَسُولًا مِّنْہُمْ» ( 62-الجمعہ : 2 ) لیکن اس سے آپ کی رسالت خاص نہیں ہوتی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت عام ہے عرب و عجم سب کے لیے جیسے آیت «قُلْ یٰٓاَیٰھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعَا» ( 7 ۔ الاعراف : 158 ) کہہ دو کہ اے لوگو میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں ۔ ان دونوں نبیوں کی یہ دعا جیسی ہے ایسی ہی ہر متقی کی دعا ہونی چاہیئے ۔ جیسے قرآنی تعلیم ہے کہ مسلمان یہ دعا کریں آیت «رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا» ( 25 ۔ الفرقان : 74 ) اے ہمارے رب ہمیں ہماری بیویوں اور اولادوں سے ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا امام بنا ۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی محبت کی دلیل ہے انسان یہ چاہے کہ میری اولاد میرے بعد بھی اللہ کی عابد رہے ۔ اور جگہ اس دعا کے الفاظ یہ ہیں آیت «وَّاجْنُبْنِیْ وَبَنِیَّ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَ» ( 14 ۔ ابراہیم : 35 ) اے اللہ مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے بچا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں انسان کے مرتے ہی اس کے اعمال ختم ہو جاتے ہیں مگر تین کام جاری رہتے ہیں صدقہ ، علم جس سے نفع حاصل کیا جائے اور نیک اولاد جو دعا کرتی رہے (صحیح مسلم:1631) پھر آپ علیہ السلام دعا کرتے ہیں کہ ہمیں مناسک دکھا یعنی احکام و ذبح وغیرہ سکھا ۔ جبرائیل علیہ السلام آپ علیہ السلام کو لے کر کعبہ کی عمارت پوری ہو جانے کے بعد صفا پر آتے ہیں پھر مروہ پر جاتے ہیں اور فرماتے ہیں یہ شعائر اللہ ہیں پھر منیٰ کی طرف لے چلے عقبہ پر شیطان درخت کے پاس کھڑا ہوا ملا تو فرمایا تکبیر پڑھ کر اسے کنکر مارو ۔ ابلیس یہاں سے بھاگ کر جمرہ وسطی کے پاس جا کھڑا ہوا ۔ یہاں بھی اسے کنکریاں ماریں تو یہ خبیث ناامید ہو کر چلا گیا ۔ اس کا ارادہ تھا کہ حج کے احکام میں کچھ دخل دے لیکن موقع نہ ملا اور مایوس ہو گیا یہاں سے آپ کو مشعر الحرام میں لائے پھر عرفات میں پہنچایا پھر تین مرتبہ پوچھا ” کہو سمجھ لیا “ ۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا ” ہاں “ (تفسیر ابن ابی حاتم:387/1) دوسری روایت میں تین جگہ شیطان کو کنکریاں مارنی مروی ہیں اور یہ شیطان کو سات سات کنکریاں ماری ہیں ۔ البقرة
126 البقرة
127 البقرة
128 البقرة
129 دعائے ابراہیم علیہ السلام کا ماحصل اہل حرم کے لیے یہ دعا بھی ہے کہ آپ علیہ السلام کی اولاد میں سے ہی رسول ان میں آئے چنانچہ یہ بھی پوری ہوئی ۔ مسند احمد ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں “ میں اللہ جل شانہ کے نزدیک آخری نبی اس وقت سے ہوں جبکہ آدم علیہ السلام ابھی مٹی کی صورت میں تھے “ میں تمہیں ابتدائی امر بتاؤں میں اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام کی دعا اور عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت ہوں اور اپنی ماں کا خواب ہوں ۔ “ انبیا علیہ السلام کی واکدہ کو ایسے ہی خواب آتے ہیں ۔ (مسند احمد:127/4:ضعیف) سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ سوال کیا کہ یا رسول اللہ !صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نبوت کا شروع تو ہمیں بتائیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” میرے والد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا اور میری خوشخبری جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دی اور میری ماں نے دیکھا کہ گویا ان میں سے ایک نور نکلا ، جس سے شام کے محل چمکا دئیے ۔ (مسند احمد:262/5:صحیح لغیرہ) مطلب یہ ہے کہ دنیا میں شہرت کا ذریعہ یہ چیزیں ہوئی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ صاحبہ کا خواب بھی عرب میں پہلے ہی مشہور ہو گیا تھا اور وہ کہتے ہیں کہ بطن آمنہ سے کوئی بڑا شخص پیدا ہو گا بنی اسرائیل کے نبیوں کے ختم کرنے والے روح اللہ نے تو بنی اسرائیل میں خطبہ پڑھتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا صاف نام بھی لے دیا اور فرمایا لوگو میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں ، مجھ سے پہلے کی کتاب توراۃ کی میں تصدیق کرتا ہوں اور میرے بعد آنے والے نبی کی میں تمہیں بشارت دیتا ہوں جن کا نام احمد ہے صلی اللہ علیہ وسلم (61-الصف:6) اسی کی طرف اس حدیث میں اشارہ ہے ، خواب میں نور سے شام کے محلات کا چمک اٹھنا اشارہ ہے ، اس امر کی طرف کہ دین وہاں جم جائے گا ۔ بلکہ روایتوں سے ثابت ہے کہ آخر زمانہ میں شام اسلام اور اہل اسلام کا مرکز بن جائے گا ۔ شام کے مشہور شہر دمشق ہی میں عیسیٰ علیہ السلام شرقی سفید مینارہ پر نازل ہوں گے ۔ بخاری مسلم میں ہے “ میری امت کی ایک جماعت حق پر قائم رہے گی ، ان کے مخالفین انہیں نقصان نہ پہنچا سکیں گے یہاں تک کہ امر اللہ آ جائے “ (صحیح بخاری:7460) صحیح بخاری میں اتنی زیادتی اور ہے کہ “ وہ شام میں ہوں گے ۔ “ (صحیح بخاری:3641) ابوالعالیہ سے مروی ہے کہ یہ بھی اسی مقبول دعا کا ایک حصہ ہے کہ اور یہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم آخر زمانہ میں مبعوث ہوں گے ۔ “ کتاب سے مراد قرآن اور حکمت سے مراد سنت و حدیث ہے حسن اور قتادہ اور مقاتل بن حیان اور ابومالک رحمہ اللہ علیہم وغیرہ کا یہی فرمان ہے ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:390/1) اور حکمت سے مراد دین کی سمجھ بوجھ بھی ہے ۔ پاک کرنا یعنی طاعت و اخلاص سیکھنا ، بھلائیاں کرانا ، برائیوں سے بچانا ، اطاعت الٰہی کر کے رضائے رب حاصل کرنا ، نافرمانی سے بچ کر ناراضگی سے محفوظ رہنا ۔ اللہ عزیز ہے جسے کوئی چیز عاجز نہیں کر سکتی جو ہر چیز پر غالب ہے وہ حکیم ہے یعنی اس کا کوئی قول و فعل حکمت سے خالی نہیں ، وہ ہر چیز کو اپنے محل پر ہی حکمت وعدل و علم کے ساتھ رکھتا ہے ۔ البقرة
130 توحید کے دعوے اور مشرکین کا ذکر ان آیتوں میں بھی مشرکین کی تردید ہے کہ جو اپنے آپ کو دین ابراہیمی پر بتاتے تھے حالانکہ کامل مشرک تھے جبکہ خلیل اللہ علیہ السلام تو موحدوں کے امام تھے ۔ توحید کو شرک سے ممتاز کرنے والے تھے عمر بھر میں ایک آنکھ جھپکنے کے برابر بھی اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا بلکہ ہر مشرک سے اور ہر قسم کے شرک سے اور ہر غیر اللہ سے جو اللہ مانا جاتا ہو وہ دل سے نفرت کرتے تھے اور ان سب سے بیزار تھے ۔ اسی بنا پر قوم سے الگ ہوئے وطن چھوڑا بلکہ باپ تک کی مخالفت کی پروا نہ کی اور صاف کہہ دیا کہ آیت «قَالَ یٰقَوْمِ اِنِّیْ بَرِیْءٌ مِّمَّا تُشْرِکُوْنَ إِنِّی وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِی فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِیفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِکِینَ» ( 6 ۔ الانعام : 79 ، 78 ) میں بیزار ہوں ، اس چیز سے جسے تم شریک کرتے ہو میں نے تو یکسو ہو کر اپنی تمام تر توجہ اس پاک ذات کی طرف کر دی ہے ، جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ہے ، میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ۔ اور فرمایا کہ ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ سے اور اپنی قوم سے صاف کہہ دیا کہ میں تمہارے معبودوں سے بری ہوں تو اپنے خالق ہی کا گرویدہ ہوں ، وہی مجھے راہ راست دکھائے گا ۔ اور جگہ ہے آیت «وَمَا کَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰہِیْمَ لِاَبِیْہِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَۃٍ وَّعَدَھَآ اِیَّاہُ حَلِیمٌ» ( 9 ۔ التوبہ : 114 ) ابراہیم علیہ السلام نے اپنے والد کے لیے بھی صرف ایک وعدے کی بنا پر استغفار کی تھی لیکن جب انہیں معلوم ہوا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو اس سے بیزار ہو گئے ۔ ابراھیم علیہ السلام بڑے ہی رجوع کرنے والے اور بردبار تھے ۔ اور جگہ ہے کہ ابراھیم علیہ السلام مخلص اور مطیع امت تھے ۔ مشرک ہرگز نہ تھے ، رب کی نعمتوں کے شکر گزار تھے ، اللہ رب کعبہ کے پسندیدہ تھے اور راہ راست پر لگے ہوئے تھے ، دنیا کے بھلے لوگوں میں سے تھے اور آخرت میں بھی صالح لوگوں میں ہوں گے ۔ (16-النحل:120-122) ان آیتوں کی طرح یہاں بھی فرمایا کہ ” اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے بے تدبیر اور گمراہ لوگ ہی ملت ابراہیمی کو ترک کرتے ہیں کیونکہ ابراہیم علیہ السلام کو اللہ نے ہدایت کے لیے چن لیا تھا اور بچپن سے ہی توفیق حق دے رکھی تھی ، خلیل جیسا معزز خطاب انہی کو دیا گیا ۔ وہ آخرت میں بھی سعید بخت لوگوں میں ہیں ۔ ان کے مسلک و ملت کو چھوڑ کر ضلالت و گمراہی میں پڑنے والے سے زیادہ بیوقوف اور ظالم اور کون ہو گا ؟ “ اس آیت میں یہودیوں کا بھی رد ہے ۔ جیسے اور جگہ ہے آیت «مَا کَانَ إِبْرَاہِیمُ یَہُودِیًّا وَلَا نَصْرَانِیًّا وَلٰکِن کَانَ حَنِیفًا مٰسْلِمًا وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِینَ إِنَّ أَوْلَی النَّاسِ بِإِبْرَاہِیمَ لَلَّذِینَ اتَّبَعُوہُ وَہٰذَا النَّبِیٰ وَالَّذِینَ آمَنُوا وَ اللہُ وَلِیٰ الْمُؤْمِنِینَ» ( 3-آل عمران : 67 ، 68 ) ابراہیم علیہ السلام نہ تو یہودی تھے ، نہ نصرانی ، نہ مشرک بلکہ موحد مسلمان اور مخلص تھے ان سے دوستی رکھنے والے صرف وہی ہیں جو ان کے فرماں بردار ہوئے اور یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ایماندار اوور اللہ بھی مومنوں کا ولی ہے ، جب کبھی اللہ فرماتا کہ یہ مان لو وہ جواب دیتے کہ اے رب العالمین میں نے مان لیا ، اسی ملت و حدانیت کی وصیت ابراہیم علیہ السلام و یعقوب علیہ السلام نے اپنی اولاد کو بھی کی ۔ ھا کی ضمیر کا مرجع یا تو ملت ہے یا کلمہ ۔ ملت سے مراد اسلام اور کلمہ سے مراد آیت «قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِینَ» ( البقرہ : 131 ) ہے ۔ دیکھئے ان کے دل میں اسلام کی کس قدر محبت و عزت تھی کہ خود بھی اس پر مدت العمر عامل رہے ، اپنی اولاد کو بھی اسی کی وصیت کی ۔ اور جگہ ہے آیت «وَجَعَلَہَا کَلِمَۃً بَاقِیَۃً فِیْ عَقِبِہٖ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ» ( 43 ۔ الزخرف : 28 ) ہم نے اس کلمہ کو ان کی اولاد میں بھی باقی رکھا ، بعض سلف نے «ویعقوب» بھی پڑھا تو بینہ پر عطف ہو گا اور مطلب یہ ہو گا کہ خلیل اللہ نے اپنی اولاد کو اور اولاد کی اولاد میں یعقوب علیہ السلام کو جو اس وقت موجود تھے دین اسلام کی استقامت کی وصیت کی ۔ قشیری رحمہ اللہ کہتے ہیں ” حضرت یعقوب ، ابراہیم علیہ السلام کے انتقال کے بعد پیدا ہوئے تھے “ ، لیکن یہ مجرد دعویٰ ہے ، جس پر کوئی صحیح دلیل نہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ بلکہ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یعقوب علیہ السلام اسحاق علیہ السلام کے ہاں ابراہیم علیہ السلام کی زندگی میں پیدا ہوئے تھے کیونکہ قرآن پاک کی آیت میں ہے آیت «فَبَشَّرْنٰہَا بِاِسْحٰقَ وَمِنْ وَّرَاءِ اِسْحٰقَ یَعْقُوْبَ» ( 11 ۔ ہود : 71 ) یعنی ہم نے انہیں اسحاق علیہ السلام کی اور اسحاق علیہ السلام کے پیچھے یعقوب علیہ السلام کی خوشخبری دی اور اس کا نصب خفض کو ہٹا کر بھی پڑھا گیا ہے پس اگر یعقوب ابراہیم علیہ السلام کی حیات میں موجود نہ ہوں تو پھر ان کا نام لینے میں کوئی زبردست فائدہ باقی نہیں رہتا ۔ سورۃ العنکبوت میں بھی ہے کہ «وَوَہَبْنَا لَہُ إِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ وَجَعَلْنَا فِی ذُرِّیَّتِہِ النٰبُوَّۃَ وَالْکِتَابَ وَآتَیْنَاہُ أَجْرَہُ فِی الدٰنْیَا وَإِنَّہُ فِی الْآخِرَۃِ لَمِنَ الصَّالِحِینَ» ( 29-العنکبوت : 27 ) ہم ابراہیم علیہ السلام کو اسحاق و یعقوب علیہم السلام عطا فرمایا اور اس کی اولاد میں ہم نے نبوت و کتاب دی اور اسی آیت میں ہے ہم نے اسے اسحاق دیا اور یعقوب زائد عطا فرمایا ۔ (21-الأنبیاء:72) ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یعقوب ابراہیم علیہ السلام کی زندگی میں ہی تھے اگلی کتابوں میں بھی ہے کہ وہ بیت المقدس میں آئیں گے ۔ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہما ایک مرتبہ پوچھتے ہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کون سی مسجد پہلے تعمیر کی گئی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسجد الحرام پوچھا ۔ پھر فرمایا ، مسجد بیت المقدس میں نے کہا دونوں کے درمیان کس قدر مدت تھی ؟ فرمایا چالیس سال ۔ (صحیح بخاری:3366) ابن حبان نے کہا ہے کہ ” حضرت ابراہیم اور سلیمان علیہما السلام کی درمیانی مدت سے متعلق یہ بیان ہے “ حالانکہ یہ قول بالکل الٹ ہے ۔ ان دونوں نبیوں کے درمیان تو ہزاروں سال کی مدت تھی بلکہ مطلب حدیث کا کچھ اور ہی ہے اور شاہ زمان سلیمان علیہ الصلوۃ الرحمن تو اس مسجد کے مجدد تھے ، موجد نہ تھے ۔ اسی طرح یعقوب علیہ السلام نے بھی وصیت کی تھی ، جیسے عنقریب ذکر آئے گا ۔ وصیت اس امر کی ہوتی ہے جب تک زندہ رہو مسلمان ہو کر رہو تاکہ موت بھی اسی پر آئے ۔ موت اور ہمارے اعمال عموماً انسان زندگی میں جن اعمال پر رہتا ہے ، اسی پر موت بھی آتی ہے اور جس پر مرتا ہے ، اس پر اٹھے گا بھی ۔ یہی اللہ تعالیٰ کا دستور ہے کہ بھلائی کے قصد کرنے والے کو بھلائی کی توفیق بھی دی جاتی ہے ۔ بھلائی اس پر آسان بھی کر دی جاتی ہے اور اسے ثابت قدم بھی رکھا جاتا ہے ۔ کوئی شک نہیں کہ حدیث میں یہ بھی ہے کہ انسان جنتیوں کے کام کرتے کرتے جنت میں ایک ہاتھ دور رہ جاتا ہے کہ اس کی تقدیر اس پر غالب آتی ہے اور وہ جہنمیوں کا کام کر کے جہنمی بن جاتا ہے اور کبھی اس کے خلاف بھی ہوتا ہے ۔ (صحیح بخاری:6594) لیکن اس سے مطلب یہ ہے کہ یہ کام اچھے برے ظاہری ہوتے ہیں ، حقیقی نہیں ہوتے ۔ چنانچہ بعض روایات میں یہ لفظ بھی ہیں ۔ (صحیح بخاری:2898) قرآن کہتا ہے سخاوت ، تقویٰ اور لا الہٰ الا اللہ کی تصدیق کرنے والے کو ہم آسانی کا راستہ آسان کر دیتے ہیں اور بخل و بےپرواہی اور بھلی بات کی تکذیب کرنے والوں کے لیے ہم سختی کی راہ آسان کر دیتے ہیں ۔ (92-اللیل:5-10) البقرة
131 البقرة
132 البقرة
133 ازلی اور ابدی مستحق عبادت اللہ وحدہ لا شریک مشرکین عرب پر جو اسماعیل علیہ السلام کی اولاد تھے اور کفار بنی اسرائیل پر جو یعقوب علیہ السلام کی اولاد تھے دلیل لاتے ہوئے اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ یعقوب نے تو اپنی اولاد کو اپنے آخری وقت میں اللہ تعالیٰ وحدہ لا شریک لہ کی عبادت کی وصیت کی تھی ان سے پہلے تو پوچھا کہ تم میرے بعد کس کی عبادت کرو گے ؟ سب نے جواب دیا کہ آپ کے اور آپ کے بزرگوں کے معبود بر حق کی ۔ یعقوب علیہ السلام اسحٰق علیہ السلام کے لڑکے اور اسحٰق ابراہیم علیہ السلام کے ۔ اسماعیل علیہ السلام کا نام باپ دادوں کے ذکر میں بطور تغلیب کے آ گیا ہے کیونکہ آپ چچا ہوتے ہیں اور یہ بھی واضح رہے کہ عرب میں چچا کو بھی باپ کہہ دیتے ہیں ۔ (تفسیر قرطبی:138/2) اس آیت سے استدلال کر کے دادا کو بھی باپ کے حکم میں رکھ کر دادا کی موجودگی میں بہن بھائی کو ورثہ سے محروم کیا ہے ۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہما کا فیصلہ یہی ہے جیسے کہ صحیح بخاری شریک میں موجود ہے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کا مذہب بھی یہی ہے ۔ امام مالک رحمہ اللہ ، امام شافعی رحمہ اللہ اور ایک مشہور روایت میں امام احمد رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ وہ بھائیوں بہنوں کو بھی وارث قرار دیتے ہیں ۔ سیدنا عمر ، عثمان ، علی ، ابن مسعود ، زید بن ثابت رضی اللہ عنہم اور سلف و خلف کا مذہب بھی یہی ہے ۔ امام مالک رحمہ اللہ ، امام شافعی رحمہ اللہ ، بصریٰ طاؤس اور عطا رحمہ اللہ علیہم بھی یہی کہتے ہیں ۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور بہت سے سلف و خلف کا مذہب بھی یہی ہے ۔ قاضی ابو یوسف اور محمد بن حسن بھی یہی کہتے ہیں اور یہ دونوں امام ابوحنیفہ کے شاگرد رشید ہیں اس مسئلہ کی صفائی کا یہ مقام نہیں اور نہ تفسیر کا یہ موضوع ہے ۔ ان سب بچوں نے اقرار کیا کہ ہم ایک ہی معبود کی عبادت کریں گے یعنی اس اللہ کی الوہیت میں کسی کو شریک نہ کریں گے اور ہم اس کی اطاعت گزاری ، فرمانبرداری اور خشوع و خضوع میں مشغول رہا کریں گے ۔ جیسے اور جگہ ہے آیت «وَلَہُ أَسْلَمَ مَن فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ طَوْعًا وَکَرْہًا وَإِلَیْہِ یُرْجَعُونَ» ( 3- آل عمران : 83 ) زمین و آسمان کی ہر چیز خوشی اور ناخوشی سے اس کی مطیع ہے ، اس کی طرف تم سب لوٹائے جاؤ گے تمام انبیاء کا دین یہی اسلام رہا ہے اگرچہ احکام میں اختلاف رہا ہے ۔ جیسے فرمایا آیت «وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِیْٓ اِلَیْہِ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ» ( 21 ۔ الانبیآء : 25 ) یعنی تجھ سے پہلے جتنے رسول ہم نے بھیجے سب کی طرف وحی کی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں ، تم سب میری ہی عبادت کرتے رہو ۔ اور آیتیں بھی اس مضمون کی بہت سی ہیں اور احادیث میں بھی یہ مضمون بکثرت وارد ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ” ہم علاتی بھائی ہیں ، ہمارا دین ایک ہے “ (صحیح بخاری:2443) پھر فرماتا ہے یہ امت جو گزر چکی تمہیں ان کی طرف نسبت نفع نہ دے گی ہاں اگر عمل ہوں تو اور بات ہے ، ان کے اعمال ان کے ساتھ اور تمہارے اعمال تمہارے ساتھ تم ان کے افعال کے بارے میں نہیں پوچھے جاؤ گے ۔ حدیث شریف میں ہے جس کا عمل اچھا نہ ہو گا اس کا نسب اسے کوئی فائدہ نہیں دے گا ۔ (صحیح مسلم:2699) البقرة
134 البقرة
135 ملتِ ابراھیمی اللہ کے راستے پر ہیں عبداللہ بن صوریا اعور نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا کہ ہدایت پر ہم ہیں تم ہماری مانو تو تمہیں بھی ہدایت ملے گی ۔ نصرانیوں نے بھی یہی کہا تھا ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:396/1) کہ ہم تو ابراہیم حنیف علیہ السلام کے متبع ہیں جو استقامت والے ، اخلاص والے ، حج والے ، بیت اللہ کی طرف منہ کرنے والے ، استطاعت کے وقت حج کو فرض جاننے والے ، اللہ کی فرمانبرداری کرنے والے ، تمام رسولوں پر ایمان لانے والے لا الہٰ الا اللہ کی شہادت دینے والے ، ماں بیٹی خالہ پھوپھی کو حرام جاننے والے اور تمام حرام کاریوں سے بچنے والے تھے ۔ حنیف کے یہ سب معنی مختلف حضرات نے بیان کئے ہیں ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:397/1) البقرة
136 اہل کتاب کی تصدیق یا تکذیب! اللہ تعالیٰ اپنے ایماندار بندوں کو ارشاد فرماتا ہے کہ جو کچھ محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر اترا اس پر تو وہ تفصیل وار ایمان لائیں اور جو آپ سے پہلے انبیاء پر اترا ، اس پر بھی اجمالاً ایمان لائیں ۔ ان اگلے انبیاء کرام میں سے بعض کے نام بھی لے دیے اور باقی نبیوں کا مجمل ذکر کر دیا ۔ ساتھ ہی فرمایا کہ یہ کسی نبی کے درمیان تفریق نہ کریں کہ ایک کو مانیں اور دوسرے سے انکار کر جائیں جو عادت اوروں کی تھی کہ وہ انبیاء میں تفریق کرتے تھے ، کسی کو مانتے تھے ، کسی سے انکاری تھے ، یہودی عیسیٰ علیہ السلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم تینوں کو نہیں مانتے تھے ۔ ان سب کو فتویٰ ملا کہ آیت «اُولٰیِٕکَ ہُمُ الْکٰفِرُوْنَ حَقًّا» ( 4 ۔ النسآء : 151 ) یہ لوگ بالیقین کافر ہیں ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ” اہل کتاب توراۃ کو عبرانی میں پڑھتے تھے اور عربی میں تفسیر کر کے اہل اسلام کو سناتے تھے ۔ “ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اہل کتاب کی سچائی یا تکذیب نہ کرو ۔ کہہ دیا کرو ۔ (صحیح بخاری:4485) اللہ پر اور اس کی نازل ہوئی کتابوں پر ہمارا ایمان ہے ۔ (صحیح مسلم:727) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی دو سنتوں میں پہلی رکعت میں یہ آیت «اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْنَا» ( 2 ۔ البقرہ : 136 ) پوری آیت اور دوسری رکعت میں آیت «اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَاشْہَدْ بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ» ( 3 ۔ آل عمران : 52 ) پڑھا کرتے تھے ۔ (صحیح مسلم:727) اسباط یعقوب علیہ السلام کے بیٹوں کو کہتے ہیں ، جو بارہ تھے ، جن میں سے ہر ایک کی نسل میں بہت سے انسان ہوئے ، بنی اسماعیل کو قبائل کہتے تھے ، اور بنی اسرائیل کو اسباط کہتے تھے ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:399/1) زمخشری نے کشاف میں لکھا ہے کہ یہ یعقوب کے پوتے تھے جو ان کے بارہ لڑکوں کی اولاد تھی ۔ بخاری میں ہے کہ مراد قبائل بنی اسرائیل ہیں ۔ ان میں بھی نبی ہوئے تھے جن پر وحی نازل ہوئی تھی ۔ جیسے موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا آیت «إِذْ جَعَلَ فِیکُمْ أَنبِیَاءَ وَجَعَلَکُم مٰلُوکًا وَآتَاکُم مَّا لَمْ یُؤْتِ أَحَدًا مِّنَ الْعَالَمِینَ» ( 5 ۔ المائدہ : 20 ) اللہ کی نعمت کو یاد کرو کہ اس نے تم میں انبیاء اور بادشاہ بنائے ۔ اور جگہ ہے آیت «وَقَطَّعْنٰہُمُ اثْنَتَیْ عَشْرَۃَ اَسْبَاطًا اُمَمًا» ( 7 ۔ الاعراف : 160 ) ہم نے ان کے بارہ گروہ کر دئے ۔ سبط کہتے ہیں درخت کو یعنی یہ مثل درخت کے ہیں ، جس کی شاخیں پھیلی ہوئی ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کل انبیاء علیہم السلام بنی اسرائیل میں سے ہی ہوئے ہیں سوائے دس کے نوح ، ہود ، صالح ، شعیب ، ابراہیم لوط ، اسحاق ، یعقوب ، اسماعیل ، محمد علیہم الصلوۃ والسلام ۔ سبط کہتے ہیں اس جماعت اور قبیلہ کو جن کا مورث اعلیٰ اوپر جا کر ایک ہو ۔ (تفسیر قرطبی:141/2) ابن ابی خاتم میں ہے ہمیں توراۃ و انجیل پر ایمان رکھنا ضروری ہے لیکن عمل کے لیے صرف قرآن و حدیث ہی ہے ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:400/1) البقرة
137 شرط نجات یعنی اپنے ایماندار صحابیو ! اگر یہ کفار بھی تم جیسا ایمان لائیں یعنی تمام کتابوں اور رسولوں کو مان لیں تو حق و رشد ہدایت ونجات پائیں گے اور اگر باوجود قیام حجت کے باز رہیں تو یقیناً حق کے خلاف ہیں ۔ اللہ تعالیٰ تجھے ان پر غالب کر کے تمہارے لیے کافی ہو گا ، وہ سننے جاننے والا ہے ۔ نافع بن نعیم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ کسی خلیفہ کے پاس سیدنا عثمان رضی اللہ تعالیٰ کا قرآن بھیجا گیا زیاد نے یہ سن کر کہا کہ لوگوں میں مشہور ہے کہ جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو لوگوں نے شہید کیا اس وقت یہ کلام اللہ ان کی گود میں تھا اور آپ رضی اللہ عنہ کا خون ٹھیک ان الفاظ پڑھا تھا آیت «فَسَیَکْفِیْکَہُمُ اللّٰہُ ۚ وَھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ» ( 2 ۔ البقرہ : 137 ) کیا یہ صحیح ہے ؟ حضرت نافع رحمہ اللہ علیہ نے کہا بالکل ٹھیک ہے میں نے خود اس آیت پر ذوالنورین کا خون دیکھا تھا ( رضی اللہ عنہما )۔(تفسیر ابن ابی حاتم:402/1) رنگ سے مراد دین ہے اور اس کا زبر بطور اغراء کے ہے ۔(تفسیر ابن ابی حاتم:402/1) جسے «فطرۃ اللہ» میں ۔(30-الروم:3) مطلب یہ ہے کہ اللہ کے دین کو لازم پکڑ لو اس پر چمٹ جاؤ ۔ بعض کہتے ہیں یہ بدل ہے ملتہ ابراہیم سے جو اس سے پہلے موجود ہے ۔ سیبویہ کہتے ہیں یہ صدر موکد ہے ۔ امنا باللہ کی وجہ سے منصوب ہے جیسے « وَعْدَ اللہِ ۖ» (30-الروم:6) ایک مرفوع حدیث ہے”بنی اسرائیل نے کہا اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہمارا رب رنگ بھی کرتا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ سے ڈرو آواز آئی ان سے کہہ دو کہ تمام رنگ میں ہی تو پیدا کرتا ہوں ۔(تفسیر ابن ابی حاتم:403/1) “یہی مطلب اس آیت کا بھی ہے لیکن اس روایت کا موقوف ہونا ہی صحیح ہے اور یہ بھی اس وقت جب کہ اس کی اسناد صحیح ہوں ۔ البقرة
138 البقرة
139 مشرکین کے اعمال پر بیزاری مشرکوں کے جھگڑے کو دفع کرنے کا حکم رب العالمین اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دے رہا ہے کہ “ تم ہم سے اللہ کی توحید ، اخلاص ، اطاعت وغیرہ کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو ؟ وہ صرف ہمارا ہی نہیں بلکہ تمہارا رب بھی تو ہے ، ہم پر اور تم پر قابض و متصرف بھی وہی اکیلا ہے ۔ ہمارے عمل ہمارے ساتھ ہیں وہ تمہارے عمل تمہیں کام آئیں گے ، ہم تم سے اور تمہارے شرک سے بیزار ہیں “ اور جگہ فرمایا آیت «وَإِن کَذَّبُوکَ فَقُل لِّی عَمَلِی وَلَکُمْ عَمَلُکُمْ أَنتُم بَرِیئُونَ مِمَّا أَعْمَلُ وَأَنَا بَرِیءٌ مِّمَّا تَعْمَلُونَ» الخ یعنی ” اگر یہ تجھے جھٹلائیں تو تو کہہ دے کہ میرے لیے میرا عمل ہے اور تمہارے لیے تمہارا عمل ہے تم میرے ( نیک ) کام سے اور میں تمہارے اعمال سے بیزار ہوں ۔ “ اور جگہ ارشاد ہے آیت «حَاجٰوْکَ فَقُلْ اَسْلَمْتُ وَجْہِیَ لِلہِ وَمَنِ اتَّبَعَنِ» ( 3 ۔ آل عمران : 20 ) ” اگر یہ تجھ سے جھگڑیں تو تو کہہ دے میں نے اور میرے ماننے والوں نے اپنے منہ اللہ کی طرف کر دئیے ۔ “ ابراہیم علیہ السلام نے بھی اپنی قوم سے یہی فرمایا تھا آیت «وَحَاجَّہُ قَوْمُہُ قَالَ أَتُحَاجٰونِّی فِی اللہِ وَقَدْ ہَدَانِ وَلَا أَخَافُ مَا تُشْرِکُونَ بِہِ إِلَّا أَن یَشَاءَ رَبِّی شَیْئًا وَسِعَ رَبِّی کُلَّ شَیْءٍ عِلْمًا أَفَلَا تَتَذَکَّرُونَ» ( 6 ۔ الانعام : 80 ) کیا تم اللہ کے بارے میں مجھ سے اختلاف کرتے ہو ؟ اور جگہ ہے ؟ آیت «اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْ حَاجَّ اِبْرٰھٖمَ فِیْ رَبِّہٖٓ اَنْ اٰتٰیہُ اللّٰہُ الْمُلْکَ» ( 2 ۔ البقرہ : 258 ) تو نے اسے بھی دیکھا جو ابراہیم ( علیہ السلام ) سے اس کے رب کے بارے میں جھگڑنے لگا ۔ پس یہاں ان جھگڑالو لوگوں سے کہا گیا کہ ہمارے اعمال ہمارے لیے اور تمہارے اعمال تمہارے لیے ۔ ہم تم سے الگ ۔ ہم عبادت اور توجہ میں اخلاص اور یکسوئی کرنے والے لوگ ہیں ۔ پھر ان لوگوں کے دعوے کی تردید ہو رہی ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نہ تو یہودی ، نہ نصرانی ، تم اے یہودیو اور اے نصرانیو کیوں یہ باتیں بنا رہے ہو ؟ کیا تمہارا علم اللہ سے بھی بڑھ گیا ہے اللہ نے تو صاف فرما دیا آیت «مَا کَانَ اِبْرٰہِیْمُ یَہُوْدِیًّا وَّلَا نَصْرَانِیًّا وَّلٰکِنْ کَانَ حَنِیْفًا مٰسْلِمًا وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ» ( 3 ۔ آل عمران : 67 ) ابراہیم علیہ السلام نہ تو یہودی تھے ، نہ نصرانی ، نہ مشرک ، بلکہ خالص مسلمان تھے ، ان کا حق کی شہادت کو چھپا کر بڑا ظلم کرنا یہ تھا کہ اللہ کی کتاب جو اس کے پاس آئی اس میں انہوں نے پڑھا کہ حقیقی دین اسلام ہے ۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے رسول ہیں ۔ ابراہیم ، اسمٰعیل ، اسحاق ، یعقوب علیہم السلام وغیرہ یہودیت اور نصرانیت سے الگ تھے لیکن پھر نہ مانا اور اتنا ہی نہیں بلکہ اس بات کو بھی چھپا دیا ۔ البقرة
140 البقرة
141 1 پھر فرمایا تمہارے اعمال اللہ سے پوشیدہ نہیں ، اس کا محیط علم سب چیزوں کو گھیرے ہوئے ہے ، وہ ہر بھلائی اور برائی کا پورا پورا بدلہ دے گا ۔ یہ دھمکی دے کر پھر فرمایا کہ یہ پاکباز جماعت تو اللہ کے پاس پہنچ چکی ۔ تم جب ان کے نقش قدم پر نہ چلو تو صرف ان کی اولاد میں سے ہونا تمہیں اللہ کے ہاں کوئی عزت اور نفع نہیں دے سکتا ہے ۔ ان کے نیک اعمال میں تمہارا کوئی حصہ نہیں اور تمہاری بد اعمالیوں کا ان پر کوئی بوجھ نہیں “ جو کرے سو بھرے “ تم نے جب ایک نبی کو جھٹلایا تو گویا تمام انبیاء کو جھٹلایا بالخصوص اے وہ لوگو ! جو نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانہ میں ہو ۔ تم تو بڑے ہی وبال میں آ گئے ، تم نے تو اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلایا جو سید الانبیاء جو ختم المرسلین ہیں ، جو رسول رب العالمین ہیں جن کی رسالت تمام انسانوں اور جنوں کی طرف ہے ۔ جن کی رسالت کے ماننے کا ہر ایک شخص مکلف ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے بےشمار درود و سلام آپ پر نازل ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا تمام انبیاء کرام پر بھی ۔ البقرة
142 . بیوقوفوں سے مراد یہاں مشرکین عرب اور علماء یہود اور منافقین وغیرہ ہیں ۔ صحیح بخاری شریف میں براء رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سولہ یا سترہ مہینے تک بیت المقدس کی طرف نماز پڑھی لیکن خود آپ کی چاہت یہ تھی کہ آپ کا قبلہ بیت اللہ شریف ہو ۔ چنانچہ اب حکم آ گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز اس کی طرف ادا کی ۔ آپ کے ساتھ کے نمازیوں میں سے ایک شخص کسی اور مسجد میں پہنچا ، وہاں جماعت رکوع میں تھی اس نے ان سے کہا اللہ کی قسم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ کی طرف نماز پڑھ کر ابھی آ رہا ہوں ۔ جب ان لوگوں نے سنا تو اسی حالت میں وہ کعبہ کی طرف گھوم گئے ، اب بعض لوگوں نے یہ کہا کہ جو لوگ اگلے قبلہ کی طرف نمازیں پڑھتے ہوئے شہید ہو چکے ہیں ان کی نمازوں کا کیا حال ہے ۔ تب یہ فرمان نازل ہوا کہ «وَمَا کَانَ اللہُ لِیُضِیعَ إِیمَانَکُمْ إِنَّ اللہَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَّحِیمٌ» ( البقرہ : 143 )» یعنی اللہ تمہارے ایمان کو ضائع نہ کرے گا ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ"جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیت المقدس کی طرف نماز پڑھتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر آسمان کی طرف نظریں اٹھاتے تھے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے منتظر تھے یہاں تک کہ آیت «. قَدْ نَرَیٰ تَقَلٰبَ وَجْہِکَ فِی السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّیَنَّکَ قِبْلَۃً تَرْضَاہَا فَوَلِّ وَجْہَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَیْثُ مَا کُنتُمْ فَوَلٰوا وُجُوہَکُمْ شَطْرَہُ وَإِنَّ الَّذِینَ أُوتُوا الْکِتَابَ لَیَعْلَمُونَ أَنَّہُ الْحَقٰ مِن رَّبِّہِمْ وَمَا اللہُ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعْمَلُونَ» ( البقرۃ : ١٤٤ ) یعنی اللہ تمہارے ایمان کو ضائع نہ کرے گا ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ ” حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیت المقدس کی طرف نماز پڑھتے تھے تو آپ اکثر آسمان کی طرف نظریں اٹھاتے تھے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے منتظر تھے یہاں تک کہ آیت جس پر فرمان «وَمَا کَانَ اللہُ لِیُضِیعَ إِیمَانَکُمْ إِنَّ اللہَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَّحِیمٌ» ( البقرہ : 143 ) نازل ہوا اور ان کی نمازوں کی طرف سے اطمینان ہوا ۔ اب بعض بیوقوف اہل کتاب نے قبلہ کے بدلے جانے پر اعتراض کیا ، جس پر یہ آیتیں «سَیَقُولُ السٰفَہَاءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلَّاہُمْ عَن قِبْلَتِہِمُ الَّتِی کَانُوا عَلَیْہَا قُل لِّلَّہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ یَہْدِی مَن یَشَاءُ إِلَیٰ صِرَاطٍ مٰسْتَقِیمٍ» ( البقرہ : 142 ) نازل ہوئیں “ ۔ شروع ہجرت کے وقت مدینہ شریف میں آپ کو بیت المقدس کی طرف نمازیں ادا کرنے کا حکم ہوا تھا ۔ یہود اس سے خوش تھے لیکن آپ کی چاہت اور دعا قبلہ ابراہیمی کی تھی ۔ آخر جب یہ حکم نازل ہوا تو یہودیوں نے جھٹ سے اعتراض جڑ دیا ۔ «لَّیْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلٰوا وُجُوہَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلٰکِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِ اللہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ» ( البقرۃ : 177 ) جس کا جواب ملا کہ مشرق و مغرب اللہ ہی کے ہیں ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:138/3:حسن) اس مضمون کی اور بھی بہت سی روایتیں ہیں خلاصہ یہ ہے کہ مکہ شریف میں آپ دونوں رکن کے درمیان نماز پڑھتے تھے تو آپ کے سامنے کعبہ ہوتا تھا اور بیت المقدس کے صخرہ کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا منہ ہوتا تھا ، لیکن مدینہ جا کر یہ معاملہ مشکل ہو گیا ۔ دونوں جمع نہیں ہو سکتے تھے تو وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیت المقدس کی طرف نماز ادا کرنے کا حکم قرآن میں نازل ہوا تھا یا دوسری وحی کے ذریعہ یہ حکم ملا تھا ۔ بعض بزرگ تو کہتے ہیں یہ صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتہادی امر تھا اور مدینہ آنے کے بعد کئی ماہ تک اسی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم نمازیں پڑھتے رہے گو چاہت اور تھی ۔ یہاں تک کہ پروردگار نے بیت العتیق کی طرف منہ پھیرنے کو فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرف منہ کر کے پہلے نماز عصر پڑھی اور پھر لوگوں کو اپنے خطبہ میں اس امر سے آگاہ کیا ۔ بعض روایتوں میں یہ بھی آیا ہے کہ یہ ظہر کی نماز تھی ۔ سیدنا ابوسعید بن معلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” میں نے اور میرے ساتھی نے اول اول کعبہ کی طرف نماز پڑھی ہے اور ظہر کی نماز تھی “ بعض مفسرین وغیرہ کا بیان ہے کہ ” نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جب قبلہ بدلنے کی آیت نازل ہوئی ۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد بنی سلمہ میں ظہر کی نماز پڑھ رہے تھے ، دو رکعت ادا کر چکے تھے پھر باقی کی دو رکعتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ شریف کی طرف پڑھیں ، اسی وجہ سے اس مسجد کا نام ہی مسجد ذو قبلتین یعنی دو قبلوں والی مسجد ہے ۔ “ حضرت نویلہ بنت مسلم رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم ظہر کی نماز میں تھے جب ہمیں یہ خبر ملی اور ہم نماز میں ہی گھوم گئے ۔ مرد عورتوں کی جگہ آ گئے اور عورتیں مردوں کی جگہ جا پہنچیں ۔ ہاں اہل قباء کو دوسرے دن صبح کی نماز کے وقت یہ خبر پہنچی بخاری و مسلم میں سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ لوگ مسجد قباء میں صبح کی نماز ادا کر رہے تھے ۔ اچانک کسی آنے والے نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر رات کو حکم قرآنی نازل ہوا اور کعبہ کی طرف متوجہ ہونے کا حکم ہو گیا ۔ چنانچہ ہم لوگ بھی شام کی طرف سے منہ ہٹا کر کعبہ کی طرف متوجہ ہو گئے ۔ (صحیح بخاری:403) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ناسخ کے حکم کا لزوم اسی وقت ہوتا ہے ۔ جب اس کا علم ہو جائے گو وہ پہلے ہی پہنچ چکا ہو ۔ اس لیے کہ ان حضرات کو عصر مغرب اور عشاء کو لوٹانے کا حکم نہیں ہوا ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اب باطل پرست کمزور عقیدے والے باتیں بنانے لگے کہ اس کی کیا وجہ ہے کبھی اسے قبلہ کہتا ہے کبھی اسے قبلہ قرار دیتا ہے ۔ انہیں جواب ملا کہ حکم اور تصرف اور امر اللہ تعالیٰ ہی کا ہے جدھر منہ کرو ۔ اسی طرف اس کا منہ ہے بھلائی اسی میں نہیں آ گئی بلکہ اصلیت تو ایمان کی مضبوطی ہے جو ہر حکم کے ماننے پر مجبور کر دیتی ہے اور اس میں گویا مومنوں کو ادب سکھایا گیا ہے کہ ان کا کام صرف حکم کی بجا آوری ہے جدھر انہیں متوجہ ہونے کا حکم دیا جائے یہ متوجہ ہو جاتے ہیں اطاعت کے معنی اس کے حکم کی تعمیل کے ہیں اگر وہ ایک دن میں سو مرتبہ ہر طرف گھمائے تو ہم بخوشی گھوم جائیں گے ہم اس کے غلام ہیں ہم اس کے ماتحت ہیں اس کے فرمانبردار ہیں اور اس کے خادم ہیں جدھر وہ حکم دے گا پھیر لیں گے ۔ امت محمدیہ پر یہ بھی اللہ تعالیٰ کا اکرام ہے کہ انہیں خلیل الرحمن علیہ السلام کے قبلہ کی طرف منہ کرنے کا حکم ہوا جو اسی اللہ لا شریک کے نام پر بنایا گیا ہے اور تمام تر فضیلتیں جسے حاصل ہیں ۔ مسند احمد کی ایک مرفوع حدیث ہے کہ یہودیوں کو ہم سے اس بات پر بہت حسد ہے کہ اللہ نے ہمیں جمعہ کے دن کی توفیق دی اور یہ اس سے بھٹک گئے اور اس پر کہ ہمارا قبلہ یہ ہے اور وہ اس سے گمراہ ہو گئے اور بڑا حسد ان کو ہماری آمین کہنے پر بھی ہے جو ہم امام کے پیچھے کہتے ہیں ۔ (مسند احمد:130/1-136:حسن لغیرہ) البقرة
143 . پھر فرماتا ہے کہ اس پسندیدہ قبلہ کی طرف تمہیں متوجہ کرنا اس لیے ہے کہ تم خود بھی پسندیدہ امت ہو تم اور امتوں پر قیامت کے دن گواہ بنے رہو گے کیونکہ وہ سب تمہاری فضیلت مانتے ہیں وسط کے معنی یہاں پر بہتر اور عمدہ کے ہیں جیسے کہا جاتا ہے کہ قریش نسب کے اعتبار سے وسط عرب ہیں اور کہا گیا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم میں وسط تھے یعنی اشرف نسب والے اور صلوۃ وسطی یعنی افضل تر نماز جو عصر ہے جیسے صحیح احادیث سے ثابت ہے ۔ (صحیح بخاری:6396) اور چونکہ تمام امتوں میں یہ امت بھی بہتر افضل اور اعلیٰ تھی اس لیے انہیں شریعت بھی کامل راستہ بھی بالکل درست ملا اور دین بھی بہت واضح دیا گیا جیسے فرمایا «ہُوَ اجْتَبٰیکُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ» ( 22 ۔ الحج : 78 ) اس اللہ نے تمہیں چن لیا اور تمہارے دین میں کوئی تنگی نہیں کی تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کے دین پر تم ہو ۔ اسی نے تمہارا نام مسلم رکھا ہے اس سے پہلے بھی اور اس میں بھی تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر ۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں نوح علیہ السلام کو قیامت کے دن بلایا جائے گا اور ان سے دریافت کیا جائے گا کہ کیا تم نے میرا پیغام میرے بندوں کو پہنچا دیا تھا ؟ وہ کہیں گے کہ ہاں اللہ پہنچا دیا تھا ۔ ان کی امت کو بلایا جائے گا اور ان سے پرسش ہو گی کیا نوح علیہ السلام نے میری باتیں تمہیں پہنچائی تھیں وہ صاف انکار کریں گے اور کہیں گے ہمارے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا نوح علیہ السلام سے کہا جائے گا تمہاری امت انکار کرتی ہے تم گواہ پیش کرو یہ کہیں گے کہ ہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میری گواہ ہے یہی مطلب اس آیت «وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَاءَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًا» ( 2 ۔ البقرہ : 143 ) کا ہے «وسط» کے معنی عدل کے ہیں اب تمہیں بلایا جائے گا اور تم گواہی دو گے اور میں تم پر گواہی دوں گا ۔ (صحیح بخاری:3339) مسند احمد کی ایک اور روایت میں ہے قیامت کے دن نبی آئیں گے اور ان کے ساتھ ان کی امت کے صرف دو ہی شخص ہوں گے اور اس سے زیادہ بھی اس کی امت کو بلایا جائے گا اور ان سے پوچھا جائے گا کہ کیا اس نبی علیہ السلام نے تمہیں تبلیغ کی تھی ؟ وہ انکار کریں گے نبی سے کہا جائے گا تم نے تبلیغ کی وہ کہیں گے ہاں ، کہا جائے گا تمہارا گواہ کون ہے ؟ وہ کہیں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ۔ پس محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت بلائی جائے گی ان سے یہی سوال ہو گا کہ کیا اس پیغمبر نے تبلیغ کی ؟ یہ کہیں گے ہاں ، ان سے کہا جائے گا کہ تمہیں کیسے علم ہوا ؟ یہ جواب دیں گے کہ ہمارے پاس ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی کہ انبیاء علیہم السلام نے تیرا پیغام اپنی اپنی امتوں کو پہنچایا ۔ یہی مطلب ہے اللہ عزوجل کے اس فرمان «وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَاءَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًا» ( 2 ۔ البقرہ : 143 ) کا ۔ (مسند احمد:58/3:صحیح) مسند احمد کی ایک اور حدیث میں وسطاً بمعنی عدلاً آیا ہے ۔ (سنن ترمذی:2961 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابن مردویہ اور ابن ابی حاتم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں اور میری امت قیامت کے دن ایک اونچے ٹیلے پر ہوں گے تمام مخلوق میں نمایاں ہو گے اور سب کو دیکھ رہے ہوں گے اس روز تمام دنیا تمنا کرے گی کہ کاش وہ بھی ہم میں سے ہوتے جس جس نبی کی قوم نے اسے جھٹلایا ہے ہم دربار رب العالمین میں شہادت دیں گے کہ ان تمام انبیاء نے حق رسالت ادا کیا تھا ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:147/3:ضعیف) مستدرک حاکم کی ایک حدیث میں ہے کہ بنی مسلمہ کے قبیلے کے ایک شخص کے جنازے میں ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے لوگ کہنے لگے حضور یہ بڑا نیک آدمی تھا ۔ بڑا متقی پارسا اور سچا مسلمان تھا اور بھی بہت سی تعریفیں کیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم یہ کس طرح کہ رہے ہو ؟ اس شخص نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پوشیدگی کا علم تو اللہ ہی کو ہے لیکن ظاہرداری تو اس کی ایسی ہی حالت تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کے لیے جنت واجب ہو گئی پھر بنو حارثہ کے ایک شخص کے جنازے میں تھے لوگ کہنے لگے یہ برا آدمی تھا بڑا بدزبان اور کج خلق تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی برائیاں سن کر پوچھا تم کیسے کہہ رہے ہو اس شخص نے بھی یہی کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کے لیے واجب ہو گئی ۔ حضرت محمد بن کعب رحمہ اللہ اس حدیث کو سن کر فرمانے لگے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہیں دیکھو قرآن بھی کہہ رہا ہے «وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَاءَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًا» ( 2 ۔ البقرہ : 143 ) مستدرک حاکم268/2) مسند احمد میں ہے ۔ ابوالاسود رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں مدینہ میں آیا یہاں بیماری تھی لوگ بکثرت مر رہے تھے میں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا جو ایک جنازہ نکلا اور لوگوں نے مرحوم کی نیکیاں بیان کرنی شروع کیں آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس کے لیے واجب ہو گئی اتنے میں دوسرا جنازہ نکلا لوگوں نے اس کی برائیاں بیان کیں آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس کے لیے واجب ہو گئی میں نے کہا امیر المؤمنین کیا واجب ہو گئی ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں نے وہی کہا جو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس مسلمان کی بھلائی کی شہادت چار شخص دیں اسے جنت میں داخل کرتا ہے ہم نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اگر تین دیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین بھی ہم نے کہا اگر دو ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دو بھی ۔ پھر ہم نے ایک کی بابت کا سوال نہ کیا ۔ (صحیح بخاری:1368) ابن مردویہ کی ایک حدیث میں ہے قریب ہے کہ تم اپنے بھلوں اور بروں کو پہچان لیا کرو ۔ لوگوں نے کہا حضور کس طرح ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (سنن ابن ماجہ:4221 ، قال الشیخ الألبانی:) نے فرمایا اچھی تعریف اور بری شہادت سے تم زمین پر اللہ کے گواہ ہو ۔ پھر فرماتا ہے کہ اگلا قبلہ صرف امتحاناً تھا یعنی پہلے بیت المقدس کو قبلہ مقرر کر کے پھر کعبۃ اللہ کی طرف پھیرنا صرف اس لیے تھا کہ معلوم ہو جائے کہ سچا تابعدار کون ہے ؟ اور جہاں آپ توجہ کریں وہیں اپنی توجہ کرنے والا کون ہے ؟ اور کون ہے جو ایک دم کروٹ لے لیتا ہے اور مرتد ہو جاتا ہے ، یہ کام فی الحقیقت اہم کام تھا لیکن جن کے دلوں میں ایمان و یقین ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے پیروکار ہیں جو جانتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو فرمائیں سچ ہے جن کا عقیدہ ہے کہ اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے جو ارادہ کرتا ہے حکم کرتا ہے ۔ اپنے بندوں کو جس طرح چاہے حکم دے جو چاہے مٹائے جو چاہے باقی رکھے اس کا ہر کام ، ہر حکم حکمت سے پر ہے ان پر اس حکم کی بجا آوری کچھ بھی مشکل نہیں ۔ ہاں بیمار دل والے تو جہاں نیا حکم آیا انہیں فوراً نیا درد اٹھا قرآن کریم میں اور جگہ ہے «وَإِذَا مَا أُنزِلَتْ سُورَۃٌ فَمِنْہُم مَّن یَقُولُ أَیٰکُمْ زَادَتْہُ ہٰذِہِ إِیمَانًا فَأَمَّا الَّذِینَ آمَنُوا فَزَادَتْہُمْ إِیمَانًا وَہُمْ یَسْتَبْشِرُونَ وَأَمَّا الَّذِینَ فِی قُلُوبِہِم مَّرَضٌ فَزَادَتْہُمْ رِجْسًا إِلَیٰ رِجْسِہِمْ وَمَاتُوا وَہُمْ کَافِرُونَ» ( 9 ۔ التوبہ : 124 ، 125 ) یعنی جب کبھی کوئی سورت نازل ہوتی ہے تو ان میں سے بعض پوچھتے ہیں اس سے کس کا ایمان بڑھا ؟ حقیقت یہ ہے کہ ایمانداروں کے ایمان بڑھتے ہیں اور ان کی دلی خوشی بھی اور بیمار دل والے اپنی پلیدی میں اور بڑھ جاتے ہیں اور جگہ فرمان ہے «قُلْ ہُوَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ہُدًی وَّشِفَاءٌ وَالَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ فِیْٓ اٰذَانِہِمْ وَقْرٌ وَّہُوَ عَلَیْہِمْ عَمًی» ( 41 ۔ فصلت : 44 ) یعنی ایمان والوں کے لیے یہ ہدایت اور شفاء ہے اور بے ایمان لوگوں کے کانوں میں بوجھ اور آنکھوں پر اندھا پن ہے ۔ اور جگہ فرمان ہے «وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا ہُوَ شِفَاءٌ وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ وَلَا یَزِیْدُ الظّٰلِمِیْنَ اِلَّا خَسَارًا» ( 17 ۔ الاسرآء : 82 ) یعنی ہمارا اتارا ہوا قرآن مومنوں کے لیے سراسر شفاء اور رحمت ہے اور ظالموں کا نقصان ہی بڑھتا رہتا ہے اس واقعہ میں بھی تمام بزرگ صحابہ رضی اللہ عنہم ثابت قدم رہے اول سبقت کرنے والے مہاجر اور انصار دونوں قبلوں کی طرف نماز پڑھنے والے ہیں ۔ چنانچہ اوپر حدیث بیان ہو چکی کہ کس طرح وہ نماز پڑھتے ہوئے یہ خبر سن کر گھوم گئے ۔ مسلم شریف میں روایت ہے کہ رکوع کی حالت میں تھے اور اسی میں کعبہ کی طرف پھر گئے ۔ (صحیح مسلم:525) جس سے ان کی کمال اطاعت اور اعلیٰ درجہ کی فرمان برداری ثابت ہوئی ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ تمھارے ایما کو ضائع نہیں کرے گا ۔ یعنی تمھاری بیت المقدس کی طرف پڑھی ہوئی نمازیں رد نہیں ہوں گی ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں بلکہ ان کی اعلیٰ ایمانداری ثابت ہوئی انہیں دونوں قبلوں کی طرف نماز پڑھنے کا ثواب عطا ہو گا یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اور ان کے ساتھ تمھارے گھوم جانے کو ضائع نہ کرے گا پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ رؤف و رحیم ہے ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جنگی قیدی عورت کو دیکھا جس سے اس کا بچہ چھوٹ گیا تھا وہ اپپنے بچے کو پاگلوں کی طرح تلاش کر رہی تھی اور جب وہ نہیں ملا تو قیدیوں میں سے جس کسی بچے کو دیکھتی اسی کو گلے لگا لیتی یہاں تک کہ اس کا اپنا بچہ مل گیا خوشی خوشی لپک کر اسے گود میں اٹھا لیا سینے سے لگایا پیار کیا اور اس کے منہ میں دودھ دیا یہ دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا بتاؤ یہ اپنا بس چلتے ہوئے اس بچے کو آگ میں ڈال دے گی ؟ لوگوں نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر گز نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کی قسم جس قدر یہ ماں اپنے بچہ پہ مہربان ہے اس سے کہیں زیادہ اللہ تعالیٰ اپنے بندؤں پر رؤف و رحیم ہے۔(صحیح بخاری:5999) البقرة
144 خشوع و خضوع ضروری ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ قرآن میں قبلہ کا حکم پہلا نسخ ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی طرف ہجرت کی یہاں کے اکثر باشندے یہود تھے اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیت المقدس کی طرف نمازیں پڑھنے کا حکم دیا یہود اس سے بہت خوش ہوئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کئی ماہ تک اسی رخ نماز پڑھتے رہے لیکن خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چاہت قبلہ ابراہیمی کی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ سے دعائیں مانگا کرتے تھے اور نگاہیں آسمان کی طرف اٹھایا کرتے تھے بالآخر آیت «قَدْ نَرَیٰ تَقَلٰبَ وَجْہِکَ فِی السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّیَنَّکَ قِبْلَۃً تَرْضَاہَا فَوَلِّ وَجْہَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَیْثُ مَا کُنتُمْ فَوَلٰوا وُجُوہَکُمْ شَطْرَہُ وَإِنَّ الَّذِینَ أُوتُوا الْکِتَابَ لَیَعْلَمُونَ أَنَّہُ الْحَقٰ مِن رَّبِّہِمْ وَمَا اللہُ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعْمَلُونَ» ( البقرہ : 144 ) نازل ہوئی اس پر یہود کہنے لگے کہ اس قبلہ سے یہ کیوں ہٹ گئے جس کے جواب میں کہا گیا کہ «وَلِلہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَأَیْنَمَا تُوَلٰوا فَثَمَّ وَجْہُ اللہِ إِنَّ اللہَ وَاسِعٌ عَلِیمٌ» ( البقرۃ : 115 ) مشرق اور مغرب کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے اور فرمایا جدھر تمہارا منہ ہو ادھر ہی اللہ کا منہ ہے اور فرمایا کہ اگلا قبلہ امتحاناً تھا ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:103/1) اور روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے بعد اپنا سر آسمان کی طرف اٹھاتے تھے اس پر یہ آیت اتری اور حکم ہوا کہ مسجد الحرام کی طرف کعبہ کی طرف میزاب کی طرف منہ کرو جبرائیل علیہ السلام نے امامت کرائی ۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے مسجد الحرام میں میزاب کے سامنے بیٹھے ہوئے اس آیت پاک کی تلاوت کی اور فرمایا میزاب کعبہ کی طرف رخ کرنے کا حکم ہے ۔ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ کا بھی ایک قول یہ ہے کہ عین کعبہ کی طرف توجہ مقصود ہے اور دوسرا قول آپ کا یہ ہے کہ کعبہ کی جہت ہونا کافی ہے اور یہی مذہب اکثر ائمہ کرام رحمہ اللہ علیہم کا ہے ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مراد اس کی طرف ہے ۔ (مستدرک حاکم:2692) ابوالعالیہ مجاہد عکرمہ سعید بن جبیر قتادہ ربیع بن انس وغیرہ کا بھی یہی قول ہے ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:107/1) ایک حدیث میں بھی ہے کہ مشرق و مغرب کے درمیان قبلہ ہے ۔ (سنن ترمذی:342 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابن جریج میں حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں بیت اللہ مسجد الحرام والوں کا قبلہ اور مسجد اہل حرام کا قبلہ اور تمام زمین والوں کا حرام قبلہ ہے خواہ مشرق میں ہوں خواجہ مغرب میں میری تمام امت کا قبلہ یہی ہے ۔ (بیھقی9/2-10:ضعیف) ابونعیم میں بروایت براء رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سولہ سترہ مہینے تک تو بیت المقدس کی طرف نماز پڑھی لیکن آپ کو پسند امر یہ تھا کہ بیت اللہ کی طرف پڑھیں چنانچہ اللہ کے حکم سے آپ نے بیت اللہ کی طرف متوجہ ہو کر عصر کی نماز ادا کی پھر نمازیوں میں سے ایک شخص مسجد والوں کے پاس گیا وہ رکوع میں تھے اس نے کہا میں حلفیہ گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ شریف کی طرف نماز ادا کی ۔ یہ سن کر وہ جس حالت میں تھے اسی حالت میں بیت اللہ شریف کی طرف پھر گئے ۔ (صحیح بخاری:4486) عبدالرزاق میں بھی یہ روایت قدرے کمی بیشی کے ساتھ مروی ہے ۔ (تفسیر عبد الرزاق:1354) نسائی میں ابوسعید بن معلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم صبح کے وقت مسجد نبوی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جایا کرتے تھے اور وہاں کچھ نوافل پڑھا کرتے تھے ایک دن ہم گئے تو دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر بیٹھے ہوئے ہیں میں نے کہا آج کوئی نئی بات ضرور ہوئی ہے میں بھی بیٹھ گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت «قَدْ نَرَیٰ تَقَلٰبَ وَجْہِکَ فِی السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّیَنَّکَ قِبْلَۃً تَرْضَاہَا فَوَلِّ وَجْہَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَیْثُ مَا کُنتُمْ فَوَلٰوا وُجُوہَکُمْ شَطْرَہُ وَإِنَّ الَّذِینَ أُوتُوا الْکِتَابَ لَیَعْلَمُونَ أَنَّہُ الْحَقٰ مِن رَّبِّہِمْ وَمَا اللہُ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعْمَلُونَ» ‏‏‏‏ ( البقرہ : 144 ) تلاوت فرمائی میں نے اپنے ساتھی سے کہا آؤ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فارغ ہونے منبر سے اترنے سے پہلے ہی ہم اس نئے حکم کی تعمیل کریں اور اول فرمانبردار بن جائیں چنانچہ ہم ایک طرف ہو گئے اور سب سے پہلے بیت اللہ شریف کی طرف نماز پڑھی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی منبر سے اتر آئے اور اس قبلہ کی طرف پہلی نماز ظہر ادا کی گئی ۔(نسائی فی السنن الکبریٰ:11004،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ابن مردویہ میں بروایت سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ پہلی نماز جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کی طرف ادا کی وہ ظہر کی نماز ہے اور یہی نماز صلوٰۃ وسطیٰ ہے لیکن مشہور یہ ہے کہ پہلی نماز کعبہ کی طرف عصر کی ادا کی ہوئی اسی وجہ سے اہل قباء کو دوسرے دن صبح کے وقت اطلاع پہنچی ۔ ابن مردویہ میں روایت نویلہ بنت مسلم رضی اللہ عنہا موجود ہے کہ ہم مسجد بنو حارثہ میں ظہر یا عصر کی نماز بیت المقدس کی طرف منہ کئے ہوئے ادا کر رہے تھے دو رکعت پڑھ چکے تھے کہ کسی نے آ کر قبلہ کے بدل جانے کی خبر دی ۔ چنانچہ ہم نماز میں بیت اللہ کی طرف متوجہ ہو گئے اور باقی نماز اسی طرف ادا کی ، اس گھومنے میں مرد عورتوں کی جگہ اور عورتیں مردوں کی جگہ آ گئیں ، آپ کے پاس جب یہ خبر پہنچی تو خوش ہو کر فرمایا یہ ہیں ایمان بالغیب رکھنے والے ۔ (طبرانی کبیر:530/24:ضعیف) ابن مردویہ میں بروایت عمارہ بن اوس رضی اللہ عنہما مروی ہے کہ رکوع کی حالت میں ہمیں اطلاع ہوئی اور ہم سب مرد عورتیں بچے اسی حالت میں قبلہ کی طرف گھوم گئے ۔ (مسند ابویعلیٰ:1509) پھر ارشاد ہوتا ہے تم جہاں بھی ہو مشرق مغرب شمال یا جنوب میں ہر صورت نماز کے وقت منہ کعبہ کی طرف کر لیا کرو ۔ ہاں البتہ سفر میں سواری پر نفل پڑھنے والا جدھر سواری جا رہی ہو ادھر ہی نفل ادا کرنے اس کے دل کی توجہ کعبہ کی طرف ہونی کافی ہے اسی طرح میدان جنگ میں نماز پڑھنے والا جس طرح اور جس طرف بن پڑے نماز ادا کر لے اور اسی طرح وہ شخص جسے قبلہ کی جہت کا قطعی علم نہیں وہ اندازہ سے جس طرف زیادہ دل مانے نماز ادا کر لے ۔ پھر گو اس کی نماز فی الواقع قبلہ کی طرف نہ بھی ہوئی ہو تو بھی وہ اللہ کے ہاں معاف ہے ۔ مسئلہ مالکیہ نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ نمازی حالت نماز میں اپنے سامنے اپنی نظریں رکھے نہ کہ سجدے کی جگہ جیسے کہ شافعی ، احمد اور ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہم کا مذہب ہے اس لیے کہ آیت کے الفاظ یہ ہیں کہ منہ مسجد الحرام کی طرف کرو اور اگر سجدے کی جگہ نظر جمانا چاہے گا تو قدرے جھکنا پڑے گا اور یہ تکلیف کمال خشوع کے خلاف ہو گا بعض مالکیہ کا یہ قول بھی ہے کہ قیام کی حالت میں اپنے سینہ کی طرف نظر رکھے قاضی شریک کہتے ہیں کہ قیام کے وقت سجدہ کی جگہ نظر رکھے جیسے کہ جمہور جماعت کا قول ہے اس لیے کہ یہ پورا پورا خشوع خضوع ہے اور ایک حدیث بھی اس مضمون کی وارد ہوئی ہے اور رکوع کی حالت میں اپنے قدموں کی جگہ پر نظر رکھے اور سجدے کے وقت ناک کی جگہ اور التحیات کے وقت اپنی گود کی طرف پھر ارشاد ہوتا ہے کہ یہ یہودی جو چاہیں باتیں بنائیں لیکن ان کے دل جانتے ہیں کہ قبلہ کی تبدیلی اللہ کی جانب سے ہے اور برحق ہے کیونکہ یہ خود ان کی کتابوں میں بھی موجود ہے لیکن یہ لوگ کفر وعناد اور تکبر و حسد کی وجہ سے اسے چھپاتے ہیں اللہ بھی ان کی ان کرتوتوں سے بے خبر نہیں ۔ البقرة
145 کفر و عناد زدہ یہودی یہودیوں کے کفر و عناد اور مخالفت و سرکشی کا بیان ہو رہا ہے کہ باوجودیکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کا انہیں علم ہے لیکن پھر بھی یہ حالت ہے کہ ہر قسم کی دلیلیں پیش ہو چکنے کے بعد بھی حق کی پیروی نہیں کرتے جیسے اور جگہ ہے آیت «إِنَّ الَّذِینَ حَقَّتْ عَلَیْہِمْ کَلِمَتُ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُونَ وَلَوْ جَاءَتْہُمْ کُلٰ آیَۃٍ حَتَّیٰ یَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِیمَ» ( 10-یونس : 96 ، 97 ) یعنی جن لوگوں پر تیرے رب کی بات ثابت ہو چکی ہے وہ ایمان نہ لائیں گے چاہے ان کے پاس یہ تمام آیتیں آ جائیں یہاں تک کہ درد ناک عذاب نہ دیکھ لیں ۔ پھر اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی استقامت بیان فرماتا ہے کہ جس طرح وہ ناحق پر ڈٹے ہوئے ہیں اور وہاں سے ہٹنا نہیں چاہتے تو وہ بھی سمجھ لیں کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسے نہیں کہ ان کی باتوں میں آ جائیں اور ان کی راہ چل پڑیں وہ ہمارے تابع فرمان ہیں اور ہماری مرضی کے عامل ہیں وہ ان کی باطل خواہش کی تابعداری ہرگز نہیں کریں گے نہ ان سے یہ ہو سکتا ہے کہ ہمارا حکم آ جانے کے بعد ان کے قبلہ کی طرف توجہ کریں پھر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کر کے در اصل علماء کو دھمکایا گیا کہ حق کے واضح ہو جانے کے بعد کسی کے پیچھے لگ جانا اور اپنی یا دوسروں کی خواہش پرستی کرنا یہ صریح ظلم ہے ۔ البقرة
146 صفات نبوی اور اغماض برتنے والے یہودی علماء ارشاد ہوتا ہے کہ علماء اہل کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی باتوں کی حقانیت کو اس طرح جانتے ہیں جس طرح باپ اپنے بیٹوں کو پہچانے یہ ایک مثال تھی جو مکمل یقین کے وقت عرب دیا کرتے تھے ۔ ایک حدیث میں ہے ایک شخص کے ساتھ چھوٹا بچہ تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا یہ تیرا لڑکا ہے ؟ اس نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ بھی گواہ رہیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہ یہ تجھ پر پوشیدہ رہے نہ تو اس پر ۔ (مسند احمد:81/8:صحیح) قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں ایک مرتبہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہما نے سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہما سے جو یہودیوں کے زبردست علامہ تھے پوچھا کیا تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا ہی جانتا ہے جس طرح اپنی اولاد کو پہچانتا ہے ؟ جواب دیا ہاں بلکہ اس سے بھی زیادہ اس لیے کہ آسمانوں کا امین فرشتہ زمین کے امین شخص پر نازل ہوا اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح تعریف بتا دی یعنی جبرائیل علیہ السلام عیسیٰ علیہ السلام کے پاس آئے اور پھر پروردگار عالم نے ان کی صفتیں بیان کیں جو سب کی سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود ہیں پھر ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی برحق ہونے میں کیا شک رہا ؟ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیک نگاہ کیوں نہ پہچان لیں ؟ بلکہ ہمیں اپنی اولاد کے بارے میں شک ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت میں کچھ شک نہیں ، (تفسیر قرطبی:163/2) غرض یہ ہے کہ جس طرح لوگوں کے ایک بڑے مجمع میں ایک شخص اپنے لڑکے کو پہچان لیتا ہے اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف جو اہل کتاب کی آسمانی کتابوں میں ہیں وہ تمام صفات آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں اس طرح نمایاں ہیں کہ بیک نگاہ ہر شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جان جاتا ہے ۔ پھر فرمایا کہ باوجود اس علم حق کے پھر بھی یہ لوگ اسے چھپاتے ہیں پھر اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو ثابت قدمی کا حکم دیا کہ خبردار تم ہرگز حق میں شک نہ کرنا ۔ البقرة
147 البقرة
148 سچا قبلہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ ہر مذہب والوں کا ایک قبلہ ہے لیکن سچا قبلہ وہ ہے جس پر مسلمان ہیں ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:193/3) ابوالعالیہ کا قول ہے کہ یہود کا بھی قبلہ ہے نصرانیوں کا بھی قبلہ ہے اور تمہارا بھی قبلہ ہے لیکن ہدایت والا قبلہ وہی ہے جس پر اے مسلمانو تم ہو ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:121/1) حضرت مجاہد رحمہ اللہ سے یہ بھی مروی ہے کہ ہر ایک وہ قوم جو کعبہ کو قبلہ مانتی ہے وہ بھلائیوں میں سبقت کرے آیت «مُوَلِّیہَا» کی دوسری قرأت «مُوَلَّاھَا» ہے جیسے اور جگہ ہے آیت «لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّمِنْہَاجًا وَلَوْ شَاءَ اللہُ لَجَعَلَکُمْ أُمَّۃً وَاحِدَۃً وَلٰکِن لِّیَبْلُوَکُمْ فِی مَا آتَاکُمْ فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرَاتِ إِلَی اللہِ مَرْجِعُکُمْ جَمِیعًا» ( 5 ۔ المائدہ : 48 ) ، یعنی ہر شخص کو اپنے اپنے قبلہ کی پڑی ہوئی ہے ہر شخص اپنی اپنی راہ لگا ہوا ہے پھر فرمایا کہ گو تمہارے جسم اور بدن مختلف ہو جائیں گو تم ادھر ادھر بکھر جاؤ لیکن اللہ تمہیں اپنی قدرت کاملہ سے اسی زمین سے جمع کر لے گا ۔ البقرة
149 تین بار نزول حکم یہ تیسری مرتبہ حکم ہو رہا ہے کہ روئے زمین کے مسلمانوں کو نماز کے وقت مسجد الحرام کی طرف منہ کرنا چاہیئے ۔ تین مرتبہ تاکید اس لیے کی گئی کہ یہ تبدیلی کا حکم پہلی بار واقع ہوا تھا ۔ فخرالدین رازی نے اس کی یہ وجہ بیان کی ہے کہ پہلا حکم تو ان کے لیے ہے جو کعبہ کو دیکھ رہے ہیں ۔ دوسرا حکم ان کے لیے ہے جو مکہ میں ہیں لیکن کعبہ ان کے سامنے نہیں ۔ تیسری بار انہیں حکم دیا جو مکہ کے باہر روئے زمین پر ہیں ۔ قرطبی رحمہ اللہ نے ایک توجیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ پہلا حکم مکہ والوں کو ہے دوسرا اور شہر والوں کو تیسرا مسافروں کو بعض کہتے ہیں تینوں حکموں کا تعلق اگلی پچھلی عبارت سے ہے ۔ پہلے حکم میں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طلب کا اور پھر اس کی قبولیت کا ذکر ہے اور دوسرے حکم میں اس بات کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ چاہت بھی ہماری چاہت کے مطابق تھی اور حق امر یہی تھا اور تیسرے حکم میں یہودیوں کی حجت کا جواب ہے کہ ان کی کتابوں میں پہلے سے موجود تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قبلہ کعبہ ہو گا تو اس حکم سے وہ پیشینگوئی بھی پوری ہوئی ۔ ساتھ ہی مشرکین کی حجت بھی ختم ہوئی کہ وہ کعبہ کو متبرک اور مشرف مانتے تھے اور اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توجہ بھی اسی کی طرف ہو گئی رازی وغیرہ نے اس حکم کو باربار لانے کی حکمتوں کو بخوبی تفصیل سے بیان کیا ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ پھر فرمایا تاکہ اہل کتاب کوئی حجت تم پر باقی نہ رہے وہ جانتے تھے کہ امت کی طرح پہچان کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتا ہے جب وہ یہ صفت نہ پائیں گے تو انہیں شک کی گنجائش ہو سکتی ہے لیکن جب انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قبلہ کی طرف پھرتے ہوئے دیکھ لیا تو اب انہیں کسی طرح کا شک نہ رہنا چاہیئے اور یہ بات بھی ہے کہ جب وہ تمہیں اپنے قبلہ کی طرف نمازیں پڑھتے ہوئے دیکھیں گے تو ان کے ہاتھ ایک بہانہ لگ جائے گا لیکن جب تم ابراہیمی قبلہ کی طرف متوجہ ہو جاؤ گے تو وہ خالی ہاتھ رہ جائیں گے ، حضرت ابوالعالیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہود کی یہ حجت تھی کہ آج یہ ہمارے قبلہ کی طرف ہیں یعنی ہمارے قبلہ کی طرف رخ کرتے ہیں کل ہمارا مذہب بھی مان لیں گے لیکن جب اپنے اللہ کے حکم سے اصلی قبلہ اختیار کر لیا تو ان کی اس ہوس پر پانی پڑ گیا- پھر فرمایا مگر جو ان میں سے ظالم اور ضدی مشرکین بطور اعتراض کہتے تھے کہ یہ شخص ملت ابراہیمی علیہ السلام پر ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور پھر ابراہیمی قبلہ کی طرف نماز نہیں پڑھتا انہیں جواب بھی مل گیا کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے احکام کا متبع ہے پہلے ہم نے اپنی کمال حکمت سے انہیں بیت المقدس کی طرف منہ کرنے کا حکم دیا جسے وہ بجا لائے پھر ابراہیمی قبلہ کی طرف پھر جانے کو کہا جسے جان و دل سے بجا لائے پس آپ ہر حال میں ہمارے احکام کے ما تحت ہیں ( صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ واصحابہ وسلم ) پھر فرمایا ان ظالموں کے شبہ ڈالنے سے تم شک میں نہ پڑو ان باغیوں کی سرکشی سے تم خوف نہ کرو ان کے بے جان اعتراضوں کی مطلق پرواہ نہ کر وہاں میری ذات سے خوف کیا کرو صرف مجھ ہی سے ڈرتے رہا کرو قبلہ بدلنے میں جہاں یہ مصلحت تھی کہ لوگوں کی زبانیں بند ہو جائیں وہاں یہ بھی بات تھی کہ میں چاہتا تھا کہ اپنی نعمت تم پر پوری کر دوں اور قبلہ کی طرح تمہاری تمام شریعت کامل کر دوں اور تمہارے دین کو ہر طرح مکمل کر دوں اور اس میں یہ ایک راز بھی تھا کہ جس قبلہ سے اگلی امتیں بہک گئیں تم اس سے نہ ہٹو ہم نے اس قبلہ کو خصوصیت کے ساتھ تمہیں عطا فرما کر تمہارا شرف اور تمہاری فضیلت و بزرگی تمام امتوں پر ثابت کر دی ۔ البقرة
150 البقرة
151 اللہ کی یاد شکر ہے اور بھول کفر ہے! یہاں اللہ تعالیٰ اپنی بہت بڑی نعمت کا ذکر فرما رہا ہے کہ اس نے ہم میں ہماری جنس کا ایک نبی صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث فرمایا ، جو اللہ تعالیٰ کی روشن اور نورانی کتب کی آیتیں ہمارے سامنے تلاوت فرماتا ہے اور رذیل عادتوں اور نفس کی شرارتوں اور جاہلیت کے کاموں سے ہمیں روکتا ہے اور ظلمت کفر سے نکال کر نور ایمان کی طرف رہبری کرتا ہے اور کتاب و حکمت یعنی قرآن و حدیث ہمیں سکھاتا ہے اور وہ راز ہم پر کھولتا ہے جو آج تک ہم پر نہیں کھلے تھے پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے وہ لوگ جن پر صدیوں سے جہل چھایا ہوا تھا جنہیں صدیوں سے تاریکی نے گھیر رکھا تھا جن پر مدتوں سے بھلائی کا پر تو بھی نہیں پڑا تھا دنیا کی زبردست علامہ ہستیوں کے استاد بن گئے ، وہ علم میں گہرے تکلف میں تھوڑے دلوں کے پاک اور زبان کے سچے بن گئے ۔ دنیا کی حالت کا یہ انقلاب بجائے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی تصدیق کا ایک شاہد و عدل ہے اور جگہ ارشاد ہے آیت «لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِھٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مٰبِیْنٍ» ( 3 ۔ آل عمران : 164 ) یعنی ایسے اولوالعزم پیغمبر کی بعثت مومنوں پر اللہ کا ایک زبردست احسان ہے اس نعمت کو قدر نہ کرنے والوں کو قرآن کہتا ہے آیت «أَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِینَ بَدَّلُوا نِعْمَتَ اللہِ کُفْرًا وَأَحَلٰوا قَوْمَہُمْ دَارَ الْبَوَارِ» ( 14 ۔ ابراہیم : 28 ) کیا تو انہیں نہیں دیکھتا جنہوں نے اللہ کی اس نعمت کے بدلے کفر کیا اور اپنی قوم کو ہلاکت کے گڑھے میں ڈالا یہاں اللہ کی نعمت سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اسی لیے اس آیت میں بھی اپنی نعمت کا ذکر فرما کر لوگوں کو اپنی یاد اور اپنے شکر کا حکم دیا کہ جس طرح میں نے احسان تم پر کیا تم بھی میرے ذکر اور میرے شکر سے غفلت نہ کرو ۔ موسیٰ علیہ السلام اللہ رب العزت سے عرض کرتے ہیں کہ اے اللہ تیرا شکر کس طرح کروں ارشاد ہوتا ہے مجھے یاد رکھو بھولو نہیں یاد شکر ہے اور بھول کفر ہے حسن بصری رحمہ اللہ وغیرہ کا قول ہے کہ اللہ کی یاد کرنے والے کو اللہ بھی یاد کرتا ہے اس کا شکر کرنے والے کو وہ زیادہ دیتا ہے اور ناشکرے کو عذاب کرتا ہے بزرگان سلف سے مروی ہے کہ اللہ سے پورا ڈرنا یہ ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے نافرمانی نہ کی جائے اس کا ذکر کیا جائے غفلت نہ برتی جائے اس کا شکر کیا جائے ناشکری نہ کی جائے ۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے سوال ہوتا ہے کہ کیا زانی ، شرابی ، چور اور قاتل نفس کو بھی یاد کرتا ہے ؟ فرمایا ہاں برائی سے ، حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں مجھے یاد کرو یعنی میرے ضروری احکام بجا لاؤ میں تمہیں یاد کروں گا یعنی اپنی نعمتیں عطا فرماؤں گا ، حضرت سعید بن جیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں تمہیں بخش دوں گا اور اپنی رحمتیں تم پر نازل کروں گا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کا یاد کرنا بہت بڑی چیز ہے ایک قدسی حدیث میں ہے جو تجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے میں اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں اور جو مجھے کسی جماعت میں یاد کرتا ہے میں بھی اسے اس سے بہتر جماعت میں یاد کرتا ہوں ۔ (صحیح بخاری:7405) مسند احمد میں ہے کہ وہ جماعت فرشتوں کی ہے جو شخص میری طرف ایک بالشت بڑھتا ہے میں اس کی طرف ایک ہاتھ بڑھاتا ہوں اور اگر تو اے بنی آدم میری طرف ایک ہاتھ بڑھائے گا میں تیری طرف دو ہاتھ بڑھاؤں گا اور اگر تو میری طرف چلتا ہوا آئے گا تو میں تیری طرف دوڑتا ہوا آؤں گا صحیح بخاری میں بھی یہ حدیث ہے ۔ (عبدالرزاق:20575صحیح) حضرت قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت اس سے بھی زیادہ قریب ہے پھر فرمایا میرا شکر کرو ناشکری نہ کرو اور جگہ ہے آیت «لَیِٕنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ وَلَیِٕنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ» ( 14 ۔ ابراہیم : 7 ) یعنی تیرے رب کی طرف سے عام آگہی ہے کہ اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہیں برکت دوں گا اور اگر ناشکری کرو گے تو یاد رکھنا میرا عذاب سخت ہے ، مسند احمد میں ہے کہ عمران بن حصین رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ نہایت قیمتی حلہ پہنے ہوئے آئے اور فرمایا اللہ تعالیٰ جب کسی پر انعام کرتا ہے تو اس کا اثر اس پر دیکھنا چاہتا ہے ۔ (مسند احمد:438/4:صحیح) البقرة
152 البقرة
153 صلوۃ و صبر و سیلہ اور شہداء کا ذکر شکر کے بعد صبر کا بیان ہو رہا ہے اور ساتھ ہی نماز کا ذکر کر کے ان بڑے بڑے نیک کاموں کو ذریعہ نجات بنانے کا حکم ہو رہا ہے ، ظاہر بات ہے کہ انسان یا تو اچھی حالت میں ہو گا تو یہ موقعہ شکر کا ہے یا اگر بری حالت میں ہو گا تو یہ موقعہ صبر کا ہے ، حدیث میں ہے ، مومن کی کیا ہی اچھی حالت ہے کہ ہر کام میں اس کے لیے سراسر بھلائی ہی بھلائی ہے اسے راحت ملتی ہے ۔ شکر کرتا ہے تو اجر پاتا ہے ، رنج پہنچتا ہے صبر کرتا ہے تو اجر پاتا ہے ۔ (صحیح مسلم:2999) آیت میں اس کا بھی بیان ہو گیا کہ مصیبتوں پر تحمل کرے اور انہیں ٹالنے کا ذریعہ صبر و صلوۃ ہے ، جیسے اس سے پہلے گزر چکا ہے کہ آیت «وَاسْتَعِینُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاۃِ وَإِنَّہَا لَکَبِیرَۃٌ إِلَّا عَلَی الْخَاشِعِینَ» ( البقرۃ : 45 ) صبر و صلوٰۃ کے ساتھ استعانت چاہو یہ ہے تو اہم کام لیکن رب کا ڈر رکھنے والوں پر بہت آسان ہے ، حدیث میں ہے جب کوئی کام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو غم میں ڈال دیتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز شروع کر دیتے ۔ (سنن ابوداود:1319 ، قال الشیخ الألبانی:حسن) صبر کی دو قسمیں ہیں ، حرام اور گناہ کے کاموں کے ترک کرنے پر ، اطاعت اور نیکی کے کاموں کے کرنے پر یہ صبر پہلے سے بڑا ہے ، تیسری قسم صبر کی مصیبت ، درد اور دکھ پر یہ بھی واجب ہے ، جیسے عیبوں سے استغفار کرنا واجب ہے ، حضرت عبدالرحمٰن بن زید رحمہ اللہ فرماتے ہیں اللہ کی فرمانبرداری میں استقلال سے لگے رہنا چاہے انسان پر شاق گزرے طبیعت کے خلاف ہو جی نہ چاہے یہ بھی ایک صبر ہے ۔ دوسرا صبر اللہ تعالیٰ کی منع کئے ہوئے کے کاموں سے رک جانا ہے چاہے طبعی میلان اس طرف ہو خواہش نفس اکسا رہی ہو ، (تفسیر ابن ابی حاتم:144/1) امام زین العابدین فرماتے ہیں قیامت کے دن ایک منادی ندا کرے گا کہ صبر کرنے والے کہاں ہیں ؟ اٹھیں اور بغیر حساب کتاب کے جنت میں چلے جائیں کچھ لوگ اٹھ کھڑے ہوں گے اور جنت کی طرف بڑھیں گے فرشتے انہیں دیکھ کر پوچھیں گے کہ کہاں جا رہے ہو ؟ جواب دیں گے ہم صابر لوگ ہیں اللہ کی فرمانبرداری کرتے رہے اور اس کی نافرمانی سے بچتے رہے ، مرتے دم تک اس پر اور اس پر صبر کیا اور جمے رہے ، فرشتے کہیں گے پھر تو ٹھیک ہے بیشک تمہارا یہی بدلہ ہے اور اسی لائق تم ہو جاؤ جنت میں مزے کرو اچھے کام والوں کا اچھا ہی انجام ہے ۔ یہی قرآن فرماتا ہے آیت «إِنَّمَا یُوَفَّی الصَّابِرُونَ أَجْرَہُم بِغَیْرِ حِسَابٍ» ( 39-الزمر : 10 ) صابروں کو ان کا پورا پورا بدلہ بے حساب دیا جائے گا ۔ حضرت سعید بن جیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں صبر کے یہ معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا اقرار کرے اور مصیبتوں کا بدلہ اللہ کے ہاں ملنے کا یقین رکھے ان پر ثواب طلب کرے ہر گھبراہٹ پریشانی اور کٹھن موقعہ پر استقلال اور نیکی کی امید پر وہ خوش نظر آئے ۔ پھر فرمایا کہ شہیدوں کو مردہ نہ کہو بلکہ وہ ایسی زندگی میں ہیں جسے تم نہیں سمجھ سکتے انہیں حیات برزخی حاصل ہے اور وہاں وہ خورد و نوش پا رہے ہیں ، صحیح مسلم شریف میں ہے کہ شہیدوں کی روحیں سبز رنگ کے پرندوں کے قالب میں ہیں اور جنت میں جس جگہ چاہیں چرتی چگتی اڑتی پھرتی ہیں پھر ان قندیلوں میں آ کر بیٹھ جاتی ہیں جو عرش کے نیچے لٹک رہی ہیں ان کے رب نے ایک مرتبہ انہیں دیکھا اور ان سے دریافت کیا کہ اب تم کیا چاہتے ہو ؟ انہوں نے جواب دیا اللہ ہمیں تو تو نے وہ وہ دے رکھا ہے جو کسی کو نہیں دیا پھر ہمیں کس چیز کی ضرورت ہو گی ؟ ان سے پھر یہی سوال ہوا جب انہوں نے دیکھا کہ اب ہمیں کوئی جواب دینا ہی ہو گا تو کہا اللہ ہم چاہتے ہیں کہ تو ہمیں دوبارہ دنیا میں بھیج ہم تیری راہ میں پھر جنگ کریں پھر شہید ہو کر تیرے پاس آئیں اور شہادت کا دگنا درجہ پائیں ، رب جل جلالہ نے فرمایا یہ نہیں ہو سکتا یہ تو میں لکھ چکا ہوں کہ کوئی بھی مرنے کے بعد دنیا کی طرف پلٹ کر نہیں جائے گا ۔ (صحیح مسلم:1887) مسند احمد کی ایک اور حدیث میں ہے کہ مومن کی روح ایک پرندے میں ہے جو جنتی درختوں پر رہتی ہے اور قیامت کے دن وہ اپنے جسم کی طرف لوٹ آئے گی ، (مسند احمد:455/2:صحیح) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر مومن کی روح وہاں زندہ ہے لیکن شہیدوں کی روح کو ایک طرح کی امتیازی شرافت کرامت عزت اور عظمت حاصل ہے ۔ البقرة
154 البقرة
155 وفائے عہد کے لیے آزمائش لازم ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ اپنے بندوں کی آزمائش ضرور کر لیا کرتا ہے کبھی ترقی اور بھلائی کے ذریعہ اور کبھی تنزل اور برائی سے ، جیسے فرماتا ہے آیت «وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ حَتّٰی نَعْلَمَ الْمُجٰہِدِیْنَ مِنْکُمْ وَالصّٰبِرِیْنَ وَنَبْلُوَا۟ اَخْبَارَکُمْ» ( 47 ۔ محمد : 31 ) یعنی ہم آزما کر مجاہدوں اور صبر کرنے والوں کو معلوم کر لیں گے اور جگہ ہے آیت «فَاَذَاقَہَا اللّٰہُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَالْخَوْفِ بِمَا کَانُوْا یَصْنَعُوْنَ» (16-النحل:112) مطلب یہ ہے کہ تھوڑا سا خوف ، کچھ بھوک ، کچھ مال کی کمی ، کچھ جانوں کی کمی یعنی اپنوں اور غیر خویش و اقارب ، دوست و احباب کی موت ، کبھی پھلوں اور پیداوار کی نقصان وغیرہ سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو آزما لیتا ہے ، صبر کرنے والوں کو نیک اجر اور اچھا بدلہ عنایت فرماتا ہے اور بے صبر جلد باز اور ناامیدی کرنے والوں پر اس کے عذاب اتر آتے ہیں ۔ بعض سلف سے منقول ہے کہ یہاں خوف سے مراد اللہ تعالیٰ کا ڈر ہے ، بھوک سے مراد روزوں کی بھوک ہے ، مال کی کمی سے مراد زکوٰۃ کی ادائیگی ہے ، جان کی کمی سے مراد بیماریاں ہیں ، پھلوں سے مراد اولاد ہے ، لیکن یہ تفسیر ذرا غور طلب ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اب بیان ہو رہا ہے کہ جن صبر کرنے والوں کی اللہ کے ہاں عزت ہے وہ کون لوگ ہیں ؟ پس فرماتا ہے یہ وہ لوگ ہیں جو تنگی اور مصیبت کے وقت آیت« الَّذِینَ إِذَا أَصَابَتْہُم مٰصِیبَۃٌ قَالُوا إِنَّا لِلہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ» ( البقرہ : 156 ) پڑھ لیا کرتے ہیں اور اس بات سے اپنے دل کو تسلی دے لیا کرتے ہیں کہ ہم اللہ کی ملکیت ہیں اور جو ہمیں پہنچا ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور ان میں جس طرح وہ چاہے تصرف کرتا رہتا ہے اور پھر اللہ کے ہاں اس کا بدلہ ہے جہاں انہیں بالآخر جانا ہے ، ان کے اس قول کی وجہ سے اللہ کی نوازشیں اور الطاف ان پر نازل ہوتے ہیں عذاب سے نجات ملتی ہے اور ہدایت بھی نصیب ہوتی ہے ۔ امیرالمؤمنین سیدنا عمربن خطاب رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں دوبرابر کی چیزیں صلوات اور رحمت اور ایک درمیان کی چیز یعنی ہدایت ان صبر کرنے والوں کو ملتی ہے ، مسند احمد میں ہے سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میرے خاوند ابوسلمہ رضی اللہ عنہ ایک روز میرے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ہو کر آئے اور خوشی خوشی فرمانے لگے آج تو میں نے ایک ایسی حدیث سنی ہے کہ میں بہت ہی خوش ہوا ہوں وہ حدیث یہ ہے کہ جس کسی مسلمان کو کوئی تکلیف پہنچے اور وہ کہے دعا «اللھم اجرنی فی مصیبتی واخلف لی خیرا منھا» یعنی اللہ مجھے اس مصیبت میں اجر دے اور مجھے اس سے بہتر بدلہ عطا فرما تو اللہ تعالیٰ اسے اجر اور بدلہ ضرور دیتا ہے ، سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں نے اس دعا کو یاد کر لیا ۔ جب ابوسلمہ رضی اللہ عنہما کا انتقال ہوا تو میں نے آیت «الَّذِینَ إِذَا أَصَابَتْہُم مٰصِیبَۃٌ قَالُوا إِنَّا لِلہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ» ( البقرہ : 156 ) پڑھ کر پھر یہ دعا بھی پڑھ لی لیکن مجھے خیال آیا کہ بھلا ابوسلمہ رضی اللہ عنہما سے بہتر شخص مجھے کون مل سکتا ہے ؟ جب میری عدت گزر چکی تو میں ایک روز ایک کھال کو دباغت دے رہی تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور اندر آنے کی اجازت چاہی میں نے اپنے ہاتھ دھو ڈالے کھال رکھ دی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اندر تشریف لانے کی درخواست کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک گدی پر بٹھا دیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے اپنا نکاح کرنے کی خواہش ظاہر کی ، میں نے کہا یا رسول اللہ !صلی اللہ علیہ وسلم یہ تو میری خوش قسمتی کی بات ہے لیکن اوّل تو میں بڑی باغیرت عورت ہوں ایسا نہ ہو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت کے خلاف کوئی بات مجھ سے سرزد ہو جائے اور اللہ کے ہاں عذاب ہو دوسرے یہ کہ میں عمر رسیدہ ہوں ، تیسرے بال بچوں والی ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سنو ایسی بے جا غیرت اللہ تعالیٰ تمہاری دور کر دے گا اور عمر میں کچھ میں بھی چھوٹی عمر کا نہیں اور تمہارے بال بچے میرے ہی بال بچے ہیں میں نے یہ سن کر کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کوئی عذر نہیں چنانچہ میرا نکاح اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہو گیا اور مجھے اللہ تعالیٰ نے اس دعا کی برکت سے میرے میاں سے بہت ہی بہتر یعنی اپنا رسول صلی اللہ علیہ وسلم عطا فرمایا ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» (مسند احمد:27/4:صحیح) صحیح مسلم شریف میں بھی یہ حدیث باختلاف الفاظ مروی ہے ، (صحیح مسلم:918) مسند احمد میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کسی مسلمان کو کوئی رنج و مصیبت پہنچے اس پر گویا زیادہ وقت گزر جائے پھر اسے یاد آئے اور وہ انا للہ پڑھے تو مصیبت کے صبر کے وقت جو اجر ملا تھا وہی اب بھی ملے گا ، (مسند احمد:201/1:ضعیف) ابن ماجہ میں ہے ابوسنان رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں نے اپنے ایک بچے کو دفن کیا ابھی میں اس کی قبر میں سے نکلا نہ تھا کہ ابوطلحہ خولانی رحمہ اللہ نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے نکالا اور کہا سنو میں تمہیں ایک خوشخبری سناؤں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ ملک الموت سے دریافت فرماتا ہے تو نے میرے بندے کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور اس کا کلیجہے کا ٹکڑا چھین لیا بتا تو اس نے کیا کہا ؟ وہ کہتے ہیں اللہ تیری تعریف کی اور «اناللہ» پڑھا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس کے لیے جنت میں ایک گھر بناؤ اور اس کا نام بیت الحمد رکھ دو ۔ (سنن ترمذی:1021 ، قال الشیخ الألبانی:حسن) البقرة
156 البقرة
157 البقرة
158 صفا اور مروہ کا طواف سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے عروہ رحمہ اللہ دریافت کرتے ہیں کہ اس آیت سے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ طواف نہ کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا بھتیجے تم صحیح نہیں سمجھے اگر یہ بیان مد نظر ہوتا تو «ان لا یطوف بھما» ہوتا ۔ سنو آیت شریف کا شان نزول یہ ہے کہ مشلل ( ایک جگہ کا نام ہے ) کے پاس مناۃ بت تھا اسلام سے پہلے انصار اسے پوجتے تھے اور جو اس کے نام لبیک پکار لیتا وہ صفا مروہ کے طواف کرنے میں حرج سمجھتا تھا ، اب بعد از اسلام ان لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صفا مروہ کے طواف کے حرج کے بارے میں سوال کیا تو یہ آیت اتری کہ اس میں کوئی حرج نہیں لیکن اسی کے بعد حضور علیہ السلام نے صفا مروہ کا طواف کیا اس لیے مسنون ہو گیا اور کسی کو اس کے ترک کرنے کا جواز نہ رہا (صحیح بخاری:1643) ابوبکر بن عبدالرحمٰن رحمہ اللہ نے جب یہ روایت سنی تو وہ کہنے لگے کہ بیشک یہ علمی بات ہے میں نے تو اس سے پہلے سنی ہی نہ تھی بعض اہل علم فرمایا کرتے تھے کہ انصار نے کہا تھا کہ ہمیں بیت اللہ کے طواف کا حکم ہے صفا مروہ کے طواف کا نہیں اس پر یہ آیت اتری ممکن ہے کہ شان نزول دونوں ہی ہوں ، (صحیح بخاری:1643) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ان دونوں پہاڑیوں کے درمیان بہت سے بت تھے اور شیاطین رات بھر اس کے درمیان گھومتے رہتے تھے اسلام کے بعد لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہاں کے طواف کی بابت مسئلہ دریافت کیا جس پر یہ آیت اتری ، «اساف» بت صفا پر تھا اور «نائلہ» مروہ پر ، مشرک لوگ انہیں چھوتے اور چومتے تھے اسلام کے بعد لوگ اس سے الگ ہو گئے لیکن یہ آیت اتری جس سے یہاں کا طواف ثابت ہوا ، سیرت محمد بن اسحاق رحمہ اللہ میں ہے کہ «اساف» اور «نائلہ» دو مرد و عورت تھے ان بدکاروں نے کعبہ میں زنا کیا اللہ تعالیٰ نے انہیں پتھر بنا دیا ، قریش نے انہیں کعبہ کے باہر رکھ دیا تاکہ لوگوں کو عبرت ہو لیکن کچھ زمانہ کے بعد ان کی عبادت شروع ہو گئی اور صفا مروہ پر لا کر نصب کر دئے گئے اور ان کا طواف شروع ہو گیا ، صحیح مسلم کی ایک لمبی حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت اللہ شریف کا طواف کر چکے تو رکن کو چھو کر باب الصفا سے نکلے اور آیت تلاوت فرما رہے تھے پھر فرمایا میں بھی شروع کروں گا اس سے جس سے اللہ تعالیٰ نے شروع کیا ، ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم شروع کرو اس سے جس سے اللہ نے شروع کیا یعنی صفا سے چل کر مروہ جاؤ ۔ (صحیح مسلم:1218) سیدہ حبیبہ بنت تجزاۃ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم صفا مروہ کا طواف کرتے تھے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے آگے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پیچھے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم قدرے دوڑ لگا رہے تھے اور اس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تہمبند آپ کے ٹخنوں کے درمیان ادھر اھر ہو رہا تھا اور زبان سے فرماتے جاتے تھے لوگوں دوڑ کر چلو اللہ تعالیٰ نے تم پر سعی لکھ دی ہے (مسند احمد:421/6:صحیح) اسی کی ہم معنی ایک روایت اور بھی ہے ۔ یہ حدیث دلیل ہے ان لوگوں کی جو صفا مروہ کی سعی کو حج کا رکن جانتے ہیں جیسے حضرت امام شافعی رحمہ اللہ اور ان کے موافقین کا مذہب ہے ، حضرت امام احمد رحمہ اللہ سے بھی ایک روایت اسی طرح کی ہے حضرت امام مالک رحمہ اللہ کا مشہور مذہب بھی یہی ہے ، بعض اسے واجب تو کہتے ہیں لیکن حج کا رکن نہیں کہتے اگر عمداً یا سہواً یا کوئی شخص اسے چھوڑ دے تو ایک جانور ذبح کرنا پڑے گا ۔ حضرت امام احمد سے ایک روایت اسی طرح مروی ہے اور ایک اور جماعت بھی یہی کہتی ہے اور ایک قول میں یہ مستحب ہے ۔ حضرت امام ابوحنیفہ ، ثوری ، شعبی ، ابن سیرین رحمہ اللہ علیہم یہی کہتے ہیں ۔ سیدنا انس ابن عمر اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے یہی مروی ہے حضرت امام مالک رحمہ اللہ سے عتیبہ کی بھی روایت ہے ، ان کی دلیل آیت «فَمَن تَطَوَّعَ خَیْرًا فَہُوَ خَیْرٌ لَّہُ وَأَن تَصُومُوا خَیْرٌ لَّکُمْ إِن کُنتُمْ تَعْلَمُونَ» ( البقرہ : 184 ) ہے ، لیکن پہلا قول ہی زیادہ راجح ہے اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوہ صفا مروہ کا طواف کیا اور فرمایا احکام حج مجھ سے لو ، (صحیح مسلم:1297) پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس حج میں جو کچھ کیا وہ واجب ہو گیا اس کا کرنا ضروری ہے ، اگر کوئی کام کسی خاص دلیل سے وجواب سے ہٹ جائے تو اور بات ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ علاوہ ازیں حدیث میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم پرسعی لکھ دی یعنی فرض کر دی ۔ (مسند احمد:421/6:صحیح بالشواھد) غرض یہاں بیان ہو رہا ہے کہ صفا مروہ کا طواف بھی اللہ تعالیٰ کے ان شرعی احکام میں سے ہے جنہیں ابراہیم علیہ السلام کو بجا آوری حج کے لیے سکھائے تھے یہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ اس کی اصل ہاجرہ کا یہاں سات پھیرے کرنا ہے جبکہ ابراہیم علیہ السلام نے انہیں ان کے چھوٹے بچے سمیت یہاں چھوڑ کر چلے گئے تھے اور ان کے پاس کھانا پینا ختم ہو چکا تھا اور بچے کی جان پر آ بنی تھی تب ام اسمٰعیل علیہ السلام نہایت بے قراری ، بے بسی ، ڈر ، خوف اور اضطراب کے ساتھ ان پہاڑوں کے درمیان اپنا دامن پھیلائے اللہ سے بھیک مانگتی پھر رہی تھیں ۔ یہاں تک کہ آپ کا غم و ہم ، رنج و کرب ، تکلیف اور دکھ دور ہوا ۔ یہاں سے پھیرے کرنے والے حاجی کو بھی چاہیئے کہ نہایت ذلت و مسکنت خضوع و خشوع سے یہاں پھیرے کرے اور اپنی فقیری حاجت اور ذلت اللہ کے سامنے پیش کرے اور اپنی فقیری حاجت اور ذلت اللہ کے سامنے پیش کرے اور اپنے دل کی صلاحیت اور اپنے مال کی ہدایت اور اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرے اور نقائص اور عیبوں سے پاکیزگی اور نافرمانیوں سے نفرت چاہے اور ثابت قدمی نیکی فلاح اور بہبودی کی دعا مانگے اور اللہ تعالیٰ سے عرض کرے کہ گناہوں اور برائیوں کی تنگی کی راہ سے ہٹا کر کمال و غفران اور نیکی کی توفیق بخشے جیسے کہ ہاجرہ کے حال کو اس مالک نے ادھر سے ادھر کر دیا ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ جو شخص اپنی خوشی نیکی میں زیادتی کرے یعنی بجائے سات پھیروں کے آٹھ نو کرے نفلی حج و عمرے میں بھی صفا و مروہ کا طواف کرے اور بعض نے اسے عام رکھا ہے یعنی ہر نیکی میں زیادتی کرے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» پھر فرمایا اللہ تعالیٰ قدر دان اور علم والا ہے ، یعنی تھوڑے سے کام پر بڑا ثواب دیتا ہے اور جزا کی صحیح مقدار کو جانتا ہے نہ تو وہ کسی کے ثواب کو کم کرے نہ کسی پر ذرہ برابر ظلم کرے ، ہاں نیکیوں کا ثواب بڑھا کر عطا فرماتا ہے اور اپنے پاس عظیم عنایت فرماتا ہے ۔ (4-النساء:40) «فالحمد والشکر للہ» البقرة
159 حق بات کا چھپانا جرم عظیم ہے اس میں زبردست دھمکی ہے ان لوگوں کو جو اللہ تعالیٰ کی باتیں یعنی شرعی مسائل چھپا لیا کرتے ہیں ، اہل کتاب نے نعت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو چھپا لیا تھا جس پر ارشاد ہوتا ہے کہ حق کے چھپانے والے ملعون لوگ ہیں ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:170/1) جس طرح اس عالم کے لیے جو لوگوں میں اللہ کی باتیں پھیلائے ہر چیز استغفار کرتی ہے یہاں تک کہ پانی مچھلیاں اور ہوا کے پرند بھی ۔ (سنن ابوداود:3641 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) اسی طرح ان لوگوں پر جو حق کی بات کو جانتے ہوئے گونگے بہرے بن جاتے ہیں ہر چیز لعنت بھیجتی ہے ، صحیح حدیث میں ہے حضور علیہ السلام نے فرمایا جس شخص نے کسی شرعی امر کی نسبت سوال کیا جائے اور وہ اسے چھپا لے اسے قیامت کے دن آگ کی لگام پہنائی جائے گی ، (سنن ابوداود:3658 ، قال الشیخ الألبانی:حسن صحیح) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اگر یہ آیت نہ ہوتی تو میں ایک حدیث بھی بیان نہ کرتا ۔ (صحیح بخاری:118) سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک جنازے میں تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قبر میں کافر کی پیشانی پر اس زور سے ہتھوڑا مارا جاتا ہے کہ جاندار اس کا دھماکہ سنتے ہیں سوائے جن و انس کے ۔ پھر وہ سب اس پر لعنت بھیجتے ہیں یہی معنی ہیں کہ ان پر اللہ کی اور تمام لعنت کرنے والوں کی لعنت ہے یعنی تمام جانداروں کی ۔ حضرت عطاء رحمہ اللہ فرماتے ہیں آیت «إِنَّ الَّذِینَ یَکْتُمُونَ مَا أَنزَلْنَا مِنَ الْبَیِّنَاتِ وَالْہُدَیٰ مِن بَعْدِ مَا بَیَّنَّاہُ لِلنَّاسِ فِی الْکِتَابِ أُولٰئِکَ یَلْعَنُہُمُ اللہُ وَیَلْعَنُہُمُ اللَّاعِنُونَ» ( البقرہ : 159 ) سے مراد تمام جانور اور کل جن و انس ہے ۔ مجاھد رحمہ اللہ فرماتے ہیں جب خشک سالی ہوتی ہے بارش نہیں برستی تو چوپائے جانور کہتے ہیں یہ بنی آدم کے گنہگاروں کے گناہ کی شومی قسمت سے ہے اللہ تعالیٰ نبی آدم کے گنہگاروں پر لعنت نازل کرے ، (تفسیر ابن ابی حاتم:175/1) بعض مفسرین کہتے اس سے مراد فرشتے اور مومن لوگ ہیں ، حدیث میں ہے عالم کے لیے ہر چیز استغفار کرتی ہے یہاں تک کہ سمندر کی مچھلیاں بھی اس آیت میں ہے کہ علم کے چھپانے والوں کو اللہ لعنت کرتا ہے اور فرشتے اور تمام لوگ اور کل لعنت کرنے والے یعنی ہر با زبان اور ہر بے زبان چاہے زبان سے کہے چاہے قرائن سے اور قیامت کے دن بھی سب چیزیں ان پر لعنت کریں گی «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ پھر ان میں سے ان لوگوں کو الگ کر لیا گیا جو اپنے اس فعل سے باز آ جائیں اور اپنے اعمال کی پوری اصلاح کر لیں اور جو چھپایا تھا اسے ظاہر کریں ان لوگوں کی توبہ وہ اللہ تواب الرحیم قبول فرما لیتا ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص کفر و بدعت کی طرف لوگوں کو بلانے والا ہو وہ بھی جب سچے دل سے رجوع کر لے تو اس کی توبہ بھی قبول ہوتی ہے ۔ بعض روایتوں سے پتہ چلتا ہے کہ اگلی امتوں میں ایسے زبردست بدکاروں کی توبہ قبول نہیں ہوتی تھی لیکن نبی التوبہ اور نبی الرحمہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے ساتھ یہ مہربانی مخصوص ہے ۔ اس کے بعد ان لوگوں کا بیان ہو رہا ہے جو کفر کریں توبہ نصیب نہ ہو اور کفر کی حالت میں ہی مر جائیں ان پر اللہ تعالیٰ ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے ، یہ لعنت ان پر چپک جاتی ہے اور قیامت تک ساتھ ہی رہے گی اور دوزخ کی آگ میں لے جائے گی اور عذاب بھی ہمیشہ ہی رہے گا نہ تو عذاب میں کبھی کمی ہو گی نہ کبھی موقوف ہو گی بلکہ ہمیشہ دوام کے ساتھ سخت عذاب میں رہیں گے «نعوذباللہ من عذاب اللہ» ۔ حضرت ابوالعالیہ اور قتادہ رحمۃ اللہ علیہما فرماتے ہیں ، قیامت کے دن کافر کو ٹھہرایا جائے گا پھر اس پر اللہ تعالیٰ لعنت کرے گا پھر فرشتے پھر سب لوگ کافروں پر لعنت بھیجنے کے مسئلہ میں کسی کا اختلاف نہیں ، سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور آپ رضی اللہ عنہ کے بعد کے ائمہ کرام سب کے سب قنوت وغیرہ میں کفار پر لعنت بھیجتے تھے ، لیکن کسی معین کافر پر لعنت بھجنے کے بارے میں علماء کرام کا ایک گروہ کہتا ہے کہ یہ جائز نہیں اس لیے کہ اس کے خاتمہ کا کسی کو علم نہیں اور اس آیت کی یہ قید کہ مرتے دم تک وہ کافر رہے معین کافر دلیل ہے کسی پر لعنت نہ بھیجنے کی ، ایک دوسری جماعت اس کی بھی قائل ہے جیسے فقیہ ابوبکر بن عربی مالکی رحمہ اللہ ، لیکن ان کی دلیل ایک ضعیف حدیث ہے ۔ بعض نے اس حدیث سے یہ بھی دلیل لی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص باربار نشہ کی حالت میں لایا گیا اور اس پر باربار حد لگائی گئی تو ایک شخص نے کہا اس پر اللہ کی لعنت ہو بار بار شراب پیتا ہے یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس پر لعنت نہ بھیجو یہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دوست رکھتا ہے ، (صحیح بخاری:6780) اس سے ثابت ہوا کہ جو شخص اللہ رسول سے دوستی نہ رکھے اس پر لعنت بھیجنی جائز ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ البقرة
160 البقرة
161 البقرة
162 البقرة
163 اکیلا حکمران یعنی حکمرانی میں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں نہ اس جیسا کوئی ہے وہ واحد اور احد ہے وہ فرد اور صمد ہے اس کے سوا عبادت کے لائق کوئی نہیں ، وہ رحمٰن اور رحیم ہے ، سورۃ فاتحہ کے شروع میں ان دونوں ناموں کی پوری تفسیر گزر چکی ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ، اسم اعظم ان دو آیتوں میں ہے ، ایک یہ آیت «وَإِلٰہُکُمْ إِلٰہٌ وَاحِدٌ لَّا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیمُ» ( البقرہ : 163) دوسری آیت «الم اللہُ لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ الْحَیٰ الْقَیٰومُ» ( 3-آل عمران : 1 ، 2 )(سنن ابوداود:1496 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) اس کے بعد اس توحید کی دلیل بیان ہو رہی ہے اسے بھی توجہ سے سنئیے فرماتے ہیں ۔ البقرة
164 ٹھوس دلائل مطلب یہ ہے کہ اس اللہ کی فرماں روائی اور اس کی توحید کی دلیل ایک تو یہ آسمان ہے جس کی بلندی لطافت کشادگی جس کے ٹھہرے ہوئے اور چلنے پھرنے والے روشن ستارے تم دیکھ رہے ہو ، پھر زمین کی پیدائش جو کثیف چیز ہے جو تمہارے قدموں تلے بچھی ہوئی ہے ، جس میں بلند بلند چوٹیوں کے سر بہ فلک پہاڑ ہیں جس میں موجیں مارنے والے بے پایاں سمندر ہیں جس میں انواع واقسام کے خوش رنگ بیل بوٹے ہیں جس میں طرح طرح کی پیداوار ہوتی ہے جس میں تم رہتے سہتے ہو اور اپنی مرضی کے مطابق آرام دہ مکانات بنا کر بستے ہو اور جس سے سینکڑوں طرح کا نفع اٹھاتے ہو ، پھر رات دن کا آنا جانا رات گئی دن آ گیا ، دن گیا رات آ گئی ۔ نہ وہ اس پر سبقت کرے نہ یہ اس پر ۔ ہر ایک اپنے صحیح انداز سے آئے اور جائے کبھی کے دن بڑے کبھی کی راتیں ، کبھی دن کا کچھ حصہ رات میں جائے کبھی رات کا کچھ حصہ دن میں آ جائے ، پھر کشتیوں کو دیکھو جو خود تمہیں اور تمہارے مال و اسباب اور تجارتی چیزوں کو لے کر سمندر میں ادھر سے ادھر جاتی آتی رہتی ہیں ، جن کے ذریعہ اس ملک والے اس ملک والوں سے اور اس ملک والے اس ملک والوں سے رابطہٰ اور لین دین کر سکتے ہیں ، یہاں کی چیزیں وہاں اور وہاں کی یہاں پہنچ سکتی ہیں ۔ پھر اللہ تعالیٰ کا اپنی رحمت کاملہ سے بارش برسانا اور اس سے مردہ زمین کو زندہ کر دینا ، اس سے اناج اور کھیتیاں پیدا کرنا ، چاروں طرف ریل پیل کر دینا ، زمین میں مختلف قسم کے چھوٹے بڑے کار آمد جانوروں کو پیدا کرنا ان سب کی حفاظت کرنا ، انہیں روزیاں پہنچانا ان کے لیے سونے بیٹھنے چرنے چگنے کی جگہ تیار کرنا ، ہواؤں کو پورب پچھم چلانا ، کبھی ٹھنڈی کبھی گرم کبھی کم کبھی زیادہ ، بادلوں کو آسمان و زمین کے درمیان مسخر کرنا ، انہیں ایک طرف سے دوسری کی طرف لے جانا ، ضرورت کی جگہ برسانا وغیرہ یہ سب اللہ کی قدرت کی نشانیاں ہیں جن سے عقلمند اپنے اللہ کے وجود کو اور اس کی وحدانیت کو پالیتے ہیں ، جیسے اور جگہ فرمایا کہ آسمان و زمین کی پیدائش اور رات دن کے آنے جانے میں عقل مندوں کے لیے نشانیاں ہیں ، جو اٹھتے بیٹھتے لیٹتے اللہ تعالیٰ کا نام لیا کرتے ہیں اور زمین و آسمان کی پیدائش میں غور فکر سے کام لیتے ہیں اور کہتے ہیں اے ہمارے رب تو نے انہیں بے کار نہیں بنایا تیری ذات پاک ہے تو ہمیں جہنم کے عذاب سے بچا ۔ (3-آل عمران:190-191) سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ قریشی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ صفا پہاڑ کو سونے کا بنا دے ہم اس سے گھوڑے اور ہتھیار وغیرہ خریدیں اور تیرا ساتھ دیں اور ایمان بھی لائیں آپ نے فرمایا پختہ وعدے کرتے ہو ؟ انہوں نے کہا ہاں پختہ وعدہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی جبرائیل علیہ السلام آئے اور فرمایا تمہاری دعا تو قبول ہے لیکن اگر یہ لوگ پھر بھی ایمان نہ لائے تو ان پر اللہ کا وہ عذاب آئے گا جو آج سے پہلے کسی پر نہ آیا ہو ، آپ کانپ اٹھے اور عرض کرنے لگے نہیں اللہ تو انہیں یونہی رہنے دے میں انہیں تیری طرف بلاتا رہوں گا کیا عجب آج نہیں کل اور کل نہیں تو پرسوں ان میں سے کوئی نہ کوئی تیری طرف جھک جائے اس پر یہ آیت اتری کہ اگر انہیں قدرت کی نشانیاں دیکھنی ہیں تو کیا یہ نشانیاں کچھ کم ہیں ؟ ایک اور شان نزول بھی مروی ہے کہ جب آیت «وَإِلٰہُکُمْ إِلٰہٌ وَاحِدٌ لَّا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیمُ» ( البقرہ : 163 ) اتری تو مشرکین کہنے لگے ایک اللہ تمام جہاں کا بندوبست کیسے کرے گا ؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ وہ اللہ اتنی بڑی قدرت والا ہے ، بعض روایتوں میں ہے اللہ کا ایک ہونا سن کر انہوں نے دلیل طلب کی جس پر یہ آیت نازل ہوئی اور قدرت کے نشان ہائے ان پر ظاہر کئے گئے ۔ البقرة
165 محبت الہٰ اپنی پسند ہے؟ اس آیت میں مشرکین کا دنیوی اور اخروی حال بیان ہو رہا ہے ، یہ اللہ کا شریک مقرر کرتے ہیں اس جیسا اوروں کو ٹھہراتے ہیں اور پھر ان کی محبت اپنے دل میں ایسی ہی جماتے ہیں جیسی اللہ کی ہونی چاہیئے حالانکہ وہ معبود برحق صرف ایک ہی ہے ، وہ شریک اور حصہ داری سے پاک ہے بخاری و مسلم میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں میں نے پوچھا یا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ سب سے بڑا گناہ کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کے ساتھ شرک کرنا حالانکہ پیدا اسی اکیلے نے کیا ہے ۔ (صحیح بخاری:7520) پھر فرمایا ایماندار اللہ تعالیٰ کی محبت میں بہت سخت ہوتے ہیں ان کے دل عظمت الٰہی اور توحید ربانی سے معمور ہوتے ہیں ، وہ اللہ کے سوا دوسرے سے ایسی محبت نہیں کرتے کسی اور سے التجا کرتے ہیں نہ دوسروں کی طرف جھکتے ہیں نہ اس کی پاک ذات کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتے ہیں ۔ پھر ان مشرکین کو جو اپنی جانوں پر شرک کے بوجھ کا ظلم کرتے ہیں انہیں اس عذاب کی خبر پہنچاتا ہے کہ اگر یہ لوگ اسے دیکھ لیں تو یقین ہو جائے کہ قدرتوں والا صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے ، تمام چیزیں اسی کے ماتحت اور زیر فرمان ہیں اور اس کا عذاب بڑا بھاری ہے ۔ جیسے اور جگہ ہے کہ «فَیَوْمَئِذٍ لَّا یُعَذِّبُ عَذَابَہُ أَحَدٌ وَلَا یُوثِقُ وَثَاقَہُ أَحَدٌ» ( 89-الفجر : 25 ، 26 ) اس دن نہ تو اس کے عذاب جیسا کوئی عذاب کر سکتا ہے نہ اس کی پکڑ جیسی کسی کی پکڑ ہو سکتی ، دوسرا مطلب یہ بھی ہے کہ اگر انہیں اس منظر کا علم ہوتا تو یہ اپنی گمراہی اور شرک و کفر پر ہرگز نہ اڑتے ۔ اس دن ان لوگوں نے جن جن کو اپنا پیشوا بنا رکھا تھا وہ سب ان سے الگ ہو جائیں گے ، فرشتے کہیں گے اللہ ہم ان سے بیزار ہیں یہ ہماری عبادت نہیں کرتے تھے اللہ تری ذات پاک ہے تو ہی ہمارا ولی ہے ، یہ لوگ تو جنات کی عبادت کرتے ہیں انہیں پر ایمان رکھتے تھے ، اسی طرح جنات بھی ان سے بیزاری کا اعلان کریں گے اور صاف صاف ان کے دشمن ہو جائیں گے اور عبادت سے انکار کریں گے اور جگہ قرآن میں ہے کہ یہ لوگ جن جن کی عبادت کرتے تھے وہ سب کے سب قیامت کے دن آیت «سَیَکْفُرُوْنَ بِعِبَادَتِہِمْ وَیَکُوْنُوْنَ عَلَیْہِمْ ضِدًّا» ( 19 ۔ مریم : 82 ) ان کی عبادت سے انکار کریں گے اور ان کے دشمن بن جائیں گے ، خلیل اللہ علیہ السلام کا فرمان ہے آیت «اِنَّمَا اتَّخَذْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَوْثَانًا مَّوَدَّۃَ بَیْنِکُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدٰنْیَا» ( 29 ۔ العنکبوت : 25 ) تم نے اللہ کے سوا بتوں کی محبت دل میں بٹھا کر ان کی پوجا شروع کر دی ہے قیامت کے دن وہ تمہاری عبادت کا انکار کریں گے اور آپس میں ایک دوسرے پر لعنت بھیجیں گے اور تمہارا ٹھکانہ جہنم ہو گا اور تمہارا مددگار کوئی نہ ہو گا ۔ اسی طرح اور جگہ ہےآیت «وَلَوْ تَرٰٓی اِذِ الظّٰلِمُوْنَ مَوْقُوْفُوْنَ عِنْدَ رَبِّہِمْ ښ یَرْجِــعُ بَعْضُہُمْ اِلٰی بَعْضِ الْقَوْلَ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِلَّذِیْنَ اسْـتَکْبَرُوْا لَوْلَآ اَنْتُمْ لَکُنَّا مُؤْمِنِیْنَ قَالَ الَّذِینَ اسْتَکْبَرُوا لِلَّذِینَ اسْتُضْعِفُوا أَنَحْنُ صَدَدْنَاکُمْ عَنِ الْہُدَیٰ بَعْدَ إِذْ جَاءَکُم بَلْ کُنتُم مٰجْرِمِینَ وَقَالَ الَّذِینَ اسْتُضْعِفُوا لِلَّذِینَ اسْتَکْبَرُوا بَلْ مَکْرُ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ إِذْ تَأْمُرُونَنَا أَن نَّکْفُرَ بِ اللہِ وَنَجْعَلَ لَہُ أَندَادًا وَأَسَرٰوا النَّدَامَۃَ لَمَّا رَأَوُا الْعَذَابَ وَجَعَلْنَا الْأَغْلَالَ فِی أَعْنَاقِ الَّذِینَ کَفَرُوا ہَلْ یُجْزَوْنَ إِلَّا مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ وَمَا أَرْسَلْنَا فِی قَرْیَۃٍ مِّن نَّذِیرٍ إِلَّا قَالَ مُتْرَفُوہَا إِنَّا بِمَا أُرْسِلْتُم بِہِ کَافِرُونَ» ( 34 ۔ سبأ : 33 ، 31 ) یعنی یہ ظالم رب کے سامنے کھڑے ہوئے ہوں گے اور اپنے پیشواؤں سے کہہ رہے ہوں گے کہ اگر تم نہ ہوتے تو ہم ایماندار بن جاتے ، وہ جواب دیں گے کیا ہم نے تمہیں اللہ پرستی سے روکا ؟ حقیقت یہ ہے کہ تم خود مجرم تھے ، وہ کہیں گے تمہاری دن رات کی مکاریاں تمہارے کفرانہ احکام تمہاری شرف کی تعلیم نے ہمیں پھانس لیا ، اب سب دل سے نا دم ہوں گے اور ان کی گردنوں میں ان کے برے اعمال کے طوق ہوں گے اور جگہ ہے کہ اس دن شیطان بھی کہے گا آیت «وَقَالَ الشَّیْطَانُ لَمَّا قُضِیَ الْأَمْرُ إِنَّ اللہَ وَعَدَکُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدتٰکُمْ فَأَخْلَفْتُکُمْ وَمَا کَانَ لِیَ عَلَیْکُم مِّن سُلْطَانٍ إِلَّا أَن دَعَوْتُکُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِی فَلَا تَلُومُونِی وَلُومُوا أَنفُسَکُم مَّا أَنَا بِمُصْرِخِکُمْ وَمَا أَنتُم بِمُصْرِخِیَّ إِنِّی کَفَرْتُ بِمَا أَشْرَکْتُمُونِ مِن قَبْلُ إِنَّ الظَّالِمِینَ لَہُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ» ( 14 ۔ ابراہیم : 22 ) یعنی اللہ کا وعدہ تو سچا تھا اور میں تمہیں جو سبز باغ دکھایا کرتا تھا وہ محض دھوکہ تھا لیکن تم پر میرا کوئی زور تو نہیں تھا میں نے تمہیں صرف کہا اور تم نے منظور کر لیا اب مجھے ملامت کرنے سے کیا فائدہ ؟ اب اپنی جانوں کو لعنت ملامت کرو ۔ نہ میں تمہاری مدد کر سکتا ہوں نہ تم میری ، میرا تمہارے اگلے شرک سے کوئی واسطہ نہیں جان لو کہ ظالموں کے لیے درناک عذاب ہے پھر فرمایا کہ وہ عذاب دیکھ لیں گے اور اور تمام اسباب منقطع ہو جائیں گے نہ کوئی بھاگنے کی جگہ رہے گی نہ چھٹکارے کی کوئی صورت نظر آئے گی دوستیاں کٹ جائیں گی رشتے ٹوٹ جائیں گے ۔ اور بلادلیل باتیں ماننے والے بے وجہ اعتقاد رکھنے والے پوجا پاٹ اور اطاعت کرنے والے جب اپنے پیشواؤں کو اس طرح بری الذمہ ہوتے ہوئے دیکھیں گے تو نہایت حسرت ویاس سے کہیں گے کہ اگر اب ہم دنیا میں لوٹ جائیں تو ہم بھی ان سے ایسے ہی بیزار ہو جائیں جیسے یہ ہم سے ہوئے نہ ان کی طرف التفات کریں نہ ان کی باتیں مانیں نہ انہیں شریک اللہ سمجھیں بلکہ اللہ واحد کی خالص عبادت کریں ۔ حالانکہ اگر درحقیقت یہ لوٹائے بھی جائیں تو وہی کریں گے جو اس سے پہلے کرتے تھے جیسے فرمایا آیت «وَلَوْ رُدٰوْا لَعَادُوْا لِمَا نُہُوْا عَنْہُ وَاِنَّہُمْ لَکٰذِبُوْنَ» ( 6 ۔ الانعام : 28 ) اسی لیے یہاں فرمایا اللہ تعالیٰ ان کے کرتوت اسی طرح دکھائے گا ان پر حسرت و افسوس ہے یعنی اعمال نیک جو تھے وہ بھی ضائع ہو گئے جیسے اور جگہ ہے آیت «وَقَدِمْنَآ اِلٰی مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَـعَلْنٰہُ ہَبَاءً مَّنْثُوْرًا» ( 25 ۔ الفرقان : 23 ) اور جگہ ہے آیت «اَعْمَالُہُمْ کَرَمَادِ اشْـتَدَّتْ بِہِ الرِّیْحُ فِیْ یَوْمٍ عَاصِفٍ» ( 14 ۔ ابراہیم : 18 ) اور جگہ ہے آیت «وَالَّذِینَ کَفَرُوا أَعْمَالُہُمْ کَسَرَابٍ بِقِیعَۃٍ یَحْسَبُہُ الظَّمْآنُ مَاءً حَتَّیٰ إِذَا جَاءَہُ لَمْ یَجِدْہُ شَیْئًا وَوَجَدَ اللہَ عِندَہُ فَوَفَّاہُ حِسَابَہُ وَ اللہُ سَرِیعُ الْحِسَابِ» ( 24 ۔ النور : 39 ) یعنی ان کے اعمال برباد ہیں ان کے اعمال کی مثال راکھ کی طرح ہے جسے تند ہوائیں اڑا دیں ، ان کے اعمال ریت کی طرح ہیں جو دور سے پانی دکھائی دیتا ہے مگر پاس جاؤ توریت کا تودا ہوتا ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ یہ لوگ آگ سے نکلنے والے نہیں ۔ البقرة
166 البقرة
167 البقرة
168 روزی دینے والا کون؟ اوپر چونکہ توحید کا بیان ہوا تھا اس لیے یہاں یہ بیان ہو رہا ہے کہ تمام مخلوق کا روزی رساں بھی وہی ہے ، فرماتا ہے کہ میرا یہ احسان بھی نہ بھولو کہ میں نے تم پر پاکیزہ چیزیں حلال کیں جو تمہیں لذیذ اور مرغوب ہیں جو نہ جسم کو ضرر پہنچائیں نہ صحت کو نہ عقل و ہوش کو ضرر دیں ، میں تمہیں روکتا ہوں کہ شیطان کی راہ پر نہ چلو جس طرح اور لوگوں نے اس کی چال چل کر بعض حلال چیزیں اپنے اوپر حرام کر لیں ، صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ پروردگار عالم فرماتا ہے میں نے جو مال اپنے بندوں کو دیا ہے اسے ان کے لیے حلال کر دیا ہے میں نے اپنے بندوں کو موحد پیدا کیا مگر شیطان نے اس دین حنیف سے انہیں ہٹا دیا اور میری حلال کردہ چیزوں کو ان پر حرام کر دیا ۔ (صحیح مسلم:2865) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جس وقت اس آیت کی تلاوت ہوئی تو سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر کہا یا رسول اللہ !صلی اللہ علیہ وسلم میرے لیے دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ میری دعاؤں کو قبول فرمایا کرے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے سعد رضی اللہ عنہ پاک چیزیں اور حلال لقمہ کھاتے رہو ۔ اللہ تعالیٰ تمہاری دعائیں قبول فرماتا رہے گا قسم ہے اس اللہ کی جس کے ہاتھ میں محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے حرام کا لقمہ جو انسان اپنے پیٹ میں ڈالتا ہے اس کی نحوست کی وجہ سے چالیس دن تک اس کی عبادت قبول نہیں ہوتی جو گوشت پوست حرام سے پلا وہ جہنمی ہے ۔ (سلسلۃ احادیث ضعیفہ البانی:1812 ، ضعیف) پھر فرمایا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے ، جیسے اور جگہ فرمایا کہ «إِنَّ الشَّیْطَانَ لَکُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوہُ عَدُوًّا إِنَّمَا یَدْعُو حِزْبَہُ لِیَکُونُوا مِنْ أَصْحَابِ السَّعِیرِ» ( 35-فاطر : 6 ) شیطان تمہارا دشمن ہے تم بھی اسے دشمن سمجھو اس کی اور اس کے دوستوں کی تو یہ عین چاہت ہے کہ لوگوں کو عذاب میں جھونکیں ۔ (35-فاطر:6) اور جگہ فرمایا آیت «اَفَتَتَّخِذُوْنَہٗ وَذُرِّیَّتَہٗٓ اَوْلِیَاءَ مِنْ دُوْنِیْ وَہُمْ لَکُمْ عَدُوٌّ بِئْسَ لِلظّٰلِمِیْنَ بَدَلًا» ( 18 ۔ الکہف : 50 ) کیا تم اسے اور اس کی اولاد کو اپنا دوست سمجھتے ہو ؟ حالانکہ حقیقتاً وہ تمہارا دشمن ہے ظالموں کے لیے برا بدلہ ہے ۔ آیت «یَا أَیٰہَا النَّاسُ کُلُوا مِمَّا فِی الْأَرْضِ حَلَالًا طَیِّبًا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّیْطَانِ» ( البقرہ : 168 ) سے مراد اللہ تعالیٰ کی ہر معصیت ہے ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:221/1) جس میں شیطان کا بہکاوا شامل ہوتا ہے شعبی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں ایک شخص نے نذر مانی کہ وہ اپنے لڑکے کو ذبح کرے گا حضرت مسروق رحمہ اللہ کے پاس جب یہ واقعہ پہنچا تو آپ رحمہ اللہ نے فتویٰ دیا کہ وہ شخص ایک مینڈھا ذبح کر دے ورنہ نذر شیطان کے نقش قدم سے ہے ۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ایک دن بکرے کا پایا نمک لگا کر کھا رہے تھے ایک شخص جو آپ کے پاس بیٹھا ہوا تھا وہ ہٹ کر دور جا بیٹھا ، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کھاؤ اس نے کہا میں نہیں کھاؤنگا آپ رضی اللہ عنہ نے پوچھا کیا روزے سے ہو ؟ کہا نہیں میں تو اسے اپنے اوپر حرام کر چکا ہوں آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ شیطان کی راہ چلنا ہے اپنی قسم کا کفارہ دو اور کھا لو ۔ ابورافع رحمہ اللہ کہتے ہیں ایک دن میں اپنی بیوی پر ناراض ہوا تو وہ کہنے لگی کہ میں ایک دن یہودیہ ہوں ایک دن نصرانیہ ہوں اور میرے تمام غلام آزاد ہیں اگر تو اپنی بیوی کو طلاق نہ دے ، اب میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس مسئلہ پوچھنے آیا اس صورت میں کیا کیا جائے ؟ تو آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا شیطان کے قدموں کی پیروی ہے ، پھر میں زینب بنت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا اور اس وقت مدینہ بھر میں ان سے زیادہ فقیہہ عورت کوئی نہ تھی میں نے ان سے بھی یہی مسئلہ پوچھا یہاں بھی یہی جواب ملا ، عاصم اور ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بھی یہی فتویٰ ، ابن عباس رضی اللہ عنہما کا فتویٰ ہے کہ جو قسم غصہ کی حالت کھائی جائے اور جو نذر ایسی حالت میں مانی جائے وہ شیطانی قدم کی تابعداری ہے اس کا کفارہ قسم کے کفارے کے برابر دیدے ۔ پھر فرمایا کہ شیطان تمہیں برے کاموں اور اس سے بھی بڑھ کر زناکاری اور اس سے بھی بڑھ کر اللہ سے ان باتوں کو جوڑ لینے کو کہتا ہے جن کا تمہیں علم نہ ہو ان باتوں کو اللہ سے متعلق کرتا ہے جن کا اسے علم بھی نہیں ہوتا ، لہٰذا ہر کافر اور بدعتی ان میں داخل ہے جو برائی کا حکم کرے اور بدی کی طرف رغبت دلائے ۔ البقرة
169 البقرة
170 گمراہی اور جہالت کیا ہے؟ یعنی ان کافروں اور مشرکوں سے جب کہا جاتا ہے کہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی پیروی کرو اور اپنی ضلالت وجہالت کو چھوڑ دو تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو اپنے بڑوں کی راہ لگے ہوئے ہیں جن چیزوں کی وہ پوجا پاٹ کرتے تھے ہم بھی کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے جس کے جواب میں قرآن کہتا ہے کہ وہ تو فہم و ہدایت سے غافل تھے ۔ یہ آیت یہودیوں کے بارے میں اتری ہے ۔ پھر ان کی مثال دی کہ جس طرح چرنے چگنے والے جانور اپنے چرواہے کی کوئی بات صحیح طور سے سمجھ نہیں سکتے صرف آواز کانوں میں پڑتی ہے اور کلام کی بھلائی برائی سے بے خبر رہتے ہیں اسی طرح یہ لوگ بھی ہیں ۔ یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ جن جن کو یہ اللہ کے سوا پوجتے ہیں اور ان سے اپنی حاجتیں اور مرادیں مانگتے ہیں وہ نہ سنتے ہیں نہ جانتے ہیں نہ ان میں زندگی ہے نہ انہیں کچھ احساس ہے ۔ کافروں کی یہ جماعت حق کی باتوں کے سننے سے بہری ہے حق کہنے سے بے زبان ہے حق کے راہ چلنے سے اندھی ہے عقل وفہم سے دور ہے ، جیسے اور جگہ ہے آیت «وَالَّذِینَ کَذَّبُوا بِآیَاتِنَا صُمٌّ وَبُکْمٌ فِی الظٰلُمَاتِ» ( 6-الأنعام : 39 ) یعنی ہماری باتوں کو جھٹلانے والے بہرے ، گونگے اور اندھیرے میں ہیں جسے اللہ چاہے گمراہ کرے اور جسے چاہے سیدھی راہ لگا دے ۔ البقرة
171 البقرة
172 حلال اور حرام کیا ہے؟ اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو حکم دیتا ہے کہ تم پاک صاف اور حلال طیب چیزیں کھایا کرو اور میری شکر گزاری کرو ، لقمہ حلال دعا عبادت کی قبولیت کا سبب ہے اور لقمہ حرام عدم قبولیت کا ، مسند احمد میں حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں لوگو اللہ تعالیٰ پاک ہے وہ پاک چیز کو قبول فرماتا ہے اس نے رسولوں کو اور ایمان والوں کو حکم دیا کہ وہ پاک چیزیں کھائیں اور نیک اعمال کریں فرمان ہے آیت «یٰٓاَیٰہَا الرٰسُلُ کُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا» ( 23 ۔ المؤمنون : 51 ) اور فرمایا آیت «یٰٓاَیٰہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰکُمْ وَاشْکُرُوْا لِلہِ اِنْ کُنْتُمْ اِیَّاہُ تَعْبُدُوْنَ» ( 2 ۔ البقرہ : 172 ) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک شخص لمبا سفر کرتا ہے وہ پراگندہ بالوں والا غبار آلود ہوتا ہے اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر دعا کرتا ہے اور گڑگڑا کر اللہ تعالیٰ کو پکارتا ہے لیکن اس کا کھانا پینا لباس اور غذا سب حرام کے ہیں اس لیے اس کی اس وقت کی ایسی دعا بھی قبول نہیں ہوتی ۔ (صحیح مسلم:1015) حلال چیزوں کا ذکر کرنے کے بعد حرام چیزوں کا بیان ہو رہا ہے کہ تم پر مردار جانور جو اپنی موت آپ مر گیا ہو جسے شرعی طور پر ذبح نہ کیا گیا ہو حرام ہے خواہ کسی نے اس کا گلا گھونٹ دیا ہو یا لکڑی اور لٹھ لگنے سے مر گیا ہو کہیں سے گر پڑا ہو اور مر گیا ہو یا دوسرے جانوروں نے اپنے سینگ سے اسے ہلاک کر دیا ہو یا درندوں نے اسے مار ڈالا ہو یہ سب میتہ میں داخل ہیں اور حرام ہیں لیکن اس میں سے پانی کے جانور مخصوص ہیں وہ اگرچہ خودبخود مر جائیں تو بھی حلال ہیں ۔ آیت «اُحِلَّ لَکُمْ صَیْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُہٗ مَتَاعًا لَّکُمْ وَلِلسَّیَّارَۃِ» ( 5 ۔ المائدہ : 96 ) اس کا پورا بیان اس آیت کی تفسیر میں آئے گا ۔ ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ عنبر نامی جانور کا مرا ہوا ملنا اور صحابہ کا اسے کھانا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر ہونا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسے جائز قرار دینا یہ سب باتیں حدیث میں ہیں ۔ (صحیح بخاری:4360) ایک اور حدیث میں ہے کہ سمندر کا پانی پاک ہے اور اس کا مردہ حلال ہے ، (سنن ابوداود:83 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) ایک اور حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں دو مردے اور دو خون ہم پر حلال ہیں مچھلی اور ٹڈی کلیجی اور تلی ، (سنن ابن ماجہ:3314 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) سورۃ المائدہ میں اس کا بیان تفصیل وار آئے گا ۔ ان شاءاللہ ۔ مسئلہ مردار جانور کا دودھ اور اس کے انڈے جو اس میں ہوں نجس ہیں امام شافعی رحمہ اللہ کا یہی مذہب ہے اس لیے کہ وہ بھی میت کا ایک جزو ہے ، امام مالک رحمتہ اللہ سے ایک روایت میں ہے کہ تو وہ پاک لیکن میت میں شامل کی وجہ سے جنس ہو جاتا ہے ، اسی طرح مردار کی کھیس ( کھیری ) بھی مشہور مذہب میں ان بزرگوں کے نزدیک ناپاک ہے گو اس میں اختلاف بھی ہے ، صحابہ رضی اللہ عنہم کا مجوسیوں کا پنیر کھانا گو بطور اعتراض ان پر وارد ہو سکتا ہے مگر اس کا جواب قرطبی رحمہ اللہ نے یہ دیا ہے کہ دودھ بہت ہی کم ہوتا ہے اور کوئی بہنے والی ایسی تھوڑی سی چیز اگر کسی مقدار میں زیادہ بہنے والی میں بڑ جائے تو کوئی حرج نہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے گھی اور پنیر اور گورخر کے بارے میں سوال ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حلال وہ ہے جسے اللہ نے اپنی کتاب میں حلال بتایا اور حرام وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حرام قرار دیا اور جس کا بیان نہیں وہ سب معاف ہیں ۔ (سنن ترمذی:1726 ، قال الشیخ الألبانی:حسن) پھر فرمایا تم پر سور کا گوشت بھی حرام ہے خواہ اسے ذبح کیا ہو خواہ وہ خود مر گیا ہو ، سور کی چربی کا حکم بھی یہی ہے اس لیے کہ چونکہ اکثر گوشت ہی ہوتا ہے اور چربی گوشت کے ساتھ ہی ہوتی ہے پس جب گوشت حرام ہوا تو چربی بھی حرام ہوئی ، دوسرے اس لیے بھی کہ گوشت میں ہی چربی ہوتی ہے اور قیاس کا تقاضا بھی یہی ہے ۔ پھر فرمایا کہ جو چیز اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی کے نام پر مشہور کی جائے وہ بھی حرام ہے جاہلیت کے زمانہ میں کافر لوگ اپنے معبودان باطل کے نام پر جانور ذبح کیا کرتے تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ۔ ایک مرتبہ ایک عورت نے گڑیا کے نکاح پر ایک جانور ذبح کیا تو حسن بصری رحمہ اللہ نے فتویٰ دیا کہ اسے نہ کھانا چاہیئے اس لیے کہ وہ ایک تصویر کے لیے ذبح کیا گیا ، سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا گیا کہ عجمی لوگ جو اپنے تہوار اور عید کے موقعہ پر جانور ذبح کرتے ہیں اور مسلمانوں کو بھی اس میں سے ہدیہ بھیجتے ہیں ان کا گوشت کھانا چاہیئے یا نہیں ؟ تو فرمایا اس دن کی عظمت کے لیے جو جانور ذبح کیا جائے اسے نہ کھاؤ ہاں ان کے درختوں کے پھل کھاؤ ۔ (تفسیر قرطبی:224/2) پھر اللہ تعالیٰ نے ضرورت اور حاجت کے وقت جبکہ کچھ اور کھانے کو نہ ملے ان حرام چیزوں کا کھا لینا مباح کیا ہے اور فرمایا جو شخص بے بس ہو جائے مگر باغی اور سرکش اور حد سے بڑھ جانے والا نہ ہو اس پر ان چیزوں کے کھانے میں گناہ نہیں اللہ تعالیٰ بخشش کرنے والا مہربان ہے باغ اور عاد کی تفسیر میں حضرت مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ، ڈاکو راہزن مسلمان بادشاہ پر چڑھائی کرنے والا سلطنت اسلام کا مخالف اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں سفر کرنے والا سبھی کے لیے اس اضطرار کے وقت بھی حرام چیزیں حرام ہی رہتی ہیں ، غیر باغ کی تفسیر مقاتل بن حبان یہ بھی کرتے ہیں کہ وہ اسے حلال سمجھنے والا نہ ہو ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:236/1) اور اس میں لذت اور مزہ کا خواہشمند نہ ہو ، اسے بھون بھان کر لذیذ بنا کر اچھا پکا کر نہ کھائے بلکہ جیسا تیسا صرف جان بچانے کے لیے کھا لے اور اگر ساتھ لے تو اتنا کہ زندگی کے ساتھ حلال چیز کے ملنے تک باقی رہ جائے جب حلال چیز مل گئی اسے پھینک دے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اسے خوب پیٹ بھر کر نہ کھائے ، حضرت مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں جو شخص اس کے کھانے کے لیے مجبور کر دیا جائے اور بے اختیار ہو جائے اس کا بھی یہی حکم ہے ۔ مسئلہ ایک شخص بھوک کے مارے بے بس ہو گیا ہے اسے ایک مردار جانور نظر پڑا اور کسی دوسرے کی حلال چیز بھی دکھائی دی جس میں نہ رشتہ کا ٹوٹنا ہے نہ ایذاء دہی ہے تو اسے اس دوسرے کی چیز کو کھا لینا چاہیئے مردار نہ کھائے ، پھر آیا اس چیز کی قیمت یا وہی چیز اس کے ذمہ رہے گی یا نہیں اس میں دو قول ہیں ایک یہ کہ رہے گی دوسرے یہ کہ نہ رہے گی ۔ نہ رہنے والے قول کی تائید میں یہ حدیث ہے جو ابن ماجہ میں ہے ، عباد بن شرحبیل غبری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہمارے ہاں ایک سال قحط سالی پڑی میں مدینہ گیا اور ایک کھیت میں سے کچھ بالیں توڑ کر چھیل کر دانے چبانے لگا اور تھوڑی سی بالیں اپنی چادر میں باندھ کر چلا کھیت والے نے دیکھ لیا اور مجھے پکڑ کر مارا پیٹا اور میری چادر چھین لی ، میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے واقعہ عرض کیا تو آپ نے اس شخص کو کہا اس بھوکے کو نہ تو تو نے کھانا کھلایا نہ اس کے لیے کوئی اور کوشش کی نہ اسے کچھ سمجھایا سکھایا یہ بے چارہ بھوکا تھا نادان تھا جاؤ اس کا کپڑا واپس کرو اور ایک وسق یا آدھا وسق غلہ اسے دے دو ، (سنن ابوداود:2620 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) ( ایک وسق چار من کے قریب ہوتا ہے ) ایک اور حدیث میں ہے کہ درختوں میں لگے ہوئے پھلوں کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو حاجت مند شخص ان میں سے کچھ کھا لے ، لے کر نہ جائے اس پر کچھ جرم نہیں ۔(سنن ابوداود:1710،قال الشیخ الألبانی:حسن) حضرت مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں مطلب آیت کا یہ ہے کہ اضطراب اور بے بسی کے وقت اتنا کھا لینے میں کوئی مضائقہ نہیں جس سے بے بسی اور اضطرار ہٹ جائے ، یہ بھی مروی ہے کہ تین لقموں سے زیادہ نہ کھائے غرض ایسے وقت میں اللہ کی مہربانی اور نوازش ہے یہ حرام اس کے لیے حلال ہے مسروق رحمہ اللہ فرماتے ہیں اضطرار کے وقت بھی جو شخص حرام چیز نہ کھائے اور مر جائے وہ جہنمی ہے ،(بیھقی:357/9:ضعیف) اس سے معلوم ہوا کہ ایسے وقت ایسی چیز کھانی ضروری ہے نہ کہ صرف رخصت ہی ہو ، یہی بات زیادہ صحیح ہے جیسے کہ بیمار کا روزہ چھوڑ دینا وغیرہ ۔ البقرة
173 البقرة
174 بدترین لوگ علاوہ ازیں خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ عادت نے لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق پر آمادہ کر دیا اور ان کی وہ جماعت جس کے ہاتھ سے نکل جانے کے ڈر نے انہیں کلام اللہ چھپانے پر آمادہ کیا تھا بلآخر ہاتھ سے جاتی رہیں ان لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کر لی ایمان لے آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر ان حق کے چھپانے والوں کی جانیں لیں اور ان سے باقاعدہ جہاد کیا ، قرآن کریم میں ان کی حقائق چھپانے والی حرکتوں کو جگہ جگہ بیان کیا گیا ، اور فرمایا ہے کہ جو مال تم کماتے ہو اللہ کی باتوں کو چھپا کر یہ دراصل آگ کے انگارے ہیں ، جنہیں تم پیٹ میں بھر رہے ہو ۔ قرآن کریم نے ان لوگوں کے بارے میں بھی جو یتیموں کا مال ظلم سے ہڑپ کر لیں ، ان کے لیے بھی یہی فرمایا ہے کہ «إِنَّ الَّذِینَ یَأْکُلُونَ أَمْوَالَ الْیَتَامَیٰ ظُلْمًا إِنَّمَا یَأْکُلُونَ فِی بُطُونِہِمْ نَارًا وَسَیَصْلَوْنَ سَعِیرًا» ( 4-النساء : 10 ) وہ بھی اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ بھر رہے ہیں اور قیامت کے دن بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہوں گے ۔ صحیح حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے جو شخص سونے چاندی کے برتن میں کھاتا پیتا ہے وہ بھی اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ بھرتا ہے ۔ (صحیح بخاری:5634) پھر فرمایا ان سے تعالیٰ قیامت کے دن بات چیت بھی نہیں کرے گا نہ انہیں پاک کرے گا بلکہ المناک عذابوں میں مبتلا کرئے گا ۔ اس لیے کہ ان کے اس کرتوت کی وجہ سے اللہ کا غضب ان پر نازل ہوا ہے اور اب ان پر سے نظر رحمت ہٹ گئی ہے اور یہ ستائش اور تعریف کے قابل نہیں رہے بلکہ سزا یاب ہوں گے اور وہاں تلملاتے رہیں گے ۔ حدیث شریف میں ہے تین قسم کے لوگوں سے اللہ بات چیت نہ کرئے گا نہ ان کی طرف دیکھے گا نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہیں زانی بڈھا ، جھوٹا بادشاہ ، متکبر فقیر ۔ (صحیح مسلم:107) فرمایا کہ ان لوگوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی لے لی انہیں چاہیئے تھا کہ توراۃ میں جو خبریں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت تھیں انہیں ان پڑھوں تک پہنچاتے لیکن اس کے بدلے انہوں نے انہیں چھپا لیا اور خود بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کفر کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کی ، ان کے اظہار پر جو نعمتیں اور رحمتیں انہیں ملنے والی تھیں ان کے بدلے زحمتیں اور عذاب اپنے سر لے لیے ۔ پھر فرماتا ہے انہیں وہ درد ناک اور حیرت انگیز عذاب ہوں گے کہ دیکھنے والا ششدر رہ جائے اور یہ بھی معنی ہیں کہ انہیں آگ کے عذاب کی برداشت پر کس چیز نے آمادہ کیا جو یہ اللہ کی نافرمانیوں میں مشغول ہو گئے ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ یہ لوگ اس عذاب کے مستحق اس لیے ہوئے کہ انہوں نے اللہ کی باتوں کی ہنسی کھیل سمجھا اور جو کتاب اللہ حق کو ظاہر کرنے اور باطل کا نابود کرنے کے لیے اتری تھی انہوں نے اس کی مخالفت کی ظاہر کرنے کی باتیں چھپائیں اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دشمنی کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفتوں کو ظاہر نہ کیا فی الواقع اس کتاب کے بارے میں اختلاف کرنے والے دور کی گمراہی میں جا پڑے ۔ البقرة
175 البقرة
176 البقرة
177 ایمان کا ایک پہلو اس پاک آیت میں صحیح عقیدے اور راہ مستقیم کی تعلیم ہو رہی ہے سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہما نے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایمان کے بارے میں سوال کیا گیا کہ ایمان کیا چیز ہے ؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت فرمائی ، انہوں نے پھر سوال کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر یہی آیت تلاوت فرمائی پھر یہی سوال کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سنو نیکی سے محبت اور برائی سے عداوت ایمان ہے (تفسیر ابن ابی حاتم:287/1:ضعیف و منقطع) لیکن اس روایت کی سند منقطع ہے ، مجاہد رحمہ اللہ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے اس حدیث کو روایت کرتے ہیں حالانکہ ان کی ملاقات ثابت نہیں ہوئی ۔ ایک شخص نے سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ ایمان کیا ہے ؟ تو آپ رضی اللہ عنہ نے یہی آیت تلاوت فرما دی اس نے کہا میں آپ رضی اللہ عنہ سے بھلائی کے بارے میں سوال نہیں کرتا میرا سوال ایمان کے بارے میں ہے تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا سن ایک شخص نے یہی سوال حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی آیت کی تلاوت فرما دی وہ بھی تمہاری طرح راضی نہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مومن جب نیک کام کرتا ہے تو اس کا جی خوش ہو جاتا ہے اور اسے ثواب کی امید ہوتی ہے اور جب گناہ کرتا ہے تو اس کا دل غمیگین ہو جاتا ہے اور وہ عذاب سے ڈرنے لگتا ہے ۔ ( ابن مردویہ ) یہ روایت بھی منقطع ہے اب اس آیت کی تفسیر سنیے ۔ مومنوں کو پہلے تو حکم ہوا کہ وہ بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھیں پھر انہیں کعبہ کی طرف گھما دیا گیا جو اہل کتاب پر اور بعض ایمان والوں پر بھی شاق گزرا پس اللہ تعالیٰ نے اس کی حکمت بیان فرمائی کہ اس کا اصل مقصد اطاعت فرمان اللہ ہے وہ جدھر منہ کرنے کو کہے کر لو ، اہل تقویٰ اصل بھلائی اور کامل ایمان یہی ہے کہ مالک کے زیر فرمان رہو ، اگر کوئی مشرق کیطرف منہ کرے یا مغرب کی طرف منہ پھیر لے اور اللہ کا حکم نہ ہو تو وہ اس توجہ سے ایماندار نہیں ہو جائے گا بلکہ حقیقت میں باایمان وہ ہے جس میں وہ اوصاف ہوں جو اس آیت میں بیان ہوئے ۔ قرآن کریم نے ایک اور جگہ فرمایا ہے آیت «لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُہَا وَلَا دِمَاؤُہَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ» ( 22 ۔ الحج : 37 ) یعنی تمہاری قربانیوں کے گوشت اور لہو اللہ کو نہیں پہنچتے بلکہ اس تک تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ تم نمازیں پڑھو اور دوسرے اعمال نہ کرو یہ کوئی بھلائی نہیں ۔ یہ حکم اس وقت تھا جب مکہ سے مدینہ کی طرف لوٹے تھے لیکن پھر اس کے بعد اور فرائض اور احکام نازل ہوئے اور ان پر عمل کرنا ضروری قرار دیا گیا ، مشرق و مغرب کو اس کے لیے خاص کیا گیا کہ یہود مغرب کی طرف اور نصاریٰ مشرق کی طرف منہ کیا کرتے تھے ، پس غرض یہ ہے کہ یہ تو صرف لفظی ایمان ہے ایمان کی حقیقت تو عمل ہے ، مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں بھلائی یہ ہے کہ اطاعت کا مادہ دل میں پیدا ہو جائے ، فرائض پابندی کے ساتھ ادا ہوں ، تمام بھلائیوں کا عامل ہو ، حق تو یہ ہے کہ جس نے اس آیت پر عمل کر لیا اس نے کامل اسلام پا لیا اور دل کھول کر بھلائی سمیٹ لی ، اس کا ذات باری تعالیٰ پر ایمان ہے یہ وہ جانتا ہے کہ معبود برحق وہی ہے فرشتوں کے وجود کو اور اس بات کو کہ وہ اللہ کا پیغام اللہ کے مخصوص بندوں پر لاتے ہیں یہ مانتا ہے ، کل آسمانی کتابوں کو برحق جانتا ہے اور سب سے آخری کتاب قرآن کریم کو جو کہ تمام اگلی کتابوں کو سچا کہنے والی تمام بھلائیوں کی جامع اور دین و دنیا کی سعادت پر مشتمل ہے وہ مانتا ہے ، اسی طرح اول سے آخر تک کے تمام انبیاء پر بھی اس کا ایمان ہے ، بالخصوص خاتم الانبیاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ۔ مال کو باوجود مال کی محبت کے راہ اللہ میں خرچ کرتا ہے ۔ صحیح حدیث شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں افضل صدقہ یہ ہے کہ تو اپنی صحت اور مال کی محبت کی حالت میں اللہ کے نام دے باوجودیکہ مال کی کمی کا اندیشہ ہو اور زیادتی کی رغبت بھی ہو (صحیح بخاری:1419) مستدرک حاکم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت «وَاٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الْقُرْبٰی وَالْیَـتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَالسَّایِٕلِیْنَ وَفِی الرِّقَابِ وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَی الزَّکٰوۃَ وَالْمُوْفُوْنَ بِعَہْدِہِمْ اِذَا عٰھَدُوْا» ( 2 ۔ البقرہ : 177 ) پڑھ کر فرمایا کہ اس کا مطلب یہ ہے تم صحت میں اور مال کی چاہت کی حالت میں فقیری سے ڈرتے ہوئے اور امیری کی خواہش رکھتے ہوئے صدقہ کرو ، (حاکم:272/2:موقوف) لیکن اس روایت کا موقوف ہونا زیادہ صحیح ہے ، اصل میں یہ فرمان سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا ہے ، قرآن کریم میں سورۃ دھر ( الانسان ) میں فرمایا آیت «وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّیَـتِـیْمًا وَّاَسِیْرًا» ( 76 ۔ الانسان : 8 ) مسلمان باوجود کھانے کی چاہت کے مسکینوں یتیموں اور قیدیوں کو کھانا کھلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تمہیں اللہ کی خوشنودی کے لیے کھلاتے ہیں نہ تم سے اس کا بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ اور جگہ فرمایا آیت «لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبٰوْنَ» ( 3 ۔ آل عمران : 92 ) جب تک تم اپنی چاہت کی چیزیں اللہ کے نام نہ دو تم حقیقی بھلائی نہیں پاسکتے ۔ اور جگہ فرمایا آیت «وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ» ( 59 ۔ الحشر : 9 ) یعنی باوجود اپنی حاجت اور ضرورت کے بھی وہ دوسروں کو اپنے نفس پر مقدم کرتے ہیں پس یہ لوگ بڑے پایہ کے ہیں کیونکہ پہلی قسم کے لوگوں نے تو اپنی پسندیدہ چیز باوجود اس کی محبت کے دوسروں کو دی لیکن ان بزرگوں نے اپنی چاہت کی وہ چیز جس کے وہ خود محتاج تھے دوسروں کو دے دی اور اپنی حاجت مندی کا خیال بھی نہ کیا ۔ «ذَوِی الْقُرْبَیٰ» انہیں کہتے ہیں جو رشتہ دار ہوں صدقہ دیتے وقت یہ دوسروں سے زیادہ مقدم ہیں ۔ حدیث میں ہے مسکین کو دینا اکہرا ثواب ہے اور قرابت دار مسکین کو دینا دوہرا ثواب ہے ، ایک ثواب صدقہ کا دوسرا صلہ رحمی کا ۔ تمہاری بخشش اور خیراتوں کے زیادہ مستحق یہ ہیں ، قرآن کریم میں ان کے ساتھ سلوک کرنے کا حکم کئی جگہ ہے ۔ (سنن ابوداود:2355 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) یتیم سے مراد وہ چھوٹے بچے ہیں جن کے والد مر گئے ہوں اور ان کا کمانے والا کوئی نہ ہو نہ خود انہیں اپنی روزی حاصل کرنے کی قوت و طاقت ہو ، حدیث شریف میں ہے بلوغت کے بعد یتیمی نہیں رہتی ۔ (سنن ابوداود:2873 ، قال الشیخ الألبانی:سندہ ضعیف ولہ شواھد) مساکین وہ ہیں جن کے پاس اتنا ہو جو ان کے کھانے پینے پہننے اوڑھنے رہنے سہنے کا کافی ہو سکے ، ان کے ساتھ بھی سلوک کیا جائے جس سے ان کی حاجت پوری ہو اور فقر و فاقہ اور قلت وذلت کی حالت سے بچ سکیں ، بخاری و مسلم میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مسکین صرف وہی لوگ نہیں جو مانگتے پھرتے ہوں اور ایک ایک دو دو کھجوریں یا ایک ایک دو دو لقمے روٹی کے لے جاتے ہوں بلکہ مسکین وہ بھی ہیں جن کے پاس اتنا نہ ہو کہ ان کے سب کام نکل جائیں نہ وہ اپنی حالت ایسی بنائیں جس سے لوگوں کو علم ہو جائے اور انہیں کوئی کچھ دیدے ۔ (صحیح بخاری:1476) ا «ابْنَ السَّبِیلِ» مسافر کو کہتے ہیں ، اسی طرح وہ شخص بھی جو اطاعت اللہ میں سفر کر رہا ہو اسے جانے آنے کا خرچ دینا ، مہمان بھی اسی حکم میں ہے ، سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما مہمان کو بھی ابن السبیل میں داخل کرتے ہیں اور دوسرے بزرگ سلف بھی ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:259/1) سائلین وہ لوگ ہیں جو اپنی حاجت ظاہر کر کے لوگوں سے کچھ مانگیں ، انہیں بھی صدقہ زکوٰۃ دینا چاہیئے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سائل کا حق ہے اگرچہ وہ گھوڑے پر سوار آئے (سنن ابوداود:1665 ، قال الشیخ الألبانی:حسن) آیت «وَفِی الرِّقَابِ» ( البقرہ : 177 ) سے مراد غلاموں کو آزادی دلانا ہے خواہ یہ وہ غلام ہوں جنہوں نے اپنے مالکوں کو مقررہ قیمت کی ادائیگی کا لکھ دیا ہو کہ اتنی رقم ہم تمہیں ادا کر دیں گے تو ہم آزاد ہیں لیکن اب ان بیچاروں سے ادا نہیں ہو سکی تو ان کی امداد کر کے انہیں آزاد کرانا ، ان تمام قسموں کی اور دوسرے اسی قسم کے لوگوں کی پوری تفسیر سورۃ برات میں آیت «إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاکِینِ وَالْعَامِلِینَ عَلَیْہَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوبُہُمْ» ( 9-سورۃ التوبہ : 60 ) کی تفسیر میں بیان ہو گی ان شاءاللہ تعالیٰ ، سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مال میں زکوٰۃ کے سوا کچھ اور بھی اللہ تعالیٰ کا حق ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھ کر سنائی ، اس حدیث کا ایک راوی ابوحمزہ میمون اعور ضعیف ہے ۔ پھر فرمایا نماز کو وقت پر پورے رکوع سجدے اطمینان اور آرام خشوع اور خضوع کے ساتھ ادا کرے جس طرح ادائیگی کا شریعت کا حکم ہے اور زکوٰۃ کو بھی ادا کرے یا یہ معنی کہ اپنے نفس کو بے معنی باتوں اور رذیل اخلاقوں سے پاک کرے جیسے فرمایا آیت «قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰیہَا» ( 91 ۔ الشمس : 9 ) یعنی اپنے نفس کو پاک کرنے والا فلاح پا گیا اور اسے گندگی میں لتھیڑنے ( لت پت کرنے والا ) تباہ ہو گیا موسیٰ علیہ السلام نے فرعون سے ہی فرمایا تھا کہ آیت «فَقُلْ ہَل لَّکَ إِلَیٰ أَن تَزَکَّیٰ وَأَہْدِیَکَ إِلَیٰ رَبِّکَ فَتَخْشَیٰ» ( 79-النازعات : 18 ، 19 ) اور جگہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے آیت «وَوَیْلٌ لِّـلْمُشْرِکِیْنَ ۝ الَّذِیْنَ لَا یُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَہُمْ بِالْاٰخِرَۃِ ہُمْ کٰفِرُوْنَ» ( 41 ۔ فصلت : 7 ، 6 ) یعنی ان مشرکوں کو ویل ہے جو زکوٰۃ ادا نہیں کرتے یا یہ کہ جو اپنے آپ کو شرک سے پاک نہیں کرتے ، پس یہاں مندرجہ بالا آیت زکوٰۃ سے مراد زکوٰۃ نفس یعنی اپنے آپ کو گندگیوں اور شرک و کفر سے پاک کرنا ہے ، اور ممکن ہے مال کی زکوٰۃ مراد ہو تو اور احکام نفلی صدقہ سے متعلق سمجھے جائیں گے جیسے اوپر حدیث بیان ہوئی کہ مال میں زکوٰۃ کے سوا اور حق بھی ہیں ۔ پھر فرمایا وعدے پورے کرنے والے جیسے اور جگہ ہے آیت «یُوْفُوْنَ بِعَہْدِ اللّٰہِ وَلَا یَنْقُضُوْنَ الْمِیْثَاقَ» ( 13 ۔ الرعد : 20 ) یہ لوگ اللہ کے عہد کو پورا کرتے ہیں اور وعدے نہیں توڑتے ، (سنن ترمذی:659 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) وعدے توڑنا نفاق کی خصلت ہے ، جیسے حدیث میں ہے منافق کی تین نشانیاں ہیں ، بات کرتے ہوئے جھوٹ بولنا ، وعدہ خلافی کرنا ، امانت میں خیانت کرنا ۔ (صحیح بخاری:33) ایک اور حدیث میں ہے جھگڑے کے وقت گالیاں بکنا ۔ (صحیح بخاری:34) پھرفرمایا فقر و فاقہ میں مال کی کمی کے وقت بدن کی بیماری کے وقت لڑائی کے موقعہ پر دشمنان دین کے سامنے میدان جنگ میں جہاد کے وقت صبر و ثابت قدم رہنے والے اور فولادی چٹان کی طرح جم جانے والے ۔ صابرین کا نصب بطور مدح کے ہے ان سختیوں اور مصیبتوں کے وقت صبر کی تعلیم اور تلقین ہو رہی ہے ، اللہ تعالیٰ ہماری مدد کرے ہمارا بھروسہ اسی پر ہے ۔ پھر فرمایا ان اوصاف والے لوگ ہی سچے ایمان والے ہیں ان کا ظاہر باطن قول فعل یکساں ہے اور متقی بھی یہی لوگ ہیں کیونکہ اطاعت گزار ہیں اور نافرمانیوں سے دور ہیں ۔ البقرة
178 قصاص کی وضاحت یعنی اے مسلمانوں قصاص کے وقت عدل سے کام لیا کرو آزاد کے بدلے آزاد غلام کے بدلے غلام عورت کے بدلے عورت اس بارے میں حد سے نہ بڑھو جیسے کہ اگلے لوگ حد سے بڑھ گئے اور اللہ کا حکم بدل دیا ، اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ جاہلیت کے زمانہ میں بنو قریظہ اور بنونضیر کی جنگ ہوئی تھی جس میں بنونضیر غالب آئے تھے اب یہ دستور ہو گیا تھا کہ جب نضیری کسی قرظی کو قتل کرے تو اس کے بدلے اسے قتل نہیں کیا جاتا تھا بلکہ ایک سو وسق کھجور دیت میں لی جاتی تھی اور جب کوئی قرظی نضیری کو مار ڈالے تو قصاص میں اسے قتل کر دیا جاتا تھا اور اگر دیت لی جائے تو دوگنی دیت یعنی دو سو وسق کھجور لی جاتی تھی ۔ پس اللہ تعالیٰ نے جاہلیت کی اس رسم کو مٹایا اور عدل ومساوات کا حکم دیا ، ابوحاتم کی روایت میں شان نزول یوں بیان ہوا ہے کہ عرب کے دو قبیلوں میں جدال و قتال ہوا تھا اسلام کے بعد اس کا بدلہ لینے کی ٹھانی اور کہا کہ ہمارے غلام کے بدلے ان کا آزاد قتل ہو اور عورت کے بدلے مرد قتل ہو تو ان کے رد میں یہ آیت نازل ہوئی اور یہ حکم بھی منسوخ ہے قرآن فرماتا ہے آیت «أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَیْنَ بِالْعَیْنِ وَالْأَنفَ بِالْأَنفِ وَالْأُذُنَ بِالْأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ» الخ ، (5-المائدۃ:45) پس ہر قاتل مقتول کے بدلے مار ڈالا جائے گا خواہ آزاد نے کسی غلام کو قتل کیا ہو خواہ اس کے برعکس ہو خواہ مرد نے عورت کو قتل کیا ہو خواہ اس کے برعکس ہو ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ یہ لوگ مرد کو عورت کے بدلے قتل نہیں کرتے تھے جس پر «اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَیْنَ بِالْعَیْنِ وَالْاَنْفَ بِالْاَنْفِ وَالْاُذُنَ بِالْاُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوْحَ قِصَاصٌ» ( 5 ۔ المائدہ : 45 ) نازل ہوئی پس آزاد لوگ سب برابر ہیں جسن کے بدلے جان لی جائے گی خواہ قاتل مرد ہو خواہ عورت ہو اسی طرح مقتول خواہ مرد ہو خواہ عورت ہو جب کہ ایک آزاد انسان نے ایک آزاد انسان کو مار ڈالا ہے تو اسے بھی مار ڈالا جائے گا اسی طرح یہی حکم غلاموں اور لونڈیوں میں بھی جاری ہو گا اور جو کوئی جان لینے کے قصد سے دوسرے کو قتل کرے گا وہ قصاص میں قتل کیا جائے گا اور یہی حکم قتل کے علاوہ اور زخموں کا اور دوسرے اعضاء کی بربادی کا بھی ہے ، امام مالک رحمتہ اللہ علیہ بھی اس آیت کو آیت ( النفس بالنفس ) سے منسوخ بتلاتے ہیں ۔ مسئلہ امام ابوحنیفہ امام ثوری امام ابن ابی لیلیٰ اور داؤد رحمہ اللہ علیہم کا مذہب ہے کہ آزاد نے اگر غلام کو قتل کیا ہے تو اس کے بدلے وہ بھی قتل کیا جائے گا ، سیدنا علی رضی اللہ عنہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سعید بن جبیر رحمہ اللہ ابراہیم نخعی رحمہ اللہ قتادہ رحمہ اللہ اور حکم رحمہ اللہ کا بھی یہی مذہب ہے ، امام بخاری ، علی بن مدینی ، ابراہیم نخعی رحمہ اللہ علیہم اور ایک اور روایت کی رو سے ثوری رحمہ اللہ کا بھی مذہب یہی ہے کہ اگر کوئی آقا اپنے غلام کو مار ڈالے تو اس کے بدلے اس کی جان لی جائے گی دلیل میں یہ حدیث بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جو شخص اپنے غلام کو قتل کرے ہم اسے قتل کریں گے اور جو شخص اپنے غلام کو ناک کاٹ کرے ہم بھی اس کی ناک کاٹ دیں گے اور جو اسے خصی کرے اس سے بھی یہی بدلہ لیا جائے ۔ (سنن ابوداود:4515 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) لیکن جمہور کا مذہب ان بزرگوں کے خلاف ہے وہ کہتے ہیں آزاد غلام کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا اس لیے کہ غلام مال ہے اگر وہ خطا سے قتل ہو جائے تو دیت یعنی جرمانہ نہیں دینا پڑتا صرف اس کے مالک کو اس کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے اور اسی طرح اس کے ہاتھ پاؤں وغیرہ کے نقصان پر بھی بدلے کا حکم نہیں ۔ آیا مسلمان کافر کے بدلے قتل کیا جائے گا یا نہیں ؟ اس بارے میں جمہور علماء امت کا مذہب تو یہ ہے کہ قتل نہ کیا جائے گا اور دلیل صحیح بخاری شریف کی یہ حدیث ہے کہ حدیث «لا یقتل مسلم بکافر» مسلمان کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے ۔ (صحیح بخاری:111) اس حدیث کے خلاف نہ تو کوئی صحیح حدیث ہے کہ کوئی ایسی تاویل ہو سکتی ہے جو اس کے خلاف ہو ، لیکن تاہم صرف امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا مذہب یہ ہے کہ مسلمان کافر کے بدلے قتل کر دیا جائے ۔ مسئلہ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ اور عطا رحمہ اللہ کا قول ہے کہ مرد عورت کے بدلے قتل نہ کیا جائے اور دلیل میں مندرجہ بالا آیت کو پیش کرتے ہیں لیکن جمہور علماء اسلام اس کے خلاف ہیں کیونکہ سورۃ المائدہ کی آیت عام ہے جس میں آیت «اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَیْنَ بِالْعَیْنِ وَالْاَنْفَ بِالْاَنْفِ وَالْاُذُنَ بِالْاُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوْحَ قِصَاصٌ» ( 5-المائدۃ : 45 ) موجود ہے علاوہ ازیں حدیث شریف میں بھی ہے حدیث «المسلون تتکافا دماء ھم» (سنن ابوداود:2751 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) یعنی مسلمانوں کے خون آپس میں یکساں ہیں ، لیث رحمہ اللہ کا مذہب ہے کہ خاوند اگر اپنی بیوی کو مار ڈالے تو خاصتہ اس کے بدلے اس کی جان نہیں لی جائے ۔ مسئلہ چاروں اماموں اور جمہور امت کا مذہب ہے کہ کئی ایک نے مل کر ایک مسلمان کو قتل کیا ہے تو وہ سارے اس ایک کے بدلے قتل کر دئیے جائیں گے ۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ایک شخص کو سات شخص مل کر مار ڈالتے ہیں تو آپ رضی اللہ عنہ ان ساتوں کو قتل کراتے ہیں اور فرماتے ہیں اگر صفا کے تمام لوگ بھی اس قتل میں شریک ہوتے تو میں قصاص میں سب کو قتل کرا دیتا ۔ آپ رضی اللہ عنہ کے اس فرمان کے خلاف آپ رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں کسی صحابی رضی اللہ عنہ نے اعتراض نہیں کیا پس اس بات پر گویا اجماع ہو گیا ۔ لیکن امام احمد رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ وہ فرماتے ہیں ایک کے بدلے ایک ہی قتل کیا جائے زیادہ قتل نہ کیے جائیں ۔ سیدنا معاذ ابن زبیر رضی اللہ عنہ عبدالملک بن مروان زہری ابن سیرین حبیب بن ابی ثابت رحمہ اللہ سے بھی یہ قول مروی ہے ، ابن المندر رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہی زیادہ صحیح ہے اور ایک جماعت کو ایک مقتول کے بدلے قتل کرنے کی کوئی دلیل نہیں اور سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ سے یہ ثابت ہے کہ وہ اس مسئلہ کو نہیں مانتے تھے پس جب صحابہ رضی اللہ عنہم میں اختلاف ہوا تو اب مسئلہ غور طلب ہو گیا ۔ پھر فرماتا ہے کہ یہ اور بات ہے کہ کسی قاتل کو مقتول کا کوئی وارث کچھ حصہ معاف کر دے یعنی قتل کے بدلے وہ دیت قبول کر لے یا دیت بھی اپنے حصہ کی چھوڑ دے اور صاف معاف کر دے ، اگر وہ دیت پر راضی ہو گیا ہے تو قاتل کو مشکل نہ ڈالے بلکہ اچھائی سے دیت وصول کرے اور قاتل کو بھی چاہیئے کہ بھلائی کے ساتھ اسے دیت ادا کر دے ، حیل وحجت نہ کرے ۔ مسئلہ امام مالک رحمہ اللہ کا مشہور مذہب اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور آپ کے شاگردوں کا اور امام شافعی رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ کا ایک روایت کی رو سے یہ مذہب ہے کہ مقتول کے اولیاء کا قصاص چھوڑ کر دیت پر راضی ہونا اس وقت جائز ہے جب خود قاتل بھی اس پر آمادہ ہوا لیکن اور بزرگان دین فرماتے ہیں کہ اس میں قاتل کی رضا مندی شرط نہیں مسئلہ سلف کی ایک جماعت کہتی ہے کہ عورتیں قصاص سے درگزر کر کے دیت پر اگر رضامند ہوں تو ان کا اعتبار نہیں ۔ حسن ، قتادہ ، زہرہ ، ابن شبرمہ ، لیث اور اوزاعی رحمہ اللہ علیہم کا یہی مذہب ہے لیکن باقی علماء دین ان کے مخالف ہیں وہ فرماتے ہیں کہ اگر کسی عورت نے بھی دیت پر رضا مندی ظاہر کی تو قصاص جاتا رہے گا پھر فرماتے ہیں کہ قتل عمد میں دیت لینا یہ اللہ کی طرف سے تخفیف اور مہربانی ہے اگلی امتوں کو یہ اختیار نہ تھا ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں بنی اسرائیل پر قصاص فرض تھا انہیں قصاص سے درگزر کرنے اور دیت لینے کی اجازت نہ تھی لیکن اس مات پر یہ مہربانی ہوئی کہ دیت لینی بھی جائز کی گئی تو یہاں تین چیزیں ہوئیں قصاص دیت اور معانی اگلی امتوں میں صرف قصاص اور معافی ہی تھی دیت نہ تھی ، بعض لوگ کہتے ہیں اہل تورات کے ہاں صرف قصاص اور معافی تھی اور اہل انجیل کے ہاں صرف معافی ہی تھی ۔ پھر فرمایا جو شخص دیت یعنی جرمانہ لینے کے بعد یا دیت قبول کر لینے کے بعد بھی زیادتی پر تل جائے اس کے لیے سخت درد ناک عذاب ہے ۔ مثلاً دیت لینے کے بعد پر قتل کے درپے ہو وغیرہ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جس شخص کا کوئی مقتول یا مجروح ہو تو اسے تین باتوں میں سے ایک کا اختیار ہے یا قصاص یعنی بدلہ لے لے یا درگزر کرے ۔ معاف کر دے یا دیت یعنی جرمانہ لے لے اور اگر کچھ اور کرنا چاہے تو اسے روک دو ان میں سے ایک کر چکنے کے بعد بھی جو زیادتی کرے وہ ہمیشہ کے لیے جہنمی ہو جائے گا (سنن ابوداود:4496 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) دوسری حدیث میں ہے کہ جس نے دیت وصول کر لی پھر قاتل کو قتل کیا تو اب میں اس سے دیت بھی نہ لوں گا بلکہ اسے قتل کروں گا ۔ (سنن ابوداود:4507 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اے عقلمندو قصاص میں نسل انسان کی بقاء ہے اس میں حکمت عظیمہ ہے گو بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک کے بدلے ایک قتل ہوا تو دو مرے لیکن دراصل اگر سوچو تو پتہ چلے گا کہ یہ سبب زندگی ہے ، قاتل کو خود خیال ہو گا کہ میں اسے قتل نہ کروں ورنہ خود بھی قتل کر دیا جاؤں گا تو وہ اس فعل بد سے رک جائے گا تو دو آدمی قتل و خون سے بچ گئے ۔ اگلی کتابوں میں بھی یہ بات تو بیان فرمائی تھی کہ آیت «القتل انفی للقتل» قتل قتل کو روک دیتا ہے لیکن قرآن پاک میں بہت ہی فصاحت و بلاغت کے ساتھ اس مضمون کو بیان کیا گیا ۔ پھر فرمایا یہ تمہارے بچاؤ کا سبب ہے کہ ایک تو اللہ کی نافرمانی سے محفوظ رہو گے دوسرے نہ کوئی کسی کو قتل کرے گا نہ کہ وہ قتل کیا جائے گا زمین پر امن و امان سکون و سلام رہے گا ، تقویٰ نیکیوں کے کرنے اور کل برائیوں کے چھوڑنے کا نام ہے ۔ البقرة
179 البقرة
180 وصیت کی وضاحت اس آیت میں ماں باپ اور قرابت داروں کے لیے وصیت کرنے کا حکم ہو رہا ہے ، میراث کے حکم سے پہلے یہ واجب تھا ٹھیک قول یہی ہے ، لیکن میراث کے احکام نے اس وصیت کے حکم کو منسوخ کر دیا ، ہر وارث اپنا مقررہ حصہ بy وصیت لے لے گا ، سنن وغیرہ میں عمرو بن خارجہ رضی اللہ عنہ سے حدیث ہے کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطبہ میں یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر حقدار کو اس کا حق پہنچا دیا ہے اب کسی وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں ، (سنن ترمذی:2121 ، قال الشیخ الألبانی:حسن) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سورۃ البقرہ کی تلاوت کرتے ہیں جب آپ رضی اللہ عنہ اس آیت پر پہنچتے ہیں تو فرماتے ہیں یہ آیت منسوخ ہے ( حاکم:273/2) ) آپ سے یہ بھی مروی ہے کہ پہلے ماں باپ کے ساتھ اور کوئی رشتہ دار وارث نہ تھا اوروں کے لیے صرف وصیت ہوتی تھی پھر میراث کی آیتیں نازل ہوئیں اور ایک تہائی مال میں وصیت کا اختیار باقی رہا ۔ اس آیت کے حکم کو منسوخ کرنے والی آیت «لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ ۠ وَلِلنِّسَاءِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْہُ اَوْ کَثُرَ نَصِیْبًا مَّفْرُوْضًا» ( 4 ۔ النسآء : 7 ) ہے ۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سعید بن مسیب رحمہ اللہ ، حسن ، مجاہد ، عطاء ، سعید بن جبیر ، محمد بن سیرین ، (تفسیر ابن ابی حاتم:302/1) عکرمہ ، (تفسیر ابن جریر الطبری:391/3) زید بن اسلم ، ربیع بن انس ، قتادہ ، سدی ، مقاتل بن حیان ، طاؤس ، ابراہیم نخعی ، شریح ، ضحاک اور زہری رحمہم اللہ یہ سب حضرات بھی اس آیت کو منسوخ بتاتے ہیں ، لیکن باوجود اس کے تعجب ہے کہ امام رازی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر کبیر میں ابو مسلم اصفہانی سے یہ کیسے نقل کر دیا کہ یہ آیت منسوخ نہیں بلکہ آیت میراث اس کی تفسیر ہے اور مطلب آیت کا یہ ہے کہ تم پر وہ وصیت فرض کی گئی جس کا بیان آیت «یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْٓ اَوْلَادِکُمْ ۤ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ» ( 4 ۔ النسآء : 11 ) میں ہے اور یہی قول اکثر مفسرین اور معتبر فقہاء کا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ وصیت کا حکم وارثوں کے حق میں منسوخ ہے اور جن کا ورثہ مقرر نہیں ان کے حق میں ثابت ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما حسن ، مسروق ، طاؤس ، ضحاک ، مسلم بن یسار اور علاء بن زیاد رحمہ اللہ علیہم کا مذہب بھی یہی ہے ، میں کہتا ہوں سعید بن جبیر ، ربیع بن انس ، قتادہ اور مقاتل بن حیان رحمہ اللہ علیہم بھی یہی کہتے ہیں لیکن ان حضرات کے اس قول کی بنا پر پہلے فقہاء کی اصطلاح میں یہ آیت منسوخ نہیں ٹھہرتی اس لیے کہ میراث کی آیت سے وہ لوگ تو اس حکم سے مخصوص ہو گئے جن کا حصہ شریعت نے خود مقرر کر دیا اور جو اس سے پہلے اس آیت کے حکم کی رو سے وصیت میں داخل تھے کیونکہ قرابت دار عام ہیں خواہ ان کا ورثہ مقرر ہو یا نہ ہو تو اب وصیت ان کے لیے ہوئی جو وارث نہیں اور ان کے حق میں نہ رہی جو وارث ہیں ، یہ قول اور بعض دیگر حضرات کا یہ قول کہ وصیت کا حکم ابتداء اسلام میں تھا اور وہ بھی غیر ضروری ، دونوں کا مطلب قریباً ایک ہو گیا ، لیکن جو لوگ وصیت کے اس حکم کو واجب کہتے ہیں اور روانی عبارت اور سیاق و سباق سے بھی بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے ان کے نزدیک تو یہ آیت منسوخ ہی ٹھہرے گی جیسے کہ اکثر مفسرین اور معتبر فقہاء کرام کا قول ہے ۔ پس والدین اور وراثت پانے والے قرابت داروں کے لیے وصیت کرنا بالاجماع منسوخ ہے بلکہ ممنوع ہے حدیث شریف میں آ چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر حقدار کو اس کا حق دے دیا ہے اب وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں ، آیت میراث کا حکم مستقل ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ واجب و فرض ہے ذوی الفروض اور عصبات کا حصہ مقرر ہے اور اس سے اس آیت کا حکم کلیتًہ اٹھ گیا ، باقی رہے وہ قرابت دار جن کا کوئی ورثہ مقرر نہیں ان کے لیے تہائی مال میں وصیت کرانا مستحب ہے کچھ تو اس کا حکم اس آیت سے بھی نکلتا ہے دوسرے یہ کہ حدیث شریف میں صاف آ چکا ہے بخاری و مسلم میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کسی مرد مسلمان کو لائق نہیں کہ اس کے پاس کوئی چیز ہو اور وہ وصیت کرنی چاہتا ہو تو دو راتیں بھی بغیر وصیت لکھے ہوئے گزارے راوی حدیث سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہما کے صاحبزادے فرماتے ہیں کہ اس فرمان کے سننے کے بعد میں نے تو ایک رات بھی بلا وصیت نہیں گزاری ، (صحیح بخاری:2738) قرابت داروں اور رشتہ داروں سے سلوک و احسان کرنے کے بارے میں بہت سی آیتیں اور حدیثیں آئی ہیں ، ایک حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے ابن آدم تو جو مال میری راہ میں خرچ کرے گا میں اس کی وجہ سے تجھے پاک صاف کروں گا اور تیرے انتقال کے بعد بھی میرے نیک بندوں کی دعاؤں کا سبب بناؤں گا ۔ (دار قطنی 148/4:ضعیف) خیرا سے مراد یہاں مال ہے اکثر جلیل القدر مفسرین کی یہی تفسیر ہے بعض مفسرین کا تو قول ہے کہ مال خواہ تھوڑا ہو خواہ بہت وصیت مشروع ہے جیسے میراث تھوڑے مال میں بھی ہے اور زیادہ میں بھی ، بعض کہتے ہیں وصیت کا حکم اس وقت ہے جب زیادہ مال ہو ، سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک قریشی مر گیا ہے اور تین چار سو دینار اس کے ورثہ میں تھے اور اس نے وصیت کچھ نہیں کی آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ رقم وصیت کے قابل نہیں اللہ تعالیٰ نے آیت «إِن تَرَکَ خَیْرًا الْوَصِیَّۃُ لِلْوَالِدَیْنِ وَالْأَقْرَبِینَ» ( البقرہ : 180 ) میں فرمایا ہے ، ایک اور روایت میں ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اپنی قوم کے ایک بیمار کی بیمار پرسی کو گئے اس سے کسی نے کہا وصیت کرو تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا وصیت خیر میں ہوتی ہے اور تو تو کم مال چھوڑ رہا ہے اسے اولاد کے لیے ہی چھوڑ جا ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ساٹھ دینار جس نے نہیں چھوڑے اس نے خیر نہیں چھوڑی یعنی اس کے ذمہ وصیت کرنا نہیں ، طاؤس رحمہ اللہ ، اسی دینار بتاتے ہیں قتادہ رحمہ اللہ ایک ہزار بتاتے ہیں ۔ معروف سے مراد نرمی اور احسان ہے ۔ حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں وصیت کرنا ہر مسلمان پر ضروری ہے اس میں بھلائی کرے برائی نہ کرے وارثوں کو نقصان نہ پہنچائے اسراف اور فضول خرچی نہ کرے ۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں مالدار ہوں اور میری وارث صرف میری ایک لڑکی ہی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اجازت دیجئیے کہ میں اپنے دو تہائی مال کی وصیت کروں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں کہا آدھے کی اجازت دیجئیے فرمایا نہیں کہا ایک تہائی کی اجازت دیجئیے فرمایا خیر تہائی مال کی وصیت کرو گو یہ بھی بہت ہے تم اپنے پیچھے اپنے وارثوں کو مالدار چھوڑ کر جاؤ یہ بہتر ہے اس سے کہ تم انہیں فقیر اور تنگ دست چھوڑ کر جاؤ کہ وہ اوروں کے سامنے ہاتھ پھیلائیں ، (صحیح بخاری:6733) صحیح بخاری شریف میں ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کاش کہ لوگ تہائی سے ہٹ کر چوتھائی پر آ جائیں اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تہائی کی رخصت دیتے ہوئے یہ بھی فرمایا ہے کہ تہائی بہت ہے ۔ (صحیح بخاری:2742) مسند احمد میں ہے حنظلہ بن جذیم بن حنفیہ کے دادا حنفیہ نے ایک یتیم بچے کے لیے جو ان کے ہاں پلتے تھے سو اونٹوں کی وصیت کی ان کی اولاد پر یہ بہت گراں گزرا معاملہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں نہیں نہیں صدقہ میں پانچ دو ورنہ دس دو ورنہ پندرہ ورنہ بیس ورنہ پچیس دو ورنہ تیس دو ورنہ پینتیس دو اگر اس پر بھی نہ مانوں تو خیر زیادہ سے زیادہ چالیس دو ۔ (مسند احمد:67/5:حسن) پھر فرمایا جو شخص وصیت کو بدل دے اس میں کمی بیشی کر دے یا وصیت کو چھپالے اس کا گناہ بدلنے والے کے ذمہ ہے میت کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ ثابت ہو گیا ، اللہ تعالیٰ وصیت کرنے والے کی وصیت کی اصلیت کو بھی جانتا ہے اور بدلنے والے کی تبدیلی کو بھی نہ اس سے کوئی آواز پوشیدہ نہ کوئی راز ۔ حیف کے معنی خطا اور غلطی کے ہیں.(تفسیر ابن ابی حاتم:210-211) مثلا کسی وارث کو کسی طرح زیادہ دلوا دینا مثلا کہہ دیا کہ فلاں چیز فلاں کے ہاتھ اتنے اتنے میں بیچ دی جائے وغیرہ اب یہ خواہ بطور غلطی اور خطا کے ہو یا زیادتی محبت و شفقت کی وجہ سے بغیر قصد ایسی حرکت سرزد ہو گئی ہو یا گناہ کے طور پر ہو تو وصی کو اس کے رد و بدل میں کوئی گناہ نہیں ۔ وصیت کو شرعی احکام کے مطابق پوری ہو ایسی حالت میں بدلنے والے پر کوئی گناہ یا حرج نہیں «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں زندگی میں ظلم کر کے صدقہ دینے والے کا صدقہ اسی طرح لوٹا دیا جائے گا جس طرح موت کے وقت گناہگار کرنے والے کا صدقہ لوٹا دیا جاتا ہے یہ حدیث ابن مردویہ میں بھی مروی ہے ۔ ابن ابی حاتم فرماتے ہیں ولید بن یزید جو اس حدیث کا راوی ہے اس نے اس میں غلطی کی ہے دراصل یہ کلام عروہ رحمہ اللہ کا ہے ، ولید بن مسلم نے اسے اوزاعی رحمہ اللہ سے روایت کیا ہے اور عروہ رحمہ اللہ سے آگے سند نہیں لے گئے ۔ امام ابن مردویہ بھی ایک مرفوع حدیث بروایت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وصیت کی کمی بیشی کبیرہ گناہ ہے ۔ (دار قطنی:151/4:موقوف صحیح) لیکن اس حدیث کے مرفوع ہونے میں بھی کلام ہے اس بارے میں سب سے اچھی وہ حدیث ہے جو مسند عبدالرزاق میں بروایت سیدنا ابوہریرہ مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آدمی نیک لوگوں کے اعمال ستر سال تک کرتا رہتا ہے اور وصیت میں ظلم کرتا ہے اور برائی کے عمل پر خاتمہ ہونے کی وجہ سے جہنمی بن جاتا ہے اور بعض لوگ ستر برس تک بد اعمالیاں کرتے رہتے ہیں لیکن وصیت میں عدل وانصاف کرتے ہیں اور آخری عمل ان کا بھلا ہوتا ہے اور وہ جنتی بن جاتے ہیں ، (سنن ابوداود:2867 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) پھر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر چاہو تو قرآن پاک کی اس آیت کو پڑھ آیت «تِلْکَ حُدُودُ اللہِ فَلَا تَعْتَدُوہَا وَمَن یَتَعَدَّ حُدُودَ اللہِ فَأُولٰئِکَ ہُمُ الظَّالِمُونَ» ( البقرہ : 229 ) یعنی یہ اللہ تعالیٰ کی حدیں ہیں ان سے آگے نہ بڑھو ۔ البقرة
181 البقرة
182 البقرة
183 روداد روزہ اور صلوۃ اللہ تعالیٰ اس امت کے ایمان داروں کو مخاطب کر کے انہیں حکم دے رہا ہے کہ روزے رکھو روزے کے معنی اللہ تعالیٰ کے فرمان کی بجا آوری کی خالص نیت کے ساتھ کھانے پینے اور جماع سے رک جانے کے ہیں اس سے فائدہ یہ ہے کہ نفس انسان پاک صاف اور طیب و طاہر ہو جاتا ہے ردی اخلاط اور بے ہودہ اخلاق سے انسان کا تنقیہ ہو جاتا ہے ، اس حکم کے ساتھ ہی فرمایا گیا ہے کہ اس حکم کے ساتھ تم تنہا نہیں بلکہ تم سے اگلوں کو بھی روزے رکھنے کا حکم تھا ، اس بیان سے یہ بھی مقصد ہے کہ یہ امت اس فریِضہ کی بجا آوری میں اگلی امتوں سے پیچھے نہ رہ جائے جیسے اور جگہ ہے آیت «لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنکُمْ شِرْعَۃً وَمِنْہَاجًا وَلَوْ شَاءَ اللہُ لَجَعَلَکُمْ أُمَّۃً وَاحِدَۃً وَلٰکِن لِّیَبْلُوَکُمْ فِی مَا آتَاکُمْ فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرَاتِ إِلَی اللہِ مَرْجِعُکُمْ جَمِیعًا فَیُنَبِّئُکُم بِمَا کُنتُمْ فِیہِ تَخْتَلِفُونَ» ( 5 ۔ المائدہ : 48 ) یعنی ہر ایک کے لیے ایک طریقہ اور راستہ ہے اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو تم سب کو ایک ہی امت کر دیتا لیکن وہ تمہیں آزما رہا ہے تمہیں چاہیئے کہ نیکیوں میں سبقت کرتے رہو ، یہی یہاں بھی فرمایا کہ تم پر بھی روزے اسی طرح فرض ہیں جس طرح تم سے پہلے گزرنے والوں پر تھے ، روزے سے بدن کو پاکیزگی ملتی ہے اور عمل شیطانی راہ پر چلنے سے رک جاتا ہے ۔ بخاری و مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اے جوانو تم میں سے جسے نکاح کی طاقت ہو وہ نکاح کر لے اور جسے طاقت نہ ہو وہ روزے رکھے اس لیے کہ یہ جوش کو سرد کر دیتے ہیں ۔ (صحیح بخاری:5066) پھر روزوں کی مقدار بیان ہو رہی ہے کہ یہ چند دن ہی ہیں تاکہ کسی پر بھاری نہ پڑے اور ادائیگی سے قاصر نہ رہ جائے بلکہ ذوق وشوق سے اس الٰہی فریضہ کو بجا لائے ، پہلے تو ہر ماہ میں تین روزوں کا حکم تھا پھر رمضان کے روزوں کا حکم ہوا اور اگلا حکم منسوخ ہوا اس کا مفصل بیان آ رہا ہے ، ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما عطاء قتادہ ضحاک رحمہ اللہ علیہم کا فرمان ہے کہ نوح علیہ السلام کے زمانے سے ہر مہینہ میں تین روزوں کا حکم تھا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لیے بدلا اور ان پر اس مبارک مہینہ کے روزے فرض ہوئے ۔ حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگلی امتوں پر بھی ایک مہینہ کامل کے روزے فرض تھے ۔ ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ رمضان کے روزے تم سے پہلے کی امتوں پر بھی فرض تھے ، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ پہلی امتوں کو یہ حکم تھا کہ جب وہ عشاء کی نماز ادا کر لیں اور سو جائیں تو ان پر کھانا پینا عورتوں سے مباشرت کرنا حرام ہو جاتا ہے ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اگلے لوگوں سے مراد اہل کتاب ہیں ۔ پھر بیان ہو رہا ہے کہ تم میں سے جو شخص ماہ رمضان میں بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ اس حالت میں روزے چھوڑ دے مشقت نہ اٹھائے اور اس کے بعد اور دنوں میں جبکہ یہ عذر ہٹ جائیں قضاء کر لیں ، ہاں ابتداء اسلام میں جو شخص تندرست ہو اور مسافر بھی نہ ہو اسے بھی اختیار تھا خواہ روزہ رکھے خواہ نہ رکھے مگر فدیہ میں ایک مسکین کو کھانا کھلا دے اگر ایک سے زیادہ کو کھلائے تو افضل تھا گو روزہ رکھنا فدیہ دینے سے زیادہ بہتر تھا ، سیدنا ابن مسعود سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما مجاہد طاؤس مقاتل رحمہ اللہ علیہم وغیرہ یہی فرماتے ہیں ۔ مسند احمد میں ہے سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نماز کی اور روزے کی تین حالتیں بدلی گئیں ۔ (پہلی تبدیلی) پہلے تو سولہ سترہ مہینہ تک مدینہ میں آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المقدس کی طرف نماز ادا کی پھر «قَدْ نَرَیٰ تَقَلٰبَ وَجْہِکَ فِی السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّیَنَّکَ قِبْلَۃً تَرْضَاہَا فَوَلِّ وَجْہَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ» ( البقرہ : 144 ) والی آیت آئی اور مکہ شریف کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منہ پھیرا ۔ (دوسری تبدیلی) یہ ہوئی کہ نماز کے لیے ایک دوسرے کو پکارتا تھا اور جمع ہو جاتے تھے لیکن اس سے آخر عاجز آ گئے پھر ایک انصاری عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے خواب میں دیکھا لیکن وہ خواب گویا بیداری کی سی حالت میں تھا کہ ایک شخص سبز رنگ کا حلہ پہنے ہوئے ہے اور قبلہ کی طرف متوجہ ہو کر کہہ رہا ہے آیت «اللہ اکبر اللہ اکبر اشھد ان لا الہ الا اللہ» دوبارہ یونہی اذان پوری کی پھر تھوڑی دیر کے بعد اس نے تکبیر کہی جس میں آیت «قدقامت الصلوۃ» بھی دو مرتبہ کہا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بلال رضی اللہ عنہ کو یہ سکھاؤ وہ اذان کہیں گے چنانچہ سب سے پہلے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے اذان کہی دوسری روایت میں ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بھی آ کر اپنا یہی خواب بیان کیا تھا ۔ لیکن ان سے پہلے سیدنا زید بن عبداللہ رضی اللہ عنہ آچکے تھے ۔ (تیسری تبدیلی) یہ ہوئی کہ پہلے یہ دستور تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا رہے ہیں کوئی آیا کچھ رکعتیں ہو چکی ہیں تو وہ کسی سے دریافت کرتا کہ کتنی رکعتیں ہو چکی ہیں وہ جواب دیتا کہ اتنی رکعتیں پڑھ لی ہیں وہ اتنی رکعتیں ادا کرتا پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل جاتا سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ آئے اور کہنے لگے کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جس حال میں پاؤں گا اسی میں مل جاؤں گا اور جو نماز چھوٹ گئی ہے اسے حضور کے سلام پھیرنے کے بعد ادا کروں گا چنانچہ انہوں نے یہی کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سلام پھیرنے کے بعد اپنی رہی ہوئی رکعتیں ادا کرنے کے لیے کھڑے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھ کر فرمایا معاذ رضی اللہ عنہ نے تمہارے لیے یہ اچھا طریقہ نکالا ہے تم بھی اب یونہی کیا کرو ، یہ تین تبدیلیاں تو نماز کی ہوئیں ، روزوں کی تبدیلیاں سنیئے (اول ) جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں آئے تو ہر مہینہ میں تین روزے رکھتے تھے اور عاشورہ کا روزہ رکھا کرتے تھے پھر اللہ تعالیٰ نے آیت «یٰٓاَیٰہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ» ( 2 ۔ البقرہ : 183 ) نازل فرما کر رمضان کے روزے فرض کئے ۔ (دوسرا) ابتدائی یہ حکم تھا کہ جو چاہے روزہ رکھے جو چاہے نہ رکھے اور فدیہ دیدے پھر یہ آیت «فَمَن شَہِدَ مِنکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ وَمَن کَانَ مَرِیضًا أَوْ عَلَیٰ سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ أَیَّامٍ أُخَرَ» ( 2 ۔ البقرہ : 185 ) تم میں سے جو شخص رمضان کے مہینے میں قیام کی حالت میں ہو وہ روزہ رکھا کرے پس جو شخص مقیم ہو مسافر نہ ہو تندرست ہو بیمار نہ ہو اس پر روزہ رکھنا ضروری ہو گیا ہاں بیمار اور مسافر کے لیے رخصت ملی اور ایسا بوڑھا انتہائی جو روزے کی طاقت ہی نہ رکھتا ہو اسے بھی رخصت دی گئی ۔ (تیسری) حالت یہ ہے کہ ابتداء میں کھانا پینا عورتوں کے پاس آنا سونے سے پہلے پہلے جائز تھا سو گیا تو پھر گو رات کو ہی جاگے لیکن کھانا پینا اور جماع اس کے لیے منع تھا پھر صرمہ نامی ایک انصاری صحابی رضی اللہ عنہ دن بھر کام کاج کر کے رات کو تھکے ہارے گھر آئے عشاء کی نماز ادا کی اور نیند آ گئی دوسرے دن کچھ کھائے پئے بغیر روزہ رکھا لیکن حالت بہت نازک ہو گئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ یہ کیا بات ؟ تو انہوں نے سارا واقعہ کہہ دیا ، ادھر یہ واقعہ تو ان کے ساتھ ہوا ادھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سو جانے کے بعد اپنی بیوی صاحبہ سے مجامعت کر لی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر حسرت و افسوس کے ساتھ اپنے اس قصور کا اقرار کیا جس پر آیت «أُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ إِلَیٰ نِسَائِکُمْ ہُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَأَنتُمْ لِبَاسٌ لَّہُنَّ عَلِمَ اللہُ أَنَّکُمْ کُنتُمْ تَخْتَانُونَ أَنفُسَکُمْ فَتَابَ عَلَیْکُمْ وَعَفَا عَنکُمْ فَالْآنَ بَاشِرُوہُنَّ وَابْتَغُوا مَا کَتَبَ اللہُ لَکُمْ وَکُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّیٰ یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْأَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمٰوا الصِّیَامَ إِلَی اللَّیْلِ» ( البقرہ : 187 ) تک نازل ہوئی اور مغرب کے بعد سے لے کر صبح صادق کے طلوع ہونے تک رمضان کی راتوں میں کھانے پینے اور مجامعت کرنے کی رخصت دے دی گئی ، بخاری مسلم میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ پہلے عاشورہ کا روزہ رکھا جاتا جب رمضان کی فرضیت نازل ہوئی تو اب ضروری نہ رہا جو چاہتا رکھ لیتا جو نہ چاہتا نہ رکھتا ، (صحیح بخاری:2002) سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی یہ مروی ہے ۔ آیت «وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ» ( 2 ۔ البقرہ : 184 ) کا مطلب سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہی کہ ابتداء اسلام میں جو چاہتا روزہ رکھتا جو چاہتا نہ رکھتا اور ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیتا ۔ سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے بھی صحیح بخاری میں ایک روایت آئی ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کے وقت جو شخص چاہتا افطار کرتا اور فدیہ دے دیتا یہاں تک کہ اس کے بعد کی آیت اتری اور یہ منسوخ ہوئی ، (صحیح بخاری:4507) سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ بھی اسے منسوخ کہتے ہیں ۔ (صحیح بخاری:4506) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں یہ منسوخ نہیں مراد اس سے بوڑھا مرد اور بڑھیا عورت ہے ۔ جسے روزے کی طاقت نہ ہو ، (صحیح بخاری:4506) ابن ابی لیلیٰ رحمہ اللہ ، کہتے ہیں عطار رحمہ اللہ کے پاس رمضان میں گیا دیکھا کہ وہ کھانا کھا رہے ہیں مجھے دیکھ کر فرمانے لگے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ اس آیت نے پہلی آیت کا حکم منسوخ کر دیا ، اب یہ حکم صرف بہت زیادہ بے طاقت بوڑھے بڑے کے لیے ہے ، حاصل کلام یہ ہے کہ جو شخص مقیم ہو اور تندرست ہو اس کے لیے یہ حکم نہیں بلکہ اسے روزہ ہی رکھنا ہو گا ہاں ایسے بوڑھے ، بڑے معمر اور کمزور آدمی جنہیں روزے کی طاقت ہی نہ ہو روزہ نہ رکھیں اور نہ ان پر قضاء ضروری ہے لیکن اگر وہ مالدار ہوں تو آیا انہیں کفارہ بھی دینا پڑے گا یا نہیں ہمیں اختلاف ہے امام شافعی رحمہ اللہ کا ایک قول تو یہ ہے کہ چونکہ اس میں روزے کی طاقت نہیں لہٰذا یہ بھی مثل بچے کے ہے نہ اس پر کفارہ ہے نہ اس پر قضاء کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ، ۔ دوسرا قول امام شافعی رحمہ اللہ کا یہ ہے کہ کہ اس کے ذمہ کفارہ ہے ، اکثر علماء کرام کا بھی یہی فیصلہ ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ کی تفسیروں سے بھی یہی ثابت ہوا ہے امام بخاری رحمہ اللہ کا پسندیدہ مسئلہ بھی یہی ہے وہ فرماتے ہیں کہ بہت بڑی عمر والا بوڑھا جسے روزے کی طاقت نہ ہو تو فدیہ دیدے جیسے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے اپنی بڑی عمر میں بڑھاپے کے آخری دنوں میں سال دو سال تک روزہ نہ رکھا اور ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو روٹی گوشت کھلا دیا کرے ، (صحیح بخاری:4505) مسند ابولیلیٰ میں ہے کہ جب سیدنا انس رضی اللہ عنہ روزہ رکھنے سے عاجز ہو گئے تو گوشت روٹی تیار کر کے تیس مسکینوں کو بلا کر کھلا دیا کرتے ۔ مسند ابی لیلیٰ204/7صحیح) اسی طرح حمل والی اور دودھ پلانے والی عورت کے بارے میں جب انہیں اپنی جان کا یا اپنے بچے کی جان کا خوف ہو علماء میں سخت اختلاف ہے ، بعض تو کہتے ہیں کہ وہ روزہ نہ رکھیں فدیہ دے دیں اور جب خوف ہٹ جائے قضاء بھی کر لیں بعض کہتے ہیں صرف فدیہ ہے قضاء نہ کریں ، بعض کہتے ہیں قضاء کر لیں فدیہ نہیں اور بعض کا قول ہے کہ نہ روزہ رکھیں نہ فدیہ نہ قضاء کریں امام ابن کثیر نے اس مسئلہ کو اپنی کتاب الصیام میں تفصیل کے ساتھ لکھاہے « «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» » ( بظاہر یہی بات دلائل سے زیادہ قریب نظر آتی ہے کہ یہ دونوں ایسی حالت میں روزہ رکھیں اور بعد میں قضاء کریں ۔ نہ فدیہ دیں ۔ ) البقرة
184 البقرة
185 نزول قرآن اور ماہ رمضان ماہ رمضان شریف کی فضیلت و بزرگی کا بیان ہو رہا ہے اسی ماہ مبارک میں قرآن کریم اترا مسند احمد کی حدیث میں ہے حضور علیہ السلام نے فرمایا ہے ابراہیمی صحیفہ رمضان کی پہلی رات اترا اور توراۃ چھٹی تاریخ اگلے تمام صحیفے اور توراۃ و انجیل تیرھویں تاریخ اور قرآن چوبیسویں تاریخ نازل ہوا ۔ (مسند احمد:107/4:ضعیف) ایک اور روایت میں ہے کہ زبور بارھویں کو اور انجیل اٹھارہویں کو ، اگلے تمام صحیفے اور توراۃ و انجیل و زبور جس پیغمبر پر اتریں ایک ساتھ ایک ہی مرتبہ اتریں لیکن قرآن کریم بیت العزت سے آسمانی دنیا تک تو ایک ہی مرتبہ نازل ہوا اور پھر وقتًا فوقتًا حسب ضرورت زمین پر نازل ہوتا رہا یہی مطلب آیت «اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ» ( 97 ۔ القدر : 1 ) اور آیت «اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃٍ مٰبٰرَکَۃٍ اِنَّا کُنَّا مُنْذِرِیْنَ» ( 44 ۔ الدخان : 3 ) اور آیت «اُنۡزِلَ فِیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الۡہُدٰی وَ الۡفُرۡقَانِ» ( 2 ۔ البقرہ : 185 ) مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم ایک ساتھ آسمان اول پر رمضان المبارک کے مہینے میں لیلتہ القدر کو نازل ہوا اور اسی کو لیلہ مبارکہ بھی کہا ہے ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ وغیرہ سے یہی مروی ہے ، آپ رضی اللہ عنہ سے جب یہ سوال ہوا کہ قران کریم تو مختلف مہینوں میں برسوں میں اترتا رہا پھر رمضان میں اور وہ بھی لیلتہ القدر میں اترنے کے کیا معنی ؟ تو آپ رضی اللہ عنہ نے یہی مطلب بیان کیا ( ابن مردویہ وغیرہ ) آپ رضی اللہ عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ آدھی رمضان میں قرآن کریم دنیا کے آسمان کی طرف اترا بیت العزۃ میں رکھا گیا پھر حسب ضرورت واقعات اور سوالات پر تھوڑا تھوڑا اترتا رہا اور بیس سال میں کامل ہوا اس میں بہت سی آیتیں کفار کے جواب میں بھی اتریں کفار کا ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ یہ قرآن کریم ایک ساتھ سارا کیوں نہیں اترا ؟ جس کے جواب میں فرمایا گیا آیت «لِنُثَبِّتَ بِہٖ فُؤَادَکَ وَرَتَّلْنٰہُ تَرْتِیْلًا» ( 25 ۔ الفرقان : 32 ) یہ اس لیے کہ تیرے دل کو برقرار اور مضبوط رکھیں ۔ پھر قرآن کریم کی تعریف میں بیان ہو رہا ہے کہ یہ لوگوں کے دلوں کی ہدایت ہے اور اس میں واضح اور روشن دلیلیں ہیں تدبر اور غور و فکر کرنے والا اس سے صحیح راہ پر پہنچ سکتا ہے یہ حق و باطل حرام و حلال میں فرق ظاہر کرنے والا ہے ہدایت و گمراہی اور رشد و برائی میں علیحدگی کرنے والا ہے ، بعض سلف سے منقول ہے کہ صرف رمضان کہنا مکروہ ہے شہر رمضان یعنی رمضان کا مہینہ کہنا چاہے ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے رمضان نہ کہو یہ اللہ تعالیٰ کا نام ہے شہر رمضان یعنی رمضان کا مہینہ کہا کرو ، (ابن عدی:53/7:موضوع) مجاہد رحمتہ اللہ علیہ اور محمد بن کعب رحمہ اللہ سے بھی یہی مروی ہے ، سیدنا ابن عباس اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہما کا مذہب اس کے خلاف ہے ، رمضان نہ کہنے کے بارے میں ایک مرفوع حدیث بھی ہے لیکن سنداً وہ کمزور ہے امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اس کے رد میں باب باندھ کر بہت سی حدیثیں بیان فرمائی ہیں ایک میں ہے جو شخص رمضان کے روزے ایمان اور نیک نیتی کے ساتھ رکھے اس کے سبب اس کے اگلے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں وغیرہ ۔ (صحیح بخاری:38) غرض اس آیت سے ثابت ہوا کہ جب رمضان کا چاند چڑھے کوئی شخص اپنے گھر ہو ، سفر میں نہ ہو اور تندرست بھی ہو اسے روزے رکھنے لازمی اور ضروری ہیں ، پہلے اس قسم کے لوگوں کو بھی جو رخصت تھی وہ اٹھ گئی اس کا بیان فرما کر پھر بیمار اور مسافر کے لیے رخصت کا بیان فرمایا کہ یہ لوگ روزہ ان دنوں میں نہ رکھیں اور پھر قضاء کر لیں یعنی جس کے بدن میں کوئی تکلیف ہو جس کی وجہ سے روزے میں مشقت پڑے یا تکلیف بڑھ جائے یا سفر میں ہو تو افطار کر لے اور جتنے روزے جائیں اتنے دن پھر قضاء کر لے ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ان حالتوں میں رخصت عطا فرما کر تمہیں مشقت سے بچا لینا یہ سراسر ہماری رحمت کا ظہور ہے اور احکام اسلام میں آسانی ہے ۔ اب یہاں چند مسائل بھی سنئے ( ١ ) سلف کی ایک جماعت کا خیال ہے کہ جو شخص اپنے گھر میں مقیم ہو اور چاند چڑھ جائے رمضان شریف کا مہینہ آ جائے پھر درمیان میں اسے سفر درپیش ہو تو اسے روزہ ترک کرنا جائز نہیں کیونکہ ایسے لوگوں کو روزہ رکھنے کا صاف حکم قرآن پاک میں موجود ہے ، ہاں ان لوگوں کو بحالت سفر روزہ چھوڑنا جائز ہے جو سفر میں ہوں اور رمضان کا مہینہ آ جائے ، لیکن یہ قول غریب ہے ، ابومحمد بن حزم نے اپنی کتاب “ محلی “ میں صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہ اللہ علیہم کی ایک جماعت کا یہی مذہب نقل کیا ہے لیکن اس میں کلام ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک میں فتح مکہ کے غزوہ کے لیے نکلے روزے سے تھے ” کدید “ میں پہنچ کر روزہ افطار کیا اور لوگوں کو بھی حکم دیا کہ روزہ توڑ دیں ۔ (صحیح بخاری:1948) ( ٢ ) صحابہ رضی اللہ عنہم تابعین رحمہ اللہ علیہم کی ایک اور جماعت نے کہا کہ سفر میں روزہ توڑ دینا واجب ہے کیونکہ قرآن کریم میں ہے آیت «فَمَن شَہِدَ مِنکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ وَمَن کَانَ مَرِیضًا أَوْ عَلَیٰ سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ أَیَّامٍ أُخَرَ» ( 2 ۔ البقرہ : 185 ) لیکن صحیح قول جو جمہور کا مذہب ہے یہ ہے کہ آدمی کو اختیار ہے خواہ رکھے خواہ نہ رکھے اس لیے کہ ماہ رمضان میں لوگ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلتے تھے بعض روزے سے ہوتے تھے بعض روزے سے نہیں ہوتے تھے پس روزے دار بے روزہ پر اور بے روزہ دار روزہ دار پر کوئی عیب نہیں پکڑاتا تھا ۔ (صحیح مسلم:1116) اگر افطار واجب ہوتا تو روزہ رکھنے والوں پر انکار کیا جاتا ، بلکہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بحالت سفر روزہ رکھنا ثابت ہے ، بخاری و مسلم میں ہے سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں رمضان المبارک میں سخت گرمی کے موسم میں ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے گرمی کی شدت کی وجہ سے سر پر ہاتھ رکھے رکھے پھر رہے تھے ہم میں سے کوئی بھی روزے سے نہ تھا سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہما کے ۔ (صحیح بخاری:1945) ( ٣ ) تیسرا مسئلہ ۔ ایک جماعت علماء کا خیال ہے جن میں امام شافعی رحمہ اللہ بھی ہیں کہ سفر میں روزہ رکھنا نہ رکھنے سے افضل ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بحالت سفر روزہ رکھنا ثابت ہے ، ایک دوسری جماعت کا خیال ہے کہ روزہ نہ رکھنا افضل ہے کیونکہ اس میں رخصت پر عمل ہے ، اور ایک حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سفر کے روزے کی بابت سوال ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو روزہ توڑ دے اس نے اچھا کیا اور جو نہ توڑے اس پر کوئی گناہ نہیں ۔ (صحیح مسلم:1121) ایک اور حدیث شریف میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کی رخصتوں کو جو اس نے تمہیں دی ہیں تم لے لو ۔ (سنن نسائی:2258 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) تیسری جماعت کا قول ہے کہ رکھنا نہ رکھنا دونوں برابر ہے ۔ ان کی دلیل سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا والی حدیث ہے کہ سیدنا حمزہ بن عمرو اسلمی رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں روزے اکثر رکھا کرتا ہوں تو کیا اجازت ہے کہ سفر میں بھی روزے رکھ لیا کروں فرمایا اگر چاہو تو رکھو (صحیح بخاری:1942) بعض لوگوں کا قول ہے کہ اگر روزہ بھاری پڑتا ہو تو افطار کرنا افضل ہے ، سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا اس پر سایہ کیا گیا ہے پوچھا یہ کیا بات ہے ؟ لوگوں نے کہا یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم یہ روزے سے ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں (صحیح بخاری:1946) یہ خیال رہے کہ جو شخص سنت سے منہ پھیرے اور روزہ چھوڑنا سفر کی حالت میں بھی مکروہ جانے تو اس پر افطار ضروری ہے اور روزہ رکھنا حرام ہے ۔ مسند احمد وغیرہ میں سیدنا ابن عمر جابر رضی اللہ عنہما وغیرہ سے مروی ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی رخصت کو قبول نہ کرے اس پر عرفات کے پہاڑوں برابر گناہ ہو گا ۔ (مسند احمد:71/2:ضعیف) ( ۴ ) چوتھا مسئلہ : آیا قضاء روزوں میں پے در پے روزے رکھنے ضروری ہیں یا جدا جدا بھی رکھ لیے جائیں تو حرج نہیں ؟ ایک مذہب بعض لوگوں کا یہ ہے کہ قضاء کو مثل ادا کے پورا کرنا چاہیئے ، ایک کے پیچھے ایک یونہی لگاتار روزے رکھنے چاہئیں دوسرے یہ کہ پے در پے رکھنے واجب نہیں خواہ الگ الگ رکھے خواہ ایک ساتھ اختیار ہے جمہور سلف و خلف کا یہی قول ہے اور دلائل سے ثبوت بھی اسی کا ہے ، رمضان میں پے در پے رورزے رکھنا اس لیے ہیں کہ وہ مہینہ ہی ادائیگی روزہ کا ہے اور رمضان کے نکل جانے کے بعد تو صرف وہ گنتی پوری کرنی ہے خواہ کوئی دن ہو اسی لیے قضاء کے حکم کے بعد اللہ کی آسانی کی نعمت کا بیان ہوا ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بہتر دین وہی ہے جو آسانی والا ہو ، بہتر دین وہی ہے جو آسانی والا ہو ، (مسند احمد:479/3:حسن) مسند ہی میں ایک اور حدیث میں ہے ، ابوعروہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کر رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے سر سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے معلوم ہوتا تھا کہ وضو یا غسل کر کے تشریف لا رہے ہیں جب نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات کرنے شروع کر دیے کہ یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم کیا فلاں کام میں کوئی حرج ہے ؟ فلاں کام میں کوئی حرج ہے ؟ آخر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کا دین آسانیوں والا ہے تین مرتبہ یہی فرمایا ، (مسند احمد:69/5:ضعیف) مسند ہی کی ایک اور حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں لوگو آسانی کرو سختی نہ کرو تسکین دو نفرت نہ دلاؤ ۔ (صحیح بخاری:6125) بخاری و مسلم کی حدیث میں بھی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کو جب یمن کی طرف بھیجا تو فرمایا تم دونوں خوشخبریاں دینا ، نفرت نہ دلانا ، آسانیاں کرنا سختیاں نہ کرنا ، آپس میں اتفاق سے رہنا اختلاف نہ کرنا.(صحیح بخاری:6124) سنن اور مسانید میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں یکطرفہ نرمی اور آسانی والے دین کے ساتھ بھیجا گیا ہوں ۔ (مسند احمد:266/5:حسن) سیدنا محجن بن ادرع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا غور سے آپ اسے دیکھتے رہے پھر فرمایا کیا تم اسے سچائی کے ساتھ نماز پڑھتے ہوئے دیکھ رہے ہو لوگوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ تمام اہل مدینہ سے زیادہ نماز پڑھنے والا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے نہ سناؤ کہیں یہ اس کی ہلاکت کا باعث نہ ہو سنو اللہ تعالیٰ کا ارادہ اس امت کے ساتھ آسانی کا ہے سختی کا نہیں ۔ (مسند احمد:32/5:ضعیف) پس آیت کا مطلب یہ ہوا کہ مریض اور مسافر وغیرہ کو یہ رخصت دینا اور انہیں معذور جاننا اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ارادہ آسانی کا ہے سختی کا نہیں اور قضاء کا حکم گنتی کے پورا کرنے کے لیے ہے اور اس رحمت نعمت ہدایت اور عبادت پر تمہیں اللہ تبارک وتعالیٰ کی بڑائی اور ذکر کرنا چاہیئے جیسے اور جگہ حج کے موقع پر فرمایا آیت «فَاِذَا قَضَیْتُمْ مَّنَاسِکَکُمْ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَذِکْرِکُمْ اٰبَاءَکُمْ اَوْ اَشَدَّ ذِکْرًا» ( 2 ۔ البقرہ : 200 ) یعنی جب احکام حج ادا کر چکو تو اللہ کا ذکر کرو ۔ اور جگہ جمعہ کی نماز کی ادائیگی کے بعد فرمایا کہ جب نماز پوری ہو جائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور رزق تلاش کرو اور اللہ کا ذکر زیادہ کرو تاکہ تمہیں فلاح ملے ، اور جگہ فرمایا آیت «فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَکُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَ» ( 15 ۔ الحجر : 98 ) یعنی سورج کے نکلنے سے پہلے سورج کے ڈوبنے سے پہلے رات کو اور سجدوں کے بعد اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کیا کرو ، اسی لیے مسنون طریقہ یہ ہے کہ ہر فرض نماز کے بعد اللہ تعالیٰ کی حمد تسبیح اور تکبیر پڑھنی چاہیئے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نماز سے فارغ ہونا صرف اللہ اکبر کی آوازوں سے جانتے تھے ۔ (صحیح بخاری:843) یہ آیت دلیل ہے اس امر کی کہ عید الفطر میں بھی تکبیریں پڑھنی چاہئیں داود ، بن علی اصبہانی ظاہری رحمہ اللہ کا مذہب ہے کہ اس عید میں تکبیروں کا کہنا واجب ہے کیونکہ اس میں صیغہ امر کا ہے «ولتکبرو اللہ» اور اس کے بالکل برخلاف حنفی مذہب ہے وہ کہتے ہیں کہ اس عید میں تکبیریں پڑھنا مسنون نہیں ، باقی بزرگان دین اسے مستحب بتاتے ہیں گو بعض تفصیلوں میں قدرے اختلاف ہے پھر فرمایا تاکہ تم شکر کرو یعنی اللہ تعالیٰ کے احکام بجا لا کر اس کے فرائض کو ادا کر کے اس کے حرام کردہ کاموں سے بچ کر اس کی حدود کی حفاظت کر کے تم شکر گزار بندے بن جاؤ ۔ البقرة
186 دعا اور اللہ مجیب الدعوات ایک اعرابی نے پوچھا تھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا ہمارا رب قریب ہے ؟ اگر قریب ہو تو ہم اس سے سرگوشیاں کر لیں یا دور ہے ؟ اگر دور ہو تو ہم اونچی اونچی آوازوں سے اسے پکاریں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے اس پر یہ آیت اتری. (تفسیر ابن جریر الطبری:480/3) ایک اور روایت میں ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے اس سوال پر کہ ہمارا رب کہاں ہے ؟ یہ آیت اتری ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:481/3) عطاء رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب آیت «وَقَالَ رَبٰکُمُ ادْعُونِی أَسْتَجِبْ لَکُمْ» ( 40 ۔ غافر : 60 ) نازل ہوئی یعنی مجھے پکارو میں تمہاری دعائیں قبول کرتا رہوں گا تو لوگوں نے پوچھا کہ دعا کس وقت کرنی چاہیئے ؟ اس پر یہ آیت اتری (تفسیر ابن جریر الطبری:2915) ۔ سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ میں تھے ہر بلندی پر چڑھتے وقت اور ہر وادی میں اترتے وقت بلند آوازوں سے تکبیر کہتے جا رہے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آ کر فرمانے لگے لوگو ! اپنی جانوں پر رحم کرو تم کسی کم سننے والے یا دور والے کو نہیں پکار رہے بلکہ جسے تم پکارتے ہو وہ تم سے تمہاری سواریوں کی گردن سے بھی زیادہ قریب ہے ، اے عبداللہ بن قیس رضی اللہ عنہ ! سن لو ! جنت کا خزانہ «لاحول ولاقوۃ الا باللہ» ہے (صحیح بخاری:6384) سیدنا انس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرا بندہ میرے ساتھ جیسا عقیدہ رکھتا ہے میں بھی اس کے ساتھ ویسا ہی برتاؤ کرتا ہوں جب بھی وہ مجھ سے دعا مانگتا ہے میں اس کے قریب ہی ہوتا ہوں (صحیح مسلم:2686) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا بندہ جب مجھے یاد کرتا ہے اور اس کے ہونٹ میرے ذکر میں ہلتے ہیں میں اس کے قریب ہوتا ہوں اس کو امام احمد نے روایت کیا ہے ۔ (سنن ابن ماجہ:379 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) اس مضمون کی آیت کلام پاک میں بھی ہے فرمان ہے آیت «اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِیْنَ ہُمْ مٰحْسِنُوْنَ» ( 16 ۔ النحل : 128 ) جو تقویٰ و احسان و خلوص والے لوگ ہوں ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہوتا ہے ، موسیٰ اور ہارون علیہما السلام سے فرمایا جاتا ہے آیت «اِنَّنِیْ مَعَکُمَآ اَسْمَعُ وَاَرٰی» ( 20 ۔ طہٰ : 46 ) میں تم دونوں کے ساتھ ہوں اور دیکھ رہا ہوں ، مقصود یہ ہے کہ باری تعالیٰ دعا کرنے والوں کی دعا کو ضائع نہیں کرتا نہ ایسا ہوتا ہے کہ وہ اس دعا سے غافل رہے یا نہ سنے اس نے دعا کرنے کی دعوت دی ہے اور اس کے ضائع نہ ہونے کا وعدہ کیا ہے ۔ سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بندہ جب اللہ تعالیٰ کے سامنے ہاتھ بلند کر کے دعا مانگتا ہے تو وہ «ارحم الراحمین» اس کے ہاتھوں کو خالی پھیرتے ہوئے شرماتا ہے ۔ (سنن ابوداود:1488 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو بندہ اللہ تعالیٰ سے کوئی ایسی دعا کرتا ہے جس میں نہ گناہ ہو نہ رشتے ناتے ٹوٹتے ہوں تو اسے اللہ تین باتوں میں سے ایک ضرور عطا فرماتا ہے یا تو اس کی دعا اسی وقت قبول فرما کر اس کی منہ مانگی مراد پوری کرتا یا اسے ذخیرہ کر کے رکھ چھوڑتا ہے اور آخرت میں عطا فرماتا ہے یا اس کی وجہ سے کوئی آنے والی بلا اور مصیبت کو ٹال دیتا ہے ، لوگوں نے یہ سن کر کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پھر تو ہم بکثرت دعا مانگا کریں گے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر اللہ کے ہاں کیا کمی ہے ؟ (مسند احمد:18/3:حسن) سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ روئے زمین کا جو مسلمان اللہ عزوجل سے دعا مانگے اسے اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے یا تو اسے اس کی منہ مانگی مراد ملتی ہے یا ویسی ہی برائی ٹلتی ہے جب تک کہ گناہ کی اور رشتہ داری کے کٹنے کی دعا نہ ہو (سنن ترمذی:3573 ، قال الشیخ الألبانی:حسن صحیح) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تک کوئی شخص دعا میں جلدی نہ کرے اس کی دعا ضرور قبول ہوتی ہے جلدی کرنا یہ کہ کہنے لگے میں تو ہر چند دعا مانگی لیکن اللہ قبول نہیں کرتا (صحیح بخاری:6340) بخاری کی روایت میں یہ بھی ہے کہ اسے ثواب میں جنت عطا فرماتا ہے ، صحیح مسلم میں یہ بھی ہے کہ نامقبولیت کا خیال کر کے وہ نا امیدی کے ساتھ دعا مانگنا ترک کر دے یہ جلدی کرنا ہے ۔ (صحیح مسلم:2735) ابو جعفر طبری کی تفسیر میں یہ قول سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان کیا گیا ہے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ دل مثل برتنوں کے ہیں بعض بعض سے زیادہ نگرانی کرنے والے ہوتے ہیں ، اے لوگوں تم جب اللہ تعالیٰ سے دعا مانگا کرو تو قبولیت کا یقین رکھا کرو ، سنو غفلت والے دل کی دعا اللہ تعالیٰ ایک مرتبہ بھی قبول نہیں فرماتا ۔ (مسند احمد:177/2:ضعیف) سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی کہ الہٰ العالمین ! عائشہ کے اس سوال کا کیا جواب ہے ؟ جبرائیل علیہ السلام آئے اور فرمایا اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے مراد اس سے وہ شخص ہے جو نیک اعمال کرنے والا ہو اور سچی نیت اور نیک دلی کے ساتھ مجھے پکارے تو میں لبیک کہہ کر اس کی حاجت ضرور پوری کر دیتا ہوں (المیزان180/1:باطل و ضعیف جداً ) یہ حدیث اسناد کی رو سے غریب ہے ۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی پھر فرمایا اے اللہ تو نے دعا کا حکم دیا ہے اور اجابت کا وعدہ فرمایا ہے میں حاضر ہوں الٰہی میں حاضر ہوں الٰہی میں حاضر ہوں میں حاضر ہوں اے لاشریک اللہ میں حاضر ہوں حمد و نعمت اور ملک تیرے ہی لیے ہے تیرا کوئی شریک نہیں میری گواہی ہے کہ تو نرالا یکتا بیمثل اور ایک ہی ہے تو پاک ہے ، بیوی بچوں سے دور ہے تیرا ہم پلہ کوئی نہیں تیری کفو کا کوئی نہیں تجھ جیسا کوئی نہیں میری گواہی کہ تیرا وعدہ سچا تیری ملاقات حق جنت و دوزخ قیامت اور دوبارہ جینا یہ سب برحق امر ہیں ۔ ( الدیلمی فی مسند الفردوس:1798:ضعیف جداً) سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے اے ابن آدم ! ایک چیز تو تیری ہے ایک میری ہے اور ایک مجھ اور تجھ میں مشترک ہے خالص میرا حق تو یہ ہے کہ ایک میری ہی عبادت کرے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے ۔ گویا میرے لیے مخصوص یہ ہے کہ تیرے ہر ہر عمل کا پورا پورا بدلہ میں تجھے ضرور دوں گا کسی نیکی کو ضائع نہ کروں گا مشترک چیز یہ ہے کہ تو دعا کر اور میں قبول کروں تیرا کام دعا کرنا اور میرا کام قبول کرنا (بزار فی کشف الاستار:؛18/1:ضعیف) دعا کی اس آیت کو روزوں کے احکام کی آیتوں کے درمیان وارد کرنے کی حکمت یہ ہے کہ روزے ختم ہونے کے بعد لوگوں کو دعا کی ترغیب ہو بلکہ روزہ افطار کے وقت وہ بکثرت دعائیں کیا کریں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ روزے دار افطار کے وقت جو دعا کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے قبول فرماتا ہے ۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما افطار کے وقت اپنے گھر والوں کو اور بچوں کو سب کو بلا لیتے اور دعائیں کیا کرتے تھے ۔ (طیالسی:2262:ضعیف) ابن ماجہ میں بھی یہ روایت ہے اور اس میں صحابی کی یہ دعا منقول ہے دعا « اللہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ بِرَحْمَتِکَ الَّتِی وَسِعَتْ کُلَّ شَیْ‏ءٍ ان تغفرلی» یعنی اے اللہ میں تیری اس رحمت کو تجھے یاد دلا کر جس نے تمام چیزوں کو گھیر رکھا ہے تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ تو میرے گناہ معاف فرما دے ۔ (سنن ابن ماجہ:1753 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) اور حدیث میں تین شخصوں کی دعا رد نہیں ہوتی عادل بادشاہ ، روازے دار اور مظلوم اسے قیامت والے دن اللہ تعالیٰ بلند کرے گا مظلوم کی بد دعا کے لیے آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مجھے میری عزت کی قسم میں تیری مدد ضرور کروں گا گو دیر سے کروں ۔ (سنن ترمذی:3598 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) البقرة
187 رمضان میں مراعات اور کچھ پابندیاں ابتدائے اسلام میں یہ حکم تھا کہ افطار کے بعد کھانا پینا ، جماع کرنا عشاء کی نماز تک جائز تھا اور اگر کوئی اس سے بھی پہلے سوگیا تو اس پر نیند آتے ہی حرام ہو گیا ، اس میں صحابہ رضی اللہ عنہم کو قدرے مشقت ہوئی جس پر یہ رخصت کی آیتیں نازل ہوئیں اور آسانی کے احکام مل گئے رفث سے مراد یہاں جماع ہے ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما عطا مجاہد سعید بن جبیر طاؤس سالم بن عبداللہ بن عمرو بن دینا حسن قتادہ زہری ضحاک ، ابراہیم نخعی ، سدی ، عطا خراسانی ، مقاتل بن حبان رحمہم اللہ بھی یہی فرماتے ہیں ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:367/1) لباس سے مراد سکون ہے ، ربیع بن انس رحمہ اللہ لحاف کے معنی بیان کرتے ہیں ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:381/1) مقصد یہ ہے کہ میاں بیوی کے آپس کے تعلقات اس قسم کے ہیں کہ انہیں ان راتوں میں بھی اجازت دی جاتی ہے پہلے حدیث گزر چکی ہے کہ اس آیت کا شان نزول کیا ہے ؟ جس میں بیان ہو چکا ہے کہ جب یہ حکم تھا کہ افطار سے پہلے اگر کوئی سوجائے تو اب رات کو جاگ کر کھا پی نہیں سکتا اب اسے یہ رات اور دوسرا دن گزار کر مغرب سے پہلے کھانا پینا حلال ہو گا ۔ سیدنا قیس بن صرمہ انصاری رضی اللہ عنہ دن بھر کھیتی باڑی کا کام کر کے شام کو گھر آئے بیوی سے کہا کچھ کھانے کو ہے ؟ جواب ملا کچھ نہیں میں جاتی ہوں اور کہیں سے لاتی ہوں وہ تو گئیں اور یہاں ان کی آنکھ لگ گئی جب آ کر دیکھا تو بڑا افسوس ہوا کہ اب یہ رات اور دوسرا دن بھوکے پیٹوں کیسے گزرے گا ؟ چنانچہ جب آدھا دن ہوا تو سیدنا قیس رضی اللہ عنہ بھوک کے مارے بے ہوش ہو گئے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ذکر ہوا اس پر یہ آیت اتری اور مسلمان بہت خوش ہوئے ۔ (صحیح بخاری:1915) روایت میں یہ بھی ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم رمضان بھر عورتوں کے پاس نہیں جاتے تھے لیکن بعض لوگوں سے کچھ ایسے قصور بھی ہو جایا کرتے تھے جس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی ۔ (صحیح بخاری:4508 ) ایک اور روایت میں ہے کہ یہ قصور کئی ایک حضرات سے ہو گیا تھا جن میں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی تھے جنہوں نے عشاء کی نماز کے بعد اپنی اہلیہ سے مباشرت کی تھی پھر دربار نبوت میں شکایتیں ہوئی اور یہ رحمت کی آیتیں اتریں ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:2948) ایک روایت میں ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے آ کر یہ واقعہ سنایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عمر رضی اللہ عنہ تم سے تو ایسی امید نہ تھی اسی وقت یہ آیت اتری ایک روایت میں ہے کہ سیدنا قیس رضی اللہ عنہ نے عشاء کی نماز کے بعد نیند سے ہوشیار ہو کر کھا پی لیا تھا اور صبح حاضر ہو کر سرکار محمدی صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنا قصور بیان کیا تھا ایک اور روایت میں یہ بھی ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جب مباشرت کا ارادہ کیا تو بیوی صاحبہ نے فرمایا کہ مجھے نیند آ گئی تھی لیکن انہوں نے اسے بہانہ سمجھا ، (تفسیر ابن جریر الطبری:2943) اس رات آپ دیر تک مجلس نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں بیٹھے رہے تھے اور بہت رات گئے گھر پہنچے تھے ایک اور روایت میں ہے کہ سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے بھی ایسا ہی قصور ہو گیا تھا ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:2949:حسن) «مَا کَتَبَ اللّٰہُ» سے مراد اولاد ہے ، بعض نے کہا جماع مراد ہے بعض کہتے ہیں لیلۃ القدر مراد ہے قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں مراد یہ رخصت ہے تطبیق ان سب اقوال میں اس طرح ہو سکتی ہے کہ عموم کے طور پر سبھی مراد ہیں ۔ جماع کی رخصت کے بعد کھانے پینے کی اجازت مل رہی ہے کہ صبح صادق تک اس کی بھی اجازت ہے ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب (ِمنَ الفجر) کا لفظ نہیں اترا تھا تو چند لوگوں نے اپنے پاؤں میں سفید اور سیاہ دھاگے باندھ لیے اور جب تک ان کی سفیدی اور سیاہی میں تمیز نہ ہوئی کھاتے پیتے رہے اس کے بعد یہ لفظ اترا اور معلوم ہو گیا کہ اس سے مراد رات سے دن ہے ۔ (صحیح بخاری:1917) مسند احمد میں ہے سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دو دھاگے ( سیاہ اور سفید ) اپنے تکیے تلے رکھ لیے اور جب تک ان کے رنگ میں تمیز نہ ہوئی تب تک کھاتا پیتا رہا صبح کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تیرا تکیہ بڑا لمبا چوڑا نکل اس سے مراد تو صبح کی سفیدی کا رات کی سیاہی سے ظاہر ہونا ہے ۔ یہ حدیث بخاری و مسلم میں بھی ہے ۔ (صحیح بخاری:1916) مطلب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے امر قول کا یہ ہے کہ آیت میں تو دھاگوں سے مراد دن کی سفیدی اور رات کی تاریکی ہے اگر تیرے تکیہ تلے یہ دونوں آ جاتی ہوں تو گویا اس کی لمبائی مشرق و مغرب تک کی ہے ، صحیح بخاری میں یہ تفسیر بھی روایتا موجود ہے ۔ (صحیح بخاری:4509) بعض روایتوں میں یہ لفظ بھی ہے کہ پھر تو تو بڑی لمبی چوڑی گردن والا ہے ، بعض لوگوں نے اس کے معنی بیان کئے ہیں کہ کند ذہن ہے لیکن یہ معنی غلط ہیں ، بلکہ مطلب دونوں جملوں کا ایک ہی ہے کیونکہ جب تکیہ اتنا بڑا ہے تو گردن بھی اتنی بڑی ہی ہو گی ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ بخاری شریف میں سیدنا عدی رضی اللہ عنہ کا اسی طرح کا سوال اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسی طرح کا جواب تفصیل وار یہی ہے ، آیت کے ان الفاظ سے سحری کھانے کا مستحب ہونا بھی ثابت ہوتا ہے اس لیے کہ اللہ کی رخصتوں پر عمل کرنا اسے پسند ہے ، حضور علیہ السلام کا فرمان ہے کہ سحری کھایا کرو اس میں برکت ہے (صحیح بخاری:1923) ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں میں سحری کھانے ہی کا فرق ہے ۔ (صحیح مسلم:1096) سحری کا کھانا برکت ہے اسے نہ چھوڑو اگر کچھ نہ ملے تو پانی کا گھونٹ ہی سہی اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے سحری کھانے والوں پر رحمت بھیجتے ہیں ۔ (مسند احمد:44/3:صحیح بالشواھد) اسی طرح کی اور بھی بہت سے حدیثیں ہیں سحری کو دیر کر کے کھانا چاہیئے ایسے وقت کہ فراغت کے کچھ ہی دیر بعد صبح صادق ہو جائے ۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم سحری کھاتے ہی نماز کے لیے کھڑے ہو جایا کرتے تھے اذان اور سحری کے درمیان اتنا ہی فرق ہوتا تھا کہ پچاس آیتیں پڑھ لی جائیں ۔ (صحیح بخاری:1921) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب تک میری امت افطار میں جلدی کرے اور سحری میں تاخیر کرے تب تک بھلائی میں رہے گی ۔ (مسند احمد:147/5:صحیح بالشواھد) یہ بھی حدیث سے ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام غذائے مبارک رکھا ہے ۔ (سنن ابوداود:2344 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح بالشواھد) مسند احمد وغیرہ کی حدیچ میں ہے سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سحری کھائی ایسے وقت کہ گویا سورج طلوع ہونے والا ہی تھا لیکن اس میں ایک راوی عاصم بن ابو نجود منفرد ہیں اور مراد اس سے دن کی نزدیکی ہے جیسے فرمان باری تعالیٰ فاذا بلغن اجلہن الخ یعنی جب وہ عورتیں اپنے وقتوں کو پہنچ جائیں مراد یہ ہے کہ جب عدت کا زمانہ ختم ہو جانے کے قریب ہو یہی مراد یہاں اس حدیث سے بھی ہے کہ انہوں نے سحری کھائی اور صبح صادق ہو جانے کا یقین نہ تھا بلکہ ایسا وقت تھا کہ کوئی کہتا تھا ہو گئی کوئی کہتا تھا نہیں ہوئی کہ اکثر اصحاب رسول اللہ رضی اللہ عنہم کا دیر سے سحری کھانا اور آخری وقت تک کھاتے رہنا ثابت ہے ۔ جیسے ابوبکر ، عمر ، علی ، ابن مسعود ، حذیفہ ، ابوہریرہ ابن عمر ، ابن عباس ، زید بن ثابت رضی اللہ عنہم اجمعین اور تابعین کی بھی ایک بہت بڑی جماعت سے صبح صادق طلوع ہونے کے بالکل قریب تک ہی سحری کھانا مروی ہے ، جیسے محمد بن علی بن حسین ، ابومجلز ، ابراہیم نخعی ، ابوالضحی ، ابووائل رحمہ اللہ علیہم وغیرہ ، شاگردان ابن مسعود رضی اللہ عنہ ، عطا ، حسن ، حاکم بن عیینہ ، مجاہد ، عروہ بن زبیر ، ابو الشعشاء ، جابر بن زیاد ، اعمش اور جابر بن رشد رحمہ اللہ علیہم اللہ تعالیٰ ان سب پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے ہم نے ان سب کی اسناد اپنی مستقل کتاب کتاب الصیام میں بیان کر دی ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ابن جریری نے اپنی تفسیر میں بعض لوگوں سے یہ بھی نقل کیا ہے کہ سورج کے طلوع ہونے تک کھانا پینا جائز ہے جیسے غروب ہوتے ہی افطار کرنا ، لیکن یہ قول کوئی اہل علم قبول نہیں کر سکتا کیونکہ نص قرآن کے خلاف ہے قرآن میں حیط کا لفظ موجود ہے ، بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بلال رضی اللہ عنہ کی اذان سن کر تم سحری سے نہ رک جایا کرو وہ رات باقی ہوتی ہے اذان دے دیا کرتے ہیں تم کھاتے پیتے رہو جب تک عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کی اذان نہ سن لو وہ اذان نہیں کہتے جب تک فجرطلوع نہ ہو جائے ۔ (صحیح بخاری:623) مسند احمد میں حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ وہ فجر نہیں جو آسمان کے کناروں میں لمبی پھیلتی ہے بلکہ وہ جو سرخی والی اور کنارے کنارے ظاہر ہونے والی ہوتی ہے ۔ (مسند احمد:23/4:حسن) ترمذی میں بھی یہ روایت ہے اس میں ہے کہ اس پہلی فجر کو جو طلوع ہو کر اوپر کو چڑھتی ہے دیکھ کر کھانے پینے سے نہ رکو بلکہ کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ سرخ دھاری پیش ہو جائے ۔ (سنن ابوداود:2348 ، قال الشیخ الألبانی:حسن صحیح) ایک اور حدیث میں صبح کاذب اور اذان بلال کو ایک ساتھ بھی بیان فرمایا ہے ۔ (صحیح مسلم:1094) ایک اور روایت میں صبح کاذب کو صبح کی سفیدی کے ستون کی مانند بتایا ہے ، دوسری روایت میں اس پہلی اذان کو جس کے مؤذن بلال رضی اللہ عنہ تھے یہ وجہ بیان کی ہے کہ وہ سوتوں کو جگانے اور نماز تہجد پڑھنے والوں اور قضاء لوٹانے کے لیے ہوتی (سنن ابوداود:2346 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) فجر اس طرح نہیں ہے جب تک اس طرح نہ ہو ( یعنی آسمان میں اونچی چڑھنے والی نہیں )(صحیح بخاری:621) بلکہ کناروں میں دھاری کی طرح ظاہر ہونے والی ۔ ایک مرسل حدیث میں ہے کہ فجر دوہیں ایک تو بھیڑیئے کی دم کی طرح ہے اس سے روزے دار پر کوئی چیز حرام نہیں ہوتی ہاں وہ فجر جو کناروں میں ظاہر ہو وہ صبح کی نماز اور روزے دار کا کھانا موقوف کرنے کا وقت ہے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:3003:جید) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں جو سفیدی آسمان کے نیچے سے اوپر کو چڑھتی ہے اسے نماز کی حلت اور روزے کی حرمت سے کوئی سروکار نہیں لیکن فجر جو پہاڑوں کی چوٹیوں پر چمکنے لگتی ہے وہ کھانا پینا حرام کرتی ہے ۔ حضرت عطا رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ آسمان میں لمبی لمبی چڑھنے والی روشنی نہ تو روزہ رکھنے والے پر کھانا پیناحرام کرتی ہے نہ اس سے نماز کا وقت آیا ہوا معلوم ہوسکتا ہے نہ حج فوت ہوتا ہے لیکن جو صبح پہاڑوں کی چوٹیوں پر پھیل جاتی ہے یہ وہ صبح ہے کہ روزہ دار کے لیے سب چیزیں حرام کر دیتی ہے اور نمازی کو نماز حلال کر دیتی ہے اور حج فوت ہو جاتا ہے ان دونوں روایتوں کی سند صحیح ہے اور بہت سے سلف سے منقول ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے ۔ مسئلہ مسئلہ : چونکہ جماع کا اور کھانے پینے کا آخری وقت اللہ تعالیٰ نے روزہ رکھنے والے کے لیے صبح صادق کا مقرر کیا ہے اس سے اس مسئلہ پر بھی استدلال ہوسکتا ہے کہ صبح کے وقت جو شخص جنبی اٹھا وہ غسل کر لے اور اپنا روزہ پورا کر لے اس پر کوئی حرج نہیں ، چاروں اماموں اور سلف و خلف کے جمہور علماء کرام کا یہی مذہب ہے ، بخاری و مسلم میں سیدہ عائشہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو جماع کرتے صبح کے وقت جنبی اٹھتے پھر غسل کر کے روزہ رکھتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ جنبہ ہونا احتلام کے سبب نہ ہوتا تھا ، سیدہ ام سلمہ والی روایت میں ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ افطار کرتے تھے نہ قضاء کرتے تھے ، (صحیح بخاری:1925) صحیح مسلم شریف میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت میں ہے کہ ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں صبح نماز کا وقت آجانے تک جنبی ہوتا ہوں تو پھر کیا میں روزہ رکھ لوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہی بات میرے ساتھ بھی ہوتی ہے اور میں روزہ رکھتا ہوں اس نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیسے نہیں اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تو سب اگلے پچھلے گناہ معاف فرما دئیے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا واللہ ! مجھے تو امید ہے کہ تم سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا اور تم سب سے زیادہ تقویٰ کی باتوں کو جاننے والا میں ہوں ۔ (صحیح مسلم:1110) مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے کہ جب صبح کی اذان ہو جائے اور تم میں سے کوئی جنبی ہو تو وہ اس دن روزہ نہ رکھے ، اس کی اسناد بہت عمدہ ہے اور یہ حدیث شرط شیخین پر ہے ۔ جیسے کہ ظاہر ہے یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ، (صحیح بخاری:1925) سنن نسائی میں یہ حدیث بروایت ابوہریرہ رضی اللہ عنہما ہے ، وہ اسامہ بن زید سے اور فضل بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں اور مرفوع نہیں اور بعض دیگر علماء کا یہی مذہب ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ، عطا ، ہشام بن عروہ اور حسن بصری رحمہم اللہ بھی یہی کہتے ہیں ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر جنبی ہو کر سوگیا ہو اور آنکھ کھلے تو صبح صادق ہو گئی ہو تو اس کے روزے میں کوئی نقصان نہیں سیدہ عائشہ اور سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہما والی حدیث کا یہی مطلب ہے اور اگر اس نے عمدا غسل نہیں کیا اور اسی حالت میں صبح صادق ہو گئی تو اس کا روزہ نہیں ہو گا عروہ ، طاؤس اور حسن رحمہ اللہ علیہم یہی کہتے ہیں ۔ بعض کہتے ہیں اگر فرضی روزہ ہو تو پورا تو کر لے لیکن قضاء لازم ہے اور نفلی روزہ ہو تو کوئی حرج نہیں ، ابراہیم نخعی رحمہ اللہ یہی کہتے ہیں ، خواجہ حسن بصری رحمہ اللہ سے بھی ایک روایت ہے بعض کہتے ہیں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا والی حدیث سے منسوخ ہے لیکن حقیقت میں تاریخ کا پتہ نہیں جس سے نسخ ثابت ہو سکے ۔ ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس کی ناسخ یہ آیت قرآنی ہے لیکن یہ بھی دور کی بات ہے اس لیے کہ اس آیت کا بعد میں ہونا تاریخ سے ثابت نہیں بلکہ اس حیثیت سے تو بظاہر یہ حدیث اس آیت کے بعد کی ہے ، بعض لوگ کہتے ہیں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث میں ’ لا‘ کمال نفی کا ہے یعنی اس شخص کا روزہ کامل نہیں کیونکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا والی حدیث سے جواز صاف طور سے ثابت ہو رہا ہے یہی مسلک ٹھیک بھی ہے ۔ اور دوسرے تمام اقوال سے یہ قول عمدہ ہے اور یوں کہنے سے دونوں روایتوں میں تطبیق کی صورت بھی نکل آتی ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» پھر فرماتا ہے کہ روزے کو رات تک پورا کرو اس سے ثابت ہوا کہ سورج کے ڈوبتے ہی روزہ افطار کر لینا چاہیئے ، بخاری مسلم میں امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب ادھر سے رات آ جائے اور ادھر سے دن چلا جائے توروزے دار افطار کر لے ۔ (صحیح بخاری:1954) بخاری مسلم میں سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تک لوگ افطار کرنے میں جلدی کریں گے خیر سے رہیں گے ۔ (صحیح بخاری:1957) مسند احمد میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ عزوجل کا ارشاد ہے کہ مجھے سب سے زیادہ پیارے وہ بندے ہیں جو روزہ افطار کرنے میں جلدی کرنے والے ہیں ۔ (مسند احمد:329/2:ضعیف) امام ترمذی رحمہ اللہ اس حدیث کو حسن غریب کہتے ہیں ۔ مسند کی ایک اور حدیث میں ہے کہ بشری بن خصاصیہ کی بیوی صاحبہ لیلیٰ فرماتی ہیں کہ میں نے دو روزوں کو بغیر افطار کئے ملانا چاہا تو میرے خاوند نے مجھے منع کیا اور کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع کیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ کام نصرانیوں کا ہے تم تو روزے اس طرح رکھو جس طرح اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ رات کو روزہ افطار کر لیا کرو ۔ (مسند احمد:225/5:صحیح) اور بھی بہت سی احادیث روزے سے روزے کو ملانے کی ممانعت آئی ہے ۔ مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا روزے سے روزہ نہ ملاؤ تو لوگوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپصلی اللہ علیہ وسلم خود تو ملاتے ہیں ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تم جیسا نہیں ہوں میں رات گزارتا ہوں میرا رب مجھے کھلا پلا دیتا ہے لیکن لوگ پھر بھی اس سے باز نہ رہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو دن دو راتوں کا برابر روزہ رکھا پھر چاند دکھائی دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر چاند نہ چڑھتا تو میں یونہی روزوں کو ملائے جاتا گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی عاجزی ظاہر کرنا چاہتے تھے ۔ (صحیح بخاری:1965) بخاری و مسلم میں بھی یہ حدیث ہے اور اسی طرح روزے کے بے افطار کئے اور رات کو کچھ کھائے بغیر دوسرے روزے سے ملا لینے کی ممانعت میں بخاری و مسلم میں سیدنا انس سیدنا ابن عمر اور عائشہ رضی اللہ عنہم سے بھی مرفوع حدیثیں مروی ہیں ۔ (صحیح بخاری:1964) پس ثابت ہوا کہ امت کو تو منع کیا گیا ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اس سے مستثنیٰ تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی طاقت تھی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی جاتی تھی ، یہ بھی خیال رہے کہ مجھے میرا رب کھلا پلا دیتا ہے اس سے مراد حقیقتاً کھانا پینا نہیں کیونکہ پھر تو روزے سے روزے کا وصال نہ ہوا بلکہ یہ صرف روحانی طور پر مدد ہے جیسے کہ ایک عربی شاعر کا شعر ہے ؎ : «لہا احادیث من ذکراک تشغلہا» «عن الشراب وتلہیہا عن الزاد» یعنی اسے تیرے ذکر اور تیری باتوں میں وہ دلچسپی ہے کہ کھانے پینے یک قلم بےپرواہ ہو جاتی ہے ۔ ہاں اگر کوئی شخص دوسری سحری تک رک رہنا چاہے تو یہ جائز ہے ۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ والی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا روزے کو روزے سے مت ملاؤ جو ملانا ہی چاہے تو سحری تک ملا لے لوگوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو ملا دیتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تم جیسا نہیں مجھے تو رات ہی کو کھلانے والا کھلادیتا ہے اور پلانے والا پلا دیتا ہے ۔ (صحیح بخاری:1967) ایک اور روایت میں ہے کہ ایک صحابیہ عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی آپ سحری کھا رہے تھے فرمایا آؤ تم بھی کھا لو اس نے کہا میں تو روزے سے ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم روزہ کس طرح رکھتی ہو اس نے بیان کیا ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح سحری کے وقت سے دوسری سحری کے وقت تک کا ملا ہوا روزہ کیوں نہیں رکھتیں ؟ (تفسیر ابن جریر الطبری:3042:ضعیف) مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک سحری سے دوسری سحری تک کا روزہ رکھتے تھے ، (عبدالرزاق:7752:ضعیف) ابن جریر میں سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما وغیرہ سلف صالحین سے مروی ہے کہ وہ کئی کئی دن تک پے در پے بغیر کچھ کھائے روزہ رکھتے تھے ، بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ عبادت کے طور پر نہ تھا کہ بلکہ نفس کو مارنے کے لیے ریاضت کے طور پر تھا «وَاللہُ اَعْلَمُ» اور یہ بھی ممکن ہے کہ انہوں نے سمجھا ہو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس سے روکنا صرف شفقت اور مہربانی کے طور پر تھا نا کہ ناجائز بتانے کے طور پر جیسے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں پر رحم کھا کر اس سے منع فرمایا تھا ، پس سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ اور ان کے صاحبزادے عامر رحمہ اللہ اور ان کی راہ چلنے والے اپنے نفس میں قوت پاتے تھے اور روزے پر روزہ رکھے جاتے تھے ، یہ بھی مروی کہ جب وہ افطار کرتے تو پہلے گھی اور کڑوا گوند کھاتے تاکہ پہلے غذا پہنچنے سے آنتیں جل نہ جائیں ، مروی ہے کہ سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ سات سات دن تک برابر روزے سے رہتے اس اثناء میں دن کو یا رات کو کچھ نہ کھاتے اور پھر ساتویں دن خوب تندرست چست وچالاک اور سب سے زیادہ قوی پائے جاتے ۔ ابوالعالیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے دن کا روزہ فرض کر دیا رہی رات تو جو چاہے کھا لے جو نہ چاہے نہ کھائے پھر فرمان ہوتا ہے کہ اعتکاف کی حالت میں عورتوں سے مباشرت نہ کرو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے جو شخص مسجد میں اعتکاف میں بیٹھا ہو خواہ رمضان میں خواہ اور مہینوں میں اس پر دن کے وقت یا رات کے وقت اپنی بیوی سے جماع کرنا حرام ہے جب تک اعتکاف پورا نہ ہو جائے ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں پہلے لوگ اعتکاف کی حالت میں بھی جماع کر لیا کرتے تھے جس پر یہ آیت اتری اور مسجد میں اعتکاف کئے ہوئے پر جماع حرام کیا گیا ۔ مجاہدرحمہ اللہ اور قتادہ رحمہ اللہ بھی یہی کہتے ہیں ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:541/3:) پس علمائے کرام کا متفقہ فتویٰ ہے کہ اعتکاف والا اگر کسی ضروری حاجت کے لیے گھر میں جائے مثلاً پیشاب پاخانہ کے لیے یا کھانا کھانے کے لیے تو اس کام سے فارغ ہوتے ہی مسجد میں چلا آئے وہاں ٹھہرنا جائز نہیں نہ اپنی بیوی سے بوس وکنار وغیرہ جائز ہے نہ کسی اور کام میں سوائے اعتکاف کے مشغول ہونا اس کے لیے جائز ہے بلکہ بیمار کی بیمار پرسی کے لیے بھی جانا جائز نہیں ہاں یہ اور بات ہے کہ چلتے چلتے پوچھ لے اعتکاف کے اور بھی بہت سے احکام ہیں بعض میں اختلاف بھی ہے جن سب کو ہم نے اپنی مستقل کتاب کتاب الصیام کے آخر میں بیان کیے ہیں وللہ الحمد والمنۃ ۔ چونکہ قرآن پاک میں روزے کے بیان کے بعد اعتکاف کا ذکر ہے اس لیے اکثر مصنفین نے بھی اپنی اپنی کتابوں میں روزے کے بعد ہی اعتکاف کے احکام بیان کئے ہیں اس میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اعتکاف روزے کی حالت میں کرنا چاہیئے یا رمضان کے آخر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی رمضان شریف کے آخری دنوں میں اعتکاف کیا کرتے تھے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات آئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امہات المؤمنین رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں اعتکاف کیا کرتی تھیں ۔ (صحیح بخاری:2026) بخاری و مسلم میں ہے کہ سیدہ صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اعتکاف کی حالت میں حاضر ہوتی تھیں اور کوئی ضروری بات پوچھنے کی ہوتی تو وہ دریافت کر کے چلی جاتی ایک مرتبہ رات کو جب جانے لگیں تو چونکہ مکان مسجد نبوی سے فاصلہ پر تھا اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ساتھ ہو لیے کہ پہنچا آئیں راستہ میں دو انصاری صحابی مل گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی صاحبہ کو دیکھ کر شرم کے مارے جلدی جلدی قدم بڑھا کر جانے لگے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ٹھہر جاؤ سنو یہ میری بیوی صفیہ ہیں وہ کہنے لگے سبحان اللہ ! ( کیا ہمیں کوئی اور خیال بھی ہو سکتا ہے ؟ ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شیطان انسان کی رگ رگ میں خون کی طرح پھرتا رہتا ہے مجھے خیال ہوا کہ کہیں تمہارے دل میں کوئی بدگمانی نہ پیدا کر دے ۔ (صحیح بخاری:2035) حضرت امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اس واقعہ سے اپنی امت کو گویا سبق سکھا رہے ہیں کہ وہ تہمت کی جگہوں سے بچتے رہیں ورنہ ناممکن ہے کہ وہ پاکباز صحابہ ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کوئی برا خیال بھی دل میں لائیں اور یہ بھی ناممکن ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی نسبت یہ خیال فرمائیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ آیت میں مراد مباشرت سے جماع اور اس کے اسباب ہیں جیسے بوس و کنار وغیرہ ورنہ کسی چیز کا لینا دینا وغیرہ یہ سب باتیں جائز ہیں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف کی حالت میں میری طرف جھکا دیا کرتے تھے میں آپ کے سر میں کنگھی کر دیا کرتی تھی حالانکہ میں حیض سے ہوتی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف کے دنوں میں ضروری حاجت کے رفع کے سوا اور وقت گھر میں تشریف نہیں لاتے تھے سیدہ عائشہ فرماتی ہیں اعتکاف کی حالت میں تو چلتے چلتے ہی گھر کے بیمار کی بیمار پرسی کر لیا کرتی ہوں ۔ (صحیح بخاری:2029) پھر فرماتا ہے کہ یہ ہماری بیان کردہ باتیں اور فرض کئے ہوئے احکام اور مقرر کی ہوئی حدیں ہیں روزے اور روزوں کے احکام اور اس کے مسائل اور اس میں جو کام جائز ہیں یا جو ناجائز ہیں غرض وہ سب ہماری حدبندیاں ہیں خبردار ان کے قریب بھی نہ آنا نہ ان سے تجاوز کرنا نہ ان کے آگے بڑھنا ۔ بعض کہتے ہیں یہ حد اعتکاف کی حالت میں مباشرت سے الگ رہنا ہے بعض کہتے ہیں ان آیتوں کے چاروں حکم مراد ہے پھر فرمایا جس طرح روزے اور اس کے احکام اور اس کے مسائل اور اس کی تفصیل ہم نے بیان کر دی اسی طرح اور احکام بھی ہم اپنے بندے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت سب کے سب تمام جہان کے لیے بیان کیا کرتے ہیں تاکہ وہ یہ معلوم کر سکیں کہ ہدایت کیا ہے اور اطاعت کسے کہتے ہیں ؟ اور اس بنا پر وہ متقی بن جائیں جیسے اور جگہ ہے آیت «ہُوَ الَّذِیْ یُنَزِّلُ عَلٰی عَبْدِہٖٓ اٰیٰتٍ بَیِّنٰتٍ لِّیُخْرِجَکُمْ مِّنَ الظٰلُمٰتِ اِلَی النٰوْرِ وَاِنَّ اللّٰہَ بِکُمْ لَرَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ» ( 57 ۔ الحدید : 9 ) وہ اللہ جو اپنے بندے پر روشن آیتیں نازل فرماتا ہے تاکہ تمہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لائے اللہ تعالیٰ تم پر رافت و رحمت کرنے والا ہے ۔ البقرة
188 منصف، انصاف اور مدعی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یہ آیت اس شخص کے بارے میں ہے جس پر کسی اور کا مال چاہیئے اور اس حقدار کے پاس کوئی دلیل نہ ہو تو یہ شخص کا انکار کر جائے اور حاکم کے پاس جا کر بری ہو جائے حالانکہ وہ جانتا ہو کہ اس پر اس کا حق ہے وہ اس کا مال مار رہا ہے اور حرام کھا رہا ہے اور اپنے تئیں کو گنہگاروں میں کر رہا ہے ، (تفسیر ابن جریر الطبری:551/3) مجاہد سعید بن جبیر ، عکرمہ ، مجاہد ، حسن ، قتادہ ، سدی مقاتل بن حیان ، عبدالرحمٰن بن زید اسلم رحمہ اللہ علیہم بھی یہی فرماتے ہیں کہ باوجود اس علم کے کہ تو ظالم ہے جھگڑا نہ کر ، (تفسیر ابن ابی حاتم:393/1:) بخاری و مسلم میں سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں انسان ہوں میرے پاس لوگ جھگڑا لے کر آتے ہیں شاید ایک دوسرے سے زیادہ حجت باز ہو اور میں اس کی چکنی چپڑی تقریر سن کر اس کے حق میں فیصلہ کر دوں ( حالانکہ درحقیقت میرا فیصلہ واقعہ کے خلاف ہو ) تو سمجھ لو کہ جس کے حق میں اس طرح کے فیصلہ سے کسی مسلمان کے حق کو میں دلوا دوں وہ آگ کا ایک ٹکڑا ہے خواہ اٹھا لے خواہ نہ اٹھائے ، (صحیح بخاری:2680) میں کہتا ہوں یہ آیت اور حدیث اس امر پر دلیل ہے کہ حاکم کا حکم کسی معاملہ کی حقیقت کو شریعت کے نزدیک بدلتا نہیں ، فی الواقع بھی نفس الامر کے مطابق ہو تو خیر ورنہ حاکم کو تو اجر ملے گا ، لیکن اس فیصلہ کی بنا پر حق کو ناحق بنا لینے والا اللہ کا مجرم ٹھہرے گا اور اس پر وبال باقی رہے گا ، جس پر آیت مندرجہ بالا گواہ ہے ، کہ تم اپنے دعوے کو باطل ہونے کا علم رکھتے ہوئے لوگوں کے مال مار کھانے کے لیے جھوٹے مقدمات بنا کر جھوٹے گواہ گزار کر ناجائز طریقوں سے حکام کو غلطی کھلا کر اپنے دعووں کو ثابت نہ کیا کرو ، قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں لوگو ! سمجھ لو کہ قاضی کا فیصلہ تیرے لیے حرام کو حلال نہیں کر سکتا اور نہ باطل کو حق کر سکتا ہے ، قاضی تو اپنی عقل سمجھ سے گواہوں کی گواہی کے مطابق ظاہری حالات کو دیکھتے ہوئے فیصلہ صادر کر دیتا ہے اور وہ بھی آخر انسان ممکن ہے خطا کرے اور ممکن ہے خطا سے بچ جائے تو جان لو کہ اگر فیصلہ قاضی کا واقعہ کے خلاف ہو تو تم صرف قاضی کا فیصلہ اسے جائز مال نہ سمجھ لو یہ جھگڑا باقی ہی ہے یہاں تک قیامت کے دن اللہ تعالیٰ دونوں جمع کرے اور باطل والوں پر حق والوں کو غلبہ دے کر ان کا حق ان سے دلوائے اور دنیا میں جو فیصلہ ہوا تھا اس کے خلاف فیصلہ صادر فرما کر اس کی نیکیوں میں اسے بدلہ دلوائے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:550/3) البقرة
189 چاند اور مہ وسال سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لوگوں نے چاند کے بارے میں سوال کیا جس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اس سے قرض وغیرہ کے وعدوں کی میعاد معلوم ہو جاتی ہے ، عورتوں کی عدت کا وقت معلوم ہوتا ہے ، حج کا وقت معلوم ہوتا ہے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:554/3) مسلمانوں کے روزے کے افطار کا تعلق بھی اسی سے ہے ، مسند عبدالرزاق میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے چاند کو لوگوں کے وقت معلوم کرنے کے لیے بنایا ہے اسے دیکھ کر روزے رکھو اسے دیکھ کر عید مناؤ اگر ابر و باراں کی وجہ سے چاند نہ دیکھ سکو تو تیس دن پورے گن لیا کرو ، (عبدالرزاق:7306) اس روایت کو امام حاکم نے صحیح کہا ہے ۔ (حاکم:423/1) یہ حدیث اور سندوں سے بھی مروی ہے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ایک موقوف روایت میں بھی یہ مضمون وارد ہوا ہے ۔ آگے چل کر ارشاد ہوتا ہے کہ بھلائی گھروں کے پیچھے سے آنے میں نہیں بلکہ بھلائی تقویٰ میں ہے گھروں میں دروازوں سے آؤ ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ جاہلیت کے زمانہ یہ دستور تھا کہ احرام میں ہوتے تو گھروں میں پشت کی جانب سے آتے جس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ (صحیح بخاری:4512) ابوداؤد طیالسی میں بھی یہ روایت ہے ۔ (طیالسی:717:صحیح علی شرط الشیخین) انصار کا عام دستور تھا کہ سفر سے جب واپس آتے تو گھر کے دروازے میں نہیں گھستے تھے دراصل یہ بھی جاہلیت کے زمانہ میں قریشیوں نے اپنے لیے ایک اور امتیاز قائم کر لیا تھا کہ اپنا نام انہوں نے حمس رکھا تھا احرام کی حالت یہ تو براہ راست اپنے گھروں میں آ سکتے تھے لیکن دوسرے لوگ سیدھے راستے گھروں میں داخل نہیں ہو سکتے تھے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک باغ سے اس کے دروازے سے نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہ ایک انصاری صحابی سیدنا قطبہ بن عامر رضی اللہ عنہما بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی اسی دروازے سے نکلے اس پر لوگوں نے صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ تو ایک تجارت پیشہ شخص ہیں یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح اس دروازے سے کیوں نکلے ؟ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جواب دیا کہ میں نے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جس طرح کرتے دیکھا کیا ۔ مانا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حمس میں سے ہیں لیکن میں بھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین پر ہی ہوں ، اس پر یہ آیت نازل ہوئی (حاکم:483/1:صحیح) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ وغیرہ سے بھی یہ روایت مروی ہے حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جاہلیت کے زمانے میں بہت سی قوموں کا یہ رواج تھا کہ جب وہ سفر کے ارادے سے نکلتے پھر سفر ادھورا چھوڑ کر اگر کسی وجہ سے واپس چلے آتے تو گھر کے دروازے سے گھر میں نہ آتے بلکہ پیچھے کی طرف سے چڑھ کر آتے جس سے اس آیت میں روکا گیا ، (تفسیر ابن ابی حاتم:401/1) محمد بن کعب رحمہ اللہ فرماتے ہیں اعتکاف کی حالت میں بھی یہی دستور تھا جسے اسلام نے ختم کیا ، عطا فرماتے ہیں اہل مدینہ کا عیدوں میں بھی یہی دستور تھا جسے اسلام نے ختم کر دیا ۔ پھر فرمایا اللہ تعالیٰ کے حکموں کو بجا لانا اس کے منع کئے ہوئے کاموں سے رک جانا اس کا ڈر دل میں رکھنا یہ چیزیں ہیں جو دراصل اس دن کام آنے والی ہیں جس دن ہر شخص اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہو گا اور پوری پوری جزا سزا پائے گا ۔ البقرة
190 حکم جہاد اور شرائط حضرت ابوالعالیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مدینہ شریف میں جہاد کا پہلا حکم یہی نازل ہوا ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت کے حکم کی رو سے صرف ان لوگوں سے ہی لڑتے تھے جو آپ سے لڑیں جو آپ سے نہ لڑیں خود ان سے لڑائی نہیں کرتے تھے یہاں تک کہ سورۃ برأت نازل ہوئی ، (تفسیر ابن جریر الطبری:561/3) بلکہ عبدالرحمٰن بن زید بن سلام رحمہ اللہ تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ یہ آیت منسوخ ہے اور ناسخ آیت «فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَیْثُ وَجَدْتٰمُــوْہُمْ وَخُذُوْہُمْ وَاحْصُرُوْہُمْ وَاقْعُدُوْا لَہُمْ کُلَّ مَرْصَدٍ» ( 9 ۔ التوبہ : 5 ) ہے یعنی جہاں کہیں مشرکین کو پاؤ انہیں قتل کرو ، لیکن اس بارے میں اختلاف ہے اس لیے کہ اس سے تو مسلمانوں کو رغبت دلانا اور انہیں آمادہ کرنا ہے کہ اپنے ایسے دشمنوں سے کیوں جہاد نہ کروں جو تمہارے اور تمہارے دین کے کھلے دشمن ہیں ، جیسے وہ تم سے لڑتے ہیں تم بھی ان سے لڑو جیسے اور جگہ فرمایا آیت «وَقَاتِلُوا الْمُشْرِکِیْنَ کَافَّۃً کَمَا یُقَاتِلُوْنَکُمْ کَافَّۃً وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ» ( 9 ۔ التوبہ : 36 ) یعنی مل جل کر مشرکوں سے جہاد کرو جس طرح وہ تم سے سب کے سب مل کر لڑائی کرتے ہیں چنانچہ اس آیت میں بھی فرمایا انہیں قتل کرو جہاں پاؤ اور انہیں وہاں سے نکالو جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا ہے مطلب یہ ہے کہ جس طرح ان کا قصد تمہارے قتل کا اور تمہیں جلا وطن کرنے کا ہے تمہارا بھی اس کے بدلے میں یہی قصد رہنا چاہیئے ۔ پھر فرمایا تجاوز کرنے والے کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا ، یعنی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ کرو ناک کان وغیرہ نہ کاٹو ، خیانت اور چوری نہ کرو ، عورتوں اور بچوں کو قتل نہ کرو ، ان بوڑھے بڑے لوگوں کو بھی نہ مارو جو نہ لڑنے کے لائق ہیں نہ لڑائی میں دخل دیتے ہیں درویشوں اور تارک دنیا لوگوں کو بھی قتل نہ کرو بلکہ بلا مصلحت جنگ ۔ نہ درخت کاٹو نہ حیوانوں کو ضائع کرو ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ مقاتل بن حیان رحمہ اللہ وغیرہ نے اس آیت کی تفسیر میں یہی فرمایا ہے ، صحیح مسلم شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجاہدین کو فرمان دیا کرتے تھے کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرو خیانت نہ کرو ، بدعہدی سے بچو ، ناک کان وغیرہ اعضاء نہ کاٹو ، بچوں کو اور زاہد لوگوں کو جو عبادت خانوں میں پڑے رہتے ہیں قتل نہ کرو ۔ (صحیح مسلم:1731) مسند احمد کی ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے اللہ کا نام لے کر نکلو اللہ کی راہ میں جہاد کرو کفار سے لڑو ظلم و زیادتی نہ کرو دھوکہ بازی نہ کرو ۔ دشمن کے اعضاء بدن نہ کاٹو درویشوں کو قتل نہ کرو ، (مسند احمد:300/1) بخاری و مسلم میں ہے کہ ایک مرتبہ ایک غزوے میں ایک عورت قتل کی ہوئی پائی گئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بہت برا مانا اور عورتوں اور بچوں کے قتل کو منع فرما دیا ، (صحیح بخاری:3014) مسند احمد میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ، تین ، پانچ ، سات ، نو ، گیارہ مثالیں دیں ایک تو ظاہر کر دی باقی چھوڑ دیں فرمایا کہ کچھ لوگ کمزور اور مسکین تھے کہ ان پر زور آور مالدار دشمن چڑھ آیا اللہ تعالیٰ نے ضعیفوں کی مدد کی اور ان طاقتوروں پر انہیں غالب کر دیا اب ان لوگوں نے ان پر ظلم و زیادتی شروع کر دی جس کے باعث اللہ تعالیٰ نے ان ضعیفوں کی مدد کی اور ان طاقتوروں پر انہیں غالب کر دیا اب ان لوگوں نے ان پر ظلم و زیادتی شروع کر دی جس کے باعث اللہ تعالیٰ ان پر قیامت تک کے لیے ناراض ہو گیا ۔ (مسند احمد:407/5) یہ حدیث اسناداً صحیح ہے ، مطلب یہ ہے کہ جب یہ کمزور قوم غالب آ گئی تو انہوں نے ظلم و زیادتی شروع کر دی فرمان باری تعالیٰ کا کوئی لحاظ نہ کیا اس کے باعث پروردگار عالم ان سے ناراض ہو گیا ، اس بارے میں احادیث اور آثار بکثرت ہیں جن سے صاف ظاہر ہے کہ ظلم و زیادتی اللہ کو ناپسند ہے اور ایسے لوگوں سے اللہ ناخوش رہتا ہے ، چونکہ جہاد کے احکام میں بظاہر قتل و خون ہوتا ہے اس لیے یہ بھی فرما دیا کہ ادھر اگر قتل و خون ہے تو ادھر اللہ کے ساتھ کفر و شرک ہے اور اس مالک کی راہ سے اس کی مخلوق کو روکنا ہے اور یہ فتنہ قتل سے بہت زیادہ سخت ہے ، ابو مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں تمہاری یہ خطا کاریاں اور بدکاریاں قتل سے زیادہ زبوں تر ہیں ۔ پھر فرمان جاری ہوتا ہے کہ بیت اللہ میں ان سے لڑائی نہ کرو جیسے بخاری و مسلم میں ہے کہ یہ شہر حرمت والا ہے آسمان و زمین کی پیدائش کے زمانے سے لے کر قیامت تک باحرمت ہی ہے صرف تھوڑے سے وقت کے لیے اللہ تعالیٰ نے میرے لیے اسے حلال کر دیا تھا لیکن وہ آج اس وقت بھی حرمت والا ہے اور قیامت تک اس کا یہ احترام اور بزرگی باقی رہے گی اس کے درخت نہ کاٹے جائیں اور اس کے کانٹے نہ اکھیڑے جائیں اگر کوئی شخص اس میں لڑائی کو جائز کہے اور میری جنگ کو دلیل میں لائے تو تم کہہ دینا اللہ تعالیٰ نے صرف اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تھوڑے سے وقت کے لیے اجازت دی تھی لیکن تمہیں کوئی اجازت نہیں ۔ (صحیح بخاری:1832) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے مراد فتح مکہ کا دن ہے جس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ والوں سے جہاد کیا تھا اور مکہ کو فتح کیا تھا چند مشرکین بھی مارے گئے تھے ۔ گو بعض علماء کرام یہ بھی فرماتے ہیں کہ مکہ صلح سے فتح ہوا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف ارشاد فرما دیا تھا کہ جو شخص اپنا دروازہ بند کر لے وہ امن میں ہے جو مسجد میں چلا جائے امن میں ہے جو ابوسفیان کے گھر میں چلا جائے وہ بھی امن ہے ۔ (صحیح مسلم:1780) پھر فرمایا کہ «أُذِنَ لِلَّذِینَ یُقَاتَلُونَ بِأَنَّہُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللہَ عَلَیٰ نَصْرِہِمْ لَقَدِیرٌ» ( 22-الحج : 39 ) ہاں اگر وہ تم سے یہاں لڑائی شروع کر دیں تو تمہیں اجازت ہے کہ تم بھی یہیں ان سے لڑو تاکہ یہ ظلم دفع ہو سکے ، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ والے دن اپنے اصحاب سے لڑائی کی بیعت لی جب قریشیوں نے اپنے ساتھیوں سے مل کر یورش کی تھی تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے درخت تلے اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم سے بیعت لی ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس لڑائی کو دفع کر دیا چنانچہ اس نعمت کا بیان اس آیت میں ہے کہ وہ آیت «وَہُوَ الَّذِیْ کَفَّ اَیْدِیَہُمْ عَنْکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ عَنْہُمْ بِبَطْنِ مَکَّۃَ مِنْ بَعْدِ اَنْ اَظْفَرَکُمْ عَلَیْہِمْ» ( 48 ۔ الفتح : 24 ) پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اگر یہ کفار حرم میں لڑائی بند کر دیں اور اس سے باز آ جائیں اور اسلام قبول کر لیں تو اللہ تعالیٰ ان کے گناہ معاف فرما دے گا گو انہوں نے مسلمانوں کو حرم میں قتل کیا ہو باری تعالیٰ ایسے بڑے گناہ کو بھی معاف فرما دے گا ۔ پھر حکم ہوتا ہے کہ ان مشرکین سے جہاد جاری رکھو تاکہ یہ شرک کا فتنہ مٹ جائے ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:415/1) اور اللہ تعالیٰ کا دین غالب اور بلند ہو جائے اور تمام دین پر ظاہر ہو جائے ، جیسے بخاری و مسلم میں سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ ایک شخص اپنی بہادری جتانے کے لیے لڑتا ہے ایک شخص حمیت و غیرت قومی سے لڑتا ہے ، ایک شخص ریاکاری اور دکھاوے کے طور پر لڑتا ہے تو فرمائیے کہ ان میں سے کون شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والا وہی ہے جو صرف اس کے لیے لڑے کہ اللہ تعالیٰ کی بات بلند ہو اس کے دین کا بول بالا ہو ۔ (صحیح بخاری:2810) بخاری و مسلم کی ایک اور حدیث میں کہ مجھے حکم کیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جہاد کرتا رہوں یہاں تک کہ وہ «لا الہ الا اللہ» کہیں ان کی جان و مال کا تحفظ میرے ذمہ ہو گا مگر اسلامی احکام اور ان کے باطنی حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے ۔ (صحیح بخاری:25) پھر فرمایا کہ اگر یہ کفار شرک و کفر سے اور تمہیں قتل کرنے سے باز آ جائیں تو تم بھی ان سے رک جاؤ اس کے بعد جو قتال کرے گا وہ ظالم ہو گا اور ظالموں کو ظلم کا بدلہ دینا ضروری ہے یہی معنی ہیں ۔ مجاہد رحمہ اللہ کے اس قول کے کہ جو لڑیں ان سے ہی لڑا جائے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:574/3) یا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ ان حرکات سے رک جائیں تو وہ ظلم یعنی شرک سے ہٹ گئے پھر کوئی وجہ نہیں کہ ان سے جنگ و جدال ہو ، یہاں لفظ « عدوان » جو کہ زیادتی کے معنی میں ہے وہ زیادتی کے مقابلہ میں زیادتی کے بدلے کے لیے ہے حقیقتاً وہ زیادتی نہیں جیسے فرمایا آیت «الشَّہْرُ الْحَرَامُ بِالشَّہْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمَاتُ قِصَاصٌ فَمَنِ اعْتَدَیٰ عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَیٰ عَلَیْکُمْ وَاتَّقُوا اللہَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللہَ مَعَ الْمُتَّقِینَ» ( البقرۃ : ١٩٤ ) یعنی تم پر جو زیادتی کرے تم بھی اس پر اس جیسی زیادتی کر لو اور جگہ ہے آیت «جَزَاءُ سَـیِّئَۃٍ بِمِثْلِہَا وَتَرْہَقُھُمْ ذِلَّۃٌ» ( 10 ۔ یونس : 27 ) یعنی برائی کا بدلہ اسی جیسی برائی ہے اور جگہ فرمان ہے آیت «وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُم بِہِ وَلَئِن صَبَرْتُمْ لَہُوَ خَیْرٌ لِّلصَّابِرِینَ» ( 16 ۔ النحل : 126 ) یعنی اگر تم سزا اور عذاب کرو تو اسی مثل سزا کرو جو تم کئے گئے ہو ، پاس ان تینوں جگہوں میں زیادتی برائی اور سزا ” بدلے “ کے طور پر کہا گیا ہے ورنہ فی الواقع وہ زیادتی برائی اور سزا و عذاب نہیں ، عکرمہ اور قتادہ رحمہ اللہ علیہما کا فرمان ہے اصلی ظالم وہی ہے جو «لا الہٰ الا اللہ» کو تسلیم کرنے سے انکار کرے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:573/3) صحیح بخاری شریف میں ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے اس دو شخص آئے جب کہ سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ پر لوگوں نے چڑھائی کر رکھی تھی اور انہیں گھیر کر کہا کہ لوگ تو مر کٹ رہے ہیں آپ عمر رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں کیوں اس لڑائی میں شامل نہیں ہوتے ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا سنو اللہ تعالیٰ نے مسلمان بھائی کا خون حرام کر دیا ہے ، انہوں نے کہا کیا جناب باری کا یہ فرمان نہیں کہ ان سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے آپ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ ہم تو لڑتے رہے یہاں تک کہ فتنہ دب گیا اور اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ دین غالب آ گیا لیکن اب تم چاہتے ہو کہ تم لڑو تاکہ فتنہ پیدا ہو اور دوسرے مذاہب ابھر آئیں ۔(صحیح بخاری:4513) ایک اور روایت میں ہے کہ کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اے ابوعبدالرحمٰن آپ نے اللہ کی راہ میں جہاد کرنا کیوں چھوڑ رکھا ہے اور یہ کیا اختیار کر رکھا ہے کہ حج پر حج کر رہے ہو ہر دوسرے سال حج کو جایا کرتے ہو حالانکہ جہاد کے فضائل آپ رضی اللہ عنہ سے مخفی نہیں آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا بھتیجے سنو ! اسلام کی بنائیں پانچ ہیں ۔ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا ، پانچوں وقتوں کی نماز ادا کرنا ، رمضان کے روزے رکھنا ، زکوٰۃ دینا ، بیت اللہ شریف کا حج کرنا ، اس نے کہا کیا قرآن پاک کا یہ حکم«وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَیْنَہُمَا فَإِن بَغَتْ إِحْدَاہُمَا عَلَی الْأُخْرَیٰ فَقَاتِلُوا الَّتِی تَبْغِی حَتَّیٰ تَفِیءَ إِلَیٰ أَمْرِ اللہِ » ( 49-الحجرات : 9 ) آپ نے نہیں سنا کہ ایمان والوں کی دو جماعتیں اگر آپس میں جھگڑیں تو تم ان میں صلح کرا دو اگر پھر بھی ایک گروہ دوسرے پر بغاوت کرے تو باغی گروہ سے لڑو یہاں تک کہ وہ پھر سے اللہ کا فرمانبردار بن جائے ، اور جگہ ارشاد ہے« وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّیٰ لَا تَکُونَ فِتْنَۃٌ » ( البقرہ : 193 ) ان سے لڑو تاوقتیکہ فتنہ مٹ جائے ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اس کی تعمیل کر لی جبکہ اسلام کمزور تھا اور مسلمان تھوڑے تھے جو اسلام قبول کرتا تھا اس پر فتنہ آ پڑتا تھا یا تو قتل کر دیا جاتا یا سخت عذاب میں پھنس جاتا یہاں تک کہ یہ پاک دین پھیل گیا اور اس کے حلقہ بگوش بہ کثرت ہو گئے اور فتنہ برباد ہو گیا اس نے کہا اچھا تو پھر فرمائیے کہ سیدنا علی اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہما کے بارے میں آپ رضی اللہ عنہ کا کیا خیال ہے فرمایا سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو تو اللہ تعالیٰ نے معاف فرما دیا گو تم اس معافی سے برا مناؤ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد تھے اور یہ دیکھو ان کا مکان یہ رہا جو تمہاری آنکھوں کے سامنے ہے ۔(صحیح بخاری:4514) البقرة
191 البقرة
192 البقرة
193 البقرة
194 بیعت رضوان ذوالقعدہ سن ٦ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمرے کے لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سمیت مکہ کو تشریف لے چلے لیکن مشرکین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حدیبیہ والے میدان میں روک لیا بالآخر اس بات پر صلح ہوئی کہ آئندہ سال آپ عمرہ کریں اور اس سال واپس تشریف لے جائیں چونکہ ذی القعدہ کا مہینہ بھی حرمت والا مہینہ ہے اس لیے یہ آیت نازل ہوئی ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:575/3) مسند احمد میں حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حرمت والے مہینوں میں جنگ نہیں کرتے تھے ہاں اگر کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر چڑھائی کرے تو اور بات ہے بلکہ جنگ کرتے ہوئے اگر حرمت والے مہینے آ جاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم لڑائی موقوف کر دیتے ۔ (مسند احمد:334/4) حدیبیہ کے میدان میں بھی جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر پہنچی کہ عثمان رضی اللہ عنہ کو مشرکین نے قتل کر دیا جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام لے کر مکہ شریف میں گئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چودہ سو صحابہ رضی اللہ عنہم سے ایک درخت تلے مشرکوں سے جہاد کرنے کی بیعت لی پھر جب معلوم ہوا کہ یہ خبر غلط ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ارادہ ملتوی کر دیا اور صلح کی طرف مائل ہو گئے ۔ پھر جو واقعہ ہوا وہ ہوا ۔ اسی طرح جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہوازن کی لڑائی سے حنین والے دن فارغ ہوئے اور مشرکین طائف میں جا کر قلعہ بند ہو گئے تو آپ نے اس کا محاصرہ کر لیا چالیس دن تک یہ محاصرہ رہا بالآخر کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم کی شہادت کے بعد محاصرہ اٹھا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی طرف لوٹ گئے اور جعرانہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرے کا احرام باندھا یہیں حنین کی غنیمتیں تقسیم کیں اور یہ عمرہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذوالقعدہ میں ہوا یہ سن ٨ ہجری کا واقعہ ہے ، اللہ تعالیٰ آپ پر درود وسلام بھیجے ۔ (صحیح مسلم:3033) پھر فرماتا ہے «وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُم بِہِ وَلَئِن صَبَرْتُمْ لَہُوَ خَیْرٌ لِّلصَّابِرِینَ» ( 16-النحل : 126 ) جو تم پر زیادتی کرے تم بھی اس پر اتنی ہی زیادتی کر لو ، یعنی مشرکین سے بھی عدل کا خیال رکھو ، یہاں بھی زیادتی کے بدلے کو زیادتی سے تعبیر کرنا ویسا ہی ہے جیسے اور جگہ «وَجَزَاءُ سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثْلُہَا» ( 42-الشوری : 40 ) عذاب وسزا کے بدلے میں برائی کے لفظ سے بیان کیا گیا ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یہ آیت مکہ شریف میں اتری جہاں مسلمانوں میں کوئی شوکت و شان نہ تھی نہ جہاد کا حکم تھا پھر یہ آیت مدینہ شریف میں جہاد کے حکم سے منسوخ ہو گئی ، لیکن امام ابن جریر رحمہ اللہ نے اس بات کی تردید کی ہے اور فرماتے ہیں کہ یہ آیت مدنی ہے عمرہ قضاء کے بعد نازل ہوئی ہے مجاہد رحمہ اللہ کا قول بھی یہی ہے ۔ ارشاد ہے اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور پرہیزگاری اختیار کرو اور اسے جان لو کہ ایسے ہی لوگوں کے ساتھ دین و دنیا میں اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت رہتی ہے ۔ البقرة
195 حق جہاد کیا ہے؟ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ یہ آیت اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ (صحیح بخاری:4516) اور بزرگوں نے بھی اس آیت کی تفسیر میں یہی بیان فرمایا ہے ، ابوعمران رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مہاجرین میں سے ایک نے قسطنطنیہ کی جنگ میں کفار کے لشکر پر دلیرانہ حملہ کیا اور ان کی صفوں کو چیرتا ہوا ان میں گھس گیا تو بعض لوگ کہنے لگے کہ یہ دیکھو یہ اپنے ہاتھوں اپنی جان کو ہلاکت میں ڈال رہا ہے سیدنا ابو ایوب رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرمایا اس آیت کا صحیح مطلب ہم جانتے ہیں سنو ! یہ آیت ہمارے ہی بارے میں نازل ہوئی ہے ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اٹھائی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ و جہاد میں شریک رہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد پر تلے رہے یہاں تک کہ اسلام غالب ہوا اور مسلمان غالب آ گئے تو ہم انصاریوں نے ایک مرتبہ جمع ہو کر آپس میں مشورہ کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کے ساتھ ہمیں مشرف فرمایا ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لگے رہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمرکابی میں جہاد کرتے رہے اب بحمد اللہ اسلام پھیل گیا مسلمانوں کا غلبہ ہو گیا لڑائی ختم ہو گئی ان دنوں میں نہ ہم نے اپنی اولاد کی خبرگیری کی نہ مال کی دیکھ بھال کی نہ کھیتیوں اور باغوں کا کچھ خیال کیا اب ہمیں چاہیئے کہ اپنے خانگی معاملات کی طرف توجہ کریں اس پر یہ آیت نازل ہوئی ، پس جہاد کو چھوڑ کر بال بچوں اور بیوپار تجارت میں مشغول ہو جانا یہ اپنے ہاتھوں اپنے تئیں ہلاک کرنا ہے ۔ (سنن ابوداود:2512 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) ایک اور روایت میں ہے کہ قسطنطنیہ کی لڑائی کے وقت مصریوں کے سردار سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ تھے اور شامیوں کے سردار سیدنا یزید بن فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ تھے ۔ (سنن ترمذی:2972 ، قال الشیخ الألبانی:) سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے پوچھا کہ اگر میں اکیلا تنہا دشمن کی صف میں گھس جاؤں اور وہاں گِر جاؤں اور قتل کر دیا جاؤں تو کیا اس آیت کے مطابق میں اپنی جان کو آپ ہی ہلاک کرنے والا بنوں گا ؟ آپ نے جواب دیا نہیں نہیں اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے آیت «فَقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لَا تُکَلَّفُ اِلَّا نَفْسَکَ وَحَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ» ( 4 ۔ النسآء : 84 ) اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی راہ میں لڑتا رہ تو اپنی جان کا ہی مالک ہے اسی کو تکلیف دے یہ آیت تو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے رک جانے والوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ (مسند احمد:281/4) ترمذی کی ایک اور روایت میں اتنی زیادتی ہے کہ آدمی کا گناہوں پر گناہ کئے چلے جانا اور توبہ نہ کرنا یہ اپنے ہاتھوں اپنے تئیں ہلاک کرنا ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ مسلمانوں نے دمشق کا محاصرہ کیا اور ازدشنوہ کے قبیلہ کا ایک آدمی جرات کر کے دشمنوں میں گھس گیا ان کی صفیں چیرتا پھاڑتا اندر چلا گیا لوگوں نے اسے برا جانا اور سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے پاس یہ شکایت کی چنانچہ سیدنا عمرو رضی اللہ عنہ نے انہیں بلا لیا اور فرمایا قرآن میں ہے اپنی جانوں کو ہلاکت میں نہ ڈالو ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں لڑائی میں اس طرح کی بہادری کرنا اپنی جان کو بربادی میں ڈالنا نہیں بلکہ اللہ کی راہ میں مال خرچ نہ کرنا ہلاکت میں پڑنا ہے ، ضحاک بن ابو جبیرہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ انصار اپنے مال اللہ کی راہ میں کھلے دل سے خرچ کرتے رہتے تھے لیکن ایک سال قحط سالی کے موقع پر انہوں نے وہ خرچ روک لیا جس پر یہ آیت نازل ہوئی ، امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے مراد بخل کرنا ہے ۔ حضرت نعمان بن بشیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ گنہگار کا رحمت باری سے نا امید ہو جانا یہ ہلاک ہونا ہے اور حضرات مفسرین بھی فرماتے ہیں کہ گناہ ہو جائیں پھر بخشش سے نا امید ہو کر گناہوں میں مشغول ہو جانا اپنے ہاتھوں پر آپ ہلاک ہونا ہے ، التَّہۡلُکَۃِ سے مراد اللہ کا عذاب بھی بیان کیا گیا ہے ، قرطبی وغیرہ سے روایت ہے کہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد میں جاتے تھے اور اپنے ساتھ کچھ خرچ نہیں لے جاتے تھے اب یا تو وہ بھوکوں مریں یا ان کا بوجھ دوسروں پر پڑے تو ان سے اس آیت میں فرمایا جاتا ہے کہ اللہ نے جو تمہیں دیا ہے اسے اس کی راہ کے کاموں میں لگاؤ اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو کہ بھوک پیاس سے یا پیدل چل چل کر مر جاؤ ۔ اس کے ساتھ ہی ان لوگوں کو جن کے پاس کچھ ہے حکم ہو رہا ہے کہ تم احسان کرو تاکہ اللہ تمہیں دوست رکھے نیکی کے ہر کام میں خرچ کیا کرو بالخصوص جہاد کے موقعہ پر اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے نہ رکو یہ دراصل خود تمہاری ہلاکت ہے ، پس احسان اعلیٰ درجہ کی اطاعت ہے جس کا یہاں حکم ہو رہا ہے اور ساتھ ہی یہ بیان ہو رہا ہے کہ احسان کرنے والے اللہ کے دوست ہیں ۔ البقرة
196 حج اور عمرہ کے مسائل اوپر چونکہ روزوں کا ذکر ہوا تھا پھر جہاد کا بیان ہوا اب حج کا تذکرہ ہو رہا ہے اور حکم ہوتا ہے کہ حج اور عمرے کو پورا کرو ، ظاہر الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ حج اور عمرے کو شروع کرنے کے بعد پورا کرنا چاہیئے ، تمام علماء اس پر متفق ہیں کہ حج و عمرے کو شروع کرنے کے بعد ان کا پورا کرنا لازم ہے گو عمرے کے واجب ہونے اور مستحب ہونے میں علماء کے دو قول ہیں جنہیں ہم نے پوری طرح کتاب الاحکام میں بیان کر دیا ہے «فللہ الحمد والمنۃ» سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پورا کرنا یہ ہے کہ تم اپنے گھر سے احرام باندھو ۔ سیدنا سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ان کا تمام کرنے کا مقصد یہ ہے کہ تم اپنے گھر سے احرام باندھو تمہارا سفر صرف حج و عمرے کی غرض سے ہو میقات پہنچ کر لبیک پکارنا شروع کر دو تمہارا ارادہ تجارت یعنی کسی اور دنیوی غرض کا نہ ہو ، کہ نکلے تو اپنے کام کو اور مکہ کے قریب پہنچ کر خیال آ گیا کہ آؤ حج و عمرہ بھی کرتا چلوں گو اس طرح بھی حج و عمرہ ادا ہو جائے لیکن یہ پورا کرنا نہیں پورا کرنا یہ ہے کہ صرف اسی ارادے سے گھر سے نکلو مکحول رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ان کا پورا کرنا یہ ہے کہ انہیں میقات سے شروع کرے ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:437/1) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ان کا پورا کرنا یہ ہے کہ ان دونوں کو الگ الگ ادا کرے اور عمرے کو حج کے مہینوں میں نہ کرے اس لیے کہ قرآن شریف میں ہے آیت «اَلْحَجٰ اَشْہُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ فَمَنْ فَرَضَ فِیْہِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوْقَ وَلَا جِدَالَ فِی الْحَجِّ» ( 2 ۔ البقرہ : 197 ) حج کے مہینے مقرر ہیں ۔ (ایضاً) قاسم بن محمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا پورا ہونا نہیں ان سے پوچھا گیا کہ محرم میں عمرہ کرنا کیسا ہے ؟ کہا لوگ اسے تو پورا کہتے تھے لیکن اس قول میں شبہ ہے اس لیے کہ یہ ثابت شدہ امر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار عمرے کئے اور چاروں ذوالقعدہ میں کئے ایک سن ٦ ہجری میں ذوالقعدہ کے مہینے میں ، دوسرا ذوالقعدہ سن ٧ ہجری میں عمرۃ القضاء تیسرا ذوالقعدہ سن ٨ ہجری میں عمرۃ الجعرانہ ، چوتھا ذوالقعدہ سن ١٠ہجری میں حج کے ساتھ ۔ (سنن ابوداود:1993 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) ان عمروں کے سوا ہجرت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اور کوئی عمرہ نہیں ہوا ، ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام ہانی رضی اللہ عنہا سے فرمایا تھا کہ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے ۔ (صحیح مسلم:1256) یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے فرمایا تھا کہ ام ہانی رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کے لیے جانے کا ارادہ کر لیا تھا لیکن سواری کی وجہ سے ساتھ نہ جا سکیں جیسے کہ بخاری شریف میں یہ واقعہ منقول ہے ۔ سعید بن جبیر رحمہ اللہ تو صاف فرماتے ہیں کہ یہ ام ہانی رضی اللہ عنہا کے لیے ہی مخصوص ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حج و عمرے کا احرام باندھنے کے بعد بغیر پورا کئے چھوڑنا جائز نہیں ، حج اس وقت پورا ہوتا ہے جبکہ قربانی والے دن جمرہ عقبہ کو کنکر مار لے اور بیت اللہ کا طواف کر لے اور صفا مروہ کے درمیان دوڑ لے اب حج ادا ہو گیا ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں حج عرفات کا نام ہے اور عمرہ طواف ہے عبداللہ کی قرأت یہ ہے آیت «واتموا الحج والعمرۃ الی البیت» عمرہ بیت اللہ تک جاتے ہی پورا ہو گیا ، سعید بن جبیر سے جب یہ ذکر ہوا تو آپ رحمہ اللہ نے فرمایا سیدنا ابن عباس کی قرأت بھی یہی تھی ، علقمہ رحمہ اللہ بھی یہی فرماتے ہیں ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:7/4) ابراہیم رحمہ اللہ سے مروی ہے حدیث «واقیموا الحج والعمرۃ الی البیت» ، شعبی رحمہ اللہ کی قرأت میں والعمرۃ ہے وہ فرماتے ہیں عمرہ واجب نہیں گو اس کے خلاف بھی ان سے مروی ہے ، بہت سی احادیث میں بہت سندوں کے ساتھ سیدنا انس رضی اللہ عنہ اور صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج و عمرے کا ایک ساتھ احرام باندھے ۔ (صحیح بخاری:1556) ایک اور حدیث میں ہے عمرہ حج میں قیامت تک کے لیے داخل ہو گیا ۔ (مسند احمد:175/4) ابو محمد بن ابی حاتم نے اپنی کتاب میں ایک روایت وارد کی ہے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور زعفران کی خوشبو سے مہک رہا تھا اس نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے احرام کے بارے میں کیا حکم ہے اس پر یہ آیت اتری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا وہ سائل کہاں ہے ؟ اس نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !میں موجود ہوں فرمایا اپنے زعفرانی کپڑے اتار ڈال اور خوب مل کر غسل کر لو اور جو اپنے حج میں کرتا ہے وہی عمرے میں بھی کر ۔ (التمھیدلابن البر:251/2) یہ حدیث غریب ہے اور یہ سیاق عجیب ہے بعض روایتوں میں غسل کا اور اس آیت کے نازل ہونے کا ذکر نہیں ۔ (صحیح بخاری:1536) ایک روایت میں اس کا نام سیدنا یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ آیا ہے دوسری روایت میں سیدنا صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ ، «وَاللہُ اَعْلَمُ» پھر فرمایا اگر تم گھیر لیے جاؤ تو جو قربانی میسر ہو کر ڈالو مفسرین نے ذکر کیا کہ یہ آیت سن ٦ ہجری میں حدیبیہ کے میدان میں اتری جبکہ مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ جانے سے روکا تھا اور اسی بارے میں پوری سورۃ الفتح اتری اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کو رخصت ملی کہ وہ اپنی قربانیوں کو وہیں ذبح کر ڈالیں چنانچہ ستر اونٹ ذبح کئے گئے سرمنڈوائے گئے اور احرام کھول دئیے گئے اول مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو سن کر لوگ ذرا جھجھکے اور انہیں انتظار تھا کہ شاید کوئی ناسخ حکم اترے یہاں تک کہ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر آئے ، اور اپنا سر منڈوایا پھر بس لوگ آمادہ ہو گئے بعض نے سر منڈوا لیا ، بعض نے کچھ بال کتروا لیے جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ سر منڈوانے والوں پر رحم کرے لوگوں نے کہا یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم بال کتروانے والوں کے لیے بھی دعا کیجئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر سرمنڈوانے والوں کے لیے یہی دعا کی ، تیسری مرتبہ کتروانے والوں کے لیے بھی دعا کر دی ۔ (صحیح بخاری:1727) سات سات شخص ایک ایک اونٹ میں شریک تھے صحابہ کی کل تعداد چودہ سو تھی ۔ (صحیح بخاری:1451) حدیبیہ کے میدان میں ٹھہرے ہوئے تھے جو حد حرم سے باہر تھا گو یہ بھی مروی ہے کہ حد حرم کے کنارے پر تھے ، «وَاللہُ اَعْلَمُ» علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ یہ حکم صرف ان لوگوں کے لیے ہی ہے جنہیں دشمن گھیرے یا کسی بیماری وغیرہ سے بھی کوئی مجبور ہو جائے تو اس کے لیے بھی رخصت ہے کہ وہ اسی جگہ احرام کھول ڈالے اور سر منڈوالے اور قربانی کر دے ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ تو صرف پہلی قسم کے لوگوں کے لیے ہی بتاتے ہیں ، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ، طاؤس ، زہری اور زید بن اسلم رحمہ اللہ علیہم بھی یہی فرماتے ہیں ، لیکن مسند احمد کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ جس شخص کا ہاتھ پاؤں ٹوٹ جائے یا بیمار ہو جائے یا لنگڑا لولا ہو جائے تو وہ حلال ہو گیا وہ اگلے سال حج کر لے راوی حدیث کہتا ہے کہ میں نے اسے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ (سنن ابوداود:1862 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) سے ذکر کیا انہوں نے بھی فرمایا سچ ہے سنن اربعہ میں بھی یہ حدیث ہے ۔ سیدنا ابن مسعود ، ابن زبیر رضی اللہ عنہما ، علقمہ سعید بن مسیب ، عروہ بن زبیر ، مجاہد ، نخعی ، عطا اور مقاتل بن حیان رحمہ اللہ علیہم سے بھی یہی مروی ہے کہ بیمار ہو جانا اور لنگڑا لولا ہو جانا بھی ایسا ہی عذر ہے ، سفیان ثوری رحمہ اللہ ہر مصیبت و ایذاء کو ایسا ہی عذر بتاتے ہیں ، (تفسیر ابن ابی حاتم:445/1) بخاری و مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ سیدنا زبیر بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی ضباعہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرتی ہیں کہ یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم میرا ارادہ حج کا ہے لیکن میں بیمار رہتی ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حج کو چلی جاؤ اور شرط کر لو کہ میرے احرام سے فارغ ہونے کی وہی جگہ ہو گی جہاں میں مرض کی وجہ سے رک جاؤں ۔ (صحیح بخاری:5089) اسی حدیث کی بنا پر بعض علماء کرام کا فتویٰ ہے کہ حج میں شرط کرنا ناجائز ہے ، امام شافعی رحمہ اللہ بھی فرماتے ہیں کہ اگر یہ حدیث صحیح ہو تو میرا قول بھی یہی ہے ، امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ حدیث باکل صحیح ہے ۔ پس امام صاحب کا مذہب بھی یہی ہوا «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ جو قربانی میسر ہو اسے قربان کر دے ، سیدنا علی رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یعنی ایک بکری ذبح کر دے ۔ (موطا:385/1) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اونٹ ہو گائے ہو بکری ہو بھیڑ ہو ان کے نر ہوں ۔ ان آٹھوں قسموں میں سے جسے چاہے ذبح کرے ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:450/1) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے صرف بکری بھی مروی ہے اور بھی بہت سے مفسرین نے یہی فرمایا اور چاروں اماموں کا بھی یہی مذہب ہے ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما وغیرہ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد صرف اونٹ اور گائے ہی ہے ، غالبًا ان کی دلیل حدیبیہ والا واقعہ ہو گا اس میں کسی صحابی سے بکری کا ذبح کرنا منقول نہیں ، گائے اور اونٹ ہی ان بزرگوں نے قربان کئے ہیں ، بخاری و مسلم میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہمیں اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ہم سات سات آدمی گائے اور اونٹ میں شریک ہو جائیں ، (صحیح مسلم:1318) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ بھی منقول ہے کہ جس جانور کے ذبح کرنے کی وسعت ہو اسے ذبح کر ڈالے ، اگر مالدار ہے تو اونٹ اس سے کم حیثیت والا ہے تو گائے ورنہ پھر بکری عروہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں مہنگے سستے داموں پر موقوف ہے ، جمہور کے اس قول کی کہ ” بکری کافی ہے “ کی یہ دلیل ہے کہ قرآن نے میسر آسان ہونے کا ذکر فرمایا ہے یعنی کم سے کم وہ چیز جس پر قربانی کا اطلاق ہو سکے اور قربانی کے جانور اونٹ گائے بکریاں اور بھیڑیں ہی ہیں جیسے حبر البحر ۔ ترجمان قرآن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے ، بخاری و مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ بکری کی قربانی کی ۔ (صحیح بخاری:1703) پھر فرمایا جب تک قربانی اپنی جگہ پر نہ پہنچ جائے تم اپنے سروں کو نہ منڈواؤ ، اس کا عطف آیت «وَاَتِمٰوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ لِلہِ» ( 2 ۔ البقرہ : 196 ) پر ہے ، آیت «فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ» ( 2 ۔ البقرہ : 196 ) پر نہیں امام ابن جریر رحمہ اللہ سے یہاں سہو ہو گیا ہے وجہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں نے حدیبیہ والے سال جبکہ مشرکین رکاوٹ بن گئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حرم میں نہ جانے دیا تو حرم سے باہر ہی سب نے سر بھی منڈوائے اور قربانیاں بھی کر دیں ، لیکن امن کی حالت میں جبکہ حرم میں پہنچ سکتے ہوں تو جائز نہیں جب تک کہ قربانی اپنی جگہ پر نہ پہنچ جائے اور حاجی حج و عمرے کے جملہ احکام سے فارغ نہ ہو لے اگر وہ حج و عمرے کا ایک ساتھ احرام باندھے ہوئے ہو تو ان میں سے ایک کو کرنے والے ہو تو خواہ اس نے صرف حج کا احرام باندھا ہو خواہ تمتع کی نیت کی ہو ۔ بخاری مسلم میں ہے کہ ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! سب نے تو احرام کھول ڈالے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو احرام میں ہی ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں میں نے اپنا سر منڈوا لیا ہے اور اپنی قربانی کے جانور کے گلے میں علامت ڈال دی ہے جب تک یہ ذبح نہ ہو جائے میں احرام نہیں اتار سکتا ۔ (صحیح بخاری:1566) پھر حکم ہوتا ہے کہ بیمار اور سر کی تکلیف والا شخص فدیہ دیدے صحیح بخاری شریف میں ہے عبداللہ بن معقل رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں کوفے کی مسجد میں سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا میں نے ان سے اس آیت کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے جواب میں کہا کہ مجھے لوگ اٹھا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے جوئیں میرے منہ پر چل رہی تھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھ کر فرمایا تمہاری حالت یہاں تک پہنچ گئی ہو گی میں خیال بھی نہیں کر سکتا کیا تمہیں اتنی طاقت نہیں کہ ایک بکری ذبح کر ڈالو میں نے کہا یا رسول اللہ !صلی اللہ علیہ وسلم میں تو مفلس آدمی ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جاؤ اپنا سرمنڈوا دو اور تین روزے رکھ لینا یا چھ مسکینوں کو آدھا آدھا صاع ( تقریباً سوا سیر سوا چھٹانک ) اناج دے دینا یہ آیت میرے بارے میں اتری ہے اور حکم کے اعتبار سے ہر ایک ایسے معذور شخص کو شامل ہے ۔ (صحیح بخاری:4517) ایک اور روایت میں ہے کہ میں ہنڈیا تلے آگ سلگا رہا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میری یہ حالت دیکھ کر مجھے یہ مسئلہ بتایا ، (صحیح بخاری:5665) ایک اور روایت میں ہے کہ یہ واقعہ حدیبیہ کا ہے اور میرے سر پر بڑے بڑے بال تھے جن میں بکثرت جوئیں ہو گئی تھیں ، (صحیح بخاری:4190) ابن مردویہ کی روایت میں ہے کہ پھر میں نے سرمنڈوا دیا اور ایک بکری ذبح کر دی ، ایک اور حدیث میں ہے ( نسک ) یعنی قربانی ایک بکری ہے اور روزے اگر رکھے تو تین رکھے اگر صدقہ دے تو ایک فرق ( پیمانہ ) چھ مسکینوں کے درمیان تقسیم کر دینا ہے ، (الدر المنثور للسیوطی:515/1) سیدنا علی رضی اللہ عنہما ، محمد بن کعب ، علقمہ ، ابراہیم ، مجاہد ، عطا ، سدی اور ربیع بن انس رحمہم اللہ کا بھی یہی فتویٰ ہے ، ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کو تینوں مسئلے بتا کر فرما دیا تھا کہ اس میں سے جس پر تم چاہو عمل کرو کافی ہے ، (سنن ابوداود:1861 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں جہاں دو تین صورتیں لفظ ” او “ کے ساتھ بیان ہوئی ہوں وہاں اختیار ہوتا ہے جسے چاہے کر لے ۔ حضرت مجاہد ، عکرمہ ، عطاء ، طاؤس ، حسن ، حمید ، اعرج ، ابراہیم نخعی اور ضحاک رحمہ اللہ علیہم سے بھی یہی مروی ہے چاروں اماموں کا اور اکثر علماء کا بھی یہی مذہب ہے کہ اگر چاہے روزے رکھ لے اگر چاہے صدقہ کر دے اگر چاہے قربانی کر لے روزے تین ہیں صدقہ ایک فرق یعنی تین صاع یعنی آٹھ سیر میں آدھی چھٹانک کم ہے چھ مسکینوں پر تقسیم کر دے اور قربانی ایک بکری کی ہے ، ان تینوں صورتوں میں سے جو چاہے کر لے ، پروردگار رحمنٰ و رحیم کو چونکہ یہاں رخصت دینی تھی اس لیے سب سے پہلے روزے بیان فرمائے جو سب سے آسان صورت ہے ، صدقہ کا ذکر کیا پھر قربانی کا ، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو چونکہ افضیلت پر عمل کرانا تھا اس لیے پہلے قربانی کا ذکر کیا پھر چھ مسکینوں کو کھلانے کا پھر تین روزے رکھنے کا ، سبحان اللہ دونوں مقام کے اعتبار سے دونوں ترکیبیں کس قدر درست اور برمحل ہیں ، «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے اس آیت کا مطلب پوچھا جاتا ہے تو فرماتے ہیں کہ غلہ کا حکم لگایا جائے گا اگر اس کے پاس ہے تو ایک بکری خرید لے ورنہ بکری کی قیمت درہموں سے لگائی جائے اور اس کا غلہ خریدا جائے اور صدقہ کر دیا جائے ورنہ ہر آدھے صاع کے بدلے ایک روزہ رکھے ، حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں جب محرم کے سر میں تکلیف ہو تو بال منڈوا دے اور اور ان تین میں سے ایک فدیہ ادا کر دے روزے دس ہیں ، صدقہ دس مسکینوں کا کھانا بتلاتے ہیں لیکن یہ اقوال ٹھیک نہیں اس لیے کہ مرفوع حدیث میں آ چکا ہے کہ روزے تین ہیں اور چھ مسکینوں کا کھانا ہے اور ان تینوں صورتوں میں اختیار ہے قربانی کی بکری کر دے خواہ تین روزے رکھ لے خواہ چھ فقیروں کو کھانا کھلا دے ، ہاں یہ ترتیب احرام کی حالت میں شکار کرنے والے پر ہے جیسے کہ قرآن کریم کے الفاظ ہیں اور فقہاء کا اجماع ہے لیکن یہاں ترتیب ضروری نہیں اختیار ہے ، طاؤس رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ قربانی اور یہ صدقہ مکہ میں ہی کر دے لیکن روزے جہاں چاہے رکھ لے ۔ ایک اور روایت میں ہے ابو اسماء جو ابن جعفر کے مولیٰ ہیں فرماتے ہیں کہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ حج کو نکلے آپ رضی اللہ عنہ کے ساتھ سیدنا علی اور حسین رضی اللہ عنہما بھی تھے میں ابو جعفر کے ساتھ تھا ہم نے دیکھا کہ ایک شخص سویا ہوا ہے اور اس کی اونٹنی اس کے سرہانے بندھی ہوئی ہے میں نے اسے جگایا دیکھا تو وہ حسین رضی اللہ عنہ تھے ابن جعفر انہیں لے کر چلے یہاں تک کہ ہم سقیا میں پہنچے وہاں بیس دن تک ہم ان کی تیمارداری میں رہے ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے پوچھا کیا حال ہے ؟ جناب سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے سر کی طرف اشارہ کیا آپ رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ سر منڈوا لو پھر اونٹ منگوا کر ذبح کر دیا ، تو اگر اس اونٹ کا نحر کرنا احرام سے حلال ہونے کے لیے تھا تو خیر اور اگر یہ فدیہ کے لیے تھا تو ظاہر ہے کہ مکہ کے باہر یہ قربانی ہوئی ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ تمتع والا شخص بھی قربانی کرے ، خواہ حج و عمرے کا ایک ساتھ احرام باندھا ہو یا پہلے عمرے کا احرام باندھا ہو یا اس سے فارغ ہو کر حج کا احرام باندھ لیا ہو ، اصل تمتع یہی ہے اور فقہاء کے کلام میں بھی مشہور یہی ہے اور عام تمتع ان دونوں قسموں میں شامل ہے ، جیسے کہ اس پر صحیح حدیثیں دلالت کرتی ہیں بعض راوی تو کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود حج تمتع کیا تھا بعض کہتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم قارن تھے اور اتنا سب کہتے ہیں کہ قربانی کے جانور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ، پس آیت میں یہ حکم ہے کہ تمتع کرنے والا جس قربانی پر قادر ہو وہ کر ڈالے جس کا ادنی درجہ ایک بکری کو قربان کرنا ہے گو گائے کی قربانی بھی کر سکتا ہے چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کی طرف سے گائے کی قربانی کی تھی جو سب کی سب تمتع والی تھیں ۔ (سنن ابوداود:1751 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) اس سے ثابت ہوا کہ تمتع بھی مشروع ہے ، سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ تمتع کی آیت بھی قرآن میں نازل ہو چکی ہے اور ہم نے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تمتع کیا پھر نہ تو قرآن میں اس کی ممانعت نازل ہوئی نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے روکا لیکن لوگوں نے اپنی رائے سے اسے ممنوع قرار دیا ، امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے مراد غالبًا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ہیں امام المحدثین کی یہ بات بالکل صحیح ہے ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ وہ لوگوں کو اس سے روکتے تھے اور فرماتے تھے کہ اگر ہم کتاب اللہ کو لیں تو اس میں بھی حج و عمرے کے پورا کرنے کا حکم موجود ہے آیت «وَاَتِمٰوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ لِلہِ» ( 2 ۔ البقرہ : 196 ) لیکن یہ یاد رہے کہ لوگ بکثرت بیت اللہ شریف کا قصد حج و عمرے کے ارادے سے کریں جیسے کہ آپ سے صراحۃ مروی ہے رضی اللہ عنہ ۔ پھر فرمایا جو شخص قربانی نہ کر سکے وہ تین روزے حج میں رکھ لے اور سات روزے اس وقت رکھ لے جب حج سے لوٹے یہ پورے دس ہو جائیں گے ، یعنی قربانی کی طاقت جسے نہ ہو وہ روزے رکھ لے تین تو ایام حج میں اور بقیہ بعد میں ، علماء کا فرمان ہے کہ اولیٰ یہ ہے کہ یہ روزے عرفے سے پہلے ذی الحجہ کے دنوں میں رکھ لے حضرت طاؤس مجاہد رحمہ اللہ علیہما وغیرہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ اول شوال میں بھی یہ روزے جائز ہیں ، شعبی رحمہ اللہ وغیرہ فرماتے ہیں روزوں کو اگر عرفہ کے دن کا روزہ شامل کر کے ختم کرے تو بھی اختیار ہے ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی یہ منقول ہے کہ اگر عرفے سے پہلے دو دنوں میں دو روزے رکھ لے اور تیسرا عرفہ کے دن ہو تو بھی جائز ہے ، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ بھی فرماتے ہیں ایک روزہ یوم الترویہ سے پہلے ایک یوم الترویہ کا اور ایک عرفہ کا ، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا فرمان بھی یہی ہے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:94/4) اگر کسی شخص سے یہ تینوں روزے یا ایک دو چھوٹ گئے ہوں اور ایام تشریق یعنی بقر و عید کے بعد کے تین دن آ جائیں تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے کہ وہ ان دنوں میں بھی یہ روزے رکھ سکتا ہے (صحیح بخاری:1997) امام شافعی رحمہ اللہ کا بھی پہلا قول یہی ہے ، سیدنا علی کرم اللہ وجہہ سے بھی یہی مروی ہے ، عکرمہ ، حسن بصری اور عروہ بن زبیر رحمہ اللہ علیہم بھی یہی فرماتے ہیں۔(تفسیر ابن جریر الطبری:98/4) حضرت امام شافعی کا نیا قول یہ ہے کہ ان دنوں میں یہ روزے ناجائز ہیں ، کیونکہ صحیح مسلم شریف میں حدیث ہے کہ ایام تشریق کھانے پینے اور اللہ کا ذکر کرنے کے دن ہیں ۔ (صحیح مسلم:1141) پھر سات روزے لوٹنے کے وقت اس سے مراد یا تو یہ ہے کہ جب لوٹ کر اپنی قیام گاہ پہنچ جاؤ پس لوٹتے وقت راستہ میں بھی یہ سات روزے رکھ سکتا ہے مجاہد رحمہ اللہ اور عطا رحمہ اللہ یہی کہتے ہیں ، یا مراد وطن میں پہنچ جانے سے ہے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما یہی فرماتے ہیں اور بھی بہت سے تابعین کا یہی مذہب ہے بلکہ ابن جریر تو اس پر اجماع بتاتے ہیں ، بخاری شریف کی ایک مطول حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں عمرے کا حج کے ساتھ تمتع کیا اور قربانی دی ذوالحلیفہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی ساتھ لے لی تھی عمرے کے لیے پھر حج کی تہلیل کی لوگوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تمتع کیا بعض لوگوں نے تو قربانی ساتھ ہی رکھ لی تھی ۔ بعض کے ساتھ قربانی کے جانور نہ تھے مکہ شریف پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کے ساتھ قربانی ہے وہ حج ختم ہونے تک احرام میں رہے اور جس کے ساتھ قربانی نہیں وہ بیت اللہ شریف کا طواف کر کے صفا مروہ کے درمیان دوڑ کر احرام کھول ڈالے سر کے بال منڈوالے یا کتروالے پھر حج کا احرام باندھے اگر قربانی کی طاقت نہ ہو تو تین روزے تو حج میں رکھ لے اور سات روزے جب اپنے وطن پہنچے تب رکھ لے (صحیح بخاری:1691) اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ سات روزے وطن میں جانے کے بعد ہیں ۔ پھر فرمایا یہ پورے دس ہیں یہ فرمان تاکید کے لیے ہے جیسے عربوں میں کہا جاتا ہے میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کانوں سے سنا ہاتھ سے لکھا اور قرآن میں بھی ہے آیت «وَمَا مِن دَابَّۃٍ فِی الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ یَطِیرُ بِجَنَاحَیْہِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُکُم مَّا فَرَّطْنَا فِی الْکِتَابِ مِن شَیْءٍ ثُمَّ إِلَیٰ رَبِّہِمْ یُحْشَرُونَ» ( 6-الأنعام : 38 ) نہ کوئی پرندہ جو اپنے دونوں پروں سے اڑتا ہو اور جگہ ہے آیت «وَّلَا تَخُــطٰہٗ بِیَمِیْنِکَ» ( 39 ۔ العنکبوت : 48 ) تو اپنے دائیں ہاتھ سے لکھنا نہیں ، اور جگہ ہے «وَوَاعَدْنَا مُوسَیٰ ثَلَاثِینَ لَیْلَۃً وَأَتْمَمْنَاہَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِیقَاتُ رَبِّہِ أَرْبَعِینَ لَیْلَۃً» ( 7-الأعراف : 142 ) ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو تیس راتوں کا وعدہ دیا اور دس اور اس کے ساتھ پورا کیا اور اس کے رب کا وقت مقررہ چالیس راتوں کو پورا ہوا ، پس جیسے ان سب جگہوں میں صرف تاکید ہے ایسے ہی یہ جملہ بھی تاکید کے لیے ہے ، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ تمام و کمال کرنے کا حکم ہے اور کاملہ کا مطلب یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ یہ قربانی کے بدلے کافی ہیں ۔ اس کے بعد فرمایا گیا ہے یہ حکم ان لوگوں کے لیے ہے جس کے گھر والے مسجد الحرام کے رہنے والے نہ ہوں ، اس پر تو اجماع ہے کہ حرم والے تمتع نہیں کر سکتے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما یہی فرماتے ہیں ، بلکہ آپ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے مکہ والو تم تمتع نہیں کر سکتے باہر والوں کے لیے تمتع ہے تم کو تو ذرا سی دور جانا پڑتا ہے تھوڑے سا فاصلہ طے کیا پھر عمرے کا احرام باندھ لیا ، طاؤس رحمہ اللہ کی تفسیر بھی یہی ہے ، (تفسیر ابن جریر الطبری:111/4) لیکن عطاء رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میقات یعنی احرام باندھنے کے مقامات کے اندر ہوں وہ بھی اسی حکم میں ہیں ان کے لیے بھی تمتع کرنا جائز نہیں ، مکحول رحمہ اللہ بھی یہی فرماتے ہیں ، تو عرفات والوں کا مزدلفہ والوں کا عرفہ اور رجیع کے رہنے والوں کا بھی یہی حکم ہے ۔ زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں مکہ شریف سے ایک دن کی راہ کے فاصلہ پر ہو یا اس کے قریب وہ تو تمتع کر سکتا ہے اور لوگ نہیں کر سکتے ، عطاء رحمہ اللہ دو دن بھی فرماتے ہیں ، امام شافعی رحمہ اللہ کا مذہب یہ ہے کہ اہل حرم اور جو اتنے فاصلے پر ہوں کہ وہاں مکی لوگوں کے لیے نماز قصر کرنا جائز نہ ہو ان سب کے لیے یہی حکم ہے اس لیے کہ یہ سب حاضر کہے جائیں گے ان کے علاوہ سب مسافر ، اور ان سب کے لیے حج میں تمتع کرنا جائز ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» پھر فرمایا اللہ تعالیٰ سے ڈرو اس کے احکام بجا لاؤ جن کاموں سے اس نے منع کیا ہے رک جاؤ اور یقین رکھو کہ اس کے نافرمانوں کو وہ سخت سزا کرتا ہے ۔ البقرة
197 احرام کے مسائل عربی دان حضرات نے کہا ہے کہ مطلب اگلے جملہ کا یہ ہے کہ حج حج ہے ان مہینوں کا جو معلوم اور مقرر ہیں ، پس حج کے مہینوں میں احرام باندھنا دوسرے مہینوں کے احرام سے زیادہ کامل ہے ، گو اور ماہ کا احرام بھی صحیح ہے ، امام مالک ، امام ابوحنیفہ ، امام احمد ، امام اسحٰق ، امام ابراہیم نخعی ، امام ثوری ، امام لیث ، اللہ تعالیٰ ان پر سب رحمتیں نازل فرمائے فرماتے ہیں کہ سال بھر میں جس مہینہ میں چاہے حج کا احرام باندھ سکتا ہے ان بزرگوں کی دلیل «یَسْأَلُونَکَ عَنِ الْأَہِلَّۃِ قُلْ ہِیَ مَوَاقِیتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ» ( 2-البقرہ : 189 ) الخ ہے ، دوسری دلیل یہ ہے کہ حج اور عمرہ دونوں کو نسک کہا گیا ہے اور عمرے کا احرام حج کے مہینوں میں ہی باندھنا صحیح ہو گا بلکہ اگر اور ماہ میں حج کا احرام باندھا تو غیر صحیح ہے لیکن اس سے عمرہ بھی ہوسکتا ہے یا نہیں ؟ اس میں امام صاحب کے دو قول ہیں ابن عباس جابر ، عطا مجاہد رحمہم اللہ کا بھی یہی مذہب ہے کہ حج کا احرام حج کے مہینوں کے سوا باندھنا غیر صحیح ہے اور اس پر دلیل «الْحَجٰ أَشْہُرٌ مَّعْلُومَاتٌ» ( 2 ۔ البقرہ : 197 ) ہے عربی دان حضرات کی ایک دوسری جماعت کہتی ہے کہ آیت کے ان الفاظ سے مطلب یہ ہے کہ حج کا وقت خاص خاص مقرر کردہ مہینے میں تو ثابت ہوا کہ ان مہینوں سے پہلے حج کا جو احرام باندھے گا وہ صحیح نہ ہو گا جس طرح نماز کے وقت سے پہلے کوئی نماز پڑھ لے ، امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہمیں مسلم بن خالد نے خبر دی انہوں نے ابن جریج سے سنا اور انہیں عمرو بن عطاء نے کہا ان سے عکرمہ نے ذکر کیا کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے کہ کسی شخص کو لائق نہیں کہ حج کے مہینوں کے سوا بھی حج کا احرام باندھے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے «الْحَجٰ أَشْہُرٌ مَّعْلُومَاتٌ» ( 2 ۔ البقرہ : 197 ) اس روایت کی اور بھی بہت سی سندیں ہیں ۔ ایک سند میں ہے کہ سنت یہی ہے ، صحیح ابن خزیمہ میں بھی یہ روایت منقول ہے ، اصول کی کتابوں میں یہ مسئلہ طے شدہ ہے کہ صحابی کا فرمان حکم میں مرفوع حدیث کے مساوی ہوتا ہے پس یہ حکم رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہو گیا اور صحابی بھی یہاں وہ صحابی ہیں جو مفسر قرآن اور ترجمان القرآن ہیں ، علاوہ ازیں ابن مردویہ کی ایک مرفوع حدیث میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ حج کا احرام باندھنا کسی کو سوا حج کے مہینوں کے لائق نہیں ، اس کی اسناد بھی اچھی ہیں ، لیکن شافعی رحمہ اللہ اور بیہقی رحمہ اللہ نے روایت کی ہے کہ اس حدیث کے راوی سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا کہ حج کے مہینوں سے پہلے حج کا احرام باندھ لیا جائے تو آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا نہیں ،(بیہقی:343/4:ضعیف) یہ موقوف حدیث ہی زیادہ ثابت اور زیادہ صحیح ہے اور صحابی کے اس فتویٰ کی تقویت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے اس قول سے بھی ہوتی ہے کہ سنت یوں ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» اشہر معلومات سے مراد سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں شوال ذوالقعدہ اور دس دن ذوالحجہ کے ہیں (بخاری:کتاب الحج،تعلیقًا قبل الحدیث،1560) یہ روایت ابن جریر میں بھی ہے ، مستدرک حکم میں بھی ہے اور امام حاکم اسے صحیح بتلاتے ہیں ۔(حاکم:276/2:صحیح) عمر ، عطا ، مجاہد ، ابراہیم نخعی ، شعبی ، حسن ، ابن سیرین ، مکحول ، قتادہ ، ضحاک بن مزاحم ، ربیع بن انس ، مقاتل بن حیان رحمہم اللہ بھی یہی کہتے ہیں ،(تفسیر ابن ابی حاتم:486/2) امام شافعی ، امام ابوحنیفہ ، امام احمد بن حنبل ، ابو یوسف اور ابوثور رحمۃ اللہ علیہم کا بھی یہی مذہب ہے ، امام ابن جریر بھی اسی قول کو پسند فرماتے ہیں اشہر کا لفظ جمع ہے تو اس کا اطلاق دو پورے مہینوں اور تیسرے کے بعض حصے پر بھی ہوسکتا ہے ، جیسے عربی میں کہا جاتا ہے کہ میں نے اس سال یا آج کے دن اسے دیکھا ہے پس حقیقت میں سارا سال اور پورا دن تو دیکھتا نہیں رہتا بلکہ دیکھنے کا وقت تھوڑا ہی ہوتا ہے مگر اغلباً ( تقریباً ) ایسا بول دیا کرتے ہیں اسی طرح یہاں بھی اغلباً(تقریباً) تیسرے مہینہ کا ذکر ہے قرآن میں بھی ہے «فَمَنْ تَعَـجَّلَ فِیْ یَوْمَیْنِ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ» ( 2 ۔ البقرہ : 203 ) حالانکہ وہ جلدی ڈیڑھ دن کی ہوتی ہے مگر گنتی میں دو دن کہے گئے ، امام مالک ، امام شافعی رحمہ اللہ علیہما کا ایک پہلا قول یہ بھی ہے کہ شوال ذوالقعدہ اور ذوالحجہ کا پورا مہینہ ہے ، سیدنا ابن عمر سے بھی یہی مروی ہے ، ابن شہاب ، عطاء رحمہ اللہ علیہما ، سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے بھی یہی مروی ہے طاؤس ، مجاہد ، عروہ ربیع اور قتادہ رحمہ اللہ علیہم سے بھی یہی مروی ہے ایک مرفوع حدیث میں بھی یہ آیا ہے لیکن وہ موضوع ہے ، کیونکہ اس کا راوی حسین بن مخارق ہے جس پر احادیث کو وضع کرنے کی تہمت ہے ، بلکہ اس کا مرفوع ہونا ثابت نہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» امام مالک کے اس قول کو مان لینے کے بعد یہ ثابت ہوتا ہے کہ ذوالحجہ کے مہینے میں عمرہ کرنا صحیح نہ ہو گا یہ مطلب نہیں کہ دس ذی الحجہ کے بعد بھی حج ہو سکتا ہے ، چنانچہ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حج کے مہینوں میں عمرہ درست نہیں ، امام ابن جریر رحمہ اللہ بھی ان اقوال کا یہی مطلب بیان کرتے ہیں کہ حج کا زمانہ تو منیٰ کے دن گزرتے ہی جاتا رہا ، محمد بن سیرین رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ میرے علم میں تو کوئی اہل علم ایسا نہیں جو حج کے مہینوں کے علاوہ عمرہ کرنے کو ان مہینوں کے اندر عمرہ کرنے سے افضل ماننے میں شک کرتا ہو ، قاسم بن محمد رحمہ اللہ سے ابن عون نے حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے کے مسئلہ کو پوچھا تو آپ رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ اسے لوگ پورا عمرہ نہیں مانتے ، سیدنا عمر اور عثمان رضی اللہ عنہما نے بھی حج کے مہینوں کے علاوہ عمرہ کرنا پسند فرماتے تھے بلکہ ان مہینوں میں عمرہ کرنے کو منع کرتے تھے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ( اس سے اگلی آیت کی تفسیر میں گزر چکا ہے ) کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذوالقعدہ میں چار عمرے ادا فرمائے ہیں اور ذوالقعدہ بھی حج کا مہینہ ہے پس حج کے مہینوں میں عمرہ ادا فرماتے ہیں اور ذوالقعدہ بھی حج کا مہینہ ہے پس حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا جائز ٹھہرا «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ جو شخص ان مہینوں میں حج مقرر کرے یعنی حج کا احرام باندھ لے اس سے ثابت ہوا کہ حج کا احرام باندھنا اور اسے پورا کرنا لازم ہے ، فرض سے مراد یہاں واجب و لازم کر لینا ہے ، (تفسیر ابن جریر الطبری:121/4) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں حج اور عمرے کا احرام باندھنے والے سے مراد ہے ۔ عطاء رحمہ اللہ فرماتے ہیں فرض سے مراد احرام ہے ، ابراہیم اور ضحاک رحمہ اللہ علیہما کا بھی یہی قول ہے ، (تفسیر ابن جریر الطبری:123/4) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں احرام باندھ لینے اور لبیک پکار لینے کے بعد کہیں ٹھہرا رہنا ٹھیک نہیں اور بزرگوں کا بھی یہی قول ہے ، بعض بزرگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ فرض سے مراد لبیک پکارنا ہے ۔ ( رفث ) سے مراد جماع ہے جیسے اور جگہ قرآن میں ہے آیت «اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰی نِسَایِٕکُمْ» ( 2 ۔ البقرہ : 187 ) یعنی روزے کی راتوں میں اپنی بیویوں سے جماع کرنا تمہارے لیے حلال کیا گیا ہے ، احرام کی حالت میں جماع اور اس کے تمام مقدمات بھی حرام ہیں جیسے مباشرت کرنا ، بوسہ لینا ، ان باتوں کا عورتوں کی موجودگی میں ذکر کرنا ۔ گویا بعض نے مردوں کی محفلوں میں بھی ایسی باتیں کرنے کو دریافت کرنے پر فرمایا کہ عورتوں کے سامنے اس قسم کی باتیں کرنا رفث ہے ۔ رفث کا ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ جماع وغیرہ کا ذکر کیا جائے ، فحش باتیں کرنا ، دبی زبان سے ایسے ذکر کرنا ، اشاروں کنایوں میں جماع کا ذکر ، اپنی بیوی سے کہنا کہ احرام کھل جائے تو جماع کریں گے ، چھیڑ چھاڑ کرنا ، مساس کرنا وغیرہ یہ سب رفث میں داخل ہے اور احرام کی حالت میں یہ سب باتیں حرام ہیں مختلف مفسروں کے مختلف اقوال کا مجموعہ یہ ہے ۔ فسوق کے معنی عصیان ونافرمانی شکار گالی گلوچ وغیرہ بد زبانی ہے جیسے حدیث میں ہے مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اسے قتل کرنا کفر ہے ، (صحیح بخاری:48) اللہ کے سوا دوسرے کے تقرب کے لیے جانوروں کو ذبح کرنا بھی فسق ہے جیسے قرآن کریم میں ہے آیت «اَوْ فِسْقًا اُہِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ» ( 6 ۔ الانعام : 145 ) بد القاب سے یاد کرنا بھی فسق ہے قرآن فرماتا ہے آیت «وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ» ( 49-الحجرات : 11 ) مختصر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہرنافرمانی فسق میں داخل ہے گو یہ فسق ہر وقت حرام ہے لیکن حرمت والے مہینوں میں اس کی حرمت اور بڑھ جاتی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آیت «فَلَا تَظْلِمُوْا فِیْہِنَّ اَنْفُسَکُمْ وَقَاتِلُوا الْمُشْرِکِیْنَ کَافَّۃً کَمَا یُقَاتِلُوْنَکُمْ کَافَّۃً» ( 9 ۔ التوبہ : 136 ) ان حرمت والے مہینوں میں اپنی جان پر ظلم نہ کرو اس طرح حرم میں بھی یہ حرمت بڑھ جاتی ہے ارشاد ہے آیت «وَمَنْ یٰرِدْ فِیْہِ بِاِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نٰذِقْہُ مِنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ» ( 22 ۔ الحج : 25 ) یعنی حرم میں جو الحاد اور بے دینی کا ارادہ کرے اور اسے ہم المناک عذاب دیں گے ، امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہاں مراد فسق سے وہ کام ہیں جو احرام کی حالت میں منع ہیں جیسے شکار کھیلنا بال منڈوانا یا کتروانا یا ناخن لینا وغیرہ ، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے بھی یہی مروی ہے لیکن بہترین تفسیر وہی ہے جو ہم نے بیان کی یعنی ہر گناہ سے روکا گیا ہے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:126/4) «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ بخاری و مسلم میں ہے جو شخص بیت اللہ کا حج کرے نہ رفث کرے نہ فسق تو وہ گناہوں سے ایسا نکل جاتا ہے جیسے اپنے پیدا ہونے کا دن تھا ۔ (صحیح بخاری:1521) پھر ارشاد ہوتا ہے کہ حج میں جھگڑا نہیں یعنی حج کے وقت اور حج کے ارکان وغیرہ میں جھگڑا نہ کرو اور اس کا پورا بیان اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے ، حج کے مہینے مقرر ہو چکے ہیں ان میں کمی زیادتی نہ کرو ، موسم حج کو آگے پیچھے نہ کرو جیسا کہ مشرکین کا وطیرہ تھا جس کی مذمت قرآن کریم میں اور جگہ فرما دی گئی ہے اسی طرح قریش مشعرِ حرام کے پاس مزدلفہ میں ٹھہر جاتے تھے اور باقی عرب عرفات میں ٹھہرتے تھے پھر آپس میں جھگڑتے تھے اور ایک دوسرے سے کہتے تھے کہ ہم صحیح راہ پر اور طریق ابراہیمی پر ہیں جس سے یہاں ممانعت کی جا رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں وقت حج ارکان حج اور ٹھہرنے وغیرہ کی جگہیں بیان کر دی ہیں اب نہ کوئی ایک دوسرے پر فخر کرے نہ حج کے دن آگے پیچھے کرے بس یہ جھگڑے اب مٹا دو ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے کہ حج کے سفر میں آپس میں نہ جھگڑو نہ ایک دوسرے کو غصہ دلاؤ نہ کسی کو گالیاں دو ، بہت سے مفسرین کا یہ قول بھی ہے اور بہت سے مفسرین کا پہلا قول بھی ہے ، عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ کسی کا اپنے غلام کو ڈانٹ ڈپٹ کرنا یہ اس میں داخل نہیں ہاں مارے نہیں ، لیکن میں کہتا ہوں کہ غلام کو اگر مار بھی لے تو کوئی ڈر خوف نہیں ۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر حج میں تھے ور عرج میں ٹھہرے ہوئے تھے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھی ہوئی تھیں اور سیدہ اسماء رضی اللہ عنہ اپنے والد سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھی ہوئی تھیں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہما اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹوں کا سامان سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہما کے خادم کے پاس تھا سیدنا صدیق رضی اللہ عنہما اس کا انتظار کر رہے تھے تھوڑی دیر میں وہ آ گیا اس سے پوچھا کہ اونٹ کہاں ہے ؟ اس نے کہا کل رات کو گم ہو گیا آپ رضی اللہ عنہما ناراض ہوئے اور فرمانے لگے ایک اونٹ کو بھی تو سنبھال نہ سکا یہ کہہ کر آپ رضی اللہ عنہما نے اسے مارا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا رہے تھے اور فرماتے جا رہے تھے دیکھو احرام کی حالت میں کیا کر رہے ہیں ؟ یہ حدیث ابوداؤد اور ابن ماجہ میں بھی ہے ، (سنن ابوداود:1818 ، قال الشیخ الألبانی:حسن) بعض سلف سے یہ بھی مروی ہے کہ حج کے تمام ہونے میں یہ بھی ہے لیکن یہ خیال رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اس کام پر یہ فرمانا اس میں نہایت لطافت کے ساتھ ایک قسم کا انکار ہے پس مسئلہ یہ ہوا کہ اسے چھوڑ دینا ہی اولیٰ ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ مسند عبد بن حمید میں ہے کہ جو شخص اپنا حج پورا کرے اور مسلمان اس کی زبان اور ہاتھ سے ایذاء نہ پائیں اس کے تمام اگلے گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔ (عبد بن حمید:1150:ضعیف) پھر فرمایا تم جو بھلائی کرو اس کا علم اللہ تعالیٰ کو ہے ، چونکہ اوپر ہر برائی سے روکا تھا کہ نہ کوئی برا کام کرو نہ بری بات کہو تو یہاں نیکی کی رغبت دلائی جا رہی ہے کہ ہر نیکی کا پورا بدلہ قیامت کے دن پاؤ گے ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ توشہ اور سفر خرچ لے لیا کرو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں لوگ بلا خرچ سفر کو نکل کھڑے ہوتے تھے پھر لوگوں سے مانگتے پھرتے جس پر یہ حکم ہوا ، (تفسیر ابن جریر الطبری:3736) عکرمہ ، عیینہ رحمہ اللہ علیہما بھی یہی فرماتے ہیں ، بخاری نسائی وغیرہ میں یہ روایتیں مروی ہیں ، ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ یمنی لوگ ایسا کرتے تھے اور اپنے تئیں متوکل کہتے تھے ، (صحیح بخاری:1523) سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے یہ بھی روایت ہے کہ جب احرام باندھتے تو جو کچھ توشہ بھنا ہوتا سب پھینک دیتے اور نئے سرے سے نیا سامان کرتے اس پر یہ حکم ہوا کہ ایسا نہ کرو آٹا ستو وغیرہ توشے ہیں ساتھ لے لو ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:156/4) دیگر بہت سے معتبر مفسرین نے بھی اسی طرح کہا ہے بلکہ ابن عمر رضی اللہ عنہما تو یہ بھی فرماتے ہیں کہ انسان کی عزت اسی میں ہے کہ وہ عمدہ سامان سفر ساتھ رکھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں سے دل کھول کر خرچ کرنے کی شرط کر لیا کرتے تھے ۔ چونکہ دنیوی توشہ کا حکم دیا ہے تو ساتھ ہی فرمایا ہے کہ آخرت کے توشہ کی تیاری بھی کر لو یعنی اپنی قبر میں اپنے ساتھ خوف اللہ لے کر جاؤ جیسے اور جگہ لباس کا ذکر کر کے ارشاد فرمایا آیت «وَلِبَاسُ التَّقْوٰی ذٰلِکَ خَیْرٌ» ( 7 ۔ الاعراف : 26 ) پرہیزگاری کا لباس بہتر ہے ، یعنی خشوع خضوع طاعت وتقویٰ کے باطنی لباس سے بھی خالی نہ رہو ، بلکہ یہ لباس اس ظاہری لباس سے کہیں زیادہ بہتر اور نفع دینے والا ہے ، ایک حدیث میں بھی ہے کہ دنیا میں اگر کچھ کھوؤ گے تو آخرت میں پاؤ گے یہاں کا توشہ وہاں فائدہ دے گا (طبرانی کبیر:2271:صحیح) اس حکم کو سن کر ایک مسکین صحابی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تو کچھ ہے ہی نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اتنا تو ہونا چاہیئے جس سے کسی سے سوال نہ کرنا پڑے اور بہترین خزانہ اللہ تعالیٰ کا خوف ہے ۔ ( ابن ابی حاتم ) پھر ارشاد ہوتا ہے کہ «وَاتَّقُونِ یَا أُولِی الْأَلْبَابِ» ( 2-البقرہ : 197 ) عقلمندو مجھ سے ڈرتے رہا کرو ، یعنی میرے عذابوں سے ، میری پکڑ دھکڑ سے ، میری گرفت سے ، میری سزاؤں سے ڈرو ، دب کر میرے احکام کی تعمیل کرو ، میرے ارشاد کے خلاف نہ کرو تاکہ نجات پا سکو یہ ہی عقلی امتیاز ہے ۔ البقرة
198 تجارت اور حج صحیح بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جاہلیت کے زمانہ میں عکاظ ، مجنہ اور ذوالمجاز نامی بازار تھے اسلام کے بعد صحابہ رضی اللہ عنہم ایام حج میں تجارت کو گناہ سمجھ کر ڈرے تو انہیں اجازت دی گئی کہ ایام حج میں تجارت کرنا گناہ نہیں ، (صحیح بخاری:1770) ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ یہ مسئلہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا جس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ حج کے دنوں میں احرام سے پہلے یا احرام کے بعد حاجی کے لیے خرید و فروخت حلال ہے ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی قرأت میں آیت «من ربکم» کے بعد (فِی مَوَاسِمِ الْحَجَّ) کا لفظ بھی ہے ، سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہما سے بھی یہی مروی ہے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:2771) دوسرے مفسرین نے بھی اس کی تفسیر اسی طرح کی ہے ، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا کہ ایک شخص حج کو نکلتا ہے اور ساتھ ہی خوش الحانی کے ساتھ پڑھتا جاتا ہے تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ آپ رضی اللہ عنہما نے یہی آیت پڑھ کر سنائی ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:165/4) مسند احمد کی روایت میں ہے کہ ابوامامہ تیمی رحمہ اللہ نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ ہم حج میں جانور کرایہ پر دیتے ہیں کیا ہمارا حج ہو جاتا ہے ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم بیت اللہ شریف کا طواف نہیں کرتے ؟ کیا تم عرفات میں نہیں ٹھہرتے ؟ کیا تم شیطانوں کو کنکریاں نہیں مارتے ؟ کیا تم سر نہیں منڈواتے ؟ اس نے کہا یہ سب کام تو ہم کرتے ہیں تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا سنو ایک شخص نے یہی سوال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تھا اور اس کے جواب میں جبرائیل علیہ السلام آیت «لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّکُمْ» ( 2 ۔ البقرہ : 198 ) لے کر اترے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلا کر فرمایا کہ تم حاجی ہو تمہارا حج ہو گیا ۔ (مسند احمد:155/2:صحیح) مسند عبدالرزاق میں بھی یہ روایت ہے کہ اور تفسیر عبد بن حمید وغیرہ میں بھی ، بعض روایتوں میں الفاظ کی کچھ کمی بیشی بھی ہے ، ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ کیا تم احرام نہیں باندھتے (ایضاً) امیرالمؤمنین عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے سوال ہوتا ہے کہ کیا آپ حضرات حج کے دنوں میں تجارت بھی کرتے تھے ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اور تجارت کا موسم ہی کون سا تھا ؟ (تفسیر ابن جریر الطبری:168/4) عرفات کو منصرف ( یعنی تصرف کر کے ) پڑھا گیا ہے حالانکہ اس کے غیر منصرف ہونے کے دو سبب اس میں موجود ہیں یعنی (اسم علم ) اور تانیث ، اس لیے کہ دراصل یہ جمع ہے جیسے مسلمات اور مومنات ایک خاص جگہ کا نام مقرر کر دیا گیا ہے اس لیے اصلیت کی رعایت کی گئی اور منصرف پڑھا گیا ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:171/4) عرفہ وہ جگہ ہے جہاں کا ٹھہرنا حج کا بنیادی رکن ہے مسند احمد وغیرہ میں حدیث ہے کہ حج عرفات ہے تین مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا جو سورج نکلنے سے پہلے عرفات میں پہنچ گیا اس نے حج کو پا لیا ، منیٰ کے تین دنوں میں جلدی یا دیر کی جا سکتی ہے ، پر کوئی گناہ نہیں ، (سنن ابوداود:1949 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) ٹھہرنے کا وقت عرفے کے دن سورج ڈھلنے کے بعد سے لے کر عید کی صبح صادق کے طلوع ہونے تک ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع میں ظہر کی نماز کے بعد سورج غروب ہونے تک یہاں ٹھہرے رہے اور فرمایا تھا مجھ سے حج کے طریقے سیکھ لو ، (صحیح مسلم:1297) امام مالک رحمہ اللہ ، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ کا یہی مذہب ہے کہ دسویں کی فجر سے پہلے جو شخص عرفات میں پہنچ جائے ، اس نے حج پا لیا ، امام احمد رحمہ اللہ ، فرماتے ہیں کہ ٹھہرنے کا وقت عرفہ کے دن کے شروع سے ہے ان کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں مروی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مزدلفہ میں نماز کے لیے نکلے تو ایک شخص حاضر خدمت ہوا اور اس نے پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں طی کی پہاڑیوں سے آ رہا ہوں اپنی سواری کو میں نے تھکا دیا اور اپنے نفس پر بڑی مشقت اٹھائی واللہ ہر ہر پہاڑ پر ٹھہرتا آیا ہوں کیا میرا حج ہو گیا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص ہمارے یہاں کی اس نماز میں پہنچ جائے اور ہمارے ساتھ چلتے وقت تک ٹھہرا رہے اور اس سے پہلے وہ عرفات میں بھی ٹھہر چکا ہو خواہ رات کو خواہ دن کو اس کا حج پورا ہو گیا اور وہ فریضہ سے فارغ ہو گیا ۔ (سنن ابوداود:1950 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) امام ترمذی رحمہ اللہ اسے صحیح کہتے ہیں ، امیر المؤمنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کے پاس اللہ تعالیٰ نے جبرائیل علیہ السلام کو بھیجا اور انہوں نے آپ علیہ السلام کو حج کرایا جب عرفات میں پہنچے تو پوچھا کہ ( عرفت ) کیا تم نے پہچان لیا ؟ خلیل اللہ نے جواب دیا ( عرفت ) میں نے جان لیا کیونکہ اس سے پہلے یہاں آچکے تھے اس لیے اس جگہ کا نام ہی عرفہ ہو گیا ۔ (عبدالرزاق:97/5) حضرت عطاء رحمہ اللہ ، سیدنا ابن عباس ، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما اور ابومجلز رضی اللہ عنہ سے بھی یہی مروی ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» (تفسیر ابن ابی حاتم:519/2) ” مشعر الحرام “ ” مشعر الاقصی “ اور ” الال “ بھی ہے ، اور اس پہاڑ کو بھی عرفات کہتے ہیں جس کے درمیان جبل الرحمۃ ہے ، ابوطالب کے ایک مشہور قصیدے میں بھی ایک شعر ان معنوں کا ہے ، اہل جاہلیت بھی عرفات میں ٹھہرتے تھے جب پہاڑ کی دھوپ چوٹیوں پر ایسی باقی رہ جاتی جیسے آدمی کے سر پر عمامہ ہوتا ہے تو وہ وہاں سے چل پڑتے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہاں سے اس وقت چلے جب سورج بالکل غروب ہو گیا ، پھر مزدلفہ میں پہنچ کر یہاں پڑاؤ کیا اور سویرے اندھیرے ہی اندھیرے بالکل اول وقت میں رات کے اندھیرے اور صبح کی روشنی کے ملے جلے وقت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہیں نماز صبح ادا کی اور جب روشنی واضح ہو گئی تو صبح کی نماز کے آخری وقت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں سے کوچ کیا سیدنا مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عرفات میں خطبہ سنایا اور حسب عادت حمد و ثنا کے بعد امابعد کہہ کر فرمایا کہ حج اکبر آج ہی کا دن ہے دیکھو مشرک اور بت پرست تو یہاں سے جب دھوپ پہاڑوں کی چوٹیوں پر اس طرح ہوتی تھی جس طرح لوگوں کے سروں پر عمامہ ہوتا ہے تو سورج غروب ہونے سے پیشتر ہی لوٹ جاتے تھے لیکن ہم سورج غروب ہونے کے بعد یہاں سے واپس ہوں گے وہ مشعر الحرام سے سورج نکلنے کے بعد چلتے تھے جبکہ اتنی وہ پہاڑوں کی چوٹیوں پر دھوپ اس طرح نمایاں ہو جاتی جس طرح لوگوں کے سروں پر عمامے ہوتے ہیں لیکن ہم سورج نکلنے سے پہلے ہی چل دیں گے ہمارا طریقہ مشرکین کے طریقے کے خلاف ہے ۔ (طبرانی کبیر:28/20:صحیح) امام حاکم نے اسے شرط شیخین پر اور بالکل صحیح بتلایا ہے ۔ اس سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ سیدنا مسور رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ان لوگوں کا قول ٹھیک نہیں جو فرماتے ہیں کہ سیدنا مسور رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے لیکن آپ سے کچھ سنا نہیں ، معرور بن سوید رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو عرفات سے لوٹتے ہوئے دیکھا گویا اب تک بھی وہ منظر میرے سامنے ہے ، آپ رضی اللہ عنہ کے سر کے اگلے حصے پر بال نہ تھے اپنے اونٹ پر تھے اور فرما رہے تھے ہم واضح روشنی میں لوٹے صحیح مسلم کی جابر والی ایک مطول حدیث جس میں حجۃ الوداع کا پورا بیان ہے اس میں یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سورج کے غروب ہونے تک عرفات میں ٹھہرے جب سورج چھپ گیا اور قدرے زردی ظاہر ہونے لگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیچھے اپنی سواری پر سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کو سوار کیا اور اونٹنی کی نکیل تان لی یہاں تک کہ اس کا سر پالان کے قریب پہنچ گیا اور دائیں ہاتھ سے لوگوں کو اشارہ فرماتے جاتے تھے کہ لوگو آہستہ آہستہ چلو نرمی اطمینان و سکون اور دلجمعی کے ساتھ چلو جب کوئی پہاڑی آئی تو نکیل قدرے ڈھیلی کرتے تاکہ جانور بہ آسانی اوپر چڑھ جائے ، مزدلفہ میں آ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب اور عشاء کی نماز ادا کی اذان ایک ہی کہلوائی اور دونوں نمازوں کی تکبیریں الگ الگ کہلوائیں مغرب کے فرضوں اور عشاء کے فرضوں کے درمیان سنت نوافل کچھ نہیں پڑھے پھر لیٹ گئے ، صبح صادق کے طلوع ہونے کے بعد نماز فجر ادا کی جس میں اذان و اقامت ہوئی پھر قصوی نامی اونٹنی پر سوار ہو کر مشعر الحرام میں آئے قبلہ کی طرف متوجہ ہو کر دعا میں مشغول ہو گئے اور اللہ اکبر اور لا الہٰ الا اللہ اور اللہ کی توحید بیان کرنے لگے یہاں تک کہ خوب سویرا ہو گیا ، سورج نکلنے سے پہلے ہی پہلے آپ یہاں سے روانہ ہو گئے ، (صحیح مسلم:1218) سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ سے سوال ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب یہاں سے چلے تو کیسی چال چلتے تھے فرمایا اور درمیانہ دھیمی چال سواری چلا رہے تھے ہاں جب راستہ میں کشادگی دیکھتے تو ذرا تیز کر لیتے ۔ (صحیح بخاری:1666) پھر فرمایا عرفات سے لوٹتے ہوئے مشعرالحرام میں اللہ کا ذکر کرو یعنی یہاں دونوں نمازیں جمع کر لیں ، عمرو بن میمون رحمہ اللہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مشعرالحرام کے بارے میں دریافت فرماتے ہیں تو آپ رضی اللہ عنہ خاموش رہتے ہیں جب قافلہ مزدلفہ میں جا کر اترتا ہے تو فرماتے ہیں سائل کہاں ہے یہ ہے مشعر الحرام ، آپ سے یہ بھی مروی ہے کہ مزدلفہ تمام کا تمام مشعر الحرام ہے ، پہاڑ بھی اور اس کے آس پاس کی کل جگہ ، آپ رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ قزح پر بھیڑ بھاڑ کر رہے ہیں تو فرمایا یہ لوگ کیوں بھیڑ بھاڑ کر رہے ہیں ؟ یہاں کی سب جگہ مشعر الحرام ہے ، اور بھی بہت سے مفسرین نے یہی فرمایا ہے کہ دونوں پہاڑوں کے درمیان کی کل جگہ مشعر الحرام ہے ، (تفسیر ابن ابی حاتم:521/2) عطاء رحمہ اللہ سے سوال ہوتا ہے کہ مزدلفہ کہاں ہے آپ رحمہ اللہ فرماتے ہیں جب عرفات سے چلے اور میدان عرفات کے دونوں کنارے چھوڑے پھر مزدلفہ شروع ہو گیا وادی محسر تک جہاں چاہو ٹھہرو لیکن میں تو قزح سے ادھر ہی ٹھہرنا پسند کرتا ہوں تاکہ راستے سے یکسوئی ہو جائے ، مشاعر کہتے ہیں ظاہری نشانوں کو مزدلفہ کو مشعر الحرام اس لیے کہتے ہیں کہ وہ حرم میں داخل ہے ، سلف صالحین کی ایک جماعت کا اور بعض اصحاب شافعی رحمہ اللہ کا مثلا قفال اور ابن خزیمہ رحمہ اللہ علیہما کا خیال ہے کہ یہاں کا ٹھہرنا حج کا رکن ہے بغیر یہاں ٹھہرے حج صحیح نہیں ہوتا کیونکہ ایک حدیث سیدنا عروہ بن مضرس رضی اللہ عنہ سے اس معنی کی مروی ہے ، بعض کہتے ہیں یہ ٹھہرنا واجب ہے ۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا ایک قول یہ بھی ہے اگر کوئی یہاں نہ ٹھہرا تو قربانی دینی پڑے گی ، امام صاحب کا دوسرا قول یہ ہے کہ مستحب ہے اگر نہ بھی ٹھہرا تو کچھ حرج نہیں ، پس یہ تین قول ہوئے ہم یہاں اس بحث کو زیادہ طول دینا مناسب نہیں سمجھتے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ ( قرآن کریم کے ظاہری الفاظ پہلے قول کی زیادہ تائید کرتے ہیں واللہ اعلم ۔ مترجم ) ایک مرسل حدیث میں ہے کہ عرفات کا سارا میدان ٹھہرنے کی جگہ ہے ، عرفات سے بھی اٹھو اور مزدلفہ کی کل حد بھی ٹھہرنے کی جگہ ہے ہاں وادی محسر نہیں ، (مسند احمد:82/4:مرسل و ضعیف) مسند احمد کی اس حدیث میں اس کے بعد ہے کہ مکہ شریف کی تمام گلیاں قربانی کی جگہ ہیں اور ایام تشریق سب کے سب قربانی کے دن ہیں ، لیکن یہ حدیث بھی منقطع ہے اس لیے کہ سلیمان بن موسیٰ رشدق نے جبیر بن مطعم رحمہ اللہ کو نہیں پایا لیکن اس کی اور سندیں بھی ہیں «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ (مسند احمد:82/4:صحیح لغیرہ) پھر ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو جیسے کہ اس نے تمہیں ہدایت دی ہے کہ احکام حج وضاحت کے ساتھ بیان فرما دئیے اور خلیل اللہ کی اس سنت کو واضح کر دیا ۔ حالانکہ اس سے پہلے تم اس سے بے خبر تھے ، یعنی اس ہدایت سے پہلے ، اس قرآن سے پہلے ، اس رسول سے پہلے ، فی الواقع ان تینوں باتوں سے پہلے دنیا گمراہی میں تھی ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» ۔ البقرة
199 قریش سے خطاب اور معمول نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم «” ثُمَّ “» یہاں پر خبر کا خبر پر عطف ڈالنے کے لیے ہے تاکہ ترتیب ہو جائے ، گویا کہ عرفات میں ٹھہرنے والے کو حکم ملا کہ وہ یہاں سے مزدلفہ جائے تاکہ مشعر الحرام کے پاس اللہ تعالیٰ کا ذکر کر سکے ، اور یہ بھی فرما دیا کہ وہ تمام لوگوں کے ساتھ عرفات میں ٹھہرے ، جیسے کہ عام لوگ یہاں ٹھہرتے تھے البتہ قریشیوں نے فخر و تکبر اور نشان امتیاز کے طور پر یہ ٹھہرا لیا تھا کہ وہ حد حرم سے باہر نہیں جاتے تھے ، اور حرم کی آخری حد پر ٹھہر جاتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم اللہ والے ہیں اسی کے شہر کے رئیس ہیں اور اس کے گھر کے مجاور ہیں ، صحیح بخاری شریف میں ہے کہ قریش اور ان کے ہم خیال لوگ مزدلفہ میں ہی رک جایا کرتے تھے اور اپنا نام حمس رکھتے تھے باقی کل عرب عرفات میں جا کر ٹھہرتے تھے اور وہیں سے لوٹتے تھے اسی لیے اسلام نے حکم دیا کہ جہاں سے عام لوگ لوٹتے ہیں تم وہی سے لوٹا کرو ، (صحیح بخاری:4520) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما ، مجاہد ، عطاء ، قتادہ ، سدی رحمہ اللہ علیہم وغیرہ یہی فرماتے ہیں ، (تفسیر ابن جریر الطبری:186/4) امام ابن جریر رحمہ اللہ بھی اسی تفسیر کو پسند کرتے ہیں اور اسی پر اجماع بتاتے ہیں ، مسند احمد میں ہے جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میرا اونٹ عرفات میں گم ہو گیا میں اسے ڈھونڈنے کے لیے نکلا تو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وہاں ٹھہرے ہوئے دیکھا کہنے لگا یہ کیا بات ہے کہ یہ حمس ہیں اور پھر یہاں حرم کے باہر آ کر ٹھہرے ہیں ، (صحیح بخاری:1664) ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ افاضہ سے مراد یہاں مزدلفہ سے رمی جمار کے لیے منیٰ کو جاتا ہے ، (صحیح بخاری:4521) «وَاللہُ اَعْلَمُ» ، اور الناس سے مراد ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام ہیں ، بعض کہتے ہیں مراد امام ہے ، ابن جریر فرماتے ہیں اگر اس کے خلاف اجماع کی حجت نہ ہوتی تو یہی قول رائج رہتا ۔ پھر استغفار کا ارشاد ہوتا ہے جو عموماً عبادات کے بعد فرمایا جاتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرض نماز سے فارغ ہو کر تین مرتبہ استغفار کیا کرتے تھے ۔ (صحیح مسلم:591) آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو سبحان اللہ ، الحمدللہ ، اللہ اکبر تینتیس تینتیس مرتبہ پڑھنے کا حکم دیا کرتے تھے ۔ (صحیح بخاری:843) یہ بھی مروی ہے کہ عرفہ کے دن شام کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے لیے استغفار کیا ، (سنن ابن ماجہ:3013 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بھی مروی ہے کہ تمام استغفاروں کا سردار یہ استغفار ہے دعا «اَللّٰہُمَّ أَنْتَ رَبِّیْ لَا إِلٰہَ إِلاَّ أَنْتَ خَلَقْتَنِیْ وَأَنَا عَبْدُکَ وَأَنَا عَلٰی عَہْدِکَ وَوَعْدِکَ مَا اسْتَطَعْتُ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ أَبُوْءُ لَکَ بِنِعْمَتِکَ عَلَیَّ وَأَبُوْءُ لَکَ بِذَنْبِیْ فَاغْفِرْ لیْ فَإِنَّہُ لَا یَغْفِرُ الذٰنُوْبَ إِلاَّ أَنْتَ.» (صحیح بخاری:6306) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص اسے رات کے وقت پڑھ لے اگر اسی رات مر جائے گا تو قطعا جنتی ہو گا اور جو شخص اسے دن کے وقت پڑھے گا اور اسی دن مرے گا تو وہ بھی جنتی ہے ۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کوئی دعا سکھائے کہ میں نماز میں اسے پڑھا کرو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ پڑھو دعا « اللہُمَّ إِنِّی ظَلَمْتُ نَفْسِی ظُلْمًا کَثِیرًا ، وَلَا یَغْفِرُ الذٰنُوبَ إِلَّا أَنْتَ. فَاغْفِرْ لِی مَغْفِرَۃً مِنْ عِنْدِکَ ، وَارْحَمْنِی إِنَّکَ أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ )» ۔ (صحیح بخاری:834) استغفار کے بارے میں اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں ۔ البقرة
200 تکمیل حج کے بعد یہاں اللہ تعالیٰ حکم کرتا ہے کہ فراغت حج کے بعد اللہ تعالیٰ کا بہ کثرت ذکر کرو ، اگلے جملے کے ایک معنی تو یہ بیان کیے گئے ہیں کہ اس طرح اللہ کا ذکر کرو جس طرح بچہ اپنے ماں باپ کو یاد کرتا رہتا ہے ، دوسرے معنی یہ ہیں کہ اہل جاہلیت حج کے موقع پر ٹھہرتے وقت کوئی کہتا تھا میرا باپ بڑا مہمان نواز تھا کوئی کہتا تھا وہ لوگوں کے کام کاج کر دیا کرتا تھا سخاوت وشجاعت میں یکتا تھا وغیرہ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ فضول باتیں چھوڑ دو اور اللہ تعالیٰ کی بزرگیاں بڑائیاں عظمتیں اور عزتیں بیان کرو ، اکثر مفسرین نے یہی بیان کیا ہے ، غرض یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کی کثرت کرو ، اسی لیے او اشد پر زبر تمیز کی بنا پر لائی گئی ہے ، یعنی اس طرح اللہ کی یاد کرو جس طرح اپنے بڑوں پر فخر کیا کرتے تھے ۔ او سے یہاں خبر کی مثلیت کی تحقیق ہے جیسے «او اشد قسوۃ» (2-البقرۃ:74) میں اور «او اشد خشیۃ» (4-النساء:77) میں اور «او یزیدون» (37-الصافات:147) میں اور «او ادنیٰ» (53-النجم:9) میں ، ان تمام مقامات میں لفظ «” أَوْ “ » ہرگز ہرگز شک کے لیے نہیں ہے بلکہ «” فجر عنہ “» کی تحقیق کے لیے ہے ، یعنی وہ ذکر اتنا ہی ہو بلکہ اس سے بھی زیادہ ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ کا ذکر بکثرت کر کے دعائیں مانگو کیونکہ یہ موقعہ قبولیت کا ہے ، ساتھ ہی ان لوگوں کی برائی بھی بیان ہو رہی ہے جو اللہ سے سوال کرتے ہوئے صرف دنیا طلبی کرتے ہیں اور آخرت کی طرف نظریں نہیں اٹھاتے فرمایا ان کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ بعض اعراب یہاں ٹھہر کر صرف یہی دعائیں مانگتے ہیں کہ الہٰ اس سال بارشیں اچھی برسا تاکہ غلے اچھے پیدا ہوں اولادیں بکثرت ہوں وغیرہ ۔ لیکن مومنوں کی دعائیں دونوں جہان کی بھلائیوں کی ہوتی تھیں اس لیے ان کی تعریفیں کی گئیں ، اس دعا میں تمام بھلائیاں دین و دنیا کی جمع کر دی ہیں اور تمام برائیوں سے بچاؤ ہے ، اس لیے کہ دنیا کی بھلائی میں عافیت ، راحت ، آسانی ، تندرستی ، گھربار ، بیوی بچے ، روزی ، علم ، عمل ، اچھی سواریاں ، نوکر چاکر ، لونڈی ، غلام ، عزت و آبرو وغیرہ تمام چیزیں آ گئیں اور آخرت کی بھلائی میں حساب کا آسان ہونا گھبراہٹ سے نجات پانا نامہ اعمال کا دائیں ہاتھ میں ملنا سرخ رو ہونا بالآخر عزت کے ساتھ جنت میں داخل ہونا سب آ گیا ، پھر اس کے بعد عذاب جہنم سے نجات چاہنا اس سے یہ مطلب ہے کہ ایسے اسباب اللہ تعالیٰ مہیا کر دے مثلاً حرام کاریوں سے اجتناب گناہ اور بدیوں کا ترک وغیرہ ، قاسم رحمہ اللہ فرماتے ہیں جسے شکر گزاروں اور ذکر کرنے والی زبان اور صبر کرنے والا جسم مل گیا اسے دنیا اور آخرت کی بھلائی مل گئی اور عذاب سے نجات پا گیا ، (تفسیر ابن جریر الطبری:542/2) بخاری میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس دعا کو بکثرت پڑھا کرتے تھے ۔ (صحیح بخاری:4522) اس حدیث میں ہے ” ربنا “ سے پہلے ” اللہم “ بھی ہے ، قتادہ رحمہ اللہ نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ تر کس دعا کو پڑھتے تھے تو آپ رضی اللہ عنہ نے جواب میں یہی دعا بتائی (مسند احمد:101/3:صحیح) سیدنا انس رضی اللہ عنہ جب خود بھی کبھی دعا مانگتے اس دعا کو نہ چھوڑتے ، چنانچہ سیدنا ثابت رضی اللہ عنہما نے ایک مرتبہ کہا کہ آپ کے یہ بھائی چاہتے ہیں کہ آپ ان کے لیے دعا کریں آپ نے یہی دعا «اللہم رَبَّنَا آتِنَا فِی الدٰنْیَا حَسَنَۃً وَفِی الآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ» پڑھی پھر کچھ دیر بیٹھے اور بات چیت کرنے کے بعد جب وہ جانے لگے تو پھر دعا کی درخواست کی آپ نے فرمایا کیا تم ٹکڑے کرانا چاہتے ہو اس دعا میں تو تمام بھلائیاں آ گئیں ( ابن ابی حاتم ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مسلمان بیمار کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے دیکھا کہ وہ بالکل دبلا پتلا ہو رہا ہے صرف ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گیا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تم کوئی دعا بھی اللہ تعالیٰ سے مانگا کرتے تھے ؟ اس نے کہا ہاں میری یہ دعا تھی کہ اللہ تعالیٰ جو عذاب تو مجھے آخرت میں کرنا چاہتا ہے وہ دنیا میں ہی کر ڈال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سبحان اللہ کسی میں ان کے برداشت کی طاقت بھی ہے ؟ تو نے یہ دعا «رَبَّنَا آتِنَا فِی الدٰنْیَا حَسَنَۃً وَفِی الآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ» کیوں نہ پڑھی ؟ چنانچہ بیمار نے اب سے اسی دعا کو پڑھنا شروع کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس شفاء دے دی ۔ (مسند احمد:107/3:صحیح) رکن نبی حج اور رکن اسود کے درمیان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس دعا کو پڑھا کرتے تھے ۔ (سنن ابوداود:1892 ، قال الشیخ الألبانی:حسن) لیکن اس کی سند میں ضعف ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ، آپ فرماتے ہیں کہ میں جب کبھی رکن کے پاس سے گزرتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ وہاں فرشتہ ہے اور وہ آمین کہہ رہا ہے تم جب کبھی یہاں سے گزرو تو دعا آیت «رَبَّنَا آتِنَا فِی الدٰنْیَا حَسَنَۃً وَفِی الآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ» پڑھا کرو ۔ (میزان الاعتدال:4602:ضعیف) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک شخص نے آ کر پوچھا کہ میں نے ایک قافلہ کی ملازمت کر لی ہے اس اجرت پر وہ مجھے اپنے ساتھ سواری پر سوار کر لیں اور حج کے موقعہ پر مجھے وہ رخصت دے دیں کہ میں حج ادا کر لوں ویسے اور دنوں میں میں ان کی خدمت میں لگا رہوں تو فرمائیے کیا اس طرح میرا حج ادا ہو جائے گا آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا ہاں بلکہ تو تو ان لوگوں میں سے ہے جن کے بارے میں فرمان ہے آیت «أُولٰئِکَ لَہُمْ نَصِیبٌ مِّمَّا کَسَبُوا وَ اللہُ سَرِیعُ الْحِسَابِ» ( البقرہ : 202 )(مستدرک حاکم:277/2) البقرة
201 البقرة
202 البقرة
203 ایام تشریق آیت میں «أَیَّامٍ مَّعْدُودَاتٍ» سے مراد ایام تشریق اور ایام معلومات سے مراد ذی الحجہ کے دس دن ہیں ، (تفسیر قرطبی:3/3) ذکر اللہ سے مراد یہ ہے کہ ایام تشریق میں فرض نمازوں کے بعد اللہ اکبر اللہ اکبر کہیں ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:545/2) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں عرفے کا دن قربانی کا دن اور ایام تشریق ہمارے یعنی اہل اسلام کی عید کے دن ہیں اور یہ دن کھانے پینے کے ہیں ۔ (مسند احمد:152/4:صحیح) اور حدیث میں ہے ایام تشریق کھانے پینے اور اللہ کا ذکر کرنے کے ہیں ۔ (مسند احمد:75/5:صحیح) پہلے یہ حدیث بھی بیان ہو چکی ہے کہ عرفات کل ٹھہرنے کی جگہ ہے اور ایام تشریق سب قربانی کے دن ہیں ، اور یہ حدیث بھی پہلے گزر چکی ہے کہ منیٰ کے دن تین ہیں دو دن میں جلدی یا دیر کرنے والے پر کوئی گناہ نہیں ، ابن جریر کی ایک حدیث میں ہے کہ ایام تشریق کھانے اور ذکر اللہ کرنے کے دن ہیں ، (مسند احمد:229/2:صحیح) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہما کو بھیجا کہ وہ منیٰ میں گھوم کر منادی کر دیں کہ ان دنوں میں کوئی روزہ نہ رکھیں یہ دن کھانے پینے اور اللہ کا ذکر کرنے کے ہیں ۔ (مسند احمد:513/2:صحیح) ایک اور مرسل روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ مگر جس پر قربانی کے بدلے روزے ہوں اس کے لیے یہ زائد نیکی ہے ، (تفسیر ابن جریر الطبری:2918:صحیح بالشواھد) ایک اور روایت میں ہے کہ منادی سیدنا بشر بن سحیم رضی اللہ عنہ تھے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:3917:صحیح) اور حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دنوں کے روزوں کی ممانعت فرمائی ہے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:3916:صحیح) ایک روایت میں ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سفید خچر پر سوار ہو کر شعب انصار میں کھڑے ہو کر یہ حکم سنایا تھا ، کہ لوگو یہ دن روزوں کے نہیں بلکہ کھانے پینے اور ذکر اللہ کرنے کے ہیں ، (تفسیر ابن جریر الطبری:3919:صحیح) سیدنا ابن عباس فرماتے ہیں ایام معدودات ایام تشریق ہیں اور یہ چار دن ہیں دسویں ذی الحجہ کی اور تین دن اس کے بعد کے یعنی دس سے تیرہ تک ، (تفسیر ابن جریر الطبری:547/2) سیدنا ابن عمر ، ابن زبیر ، ابوموسیٰ رضی اللہ عنہم ، عطاء مجاہد ، عکرمہ ، سعید بن جبیر ، ابو مالک ، ابراہیم نخعی ، یحییٰ بن ابی کثیر ، حسن ، قتادہ ، سدی ، زہری ، ربیع بن انس ، ضحاک ، مقاتل بن حیان ، عطاء خراسانی رحمہ اللہ علیہم ، امام مالک رضی اللہ عنہ وغیرہ بھی یہی فرماتے ہیں ، (تفسیر ابن ابی حاتم:547/2) سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں یہ تین دن ہیں دسویں گیارہویں اور بارہویں ان میں جب چاہو قربانی کرو لیکن افضل پہلا دن ہے مگر مشہور قول یہی ہے اور آیت کریمہ کے الفاظ کی ظاہری دلالت بھی اسی پر ہے کیونکہ دو دن میں جلدی یا دیر معاف ہے تو ثابت ہوا کہ عید کے بعد تین دن ہونے چاہئیں اور ان دنوں میں اللہ کا ذکر کرنا قربانیوں کے ذبح کے وقت ہے ، اور یہ بھی پہلے بیان ہو چکا ہے کہ راجح مذہب اس میں امام شافعی رحمہ اللہ کا ہے کہ قربانی کا وقت عید کے دن سے ایام تشریق کے ختم ہونے تک ہے ، اور اس سے مراد نمازوں کے بعد کا مقررہ ذکر بھی ہے اور ویسے عام طور پر یہی اللہ کا ذکر مراد ہے ، اور اس کے مقررہ وقت میں گو علماء کرام کا اختلاف ہے لیکن زیادہ مشہور قول جس پر عمل درآمد بھی ہے یہ ہے کہ عرفے کی صبح سے ایام تشریق کے آخر دن کی عصر کی نماز تک ، اس بارے میں ایک مرفوع حدیث بھی دارقطنی میں ہے لیکن اس کا مرفوع ہونا صحیح نہیں «وَاللہُ اَعْلَمُ» ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اپنے خیمہ میں تکبیر کہتے اور آپ رضی اللہ عنہ کی تکبیر پر بازار والے لوگ تکبیر کہتے ہیں یہاں تک کہ منیٰ کا میدان گونج اٹھتا اسی طرح یہ مطلب بھی ہے کہ شیطانوں کو کنکریاں مارنے کے وقت تکبیر اور اللہ کا ذکر کیا جائے جو ایام تشریق کے ہر دن ہو گا ، ابوداؤد وغیرہ میں حدیث ہے کہ بیت اللہ کا طواف صفا مروہ کی سعی شیطانوں کو کنکریاں مارنی یہ سب اللہ تعالیٰ کے ذکر کو قائم کرنے کے لیے ہے ۔ (سنن ابوداود:1888 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) چونکہ اللہ تعالیٰ نے حج کی پہلی اور دوسری واپسی کا ذکر کیا اور اس کے بعد لوگ ان پاک مقامات کو چھوڑ کر اپنے اپنے شہروں اور مقامات کو لوٹ جائیں گے اس لیے ارشاد فرمایا کہ «وَہُوَ الَّذِی ذَرَأَکُمْ فِی الْأَرْضِ وَإِلَیْہِ تُحْشَرُونَ» ( 23-المؤمنون : 79 ) اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو اور یقین رکھو کہ تمہیں اس کے سامنے جمع ہونا ہے اسی نے تمہیں زمین میں پھیلایا پھر وہی سمیٹ لے گا پھر اسی کی طرف حشر ہو گا ۔ پس جہاں کہیں ہو اس سے ڈرتے رہا کرو ۔ البقرة
204 دل بھیڑیوں کے اور کھال انسانوں کی سدی رحمتہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ آیت اخنس بن شریق ثقفی کے بارے میں نازل ہوئی ہے یہ منافق شخص تھا ظاہر میں مسلمان تھا اور لیکن باطن میں مخالف تھا ، (تفسیر ابن جریر الطبری:229/4) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ منافقوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جنہوں نے سیدنا خبیب رضی اللہ عنہما اور ان کے ساتھیوں کی برائیاں کی تھیں جو رجیع میں شہید کئے گئے تھے تو ان شہداء کی تعریف میں «من یشری» والی آیت اتری اور ان منافقین کی مذمت کے بارے میں آیت «وَمِنَ النَّاسِ مَن یُعْجِبُکَ قَوْلُہُ فِی الْحَیَاۃِ الدٰنْیَا وَیُشْہِدُ اللہَ عَلَیٰ مَا فِی قَلْبِہِ وَہُوَ أَلَدٰ الْخِصَامِ» ( البقرہ : 204 ) والی آیت نازل ہوئی ، بعض کہتے ہیں کہ یہ آیت عام ہے تمام منافقوں کے بارے میں پہلی اور دوسری آیت ہے اور تمام مومنوں کی تعریف کے بارے میں تیسری آیت ہے ، (تفسیر ابن جریر الطبری:230/4) قتادہ رحمہ اللہ وغیرہ کا قول یہی ہے اور یہی صحیح ہے ، نوف بکالی جو توراہ وانجیل کے بھی عالم تھے فرماتے ہیں کہ میں اس امت کے بعض لوگوں کی برائیاں اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتاب میں پاتا ہوں لکھا ہے کہ بعض لوگ دین کے حیلے سے دنیا کماتے ہیں ان کی زبانیں تو شہد سے زیادہ میٹھی ہیں لیکن دل ایلوے ( مصبر ) سے زیادہ کڑوے ہیں لوگوں کے لیے بکریوں کی کھالیں پہنتے ہیں لیکن ان کے دل بھیڑیوں جیسے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کیا وہ مجھ پر جرأت کرتے ہیں اور میرے ساتھ دھوکے بازیاں کرتے ہیں مجھے اپنی ذات کی قسم کہ میں ان پر وہ فتنہ بھیجوں گا کہ بردبار لوگ بھی حیران رہ جائیں گے ، قرظی رحمہ اللہ کہتے ہیں میں نے غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ منافقوں کا وصف ہے اور قرآن میں بھی موجود ہے پڑھئے آیت «وَمِنَ النَّاسِ مَن یُعْجِبُکَ قَوْلُہُ فِی الْحَیَاۃِ الدٰنْیَا وَیُشْہِدُ اللہَ عَلَیٰ مَا فِی قَلْبِہِ وَہُوَ أَلَدٰ الْخِصَامِ» ( البقرہ : 204 ) سعید المقبری نے بھی جب یہ بات اور کتابوں کے حوالے سے بیان کی تو سیدنا محمد بن کعب رضی اللہ عنہ نے یہی فرمایا تھا کہ یہ قرآن شریف میں بھی ہے اور اسی آیت کی تلاوت کی تھی ۔ سعید کہنے لگے میں جانتا ہوں کہ یہ آیت کس کے بارے میں نازل ہوئی ہے آپ رحمہ اللہ نے فرمایا سنیے آیت شان نزول کے اعتبار سے گو کسی کے بارے میں ہی ہو لیکن حکم کے اعتبار سے عام ہوئی ہے ۔ ابن محیصن کی قرأت میں «وَیُشْہِدُ اللہَ» ہے معنی یہ ہوں گے کہ گو وہ اپنی زبان سے کچھ ہی کہے لیکن اس کے دل کا حال اللہ تعالیٰ کو خوب معلوم ہے جیسے اور جگہ آیت «اِذَا جَاءَکَ الْمُنٰفِقُوْنَ قَالُوْا نَشْہَدُ اِنَّکَ لَرَسُوْلُ اللّٰہِ» ( 63 ۔ المنافقون : 1 ) یعنی منافق تیرے پاس آ کر تیری نبوت کی گواہی دیتے ہیں اللہ جانتا ہے کہ تو اس کا رسول ہے لیکن اللہ کی گواہی ہے کہ یہ منافق یقینًا جھوٹے ہیں ، لیکن جمہور کی قرأت «یشھداللہ» ہے تو معنی یہ ہوئے کہ لوگوں کے سامنے تو اپنی خیانت چھپاتے ہیں لیکن اللہ کے سامنے ان کے دل کا کفر ونفاق ظاہر ہے جیسے اور جگہ ہے آیت «یَّسْتَخْفُوْنَ مِنَ النَّاسِ وَلَا یَسْتَخْفُوْنَ مِنَ اللّٰہِ وَھُوَ مَعَھُمْ اِذْ یُبَیِّتُوْنَ مَا لَا یَرْضٰی مِنَ الْقَوْلِ» ( 4 ۔ النسآء : 108 ) یعنی لوگوں سے چھپاتے ہیں لیکن اللہ سے نہیں چھپا سکتے ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ لوگوں کے سامنے اسلام ظاہر کرتے ہیں اور ان کے سامنے قسمیں کھا کر باور کراتے ہیں کہ جو ان کی زبان پر ہے وہ ہی ان کے دل میں ہے ، صحیح معنی آیت کے یہی ہیں کہ عبدالرحمٰن بن زید رحمہ اللہ اور مجاہد رحمہ اللہ سے بھی یہی مروی ہے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:233/4) ابن جریر بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں ۔ «” أَلَدٰ “» کے معنی لغت میں ہیں سخت ٹیڑھا جیسے اور جگہ ہے آیت «وَتُنْذِرَ بِہٖ قَوْمًا لٰدًّا» ( 19 ۔ مریم : 97 ) یہی حالت منافق کی ہے کہ وہ اپنی حجت میں جھوٹ بولتا ہے اور حق سے ہٹ جاتا ہے ، سیدھی بات چھوڑ دیتا ہے اور افترا اور بہتان بازی کرتا ہے اور گالیاں بکتا ہے ، صحیح حدیث میں ہے کہ منافق کی تین نشانیاں ہیں جب بات کرے جھوٹ بولے جب وعدہ کرے بے وفا ئی کرے ، جب جھگڑا کرے گالیاں بکے ، (صحیح بخاری:34) ایک اور حدیث میں ہے سب سے زیادہ برا شخص اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ ہے جو سخت جھگڑالو ہو ۔ (صحیح بخاری:2457) اس کی کئی ایک سندیں ہیں ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ جس طرح یہ برے اقوال والا ہے اسی طرح افعال بھی اس کے بدترین ہیں تو قول تو یہ ہے لیکن فعل اس کے سراسر خلاف ہے ، عقیدہ بالکل فاسد ہے ۔ نماز اور ہماری رفتار سعی سے مراد یہاں قصد جیسے اور جگہ ہے آیت «ثُمَّ اَدْبَرَ یَسْعٰی» ( 79 ۔ النازعات : 22 ) اور فرمان ہے آیت «فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ وَذَرُوا الْبَیْعَ» ( 62 ۔ الجمعہ : 9 ) یعنی جمعہ کی نماز کا قصد و ارادہ کرو ، یہاں سعی کے معنی دوڑنے کے نہیں کیونکہ نماز کے لیے دوڑ کر جانا ممنوع ہے ، حدیث شریف میں ہے جب تم نماز کے لیے آؤ بلکہ سکینت و وقار کے ساتھ آؤ ۔ (صحیح بخاری:636) البقرة
205 البقرة
206 منافقوں کا مزید تعارف غرض یہ کہ ان منافقوں کا قصد زمین میں فساد پھیلانا کھیتی باڑی ، زمین کی پیداوار اور حیوانوں کی نسل کو برباد کرنا ہی ہوتا ہے ۔ یہ بھی معنی مجاہد رحمہ اللہ سے مروی ہیں کہ ان لوگوں کے نفاق اور ان کی بدکرداریوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ بارش کو روک لیتا ہے جس سے کھیتیوں کو اور جانوروں کو نقصان پہنچتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو جو بانی فساد ہوں ناپسند کرتا ہے ۔ ان بدکرداروں کو جب وعظ نصیحت کے ذریعہ سمجھایا جائے تو یہ اور بھڑک اٹھتے ہیں اور مخالفت کے جوش میں گناہوں پر آمادہ ہو جاتے ہیں آیت «وَاِذَا تُتْلٰی عَلَیْہِمْ اٰیٰتُنَا بَیِّنٰتٍ تَعْرِفُ فِیْ وُجُوْہِ الَّذِیْنَ کَفَرُوا الْمُنْکَرَ یَکَادُوْنَ یَسْطُوْنَ بِالَّذِیْنَ یَتْلُوْنَ عَلَیْہِمْ اٰیٰتِنَا قُلْ اَفَاُنَبِّئُکُمْ بِشَرٍّ مِّنْ ذٰلِکُمْ اَلنَّارُ وَعَدَہَا اللّٰہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ» ( 22 ۔ الحج : 72 ) یعنی اللہ تعالیٰ کے کلام کی آیتیں جب ان کے سامنے تلاوت کی جاتی ہیں تو ان کافروں کے منہ چڑھ جاتے ہیں اور پڑھنے والوں پر جھپٹتے ہیں ، سنو ، اس سے بھی بڑھ کر سنو ، کافروں کے لیے ہمارا فرمان جہنم کا ہے جو بدترین جگہ ہے ، یہاں بھی یہی فرمایا کہ انہیں جہنم کافی ہے یعنی سزا میں وہ بدترین اوڑھنا بچھونا ہے ۔ مومن کون؟ منافقوں کی مذموم خصلتیں بیان فرما کر اب مومنوں کی تعریفیں ہو رہی ہیں ، یہ آیت سیدنا صہیب بن سنان رومی رضی اللہ عنہ کے حق میں نازل ہوئی ہے یہ مکہ میں مسلمان ہوئے تھے جب مدینہ کی طرف ہجرت کرنی چاہی تو کافروں نے ان سے کہا کہ ہم تمہیں مال لے کر نہیں جانے دیں گے اگر تم مال چھوڑ کر جانا چاہتے ہو تو تمہیں اختیار ہے ، آپ رضی اللہ عنہ نے سب مال سے علیحدگی کر لی اور کفار نے اس پر قبضہ کر لیا اور آپ رضی اللہ عنہ نے ہجرت کی جس پر یہ آیت اتری۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور صحابہ کرام کی ایک بڑی جماعت آپ رضی اللہ عنہ کے استقبال کے لیے حرہ تک آئی اور مبارکبادیاں دیں کہ آپ رضی اللہ عنہ نے بڑا اچھا بیو پار کیا بڑے نفع کی تجارت کی ۔(تفسیر ابن جریر الطبری:248/4) آپ رضی اللہ عنہ یہ سن کر فرمانے لگے اللہ تعالیٰ آپ کی تجارتوں کو بھی نقصان والی نہ کرے آخر بتاؤ تو یہ مبارکبادیاں کیا ہیں ۔ ان بزرگوں نے فرمایا آپ رضی اللہ عنہ کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت نازل ہوئی ہے ، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خوشخبری سنائی ۔ قریش نے ان سے کہا تھا کہ جب آپ مکہ میں آئے آپ کے پاس مال نہ تھا یہ سب مال یہیں کمایا اب اس مال کو لے کر ہم جانے نہ دیں گے چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ نے مال کو چھوڑا اور دین لے کر خدمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہو گئے ، ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ جب آپ رضی اللہ عنہ ہجرت کے ارادے سے نکلے اور کفار مکہ کو علم ہوا تو سب نے آن کر گھیر لیا آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے ترکش سے تیر نکال لیے اور فرمایا اے مکہ والو تم خوب جانتے ہو کہ میں کیسا تیر انداز ہوں میرا ایک نشانہ بھی خطا نہیں جاتا جب تک یہ تیر ختم نہ ہوں گے میں تم کو چھیدتا رہوں گا اس کے بعد تلوار سے تم سے لڑوں گا اور اس میں بھی تم میں سے کسی سے کم نہیں ہوں جب تلوار کے بھی ٹکڑے ہو جائیں گے پھر تم میرے پاس آسکتے ہو پھر جو چاہو کر لو اگر یہ تمہیں منظور ہے تو بسم اللہ ورنہ سنو میں تمہیں اپنا کل مال دئیے دیتا ہوں سب لے لو اور مجھے جانے دو وہ مال لینے پر رضامند ہو گئے اور اس طرح آپ رضی اللہ عنہ نے ہجرت کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچنے سے پہلے ہی وہاں بذریعہ وحی یہ آیت نازل ہو چکی تھی آپ رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مبارک باد دی۔(حاکم:400/3صحیح) اکثر مفسرین کا یہ قول بھی ہے کہ یہ آیت عام ہے ہر مجاہد فی سبیل اللہ کی شان ہے جیسے اور جگہ ہے آیت «اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ» ( 9 ۔ التوبہ : 111 ) یعنی اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی جانیں اور مال خرید لیے ہیں اور ان کے بدلے جنت دے دی ہے یہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں مارتے بھی ہیں اور شہید بھی ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ کا یہ سچا عہد توراہ انجیل اور قرآن میں موجود ہے اللہ تعالیٰ سے زیادہ سچے عہد والا اور کون ہو گا تم اے ایماندارو اس خرید فروخت اور ادلے بدلے سے خوش ہو جاؤ یہی بڑی کامیابی ہے ، ہشام بن عامر نے جبکہ کفار کی دونوں صفوں میں گھس کر ان پر یکہ وتنہا بےپناہ حملہ کر دیا تو بعض لوگوں نے اسے خلاف شرع سمجھا ۔ لیکن سیدنا عمر اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما وغیرہ نے ان کی تردید کی اور اسی آیت «وَمِنَ النَّاسِ مَن یَشْرِی نَفْسَہُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللہِ ۗ وَ اللہُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ» ( البقرہ : 207 ) کی تلاوت کر کے سنا دی ۔ البقرة
207 البقرة
208 مکمل اطاعت ہی مقصود ہے اللہ تعالیٰ اپنے اوپر ایمان لانے والوں اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کرنے والوں سے ارشاد فرماتا ہے کہ وہ کل احکام کو بجا لائیں کل ممنوعات سے بچ جائیں کامل شریعت پر عمل کریں سلم سے مراد سلام ہے اطاعت اور صلح جوئی بھی مراد ہے «کافۃ» کے معنی سب کے سب پورے پورے ، عکرمہ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ سیدنا عبداللہ بن سلام اسد بن عبید ثقلیہ رضی اللہ عنہما وغیرہ جو یہود سے مسلمان ہوئے تھے انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے گزارش کی ہمیں ہفتہ کے دن کی عزت اور راتوں کے وقت توراۃ پر عمل کرنے کی اجازت دی جائے جس پر یہ آیت اتری کہ اسلامی احکام پر عمل کرتے رہو ، لیکن اس میں عبداللہ کا نام کچھ ٹھیک نہیں ہے معلوم ہوتا ہے وہ اعلیٰ عالم تھے اور پورے مسلمان تھے انہیں مکمل طور پر معلوم تھا کہ ہفتہ کے دن کی عزت منسوخ ہو چکی ہے اس کے بجائے اسلامی عید جمعہ کے دن کی مقرر ہو چکی ہے پھر ناممکن ہے کہ وہ ایسی خواہش میں اوروں کا ساتھ دیں ، بعض مفسرین نے «کافۃ» کو حال کہا ہے یعنی تم سب کے سب اسلام میں داخل ہو جاؤ ، لیکن پہلی بات زیادہ صحیح ہے یعنی اپنی طاقت بھر اسلام کے کل احکام کو مانو ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ بعض اہل کتاب باوجود ایمان لانے کے توراۃ کے بعض احکام پر جمے ہوئے تھے ان سے کہا جاتا ہے کہ محمدی دین میں پوری طرح آ جاؤ اس کا کوئی عمل نہ چھوڑو توراۃ پر صرف ایمان رکھنا کافی ہے ۔ پھر فرمان ہے کہ «إِنَّمَا یَأْمُرُکُم بِالسٰوءِ وَالْفَحْشَاءِ وَأَن تَقُولُوا عَلَی اللہِ مَا لَا تَعْلَمُونَ» ( البقرہ : 169 ) اللہ کی اطاعت کرتے رہو شیطان کی نہ مانو وہ تو برائیوں اور بدکاریوں کو اور اللہ پر بہتان باندھنے کو اکساتا ہے ۔ «إِنَّ الشَّیْطَانَ لَکُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوہُ عَدُوًّا إِنَّمَا یَدْعُو حِزْبَہُ لِیَکُونُوا مِنْ أَصْحَابِ السَّعِیرِ» ( 35-فاطر : 6 ) اس کی اور اس کے گروہ کی تو خواہش یہ ہے کہ تم جہنمی بن جاؤ وہ تمہارا کھلم کھلا دشمن ہے ۔ اگر تم دلائل معلوم کرنے کے بعد بھی حق سے ہٹ جاؤ تو جان رکھو کہ اللہ بھی بدلہ لینے میں غالب ہے نہ اس سے کوئی بھاگ کر بچ سکے نہ اس پر کوئی غالب ہے اپنی پکڑ میں وہ حکیم ہے اپنے امر میں وہ کفار پر غلبہ رکھتا ہے ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:591/2) اور عذروحجت کو کاٹ دینے میں حکمت رکھتا ہے ۔ البقرة
209 البقرة
210 تذکرہ شفاعت اس آیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ کفار کو دھمکا رہا ہے کہ کیا انہیں قیامت ہی کا انتظار ہے جس دن حق کے ساتھ فیصلے ہو جائیں گے اور ہر شخص اپنے کئے کو بھگت لے گا ، جیسے اور جگہ ارشاد ہے آیت «کَلَّا إِذَا دُکَّتِ الْأَرْضُ دَکًّا دَکًّا وَجَاءَ رَبٰکَ وَالْمَلَکُ صَفًّا صَفًّا وَجِیءَ یَوْمَئِذٍ بِجَہَنَّمَ یَوْمَئِذٍ یَتَذَکَّرُ الْإِنسَانُ وَأَنَّیٰ لَہُ الذِّکْرَیٰ» ( 89-الفجر : 21- 23 ) یعنی جب زمین کے ریزے ریزے اور تیرا رب خود آ جائے گا اور فرشتوں کی صفیں کی صفیں بندھ جائیں گی اور جہنم بھی لا کر کھڑی کر دی جائے گی اس دن یہ لوگ عبرت ونصیحت حاصل کریں گے لیکن اس سے کیا فائدہ ؟ اور جگہ فرمایا آیت «ہَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ تَاْتِیَہُمُ الْمَلٰیِٕکَۃُ اَوْ یَاْتِیَ رَبٰکَ اَوْ یَاْتِیَ بَعْضُ اٰیٰتِ رَبِّکَ» ( 6 ۔ الانعام : 158 ) یعنی کیا انہیں اس بات کا انتظار ہے کہ ان کے پاس فرشتے آئیں یا خود اللہ تعالیٰ آئے یا اس کی بعض نشانیاں آ جائیں اگر یہ ہو گیا تو پھر انہیں نہ ایمان نفع دے نہ نیک اعمال کا وقت رہے ، امام ابن جریر رحمہ اللہ نے یہاں پر ایک لمبی حدیث لکھی ہے جس میں صور وغیرہ کا مفصل بیان ہے جس کے راوی سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں ۔ مسند وغیرہ میں یہ حدیث ہے اس میں ہے کہ جب لوگ گھبرا جائیں گے تو انبیاء علیہم السلام سے شفاعت طلب کریں گے آدم علیہ السلام سے لے کر ایک ایک پیغمبر علیہ السلام کے پاس جائیں گے اور وہاں سے صاف جواب پائیں گے یہاں تک کہ ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر ایک ایک پیغمبر کے پاس جائیں گے اور وہاں سے صاف جواب پائیں گے یہاں تک کہ ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچیں گے آپ صلی اللہ علیہ وسلم جواب دیں گے میں تیار ہوں میں ہی اس کا اہل ہوں ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم جائیں گے اور عرش تلے سجدے میں گر پڑیں گے اور اللہ تعالیٰ سے سفارش کریں گے کہ وہ بندوں کا فیصلہ کرنے کے لیے تشریف لائے اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت قبول فرمائے گا اور بادلوں کے سائبان میں آئے گا دنیا کا آسمان ٹوٹ جائے گا اور اس کے تمام فرشتے آ جائیں گے پھر دوسرا بھی پھٹ جائے گا اور اس کے فرشتے بھی آ جائیں گے اسی طرح ساتوں آسمان شق ہو جائیں گے اور ان کے فرشتے بھی آ جائیں گے ، پھر اللہ کا عرش اترے گا اور بزرگ تر فرشتے نازل ہوں گے اور خود وہ جبار اللہ جل شانہ تشریف لائے گا فرشتے سب کے سب تسبیح خوانی میں مشغول ہوں گے ان کی تسبیح اس وقت یہ ہو گی ۔ دعا «سُبْحَانَ ذِی الْمُلْکِ وَالْمَلَکُوْتِ ، سُبْحَانَ ذِی الْعِزَّۃِ وَالْجَبَرُوْتِ ، سُبْحَانَ الْمَلِکِ الْحَیِ الَّذِی لَا یَمُوْتُ ، سبحان الذی یمیت الخلائق وَلَا یَمُوْتُ ، سُبٰوحٌ قُدٰوْسٌ رَبٰنَا وَرَبٰ الْمَلَائِکَۃِ وَالرٰوْحِ ، سُبٰوحٌ قُدٰوْسٌ ، سبحان ربنا الاعلیٰ سبحان ذی السلطان والعطمۃ ، سبحانہ سبحانہ ابدا ابدا» ، ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:4042:ضعیف) حافظ ابوبکر بن مردویہ بھی اس آیت کی تفسیر میں بہت سی احادیث لائے ہیں جن میں غراب ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ، ان میں سے ایک یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ اگلوں پچھلوں کو اس دن جمع کرے گا جس کا وقت مقرر ہے وہ سب کے سب کھڑے ہوں گے آنکھیں پتھرائی ہوئی اور اوپر کو لگی ہوئی ہوں گی ہر ایک کو فیصلہ کا انتظار ہو گا اللہ تعالیٰ ابر کے سائبان میں عرش سے کرسی پر نزول فرمائے گا ، (حاکم:376/2:صحیح) ابن ابی حاتم میں ہے سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جس وقت وہ اترے گا تو مخلوق اور اس کے درمیان ستر ہزار پردے ہوں گے نور کی چکا چوند کے اور پانی کے اور پانی سے وہ آوازیں آ رہی ہوں گی جس سے دل ہل جائیں ، زھیر بن محمد فرماتے ہیں کہ وہ بادل کا سائبان یاقوت کا جڑا ہوا اور جوہر و زبرجد والا ہو گا ، مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ بادل معمولی بادل نہیں بلکہ یہ وہ بادل ہے جو بنی اسرائیل کے سروں پر وادی تیہ میں تھا ، ابوالعالیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں فرشتے بھی بادل کے سائے میں آئیں گے اور اللہ تعالیٰ جس میں چاہے آئے گا ، (تفسیر ابن جریر الطبری:264/4) چنانچہ بعض قرأتوں میں یوں بھی ہے آیت «ھَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ یَّاْتِیَہُمُ اللّٰہُ فِیْ ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَالْمَلٰیِٕکَۃُ وَقُضِیَ الْاَمْرُ وَاِلَی اللّٰہِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ» ( 2 ۔ البقرہ : 210 ) جیسے اور جگہ ہے آیت «وَیَوْمَ تَشَقَّقُ السَّمَاءُ بِالْغَمَامِ وَنُزِّلَ الْمَلٰیِٕکَۃُ تَنْزِیْلًا» ( 25 ۔ الفرقان : 25 ) ۔ یعنی اس دن آسمان بادل سمیت پھٹے گا اور فرشتے اتر آئیں گے ۔ البقرة
211 احسان فراموش اسرائیل اور ترغیب صدقات اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ دیکھو بنی اسرائیل کو میں نے بہت سے معجزات دکھلا دئیے موسیٰ علیہ السلام کہ ہاتھوں لکڑی ان کے ہاتھ کی روشنی ان کے لیے دریا کو چیر دینا ان پر سخت گرمیوں میں ابر کا سایہ کرنا من وسلویٰ اتارنا وغیرہ وغیرہ جن سے میرا خود مختار فاعل کل ہونا صاف ظاہر تھا اور میرے نبی موسیٰ علیہ السلام کی نبوت کی کھلی تصدیق تھی لیکن تاہم ان لوگوں نے میری ان نعمتوں کا کفر کیا اور بجائے ایمان کے کفر پر آڑے رہے اور میری نعمتوں پر بجائے شکر کے ناشکری کی پھر بھلا میرے سخت عذاب سے یہ کیسے بچ سکتے ؟ یہی خبر کفار و قریش کے بارے میں بھی بیان فرمائی ارشاد ہے آیت «اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ کُفْرًا وَّاَحَلٰوْا قَوْمَہُمْ دَارَ الْبَوَارِ جَہَنَّمَ یَصْلَوْنَہَا وَبِئْسَ الْقَرَارُ» ( 14 ۔ ابرہیم : 29 ، 28 ) کیا تو نے ان لوگوں کو دیکھا جنہوں نے اللہ کی نعمت کو کفر سے بدل دیا اور اپنی قوم کو ہلاکت کے گھر یعنی جہنم جیسی بدترین قرار گاہ میں پہنچا دیا ۔ پھر بیان ہوتا ہے کہ یہ کفار صرف دنیا کی زندگی پر دیوانے ہوئے ہیں مال جمع کرنا اور اللہ کی راہ کے خرچ میں بخل کرنا یہی ان کا رنگ ڈھنگ ہے ، بلکہ ایماندار اس دنیائے فانی سے سیر چشم ہیں اور پروردگار کی رضا مندی میں اپنے مال لٹاتے رہتے ہیں یہ ان کا مذاق اڑاتے ہیں ، حالانکہ حقیقی نصیب والے یہی لوگ ہیں قیامت کے دن ان کے مرتبے دیکھ کر ان کافروں کی آنکھیں کھل جائیں گی اس وقت اپنی بدتری اور ان کی برتری دیکھ کر معاملہ اونچ نیچ سمجھ میں آ جائے گی ۔ دنیا کی روزی جسے اللہ جتنی چاہے دیدے جسے چاہے بے حساب دے بلکہ جسے چاہے یہاں بھی دے اور پھر وہاں بھی دے حدیث شریف میں ہے اے ابن آدم تو میری راہ میں خرچ کر میں تجھے دیتا چلا جاؤں گا ، (صحیح بخاری:5352) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا راہ اللہ میں دئیے جاؤ اور عرش والے سے تنگی کا خوف نہ کرو ، (طبرانی کبیر:1020:صحیح) قرآن میں ہے آیت «وَمَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَہُوَ یُخْلِفُہٗ وَہُوَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ» ( 34 ۔ سبأ : 39 ) تم جو کچھ خرچ کرو اللہ اس کا بدلہ دے گا ، صحیح حدیث میں ہے ہر صبح دو فرشتے اترتے ہیں ایک دعا کرتا ہے اے اللہ تیری راہ میں خرچ کرنے والے کو عزت فرما دوسرا کہتا ہے بخیل کے مال کو تباہ و برباد کر ۔ (صحیح بخاری:1442) ایک اور حدیث میں ہے انسان کہتا رہتا ہے میرا مال میرا مال حالانکہ تیرا مال وہ ہے جسے تو نے کھایا وہ تو فنا ہو چکا اور جسے پہن لیا وہ بوسیدہ ہو گیا ہاں جو تو نے صدقہ میں دیا اسے تو نے باقی رکھ لیا اس کے سوا جو کچھ اسے تو تو دوسروں کے لیے چھوڑ کر یہاں سے چل دے گا ، (صحیح مسلم:2958) مسند احمد کی حدیث میں ہے دنیا اس کا گھر ہے جس کا گھر نہ ہو ، دنیا اس کا مال ہے جس کا مال نہ ہو دنیا کے لیے جمع وہ کرتا ہے جسے عقل نہ ہو ۔ (مسند احمد:17/6:ضعیف) البقرة
212 البقرة
213 آدم علیہ السلام سے نوح علیہ السلام تک سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ نوح علیہ السلام اور آدم علیہ السلام کے درمیان دس زمانے تھے ان زمانوں کے لوگ حق پر اور شریعت کے پابند تھے پھر اختلاف ہو گیا تو اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کو مبعوث فرمایا ، بلکہ آپ کی قرأت بھی یوں ہے آیت «وَمَا کَانَ النَّاسُ إِلَّا أُمَّۃً وَاحِدَۃً فَاخْتَلَفُوا وَلَوْلَا کَلِمَۃٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّکَ لَقُضِیَ بَیْنَہُمْ فِیمَا فِیہِ یَخْتَلِفُونَ» ( 10 ۔ یونس : 19 ) ، (حاکم:546/2) سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی قرأت بھی یہی ہے ، (تفسیر ابن جریر الطبری:78/4) قتادہ رحمہ اللہ نے اس کی تفسیر اسی طرح کی ہے کہ جب ان میں اختلاف پیدا ہو گیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنا پہلا پیغمبر بھیجا یعنی نوح علیہ السلام ، (عبدالرزاق:82/1) مجاہد رحمہ اللہ بھی یہی کہتے ہیں ، سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک روایت مروی ہے کہ پہلے سب کے سب کافر تھے ، لیکن اول قول معنی کے اعتبار سے بھی اور سند کے اعتبار سے بھی زیادہ صحیح ہے ، پس ان پیغمبروں نے ایمان والوں کو خوشیاں سنائی اور ایمان نہ لانے والوں کو ڈرایا ، ان کے ساتھ اللہ کی کتاب بھی تھی تاکہ لوگوں کے ہر اختلاف کا فیصلہ قانون الٰہی سے ہو سکے ، لیکن ان دلائل کے بعد بھی صرف آپس کے حسد و بغض تعصب و ضد اور نفسانیت کے بنا پر پھر اتفاق نہ کر سکے ، لیکن ایماندار سنبھل گئے اور اس اختلاف کے چکر سے نکل کر سیدھی راہ لگ گئے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہم دنیا میں آنے کے اعتبار سے سب سے آگے ہوں گے ، اہل کتاب کو کتاب اللہ ہم سے پہلے دی گئی ہمیں اس کے بعد دی گئی لیکن انہوں نے اختلاف کیا اور اللہ پاک نے ہماری رہبری کی جمعہ کے بارے میں بھی نااتفاقی رہی لیکن ہمیں ہدایت نصیب ہوئی یہ کل کے کل اہل کتاب اس لحاظ سے بھی ہمارے پیچھے ہیں ۔ (عبدالرزاق:81/1) جمعہ ہمارا ہے ہفتہ یہودیوں کا اور اتوار نصرانیوں کا ، (صحیح بخاری:876) زید بن اسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں جمعہ کے علاوہ قبلہ کے بارے میں بھی یہی ہوا نصاریٰ نے مشرق کو قبلہ بنایا یہود نے بھی ، ان میں بعض کی نماز رکوع ہے اور سجدہ نہیں ، بعض کے ہاں سجدہ ہے اور رکوع نہیں ، بعض نماز میں بولتے چلتے پھرتے رہتے ہیں لیکن امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سکون و وقار والی ہے نہ یہ بولیں نہ چلیں نہ پھریں ، روزوں میں بھی اسی طرح اختلاف ہوا اور اس میں بھی امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت نصیب ہوئی ان میں سے کوئی تو دن کے بعض حصے کا روزہ رکھتا ہے کوئی گروہ بعض قسم کے کھانے چھوڑ دیتا ہے لیکن ہمارا روزہ ہر طرح کامل ہے اور اس میں بھی راہ حق ہمیں سمجھائی گئی ہے ، اسی طرح ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں یہود نے کہا کہ وہ یہودی تھے نصرانیوں نے انہیں نصاری کہا لیکن دراصل وہ یکسر مسلمان تھے پس اس بارے میں بھی ہماری رہبری کی گئی اور خلیل اللہ علیہ السلام کی نسبت صحیح خیال تک ہم کو پہنچا دیا گیا ، عیسیٰ علیہ السلام کو بھی یہودیوں نے جھٹلایا اور ان کی والدہ ماجدہ کی نسبت بدکلامی کی ، نصرانیوں نے انہیں اللہ اور اللہ کا بیٹا کہا لیکن مسلمان اس افراط وتفریط سے بچا لیے گئے اور انہیں روح اللہ کلمۃ اللہ اور نبی برحق مانا ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:284/4) سیدنا ربیع بن انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مطلب آیت کا یہ ہے کہ جس طرح ابتداء میں سب لوگ اللہ واحد کی عبادت کرنے والے نیکیوں کے عامل برائیوں سے مجتنب تھے بیچ میں اختلاف رونما ہو گیا تھا پس اس آخری امت کو اول کی طرح اختلاف سے ہٹا کر صحیح راہ پر لگا دیا یہ امت اور امتوں پر گواہ ہو گی یہاں تک کہ امت نوح علیہ السلام پر بھی ان کی شہادت ہو گی ، قوم یہود ، قوم صالح ، قوم شعیب اور آل فرعون کا بھی حساب کتاب انہی کی گواہیوں پر ہو گا یہ کہیں گے کہ ان پیغمبروں نے تبلیغ کی اور ان امتوں نے تکذیب کی ، سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی قرأت میں آیت «واللہ یہدی» الخ ، سے پہلے یہ لفظ بھی ہیں آیت «ولیکونوا شہداء علی الناس یوم القیامۃ» الخ ، ابوالعالیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس آیت میں گویا حکم ہے کہ شبہ ، گمراہی ، اور فتنوں سے بچنا چاہیئے ، یہ ہدایت اللہ کے علم اور اس کی رہبری سے ہوئی وہ جسے چاہے راہ استقامت سجھا دیتا ہے ، بخاری و مسلم میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو جب تہجد کے لیے اٹھتے تھے تو یہ پڑھتے دعا «اللہم رب جبرائیل ومیکائیل واسرافیل فاطر السماوات والارض عالم الغیب والشہادۃ انت تحکم بین عبادک فیما کانوا فیہ یختلفون اہدنی لما اختلف فیہ من الحق باذنک انک تہدی من تشاء الی صراط مستقیم» ۔ یعنی اے اللہ اے جبرائیل ومیکائل اور اسرافیل کے اللہ عزوجل اے آسمانوں اور زمینوں کے پیدا کرنے والے الہ العالمین ۔ اے چھپے کھلے کے جاننے والے اللہ جل شانہ تو ہی اپنے بندوں کے آپس کے اختلافات کا فیصلہ کرتا ہے میری دعا ہے کہ جس جس چیز میں یہ اختلاف کریں تو مجھے اس میں حق بات سمجھا تو جسے چاہے راہ راست دکھلا دیتا ہے(صحیح مسلم:770) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دعا یہ بھی منقول ہے «اللہم ارنا الحق حق وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلاوارزقنا اجتنابہ ولا تجعلہ متلبسا علینا فنضل واجعلنا للمتقین اماما» ۔ اے اللہ ہمیں حق کو حق دکھا اور اس کی تابعدار نصیب فرما اور باطل کو باطل دکھا اور اس سے بچا کہیں ایسا نہ کہ حق و باطل ہم پر خلط ملط ہو جائے اور ہم بہک جائیں اے اللہ ہمیں نیکوکار اور پرہیزگار لوگوں کا امام بنا ۔ البقرة
214 ہم سب کو آزمائش سے گزرنا ہے مطلب یہ ہے کہ آزمائش اور امتحان سے پہلے جنت کی آرزوئیں ٹھیک نہیں اگلی امتوں کا بھی امتحان لیا گیا ، انہیں بھی بیماریاں مصیبتیں پہنچیں ، «بأساء» کے معنی فقیری (تفسیر ابن ابی حاتم:217/2) «وضراء» کے معنی سخت بیماری بھی کیا گیا ہے ۔ «وَزُلْزِلُوا» ان پر دشمنوں کا خوف اس قدر طاری ہوا کہ کانپنے لگے ان تمام سخت امتحانوں میں وہ کامیاب ہوئے اور جنت کے وارث بنے ، صحیح حدیث میں ہے ایک مرتبہ سیدنا خباب بن ارت رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ ہماری امداد کی دعا نہیں کرتے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بس ابھی سے گھبرا اٹھے سنو تم سے اگلے موحدوں کو پکڑ کر ان کے سروں پر آرے رکھ دئیے جاتے تھے اور چیر کر ٹھیک دو ٹکڑے کر دئیے جاتے تھے لیکن تاہم وہ توحید وسنت سے نہ ہٹتے تھے ، لوہے کی کنگھیوں سے ان کے گوشت پوست نوچے جاتے تھے لیکن وہ اللہ تعالیٰ کے دین کو نہیں چھوڑتے تھے ، قسم اللہ کی اس میرے دین کو تو میرا رب اس قدر پورا کرے گا کہ بلا خوف وخطر صنعاء سے حضر موت تک سوار تنہا سفر کرنے لگے گا اسے سوائے اللہ کے کسی کا خوف نہ ہو گا ، البتہ دل میں یہ خیال ہونا اور بات ہے کہ کہیں میری بکریوں پر بھیڑیا نہ پڑے لیکن افسوس تم جلدی کرتے ہو ، (صحیح بخاری:6943) قرآن میں ٹھیک یہی مضمون دوسری جگہ ان الفاظ میں بیان ہوا ہے ۔ آیت «الم ، أَحَسِبَ النَّاسُ أَن یُتْرَکُوا أَن یَقُولُوا آمَنَّا وَہُمْ لَا یُفْتَنُونَ وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِینَ مِن قَبْلِہِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللہُ الَّذِینَ صَدَقُوا وَلَیَعْلَمَنَّ الْکَاذِبِینَ» ( 29 ۔ العنکبوت : 3-1 ) کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ محض ایمان کے اقرار سے ہی چھوڑ دئیے جائیں گے اور ان کی آزمائش نہ ہو گی ہم نے تو اگلوں کی بھی آزمائش کی سچوں کو اور جھوٹوں کو یقیناً ہم نکھار کر رہیں گے ، چنانچہ اسی طرح صحابہ کرام رضون اللہ علیہم اجمعین کی پوری آزمائش ہوئی یوم الاحزاب کو یعنی جنگ خندق میں ہوئی جیسے خود قرآن پاک نے اس کا نقشہ کھینچا ہے فرمان ہے آیت «إِذْ جَاءُوکُم مِّن فَوْقِکُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنکُمْ وَإِذْ زَاغَتِ الْأَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ وَتَظُنٰونَ بِ اللہِ الظٰنُونَا ہُنَالِکَ ابْتُلِیَ الْمُؤْمِنُونَ وَزُلْزِلُوا زِلْزَالًا شَدِیدًا وَإِذْ یَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِینَ فِی قُلُوبِہِم مَّرَضٌ مَّا وَعَدَنَا اللہُ وَرَسُولُہُ إِلَّا غُرُورًا» ( 33-الأحزاب : 10 - 12 ) یعنی جبکہ کافروں نے تمہیں اوپر نیچے سے گھیر لیا جبکہ آنکھیں پتھرا گئیں اور دل حلقوم تک آ گئے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ گمان ہونے لگے اس جگہ مومنوں کی پوری آزمائش ہو گئی اور وہ خوب جھنجھوڑ دئیے گئے جبکہ منافقوں کو اور ڈھل مل گئی یقیناً لوگ کہنے لگے کہ اللہ رسول کے وعدے تو غرور کے ہی تھے ۔ ہرقل نے جب ابوسفیان سے ان کے کفر کی حالت میں پوچھا تھا کہ تمہاری کوئی لڑائی بھی اس دعویدار نبوت سے ہوئی ہے ابوسفیان نے کہا ہاں پوچھا پھر کیا رنگ رہا کہا کبھی ہم غالب رہے کبھی وہ غالب رہے تو ہرقل نے کہا انبیاء علیہم السلام کی آزمائش اسی طرح ہوتی رہتی ہے لیکن انجام کار کھلا غلبہ انہیں کا ہوتا ہے ۔ (صحیح بخاری:7) مثل کے معنی طریقہ کے ہیں جیسے اور جگہ ہے آیت «فَأَہْلَکْنَا أَشَدَّ مِنْہُم بَطْشًا وَمَضَیٰ مَثَلُ الْأَوَّلِینَ» ( 43 ۔ الزخرف : 8 ) ، اگلے مومنوں نے مع نبیوں کے ایسے وقت میں اللہ تعالیٰ کی مدد طلب کی اور سخت اور تنگی سے نجات چاہی جنہیں جواب ملا کہ اللہ تعالیٰ کی امداد بہت ہی نزدیک ہے جیسے اور جگہ ہے آیت «فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا» ( 94 ۔ الشرح : 6-5 ) ، یقیناً سختی کے ساتھ آسانی ہے برائی کے ساتھ بھلائی ہے ، ایک حدیث میں ہے کہ بندے جب ناامید ہونے لگتے ہیں تو اللہ تعالیٰ تعجب کرتا ہے کہ میری فریاد رسی تو آپہنچنے کو ہے اور یہ ناامید ہوتا چلا جا رہا ہے پس اللہ تعالیٰ ان کی عجلت اور اپنی رحمت کے قرب پر ہنس دیتا ہے ۔ (مسند احمد:11/4:ضعیف) البقرة
215 نفلی خیرات مقاتل بن حیان رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ آیت نفلی خیرات کے بارے میں ہے ، (تفسیر ابن ابی حاتم:419/2) سدی رحمہ اللہ کہتے ہیں اسے آیت زکوٰۃ نے منسوخ کر دیا ۔ لیکن یہ قول ذرا غور طلب ہے ، مطلب آیت کا یہ ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگ تم سے سوال کرتے ہیں کہ وہ کس طرح خرچ کریں تم انہیں کہدو کہ ان لوگوں سے سلوک کریں جن کا بیان ہوا ۔ حدیث میں ہے کہ اپنی ماں سے سلوک کر اور اپنے باپ اور اپنی بہن سے اور اپنے بھائی سے پھر اور قریبی اور قریبی لوگوں سے ، (دار قطنی:44/3:صحیح) یہ حدیث بیان فرما کر میمون بن مہران نے اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا یہ ہیں جن کے ساتھ مالی سلوک کیا جائے اور ان پر مال خرچ کیا جائے نہ کہ طبلوں باجوں تصویروں اور دیواروں پر کپڑا چسپاں کرنے میں ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:620/2) پھر ارشاد ہوتا ہے تم جو بھی نیک کام کرو اس کا علم اللہ تعالیٰ کو ہے اور وہ اس پر بہترین بدلہ عطا فرمائے گا وہ ذرے برابر بھی ظلم نہیں کرتا ۔ البقرة
216 جہاد بقائے ملت کا بنیادی اصول دشمنان اسلام سے دین اسلام کے بچاؤ کے لیے جہاد کی فرضیت کا اس آیت میں حکم ہو رہا ہے زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں جہاد ہر شخص پر فرض ہے ، خواہ لڑائی میں نکلے خواہ بیٹھا رہے سب کا فرض ہے کہ جب ان سے مدد طلب کی جائے تو وہ امداد کریں جب ان سے فریاد کی جائے یہ فریاد رسی کریں جب انہیں میدان میں بلایا جائے یہ نکل کھڑے ہوں صحیح حدیث شریف میں ہے جو شخص مر جائے اور اس نے نہ تو جہاد کیا ہو نہ اپنے دل میں جہاد کی بات چیت کی ہو وہ جاہلیت کی موت مرے گا ۔ (صحیح مسلم:1910) اور حدیث میں ہے ، فتح مکہ کے بعد ہجرت تو نہیں رہی لیکن جہاد اور نیت موجود ہے اور جب تم سے جہاد کے لیے نکلنے کو کہا جائے تو نکل کھڑے ہو یہ حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کی فتح کے دن فرمایا تھا ۔(صحیح بخاری:2783) پھر فرمایا ہے حکم جہاد گو تم پر بھاری پڑے گا اور اس میں تمہیں مشقت اور تکلیف نظر آئے گی ممکن ہے قتل بھی کئے جاؤ ممکن ہے زخمی ہو جاؤ پھر سفر کی تکلیف دشمنوں کی یورش کا مقابلہ ہو لیکن سمجھو تو ممکن ہے تم برا جانو اور ہو تمہارے لیے اچھا کیونکہ اسی سے تمہارا غلبہ اور دشمن کی پامالی ہے ان کے مال ان کے ملک بلکہ ان کے بال بچے تک بھی تمہارے قدموں میں گر پڑیں گے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تم کسی چیز کو اپنے لیے اچھا جانو اور وہ ہی تمہارے لیے برا ہو عموماً ایسا ہوتا ہے کہ انسان ایک چیز کو چاہتا ہے لیکن فی الواقع نہ اس میں مصلحت ہوتی ہے نہ خیر و برکت اسی طرح گو تم جہاد نہ کرنے میں اچھائی سمجھو دراصل وہ تمہارے لیے زبردست برائی ہے کیونکہ اس سے دشمن تم پر غالب آ جائے گا اور دنیا میں قدم ٹکانے کو بھی تمہیں جگہ نہ ملے گی ، تمام کاموں کے انجام کا علم محض پروردگار عالم ہی کو ہے وہ جانتا ہے کہ کون سا کام تمہارے لیے انجام کے لحاظ سے اچھا ہے اور کون سا برا ہے ، وہ اسی کام کا حکم دیتا ہے جس میں تمہارے لیے دونوں جہان کی بہتری ہو تم اس کے احکام دل و جان سے قبول کر لیا کرو اور اس کے ہر ہر حکم کو کشادہ پیشانی سے مان لیا کرو اسی میں تمہاری بھلائی اور عمدگی ہے ۔ البقرة
217 حضرمی کا قتل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جماعت کو بھیجا اور اس کا امیر سیدنا ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو بنایا جب وہ جانے لگے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جدائی کے صدمہ سے رو دئیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں روک لیا اور ان کے بدلے سیدنا عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ کو سردار لشکر مقرر کیا اور انہیں ایک خط لکھ کر دیا اور فرمایا کہ جب تک بطن نخلہ نہ پہنچو اس خط کو نہ پڑھنا اور وہاں پہنچ کر جب اس مضمون کو دیکھو تو ساتھیوں میں سے کسی کو اپنے ساتھ چلنے پر مجبور نہ کرنا چنانچہ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ اس مختصر سی جماعت کو لے کر چلے جب اس مقام پر پہنچے تو فرمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم پڑھا اور کہا میں فرمانبرداری کے لیے تیار ہوں پھر اپنے ساتھیوں کو پڑھ کر سنایا اور واقعہ بیان کیا دو شخص تو لوٹ گئے لیکن اور سب ساتھ چلنے کے لیے آمادہ ہو گئے آگے چل کر ابن الحضرمی کافر کو انہوں نے پایا چونکہ یہ علم نہ تھا کہ جمادی الاخری کا یہ آخری دن ہے یا رجب کا پہلا دن ہے انہوں نے اس لشکر پر حملہ کر دیا ابن الحضرمی مارا گیا اور صحابہ رضی اللہ عنہم کی یہ جماعت وہاں سے واپس ہوئی ۔ اب مشرکین نے مسلمانوں پر اعتراض کرنا شروع کیا کہ دیکھو انہوں نے حرمت والے مہینوں میں لڑائی کی اور قتل بھی کیا اس بارے میں یہ آیت اتری (تفسیر ابن جریر الطبری:4087:صحیح) ایک اور روایت میں ہے کہ اس جماعت میں سیدنا عمار بن یاسر ، سیدنا ابوحذیفہ بن عتبہ بن ربیعہ ، سیدنا سعد بن ابی وقاص ، سیدنا عتبہ بن غزوان سلمی ، سیدنا سہیل بن بیضاء ، سیدنا عامر بن فہیرہ اور سیدنا واقد بن عبداللہ یربوعی رضی اللہ عنہم تھے ۔ بطن نخلہ پہنچ کر سیدنا عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ نے صاف فرما دیا تھا کہ جو شخص شہادت کا آرزو مند ہو وہی آگے بڑے یہاں سے واپس جانے والے رضی اللہ عنہ سعد بن ابی وقاص اور عتبہ رضی اللہ عنہما تھے ان کے ساتھ نہ جانے کی وجہ یہ ہوئی تھی کہ ان کا اونٹ گم ہو گیا تھا جس کے ڈھونڈنے میں وہ رہ گئے ۔ مشرکین میں حکم بن کیسان ، عثمان بن عبداللہ وغیرہ تھے ۔ سیدنا واقد رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں عمرو قتل ہوا اور یہ جماعت مال غنیمت لے کر لوٹی ۔ یہ پہلی غنیمت تھی جو مسلمان صحابہ رضی اللہ عنہم کو ملی اور یہ جانباز جماعت دو قیدیوں کو اور مال غنیمت لے کر واپس آئی مشرکین مکہ نے قیدیوں کا فدیہ ادا کرنا چاہا ( یہاں اصل عربی میں کچھ عبارت چھوٹ گئی ہے ) اور انہوں نے اعتراضاً کہا کہ دیکھو صلی اللہ علیہ وسلم کا دعویٰ یہ ہے کہ وہ اللہ کے اطاعت گزار ہیں لیکن حرمت والے مہینوں کی کوئی حرمت نہیں کرتے اور ماہ رجب میں جدال وقتال کرتے ہیں ، مسلمان کہتے تھے کہ ہم نے رجب میں قتل نہیں کیا بلکہ جمادی الاخری میں لڑائی ہوئی ہے حقیقت یہ ہے کہ وہ رجب کی پہلی رات اور جمادی الاخری کی آخری شب تھی رجب شروع ہوتے ہی مسلمانوں کی تلواریں میان میں ہو گئی تھیں ، مشرکین کے اس اعتراض کا جواب اس آیت میں دیا جا رہا ہے کہ یہ سچ ہے کہ ان مہینوں میں جنگ حرام ہے لیکن اے مشرکوں تمہاری بداعمالیاں تو برائی میں اس سے بھی بڑھ کر ہیں ، تم اللہ کا انکار کرتے ہو تم میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں کو میری مسجد سے روکتے ہو تم نے انہیں وہاں سے نکال دیا پس اپنی ان سیاہ کاریوں پر نظر ڈالو کہ یہ کس قدر بدترین کام ہیں ، انہی حرمت والے مہینوں میں ہی مشرکین نے مسلمانوں کو بیت اللہ شریف سے روکا تھا اور وہ مجبوراً واپس ہوئے تھے اگلے سال اللہ تعالیٰ نے حرمت والے مہینوں میں ہی مکہ کو اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ فتح کروایا ۔ انہیں ان آیتوں میں لاجواب کیا گیا عمرو بن الحضرمی جو قتل کیا گیا یہ طائف سے مکہ کو آ رہا تھا ، گو رجب کا چاند چڑھ چکا تھا لیکن صحابہ رضی اللہ عنہم کو معلوم نہ تھا وہ اس رات کو جمادی الاخری کی آخری رات جانتے تھے ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ سیدنا عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ کے ساتھ آٹھ آدمی تھے سات تو وہی جن کے نام اوپر بیان ہوئے آٹھویں سیدنا رباب اسدی رضی اللہ عنہ تھے انہیں بدر اولیٰ سے واپسی کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا تھا یہ سب مہاجر صحابہ رضی اللہ عنہم تھے ان میں ایک بھی انصاری نہ تھا دو دن چل کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس نامہ مبارک کو پڑھا جس میں تحریر تھا کہ میرے اس حکم نامہ کو پڑھ کر مکہ اور طائف کے درمیان نخلہ میں جاؤ وہاں ٹھہرو اور قریش کے قافلہ کا انتظار کرو اور ان کی خبریں معلوم کر کے مجھے پہنچاؤ یہ بزرگ یہاں سے چلے تو سب ہی چلے تھے دو صحابی جو اونٹ کو ڈھونڈنے کے لیے رہ گئے تھے وہ بھی یہاں سے ساتھ ہی تھے لیکن فرغ کے اوپر معدن پر پہنچ کر نجران میں انہیں اونٹوں کی تلاش میں رک جانا پڑا ، قریشیوں کے اس قافلہ میں زیتون وغیرہ تجارتی مال تھا مشرکین میں علاوہ ان لوگوں کے جن کے نام اوپر بیان ہوئے ہیں نوفل بن عبداللہ وغیرہ بھی تھے مسلمان اول تو انہیں دیکھ کر گھبرائے لیکن پھر مشورہ کر کے مسلمانوں نے حملہ یہ سوچ کر کیا کہ اگر انہیں چھوڑ دیا تو اس رات کے بعد حرمت کا مہینہ آ جائے گا تو ہم پھر کچھ بھی نہ کر سکیں گے انہوں نے شجاعت و مردانگی کے ساتھ حملہ کیا ۔ سیدنا واقد بن عبداللہ تمیمی رضی اللہ عنہ نے عمرو بن حضرمی کو ایسا تاک کر تیر لگایا کہ اس کا تو فیصلہ ہی ہو گیا عثمان اور حکم کو قید کر لیا اور مال وغیرہ لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے راستہ میں ہی سردار لشکر نے کہہ دیا تھا کہ اس مال میں سے پانچواں حصہ تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے چنانچہ یہ حصہ تو الگ کر کے رکھ دیا گیا اور باقی مال صحابہ رضی اللہ عنہم میں تقسیم کر دیا اور اب تک یہ حکم نازل نہیں ہوا تھا کہ مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ نکالنا چاہیئے ، جب یہ لشکر سرکار نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں پہنچا تو آپ نے واقعہ سن کر ناراضگی ظاہر فرمائی اور فرمایا کہ میں نے تمہیں حرمت والے مہینوں میں لڑائی کرنے کو کب کہا تھا نہ تو قافلہ کا کچھ مال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لیا نہ قیدیوں کو قبضہ میں کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول وفعل سے یہ مسلمان سخت نا دم ہوئے اور اپنی گنہگاری کا انہیں یقین ہو گیا پھر اور مسلمانوں نے بھی انہیں کچھ کہنا سننا شروع کیا ۔ ادھر قریشیوں نے طعنہ دینا شروع کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم حرمت والے مہینوں میں بھی جدال و قتال سے باز نہیں رہتے دوسری جانب یہودیوں نے ایک بدفالی نکالی چونکہ عمرو قتل کیا گیا تھا انہوں نے کہا عمرت الحرب لڑائی پر رونق اور خوب زور و شور سے لمبی مدت تک ہو گی اس کے باپ کا نام حضرمی تھا اس سے انہوں نے فال لی کہ الحرب وقت لڑائی آ پہنچا ، قاتل کا نام واقد رضی اللہ عنہ تھا جس سے انہوں نے کہا «وقدت الحرب لڑائی» کی آگ بھڑک اٹھی لیکن قدرت نے اسے برعکس کر دیا اور نتیجہ تمام تر مشرکین کے خلاف رہا اور ان کے اعتراض کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی کہ اگر بالفرض جنگ حرمت والے مہینہ میں ہوئی بھی ہو تو اس سے بھی بدترین تمہاری سیاہ کاریاں موجود ہیں تمہارا یہ فتنہ کہ تم دین اللہ سے مسلمانوں کو مرتد کرنے کی اپنی تمام تر امکانی کوششیں کر رہے ہو یہ اس قتل سے بھی بڑھ کر ہے اور تم نہ تو اپنے ان کاموں سے رکتے ہو نہ توبہ کرتے ہو نہ اس پر نادم ہوتے ہو ، ان آیات کے نازل ہونے کے بعد مسلمان اس رنج و افسوس سے نجات پائی ۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قافلہ اور قیدیوں کو اپنے قبضہ میں لیا ، قریشیوں نے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قاصد بھیجا کہ ان دونوں قیدیوں کا فدیہ لے لیجئے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے دونوں صحابی سعد بن ابی وقاص اور عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہما جب آ جائیں تب آؤ مجھے ڈر ہے کہ تم انہیں ایذاء نہ پہنچاؤ چنانچہ جب وہ آ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فدیہ لے لیا اور دونوں قیدیوں کو رہا کر دیا ۔ سیدنا حکم بن کیسان رضی اللہ عنہ تو مسلمان ہو گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ہی رہ گئے آخر بیر معونہ کی لڑائی میں شہید ہوئے ( رضی اللہ عنہ ) ہاں عثمان بن عبداللہ مکہ واپس گیا اور وہیں کفر میں ہی مرا ، ان غازیوں کو یہ آیت سن کر بڑی خوشی حاصل ہوئی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی کی وجہ سے حرمت والے مہینوں کی بےادبی کے سبب سے دوسرے صحابی کی چشمک کی بنا پر ، کفار کے طعنہ کے باعث جو رنج و غم ان کے دلوں پر تھا سب دور ہو گیا لیکن اب یہ فکر پڑی کہ ہمیں اخروی اجر بھی ملے گا یا نہیں ہم غازیوں میں بھی شمار ہوں گے یا نہیں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوالات کئے گئے تو اس کے جواب میں یہ آیت «إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَالَّذِینَ ہَاجَرُوا وَجَاہَدُوا فِی سَبِیلِ اللہِ أُولٰئِکَ یَرْجُونَ رَحْمَتَ اللہِ وَ اللہُ غَفُورٌ رَّحِیمٌ» ( البقرہ : 218 ) ، نازل ہوئی۔(سیرۃ ابن ھشام:183/2-186) اور ان کی بڑی بڑی امیدیں بندھ گئیں، رضی اللہ عنہم اجمعین ۔ اسلام اور کفر کے مقابلہ میں کافروں میں سب سے پہلے یہی ابن الحضرمی مارا گیا ، کفار کا وفد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور سوال کیا کہ کیا حرمت والے مہینوں میں قتل کرنا جائز ہے اور اس پر یہ آیت «یَسْأَلُونَکَ عَنِ الشَّہْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِیہِ قُلْ قِتَالٌ فِیہِ کَبِیرٌ وَصَدٌّ عَن سَبِیلِ اللہِ وَکُفْرٌ بِہِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ» ( البقرہ : 217 ) ، نازل ہوئی یہی مال غنیمت تھا جو سب سے پہلے مسلمانوں کے ہاتھ لگا اور سب سے پہلے پانچواں حصہ سیدنا عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ نے ہی نکالا جو اسلام میں باقی رہا اور حکم الہٰ بھی اس طرح نازل ہوا اور یہی دو قیدی تھے جو سب سے پہلے مسلمانوں کے ہاتھوں اسیر ہوئے ، اس واقعہ کو ایک نظم میں بھی ادا کیا گیا ہے بعض تو کہتے ہیں کہ یہ اشعار سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہیں لیکن یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ اشعار «وکفر بہ واللہ راء وشاہد وإخراجکم من مسجد اللہ أہلہ» «لئلا یری للہ فی البیت ساجد فإنا وإن عیرتمونا بقتلہ» «وأرجف بالإسلام باغ وحاسد سقینا من ابن الحضرمی رماحنا» «بنخلۃ لما أوقد الحرب واقد دما وابن عبد اللہ عثمان بیننا» «ینازعہ غل من القد عاند» سیدنا عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ کے ہیں جو اس مختصر سے لشکر کے سردار تھے ، اللہ ان سے خوش ہو ۔ (آمین) البقرة
218 البقرة
219 حرمت شراب کیوں؟ جب شراب کی حرمت کی آیت نازل ہوئی تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہما نے کہا یا اللہ تو اس کا واضح بیان فرما ان پر سورۃ البقرہ کی یہ آیت «یَسْــَٔـلُوْنَکَ عَنِ الْخَــمْرِ وَالْمَیْسِرِ» ( 2 ۔ البقرہ : 219 ) ، نازل ہوئی سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کو بلوایا گیا اور انہیں یہ آیت پڑھ کر سنائی گئی لیکن سیدنا عمر رضی اللہ عنہما نے پھر بھی یہی دعا کی کہ یا اللہ اسے ہمارے لیے اور زیادہ صاف بیان فرما اس پر سورۃ نساء کی آیت «یٰٓاَیٰھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَاَنْتُمْ سُکٰرٰی حَتّٰی تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ وَلَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِیْ سَبِیْلٍ حَتّٰی تَغْتَسِلُوْا» ( 4 ۔ النسآء : 43 ) ، نازل ہوئی اور ہر نماز کے وقت پکارا جانے لگا کہ نشے والے لوگ نماز کے قریب بھی نہ آئیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کو بلوایا گیا اور ان کے سامنے اس آیت کی بھی تلاوت کی گئی آپ رضی اللہ عنہما نے پھر بھی یہی دعا کی یا اللہ ہمارے لیے اس کا بیان اور واضح کر ۔ اس پر سورۃ المائدہ کی آیت «إِنَّمَا یُرِیدُ الشَّیْطَانُ أَن یُوقِعَ بَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَاءَ فِی الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ وَیَصُدَّکُمْ عَن ذِکْرِ اللہِ وَعَنِ الصَّلَاۃِ فَہَلْ أَنتُم مٰنتَہُونَ» ( 5 ۔ المائدہ : 91 ) ، جب فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو بلا کر یہ آیت بھی سنائی گئی اور جب ان کے کان میں آیت کے آخری الفاظ «ہَلْ أَنتُم مٰنتَہُونَ» پڑے تو آپ رضی اللہ عنہما بول اٹھے «اِنْتَھَیّنَا اِنْتَھَیّنَا» ہم رک گئے ہم باز آئے ملاحظہ ہو مسند احمد ، ترمذی اور نسائی وغیرہ ، (سنن ترمذی:3049 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ میں بھی روایت ہے لیکن اس کا راوی ابومیسرہ ہے جن کا نام عمر بن شرحبیل ہمدانی کوفی ہے ، ابوزرعہ فرماتے ہیں کہ ان کا سماع سیدنا عمر رضی اللہ عنہما سے ثابت نہیں «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ امام علی بن مدینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس کی سند صالح اور صحیح ہے امام ترمذی بھی اسے صحیح کہتے ہیں ابن ابی حاتم میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کے «اِنْتَھَیّنَا اِنْتَھَیّنَا» کے قول کے بعد یہ بھی ہے کہ شراب مال کو برباد کرنے والی اور عقل کو خبط کرنے والی چیز ہے یہ روایت اور اسی کے ساتھ مسند کی سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہما والی اور روایتیں سورۃ المائدہ کی آیت «إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطَانِ فَاجْتَنِبُوہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ» ( 5 ۔ المائدہ : 90 ) کی تفسیر میں مفصل بیان ہوں گی ان شاءاللہ تعالیٰ ، امیر المؤمنین عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں خمر ہر وہ چیز ہے جو عقل کو ڈھانپ لے اس کا پورا بیان بھی سورۃ المائدہ میں ہی آئے گا ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ میسر کہتے ہیں جوئے بازی کو گناہ کا وبال اخروی ہے اور فائدہ صرف دنیاوی ہے کہ بدن کو کچھ نفع پہنچے یا غذا ہضم ہو یا فضلے برآمد ہوں یا بعض ذہن تیز ہو جائیں یا ایک طرح کا سرور حاصل ہو جیسے کہ سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کا جاہلیت کے زمانہ کا شعر ہے شراب پی کر ہم بادشاہ اور دلیر بن جاتے ہیں ، اسی طرح اس کی خرید و فروخت اور کشید میں بھی تجارتی نفع ممکن ہے ہو جائے ۔ اسی طرح جوئے بازی میں ممکن ہے جیت ہو جائے ، لیکن ان فوائد کے مقابلہ میں نقصانات ان کے بکثرت ہیں کیونکہ اس سے عقل کا مارا جانا ، ہوش و حواس کا بے کار ہونا ضروری ہے ، ساتھ ہی دین کا برباد ہونا بھی ہے ، یہ آیت گویا شراب کی حرمت کا پیش خیمہ تھی مگر اس میں صاف صاف حرمت بیان نہیں ہوئی تھی اسی لیے سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کی چاہت تھی کہ کھلے لفظوں میں شراب کی حرمت نازل ہو ، چنانچہ آخرکار سورۃ المائدہ کی آیت میں صاف فرما دیا گیا کہ شراب اور جوا اور پانسے اور تیر سے فال لینا سب حرام اور شیطانی کام ہیں ، اے مسلمانو اگر نجات کے طالب ہو تو ان سب سے باز آ جاؤ ، شیطان کی تمنا ہے کہ شراب اور جوئے کے باعث تم میں آپس میں عداوت و بغض ڈال دے اور تمہیں اللہ کے ذکر اور نماز سے روک دے کیا اب تم ان شیطانی کاموں سے رک جانے والے بن جاؤ گے ؟ اس کا پورا بیان ان شاءاللہ سورۃ المائدہ میں آئے گا ، مفسرین تابعی فرماتے ہیں کہ شراب کے بارے میں پہلے یہی آیت نازل ہوئی ، پھر سورۃ نساء کی آیت نازل ہوئی پھر سورۃ المائدہ کی آیت اتری اور شراب مکمل طور پر حرام ہو گئی ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:331/4) عفو اور اس کی وضاحتیں «قُلِ الْعَفْوَ» کی ایک قرأت «قُلِ الْعَفْوُ» بھی ہے اور دونوں قرأتیں ٹھیک ہیں معنی قریب قریب اور ایک ہو سکتے ہیں اور بندھی بیٹھ سکتے ہیں ، سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اور سیدنا ثعلبہ رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے غلام بھی ہیں بال بچے بھی ہیں اور ہم مالدار بھی ہیں کیا کچھ اللہ کی راہ میں دیں ؟ جس کے جواب میں آیت «قُلِ الْعَفْوَ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللہُ لَکُمُ الْآیَاتِ لَعَلَّکُمْ تَتَفَکَّرُونَ» ( البقرہ : 219 ) کہا گیا ۔ (الدار المنثور::453/1) یعنی جو اپنے بال بچوں کے خرچ کے بعد بچے ، بہت سے صحابہ اور تابعین سے اس کی یہی تفسیر مروی ہے ، طاؤس رحمہ اللہ کہتے ہیں ہر چیز میں تھوڑا تھوڑا اللہ کی راہ بھی دیتے رہا کرو ، ربیع رحمہ اللہ کہتے ہیں افضل اور بہتر مال اللہ کی راہ میں دو ، سب اقوال کا خلاصہ یہ ہے کہ حاجت سے زائد چیز اللہ کی راہ میں خرچ کرو ، حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں ایسا نہ کرو کہ سب دے ڈالو اور پھر خود سوال کے لیے بیٹھ جاؤ ، چنانچہ صحیح مسلم شریف میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا یا رسول اللہ ! میرے پاس ایک دینار ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے کام میں لاؤ ، کہا میرے پاس ایک اور ہے فرمایا اپنی بیوی پر خرچ کرو کہا ایک اور ہے فرمایا اپنے بچوں کی ضروریات پر لگاؤ کہا ایک اور بھی ہے فرمایا اسے تو اپنی عقل سے خود بھی خرچ کر سکتا ہے ۔ (سنن ابوداود:1691 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) صحیح مسلم شریف کی ایک اور حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے فرمایا اپنے نفس سے شروع کر پہلے اسی پر صدقہ کر پھر تو اپنے بال بچوں پر پھر بچے تو اپنے رشتہ داروں پر پھر تو اور حاجت مندوں پر ، (صحیح مسلم:997) اسی کتاب میں ایک اور حدیث میں ہے کہ سب سے افضل خیرات وہ ہے جو انسان اپنے خرچ کے مطابق باقی رکھ کر بچی ہوئی چیز کو اللہ کی راہ میں دے اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے افضل ہے ، پہلے انہیں دے جن کا خرچ تیرے ذمہ ہے (صحیح بخاری:5355) ایک اور حدیث میں ہے اے ابن آدم جو تیرے پاس اپنی ضرورت سے زائد ہو اسے اللہ کی راہ میں دے ڈالنا ہی تیرے لیے بہتر ہے اس کا روک رکھنا تیرے لیے برا ہے ہاں اپنی ضرورت کے مطابق خرچ کرنے میں تجھ پر کوئی ملامت نہیں ۔ (صحیح مسلم:1036) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ایک قول یہ بھی مروی ہے کہ یہ حکم زکوٰۃ کے حکم سے منسوخ ہو گیا ، حضرت مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ زکوٰۃ کی آیت گویا اس آیت کی تفسیر ہے اور اس کا واضح بیان ہے ، ٹھیک قول یہی ہے ۔ پھر ارشاد ہے کہ جس طرح یہ احکام واضح کر کے کھول کھول کر ہم نے بیان فرمائے اسی طرح ہم باقی احکام بھی وضاحت اور تشریح کے ساتھ بیان فرمائیں گے ، وعدے وعید بھی صاف طور پر کھول دئیے جائیں گے تاکہ تم دنیائے فانی کی طرف بیرغبت ہو کر آخرت کی طرف متوجہ ہو جاؤ ہمیشہ باقی رہنے والی ہے ، حضرت حسن رحمہ اللہ نے اس آیت کی تلاوت کر کے فرمایا واللہ جو غور و تدبر کرے گا جان لے گا کہ دنیا بلا کا گھر ہے اور اس کا انجام فنا ہے اور آخرت جزا اور بقا کا گھر ہے حضرت قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں فکر کرنے سے صاف معلوم ہو سکتا ہے کہ دنیا پر آخرت کو کس قدر فضیلت ہے پس عقلمند کو چاہیئے کہ آخرت کی بھلائی کے جمع کرنے کی کوشش میں لگ جائے ۔ یتیم کا مال اور ہماری ذمہ داری پھر یتیم کے بارے میں احکام نازل ہوتے ہیں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں پہلے یہ حکم ہوا تھا کہ آیت «وَلَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ اِلَّا بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ حَتّٰی یَبْلُغَ اَشُدَّہٗ» ( 6 ۔ الانعام : 152 ) یعنی یتیم کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ مگر اس طریقہ سے جو بہترین طریقہ ہو اور فرمایا گیا تھا آیت «اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰی ظُلْمًا اِنَّمَا یَاْکُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِھِمْ نَارًا وَسَیَصْلَوْنَ سَعِیْرًا» ( 4 ۔ النسآء : 10 ) ۔ یعنی جو لوگ ظلم سے یتیموں کا مال کھا جاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں اور وہ بھڑکتی ہوئی جہنم میں عنقریب داخل ہوں گے تو ان آیتوں کو سن کر ان لوگوں نے جو یتیموں کے والی تھے یتیموں کا کھانا اور ان کا پانی اپنے گھر کے کھانے اور گھر کے پانی سے بالکل جدا کر دیا اب اگر ان کا پکا ہوا کھانا بچ جاتا تو اسے یا تو وہ خود ہی دوسرے وقت کھائے یا خراب ہو جائے تو یوں ایک طرف تو ان یتیموں کا نقصان ہونے لگا دوسری جانب والیانِ یتیم بھی تنگ آ گئے کہ کب تک ایک ہی گھر میں اس طرح رکھ رکھاؤ کیا کریں تو ان لوگوں نے آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی جس پر یہ آیت «قُلْ اِصْلَاحٌ لَّھُمْ خَیْرٌ وَاِنْ تُخَالِطُوْھُمْ فَاِخْوَانُکُمْ» ( 2 ۔ البقرہ : 220 ) نازل ہوئی اور نیک نیتی اور دیانت داری کے ساتھ ان کے مال کو اپنے مال میں ملا لینے کی رخصت دی گئی ، (سنن ابوداود:2871 ، قال الشیخ الألبانی:حسن) ابوداؤد ونسائی وغیرہ میں یہ روایتیں موجود ہیں اور سلف وخلف کی ایک بہت بڑی جماعت نے اس کا شان نزول یہی بیان فرمایا ہے ۔ سیدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں یتیم کے مال کی اس طرح دیکھ بھال سخت مشکل ہے کہ اس کا کھانا الگ ہو ، اس کا پینا الگ ہو ۔ «اِصْلَاحٌ لَّھُمْ خَیْرٌ» ( البقرہ : 220 ) سے تو یہی علیحدگی مراد ہے لیکن پھر «وَاِنْ تُخَالِطُوْھُمْ» ( البقرہ : 220 ) فرما کر اس کا کھانا پینا ملا جلا رکھنے کی اجازت دی گئی اس لیے کہ وہ بھی دینی بھائی ہیں یا نیت نیک ہونی چاہیئے ۔ قصد اور ارادہ اگر یتیم کی نقصان رسانی کا ہے تو وہ بھی اللہ تبارک وتعالیٰ سے پوشیدہ نہیں اور اگر مقصود یتیم کی بھلائی اور اس کے مال کی نگہبانی ہے تو اسے بھی وہ علام الغیوب بخوبی جانتا ہے ۔ پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں تکلیف و مشقت میں مبتلا رکھنا نہیں چاہتا جو تنگی اور حرج تم پر یتیم کا کھانا پینا بالکل جدا رکھنے میں تھا وہ اللہ تعالیٰ نے دور فرما دیا اور تم پر تخفیف کر دی اور ایک ہنڈیا رکھنا اور ملا جلا کام کرنا تمہارے لیے مباح قرار دیا ، بلکہ یتیم کا نگران اگر تنگ دست مسکین محتاج ہو تو دستور کے مطابق اپنے خرچ میں لا سکتا ہے ، اور اگر کسی مالدار نے اپنے بوقت ضرورت اس کی چیز کام میں لے لی تو پھر ادا کر دے ، یہ مسائل ان شاءاللہ وضاحت کے ساتھ سورۃ نساء کی تفسیر میں بیان ہوں گے ۔ البقرة
220 البقرة
221 پاک دامن عورتیں بت پرست مشرکہ عورتوں سے نکاح کی حرمت بیان ہو رہی ہے ، گو آیت کا عموم تو ہر ایک مشرکہ عورت سے نکاح کرنے کی ممانعت پر ہی دلالت کرتا ہے لیکن دوسری جگہ فرمان ہے آیت «وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ اِذَآ اٰتَیْتُمُوْہُنَّ اُجُوْرَہُنَّ مُحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَ وَلَا مُتَّخِذِیْٓ اَخْدَانٍ» ( 5 ۔ المائدہ : 5 ) ، یعنی تم سے پہلے جو لوگ کتاب اللہ دئیے گئے ہیں ان کی پاکدامن عورتوں سے بھی جو زناکاری سے بچنے والی ہوں ان کے مہر ادا کر کے ان سے نکاح کرنا تمہارے لیے حلال ہے ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول بھی یہی ہے کہ ان مشرکہ عورتوں میں سے اہل کتاب عورتیں مخصوص ہیں ، (تفسیر ابن جریر الطبری:350/4) مجاہد عکرمہ ، سعید بن جبیر ، مکحول ، حسن ، ضحاک ، قتادہ زید بن اسلم اور ربیع بن انس رحمہم اللہ کا بھی یہی فرمان ہے ، (تفسیر ابن ابی حاتم:669/2:) بعض کہتے ہیں یہ آیت صرف بت پرست مشرکہ عورتوں ہی کے لیے نازل ہوئی ہے جیسے بھی کہہ لیں مطلب دونوں کا ایک ہی ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ابن جریر میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی قسم کی عورتوں سے نکاح کرنے کو ناجائز قرار دیا سوائے ایماندار ، ہجرت کر کے آنے والی عورتوں کے خصوصاً ان عورتوں سے جو کسی دوسرے مذہب کی پابند ہوں ۔ قرآن کریم میں اور جگہ ہے آیت «وَمَنْ یَّکْفُرْ بِالْاِیْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُہٗ ۡ وَہُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ» ( 5 ۔ المائدہ : 5 ) ، یعنی کافروں کے اعمال برباد ہیں ۔ ایک روایت میں ہے کہ سیدنا طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ سخت ناراض ہوئے یہاں تک کہ قریب تھا کہ انہیں کوڑے لگائیں ، ان دونوں بزرگوں نے کہا اے امیرالمومنین آپ ناراض نہ ہوں ہم انہیں طلاق دے دیتے ہیں آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر طلاق دینی حلال ہے تو پھر نکاح بھی حلال ہونا چاہیئے میں انہیں تم سے چھین لوں گا اور اس ذلت کے ساتھ انہیں الگ کروں گا ، (تفسیر ابن جریر الطبری:4224:ضعیف) لیکن یہ حدیث نہایت غریب ہے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے بالکل ہی غریب ہے ، امام ابن جریر رحمہ اللہ نے اہل کتاب عورتوں سے نکاح کر کے حلال ہونے پر اجماع نقل کیا ہے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اس اثر کے بارے میں تحریر کیا ہے کہ یہ صرف سیاسی مصلحت کی بناء پر تھا تاکہ مسلمان عورتوں سے بے رغبتی نہ کریں یا اور کوئی حکمت عملی اس فرمان میں تھی چنانچہ اس روایت میں یہ بھی ہے کہ جب سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کو یہ فرمان ملا تو انہوں نے جواب میں لکھا کہ کیا آپ رضی اللہ عنہ اسے حرام کہتے ہیں ، خلیفۃ المسلمین نے جواب دیا کہ حرام تو نہیں کہتا مگر مجھے خوف ہے کہیں تم مومن عورتوں سے نکاح نہ کرو ؟ اس روایت کی سند بھی صحیح ہے ، (تفسیر ابن جریر الطبری:366/4) ایک اور روایت میں ہے کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مسلمان مرد نصرانی عورت سے نکاح کر سکتا ہے لیکن نصرانی مرد کا نکاح مسلمان عورت سے نہیں ہو سکتا ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:366/4) اس روایت کی سند پہلی روایت سے زیادہ صحیح ہے ، ابن جریر میں تو ایک مرفوع حدیث بھی باسناد مروی ہے کہ ہم اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کر لیں لیکن اہل کتاب مرد مسلمان عورتوں سے نکاح نہیں کر سکتے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:4227:ضعیف) لیکن اس کی سند میں کچھ کمزوری ہے مگر امت کا اجماع اسی پر ہے ، ابن ابی حاتم کی روایت میں ہے کہ سیدنا فاروق رضی اللہ عنہ نے اہل کتاب کے نکاح کو ناپسند کیا اور اس آیت کی تلاوت فرما دی ، امام بخاری سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول بھی نقل فرماتے ہیں کہ میں کسی شرک کو اس شرک سے بڑھ کر نہیں پاتا کہ وہ عورت کہتی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام اس کے اللہ ہیں ۔ (صحیح بخاری:5285) امام احمد رحمہ اللہ سے اس آیت کا مطلب پوچھا جاتا ہے تو آپ رحمہ اللہ فرماتے ہیں مراد اس سے عرب کی وہ مشرکہ عورتیں ہیں جو بت پرست تھیں ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ایمان والی لونڈی شرک کرنے والی آزاد عورت سے اچھی ہے یہ فرمان سیدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوتا ہے ، ان کی ایک سیاہ رنگ لونڈی تھی ایک مرتبہ غصہ میں آ کر اسے تھپڑ مار دیا تھا پھر گھبرائے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور واقعہ عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا اس کا کیا خیال کہا حضور ! وہ روزے رکھتی ہے نماز پڑھتی ہے اچھی طرح وضو کرتی ہے اللہ کی وحدانیت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دیتی ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوعبداللہ پھر تو وہ ایماندار ہے کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! قسم اس اللہ کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں اسے آزاد کر دوں گا اور اتنا ہی نہیں بلکہ اس سے نکاح بھی کر لوں گا چنانچہ یہی کیا جس پر بعض مسلمانوں نے انہیں طعنہ دیا ، وہ چاہتے تھے کہ مشرکوں میں ان کا نکاح کرا دیں اور انہیں اپنی لڑکیاں بھی دیں تاکہ شرافت نسب قائم رہے اس پر یہ فرمان نازل ہوا کہ مشرک آزاد عورتوں سے تو مسلمان لونڈی ہزار ہا درجہ بہتر ہے اور اسی طرح مشرک آزاد مرد سے مسلم غلام بھی بڑھ چڑھ کر ہے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:4228) مسند عبد بن حمید میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عورتوں کے محض حسن پر فریفتہ ہو کر ان سے نکاح نہ کر لیا کرو ، ممکن ہے ان کا حسن انہیں مغرور کر دے عورتوں کے مال کے پیچھے ان سے نکاح نہ کر لیا کرو ممکن ہے مال انہیں سرکش کر دے نکاح کرو تو دینداری دیکھا کرو بدصورت سیاہ فام لونڈی بھی اگر دیندار ہو تو بہت افضل ہے ، (سنن ابن ماجہ:1859 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) لیکن اس حدیث کے راویوں میں افریقی ضعیف ہے ، بخاری مسلم میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چار باتیں دیکھ کر عورتوں سے نکاح کیا جاتا ہے ایک تو مال دوسرے حسب نسب تیسرے جمال وخوبصورتی چوتھے دین ، تم دینداری ٹٹولو ، (صحیح بخاری:5090) مسلم شریف میں ہے دنیا کل کی کل ایک متاع ہے ، متاع دنیا میں سب سے افضل چیز نیک بخت عورت ہے ۔ (صحیح مسلم:1469) پھر فرمان ہے کہ مشرک مردوں کے نکاح میں مسلمان عورتیں بھی نہ دو جیسے اور جگہ ہے آیت «لَا ہُنَّ حِلٌّ لَّہُمْ وَلَا ہُمْ یَحِلٰوْنَ لَہُنَّ» ( 60 ۔ الممتحنہ : 10 ) ، نہ کافر عورتیں مسلمان مردوں کے لیے حلال نہ مسلمان مرد کافر عورتوں کے لیے حلال ۔ پھر فرمان ہے کہ مومن مرد گو چاہے حبشی غلام ہو پھر بھی رئیس اور سردار آزاد کافر سے بہتر ہے ۔ ان لوگوں کا میل جول ان کی صحبت ، محبت دنیا حفاظتِ دنیا اور دنیا طلبی اور دنیا کو آخرت پر ترجیح دینی سکھاتی ہیں جس کا انجام جہنم ہے اور اللہ تعالیٰ کے فرمان کی پابندی اس کے حکموں کی تعمیل جنت کی رہبری کرتی ہے گناہوں کی مغفرت کا باعث بنتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے وعظ ونصیحت اور پند وعبرت کے لیے اپنی آیتیں واضح طور پر بیان فرما دیں ۔ البقرة
222 ایام حیض اور جماع سے متعلقہ مسائل سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہودی لوگ حائضہ عورتوں کو نہ اپنے ساتھ کھلاتے تھے اور نہ اپنے ساتھ رکھتے تھے ، صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا جس کے جواب میں یہ آیت اتری ، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سوائے جماع کے اور سب کچھ حلال ہے یہودی یہ سن کر کہنے لگے کہ انہیں تو ہماری مخالفت ہی سے غرض ہے ، سیدنا اسید بن حضیر اور عباد بن بشر رضی اللہ عنہما نے یہودیوں کا یہ کلام نقل کر کے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پھر ہمیں جماع کی بھی رخصت دی جائے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ یہ سن کر متغیر ہو گیا یہاں تک کہ اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے خیال کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان پر ناراض ہو گئے ۔ جب یہ بزرگ جانے لگے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی بزرگ تحفتاً دودھ لے کر آئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پیچھے آدمی بھیج کر انہیں بلایا اور وہ دودھ انہیں پلایا ، اب معلوم ہوا کہ وہ غصہ جاتا رہا ۔ (صحیح مسلم:302) پس اس فرمان کا کہ حیض کی حالت میں عورتوں سے الگ رہو یہ مطلب ہوا کہ جماع نہ کرو اس لیے کہ اور سب حلال ہے ۔ اکثر علماء کا مذہب ہے کہ سوائے جماع کے مباشرت جائز ہے ، احادیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایسی حالت میں ازواج مطہرات سے ملتے جلتے لیکن وہ تہبند باندھے ہوئے ہوتی تھیں ۔ (سنن ابوداود:272 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) سیدہ عمارہ کی پھوپھی صاحبہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے سوال کرتی ہیں کہ اگر عورت حیض کی حالت میں ہو اور گھر میں میاں بیوی کا ایک ہی بستر ہو تو وہ کیا کرے ؟ یعنی اس حالت میں اس کے ساتھ اس کا خاوند سو سکتا ہے یا نہیں ؟ آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ، سنو ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف لائے ، آتے ہی نماز کی جگہ تشریف لے گئے اور نماز میں مشغول ہو گئے ، دیر زیادہ لگ گئی اور اس عرصہ میں مجھے نیند آ گئی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جاڑا لگنے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا ادھر آؤ ، میں نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں تو حیض سے ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے گھٹنوں کے اوپر سے کپڑا ہٹانے کا حکم دیا اور پھر میری ران پر رخسار اور سینہ رکھ کر لیٹ گئے ، میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھک گئی تو سردی کچھ کم ہوئی اور اس گرمی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نیند آ گئی ۔(سنن ابوداود:270،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) «صلی اللہ علیہ و علی ازواجہ و اصحابہ وسلم» حضرت مسروق رحمہ اللہ ایک مرتبہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور کہا السلام علی النبی و علی اھلہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دے کر مرحبا مرحبا کہا اور اندر آنے کی اجازت دی ، آپ رحمہ اللہ نے کہا ام المؤمنین ایک مسئلہ پوچھتا ہوں لیکن شرم معلوم ہوتی ہے ۔ آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ، سُن میں تیری ماں اور تو قائم مقام میرے بیٹے کے ہے ، جو پوچھنا ہو پوچھ ، کہا فرمائیے آدمی کیلئے اپنے حائضہ بیوی حلال ہے ؟ فرمایا سوائے شرمگاہ کے اور سب جائز ہے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:378/4) اور سندوں سے بھی مختلف الفاظ کے ساتھ ام المؤمنین کا یہ قول مروی ہے ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ مجاہد حسن اور عکرمہ رحمہ اللہ علیہم کا فتویٰ بھی یہی ہے ، مقصد یہ ہے کہ حائضہ عورت کے ساتھ لیٹنا بیٹھنا اس کے ساتھ کھانا پینا وغیرہ امور بالاتفاق جائز ہیں ۔ سیدہ عائشہ سے منقول ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سر دھویا کرتی آپ میری گود میں ٹیک لگا کر لیٹ کرقرآن شریف کی تلاوت فرماتے حالانکہ میں حیض سے ہوتی تھی ، (صحیح بخاری:301) میں ہڈی چوستی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی ہڈی کو وہیں منہ لگا کر چوستے تھے ، میں پانی پیتی تھی پھر گلاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی وہیں منہ لگا کر اسی گلاس سے پانی پیتے اور میں اس وقت حائضہ ہوتی تھی ، (صحیح مسلم:300) ابوداؤد میں روایت ہے کہ میرے حیض کے شروع دِنوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے ساتھ ہی لحاف میں سوتے تھے ۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کپڑا کہیں سے خراب ہو جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتنی ہی جگہ کو دھو ڈالتے ۔ اگر جسم مبارک پر کچھ لگ جاتا تو اسے بھی دھو ڈالتے اور پھر ان ہی کپڑوں میں نماز پڑھتے ۔ (سنن ابوداود:285 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) ہاں ابوداؤد کی ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ سیدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں جب حیض سے ہوتی تو بسترے سے اتر جاتی اور بورئیے پر آ جاتی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے قریب بھی نہ آتے جب تک میں پاک نہ ہو جاؤں ۔ (سنن ابوداود:271 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) تو یہ روایت محمول ہے کہ آپ پرہیز اور احتیاط کرتے تھے نہ یہ کہ محمول ہو حرمت اور ممانعت پر ۔ بعض حضرات یہ بھی فرماتے ہیں کہ تہبند ہوتے ہوئے فائدہ اٹھائے ، میمونہ بنت حارث ہلالیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنی کسی اہلیہ سے ان کی حیض کی حالت میں ملنا چاہتے تھے تو انہیں حکم دیتے تھے کہ تہبند باندھ لیں ۔ (صحیح بخاری:303) اس طرح بخاری مسلم میں بھی یہ حدیث سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص سوال کرتا ہے کہ میری بیوی سے مجھے اس کے حیض کے حالت میں کیا کچھ حلال ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تہبند سے اوپر کا کل ۔ (سنن ابوداود:212 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) ایک اور روایت میں ہے کہ اس سے بھی بچنا بہتر ہے ۔ (سنن ابوداود:213 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ ، سعید بن مسیب رحمہ اللہ اور شریح کا مذہب بھی یہی ہے ۔ امام شافعی رحمہ اللہ کے اس بارے میں دو قول ہیں جن میں ایک یہ بھی ہے کہ اکثر عراقیوں وغیرہ کا بھی یہی مذہب ہے ۔ یہ حضرات فرماتے ہیں کہ یہ تو متفقہ فیصلہ ہے کہ جماع حرام ہے اس لیے اس کے آس پاس سے بھی بچنا چاہیئے تاکہ حرمت میں واقع ہونے کا خطرہ نہ رہے ۔ حالت حیض میں جماع کی حرمت اور اس کام کے کرنے والے کا گنہگار ہونا تو یقین امر ہے جسے توبہ استغفار کرنا لازمی ہے لیکن اسے کفارہ بھی دینا پڑے گا یا نہیں اس میں علماء کرام کے دو قول ہیں ۔ ایک تو یہ کہ کفارہ بھی ہے چنانچہ مسند احمد اور سنن میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اپنی حائضہ بیوی سے جماع کرے وہ ایک دینار یا آدھا دینار صدقہ دے ۔ (مسند احمد:230/1:صحیح) ترمذی میں ہے کہ خون اگر سرخ ہو تو ایک دینار اور اگر زرد رنگ کا ہو تو آدھا دینار ۔ (سنن ترمذی:137 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح مرفوعاً) مسند احمد میں ہے کہ اگر خون پیچھے ہٹ گیا اور ابھی اس عورت نے غسل نہ کیا ہو اور اس حالت میں اس کا خاوند اس سے ملے تو آدھا دینار ورنہ پورا دینار ۔ (مسند احمد:367/1:ضعیف) دوسرا قول یہ ہے کہ کفارہ کچھ بھی نہیں صرف اللہ عزوجل سے استغفار کرے ۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا بھی آخری اور زیادہ صحیح یہی مذہب ہے اور جمہور علماء بھی اسی کے قائل ہیں ۔ جو حدیثیں اوپر بیان ہوئیں ان کی نسبت یہ حضرات فرماتے ہیں کہ ان کا مرفوع ہونا صحیح نہیں بلکہ صحیح یہی ہے کہ موقوف ہیں گو یہ حدیث روایتاً مرفوع اور موقوف دونوں طرح مروی ہے لیکن اکثر ائمہ حدیث کی تحقیق ہے کہ صحیح بات یہی ہے کہ یہ موقوف ہے ۔ یہ فرمان کہ جب تک عورتیں پاک نہ ہو جائیں ان کے قریب نہ جاؤ ۔ یہ تفسیر ہے اس فرمان کی کہ عورتوں سے ان کی حیض کی حالت میں جدا رہو ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس وقت حیض ختم ہو جائے پھر نزدیکی حلال ہے ۔ حضرت امام ابوعبداللہ احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں طہر یعنی پاکی دلالت کرتی ہے کہ اب اس سے نزدیکی جائز ہے ۔ سیدہ میمونہ اور عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ فرمانا کہ ہم میں سے جب کوئی حیض سے ہوتی تو تہبند باندھ لیتی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر میں سوتی ، (صحیح بخاری:302) اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ جس زندگی سے منع کیا گیا ہے وہ جماع ہے ، ویسے سونا بیٹھنا وغیرہ سب جائز ہے ۔ اس کے بعد یہ فرمان ان کے پاک ہو جانے کے بعد ان کے پاس آؤ ۔ اس میں ارشاد ہے کہ اس کے غسل کر لینے کے بعد ان سے جماع کرو ۔ امام ابن حزم فرماتے ہیں کہ ہر حیض کی پاکیزگی کے بعد جماع کرنا واجب ہے ، اس کی دلیل آیت «فَأْتُوہُنَّ مِنْ حَیْثُ أَمَرَکُمُ اللہُ إِنَّ اللہَ یُحِبٰ التَّوَّابِینَ وَیُحِبٰ الْمُتَطَہِّرِینَ» ( البقرہ : 222 ) ہے جس میں حکم ہے لیکن یہ دلیل کوئی پختہ نہیں ۔ یہ امر تو صرف حرمت کو ہٹا دینے کا اعلان ہے اور اس کے سوا اس کی کوئی دلیل ان کے پاس نہیں ، علماء اصول میں سے بعض تو کہتے ہیں کہ امر یعنی حکم مطلقاً وجوب کیلئے ہوتا ہے ان لوگوں کو امام ابن حزم رحمہ اللہ کا جواب بہت گراں ہے ۔ بعض کہتے ہیں یہ امر صرف اباحت کیلئے ہے اور چونکہ اس سے پہلے ممانعت وارد ہو چکی ہے یہ قرینہ ہے جو امر کو وجوب سے ہٹا دیتا ہے لیکن یہ غور طلب بات ہے ، دلیل سے جو بات ثابت ہے وہ یہ ہے کہ ایسے موقع پر یعنی پہلے منع ہو پھر “ حکم “ ہو تو حکم اپنی اصل پر رہتا ہے یعنی جو بات منع سے پہلے جیسی تھی ویسی ہی اب ہو جائے گی یعنی اگر منع سے پہلے وہ کام واجب تھا تو اب بھی واجب ہی رہے گا ، جیسے قرآن کریم میں ہے آیت «فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْہُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَیْثُ وَجَدْتٰمُــوْہُمْ وَخُذُوْہُمْ وَاحْصُرُوْہُمْ وَاقْعُدُوْا لَہُمْ کُلَّ مَرْصَدٍ» ( 9 ۔ التوبہ : 5 ) یعنی جب حرمت والے مہینے گزر جائیں تو مشرکوں سے جہاد کرو ۔ اور اگر یہ کام ممانعت سے پہلے مباح تھا تو اب بھی وہ مباح رہے گا جیسے آیت «وَإِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوا» ( 5 ۔ المائدہ : 2 ) جب تم احرام کھول دو تو شکار کھیلو ، اور جگہ ہے آیت «فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ وَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ» ( 62 ۔ الجمعہ : 10 ) یعنی جب نماز پوری ہو جائے تو زمین میں پھیل جاؤ ۔ ان علماء کرام کا یہ فیصلہ ان مختلف اقوال کو جمع بھی کر دیتا ہے جو امر کے وجوب وغیرہ کے بارے میں ہیں ۔ غزالی رحمہ اللہ وغیرہ نے بھی اسے بیان کیا ہے اور بعض ائمہ متاخرین نے بھی اسے پسند فرمایا ہے اور یہی صحیح بھی ہے ۔ یہ مسئلہ بھی یاد رہے کہ تمام علماء امت کا اتفاق ہے کہ جب خون حیض کا آنا رُک جائے ، مدت حیض گزر جائے پھر بھی اس کے خاوند کو اپنی بیوی سے مجامعت کرنی حلال نہیں جب تک وہ غسل نہ کر لے ، ہاں اگر وہ معذور ہو اور غسل کے عوض تیمم کرنا اسے جائز ہو تو تیمم کر لے ۔ اس کے بعد اس کے پاس اس کا خاوند آ سکتا ہے ۔ ہاں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ان تمام علماء کے مخالف ہیں ، وہ فرماتے ہیں کہ جب حیض زیادہ سے زیادہ دِنوں تک آخری معیاد یعنی دس دن تک رہ کر بند ہو گیا تو اس کے خاوند اس سے صحبت کرنا حلال ہے ، گو اس نے غسل نہ کیا ہو ، «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ تو لفظ «یَطْہُرْنَ» کا اس سے مراد خون حیض کا بند ہونا ہے اور «تَطَہَّرْنَ» سے مراد غسل کرنا ہے ۔ مجاہد ، عکرمہ ، حسن ، مقاتل بن حیان ، لیث بن سعد رحمہ اللہ علیہم وغیرہ بھی یہی فرماتے ہیں ، (تفسیر ابن ابی حاتم:682/2) پھر ارشاد ہوتا ہے اس جگہ سے آؤ جہاں سے آنے کا حکم اللہ نے تمہیں دیا ہے ، مراد اس سے آگے کی جگہ ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما ، مجاہد رحمہ اللہ وغیرہ بہت سے مفسرین نے اس کے یہی معنی بیان کئے ہیں کہ مراد اس سے بچوں کے تولد ہونے کی جگہ ہے ، (تفسیر ابن ابی حاتم:282/2) اس کے سوا اور جگہ یعنی پاخانہ کی جگہ جانا حرام ہے ، ایسا کرنے سے حد سے تجاوز کرنے والے ہیں ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہ اللہ علیہم سے بھی یہی مروی ہے کہ مطلب یہ ہے کہ جس جگہ سے حالت حیض میں تم روکے گئے تھے اب وہ جگہ تمہارے لیے حلال ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ پاخانہ کی جگہ وطی کرنا حرام ہے ۔ اس کا مفصل بیان بھی آتا ہے ان شاءاللہ ۔ یہ معنی بھی کئے گئے ہیں کہ پاکیزگی کی حالت میں آؤ جبکہ حیض سے نکل آئیں اس لیے اس کے بعد کے جملہ میں ہے کہ گناہوں سے توبہ کرنے والوں ، اس حالت میں جماع سے باز رہنے والوں ، گندگیوں اور ناپاکیوں سے بچنے والوں ، حیض کی حالت میں اپنی بیوی سے نہ ملنے والوں کو اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے ۔ اسی طرح دوسری جگہ سے محفوظ رہنے والوں کو بھی پروردگار اپنا محبوب بنا لیتا ہے ۔ پھر فرمایا کہ تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں یعنی اولاد ہونے کی جگہ تم اپنی کھیتی میں جیسے بھی چاہو آؤ یعنی جگہ تو وہی ایک ہو ، طریقہ خواہ کوئی بھی ہو ، سامنے کر کے یا اس کے خلاف ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ یہود کہتے تھے کہ جب عورت سے مجامعت سامنے رخ کر کے نہ کی جائے اور حمل ٹھہر جائے تو بچہ بھینگا پیدا ہوتا ہے ۔ (صحیح بخاری:4528) ان کی تردید میں یہ جملہ نازل ہوا کہ مرد کو اختیار ہے ، ابن ابی حاتم میں ہے کہ یہودیوں نے یہی بات مسلمانوں سے بھی کہی تھی ، ابن جریج رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ آیت کے نازل ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار دیا کہ خواہ سامنے سے آئے خواہ پیچھے سے لیکن جگہ ایک ہی رہے ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:693/2) ایک اور حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے پوچھا کہ ہم اپنی عورتوں کے پاس کیسے آئیں اور کیا چھوڑیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ تیری کھیتی ہے جس طرح چاہو آؤ ، ہاں اس کے منہ پر نہ مار ، زیادہ برا نہ کہہ ، اس سے روٹھ کر الگ نہ ہو جا ، ایک ہی گھر میں رہ ۔ (سنن ابوداود:2143 ، قال الشیخ الألبانی:حسن صحیح) ابن ابی حاکم میں ہے کہ حمیر کے قبیلہ کے ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال کیا کہ مجھے اپنی بیویوں سے زیادہ محبت ہے تو اس کے بارے میں احکام مجھے بتائے ، اس پر یہ حکم نازل ہوا ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:4351:ضعیف) مسند احمد میں ہے کہ چند انصاریوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال کیا تھا ، (مسند احمد:268/1:ضعیف) طحاوی کی کتاب مشکل الحدیث میں ہے ایک شخص نے اپنی بیوی سے الٹا کر کے مباشرت کی تھی ، لوگوں نے اسے برا بھلا کہا اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:4337:ضعیف) امسند احمد میں ہے کہ عبداللہ بن سابط سیدنا حفصہ بن عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما کے پاس آئے اور کہا میں ایک مسئلہ پوچھنا چاہتا ہوں لیکن شرم آتی ہے ، فرمایا بھتیجے تم نہ شرماؤ اور جو پوچھنا ہو پوچھ لو ، کہا فرمائیے عورتوں کے پیچھے کی طرف سے جماع کرنا جائز ہے ؟ فرمایا سنو مجھ سے سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ہے کہ انصار عورتوں کو الٹا لٹایا کرتے تھے اور یہود کہتے تھے کہ اس طرح سے بچہ بھینگا ہوتا ہے ، جب مہاجر مدینہ شریف آئے اور یہاں کی عورتوں سے ان کا نکاح ہوا اور انہوں نے بھی یہی کرنا چاہا تو ایک عورت نے اپنے خاوند کی بات نہ مانی اور کہا جب تک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ واقعہ بیان نہ کر لوں تیری بات نہ مانوں گی چنانچہ وہ بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوئی ، سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے بٹھایا اور کہا ابھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آ جائیں گے ، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آئے تو انصاریہ عورت شرمندگی کی وجہ سے نہ پوچھ سکی اور واپس چلی گئی لیکن ام المؤمنین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انصاریہ عورت کو بلا لو ، پھر یہ آیت پڑھ کر سنائی اور فرمایا جگہ ایک ہی ہو ۔ (مسند احمد:305/6) مسند احمد میں ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر بن خطاب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم میں تو ہلاک ہو گیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا بات ہے ؟ کہا ، میں نے رات کو اپنی سواری الٹی کر دی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ جواب نہ دیا ۔ اسی وقت یہ آیت نازل ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سامنے سے آ ، پیچھے سے آ ، اختیار ہے لیکن حیض کی حالت میں نہ آ اور پاخانہ کی جگہ نہ آ ۔ (مسند احمد:297/1:حسن) انصار والا واقعہ قدرے تفصیل کے ساتھ بھی مروی ہے اور اس میں یہ بھی ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو اللہ بخشے ، انہیں کچھ وہم سا ہو گیا ۔ بات یہ ہے کہ انصاریوں کی جماعت پہلے بت پرست تھی اور یہودی اہل کتاب تھے ۔ بت پرست لوگ ان کی فضیلت اور علمیت کے قائل تھے اور اکثر افعال میں ان کی بات مانا کرتے تھے ۔ یہودی ایک ہی طرح پر اپنی بیویوں سے ملتے تھے ۔ یہی عادت ان انصار کی بھی تھی ۔ ان کے برخلاف مکہ والے کسی خاص طریقے کے پابند نہ تھے ، وہ جس طرح جی چاہتا ملتے ۔ اسلام کے بعد مکہ والے مہاجر بن کر مدینہ میں انصار کے ہاں جب اترے تو ایک مکی مجاہد مرد نے ایک مدنی انصاریہ عورت سے نکاح کیا اور اپنے من بھاتے طریقے برتنے چاہے ، عورت نے انکار کر دیا اور صاف کہہ دیا کہ اسی ایک مقررہ طریقہ کے علاوہ اجازت نہیں دیتی ۔ بات بڑھتے بڑھتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی اور یہ فرمان نازل ہوا ۔ پس سامنے سے پیچھے کی طرف سے اور جس طرح چاہے اختیار ہے ہاں جگہ ایک ہی ہو ۔ (سنن ابوداود:2164 ، قال الشیخ الألبانی:حسن) حضرت مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے قرآن شریف سیکھا اول سے آخر تک انہیں سنایا ، ایک آیت کی تفسیر اور مطلب پوچھا ۔ اس آیت پر پہنچ کر جب میں نے اس کا مطلب پوچھا تو انہوں نے یہی بیان کیا ( جو اوپر گزرا ) سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا وہم یہ تھا کہ بعض روایتوں میں ہے کہ آپ قرآن پڑھتے ہوئے کسی سے بولتے چالتے نہ تھے لیکن ایک دن تلاوت کرتے ہوئے جب اس آیت تک پہنچے تو اپنے شاگرد نافع رحمہ اللہ سے فرمایا جانتے ہو یہ آیت کس بارے میں نازل ہوئی ؟ انہوں نے کہا نہیں ، فرمایا یہ عورتوں کی دوسری جگہ کی وطی کے بارے میں اتری ہے ۔ (صحیح بخاری:4526) ایک روایت میں ہے کہ آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا ایک شخص نے اپنی بیوی سے پیچھے سے کیا تھا جس پر اس آیت میں رخصت نازل ہوئی لیکن ایک تو اس میں محدثین نے کچھ علت بھی بیان کی ہے ، دوسرے اس کے معنی بھی یہی ہو سکتے ہیں کہ پیچھے کی طرف سے آگے کی جگہ میں کیا اور اوپر کی جو روایتیں ہیں وہ بھی سنداً صحیح نہیں بلکہ انہیں نافع رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ ان سے کہا گیا کہ کیا آپ رحمہ اللہ یہ کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے وطی دبر کو جائز کیا ہے ؟ تو فرمایا لوگ جھوٹ کہتے ہیں ۔ پھر وہی انصاریہ عورت اور مہاجر والا واقعہ بیان کیا اور فرمایا سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ تو اس آیت کا یہ مطلب ارشاد فرماتے تھے ، اس روایت کی اسناد بھی بالکل صحیح ہے اور اس کے خلاف سند صحیح نہیں ، معنی مطلب بھی اور ہو سکتا ہے اور خود سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے اس کے خلاف بھی مروی ہے ۔ وہ روایتیں عنقریب بیان ہوں گی ان شاءاللہ جن میں ہے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نہ یہ مباح ہے نہ حلال بلکہ حرام ہے ۔ تو یہ قول یعنی جواز کا بعض کا بعض فقہاء مدینہ وغیرہ کی طرف بھی منسوب ہے اور بعض لوگوں نے تو اسے امام مالک رحمہ اللہ کی طرف بھی منسوب کیا ہے لیکن اکثر لوگ اس کا انکار کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ امام صاحب کا قول ہرگز یہ نہیں ، صحیح حدیثیں بکثرت اس فعل کی حرمت پر وارد ہیں ۔ ایک روایت میں ہے لوگو ! شرم و حیاء کرو اللہ تعالیٰ حق بات فرمانے سے شرم نہیں کرتا ۔ عورت کے پاخانہ کی جگہ وطی نہ کرو ۔(مسند احمد:213/5:صحیح) دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حرکت سے لوگوں کو منع فرمایا ۔(مسند احمد:213/5:صحیح بالشواھد) اور روایت میں ہے کہ جو شخص کسی عورت یا مرد کے ساتھ یہ کام کرے اس کی طرف اللہ تعالیٰ کی رحمت سے نہیں دیکھے گا۔(سنن ترمذی:1165،قال الشیخ الألبانی:حسن) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک شخص یہ مسئلہ پوچھتا ہے تو آپ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ کیا تو کفر کرنے کی بابت سوال کرتا ہے ؟ ایک شخص نے آپ سے آ کر کہا کہ میں نے آیت «أَنَّیٰ شِئْتُمْ ۖ وَقَدِّمُوا لِأَنفُسِکُمْ» ( البقرہ : 223 ) کا یہ مطلب سمجھا اور میں نے اس پر عمل کیا تو آپ ناراض ہوئے اور اسے برا بھلا کہا اور فرمایا کہ مطلب یہ ہے کہ خواہ کھڑے ہو کر ، خواہ بیٹھ کر چت خواہ پٹ لیکن جگہ وہی ایک ہو ، ایک اور مرفوع حدیث میں ہے کہ جو شخص اپنی بیوی سے پاخانہ کی جگہ وطی کے وہ چھوٹا لوطی ہے۔(مسند احمد:210/2:صحیح) سیدنا ابودردار رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ یہ کفار کا کام ہے ۔(مسند احمد:210/2:موقوف) سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کا یہ فرمان بھی منقول ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سات قسم کے لوگ ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نظر رحمت سے نہیں دیکھے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا اور ان سے فرمائے گا کہ جہنمیوں کے ساتھ جہنم میں چلے جاؤ ۔ ایک تو اغلام بازی کرنے والا خواہ وہ اوپر والا ہو خواہ نیچے والا ہو ، اور اپنے ہاتھ سے مشت زنی کرنے والا ، اور چوپائے جانور سے یہ کام کرنے والا اور عورت کی دبر میں وطی کرنے والا اور عورت اور اس کی بیٹی دونوں سے نکاح کرنے والا اور اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرنے والا اور ہمسایہ کو ستانے والا ، یہاں تک کہ وہ اس پر لعنت کرے ، (ارواءالغلیل59/8:ضعیف جداً) لیکن اس کی سند میں ابن لہیعہ اور ان کے استاد دونوں ضعیف ہیں ، مسند کی ایک اور حدیث میں ہے کہ جو شخص اپنی بیوی سے دوسرے راستے وطی کرے اسے کو اللہ تعالیٰ نظرِ رحمت سے نہیں دیکھے گا ۔ (مسند احمد:272/2:صحیح) مسند احمد اور سنن میں مروی ہے کہ جو شخص حائضہ عورت سے جماع کرے یا غیر جگہ کرے یا کاہن کے پاس جائے اور اسے سچا سمجھے ، اس نے اس چیز کے ساتھ کفر کیا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر اتری ہے ۔ (سنن ابوداود:3904 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ اس حدیث کو ضعیف بتاتے ہیں ، ترمذی میں روایت ہے کہ ابوسلمہ بھی دبر کی وطی کو حرام بتاتے تھے ، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں لوگوں کا اپنی بیوی سے یہ کام کرنا کفر ہے ۔ (نسائی فی السنن الکبریٰ:1910) ایک مرفوع حدیث میں اس معنی کی مروی ہے لیکن زیادہ صحیح اس کا موقوف ہونا ہی ہے ، اور روایت میں ہے کہ یہ جگہ حرام ہے ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما بھی یہی فرماتے ہیں ، سیدنا علی رضی اللہ عنہما سے جب یہ بات پوچھی گئی تو آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا بڑا کمینہ وہ شخص ہے ، دیکھو قرآن میں ہے کہ لوطیوں سے کہا گیا تم وہ بدکاری کرتے ہو جس کی طرف کسی نے تم سے پہلے توجہ نہیں کی ، پس صحیح احادیث اور صحابہ کرام سے بہت سی روایتوں اور سندوں سے اس فعل کی حرمت مروی ہے ۔ یہ بھی یاد رہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی اسے حرام کہتے ہیں ۔ چنانچہ دارمی میں ہے کہ آپ رضی اللہ عنہما سے ایک مرتبہ یہ سال ہوا تو آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا کیا مسلمان بھی ایسا کر سکتا ہے ؟ (دارمی277/1) اس کی اسناد صحیح ہے اور حکم بھی حرمت کا صاف ہے ، پس غیر صحیح اور مختلف معنی والی روایتوں میں پڑ کر اتنے جلیل القدر صحابی کی طرف ایک ایسا گندا مسئلہ منسوب کرنا ٹھیک نہیں ۔ گو کہ روایتیں اس قسم کی بھی ملتی ہیں ، امام مالک رحمہ اللہ ! سو ان کی طرف بھی اس مسئلہ کی نسبت صحیح نہیں بلکہ معمر بن عیسیٰ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام صاحب اسے حرام جانتے تھے ، اسرائیل بن روح نے آپ سے ایک مرتبہ یہی سوال کیا تو آپ رحمہ اللہ نے فرمایا تم بےسمجھ ہو ، بوائی کھیت میں ہی ہوتی ہے ، خبردار شرمگاہ کے سوا اور جگہ سے بچو ۔ سائل نے کہا لوگ تو کہتے ہیں کہ آپ رحمہ اللہ اس فعل کو جائز کہتے ہیں ۔ آپ رحمہ اللہ نے فرمایا جھوٹے ہیں مجھ پر تہمت باندھتے ہیں ۔ امام مالک سے اس کی حرمت ثابت ہے ۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ، شافعی رحمہ اللہ ، احمد رحمہ اللہ اور ان کے تمام شاگردوں اور ساتھی ، سعید بن مسیب ، ابوسلمہ ، عکرمہ ، عطاء ، سعید بن جبیر ، عروہ بن زبیر ، مجاہد ، حسن رحمہ اللہ علیہم وغیرہ سلف صالحین سب کے سب اسے حرام کہتے ہیں اور اس بارے میں سخت تشدد کرتے ہیں بلکہ بعض تو اسے کفر کہتے ہیں ، جمہور علماء کرام کا بھی اس کی حرمت پر اجماع ہے ، گو بعض لوگوں نے فقہاء مدینہ بلکہ امام مالک رحمہ اللہ سے بھی اس کی حلت نقل کی ہے لیکن یہ صحیح نہیں ۔ عبدالرحمٰن بن قاسم رحمہ اللہ کا قول ہے کہ کسی دیندار شخص کو میں نے تو اس کی حرمت میں شک کرنے والا نہیں پایا ، پھر آیت «نِسَاؤُکُمْ حَرْثٌ لَّکُمْ فَأْتُوا حَرْثَکُمْ أَنَّیٰ شِئْتُمْ وَقَدِّمُوا لِأَنفُسِکُمْ وَاتَّقُوا اللہَ وَاعْلَمُوا أَنَّکُم مٰلَاقُوہُ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِینَ» ( البقرہ : 223 ) پڑھ کر فرمایا خود یہ لفظ «حرث» ہی اس کی حرمت ظاہر کرنے کیلئے کافی ہے کیونکہ وہ دوسری جگہ کھیتی کی جگہ نہیں ، کھیتی میں جانے کے طریقہ کا اختیار ہے نہ کہ جگہ بدلنے کا ۔ گو امام مالک رحمہ اللہ سے اس کے مباح ہونے کی روایتیں بھی منقول ہیں لیکن ان کی سندوں میں سخت ضعف ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ٹھیک اس طرح امام شافعی رحمہ اللہ سے بھی ایک روایت لوگوں نے گھڑ لی ہے حالانکہ انہوں نے اپنی چھ کتابوں میں کھلے لفظوں اسے حرام لکھا ہے ۔ پھر اللہ فرماتا ہے اپنے لیے کچھ آگے بھی بھیجو یعنی ممنوعات سے بچو نیکیاں کرو تاکہ ثواب آگے جائے ، اللہ سے ڈرو اس سے ملنا ہے وہ حساب کتاب لے گا ، ایماندر ہر حال میں خوشیاں منائیں ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یہ بھی مطلب ہے کہ جب جماع کا ارادہ کرے ، یہ دعا «بِاسْمِ اللہِ اللہُمَّ جَنِّبْنَا الشَّیْطَانَ وَجَنِّبْ الشَّیْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا ، فَإِنَّہُ إِنْ یُقَدَّرْ بَیْنَہُمَا وَلَدٌ فِی ذَلِکَ لَمْ یَضُرَّہُ شَیْطَانٌ أَبَدًا» پڑھے یعنی اے اللہ تو ہمیں اور ہماری اولاد کو شیطان سے بچا لے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اگر اس جماع سے نطفہ قرار پکڑ گیا تو اس بچے کو شیطان ہرگز کوئی ضرر نہ پہنچا سکے گا ۔ (صحیح بخاری:141) البقرة
223 البقرة
224 قسم اور کفارہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نیکی اور صلہ رحمی کے چھوڑنے کا ذریعہ اللہ کی قسموں کو نہ بناؤ ، جیسے اور جگہ ہے آیت «وَلَا یَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعَۃِ اَنْ یٰؤْتُوْٓا اُولِی الْقُرْبٰی وَالْمَسٰکِیْنَ وَالْمُہٰجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ» ( 24 ۔ النور : 22 ) ، یعنی وہ لوگ جو کشادہ حال اور فارغ البال ہیں وہ قرابت داروں ، مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو کچھ نہ دینے پر قسمیں نہ کھا بیٹھیں ، انہیں چاہیئے کہ معاف کرنے اور درگزر کرنے کی عادت ڈالیں ، کیا تمہاری خود خواہش نہیں اللہ تعالیٰ تمہیں بخشے ، اگر کوئی ایسی قسم کھا بیٹھے تو اسے چاہیئے کہ اسے توڑ دے اور کفارہ ادا کر دے ، صحیح بخاری شریف کی حدیث میں ہے کہ ہم پیچھے آنے والے ہیں لیکن قیامت کے دن سب سے آگے بڑھنے والے ہیں ، (صحیح بخاری:`6624) فرماتے ہیں کہ تم میں سے کوئی ایسی قسم کھا لے اور کفارہ ادا نہ کرے اور اس پر اَڑا رہے وہ بڑا گنہگار ہے ، یہ حدیث اور بھی بہت سی سندوں اور بہت سی کتابوں میں مروی ہے ۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بھی اس آیت کی تفسیر میں یہی فرماتے ہیں ۔ مسروق رحمہ اللہ وغیرہ بہت سے مفسرین سے بھی یہی مروی ہے ، جمہور کے ان اقوال کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم ان شاءاللہ میں اگر کوئی قسم کھا بیٹھوں گا اور اس کے توڑنے میں مجھے بھلائی نظر آئے گی تو میں قطعاً اسے توڑ دوں گا اور اس قسم کا کفارہ ادا کروں گا ، (صحیح بخاری:6623) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ سیدنا عبدالرحمٰن بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا اے عبدالرحمٰن سرداری امارت اور امامت کو طلب نہ کر اگر بغیر مانگے تو دیا جائے گا تو اللہ کی جانب سے تیری مدد کی جائے گی اور اگر تو نے آپ مانگ کر لی ہے تو تجھے اس کی طرف سونپ دیا جائے گا تو اگر کوئی قسم کھا لے اور اس کے خلاف بھی بھلائی دیکھ لے تو اپنی قسم کا کفارہ دیدے اور اس نیک کام کو کر لے ۔ (صحیح بخاری:6722) پھر فرماتا ہے جو قسمیں تمہارے منہ سے بغیر قصداً اور ارادے کے عادتاً نکل جائیں ان پر پکڑ نہیں ۔ صحیح مسلم میں حدیث ہے کہ جو شخص کوئی قسم کھا لے پھر اس کے سوا خوبی نظر آئے تو اسے چاہیئے کہ اس خوبی والے کام کو کر لے اور اپنی اس قسم کو توڑ دے اس کا کفارہ دیدے ، (صحیح مسلم:1650) مسند احمد کی ایک روایت میں ہے کہ اس کا چھوڑ دینا ہی اس کا کفارہ ہے ۔ (مسند احمد:211/2:صحیح بالشواھد) ابوداؤد میں ہے نذر اور قسم اس چیز میں نہیں جو انسان کی ملکیت میں نہ ہو اور نہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں ہی ہے نہ رشتوں ناتوں کو توڑتی ہے جو شخص کوئی قسم کھا لے اور نیکی اس کے کرنے میں ہو تو وہ قسم کو چھوڑ دے اور نیکی کا کام کرے ، اس قسم کو چھوڑ دینا ہی اس کا کفارہ ہے ۔ امام ابوداؤد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کل کی کل صحیح احادیث میں یہ لفظ ہیں کہ اپنی ایسی قسم کا کفارہ دے ، (سنن ابوداود:3274 ، قال الشیخ الألبانی:حسن) ایک ضعیف حدیث میں ہے کہ ایسی قسم کا پورا کرنا یہی ہے کہ اسے توڑ دے اور اس سے رجوع کرے ، (تفسیر ابن جریر الطبری:4456:ضعیف) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سعید بن مسیب مسروق اور شعبی رحمہ اللہ علیہم بھی اسی کے قائل ہیں کہ ایسے شخص کے ذمہ کفارہ نہیں ۔ مسلم بخاری کی حدیث میں ہے جو شخص لات اور عزیٰ کی قسم کھا بیٹھے وہ آیت «لا الہ الا اللہ» پڑھ لے ۔ (صحیح بخاری:4860) یہ ارشاد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ان لوگوں کو ہوا تھا جو ابھی ابھی اسلام لائے تھے اور جاہلیت کے زمانہ کی یہ قسمیں ان کی زبانوں پر چڑھی ہوئی تھیں تو ان سے فرمایا کہ اگر عادتاً کبھی ایسے شرکیہ الفاظ نکل جائیں تو فوراً کلمہ توحید پڑھ لیا کرو تاکہ بدلہ ہو جائے ۔ پھر فرمایا ہاں جو قسمیں پختگی کے ساتھ دِل کی ارادت کے ساتھ قصداً کھائی جائیں ان پر پکڑ ہے ۔ دوسری آیت کے لفظ «بِمَا عَقَّدتٰمُ الْأَیْمَانَ» ( 5-المائدہ : 89 ) ہیں ، ابوداؤد میں بروایت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ایک مرفوع حدیث مروی ہے جو اور روایتوں میں موقوف وارد ہوئی ہے کہ یہ لغو قسمیں وہ ہیں جو انسان اپنے گھربار میں بال بچوں میں کہہ دیا کرتا ہے کہ ہاں اللہ کی قسم اور نہیں اللہ کی قسم ، (سنن ابوداود:3254 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) غرض بطور تکیہ کلام کے یہ لفظ نکل جاتے ہیں دِل میں اس کی پختگی کا خیال بھی نہیں ہوتا ، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ بھی مروی ہے کہ یہ دو قسمیں ہیں جو ہنسی ہنسی میں انسان کے منہ سے نکل جاتی ہیں ، ان پر کفارہ نہیں ، ہاں جو ارادے کے ساتھ قسم ہو پھر اس کا خلاف کرے تو کفارہ ادا کرنا پڑے گا ، آپ رضی اللہ عنہا کے علاوہ اور بھی بعض صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہ اللہ علیہم نے یہی تفسیر اس آیت کی بیان کی ہے ، (تفسیر ابن ابی حاتم:715/2) یہ بھی مروی ہے کہ ایک آدمی اپنی تحقیق پر بھروسہ کر کے کسی معاملہ کی نسبت قسم کھا بیٹھے اور حقیقت میں وہ معاملہ یوں نہ ہو تو یہ قسمیں لغو ہیں ، یہ معنی بھی دیگر بہت سے حضرات سے مروی ہیں ۔ ایک حسن حدیث میں ہے جو مرسل ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تیر اندازوں کی ایک جماعت کے پاس جا کھڑے ہوئے ، وہ تیر اندازی کر رہے تھے اور ایک شخص کبھی کہتا اللہ کی قسم اس کا تیر نشانے پر لگے گا ، کبھی کہتا اللہ کی قسم یہ خطا کرے گا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی نے کہا دیکھیے یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم اگر اس کی قسم کے خلاف ہو ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ دو قسمیں لغو ہیں ان پر کفارہ نہیں اور نہ کوئی سزا یا عذاب ہے ، (تفسیر ابن جریر الطبری:4461:ضعیف و مرسل) بعض بزرگوں نے فرمایا ہے یہ وہ قسمیں ہیں جو انسان کھا لیتا ہے پھر خیال نہیں رہتا ، یا کوئی شخص اپنے کسی کام کے نہ کرنے پر کوئی بد دعا کے کلمات اپنی زبان سے نکال دیتا ہے ، وہ بھی لغو میں داخل ہیں یا غصے اور غضب کی حالت میں بےساختہ زبان سے قسم نکل جائے یا حلال کو حرام یا حرام کو حلال کر لے تو اسے چاہیئے کہ ان قسموں کی پروا نہ کرے اور اللہ کے احکام کیخلاف نہ کرے ، حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ انصار کے دو شخص جو آپس میں بھائی بھائی تھے ان کے درمیان کچھ میراث کا مال تھا تو ایک نے دوسرے سے کہا اب اس مال کو تقسیم کر دو ، دوسرے نے کہا اگر اب تو نے تقسیم کرنے کیلئے کہا تو میرا مال کعبہ کا خزانہ ہے ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہما نے یہ واقع سن کر فرمایا کہ کعبہ ایسے مال سے غنی ہے ، اپنی قسم کا کفارہ دے اور اپنے بھائی سے بول چال رکھ ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی رشتے ناتوں کے توڑنے اور جس چیز کی ملکیت نہ ہو ان کے بارے میں قسم اور نذر نہیں ۔ (سنن ابوداود:3272 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) پھر فرماتا ہے تمہارے دِل جو کریں اس پر گرفت ہے یعنی اپنے جھوٹ کا علم ہو اور پھر قسم کھائے جیسے اور جگہ ہے آیت «وَلٰکِن یُؤَاخِذُکُم بِمَا عَقَّدتٰمُ الْأَیْمَانَ» ( 5-المائدہ : 89 ) یعنی جو تم مضبوط اور تاکید والی قسمیں کھا لو ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو بخشنے والا ہے اور ان پر علم و کرم کرنے والا ہے ۔ البقرة
225 البقرة
226 ایلاء اور اس کی وضاحت ایلاء کہتے ہیں قسم کو ۔ اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے مجامعت نہ کرنے کی ایک مدت تک کیلئے قسم کھا لے تو دو صورتیں ، یا وہ مدت چار مہینے سے کم ہو گی یا زیادہ ہو گی ، اگر کم ہو گی تو وہ مدت پوری کرے اور اس درمیان عورت بھی صبر کرے ، اس سے مطالبہ اور سوال نہیں کر سکتی ، پھر میاں بیوی آپس میں ملیں جلیں گے ، جیسے کہ بخاری صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ماہ کیلئے قسم کھا لی تھی اور انتیس دن پورے الگ رہے اور فرمایا کہ مہینہ انتیس کا بھی ہوتا ہے ۔ (صحیح بخاری:1910) اور اگر چار مہینے سے زائد کی مدت کیلئے قسم کھائی ہو تو چار ماہ بعد عورت کو حق حاصل ہے کہ وہ تقاضا اور مطالبہ کرے کہ یا تو وہ میل ملاپ کر لے یا طلاق دیدے ، اور اس خاوند کا حکم ان دو باتوں میں سے ایک کے کرنے پر مجبور کرے گا تاکہ عورت کو ضرر نہ پہنچے ۔ یہی بیان یہاں ہو رہا ہے کہ جو لوگ اپنی بیویوں سے ایلاء کریں یعنی ان سے مجامعت نہ کرنے کی قسم کھائیں ، اس سے معلوم ہوا کہ یہ “ ایلاء “ خاص بیویوں کیلئے ہے ، لونڈیوں کیلئے نہیں ۔ یہی مذہب جمہور علماء کرام کا ہے ، یہ لوگ چار مہینہ تک آزاد ہیں ، اس کے بعد انہیں مجبور کیا جائے گا کہ یا تو وہ اپنی بیویوں سے مل لیں یا طلاق دے دیں ، یہ نہیں کہ اب بھی وہ اسی طرح چھوڑے رہیں ، پھر اگر وہ لوٹ آئیں یہ اشارہ جماع کرنے کا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی بخش دے گا اور جو تقصیر عورت کے حق میں ان سے ہوئی ہے اسے اپنی مہربانی سے معاف فرما دے گا ، (تفسیر ابن جریر الطبری:466/4) اس میں دلیل ہے ان علماء کی جو کہتے ہیں کہ اس صورت میں خاوند کے ذمہ کفارہ کچھ بھی نہیں ۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا بھی پہلا قول یہی ہے ، اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو اگلی آیت کی تفسیر میں گزر چکی کہ قسم کھانے والا اگر اپنی قسم توڑ ڈالنے میں نیکی دیکھتا ہو تو توڑ ڈالے ، یہی اس کا کفارہ ہے ، (سنن ابوداود:3274 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) اور علماء کرام کی ایک دوسری جماعت کا یہ مذہب ہے کہ اسے قسم کا کفارہ دینا پڑے گا ۔ اس کی حدیثیں بھی اوپر گزر چکی ہیں اور جمہور کا مذہب بھی یہی ہے ، «وَاللہُ اَعْلَمُ» پھر فرمان ہے کہ اگر چار مہینے گزر جانے کے بعد وہ طلاق دینے کا قصد کرے ، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ چار مہینے گزرتے ہیں طلاق نہیں ہو گی ۔ جمہور متاخرین کا یہی مذہب ہے ، گو ایک دوسری جماعت یہ بھی کہتی ہے کہ بلا جماع چار ماہ گزرنے کے بعد طلاق ہو جائے گی ۔ سیدنا عمر ، عثمان ، علی ، ابن مسعود ، ابن عباس ، ابن عمر ، زید بن ثابت رضی اللہ عنہم اور بعض تابعین رحمہ اللہ علیہم سے بھی یہی مروی ہے لیکن یاد رہے کہ راجح قول اور قرآن کریم کے الفاظ اور صحیح حدیث سے ثابت شدہ قول یہی ہے کہ طلاق واقع نہ ہو گی ( مترجم ) پھر بعض تو کہتے ہیں یہ طلاق رجعی ہو گئی ، بعض کہتے ہیں بائن ہو گی ، جو لوگ طلاق پڑنے کے قائل ہیں وہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد اسے عدت بھی گزارنی پڑے گی ۔ ہاں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور سیدنا ابوالشعثاء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر ان چار مہینوں میں اس عورت کو تین حیض آ گئے ہیں تو اس پر عدت بھی نہیں ۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا بھی قول یہی ہے لیکن جمہور متاخرین علماء کا فرمان یہی ہے کہ اس مدت کے گزرتے ہیں طلاق واقع نہ ہو گی بلکہ اب ایلاء کرنے والے کو مجبور کیا جائے گا کہ یا تو وہ اپنی قسم کو توڑے یا طلاق دے ۔ موطا مالک میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے یہی مروی ہے ۔ (صحیح بخاری:5290) صحیح بخاری میں بھی یہ روایت موجود ہے ، امام شافعی رحمہ اللہ اپنی سند سے سلیمان بن یسار سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے دس سے اوپر صحابیوں سے سنا کہ وہ کہتے تھے چار ماہ کے بعد ایلاء کرنے والے کو کھڑا کیا گیا تو کم سے کم یہ تیرہ صحابی ہو گئے ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہما سے بھی یہی منقول ہے ۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہی ہمارا مذہب ہے اور یہی سیدنا عمر ، ابن عمر ، عثمان ، علی ، ابوالدراء ، ام المومنین عائشہ ، ابن عباس رضی اللہ عنہم بھی یہی فرماتے ہیں اور تابعین میں سے حضرت سعید بن مسیّب ، عمر بن عبدالعزیز امام شافعی ، امام احمد رحمہ اللہ علیہم اور ان کے ساتھیوں کا بھی یہی مذہب ہے ، امام ابن جریر رحمہ اللہ بھی اسی قول کو پسند فرماتے ہیں کہ اگر چار ماہ کے بعد رجوع نہ کرے تو اسے طلاق دینے پر مجبور کیا جائے اگر طلاق نہ دے تو حاکم خود اس کی طرف سے طلاق دے دے گا مگر یہ طلاق رجعی ہو گی ، عدت کے اندر رجعت کا حق خاوند کو حاصل ہے ، ہاں صرف امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اسے رجعت جائز نہیں یہاں تک کہ عدت میں جماع کرے لیکن یہ قول نہایت ہی غریب ہے ۔ یہاں جو چار مہینے کی تاخیر کی اجازت دی ہے اس کی مناسبت میں موطا امام مالک میں عبداللہ بن دینار رحمہ اللہ کی روایت سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کا ایک واقعہ عموماً فقہاء کرام ذِکر کرتے ہیں ، جو یہ ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہما راتوں کو مدینہ شریف کی گلیوں میں گشت لگاتے رہتے ۔ ایک رات کو نکلے تو آپ رضی اللہ عنہما نے سنا کہ ایک عورت اپنے سفر میں گئے ہوئے خاوند کی یاد میں کچھ اشعار پڑھ رہی ہے «تطاول ہذا اللیل وازور جانبہ وأرقنی ألا ضجیع ألاعبہ ألاعبہ طورا وطورا کأنما بدا قمرا فی ظلمۃ اللیل حاجبہ یسر بہ من کان یلہو بقربہ لطیف الحشا لا یحتویہ أقاربہ فواللہ لولا اللہ لا شیء غیرہ لنقض من ہذا السریر جوانبہ ولکننی أخشی رقیبا موکلا ا بأنفسنا لا یفتر الدہر کاتبہ» جن کا ترجمہ یہ ہے ” افسوس ان کالی کالی اور لمبی راتوں میں میرا خاوند نہیں ہے جس سے میں ہنسوں ، بولوں ۔ قسم اللہ کی اگر اللہ کا خوف نہ ہوتا تو اس وقت اس پلنگ کے پائے حرکت میں ہوتے ۔ “ آپ اپنی صاحبزادی ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور فرمایا بتاؤ زیادہ سے زیادہ عورت اپنے خاوند کی جدائی پر کتنی مدت صبر کر سکتی ہے ؟ فرمایا چھ مہینے یا چار مہینے ۔ آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا اب میں حکم جاری کر دوں گا کہ مسلمان مجاہد سفر میں اس سے زیادہ نہ ٹھہریں ۔ بعض روایتوں میں کچھ زیادتی بھی ہے اور اس کی بہت سی سندیں ہیں اور یہ واقعہ مشہور ہے ۔ البقرة
227 البقرة
228 طلاق کے مسائل ان عورتوں کو جو خاوندوں سے مل چکی ہوں اور بالغہ ہوں ، حکم ہو رہا ہے کہ طلاق کے بعد تین حیض تک رُکی رہیں پھر اگر چاہیں تو اپنا نکاح دوسرا کر سکتی ہیں ، ہاں چاروں اماموں نے اس میں لونڈی کو مخصوص کر دیا ہے وہ دو حیض عدت گزارے کیونکہ لونڈی ان معاملات میں آزاد عورت سے آدھے پر ہے لیکن حیض کی مدت کا ادھورا ٹھیک نہیں بیٹھتا ، اس لیے وہ دو حیض گزارے ۔ ایک حدیث میں یہ بھی ہے کہ لونڈی کی طلاقیں بھی دو ہیں اور اس کی عدت بھی دو حیض ہیں ۔ ( ابن جریر ) لیکن اس کے راوی مظاہر ضعیف ہیں ، یہ حدیث ترمذی ، ابوداؤد اور ابن ماجہ بھی ہے ۔ (سنن ابوداود:2189 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) امام حافظ دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ صحیح بات یہ ہے کہ حضرت قاسم بن محمد کا اپنا قول ہے ، لیکن سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا اپنا قول ہی ہے ، اسی طرح خود خلیفۃ المسلمین فاروق اعظم رضی اللہ عنہما سے مروی ہے ، بلکہ صحابہ میں اس مسئلہ میں اختلاف ہی نہ تھا ، ہاں بعض سلف سے یہ بھی مروی ہے ۔ (سنن ابن ماجہ:2079 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) بلکہ صحابہ رضی اللہ عنہم میں اس مسئلہ میں اختلاف ہی نہ تھا ، ہاں بعض سلف سے یہ بھی مروی ہے کہ عدت کے بارے میں آزاد اور لونڈی برابر ہے ، کیونکہٖ آیت اپنی عمومیت کے لحاظ سے دونوں کو شامل ہے اور اس لیے بھی کہ یہ فطری امر ہے لونڈی اور آزاد عورت اس میں یکساں ہیں ۔ محمد بن سیرین رحمہ اللہ اور بعض اہل ظاہر کا یہی قول ہے لیکن یہ ضعیف ہے ۔ ابن ابی حاتم کی ایک غریب سند والی روایت میں ہے کہ اسماء بن یزید بن سکن انصاریہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے ، اس سے پہلے طلاق کی عدت نہ تھی ۔ سب سے پہلے عدت کا حکم ان ہی کی طلاق کے بعد نازل ہوا ۔ (سنن ابوداود:2281 ، قال الشیخ الألبانی:حسن) «قُرُوءٍ» کے معنی میں سلف خلف کا برابر اختلاف رہا ہے ۔ ایک قول تو یہ ہے کہ اس سے مراد طہر یعنی پاکی ہے ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما کا یہی فرمان ہے چنانچہ انہوں نے اپنی بھتیجی عبدالرحمٰن کی بیٹی حفصہ کو جبکہ وہ تین طہر گزار چکیں اور تیسرا حیض شروع ہوا تو حکم دیا کہ وہ مکان بدل لیں ۔ حضرت عروہ رحمہ اللہ نے جب یہ روایت بیان کی تو عمرہ نے جو سیدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی دوسری بھتیجی ہیں ، اس واقعہ کی تصدیق کی اور فرمایا کہ لوگوں نے سیدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر اعتراض بھی کیا تو آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا اقراء سے مراد طہر ہیں ۔ مؤطا576/2) بلکہ موطا میں ابوبکر بن عبدالرحمٰن کا تو یہ قول بھی مروی ہے کہ میں نے سمجھدار علماء فقہاء کو قروء کی تفسیر طہر سے ہی کرتے سنا ہے ۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی یہی فرماتے ہیں کہ جب تیسرا حیض شروع ہوا تو یہ اپنے خاوند سے بری ہو گی اور خاوند اس سے الگ ہوا ۔ (مؤطا:578/2) امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں ہمارے نزدیک بھی مستحق امر یہی ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما ، زید بن ثابت ، سالم ، قاسم ، عروہ ، سلیمان بن یسار ، ابوبکر بن عبدالرحمٰن ، ابان بن عثمان ، عطاء ، قتادہ ، زہری اور باقی ساتوں فقہاء رحمہ اللہ علیہم کا بھی یہی قول ہے ۔ امام مالک ، امام شافعی رحمہ اللہ علیہما کا بھی یہی مذہب ہے ۔ داؤد اور ابوثور رحمہ اللہ علیہم بھی یہی فرماتے ہیں ۔ امام احمد رحمہ اللہ سے بھی ایک روایت اسی طرح کی مروی ہے اس کی دلیل ان بزرگوں نے قرآن کی اس آیت سے بھی نکالی ہے کہ آیت «یَا أَیٰہَا النَّبِیٰ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوہُنَّ لِعِدَّتِہِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّۃَ» ( 65-الطلاق : 1 ) یعنی انہیں عدت میں یعنی طہر میں پاکیزگی کی حالت میں طلاق دو ، چونکہ جس طہر میں طلاق دی جاتی ہے وہ بھی گنتی میں آتا ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ آیت مندرجہ بالا میں بھی قروء سے مراد حیض کے سوا یعنی پاکی کی حالت ہے ، اسی لیے یہ حضرات فرماتے ہیں کہ جہاں تیسرا حیض شروع ہوا اور عورت نے اپنے خاوند کی عدت سے باہر ہو گئی اور اس کی کم سے کم مدت جس میں اگر عورت کہے کہ اسے تیسرا حیض شروع ہو گیا ہے تو اسے سچا سمجھا جائے ۔ بتیس دن اور دو لحظہ ہیں ، عرب شاعروں کے شعر میں بھی یہ لفظ طہر کے معنی میں مستعمل ہوا ہے ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد تین حیض ہیں ، اور جب تک تیسرے حیض سے پاک نہ ہو لے تب تک وہ عدت ہی میں ہے ۔ بعض نے غسل کر لینے تک کہا ہے اور اس کی کم سے کم مدت تینتیس دن اور ایک لحظہ ہے اس کی دلیل میں ایک تو سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہما کا یہ فیصلہ ہے کہ ان کے پاس ایک مطلقہ عورت آئی اور کہا کہ میرے خاوند نے مجھے ایک یا دو طلاقیں دی تھیں پھر وہ میرے پاس اس وقت آیا جبکہ اپنے کپڑے اتار کر دروازہ بند کئے ہوئے تھی ( یعنی تیسرے حیض سے نہانے کی تیاری میں تھی تو فرمائے کیا حکم ہے یعنی رجوع ہو جائے گا یا نہیں ؟ ) آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا میرا خیال تو یہی ہے رجوع ہو گیا ۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے اس کی تائید کی ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:502/4) سیدنا صدیق اکبر ، عمر ، عثمان ، علی ، ابودرداء ، عبادہ بن صامت ، انس بن مالک ، عبداللہ بن مسعود ، معاذ ، ابی بن کعب ، ابوموسیٰ اشعری ، ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی یہی مروی ہے ۔ سعید بن مسیب ، علقمہ ، اسود ، ابراہیم ، مجاہد ، عطاء ، طاؤس ، سعید بن جبیر ، عکرمہ ، محمد بن سیرین ، حسن ، قتاوہ ، شعبی ، ربیع ، مقاتل بن حیان ، سدی ، مکحول ، ضحاک ، عطاء خراسانی رحمہ اللہ علیہم بھی یہی فرماتے ہیں ۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب کا بھی یہی مذہب ہے ۔ امام احمد سے بھی زیادہ صحیح روایت میں یہی مروی ہے آپ رحمہ اللہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بڑے بڑے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے یہی مروی ہے ۔ ثوری ، اوزاعی ، ابن ابی لیلیٰ ، ابن شیرمہ ، حسن بن صالح ، ابو عبید اور اسحٰق بن راہویہ کا قول بھی یہی ہے ۔ ایک حدیث میں بھی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ بن ابی جیش رضی اللہ عنہا سے فرمایا تھا نماز کو اقراء کے دِنوں میں چھوڑ دو ۔ (سنن ابوداود:280 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) پس معلوم ہوا کہ قروء سے مراد حیض ہے لیکن اس حدیث کا ایک راوی منذر مجہول ہے جو مشہور نہیں ۔ ہاں ابن حبان اسے ثقہ بتاتے ہیں ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں لغتاً قرء کہتے ہیں ہر اس چیز کے آنے اور جانے کے وقت کو جس کے آنے جانے کا وقت مقرر ہو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس لفظ کے دونوں معنی ہیں حیض کے بھی اور طہر کے بھی اور بعض اصولی حضرات کا یہی مسلک ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اصمعی بھی فرماتے ہیں کہ قرء کہتے ہیں وقت کو ابو عمر بن علاء کہتے ہیں عرب میں حیض کو اور طہر کو دونوں کو قرء کہتے ہیں ۔ ابوعمر بن عبدالبر کا قول ہے کہ زبان عرب کے ماہر اور فقہاء کا اس میں اختلاف ہی نہیں کہ طہر اور حیض دونوں کے معنی قرء کے ہیں البتہ اس آیت کے معنی مقرر کرنے میں ایک جماعت اس طرف گئی اور دوسری اس طرف ۔ ( مترجم کی تحقیق میں بھی قرء سے مراد یہاں حیض لینا ہی بہتر ہے ) ۔ پھر فرمایا ان کے رحم میں جو ہوا اس کا چھپانا حلال نہیں حمل ہو تو اور حیض آئے تو ۔ پھر فرمایا اگر انہیں اللہ اور قیامت پر ایمان ہو ، اس میں دھمکایا جا رہا ہے کہ حق کیخلاف نہ کہیں اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس خبر میں ان کی بات کا اعتبار کیا جائے گا کیونکہ اس پر کوئی بیرونی شہادت قائم نہیں کی جا سکتی اس لیے انہیں خبردار کر دیا گیا کہ عدت سے جلد نکل جانے کیلئے ( حیض نہ آیا ہو ) اور کہہ نہ دیں کہ انہیں حیض آ گیا یا عدت کو بڑھانے کیلئے ( حیض ) آیا مگر اسے چھپا نہ لیں اسی طرح حمل کی بھی خبر کر دیں ۔ پھر فرمایا کہ عدت کے اندر اس شوہر کو جس نے طلاق دی ہے لوٹا لینے کا پورا حق حاصل ہے جبکہ طلاق رجعی ہو یعنی ایک طلاق کے بعد اور دو طلاقوں کے بعد ، باقی رہی طلاق بائن یعنی تین طلاقیں جب ہو جائیں تو یاد رہے کہ جب یہ آیت اتری ہے تب تک طلاق بائن ہی نہیں بلکہ اس وقت تک جب چاہے طلاق ہو جائے سب رجعی تھیں طلاق بائن تو پھر اسلام کے احکام میں آئی کہ تین اگر ہو جائیں تو اب رجعت کا حق نہیں رہے گا ۔ جب یہ بات خیال میں رہے گی تو علماء اصول کے اس قاعدے کا ضعف بھی معلوم ہو جائے گا کہ ضمیر لوٹانے سے پہلے کے عام لفظ کی خصوصیت ہوتی ہے یا نہیں اس لیے کہ اس آیت کے وقت دوسری شکل تھی ہی نہیں ، طلاق کی ایک ہی صورت تھی «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ پھر فرماتا ہے کہ جیسے ان عورتوں پر مردوں کے حقوق ہیں ویسے ہی ان عورتوں کے مردوں پر بھی حقوق ہیں ۔ ہر ایک کو دوسرے کا پاس و لحاظ عمدگی سے رکھنا چاہیئے ، صحیح مسلم شریف میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجتہ الوداع کے اپنے خطبہ میں فرمایا لوگو عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو تم نے اللہ کی امانت کہہ کر انہیں لیا ہے اور اللہ کے کلمہ سے ان کی شرمگاہوں کو اپنے لیے حلال کیا ہے ، عورتوں پر تمہارا یہ حق ہے کہ وہ تمہارے فرش پر کسی ایسے کو نہ آنے دیں جس سے تم ناراض ہو اگر وہ ایسا کریں تو انہیں مارو لیکن مار ایسی نہ ہو کہ ظاہر ہو ، ان کا تم پر یہ حق ہے کہ انہیں اپنی بساط کے مطابق کھلاؤ پلاؤ پہناؤ اوڑاؤ ، (صحیح مسلم:1218:صحیح) ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ ہماری عورتوں کے ہم پر کیا حق ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم کھاؤ تو اسے بھی کھلاؤ جب تم پہنو تو اسے بھی پہناؤ ، اس کے منہ پر نہ مارو اسے گالیاں نہ دو ، اس سے روٹھ کر اور کہیں نہ بھیج دو ، ہاں گھر میں رکھو ، (سنن ابوداود:2142 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) اسی آیت کو پڑھ کر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے کہ میں پسند کرتا ہوں کہ اپنی بیوی کو خوش کرنے کیلئے بھی اپنی زینت کروں جس طرح وہ مجھے خوش کرنے کیلئے اپنا بناؤ سنگار کرتی ہے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:532/4) پھر فرمایا کہ مردوں کو ان پر فضیلت ہے ، جسمانی حیثیت سے بھی اخلاقی حیثیت سے بھی ، مرتبہ کی حیثیت سے بھی حکمرانی کی حیثیت سے بھی ، خرچ اخراجات کی حیثیت سے بھی دیکھ بھال اور نگرانی کی حیثیت سے بھی ، غرض دنیوی اور اخروی فضیلت کے ہر اعتبار سے ، جیسے اور جگہ ہے آیت «اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِہِمْ» ( 4 ۔ النسأ : 34 ) یعنی مرد عورتوں کے سردار ہیں اللہ تعالیٰ نے ایک کو ایک پر فضیلت دے رکھی ہے اور اس لیے بھی کہ یہ مال خرچ کرتے ہیں ۔ پھر فرمایا اللہ تعالیٰ اپنے نافرمانوں سے بدلہ لینے پر غالب ہے اور اپنے احکام میں حکمت والا ۔ البقرة
229 رسم طلاق میں آئینی اصلاحات اور خلع اسلام سے پہلے یہ دستور تھا کہ خاوند جتنی چاہے طلاقیں دیتا چلا جائے اور عدت میں رجوع کرتا جائے اس سے عورتوں کی جان غضب میں تھی کہ طلاق دی ، عدت گزرنے کے قریب آئی رجوع کر لیا ، پھر طلاق دے دی اس طرح عورتوں کو تنگ کرتے رہتے تھے ، پس اسلام نے حد بندی کر دی کہ اس طرح کی طلاقیں صرف دو ہی دے سکتے ہیں ۔ تیسری طلاق کے بعد لوٹا لینے کا کوئی حق نہ رہے گا ، سنن ابوداؤد میں باب ہے کہ تین طلاقوں کے بعد مراجعت منسوخ ہے ، پھر یہ روایت لائے ہیں کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما یہی فرماتے ہیں ،(سنن ابوداود:2195،قال الشیخ الألبانی:حسن صحیح) ابن ابی حاتم میں ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ نہ تو میں تجھے بساؤں گا نہ چھوڑوں گا ، اس نے کہا یہ کس طرح ؟ طلاق دے دوں گا اور جہاں عدت ختم ہونے کا وقت آیا تو رجوع کر لوں گا ، پھر طلاق دے دوں گا ، پھر عدت ختم ہونے سے پہلے رجوع کر لوں گا اور یونہی کرتا چلا جاؤں گا ۔ وہ عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور اپنا یہ دُکھ رونے لگی اس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی ۔(مؤطا:588/2:مرسل و ضعیف) ایک اور روایت میں ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد لوگوں نے نئے سرے سے طلاقوں کا خیال رکھنا شروع کیا اور وہ سنبھل گئے ، (سنن ترمذی:1192 ، قال الشیخ الألبانی:حسن) اور تیسری طلاق کے بعد اس خاوند کو لوٹا لینے کا کوئی حق حاصل نہ رہا اور فرما دیا گیا کہ دو طلاقوں تک تو تمہیں اختیار ہے کہ اصلاح کی نیت سے اپنی بیوی کو لوٹا لو اگر وہ عدت کے اندر ہے اور یہ بھی اختیار ہے کہ نہ لوٹاؤ اور عدت گزر جانے دو تاکہ وہ دوسرے سے نکاح کرنے کے قابل ہو جائے اور اگر تیسری طلاق دینا چاہتے ہو تو بھی احسان و سلوک کے ساتھ ورنہ اس کا کوئی حق نہ مارو ، اس پر کوئی ظلم نہ کرو ، اسے ضرر و نقصان نہ پہنچاؤ ، (تفسیر ابن جریر الطبری:543/4) ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ دو طلاقیں تو اس آیت میں بیان ہو چکی ہیں تیسری کا ذِکر کہاں ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آیت «الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاکٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِیحٌ بِإِحْسَانٍ» ( البقرہ : 229 ) میں ، جب تیسری طلاق کا ارادہ کرے تو عورت کو تنگ کرنا اس پر سختی کرنا تاکہ وہ اپنا حق چھوڑ کر طلاق پر آمادگی ظاہر کرے ، یہ مردوں پر حرام ہے ۔ جیسے اور جگہ ہے آیت «وَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ لِتَذْہَبُوْا بِبَعْضِ مَآ اٰتَیْتُمُوْھُنَّ اِلَّآ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَۃٍ مٰبَیِّنَۃٍ» الخ (4-النساء:19) ، یعنی عورتوں کو تنگ نہ کرو تاکہ انہیں دئیے ہوئے میں سے کچھ لے لو ، ہاں یہ اور بات ہے کہ عورت اپنی خوشی سے کچھ دے کر طلاق طلب کرے جیسے فرمایا آیت «فَاِنْ طِبْنَ لَکُمْ عَنْ شَیْءٍ مِّنْہُ نَفْسًا فَکُلُوْہُ ہَنِیْــــــًٔـا مَّرِیْـــــــًٔـا» ( 4 ۔ النسآء : 4 ) یعنی اگر عورتیں اپنی راضی خوشی سے کچھ چھوڑ دیں تو بیشک وہ تمہارے لیے حلال طیب ہے اور جب میاں بیوی میں نااتفاقی بڑھ جائے عورت اس سے خوش نہ ہو اور اس کے حق کو نہ بجا لاتی ہو ایسی صورت میں وہ کچھ لے دے کر اپنے خاوند سے طلاق حاصل کر لے تو اسے دینے میں اور اسے لینے میں کوئی گناہ نہیں ۔ یہ بھی یاد رہے کہ اگر عورت بلاوجہ اپنے خاوند سے خلع طلب کرتی ہے تو وہ سخت گنہگار ہے چنانچہ ترمذی وغیرہ میں حدیث ہے کہ جو عورت اپنے خاوند سے بےسبب طلاق طلب کرے اس پر جنت کی خوشبو بھی حرام ہے ، (سنن ترمذی:1187 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) اور روایت میں ہے کہ حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس سال کی دوری سے آتی ہے ، اور روایت میں ہے کہ ایسی عورتیں منافق ہیں ، (سنن ترمذی:1186 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) آئمہ سلف و خلف کی ایک بڑی جماعت کا فرمان ہے کہ خلع صرف اسی صورت میں ہے کہ نافرمانی اور سرکشی عورت کی طرف سے ہو ، اس وقت مرد فدیہ لے کر اس عورت کو الگ کر سکتا ہے جیسے قرآن پاک کی اس آیت میں ہے اس کے سوا کی صورت میں یہ سب جائز نہیں ، بلکہ امام مالک رحمہ اللہ تو فرماتے ہیں کہ اگر عورت کو تکلیف پہنچا کر اس کے حق میں کمی کر کے اگر اسے مجبور کیا گیا اور اس سے کچھ مال واپس لیا گیا تو اس کا لوٹا دینا واجب ہے ، امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب حالت اختلاف میں جائز ہے تو حالت اتفاق میں بطور اولیٰ جائز ٹھہرے گا ، بکر بن عبداللہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سرے سے خلع منسوخ ہے کیونکہ قرآن میں ہے آیت «وَّاٰتَیْتُمْ اِحْدٰیھُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَاْخُذُوْا مِنْہُ شَـیْـــًٔـا» ( 4 ۔ النسآء : 20 ) یعنی اگر تم نے اپنی بیویوں کو ایک خزانہ بھی دے رکھا ہو ، تو بھی اس میں سے کچھ بھی نہ لو ، لیکن یہ قول ضعیف ہے اور مردود ہے ۔ اب آیت کا شان نزول سنیے! موطا امام مالک میں ہے کہ حبیبہ بنت سہل انصاریہ رضی اللہ عنہا سیدنا ثابت بن قیس شماس رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن صبح کی نماز کیلئے اندھیرے اندھیرے نکلے تو دیکھا کہ دروازے پر حبیبہ رضی اللہ عنہا کھڑی ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کون ہے ؟ کہا میں حبیبہ بنت سہل ہوں ۔ فرمایا کیا بات ہے ؟ کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کے گھر میں نہیں رہ سکتی یا وہ نہیں یا میں نہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سن کر خاموش رہے ۔ جب ثابت رضی اللہ عنہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہاری بیوی صاحبہ کچھ کہہ رہی ہیں ۔ حبیبہ رضی اللہ عنہا نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے خاوند مجھے جو دیا ہے وہ سب میرے پاس ہے اور میں اسے واپس کرنے پر آمادہ ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت کو فرمایا سب لے لو ، چنانچہ انہوں نے لے لیا اور حبیبہ رضی اللہ عنہا (سنن ابوداود:2227 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) آزاد ہو گئیں ۔ ایک روایت میں ہے کہ سیدنا ثابت رضی اللہ عنہ نے انہیں مارا تھا اور اس مار سے کوئی ہڈی ٹوٹ گئی تھی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں یہ فرمایا اس وقت انہوں نے دریافت کیا کہ کیا میں یہ مال لے سکتا ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ، کہا میں نے اسے دو باغ دئیے ہیں ، یہ سب واپس دلوا دیجئیے ۔ وہ مہر کے دونوں باغ واپس کئے گئے اور جدائی ہو گئی ۔ (سنن ابوداود:2228 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) ایک اور روایت میں ہے کہ حبیبہ رضی اللہ عنہا نے یہ بھی فرمایا تھا کہ میں اس کے اخلاق اور دین میں عیب گیری نہیں کرتی لیکن میں اسلام میں کفر کو ناپسند کرتی ہوں چنانچہ مال لے کر سیدنا ثابت رضی اللہ عنہما نے طلاق دے دی ۔ (صحیح بخاری:5272) بعض روایات میں ان کا نام جمیلہ بھی آیا ہے ۔ (صحیح بخاری:5277) بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ مجھے اب غیظ و غضب کے برداشت کی طاقت نہیں رہی ۔ (سنن ابن ماجہ:2056 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو دِیا ہے لے لو ، زیادہ نہ لینا ۔ (سنن ابن ماجہ:2056 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) ایک روایت میں ہے کہ حبیبہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا تھا وہ صورت کے اعتبار سے بھی کچھ حسین نہیں ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:4814:صحیح) ایک روایت میں ہے کہ یہ سیدنا عبداللہ بن ابی رضی اللہ عنہما کی بہن تھیں اور سب سے پہلا خلع تھا جو اسلام میں ہوا ۔ ایک وجہ یہ بھی بیان کی تھی کہ یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم میں نے ایک مرتبہ خیمے کے پردہ کو جو اٹھایا تو دیکھا کہ میرے خاوند چند آدمیوں کے ساتھ آ رہے ہیں ، ان تمام میں یہ سیاہ فام چھوٹے قد والے اور بدصورت تھے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان پر کہ اس کا باغ واپس کرو ، حبیبہ رضی اللہ عنہا نے کہا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمائیں تو میں کچھ اور بھی دینے کو تیار ہوں ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:4811:حسن) اور روایت میں ہے کہ حبیبہ رضی اللہ عنہا نے یہ بھی کہا تھا کہ یا رسول اللہ ! اگر اللہ تعالٰی کا خوف نہ ہوتا تو میں اس کے منہ پر تھوک دیا کرتی ، (سنن ابن ماجہ:2057 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) جمہور کا مذہب تو یہ ہے کہ خلع عورت اپنے سے دئیے ہوئے سے زیادہ لے تو بھی جائز ہے کیونکہ قرآن نے آیت «فَلَاجُنَاحَ عَلَیْھِمَا فِـیْمَا افْتَدَتْ بِہٖ» ( 2 ۔ البقرہ : 229 ) میں فرمایا ہے ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کے پاس ایک عورت اپنے خاوند سے بگڑی ہوئی آئی ، آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا اسے گندگی والے گھر میں قید کر دو پھر قید خانہ سے اسے بلوایا اور کہا کیا حال ہے ؟ اس نے کہا آرام کی راتیں مجھ پر میری زندگی میں یہی گزری ہیں ۔ آپ رضی اللہ عنہما نے اس کے خاوند سے فرمایا اس سے خلع کر لے ۔ اگرچہ گوشوارہ کے بدلے ہی ہو ، ایک روایت میں ہے اسے تین دن وہاں قید رکھا تھا ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا اگر یہ اپنی چٹیا کی دھجی بھی دے تو لے لے اور اسے الگ کر دے ۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اس کے سوا سب کچھ لے کر بھی خلع ہو سکتا ہے ۔ ربیع بنت معوذ بن عفراء فرماتی ہیں میرے خاوند اگر موجود ہوتے تو بھی میرے ساتھ سلوک کرنے میں کمی کرتے اور کہیں چلے جاتے تو بالکل ہی محروم کر دیتے ۔ ایک مرتبہ جھگڑے کے موقع پر میں نے کہہ دیا کہ میری ملکیت میں جو کچھ ہے لے لو اور مجھے خلع دو ۔ اس نے کہا اور یہ معاملہ فیصل ہو گیا لیکن میرے چچا سیدنا معاذ بن عفراء رضی اللہ عنہما اس قصہ کو لے کر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہما کے پاس گئے ۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہما نے بھی اسے برقرار رکھا اور فرمایا کہ چوٹی کی دھجی چھوڑ کر سب کچھ لے لو ، بعض روایتوں میں ہے یہ بھی اور اس سے چھوٹی چیز بھی غرض سب کچھ لے لو ، پس مطلب ان واقعات کا یہ ہے کہ یہ دلیل ہے اس پر کہ عورت کے پاس جو کچھ ہے دے کر وہ خلع کرا سکتی ہے اور خاوند اپنی دی ہوئی چیز سے زائد لے کر بھی خلع کر سکتا ہے ۔ سیدنا ابن عمر ، ابن عباس ، رضی اللہ عنہما مجاہد ، عکرمہ ، ابراہیم ، نخعی ، قیصہ بن ذویب ، حسن بن صالح عثمان رحم اللہ اجمعین بھی یہی فرماتے ہیں ۔ امام مالک ، لیث ، امام شافعی اور ابوثور رحمہ اللہ علیہم کا مذہب بھی یہی ہے ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں اور اصحاب ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ اگر قصور اور ضرر رسانی عورت کی طرف سے ہو تو خاوند کو جائز ہے کہ جو اس نے دیا ہے واپس لے لے ، لیکن اس سے زیادہ لینا جائز نہیں ۔ گو زیادہ لے لے تو بھی قضاء کے وقت جائز ہو گا اور اگر خاوند کی اپنی جانب سے زیادتی ہو تو اسے کچھ بھی لینا جائز نہیں ۔ گو ، لے لے تو قضاء جائز ہو گا ۔ امام احمد ابوعبید اور اسحٰق بن راھویہ رحمہ اللہ علیہم فرماتے ہیں کہ خاوند کو اپنے دئیے ہوئے سے زیادہ لینا جائز ہی نہیں ۔ سعید بن مسیب عطاء عمرو بن شعیب زہری طاؤس حسن شعبی حماد بن ابو سلیمان اور ربیع بن انس رحمہ اللہ علیہم کا بھی یہی مذہب ہے ۔ معمر اور حاکم کہتے ہیں سیدنا علی رضی اللہ عنہما کا بھی یہ فیصلہ ہے ۔ اوزاعی کا فرمان ہے کہ قاضیوں کا فیصلہ ہے کہ دئیے ہوئے سے زیادہ کو جائز نہیں جانتے ۔ اس مذہب کی دلیل وہ حدیث بھی ہے جو اوپر بیان ہو چکی ہے جس میں ہے کہ اپنا باغ لے لو اور اس سے زیادہ نہ لو ۔ مسند عبد بن حمید میں بھی ایک مرفوع حدیث ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خلع لینے والی عورت سے اپنے دئیے ہوئے سے زیادہ لینا مکروہ رکھا ، (دار قطنی:255/3:مرسل و ضعیف) اور اس صورت میں جو کچھ فدیہ وہ دے لے گا ، کا لفظ قرآن میں ہے ۔ اس کے معنی یہ ہوں گے کہ دئیے ہوئے میں سے جو کچھ دے ، کیونکہ اس سے پہلے یہ فرمان موجود ہے کہ تم نے جو انہیں دیا ہے اس میں سے کچھ نہ لو ، ربیع کی قرأت میں «بِہِ» کے بعد «مِنْہُ» کا لفظ بھی ہے ۔ پھر فرمایا کہ یہ حدود اللہ ہیں ان سے تجاوز نہ کرو ورنہ گنہگار ہوں گے ۔ ( فصل ) خلع کو بعض حضرات طلاق میں شمار نہیں کرتے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ اگر ایک شخص نے اپنی بیوی کو دو طلاقیں دے دیں ہیں پھر اس عورت نے خلع کرا لیا ہے تو اگر خاوند چاہے تو اس سے پھر بھی نکاح کر سکتا ہے اور اس پر دلیل یہی آیت وارد کرتے ہیں ۔ یہ قول سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ہے ، حضرت عکرمہ رحمہ اللہ بھی فرماتے ہیں کہ یہ طلاق نہیں ، دیکھو آیت کے اول و آخر طلاق کا ذِکر ہے پہلے دو طلاقوں کا پھر آخر میں تیسری طلاق کا اور درمیان میں جو خلع کا ذِکر ہے ۔ پس معلوم ہوا کہ خلع طلاق نہیں بلکہ فسخ ہے ۔ امیر المؤمنین سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہما اور ابن عمر رضی اللہ عنہما طاؤس عکرمہ ، احمد بن حنبل ، اسحاق بن راہویہ ، ابوثور ، داؤد بن علی ظاہری رحمہ اللہ علیہم کا بھی یہی مذہب ہے ۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا بھی قدیم قول یہی ہے اور آیت کے ظاہری الفاظ بھی یہی ہیں ۔ بعض دیگر بزرگ فرماتے ہیں کہ خلع طلاق بائن ہے اور اگر ایک سے زیادہ کی نیت ہو گی تو وہ بھی معتبر ہے ۔ ایک روایت میں ہے کہ ام بکر اسلمیہ نے اپنے خاوند عبداللہ بن خالد سے خلع لیا اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہما نے اسے ایک طلاق ہونے کا فتویٰ دیا اور ساتھ ہی فرما دیا کہ اگر کچھ سامان لیا ہو تو جتنا سامان لیا ہو وہ ہے ، لیکن یہ اثر ضعیف ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ سیدنا عمر ، سیدنا علی ، ابن مسعود ، ابن عمر رضی اللہ عنہم ، سعید بن مسیب ، حسن ، عطا ، شریح ، شعبی ، ابراہیم ، جابر بن زید ، مالک ، ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہم اور ان کے ساتھی ثوری ، اوزاعی ، ابوعثمان بتی رحمہ اللہ علیہم کا یہی قول ہے کہ خلع طلاق ہے ۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا بھی جدید قول یہی ہے ، ہاں حنیفہ کہتے ہیں کہ اگر دو طلاق کی نیت خلع دینے والے کی ہے تو دو ہو جائیں گی ۔ اگر کچھ کچھ لفظ نہ کہے اور مطلق خلع ہو تو ایک طلاق بائن ہو گی اگر تین کی نیت ہے تو تین ہو جائیں گی ۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا ایک اور قول بھی ہے کہ اگر طلاق کا لفظ نہیں اور کوئی دلیل و شہادت بھی نہیں تو وہ بالکل کوئی چیز نہیں ۔ مسئلہ امام ابوحنیفہ ، شافعی احمد ، اسحٰق بن راہویہ رحمہم اللہ کا مسلک ہے کہ خلع کی عدت طلاق کی عدت ہے ۔ سیدنا عمر علی ابن مسعود رضی اللہ عنہم اور سعید بن مسیب ، سلمان بن یسار ، عروہ ، سالم ، ابوسلمہ ، عمر بن عبدالعزیز ، ابن شہاب ، حسن ، شعبی ، ابراہیم نخعی ، ابوعیاض ، خلاس بن عمرو ، قتادہ ، سفیان ثوری ، اوزاعی ، لیث بن سعد اور ابوعبید رحمتہ اللہ علیہم اجمعین کا بھی یہی فرمان ہے ۔ امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اکثر اہل علم اسی طرف گئے ہیں وہ کہتے ہیں کہ چونکہ خلع طلاق ہے لہٰذا عدت اس کی عدت طلاق کے مثل ہے ، دوسرا قول یہ ہے کہ صرف ایک حیض اس کی عدت ہے ۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہما کا یہی فیصلہ ہے ، سیدنا ابن عمر گو تین حیض کا فتویٰ دیتے تھے لیکن ساتھ ہی فرما دیا کرتے تھے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہما ہم سے بہتر ہیں اور ہم سے بڑے عالم ہیں ، اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ایک حیض کی مدت بھی مروی ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ ، عکرمہ ، امان بن عثمان رحمہ اللہ اور تمام وہ لوگ جن کے نام اوپر آئے ہیں جو خلع کو فسخ کہتے ہیں ضروری ہے کہ ان سب کا قول بھی یہی ہو ، ابوداؤد اور ترمذی کی حدیث میں بھی یہی ہے کہ سیدنا ثابت بن قیس کی بیوی صاحبہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صورت میں ایک حیض عدت گزارنے کا حکم دیا تھا ، (سنن ابوداود:2229 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) ترمذی میں ہے کہ سیدہ ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا کو بھی خلع کے بعد ایک ہی حیض عدت گزارنے کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان صادر ہوا تھا ۔ (سنن ترمذی:1185 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے خلع والی عورت سے فرمایا تھا کہ تجھ پر عدت ہی نہیں ۔ ہاں اگر قریب کے زمانہ میں ہی خاوند سے ملی ہو تو ایک حیض آ جانے تک اس کے پاس ٹھہری رہو ۔ مریم مغالبہ کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جو فیصلہ تھا اس کی متابعت امیر المؤمنین نے کی ۔ (سنن نسائی:3528 ، قال الشیخ الألبانی:حسن صحیح) مسئلہ جمہور علمائے کرام اور چاروں اماموں کے نزدیک خلع والی عورت سے رجوع کرنے کا حق خاوند کو حاصل نہیں ، اس لیے کہ اس نے مال دے کر اپنے تئیں آزاد کرا لیا ہے ۔ عبداللہ بن ابی اوفی ، ماہان حنفی ، سعید اور زہری رحمہ اللہ علیہم کا قول ہے کہ اگر واپس کیا پھیر دے تو حق رجعت حاصل ہے بغیر عورت کی رضا مندی کے بھی رجوع کر سکتا ہے ۔ سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر خلع میں طلاق کا لفظ نہیں تو وہ صرف جدائی ہے اور رجوع کرنے کا حق نہیں اور اگر طلاق کا نام لیا ہے تو بیشک وہ رجعت کا پورا پورا حقدار ہے ، داؤد ظاہری رحمہ اللہ بھی یہی فرماتے ہیں ، ہاں سب کا اتفاق ہے کہ اگر دونوں رضامند ہوں تو نیا نکاح عدت کے اندر اندر کر سکتے ہیں ۔ ابو عمر بن عبدالبر فرقہ سے یہ قول بھی روایت کرتے ہیں کہ اگر دونوں رضا مند ہوں تو نیا نکاح عدت کے ابدر اندر کر سکتے ہیں ، ابعمر بن عبدالبر فرقہ سے یہ قول بھی روایت کرتے ہیں کہ عدت کے اندر جس طرح دوسرا کوئی اس سے نکاح نہیں کر سکتا ، اسی طرح خلع دینے والا خاوند بھی نکاح نہیں کر سکتا ، لیکن یہ قول شاذ اور مردود ہے ۔ مسئلہ اس عورت پر عدت کے اندر اندر دوسری طلاق بھی واقع ہو سکتی ہے یا نہیں ؟ اس میں علماء کے تین قول ہیں ۔ ایک یہ کہ نہیں ، کیونکہ وہ عورت اپنے نفس کی مالکہ ہے اور اس خاوند سے الگ ہو گئی ہے ، سیدنا ابن عباس ابن زبیر رضی اللہ عنہما عکرمہ جابر بن زید حسن بصری شافعی احمد اسحاق ابوثور رحمہ اللہ علیہم کا یہی قول ہے ۔ دوسرا قول امام مالک رحمہ اللہ کا ہے کہ اگر خلع کے ساتھ ہی بغیر خاموش رہے طلاق دیدے تو واقع ہو جائے گی ورنہ نہیں ، یہ مثل اس کے ہے جو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہما سے مروی ہے ۔ تیسرا قول یہ ہے کہ عدت میں طلاق واقع ہو جائے گی ۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ان کے اصحاب ، ثوری ، اوزاعی ، سعید بن مسیب ، شریح ، طاؤس ، ابراہیم ، زہری ، حاکم ، حکم اور حماد رحمہ اللہ علیہم کا بھی یہی قول ہے ۔ سیدنا ابن مسعود اور ابوالدرداء رضی اللہ عنہما سے بھی یہ مروی تو ہے لیکن ثابت نہیں ۔ پھر فرمایا ہے کہ یہ اللہ کی حدیں ہیں ۔ صحیح حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ کی حدوں سے آگے نہ بڑھو ، فرائض کو ضائع نہ کرو ، محارم کی بے حرمتی نہ کرو ، جن چیزوں کا ذِکر شریعت میں نہیں تم بھی ان سے خاموش رہو کیونکہ اللہ کی ذات بھول چوک سے پاک ہے ۔ (حاکم:115/4:ضعیف و منقطع) اس آیت سے استدلال ہے ان لوگوں کا جو کہتے ہیں کہ تینوں طلاقیں ایک مرتبہ ہی دینا حرام ہیں ۔ مالکیہ اور ان کے موافقین کا یہی مذہب ہے ، ان کے نزدیک سنت طریقہ یہی ہے کہ طلاق ایک ایک دی جائے کیونکہ آیت «الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاکٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِیحٌ بِإِحْسَانٍ» ( البقرہ : 229 ) کہا پھر فرمایا کہ یہ حدیں ہیں اللہ کی ، ان سے تجاوز نہ کرو ، اس کی تقویت اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو سنن نسائی میں ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک مرتبہ یہ معلوم ہوا کہ کسی شخص نے اپنی بیوی کو تینوں طلاقیں ایک ساتھ دی ہیں ۔ آپ سخت غضبناک ہو کر کھڑے ہو گئے اور فرمانے لگے کیا میری موجودگی میں کتاب اللہ کے ساتھ کھیلا جانے لگا ۔ یہاں تک کہ ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اجازت دیں تو میں اس شخص کو قتل کروں ، لیکن اس روایت کی سند میں انقطاع ہے ۔ (سنن نسائی:3430 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) البقرة
230 1 پھر ارشاد ہے کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی کو دو طلاقیں دے چکنے کے بعد تیسری بھی دیدے تو وہ اس پر حرام ہو جائے گی یہاں تک کہ دوسرے سے باقاعدہ نکاح ہو ، ہم بستری ہو ، پھر وہ مر جائے یا طلاق دیدے ۔ پس اگر نکاح کے مثلاً لونڈی بنا کر وطی بھی کر لے تو بھی اگلے خاوند کیلئے حلال نہیں ہو سکتی ۔ اسی طرح گو نکاح باقاعدہ ہو لیکن اس دوسرے خاوند نے مجامعت نہ کی ہو تو بھی پہلے شوہر کیلئے حلال نہیں ۔ اکثر فقہاء میں مشہور ہے کہ سعید بن مسیب رحمہ اللہ مجرم ( صرف ) عقد کو حلال کہتے ہیں گو میل نہ ہوا ہو ، لیکن یہ بات ان سے ثابت نہیں ۔ ایک حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ ایک شخص ایک عورت سے نکاح کرتا ہے اور دخول سے پہلے ہی طلاق دے دیتا ہے ، وہ دوسرا نکاح کرتی ہے وہ بھی دخول سے پہلے ہی طلاق دے دیتا ہے ، تو کیا اگلے خاوند کو اب اس سے نکاح کرنا حلال ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں نہیں ، جب تک کہ یہ اس سے اور وہ اس سے لطف اندوز نہ ہو لیں ۔ (سنن نسائی:3443 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح لغیرہ) اس روایت کے راوی سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے خود امام بن مسیب رحمہ اللہ ہیں ، پس کیسے ممکن ہے کہ وہ روایت بھی کریں اور پھر مخالفت بھی کریں اور پھر وہ بھی بلادلیل ۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ عورت رخصت ہو کر جاتی ہے ، ایک مکان میں میاں بیوی جاتے ہیں ، پردہ ڈال دیا جاتا ہے لیکن آپس میں صحبت نہیں ہوتی ، جب بھی یہی حکم ہے ۔ خود آپ کے زمانہ میں ایسا واقعہ ہوا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے خاوند کی اجازت نہ دی ۔ (مسند احمد:25/2) ایک روایت میں ہے کہ رفاعہ قرظی کی بیوی صاحبہ تمیمہ بنت وہب کو جب انہوں نے آخری تیسری طلاق دے دی تو ان کا نکاح عبدالرحمٰن بن زیبر رضی اللہ عنہ سے ہوا لیکن یہ شکایت لے کر دربارِ رسالت مآب میں آئیں اور کہا وہ عورت کے مطلب کے نہیں ، مجھے اجازت ہو کہ میں اگلے خاوند کے گھر چلی جاؤں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ نہیں ہو سکتا جب تک کہ تمہاری کسی اور خاوند سے مجامعت نہ ہو ، (مسند احمد:284/3:صحیح) ان احادیث کی بہت سی سندیں ہیں اور مختلف الفاظ سے مروی ہیں ۔ ( فصل ) یہ یاد رہے کہ مقصود دوسرے خاوند سے یہ ہے کہ خود اسے رغبت ہو اور ہمیشہ بیوی بنا کر رکھنے کا خواہشمند ہو ، کیونکہ نکاح سے مقصود یہی ہے ، یہ نہیں کہ اگلے خاوند کیلئے محض حلال ہو جائے اور بس ، بلکہ امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ بھی شرط ہے کہ یہ مجامعت بھی مباح اور جائز طریق پر ہو مثلاً عورت روزے سے نہ ہو ، احرام کی حالت میں نہ ہو ، اعتکاف کی حالت میں نہ ہو ، حیض یا نفاس کی حالت میں نہ ہو ، اسی طرح خاوند بھی روزے سے نہ ہو ، محرم یا معتکف نہ ہو ، اگر طرفین میں سے کسی کی یہ حالت ہو اور پھر چاہے وطی بھی ہو جائے پھر بھی پہلے شوہر پر حلال نہ ہو گی ۔ اسی طرح اگر دوسرا خاوند ذمی ہو تو بھی اگلے خاوند کیلئے حلال نہ ہو گی کیونکہ امام صاحب کے نزدیک کفار کے آپس کے نکاح باطل ہیں ۔ امام حسن بصری رحمہ اللہ تو یہ بھی شرط لگاتے ہیں کہ انزال بھی ہو کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ جب تک کہ وہ تیرا اور تو اس کا مزہ نہ چکھے ، اور اگر یہی حدیث ان کے پیشِ نظر ہو جائے تو چاہیئے کہ عورت کی طرف سے یہ بھی یہ شرط معتبر ہو لیکن حدیث کے لفظ «عسیلہ» سے منی مراد نہیں ، یہ یاد رہے ، کیونکہ مسند احمد اور نسائی میں حدیث ہے کہ «عسیلہ» سے مراد جماع ہے ۔ (مسند احمد:62/6:موقوف) اگر دوسرے خاوند کا ارادہ اس کے ساتھ نکاح سے یہ ہے کہ یہ عورت پہلے خاوند کیلئے حلال ہو جائے تو ایسے لوگوں کی مذمت بلکہ ملعون ہونے کی تصریح احادیث میں آ چکی ہے ، مسند احمد میں ہے گودنے والی ، گدوانے والی ، بال ملانے والی ، ملوانے والی عورتیں ملعون ، حلال کرنے والی اور جس کیلئے حلالہ کیا جاتا ہے ان پر بھی اللہ کی پھٹکار ہے ۔ سود خور اور سود کھلانے والے بھی لعنتی ہیں ۔ (سنن ترمذی:1120 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح بالشواھد) امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں صحابہ رضی اللہ عنہم کا عمل اسی پر ہے ۔ سیدنا عمر ، عثمان اور ابن عمر رضی اللہ عنہم کا یہی مذہب تابعین فقہاء بھی یہی کہتے ہیں ، سیدنا علی ابن مسعود اور ابن عباس رضی اللہ عنہم کا بھی یہی فرمان ہے اور روایت میں ہے کہ بیاج کی گواہی دینے والوں اور اس کے لکھنے پر بھی لعنت ہے ۔ زکوٰۃ کے نہ دینے والوں اور لینے میں زیادتی کرنے والوں پر بھی لعنت ہے ، ہجرت کے بعد لوٹ کر اعرابی بننے والے پر بھی پھٹکار ہے نوحہ کرنا بھی ممنوع ہے ، (مسند احمد:409/1:صحیح بالشواھد) ایک حدیث میں ہے میں تمہیں یہ بتاؤں کہ ادھار لیا ہوا سانڈ کون سا ہے ؟ لوگوں نے کہا ہاں ۔ فرمایا جو “ حلالہ کرے “ یعنی طلاق والی عورت سے اس لیے نکاح کرے کہ وہ اگلے خاوند کیلئے حلال ہو جائے ، اس پر اللہ کی لعنت ہے اور جو اپنے لیے ایسا کرائے وہ بھی ملعون ہے ۔ (سنن ابن ماجہ:1936 ، قال الشیخ الألبانی:حسن) ایک روایت میں ہے کہ ایسے نکاح کی بابت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ نکاح ہی نہیں جس میں مقصود اور ہو اور ظاہر اور ہو ، جس میں اللہ کی کتاب کے ساتھ مذاق اور ہنسی ہو ، نکاح صرف وہی ہے جو رغبت کے ساتھ ہو ، (میزان الاعتدال:19/1:ضعیف) مستدرک حاکم میں ہے کہ ایک شخص نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تیسری طلاق دے دی ، اس کے بعد اس کے بھائی نے بغیر اپنے بھائی کے کہے از خود اس سے اس ارادے سے نکاح کر لیا کہ یہ میرے بھائی کیلئے حلال ہو جائے ، تو آیا یہ نکاح صحیح ہو گیا ؟ آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا ہرگز نہیں ، ہم تو اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں زنا شمار کرتے تھے ۔ نکاح وہی ہے جس میں رغبت ہو ، (حاکم:192/2:صحیح) اس حدیث کے پچھلے جملے نے گو اِسے موقوف سے حکم میں مرفوع کر دیا ، بلکہ ایک اور روایت میں ہے کہ امیرالمومنین عمر فاروق رضی اللہ عنہما نے فرمایا اگرت کوئی ایسا کرے گا یا کرائے گا تو میں دونوں کو زنا کی حد لگاؤں گا یعنی رجم کروں گا ، (تفسیر ابن جریر الطبری:598/4) خلیفہ وقت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے ایسے نکاح میں تفریق کر دی ، اسی طرح سیدنا علی اور ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ بہت سے صحابہ کرام سے بھی یہی مروی ہے ۔ پھر فرمان ہے کہ اگر دوسرا خاوند نکاح اور وطی کے بعد طلاق دے تو پہلے خاوند پر پھر اسی عورت سے نکاح کر لینے میں کوئی گناہ نہیں جبکہ یہ اچھی طرح گزر اوقات کر لیں اور یہ بھی جان لیں کہ وہ دوسرا نکاح صرف دھوکہ اور مکر و فریب کا نہ تھا بلکہ حقیقت تھی ۔ یہ ہیں احکام شرعی جنہیں علم والوں کیلئے اللہ نے واضح کر دیا ، آئمہ کا اس میں بھی اختلاف ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو دو یا ایک طلاق دے دی ، پھر چھوڑے رہا یہاں تک کہ وہ عدت سے نکل گئی ، پھر اس نے دوسرے سے گھر بسا لیا ، اس سے ہمبستری بھی ہوئی ، پھر اس نے بھی طلاق دے دی اور اس کی عدت ختم ہو چکی ، پھر اگلے خاوند نے اس سے نکاح کر لی تو اسے تین میں سے جو طلاقیں یعنی ایک یا دو جو باقی ہیں صرف انہی کا اختیار رہے گا یا پہلے کی طرح طلاقیں گنتی سے ساقط ہو جائیں گی اور اسے از سر نو تینوں طلاقوں کا حق حاصل ہو جائے گا ، پہلا مذہب تو ہے امام مالک امام شافعی اور امام احمد رحمہ اللہ علیہم کا اور صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت کا ، دوسرا مذہب ہے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے ساتھیوں کا اور ان کی دلیل یہ ہے کہ جب اس طرح تیسری طلاق ہو ، گنتی میں نہیں آئی تو پہلی دوسری کیا آئے گی ، «وَاللہُ اَعْلَمُ» البقرة
231 آئین طلاق کی وضاحت مردوں کو حکم ہو رہا ہے کہ جب وہ اپنی بیویوں کو طلاق دیں جن حالتوں میں لوٹا لینے کا حق انہیں حاصل ہے اور عدت ختم ہونے کے قریب پہنچ جائے یا عمدگی کے ساتھ لوٹائے یعنی رجعت پر گواہ مقرر کرے اور اچھائی سے بسانے کی نیت رکھے یا اسے عمدگی سے چھوڑ دے اور عدت ختم ہونے کے بعد اپنے ہاں بغیر اختلاف جھگڑے دشمنی اور بد زبانی کے نکال دے ، جاہلیت کے اس دستور کو اسلام نے ختم کر دیا کہ طلاق دے دی ، عدت ختم ہونے کے قریب رجوع کر لیا ، پھر طلاق دے دی پھر رجوع کر لیا ، یونہی اس دُکھیا عورت کی عمر برباد کر دیتے تھے کہ نہ وہ سہاگن ہی رہے نہ بیوہ ، تو اس سے اللہ نے روکا اور فرمایا کہ ایسا کرنے والا ظالم ہے ۔ پھر فرمایا اللہ کی آیتوں کو ہنسی نہ بناؤ ۔ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اشعری قبیلہ پر ناراض ہوئے تو سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے حاضرِ خدمت ہو کر ( ان اصلاحات طلاق کے بارے میں ) سبب دریافت کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیونکہ یہ لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ میں نے طلاق دی ، میں نے رجوع کیا ۔ یاد رکھو مسلمانوں کی یہ طلاقیں نہیں ۔ عورتوں کی عدت کے مطابق طلاقیں دو ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:4928:ضعیف) اس حکم کا یہ بھی مطلب لیا گیا ہے کہ ایک شخص ہے جو بلاوجہ طلاق دیتا ہے اور عورت کو ضرر پہنچانے کیلئے اور اس کی عدت لمبی کرنے کیلئے رجوع ہی کرتا چلا جاتا ہے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایک شخص ہے جو طلاق دے یا آزاد کرے یا نکاح کرے پھر کہہ دے کہ میں نے تو ہنسی ہنسی میں یہ کیا ۔ ایسی صورتوں میں یہ تینوں کام فی الحقیقت واضح ہو جائیں گے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دی پھر کہہ دیا کہ میں نے تو مذاق کیا تھا ، اس پر یہ آیت اتری اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ طلاق ہو گئی ۔ (دارالمنثور:509/1) حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ لوگ طلاق دے دیتے ، آزاد کر دیتے ، نکاح کر لیتے اور پھر کہہ دیتے کہ ہم نے بطور دِل لگی کے یہ کیا تھا ، اس پر یہ آیت اتری اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو طلاق یا غلام آزاد کرے یا نکاح کرا دے خواہ پختگی کے ساتھ خواہ ہنسی مذاق میں وہ سب ہو گیا ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:4926) یہ حدیث مرسل اور موقوف کئی سندوں سے مروی ہے ۔ ابوداؤد ترمذی اور ابن ماجہ میں حدیث ہے کہ تین چیزیں ہیں کہ پکے ارادے سے ہوں ، دِل لگی سے ہوں تو تینوں پر اطلاق ہو جائے گا ۔ نکاح ، طلاق اور رجعت(سنن ابوداود:3434 ، قال الشیخ الألبانی:حسن) ۔ امام ترمذی اسے حسن غریب کہتے ہیں ۔ اللہ کی نعمت یاد کرو کہ اس نے رسول بھیجے ہدایت اور دلیلیں نازل فرمائیں ، کتاب اور سنت سکھائی حکم بھی کئے ، منع بھی کئے وغیرہ وغیرہ ۔ جو کام کرو اور جو کام نہ کرو ہر ایک میں اللہ جل شانہ سے ڈرتے رہا کرو اور جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ ہر پوشیدہ اور ہر ظاہر کو بخوبی جانتا ہے ۔ البقرة
232 ورثاء کے لئے طلاق کی مزید آئینی وضاحت اس آیت میں عورتوں کے ولی وارثوں کو ممانعت ہو رہی ہے کہ جب کسی عورت کو طلاق ہو جائے اور عدت بھی گزر جائے پھر میاں بیوی اپنی رضا مندی سے نکاح کرنا چاہیں تو وہ انہیں نہ روکیں ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:22/5) اس آیت میں اس امر کی بھی دلیل ہے کہ عورت خود اپنا نکاح نہیں کر سکتی اور نکاح بغیر ولی کے نہیں ہو سکتا چنانچہ ترمذی اور ابن جریر نے اس آیت کی تفسیر میں یہ حدیث وارد کی ہے کہ عورت عورت کا نکاح نہیں کر سکتی نہ عورت اپنا نکاح آپ کر سکتی ہے ۔ وہ عورتیں زنا کار ہیں جو اپنا نکاح آپ کر لیں ۔ (سنن ابن ماجہ:1882 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح بدون الجملۃ) دوسری حدیث میں ہے نکاح بغیر راہ یافتہ کے اور دو عادل گواہوں کے نہیں ، (دار قطنی:225/3) گو اس مسئلہ میں بھی اختلاف ہے لیکن اس کے بیان کی جگہ تفسیر نہیں ۔ ہم اس کا بیان کتاب الاحکام میں کر چکے ہیں «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» ۔ یہ آیت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ اور ان کی ہمشیرہ صاحبہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ صحیح بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر کے بیان میں ہے کہ سیدنا معقل بن یسار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میری بہن کا منگیتر میرے پاس آتا تھا ۔ میں نے نکاح کر دیا ۔ اس نے کچھ دِنوں بعد طلاق دے دی ۔ پھر عدت گزر جانے کے بعد نکاح کی درخواست کی ، میں نے انکار کر دیا ۔ اس پر یہ آیت اتری ۔ (صحیح بخاری:4529) جسے سن کر سیدنا معقل رضی اللہ عنہ نے باوجود یہ کہ قسم کھا رکھی تھی کہ میں تیرے نکاح میں نہ دوں گا ، نکاح پر آمادہ ہو گئے اور کہنے لگے میں نے اللہ کا فرمان سنا اور میں نے مان لیا اور اپنے بہنوئی کو بلا کر دوبارہ نکاح کر دیا ۔ (سنن ابوداود:2087 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کیا ۔ ان کا نام جمیل بنت یسار رضی اللہ عنہا تھا ۔ ان کے خاوند کا نام ابوالبداح رضی اللہ عنہ تھا ۔ بعض نے ان کا نام فاطمہ بن یسار رضی اللہ عنہا بتایا ہے ۔ سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ اور ان کے چچا کی بیٹی کے بارے میں نازل ہوئی ہے لیکن پہلی بات ہی زیادہ صحیح ہے ۔ پھر یہ فرمایا یہ نصیحت و وعظ کیلئے ہے جنہیں شریعت پر ایمان ہو ، اللہ کا ڈر ہو ، قیامت کا خوف ہو ، انہیں چاہیئے کہ اپنی ولایت میں جو عورتیں ہوں انہیں ایسی حالت میں نکاح سے نہ روکیں ، شریعت کی اتباع کر کے ایسی عورتوں کو ان کے خاوندوں کے نکاح میں دے دینا اور اپنی حمیت و غیرت کو جو خلاف شرع ہو ، شریعت کے ماتحت کر دینا ہی تمہارے لیے بہتری اور پاکیزگی کا باعث ہے ۔ ان مصلحتوں کا علم جناب باری تعالیٰ کو ہی ہے ، تمہیں معلوم نہیں کہ کس کام کے کرنے میں بھلائی ہے اور کس کے چھوڑنے میں ۔ یہ علم حقیقت میں اللہ رب العزت ہی کو ہے ۔ البقرة
233 مسئلہ رضاعت یہاں اللہ تعالیٰ بچوں والیوں کو اشاد فرماتا ہے کہ پوری پوری مدت دودھ پلانے کی دو سال ہے ۔ اس کے بعد دودھ پلانے کا کوئی اعتبار نہیں ۔ اس سے دودھ بھائی پینا ثابت نہیں ہوتا اور نہ حرمت ہوتی ہے ۔ اکثر ائمہ کرام کا یہی مذہب ہے ۔ ترمذی میں باب ہے کہ رضاعت جو حرمت ثابت کرتی ہے وہ وہی ہے جو دو سال پہلے کی ہو ۔ پھر حدیث لائے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں وہی رضاعت حرام کرتی ہے جو آنتوں کو پر کر دے اور دودھ چھوٹھنے سے پہلے ہو ۔ (سنن ترمذی:1152 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) یہ حدیث حسن صحیح ہے اور اکثر اہل علم صحابہ وغیرہ کا اسی پر عمل ہے کہ دو سال سے پہلے کی رضاعت تو معتبر ہے ، اس کے بعد کی نہیں ۔ اس حدیث کے راوی شرط بخاری و مسلم پر ہیں ۔ حدیث میں فی الثدی کا جو لفظ ہے اس کے معنی بھی محل رضاعت کے یعنی دو سال سے پہلے کے ہیں ، یہی لفظ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت بھی فرمایا تھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے ابراہیم رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تھا کہ وہ دودھ پلائی کی مدت میں انتقال کر گئے ہیں اور انہیں دودھ پلانے والی جنت میں مقرر ہے ۔ (صحیح بخاری:1382) ابراہیم رضی اللہ عنہ کی عمر اس وقت ایک سال اور دس مہینے کی تھی ۔ دارقطنی میں بھی ایک حدیث دو سال کی مدت کے بعد کی رضاعت کے متعبر نہ ہونے کی ہے ۔ (دار قطنی:174/4:موقوف) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بھی فرماتے ہیں کہ اس کے بعد کوئی چیز نہیں ۔ ابوداؤد طیالسی کی روایت میں ہے کہ دودھ چھوٹ جانے کے بعد رضاعت نہیں اور بلوغت کے بعد یتیمی کا حکم نہیں ۔ (طیالسی:1767) خود قرآن کریم میں اور جگہ ہے آیت «وَفِصَالُہُ فِی عَامَیْنِأَنِ اشْکُرْ لِی وَلِوَالِدَیْکَ إِلَیَّ الْمَصِیرُ» ( 31-لقمان : 14 ) ، دودھ چھٹنے کی مدت دو سال میں ہے ۔ اور جگہ ہے آیت «وَحَمْلُہُ وَفِصَالُہُ ثَلَاثُونَ شَہْرًا» ( 46-الأحقاف : 15 ) یعنی حمل اور دودھ ( دونوں کی مدت ) تیس ماہ ہیں ۔ یہ قول کہ دو سال کے بعد دودھ پلانے اور پینے سے رضاعت کی حرمت ثابت نہیں ہوتی ، ان تمام حضرات کا ہے ۔ سیدنا علی ، ابن عباس ، ابن مسعود ، جابر ، ابوہریرہ ، ابن عمر ، اُم سلمہ رضوان اللہ علیہم اجمعین ، حضرت سعید بن المسیب ، عطاء رحمہ اللہ علیہم اور جمہور کا یہی مذہب ہے ۔ امام شافعی ، امام احمد ، امام اسحٰق ، امام ثوری ، امام ابویوسف ، امام محمد ، امام مالک رحمھم اللہ کا بھی یہی مذہب ہے ۔ گو ایک روایت میں امام مالک رحمہ اللہ سے دو سال دو ماہ بھی مروی ہیں اور ایک روایت میں دو سال تین ماہ بھی مروی ہیں ۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ڈھائی سال کی مدت بتلاتے ہیں ۔ زفر رحمہ اللہ کہتے ہیں جب تک دودھ نہیں چھٹا تو تین سالوں تک کی مدت ہے ، امام اوزاعی رحمہ اللہ سے بھی یہ روایت ہے ۔ اگر کسی بچہ کا دو سال سے پہلے دودھ چھڑوا لیا جائے پھر اس کے بعد کسی عورت کا دودھ وہ پئے تو بھی حرمت ثابت نہ ہو گی اس لیے کہ اب قائم مقام خوراک کے ہو گیا ۔ امام اوزاعی رحمہ اللہ سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ سیدنا عمر ، علی رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ دودھ چھڑوا لینے کے بعد رضاعت نہیں ۔ اس قول کے دونوں مطلب ہو سکتے ہیں یعنی یا تو یہ کہ دو سال کے بعد یا یہ کہ جب بھی اس سے پہلے دودھ چھٹ گیا ۔ اس کے بعد جیسے امام مالک رحمہ اللہ کا فرمان ہے ، «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ ہاں صحیح بخاری ، صحیح مسلم میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ وہ اس کے بعد کی ، بلکہ بڑے آدمی کی رضاعت کو حرمت میں مؤثر جانتی ہیں ۔ (صحیح مسلم:1453) عطاء اور لیث رحمہ اللہ کا بھی یہی قول ہے ۔ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا جس شخص کا کسی کے گھر زیادہ آنا جانا جانتیں تو وہاں حکم دیتیں کہ وہ عورتیں اسے اپنا دودھ پلائیں اور اس حدیث سے دلیل پکڑتی تھیں کہ سالم رضی اللہ عنہ کو جو ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کے مولیٰ تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا کہ وہ ان کی بیوی صاحبہ کا دودھ پی لیں ، حالانکہ وہ بڑی عمر کے تھے اور اس رضاعت کی وجہ سے پھر وہ برابر آتے جاتے رہتے تھے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری ازواج مطہرات اس کا انکار کرتی تھیں اور کہتی تھیں کہ یہ واقعہ خاص ان ہی کیلئے تھا ہر شخص کیلئے یہ حکم نہیں ، (سنن ابوداود:2061 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) یہی مذہب جمہور کا ہے یعنی چاروں اماموں ، ساتوں فقیہوں ، کل کے کل بڑے صحابہ کرام او تمام امہات المؤمنین کا سوائے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے اور ان کی دلیل وہ حدیث ہے جو بخاری و مسلم میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دیکھ لیا کرو کہ تمہارے بھائی کون ہیں ، رضاعت اس وقت ہے جب دودھ بھوک مٹا سکتا ہو ، (صحیح بخاری:5102) باقی رضاعت کا پورا مسئلہ آیت «وَأُمَّہَاتُکُمُ اللَّاتِی أَرْضَعْنَکُمْ» (4-النساء:23) کی تفسیر میں آئے گا ان شاءاللہ ۔ پھر فرمان ہے کہ بچوں کی ماں کا نان نفقہ بچوں کے والد پر ہے ۔ اپنے اپنے شہروں کی عادت اور دستور کے مطابق ادا کریں ، نہ تو زیادہ ہو نہ کم بلکہ حسب طاقت و وسعت درمیانی خرچ دے دیا کرو جیسے فرمایا آیت «لِیُنفِقْ ذُو سَعَۃٍ مِّن سَعَتِہِ وَمَن قُدِرَ عَلَیْہِ رِزْقُہُ فَلْیُنفِقْ مِمَّا آتَاہُ اللہُ لَا یُکَلِّفُ اللہُ نَفْسًا إِلَّا مَا آتَاہَا سَیَجْعَلُ اللہُ بَعْدَ عُسْرٍ یُسْرًا» ( 65-الطلاق : 7 ) یعنی کشادگی والے اپنی کشادگی کے مطابق اور تنگی والے اپنی طاقت کے مطابق دیں ، اللہ تعالیٰ طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ، عنقریب اللہ تعالیٰ سختی کے بعد آسانی کر دے گا ۔ ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جس شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دی اور اس کے ساتھ بچہ بھی ہے تو اس کی دودھ پلائی کے زمانہ تک کا خرچ اس مرد پر واجب ہے ۔ پھر ارشاد باری ہے کہ عورت اپنے بچے کو دودھ پلانے سے انکار کر کے اس کے والد کو تنگی میں نہ ڈال دے بلکہ بچے کو دودھ پلاتی رہے اس لیے کہ یہی اس کی گزارن کا سبب ہے ۔ دودھ سے جب بچہ بے نیاز ہو جائے تو بیشک بچہ کو دیدے لیکن پھر بھی نقصان رسانی کا ارادہ نہ ہو ۔ اسی طرح خاوند اس سے جبراً بچے کو الگ نہ کرے جس سے غریب دُکھ میں پڑے ۔ وارث کو بھی یہی چاہیئے کہ بچے کی والدہ کو خرچ سے تنگ نہ کرے ، اس کے حقوق کی نگہداشت کرے اور اسے ضرر نہ پہنچائے ۔ حنفیہ اور حنبلیہ میں سے جو لوگ اس کے قائل ہیں کہ رشتہ داروں میں سے بعض کا نفقہ بعض پر واجب ہے انہوں نے اسی آیت سے استدلال کیا ہے ۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما اور جمہور سلف صالحین سے یہی مروی ہے ۔ سیدنا سمرہ رضی اللہ عنہ والی مرفوع حدیث سے بھی یہی مترشح ہوتا ہے جس میں ہے کہ جو شخص اپنے کسی محرم رشتہ دار کا مالک ہو جائے تو وہ آزاد ہو جائے گا ۔ یہ بھی یاد رہے کہ دو سال کے بعد دودھ پلانا عموماً بچہ کو نقصان دیتا ہے ، یا تو جسمانی یا دماغی ۔ علقمہ رضی اللہ عنہ نے ایک عورت کو دو سال سے بڑے بچے کو دودھ پلاتے ہوئے دیکھ کر منع فرمایا ۔ پھر فرمایا گیا ہے اگر یہ رضا مندی اور مشورہ سے دو سال کے اندر اندر جب کبھی دودھ چھڑانا چاہیں تو ان پر کوئی حرج نہیں ہاں ایک کی چاہت دوسرے کی رضا مندی کے بغیر ناکافی ہو گی اور یہ بچے کے بچاؤ کی اور اس کی نگرانی کی ترکیب ہے ۔ خیال فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر کس قدر رحیم و کریم ہے کہ چھوٹے بچوں کے والدین کو ان کاموں سے روک دیا جس میں بچے کی بربادی کا خوف تھا ، اور وہ حکم دیا جس سے ایک طرف بچے کا بچاؤ ہے دوسری جانب ماں باپ کی اصلاح ہے ۔ سورۃ الطلاق میں فرمایا آیت «فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَکُمْ فَآتُوہُنَّ أُجُورَہُنَّ وَأْتَمِرُوا بَیْنَکُم بِمَعْرُوفٍ وَإِن تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَہُ أُخْرَیٰ» ( 65 ۔ الطلاق : 6 ) ، اگر عورتیں بچے کو دودھ پلایا کریں تو تم ان کی اجرت بھی دیا کرو اور آپس میں عمدگی کے ساتھ معاملہ رکھو ۔ یہ اور بات ہے کہ تنگی کے وقت کسی اور سے دودھ پلوا دو ، چنانچہ یہاں بھی فرمایا اگر والدہ اور والد متفق ہو کر کسی عذر کی بنا پر کسی اور سے دودھ شروع کرائیں اور پہلے کی اجازت کامل طور پر والد والدہ کو دیدے تو بھی دونوں پر کوئی گناہ نہیں ، اب دوسری کسی دایہ سے اُجرت چکا کر دودھ پلوا دیں ۔ لوگو اللہ تعالیٰ سے ہر امر میں ڈرتے رہا کرو اور یاد رکھو کہ تمہارے اقوال و افعال کو وہ بخوبی جانتا ہے ۔ البقرة
234 خاوند کے انتقال کے بعد اس آیت میں حکم ہو رہا ہے کہ عورت اپنے خاوند کے انتقال کے بعد چار مہینے دس دن عدت گزاریں خواہ اس سے مجامعت ہو یا نہ ہوئی ہو ، اس پر اجماع ہے دلیل اس کی ایک تو اس آیت کا عموم دوسرے یہ حدیث جو مسند احمد اور سنن میں ہے جسے امام ترمذی رحمہ اللہ صحیح کہتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے سوال ہوتا ہے کہ ایک شخص نے ایک عورت سے نکاح کیا اس سے مجامعت نہیں کی تھی نہ مہر مقرر ہوا تھا کہ اس کا انتقال ہو گیا ، فرمائیے اس کی نسبت کیا فتویٰ ہے جب کئی مرتبہ وہ آئے گئے تو آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا میں اپنی رائے سے فتویٰ دیتا ہوں ، اگر ٹھیک ہو تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جانو اور اگر خطاء ہو تو میری اور شیطان کی طرف سے سمجھو ، اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بری ہیں ۔ میرا فتویٰ یہ ہے کہ اس عورت کو پورا مہر ملے گا جو اس کے خاندان کا دستور ہو ، اس میں کوئی کمی بیشی نہ ہو اور اس عورت کو پوری عدت گزارنی چاہیئے اور اسے ورثہ بھی ملے گا ۔ یہ سن کر معقل بن یسار اشجعی رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے اور فرمانے لگے بروع بنت واشق رضی اللہ عنہا کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فیصلہ کیا تھا ۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ یہ سن کر بہت خوش ہوئے ۔ (سنن ابوداود:2114 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) بعض روایات میں ہے کہ اشجع کے بہت سے لوگوں نے یہ روایت بیان کی ، ہاں جو عورت اپنے خاوند کی وفات کے وقت حمل سے ہو اس کیلئے یہ عدت نہیں ، اس کی عدت وضع حمل ہے ۔ گو ، انتقال کی ایک ساعت کے بعد ہی ہو جائے ۔ قرآن میں ہے آیت «وَاُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُہُنَّ اَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَہُنَّ» ( 65 ۔ الطلاق : 1 ) حمل والیوں کی عدت وضع حمل ہے ۔ ہاں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ وضع حمل اور چار مہینے دس دن میں جو دیر کی عدت ہو وہ حاملہ کی عدت ہے ، یہ قول تو بہت اچھا ہے اور دونوں آیتوں میں اس سے تطبیق بھی عمدہ طور پر ہو جاتی ہے لیکن اس کیخلاف بخاری و مسلم کی ایک صاف اور صریح حدیث موجود ہے جس میں ہے کہ سبیعہ اسلیمہ رضی اللہ عنہا کے خاوند سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ کا جب انتقال ہوا ، اس وقت آپ حمل سے تھیں اور چند راتیں گزار پائی تھیں تو بچہ تولد ہوا ، جب نہا دھو چکیں تو لباس وغیرہ اچھا پہن لیا ، ابوالسنابل بن بعلبک رضی اللہ عنہ نے یہ دیکھ کر فرمایا کیا تم نکاح کرنا چاہتی ہو ؟ اللہ کی قسم جب تک چار مہینے دس دن نہ گزر جائیں تم نکاح نہیں کر سکتیں ۔ سیبعہ رضی اللہ عنہا یہ سن کر خاموش ہو گئیں اور شام کو خدمتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئیں اور مسئلہ پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب بچہ ہو گیا اسی وقت تم عدت سے نکل گئیں ، اب اگر تم چاہو تو بیشک نکاح کر سکتی ہو ۔ (صحیح بخاری:3991) یہ بھی مروی ہے کہ جب سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہما کو اس حدیث کا علم ہوا تو آپ رضی اللہ عنہما نے بھی اپنے قول سے رجوع کر لیا ، اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہما کے ساتھی شاگرد بھی اسی حدیث کے مطابق فتویٰ دیا کرتے تھے ۔ اسی طرح لونڈی کی عدت بھی اتنی نہیں ، اس کی عدت اس سے آدھی ہے یعنی دو مہینے اور پانچ راتیں ، جمہور کا مذہب یہی ہے جس طرح لونڈی کی حد بہ نسبت آزاد عورت کے آدھی ہے اسی طرح عدت بھی ۔ محمد بن سیرین اور بعض علماء ظاہر یہ لونڈی کی اور آزاد عورت کی عدت میں برابری کے قائل ہیں ۔ ان کی دلیل ایک تو اس آیت کا عموم ہے ، دوسرے یہ کہ عدت ایک جلی امر ہے جس میں تمام عورتیں یکساں ہیں ۔ سعید ابن مسیب ، ابوالعالیہ رحمہ اللہ وغیرہ فرماتے ہیں اس عدت میں حکمت یہ ہے کہ اگر عورت کو حمل ہو گا تو اس مدت میں بالکل ظاہر ہو جائے گا ۔ سیدنا ابن مسعود کی بخاری و مسلم والی مرفوع حدیث میں ہے کہ انسان کی پیدائش کا یہ حال ہے کہ چالیس دن تک تو رحمِ مادر میں نطفہ کی شکل میں ہوتا ہے ، پھر خون بستہ کی شکل چالیس دن تک رہتی ہے پھر چالیس دن تک گوشت کا لوتھڑا رہتا ہے پھر اللہ تعالیٰ فرشتے کو بھیجتا ہے اور وہ اس میں روح پھونکتا ہے ۔ (صحیح بخاری:3208) تو یہ ایک سو بیس دن ہوئے جس کے چار مہینے ہوئے ، دس دن احتیاطاً اور رکھ دے کیونکہ بعض مہینے انتیس دن کے بھی ہوتے ہیں اور جب روح پھونک دی گئی تو اب بچہ کی حرکت محسوس ہونے لگتی ہے اور حمل بالکل ظاہر ہو جاتا ہے ۔ اس لیے اتنی عدت مقرر کی گئی «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ سعید بن مسیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں دس دن اس لیے ہیں کہ روح انہی دس دِنوں میں پھونکی جاتی ہے ۔ ربیع بن انس رضی اللہ عنہ بھی یہی فرماتے ہیں ۔ امام احمد رحمہ اللہ سے ایک روایت میں یہ بھی مروی ہے تاکہ جس لونڈی سے بچہ ہو جائے اس کی عدت بھی آزاد عورت کے برابر ہے اس لیے کہ وہ فراش بن گئی اور اس لیے بھی کہ مسند احمد رحمہ اللہ میں حدیث ہے ۔ سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما نے فرمایا لوگو سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم پر خلط ملط نہ کرو ۔ اولاد والی لونڈی کی عدت جبکہ اس کا سردار فوت ہو جائے چار مہینے اور دس دن ہیں ۔ (سنن ابوداود:2308 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) یہ حدیث ایک اور طریق سے بھی ابوداؤد میں مروی ہے ۔ امام احمد رحمہ اللہ اس حدیث کو منکر بتاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کے ایک راوی قبیصیہ نے اپنے استاد عمر سے یہ روایت نہیں سنی ۔ سعید بن مسیب مجاہد ، سعید بن جبیر ، حسن بن سیرین ، ابن عیاض زہری اور عمرو بن عبدالعزیز رحمہ اللہ علیہم کا یہی قول ہے ۔ یزید بن عبدالملک بن مروان جو امیر المؤمنین تھے ، یہی حکم دیتے تھے ۔ اوزاعی ، اسحاق بن راہویہ اور احمد بن حنبل رحمہ اللہ علیہم بھی ایک روایت میں یہی فرماتے ہیں لیکن طاؤس اور قتادہ رحمہ اللہ اس کی عدت بھی آدھی بتلاتے ہیں یعنی دو ماہ پانچ راتیں ۔ ابوحنیفہ رحمہ اللہ ان کے ساتھ حسن بن صالح بن حی فرماتے ہیں تین حیض عدت گزارے ، سیدنا علی ابن مسعود ، رضی اللہ عنہما عطاء اور ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کا قول بھی یہی ہے ۔ امام مالک ، امام شافعی اور امام احمد رحمہ اللہ علیہم کی مشہور روایت یہ ہے کہ اس کی عدت ایک حیض ہی ہے ۔ سیدنا ابن عمر ، شعبی ، مکحول ، لیث ، ابوعبید ، ابوثور رحمہ اللہ علیہم اور جمہور کا یہی مذہب ہے ۔ لیث رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر حیض کی حالت میں اس کا سید فوت ہوا ہے تو اسی حیض کا ختم ہو جانا اس کی عدت کا ختم ہو جانا ہے ۔ امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں اگر حیض نہ آتا ہو تو تین مہینے عدت گزارے ۔ امام شافعی رحمہ اللہ اور جمہور فرماتے ہیں ایک مہینہ اور تین دن مجھے زیادہ پسند ہیں «وَاللہُ اَعْلَمُ» ( مترجم کے نزدیک قوی قول پہلا ہے یعنی مثل آزاد عورت کے پوری عدت گزارے) ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» بعد ازاں جو ارشاد فرمایا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سوگ واجب ہے ۔ بخاری و مسلم میں حدیث ہے کہ جو عورت اللہ پر اور قیامت پر ایمان رکھتی ہو اسے تین دن سے زیادہ کسی میت پر سوگواری کرنا حرام ہے ، ہاں خاوند پر چار مہینے دس دن سوگوار ہے ۔ ایک عورت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میری بیٹی کا میاں مر گیا ہے اور اس کی آنکھیں دُکھ رہی ہیں ، کیا میں اس کے سرمہ لگا دوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں ، دو تین مرتبہ اس نے اپنا سوال دہرایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی جواب دیا ، آخری بار فرمایا یہ تو چار مہینے اور دس دن ہی ہیں ، جاہلیت میں تو تم سال سال بھر بیٹھی رہا کرتی تھیں ۔(ایضاً) سیدہ زینب بنت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ پہلے جب کسی عورت کا خاوند مر جاتا تھا تو اسے کسی جھونپڑے میں ڈال دیتے تھے ، وہ بدترین کپڑے پہنتی ، خوشبو وغیرہ سے الگ رہتی اور سال بھر تک ایسی ہی سڑی بھسی رہتی تھی ، سال بھر کے بعد نکلتی اور اونٹنی کی مینگنی لے کر پھینکتی اور کسی جانور مثلاً گدھا یا بکری یا پرندے کے جسم کے ساتھ اپنے جسم کو رگڑتی ، بسا اوقات وہ مر ہی جاتا ،(صحیح بخاری:5336) یہ تھی جاہلیت کی رسم ۔ پس یہ آیت اس کے بعد کی آیت کی ناسخ ہے جس میں ہے کہ ایسی عورتیں سال بھر تک رکی رہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ یہی فرماتے ہیں کہ اس میں اختلاف ہے اور تفصیل اس کی عنقریب آئے گی ان شاءاللہ ، مطلب یہ کہ اس زمانہ میں بیوہ عورت کو زینت اور خوشبو اور بہت بھڑکیلے کپڑے اور زیور وغیرہ پہننا منع ہے اور یہ سوگواری واجب ہے ۔ ہاں ایک قول یہ بھی ہے کہ طلاق رجعی کی عدت میں یہ واجب نہیں ، اور جب طلاق بائن ہو تو وجوب اور عدم وجوب کے دونوں قول ہیں ، فوت شدہ خاوندوں کی زندہ بیویوں پر تو سب پر یہ سوگواری واجب ہے ، خواہ وہ نابالغہ ہوں خواہ وہ عورتیں ہوں جو حیض وغیرہ سے اتر چکی ہوں ، خواہ آزاد عورتیں ہوں خواہ لونڈیاں ہوں ، خواہ مسلمان ہوں خواہ کافرہ ہوں کیونکہ آیت میں عام الحکم ہے ، ہاں ثوری اور ابوحنیفہ رحمہ اللہ کافرہ عورت کی سوگواری کے قائل نہیں ، شہاب اور ابن نافع رحمہ اللہ کا قول بھی یہی ہے ان کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں ہے کہ جو عورت اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہو ۔ پس معلوم ہوا کہ یہ حکم تعبدی ہے ، امام ابوحنیفہ اور ثوری رحمہ اللہ کمسن نابالغہ عورت کیلئے بھی یہی فرماتے ہیں کیونکہ وہ غیر مکلفہ ہے ۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب مسلمان لونڈی کو اس میں ملاتے ہیں لیکن اس مسائل کی تصفیہ کا یہ موقع نہیں { واللہ الموفق بالصواب } پھر فرمایا جب ان کی عدت گزر چکے تو ان کے اولیاء پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ عورتیں اپنے بناؤ سنگھار کریں یا نکاح کریں ، یہ سب ان کیلئے حلال طیب ہے ۔ حسن ، زہری اور سدی رحمہ اللہ علیہم سے بھی اسی طرح مروی ہے ۔ البقرة
235 پیغام نکاح مطلب یہ کہ صراحت کے بغیر نکاح کی چاہت کا اظہار کسی اچھے طریق پر عدت کے اندر کرنے میں گناہ نہیں مثلاً یوں کہنا کہ میں نکاح کرنا چاہتا ہوں ، میں ایسی ایسی عورت کو پسند کرتا ہوں ، میں چاہتا ہوں کہ اللہ میرا جوڑا بھی ملا دے ، ان شاءاللہ میں تیرے سوا دوسری عورت سے نکاح کا ارادہ نہیں کروں گا ، میں کسی نیک دیندار عورت سے نکاح کرنا چاہتا ہوں ، اسی طرح اس عورت سے جسے طلاق بائن مل چکی ہو عدت کے اندر ایسے مبہم الفاظ کہنا بھی جائز ہیں ۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے فرمایا تھا جبکہ ان کے خاوند ابوعمرو بن حفص رضی اللہ عنہ نے انہیں آخری تیسری طلاق دے دی تھی کہ جب تم عدت ختم کرو تو مجھے خبر کر دینا ، عدت کا زمانہ ابن مکتوم رضی اللہ عنہ کے ہاں گزارو ، جب فاطمہ رضی اللہ عنہا نے عدت نکل جانے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے جن کا مانگا تھا ، نکاح کرا دیا ، (صحیح مسلم:1480) ہاں رجعی طلاق کی عدت کے زمانہ میں بجز اس کے خاوند کے کسی کو بھی یہ حق نہیں کہ وہ اشارتاً کنایہ بھی اپنی رغبت ظاہر کرے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ یہ فرمان کہ تم اپنے نفس میں چھپاؤ یعنی منگنی کی خواہش ، ایک جگہ ارشاد ہے تیرا رب ان کے سینوں میں پوشیدہ کو اور ظاہر باتوں کو جانتا ہے ۔ (28-القصص:69) دوسری جگہ تمہارے باطل و ظاہر کا جاننے والا ہوں ۔ (60-الممتحنۃ:1) پس اللہ تعالیٰ بخوبی جانتا تھا کہ تم اپنے دِلوں میں ضرور ذِکر کرو گے اس واسطے اس نے تنگی ہٹا دی ، لیکن ان عورتوں سے پوشیدہ وعدے نہ کرو ، یعنی زناکاری سے بچو ، ان سے یوں نہ کہو کہ میں تم پر عاشق ہوں ، تم بھی وعدہ کرو کہ میرے سوا کسی اور سے نکاح نہ کرو گی وغیرہ ۔ عدت میں ایسے الفاظ کا کہنا حلال نہیں ، نہ یہ جائز ہے کہ پوشیدہ طور پر عدت میں نکاح کر لے اور عدت گزر جانے کے بعد اس نکاح کا اظہار کرے ، پس یہ سب اقوال اس آیت کے عموم میں آ سکتے ہیں اسی لیے فرمان ہوا کہ مگر یہ کہ تم ان سے اچھی بات کرو مثلاً ولی سے کہہ دیا کہ جلدی نہ کرنا ، عدت گزر جانے کی مجھے بھی خبر کرنا وغیرہ ۔ جب تک عدت ختم نہ ہو جائے تب تک نکاح منعقد نہ کیا کرو ۔ علماء کا اجماع ہے کہ عدت کے اندر نکاح صحیح نہیں ۔ اگر کسی نے کر لیا اور دخول بھی ہو گیا تو بھی ان میں جدائی کرا دی جائے گی ، اب آیا یہ عورت اس پر ہمیشہ کیلئے حرام ہو جائے گی یا پھر عدت گزر جانے کے بعد نکاح کر سکتا ہے ؟ اس میں اختلاف ہے جمہور تو کہتے ہیں کہ کر سکتا ہے لیکن امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہ ہیمشہ کیلئے حرام ہو گئی ، اس کی دلیل یہ ہے کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب عورت کا نکاح عدت کے اندر کر دیا جائے گا اگر اس کا خاوند اس سے نہیں ملا تو ان دونوں میں جدائی کرا دی جائے گی اور جب اس کے پہلے خاوند کی عدت گزر جائے تو یہ شخص منجملہ اور لوگوں کو اس کے نکاح کا پیغام ڈال سکتا ہے اور اگر دونوں میں ملاپ بھی ہو گیا ہے جب بھی جدائی کرا دی جائے گی اور پہلے خاوند کو عدت گزار کر پھر اس دوسرے خاوند کی عدت گزارے گی اور پھر یہ شخص اس سے ہرگز نکاح نہیں کر سکتا ، اس فیصلہ کا ماخذ یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب اس شخص نے جلدی کر کے اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ وقت کا لحاظ نہ کیا تو اسے اس کی خلاف سزا دی گئی کہ وہ عورت اس پر ہمیشہ کیلئے حرام کر دی گئی ، جیسا کہ قاتل اپنے مقتول کے ورثہ سے محروم کر دیا جاتا ہے ۔ امام شافعی نے امام مالک رحمہ اللہ علیہما سے بھی یہ اثر روایت کیا ہے ، امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ پہلا قول تو امام صاحب کا یہی تھا لیکن جدید قول آپ کا یہ ہے کہ اسے بھی نکاح کرنا حلال ہے کیونکہ سیدنا علی رضی اللہ عنہما کا یہی فتویٰ ہے ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہما والا یہ اثر سنداً منقطع ہے بلکہ مسروق رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہما نے اس بات سے رجوع کر لیا ہے اور فرمایا ہے کہ مہر ادا کر دے اور عدت کے بعد یہ دونوں آپس میں اگر چاہیں تو نکاح کر سکتے ہیں ۔ پھر فرمایا جان لو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے دِلوں کی پوشیدہ باتوں کو جانتا ہے ، اس کا لحاظ اور خوف رکھو اپنے دِل میں عورتوں کے متعلق فرمان باری کیخلاف خیال بھی نہ آنے دو ۔ ہمیشہ دِل کو صاف رکھو ، برے خیالات سے اسے پاک رکھو ۔ ڈر ، خوف کے حکم کے ساتھ ہی اپنی رحمت کی طمع اور لالچ بھی دلائی اور فرمایا کہ الہٰ العالمین خطاؤں کو بخشنے والا اور حلم و کرم والا ہے ۔ البقرة
236 حق مہر کب اور کتنا عقد نکاح کے بعد دخول سے بھی طلاق کا دینا مباح ہو رہا ہے ۔ مفسرین نے فرمایا ہے کہ یہاں مراد { مس} سے نکاح ہے ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:831/2) دخول سے پہلے طلاق دے دینا بلکہ مہر کا بھی ابھی تقرر نہیں ہوا اور طلاق دے دینا بھی جائز ہے ، گو اس میں عورت کے بے حد دِل شکنی ہے ، اسی لیے حکم ہے کہ اپنے مقدور بھر اس صورت میں مرد کو عورت کے ساتھ سلوک کرنا چاہیئے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اس کا اعلیٰ حصہ خادم ہے اور اس سے کمی چاندی ہے اور اس سے کم کپڑا ہے یعنی اگر مالدار ہے تو غلام وغیرہ دے اور اگر مفلس ہے تو کم سے کم تین کپڑے دے ۔ شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں درمیانہ درجہ اس فائدہ پہنچانے کا یہ ہے کہ کرتہ دوپٹہ لحاف اور چادر دیدے ۔ شریح رحمہ اللہ فرماتے ہیں پانچ سو درہم دے ، ابن سیرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں غلام دے یا خوراک دے یا کپڑے لتے دے ، سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما نے دس ہزار دئیے تھے لیکن پھر بھی وہ بیوی صاحبہ فرماتی تھیں کہ اس محبوب مقبول کی جدائی کے مقابلہ میں یہ حقیر چیز کچھ بھی نہیں ۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ اگر دونوں اس فائدہ کی مقدار میں تنازعہ کریں تو اس کے خاندان کے مہر سے آدھی رقم دلوا دی جائے ۔ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ کا فرمان ہے کہ کسی چیز پر خاوند کو مجبور نہیں کیا جا سکتا بلکہ کم سے کم جس چیز کو متعہ یعنی فائدہ اور اسباب کہا جا سکتا ہے وہ کافی ہو گا ۔ میرے نزدیک اتنا کپڑا متعہ ہے جتنے میں نماز پڑھ لینی جائز ہو جائے ، گو پہلا قول حضرت امام کا یہ تھا کہ مجھے اس کا کوئی صحیح اندازہ معلوم نہیں لیکن میرے نزدیک بہتر یہ ہے کہ کم سے کم تیس درہم ہونے چاہئیں جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے ، اس بارے میں بہت سے اقوال ہیں کہ ہر طلاق والی عورت کو کچھ نہ کچھ اسباب دینا چاہیئے یا صرف اسی صورت کو جس سے میل ملاپ نہ ہوا ہو ، بعض تو سب کیلئے کہتے ہیں کیونکہ قرآن کریم میں ہے کہ آیت «وَلِلْمُطَلَّقٰتِ مَتَاعٌ بِالْمَعْرُوْفِ حَقًّا عَلَی الْمُتَّقِیْنَ» ( 2 ۔ البقرہ : 241 ) ، پس اس آیت کے عموم سے سب کیلئے وہ ثابت کرتے ہیں ۔ اس طرح ان کی دلیل یہ بھی ہے آیت «فَتَعَالَیْنَ اُمَتِّعْکُنَّ وَاُسَرِّحْکُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا» ( 33 ۔ الاحزاب : 28 ) ، یعنی اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں سے کہو کہ اگر تمہاری چاہت دنیا کی زندگی اور اسی کی زینت کی ہے تو آؤ میں تمہیں کچھ اسباب بھی دوں اور تمہیں اچھائی کے ساتھ چھوڑ دوں ، پس یہ تمام ازواج مطہرات وہ تھیں جن کا مہر بھی مقرر تھا اور جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھی آ چکی تھیں ، سعید بن جبیر ، ابوالعالیہ ، حسن بصری رحمہ اللہ علیہم کا قول یہی ہے ۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا بھی ایک قول یہی ہے اور بعض تو کہتے ہیں کہ ان کا نیا اور صحیح قول یہی ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ بعض کہتے ہیں اسباب کا دینا اس طلاق والی کو ضروری ہے جس سے خلوت نہ ہوئی ہو گو مہر مقرر ہو چکا ہو کیونکہ قرآن کریم میں ہے آیت «یٰٓاَیٰہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نَکَحْتُمُ الْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْہُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسٰوْہُنَّ فَمَا لَکُمْ عَلَیْہِنَّ مِنْ عِدَّۃٍ تَعْتَدٰوْنَہَا فَمَتِّعُوْہُنَّ وَسَرِّحُوْہُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا» ( 33 ۔ الاحزاب : 49 ) یعنی اے ایمان والو تم جب ایمان والی عورت سے نکاح کر لو پھر انہیں ہاتھ لگانے سے پہلے ہی طلاق دے دو تو ان پر تمہاری طرف سے کوئی عدت نہیں جو عدت وہ گزاریں تم انہیں کچھ مال اسباب دے دو اور حسن کردار سے چھوڑ دو ، سعید بن مسیب رحمہ اللہ کا قول ہے کہ سورۃ الاحزاب کی یہ آیت سورۃ البقرہ کی آیت سے منسوخ ہو چکی ہے ۔ سیدنا سہل بن سعد اور ابو اسید رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امیمۃ بنت شراحبیل سے نکاح کیا جب وہ رخصت ہو کر آئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ بڑھایا تو گویا اس نے برا مانا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابواسید رضی اللہ عنہما سے فرمایا اسے دو رنگین کپڑے دے کر رخصت کرو ، (صحیح بخاری:5256) تیسرا قول یہ ہے کہ صرف اسی صورت میں بطور فائدہ کے اسباب و متاع کا دینا ضروری ہے جبکہ عورت کی وداع نہ ہوئی ہو اور مہر بھی مقرر نہ ہوا ہو اور اگر دخول ہو گیا ہو تو مہر مثل یعنی خاندان کے دستور کے مطابق دینا پڑے گا اگر مقرر نہ ہوا ہو اور اگر مقرر ہو چکا ہو اور رخصت سے پہلے طلاق دیدے تو آدھا مہر دینا پڑے گا اور اگر رخصتی بھی ہو چکی ہے تو پورا مہر دینا پڑے گا اور یہی متعہ کا عوض ہو گا ۔ ہاں اس مصیبت زدہ عورت کیلئے متعہ ہے جس سے نہ ملاپ ہوا نہ مہر مقرر ہوا اور طلاق مل گئی ۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما اور مجاہد رحمہ اللہ کا یہی قول ہے ۔ گو بعض علماء اسی کو مستحب بتلاتے ہیں کہ ہر طلاق والی عورت کو کچھ نہ کچھ دے دینا چاہیئے ان کے سوا جو مہر مقرر کئے ہوئے نہ ہوں اور نہ خاوند بیوی کا میل ہوا ہو ، یہی مطلب سورۃ الاحزاب کی اس آیت تخیر کا ہے جو اس سے پہلے اسی آیت کی تفسیر میں بیان ہو چکی ہے اور اسی لیے یہاں اس خاص صورت کیلئے فرمایا گیا ہے کہ امیر اپنی وسعت کے مطابق دیں اور غریب اپنی طاقت کے مطابق ۔ شعبی رحمہ اللہ سے سوال ہوتا ہے کہ یہ اسباب نہ دینے والا کیا گرفتار کیا جائے گا ؟ تو آپ رحمہ اللہ فرماتے ہیں اپنی طاقت کے برابر دیدے ، اللہ کی قسم اس بارے میں کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا اگر یہ واجب ہوتا تو قاضی لوگ ضرور ایسے شخص کو قید کر لیتے ۔ البقرة
237 مزید وضاحت اس آیت میں صاف دلالت ہے اس امر پر کہ پہلی آیت میں جن عورتوں کیلئے متعہ مقرر کیا گیا تھا وہ صرف وہی عورتیں ہیں جن کا ذِکر اس آیت میں تھا کیونکہ اس آیت میں یہ بیان ہوا ہے کہ دخول سے پہلے جبکہ طلاق دے دی گئی ہو اور مہر مقرر ہو چکا ہو تو آدھا مہر دینا پڑے گا ۔ اگر یہاں بھی اس کے سوا کوئی اور متعہ واجب ہوتا تو وہ ضرور ذِکر کیا جاتا کیونکہ دونوں آیتوں کی دونوں صورتوں میں ایک کے بعد ایک بیان ہو رہی ہیں «وَاللہُ اَعْلَمُ» ، اس صورت میں جو یہاں بیان ہو رہی ہے آدھے مہر پر علماء کا اجماع ہے ، لیکن تین کے نزدیک پورا مہر اس وقت واجب ہو جاتا ہے جبکہ خلوت ہو گئی یعنی میاں بیوی تنہائی کی حالت میں کسی مکان میں جمع ہو گئے ، گو ہمبستری نہ ہوئی ہو ۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا بھی پہلا قول یہی ہے اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کا فیصلہ بھی یہی ہے ، لیکن امام شافعی کی روایت سے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ اس صورت میں بھی صرف نصف مہر مقررہ ہی دینا پڑے گا ، امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں بھی یہی کہتا ہوں اور ظاہر الفاظ کتاب اللہ کے بھی یہی کہتے ہیں ۔ امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس روایت کے ایک راوی لیث بن ابی سلیم اگرچہ سند پکڑے جانے کے قابل نہیں لیکن ابن ابی طلحہ رحمہ اللہ سے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی یہ روایت مروی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہما کا فرمان یہی ہے ، پھر فرماتا ہے کہ اگر عورتیں خود ایسی حالت میں اپنا آدھا مہر بھی خاوند کو معاف کر دیں تو یہ اور بات ہے اس صورت میں خاوند کو سب معاف ہو جائے گا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ثیبہ عورت اگر اپنا حق چھوڑ دے تو اسے اختیار ہے ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:839/2) بہت سے مفسرین تابعین کا یہی قول ہے ، محمد بن کعب قرظی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد عورتوں کا معاف کرنا نہیں بلکہ مردوں کا معاف کرنا ہے ۔ یعنی مرد اپنا آدھا حصہ چھوڑ دے اور پورا مہر دیدے لیکن یہ قول شاذ ہے کوئی اور اس قول کا قائل نہیں ۔ پھر فرماتا ہے کہ وہ معاف کر دے جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے ۔ ایک حدیث میں ہے اس سے مراد خاوند ہے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:8358) سیدنا علی رضی اللہ عنہما سے سوال ہوا کہ اس سے مراد کیا عورت کے اولیاء ہیں ؟ فرمایا نہیں بلکہ اس سے مراد خاوند ہے ۔ اور بھی بہت سے مفسرین سے یہی مروی ہے ۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا جدید قول بھی یہی ہے ۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ وغیرہ کا بھی یہی مذہب ہے ، اس لیے کہ حقیقتاً نکاح کو باقی رکھنا توڑ دینا وغیرہ یہ سب خاوند کے ہی اختیار میں ہے اور جس طرح ولی کو اس کی طرف سے جس کا ولی ہے ، اس کے مال کا دے دینا جائز نہیں اسی طرح اس کے مہر کے معاف کر دینے کا بھی اختیار نہیں ۔ دوسرا قول اس بارے میں یہ ہے کہ اس سے مراد عورت کے باپ بھائی اور وہ لوگ ہیں جن کی اجازت بغیر عورت نکاح نہیں کر سکتی ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما ، علقمہ ، حسن ، عطاء ، طاؤس ، زہری ، ربیعہ ، زید بن اسلم ، ابراہیم نخعی ، عکرمہ ، محمد بن سیرین رحمہ اللہ علیہم سے بھی یہی مروی ہے کہ ان دونوں بزرگوں کا بھی ایک قول یہی ہے ۔ امام مالک رحمہ اللہ کا اور امام شافعی رحمہ اللہ کا قول قدیم بھی یہی ہے ، اس کی دلیل یہ ہے کہ ولی نے ہی اس حق کا حقدار اسے کیا تھا تو اس میں تصرف کرنے کا بھی اسے اختیار ہے ، گو اور مال میں ہیر پھیر کرنے کا اختیار نہ ہو ، عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے معاف کر دینے کی رخصت عورت کو دی اور اگر وہ بخیلی اور تنگ دِلی کرے تو اس کا ولی بھی معاف کر سکتا ہے ۔ گو وہ عورت سمجھدار ہو ، شریح رحمہ اللہ بھی یہی فرماتے ہیں لیکن جب شعبی رحمہ اللہ نے انکار کیا تو آپ نے اس سے رجوع کر لیا اور فرمانے لگے کہ اس سے مراد خاوند ہی ہے بلکہ وہ اس بات پر مباہلہ کو تیار رہتے تھے ۔ پھر فرماتا ہے کہ «وَلِلْمُطَلَّقَاتِ مَتَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَی الْمُتَّقِینَ» ( البقرۃ : 241 ) تمہارا معاف کرنا ہی تقویٰ سے زیادہ قریب ہے ، اس سے مراد مرد عورتیں دونوں ہی ہیں یعنی دونوں میں سے اچھا وہی ہے جو اپنا حق چھوڑ دے ، یعنی عورت یا تو اپنا آدھا حصہ بھی اپنے خاوند کو معاف کر دے یا خاوند ہی اسے بجائے آدھے کے پورا مہر دیدے ۔ آپس کی فضیلت یعنی احسان کو نہ بھولو ، اسے بے کار نہ چھوڑو بلکہ اسے کام میں لاؤ ۔ ابن مردویہ کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگوں پر ایک کاٹ کھانے والا زمانہ آئے گا ، مومن بھی اپنے ہاتھوں کی چیز کو دانتوں سے پکڑ لے گا اور فضیلت و بزرگی کو بھول جائے گا ، حالانکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے اپنے آپس کے فضل کو نہ بھولو ، برے ہیں وہ لوگ جو ایک مسلمان کی بے کسی اور تنگ دستی کے وقت اس سے سستے داموں اس کی چیز خریدتے ہیں ۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بیع سے منع فرما دیا ہے ۔ اگر تیرے پاس بھلائی ہو تو اپنے بھائی کو بھی وہ بھلائی پہنچا اس کی ہلاکت میں حصہ نہ لے ۔ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے ، نہ اسے رنج و غم پہنچے نہ اسے بھلائیوں سے محروم رکھے ، (سنن ابوداود:3382 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) حضرت عون بن عبداللہ حدیثیں بیان کرتے جاتے روتے جاتے یہاں تک کہ آنسو داڑھی سے ٹپکتے رہتے اور فرماتے میں مالداروں کی صحبت میں بیٹھا اور دیکھا کہ ہر وقت دِل ملول رہتا ہے کیونکہ جدھر نظر اٹھتی ہر ایک کو اپنے سے اچھے کپڑوں میں اچھی خوشبوؤں میں اور اچھی سواریوں میں دیکھتا ، ہاں مسکینوں کی محفل میں میں نے بڑی راحت پائی ، رب العالم یہی فرماتا ہے ایک دوسرے کی فضیلت فراموش نہ کرو ، کسی کے پاس جب بھی کوئی سائل آئے اور اس کے پاس کچھ نہ ہو تو وہ اس کیلئے دُعائے خیر ہی کر دے ۔ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے خبردار ہے ، اس پر تمہارے کام اور تمہارا حال بالکل روشن ہے اور عنقریب وہ ہر ایک عامل کو اس کے عمل کا بدلہ دے گا ۔ البقرة
238 صلوۃ وسطی کون سی ہے؟ اللہ تعالیٰ کا حکم ہو رہا ہے کہ نمازوں کے وقت کی حفاظت کرو اس کی حدود کی نگرانی رکھو اور اول وقت ادا کرتے رہو ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سوال کرتے ہیں کہ کون سا عمل افضل ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نماز کو وقت پر پڑھنا ، پھر پوچھا کون سا ؟ فرمایا اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ، پھر کون سا ؟ ماں باپ سے بھلائی کرنا ۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اگر میں کچھ اور بھی پوچھتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور بھی جواب دیتے ۔ (صحیح بخاری:5970) سیدہ ام فردہ رضی اللہ عنہا جو بیعت کرنے والی عورتوں میں سے ہیں ، فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اعمال کا ذِکر فرما رہے تھے ۔ اسی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سب سے زیادہ پسندیدہ عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک نماز کو اول وقت ادا کرنے کی جلدی کرنا ہے ۔ (مسند احمد:374/6:صحیح) امام ترمذی اس حدیث کے ایک راوی عمری کو غیر قوی بتاتے ہیں ۔ پھر صلوۃ وسطی کی مزید تاکید ہو رہی ہے ۔ سلف و خلف کا اس میں اختلاف ہے کہ صلوٰۃ وسطی کس نماز کا نام ہے ، سیدنا علی ، ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ کا قول ہے کہ اس سے مراد صبح کی نماز ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما ایک مرتبہ نماز پڑھتے ہیں جس میں ہاتھ اٹھا کر قنوت بھی پڑھتے ہیں ، پھر فرماتے ہیں یہی وہ نماز وسطیٰ ہے جس میں قنوت کا حکم ہوا ہے ۔ دوسری روایت میں ہے کہ یہ واقعہ بصرے کی مسجد کا ہے اور قنوت آپ نے رکوع سے پہلے پڑھی تھی ۔ ابوالعالیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں بصرے میں میں نے سیدنا عبداللہ بن قیس رضی اللہ عنہ کے پیچھے صبح کی نماز ادا کی پھر میں نے ایک صحابی سے پوچھا کہ صلوٰۃ وسطی کون سی ہے ، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہی صبح کی نماز ہے ۔ اور روایت میں ہے کہ بہت سے اصحاب اس مجمع میں تھے اور سب نے یہی جواب دیا ۔ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بھی یہی فرماتے ہیں اور بھی بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم تابعین رحمہ اللہ علیہم کا یہی مسلک ہے ۔ امام شافعی رحمہ اللہ بھی یہی فرماتے ہیں اس لیے کہ ان کے نزدیک صبح کی نماز میں ہی قنوت ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد مغرب کی نماز ہے اس لیے کہ اس سے پہلے بھی چار رکعت والی نماز ہے اور اس کے بعد بھی چار رکعت والی نماز ہے اور سفر میں دونوں قصر کی جاتی ہیں لیکن مغرب پوری ہی رہتی ہے ۔ یہ وجہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس کے بعد دو نمازیں رات کی عشاء اور فجر وہ ہیں جن میں اونچی آواز سے قرأت پڑھی جاتی ہے اور دو نمازیں اس سے پہلی دن کی وہ ہیں کہ جن میں آہستہ قرأت پڑھی جاتی ہے یعنی ظہر ، عصر ۔ بعض کہتے ہیں یہ نماز ظہر کی ہے ۔ ایک مرتبہ چند لوگ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے ، وہاں یہی مسئلہ چھڑا ، لوگوں نے ایک آدمی بھیج کر سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہما سے دریافت کیا ، آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا یہ ظہر کی نماز ہے جسے حضور علیہ السلام اوّل وقت پڑھا کرتے تھے ۔ (طیالسی:628:ضعیف ) سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اس سے زیادہ بھاری نماز صحابہ رضی اللہ عنہم پر اور کوئی نہ تھی اس لیے یہ آیت نازل ہوئی اور اس سے پہلے بھی دو نمازیں ہیں اور اس کے بعد دو ہیں ۔ (سنن ابوداود:411 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) آپ رضی اللہ عنہ ہی سے یہ بھی مروی ہے کہ قریشیوں کی ایک جماعت کے بھیجے ہوئے دو شخصوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی سوال کیا جس کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ عصر ہے ، پھر دو اور شخصوں نے پوچھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ ظہر ہے ، پھر ان دونوں نے سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہما سے پوچھا ، آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا یہ ظہر ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے آفتاب ڈھلتے ہی پڑھا کرتے تھے ، بمشکل ایک دو صف کے لوگ آتے تھے ، کوئی نیند میں ہوتا کوئی کاروبار میں مشغول ہوتا جس پر یہ آیت اتری اور آپ نے فرمایا تو یہ لوگ اس حرکت سے باز آئیں یا میں ان کے گھروں کو جلا دوں گا ، (مسند احمد:206/5:منقطع و ضعیف) لیکن اس کے راوی زبرقان نے صحابی سے ملاقات نہیں کی لیکن سیدنا زید رضی اللہ عنہ سے اور روایات سے بھی یہ ثابت ہے کہ آپ اس سے مراد ظہر کی نماز ہی بتاتے تھے ، (تفسیر ابن جریر الطبری:5453:صحیح موقوف) ایک مرفوع حدیث میں بھی یہ ہے کہ سیدنا عمر ، ابوسعید ، عائشہ رضی اللہ عنہم وغیرہ سے بھی یہی مروی ہے ۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے بھی ایک روایت اسی کی ہے ۔ بعض کہتے ہیں اس سے مراد عصر کی نماز ہے ۔ اکثر علماء صحابہ رضی اللہ عنہم وغیرہ کا یہی قول ہے ، جمہور تابعین کا بھی یہی قول ہے اور اکثر اہل اثر کا بھی ، بلکہ جمہور لوگوں کا ، حافظ ابومحمد عبدالمومن دمیاطی نے اس بارے میں ایک مستقل رسالہ تصنیف فرمایا ہے جس کا نام «کشف الغطاء فی تبیین الصلوۃ الوسطیٰ» ہے اس میں ان کا فیصلہ بھی یہی ہے کہ صلوٰۃ وسطیٰ عصر کی نماز ہے ۔ سیدنا عمر ، علی ، ابن مسعود ، ابوایوب ، عبداللہ بن عمرو ، سمرہ بن جندب ، ابوہریرہ ، ابوسعید ، حفصہ ، ام حبیبہ ، ام سلمہ ، ابن عمر ، ابن عباس ، عائشہ ( رضوان اللہ علیہم اجمعین ) وغیرہ کا فرمان بھی یہی ہے اور ان حضرات سے یہی مروی ہے اور بہت سے تابعین سے یہ منقول ہے ۔ امام احمد اور امام شافعی رحمہ اللہ کا بھی یہی مذہب ہے ۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا بھی صحیح مذہب یہی ہے ۔ ابویوسف ، محمد سے بھی یہی مروی ہے ۔ ابن حبیب مالکی رحمہ اللہ بھی یہی فرماتے ہیں ۔ اس قول کی دلیل سنیئے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ احزاب میں فرمایا اللہ تعالیٰ ان مشرکوں کے دِلوں کو اور گھر کو آگ سے بھر دے کہ انہوں نے ہمیں صلوۃ وسطیٰ یعنی نماز عصر سے روک دیا ۔ (صحیح بخاری:2931) سیدنا علی رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ہم اس سے مراد صبح یا عصر کی نماز لیتے ہیں یہاں تک کہ جنگ احزاب میں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا ، اس میں قبروں کو بھی آگ سے بھرنا وارد ہوا ہے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:5426:حسن بالشواھد) مسند احمد میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا یہ عصر کی نماز ہے ۔ اس حدیث کے بہت سے طرق ہیں اور بہت سی کتابوں میں مروی ہے ۔ (مسند احمد:8/5:صحیح المتن) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے ایک مرتبہ اس بارے میں سوال ہوا تو آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا ہم نے بھی ایک مرتبہ اس میں اختلاف کیا تو ابوہاشم بن عتبہ رضی اللہ عنہ مجلس میں سے اٹھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان پر گئے ، اجازت مانگ کر اندر داخل ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے معلوم کر کے باہر آ کر ہمیں فرمایا یہ نماز عصر ہے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:5439) عبدالعزیز بن مروان رحمہ اللہ کی مجلس میں بھی ایک مرتبہ یہی مسئلہ پیش آیا ، آپ رحمہ اللہ نے فرمایا جاؤ فلاں صحابی رضی اللہ عنہ سے پوچھ آؤ ، تو ایک شخص نے کہا کہ مجھ سے سنیئے مجھے سیدنا ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما نے میرے بچپن میں یہی مسئلہ پوچھنے کیلئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری چھنگلیا یعنی سب سے چھوٹی انگلی پکڑ کر فرمایا دیکھ یہ تو ہے فجر کی نماز ، پھر اس کے پاس والی انگلی تھام کر فرمایا یہ ہوئی ظہر کی ، پھر انگوٹھا پکڑ کر فرمایا یہ ہے مغرب کی نماز ، پھر شہادت کی انگلی پکڑ کر فرمایا یہ عشاء کی نماز ، پھر مجھ سے کہا اب تمہاری کون سی انگلی باقی رہی ، میں نے کہا بیچ کی ، فرمایا اور نماز کون سی باقی رہی ، میں نے کہا عصر کی ، فرمایا یہی صلوۃ وسطیٰ ہے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:5445) لیکن یہ روایت بہت ہی غریب ہے ، غرض صلوٰۃ وسطیٰ سے نماز عصر مراد ہونا بہت سی احادیث میں وارد ہے جن میں سے کوئی حسن ہے کوئی صحیح ہے کوئی ضعیف ہے ۔ ترمذی مسلم وغیرہ میں بھی یہ حدیثیں ہیں ۔ پھر اس نماز کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تاکیدیں اور سختی کے ساتھ محافظت بھی ثابت ہے چنانچہ ایک حدیث میں ہے جس سے عصر کی نماز فوت ہو جائے گویا اس کا گھرانہ تباہ ہو گیا اور مال و اسباب برباد ہو گیا ۔ (صحیح بخاری:552) اور حدیث میں ہے ابر والے دن نمازِ اول وقت پڑھو ، سنو جس شخص نے عصر کی نماز چھوڑ دی اس کے اعمال غارت ہو جاتے ہیں ۔ (سنن ابن ماجہ:694 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز قبیلہ غفار کی ایک وادی میں جس کا نام حمیص تھا ، ادا کی پھر فرمایا یہی نماز تم سے اگلے لوگوں پر بھی پیش کی گئی تھی لیکن انہوں نے اسے ضائع کر دیا ، سنو اسے پڑھنے والے کو دوہرا اجر ملتا ہے اس کے بعد کوئی نماز نہیں جب تک کہ تم تارے نہ دیکھ لو ۔ (صحیح مسلم:830:صحیح) ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے آزاد کردہ غلام ابویونس رحمہ اللہ سے فرماتی ہیں کہ میرے لیے ایک قرآن شریف لکھو اور جب اس آیت «حَافِظُوا» تک پہنچو تو مجھے اطلاع کرنا ، چنانچہ جب آپ کو اطلاع دی گئی تو آپ رضی اللہ عنہا نے آیت «وَالصَّلَاۃِ الْوُسْطَیٰ» کے بعد آیت «وصلوۃ العصر» لکھوایا اور فرمایا میں نے خود اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ۔ (صحیح مسلم:629:صحیح) ایک روایت میں آیت «وھی صلوۃ العصر» کا لفظ بھی ہے ( ابن جریر ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری بیوی صاحبہ سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے عمرو بن رافع رضی اللہ عنہ کو جو آپ کے قرآن کے کاتب تھے ، اسی طرح یہ آیت لکھوائی ۔ (مؤطا:139/1:صحیح) اس حدیث کے بھی بہت سے طریقے ہیں اور کئی کتابوں میں مروی ہے کہ ام المؤمنین نے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی الفاظ سنے ہیں ، سیدنا نافع رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں میں نے یہ قرآن شریف اپنی آنکھوں سے دیکھا ، یہی عبارت واؤ کے ساتھ تھی ، سیدنا ابن عباس اور عبید بن عسیر رضی اللہ عنہما کی قرأت بھی یونہی ہے ، ان روایات کو مدنظر رکھ کر بعض حضرات کہتے ہیں کہ چونکہ واؤ عطف کیلئے ہوتا ہے کہ صلوٰۃ الوسطیٰ اور ہے اور صلوٰۃ عصر اور ہے لیکن اس کا جاب یہ ہے کہ اگر اسے بطور حدیث کے مانا جائے تو سیدنا علی رضی اللہ عنہما والی حدیث بہت زیادہ صحیح ہے اور اس میں صراحت موجود ہے ، رہا واؤ ، سو ممکن ہے کہ زائد ہو عاطفہ نہ ہو جیسے آیت «وَکَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ وَلِتَسْتَبِیْنَ سَبِیْلُ الْمُجْرِمِیْنَ» ( 6 ۔ الانعام : 55 ) میں اور «وَکَذٰلِکَ نُرِیْٓ اِبْرٰہِیْمَ مَلَکُوْتَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلِیَکُوْنَ مِنَ الْمُوْقِنِیْنَ» ( 6 ۔ الانعام : 75 ) میں یا یہ واؤ عطف صفت کیلئے ہو عطف ذات کیلئے نہ ہو جیسے آیت «وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّـبِیّٖنَ» ( 33 ۔ الاحزاب : 40 ) میں اور جیسے آیت «سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلَی الَّذِی خَلَقَ فَسَوَّیٰ وَالَّذِی قَدَّرَ فَہَدَیٰ وَالَّذِی أَخْرَجَ الْمَرْعَیٰ» ( 87 ۔ الاعلی : 1-4 ) میں ۔ اس کی مثالیں اور بھی بہت سی ہیں ، شاعروں کے شعروں میں بھی یہ بات پائی جاتی ہے ۔ سیبویہ جو نحویوں کے امام ہیں ، فرماتے ہیں کہ «” مررت باخیک وصاحبک “» کہنا درست ہے حالانکہ صاحب اور اخ سے مراد ایک ہی شخص ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» اور اگر اس قرأت کے الفاظ کو بطور قرآنی الفاظ کے مانا جائے تو ظاہر ہے کہ اس خبر واحد سے قرأت قرآنی ثابت نہیں ہوتی جب تک کہ تواتر ثابت نہ ہو ، اسی لیے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہما نے اپنے مرتب کردہ قرآن میں اس قرأت کو نہیں لیا ، اور نہ ساتوں قاریوں کی قرأت میں یہ الفاظ ہیں بلکہ نہ کسی اور ایسے معتبر قاری کی یہ قرات پائی گئی ہے ، علاوہ ازیں ایک حدیث اور ہے جس سے اس قرأت کا منسوخ ہونا ثابت ہو رہا ہے ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے کہ یہ آیت اتری «حافظو علی الصلوات والصلوٰۃ الوسطی وصلوٰۃ العصر» ہم ایک مدت تک اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس آیت کو پڑھتے رہے پھر یہ تلاوت منسوخ ہو گئی اور آیت یوں ہی رہی آیت «حَافِظُوا عَلَی الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاۃِ الْوُسْطَیٰ» ( البقرہ : 238 ) ایک شخص نے راوی حدیث سیدنا شفیق رضی اللہ عنہما سے کہا کہ پھر کیا یہ نماز عصر کی نماز ہی ہے ، فرمایا میں تو سنا چکا کہ کس طرح آیت اتری اور کس طرح منسوخ ہوئی ، (صحیح مسلم:630:صحیح) پس اس بنا پر یہ قرأت ام المؤمنین عائشہ اور ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہما کی روایت والی یا تو لفظاً منسوخ کی جائے گی اور اگر واؤ کو مغائرت کیلئے مانا جائے تو لفظ و معنی دونوں کے اعتبار سے منسوخ کی جائے گی ، بعض کہتے ہیں اس سے مراد مغرب کی نماز ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی یہ مروی ہے لیکن اس کی سند میں کلام ہے ، بعض اور حضرات کا قول بھی یہی ہے اس کی ایک وجہ تو یہ بیان کی جاتی ہے کہ اور فرض نمازیں یا تو چار رکعت والی ہیں یا دو رکعت والی ، اور اس کی تین رکعتیں ہیں پس یہ درمیانہ نماز ٹھہری ۔ دوسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ فرض نمازوں کی یہ وتر ہے اور اس لیے بھی کہ اس کی فضیلت میں بھی بہت کچھ حدیثیں وارد ہوئی ہیں ، بعض لوگ اس سے مراد عشاء کی نماز بھی بتلاتے ہیں ۔ بعض کہتے ہیں پانچ وقتوں میں سے ایک وقت کی نماز ہے لیکن ہم معین نہیں کر سکتے یہ مبہم ہے جس طرح لیلۃ القدر پورے سال میں یا پورے مہینے میں یا پچھلے دس دِنوں میں مبہم ہے ۔ بعض حضرات فرماتے ہیں پانچوں نمازوں کا مجموعہ مراد ہے اور بعض کہتے ہیں یہ عشاء اور صبح ہے ۔ بعض کا قول ہے یہ جماعت کی نماز ہے بعض کہتے ہیں جمعہ کی نماز ہے ، کوئی کہتا ہے صلوٰۃ خوف مراد ہے ، کوئی کہتا ہے نمازِ عید مراد ہے ، کوئی کہتا ہے صلوٰۃ ضحیٰ مراد ہے ، بعض کہتے ہیں ہم توقف کرتے ہیں اور کسی قول کے قائل نہیں بنتے ، اس لیے کہ دلیلیں مختلف ہیں ، وجہ ترجیح معلوم نہیں ، کسی قول پر اجماع ہوا نہیں بلکہ زمانہ صحابہ رضی اللہ عنہم سے لے کر آج تک جھگڑا جاری رہا ۔ جس طرح سعید بن مسیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس بارے میں اس طرح مختلف تھے پھر انگلیوں میں انگلیاں ڈال کر دکھائیں ۔ لیکن یہ یاد رہے کہ یہ پچھلے اقوال سب کے سب ضعیف ہیں ، جھگڑا صرف صبح اور عصر کی نماز میں ہے اور صحیح احادیث سے عصر کی نماز کا صلوٰۃ وسطیٰ ہونا ثابت ہے پس لازم ہو گیا کہ ہم سب اقوال کو چھوڑ کر یہی عقیدہ رکھیں کہ صلوٰۃ وسطیٰ نمازِ عصر ہے ۔ امام ابومحمد عبدالرحمٰن بن ابوحاتم رازی رحمہم اللہ نے اپنی کتاب فضائل شافعی میں روایت کی ہے کہ امام صاحب فرمایا کرتے تھے حدیث «کل ماقلت فکان عن النبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بخلاف قولی مما یصح فحدیث النبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اولیٰ ولا تقلدونی» یعنی میرے جس کسی قول کیخلاف کوئی صحیح حدیث شریف مروی ہو تو حدیث ہی اولیٰ ہے خبردار میری تقلید نہ کرنا ، امام شافعی رحمہ اللہ کے اس فرمان کو امام ربیع امام زعفرانی اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ بھی روایت کرتے ہیں ، اور موسیٰ ابوالولید جارود رحمہ اللہ امام شافعی رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ رحمہ اللہ نے فرمایا «اذا صح الحدیث و قلت قولا فانا راجع عن قولی و قائل بذالک» یعنی میری جو بات حدیث شریف کیخلاف ہو ، میں اپنی اس بات سے رجوع کرتا ہوں اور صاف کہتا ہوں کہ میرا مذہب وہی ہے جو حدیث میں ہو ، یہ امام صاحب کی امانت اور سرداری ہے اور آپ جیسے ائمہ کرام میں سے بھی ہر ایک نے یہی فرمایا ہے کہ ان کے اقوال کو دین نہ سمجھا جائے ۔ رحمھم اللہ و رضی عنہم اجمعین اسی لیے قاضی ماوردی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام صاحب کا صلوٰۃ وسطیٰ کے بارے میں یہی مذہب سمجھنا چاہیئے کہ وہ عصر ہے ، گو امام صاحب کا اپنا قول یہ ہے کہ وہ عصر نہیں ہے مگر آپ رحمہ اللہ کے اس فرمان کے مطابق حدیث صحیح کے خلاف اس قول کو پا کر ہم نے چھوڑ دیا ۔ شافعی مذہب کے اور بھی بہت سے محدثین نے یہی فرمایا ہے فالحمدللہ بعض فقہاء شافعی تو کہتے ہیں کہ امام صاحب کا صرف ایک ہی قول ہے کہ وہ صبح کی نماز ہے لیکن یہ سب باتیں طے کرنے کیلئے تفسیر مناسب نہیں ، علیحدہ اس کا بیان میں نے کر دیا ہے «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» ۔ پھر فرمایا اللہ تعالیٰ کے سامنے خشوع خضوع ، ذلت اور مسکینی کے ساتھ کھڑے ہوا کرو جس کو یہ لازم ہے کہ انسانی بات چیت نہ ہو اسی لیے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما کے سلام کا جواب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں نہ دیا اور بعد میں فراغت فرمایا کہ نماز مشغولیت کی چیز ہے۔(صحیح بخاری:1199) اور سیدنا معاویہ بن حکم رضی اللہ عنہ سے جبکہ انہوں نے نماز پڑھتے ہوئے بات کی تو فرمایا نماز میں انسانی بات چیت نہ کرنی چاہیئے یہ تو صرف تسبیح اور ذِکر اللہ ہے ۔(صحیح مسلم:537:صحیح) مسند احمد وغیرہ میں ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے لوگ ضروری بات چیت بھی نماز میں کر لیا کرتے تھے ، جب یہ آیت اتری تو چپ رہنے کا حکم دے دیا گیا ،(مسند احمد:368/4:صحیح) لیکن اس حدیث میں ایک اشکال یہ ہے کہ علماء کرام کی ایک جماعت کے نزدیک نماز میں بات چیت کرنے کی حرمت حبشہ کی ہجرت کے بعد اور مدینہ شریف کی ہجرت سے پہلے ہی مکہ شریف میں نازل ہو چکی تھی ۔ چنانچہ صحیح مسلم میں ہے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حبشہ کی ہجرت سے پہلے ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرتے تھے آپ نماز میں ہوتے پھر بھی جواب دیتے ، جب حبشہ سے ہم واپس آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے آپ کی نماز کی حالت میں ہی سلام کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب نہ دیا ، اب میرے رنج و غم کا کچھ نہ پوچھئے نماز سے فارغ ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا عبداللہ رضی اللہ عنہما اور کوئی بات نہیں میں نماز میں تھا اس وجہ سے میں نے جواب نہ دیا ، اللہ جو چاہے نیا حکم اتارے ، اس نے یہ نیا حکم نازل فرمایا ہے کہ نماز میں نہ بولا کرو ، (سنن ابوداود:924 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) پس یہ واقعہ ہجرت مدینہ سے پہلے کا ہے اور یہ آیت مدینہ میں نازل ہوئی ہے ، اب بعض تو کہتے ہیں کہ سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کے قول کا مطلب جنس کلام سے ہے اور اس کی حرمت پر اس آیت سے استدلال بھی خود ان کا فہم ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ، بعض کہتے ہیں ممکن ہے دو دفعہ حلال ہوا ہو اور دو دفعہ ممانعت ہوئی ہو لیکن پہلا قول زیادہ ظاہر ہے ، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما والی روایت جو ابویعلیٰ میں ہے اس میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب نہ دینے سے مجھے یہ خوف ہوا کہ شاید میرے بارے میں کوئی وحی نازل ہوئی ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فارغ ہو کر حدیث «وعلیک اسلام ایھا المسلم و رحمتہ اللہ» نماز میں جب تم ہو تو خاموش رہا کرو ۔ (میزان:204/1:منقطع و ضعیف) چونکہ نمازوں کی پوری حفاظت کرنے کا فرمان صادر ہو چکا تھا اس لیے اب اس حالت کو بیان فرمایا جاتا جس میں تمام ادب و آداب کی پوری رعایت عموماً نہیں رہ سکتی ، یعنی میدان جنگ میں جبکہ دشمن سر پر ہو تو فرمایا کہ جس طرح ممکن ہو سوار پیدل قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز ادا کر لیا کرو ، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما اس آیت کا یہی مطلب بیان کرتے ہیں بلکہ نافع رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں تو جانتا ہوں یہ مرفوع ہے ، (صحیح بخاری:4535:صحیح) مسلم شریف میں ہے سخت خوف کے وقت اشارے سے ہی نماز پڑھ لیا کرو ، گو سواری پر سوار ہو ، سیدنا عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ کو جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن سفیان کے قتل کیلئے بھیجا تھا تو آپ نے اسی طرح نماز عصر اشارے سے ادا کی تھی ۔ (سنن ابوداود:1249 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) پس اس میں جناب باری نے اپنے بندوں پر بہت آسانی کر دی اور بوجھ کو ہلکا کر دیا ، صلوٰۃ خوف ایک رکعت پڑھنی بھی آئی ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی حضر کی حالت میں چار رکعتیں فرض کی ہیں اور سفر کی حالت میں دو اور خوف کی حالت میں ایک ۔ (صحیح مسلم:687:صحیح) امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ اس وقت ہے جب بہت زیادہ خوف ہو ، سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما اور بہت سے اور بزرگ صلوٰۃ خوف ایک رکعت بتاتے ہیں ، امام بخاری نے صحیح بخاری میں باب باندھا ہے کہ فتوحات قلعہ کے موقع پر اور دشمن کے مڈبھیڑ کے موقع پر نماز ادا کرنا ۔ اوزاعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اگر فتح قریب آ گئی ہو اور نماز پڑھنے پر قدرت نہ ہو تو ہر شخص اپنے طور پر اشارے سے نماز پڑھ لے ، اگر اتنا وقت بھی نہ ملے تو تاخیر کریں یہاں تک کہ لڑائی ختم ہو جائے اور چین نصیب ہو تو دو رکعتیں ادا کر لیں ورنہ ایک رکعت کافی ہے لیکن صرف تکبیر کہہ لینا کافی نہیں بلکہ تاخیر کر دیں یہاں تک کہ امن ملے ، مکحول رحمہ اللہ بھی یہی کہتے ہیں سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ تستر قلعہ کی لڑائی میں میں بھی فوج میں تھا ، صبح صادق کے وقت گھمسان کی لڑائی ہو رہی تھی ، ہمیں وقت ہی نہ ملا کہ نماز ادا کرتے ، خوب دن چڑھے اس دن ہم نے صبح کی نماز پڑھی ، اگر اس نماز کے بدلے میں مجھے دنیا اور جو کچھ اس میں ہے مل جائے تاہم میں خوش نہیں ہوں ، (صحیح بخاری:944) بعد ازاں امام المحدثین نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے جس میں ہے کہ جنگ خندق میں سورج غروب ہو جانے تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز نہ پڑھ سکے ، پھر دوسری حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو بنی قریظہ کی طرف بھیجا تو ان سے فرما دیا تھا کہ تم میں سے کوئی بھی بنی قریظہ سے ورے نماز عصر نہ پڑھے ، اب جبکہ نماز عصر کا وقت آ گیا تو بعض نے تو وہیں پڑھی یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا ، وہیں جا کر نماز پڑھی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کے ان دونوں گروہوں میں سے کسی کو بھی کچھ نہیں کہا ، (المرجع السابق) پس اس سے امام بخاری یہ مسئلہ ثابت کرتے ہیں گو جمہور اس کے مخالف ہیں وہ کہتے ہیں سورۃ نساء میں جو نماز خوف کا حکم ہے اور جس نماز کی مشروعیت اور طریقہ احادیث میں وارد ہوا ہے وہ جنگ خندق کے بعد کا ہے جیسا کہ ابوسعید وغیرہ کی روایت میں صراحتاً بیان ہے ، لیکن امام بخاری امام مکحول اور امام اوزاعی رحمہ اللہ علیہم کا جواب یہ ہے کہ اس کی مشروعیت بعد میں ہونا اس جواز کیخلاف نہیں ، ہو سکتا ہے کہ یہ بھی جائز ہو اور وہ بھی طریقہ ہو ، کیونکہ ایسی حالت میں شاذو نادر کبھی ہی ہوتی ہے اور خود صحابہ رضی اللہ عنہم نے فاروق اعظم کے زمانے میں فتح تستر میں اس پر عمل کیا اور کسی نے انکار نہیں کیا ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» پھر فرمان ہے کہ امن کی حالت میں بجا آوری کا پورا خیال رکھو ، جس طرح میں نے تمہیں ایمان کی راہ دکھائی اور جُہل کے بعد علم دیا تو تمہیں بھی چاہیئے کہ اس کے شکریہ میں ذکر اللہ باطمینان کیا کرو ، جیسا کہ نماز خوف کا بیان کر کے فرمایا جب اطمینان ہو جائے تو نمازوں کو اچھی طرح قائم کرو ، نماز مومنوں پر وقت مقررہ پر فرض ہے ، صلوٰۃ خوف کا پورا بیان سورۃ نساء کی آیت «وَإِذَا کُنتَ فِیہِمْ فَأَقَمْتَ لَہُمُ الصَّلَاۃَ» ( 4-النسأ : 102 ) کی تفسیر میں آئے گا ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ البقرة
239 البقرة
240 بیوگان کے قیام کا مسئلہ اکثر مفسرین کا قول ہے کہ یہ آیت اس سے پہلے کی آیت یعنی چار مہینے دس رات کی عدت والی آیت کی منسوخ ہو چکی ہے ، صحیح بخاری شریف میں ہے کہ سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہما نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہما سے کہا کہ جب یہ آیت منسوخ ہو چکی ہے تو پھر آپ رضی اللہ عنہ اسے قرآن کریم میں کیوں لکھوا رہے ہیں ، آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا بھتیجے جس طرح اگلے قرآن میں یہ موجود ہے یہاں بھی موجود ہی رہے گی ، ہم کوئی تغیر و تبدیل نہیں کر سکتے ۔ (صحیح بخاری:4530) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں پہلے تو یہی حکم تھا کہ سال بھر تک نان نفقہ اس بیوہ عورت کو میت کے مال سے دیا جائے اور اسی کے مکان میں یہ رہے ، پھر آیت میراث نے اسے منسوخ کر دیا اور خاوند کی اولاد ہونے کی صورت میں مال متروکہ کا آٹھواں حصہ اور اولاد نہ ہونے کے وقت چوتھائی مال ورثہ کا مقرر کیا گیا اور عدت چار ماہ دس دن مقرر ہوئی ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:871/2) اکثر صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہ اللہ علیہم سے مروی ہے کہ یہ آیت منسوخ ہے ، سعید بن مسیب رحمہ اللہ کہتے ہیں سورۃ الاحزاب کی آیت «یٰٓاَیٰہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نَکَحْتُمُ الْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْہُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسٰوْہُنَّ فَمَا لَکُمْ عَلَیْہِنَّ مِنْ عِدَّۃٍ تَعْتَدٰوْنَہَا فَمَتِّعُوْہُنَّ وَسَرِّحُوْہُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا» ( 33 ۔ الاحزاب : 49 ) ، نے اسے منسوخ کر دیا ۔ حضرت مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں سات مہینے بیس دن جو اصلی عدت چار مہینے دس دن کے سوا کے ہیں اس آیت میں اس مدت کا حکم ہو رہا ہے ، عدت تو واجب ہے لیکن یہ زیادتی کی مدت کا عورت کو اختیار ہے خواہ وہیں بیٹھ کر یہ زمانہ گزار دے خواہ نہ گزارے اور چلی جائے ، میراث کی آیت نے رہنے سہنے کے مکان کو بھی منسوخ کر دیا ، وہ جہاں چاہ عدت گزارے مکان کا خرچ خاوند کے ذمہ نہیں ، ۱(صحیح بخاری:4531) پس ان اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت نے سال بھر تک کی عدت کو واجب ہی نہیں کیا پھر منسوخ ہونے کے کیا معنی ؟ یہ تو صرف خاوند کی وصیت ہے اور اسے بھی عورت پورا کرنا چاہے تو کرے ورنہ اس پر جبر نہیں ، وصیتہ سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں وصیت کرتا ہے جیسے آیت «یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْٓ اَوْلَادِکُمْ ۤ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ»( 4 ۔ النسآء : 11 ) ، اس کا نصب «فلتو صوالھن» کو محذوف مان کر ہے ۔ «وصیتہ» کی قرأت یہی ہے یعنی «کتب علیکم وصیتہ» پس اگر عورتیں سال بھر تک اپنے فوت شدہ خاوندوں کے مکانوں میں رہیں تو انہیں نہ نکالا جائے اور اگر وہ عدت گزار کر جانا چاہیں تو ان پر کوئی جبر نہیں ۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ بھی اسی قول کو پسند فرماتے ہیں اور بھی بہت سے لوگ اسی کو اختیار کرتے ہیں اور باقی کی جماعت اسے منسوخ بتاتی ہے ، پس اگر ان کا ارادہ اصلی عدت کے بعد کے زمانہ کے منسوخ ہونے کا ہے تو خیر ورنہ اس بارے میں ائمہ کا اختلاف ہے ، وہ کہتے ہیں خاوند کے گھر میں عدت گزارنی ضروری ہے اور اس کی دلیل موطا مالک کی حدیث ہے کہ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی ہمشیرہ صاحبہ فریعہ بن مالک رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہا ہمارے غلام بھاگ گئے تھے جنہیں ڈھونڈنے کیلئے میرے خاوند گئے قدوم میں ان غلاموں سے ملاقات ہوئی لیکن انہوں نے آپ کو قتل کر دیا ان کا کوئی مکان نہیں جس میں عدت گزاروں اور نہ کچھ کھانے پینے کو ہے اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اجازت دیں تو اپنے میکے چلی جاؤں اور وہیں عدت پوری کروں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اجازت ہے ، میں لوٹی ابھی تو میں حجرے میں ہی تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلوایا یا خود بلایا اور فرمایا تم نے کیا کہا ، میں نے پھر قصہ بیان کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسی گھر میں ہی ٹھہری رہو یہاں تک کہ عدت گزر جائے ، چنانچہ میں نے وہیں عدت کا زمانہ پورا کیا یعنی چار مہینے دس دن ۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہما کے زمانہ میں آپ رضی اللہ عنہما نے مجھے بلوایا اور مجھ سے یہی مسئلہ پوچھا ، میں نے اپنا یہ واقعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے سمیت سنایا ، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہما نے بھی اسی کی پیروی کی اور یہی فیصلہ دیا (موطا591/2) ، اس حدیث کو امام ترمذی حسن صحیح کہتے ہیں ۔ البقرة
241 1 مطلقہ عورت کو فائدہ دینے کے بارے میں لوگ کہتے تھے کہ اگر ہم چاہیں دیں ، چاہیں نہ دیں ، اس پر یہ آیت اتری ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:264/5) ، اسی آیت سے بعض لوگوں نے ہر طلاق والی کو کچھ نہ کچھ دینا واجب قرار دیا ، اور بعض دوسرے بزرگوں نے اسے ان عورتوں کے ساتھ مخصوص مانا ہے جن کا بیان پہلے گزر چکا ہے یعنی جن عورتوں سے صحبت نہ ہوئی اور مہر بھی نہ مقرر ہوا ہو اور طلاق دے دی جائے لیکن پہلی جماعت کا جواب یہ ہے کہ عام میں سے ایک خاص صورت کا ذِکر کرنا اسی صورت کے ساتھ اس حکم کو مخصوص نہیں کرتا جیسا کہ مشہور اور منصوص مذہب ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ، پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اسی طرح اپنی آیتیں حلال و حرام اور فرائض و حدود اور امرونہی کے بارے میں واضح اور مفسر بیان کرتا ہے تاکہ کسی قسم کا ابہام اور اجمال باقی نہ رہے کہ ضرورت کے وقت اٹک بیٹھو بلکہ اس قدر صاف بیان ہوتا ہے کہ ہر شخص سمجھ سکے ۔ البقرة
242 البقرة
243 موت اور زندگی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یہ لوگ چار ہزار تھے اور روایت میں ہے کہ آٹھ ہزار تھے ، بعض تو ہزار کہتے ہیں ، بعض چالیس ہزار بتاتے ہیں ، بعض تیس ہزار سے کچھ اوپر بتاتے ہیں ، یہ لوگ ذاوردان نامی بستی کے تھے جو واسط کی طرف ہے ، بعض کہتے ہیں اس بستی کا نام اذرعات تھا ، یہ لوگ طاعون کے مارے اپنے شہر کو چھوڑ کر بھاگے تھے ، ایک بستی میں جب پہنچے وہیں اللہ کے حکم سے سب مر گئے ، اتفاق سے ایک اللہ کے نبی کا وہاں سے گزرا ، ان کی دعا سے اللہ تعالیٰ نے انہیں پھر دوبارہ زندہ کر دیا ، بعض لوگ کہتے ہیں ایک چٹیل صاف ہوادار کھلے پر فضا میدان میں ٹھہرے تھے اور دو فرشتوں کی چیخ سے ہلاک کئے گئے تھے جب ایک لمبی مدت گزر چکی ان کی ہڈیوں کا بھی چونا ہو گیا ، اسی جگہ بستی بس گئی تب خرقیل نامی ایک نبی وہاں سے نکلے انہوں نے دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی اور حکم دیا کہ تم کہو کہ اے بوسیدہ ہڈیو ! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم گوشت پوست رگیں پٹھے بھی جوڑ لو ، چنانچہ اس نبی کے دیکھتے ہوئے یہ بھی ہو گیا ، پھر آواز آئی کہ اے روحو! اللہ تعالیٰ کا تمہیں حکم ہو رہا ہے کہ ہر روح اپنے اپنے قدیم جسم میں آ جائے چنانچہ یہ سب جس طرح ایک ساتھ مرے تھے اسی طرح ایک ساتھ جی اٹھے اور بےساختہ ان کی زبان سے نکلا «سبحانک لا الہ الا انت» اے اللہ تو پاک ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں ، یہ دلیل ہے قیامت کے دن اسی جسم کے ساتھ دوبارہ جی اُٹھنے کی ۔ پھر فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا لوگوں پر بڑا بھاری فضل و کرم ہے کہ وہ زبردست ٹھوس نشانیاں اپنی قدرت قاہرہ کی دکھا رہا ہے لیکن باوجود اس کے بھی اکثر لوگ ناقدرے اور بے شکرے ہیں ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:266/5) ، اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی جگہ بچاؤ اور پناہ نہیں یہ لوگ وبا سے بھاگے تھے اور زندگی کے حریص تھے تو اس کے خلاف عذاب آیا اور فوراً ہلاک ہو گئے ۔ مسند احمد کی اس حدیث میں ہے کہ جب عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شام کی طرف چلے اور سرغ میں پہنچے تو سیدنا ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ وغیرہ سرداران لشکر ملے اور خبر دی کہ شام میں آج کل وبا ہے چنانچہ اس میں اختلاف ہوا کہ اب وہاں جائیں یا نہ جائیں ، بالآخر سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ جب آئے اور فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جب وبا کسی جگہ آئے اور تم وہاں ہو تو وہاں سے اس کے ڈر سے مت بھاگو ، اور جب تم کسی جگہ وبا کی خبر سن لو تو وہاں مت جاؤ ۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی پھر وہاں سے واپس چلے گئے‘ ۔ (صحیح بخاری:5729) ایک اور روایت میں ہے کہ یہ اللہ کا عذاب ہے جو اگلی امتوں پر ڈالا گیا تھا ۔ (مسند احمد:193/1صحیح بالشواھد) ۔ پھر فرمایا کہ جس طرح ان لوگوں کا بھاگنا انہیں موت سے نہ بچا سکا اسی طرح جہاد سے منہ موڑنا بھی بے کار ہے ۔ اجل اور رزق دونوں قسمت میں مقرر ہو چکے ہیں ، رزق نہ بڑھے نہ گھٹے موت نہ پہلے آئے نہ پیچھے ہٹے ، اور جگہ ارشاد ہے کہ«الَّذِینَ قَالُوا لِإِخْوَانِہِمْ وَقَعَدُوا لَوْ أَطَاعُونَا مَا قُتِلُوا ۗ قُلْ فَادْرَءُوا عَنْ أَنفُسِکُمُ الْمَوْتَ إِن کُنتُمْ صَادِقِینَ » جو لوگ اللہ کی راہ میں اٹک بیٹھے ہیں اور اپنے ساتھیوں سے بھی کہتے ہیں کہ یہ مجاہد شہداء بھی اگر ہماری طرح رہتے تو مارے نہ جاتے ، ان سے کہو اگر تم سچے ہو تو ذرا اپنی جانوں سےبھی موت کو ہٹادو (3-آل عمران:168) اور جگہ ہے کہ یہ« أَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِینَ قِیلَ لَہُمْ کُفٰوا أَیْدِیَکُمْ وَأَقِیمُوا الصَّلَاۃَ وَآتُوا الزَّکَاۃَ فَلَمَّا کُتِبَ عَلَیْہِمُ الْقِتَالُ إِذَا فَرِیقٌ مِّنْہُمْ یَخْشَوْنَ النَّاسَ کَخَشْیَۃِ اللہِ أَوْ أَشَدَّ خَشْیَۃً ۚ وَقَالُوا رَبَّنَا لِمَ کَتَبْتَ عَلَیْنَا الْقِتَالَ لَوْلَا أَخَّرْتَنَا إِلَیٰ أَجَلٍ قَرِیبٍ ۗ قُلْ مَتَاعُ الدٰنْیَا قَلِیلٌ وَالْآخِرَۃُ خَیْرٌ لِّمَنِ اتَّقَیٰ وَلَا تُظْلَمُونَ فَتِیلًا ﴿٧٧﴾ أَیْنَمَا تَکُونُوا یُدْرِککٰمُ الْمَوْتُ وَلَوْ کُنتُمْ فِی بُرُوجٍ مٰشَیَّدَۃٍ ۗ وَإِن تُصِبْہُمْ حَسَنَۃٌ یَقُولُوا ہٰذِہِ مِنْ عِندِ اللہِ ۖ وَإِن تُصِبْہُمْ سَیِّئَۃٌ یَقُولُوا ہٰذِہِ مِنْ عِندِکَ ۚ قُلْ کُلٌّ مِّنْ عِندِ اللہِ ۖ فَمَالِ ہٰؤُلَاءِ الْقَوْمِ لَا یَکَادُونَ یَفْقَہُونَ حَدِیثًا» کیا تم نے نہیں دیکھا جنہیں حکم کیا گیا تھا کہ اپنے ہاتھوں کو روکے رکھو اور نمازیں پڑھتے رہو اور زکوۃ ادا کرتے رہو، پھر جب انہیں جہاد کا حکم دیا گیا تو اسی وقت ان کی ایک جماعت لوگوں سے اس قدر ڈرنے لگی جیسے اللہ تعالیٰ کا ڈر ہو، بلکہ اس سے بھی زیادہ، اور کہنے لگے اے ہمارے رب! تو نے ہم پر جہاد کیوں فرض کر دیا ،کیوں ہمیں تھوڑی سی زندگی اور نہ جینے دیا؟ آپ کہہ دیجئے کہ دنیا کی سود مندی تو بہت ہی کم ہے اور پرہیزگاروں کے لئے تو آخرت ہی بہتر ہے اور تم پر ایک دھاگے کے برابر بھی ستم روانہ رکھا جائے گا ،تم جہاں کہیں بھی ہو موت تمہیں آ کر پکڑے گی گو تم مضبوط قلعوں میں ہو ، اور اگر انہیں کوئی بھلائی ملتی ہے تو کہتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اگر کوئی برائی پہنچتی ہے تو کہہ اٹھتے ہیں کہ یہ تیری طرف سے ہے ، انہیں کہہ دو کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ انہیں کیا ہو گیا ہے کہ کوئی بات سمجھنے کے بھی قریب نہیں ۔ ‘(4-النساء:77-78)، اس موقع پر اسلامی لشکروں کے جیوٹ سردار اور بہادروں کے پیشوا اللہ کی تلوار اسلام کے پشت پناہ ابوسلیمان سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا وہ فرمان وارد کرنا بالکل مناسب وقت ہو گا جب آپ رضی اللہ عنہ نے عین اپنے انتقال کے وقت فرمایا تھا کہ کہاں ہیں موت سے ڈرنے والے ، لڑائی سے جی چرانے والے نامرد ، وہ دیکھیں کہ میرا جوڑ جوڑ اللہ تعالیٰ کی راہ میں زخمی ہو چکا ہے ، سارے جسم میں کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں تلوار نیزہ برچھا نہ لگا ہو لیکن دیکھو کہ آج میں بستر میں فوت ہو رہا ہوں ، میدان جنگ میں نہ رہا ۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرو پھر پروردگار اپنے بندوں کو اپنی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب دے رہا ہے جو جگہ بہ جگہ دی جاتی ہے ، حدیث نزول میں بھی ہے کون ہے جو ایسے اللہ کو قرض دے جو نہ مفلس ہے نہ ظالم ۔ (صحیح مسلم:758) ، اس آیت کو سن کر سیدنا ابوالاصداح انصاری رضی اللہ عنہما نے کہا تھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا اللہ تعالیٰ ہم سے قرض طلب فرماتا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ۔ فرمایا اپنا ہاتھ دیجئیے ، پھر ہاتھ میں ہاتھ لے کر کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنا باغ جس میں چھ کھجور کے درخت ہیں اللہ کو قرض دیا اور وہاں سے سیدھے اپنے باغ میں آئے اور باہر ہی کھڑے رہ کر اپنی بیوی صاحبہ کو آواز دی کہ بچوں کو لے کر باہر آ جاؤ میں نے یہ باغ اللہ کی راہ میں دے دیا ہے (بیہقی فی شعب الایمان3452: ضعیف) قرض حسن سے مراد فی سبیل اللہ خرچ ہے اور بال بچوں کا خرچ بھی ہے اور تسبیح و تقدیس بھی ہے ۔ پھر فرمایا کہ ’ اللہ اسے دوگنا چوگنا کر کے دے گا‘ جیسے اور جگہ ہے آیت «مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنْۢبَتَتْ سَـبْعَ سَـنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنْۢبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ» ( 2 ۔ البقرہ : 261 ) ، یعنی اللہ کی راہ کے خرچ کی مثال اس دانہ جیسی ہے جس کی سات بالیں نکلیں اور ہر بال میں سات دانے ہوں اور اللہ اس سے بھی زیادہ جسے چاہے دیتا ہے ۔ اس آیت کی تفسیر بھی عنقریب آئے گی ان شاءاللہ تعالیٰ ، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ابوعثمان نہدی رحمہ اللہ پوچھتے ہیں میں نے سنا ہے کہ آپ فرماتے ہیں کہ ایک ایک نیکی کا بدلہ ایک ایک لاکھ نیکیوں کا ملتا ہے ، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس میں تعجب کیا کرتے ہو ، میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ایک نیکی کا بدلہ دو لاکھ کے برابر ملتا ہے ( مسند احمد296/2 ضعیف ) لیکن یہ حدیث غریب ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ ابوعثمان نہدی رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں مجھ سے زیادہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں کوئی نہیں رہتا تھا ، آپ رضی اللہ عنہ حج کو گئے پھر پیچھے سے میں بھی گیا ، بصرے پہنچ کر میں نے سنا کہ وہ لوگ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے مندرجہ بالا حدیث بیان کرتے ہیں میں نے ان سے کہا اللہ کی قسم سب سے زیادہ آپ کا صحبت یافتہ میں ہوں میں نے تو کبھی بھی آپ سے یہ حدیث نہیں سنی ، پھر میرے جی میں آئی کہ چلو چل کر خود سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھ لوں ، چنانچہ میں وہاں سے چلا یہاں آیا تو معلوم ہوا کہ وہ حج کو گئے ہیں ، میں صرف اس ایک حدیث کی خاطر مکہ کو چل کھڑا ہوا ، وہاں آپ رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی میں نے کہا یہ بصرہ والے آپ سے کیسی روایت کرتے ہیں ؟ ، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا واہ اس میں تعجب کی کون سی بات ہے ، پھر یہی آیت پڑھی اور فرمایا کے ساتھ ہی یہ قول باری بھی پڑھو آیت «وفَمَا مَتَاعُ الْحَیٰوۃِ الدٰنْیَا فِی الْاٰخِرَۃِ اِلَّا قَلِیْلٌ» ( 9 ۔ التوبہ : 38 ) یعنی ساری دنیا کا اسباب بھی آخرت کے مقابلہ میں حقیر چیز ہے ۔ اللہ کی قسم !میں نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ایک نیکی کے بدلے اللہ تعالیٰ دو لاکھ نیکیاں عطا فرماتا ہے (میزان 2938 ضعیف) ۔ اسی مضمون کی ترمذی کی یہ حدیث بھی ہے کہ جو شخص بازار میں جائے اور وہاں «لاَاِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحدَہُ لاَ شَرِیکَ لَہُ ، لَہُ المُلکُ وَلَہُ الحَمدُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَئٍ قَدِیرٌ» پڑھے ، اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایک لاکھ نیکیاں لکھتا ہے اور ایک لاکھ گناہ معاف فرماتا ہے (سنن ترمذی:3428 ، قال الشیخ الألبانی:حسن) ، ابن ابی حاتم میں ہے آیت «مَّثَلُ الَّذِینَ یُنفِقُونَ أَمْوَالَہُمْ فِی سَبِیلِ اللہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ أَنبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِی کُلِّ سُنبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ» ؎ ( البقرہ : 261 ) ، کی آیت اتری تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی کہ میری امت کو اور زیادہ زیادتی عطا فرما آیت پس «من الذی» الخ کی جب آیت اتری تو پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی دعا کی تو «إِنَّمَا یُوَفَّی الصَّابِرُونَ أَجْرَہُم بِغَیْرِ حِسَابٍ» ۱؎ ( 39-الزمر : 10 ) کی آیت اتری ، (صحیح ابن حبان4648سخت ضعیف) سیدنا کعب احبار رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے کہا میں نے ایک شخص سے یہ سنا ہے کہ جو شخص سورۃ آیت «قُلْ ہُوَ اللہُ أَحَدٌ» ( 112-الإخلاص : 1 ) ، کو ایک دفعہ پڑھے اس کیلئے موتی اور یاقوت کے دس لاکھ محل جنت میں بنتے ہیں ، کیا میں اسے سچ مان لوں ، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس میں تعجب کی کون سی بات ہے ، بلکہ بیس اور بھی اور بیس لاکھ اور بھی اور اس قدر کہ ان کی گنتی بجز جناب باری کے کسی کو معلوم ہی نہ ہو ، پھر آپ رضی اللہ عنہ نے اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا جب اللہ تعالیٰ آیت «مَّن ذَا الَّذِی یُقْرِضُ اللہَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضَاعِفَہُ لَہُ أَضْعَافًا کَثِیرَۃً» ( البقرہ : 245 ) فرماتا ہے تو پھر مخلوق اس کی گنتی کی طاقت کیسے رکھے گی ؟ پھر فرمایا رزق کی کمی بیشی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے ، اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہوئے بخیلی نہ کرو ، وہ جسے دے اس میں بھی حکمت ہے اور نہ دے اس میں بھی مصلحت ہے ، تم سب قیامت کے دن اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے ۔ البقرة
244 البقرة
245 البقرة
246 بنی اسرائیل پر ایک اور احسان جس نبی علیہ السلام کا یہاں ذِکر ہے ان کا نام قتادہ رحمہ اللہ نے یوشع بن نون بن افرایم بن یوسف بن یعقوب علیہ السلام بتایا ہے ، لیکن یہ قول ٹھیک معلوم نہیں ہوتا اس لیے کہ یہ واقعہ موسیٰ علیہ السلام کے بعد کا داؤد علیہ السلام کے زمانے کا ہے ، جیسا کہ صراحتاً وارد ہوا ہے ، اور داؤد اور موسیٰ علیہم السلام کے درمیان ایک ہزار سال سے زیادہ کا فاصلہ ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ، سدی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ یہ پیغمبر شمعون علیہ السلام ہیں (تفسیر ابن جریر الطبری:293/5) ، مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں یہ شمویل بن بالی بن علقمہ بن ترخان بن یہدبن بن بہرض بن عقلمہ بن ماجب بن عمر صابن بن عزریا صفنیہ بن علقمہ با ابو ہاشف بن قارون بن یصہر بن قاحث بن لاوی بن یعقوب بن اسحٰق بن ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام ہیں ، واقعہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد کچھ زمانہ تک تو بنی اسرائیل راہِ حق پر رہے ، پھر شرک و بدعت میں پڑ گئے مگر تاہم ان میں پے در پے انبیاء علیہم السلام مبعوث ہوتے رہے یہاں تک کہ بنی اسرائیل کی بے باکیاں حد سے گزر گئیں ، اب اللہ تعالیٰ نے ان کے دشمنوں کو ان پر غالب کر دیا ، خوب پٹے کٹے ، اور اجڑے گئے ، پہلے تو توراۃ کی موجودگی تابوت سکینہ کی موجودگی جو موسیٰ علیہ السلام سے موروثی چلی آ رہی تھی ان کیلئے باعث غلبہ ہوتی تھی ، مگر ان کی سرکشی اور بدترین گناہوں کی وجہ سے اللہ جل شانہ کی یہ نعمت بھی ان کے ہاتھوں چھن گئی اور نبوت بھی ان کے گھر میں ختم ہوئی ۔ لاوی جن کی اولاد میں پیغمبری کی نسل چل آ رہی تھی ، وہ سارے کے سارے لڑائیوں میں مر کھپ گئے ، ان میں سے صرف ایک حاملہ عورت رہ گئی تھی ، ان کے خاوند بھی قتل ہو چکے تھے اب بنی اسرائیل کی نظریں اس عورت پر تھیں ، انہیں امید تھی کہ اللہ اسے لڑکا دے گا اور وہ لڑکا نبی بنے ، خود ان بیوی صاحبہ کی بھی دن رات یہی دعا تھی جو اللہ نے قبول فرمائی اور انہیں لڑکا دیا جن کا نام شمویل یا شمعون علیہ السلام رکھا ، اس کے لفظی معنی ہیں کہ اللہ نے میری دعا قبول فرما لی ، نبوت کی عمر کو پہنچ کر انہیں بھی نبوت ملی ، جب آپ علیہ السلام نے دعوت نبوت دی تو قوم نے درخواست کی کہ آپ ہمارا بادشاہ مقرر کر دیجئیے تاکہ ہم اس کی ماتحتی میں جہاد کریں ، بادشاہ تو ظاہر ہو ہی گیا تھا لیکن پیغمبر نے اپنا کھٹکا بیان کیا کہ تم پھر جہاد سے جی نہ چراؤ ؟ قوم نے جواب دیا کہ ہمارے ملک ہم سے چھین لئیے گئے ، ہمارے بال بچے گرفتار کئے گئے اور پھر بھی کیا ہم ایسے بے ہمت ہیں کہ مرنے مارنے سے ڈریں ؟ اب جہاد فرض کر دیا گیا اور حکم ہوا کہ بادشاہ کے ساتھ اٹھو ، بس سنتے ہی سُن ہو گئے اور سوائے معدودے چند کے باقی سب نے منہ موڑ لیا ، ان سے یہ کوئی نئی بات نہیں تھی ، جس کا اللہ کو علم نہ ہو ۔ البقرة
247 خوئے بدرا بہانہ بسیار مطلب یہ ہے کہ جب انہوں نے کسی کو اپنا بادشاہ بنا دینے کی خواہش اپنے پیغمبر سے کی تو پیغمبر علیہ السلام نے بحکم الہٰ طالوت کو پیش کیا جو شاہی خاندان سے نہ تھے ، ایک لشکری تھے ، شاہی خاندان یہود کی اولاد تھی اور یہ ان میں سے نہ تھے تو قوم نے اعتراض کیا کہ حقدار بادشاہت کے تو اس سے بہت زیادہ ہم ہیں پھر دوسری بات یہ کہ اس کے پاس مال بھی نہیں ، مفلس شخص ہے ، بعض کہتے ہیں یہ سقے تھے کسی نے کہا یہ دباغ تھے ، پس پہلی سرکشی تو اعتراض کی صورت میں احکام نبوی کے سامنے ان سے یہ ہوئی ، پیغمبر نے انہیں جواب دیا کہ یہ تعین میری رائے سے نہیں جس میں میں دوبارہ غور کر سکوں ، یہ تو اللہ جل شانہ کا حکم ہے جس کی بجا آوری ضروری ہے ، پھر ظاہراً بھی وہ تم میں بڑے عالم ہیں اور قومی اور طاقتور شکیل و جمیل شجاع و بہادر اور لڑائی کے فنون سے پورے واقف کار ہیں ۔ یہاں سے یہ بھی ثابت ہوا کہ بادشاہ ذی علم شکیل قوی طاقتور بڑے دِل و دماغ والا ہونا چاہیئے ۔ پھر فرمایا کہ اصلی اور حقیقی حاکم اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ ملک کا مالک فی الواقع وہی ہے جسے چاہے ملک دے وہ علم و حکمت والا رافت و رحمت والا ہے ۔ اس سے کس کی مجال کہ سوال کرے ؟ جو چاہے کرے سب سے سوال کرنے والا کوئی نہ کوئی ہے لیکن پروردگار اس سے مستثنیٰ ہے ، وہ وسیع فضل والا اپنی نعمتوں سے جسے چاہے مخصوص کرے ، وہ علم والا خوب جانتا ہے کون کس چیز کا مستحق ہے اور کسے کس چیز کا استحقاق نہیں ۔ البقرة
248 تابوت سکینہ اور جنگ طالوت و جالوت نبی علیہ السلام فرما رہے ہیں کہ طالوت کی بادشاہت کی پہلی علامت برکت یہ ہے کہ کھویا ہوا تابوت سکینہ انہیں پھر مل جائے گا ، جس میں وقار و عزت دلجمعی اور جلالت رافت و رحمت ہے جس میں اللہ کی نشانیاں ہیں جنہیں تم بخوبی جانتے ہو ، بعض کا قول ہے کہ سکینہ ایک سونے کا طشت تھا جس میں انبیاء کے دِل دھوئے جاتے تھے جو موسیٰ علیہ السلام کو ملا تھا اور جس میں آپ علیہ السلام نے توراۃ کی تختیاں رکھی تھیں ، کسی نے کہا ہے اس کا منہ بھی تھا جیسے انسان کا منہ ہوتا ہے اور روح بھی تھی ، ہاتھ بھی تھا ، دو سر تھے ، دو پر تھے اور دُم بھی تھی ، وہب بن منبہ رحمہ اللہ کہتے ہیں مردہ بلی کا سر تھا جب وہ تابوت میں بولتا تو انہیں نصرت کا یقین ہو جاتا اور لڑائی فتح ہو جاتی ، یہ قول بھی ہے کہ یہ ایک روح تھی اللہ کی طرف سے جب کبھی بنی اسرائیل میں کوئی اختلاف پڑتا یا کسی بات کی اطلاع نہ ہوتی تو وہ کہہ دیا کرتی تھی ۔ موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کے ورثے کے باقی حصے سے مراد لکڑی اور توراۃ کی تختیاں اون اور کچھ ان کے کپڑے اور جوتی ہیں ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:333/5) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ فرشتے آسمان و زمین کے درمیان اس تابوت کو اٹھائے ہوئے سب لوگوں کے سامنے لائے اور طالوت بادشاہ کے سامنے لا رکھا ، اس تابوت کو ان کے ہاں دیکھ کر انہیں نبی علیہ السلام کی نبوت اور طالوت کی بادشاہت کا یقین ہو گیا ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:335/5) ، یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ گائے کے اوپر لایا گیا ، بعض کہتے ہیں کہ کفار نے جب یہودیوں پر غلبہ پایا تو تابوت سکینہ کو ان سے چھین لیا اور اریحا میں لے گئے اور اپنے بڑے بت کے نیچے رکھ دیا جب اللہ کو اسے واپس بنی اسرائیل تک پہنچانا تھا ، تب وہ کفار صبح کو جب بت خانے میں گئے تو دیکھا بت نیچے ہے اور تابوت اوپر ہے ، انہوں نے پھر بت کو اوپر کر دیا لیکن دوسری صبح دیکھا کہ پھر وہی معاملہ ہے انہوں نے پھر بت کو اوپر کر دیا ، صبح جو گئے تو دیکھا بت ایک طرف ٹوٹا پھوٹا پڑا ہے ، تو یقین ہو گیا کہ یہ قدرت کے کرشمے ہیں چنانچہ انہوں نے تابوت کو یہاں سے لے جا کر کسی اور چھوٹی سی بستی میں رکھ دیا ، وہاں ایک وبائی بیماری پھیلی ، آخر بنی اسرائیل کی ایک عورت نے جو وہاں قید تھی ، اس نے کہا کہ اسے واپس بنی اسرائیل پہنچا دو تو تمہیں اس سے نجات ملے گی ، ان لوگوں نے دو گائیوں پر تابوت کو رکھ کر بنی اسرائیل کے شہر کی طرف بھیج دیا ، شہر کے قریب پہنچ کر گائیں تو رسیاں تڑوا کر بھاگ گئیں اور تابوت وہیں رہا جسے بنی اسرائیل لے آئے ، بعض کہتے ہیں دو نوجوان اسے پہنچا گئے «وَاللہُ اَعْلَمُ» لیکن الفاظ قرآن میں یہ موجود ہیں کہ اسے فرشتے اٹھا لائیں گے ( مترجم ) یہ بھی کہا گیا ہے کہ فلسطین کی بستیوں میں سے ایک بستی میں تھا جس کا نام ازدوہ تھا ۔ پھر فرماتا ہے میری نبوت کی دلیل اور طالوت کی بادشاہت کی دلیل یہ بھی ہے کہ تابوت فرشتے پہنچا جائیں گے ، اگر تمہیں اللہ عزوجل اور قیامت پر ایمان ہو ۔ البقرة
249 نہر الشریعہ اب واقعہ بیان ہو رہا ہے کہ جب ان لوگوں نے طالوت کی بادشاہت تسلیم کر لی اور وہ انہیں لے کر جہاد کو چلے ، سدی رحمہ اللہ کے قول کے مطابق ان کی تعداد اسی ہزار تھی (تفسیر ابن جریر الطبری:339/5) ، راستے میں طالوت نے کہا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں ایک نہر کے ساتھ آزمانے والا ہے ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے قول کے مطابق یہ نہر اردن اور فلسطین کے درمیان تھی (تفسیر ابن جریر الطبری:340/5) اس کا نام نہر الشریعہ تھا ، طالوت نے انہیں ہوشیار کر دیا کہ کوئی اس نہر کا پانی نہ پیئے ، اگر پی لے گا تو میرے ساتھ نہ چلے ، ایک آدھ گھونٹ اگر کسی نے پی لی تو کچھ حرج نہیں ، لیکن جب وہاں پہنچے پیاس کی شدت تھی ، نہر پر جھک پڑے اور خوب پیٹ بھر کر پانی پی لیا مگر کچھ لوگ ایسے پختہ ایمان والے بھی تھے کہ جنہوں نے نہ پیا ایک چلو پی لیا ، بقول سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے ایک چلو پینے والوں کی تو پیاس بھی بجھ گئی اور وہ جہاد میں بھی شامل رہے لیکن پوری پیاس پینے والوں کی نہ تو پیاس بجھی نہ وہ قابل جہاد رہے ، سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اسی ہزار میں سے چھہتر ہزار نے پانی پی لیا صرف چار ہزار آدمی حقیقی فرمانبردار نکلے ۔ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم اکثر فرمایا کرتے تھے کہ بدر کی لڑائی والے دن ہماری تعداد اتنی ہی تھی جتنی تعداد طالوت بادشاہ کے اس فرمانبردار لشکر کی تھی ، جو آپ کے ساتھ نہر سے پار ہوا تھا ۔ (صحیح بخاری:3957) یعنی تین سو تیرہ یہاں سے پار ہوتے ہی نافرمانوں کے چھکے چھوٹ گئے اور نہایت بزدلانہ پن سے انہوں نے جہاد سے انکار کر دیا اور دشمنوں کی زیادتی نے ان کے حوصلے توڑ دئیے ، صاف جواب دے بیٹھے کہ آج تو ہم جالوت کے لشکر سے لڑنے کی طاقت اپنے میں نہیں پاتے ، گو سرفروش مجاہد علماء کرام نے انہیں ہر طرح ہمت بندھوائی ، وعظ کہے ، فرمایا کہ قلت و کثرت پر فتح موقوف نہیں صبر اور نیک نیتی پر ضرور اللہ کی امداد ہوتی ہے ۔ بارہا ایسا ہوا ہے کہ مٹھی بھر لوگوں نے بڑی بڑی جماعتوں کو نیچا دکھا دیا ہے ، تم صبر کرو ، طبیعت میں استقلال اور عزم رکھو ، اللہ کے وعدوں پر نظریں رکھو ، اس صبر کے بدلے اللہ تمہارا ساتھ دے گا لیکن تاہم ان کے سرد دِل نہ گرمائے اور ان کی بزدلی دور نہ ہوئی ۔ البقرة
250 جالوت مارا گیا یعنی جس وقت مسلمانوں کی اس مختصر جماعت نے کفار کے ٹڈی دل لشکر دیکھے تو جناب باری میں گڑگڑا کر دعائیں کرنی شروع کیں کہ اے اللہ ہمیں صبر و ثبات کا پہاڑ بنا دے ۔ لڑائی کے وقت ہمارے قدم جما دے ، منہ موڑنے اور بھاگنے سے ہمیں بچا لے اور ان دشمنوں پر ہمیں غالب کر ، چنانچہ ان کی عاجزانہ اور مخلصانہ دعائیں قبول ہوتی ہیں ، اللہ کی مدد نازل ہوتی ہے اور یہ مٹھی بھر جماعت اس ٹڈی دل لشکر کو تہس نہس کر دیتی ہے اور حضرت داؤد علیہ السلام کے ہاتھوں مخالفین کا سردار اور سرتاج جالوت مارا جاتا ہے ، اسرائیلی روایتوں میں یہ بھی مروی ہے کہ طالوت نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ اگر تم جالوت کو قتل کرو گے تو میں اپنی بیٹی تمہارے نکاح میں دوں گا اور اپنا آدھا مال بھی تمہیں دے دوں گا اور حکومت میں بھی برابر شریک کر لوں گا ، چنانچہ داؤد علیہ السلام نے پتھر کو فلاخن میں رکھ کر جالوت پر چلایا اور اسی سے وہ مارا گیا ، جالوت نے اپنا وعدہ پورا کیا ، بالآخر سلطنت کے مستقل سلطان آپ علیہ السلام ہی ہو گئے اور پروردگار عالم کی طرف سے بھی نبوت جیسی زبردست نعمت عطا ہوئی اور شموئیل علیہ السلام کے بعد یہ پیغمبر بھی بنے اور بادشاہ بھی ، حکمت سے مراد نبوت ہے اور بہت سے مخصوص علم بھی جو اللہ عزوجل نے چاہے اپنے اس نبی علیہ السلام کو سکھائے ۔ پھر ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ یوں پست لوگوں کی پستی نہ بدلتا جس طرح بنی اسرائیل کو طالوت جیسے مدبر بادشاہ اور حضرت داؤد علیہ السلام جیسے دلیر سپہ سالار عطا فرما کر حکومت تبدیل نہ کرتا تو لوگ ہلاک ہو جاتے جیسے اور جگہ ہے آیت «وَلَوْلَا دَفْعُ اللہِ النَّاسَ بَعْضَہُم بِبَعْضٍ لَّہُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ یُذْکَرُ فِیہَا اسْمُ اللہِ کَثِیرًا» ( 22-الحج : 40 ) ور اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے سے نہ ہٹاتا رہتا تو (راہبوں کے) صومعے اور (عیسائیوں کے) گرجے اور (یہودیوں کے) عبادت خانے اور (مسلمانوں کی) مسجدیں جن میں اللہ کا بہت سا ذکر کیا جاتا ہے ویران ہوچکی ہوتیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ایک نیک بخت ایماندار کی وجہ سے اس کے آس پاس کے سو سو گھرانوں سے اللہ تعالیٰ بلاؤں کو دور کر دیتا ہے ۔ پھر راوی حدیث سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اسی آیت کی تلاوت کی ( ابن جریر ) لیکن اس حدیث کی سند ضعیف ہے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری5755 باطل) ۔ ابن جریر کی ایک اور غریب حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک سچے مسلمان کی صلاحیت کی وجہ سے اس کی اولاد کی اولاد کو اس کے گھر والوں کو اور سنوار دیتا ہے اور اس کی موجودگی تک وہ سب اللہ کی حفاظت میں رہتے ہیں ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:5756 باطل) ، ابن مردویہ کی ایک اور حدیث میں ہے کہ قیامت تک ہر زمانہ میں ساٹھ شخص تم میں ضرور ایسے رہیں گے جن کی وجہ سے تمہاری مدد کی جائے گی اور تم پر بارش برسائی جائے گی اور تمہیں روزی دی جائے گی(الدرالمنشور:1 /569-568 ضعیف ) ۔ ابن مردویہ کی دوسری حدیث میں ہے میری امت میں تیس ابدال ہوں گے جن کی وجہ سے تم روزیاں دئیے جاؤ گے ، تم پر بارش برسائی جائے گی اور تمہاری مدد کی جائے گی ۔ (مسند احمد:322/5 منکر) ۔ اس حدیث کے راوی قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میرا خیال ہے حسن بھی انہیں ابدال میں سے تھے ۔ پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی یہ نعمت اور اس کا احسان ہے کہ وہ ایک کو دوسرے سے دفع کرتا ہے ، وہی سچا حاکم ہے ، اس کے تمام کام الحکمت سے پر ہوتے ہیں ، وہ اپنی دلیلیں اپنے بندوں پر واضح فرما رہا ہے ۔ وہ تمام مخلوق پر فضل و کرم کرتا ہے ۔ یہ واقعات اور یہ تمام حق کی باتیں اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہماری سچی وحی سے تمہیں معلوم ہوئیں ۔ تم میرے سچے رسول ہو ۔ میری ان باتوں کی اورخود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی سچائی کا علم ان لوگوں کو بھی ہے جن کے ہاتھوں میں کتاب ہے ۔ «تِلْکَ آیَاتُ اللہِ نَتْلُوہَا عَلَیْکَ بِالْحَقِّ وَإِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِینَ» ( البقرہ : 252 ) یہاں اللہ تعالیٰ نے زوردار پرتاکید الفاظ میں قسم کھا کر اپنے نبی کی نبوت کی تصدیق کی ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» ۔ الحمدللہ تفسیر محمدی کا دوسرا پارہ یہاں ختم ہوا ۔ البقرة
251 البقرة
252 البقرة
253 ذِکر مدارج الانبیاء یہاں یہ وضاحت ہو رہی ہے کہ رسولوں میں بھی مراتب ہیں ، جیسا اور جگہ فرمایا «وَلَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِیِّینَ عَلَی بَعْضٍ وَآتَیْنَا دَاوُودَ زَبُورًا» ( 17-الإسراء : 55 ) ہم نے بعض نبیوں کو بعض پر فضیلت دی اور داؤد علیہ السلام کو ہم نے زبور دی ، یہاں بھی اسی کا ذِکر کر کے فرماتا ہے «تِلْکَ الرٰسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَہُمْ عَلَیٰ بَعْضٍ ۘ مِّنْہُم مَّن کَلَّمَ اللہُ» ان میں سے بعض کو شرف ہمکلامی بھی نصیب ، ہوا جیسا موسیٰ علیہ السلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آدم علیہ السلام ، صحیح ابن حبان میں حدیث ہے ۔ (صحیح ابن حبان361) جس میں معراج کے بیان کے ساتھ یہ بھی وارد ہوا ہے کہ کس نبی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے الگ الگ کس آسمان میں پایا جو ان کے مرتبوں کے کم و بیش ہونے کی دلیل ہے ۔ ہاں ایک حدیث میں ہے کہ ایک مسلمان اور یہودی کی کچھ بات چیت ہو گئی تو یہودیوں نے کہا قسم ہے اس اللہ کی جس نے موسیٰ علیہ السلام کی تمام جہان والوں پر فضیلت دی تو مسلمان سے ضبط نہ ہو سکا ، اس نے اٹھا کر ایک تھپڑ مارا اور کہا خبیث کیا ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی وہ افضل ہیں ؟ یہودی نے سرکار نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں آ کر اس کی شکایت کی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے نبیوں پر فضیلت نہ دو ، قیامت کے دن سب بیہوش ہونگے سب سے پہلے میں ہوش میں آؤں گا تو دیکھوں گا کہ موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے عرش کا پایہ تھامے ہوئے ہوں گے ، مجھے نہیں معلوم کہ وہ مجھ سے پہلے ہوش میں آ گئے یا سرے سے بیہوش ہی نہیں ہوئے تھے ؟ اور طور کی بیہوشی کے بدلے یہاں کی بیہوشی سے بچا لیے گئے ، پس مجھے نبیوں پر فضیلت نہ دو ۔ (صحیح بخاری:3413) ، ایک اور روایت میں ہے کہ پیغمبروں کے درمیان فضیلت نہ دو (صحیح بخاری:3413) ، پس یہ حدیث بظاہر قرآن کریم کی اس آیت کے خلاف معلوم ہوتی ہے ، لیکن دراصل کوئی تعارض نہیں ، ممکن ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان اس سے پہلے ہو کہ آپ کو فضیلت کا علم نہ ہوا ہو ، لیکن یہ قول ذرا غور طلب ہے ۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ آپ نے محض تواضع اور فروتنی کے طور پر فرمایا ہے نہ کہ حقیقت کے طور پر ، تیسرا جواب یہ ہے کہ ایسے جھگڑے اور اختلاف کے وقت ایک کو ایک پر فضیلت دینا دوسرے کی شان گھٹانا ہے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرما دیا ، چوتھا جواب یہ ہے کہ تم فضیلت نہ دو یعنی صرف اپنی رائے ، اپنے خیال اور اپنے ذہنی تعصب سے اپنے نبی علیہ السلام کو دوسرے نبی علیہ السلام پر فضیلت نہ دو ، پانچواں جواب یہ ہے کہ فضیلت و تکریم کا فیصلہ تمہارے بس کا نہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے وہ جسے فضیلت دے تم مان لو ، تمہارا کام تسلیم کرنا اور ایمان لانا ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ ہم نے عیسیٰ علیہ السلام کو واضح دلیلیں اور پھر ایسی حجتیں عطا فرمائی تھیں جن سے بنی اسرائیل پر صاف واضح ہو گیا کہ آپ علیہ السلام کی رسالت بالکل سچی ہے اور ساتھ ہی آپ علیہ السلام کی یہ حیثیت بھی واضح ہو گئی کہ مثل اور بندوں کے آپ علیہ السلام بھی اللہ تعالیٰ کے عاجز بندے اور بے کس غلام ہیں ، اور روح القدس یعنی جبرائیل علیہ السلام سے ہم نے ان کی تائید کی ۔ پھر فرمایا کہ بعد والوں کے اختلاف بھی ہمارے قضاء و قدر کا نمونہ ہیں ، ہماری شان یہ ہے کہ جو چاہیں کریں ، ہمارے کسی ارادے سے مراد جدا نہیں ۔ البقرة
254 آج کے صدقات قیامت کے دن شریکِ غم ہوں گے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو حکم کرتا ہے کہ وہ بھلائی کی راہ میں اپنا مال خرچ کریں تاکہ اللہ تعالیٰ کے پاس ان کا ثواب جمع رہے ، اور پھر فرماتا ہے کہ اپنی زندگی میں ہی خیرات و صدقات کر لو ، قیامت کے دن نہ تو خرید و فروخت ہو گی نہ زمین بھر کر سونا دینے سے جان چھوٹ سکتی ہے ، نہ کسی کا نسب اور دوستی و محبت کچھ کام آ سکتی ہے ، جیسے اور جگہ ہے «فَإِذَا نُفِخَ فِی الصٰورِ فَلاَ أَنسَـبَ بَیْنَہُمْ یَوْمَئِذٍ وَلاَ یَتَسَآءَلُونَ» ( 23-المؤمنون : 101 ) یعنی ’ جب صور پھونکا جائے گا اس دن نہ تو نسب رہے گا نہ کوئی کسی کا پرسان حال ہو گا ، اور اس دن سفارشیوں کی سفارش بھی کچھ نفع نہ دیگی‘ ۔ پھر فرمایا کافر ہی ظالم ہیں یعنی پورے اور پکے ظالم ہیں وہ جو کفر کی حالت ہی میں اللہ سے ملیں ، عطا بن دینار رحمہ اللہ کہتے ہیں شکر ہے اللہ نے کافروں کو ظالم فرمایا لیکن ظالموں کو کافر نہیں فرمایا ، (تفسیرابن ابی حاتم 966/3) ۔ البقرة
255 . یہ آیت آیت الکرسی ہے ، جو بڑی عظمت والی آیت ہے ۔ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہما سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دریافت فرماتے ہیں کہ کتاب اللہ میں سب سے زیادہ عظمت والی آیت کون سی ہے ؟ آپ رضی اللہ عنہما جواب دیتے ہیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو اس کا سب سے زیادہ علم ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر یہی سوال کرتے ہیں ، بار بار کے سوال پر جواب دیتے ہیں کہ آیت الکرسی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ابوالمنذر اللہ تعالیٰ تجھے تیرا علم مبارک کرے ، اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس کی زبان ہو گی اور ہونٹ ہوں گے اور یہ بادشاہ حقیقی کی تقدیس بیان کرے گی اور عرش کے پایہ سے لگی ہوئی ہو گی ، ( مسند احمد 141/5-142) صحیح مسلم شریف میں بھی یہ حدیث ہے لیکن یہ پچھلا قسمیہ جملہ اس میں نہیں ، سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میرے ہاں ایک کھجور کی بوری تھی ۔ میں نے دیکھا کہ اس میں سے کھجوریں روز بروز گھٹ رہی ہیں ، ایک رات میں جاگتا رہا اس کی نگہبانی کرتا رہا ، میں نے دیکھا ایک جانور مثل جوان لڑکے کے آیا ، میں نے اسے سلام کیا اس نے میرے سلام کا جواب دیا ، میں نے کہا تو انسان ہے یا جن ؟ اس نے کہا میں جن ہوں ، میں نے کہا ذرا اپنا ہاتھ تو دے ، اس نے ہاتھ بڑھا دیا ، میں نے اپنے ہاتھ میں لیا تو کتے جیسا ہاتھ تھا اور اس پر کتے جیسے ہی بال تھے ، میں نے کہا کیا جنوں کی پیدائش ایسی ہی ہے ؟ اس نے کہا تمام جنات میں سب سے زیادہ قوت طاقت والا میں ہی ہوں ، میں نے کہا بھلا تو میری چیز چرانے پر کیسے دلیر ہو گیا ؟ اس نے کہا مجھے معلوم ہے کہ تو صدقہ کو پسند کرتا ہے ، ہم نے کہا پھر ہم کیوں محروم رہیں ؟ میں نے کہا تمہارے شر سے بچانے والی کون سی چیز ہے ؟ اس نے کہا آیت الکرسی ۔ صبح کو جب میں سرکارِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوا تو میں نے رات کا سارا واقعہ بیان کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خبیث نے یہ بات تو بالکل سچ کہ ۔ (مستدرک حاکم562/1) ، ایک بار مہاجرین کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم گئے تو ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کی آیت کون سی بڑی ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی آیت الکرسی پڑھ کر سنائی ۔ ( طبرانی کبیر334/1 ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے ایک سے پوچھا تم نے نکاح کر لیا ؟ اس نے کہا میرے پاس مال نہیں ، اس لیے نکاح نہیں کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا «قُلْ ہُوَ اللہُ أَحَدٌ» ( 112-الاخلاص : 1 ) یاد نہیں ؟ اس نے کہا وہ تو یاد ہے ، فرمایا چوتھائی قرآن تو یہ ہو گیا ، کیا «قُلْ یَا أَیٰہَا الْکَافِرُونَ» ( 109-الکافرون : 1 ) یاد نہیں ، کہا ہاں وہ بھی یاد ہے ، فرمایا چوتھائی قرآن یہ ہوا ، پھر پوچھا کیا «إِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَہَا» ( 99-الزلزلہ : 1 ) بھی یاد ہے ؟ کہا ہاں ، فرمایا چوتھائی قرآن یہ ہوا ، کیا «إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللہِ وَالْفَتْحُ» ( 110-النصر : 1 ) بھی یاد ہے ؟ کہا ہاں ، فرمایا چوتھائی یہ ، کہا آیت الکرسی « اللہُ لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ الْحَیٰ الْقَیٰومُ» ( 2-البقرہ : 255 ) یاد ہے ؟ کہا ہاں فرمایا چوتھائی قرآن یہ ہوا ( مسند احمد221/3ضعیف ) سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت مسجد میں تشریف فرما تھے ، میں آ کر بیٹھ گیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تم نے نماز پڑھ لی ؟ میں نے کہا نہیں ، فرمایا اٹھو نماز ادا کر لو ۔ میں نے نماز پڑھی پھر آ کر بیٹھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابوذر شیطان انسانوں اور جنوں سے پناہ مانگ ، میں نے کہا حضور کیا انسانی شیطان بھی ہوتے ہیں ؟ فرمایا ہاں ، میں نے کہا یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم نماز کی نسبت کیا ارشاد ہے ؟ فرمایا وہ سراسر خیر ہے جو چاہے کم حصہ لے جو چاہے زیادہ ، میں نے کہا یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم روزہ ؟ فرمایا کفایت کرنے والا فرض ہے اور اللہ کے نزدیک زیادتی ہے ، میں نے کہا صدقہ ؟ فرمایا بہت زیادہ اور بڑھ چڑھ کر بدلہ دلوانے والا ، میں نے کہا سب سے افضل صدقہ کون سا ہے ؟ فرمایا کم مال والے کا ہمت کرنا یا پوشیدگی سے محتاج کی احتیاج پوری کرنا ، میں نے سوال کیا سب سے پہلے نبی کون ہیں ؟ فرمایا آدم علیہ السلام ، میں نے کہا وہ نبی تھے ؟ فرمایا نبی اور اللہ سے ہمکلام ہونے والے ، میں نے پوچھا رسولوں کی تعداد کیا ہے ؟ فرمایا تین سو اور کچھ اوپر دس ، بہت بڑی جماعت ۔ ایک روایت میں تین سو پندرہ کا لفظ ہے ،میں نے پوچھا یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم آپ پر سب سے زیادہ بزرگی والی آیت کون سی اتری ؟ فرمایا آیت الکرسی « اللہُ لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ الْحَیٰ الْقَیٰومُ» ( 2-البقرہ : 255 )الخ ، ( مسند احمد 178/5:ضعیف) سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میرے خزانہ میں سے جنات چرا کر لے جایا کرتے تھے ، میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تو اسے دیکھے تو کہنا «بسم اللہ اجیبی رسول اللہ» جب وہ آیا میں نے یہی کہا ، پھر اسے چھوڑ دیا ۔ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ پھر بھی آئے گا ، میں نے اسے اسی طرح دو تین بار پکڑا اور اقرار لے لے کر چھوڑا دیا ، میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر دفعہ یہی فرمایا کہ وہ پھر بھی آئے گا ، آخر مرتبہ میں نے کہا اب میں تجھے نہ چھوڑوں گا ، اس نے کہا چھوڑ دے میں تجھے ایک ایسی چیز بتاؤں گا کہ کوئی جن اور شیطان تیرے پاس ہی نہ آ سکے ، میں نے کہا اچھا بتاؤ ، کہا وہ آیت الکرسی ہے ۔ میں نے آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ذِکر کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس نے سچ کہا ، گو وہ جھوٹا ہے ۔ ( مسند احمد423/5:صحیح ) صحیح بخاری شریف میں «کتاب فضائل القرآن اور کتاب الوکالہ» اور «صفۃ ابلیس» کے بیان میں بھی یہ حدیث سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اس میں ہے کہ زکوٰۃ رمضان کے مال پر میں پہرہ دے رہا تھا جو یہ شیطان آیا اور سمیٹ سمیٹ کر اپنی چادر میں جمع کرنے لگا ، تیسری مرتبہ اس نے بتایا کہ اگر تو رات بستر پر جا کر اس آیت کو پڑھ لے گا تو اللہ کی طرف سے تجھ پر حافظ مقرر ہو گا اور صبح تک شیطان تیرے قریب بھی نہ آ سکے گا ۔ ( صحیح بخاری:2311 ) دوسری روایت میں ہے کہ یہ کھجوریں تھیں اور مٹھی بھر وہ لے گیا تھا اور آپ نے فرمایا تھا کہ اگر اسے پکڑنا چاہے تو جب وہ دروازے کھولے کہنا «سبحان من سخرک محمد» شیطان نے عذر یہ بتایا تھا کہ ایک فقیر جن کے بال بچوں کیلئے میں یہ لے جا رہا تھا ۔ (سنن الکبری: 10793:جید) پس یہ واقعہ تین صحابہ رضی اللہ عنہم کا ہوا ، سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا ، سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کا اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا ۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک انسان کی ایک جن سے ملاقات ہوئی جن نے کہا مجھ سے کشتی کرے گا ؟ اگر مجھے گرا دے گا تو میں تجھے ایک ایسی آیت سکھاؤں گا کہ جب تو اپنے گھر جائے اور اسے پڑھ لے تو شیطان اس میں نہ آ سکے ، کشتی ہوئی اور اس آدمی نے جن کو گرا دیا ، اس شخص نے جن سے کہا تو تو نحیف اور ڈرپوک ہے اور تیرے ہاتھ مثل کتے کے ہیں ، کیا جنات ایسے ہی ہوتے ہیں یا صرف تو ہی ایسا ہے ؟ کہا میں تو ان سب میں سے قوی ہوں ، پھر دوبارہ کشتی ہوئی اور دوسری مرتبہ بھی اس شخص نے گرا دیا تو جن نے کہا جو آیت میں نے سکھانے کیلئے کہا تھا وہ آیت الکرسی ہے ، جو شخص اپنے گھر میں جاتے ہوئے اسے پڑھ لے تو شیطان اس گھر سے گدھے کی طرح چیختا ہوا بھاگ جاتا ہے ۔ جس شخص سے کشتی ہوئی تھی وہ شخص سیدنا عمر رضی اللہ عنہما تھے ۔ (کتاب الغریب) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سورۃ البقرہ میں ایک آیت ہے جو قرآن کریم کی تمام آیتوں کی سردار ہے جس گھر میں وہ پڑھی جائے وہاں سے شیطان بھاگ جاتا ہے ۔ وہ آیت ، آیت الکرسی ہے (مستدرک حاکم560/1) ترمذی میں ہے ہرچیز کی کوہان اور بلندی ہے اور قرآن کی بلندی سورۃ البقرہ ہے اور اس میں بھی آیت الکرسی تمام آیتوں کی سردار ہے ۔ (سنن ترمذی2878 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) سیدنا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس سوال پر کہ سارے قرآن میں سب سے زیادہ بزرگ آیت کون سی ہے ؟ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے فرمایا مجھے خوب معلوم ہے ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ وہ آیت آیت الکرسی ہے (میزان اعتدال 475/2ضعیف) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ان دونوں آیتوں میں اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم ہے ۔ ایک تو آیت الکرسی ، دوسری آیت «الم» « اللہُ لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ الْحَیٰ الْقَیٰومُ» ( 3-آل عمران : 1-2 )(سنن ابوداود1496 ، قال الشیخ الألبانی:حسن) اور حدیث میں ہے کہ وہ اسمِ اعظم جس نام کی برکت سے جو دعا اللہ تعالیٰ سے مانگی جائے وہ قبول فرماتا ہے ۔ وہ تین سورتوں میں ہے ، سورۃ البقرہ ، سورۃ آل عمران اور سورۃ طہٰ ۔ (سنن ابن ماجہ3856 ، قال الشیخ الألبانی:حسن) ہشام بن عمار خطیب دمشق فرماتے ہیں سورۃ البقرہ کی آیت آیت الکرسی ہے اور آل عمران کی پہلی ہی آیت اور طہٰ کی آیت «وَعَنَتِ الْوُجُوہُ لِلْحَیِّ الْقَیٰومِ» ( 20-طحہ : 111 ) ہے اور حدیث میں ہے جو شخص ہر فرض نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھ لے اسے جنت میں جانے سے کوئی چیز نہیں روکے گی سوائے موت کے(سنن نسائی:100 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) اس حدیث کو امام نسائی نے بھی اپنی کتاب عمل الیوم واللیلہ میں وارد کیا ہے اور ابن حبان رحمہ اللہ نے بھی اسے اپنی صحیح میں وارد کیا ہے اس حدیث کی سند شرط بخاری پر ہے لیکن ابوالفرج بن جوزی اسے موضوع کہتے ہیں «وَاللہُ اَعْلَمُ» ، تفسیر ابن مردویہ میں بھی یہ حدیث ہے لیکن اس کی اسناد بھی ضعیف ہے ۔ ابن مردویہ کی ایک اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ بن عمران علیہ السلام کی طرف وحی کی کہ ہر فرض نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھ لیا کرو ، جو شخص یہ کرے گا میں اسے شکر گزار دِل اور ذِکر کرنے والی زبان دوں گا ۔ اور اسے نبیوں کا ثواب اور صدیقوں کا عمل دوں گا ۔ جس عمل کی پابندی صرف انبیاء او صدیقین سے ہی ہوتی ہے یا اس بندے سے جس کا دِل میں نے ایمان کیلئے آزما لیا ہو یا اسے اپنی راہ میں شہید کرنا طے کر لیا ہو( ضعیف) ، لیکن یہ حدیث بہت منکر ہے ۔ ترمذی کی حدیث میں ہے جو شخص سورۃ (حم) (المومن ) کو «لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ إِلَیْہِ الْمَصِیرُ» ( 40-الغافر : 3 ) تک اور آیت الکرسی کو صبح کے وقت پڑھ لے گا وہ شام تک اللہ کی حفاظت میں رہے گا اور شام کو پڑھنے والے کی صبح تک حفاظت ہو گی (سنن ترمذی:2879 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) لیکن یہ حدیث بھی غریب ہے ۔ اس آیت کی فضیلت میں اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں لیکن ایک تو اس لیے کہ ان کی سندیں ضعیف ہیں اور دوسرے اس لیے بھی کہ ہمیں اختصار مدنظر ہے ، ہم نے انہیں وارد نہیں کیا ۔ اس مبارک آیت میں دس مستقل جملے ، پہلے جملے میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا بیان ہے کہ کل مخلوق کا وہی ایک اللہ ہے ۔ دوسرے جملے میں ہے کہ وہ خود زندہ ہے جس پر کبھی موت نہیں آئے گی ، دوسروں کو قائم رکھنے والا ہے ۔ قیوم کی دوسری نشانی قرأت «قیام» بھی ہے پس تمام موجودات اس کی محتاج ہے او وہ سب سے بے نیاز ہے ، کوئی بھی بغیر اس کی اجازت کے کسی چیز کا سنبھالنے والا نہیں ، جیسے اور جگہ ہے «وَمِنْ آیَاتِہِ أَن تَقُومَ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ بِأَمْرِہِ» ( 30-الروم : 25 ) «بِأَمْرِہِ» یعنی اس کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ آسمان و زمین اسی کے حکم سے قائم ہیں ، پھر فرمایا نہ تو اس پر کوئی نقصان آئے نہ کبھی وہ اپنی مخلوق سے غافل اور بے خبر ہو ، بلکہ ہر شخص کے اعمال پر وہ حاضر ، ہر شخص کے احوال پر وہ ناظر ، دل کے ہر خطرے سے وہ واقف ، مخلوق کا کوئی ذرہ بھی اس کی حفاظت اور علم سے کبھی باہر نہیں ، یہی پوری ” قیومیت “ ہے ۔ اونگھ ، غفلت ، نیند اور بے خبری سے اس کی ذات مکمل پاک ہے ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ کھڑے ہو کر صحابہ کرام کو چار باتیں بتائیں ، فرمایا اللہ تبارک و تعالیٰ سوتا نہیں ، نہ نیند اس کی ذات کے لائق ہے ، وہ ترازو کا حافظ ہے جس کیلئے چاہے جھکا دے ، جس کیلئے چاہے نہ جھکائے ، دن کے اعمال رات سے پہلے اور رات کے اعمال دن سے پہلے اس کی طرف لے جائے جاتے ہیں ، اس کے سامنے نور یا آگ کے پردے ہیں اگر وہ ہٹ جائیں تو اس کے چہرے کی تجلیاں ان تمام چیزوں کو جلا دیں جن تک اس کی نگاہ پہنچے ۔ (صحیح مسلم:179) ۔ عبدالرزاق میں عکرمہ رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے فرشتوں سے پوچھا کہ کیا اللہ تعالیٰ سوتا بھی ہے ؟ تو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی طرف وحی بھیجی کہ موسیٰ علیہ السلام کو تین راتوں تک بیدار رکھیں ، انہوں نے یہی کیا ، تین راتوں تک سونے نہ دیا ، اس کے بعد دو بوتلیں ان کے ہاتھوں میں دے دیں گئیں اور کہہ دیا کہ انہیں تھامے رہو خبردار یہ گرنے اور ٹوٹنے نہ پائیں ، آپ علیہ السلام نے انہیں تھام لیا لیکن اجاگا تھا ، نیند کا غلبہ ہوا ، اونگھ آنے لگی ، آنکھ بند ہو جاتی لیکن پھر ہوشیار ہو جاتے مگر کب تک ؟ آخر ایک مرتبہ ایسا جھکولا آیا کہ بوتلیں ٹوٹ گئیں ، گویا انہیں بتایا گیا کہ جب ایک اونگھنے اور سونے والا دو بوتلوں کو نہیں سنبھال سکتا تو اللہ تعالیٰ اگر اونگھے یا سوئے تو زمین و آسمان کی حفاظت کس طرح ہو سکے ؟ (تفسیر ابن جریر الطبری:5782:حسن) لیکن یہ بنی اسرائیل کی بات ہے اور کچھ دِل کو لگتی بھی نہیں اس لیے کہ یہ ناممکن ہے کہ موسیٰ علیہ السلام جیسے جلیل القدر عارف باللہ ، اللہ جل شانہ کی اس صفت سے ناواقف ہوں اور انہیں اس میں تردد ہو کہ اللہ ذوالجلال و الاکرام جاگتا ہی رہتا ہے یا سو بھی جاتا ہے ۔ اور اس سے بھی بہت زیادہ غرابت والی وہ حدیث ہے جو ابن جریر میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس واقعہ کو منبر پر بیان فرمایا ۔ یہ حدیث بہت ہی غریب ہے اور بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ اس کا فرمان پیغمبر ہونا ثابت نہیں بلکہ بنی اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام سے یہ سوال کیا تھا اور پھر آپ علیہ السلام کو بوتلیں پکڑوائی گئیں اور وہ بوجہ نیند کے نہ سنبھال سکے ، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت نازل ہوئی ، آسمان و زمین کی تمام چیزیں اس کی غلامی میں اور اس کی ماتحتی میں اور اس کی سلطنت میں ہیں جیسے فرمایا «إِن کُلٰ مَن فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِی الرَّحْمٰنِ عَبْدًا لَّقَدْ أَحْصَاہُمْ وَعَدَّہُمْ عَدًّا وَکُلٰہُمْ آتِیہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَرْدًا» ( 19-مریم : 93-95 ) ، یعنی زمین و آسمان کی کل چیزیں رحمٰن کی غلامی میں حاضر ہونے والی ہیں ، ان سب کو رب العالمین نے ایک ایک کر کے گن رکھا ہے ۔ ساری مخلوق تنہا تنہا اس کے پاس حاضر ہو گی ، کوئی نہیں جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے سامنے سفارش یا شفاعت کر سکے ، جیسے ارشاد ہے «وَکَم مِّن مَّلَکٍ فِی السَّمَاوَاتِ لَا تُغْنِی شَفَاعَتُہُمْ شَیْئًا إِلَّا مِن بَعْدِ أَن یَأْذَنَ اللہُ لِمَن یَشَاءُ وَیَرْضَیٰ» ( 53-النجم : 26 ) ، یعنی آسمانوں میں بہت سے فرشتے ہیں لیکن ان کی شفاعت بھی کچھ فائدہ نہیں دے سکتی ، ہاں یہ اور بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کی منشاء اور مرضی سے ہو ۔ ، اور جگہ ہے «وَلَا یَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضَیٰ» ( 21- الأنبیاء : 28 ) کسی کی وہ شفاعت نہیں کرتے مگر اس کی جس سے اللہ خوش ہو ، پس یہاں بھی اللہ تعالیٰ کی عظمت اس کا جلال اور اس کی کبریائی بیان ہو رہی ہے ، کہ بغیر اس کی اجازت اور رضا مندی کے کسی کی جرات نہیں کہ اس کے سامنے کسی کی سفارش میں زبان کھولے ، حدیث شفاعت میں بھی ہے کہ میں اللہ کے عرش کے نیچے جاؤں گا اور سجدے میں گر پڑوں گا اللہ تعالیٰ مجھے سجدے میں ہی چھوڑ دے گا جب تک چاہے ، پھر کہا جائے گا کہ اپنا سر اٹھاؤ ، کہو ، سنا جائے گا ، شفاعت کرو ، منظور کی جائے گی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں پھر میرے لیے حد مقرر کر دی جائے گی اور میں انہیں جنت میں لے جاؤں گا ۔ (صحیح بخاری:7440) وہ اللہ تمام گزشتہ موجودہ اور آئندہ کا عالم ہے اس کا علم تمام مخلوق کا احاطہٰ کئے ہوئے ہے جیسے اور جگہ فرشتوں کا قول ہے کہ «وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلَّا بِأَمْرِ رَبِّکَ لَہُ مَا بَیْنَ أَیْدِینَا وَمَا خَلْفَنَا وَمَا بَیْنَ ذٰلِکَ وَمَا کَانَ رَبٰکَ نَسِیًّا» ( 19-مریم : 64 ) ، ہم تیرے رب کے حکم کے بغیر اتر نہیں سکتے ہمارے آگے پیچھے اور سامنے سب چیزیں اسی کی ملکیت ہیں اور تیرا رب بھول چوک سے پاک ہے ۔ کرسی سے مراد سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے علم منقول ہے ، دوسرے بزرگوں سے دونوں پاؤں رکھنے کی جگہ منقول ہے ، ایک مرفوع حدیث میں بھی یہی مروی ہے ، اور یہ بھی ہے کہ اس کا اندازہ بجر باری تعالٰی کے کسی اور کو معلوم نہیں ، خود سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی مروی ہے ,(خطیب بغداد251/9موقوف) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی مرفوعاً یہی مروی ہے لیکن رفع ثابت نہیں ، ابومالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کرسی عرش کے نیچے ہے ، سدی رحمہ اللہ کہتے ہیں آسمان و زمین کرسی کے جوف میں اور کرسی عرش کے سامنے ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ساتوں زمینیں اور ساتوں آسمان اگر پھیلا دئیے جائیں اور سب کو ملا کر بسیط کر دیا جائے تو بھی کرسی کے مقابلہ میں ایسے ہوں گے جیسے ایک حلقہ کسی چٹیل میدان میں,(تفسیر ابن جریر الطبری:5895:ضعیف) ابن جریر کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ ساتوں آسمان کرسی میں ایسے ہی ہیں جیسے سات درہم ڈھال میں اور حدیث میں کرسی عرش کے مقابلہ میں ایسی ہے جیسے ایک لوہے کا حلقہ چٹیل میدان میں ، سیدنا ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ کرسی کے بارے میں سوال کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم کھا کر یہی فرمایا اور فرمایا کہ پھر عرش کی فضیلت کرسی پر بھی ایسی ہی ہے ، ایک عورت نے آن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ میرے لیے دعا کیجئے کہ اللہ مجھے جنت میں لے جائے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی عظمت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اس کی کرسی نے آسمان و زمین کو گھیر رکھا ہے مگر جس طرح نیا پالان چرچراتا ہے وہ کرسی عظمت پروردگار سے چرچرا رہی ہے ، گو یہ حدیث بہت سی سندوں سے بہت سی کتابوں میں مروی ہے لیکن کسی سند میں کوئی راوی غیرمشہور ہے کسی میں ارسال ہے ، کوئی موقوف ہے ، کسی میں بہت کچھ غریب زیادتی ہے ، کسی میں حذف ہے اور ان سب سے زیادہ غریب سیدنا جبیر رضی اللہ عنہ والی حدیث ہے جو ابوداؤد میں مروی ہے (سنن ابوداود:4726 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ۔ اور وہ روایات بھی ہیں جن میں قیامت کے روز کرسی کا فیصلوں کیلئے رکھا جانا مروی ہے ۔ ظاہر یہ ہے کہ اس آیت میں یہ ذِکر نہیں «وَاللہُ اَعْلَمُ» مسلمانوں کے ہئیت دان متکلمین کہتے ہیں کہ کرسی آٹھواں آسمان ہے جسے فلک ثوابت کہتے ہیں اور جس پر نواں آسمان ہے اور جسے فلک اثیر کہتے ہیں اور اطلس بھی ، لیکن دوسرے لوگوں نے اس کی تردید کی ہے ، حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کرسی ہی عرش ہے لیکن صحیح بات یہ ہے کہ کرسی اور ہے اور عرش اور ہے ، جو اس سے بڑا ہے جیسا کہ آثار احادیث میں وارد ہوا ہے ، علامہ ابن جریر رحمہ اللہ تو اس بارے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ والی روایت پر اعتماد کئے ہوئے ہیں لیکن میرے نزدیک اس کی صحت میں کلام ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» پھر فرمایا کہ اللہ پر ان کی حفاظت بوجھل اور گراں نہیں بلکہ سہل اور آسان ہے ۔ وہ ساری مخلوق کے اعمال پر خبردار تمام چیزوں پر نگہبان کوئی چیز اس سے پوشیدہ اور انجان نہیں بلکہ سہل اور آسان ہے ، تمام مخلوق اس کے سامنے حقیر متواضع ذلیل پست محتاج اور فقیر ، وہ غنی وہ حمید وہ جو کچھ چاہے کر گزرنے والا ، کوئی اس پر حاکم نہیں بازپرس کرنے والا ، ہرچیز پر وہ غالب ، ہرچیز کا حافظ اور مالک ، وہ علو ، بلندی اور رفعت والا وہ عظمت بڑائی اور کبریائی والا ، اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ، نہ اس کے سوا کوئی خبرگیری کرنے والا نہ پالنے پوسنے والا «عَالِمُ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ الْکَبِیرُ الْمُتَعَالِ» ( 13-الرعد : 9 ) وہ کبریائی والا اور فخر والا ہے ، اسی لیے فرمایا «وَہُوَ الْعَلِیٰ الْعَظِیمُ» بلندی اور عظمت والا وہی ہے ۔ یہ آیتیں اور ان جیسی اور آیتیں اور صحیح حدیثیں جتنی کچھ ذات و صفات باری تعالیٰ میں وارد ہوئی ہیں ان سب پر ایمان لانا بغیر کیفیت معلوم کئے اور بغیر تشبیہ دئیے جن الفاظ میں وہ وارد ہوئی ہیں ضروری ہے اور یہی طریقہ ہمارے سلف صالحین رضوان اللہ علیہم اجمعین کا تھا ۔ البقرة
256 جبر اور دعوت اسلام یہاں یہ بیان ہو رہا ہے کہ کسی کو جبراً اسلام میں داخل نہ کر ، اسلام کی حقانیت واضح اور روشن ہو چکی اس کے دلائل و براہین بیان ہو چکے ہیں پھر کسی اور جبر اور زبردستی کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ جسے اللہ رب العزت ہدایت دے گا ، جس کا سینہ کھلا ہوا دل روشن اور آنکھیں بینا ہوں گی وہ تو خودبخود اس کا والہ و شیدا ہو جائے گا ، ہاں اندھے دل والے بہرے کانوں والے پھوٹی آنکھوں والے اس سے دور رہیں گے پھر انہیں اگر جبراً اسلام میں داخل بھی کیا تو کیا فائدہ ؟ کسی پر اسلام کے قبول کرانے کیلئے جبر اور زبردستی نہ کرو ۔ اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ مدینہ کی مشرکہ عورتیں جب انہیں اولاد نہ ہوتی تھی تو نذر مانتی تھیں کہ اگر ہمارے ہاں اولاد ہوئی تو ہم اسے یہود بنا دیں گے ، یہودیوں کے سپرد کر دیں گے ، اسی طرح ان کے بہت سے بچے یہودیوں کے پاس تھے ، جب یہ لوگ مسلمان ہوئے اور اللہ کے دین کے انصار بنے ، یہودیوں سے جنگ ہوئی اور ان کی اندرونی سازشوں اور فریب کاریوں سے نجات پانے کیلئے سرور رسل صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم جاری فرمایا کہ بنی نضیر کے یہودیوں کو جلا وطن کر دیا جائے ، اس وقت انصاریوں نے اپنے بچے جو ان کے پاس تھے ان سے طلب کئے تاکہ انہیں اپنے اثر سے مسلمان بنا لیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ جبر اور زبردستی نہ کرو ۔ (سنن ابوداود:2682 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) ایک روایت یہ بھی ہے کہ انصار کے قبیلے بنوسالم بن عوف کا ایک شخص حصینی رضی اللہ عنہ نامی تھا جس کے دو لڑکے نصرانی تھے اور خود مسلمان تھا ، اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک بار عرض کیا کہ مجھے اجازت دی جائے کہ میں ان لڑکوں کو جبراً مسلمان بنا لوں ، ویسے تو وہ عیسائیت سے ہٹتے نہیں ، اس پر یہ آیت اتری اور ممانعت کر دی ، اور روایت میں اتنی زیادتی بھی ہے کہ نصرانیوں کا ایک قافلہ ملک شام سے تجارت کیلئے کشمش لے کر آیا تھا جن کے ہاتھوں پر دونوں لڑکے نصرانی ہو گئے تھے جب وہ قافلہ جانے لگا تو یہ بھی جانے پر تیار ہو گئے ، ان کے باپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ذِکر کیا اور کہا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اجازت دیں تو میں انہیں اسلام لانے کیلئے کچھ تکلیف دوں اور جبراً مسلمان بنا لوں ، ورنہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو انہیں واپس لانے کیلئے اپنے آدمی بھیجنے پڑیں گے ، اس پر یہ آیت نازل ہوئی ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا غلام اسبق نصرانی تھا ، آپ رضی اللہ عنہما اس پر اسلام پیش کرتے وہ انکار کرتا ، آپ رضی اللہ عنہما کہہ دیتے کہ خیر تیری مرضی اسلام جبر سے روکتا ہے ، علماء کی ایک بڑی جماعت کا یہ خیال ہے کہ یہ آیت ان اہل کتاب کے حق میں ہے جو فسخ و تبدیل توراۃ و انجیل کے پہلے دین مسیحی اختیار کر چکے تھے اور اب وہ جزیہ پر رضامند ہو جائیں بعض اور کہتے ہیں آیت قتال نے اسے منسوخ کر دیا ، تمام انسانوں کو اس پاک دین کی دعوت دینا ضروری ہے ، اگر کوئی انکار کرے تو بیشک مسلمان اس سے جہاد کریں ، جیسے اور جگہ ہے «سَـتُدْعَوْنَ اِلٰی قَوْمٍ اُولِیْ بَاْسٍ شَدِیْدٍ تُقَاتِلُوْنَہُمْ اَوْ یُسْلِمُوْنَ» ( 48 ۔ الفتح : 16 ) عنقریب تمہیں اس قوم کی طرف بلایا جائے گا جو بڑی لڑاکا ہے یا تو تم اس سے لڑو گے یا وہ اسلام لائیں گے ، اور جگہ ہے «یَا أَیٰہَا النَّبِیٰ جَاہِدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنَافِقِینَ وَاغْلُظْ عَلَیْہِمْ» ( 66- التحریم : 9 ) اے نبی کافروں اور منافقوں سے جہاد کر اور ان پر سختی کر ، اور جگہ ہے «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آمَنُوا قَاتِلُوا الَّذِینَ یَلُونَکُم مِّنَ الْکُفَّارِ وَلْیَجِدُوا فِیکُمْ غِلْظَۃً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللہَ مَعَ الْمُتَّقِینَ» ( 9-التوبۃ : 123 ) ایماندارو ! اپنے آس پاس کے کفار سے جہاد کرو ، تم میں وہ گھر جائیں اور یقین رکھو کہ اللہ متقیوں کے ساتھ ہے ، صحیح حدیث میں ہے ، تیرے رب کو ان لوگوں پر تعجب آتا ہے جو زنجیروں میں جکڑے ہوئے جنت کی طرف گھسیٹے جاتے ہیں ۔ (صحیح بخاری:3010) ، یعنی وہ کفار جو میدان جنگ میں قیدی ہو کر طوق و سلاسل پہنا کر یہاں لائے جاتے ہیں پھر وہ اسلام قبول کر لیتے ہیں اور ان کا ظاہر باطن اچھا ہو جاتا ہے اور وہ جنت کے لائق بن جاتے ہیں ۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ ایک شخص سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا مسلمان ہو جاؤ ، اس نے کہا میرا دِل نہیں مانتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا گو دِل نہ چاہتا ہو(مسند احمد:109/3:صحیح) ، یہ حدیث ثلاثی ہے یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک اس میں تین راوی ہیں لیکن اس سے یہ نہ سمجھنا چاہیئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مجبور کیا ، مطلب یہ ہے کہ تو کلمہ پڑھ لے ، پھر ایک دن وہ بھی آئے گا اللہ تیرے دِل کو کھول دے اور تو دِل سے بھی اسلام کا دلدادہ ہو جائے گا ، حسن نیت اور اخلاص عمل تجھے نصیب ہو ، جو شخص بت اور اوثان اور معبودان باطل اور شیطانی کلام کی قبولیت کو چھوڑ دے اللہ کی توحید کا اقراری اور عامل بن جائے وہ سیدھا اور صحیح راہ پر ہے ۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں «جبت» سے مراد جادو ہے اور «طاغوت» سے مراد شیطان ہے ، دلیری اور ناموری دونوں اونٹ کے دونوں طرف کے برابر بوجھ ہیں جو لوگوں میں ہوتے ہیں ۔ ایک دلیر آدمی تو انجان شخص کی حمایت میں بھی جان دینے پر تل جاتا ہے لیکن ایک بزدل اور ڈرپوک اپنی سگی ماں کی خاطر بھی قدم آگے نہیں بڑھاتا ۔ انسان کا حقیقی کرم اس کا دین ہے ، انسان کا سچا نسب حسن و خلق ہے گو وہ فارسی ہو یا نبطی(تفسیر ابن جریر الطبری:417/5) ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کا طاغوت کو شیطان کے معنی میں لینا بہت ہی اچھا ہے اس لیے کہ یہ ہر اس برائی کو شامل ہے جو اہل جاہلیت میں تھی ، بت کی پوجا کرنا ، ان کی طرف حاجتیں لے جانا ان سے سختی کے وقت طلب امداد کرنا وغیرہ ۔ پھر فرمایا اس شخص نے مضبوط کڑا تھام لیا ، یعنی دین کے اعلیٰ اور قوی سبب کو لے لیا جو نہ ٹوٹے نہ پھوٹے ، خوب مضبوط مستحکم قوی اور گڑا ہوا ، «عروۃالوثقی» سے مراد ایمان ، اسلام ، توحید باری ، قرآن اور اللہ کی راہ کی محبت اور اسی کیلئے دشمنی کرنا ہے ، یہ کڑا کبھی نہ ٹوٹے گا یعنی اس کے جنت میں پہنچتے تک ، اور جگہ ہے «اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِہِمْ» (13-الرعد:11) اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدل لے ، مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے سیدنا قیس بن عبادہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں میں مسجد نبوی میں تھا جو ایک شخص آیا جس کا چہرہ اللہ سے خائف تھا نماز کی دو ہلکی رکعتیں اس نے ادا کیں ، لوگ انہیں دیکھ کر کہنے لگے یہ جنتی ہیں ، جب وہ باہر نکلے تو میں بھی ان کے پیچھے گیا ، باتیں کرنے لگا جب وہ متوجہ ہوئے تو میں نے کہا جب آپ رضی اللہ عنہما تشریف لائے تھے تب لوگوں نے آپ کی نسبت یوں کہا تھا ، کہا سبحان اللہ کسی کو وہ نہ کہنا چاہیئے جس کا علم اسے نہ ہو ، ہاں البتہ اتنی بات تو ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں ایک خواب دیکھا تھا کہ گویا میں ایک لہلہاتے ہوئے سرسبز گلشن میں ہوں اس کے درمیان ایک لوہے کا ستون ہے جو زمین سے آسمان تک چلا گیا ہے اس کی چوٹی پر ایک کڑا ہے مجھ سے کہا گیا اس پر چڑھ جاؤ ، میں نے کہا میں تو نہیں چڑھ سکتا ، چنانچہ ایک شخص نے مجھے تھاما اور میں باآسانی چڑھ گیا اور اس کڑے کو تھام لیا ، اس نے کہا دیکھو مضبوط پکڑے رکھنا ، بس اسی حالت میں میری آنکھ کھل گئی کہ وہ کڑا میرے ہاتھ میں تھا ، میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ اپنا خواب بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا گلشن باغ اسلام ہے اور ستون دین ہے اور کڑا عروہ وثقی ہے تو مرتے دم تک اسلام پر قائم رہے گا ، یہ شخص عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہما ہیں ، یہ حدیث بخاری مسلم دونوں میں مروی ہے ۔ (صحیح بخاری:3813) مسند کی اسی حدیث میں ہے کہ اس وقت آپ بوڑھے تھے اور لکڑی پر ٹیک لگائے ہوئے مسجد نبوی میں آئے تھے اور ایک ستون کے پیچھے نماز پڑھی تھی اور سوال کے جواب میں فرمایا تھا کہ جنت اللہ کی چیز ہے جسے چاہے اسں میں لے جائے ، خواب کے ذِکر میں فرمایا کہ ایک شخص آیا مجھے لے کر چلا گیا جب ہم ایک لمبے چوڑے صاف شفاف میدان میں پہنچے تو میں نے بائیں طرف جانا چاہا تو اس نے کہا تو ایسا نہیں ۔ میں دائیں جانب چلنے لگا تو اچانک ایک پھسلتا پہاڑ نظر آیا اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور اوپر چڑھا لیا اور میں اس کی چوٹی تک پہنچ گیا ، وہاں میں نے ایک اونچا ستون لوہے کا دیکھا جس کے سرے پر ایک سونے کا کڑا تھا مجھے اس نے اس ستون پر چڑھا دیا یہاں تک کہ میں نے اس کڑے کو تھام لیا اس نے پوچھا خوب مضبوط تھام لیا ہے ، میں نے کہاں ہاں ، اس نے زور سے ستون پر اپنا ہاتھ مارا ، وہ نکل گیا اور کڑا میرے ہاتھ میں رہ گیا ، جب یہ خواب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے سنایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بہت نیک خواب ہے ، میدان محشر ہے ، بائیں طرف کا راستہ جہنم کا راستہ ہے تو لوگوں میں نہیں ، دائیں جانب کا راستہ جنتیوں کی راہ ہے ، پھسلتا پہاڑ شہداء کی منزل ہے ، کڑا اسلام کا کڑا ہے مرتے دم تک اسے مضبوط تھام رکھو ، اس کے بعد سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا امید تو مجھے یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے جنت میں لے جائے گا ۔ (صحیح مسلم:2484) البقرة
257 اندھیرے سے اجالے کی طرف اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ اس کی رضا مندی کے طلبگار کو وہ سلامتی کی راہنمائی کرتا ہے اور شک و شبہ کے کفر و شک کے اندھیروں سے نکال کر نور حق کی صاف روشنی میں لا کھڑا کرتا ہے ، کفار کے ولی شیاطین ہیں جو جہالت و ضلالت کو کفر و شرک کو مزین کر کے انہیں ایمان سے اور توحید سے روکتے ہیں اور یوں نور حق سے ہٹا کر ناحق کے اندھیروں میں جھونک دیتے ہیں ، یہی کافر ہیں اور ہمیشہ یہ دوزخ میں ہی پڑے رہیں گے ، لفظ نور کو واحد لانا اور ظلمات کو جمع لانا اس لیے ہے کہ حق اور ایمان اور سچا راستہ ایک ہی ہے اور کفر کی کئی قسمیں ہیں ، کافروں کی بہت سی شاخیں ہیں جو سب کی سب باطل اور ناحق ہیں جیسے اور جگہ ہے «وَأَنَّ ہٰذَا صِرَاطِی مُسْتَقِیمًا فَاتَّبِعُوہُ وَلَا تَتَّبِعُوا السٰبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَن سَبِیلِہِ ذٰلِکُمْ وَصَّاکُم بِہِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ» ( 6 ۔ الانعام : 153 ) ، میری سیدھی راہ یہی ہے تم اسی کی تابعداری کرو اور ، اور راستوں پر نہ چلو ورنہ اس راہ سے بھٹک جاؤ گے ۔ یہ وصیت تمہیں تمہارے بچاؤ کیلئے کر دی اور جگہ ہے «وَجَعَلَ الظٰلُمَاتِ وَالنٰورَ» ( 6 ۔ الانعام : 1 ) اور بھی اس قسم کی بہت سی آیتیں ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ حق ایک ہی ہے ، اور باطل میں تفرق و انتشار ہے ، حضرت ایوب بن خالد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ، اہل ہوا یا اہل فتنہ کھڑے کئے جائیں گے جس کی چاہت صرف ایمان ہی کی ہو وہ تو روشن صاف اور نورانی ہو گا اور جس کی خواہش کفر کی ہو وہ سیاہ اور اندھیروں والا ہو گا ، پھر آپ رحمہ اللہ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی ۔ البقرة
258 ابراہیم علیہ السلام اور نمرود کا آمنا سامنا اس بادشاہ کا نام نمرود بن کنعان بن سام بن نوح علیہ السلام تھا اس کا پایہ تخت بابل تھا اس کے نسب میں کچھ اختلاف بھی ہے ، مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں دنیا کی مشرق مغرب کی سلطنت رکھنے والے چار ہوئے جن میں سے دو مومن اور دو کافر ، سلیمان بن داؤد علیہ السلام اور ذوالقرنین علیہ السلام ، اور کافروں میں نمرود اور بخت نصر ، فرمان ہوتا ہے کہ اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تم نے اسے نہیں دیکھا ، جو ابراہیم علیہ السلام سے وجود باری تعالیٰ میں مباحثہ کرنے لگا ، یہ شخص خود اللہ ہونے کا مدعی تھا ، جیسا اس کے بعد فرعون نے بھی اپنے والوں میں دعویٰ کیا تھا کہ «مَا عَلِمْتُ لَکُم مِّنْ إِلٰہٍ غَیْرِی» ( 28-القصص : 38 ) میں اپنے سوا کسی کو تمہارا رب نہیں جانتا ، چونکہ ایک مدت مدید اور عرصہ بعید سے یہ بادشاہ چلا آتا تھا اس لیے دماغ میں رعونت اور انانیت آ گئی تھی ، سرکشی اور تکبر ، نخوت اور غرور طبیعت میں سما گیا تھا ، بعض لوگ کہتے ہیں چار سو سال تک حکومت کرتا رہا تھا ، ابراہیم علیہ السلام سے جب اس نے وجود باری تعالیٰ پر دلیل مانگی تو آپ نے نیست سے ہست اور ہست سے نیست کرنے کی دلیل دی جو ایک بدیہی اور مثل آفتاب روشن دلیل تھی کہ موجودات کا پہلے کچھ نہ ہونا پھر ہونا پھر مٹ جانا کھلی دلیل ہے ۔ موجد اور پیدا کرنے والے کے موجود ہونے کی اور وہی اللہ ہے ، نمرود نے جواباً کہا کہ یہ تو میں بھی کرتا ہوں ، یہ کہہ کر دو شخصوں کو اس نے بلوایا جو واجب القتل تھے ، ایک کو قتل کر دیا اور دوسرے کو رہا کر دیا ، دراصل یہ جواب اور دعویٰ کس قدر لچر اور بے معنی ہے اس کے بیان کی بھی ضرورت نہیں ۔ ابراہیم علیہ السلام نے تو صفات باری میں سے ایک صفت پیدا کرنا اور پھر نیست کر دینا بیان کی تھی اور اس نے نہ تو انہیں پیدا کیا اور نہ ان کی یا اپنی موت حیات پر اسے قدرت ، لیکن جہلاء کو بھڑکانے کیلئے اور اپنی علمیت جتانے کیلئے باوجود اپنی غلطی اور مباحثہ کے اصول سے طریقہ فرار کو جانتے ہوئے صرف ایک بات بنا لی ۔ ابراہیم علیہ السلام بھی اس کو سمجھ گئے اور آپ نے کند ذہن کے سامنے ایسی دلیل پیش کر دی کہ صورتاً بھی اس کی مشابہت نہ کر سکے ، چنانچہ فرمایا کہ جب تو پیدائش اور موت تک کا اختیار رکھتا ہے تو مخلوق پر تصرف تیرا پورا ہونا چاہیئے ، میرے اللہ نے تو یہ تصرف کیا کہ سورج کو حکم دے دیا ہے کہ وہ مشرق کی طرف سے نکلا کرے چنانچہ وہ نکل رہا ہے ، اب تو اسے حکم دے کہ وہ مغرب کی طرف سے نکلے اس کا کوئی ظاہری ٹوٹا پھوٹا جواب بھی نہ اس سے بن پڑا اور بے زبان ہو کر اپنی عاجزی کا معترف ہو گیا اور اللہ کی حجت اس پر پوری ہو گئی لیکن چونکہ ہدایت نصیب نہ تھی راہ یافتہ نہ ہو سکا ، ایسے بدوضع لوگوں کو اللہ کوئی دلیل نہیں سمجھاتا اور وہ حق کے مقابلے میں بغلیں جھانکتے ہی نظر آتے ہیں ، ان پر اللہ کا غضب و غصہ اور ناراضگی ہوتی ہے اور اس کیلئے اس جہاں میں بھی سخت عذات ہوتے ہیں ، بعض منطقیوں نے کہا ہے کہ خلیل اللہ نے یہاں ایک واضح دلیل کے بعد دوسری اس سے بھی زیادہ واضح دلیل پیش کر دی ، لیکن درحقیت یوں نہیں بلکہ پہلی دلیل دوسری کا مقدمہ تھی اور ان دونوں میں سے نمرود کے دعویٰ کا بطلان بالکل واضح ہو گیا ، اصل دلیل پیدائش و موت ہی ہے چونکہ اس کا دعویٰ اس ناسمجھ مشت خاک نے بھی کیا تو لازم تھا کہ جو بنانے بگاڑنے پر نہ صرف قادر ہو بلکہ بناؤ بگاڑ کا بھی خالق ہو اس کی ملکیت پوری طرح اسی کے قبضہ میں ہونی چاہیئے اور جس طرح موت و حیات کے احکام اس کے جاری ہو جاتے ہیں اسی طرح دوسرے احکام بھی جاری ہو جائیں ، پھر کیا وجہ ہے کہ سورج جو کہ ایک مخلوق ہے اس کی فرمانبرداری اور اطاعت گزاری نہ کرے اور اس کے کہنے سے مشرق کی بجائے مغرب سے نہ نکلے ؟ پس ابراہیم علیہ السلام نے اس پر اس مباحثہ میں کھلا غلبہ پایا اور اسے بالکل لاجواب کر دیا «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» ۔ حضرت سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ مناظرہ ابراہیم علیہ السلام کے آگ سے نکل آنے کے بعد ہوا تھا اس سے پہلے آپ علیہ السلام کی اس ظالم بادشاہ سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی تھی ، زید بن اسلم رحمہ اللہ کا قول ہے کہ قحط سالی تھی ، لوگ نمرود کے پاس جاتے تھے اور غلہ لے آتے تھے ، خلیل اللہ بھی گئے ، وہاں یہ مناظرہ ہو گیا بدبخت نے آپ علیہ السلام کو غلہ نہ دیا ، آپ علیہ السلام خالی ہاتھ واپس آئے ، گھر کے قریب پہنچ کر آپ علیہ السلام نے دونوں بوریوں میں ریت بھر لی کہ گھر والے سمجھیں کچھ لے آئے ، گھر آتے ہی بوریاں رکھ کر سو گئے ، آپ علیہ السلام کی بیوی صاحبہ سارہ اٹھیں بوریوں کو کھولا تو دیکھا کہ عمدہ اناج سے دونوں پر ہیں ، کھانا پکا کر تیار کیا ، آپ علیہ السلام کی بھی آنکھ کھلی دیکھا کہ کھانا تیار ہے ، پوچھا اناج کہاں سے آیا ، کہا دو بوریاں جو آپ بھر کر لائے ہیں ، انہیں میں سے یہ اناج نکالا تھا ، آپ علیہ السلام سمجھ گئے کہ یہ اللہ جل شانہ کی طرف سے برکت اور اس کی رحمت ہے ، اس ناہنجار بادشاہ کے پاس اللہ نے ایک فرشتہ بھیجا اس نے آ کر اسے توحید کی دعوت دی لیکن اس نے قبول نہ کی ، دوبارہ دعوت دی لیکن انکار کیا تیسری مرتبہ اللہ کی طرف بلایا لیکن پھر بھی یہ منکر ہی رہا ۔ اس بار بار کے انکار کے بعد فرشتے نے اس سے کہا اچھا تو اپنا لشکر تیار کر میں بھی اپنا لشکر لے آتا ہوں ، نمرود نے بڑا بھاری لشکر تیار کیا اور زبردست فوج کو لے کر سورج نکلنے کے میدان میں آ ڈٹا ، ادھر اللہ تعالیٰ نے مچھروں کا ایک دروازہ کھول دیا ، بڑے بڑے مچھر اس کثرت سے آئے کہ لوگوں کو سورج بھی نظر نہ آتا تھا ، اللہ کی یہ فوج نمرودیوں پر گری اور تھوڑی دیر میں ان کا خون تو کیا ان کا گوشت پوست سب کھا گئی اور سارے کے سارے یہیں ہلاک ہو گئے ، ہڈیوں کا ڈھانچہ باقی رہ گیا ، انہی مچھروں میں سے ایک نمرود کے نتھنے میں گھس گیا اور چار سو سال تک اس کا دماغ چاٹتا رہا ایسے عذاب میں وہ رہا کہ اس سے موت ہزاروں درجے بہتر تھی اپنا سر دیواروں اور پتھروں پر مارتا پھرتا تھا ، ہتھوڑوں سے کچلواتا تھا ، یونہی رینگ رینگ کر بدنصیب نے ہلاکت پائی ۔ اعاذنا اللہ ۔ البقرة
259 سو سال بعد اوپر جو واقعہ ابراہیم علیہ السلام کے مباحثہ کا گزرا ، اس پر اس کا عطف ہے ، یہ گزرنے والے یا تو عزیز علیہ السلام تھے ، (تفسیر ابن ابی حاتم:1009/3) جیسا کہ مشہور ہے یا ارمیا بن خلقیا تھے اور یہ نام حضرت خضر علیہ السلام کا ہے ، یا خرقیل بن بوار تھے ، یا بنی اسرائیل میں کا ایک شخص تھا ، یہ بستی بیت المقدس تھی اور یہی قول مشہور ہے ، بخت نصر نے جب اسے اجاڑا یہاں کے باشندوں کو تہ تیغ کیا ، مکانات گرا دئیے اور اس آباد بستی کو بالکل ویران کر دیا ، اس کے بعد یہ بزرگ یہاں سے گزرے ، انہوں نے دیکھا کہ ساری بستی تہ و بالا ہو گئی ہے ، نہ مکان ہے نہ مکین ، تو وہاں ٹھہر کر سوچنے لگے کہ بھلا ایسا بڑا پررونق شہر جو اس طرح اُجڑا ہے یہ پھر کیسے آباد ہو گا ؟ اللہ تعالیٰ نے خود ان پر موت نازل فرمائی ، تو اسی حالت میں رہے اور وہاں ستر سال کے بعد بیت المقدس پھر آباد ہو گیا ، بھاگے ہوئے بنی اسرائیل بھی پھر آ پہنچے اور شہر کھچا کھچ بھر گیا ، وہی اگلی سی رونق اور چہل پہل ہو گئی ، اب سو سال کامل کے بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ کیا اور سب سے پہلے روح آنکھوں میں آئی تاکہ اپنا جی اُٹھنا خود دیکھ سکیں ، جب سارے بدن میں روح پھونک دی گئی تو اللہ تعالیٰ نے فرشتے کے ذریعے پچھوایا کہ کتنی مدت تک تم مردہ رہے ؟ جس کے جواب میں کہا کہ ابھی تک ایک دن بھی پورا نہ ہوا وجہ یہ ہوئی کہ صبح کے وقت ان کی روح نکلی تھی اور سو سال کے بعد جب جئے ہیں تو شام کا وقت تھا ، خیال کیا کہ یہ وہی دن ہے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم ایک سو سال کامل تک مردہ رہے ، اب ہماری قدرت دیکھو کہ تمہارا توشہ بھتا جو تمہارے ساتھ تھا ، باوجود سو سال گزر جانے کے بھی ویسا ہی ہے ، نہ سڑا نہ خراب ہوا ہے ۔ یہ توشہ انگور اور انجیر اور عصیر تھا نہ تو یہ شیرہ بگڑا تھا نہ انجیر کھٹے ہوئے تھے نہ انگور خراب ہوئے تھے بلکہ ٹھیک اپنی اصلی حالت پر تھے ، اب فرمایا یہ تیرا گدھا جس کی بوسیدہ ہڈیاں تیرے سامنے پڑی ہیں ، انہیں دیکھ تیرے دیکھتے ہوئے ہم اسے زندہ کرتے ہیں ، ہم خود تیری ذات کو لوگوں کیلئے دلیل بنانے والے ہیں کہ انہیں قیامت کے دن اپنے دوبارہ جی اٹھنے پر یقین کامل ہو جائے ، چنانچہ ان کے دیکھتے ہوئے ہڈیاں اٹھیں اور ایک ایک کے ساتھ جڑیں ، مستدرک حاکم میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت «نُنْشِرُھَا» زے کے ساتھ ہے ، (مستدرک حاکم:234/2:ضعیف)اور «نُنۡشِرہَا» رے کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے یعنی زندہ کریں گے ، مجاہد رحمہ اللہ کی قرأت یہی ہے ، (تفسیر ابن جریر الطبری:476/5) سدی رحمہ اللہ وغیرہ کہتے ہیں یہ ہڈیاں ان کے دائیں بائیں پھیل پڑی تھیں اور بوسیدہ ہونے کی وجہ سے ان کی سفیدی چمک رہی تھی ، ہوا سے یہ سب یکجاں ہو گئیں ، پھر ایک ایک ہڈی اپنی اپنی جگہ جڑ گئی اور ہڈیوں کا پورا ڈھانچہ قائم ہو گیا جس پر گوشت مطلق نہ تھا ، پھر اللہ تعالیٰ نے اسے گوشت ، رگیں ، پٹھے ، اور کھال پہنا دی ، پھر فرشتے کو بھیجا جس نے اس کے نتھنے میں پھونک ماری ، بس اللہ کے حکم سے اسی وقت زندہ ہو گیا اور آواز نکالنے لگا ، ان تمام باتوں کو دیکھ کر عزیز علیہ السلام دیکھتے رہے اور قدرت کی یہ ساری کاریگری ان کی آنکھوں کے سامنے ہی ہوئی ، جب یہ سب کچھ دیکھ چکے تو کہنے لگے اس بات کا علم تو مجھے تھا ہی کہ اللہ ہرچیز پر قادر ہے لیکن اب میں نے اپنی آنکھوں سے بھی دیکھ لیا ، تو میں اپنے زمانے کے تمام لوگوں سے زیادہ علم و یقین والا ہوں ، بعض لوگوں نے اعلم کو اعلم بھی پڑھا ہے ، یعنی اللہ مقتدر نے فرمایا کہ جان لے کہ اللہ تعالیٰ کو ہرچیز پر قدرت ہے ۔ البقرة
260 معمہ حیات و موت حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس سوال کی بہت سی وجوہات تھیں ، ایک تو یہ کہ چونکہ یہی دلیل آپ علیہ السلام نے نمرود مردود کے سامنے پیش کی تھی تو آپ علیہ السلام نے چاہا کہ علم الیقین سے عین الیقین حاصل ہو جائے ، جانتا تو ہوں ہی لیکن دیکھ بھی لیں ، صحیح بخاری شریف میں اس آیت کے موقع کی ایک حدیث ہے جس میں ہے کہ ہم شک کے حقدار بہ نسبت ابراہیم علیہ السلام کے زیادہ ہیں جبکہ انہوں نے کہا «وَإِذْ قَالَ إِبْرَاہِیمُ رَبِّ أَرِنِی کَیْفَ تُـحْیِ الْمَوْتٰی» ( 2 ۔ البقرہ : 260 ) ، (صحیح بخاری:4537) تو اس سے کوئی جاہل یہ نہ سمجھے کہ خلیل اللہ علیہ السلام کو اللہ کی اس صفت میں شک تھا ، اس حدیث کے بہت سے جواب ہیں جن میں سے ایک یہ ہے ۔ ( شاید یہ ہو گا کہ ہم خلیل اللہ سے کمزور ایمان والے ہونے کے باوجود خلاق عالم کی اس صفت میں شک نہیں کرتے تو خلیل اللہ کو شک کیوں ہو گا ؟ مترجم ) اب رب العالمین خالقِ کل فرماتا ہے کہ چار پرندے لے لو ، مفسرین کے اس بارے میں کئی قول ہیں کہ کون کون سے پرندے ابراہیم علیہ السلام نے لیے تھے ؟ لیکن ظاہر ہے کہ اس کا علم ہمیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا او اس کا نہ جاننا ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچاتا ، کوئی کہتا ہے وہ کلنگ اور مور اور مرغ اور کبوتر تھے ، کوئی کہتا ہے وہ مرغابی اور سیمرغ کا بچہ اور مرغ اور مور تھے ، کوئی کہتا ہے کبوتر ، مرغ ، مور اور کوا تھے ، پھر انہیں کاٹ کر ان کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالو ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما یہی فرماتے ہیں ۔ اور روایت میں ہے اپنے پاس رکھ لیا ، جب ہل گئے انہیں ذبح کر دیا ، پھر ٹکڑے ٹکڑے الگ الگ کر دئیے ، پس آپ نے چار پرند لیے ، ذبح کر کے ان کے ٹکڑے کئے پھر اکھیڑ دئیے اور سارے مختلف ٹکڑے آپس میں ملا دئیے ، پھر چاروں پہاڑوں پر وہ ٹکڑے رکھ دئیے اور سب پرندوں کے سر اپنے ہاتھ میں رکھے ، پھر بحکم الہٰ انہیں بلانے لگے جس جانور کو آواز دیتے اس کے بکھرے ہوئے پر ادھر ادھر سے اڑتے اور آپس میں جڑتے اسی طرح خون خون کے ساتھ ملتا اور باقی اجزاء بھی جس جس پہاڑ پر ہوتے آپس میں مل جاتے اور پرندہ اڑتا ہوا آپ علیہ السلام کے پاس آتا ، آپ اسے دوسرے پرند کا سر دیتے تو وہ قبول نہ کرتا ، خود اس کا سر دیتے تو وہ بھی جڑ جاتا ، (تفسیر قرطبی:300/3) یہاں تک کہ ایک ایک کر کے یہ چاروں پرند زندہ ہو کر اُڑ گئے اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کا اور مردوں کے زندہ ہونے کا یہ ایمان افروز نظارہ خلیل اللہ نے اپنی آنکھوں دیکھ لیا پھر فرماتا ہے کہ جان لے اللہ غالب ہے کوئی چیز اسے عاجز نہیں کر سکتی ، جس کام کو چاہے بے روک ہو جاتا ہے ، ہرچیز اس کے قبضے میں ہے ، وہ اپنے اقوال و افعال میں حکیم ہے اسی طرح اپنے انتظام میں اور شریعت کے مقرر کرنے میں بھی ، سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے کہ ابراہیم علیہ السلام سے جناب باری کا یہ سوال کرنا کہ کیا تو ایمان نہیں لایا اور خلیل اللہ علیہ السلام کا یہ جواب دینا کہ ہاں ایمان تو ہے لیکن دِلی اطمینان چاہتا ہوں ، یہ آیت مجھے تو اور تمام آیتوں سے زیادہ امید دلانے والی معلوم ہوتی ہے ، مطلب یہ ہے کہ ایک ایماندار کے دِل میں اگر کوئی خطرہ وسوسہ شیطانی پیدا ہو تو اس پر پکڑ نہیں ، سیدنا عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کی ملاقات ہوتی ہے تو پوچھتے ہیں کہ قرآن میں سب سے زیادہ امید پیدا کرنے والی آیت کون سی ہے ؟ سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں «قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ إِنَّ اللہَ یَغْفِرُ الذٰنُوبَ جَمِیعًا» ( 39 ۔ الزمر : 53 ) والی آیت جس میں ارشاد ہے کہ اے میرے گنہگار بندو میری رحمت سے ناامید نہ ہونا میں سب گناہوں کو بخش دیتا ہوں ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا میرے نزدیک تو اس امت کیلئے سب سے زیادہ ڈھارس بندھانے والی آیت ابراہیم علیہ السلام کا یہ قول ، پھر رب دو عالم کا سوال اور آپ علیہ السلام کا جواب ہے ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:1032/3) البقرة
261 سو گنا زیادہ ثواب اس آیت میں بیان ہو رہا ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کی طلب میں اپنے مال کو خرچ کرے ، (تفسیر ابن ابی حاتم:1047/3) اسے بڑی برکتیں اور بہت بڑے ثواب ملتے ہیں اور نیکیاں سات سو گنا کر کے دی جاتی ہیں ، تو فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کی راہ میں یعنی اللہ کی فرمانبرداری میں جہاد کے گھوڑوں کو پالنے میں ، ہتھیار خریدنے میں ، حج کرنے کرانے میں خرچ کرتے ہیں ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:1047/3) اللہ کے نام دئیے ہوئے کی مثال کس پاکیزگی سے بیان ہو رہی ہے جو آنکھوں میں کھپ جائے اور دِل میں گھر کر جائے ، ایک دم یوں فرما دیتا ہے کہ ایک کے بدلے سات سو ملیں گے اس سے بہت زیادہ لطافت اس کلام اور اس کی مثال میں ہے اور پھر اس میں اشارہ ہے کہ اعمال صالحہ اللہ کے پاس بڑھتے رہتے ہیں جس طرح تمہارے بوئے ہوئے بیج کھیت میں بڑھتے رہتے ہیں ۔ مسند احمد میں حدیث ہے کہ رسول اللہ احمد مجتبیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص اپنی بچی ہوئی چیز فی سبیل اللہ دیتا ہے اسے سات سو کا ثواب ملتا ہے اور جو شخص جان پر اور اپنے اہل و عیال پر خرچ کرے اسے دس گنا ملتا ہے اور بیمار کی عیادت کا ثواب بھی دس گنا ملتا ہے ۔ روزہ ڈھال ہے ، جب تک کہ اسے خراب نہ کرے ، جس شخص پر کوئی جسمانی بلا مصیبت دکھ درد بیماری آئے وہ اس کے گناہوں کو جھاڑ دیتی ہے ۔ یہ حدیث سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہما نے اس وقت بیان فرمائی تھی جب کہ آپ رضی اللہ عنہما سخت بیمار تھے اور لوگ عیادت کیلئے گئے تھے ، آپ رضی اللہ عنہما کی بیوی صاحبہ سرہانے بیٹھی تھیں ، ان سے پوچھا کہ رات کیسی گزری ؟ انہوں نے کہا نہایت سختی سے ، آپ رضی اللہ عنہما کا منہ اس وقت دیوار کی جانب تھا ، یہ سنتے ہی لوگوں کی طرف منہ کیا اور فرمایا میری یہ رات سختی کی نہیں گزری ، اس لیے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا ہے ، (مسند احمد:195/1:حسن) صحیح مسلم کی اور حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے نکیل والی اونٹنی خیرات کی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ قیامت کے دن سات سو نکیل والی اونٹنیاں پائے گا ، (صحیح مسلم:1892) مسند کی ایک اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابن آدم کی ایک نیکی کو دس نیکیوں کے برابر کر دیا ہے اور وہ بڑھتی رہتی ہیں ، سات سو تک ، مگر روزہ ، کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ خاص میرے لیے ہے اور میں آپ کو اس کا اجر و ثواب دوں گا ، روزے دار کو دو خوشیاں ہیں ایک افطار کے وقت ، دوسری قیامت کے دن روزے دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کو مشک کی خوشبو سے زیادہ پسند ہے ، (مسند احمد:446/1:صحیح بالشواھد) دوسری حدیث میں اتنی زیادتی اور ہے کہ روزے دار اپنے کھانے پینے کو صرف میری وجہ سے چھوڑتا ہے ، آخر میں ہے روزہ ڈھال ہے روزہ ڈھال ہے ، (صحیح مسلم:1151) مسند کی اور حدیث میں ہے نماز روزہ اللہ کا ذِکر اللہ کی راہ کے خرچ پر سات سو گنا بڑھ جاتے ہیں ، (سنن ابوداود:2498 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے کہ جو شخص جہاد میں کچھ مالی مدد دے ، گو خود نہ جائے تاہم اسے ایک کے بدلے سات سو کے خرچ کرنے کا ثواب ملتا ہے اور خود بھی شریک ہوا تو ایک درہم کے بدلے سات لاکھ درہم کے خرچ کا ثواب ملتا ہے ، پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی «وَاللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَاءُ وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ» ) 2 ۔ البقرہ : 261 ) یہ حدیث غریب ہے ۔ (سنن ابن ماجہ:2761 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہما والی حدیث «مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَہٗ لَہٗٓ اَضْعَافًا کَثِیْرَۃً» ( 2 ۔ البقرہ : 245 ) کی تفسیر میں پہلے گزر چکی ہے جس میں ہے کہ ایک کے بدلے میں دو کروڑ کا ثواب ملتا ہے ، (مسند احمد:296/2:ضعیف) ابن مردویہ میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی کہ اے اللہ میری امت کو کچھ اور زیادتی عطا فرما تو «مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَہٗ لَہٗٓ اَضْعَافًا کَثِیْرَۃً» ( 2 ۔ البقرہ : 245 ) والی آیت اتری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر بھی یہی دعا کی تو «اِنَّمَا یُوَفَّی الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَہُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ» ( 39 ۔ الزمر : 10 ) اتری ، (ابن حبان:4648:ضعیف) پس ثابت ہوا کہ جب قدر اخلاص عمل میں ہو اسی قدر ثواب میں زیادتی ہوتی ہے ، اللہ تعالیٰ بڑے وسیع فضل و کرم والا ہے ، وہ جانتا بھی ہے کہ کون کس قدر مستحق ہے اور کسے استحقاق نہیں فسبحان اللہ والحمداللہ ۔ البقرة
262 مخیر حضرات کی تعریف اور ہدایات اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے ان بندوں کی مدح و تعریف کرتا ہے جو خیرات و صدقات کرتے ہیں اور پھر جسے دیتے ہیں اس پر احسان نہیں جتاتے اور نہ اپنی زبان سے یا اپنے کسی فعل سے اس شخص کو کوئی نقصان پہنچاتے ہیں ، ان سے ایسے جزائے خیر کا وعدہ فرماتا ہے کہ ان کا اجر و ثواب رب دو عالم کے ذمہ ہے ۔ ان پر قیامت کے دن کوئی ہول اور خوف و خطرہ نہ ہو گا اور نہ دنیا اور بال بچے چھوٹ جانے کا انہیں کوئی غم و رنج ہو گا ، اس لیے کہ وہاں پہنچ کر اس سے بہتر چیزیں انہیں مل چکی ہیں ۔ پھر فرماتا ہے کہ کلمہ خیر زبان سے نکالنا ، کسی مسلمان بھائی کیلئے دعا کرنا ، درگزر کرنا ، خطاوار کو معاف کر دینا اس صدقے سے بہتر ہے جس کی تہہ میں ایذاء دہی ہو ، ابن ابی حاتم میں ہے کہ رسول اکرم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کوئی صدقہ نیک کام سے افضل نہیں ۔ کیا تم نے فرمان باری «قَوْلٌ مَّعْرُوفٌ وَمَغْفِرَۃٌ خَیْرٌ مِّن صَدَقَۃٍ یَتْبَعُہَا أَذًی وَ اللہُ غَنِیٌّ حَلِیمٌ» ( البقرہ : 263 ) نہیں سنا ؟ (الدرالمنثور:599/1:ضعیف و مرسل) اللہ تعالیٰ اپنی تمام مخلوق سے بے نیاز ہے اور ساری مخلوق اس کی محتاج ہے ، وہ حلیم اور بردبار ہے ، گناہوں کو دیکھتا ہے اور حلم و کرم کرتا ہے بلکہ معاف فرما دیتا ہے ، تجاوز کر لیتا ہے اور بخش دیتا ہے صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ تین قسم کے لوگوں سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بات چیت نہ کرے گا نہ ان کی طرف نظرِ رحمت سے دیکھے گا نہ انہیں پاک کرے گا بلکہ ان کیلئے درد ناک عذاب ہیں ، ایک تو دے کر احسان جتانے والا ، دوسرا ٹخنوں سے نیچے پاجامہ اور تہبند لٹکانے والا ، تیسرا اپنے سودے کو جھوٹی قسم کھا کر بیچنے والا ۔ (صحیح مسلم:106) ابن ماجہ وغیرہ کی حدیث میں ہے کہ ماں باپ کا نافرمان خیرات صدقہ کر کے احسان جتانے والا شرابی اور تقدیر کو جھٹلانے والا جنت میں داخل نہ ہو گا ۔ (سنن ابن ماجہ:3376 ، قال الشیخ الألبانی:حسن) نسائی میں ہے تین لوگوں کی طرف اللہ تعالیٰ قیامت کے دن دیکھے گا بھی نہیں ، ماں باپ کا نافرمان ، شراب کا عادی اور دے کر احسان جتانے والا ، (سنن نسائی:2563 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) نسائی کی اور حدیث میں ہے یہ تینوں شخص جنت میں داخل نہ ہوں گے ، (نسائی فی سنن الکبرٰی:4921ضعیف) اسی لیے اس آیت میں بھی ارشاد ہوتا ہے کہ اپنے صدقات و خیرات کو منت سماجت و احسان رکھ کر اور تکلیف پہنچا کر برباد نہ کرو ، اس احسان کے جتانے اور تکلیف کے پہنچانے کا گناہ صدقہ اور خیرات کا ثواب باقی نہیں رکھا ۔ پھر مثال دی کہ احسان اور تکلیف دہی کے صدقے کے غارت ہو جانے کی مثال اس صدقہ جیسی ہے جو ریاکاری کے طور پر لوگوں کو دکھاوے کیلئے دیا جائے ۔ اپنی سخاوت اور فیاضی اور نیکی کی شہرت مدنظر ہو ، لوگوں میں تعریف و ستائش کی چاہت ہو صرف اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کی طلب نہ ہو نہ اس کے ثواب پر نظر ہو ، اسی لیے اس جملے کے بعد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان نہ ہو تو اس ریاکارانہ صدقے کی اور اس احسان جتانے اور تکلیف پہنچانے کے صدقہ کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی صاف چٹیل پتھر کی چٹان ہو جس پر مٹی بھی پڑی ہوئی ہو ، پھر سخت شدت کی بارش ہو تو جس طرح اس پتھر کی تمام مٹی دُھل جاتی ہے اور کچھ بھی باقی نہیں رہتی ، اسی طرح ان دونوں قسم کے لوگوں کے خرچ کی کیفیت ہے کہ گو لوگ سمجھتے ہوں کہ اس کے صدقہ کی نیکی اس کے پاس ہے جس طرح بظاہر پتھر پر مٹی نظر آتی ہے لیکن جیسے کہ بارش سے وہ مٹی جاتی رہی اسی طرح اس کے احسان جتانے یا تکلیف پہچانے یا ریاکاری کرنے سے وہ ثواب بھی جاتا رہا اور اللہ تعالیٰ کے پاس پہنچے گا تو کچھ بھی جزا نہ پائے گا ، اپنے اعمال میں سے کسی چیز پر قدرت نہ رکھے گا ، اللہ تعالیٰ کافر گروہ کی راہِ راست کی طرف رہبری نہیں کرتا ۔ البقرة
263 البقرة
264 البقرة
265 سدا بہار عمل یہ مثال مومنوں کے صدقات کی دی جن کی نیتیں اللہ کو خوش کرنے کی ہوتی ہیں اور جزائے خیر ملنے کا بھی پورا یقین ہوتا ہے ، جیسے حدیث میں ہے جس شخص نے رمضان کے روزے ایمانداری کے ساتھ ثواب ملنے کے یقین پر رکھے ۔ (صحیح بخاری:1901) «رَبْوَہ» کہتے ہیں اونچی زمین کو جہاں نہریں چلتی ہیں اس لفظ کو بربوۃ اور «ِبَرْبَوۃٍ» بھی پڑھا گیا ہے ۔ «وابِلٌ» کے معنی سخت بارش کے ہیں ، وہ دگنا پھل لاتی ہے یعنی بہ نسبت دوسرے باغوں کی زمین کے ، یہ باغ ایسا ہے اور ایسی جگہ واقع ہے کہ بالفرض بارش نہ بھی ہو تاہم صرف شبنم سے ہی پھلتا پھولتا ہے یہ ناممکن ہے کہ موسم خالی جائے ، اسی طرح ایمانداروں کے اعمال کبھی بھی بے اجر نہیں رہتے ۔ وہ ضرور بدلہ دلواتے ہیں ، ہاں اس جزا میں فرق ہوتا ہے جو ہر ایماندار کے خلوص اور اخلاص اور نیک کام کی اہمیت کے اعتبار سے بڑھتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ پر اپنے بندوں میں سے کسی بندے کا کوئی عمل مخفی اور پوشیدہ نہیں ۔ البقرة
266 کفر اور بڑھاپا صحیح بخاری شریف میں ہے کہ امیر المؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما نے ایک دن صحابہ رضی اللہ عنہم سے پوچھا جانتے ہو کہ یہ آیت کس کے بارے میں نازل ہوئی ؟ انہوں نے کہا اللہ زیادہ جاننے والا ، آپ رضی اللہ عنہما نے ناراض ہو کر فرمایا تم جانتے ہو یا نہیں ؟ اس کا صاف جواب دو ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا امیر المؤمنین میرے دِل میں ایک بات ہے آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا بھتیجے کہو اور اپنے نفس کو اتنا حقیر نہ کرو ، فرمایا ایک عمل کی مثال دی گئی ہے ، پوچھا کون سا عمل ؟ کہا ایک مالدار شخص جو اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کے کام کرتا ہے پھر شیطان اسے بہکاتا ہے اور وہ گناہوں میں مشغول ہو جاتا ہے اور اپنے نیک اعمال کو کھو دیتا ہے ، (صحیح بخاری:4538) پس یہ روایت اس آیت کی پوری تفسیر ہے اس میں بیان ہو رہا ہے کہ ایک شخص نے ابتداء اچھے عمل کئے پھر اس کے بعد اس کی حالت بدل گئی اور برائیوں میں پھنس گیا اور پہلے کی نیکیوں کا ذخیرہ برباد کر دیا ، اور آخری وقت جبکہ نیکیوں کی بہت زیادہ ضرورت تھی یہ خیال ہاتھ رہ گیا ، جس طرح ایک شخص ہے جس نے باغ لگایا پھل اتارتا ہو ، لیکن جب بڑھاپے کے زمانہ کو پہنچا چھوٹے بچے بھی ہیں آپ کسی کام کاج کے قابل بھی نہیں رہا ، اب مدارِ زندگی صرف وہ ایک باغ ہے اتفاقاً آندھی چلی پھر برائیوں پر اتر آیا اور خاتمہ اچھا نہ ہوا تو جب ان نیکیوں کے بدلے کا وقت آیا تو خالی ہاتھ رہ گیا ۔ کافر شخص بھی جب اللہ کے ہاں جاتا ہے تو وہاں تو کچھ کرنے کی طاقت نہیں جس طرح اس بڈھے کو ، اور جو کیا ہے وہ کفر کی آگ والی آندھی نے برباد کر دیا ، اب پیچھے سے بھی کوئی اسے فائدہ نہیں پہنچا سکتا جس طرح اس بڈھے کی کم سن اولاد اسے کوئی کام نہیں دے سکتی ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:1074/4) مستدرک حاکم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دعا یہ بھی تھی «اَللَّھُمَ اجْعَلْ اَوْسَعَ رِزْقِکَ عَلَیَّ عِنْدَ کِبَرِ سِنِّی وَ انْقِطَاعِ عُمُرِی» اے اللہ اپنی روزی کو سب سے زیادہ مجھے اس وقت عنایت فرما جب میری عمر بڑی ہو جائے اور ختم ہونے کو آئے ۔ (مستدرک حاکم:542/1:ضعیف) اللہ تعالیٰ نے تمہارے سامنے یہ مثالیں بیان فرما دیں ، تم بھی غور و فکر تدبر و تفکر کرو ، سوچو سمجھو اور عبرت و نصیحت حاصل کرو جیسے فرمایا «وَتِلْکَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُہَا لِلنَّاسِ وَمَا یَعْقِلُہَا إِلَّا الْعَالِمُونَ» (29-العنکبوت:43) ان مثالوں کو ہم نے لوگوں کیلئے بیان فرما دیا ۔ انہیں علماء ہی خوب سمجھ سکتے ہیں ۔ البقرة
267 خراب اور حرام مال کی خیرات مسترد اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو صدقہ کرنے کا حکم دیتا ہے کہ مال تجارت جو اللہ جل شانہ نے تمہیں دیا ہے سونا چاندی اور پھل اناج وغیرہ جو اس نے تمہیں زمین سے نکال کر دئیے ہیں ، اس میں سے بہترین مرغوب طبع اور پسند خاطر عمدہ عمدہ چیزیں اللہ کی راہ میں دو ۔ ردی ، واہیات ، سڑی گلی ، گری پڑی ، بے کار ، فضول اور خراب چیزیں راہِ اللہ نہ دو ، اللہ خود طیب ہے وہ خبیث کو قبول نہیں کرتا ، ہم اس کے نام پر یعنی گویا اسے وہ خراب چیز دینا چاہتے ہو جسے اگر تمہیں دی جاتی تو نہ قبول کرتے پھر اللہ کیسے لے لے گا ؟ ہاں مال جاتا دیکھ کر اپنے حق کے بدلے کوئی گری پڑی چیز بھی مجبور ہو کر لے لو تو اور کوئی بات ہے لیکن اللہ ایسا مجبور بھی نہیں وہ کسی حالت میں ایسی چیز کو قبول نہیں فرماتا ، یہ بھی مطلب ہے کہ حلال چیز کو چھوڑ کر حرام چیز یا حرام مال سے خیرات نہ کرو ۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے جس طرح تمہاری روزیاں تم میں تقسیم کی ہیں تمہارے اخلاق بھی تم میں بانٹ دئیے ہیں ، دنیا تو اللہ تعالیٰ اپنے دوستوں کو بھی دیتا ہے دشمنوں کو بھی ، ہاں دین صرف دوستوں کو ہی عطا فرماتا ہے اور جسے دین مل جائے وہ اللہ کا محبوب ہے ۔ اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کوئی بندہ مسلمان نہیں ہوتا جب تک کہ اس کا دِل اس کی زبان مسلمان نہ ہو جائے ، کوئی بندہ مومن نہیں ہوتا جب تک کہ اس کے پڑوسی اس کی ایذاؤں سے بے خوف نہ ہو جائیں ، لوگوں کے سوال پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایذاء سے مراد دھوکہ بازی اور ظلم و ستم ہے ، جو شخص حرام وجہ سے مال حاصل کرے اس میں اللہ برکت نہیں دیتا نہ اس کے صدقہ خیرات کو قبول فرماتا ہے اور جو چھوڑ کر جاتا ہے وہ سب اس کیلئے آگ میں جانے کا توشہ اور سبب بنتا ہے ، اللہ تعالیٰ برائی کو برائی سے نہیں مٹاتا بلکہ برائی کو اچھائی سے دفع کرتا ہے ، خباثت خباثت سے نہیں مٹتی ۔ (مسند احمد:387/1:ضعیف) پس دو قول ہوئے ۔ ایک تو رَدی چیزیں دوسرا حرام مال ۔ اس آیت میں پہلا قول مراد لینا ہی اچھا معلوم ہوتا ہے ، سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کھجوروں کے موسم میں انصار اپنی اپنی وسعت کے مطابق کھجوروں کے خوشے لا کر دوستوں کے درمیان ایک رسی کے ساتھ لٹکا دیتے ، جسے اصحاب صفہ اور مسکین مہاجر بھوک کے وقت کھا لیتے ، کسی نے جسے صدقہ کی رغبت کم تھی اس میں ردی کھجور کا ایک خوشہ لٹکا دیا ، جس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:6138) کہ اگر تمہیں ایسی ہی چیزیں ہدیہ میں دی جائیں تو ہرگز نہ لو گے ۔ ہاں اگر شرم و لحاظ سے بادل ناخواستہ لے لو تو اور بات ہے ، اس کے نازل ہونے کے بعد ہم میں کا ہر شخص بہتر ہے بہتر چیز لاتا تھا ۔ (سنن ترمذی:2987،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابن ابی حاتم میں ہے کہ ہلکی قسم کی کھجوریں اور واہی پھل لوگ خیرات میں نکالتے جس پر یہ آیت اتری اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چیزوں سے صدقہ دینا منع فرمایا ، سیدنا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مومن کی کمائی کبھی خبیث نہیں ہوتی ، مراد یہ ہے کہ بے کار چیز صدقہ میں نہ دو ، مسند میں حدیث ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے گوہ کا گوشت لایا گیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ کھایا نہ کسی کو کھانے سے منع فرمایا تو ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کسی مسکین کو دے دیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو تمہیں پسند نہیں اور جسے تم کھانا پسند نہیں کرتیں اسے کسی اور کو کیا دو گی ؟ (مسند احمد:105/6:ضعیف) سیدنا براء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب تمہارا حق کسی پر ہو اور وہ تمہیں وہ چیز دے جو بے قدر و قیمت ہو تو تم اسے نہ لو گے مگر اس وقت جب تمہیں اپنے حق کی بربادی دکھائی دیتی ہو تو تم چشم پوشی کر کے اسی کو لو گے ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ تم نے کسی کو اچھا مال دیا اور ادائیگی کے وقت وہ ناقص مال لے کر آیا تو تم ہرگز نہ لو گے اور اگر لو گے بھی تو اس کی قیمت گھٹا کر ، تو تم جس چیز کو اپنے حق میں لینا پسند نہیں کرتے اسے اللہ کے حق کے عوض کیوں دیتے ہو ؟ پس بہترین اور مرغوب مال اس کی راہ میں خرچ کرو اور یہی معنی ہیں «لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبٰوْنَ» ( 3 ۔ آل عمران : 92 ) کے بھی ۔ پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اپنی راہ میں خرچ کرنے کا حکم دیا اور عمدہ چیز دینے کا ۔ کہیں اس سے یہ نہ سمجھ لینا کہ وہ محتاج ہے ، نہیں نہیں وہ تو بے نیاز ہے اور تم سب اس کے محتاج ہو ، یہ حکم صرف اس لیے ہے کہ غرباء بھی دنیا کی نعمتوں سے محروم نہ رہیں گے ، جیسے اور جگہ قربانی کے حکم کے بعد فرمایا «لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُہَا وَلَا دِمَاؤُہَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ» ( 22 ۔ الحج : 37 ) اللہ تعالیٰ نہ اس کا خون لے نہ گوشت ، وہ تو تمہارے تقوے کی آزمائش کرتا ہے ۔ وہ کشادہ فضل والا ہے ، اس کے خزانے میں کوئی کمی نہیں ، صدقہ اپنے چہیتے حلال مال سے نکال کر اللہ کے فضل اس کے بخشش اس کے کرم اور اس کی سخاوت پر نظریں رکھو ، وہ اس کا بدلہ اس سے بہت بڑھ چڑھ کر تمہیں عطا فرمائے گا وہ مفلس نہیں وہ ظالم نہیں ، وہ حمید ہے تمام اقوال افعال تقدیر شریعت سب میں اس کی تعریفیں ہی کی جاتی ہیں ، اس کے سوا کوئی عبادت کے قابل نہیں ، وہی تمام جہانوں کا پالنے والا ہے ، اس کے سوا کوئی عبادت کے قابل نہیں ، وہ ہی تمام جہانوں کا پالنے والا ہے ، اس کے سوا کوئی کسی کی پرورش نہیں کرتا ۔ حدیث میں ہے کہ ایک چوکا شیطان مارتا ہے اور ایک توفیق کی رہبری فرشتہ کرتا ہے ۔ شیطان تو شرارت پر آمادہ کرتا ہے اور حق کے جھٹلانے پر اور فرشتہ نیکی پر اور حق کی تصدیق پر جس کے دِل میں یہ خیال آئے وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے اور جان لے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے اور جس کے دِل میں وہ وسوسہ پیدا ہو وہ «اَعُوْذُ» پڑھے ، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے «لشَّیْطَانُ یَعِدُکُمُ الْفَقْرَ وَیَأْمُرُکُم بِالْفَحْشَاءِ» ( البقرہ : 268 ) الخ ، (سنن ترمذی:2988 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) کی تلاوت فرمائی ۔ یہ حدیث سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے موقوف بھی مروی ہے ، مطلب آیت شریفہ کا یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے شیطان روکتا ہے اور دِل میں وسوسہ ڈالتا ہے کہ اس طرح ہم فقیر ہو جائیں گے ، اس نیک کام سے روک کر پھر بے حیائیوں اور بدکاریوں کی رغبت دلاتا ہے ، گناہوں پر نافرمانیوں پر حرام کاریوں پر اور مخالفت پر اکساتا ہے اور اللہ تعالیٰ تمہیں اس کے برخلاف حکم دیتا ہے کہ خرچ فی سبیل اللہ کے ہاتھ نہ روکو اور شیطان کی دھمکی کے خلاف وہ فرماتا ہے کہ اس صدمہ کے باعث میں تمہاری خطاؤں کو بھی معاف کر دوں گا اور وہ جو تمہیں فقیری سے ڈراتا ہے میں اس کے مقابلہ میں تمہیں اپنے فضل کا یقین دلاتا ہوں ، مجھ سے بڑھ کر رحم و کرم ، فضل و لطف کس کا زیادہ وسیع ہو گا ؟ اور انجام کار کا علم بھی مجھ سے زیادہ اچھا کسے حاصل ہو سکتا ہے ؟ حکمت سے مراد یہاں پر قرآن کریم اور حدیث شریف کی پوری مہارت ہے جس سے ناسخ منسوخ محکم متشابہ مقدم مؤخر حلال حرام کی اور مثالوں کی معرفت حاصل ہو جائے ، (تفسیر ابن جریر الطبری:576/5) پڑھنے کو تو اسے ہر برا بھلا پڑھتا ہے لیکن اس کی تفسیر اور اس کی سمجھ وہ حکمت ہے جسے اللہ چاہے عنایت فرماتا ہے کہ وہ اصل مطلب کو پالے اور بات کی تہہ تک پہنچ جائے اور زبان سے اس کے صحیح مطلب ادا ہوں ، سچا علم صحیح سمجھ اسے عطا ہو ، اللہ کا ڈر اس کے دِل میں ہو ، چنانچہ ایک مرفوع حدیث بھی ہے کہ حکمت کا راز اللہ کا ڈر ہے ، (بیہقی فی شعب الایمان:744:ضعیف) ایسے لوگ بھی دنیا میں ہیں جو دنیا کے علم کے بڑے ماہر ہیں ، ہر امر دنیوی کو عقلمندی سمجھ لیتے ہیں لیکن دین میں بالکل اندھے ہیں ، اور ایسے لوگ بھی ہیں کہ دنیوی علم میں کمزور ہوں لیکن علوم شرعی میں بڑے ماہر ہیں ۔ پس یہ ہے وہ حکمت جسے اللہ نے اسے دی اور اسے اس سے محروم رکھا ، سدی رحمہ اللہ کہتے ہیں یہاں حکمت سے مراد نبوۃ ہے ، لیکن صحیح یہ ہے کہ حکمت کا لفظ ان تمام چیزوں پر مشتمل ہے اور نبوۃ بھی اس کا اعلیٰ اور بہترین حصہ ہے اور اس سے بالکل خاص چیز ہے جو انبیاء کے سوا او کسی کو حاصل نہیں ، ان کے تابع فرمان لوگوں کو اللہ کی طرف سے محرومی نہیں ، سچی اور اچھی سمجھ کی دولت یہ بھی مالا مال ہوتے ہیں ، بعض احادیث میں ہے جس نے قرآن کریم کو حفظ کر لیا اس کے دونوں بازوؤں کے درمیان نبوت چڑھ گئی ، وہ صاحب وحی نہیں ، (حاکم:552/1:ضعیف) لیکن دوسرے طریق سے کہ وہ ضعیف ہے منقول ہے کہ یہ سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کا اپنا قول ہے مسند کی حدیث میں ہے کہ قابلِ رشک صرف دو شخص ہیں جسے اللہ نے مال دیا اور اپنی راہ میں خرچ کرنے کی توفیق بھی دی اور جسے اللہ نے حکمت دی اور ساتھ ہی اس کے فیصلے کرنے اور اس کی تعلیم دینے کی توفیق بھی عطا فرمائی ۔ (صحیح بخاری:73:صحیح) وعظ و نصیحت اسی کو نفع پہنچاتی ہے جو عقل سے کام لے ، سمجھ رکھتا ہو ، بات کو یاد رکھے اور مطلب پر نظریں رکھے ۔ البقرة
268 البقرة
269 البقرة
270 نیک اور بد لوگ ظاہر اور درپردہ حقیقت اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ ہر ایک خرچ اور نذر کو اور ہر بھلے عمل کو اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے وہ اپنے نیک بندوں کو جو اس کا حکم بجا لاتے ہیں اس سے ثواب کی امید رکھتے ہیں ، اس کے وعدوں کو سچا جانتے ہیں ، اس کے فرمان پر ایمان رکھتے ہیں ، بہترین بدلہ عطا فرمائے گا اور ان کے خلاف جو لوگ اس کی حکم برداری سے جی چراتے ہیں گناہ کا کام کرتے ہیں ، اس کی خبروں کو جھٹلاتے ہیں اس کے ساتھ دوسروں کی عبادت کرتے ہیں ، یہ ظالم ہیں قیامت کے دن قسم قسم کے سخت بدترین اور المناک عذاب انہیں ہوں گے اور کوئی نہ ہو گا جو انہیں چھڑائے یا ان کی مدد میں اُٹھے ۔ پھر فرمایا کہ ظاہر کر کے صدقہ دینا بھی اچھا ہے اور چھپا کر فقراء مساکین کو دینا بہت ہی بہتر ہے ، اس لیے کہ یہ ریاکاری سے کوسوں دور ہے ، ہاں یہ اور بات ہے کہ ظاہر کرنے میں کوئی دینی مصلحت یا دینی فائدہ ہو مثلاً اس لیے کہ اور لوگ بھی دیں وغیرہ ۔ حدیث شریف میں ہے کہ صدقہ کا ظاہر کرنے والا مثل بلند آواز سے قرآن پڑھنے والے کے ہے اور اسے چھپانے والا آہستہ پڑھنے والے کی طرح ہے ، (سنن ابوداود:1333 ، قال الشیخ الألبانی:) پس اس آیت سے صدقہ جو پوشیدہ دیا جائے اس کی افضیلت ثابت ہوتی ہے ، بخاری مسلم میں بروایت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سات شخصوں کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنے سائے میں جگہ دے گا جس دن اس کے سائے کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہو گا ، عادل بادشاہ ، وہ نوجوان جو اپنی جوانی اللہ کی عبادت اور شریعت کی فرمانبرداری میں گزارے ۔ وہ دو شخص جو اللہ تعالیٰ کیلئے آپس میں محبت رکھیں ، اسی پر جمع ہوں اور اسی پر جدا ہوں ، وہ شخص جس کا دِل مسجد میں لگا رہے نکلنے کے وقت سے جانے کے وقت تک وہ شخص جو خلوت میں اللہ کا ذِکر کر کے رو دے ، وہ شخص جسے کوئی منصب و جمال والی عورت بدکاری کی طرف بلائے اور وہ کہہ دے کہ میں تو اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں اور وہ شخص جو اپنا صدقہ اس قدر چھپا کر دے کہ بائیں ہاتھ کو دائیں ہاتھ کے خرچ کی خبر تک نہ ہو ، (صحیح بخاری:660:صحیح) مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے زمین کو پیدا کیا تو وہ ہلنے لگی ، اللہ تعالیٰ نے پہاڑ پیدا کر کے انہیں گاڑ دیا جس سے زمین کا ہلنا موقوف ہو گیا ، فرشتوں کو پہاڑوں کی ایسی سنگین پیدائش پر تعجب ہوا انہوں نے دریافت کیا کہ باری تعالیٰ کیا تیری مخلوق میں پہاڑ سے زیادہ سخت چیز بھی کوئی ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہاں لوہا ، پوچھا اس سے بھی سخت کوئی چیز ہے ؟ فرمایا ہاں آگ ، پوچھا اس سے زیادہ سخت چیز کوئی اور بھی ہے ؟ فرمایا ہاں پانی ، پوچھا کیا اس سے بھی زیادہ سختی والی کوئی چیز ہے ؟ فرمایا ہاں ہوا ، دریافت کیا اس سے بھی زیادہ سخت ؟ فرمایا ابن آدم جو صدقہ کرتا ہے کہ بائیں ہاتھ کو دائیں ہاتھ کے خرچ کی خبر نہیں ہوتی ، (سنن ترمذی:3369 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) آیت الکرسی کی تفسیر میں وہ حدیث گزر چکی ہے جس میں ہے کہ افضل صدقہ وہ ہے جو پوشیدگی سے کسی حاجت مند کو دے دیا جائے ۔ باوجود مال کی قلت کے ، پھر بھی اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے ، پھر اسی آیت کی تلاوت کی ۔ (مسند احمد:178/5:ضعیف) ایک اور حدیث میں ہے پوشیدگی کا صدقہ اللہ کے غضب کو بجھا دیتا ہے ۔ (سنن ترمذی:664 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ آیت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بارے میں اتری ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اپنا آدھا مال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے اور سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ جو کچھ تھا لا کر رکھ دیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا اپنے گھر والوں کیلئے کیا چھوڑ آئے ہو ؟ سیدنا فاروق رضی اللہ عنہما نے جواب دیا اتنا ہی ، سیدنا صدیق رضی اللہ عنہما گو ظاہر کرنا نہیں چاہتے تھے اور چپکے سے سب کے سب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے کر چکے تھے ، لیکن جب ان سے پوچھا گیا تو کہنا پڑا کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کافی ہے ۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہما یہ سن کر رو دئیے اور فرمانے لگے اللہ کی قسم جس کسی نیکی کے کام کی طرف ہم لپکے ہیں اس میں اے سیدنا صدیق رضی اللہ عنہما آپ کو آگے ہی آگے پاتے ہیں ۔ (سنن ابوداود:1678 ، قال الشیخ الألبانی:حسن) آیت کے الفاظ عام ہیں صدقہ خواہ فرض ہو یا خواہ نفل زکوٰۃ ہو یا خیرات اس کی پوشیدگی اظہار سے افضل ہے ، لیکن سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نفلی صدقہ تو پوشیدہ دینا ستر گنی فضیلت رکھتا ہے لیکن فرضی زکوٰۃ کو علانیہ ادا کرنا پچیس گنی فضیلت رکھتا ہے ۔ پھر فرمایا صدقے کے بدلے اللہ تعالیٰ تمہاری خطاؤں اور برائیوں کو دور کر دے گا بالخصوص اس وقت جبکہ وہ چھپا کر دیا جائے ، تمہیں بہت سی بھلائی ملے گی ، درجات بڑھیں گے ، گناہوں کا کفارہ ہو گا «یُکَفِّرُ» کو «یُکَفَّرْ» بھی پڑھا گیا ہے اس میں صورتاً یہ جواب شرط کے محل پر عطف ہو گا جو «فَنِعِمَّا ہِیَ» ہے ، جیسے «فَأَصَّدَّقَ وَأَکُن مِّنَ الصَّالِحِینَ» ( 63-المنافقون : 10 ) میں «وَأَکُن» اللہ تعالیٰ پر تمہاری کوئی نیکی بدی سخاوت بخیلی پوشیدگی اور اظہار نیک نیتی اور دنیا طلبی پوشیدہ نہیں وہ پورا پورا بدلہ دے گا ۔ البقرة
271 البقرة
272 مستحق صدقات کون ہیں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ مسلمان صحابہ اپنے مشرک رشتہ داروں کے ساتھ سلوک کرنا ناپسند کرتے تھے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا اور یہ آیت اتری اور انہیں رخصت دی ، (تفسیر ابن جریر الطبری:6202) فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ صدقہ صرف مسلمانوں کو دیا جائے ، جب یہ آیت اتری تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا ہر سائل کو دو ، گو وہ کسی مذہب کا ہو ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:6199) سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا والی روایت آیت «لَّا یَنْہَاکُمُ اللہُ عَنِ الَّذِینَ لَمْ یُقَاتِلُوکُمْ فِی الدِّینِ وَلَمْ یُخْرِجُوکُم مِّن دِیَارِکُمْ» ( 60-سورۃ الممتحنۃ : 8 ) کی تفسیر میں آئے گی ان شاءاللہ ، یہاں فرمایا تم جو نیکی کرو گے اپنے لیے ہی کرو گے جیسے اور جگہ ہے «مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِہٖ وَمَنْ اَسَاءَ فَعَلَیْہَا» ( 45 ۔ الجاثیہ : 15 ) اور «مَّنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِہِ» ( 41-فصلت : 46 ) اس جیسی اور آیتیں بھی بہت ہیں ، حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں ایماندار کا ہر خرچ اللہ ہی کیلئے ہوتا ہے گو وہ خود کھائے پئے ، (تفسیر ابن ابی حاتم:1115/3) عطا خراسان اس کا یہ مطلب بیان کرتے ہیں کہ جب تم نے اپنی مرضی سے مولا اور رضائے رب کیلئے دِیا تو لینے والا خواہ کوئی بھی ہو اور کیسے ہی اعمال کا کرنے والا ہو ، (تفسیر ابن ابی حاتم:1113/3) یہ مطلب بھی بہت اچھا ہے ، حاصل یہ ہے کہ نیک نیتی سے دینے والے کا اجر تو اللہ کے ذمہ ثابت ہو گیا ہے ۔ اب خواہ وہ مال کسی نیک کے ہاتھ لگے یا بد کے یا غیر مستحق کے ، اسے اپنے قصد اور اپنی نیک نیتی کا ثواب مل گیا ۔ جبکہ اس نے دیکھ بھال کر لی پھر غلطی ہوئی تو ثواب ضائع نہیں جاتا اسی لیے آیت کے آخر میں بدلہ ملنے کی بشارت دی گئی ۔ اور بخاری و مسلم کی حدیث میں آیا کہ ایک شخص نے قصد کیا کہ آج رات میں صدقہ دوں گا ، لے کر نکلا اور چپکے سے ایک عورت کو دے کر چلا آیا ، صبح لوگوں میں باتیں ہونے لگیں کہ آج رات کو کوئی شخص ایک بدکار عورت کو خیرات دے گیا ، اس نے بھی سنا اور اللہ کا شکر ادا کیا ، پھر اپنے جی میں کہا آج رات اور صدقہ دوں گا ، لے کر چلا اور ایک شخص کی مٹھی میں رکھ کر چلا آیا ، صبح سنتا ہے کہ لوگوں میں چرچا ہو رہا ہے کہ آج شب ایک مالدار کو کوئی صدقہ دے گیا ، اس نے پھر اللہ کی حمد کی اور ارادہ کیا کہ آج رات کو تیسرا صدقہ دوں گا ، دے آیا ، دن کو پھر معلوم ہوا کہ وہ چور تھا تو کہنے لگا ، اللہ تیری تعریف ہے زانیہ عورت کے دئیے جانے پر بھی ، مالدار شخص کو دئیے جانے پر بھی اور چور کو دینے پر بھی ، خواب میں دیکھتا ہے کہ فرشتہ آیا اور کہہ رہا ہے تیرے تینوں صدقے قبول ہو گئے ۔ شاید بدکار عورت مال پا کر اپنی حرام کاری سے رُک جائے اور شاید مالدار کو عبرت حاصل ہو اور وہ بھی صدقے کی عادت ڈال لے اور شاید چور مال پا کر چوری سے باز رہے ۔ (صحیح بخاری:1421) پھر فرمایا صدقہ ان مہاجرین کا حق ہے جو دنیوی تعلقات کاٹ کر ہجرتیں کر کے وطن چھوڑ کر کنبے قبیلے سے منہ موڑ کر اللہ کی رضا مندی کیلئے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آ گئے ہیں ، جن کے معاش کا کوئی ایسا ذریعہ نہیں جو انہیں کافی ہو اور وہ سفر کر سکتے ہیں کہ چل پھر کر اپنی روزی حاصل کریں «ضَرْبًا فِی الْأَرْضِ» کے معنی مسافرت کے ہیں جیسے «وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْأَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاۃِ» ( 4-النسأ : 101 ) اور «یَضْرِبُونَ فِی الْأَرْضِ یَبْتَغُونَ مِن فَضْلِ اللہِ » ( 73 ۔ المزمل : 20 ) میں ان کے حال سے جو لوگ ناواقف ہیں وہ ان کے لباس اور ظاہری حال اور گفتگو سے انہیں مالدار سمجھتے ہیں ۔ ایک حدیث میں ہے مسکین وہی نہیں جو دربدر جاتے ہیں کہیں سے دو ایک کھجوریں مل گئیں کہیں سے دو ایک لقمے مل گئے ، کہیں سے دو ایک وقت کا کھانا مل گیا بلکہ وہ بھی مسکین ہے جس کے پاس اتنا نہیں جس سے وہ بےپرواہ ہو جائے اور اس نے اپنی حالت بھی ایسی نہیں بنائی جس سے ہر شخص اس کی ضرورت کا احساس کرے اور کچھ احسان کرے اور نہ وہ سوال کے عادی ہیں ۔ (صحیح بخاری:1479) تو انہیں ان کی اس حالت سے جان لے گا جو صاحب بصیرت پر مخفی نہیں رہتیں ۔ جیسے اور جگہ ہے «سِیْمَاہُمْ فِیْ وُجُوْہِہِمْ مِّنْ اَثَرِ السٰجُوْدِ» ( 48 ۔ الفتح : 29 ) ان کی نشانیاں ان کے چہروں پر ہیں اور فرمایا «وَلَتَعْرِفَنَّہُمْ فِیْ لَحْنِ الْـقَوْلِ» ( 47 ۔ محمد : 30 ) ان کے لب و لہجہ سے تم انہیں پہچان لو گے ، سنن کی ایک حدیث میں ہے مومن کی دانائی سے بچو ، وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے ، (سنن ترمذی:3127 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) سنو قرآن کا فرمان ہے «اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّلْمُتَوَسِّمِیْنَ» ( 45 ۔ الحجر : 75 ) بالیقین اس میں اہل بصیرت کیلئے نشانیاں ہیں ، یہ لوگ کسی پر بوجھل نہیں ہیں ، کسی سے ڈھٹائی کے ساتھ سوال نہیں کرتے نہ اپنے پاس ہوتے ہوئے کسی سے کچھ طلب کرتے ہیں ، جس کے پاس ضرورت کے مطابق ہو اور پھر بھی وہ سوال کرے وہ چپک کر مانگنے والا کہلاتا ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ایک دو کھجوریں اور ایک دو لقمے لے کر چلے جانے والے ہی مسکین نہیں بلکہ حقیقتاً مسکین وہ ہیں جو باوجود حاجت کے خودداری برتیں اور سوال سے بچیں ۔ دیکھو قرآن کہتا ہے «لَا یَسْــَٔـلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا» ( 2 ۔ البقرہ : 273 ) یہ روایت بہت سی کتابوں میں بہت سی سندوں سے مروی ہے ، قبیلہ مزینہ کے ایک شخص کو ان کی والدہ فرماتی ہیں تم بھی جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ مانگ لاؤ جس طرح اور لوگ جا کر لے آتے ہیں ۔ وہ فرماتے ہیں جب گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے خطبہ فرما رہے تھے کہ جو شخص سوال سے بچے گا اللہ بھی اسے سوال سے بچا لے گا ، جو شخص بےپرواہی برتے گا اللہ اسے فی الواقع بے نیاز کر دے گا ، جو شخص پانچ اوقیہ کے برابر مال رکھتے ہوئے بھی سوال کرے وہ چمٹنے والا سوالی ہے ، میں نے اپنے دِل میں سوچا کہ ہمارے پاس تو ایک اونٹنی ہے جو پانچ اوقیہ سے بہت بہتر ہے ۔ ایک اونٹنی غلام کے پاس ہے وہ بھی پانچ اوقیہ سے زیادہ قیمت کی ہے پس میں تو یونہی سوال کئے بغیر ہی چلا آیا ۔ (مسند احمد:138/4:صحیح) اور روایت میں ہے کہ یہ واقعہ سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہما کا ہے ۔ اس میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا اور یہ بھی فرمایا کہ جو لوگوں سے کنارہ کرے گا اللہ اسے آپ کفایت کرے گا اور جو ایک اوقیہ رکھتے ہوئے سوال کرے گا وہ چمٹ کر سوال کرنے والا ہے ، ان کی اونٹنی کا نام یاقوتہ تھا ، (مسند احمد:9/3-44:حسن) ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ جس کے پاس بےپرواہی کے لائق ہو پھر بھی وہ سوال کرے ، قیامت کے دن اس کے چہرہ پر اس کا سوال زخم بنا ہو گا اس کا منہ نچا ہوا ہو گا ، لوگوں نے کہا یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم کتنا پاس ہو تو ؟ فرمایا پچاس درہم یا اس کی قیمت کا سونا ، (سنن ابوداود:1626 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) یہ حدیث ضعیف ہے ، شام میں ایک قریشی تھے جنہیں معلوم ہوا کہ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہما ضرورت مند ہیں تو تین سو گنیاں انہیں بھجوائیں ، آپ رضی اللہ عنہما خفا ہو کر فرمانے لگے اس اللہ کے بندے کو کوئی مسکین ہی نہیں ملا ؟ جو میرے پاس یہ بھیجیں ، میں نے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ چالیس درہم جس کے پاس ہوں اور پھر وہ سوال کرے وہ چمٹ کر سوال کرنے والا ہے اور سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہما کے گھرانے والوں کے پاس تو چالیس درہم بھی ہیں ، چالیس بکریاں بھی ہیں اور دو غلام بھی ہیں ۔ (طبرانی کبیر:150/2) ایک روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ بھی ہیں کہ چالیس درہم ہوتے ہوئے سوال کرنے والا الحاف کرنے والا اور مثل ریت کے ہے ۔ (سنن نسائی:2595 ، قال الشیخ الألبانی:حسن بالشواھد) پھر فرمایا تمہارے تمام صدقات کا اللہ کو علم ہے اور جبکہ تم پورے محتاج ہو گئے ، اللہ پاک اس وقت تمہیں اس کا بدلہ دے گا ، اس پر کوئی چیز مخفی نہیں ۔ پھر ان لوگوں کی تعریفیں ہو رہی ہیں جو ہر وقت اللہ کے فرمان کے مطابق خرچ کرتے رہتے ہیں ، انہیں اجر ملے گا اور ہر خوف سے امن پائیں گے ، بال بچوں کے کھلانے پر بھی انہیں ثواب ملے گا ، جیسے بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ فتح مکہ والے سال جبکہ آپ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہما کی عیادت کو گئے تو فرمایا ایک روایت میں ہے کہ حجۃ الوداع والے سال فرمایا تو جو کچھ اللہ کی خوشی کیلئے خرچ کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے بدلے تیرے درجات بڑھائے گا ، یہاں تک کہ تو جو اپنی بیوی کو کھلائے پلائے اس کے بدلے بھی ، (صحیح بخاری:6733:صحیح) مسند میں ہے کہ مسلمان طلب ثواب کی نیت سے اپنے بال بچوں پر بھی جو خرچ کرتا ہے وہ بھی صدقہ ہے ، (مسند احمد:120/4:صحیح) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اس آیت کا شان نزول مسلمان مجاہدین کا وہ خرچ ہے جو وہ اپنے گھوڑوں پر کرتے ہیں ۔ (طبرانی کبیر:188/17:ضعیف جداً) ) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی یہی مروی ہے ، جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں سیدنا علی رضی اللہ عنہما کے پاس چار درہم تھے جن میں سے ایک راہ اللہ رات کو دِیا ، ایک دن کو ایک پوشیدہ ایک ظاہر تو یہ آیت اتری ، (میزان الاعتدال:682/2:ضعیف جداً) یہ روایت ضعیف ہے ۔ دوسری سند سے یہی مروی ہے ، (طبرانی:11164:ضعیف جداً) اطاعت الٰہی میں جو مال ان لوگوں نے خرچ کیا اس کا بدلہ قیامت کے دن اپنے پروردگار سے لیں گے ، یہ لوگ نڈر اور بے غم ہیں ۔ البقرة
273 البقرة
274 البقرة
275 تجارت اور سود کو ہم معنی کہنے والے کج بحث لوگ چونکہ پہلے ان لوگوں کا ذِکر ہوا ہے جو نیک کام صدقہ خیرات کرنے والے زکوٰتیں دینے والے حاجت مندوں اور رشتہ داروں کی مدد کرنے والے غرض ہر حال میں اور ہر وقت دوسروں کے کام آنے والے تھے تو ان کا بیان ہو رہا ہے جو کسی کو دینا تو ایک طرف رہا دوسروں سے چھیننے ظلم کرنے اور ناحق اپنے پرایوں کا مال ہضم کرنے والے ہیں ، تو فرمایا کہ یہ سودخور لوگ اپنی قبروں سے دیوانوں اور پاگلوں خبطیوں اور بیہوشوں کی طرح اُٹھیں گے ، پاگل ہوں گے ، کھڑے بھی نہ ہو سکتے ہوں گے ، ایک قرأت میں «مِنَ الۡمَسِّ» کے بعد «یَوْمَا الْقِیاَمَۃَ» کا لفظ بھی ہے ، ان سے کہا جائے گا کہ لو اب ہتھیار تھام لو اور اپنے رب سے لڑنے کیلئے آمادہ ہو جاؤ شب معراج میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو دیکھا جن کے پیٹ بڑے بڑے گھروں کی مانند تھے ، پوچھا یہ کون لوگ ہیں ؟ بتایا گیا سود اور بیاج لینے والے ہیں ، اور روایت میں ہے کہ ان کے پیٹوں میں سانپ بھرے ہوئے تھے جو ڈستے رہتے تھے ۔ (سنن ابن ماجہ:2273 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف جداً) اور ایک مطول حدیث میں ہے کہ ہم جب ایک سرخ رنگ نہر پر پہنچے جس کا پانی مثل خون کے سرخ تھا تو میں نے دیکھا اسں میں کچھ لوگ بمشکل تمام کنارے پر آتے ہیں تو ایک فرشتہ بہت سے پتھر لیے بیٹھا ہے ، وہ ان کا منہ پھاڑ کر ایک پتھر ان کے منہ میں اتار دیتا ہے ، وہ پھر بھاگتے ہیں پھر یہی ہوتا ہے ، پوچھا تو معلوم ہوا یہ سو خوروں کا گروہ ہے ، (صحیح بخاری:7047:صحیح) ان پر یہ وبال اس باعث ہے کہ یہ کہتے تھے کہ تجارت بھی تو سود ہی ہے ان کا یہ اعتراض شریعت اور احکام الٰہی پر تھا وہ سود کو تجارت کی طرح حلال جانتے تھے ، جبکہ بیع پر سود کا قیاس کرنا ہی غلط ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مشرکین تو تجارت کا شرعاً جائز ہونے کے قائل نہیں ورنہ یوں کہتے کہ سود مثل بیع ہے ، ان کا کہنا یہ تھا کہ تجارت اور سود دونوں ایک جیسی چیزیں ہیں ۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ایک کو حلال کہا جائے اور دوسری کو حرام ؟ پھر انہیں جواب دیا جاتا ہے کہ حلت و حرمت اللہ کے حکم کی بنا پر ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ جملہ بھی کافروں کا قول ہی ہو ، تو بھی انتہائی اچھے انداز سے جواباً کہا گیا اس میں مصلحت الٰہیہ کہ ایک کو اللہ نے حرام ٹھہرایا اور دوسرے کو حلال پھر اعتراض کیسا ؟ علیم و حکیم اللہ کے حکموں پر اعتراض کرنے والے تم کون ؟ کس کی ہستی ہے ؟ اس سے بازپرس کرنے کی ، تمام کاموں کی حقیقت کو ماننے والا تو وہی ہے وہ خوب جانتا ہے کہ میرے بندوں کا حقیقی نفع کس چیز میں اور فی الواقع نقصان کس چیز میں ہے ، تو نفع والی چیزیں حلال کرتا ہے اور نقصان پہنچانے والی چیزیں حرام کرتا ہے ، کوئی ماں اپنے دودھ پیتے بچے پر اتنی مہربان نہ ہو گی جتنا اللہ اپنے بندوں پر ہے ، وہ روکتا ہے تو بھی مصلحت سے اور حکم دیتا ہے تو بھی مصلحت سے ، اپنے رب کی نصیحت سن کر جو باز آ جائے اس کے پہلے کئے ہوئے تمام گناہ معاف ہیں ، جیسا فرمایا «عفا اللہ عما سلف» اور جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ والے دن فرمایا تھا جاہلیت کے تمام سُود آج میرے ان قدموں تلے دفن کر دئیے گئے ہیں ، چنانچہ سب سے پہلا سود جس سے میں دست بردار ہوتا ہوں وہ عباس رضی اللہ عنہما کا سود ہے ، (سنن ابوداود:3334 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) پس جاہلیت میں جو سود لے چکے تھے ان کو لوٹانے کا حکم نہیں ہوا ۔ ، ایک روایت میں ہے کہ ام محبہ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کی ام ولد تھیں ، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئیں اور کہا کہ میں نے ایک غلام زید رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں آٹھ سو کا اس شرط پر بیچا کہ جب ان کے پاس رقم آئے تو وہ ادا کر دیں ، اس کے بعد انہیں نقدی کی ضرورت پڑی تو وقت سے پہلے ہی وہ اسے فروخت کرنے کو تیار ہو گئے ، میں نے چھ سو کا خرید لیا ، ام المؤمنین صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا تو نے بھی اور اس نے بھی بالکل خلاف شرع کیا ، بہت برا کیا ، جاؤ زید رضی اللہ عنہ سے کہہ دو اگر وہ توبہ نہ کرے گا تو اس کا جہاد بھی غارت جائے گا جو اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا ہے ، میں نے کہا اگر وہ دو سو جو مجھے اس سے لینے ہیں چھوڑ دوں اور صرف چھ سو وصول کر لوں تاکہ مجھے میری پوری رقم آٹھ سو کی مل جائے ، آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا پھر کوئی حرج نہیں ، پھر آپ نے «فَمَن جَاءَہُ مَوْعِظَۃٌ مِّن رَّبِّہِ فَانتَہَیٰ فَلَہُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُہُ إِلَی اللہِ » ( البقرہ : 275 ) والی آیت پڑھ کر سنائی (دار قطنی:52/3 ) یہ اثر بھی مشہور ہے اور ان لوگوں کی دلیل ہے جو عینہ کے مسئلے کو حرام بتاتے ہیں اس کی تفصیل کتاب الاحکام میں ہے اور احادیث بھی ہیں ، «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» ۔ پھر فرمایا کہ حرمت کا مسئلہ کانوں میں پڑنے کے بعد بھی سود لے تو وہ سزا کا مستحق ہے ہمیشہ کیلئے جہنمی ہے ، جب یہ آیت اتری تو آپ نے فرمایا جو مخابرہ کو اب بھی نہ چھوڑے وہ اللہ کے رسول سے لڑنے کیلئے تیار ہو جائے ۔ (سنن ابوداود:3406 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) «مخابرہ» اسے کہتے ہیں کہ ایک شخص دوسروں کی زمین میں کھیتی بوئے اور اس سے یہ طے ہو کہ زمین کے اس محدود ٹکڑے سے جتنا اناج نکلے وہ میرا باقی تیرا اور “ مزابنہ “ اسے کہتے ہیں کہ درخت میں جو کھجوریں ہیں وہ میری ہیں اور میں اس کے بدلے اپنے پاس سے تجھے اتنی اتنی کھجوریں تیار دیتا ہوں ، اور «محاقلہ» اسے کہتے ہیں کہ کھیت میں جو اناج خوشوں میں ہے اسے اپنے پاس سے کچھ اناج دے کر خریدنا ، ان تمام صورتوں کو شریعت نے حرام قرار دیا تاکہ سود کی جڑیں کٹ جائیں ، اس لیے کہ ان صورتوں میں صحیح طور پر کیفیت تبادلہ کا اندازہ نہیں ہوسکتا ، پس بعض علماء نے اس کی کچھ علت نکالی ، بعض نے کچھ ، ایک جماعت نے اسی قیاس پر ایسے تمام کاروبار کو منع کیا ، دوسری جماعت نے برعکس کیا ، لیکن دوسری علت کی بنا پر ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ مسئلہ ذرا مشکل ہے ۔ یہاں تک کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں افسوس کہ تین مسئلے پوری طرح میری سمجھ میں نہیں آئے دادا کی میراث کا کلالہ اور سود کی صورتوں کا ۔ (صحیح بخاری:5588:صحیح) یعنی بعض کاروبار کی ایسی صورتیں جن پر سود کا شبہ ہوتا ہے ، اور وہ ذرائع جو سود کی مماثلت تک لے جاتے ہوں جب یہ حرام ہیں تو وہ بھی حرام ہی ٹھہریں گے ، جیسا کہ وہ چیز واجب ہو جاتی ہے جس کے بغیر کوئی واجب پورا نہ ہوتا ہو ، بخاوی و مسلم کی حدیث میں ہے کہ جس طرح حلال ظاہر ہے ، اسی طرح حرام بھی ظاہر ہے لیکن کچھ کام درمیانی شبہ والے بھی ہیں ، ان شبہات والے کاموں سے بچنے والے نے اپنے دین اور اپنی عزت کو بچا لیا اور جو ان مشتبہ چیزوں میں پڑا وہ حرام میں بھی مبتلا ہو سکتا ہے ۔ اس چرواہے کی طرح جو کسی کی چراگاہ کے آس پاس اپنے جانور چراتا ہو ، تو ممکن ہے کوئی جانور اس چراگاہ میں بھی منہ مار لے ، (صحیح بخاری:52:صحیح) سنن میں حدیث ہے کہ جو چیز تجھے شک میں ڈالے اسے چھوڑ دو اور اسے لے لو جو شک شبہ سے پاک ہے ، (سنن ترمذی:2518 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) دوسری حدیث میں ہے گناہ وہ ہے جو دِل میں کھٹکے طبیعت میں تردد ہو اور اس کے بارے میں لوگوں کا واقف ہونا اسے برا لگتا ہو ، (صحیح مسلم:2553:صحیح) ایک اور روایت میں ہے اپنے دِل سے فتویٰ پوچھ لو لوگ چاہے کچھ بھی فتویٰ دیتے ہوں ، (مسند احمد:227/4:حسن) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں سود کی حرمت سب سے آخر میں نازل ہوئی ۔ (صحیح بخاری:4544) سیدنا عمر رضی اللہ عنہما یہ فرما کر کہتے ہیں افسوس کہ اس کی پوری تفسیر بھی مجھ تک نہ پہنچ سکی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہو گیا ۔ لوگو سود کو بھی چھوڑو اور ہر اس چیز کو بھی جس میں سود کا بھی شائبہ ہو ۔ (مسند احمد:36/1:صحیح) سیدنا عمر رضی اللہ عنہما نے ایک خطبہ میں فرمایا شاید میں تمہیں بعض ان چیزوں سے روک دوں جو تمہارے لیے نفع والی ہوں اور ممکن ہے میں تمہیں کچھ ایسے احکام بھی دوں جو تمہاری مصلحت کیخلاف ہوں ، سنو ! قرآن میں سب سے آخر سود کی حرمت کی آیت اتری ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہو گیا اور افسوس کہ اسے کھول کر ہمارے سامنے بیان نہ فرمایا پس تم ہر اس چیز کو چھوڑو جو تمہیں شک میں ڈالتی ہو ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:6306) ایک حدیث میں ہے کہ سود کے تہتر گناہ ہیں جن میں سب سے ہلکا گناہ یہ ہے کہ انسان اپنی ماں سے بدکاری کرے ، (سنن ابن ماجہ:2274 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) سب سے بڑا سود مسلمان کی ہتک عزت کرنا ہے ۔ (بیہقی فی شعب الایمان:5519) فرماتے ہیں ایسا زمانہ بھی آئے گا کہ لوگ سود کھائیں گے ، صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا کیا سب کے سب ؟ فرمایا جو نہ کھائے گا اسے بھی غبار تو پہنچے گا ہی ، (سنن ابوداود:3331 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) پس غبار سے بچنے کیلئے ان اسباب کے پاس بھی نہ پھٹکنا چاہیئے جو ان حرام کاموں کی طرف پہنچانے والے ہوں ، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب سورۃ البقرہ کی آخری آیت حرمت سود میں نازل ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں آ کر اس کی تلاوت کی اور سودی کاروبار اور سودی تجارت کو حرام قرار دیا ، (صحیح بخاری:2084:صحیح) بعض ائمہ فرماتے ہیں کہ اسی طرح شراب اور اس طرح کی تمام خرید و فروخت وغیرہ وہ وسائل ( ذرائع ) ہیں جو اس تک پہنچانے والے ہیں سب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام کئے ہیں ، صحیح حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ نے یہودیوں پر لعنت اس لیے کی کہ جب ان پر چربی حرام ہوئی تو انہوں نے حیلہ سازی کر کے چربی کو پگھلا کر بیچا ،(صحیح بخاری:2223:صحیح) اور اس کی قیمت کھائی غرض دھوکہ بازی اور حیلہ سازی کرکے حرام کو حلال بنانے کی کوشش کی چنانچہ یہ کوشش کرنا بھی حرام ہے اور موجب لعنت ہے ، اسی طرح پہلے وہ حدیث بھی بیان ہو چکی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جو شخص دوسرے کی تین طلاق والی عورت سے اس لیے نکاح کرے کہ پہلے خاوند کیلئے حلال ہو جائے اس پر اور اس خاوند پر اللہ کی پھٹکار اور اس کی لعنت ہے ، آیت «حَتَّیٰ تَنکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ» ( البقرہ : 230 ) کی تفسیر میں دیکھ لیجئے ، حدیث شریف میں ہے سود کھانے والے پر کھلانے والے پر شہادت دینے والوں پر گواہ بننے والوں پر لکھنے والے پر سب پر اللہ کی لعنت ہے ، (صحیح مسلم:1598:صحیح) ظاہر ہے کاتب و شاہد کو کیا ضرورت پڑی ہے جو وہ خواہ مخواہ اللہ کی لعنت اپنے اوپر لے ، اسی طرح بظاہر عقد شرعی کی صورت کا اظہار اور نیت میں فساد رکھنے والوں پر بھی اللہ کی لعنت ہے ۔ حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں کو نہیں بلکہ تمہارے دِلوں اور نیتوں کو دیکھتے ہیں ۔ (صحیح مسلم:2564:صحیح) علامہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ان حیلوں حوالوں کے رَد میں ایک مستقل کتاب ( ” ابطال التحلیل “ ) لکھی ہے جو اس موضوع میں بہترین کتاب ہے اللہ ان پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے اور ان سے خوش ہو ۔ (آمین) البقرة
276 سود کا کاروبار برکت سے محروم ہوتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ سود کو برباد کرتا ہے یعنی یا تو اسے بالکل غارت کر دیتا ہے یا سودی کاروبار سے خیر و برکت ہٹا دیتا ہے علاوہ ازیں دنیا میں بھی وہ تباہی کا باعث بنتا ہے اور آخرت میں عذاب کا سبب ، جیسے ہے «قُل لَّا یَسْتَوِی الْخَبِیثُ وَالطَّیِّبُ وَلَوْ أَعْجَبَکَ کَثْرَۃُ الْخَبِیثِ» ( 5-المائدۃ : 100 ) ، یعنی ناپاک اور پاک برابر نہیں ہوتا گو تمہیں ناپاک کی زیادتی تعجب میں ڈالے ۔ ارشاد فرمایا آیت «وَیَجْعَلَ الْخَبِیثَ بَعْضَہُ عَلَیٰ بَعْضٍ فَیَرْکُمَہُ جَمِیعًا فَیَجْعَلَہُ فِی جَہَنَّمَ» ( 8-الأنفال : 37 ) ۔ الا یہ خباثت والی چیزوں کو تہ و بالا کر کے وہ جہنم میں جھونک دے گا اور جگہ ہے «وَمَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّیَرْبُوَا۟ فِیْٓ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا یَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰہِ» ( 30 ۔ الروم : 39 ) ، یعنی سود دے کر جو مال تم بڑھانا چاہتے ہو وہ دراصل بڑھتا نہیں ، اسی واسطے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ والی روایت میں ہے کہ سود سے اگر مال میں اضافہ ہو بھی جائے لیکن انجام کار کمی ہوتی ہے ۔ (مسند احمد:395/1:صحیح) مسند کی ایک اور روایت میں ہے کہ امیر المؤمنین عمر فاروق رضی اللہ عنہ مسجد سے نکلے اور اناج پھیلا ہوا دیکھ کر پوچھا یہ غلہ کہاں سے آیا ؟ لوگوں نے کہا بکنے کیلئے آیا ہے ، آپ رضی اللہ عنہما نے دعا کی کہ اللہ اس میں برکت دے ، لوگوں نے کہا یہ غلہ گراں بھاؤ بیچنے کیلئے پہلے ہی جمع کر لیا تھا ، پوچھا کس نے جمع کیا تھا ، لوگوں نے کہا ایک تو فروخ نے جو عثمان کے مولی ہیں اور دوسرے آپ کے آزاد کردہ غلام نے ، آپ رضی اللہ عنہما نے دونوں کو بلوایا اور فرمایا تم نے ایسا کیوں کیا ؟ جواب دیا کہ ہم اپنے مالوں سے خریدتے ہیں اور جب چاہیں بیچیں ، ہمیں اختیار ہے ، آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا سنو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جو شخص مسلمانوں میں مہنگا بیچنے کے خیال سے غلہ روک رکھے اسے اللہ مفلس کر دے گا ، یہ سن کر فروخ تو فرمانے لگے کہ میری توبہ ہے میں اللہ سے اور پھر آپ سے عہد کرتا ہوں کہ پھر یہ کام نہ کروں گا لیکن سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کے غلام نے پھر بھی یہی کہا کہ ہم اپنے مال سے خریدتے ہیں اور نفع اٹھا کر بیچتے ہیں ، اس میں کیا حرج ہے ؟ راوی حدیث ابویحییٰ فرماتے ہیں میں نے پھر دیکھا کہ اسے جذام ہو گیا اور جذامی ( کوڑھ ) بنا پھرتا تھا ، (مسند احمد:21/1:ضعیف) ابن ماجہ میں ہے جو شخص مسلمانوں کا غلہ گراں بھاؤ بیچنے کیلئے روک رکھے اللہ تعالیٰ اسے مفلس کر دے گا یا جذامی ۔ (سنن ابن ماجہ:2155 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) پھر فرماتا ہے وہ صدقہ کو بڑھاتا ہے ۔ «یُرۡبِی» کی دوسری قرأت «یُرَبّیَ» بھی ہے ، صحیح بخاری شریف کی حدیث میں ہے جو شخص اپنی پاک کمائی سے ایک کھجور بھی خیرات کرے اسے اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی داہنے ہاتھ لیتا ہے پھر اسے پال کر بڑا کرتا ہے ( جس طرح تم لوگ اپنے بچھڑوں کو پالتے ہو ) اور اس کا ثواب پہاڑ کے برابر بنا دیتا ہے ، (صحیح بخاری:1410:صحیح) اور پاک چیز کے سوا وہ ناپاک چیز کو قبول نہیں فرماتا ، ایک اور روایت میں ہے کہ ایک کھجور کا ثواب احد پہاڑ کے برابر ملتا ہے ، (سنن ترمذی:661 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) اور روایت میں ہے کہ ایک لقمہ مثل احد کے ہو کر ملتا ہے ، پس تم صدقہ خیرات کیا کرو ، پھر فرمایا ناپسندیدہ کافروں ، نافرمان زبان زور اور نافرمان فعل والوں کو اللہ پسند نہیں کرتا ، مطلب یہ ہے کہ جو لوگ صدقہ خیرات نہ کریں اور اللہ کی طرف سے صدقہ خیرات کے سبب مال میں اضافہ کے وعدہ کی پرواہ کئے بغیر دنیا کا مال دینار جمع کرتے پھریں اور بدترین اور خلاف شرع طریقوں سے کمائیاں کریں لوگوں کے مال باطل اور ناحق طریقوں سے کھا جائیں ، یہ اللہ کے دشمن ہیں ان ناشکروں اور گنہگاروں سے اللہ کا پیار ممکن نہیں- پھر ان بندوں کی تعریف ہو رہی ہے جو اپنے رب کے احکام کی بجا آوری کریں ، مخلوق کے ساتھ سلوک و احسان قائم کریں ، نمازیں قائم کریں ، زکوٰۃ دیتے رہیں ، یہ قیامت کے دن تمام دکھ درد سے امن میں رہیں گے کوئی کھٹکا بھی ان کے دل پر نہ گزرے گا بلکہ رب العالمین اپنے انعام و اکرام سے انہیں سرفراز فرمائے گا ۔ البقرة
277 البقرة
278 سودخور قابل گردن زنی ہیں اور قرض کے مسائل ان آیات میں اللہ تعالیٰ ایماندار بندوں کو تقوے کا حکم دے رہا ہے اور ایسے کاموں سے روک رہا ہے جن سے وہ ناراض ہو اور لوگ اس کی قربت سے محروم ہو جائیں تو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا لحاظ کرو اور اپنے تمام معاملات میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور تمہارا سود جن مسلمانوں پر باقی ہے خبردار اس سے اب نہ لو جبکہ وہ حرام ہو گیا ، یہ آیت قبیلہ ثقیف بن عمرو بن عمیر اور بنو مخزوم کے قبیلے بنو مغیرہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے ، جاہلیت کے زمانہ میں ان کا سودی کاروبار تھا ، اسلام کے بعد بنو عمرہ نے بنو مغیرہ سے اپنا سود طلب کیا اور انہوں نے کہا کہ اب ہم اسے اسلام لانے کے بعد ادا نہ کریں گے آخر جھگڑا بڑھا عتاب بن اسید جو مکہ شریف کے نائب تھے انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ لکھا اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ لکھوا کر بھیج دی اور انہیں قابلِ وصول سود لینا حرام قرا دیا چنانچہ وہ تائب ہوئے اور اپنا سود بالکل چھوڑ دیا ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:1140/3) اس آیت میں ہے ان لوگوں پر جو سود کی حرمت کا علم ہونے کے باوجود بھی اس پر جمے رہیں ، زبردست وعید ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں سودخور سے قیامت کے دن کہا جائے گا ، لے اپنے ہتھیار لے لے اور اللہ سے لڑنے کیلئے آمادہ ہو جا ، آپ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں امام وقت پر فرض ہے کہ سودخور لوگ جو اسے نہ چھوڑیں ان سے توبہ کرائے اور اگر نہ کریں تو ان کی گردن مار دے ، (تفسیر ابن جریر الطبری:25/6) حسن اور ابن سیرین کا فرمان بھی یہی ہے ، قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں دیکھو اللہ نے انہیں ہلاکت کی دھمکی دی انہیں ذلیل کئے جانے کے قابل ٹھہرایا ، خبردار سود سے اور سودی لین دین سے بچتے رہو حلال چیزوں اور حلال خرید و فروخت بہت کچھ ہے ، فاقے گزرتے ہوں تاہم اللہ کی معصیت سے رکو ، وہ روایت بھی یاد ہو گی جو پہلے گزر چکی کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک ایسے معاملہ کی نسبت جس میں سود تھا ، زید بن ارقم کے بارے میں فرمایا تھا کہ ان کا جہاد بھی برباد ہو گیا اس لیے کہ جہاد اللہ کے دشمنوں سے مقابلہ کرنے کا نام ہے اور سود خوری خود اللہ سے مقابلہ کرنا ہے لیکن اس کی اسناد کمزور ہے ، پھر ارشاد ہوتا ہے اگر توبہ کر لو تو اصل مال جو کسی پر فرض ہے بیشک لے لو ۔ نہ تم تول میں زیادہ لے کر اس پر ظلم کرو نہ کم دے کر یا نہ دے کر وہ تم پر ظلم کرے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے خطبے میں فرمایا جاہلیت کا تمام سود میں برباد کرتا ہوں ۔ اصلی رقم لے لو ، سود لے کر نہ کسی پر ظلم کرو نہ کوئی تمہارا مال مار کر تم پر زیادتی کرے ، سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہما کا تمام سود میں ختم کرتا ہوں ۔ (سنن ابوداود:3334 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اگر تنگی والا شخص اور اس کے پاس تمہارے قرض کی ادائیگی کے قابل مال نہ ہو تو اسے مہلت دو کہ کچھ اور مدت کے بعد ادا کر دے یہ نہ کرو کہ سود در سود لگائے چلے جاؤ کہ مدت گزر گئی ، اب اتنا اتنا سود لیں گے ، بلکہ بہتر تو یہ بات ہے کہ ایسے غرباء کو اپنا قرض معاف کر دو ، طبرانی کی حدیث میں ہے کہ جو شخص قیامت کے دن اللہ کے عرش کا سایہ چاہتا ہے وہ یا تو ایسے تنگی والے شخص کو مہلت دے یا معاف کر دے ، (طبرانی:899:ضعیف) مسند احمد کی حدیث میں ہے جو شخص مفلس آدمی پر اپنا قرض وصول کرنے میں نرمی کرے اور اسے ڈھیل دے اس کو جتنے دن وہ قرض کی رقم ادا نہ کر سکے اتنے دِنوں تک ہر دن اتنی رقم خیرات کرنے کا ثواب ملتا ہے ، اور روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر دن اس سے دگنی رقم کے صدقہ کرنے کا ثواب ملے گا ، یہ سن کر سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہما نے فرمایا یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم پہلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر دن اس کے مثل ثواب ملنے کا فرمایا تھا آج دو مثل فرماتے ہیں ، فرمایا ہاں جب تک معیاد ختم نہیں ہوئی مثل کا ثواب اور معیاد گزرنے کے بعد دو مثل کا ، ابوقتادہ رحمہ اللہ کا قرض ایک شخص کے ذمہ تھا وہ تقاضا کرنے کو آتے لیکن یہ چھپ رہتے اور نہ ملتے ، ایک دن آئے گھر سے ایک بچہ نکلا ، آپ رحمہ اللہ نے اس سے پوچھا اس نے کہا ہاں گھر میں موجود ہیں کھانا کھا رہے ہیں ، اب ابوقتادہ رحمہ اللہ نے اونچی آواز سے انہیں پکارا اور فرمایا مجھے معلوم ہو گیا کہ تم گھر میں موجود ہو ، آؤ باہر آؤ ، جواب دو ۔ وہ بیچارے باہر نہیں نکلے آپ رحمہ اللہ نے کہا کیوں چھپ رہے ہو ؟ کہا بات یہ ہے کہ میں مفلس ہوں اس وقت میرے پاس رقم نہیں بوجہ شرمندگی کے آپ رحمہ اللہ سے نہیں ملتا ، آپ رحمہ اللہ نے کہا قسم کھاؤ ، اس نے قسم کھا لی ، آپ روئے اور فرمانے لگے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے جو شخص نادار قرضدار کو ڈھیل دے یا اپنا قرضہ معاف کر دے وہ قیامت کے دن اللہ کے عرش کے سائے تلے ہو گا ۔ (صحیح مسلم:1563:صحیح) ابولیلیٰ نے ایک حدیث روایت کی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں قیامت کے دن ایک بندہ اللہ کے سامنے لایا جائے گا ، اللہ تعالیٰ اس سے سوال کرے گا کہ بتا میرے لیے تو نے کیا نیکی کی ہے ؟ وہ کہے گا اے اللہ ایک ذرے کے برابر بھی کوئی ایسی نیکی مجھ سے نہیں ہوئی جو آج میں اس کی جزا طلب کر سکوں ، اللہ اس سے پھر پوچھے گا وہ پھر یہی جواب دے گا پھر پوچھے گا پھر یہی کہے گا ، پروردگار ایک چھوٹی سی بات البتہ یاد پڑتی ہے کہ تو نے اپنے فضل سے کچھ مال بھی مجھے دے رکھا تھا میں تجارت پیشہ شخص تھا ، لوگ ادھار سدھار لے جاتے تھے ، میں اگر دیکھتا کہ یہ غریب شخص ہے اور وعدہ پر قرض نہ ادا کر سکا تو میں اسے اور کچھ مدت کی مہلت دے دیتا ، عیال داروں پر سختی نہ کرتا ، زیادہ تنگی والا اگر کسی کو پاتا تو معاف بھی کر دیتا ، اللہ تعالیٰ فرمائے گا پھر میں تجھ پر آسانی کیوں نہ کروں ، میں تو سب سے زیادہ آسانی کرنے والا ہوں ، جا میں نے تجھے بخشا جنت میں داخل ہو جا ، (صحیح بخاری:2077) مستدرک حاکم میں ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والے غازی کی مدد کرے یا قرض دار بےمال کی اعانت کرے یا غلام جس نے لکھ کر دیا ہو کہ اتنی رقم دے دوں تو آزاد ہوں ، اس کی مدد کرے اللہ تعالیٰ اسے اس دن سایہ دے گا جس دن اس کے سائے کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہو گا ۔ (حاکم:89/2:ضعیف) ۔ مسند احمد میں ہے جو شخص یہ چاہتا ہو کہ اس کی دعائیں قبول کی جائیں اور اس کی تکلیف و مصیبت دور ہو جائے اسے چاہیئے کہ تنگی والوں پر کشادگی کرے ، (مسند احمد:23/2:ضعیف) عباد بن ولید رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں اور میرے والد طلب علم میں نکلے اور ہم نے کہا کہ انصاریوں سے حدیثیں پڑھیں ، سب سے پہلے ہماری ملاقات سیدنا ابوالیسر رضی اللہ عنہ سے ہوئی ، ان کے ساتھ ان کے غلام تھے جن کے ہاتھ میں ایک دفتر تھا اور غلام و آقا کا ایک ہی لباس تھا ، میرے باپ نے کہا چچا آپ تو اس وقت غصہ میں نظر آتے ہیں ، فرمایا ہاں سنو فلاں شخص پر میرا کچھ قرض تھا ، مدت ختم ہو چکی تھی ، میں قرض مانگنے گیا ، سلام کیا اور پوچھا کہ کیا وہ مکان پر ہیں ، گھر میں سے جواب ملا کہ نہیں ، اتفاقاً ایک چھوٹا بچہ باہر آیا میں نے اس سے پوچھا تمہارے والد کہاں ہیں ؟ اس نے کہا آپ کی آواز سن کر چارپائی تلے جا چھپے ہیں ، میں نے پھر آواز دی اور کہا تمہارا اندر ہونا مجھے معلوم ہو گیا ہے اب چھپو نہیں باہر آؤ جواب دو ، وہ آئے میں نے کہا کیوں چھپ رہے ہو ، کہا محض اس لیے کہ میرے پاس روپیہ تو اس وقت ہے نہیں ، آپ سے ملوں گا تو کوئی جھوٹا عذر حیلہ بیان کرں گا یا غلط وعدہ کروں گا ، اس لیے سامنے ہونے سے جھجھکتا تھا ، آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں ، آپ رضی اللہ عنہ سے جھوٹ کیا کہوں ؟ میں نے کہا سچ کہتے ہو ، اللہ کی قسم تمہارے پاس روپیہ نہیں ، اس نے کہا ہاں سچ کہتا ہوں اللہ کی قسم کچھ نہیں ، تین مرتبہ میں نے قسم کھلائی اور انہوں نے کھائی ، میں نے اپنے دفتر میں سے ان کا نام کاٹ دیا اور رقم جمع کر لی اور کہہ دیا کہ جاؤ میں نے تمہارے نام سے یہ رقم کاٹ دی ہے ، اب اگر تمہیں مل جائے تو دے دینا ورنہ معاف ۔ سنو میری دونوں آنکھوں نے دیکھا اور میرے ان دونوں کانوں نے سنا اور میرے اس دِل نے اسے خوب یاد رکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص کسی سختی والے کو ڈھیل دے یا معاف کر دے ، اللہ تعالیٰ اسے اپنے سایہ میں جگہ دے گا ، (صحیح مسلم:3006) مسند احمد کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد آتے ہوئے زمین کی طرف اشارہ کر کے فرمایا جو شخص کسی نادار پر آسانی کر دے یا اسے معاف کر دے اللہ تعالیٰ اسے جہنم کی گرمی سے بچا لے گا ، سنو جنت کے کام مشقت والے ہیں اور خواہش کیخلاف ہیں ، اور جہنم کے کام آسانی والے اور خواہشِ نفس کے مطابق ہیں ، نیک بخت وہ لوگ ہیں جو فتنوں سے بچ جائیں ، وہ انسان جو غصے کا گھونٹ پی لے اس کو اللہ تعالیٰ ایمان سے نوازتا ہے ، (مسند احمد:327/1:ضعیف جداً) طبرانی میں ہے جو شخص کسی مفلس شخص پر رحم کر کے اپنے قرض کی وصولی میں اس پر سختی نہ کرے اللہ بھی اس کے گناہوں پر اس کو نہیں پکڑتا یہاں تک کہ وہ توبہ کرلے ۔ (طبرانی کبیر:11330:ضعیف) اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو نصیحت کرتا ہے ، انہیں دنیا کے زوال ، مال کے فنا ، آخرت کا آنا ، اللہ کی طرف لوٹنا ، اللہ کو اپنے اعمال کا حساب دینا اور ان تمام اعمال پر جزا و سزا کا ملنا یاد دلاتا ہے اور اپنے عذابوں سے ڈراتا ہے ، یہ بھی مروی ہے کہ قرآن کریم کی سب سے آخری آیت یہی ہے ، اس آیت کے نازل ہونے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صرف نو راتوں تک زندہ رہے اور ربیع الاول کی دوسری تاریخ کو پیر کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہو گیا ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:6312:ضعیف) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک روایت میں اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اکتیس دن کی بھی مروی ہے ، ابن جریح رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سلف کا قول ہے کہ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نو رات زندہ رہے ہفتہ کے دن سے ابتداء ہوئی اور پیر والے دن انتقال ہوا ۔ الغرض قرآن کریم میں سب سے آخر یہی آیت نازل ہوئی ہے ۔ البقرة
279 البقرة
280 البقرة
281 البقرة
282 حفظ قرآن اور لین دین میں گواہ اور لکھنے کی تاکید یہ آیت قرآن کریم کی تمام آیتوں سے بڑی ہے ، سعید بن مسیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ قرآن کی سب سے بڑی آیت یہی «آیت الدین» ہے ، (تفسیر ابن جریر الطبری:41/6) یہ آیت جب نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سب سے پہلے انکار کرنے والے آدم علیہ السلام ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے جب آدم علیہ السلام کو پیدا کیا ، ان کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا اور قیامت تک کی ان کی تمام اولاد نکالی ، آپ علیہ السلام نے اپنی اولاد کو دیکھا ، ایک شخص کو خوب تروتازہ اور نورانی دیکھ کر پوچھا کہ الٰہی ان کا کیا نام ہے ؟ جناب باری نے فرمایا یہ تمہارے لڑکے داؤد علیہ السلام ہیں ، پوچھا اللہ ان کی عمر کیا ہے ؟ فرمایا ساٹھ سال ، کہا اے اللہ اس کی عمر کچھ اور بڑھا ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا نہیں ، ہاں اگر تم اپنی عمر میں سے انہیں کچھ دینا چاہو تو دے دو ، کہا اے اللہ میری عمر میں سے چالیس سال اسے دئیے جائیں ، چنانچہ دے دئیے گئے ، آدم علیہ السلام کی اصلی عمر ایک ہزار سال کی تھی ، اس لین دین کو لکھا گیا اور فرشتوں کو اس پر گواہ کیا گیا آدم علیہ السلام کی موت جب آئی ، کہنے لگے اے اللہ میری عمر میں سے تو ابھی چالیس سال باقی ہیں ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا وہ تم نے اپنے لڑکے داؤد علیہ السلام کو دے دئیے ہیں ، تو آدم علیہ السلام نے انکار کیا جس پر وہ لکھا ہوا دکھایا گیا اور فرشتوں کی گواہی گزری ، دوسری روایت میں ہے کہ آدم علیہ السلام کی عمر پھر اللہ تعالیٰ نے ایک ہزار پوری کی اور داؤد علیہ السلام کی ایک سو سال کی ۔ (مسند احمد:251/1:حسن لغیرہ) لیکن یہ حدیث بہت ہی غریب ہے اس کے راوی علی بن زین بن جدعان کی حدیثیں منکر ہوتی ہیں ، مستدرک حاکم میں بھی یہ روایت ہے ۔ (مستدرک حاکم:586/2) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے ایماندار بندوں کو ارشاد فرمایا ہے کہ وہ ادھار کے معاملات لکھ لیا کریں تاکہ رقم اور معیاد خوب یاد رہے ، گواہ کو بھی غلطی نہ ہو ، اس سے ایک وقت مقررہ کیلئے ادھار دینے کا جواز بھی ثابت ہوا ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے کہ معیاد مقرر کر کے قرض کے لین دین کی اجازت اس آیت سے بخوبی ثابت ہوتی ہے ، صحیح بخاری شریف میں ہے کہ مدینے والوں کا ادھار لین دین دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ناپ تول یا وزن مقرر کر لیا کرو ، بھاؤ تاؤ چکا لیا کرو اور مدت کا بھی فیصلہ کر لیا کرو ۔ (صحیح بخاری:2239:صحیح) قرآن حکیم کہتا ہے کہ لکھ لیا کرو اور حدیث شریف میں ہے کہ ہم ان پڑھ امت ہیں ، نہ لکھنا جانیں نہ حساب ، (صحیح بخاری:1913) ان دونوں میں تطبیق اس طرح ہے کہ دینی مسائل اور شرعی امور کے لکھنے کی تو مطلق ضرورت ہی نہیں خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بے حد آسان اور بالکل سہل کر دیا گیا ۔ قرآن کا حفظ اور احادیث کا حفظ قدرتاً لوگوں پر سہل ہے ، لیکن دنیوی چھوٹی بڑی لین دین کی باتیں اور وہ معاملات جو ادھار سدھار ہوں ، ان کی بابت بیشک لکھ لینے کا حکم ہوا اور یہ بھی یاد رہے کہ یہ حکم بھی وجوباً نہیں پس نہ لکھنا دینی امور کا ہے اور لکھ لینا دنیوی کام کا ہے ۔ بعض لوگ اس کے وجوب کی طرف بھی گئے ہیں ، ابن جریج رحمہ اللہ فرماتے ہیں جو ادھار دے وہ لکھ لے اور جو بیچے وہ گواہ کر لے ، ابوسلیمان مرعشی رحمہ اللہ جنہوں نے سیدنا کعب رضی اللہ عنہما کی صحبت بہت اٹھائی تھی انہوں نے ایک دن اپنے پاس والوں سے کہا اس مظلوم کو بھی جانتے ہو جو اللہ تعالیٰ کو پکارتا ہے اور اس کی دعا قبول نہیں ہوتی لوگوں نے کہا یہ کس طرح ؟ فرمایا یہ وہ شخص ہے جو ایک مدت کیلئے ادھار دیتا ہے اور نہ گواہ رکھتا ہے نہ لکھت پڑھت کرتا ہے۔ پھر مدت گزرنے پر تقاضا کرتا ہے اور دوسرا شخص انکار کر جاتا ہے ، اب یہ اللہ سے دعا کرتا ہے لیکن پروردگار قبول نہیں کرتا اس لیے کہ اس نے کام اس کے فرمان کیخلاف کیا ہے اور اپنے رب کا نافرمان ہوا ہے ، حضرت ابوسعید شعبی ربیع بن انس حسن ابن جریج ابن زید رحمہ اللہ علیہم وغیرہ کا قول ہے کہ پہلے تو یہ واجب تھا پھر وجوب منسوخ ہو گیا ، (تفسیر ابن جریر الطبری:47/6) اور فرمایا گیا کہ اگر ایک دوسرے پر اطمینان ہو تو جسے امانت دی گئی ہے اسے چاہیئے کہ ادا کر دے ، اور اس کی دلیل یہ حدیث ہے ، گو یہ واقعہ اگلی امت کا ہے لیکن تاہم ان کی شریعت ہماری شریعت ہے ۔ جب تک ہماری شریعت پر اسے انکار نہ ہو اس واقعہ میں جسے اب ہم بیان کرتے ہیں لکھت پڑھت کے نہ ہونے اور گواہ مقرر نہ کئے جانے پر شارع علیہ السلام نے انکار نہیں کیا ۔ مسند میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بنی اسرائیل کے ایک شخص نے دوسرے شخص سے ایک ہزار دینار ادھار مانگے ، اس نے کہا گواہ لاؤ ، جواب دیا کہ اللہ کی گواہی کافی ہے ، کہا ضمانت لاؤ ، جواب دیا اللہ کی ضمانت کافی ہے ، کہا تو نے سچ کہا ، ادائیگی کی معیاد مقرر ہو گئی اور اس نے اسے ایک ہزار دینار گن دئیے ، اس نے تری کا سفر کیا اور اپنے کام سے فارغ ہوا ، جب معیاد پوری ہونے کو آئی تو یہ سمندر کے قریب آیا کہ کوئی جہاز کشتی ملے تو اس میں بیٹھ جاؤں اور رقم ادا کر آؤں ، لیکن کوئی جہاز نہ ملا ، جب دیکھا کہ وقت پر نہیں پہنچ سکتا تو اس نے ایک لکڑی لی ، اسے بیچ سے کھوکھلی کر لی اور اس میں ایک ہزار دینار رکھ دئیے اور ایک پرچہ بھی رکھ دیا ، پھر منہ کو بند کر دیا اور اللہ سے دعا کی کہ پروردگار تجھے خوب علم ہے کہ میں نے فلاں شخص سے ایک ہزار دینار قرض لیے اس نے مجھ سے ضمانت طلب کی ، میں نے تجھے ضامن کیا اور وہ اس پر خوش ہو گیا ، گواہ مانگا ، میں نے گواہ بھی تجھی کو رکھا ، وہ اس پر بھی خوش ہو گیا ، اب جبکہ اپنا قرض ادا کر آؤں لیکن کوئی کشتی نہیں ملی ، اب میں اس رقم کو تجھے سونپتا ہوں اور سمندر میں ڈال دیتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ یہ رقم اسے پہنچا دے ، پھر اس لکڑی کو سمندر میں ڈال دیا اور خود چلا گیا لیکن پھر بھی کشتی کی تلاش میں رہا کہ مل جائے تو جاؤں ، یہاں تو یہ ہوا ، وہاں جس شخص نے اسے قرض دیا تھا ، جب اس نے دیکھا کہ وقت پورا ہوا اور آج اسے آ جانا چاہیئے تھا ، تو وہ بھی دریا کنارے آن کھڑا ہوا کہ وہ آئے گا اور میری رقم مجھے دیدے گا یا کسی کے ہاتھ بھجوائے گا ، مگر جب شام ہونے کو آئی اور کوئی کشتی اس کی طرف سے نہیں آئی تو یہ واپس لوٹا ، کنارے پر ایک لکڑی دیکھی تو یہ سمجھ کر کہ خالی ہاتھ تو جا ہی رہا ہوں ، اس لکڑی کو بھی لے چلوں ، پھاڑ کر سکھا لوں گا جلانے کے کام آئے گی ، گھر پہنچ کر جب اسے چیرتا ہے تو کھنا کھن بجتی ہوئی اشرفیاں نکلتی ہیں ، گنتا ہے تو پوری ایک ہزار ہیں ، وہیں پرچہ پر نظر پڑتی ہے ، اسے بھی اٹھا کر پڑھ لیتا ہے ، پھر ایک دن وہی شخص آتا ہے اور ایک ہزار دینار پیش کر کے کہتا ہے یہ لیجئے آپ کی رقم ، معاف کیجئے گا میں نے ہر چند کوشش کی کہ وعدہ خلافی نہ ہو لیکن کشتی کے نہ ملنے کی وجہ سے مجبور ہو گیا اور دیر لگ گئی ، آج کشتی ملی ، آپ کی رقم لے کر حاضر ہوا ، اس نے پوچھا کیا میری رقم آپ نے بھجوائی بھی ہے ؟ اس نے کہا میں کہہ چکا ہوں کہ مجھے کشتی نہ ملی تھی ، اس نے کہا آپ اپنی رقم لے کر خوش ہو کر چلے جاؤ ، آپ نے جو رقم لکڑی میں ڈال کر اسے توکل علی اللہ ڈالی تھی ، اسے اللہ نے مجھ تک پہنچا دیا اور میں نے اپنی رقم پوری وصول پالی ۔ (صحیح بخاری:2291) اس حدیث کی سند بالکل صحیح ہے ، صحیح بخاری شریف میں سات جگہ یہ حدیث آئی ہے ۔ (صحیح بخاری:1498) پھر فرمان ہے کہ لکھنے والا عدل و حق کے ساتھ لکھے ، کتابت میں کسی فریق پر ظلم نہ کرے ، ادھر ادھر کچھ کمی بیشی نہ کرے بلکہ لین دین والے دونوں متفق ہو کر جو لکھوائیں وہی لکھے ، لکھا پڑھا شخص معاملہ کو لکھنے سے انکار نہ کرے ، جب اسے لکھنے کو کہا جائے لکھ دے ، جس طرح اللہ کا یہ احسان اس پر ہے کہ اس نے اسے لکھنا سکھایا اسی طرح جو لکھنا نہ جانتے ہوں ان پر یہ احسان کرے اور ان کے معاملہ کو لکھ دیا کرے ۔ حدیث میں ہے یہ بھی صدقہ ہے کہ کسی کام کرنے والے کا ہاتھ بٹا دو ، کسی گرے پڑے کا کام کر دو ، (صحیح بخاری:2518) اور حدیث میں ہے جو علم کو جان کر پھر اُسے چھپائے ، قیامت کے دن اسے آگ کی لگام پہنائی جائے گی ، (سنن ابوداود:3658 ، قال الشیخ الألبانی:حسن صحیح) مجاہد رحمہ اللہ اور عطا رحمہ اللہ فرماتے ہیں کاتب پر لکھ دینا اس آیت کی رو سے واجب ہے ۔ جس کے ذمہ حق ہو وہ لکھوائے اور اللہ سے ڈرے ، نہ کمی بیشی کرے نہ خیانت کرے ۔ اگر یہ شخص بےسمجھ ہے اسراف وغیرہ کی وجہ سے روک دیا گیا ہے یا کمزور ہے یعنی بچہ ہے یا حواس درست نہیں یا جہالت اور کندذہنی کی وجہ سے لکھوانا بھی نہیں جانتا تو جو اس کا والی اور بڑا ہو ، وہ لکھوائے ۔ پھر فرمایا کتابت کے ساتھ شہادت بھی ہونی چاہیئے تاکہ معاملہ خوب مضبوط اور بالکل صاف ہو جائے ۔ دو عورتوں کو ایک عورت کے قائم مقام کرنا عورت کے نقصان کے سبب ہے ، جیسے صحیح مسلم شریف میں حدیث ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عورتو صدقہ کرو اور بکثرت استغفار کرتی رہو ، میں نے دیکھا ہے کہ جہنم میں تم بہت زیادہ تعداد میں جاؤ گی ، ایک عورت نے پوچھا یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم کیوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم لعنت زیادہ بھیجا کرتی ہو اور اپنے خاوندوں کی ناشکری کرتی ہو ، میں نے نہیں دیکھا کہ باوجود عقل دین کی کمی کے ، مردوں کی عقل مارنے والی تم سے زیادہ کوئی ہو ، اس نے پھر پوچھا کہ یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں دین کی عقل کی کمی کیسے ہے ؟ فرمایا عقل کی کمی تو اس سے ظاہر ہے کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر ہے اور دین کی کمی یہ ہے کہ ایام حیض میں نہ نماز ہے نہ روزہ ۔ (صحیح مسلم:79:صحیح) گواہوں کی نسبت فرمایا کہ یہ شرط ہے کہ وہ عدالت والے ہوں ۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا مذہب ہے کہ جہاں کہیں قرآن شریف میں گواہ کا ذِکر ہے وہاں عدالت کی شرط ضروری ہے ، گو وہاں لفظوں میں نہ ہو اور جن لوگوں نے ان کی گواہی رَد کر دی ہے جن کا عادل ہونامعلوم نہ ہو ان کی دلیل بھی یہی آیت ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ گواہ عادل اور پسندیدہ ہونا چاہیئے ۔ دو عورتیں مقرر ہونے کی حکمت بھی بیان کر دی گئی ہے کہ اگر ایک گواہی کو بھول جائے تو دوسری یاد دلا دے کی «فَتُذَکَّرَ» کی دوسری قرأت «فَتُذَکِّرَ» بھی ہے ، جو لوگ کہتے ہیں کہ اس کی شہادت اس کے ساتھ مل کر شہادت مرد کے کر دے گی انہوں نے مکلف کیا ہے ، صحیح بات پہلی ہی ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ گواہوں کو چاہیئے کہ جب وہ بلائے جائیں انکار نہ کریں یعنی جب ان سے کہا جائے کہ آؤ اس معاملہ پر گواہ رہو تو انہیں انکار نہ کرنا چاہیئے جیسے کاتب کی بابت بھی یہی فرمایا گیا ہے ، یہاں سے یہ بھی فائدہ حاصل کیا گیا ہے کہ گواہ رہنا بھی فرض کفایہ ہے ، یہ بھی کہا گیا ہے کہ جمہور کا مذہب یہی ہے (تفسیر ابن جریر الطبری:68/6) اور یہ معنی بھی بیان کئے گئے ہیں کہ جب گواہ گواہی دینے کیلئے طلب کیا جائے یعنی جب اس سے واقعہ پوچھا جائے تو وہ خاموش نہ رہے ، چنانچہ ابومجلز مجاہد رحمہ اللہ وغیرہ فرماتے ہیں کہ جب گواہ بننے کیلئے بلائے جاؤ تو تمہیں اختیار ہے خواہ گواہ بننا پسند کرو یا نہ کرو یا نہ جاؤ لیکن جب گواہ ہو چکو پھر گواہی دینے کیلئے جب بلایا جائے تو ضرور جانا پڑے گا ، (تفسیر ابن ابی حاتم:181/3) صحیح مسلم اور سنن کی حدیث میں ہے اچھے گواہ وہ ہیں جو بے پوچھے ہی گواہی دے دیا کریں ، (صحیح مسلم:1719:صحیح) بخاری و مسلم کی دوسری حدیث میں جو آیا ہے کہ بدترین گواہ وہ ہیں جن سے گواہی طلب نہ کی جائے اور وہ گواہی دینے بیٹھ جائیں ، (صحیح بخاری:6428:صحیح) اور وہ حدیث جس میں ہے کہ پھر ایسے لوگ آئیں گے جن کی قسمیں گواہیوں پر اور گواہیاں قسموں پر پیش پیش رہیں گی ، (صحیح بخاری:2652:صحیح) اور روایت میں آیا ہے کہ ان سے گواہی نہ لی جائے گی تاہم وہ گواہی دیں گے ، (صحیح بخاری:2651:صحیح) تو یاد رہے ( مذمت جھوٹی گواہی دینے والوں کی اور تعریف سچی گواہی دینے والوں کی ہے ) اور یہی ان مختلف احادیث میں تطبیق ہے ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ فرماتے ہیں آیت دونوں حالتوں پر شامل ہے ، یعنی گواہی دینے کیلئے بھی اور گواہ رہنے کیلئے بھی انکار نہ کرنا چاہیئے ۔ پھر فرمایا چھوٹا معاملہ ہو یا بڑا لکھنے سے کسمساؤ نہیں بلکہ مدت وغیرہ بھی لکھ لیا کرو ۔ ہمارا یہ حکم پورے عدل والا اور بغیر شک و شبہ فیصلہ ہو سکتا ہے ۔ پھر فرمایا جبکہ نقد خرید و فروخت ہو رہی ہو تو چونکہ باقی کچھ نہیں رہتا اس لیے اگر نہ لکھا جائے تو کسی جھگڑے کا احتمال نہیں ، لہٰذا کتابت کی شرط تو ہٹا دی گئی ، اب رہی شہادت تو حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ تو فرماتے ہیں کہ ادھار ہو یا نہ ہو ، ہر حال میں اپنے حق پر گواہ کر لیا کرو ، دیگر بزرگوں سے مروی ہے کہ «فَإِنْ أَمِنَ بَعْضُکُم بَعْضًا فَلْیُؤَدِّ» ( البقرہ : 283 ) فرما کر اس حکم کو بھی ہٹا دیا یہ بھی ذہن نشین رہے کہ جمہور کے نزدیک یہ حکم واجب نہیں بلکہ استحباب کے طور پر اچھائی کیلئے ہے اور اس کی دلیل یہ حدیث ہے جس سے صاف ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خرید و فروخت کی جبکہ اور کوئی گواہ شاہد نہ تھا ، چنانچہ مسند احمد میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اعرابی سے ایک گھوڑا خریدا اور اعرابی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دولت خانہ کی طرف رقم لینے کیلئے چلا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو ذرا جلد نکل آئے اور وہ آہستہ آہستہ آ رہا تھا ، لوگوں کو یہ معلوم نہ تھا کہ یہ گھوڑا بک گیا ہے ، انہوں نے قیمت لگانی شروع کی یہاں تک کہ جتنے داموں اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ بیچا تھا اس سے زیادہ دام لگ گئے ، اعرابی کی نیت پلٹی اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آواز دے کر کہا یا تو گھوڑا اسی وقت نقد دے کر لے لو یا میں اور کے ہاتھ بیچ دیتا ہوں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ سُن کر رکے اور فرمانے لگے تو تو اسے میرے ہاتھ بیچ چکا ہے پھر یہ کیا کہہ رہا ہے ؟ اس نے کہا اللہ کی قسم میں نے تو نہیں بیچا ، صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا غلط کہتا ہے ، میرے تیرے درمیان معاملہ طے ہو چکا ہے ، اب لوگ ادھر اُدھر سے بیچ میں بولنے لگے ، اس گنوار نے کہا اچھا تو گواہ لائیے کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ بیچ دیا ، مسلمانوں نے ہر چند کہا کہ بدبخت آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو اللہ کے پیغمبر ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے تو حق ہی نکلتا ہے ، لیکن وہ یہی کہے چلا جائے کہ لاؤ گواہ پیش کرو ، اتنے میں سیدنا خزیمہ رضی اللہ عنہ آ گئے اور اعرابی کے اس قول کو سن کر فرمانے لگے میں گواہی دیتا ہوں کہ تو نے بیچ دیا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ تو فروخت کر چکا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو کیسے شہادت دے رہا ہے ، سیدنا خزیمہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق اور سچائی کی بنیاد پر یہ شہادت دی ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آج سے خزیمہ رضی اللہ عنہ کی گواہی دو گواہوں کے برابر ہے ۔ (سنن ابوداود:3607 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) پس اس حدیث سے خرید و فروخت پر گواہی دو گواہوں کی ضروری نہ رہی ، لیکن احتیاط اسی میں ہے کہ تجارت پر بھی دو گواہ ہوں ، کیونکہ ابن مردویہ اور حاکم میں ہے کہ تین شخص ہیں جو اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں لیکن قبول نہیں کی جاتی ، ایک تو وہ کہ جس کے گھر بداخلاق عورت ہو اور وہ اسے طلاق نہ دے ، دوسرا وہ شخص جو کسی یتیم کا مال اس کی بلوغت کے پہلے اسے سونپ دے ، تیسرا وہ شخص جو کسی کو مال قرض دے اور گواہ نہ رکھے ، (مستدرک حاکم:302/2) امام حاکم اسے شرط بخاری و مسلم پر صحیح بتلاتے ہیں ، بخاری مسلم اس لیے نہیں لائے کہ شعبہ کے شاگرد اس روایت کو سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ پر موقوف بتاتے ہیں ۔ پھر فرماتا ہے کہ کاتب کو چاہیئے کہ جو لکھا گیا وہی لکھے اور گواہ کو چاہیئے کہ واقعہ کیخلاف گواہی نہ دے اور نہ گواہی کو چھپائے ، حسن رحمہ اللہ قتادہ رحمہ اللہ وغیرہ کا یہی قول ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما یہ مطلب بیان کرتے ہیں کہ ان دونوں کو ضرر نہ پہنچایا جائے مثلاً انہیں بلانے کیلئے گئے ، وہ کسی اپنے کام میں مشغول ہوں تو یہ کہنے لگے کہ تم پر یہ فرض ہے ۔ اپنا حرج کرو اور چلو ، یہ حق انہیں نہیں ، اور بہت سے بزرگوں سے بھی یہی مروی ہے ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ میں جس سے روکوں اس کا کرنا اور جو کام کرنے کو کہوں اس سے رک جانا یہ بدکاری ہے جس کا وبال تم سے چھٹے گا نہیں ۔ پھر فرمایا اللہ سے ڈرو اس کا لحاظ رکھو ، اس کی فرمانبرداری کرو ، اس کے روکے ہوئے کاموں سے رُک جاؤ ، اللہ تعالیٰ تمہیں سمجھا رہا ہے جیسے اور جگہ فرمایا «یٰٓاَیٰھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَتَّقُوا اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَانًا» ( 8 ۔ الانفال : 29 ) اے ایمان والو اگر تم اللہ سے ڈرتے رہو گے تو وہ تمہیں دلیل دیدے گا ، اور جگہ ہے «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَآمِنُوا بِرَسُولِہِ یُؤْتِکُمْ کِفْلَیْنِ مِن رَّحْمَتِہِ وَیَجْعَل لَّکُمْ نُورًا تَمْشُونَ بِہِ وَیَغْفِرْ لَکُمْ» ( 57-الحدید : 28 ) اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرتے رہو اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھو وہ تمہیں دوہری رحمتیں دے گا اور تمہیں نور عطا فرمائے گا جس کی روشنی میں تم چلتے رہو گے ۔ پھر فرمایا تمام کاموں کا انجام اور حقیقت سے ان کی مصلحتوں اور دور اندیشیوں سے اللہ آگاہ ہے اس سے کوئی چیز مخفی نہیں ، اس کا علم تمام کائنات کو گھیرے ہوئے ہے اور ہرچیز کا اسے حقیقی علم ہے ۔ البقرة
283 مسئلہ رہن، تحریر اور گواہی یعنی بحالت سفر اگر ادھار کا لین دین ہو اور کوئی لکھنے والا نہ ملے یا ملے مگر قلم و دوات یا کاغذ نہ ہو تو رہن رکھ لیا کرو اور جس چیز کو رہن رکھنا ہو اسے حقدار کے قبضے میں دے دو ۔ مقبوضہ کے لفظ سے استدلال کیا گیا ہے کہ رہن جب تک قبضہ میں نہ آ جائے لازم نہیں ہوتا ، جیسا کہ امام شافعی رحمہ اللہ اور جمہور کا مذہب ہے اور دوسری جماعت نے استدلال کیا ہے کہ رہن کا مرتہن کے ہاتھ میں مقبوض ہونا ضروری ہے ۔ امام احمد رحمہ اللہ اور ایک دوسری جماعت میں یہی منقول ہے ، ایک اور جماعت کا قول ہے کہ رہن صرف میں ہی مشروع ہے ، جیسے مجاہدرحمہ اللہ وغیرہ لیکن صحیح بخاری ، صحیح مسلم ، شافعی میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس وقت فوت ہوئے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زرہ مدینے کے ایک یہودی ابوالشحم کے پاس تیس وسق جو کے بدلے گروی تھی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر والوں کے کھانے کیلئے لیے تھے ۔ (صحیح بخاری:2069) ان مسائل کے بسط و تفصیل کی جگہ تفسیر نہیں بلکہ احکام کی بڑی بڑی کتابیں ہیں ۔ «وللہ الحمد والمنتہ و بہ المستعان» اس سے بعد کے جملے «فَإِنْ أَمِنَ» سے سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اس کے پہلے کا حکم منسوخ ہو گیا ہے ، (تفسیر ابن ابی حاتم:1202/3:) شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں جب نہ دینے کا خوف نہ ہو تو نہ لکھنے اور نہ گواہ رکھنے کی کوئی حرج نہیں ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:1203/3) جسے امانت دی جائے اسے خوف الٰہی رکھنا چاہیئے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ادا کرنے کی ذمہ داری اس ہاتھ پر ہے جس نے کچھ لیا ۔ ارشاد ہے شہادت کو نہ چھپاؤ نہ اس میں خیانت کرو نہ اس کے اظہار کرنے سے رکو ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ فرماتے ہیں جھوٹی شہادت دینی یا شہادت کو چھپانا گناہِ کبیرہ ہے ، یہاں بھی فرمایا اس کا چھپانے والا خطا کار دِل والا ہے جیسے اور جگہ ہے «وَلَا نَکْتُمُ شَہَادَۃَ اللّٰہِ اِنَّآ اِذًا لَّمِنَ الْاٰثِمِیْنَ» ( 5 ۔ المائدہ : 106 ) یعنی ہم اللہ کی شہادت کو نہیں چھپاتے ، اگر ہم ایسا کریں گے تو یقیناً ہم گنہگاروں میں سے ہیں ، اور جگہ فرمایا «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آمَنُوا کُونُوا قَوَّامِینَ بِالْقِسْطِ شُہَدَاءَ لِلہِ وَلَوْ عَلَیٰ أَنفُسِکُمْ أَوِ الْوَالِدَیْنِ وَالْأَقْرَبِینَ إِن یَکُنْ غَنِیًّا أَوْ فَقِیرًا فَ اللہُ أَوْلَیٰ بِہِمَا فَلَا تَتَّبِعُوا الْہَوَیٰ أَن تَعْدِلُوا وَإِن تَلْوُوا أَوْ تُعْرِضُوا فَإِنَّ اللہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیرًا» ( 4-النساء : 135 ) ایمان والو عدل و انصاف کے ساتھ اللہ کے حکم کی تعمیل یعنی گواہیوں پر ثابت قدم رہو ، گو اس کی برائی خود تمہیں پہنچے یا تمہارے ماں باپ کو یا رشتے کنبے والوں کو اگر وہ مالدار ہو تو اور فقیر ہو تو اللہ تعالیٰ ان دونوں سے اولیٰ ہے ، خواہشوں کے پیچھے پڑ کر عدل سے نہ ہٹو اور اگر تم زبان دباؤ گے یا پہلو تہی کرو گے تو سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ بھی تمہارے اعمال سے خبردار ہے ، اسی طرح یہاں بھی فرمایا کہ گواہی کو نہ چھپاؤ اس کا چھپانے والا گنہگار دِل والا ہے اور اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو خوب جانتا ہے ۔ البقرة
284 انسان کے ضمیر سے خطاب یعنی آسمان و زمین کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ چھوٹی بڑی چھپی یا کھلی ہر بات کو وہ جانتا ہے ۔ ہر پوشیدہ اور ظاہر عمل کا وہ حساب لینے والا ہے ، جیسے اور جگہ فرمایا «قُلْ إِن تُخْفُوا مَا فِی صُدُورِکُمْ أَوْ تُبْدُوہُ یَعْلَمْہُ اللہُ وَیَعْلَمُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ وَ اللہُ عَلَیٰ کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ» ( 3-آل عمران : 29 ) کہہ دے کہ تمہارے سینوں میں جو کچھ ہے اسے خواہ تم چھپاؤ یا ظاہر کرو اللہ تعالیٰ کو اس کا بخوبی علم ہے ، وہ آسمان و زمین کی ہرچیز کا علم رکھتا ہے اور ہر چیز پر قادر ہے اور فرمایا «یَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفَی» ( 20-طہ : 7 ) وہ ہر چھپی ہوئی اور علانیہ بات کو خوب جانتا ہے ، مزید اس معنی کی بہت سی آیتیں ہیں ، یہاں اس کے ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ وہ اس پر حساب لے گا ، جب یہ آیت اتری تو صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم بہت پریشان ہوئے کہ چھوٹی بڑی تمام چیزوں کا حساب ہو گا ، اپنے ایمان کی زیادتی اور یقین کی مضبوطی کی وجہ سے وہ کانپ اٹھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر گھٹنوں کے بل گر پڑے اور کہنے لگے یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم نماز ، روزہ ، جہاد ، صدقہ وغیرہ کا ہمیں حکم ہوا ، وہ ہماری طاقت میں تھا ہم نے حتیٰ المقدور کیا لیکن اب جو یہ آیت اتری ہے اسے برداشت کرنے کی طاقت ہم میں نہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم یہود و نصاریٰ کی طرح یہ کہنا چاہتے ہو کہ ہم نے سنا اور نہیں مانا ، تمہیں چاہیئے کہ یوں کہو ہم نے سنا اور مانا ، اے اللہ ہم تیری بخشش چاہتے ہیں ۔ ہمارے رب ہمیں تو تیری ہی طرف لوٹنا ہے ۔ چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اسے تسلیم کر لیا اور زبانوں پر یہ کلمات جاری ہو گئے تو آیت «اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِ مِنْ رَّبِّہٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ» ( 2 ۔ البقرہ : 285 ) اتری اور اللہ تعالیٰ نے اس تکلیف کو دور کر دیا اور آیت «لَا یُکَلِّفُ اللہُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَہَا لَہَا مَا کَسَبَتْ وَعَلَیْہَا مَا اکْتَسَبَتْ» ( 2 ۔ البقرہ : 286 ) نازل ہوئی ۔ (صحیح مسلم:125:صحیح) صحیح مسلم میں بھی یہ حدیث ہے اس میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس تکلیف کو ہٹا کر «لَا یُکَلِّفُ اللہُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَہَا لَہَا مَا کَسَبَتْ وَعَلَیْہَا مَا اکْتَسَبَتْ» ( 2-البقرہ : 286 ) اتاری ، (صحیح مسلم:125-126:صحیح) اور جب مسلمانوں نے کہا کہ اے اللہ ہماری بھول چوک اور ہماری خطا پر ہمیں نہ پکڑ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا «نعم» ، یعنی میں یہی کروں گا ۔ انہوں نے کہا «رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَیْنَا إِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہُ عَلَی الَّذِینَ مِن قَبْلِنَا» ( 2-البقرہ : 286 ) ، اللہ ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جو ہم سے اگلوں پر ڈالا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ بھی قبول ، پھر کہا «رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہِ» ( 2-البقرہ : 286 ) اے اللہ ہم پر ہماری طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈال ، اسے بھی قبول کیا گیا ۔ پھر دعا مانگی «وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا أَنتَ مَوْلَانَا فَانصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِینَ» ( 2-البقرہ : 286 ) اے اللہ ہمیں معاف فرما دے ، ہمارے گناہ بخش اور کافروں پر ہماری مدد کر ، اللہ تعالیٰ نے اسے بھی قبول فرمایا ، یہ حدیث اور بھی بہت سے انداز سے مروی ہے ۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس جا کر واقعہ بیان کیا کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اس آیت «وَإِن تُبْدُوا مَا فِی أَنفُسِکُمْ أَوْ تُخْفُوہُ یُحَاسِبْکُم بِہِ اللہُ» ( البقرہ : 284 ) کی تلاوت فرمائی اور بہت روئے ، آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا اس آیت کے اترتے یہی حال صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم کا ہوا تھا ، وہ سخت غمگین ہو گئے اور کہا دِلوں کے مالک تو ہم نہیں ۔ دِل کے خیالات پر بھی پکڑے گئے تو یہ تو بڑی مشکل ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا «سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا» کہو ، چنانچہ صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم نے کہا اور بعد والی آیتیں اتریں اور عمل پر تو پکڑ طے ہوئی لیکن دِل کے خطرات اور نفس کے وسوسے سے پکڑ منسوخ ہو گئی ، (مسند احمد:332/1:صحیح) دوسرے طریق سے یہ روایت ابن مرجانہ سے بھی اسی طرح مروی ہے اور اس میں یہ بھی ہے کہ قرآن نے فیصلہ کر دیا کہ تم اپنے نیک و بد اعمال پر پکڑے جاؤ گے خواہ زبانی ہوں خواہ دوسرے اعضاء کے گناہ ہوں ، لیکن دِلی وسواس معاف ہیں اور بھی بہت سے صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہ اللہ علیہم سے اس کا منسوخ ہونا مروی ہے ۔ صحیح حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ نے میری امت کے دِلی خیالات سے درگزر فرما لیا ، گرفت اسی پر ہو گی جو کہیں یا کریں ۔ (صحیح بخاری:2528:صحیح) بخاری مسلم میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جب میرا بندہ برائی کا ارادہ کرے تو اسے نہ لکھو جب تک اس سے برائی سرزد ہو ، اگر کر گزرے تو ایک برائی لکھو اور جب نیکی کا اراد کرے تو صرف ارادہ سے ہی نیکی لکھ لو اور اگر نیکی کر بھی لے تو ایک کے بدلے دس نیکیاں لکھو ۔ (صحیح بخاری:7501:صحیح) اور روایت میں ہے کہ ایک نیکی کے بدلے ساتھ سو تک لکھی جاتی ہیں ، (صحیح مسلم:128) اور روایت میں ہے کہ جب بندہ برائی کا ارادہ کرتا ہے تو فرشتے جناب باری میں عرض کرتے ہیں کہ اللہ تیرا یہ بندہ بدی کرنا چاہتا ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے رُکے رہو جب تک کر نہ لے ، اس کے نامہ اعمال میں نہ لکھو اگر لکھو گے تو ایک لکھنا اور اگر چھوڑ دے تو ایک نیکی لکھ لینا کیونکہ مجھ سے ڈر کر چھوڑتا ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو پختہ اور پورا مسلمان بن جائے اس کی ایک ایک نیکی کا ثواب دس سے لے کر سات سو تک بڑھتا جاتا ہے اور برائی نہیں بڑھتی ، اور روایت میں ہے کہ سات سو سے بھی کبھی کبھی ، (صحیح مسلم:129) نیکی بڑھا دی جاتی ہے ، (صحیح مسلم:131:صحیح) ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ بڑا برباد ہونے والا وہ ہے جو باوجود اس رحم و کرم کے بھی برباد ہو ، ایک مرتبہ اصحاب رضی اللہ عنہم نے آ کر عرض کیا کبھی کبھی تو ہمارے دِل میں ایسے وسوسے اٹھتے ہیں کہ زبان سے ان کا بیان کرنا بھی ہم پر گراں گزرتا ہے ۔ آپ نے فرمایا ایسا ہونے لگا ؟ انہوں نے عرض کیا ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ صریح ایمان ہے ۔ (صحیح مسلم:132:صحیح) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ بھی مروی ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ قیامت والے دن جب تمام مخلوق کو اللہ تعالیٰ جمع کرے گا تو فرمائے گا کہ میں تمہیں تمہارے دِلوں کے ایسے بھید بتاتا ہوں جس سے میرے فرشتے بھی آگاہ نہیں ، مومنوں کو تو بتانے کے بعد پھر معاف فرما دیا جائے گا لیکن منافق اور شک و شبہ کرنے والے لوگوں کو ان کے کفر کی درپردہ اطلاع دے کر بھی ان کی پکڑ ہو گی ۔ ارشاد ہے آیت «وَلٰکِن یُؤَاخِذُکُم بِمَا کَسَبَتْ قُلُوبُکُمْ» ( البقرہ : 225 ) یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں تمہارے دِلوں کی کمائی پر ضرور پکڑے گا یعنی دِلی شک اور دِلی نفاق کی بنا پر ، حسن بصری بھی اسے منسوخ نہیں کہتے ، امام ابن جریر رحمہ اللہ بھی اسی روایت سے متفق ہیں اور فرماتے ہیں کہ حساب اور چیز ہے عذاب اور چیز ہے ۔ حساب لیے جانے اور عذاب کیا جانا لازم نہیں ، ممکن ہے حساب کے بعد معاف کر دیا جائے اور ممکن ہے سزا ہو ، چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ ہم طواف کر رہے تھے ایک شخص نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ تم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ کی سرگوشی کے متعلق کیا سنا ہے ؟ آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا اللہ تعالیٰ ایمان والے کو اپنے پاس بلائے گا یہاں تک کہ اپنا بازو اس پر رکھ دے گا پھر اس سے کہے گا بتا تو نے فلاں فلاں گناہ کیا ؟ فلاں فلاں گناہ کیا ؟ وہ غریب اقرار کرتا جائے گا ، جب بہت سے گناہ ہونے کا اقرار کر لے گا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا سُن دنیا میں بھی میں نے تیرے ان گناہوں کی پردہ پوشی کی ، اور اب آج کے دن بھی میں ان تمام گناہوں کو معاف فرما دیتا ہوں ، اب اسے اس کی نیکیوں کا صحیفہ اس کے داہنے ہاتھ میں دے دیا جائے گا ، ہاں البتہ کفار و منافق کو تمام مجمع کے سامنے رسوا کیا جائے گا اور ان کے گناہ ظاہر کئے جائیں گے اور پکارا جائے گا کہ «ہٰؤُلَاءِ الَّذِینَ کَذَبُوا عَلَیٰ رَبِّہِمْ أَلَا لَعْنَۃُ اللہِ عَلَی الظَّالِمِینَ» ( 11-ہود : 18 ) یہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب پر تہمت لگائی ، ان ظالموں پر اللہ کی پھٹکار ہے ۔ (صحیح بخاری:2441) سیدنا زید رضی اللہ عنہما نے ایک مرتبہ اس آیت کے بارے میں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا تو آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا جب سے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں پوچھا ہے تب سے لے کر آج تک مجھ سے کسی شخص نے نہیں پوچھا ، مگر آج تو نے پوچھا تو سُن اس سے مراد بندے کو دنیاوی تکلیفیں مثلاً بخار وغیرہ تکلیفیں پہنچانا ہے ، یہاں تک کہ مثلاً ایک جیب میں نقدی رکھی اور بھول گیا ، تھوڑی پریشانی ہوئی مگر دوسری جیب میں ہاتھ ڈالا وہاں سے نقدی مل گی ، اس پر بھی اس کے گناہ معاف ہوتے ہیں ، یہاں تک کہ مرنے کے وقت وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہو جاتا ہے جس طرح خالص سرخ سونا ہو ۔ (سنن ترمذی:2991 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ترمذی وغیرہ ، یہ حدیث غریب ہے ۔ البقرة
285 بقرہ کی آخری آیات اور ان کی فضیلت ان دونوں آیتوں کی حدیثیں سنیے ، صحیح بخاری میں ہے جو شخص ان دونوں آیتوں کو رات کو پڑھ لے اسے یہ دونوں کافی ہیں ۔ (صحیح بخاری:5009:صحیح) مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سورۃ البقرہ کی آخری آیتیں عرش تلے کے خزانہ سے دیا گیا ہوں مجھ سے پہلے کسی نبی کو یہ نہیں دی گئیں ۔ (مسند احمد:151/5:صحیح) صحیح مسلم شریف میں ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کرائی گئی اور آپ سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچے جو ساتویں آسمان میں ہے ، جو چیز آسمان کی طرف چڑھتی ہے وہ یہیں تک ہی پہنچتی ہے اور یہاں سے ہی لے جائی جاتی ہے اور جو چیز اوپر سے نازل ہوتی ہے وہ بھی یہیں تک پہنچتی ہے ، پھر یہاں سے آگے لے جائی جاتی ہے اور اسے سونے کی ٹڈیاں ڈھکے ہوئے تھیں ، وہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تین چیزیں دی گئیں ۔ پانچ وقت کی نمازیں ، سورۃ البقرہ کے خاتمہ کی آیتیں اور توحید والوں کے تمام گناہوں کی بخشش ۔ (صحیح مسلم:173:صحیح) مسند میں ہے کہ سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سورۃ البقرہ کی ان دونوں آخری آیتوں کو پڑھتے رہا کرو ، میں انہیں عرش کے نیچے کے خزانوں سے دیا گیا ہوں ، (مسند احمد:147/4:صحیح لغیرہ) ابن مردویہ میں ہے کہ ہمیں لوگوں پر تین فضیلتیں دی گئی ہیں ، میں سورۃ البقرہ کی یہ آخری آیتیں عرش تلے کے خزانوں سے دیا گیا ہوں جو نہ میرے پہلے کسی کو دی گئیں نہ میرے بعد کسی کو دی جائیں گی ، (مسند احمد:383/5:صحیح) ابن مردویہ میں ہے سیدنا علی رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں میں نہیں جانتا کہ اسلام کے جاننے والوں میں سے کوئی شخص آیت الکرسی اور سورۃ البقرہ کی آخری آیتیں پڑھے بغیر سو جائے ، یہ وہ خزانہ ہے جو تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عرش تلے کے خزانہ سے دئیے گئے ہیں ، (ابن الضریس فی فضائل القرآن:169:موقوف) اور حدیث ترمذی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کے پیدا کرنے سے دو ہزار برس پہلے تک ایک کتاب لکھی جس میں سے دو آیتیں اتار کر سورۃ البقرہ ختم کی ، جس گھر میں یہ تین راتوں تک پڑھی جائیں اس گھر کے قریب بھی شیطان نہیں جا سکتا ۔ (سنن ترمذی:2882 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) امام ترمذی اسے غریب بتاتے ہیں لیکن حاکم اپنی مستدرک میں اسے صحیح کہتے ہیں ۔ ابن مردویہ میں ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سورۃ البقرہ کا خاتمہ اور آیت الکرسی پڑھتے تو ہنس دیتے اور فرماتے یہ دونوں رحمٰن کے عرش تلے کا خزانہ ہیں اور جب «مَن یَعْمَلْ سُوءًا یُجْزَ بِہِ وَلَا یَجِدْ لَہُ مِن دُونِ اللہِ وَلِیًّا وَلَا نَصِیرًا» (4-النساء:123) اور آیت «وَأَن لَّیْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَیٰ وَأَنَّ سَعْیَہُ سَوْفَ یُرَیٰ ثُمَّ یُجْزَاہُ الْجَزَاءَ الْأَوْفَیٰ» ( 53-النجم : 39-41 ) پڑھتے تو زبان سے «اناللہ» نکل جاتا اور سست ہو جاتے ، (الدر المنثور للسیوطی:7/2:ضعیف) ابن مردویہ میں ہے کہ مجھے سورۃ فاتحہ اور سورۃ بقرہ کی آخری آیتیں عرش کے نیچے سے دی گئی ہیں ، اور مزید مفصل کی سورتیں بھی وہاں سے ہی دی گئی ہیں ۔ (مستدرک حاکم:568/1:ضعیف) ایک اور حدیث میں ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے جہاں جبرائیل علیہ السلام بھی تھے کہ اچانک ایک دہشت ناک بہت بڑے دھماکے کی آواز کے ساتھ آسمان کا وہ دروازہ کھلا جو آج تک کبھی نہیں کھلا تھا ، اس سے ایک فرشتہ اترا ، اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشی مبارک ہو ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ دو نور دئیے جاتے ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کسی نبی کو نہیں دئیے گئے سورۃ فاتحہ اور سورۃ البقرہ کی آخری آیتیں ۔ ان کے ایک ایک حرف پر آپ کو نور دیا جائے گا ۔ (صحیح مسلم:805:صحیح) پس یہ دس حدیثیں ان مبارک آیتوں کی فضیلت ہیں ۔ مطلب آیت کا یہ ہے کہ رسول یعنی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اس پر ایمان لائے جو ان کی طرف سے ان کے رب کی جانب سے نازل ہوا ، اسے سن کر آپ نے فرمایا وہ ایمان لانے کا پورا مستحق ہے ، (مستدرک حاکم:287/2:منقطع و ضعیف) اور دوسرے ایماندار بھی ایمان لائے ، ان سب نے مان لیا کہ اللہ ایک ہے ، وہ وحدانیت کا مالک ہے ، وہ تنہا ہے ، وہ بے نیاز ہے ، اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ، نہ اس کے سوا کوئی پالنے والا ہے ، یہ ( ایمان والے ) تمام انبیاء کی تصدیق کرتے ہیں ، تمام رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں ، آسمانی کتابوں کو انبیاء کرام پر جو اتری ہیں سچی جانتے ہیں ۔ وہ نبیوں میں فرق نہیں سمجھتے کہ ایک کو مانیں دوسرے کو نہ مانیں بلکہ سب کو سچا جانتے ہیں اور ایمان رکھتے ہیں کہ وہ پاکباز طبقہ رشد و ہدایت والا اور لوگوں کی خیر کی طرف رہبری کرنے والا ہے ، گو بعض احکام ہر نبی کے زمانہ میں تبدیل ہوتے رہے یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت سب کی ناسخ ٹھہری ، خاتم الانبیاء و مرسلین آپ صلی اللہ علیہ وسلم تھے ، قیامت تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت باقی رہے گی اور ایک جماعت اس کی اتباع بھی کرتی رہے گی ۔ انہوں نے اقرار بھی کیا کہ ہم نے اللہ کا کلام سنا اور احکام الٰہی ہمیں تسلیم ہیں ، انہوں نے کہا کہ ہمارے رب ہمیں مغفرت رحمت اور لطف عنایت فرما ، تیری ہی طرف ہمیں لوٹنا ہے یعنی حساب والے دِن ۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعدار امت کے یہاں ثناء و صفت بیان ہو رہی ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس موقع پر دعا کیجئے قبول کی جائے گی ، مانگیے کہ اللہ کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہ دے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:6498:مرسل و ضعیف) پھر فرمایا اللہ کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا یہ اس کا لطف و کرم اور احسان و انعام ہے ۔ صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم کو جو کھٹکا ہوا تھا اور ان پر جو یہ فرمان گراں گزرا تھا کہ دِل کے خطرات پر بھی حساب لیا جائے گا وہ دھڑکا اس آیت سے اُٹھ گیا ۔ مطلب یہ کہ گو حساب ہو ، سوال ہو لیکن جو چیز طاقت سے باہر ہے اس پر عذاب نہیں کیونکہ دِل میں کسی خیال کا دفعتاً آ جانا روکے رُک نہیں سکتا بلکہ حدیث سے یہ بھی معلوم ہو چکا ہے کہ ایسے وسوسوں کو برا جاننا دلیل ایمان ہے ، بلکہ اپنی اپنی کرنی اپنی اپنی بھرنی ، اعمال صالحہ کرو گے جزا پاؤ گے ، برے اعمال کرو گے تو سزا بھگتو گے ۔ پھر دعا کی تعلیم دی اور اس کی قبولیت کا وعدہ فرمایا ، کہ اے اللہ بھولے چوکے جو احکام ہم سے چھوٹ گئے ہوں یا جو برے کام ہو گئے ہوں یا شرعی احکام میں غلطی کر کے جو خلاف شرع کام ہم سے ہوئے ہوں وہ معاف فرما ، پہلے صحیح مسلم کے حوالے سے حدیث گزر چکی ہے کہ اس دعا کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ، میں نے اسے قبول فرما لیا ، (صحیح مسلم:125:صحیح) میں نے یہی کیا اور حدیث میں بھی آ چکا کہ میری امت کی بھول چوک معاف ہے اور جو کام زبردستی کرائے جائیں وہ بھی معاف ہیں ۔ (سنن ابن ماجہ:2043 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) اے اللہ عز و جل ہم پر مشکل اور سخت اعمال کی مشقت نہ ڈال جیسے اگلے دین والوں پر سخت سخت احکام تھے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی رحمت بنا کر بھیج کر دور کیے گئے اور آپ کو ہر طرح سہولت اور آسانی دی گئی اسے بھی پروردگار نے قبول فرمایا ، حدیث میں بھی ہے کہ میں یکسوئی والا اور آسان دین دے کر بھیجا گیا ہوں ۔ (خطیب:209/7:صحیح بالشواھد) اے اللہ تکلیفیں بلائیں اور مشقتیں ہم پر نہ ڈال جن کی برداشت کی طاقت ہم میں نہ ہو ، حضرت مکحول رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے مراد فریب اور غلبہ شہوت ہے ، (تفسیر ابن ابی حاتم:1235/3) اس کے جواب میں بھی قبولیت کا اعلان رب عالم کی طرف سے کیا گیا ۔ اور ہماری تقصیروں کو معاف فرما جو تیری نافرمانی کا کوئی کام نہ ہو ، اس لیے بزرگوں کا قول ہے کہ گنہگار کو تین باتوں کی ضرورت ہے ۔ ایک تو اللہ کی معافی تاکہ عذاب سے نجات پائے ، دوسرے پردہ پوشی تاکہ رسوائی سے بچے ، تیسرے عصمت کی تاکہ دوسری بار گناہ میں مبتلا نہ ہو ، اس پر بھی جناب باری نے قبولیت کا اعلان کیا ۔ تو ہمارا ولی و ناصر ہے ، تجھی پر ہمارا بھروسہ ہے ، تجھی سے ہم مدد طلب کرتے ہیں ، تو ہی ہمارا سہارا ہے ، تیری مدد کے سوا نہ تو ہم کسی نفع کے حاصل کرنے پر قادر ہیں نہ کسی برائی سے بچ سکتے ہیں ، تو ہماری ان لوگوں پر مدد فرما جو تیرے دین کے منکر ہیں تیری وحدانیت کو نہیں مانتے ، تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو تسلیم نہیں کرتے ، تیرے ساتھ دوسروں کی عبادت کرتے ہیں ، مشرک ہیں ۔ اے اللہ تو ہمیں ان پر غالب کر دینا اور دین میں ہم ہی ان پر فاتح رہیں ، اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں بھی فرمایا ہاں میں نے یہ بھی دعا قبول فرمائی ۔ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہما جب اس آیت کو ختم کرتے آمین کہتے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:146/6) البقرة
286 البقرة
0 آل عمران
1 آیت الکرسی اور اسمِ اعظم آیت الکرسی کی تفسیر میں پہلے بھی یہ حدیث گزر چکی ہے کہ اسم اعظم اس آیت اور آیت الکرسی میں ہے اور «الم» کی تفسیر سورۃ البقرہ کے شروع میں بیان ہو چکی ہے جسے دوبارہ یہاں لکھنے کی ضرورت نہیں، آیت « اللہُ لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ الْحَیٰ الْقَیٰومُ» (2-البقرۃ:255) کی تفسیر بھی آیت الکرسی کی تفسیر میں ہم لکھ آئے ہیں۔ پھر فرمایا اللہ تعالیٰ نے تجھ پر اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کریم کو حق کے ساتھ نازل فرمایا ہے جس میں کوئی شک نہیں بلکہ یقیناً وہ اللہ کی طرف سے ہے، جسے اس نے اپنے علم کی وسعتوں کے ساتھ اتارا ہے، فرشتے اس پر گواہ ہیں اور اللہ کی شہادت کافی وافی ہے۔ یہ قرآن اپنے سے پہلے کی تمام آسمانی کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے اور وہ کتابیں بھی اس قرآن کی سچائی پر گواہ ہیں، اس لیے کہ ان میں جو اس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے اور اس کتاب کے اترنے کی خبر تھی وہ سچی ثابت ہوئی۔ اسی نے موسیٰ بن عمران علیہ السلام پر توراۃ اور عیسیٰ بن مریم پر انجیل اتاری، وہ دونوں کتابیں بھی اس زمانے کے لوگوں کیلئے ہدایت دینے والی تھیں۔ اس نے فرقان اتارا جو حق و باطل، ہدایت و ضلالت، گمراہی اور راہِ راست میں فرق کرنے والا ہے، اس کی واضح روشن دلیلیں اور زبردست ثبوت ہر معترض کیلئے مثبت جواب ہیں،سیدنا قتادہ رحمہ اللہ، سیدنا ربیع بن انس رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ فرقان سے مراد یہاں قرآن ہے، گو یہ مصدر ہے لیکن چونکہ قرآن کا ذِکر اس سے پہلے گزر چکا ہے اس لیے یہاں فرقان فرمایا، ابوصالح رحمہ اللہ سے یہ بھی مروی ہے کہ مراد اس سے توراۃ ہے مگر یہ ضعیف ہے اس لیے کہ توراۃ کا ذِکر اس سے پہلے گزر چکا ہے واللہ اعلم۔ قیامت کے دن منکروں اور باطل پرستوں کو سخت عذاب ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ غالب ہے بڑی شان والا ہے اعلیٰ سلطنت والا ہے، انبیاء کرام اور محترم رسولوں کے مخالفوں سے اور اللہ تعالیٰ کی آیتوں کی تکذیب کرنے والوں سے جناب باری تعالیٰ زبردست انتقام لے گا۔ آل عمران
2 آل عمران
3 آل عمران
4 آل عمران
5 خالقِ کل اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ آسمان و زمین کے غیب کو وہ بخوبی جانتا ہے اس پر کوئی چیز مخفی نہیں، وہ تمہیں تمہاری ماں کے پیٹ میں جس طرح کی چاہتا ہے اچھی، بری نیک اور بد صورتیں عنایت فرماتا ہے، اس کے سوا عبادت کے لائق کوئی نہیں وہ غالب ہے حکمت والا ہے، جبکہ صرف اسی ایک نے تمہیں بنایا، پیدا کیا، پھر تم دوسرے کی عبادت کیوں کرو؟ وہ لازوال عزتوں والا غیرفانی حکمتوں والا، اٹل احکام والا ہے۔ اس میں اشارہ بلکہ تصریح ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام بھی اللہ عزوجل ہی کے پیدا کئے ہوئے اور اسی کی چوکھٹ پر جھکنے والے تھے، جس طرح تمام انسان اس کے پیدا کردہ ہیں انہی انسانوں میں سے ایک آپ بھی ہیں، وہ بھی ماں کے رحم میں بنائے گئے ہیں اور میرے پیدا کرنے سے پیدا ہوئے، پھر وہ اللہ کیسے بن گئے؟ جیسا کہ اس لعنتی جماعت نصاریٰ نے سمجھ رکھا ہے، حالانکہ وہ تو ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف رگ و ریشہ کی صورت ادھراُدھر پھرتے پھراتے رہے، جیسے اور جگہ ہے «یَخْلُقُکُمْ فِی بُطُونِ أُمَّہَاتِکُمْ خَلْقًا مِّن بَعْدِ خَلْقٍ فِی ظُلُمَاتٍ ثَلَاثٍ ذٰلِکُمُ اللہُ رَبٰکُمْ لَہُ الْمُلْکُ لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ فَأَنَّیٰ تُصْرَفُونَ» (39۔ الزمر:6) وہ اللہ جو تمہیں ماؤں کے پیٹوں میں پیدا کرتا ہے، ہر ایک کی پیدائش طرح طرح کے مرحلوں سے گزرتی ہے۔ آل عمران
6 آل عمران
7 ہماری سمجھ سے بلند آیات یہاں یہ بیان ہو رہا ہے کہ قرآن میں ایسی آیتیں بھی ہیں جن کا بیان بہت واضح بالکل صاف اور سیدھا ہے۔ ہر شخص اس کے مطلب کو سمجھ سکتا ہے، اور بعض آیتیں ایسی بھی ہیں جن کے مطلب تک عام ذہنوں کی رسائی نہیں ہو سکتی، اب جو لوگ نہ سمجھ میں آنے والی آیتوں کے مفہوم کو پہلی قسم کی آیتوں کی روشنی میں سمجھ لیں یعنی جس مسئلہ کی صراحت جس آیت میں پائیں لے لیں، وہ تو راستی پر ہیں اور جو صاف اور صریح آیتوں کو چھوڑ کر ایسی آیتوں کو دلیل بنائیں جو ان کے فہم سے بالاتر ہیں، ان میں الجھ جائیں تو منہ کے بل گر پڑیں، ام الکتاب یعنی کتاب اللہ اصل اصولوں کی وہ صاف اور واضح آیتیں ہیں، شک و شبہ میں نہ پڑو اور کھلے احکام پر عمل کرو انہی کو فیصلہ کرنے والی مانو اور جو نہ سمجھ میں آئے اسے بھی ان سے ہی سمجھو، بعض اور آیتیں ایسی بھی ہیں کہ ایک معنی تو ان کا ایسا نکلتا ہے جو ظاہر آیتوں کے مطابق ہو اور اس کے سوا اور معانی بھی نکلتے ہیں، گو وہ حرف لفظ اور ترکیب کے اعتبار سے واقعی طور پر نہ ہو تو ان غیر ظاہر معنوں میں نہ پھنسو، محکم اور متشابہ کے بہت سے معنی اسلاف سے منقول ہیں، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہا تو فرماتے ہیں کہ محکمات وہ ہیں جو ناسخ ہوں جن میں حلال حرام احکام لحکم ممنوعات حدیں اور اعمال کا بیان ہو، اسی طرح آپ سے یہ بھی مروی ہے «قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبٰکُمْ عَلَیْکُمْ أَلَّا تُشْرِکُوا بِہِ شَیْئًا» (6-الأنعام:151)اور اس کے بعد کے احکامات والی اور «وَقَضَیٰ رَبٰکَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِیَّاہُ» ‏‏‏‏ (17-الإسراء:23) اور اس کے بعد کی تین آیتیں محکمات سے ہیں۔ سیدنا ابو فاختہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں سورتوں کے شروع میں فرائض اور احکام اور روک ٹوک اور حلال و حرام کی آیتیں ہیں، سعید بن جبیر رحمہ اللہ کہتے ہیں انہیں اصل کتاب اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ تمام کتابوں میں ہیں، مقاتل رحمہ اللہ کہتے ہیں اس لیے کہ تمام مذہب والے انہیں مانتے ہیں، متشابہات ان آیتوں کو کہتے ہیں جو منسوخ ہیں اور جو پہلے اور بعد کی ہیں اور جن میں مثالیں دی گئیں ہیں اور قسمیں کھائی گئی ہیں اور جن پر صرف ایمان لایا جاتا ہے اور عمل کیلئے وہ احکام نہیں، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا بھی یہی فرمان ہے مقاتل رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے مراد سورتوں کے شروع کے حروف مقطعات ہیں۔ مجاہد رحمہ اللہ کا قول یہ ہے کہ ایک دوسرے کی تصدیق کرنے والی ہیں ۔ جیسے اور جگہ ہے «کِتَابًا مٰتَشَابِہًا مَّثَانِیَ» (39-الزمر:23) اور مثانی وہ ہے جہاں دو مقابل کی چیزوں کا ذِکر ہو جیسے جنت دوزخ کی صفت، نیکوں اور بدوں کا حال وغیرہ وغیرہ۔ اس آیت میں متشابہ محکم کے مقابلہ میں اس لیے ٹھیک مطلب وہی ہے جو ہم نے پہلے بیان کیا اور محمد بن اسحاق بن یسار رحمہ اللہ کا یہی فرمان ہے، فرماتے ہیں یہ رب کی حجت ہے ان میں بندوں کا بچاؤ ہے، جھگڑوں کا فیصلہ ہے، باطل کا خاتمہ ہے، انہیں ان کے صحیح اور اصل مطلب سے کوئی گھما نہیں سکتا نہ ان کے معنی میں ہیرپھیر کر سکتا ہے۔ متشابہات کی سچائی میں کلام نہیں ان میں تصرف و تاویل نہیں کرنی چاہیئے۔ ان سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ایمان کو آزماتا ہے جیسے حلال حرام سے آزماتا ہے، انہیں باطل کی طرف لے جانا اور حق سے پھیرنا نہیں چاہیئے۔ پھر فرماتا ہے کہ جن کے دِلوں میں کجی ، ٹیڑھ پن ، گمراہی اور حق سے باطل کی طرف پھرنا ہی ہے وہ تو متشابہ آیتوں کو لے کر اپنے بدترین مقاصد کو پورا کرنا چاہتے ہیں اور لفظی اختلاف سے ناجائز فائدہ اٹھا کر اپنے مذموم مقاصد کی طرف موڑ لیتے ہیں اور جو محکم آیتیں ان میں ان کا وہ مقصد پورا نہیں ہوتا۔ کیونکہ ان کے الفاظ بالکل صاف اور کھلے ہوئے ہوتے ہیں نہ وہ انہیں ہٹا سکتے ہیں نہ ان سے اپنے لیے کوئی دلیل حاصل کر سکتے ہیں۔ اسی لیے فرمان ہے کہ اس سے ان کا مقصد فتنہ کی تلاش ہوتی ہے تاکہ اپنے ماننے والوں کو بہکائیں، اپنی بدعتوں کی مدافعت کریں جیسا کہ عیسائیوں نے قرآن کے الفاظ روح اللہ اور کلمۃ اللہ سے عیسیٰ علیہ السلام کے اللہ کا لڑکا ہونے کی دلیل لی ہے۔ پس اس متشابہ آیت کو لے کر صاف آیت جس میں یہ لفظ ہیں کہ «إِنْ ہُوَ إِلَّا عَبْدٌ أَنْعَمْنَا عَلَیْہِ وَجَعَلْنَاہُ مَثَلًا لِّبَنِی إِسْرَائِیلَ» (43-الزخرف:59)، یعنی عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے غلام ہیں، جن پر اللہ کا انعام ہے، اور جگہ ہے«إِنَّ مَثَلَ عِیسَیٰ عِندَ اللہِ کَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَہُ مِن تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہُ کُن فَیَکُونُ،» ‏‏‏‏ (3-آل عمران:59) یعنی عیسیٰ کی مثال اللہ تعالیٰ کے نزدیک آدم کی طرح ہے کہ انہیں اللہ نے مٹی سے پیدا کیا پھر اسے کہا کہ ہو جا، وہ ہو گیا، چنانچہ اسی طرح کی اور بھی بہت سی صریح آیتیں ہیں ان سب کو چھوڑ دیا اور متشابہ آیتوں سے عیسیٰ علیہ السلام کے اللہ کا بیٹا ہونے پر دلیل لے لی حالانکہ آپ اللہ کی مخلوق ہیں، اللہ کے بندے ہیں، اس کے رسول ہیں۔ پھر فرماتا ہے کہ ان کی دوسری غرض آیت کی تحریف ہوتی ہے تاکہ اسے اپنی جگہ سے ہٹا کر مفہوم بدل لیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھ کر فرمایا کہ جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو متشابہ آیتوں میں جھگڑتے ہیں تو انہیں چھوڑ دو، ایسے ہی لوگ اس آیت میں مراد لیے گئے ہیں۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4547) یہ حدیث مختلف طرق سے بہت سی کتابوں میں مروی ہے، صحیح بخاری شریف میں بھی یہ حدیث اس آیت کی تفسیر میں مروی ہے، ملاحظہ ہو کتاب القدر، ایک اور حدیث میں ہے یہ لوگ خوارج ہیں ۱؎ (مسند احمد:5/262:حسن) پس اس حدیث کو زیادہ سے زیادہ موقوف سمجھ لیا جائے تاہم اس کا مضمون صحیح ہے اس لیے کہ پہلے بدعت خوارج نے ہی پھیلائی ہے، فرقہ محض دنیاوی رنج کی وجہ سے مسلمانوں سے الگ ہوا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس وقت حنین کی غنیمت کا مال تقسیم کیا اس وقت ان لوگوں نے اسے خلاف عدل سمجھا اور ان میں سے ایک نے جسے ذوالخویصرہ کہا جاتا ہے اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آ کر صاف کہا کہ عدل کیجئے، آپ نے اس تقسیم میں انصاف نہیں کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے اللہ نے امین بنا کر بھیجا تھا، اگر میں بھی عدل نہیں کروں تو پھر برباد ہو اور نقصان اٹھائے، جب وہ پلٹا تو سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے درخواست کی کہ مجھے اجازت دی جائے کہ میں اسے مار ڈالوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چھوڑ دو، اس کی جنس سے ایک ایسی قوم پیدا ہو گی کہ تم لوگ اپنی نمازوں کو ان کی نمازوں کے مقابلہ اور اپنی قرآن خوانی کو ان کی قرآن خوانی کے مقابلہ میں حقیر سمجھو گے لیکن دراصل وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر کمان سے نکل جاتا ہے، تم جہاں انہیں پاؤ گے قتل کرو گے، انہیں قتل کرنے والے کو بڑا ثواب ملے گا،۱؎ (صحیح مسلم:1064-1066) سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے زمانہ میں ان کا ظہور ہوا اور آپ نے انہیں نہروان میں قتل کیا پھر ان میں پھوٹ پڑی تو ان کے مختلف الخیال فرقے پیدا ہو گئے، نئی نئی بدعتیں دین میں جاری ہو گئیں اور اللہ کی راہ سے بہت دور چلے گئے۔ ان کے بعد قدریہ فرقے کا ظہور ہوا، پھر معتزلہ پھر جہمیہ وغیرہ پیدا ہوئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشنگوئی پوری ہوئی کہ میری امت میں عنقریب تہتر فرقے ہوں گے سب جہنمی ہوں گے سوائے ایک جماعت کے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا : وہ کون لوگ ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ جو اس چیز پر ہوں جس پر میں ہوں اور میرے اصحاب رضی اللہ عنہم ۱؎ (مستدرک حاکم:1/129: ضعیف) ایویعلیٰ کی حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت میں سے ایک قوم پیدا ہو گی جو قرآن تو پڑھے گی لیکن اسے اس طرح پھینکے گی جیسے کوئی کھجور کی گٹھلیاں پھینکتا ہو، اس کے غلط مطالب بیان کرے گی، ۱؎ (الدرالمنشور:2/9:ضعیف) پھر فرمایا اس کی حقیقی تاویل اور واقعی مطلب اللہ ہی جانتا ہے، لفظ اللہ پر وقف ہے یا نہیں؟ اس میں اختلاف ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما تو فرماتے ہیں تفسیر چار قسم کی ہے، ایک وہ جس کے سمجھنے میں کسی کو مشکل نہیں، ایک وہ جسے عرب اپنے لغت سے سمجھتے ہیں، ایک وہ جسے جید علماء اور پورے علم والے ہی جانتے ہیں اور ایک وہ جسے بجزذاتِ الٰہی کے اور کوئی نہیں جانتا۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:1/57) یہ روایت پہلے بھی گزر چکی ہے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بھی یہی قول ہے، معجم کبیر میں حدیث ہے کہ مجھے اپنی امت پر صرف تین باتوں کا ڈر ہے۔ مال کی کثرت کا جس سے حسد و بغض پیدا ہو گا اور آپس کی لڑائی شروع ہو گی، دوسرا یہ کہ کتاب اللہ کی تاویل کا سلسلہ شروع ہو گا حالانکہ اصلی مطلب ان کا اللہ ہی جانتا ہے اور اہل علم والے کہیں گے کہ ہمارا اس پر ایمان ہے۔ تیسرے یہ کہ علم حاصل کرنے کے بعد اسے بےپرواہی سے ضائع کر دیں گے، ۱؎ (طبرانی کبیر:3442،قال امام ہیثمی:ضعیف) یہ حدیث بالکل غریب ہے۔ اور حدیث میں ہے کہ قرآن اس لیے نہیں اترا کہ ایک آیت دوسری آیت کی مخالف ہو، جس کا تمہیں علم ہو اور اس پر عمل کرو اور جو متشابہ ہوں ان پر ایمان لاؤ (ابن مردویہ) ۱؎(مجمع الزوائد:1/171 ،قال الشیخ زبیرعلی زئی:حسن) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سیدنا عمر بن عبدالعزیز اور سیدنا مالک بن انس سے بھی یہی مروی ہے کہ بڑے سے بڑے عالم بھی اس کی حقیقت سے آگاہ نہیں ہوتے، ہاں اس پر ایمان رکھتے ہیں۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پختہ علم والے یہی کہتے ہیں اس کی تاویل کا علم اللہ ہی کو ہے کہ اس پر ہمارا ایمان ہے۔ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بھی یہی فرماتے ہیں، امام ابن جریر رحمہ اللہ بھی اسی سے اتفاق کرتے ہیں، یہ تو تھی وہ جماعت جو «الا اللہ» پر وقف کرتی تھی اور بعد کے جملہ کو اس سے الگ کرتی تھی، کچھ لوگ یہاں نہیں ٹھہرتے اور «فی العلم» پر وقف کرتے ہیں، اکثر مفسرین اور اہل اصول بھی یہی کہتے ہیں، ان کی بڑی دلیل یہ ہے کہ جو سمجھ میں نہ آئے ایسی بات کہنی ٹھیک نہیں، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے میں ان راسخ علماء میں ہوں جو تاویل جانتے ہیں، ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:2/203) مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں راسخ علم والے تفسیر جانتے ہیں، محمد بن جعفر بن زبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اصل تفسیر اور مراد اللہ ہی جانتا ہے اور مضبوط علم والے کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے پھر متشابہات آیتوں کی تفسیر محکمات کی روشنی کرتے ہیں جن میں کسی کو بات کرنے کی گنجائش نہیں رہتی، قرآن کے مضامین ٹھیک ٹھاک سمجھ میں آتے ہیں دلیل واضح ہوتی ہے، عذر ظاہر ہو جاتا ہے، باطل چھٹ جاتا ہے اور کفر دفع ہو جاتا ہے ۔ حدیث میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کیلئے دعا کی کہ اے اللہ ! انہیں دین کی سمجھ دے اور تفسیر کا علم دے} ۔ ۱؎ (مسند احمد:1/266-314:صحیح) بعض علماء نے تفصیل سے بات کرتے ہوئے کہا ہے، قرآن کریم میں تاویل دو معنی میں آئی ہے، ایک معنی جن سے مفہوم کی اصلی حقیقت اور اصلیت کی نشاندہی ہوتی ہے، جیسے قرآن میں ہے «‏‏‏‏یٰٓاَبَتِ ہٰذَا تَاْوِیْلُ رُءْیَایَ مِنْ قَبْلُ ۡ قَدْ جَعَلَہَا رَبِّیْ حَقًّا» (12۔یوسف:100) میرے باپ میرے خواب کی یہی تعبیر ہے ۔ اور جگہ ہے «ہَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا تَاْوِیْلَہٗ یَوْمَ یَاْتِیْ تَاْوِیْلُہٗ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ نَسُوْہُ مِنْ قَبْلُ قَدْ جَاءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ» (7۔الاعراف:53) کافروں کے انتظار کی حد حقیقت کے ظاہر ہونے تک ہے اور یہ دن وہ ہو گا جب حقیقت سچائی کی گواہ بن کر نمودار ہو گی، پس ان دونوں جگہ پر تاویل سے مراد حقیقت ہے، اگر اس آیت مبارکہ میں تاویل سے مراد یہی تاویل لی جائے تو «إِلَّا اللہُ» پر وقف ضروری ہے اس لیے کہ تمام کاموں کی حقیقت اور اصلیت بجز ذات پاک کے اور کوئی نہیں جانتا تو «‏‏‏‏وَالرَّاسِخُونَ فِی الْعِلْمِ» مبتدا ہو گا اور «یَقُولُونَ آمَنَّا بِہِ» خبر ہو گی اور یہ جملہ بالکل الگ ہو گا اور تاویل کے دوسرے معنی تفسیر اور بیان اور ہے اور ایک شئے کی تعبیر دوسری شئے سے ہوتی ہے۔ جیسے قرآن میں ہے «نَبِّئْنَا بِتَاْوِیْـلِہٖ» (12۔یوسف:36) ہمیں اس کی تاویل بتاؤ یعنی تفسیر اور بیان، اگر آیت مذکورہ میں تاویل سے یہ مراد لی جائے تو «فِی الْعِلْمِ» پر وقف کرنا چاہیئے، اس لیے کہ پختہ علم والے علماء جانتے ہیں اور سمجھتے ہیں کیونکہ خطاب انہی سے ہے، گو حقائق کا علم انہیں بھی نہیں، تو اس بنا پر «‏‏‏‏آمَنَّا بِہِ» حال ہو گا اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بغیر معطوف علیہ کے معطوف ہو۔ جیسے اور جگہ ہے «‏‏‏‏لِلْفُقَرَاءِ الْمُہٰجِرِیْنَ الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ» (59۔الحشر:8) ، سے «‏‏‏‏یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِنَّکَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ» (59۔ الحشر:10) تک دوسری جگہ ہے «‏‏‏‏وَّجَاءَ رَبٰکَ وَالْمَلَکُ صَفًّا صَفًّا» (89۔الفجر:22) یعنی «وجاء الملائکۃ صفوفاً صفوفاً» اور ان کی طرف سے یہ خبر کہ ہم اس پر ایمان لائے اس کے یہ معنی ہوں گے کہ متشابہ پر ایمان لائے۔ پھر اقرار کرتے ہیں کہ یہ سب یعنی محکم اور متشابہ حق اور سچ ہے اور یعنی ہر ایک دوسرے کی تصدیق کرتا ہے اور گواہی دیتا ہے کہ یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اس میں کوئی اختلاف اور تضاد نہیں۔ جیسے اور جگہ ہے «‏‏‏‏اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا» (4۔النسآء:82) یعنی کیا یہ لوگ قرآن میں غوروفکر نہیں کرتے، اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت سا اختلاف ہوتا، اسی لیے یہاں بھی فرمایا کہ اسے صرف عقلمند ہی سمجھتے ہیں جو اس پر غور و تدبر کریں، جو صحیح سالم عقل والے ہوں جن کے دماغ درست ہوں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوتا ہے کہ پختہ علم والے کون ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کی قسم سچی ہو، جس کی زبان راست گو ہو، جس کا دِل سلامت ہو، جس کا پیٹ حرام سے بچا ہو اور جس کی شرمگاہ زناکاری سے محفوظ ہو، وہ مضبوط علم والے ہیں ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:6635:ضعیف جداً) اور حدیث میں ہے کہ آپ نے چند لوگوں کو دیکھا کہ وہ قرآن شریف کے بارے میں لڑ جھگڑ رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سنو تم سے پہلے لوگ بھی اسی سے ہلاک ہوئے کہ انہوں نے کتاب اللہ کی آیتوں کو ایک دوسرے کیخلاف بتا کر اختلاف کیا حالانکہ کتاب اللہ کی ہر آیت ایک دوسرے کی تصدیق کرتی ہے، تم ان میں اختلاف پیدا کر کے ایک کو دوسری کے متضاد نہ کہو، جو جانو وہی کہو اور جو نہیں جانو اسے جاننے والوں کو سونپ دو (مسند احمد) ۱؎(مسند احمد:2/185:حسن صحیح) اور حدیث میں ہے کہ قرآن سات حرفوں پر اترا، قرآن میں جھگڑنا کفر ہے، قرآن میں اختلاف اور تضاد پیدا کرنا کفر ہے، جو جانو اس پر عمل کرو، جو نہ جانو اسے جاننے والے کی طرف سونپو۔ جل جلالہ۔ (ایویعلیٰ) ۱؎(مسند احمد:2/300: صحیح) راسخ فی العلم کون؟ نافع بن یزید رحمہ اللہ کہتے ہیں راسخ فی العلم وہ لوگ ہیں جو متواضح ہوں جو عاجزی کرنے والے ہوں، رب کی رضا کے طالب ہوں، اپنے سے بڑوں سے مرعوب نہ ہوں، اپنے سے چھوٹے کو حقیر سمجھنے والے نہ ہوں۔ پھر فرمایا کہ یہ سب دعا کرتے ہیں کہ ہمارے دِلوں کو ہدایت پر جمانے کے بعد انہیں ان لوگوں کے دِلوں کی طرح نہ کر جو متشابہ کے پیچھے پڑ کر برباد ہو جاتے ہیں بلکہ ہمیں اپنی صراطِ مستقیم پر قائم رکھ اور اپنے مضبوط دین پر دائم رکھ، ہم پر اپنی رحمت نازل فرما، ہمارے دِلوں کو قرار دے، ہم سے گندگی کو دور کر، ہمارے ایمان و یقین کو بڑھا تو بہت بڑا دینے والا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعا مانگا کرتے تھے (حدیث) «‏‏‏‏یَا مُقَلِّبَ القُلُوبِ ثَبِّت قَلْبِی عَلَی دِینِکَ» اے دِلوں کے پھیرنے والے میرے دِل کو اپنے دین پر جما ہوا رکھ، پھر یہ دعا «رَبَّنَا لاَ تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ ہَدَیْتَنَا وَہَبْ لَنَا مِن لَّدُنکَ رَحْمَۃً إِنَّکَ أَنتَ الْوَہَّابُ» پڑھتے ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:6647:صحیح) اور حدیث میں ہے کہ آپ بکثرت یہ دعا پڑتھے تھے «‏‏‏‏اَللّٰھُمَّ مُقَلِّبَ القُلُوبِ ثَبِّت قَلْبِی عَلَی دِینِکَ» اسماء نے ایک دن پوچھا کیا دِل الٹ پلٹ ہو جاتا ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں ہر انسان کا دِل اللہ تعالیٰ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہے، اگر چاہے قائم رکھے اگر چاہے پھیر دے،۱؎(مسند احمد:6/302:صحیح) ہماری دعا ہے ہمارا رب دِلوں کو ہدایت کے بعد ٹیڑھا نہ کر دے اور ہمیں اپنے پاس سے رحمتیں عنایت فرمائے، وہ بہت زیادہ دینے والا ہے۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کوئی ایسی دعا سکھائیے کہ میں اپنے لیے مانگا کروں، آپ نے فرمایا یہ دعا مانگ (حدیث) « اللہُمَّ ربَّ محمد النبی اغْفِرْ لِی ذَنْبِی، وَأَذْہِبْ غَیْظَ قَلْبِی، وَ اَجِرْنَیْ مِنْ مُضِلاتِ الْفِتَنِ»۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:6649:ضعیف) اے اللہ اے محمد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رب میرے گناہ معاف فرما، میرے دِل کا غصہ اور رنج اور سختی دور کر اور مجھے گمراہ کرنے والے فتنوں سے بچا لے، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بھی آپ کی دعا «یَا مُقَلِّبَ القُلُوبِ ثَبِّت قَلْبِی عَلَی دِینِکَ» سن کر اسماء رضی اللہ عنہا کی طرح میں نے بھی یہی سوال کیا اور آپ نے وہی جواب دیا اور پھر قرآن کی یہ دعا سنائی،۱؎ (طبرانی اوسط:1553: قال الشیخ زبیرعلی زئی:ضعیف) یہ حدیث غریب ہے لیکن قرآنی آیت کی تلاوت کے بغیر یہی بخاری مسلم میں بھی مروی ہے۔۱؎(صحیح مسلم:2654) اور نسائی میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو جاگتے تو یہ دعا پڑھتے (حدیث) «‏‏‏‏لا اِلـہَ إلاّ اَنْتَ سُبْحانَکَ أَسْتَغْفِرُکَ لِذَنبِی و أَسْأَلُکَ رَحمَۃً اللہُمَّ زِدْنِی عِلْمًا وَلاَ تُزِغْ قَلبِی بَعْدَ إِذْ ہَدَیْتَنَا وَہَبْ لَنَا مِن لَّدُنکَ رَحْمَۃً إِنَّکَ أَنتَ الْوَہَّابُ» ۱؎ (سنن ابوداود:5061،قال الشیخ الألبانی:ضعیف)اے اللہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں، میں تجھ سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگتا ہوں اور تجھ سے تیری رحمت کا سوال کرتا ہوں، اللہ میرے علم میں زیادتی فرما اور میرے دِل کو تو نے ہدایت دے دی ہے اسے گمراہ نہ کرنا اور مجھے اپنے پاس کی رحمت بخش تو بہت زیادہ دینے والا۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مغرب کی نماز پڑھائی، پہلی دو رکعتوں میں الحمد شریف کے بعد مفصل کی چھوٹی سی دو سورتیں پڑھیں اور تیسری رکعت میں سورۃ الحمد شریف کے بعد یہی آیت پڑھی۔ ابوعبداللہ ضابحی رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں اس وقت ان کے قریب چلا گیا تھا، یہاں تک کہ میرے کپڑے ان کے کپڑوں سے مل گئے تھے اور میں نے خود اپنے کان سے ابوبکر صدیق کو یہ پڑھتے ہوئے سنا (عبدالرزاق)عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے جب تک یہ حدیث نہیں سنی تھی آپ اس رکعت میں « قل ھو اللہ » پڑھا کرتے تھے لیکن یہ حدیث سننے کے بعد امیر المؤمنین نے بھی اسی کو پڑھنا شروع کیا اور کبھی ترک نہیں کیا۔ پھر فرمایا وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اے اللہ تو قیامت کے دن اپنی تمام مخلوق کو جمع کرنے والا ہے اور ان میں فیصلے اور حکم کرنے والا ہے، ان کے اختلافات کو سمیٹنے والا ہے اور ہر ایک کو بھلے برے عمل کا بدلہ دینے والا ہے اس دن کے آنے میں اور تیرے وعدوں کے سچے ہونے میں کوئی شک نہیں۔ آل عمران
8 آل عمران
9 آل عمران
10 جہنم کا ایندھن کون لوگ؟ فرماتا ہے کہ کافر جہنم کی بھٹیاں اور اس میں جلنے والی لکڑیاں ہیں، «یَوْمَ لَا یَنفَعُ الظَّالِمِینَ مَعْذِرَتُہُمْ ۖ وَلَہُمُ اللَّعْنَۃُ وَلَہُمْ سُوءُ الدَّارِ» (40-غافر:52) ان ظالموں کو اس دن کوئی عذر معذرت ان کے کام نہ آئے گی، ان پر لعنت ہے، اور ان کیلئے برا گھر ہے، ان کے مال ان کی اولادیں بھی انہیں کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکیں گی، اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکیں گے، جیسا اور جگہ فرمایا «وَلَا تُعْجِبْکَ أَمْوَالُہُمْ وَأَوْلَادُہُمْ ۚ إِنَّمَا یُرِیدُ اللہُ أَن یُعَذِّبَہُم بِہَا فِی الدٰنْیَا وَتَزْہَقَ أَنفُسُہُمْ وَہُمْ کَافِرُونَ» ‏‏‏‏ (9-التوبۃ:85) تو ان کے مال و اولاد پر تعجب نہ کرنا اس کی وجہ سے اللہ کا ارادہ انہیں دنیا میں بھی عذاب دینا ہے، ان کی جانیں کفر میں ہی نکلیں گی، اسی طرح ارشاد ہے «‏‏‏‏لَا یَغُرَّنَّکَ تَقَلٰبُ الَّذِینَ کَفَرُوا فِی الْبِلَادِ مَتَاعٌ قَلِیلٌ ثُمَّ مَأْوَاہُمْ جَہَنَّمُ ۚ وَبِئْسَ الْمِہَادُ» (3-آلعمران:196،197) کافروں کا شہروں میں گھومنا گھامنا تجھے فریب میں نہ ڈال دے، یہ تو مختصر سا فائدہ ہے، پھر ان کی جگہ جہنم ہی ہے جو بدترین بچھونا ہے، اسی طرح یہاں بھی فرمان ہے کہ اللہ کی کتابوں کو جھٹلانے والے اس کے رسولوں کے منکر اس کی کتاب کے مخالف اس کی وحی کے نافرمان اپنی اولاد اور اپنے مال سے کوئی بھلائی کی توقع نہ رکھیں، یہ جہنم کی لکڑیاں ہیں جن سے جہنم سلگائی اور بھڑکائی جائے گی، جیسے اور جگہ ہے «اِنَّکُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ حَصَبُ جَہَنَّمَ» (21۔الانبیاء:98)تم اور تمہارے معبود جہنم کی لکڑیاں ہو۔ ابن ابی حاتم میں ہے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی والدہ صاحبہ سیدہ ام فضل رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ مکہ شریف میں ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے اور باآواز بلند فرمانے لگے، لوگو! کیا میں نے اللہ کی باتیں تم تک پہنچا دیں؟ لوگو! کیا میں نے تبلیغ کا حق ادا کر دیا؟ لوگو! کیا میں وحدانیت و رسالت کا مطلب تمہیں سمجھا چکا؟ سیدناعمررضی اللہ عنہ فرمانے لگے ہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیشک آپ نے اللہ کا دین ہمیں پہنچایا پھر جب صبح ہوئی تو آپ نے فرمایا سنو اللہ کی قسم اسلام غالب ہو گا اور خوب پھیلے گا، یہاں تک کہ کفر اپنی جگہ جا چھپے گا، مسلمان اسلام اپنے قول و عمل میں لیے سمندروں کو چیرتے پھاڑتے نکل جائیں گے اور اسلام کی اشاعت کریں گے، یاد رکھو وہ زمانہ بھی آنے والا ہے کہ لوگ قرآن کو سیکھیں گے پڑھیں گے (پھر تکبر برائی اور اندھے پن کے طور پر) کہنے لگیں گے ہم قاری ہیں، عالم ہیں، کون ہے جو ہم سے بڑھ چڑھ کر ہو؟ کیا ان لوگوں میں کچھ بھی بھلائی ہو گی؟ لوگوں نے پوچھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہ کون لوگ ہیں، آپ نے فرمایا وہ تم ہی مسلمانوں میں سے ہوں گے لیکن خیال رہے کہ وہ جہنم کا ایندھن ہیں، ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:2/90:ضعیف) ابن مردویہ میں بھی یہ حدیث ہے، اس میں یہ بھی ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے جواب میں کہا ہاں ہاں اللہ کی قسم آپ نے بڑی حرص اور چاہت سے تبلیغ کی، آپ نے پوری جدوجہد اور دوڑ دھوپ کی، آپ نے ہماری زبردست خیر خواہی کی اور بہتری چاہی۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:25/27-28:ضعیف منقطع) پھر فرماتا ہے جیسا حال فرعونیوں کا تھا اور جیسے کرتوت ان کے تھے، لفظ «دَأْبِ» ہمزہ کے جزم سے بھی آتا ہے اور ہمزہ کے زبر سے بھی آتا ہے، جیسا «نَھرُ» اور «نَھَرُ» ، اس کے معنی شان عادت حال طریقے کے آتے ہیں، امرا القیس کے شعروں میں بھی یہ لفظ اسی معنی میں آیا ہے، مطلب اس آیت شریف کا یہ ہے کہ کفار کا مال و اولاد اللہ کے ہاں کچھَ کام نہ آئے گا جیسے فرعونیوں اور ان سے اگلے کفار کو کچھ کام نہ آیا، اللہ کی پکڑ سخت ہے اس کا عذاب درد ناک ہے، کوئی کسی طاقت سے بھی اس سے بچ نہیں سکتا نہ اسے روک سکتا ہے، وہ اللہ جو چاہے کرتا ہے، ہرچیز اس کے سامنے حقیر ہے، نہ اس کے سوا کوئی معبود نہ رَب۔ آل عمران
11 آل عمران
12 اولین معرکہ حق و باطل اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے محمد [ صلی اللہ علیہ وسلم ] کافروں سے کہہ دیجئیے کہ تم دنیا میں بھی ذلیل و مغلوب کئے جاؤ گے، ہارو گے، ماتحت بنو گے اور قیامت کے دن بھی ہانک کر جہنم میں جمع کئے جاؤ گے جو بد ترین بچھونا ہے۔ سیرت ابن اسحاق میں ہے کہ جب بدر کی جنگ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مظفر و منصور واپس ہوئے تو بنوقینقاع کے بازار میں یہودیوں کو جمع کیا اور فرمایا : اے یہودیو ! اس سے پہلے کہ قریش کی طرح تمہیں بھی ذلت و پستی دیکھنا پڑے اسلام قبول کر لو، تو اس سرکش جماعت نے جواب دیا کہ چند قریشیوں کو جو فنونِ جنگ سے ناآشنا تھے، آپ نے انہیں ہرا لیا اور دماغ میں غرور سما گیا، اگر ہم سے لڑائی ہوئی تو ہم بتا دیں گے کہ لڑنے والے ایسے ہوتے ہیں، آپ کو ابھی تک ہم سے پالا ہی نہیں پڑا۔ اس پر یہ آیت اتری ۔ (سیرۃ ابن ھشام:2/427:مرسل ضعیف) اور فرمایا گیا فتح بدر نے ظاہر کر دیا ہے کہ اللہ اپنے سچے اچھے اور پسندیدہ دین کو اور اس دین والوں کو عزت و حرمت عطا فرمانے والا ہے، وہ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اور آپ کی اطاعت گزار امت کا خود مددگار ہے۔ وہ اپنی باتوں کو ظاہر اور غالب کرنے والا ہے۔ دو جماعتیں لڑائی میں گھتم گتھا ہو گئی تھیں، ایک صحابہ کرام کی اور دوسری مشرکین قریش کی، یہ واقعہ جنگ بدر کا ہے، اس دن مشرکین پر اس قدر رعب غالب آیا اور اللہ نے اپنے بندوں کی اس طرح مدد کی گو مسلمان گنتی میں مشرکین سے کہیں کم تھے لیکن مشرکوں کو اپنے سے دُگنے نظر آتے تھے، مشرکوں نے لڑائی شروع ہونے سے پہلے ہی جاسوسی کیلئے عمیر بن سعد کو بھیجا تھا جس نے آ کر اطلاع دی تھی کہ تین سو ہیں، کچھ کم یا زائد ہوں اور واقعہ بھی یہی تھا کہ صرف تین سو دَ س اور کچھ تھے لیکن لڑائی کے شروع ہوتے ہی اللہ عزوجل نے اپنے خاص اور چیدہ فرشتے ایک ہزار بھیجے۔ ایک معنی تو یہ ہیں، دوسرا مطلب یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ مسلمان دیکھتے تھے اور جانتے تھے کہ کافر ہم سے دوچند ہیں، پھر بھی اللہ عزوجل نے انہی کی مدد کی۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ بدری صحابہ تین سو تیرہ تھے اور مشرکین چھ سو سولہ تھے۔ لیکن تواریخ کی کتابوں میں مشرکین کی تعداد نو سو سے ایک ہزار تک بیان کی گئی ہے، ہو سکتا ہے سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کا قرآن کے الفاظ سے یہ استدلال ہو کہ ابن الحجاج قبلیہ کا جو سیاہ فام غلام پکڑا ہوا آیا تھا اس سے جب حضور نے پوچھا کہ قریش کی تعداد کتنی ہے؟ اس نے کہا بہت ہیں، آپ نے پھر پوچھا اچھا روز کتنے اونٹ کٹتے ہیں، اس نے کہا ایک دن نو دوسرے دن دس، آپ نے فرمایا بس تو ان کی گنتی نو سو اور ایک ہزار کے درمیان ہے۔ ۱؎ (سیرۃ ابن ھشام:2/195:مرسل ضعیف) پس مشرکین مسلمانوں سے تین گنے تھے «واللہ اعلم» لیکن یہ یاد رہے کہ عرب کہہ دیا کرتے ہیں کہ میرے پاس ایک ہزار تو ہیں لیکن مجھے ضرورت ایسے ہی دوگنا کی ہے اس سے مراد ان کی تین ہزار ہوتی ہے۔ اب کوئی مشکل باقی نہ رہی، لیکن ایک اور سوال ہے وہ یہ کہ قرآن کریم میں اور جگہ ہے «وَاِذْ یُرِیْکُمُوْہُمْ اِذِ الْتَقَیْتُمْ فِیْٓ اَعْیُنِکُمْ قَلِیْلًا وَّ یُقَلِّلُکُمْ فِیْٓ اَعْیُنِہِمْ لِیَقْضِیَ اللّٰہُ اَمْرًا کَانَ مَفْعُوْلًا» (8۔ الانفال:44) یعنی جب آمنے سامنے آ گئے تو اللہ نے انہیں تمہاری نگاہوں کے سامنے کم کر کے دکھایا اور تمہیں ان کی نگاہوں میں زیادہ کر کے دکھایا تاکہ جو کام کرنے کا فیصلہ اللہ کر چکا تھا وہ ہو جائے۔ پس اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل تعداد سے بھی کم نظر آئے اور مندرجہ بالا آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ بلکہ دُگنے نظر آئے۔ تو دونوں آیتوں میں تطبیق کیا ہو گی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت کا شان نزول اور تھا اور اس کا وقت اور تھا۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بدر والے دن ہمیں مشرکین کچھ زیادہ نہیں لگے، ہم نے غور سے دیکھا پھر بھی یہی معلوم ہوا کہ ہم سے ان کی گنتی زیادہ نہیں ۔ دوسری روایت میں ہے کہ مشرکین کی تعداد اس قدر کم معلوم ہوئی کہ میں نے اپنے پاس کے ایک شخص سے کہا کہ یہ لوگ تو کوئی ستر ہوں گے، اس نے کہا نہیں نہیں سو ہوں گے، جب ان میں سے ایک شخص پکڑا گیا تو ہم نے اس سے مشرکین کی گنتی پوچھی، اس نے کہا ایک ہزار ہیں ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:6/236) اب جبکہ دونوں فریق ایک دوسرے کے سامنے صفیں باندھ کر کھڑے ہو گئے تو مسلمانوں کو یہ معلوم ہونے لگا کہ مشرکین ہم سے دوگنے ہیں۔ یہ اس لیے کہ انہیں اپنی کمزوری کا یقین ہو جائے اور یہ اللہ پر پورا بھروسہ کر لیں اور تمام تر توجہ اللہ کی جانب پھیر لیں اور اپنے رب عزوجل سے اعانت اور امداد کی دعائیں کرنے لگیں، ٹھیک اسی طرح مشرکین کو مسلمانوں کی تعداد دوگنی معلوم ہونے لگی تاکہ ان کے دِلوں میں رعب اور خوف بیٹھ جائے اور گھبراہٹ اور پریشانی بڑھ جائے، پھر جب دونوں بھڑ گئے اور لڑائی ہونے لگی تو ہر فریق دوسرے کو اپنی نسبت کم نظر آنے لگا تاکہ ایک دِل کھول کر حوصلہ نکالے اور اللہ تعالیٰ حق و باطل کا صاف فیصلہ کر دے، ایمان و کفر و طغیان پر غالب آ جائے۔ مومنوں کو عزت اور کافروں کو ذلت مل جائے ۔ جیسے اور جگہ ہے «‏‏‏‏وَلَقَدْ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ بِبَدْرٍ وَّاَنْتُمْ اَذِلَّۃٌ» (3-آل عمران:123) یعنی البتہ اللہ تعالیٰ نے بدر والے دن تمہاری مدد کی حالانکہ تم اس وقت کمزور تھے۔ اسی لیے یہاں بھی فرمایا اللہ جسے چاہے اپنی مدد سے طاقتور بنا دے، پھر فرماتا ہے «وَ اللہُ یُؤَیِّدُ بِنَصْرِہِ مَن یَشَاءُ إِنَّ فِی ذٰلِکَ لَعِبْرَۃً لِّأُولِی الْأَبْصَارِ» (3-آل عمران:13) اس میں عبرت و نصیحت ہے اس شخص کیلئے جو آنکھوں والا ہو جس کا دماغ صحیح و سالم ہو، وہ اللہ کے احکام کی بجا آوری میں لگ جائے گا اور سمجھ لے گا کہ اللہ اپنے پسندیدہ بندوں کی اس جہان میں بھی مدد کرتا ہے اور قیامت کے دن بھی ان کا بچاؤ کرے گا۔ آل عمران
13 آل عمران
14 دنیا کے حسن اور آخرت کے جمال کا تقابل اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ دنیا کی زندگی کو طرح طرح کی لذتوں سے سجایا گیا ہے ان سب چیزوں میں سب سے پہلے عورتوں کو بیان فرمایا، اس لیے کہ ان کا فتنہ بڑا زبردست ہے۔ صحیح حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں نے اپنے بعد مردوں کیلئے عورتوں سے زیادہ نقصان دہ اور کوئی فتنہ نہیں چھوڑا ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5096) ہاں جب کسی شخص کی نیت نکاح کر کے زنا سے بچنے کی اور اولاد کی کثرت سے ہو تو بیشک یہ نیک کام ہے اس کی رغبت شریعت نے دلائی ہے اور اس کا حکم دیا ہے اور بہت سی حدیثیں نکاح کرنے بلکہ کثرت نکاح کرنے کی فضیلت میں آئی ہیں اور اس امت میں سب سے بہتر وہ ہے جو سب سے زیادہ بیویوں والا ہو ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5069) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : دنیا کا ایک فائدہ ہے اور اس کا بہترین فائدہ نیک بیوی ہے کہ خاوند اگر اس کی طرف دیکھے تو یہ اسے خوش کر دے اور اگر حکم دے تو بجا لائے اور اگر کہیں چلا جائے تو اپنے نفس کی اور خاوند کے مال کی حفاظت کرے۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1469) دوسری حدیث میں ہے مجھے عورتیں اور خوشبو بہت پسند ہے اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔ ۱؎ (سنن نسائی:3392،قال الشیخ الألبانی:صحیح) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ محبوب عورتیں تھیں، ہاں گھوڑے ان سے بھی زیادہ پسند تھے۔ ۱؎ (سنن نسائی:3393،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ایک اور روایت میں ہے گھوڑوں سے زیادہ آپ کی چاہت کی چیز کوئی اور نہ تھی ہاں صرف عورتیں۔ ثابت ہوا عورتوں کی محبت بھلی بھی ہے اور بری بھی۔ اسی طرح اولاد کی اگر ان کی کثرت اس لیے چاہتا ہے کہ وہ فخر و غرور کرے تو بری چیز ہے اور اگر اس لیے ان کی زیادتی چاہتا ہے کہ نسل بڑھے اور موحد مسلمانوں کی گنتی امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں زیادہ ہو تو بیشک یہ بھلائی کی چیز ہے۔ حدیث شریف میں ہے محبت کرنے والیوں اور زیادہ اولاد پیدا کرنے والی عورتوں سے نکاح کرو۔ قیامت کے دن میں تمہاری زیادتی سے اور امتوں پر فخر کرنے والا ہوں ۔ ۱؎ (مسند احمد:3/158:صحیح) ٹھیک اسی طرح مال بھی ہے کہ اگر اس کی محبت گرے پڑے لوگوں کو حقیر سمجھنے اور مسکینوں غریبوں پر فخر کرنے کے لیے ہے تو بے حد بری چیز ہے۔ اور اگر مال کی چاہت اپنوں اور غیروں سے سلوک کرنے نیکیاں کرنے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے لیے ہے تو ہر طرح وہ شرعاً اچھی اور بہت اچھی چیز ہے ۔ « قِنْطَار» کی مقدار میں مفسرین کا اختلاف ہے، ماحصل یہ ہے کہ بہت زیادہ مال کو قنطار کہتے ہیں، جیسے ضحاک رحمہ اللہ کا قول ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:6/250) اور اقوال بھی ملاحظہ ہوں، ایک ہزار دینار، بارہ ہزار چالیس ہزار ساٹھ ہزار، ستر ہزار، اسی ہزار وغیرہ وغیرہ۔ مسند احمد کی ایک مرفوع حدیث میں ہے، ایک قنطار ہزار اوقیہ کا ہے اور ہر اوقیہ بہتر ہے زمین و آسمان سے ۔ ۱؎ (مسند احمد:2/263:حسن) غالباً یہاں مقدار ثواب کی بیان ہوئی ہے جو ایک قنطار ملے گا (واللہ اعلم) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی ایسی ہی ایک موقوف روایت بھی مروی ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے۔ اسی طرح ابن جریر میں معاذ بن جبل اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی مروی ہے، اور ابن ابی حاتم میں سیدنا ابوہریرہ اور سیدنا ابوالدرداء رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ قنطار بارہ سو اوقیہ ہیں، ابن جریر رحمہ اللہ کی ایک مرفوع حدیث میں بارہ سو اوقیہ آئے ہیں ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:6698:ضعیف) لیکن وہ حدیث بھی منکر ہے، ممکن ہے کہ وہ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا قول ہو جیسے اور صحابہ رضی اللہ عنہم کا بھی یہی فرمان ہے۔ ابن مردویہ میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص سو آیتیں پڑھ لے غافلوں میں نہیں لکھا جائے گا اور جس نے سو سے ہزار تک پڑھ لیں اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک قنطار اجر ملے گا، اور قنطار بڑے پہاڑ کے برابر ہے ۔ ۱؎ (طبرانی:1/268:ضعیف) مستدرک حاکم میں ہی اس آیت کے اس لفظ کا مطلب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دو ہزار اوقیہ، ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:6725:ضعیف) امام حاکم رحمہ اللہ اسے صحیح اور شرط شیخین پر بتلاتے ہیں۔ بخاری مسلم نے اسے نقل نہیں کیا، طبرانی وغیرہ میں ہے ایک ہزار دینار ۔ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:2/111:ضعیف) حسن بصری رحمہ اللہ سے موقوفاً یا مرسلاً مروی ہے کہ بارہ سو دینار، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی مروی ہے، ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں بعض عرب قنطار کو بارہ سو کا بتاتے ہیں۔ بعض بارہ ہزار کا، سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں بیل کی کھال کے بھر جانے کے برابر سونے کو قنطار کہتے ہیں۔ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:2/115) یہ مرفوعاً بھی مروی ہے لیکن زیادہ صحیح موقوفاً ہے۔ گھوڑوں کی محبت تین قسم کی ہے، ایک تو وہ لوگ جو گھوڑوں کو پالتے ہیں اور اللہ کی راہ میں ان پر سوار ہو کر جہاد کرنے کیلئے نکلتے ہیں، ان کیلئے تو یہ بہت ہی اجر و ثواب کا سبب ہیں۔ دوسرے وہ جو فخر و غرور کے طور پر پالتے ہیں، ان کیلئے وبال ہے، تیسرے وہ جو سوال سے بچنے اور ان کی نسل کی حفاظت کیلئے پالتے ہیں اور اللہ کا حق نہیں بھولتے، یہ نہ اجر نہ عذاب کے مستحق ہیں۔ اسی مضمون کی حدیث آیت «وَأَعِدٰوا لَہُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّۃٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَیْلِ» ‏‏‏‏ (8-الأنفال:60) کی تفسیر میں آئے گی ان شاءاللہ۔ «مُسَوَّمَۃ» کے معنی چرنے والا ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:6/252) اور پنج کلیان (یعنی پیشانی اور چار قدموں پر نشان) وغیرہ کے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہر عربی گھوڑا فجر کے وقت اللہ کی اجازت سے دو دعائیں کرتا ہے، کہتا ہے اے اللہ جس کے قبضہ میں تو نے مجھے دیا ہے تو اس کے دِل میں اس کے اہل و مال سے زیادہ میری محبت دے، ۱؎ (مسند احمد:5/170:صحیح) «انعام» سے مراد اونٹ گائیں بکریاں ہیں۔ حرث سے مراد وہ زمین ہے جو کھیتی بونے یا باغ لگانے کیلئے تیار کی جائے، مسند احمد کی حدیث میں ہی انسان کا بہترین مال زیادہ نسل والا گھوڑا ہے اور زیادہ پھلدار درخت کھجور ہے۔ ۱؎ (مسند احمد:3/468:ضعیف) پھر فرمایا کہ یہ سب دنیاوی فائدہ کی چیزیں ہیں، یہاں کی زینت اور یہاں ہی کی دلکشی کے سامان ہیں جو فانی اور زوال پالنے والے ہیں، اچھی لوٹنے کی جگہ اور بہترین ثواب کا مرکز اللہ کے پاس ہے، مسند احمد میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا اے اللہ جبکہ تو نے اسے زینت دے دی تو اس کے بعد کیا؟ اس پر اس کے بعد والی آیت اتری کہ اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ ان سے کہہ دیجئیے کہ میں تمہیں اس سے بہترین چیزیں بتاتا ہوں، یہ تو ایک نہ ایک روز زائل ہونے والی ہیں اور میں جن کی طرف تمہیں بلا رہا ہوں وہ صرف دیرپا ہی نہیں بلکہ ہمیشہ رہنے والی ہیں۔ سنو اللہ سے ڈرنے والوں کیلئے جنت ہے جس کے کنارے کنارے اور جس کے درختوں کے درمیان قسم قسم کی نہریں بہہ رہی ہیں، کہیں شہد کی، کہیں دودھ کی، کہیں پاک شراب کی، کہیں نفیس پانی کی، اور وہ نعمتیں ہیں جو نہ کسی کان نے سنی ہوں نہ کسی آنکھ نے دیکھی ہوں نہ کسی دِل میں خیال بھی گزرا ہو، ان جنتوں میں یہ متقی لوگ ابدالآباد رہیں گے نہ یہ نکالے جائیں نہ انہیں دی ہوئی نعمتیں گم ہوں گی نہ فنا ہوں گی، پھر وہاں بیویاں ملیں گی جو میل کچیل سے خباثت اور برائی سے حیض اور نفاس سے گندگی اور پلیدی سے پاک ہیں، ہر طرح ستھری اور پاکیزہ، ان سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ کی رضا مندی انہیں حاصل ہو جائے گی اور ایسی کہ اس کے بعد ناراضگی کا کھٹکا ہی نہیں، اسی لیے سورۃ برات کی آیت میں فرمایا «وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللہِ أَکْبَرُ ذٰلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ» (9-التوبۃ:72) کی تھوڑی سی رضا مندی کا حاصل ہو جانا بھی سب سے بڑی چیز ہے، یعنی تمام نعمتوں سے اعلیٰ نعمت رضائے رب اور مرضی مولا ہے۔ تمام بندے اللہ کی نگاہ میں ہیں وہ بخوبی جانتا ہے کہ کون مہربانی کا مستحق ہے۔ آل عمران
15 آل عمران
16 متقیوں کا تعارف اللہ تعالیٰ اپنے متقی بندوں کے اوصاف بیان فرماتا ہے کہ وہ کہتے ہیں اے پروردگار ہم تجھ پر اور تیری کتاب پر اور تیرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے، ہمارے اس ایمان کے باعث جو تیری ذات اور تیری شریعت پر ہے تو ہمارے گناہوں کو اپنے فضل و کرم سے معاف فرما اور ہمیں جہنم کے عذاب سے نجات دے، یہ متقی لوگ اللہ کی اطاعت بجا لاتے ہیں اور حرام چیزوں سے الگ رہتے ہیں، صبر کے سہارے کام لیتے ہیں اور اپنے ایمان کے دعوے میں بھی سچے ہیں ۔ کل اچھے اعمال بجا لاتے ہیں خواہ وہ ان کے نفس کو کتنے بھاری پڑیں، اطاعت اور خشوع خضوع والے ہیں، اپنے مال اللہ کی راہ میں جہاں جہاں حکم ہے خرچ کرتے ہیں، صلہ رحمی میں رشتہ داری کا پاس رکھنے میں برائیوں کے روکنے آپس میں ہمدردی اور خیر خواہی کرنے میں حاجت مندوں، مسکینوں اور فقیروں کے ساتھ احسان کرنے میں سخاوت سے کام لیتے ہیں اور سحری کے وقت پچھلی رات کو اٹھ اٹھ کر استغفار کرتے ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ اس وقت استغفار افضل ہے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ قرآن کریم کی اس آیت میں یعقوب نے اپنے بیٹوں سے یہی فرمایا تھا کہ «سَوْفَ اَسْتَغْفِرُ لَکُمْ رَبِّیْ» ۱؎ (12-یوسف:98) میں ابھی تھوڑی دیر میں تمہارے لیے اپنے رب سے بخشش طلب کروں گا، اس سے مراد بھی سحری کا وقت ہے، اپنی اولاد سے فرماتے ہیں کہ سحری کے وقت میں تمہارے لیے استغفار کروں گا۔ بخاری و مسلم وغیرہ کی حدیث میں جو بہت سے صحابیوں سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان موجود ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہر رات آخری تہائی باقی رہتے ہوئے آسمان دنیا پر اترتا ہے اور فرماتا ہے کہ کوئی سائل ہے؟ جسے میں دوں، کوئی دعا مانگنے والا ہے کہ میں اس کی دعا قبول کروں، کوئی استغفار کرنے والا ہے کہ میں اسے بخشوں؟ (صحیح بخاری:1145) حافظ ابوالحسن دارقطنی رحمہ اللہ نے تو اس مسئلہ پر ایک مستقل کتاب لکھی ہے اور اس میں حدیث کی تمام سندوں کو اور اس کے کل الفاظ کو وارد کیا ہے۔ بخاری و مسلم میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اول رات درمیانی اور آخری رات میں وتر پڑھے ہیں، سب سے آخری وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر پڑھنے کا سحری تک تھا۔ (صحیح بخاری:996) سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما رات کو تہجد پڑھتے رہتے اور اپنے غلام نافع سے پوچھتے کیا سحر ہو گئی، جب وہ کہتے ہاں تو آپ صبح صادق کے نکلنے کی دعا استغفار میں مشغول رہتے ، (تفسیر ابن ابی حاتم:2/145) سیدنا حاطب رحمہ اللہ فرماتے ہیں سحری کے وقت میں نے سنا کہ کوئی شخص مسجد کے کسی گوشہ میں کہہ رہا ہے اے اللہ تو نے مجھے حکم کیا میں بجا لایا، یہ سحر کا وقت ہے مجھے بخش دے، میں نے دیکھا تو وہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تھے۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہمیں حکم کیا جاتا تھا کہ ہم جب تہجد کی نماز پڑھیں تو سحری کے آخری وقت ستر مرتبہ استغفار کریں اللہ سے بخشش کی دعا کریں۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:6754) آل عمران
17 آل عمران
18 اللہ وحدہ لاشریک اپنی وحدت کا خود شاہد اللہ تعالیٰ خود شہادت دیتا ہے بس اس کی شہادت کافی ہے وہ سب سے زیادہ سچا گواہ ہے، سب سے زیادہ سچی بات اسی کی ہے، وہ فرماتا ہے کہ تمام مخلوق اس کی غلام ہے اور اسی کی پیدا کی ہوئی ہے۔ اور اسی کی محتاج ہے، وہ سب سے بے نیاز ہے، الوہیت میں اللہ ہونے میں وہ یکتا اور لاشریک ہے، اس کے سوا کوئی پوجے جانے کے لائق نہیں ۔ جیسے فرمان ہے «لّٰکِنِ اللہُ یَشْہَدُ بِمَا أَنزَلَ إِلَیْکَ أَنزَلَہُ بِعِلْمِہِ وَالْمَلَائِکَۃُ یَشْہَدُونَ وَکَفَیٰ بِ اللہِ شَہِیدًا» (4-النساء:166) یعنی لیکن اللہ تعالیٰ بذریعہ اس کتاب کے جو وہ تیری طرف اپنے علم سے اتار رہا ہے، گواہی دے رہا ہے اور فرشتے بھی گواہی دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی شہادت کافی ہے، پھر اپنی شہادت کے ساتھ فرشتوں کی شہادت پر علماء کی گواہی کو ملا رہا ہے۔ یہاں سے علماء کی بہت بڑی فضیلت ثابت ہوتی ہے بلکہ خصوصیت۔ «قَائِمًا» کا نصب حال ہونے کی وجہ سے ہے وہ اللہ ہر وقت اور حال میں ایسا ہی ہے، پھر تاکیداً دوبارہ ارشاد ہوتا ہے کہ معبود حقیقی صرف وہی ہے، وہ غالب ہے، عظمت اور کبریائی والی اس کی بارگاہ ہے، وہ اپنے اقوال افعال اور شریعت قدرت و تقدیر میں حکمتوں والا ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات میں اس آیت کی تلاوت کی اور «‏‏‏‏الْحَکِیمُ» ‏‏‏‏تک پڑھ کر فرمایا «وَأَنَا عَلَی ذَلِکَ مِنَ الشَّاہِدِینَ یَا رَبِّ» ۔ ۱؎ (مسند احمد:1/166:ضعیف) ابن ابی حاتم میں ہے آپ نے یوں فرمایا «وأنا أشہد أی رَبِّ» ۱؎ (طبرانی:250،قال الشیخ زبیرعلی زئی:ضعیف) طبرانی میں ہے سیدنا غالب قطان رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں کوفے میں تجارتی غرض سے گیا اور سیدنا اعمش رحمہ اللہ کے قریب ٹھہرا، رات کو سیدنا اعمش رحمہ اللہ تہجد کیلئے کھڑے ہوئے پڑھتے پڑھتے جب اس آیت تک پہنچے اور «اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ» ‏‏‏‏ (3-آل عمران:19) پڑھا تو فرمایا «وانا اشھد بما شھد اللہ بہ واستودع اللہ ھذہ الشھادۃ وھی لی عند اللہ ودیعتہ» یعنی میں بھی شہادت دیتا ہوں اس کی جس کی شہادت اللہ نے دی اور میں اس شہادت کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں، یہ میری امانت اللہ کے پاس ہے۔ پھر کئی دفعہ «اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ» ‏‏‏‏(3-آل عمران:19) پڑھا، میں نے اپنے دِل میں خیال کیا کہ شاید اس بارے میں کوئی حدیث سنی ہو گی، صبح ہی صبح میں حاضر خدمت ہوا اور عرض کیا کہ ابومحمد رحمہ اللہ کیا بات تھی جو آپ اس آیت کو باربار پڑھتے رہے؟ کہا کیا اس کی فضیلت تمہیں معلوم نہیں؟ میں نے کہا میں تو مہینہ بھر سے آپ کی خدمت میں ہوں لیکن آپ نے حدیث بیان ہی نہیں کی، کہنے لگے اللہ کی قسم میں تو سال بھر تک بیان نہ کروں گا، اب میں اس حدیث کے سننے کی خاطر سال بھر تک ٹھہرا رہا اور ان کے دروازے پر پڑا رہا جب سال کامل گزر چکا تو میں نے کہا اے ابو محمد سال گزر چکا ہے سُن مجھ سے ابووائل نے حدیث بیان کی، اس نے عبداللہ سے سنا، وہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کے پڑھنے والے کو قیامت کے دن لایا جائے گا اور اللہ عزوجل فرمائے گا میرے اس بندے نے میرا عہد لیا ہے اور میں عہد کو پورا کرنے میں سب سے افضل و اعلیٰ ہوں، میرے اس بندے کو جنت میں لے جاؤ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:10453:ضعیف جداً) پھر اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے وہ صرف اسلام ہی کو قبول فرماتا ہے، اسلام ہر زمانے کے پیغمبر کی وحی کی تابعداری کا نام ہے، اور سب سے آخر اور سب رسولوں کو ختم کرنے والے ہمارے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، آپ کی نبوت کے بعد نبوت کے سب راستے بند ہو گئے اب جو شخص آپ کی شریعت کے سوا کسی چیز پر عمل کرے اللہ کے نزدیک وہ صاحب ایمان نہیں جیسے اور جگہ ہے «وَمَنْ یَّبْتَـغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یٰقْبَلَ مِنْہُ» (3-آل عمران:85) جو شخص اسلام کے سوا اور دین کی تلاش کرے وہ اس سے قبول نہیں کیا جائے گا، اسی طرح اس آیت میں دین کا انحصار اسلام میں کر دیا ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی قرأت میں «شَہِدَ اللہُ أَنَّہُ» ہے اور «إِنَّ الْإِسْلَامَُ» ‏‏‏‏ہے، تو معنی یہ ہوں گے، خود اللہ کی گواہی ہے اور اس کے فرشتوں اور ذی علم انسانوں کے نزدیک مقبول ہونے والا دین صرف اسلام ہی ہے، جمہور کی قرأت میں «إِنَّ» زیر کے ساتھ ہے اور معنی کے لحاظ سے دونوں ہی ٹھیک ہیں، لیکن جمہور کا قول زیادہ ظاہر ہے واللہ اعلم۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ پہلی کتاب والوں نے اپنے پاک اللہ کے پیغمبروں کے آنے اور اللہ کی کتابیں نازل ہونے کے بعد بھی اختلاف کیا، جس کی وجہ سے صرف ان کا آپس کا بغض و عناد تھا کہ میں اس کیخلاف ہی چلوں چاہے وہ حق پر ہی کیوں نہ ہو، پھر ارشاد ہے کہ جب اللہ کی آیتیں اتر چکی، اب جو ان کا انکار کرے انہیں نہ مانے تو اللہ تعالیٰ بھی اس سے اس کی تکذیب کا بہت جلد حساب لے گا اور کتاب اللہ کی مخالفت کی وجہ سے اسے سخت عذاب دے گا اور اسے اس کی اس شرارت کا لطف چکھائے گا۔ پھر فرمایا اگر یہ لوگ تجھ سے توحید باری تعالیٰ کے بارے میں جھگڑیں تو کہہ دو کہ میں تو خالص اللہ ہی کی عبادت کروں گا جس کا نہ کوئی شریک ہے نہ اس جیسا کوئی ہے، نہ اس کی اولاد ہے نہ بیوی اور جو میرے امتی ہیں میرے دین پر ہیں۔ ان سب کا قول بھی یہی ہے، جیسے اور جگہ فرمایا«قُلْ ہٰذِہٖ سَبِیْلِیْٓ اَدْعُوْٓا اِلَی اللّٰہِ عَلٰی بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ وَسُبْحٰنَ اللّٰہِ وَمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ» (12-یوسف:108)یعنی میری راہ یہی ہے میں خوب سوچ سمجھ کر دیکھ بھال کر تمہیں اللہ کی طرف بلا رہا ہوں، میں بھی اور میرے تابعدار بھی یہی دعوت دے رہے ہیں ۔ پھر حکم دیتا ہے کہ اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہود و نصاریٰ جن کے ہاتھوں میں اللہ کی کتاب ہے اور مشرکین سے جو اَن پڑھ ہیں کہہ دو کہ تم سب کی ہدایت اسلام میں ہی ہے اور اگر یہ نہ مانیں تو کوئی بات نہیں، آپ اپنا فرض تبلیغ ادا کر چکے، اللہ خود ان سے سمجھ لے گا، ان سب کو لوٹ کر اسی کے پاس جانا ہے وہ جسے سیدھا راستہ دکھائے جسے چاہے گمراہ کر دے، اپنی حکمت کو وہی خوب جانتا ہے اس کی حجت تو پوری ہو کر ہی رہتی ہے، اس کی اپنے بندوں پر نظر ہے «لَا یُسْأَلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَہُمْ یُسْأَلُونَ» (21-الأنبیاء:23) اسے خوب معلوم ہے کہ ہدایت کا مستحق کون ہے اور کون ضلالت کا مستحق ہے ؟ اس سے کوئی بازپرس نہیں کر سکتا۔ دوسری آیتوں میں بھی صاف صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام مخلوق کی طرف اللہ کے نبی بن کر آئے ہیں، اور خود آپ کے دین کے احکام بھی اس پر دلالت کرتے ہیں اور کتاب و سنت میں بھی بہت سی آیتیں اور حدیثیں اسی مفہوم کی ہیں، قرآن پاک میں ایک جگہ ہے «‏‏‏‏یٰٓاَیٰھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعَا» (7-الأعراف:158) لوگو میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔ اور آیت میں ہے «تَبٰرَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہٖ لِیَکُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرَا» (25-الفرقان:1) بابرکت ہے وہ اللہ جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل فرمایا تاکہ وہ تمام دنیا والوں کیلئے تنبیہ کرنے والا بن جائے۔ بخاری و مسلم وغیرہ میں کئی کئی واقعات سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب و عجم کے تمام بادشاہوں کو اور دوسرے اطراف کے لوگوں کو خطوط بھجوائے جن میں انہیں اللہ کی طرف آنے کی دعوت دی خواہ وہ عرب ہوں عجم ہوں اہل کتاب ہوں مذہب والے ہوں اور اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ کے فرض کو تمام و کمال تک پہنچا دیا۔ ۱؎ (صحیح بخاری:65) مسند عبدالرزاق میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اس امت میں سے جس کے کان میں میری نسبت کی آواز پہنچے اور وہ میری لائی ہوئی چیز پر ایمان نہ لائے خواہ یہودی ہو خواہ نصرانی ہو مگر مجھ پر ایمان لائے بغیر مر جائے گا تو قطعاً جہنمی ہو گا“ ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:153) مسلم شریف میں بھی یہ حدیث مروی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی ہے کہ میں ہر ایک سرخ و سیاہ کی طرف اللہ کا نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ ۱؎ (صحیح مسلم:521) ایک اور حدیث میں ہے ہر نبی صرف اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا رہا اور میں تمام انسانوں کیلئے نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:335) مسند احمد میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک یہودی لڑکا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے وضو کا پانی رکھا کرتا تھا اور جوتیاں لا کر رکھ دیتا تھا، بیمار پڑا گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی بیمار پرسی کیلئے تشریف لائے، اس وقت اس کا باپ اس کے سرہانے بیٹھا ہوا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے فلاں «‏‏‏‏لا الہٰ الا اللہ» ‏‏‏‏کہہ، اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا اور باپ کو خاموش دیکھ کر خود بھی خاموش ہو گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ یہی فرمایا اس نے پھر اپنے باپ کی طرف دیکھا باپ نے کہا ابوالقاسم کی مان لے صلی اللہ علیہ وسلم پس اس بچے نے کہا «اشھد ان لا الہٰ الا اللہ وانک رسول اللہ» وہاں سے یہ فرماتے ہوئے اٹھے کہ اللہ کا شکر ہے جس نے میری وجہ سے اسے جہنم سے بچا لیا ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5657) یہی حدیث صحیح بخاری میں سیدنا امام بخاری رحمہ اللہ بھی لائے ہیں، ان کے سوا اور بھی بہت سی صحیح حدیثیں بھی اور قرآن کریم کی آیتیں ہیں۔ آل عمران
19 آل عمران
20 آل عمران
21 انبیاء کے قاتل بنو اسرائیل یہاں ان اہل کتاب کی مذمت بیان ہو رہی ہے جو گناہ اور حرام کام کرتے رہتے تھے اور اللہ کی پہلی اور بعد کی باتوں کو جو اس نے اپنے رسولوں کے ذریعہ پہنچائیں جھٹلاتے رہتے تھے، اتنا ہی نہیں بلکہ پیغمبروں کو مار ڈالتے بلکہ اس قدر سرکش تھے کہ جو لوگ انہیں عدل و انصاف کی بات کہیں انہیں بیدریغ تہ تیغ کر دیا کرتے تھے، حدیث میں ہے حق کو نہ ماننا اور حق والوں کو ذلیل جاننا یہی کبر و غرور ہے ۱؎ (صحیح مسلم:91) مسند ابوحاتم میں ہے سیدنا ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ سب سے زیادہ سخت عذاب کسے ہو گا؟ آپ نے فرمایا : ” جو کسی نبی کو مار ڈالے یا کسی ایسے شخص کو جو بھلائی کا بتانے والا اور برائی سے بچانے والا “ ، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت فرمائی اور فرمایا ” اے ابوعبیدہ ! بنو اسرائیل نے تینتالیس نبیوں کو دن کے اول حصہ میں ایک ہی ساعت میں قتل کیا پھر ایک سو ستر بنو اسرائیل کے وہ ایماندار جو انہیں روکنے کے لیے کھڑے ہوئے تھے انہیں بھلائی کا حکم دے رہے تھے اور برائی سے روک رہے تھے ان سب کو بھی اسی دن کے آخری حصہ میں مار ڈالا اس آیت میں اللہ تعالیٰ انہی کا ذکر کر رہا ہے۔ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:2/162:ضعیف) ابن جریر میں ہے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔ بنو اسرائیل نے تین سو نبیوں کو دن کے شروع میں قتل کیا اور شام کو سبزی پالک بیچنے بیٹھ گئے، پس ان لوگوں کی اس سرکشی تکبر اور خود پسندی نے ذلیل کر دیا اور آخرت میں بھی رسوا کن بدترین عذاب ان کے لیے تیار ہیں، اسی لیے فرمایا کہ انہیں درد ناک ذلت والے عذاب کی خبر پہنچا دو، ان کے اعمال دنیا میں بھی غارت اور آخرت میں بھی برباد اور ان کا کوئی مددگار اور سفارشی بھی نہ ہو گا۔ آل عمران
22 آل عمران
23 جھوٹے دعوے یہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ یہود و نصاریٰ اپنے اس دعوے میں بھی جھوٹے ہیں کہ ان کا توراۃ و انجیل پر ایمان ہے کیونکہ ان کتابوں کی ہدایت کے مطابق جب انہیں اس نبی آخرالزمان کی اطاعت کی طرف بلایا جاتا ہے تو یہ منہ پھیر کے بھاگتے دکھائی دیتے ہیں، اس سے ان کی اعلیٰ درجہ کی سرکشی تکبر اور عناد و مخالفت ظاہر ہو رہی ہے، اس مخالفت حق اور بیجا سرکشی پر انہیں اس چیز نے دلیر کر دیا ہے کہ انہوں نے اللہ کی کتاب میں نہ ہونے کے باوجود اپنی طرف سے جھوٹ بنا کر کے یہ بات بنا لی ہے کہ ہم تو صرف چند روز ہی آگ میں رہیں گے یعنی فقط سات روز، دنیا کے حساب کے ہر ہزار سال کے پیچھے ایک دن، اس کی پوری تفسیر سورۃ البقرہ میں گذر چکی ہے، اسی واہی اور بےسروپا خیال نے انہیں باطل دین پر انہیں جما دیا ہے بلکہ یہ خود اللہ نے ایسی بات نہیں کہی ان کا خیال ہے نہ اس کی کوئی کتابی دلیل ان کے پاس ہے۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ انہیں ڈانٹتا اور دھمکاتا ہے اور فرماتا ہے ان کا قیامت والے دن بدتر حال ہو گا؟ کہ انہوں نے اللہ پر جھوٹ باندھا رسولوں کو جھٹلایا انبیاء کو اور علماء حق کو قتل کیا، ایک ایک بات کا اللہ کو جواب دینا پڑے گا اور ایک ایک گناہ کی سزا بھگتنی پڑے گی، اس دن کے آنے میں کوئی شک و شبہ نہیں اس دن ہر شخص پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور کسی پر بھی کسی طرح کا ظلم روانہ رکھا جائے گا۔ آل عمران
24 آل عمران
25 آل عمران
26 . اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے محمد [ صلی اللہ علیہ وسلم ] اپنے رب کی تعظیم کرنے اور اس کا شکریہ بجا لانے اور اسے اپنے تمام کام سونپنے اور اس کی ذات پاک پر پورے بھروسہ کا اظہار کرنے کے لیے ان الفاظ میں اس کی اعلیٰ صفات بیان کیجئے جو اوپر بیان ہوئی ہیں۔ یعنی اے اللہ تو مالک الملک ہے، تیری ملکیت میں تمام ملک ہے، جسے تو چاہے حکومت دے اور جس سے چاہے اپنا دیا ہوا واپس لے لے، تو ہی دینے اور لینے والا ہے تو جو چاہتا ہے ہو جاتا ہے اور جو نہ چاہے ہو ہی نہیں سکتا ۔ اس آیت میں اس بات کی بھی تنبیہہ اور اس نعمت کے شکر کا بھی حکم ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی امت کو مرحمت فرمائی گئی کہ بنی اسرائیل سے ہٹا کر نبوت نبی عربی قریشی امی مکی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دی گئی اور آپ کو مطلقاً نبیوں کے ختم کرنے والے اور تمام انس و جن کی طرف رسول بن کر آنے والے بنا کر بھیجا، تمام سابقہ انبیاءعلیہم السلام کی خوبیاں آپ میں جمع کر دیں بلکہ ایسی فضیلتیں آپ کو دی گئیں جن سے اور تمام انبیاء علیہم السلام بھی محروم رہے خواہ وہ اللہ کے علم کی بابت ہوں یا اس رب کی شریعت کے معاملہ میں ہوں یا گذشتہ اور آنے والی خبروں کے متعلق ہوں، آپ پر اللہ تعالیٰ نے آخرت کے کل حقائق کھول دئیے، آپ کی امت کو مشرق مغرب تک پھیلا دیا آپ کے دین اور آپ کی شریعت کو تمام دینوں اور کل مذہبوں پر غالب کر دیا، اللہ تعالیٰ کا درود و سلام آپ پر نازل ہو اب سے لے کر قیامت تک جب تک رات دن کی گردش باقی رہے اللہ آپ پر اپنی رحمتیں دوام کے ساتھ نازل فرماتا رہے۔ آمین پس فرمایا : کہو ! اے اللہ تو ہی اپنی خلق میں ہیر پھیر کرتا رہتا ہے جو چاہے کر گزرتا ہے، «وَقَالُوا لَوْلَا نُزِّلَ ہٰذَا الْقُرْآنُ عَلَیٰ رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْیَتَیْنِ عَظِیمٍ» (43-الزخرف:31) جو لوگ کہتے تھے کہ ان دو بستیوں میں سے کسی بہت بڑے شخص پر اللہ نے اپنا کلام کیوں نازل نہ کیا اس کی تردید کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا «أَہُمْ یَقْسِمُونَ رَحْمَتَ رَبِّکَ نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَہُم مَّعِیشَتَہُمْ فِی الْحَیَاۃِ الدٰنْیَا»۱ ؎ (43-الزخرف:32) کیا تیرے رب کی رحمت کو بانٹنے والے یہ لوگ ہیں، جب ان کے رزق تک کے مالک ہم ہیں جسے چاہیں کم دیں جسے چاہیں زیادہ دیں تو پھر ہم پر حکومت کرنے والے یہ کون؟ کہ فلاں کو نبی کیوں نہ بنایا؟ نبوت بھی ہماری ملکیت کی چیز ہے ہم ہی جانتے ہیں کہ اس کے دئیے جانے کے قابل کون ہے؟ جیسے اور جگہ ہے «اَللّٰہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ» (6-الأنعام:124) جہاں کہیں اللہ تعالیٰ اپنی رسالت نازل فرماتا ہے اسے وہی سب سے بہتر جانتا ہے۔ اور جگہ فرمایا «انظُرْ کَیْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَہُمْ عَلَیٰ بَعْضٍ (17-الإسراء:21) دیکھ لے کہ ہم نے کسی طرح ان میں آپس میں ایک کو دوسرے پر برتری دے رکھی ہے۔ پھر فرماتا ہے کہ تو ہی رات کی زیادتی کو دن کے نقصان میں بڑھا کر دن رات کو برابر کر دیتا ہے، زمین و آسمان پر سورج چاند پر پورا پورا قبضہ اور تمام تر تصرف تیرا ہی ہے، اسی طرح جاڑے کو گرمی اور گرمی کو جاڑے سے بدلنا بھی تیری قدرت میں ہے، بہارو خزاں پر قادر تو ہی ہے۔ تو ہی ہے کہ زندہ سے مردہ کو اور مردہ سے زندہ کو نکالے کھیتی سے دانے اگاتا ہے اور دانہ سے کھیتوں کو لہلہاتا ہے، کھجور گٹھلی سے اور گٹھلی کھجور سے تو ہی پیدا کرتا ہے مومن کو کافر کے ہاں اور کافر کو مومن کے ہاں تو ہی پیدا کرتا ہے، مرغی انڈے سے اور انڈا مرغی سے اور اسی طرح کی تمام تر چیزیں تیرے ہی قبضہ میں ہیں، تو جسے چاہے اتنا مال دے دے جو نہ گنا جائے نہ احاطہٰ کیا جائے اور جسے چاہے بھوک کے برابر روٹی بھی نہ دے، ہم مانتے ہیں کہ یہ کام حکمت سے پر ہیں اور تیرے ارادے اور تیری چاہت سے ہی ہوتے ہیں، طبرانی کی حدیث میں ہے اللہ کا اسم اعظم اس «قُلِ اللہُمَّ مَالِکَ الْمُلْکِ» میں ہے کہ جب اس نام سے اس سے دعا کی جائے تو وہ قبول فرما لیتا ہے۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:12796:ضعیف جداً) آل عمران
27 آل عمران
28 ترک موالات کی وضاحت یہاں اللہ تعالیٰ ترک موالات کا حکم دیتے ہوئے فرماتا ہے «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْکَافِرِینَ أَوْلِیَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِینَ أَتُرِیدُونَ أَن تَجْعَلُوا لِلہِ عَلَیْکُمْ سُلْطَانًا مٰبِینًا (4-النساء:144) مسلمانوں کو کفار سے دوستی اور محض محبت کرنا مناسب نہیں بلکہ انہیں آپس میں ایمان داروں سے میل ملاپ اور محبت رکھنی چاہیئے، پھر انہیں حکم سناتا ہے کہ جو ایسا کرے گا اس سے اللہ بالکل بیزار ہو جائے گا ۔ جیسے اور جگہ ہے «یٰٓاَیٰہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّیْ وَعَدُوَّکُمْ اَوْلِیَاءَ تُلْقُوْنَ اِلَیْہِمْ بِالْمَوَدَّۃِ» (60-الممتحنۃ:1) یعنی مسلمانوں میرے اور اپنے دشمنوں سے دوستی نہ کیا کرو ۔ اور جگہ فرمایا «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْیَہُودَ وَالنَّصَارَیٰ أَوْلِیَاءَ ۘ بَعْضُہُمْ أَوْلِیَاءُ بَعْضٍ وَمَن یَتَوَلَّہُم مِّنکُمْ فَإِنَّہُ مِنْہُمْ» (5-المائدۃ:51) مومنو یہ یہود و نصاریٰ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں تم میں سے جو بھی ان سے دوستی کرے گا وہ انہی میں سے ہے ۔ دوسری جگہ«وَالَّذِینَ کَفَرُوا بَعْضُہُمْ أَوْلِیَاءُ بَعْضٍ إِلَّا تَفْعَلُوہُ تَکُن فِتْنَۃٌ فِی الْأَرْضِ وَفَسَادٌ کَبِیرٌ» (8-الأنفال:73) پروردگار عالم نے مہاجر انصار اور دوسرے مومنوں کے بھائی چارے کا ذکر کر کے فرمایا کہ کافر آپس میں ایک دوسرے کے خیرخواہ اور دوست ہیں تم بھی آپس میں اگر ایسا نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ پھیل جائے گا اور زبردست فساد برپا ہو گا۔ البتہ ان لوگوں کو رخصت دے دی گئی جو کسی شہر میں کسی وقت ان کی بدی اور برائی سے ڈر کر دفع الوقتی کے لیے بظاہر کچھ میل ملاپ ظاہر کریں لیکن دل میں ان کی طرف رغبت اور ان سے حقیقی محبت نہ ہو، جیسے صحیح بخاری شریف میں سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم بعض قوموں سے کشادہ پیشانی سے ملتے ہیں لیکن ہمارے دل ان پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6131) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ صرف زبان سے اظہار کرے لیکن عمل میں ان کا ساتھ ایسے وقت میں بھی ہرگز نہ دے، یہی بات اور مفسرین سے بھی مروی ہے اور اسی کی تائید اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی کرتا ہے۔ «مَنْ کَفَرَ بِاللّٰہِ مِنْ بَعْدِ اِیْمَانِہٖٓ اِلَّا مَنْ اُکْرِہَ وَقَلْبُہٗ مُطْمَ بِالْاِیْمَانِ وَلٰکِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْہِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰہِ وَلَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ» ‏‏‏‏ (16-النحل:106) جو شخص اپنے ایمان کے بعد اللہ سے کفر کرے سوائے ان مسلمانوں کے جن پر زبردستی کی جائے مگر ان کا دل ایمان کے ساتھ مطمئن ہو۔ بخاری میں ہے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں یہ حکم قیامت تک کے لیے ہے۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6940) ۔ پھر فرمایا اللہ تمہیں اپنے آپ سے ڈراتا ہے۔ یعنی اپنے دبدبے اور اپنے عذاب سے اس شخص کو خبردار کئے دیتا ہے جو اس کے فرمان کی مخالفت کر کے اس کے دشمنوں سے دوستی رکھے اور اس کے دوستوں سے دشمنی کرے۔ پھر فرمایا اللہ کی طرف لوٹنا ہے ہر عمل کرنے والے کو اس کے عمل کا بدلہ وہیں ملے گا۔ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر فرمایا اے بنی اود! میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد ہو کر تمہاری طرف آیا ہوں جان لو کہ اللہ کی طرف پھر کر سب کو جانا ہے پھر یا تو جنت ٹھکانا ہو گا یا جہنم۔ آل عمران
29 اللہ تعالٰی سے ڈر ہمارے لئے بہتر ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ پوشیدہ کو اور چھپی ہوئی باتوں کو اور ظاہر باتوں کو بخوبی جانتا ہے کوئی چھوٹی سے چھوٹی بات بھی اس پر پوشیدہ نہیں اس کا علم سب چیزوں کو ہر وقت اور ہر لحظہ گھیرے ہوئے ہے۔ زمین کے گوشوں میں، پہاڑوں میں، سمندروں میں، آسمانوں میں، ہواؤں میں، سوراخوں میں، غرض جو کچھ جہاں کہیں ہے سب اس کے علم میں ہے پھر ان سب پر اس کی قدرت ہے جس طرح چاہے رکھے جو چاہے جزا سزا دے، پس اتنے بڑے وسیع علم والے اتنی بڑی زبردست قدرت والے سے ہر شخص کو ڈرتے ہوئے رہنا چاہیئے۔ اس کی فرمانبرداری میں مشغول رہنا چاہیئے اور اس کی نافرمانیوں سے علیحدہ رہنا چاہیئے، وہ عالم بھی ہے اور قادر بھی ہے ممکن ہے کسی کو ڈھیل دیدے لیکن جب پکڑے گا تب دبوچ لے گا پھر نہ مہلت ملے گی نہ رخصت، ایک دن آنے والا ہے جس دن تمام عمر کے برے بھلے سب کام سامنے رکھ دئیے جائیں گے، نیکیوں کو دیکھ کر خوشی ہو گی اور برائیوں پر نظریں ڈال کر دانت پیسے گا اور حسرت و افسوس کرے گا اور چاہے گا کہ میں ان سے کوسوں دور رہتا اور پرے ہی پرے رہتا ۔ قرآن نے اور جگہ فرمایا «یُنَبَّأُ الْإِنسَانُ یَوْمَئِذٍ بِمَا قَدَّمَ وَأَخَّرَ» (75-القیامۃ:13) سب گزری ہوئی باتیں اس دن پیش کر دی جائیں گی، شیطان جو اس کے ساتھ دنیا میں رہتا تھا اور اسے برائیوں پر اکساتا تھا اس سے بھی اس دن بیزاری کرے گا اور کہے گا «یَا لَیْتَ بَیْنِی وَبَیْنَکَ بُعْدَ الْمَشْرِقَیْنِ فَبِئْسَ الْقَرِینُ» (43-الزخرف:38) کیا اچھا ہوتا کہ اے شیطان میرے اور تیرے درمیان مشرق و مغرب کا فاصلہ ہوتا وہ تو بڑا برا ساتھی ہے ۔ پھر فرمایا اللہ تمہیں اپنے یعنی اپنے عذاب سے ڈرا دھمکا رہا ہے، پھر اللہ تعالیٰ جل جلالہ اپنے نیک بندوں کو خوشخبری دیتا ہے کہ وہ اس کے لطف و کرم سے کبھی ناامید نہ ہوں وہ نہایت ہی مہربان بہت رحم اور پیار رکھنے والا ہے ۔ امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ بھی اس کی سراسر مہربانی و لطف و محبت ہے کہ اس نے اپنے سے نہیں بلکہ اپنے عذاب سے اپنے بندوں کو ڈرایا، ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:6/202) یہ بھی مطلب ہے کہ اللہ اپنے بندوں پر رحیم بندوں کو بھی چاہے کہ صراط مستقیم سے قدم نہ ہٹائیں دین پاک کو نہ چھوڑیں رسول اللہ کی فرمانبرداری سے منہ نہ موڑیں۔ آل عمران
30 آل عمران
31 جھوٹا دعویٰ اس آیت نے فیصلہ کر دیا جو شخص اللہ کی محبت کا دعویٰ کرے اور اس کے اعمال افعال عقائد فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق نہ ہوں، طریقہ محمد یہ پر وہ کار بند نہ ہو تو وہ اپنے اس دعوے میں جھوٹا ہے ۔ حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص کوئی ایسا عمل کرے جس پر ہمارا حکم نہ ہو وہ مردود ہے ، اسی لیے یہاں بھی ارشاد ہوتا ہے کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھنے کے دعوے میں سچے ہو تو میری سنتوں پر عمل کرو اس وقت تمہاری چاہت سے زیادہ اللہ تمہیں دے گا یعنی وہ خود تمہارا چاہنے والابن جائے گا ۔ جیسے کہ بعض حکیم علماء نے کہا ہے کہ تیرا چاہنا کوئی چیز نہیں لطف تو اس وقت ہے کہ اللہ تجھے چاہنے لگ جائے ۔ غرض اللہ کی محبت کی نشانی یہی ہے کہ ہر کام میں اتباع سنت مدنظر ہو ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دین صرف اللہ کے لیے محبت اور اسی کے لیے دشمنی کا نام ہے ، پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی ، لیکن یہ حدیث سنداً منکر ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ حدیث پر چلنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ تمہارے تمام تر گناہوں کو بھی معاف فرما دے گا۔ پھر ہر عام خاص کو حکم ملتا ہے کہ سب اللہ و رسول کے فرماں بردار رہیں جو نافرمان ہو جائیں یعنی اللہ رسول کی اطاعت سے ہٹ جائیں تو وہ کافر ہیں اور اللہ ان سے محبت نہیں رکھتا ۔ اس سے واضح ہو گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کی مخالفت کفر ہے، ایسے لوگ اللہ کے دوست نہیں ہو سکتے گو ان کا دعویٰ ہو، لیکن جب تک اللہ کے سچے نبی امی خاتم الرسل رسول جن و بشر کی تابعداری پیروی اور اتباع سنت نہ کریں وہ اپنے اس دعوے میں جھوٹے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو وہ ہیں کہ اگر آج انبیاء اور رسول بلکہ بہترین اور اولوالعزم پیغمبر بھی زندہ ہوتے تو انہیں بھی آپ کے مانے بغیر اور آپ کی شریعت پر کاربند ہوئے بغیر چارہ ہی نہ تھا، اس کا بیان تفصیل کے ساتھ «‏‏‏‏وَاِذْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ» (3-آل عمران:81)کی تفسیر میں آئے گا۔ «ان شاءاللہ تعالیٰ» آل عمران
32 آل عمران
33 سب سے پہلے نبی یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان بزرگ ہستیوں کو تمام جہان پر فضیلت عنایت فرمائی، سیدنا آدم علیہ السلام کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا۔ اپنی روح ان میں پھونکی ہرچیز کے نام انہیں بتلائے، جنت میں انہیں بسایا پھر اپنی حکمت کے اظہار کے لیے زمین پر اتارا، جب زمین پر بت پرستی قائم ہو گئی توسیدنا نوح علیہ السلام کو سب سے پہلا رسول بنا کر بھیجا پھر جب ان کی قوم نے سرکشی کی پیغمبر کی ہدایت پر عمل نہ کیا، سیدنا نوح علیہ السلام نے دن رات پوشیدہ اور ظاہر اللہ کی طرف دعوت دی لیکن قوم نے ایک نہ سنی توسیدنا نوح علیہ السلام کے فرماں برداروں کے سوا باقی سب کو پانی کے عذاب یعنی مشہور طوفان نوح بھیج کر ڈبو دیا۔ خاندان خلیل اللہ علیہ صلوات اللہ کو اللہ تعالیٰ نے برگزیدگی عنایت فرمائی اسی خاندان میں سے سیدالبشر خاتم الانبیاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، عمران کے خاندان کو بھی اس نے منتخب کر لیا، عمران نام ہے مریم کے والد صاحب کا جو عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ ہیں، ان کا نسب نامہ بقول محمد بن اسحاق یہ ہے، عمران بن ہاشم بن امون بن میثابن خرقیابن اخریق بن موثم بن عزار یا بن امیصا بن یاوش بن اجریھو بن یازم بن یھفا شاط بن ایشابن ایان بن رخیعم بن سلیمان بن داؤد علیہما السلام، پس عیسیٰ علیہ السلام بھی ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے ہیں اس کا مفصل بیان سورۃ الانعام کی تفسیر میں آئے گا۔ «ان شاءاللہ الرحمن» آل عمران
34 آل عمران
35 مریم بنت عمران علیہا السلام عمران کی بیوی صاحبہ کا نام حسنہ بنت فاقوذ تھا سیدہ مریم علیہما السلام کی والدہ تھیں محمد اسحاق رحمہ اللہ فرماتے ہیں انہیں اولاد نہیں ہوتی تھی ایک دن ایک چڑیا کو دیکھا کہ وہ اپنے بچوں کو چوغہ دے رہی ہے تو انہیں ولولہ اٹھا اور اللہ تعالیٰ سے اسی وقت دعا کی اور خلوص کے ساتھ اللہ کو پکارا، اللہ تعالیٰ نے بھی ان کی دعا قبول فرما لی اور اسی رات انہیں حمل ٹھہر گیا جب حمل کا یقین ہو گیا تو نذر مانی کہ اللہ تعالیٰ مجھے جو اولاد دے گا اسے بیت المقدس کی خدمت کے لیے اللہ کے نام پر آزاد کر دوں گی، پھر اللہ سے دعا کی کہ پروردگار تو میری اس مخلصانہ نذر کو قبول فرما تو میری دعا کو سن رہا ہے اور تو میری نیت کو بھی خوب جان رہا ہے، اب یہ معلوم نہ تھا لڑکا ہو گا یا لڑکی جب بچہ پیدا ہوا تو دیکھا کہ وہ لڑکی ہے اور لڑکی تو اس قابل نہیں کہ وہ مسجد مقدس کی خدمت انجام دے سکے اس کے لیے تو لڑکا ہونا چاہیئے تو عاجزی کے طور پر اپنی مجبوری جناب باری میں ظاہر کی کہ اے اللہ میں تو اسے تیرے نام پر وقف کر چکی تھی لیکن مجھے تو لڑکی ہوئی ہے، «وَ اللہُ أَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ» بھی پڑھا گیا یعنی یہ قول بھی سیدہ حنہ کا تھا کہ اللہ خوب جانتا ہے کہ میرے ہاں لڑکی ہوئی اور ”تا“ کے جزم کے ساتھ بھی آیا ہے، یعنی اللہ کا یہ فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ کو بخوبی معلوم ہے کہ کیا اولاد ہوئی ہے، اور فرماتی ہے کہ مرد عورت برابر نہیں، میں اس کا نام مریم رکھتی ہوں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جس دن بچہ ہوا اسی دن نام رکھنا بھی جائز ہے، کیونکہ ہم سے پہلے لوگوں کی شریعت ہماری شریعت ہے اور یہاں یہ بیان کیا گیا اور تردید نہیں کی گئی بلکہ اسے ثابت اور مقرر رکھا گیا ۔ اسی طرح حدیث شریف میں بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آج رات میرے ہاں لڑکا ہوا اور میں نے اس کا نام اپنے باپ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے نام پر ابراہیم رکھا ملاحظہ ہو بخاری مسلم، ۱؎ (صحیح مسلم:2315) انس بن مالک رضی اللہ عنہ اپنے بھائی کو جبکہ وہ تولد ہوئے لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ نے انہیں اپنے ہاتھ سے گھٹی دی اور ان کا نام عبداللہ رکھا، یہ حدیث بھی بخاری و مسلم میں موجود ہے۱؎(صحیح بخاری:5470) ایک اور حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے آ کر کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں رات کو بچہ ہوا ہے کیا نام رکھوں؟ فرمایا عبدالرحمٰن نام رکھو ۱؎ (صحیح بخاری:6189) ۔ ایک اور صحیح حدیث میں ہے کہ سیدنا ابواسید رضی اللہ عنہ کے ہاں بچہ ہوا جسے لے کر آپ حاضر خدمت نبوی ہوئے تاکہ آپ اپنے دست مبارک سے اس بچے کو گھٹی دیں آپ اور طرف متوجہ ہو گئے بچہ کا خیال نہ رہا۔ ابواسید رضی اللہ عنہ نے بچے کو واپس گھر بھیج دیا جب آپ فارغ ہوئے بچے کی طرف نظر ڈالی تو اسے نہ پایا گھبرا کر پوچھا اور معلوم کر کے کہا اس کا نام منذر رکھو (یعنی ڈرا دینے والا) ۱؎ (صحیح بخاری:6191) ۔ مسند احمد اور سنن میں ایک اور حدیث مروی ہے جسے امام ترمذی صحیح کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر بچہ اپنے عقیقہ میں گروی ہے ساتویں دن عقیقہ کرے یعنی جانور ذبح کرے اور نام رکھے، اور بچہ کا سر منڈوائے ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2837،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ۔ ایک روایت میں ہے اور خون بہایا جائے ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2837،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اور یہ زیادہ ثبوت والی اور زیادہ حفظ والی روایت ہے واللہ اعلم، ۔ لیکن زبیر بن بکار کی روایت جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صاحبزادے ابراہیم کا عقیقہ کیا اور نام ابراہیم رکھا یہ حدیث سنداً ثابت نہیں اور صحیح حدیث اس کے خلاف موجود ہے اور یہ تطبیق بھی ہو سکتی ہے کہ اس نام کی شہرت اس دن ہوئی ۔ «واللہ اعلم» مریم علیہما السلام کی والدہ صاحبہ پھر اپنی بچی کو اور اس کی ہونے والی اولاد کو شیطان کے شر سے اللہ کی پناہ میں دیتی ہیں اللہ تعالیٰ نے ام مریم ڑجی اللہ عنہما کی اس دعا کو قبول فرمایا ۔ چنانچہ مسند عبدالرزاق میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہر بچے کو شیطان اس کی پیدائش کے وقت ٹہوکا دیتا ہے اسی سے وہ چیخ کر رونے لگتا ہے لیکن مریم اور عیسیٰ اس سے بچے رہے، اس حدیث کو بیان فرما کر ابوہریرہ فرماتے ہیں اگر تم چاہو تو اس آیت کو پڑھ لو «وَاِنِّیْٓ اُعِیْذُھَابِکَ وَذُرِّیَّتَہَا مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ» (3-آل عمران:36) یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی موجود ہے ۔ یہ حدیث اور بھی بہت سی کتابوں میں مختلف الفاظ سے مروی ہے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4548) کسی میں ہے ایک یا دو دھچکے مارتا ہے۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:6887) ایک حدیث میں صرف عیسیٰ علیہ السلام کا ہی ذکر ہے کہ شیطان نے انہیں بھی دھچکا مارنا چاہا لیکن انہیں دیا ہوا ٹہوکا پردے میں لگ کر رہ گیا۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3286) آل عمران
36 آل عمران
37 زکریا علیہ السلام کا تعارف اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ حنہ کی نذر کو اللہ تعالیٰ نے بخوشی قبول فرما لیا اور اسے بہترین طور سے نشوونما بخشی، ظاہری خوبی بھی عطا فرمائی اور باطنی خوبی سے بھرپور کر دیا اور اپنے نیک بندوں میں ان کی پرورش کرائی تاکہ علم اور خیر اور دین سیکھ لیں، زکریا علیہ السلام کو ان کا کفیل بنا دیا ۔ ابن اسحاق رحمہ اللہ تو فرماتے ہیں یہ اس لیے کہ مریم علیہما السلام یتیم ہو گئی تھیں، لیکن دوسرے بزرگ فرماتے ہیں کہ قحط سالی کی وجہ سے ان کی کفالت کا بوجھ زکریا علیہ السلام نے اپنے ذمہ لے لیا تھا، ہو سکتا ہے کہ دونوں وجوہات اتفاقاً آپس میں مل گئی ہوں ۔ «واللہ اعلم» ابن اسحاق وغیرہ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ زکریا علیہ السلام ان کے خالو تھے، اور بعض لوگ کہتے ہیں ان کے بہنوئی تھے، جیسے معراج والی صحیح حدیث میں ہے کہ آپ نے یحییٰ اور عیسیٰ علیہم السلام سے ملاقات کی جو دونوں خالہ زاد بھائی ہیں۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3887) ۔ ابن اسحاق کے قول پر یہ حدیث ٹھیک ہے کیونکہ اصطلاح عرب میں ماں کی خالہ کے لڑکے کو بھی خالہ زاد بھائی کہہ دیتے ہیں پس ثابت ہوا کہ مریم اپنی خالہ کی پرورش میں تھیں۔ صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حمزہ رضی اللہ عنہ کی یتیم صاحبزادی عمرہ کو ان کی خالہ جعفر بن ابوطالب رضی اللہ عنہا کی بیوی صاحبہ کے سپرد کیا تھا اور فرمایا تھا کہ خالہ قائم مقام ماں کے ہے۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2699) ۔ اب اللہ تعالیٰ مریم رضی اللہ عنہما کی بزرگی اور ان کی کرامت بیان فرماتا ہے کہ زکریا علیہ السلام جب کبھی ان کے پاس ان کے حجرے میں جاتے تو بے موسمی میوے ان کے پاس پاتے مثلاً جاڑوں میں گرمیوں کے میوے اور گرمیوں میں جاڑے کے میوے۔ مجاہد، عکرمہ، سعید بن جبیر، ابوالشعشاء، ابراہیم نخعی، ضحاک، قتادہ، ربیع بن انس، عطیہ عوفی، سدی رحمہ اللہ علیہم اس آیت کی تفسیر میں یہی فرماتے ہیں ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:2/227) مجاہد رحمہ اللہ سے یہ بھی مروی ہے کہ یہاں رزق سے مراد علم اور وہ صحیفے ہیں جن میں علمی باتیں ہوتی تھیں لیکن اول قول ہی زیادہ صحیح ہے ۔ اس آیت میں اولیاء اللہ کی کرامات کی دلیل ہے اور اس کے ثبوت میں بہت سی حدیثیں بھی آتی ہیں۔ زکریا علیہ السلام ایک دن پوچھ بیٹھے کہ مریم تمہارے پاس یہ رزق کہاں سے آتا ہے؟ صدیقہ نے جواب دیا کہ اللہ کے پاس سے، وہ جسے چاہے بےحساب روزی دیتا ہے ۔ مسند حافظ ابویعلیٰ میں حدیث ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کئی دن بغیر کچھ کھائے گزر گئے بھوک سے آپ کو تکلیف ہونے لگی اپنی سب بیویوں کے گھر ہو آئے لیکن کہیں بھی کچھ نہ پایا۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور دریافت فرمایا کہ بچی تمہارے پاس کچھ ہے؟ کہ میں کھا لوں مجھے بہت بھوک لگ رہی ہے، وہاں سے بھی یہی جواب ملا کہ اے اللہ کے رسول کچھ بھی نہیں ، اللہ کے نبی «اللھم صلی وسلم علیہ» وہاں سے نکلے ہی تھے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی لونڈی نے دو روٹیاں اور ٹکڑا گوشت فاطمہ کے پاس بھیجا آپ نے اسے لے کر برتن میں رکھ لیا اور فرمانے لگیں گو مجھے، میرے خاوند اور بچوں کو بھوک ہے لیکن ہم سب فاقے ہی سے گزار دیں گے اور اللہ کی قسم آج تو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو دوں گی، پھر حسن یا حسین کو آپ کی خدمت میں بھیجا کہ آپ کو بلا لائیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم راستے ہی میں ملے اور ساتھ ہو لیے، آپ آئے تو کہنے لگیں میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں اللہ نے کچھ بھجوا دیا ہے جسے میں نے آپ کے لیے چھپا کر رکھ دیا ہے، آپ نے فرمایا میری پیاری بچی لے آؤ، اب جو طشت کھولا تو دیکھتی ہے کہ روٹی سالن سے ابل رہا ہے دیکھ کر حیران ہو گئیں لیکن فوراً سمجھ گئیں کہ اللہ کی طرف سے اس میں برکت نازل ہو گئی ہے، اللہ کا شکر کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ پر درود پڑھا اور آپ کے پاس لا کر پیش کر دیا آپ نے بھی اسے دیکھ کر اللہ کی تعریف کی اور دریافت فرمایا کہ بیٹی یہ کہاں سے آیا؟ جواب دیا کہ ابا جان اللہ کے پاس سے وہ جسے چاہے بیحساب روزی دے، آپ نے فرمایا اللہ کا شکر ہے کہ اے پیاری بچی تجھے بھی اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی تمام عورتوں کی سردار جیسا کر دیا ۔ انہیں جب کبھی اللہ تعالیٰ کوئی چیز عطا فرماتا اور ان سے پوچھا جاتا تو یہی جواب دیا کرتی تھیں کہ اللہ کے پاس سے ہے اللہ جسے چاہے بےحساب رزق دیتا ہے، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو بلایا اور آپ نے علی رضی اللہ عنہ نے اور فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اور حسین رضی اللہ عنہ نے اور آپ کی سب ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن اور اہل بیت نے خوب شکم سیر ہو کر کھایا پھر بھی اتنا ہی باقی رہا جتنا پہلے تھا جو آس پاس کے پڑوسیوں کے ہاں بھیجا گیا یہ خیر کثیر اور برکت اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھی۔ ۱؎ (الدار االمسشور اللسیوطی:2/36:ضعیف جداً) آل عمران
38 حاصل دعا یحییٰ علیہ السلام سیدنا زکریا علیہ السلام نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ سیدہ مریم علیہما السلام کو بے موسم میوہ دیتا ہے جاڑوں میں گرمیوں کے پھل اور گرمی میں جاڑوں کے میوے ان کے پاس رکھے رہتے ہیں تو باوجود اپنے پورے بڑھاپے کے اور باوجود اپنی بیوی کے بانجھ ہونے کے علم کے آپ بھی بے موسم میوہ یعنی نیک اولاد طلب کرنے لگے ، اور چونکہ یہ طلب بظاہر ایک ناممکن چیز کی طلب تھی اس لیے نہایت پوشیدگی سے یہ دعا مانگی جیسے اور جگہ ہے «نِدَآءً خَفِیًّا» (19-مریم:3) یہ اپنے عبادت خانے میں ہی تھے جو فرشتوں نے انہیں آواز دی اور انہیں سنا کر کہا کہ آپ کے ہاں ایک لڑکا ہو گا جس کا نام یحییٰ علیہ السلام رکھنا ، ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا کہ یہ بشارت ہماری طرف سے نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے ہے ۔ یحییٰ نام کی وجہ یہ ہے کہ ان کی حیاۃ ایمان کے ساتھ ہو گی ،(تفسیر ابن ابی حاتم:235/2) ۱؎ وہ اللہ کے کلمہ کے یعنی سیدنا عیسیٰ بن مریم کی تصدیق کریں گے ، سیدنا ربیع بن انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں سب سے پہلے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت کو تسلیم کرنے والے بھی سیدنا یحییٰ علیہ السلام ہیں ، جو سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی روش اور آپ کے طریق پر تھے ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ دونوں خالہ زاد بھائی تھے ۔ سیدنا یحییٰ علیہ السلام کی والدہ مریم علیہ السلام سے اکثر ذکر کیا کرتی تھیں کہ میں اپنے پیٹ کی چیز کو تیرے پیٹ کی چیز کو سجدہ کرتی ہوئی پاتی ہوں ، یہ تھی یحییٰ علیہ السلام کی تصدیق دنیا میں آنے سے پیشتر سب سے پہلے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی سچائی کو انہوں نے ہی پہچانا یہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام سے عمر میں بڑے تھے ۔ سید کے معنی حلیم ، بردبار ، علم و عبادت میں بڑھا ہوا ، متقی ، پرہیزگار ، فقیہ ، عالم ، خلق و دین میں سب سے افضل جسے غصہ اور غضب مغلوب نہ کر سکے ، شریف اور کریم کے ہیں ، «حصور» کے معنی ہیں جو عورتوں کے پاس نہ آ سکے جس کے ہاں نہ اولاد ہو نہ جس میں شہوت کا پانی ہو ، اس معنی کی ایک مرفوع حدیث بھی ابن ابی حاتم میں ہے ، کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ لفظ تلاوت کر کے زمین سے کچھ اٹھا کر فرمایا اس کا عضو اس جیسا تھا (تفسیر ابن ابی حاتم:246/2:ضعیف) ۱؎ ، سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں کہ ساری مخلوق میں صرف سیدنا یحییٰ علیہ السلام ہی اللہ سے بےگناہ ملیں گے پھر آپ نے یہ الفاظ پڑھے اور زمین سے کچھ اٹھایا اور فرمایا حصور اسے کہتے ہیں جس کا عضو اس جیسا ہو ، اور سیدنا یحییٰ بن سعید قطان نے اپنی کلمہ کی انگلی سے اشارہ کیا ، یہ روایت جو مرفوع بیان ہوئی ہے اس کی حوالے سے اس موقوف کی سند زیادہ صحیح ہے ، اور مرفوع روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کپڑے کے پھندے کی طرف اشارہ کر کے فرمایا ایسا تھا ، اور روایت میں یہ بھی ہے کہ آپ نے زمین سے ایک مرجھایا ہوا تنکا اٹھا کر اس کی طرف اشارہ کر کے یہی فرمایا ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:6977: ضعیف) ۱؎ اس کے بعد سیدنا زکریا علیہ السلام کو دوسری بشارت دی جاتی ہے کہ تمہارا لڑکا نبی ہو گا یہ بشارت پہلی خوشخبری سے بھی بڑھ گئی ، جب بشارت آ چکی تب زکریا کو خیال پیدا ہوا کہ بظاہر اسباب سے تو اس کا ہونا محال ہے تو کہنے لگے اللہ میری ہاں بچہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ میں بوڑھا ہوں میری بیوی بالکل بانجھ ، فرشتے نے اسی وقت جواب دیا کہ اللہ کا امر سب سے بڑا ہے اس کے پاس کوئی چیز ان ہونی نہیں ، نہ اسے کوئی کام کرنا مشکل نہ، وہ کسی کام سے عاجز ، اس کا ارادہ ہو چکا وہ اسی طرح کرے گا ، اب سیدنا زکریا علیہ السلام اللہ سے اس کی علامت طلب کرنے لگے تو ذات باری سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے اشارہ کیا گیا کہ نشان یہ ہے کہ تو تین دن تک لوگوں سے بات نہ کر سکے گا ، رہے گا تندرست صحیح سالم لیکن زبان سے لوگوں سے بات چیت نہ کی جائے گی صرف اشاروں سے کام لینا پڑے گا ، جیسے اور جگہ ہے«ثَلٰثَ لَیَالٍ سَوِیًّا » (19-مریم:10) یعنی تین راتیں تندرستی کی حالت پھر حکم دیا کہ اس حال میں تمہیں چاہیئے کہ ذکر اور تکبیر اور تسبیح میں زیادہ مشغول رہو ، صبح شام اسی میں لگے رہو ، اس کا دوسرا حصہ اور پورا بیان تفصیل کے ساتھ سورۃ مریم کے شروع میں آئے گا ، ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ آل عمران
39 آل عمران
40 یحییٰ علیہ السلام، ایک معجزہ اس کے بعد زکریا علیہ السلام کو دوسری بشارت دی جاتی ہے کہ تمہارا لڑکا نبی ہو گا ۔ یہ بشارت پہلی خوشخبری سے بھی بڑھ گئی ۔ جب بشارت آ گئی تو زکریا علیہ السلام کو خیال پیدا ہوا کہ بظاہر اسباب سے تو اس کا ہونا محال ہے تو کہنے لگے کہ اے اللہ ! میرے ہاں بچہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ میں بوڑھا ہوں ، میری بیوی بالکل بانجھ ، فرشتے نے اسی وقت جواب دیا کہ اللہ کا امر سب سے بڑا ہے ۔ اس کے پاس کوئی چیز ان ہونی نہیں ، نہ اسے کوئی کام کرنا مشکل، نہ وہ کسی کام سے عاجز ، اس کا ارادہ ہو چکا وہ اسی طرح کرے گا ، اب سیدنا زکریا علیہ السلام اللہ سے اس کی علامت طلب کرنے لگے تو ذات باری سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے اشارہ کیا گیا نشان یہ ہے کہ تو تین دن تک لوگوں سے بات نہ کر سکے گا ، رہے گا تندرست صحیح سالم لیکن زبان سے لوگوں سے بات چیت نہ کی جائے گی صرف اشاروں سے کام لینا پڑے گا ، جیسے اور جگہ ہے «ثَلَـثَ لَیَالٍ سَوِیّاً» (19-مریم:10) یعنی تین راتیں تندرستی کی حالت پھر حکم دیا کہ اس حال میں تمہیں چاہیئے کہ ذکر اور تکبیر اور تسبیح میں زیادہ مشغول رہو ، صبح شام اسی میں لگے رہو ، اس کا دوسرا حصہ اور پورا بیان تفصیل کے ساتھ سورۃ مریم کے شروع میں آئے گا ، ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ آل عمران
41 آل عمران
42 تین افضل ترین عورتیں یہاں بیان ہو رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے مریم علیہما السلام کو فرشتوں نے خبر پہنچائی کہ اللہ نے انہیں ان کی کثرت عبادت ، ان کی دنیا کی بے رغبتی، ان کی شرافت اور شیطانی وسواس سے دوری کی وجہ سے اپنے قرب خاص عنایت فرما دیا ہے ، اور تمام جہان کی عورتوں پر انہیں خاص فضیلت دے رکھی ہے ، صحیح مسلم شریف وغیرہ میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنتی عورتیں اونٹ پر سوار ہونے والیاں ہیں ان میں سے بہتر عورتیں قریش کی ہیں جو اپنے چھوٹے بچوں پر بہت ہی شفقت اور پیار کرنے والی اور اپنے خاوند کی چیزوں کی پوری حفاظت کرنے والی ہیں ، سیدہ مریم بنت عمران اونٹ پر کبھی سوار نہیں ہوئیں (صحیح مسلم:2527) ۱؎ ، بخاری و مسلم کی ایک حدیث میں ہے عورتوں میں سے بہتر عورت سیدہ مریم بنت عمران ہیں اور عورتوں میں سے بہتر عورت خدیجہ بنت خویلد ہیں رضی اللہ عنہا (صحیح بخاری:3432) ۱؎ ترمذی کی صحیح حدیث میں ہے ساری دنیا کی عورتوں میں سے بہتر مریم بنت عمران ، خدیجہ بنت خویلد ، فاطمہ بنت محمد ، آسیہ فرعون کی بیوی ہیں رضی اللہ عنھن (سنن ترمذی:3878،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ۱؎ اور حدیث میں ہے یہ چاروں عورتیں تمام عالم کی عورتوں سے افضل اور بہتر ہیں (تفسیر ابن جریر الطبری:7025:صحیح بالشواھد) ۱؎ اور حدیث میں ہے مردوں میں سے کامل مرد بہت سے ہیں لیکن عورتوں میں کمال والی عورتیں صرف تین ہیں ، مریم بنت عمران ، آسیہ فرعون کی بیوی اور خدیجہ بنت خویلدرضی اللہ عنھمن اور عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت عورتوں پر ایسی ہے جیسے ثرید یعنی گوشت کے شوربے میں بھگوئی ہوئی روٹی کی تمام کھانوں پر (صحیح بخاری:3411) ۱؎ یہ حدیث ابوداؤد کے علاوہ اور سب کتابوں میں ہے ، صحیح بخاری شریف کی اس حدیث میں سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کا ذکر نہیں ، میں نے اس حدیث کی تمام سندیں اور ہر سند کے الفاظ اپنی کتاب البدایہ والنہایہ میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے ذکر میں جمع کر دئیے ہیں «وللہ الحمد والمنۃ» پھر فرشتے فرماتے ہیں کہ اے مریم رضی اللہ عنہا تو خشوع و خضوع رکوع و سجود میں رہا کر اللہ تبارک وتعالیٰ تجھے اپنی قدرت کا ایک عظیم الشان نشان بنانے والا ہے اس لیے تجھے رب کی طرف پوری رغبت رکھنی چاہیئے ، قنوت کے معنی اطاعت کے ہیں جو عاجزی اور دل کی حاضری کے ساتھ ہو ، جیسے ارشاد«وَلَہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ کُلٌّ لَّہٗ قٰنِتُوْنَ» (30-الروم:26) یعنی اس کی ماتحتی اور ملکیت میں زمین و آسمان کی ہرچیز ہے سب کے سب اس کے محکوم اور تابع فرمان ہیں ، ابن ابی حاتم کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ قرآن میں جہاں کہیں قنوت کا لفظ ہے اس سے مراد اطاعت گذاری ہے ، (تفسیر ابن ابی حاتم:261/2:ضعیف) ۱؎ یہی حدیث ابن جریر میں بھی ہے لیکن سند میں نکارت ہے ، سیدنا مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سیدہ مریم علیہما السلام نماز میں اتنا لمبا قیام کرتی تھیں کہ دونوں ٹخنوں پر ورم آ جاتا تھا ، قنوت سے مراد نماز میں لمبے لمبے رکوع کرنا ہے ، حسن بصری رحمہ اللہ کا قول ہے کہ اس سے یہ مراد ہے کہ اپنے رب کی عبادت میں مشغول رہ اور رکوع سجدہ کرنے والوں میں سے ہو جا ، سیدنا اوزاعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مریم صدیقہ رضی اللہ عنہا اپنے عبادت خانے میں اس قدر بکثرت باخشوع اور لمبی نمازیں پڑھا کرتی تھیں کہ دونوں پیروں میں زرد پانی اتر آیا ، (ضعیف) ۱؎ « رضی اللہ عنھا و ارضاھا » ۔ یہ اہم خبریں بیان کر کے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان باتوں کا علم تمہیں صرف میری وحی سے ہوا ورنہ تمہیں کیا خبر ؟ تم کچھ اس وقت ان کے پاس تھوڑے ہی موجود تھے جو ان واقعات کی خبر لوگوں کو پہنچاتے ؟ لیکن اپنی وحی سے ہم نے ان واقعات کو اس طرح آپ پر کھول دیا گویا آپ اس وقت خود موجود تھے جبکہ سیدہ مریمرضی اللہ عنہا کی پرورش کے بارے میں ہر ایک دوسرے پر سبقت کرتا تھا سب کی چاہت تھی کہ اس دولت سے مالا مال ہو جاؤں اور یہ اجر مجھے مل جائے ، جب آپ کی والدہ صاحبہ آپ کو لے کر بیت المقدس کی مسجد سلیمانی میں تشریف لائیں اور وہاں کے خادموں سے جو سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے بھائی اور سیدنا ہارون علیہ السلام کی نسل میں سے تھے کہا کہ میں انہیں اپنی نذر کے مطابق نام اللہ پر آزاد کر چکی ہوں تم اسے سنبھالو ، یہ ظاہر ہے کہ لڑکی ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ حیض کی حالت میں عورتیں مسجد میں نہیں آسکتیں اب تم جانو تمہارا کام ، میں تو اسے گھر واپس نہیں لے جا سکتی کیونکہ نام اللہ اسے نذر کر چکی ہوں ، سیدنا عمران علیہ السلام یہاں کے امام نماز تھے اور قربانیوں کے مہتمم تھے اور یہ ان کی صاحبزادی تھیں تو ہر ایک نے بڑی چاہت سے ان کے لیے ہاتھ پھیلا دئیے ادھر سے سیدنا زکریاعلیہ السلام نے اپنا ایک حق اور جتایا کہ میں رشتہ میں بھی ان کا خالو ہوتا ہوں تو یہ لڑکی مجھ ہی کو ملنی چاہیئے اور لوگ راضی نہ ہوئے آخر قرعہ ڈالا گیا اور قرعہ میں ان سب نے اپنی وہ قلمیں ڈالیں جن سے توراۃ لکھتے تھے ، تو قرعہ سیدنا زکریا علیہ السلام کے نام نکلا (تفسیر ابن جریر الطبری:351/6) ۱؎ اور یہی اس سعادت سے مشرف ہوئے دوسری مفصل روایتوں میں یہ بھی ہے کہ نہر اردن پر جا کر یہ قلمیں ڈالی گئیں کہ پانی کے بہاؤ کے ساتھ جو قلم نکل جائے وہ نہیں اور جس کا قلم ٹھہر جائے وہ سیدہ مریم علیھا السلام کا کفیل بنے ، چنانچہ سب کی قلمیں تو پانی بہا کر لے گیا صرف سیدنا زکریا علیہ السلام کا قلم ٹھہر گیا بلکہ الٹا اوپر کو چڑھنے لگا تو ایک تو قرعے میں ان کا نام نکلا دوسرے قریب کے رشتہ داری تھے پھر یہ خود ان تمام کے سردار امام بلکہ نبی تھے صلوات اللہ وسلامہ علیہ پس انہی کو سیدہ مریم علیھا السلام سونپ دی گئیں ۔ آل عمران
43 آل عمران
44 آل عمران
45 مسیح ابن مریم علیہ السلام یہ خوشخبری سیدہ مریم علیھا السلام کو فرشتے سنا رہے ہیں کہ ان سے ایک لڑکا ہو گا جو بڑی شان والا اور صرف اللہ کے کلمہ «کن» کے کہنے سے ہو گا یہی تفسیر اللہ تعالیٰ کے فرمان «مُصَدِّقًـا بِکَلِمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ وَسَیِّدًا وَّحَصُوْرًا وَّنَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ» (3-آل عمران:39) کی بھی ہے ، جیسے کہ جمہور نے ذکر کیا اور جس کا بیان اس سے پہلے گزر چکا ، اس کا نام مسیح ہو گا ، عیسیٰ بیٹا مریم علیھا السلام کا ، ہر مومن اسے اسی نام سے پہچانے گا ، مسیح نام ہونے کی وجہ یہ ہے کہ زمین میں وہ بکثرت سیاحت کریں گے ، ماں کی طرف منسوب کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ان کا باپ کوئی نہ تھا ۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ دونوں جہان میں برگزیدہ ہیں اور مقربان خاص میں سے ہیں ، ان پر اللہ عزوجل کی شریعت اور کتاب اترے گی اور بڑی بڑی مہربانیاں ان پر دنیا میں نازل ہوں گی اور آخرت میں بھی اور اولوالعزم پیغمبروں کی طرح اللہ کے حکم سے جس کے لیے اللہ چاہے گا وہ شفاعت کریں گے جو قبول ہو جاے گی ۔ صلوات اللہ وسلامہ علیہ وعلیہم اجمعین وہ اپنے جھولے میں اور ادھیڑ عمر میں باتیں کریں گے یعنی اللہ وحدہ لا شریک لہ کی عبادت کی لوگوں کو بچنے ہی میں دعوت دیں گے جو ان کا معجزہ ہو گا اور بڑی عمر میں بھی جب اللہ ان کی طرف وحی کرے گا ، وہ اپنے قول و فعل میں علم صحیح رکھنے والے اور عمل صالح کرنے والے ہوں گے ، ایک حدیث میں ہے کہ بچپن میں کلام صرف سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اور جریج کے ساتھی نے کیا (تفسیر ابن ابی حاتم:272/2) ۱؎ اور ان کے علاوہ حدیث میں ایک اور بچے کا کلام کرنا بھی مروی ہے تو یہ تین ہوئے ۔ (صحیح بخاری:3436) ۱؎ سیدہ مریم علیھا السلام اس بشارت کو سن کر اپنی مناجات میں کہنے لگیں اللہ مجھے بچہ کیسے ہو گا ؟ میں نے تو نکاح نہیں کیا اور نہ میرا ارادہ نکاح کرنے کا ہے اور نہ میں ایسی بدکار عورت ہوں حا شاء اللہ ، اللہ عزوجل کی طرف سے فرشتے نے جواب میں کہا کہ اللہ کا امر بہت بڑا ہے اسے کوئی چیز عاجز نہیں کر سکتی وہ جو چاہے پیدا کر دے ، اس نکتے کو خیال میں رکھنا چاہیئے کہ سیدنا زکریا کے اس سوال کے جواب میں اس جگہ لفظ «یفعل» تھا یہاں لفظ «یخلق» ہے یعنی پیدا کرتا ہے ۔ اس لیے کہ کسی باطل پرست کو کسی شبہ کا موقع باقی نہ رہے اور صاف لفظوں میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا اللہ جل شانہ کی مخلوق ہونا معلوم ہو جائے ۔ پھر اس کی مزید تاکید کی اور فرمایا وہ جس کسی کام کو جب کبھی کرنا چاہتا ہے تو صرف اتنا فرما دیتا ہے کہ ہو جا ، بس وہ وہیں ہو جاتا ہے اس کے حکم کے بعد ڈھیل اور دیر نہیں لگتی ، جیسے اور جگہ ہے «وَمَآ اَمْرُنَآ اِلَّا وَاحِدَۃٌ کَلَمْحٍ بِالْبَصَرِ» (54-القمر:50) یعنی ہمارے صرف ایک مرتبہ کے حکم سے ہی بلاتاخیر فی الفور آنکھ جھپکتے ہی وہ کام ہو جاتا ہے ہمیں دوبارہ اسے کہنا نہیں پڑتا ۔ آل عمران
46 آل عمران
47 آل عمران
48 فرشتوں کا مریم علیہا السلام سے خطاب فرشتے سیدہ مریم رضی اللہ عنہا سے کہتے ہیں کہ تیرے اس لڑکے یعنی سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو پروردگار عالم لکھنا سکھائے گا حکمت سکھائے گا لفظ حکمت کی تفسیر سورۃ البقرہ میں گزر چکی ہے ، اور اسے توراۃ سکھائے گا جو سیدنا موسیٰ بن عمران صلی اللہ علیہ وسلم پر اتری تھی اور انجیل سکھائے گا جو سیدنا عیسیٰ علیہ السلام ہی پر اتری ، چنانچہ آپ کو یہ دونوں کتابیں حفظ تھیں ، انہیں بنی اسرائیل کی طرف اپنا رسول بنا کر بھیجے گا ، اور اس بات کو کہنے کے لیے کہ میرا یہ معجزہ دیکھو کہ مٹی لی اس کا پرندہ بنایا پھر پھونک مارتے ہی وہ سچ مچ کا جیتا جاگتا پرند بن کر سب کے سامنے اڑنے لگا ، یہ اللہ کے حکم اور اس کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ کے سبب تھا ،سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی اپنی قدرت سے نہیں یہ ایک معجزہ تھا جو آپ کی نبوت کا نشان تھا ، «اکمہ» اس اندھے کو کہتے ہیں جسے دن کے وقت دکھائی نہ دے اور رات کو دکھائی دے ، بعض نے کہا «اکمہ» اس نابینا کو کہتے ہیں جسے دن کو دکھائی دے اور رات کو دکھائی نہ دے ، بعض کہتے ہیں بھینگا اور ترچھا اور کانا مراد ہے ، بعض کا قول یہ بھی ہے کہ جو ماں کے پیٹ سے بالکل اندھا پیدا ہوا ہو ، یہاں یہی ترجمہ زیادہ مناسب ہے کیونکہ اس میں معجزے کا کمال یہی ہے اور مخالفین کو عاجز کرنے کے لیے اس کی یہ صورت اور صورتوں سے اعلیٰ ہے ، «ابرص» سفید دانے والے کوڑھی کو کہتے ہیں ایسے بیمار بھی اللہ جل شانہ کے حکم سے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اچھے کر دیتے تھے اور مردوں کو بھی اللہ عزوجل کے حکم سے آپ زندہ کر دیا کرتے تھے ، اکثر علماء کا قول ہے کہ ہر زمانے کے نبی کو اس زمانے والوں کی مناسبت سے خاص خاص معجزات جناب باری تعالیٰ نے عطا فرمائے ہیں ،سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں جادو کا بڑا چرچا تھا اور جادو گروں کی بڑی قدرو تعظیم تھی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو وہ معجزہ دیا جس سے تمام جادوگروں کی آنکھیں کھل گئیں اور ان پر حیرت طاری ہو گئی اور انہیں کامل یقین ہو گیا کہ یہ تو الہ واحد و قہار کی طرف سے عطیہ ہے جادو ہرگز نہیں چنانچہ ان کی گردنیں جھک گئیں اور یک لخت وہ حلقہ بگوش اسلام ہو گئے اور بالاخر اللہ کے مقرب بندے بن گئے ، سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں طبیبوں اور حکیموں کا دور دورہ تھا ۔ کامل اطباء اور ماہر حکیم علم طب کے پورے عالم اور لاجواب کامل الفن استاد موجود تھے پس آپ کو وہ معجزے دے گئے جس سے وہ سب عاجز تھے بھلا مادر زاد اندھوں کو بالکل بینا کر دینا اور کوڑھیوں کو اس مہلک بیماری سے اچھا کر دینا اتنا ہی نہیں بلکہ جمادات جو محض بے جان چیز ہے اس میں روح ڈال دینا اور قبروں میں سے مردوں کو زندہ کر دینا یہ کسی کے بس کی بات نہیں ؟ صرف اللہ سبحانہ کے حکم سے بطور معجزہ یہ باتیں آپ سے ظاہر ہوئیں ، ٹھیک اسی طرح جب ہمارے نبی اکرم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اس وقت فصاحت بلاغت نکتہ رسی اور بلند خیالی بول چال میں نزانت و لطافت کا زمانہ تھا اس فن میں بلند پایہ شاعروں نے وہ کمال حاصل کر لیا تھا کہ دنیا ان کے قدموں پر جھکتی تھی پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کتاب اللہ ایسی عطا فرمائی گئی کہ ان سب کو کوندتی ہوئی بجلیاں ماند پڑ گئیں اور کلام اللہ کے نور نے انہیں نیچا دکھایا اور یقین کامل ہو گیا کہ یہ انسانی کلام نہیں ، تمام دنیا سے کہہ دیا گیا اور جتا جتا کر، بتا بتا کر، سنا سنا کر، منادی کر کے باربار اعلان کیا گیا کہ ہے کوئی ؟ جو اس جیسا کلام کہہ سکے ؟ اکیلے اکیلے نہیں سب مل جاؤ اور انسان ہی نہیں جنات کو بھی اپنے ساتھ شامل کر لو پھر سارے قرآن کے برابر بھی نہیں صرف دس سورتوں کے برابر سہی ، اور اچھا یہ بھی نہ سہی ایک ہی سورت اس کی مانند تو بنا کر لاؤ لیکن سب کمریں ٹوٹ گئیں، ہمتیں پست ہو گئیں، گلے خشک ہو گئے ۔زبان گنگ ہو گئی اور آج تک ساری دنیا سے نہ بن پڑا اور نہ کبھی ہو سکے گا بھلا کہاں اللہ جل شانہ کا کلام اور کہاں مخلوق ؟ پس اس زمانہ کے اعتبار سے اس معجزے نے اپنا اثر کیا اور مخالفین کو ہتھیار ڈالتے ہی بن پڑی اور جوق درجوق اسلامی حلقے بڑھتے گئے ۔ پھر سیدنا مسیح علیہ السلام کا اور معجزہ بیان ہو رہا ہے کہ آپ نے فرمایا بھی اور کر کے بھی دکھایا بھی ، کہ جو کوئی تم میں سے آج اپنے گھر سے جو کچھ کھا کر آیا ہو میں اسے بھی اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی اطلاع بتا دوں گا یہی نہیں بلکہ کل کے لیے بھی اس نے جو تیاری کی ہو گی مجھے اللہ تعالیٰ کے معلوم کرانے پر معلوم ہو جاتا ہے ، یہ سب میری سچائی کی دلیل ہے کہ میں جو تعلیم تمہیں دے رہا ہوں وہ برحق ہے ہاں اگر تم میں ایمان ہی نہیں تو پھر کیا ؟ میں اپنے سے پہلی کتاب توراۃ کو بھی ماننے والا اس کی سچائی کا دنیا میں اعلان کرنے والا ہوں ، میں تم پر بعض وہ چیزیں حلال کرنے آیا ہوں جو مجھ سے پہلے تم پر حرام کی گئی ہیں ، اس سے ثابت ہوا کہ عیسیٰ علیہ السلام نے توراۃ کے بعض احکام منسوخ نہیں کئے ہیں البتہ بعض حلال چیزوں میں جو اختلاف تھا اور بڑھتے بڑھتے گویا ان کی حرمت پر اجماع ہو چکا تھا ۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے ان کی حقیقت بیان فرما دی اور ان کے حلال ہونے پر مہر کر دی ، جیسے قرآن حکیم نے اور جگہ فرمایا «وَلِأُبَیِّنَ لَکُم بَعْضَ الَّذِی تَخْتَلِفُونَ فِیہِ» (43-الزخرف:63) میں تمہارے بعض آپس کے اختلاف میں صاف فیصلہ کر دونگا «وَاللہُ اَعْلَمُ» ، پھر فرمایا کہ میرے پاس اپنی سچائی کی اللہ جل شانہ کی دلیلیں موجود ہیں تم اللہ سے ڈرو اور میرا کہا مانو ، جس کا خلاصہ صرف اسی قدر ہے کہ اسے پوجو جو میرا اور تمہارا پالنہار ہے سیدھی اور سچی راہ تو صرف یہی ہے ۔ آل عمران
49 آل عمران
50 1 پھر مسیح علیہ السلام کا اور معجزہ بیان ہو رہا ہے کہ آپ نے فرمایا بھی اور کر کے بھی دکھایا بھی ، کہ جو کوئی تم میں سے آج اپنے گھر سے جو کچھ کھا کر آیا ہو میں اسے بھی اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی اطلاع سے بتا دوں گا یہی نہیں بلکہ کل کے لیے بھی اس نے جو تیاری کی ہو گی مجھے اللہ تعالیٰ کے معلوم کرانے پر معلوم ہو جاتا ہے ، یہ سب میری سچائی کی دلیل ہے کہ میں جو تعلیم تمہیں دے رہا ہوں وہ برحق ہے ہاں اگر تم میں ایمان ہی نہیں تو پھر کیا ؟ میں اپنے سے پہلی کتاب توراۃ کو بھی ماننے والا اس کی سچائی کا دنیا میں اعلان کرنے والا ہوں ، میں تم پر بعض وہ چیزیں حلال کرنے آیا ہوں جو مجھ سے پہلے تم پر حرام کی گئی ہیں ، اس سے ثابت ہوا کہ عیسیٰ علیہ السلام نے توراۃ کے بعض احکام منسوخ کئے ہیں ، گو اس کے خلاف بھی مفسرین کا خیال ہے ، لیکن درست بات یہی ہے ۔ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ تورات کا کوئی حکم آپ نے منسوخ نہیں کیا البتہ بعض حلال چیزوں میں جو اختلاف تھا اور بڑھتے بڑھتے گویا ان کی حرمت پر اجماع ہو چکا تھا ۔ عیسیٰ علیہ السلام نے ان کی حقیقت بیان فرما دی اور ان کے حلال ہونے پر مہر کر دی ، جیسے قرآن حکیم نے اور جگہ فرمایا : «وَلأُبَیِّنَ لَکُم بَعْضَ الَّذِی تَخْتَلِفُونَ فِیہِ» ( 43-الزخرف : 63 ) میں تمہارے بعض آپس کے اختلاف میں صاف فیصلہ کر دونگا ۔ پھر فرمایا کہ میرے پاس اپنی سچائی کی اللہ جل شانہ کی دلیلیں موجود ہیں تم اللہ سے ڈرو اور میرا کہا مانو ، جس کا خلاصہ صرف اسی قدر ہے کہ اسے پوجو جو میرا اور تمہارا پالنہار ہے سیدھی اور سچی راہ تو صرف یہی ہے ۔ آل عمران
51 آل عمران
52 پھانسی کون چڑھا؟ جب سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے ان کی ضد اور ہٹ دھرمی کو دیکھ لیا کہ اپنی گمراہی کج روی اور کفر و انکار سے یہ لوگ ہٹتے ہی نہیں ، تو فرمانے لگے کہ کوئی ایسا بھی ہے ؟ جو اللہ تعالیٰ کی طرف پہنچنے کے لیے میری تابعداری کرے (تفسیر ابن ابی حاتم:290/3) ۱؎ اس کا یہ مطلب بھی لیا گیا ہے کہ کوئی ہے جو اللہ جل شانہ کے ساتھ میرا مددگار بنے ؟ لیکن پہلا قول زیادہ قریب ہے ، بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے فرمایا اللہ جل شانہ کی طرف پکارنے میں میرا ہاتھ بٹانے والا کون ہے ؟ جیسے کہ نبی اللہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ شریف سے ہجرت کرنے کے پہلے موسم حج کے موقع پر فرمایا کرتے تھے کہ کوئی ہے جو مجھے اللہ جل شانہ کا کلام پہنچانے کے لیے جگہ دے ؟ قریش تو کلام الٰہی کی تبلیغ سے مجھے روک رہے ہیں(مسند احمد:339/3:حسن) ۱؎ یہاں تک کہ مدینہ شریف کے باشندے انصار کرام رضی اللہ عنہم اس خدمت کے لیے کمربستہ ہوئے آپ کو جگہ بھی دی آپ کی مدد بھی کی اور جب آپ ان کے ہاں تشریف لے گئے تو پوری خیر خواہی اور بے مثال ہمدردی کا مظاہرہ کیا ، ساری دنیا کے مقابلہ میں اپنا سینہ سپر کر دیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت خیر خواہی اور آپ کے مقاصد کی کامیابی میں ہمہ تن مصروف ہو گئے «رضی اللہ عنہم وارضاہم» اسی طرح سیدنا عیسیٰ علیہ الصلٰوۃ والسلام کی اس آواز پر بھی چند بنی اسرائیلیوں نے لبیک کہی آپ پر ایمان لائے آپ کی تائید کی تصدیق کی اور پوری مدد پہنچائی اور اس نور کی اطاعت میں لگ گئے جو اللہ ذوالجلال نے ان پر اتارا تھا یعنی انجیل یہ لوگ دھوبی تھے اور حواری انہیں ان کے کپڑوں کی سفیدی کی وجہ سے کہا گیا ہے ، بعض کہتے ہیں یہ شکاری تھے ، صحیح یہ ہے کہ حواری کہتے ہیں مددگار کو ، جیسے کہ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ جنگ خندق کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کوئی جو سینہ سپر ہو جائے ؟ اس آواز کو سنتے ہی سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ تیار ہو گئے آپ نے دوبارہ یہی فرمایا پھر بھی سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے ہی قدم اٹھایا پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر نبی کے حواری ہوتے ہیں اور میرا حواری زبیر ہے رضی اللہ عنہ ۔۱؎ (صحیح بخاری:2846) پھر یہ لوگ اپنی دعا میں کہتے ہیں ہمیں شاہدوں میں لکھ لے ، اس سے مراد سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے نزدیک امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں لکھ لینا ہے ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:294/2) ، اس تفسیر کی روایت سنداً بہت عمدہ ہے پھر بنی اسرائیل کے اس ناپاک گروہ کا ذکر ہو رہا ہے جو سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے جانی دشمن تھے ۔ انہیں مروا دینے اور سولی دئیے جانے کا قصد رکھتے تھے جنہوں نے اس زمانی کے بادشاہ کے کان میں سیدنا عیسٰی علیہ السلام کی طرف سے بھرے تھے کہ یہ شخص لوگوں کو بہکاتا پھرتا ہے ملک میں بغاوت پھیلا رہا ہے اور رعایا کو بگاڑ رہا ہے ، باپ بیٹوں میں فساد برپا کر رہا ہے ، بلکہ اپنی خباثت خیانت کذب و جھوٹ ( دروغ ) میں یہاں تک بڑھ گئے کہ آپ کو زانیہ کا بیٹا کہا اور آپ پر بڑے بڑے بہتان باندھے ، یہاں تک کہ بادشاہ بھی دشمن جان بن گیا اور اپنی فوج کو بھیجا تاکہ اسے گرفتار کر کے سخت سزا کے ساتھ پھانسی دے دو ، چنانچہ یہاں سے فوج جاتی ہے اور جس گھر میں آپ تھے اسے چاروں طرف سے گھیر لیتی ہے ناکہ بندی کر کے گھر میں گھستی ہے ، لیکن اللہ تعالیٰ آپ کو ان مکاروں کے ہاتھ سے صاف بچا لیتا ہے اس گھر کے روزن ( روشن دان ) سے آپ کو آسمان کی طرف اٹھا لیتا ہے اور آپ کی شباہت ایک اور شخص پر ڈال دی جاتی ہے جو اسی گھر میں تھا ، یہ لوگ رات کے اندھیرے میں اس کو عیسیٰ علیہ السلام سمجھ لیتے ہیں گرفتار کر کے لے جاتے ہیں٠ سخت توہین کرتے ہیں اور سر پر کانٹوں کو تاج رکھ کر اسے صلیب پر چڑھا دیتے ہیں ، یہی ان کے ساتھ اللہ کا مکر تھا کہ وہ تو اپنے نزدیک یہ سمجھتے رہے کہ ہم نے اللہ کے نبی کو پھانسی پر لٹکا دیا حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو تو نجات دے دی تھی ، اس بدبختی اور بدنیتی کا ثمرہ انہیں یہ ملا کہ ان کے دل ہمیشہ کے لیے سخت ہو گئے باطل پر اڑ گئے اور دنیا میں ذلیل و خوار ہو گئے اور آخر دنیا تک اس ذلت میں ہی ڈوبے رہے ۔ اسی کا بیان اس آیت میں ہے کہ اگر انہیں خفیہ تدبیریں کرنی آتی ہیں تو کیا ہم خفیہ تدبیر کرنا نہیں جانتے بلکہ ہم تو ان سے بہتر خفیہ تدبیریں کرنے والے ہیں ۔ آل عمران
53 آل عمران
54 آل عمران
55 اظہار خودمختاری قتادہ رحمہ اللہ وغیرہ بعض مفسرین تو فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ میں تجھے اپنی طرف اٹھا لوں گا پھر اس کے بعد تجھے فوت کروں گا ، ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یعنی میں تجھے مارنے والا ہوں ، وہب بن منبہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کو اٹھاتے وقت دن کے شروع میں تین ساعت تک فوت کر دیا تھا ، ابن اسحاق رحمہ اللہ کہتے ہیں نصاریٰ کا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو سات ساعت تک فوت رکھا پھر زندہ کر دیا ، وہب رحمہ اللہ فرماتے ہیں تین دن تک موت کے بعد پھر زندہ کر کے اٹھا لیا ، مطر وراق رحمہ اللہ فرماتے ہیں یعنی میں تجھے دنیا میں پورا پورا دینے والا ہوں یہاں وفات موت مراد نہیں ، اسی طرح ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں «تَوَّفّٰی» سے یہاں مراد ان کا رفع ہے اور اکثر مفسرین کا قول ہے کہ وفات سے مراد یہاں نیند ہے ، جیسے اور جگہ قرآن حکیم میں ہے «وَہُوَ الَّذِیْ یَتَوَفّٰیکُمْ بِالَّیْلِ» (6-الأنعام:60) وہ اللہ جو تمہیں رات کو فوت کر دیتا ہے یعنی سلا دیتا ہے اور جگہ ہے «اَللّٰہُ یَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِہَا وَالَّتِیْ لَمْ تَمُتْ فِیْ مَنَامِہَا» (39-الزمر:42) یعنی اللہ تعالیٰ ان کی موت کے وقت جانوں کو فوت کرتا ہے اور جو نہیں مرتیں انہیں ان کی نیند کے وقت ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نیند سے بیدار ہوتے تو فرماتے ( حدیث ) «الْحَمْدُ للہِ الَّذِی أَحْیَانَا بَعْدَ مَا أَمَاتَنَا» یعنی اللہ عزوجل کا شکر ہے جس نے ہمیں مار ڈالنے کے بعد پھر زندہ کر دیا ،۱؎ (صحیح بخاری:6312) اور جگہ فرمان باری تعالٰی «وَبِکُفْرِہِمْ وَقَوْلِہِمْ عَلَیٰ مَرْیَمَ بُہْتَانًا عَظِیمًا وَقَوْلِہِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیحَ عِیسَی ابْنَ مَرْیَمَ رَسُولَ اللہِ وَمَا قَتَلُوہُ وَمَا صَلَبُوہُ وَلٰکِن شُبِّہَ لَہُمْ وَإِنَّ الَّذِینَ اخْتَلَفُوا فِیہِ لَفِی شَکٍّ مِّنْہُ مَا لَہُم بِہِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَمَا قَتَلُوہُ یَقِینًا بَل رَّفَعَہُ اللہُ إِلَیْہِ وَکَانَ اللہُ عَزِیزًا حَکِیمًا وَإِن مِّنْ أَہْلِ الْکِتَابِ إِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِہِ قَبْلَ مَوْتِہِ وَیَوْمَ الْقِیَامَۃِ یَکُونُ عَلَیْہِمْ شَہِیدًا» (4-النساء:159-156) تک پڑھو جہاں فرمایا گیا ہے ان کے کفر کی وجہ سے اور سیدہ مریم علیہ السلام پر بہتان عظیم باندھ لینے کی بنا پر اور اس باعث کہ وہ کہتے ہیں ہم نے مسیح عیسیٰ بن مریم رسول اللہ علیہ السلام کو قتل کر دیا حالانکہ نہ قتل کیا ہے اور نہ صلیب دی لیکن ان کو شبہ میں ڈال دیا گیا «مَوْتِہ» کی ضمیر کا مرجع سیدنا عیسیٰ علیہ السلام ہیں یعنی تمام اہل کتاب عیسیٰ پر ایمان لائیں گے جبکہ وہ قیامت سے پہلے زمین پر اتریں گے اس کا تفصیلی بیان عنقریب آ رہا ہے ۔ ان شاء اللہ پس اس وقت تمام اہل کتاب ان پر ایمان لائیں گے کیونکہ نہ وہ جزیہ لیں گے نہ سوائے اسلام کے اور کوئی بات قبول کریں گے ، ابن ابی حاتم میں سیدنا حسن رضی اللہ عنہ سے «إِنِّی مُتَوَفِّیکَ» کی تفسیر یہ مروی ہے کہ ان پر نیند ڈالی گئی اور نیند کی حالت میں ہی اللہ تعالیٰ نے انہیں اٹھا لیا ، ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:296/2) حضرت حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں سے فرمایا کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام مرے نہیں وہ تمہاری طرف قیامت سے پہلے لوٹنے والے ہیں ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:7129:مرسل ضعیف) پھر فرماتا ہے میں تجھے اپنی طرف اٹھا کر کافروں کی گرفت سے آزاد کرنے والا ہوں ، اور تیرے تابعداروں کو کافروں پر غالب رکھنے والا ہوں قیامت تک ، چنانچہ ایسا ہی ہوا ، جب اللہ تعالیٰ نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر چڑھا لیا تو ان کے بعد ان کے ساتھیوں کے کئی فریق ہو گئے ایک فرقہ تو آپ کی بعثت پر ایمان رکھنے والا تھا کہ آپ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور اس کی ایک بندی کے لڑکے ہیں بعض وہ تھے جنہوں نے غلو سے کام لیا اور بڑھ گئے اور آپ کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا کہنے لگے ، اوروں نے آپ کو اللہ کہا ، دوسروں نے تین میں کا ایک آپ کو بتایا ، اللہ تعالیٰ ان کے ان عقائد کا ذکر قرآن مجید میں فرماتا ہے پھر ان کی تردید بھی کر دی ہے تین سو سال تک تو یہ اسی طرح رہے ۔ پھر یونان کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ جو بڑا فلیسوف تھا جس کا نام قسطنطین تھا کہا جاتا ہے کہ صرف اس دین کو بگڑانے کے لیے منافقانہ انداز سے اس دین میں داخل ہوا یا جہالت سے داخل ہوا ہو ، بہر صورت اس نے دین مسیح کو بالکل بدل ڈالا اور بڑی تحریف اور تفسیر کی اس دین میں اور کمی زیادہ بھی کر ڈالی ، بہت سے قانون ایجاد کئے اور امانت کبریٰ بھی اسی کی ایجاد ہے جو دراصل کمینہ پن کی خیانت ہے ، اسی نے اپنے زمانہ میں سود کو حلال کیا اسی کے حکم سے عیسائی مشرق کی طرف نمازیں پڑھنے لگے اسی نے گرجاؤں اور کلیساؤں میں عبادت خانوں اور خانقاہوں میں تصویریں بنوائیں٠ اور اپنے ایک گناہ کے باعث دس روزے روزوں میں بڑھوا دئیے ، غرض اس کے زمانہ سے دین مسیح مسیحی دین نہ رہا بلکہ دین قسطنطین ہو گیا ، اس نے ظاہری رونق تو خوب دی بارہ ہزار سے زائد تو عبادت گاہیں بنوا دیں اور ایک شہر اپنے نام سے بسایا ، ملکیہ گروہ نے اس کی تمام باتیں مان لیں لیکن باوجود ان سب سیاہ کاریوں کے یہودی اس بات پر تلے رہے اور دراصل نسبتاً حق سے زیادہ قریب یہی تھے گو فی الواقع سارے کے سارے کفار تھے اللہ خالق کل کی ان پر پھٹکار ہو ، اب جبکہ ہمارے نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے اپنا برگزیدہ بنا کر دنیا میں بھیجا تو آپ پر جو لوگ ایمان لائے ان کا ایمان اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھی تھا اس کے فرشتوں پر بھی تھا اس کی کتابوں پر بھی تھا اور اس کے تمام رسولوں پر بھی تھا پس حقیقت میں نبیوں کے سچے تابع فرمان یہی لوگ تھے یعنی امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، اس لیے کہ یہ نبی امی عربی خاتم الرسول سید اولاد آدم کے ماننے والے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم برحق تعلیم کو سچا ماننے والے تھے ، لہٰذا دراصل ہر نبی کے سچے تابعدار اور صحیح معنی میں امتی کہلانے کے مستحق یہی لوگ تھے کیونکہ ان لوگوں نے جو اپنے تئیں عیسیٰ کی امت کہتے تھے تو دین عیسوی کو بالکل مسخ اور فسخ کر دیا تھا علاوہ ازیں پیغمبر آخرالزمان کا دین بھی اور تمام اگلی شریعتوں کا ناسخ تھا پھر محفوظ رہنے والا تھا جس کا ایک شوشہ بھی قیامت تک بدلنے والا نہیں اس لیے اس آیت «وَعَدَ اللہُ الَّذِینَ آمَنُوا مِنکُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِی الْأَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِینَ مِن قَبْلِہِمْ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمْ دِینَہُمُ الَّذِی ارْتَضَیٰ لَہُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّہُم مِّن بَعْدِ خَوْفِہِمْ أَمْنًا» (24-النور:55) کے وعدے کے مطابق اللہ تعالیٰ نے کافروں پر اس امت کو غالب کر دیا اور یہ مشرق سے لے کر مغرب تک چھا گئے ملکوں کو اپنے پاؤں تلے روند دیا اور بڑے بڑے جابر اور کٹر کافروں کی گردنیں مروڑ دیں دولتیں ان کے پیروں میں آ گئیں فتح و غنیمت ان کی رکابیں٠ چومنے لگی مدتوں کی پرانی سلطنتوں کے تخت انہوں نے الٹ دئیے ، کسریٰ کی عظیم الشان پر شان سلطنت اور ان کے بھڑکتے ہوئے آتش کدے ان کے ہاتھوں ویران اور سرد ہو گئے ، قیصر کا تاج و تخت ان اللہ والوں نے تاخت و تاراج کیا اور انہیں مسیح پرستی کا خوب مزا چکھایا اور ان کے خزانوں کو اللہ واحد کی رضا مندی میں اور اس کے سچے نبی کے دین کی اشاعت میں دل کھول کر خرچ کئے اور اللہ کے لکھے اور نبی کے وعدے چڑھے ہوئے سورج اور چودھویں کے روشن چاند کی طرح سچے ہوئے لوگوں نے دیکھ لیے ، مسیح علیہ السلام کے نام کو بدنام کرنے والے مسیح کے نام شیطانوں کو پوجنے والے ان پاکباز اللہ پرستوں کے ہاتھوں مجبور ہو کر شام کے لہلہاتے ہوئے باغات اور آباد شہروں کو ان کے حوالے کر کے بدحواس بھاگتے ہوئے روم میں جا بسے پھر وہاں سے بھی یہ بےعزت کر کے نکالے گئے اور اپنے بادشاہ کے خاص شہر قسطنطنیہ میں پہنچے لیکن پھر وہاں سے بھی ذلیل خوار کر کے نکال دئیے گئے اور ان شاءاللہ العزیز اسلام اور اہل اسلام قیامت تک ان پر غالب ہی رہیں گے ۔ سب سچوں کے سردار جن کی سچائی پر مہر الٰہی لگ چکی ہے یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خبر دے چکے ہیں جو اٹل ہے نہ کاٹے کٹے نہ توڑے ٹوٹے ، نہ ٹالے ٹلے ، فرماتے ہیں کہ آپ کی امت کا آخری گروہ قسطنطنیہ کو فتح کرے گا اور وہاں کے تمام خزانے اپنے قبضے میں لے گا اور رومیوں سے ان کی گھمسان کی لڑائی ہو گی کہ اس کی نظیر سے دنیا خالی ہو ۔ [ ہماری دعا ہے کہ ہر زمانے میں اللہ قادر کل اس امت کا حامی و ناصر رہے اور روئے زمین کے کفار پر انہیں غالب رکھے اور انہیں سمجھ دے تاکہ یہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت کریں نہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی اور کی اطاعت کریں ، یہی اسلام کی اصل ہے اور یہی عروج دینوی کا گر ہے ] میں نے سب کو علیحدہ کتاب میں جمع کر دیا ہے ، آگے اللہ تعالیٰ کے قول پر نظر ڈالیے کہ «وَمَا لَہُم مِّنَ اللہِ مِن وَاقٍ» (13-الرعد:34) مسیح علیہ السلام کے ساتھ کفر کرنے والے یہود اور آپ کی شان میں بڑھ چڑھ کر باتیں بنا کر بہکنے والے نصرانیوں کو قتل و قید کی مار اور سلطنت کے تباہ ہو جانے کی یہاں بھی سزا دی اور آخرت کا عذاب وہاں دیکھ لیں گے جہاں نہ کوئی بچا سکے نہ مدد کر سکے گا لیکن برخلاف ان کے ایمانداروں کو پورا اجر اللہ تعالیٰ عطا فرمائے گا دنیا میں بھی فتح اور نصرت عزت و حرمت عطا ہو گی اور آخرت میں بھی خاص رحمتیں اور نعمتیں ملیں گی ، اللہ تعالیٰ ظالموں کو ناپسند رکھتا ہے ۔ پھر فرمایا اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ تھی حقیقت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی ابتداء پیدائش کی اور ان کے امر کی جو اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ سے آپ کی طرف بذریعہ اپنی خاص وحی کے اتار دی جس میں کوئی شک و شبہ نہیں جیسے سورۃ مریم میں فرمایا «ذٰلِکَ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِی فِیہِ یَمْتَرُونَ » (19-مریم:34) « مَا کَانَ لِلہِ أَن یَتَّخِذَ مِن وَلَدٍ سُبْحَانَہُ إِذَا قَضَیٰ أَمْرًا فَإِنَّمَا یَقُولُ لَہُ کُن فَیَکُونُ» (19-مریم:35) ، عیسیٰ بن مریم یہی ہیں یہی سچی حقیقت ہے جس میں تم شک و شبہ میں پڑے ہو ، اللہ تعالیٰ کو تو لائق ہی نہیں کہ اس کی اولاد ہو وہ اس سے بالکل پاک ہے وہ جو کرنا چاہے کہ دیتا ہے ہو جا ، بس وہ ہو جاتا ہے ، اب یہاں بھی اس کے بعد بیان ہو رہا ہے ۔ آل عمران
56 آل عمران
57 آل عمران
58 آل عمران
59 اختیارات کی وضاحت اور نجرانی وفد کی روداد حضرت باری جل اسمہ وعلا قدرہ اپنی قدرت کاملہ کا بیان فرما رہا ہے کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا تو صرف باپ نہ تھا اور میں نے انہیں پیدا کر دیا تو کون سی حیرانی بات ہے ؟ میں نے سیدنا آدم علیہ السلام کو تو ان سے پہلے پیدا کیا تھا ان کا بھی باپ نہ تھا بلکہ ماں بھی نہ تھی ، مٹی سے پتلا بنایا اور کہ دیا آدم علیہ السلام ہو جا اسی وقت ہو گیا ، پھر میرے لیے صرف ماں سے پیدا کرنا کون سا مشکل ہو سکتا جبکہ بغیر ماں اور باپ کے بھی میں نے پیدا کر دیا ، پس اگر صرف باپ نہ ہونے کی وجہ سے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام خدا کے بیٹا کہلانے کے مستحق ہو سکتے ہیں تو حضرت آدم علیہ السلام بطریق اولیٰ اسکا استحقاق رکھتے ہیں اور انہیں خود تم بھی نہیں مانتے بھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو تو سب سے پہلے اس مرتبہ سے ہٹا دینا چاہیئے ، کیونکہ ان کے دعوے کا جھوٹا ہونا اور خرابی اس سے بھی زیادہ یہاں ظاہر ہے یہاں ماں تو ہے وہاں تو نہ ماں تھی نہ باپ ، یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ جل جلالہ کی قدرت کاملہ کا ظہور ہے کہ آدم علیہ السلام کو بغیر مرد و عورت کے پیدا کیا اور حواء کو صرف مرد سے بغیر عورت کے پیدا کیا ، اور عیسیٰ علیہ السلام کو صرف عورت سے بغیر مرد کے پیدا کر دیا اور باقی مخلوق کو مرد و عورت سے پیدا کیا اسی لیے سورۃ مریم میں فرمایا «وَلِنَجْعَلَہٗٓ اٰیَۃً لِّلنَّاسِ وَرَحْمَۃً مِّنَّا وَکَانَ اَمْرًا مَّقْضِیًّا» (19-مریم:21) ہم نے عیسیٰ علیہ السلام کو لوگوں کے لیے اپنی قدرت کا نشان بنایا اور یہاں فرمایا ہے ۔ عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں اللہ کا سچا فیصلہ یہی ہے اس کے سوا اور کچھ کسی کمی یا زیادتی کی گنجائش ہی نہیں ہے کیونکہ حق کے بعد گمراہی ہی ہوتی ہے پس تجھے اے نبی ہرگز ان شکی لوگوں میں نہ ہونا چاہیئے ۔ اللہ رب العالمین اس کے بعد اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ اگر اس قدر واضح اور کامل بیان کے بعد بھی کوئی شخص تجھ سے امر عیسیٰ کے بارے میں جھگڑے تو تو انہیں مباہلہ کی دعوت دے کہ ہم فریقین مع اپنے بیٹوں اور بیویوں کے مباہلہ کے لیے نکلیں اور اللہ جل شانہ سے عاجزی کے ساتھ کہیں کہ اے اللہ ہم دونوں میں جو بھی جھوٹا ہو اس پر تو اپنی لعنت نازل فرما ، اس مباہلہ کے نازل ہونے اور سورت کی ابتداء سے یہاں تک کی ان تمام آیتوں کے نازل ہونے کا سبب نجران کے نصاریٰ کا وفد تھا یہ لوگ یہاں آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عیسیٰ کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے ، ان کا عقیدہ تھا کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام حکمرانی کے حصہ دار اور اللہ جل شانہ کے بیٹے ہیں پس ان کی تردید اور ان کے جواب میں یہ سب آیتیں نازل ہوئیں ، ابن اسحاق رحمہ اللہ اپنی مشہور عام سیرت میں لکھتے ہیں ان کے علاوہ دوسرے مؤرخین نے بھی اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ نجران کے نصرانیوں نے بطور وفد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنے ساٹھ آدمی بھیجے تھے جن میں چودہ شخص ان کے سردار تھے جن کے نام یہ ہیں ، عاقب جس کا نام عبدالمسیح تھا ، سید جس کا نام ایہم تھا ، ابو حارثہ بن علقمہ جو بکر بن وائل کا بھائی تھا ، اور اویس بن حارث ، زید ، قیس ، یزید اور اس کے دونوں لڑکے ، اور خویلد اور عمرو ، خالد ، عبداللہ اور محسن یہ سب چودہ سردار تھے لیکن پھر ان میں بڑے سردار تین شخص تھے عاقب جو امیر قوم تھا اور عقلمند سمجھا جاتا تھا اور صاحب مشورہ تھا اور اسی کی رائے پر یہ لوگ مطمئن ہو جاتے تھے اور سید جو ان کا لاٹ پادری تھا اور مدرس اعلیٰ تھا یہ بنوبکر بن وائل کے عرب قبیلے میں سے تھا لیکن نصرانی بن گیا تھا اور رومیوں کے ہاں اس کی بڑی آؤ بھگت تھی اس کے لیے انہوں نے بڑے بڑے گرجے بنا دئیے تھے اور اس کے دین کی مضبوطی دیکھ کر اس کی بہت کچھ خاطر و مدارات اور خدمت و عزت کرتے رہتے تھے ۱؎ (دلائل النبوۃ للبیہقی:382/5:مرسل ضعیف) یہ شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت و شان سے واقف تھا اور اگلی کتابوں میں آپ کی صفتیں پڑھ چکا تھا دل سے آپ کی نبوت کا قائل تھا لیکن نصرانیوں میں جو اس کی تکریم و تعظیم تھی اور وہاں جو جاہ و منصب اسے حاصل تھا اس کے چھن جانے کے خوف سے راہ حق کی طرف نہیں آتا تھا ، غرض یہ وفد مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مسجد نبوی میں حاضر ہوا آپ اس وقت عصر کی نماز سے فارغ ہو کر بیٹھے ہی تھے یہ لوگ نفیس پوشاکیں پہنے ہوئے اور خوبصورت نرم چادریں اوڑھے ہوئے تھے ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے بنو حارث بن کعب کے خاندان کے لوگ ہوں صحابہ کہتے ہیں ان کے بعد ان جیسا باشوکت وفد کوئی نہیں آیا ، ان کی نماز کا وقت آ گیا تو آپ کی اجازت سے انہوں نے مشرق کی طرف منہ کر کے مسجد نبوی میں ہی اپنے طریق پر نماز ادا کر لی ۔ بعد نماز کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی گفتگو ہوئی ادھر سے بولنے والے یہ تین شخص تھے حارثہ بن علقمہ عاقب یعنی عبدالمسیح اور سید یعنی ایہم یہ گو شاہی مذہب پر تھے لیکن کچھ امور میں اختلاف رکھتے تھے ۔ مسیح کی نسبت ان کے تینوں خیال تھے یعنی وہ خود اللہ جل شانہ ہے اور اللہ کا لڑکا ہے اور تین میں کا تیسرا ہے اللہ ان کے اس ناپاک قول سے مبرا ہے اور بہت ہی بلند و بالا ، تقریباً تمام نصاریٰ کا یہی عقیدہ ہے ، مسیح کے اللہ ہونے کی دلیل تو ان کے پاس یہ تھی کہ وہ مردوں کو زندہ کر دیتا تھا اور اندھوں اور کوڑھیوں اور بیماروں کو شفاء دیتا تھا ، غیب کی خبریں دیتا تھا اور مٹی کی چڑیا بنا کر پھونک مار کر اڑا دیا کرتا تھا اور جواب اس کا یہ ہے کہ یہ ساری باتیں اس سے اللہ کے حکم سے سرزد ہوتی تھیں اس لیے کہ اللہ کی نشانیاں اللہ کی باتوں کے سچ ثابت ہونے پر اور سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت پر مثبت دلیل ہو جائیں ، اللہ کا لڑکا ماننے والوں کی حجت یہ تھی کہ ان کا بہ ظاہر کوئی باپ نہ تھا اور گہوارے میں ہی بولنے لگے تھے ، یہ باتیں بھی ایسی ہیں کہ ان سے پہلے دیکھنے میں ہی نہیں آئی تھیں [ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بھی اللہ کی قدرت کی نشانیاں تھیں تاکہ لوگ اللہ کو اسباب کا محکوم اور عادت کا محتاج نہ سمجھیں وغیرہ ۔ مترجم ] اور تین میں تیسرا اس لیے کہتے تھے کہ اس نے اپنے کلام میں فرمایا ہے ہم نے کیا ہمارا امر ہماری مخلوق ہم نے فیصلہ کیا وغیرہ پس اگر اللہ اکیلا ایک ہی ہوتا تو یوں نہ فرماتا بلکہ فرماتا میں نے کیا میرا امر میری مخلوق میں نے فیصلہ کیا وغیرہ پس ثابت ہوا کہ اللہ تین ہیں خود اللہ رب کعبہ اور عیسیٰ اور مریم [ جس کا جواب یہ ہے کہ ہم کا لفظ صرف بڑائی کے لیے اور عظمت کے لیے ہے ۔ مترجم ] اللہ تعالیٰ ان ظالموں منکروں کے قول سے پاک و بلند ہے ، ان کے تمام عقائد کی تردید قرآن کریم میں نازل ہوئی ، جب یہ تینوں پادری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بات چیت کر چکے تو آپ نے فرمایا تم مسلمان ہو جاؤ انہوں نے کہا ہم تو ماننے والے ہیں ہی ، آپ نے فرمایا نہیں نہیں تمہیں چاہیئے کہ اسلام قبول کر لو وہ کہنے لگے ہم تو آپ سے پہلے کے مسلمان ہیں فرمایا نہیں تمہارا اسلام قبول نہیں اس لیے کہ تم اللہ کی اولاد مانتے ہو صلیب کی پوجا کرتے ہو خنزیر کھاتے ہو ۔ انہوں نے کہا اچھا پھر یہ تو فرمائے کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا باپ کون تھا ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو اس پر خاموش رہے اور سورۃ آل عمران کی شروع سے لے کر اوپر اوپر تک کی آیتیں ان کے جواب میں نازل ہوئیں ، ابن اسحاق ان سب کی مختصر سی تفسیر بیان کر کے پھر لکھتے ہیں آپ نے یہ سب تلاوت کر کے انہیں سمجھا دیں ۔ اس مباہلہ کی آیت کو پڑھ کر آپ نے فرمایا اگر نہیں مانتے تو آؤ مباہلہ کا نکلو یہ سن کر وہ کہنے لگے اے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں مہلت دیجئیے کہ ہم آپس میں مشورہ کر لیں پھر تمہیں اس کا جواب دیں گے اب تنہائی میں بیٹھ کر انہوں نے عاقب سے مشورہ لیا جو بڑا دانا اور عقلمند سمجھا جاتا تھا اس نے اپنا حتمی فیصلہ ان الفاظ میں سنایا کہ اے جماعت نصاریٰ تم نے یقین کے ساتھ اتنا تو معلوم کر لیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں اور یہ بھی تم جانتے ہو کہ عیسیٰ کی حقیت وہی ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی تم سن چکے ہو اور تمہیں بخوبی علم ہے کہ جو قوم نبی کے ساتھ ملاعنہ کرتی ہے نہ ان کے بڑے باقی رہتے ہیں نہ چھوٹے بڑے ہوتے ہیں بلکہ سب کے سب جڑ بنیاد سے اکھیڑ کر پھینک دئیے جاتے ہیں یاد رکھو کہ اگر تم نے مباہلہ کے لیے قدم بڑھایا تو تمہارا ستیاناس ہو جائے گا ، پس یا تو تم اسی دین کو قبول کر لو اور اگر کسی طرح نہیں ماننا چاہتے ہو اور اپنے دین پر اور عیسیٰ کے متعلق اپنے ہی خیالات پر قائم رہنا چاہتے ہو تو آپ سے صلح کر لو اور اپنے وطن کو لوٹ جاؤ چنانچہ یہ لوگ صلاح مشورہ کر کے پھر دربار نبوی میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے اے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم ہم آپ سے ملاعنہ کرنے کے لیے تیار نہیں آپ اپنے دین پر رہیے اور ہم اپنے خیالات پر ہیں لیکن آپ ہمارے ساتھ اپنے صحابیوں میں سے کیسی ایسے شخص کو بھیج دیجئیے جن سے آپ خوش ہوں کہ وہ ہمارے مالی جھگڑوں کا ہم میں فیصلہ کر دیں آپ لوگ ہماری نظروں میں بہت ہی پسندیدہ ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا تم دوپہر کو پھر آنا میں تمہارے ساتھ کسی مضبوط امانت دار کو کر دوں گا ،سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے کسی دن بھی سردار بننے کی خواہش نہیں کی لیکن اس دن صرف اس خیال سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو تعریف کی ہے اس کا تصدیق کرنے والا اللہ کے نزدیک میں بن جاؤں ، اسی لیے میں اس روز سویرے سویرے ظہر کی نماز کے لیے چل پڑا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے نماز ظہر پڑھائی پھر دائیں بائیں نظریں دوڑانے لگے میں باربار اپنی جگہ اونچا ہوتا تھا تاکہ آپ کی نگاہیں مجھ پر پڑھیں ، آپ برابر بغور دیکھتے ہی رہے یہاں تک کہ نگاہیں سیدنا ابو عبید بن جراح رضی اللہ عنہ پر پڑیں انہیں طلب فرمایا اور کہا کہ ان کے ساتھ جاؤ اور ان کے اختلافات کا فیصلہ حق سے کر دو چنانچہ سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ ان کے ساتھ تشریف لے گئے ۱؎ (دلائل النبوۃ للبیہقی:385/5:مرسل و ضعیف) ابن مردویہ میں بھی یہ واقعہ اسی طرح منقول ہے لیکن وہاں سرداروں کی گنتی بارہ کی ہے اور اس واقعہ میں بھی قدرے طوالت ہے اور کچھ زائد باتیں بھی ہیں ، صحیح بخاری شریف میں بروایت سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ مروی ہے نجرانی سردار عاقب اور سید مباہلہ کے ارادے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے لیکن ایک نے دوسرے سے کہا یہ نہ کر اللہ کی قسم اگر یہ نبی ہیں اور ہم نے ان سے مباہلہ کیا تو ہم اپنی اولادوں سمیت تباہ ہو جائیں گے چنانچہ پھر دونوں نے متفق ہو کر کہا آپ ہم سے جو طلب فرماتے ہیں ہم وہ سب ادا کر دیں گے ( یعنی جزیہ دینا قبول کر لیا ) آپ کسی امین شخص کو ہمارے ساتھ کر دیجئیے اور امین کو ہی بھیجنا ، آپ نے فرمایا بہتر میں تمہارے ساتھ کامل امین کو ہی کروں گا اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک دوسرے کو تکنے لگے یہ دیکھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کس کا انتخاب کرتے ہیں آپ نے فرمایا اے ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ تم کھڑے ہو جاؤ جب یہ کھڑے ہوئے تو آپ نے فرمایا یہ ہیں اس امت کے امین (صحیح بخاری:4380) ۱؎ ، صحیح بخاری شریف کی اور حدیث میں ہے ہر امت کا امین ہوتا ہے اور اس امت کا امین ابوعبیدہ بن جراح ہے ( رضی اللہ عنہ ) (صحیح بخاری:4382)۱؎ مسند احمد میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ابوجہل ملعون نے کہا ۔ اگر میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کعبہ میں نماز پڑھتے دیکھ لوں گا تو اس کی گردن کچل دوں گا فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا اگر وہ ایسا کرتا تو سب کے سب دیکھتے کہ فرشتے اسے دبوچ لیتے ، اور یہودیوں سے جب قرآن نے کہا تھا کہ آؤ جھوٹوں کے لیے موت مانگو اگر وہ مانگتے تو یقیناً سب کے سب مر جاتے اور اپنی جگہیں جہنم کی آگ میں دیکھ لیتے اور جن نصرانیوں کو مباہلہ کی دعوت دی گئی تھی اگر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں مباہلے کے لیے نکلتے تو لوٹ کر اپنے مالوں کو اور اپنے بال بچوں کو نہ پاتے ، صحیح بخاری ترمذی اور نسائی میں بھی یہ حدیث ہے (صحیح بخاری:4958) ۱؎ ، امام ترمذی رحمہ اللہ اسے حسن صحیح کہتے ہیں امام بیہقی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب دلائل النبوۃ میں بھی وفد نجران کے قصے کو طویل تر بیان کیا ہے ، ہم اسے یہاں نقل کرتے ہیں کیونکہ اس میں بہت سے فوائد ہیں گو اس میں غرابت بھی ہے اور اس مقام سے وہ نہایت مناسبت رکھتا ہے ، سلمہ بن عبد یسوع اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں جو پہلے نصرانی تھے پھر مسلمان ہو گئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ طس قرآن میں نازل ہونے سے پیشتر اہل نجران کو نامہ مبارک لکھا جس کی عبارت یہ تھی «بسم الہ ابراہیم واسحاق ویعقوب من محمد النبی رسول اللہ الی اسقف نجران واھل نجران اسلم انتم فانی احمد الیکم الہ ابراہیم واسحاق ویعقوب ۔ اما بعد فانی ادعوکم الی عبادۃ اللہ من عبادۃ العباد وادعوکم الی ولایتہ اللہ من ولایتہ العباد فان ابیتم فالجزیتہ فان ابیتم فقد اذنتکم بحرب والسلام» یعنی اس خط کو میں شروع کرتا ہوں سیدنا ابراہیم علیہ السلام ، سیدنا اسحاق علیہ السلام اور سیدنا یعقوب علیہ السلام کے اللہ تعالیٰ کے نام سے ، یہ خط ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جو اللہ رب العزت کے نبی اور رسول ، نجران کے سردار کی طرف ۔ میں اللہ تعالیٰ کی تمہارے سامنے حمد و ثناء بیان کرتا ہوں جو سیدنا ابراہیم ، سیدنا اسحاق اور سیدنا یعقوب کا معبود ہے ، پھر میں تمہیں دعوت دیتا ہوں کہ بندوں کی عبادت کو چھوڑ کر اللہ کی عبادت کی طرف آؤ اور بندوں کی ولایت کو چھوڑ کر اللہ کی ولایت کی طرف آ جاؤ ، اگر تم اسے نہ مانو تو جزیہ دو اور ماتحتی اختیار کرو اگر اس سے بھی انکار ہو تو تمہیں لڑائی کا اعلان ہے والسلام ۔ جب یہ خط اسقف کو پہنچا اور اس نے اسے پڑھایا تو بڑا سٹپٹایا گھبرا گیا اور تھرانے لگا ، جھٹ سے شرحیل بن وداعہ کو بلوایا جو ہمدان قبیلہ کا تھا سب سے بڑا مشیر سلطنت یہی تھا جب کبھی کوئی اہم کام آپڑتا تو سب سے پہلے یعنی ایہم اور سید اور عاقب سے بھی پیشر اس سے مشورہ ہوتا جب یہ آ گیا تو اسقف نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خط اسے دیا جب اس نے پڑھ لیا تو اسقف نے پوچھا بتاؤ کیا خیال ہے ؟ شرحیل نے کہا بادشاہ کو خوب علم ہے کہ سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے اللہ کے ایک نبی کے آنے کا وعدہ اللہ کی کتاب میں ہے کیا عجب کہ وہ نبی یہی ہو ، امر نبوت میں کیا رائے دے سکتا ہوں ہاں اگر امور سلطنت کی کوئی بات ہوتی تو بیشک میں اپنے دماغ پر زور ڈال کر کوئی بات نکال لیتا ، اسقف نے انہیں تو الگ بٹھا دیا اور عبداللہ بن شرحیل کو بلایا یہ بھی مشیر سلطنت تھا اور حمیر کے قبیلے میں سے تھا اسے خط دیا پڑھایا رائے پوچھی تو اس نے بھی ٹھیک وہی بات کہی جو پہلا مشیر کہہ چکا تھا اسے بھی بادشاہ نے دور بٹھا دیا پھر جبار بن فیض کو بلایا جو بنو حارث میں سے تھا اس نے بھی یہی کہا جو ان دونوں نے کہا تھا ، بادشاہ نے جب دیکھا کہ ان تینوں کی رائے متفق ہے تو حکم دیا گیا کہ ناقوس بجائے جائیں آگ جلا دی جائے اور گرجوں میں جھنڈے بلند کر دئیے جائیں وہاں کا یہ دستور تھا کہ جب سلطنت کا کوئی اہم کام ہوتا تو رات کو جمع کرنا مقصود ہوتا تو یہی کرتے اور اگر دن کا وقت ہوتا تو گرجوں میں آگ جلا دی جاتی اور ناقوس زور زور سے بجائے جاتے ، اس حکم کے ہوتے ہی چاروں طرف آگ جلا دی گئی اور ناقوس کی آواز نے ہر ایک کو ہوشیار کر دیا اور جھنڈے اونچے دیکھ دیکھ کر آس پاس کے وادی کے تمام لوگ جمع ہو گئے اس وادی کا طول اتنا تھا کہ تیز سوار صبح سے شام تک دوسرے کنارے پہنچتا تھا اس میں تہتر گاؤں آباد تھے اور ایک لاکھ بیس ہزار تلوار چلانے والے یہاں آباد تھے جب یہ سب لوگ آ گئے تو اسقف نے انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ مبارک پڑھ کر سنایا اور پوچھا بتاؤ تمہاری کیا رائے ہے ؟ تو تمام عقلمندوں نے کہا کہ شرحیل بن وداعہ ہمدانی عبداللہ بن شرحیل اصبحی اور جبار بن فیض حارثی کو بطور وفد کے بھیجا جائے ، یہ وہاں سے پختہ خبر لائیں اب یہاں سے یہ وفد ان تینوں کی سرداری کے ماتحت روانہ ہوا مدینہ پہنچ کر انہوں نے سفری لباس اتار ڈالا اور نقش بنے ہوئے ریشمی لمبے لمبے حلے پہن لیے اور سونے کی انگوٹھیاں انگلیوں میں ڈال لیں اور اپنی چادروں کے پلے تھامے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ، سلام کیا لیکن آپ نے جواب نہ دیا بہت دیر تک انتظار کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کچھ بات کریں لیکن ان ریشمی حلوں اور سونے کی انگوٹھیوں کی وجہ سے آپ نے ان سے کلام بھی نہ کیا اب یہ لوگ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اور سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کی تلاش میں نکلے اور ان دونوں بزرگوں سے ان کی پہلی ملاقات تھی مہاجرین اور انصار کے ایک مجمع میں ان دونوں حضرات کو پا لیا ان سے واقعہ بیان کیا تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خط لکھا ہم اس کا جواب دینے کے لیے خود حاضر ہوئے آپ کے پاس گئے سلام کیا لیکن جواب نہ دیا پھر بہت دیر تک انتظار میں بیٹھے رہے کہ آپ سے کچھ باتیں ہو جاتیں لیکن آپ نے ہم سے کوئی بات نہ کی آخر ہم لوگ تھک کر چلے آئے اب آپ حضرات فرمائے کہ کیا ہم یونہی واپس چلے جائیں ، ان دونوں نے سیدنا علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ ہی انہیں جواب دیجئیے سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا میرا خیال ہے کہ یہ لوگ اپنے حلے اور اپنی انگوٹھیاں اتار دیں اور وہی سفری معمولی لباس پہن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دوبارہ جائیں چنانچہ انہوں نے یہی کیا اور اسی معمولی لباس میں گئے سلام کیا آپ نے جواب دیا پھر فرمایا اس اللہ کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ بھیجا ہے یہ جب میرے پاس پہلی مرتبہ آئے تھے تو ان کے ساتھ ابلیس تھا اب سوال جواب بات چیت شروع ہوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی پوچھتے تھے اور وہ جواب دیتے تھے اسی طرح وہ بھی سوال کرتے اور جواب پاتے ، آخر میں انہوں نے پوچھا آپ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی بابت کیا فرماتے ہیں ؟ تاکہ ہم اپنی قوم کے پاس جا کر وہ کہیں ہمیں اس کی خوشی ہے کہ اگر آپ نبی ہیں تو آپ کی زبانیں سنیں کہ آپ کا ان کی بابت کیا خیال ہے ؟ تو آپ نے فرمایا میرے پاس اس کا جواب آج تو نہیں تم ٹھہرو تو میرا رب مجھ سے اس کی بابت جو فرمائے گا وہ میں تمہیں سنا دوں گا ، دوسرے دن وہ پھر آئے تو آپ نے اسی وقت کی اتری ہوئی اس آیت «إِنَّ مَثَلَ عِیسَیٰ عِندَ اللہِ کَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَہُ مِن تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہُ کُن فَیَکُونُ» (3-آل عمران:59) کی «لَّعْنَتَ اللہِ عَلَی الْکَاذِبِینَ» (3-آل عمران:60) تک تلاوت کر سنائی انہوں نے اس بات کا اقرار کرنے سے انکار کر دیا ، دوسرے دن صبح ہی صبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ملاعنہ کے لیے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو اپنی چادر میں لیے ہوئے تشریف لائے پیچھے پیچھے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا آ رہی تھیں اس وقت آپ کی کئی ایک بیویاں تھیں ، شرحیل یہ دیکھتے ہی اپنے دونوں ساتھیوں سے کہنے لگا تم جانتے ہو کہ نجران کی ساری وادی میری بات کو مانتی ہے اور میری رائے پر کاربند ہوتی ہے ، سنو اللہ کی قسم یہ معاملہ بڑا بھاری ہے اگر یہ شخص صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث کیا گیا ہے تو سب سے پہلے اس کی نگاہوں میں ہم ہی مطعون ہوں گے اور سب سے پہلے اس کی تردید کرنے والے ہم ہی ٹھہریں گے یہ بات اس کے اور اس کے ساتھیوں کے دلوں میں نہیں جائے گی اور ہم پر کوئی نہ کوئی مصیبت و آفت آئے گی عرب بھر میں سب سے زیادہ قریب ان سے میں ہی ہوں اور سنو اگر یہ شخص بنی مرسل ہے تو مباہلہ کرتے ہی روئے زمین پر ایک بال یا ایک ناخن بھی ہمارا نہ رہے گا ۔ اس کے دونوں ساتھیوں نے کہا پھر اے ابو مریم آپ کی کیا رائے ہے ؟ اس نے کہا میری رائے یہ ہے کہ اسی کو ہم حاکم بنا دیں جو کچھ یہ حکم دے ہم اسے منظور کر لیں یہ کبھی بھی خلاف عدل حکم نہ دے گا ، ان دونوں نے اس بات کو تسلیم کر لیا ، اب شرجیل نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ میں اس ملاعنہ سے بہتر چیز جناب کے سامنے پیش کرتا ہوں آپ نے دریافت فرمایا وہ کیا ؟ کہا آج کا دن آنے والی رات اور کل کی صبح تک آپ ہمارے بارے میں جو حکم کریں ہمیں منظور ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شاید اور لوگ تمہارے اس فیصلے کو نہ مانیں ، شرحیل نے کہا اس کی بابت میرے ان دونوں ساتھیوں سے دریافت فرما لیجئے آپ نے ان دونوں سے پوچھا انہوں نے جواب دیا کہ سارے وادی کے لوگ انہی کی رائے پر چلتے ہیں وہاں ایک بھی ایسا نہیں جو ان کے فیصلے کو ٹال سکے ، پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ درخواست قبول فرمائی ۔ مباہلہ نہ کیا اور واپس لوٹ گئے دوسرے دن صبح ہی وہ حاضر خدمت ہوئے تو آپ نے ایک تحریر انہیں لکھ دی کہ جس میں بسم اللہ کے بعد یہ مضمون تھا کہ ”تحریر“ اللہ کے نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے نجرانیوں کے لیے ہے ان پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم جاری تھا ہر پھل ، ہر سیاہ و سفید اور ہر غلام پر لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ سب انہی کو دیتے ہیں یہ ہر سال صرف دو ہزار حلے دے دیا کریں ایک ہزار رجب میں اور ایک ہزار صفر میں وغیرہ وغیرہ ،(دلائل النبوۃ للبیہقی:384/5:ضعیف) ۱؎ پورا عہد نامہ انہیں عطا فرمایا ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا یہ وفد سن ٩ ہجری میں آیا تھا اس لیے کہ زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں سب سے پہلے جزیہ انہی اہل نجران نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ادا کیا ، اور جزیہ کی آیت فتح مکہ کے بعد اتری ہے جو یہ ہے «قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَلَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَلَا یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ وَلَا یَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ حَتّٰی یُعْطُوا الْجِزْیَۃَ عَنْ یَّدٍ وَّہُمْ صٰغِرُوْنَ» (9-التوبۃ:29) اس آیت میں اہل کتاب سے جزیہ لینے کا حکم ہوا ہے ، ابن مردویہ میں ہے کہ عاقب اور طیب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے آپ نے انہیں ملاعنہ کے لیے کہا اور صبح کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اور سیدنا حسن رضی اللہ عنہ اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو لیے ہوئے آپ تشریف لائے اور انہیں کہلا بھیجا انہوں نے قبول نہ کیا اور خراج دینا منظور کر لیا ، آپ نے فرمایا اس کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ بھیجا ہے اگر یہ دونوں ”نہیں“ کہتے تو ان پر یہی وادی آگ برساتی ، سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں «ندع ابنائنا» الخ ، والی آیت انہی کے بارے میں نازل ہوئی ہے «انفسنا» سے مراد خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ «ابنائنا» سے مراد سیدنا حسن رضی اللہ عنہ اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ «نسائنا» سے مراد سیدہ فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا (ابو نعیم فی الدلائل:244:ضعیف) ۱؎ مستدرک حاکم وغیرہ میں بھی اس معنی کی حدیث مروی ہے ۔ پھر جناب باری کا ارشاد ہے یہ جو ہم نے عیسیٰ علیہ السلام کی شان فرمائی ہے حق اور سچ ہے اس میں بال برابر کمی بیشی نہیں ، اللہ قابل عبادت ہے کوئی اور نہیں اور وہی غلبہ والا اور حکمت والا ہے ، اب بھی اگر یہ منہ پھیر لیں اور دوسری باتوں میں پڑیں تو اللہ بھی ایسے باطل پسندوں کو اور مفسدوں کو بخوبی جانتا ہے انہیں بدترین سزا دے گا اس میں پوری قدرت ہے کوئی اس سے نہ بھاگ سکے نہ اس کا مقابلہ کر سکے ، وہ پاک ہے اور تعریفوں والا ہے ہم اس کے عذاب سے اسی کی پناہ چاہتے ہیں ۔ آل عمران
60 آل عمران
61 آل عمران
62 آل عمران
63 آل عمران
64 یہودیوں اور نصرانیوں سے خطاب یہودیوں نصرانیوں اور انہی جیسے لوگوں سے یہاں خطاب ہو رہا ہے ، کلمہ کا اطلاق مفید جملے پر ہوتا ہے ، جیسے یہاں کلمہ کہہ کر پھر «سَوَاءٍ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ» الخ کے ساتھ اس کی تعریف یوں کی گئی ہے ۔ «سَوَاءٍ» کے معنی عدل و انصاف جیسے ہم کہیں ہم تم برابر ہیں ، پھر اس کی تفسیر کی خاص بات یہ ہے کہ ہم ایک اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کریں اس کے ساتھ کسی بت کو نہ پوجیں صلیب ، تصویر ، اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور نہ آگ کو نہ اور کسی چیز کو بلکہ تنہا اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کریں ، یہی عبادت تمام انبیاء کرام علیہ السلام کی تھی ، جیسے فرمان ہے «وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِیْٓ اِلَیْہِ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ» (21-الأنبیاء:25) یعنی تجھ سے پہلے جس جس رسول کو ہم نے بھیجا سب کی طرف یہی وحی کہ میرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں پس تم سب میری ہی عبادت کیا کرو اور جگہ ارشاد ہے «وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ» (16-النحل:36) یعنی ہر امت میں رسول بھیج کر ہم نے یہ اعلان کروایا کہ صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا سب سے بچو ۔ پھر فرماتا ہے کہ آپس میں بھی ہم اللہ جل جلالہ کو چھوڑ کر ایک دوسرے کو رب نہ بنائیں ، ابن جریج رحمہ اللہ فرماتے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں ایک دوسرے کی اطاعت نہ کریں ۔ عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کسی کو سوائے اللہ تعالیٰ کے سجدہ نہ کریں ، پھر اگر یہ لوگ اس حق اور عدل دعوت کو بھی قبول نہ کریں تو انہیں تم اپنے مسلمان ہونے کا گواہ بنا لو ۔ ہم نے بخاری کی شرح میں اس واقعہ کا مفصل ذکر کر دیا ہے جس میں ہے کہ ابوسفیان رضی اللہ عنہ جبکہ دربار قیصر میں بلوائے گئے اور شاہ قیصر روم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نسب کا حال پوچھا تو انہیں کافر اور دشمن رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کے باوجود آپ کی خاندانی شرافت کا اقرار کرنا پڑا اور اسی طرح ہر سوال کا صاف اور سچا جواب دینا پڑا یہ واقعہ صلح حدیبیہ کے بعد کا اور فتح مکہ سے پہلے کا ہے اسی باعث قیصر کے اس سوال کے جواب میں کہ کیا وہ [ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ] بدعہدی کرتے ہیں ؟ ابوسفیان نے کہا نہیں کرتے لیکن اب ایک معاہدہ ہمارا ان سے ہوا ہے نہیں معلوم اس میں وہ کیا کریں ؟ یہاں صرف یہ مقصد ہے کہ ان تمام باتوں کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ مبارک پیش کیا جاتا ہے جس میں بسم اللہ کے بعد یہ لکھا ہوتا ہے کہ یہ خط محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہے جو اللہ کے رسول ہیں صلی اللہ علیہ وسلم ہرقل کی طرف جو روم کا شاہ ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلام ہو اسے جو ہدایت کا تابعدار ہو اس کے بعد اسلام قبول کر سلامت رہے گا ، اسلام قبول کر اللہ تعالیٰ تجھے دوہرا اجر دے گا اور اگر تو نے منہ موڑا تو تمام رئیسوں کے گناہوں کا بوجھ تجھ پر پڑے گا پھر یہی آیت لکھی تھی ، امام محمد بن اسحاق وغیرہ نے لکھا ہے کہ اس سورت یعنی سورۃ آل عمران کو شروع سے لے کر «اننی» سے کچھ اوپر تک آیتیں وفد نجران کے بارے میں نازل ہوئی ہیں ، امام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں سب سے پہلے جزیہ انہی لوگوں نے ادا کیا ہے اور اس بات میں بھی مطلقاً اختلاف نہیں ہے کہ آیت جزیہ فتح مکہ کے بعد اتری ہے پس یہ اعتراض ہوتا ہے کہ جب یہ آیت فتح مکہ کے بعد نازل ہوئی ہے تو پھر فتح سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خط میں ہرقل کو یہ آیت کیسے لکھی ؟ اس کے جواب کئی ہو سکتے ہیں ایک تو یہ کہ ممکن ہے یہ آیت دو مرتبہ اتری ہو اول حدیبیہ سے پہلے اور فتح مکہ کے بعد ، دوسرا جواب یہ ہے کہ ممکن ہے شروع سورت سے لے کر اس آیت تک وفد نجران کے بارے میں اتری ہو یا یہ آیت اس سے پہلے اتر چکی ہو اس صورت میں ابن اسحاق رحمہ اللہ کا یہ فرمانا کہ اسی[ 80] کے اوپر اوپر کی کچھ آیتیں اسی وفد کے بارے میں اتری ہیں یہ محفوظ نہ ہو کیونکہ ابوسفیان والا واقعہ سراسر اس کے خلاف ہے ، تیسرا جواب یہ ہے کہ ممکن ہے وفد نجران حدیبیہ سے پہلے آیا ہو اور انہوں نے جو کچھ دینا منظور کیا ہو یہ صرف مباہلہ سے بچنے کے لیے بطور مصالحت کے ہو نہ کہ جزیہ دیا ہو اور یہ اتفاق کی بات ہو کہ آیت جزیہ اس واقعہ کے بعد اتری جس سے اس کا اتفاقاً الحاق ہو گیا ۔ جیسے کہ عبداللہ بن حجش رضی اللہ عنہ نے بدر سے پہلے غزوے کے مال غنیمت کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا اور پانچواں حصہ باقی رکھ کر دوسرے حصے لشکر میں تقسیم کر دیئے ، پھر اس کے بعد مال غنیمت کی تقسیم کی آیتیں بھی اسی کے مطابق اتریں اور یہی حکم ہوا ۔ چوتھا جواب یہ ہے کہ احتمال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خط میں جو ہرقل کو بھیجا اس میں یہ بات اسی طرح بطور خود لکھی ہو پھر نبی کریم کے الفاظ ہی میں وحی نازل ہوئی ہو جیسے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پردے کے حکم کے بارے میں اسی طرح آیت اتری ، اور بدوی قیدیوں کے بارے میں انہی کے ہم خیال فرمان باری نازل ہوا اسی طرح منافقوں کا جنازہ پڑھنے کی بابت بھی انہی کی بات قائم رکھی گئی ، چنانچہ مقام ابراہیم کو مصلےٰ بنانے سے متعلق بھی اسی طرح وحی نازل ہوئی «وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ وَأَمْنًا وَاتَّخِذُوا مِن مَّقَامِ إِبْرَاہِیمَ مُصَلًّی» (2-البقرۃ:125) اور «عَسٰی رَبٰہٗٓ اِنْ طَلَّقَکُنَّ اَنْ یٰبْدِلَہٗٓ اَزْوَاجًا خَیْرًا مِّنْکُنَّ مُسْلِمٰتٍ مٰؤْمِنٰتٍ قٰنِتٰتٍ تٰیِٕبٰتٍ عٰبِدٰتٍ سٰیِٕحٰتٍ ثَیِّبٰتٍ وَّاَبْکَارًا» (66-التحریم:5) بھی انہی کے خیال سے متعلق آیت اتری ، پس یہ آیت بھی اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق ہی اتری ہو ، یہ بہت ممکن ہے ۔ آل عمران
65 ابراہیم علیہ السلام سے متعلق یہودی اور نصرانی دعوے کی تردید یہودی سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو اپنے میں سے اور نصرانی بھی سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو اپنے میں سے کہتے تھے اور آپس میں اس پر بحث مباحثے کرتے رہتے تھے اللہ تعالیٰ ان آیتوں میں دونوں کے دعوے کی تردید کرتا ہے ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نجران کے نصرانیوں کے پاس یہودیوں کے علماء آئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ان کا جھگڑا شروع ہو گیا ، ہر فریق اس بات کا مدعی تھا کہ سیدنا خلیل اللہ علیہ السلام ہم میں سے تھے اس پر یہ آیت اتری کہ اے یہودیو تم خلیل اللہ کو اپنے میں سے کیسے بتاتے ہو ؟ حالانکہ ان کے زمانے میں نہ موسیٰ تھے نہ توراۃ ،سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور کتاب تورات شریف تو خلیل اللہ علیہ السلام کے بعد آئے ، اسی طرح اے نصرانیو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو نصرانی کیسے کہہ سکتے ہو ؟ حالانکہ نصرانیت تو ان کے صدیوں بعد ظہور میں آئی کیا تم اتنی موٹی بات کے سمجھنے کی عقل بھی نہیں رکھتے ؟ پھر ان دونوں فرقوں کی اس بےعلمی کے جھگڑے پر رب دو عالم انہیں ملامت کرتا ہے اگر تم بحث و مباحثہ دینی امور میں جو تمہارے پاس ہیں کرتے تو بھی خیر ایک بات تھی تم تو اس بارے میں گفتگو کرتے ہو جس کا دونوں کو مطلق علم ہی نہیں ، تمہیں چاہیئے کہ جس چیز کا علم نہ ہو اسے اس علیم اللہ کے حوالے کرو جو ہر چیز کی حقیقت کو جانتا ہے اور چھپی کھلی تمام چیزوں کا علم رکھتا ہے ، اسی لیے فرمایا اللہ جانتا ہے اور تم محض بے خبر ہو ۔ دراصل اللہ کے خلیل سیدنا ابراہیم علیہ السلام نہ تو یہودی تھے نہ نصرانی تھے وہ شرک سے بیزار مشرکوں سے الگ صحیح اور کامل ایمان کے مالک تھے اور ہرگز مشرک نہ تھے ، یہ آیت ، اس آیت کی مثل ہے جو سورۃ البقرہ میں گزر چکی «وَقَالُوا کُونُوا ہُودًا أَوْ نَصَارَیٰ تَہْتَدُوا قُلْ بَلْ مِلَّۃَ إِبْرَاہِیمَ حَنِیفًا وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِینَ» (2-البقرۃ:135) یعنی یہ لوگ کہتے ہیں یہودی یا نصرانی بننے میں ہدایت ہے ۔ پھر فرمایا کہ سب سے زیادہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی تابعداری کے حقدار ان کے دین پر ان کے زمانے میں چلنے والے تھے اور اب یہ نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور آپ کے ساتھ کے ایمانداروں کی جماعت جو مہاجرین و انصار ہیں اور پھر جو بھی ان کی پیروی کرتے رہیں قیامت تک ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہر نبی کے ولی دوست نبیوں میں سے ہوتے ہیں میرے ولی دوست انبیاء میں سے میرے باپ اور اللہ کے خلیل سیدنا ابراہیم علیہ السلام الصلٰوۃ والسلام ہیں ، پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی [ ترمذی وغیرہ ] (سنن ترمذی:2995،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ۱؎ پھر فرمایا جو بھی اللہ کے رسول پر ایمان رکھے وہی ان کا ولی اللہ ہے ۔ آل عمران
66 آل عمران
67 آل عمران
68 آل عمران
69 یہودیوں کا حسد یہاں بیان ہو رہا ہے کہ ان یہودیوں کے حسد کو دیکھو کہ مسلمانوں کیسے جل بھن رہے ہیں ۔ انہیں بہکانے کی کیا کیا پوشیدہ ترکیبیں کر رہے ہیں کیسے کیسے مکر و فریب کے جال بچھاتے ہیں ، حالانکہ دراصل ان تمام چیزوں کا وبال خود ان کی جانوں پر ہے لیکن انہیں اس کا بھی شعور نہیں ۔ پھر انہیں ان کی یہ ذلیل حرکت یاد دلائی جا رہی ہے کہ تم سچائی جانتے ہوئے بھی حق کو پہچانتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی آیات سے یہ منکر ہو رہے ہو ۔ علم کے باوجود یہ بدخصلت بھی ان میں ہے ۔ کہ حق و باطل کو ملا دیتے ہیں ، اور ان کی کتابوں میں جو صفتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہیں ان کو چھپا لیتے ہیں ۔ بہکانے کی جو صورتیں بناتے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپس میں مشورے کرتے ہیں کہ صبح جا کر ایمان لے آؤ مسلمانوں کے ساتھ نمازیں پڑھو اور شام کو پھر مرتد بن جاؤ تاکہ جاہل لوگوں کے دل میں بھی خیال گزرے کہ آخر یہ لوگ جو پلٹ گئے تو ظاہر ہے کہ انہوں نے اس دین میں کوئی خرابی یا برائی ہی دیکھی ہو گی تو کیا عجب کہ ان میں سے کوئی ہماری طرف ٹوٹ آئے ، غرض یہ ایک حیلہ جوئی تھی کہ شاید اس سے کوئی کمزور ایمان والا لوٹ جائے اور کچھ سمجھ لے کہ یہ جاننے بوجھنے والے لوگ جب اس دین میں آئے نمازیں پڑھیں اس کے بعد اسے چھوڑ دیا تو ضرور یہاں کوئی خرابی اور نقصان دیکھا ہو گا ۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ بھروسہ اپنے والوں پر کرو مسلمانوں پر نہ کرو نہ اپنے بھید ان پر ظاہر ہونے دو نہ اپنی کتابیں انہیں بتاؤ جس سے یہ ان پر ایمان لائیں اور اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی ان کے لیے ہم پر حجت بن جائیں آل عمران
70 آل عمران
71 آل عمران
72 آل عمران
73 1 تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تو اے نبی کہ دے کہ ہدایت تو اللہ ہی کے ہاتھ ہے وہ مومنوں کے دلوں کو ہر اس چیز پر ایمان لانے کے لیے آمادہ کر دیتا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہو انہیں ان دلائل پر کامل ایمان نصیب ہوتا ہے چاہے تم نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم کی صفتیں چھپاتے پھرو لیکن پھر بھی خوش قسمت لوگ تو آپ کی نبوت کے ظاہری نشان کو بہ یک نگاہ پہچان لیں گے ۔ اسی طرح کہتے تھے کہ تمہارے پاس جو علم ہے اسے مسلمانوں پر ظاہر نہ کرو کہ وہ اسے سیکھ کر تم جیسے ہو جائیں بلکہ اپنی ایمانی قوت کی وجہ سے تم سے بھی بڑھ جائیں ، یا اللہ کے سامنے ان کی حجت و دلیل قائم ہو جائے یعنی خود تمہاری کتابوں سے وہ تمہیں الزام دیں ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم کہ دو فضل تو اللہ عزوجل کے ہاتھ ہے جسے چاہے دے ، سب کام اسی کے قبضے میں ہیں وہی دینے والا ہے جسے چاہے دے سب کام اسی کے قبضے میں ہیں وہی دینے والا ہے جسے چاہے ایمان عمل اور علم و فضل کی دولت سے مالامال کر دے اور جسے چاہے راہ حق سے اندھا اور کلمہ اسلام سے بہرا اور صحیح سمجھ سے محروم کر دے اس کے سب کام حکمت سے ہی ہوتے ہیں وہ وسیع علم والا ہے ۔ جسے چاہے اپنی رحمت کے ساتھ خاص کر دے وہ بڑے فضل والا ہے ، اے مسلمانو ! اس نے تم پر بےپایاں احسانات کیے ہیں تمہارے نبی کو تم انبیاء علیہم السلہم پر فضیلت دی اور بہت ہی کامل اور ہر حیثیت سے پوری شریعت اس نے تمہیں دی آل عمران
74 آل عمران
75 بددیانت یہودی اللہ تعالیٰ مومنوں کو یہودیوں کی خیانت پر تنبیہہ کرتا ہے کہ ان کے دھوکے میں نہ آ جائیں ان میں بعض تو امانتدار ہیں اور بعض بڑے خائن ہیں بعض تو ایسے ہیں کہ خزانے کا خزانہ ان کی امانت میں ہو تو جوں کا توں حوالے کر دیں گے پھر چھوٹی موٹی چیز میں وہ بددیانتی کیسے کریں گے ؟ اور بعض ایسے بددیانت ہیں کہ ایک دینار بھی واپس نہ دیں گے ہاں اگر ان کے سر ہو جاؤ تقاضا برابر جاری رکھو اور حق طلب کرتے رہو تو شاید امانت نکل بھی آئے ورنہ ہضم بھی کر جائیں جب ایک دینار پر بد دیانتی ہے تو بڑی رقم کو کیوں چھوڑنے لگے لفظ قنطار کی پوری تفسیر سورت کے اول میں ہی بیان ہو چکی ہے اور دینار تو مشہور ہی ہے ، ابن ابی حاتم میں سیدنا مالک بن دینار رحمہ اللہ کا قول مروی ہے کہ دینار کو اس لیے دینار کہتے ہیں کہ وہ دین یعنی ایمان بھی ہے اور نار یعنی آگ بھی ہے ، مطلب یہ ہے کہ حق کے ساتھ لو تو دین ناحق لو تو نار یعنی آتش دوزخ ، اس موقع پر اس حدیث کا بیان کرنا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے جو صحیح بخاری شریف میں کئی جگہ ہے اور کتاب الکفالہ میں بہت پوری ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بنی اسرائیل میں ایک شخص تھا جس نے کسی اور شخص سے ایک ہزار دینار قرض مانگے اس نے کہا گواہ لاؤ کہا اللہ کی گواہی کافی ہے اس نے کہا ضامن لاؤ اس نے کہا ضمانت بھی اللہ ہی دیتا ہوں وہ اس پر راضی ہو گیا اور وقت ادائیگی مقرر کر کے رقم دے دی وہ اپنے دریائی سفر میں نکل گیا جب کام کاج سے نپٹ گیا تو دریا کنارے کسی جہاز کا انتظار کرنے لگا تاکہ جا کر اس کا قرض ادا کر دے لیکن سواری نہ ملی تو اس نے ایک لکڑی لی اور اسے بیچ میں سے کھوکھلا کر کے اس میں ایک ہزار دینار رکھ دئیے اور ایک خط بھی اس کے نام رکھ دیا پھر منہ بند کر کے اسے دریا میں ڈال دیا اور کہا اے اللہ تو بخوبی جانتا ہے کہ میں نے فلاں شخص سے ایک ہزار دینار قرض لیے تیری شہادت پر اور تیری ضمانت پر اور اس نے بھی اس پر خوش ہو کر مجھے دے دئیے اب میں نے ہر چند کشتی ڈھونڈی کہ جا کر اس کا حق مدت کے اندر ہی اندر دے دوں لیکن نہ ملی پس اب عاجز آ کر تجھ پر بھروسہ کر کے میں اسے دریا میں ڈال دیتا ہوں تو اسے اس تک پہنچا دے یہ دعا کر کے لکڑی کو سمندر میں ڈال کر چلا آیا لکڑی پانی میں ڈوب گئی ، یہ پھر بھی تلاش میں رہا کہ کوئی سواری ملے تو جائے اور اس کا حق ادا کر آئے ادھر قرض خواہ شخص دریا کے کنارے آیا کہ شاید مقروض کسی کشتی میں اس کی رقم لے کر آ رہا ہو جب دیکھا کہ کوئی کشتی نہیں آئی اور جانے لگا تو ایک لکڑی کو جو کنارے پر پڑی ہوئی تھی یہ سمجھ کر اٹھا لیا کہ جلانے کے کام آئے گی گھر جا کر اسے چیرا تو مال اور خط نکلا کچھ دنوں بعد قرض دینے والا شخص آیا اور کہا اللہ تعالیٰ جانتا ہے میں نے ہر چند کوشش کی کہ کوئی سواری ملے تو آپ کے پاس آؤں اور مدت گزرنے سے پہلے ہی آپ کا قرض ادا کر دوں لیکن کوئی سواری نہ ملی اس لیے دیر لگ گئی اس نے کہا تو نے جو رقم بھیج دی تھی وہ اللہ نے مجھے پہنچا دی ہے تو اب اپنی یہ رقم واپس لے جا اور راضی خوشی لوٹا جا ،(صحیح بخاری:2291) ۱؎ یہ حدیث بخاری شریف میں تعلیق کے ساتھ بھی ہے لیکن جزم کے صیغے کے ساتھ اور بعض جگہ اسناد کے حوالوں کے ساتھ بھی ہے ۔ علاوہ ازیں اور کتابوں میں بھی یہ روایت موجود ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ امانت میں خیانت کرنے حقدار کے حق کو نہ ادا کرنے پر آمادہ کرنے والا سبب ان کا یہ غلط خیال ہے کہ ان بددینوں ان پڑھوں کا مال کھا جانے میں ہمیں کوئی حرج نہیں ہم پر یہ مال حلال ہے ، جس پر اللہ فرماتا ہے کہ یہ اللہ پر الزام ہے اور اس کا علم خود انہیں بھی ہے کیونکہ ان کی کتابوں میں بھی ناحق مال کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے ۔ لیکن یہ بیوقوف خود اپنی من مانی اور دل پسند باتیں گھڑ کر شریعت کے رنگ میں انہیں رنگ لیتے ہیں ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے لوگ مسئلہ پوچھتے ہیں کہ ذمی یا کفار کی مرغی بکری وغیرہ کبھی غزوے کی حالت میں ہمیں مل جاتی ہے تو ہم تو سمجھتے ہیں کہ اسے لینے میں کوئی حرج نہیں تو آپ نے فرمایا ٹھیک یہی اہل کتاب بھی کہتے تھے کہ امتیوں کا مال لینے میں کوئی حرج نہیں ، سنو جب وہ جزیہ ادا کر رہے ہیں تو ان کا کوئی مال تم پر حلال نہیں ہاں وہ اپنی خوشی سے دے دیں تو اور بات ہے ( عبدالرزاق ) سعید بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں جب اہل کتاب سے حضور علیہ السلام نے یہ بات سنی تو فرمایا دشمنان الٰہ جھوٹے ہیں جاہلیت کی تمام رسمیں میرے قدموں تلے مٹ گئیں اور امانت تو ہر فاسق و فاجر کی بھی ادا کرنی پڑے گی ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:7266-7267:مرسل ضعیف) ۱؎ آل عمران
76 متقی کون؟ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ لیکن جو شخص اپنے عہد کو پورا کرے اور اہل کتاب ہو کر ڈرتا رہے پھر اپنی کتاب کی ہدایت کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اس عہد کے مطابق جو تمام انبیاء علیہم السلہم سے بھی ہو چکا ہے اور جس عہد کی پابندی ان کی امتوں پر بھی لازم ہے اللہ کی حرام کردہ چیزوں سے اجتناب کرے اس کی شریعت کی اطاعت کرے رسولوں کے خاتم اور انبیاء کے سردار محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری تابعداری کرے وہ متقی ہے اور متقی اللہ تعالیٰ کے دوست ہیں ۔ آل عمران
77 جھوٹی قسم کھانے والے یعنی جو اہل کتاب اللہ کے عہد کا پاس نہیں کرتے نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہیں نہ آپ کی صفتوں کا ذکر لوگوں سے کرتے ہیں نہ آپ کے متعلق بیان کرتے ہیں اور اسی طرح جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں اور ان بدکاریوں سے وہ اس ذلیل اور فانی دنیا کا فائدہ حاصل کرتے ہیں ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں نہ ان سے اللہ تعالیٰ کوئی پیار محبت کی بات کرے گا نہ ان پر رحمت کی نظر ڈالے گا نہ انہیں ان کے گناہوں سے پاک صاف کرے گا بلکہ انہیں جہنم میں داخل کرنے کا حکم دے گا اور وہاں وہ درد ناک سزائیں بھگتتے رہیں گے ، اس آیت کے متعلق بہت سی حدیثیں بھی ہیں جن میں سے کچھ یہاں بھی ہم بیان کرتے ہیں۔ [١ ] مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تین قسم کے لوگ ہیں جن سے تو نہ اللہ جل شانہ کلام کرے گا اور نہ ان کی طرف قیامت کے دن نظر رحمت سے دیکھے گا ، اور نہ انہیں پاک کرے گا ، سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر کہا یہ کون لوگ ہیں یا رسول اللہ یہ تو بڑے گھاٹے اور نقصان میں پڑے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ یہی فرمایا پھر جواب دیا کہ ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے والا ، جھوٹی قسم سے اپنا سودا بیچنے والا ، دے کر احسان جتانے والا ، مسلم وغیرہ میں بھی یہ حدیث ہے (صحیح مسلم:106) ۱؎ [٢ ] مسند احمد میں ہے ابو احمس فرماتے ہیں میں سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان سے کہا کہ میں نے سنا ہے کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث بیان فرماتے ہیں تو فرمایا سنو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ تو بول نہیں سکتا جبکہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سن لیا ہو تم کہو وہ حدیث کیا ہے ؟ جواب دیا یہ کہ تین قسم کے لوگوں کو اللہ ذوالکرم دوست رکھتا ہے اور تین قسم کے لوگوں کو دشمن، تو فرمانے لگے ہاں یہ حدیث میں نے بیان کی ہے اور میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی بھی ہے میں نے پوچھا کس کس کو دوست رکھتا ہے فرمایا ایک تو وہ جو مردانگی سے دشمنان اللہ سبحانہ کے مقابلے میں میدان جہاد میں کھڑا ہو جائے یا تو اپنا سینہ چھلنی کروا لے یا فتح کر کے لوٹے ، دوسرا وہ شخص جو کسی قافلے کے ساتھ سفر میں ہے بہت رات گئے تک قافلہ چلتا رہا جب تھک کر چور ہو گئے پڑاؤ ڈالا تو سب سو گئے اور یہ جاگتا رہا اور نماز میں مشغول رہا یہاں تک کہ کوچ کے وقت سب کو جگا دیا ۔ تیسرا وہ شخص جس کا پڑوسی اسے ایذاء پہنچاتا ہو اور وہ اس پر صبر و ضبط کرے یہاں تک کہ موت یا سفر ان دونوں میں جدائی کرے ، میں نے کہا اور وہ تین کون ہیں جن سے اللہ تعالیٰ ناخوش ہے فرمایا بہت قسمیں کھانے والا تاجر ، اور تکبر کرنے والا فقیر اور وہ بخیل جس سے کبھی احسان ہو گیا ہو تو جتانے بیٹھے ،(مسند احمد:151/5:ضعیف) ۱؎ یہ حدیث اس سند سے غریب ہے [٣] مسند احمد میں ہے کندہ قبیلے کے ایک شخص امروءالقیس بن عامر کا جھگڑا ایک حضرمی شخص سے زمین کے بارے میں تھا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہوا تو آپ نے فرمایا کہ حضرمی اپنا ثبوت پیش کرے اس کے پاس کوئی ثبوت نہ تھا تو آپ نے فرمایا اب کندی قسم کھا لے تو حضرمی کہنے لگایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اس کی قسم پر ہی فیصلہ ٹھہرا تو رب کعبہ کی قسم یہ میری زمین لے جائے گا آپ نے فرمایا جو شخص جھوٹی قسم سے کسی کا مال اپنا کر لے گا تو جب وہ اللہ تعالیٰ سے ملے گا اللہ اس سے ناخوش ہو گا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت فرمائی تو امروالقیس رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ السلام اگر تو کوئی چھوڑ دے تو اسے اجر کیا ملے گا ؟ آپ نے فرمایا جنت تو کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گواہ رہیے کہ میں نے وہ ساری زمین اس کے نام چھوڑی ، یہ حدیث نسائی میں بھی ہے (نسائی فی السنن الکبری:5996:صحیح) ۱؎ [٤ ] مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص جھوٹی قسم کھائے تاکہ اس سے کسی مسلمان کا مال چھین لے تو اللہ جل جلالہ سے جب ملے گا تو اللہ عزوجل اس پر سخت غضبناک ہو گا ، سیدنا اشعث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اللہ کی قسم میرے ہی بارے میں یہ ہے ایک یہودی اور میری شرکت میں ایک زمین تھی اس نے میرے حصہ کی زمین کا انکار کر دیا میں اسے خدمت نبوی میں لایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا تیرے پاس کچھ ثبوت ہے میں نے کہا نہیں آپ نے یہودی سے فرمایا تو قسم کھا لے میں نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ تو قسم کھا لے گا اور میرا مال لے جائے گا پس اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی ، یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی ہے ۔ (صحیح بخاری:2356) ۱؎ [٥] مسند احمد میں ہے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جو شخص کسی مرد مسلم کا مال بغیر حق کے لے لے وہ اللہ ذوالجلال سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہو گا ، وہیں سیدنا اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ آگے آئے اور فرمانے لگے ابوعبدالرحمٰن آپ کون سی حدیث بیان کرتے ہیں ؟ ہم نے دوہرا دی تو فرمایا یہ حدیث میرے ہی بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائی ہے ، میرا اپنے چچا کے لڑکے سے ایک کنوئیں کے بارے میں جھگڑا تھا جو اس کے قبضے میں تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب ہم اپنا مقدمہ لے گئے تو آپ نے فرمایا تو اپنی دلیل اور ثبوت لا کہ یہ کنواں تیرا ہے ورنہ اس کی قسم پر فیصلہ ہو گا میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تو کوئی دلیل نہیں اور اگر اس قسم پر معاملہ رہا تو یہ تو میرا کنواں لے جائے گا میرا مقابل تو فاجر شخص ہے اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث بھی بیان فرمائی اور اس آیت کی بھی تلاوت کی ۔ (مسند احمد:212/5:حسن) ۱؎ [ ٦ ] مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کے کچھ بندے ایسے بھی ہیں جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بات نہ کرے گا نہ ان کی طرف دیکھے گا ، پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ کون ہیں ؟ فرمایا اپنے ماں باپ سے بیزار ہونے والے اور ان سے بے رغبتی کرنے والی لڑکی اور اپنی اولاد سے بیزار اور الگ ہونے والا باپ اور وہ شخص کہ جس پر کسی قوم کا احسان ہے وہ اس سے انکار کر جائے اور آنکھیں پھیر لے اور ان سے یکسوئی کرے (مسند احمد:440/3:ضعیف) [ ٧ ] ابن ابی حاتم میں ہے سیدنا عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے اپنا سودا بازار میں رکھا اور قسم کھائی کہ وہ اتنا بھاؤ دیا جاتا تھا تاکہ کوئی مسلمان اس میں پھنس جائے ، پس یہ آیت نازل ہوئی ، صحیح بخاری میں بھی یہ روایت مروی ہے ۔ (صحیح بخاری:4551:صحیح) [ ٨ ] مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تین شخصوں سے جناب باری تقدس و تعالیٰ قیامت والے دن بات نہ کرے گا نہ ان کی طرف دیکھے گا نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کے لیے دکھ درد کے عذاب ہیں ایک وہ جس کے پاس بچا ہوا پانی ہے پھر وہ کسی مسافر کو نہیں دیتا دوسرا وہ جو عصر کے بعد جھوٹی قسم کھا کر اپنا مال فروخت کرتا ہے تیسرا وہ جو مسلمان بادشاہ سے بیعت کرتا ہے اس کے بعد اگر وہ اسے مال دے تو پوری کرتا ہے اگر نہیں دیتا تو نہیں کرتا ہے ۔ (سنن ابوداود:3474،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ۱؎ یہ حدیث ابوداؤد اور ترمذی میں بھی ہے اور امام ترمذی رحمہ اللہ اسے حسن صحیح کہتے ہیں ۔ آل عمران
78 غلط تاویل اور تحریف کرنے والے لوگ یہاں بھی انہی ملعون یہودیوں کا ذکر ہو رہا ہے کہ ان کا ایک گروہ یہ بھی کرتا ہے کہ عبارت کو اس کی اصل جگہ سے ہٹا دیتا ہے ، یعنی اللہ کی کتاب بدل دیتا ہے ، اصل مطلب اور صحیح معنی خبط کر دیتا ہے اور جاہلوں کو اس چکر میں ڈال دیتا ہے کہ کتاب اللہ یہی ہے پھر یہ خود اپنی زبان سے بھی اسے کتاب اللہ کہہ کر جاہلوں کے اس خیال کو اور مضبوط کر دیتا ہے اور جان بوجھ کر اللہ تعالیٰ پر افتراء کرتا ہے اور جھوٹ بکتا ہے ، زبان موڑنے سے مطلب یہاں تحریف کرنا ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے صحیح بخاری شریف میں مروی ہے کہ یہ لوگ تحریف اور ازالہ کر دیتے تھے مخلوق میں ایسا تو کوئی نہیں جو کسی اللہ کی کتاب کا لفظ بدل دے مگر یہ لوگ تحریف اور بیجا تاویل کرتے تھے ،(صحیح بخاری:کتاب التوحید) ۱؎ وہب بن منبہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ توراۃ و انجیل اسی طرح ہیں جس طرح اللہ تعالیٰ نے اتاریں ایک حرف بھی ان میں سے اللہ نے نہیں بدلا لیکن یہ لوگ تحریف اور تاویل سے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں اور جو کتابیں انہوں نے اپنی طرف سے لکھ لی ہیں اور جسے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مشہور کر رہے ہیں اور لوگوں کو بہکاتے ہیں حالانکہ دراصل وہ اللہ کی طرف سے نہیں اللہ کی اصلی کتابیں تو محفوظ ہیں جو بدلتی نہیں [ ابن ابی حاتم ] سیدنا وہب رحمہ اللہ کے اس فرمان کا اگر یہ مطلب ہو کہ ان کے پاس اب جو کتاب ہے تو ہم بالیقین کہتے ہیں کہ وہ بدلی ہوئی ہے اور محرف ہے اور زیادتی اور نقصان سے ہرگز پاک نہیں اور پھر جو عربی زبان میں ہمارے ہاتھوں میں ہے اس میں تو بڑی غلطیاں ہیں کہیں مضمون کو کم کر دیا گیا ہے کہیں بڑھا دیا گیا ہے اور صاف صاف غلطیاں موجود ہیں بلکہ دراصل اسے ترجمہ کہنا زیبا ہی نہیں وہ تو تفسیر اور وہ بھی بے اعتبار تفسیر ہے اور پھر ان سمجھداروں کی لکھی ہوئی تفسیر ہے جن میں اکثر بلکہ کل کے کل دراصل محض الٹی سمجھ والے ہیں اور اگر سیدنا وہب رحمہ اللہ کے فرمان کا یہ مطلب ہو کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب جو درحقیقت اللہ کی کتاب ہے پس وہ بیشک محفوظ و سالم ہے اس میں کمی زیادتی ناممکن ہے ۔ آل عمران
79 مقصد نبوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب یہودیوں اور نجرانی نصرانیوں کے علماء جمع ہوئے اور آپ نے انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تھی تو ابو رافع قرظی کہنے لگا کہ کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ جس طرح نصرانیوں نے سیدنا عیسیٰ بن مریم کی عبادت کی ہم بھی آپ کی عبادت کریں ؟ تو نجران کے ایک نصرانی نے بھی جسے “آئیس“ کہا جاتا تھا یہی کہا کہ کیا آپ کی یہی خواہش ہے ؟ اور یہی دعوت ہے ؟ تو حضور علیہ السلام نے فرمایا معاذاللہ نہ ہم خود اللہ وحدہ لاشریک کے سوا دوسرے کی پوجا نہ کریں نہ کسی اور کو اللہ کے سوا دوسرے کی عبادت کی تعلیم دیں نہ میری پیغمبری کا یہ مقصد نہ مجھے اللہ حاکم اعلیٰ کا یہ حکم ، اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں ،(تفسیر ابن جریر الطبری:7694:ضعیف) ۱؎ کہ کسی انسان کو کتاب و حکمت اور نبوت و رسالت پا لینے کے بعد یہ لائق ہی نہیں کہ اپنی پرستش کی طرف لوگوں کو بلائے ، جب انبیائے کرام کا جو اتنی بڑی بزرگی فضیلت اور مرتبے والے ہیں یہ منصب نہیں تو کسی اور کو کب لائق ہے کہ اپنی پوجا پاٹ کرائے ، اور اپنی بندگی کی تلقین لوگوں کو کرے ، امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں ادنی مومن سے بھی یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ لوگوں کو اپنی بندگی کی دعوت دے ، یہاں یہ اس لیے فرمایا یہ یہود و نصاریٰ آپس میں ہی ایک دوسرے کو پوجتے تھے قرآن شاہد ہے جو فرماتا ہے «اتَّخَذُوا أَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللہِ » (9-التوبۃ:31) یعنی ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کو چھوڑ اپنے عالموں اور درویشوں کو اپنا رب بنا لیا ہے ۔ مسند ترمذی کی وہ حدیث بھی آ رہی ہے کہ سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ وہ تو ان کی عبادت نہیں کرتے تھے تو آپ نے فرمایا کیوں نہیں ؟ وہ ان پر حرام کو حلال اور حلال کو حرام کر دیتے تھے اور یہ ان کی مانتے چلے جاتے تھے یہی ان کی عبادت تھی (سنن ترمذی:3095،قال الشیخ الألبانی:حسن) ۱؎ پس جاہل درویش اور بےسمجھ علماء اور مشائخ اس مذمت اور ڈانٹ ڈپٹ میں داخل ہیں رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی اتباع کرنے والے علماء کرام اس سے یکسو ہیں اس لیے کہ وہ تو صرف اللہ تعالیٰ کے فرمان اور کلام رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ کرتے ہیں اور ان کاموں سے روکتے ہیں جن سے انبیاء کرام روک گئے ہیں ، اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے انبیاء تو خالق و مخلوق کے درمیان سفیر ہیں حق رسالت ادا کرتے ہیں اور اللہ کی امانت احتیاط کے ساتھ بندگان رب عالم کو پہنچا دیتے ہیں نہایت بیداری ، مکمل ہوشیاری ، کمال نگرانی اور پوری حفاظت کے ساتھ وہ ساری مخلوق کے خیرخواہ ہوتے ہیں وہ احکام رب رحمٰن کے پہچاننے والے ہوتے ہیں ۔ رسولوں کی ہدایت تو لوگوں کو ربانی بننے کی ہوتی ہے کہ وہ حکمتوں والے علم والے اور حلم والے بن جائیں سمجھدار ، عابد و زاہد ، متقی اور پارسا ہیں ۔ سیدنا ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ قرآن سیکھنے والوں پر حق ہے کہ وہ با سمجھ ہوں «تَعلَمُونَ» اور «تُعَلِّمُونَ» دونوں قرأت ہیں پہلے کے معنی ہیں معنی سمجھنے کے دوسرے کے معنی ہیں تعلیم حاصل کرنے کے ، «تَدْرُسُونَ» کے معنی ہیں الفاظ یاد کرنے کے ۔ پھر ارشاد ہے کہ وہ یہ حکم نہیں کرتے کہ اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت کرو خواہ وہ نبی ہو بھیجا ہوا خواہ فرشتہ ہو قرب الہ والا ، یہ تو وہی کر سکتا ہے جو اللہ کے سوا دوسرے کی عبادت کی دعوت دے اور جو ایسا کرے وہ کافر ہو اور کفر نبیوں کا کام نہیں ان کا کام تو ایمان لانا ہے اور ایمان نام ہے اللہ واحد کی عبادت اور پرستش کا ، اور یہی نبیوں کی دعوت ہے ، جیسے خود قرآن فرماتا ہے«وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِکَ مِن رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِی إِلَیْہِ أَنَّہُ لَا إِلٰہَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ » (21-الأنبیاء:25) یعنی تجھ سے پہلے بھی ہم نے جتنے رسول بھیجے سب پر یہی وحی نازل کی کہ میرے سوا کوئی معبود ہے ہی نہیں تم سب میری عبادت کرتے رہو اور فرمایا «وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِی کُلِّ أُمَّۃٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللہَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ» (16-النحل:36) یعنی ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ تم اللہ کی عبادت کرو اور اللہ کے سوا ہر کسی کی عبادت سے بچو ، ارشاد ہے«وَاسْأَلْ مَنْ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِکَ مِن رٰسُلِنَا أَجَعَلْنَا مِن دُونِ الرَّحْمٰنِ آلِہَۃً یُعْبَدُونَ» (43-الزخرف:43) تجھ سے پہلے تمام رسولوں سے پوچھ لو کیا ہم نے اپنی ذات رحمان کے سوا ان کی عبادت کے لیے کسی اور کو مقرر کیا تھا ؟ فرشتوں کی طرف سے خبر دیتا ہے کہ«وَمَن یَقُلْ مِنْہُمْ إِنِّی إِلٰہٌ مِّن دُونِہِ فَذٰلِکَ نَجْزِیہِ جَہَنَّمَ ۚ کَذٰلِکَ نَجْزِی الظَّالِمِینَ» (21-الأنبیاء:29) ان میں سے اگر کوئی کہ دے کہ میں معبود ہوں بجز اللہ تو اسے بھی جہنم کی سزا دیں اور اسی طرح ہم ظالموں کو بدلہ دیتے ہیں ۔ آل عمران
80 آل عمران
81 انبیاء سے عہد و میثاق یہاں بیان ہو رہا ہے کہ سیدنا آدم علیہ السلام سے لے کر سیدنا عیسیٰ علیہ السلام تک کے تمام انبیاء کرام علیہم السلہم سے اللہ تعالیٰ نے وعدہ لیا کہ جب کبھی ان میں سے کسی کو بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کتاب و حکمت دے اور وہ بڑے مرتبے تک پہنچ جائے پھر اس کے بعد اسی کے زمانے میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم آ جائے تو اس پر ایمان لانا اور اس کی نصرت و امداد کرنا اس کا فرض ہو گا۔ یہ نہ ہو کہ اپنے علم و نبوت کی وجہ سے اپنے بعد والے نبی کی اتباع اور امداد سے رک جائے ، پھر ان سے پوچھا کہ کیا تم اقرار کرتے ہو ؟ اور اسی عہد و میثاق پر مجھے ضامن ٹھہراتے ہو ۔ سب نے کہا ہاں ہمارا اقرار ہے تو فرمایا گواہ رہو اور میں خود بھی گواہ ہوں ۔ اب اس عہد و میثاق سے جو پھر جائے وہ قطعی فاسق ، بیحکم اور بدکار ہے ، سیدنا علی بن ابوطالب رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں٠ کہ اللہ تعالیٰ نے ہر نبی سے عہد لیا کہ اس کی زندگی میں اگر اللہ تعالیٰ اپنے نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجے تو اس پر فرض ہے کہ وہ آپ پر ایمان لائے اور آپ کی امداد کرے اور اپنی امت کو بھی وہ یہی تلقین کرے کہ وہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اور آپ کی تابعداری میں لگ جائے ، طاؤس، حسن بصری اور قتادہ فرماتے ہیں نبیوں سے اللہ نے عہد لیا کہ ایک دوسرے کی تصدیق کریں ، کوئی یہ نہ سمجھے کہ یہ تفسیر اوپر کی تفسیر کے خلاف ہے بلکہ یہ اس کی تائید ہے اسی لیے سیدنا طاؤس رحمہ اللہ سے ان کے لڑکے کی روایت مثل روایت سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کے بھی مروی ہے ۔ مسند احمد کی روایت میں ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا یا رسول اللہ میں نے ایک دوست قریظی یہودی سے کہا تھا کہ وہ تورات کی جامع باتیں مجھے لکھ دے اگر آپ فرمائیں تو میں انہیں پیش کروں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ متغیر ہو گیا ۔ سیدنا عبداللہ ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم نہیں دیکھتے کہ آپ کے چہرہ کا کیا حال ہے ؟ تو عمر کہنے لگے میں اللہ کے رب ہونے پر اسلام کے دین ہونے پر محمد کے رسول ہونے پر خوش ہوں [ صلی اللہ علیہ وسلم ] اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ دور ہوا اور فرمایا قسم ہے اس اللہ تعالیٰ کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر موسیٰ تم میں آ جائیں اور تم ان کی تابعداری میں لگ جاؤ اور مجھے چھوڑ دو تو تم سب گمراہ ہو جاؤ تمام امتوں میں سے میرے حصے کی امت تم ہو اور تمام نبیوں میں سے تمہارے حصے کا نبی میں ہوں۔(مسند احمد:266/4:ضعیف) ۱؎ مسند ابو یعلیٰ میں لکھا ہے اہل کتاب سے کچھ نہ پوچھو وہ خود گمراہ ہیں تو تمہیں راہ راست کیسے دکھائیں گے بلکہ ممکن ہے تم کسی باطل کی تصدیق کر لو یا حق کی تکذیب کر بیٹھو اللہ کی قسم اگر موسیٰ علیہ السلام بھی تم میں زندہ موجود ہوتے تو انہیں بھی بجز میری تابعداری کے اور کچھ حلال نہ تھا ،(مسند احمد:338/3:ضعیف) ۱؎ بعض احادیث میں ہے اگر موسیٰ اور عیسیٰ زندہ ہوتے تو انہیں بھی میری اتباع کے سوا چارہ نہ تھا ،(کسی بھی حدیث میں عیسٰی کا ذکر نہیں، صرف موسٰی کا ہی ذکر ہے جیسا کہ سابقہ حدیث میں ہے) ۱؎ پس ثابت ہوا کہ ہمارے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں اور امام اعظم ہیں جس زمانے میں بھی آپ کی نبوت ہوتی آپ واجب الاطاعت تھے اور تمام انبیاء علیہم السلہم کی تابعداری پر جو اس وقت ہوں آپ کی فرمانبرداری مقدم رہتی ، یہی وجہ تھی کہ معراج والی رات بیت المقدس میں تمام انبیاء علیہم السلہم کے امام آپ ہی بنائے گئے ، اسی طرح میدان محشر میں بھی اللہ تعالیٰ کے فیصلوں کو انجام تک پہنچانے میں آپ ہی شفیع ہوں گے یہی وہ مقام محمود ہے جو آپ کے سوا اور کو حاصل نہیں تمام انبیاء علیہم السلہم اور کل رسول اس دن اس کام سے منہ پھیر لیں گے بالاخر آپ ہی خصوصیت کے ساتھ اس مقام میں کھڑے ہوں گے ، اللہ تعالیٰ اپنے درود و سلام آپ پر ہمیشہ ہمیشہ بھیجتا رہے قیامت کے دن تک آمین ۔ آل عمران
82 آل عمران
83 اسلامی اصول اور روز جزا اللہ تعالیٰ کے سچے دین کے سوا جو اس نے اپنی کتابوں میں اپنے رسولوں کی معرفت نازل فرمایا ہے یعنی صرف اللہ وحدہ لا شریک ہی کی عبادت کرنا کوئی شخص کسی اور دین کی تلاش کرے اور اسے مانے اس کی تردید یہاں بیان ہو رہی ہے پھر فرمایا کہ آسمان و زمین کی تمام چیزیں اس کی مطیع ہیں خواہ خوشی سے ہوں یا ناخوشی سے جیسے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے «وَلِلہِ یَسْجُدُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعًا وَّکَرْہًا وَّظِلٰلُہُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ» (13-الرعد:15) یعنی زمین و آسمان کی تمام تر مخلوق اللہ کے سامنے سجدے کرتی ہے اپنی خوشی سے یا جبراً اور جگہ ہے «أَوَلَمْ یَرَوْا إِلَیٰ مَا خَلَقَ اللہُ مِن شَیْءٍ یَتَفَیَّأُ ظِلَالُہُ عَنِ الْیَمِینِ وَالشَّمَائِلِ سُجَّدًا لِّلَّـہِ وَہُمْ دَاخِرُونَ وَلِلہِ یَسْجُدُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ مِن دَابَّۃٍ وَالْمَلَائِکَۃُ وَہُمْ لَا یَسْتَکْبِرُونَ یَخَافُونَ رَبَّہُم مِّن فَوْقِہِمْ وَیَفْعَلُونَ مَا یُؤْمَرُونَ ۩» (16-النحل:48) کیا وہ نہیں دیکھتے کہ تمام مخلوق کے سائے دائیں بائیں جھک جھک کر اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتے ہیں اور اللہ ہی کے لیے سجدہ کرتی ہیں آسمانوں کی سب چیزیں اور زمینوں کے کل جاندار اور سب فرشتے کوئی بھی تکبر نہیں کرتا سب کے سب اپنے اوپر والے رب سے ڈرتے رہتے ہیں اور جو حکم دے جائیں بجا لاتے ہیں ، پس مومنوں کا تو ظاہر باطن قلب و جسم دونوں اللہ تعالیٰ کے مطیع اور اس کے فرمانبردار ہوتے ہیں اور کافر بھی اللہ کے قبضے میں ہے اور جبراً اللہ کی جانب جھکا ہوا ہے اس کے تمام فرمان اس پر جاری رہیں اور وہ ہر طرح قدرت و مشیت اللہ کے ماتحت ہے کوئی چیز بھی اس کے غلبے اور قدرت سے باہر نہیں ۔ اس آیت کی تفسیر میں ایک غریب حدیث یہ بھی وارد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آسمانوں والے تو فرشتے ہیں جو بخوشی اللہ کے فرمان گزار ہیں اور زمین والے وہ ہیں جو اسلام پر پیدا ہوئے ہیں یہ بھی بہ شوق تمام اللہ کے زیر فرمان ہیں ، اور ناخوشی سے فرماں بردار وہ ہیں جو لوگ مسلمان مجاہدین کے ہاتھوں میدان جنگ میں قید ہوتے ہیں اور طوق و زنجیر میں جکڑے ہوئے لائے جاتے ہیں یہ لوگ جنت کی طرف گھسیٹے جاتے ہیں اور وہ نہیں چاہتے ،(طبرانی کبیر:11473:موضوع و باطل) ۱؎ ایک صحیح حدیث میں ہے تیرے رب کو ان لوگوں سے تعجب ہوتا ہے جو زنجیروں اور رسیوں سے باندھ کر جنت کی طرف کھینچے جاتے ہیں ۔(صحیح بخاری:3010) ۱؎ اس حدیث کی اور سند بھی ہے ، لیکن اس آیت کے معنی تو وہی زیادہ قوی ہیں جو پہلے بیان ہوئے ، سیدنا مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ آیت اس آیت جیسی ہے «وَلَیِٕنْ سَاَلْتَہُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ لَیَقُوْلُنَّ اللّٰہُ» (31-لقمان:25) اگر تو ان سے پوچھ کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ؟ تو یقیناً وہ یہی جواب دیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اس سے مراد وہ وقت ہے جب روز ازل ان سب سے میثاق اور عہد لیا تھا اور آخر کار سب اسی کی طرف لوٹ جائیں گے یعنی قیامت والے دن اور ہر ایک کو وہ اس کے عمل کا بدلہ دے گا ۔ پھر فرماتا ہے تو کہہ ہم اللہ اور قرآن پر ایمان لائے اور ابراہیم، اسماعیل، اسحاق اور یعقوب علیہم السلہم پر جو صحیفے اور وحی اتری ہم اس پر بھی ایمان لائے اور ان کی اولاد پر جو اترا اس پر بھی ہمارا ایمان ہے ، اسباط سے مراد بنو اسرائیل کے قبائل ہیں جو سیدنا یعقوب علیہ السلام کی نسل میں سے تھے یہ سیدنا یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹوں کی اولاد تھے ، سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو توراۃ دی گئی تھی اور سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو انجیل اور بھی جتنے انبیاء کرام علیہم السلہم اللہ کی طرف سے جو کچھ لائے ہمارا ان سب پر ایمان ہے ہم ان میں کوئی تفریق اور جدائی نہیں کرتے یعنی کسی کو مانیں کسی کو نہ مانیں بلکہ ہمارا سب پر ایمان ہے اور ہم اللہ کے فرمان بردار ہیں پس اس امت کے مومن تمام انبیاء علیہم السلہم اور کل اللہ تعالیٰ کی کتابوں کو مانتے ہیں کسی کے ساتھ کفر نہیں کرتے ، ہر کتاب اور ہر نبی کے سچا ماننے والے ہیں ۔ پھر فرمایا کہ دین اللہ کے سوا جو شخص کسی اور راہ چلے وہ قبول نہیں ہو گا اور آخرت میں وہ نقصان میں رہے گا جیسے صحیح حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے جو شخص ایسا عمل کرے جس پر ہمارا حکم نہ ہو وہ مردود ہے (صحیح مسلم:1718) ۱؎ مسند احمد میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں قیامت کے دن اعمال حاضر ہوں گے نماز آ کر کہے گی کہ اے اللہ میں نماز ہوں اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو اچھی چیز ہے صدقہ آئے گا اور کہے گا پروردگار میں صدقہ ہوں جواب ملے گا تو بھی خیر پر ہے ، روزہ آ کر کہے گا میں روزہ ہوں اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو بھی بہتری پر ہے پھر اسی طرح اور اعمال بھی آتے جائیں گے اور سب کو یہی جواب ملتا رہے گا پھر اسلام حاضر ہو گا اور کہے گا اے اللہ تو سلام ہے اور میں اسلام ہوں اللہ فرمائے گا تو خیر پر ہے آج تیرے ہی اصولوں پر سب کو جانچوں گا ۔ پھر سزا یا انعام دوں گا اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں فرماتا ہے «وَمَنْ یَّبْتَـغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یٰقْبَلَ مِنْہُ» (3-آل عمران:85) یہ حدیث صرف مسند احمد میں ہے(مسند احمد:362/2:ضعیف) ۱؎ اور اس کے راوی حسن کا سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سننا ثابت نہیں ۔ آل عمران
84 آل عمران
85 آل عمران
86 توبہ اور قبولیت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ایک انصار مرتد ہو کر مشرکین میں جا ملا پھر پچھتانے لگا اور اپنی قوم سے کہلوایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرو کہ کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے ؟ ان کے دریافت کرنے پر یہ آیتیں اتریں اس کی قوم نے اسے کہلوا بھیجا وہ پھر توبہ کر کے نئے سرے سے مسلمان ہو کر حاضر ہو گیا ( ابن جریر ) نسائی حاکم اور ابن حبان میں بھی یہ روایت موجود ہے۔ (مسند احمد:247/1:صحیح) ۱؎ امام حاکم اسے صحیح الاسناد کہتے ہیں ، مسند عبدالرزاق میں ہے کہ حارث بن سویدرضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا پھر قوم میں مل گیا اور اسلام سے پھر گیا اس کے بارے میں یہ آیتیں اتریں اس کی قوم کے ایک شخص نے یہ آیتیں اسے پڑھ کر سنائیں تو اس نے کہا جہاں تک میرا خیال ہے اللہ کی قسم تو سچا ہے اور اللہ کے نبی تو تجھ سے بہت ہی زیادہ سچے ہیں اور اللہ تعالیٰ سب سچوں سے زیادہ سچا ہے پھر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹ آئے اسلام لائے اور بہت اچھی طرح اسلام کو نبھایا۔ «بینات» سے مراد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق پر حجتوں اور دلیلوں کا بالکل واضح ہو جانا ہے پس جو لوگ ایمان لائے رسول کی حقانیت مان چکے دلیلیں دیکھ چکے پھر شرک کے اندھیروں میں جا چھپے یہ لوگ مستحق ہدایت نہیں کیونکہ آنکھوں کے ہوتے ہوئے اندھے پن کو انہوں نے پسند کیا اللہ تعالیٰ ناانصاف لوگوں میں رہبری نہیں کرتا ، انہیں اللہ لعنت کرتا ہے اور اس کی مخلوق بھی ہمیشہ لعنت کرتی ہے نہ تو کسی وقت ان کے عذاب میں تخفیف ہو گی نہ موقوفی ۔ پھر اپنا لطف و احسان رافت و رحمت کا بیان فرماتا ہے کہ اس بدترین جرم کے بعد بھی جو میری طرف جھکے اور اپنے بداعمال کی اصلاح کر لے میں بھی اس سے در گزر کر لیتا ہوں ۔ آل عمران
87 آل عمران
88 آل عمران
89 آل عمران
90 جب سانس ختم ہونے کو ہوں تو توبہ قبول نہیں ہو گی ایمان کے بعد پھر اسی کفر پر مرنے والوں کو پروردگار عالم ڈرا رہا ہے کہ موت کے وقت تمہاری توبہ قبول نہیں ہو گی جیسے اور جگہ ہے «وَلَیْسَتِ التَّوْبَۃُ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السَّـیِّاٰتِ حَتّٰی اِذَا حَضَرَ اَحَدَھُمُ الْمَوْتُ قَالَ اِنِّیْ تُبْتُ الْــٰٔنَ وَلَا الَّذِیْنَ یَمُوْتُوْنَ وَھُمْ کُفَّارٌ اُولٰیِٕکَ اَعْتَدْنَا لَھُمْ عَذَابًا اَلِـــیْمًا» (4-النساء:18) آخر دم تک یعنی موت کے وقت تک گناہوں میں مبتلا رہنے والے موت کو دیکھ کر جو توبہ کریں وہ اللہ کے ہاں قبول نہیں اور یہی یہاں ہے کہ ان کی توبہ ہرگز مقبول نہ ہو گی اور یہی لوگ وہ ہیں جو راہ حق سے بھٹک کر باطل راہ پر لگ گئے ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ کچھ لوگ مسلمان ہوئے پھر مرتد ہو گئے پھر اسلام لائے پھر مرتد ہو گئے پھر اپنی قوم کے پاس آدمی بھیج کر بچھوایا کہ کیا اب ہماری توبہ ہے ؟ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا اس پر یہ آیت اتری ( بزار ) اس کی اسناد بہت عمدہ ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ کفر پر مرنے والوں کی کوئی نیکی قبول نہیں گو اس نے زمین بھر کر سونا اللہ کی راہ میں خرچ کیا ہو ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ عبداللہ بن جدعان جو بڑا مہمان نواز غلام آزاد کرنے والا اور کھانا پینا دینے والا شخص تھا کیا اسے اس کی یہ نیکی کام آئے گی ؟ تو آپ نے فرمایا نہیں اس نے ساری عمر میں ایک دفعہ بھی «رَبِّ اغْفِر لِی خَطِیئَتِی یَوْمَ الدِّین» نہیں کہا (صحیح مسلم:214) ۱؎ یعنی اے میرے رب میری خطاؤں کو قیامت والے دن بخش جس طرح اس کی خیرات نامقبول ہے اسی طرح فدیہ اور معاوضہ بھی ، جیسے اور جگہ ہے «وَّلَا یُقْبَلُ مِنْہَا عَدْلٌ وَّلَا تَنْفَعُہَا شَفَاعَۃٌ وَّلَا ھُمْ یُنْصَرُوْنَ» (2-البقرۃ:123) ان سے نہ بدلہ مقبول نہ انہیں سفارش کا نفع اور فرمایا «لَّا بَیْعٌ فِیْہِ وَلَا خِلٰلٌ» (14-إبراہیم:31) اس دن نہ خرید فروخت نہ موت و محبت اور جگہ ارشاد ہے «إِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا لَوْ أَنَّ لَہُم مَّا فِی الْأَرْضِ جَمِیعًا وَمِثْلَہُ مَعَہُ لِیَفْتَدُوا بِہِ مِنْ عَذَابِ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ مَا تُقُبِّلَ مِنْہُمْ وَلَہُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ» (5-المائدۃ:36) یعنی اگر کافروں کے پاس زمین میں جو کچھ ہے اور اتنا ہی اور بھی ہو پھر وہ اس سب کو قیامت کے عذابوں کے بدلے فدیہ دیں تو بھی نامقبول ہے ان تکلیف والے الم ناک عذابوں کو سہنا پڑے گا ، یہی مضمون یہاں بھی بیان فرمایا گیا ہے بعض نے «وَلَوِ افْتَدَی» کی واؤ کو زائد کہا ہے لیکن واؤ کو عطف کی ماننا اور وہ تفسیر کرنا جو ہم نے کی بہت بہتر ہے واللہ اعلم ، پس ثابت ہوا کہ اللہ کے عذاب سے کفار کو کوئی چیز نہیں چھڑا سکتی چاہے وہ بڑے نیک اور نہایت سخی ہوں گو زمین بھربھر کر سونا راہ اللہ لٹائیں یا پہاڑوں اور ٹیلوں کی مٹی اور ریت نرم زمین اور سخت زمین کی خشکی اور تری کے ہم وزن سونا عذاب کے بدلے دینا چاہیں یا دیں ، مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جہنمی سے قیامت کے دن کہا جائے گا کہ زمین پر جو کچھ ہے اگر تیرا ہو جائے تو کیا تو اس کو ان سزاؤں کے بدلے اپنے فدیے میں دے ڈالے گا ۔ وہ کہے گا ہاں تو جناب باری کا ارشاد ہو گا کہ میں نے تجھ سے بہ نسبت اس کے بہت ہی کم چاہا تھا ، میں نے تجھ سے اس وقت وعدہ لیا تھا جب تو اپنے باپ آدم علیہ السلام کی پیٹھ میں تھا کہ میرے ساتھ کسی کو شرک نہ بنانا لیکن تو شرک کئے بغیر نہ رہا ۔ یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی دوسری سند کے ساتھ ہے ۔(صحیح بخاری:3334) ۱؎ مسند احمد کی ایک اور حدیث میں ہے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک ایسے جنتی کو لایا جائے گا جس سے اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہو تم نے کیسی جگہ پائی ؟ وہ جواب دے گا اللہ بہت ہی بہتر ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا اچھا اور کچھ مانگنا ہو تو مانگو دل میں جو تمنا ہو کہو تو یہ کہے گا باری تعالیٰ میری صرف یہی تمنا ہے اور میرا یہی ایک سوال ہے کہ مجھے دنیا میں پھر بھیج دیا جائے میں تیری راہ میں جہاد کروں اور پھر شہید کیا جاؤں پھر زندہ ہو جاؤں پھر شہید کیا جاؤں دس مرتبہ ایسا ہی ہو کیونکہ وہ شہادت کی فضیلت اور شہید کے مرتبے دیکھ چکا ہو گا اسی طرح ایک جہنمی کو بلایا جائے گا اور اس سے اللہ تعالیٰ فرمائے گا ۔ اے ابن آدم تو نے اپنی جگہ کیسی پائی ؟ وہ کہے گا اللہ بہت ہی بری ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا ساری زمین بھر کر سونا دے کر ان عذابوں سے چھوٹنا تجھے پسند ہے ؟ وہ کہے گا ہاں اے باری تعالیٰ اس وقت جناب باری تعالیٰ فرمائے گا تو جھوٹا ہے میں نے تو اس سے بہت ہی کم اور بالکل آسان چیز تجھ سے طلب کی تھی لیکن تو نے اسے بھی نہ کیا چنانچہ وہ جہنم میں بھیج دیا جائے گا ، (مسند احمد:207/3:صحیح) ۱؎ پس یہاں فرمایا ان کے لیے تکلیف دہ عذاب ہیں اور ایسا نہیں جو ان عذابوں سے اپنے آپ کو چھڑا سکے یا کوئی ان کی کس طرح مدد کر سکے ( اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے عذاب سے نجات دے ۔ آمین ) آل عمران
91 آل عمران
92 سب سے زیادہ پیاری چیز اور صدقہ سیدنا عمرو بن میمون رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں «بر» سے مراد جنت ہے ، یعنی اگر تم اپنی پسند کی چیزیں اللہ تعالیٰ کی راہ میں صدقہ کرتے رہو گے تو تمہیں جنت ملے گی ، مسند احمد میں ہے کہ ابوطلحہ مالدار صحابی تھے مسجد کے سامنے ہی بیئرحاء نامی آپ کا ایک باغ تھا جس میں کبھی کبھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لے جایا کرتے تھے اور یہاں کا خوش ذائقہ پانی پیا کرتے تھے جب یہ آیت اتری تو سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ بارگاہ نبوی میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگے کہ یا رسول اللہ میرا تو سب سے زیادہ پیارا مال یہی باغ ہے میں آپ کو گواہ کرتا ہوں کہ میں نے اسے اللہ کی راہ میں صدقہ کیا اللہ تعالیٰ مجھے بھلائی عطا فرمائے اور اپنے پاس اسے میرے لیے ذخیرہ کرے آپ کو اختیار ہے جس طرح چاہیں اسے تقسیم کر دیں آپ بہت ہی خوش ہوئے اور فرمانے لگے مسلمانوں کو اس سے بہت فائدہ پہنچے گا تم اسے اپنے قرابت داروں میں تقسیم کر دو چنانچہ ابوطلحہ نے اسے اپنے رشتہ داروں اور چچا زاد بھائیوں میں بانٹ دیا ،(صحیح بخاری:1461) ۱؎ بخاری و مسلم میں ہے کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ بھی خدمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئے اور کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اپنے تمام مال میں سب سے زیادہ مرغوب مال خیبر کی زمین کا حصہ ہے میں اسے راہ اللہ دینا چاہتا ہوں فرمائیے کیا کروں ؟ آپ نے فرمایا اسے وقف کر دو اصل روک لو اور پھل وغیرہ راہ اللہ کر دو ۔(صحیح بخاری:2737) ۱؎ مسند بزاز میں ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں میں نے اس آیت کی تلاوت کر کے سوچا تو مجھے کوئی چیز ایک کنیز سے زیادہ پیاری نہ تھی ۔ میں نے اس لونڈی کو راہ للہ آزاد کر دیا ، اب تک بھی میرے دل میں اس کی ایسی محبت ہے کہ اگر کسی چیز کو اللہ تعالیٰ کے نام پردے کر پھر لوٹا لینا جائز ہو تو میں کم از کم اس سے نکاح کر لیتا ۔ آل عمران
93 بارگاہ رسالت میں یہودی وفد مسند احمد میں ہے کہ یہودیوں کی ایک جماعت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ ہم آپ سے چند سوال کرنا چاہتے ہیں جن کے جواب نبیوں کے سوا اور کوئی نہیں آپ نے فرمایا پوچھو لیکن پہلے تم لوگ وعدہ کرو اگر میں صحیح صحیح جواب دے دوں تو تمہیں میری نبوت کے تسلیم کر لینے میں کوئی عذر نہ ہو گا انہوں نے اس شرط کو منظور کر لیا کہ اگر آپ نے سچے جواب دے تو ہم اسلام قبول کر لیں گے ساتھ ہی انہوں نے بڑی بڑی قسمیں بھی کھائیں پھر پوچھا کہ بتائیے ۔ اسرائیل نے کیا چیز اپنے اوپر حرام کی تھی ؟ عورت مرد کے پانی کی کیا کیفیت ہے ؟ اور کیوں کبھی لڑکا ہوتا ہے اور کبھی لڑکی ؟ اور نبی امی کی نیند کیسی ہے ؟ اور فرشتوں میں سے کون سا فرشتہ اس کے پاس وحی لے کر آتا ہے ؟ آپ نے فرمایا جب اسرائیل سخت بیمار ہوئے تو نذر مانی کہ اگر اللہ تعالیٰ مجھے شفاء دے گا تو میں سب سے زیادہ پیاری چیز کھانے پینے کی چھوڑ دوں گا جب شفاء یاب ہو گئے تو اونٹ کا گوشت اور دودھ چھوڑ دیا ، مرد کا پانی سفید رنگ اور گاڑھا ہوتا ہے اور عورت کا پانی زردی مائل پتلا ہوتا ہے دونوں سے جو اوپر آ جائے اس پر اولاد نر مادہ ہوتی ہے ، اور شکل و شباہت میں بھی اسی پر جاتی ہے ۔ اس نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم کی نیند میں اس کی آنکھیں سوتی ہیں لیکن دل جاگتا رہتا ہے ۔ میرے پاس وحی لے کر وہی فرشتہ آتا ہے جو تمام انبیاء کے پاس بھی آتا رہا یعنی جبرائیل علیہ السلام ، بس اس پر وہ چیخ اٹھے اور کہنے لگے کوئی اور فرشتہ آپ کا ولی ہوتا تو ہمیں آپ کی نبوت تسلیم کرنے میں کوئی عذر نہ رہتا ۔ ہر سوال کے جواب کے وقت آپ انہیں قسم دیتے اور ان سے دریافت فرماتے اور وہ اقرار کرتے کہ ہاں جواب صحیح ہے انہیں کے بارے میں آیت «قُلْ مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِیْلَ فَاِنَّہٗ نَزَّلَہٗ عَلٰی قَلْبِکَ بِاِذْنِ اللّٰہِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ وَھُدًی وَّبُشْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَ» (2-البقرۃ:97) ، نازل ہوئی- (مسند احمد:278/1:حسن بالشواھد) ۱؎ اور روایت میں ہے کہ اسرائیل کو عرق النساء کی بیماری تھی اور اس میں ان کا ایک پانچواں سوال یہ بھی ہے کہ یہ رعد کیا چیز ہے ؟ آپ نے فرمایا اللہ عزوجل کے فرشتوں میں سے ایک فرشتہ جو بادلوں پر مقرر ہے اس کے ہاتھ میں آگ کا کوڑا ہے جس سے بادلوں کا جہاں اللہ تعالیٰ کا حکم ہو لے جاتا ہے اور یہ گرج کی آواز اسی کی آواز ہے ۔ جبرائیل علیہ السلام کا نام سن کر یہ کہنے لگے وہ تو عذاب اور جنگ وجدال کا فرشتہ ہے اور ہمارا دشمن ہے ، اگر پیداوار اور بارش کے فرشتے میکائیل علیہ السلام آپ کے رفیق ہوتے تو ہم مان لیتے ۔ (سنن ترمذی:3117،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ۱؎ سیدنا یعقوب علیہ السلام کی روش پر ان کی اولاد بھی رہی اور وہ بھی اونٹ کے گوشت سے پرہیز کرتی رہی ، اس آیت کو اگلی آیت سے مناسبت ایک تو یہ ہے کہ جس طرح اسرائیل علیہ السلام نے اپنی چہیتی چیز اللہ کی نذر کر دی اسی طرح تم بھی کیا کرو ۔ لیکن یعقوب علیہ السلام کی شریعت میں اس کا طریقہ یہ تھا کہ اپنی پسندیدہ اور مرغوب چیز کا نام اللہ پر ترک کر دیتے تھے اور ہماری شریعت میں یہ طریقہ نہیں بلکہ ہمیں یہ فرمایا گیا ہے کہ ہم اپنی چاہت کی چیزیں اللہ کے نام پر خرچ کر دیا کریں ، جیسے فرمایا آیت «وَاٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الْقُرْبٰی وَالْیَـتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ» (2-البقرۃ:177) اور فرمایا آیت «وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّیَـتِـیْمًا وَّاَسِیْرًا» (76-الإنسان:8) باوجود محبت اور چاہت کے وہ ہماری راہ میں مال خرچ کرتے اور مسکینوں کو کھانا دیتے ہیں ، دوسری مناسبت یہ بھی ہے کہ پہلی آیتوں میں نصرانیوں کی تردید تھی تو یہاں یہودیوں کا رد ہو رہا ہے ان کے رد میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کا صحیح واقعہ بتا کر ان کے عقیدے کا رد کیا تھا ، یہاں نسک کا صاف بیان کر کے ان کے باطل عقیدے کی تردید میں ارشاد ہو رہا ہے ان کی کتاب میں صاف موجود تھا جب سیدنا نوح علیہ السلام کشتی پر اترے تا ان پر تمام جانوروں کا کھانا حلال تھا پھر سیدنا یعقوب علیہ السلام نے اونٹ کا گوشت اور دودھ اپنے اوپر حرام کر لیا تو ان کی اولاد بھی اسے حرام جانتی رہی چنانچہ توراۃ میں بھی اس کی حرمت نازل ہوئی ، اسی طرح اور بھی بعض چیزیں حرام کی گئیں یہ نسخ نہیں تو اور کیا ہے ؟ سیدنا آدم علیہ السلام کی صلبی اولاد کا آپس میں بہن بھائی کا نکاح ابتداء جائز ہوتا تھا لیکن بعد میں حرام کر دیا ، عورتوں پر لونڈیوں سے نکاح کرنا شریعت ابراہیمی میں مباح تھا خود ابراہیم علیہ السلام سیدہ سارہ پر سیدہ ہاجرہ علیہما السلام کو لائے ، لیکن پھر توراۃ میں اس سے روکا گیا ، دو بہنوں سے ایک ساتھ نکاح کرنا سیدنا یعقوب علیہ السلام کے زمانہ میں جائز تھا بلکہ خود سیدنا یعقوب علیہ السلام کے گھر میں بیک وقت دو سگی بہنیں تھیں لیکن پھر توراۃ میں یہ حرام ہو گیا اسی کو نسخ کہتے ہیں اسے وہ دیکھ رہے ہیں اپنی کتاب میں پڑھ رہے ہیں لیکن پھر نسخ کا انکار کر کے انجیل کو اور سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو نہیں مانتے اور ان کے بعد ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی یہی سلوک کرتے ہیں ، تو یہاں فرمایا کہ توراۃ کے نازل ہونے سے پہلے تمام کھانے حلال تھے سوائے اس کے جسے اسرائیل علیہ السلام نے اپنی جان پر حرام کر لیا تھا تم توراۃ لاؤ اور پڑھو اس میں موجود ہے ، پھر اس کے باوجود تمہاری یہ بہتان بازی اور افتراء پردازی کہ اللہ نے ہمارے لیے ہفتہ ہی کے دن کو ہمیشہ کے لیے عید کا دن مقرر کیا ہے اور ہم سے عہد لیا ہے کہ ہم ہمیشہ توراۃ ہی کے عامل رہیں اور کسی اور نبی کو نہ مانیں یہ کس قدر ظلم و ستم ہے ، تمہاری یہ باتیں اور تمہاری یہ روش یقیناً تمہیں ظالم و جابر ٹھہراتی ہے ۔ اللہ نے سچی خبر دے دی ابراہیمی دین وہی ہے جسے قرآن بیان کر رہا ہے تم اس کتاب اور اس نبی کی پیروی کرو ان سے اعلیٰ کوئی نبی ہے نہ اس سے بہتر اور زیادہ واضح کوئی اور شریعت ہے ، جیسے اور جگہ ہے آیت «قُلْ اِنَّنِیْ ہَدٰینِیْ رَبِّیْٓ اِلٰی صِرَاطٍ مٰسْتَقِیْمٍ» (6-الأنعام:161) اے نبی تم کہ دو کہ مجھے میرے رب نے موحد ابراہیم حنیف کے مضبوط دین کی سیدھی راہ دکھا دی ہے ۔ اور جگہ ہے ہم نے تیری طرف وحی کی کہ موحد ابراہیم حنیف کے دین کی تابعداری کر ۔ آل عمران
94 آل عمران
95 آل عمران
96 ذکر بیت اللہ اور احکامات حج یعنی لوگوں کی عبادت ،قربانی ،طواف، نماز ،اعتکاف وغیرہ کے لیے اللہ تعالیٰ کا گھر ہے جس کے بانی سیدنا ابراہیم خلیل علیہ السلام ہیں ، جن کی تابعداری کا دعویٰ یہود و نصاریٰ مشرکین اور مسلمان سب کو ہے وہ اللہ کا گھر جو سب سے پہلے مکہ میں بنایا گیا ہے ، اور بلاشبہ خلیل اللہ ہی حج کے پہلے منادی کرنے والے ہیں تو پھر ان پر تعجب اور افسوس ہے جو ملت حنیفی کا دعویٰ کریں اور اس گھر کا احترام نہ کریں حج کو یہاں نہ آئیں بلکہ اپنے قبلہ اور کعبہ الگ الگ بناتے پھریں ۔ اس بیت اللہ کی بنیادوں میں ہی برکت و ہدایت ہے اور تمام جہان والوں کے لیے ہے ، سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی ہے ؟ آپ نے فرمایا مسجد الحرام ، پوچھا پھر کون سی ؟ فرمایا مسجد بیت المقدس پوچھا ان دونوں کے درمیان کتنا وقت ہے ؟ فرمایا چالیس سال پوچھا پھر کون سی ؟ آپ نے فرمایا جہاں کہیں نماز کا وقت آ جائے نماز پڑھ لیا کرو ساری زمین مسجد ہے ( مسند احمد وبخاری مسلم )۔(صحیح بخاری:3366) ۱؎ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں گھر تو پہلے بہت سے تھے لیکن خاص اللہ تعالیٰ کی عبادت کا گھر سب سے پہلا یہی ہے ، کسی شخص نے آپ سے پوچھا کہ زمین پر پہلا گھر یہی بنا ہے؟ تو آپ نے فرمایا نہیں ہاں برکتوں اور مقام ابراہیم اور امن والا گھر یہی پہلا ہے ، بیت اللہ شریف کے بنانے کی پوری کیفیت سورۃ البقرہ کی آیت «وَعَہِدْنَآ اِلٰٓی اِبْرٰہٖمَ وَاِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَہِّرَا بَیْتِیَ لِلطَّایِٕفِیْنَ وَالْعٰکِفِیْنَ وَالرٰکَّعِ السٰجُوْدِ» (2-البقرۃ:125) ، کی تفسیر میں پہلے گزر چکی ہے وہیں ملاحظہ فرما لیجئے۔ یہاں دوبارہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں ، سدی رحمہ اللہ کہتے ہیں سب سے پہلے روئے زمین پر یہی گھر بنا ، لیکن صحیح قول سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا ہی ہے اور وہ حدیث جو ییہقی میں ہے جس میں ہے کہ آدم و حواء نے بحکم الہ بیت اللہ بنایا اور طواف کیا اور اللہ تعالیٰ نے کہا کہ تو سب سے پہلا انسان ہے اور یہ سب سے پہلا گھر ہے یہ حدیث ابن لہیعہ کی روایت سے ہے اور وہ ضعیف راوی ہیں ، ممکن ہے یہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا اپنا قول ہو اور یرموک والے دن انہیں جو دو پورے اہل کتاب کی کتابوں کے ملے تھے انہی میں یہ بھی لکھا ہوا ہو ۔ ” مکہ“ مکہ شریف کا مشہور نام ہے چونکہ بڑے بڑے جابر شخصوں کی گردنیں یہاں ٹوٹ جاتی تھیں ہر بڑائی والا یہاں پست ہو جاتا تھا ، اس لیے اسے مکہ کہا گیا اور اس لیے بھی کہ لوگوں کی بھیڑ بھاڑ یہاں ہوتی ہے اور ہر وقت کھچا کھچ بھرا رہتا ہے اور اس لیے بھی کہ یہاں لوگ خلط ملط ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ کبھی عورتیں آگے نماز پڑھتی ہوتی ہیں اور مرد ان کے پیچھے ہوتے ہیں اور ایسا معاملہ کہیں اور نہیں ہوتا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ” فج “ سے ”تنعیم“ تک مکہ ہے بیت اللہ سے بطحاء تک بکہ ہے بیت اللہ اور مسجد کو «بکہ» کہا گیا ہے ، بیت اللہ اور اس آس پاس کی جگہ کو بکہ اور باقی شہر کو مکہ بھی کہا گیا ہے ، اس کے اور بھی بہت سے نام ہیں مثلاً بیت العتیق ، بیت الحرام ، بلد الامین ، بلد المامون ، ام رحم ، ام القری ، صلاح ، عرش ، قادس ، مقدس ، ناسبہ ، ناسسہ ، حاطمہ ، راس ، کوثا البلدہ البینۃ و الکعبہ ۔ اس میں ظاہر نشانیاں ہیں جو اس کی عظمت و شرافت کی دلیل ہیں اور جن سے ظاہر ہے کہ خلیل اللہ علیہ السلام کی بناء یہی ہے اس میں مقام ابراہیم بھی ہے جس پر کھڑے ہو کر سیدنا اسماعیل علیہ السلام سے پتھر لے کر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کعبہ کی دیواریں اونچی کر رہے تھے ، یہ پہلے تو بیت اللہ شریف کی دیوار سے لگا ہوا تھا لیکن سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کے زمانہ میں اسے ذرا ہٹا کر مشرق رخ کر دیا تھا کہ پوری طرح طواف ہو سکے اور جو لوگ طواف کے بعد مقام ابراہیم کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں ان کے لیے پریشانی اور بھیڑ بھاڑ نہ ہو ، اسی کی طرف نماز پڑھنے کا حکم ہوا ہے اور اس کے متعلق بھی پوری تفسیر آیت «وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰہٖمَ مُصَلًّی» (2-البقرۃ:125) کی تفسیر میں پہلے گزر چکی ہے فالحمدللہ ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں آیات بینات میں سے ایک مقام ابراہیم بھی ہے باقی اور بھی ہیں ، مجاہد فرماتے ہیں کہ خلیل اللہ کے قدموں کے نشان جو مقام ابراہیم پر تھے یہ بھی آیات بینات میں سے ہیں ، کل حرم کو اور حطیم کو اور سارے ارکان حج کو بھی مکہ امن والا رہا باپ کے قاتل کو بھی یہاں پاتے تو نہ چھیڑتے ابن عباس فرماتے ہیں بیت اللہ پناہ چاہنے والے کو پناہ دیتا ہے لیکن جگہ اور کھانا پینا نہیں دیتا اور جگہ ہے آیت « اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا اٰمِنًا وَّیُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِہِمْ ۭ اَفَبِالْبَاطِلِ یُؤْمِنُوْنَ وَبِنِعْمَۃِ اللّٰہِ یَکْفُرُوْنَ » ( 29 ۔ العنکبوت : 67 ) ، کیا یہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے حرم کو امن کی جگہ بنایا اور جگہ ہے آیت « فَلْیَعْبُدُوا رَبَّ ہٰذَا الْبَیْتِ الَّذِی أَطْعَمَہُم مِّن جُوعٍ وَآمَنَہُم مِّنْ خَوْفٍ » ( 106-قریش : 3 ، 4 ) ، ہم نے انہیں خوف سے امن دیا نہ صرف انسان کے لیے امن ہے بلکہ شکار کرنا بلکہ شکار کو بھگانا اسے خوف زدہ کرنا اسے اس کے ٹھکانے یا گھونسلے سے ہٹانا اور اڑانا بھی منع ہے اس کے درخت کاٹنا یہاں کی گھاس اکھیڑنا بھی ناجائز ہے اس مضمون کی بہت سی حدیثیں پورے بسط کے ساتھ آیت« وَعَہِدْنَا إِلَیٰ إِبْرَاہِیمَ وَإِسْمَاعِیلَ أَن طَہِّرَا بَیْتِیَ لِلطَّائِفِینَ وَالْعَاکِفِینَ وَالرٰکَّعِ السٰجُودِ » ( 2-البقرہ : 125 ) ، کی تفسیر میں سورۃ البقرہ میں گذر چکی ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں آیاتِ بینات میں سے ایک مقامِ ابراہیم بھی ہے باقی اور ہیں،(تفسیر ابن جریر الطبری:26/7) ۱؎ سیدنا مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ خلیل اللہ کے قدموں کے نشان جا مقامِ ابراہیم پر تھے یہ بھی آیاتِ بینات میں سے ہیں۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:27/7) ۱؎ کل حرم کو اور حطیم کو اور سارے ارکانِ حج کو بھی مقامِ ابراہیم کی تفسیر میں مفسرین نے داخل کیا ہے۔ اس میں آنے والا امن میں آجاتا ہے جاہلیت کے زمانے میں بھی مکہ امن والا رہا باپ کے قاتل کو بھی یہاں پاتے تو نہ چھیڑتے۔ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں بیت اللہ پناہ چاہنے والے کو پناہ دیتا ہے لیکن جگہ اور کھانا پینا نہیں دیتا۔ اور جگہ ہے «أَوَلَمْ یَرَوْا أَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا آمِنًا وَیُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِہِمْ ۚ أَفَبِالْبَاطِلِ یُؤْمِنُونَ وَبِنِعْمَۃِ اللہِ یَکْفُرُونَ» (29-العنکبوت:67)کیا ہی نہیں دیکھتے کہ ہم نے حرم کو امن کی جگہ بنایا۔ اور جگہ ہے « وَآمَنَہُم مِّنْ خَوْفٍ» (106-قریش:4) ہم نے انہیں خوف سے امن دیا ۔ نہ صرف انسان کے لیے امن ہے بلکہ شکار کرنا، بلکہ شکار کو بھگانا، اسے خوف زدہ کرنا اسے اس کے ٹھکانے یا گھونسلے سے ہٹانا اور اڑانا بھی منع ہے، اسکے درخت کاٹنا، یہاں کی گھاس اکھیڑنا بھی ناجائز ہے۔ اس مضمون کی بہت سی حدیثیں پورے بسط کے ساتھ آیت « وَعَھِدْنَا » (2-البقرۃ:125) الخ، کی تفسیر میں سورہ بقرہ میں گزر چکی ہیں ۔ مسند احمد ترمذی اور نسائی میں حدیث ہے جسے امام ترمذی نے حسن صحیح کہا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کے بازار حرورہ میں کھڑے ہو کر فرمایا کہ اے مکہ تو اللہ تعالیٰ کو ساری زمین سے بہتر اور پیارا ہے اگر میں زبردستی تجھ سے نہ نکالا جاتا تو ہرگز تجھے نہ چھوڑتا ،(سنن ترمذی:3925،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ۱؎ اور اس آیت کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ جو اس گھر میں داخل ہوا وہ جہنم سے بچ گیا ، بیہقی کی ایک مرفوع حدیث میں ہے جو بیت اللہ میں داخل ہوا وہ نیکی میں آیا اور برائیوں سے دور ہوا ، اور گناہ بخش دیا گیا (بیہقی فی السنن:158/5:ضعیف) ۱؎ لیکن اس کے ایک راوی عبداللہ بن مؤمل قوی نہیں ہیں ۔ آیت کا یہ آخری حصہ حج کی فرضیت کی دلیل ہے بعض کہتے ہیں آیت «وَاَتِمٰوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ لِلہِ فَاِنْ اُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْہَدْی» (2-البقرۃ:196) ، والی آیت دلیل فرضیت ہے لیکن پہلی بات زیادہ واضح ہے ، کئی ایک احادیث میں وارد ہے کہ حج ارکان اسلام میں سے ایک رکن ہے ، اس کی فرضیت پر مسلمانوں کا اجماع ہے ، اور یہ بات بھی ثابت ہے کہ عمر بھر میں ایک مرتبہ استطاعت والے مسلمان پر حج فرض ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبہ میں فرمایا لوگو تم پر اللہ تعالیٰ نے حج فرض کیا ہے تم حج کرو ایک شخص نے پوچھا حضور کیا ہر سال ؟ آپ خاموش رہے اس نے تین مرتبہ یہی سوال کیا آپ نے فرمایا اگر میں ہاں کہ دیتا تو فرض ہو جاتا پھر بجا نہ لا سکتے میں جب خاموش رہوں تو تم کرید کر پوچھا نہ کرو تم سے اگلے لوگ اپنے انبیاء سے سوالوں کی بھرمار اور نبیوں پر اختلاف کرنے کی وجہ سے ہلاک ہو گئے میرے حکموں کو طاقت بھر بجا لاؤ ۔ اور جس چیز میں منع کروں اس سے رک جاؤ (مسند احمد:508/2:صحیح) ۱؎ ( مسند احمد ) صحیح مسلم شریف(صحیح مسلم:1337) ۱؎ کی اس حدیث شریف میں اتنی زیادتی ہے کہ یہ پوچھنے والے اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب یہ بھی فرمایا کہ عمر میں ایک مرتبہ فرض ہے اور پھر نفل ۔(سنن ابوداود:1721،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ۱؎ ایک روایت میں ہے کہ اسی سوال کے بارے میں آیت «یٰٓاَیٰھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْــــَٔـلُوْا عَنْ اَشْیَاءَ اِنْ تُبْدَ لَکُمْ تَسُؤْکُمْ» (5-المائدۃ:101)، یعنی زیادتی سوال سے بچو نازل ہوئی (مسند احمد:113/1:صحیح) ۱؎ ( مسند احمد ) ایک اور روایت میں ہے اگر میں ہاں کہتا تو ہر سال حج واجب ہوتا تم بجا نہ لا سکتے تو عذاب نازل ہوتا (سنن ابن ماجہ:2885،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ۱؎ ( ابن ماجہ ) ہاں حج میں تمتع کرنے کا جواز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سائل کے سوال پر ہمیشہ کے لیے جائز فرمایا تھا ،(صحیح بخاری:2505) ۱؎ ایک اور حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں امہات المؤمنین یعنی اپنی بیویوں سے فرمایا تھا حج ہو چکا اب گھر سے نہ نکلنا ،(سنن ابوداود:،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ۱؎ رہی استطاعت اور طاقت سو وہ کبھی تو خود انسان کو بغیر کسی ذریعہ کے ہوتی ہے کبھی کسی اور کے واسطے سے جیسے کہ کتب احکام میں اس کی تفصیل موجود ہے ، ترمذی میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ حاجی کون ہے ؟ آپ نے فرمایا پراگندہ بالوں اور میلے کچیلے کپڑوں والا ایک اور نے پوچھا یا رسول اللہ کون سا حج افضل ہے ، آپ نے فرمایا جس میں قربانیاں کثرت سے کی جائیں اور لبیک زیادہ پکارا جائے ۔ ایک اور شخص نے سوال کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سبیل سے کیا مراد ہے ؟ آپ نے فرمایا توشہ بھتہ کھانے پینے کے لائق سامان خرچ اور سواری (سنن ترمذی:813،قال الشیخ الألبانی:ضعیف جدا) ۱؎ ، اس حدیث کا ایک راوی گو ضعیف ہے مگر حدیث کی متابعت اور سند بہت سے صحابیوں سے مختلف سندوں سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت «مَنِ اسْـتَـطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا» (3-آل عمران:97) کی تفسیر میں زادو راحلہ یعنی توشہ اور سواری بتائی ہے ۔(سنن ابن ماجہ:2897،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ۱؎ مسند کی ایک اور حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں فرض حج جلدی ادا کر لیا کرو نہ معلوم کل کیا پیش آئے ،(مسند احمد:214/1:حسن) ۱؎ ابوداؤد وغیرہ میں ہے حج کا ارادہ کرنے والے کو جلد اپنا ارادہ پورا کر لینا چاہیئے ۔(مسند احمد:225/1:حسن) ۱؎ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں جس کے پاس تین سو درہم ہوں وہ طاقت والا ہے ، عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں مراد صحت جسمانی ہے پھر فرمایا جو کفر کرے یعنی فرضیت حج کا انکار کرے ، عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں جب یہ آیت اتری کہ دین اسلام کے سوا جو شخص کوئی اور دین پسند کرے اس سے قبول نہ کیا جائے گا تو یہودی کہنے لگے ہم بھی مسلمان ہیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر مسلمانوں پر تو حج فرض ہے تم بھی حج کرو تو وہ صاف انکار بیٹھے جس پر یہ آیت اتری کہ اس کا انکاری کافر ہے اور اللہ تعالیٰ تمام جہان والوں سے بے پرواہ ہے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص کھانے پینے اور سواری پر قدرت رکھتا ہو اور اتنا مال بھی اس کے پاس ہو پھر حج نہ کرے تو اس کی موت یہودیت یا نصرانیت پر ہو گی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اللہ کے لیے لوگوں پر حج بیت اللہ ہے جو اس کے راستہ کی طاقت رکھیں اور جو کفر کرے تو اللہ تعالیٰ تمام جہان والوں سے بےپرواہ ہے (سنن ترمذی:812،قال الشیخ الألبانی:ضعیف)۱؎ اس کے راوی پر بھی کلام ہے ، سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں طاقت رکھ کر حج نہ کرنے والا یہودی ہو کر مرے گا یا نصرانی ہو کر ، اس کی سند بالکل صحیح ہے ( حافظ ابوبکر اسماعیلی ) (الحلیہ لابی نعیم:252/9)۱؎ مسند سعید بن منصور میں ہے کہ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا میرا مقصد ہے کہ میں لوگوں کو مختلف شہروں میں بھیجوں وہ دیکھیں جو لوگ باوجود مال رکھنے کے حج نہ کرتے ہوں ان پر جزیہ لگا دیں وہ مسلمان نہیں ہیں ۔ آل عمران
97 آل عمران
98 کافروں کا انجام اہل کتاب کے کافروں کو اللہ تعالیٰ دھمکاتا ہے جو حق سے دشمنی کرتے اور اللہ تعالیٰ کی آیتوں سے کفر کرتے دوسرے لوگوں کو بھی پورے زور سے اسلام سے روکتے تھے باوجود یہ کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حقانیت کا انہیں یقینی علم تھا اگلے انبیاء اور رسولوں کی پیش گوئیاں اور ان کی بشارتیں ان کے پاس موجود تھیں نبی امی ہاشمی عربی مکی مدنی سید الولد آدم خاتم الانبیاء رسول رب ارض و سماء صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ان کتابوں میں موجود تھا پھر بھی اپنی بےایمانی پر بضد تھے اس لیے ان سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں خوب دیکھ رہا ہوں تم کس طرح میرے نبیوں کی تکذیب کرتے ہو اور کس طرح خاتم الانبیاء کو ستاتے ہو اور کس طرح میرے مخلص بندوں کی راہ میں روڑے اٹکا رہے ہو میں تمہارے اعمال سے غافل نہیں ہوں تمام برائیوں کا بدلہ دوں گا اس دن پکڑوں گا جس دن تمہیں کوئی سفارشی اور مددگار نہ ملے ۔ آل عمران
99 آل عمران
100 کامیابی کا انحصار کس پر ہے اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو اہل کتاب کے اس بدباطن فرقہ کی اتباع کرنے سے روک رہا ہے کیونکہ یہ حاسد ایمان کے دشمن ہیں اور عرب کی رسالت انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتی ، جیسے اور جگہ ہے آیت «وَدَّ کَثِیرٌ مِّنْ أَہْلِ الْکِتَابِ لَوْ یَرُدٰونَکُم مِّن بَعْدِ إِیمَانِکُمْ کُفَّارًا حَسَدًا مِّنْ عِندِ أَنفُسِہِم مِّن بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمُ الْحَقٰ» (2-البقرۃ:109) ، یہ لوگ جل بھن رہے ہیں ۔ اور تمہیں ایمان سے ہٹانا چاہتے ہیں تم ان کے کھوکھلے دباؤ میں نہ آ جانا ، گو کفر تم سے بہت دور ہے لیکن پھر بھی میں تمہیں آگاہ کئے دیتا ہوں ، اللہ تعالیٰ کی آیتیں دن رات تم میں پڑھی جا رہی ہیں اور اللہ تعالیٰ کا سچا رسول صلی اللہ علیہ وسلم تم میں موجود ہے ۔ جیسے اور جگہ ہے آیت «وَمَا لَکُمْ لاَ تُؤْمِنُونَ بِ اللہِ وَالرَّسُولُ یَدْعُوکُمْ لِتُؤْمِنُواْ بِرَبِّکُمْ وَقَدْ أَخَذَ مِیثَـقَکُمْ إِن کُنتُمْ مٰؤْمِنِینَ» (57-الحدید:8) تم ایمان کیسے نہ لاؤ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں تمہارے رب کی طرف بلا رہے ہیں اور تم سے عہد بھی لیا جا چکا ہے ، حدیث شریف میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روز اپنے اصحاب کرام رضی اللہ عنہم سے پوچھا تمہارے نزدیک سب سے بڑا ایمان والا کون ہے ؟ انہوں نے کہا فرشتے آپ نے فرمایا بھلا وہ ایمان کیوں نہ لاتے ؟ انہیں تو اللہ تعالیٰ کی وحی سے براہ راست تعلق ہے ، صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا پھر ہم ، فرمایا تم ایمان کیوں نہ لاتے تم میں تو میں خود موجود ہوں صحابہ نے کہا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود ہی ارشاد فرمائیں فرمایا کہ تمام لوگوں سے زیادہ عجیب ایمان والے وہ ہوں گے جو تمہارے بعد آئیں گے وہ کتابوں میں لکھا پائیں گے اور اس پر ایمان لائیں گے (طبرانی:3537:ضعیف)۱؎ [ امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس حدیث کی سندوں کا اور اس کے معنی کا پورا بیان شرح صحیح بخاری میں کر دیا ہے فالحمدللہ ] پھر فرمایا کہ باوجود اس کے تمہارا مضبوطی سے اللہ کے دین کو تھام رکھنا اور اللہ تعالیٰ کی پاک ذات پر پورا توکل رکھنا ہی موجب ہدایت ہے اسی سے گمراہی دور ہوتی ہے یہی شیوہ رضا کا باعث ہے اسی سے صحیح راستہ حاصل ہوتا ہے اور کامیابی اور مراد ملتی ہے ۔ آل عمران
101 آل عمران
102 اللہ تعالٰی کی رسی قرآن حکیم ہے اللہ تعالیٰ سے پورا پورا ڈرنا یہ ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے نافرمانی نہ کی جائے اس کا ذکر کیا جائے اور اس کی یاد نہ بھلائی جائے اس کا شکر کیا جائے کفر نہ کیا جائے ،(مستدرک حاکم:294/2:صحیح) ۱؎ بعض روایتوں میں یہ تفسیر مرفوع بھی مروی ہے لیکن ٹھیک بات یہی ہے کہ یہ موقوف ہے یعنی سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے واللہ اعلم ۔(تفسیر ابن ابی حاتم:446/2:موقوف)۱؎ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ انسان اللہ عزوجل سے ڈرنے کا حق نہیں بجا لا سکتا جب تک اپنی زبان کو محفوظ نہ رکھے (تفسیر ابن ابی حاتم:447/2)۱؎ اکثر مفسرین نے کہا ہے کہ یہ آیت «فَاتَّقُوا اللہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ» (64-التغابن:16) کی آیت سے منسوخ ہے اس دوسری آیت میں فرما دیا ہے کہ اپنی طاقت کے مطابق اس سے ڈرتے رہا کرو ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں منسوخ نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے رہو اس کے کاموں میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا خیال نہ کرو عدل پر جم جاؤ یہاں تک کہ خود اپنے نفس پر عدل کے احکام جاری کرو اپنے ماں باپ اور اپنی اولاد کے بارے میں بھی عدل و انصاف برتا کرو ۔ پھر فرمایا کہ اسلام پر ہی مرنا یعنی تمام زندگی اس پر قائم رہنا تاکہ موت بھی اسی پر آئے ، اس رب کریم کا اصول یہی ہے کہ انسان اپنی زندگی جیسی رکھے ویسی ہی اسے موت آتی ہے اور جیسی موت مرے اسی پر قیامت کے دن اٹھایا جاتا ہے [ اللہ تعالیٰ ناپسند موت سے ہمیں اپنی پناہ میں رکھے ] آمین ۔ مسند احمد میں ہے کہ لوگ بیت اللہ شریف کا طواف کر رہے تھے اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بھی وہاں تھے ان کے ہاتھ میں لکڑی تھی بیان فرمانے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی پھر فرمایا کہ اگر زقوم کا ایک قطرہ بھی دنیا میں گرا دیا جائے تو دنیا والوں کی ہر کھانے والی چیز خراب ہو جائے کوئی چیز کھا پی نہ سکیں پھر خیال کرو کہ ان جہنمیوں کا کیا حال ہو گا جن کا کھانا پینا ہی یہ زقوم ہو گا (مسند احمد:300/1:ضعیف) ۱؎ اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص جہنم سے الگ ہوتا اور جنت میں جانا چاہتا ہو اسے چاہیئے کہ مرتے دم تک اللہ تعالیٰ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھے اور لوگوں سے وہ برتاؤ کرے جسے وہ خود اپنے لیے چاہتا ہو (مسند احمد:192/2:صحیح) ۱؎ ( مسند احمد ) سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی آپ کے انتقال کے تین روز پہلے سنا کہ دیکھو موت کے وقت اللہ تعالیٰ سے نیک گمان رکھنا (صحیح مسلم:2877) ۱؎ ( مسلم ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ میرا بندہ میرے ساتھ جیسا گمان رکھے میں اس کے گمان کے پاس ہی ہوں اگر اس کا میرے ساتھ حسن ظن ہے تو میں اس کے ساتھ اچھائی کروں گا اور اگر وہ میرے ساتھ بدگمانی کرے گا تو میں اس سے اسی طرح پیش آؤں گا (مسند احمد:391/2:صحیح) ۱؎ ( مسند احمد ) اس حدیث کا اگلا حصہ بخاری مسلم میں بھی ہے (صحیح بخاری:7505) ۱؎ ، مسند بزار میں ہے کہ ایک بیمار انصاری رضی اللہ عنہ کی بیمار پرسی کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے اور سلام کر کے فرمانے لگے کہ کیسے مزاج ہیں ؟ اس نے کہا الحمدللہ اچھا ہوں رب کی رحمت کا امیدوار ہوں اور اس نے عذابوں سے ڈر رہا ہوں ، آپ نے فرمایا سنو ایسے وقت جس دل میں خوف و طمع دونوں ہوں اللہ اس کی امید کی چیز اسے دیتا ہے اور ڈر خوف کی چیز سے بچاتا ہے (سنن ترمذی:983،قال الشیخ الألبانی:حسن) ۱؎ ، مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے کہ سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی اور کہا کہ میں کھڑے کھڑے ہی گروں (مسند احمد:402/3:صحیح) ۱؎ ، اس کا مطلب امام نسائی نے تو سنن نسائی میں باب باندھ کر یہ بیان کیا ہے کہ سجدے میں اس طرح جانا چاہیئے ، اور یہ معنی بھی بیان کئے گئے ہیں کہ میں مسلمان ہوئے بغیر نہ مروں ، اور یہ بھی مطلب بیان کیا گیا ہے کہ جہاد پیٹھ دکھاتا ہوا نہ مارا جاؤں ۔ آل عمران
103 تفرقہ میں نہ پڑو پھر فرمایا باہم اتفاق رکھو اختلاف سے بچو ۔ «حَبْلِ اللہِ » سے مراد عہد الہ ہے ، جیسے «إِلَّا بِحَبْلٍ مِّنَ اللہِ » (3-آل عمران:112) ، میں «حَبْل» سے مراد قرآن ہے ، ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ قرآن اللہ کریم کی مضبوطی رسی ہے اور اس کی سیدھی راہ ہے ،(سنن ترمذی:2906،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ۱؎ اور روایت میں ہے کہ کتاب اللہ اللہ تعالیٰ کی آسمان سے زمین کی طرف لٹکائی ہوئی رسی ہے ، (تفسیر ابن جریر الطبری:7570:ضعیف) ۱؎ اور حدیث میں ہے کہ یہ قرآن اللہ سبحانہ کی مضبوط رسی ہے یہ ظاہر نور ہے ، یہ سراسر شفاء دینے والا اور نفع بخش ہے اس پر عمل کرنے والے کے لیے یہ بچاؤ ہے اس کی تابعداری کرنے والے کے لیے یہ نجات ہے (مستدرک حاکم:3197:ضعیف) ۱؎ ۔ سیدنا عبداللہ فرماتے ہیں ان راستوں میں تو شیاطین چل پھر رہے ہیں تم اللہ کے راستے پر آ جاؤ تم اللہ کی رسی کو مضبوط تھام لو وہ رسی قرآن کریم ہے ۔ اختلاف نہ کرو پھوٹ نہ ڈالو جدائی نہ کرو ، علیحدگی سے بچو ، صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تین باتوں سے اللہ رحیم خوش ہوتا ہے اور تین باتوں سے ناخوش ہوتا ہے ایک تو یہ کہ اسی کے عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو دوسرے اللہ کی رسی کو اتفاق سے پکڑو ، تفرقہ نہ ڈالو ، تیسرے مسلمان بادشاہوں کی خیر خواہی کرو ، فضول بکواس ، زیادتی سوال اور بربادی مال یہ تینوں چیزیں رب کی ناراضگی کا سبب ہیں ،(صحیح مسلم:1715) ۱؎ بہت سی روایتیں ایسی بھی ہیں جن میں سے کہ اتفاق کے وقت وہ خطا سے بچ جائیں گے اور بہت سی احادیث میں نااتفاقی سے ڈرایا بھی ہے ، ان ہدایات کے باوجود امت میں اختلافات ہوئے اور تہتر فرقے ہو گئے جن میں سے ایک نجات پا کر جنتی ہو گا اور جہنم کے عذابوں سے بچ رہے گا اور یہ وہ لوگ ہیں جو اس پر قائم ہوں جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب رضی اللہ عنہم تھے ۔ پھر اپنی نعمت یاد دلائی ، جاہلیت کے زمانے میں اوس و خزرج کے درمیان بڑی لڑائیاں اور سخت عداوت تھی آپس میں برابر جنگ جاری رہتی تھی جب دونوں قبیلے اسلام لائے تو اللہ کریم کے فضل سے بالکل ایک ہو گئے سب حسد بغض جاتا رہا اور آپس میں بھائی بھائی بن گئے اور نیکی اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے کے مددگار اور اللہ تعالیٰ کے دین میں ایک دوسرے کے ساتھ متفق ہو گئے ، جیسے اور جگہ ہے «ہُوَ الَّذِی أَیَّدَکَ بِنَصْرِہِ وَبِالْمُؤْمِنِینَ وَأَلَّفَ بَیْنَ قُلُوبِہِمْ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِی الْأَرْضِ جَمِیعًا مَّا أَلَّفْتَ بَیْنَ قُلُوبِہِمْ وَلٰکِنَّ اللہَ أَلَّفَ بَیْنَہُمْ » (8-الأنفال:63-62) ، وہ اللہ جس نے تیری تائید کی اپنی مدد کے ساتھ اور مومنوں کے ساتھ اور ان کے دلوں میں الفت ڈال دی ۔ اپنا دوسرا احسان ذکر کرتا ہے کہ تم آگ کے کنارے پہنچ چکے تھے اور تمہارا کفر تمہیں اس میں دھکیل دیتا لیکن ہم نے تمہیں اسلام کی توفیق عطا فرما کر اس سے بھی الگ کر لیا ۔ حنین کی فتح کے بعد جب مال غنیمت تقسیم کرتے ہوئے مصلحت دینی کے مطابق حضور علیہ السلام نے بعض لوگوں کو زیادہ مال دیا تو کسی شخص نے کچھ ایسے ہی نامناسب الفاظ زبان سے نکال دئیے جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جماعت انصار کو جمع کر کے ایک خطبہ پڑھا اس میں یہ بھی فرمایا تھا کہ اے جماعت انصار کیا تم گمراہ نہ تھے ؟ پھر اللہ تعالیٰ نے میری وجہ سے تمہیں ہدایت دی ؟ کیا تم متفرق نہ تھے پھر رب دو عالم نے میری وجہ سے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی کیا تم فقیر نہ تھے اللہ تعالیٰ نے تمہیں میری وجہ سے غنی کر دیا ؟ ہر ہر سوال کے جواب میں یہ پاکباز ، جماعت یہ اللہ والا گروہ کہتا جاتا تھا کہ ہم پر اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احسان اور بھی بہت سے ہیں اور بہت بڑے بڑے ہیں ۔ (صحیح بخاری:4330) ۱؎ سیدنا محمد بن اسحاق رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب اوس و خزرج جیسے صدیوں کے آپس کے دشنوں کو یوں بھائی بھائی بنا ہوا دیکھا تو یہودیوں کی آنکھوں میں کانٹا کھٹکنے لگا انہوں نے آدمی مقرر کئے کہ وہ ان کی محفلوں اور مجلس میں جایا کریں اور اگلی لڑائیاں اور پرانی عداوتیں انہیں یاد دلائیں ان کے مقتولوں کی یاد تازہ کرائیں اور اس طرح انہیں بھڑکائیں ۔ چنانچہ ان کا یہ داؤ ایک مرتبہ چل بھی گیا اور دونوں قبیلوں میں پرانی آگ بھڑک اٹھی یہاں تک کہ تلواریں کھچ گئیں ٹھیک دو جماعتیں ہو گئیں اور وہی جاہلیت کے نعرے لگنے لگے ہتھیار سجنے لگے اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن گئے اور یہ ٹھہر گیا کہ حرہ کے میدان میں جا کر ان سے دل کھول کر لڑیں اور مردانگی کے جوہر دکھائیں پیاسی زمین کو اپنے خون سے سیراب کریں لیکن حضور علیہ السلام کو پتہ چل گیا آپ فوراً موقع پر تشریف لائے اور دونوں گروہ کو ٹھنڈا کیا اور فرمانے لگے پھر جاہلیت کے نعرے تم لگانے لگے میری موجودگی میں ہی تم نے پھر جنگ وجدال شروع کر دیا ؟ پھر آپ نے یہی آیت پڑھ کر سنائی سب نادم ہوئے اور اپنی دو گھڑی پہلے کی حرکت پر افسوس کرنے لگے اور آپس میں نئے سرے سے معانقہ مصافحہ کیا اور پھر بھائیوں کی طرح گلے مل گئے ہتھیار ڈال دئیے اور صلح صفائی ہو گئی ،سیدنا عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب سیدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر منافقوں نے تہمت لگائی تھی اور آپ کی برات نازل ہوئی تھی تب ایک دوسرے کے مقابلہ میں تن گئے تھے (تفسیر ابن جریر الطبری:55/7:ضعیف و منقطع) ۱؎ ، فاللہ اعلم آل عمران
104 یوم آخرت منافق اور مومن کی پہچان سیدنا ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس جماعت سے مراد خاص صحابہ رضی اللہ عنہم اور خاص راویان حدیث ہیں یعنی مجاہدین اور علماء (تفسیر ابن جریر الطبری:92/7) ۱؎ امام ابو جعفر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی پھر فرمایا صبر سے مراد قرآن و حدیث کی اتباع ہے ، یاد رہے کہ ہر متنفس پر تبلیغ حق فرض ہے لیکن تاہم ایک جماعت تو خاص اسی کام میں مشغول رہنی چاہیئے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تم میں سے جو کوئی کسی برائی کو دیکھے اسے ہاتھ سے دفع کر دے اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے روکے اگر یہ بھی نہ کر سکتا ہو تو اپنے دل سے نفرت کرے یہ ضعیف ایمان ہے ،(صحیح مسلم:49) ۱؎ ایک اور روایت میں اس کے بعد یہ بھی ہے کہ اس کے بعد رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہیں ، (صحیح مسلم:49) ۱؎ ( صحیح مسلم ) مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم اچھائی کا حکم اور برائیوں سے مخالفت کرتے رہو ورنہ عنقریب اللہ تعالیٰ تم پر اپنا عذاب نازل فرما دے گا پھر تم دعائیں کرو گے لیکن قبول نہ ہوں گی ۔(سنن ترمذی:2169،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ۱؎ اس مضمون کی اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں جو کسی اور مقام پر ذکر کی جائیں گی ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ پھر فرماتا ہے کہ تم سابقہ لوگوں کی طرح افتراق و اختلاف نہ کرنا تم نیک باتوں کا حکم اور خلاف شرع باتوں سے روکنا نہ چھوڑنا ، مسند احمد میں ہے سیدنا معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہ حج کیلئے جب مکہ شریف میں آئے تو ظہر کی نماز کے بعد کھڑے ہو کر فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اہل کتاب اپنے دین میں اختلاف کر کے بہتر (72) گروہ بن گئے اور اس میری امت کے تہتر فرقے ہو جائیں گے خواہشات نفسانی اور خوش فہمی میں ہوں گے بلکہ میری امت میں ایسے لوگ بھی ہوں گے جن کی رگ رگ میں نفسانی خواہشیں اس طرح گھس جائیں گی جس طرح کتے کے کاٹے ہوئے انسان کی ایک ایک رگ اور ایک ایک جوڑ میں اس کا اثر پہنچ جاتا ہے اے عرب کے لوگو اگر تم ہی اپنے نبی کی لائی ہوئی چیز پر قائم نہ رہو گے تو اور لوگ تو بہت دور ہو جائیں گے ۔(سنن ابوداود:4597،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ۱؎ اس حدیث کی بہت سی سندیں ہیں آل عمران
105 آل عمران
106 خوارج کا انجام پھر فرمایا اس دن سفید چہرے اور سیاہ منہ بھی ہونگے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے کہ اہل سنت و الجماعت کے منہ سفید اور نورانی ہونگے مگر اہل بدعت و منافقت کے کالے منہ ہونگے ، حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ کالے منہ والے منافق ہونگے جن سے کہا جائے گا کہ تم نے ایمان کے بعد کفر کیوں کیا اب اس کا مزہ چکھو ۔(تفسیر ابن ابی حاتم:465/2) ۱؎ اور سفید منہ والے اللہ رحیم و کریم کی رحمت میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ۔سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ نے جب خارجیوں کے سر دمشق کی مسجد کے زینوں پر لٹکے ہوئے دیکھے تو فرمانے لگے یہ جہنم کے کتے ہیں ان سے بدتر مقتول روئے زمین پر کوئی نہیں انہیں قتل کرنے والے بہترین مجاہد ہیں پھر آیت «یوم تبیض» تلاوت فرمائی ، ابوغالب نے کہا کہ جناب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا ہے ؟ فرمایا ایک دو دفعہ نہیں بلکہ سات مرتبہ اگر ایسا نہ ہوتا تو میں اپنی زبان سے یہ الفاظ نکالتا ہی نہیں ،(سنن ترمذی:3000،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ۱؎ ابن مردویہ نے یہاں سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کی روایت سے ایک لمبی حدیث نقل کی ہے جو بہت ہی عجیب ہے لیکن سنداً غریب ہے ۔ دنیا اور آخرت کی یہ باتیں ہم تم پر اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھول رہے ہیں اللہ عادل حاکم ہے وہ ظالم نہیں اور ہر چیز کو خوب جانتا ہے اور ہر چیز پر قدرت بھی رکھتا ہے پھر ناممکن ہے کہ وہ کسی پر ظلم کرے ( جن کے کالے منہ ہوئے وہ اسی لائق تھے ) زمین اور آسمان کی کل چیزیں اس کی ملکیت میں ہیں اور اسی کی غلامی میں اور ہر کام کا آخری حکم اسی کی طرف ہے متصرف اور با اختیار حکم دنیا اور آخرت کا مالک وہی ہے ۔ آل عمران
107 آل عمران
108 آل عمران
109 آل عمران
110 سب سے بہتر شخص کون؟ اور سب سے بہتر امت کا اعزاز کس کو ملا؟ اللہ تعالیٰ خبر دے رہا ہے کہ امت محمدیہ تمام امتوں پر بہتر ہے صحیح بخاری شریف میں ہے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں تم اوروں کے حق میں سب سے بہتر ہو تو لوگوں کی گردنیں پکڑ پکڑ کر اسلام کی طرف جھکاتے ہو ،(صحیح بخاری:4557) ۱؎ اور مفسرین بھی یہی فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ تم تمام امتوں سے بہتر ہو اور سب سے زیادہ لوگوں کو نفع پہنچانے والے ہو ، ابولہب کی بیٹی سیدہ درہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ایک مرتبہ کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا آپ اس وقت منبر پر تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کون سا شخص بہتر ہے ؟ آپ نے فرمایا سب لوگوں سے بہتر وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ قاری قرآن ہو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو ، سب سے زیادہ اچھائیوں کا حکم کرنے والا سب سے زیادہ برائیوں سے روکنے والا سب سے زیادہ رشتے ناتے ملانے والا ہو ۔ (مسند احمد:431/6:ضعیف) ۱؎ ( مسند احمد ) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یہ وہ صحابہ ہیں جنہوں نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی ، صحیح بات یہ ہے کہ یہ آیت ساری امت پر مشتمل ہے ، بیشک یہ حدیث میں بھی ہے کہ سب سے بہتر میرا زمانہ ہے پھر اس کے بعد اس سے ملا ہوا زمانہ پھر اس کے بعد والا ، (صحیح بخاری:3605) ۱؎ ایک اور روایت میں ہے آیت «وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّۃً وَسَطًا لِّتَکُونُوا شُہَدَاءَ عَلَی النَّاسِ» (2-البقرۃ:143) ۱؎ ہم نے تمہیں بہتر امت بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تم نے اگلی امتوں کی تعداد ستر تک پہنچا دی ہے ، اللہ کے نزدیک تم ان سب سے بہتر اور زیادہ بزرگ ہو ،(سنن ترمذی:3001،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ۱؎ یہ مشہور حدیث ہے امام ترمذی نے اسے حسن کہا ہے ، اس امت کی افضیلت کی ایک بڑی دلیل اس امت کے نبی کی افضیلت ہے ، آپ تمام مخلوق کے سردار تمام رسولوں سے زیادہ اکرام و عزت والے ہیں ، آپ کی شرع اتنی کامل اور اتنی پوری ہے کہ ایسی شریعت کسی نبی کو نہیں تو ظاہر بات ہے کہ ان فضائل کو سمیٹتے والی امت بھی سب سے اعلیٰ و افضل ہے ، اس شریعت کا تھوڑا سا عمل بھی اور امتوں کے زیادہ عمل سے بہتر و افضل ہے ۔ سیدنا علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں وہ نعمتیں دیا گیا ہوں جو مجھ سے پہلے کوئی نہیں دیا گیا لوگوں نے پوچھا وہ کیا باتیں ہیں ، آپ نے فرمایا میری مدد رعب سے کی گئی ہے میں زمین کی کنجیاں دیا گیا ہوں ، میرا نام احمد رکھا گیا ہے ، میرے لیے مٹی پاک کی گئی ہے ، میری امت سب امتوں سے بہتر بنائی گئی ہے (مسند احمد:98/1:حسن) ۱؎ ( مسند احمد ) اس حدیث کی سند حسن ہے ،سیدنا ابو الدرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام سے فرمایا کہ میں تمہارے بعد ایک امت پیدا کرنے والا ہوں جو راحت پر حمد و شکر کریں گے اور مصیبت پر طلب ثواب اور صبر کریں گے حالانکہ انہیں حلم و علم نہ ہو گا آپ نے تعجب سے پوچھا کہ بغیر بردباری اور دور اندیشی اور پختہ علم کے یہ کیسے ممکن ہے ؟ رب العالمین نے فرمایا میں انہیں اپنا حلم و علم عطا فرماؤں گا ، (مسند احمد:450/6:ضعیف) ۱؎ میں چاہتا ہوں یہاں پر بعض وہ حدیثیں بھی بیان کر دوں جن کا ذکر یہاں مناسب ہے سنئے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میری امت میں سے ستر ہزار شخص بغیر حساب کتاب کے جنت میں جائیں گے جن کے چہرے چودھویں رات کے چاند کی طرح روشن ہوں گے سب یک رنگ ہونگے ، میں نے اپنے رب سے گزارش کی کہ اے اللہ اس تعداد میں اور اضافہ فرما اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ہر ایک کے ساتھ ستر ہزار اور بھی ، سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ یہ حدیث بیان کر کے فرمایا کرتے تھے کہ پھر تو اس تعداد میں گاؤں اور دیہاتوں والے بلکہ بادیہ نشین بھی آ جائیں گے (مسند احمد:6/1:ضعیف) ۱؎ ( مسند احمد ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مجھے میرے رب نے ستر ہزار آدمیوں کو میری امت میں سے بغیر حساب کے جنت میں داخل ہونے کی خوشخبری دی ،سیدنا عمر نے یہ سن کر فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کچھ اور زیادتی طلب کرتے آپ نے فرمایا میں نے اپنے رب سے سوال کیا تو مجھے خوشخبری ملی کہ ہر ہزار کے ساتھ ستر ہزار اور ہوں گے۔ سیدنا فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم برکت کی دعا کرتے آپ نے فرمایا میں نے پھر کی ت ہر شخص کے ساتھ ستر ہزار کا وعدہ ہوا ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پھر گزارش کی کہ اللہ کے نبی اور کچھ بھی مانگتے آپ نے فرمایا مانگا تو مجھے اتنی زیادتی اور ملی اور پھر دونوں ہاتھ پھیلا کر بتایا کہ اس طرح ، راوی حدیث کہتے ہیں اس طرح جب اللہ تعالیٰ سمیٹے تو اللہ عزوجل ہی جانتا ہے کہ کس قدر مخلوق اس میں آئے گی ۔ ( فسبحان اللہ وبحمدہ ) (مسند احمد:197/1:ضعیف) ۱؎ ( مسند احمد ) سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ حمص میں بیمار ہو گئے عبداللہ بن قرط وہاں کے امیر تھے وہ عیادت کو نہ آ سکے ایک کلاعی شخص جب آپ کی بیمار پرسی کیلئے گیا تو آپ نے اس سے دریافت کیا کہ لکھنا جانتے ہو اس نے کہا ہاں فرمایا لکھو یہ خط ثوبان کی طرف سے امیر عبداللہ بن قرط کی طرف سے ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم ہیں بعد حمد و صلوٰۃ کے! واضح ہو کہ اگر سیدنا عیسیٰ یا سیدنا موسیٰ علیہما السلام کا کوئی خادم یہاں ہوتا اور بیمار پڑتا تو تم عیادت کیلئے جاتے پھر کہا یہ خط لے جاؤ اور امیر کو پہنچا دو جب یہ خط امیر حمص کے پاس پہنچا تو گھبرا کر اٹھ کھڑے ہوئے اور سیدھے یہاں تشریف لائے کچھ دیر بیٹھ کر عیادت کر کے جب جانے کا ارادہ کیا تو سیدنا ثوبانرضی اللہ عنہ نے ان کی چادر پکڑ روکا اور فرمایا ایک حدیث سنتے جائیں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سنا ہے آپ نے فرمایا میری امت میں سے ستر ہزار شخص بغیر حساب و عذاب کے جنت میں جائیں گے ہر ہزار کے ساتھ ستر ہزار اور ہوں گے (مسند احمد:280/5:صحیح لغیرہ) ۱؎ ( مسند احمد ) یہ حدیث بھی صحیح ہے ۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک رات ہم خدمت نبوی میں دیر تک باتیں کرتے رہے پھر صبح جب حاضر خدمت ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا سنو آج رات انبیاء اپنی اپنی امت سمیت مجھے دکھائے گئے بعض انبیاء کے ساتھ صرف تین شخص تھے بعض کے ساتھ مختصر سا گروہ بعض کے ساتھ ایک جماعت کسی کے ساتھ کوئی بھی نہ تھا جب موسیٰ علیہ السلام آئے تو ان کے ساتھ بہت سے لوگ تھے مجھے یہ جماعت پسند آئی میں نے پوچھا یہ کون ہیں تو جواب ملا کہ یہ آپ کے بھائی موسیٰ علیہ السلام ہیں اور ان کے ساتھ بنی اسرائیل ہیں میں نے کہا پھر میری امت کہاں ہے جواب ملا اپنی داہنی طرف دیکھو اب جو دیکھتا ہوں تو بےشمار مجمع ہے جس سے پہاڑیاں بھی ڈھک گئی ہیں اب مجھ سے پوچھا گیا کہو خوش ہو میں نے کہا میرے رب میں راضی ہو گیا ، فرمایا گیا سنو ! ان کے ساتھ ستر ہزار اور ہیں جو بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے ، اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم پر میرے میں باپ فدا ہوں اگر ہو سکے تو ان ستر ہزار میں سے ہی ہونا اگر یہ نہ ہو سکے تو ان میں سے ہو جو پہاڑیوں کو چھپائے ہوئے تھے اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو ان میں سے ہونا جو آسمان کے کناروں کناروں پر تھے ، سیدنا عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے لیے دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ مجھے ان ستر ہزار میں سے کرے آپ نے دعا کی تو ایک دوسرے صحابی نے بھی اٹھ کر یہی گزارش کی تو آپ نے فرمایا تم پر سیدنا عکاشہ رضی اللہ عنہ سبقت کر گئے ۔ ہم اب آپس میں کہنے لگے کہ شاید یہ ستر ہزار لوگ ہوں گے جو اسلام پر ہی پیدا ہوئے ہوں اور پوری عمر میں کبھی اللہ کے ساتھ شرک کیا ہی نہ ہو آپ کو جب یہ معلوم ہوا تو فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جو دم جھاڑا نہیں کراتے آگ کے داغ نہیں لگواتے شگون نہیں لیتے اور اپنے رب پر پورا بھروسہ رکھتے ہیں (مسند احمد:401/1:صحیح) ۱؎ ( مسند احمد ) ایک اور سند سے اتنی زیادتی اس میں اور بھی ہے جب میں نے اپنی رضا مندی ظاہر کی تو مجھ سے کہا گیا اب اپنی بائیں جانب دیکھو میں نے دیکھا تو بےشمار مجمع ہے جس نے آسمان کے کناروں کو بھی ڈھک لیا ہے (مسند احمد:401/1:صحیح) ۱؎ ایک اور روایت میں ہے کہ موسم حج کا یہ واقعہ ہے آپ فرماتے ہیں مجھے اپنی امت کی یہ کثرت بہت پسند آئی تمام پہاڑیاں اور میدان ان سے پُر تھے (مسند احمد:445/1:صحیح) ۱؎ ( مسند احمد ) ایک اور روایت میں ہے کہ سیدنا عکاشہرضی اللہ عنہ کے بعد کھڑے ہونے والے ایک انصاری رضی اللہ عنہ تھے(صحیح بخاری:5811) ۱؎ ( طبرانی ) ایک اور روایت میں ہے کہ میری امت میں سے ستر ہزار یا ساٹھ لاکھ آدمی جنت میں جائیں گے جو ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے ہوئے ہوں گے سب ایک ساتھ جنت میں جائیں گے چمکتے ہوئے چودھویں رات کے چاند جیسے ان کے چہرے ہوں گے ۔(صحیح بخاری:6543) ۱؎ ( بخاری مسلم طبرانی ) حصین بن عبدالرحمٰن رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سعید بن جیبر رحمہ اللہ کے پاس تھا تو آپ نے دریافت کیا رات کو جو ستارہ ٹوٹا تھا تم میں سے کسی نے دیکھا تھا میں نے کہا ہاں حضرت میں نے دیکھا تھا یہ نہ سمجھئے گا کہ میں نماز میں تھا بلکہ مجھے بچھو نے کاٹ کھایا تھا سعید نے پوچھا پھر تم نے کیا کیا میں نے کہا دم کر دیا تھا کہا کیوں میں نے کہا سیدنا شعبی رحمہ اللہ نے بریدہ بن حصیب کی روایت سے حدیث بیان کی ہے کہ نظربد اور زہریلے جانوروں کا دم جھاڑا کرانا ہے کہنے لگے خیر جسے جو پہنچے اس پر عمل کرے ہمیں تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے سنایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ پر امتیں پیش کی گئیں کسی نبی کے ساتھ ایک جماعت تھی کسی کے ساتھ ایک شخص اور دو شخص اور کسی نبی کے ساتھ کوئی نہ تھا اب جو دیکھا کہ ایک بڑی جماعت پر نظر پڑی میں سمجھا یہ تو میری امت ہو گی پھر معلوم ہوا کہ موسیٰ علیہ السلام کی امت ہے مجھ سے کہا گیا آسمان کے کناروں کی طرف دیکھو میں نے دیکھا تو وہاں بےشمار لوگ تھے مجھ سے کہا گیا یہ آپ کی امت ہے اور ان کے ساتھ ستر ہزار اور ہیں جو بے حساب اور بےعذاب جنت میں جائیں گے یہ حدیث بیان فرما کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو مکان پر چلے گئے اور صحابہ آپس میں کہنے لگے شاید یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہوں گے کسی نے کہا نہیں اسلام میں پیدا ہونے والے اور اسلام پر ہی مرنے والے ہوں گے وغیرہ وغیرہ آپ تشریف لائے اور پوچھا کیا باتیں کر رہے ہو ہم نے ذکر کیا تو آپ نے فرمایا نہیں یہ وہ لوگ ہیں جو نہ دم جھاڑا کریں نہ کرائیں ، نہ داغ لگوائیں نہ شگون لیں بلکہ اپنے رب پر بھروسہ رکھیں سیدنا عکاشہ رضی اللہ عنہ نے دعا کی درخواست کی آپ نے دعا کی یا اللہ تو اسے ان میں سے ہی بنا ۔ پھر دوسرے شخص نے بھی یہی کہا آپ نے فرمایا عکاشہ رضی اللہ عنہ آگے بڑھ گئے ،(صحیح بخاری:6541) ۱؎ یہ حدیث بخاری میں ہے لیکن اس میں دم جھاڑا نہیں کرنے کا لفظ نہیں صحیح مسلم میں بھی یہ لفظ ہے ۔ ایک اور مطول حدیث میں ہے کہ پہلی جماعت تو نجات پائے گی ان کے چہرے چودھویں رات کے چاند کی طرح روشن ہوں گے ان سے حساب بھی نہ لیا جائے گا پھر ان کے بعد والے سب سے زیادہ روشن ستارے جیسے چمکدار چہرے والے ہوں گے (صحیح مسلم:191) ۱؎ ( مسلم ) آپ فرماتے ہیں مجھ سے میرے رب کا وعدہ ہے کہ میری امت میں سے ستر ہزار شخص بغیر حساب و عذاب کے داخل بہشت ہوں گے ہر ہزار کے ساتھ ستر ہزار ہوں گے اور تین لپیں اور میرے رب عزوجل کی لپوں سے (سنن ترمذی:2438،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ۱؎ ( کتاب السنن لحافظ ابی بکر بن عاصم ) اس کی اسناد بہت عمدہ ہے ایک اور حدیث میں ہے کہ آپ سے ستر ہزار کی تعداد سن کر یزید بن اخنس رضی اللہ عنہ نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ تو آپ کی امت کی تعداد کے مقابلہ میں بہت ہی تھوڑے ہیں تو آپ نے فرمایا ہر ہزار کے ساتھ ستر ہزار ہیں اور پھر اللہ نے تین لپیں ( ہتھیلیوں کا کشکول ) بھر کر اور بھی عطا فرمائے ہیں ، اس کی اسناد بھی حسن ہے (مسند احمد:250/5:حسن) ۱؎ ( کتاب السنن ) اور ایک اور حدیث میں ہے کہ میرے رب نے جو عزت اور جلال والا ہے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ میری امت میں سے ستر ہزار کو بلا حساب جنت میں لے جائے گا پھر ایک ایک ہزار کی شفاعت سے ستر ستر ہزار آدمی اور جائیں گے پھر میرا رب اپنے دونوں ہاتھوں سے تین لپیں ( دونوں ہاتھوں کی ہھتیلیوں کو ملا کر کٹورا بنانا ) بھر کر اور ڈالے گا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر خوش ہو کر اللہ اکبر کہا اور فرمایا کہ ان کی شفاعت ان کے باپ دادوں اور بیٹوں اور بیٹیوں اور خاندان و قبیلہ میں ہو گی اللہ کرے میں تو ان میں سے ہو جاؤں جنہیں اللہ تعالیٰ اپنی لپوں میں بھر کر آخر میں جنت میں لے جائے گا (طبرانی کبیر:771/22:صحیح) ۱؎ ( طبرانی ) اس حدیث کی سند میں بھی کوئی علت نہیں ۔ واللہ اعلم کدید میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث فرمائی جس میں جنت میں یہ بھی فرمایا یہ ستر ہزار جو بلا حساب جنت میں داخل کئے جائیں گے میرا خیال ہے کہ ان کے آتے آتے تو تم اپنے لیے اور اپنے بال بچوں اور بیویوں کیلئے جنت میں جگہ مقرر کر چکے ہوگے (مسند احمد:16/4:صحیح) ۱؎ ( مسند احمد ) اس کی سند بھی شرطِ مسلم پر ہے ، ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کا وعدہ ہے کہ میری امت میں سے چار لاکھ آدمی جنت میں جائیں گے ، سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کچھ اور زیادہ کیجئے اسے سن کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ابوبکر بس کرو سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کیوں صاحب اگر ہم سب کے سب جنت میں چلے جائیں گے تو آپ کو کیا نقصان ہے؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر اللہ چاہے تو ایک ہی ہاتھ میں ساری مخلوق کو جنت میں ڈال دے حضور علیہ السلام نے فرمایا عمر رضی اللہ عنہ سچ کہتے ہیں (مسند احمد:165/3:صحیح) ۱؎ ( مسند عبدالرزاق ) اسی حدیث کی اور سند سے بھی بیان ہے اس میں تعداد ایک لاکھ آئی ہے (مسند احمد:193/3:صحیح) ۱؎ ( اصبہانی ) ایک اور روایت میں ہے کہ جب صحابہ نے ستر ہزار اور پھر ہر ایک کے ساتھ ستر ہزار پھر اللہ کی لپ بھر کر جنتی بنانا سنا تو کہنے لگے پھر تو اس کی بدنصیبی میں کیا شک رہ گیا جو باوجود اس کے بھی جہنم میں جائے (ابو یعلی:3783:صحیح) ۱؎ ( ابویعلیٰ ) اوپر والی حدیث ایک اور سند سے بھی بیان ہوئی ہے اس میں تعداد تین لاکھ کی ہے پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا قول اورحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کا بیان ہے (طبرانی کبیر:64/17:ضعیف) ۱؎ ( طبرانی ) ایک اور حدیث میں جنت میں جانے والوں کا ذکر کر کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت کے سارے مہاجر تو اس میں آ ہی جائیں گے پھر باقی تعداد اعرابیوں سے پوری ہو گی (مسند احمد:359/2) ۱؎ ( محمد بن سہل ) سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حساب کیا گیا تو جملہ تعداد چار کروڑ نوے ہزار ہوئی ، ایک اور حسن حدیث طبرانی میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے تم ایک اندھیری رات کی طرح بےشمار ایک ساتھ جنت کی طرف بڑھو گے ، زمین تم سے پر ہو جائے گی تمام فرشتے پکار اٹھیں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو جماعت آئی وہ تمام نبیوں کی جماعت سے بہت زیادہ ہے (طبرانی:3455:ضعیف) ۱؎ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ نے فرمایا صرف میری تابعدار امت اہل جنت کی چوتھائی ہو گی صحابہ نے خوش ہو کر نعرہ تکبیر بلند کیا پھر فرمایا کہ مجھے تو امید ہے کہ تم اہل جنت کا تیسرا حصہ ہو جاؤ ہم نے پھر تکبیر کہی پھر فرمایا میں امید کرتا ہوں کہ تم آدھوں آدھ ہو جاؤ (مسند احمد:383/3:صحیح) ۱؎ ( مسند احمد ) اور حدیث میں ہے کہ آپ نے صحابہ سے فرمایا کہ تم راضی نہیں ہو کہ تم تمام جنتوں کے چوتھائی ہو ہم نے خوش ہو کر اللہ کی بڑائی بیان کی پھر فرمایا کہ تم راضی نہیں ہو کہ تمام اہل جنت کی تہائی ہو ہم نے پھر تکبیر کہی آپ نے فرمایا مجھے تو امید ہے کہ تم جنتیوں کے آدھوں آدھ ہو گے (صحیح بخاری:6568) ۱؎ ( بخاری مسلم ) طبرانی میں یہ روایت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا کہتے ہو تم جنتیوں کا چوتھائی حصہ بننا چاہتے ہو کہ چوتھائی جنت تمہارے پاس ہو اور تین چوتھائیوں میں تمام اور امتیں ہوں ؟ ہم نے کہا اللہ اور اس کا رسول خوب جانتا ہے آپ نے فرمایا اچھا تہائی حصہ ہو تو ہم نے کہا یہ بہت ہے فرمایا اگر آدھوں آدھ ہو تو ، انہوں نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پھر تو بہت ہی زیادہ ہے آپ نے فرمایا سنو ! کل اہل جنت کی ایک سو بیس صفیں ہیں جن میں سے اسی (80) صفیں صرف اس میری امت کی ہیں(مسند احمد:453/1:صحیح بالشواھد) ۱؎ ، مسند احمد میں بھی ہے کہ اہل جنت کی ایک سو بیس صفیں ان میں اسی (80) صفیں صرف اس امت کی ہیں یہ حدیث طبرانی ترمذی وغیرہ میں بھی ہے (سنن ترمذی:2546،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ۱؎ طبرانی ایک اور روایت میں ہے کہ جب آیت «ثُلَّۃٌ مِّنَ الْأَوَّلِینَ ـ وَثُلَّۃٌ مِّنَ الْآخِرِینَ» (56-الواقعۃ:39) اتری تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اہل جنت کی چوتھائی ہو پھر فرمایا بلکہ ثلث ہو پھر فرمایا بلکہ نصف ہو پھر فرمایا دو تہائی ہو (مسند احمد:391/2:صحیح) ۱؎ ( اے وسیع رحمتوں والے اور بے روک نعمتوں والے اللہ ہم تیرا بے انتہا شکر ادا کرتے ہیں کہ تو نے ہمیں ایسے معزز و محترم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں پیدا کیا تیرے سچے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی زبان سے تیرے اس بڑھے چڑھے فضل و کرم کا حال سن کر ہم گنہگاروں کے منہ میں پانی بھر آیا ، اے ماں باپ سے زیادہ مہربان اللہ ! ہماری آس نہ توڑ اور ہمیں بھی ان نیک ہستیوں کے ساتھ جنت میں داخل فرما ۔ اللہ اس پاک ذکر کے موقع پر ہم ہاتھ اٹھا کر ، دامن پھیلا کر آنسو بہا کر ، امیدوں بھرے دل سے تیری رحمت کا سہارا لے کر ، تیرے کرم کا دامن تھام کر تجھ سے بھیک مانگتے ہیں تو قبول فرما اور اپنی رحمت سے ہمیں اپنی رضامندی کا گھر جنت الفردوس عطا فرما ۔ آمین الہ الحق آمین) صحیح بخاری مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہم دنیا میں سب سے آخر آئے اور جنت میں سب سے پہلے جائیں گے اور ان کو کتاب اللہ پہلے ملی ہمیں بعد میں ملی جن باتوں میں انہوں نے اختلاف کیا ان میں اللہ نے ہمیں صحیح طریق کی توفیق دی ، جمعہ کا دن بھی ایسا ہی ہے کہ یہود ہمارے پیچھے ہیں ہفتہ کے دن اور نصرانی ان کے پیچھے اتوار کے دن ۔ (صحیح بخاری:876) ۱؎ دارقطنی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تک میں جنت میں داخل نہ ہو جاؤں انبیاء پر دخول جنت حرام ہے اور جب تک میری امت نہ داخل ہو دوسری امتوں پر دخول جنت حرام ہے ۔ (ابن عدی:129/4:ضعیف) ۱؎ یہ وہ حدیثیں تھیں جنہیں ہم اس آیت کے تحت وارد کرنا چاہتے تھے فالحمدللہ ۔ امت کو بھی چاہیئے کہ یہاں اس آیت میں جتنی صفتیں ہیں ان پر مضبوطی کے ساتھ قائم ثابت رہیں یعنی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور ایمان باللہ ۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے حج میں اس آیت کی تلاوت فرما کر لوگوں سے کہا کہ اگر تم اس آیت کی تعریف میں داخل ہونا چاہتے ہو تو یہ اوصاف بھی اپنے میں پیدا کرو ، امام ابن جریدرحمہ اللہ فرماتے ، اہل کتاب ان کاموں کو چھوڑ بیٹھے تھے جن کی مذمت کلام اللہ نے کی ، فرمایا آیت «کَانُواْ لاَ یَتَنَاہَوْنَ عَن مٰنکَرٍ فَعَلُوہُ» (5-المائدۃ:79) وہ لوگ برائی کی باتوں سے لوگوں کو روکتے نہ تھے چونکہ مندرجہ بالا آیت میں ایمان داروں کی تعریف و توصیف بیان ہوئی تو اس کے بعد اہل کتاب کی مذمت بیان ہو رہی ہے ، تو فرمایا کہ اگر یہ لوگ بھی میرے نبی آخر الزمان پر ایمان لاتے تو انہیں بھی یہ فضیلتیں ملتیں لیکن ان میں سے کفرو فسق اور گناہوں پر جمے ہوئے ہیں ہاں کچھ لوگ با ایمان بھی ہیں ۔ پھر اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو بشارت دیتا ہے کہ تم نہ گھبرانا اللہ تمہیں تمہارے مخالفین پر غالب رکھے گا چنانچہ خیبر والے دن اللہ تعالیٰ نے انہیں ذلیل کیا اور ان سے پہلے بنو قینقاع ، بنو نضیر اور بنو قریظہ کو بھی اللہ نے ذلیل و رسوا کیا ، اسی طرح شام کے نصرانی صحابہ رضی اللہ عنہم کے وقت میں مغلوب ہوئے اور ملک شام ان کے ہاتھوں سے نکل گیا اور ہمیشہ کیلئے مسلمانوں کے قبضہ میں آ گیا اور وہاں ایک حق والی جماعت عیسیٰ علیہ السلام کے آنے تک حق پر قائم رہے گی ، سیدنا عیسیٰ آ کر ملت اسلام اور شریعت محمد کے مطابق حکم کریں گے صلیب توڑیں گے خنزیر کو قتل کریں گے جزیہ قبول نہ کریں گے صرف اسلام ہی قبول فرمائیں گے پھر فرمایا کہ ان کے اوپر ذلت اور پستی ڈال دی گئی ہاں اللہ کی پناہ کے علاوہ کہیں بھی امن و امان اور عزت نہیں یعنی جزیہ دینا اور مسلم بادشاہ کی اطاعت کرنا قبول کر لیں اور لوگوں کی پناہ یعنی عقد ذمہ مقرر ہو جائے یا کوئی مسلمان امن دیدے اگرچہ کوئی عورت ہو یا کوئی غلام ہو ، علماء کا ایک قول یہ بھی ہے ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ «حبل» سے مراد عہد ہے (تفسیر ابن جریر الطبری:112/7) ۱؎ جو غضب کے مستحق ہوئے اور مسکینی چپکا دی گئی ، ان کے کفر اور انبیاء سے تکبر ، حسد ، سرکشی وغیرہ کا بدلہ ہے ۔ اسی باعث ان پر ذلت پستی اور مسکینی ہمیشہ کیلئے ڈال دی گئی ان کی نافرمانیوں اور تجاوز حق کا یہ بدلہ ہے العیاذ باللہ ، ابوداؤد طیالسی میں حدیث ہے کہ بنی اسرائیل ایک ایک دن میں تین تین سو نبیوں کو قتل کر ڈالتے تھے اور دن کے آخری حصہ میں اپنے اپنے کاموں پر بازاروں میں لگ جاتے تھے ۔ آل عمران
111 آل عمران
112 آل عمران
113 ظلم نہیں سزا سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اہل کتاب اور اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم برابر نہیں ، مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز میں ایک مرتبہ دیر لگا دی پھر جب آئے تو جو اصحاب منتظر تھے ان سے فرمایا کسی دین والا اس وقت تک اللہ کا ذکر نہیں کر رہا مگر صرف تم ہی اللہ کے ذکر میں ہو اس پر یہ آیت نازل ہوئی (تفسیر ابن جریر الطبری:122/7) ۱؎ لیکن اکثر مفسرین کا قول ہے کہ اہل کتاب کے علماء مثلاً سیدنا عبداللہ بن سلام سیدنا اسد بن عبید ، سیدنا ثعلبہ بن شعبہ رضی اللہ عنہم وغیرہ کے بارے میں یہ آیت آئی کہ یہ لوگ ان اہل کتاب میں شامل نہیں جن کی مذمت پہلے گزاری ، بلکہ یہ باایمان امر اللہ پر قائم ہیں ۔ شریعت محمدیہ کی تابع ہے استقامت و یقین اس میں ہے یہ پاکباز لوگ راتوں کے وقت تہجد کی نماز میں بھی اللہ کے کلام کی تلاوت کرتے رہتے ہیں اللہ پر قیامت پر ایمان رکھتے ہیں اور لوگوں کو بھی انہی باتوں کا حکم کرتے ہیں ان کے خلاف سے روکتے ہیں نیک کاموں میں پیش پیش رہا کرتے ہیں اب اللہ تعالیٰ انہیں خطاب عطا فرماتا ہے کہ یہ صالح لوگ ہیں اس سورت کے آخر میں بھی فرمایا آیت «وَاِنَّ مِنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ لَمَنْ یٰؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْھِمْ خٰشِعِیْنَ لِلہِ» (3-آل عمران:199) ، بعض اہل کتاب اللہ تعالیٰ پر ، اس قرآن پر ، اور توراۃ و انجیل پر بھی ایمان رکھتے ہیں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہتے ہیں یہاں بھی فرمایا کہ ان کے یہ نیک اعمال ضائع نہ ہوں بلکہ پورا بدلہ ملے گا تمام پرہیزگار لوگ اللہ کی نظروں میں ہیں وہ کسی کے اچھے عمل کو برباد نہیں کرتا ۔ ان بےدین لوگوں کو اللہ کے ہاں نہ مال نفع دے گا نہ اولاد یہ تو جہنمی ہیں ۔ «صِرٌّ» کے معنی سخت سردی کے ہیں جو کھیتوں کو جلا دیتی ہے ، غرض جس طرح کسی کی تیار کھیتی پر برف پڑے اور وہ جل کر خاکستر ہو جائے نفع چھوڑ اصل بھی غارت ہو جائے اور امیدوں پر پانی پھر جائے اسی طرح یہ کفار ہیں جو کچھ یہ خرچ کرتے ہیں اس کا نیک بدلہ تو کہاں بلکہ عذاب ہو گا ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ظلم نہیں بلکہ یہ ان کی بداعمالیوں کی سزا ہے ۔ آل عمران
114 آل عمران
115 آل عمران
116 آل عمران
117 آل عمران
118 کافر اور منافق مسلمان کے دوست نہیں انہیں اپنا ہم راز نہ بناؤ اللہ تعالیٰ ایمانداروں کو کافروں اور منافقوں کی دوستی اور ہم راز ہونے سے روکتا ہے کہ یہ تو تمہارے دشمن ہیں ان کی چکنی چپڑی باتوں میں خوش نہ ہو جانا اور ان کے مکر کے پھندے میں پھنس نہ جانا ورنہ موقعہ پا کر یہ تمہیں سخت ضرر پہنچائیں گے اور اپنی باطنی عداوت نکالیں گے تم انہیں اپنا راز دار ہرگز نہ سمجھنا راز کی باتیں ان کے کانوں تک ہرگز نہ پہنچانا «بِطَانَۃً» کہتے ہیں انسان کے راز دار دوست کو اور «مِنْ دُونِکُمْ» سے مراد اہلِ اسلام کے سوا تمام فرقے ہیں بخاری وغیرہ میں حدیث ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جس نبی کو اللہ نے مبعوث فرمایا اور جس خلیفہ کو مقرر کیا اس کیلئے دو «بطانہ» مقرر کئے ایک تو بھلائی کی بات سمجھانے والا اور اس پر رغبت دینے والا اور دوسرا برائی کی رہبری کرنے والا اور اس پر آمادہ کرنے والا بس اللہ جسے بچائے وہی بچ سکتا ہے ،(صحیح بخاری:6611) ۱؎ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہا سے کہا گیا کہ یہاں پر حیرہ کا ایک شخص بڑا اچھا لکھنے والا اور بہت اچھے حافظہ والا ہے آپ اسے اپنا محرر اور منشی مقرر کر لیں آپ نے فرمایا اس کا مطلب یہ ہو گا کہ غیر مومن کو بطانہ بنا لوں گا جو اللہ نے منع کیا ہے ،(تفسیر ابن ابی حاتم:500/2) اس واقعہ کو اور اس آیت کو سامنے رکھ کر ذہن اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ ذمی کفار کو بھی ایسے کاموں میں نہ لگانا چاہیئے ایسا نہ ہو کہ وہ مخالفین کو مسلمانوں کے پوشیدہ ارادوں سے واقف کر دے اور ان کے دشمنوں کو ان سے ہوشیار کر دے کیونکہ ان کی تو چاہت ہی مسلمانوں کو نیچا دکھانے کی ہوتی ہے ۔ ازہر بن راشد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ لوگ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے حدیثیں سنتے تھے اگر کسی حدیث کا مطلب سمجھ میں نہ آتا تو حسن بصری رحمہ اللہ سے جا کر مطلب حل کر لیتے تھے ایک دن انس رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث بیان کی کہ مشرکوں کی آگ سے روشنی طلب نہ کرو اور اپنی انگوٹھی میں عربی نقش نہ کرو انہوں نے آ کر حسن بصری رحمہ اللہ سے اس کی تشریح دریافت کی تو آپ نے فرمایا کہ پچھلے جملہ کا تو یہ مطلب ہے کہ انگوٹھی پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ کھدواؤ اور پہلے جملہ کا یہ مطلب ہے کہ مشرکوں سے اپنے کاموں میں مشورہ نہ لو ، دیکھو کتاب اللہ میں بھی ہے کہ ایمان دارو ! اپنے سوا دوسروں کو ہمراز نہ بناؤ (مسند احمد:99/3:ضعیف) ۱؎ (ابو یعلی ) لیکن حسن بصری رحمہ اللہ کی یہ تشریح قابل غور ہے حدیث کا ٹھیک مطلب غالباً یہ ہے کہ محمد رسول اللہ عربی خط میں اپنی انگوٹھیوں پر نقش نہ کراؤ ، چنانچہ اور حدیث میں صاف ممانعت موجود ہے (صحیح مسلم:2092) ۱؎ یہ اس لیے تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر کے ساتھ مشابہت نہ ہو اور اول جملے کا مطلب یہ ہے کہ مشرکوں کے درمیان کی لڑائی کی آگ کو کیا تم نہیں دیکھتے؟ (سنن ابوداود:2645،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ۱؎ اور حدیث میں ہے جو مشرکوں سے میل جول کرے یا ان کے ساتھ رہے بسے وہ بھی انہی جیسا ہے(سنن ابوداود:2787،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ۱؎ پھر فرمایا ان کی باتوں سے بھی ان کی عداوت ٹپک رہی ہے ان کے چہروں سے بھی قیافہ شناس ان کی باطنی خباثتوں کو معلوم کر سکتا ہے پھر جو ان کے دلوں میں تباہ کن شرارتیں ہیں وہ تو تم سے مخفی ہیں لیکن ہم نے تو صاف صاف بیان کر دیا ہے عاقل لوگ ایسے مکاروں کی مکاری میں نہیں آتے پھر فرمایا دیکھو کتنی کمزوری کی بات ہے کہ تم ان سے محبت رکھو اور وہ تمہیں نہ چاہیں ، تمہارا ایمان کل کتاب پر ہو اور یہ شک شبہ میں ہی پڑے ہوئے ہوں ان کی کتاب کو تم تو مانو لیکن یہ تمہاری کتاب کا انکار کریں تو چاہیئے تو یہ تھا کہ تم خود انہیں کڑی نظروں سے دیکھتے لیکن برخلاف اس کے یہ تمہاری عداوت کی آگ میں جل رہے ہیں ۔ سامنا ہو جائے تو اپنی ایمانداری کی داستان بیان کرنے بیٹھ جاتے ہیں لیکن جب ذرا الگ ہوتے ہیں تو غیظ و غضب سے جلن اور حسد سے اپنی انگلیاں چباتے ہیں پس مسلمانوں کو بھی ان کی ظاہرداری سے دھوکہ نہیں کھانا چاہیئے۔ یہ چاہے جلتے بھنتے رہیں لیکن اللہ تعالیٰ اسلام اور مسلمانوں کو ترقی دیتا رہے گا مسلمان دن رات ہر حیثیت میں بڑھتے ہی رہیں گے گو وہ مارے غصے کے مر جائیں ۔ اللہ ان کے دلوں کے بھیدوں سے بخوبی واقف ہے ان کے تمام منصوبوں پر خاک پڑے گی یہ اپنی شرارتوں میں کامیاب نہ ہو سکیں گے اپنی چاہت کے خلاف مسلمانوں کی دن دوگنی ترقی دیکھیں گے اور آخرت میں بھی انہیں نعمتوں والی جنت حاصل کرتے دیکھیں گے برخلاف ان کے یہ خود یہاں بھی رسوا ہوں گے اور وہاں بھی جہنم کا ایندھن بنیں گے ان کی شدت عداوت کی یہ کتنی بڑی دلیل ہے کہ جہاں تمہیں کوئی نفع پہنچتا ہے یہ کلیجہ مسوسنے لگے اور اگر ( اللہ نہ کرے ) تمہیں کوئی نقصان پہنچ گیا تو ان کی باچھیں کھل جاتی ہیں بغلیں بجانے اور خوشیاں منانے لگتے ہیں ، اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے مومنوں کی مدد ہوئی یہ کفار پر غالب آئے انہیں غنیمت کا مال ملا یہ تعداد میں بڑھ گے تو وہ جل بجھے اور اگر مسلمانوں پر تنگی آ گئی یا دشمنوں میں گھر گئے تو ان کے ہاں عید منائی جانے لگی ۔ اب اللہ تعالیٰ ایمانداروں کو خطاب کر کے فرماتا ہے کہ ان شریروں کی شرارت اور ان بدبختوں کے مکر سے اگر نجات چاہتے ہو تو صبرو تقویٰ اور توکل کرو اللہ عزوجل خود تمہارے دشمنوں کو گھیر لے گا کسی بھلائی کے حاصل کرنے ، کسی برائی سے بچنے کی کسی میں طاقت نہیں جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے ہوتا ہے اور جو نہیں چاہتا نہیں ہو سکتا جو اس پر توکل کرے اسے وہ کافی ہے ۔ اسی مناسبت سے اب جنگ احد کا ذکر شروع ہوتا ہے جس پر مسلمانوں کے صبرو تحمل کا بیان ہے اور جس میں اللہ تعالیٰ کی آزمائش کا پورا نقشہ ہے اور جس میں مومن و منافق کی ظاہری تمیز ہے سنئے ارشاد ہوتا ہے آل عمران
119 آل عمران
120 آل عمران
121 غزوہ احد کی افتاد یہ احد کے واقعہ کا ذکر ہے (تفسیر ابن ابی حاتم:510/2) ۱؎ بعض مفسرین نے اسے جنگِ خندق کا قصہ بھی کہا ہے لیکن ٹھیک یہ ہے کہ واقعہ جنگ احد کا ہے جو سن 3 ہجری 11 شوال بروز ہفتہ پیش آیا تھا ، جنگ بدر میں مشرکین کو کامل شکست ہوئی تھی ان کے سردار موت کے گھاٹ اترے تھے ، اب اس کا بدلہ لینے کیلئے مشرکین نے بڑی بھاری تیاری کی تھی وہ تجارتی مال جو بدر والی لڑائی کے موقعہ پر دوسرے راستے سے بچ کر آ گیا تھا وہ سب اس لڑائی کیلئے روک رکھا تھا اور چاروں طرف سے لوگوں کو جمع کر کے تین ہزار کا ایک لشکر جرار تیار کیا اور پورے سازو سامان کے ساتھ مدینہ پر چڑھائی کی ، ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کی نماز کے بعد مالک بن عمرو رضی اللہ عنہ کے جنازے کی نماز پڑھائی جو قبیلہ بنی النجار میں سے تھے ۔ پھر لوگوں سے مشورہ کیا کہ ان کی مدافعت کی کیا صورت تمہارے نزدیک بہتر ہے ؟ تو عبداللہ بن ابی نے کہا کہ ہمیں مدینہ سے باہر نہ نکلنا چاہیئے اگر وہ آئے اور ٹھہرے تو گویا ہمارے جیل خانہ میں آ گئے۔ رکے اور کھڑے رہیں اور اگر مدینہ میں گھسے تو ایک طرف سے ہمارے بہادروں کی تلواریں ہوں گی دوسری جانب تیر اندازوں کے بےپناہ تیر ہوں گے پھر اوپر سے عورتوں اور بچوں کی سنگ باری ہو گی اور اگر یونہی لوٹ گئے تو بربادی اور خسارے کے ساتھ لوٹیں گے لیکن اس کے برخلاف بعض صحابہ رضی اللہ عنہم جو جنگ بدر میں شریک نہ ہو سکے تھے ان کی رائے تھی کہ مدینہ کے باہر میدان میں جا کر خوب دل کھول کر ان کا مقابلہ کرنا چاہیئے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف لے گئے اور ہتھیار لگا کر باہر آئے ان صحابہ کو اب خیال ہوا کہ کہیں ہم نے اللہ کے نبی کی خلاف منشاء تو میدان کی لڑائی پر زور نہیں دیا اس لیے یہ کہنے لگے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اگر یہیں ٹھہر کر لڑنے کا ارادہ ہو تو یونہی کیجئے ہماری جانب سے کوئی اصرار نہیں ، آپ نے فرمایا اللہ کے نبی کو لائق نہیں کہ وہ ہتھیار پہن کر اتارے اب تو میں نہ لوٹوں گا جب تک کہ وہ نہ جائے جو اللہ عزوجل کو منظور ہو (مستدرک حاکم:129/2-128)۱؎ چنانجہ ایک ہزار کا لشکر لے کر آپ مدینہ شریف سے نکل کھڑے ہوئے ، شوط پر پہنچ کر اس منافق عبداللہ بن ابی نے دغا بازی کی اور اپنی تین سو کی جماعت کو لے کر واپس مڑ گیا یہ لوگ کہنے لگے ہم جانتے ہیں کہ لڑائی تو ہونے کی نہیں خواہ مخواہ زحمت کیوں اٹھائیں ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی کوئی پرواہ نہ کی اور صرف سات سو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو لے کر میدان میں اترے اور حکم دیا کہ جب تک میں نہ کہوں لڑائی شروع نہ کرنا پچاس تیر انداز صحابیوں کو الگ کر کے ان کا امیر سیدنا عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کو بنایا اور ان سے فرما دیا کہ پہاڑی پر چڑھ جاؤ اور اس بات کا خیال رکھو کہ دشمن پیچھے سے حملہ آور نہ ہو دیکھو ہم غالب آ جائیں یا ( اللہ نہ کرے ) مغلوب ہو جائیں تم ہرگز اپنی جگہ سے نہ ہٹنا ، یہ انتظامات کر کے خود آپ بھی تیار ہو گئے دوہری زرہ پہنی سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو جھنڈا دیا آج چند لڑکے بھی لشکر محمدی میں نظر آتے تھے یہ چھوٹے سپاہی بھی جانبازی کیلئے ہمہ تن مستعد تھے بعض اور بچوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتھ لیا تھا انہیں جنگ خندق کے لشکر میں بھرتی کیا گیا جنگ خندق اس کے دو سال بعد ہوئی تھی ، قریش کا لشکر بڑے ٹھاٹھ سے مقابلہ پر آڈٹا یہ تین ہزار سپاہیوں کا گروہ تھا ان کے ساتھ دو سو کوتل گھوڑے تھے جنہیں موقعہ پر کام آنے کیلئے ساتھ رکھا تھا ان کے داہنے حصہ پر خالد بن ولید تھا اور بائیں حصہ پر عکرمہ بن ابوجہل تھا ( یہ دونوں سردار بعد میں مسلمان ہو گئے تھے رضی اللہ عنہما ) ان کا جھنڈے بردار قبیلہ بنو عبدالدار تھا ،(تفسیر ابن جریر الطبری:7716) ۱؎ پھر لڑائی شروع ہوئی جس کے تفصیلی واقعات انہی آیتوں کی موقعہ بہ موقعہ تفسیر کے ساتھ آتے رہیں گے ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ الغرض اس آیت میں اسی کا بیان ہو رہا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ شریف سے نکلے اور لوگوں کو لڑائی کے مواقعہ کی جگہ مقرر کرنے لگے میمنہ میسرہ لشکر کا مقرر کیا اللہ تعالیٰ تمام باتوں کو سننے والا اور سب کے دلوں کے بھید جاننے والا ہے ، روایتوں میں یہ آ چکا ہے کہ حضور علیہ السلام جمعہ کے دن مدینہ شریف سے لڑائی کیلئے نکلے اور قرآن فرماتا ہے صبح ہی صبح تم لشکریوں کی جگہ مقرر کرتے تھے تو مطلب یہ ہے کہ جمعہ کے دن تو جا کر پڑاؤ ڈال دیا باقی کاروائی ہفتہ کی صبح شروع ہوئی ۔ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہمارے بارے میں یعنی بنو حارثہ اور بنو سلمہ کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے کہ تمہارے دو گروہوں بزدلی کا ارادہ کیا تھا گو اس میں ہماری ایک کمزوری کا بیان ہے لیکن ہم اپنے حق میں اس آیت کو بہت بہتر جانتے ہیں کیونکہ اس میں یہ بھی فرما دیا گیا ہے کہ اللہ ان دونوں کا ولی ہے (صحیح بخاری:4051) ۱؎ پھر فرمایا کہ دیکھو میں نے بدر والے دن بھی تمہیں غالب کیا حالانکہ تم سب ہی کم اور بےسرد سامان تھے ، بدر کی لڑائی سن 2 ہجری 17 رمضان بروز جمعہ ہوئی تھی ۔ اسی کا نام یوم الفرقان رکھا گیا اس دن اسلام اور اہل اسلام کی عزت ملی شرک برباد ہوا محل شرک ویران ہوا حالانکہ اس دن مسلمان صرف تین سو تیرہ تھے ان کے پاس صرف دو گھوڑے تھے فقط ستر اونٹ تھے باقی سب پیدل تھے ہتھیار بھی اتنے کم تھے کہ گویا نہ تھے اور دشمن کی تعداد اس دن تین گنا تھی۔ ایک ہزار میں کچھ ہی کم تھے ہر ایک زرہ بکتر لگائے ہوئے , ضرورت سے زیادہ وافر ہتھیار عمدہ عمدہ ، کافی سے زیادہ مالداری ،گھوڑے نشان زدہ ، جن کو سونے کے زیور پہنائے گئے تھے اس موقعہ پر اللہ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عزت اور غلبہ دیا حالات کے بارے میں ظاہر و باطن وحی کی ۔ اپنے نبی اور آپ کے ساتھیوں کو سرخرو کیا اور شیطان اور اس کے لشکریوں کو ذلیل و خوار کیا اب اپنے مومن بندوں اور جنتی لشکریوں کو اس آیت میں یہ احسان یاد دلاتا ہے کہ تمہاری تعداد کی کمی اور ظاہری اسباب کی غیر موجودگی کے باوجود تم ہی کو غالب رکھا تاکہ تم معلوم کر لو کہ غلبہ ظاہری اسباب پر موقوف نہیں ، اسی لیے دوسری آیت میں صاف فرما دیا کہ جنگ حنین میں تم نے ظاہری اسباب پر نظر ڈالی اور اپنی زیادتی دیکھ کر خوش ہوئے لیکن اس زیادتی تعداد اور اسباب کی موجودگی نے تمہیں کچھ فائدہ نہ دیا سیدنا عیاض اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جنگ یرموک میں ہمارے پانچ سردار تھے سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ ،سیدنا یزید بن ابوسفیان رضی اللہ عنہ سیدنا ابن حسنہ رضی اللہ عنہ ،سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اور سیدنا عیاض اور خلیفتہ المسلمین عمر رضی اللہ عنہ کا حکم تھا کہ لڑائی کے وقت سیدنا ابوعبیدہ سردار ہوں گے اس لڑائی میں ہمیں چاروں طرف سے شکست کے آثار نظر آنے لگے تو ہم نے خلیفہ وقت کو خط لکھا کہ ہمیں موت نے گھیر رکھا ہے امداد کیجئے ، فاروق رضی اللہ عنہ کا مکتوب گرامی ہماری گزارش کے جواب میں آیا جس میں تحریر تھا کہ تمہارا طلبِ امداد کا خط پہنچا میں تمہیں ایک ایسی ذات بتاتا ہوں جو سب سے زیادہ مددگار اور سب سے زیادہ مضبوط لشکر والی ہے وہ ذات اللہ تبارک و تعالیٰ کی ہے جس نے اپنے بندے اور رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد بدر والے دن کی تھی بدری لشکر تو تم سے بہت ہی کم تھا میرا یہ خط پڑھتے ہی جہاد شروع کر دو اور اب مجھے کچھ نہ لکھنا نہ کچھ پوچھنا ، اس خط سے ہماری جراتیں بڑھ گئیں ہمتیں بلند ہو گئیں پھر ہم نے جم کر لڑنا شروع کیا الحمداللہ دشمن کو شکست ہوئی اور وہ بھاگے۔ ہم نے بارہ میل تک انکا تعاقب کیا بہت سا مال غنیمت ہمیں ملا جو ہم نے آپس میں بانٹ لیا پھر سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے میرے ساتھ دوڑ کون لگائے گا ؟ ایک نوجوان نے کہا اگر آپ ناراض نہ ہوں تو میں حاضر ہوں چنانچہ دوڑنے میں وہ آگے نکل گئے میں نے دیکھا ان کی دونوں زلفیں ہوا میں اڑ رہی تھیں اور وہ اس نوجوان کے پیچھے گھوڑا دوڑائے چلے جا رہے تھے ،(مسند احمد:49/1:حسن) بدر بن نارین ایک شخص تھا اس کے نام سے ایک کنواں مشہور تھا اور اس میدان کا جس میں یہ کنواں تھا یہی نام ہو گیا تھا بدر کی جنگ بھی اسی نام سے مشہور ہو گئی یہ جگہ مکہ اور مدینہ کے درمیان ہے پھر فرمایا کہ اللہ سے ڈرتے رہا کرو تاکہ شکر کی توفیق ملے اور اطاعت گزاری کر سکو ۔ آل عمران
122 آل عمران
123 آل عمران
124 غزوہ بدر اور تائید الٰہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ تسلیاں دینا بعض تو کہتے ہیں بدر والے دن تھا حسن بصری ، عامر شعبی، ربیع بن انس رحمہ اللہ علیہم وغیرہ کا یہی قول ہے (تفسیر ابن ابی حاتم:519/2) ۱؎ ابن جریر رحمہ اللہ کا بھی اسی سے اتفاق ہے عامر شعبیرحمہ اللہ کا قول ہے کہ مسلمانوں کو یہ خبر ملی تھی کہ کرز بن جابر مشرکوں کی امداد میں آئے گا اس پر اس امداد کا وعدہ ہوا تھا لیکن نہ وہ نہیں آیا اور نہ ہی یہ گئے ربیع بن انس رحمہ اللہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد کیلئے پہلے تو ایک ہزار فرشتے بھیجے پھر تین ہزار ہو گئے پھر پانچ ہزار ،(تفسیر ابن جریر الطبری:178/7) ۱؎ یہاں اس آیت میں تین ہزار اور پانچ ہزار سے مدد کرنے کا وعدہ ہے اور بدر کے واقعہ کے بیان کے وقت ایک ہزار فرشتوں کی امداد کا وعدہ ہے ۔ فرمایا آیت «اَنِّیْ مُمِدٰکُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰیِٕکَۃِ مُرْدِفِیْنَ» (8-الأنفال:9) اور تطبیق دونوں آیتوں میں یہی ہے کیونکہ «مُرْدِفِیْنَ» کا لفظ موجود ہے پس پہلے ایک ہزار اترے پھر ان کے بعد تین ہزار پورے ہوئے آخر پانچ ہزار ہو گئے ، بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ وعدہ جنگ بدر کے لیے تھا نہ کہ جنگ احد کیلئے ، بعض کہتے ہیں جنگ احد کے موقعہ پر وعدہ ہوا تھا مجاہد، عکرمہ ،ضحاک، زہری، موسیٰ بن عقبہ رحمہ اللہ علیہم وغیرہ کا یہی قول ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ چونکہ مسلمان میدان چھوڑ کر ہٹ گئے اس لیے یہ فرشتے نازل نہ ہوئے ، کیونکہ «وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا لَا یَضُرٰکُمْ کَیْدُھُمْ شَـیْـــًٔـا» (3-آل عمران:120) ساتھ ہی فرمایا تھا یعنی اگر تم صبر کرو اور تقویٰ کرو فور کے معنی وجہ اور غضب کے ہیں مسومین کے معنی علامت والے ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں فرشتوں کی نشانی بدر والے دن سفید رنگ کے لباس کی تھی (تفسیر ابن ابی حاتم:565/2) ۱؎ اور ان کے گھوڑوں کی نشانی ماتھے کی سفیدی تھی ، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ان کی نشانی سرخ تھی ، سیدنا مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں گردن کے بالوں اور دم کا نشان تھا اور یہی نشان آپ کے لشکریوں کا تھا یعنی صوف کا ۔ مکحول رحمہ اللہ کہتے ہیں فرشتوں کی نشانی ان کی پگڑیاں تھیں جو سیاہ رنگ کے عمامے تھے اور حنین والے دن سرخ رنگ عمامے تھے ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں بدر کے علاوہ فرشتے کبھی جنگ میں شامل نہیں ہوئے (ابن ابی شیبہ:354/14) ۱؎ اور سفید رنگ عماموں کی علامت تھی یہ صرف مدد کیلئے اور تعداد بڑھانے کیلئے تھے نہ کہ لڑائی کیلئے ، یہ بھی مروی ہے کہ جنگِ بدر میں سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کے فر پر سفید رنگ کا صافہ تھا اور فرشتوں پر زرد رنگ کا (تفسیر ابن ابی حاتم:567/2) ۱؎ پھر فرمایا کہ یہ فرشتوں کا نازل کرنا اور تمہیں اس کی خبر دینا صرف تمہاری خوشی ، دلجوئی اور اطمینان کیلئے ہے ورنہ اللہ کو قدرت ہے کہ ان کو اتارے بغیر بلکہ بغیر تمہارے لڑے بھی تمہیں غالب کر دے مدد اسی کی طرف سے ہے جیسے اور جگہ ہے آیت «فَإِذَا لَقِیتُمُ الَّذِینَ کَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّیٰ إِذَا أَثْخَنتُمُوہُمْ فَشُدٰوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً حَتَّیٰ تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَہَا ۚ ذٰلِکَ وَلَوْ یَشَاءُ اللہُ لَانتَصَرَ مِنْہُمْ وَلٰکِن لِّیَبْلُوَ بَعْضَکُم بِبَعْضٍ ۗ وَالَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیلِ اللہِ فَلَن یُضِلَّ أَعْمَالَہُمْ سَیَہْدِیہِمْ وَیُصْلِحُ بَالَہُمْ وَیُدْخِلُہُمُ الْجَنَّۃَ عَرَّفَہَا لَہُمْ » (47-محمد: 6- 4) ، اگر اللہ چاہتا تو ان سے خود ہی بدلہ لے لیتا لیکن وہ ہر ایک کو آزما رہا ہے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جو قتل کئے جائیں ان کے اعمال اکارت نہیں ہوتے اللہ انہیں راہ دکھائے گا ان کے اعمال سنوار دے گا اور انہیں جنت میں لے جائے گا جس کی تعریف وہ کر چکا ہے ، وہ عزت والا ہے اور اپنے ہر کام میں حکمت رکھتا ہے ۔ یہ جہاد کا حکم بھی طرح طرح کی حکمتوں پر مبنی ہے اس سے کفار ہلاک ہوں گے یا ذلیل ہوں گے یا نامراد واپس ہو جائیں گے ۔ اس کے بعد بیان ہوتا ہے کہ دنیا اور آخرت کے کل امور اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں ، اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں کسی امر کا اختیار نہیں جیسے فرمایا آیت «فَاِنَّمَا عَلَیْکَ الْبَلٰغُ وَعَلَیْنَا الْحِسَابُ» (13-الرعد:40) تمہارا ذمہ صرف تبلیغ ہے حساب تو تمہارے ذمہ ہے اور جگہ ہے آیت «لَّیْسَ عَلَیْکَ ہُدَاہُمْ وَلٰکِنَّ اللہَ یَہْدِی مَن یَشَاءُ» (2-البقرۃ:272)، ان کی ہدایت تمہارے ذمہ نہیں اللہ جسے چاہے ہدایت دے اور «اِنَّکَ لَا تَہْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَہْدِیْ مَنْ یَّشَاءُ» (28-القصص:56)، تو جسے چاہے ہدایت نہیں کر سکتا بلکہ اللہ جسے چاہے ہدایت کرتا ہے ، پس میرے بندوں میں تجھے کوئی اختیار نہیں جو حکم پہنچے اسے اوروں کو پہنچا دے تیرے ذمہ یہی ہے ۔ ممکن ہے اللہ انہیں توبہ کی توفیق دے اور برائی کے بعد وہ بھلائی کرنے لگیں اور اللہ رحیم ان کی توبہ قبول فرما لے یا ممکن ہے کہ انہیں ان کے کفرو گناہ کی بناء پر عذاب کرے تو یہ ظالم اس کے بھی مستحق ہیں ۔ صحیح بخاری میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز میں جب دوسری رکعت کے رکوع سے سر اٹھاتے اور «سَمِعَ اﷲُ لِمَنْ حَمِدَہُ ، رَبَّنَا ولَکَ الْحَمْدُ» کہہ لیتے تو کفار پر بد دعا کرتے کہ اے اللہ فلاں فلاں پر لعنت کر اس کے بارے میں یہ آیت «لَیْسَ لَکَ مِنَ الْاَمْرِ شَیْءٌ اَوْ یَتُوْبَ عَلَیْھِمْ اَوْ یُعَذِّبَھُمْ فَاِنَّھُمْ ظٰلِمُوْنَ» (3-آل عمران:128)نازل ہوئی (صحیح بخاری:4069) ۱؎ مسند احمد میں ان کافروں کے نام بھی آئے ہیں مثلاً حارث بن ہشام سہیل بن عمرو صفوان بن امیہ اور اسی میں ہے کہ بالآخر ان کو ہدایت نصیب ہوئی اور یہ مسلمان ہو گئے ،(سنن ترمذی:3004،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ۱؎ ایک روایت میں ہے کہ چار آدمیوں پر یہ بد دعا تھی جس سے روک دیئے گئے ۔(سنن ترمذی:3005،قال الشیخ الألبانی:حسن صحیح)۱؎ صحیح بخاری میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی پر بد دعا کرنا یا کسی کے حق میں نیک دعا کرنا چاہتے تو رکوع کے بعد «سمع اللہ » اور «ربنا» پڑھ کر دعا مانگتے کبھی کہتے اے اللہ ! ولید بن ولید سلمہ بن ہشام عیاش بن ابو ربیعہ اور کمزور مومنوں کو کفار سے نجات دے اے اللہ قبیلہ مضر پر اپنی پکڑ اور اپنا عذاب نازل فرما اور ان پر ایسی قحط سالی بھیج جیسی یوسف کے زمانہ میں تھی یہ دعا با آواز بلند ہوا کرتی تھی اور بعض مرتبہ صبح کی نماز کے قنوت میں یوں بھی کہتے کہ اے اللہ فلاں فلاں پر لعنت بھیج اور عرب کے بعض قبیلوں کے نام لیتے تھے ۔(صحیح بخاری:4560) ۱؎ اور روایت میں ہے کہ جنگ احد میں جب آپ کے دندان مبارک شہید ہوئے چہرہ زخمی ہوا خون بہنے لگا تو زبان سے نکل کیا کہ وہ قوم کیسے فلاح پائے گی جس نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ کیا ؟ حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ خالق کل کی طرف سے انہیں بلاتا تھا اس وقت یہ آیت «لَیْسَ لَکَ مِنَ الْاَمْرِ شَیْءٌ اَوْ یَتُوْبَ عَلَیْھِمْ اَوْ یُعَذِّبَھُمْ فَاِنَّھُمْ ظٰلِمُوْنَ» (3-آل عمران:128) نازل ہوئی ،(صحیح بخاری:4069) ۱؎ آپ اس غزوے میں ایک گڑھ میں گر پڑے تھے اور خون بہت نکل گیا تھا کچھ تو اس ضعف کی وجہ سے اور کچھ اس وجہ سے کہ دوہری زرہ پہنے ہوئے تھے اٹھ نہ سکے۔سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کے مولیٰ سیدنا سالم رضی اللہ عنہ پہنچے اور چہرے پر سے خون پونچھا جب افاقہ ہوا تو آپ نے یہ فرمایا اور یہ آیت نازل ہوئی۔(تفسیر ابن جریر الطبری:7811) ۱؎ پھر فرماتا ہے کہ زمین و آسمان کی ہر چیز اسی کی ہے سب اس کے غلام ہیں جسے چاہے بخشے جسے چاہے عذاب کرے متصرف وہی ہے جو چاہے حکم کرے کوئی اس پر پرشس نہیں کر سکتا وہ غفور اور رحیم ہے ۔ آل عمران
125 آل عمران
126 آل عمران
127 آل عمران
128 آل عمران
129 آل عمران
130 سود خور جہنمی ہے اور غصہ شیطان کی دین ہے اس سے بچو اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو سودی لین دین سے اور سود خوری سے روک رہا ہے ، اہل جاہلیت سودی قرضہ دیتے تھے مدت مقرر ہوتی تھی اگر اس مدت پر روپیہ وصول نہ ہوتا تو مدت بڑھا کر سود پر سود بڑھا دیا کرتے تھے اسی طرح سود در سود ملا کر اصل رقم کئی گنا بڑھ جاتی ، اللہ تعالیٰ ایمانداروں کو اس طرح ناحق لوگوں کے مال غصب کرنے سے روک رہا ہے اور تقوے کا حکم دے کر اس پر نجات کا وعدہ کر رہا ہے ، پھر آگ سے ڈراتا ہے اور اپنے عذابوں سے دھمکاتا ہے پھر اپنی اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت پر آمادہ کرتا ہے اور اس پر رحم و کرم کا وعدہ دیتا ہے۔ آل عمران
131 آل عمران
132 آل عمران
133 جنت کی خصوصیات پھر سعادت دارین کے حصول کیلئے نیکیوں کی طرف سبقت کرنے کو فرماتا ہے اور جنت کی تعریف کرتا ہے ، چوڑائی کو بیان کر کے لمبائی کا اندازہ سننے والوں پر ہی چھوڑا جاتا ہے جس طرح جنتی فرش کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا «مُتَّکِــــِٕیْنَ عَلٰی فُرُشٍ بَطَایِٕنُہَا مِنْ اِسْتَبْرَقٍ» (55-الرحمن:54) یعنی اس کا استر نرم ریشم کا ہے تو مطلب یہ ہے کہ جب استر ایسا ہے تو ابرے کا کیا ٹھکانا ہے ؟ اسی طرح یہاں بھی بیان ہو رہا ہے کہ جب عرض ساتوں آسمانوں اور ساتویں زمینوں کے برابر ہے تو طول کتنا بڑا ہو گا اور بعض نے کہا ہے کہ عرض و طول یعنی لمبائی چوڑائی دونوں برابر ہے کیونکہ جنت مثل قبہ کے عرش کے نیچے ہے اور جو چیز قبہ نما ہو یا مستدیر ہو اس کا عرض و طول یکساں ہوتا ہے ۔ ایک صحیح حدیث میں ہے جب تم اللہ سے جنت مانگو تو فردوس کا سوال کرو وہ سب سے اونچی اور سب سے اچھی جنت ہے اسی جنت سے سب نہریں جاری ہوتی ہیں اور اسی کی چھت اللہ تعالیٰ رحمن رحیم کا عرش ہے ۔(صحیح بخاری:335/2)۱؎ مسند امام احمد میں ہے کہ ہرقل نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بطور اعتراض کے ایک سوال لکھ بھیجا کہ آپ مجھے اس جنت کی دعوت دے رہے ہیں جس کی چوڑائی آسمان و زمین کے برابر ہے تو یہ فرمایئے کہ پھر جہنم کہاں گئی ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”سبحان اللہ ! جب دن آتا ہے تو رات کہاں جاتی ہے ؟ (مسند احمد:441/3:ضعیف) ۱؎ ، جو قاصد ہرقل کا یہ خط لے کر خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوا تھا ، اس سے سیدنا یعلیٰ بن مرہ رحمہ اللہ کی ملاقات حمص میں ہوئی تھی کہتے ہیں اس وقت یہ بہت ہی بوڑھا ہو گیا تھا کہنے لگا جب میں نے یہ خط نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا تو آپ نے اپنی بائیں طرف کے ایک صحابی رضی اللہ عنہ کو دیا میں نے لوگوں سے پوچھا ان کا کیا نام ہے ؟ لوگوں نے کہا یہ سیدنا معاویہ ہیں رضی اللہ عنہ ہیں۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے بھی یہی سوال ہوا تھا تو آپ نے فرمایا تھا کہ دن کے وقت رات اور رات کے وقت دن کہاں جاتا ہے ؟ یہودی یہ جواب سن کر کھسیانے ہو کر کہنے لگے کہ یہ توراۃ سے ماخوذ کیا ہو گا ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی یہ جواب مروی ہے ۔ ایک مرفوع حدیث میں ہے کسی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ نے جواب میں فرمایا جب ہر چیز پر رات آ جاتی ہے تو دن کہاں جاتا ہے ؟ اس نے کہا جہاں اللہ چاہے ، آپ نے فرمایا اسی طرح جہنم بھی جہاں چاہے ( بزار ) (بزار فی کشف الاستار:2196:حسن) ۱؎ اس جملہ کے دو معنی ہوتے ہیں ایک تو یہ کہ رات کے وقت ہم گو دن کو نہیں دیکھ سکتے لیکن تاہم دن کا کسی جگہ ہونا ناممکن نہیں ، اسی طرح گو جنت کا عرض اتنا ہی ہے لیکن پھر بھی جہنم کے وجود سے انکار نہیں ہو سکتا جہاں اللہ چاہے وہ بھی ہے ، دوسرے معنی یہ کہ جب دن ایک طرف چڑھنے لگا رات دوسری جانب ہوتی ہے اسی طرح جنت اعلیٰ علیین میں ہے اور دوزخ اسفل السافلین میں تو کوئی نفی کا امکان ہی نہ رہا ۔ واللہ اعلم ۔ آل عمران
134 اہلِ جنت کے اوصاف پھر اللہ تعالیٰ اہل جنت کا وصف بیان فرماتا ہے کہ وہ سختی میں اور آسانی میں، خوشی میں اور غمی میں ، تندرستی میں اور بیماری میں غرض ہر حال میں راہ للہ اپنا مال خرچ کرتے رہتے ہیں جیسے اور جگہ ہے آیت «‏‏‏‏اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ بِالَّیْلِ وَالنَّہَارِ سِرًّا وَّعَلَانِیَۃً فَلَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ» ‏‏‏‏ (2-البقرۃ:274) یعنی وہ لوگ دن رات چھپے کھلے خرچ کرتے رہتے ہیں کوئی امر انہیں اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے باز نہیں رکھ سکتا اس کی مخلوق پر اس کے حکم سے احسان کرتے رہتے ہیں ۔ یہ غصے کو پی جانے والے اور لوگوں کی برائیوں سے درگزر کرنے والے ہیں «‏‏‏‏کَاظِم» ‏‏‏‏کے معنی چھپانے کے بھی ہیں یعنی اپنے غصہ کا اظہار بھی نہیں کرتے ۔ غصہ پر قابو پانا بعض روایتوں میں ہے اے ابن آدم! اگر غصہ کے وقت تو مجھے یاد رکھے گا یعنی میرا حکم مان کر خصہ پی جائے گا تو میں بھی اپنے غصے کے وقت تجھے یاد رکھوں گا یعنی ہلاکت کے وقت تجھے ہلاکت سے بچا لوں گا ( ابن ابی حاتم ) اور حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص اپنا غصہ روک لے اللہ تعالیٰ اس پر سے اپنے عذاب ہٹا لیتا ہے اور جو بھی اپنی زبان ( خلاف شرع باتوں سے ) روک لے اللہ تعالیٰ اس کی پردہ پوشی کرے گا اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی طرف معذرت لے جائے اللہ تعالیٰ اس کا عذر قبول فرماتا ہے (مسند ابویعلیٰ:4338:ضعیف) ۱؎ ( مسند ابو یعلیٰ ) یہ حدیث غریب ہے اور اس کی سند میں بھی اختلاف ہے اور حدیث شریف میں ہے ۔ آپ فرماتے ہیں پہلوان وہ نہیں جو کسی کو پچھاڑ دے بلکہ حقیقتاً پہلوان وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے نفس پر قابو رکھے (صحیح بخاری:6114) ۱؎ ( احمد ) صحیح بخاری صحیح مسلم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تم میں سے کوئی ایسا ہے جسے اپنے وارث کا مال اپنے مال سے زیادہ محبوب ہو ؟ لوگوں نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوئی نہیں آپ نے فرمایا میں تو دیکھتا ہوں کہ تم اپنے مال سے زیادہ اپنے وارث کا مال چاہتے ہو اس لیے کہ تمہارا مال تو درحقیقت وہ ہے جو تم راہ اللہ اپنی زندگی میں خرچ کر دو اور جو چھوڑ کر جاؤ وہ تمہارا مال نہیں بلکہ تمہارے وارثوں کا مال ہے تو تمہارا راہ للہ کم خرچ کرنا اور جمع زیادہ کرنا یہ دلیل ہے اس امر کی کہ تم اپنے مال سے اپنے وارثوں کے مال کو زیادہ عزیز رکھتے ہو ، پھر فرمایا تم پہلوان کسے جانتے ہو ؟ لوگوں نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے جسے کوئی گرا نہ سکے آپ نے فرمایا نہیں بلکہ حقیقتاً زور دار پہلوان وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے جذبات پر پورا قابو رکھے ، پھر فرمایا بے اولاد کسے کہتے ہو ؟ لوگوں نے کہا جس کی اولاد نہ ہو ، فرمایا نہیں بلکہ فی الواقع بے اولاد وہ ہے جس کے سامنے اس کی کوئی اولاد مری نہ ہو (صحیح بخاری:6442) ۱؎ ( مسلم ) ایک اور روایت میں یہ بھی ہے کہ آپ نے دریافت فرمایا کہ جانتے ہو مفلس کنگال کون ہے ؟ لوگوں نے کہا جس کے پاس مال نہ ہو آپ نے فرمایا بلکہ وہ جس نے اپنا مال اپنی زندگی میں راہ اللہ نہ دیا ہو (مسند احمد:367/5:صحیح) ۱؎ ( مسند احمد ) سیدنا حارثہ بن قدامہ سعدی رضی اللہ عنہ حاضر خدمت نبوی میں عرض کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کوئی نفع کی بات کہیے جو مختصر ہو تاکہ میں یاد بھی رکھ سکوں آپ نے فرمایا غصہ نہ کر اس نے پھر پوچھا آپ نے پھر یہی جواب دیا کئی کئی مرتبہ یہی کہا (مسند احمد:34/5:صحیح) ۱؎ ( مسند احمد ) کسی شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا مجھے کچھ وصیت کیجئے آپ نے فرمایا غصہ نہ کر وہ کہتے ہیں میں نے جو غور کیا تو معلوم ہوا کہ تمام برائیوں کا مرکز غصہ ہی ہے (مسند احمد:152/5:صحیح) ۱؎ ( مسند احمد ) ایک روایت میں ہے کہ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کو غصہ آیا تو آپ بیٹھ گئے اور پھر لیٹ گئے ان سے پوچھا گیا یہ کیا ؟ تو فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ فرماتے تھے جسے غصہ آئے وہ کھڑا ہو تو بیٹھ جائے اگر اس سے بھی غصہ نہ جائے تو لیٹ جائے (مسند احمد:152/5:صحیح) ۱؎ ( مسند احمد ) مسند احمد کی ایک اور روایت میں ہے کہ عروہ بن محمد رحمہ اللہ کو غصہ چڑھا آپ وضو کرنے بیٹھ گئے اور فرمانے لگے میں نے اپنے استادوں سے یہ حدیث سنی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غصہ شیطان کی طرف سے ہے اور شیطان آگ سے پیدا ہوا ہے اور آگ بجھانے والی چیز پانی ہے پس تم غصہ کے وقت وضو کرنے بیٹھ جاؤ (مسند احمد:226/4:ضعیف) ۱؎ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے کہ جو شخص کسی تنگ دست کو مہلت دے یا اپنا قرض اسے معاف کر دے اللہ تعالیٰ اسے جہنم سے آزاد کر دیتا ہے لوگو سنو! جنت کے اعمال سخت اور مشکل ہیں اور جہنم کے کام آسان اور سہل ہیں نیک بخت وہی ہے جو فتنوں سے بچ جائے کسی گھونٹ کا پینا اللہ کو ایسا پسند نہیں جتنا غصہ کے گھونٹ کا پی جانا ایسے شخص کے دل میں ایمان رچ جاتا ہے ۔ ( مسند احمد )(مسند احمد:327/1:ضعیف جداً)۱؎ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص اپنا غصہ اتارنے کی طاقت رکھتے ہوئے پھر بھی ضبط کر لے اللہ تعالیٰ اس کا دل امن و امان سے پر کر دیتا ہے جو شخص باوجود موجود ہونے کے شہرت کے کپڑے کو تواضع کی وجہ سے چھوڑ دے اسے اللہ تعالیٰ کرامت اور عزت کا حلہ قیامت کے دن پہنائے گا اور جو کسی کا سرچھپائے اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن بادشاہت کا تاج پہنائے گا (سنن ابوداود:4778،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ۱؎ ( ابوداؤد ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص باوجود قدرت کے اپنا غصہ ضبط کر لے اسی اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کے سامنے بلا کر اختیار دے گا کہ جس حور کو چاہے پسند کر لے (سنن ابوداود:4777،قال الشیخ الألبانی:حسن) ۱؎ ( مسند احمد ) اس مضمون کی اور بھی حدیثیں ہیں ، پس آیت کا مطلب یہ ہوا کہ وہ اپنے غصہ میں آپے سے باہر نہیں ہوتے لوگوں کو ان کی طرف سے برائی نہیں پہنچتی بلکہ اپنے جذبات کو دبائے رکھتے ہیں اور اللہ سے ڈر کر ثواب کی امید پر معاملہ سپر دالہ کرتے ہیں ، لوگوں سے درگزر کرتے ہیں ظالموں کے ظلم کا بدلہ بھی نہیں لیتے اسی کو احسان کہتے ہیں اور ان محسن بندوں سے اللہ محبت رکھتا ہے حدیث میں ہے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تین باتوں پر میں قسم کھاتا ہوں ایک تو یہ کہ صدقہ سے مال نہیں گھٹتا دوسرے یہ کہ عفو و درگزر کرنے سے انسان کی عزت بڑھتی ہے تیسرے یہ کہ تواضع فروتنی اور عاجزی کرنے والے کو اللہ تعالیٰ بلند مرتبہ عطا کرتا ہے ۔(سنن ترمذی:2325،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ۱؎ مستدرک کی حدیث میں ہے جو شخص یہ چاہے کہ اس کی بنیاد بلند ہو اور اس کے درجے بڑھیں تو اسے ظالموں سے درگزر کرنا چاہیئے اور نہ دینے والوں کو دینا چاہیئے اور توڑنے والوں سے جوڑنا چاہیئے (طبرانی کبیر:199/1:ضعیف) ۱؎ اور حدیث میں ہے قیامت کے دن ایک پکارے گا کہ اے لوگو درگزر کرنے والو اپنے رب کے پاس آؤ اور اپنا اجر لو ۔ مسلمانوں کی خطاؤں کے معاف کرنے والے جنتی لوگ ہیں ۔(ضعیف و منقطع) ۱؎ آل عمران
135 استغفار کرنا پھر فرمایا یہ لوگ گناہ کے بعد فوراً ذکر اللہ اور استغفار کرتے ہیں ۔ مسند احمد میں یہ روایت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب کوئی شخص گناہ کرتا ہے پھر اللہ رحمن و رحیم کے سامنے حاضر ہو کر کہتا ہے کہ پروردگار مجھ سے گناہ ہو گیا تو معاف فرما اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندے سے گو گناہ ہو گیا لیکن اس کا ایمان ہے کہ اس کا رب گناہ پر پکڑ بھی کرتا ہے اور اگر چاہے تو معاف بھی فرما دیتا ہے میں نے اپنے بندے کا گناہ معاف فرمایا ، اس سے پھر گناہ ہو تو فرما دیتا ہے میں نے اپنے بندے کا گناہ معاف فرمایا ، اس سے پھر گناہ ہو جاتا ہے یہ پھر توبہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ پھر بخشتا ہے چوتھی مرتبہ پھر گناہ کر بیٹھتا ہے پھر توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ معاف فرما کر کہتا ہے اب میرا بندہ جو چاہے کرے ( مسند احمد ) یہ حدیث بخاری و مسلم میں بھی ہے ۔(صحیح بخاری:7507) ۱؎ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم نے ایک مرتبہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ہم آپ کو دیکھتے ہیں تو ہمارے دلوں میں رقت طاری ہو جاتی ہے اور ہم اللہ والے بن جاتے ہیں لیکن جب آپ کے پاس سے چلے جاتے ہیں تو وہ حالت نہیں رہتی عورتوں بچوں میں پھنس جاتے ہیں، گھربار کے دھندوں میں لگ جاتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ اگر تمہاری حالت یہی ہر وقت رہتی تو پھر فرشتے تم سے مصافحہ کرتے اور تمہاری ملاقات کو تمہارے گھر پر آتے ، سنو اگر تم گناہ نہ کرو تو اللہ تمہیں یہاں سے ہٹا دے اور دوسری قوم کو لے آئے جو گناہ کرے پھر بخشش مانگے اور اللہ انہیں بخشے۔ ہم نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرماتے کہ جنت کی بنیادیں کس طرح استوار ہیں آپ نے فرمایا ایک اینٹ سونے کی تو ایک چاندی کی ہے اس کا گارہ مشک خالص ہے اس کے کنکر لؤلؤ اور یاقوت ہیں ، اس کی مٹی زعفران ہے ، جنتیوں کی نعمتیں کبھی ختم نہ ہوں گی ان کی زندگی ہمیشہ کی ہو گی، ان کے کپڑے پرانے نہیں ہونگے جوانی کبھی نہیں ڈھلے گی اور تین اشخاص کی دعا کبھی رد نہیں ہوتی 1۔عادل بادشاہ کی دعا 2-افطاری کے وقت روزے دار کی دعا 3- مظلوم کی دعا بادلوں سے اٹھائی جاتی ہے اور اس کے لیے آسمانوں کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جناب باری ارشاد فرماتا ہے مجھے میری عزت کی قسم میں تیری ضرور مدد کروں گا اگرچہ کچھ وقت کے بعد ہو ۔ (مسند احمد:305/2:صحیح) ۱؎ ( مسند احمد ) امیرالمؤمنین سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص کوئی گناہ کرے پھر وضو کر کے دو رکعت نماز ادا کرے اور اپنے گناہ کی معافی چاہے تو اللہ عزوجل اس کے گناہ معاف فرما دیتا ہے (سنن ابوداود:1521،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ۱؎ ( مسند احمد ) صحیح مسلم میں روایت امیر المؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تم میں سے جو شخص کامل وضو کر کے دعا «اَشْہَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلاَّ اﷲُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ وَاَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُوْلُہُ» پڑھے اس کیلئے جنت کے آٹھوں دروازے کھل جاتے ہیں جس سے چاہے اندر چلا جائے ،(صحیح مسلم:234) ۱؎ امیر المؤمنین سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سنت کے مطابق وضو کرتے ہیں پھر فرماتے ہیں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ نے فرمایا جو شخص مجھ جیسا وضو کرے پھر دو رکعت نماز ادا کرے جس میں اپنے دل سے باتیں نہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے تمام گناہ معاف فرما دیتا ہے ۔ ( بخاری مسلم ) (صحیح بخاری:159) ۱؎ پس یہ حدیث کو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے، اس سے اگلی روایت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے اور اس سے اگلی روایت سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے اور اس سے تیسری روایت کو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں۔ تو الحمداللہ ، اللہ تعالیٰ کی وسیع مغفرت اور اس کی بے انتہاء مہربانی کی خبر سید الاولین والاخرین کی زبانی آپ کے چاروں برحق خلفاء کی معرفت ہمیں پہنچی ( آؤ اس موقعہ پر ہم گنہگار بھی ہاتھ اٹھائیں اور اپنے مہربان رحیم و کریم اللہ کے سامنے اپنے گناہوں کا اقرار کر کے اس سے معافی طلب کریں اللہ تعالیٰ اے ماں باپ سے زیادہ مہربان اے عفو ودرگزر کرنے والے ! اور کسی بھکاری کو اپنے در سے خالی نہ پھیرنے والے ! تو ہم خطا کاروں کی سیاہ کاریوں سے بھی درگزر فرما اور ہمارے کل گناہ معاف فرما دے ۔ مترجم ) یہی وہ مبارک آیت ہے کہ جب یہ نازل ہوئی تو ابلیس رونے لگا ۔ (عبدالرزاق:133/1) ۱؎ ( مسند عبدالرزاق ) استعفار اور لا الہ الا اللہ مسند ابو یعلیٰ میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں «‏‏‏‏لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ» کثرت سے پڑھا کرو اور استغفار پر مداو مت کرو ابلیس گناہوں سے لوگوں کو ہلاک کرنا چاہتا ہے اور اس کی اپنی ہلاکت «‏‏‏‏لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ» اور استغفار سے ہے ، یہ حدیث دیکھ کر ابلیس نے لوگوں کو خواہش پرستی پر ڈال دیا پس وہ اپنے آپ کو راہ راست پر جانتے ہیں حالانکہ ہلاکت میں ہوتے ہیں۔(مسند ابویعلیٰ:136:ضعیف جداً) ۱؎ لیکن اس حدیث کے دو راوی ضعیف ہیں ۔ مسند احمد میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ابلیس نے کہا اے رب مجھے تیری عزت کی قسم میں بنی آدم کو ان کے آخری دم تک بہکاتا رہوں گا ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا مجھے میرے جلال اور میری عزت کی قسم جب تک وہ مجھ سے بخشش مانگتے رہیں گے میں بھی انہیں بخشتا رہوں گا (مسند احمد:29/3:ضعیف) ۱؎ مسند بزاز میں ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا مجھ سے گناہ ہو گیا آپ نے فرمایا پھر استغفار کر اس نے کہا مجھ سے اور گناہ ہوا فرمایا استغفار کئے جا ، یہاں تک کہ شیطان تھک جائے (بزار فی کشف الاستار:3249:صحیح بالشواھد) ۱؎ پھر فرمایا گناہ کو بخشنا اللہ ہی کے اختیار میں ہے ۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک قیدی آیا اور کہنے لگایا اللہ میں تیری طرف توبہ کرتا ہوں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف توبہ نہیں کرتا ( یعنی اللہ میں تیری ہی بخشش چاہتا ہوں ) آپ نے فرمایا اس نے حق حقدار کو پہنچایا ۔(مسند احمد:435/3:ضعیف) ۱؎ اصرار کرنے سے مراد یہ ہے کہ معصیت پر بغیر توبہ کئے اڑ نہیں جاتے اگر کئی مرتبہ گناہ ہو جائے تو کئی مرتبہ استغفار کرتے ہیں ، مسند ابویعلیٰ میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں وہ اصرار کرنے والا اور اڑنے والا نہیں جو استغفار کرتا رہتا ہے اگرچہ ( بالفرض ) اس سے ایک دن میں ستر مرتبہ بھی گناہ ہو جائے ۔(سنن ابوداود:1514،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ۱؎ پھر فرمایا کہ وہ جانتے ہوں یعنی اس بات کو کہ اللہ توبہ قبول کرنے والا ہے جیسے اور جگہ ہے آیت «اَلَمْ یَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ ھُوَ یَقْبَلُ التَّوْبَۃَ عَنْ عِبَادِہٖ وَیَاْخُذُ الصَّدَقٰتِ وَاَنَّ اللّٰہَ ھُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ» (9-التوبۃ:104) کیا یہ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے اور جگہ ہے «‏‏‏‏وَمَنْ یَّعْمَلْ سُوْءًا اَوْ یَظْلِمْ نَفْسَہٗ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللّٰہَ یَجِدِ اللّٰہَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا» ‏‏‏‏ (4-النساء:110) ، جو شخص کوئی برا کام کرے یا گناہ کر کے اپنی جان پر ظلم کرے پھر اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کرے تو وہ دیکھ لے گا کہ اللہ عزوجل بخشش کرنے والا مہربان ہے ۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر بیان فرمایا لوگو! تم اوروں پر رحم کرو اللہ تم پر رحم کرے گا لوگو ! تم دوسروں کی خطائیں معاف کرو اللہ تعالیٰ تمہارے گناہوں کو بخشے گا باتیں بنانے والوں کی ہلاکت ہے (مسند احمد:165/2:صحیح) ۱؎ گناہ پر جم جانے والوں کی ہلاکت ہے پھر فرمایا ان کاموں کے بدلے ان کی جزا مغفرت ہے اور طرح طرح کی بہتی نہروں والی جنت ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے ، یہ بڑے اچھے اعمال ہیں ۔ آل عمران
136 آل عمران
137 شہادت اور بشارت چونکہ احد والے دن ستر [70] مسلمان صحابی رضی اللہ عنہم شہید ہوئے تھے تو اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ڈھارس دیتا ہے کہ اس سے پہلے بھی دیندار لوگ مال و جان کا نقصان اٹھاتے رہے لیکن بالآخر غلبہ انہی کا ہوا تم اگلے واقعات پر ایک نگاہ ڈال لو تو یہ راز تم پر کھل جائے گا ۔ اس قرآن میں لوگوں کیلئے اگلی امتوں کا بیان بھی ہے اور یہ ہدایت و وعظ بھی ہے ۔ یعنی تمہارے دلوں کی ہدایت اور تمہیں برائی بھلائی سے آگاہ کرنے والا یہی قرآن ہے ، مسلمانوں کو یہ واقعات یاد دلا کر پھر مزید تسلی کے طور پر فرمایا کہ تم اس جنگ کے نتائج دیکھ کر بد دل نہ ہو جانا نہ مغموم بن کر بیٹھ رہنا فتح و نصرت غلبہ اور بلند و بالا مقام بالآخر مومنو تمہارے لیے ہی ہے ۔ اگر تمہیں زخم لگے ہیں تمہارے آدمی شہید ہوئے تو اس سے پہلے تمہارے دشمن بھی تو قتل ہو چکے ہیں وہ بھی تو زخم خوردہ ہیں یہ تو چڑھتی ڈھلتی چھاؤں ہے ہاں بھلا وہ ہے جو انجام کار غالب رہے، اور یہ ہم نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے ۔ یہ بعض مرتبہ شکست بالخصوص اس جنگ احد کی ، اس لیے تھی کہ ہم صابروں کا اور غیر صابروں کا امتحان کر لیں اور جو مدت سے شہادت کی آرزو رکھتے تھے انہیں کامیاب بنائیں کہ وہ اپنا جان و مال ہماری راہ میں خرچ کریں ، اللہ تعالیٰ ظالموں کو پسند نہیں کرتا ۔ یہ جملہ معترضہ بیان کر کے فرمایا یہ اس لیے بھی کہ ایمان والوں کے گناہ اگر ہوں تو دور ہو جائیں اور ان کے درجات بڑھیں اور اس میں کافروں کا مٹانا بھی ہے کیونکہ وہ غالب ہو کر اترائیں گے سرکشی اور تکبر میں اور بڑھیں گے اور یہی ان کی ہلاکت اور بربادی کا سبب بنے گا اور پھر مر کھپ جائیں گے ان سختیوں اور زلزلوں اور ان آزمائشوں کے بغیر کوئی جنت میں نہیں جا سکتا جیسے سورۃ البقرہ میں ہے کہ کیا تم جانتے ہو کہ تم سے پہلے لوگوں کی جیسی آزمائش ہوئی ایسی تمہاری نہ ہو اور تم جنت میں چلے جاؤ یہ نہیں ہو گا۔ اور جگہ ہے آیت «الم أَحَسِبَ النَّاسُ أَن یُتْرَکُوا أَن یَقُولُوا آمَنَّا وَہُمْ لَا یُفْتَنُونَ وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِینَ مِن قَبْلِہِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللہُ الَّذِینَ صَدَقُوا وَلَیَعْلَمَنَّ الْکَاذِبِینَ» (29-العنکبوت:2-1) کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ ہم صرف ان کے اس قول پر کہ ہم ایمان لائے انہیں چھوڑ دیں گے اور ان کی آزمائش نہ کی جائے گی ؟ یہاں بھی یہی فرمان ہے کہ جب تک صبر کرنے والے معلوم نہ ہو جائیں یعنی دنیا میں ہی ظہور میں نہ آ جائیں تب تک جنت نہیں مل سکتی ۔ پھر فرمایا کہ تم اس سے پہلے تو ایسے موقعہ کی آرزو میں تھے کہ تم اپنا صبر، اپنی بہادری اور مضبوطی اور استقامت اللہ تعالیٰ کو دکھاؤ اللہ کی راہ میں شہادت پاؤ ، لو اب ہم نے تمہیں یہ موقعہ دیا تم بھی اپنی ثابت قدمی اور اولوالعزمی دکھاؤ ، حدیث شریف میں ہے دشمن کی ملاقات کی آرزو نہ کرو اللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کرو اور جب میدان پڑ جائے پھر لوہے کی لاٹ کی طرح جم جاؤ اور صبر کے ساتھ ثابت قدم رہو اور جان لو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے (صحیح بخاری:2966) ۱؎ پھر فرمایا کہ تم نے اپنی آنکھوں سے اس منظر کو دیکھ لیا کہ نیزے تنے ہوئے ہیں تلواریں کھچ رہی ہیں بھالے اچھل رہے ہیں تیر برس رہے ہیں گھمسان کا رن پڑا ہوا ہے اور ادھر ادھر لاشیں گر رہی ہیں ۔ آل عمران
138 آل عمران
139 آل عمران
140 آل عمران
141 آل عمران
142 آل عمران
143 آل عمران
144 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا مغالطہٰ اور غزوہ احد میدان احد میں مسلمانوں کو شکست بھی ہوئی اور ان کے بعض قتل بھی کئے گئے ۔ اس دن شیطان نے یہ بھی مشہور کر دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی شہید ہو گئے اور ابن قمیہ کافر نے مشرکوں میں جا کر یہ خبر اڑا دی کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر کے آیا ہوں اور دراصل وہ افواہ بے اصل تھی اور اس شخص کا یہ قول بھی غلط تھا ۔ اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ تو کیا تھا لیکن اس سے صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ قدرے زخمی ہو گیا تھا اور کوئی بات نہ تھی اس غلط بات کی شہرت نے مسلمانوں کے دل چھوٹے کر دیئے ان کے قدم اکھڑ گئے اور لڑائی سے بددل ہو کر بھاگ کھڑے ہوئے اسی بارے میں یہ آیت نازل ہوئی کہ اگلے انبیاء علیہم السلہم کی طرح یہ بھی ایک نبی ہیں ہوسکتا ہے کہ میدان میں قتل کر دیئے جائیں لیکن کچھ اللہ کا دین نہیں جاتا رہے گا ایک روایت میں ہے کہ ایک مہاجر نے دیکھا کہ ایک انصاری جنگ احد میں زخموں سے چور زمین پر گرا پڑا ہے اور خاک و خون میں لوٹ رہا ہے اس سے کہا کہ آپ کو بھی معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قتل کر دیئے گئے اس نے کہا اگر یہ صحیح ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو اپنا کام کر گئے ، اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین پر سے تم سب بھی قربان ہو جاؤ ، اسی کے بارے میں یہ آیت اتری ۔(دلائل النبوۃ للبیہقی:248/3) ۱؎ پھر فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قتل یا انتقال ایسی چیز نہیں کہ تم اللہ تعالیٰ کے دین سے پچھلے پاؤں پلٹ جاؤ اور ایسا کرنے والے اللہ کا کچھ نہ بگاڑیں گے ، اللہ تعالیٰ انہی لوگوں کو جزائے خیر دے گا جو اس کی اطاعت پر جم جائیں اور اس کے دین کی مدد میں لگ جائیں اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری میں مضبوط ہو جائیں خواہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہوں یا نہ ہوں ، صحیح بخاری شریف میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کی خبر سن کر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جلدی سے گھوڑے پر سوار ہو کر آئے مسجد میں تشریف لے گئے لوگوں کی حالت دیکھی بھالی اور بغیر کچھ کہے سنے عائشہ کے گھر پر آئے یہاں حضور علیہ السلام پر حبرہ کی چادر اوڑھا دی گئی تھی آپ نے چادر کا کونہ چہرہ مبارک پر سے ہٹا کر بےساختہ بوسہ لے لیا اور روتے ہوئے فرمانے لگے میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ، اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر دو مرتبہ موت نہ لائے گا جو موت آپ پر لکھ دی گئی تھی وہ آپ کو آ چکی ۔ اس کے بعد آپ پھر مسجد میں آئے اور دیکھا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ خطبہ سنا رہے ہیں ان سے فرمایا کہ خاموش ہو جاؤ ۔ انہیں چپ کرا کر آپ نے لوگوں سے فرمایا کہ جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا وہ جان لے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم مرگئے اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا تھا وہ خوش رہے کہ اللہ تعالیٰ زندہ ہے اس پر موت نہیں آتی ۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی لوگوں کو ایسا معلوم ہونے لگا گویا یہ آیت اب اتری ہے پھر تو ہر شخص کی زبان پر یہ آیت چڑھ گئی اور لوگوں نے یقین کر لیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے صلی اللہ علیہ وسلم صدیق اکبر کی زبانی اس آیت کی تلاوت سن کر عمر کے تو گویا قدموں تلے سے زمین نکل گئی ، انہیں بھی یقین ہو گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس جہان فانی کو چھوڑ کر چل بسے ،(صحیح بخاری:4454-4453) ۱؎ سیدنا علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں فرماتے تھے کہ نہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موت پر مرتد ہوں نہ آپ کی شہادت پر۔ اللہ کی قسم اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قتل کئے جائیں تو ہم بھی اس دین پر مرمٹیں جس پر آپ شہید ہوئے اللہ کی قسم میں آپ کا بھائی ہوں آپ کا ولی ہوں آپ کا چچا زاد بھائی ہوں اور آپ کا وارث ہوں مجھ سے زیادہ حقدار آپ کا اور کون ہو گا ۔(مستدرک حاکم:126/3:ضعیف) ۱؎ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ہر شخص اللہ تعالیٰ کے حکم سے اور اپنی مدت پوری کر کے ہی مرتا ہے جیسے اور جگہ ہے «ووَمَا یُعَمَّرُ مِن مٰعَمَّرٍ وَلَا یُنقَصُ مِنْ عُمُرِہِ إِلَّا فِی کِتَابٍ» (35-فاطر:11) نہ کوئی عمر بڑھائی جاتی ہے نہ عمر گھٹائی جاتی ہے مگر سب کتاب اللہ میں موجود ہے اور جگہ ہے «ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ طِیْنٍ ثُمَّ قَضٰٓی اَجَلًا» (6-الأنعام:2) ، ” جس اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا پھر وقت پورا کیا اور اجل مقرر کی“ اس آیت میں بزدل لوگوں کو شجاعت کی رغبت دلائی گئی ہے اور اللہ کی راہ کے جہاد کا شوق دلایا جا رہا ہے اور بتایا جا رہا ہے کہ جوانمردی کی وجہ سے کچھ عمر گھٹ نہیں جاتی اور پیچھے ہٹنے کی وجہ سے عمر بڑھ نہیں جاتی ۔ موت تو اپنے وقت پر آ کر ہی رہے گی خواہ شجاعت اور بہادری برتو خواہ نامردی اور بزدلی دکھاؤ ۔ حجر بن عدی رضی اللہ عنہ جب دشمنان دین کے مقابلے میں جاتے ہیں اور دریائے دجلہ بیچ میں آ جاتا ہے اور لشکر اسلام ٹھٹھک کر کھڑا ہو جاتا ہے تو آپ اس آیت کی تلاوت کر کے فرماتے ہیں کہ کوئی بھی بے اجل نہیں مرتا آؤ اسی دجلہ میں گھوڑے ڈال دو ، یہ فرما کر آپ اپنا گھوڑا دریا میں ڈال دیتے ہیں آپ کی دیکھا دیکھی اور لوگ بھی اپنے گھوڑوں کو پانی میں ڈال دیتے ہیں ۔ دشمن کا خون خشک ہو جاتا ہے اور اس پر ہیبت طاری ہو جاتی ہے ۔ وہ کہنے لگتے ہیں کہ یہ تو دیوانے آدمی ہیں یہ تو پانی کی موجوں سے بھی نہیں ڈرتے بھاگو بھاگو چنانچہ سب کے سب بھاگ کھڑے ہوئے ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ جس کا عمل صرف دنیا کیلئے ہو تو اس میں سے جتنا اس کے مقدر میں ہوتا ہے مل جاتا ہے لیکن آخرت میں وہ خالی ہاتھ رہ جاتا ہے اور جس کا مقصد آخرت طلب ہو اسے آخرت تو ملتی ہی ہے لیکن دنیا میں بھی اپنے مقدر کا پالیتا ہے جیسے اور جگہ فرمایا «مَن کَانَ یُرِیدُ حَرْثَ الْآخِرَۃِ نَزِدْ لَہُ فِی حَرْثِہِ ۖ وَمَن کَانَ یُرِیدُ حَرْثَ الدٰنْیَا نُؤْتِہِ مِنْہَا وَمَا لَہُ فِی الْآخِرَۃِ مِن نَّصِیبٍ» (42-الشوری:20) ، آخرت کی کھیتی کے چاہنے والے کو ہم زیادتی کے ساتھ دیتے ہیں اور دنیا کی کھیتی کے چاہنے والے کو ہم گو دنیا دے دیں لیکن آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں اور جگہ ہے «مَّن کَانَ یُرِیدُ الْعَاجِلَۃَ عَجَّلْنَا لَہُ فِیہَا مَا نَشَاءُ لِمَن نٰرِیدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَہُ جَہَنَّمَ یَصْلَاہَا مَذْمُومًا مَّدْحُورًا وَمَنْ أَرَادَ الْآخِرَۃَ وَسَعَیٰ لَہَا سَعْیَہَا وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولٰئِکَ کَانَ سَعْیُہُم مَّشْکُورًا» (17-الإسراء: 19-18) جو شخص صرف دنیا طلب ہی ہو ہم ان میں سے جسے چاہیں جس قدر چاہیں دنیا دے دیتے ہیں پھر وہ جہنمی بن جاتا ہے اور ذلت و رسوائی کے ساتھ اس میں جاتا ہے اور جو آخرت کا خواہاں ہو اور کوشاں بھی ہو اور باایمان بھی ہو ان کی کوشش اللہ تعالیٰ کے ہاں مشکور ہے اسی لیے یہاں بھی فرمایا کہ ہم شکر گزاروں کو اچھا بدلہ دے دیتے ہیں ۔ احد کے مجاہدین کو خطاب پھر اللہ تعالیٰ احد کے مجاہدین کو خطاب کرتا ہوا فرماتا ہے کہ اس سے پہلے بھی بہت سے نبی اپنی جماعتوں کو ساتھ لے کر دشمنان دین سے لڑے بھڑے اور وہ تمہاری طرح اللہ کی راہ میں تکلیفیں بھی پہنچائے گئے لیکن پھر بھی مضبوط دل اور صابرو شاکر رہے نہ سست ہوئے نہ ہمت ہاری اور اس صبر کے بدلے انہوں نے اللہ کریم کی محبت مول لے لی ، ایک یہ معنی بھی بیان کئے گئے ہیں کہ اے مجاہدین احد تم یہ سن کر کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہوئے کیوں ہمت ہار بیٹھے ؟ اور کفر کے مقابلے میں کیوں دب گئے ؟ حالانکہ تم سے اگلے لوگ اپنے انبیاء کی شہادت کو دیکھ کر بھی نہ دبے نہ پیچھے ہٹے بلکہ اور تیزی کے ساتھ لڑے ، یہ اتنی بڑی مصیبت بھی ان کے قدم نہ ڈگمگا سکی اور کے دل چھوٹے نہ کر سکی پھر تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی خبر سن کر اتنے بودے کیوں ہو گئے «ربیون» کے بہت سے معنی آتے ہیں مثلاً علماء ابرار متقی عابد زاہد تابع فرمان وغیرہ وغیرہ(تفسیر ابن جریر الطبری:266/7) ۱؎ ۔ پس قرآن کریم ان کی اس مصیبت کے وقت دعا کو نقل کرتا ہے پھر فرماتا ہے کہ انہیں دنیا کا ثواب نصرت و مدد ظفرو اقبال ملا اور آخرت کی بھلائی اور اچھائی بھی اسی کے ساتھ جمع ہوئی یہ محسن لوگ اللہ کے چہیتے بندے ہیں ۔ آل عمران
145 آل عمران
146 آل عمران
147 آل عمران
148 آل عمران
149 کافر اور منافقوں کے ارادے اور غزوہ احد کا پھر اندوہناک تذکرہ اللہ تعالیٰ اپنے ایماندار بندوں کو کافروں اور منافقوں کی باتوں کے ماننے سے روک رہا ہے اور بتا رہا ہے کہ اگر ان کی مانی تو دنیا اور آخرت کی ذلت تم پر آئے گی ان کی چاہت تو یہی ہے کہ تمہیں دین اسلام سے ہٹا دیں پھر فرماتا ہے مجھ ہی کو اپنا والی اور مددگار جانو مجھ ہی سے دوستی کرو مجھ ہی پر بھروسہ کرو مجھ ہی سے مدد چاہو پھر فرمایا کہ ان شریروں کے دلوں میں ان کے کفر کے سبب ڈر خوف ڈال دوں گا۔ بخاری مسلم میں سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے پانچ باتیں دی گئیں ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں میری مدد مہینہ بھر کی راہ تک رعب سے کی گئی ہے میرے لیے زمین مسجد اور اس کی مٹی وضو کی پاک چیز بنائی گئی ، میرے لیے غنیمت کے مال حلال کئے گئے اور مجھے شفاعت دی گئی اور ہر نبی اپنی اپنی قوم کی طرف سے مخصوص بھیجا جاتا تھا اور میری بعثت ، میری نبوت تمام دنیا کیلئے عام ہوئی۔(صحیح بخاری:335) ۱؎ مسند احمد میں ہے آپ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے تمام نبیوں پر اور بعض روایتوں میں ہے تمام امتوں پر مجھے چار فضیلتیں عطا فرمائی ہیں ، مجھے تمام دنیا کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ، میرے اور میری امت کیلئے تمام زمین مسجد اور پاک بنائی گئی ، میرے امتی کو جہاں نماز کا وقت آ جائے وہیں اس کی مسجد اور اس کا وضو ہے ، میرا دشمن مجھ سے مہینہ بھر کی راہ پر ہو وہیں سے اللہ تعالیٰ اس کا دل رعب سے پُر کر دیتا ہے اور وہ کانپنے لگتا ہے اور میرے لیے غنیمت کے مال حلال کئے گئے(مسند احمد:248/5:صحیح) ۱؎ اور روایت میں ہے کہ میں مدد کیا گیا ہوں میرے رعب سے ہر دشمن پر(صحیح مسلم:523) ۱؎ مسند کی ایک اور حدیث میں ہے مجھے پانچ چیزیں دی گئیں میں ہر سرخ و سفید کی طرف بھیجا گیا میرے لیے تمام زمین وضو اور مسجد بنائی گی ۔ میرے لیے غنیمتوں کے مال حلال کئے گئے جو میرے پہلے کسی کے حلال نہ تھے اور میری مدد مہینہ بھر کی راہ تک رعب سے کی گئی اور مجھے شفاعت دی گئی تمام انبیاء نے شفاعت مانگ لی لیکن میں نے اپنی شفاعت کو اپنی امت کے لوگوں کیلئے جنہوں نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو بچار کھی ہے (مسند احمد:416/4:صحیح لغیرہ) ۱؎ ،سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ابوسفیان کے دل میں رعب ڈال دیا اور وہ لڑائی سے لوٹ گیا۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:598/2:ضعیف) ۱؎ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا اور تمہاری مدد کی اس سے بھی یہ استدلال ہو سکتا ہے کہ یہ وعدہ احد کے دن کا تھا تین ہزار دشمن کا لشکر تھا تاہم مقابلہ پر آتے ہی ان کے قدم اکھڑ گئے اور مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی لیکن پھر تیر اندازوں کی نافرمانی کی وجہ سے اور بعض حضرات کی پست ہمتی کی بناء پر وہ وعدہ جو مشروط تھا رک گیا ، پس فرماتا ہے کہ تم انہیں اپنے ہاتھوں سے کاٹتے تھے ۔ شروع دن میں ہی اللہ نے تمہیں ان پر غالب کر دیا لیکن تم نے پھر بزدلی دکھائی اور نبی کی نافرمانی کی ان کی بتائی ہوئی جگہ سے ہٹ گئے اور آپس میں اختلاف کرنے لگے حالانکہ اللہ عزوجل نے تمہیں تمہاری پسند کی *چیز فتح* دکھا دی تھی، یعنی مسلمان صاف طور پر غالب آ گئے تھے مال غنیمت آنکھوں کے سامنے موجود تھا کفار پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوئے تھے تم میں سے بعض نے دنیا طلبی کی اور کفار کی ہزیمت کو دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا خیال نہ کر کے مال غنیمت کی طرف لپکے، گو بعض اور نیک آخرت طلب بھی تھے لیکن اس نافرمانی وغیرہ کی بنا پر کفار کی پھر بن آئی اور ایک مرتبہ تمہاری پوری آزمائش ہو گئی غالب ہو کر مغلوب ہو گئے فتح کے بعد شکست ہو گئی لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ نے تمہارے اس جرم کو معاف فرما دیا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ بظاہر تم ان سے تعداد میں اور اسباب میں کم تھے خطا کا معاف ہونا بھی «عفاعنکم» میں داخل ہے اور یہ بھی مطلب ہے کہ کچھ یونہی سی گوشمالی کر کے کچھ بزرگوں کی شہادت کے بعد اس نے اپنی آزمائش کو اٹھا لیا اور باقی والوں کو معاف فرما دیا ، اللہ تعالیٰ باایمان لوگوں پر فضل و کرم لطف و رحم ہی کرتا ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد جیسی احد میں ہوئی ہے کہیں نہیں ہوئی ۔ اسی کے بارے میں ارشاد باری ہے کہ اللہ نے تم سے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا لیکن پھر تمہارے کرتوتوں سے معاملہ برعکس ہو گیا ، بعض لوگوں نے دنیا طلبی کر کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی یعنی بعض تیر اندوزوں نے جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہاڑ کے درے پر کھڑا کیا تھا اور فرما دیا تھا کہ تم یہاں سے دشمنوں کی نگہبانی کرو وہ تمہاری پیٹھ کی طرف سے نہ آ جائیں ، اگر تم ہار دیکھو بھی اپنی جگہ سے نہ ہٹنا اور اگر تم ہر طرح غالب آ گئے تو بھی تم غنیمت جمع کرنے کیلئے بھی اپنی جگہ کو نہ چھوڑنا ، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غالب آ گئے تو تیر اندوزوں نے حکم عدولی کی اور وہ اپنی جگہ کو چھوڑ کر مسلمانوں میں آ ملے اور مال غنیمت جمع کرنا شروع کر دیا صفوں کا کوئی خیال نہ رہا درے کو خالی پا کر مشرکوں نے بھاگنا بند کیا اور غور و فکر کر کے اس جگہ حملہ کر دیا ، چند مسلمانوں کی پیٹھ کے پیچھے سے ان کی بے خبری میں اس زور کا حملہ کیا کہ مسلمانوں کے قدم نہ جم سکے اور شروع دن کی فتح اب شکست سے بدل گئی اور یہ مشہور ہو گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی شہید ہو گئے اور لڑائی کے رنگ نے مسلمانوں کو اس بات کا یقین بھی دلا دیا ، تھوڑی دیر بعد جبکہ مسلمانوں کی نظریں چہرہ مبارک پر پڑیں تو وہ اپنی سب کوفت اور ساری مصیبت بھول گئے اور خوشی کے مارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لپکے آپ ادھر آ رہے تھے اور فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کا سخت غضب نازل ہو ان لوگوں پر جنہوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کو خون آلودہ کر دیا ، انہیں کوئی حق نہ تھا کہ اس طرح ہم پر غالب رہ جائیں ۔ تھوڑی دیر میں ہم نے سنا کہ ابوسفیان پہاڑ کے نیچے کھڑا ہوا کہہ رہا تھا «اعل ہبل اعل ھبل» ہبل بت کا بول بالا ہو ابوبکر کہاں ہیں ؟ عمر کہاں ہیں ؟ عمر نے پوچھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے جواب دوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی تو عمر فاروق نے اس کے جواب میں فرمایا «اللہ اعلی واجل اللہ اعلی واجل» اللہ بہت بلند ہے اور جلال و عزت والا ہے اللہ بہت بلند اور جلال و عزت والا ہے ، وہ پوچھنے لگا بتاؤ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہاں ہیں ؟ ابوبکر کہاں ہیں ؟ عمر کہاں ہیں ؟ آپ نے فرمایا یہ ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور یہ ہیں ابوبکر رضی اللہ عنہ اور یہ ہوں میں عمر فاروق رضی اللہ عنہ ابوسفیان کہنے لگا یہ بدر کا بدلہ ہے یونہی دھوپ چھاؤں الٹتی پلٹتی رہتی ہے ، لڑائی کی مثال کنویں کے ڈول کی سی ہے ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا برابری کا معاملہ ہرگز نہیں تمہارے مقتول تو جہنم میں گئے اور ہمارے شہید جنت میں پہنچے ، ابوسفیان کہنے لگا اگر یونہی ہو تو یقیناً ہم نقصان اور گھاٹے میں رہے ، سنو تمہارے مقتولین میں بعض ناک کان کٹے لوگ بھی تم پاؤ گے گویہ ہمارے سرداروں کی رائے سے نہیں ہوا لیکن ہمیں کچھ برا بھی نہیں معلوم ہوا ،(مسند احمد:278/1:صحیح بالشواھد) ۱؎ یہ حدیث غریب ہے اور یہ قصہ بھی عجیب ہے ، یہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی مرسلات سے ہے اور وہ یا ان کے والد جنگ احد میں موجود نہ تھے ، مستدرک حاکم میں بھی یہ روایت موجود ہے۔ ابن ابی حاتم اور بیہقی فی دلائل النبوۃ میں بھی یہ مروی ہے اور صحیح احادیث میں اس کے بعض حصوں کے شواہد بھی ہیں سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ احد والے دن عورتیں مسلمانوں کے پیچھے تھیں جو زخمیوں کی دیکھ بھال کرتی تھیں مجھے تو پوری طرح یقین تھا کہ آج کے دن ہم میں کوئی ایک بھی طالب دنیا نہیں بلکہ اس وقت اگر مجھے اس بات پر قسم کھلوائی جاتی تو کھا لیتا لیکن قرآن میں یہ آیت اتری «مِنکُم مَّن یُرِیدُ الدٰنْیَا وَمِنکُم مَّن یُرِیدُ الْآخِرَۃَ» (3-آل عمران:152) ۱؎ یعنی تم میں سے بعض طالب دنیا بھی ہیں ، جب صحابہ رضی اللہ عنہم سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے خلاف آپ کی نافرمانی سرزد ہوئی تو ان کے قدم اکھڑ گئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف سات انصاری اور دو مہاجر باقی رہ گئے جب مشرکین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گھیر لیا تو آپ فرمانے لگے اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم کرے جو انہیں ہٹائے تو ایک انصاری اٹھ کھڑے ہوئے اور اس جمِ غفیر کے مقابل تن تنہا داد شجاعت دینے لگے یہاں تک کہ شہید ہو گئے پھر کفار نے حملہ کیا آپ نے یہی فرمایا ایک انصاری تیار ہو گئے اور اس بے جگری سے لڑے کہ انہیں آگے نہ بڑھنے دیا لیکن بالآخر یہ بھی شہید ہو گئے یہاں تک کہ ساتوں صحابہ رضی اللہ عنہم اللہ کے ہاں پہنچ گئے اللہ ان سے خوش ہو ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین سے فرمایا افسوس ہم نے اپنے ساتھیوں سے منصفانہ معاملہ نہ کیا ، اب ابوسفیان نے ہانک لگائی کہ «اعل ہبل» آپ نے فرمایا کہو «اللہ اعلی واجل» ابوسفیان نے کہا «لنا العزی ولا عزی لکم» ہمارا عزی بت ہے تمہاری کوئی عزی نہیں ، آپ نے فرمایا کہو «اللہ مولانا والکافرون لا مولی لھم اللہ» ہمارا مولی ہے اور کافروں کا کوئی مولی نہیں ، ابوسفیان کہنے لگا آج کے دن بدر کے دن کا بدلہ ہے کوئی دن ہمارا اور کوئی دن تمہارا ۔ یہ تو ہاتھوں ہاتھ کا سودا ہے ، ایک کے بدلے ایک ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہرگز برابر نہیں ہمارے شہداء زندہ ہیں وہاں رزق دئیے جاتے ہیں اور تمہارے مقتول جہنم میں عذاب کئے جا رہے ہیں پھر ابوسفیان بولا تمہارے مقتولوں میں تم دیکھو گے کہ بعض کے کان ناک وغیرہ کاٹ لیے گئے ہیں لیکن میں نے نہ یہ کہا نہ اسے روکا نہ اسے میں نے پسند کیا نہ مجھے یہ بھلا معلوم ہوا نہ برا ۔ اب جو دیکھا تو معلوم ہوا کہ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کا پیٹ چاک کر دیا گیا تھا اور ہندہ نے انکا کلیجہ لے کر چبایا تھا لیکن نگل نہ سکی تو اگل دیا ، حضور علیہ السلام نے فرمایا نا ممکن تھا کہ اس کے پیٹ میں حمزہ کا ذرا سا گوشت بھی چلا جائے اللہ تعالیٰ حمزہ کے کسی عضو بدن کو جہنم میں لے جانا نہیں چاہتا چنانچہ حمزہ کے جنازے کو اپنے سامنے رکھ کر نماز جنازہ ادا کی پھر ایک انصاری رضی اللہ عنہ کا جنازہ لایا گیا وہ حمزہ کے پہلو میں رکھا گیا اور آپ نے پھر نماز جنازہ پڑھی انصاری رضی اللہ عنہ کا جنازہ اٹھا لیا گیا لیکن سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کا جنازہ وہیں رہا اسی طرح ستر شخص لائے گئے اور حمزہ کی ستر دفعہ جنازے کی نماز پڑھی گئی (مسند احمد:463/1:حسن لغیرہ) ۱؎ ( مسند ) صحیح بخاری شریف میں سیدنا براء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ احد والے دن مشرکوں سے ہماری مڈبھیڑ ہوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیر اندازوں کی ایک جماعت کو الگ جما دیا اور انکا سردار سیدنا عبداللہ بن جیبر رضی اللہ عنہ کو بنایا اور فرما دیا کہ اگر تم ہمیں ان پر غالب آیا ہوا دیکھو تو بھی یہاں سے نہ ہٹنا اور وہ ہم پر غالب آ جائیں تو بھی تم اپنی جگہ نہ چھوڑنا ، لڑائی شروع ہوتے ہی اللہ کے فضل سے مشرکوں کے قدم پیچھے ہٹنے لگے یہاں تک کہ عورتیں بھی تہبند اونچا کر کر کے پہاڑوں میں ادھر دوڑنے لگیں ، اب تیر انداز گروہ غنیمت غنیمت کہتا ہوا نیچے اتر آیا ، ان کے امیر نے انہیں ہر چند سمجھایا لیکن کسی نے ان کی نہ سنی ، بس اب مشرکین مسلمانوں کی پیٹھ کی طرف سے آن پڑے اور ستر بزرگ شہید ہو گئے۔ ابوسفیان ایک ٹیلے پر چڑھ کر کہنے لگا کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم حیات ہیں ؟ کیا ابوبکر رضی اللہ عنہ موجود ہیں ؟ کیا عمر رضی اللہ عنہ زندہ ہیں ؟ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے صحابہ خاموش رہے تو وہ خوشی کے مارے اچھل پڑا اور کہنے لگا یہ سب ہماری تلواروں کے گھاٹ اتر گئے اگر زندہ ہوتے تو ضرور جواب دیتے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو تاب ضبط نہ رہی فرمانے لگے ، اے اللہ کے دشمن تو جھوٹا ہے بحمد للہ ہم سب موجود ہیں اور تیری تباہی اور بربادی کرنے والے زندہ ہیں ، پھر وہ باتیں ہوئیں جو اوپر بیان ہو چکی ہیں ،(صحیح بخاری:4043) ۱؎ صحیح بخاری شریف میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جنگ احد میں مشرکوں کو ہزیمت ہوئی اور ابلیس نے آواز لگائی اے اللہ کے بندو ! اپنے پیچھے کی خبر لو اگلی جماعتیں پچھلی جماعتوں پر ٹوٹ پڑیں ، سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ مسلمانوں کی تلواریں ان کے والد سیدنا یمان رضی اللہ عنہ پر برس رہی ہیں ہر چند کہتے رہے کہ اے اللہ کے بندو ! یہ میرے باپ یمان ہیں مگر کون سنتا تھا وہ یونہی شہید ہو گئے لیکن سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کچھ نہ کہا بلکہ فرمایا اللہ تمہیں معاف کرے ، سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کی یہ بھلائی ان کے آخری دم تک ان میں رہی۔(صحیح بخاری:4065) ۱؎ سیرت ابن اسحٰق میں ہے سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے خود دیکھا کہ مشرک مسلمانوں کے اول حملہ میں ہی بھاگ کھڑے ہوئے یہاں تک کہ ان کی عورتیں ہندہ وغیرہ تہبند اٹھائے تیز تیز دوڑ رہی تھیں لیکن اس کے بعد جب تیر اندازوں نے مرکز چھوڑا اور کفار نے سمٹ کر پیچھے کی طرف سے ہم پر حملہ کر دیا ادھر کسی نے آواز لگائی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے پھر معاملہ برعکس ہو گیا ورنہ ہم مشرکین کے علم برداروں تک پہنچ چکے تھے اور جھنڈا اس کے ہاتھ سے گر پڑا تھا لیکن عمرہ بن علقمہ حارثیہ عورت نے اسے تھام لیا اور قریش کا مجمع پھر یہاں جمع ہو گیا ،سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ چچا سیدنا انس بن نضر رضی اللہ عنہ یہ رنگ دیکھ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ وغیرہ کے پاس آتے ہیں اور فرماتے ہیں تم نے کیوں ہمتیں چھوڑ دیں ؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو شہید ہو گئے ۔سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا پھر تم جی کر کیا کرو گے ؟ یہ کہا اور مشرکین میں گھسے پھر لڑتے رہے یہاں تک کہ اللہ رب العزت سے جا ملے ،(تفسیر ابن جریر الطبری:4945:ضعیف) ۱؎ یہ بدر والے دن جہاد میں نہیں پہنچ سکے تھے تو عہد کیا تھا کہ آئندہ اگر کوئی موقعہ آیا تو میں دکھا دوں گا چنانچہ اس جنگ میں وہ موجود تھے جب مسلمانوں میں کھلبلی مچی تو انہوں نے کہا اللہ میں مسلمانوں کے اس کام سے معذور ہوں اور مشرکوں کے اس کام سے بری ہوں پھر اپنی تلوار لے کر آگے بڑھ گئے راہ میں سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ سے ملے اور کہنے لگے کہاں جا رہے ہو ؟ مجھے تو جنت کی خوشبو کی لپٹیں احد پہاڑ سے چلی آ رہی ہیں چنانچہ مشرکوں میں گھس گئے اور بڑی بے جگری سے لڑے یہاں تک کہ شہادت حاصل کی اسی [80] سے زیادہ تیر و تلوار کے زخم بدن پر آئے تھے پہچانے نہ جاتے تھے انگلی کو دیکھ کر پہچانے گئے۔(صحیح بخاری:4048) ۱؎ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ ایک حاجی نے بیت اللہ شریف میں ایک مجلس دیکھ کر پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں ؟ لوگوں نے کہا قریشی ہیں پوچھا ان کے شیخ کون ہیں ؟ جواب ملا سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہیں ، اب وہ آیا اور کہنے لگا میں کچھ دریافت کرنا چاہتا ہوں سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا پوچھو اس نے کہا آپ کو اس بیت اللہ کی حرمت کی قسم کیا آپ کو علم ہے کہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ احد والے دن بھاگ گئے تھے ؟ آپ نے جواب دیا ہاں ۔ کہا کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ بدر والے دن بھی حاضر نہیں ہوئے تھے ؟ فرمایا ہاں ، کہا کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ بیعت الرضوان میں بھی شریک نہیں ہوئے تھے ؟ فرمایا یہ بھی ٹھیک ہے ، اب اس نے ( خوش ہو کر ) تکبیر کہی ، عبداللہ نے فرمایا ادھر آ ، اب میں تجھے پورے واقعات سناؤں ، احد کے دن کا بھاگنا تو اللہ تعالیٰ نے معاف فرما دیا ، بدر کے دن کی غیر حاضری کے باعث یہ ہوا کہ آپ کے گھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی تھیں اور وہ اس وقت سخت بیمار تھیں تو خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا تھا کہ تم نہ آؤ مدینہ میں ہی رہو تمہیں اللہ تعالیٰ اس جنگ میں حاضر ہونے کا اجر دے گا اور غنیمت میں بھی تمہارا حصہ ہے۔ بیعت الرضوان کا واقعہ یہ ہے کہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ والوں کے پاس اپنا پیغام دے کر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو بھیجا تھا اس لیے کہ مکہ میں جو عزت انہیں حاصل تھی کسی اور کو اتنی نہ تھی ان کے تشریف لے جانے کے بعد یہ بیعت لی گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا داہنا ہاتھ کھڑا کر کے کہا یہ عثمان رضی اللہ عنہ کا ہاتھ ہے پھر اپنے دوسرے ہاتھ پر رکھا ( گویا بیعت کی ) پھر اس شخص سے کہا اب جاؤ اور اسے ساتھ لے جاؤ۔ (صحیح بخاری:3699) ۱؎ پھر فرمایا آیت «إِذْ تُصْعِدُونَ وَلَا تَلْوُونَ عَلَیٰ أَحَدٍ وَالرَّسُولُ یَدْعُوکُمْ فِی أُخْرَاکُمْ فَأَثَابَکُمْ غَمًّا بِغَمٍّ لِّکَیْلَا تَحْزَنُوا عَلَیٰ مَا فَاتَکُمْ وَلَا مَا أَصَابَکُمْ» (3-آل عمران:153) الخ ، یعنی تم اپنے دشمن سے بھاگ کر پہاڑ چڑھ رہے تھے اور مارے خوف و دہشت کے دوسری جانب توجہ بھی نہیں کرتے تھے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی تم نے وہیں چھوڑ دیا تھا وہ تمہیں آوازیں دے رہے تھے اور سمجھا رہے تھے کہ بھاگو نہیں لوٹ آؤ ، سیدنا سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں مشرکین کے اس خفیہ اور پر زور اور اچانک حملہ سے مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے کچھ تو مدینہ کی طرف لوٹ آئے کچھ پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گئے اللہ کے نبی آوازیں دیتے رہے کہ اللہ کے بندوں میری طرف آؤ اللہ کے بندو میری طرف آؤ ، اس واقعہ کا بیان اس آیت میں ہے ، (تفسیر ابن جریر الطبری:301/7) ۱؎ عبداللہ بن زحری شاعر نے اس واقعہ کو نظم میں بھی ادا کیا ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت صرف بارہ آدمیوں کے ساتھ رہ گئے تھے (مسند احمد:293/4:صحیح) ۱؎ مسند احمد کی ایک طویل حدیث میں بھی ان تمام واقعات کا ذکر ہے ، دلائل النبوۃ میں ہے کہ جب ہزیمت ہوئی تب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف گیارہ شخص رہ گئے اور ایک سیدنا طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہما تھے ، آپ پہاڑ پر چڑھنے لگے لیکن مشرکین نے آگھیرا آپ نے اپنے ساتھیوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا کوئی ہے جو ان سے مقابلہ کرے ۔ سیدنا طلحہ نے اس آواز پر فوراً لبیک کہا اور تیار ہو گئے لیکن آپ نے فرمایا تم ابھی ٹھہر جاؤ اب ایک انصاری تیار ہوئے اور وہ ان سے لڑنے لگے یہاں تک کہ شہید ہوئے اسی طرح سب کے سب ایک ایک کر کے شہید ہو گئے اور اب صرف طلحہ رہ گئے گو یہ بزرگ ہر مرتبہ تیار ہو جاتے تھے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں روک لیا کرتے تھے آخر یہ مقابلہ پر آئے اور اس طرح جم کر لڑے کہ ان سب کی لڑائی ایک طرف اور یہ ایک طرف ، اس لڑائی میں ان کی انگلیاں کٹ گئیں تو زبان سے حس نکل گیا آپ نے فرمایا اگر تم بسم اللہ کہہ دیتے یا اللہ کا نام لیتے تو تمہیں فرشتے اٹھا لیتے اور آسمان کی بلندی کی طرف لے چڑھتے اور لوگ دیکھتے رہتے اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کے مجمع میں پہنچ چکے تھے ۔(سنن نسائی:3151،قال الشیخ الألبانی:حسن) ۱؎ صحیح بخاری شریف میں ہے سیدنا قیس بن حازم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے دیکھا سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کا وہ ہاتھ جسے انہوں نے ڈھال بنایا تھا شل ہو گیا تھا۔(صحیح بخاری:4063)۱؎ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میرے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ترکش سے احد والے دن تمام تیر پھیلا دئیے اور فرمایا تجھ پر میرے ماں باپ فدا ہوں ، لے مشرکین کو مار (صحیح بخاری:3725) ۱؎ آپ اٹھا اٹھا کر دیتے جاتے تھے اور میں تاک تاک کر مشرکین کو مارتا جاتا تھا اس دن میں نے دو شخصوں کو دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں بائیں تھے اور سخت ترین جنگ کر رہے تھے میں نے نہ تو اس سے پہلے کبھی انہیں دیکھا تھا نہ اس کے بعد یہ دونوں سیدنا جبرائیل علیہ السلام اور سیدنا میکائیل علیہعلیہ السلام تھے۔(صحیح بخاری:2306) ۱؎ ایک اور روایت میں ہے کہ جو بزرگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھگدڑ کے بعد تھے اور ایک ایک ہو کر شہید ہوئے تھے انہیں آپ فرماتے جاتے تھے کہ کوئی ہے جو انہیں رو کے اور جنت میں جائے میرا رفیق ہے۔(صحیح مسلم:1789) ۱؎ ابی بن خلف نے مکہ میں قسم کھائی تھی کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کروں گا ، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا وہ تو نہیں بلکہ میں ان شاءاللہ اسے قتل کروں گا احد والے دن یہ خبیث سر تا پا لوہے میں غرق زرہ بکتر لگائے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھا اور یہ کہتا آتا تھا کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم بچ گئے تو میں اپنے آپکو ہلاک کر ڈالوں گا ادھر سے سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ اس ناہنجار کی طرف بڑھے لیکن آپ شہید ہو گئے اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف بڑھے اس کا سارا جسم لوہے میں چھپا ہوا تھا صرف ذرا سی پیشانی نظر آ رہی تھی آپ نے اپنا نیزہ تاک کر وہیں لگایا جو ٹھیک نشانے پر بیٹھا اور یہ تیورا کر گھوڑے پر سے گرا گو اس زخم سے خون بھی نہ نکلا تھا لیکن اس کی یہ حالت تھی کہ بلبلا رہا تھا لوگوں نے اسے اٹھا لیا لشکر میں لے گئے اور تشفی دینے لگے کہ ایسا کوئی کاری زخم نہیں لگا کیوں اس قدر نامردی کرتا ہے آخر ان کے طعنوں سے مجبور ہو کر اس نے کہا میں نے سنا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے میں ابی کو قتل کروں گا سچ مانو اب میں کبھی نہیں بچ سکتا تم اس پر نہ جاؤ کہ مجھے ذرا سی خراش ہی آئی ہے اللہ کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر کل اہل ذی المجاز کو اتنا زخم اس ہاتھ سے لگ جاتا تو سب ہلاک ہو جاتے پس یونہی تڑپتے تڑپتے اور بلکتے بلکتے اس جہنمی کی ہلاکت ہوئی اور مر کر جہنم رسید ہوا۔(صحیح مسلم:1789) ۱؎ مغازی محمد بن اسحاق میں ہے کہ جب یہ شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہوا تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس کے مقابلہ کی خواہش کی لیکن آپ نے انہیں روک دیا اور فرمایا اسے آنے دو جب وہ قریب آ گیا تو آپ نے حارث بن صمہ رضی اللہ عنہ سے نیزہ لے کر اس پر حملہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں نیزہ دیکھتے ہی وہ کانپ اٹھا ہم نے اسی وقت سمجھ لیا کہ اس کی خیر نہیں آپ نے اس کی گردن پر وار کیا اور وہ لڑکھڑا کر گھوڑے پر سے گرا ، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ بطن رابغ میں اس کافر کو موت آئی، ایک مرتبہ میں پچھلی رات یہاں سے گزراتو میں نے ایک جگہ سے آگ کے دہشت ناک شعلے اٹھتے ہوئے دیکھے اور دیکھا کہ ایک شخص کو زنجیروں میں جکڑے ہوئے اس آگ میں گھسیٹا جا رہا ہے اور وہ پیاس پیاس کر رہا ہے اور دوسرا شخص کہتا ہے اسے پانی نہ دینا یہ پیغمبر کے ہاتھ کا مارا ہوا ہے یہ ابی بن خلف ہے۔ (دلائل النبوۃ للبیہقی:259/3:ضعیف) ۱؎ بخاری و مسلم کی ایک حدیث میں ہے آپ اپنے سامنے کے چار دانتوں کی طرف جنہیں مشرکین نے احد والے دن شہید کیا تھا اشارہ کر کے فرما رہے تھے اللہ کا سخت تر غضب ان لوگوں پر ہے جنہوں نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ کیا اور اس پر بھی اللہ تعالیٰ کا غضب ہے جسے اللہ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی راہ میں قتل کرے (صحیح بخاری:4073) ۱؎ اور روایت میں یہ لفظ ہیں کہ جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ زخمی کیا ،(صحیح بخاری:4073) ۱؎ عتبہ بن ابی وقاص کے ہاتھ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ زخم لگا تھا سامنے کے چار دانٹ ٹوٹ گئے تھے ، رخسار پر زخم آیا تھا اور ہونٹ پر بھی ، سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے مجھے جس قدر اس شخص کی حرص تھی کسی اور کے قتل کی نہ تھی ۔ یہ شخص بڑا بدخلق تھا اور ساری قوم سے اس کی دشمنی تھی اس کی برائی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کافی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو زخمی ہونے والے پر اللہ سخت غضبناک ہے ، (دلائل النبوۃ للبیہقی:265/3:ضعیف) ۱؎ عبدالرزاق میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کیلئے بد دعا کی کہ اے اللہ سال بھر میں یہ ہلاک ہو جائے اور کفر پر اس کی موت ہو چنانچہ یہی ہوا اور یہ بدبخت کافر مرا اور جہنم واصل ہوا ۔(دلائل النبوۃ للبیہقی:265/3:ضعیف مرسل) ۱؎ ایک مہاجر کا بیان ہے کہ چاروں طرف سے احد والے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر تیروں کی بارش ہو رہی تھی لیکن اللہ کی قدرت سے وہ سب پھیر دیئے جاتے تھے۔ عبداللہ بن شہاب زہری نے اس دن قسم کھا کر کہا کہ مجھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھا دو وہ آج میرے ہاتھ سے بچ نہیں سکتا اگر وہ نجات پا گیا تو میری نجات نہیں اب وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے لپکا اور بالکل آپ کے پاس آ گیا اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کوئی نہ تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نظر ہی نہ آئے جب وہ نامراد پلٹا تو صفوان نے اسے طعنہ زنی کی اس نے کہا اللہ تعالیٰ کی طرف سے محفوظ ہیں ہمارے ہاتھ نہیں لگنے کے سنو ! ہم چار شخصوں نے ان کے قتل کا پختہ مشورہ کیا تھا اور آپس میں عہدو پیمان کئے تھے ہم نے ہر چند چاہا لیکن کامیابی نہ ہوئی (مغازی الواقدی:238/1:ضعیف) ۱؎ واقدی کہتے ہیں لیکن ثابت شدہ بات یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی کو زخمی کرنے والا ابن قمیہ اور ہونٹ اور دانتوں پر صدمہ پہچانے والا عتبہ بن ابی وقاص تھا ۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ میرے والد سیدنا ابوبکررضی اللہ عنہ جب احد کا ذکر فرماتے تو صاف کہتے کہ اس دن کی تمام تر فضیلت کا سہرا طلحہ رضی اللہ عنہ کے سر ہے میں جب لوٹ کر آیا تو میں نے دیکھا کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت میں جان ٹکائے لڑ رہا ہے میں نے کہا اللہ کرے یہ طلحہ ہو اب جو قریب آ کر دیکھا تو طلحہ ہی تھے رضی اللہ عنہ۔ میں نے کہا الحمداللہ! میری ہی قوم کا ایک شخص ہے میرے اور مشرکوں کے درمیان ایک شخص تھا جو مشرکین میں کھڑا ہوا تھا لیکن اس کے بےپناہ حملے مشرکوں کی ہمت توڑ رہے تھے غور سے دیکھا تو وہ سیدنا عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ تھے ، اب جو میں نے بغور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھا تو آپ کے سامنے کے دانت ٹوٹ گئے ہیں چہرہ زخمی ہو رہا ہے اور پیشانی میں زرہ کی دو کڑیاں کھب گئی ہیں میں آپ کی طرف لپکا لیکن آپ نے فرمایا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کی خبر لو میں نے چاہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے میں سے دونوں کڑیاں نکالوں لیکن ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے مجھے قسم دے کر روک دیا اور خود قریب آئے اور ہاتھ سے نکالنے میں زیادہ تکلیف محسوس کر کے دانتوں سے پکڑ کر ایک کو نکال لیا لیکن اس میں ان کا دانت بھی ٹوٹ گیا میں نے اب پھر چاہا کہ دوسری میں نکال لوں لیکن ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے پھر قسم دی تو میں رک رہا انہوں نے پھر دوسری کڑی نکالی اب کی مرتبہ بھی ان کے دانت ٹوٹے اس سے فارغ ہو کر ہم طلحہ کی طرف متوجہ ہوئے ہم نے دیکھا کہ ستر سے زیادہ زخم انہیں لگ چکے ہیں انگلیاں کٹ گئی ہیں ہم نے پھر ان کی بھی خبر لی (طیالسی:6:ضعیف) ۱؎ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زخم کا خون سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے چوسا تاکہ خون تھم جائے پھر ان سے کہا گیا کہ کلی کر ڈالو لیکن انہوں نے کہا اللہ کی قسم میں کلی نہ کروں گا پھر میدان جنگ میں چلے گئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر کوئی شخص جنتی شخص کو دیکھنا چاہتا ہو تو انہیں دیکھ لے چنانچہ یہ اسی میدان میں شہید ہوئے ،(دلائل النبوۃ للبیہقی:266/5:ضعیف مرسل) ۱؎ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ زخمی ہوا سامنے کے دانت ٹوٹے سر کا خود ٹوٹا ، فاطمہ خون دھوتی تھیں اور علی ڈھال میں پانی لا لا کر ڈالتے جاتے تھے جب دیکھا کہ خون کسی طرح تھمتا ہی نہیں تو فاطمہ نے بوریا جلا کر اس کا راکھ زخم پر رکھ دی جس سے خون بند ہوا ۔(صحیح بخاری:2911) ۱؎ پھر فرماتا ہے ، تمہیں غم پر غم پہنچا « بِغَمِّ»کا «با» معنی میں «علیٰ » کے ہے جیسے آیت « فِی جُذُوعِ النَّخْلِ وَلَتَعْلَمُنَّ» (20-طہ:71) میں «فِی» معنی میں علیٰ کے ہے ، ایک غم تو شکست کا تھا جبکہ یہ مشہور ہو گیا کہ ( اللہ نہ کرے ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جان پر بن آئی ، دوسرا غم مشرکوں کو پہاڑ کے اوپر غالب آ کر چڑھ جانے کا جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے یہ بلندی کے لائق نہ تھے ، عبدالرحمٰن بن عوف فرماتے ہیں ایک غم شکست کا دوسرا غم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی خبر کا اور یہ غم پہلے غم سے زیادہ تھا ، اسی طرح یہ بھی ہے کہ ایک غم تو غنیمت کا ہاتھ میں آ کر نکل جانے کا تھا دوسرا شکست ہونے کا اسی طرح ایک اپنے بھائیوں کے قتل کا غم دوسرا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت ایسی منحوس خبر کا غم ۔ پھر فرماتا ہے جو غنیمت اور فتح مندی تمہارے ہاتھ سے گئی اور جو زخم و شہادت ملی اس پر غم نہ کھاؤ اللہ سبحانہ و تعالیٰ جو بلندی اور جلال والا ہے وہ تمہارے اعمال سے خبردار ہے ۔ آل عمران
150 آل عمران
151 آل عمران
152 آل عمران
153 آل عمران
154 تلواروں کے سایہ میں ایمان کی جانچ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر اس غم و رنج کے وقت جو احسان فرمایا تھا اس کا بیان ہو رہا ہے کہ اس نے ان پر اونگھ ڈال دی ہتھیار ہاتھ میں ہیں دشمن سامنے ہے لیکن دل میں اتنی تسکین ہے کہ آنکھیں اونگھ سے جھکی جا رہی ہیں جو امن و امان کا نشان ہے جیسے سورۃ الانفال میں بدر کے واقعہ میں ہے آیت «إِذْ یُغَشِّیکُمُ النٰعَاسَ أَمَنَۃً مِّنْہُ» (8-الأنفال:11) یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے امن بصورت اونگھ نازل ہوئی ۔اور نماز میں اونگھ کا آنا شیطانی حکمت ہے ۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں لڑائی کے وقت ان کی اونگھ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے ہے اور نماز میں اونگھ کا آنا شیطانی حکمت ہے ، سیدنا ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ احد والے دن مجھے اس زور کی اونگھ آنے لگی کہ بار بار تلوار میرے ہاتھ سے چھوٹ گئی آپ فرماتے ہیں جب میں نے آنکھ اٹھا کر دیکھا تو تقریباً ہر شخص کو اسی حالت میں پایا ،(صحیح بخاری:4068) ۱؎ ہاں البتہ ایک جماعت وہ بھی تھی جن کے دلوں میں نفاق تھا یہ مارے خوف و دہشت کے ہلکان ہو رہے تھے اور ان کی بدگمانیاں اور برے خیال حد کو پہنچ گئے تھے ۔(سنن ترمذی:3008،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ۱؎ پس اہل ایمان ،اہل یقین ،اہل ثبات، اہل توکل اور اہل صدق تو یقین کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ضرور مدد کرے گا اور ان کی منہ مانگی مراد پوری ہو کر رہے گی لیکن اہل نفاق، اہل شک ، بےیقین ، ڈھلمل ایمان والوں کی عجب حالت تھی ان کی جان عذاب میں تھی وہ ہائے وائے کر رہے تھے اور ان کے دل میں طرح طرح کے وسواس پیدا ہو رہے تھے انہیں یقین کامل ہو گیا تھا کہ اب مرے ، وہ جان چکے تھے کہ رسول اور مومن ( نعوذ باللہ ) اب بچ کر نہیں جائیں گے ، اب بچاؤ کی کوئی صورت نہیں۔ فی الواقع منافقوں کا یہی حال ہے۔ کہ جہاں جیسا کہ آیت میں ہے کہ «بَلْ ظَنَنتُمْ أَن لَّن یَنقَلِبَ الرَّسُولُ وَالْمُؤْمِنُونَ إِلَیٰ أَہْلِیہِمْ أَبَدًا» ( 48-الفتح : 12 ) اب بچاؤ کی کوئی صورت نہیں ، فی الواقع منافقوں کا یہی حال ہے کہ جہاں ذرا نیچا پانسہ دیکھا تو ناامیدی کی گھٹگھور گھٹاؤں نے انہیں گھیر لیا ان کے برخلاف ایماندار بد سے بد تر حالت میں بھی اللہ تعالیٰ سے نیک گمان رکھتا ہے ۔ ان کے دلوں کے خیالات یہ تھے کہ اگر ہمارا کچھ بھی بس چلتا تو آج کی موت سے بچ جاتے اور چپکے چپکے یوں کہتے بھی تھے سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ اس سخت خوف کے وقت ہمیں تو اس قدر نیند آنے لگی کہ ہماری ٹھوڑیاں سینوں سے لگ گئیں میں نے اپنی اسی حالت میں معتب بن قشیر کے یہ الفاظ سنے کہ اگر ہمیں کچھ بھی اختیار ہوتا تو یہاں قتل نہ ہوتے (تفسیر ابن جریر الطبری:8093:حسن) ۱؎ اللہ تعالیٰ انہیں فرماتا ہے کہ یہ تو اللہ تعالیٰ کے فیصلے ہیں مرنے کا وقت نہیں ٹلتا گو تم گھروں میں ہوتے لیکن پھر بھی جن پر یہاں کٹنا لکھا جا چکا ہوتا وہ گھروں کو چھوڑ کر نکل کھڑے ہوئے اور یہاں میدان میں آ کر ڈٹ گئے اور اللہ کا لکھا پورا اترا ۔ یہ وقت اس لیے تھا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں کے ارادوں اور تمہارے مخفی بھیدوں کو بے نقاب کردے ، اس آزمائش سے بھلے اور برے نیک اور بد میں تمیز ہو گئی ، اللہ تعالیٰ جو دلوں کے بھیدوں اور ارادوں سے پوری طرح واقف ہے اس نے اس ذرا سے واقعہ سے منافقوں کو بے نقاب کر دیا اور مسلمانوں کا بھی ظاہری امتحان ہو گیا ، اب سچے مسلمانوں کی لغزش کا بیان ہو رہا ہے جو انسانی کمزوری کی وجہ سے ان سے سرزد ہوئی فرماتا ہے شیطان نے یہ لغزش ان سے کرا دی دراصل یہ سب ان کے عمل کا نتیجہ تھا نہ یہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرتے نہ ان کے قدم اکھڑتے ، انہیں اللہ تعالیٰ معذور جانتا ہے اور ان سے اس نے درگزر فرما لیا اور ان کی اس خطا کو معاف کر دیا اللہ کا کام ہی درگزر کرنا بخشنا معاف فرمانا، حلم اور بربادی برتنا تحمل اور عفو کرنا ہے اس سے معلوم ہوا کہ عثمان وغیرہ کی اس لغزش کو اللہ تعالیٰ نے معاف فرما دیا ۔ مسند احمد میں ہے کہ ولید بن عقبہ نے ایک مرتبہ سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے کہا آخر تم امیر المؤمنین سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے اس قدر کیوں بگڑے ہوئے ہو ؟ انہوں نے کہا اس سے کہ دو کہ میں نے احد والے دن فرار نہیں کیا بدر کے غزوے میں غیر حاضر نہیں رہا اور نہ سنت عمر رضی اللہ عنہ ترک کی ، ولید نے جا کر عثمان رضی اللہ عنہ سے یہ واقعہ بیان کیا تو آپ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ قرآن کہہ رہا ہے «وَلَقَدْ عَفَا اللّٰہُ عَنْھُمْ» (3-آل عمران:155) یعنی احد والے دن کی اس لغزش سے اللہ تعالیٰ نے درگزر فرمایا پھر جس خطا کو اللہ نے معاف کر دیا اس پر عذر لانا کیا ؟ بدر والے دن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی میری بیوی رقیہ کی تیمارداری میں مصروف تھا یہاں تک کہ وہ اسی بیماری میں فوت ہو گئیں چنانچہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال غنیمت میں سے پور احصہ دیا اور ظاہر ہے کہ حصہ انہیں ملتا ہے جو موجود ہیں پس حکماً میری موجودگی ثابت ہوا ہے ، رہی سنت عمر رضی اللہ عنہ اس کی طاقت نہ مجھ میں ہے نہ عبدالرحمٰن میں ، جاؤ انہیں یہ جواب بھی پہنچا دو ۔(مسند احمد:68/1:حسن) ۱؎ آل عمران
155 آل عمران
156 باطل خیالات کی نشاندہی اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو کافروں جیسے فاسد اعتقاد رکھنے کی ممانعت فرما رہا ہے یہ کفار سمجھتے تھے کہ ان کے لوگ جو سفر میں یا لڑائی میں مرے اگر وہ سفر اور لڑائی نہ کرتے تو نہ مرتے پھر فرماتا ہے کہ یہ باطل خیال بھی ان کی حسرت و افسوس کا بڑھانے والا ہے ، دراصل موت و حیات اللہ کے ہاتھ ہے مرتا ہے اس کی چاہت سے اور زندگی ملتی ہے تو اس کے ارادے سے، تمام امور کا جاری کرنا اس کے قبضہ میں ہے اس کی قضاء و قدر ٹلتی نہیں اس کے علم سے اور اس کی نگاہ سے کوئی چیز باہر نہیں تمام مخلوق کے ہر امر کو وہ بخوبی جانتا ہے ۔ دوسری آیت بتلا رہی ہے کہ اللہ کی راہ میں قتل ہونا یا مرنا اللہ کی مغفرت و رحمت کا ذریعہ ہے اور یہ قطعاً دنیا و مافیہا سے بہتر ہے کیونکہ یہ فانی ہے اور وہ باقی اور ابدی ہے پھر ارشاد ہوتا ہے کہ خواہ کسی طرح دنیا چھوڑو مر کر یا قتل ہو کر لوٹنا تو اللہ ہی کی طرف ہے پھر اپنے اعمال کا بدلہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لو گے برا ہو تو بھلا ہو تو ۔ ! آل عمران
157 آل عمران
158 آل عمران
159 اسوہ حسنہ کے مالک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ اپنے نبی پر اور مسلمانوں پر اپنا احسان جتاتا ہے کہ نبی کے ماننے والوں اور ان کی نافرمانی سے بچنے والوں کے لیے اللہ نے نبی کے دل کو نرم کر دیا ہے اگر اس کی رحمت نہ ہوتی تو اتنی نرمی اور آسانی نہ ہوتی ، سیدنا قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں «ما» صلہ ہے جو معرفہ کے ساتھ عرب ملا دیا کرتے ہیں جیسے آیت «فَبِمَا نَقْضِہِمْ مِّیْثَاقَہُمْ» (5-المائدۃ:13) ، میں اور نکرہ کے ساتھ بھی ملا دیتے ہیں جیسے «عَمَّا قَلِیلٍ» (23-المؤمنون:40) ۱؎ میں اسی طرح یہاں ہے ، یعنی اللہ کی رحمت سے تو ان کے لیے نرم دل ہوا ہے ، حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق ہیں جن پر آپ کی بعثت ہوئی ہے ۔ یہ آیت ٹھیک اس آیت جیسی ہے «لَقَدْ جَاءَکُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِکُمْ عَزِیزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتٰمْ حَرِیصٌ عَلَیْکُم بِالْمُؤْمِنِینَ رَءُوفٌ رَّحِیمٌ» (9-التوبۃ:129) ، یعنی تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک رسول آئے جس پر تمہاری مشقت گراں گزرتی ہے جو تمہاری بھلائی کے حریص ہیں جو مومنوں پر شفقت اور رحم کرنے والے ہیں ، مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا اے ابوامامہ ! بعض مومن وہ ہیں جن کے لیے میرا دل تڑپ اٹھتا ہے ،(مسند احمد:217/5:حسن) ۱؎ «فَظًّا» سے مراد یہاں سخت کلام ہے ۔ کیونکہ اس کے بعد «غَلِیظَ الْقَلْبِ» کا لفظ ہے ، یعنی سخت دل ، فرمان ہے کہ نبی اکرم تم سخت کلام اور سخت دل ہوتے تو یہ لوگ تمہارے پاس سے منتشر ہو جاتے اور تمہیں چھوڑ دیتے لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں آپ کے جاں نثار و شیدا بنا دیا ہے اور آپ کو بھی ان کے لیے محبت اور نرمی عطا فرمائی ، اور تاکہ ان کے دل آپ سے لگے رہیں سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفتوں کو اگلی کتابوں میں بھی پاتا ہوں کہ آپ سخت کلام ، سخت دل ، بازاروں میں شور مچانے والے اور برائی کا بدلہ لینے والے نہیں بلکہ در گزر کرنے والے اور معافی دینے والے ہیں ،(صحیح بخاری:4838) ۱؎ ترمذی کی ایک غریب حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں لوگوں کی آؤ بھگت خیر خواہی اور چشم پوشی کا مجھے اللہ کی جانب سے اسی طرح کا حکم کیا گیا ہے جس طرح فرائض کی پابندی کا ۔(ابن عدی فی الکامل:15/2:ضعیف) ۱؎ چنانچہ اس آیت میں بھی فرمان ہے تو ان سے درگزر کر ، ان کے لیے استغفار کر ، اور کاموں کا مشورہ ان سے لیا کر ، اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک تھی کہ لوگوں کو خوش کرنے کے لیے اپنے کاموں میں ان سے مشورہ ان سے لیا کرتے تھے ، ، جیسے کہ بدر والے دن قافلے کی طرف بڑھنے کے لیے مشورہ لیا اور جیسے کہ بدر والے دن قافلے کی طرف بڑھنے کے لیے مشورہ کیا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا کہ اگر آپ سمندر کے کنارے پر کھڑا کر کے ہمیں فرمائیں گے کہ اس میں کود پڑو اور اس پار نکلو تو ہم سرتابی نہ کریں گے اور اگر ہمیں برک الغماد تک لے جانا چاہیں تو بھی ہم آپ کے ساتھ ہیں ہم وہ نہیں کہ موسیٰ علیہ السلام کے صحابیوں کی طرح کہدیں کہ تو اور تیرا رب لڑ لے ہم تو یہاں بیٹھے ہیں بلکہ ہم تو آپ کے دائیں بائیں صفیں باندھ کر، جم کر دشمنوں کا مقابلہ کریں گے ،(صحیح بخاری:3952) ۱؎ اسی طرح آپ نے اس بات کا مشورہ بھی لیا کہ منزل کہاں ہو ؟ اور منذر بن عمرو رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا کہ ان لوگوں سے آگے بڑھ کر ان کے سامنے ہو ، اسی طرح احد کے موقع پر بھی آپ نے مشورہ کیا کہ آیا مدینہ میں رہ کر لڑیں یا رضی اللہ عنہ باہر نکلیں اور جمہور کی رائے یہی ہوئی کہ باہر میدان میں جا کر لڑنا چاہیئے چنانچہ آپ نے یہی کیا اور آپ نے جنگ احزاب کے موقع پر بھی اپنے اصحاب سے مشورہ کیا کہ مدینہ کے پھلوں کی پیداوار کا تہائی حصہ دینے کا وعدہ کر کے مخالفین سے مصالحت کر لی جائے ؟ تو سیدنا سعد بن عبادہ اور سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہما نے اس کا انکار کیا اور آپ نے مجھے اس مشورے کو قبول کر لیا اور مصالحت چھوڑ دی ۔ اسی طرح آپ نے حدیبیہ والے دن اس امر کا مشورہ کیا کہ آیا مشرکین کے گھروں پر دھاوا بول دیں ؟ تو صدیق نے فرمایا ہم کسی سے لڑنے نہیں آئے ہمارا ارادہ صرف عمرے کا ہے چنانچہ اسے بھی آپ نے منظور فرما لیا ، اسی طرح جب منافقین نے آپ کی بیوی ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگائی تو آپ نے فرمایا اے مسلمانوں مجھے مشورہ دو کہ ان لوگوں کا میں کیا کروں جو میرے گھر والوں کو بدنام کر رہے ہیں ۔ اللہ کی قسم میرے گھر والوں میں کوئی برائی نہیں اور جس شخص کے ساتھ تہمت لگا رہے ہیں واللہ! میرے نزدیک تو وہ بھی بھلا آدمی ہے (صحیح بخاری:4757) ۱؎ اور آپ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی جدائی کے لیے سیدنا علی اور سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہما سے مشورہ لیا ، غرض لڑائی کے کاموں میں اور دیگر امور میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا کرتے تھے ، اس میں علماء کا اختلاف ہے کہ یہ مشورے کا حکم آپ کو بطور وجوب کے دیا تھا یا اختیاری امر تھا تاکہ لوگوں کے دل خوش رہیں ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اس آیت میں ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے مشورہ کرنے کا حکم ہے ۔ (مستدرک حاکم:70/3:صحیح) ۱؎ ( حاکم ) یہ دونوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حواری اور آپ کے وزیر تھے اور مسلمانوں کے باپ ہیں (ضعیف) ۱؎ ( کلبی ) مسند احمد میں ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں بزرگوں سے فرمایا اگر تمہاری دونوں کی کسی امر میں ایک رائے ہو جائے تو میں تمہارے خلاف کبھی نہ کروں گا ،(مسند احمد:227/4:ضعیف جداً) ۱؎ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوتا ہے کہ عزم کے کیا معنی ہیں تو آپ نے فرمایا جب عقلمند لوگوں سے مشورہ کیا جائے پھر ان کی مان لینا (الدار المنشور للسیوطی:160/2)۱؎ ( ابن مردویہ ) ابن ماجہ میں آپ کا یہ فرمان بھی مروی ہے کہ جس سے مشورہ کیا جائے وہ امین ہو ، ابوداؤد ترمذی نسائی وغیرہ میں بھی یہ روایت ہے امام ترمذی رضی اللہ عنہ اسے حسن کہتے ہیں ،(سنن ابوداود:5128،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ۱؎ اور روایت میں ہے کہ جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے مشورہ لے تو اسے چاہیئے بھلی بات کا مشورہ دے(سنن ابن ماجہ:3747،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ۱؎ ( ابن ماجہ ) پھر فرمایا جب تم کسی کام کا مشورہ کر چکو پھر اس کے کرنے کا پختہ ارادہ ہو جائے تو اب اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرو اللہ تعالیٰ بھروسہ کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے ۔ پھر دوسری آیت کا ارشاد بالکل اسی طرح کا ہے جو پہلے گزرا ہے کہ آیت «وَمَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِندِ اللہِ الْعَزِیزِ الْحَکِیمِ» (3-آل عمران:126) یعنی مدد صرف اللہ ہی کی طرف سے ہے جو غالب ہے اور حکمتوں والا ہے ، پھر حکم دیتا ہے کہ مومنوں کو توکل اور بھروسہ ذات باری پر ہی ہونا چاہیئے ۔ پھر فرماتا ہے نبی کو لائق نہیں کہ وہ خیانت کرے ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں بدر کے دن ایک سرخ رنگ چادر نہیں ملتی تھی تو لوگوں نے کہا شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لے لی ہو اس پر یہ آیت اتری ( ترمذی )(سنن ابوداود:3971،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ۱؎ اور روایت میں ہے کہ منافقوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کسی چیز کی تہمت لگائی تھی جس پر آیت «وَمَا کَانَ لِنَبِیٍّ أَن یَغُلَّ» (3-آل عمران:161) اتری ، پس ثابت ہوا کہ اللہ کے رسول رسولوں کے سردار صلی اللہ علیہ وسلم پر ہر قسم کی خیانت سے بیجا طرف داری سے مبرا اور منزہ ہیں خواہ وہ مال کی تقسیم ہو یا امانت کی ادائیگی ہو ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ بھی مروی ہے کہ نبی جانب داری نہیں کر سکتا کہ بعض لشکریوں کو دے اور بعض کو ان کا حصہ نہ پہنچائے ، اس آیت کی یہ تفسیر بھی کی گئی ہے کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ نبی اللہ کی نازل کردہ کسی چیز کو چھپا لے اور امت تک نہ پہنچائے ۔ یغل کے معنی اور خائن «یغل» کو “یُ“ کے پیش سے بھی پڑھا گیا ہے تو معنی یہ ہوں گے کہ نبی کی ذات ایسی نہیں کہ ان کے پاس والے ان کی خیانت کریں ، چنانچہ سیدنا قتادہ اور سیدنا ربیع رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ بدر کے دن آپ کے اصحاب نے مال غنیمت میں سے تقسیم سے پہلے کچھ لیے لیا تھا اس پر یہ آیت اتری ( ابن جریر ) پھر خائن لوگوں کو ڈرایا جاتا ہے اور سخت عذاب کی خبر دی جاتی ہے ۔ احادیث میں بھی اس کی بابت بہت کچھ سخت وعید ہے چنانچہ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ سب سے بڑا خیانت کرنے والا وہ شخص ہے جو پڑوسی کے کھیت کی زمین یا اس کے گھر کی زمین دبا لے اگر ایک ہاتھ زمین بھی ناحق اپنی طرف کر لے گا تو ساتوں زمینوں کا طوق اسے پہنایا جائے گا (مسند احمد:341/5:حسن بالشواھد) ۱؎ مسند کی ایک اور حدیث میں ہے جسے ہم حاکم بنائے اگر اس کا گھر نہ ہو تو وہ گھر بنا سکتا ہے ، بیوی نہ ہو تو کر سکتا ہے ، اس کے سوا اگر کچھ اور لے گا تو خائن ہو گا ،(مسند احمد:229/4:ضعیف) ۱؎ یہ حدیث ابوداؤد میں بھی دیگر الفاظ سے منقول ہے ،(سنن ابوداود:2945،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ۱؎ ابن جریر کی حدیث میں ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں تم میں سے اس شخص کو پہچانتا ہوں جو چلاتی ہوئی بکری کو اٹھائے ہوئے قیامت کے دن آئے گا اور میرا نام لے لے کر مجھے پکارے گا میں کہ دوں گا کہ میں اللہ تعالیٰ کے پاس تیرے کام نہیں آسکتا میں تو پہنچا چکا تھا اسے بھی میں پہچانتا ہوں جو اونٹ کو اٹھائے ہوئے آئے گا جو بول رہا ہو گا یہ بھی کہے گا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں کہوں گا میں تیرے لیے اللہ کے پاس کسی چیز کا مالک نہیں ہوں میں تو تبلیغ کر چکا تھا اور میں اسے بھی پہچانوں گا جو اسی طرح گھوڑے کو لادے ہوئے آئے گا جو ہنہنا رہا ہو گا وہ بھی مجھے پکارے گا اور میں کہ دوں گا کہ میں تو پہنچا چکا تھا آج کچھ کام نہیں آسکتا اور اس شخص کو بھی میں پہچانتا ہوں جو کھالیں لیے ہوئے حاضر ہو گا اور کہہ رہا ہو یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم! میں کہوں گا میں اللہ کے پاس کسی نفع کا اختیار نہیں رکھتا میں تجھے حق و باطل بتا چکا تھا ، یہ حدیث صحاح ستہ میں نہیں۔(تفسیر ابن جریر الطبری:8157:صحیح) ۱؎ مسند احمد میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ ازد کے ایک شخص کو حاکم بنا کر بھیجا جسے * ابن اللتبیہ * کہتے تھے یہ جب زکوٰۃ وصول کر کے آئے تو کہنے لگے یہ تو تمہارا ہے اور یہ مجھے تحفہ میں ملا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے ہو گئے اور فرمانے لگے ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے ہم انہیں کسی کام پر بھیجتے ہیں تو آ کر کہتے ہیں یہ تمہارا اور یہ ہمارے لیے تحفے ہے یہ اپنے گھروں میں بیٹھے رہتے پھر دیکھتے کہ انہیں تحفہ دیا ہے یا نہیں ؟ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے تم میں سے جو کوئی اس میں سے کوئی چیز بھی لے لے گا وہ قیامت کے دن اسے گردن پر اٹھائے ہوئے لائے گا اونٹ ہے تو چلا رہا ہو گا ۔ گائے ہے تو بول رہی ہو گی بکری ہے تو چیخ رہی ہو گی پھر آپ نے ہاتھ اس قدر بلند کئے کہ بغلوں کی سفیدی ہمیں نظر آنے لگی اور تین مرتبہ فرمایا اے اللہ ! کیا میں نے پہنچا دیا ؟(صحیح بخاری:2597) ۱؎ مسند احمد کی ایک ضعیف حدیث میں ہے ایسے تحصیلداروں اور حاکموں کو جو تحفے ملیں وہ خیانت ہیں (مسند احمد:424/5:صحیح بالشواھد) ۱؎ یہ روایت صرف مسند احمد میں ضعیف ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا اگلی مطول روایت کا ماحاصل ہے ترمذی میں ہے سیدنا معاذ بن جبل میں رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن میں بھیجا جب میں چل دیا تو آپ نے مجھے بلوایا جب میں واپس آیا تو فرمایا میں نے تمہیں صرف ایک بات کہنے کے لیے بلوایا ہے کہ میری اجازت کے بغیر تم جو کچھ لو گے وہ خیانت ہے اور ہر خائن اپنی خیانت کو لیے ہوئے قیامت کے دن آئے گا بس یہی کہنا تھا جاؤ اپنے کام میں لگو ،(سنن ترمذی:1335،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ۱؎ مسند احمد میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روز کھڑے ہو کر خیانت کا ذکر کیا اور اس کے بڑے بڑے گناہ اور وبال بیان فرما کر ہمیں ڈرایا پھر جانوروں کو لیے ہوئے قیامت کے دن آئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فریاد رسی کی عرض کرنے اور آپ کے انکار کر دینے کا ذکر کیا جو پہلے بیان ہو چکا ہے اس میں سونے چاندی کا ذکر بھی ہے ، یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی ہے ،(صحیح بخاری:3073)۱؎ مسند احمد میں ہے کہ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے لوگ جسے ہم عامل بنائیں اور پھر وہ ہم سے ایک سوئی یا اس سے بھی ہلکی چیز چھپائے تو وہ خیانت ہے جسے لے کر وہ قیامت کے دن حاضر ہو گا ، یہ سن کر ایک سانولے رنگ کے انصاری سیدنا سعید بن عبادہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہو کر کہنے لگے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں تو عامل بننے سے دستبردار ہوتا ہوں ، فرمایا کیوں ؟ کہا آپ نے جو اس طرح فرمایا ، آپ نے فرمایا ہاں اب بھی سنو! ہم کوئی کام سونپیں اسے چاہیئے کہ تھوڑا بہت سب کچھ لائے جو اسے دیا جائے وہ لے لے اور جس سے روک دیا جائے رک جائے ، یہ حدیث مسلم اور ابوداؤد میں بھی ہے۔ (صحیح مسلم:1833) ۱؎ سیدنا رافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عموماً نماز عصر کے بعد بنو عبدالاشہل کے ہاں تشریف لے جاتے تھے اور تقریباً مغرب تک وہیں مجلس رہتی تھی ایک دن مغرب کے وقت وہاں سے واپس چلے وقت تنگ تھا تیز تیز چل رہے تھے بقیع میں آ کر فرمانے لگے تف ہے تجھے تف ہے تجھے میں سمجھا آپ مجھے فرما رہے ہیں چنانچہ میں اپنے کپڑے ٹھیک ٹھاک کرنے لگا اور پیچھے رہ گیا بلکہ یہ قبر فلاں شخص کی ہے اسے میں نے قبیلے کی طرف عامل بنا کر بھیجا تھا اس نے ایک چادر لے لی وہ چادر اب آگ بن کر اس کے اوپر بھڑک رہی ہے ۔ ( مسند احمد ) (مسند احمد:392/6:صحیح) ۱؎ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مال غنیمت کے اونٹ کی پیٹھ کے چند بال لیتے پھر فرماتے میرا بھی اس میں وہی حق ہے جو تم میں سے کسی ایک کا ، خیانت سے بچو خیانت کرنے والے کی رسوائی قیامت کے دن ہو گی سوئی دھاگے تک پہنچا دو اور اس سے حقیر چیز بھی اللہ تعالیٰ کی راہ میں نزدیک والوں اور دور والوں سے جہاد کرو ، وطن میں بھی اور سفر میں بھی جہاد جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے جہاد کی وجہ سے اللہ تعالیٰ مشکلات سے اور رنج و غم سے نجات دیتا ہے ، اللہ کی حدیں نزدیک و دور والوں میں جاری کرو اللہ کے بارے میں کسی ملامت کرنے کی ملامت تمہیں نہ روکے ( مسند احمد ) اس حدیث کا بعض حصہ ابن ماجہ میں بھی مروی ہے ، (مسند احمد:330/5:صحیح) ۱؎ سیدنا ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عامل بنا کر بھیجنا چاہا تو فرمایا اے ابومسعود! جاؤ ایسا نہ ہو کہ میں تمہیں قیامت کے دن اس حال میں پاؤں کہ تمہاری پیٹھ پر اونٹ ہو جو آواز نکال رہا ہو جسے تم نے خیانت سے لے لیا ہو ، میں نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پھر تو میں نہیں جاتا آپ نے فرمایا اچھا میں تمہیں زبردستی بھیجتا بھی نہیں ( ابوداؤد ) (سنن ابوداود:2947،قال الشیخ الألبانی:صحیح)۱؎ ابن مردویہ میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اگر کوئی پتھر جہنم میں ڈالا جائے تو ستر سال تک چلتا رہے لیکن تہہ کو نہیں پہنچتا خیانت کی چیز کو اسی طرح جہنم میں پھینک دیا جائے گا ، پھر خیانت والے سے کہا جائے گا جا اسے لے آ ، یہی معنی ہیں اللہ کے اس فرمان کے آیت «وَمَن یَغْلُلْ یَأْتِ بِمَا غَلَّ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ» (3-آل عمران:161) ۱؎ مسند احمد میں ہے کہ خیبر کی جنگ والے دن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آنے لگے اور کہنے لگے فلاں شہید ہے فلاں شہید ہے جب ایک شخص کی نسبت یہ کہا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہرگز نہیں میں نے اسے جہنم میں دیکھا ہے کیونکہ اس نے غنیمت کے مال کی ایک چادر خیانت کر لی تھی پھر آپ نے فرمایا اے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تم جاؤ اور لوگوں میں منادی کر دو کہ جنت میں صرف ایماندار ہی جائیں گے چنانچہ میں چلا اور سب میں یہ ندا کر دی ، یہ حدیث مسلم اور ترمذی میں بھی ہے امام ترمذی اسے حسن صحیح کہتے ہیں ۔(صحیح مسلم:114) ۱؎ ابن جریر میں ہے کہ ایک دن عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ سے صدقات کے بارے میں تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نہیں سنا ؟ کہ آپ نے صدقات میں خیانت کرنے والے کی نسبت فرمایا اس میں جو شخص اونٹ یا بکری لے لے وہ قیامت والے دن اسے اٹھائے ہوئے آئے گا ۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہاں یہ روایت ابن ماجہ میں بھی ہے ،(سنن ابن ماجہ:1810،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ۱؎ ابن جریر میں سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہیں صدقات وصول کرنے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجنا چاہا اور فرمایا اے سعد رضی اللہ عنہ ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن تو بلبلاتے اونٹ کو اٹھا کر لائے تو سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ نہ میں اس عہدہ کو لوں اور نہ ایسا ہونے کا احتمال رہے چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کام سے انہیں معاف رکھا ،(تفسیر ابن جریر الطبری:8162:صحیح) ۱؎ مسند احمد میں ہے کہ مسلمہ بن عبدالملک رحمہ اللہ کے ساتھ روم کی جنگ میں سیدنا سالم بن عبداللہ رحمہ اللہ بھی تھے ایک شخص کے اسباب میں کچھ خیانت کا مال بھی نکلا سردارِ لشکر نے سیدنا سالم رحمہ اللہ سے اس کے بارے میں فتویٰ پوچھا تو آپ نے فرمایا مجھ سے میرے باپ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اور ان سے ان کی باپ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کے اسباب میں تم چوری کا مال پاؤ اسے جلا دو ، راوی کہتا ہے میرا خیال ہے یہ بھی فرمایا اور اسے سزا دو ، چنانچہ جب اس کا مال بازار میں نکالا تو اس میں ایک قرآن شریف بھی تھا سیدنا سالم رضی اللہ عنہ سے پھر اس کی بابت پوچھا گیا آپ نے فرمایا اسے بیچ دو اور اس کی قیمت صدقہ کر دو ، یہ حدیث ابوداؤد اور ترمذی میں بھی ہے ،(مسند احمد:22/1:ضعیف) ۱؎ امام علی بن مدینی اور امام بخاری رحمہ اللہ علیہم وغیرہ فرماتے ہیں یہ حدیث منکر ہے ، امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں صحیح یہ ہے کہ یہ سیدنا سالم رحمہ اللہ کا اپنا فتویٰ ہے ، سیدنا امام احمد رحمہ اللہ اور ان کے ساتھیوں کا قول بھی یہی ہے ، سیدنا حسن رضی اللہ عنہ بھی یہی کہتے ہیں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس کا اسباب جلا دیا جائے اور اسے مملوک کی حد سے کم مارا جائے اور اس کا حصہ نہ دیا جائے ، ابوحنیفہ ،مالک، شافعی رحمہ اللہ علیہم اور جمہور کا مذہب اس کے برخلاف ہے یہ کہتے ہیں اس کا اسباب نہ جلایا جائے بلکہ اس کے مثل اسے تعزیر یعنی سزا دی جائے ، امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خائن کے جنازے کی نماز سے انکار کر دیا اور اس کا اسباب نہیں جلایا ، واللہ اعلم مسند احمد میں ہے کہ قرآن شریف کے جب تغیر کا حکم کیا گیا تو سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرمانے لگے تم میں سے جس سے ہو سکے وہ اسے چھپا کر رکھ لے کیونکہ جو شخص جس چپز کو چھپا کر رکھ لے گا اسی کو لے کر قیامت کے روز آئے گا ، پھر فرمانے لگے میں نے ستر دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی پڑھا ہے پس کیا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پڑھائی ہوئی قرأت کو چھوڑ دوں ؟ (مسند احمد:414/1:صحیح موقوف) ۱؎ امام وکیع رحمہ اللہ بھی اپنی تفسیر میں اسے لائے ہیں ، ابوداؤد میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ جب مال غنیمت آتا تو آپ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیتے اور وہ لوگوں میں منادی کرتے کہ جس جس کے پاس جو جو ہو لے آئے پھر آپ اس میں سے پانچواں حصہ نکال لیتے اور باقی کو تقسیم کر دیتے ۔ ایک مرتبہ ایک شخص اس کے بعد بالوں کا ایک گچھا لے کر آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس یہ رہ گیا تھا آپ نے فرمایا کیا تو نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کی منادی سنی تھی ؟ جو تین مرتبہ ہوئی تھی اس نے کہا ہاں فرمایا پھر تو اس وقت کیوں نہ لایا ؟ اس نے عذر بیان کیا آپ نے فرمایا اب میں ہرگز نہ لوں گا تو ہی اسے لے کر قیامت کے دن آنا ۔(سنن ابوداود:2712،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ۱؎ اللہ دو عالم پھر فرماتا ہے کہ اللہ کی شرع پر چل کر، اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے مستحق ہونے والے ،اس کے ثوابوں کو حاصل کرنے والے اس کے عذابوں سے بچنے والے اور وہ لوگ جو اللہ کے غضب کے مستحق ہوئے اور جو مر کر جہنم میں ٹھکانا پائیں گے کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں ؟ قرآن کریم میں دوسری جگہ ہے کہ اللہ کی باتوں کو حق ماننے والا اور اس سے اندھا رہنے والا برابر نہیں ، اسی طرح فرمان ہے کہ جن سے اللہ کا اچھا وعدہ ہو چکا ہے اور جو اسے پانے والا ہے وہ اور دنیا کا نفع حاصل کرنے والا برابر نہیں ۔ پھر فرماتا ہے کہ بھلائی اور برائی والے مختلف درجوں پر ہیں ،(تفسیر ابن ابی حاتم:646/2) ۱؎ وہ جنت کے درجوں میں ہیں اور یہ جہنم کے طبقوں میں ، جیسا کہ دوسری جگہ ہے آیت «وَلِکُلٍّ دَرَجٰتٌ مِّمَّا عَمِلُوْا» (6-الأنعام:32) ہر ایک کے لیے ان کے اعمال کے مطابق درجات ہیں ۔ پھر فرمایا اللہ ان کے اعمال دیکھ رہا ہے اور عنقریب ان سب کو پورا بدلہ دے گا نہ نیکی ماری جائے گی اور نہ بدی بڑھائی جائے گی بلکہ عمل کے مطابق ہی جزا سزا ہو گی ۔ پھر فرماتا ہے کہ مومنوں پر اللہ کا بڑا احسان ہے کہ انہی کی جنس سے ان میں اپنا پیغمبر بھیجا تاکہ یہ اس سے بات چیت کر سکیں ، پوچھ گچھ کر سکیں، ساتھ بیٹھ اٹھ سکیں اور پوری طرح نفع حاصل کر سکیں ، جیسے اور جگہ ہے آیت «وَمِنْ اٰیٰتِہٖٓ اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوْٓا اِلَیْہَا وَجَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّۃً وَّرَحْمَۃً» (30-الروم:21)، یہاں بھی یہی مطلب ہے کہ تمہاری جنس سے تمہارے جوڑے اس نے پیدا کئے اور جگہ ہے آیت «قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوْحٰٓی اِلَیَّ اَنَّمَآ اِلٰــہُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ» (18-الکہف:110) ، کہ دے کہ میں تو تم جیسا ہی انسان ہوں میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تم سب کا معبود ایک ہی ہے ، اور فرمان ہے «وَمَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَکَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّآ اِنَّہُمْ لَیَاْکُلُوْنَ الطَّعَامَ وَیَمْشُوْنَ فِی الْاَسْوَاقِ» (25-الفرقان:20) یعنی تم سے پہلے جتنے بھی رسول ہم نے بھیجے وہ سب کھانا کھاتے تھے اور بازاروں میں چلتے پھرتے تھے ۔ اور جگہ ہے «وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِکَ إِلَّا رِجَالًا نٰوحِی إِلَیْہِم مِّنْ أَہْلِ الْقُرَیٰ» (12-یوسف:109) یعنی تجھ سے پہلے بھی ہم نے مردوں کو وحی کی تھی جو بستیوں کے رہنے والے تھے اور ارشاد ہے «یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اَلَمْ یَاْتِکُمْ رُسُلٌ مِّنْکُمْ یَقُصٰوْنَ عَلَیْکُمْ اٰیٰتِیْ وَیُنْذِرُوْنَکُمْ لِقَاءَ یَوْمِکُمْ ھٰذَا» (6-الأنعام:130) یعنی اے جنو اور انسانو! کیا تمہارے پاس تم میں سے ہی رسول نہیں آئے تھے ؟ الغرض یہ پورا احسان ہے کہ مخلوق کی طرف انہی میں سے رسول بھیجے گئے تاکہ وہ پاس بیٹھ اٹھ کر بار بار سوال جواب کر کے پوری طرح دین سیکھ لیں ۔ پس اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ وہ اللہ کی آیتیں یعنی قرآن کریم انہیں پڑھاتا ہے اور اچھی باتوں کا حکم دے کر اور برائیوں سے روک کر ان کی جانوں کی پاکیزگی کرتا ہے اور شرک و جاہلیت کی ناپاکی کے اثرات سے زائل کرتا ہے اور انہیں کتاب اور سنت سکھاتا ہے ۔ اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے پہلے تو یہ صاف بھٹکے ہوئے تھے ظاہر برائی اور پوری جہالت میں تھے ۔ آل عمران
160 آل عمران
161 آل عمران
162 آل عمران
163 آل عمران
164 آل عمران
165 غزوات سچے مسلمان اور منافق کو بےنقاب کرنے کا ذریعہ بھی تھے یہاں جس مصیبت کا بیان ہو رہا ہے یہ احد کی مصیبت ہے جس میں ستر صحابہ رضی اللہ عنہم شہید ہوئے تھے اور اس سے دوگنی مصیبت مسلمانوں نے کافروں کو پہنچائی تھے بدر والے ستر کافر قتل کیے گئے تھے اور ستر قید کیے گئے تھے تو مسلمان کہنے لگے کہ یہ مصیبت کیسے آ گئی ؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ تمہاری اپنی طرف سے ہے ، سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ بدر کے دن مسلمانوں نے فدیہ لے کر جن کفار کو چھوڑ دیا تھا اس کی سزا میں اگلے سال ان میں سے ستر مسلمان شہید کئے گئے اور صحابہ میں افراتفری پڑ گئی ، حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کے چار دانت ٹوٹ گئے آپ کے سر مبارک پر خود تھا وہ بھی ٹوٹا اور چہرہ مبارک لہولہان ہو گیا ، اس کا بیان اس آیت مبارکہ میں ہو رہا ہے ۔(مسند احمد: 1 /31-30)۱؎ ( ابن ابی حاتم ، مسند احمد بن حنبل ) سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جبرائیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور فرمایا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی قوم کا کفار کو قیدی بنا کر پکڑ لینا اللہ تعالیٰ کو پسند نہ آیا اب انہیں دو باتوں میں سے ایک کے اختیار کر لینے کا حکم دیجئیے یا تو یہ کہ ان قیدیوں کو مار ڈالیں یا یہ کہ ان سے فدیہ وصول کر کے چھوڑ دیں مگر پھر ان مسلمانوں سے اتنی ہی تعداد شہید ہو گی حضور علیہ السلام نے لوگوں کو جمع کر کے دونوں باتیں پیش کیں تو انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ لوگ ہمارے قبائل کے ہیں ہمارے رشتے دار بھائی ہیں ہم کیوں نہ ان سے فدیہ لے کر انہیں چھوڑ دیں اور اس مال سے ہم طاقت ، قوت حاصل کر کے اپنے دوسرے دشمنوں سے جنگ کریں گے اور پھر جو ہم میں سے اتنے ہی آدمی شہید ہوں گے تو اس میں ہماری کیا برائی ہے ؟ چنانچہ جرمانہ وصول کر کے ستر قیدیوں کو چھوڑ دیا اور ٹھیک ستر ہی کی تعداد مسلمانوں کی اس کے بعد غزوہ احد میں شہید ہوئی ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:8190:صحیح) ۱؎ ( ترمذی نسائی ) پس ایک مطلب تو یہ ہوا کہ خود تمہاری طرف سے یہ سب ہوا یعنی تم نے بدر کے قیدیوں کو زندہ چھوڑنا اور ان سے جرمانہ جنگ وصول کرنا اس شرط پر منظور کیا تھا کہ تمہارے بھی اتنے ہی آدمی شہید ہوں وہ شہید ہوئے ، دوسرا مطلب یہ ہے کہ تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی تھی اس باعث تمہیں یہ نقصان پہنچا تیر اندازوں کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا کہ وہ اپنی جگہ سے نہ ہٹیں لیکن وہ ہٹ گئے ، اللہ تعالیٰ ہرچیز قادر ہے جو چاہے کرے ، جو ارادہ ہو حکم دے کوئی نہیں جو اس کا حکم ٹال سکے ۔ دونوں جماعتوں کی مڈبھیڑ کے دن جو نقصان تمہیں پہنچا کہ تم دشمنوں کے مقابلے سے بھاگ کھڑے ہوئے تم میں سے بعض لوگ شہید بھی ہوئے اور زخمی بھی ہوئے یہ سب اللہ تعالیٰ کی قضاء و قدر سے تھا اس کی حکمت اس کی مقتضی تھی ، اس کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ ثابت قدم غیر متزلزل ایمان والے صابر بندے بھی معلوم ہو جائیں اور منافقین کا حال بھی کھل جائے جیسے عبداللہ بن ابی بن سلول اور اس کے ساتھی جو راستے میں ہی لوٹ گئے ۔ ایک مسلمان نے انہیں سمجھایا بھی کہ آؤ ، اللہ کی راہ میں جہاد کرو یا کم از کم ان حملہ اوروں کو تو ہٹاؤ لیکن انہوں نے ٹال دیا کہ ہم تو فنونِ جنگ سے بے خبر ہیں اگر جانتے ہوتے تو ضرور تمہارا ساتھ ، یہ بھی مدافعت میں تھا کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ تو رہتے جس سے مسلمانوں کی گنتی زیادہ معلوم ہوتی ، یا دعائیں کرتے رہتے یا تیاریاں ہی کرتے ، ان کے جواب کا ایک مطلب یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اگر ہمیں معلوم ہوتا کہ تم سچ مچ دشمنوں سے لڑو گے تو تو ہم بھی تمہارا ساتھ دیتے لیکن ہم جانتے ہیں کہ لڑائی ہونے کی ہی نہیں سیرۃ محمد بن اسحاق میں ہے کہ ایک ہزار آدمی لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میدان احد کی جانب بڑھے آدھے راستے میں عبداللہ ابی بن سلول بگڑ بیٹھا اور کہنے لگا اوروں کی مان لی اور مدینہ سے نکل کھڑے ہوئے اور میری نہ مانی اللہ کی قسم ہمیں نہیں معلوم کہ ہم کس فائدے کو نظر انداز رکھ کر اپنی جانیں دیں ؟ لوگو کیوں جانیں کھو رہے ہو جس قدر نفاق اور شک و شبہ والے لوگ تھے اس کی آواز پر لگ گئے اور تہائی لشکر لے کر یہ پلید واپس لوٹ گیا ، سیدنا عبداللہ بن عمرو بن حرام رضی اللہ عنہ بنو سلمہ کے بھائی ہر چند انہیں سمجھاتے رہے کہ اے میری قوم اپنے نبی کو ، اپنی قوم کو رسوا نہ کروا انہیں دشمنوں کے سامنے چھوڑ کر پیٹھ نہ پھیرو لیکن انہوں نے بہانہ بنا دیا کہ ہمیں معلوم ہے کہ لڑائی ہونے ہی کی نہیں جب یہ بیچارے عاجز آ گئے تو فرمانے لگے جاؤ تمہیں اللہ غارت کرے اللہ کے دشمنو ! تمہاری کوئی حاجت نہیں اللہ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مددگار ہے چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی انہیں چھوڑ کر آگے بڑھ گئے ۔(تفسیر ابن جریر الطبری:8192) ۱؎ جناب باری ارشاد فرماتا ہے کہ وہ اس دن بہ نسبت ایمان کے کفر سے بہت ہی نزدیک تھے ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے احوال مختلف ہیں کبھی وہ کفر سے قریب جاتا ہے اور کبھی ایمان کے نزدیک ہو جاتا ہے ، پھر فرمایا یہ اپنے منہ سے وہ باتیں بناتے ہیں جو ان کے دل میں نہیں ، جیسے ان کا یہی کہنا کہ اگر ہم جنگ جانتے تو ضرور تمہارا ساتھ دیتے ، حالانکہ انہیں یقینًا معلوم تھا کہ مشرکین دور دراز سے چڑھائی کر کے مسلمانوں کو نیست و نابود کر دینے کی ٹھان کر آئے ہیں وہ بڑے جلے کٹے ہوئے ہیں کیونکہ ان کے سردار بدر والے دن میدان میں رہ گئے تھے اور ان کے اشراف قتل کر دئیے گئے تھے تو اب وہ ان ضعیف مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے ہیں اور یقیناً جنگ عظیم برپا ہونے والی ہے ۔ پس جناب باری فرماتا ہے ان کے دلوں کی چھپی ہوئی باتوں کا مجھے بخوبی علم ہے ، یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے بھائیوں کے بارے میں کہتے ہیں اگر یہ ہمارا مشورہ مانتے یہیں بیٹھے رہتے اور جنگ میں شرکت نہ کرتے تو ہرگز نہ مارے جاتے ، اس کے جواب میں جناب باری جل و علا کا ارشاد ہوتا ہے کہ اگر یہ ٹھیک ہے اور تم اپنی اس بات میں سچے ہو کہ بیٹھ رہنے اور میدان جنگ میں نہ نکلنے سے انسان قتل و موت سے بچ جاتا ہے تو چاہیئے کہ تم مرو ہی نہیں اس لیے کہ تم گھروں میں بیٹھے ہو لیکن ظاہر ہے کہ ایک روز تم بھی چل بسو گے چاہے تم مضبوط برجوں میں پناہ گزین ہو جاؤ پس ہم تو تمہیں تب سچا مانیں کہ تم موت کو اپنی جانوں سے ٹال دو ، سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یہ آیت عبداللہ بن ابی بن سلول اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں اتری ہے ۔(تفسیر ابن جریر الطبری:383/7) ۱؎ آل عمران
166 آل عمران
167 آل عمران
168 آل عمران
169 بیئر معونہ کے شہداء اور جنت میں ان کی تمنا؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ گو شہید فی سبیل اللہ دنیا میں مار ڈالے جاتے ہیں لیکن آخرت میں ان کی روحیں زندہ رہتی ہیں اور رزق پاتی ہیں ، اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چالیس یا ستر صحابیوں کو بیئر معونہ کی طرف بھیجا تھا یہ جماعت جب اس غار تک پہنچی جو اس کنویں کے اوپر تھی تو انہوں نے وہاں پڑاؤ کیا اور آپس میں کہنے لگے کون ہے ؟ جو اپنی جان خطرہ میں ڈال کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ ان تک پہنچائے ایک صحابی رضی اللہ عنہ اس کے لیے تیار ہوئے اور ان لوگوں کے گھروں کے پاس آ کر با آواز بلند فرمایا اے بیئر معونہ والو سنو ! میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد ہوں میری گواہی ہے کہ معبود صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں یہ سنتے ہی ایک کافر اپنا تیر سنبھالے ہوئے اپنے گھر سے نکلا اور اس طرح تاک کر لگایا کہ ادھر کی پسلی سے ادھر کی پسلی میں آرپار نکل گیا ، اس صحابی رضی اللہ عنہ کی زبان سے بے ساختہ نکلا «فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ.» کعبے کے اللہ کی قسم میں اپنی مراد کو پہنچ گیا اب کفار نشانات ٹٹولتے ہوئے اس غار پر جا پہنچے اور عامر بن طفیل نے جو ان کا سردار تھا ان سب مسلمانوں کو شہید کر دیا سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ان کے بارے میں قرآن اترا کہ ہماری جانب سے ہماری قوم کو یہ خبر پہنچا دو کہ ہم اپنے رب سے ملے وہ ہم سے راضی ہو گیا اور ہم اس سے راضی ہو گئے ہم ان آیتوں کو برابر پڑھتے رہے پھر ایک مدت کے بعد یہ منسوخ ہو کر اٹھا لی گئیں اور آیت «وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیلِ اللہِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْیَاءٌ عِندَ رَبِّہِمْ یُرْزَقُونَ» (3-آل عمران:169) اتری ۔(تفسیر ابن جریر الطبری:8224) ۱؎ ( محمد بن جریر ) صحیح مسلم شریف میں ہے مسروق رحمہ اللہ فرماتے ہیں ہم نے سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے اس آیت کا مطلب پوچھا تو سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہم نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کا مطلب دریافت کیا تھا تو آپ نے فرمایا ان کی روحیں سبز رنگ پرندوں کے قالب میں ہیں ۔ عرش کی قندلیں ان کے لیے ہیں ساری جنت میں جہاں کہیں چاہیں چریں چگیں اور ان قندیلیوں میں آرام کریں ان کی طرف ان کے رب نے ایک مرتبہ نظر کی اور دریافت فرمایا کچھ اور چاہتے ہو ؟ کہنے لگے اے اللہ اور کیا مانگیں ساری جنت میں سے جہاں کہیں سے چاہیں کھائیں پئیں اختیار ہے پھر کیا طلب کریں؟ اللہ تعالیٰ نے ان سے پھر یہی پوچھا تیسری مرتبہ یہی سوال کیا جب انہوں نے دیکھا کہ بغیر کچھ مانگے چارہ ہی نہیں تو کہنے لگے اے رب ! ہم چاہتے ہیں کہ تو ہماری روحوں کو جسموں کی طرف لوٹا دے ہم پھر دنیا میں جا کر تیری راہ میں جہاد کریں اور مارے جائیں اب معلوم ہو گیا کہ انہیں کسی اور چیز کی حاجت نہیں تو ان سے پوچھنا چھوڑ دیا کہ کیا چاہتے ہو ؟(صحیح مسلم:1887) ۱؎ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو لوگ مر جائیں اور اللہ کے ہاں بہتری پائیں وہ ہرگز دنیا میں آنا پسند نہیں کرتے مگر شہید کہ وہ تمنا کرتا ہے کہ دنیا میں دوبارہ لوٹایا جائے اور دوبارہ راہ اللہ میں شہید ہو کیونکہ شہادت کے درجات کو وہ دیکھ رہا ہے ( مسند احمد ) صحیح مسلم شریف میں بھی یہ حدیث ہے ،(صحیح بخاری:2817) ۱؎ مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے فرمایا اے جابر تمہیں معلوم بھی ہے ؟ کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے والد کو زندہ کیا اور ان سے کہا اے میرے بندے مانگ کیا مانگتا ہے ؟ تو کہا اے اللہ دنیا میں پھر بھیج تاکہ میں دوبارہ تیری راہ میں مارا جاؤں ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ تو میں فیصلہ کر چکا ہوں کہ کوئی یہاں دوبارہ لوٹایا نہیں جائے گا ،(مسند احمد:361/3:حسن بالشواھد) ۱؎ ان کا نام عبداللہ بن عمرو بن حرام انصاری تھا اللہ تعالیٰ ان سے رضامند ہو۔ صحیح بخاری شریف میں ہے جابر فرماتے ہیں میرے باپ کی شہادت کے بعد میں رونے لگا اور اپنے باپ کے منہ سے کپڑا ہٹا ہٹا کر بار بار ان کے چہرے کو دیکھ رہا تھا ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم مجھے منع کرتے تھے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش تھے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جابر رو مت جب تک تیرے والد کو اٹھایا نہیں گیا فرشتے اپنے پروں سے اس پر سایہ کئے ہوئے ہیں ، (صحیح بخاری:4080) ۱؎ مسند احمد میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تمہارے بھائی احد والے دن شہید کئے گئے تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کی روحیں سبز پرندوں کے قالب میں ڈال دیں جو جنتی درختوں کے پھل کھائیں اور جنتی نہروں کا پانی پئیں اور عرش کے سائے تلے وہاں لٹکتی ہوئی قندیلوں میں آرام و راحت حاصل کریں جب کھانے پینے رہنے سہنے کی یہ بہترین نعمتیں انہیں ملیں تو کہنے لگے کاش کہ ہمارے بھائیوں کو جو دنیا میں ہیں ہماری ان نعمتوں کی خبر مل جاتی تاکہ وہ جہاد سے منہ نہ پھیریں اور اللہ کی راہ کی لڑائیوں سے تھک کر نہ بیٹھ رہیں اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا تم بے فکر رہو میں یہ خبر ان تک پہنچا دیتا ہوں چنانچہ یہ آیتیں نازل فرمائیں۔(سنن ابوداود:2520،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ۱؎ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ بھی مروی ہے کہ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ اور آپ کے ساتھیوں کے بارے میں آیتیں اتریں ( مستدرک حاکم ) یہ بھی مفسرین نے فرمایا ہے کہ احد کے شہیدوں کے بارے میں یہ آیتیں نازل ہوئیں ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:389/7) ۱؎ ابوبکر بن مردویہ میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا اور فرمانے لگے جابر کیا بات ہے کہ تم مجھے غمگین نظر آتے ہو ؟ میں نے کہا یا رسول اللہ میرے والد شہید ہو گئے جن پر بار قرض بہت ہے اور میرے چھوٹے چھوٹے بہن بھائی بہت ہیں آپ نے فرمایا سن میں تجھے بتاؤں جس کسی سے اللہ نے کلام کیا پردے کے پیچھے سے کلام کیا لیکن تیرے باپ سے آمنے سامنے بات چیت کی فرمایا مجھ سے مانگ جو مانگے گا دوں گا تیرے باپ نے کہا اللہ عزوجل میں تجھ سے یہ مانگتا ہوں کہ تو مجھے دنیا میں دوبارہ بھیجے اور میں تیری راہ میں دوسری مرتبہ شہید کیا جاؤں ، رب عزوجل نے فرمایا یہ بات تو میں پہلے ہی مقرر کر چکا ہوں کہ کوئی بھی لوٹ کر دوبارہ دنیا میں نہیں جائے گا ۔ کہنے لگے پھر اے اللہ میرے بعد والوں کو ان مراتب کی خبر پہنچا دی جائے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آیت «وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیلِ اللہِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْیَاءٌ عِندَ رَبِّہِمْ یُرْزَقُونَ» (3-آل عمران:168) فرمائی ،(سنن ترمذی:3010،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ۱؎ بیہقی میں اتنا اور زیادہ ہے کہ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں تو اے اللہ تیری عبادت کا حق بھی ادا نہیں کر سکا ۔مستدرک حاکم:203/3:ضعیف) ۱؎ مسند احمد میں ہے شہید لوگ جنت کے دروازے پر نہر کے کنارے سے سبز گنبد میں ہیں ، صبح شام انہیں جنت کی نعمتیں پہنچ جاتی ہیں ،(مسند احمد:266/1:حسن) ۱؎ دونوں احادیث میں تطبیق یہ ہے کہ بعض شہداء وہ ہیں جن کی روحیں پرندوں کے قالب میں ہیں اور بعض وہ ہیں جن کا ٹھکانا یہ گنبد ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ جنت میں سے پھرتے پھراتے یہاں جمع ہوتے ہوں اور پھر یہ کھانے یہیں کھلائے جاتے ہوں واللہ اعلم ، یہاں پر وہ حدیث بھی وارد کرنا بالکل برمحل ہو گا جس میں ہر مومن کے لیے یہی بشارت ہے چنانچہ مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مومن کی روح ایک پرند میں ہے جو جنت کے درختوں کے پھل کھاتی پھرتی ہے یہاں تک کہ قیامت والے دن جبکہ اللہ تعالیٰ سب کو کھڑا کرے تو اسے بھی اس کے جسم کی طرف لوٹا دے گا ،(سنن ابن ماجہ:4271،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ۱؎ اس حدیث کے راویوں میں تین جلیل القدر امام ہیں جو ان چار اماموں میں سے ہیں جن کے مذاہب مانے جا رہے ہیں ، ایک تو امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ آپ اس حدیث کو روایت کرتے ہیں ، امام محمد بن ادریس شافعی رحمہ اللہ سے ان کے استاد ہیں سیدنا امام مالک بن انس رضی اللہ عنہ پس امام احمد امام شافعی امام محمد بن ادریس شافعی رحمہ اللہ سے ان کے استاد ہیں ۔ امام مالک بن انس رضی اللہ عنہ پس امام احمد، امام شافعی ، امام مالک تینوں زبردست پیشوا اس حدیث کے راوی ہیں ۔ پس اس حدیث سے ثابت ہوا کہ ایمانداروں کی روح جنتی پرند کی شکل میں جنت میں رہتی ہے اور شہیدوں کی روحیں جیسے کے پہلے گزر چکا ہے سبز رنگ کے پرندوں کے قالب میں رہتی ہیں یہ روحیں مثل ستاروں کے ہیں جو عام مومنین کی روحوں کو یہ مرتبہ حاصل نہیں ، یہ اپنے طور پر آپ ہی اڑتی ہیں ، اللہ تعالیٰ سے جو بہت بڑا مہربان اور زبردست احسانوں والا ہے ہماری دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے فضل و کرم سے ایمان و اسلام پر موت دے آمین ۔ پھر فرمایا کہ یہ شہید جن جن نعمتوں اور آسائشوں میں ہیں ان سے بے حد مسرور اور بہت ہی خوش ہیں اور انہیں یہ بھی خوشی اور راحت ہے کہ ان کے بھائی بند جو ان کے بعد راہ اللہ میں شہید ہوں گے اور ان کے پاس آئیں گے انہیں آئندہ کا کچھ خوف نہ ہو گا اور اپنے پیچھے چھوڑی ہوئی چیزوں پر انہیں حسرت بھی نہ ہو گی ، اللہ ہمیں بھی جنت نصیب کرے ، سیدنا محمد بن اسحاق رحمہ اللہ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ وہ خوش ہیں کہ ان کے کئی اور بھائی بند بھی جو جہاد میں لگے ہوئے ہیں وہ بھی شہید ہو کر ان کی نعمتوں میں ان کے شریک حال ہوں گے اور اللہ کے ثواب سے فائدہ اٹھائیں گے ، سیدنا سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں شہید کو ایک کتاب دی جاتی ہے کہ فلاں دن تیرے پاس فلاں آئے گا اور فلاں دن فلاں آئے گا پس جس طرح دنیا والے اپنی کسی غیر حاضر کے آنے کی خبر سن کر خوش ہوتے ہیں اسی طرح یہ شہداء ان شہیدوں کی آنے کی خبر سے مسرور ہوتے ہیں ، سیدنا سعید بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ جب شہید جنت میں گئے اور وہاں اپنی منزلیں اور رحمتیں دیکھیں تو کہنے لگے کاش کہ اس کا علم ہمارے ان بھائیوں کو بھی ہوتا جو اب تک دنیا میں ہی ہیں تاکہ وہ جواں مردی سے جان توڑ کر جہاد کرتے اور ان جگہوں میں جا گھستے جہاں سے زندہ آنے کی امید نہ ہوتی تو وہ بھی ہماری ان نعمتوں میں حصہ دار بنتے پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو ان کے اس حال کی خبر پہنچا دی اور اللہ تعالیٰ نے ان سے کہ دیا کہ میں نے تمہاری خبر تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دی ہے اس سے وہ بہت ہی مسرور و محفوظ ہوئے بخاری مسلم میں بیر معونہ والوں کا قصہ بیان ہو چکا ہے جو ستر شخص انصاری صحابی رضی اللہ عنہم تھے اور ایک ہی دن صبح کے وقت کو بے دردی سے کفار نے تہہ تیغ کیا تھا جن قاتلوں کے حق میں ایک ماہ نماز کی قنوت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بد دعا کی تھی اور جن پر لعنت بھیجی تھی جن کے بارے میں قرآن کی یہ آیت اتری تھی کہ ہماری قوم کو ہماری خبر پہنچاؤ کہ ہم اپنے رب سے ملے وہ ہم سے راضی ہوا اور ہم اس سے راضی ہو گئے ،(صحیح بخاری:4090) ۱؎ وہ اللہ کی نعمت و فضل کو دیکھ دیکھ کر مسرور ہیں ، سیدنا عبدالرحمٰن رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ آیت «یَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَۃٍ مِّنَ اللہِ وَفَضْلٍ وَأَنَّ اللہَ لَا یُضِیعُ أَجْرَ الْمُؤْمِنِینَ» تمام ایمانداروں کے حق میں ہے خواہ شہید ہوں خواہ غیر ۔ بہت کم ایسے موقع ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں کی فضیلت اور ان کے ثوابوں کا ذکر نہ ہو ۔ پھر ان سچے مومنین کا بیان تعریف کے ساتھ ہو رہا ہے ۔ جنہوں نے حمراء اسد والے دن حکم رسول پر باوجود زخموں سے چور ہونے کے جہاد پر کمر کس لی تھی ، مشرکین نے مسلمانوں کو مصیبتیں پہنچائیں اور اپنے گھروں کی طرف واپس چل دئیے ۔ لیکن پھر انہیں اس کا خیال آیا کہ موقع اچھا تھا مسلمان ہار چکے تھے، زخمی ہو گئے تھے ان کے بہادر شہید ہو چکے تھے اگر ہم اور جم کر لڑتے تو فیصلہ ہی ہو جاتا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کا یہ ارادہ معلوم کر کے مسلمانوں کو تیار کرنے لگے کہ میرے ساتھ چلو ہم ان مشرکین کے پیچھے جائیں تاکہ ان پر رعب طاری ہو اور یہ جان لیں کہ مسلمان ابھی کمزور نہیں ہوئے احد میں جو لوگ موجود تھے صرف انہی کو ساتھ چلنے کا حکم ملا ہاں صرف سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کو ان کے علاوہ بھی ساتھ لیا اس آواز پر بھی مسلمانوں نے لبیک کہی باوجود یہ کہ زخموں میں چور اور خون میں شرابور تھے لیکن اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے لیے کمربستہ ہو گئے ، سیدنا عکرمہ رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ جب مشرکین احد سے لوٹے تو راستے میں سوچنے لگے کہ نہ تو تم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کیا نہ مسلمانوں کی عورتوں کو پکڑا افسوس تم نے کچھ نہ کیا واپس لوٹو جب یہ خبر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے مسلمانوں کو تیاری کا حکم دیا یہ تیار ہو گئے اور مشرکین کے تعاقب میں چل پڑے یہاں تک کہ حمراء الاسد تک یا “بیئر ابی عینیہ“ تک پہنچ گئے ۔ مشرکین کے دل رعب و خوف سے بھر گئے اور یہ کہہ کر مکہ کی طرف چل دئیے اگلے سال دیکھا جائے گا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی واپس مدینہ تشریف لائے ، یہ بھی بالاستقلال ایک الگ لڑائی گنی جاتی ہے اسی کا ذکر اس آیت میں ہے۔ (سنن نسائی:11083) ۱؎ احد کی لڑائی پندرہ شوال بروز ہفتہ ہوئی تھی سولہویں تاریخ بروز اتوار منادی رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ندا دی کہ لوگو! دشمن کے تعاقب میں چلو اور وہی لوگ چلیں جو کل میدان میں تھے ، اس آواز پر سیدنا جابر رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے اور عرض کرنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کل کی لڑائی میں میں نہ تھا اس لیے کہ میرے والد عبداللہ رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا بیٹے تمہارے ساتھ یہ چھوٹی چھوٹی بہنیں ہیں اسے تو نہ میں پسند کروں اور نہ تو کہ انہیں یہاں تنہا چھوڑ کر دونوں ہی چل دیں ایک جائے گا اور ایک یہاں رہے گا ۔ مجھ سے یہ نہیں ہو سکتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم رکاب تم جاؤ اور میں بیٹھا رہوں اس لیے میری خواہش ہے کہ تم اپنی بہنوں کے پاس رہو اور میں جاتا ہوں اس وجہ سے میں تو وہاں رہا اور میرے والد آپ کے ساتھ آئے اب میری عین تمنا ہے کہ آج مجھے اجازت دیجئیے کہ میں آپ کے ساتھ چلوں چنانچہ آپ نے اجازت دی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا سفر اس غرض سے تھا کہ دشمن دہل جائے اور پیچھے آتا ہوا دیکھ کر سمجھ لے کہ ان میں بہت کچھ قوت ہے اور ہمارے مقابلہ سے یہ عاجز نہیں ، قبیلہ بنو عبدالاشہل کے ایک صحابی کا بیان ہے کہ غزوہ احد میں ہم دونوں بھائی شامل تھے اور سخت زخمی ہو کر ہم لوٹے تھے ، جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے منادی نے دشمن کے پیچھے جانے کی ندا دی تو ہم دونوں بھائیوں نے آپس میں کہا کہ افسوس نہ ہمارے پاس سواری ہے کہ اس پر سوار ہو کر اللہ کے نبی کے ساتھ جائیں ، نہ زخموں کے مارے جسم میں اتنی طاقت ہے کہ پیدل ساتھ ہو لیں افسوس کہ یہ غزوہ ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا ہمارے بےشمار گہرے زخم ہمیں آج جانے سے روک دیں گے لیکن پھر ہم نے ہمت باندھی مجھے اپنے بھائی کی نسبت ذرا ہلکے زخم تھے جب میرے بھائی بالکل عاجز آ جاتے قدم نہ اٹھتا تو میں انہیں جوں توں کر کے اٹھا لیتا جب تھک جاتا اتار دیتا یونہی جوں توں کر کے ہم لشکر گاہ تک پہنچ ہی گئے ۔ ( سیرت ابن اسحاق )(تفسیر ابن جریر الطبری:8233:ضعیف) ۱؎ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے سیدنا عروہ رحمہ اللہ سے کہا اے بھانجے تیرے دونوں باپ انہی لوگوں میں سے ہیں جن کے بارے میں آیت «الَّذِینَ اسْتَجَابُوا لِلہِ وَالرَّسُولِ مِن بَعْدِ مَا أَصَابَہُمُ الْقَرْحُ لِلَّذِینَ أَحْسَنُوا مِنْہُمْ وَاتَّقَوْا أَجْرٌ عَظِیمٌ» (3-آل عمران:172) ، آیت اتری ہے یعنی سیدنا زبیر اور سیدنا صدیق رضی اللہ عنہما جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو احد کی جنگ میں نقصان پہنچا اور مشرکین آگے چلے تو آپ کو خیال ہوا کہ کہیں یہ پھر واپس نہ لوٹیں لہٰذا آپ نے فرمایا کوئی ہے جو ان کے پیچھے جائے اس پر ستر شخص اس کام کے لیے مستعد ہو گئے جن میں ایک سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے ، دوسرے سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ تھے (صحیح بخاری:4077) ۱؎ یہ روایت اور بہت سی اسناد سے بہت سی کتابوں میں ہے ، ابن مردویہ میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ تیرے دونوں باپ ان لوگوں میں سے ہیں لیکن یہ مرفوع بیان کرنا محض خطا ہے اس لیے بھی کہ اس کی اسناد میں ثقہ راویوں کا اختلاف ہے جو عائشہ رضی اللہ عنہا کے باپ دادا میں سے نہیں صحیح یہ ہے کہ یہ بات عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے بھانجے سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما کے لڑکے عروہ سے کہی ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابوسفیان کے دل میں رعب ڈال دیا اور باوجود یہ کہ کہ وہ احد کی لڑائی میں قدرے کامیاب ہو گیا تھا لیکن تاہم مکہ کی طرف چل دیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوسفیان تمہیں نقصان پہنچا کر لوٹ گیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے دل کو مرعوب کر دیا ہے ، احد کی لڑائی شوال میں ہوئی تھی اور تاجر لوگ ذی قعدہ میں مدینہ آتے تھے اور بدر صغریٰ میں اپنے ڈیرے ہر سال اس ماہ میں ڈالا کرتے تھے اس دفعہ بھی اس واقعہ کے بعد لوگ آئے مسلمان اپنے زخموں میں چور تھے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی تکالیف بیان کرتے تھے اور سخت صدمہ میں تھے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ آپ کے ساتھ چلیں اور فرمایا کہ یہ لوگ اب کوچ کر جائیں گے اور پھر حج کو آئیں گے اور پھر اگلے سال تک یہ طاقت انہیں حاصل نہیں ہو گی لیکن شیطان نے اپنے دوستوں کو دھمکانا اور بہکانا شروع کر دیا اور کہنے لگا کہ ان لوگوں نے تمہارے استیصال کے لیے لشکر تیار کر لیے ہیں جس بنا پر لوگ ڈھیلے پڑ گئے آپ نے فرمایا سنو خواہ تم میں سے ایک بھی نہ چلے میں تن تنہا جاؤں گا پھر آپ کے رغبت دلانے پر ابوبکر ، عمر ، عثمان ، علی ، زبیر ، سعد ، طلحہ ، عبدالرحمٰن بن عوف ، عبداللہ بن مسعود ، حذیفہ بن یمان ، ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہم وغیرہ ستر صحابہ آپ کے زیر رکاب چلنے پر آمادہ ہوئے ۔ یہ مبارک لشکر ابوسفیان کی جستجو میں بدر صغریٰ تک پہنچ گیا انہی کی اس فضیلت اور جاں بازی کا ذکر اس مبارک آیت میں ہے ،(تفسیر ابن جریر الطبری:8238) ۱؎ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس سفر میں مدینہ سے آٹھ میل حمراء اسد تک پہنچ گئے ۔ مدینہ میں اپنا نائب آپ نے سیدنا ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو بنایا تھا ۔ وہاں آپ نے پیر منگل بدھ تک قیام کیا پھر مدینہ لوٹ آئے ، اثناء قیام میں قبیلہ خزاعہ کا سردار معبد خزاعی یہاں سے نکلا تھا یہ خود مشرک تھا لیکن اس پورے قبیلے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صلح و صفائی تھی اس قبیلہ کے مشرک مومن سب آپ کے خیرخواہ تھے اس نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کو جو تکلیف پہنچی اس پر ہمیں سخت رنج ہے اللہ تعالیٰ آپ کو کامیابی کی خوشی نصیب فرمائے ، حمراء اسد پر آپ پہنچے مگر اس سے پہلے ابوسفیان چل دیا تھا گو اس نے اور اس کے ساتھیوں نے واپس آنے کا ارادہ کیا تھا کہ جب ہم ان پر غالب آ گئے انہیں قتل کیا مارا پیٹا زخمی کیا پھر ادھورا کام کیوں چھوڑیں؟ واپس جا کر سب کو تہ تیغ کر دیں یہ مشورے ہو ہی رہے تھے کہ معبد خزاعی وہاں پہنچا ابوسفیان نے اس سے پوچھا کہو کیا خبریں ہیں اس نے کہا آنحضور مع صحابہ رضی اللہ عنہم کے تم لوگوں کے تعاقب میں آ رہے ہیں وہ لوگ سخت غصے میں ہیں جو پہلے لڑائی میں شریک نہ تھے وہ بھی شامل ہو گئے ہیں سب کے تیور بدلے ہوئے ہیں اور بھرپور طاقت کے ساتھ حملہ آور ہو رہے ہیں میں نے تو ایسا لشکر کبھی دیکھا نہیں ، یہ سن کر ابوسفیان کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے اور کہنے لگا اچھا ہی ہوا جو تم سے ملاقات ہو گئی ورنہ ہم تو خود ان کی طرف جانے کے لیے تیار تھے ، معبد نے کہا ہرگز یہ ارادہ نہ کرو اور میری بات کا کیا ہے غالباً تم یہاں سے کوچ کرنے سے پہلے ہی لشکر اسلام کے گھوڑوں کو دیکھ لو گے میں ان کے لشکر ان کے غصے ان کی تیاری اور اوالوالعزمی کا حال بیان نہیں کر سکتا میں تو تم سے صاف کہتا ہوں کہ بھاگو اور اپنی جانیں بچاؤ میرے پاس ایسے الفاظ نہیں جن سے میں مسلمانوں کے غیظ و غضب اور تہورو شجاعت اور سختی اور پختگی کا بیان کر سکوں ، پس مختصر یہ ہے کہ جان کی خیر مناتے ہو تو فوراً یہاں سے کوچ کرو ، ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں کے چھکے چھوٹ گئے اور انہوں نے یہاں سے مکہ کی راہ لی ، قبیلہ عبدالقیس کے آدمی جو کاروبار کی غرض سے مدینہ جا رہے تھے ان سے ابوسفیان نے کہا کہ تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر پہنچا دینا کہ ہم نے انہیں تہ تیغ کر دینے کے لیے لشکر جمع کر لیے ہیں اور ہم واپس لوٹنے کا ارادہ میں ہیں ، اگر تم نے یہ پیغام پہنچا دیا تو ہم تمہیں سوق عکاظ میں بہت ساری کشمش دیں گے چنانچہ ان لوگوں نے حمراء اسد میں آ کر بطور ڈراوے کے نمک مرچ لگا کر یہ وحشت اثر خبر سنائی لیکن صحابہ رضی اللہ عنہم نے نہایت استقلال اور پامردی سے جواب دیا کہ ہمیں اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کارساز ہے ، جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے ان کے لیے ایک پتھر کا نشان مقرر کر رکھا ہے اگر یہ لوٹیں گے تو وہاں پہنچ کر اس طرح مٹ جائیں گے جیسے گزشتہ کل کا دن۔(تفسیر ابن جریر الطبری:8243) ۱؎ بعض لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ آیت بدر کے بارے میں نازل ہوئی ہے لیکن صحیح تر یہی ہے کہ حمراء اسد کے بارے میں نازل ہوئی ۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دشمنوں نے انہیں پژمردہ دل کرنے کے لیے دشمنوں کے سازو سامان اور ان کی کثرت و بہتات سے ڈرایا لیکن وہ صبر کے پہاڑ ثابت ہوئے ان کے غیر متزلزل یقین میں کچھ فرق نہ آیا بلکہ وہ تو توکل میں اور بڑھ گئی اور اللہ کی طرف نظریں کر کے اس سے امداد طلب کی ، صحیح بخاری شریف میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آیت «حَسْبُنَا اللہُ وَنِعْمَ الْوَکِیلُ» الخ ،سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے آگ میں پڑتے وقت پڑھا تھا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت جب کہ کافروں کے ٹڈی دل لشکر سے لوگوں نے آپ کو خوف زدہ کرنا چاہا اس وقت پڑھا ،(صحیح بخاری:4564) ۱؎ تعجب کی بات ہے کہ امام حاکم نے اس روایت کو رد کر کے فرمایا ہے کہ یہ بخاری مسلم میں نہیں ۔ بخاری کی ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ یہ آخری کلمہ تھا جا خلیل علیہ السلام کی زبان سے آگ میں پڑتے وقت نکلا تھا ۔(صحیح بخاری:4561) ۱؎ سیدنا انس رضی اللہ عنہ والی روایت میں ہے کہ احد کے موقع پر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار کے لشکروں کی خبر دی گئی تو آپ نے یہی کلمہ فرمایا (ضعیف) ۱؎ اور روایت میں ہے کہ سیدنا علی کی سرداری کے ماتحت جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چھوٹا سا لشکر روانہ کیا اور راہ میں خزاعہ کے ایک اعرابی نے یہ خبر سنائی تو آپ نے یہ فرمایا تھا ۔(ضعیف) ۱؎ ابن مردویہ کی حدیث میں ہے آپ فرماتے ہیں جب تم پر کوئی بہت بڑا کام آ پڑے تو تم آیت «حَسْبُنَا اللہُ وَنِعْمَ الْوَکِیلُ» آخر تک پڑھو ۔ (الدار المسشور للسیوطی:181/2:ضعیف) ۱؎ مسند احمد میں ہے کہ دو شخصوں کے درمیان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا تو جس کے خلاف فیصلہ صادر ہوا تھا اس نے یہی کلمہ پڑھا آپ نے اسے واپس بلا کر فرمایا بزدلی اور سستی پر اللہ کی ملامت ہوتی ہے دانائی دور اندیشی اور عقلمندی کیا کرو پھر کسی امر میں پھنس جاؤ تو یہی پڑھ لیا کرو ، (مسند احمد:25/6:ضعیف) ۱؎ مسند کی اور حدیث میں ہے کس طرح بے فکر اور فارغ ہو کر آرام پاؤں حالانکہ صاحب صور نے صور منہ میں لے رکھا ہے اور پیشانی جھکائے حکم اللہ کا منتظر ہے کہ کب حکم ہوا اور وہ صور پھونک دے ، صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہم کیا پڑھیں آپ نے فرمایا آیت «حَسْبُنَا اللہُ وَنِعْمَ الْوَکِیلُ عَلیٰ اللہِ تَوَّکَلَّنَا» پڑھو ۔(سنن ترمذی:2431،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ۱؎ ام المؤمنین سیدہ زینب اور ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ زینب نے فخر سے فرمایا میرا نکاح خود اللہ نے کر دیا ہے اور تمہارے نکاح ولی وارثوں نے کئے ہیں ، صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا میری برأت اور پاکیزگی کی آیت اللہ تعالیٰ نے آسمان سے اپنے پاک کلام میں نازل فرمائی ہیں۔سیدہ زینب اسے مان گئیں اور پوچھا یہ بتاؤ تم نے صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ کی سواری پر سوار ہوتے وقت کیا پڑھا تھا ، صدیقہ نے فرمایا دعا «حسبی اللہ ونعم الوکیل» یہ سن کر ام المؤمنین زینب رضی اللہ عنہا نے فرمایا تم نے ایمان والوں کا کلمہ کہا تھا ۔ چنانچہ اس آیت میں بھی رب رحیم کا ارشاد ہے کہ ان توکل کرنے والوں کی کفایت اللہ تعالیٰ نے کی اور ان کے ساتھ جو لوگ برائی کا ارادہ رکھتے تھے انہیں ذلت اور بربادی کے ساتھ پسپا کیا ، یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اپنے شہروں کی طرف بغیر کسی نقصان اور برائی کے لوٹے دشمن اپنی مکاریوں میں ناکام رہا ، ان سے اللہ خوش ہو گیا کیونکہ انہوں نے اس کی خوشی کا کام انجام دیا تھا اللہ تعالیٰ بڑے فضل و کرم والا ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے کہ نعمت تو یہ تھی کہ وہ سلامت رہے اور فضل یہ تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تاجروں کے ایک قافلہ سے مال خرید لیا جس میں بہت ہی نفع ہوا اور اس کل نفع کو آپ نے اپنے ساتھیوں میں تقسیم فرما دیا ۔(دلائل النبوۃ للبیہقی:318/3:ضعیف) ۱؎ سیدنا مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ابوسفیان نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا اب وعدے کی جگہ بدر ہے آپ نے فرمایا ممکن ہے چنانچہ وہاں پہنچے تو یہ ڈرپوک آیا ہی نہیں وہاں بازار کا دن تھا مال خرید لیا جو نفع سے بکا اسی کا نام غزوہ بدر صغریٰ ہے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:8238:مرسل ضعیف) ۱؎ پھر فرماتا ہے کہ یہ شیطان تھا جو اپنے دوستوں کے ذریعہ تمہیں دھمکا رہا تھا اور گیدڑ بھبکیاں دے رہا تمہیں چاہیئے کہ ان سے نہ ڈرو صرف میرا ہی خوف دل میں رکھو کیونکہ ایمان داری کی یہی شرط ہے کہ جب کوئی ڈرائے دھمکائے اور دینی امور سے تمہیں باز رکھنا چاہیئے تو مسلمان اللہ پر بھروسہ کرے اس کی طرف سمٹ جائے اور یقین مانے کہ کافی اور ناصر وہی ہے جیسے اور جگہ ہے آیت «اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ وَیُخَوِّفُوْنَکَ بِالَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِہٖ» (39-الزمر:36) ، کیا اللہ جل شانہ اپنے بندوں کو کافی نہیں یہ لوگ تجھے اس کے سوا اوروں سے ڈرا رہے ہیں ( یہاں تک کہ فرمایا ) تو کہہ کہ «قُلْ حَسْبِیَ اللہُ عَلَیْہِ یَتَوَکَّلُ الْمُتَوَکِّلُونَ» مجھے اللہ کافی ہے توکل کرنے والوں کو اسی پر بھروسہ کرنا چاہیئے ۔ اور جگہ فرمایا «فَقَاتِلُوا أَوْلِیَاءَ الشَّیْطَانِ إِنَّ کَیْدَ الشَّیْطَانِ کَانَ ضَعِیفًا» اولیاء شیطان سے لڑو ۔ (4-النساء:76) ۱؎ شیطان کا مکر بڑا بودا ہے ۔ اور جگہ ارشاد ہے یہ شیطانی لشکر ہے یاد رکھو شیطانی لشکر ہی گھاٹے اور خسارے میں ہے ۔ اور جگہ ارشاد ہے آیت «کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ اِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ» (58-المجادلۃ:21) ، اللہ تعالیٰ لکھ چکا ہے کہ غلبہ یقیناً مجھے اور میرے رسولوں کو ہی ہو گا اللہ قوی اور عزیز ہے ۔ اور جگہ ارشاد ہے آیت «وَلَیَنْصُرَنَّ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہٗ اِنَّ اللّٰہَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ» (22-الحج:40) جو اللہ کی مدد کرے گا اس کی امداد فرمائے گا ، اللہ قوی اور عزیز ہے۔ اور فرمان ہے «یٰٓاَیٰہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰہَ یَنْصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ اَقْدَامَکُمْ» (47-محمد:7)، اے ایمان والو اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری بھی مدد کرے گا ۔ اور آیت میں ہے «اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوۃِ الدٰنْیَا وَیَوْمَ یَقُوْمُ الْاَشْہَادُ یَوْمَ لَا یَنفَعُ الظَّالِمِینَ مَعْذِرَتُہُمْ وَلَہُمُ اللَّعْنَۃُ وَلَہُمْ سُوءُ الدَّارِ» (40-غافر:52-51 ) ، بالیقین ہم اپنے رسولوں کی اور ایمان داروں کی مدد دینا میں بھی کریں گے اور اس دن بھی جس دن گواہ کھڑے ہوں گے جس دن ظالموں کو عذر معذرت نفع نہ دے گی ان کے لیے لعنت ہے اور ان کے لیے برا گھر ہے ۔ آل عمران
170 آل عمران
171 آل عمران
172 آل عمران
173 آل عمران
174 آل عمران
175 آل عمران
176 مشفق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور عوام چونکہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں پر بے حد مشفق و مہربان تھے اس لیے کفار کی بے راہ روی آپ پر گراں گزرتی تھی وہ جوں جوں کفر کی جانب بڑھتے رہتے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دل غمزدہ ہوتا تھا اس لیے جناب باری آپ کو اس سے روکتا ہے اور فرماتا ہے حکمت الٰہیہ اسی کی مقتضی ہے ان کا کفر آپ کو یا اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا ۔ یہ لوگ اپنا اخروی حصہ برباد کر رہے ہیں اور اپنے لیے بہت بڑے عذابوں کو تیار کر رہے ہیں ان کی مخالفت سے اللہ تعالیٰ آپ کو محفوظ رکھے گا آپ ان پر غم نہ کریں ۔ پھر فرمایا میرے ہاں کا یہ بھی مقررہ قاعدہ ہے کہ جو لوگ ایمان کو کفر سے بدل ڈالیں وہ بھی میرا کچھ نہیں بگاڑتے بلکہ اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں اور اپنے لیے المناک عذاب مہیا کر رہے ہیں ۔ پھر اللہ تعالیٰ کافروں کا اللہ کے مہلت دینے پر اترانا بیان فرماتے ہیں ارشاد ہے ۔ آیت «اَیَحْسَبُوْنَ اَنَّمَا نُمِدٰہُمْ بِہٖ مِنْ مَّالٍ وَّبَنِیْنَ نُسَارِعُ لَہُمْ فِی الْخَیْرَاتِ بَل لَّا یَشْعُرُونَ» (23-المؤمنون:55) ، یعنی کیا کفار کا یہ گمان ہے کہ ان کے مال و اولاد کی زیادتی ہماری طرف سے ان کی خیریت کی دلیل ہے ؟ نہیں بلکہ وہ بے شعور ہیں اور فرمایا «فَذَرْنِیْ وَمَنْ یٰکَذِّبُ بِہٰذَا الْحَدِیْثِ سَنَسْتَدْرِجُہُمْ مِّنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُوْنَ» (68-القلم:44) ، یعنی مجھے اور اس بات کے جھٹلانے والوں کو چھوڑ دے ہم انہیں اس طرح آہستہ آہستہ پکڑیں گے کہ انہیں علم بھی نہ ہو ۔ اور ارشاد ہے «وَلَا تُعْجِبْکَ اَمْوَالُہُمْ وَاَوْلَادُہُمْ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ اَنْ یٰعَذِّبَہُمْ بِہَا فِی الدٰنْیَا وَتَزْہَقَ اَنْفُسُہُمْ وَہُمْ کٰفِرُوْنَ» (9-التوبۃ:85) ، یعنی ان کے مال اور اولاد سے کہیں تم دھوکے میں نہ پڑ جانا اللہ انہیں ان کے باعث دنیا میں بھی عذاب کرنا چاہتا ہے اور کفر پر ہی ان کی جان جائے گی پھر فرماتا ہے کہ یہ طے شدہ امر ہے کہ بعض احکام اور بعض امتحانات سے اللہ جانچ لے گا اور ظاہر کر دے گا کہ اس کا دوست کون ہے ؟ اور اس کا دشمن کون ہے ؟ مومن صابر اور منافق فاجر بالکل الگ الگ ہو جائیں گے اور صاف نظر آنے لگیں گے ۔ اس سے مراد احد کی جنگ کا دن ہے (تفسیر ابن جریر الطبری:424/7) ۱؎ جس میں ایمانداروں کا صبرو استقامت پختگی اور توکل فرمانبرداری اور اطاعت شعاری اور منافقین کی بے صبری اور مخالفت ، تکذیب اور ناموافقت ، انکار اور خیانت صاف ظاہر ہو گئی ، غرض جہاد کا حکم ہجرت کا حکم دونوں گویا ایک آزمائش تھی جس نے بھلے برے میں تمیز کر دی ۔(تفسیر ابن جریر الطبری:424/7)۱؎ سیدنا سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ لوگوں نے کہا تھا اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہیں تو ذرا بتائیں تو کہ ہم میں سے سچا مومن کون ہے اور کون نہیں ؟ اس پر آیت «مَّا کَانَ اللہُ لِیَذَرَ الْمُؤْمِنِینَ» (3-آل عمران:179) نازل ہوئی ( ابن جریر ) ۔ پھر فرمان ہے اللہ کے علم غیب کو تم نہیں جان سکتے ہاں وہ ایسے اسباب پیدا کر دیتا ہے کہ مومن اور منافق میں صاف تمیز ہو جائے لیکن اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں میں سے جسے چاہے پسندیدہ کر لیتا ہے ، جیسے فرمان ہے «عَالِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْہِرُ عَلَیٰ غَیْبِہِ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَیٰ مِن رَّسُولٍ فَإِنَّہُ یَسْلُکُ مِن بَیْنِ یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہِ رَصَدًا» (72-الجن:26) اللہ عالم الغیب ہے پس اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا مگر جس رسول کو پسند کر لے اس کے بھی آگے پیچھے نگہبان فرشتوں کو چلاتا رہتا ہے ۔ پھر فرمایا اللہ پر اس کے پیغمبروں پر ایمان لاؤ یعنی اطاعت کرو شریعت کے پابند رہو یاد رکھو ایمان اور تقوے میں تمہارے لیے اجر عظیم ہے ۔ خزانہ اور کوڑھی سانپ پھر ارشاد ہے کہ بخیل شخص اپنے مال کو اپنے لیے بہتر نہ سمجھے وہ تو اس کے لیے سخت خطرناک چیز ہے ، دین میں تو معیوب ہے ہی لیکن بسا اوقات دینوی طور پر بھی اس کا انجام اور نتیجہ ایسا ہی ہوتا ہے ۔ حکم ہے کہ بخیل کے مال کا قیامت کے دن اسے طوق ڈالا جائے گا ۔ صحیح بخاری میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جسے اللہ مال دے اور وہ اس کی زکوٰۃ ادا نہ کرے اس کا مال قیمت کے دن گنجا سانپ بن کر جس کی آنکھوں پر دو نشان ہوں گے طوق کی طرح اس کے گلے میں لپٹ جائے گا اور اس کی باچھوں کو چیرتا رہے گا اور کہتا جائے گا کہ میں تیرا مال ہوں میں تیرا خزانہ ہوں پھر آپ نے اسی آیت «وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَآ اٰتٰیھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِھٖ ھُوَ خَیْرًا لَّھُمْ» (3-آل عمران:180) کی تلاوت فرمائی ۔(صحیح بخاری:4565)۱؎ مسند احمد کی ایک حدیث میں یہ بھی ہے کہ یہ بھاگتا پھرے گا اور وہ سانپ اس کے پیچھے دوڑے گا پھر اسے پکڑ کر طوق کی طرح لپٹ جائے گا اور کاٹتا رہے گا ۔(سنن ترمذی:3012،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ۱؎ مسند ابو یعلیٰ میں ہے جو شخص اپنے پیچھے خزانہ چھوڑ کر مرے وہ خزانہ ایک کوڑھی سانپ کی صورت میں جس کی دو آنکھوں پر دو نقطے ہوں گے ان کے پیچھے دوڑے گا یہ بھاگے گا اور کہے گا تو کون ہے ؟ یہ کہے گا میں تیرا خزانہ ہوں جسے تو اپنے پیچھے چھوڑ کر مرا تھا یہاں تک کہ وہ اسے پکڑ لے گا اور اس کا ہاتھ چبا جائے گا پھر باقی جسم بھی ،(مستدرک حاکم:388/1:جید الاسناد) ۱؎ طبرانی کی حدیث میں ہے جو شخص اپنے آقا کے پاس جا کر اس سے اپنی حاجت طلب کرے اور وہ باوجود گنجائش ہونے کے نہ دے اس کے لیے قیامت کے دن زہریلا اژدہا پھن سے پھنکارتا ہوا بلایا جائے گا ،(تفسیر ابن جریر الطبری:8284:حسن بالشواھد) ۱؎ دوسری روایت میں ہے کہ جو رشتہ دار محتاج اپنے مالدار رشتہ دار سے سوال کرے اور یہ اسے نہ دے اس کی سزا یہ ہو گی اور وہ سانپ اس کے گلے کا ہار بن جائے گا (تفسیر ابن جریر الطبری:8281:موقوف صحیح) ۱؎ ( ابن جریر ) ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اہل کتاب جو اپنی کتاب کے احکامات کو دوسروں تک پہنچانے میں بخل کرتے تھے ان کی سزا کا بیان اس آیت میں ہو رہا ہے ، لیکن صحیح بات پہلی ہی ہے گو یہ قول بھی آیت کے عموم میں داخل ہے بلکہ یہ بطور اولیٰ داخل ہے واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم ۔ پھر فرماتا ہے کہ آسمانوں اور زمین کی میراث کا مالک اللہ ہی ہے اس نے جو تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے اس کے نام خرچ کرو تمام کاموں کا مرجع اسی کی طرف ہے سخاوت کرو تاکہ اس دن کام آئے اور خیال رکھو کہ تمہاری نیتوں اور دلی ارادوں اور کل اعمال سے اللہ تعالیٰ خبردار ہے ۔ آل عمران
177 آل عمران
178 آل عمران
179 آل عمران
180 آل عمران
181 کافروں کا قرض حسنہ پر احمقانہ تبصرہ اور ان کی ہٹ دھرمی پہ مجوزہ سزا سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت اتری «مَّن ذَا الَّذِی یُقْرِضُ اللہَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضَاعِفَہُ لَہُ أَضْعَافًا کَثِیرَۃً»(2-البقرۃ:245) کہ کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے اور وہ اسے زیادہ در زیادہ کر کے دے تو یہود کہنے لگے کہ اے نبی تمہارا رب فقیر ہو گیا ہے اور اپنے بندوں سے قرض مانگ رہا ہے اس پر یہ آیت «لَقَدْ سَمِعَ اللّٰہُ قَوْلَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللّٰہَ فَقِیْرٌ وَّنَحْنُ اَغْنِیَاءُ» (3-آل عمران:181) ، نازل ہوئی ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ یہودیوں کے مدرسے میں گئے یہاں کا بڑا معلم فنحاص تھا اور اس کے ماتحت ایک بہت بڑا عالم اشیع تھا لوگوں کا مجمع تھا اور وہ ان سے مذہبی باتیں سن رہے تھے آپ نے فرمایا فنحاص اللہ سے ڈر اور مسلمان ہو جا اللہ کی قسم تجھے خوب معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں وہ اس کے پاس سے حق لے کر آئے ہیں ان کی صفتیں توراۃ و انجیل میں تمہارے ہاتھوں میں موجود ہیں تو فنحاص نے جواب میں کہا ابوبکر رضی اللہ عنہ سن اللہ کی قسم اللہ ہمارا محتاج ہے ہم اس کے محتاج نہیں اس کی طرف اس طرح نہیں گڑگڑاتے جیسے وہ ہماری جانب عاجزی کرتا ہے بلکہ ہم تو اس سے بےپرواہ ہیں ہم غنی اور تونگر ہیں اگر وہ غنی ہوتا تو ہم سے قرض طلب نہ کرتا جیسے کہ تمہارا پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کہہ رہا ہے ہمیں تو سود سے روکتا ہے اور خود سود دیتا ہے اگر غنی ہوتا تو ہمیں سود کیوں دیتا ؟ اس پر سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو سخت غصہ آیا اور فنحاص کے منہ پر زور سے مارا اور فرمایا اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم یہود سے معاہدہ نہ ہوتا تو میں تجھ اللہ کے دشمن کا سر کاٹ دیتا جاؤ بد نصیبو جھٹلاتے ہی رہو اگر سچے ہو ۔ فنحاص نے جا کر اس کی شکایت سرکار محمدی صلی اللہ علیہ وسلم میں کی آپ نے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ اسے کیوں مارا ؟ سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ نے واقعہ بیان کیا لیکن فنحاص اپنے قول سے مکر گیا کہ میں نے تو ایسا کہا ہی نہیں ۔ اس بارے میں یہ آیت اتری ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:8300:ضعیف) ۱؎ پھر اللہ تعالیٰ انہیں اپنے عذاب کی خبر دیتا ہے کہ ان کا یہ قول اور ساتھ ہی اسی جیسا ان کا بڑا گناہ یعنی قتل انبیاء ہم نے ان کے نامہ اعمال میں لکھ لیا ہے ۔ ایک طرف ان کا جناب باری تعالیٰ کی شان میں بےادبی کرنا دوسری جانب نبیوں کو مار ڈالنا ان کاموں کی وجہ انہیں سخت تر سزا ملے گی ۔ ان کو ہم کہیں گے کہ جلنے والے عذاب کا ذائقہ چکھو ، اور ان سے کہا جائے گا کہ یہ تمہارے پہلے کے کرتوت کا بدلہ ہے یہ کہہ کر انہیں ذلیل و رسوا کن عذاب پر عذاب ہوں گے ، یہ سراسر عدل و انصاف ہے اور ظاہر ہے کہ مالک اپنے غلاموں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے ۔ پھر ان کو ان کے اس خیال میں جھوٹا ثابت کیا جا رہا ہے جو یہ کہتے تھے کہ آسمانی کتابیں جو پہلے نازل ہوئیں ان میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ حکم دے رکھا ہے کہ جب تک کوئی رسول ہمیں یہ معجزہ نہ دکھائے کہ اس کی امت میں سے جو شخص قربانی کرے اس کی قربانی کو کھا جانے کے لیے آسمان سے قدرتی آگ آئے اور کھا جائے ان کی اس قول کے جواب میں ارشاد ہوتا ہے کہ پھر اس معجزے والے پیغمبروں کو جو اپنے ساتھ دلائل اور براہین لے کر آئے تھے تم نے کیوں مار ڈالا ؟ انہیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ معجزہ بھی دے رکھا تھا کہ ہر ایک قبول شدہ قربانی آسمانی آگ کھا جاتی تھی لیکن تم نے انہیں بھی سچا نہ جانا ان کی بھی مخالفت اور دشمنی کی بلکہ انہیں قتل کر ڈالا ، اس سے صاف ظاہر ہے کہ تمہیں تمہاری اپنی بات کا بھی پاس و لحاظ نہیں لہٰذا تم حق کے ساتھی نہ ہو ، نہ کسی نبی کے ماننے والے ہو ۔ تم یقیناً جھوٹے ہو ۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتا ہے کہ ان کے جھٹلانے سے آپ تنگ دل اور غمناک نہ ہوں اگلے اوالوالعزم پیغمبروں کے واقعات کو اپنے لیے باعث تسلی بنائیں کہ وہ بھی باوجود دلیلیں ظاہر کر دینے کے اور باوجود اپنی حقانیت کو بخوبی واضح کر دینے کے پھر بھی جھٹلائے گئے «زبر» سے مراد آسمانی کتابیں ہیں جو ان صحیفوں کی طرح آسمان سے آئیں جو رسولوں پر اتاری گئی تھیں اور «مُنِیرِ» سے مراد واضح جلی اور روشن اور چمکیلی ہے ۔ آل عمران
182 آل عمران
183 آل عمران
184 آل عمران
185 موت و حیات اور یوم حساب تمام مخلوق کو عام اطلاع ہے کہ ہر جاندار مرنے والا ہے جیسے فرمایا آیت «کُلٰ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ وَیَبْقَیٰ وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِکْرَامِ» (55-الرحمن:27) یعنی اس زمین پر جتنے ہیں سب فانی ہیں صرف رب کا چہرہ باقی ہے جو بزرگی اور انعام والا ہے ، پس صرف وہی اللہ وحدہ لا شریک ہمیشہ کی زندگی والا ہے جو کبھی فنا نہ ہو گا ، جن ، انسان کل کے کل مرنے والے ہیں اسی طرح فرشتے اور حاملان عرش بھی مر جائیں گے اور صرف اللہ وحدہ لا شریک دوام اور بقاء والا باقی رہ جائے گا پہلے بھی وہی تھا اور آخر بھی وہی رہے گا ، جب سب مر جائیں گے مدت ختم ہو جائے گی صلب آدم سے جتنی اولاد ہونے والی تھی ہو چکی اور پھر سب موت کے گھاٹ اتر گئے مخلوقات کا خاتمہ ہو گیا اس وقت اللہ تعالیٰ قیامت قائم کرے گا اور مخلوق کو ان کے کل اعمال کے چوٹے بڑے چھپے کھلے صغیرہ کبیرہ سب کی جزا سزا ملے گی کسی پر ذرہ برابر ظلم نہ ہو گا یہی اس کے بعد کے جملہ میں فرمایا جا رہا ہے ، سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد ہمیں ایسا محسوس ہوا کہ گویا کوئی آ رہا ہے ہمیں پاؤں کی چاپ سنائی دیتی تھی لیکن کوئی شخص دکھائی نہیں دیتا تھا اس نے آ کر کہا اے اہل بیت! تم پر سلام ہو اور اللہ کی رحمت و برکت ، ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے تم سب کو تمہارے اعمال کا بدلہ پورا پورا قیامت کے دن دیا جائے گا ۔ ہر مصیبت کی تلافی اللہ کے پاس ہے ، ہر مرنے والے کا بدلہ ہے اور ہر فوت ہونے والے کا اپنی گمشدہ چیز کو پا لینا ہے اللہ ہی پر بھروسہ رکھو اسی سے بھلی امیدیں رکھو سمجھ لو کہ سچ مچ مصیبت زدہ وہ شخص جو ثواب سے محروم رہ جائے تم پر اللہ کی طرف سے سلامتی نازل ہو اور اس کی رحمتیں اور برکتیں ( ابن ابی حاتم ) سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا خیال ہے کہ یہ خضر علیہ السلام تھے ۔(تفسیر ابن ابی حاتم:4609/3:موضوع باطل) ۱؎ حقیقت یہ ہے کہ پورا کامیاب وہ انسان ہے جو جہنم سے نجات پا لے اور جنت میں چلا جائے ، حضور علیہ السلام فرماتے ہیں جنت میں ایک کوڑے جتنی جگہ مل جانا دنیا وما فیہا سے بہتر ہے اگر تم چاہو تو پڑھو آیت «فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ» (3-آل عمران:185) آخری ٹکڑے کے بغیر یہ حدیث بخاری و مسلم وغیرہ میں بھی ہے(سنن ترمذی:3013،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ۱؎ اور کچھ زیادہ الفاظ کے ساتھ ابن حبان میں ہے (صحیح ابن حبان:7417:صحیح) ۱؎ اور ابن مردویہ میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے جس کی خواہش آگ سے بچ جانے اور جنت میں داخل ہو جانیکی ہو اسے چاہیئے کہ مرتے دم تک اللہ پر اور قیامت پر ایمان رکھے اور لوگوں سے وہ سلوک کرے جسے خود اپنے پسند کرتا ہو (مسند احمد:192/2:صحیح) ۱؎ یہ حدیث پہلے آیت «وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مٰسْلِمُوْنَ» (3-آل عمران:102) کی تفسیر میں گزر چکی ہے ، مسند احمد میں بھی اور وکیع بن جراح کی تفسیر میں بھی یہی حدیث ہے ۔ اس کے بعد دنیا کی حقارت اور ذلت بیان ہو رہی ہے کہ یہ نہایت ذلیل فانی اور زوال پذیر چیز ہے ارشاد ہے آیت «بَلْ تُـؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوۃَ الدٰنْیَا وَالْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰی» (87-الأعلی:16) یعنی تم تو دنیا کی زندگی پر ریجھے جاتے ہو حالانکہ دراصل بہتری اور بقاء والی چیز آخرت ہے ، دوسری آیت میں ہے «وَمَا الْحَیَاۃُ الدٰنْیَا فِی الْآخِرَۃِ إِلَّا مَتَاعٌ» (13-الرعد:26) تمہیں جو کچھ دیا گیا ہے یہ تو حیات دنیا کا فائدہ ہے اس کی بہترین زینت اور باقی رہنے والی تو وہ زندگی ہے جو اللہ کے پاس ہے ۔ حدیث شریف میں ہے اللہ کی قسم دنیا آخرت کے مقابلہ میں صرف ایسی ہی ہے جیسے کوئی شخص اپنی انگلی سمندر میں ڈبو لے اس انگلی کے پانی کو سمندر کے پانی کے مقابلہ میں کیا نسبت ہے آخرت کے مقابلہ میں دنیا ایسی ہی ہے(صحیح مسلم:2858) ۱؎ ، سیدنا قتادہ رحمہ اللہ کا ارشاد ہے دنیا کیا ہے ایک یونہی دھوکے کی جگہ ہے جسے چھوڑ چھاڑ کر تمہیں چل دینا ہے اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں کہ یہ تو عنقریب تم سے جدا ہونے والی اور برباد ہونے والی چیز ہے پس تمہیں چاہیئے کہ ہوش مندی برتو اور یہاں اللہ کی اطاعت کر لو اور طاقت بھر نیکیاں کما لو اللہ کی دی ہوئی طاقت کے بغیر کوئی کام نہیں بنتا ۔ آزمائش لازمی ہے صبر و ضبط بھی ضروری پھر انسانی آزمائش کا ذکر ہو رہا ہے جیسے ارشاد ہے آیت «وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ» (2-البقرۃ:155) مطلب یہ ہے کہ مومن کا امتحان ضرور ہوتا ہے کبھی جانی ، کبھی مالی ، کبھی اہل و عیال میں کبھی اور کسی طرح یہ آزمائش دینداری کے انداز کے مطابق ہوتی ہے ، سخت دیندار کی ابتلاء بھی سخت اور کمزور دین والے کا امتحان بھی کمزور ، پھر پروردگار جل شانہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو خبر دیتا ہے کہ بدر سے پہلے مدینہ میں تمہیں اہل کتاب سے اور مشرکوں سے دکھ دینے والی باتیں اور سرزنش سننی پڑے گی ، پھر تسلی دیتا ہوا طریقہ سکھاتا ہے کہ تم صبرو ضبط کر لیا کرو اور پرہیزگاری پر تو یہ بڑا بھاری کام ہے ، سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب رضی اللہ عنہم مشرکین سے اور اہل کتاب سے بہت کچھ در گزر فرمایا کرتے تھے اور ان کی ایذاؤں کو برداشت کر لیا کرتے تھے اور رب کریم کے اس فرمان پر عامل تھے یہاں تک کہ جہاد کی آیتیں اتریں ۔ صحیح بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر کے موقعہ پر ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گدھے پر سوار ہو کر سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کو اپنے پیچھے بٹھا کر سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لیے بنو حارث بن خزرج کے قبیلے میں تشریف لے چلے یہ واقعہ جنگ بدر سے پہلے کا ہے راستہ میں ایک مخلوط مجلس بیٹھی ہوئی ملی جس میں مسلمان بھی تھے یہودی بھی تھی ۔ مشرکین بھی تھے اور عبداللہ بن ابی بن سلول بھی تھا یہ بھی اب تک کفر کے کھلے رنگ میں تھا ۔ مسلمانوں میں سیدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ بھی تھے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری سے گردوغبار جو اڑا تو عبداللہ بن ابی سلول نے ناک پر کپڑا رکھ لیا اور کہنے لگا غبار نہ اڑاؤ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پاس پہنچ ہی چکے تھے سواری سے اتر آئے سلام کیا اور انہیں اسلام کی دعوت دی اور قرآن کی چند آیتیں سنائیں تو عبداللہ بول پڑا سنئے صاحب آپ کا یہ طریقہ ہمیں پسند نہیں آپ کی باتیں حق ہی سہی لیکن اس کی کیا وجہ کہ آپ ہماری مجلسوں میں آ کر ہمیں ایذاء دیں اپنے گھر جائیے جو آپ کے پاس آئے اسے سنائیے ۔ یہ سن کر سیدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیشک آپ ہماری مجلسوں میں تشریف لایا کریں ہمیں تو اس کی عین چاہت ہے اب ان کی آپس میں خوب جھڑپ ہوئی ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے لگا اور قریب تھا کہ کھڑے ہو کر لڑنے لگیں لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سمجھانے بجھانے سے آخر امن و امان ہو گیا اور سب خاموش ہو گئے ۔ آپ اپنی سواری پر سوار ہو کر سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے ہاں تشریف لے گئے اور وہاں جا کر سعد رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ ابو حباب عبداللہ بن ابی سلول نے آج تو اس طرح کیا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ جانے دیجئیے معاف کیجئے اور در گزر کیجئے قسم اللہ کی جس نے آپ پر قرآن اتارا اسے آپ سے اس لیے بے حد دشمنی ہے اور ہونی چاہیئے کہ یہاں کے لوگوں نے اسے سردار بنانا چاہا تھا اسے چودھراہٹ کی پگڑی بندھوانے کا فیصلہ ہو چکا تھا ۔ ادھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنا نبی برحق بنا کر بھیجا لوگوں نے آپ کو نبی مانا اس کی سرداری جاتی رہی جس کا اسے رنج ہے اسی باعث یہ اپنے جلے دل کے پھپولے پھوڑ رہا ہے جو کہ دیا کہ دیا آپ اسے اہمیت نہ دیں چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے درذگر کر لیا اور یہی آپ کی عادت تھی اور آپ کے اصحاب رضی اللہ عنہم کی بھی ، یہودیوں سے مشرکوں سے درذگر فرماتے سنی ان سنی کر دیا کرتے اور اس فرمان پر عمل کرتے ، یہی حکم آیت «وَدَّ کَثِیرٌ» (2-البقرۃ:109) ۱؎ میں ہے جو حکم عفو و درگزر کا اس آیت «وَلَتَسْمَعُنَّ» میں ہے ۔ بعد ازاں آپ کو جہاد کی اجازت دی گئی اور پہلا غزوہ بدر کا ہوا جس میں لشکر کفار کے سرداران قتل و غارت ہوئے یہ حالت اور شوکت اسلام دیکھ کر اب عبداللہ بن ابی بن سلول اور اس کے ساتھی گھبرائے بجز اس کے کوئی چارہ کار انہیں نظر نہ آیا کہ بیعت کر لیں اور بظاہر مسلمان جائیں ۔(صحیح بخاری:4566) ۱؎ پس یہ کلیہ قاعدہ یاد رکھنا چاہیئے کہ ہر حق والے پر جو نیکی اور بھلائی کا حکم کرتا رہے اور جو برائی اور خلاف شرع کام سے روکتا رہے اس پر ضرور مصیبتیں اور آفتیں آتی ہیں اسے چاہیئے کہ ان تمام تکلیفوں کو جھیلے اور اللہ کی راہ میں صبر و ضبط سے کام لے اسی کی پاک ذات پر بھروسہ رکھے اسی سے مدد طلب کرتا رہے اور اپنی کامل توجہ اور پورا رجوع اسی کی طرف رکھے ۔ آل عمران
186 آل عمران
187 بدترین خرید و فروخت! اللہ تعالیٰ یہاں اہل کتاب کو ڈانٹ رہا ہے کہ پیغمبروں کی وساطت سے جو عہد ان کا جناب باری سے ہوا تھا کہ حضور پیغمبر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں گے اور آپ کے ذکر کو اور آپ کی بشارت کی پیش گوئی کو لوگوں میں پھیلائیں گے انہیں آپ کی تابعداری پر آمادہ کریں گے اور پھر جس وقت آپ آ جائیں تو دل سے آپ کے تابعدار ہو جائیں گے لیکن انہوں نے اس عہد کو چھپا لیا اور اللہ تعالیٰ اس کے ظاہر کرنے پر جن دنیا اور آخرت کی بھلائیوں کا ان سے وعدہ کیا تھا ان کے بدلے دنیا کی تھوڑی سی پونجی میں الجھ کر رہ گئے ان کی یہ خرید و فروخت بد سے بدتر ہے ، اس میں علماء کو تنبیہہ ہے کہ وہ ان کی طرح نہ کریں ورنہ ان پر بھی وہی سزا ہو گی جو ان کو ملی اور انہیں بھی اللہ کی وہ ناراضگی اٹھانی پڑے گی جو انہوں نے اٹھائی ۔ علماء کرام کو چاہیئے کہ ان کے پاس جو نفع دینے والا دینی علم ہو جس سے لوگ نیک عمل جم کر سکتے ہوں اسے پھیلاتے رہیں اور کسی بات کو نہ چھپائیں ، حدیث شریف میں سے جس شخص سے علم کا کوئی مسئلہ پوچھا جائے اور وہ اسے چھپائے تو قیامت کے دن آگ کی لگام پہنایا جائے گا ۔(سنن ابوداود:3658،قال الشیخ الألبانی:حسن صحیح) ۱؎ دوسری آیت میں ریاکاروں کی مذمت بیان ہو رہی ہے ، بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے جو شخص جھوٹا دعویٰ کر کے زیادہ مال کمانا چاہے اسے اللہ تعالیٰ اور کم کر دے گا ،(صحیح مسلم:110) ۱؎ بخاری و مسلم کی دوسری حدیث میں ہے جو نہ دیا گیا ہو اس کے ساتھ آسودگی جتنانے والا دو چھوٹے کپڑے پہننے والے کی مثل ہے ،(صحیح بخاری:5219) ۱؎ مسند احمد میں ہے کہ ایک مرتبہ مروان نے اپنے دربان رافع سے کہا کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ اگر اپنے کام پر خوش ہونے اور نہ کئے ہوئے کام پر تعریف پسند کرنے کے باعث اللہ کا عذاب ہو گا تو ہم سے کوئی اس سے چھٹکارا نہیں پا سکتا ، سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ تمہیں اس آیت سے کیا تعلق ؟ یہ تو اہل کتاب کے بارے میں ہے پھر آپ نے «وَإِذْ أَخَذَ اللہُ مِیثَاقَ الَّذِینَ أُوتُوا الْکِتَابَ لَتُبَیِّنُنَّہُ لِلنَّاسِ وَلَا تَکْتُمُونَہُ فَنَبَذُوہُ وَرَاءَ ظُہُورِہِمْ وَاشْتَرَوْا بِہِ ثَمَنًا قَلِیلًا فَبِئْسَ مَا یَشْتَرُونَ» (3-آل عمران:183) آیت کے ختم تک تلاوت کی اور فرمایا کہ ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی چیز کے بارے میں سوال کیا تھا تو انہوں نے اس کا کچھ اور ہی غلط جواب دیا اور باہر نکل کر گمان کرنے لگے کہ ہم نے آپ کے سوال کا جواب دے دیا جس کی وجہ سے آپ کے پاس ہماری تعریف ہو گی اور سوال کے اصلی جواب کے چھپا لینے اور اپنے جھوٹے فقرہ چل جانے پر بھی خوش تھے ، اسی کا بیان اس آیت میں ہے ، یہ حدیث بخاری وغیرہ میں بھی ہے ۔(صحیح بخاری:4568) ۱؎ اور صحیح بخاری شریف میں یہ بھی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میدان جنگ میں تشریف لے جاتے تو منافقین اپنے گھروں میں گھسے بیٹھے رہتے ساتھ نہ جاتے پھر خوشیاں مناتے کہ ہم لڑائی سے بچ گئے اب جب اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم واپس لوٹتے تو یہ باتیں بناتے جھوٹے سچے عذر پیش کرتے اور قسمیں کھا کھا کر اپنے معذور ہونے کا آپ کو یقین دلاتے اور چاہتے کہ نہ کئے ہوئے کام پر بھی ہماری تعریفیں ہوں جس پر یہ آیت اتری۔(صحیح بخاری:4567) ۱؎ تفسیر ابن مردویہ میں ہے کہ مروان نے سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ سے اس آیت کے بارے میں اسی طرح سوال کیا تھا جس طرح اوپر گزرا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پچھوایا تو سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ نے اس کا مصداق اور اس کا شان نزول ان مناقوں کو قرار دیا جو غزوہ کے وقت بیٹھ جاتے اگر مسلمانوں کو نقصان پہنچا تو بغلیں بجاتے اگر فائدہ ہوا تو اپنا معذور ہونا ظاہر کرتے اور فتح و نصرت کی خوشی کا اظہار کرتے اس پر مروان نے کہا کہاں یہ واقعہ کہاں یہ آیت ؟ تو سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بھی اس سے واقف ہیں مروان نے سیدنا زید رضی اللہ عنہ سے پوچھا آپ نے بھی اس کی تصدیق کی پھر سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس کا علم سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کو بھی ہے جو مجلس میں موجود تھے اونٹنیاں جو صدقہ کی ہیں چھین لیں گے باہر نکل کر زید نے کہا میری شہادت پر تم میری تعریف نہیں کرتے ؟سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم نے سچی شہادت ادا کر دی تو سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے فرمایا پھر میں بھی سچی شہادت دینے پر مستحق تعریف تو ہوں مروان اس زمانہ میں مدینہ کا امیر تھا ، دوسری روایت میں ہے کہ مروان کا یہ سوال رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے ہی پہلے ہوا تھا۔ اس سے پہلے کی روایت میں گزر چکا ہے کہ مروان نے اس آیت کی بابت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے پچھوایا تھا تو یاد رہے کہ ان دونوں میں کوئی تضاد اور نفی کا عنصر نہیں ہم کہہ سکتے ہیں کہ آیت عام ہے اس میں بھی شامل ہے اور اس میں بھی ، مروان والی روایت میں بھی ممکن ہے پہلے ان دونوں صاحبوں نے جواب دیئے پھر مزید تشفی کے طور پر حبر الامہسیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی مروان نے بذریعہ اپنے آدمی کے سوال کیا ہو ، واللہ اعلم ، سیدنا ثابت بن قیس انصاری رضی اللہ عنہ خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہو کر عرض کرتے ہیں کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے تو اپنی ہلاکت کا بڑا اندیشہ ہے آپ نے فرمایا کیوں ؟ جواب دیا ایک تو اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے اس بات سے روکا ہے کہ جو نہ کیا ہو اس پر تعریف کو پسند کریں اور میرا یہ حال ہے کہ میں تعریف پسند کرتا ہوں ، دوسری بات یہ ہے کہ تکبر سے اللہ نے روکا ہے اور میں جمال کو پسند کرتا ہوں تیسرے یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے بلند آواز کرنا ممنوع ہے اور میں بلند آواز ہوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تو اس بات سے خوش نہیں کہ تیری زندگی بہترین اور باخیر ہو اور تیری موت شہادت کی موت ہو اور تو جنتی بن جائے خوش ہو کر کہنے لگے کیوں نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ تو بہت ہی اچھی بات ہے چنانچہ یہی ہوا کہ آپ کی زندگی انتہائی اچھی گزری اور موت شہادت کی نصیب ہوئی ، مسیلمہ کذاب سے مسلمانوں کی جنگ میں آپ نے شہادت پائی ۔ (مستدرک حاکم:234/3:حسن) ۱؎ «تَحْسَبَنَّہُمْ» کو «یَحْسَبَنَّہُمْ» بھی پڑھا گیا ہے ۔ پھر فرمان ہے کہ تو انہیں عذاب سے نجات پانے والے خیال نہ کر انہیں عذاب ضرور ہو گا اور وہ بھی درد ناک ، پھر ارشاد ہے کہ ہر چیز کا مالک اور ہر چیز پر قادر اللہ تعالیٰ ہے اسے کوئی کام عاجز نہیں کر سکتا پس تم اس سے ڈرتے رہو اور اس کی مخالفت نہ کرو اس کے غضب سے بچنے کی کوشش کرو اس کے عذابوں سے اپنا بچاؤ کر لو نہ تو کوئی اس سے بڑا نہ اس سے زیادہ قدرت والا ۔ آل عمران
188 آل عمران
189 آل عمران
190 مظاہر کائنات دلیل رب ذوالجلال دعوت غرو فکر طبرانی میں ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ قریش یہودیوں کے پاس گئے اور ان سے پوچھا کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام تمہارے پاس کیا کیا معجزات لے کر آئے تھے ؟ انہوں نے کہا اژدھابن جانے والی لکڑی اور چمکیلا ہاتھ ، پھر نصرانیوں کے پاس گئے ان سے کہا تمہارے پاس سیدنا عیسیٰ ( علیہ اسلام ) کیا نشانیاں لائے تھے؟ جواب ملا کہ مادر زاد اندھوں کو بینا کر دینا اور کوڑھی کو اچھا کر دینا اور مردوں کو زندہ کر دینا ۔ اب یہ قریش نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے کہا اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ ہمارے لیے صفا پہاڑ کو سونے کا بنا دے آپ نے دعا کی جس پر یہ آیت «إِنَّ فِی خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ لَآیَاتٍ لِّأُولِی الْأَلْبَابِ» ، اتری(طبرانی کبیر:12322/12:ضعیف) ۱؎ یعنی نشان قدرت دیکھنے والوں کیلئے اسی میں بڑی نشانیاں ہیں یہ اسی میں غورو فکر کریں گے تو ان قدرتوں والے اللہ تعالیٰ کے سامنے جھک جائیں گے ۔ لیکن اس روایت میں ایک اشکال ہے وہ یہ کہ یہ سوال مکہ شریف میں ہوا تھا اور یہ آیت مدینہ شریف میں نازل ہوئی واللہ اعلم ۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ آسمان جیسی بلندر اور وسعت مخلوق اور زمین جیسی پست اور سخت لمبی چوڑی مخلوق پھر آسمان میں بڑی بڑی نشانیاں مثلاً چلنے پھرنے والے اور ایک جا ٹھہرنے والے ستارے اور زمین کی بڑی بڑی پیدوارا مثلاً پہاڑ ، جنگل ، درخت ، گھس ، کھیتیاں ، پھل اور مختلف قسم کے جاندار ، کانیں ، الگ الگ ذائقے والے اور طرح طرح کی خوشبوؤں والے اور مختلف خواص والے میوے وغیرہ، کیا یہ سب آیاتِ قدرت ایک سوچ سمجھ والے انسان کی رہبری اللہ عزوجل کی طرف نہیں کر سکتیں ؟ جو اور نشانیاں دیکھنے کی ضرورت باقی رہے پھر دن رات کا آنا جانا اور ان کا کم زیادہ ہونا پھر برابر ہو جانا یہ سب اس عزیز وحلیم اللہ عزوجل کی قدرت کاملہ کی پوری پوری نشانیاں ہیں جو پاک نفس والے ہر چیز کی حقیقت پر نظریں ڈالنے کے عادی ہیں اور بیوقوفوں کی طرح آنکھ اندھے اور کان کے بہرے نہیں جن کی حالت اور جگہ بیان ہوئی ہے کہ «وَکَأَیِّن مِّن ءَایَۃٍ فِی السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ یَمُرٰونَ عَلَیْہَا وَہُمْ عَنْہَا مُعْرِضُونَ ـ وَمَا یُؤْمِنُ أَکْثَرُہُمْ بِ اللہِ إِلاَّ وَہُمْ مٰشْرِکُونَ» (12-یوسف:105) وہ آسمان اور زمین کی بہت سی نشانیاں پیروں تلے روندتے ہوئے گزر جاتے ہیں اور غورو فکر نہیں کرتے ، ان میں اکثر باوجود اللہ تعالیٰ کو ماننے کے پھر بھی شرک سے نہیں بچ سکے ۔ اب ان عقلمندوں کی صفتیں بیان ہو رہی ہیں کہ وہ اٹھتے ، بیٹھتے، لیٹتے اللہ کا نام لیا کرتے ہیں ۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمران بن حصینرضی اللہ عنہ سے فرمایا کھڑے ہو کر نماز پڑھا کرو اگر طاقت نہ ہو تو بیٹھ کر اور یہ بھی نہ ہو سکے تو لیٹے لیٹے ہی سہی ،(صحیح بخاری:1117)۱؎ یعنی کسی حالت میں اللہ عزوجل کے ذکر سے غافل مت رہو دل میں اور پوشیدہ اور زبان سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے رہا کرو ، یہ لوگ آسمان اور زمین کی پیدائش میں نظریں دوڑاتے ہیں اور ان کی حکمتوں پر غور کرتے ہیں جو اس خالق یکتا کی عظمت و قدرت ، علم و حکمت ، اختیار رحمت پر دلالت کرتی ہیں ، سیدنا شیخ سلیمان درانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں گھر سے نکل کر جس جس چیز پر میری نظر پڑتی ہے میں دیکھتا ہوں کہ اس میں اللہ کی ایک نعمت مجھ پر موجود ہے اور میرے لیے وہ باعثِ عبرت ہے، سیدنا امام حسن بصری رحمہ اللہ کا قول ہے کہ ساعت غورو فکر کرنا رات بھر کے قیام کرنے سے افضل ہے ، سیدنا فضیل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سیدنا حسن رحمہ اللہ کا قول ہے کہ غورو فکر اور مراقبہ ایک آئینہ ہے جو تیرے سامنے تیری برائیاں بھلائیاں پیش کردے گا، سیدنا سفیان بن عینیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں غوروفکر ایک نور ہے جو تیرے دل پر اپنا پر تو ڈالے گا او بسا اوقات یہ بیت پڑھتے ۔ «اذا المراء کانت لہ فکرۃ» «ففی کل شئی لہ عبرۃ» یعنی جس انسان کو باریک بینی اور سوچ سمجھ کی عادث پڑ گئی اسے ہر چیز میں ایک عبرت اور آیت نظر آتی ہے ۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں خوش نصیب ہے وہ شخص جس کا بولنا ذکر اللہ اور نصیحت ہو اور اس کا چپ رہنا غور و فکر ہو اور اس کا دیکھنا عبرت اور تنبیہہ ہو ، لقمان حکیم کا نصیحت آموز مقولہ بھی یاد رہے کہ تنہائی کی گوشہ نشینی جس قدر زیادہ ہو اور اسی قدر غورو فکر اور دور اندیشی کی عادت زیادہ ہوتی ہے اور جس قدر یہ بڑھ جائے اسی قدر راستے انسان پر وہ کھل جاتے ہیں جو اسے جنت میں پہنچا دیں گے ، سیدنا وہب بن منبہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں جس قدر مراقبہ زیادہ ہو گا اسی قدر سمجھ بوجھ تیز ہو گی اور جتنی سمجھ زیادہ ہو گی اتناعلم نصیب ہو گا اور جس قدر علم زیادہ ہو گا نیک اعمال بھی بڑھیں گے ، سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا ارشاد ہے کہ اللہ عزوجل کے ذکر میں زبان کا چلانا بہت اچھا ہے اور اللہ کی نعمتوں میں غوروفکر افضل عبادت ہے ، سیدنا مغیث اسود رحمہ اللہ مجلس میں بیٹھے ہوئے فرماتے کہ لوگو! قبرستان ہر روز جایا کرو تاکہ تمہیں انجام کا خیال پیدا ہو پھر اپنے دل میں اس منظر کو حاضر کرو کہ تم اللہ کے سامنے کھڑے ہو پھر ایک جماعت کو جہنم میں لے جانے کا حکم ہوتا ہے اور ایک جماعت جنت میں جاتی ہے اپنے دلوں کو اس حال میں جذب کر دو اور اپنے بدن کو بھی وہیں حاضر جان لو جہنم کو اپنے سامنے دیکھو اس کے ہتھوڑوں کو، اس کی آگ کے قید خانوں کو اپنے سامنے لاؤ اتنا فرماتے ہی دھاڑیں مارمار کر رونے لگتے ہیں یہاں تک کہ بیہوش ہو جاتے ہیں ۔ سیدنا عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں ایک شخص نے ایک راہب سے ایک قبرستان اور کوڑا کرکٹ ، پاخانہ پیشاب ڈالنے کی جگہ پر ملاقات کی اور اس سے کہا اے بندہ حق اس وقت تیرے پاس دو خزانے ہیں ایک خزانہ لوگوں کا یعنی قبرستان اور دوسرا خزانہ مال کا یعنی کوڑا کرکٹ ۔ پیشاب پاخانہ ڈالنے کی جگہ ۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کھنڈرات پر جاتے اور کسی ٹوٹے پھوٹے دروازے پر کھڑے رہ کر نہایت حسرت و افسوس کے ساتھ بھرائی ہوئی آواز میں فرماتے اے اجڑے ہوئے گھرو ! تمہارے رہنے والے کہاں گئے ؟ پھر خود فرماتے سب زیر زمین چلے گئے سب فنا کا جام پی چکے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہمیشہ کی مالک بقاء ہے ، سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا ارشاد ہے دو رکعتیں جو دل بستگی کے ساتھ ادا کی جائیں اس تمام نماز سے افضل ہیں جس میں ساری رات گزار دی لیکن دلچسپی نہ تھی، حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں ابن آدم اپنے پیٹ کے تیسرے حصے میں کھا تیسرے حصے میں پانی پی اور تیسرا حصہ ان سانسوں کیلئے چھوڑ جس میں تو آخرت کی باتوں پر، اپنے انجام پر اور اپنے اعمال پر خور و فکر کر سکے ، بعض حکیموں کا قول ہے جو شخص دنیا کی چیزوں پر عبرت حاصل کئے بغیر نظر ڈالتا ہے اس غفلت کی وجہ سے اس کی دلی آنکھیں کمزور پڑ جاتی ہیں ، سیدنا بشر بن حارث حافی رحمہ اللہ کا فرمان ہے کہ اگر لوگ اللہ تعالیٰ کی عظمت کا خیال کرتے تو ہر گز ان سے نافرمانیاں نہ ہوتیں۔ سیدنا عامر بن قیس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم سے سنا ہے کہ ایمان کی روشنی اور تو غور فکر اور مراقبہ میں ہے ، مسیح ابن مریم سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا فرمان ہے کہ ابن آدم اے ضعیف انسان! جہاں کہیں تو ہو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہ ، دنیا میں عاجزی اور مسکینی کے ساتھ رہ ، اپنا گھر مسجدوں کو بنا لے ، اپنی آنکھوں کو رونا سکھا ، اپنے جسم کو صبر کی عادت سکھا ، اپنے دل کو غور و فکر کرنے والا بنا ، کل کی روزی کی فکر آج نہ کر۔ امیرالمؤمنین سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ ایک مرتبہ مجلس میں بیٹھے ہوئے رو دیئے لوگوں نے وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا میں نے دنیا میں اور اس کی لذتوں میں اور اس کی خواہشوں میں غور فکر کیا اور عبرت حاصل کی جب نتیجہ پر پہنچا تو میری امنگیں ختم ہو گئیں حقیقت یہ ہے کہ ہر شخص کیلئے اس میں عبرت و نصیحت ہے اور وعظ و پند ہے ، حسین بن عبدالرحمٰن رحمہ اللہ نے بھی اپنے اشعار میں اس مضمون کو خوب نبھایا ہے ، پس اللہ تعالیٰ نے اپنے ان بندوں کی مدح و ثنا بیان کی جو مخلوقات اور کائنات سے عبرت حاصل کریں اور نصیحت لیں اور ان لوگوں کی مذمت بیان کی جو قدرت کی نشانیوں پر غور نہ کریں ۔ مومنوں کی مدح میں بیان ہو رہا ہے کہ یہ لوگ اٹھتے بیٹھتے لیٹتے اللہ سبحانہ کا ذکر کرتے ہیں زمین و آسمان کی پیدائش میں غوروفکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے اللہ تو نے اپنی مخلوق کو عبث اور بے کار نہیں بنایا بلکہ حق کے ساتھ پیدا کیا ہے تاکہ بروں کو برائی کا بدلہ اور نیکوں کو نیکیوں کا بدلہ عطا فرمائے ، پھر اللہ کی پاکیزگی بیان کرتے ہیں تو اس سے منزہ ہے کہ کسی چیز کو بے کار بنائے اے خالق کائنات ، اے عدل و انصاف سے کائنات کو سجانے والے، اے نقصان اور عیبوں سے پاک ذات ہمیں اپنی قوت و طاقت سے ان اعمال کی توفیق اور ہمارا رفیق فرما جن سے ہم تیرے عذابوں سے نجات پالیں اور تیری نعمتوں سے مالا مال ہو کر جنت میں داخل ہو جائیں ، یہ یوں بھی کہتے ہیں کہ اے اللہ! جسے تو جہنم میں لے گیا اسے تو نے برباد اور ذلیل و خوار کر دیا مجمع حشر کے سامنے اسے رسوا کیا ، ظالموں کا کوئی مددگار نہیں انہیں نہ کوئی چھڑا سکے نہ بچا سکے نہ تیرے ارادے کے درمیان آ سکے ، اے رب ہم نے پکارنے والے کی پکار سن لی جو ایمان اور اسلام کی طرف بلاتا ہے ، مراد اس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو فرماتے ہیں کہ اپنے رب پر ایمان لاؤ ہم ایمان لا چکے اور تابعداری بجا لائے پس ہمارے ایمان اور فرماں برداری کی وجہ سے ہمارے گناہوں کو معاف فرما ان کی پردہ پوشی کر اور ہماری برائیوں کو ہم سے دور کر دے اور ہمیں صالح اور نیک لوگوں کے ساتھ ملا دے تو نے ہم سے جو وعدے اپنے نبیوں کی زبانی کئے ہیں انہیں پورے کر اور یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے کہ جو وعدہ تو نے ہم سے اپنے رسولوں پر ایمان لانے کا لیا تھا لیکن پہلا معنی واضح ہے۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے عسقلان دو عروس میں سے ایک ہے یہیں سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ستر ہزار شہیداء اٹھائیں گے جو وفد بن کر اللہ کے پاس جائیں گے یہیں شہیدوں کی صفیں ہوں گی جن کے ہاتھوں میں ان کے کٹے ہوئے سر ہوں گے ان کی گردن کی رگوں سے خون جاری ہو گا یہ کہتے ہوں گے اے اللہ! ہم سے جو وعدے اپنے رسولوں کی معرفت تو نے کئے ہیں انہیں پورے کر ہمیں قیامت کے دن رسوا نہ کر تو وعدہ خلافی سے پاک ہے اللہ تعالیٰ فرمائے گا میرے یہ بندے سچے ہیں اور انہیں نہر بیضہ میں غسل کروائیں گے جس غسل کے بعد پاک صاف گورے چٹے رنگ کے ہو کر نکلیں گے اور ساری جنت ان کے لیے مباح ہو گی جہاں چاہیں جائیں آئیں جو چاہیں کھائیں پئیں ۔ (مسند احمد:225/3:ضعیف جداً) ۱؎ یہ حدیث غریب ہے اور بعض تو کہتے ہیں موضوع ہے واللہ اعلم ۔ ہمیں قیامت کے دن تمام لوگوں کے مجمع میں رسوا نہ کر تیرے وعدے سچے ہیں تو نے جو کچھ خبریں اپنے رسولوں کی زبانی پہنچائی ہیں سب اٹل ہیں قیامت کا روز ضرور آنا ہے پس تو ہمیں اس دن کی رسوائی سے نجات دے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ بندے پر رسوائی ڈانٹ ڈپٹ مار اور شرمندگی اس قدر ڈالی جائے گی اور اس طرح اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا کر کے اسے قائل معقول کیا جائے گا کہ وہ چاہے گا کہ کاش مجھے جہنم میں ہی ڈال دیا جاتا ۔(مستدرک حاکم:577/4:ضعیف جداً) ۱؎ ( ابو یعلیٰ ) اس حدیث کی سند بھی غریب ہے۔ احادیت سے یہ بھی ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو تہجد کیلئے جب اٹھتے تب سورۃ آل عمران کی ان دس آخری آیتوں کی تلاوت فرماتے چنانچہ بخاری شریف میں ہے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں میں نے اپنی خالہ سیدنا میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر رات گزاری یہ ام المؤمنین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی صاحبہ تھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب آئے تو تھوڑی دیر تک آپ میمونہ رضی اللہ عنہا سے باتیں کرتے رہے پھر سو گئے جب آخری تہائی رات باقی رہ گئی تو آپ اٹھ بیٹھے اور آسمان کی طرف نگاہ کر کے «إِنَّ فِی خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ لَآیَاتٍ لِّأُولِی الْأَلْبَابِ» سے آخر سورت تک کی آیتیں تلاوت فرمائیں پھر کھڑے ہوئے ، مسواک کی ، وضو کیا اور گیارہ رکعت نماز ادا کی بلال کی صبح کی اذان سن کر پھر دو رکعتیں صبح کی سنتیں پڑھیں پھر مسجد میں تشریف لا کر لوگوں کو صبح کی نماز پڑھائی ۔(صحیح بخاری:4569) ۱؎ صحیح بخاری میں یہ روایت دوسری جگہ بھی ہے کہ بسترے کے عرض میں تو میں سویا اور لمبائی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا لیٹیں آدھی رات کے قریب کچھ پہلے یا کچھ بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جاگے اپنے ہاتھوں سے اپنی آنکھیں ملتے ہوئے ان دس آیتوں کی تلاوت کی پھر ایک لٹکی ہوئی مشک میں سے پانی لے کر بہت اچھی طرح کامل وضو کیا میں بھی آپ کی بائیں جانب آپ کی اقتدار میں نماز کیلئے کھڑا ہو گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا داہنا ہاتھ میرے سر پر رکھ کر میرے کان کو پکڑ کر مجھے گھما کر اپنی دائیں جانب کر لیا اور دو دو رکعت کر کے چھ مرتبہ یعنی بارہ رکعت پڑھیں پھر وتر پڑھا اور لیٹ گئے یہاں تک کہ مؤذن نے آ کر نماز کی اطلاع کی آپ نے کھڑے ہو کر دو ہلکی رکعتیں ادا کیں اور باہر آ کر صبح کی نماز پڑھائی ۔(صحیح بخاری:4571) ۱؎ ابن مردویہ کی اس حدیث میں ہے سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مجھے میرے والد سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم آج کی رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آل میں گزارو اور آپ کی رات کی نماز کی کیفیت دیکھو رات کو جب سب لوگ عشاء کی نماز پڑھ کر چلے گئے میں بیٹھا رہا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جانے لگے تو مجھے دیکھ کر فرمایا کون عبداللہ ؟ میں نے کہا جی ہاں فرمایا کیوں رکے ہوئے ہو؟ میں نے کہا والد صاحب کا حکم ہے کہ رات آپ کے گھر گزاروں تو فرمایا بہت اچھا آؤ گھر جا کر فرمایا بستر بچھاؤ ٹاٹ کا تکیہ آیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس پر سر رکھ کر سو گئے یہاں تک کہ مجھے آپ کے خراٹوں کی آواز آنے لگی پھر آپ جاگے اور سیدھی طرح بیٹھ کر آسمان کی طرف دیکھ کر تین مرتبہ دعا «سُبْحَانَ الْمَلِکِ الْقُدٰوْس» پڑھی پھر سورۃ آل عمران کے خاتمہ کی یہ آیتیں پڑھیں۔ (صحیح بخاری:6316) ۱؎ اور روایت میں ہے کہ آیتوں کی تلاوت کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا پڑھی «اللَّہُمَّ اجْعَلْ فِی قَلْبِی نُورًا وَفِی بَصَرِی نُورًا وَفِی سَمْعِی نُورًا وَفِی لِسَانِی نُورًا وَعَنْ یَمِینِی نُورًا وَعَنْ شِمَالِی نُورًا وَمِنْ وَاجْعَلْ مِنْ بَیْنَ یَدَیَّ نُورًا وَمِنْ خَلْفِی نُورًا وَمِنْ فَوْقِی نُورًا وَمِنْ تَحْتِی نُورًا وَأَعْظِمْ لِی نُورًا یوم القیامتہ» (طبرانی کبیر:12349/12:ضعیف) ۱؎ ( ابن مردویہ ) یہ دعا بعض صحیح طریق سے بھی مروی ہے۔ (صحیح بخاری:6316) ۱؎ اس آیت کی تفسیر کے شروع میں طبرانی کے حوالے سے جو حدیث گزری ہے اس سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت مکی ہے لیکن مشہور اس کے خلاف ہے یعنی یہ کہ یہ آیت مدنی ہے اور اس کی دلیل میں یہ حدیث پیش ہو سکتی ہے جو ابن مردویہ میں ہے کہ سیدنا عطاء رحمہ اللہ ۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سیدنا عبید بن عمیر رحمہ اللہ ۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے آپ کے اور ان کے درمیان پردہ تھا سیدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا عبید تم کیوں نہیں آیا کرتے ؟ سیدنا عبید نے جواب دیا اماں جان صرف اس لیے کہ کسی شاعر کا قول ہے «زرغبا تزد دحبا» یعنی کم کم آؤ تاکہ محبت بڑھے ، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا اب ان باتوں کو چھوڑو ام المؤمنین رضی اللہ عنہا ہم یہ پوچھنے کیلئے حاضر ہوئے ہیں کہ سب سے زیادہ عجیب بات جو آپ نے نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دیکھی ہو وہ ہمیں بتائیں ۔سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہا رو دیں اور فرمانے لگیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام کام عجیب تر تھے ، اچھا ایک واقعہ سنو ایک رات میری باری میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے اور میرے ساتھ سوئے پھر مجھ سے فرمانے لگے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا میں اپنے رب کی کچھ عبادت کرنا چاہتا ہوں مجھے جانے دے میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی قسم میں آپ کا قرب چاہتی ہوں اور یہ بھی میری چاہت ہے کہ آپ اللہ عزوجل کی عبادت بھی کریں ، اب آپ کھڑے ہوئے اور ایک مشک میں سے پانی لے کر آپ نے ہلکا سا وضو کیا اور نماز کے لیے کھڑے ہو گئے پھر جو رونا شروع کیا تو اتنا روئے کہ داڑھی مبارک تر ہو گئی پھر سجدے میں گئے اور اس قدر روئے کہ زمین تر ہو گئی پھر کروٹ کے بل لیٹ گئے اور روتے ہی رہے یہاں تک کہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے آ کر نماز کیلئے بلایا اور آپ کے آنسو رواں دیکھ کر دریافت کیا کہ اے اللہ کے سچے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ کیوں رو رہے ہیں ؟ اللہ تعالیٰ نے تو آپ کے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف فرما دیئے ہیں ، آپ نے فرمایا بلال میں کیوں نہ روؤں ؟ مجھ پر آج کی رات یہ آیت اتری ہے آیت «إِنَّ فِی خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ لَآیَاتٍ لِّأُولِی الْأَلْبَابِ» ، افسوس ہے اس شخص کیلئے جو اسے پڑھے اور پھر اس میں غورو تدبر نہ کرے ۔(الدار المنشور للسیوطی:195/2:ضعیف) ۱؎ عبد بن حمید کی تفسیر میں بھی یہ حدیث ہے اس میں یہ بھی ہے کہ جب ہم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے ہم نے سلام کیا تو آپ نے پوچھا تم کون لوگ ہو ؟ ہم نے اپنے نام بتائے اور آخر میں یہ بھی ہے کہ نماز کے بعد آپ اپنی داہنی کروٹ پر لیٹے رخسار تلے ہاتھ رکھا اور روتے رہے یہاں تک کہ آنسوؤں سے زمین تر ہو گئی اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کے جواب میں آپ نے یہ بھی فرمایا کہ کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں ؟ اور آیتوں کے نازل ہونے کے بارے میں «عَذَابَ النَّارِ» تک آپ نے تلاوت کی ،(الدار المنشور للسیوطی:195/2:ضعیف) ۱؎ ابن مردویہ کی ایک ضعیف سند والی حدیث میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سورۃ آل عمران کے آخر کی دس آیتیں ہر رات کو پڑھتے اس روایت میں مظاہر بن اسلم ضعیف ہیں ۔(الدار المنشور للسیوطی:204/2:ضعیف) ۱؎ آل عمران
191 آل عمران
192 آل عمران
193 آل عمران
194 آل عمران
195 دعا کیجئے قبول ہوگی بشرطیکہ؟ یہاں «اسْتَجَابَ» کے معنی میں «اجَابَ» کے ہیں اور یہ عربی میں برابر مروج ہے سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے ایک روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ عورتوں کی ہجرت کا کہیں قرآن میں اللہ تعالیٰ نے ذکر نہیں کرتا اس پر یہ آیت اتری ، انصار کا بیان ہے کہ عورتوں میں سب سے پہلی مہاجرہ عورت جو ہودج میں آئیں ام سلمہ رضی اللہ عنہا ہی تھیں۔(مستدرک حاکم:300/2:ضعیف) ۱؎ ام المومنین سے یہ بھی مروی ہے کہ صاحب عقل اور صاحب ایمان لوگوں نے جب اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگیں جن کا ذکر پہلے کی آیتوں میں تھا تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے بھی ان کی منہ مانگی مراد انہیں عطا فرمائی ، اسی لیے اس آیت کو «ف» سے شروع کیا ، جیسے اور جگہ ہے آیت «وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْابِیْ لَعَلَّہُمْ یَرْشُدُوْنَ» (2-البقرۃ:186) ، یعنی میرے بندے تجھ سے میرے بارے میں سوال کریں تو کہ دے کہ میں تو ان کے بہت ہی نزدیک ہوں جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے میں اس کی پکار کو قبول فرما لیتا ہوں پس انہیں بھی چاہیئے کہ میری مان لیا کریں اور مجھ پر ایمان رکھیں ممکن ہے کہ وہ رشد و ہدایت پالیں ۔ پھر قبولیت دعا کی تفسیر ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ میں کسی عامل کے عمل کو رائیگاں نہیں کرتا بلکہ ہر ایک کو پورا پورا بدلہ عطا فرماتا ہوں خواہ مرد ہو خواہ عورت ، ہر ایک میرے پاس ثواب میں اور اعمال کے بدلے میں یکساں ہے ، پس جو لوگ شرک کی جگہ کو چھوڑیں اور ایمان کی جگہ آ جائیں دارالکفر سے ہجرت کریں، بھائیوں دوستوں پڑوسیوں اور اپنوں کو اللہ کے نام پر ترک کر دیں ، مشرکوں کی ایذائیں سہہ سہہ کر تھک کر بھی عاجز آ کر بھی ایمان کو نہ چھوڑیں بلکہ اپنے پیارے وطن سے منہ موڑ لیں جبکہ لوگوں کا انہوں نے کوئی نقصان نہیں کیا تھا جس کے بدلے میں انہیں ستایا جاتا بلکہ ان کا صرف یہ قصور تھا کہ میری راہ پہ چلنے والے تھے صرف میری توحید کو مان کر دنیا کی دشمنی مول لے لی تھی ، میری راہ پر چلنے کے باعث طرح طرح سے ستائے جاتے تھے جیسے اور جگہ ہے «یُخْرِجُونَ الرَّسُولَ وَإِیَّاکُمْ أَن تُؤْمِنُوا بِ اللہِ رَبِّکُمْ» (60-الممتحنۃ:1) یہ لوگ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اور تمہیں صرف اس بنا وطن سے نکال دیتے ہیں کہ تم اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو جو تمہارا رب ہے ، اور ارشاد ہے «وَمَا نَقَمُوْا مِنْہُمْ اِلَّآ اَنْ یٰؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِ» (86-الطارق:8) ان سے دشمنی اسی وجہ سے ہے کہ اللہ عزیز و حمید پر ایمان لائے ہیں پھر فرماتا ہے انہوں نے جہاد بھی کئے اور یہ شہید بھی ہوئے یہ سب سے اعلیٰ اور بلند مرتبہ ہے ایسا شخص اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہے اس کی سواری کٹ جاتی ہے منہ خاک و خون میں مل جاتا ہے ۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر میں صبر کے ساتھ نیک نیتی سے، دلیری سے، پیچھے نہ ہٹ کر اللہ کی راہ میں جہاد کروں اور پھر شہید کر دیا جاؤں تو کیا اللہ تعالیٰ میری خطائیں معاف فرما دے گا ؟ آپ نے فرمایا ہاں پھر دوبارہ آپ نے اس سے سوال کیا کہ ذرا پھر کہنا تم نے کیا کہا تھا ؟ اس نے دوبارہ اپنا سوال دھرا دیا آپ نے فرمایا ہاں مگر قرض معاف نہ ہو گا یہ بات جبرائیل ابھی مجھ سے کہہ گئے ۔(صحیح مسلم:1885) ۱؎ پس یہاں فرمایا ہے کہ میں ان کی خطا کاریاں معاف فرما دوں گا اور انہیں ان جنتوں میں لے جاؤں گا جن میں چاروں طرف نہریں بہہ رہی ہیں جن میں کسی میں دودھ ہے، کسی میں شہد، کسی میں شراب، کسی میں صاف پانی اور وہ نعمتیں ہوں گی جو نہ کسی کان نے سنیں نہ کسی آنکھ نے دیکھیں نہ کسی انسانی دل میں کبھی خیال گزرا ۔ یہ ہے بدلہ اللہ کی طرف سے ظاہر ہے کہ جو ثواب اس شہنشاہ عالی کی طرف سے ہو وہ کس قدر زبردست اور بے انتہا ہو گا ؟ جیسے کسی شاعر کا قول ہے کہ اگر وہ عذاب کرے تو وہ بھی مہلک اور برباد کر دینے والا اور اگر انعام دے تو وہ بھی بے حساب قیاس سے بڑھ کر کیونکہ اس کی ذات بےپرواہ ہے ، نیک اعمال لوگوں کو بہترین بدلہ اللہ ہی کے پاس ہے ، سیدنا شداد بن اوس رحمہ اللہ فرماتے ہیں لوگو! اللہ تعالیٰ کی قضاء پر غمگین اور بے صبرے نہ ہو جایا کرو سنو! مومن پر ظلم وجور نہیں ہوتا اگر تمہیں خوشی اور راحت پہنچے تو اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کا شکر کرو اور اگر برائی پہنچے تو صبر و ضبط کرو اور نیکی اور ثواب کی تمنا رکھو اللہ تعالیٰ کے پاس بہترین بدلے اور پاکیزہ ثواب ہیں ۔ آل عمران
196 دنیا کا سامان تعیش دلیل نجات نہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کافروں کی بدمستی کے سامان تعیش ، ان کی راحت و آرام ، ان کی خوش حالی اور فارغ البالی کی طرف اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ نظریں نہ ڈالیں یہ سب عنقریب زائل ہو جائے گا اور صرف ان کی بداعمالیاں عذاب کی صورت میں ان کیلئے باقی رہ جائیں گی ان کی یہ تمام نعمتیں آخرت کے مقابلہ میں بالکل ہیچ ہیں اسی مضمون کی بہت سی آیتیں قرآن کریم میں ہیں مثلاً «مَا یُجَادِلُ فِیْٓ اٰیٰتِ اللّٰہِ اِلَّا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فَلَا یَغْرُرْکَ تَــقَلٰبُہُمْ فِی الْبِلَادِ» (40-غافر:4) اللہ کی آیتوں میں کافر ہی جھگڑتے ہیں ان کا شہروں میں گھومنا پھرنا تجھے دھوکے میں نہ ڈالے ، دوسری جگہ ارشاد ہے آیت «قُلْ إِنَّ الَّذِینَ یَفْتَرُونَ عَلَی اللہِ الْکَذِبَ لَا یُفْلِحُونَ مَتَاعٌ فِی الدٰنْیَا ثُمَّ إِلَیْنَا مَرْجِعُہُمْ ثُمَّ نُذِیقُہُمُ الْعَذَابَ الشَّدِیدَ بِمَا کَانُوا یَکْفُرُونَ» (10-یونس:69) ، جو لوگ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں وہ فلاح نہیں پاتے دنیا میں چاہے تھوڑا سا فائدہ اٹھا لیں لیکن آخر تو انہیں ہماری طرف ہی لوٹنا ہے پھر ہم انہیں ان کے کفر کی پاداش میں سخت تر سزائیں دیں گے ۔ ارشاد ہے «نُمَتِّعُہُمْ قَلِیلًا ثُمَّ نَضْطَرٰہُمْ إِلَیٰ عَذَابٍ غَلِیظٍ» (31-لقمان:24) انہیں ہم تھوڑا سا فائدہ پہنچا کر پھر گہرے عذابوں کی طرف بے بس کر دیں گے اور جگہ ہے «فَمَہِّلِ الْکَافِرِینَ أَمْہِلْہُمْ رُوَیْدًا» (86-الطارق:17) کافروں کو کچھ مہلت دے دے اور جگہ ہے «أَفَمَن وَعَدْنَاہُ وَعْدًا حَسَنًا فَہُوَ لَاقِیہِ کَمَن مَّتَّعْنَاہُ مَتَاعَ الْحَیَاۃِ الدٰنْیَا ثُمَّ ہُوَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مِنَ الْمُحْضَرِینَ» (28-القصص:61) کیا وہ شخص جو ہمارے بہترین وعدوں کو پالے گا اور وہ جو دنیا میں آرام سے گزار رہا ہے لیکن قیامت کے دن عذابوں کیلئے حاضری دینے والا ہے برابر ہو سکتے ہیں ؟ چونکہ کافروں کا دنیوی اور اخروی حال بیان ہوا اس لیے ساتھ ہی مومنوں کا ذکر ہو رہا ہے کہ یہ متقی گروہ قیامت کے دن نہروں والی ، بہشتوں میں ہو گا ، ابن مردویہ میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں انہیں * ابرار* اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ ماں باپ کے ساتھ اور اولاد کے ساتھ نیک سلوک کرتے تھے جس طرح تیرے ماں باپ کا تجھ پر حق ہے اسی طرح تیری اولاد کا تجھ پر حق ہے یہی روایت سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہما سے موقوفاً بھی مروی ہے اور موقوف ہونا ہی زیادہ ٹھیک نظر آتا ہے۔(الدار المنشور للسیوطی:199/2) ۱؎ واللہ اعلم ۔ سیدنا حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں ابرار وہ ہیں جو کسی کو ایذاء نہ دیں ، سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہر شخص کیلئے خواہ نیک ہو، خواہ بد موت اچھی چیز ہے اگر نیک ہے تو جو کچھ اس کیلئے اللہ کے پاس ہے وہ بہت ہی بہتر ہے اور اگر بد ہے تو اللہ کے عذاب اور اس کے گناہ جو اس کی زندگی میں بڑھ رہے تھے اب ان کا بڑھنا ختم ہوا پہلے کی دلیل آیت «وَمَا عِندَ اللہِ خَیْرٌ لِّلْأَبْرَارِ» (3-آل عمران:198) ہے اور دوسری کی دلیل آیت «وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَنَّمَا نُمْلِیْ لَھُمْ خَیْرٌ لِّاَنْفُسِھِمْ اِنَّمَا نُمْلِیْ لَھُمْ لِیَزْدَادُوْٓا اِثْمًا وَلَھُمْ عَذَابٌ مٰہِیْنٌ» (3-آل عمران:178) ، ہے یعنی کافر ہماری ڈھیل دینے کو اپنے حق میں بہتر نہ خیال کریں یہ ڈھیل ان کے گناہوں میں اضافہ کر رہی ہے اور ان کے لیے رسوا کن عذاب ہیں سیدنا ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے بھی یہی مروی ہے ۔(تفسیر ابن جریر الطبری:496/7) ۱؎ آل عمران
197 آل عمران
198 آل عمران
199 ایمان والوں اور مجاہدین کے قابل رشک اعزاز اہل کتاب کے اس فرقے کی تعریف کرتا ہے جو پورے ایمان والا ہے قرآن کریم کو بھی مانتا ہے اور اپنے نبی کی کتاب پر بھی ایمان رکھتا ہے اللہ تعالیٰ کا ڈر دل میں رکھ کر اللہ تعالیٰ فرمانوں کی بجا آوری میں نہایت تندہی کے ساتھ مشغول ہے رب کے سامنے عاجزی اور گریہ وزاری کرتا رہتا ہے پیغمبر آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کے جو پاک اوصاف اور صاف نشانیاں ان کی کتابوں میں ہیں اسے دنیا کے بدلے چھپاتا نہیں بلکہ ہر ایک کو بتاتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو مان لینے کی رغبت دلاتا ہے ۔ ایسی جماعت اللہ تعالیٰ کے پاس اجر پائے گی خواہ وہ یہودیوں کی ہو خواہ نصرانیوں کی سورۃ قصص میں یہ مضمون اس طرح بیان ہوا ہے آیت «الَّذِینَ آتَیْنَاہُمُ الْکِتَابَ مِن قَبْلِہِ ہُم بِہِ یُؤْمِنُونَ وَإِذَا یُتْلَیٰ عَلَیْہِمْ قَالُوا آمَنَّا بِہِ إِنَّہُ الْحَقٰ مِن رَّبِّنَا إِنَّا کُنَّا مِن قَبْلِہِ مُسْلِمِینَ أُولٰئِکَ یُؤْتَوْنَ أَجْرَہُم مَّرَّتَیْنِ بِمَا صَبَرُوا وَیَدْرَءُونَ بِالْحَسَنَۃِ السَّیِّئَۃَ وَمِمَّا رَزَقْنَاہُمْ یُنفِقُونَ» (28-القصص:52) جنہیں ہم نے اس سے پہلے کتاب دے رکھی ہے وہ اس پر بھی ایمان لاتے ہیں اور جب یہ کتاب ان کے سامنے پڑھی جاتی ہے تو صاف کہ دیتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے یہ برحق کتاب ہمارے رب کی ہے ہم تو پہلے سے ہی اسے مانتے تھے انہیں ان کے صبر کا دوہرا اجر دیا جائے گا اور جگہ ہے «الَّذِینَ آتَیْنَاہُمُ الْکِتَابَ یَتْلُونَہُ حَقَّ تِلَاوَتِہِ أُولٰئِکَ یُؤْمِنُونَ بِہِ» (2-البقرۃ:121) جنہیں ہم نے کتاب دی اور جسے وہ اسے صحیح طور پر پڑھتے ہیں وہ تو اس قرآن پر بھی فوراً ایمان لاتے ہیں اور جگہ ارشاد ہے آیت «وَمِنْ قَوْمِ مُوْسٰٓی اُمَّۃٌ یَّہْدُوْنَ بِالْحَقِّ وَبِہٖ یَعْدِلُوْنَ» (7-الأعراف:159) سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی قوم میں سے بھی ایک جماعت حق کی ہدایت کرنے والی اور حق کے ساتھ عدل کرنے والی ہے ۔ دوسرے مقام پر بیان ہے آیت «لَیْسُوْا سَوَاءً مِنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ اُمَّۃٌ قَایِٕمَۃٌ یَّتْلُوْنَ اٰیٰتِ اللّٰہِ اٰنَاءَ الَّیْلِ وَھُمْ یَسْجُدُوْنَ» (3-آل عمران:113) ، یعنی اہل کتاب سب یکساں نہیں ان میں ایک جماعت راتوں کے وقت بھی اللہ کی کتاب پڑھنے والی ہے اور سجدے کرنے والی ہے۔ اور جگہ ہے «قُلْ آمِنُوا بِہِ أَوْ لَا تُؤْمِنُوا إِنَّ الَّذِینَ أُوتُوا الْعِلْمَ مِن قَبْلِہِ إِذَا یُتْلَیٰ عَلَیْہِمْ یَخِرٰونَ لِلْأَذْقَانِ سُجَّدًا وَیَقُولُونَ سُبْحَانَ رَبِّنَا إِن کَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُولًا وَیَخِرٰونَ لِلْأَذْقَانِ یَبْکُونَ وَیَزِیدُہُمْ خُشُوعًا ۩» (17-الإسراء:109) اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تم کہو کہ لوگوں تم ایمان لاؤ یا نہ لاؤ جنہیں پہلے سے علم دیا گیا ہے جب ان کے سامنے اس کلام مجید کی آیتیں تلاوت کی جاتی ہے تو وہ اپنے چہروں کے بل سجدے میں گر پڑتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارا رب پاک ہے یقیناً اس کا وعدہ سچا ہے اور سچا ہو کر رہنے والا ہے یہ لوگ روتے ہوئے منہ کے بل گرتے ہیں اور خشوع و خضوع میں بڑھ جاتے ہیں ، یہ صفتیں یہودیوں میں پائی گئیں گو بہت کم لوگ ایسے تھے مثلاً سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ اور آپ ہی جیسے اور با ایمان یہودی علماء لیکن ان کی گنتی دس تک نہیں پہنچتی ہاں نصرانی اکثر ہدایت پر آگئے اور حق کے فرمانبردار ہوگئے جیسے اور جگہ ہے آیت «لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الْیَھُوْدَ وَالَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا» سے «جَنَّاتٍ تَجْرِی مِن تَحْتِہَا الْأَنْہَارُ خَالِدِینَ فِیہَا» (5-المائدۃ: 85-82) آخر آیت تک ، مطلب یہ ہے کہ ایمان والوں سے عداوت اور دشمنی رکھنے میں سب سے زیادہ بڑھے ہوئے یہود ہیں اور مشرک۔ اور ایمان والوں سے محبت رکھنے میں پیش پیش نصرانی ہیں ۔ اب فرماتا ہے ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کے ہاں اجر عظیم کے مستحق ہیں ، حدیث میں یہ بھی آ چکا ہے کہ سیدنا جعفر بن ابوطالب رضی اللہ عنہ نے جب سورۃ مریم کی تلاوت شاہ نجاشی کے دربار میں بادشاہ اراکین سلطت اور علماء نصاریٰ کے سامنے کی اور اس میں آپ پر رقت طاری ہوئی تو سب حاضرین دربار مع بادشاہ رو دیئے اور اس قدر متاثر ہوئے کہ روتے روتے ان کی داڑھیاں تر ہو گئیں ،(سیرۃ ابن ھشام:357/1:صحیح) ۱؎ صحیح بخاری و مسلم میں ہے کہ نجاشی کے انتقال کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم کو دی اور فرمایا کہ تمہارا بھائی حبشہ میں انتقال کر گیا ہے اور اس کے جنازے کی نماز ادا کرو اور میدان میں جا کر صحابہ رضی اللہ عنہم کی صفیں مرتب کر کے آپ نے ان کے جنازے کی نماز ادا کی ۔(صحیح بخاری:1317) ۱؎ ابن مردویہ میں ہے کہ جب نجاشی فوت ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے بھائی کیلئے استغفار کرو تو بعض لوگوں نے کہا دیکھئیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اس نصرانی کیلئے استغفار کرنے کا حکم دیتے ہیں جو حبشہ میں مرا ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔(طبرانی اوسط:2677:حسن) ۱؎ گویا اس کے مسلمان ہونے شہادت قرآن کریم نے دی گویا اس کے مسلمان ہونے کی شہادت قرآن کریم نے دی ۔ ابن جریر میں ہے کہ ان کی موت کی خبر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی کہ تمہارا بھائی اصحمہ انتقال کر گیا ہے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے اور جس طرح جنازے کی نماز پڑھاتے تھے اسی طرح چار تکبیروں سے نماز جنازہ پڑھائی اس پر منافقوں نے وہ اعتراض کیا اور یہ آیت اتری۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:8376) ۱؎ ابوداؤد میں ہے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نجاشی کے انتقال کے بعد ہم یہی سنتے رہے کہ ان کی قبر پر نور دیکھا جاتا ہے ،(سنن ابوداود:2523،قال الشیخ الألبانی:حسن) ۱؎ مستدرک حاکم میں ہے کہ نجاشی کا ایک دشمن اس کی سلطنت پر حملہ آور ہوا تو مہاجرین نے کہا کہ آپ اس سے مقابلہ کرنے کیلئے چلئے ہم بھی آپ کے ساتھ ہیں آپ ہماری بہادری کے جوہر دیکھ لیں گے اور جو حسن سلوک آپ نے ہمارے ساتھ کیا ہے اس کا بدلہ بھی اتر جائے گا لیکن نجاشی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ لوگوں کی امداد کے ساتھ بچاؤ کرنے سے اللہ کی امداد کا بچاؤ بہتر ہے اس بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ۔(مستدرک حاکم:300/2:ضعیف) ۱؎ سیدنا مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے مراد اہل کتاب کے مسلمان لوگ ہیں ،(تفسیر ابن جریر الطبری:499/7) ۱؎ سیدنا حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے مراد وہ اہل کتاب ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے تھے اسلام کو پہچانتے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری کا بھی شرف انہیں حاصل ہوا تو انہیں اجر بھی دوہرا ملا ایک تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کے ایمان کا دوسرا اجر آپ پر ایمان لانے کا ، بخاری مسلم میں سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین قسم کے لوگوں کو دوہرا اجر ملتا ہے جن میں سے ایک اہل کتاب کا وہ شخص ہے جو اپنے نبی پر ایمان لایا اور مجھ پر ایمان لایا اور باقی دو کو بھی ذکر کیا ،(صحیح بخاری:97) ۱؎ اللہ کی آیتوں کو تھوڑی قیمت پر نہیں بیچتے یعنی اپنے پاس علمی باتوں کو چھپاتے نہیں جیسے کہ ان میں سے ایک رذیل جماعت کا شیوہ تھا بلکہ یہ لوگ تو اسے پھیلاتے اور خوب ظاہر کرتے ہیں ان کا بدلہ ان کے رب کے پاس ہے اللہ تعالیٰ جلد حساب لینے والا ہے یعنی جلد سمیٹنے اور گھیرنے اور شمار کرنے والا ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ اسلام جیسے میری پسندیدہ دین پر جمے رہو شدت اور نرمی کے وقت مصیبت اور راحت کے وقت غرض کسی حال میں بھی اسے نہ چھوڑو یہاں تک کہ دم نکلے تو اسی پر نکلے اور اپنے ان دشمنوں سے بھی صبر سے کام لو جو اپنے دین کو چھپاتے ہیں (تفسیر ابن جریر الطبری:502/7) ۱؎ امام حسن بصری رحمہ اللہ وغیرہ علماء سلف نے یہی تفسیر بیان فرمائی ہے۔ «مرابطۃ» مرابطہٰ کہتے ہیں عبادت کی جگہ میں ہمیشگی کرنے کو اور ثابت قدمی سے جم جانے کو اور کہا گیا ہے ایک نماز کے بعد دوسری نماز کے انتظار کو ، یہی قول ہے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ اور محمد بن کعب قرضی رحمہ اللہ کا ۔ صحیح مسلم شریف اور نسائی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں آؤ میں تمہیں بتاؤں کہ کس چیز سے اللہ تعالیٰ گناہوں کو مٹا دیتا ہے اور درجوں کو بڑھاتا ہے ، تکلیف ہوتے ہوتے بھی کامل وضو کرنا ، دور سے چل کر مسجدوں میں آنا ، ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا یہی رباط ہے یہی مرابط ہے یہی اللہ تعالیٰ کی راہ کی مستعدی ہے ،(صحیح مسلم:251) ۱؎ ابن مردویہ میں ہے کہ ابوسلمہ رضی اللہ عنہ سے ایک دن ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا اے میرے بھتیجے جانتے ہو اس آیت کا شان نزول کیا ہے ؟ انہوں نے کہا مجھے معلوم نہیں آپ نے فرمایا سنو اس وقت کوئی غزوہ نہ تھا یہ آیت ان لوگوں کے حق میں نازل ہوئی ہے جو مسجدوں کو آباد رکھتی تھی اور نمازوں کو ٹھیک وقت پر ادا کرتے تھے پھر اللہ کا ذکر کرتے تھے انہیں یہ حکم دیا جاتا ہے کہ تم پانچوں نمازوں پر جمے رہو اور اپنے نفس کو اور اپنی خواہش کو روکے رکھو اور مسجدوں میں بسیرا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو ۔ یہی اعمال موجب ایمان ہیں ،(مستدرک حاکم:301/2) ۱؎ ابن جریر کی حدیث میں ہے کیا میں تمہیں وہ اعمال نہ بتاؤں جو گناہوں کا کفارہ ہو جاتے ہیں ناپسندیدگی کے وقت کامل وضو کرنا اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا تمہاری مستعدی اسی میں ہونی چاہیئے۔(تفسیر ابن جریر الطبری:8395:ضعیف) ۱؎ اور حدیث میں زیادہ قدم رکھ کر چل کر مسجد میں آنا بھی ہے ،(تفسیر ابن جریر الطبری:8396:ضعیف) ۱؎ اور روایت میں ہے کہ گناہوں کی معافی کے ساتھ ہی درجے بھی ان اعمال سے بڑھتے رہتے ہیں اور یہی اس آیت کا مطلب ہے۔(الدار المنشور للسیوطی:201/2:ضعیف) ۱؎ لیکن یہ حدیث بالکل غریب ہے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں یہاں «رَابِطُوا» سے مطلب انتظار نماز ہے ، (تفسیر ابن جریر الطبری:8394:ضعیف) ۱؎ لیکن اوپر بیان ہو چکا ہے کہ یہ فرمان ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا ہے واللہ اعلم ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ «رَابِطُوا» سے مراد دشمن سے جہاد کرنا ، اسلامی ملک کی حدود کی نگہبانی کرنا اور دشمنوں کو اسلامی شہروں میں نہ گھسنے دینا ہے اس کی ترغیب میں بھی بہت سی حدیثیں ہیں اور اس پر بھی بڑے ثواب کا وعدہ ہے ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے ایک دن کی یہ تیاری ساری دنیا سے اور جو اس میں ہے سب سے افضل ہے ،(صحیح بخاری:2794) ۱؎ مسلم شریف کی حدیث میں ہے ایک دن رات کی جہاد کی تیاری ایک ماہ کے کامل روزوں اور ایک ماہ کی تمام شب بیداری سے افضل ہے اور اسی تیاری کی حالت میں موت آ جائے تو جتنے اعمال صالحہ کرتا تھا سب کا ثواب پہنچتا رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے پاس سے روزی پہنچائی جاتی ہے اور فتنوں سے امن پاتا ہے ،(صحیح مسلم:1913) ۱؎ مسند احمد میں ہے ہر مرنے والے کے اعمال ختم ہو جاتے ہیں مگر جو شخص اللہ تعالیٰ کی راہ کی تیاری میں ہو اور اسی حالت میں مر جائے اس کا عمل قیامت تک بڑھتا رہتا ہے اور اسے فتنہ قبر سے نجات ملتی ہے (سنن ابوداود:2500،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ۱؎ ابن ماجہ کی روایت میں یہ بھی ہے کہ قیامت کے دن اسے امن ملے گا ،(سنن ابن ماجہ:2767،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ۱؎ مسند کی اور حدیث میں ہے اسے صبح شام جنت سے روزی پہنچائی جاتی ہے اور قیامت تک اس کے مرابط کا اجر ملتا رہتا ہے ،(مسند احمد:404/2:حسن بالشواھد) ۱؎ مسند احمد میں ہے جو شخص مسلمانوں کی سرحد کے کسی کنارے پر تین دن تیاری میں گزارے اسے سال بھر تک کی اور جگہ کی اس اس تیاری کا اجر ملتا ہے۔(مسند احمد:362/6:صحیح بالشواھد) ۱؎ امیرالمؤمنین سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے اپنے منبر پر خطبہ پڑھتے ہوئے ایک مرتبہ فرمایا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی سنی ہوئی بات سناتا ہوں میں نے اب تک ایک خاص خیال سے اسے نہیں سنایا آپ نے فرمایا ہے اللہ جل شانہ کی راہ میں ایک رات کا پہرہ ایک ہزار راتوں کی عبادت سے افضل ہے جو تمام راتیں قیام میں اور تمام دن صیام میں گزارے جائیں ۔(مسند احمد:61/1 :حسن بالشواھد) ۱؎ دوسری روایت میں اس حدیث کو اب تک بیان نہ کرنے کی وجہ خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمائی ہے کہ مجھے ڈر تھا کہ اس فضیلت کو حاصل کرنے کیلئے کہیں تم سب مدینہ چھوڑ کر میدان جنگ میں نہ چل دو اب میں سنا دیتا ہوں ہر شخص کو اختیار ہے کہ جو بات اپنے لیے پسند کرتا ہے اس کا پابند ہو جائے۔(سنن ابن ماجہ:2766،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ۱؎ دوسری روایت میں یہ بھی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات پہنچا دی لوگوں نے کہا ہاں آپ نے فرمایا اے جناب باری تعالیٰ تو گواہ رہ ،(مسند احمد:62/1:صحیح بالشواھد) ۱؎ ترمذی شریف میں ہے کہ سیدنا شرحبیل بن سمط محافظت سرحد میں تھے اور زمانہ زیادہ گزر جانے کے بعد کچھ تنگ دل ہو رہے تھے کہ سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ان کے پاس پہنچے اور فرمایا آؤ میں تجھے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث سناؤں آپ نے فرمایا ہے ایک دن سرحد کی حفاظت ایک مہینہ کے صیام و قیام سے افضل ہے اور جو اسی حالت میں مر جائے وہ فتنہ قبر سے محفوظ رہتا ہے اور اس کے اعمال قیامت تک جاری رہتے ہیں ۔(سنن ترمذی:1665،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ۱؎ ابن ماجہ میں ہے کہ ایک رات اللہ تعالیٰ کی راہ میں پہرہ دینا تاکہ مسلمان امن سے رہیں ہاں نیت نیک ہو گو وہ رات رمضان کی نہ ہو ایک سو سال کی عبادت سے افضل ہے جس کے دن روزے میں اور جس کی راتیں تہجد میں گزری ہوں اور ایک دن کی رب العزت کی راہ میں تیاری تاکہ مسلمان باحفاظت رہیں طلبِ ثواب کی نیت سے ماہ رمضان کے بغیر اللہ کے نزدیک ایک ہزار سال کے روزوں اور تہجد سے افضل ہے ،اب اگر یہ غازی سلامتی اور زندگی کے ساتھ اپنے والوں میں آگیا تو ایک ہزار سال کی پرائیاں اسکے نامہ اعمال میں نہیں لکھی جائیں گی اور نیکیاں لکھی جائیں گی اور اس مرابط کا اجر قیامت تک اسے ملتا رہے گا۔ (سنن ابن ماجہ:2768،قال الشیخ الألبانی:موضوع) ۱؎ یہ حدیث غریب ہے بلکہ منکر ہے اس کے ایک راوی عمرو بن صبح متہم ہیں ، ابن ماجہ کی ایک اور غریب حدیث میں ہے کہ ایک رات کی مسلم لشکر کی چوکیداری ایک ہزار سال کی راتوں کے قیام اور دنوں کے صیام سے افضل ہے ہر سال کے تین سو ساٹھ دن اور ہر دن مثل ایک ہزار سال کے۔ (سنن ابن ماجہ:2770،قال الشیخ الألبانی:موضوع) ۱؎ اس کے راوی سعید بن خالد ابوزرعہ رحمہ اللہ وغیرہ ہیں ائمہ نے اسے ضعیف کہا ہے بلکہ امام حاکم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس کی روایت سے موضع حدیثیں بھی ہیں ، ایک منقطع حدیث میں ہے لشکر اسلام کے چوکیدار پر اللہ تعالیٰ کا رحم ہو ۔ (سنن ابن ماجہ:2769،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ۱؎ ( ابن ماجہ ) سیدنا سہل بن حنظلہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حنین والے دن ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلے شام کی نماز میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ادا کی اتنے میں ایک گھوڑا سوار آیا اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں آگے نکل گیا تھا اور فلاں پہاڑ پر چڑھ کر میں نے نگاہ ڈالی تو دیکھا کہ قبیلہ ہوازن کے لوگ میدان میں جمع ہو گئے ہیں یہاں تک کہ ان کی اونٹنیاں ، بکریاں ، عورتیں اور بچے بھی ساتھ ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا ان شاءاللہ یہ سب کل مسلمانوں کی مال غنیمت ہو گا پھر فرمایا بتاؤ آج کی رات پہرہ کون دے گا ؟ سیدنا انس بن ابو مرثد رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوں آپ نے فرمایا جاؤ سواری لے کر آؤ وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر حاضر ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس گھاٹی پر چلے جاؤ اور اس پہاڑی کی چوٹی پر چڑھ جاؤ خبردار! تمہاری طرف سے ان کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ صبح تک نہ ہو ، صبح جس وقت نماز کیلئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے دو سنتیں ادا کیں اور لوگوں سے پوچھا کہو تمہارے پہرے دار سوار کی تو کوئی آہٹ نہیں سنی لوگوں نے کہا نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، اب تکبیر کہی گئی اور آپ نے نماز شروع کی آپ کا خیال اسی گھاٹی کی طرف تھا نماز سے سلام پھیرتے ہی آپ نے فرمایا خوش ہو جاؤ تمہارا گھوڑے سوار آ رہا ہے ہم نے جھاڑیوں میں جھانک کر دیکھا تو تھوڑی دیر میں ہمیں بھی دکھائی دے گئے آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اس وادی کے اوپر کے حصے پر پہنچ گیا اور ارشاد کے مطابق وہیں رات گزاری صبح میں نے دوسری گھاٹی بھی دیکھ ڈالی لیکن وہاں بھی کوئی نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا رات کو وہاں سے تم نیچے بھی اترے تھے ؟ جواب دیا نہیں صرف نماز کیلئے اور قضائے حاجت کیلئے تو نیچے اترا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے اپنے لیے جنت واجب کر لی اب تم اس کے بعد کوئی عمل نہ کرو تو بھی تم پر کوئی حرج نہیں ،(سنن ابوداود:2501،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ۱؎ ( ابوداؤد و نسائی ) مسند احمد میں ہے ایک غزوہ کے موقعہ پر ایک رات کو ہم بلند جگہ پر تھے اور سخت سردی تھی یہاں تک کہ لوگ زمین میں گڑھے کھود کھود کر اپنے اوپر ڈھالیں لے لے کر پڑے ہوئے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت آواز دی کہ کوئی ہے جو آج کی رات ہماری چوکیداری کرے اور مجھ سے بہترین دعا لے تو ایک انصاری کھڑا ہو گیا اور کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں تیار ہوں آپ نے اسے پاس بلا کر نام دریافت کر کے اس کے لیے بہت دعا کی ابو ریحانہ رضی اللہ عنہ یہ دعائیں سن کر آگے بڑھے اور کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی پہرہ دوں گا آپ نے مجھے بھی پاس بلا لیا اور نام پوچھ کر میرے لیے بھی دعائیں کیں لیکن اس انصاری صحابی رضی اللہ عنہ سے یہ دعا کم تھی پھر آپ نے فرمایا اس آنکھ پر جہنم کی آنچ حرام ہے جو اللہ کے ڈر سے روئے اور اس آنکھ پر بھی جو راہ اللہ میں شب بیداری کرے ، (مسند احمد:134/4:حسن لغیرہ) ۱؎ مسند حمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص مسلمانوں کے پیچھے سے ان کا پہرہ دے اپنی خوشی سے بغیر سلطان کی اجرت و تنخواہ کے وہ اپنی آنکھوں سے بھی جہنم کی آگ کو نہ دیکھے گا مگر صرف قسم پوری ہونے کے لیے جو اس آیت میں ہے «وَإِن مِّنکُمْ إِلَّا وَارِدُہَا کَانَ عَلَیٰ رَبِّکَ حَتْمًا مَّقْضِیًّا» » (19-مریم:70) یعنی تم سب اس پر وارد ہو گئے ۔(مسند احمد:437/3:ضعیف) ۱؎ صحیح بخاری میں ہے دینار کا بندہ برباد ہوا اور کپڑوں کا بندہ اگر مال دیا جائے تو خوش ہے اور اگر نہ دیا جائے تو ناخوش ہے ، یہ بھی برباد ہوا اور خراب ہوا اگر اسے کانٹا چبھ جائے تو نکالنے کی کوشش بھی نہ کی جائے خوش نصیب ہوا اور پھلا خوب پھولا وہ شخص جو اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے اپنے گھوڑے کی لگام تھامے ہوئے ہے بکھرے ہوئے بال ہیں اور گرد آلود قدم ہیں اگر چوکیداری پر مقرر کر دیا گیا ہے تو چوکیداری کر رہا ہے اور اگر لشکر کے اگلے حصے میں مقرر کر دیا گیا ہے تو وہیں خوش ہے لوگوں کی نظروں میں اتنا گرا پڑا ہے کہ اگر کہیں جانا چاہے تو اجازت نہ ملے اور اگر کسی کی سفارش کرے تو قبول نہ ہو ،(صحیح بخاری:2887) ۱؎ الحمداللہ اس آیت کے متعلق خاصی حدیثیں بیان ہو گئیں اللہ تعالیٰ کے اس فضل و کرم پر ہم اس کا شکر ادا کرتے ہیں اور شکر گزاری سے رہتی دنیا تک فارغ نہیں ہو سکتے ۔ تفسیر ابن جریر میں ہے کہ سیدنا ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے امیر المؤمنین خلیفتہ المسلمین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو میدان جنگ سے ایک خط لکھا اور اس میں رومیوں کی فوج کی کثرت ، ان کی آلات حرب کی حالت اور ان کی تیاریوں کی کیفیتیں بیان کی اور لکھا کہ سخت خطرہ کا موقعہ ہے ، یہاں سے فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا جواب گیا جس میں حمد و ثنا کے بعد تحریر تھا کہ کبھی کبھی مومن بندوں پر سختیاں بھی آ جاتی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ ان کے بعد آسانیاں بھیج دیتا ہے ۔ سنو ! ایک سختی دو آسانیوں پر غالب نہیں آ سکتی سنو پروردگار عالم کا فرمان ہے «یٰٓاَیٰھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَصَابِرُوْا وَرَابِطُوْا» (3-آل عمران:200) عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے سن ١٧٠ یا ١٧٧ھ میں شہر طرسوس میں محمد بن ابراہیم بن سکینہ رحمہ اللہ کو جبکہ وہ ان کو الوداع کرنے آئے تھے اور یہ جہاد کو جا رہے تھے یہ اشعار لکھوا کر سیدنا فضیل بن عیاض رضی اللہ عنہ کو بھجوائے ۔ «یا عابد الحرمین لو ابصرتنا» «لعلمت انک فی العبادۃ تلعب» «من کان یخضب خدہ بلموعہ» «فنحورنا بلمائنا تتخضب» «من کان یتعب خلیہ فی باطل» «فنخیولنا یوم الصبیحتہ تتعب» «ریح العبیر لکم ونحن عبیرنا» «رھج السنابک والغبار الاطیب» «ولقد اتانا من مقال نبینا» «قول صحیح صادق لا یکذب» «لا یستوی غبار خیل اللہ فی» «انف امری ودخان نار تلھب» «ھذا کتاب اللہ ینطق بیننا» «لیس الشھید بمیت لا یکذب» اے مکہ مدینہ میں رہ کر عبادت کرنے والے اگر تو ہم مجاہدین کو دیکھ لیتا تو بالیقین تجھے معلوم ہو جاتا کہ تیری عبادت تو ایک کھیل ہے ، ایک وہ شخص ہے جس کے آنسو اس کے رخساروں کو تر کرتے ہیں اور ایک ہم ہیں جو اپنی گردن اللہ کی راہ میں کٹوا کر اپنے خون میں آپ نہا لیتے ہیں ۔ ایک وہ شخص ہے جس کا گھوڑا باطل اور بے کار کام میں تھک جاتا ہے اور ہمارے گھوڑے حملے اور لڑائی کے دن ہی تھکتے ہیں ۔ اگر کی خوشبوئیں تمہارے لیے ہیں اور ہمارے لیے اگر کی خوشبو گھوڑوں کے ٹاپوں کی خاک اور پاکیزہ گرد و غبار ہے ۔ یقین مانو ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث پہنچ چکی ہے جو سراسر راستی اور درستی والی بالکل سچی ہے کہ جس کسی کے ناک میں اس اللہ تعالیٰ کے لشکر کی گرد بھی پہنچ گئی اس کے ناک میں شعلے مارنے والی جہنم کی آگ کا دھواں بھی نہ جائے گا اور لو یہ ہے اللہ تعالیٰ کی پاک کتاب جو ہم میں موجود ہے اور صاف کہہ رہی ہے اور سچ کہہ رہی ہے کہ شہید مردہ نہیں ۔ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں جب میں نے مسجد الحرام میں پہنچ کر سیدنا فضیل بن عیاض رحمہ اللہ کو یہ اشعار دکھائے تو آپ پڑھ کر زار زار روئے اور فرمایا ابوعبدالرحمٰن رحمہ اللہ نے اللہ تعالیٰ کی رحمتیں ان پر ہوں صحیح اور سچ فرمایا اور مجھے نصیحت کی اور میری بے حد خیر خواہی کی ، پھر مجھ سے فرمایا کیا تم حدیث لکھتے ہو میں نے کہا جی ہاں کہا اچھا تم جو یہ نصحیت نامہ میرے پاس لائے اس کے بدلے میں تمہیں ایک حدیث لکھواتا ہوں وہ یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے درخواست کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے ایسا عمل بتائے جس سے میں مجاہد کا ثواب پالوں ؟ آپ نے فرمایا کیا تجھ میں یہ طاقت ہے کہ نماز ہی پڑھتا رہے اور تھکے نہیں اور روزے رکھتا چلا جائے اور کبھی بے روزہ نہ رہے اس نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طاقت کہاں ؟ میں اس سے بہت ہی ضعیف ہوں آپ نے فرمایا اگر تجھ میں اتنی طاقت ہوتی اور تو ایسا کر بھی سکتا تو بھی مجاہد فی سبیل اللہ کے درجے کو نہ پہنچ سکتا ، تو یہ بھی جانتا ہے کہ مجاہد کے گھوڑے کی رسی دراز ہو جائے اور وہ ادھر ادھر چر جائے تو اس پر بھی مجاہد کو نیکیاں ملتی ہیں ۔(مسند احمد:236/5:صحیح) ۱؎ اس کے بعد اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ اللہ سے ڈرتے رہو اور ہر حال ، میں ہر وقت ، ہر معاملہ میں اللہ کا خوف کیا کرو ۔ جناب رسول اکرم محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو جب یمن کی طرف بھیجا تو فرمایا اے معاذ ! جہاں بھی ہو اللہ کا خوف دل میں رکھ اور اگر تجھ سے کوئی برائی ہو جائے تو فوراً کوئی نیکی بھی کر لے تاکہ وہ برائی مٹ جائے اور لوگوں سے خلق و مروت کے ساتھ پیش آیا کر ۔(سنن ترمذی:1987،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ۱؎ پھر فرماتا ہے کہ یہ چاروں کام کر لینے سے تم اپنے مقصد میں کامیاب اور بامراد ہو جاؤ گے دنیا اور آخرت میں فلاح و نجات پالو گے ۔ سیدنا محمد بن کعب قرظی رحمہ اللہ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ اللہ فرماتا ہے تم میرا لحاظ رکھو میرے خوف سے کانپتے رہو مجھ سے ڈرتے رہو میرے اور اپنے معاملہ میں متقی رہو تو کل جبکہ تم مجھ سے ملو گے نجات یافتہ اور بامراد ہو جاؤ گے ۔(تفسیر ابن جریر الطبری:510/7) ۱؎ آل عمران
200 آل عمران
0 النسآء
1 محبت و مودت کا آفاقی اصول محبت و مودت کا آفاقی اصول اللہ تعالیٰ اپنے تقوے کا حکم دیتا ہے کہ جسم سے اسی ایک ہی کی عبادتیں کی جائیں اور دل میں صرف اسی کا خوف رکھا جائے ، پھر اپنی قدرت کاملہ کا بیان فرماتا ہے کہ اس نے تم سب کو ایک ہی شخص یعنی آدم علیہ السلام سے پیدا کیا ہے ، ان کی بیوی یعنی حواء علیہما السلام کو بھی انہی سے پیدا کیا ، آپ سوئے ہوئے تھے کہ بائیں طرف کی پسلی کی پچھلی طرف سے حواء کو پیدا کیا ، آپ نے بیدار ہو کر انہیں دیکھا اور اپنی طبیعت کو ان کی طرف راغب پایا اور انہیں بھی ان سے انس پیدا ہوا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں عورت مرد سے پیدا کی گئی ہے اس لیے اس کی حاجت و شہوت مرد میں رکھی گئی ہے اور مرد زمین سے پیدا کئے گئے ہیں اس لیے ان کی حاجت زمین میں رکھی گئی ہے ۔ پس تم اپنی عورتوں کو روکے رکھو ، صحیح حدیث میں ہے عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور سب سے بلند پسلی سب سے زیادہ ٹیڑھی ہے پس اگر تو اسے بالکل سیدھی کرنے کو جائے گا تو توڑ دے گا اور اگر اس میں کچھ کجی باقی چھوڑتے ہوئے فائدہ اٹھانا چاہے گا تو بیشک فائدہ اٹھا سکتا ہے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3331) پھر فرمایا ان دونوں سے یعنی آدم اور حواء سے بہت سے انسان مردو عورت چاروں طرف دنیا میں پھیلا دیئے جن کی قسمیں ، صفتیں ، رنگ روپ ، بول چال میں بہت کچھ اختلاف ہے ، جس طرح یہ سب پہلے اللہ تعالیٰ کے قبضے میں تھے اور پھر انہیں اس نے ادھر ادھر پھیلا دیا ، ایک وقت ان سب کو سمیٹ کر پھر اپنے قبضے میں کر کے ایک میدان میں جمع کرے گا ۔ پس اللہ سے ڈرتے رہو اس کی اطاعت ، عبادت بجا لاتے رہو ، اسی اللہ کے واسطے سے اور اسی کے پاک نام پر تم آپس میں ایک دوسرے سے مانگتے ہو ، مثلاً یہ کہنا کہ میں تجھے اللہ کو یاد دلا کر اور رشتے کو یاد دلا کر یوں کہتا ہوں ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:519/7) اسی کے نام کی قسمیں کھاتے ہو اور عہد و پیمان مضبوط کرتے ہو ، ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:518/7) اللہ جل شانہ سے ڈر کر رشتوں ناتوں کی حفاظت کرو انہیں توڑو نہیں بلکہ جوڑو صلہ رحمی ، نیکی اور سلوک آپس میں کرتے رہو ۱؎ ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:519/7-522) «ارحام» بھی ایک قرأت میں ہے یعنی اللہ کے نام پر اور رشتے کے واسطے سے ، اللہ تعالیٰ تمہارے تمام احوال اور اعمال سے واقف ہے خوب دیکھ بھال رہا ہے ، جیسے اور جگہ ہے : «وَ اللہُ عَلَیٰ کُلِّ شَیْءٍ شَہِیدٌ» ۱؎ ‏‏‏‏ (85-البروج:9) یعنی ’ اللہ ہر چیز پر گواہ اور حاضر ہے ‘ ، صحیح حدیث میں ہے اللہ عزوجل کی ایسی عبادت کر کہ گویا تو اسے دیکھ رہا ہے پس اگر تو اسے نہیں دیکھ رہا تو وہ تو تجھے دیکھ ہی رہا ہے ، ۱؎ (صحیح بخاری:50) مطلب یہ ہے کہ اس کا لحاظ رکھو جو تمہارے ہر اٹھنے بیٹھنے چلنے پھرنے پر نگراں ہے ، یہاں فرمایا گیا کہ لوگو تم سب ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہو ایک دوسرے پر شفقت کیا کرو ، کمزور اور ناتواں کا ساتھ دو اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو ۔ صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ جب قبیلہ مضر کے چند لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چادریں لپیٹے ہوئے آئے کیونکہ ان کے جسم پر کپڑا تک نہ تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر نماز ظہر کے بعد وعظ بیان فرمایا جس میں اس آیت کی تلاوت کی پھر آیت «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللہَ إِنَّ اللہَ خَبِیرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ» ۱؎ (59-الحشر:18) کی تلاوت کی ، پھر لوگوں کو خیرات کرنے کی ترغیب دی چنانچہ جس سے جو ہو سکا ان لوگوں کے لیے دیا درہم و دینار بھی اور کھجور و گیہوں بھی ۱؎ (صحیح مسلم:1017) یہ حدیث ، مسند اور سنن میں خطبہ حاجات کے بیان میں ہے ۱؎ (سنن ابوداود:2118،قال الشیخ الألبانی:صحیح) پھر تین آیتیں پڑھیں جن میں سے ایک آیت یہی «اتَّقُوا رَبَّکُمُ الَّذِی خَلَقَکُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَۃٍ» ہے ۔ النسآء
2 یتیموں کی نگہداشت اور چار شادیوں کی اجازت اللہ تعالیٰ یتیموں کے والیوں کو حکم دیتا ہے کہ جب یتیم بلوغت اور سمجھداری کو پہنچ جائیں تو ان کے جو مال تمہارے پاس ہوں انہیں سونپ دو ، پورے پورے بغیر کمی اور خیانت کے ان کے حوالے کرو ، اپنے مالوں کے ساتھ ملا کر گڈمڈ کر کے کھا جانے کی نیت نہ رکھو ، حلال رزق جب اللہ رحیم تمہیں دے رہا ہے پھر حرام کی طرف کیوں منہ اٹھاؤ ؟ تقدیر کی روزی مل کر ہی رہے گی اپنے حلال مال چھوڑ کر لوگوں کے مالوں کو جو تم پر حرام ہیں نہ لو ، دبلا پتلا جانور دے کر موٹا تازہ نہ لو ، بوٹی دے کر بکرے کی فکر نہ کرو ، ردی دے کر اچھے کی اور کھوٹا دے کر کھرے کی نیت نہ رکھو ، پہلے لوگ ایسا کر لیا کرتے تھے کہ یتیموں کی بکریوں کے ریوڑ میں سے عمدہ بکری لے لی اور اپنی دبلی پتلی بکری دے کر گنتی پوری کر دی ، کھوٹا درہم اس کے مال میں ڈال کر کھرا نکال لیا اور پھر سمجھ لیا کہ ہم نے تو بکری کے بدلے بکری اور درہم کے بدلے درہم لیا ہے ۔ ان کے مالوں میں اپنا مال خلط ملط کر کے پھر یہ حیلہ کر کے اب امتیاز کیا ہے ؟ ان کے مال تلف نہ کرو ، یہ بڑا گناہ ہے ، ایک ضعیف حدیث میں بھی یہی معنی آخری جملے کے مروی ہیں ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:525/7:ضعیف) ابوداؤد کی حدیث میں ایک دعا میں بھی «حوب» کا لفظ گناہ کے معنی میں آیا ہے ۱؎ (سنن ابوداود:3892،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) سیدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ نے جب اپنی بیوی صاحبہ کو طلاق دینے کا ارادہ کیا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا تھا کہ اس طلاق میں گناہ ہے ، ۱؎ (طبرانی کبیر:136/25:ضعیف) چنانچہ وہ اپنے ارادے سے باز رہے ، ایک روایت میں یہ واقعہ سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ اور سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا کا مروی ہے ۔ ۱؎ (مستدرک حاکم:302/2:ضعیف) پھر فرماتا ہے کہ تمہاری پرورش میں کوئی یتیم لڑکی ہو اور تم اس سے نکاح کرنا چاہتے ہو لیکن چونکہ اس کا کوئی اور نہیں اس لیے تم تو ایسا نہ کرو کہ مہر اور حقوق میں کمی کر کے اسے اپنے گھر ڈال لو اس سے باز رہو اور عورتیں بہت ہیں جس سے چاہو نکاح کر لو ۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ایک یتیم لڑکی تھی جس کے پاس مال بھی تھا اور باغ بھی جس کی پرورش میں وہ تھی اس نے صرف اس مال کے لالچ میں بغیر اس کا پورا مہر وغیرہ مقرر کرنے کے اس سے نکاح کر لیا جس پر یہ آیت اتری میرا خیال ہے کہ اس باغ اور مال میں یہ لڑکی حصہ دار تھی ۱؎ (صحیح بخاری:4573) صحیح بخاری میں ہے کہ سیدنا عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس آیت کا مطلب پوچھا تو آپ نے فرمایا : بھانجے ، یہ ذکر اس یتیم لڑکی کا ہے جو اپنے ولی کے قبضہ میں ہے اس کے مال میں شریک ہے اور اسے اس کا مال و جمال اچھا لگتا ہے چاہتا ہے کہ اس سے نکاح کر لے لیکن جو مہر وغیرہ اور جگہ سے اسے ملتا ہے اتنا یہ نہیں دیتا تو اسے منع کیا جا رہا ہے کہ وہ اس اپنی نیت کو چھوڑ دے اور کسی دوسری عورت سے جس سے چاہے اپنا نکاح کر لے ، پھر اس کے بعد لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کی بابت دریافت کیا اور آیت «وَیَسْتَفْتُونَکَ فِی النِّسَاءِ قُلِ اللہُ یُفْتِیکُمْ فِیہِنَّ» ۱؎ (4-النساء:127) نازل ہوئی وہاں فرمایا گیا ہے کہ جب یتیم لڑکی کم مال والی اور کم جمال والی ہوتی ہے اس وقت تو اس کے والی اس سے بیرغبتی کرتے ہیں پھر کوئی وجہ نہیں کہ مال و جمال پر مائل ہو کر اس کے پورے حقوق ادا نہ کر کے اس سے اپنا نکاح کر لیں ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4574) ہاں عدل و انصاف سے پورا مہر وغیرہ مقرر کریں تو کوئی حرج نہیں ، ورنہ پھر عورتوں کی کمی نہیں اور کسی سے جس سے چاہیں نکاح کر لیں اگر چاہیں دو دو عورتیں اپنے نکاح میں رکھیں اگر چاہیں تین تین رکھیں اگر چاہیں چار چار ، جیسے اور جگہ یہ الفاظ ان ہی معنوں میں ہیں ، فرماتا ہے : «الْحَمْدُ لِلہِ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ جَاعِلِ الْمَلَائِکَۃِ رُسُلًا أُولِی أَجْنِحَۃٍ مَثْنَیٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ» (35- فاطر:1) الخ یعنی ’ جن فرشتوں کو اللہ تعالیٰ اپنا قاصد بنا کر بھیجتا ہے ان میں سے بعض دو دو پروں والے ہیں بعض تین تین پروں والے بعض چار پروں والے فرشتوں میں اس سے زیادہ پر والے فرشتے بھی ہیں ‘ کیونکہ دلیل سے یہ ثابت شدہ ہے ۔ لیکن مرد کو ایک وقت میں چار سے زیادہ بیویوں کا جمع کرنا منع ہے جیسے کہ اس آیت میں موجود ہے اور جیسے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور جمہور کا قول ہے ، یہاں اللہ تعالیٰ اپنے احسان اور انعام بیان فرما رہا ہے پس اگر چار سے زیادہ کی اجازت دینی منظور ہوتی تو ضرور فرما دیا جاتا ، امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں حدیث جو قرآن کی وضاحت کرنے والی ہے اس نے بتلا دیا ہے کہ سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی کے لیے چار سے زیادہ بیویوں کا بیک وقت جمع کرنا جائز نہیں اسی پر علماء کرام کا اجماع ہے ۔ البتہ بعض شیعہ کا قول ہے کہ نو تک جمع کرنی جائز ہیں ، بلکہ بعض شیعہ نے تو کہا ہے کہ نو سے بھی زیادہ جمع کر لینے میں بھی کوئی حرج نہیں کوئی تعداد مقرر ہے ہی نہیں ، ان کا استدلال ایک تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے ہے جیسا کہ صحیح حدیث میں آ چکا ہے کہ آپ کی نو بیویاں تھیں ۱؎ (صحیح بخاری:5067) اور بخاری شریف کی معلق حدیث کے بعض راویوں نے گیارہ کہا ہے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:267) سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے پندرہ بیویوں سے عقد کیا تیرہ کی رخصتی ہوئی ایک وقت میں گیارہ بیویاں آپ کے پاس تھیں ۔ انتقال کے وقت آپ کی نو بیویاں تھیں ۱؎ (بیہقی:289:مرسل) ہمارے علماء کرام رحمہ اللہ علیہم اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ یہ آپ کی خصوصیت تھی امتی کو ایک وقت میں چار سے زیادہ بیویاں پاس رکھنے کی اجازت نہیں ، جیسے کہ یہ حدیثیں اس امر پر دلالت کرتی ہیں ، سیدنا غیلان بن سلمہ ثقفی رضی اللہ عنہ جب مسلمان ہوتے ہیں تو ان کے پاس ان کی دس بیویاں تھیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ ان میں سے جنہیں چاہو چار رکھ لو باقی کو چھوڑ دو چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا پھر سیدنا رضی اللہ عنہ عمر کی خلافت کے زمانے میں اپنی ان بیویوں کو بھی طلاق دے دی اور اپنے لڑکوں کو اپنا مال بانٹ دیا ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو جب یہ معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا شاید تیرے شیطان نے بات اچک لی اور تیرے دل میں خیال جما دیا ہے کہ تو عنقریب مرنے والا ہے اس لیے اپنی بیویوں کو تو نے بھی الگ کر دیا کہ وہ تیرا مال نہ پائیں اور اپنا مال اپنی اولاد میں تقسیم کر دیا میں تجھے حکم دیتا ہوں کہ اپنی بیویوں سے رجوع کر لے اور اپنی اولاد سے مال واپس لے لے اگر تو نے ایسا نہ کیا تو تیرے بعد تیری ان مطلقہ بیویوں کو بھی تیرا وارث بناؤں گا کیونکہ تو نے انہیں اسی ڈر سے طلاق دی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ تیری زندگی بھی اب ختم ہونے والی ہے اور اگر تو نے میری بات نہ مانی تو یاد رکھ میں حکم دوں گا کہ لوگ تیری قبر پر پتھر پھینکیں جیسے کہ ابو رغال کی قبر پر پتھر پھینکے جاتے ہیں ۱؎ (سنن ترمذی:1128،قال الشیخ الألبانی:صحیح) [ مسند احمد شافعی ترمذی ابن ماجہ دارقطنی بیہقی وغیرہ ] مرفوع حدیث تک تو ان سب کتابوں میں ہے ہاں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ والا واقعہ صرف مسند احمد میں ہی ہے لیکن یہ زیادتی حسن ہے ، اگرچہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے ضعیف کہا ہے اور اس کی اسناد کا دوسرا طریقہ بتا کر اس طریقہ کو غیر محفوظ کہا ہے مگر اس تعلیل میں بھی اختلاف ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» اور بزرگ محدثین نے بھی اس پر کلام کیا ہے لیکن مسند احمد والی حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں اور شرط شیخین پر ہیں ایک اور روایت میں ہے کہ یہ دس عورتیں بھی اپنے خاوند کے ساتھ مسلمان ہوئی تھیں ملاحظہ ہو ۔ ۱؎ (بیہقی:183/7:حسن) اس حدیث سے صاف ظاہر ہو گیا کہ اگر چار سے زیادہ کا ایک وقت میں نکاح میں رکھنا جائز ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان سے یہ نہ فرماتے کہ اپنی ان دس بیویوں میں سے چار کو جنہیں تم چاہو روک لو باقی کو چھوڑ دو کیونکہ یہ سب بھی اسلام لا چکی تھیں ، یہاں یہ بات بھی خیال میں رکھنی چاہیئے کہ ثقفی کے ہاں تو یہ دس عورتیں بھی موجود تھیں اس پر بھی آپ نے چھ علیحدہ کرا دیں پھر بھلا کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص نئے سرے سے چار سے زیادہ جمع کرے ؟ «وَاللہُ سُبْحَانَہُ وَ تَعَالَیٰ اَعْلَمُ با الصواب» چار سے زائد نہیں، وہ بھی بشرط انصاف ورنہ ایک ہی بیوی! دوسری حدیث ابوداؤد ابن ماجہ وغیرہ میں ہے سیدنا عمیرہ اسدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے جس وقت اسلام قبول کیا میرے نکاح میں آٹھ عورتیں تھیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا آپ نے فرمایا : ” ان میں سے جن چار کو چاہو رکھ لو “ ۱؎ (سنن ابوداود:2241/2242،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اس کی سند حسن ہے اور اس کے شواہد بھی ہیں راویوں کے ناموں کا ہیر پھیر وغیرہ ایسی روایات میں نقصان دہ نہیں ہوتا تیسری حدیث مسند شافعی میں ہے سیدنا نوفل بن معاویہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے جب اسلام قبول کیا اس وقت میری پانچ بیویاں تھیں مجھ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ان میں سے پسند کر کے چار کو رکھ لو اور ایک کو الگ کر دو “ میں نے جو سب سے زیادہ عمر کی بڑھیا اور بے اولاد بیوی ساٹھ سال کی تھیں انہیں طلاق دے دی ۱؎ (مسند شافعی:16/2:) پس یہ حدیثیں سیدنا غیلان رضی اللہ عنہ والی پہلی حدیث کی شواہد ہیں جیسے کہ امام بیہقی نے فرمایا ۔ پھر فرماتا ہے ہاں اگر ایک سے زیادہ بیویوں میں عدل و انصاف نہ ہو سکنے کا خوف ہو تو صرف ایک ہی پر اکتفا کرو اور اپنی کنیزوں سے استمتاع کرو ۔ جیسے اور جگہ ہے «وَلَن تَسْتَطِیعُوا أَن تَعْدِلُوا بَیْنَ النِّسَاءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ» ۱؎ (4-النساء:129) یعنی ’ گو تم چاہو لیکن تم سے نہ ہو سکے گا کہ عورتوں کے درمیان پوری طرح عدل و انصاف کو قائم رکھ سکو پس بالکل ایک ہی طرف جھک کر دوسری کو مصیبت میں نہ ڈال دو ‘ ، ہاں یاد رہے کہ لونڈیوں میں باری وغیرہ کی تقسیم واجب نہیں البتہ مستحب ہے جو کرے اس نے اچھا کیا اور جو نہ کرے اس پر حرج نہیں ۔ اس کے بعد کے جملے کے مطلب میں بعض نے تو کہا ہے کہ یہ قریب ہے ان معنی کے کہ تمہارے عیال یعنی فقیری زیادہ نہ ہو جیسے اور جگہ ہے آیت «وَإِنْ خِفْتُمْ» ۱؎ » (9-التوبۃ:29) یعنی اگر تمہیں فقر کا ڈر ہو ۔ عربی شاعر کہتا ہے : « فما یدری الفقیر متی غناہ ... وما یدری الغنی متی یعیل» یعنی ” فقیر نہیں جانتا کہ کب امیر ہو جائے گا ... اور امیر کو معلوم نہیں کہ کب فقیر بن جائے گا “ جب کوئی مسکین محتاج ہو جائے تو عرب کہتے ہیں «عال الرجل» یعنی ” یہ شخص فقیر ہو گیا “ غرض اس معنی میں یہ لفظ مستعمل تو ہے لیکن یہاں یہ تفسیر کچھ زیادہ اچھی نہیں معلوم ہوتی ، کیونکہ اگر آزاد عورتوں کی کثرت فقیری کا باعث بن سکتی ہے تو لونڈیوں کی کثرت بھی فقیری کا سبب ہو سکتی ہے ۔ پس صحیح قول جمہور کا ہے کہ مرادیہ ہے کہ یہ قریب ہے اس سے کہ تم ظلم سے بچ جاؤ ، عرب میں کہا جاتا ہے «عال فی الحکم» جبکہ ظلم و جور کیا ہو ، ابوطالب کے مشہور قصیدے میں ہے ۔ « بمیزان قسط لا یخیس شعیرۃ» ... لہ شاہدمن نفسہ غیر عائل» بہترین ترازو ضمیر ہے یعنی ایسی ترازو سے تولتا ہے جو ایک جو برابر کی بھی کمی نہیں کرتا اس کے پاس اس کا گواہ خود اس کا نفس ہے جو ظالم نہیں ہے ۔ ابن جریر میں ہے کہ جب کوفیوں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ پر ایک میں خط کچھ الزام لکھ کر بھیجے تو ان کے جواب میں خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھا کہ «إِنی لسْتُ بمیزانٍ لا أَعُول» میں ظلم کا ترازو نہیں ہوں صحیح ابن حبان وغیرہ میں ایک مرفوع حدیث اس جملہ کی تفسیر میں مروی ہے کہ اس کا معنی ہے تم ظلم نہ کرو ۱؎ (صحیح ابنvحبان:134/6) ابوحاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس کا مرفوع ہونا تو خطا ہے ہاں یہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا قول ہے اسی طرح «لا تعولوا» کے یہی معنی ہیں یعنی تم ظلم نہ کرو ۔ سیدنا عبداللہ بن عباس ، سیدہ عائشہ ، رضی اللہ عنہما مجاہد ، عکرمہ ، حسن ، ابو مالک ، ابو زرین ، نخعی ، شعبی ، ضحاک ، عطاء خراسانی ، قتادہ ، سدی اور مقاتل بن حیان رحمہ اللہ علیہم ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:549/7-515) وغیرہ سے بھی مروی ہیں ۔ عکرمہ رحمہ اللہ نے بھی ابوطالب کا وہی شعر پیش کیا ہے ، امام ابن جریر رحمہ اللہ نے اسے روایت کیا ہے اور خود امام صاحب بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں ۔ پھر فرماتا ہے اپنی بیویوں کو ان کے مہر خوش دلی سے ادا کر دیا کرو جو بھی مقرر ہوئے ہوں اور جن کو تم نے منظور کیا ہو ، ہاں اگر عورت خود اپنا سارا یا تھوڑا بہت مہر اپنی خوشی سے مرد کو معاف کر دے تو اسے اختیار ہے اور اس صورت میں بیشک مرد کو اس کا اپنے استعمال میں لانا حلال ، طیب ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو جائز نہیں کہ بغیر مہر واجب کے نکاح کرے نہ یہ کہ جھوٹ موٹ مہر کا نام ہی نام ہو ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:553/7) ابن ابی حاتم میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا قول مروی ہے کہ تم میں سے جب کوئی بیمار پڑے تو اسے چاہیئے کہ اپنی بیوی سے اس کے مال کے تین درہم یا کم و بیش لے ان کا شہد خرید لے اور بارش کا آسمانی پانی اس میں ملالے تو تین تین بھلائیاں مل جائیں گی آیت «فَإِن طِبْنَ لَکُمْ عَن شَیْءٍ مِّنْہُ نَفْسًا فَکُلُوہُ ہَنِیئًا مَّرِیئًا» (4-النساء:4) تو مال عورت اور شفاء شہد اور مبارک بارش کا پانی ۔ ابوصالح رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ لوگ اپنی بیٹیوں کا مہر آپ لیتے تھے جس پر یہ آیت اتری اور انہیں اس سے روک دیا گیا [ ابن ابی حاتم اور ابن جریر ] اس حکم کو سن کر لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ان کا مہر کیا ہونا چاہیئے ؟ آپ نے فرمایا جس چیز پر بھی ان کے ولی رضامند ہو جائیں ۱؎ (بیہقی:239/7:مرسل و ضعیف) [ ابن ابی حاتم ] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبے میں تین مرتبہ فرمایا کہ ” بیوہ عورتوں کا نکاح کر دیا کرو “ ، ایک شخص نے کھڑے ہو کر پوچھا کہ یا رسول اللہ ! ایسی صورت میں ان کا مہر کیا ہو گا ؟ آپ نے فرمایا : ” جس پر ان کے گھر والے راضی ہو جائیں “ ۱؎ (بیہقی:239/7:منقطع و ضعیف) اس کے ایک راوی ابن بیلمانی ضعیف ہیں ، پھر اس میں انقطاع بھی ہے ۔ النسآء
3 النسآء
4 النسآء
5 کم عقل اور یتیموں کے بارہ میں احکامات اللہ سبحانہ و تعالیٰ لوگوں کو منع فرماتا ہے کہ کم عقل بیویوں کو مال کے تصرف سے روکیں ، مال کو اللہ تعالیٰ نے تجارتوں وغیرہ میں لگا کر انسان کا ذریعہ معاش بنایا ہے ، اس سے معلوم ہوا کہ کم عقل لوگوں کو ان کے مال کے خرچ سے روک دینا چاہیئے ، مثلاً نابالغ بچہ ہو یا مجنون و دیوانہ ہو یا کم عقل ، بیوقوف ہو اور بےدین ہو ، بری طرح اپنے مال کو لٹا رہا ہو ، اسی طرح ایسا شخص جس پر قرض بہت چڑھ گیا ہو جسے وہ اپنے کل مال سے بھی ادا نہیں کر سکتا اگر قرض خواہ حاکم وقت سے درخواست کریں تو حاکم وہ سب مال اس کے قبضے سے لے لے گا اور اسے بےدخل کر دے گا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یہاں «السٰفَہَاءَ» سے مراد تیری اولاد اور عورتیں ہیں ، ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:562/7) اسی طرح سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ ، حکم بن عبینہ ، حسن اور ضحاک رحمہ اللہ علیہم سے بھی مروی ہے کہ اس سے مراد عورتیں اور بچے ہیں ، ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:562/7) سعید بن جبیر فرماتے ہیں یتیم مراد ہیں ، مجاہد عکرمہ اور قتادہ کا قول ہے کہ عورتیں مراد ہیں ۔ ابن ابی حاتم میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” بیشک عورتیں بیوقوف ہیں مگر جو اپنے خاوند کی اطاعت گزار ہوں “ } ، ۱؎ [ ضعیف: اس کی سند میں عثمان بن ابی عاتکہ اور بن یزید دونوں راوی ضعیف ہیں] ابن مردویہ میں بھی یہ حدیث مطول مروی ہے ، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد سرکش خادم ہیں ۔ پھر فرماتا ہے انہیں کھلاؤ پہناؤ اور اچھی بات کہو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں یعنی تیرا مال جس پر تیری گزر بسر موقوف ہے اسے اپنی بیوی بچوں کو نہ دے ڈال کہ پھر ان کا ہاتھ تکتا پھرے بلکہ اپنا مال اپنے قبضے میں رکھ اس کی اصلاح کرتا رہ اور خود اپنے ہاتھ سے ان کے کھانے کپڑے کا بندوبست کر اور ان کے خرچ اٹھا ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریرالطبری:7/570) سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں تین قسم کے لوگ ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ قبول نہیں فرماتا، ایک وہ شخص جس کی بیوی بدخلق ہو اور پھر بھی وہ اسے طلاق نہ دے دوسرا وہ شخص جو اپنا مال بیوقوف کو دیدے حالانکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے بیوقوف کو اپنا مال نہ دو تیسرا وہ شخص جس کا قرض کسی پر ہو اور اس نے اس قرض پر کسی کو گواہ نہ کیا ہو۔ ان سے بھلی بات کہو یعنی ان سے نیکی اور صلہ رحمی کرو، اس آیت سے معلوم ہوا کہ محتاجوں سے سلوک کرنا چاہیئے اسے جسے بالفعل تصرف کا حق نہ ہو اس کے کھانے کپڑے کی خبرگیری کرنی چاہیئے اور اس کے ساتھ نرم زبانی اور خوش خلقی سے پیش آنا چاہیئے۔ پھر فرمایا یتیموں کی دیکھ بھال رکھو یہاں تک کہ وہ جوانی کو پہنچ جائیں، یہاں نکاح سے مراد بلوغت ہے ۱؎ (تفسیر ابن جریرالطبری:7/584) اور بلوغت اس وقت ثابت ہوتی ہے جب اسے خاص قسم کے خواب آنے لگیں جن میں خاص پانی اچھل کر نکلتا ہے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بخوبی یاد ہے کہ احتلام کے بعد یتیمی نہیں اور نہ تمام دن رات چپ رہنا ہے۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2873،قال الشیخ الألبانی:صحیح) دوسری حدیث میں ہے تین قسم کے لوگوں سے قلم اٹھا لیا گیا ہے، بچے سے جب تک بالغ نہ ہو، سوتے سے جب تک جاگ نہ جائے، مجنوں سے جب تک ہوش نہ آ جائے۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4398،قال الشیخ الألبانی:صحیح) پس ایک تو علامت بلوغ یہ ہے ۔ دوسری علامت بلوغ بعض کے نزدیک یہ ہے کہ پندرہ سال کی عمر ہو جائے اس کی دلیل بخاری مسلم کی سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما والی حدیث ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ احد والی لڑائی میں مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھ اس لیے نہیں لیا تھا کہ اس وقت میری عمر چودہ سال کی تھی اور خندق کی لڑائی میں جب میں حاضر کیا گیا تو آپ نے قبول فرما لیا اس وقت میں پندرہ سال کا تھا۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2664) عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو جب یہ حدیث پہنچی تو آپ نے فرمایا : نابالغ بالغ کی حد یہی ہے، تیسری علامت بلوغت کی زیر ناف کے بالوں کا نکلنا ہے، اس میں علماء کے تین قول ہیں ایک یہ کہ علامت بلوغ ہے دوسرے یہ کہ نہیں تیسرے یہ کہ مسلمانوں میں نہیں اور ذمیوں میں ہے اس لیے کہ ممکن ہے کسی دوا سے یہ بال جلد نکل آتے ہوں اور ذمی پر جوان ہوتے ہی جزیہ لگ جاتا ہے تو وہ اسے کیوں استعمال کرنے لگا؟ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ سب کے حق میں یہ علامت بلوغت ہے کیونکہ اولاً تو جلی امر ہے علاج معالجہ کا احتمال بہت دور کا احتمال ہے ٹھیک یہی ہے کہ یہ بال اپنے وقت پر ہی نکلتے ہیں ۔ دوسری دلیل مسند احمد کی حدیث ہے، جس میں سیدنا عطیہ قرضی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ بنو قریظہ کی لڑائی کے بعد ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کئے گئے تو آپ نے حکم دیا کہ ایک شخص دیکھے جس کے یہ بال نکل آئے ہوں اسے قتل کر دیا جائے اور نہ نکلے ہوں اسے چھوڑ دیا جائے چنانچہ یہ بال میرے بھی نہ نکلے تھے مجھے چھوڑ دیا گیا،۱؎ (سنن ابوداود:4404،قال الشیخ الألبانی:صحیح) سنن اربعہ میں بھی یہ حدیث ہے اور امام ترمذی رحمہ اللہ اسے حسن صحیح فرماتے ہیں، سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے فیصلے پر راضی ہو کر یہ قبیلہ لڑائی سے باز آیا تھا پھر سیدنا سعد رضی اللہ عن نے یہ فیصلہ کیا کہ ان میں سے لڑنے والے تو قتل کر دئیے جائیں اور بچے قیدی بنا لیے جائیں ۔ غرائب ابی عبید میں ہے کہ ایک لڑکے نے ایک نوجوان لڑکی کی نسبت کہا کہ میں نے اس سے بدکاری کی ہے دراصل یہ تہمت تھی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسے تہمت کی حد لگانی چاہی لیکن فرمایا دیکھ لو اگر اس کے زیر ناف کے بال اگ آئے ہوں تو اس پر حد جاری کرو ورنہ نہیں دیکھا تو آگے نہ تھے چنانچہ اس پر سے حد ہٹا دی۔ پھر فرماتا ہے جب تم دیکھو کہ یہ اپنے دین کی صلاحیت اور مال کی حفاظت کے لائق ہو گئے ہیں تو ان کے ولیوں کو چاہیئے کہ ان کے مال انہیں دے دیں ۔ بغیر ضروری حاجت کے صرف اس ڈر سے کہ یہ بڑے ہوتے ہی اپنا مال ہم سے لے لیں گے تو ہم اس سے پہلے ہی ان کے مال کو ختم کر دیں ان کا مال نہ کھاؤ ۔ جسے ضرورت نہ ہو خود امیر ہو کھاتا پیتا ہو تو اسے تو چاہیئے کہ ان کے مال میں سے کچھ بھی نہ لے ، مردار اور بہے ہوئے خون کی طرح یہ مال ان پر حرام محض ہے ، ہاں اگر والی مسکین محتاج ہو تو بیشک اسے جائز ہے کہ اپنی پرورش کے حق کے مطابق وقت کی حاجت اور دستور کے موجب اس مال میں سے کھا پی لے اپنی حاجت کو دیکھے اور اپنی محنت کو ، اگر حاجت محنت سے کم ہو تو حاجت کے مطابق لے اور اگر محنت حاجت سے کم ہو تو محنت کا بدلہ لے لے ، پھر ایسا ولی اگر مالدار بن جائے تو اسے اس کھائے ہوئے اور لیے ہوئے مال کو واپس کرنا پڑے گا یا نہیں ؟ اس میں دو قول ہیں ایک تو یہ کہ واپس نہ دینا ہو گا اس لیے کہ اس نے اپنے کام کے بدلے لے لیا ہے امام شافعی رحمہ اللہ کے ساتھیوں کے نزدیک یہی صحیح ہے ، اس لیے کہ آیت نے بغیر بدل کے مباح قرار دیا ہے ۔ اور مسند احمد وغیرہ میں ہے کہ ایک شخص نے کہا : یا رسول اللہ ! میرے پاس مال نہیں ایک یتیم میری پرورش میں ہے تو کیا میں اس کے کھانے سے کھا سکتا ہوں ؟ آپ نے فرمایا : ” ہاں اس یتیم کا مال اپنے کام میں لا سکتا بشرطیکہ حاجت سے زیادہ نہ اڑا ، نہ جمع کر ، نہ یہ ہو کہ اپنے مال کو تو بچا رکھے اور اس کے مال کو کھاتا چلا جائے “ ۔ ۱؎ (مسند احمد:186/2:جید اسناد) ابن ابی حاتم میں بھی ایسی ہی روایت ہے۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2872،قال الشیخ الألبانی:حسن صحیح) ابن حبان وغیرہ میں ہے کہ { ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ میں اپنے یتیم کو ادب سکھانے کے لیے ضرورتاً کس چیز سے ماروں ؟ فرمایا :” جس سے تو اپنے بچے کو تنبیہہ کرتا ہے اپنا مال بچا کر اس کا مال خرچ نہ کر نہ اس کے مال سے دولت مند بننے کی کوشش کر “ } ۔ ۱؎ (صحیح ابن حبان:4244) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کسی نے پوچھا کہ میرے پاس بھی اونٹ ہیں اور میرے ہاں جو یتیم پل رہے ہیں ان کے بھی اونٹ ہیں میں اپنی اونٹنیاں دودھ پینے کے لیے فقیروں کو تحفہ دے دیتا ہوں تو کیا میرے لیے جائز ہے کہ ان یتیموں کی اونٹنیوں کا دودھ پی لوں ؟ آپ نے فرمایا اگر ان یتیموں کی گمشدہ اونٹنیوں کو تو ڈھونڈ لاتا ہے ان کے چارے پانی کی خبرگیری رکھتا ہے ، ان کے حوض درست کرتا رہتا ہے اور ان کی نگہبانی کیا کرتا ہے تو بیشک دودھ سے نفع بھی اٹھا لیکن اس طرح کہ نہ ان کے بچوں کو نقصان پہنچے ،نہ حاجت سے زیادہ لے ، ۱؎ (موطا:33/2،934) عطاء بن رباح عکرمہ ابراہیم نخعی عطیہ عوفی حسن بصری رحمہ اللہ علیہم کا یہی قول ہے ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ تنگ دستی کے دور ہو جانے کے بعد وہ مال یتیم کو واپس دینا پڑے گا اس لیے کہ اصل تو ممانعت ہے البتہ ایک وجہ سے جواز ہو گیا تھا جب وہ وجہ جاتی رہی تو اس کا بدل دینا پڑے گا جیسے کوئی بےبس اور مضطر ہو کر کسی غیر کا مال کھا لے لیکن حاجت کے نکل جانے کے بعد اگر اچھا وقت آیا تو اسے واپس دینا ہو گا ، دوسری دلیل یہ ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جب تخت خلافت پر بیٹھے تو اعلان فرمایا تھا کہ میری حیثیت یہاں یتیم کے والی کی حیثیت ہے اگر مجھے ضرورت ہی نہ ہوئی تو میں بیت المال سے کچھ نہ لوں گا اور اگر محتاجی ہوئی تو بطور قرض لوں گا جب آسانی ہوئی پھر واپس کر دوں گا [ ابن ابی الدنیا ] یہ حدیث سعید بن منصور میں بھی ہے اور اس کی سند صحیح ہے ، بیہقی میں بھی یہ حدیث ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے آیت کے اس جملہ کی تفسیر میں مروی ہے کہ بطور قرض کھائے اور بھی مفسرین سے یہ مروی ہے ۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں معروف سے کھانے کا مطلب یہ ہے کہ تین انگلیوں سے کھائے اور روایت میں آپ سے یہ مروی ہے کہ وہ اپنے ہی مال کو صرف اپنی ضرورت پوری ہو جانے کے لائق ہی خرچ کرے تاکہ اسے یتیم کے مال کی حاجت ہی نہ پڑے ۔ عامر شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اگر ایسی بےبسی ہو جس میں مردار کھانا جائز ہو جاتا ہے تو بیشک کھا لے لیکن پھر ادا کرنا ہو گا ، یحییٰ بن سعید انصار اور ربیعہ رحمہ اللہ علیہم سے اس کی تفسیر یوں مروی ہے کہ اگر یتیم فقیر ہو تو اس کا ولی اس کی ضرورت کے موافق دے اور پھر اس ولی کو کچھ نہ ملے گا ، لیکن عبارت میں یہ ٹھیک نہیں بیٹھتا اس لیے کہ اس سے پہلے یہ جملہ بھی ہے کہ جو غنی ہو وہ کچھ نہ لے ، یعنی جو ولی غنی ہو تو یہاں بھی یہی مطلب ہو گا جو ولی فقیر ہو نہ یہ کہ جو یتیم فقیر ہو ۔ دوسری آیت میں ہے : «وَلَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ اِلَّا بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ حَتّٰی یَبْلُغَ اَشُدَّہٗ» (6-الأنعام:152) الخ یعنی ’ یتیم کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ ہاں بطور اصلاح کے پھر اگر تمہیں حاجت ہو تو حسب حاجت بطریق معروف اس میں سے کھاؤ پیو ‘ ۔ پھر اولیاء سے کہا جاتا ہے کہ جب وہ بلوغت کو پہنچ جائیں اور تم دیکھ لو کہ ان میں تمیز آ چکی ہے تو گواہ رکھ کر ان کے مال ان کے سپرد کر دو ، تاکہ انکار کرنے کا وقت ہی نہ آئے ، یوں تو دراصل سچا شاہد اور پورا نگراں اور باریک حساب لینے والا اللہ ہی ہے وہ خوب جانتا ہے کہ ولی نے یتیم کے مال میں نیت کیسی رکھی ؟ آیا خورد برد کیا تباہ و برباد کیا جھوٹ سچ حساب لکھا اور دیا یا صاف دل اور نیک نیتی سے نہایت چوکسی اور صفائی سے اس کے مال کا پورا پورا خیال رکھا اور حساب کتاب صاف رکھا ، ان سب باتوں کا حقیقی علم تو اسی دانا و بینا نگران و نگہبان کو ہے ۔ صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے فرمایا : ” اے ابوذر ! میں تمہیں ناتواں پاتا ہوں اور جو اپنے لیے چاہتا ہوں وہی تیرے لیے بھی پسند کرتا ہوں خبردار ! ہرگز دو شخصوں کا بھی سردار اور امیر نہ بننا نہ کبھی کسی یتیم کا ولی بننا “ ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1826) النسآء
6 النسآء
7 وراثت کے مسائل مشرکین عرب کا دستور تھا کہ جب کوئی مر جاتا تو اس کی بڑی اولاد کو اس کا مال مل جاتا چھوٹی اولاد اور عورتیں بالکل محروم رہتیں اسلام نے یہ حکم نازل فرما کر سب کی مساویانہ حیثیت قائم کر دی کہ وارث تو سب ہوں گے خواہ قرابت حقیقی ہو یا خواہ قرابت حقیقی ہو یا خواہ بوجہ عقد زوجیت کے ہو یا بوجہ نسبت آزادگی ہو حصہ سب کو ملے گا گو کم و بیش ہو ۔ ”ام کجہ“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرتی ہیں کہ اے اللہ کے رسول ! میرے دو لڑکے ہیں ان کے والد فوت ہو گئے ہیں ان کے پاس اب کچھ نہیں پس یہ آیت نازل ہوئی ، یہی حدیث دوسرے الفاظ سے میراث کی اور دونوں آیتوں کی تفسیر میں بھی عنقریب ان شاءاللہ آئے گی ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» دوسری آیت کا مطلب یہ ہے کہ جب کسی مرنے والے کا ورثہ بٹنے لگے اور وہاں اس کا کوئی دور کا رشتہ دار بھی آ جائے جس کا کوئی حصہ مقرر نہ ہو اور یتیم و مساکین آ جائیں تو انہیں بھی کچھ نہ کچھ دے دو ۔ ابتداء اسلام میں تو یہ واجب تھا اور بعض کہتے ہیں مستحب تھا اور اب بھی یہ حکم باقی ہے یا نہیں ؟ اس میں بھی دو قول ہیں ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما تو اسے باقی بتاتے ہیں مجاہد ، ابن مسعود ، ابوموسیٰ ، عبدالرحمٰن بن ابوبکر ، ابوالعالیہ ، شعبی ، حسن ، سعید بن جیر ، ابن سیرین ، عطاء بن ابو رباح ، زہری ، یحییٰ بن معمر رحمہ اللہ علیہم بھی باقی بتاتے ہیں ، بلکہ یہ حضرات سوائے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے وجوب کے قائل ہیں ، ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:8/8) سیدنا عبیدہ رضی اللہ عنہ ایک وصیت کے ولی تھے ۔ انہوں نے ایک بکری ذبح کی اور تینوں قسموں کے لوگوں کو کھلائی اور فرمایا اگر یہ آیت نہ ہوتی تو یہ بھی میرا مال تھا ، عروہ رحمہ اللہ نے سیدنا مصعب رضی اللہ عنہ کے مال کی تقسیم کے وقت بھی دیا ، زہری رحمہ اللہ کا بھی قول ہے کہ یہ آیت محکم ہے منسوخ نہیں ۔ ایک روایت میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ یہ وصیت پر موقوف ہے ۔ چنانچہ جب سیدنا عبدالرحمٰن بن ابوبکر رضی اللہ عنہما کے انتقال کے بعد ان کے صاحبزادے عبداللہ رحمہ اللہ نے اپنے باپ کا ورثہ تقسیم کیا اور یہ واقعہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی موجودگی کا ہے تو گھر میں جتنے مسکین اور قرابت دار تھے سب کو دیا اور اسی آیت کی تلاوت کی ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کو جب یہ معلوم ہوا تو فرمایا : اس نے ٹھیک نہیں کیا اس آیت سے تو مراد یہ ہے کہ جب مرنے والے نے اس کی وصیت کی ہو ۔ [ ابن ابی حاتم ] بعض حضرات کا قول ہے کہ یہ آیت بالکل منسوخ ہی ہے مثلاً سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یہ آیت منسوخ ہے ۔ اور ناسخ آیت «یُوصِیکُمُ اللہُ فِی أَوْلَادِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَیَیْنِ» الخ ۱؎ (4-النساء:11) ہے ، حصے مقرر ہونے سے پہلے یہ حکم تھا پھر جب حصے مقرر ہو چکے اور ہر حقدار کو خود اللہ تعالیٰ نے حق پہنچا دیا تو اب صدقہ صرف وہی رہ گیا جو مرنے والا کہہ گیا ہو سعید بن مسیب رحمہ اللہ بھی یہی فرماتے ہیں کہ ہاں اگر وصیت ان لوگوں کے لیے ہو تو اور بات ہے ورنہ یہ آیت منسوخ ہے ، جمہور کا اور چاروں اماموں کا یہی مذہب ہے ، امام ابن جریر رحمہ اللہ نے یہاں ایک عجیب قول اختیار کیا ہے ان کی لمبی اور کئی بار کی تحریر کا ماحصل یہ ہے کہ مال وصیت کی تقسیم کے وقت جب میت کے رشتہ دار آ جائیں تو انہیں بھی دے دو اور یتیم مسکین جو آ گئے ہوں ان سے نرم کلامی اور اچھے جواب سے پیش آؤ ، لیکن اس میں نظر ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ فرماتے ہیں تقسیم سے مراد یہاں ورثے کی تقسیم ہے ، پس یہ قول امام ابن جریر رحمہ اللہ کے خلاف ہے ۔ ٹھیک مطلب آیت کا یہ ہے کہ جب یہ غریب لوگ ترکے کی تقسیم کے وقت آ جائیں اور تم اپنا اپنا حصہ الگ الگ کر کے لے رہے ہو اور یہ بیچارے تک رہے ہوں تو انہیں بھی خالی ہاتھ نہ پھیرو ان کا وہاں سے مایوس اور خالی ہاتھ واپس جانا اللہ تعالیٰ رؤوف و رحیم کو اچھا نہیں لگتا بطور صدقہ کے راہ اللہ ان سے بھی کچھ اچھا سلوک کر دو تاکہ یہ خوش ہو کر جائیں ۔ جیسے اور جگہ فرمان باری ہے کہ «کُلُوا مِن ثَمَرِہِ إِذَا أَثْمَرَ وَآتُوا حَقَّہُ یَوْمَ حَصَادِہِ» ۱؎ (6-الأنعام:141) ، کھیتی کے کٹنے کے دن اس کا حق ادا کرو ، اور فاقہ زدہ اور مسکینوں سے چھپا کر اپنے باغ کا پھل لانے والوں کی اللہ تعالیٰ نے بڑی مذمت فرمائی ہے ۔ جیسے کہ سورۃ نون میں ہے کہ «أَنِ اغْدُوا عَلَیٰ حَرْثِکُمْ إِنْ کُنْتُمْ صَارِمِینَ» * «فَانْطَلَقُوا وَہُمْ یَتَخَافَتُونَ» * «أَنْ لَا یَدْخُلَنَّہَا الْیَوْمَ عَلَیْکُمْ مِسْکِینٌ» * «وَغَدَوْا عَلَیٰ حَرْدٍ قَادِرِینَ» * «فَلَمَّا رَأَوْہَا قَالُوا إِنَّا لَضَالٰونَ» * «بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ» ۱؎ (68-القلم:-27-22) ’ وہ رات کے وقت چھپ کر پوشیدگی سے کھیت اور باغ کے دانے اور پھل لانے کے لیے چلتے ہیں وہاں اللہ کا عذاب ان سے پہلے پہنچ جاتا ہے اور سارے باغ کو جلا کر خاک سیاہ کر دیتا ہے دوسروں کے حق برباد کرنے والوں کا یہی حشر ہوتا ہے ‘ ۔ حدیث شریف میں ہے جس مال میں صدقہ مل جائے یعنی جو شخص اپنے مال سے صدقہ نہ دے اس کا مال اس وجہ سے غارت ہو جاتا ہے ۔ ۱؎ (بیہقی:159/4:ضعیف) پھر فرماتا ہے ڈریں وہ لوگ جو اگر اپنے پیچھے چھوڑ جائیں یعنی ایک شخص اپنی موت کے وقت وصیت کر رہا ہے اور اس میں اپنے وارثوں کو ضرر پہنچا رہا ہے تو اس وصیت کے سننے والے کو چاہیئے کہ اللہ کا خوف کرے اور اسے ٹھیک بات کی رہنمائی کرے اس کے وارثوں کے لیے ایسی بھلائی چاہے جیسے اپنے وارثوں کے ساتھ بھلائی کرانا چاہتا ہے جب کہ ان کی بربادی اور تباہی کا خوف ہو ۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے پاس ان کی بیماری کے زمانے میں ان کی عیادت کو گئے اور سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا : یا رسول اللہ ! میرے پاس مال بہت ہے اور صرف میری ایک لڑکی ہی میرے پیچھے ہے تو اگر آپ اجازت دیں تو میں اپنے مال کی دو تہائیاں اللہ کی راہ میں صدقہ کر دوں ، آپ نے فرمایا : ” نہیں “ انہوں نے کہا : پھر ایک تہائی کی اجازت دیجئیے ، آپ نے فرمایا :” خیر لیکن ہے یہ بھی زیادہ تو اگر اپنے پیچھے اپنے وارثوں کو توانگر چھوڑ کر جائے اس سے بہتر ہے کہ تو انہیں فقیر چھوڑ کر جائے کہ وہ دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں “ ۱؎ (صحیح بخاری:56) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں لوگ ایک تہائی سے بھی کم یعنی چوتھائی کی ہی وصیت کریں تو اچھا ہے اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تہائی کو بھی زیادہ فرمایا ہے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2743) فقہاء فرماتے ہیں اگر میت کے وارث امیر ہوں تب تو خیر تہائی کی وصیت کرنا مستحب ہے اور اگر فقیر ہوں تو اس سے کم کی وصیت کرنا مستحب ہے ، دوسرا مطلب اس آیت کا یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ تم یتیموں کا اتنا ہی خیال رکھو جتنا تم چاہتے ہو کہ تمہاری چھوٹی اولاد کا تمہارے مرنے کے اور لوگ خیال رکھیں جس طرح تم نہیں چاہتے کہ ان کے مال دوسرے ظلم سے کھا جائیں اور وہ بالغ ہو کر فقیر رہ جائیں اسی طرح تم دوسروں کی اولادوں کے مال نہ کھا جاؤ ، یہ مطلب بھی بہت عمدہ ہے اسی لیے اس کے بعد ہی یتیموں کا مال ناحق مار لینے والوں کی سزا بیان فرمائی ، کہ یہ لوگ اپنے پیٹ میں انگارے بھرنے والے اور جہنم واصل ہونے والے ہیں ۔ بخاری و مسلم میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :” سات گناہوں سے بچو جو ہلاکت کا باعث ہیں “ پوچھا گیا ، کیا کیا ؟ فرمایا :” اللہ کے ساتھ شرک ، جادو ، بےوجہ قتل ، سود خوری ، یتیم کا مال کھا جانا ، جہاد سے پیٹھ موڑنا ، بھولی بھالی ناواقف عورتوں پر تہمت لگانا ، ۱؎ (صحیح بخاری:2766) ابن ابی حاتم میں ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے معراج کی رات کا واقعہ پوچھا جس میں آپ نے فرمایا کہ ” میں نے بہت سے لوگوں کو دیکھا کہ ان کے ہونٹ نیچے لٹک رہے ہیں اور فرشتے انہیں گھسیٹ کر ان کا منہ خوب کھول دیتے ہیں پھر جہنم کے گرم پتھر ان میں ٹھونس دیتے ہیں جو ان کے پیٹ میں اتر کر پیچھے کے راستے سے نکل جاتے ہیں اور وہ بری طرح چیخ چلا رہے ہیں ہائے ہائے مچا رہے ہیں ۔ میں نے جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں ؟ کہا یہ یتیموں کا مال کھا جانے والے ہیں جو اپنے پیٹوں میں آگ بھر رہے ہیں اور عنقریب جہنم میں جائیں گے “ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:8725:ضعیف) سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یتیم کا مال کھا جانے والا قیامت کے روز اپنی قبر سے اس طرح اٹھایا جائے گا کہ اس کے منہ ، آنکھوں ، نتھنوں اور روئیں روئیں سے آگ کے شعلے نکل رہے ہوں گے ہر شخص دیکھتے ہی پہچان لے گا کہ اس نے کسی یتیم کا مال ناحق کھا رکھا ہے ۔ ابن مردویہ میں ایک مرفوع حدیث بھی اسی مضمون کے قریب قریب مروی ہے ۔ ۱؎ (مسند ابویعلیٰ:7440:ضعیف) اور حدیث میں ہے میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ ان دونوں ضعیفوں کا مال پہنچا دو عورتوں کا اور یتیم کا ، ۱؎ (سنن ابن ماجہ:3678) ان کے مال سے بچو ، سورۃ البقرہ میں یہ روایت گزر چکی ہے کہ جب یہ آیت اتری تو جن کے پاس یتیم تھے انہوں نے ان کا اناج پانی بھی الگ کر دیا اب عموماً ایسا ہوتا کہ کھانے پینے کی ان کی کوئی چیز بچ رہتی تو یا تو دوسرے وقت اسی باسی چیز کو کھاتے یا سڑنے کے بعد پھینک دی جاتی گھر والوں میں سے کوئی اسے ہاتھ بھی نہ لگاتا تھا یہ بات دونوں طرف ناگوار گزری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بھی اس کا ذکر آیا ہے اس پر آیت «وَیَسْأَلُونَکَ عَنِ الْیَتَامَیٰ قُلْ إِصْلَاحٌ لَہُمْ خَیْرٌ وَإِنْ تُخَالِطُوہُمْ فَإِخْوَانُکُمْ» ۱؎ (2-البقرۃ:220) اتری جس کا مطلب یہ ہے کہ جس کام میں یتیموں کی بہتری سمجھو کرو چنانچہ اس کے بعد پھر کھانا پانی ایک ساتھ ہوا ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2871،قال الشیخ الألبانی:صحیح) النسآء
8 النسآء
9 النسآء
10 النسآء
11 مزید مسائل میراث جن کا ہر مسلمان کو جاننا فرض ہے یہ آیت کریمہ اور اس کے بعد کی آیت اور اس سورت کے خاتمہ کی آیت علم فرائض کی آیتیں ہیں ، یہ پورا علم ان آیتوں اور میراث کی احادیث سے استنباط کیا گیا ہے ، جو حدیثیں ان آیتوں کی گویا تفسیر اور توضیح ہیں ، یہاں ہم اس آیت کی تفسیر لکھتے ہیں باقی جو میراث کے مسائل کی پوری تقریر ہے اور اس میں جن دلائل کی سمجھ میں جو کچھ اختلاف ہوا ہے اس کے بیان کرنے کی مناسب جگہ احکام کی کتابیں ہیں نہ کہ تفسیر ، اللہ تعالیٰ ہماری مدد فرمائے ، علم فرائض سیکھنے کی رغبت میں بہت سی حدیثیں آئی ہیں ، ان آیتوں میں جن فرائض کا بیان ہے یہ سب سے زیادہ اہم ہیں ، ابوداؤد اور ابن ماجہ میں ہے علم دراصل تین ہیں اور اس کے ماسوا فضول بھرتی ہے ۔ آیات قرآنیہ جو مضبوط ہیں اور جن کے احکام باقی ہیں ، سنت قائمہ یعنی جو احادیث ثابت شدہ ہیں اور فریضہ عادلہ یعنی مسائل میراث جو ان دو سے ثابت ہیں ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2885،قال الشیخ الألبانی::ضعیف) ابن ماجہ کی دوسری ضعیف سند والی حدیث میں ہے کہ فرائض سیکھو اور دوسروں کو سکھاؤ ۔ یہ نصف علم ہے اور یہ بھول جاتے ہیں اور یہی پہلی وہ چیز ہے جو میری امت سے چھن جائے گی ۱؎ (سنن ابن ماجہ:2719،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ابن عیینہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں اسے آدھا علم اس لیے کہا گیا ہے کہ تمام لوگوں کو عموماً یہ پیش آتے ہیں ۔ صحیح بخاری میں اس آیت کی تفسیر میں سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں بیمار تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ میری بیمار پرسی کے لیے بنو سلمہ کے محلے میں پیادہ پا تشریف لائے میں اس وقت بیہوش تھا آپ نے پانی منگوا کر وضو کیا پھر وضو کے پانی کا چھینٹا مجھے دیا جس سے مجھے ہوش آیا ، تو میں نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنے مال کی تقسیم کس طرح کروں ؟ اس پر آیت شریفہ نازل ہوئی ، صحیح مسلم ، نسائی شریف وغیرہ میں بھی یہ حدیث موجود ہے ۱؎ (صحیح بخاری:4577) ابوداؤد ، ترمذی ، ابن ماجہ ، مسند امام احمد بن حنبل وغیرہ میں مروی ہے کہ سیدنا سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کی بیوی صاحبہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہا : اے اللہ کے رسول ! یہ دونوں سعد کی لڑکیاں ہیں ، ان کے والد آپ کے ساتھ جنگ احد میں شریک تھے اور وہیں شہید ہوئے ان کے چچا نے ان کا کل مال لے لیا ہے ان کے لیے کچھ نہیں چھوڑا اور یہ ظاہر ہے کہ ان کے نکاح بغیر مال کے نہیں ہو سکتے ، آپ نے فرمایا : ” اس کا فیصلہ خود اللہ کرے گا “ چنانچہ آیت میراث نازل ہوئی ۔ آپ نے ان کے چچا کے پاس آدمی بھیج کر حکم بھیجا کہ دو تہائیاں تو ان دونوں لڑکیوں کو دو اور آٹھواں حصہ ان کی ماں کو دو اور باقی مال تمہارا ہے ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2891،قال الشیخ الألبانی:صحیح) بہ ظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کے سوال پر اس سورت کی آخری آیت اتری ہو گی جیسے عنقریب آ رہا ہے ان شاءاللہ تعالیٰ اس لیے کہ ان کی وارث صرف ان کی بہنیں ہی تھیں لڑکیاں تھیں ہی نہیں وہ تو کلالہ تھے اور یہ آیت اسی بارے میں یعنی سیدنا سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کے ورثے کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور اس کے راوی بھی خود سیدنا جابر رضی اللہ عنہ ہیں , ہاں امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو اسی آیت کی تفسیر میں وارد کیا ہے اس لیے ہم نے بھی ان کی تابعداری کی ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» مطلب آیت کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں عدل سکھاتا ہے ، اہل جاہلیت تمام مال لڑکوں کو دیتے تھے اور لڑکیاں خالی ہاتھ رہ جاتی تھیں تو اللہ تعالیٰ نے ان کا حصہ بھی مقرر کر دیا ہاں دونوں کے حصوں میں فرق رکھا ، اس لیے کہ مردوں کے ذمہ جو ضروریات ہیں وہ عورتوں کے ذمہ نہیں مثلاً اپنے متعلقین کے کھانے پینے اور خرچ اخراجات کی کفالت ، تجارت اور کسب اور اسی طرح کی اور مشقتیں تو انہیں ان کی حاجت کے مطابق عورتوں سے دوگنا دلوایا ، بعض دانا بزرگوں نے یہاں ایک نہایت باریک نکتہ بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بہ نسبت ماں باپ کے بھی زیادہ مہربان ہے ، ماں باپ کو ان کی اولادوں کے بارے میں وصیت کر رہا ہے ، پس معلوم ہوا کہ ماں باپ اپنی اولاد پر اتنے مہربان نہیں جتنا مہربان ہمارا خالق اپنی مخلوق پر ہے ۔ چنانچہ ایک صحیح حدیث میں ہے کہ قیدیوں میں سے ایک عورت کا بچہ اس سے چھوٹ گیا وہ پاگلوں کی طرح اسے ڈھونڈتی پھرتی تھی اور جیسے ہی ملا اپنے سینے سے لگا کر اسے دودھ پلانے لگی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھ کر اپنے اصحاب سے فرمایا : ” بھلا بتاؤ تو کیا یہ عورت باوجود اپنے اختیار کے اپنے بچے کو آگ میں ڈال دے گی ؟ “ لوگوں نے کہا : یا رسول اللہ ! ہرگز نہیں ، آپ نے فرمایا : ” اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ مہربان ہے “ ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5999) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ پہلے حصہ دار مال کا صرف لڑکا تھا ، ماں باپ کو بطور وصیت کے کچھ مل جاتا تھا اللہ تعالیٰ نے اسے منسوخ کیا اور لڑکے کو لڑکی سے دوگنا دلوایا اور ماں باپ کو چھٹا چھٹا حصہ دلوایا اور تیسرا حصہ بھی اور بیوی کو آٹھواں حصہ اور چوتھا حصہ اور خاوند کو آدھا اور پاؤ ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4578) فرماتے ہیں میراث کے احکام اترنے پر بعض لوگوں نے کہا یہ اچھی بات ہے کہ عورت کو چوتھا اور آٹھواں حصہ دلوایا جا رہا ہے اور لڑکی کو آدھوں آدھ دلوایا جا رہا ہے اور ننھے ننھے بچوں کا حصہ مقرر کیا جا رہا ہے حالانکہ ان میں سے کوئی بھی نہ لڑائی میں نکل سکتا ہے ، نہ مال غنیمت لا سکتا ہے اچھا تم اس حدیث سے خاموشی برتو شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھول جائے ہمارے کہنے کی وجہ سے آپ ان احکام کو بدل دیں ، پھر انہوں نے آپ سے کہا کہ آپ لڑکی کو اس کے باپ کا آدھا مال دلوا رہے ہیں حالانکہ نہ وہ گھوڑے پر بیٹھنے کے لائق ، نہ دشمن سے لڑنے کے قابل ، آپ بچے کو ورثہ دلا رہے ہیں بھلا وہ کیا فائدہ پہنچا سکتا ہے ؟ یہ لوگ جاہلیت کے زمانہ میں ایسا ہی کرتے تھے کہ میراث صرف اسے دیتے تھے جو لڑنے مرنے کے قابل ہو سب سے بڑے لڑکے کو وارث قرار دیتے تھے [ اگر مرنے والے کے لڑکے لڑکیاں دونوں ہو تو فرما دیا کہ لڑکی کو جتنا آئے اس سے دوگنا لڑکے کو دیا جائے یعنی ایک لڑکی ایک لڑکا ہے تو کل مال کے تین حصے کر کے دو حصے لڑکے کو اور ایک حصہ لڑکی کو دے دیا جائے اب بیان فرماتا ہے کہ اگر صرف لڑکیاں ہوں تو انہیں کیا ملے گا ؟ مترجم ] لفظ «فَوْقَ» کو بعض لوگ زائد بتاتے ہیں جیسے «فَاضْرِبُوْا فَوْقَ الْاَعْنَاقِ وَاضْرِبُوْا مِنْہُمْ کُلَّ بَنَانٍ» ۱؎ (8-الأنفال:12) آیت میں لفظ «فَوْقَ» زائد ہے لیکن ہم یہ نہیں مانتے ، نہ اس آیت میں ،نہ اس آیت میں ، کیونکہ قرآن میں کوئی ایسی زائد چیز نہیں ہے جو محض بیفائدہ ہو اللہ کے کلام میں ایسا ہونا محال ہے ، پھر یہ بھی خیال فرمائیے کہ اگر ایسا ہی ہوتا تو اس کے بعد «فَلَہُنَّ» نہ آتا بلکہ «فَلَہُمَا» آتا ۔ ہاں اسے ہم جانتے ہیں کہ اگر لڑکیاں دو سے زیادہ نہ ہوں یعنی صرف دو ہوں تو بھی یہی حکم ہے یعنی انہیں بھی دو ثلث ملے گا کیونکہ دوسری آیت میں دو بہنوں کو دو ثلث دلوایا گیا ہے اور جبکہ دو بہنیں دو ثلث پاتی ہیں تو دو لڑکیوں کو دو ثلث کیوں نہ ملے گا ؟ ان کے لیے تو دو تہائی بطور اولیٰ ہونا چاہیئے ، اور حدیث میں آ چکا ہے دو لڑکیوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو تہائی مال ترکہ کا دلوایا جیسا کہ اس آیت کی شان نزول کے بیان میں سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کی لڑکیوں کے ذکر میں اس سے پہلے بیان ہو چکا ہے پس کتاب و سنت سے یہ ثابت ہو گیا اسی طرح اس کی دلیل یہ بھی ہے کہ ایک لڑکی اگر ہو یعنی لڑکا نہ ہونے کی صورت میں تو اسے آدھوں آدھ دلوایا گیا ہے پس اگر دو کو بھی آدھا ہی دینے کا حکم کرنا مقصود ہوتا تو یہیں بیان ہو جاتا جب ایک کو الگ کر دیا تو معلوم ہوا کہ دو کا حکم وہی ہے جو دو سے زائد کا ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» پھر ماں باپ کا حصہ بیان ہو رہا ہے ان کے ورثے کی مختلف صورتیں ہیں ، ایک تو یہ کہ مرنے والے کی اولاد ایک لڑکی سے زیادہ ہو اور ماں باپ بھی ہوں تو انہیں چھٹا چھٹا حصہ ملے گا یعنی چھٹا حصہ ماں کو اور چھٹا حصہ باپ کو ، اگر مرنے والے کی صرف ایک لڑکی ہی ہے تو آدھا مال تو وہ لڑکی لے لے گی اور چھٹا حصہ ماں لے لے گی چھٹا حصہ باپ کو ملے گا اور چھٹا حصہ جو باقی رہا وہ بھی بطور عطیہ باپ کو مل جائے گا پس اس حالت میں باپ فرض اور تعصیب دونوں کو جمع کر لے گا یعنی مقررہ چھٹا حصہ اور بطور عصبہ بچت کا مال ۔ دوسری صورت یہ ہے کہ صرف ماں باپ ہی وارث ہوں تو ماں کو تیسرا حصہ مل جائے گا اور باقی کا کل باپ کو بطور عصبہ کے مل جائے گا تو گویا دو ثلث مال اس کے ہاتھ لگے گا یعنی بہ نسبت مال کے دگنا باپ کو مل جائے گا ۔ اب اگر مرنے والی عورت کا خاوند بھی ہے مرنے والے مرد کی بیوی ہے یعنی اولاد نہیں صرف ماں باپ ہیں اور خاوند ہے یا بیوی تو اس پر تو اتفاق ہے کہ خاوند کو آدھا اور بیوی کو پاؤ ملے گا ، پھر علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ ماں کو اس صورت میں اس کے بعد کیا ملے گا ؟ تین قول ہیں ایک تو یہ کہ جو مال باقی رہا اس میں سے تیسرا حصہ ملے گا دونوں صورتوں میں یعنی خواہ عورت خاوند چھوڑ کر مری ہو خواہ مرد عورت چھوڑ کر مرا ہو اس لیے کہ باقی کا مال ان کی نسبت سے گویا کل مال ہے اور ماں کا حصہ باپ سے آدھا ہے تو اس باقی کے مال سے تیسرا حصہ یہ لے لے اور دو تیسرے حصے جو باقی رہے وہ باپ لے لے گا سیدنا عمر و عثمان رضی اللہ عنہما اور بہ اعتبار زیادہ صحیح روایت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا یہی فیصلہ ہے ، سیدنا ابن مسعود اور سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہما کا یہی قول ہے ، ساتوں فقہاء اور چاروں اماموں اور جمہور علماء کا بھی فتویٰ ہے ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ ان دونوں صورتوں میں بھی ماں کو کل مال کا ثلث مل جائے گا ، اس لیے کہ آیت عام ہے خاوند بیوی کے ساتھ ہو تو اور نہ ہو تو عام طور پر میت کی اولاد نہ ہونے کی صورت میں ماں کو ثلث دلوایا گیا ہے ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا یہی قول ہے ، سیدنا علی اور سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہما سے بھی اسی طرح مروی ہے ۔ شریح اور داؤد ظاہری رحمہ اللہ علیہم بھی یہی فرماتے ہیں ، ابو الحسین بن لبان بصری بھی اپنی کتاب ایجاز میں جو علم فرائض کے بارے میں ہے اسی قول کو پسند کرتے ہیں ، لیکن اس قول میں نظر ہے بلکہ یہ قول ضعیف ہے کیونکہ آیت نے اس کا یہ حصہ اس وقت مقرر فرمایا ہے جبکہ کل مال کی وراثت صرف ماں باپ کو ہی پہنچتی ہو ، اور جبکہ زوج یا زوجہ ہے اور وہ اپنے مقررہ حصے کے مستحق ہیں تو پھر جو باقی رہ جائے گا بیشک وہ ان دونوں ہی کا حصہ ہے تو اس میں ثلث ملے گا ۔ تیسرا قول یہ ہے کہ اگر میت مرد ہے اور اس کی بیوی موجود ہے تو فقط اس صورت میں اسے کل مال کا تہائی ملے گا کیونکہ اس عورت کو کل مال کی چوتھائی ملے گی اگر کل مال کے بارہ حصے کئے جائیں تو تین حصے تو یہ لے گی اور چار حصے ماں کو ملیں گے باقی بچے پانچ حصے وہ باپ لے لے گا لیکن اگر عورت مری ہے اور اس کا خاوند موجود ہے تو ماں کو باقی مال کا تیسرا حصہ ملے گا اگر کل مال کا تیسرا حصہ اس صورت میں بھی ماں کو دلوایا جائے تو اسے باپ سے بھی زیادہ پہنچ جاتا ہے مثلاً میت کے مال کے چھ حصے کئے تین تو خاوند لے گیا دو ماں لے گئی تو باپ کے پلے ایک ہی پڑے گا جو ماں سے بھی تھوڑا ہے ، اس لیے اس صورت میں چھ میں سے تین تو خاوند کو دئے جائیں گے ایک ماں کو اور دو باپ کو ، امام ابن سیرین رحمہ اللہ کا یہی قول ہے ، یوں سمجھنا چاہیئے کہ یہ قول دو قولوں سے مرکب ہے ، ضعیف یہ بھی ہے اور صحیح قول پہلا ہی ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ماں باپ کے احوال میں سے تیسرا حال یہ ہے کہ وہ بھائیوں کے ساتھ ہوں خواہ وہ سگے بھائی ہوں یا صرف باپ کی طرف سے یا صرف ماں کی طرف سے تو وہ باپ کے ہوتے ہوئے اپنے بھائی کے ورثے میں کچھ پائیں گے نہیں لیکن ہاں ماں کو تہائی سے ہٹا کر چھٹا حصہ دلوائیں گے اور اگر کوئی اور وارث ہی نہ ہو اور صرف ماں کے ساتھ باپ ہی ہو تو باقی مال کل کا کل باپ لے لے گا اور بھائی بھی شریعت میں بہت سے بھائیوں کے مترادف ہیں جمہور کا یہی قول ہے ، ہاں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آپ نے ایک مرتبہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے کہا کہ دو بھائی ماں کو «ثلث» سے ہٹا کر «سدس» تک نہیں لے جاتے قرآن میں «اخوۃ» جمع کا لفظ ہے دو بھائی اگر مراد ہوتے «اخوان» کہا جاتا خلیفہ ثالث رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ پہلے ہی سے یہ چلا آتا ہے اور چاروں طرف یہ مسئلہ اسی طرح پہنچا ہوا ہے تمام لوگ اس کے عامل ہیں میں اسے نہیں بدل سکتا ، اولاً تو یہ اثر ثابت ہی نہیں اس کے راوی شعبہ رحمہ اللہ کے بارے میں امام مالک رحمہ اللہ کی جرح موجود ہے ۔ پھر یہ قول سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا نہ ہونے کی دوسری دلیل یہ ہے کہ خود سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے خاص اصحاب اور اعلی شاگرد بھی اس کے خلاف ہیں سیدنا زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں دو کو بھی «اخوۃ» کہا جاتا ہے ، «الْحَمْدُ لِلّٰہ» میں نے اس مسئلہ کو پوری طرح ایک علیحدہ رسالے میں لکھا ہے سعید بن قتادہ رحمہ اللہ سے بھی اسی طرح مروی ہے ۔ ہاں میت کا اگر ایک ہی بھائی ہو تو ماں کو تیسرے حصے سے ہٹا نہیں سکتا ، علماء کرام رحمہ اللہ علیہم کا فرمان ہے کہ اس میں حکمت یہ ہے کہ میت کے بھائیوں کی شادیوں کا اور کھانے پینے وغیرہ کا کل خرچ باپ کے ذمہ ہے نہ کہ ماں کے ذمے اس لیے مقتضائے حکمت یہی تھا کہ باپ کو زیادہ دیا جائے ، یہ توجیہ بہت ہی عمدہ ہے ۔ لیکن سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بہ سند صحیح مروی ہے کہ یہ چھٹا حصہ جو ماں کا کم ہو گیا انہیں دیدیا جائے گا یہ قول شاذ ہے ، امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کا یہ قول تمام امت کے خلاف ہے ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ «کلالہ» اسے کہتے ہیں جس کا بیٹا اور باپ نہ ہو ۔ پھر فرمایا وصیت اور قرض کے بعد تقسیم میراث ہو گی ، تمام سلف خلف کا اجماع ہے کہ قرض وصیت پر مقدم ہے اور فحوائے آیت کو بھی اگر بغور دیکھا جائے تو یہی معلوم ہوتا ہے ۔ ترمذی وغیرہ میں ہے سیدنا علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں تم قرآن میں وصیت کا حکم پہلے پڑھتے ہو اور قرض کا بعد میں لیکن یاد رکھنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض پہلے ادا کرایا ہے ، پھر وصیت جاری کی ہے ، ایک ماں زاد بھائی آپس میں وارث ہوں گے بغیر علاتی بھائیوں کے ، آدمی اپنے سگے بھائی کا وارث ہو گا نہ اس کا جس کی ماں دوسری ہو ، یہ حدیث صرف سیدنا حارث رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور ان پر بعض محدثین نے جرح کی ہے ، لیکن یہ حافظ فرائض تھے اس علم میں آپ کو خاص دلچسپی اور دسترس تھی اور حساب کے بڑے ماہر تھے ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2094،قال الشیخ الألبانی::حسن) «وَاللہُ اَعْلَمُ» پھر فرمایا کہ ہم نے باپ بیٹوں کو اصل میراث میں اپنا اپنا مقررہ حصہ لینے والا بنایا اور جاہلیت کی رسم ہٹا دی بلکہ اسلام میں بھی پہلے بھی ایسا ہی حکم تھا کہ مال اولاد کو مل جاتا ماں باپ کو صرف بطور وصیت کے ملتا تھا جیسے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پہلے بیان ہو چکا یہ منسوخ کر کے اب یہ حکم ہوا تمہیں یہ نہیں معلوم کہ تمہیں باپ سے زیادہ نفع پہنچے گا یا اولاد نفع دے گی امید دونوں سے نفع کی ہے یقین کسی پر بھی ایک سے زیادہ نہیں ، ممکن ہے باپ سے زیادہ بیٹا کام آئے اور نفع پہنچائے اور ممکن ہے بیٹے سے زیادہ باپ سے نفع پہنچے اور وہ کام آئے ۔ پھر فرماتا ہے یہ مقررہ حصے اور میراث کے یہ احکام اللہ کی طرف سے فرض ہیں اس میں کسی کمی پیشی کی کسی امید یا کسی خوف سے گنجائش نہیں نہ کسی کو محروم کر دینا لائق ہے نہ کسی کو زیادہ دلوا دینا ۔ اللہ تعالیٰ علیم و حکیم ہے جو جس کا مستحق ہے اسے اتنا دلواتا ہے ہر چیز کی جگہ کو وہ بخوبی جانتا ہے تمہارے نفع نقصان کا اسے پورا علم ہے اس کا کوئی کام اور کوئی حکم حکمت سے خالی نہیں تمہیں چاہیئے کہ اس کے احکام ، اس کے فرمان مانتے چلے جاؤ ۔ النسآء
12 وراثت کی مزید تفصیلات اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے مرد و تمہاری عورتیں جو چھوڑ کر مریں اگر ان کی اولاد نہ ہو تو اس میں سے آدھوں آدھ حصہ تمہارا ہے اور اگر ان کے بال بچے ہوں تو تمہیں چوتھائی ملے گا ، وصیت اور قرض کے بعد ۔ ترتیب اس طرح ہے پہلے قرض ادا کیا جائے پھر وصیت پوری کی جائے پھر ورثہ تقسیم ہو ، یہ ایسا مسئلہ ہے جس پر تمام علماء امت کا اجماع ہے ، پوتے بھی اس مسئلہ میں حکم میں بیٹوں کی ہی طرح ہیں بلکہ ان کی اولاد در اولاد کا بھی یہی حکم ہے کہ ان کی موجودگی میں خاوند کو چوتھائی ملے گا ۔ پھر عورتوں کا حصہ بتایا کہ انہیں یا چوتھائی ملے گا یا آٹھواں حصہ چوتھائی تو اس حالت میں کہ مرنے والے خاوند کی اولاد نہ ہو ، اور آٹھواں حصہ اس حالت میں کہ اولاد ہو ، اس چوتھائی یا آٹھویں حصے میں مرنے والے کی سب بیویاں شامل ہیں چار ہوں تو ان میں یہ حصہ برابر برابر تقسیم ہو جائے گا تین یا دو ہوں تب بھی اور اگر ایک ہو تو اسی کا یہ حصہ ہے آیت «مِنْ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ تُوصُونَ بِہَا أَوْ دَیْنٍ» کی تفسیر اس سے پہلی آیت میں گزر چکی ہے ۔ «کَلَالَۃً » مشتق ہے «اکلیل» سے ، «اکلیل» کہتے ہیں اس تاج وغیرہ کو جو سر کو ہر طرف سے گھیر لے ، یہاں مراد ہے کہ اس کے وارث اردگرد حاشیہ کے لوگ ہیں اصل اور فرع یعنی جڑیا شاخ نہیں ، صرف سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے «کَلَالَۃً» کا معنی پوچھا جاتا ہے تو آپ فرماتے ہیں میں اپنی رائے سے جواب دیتا ہوں اگر ٹھیک ہو تو اللہ کی طرف سے ہے اور اگر غلط ہو تو میری اور شیطان کی طرف سے ہے اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بری الذمہ ہیں ، «کَلَالَۃً» وہ ہے جس کا نہ لڑکا ہو نہ باپ ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جب خلیفہ ہوئے تو آپ نے بھی اس سے موافقت کی اور فرمایا مجھے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رائے سے خلاف کرتے ہوئے شرم آتی ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:53/8) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے آخری زمانہ پانے والا میں ہوں میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا فرماتے تھے بات وہی ہے جو میں نے کہی ٹھیک اور درست یہی ہے کہ «کَلَالَۃً» اسے کہتے ہیں جس کا نہ ولد ہو والد ۔ سیدنا علی ، سیدنا ابن مسعود ، سیدنا ابن عباس ، سیدنا زید بن ثابت رضوان اللہ علیہم اجمعین ، شعبی ، نخعی ، حسن ، قتادہ ، جابر بن زید ، حکم رحمتہ اللہ علیہم اجمعین بھی یہی فرماتے ہیں ، ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:55/8) اہل مدینہ ، اہل کوفہ ، اہل بصرہ کا بھی یہی قول ہے ۔ ساتوں فقہاء چاروں امام اور جمہور سلف و خلف بلکہ تمام یہی فرماتے ہیں ، بہت سے بزرگوں نے اس پر اجماع نقل کیا ہے اور ایک مرفوع حدیث میں بھی یہی آیا ہے ، ۱؎ (مستدرک حاکم:336/4:ضعیف) ابن لباب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ بھی مروی ہے کہ «کلالہ» وہ ہے جس کی اولاد نہ ہو لیکن صحیح قول پہلا ہی ہے اور ممکن ہے کہ راوی نے مراد سمجھی ہی نہ ہو ۔ پھر فرمایا کہ اس کا بھائی یا بہن ہو یعنی ماں زاد ، جیسے کہ سعد بن وقاص وغیرہ بعض سلف کی قرأت ہے ، سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ وغیرہ سے بھی یہی تفسیر مروی ہے تو ان میں سے ہر ایک کے لیے چھٹا حصہ ہے اگر زیادہ ہوں تو ایک ثلث میں سب شریک ہیں ، ماں زاد بھائی باقی وارثوں سے کئی وجہ سے مختلف ہیں ، ایک تو یہ کہ یہ باوجود اپنے ورثے کے دلانے والے کے بھی وارث ہوتے ہیں مثلاً ماں ، دوسرے یہ کہ ان کے مرد و عورت یعنی بہن بھائی میراث میں برابر ہیں تیسرے یہ کہ یہ اسی وقت وارث ہوتے ہیں جبکہ میت کلالہ ہو پس باپ دادا کی یعنی پوتے کی موجودگی میں یہ وارث نہیں ہوتے ، چوتھے یہ کہ انہیں ثلث سے زیادہ نہیں ملتا تو گویہ کتنے ہی ہوں مرد ہوں یا عورت ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا فیصلہ ہے کہ ماں زاد بہن بھائی کا ورثہ آپس میں اس طرح بٹے گا کہ مرد کے لیے دوہرا اور عورت کے لیے اکہرا ، زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ایسا فیصلہ نہیں کر سکتے تاوقت یہ کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا ہو ، آیت میں اتنا تو صاف ہے کہ اگر اس سے زیادہ ہوں تو ثلث میں شریک ہیں ، اس صورت میں علماء کا اختلاف ہے کہ اگر میت کے وارثوں میں خاوند ہو اور ماں ہو یا دادی ہو اور دو ماں زاد بھائی ہوں اور ایک یا ایک سے زیادہ باپ کی طرف سے بھائی ہوں تو جمہور تو کہتے ہیں کہ اس صورت میں خاوند کو آدھا ملے گا اور ماں یا دادی کو چھٹا حصہ ملے گا اور ماں زاد بھائی کو تہائی ملے گا اور اسی میں سگے بھائی بھی شامل ہوں گے قدر مشترک کے طور پر جو ماں زاد بھائی ہے ۔ امیرالمؤمنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ایک ایسی ہی صورت پیش آئی تھی تو آپ نے خاوند کو آدھا دلوایا اور ثلث ماں زاد بھائیوں کو دلوایا تو سگے بھائیوں نے بھی اپنے تئیں پیش کیا آپ نے فرمایا :تم ان کے ساتھ شریک ہو ، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح شریک کر دینا مروی ہے ، اور دو روایتوں میں سے ایک روایت ایسی ہے سیدنا ابن مسعود اور سیدنا زید بن ثابت اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی مروی ہے ، سعید بن مسیب ، قاضی شریح ، مسروق ، طاؤس ، محمد بن سیرین ، ابراہیم نخعی ، عمر بن عبدالعزیز ، ثوری اور شریک رحمہ اللہ علیہم کا قول بھی یہی ہے ، امام مالک اور امام شافعی اور امام اسحٰق بن راھویہ رحمہ اللہ علیہم بھی اسی طرف گئے ہیں ، ہاں سیدنا علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ اس میں شرکت کے قائل نہ تھے بلکہ آپ اولاد «ام» کو اس حالت میں ثلث دلواتے تھے اور ایک ماں باپ کی اولاد کو کچھ نہیں دلاتے تھے اس لیے کہ یہ عصبہ ہیں اور عصبہ اس وقت پاتے ہیں جب ذوی الفرض سے بچ جائے ، بلکہ وکیع بن جراح رحمہ اللہ کہتے ہیں سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے اس کے خلاف مروی ہی نہیں ، سیدنا ابی بن کعب ، سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہما کا قول بھی یہی ہے ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی مشہور یہی ہے ، شعبی ، ابن ابی لیلیٰ ، ابوحنیفہ ، ابو یوسف ، محمد بن حسن ، حسن بن زیادہ ، زفر بن ہذیل ، امام احمد ، یحییٰ بن آدم ، نعیم بن حماد ، ابوثور ، داؤد ظاہری رحمہ اللہ علیہم بھی اسی طرف گئے ہیں ابوالحسن بن لبان فرضی رحمہ اللہ نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے ، ملاحظہ ہو ان کی کتاب الایجاز ۔ پھر فرمایا یہ وصیت کے جاری کرنے کے بعد ہے ، وصیت ایسی ہو جس میں خلاف عدل نہ ہو کسی کو ضرر اور نقصان نہ پہنچایا گیا ہو ، نہ کسی پر جبر و ظلم کیا گیا ہو ، کسی وارث کا نہ ورثہ مارا گیا ہو ، نہ کم و بیش کیا گیا ہو ، اس کے خلاف وصیت کرنے والا اور ایسی خلاف شرع وصیت میں کوشش کرنے والا ، اللہ کے حکم اور اس کی شریعت میں اس کے خلاف کرنے والا اور اس سے لڑنے والا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں وصیت میں کسی کو ضرر و نقصان پہنچانا کبیرہ گناہ ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:8789:موقوف صحیح) [ ابن ابی حاتم ] نسائی میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول بھی اسی طرح مروی ہے بعض روایتوں میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس فرمان کے بعد آیت کے اس ٹکڑے کی تلاوت کرنا بھی مروی ہے ، امام ابن جریر رحمہ اللہ کے قول کی مطابق ٹھیک بات یہی ہے کہ یہ مرفوع حدیث نہیں موقوف قول ہے ۔ ائمہ کرام کا اس میں اختلاف ہے کہ وارث کے لیے جو اقرار میت کر جائے آیا وہ صحیح ہے یا نہیں ؟ بعض کہتے ہیں صحیح نہیں ہے اس لیے کہ اس میں تہمت لگنے کی گنجائش ہے ، حدیث شریف میں بہ سند صحیح آ چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر حقدار کو اس کا حق پہنچا دیا ہے اب وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں ۱؎ (سنن ابوداود:2870،قال الشیخ الألبانی::صحیح) مالک ، احمد بن حنبل ، ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہم کا قول یہی ہے ، شافعی رحمہ اللہ کا بھی پہلا قول یہی تھا لیکن آخری قول یہ ہے کہ اقرار کرنا صحیح مانا جائے گا طاؤس ، حسن ، عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ علیہم کا قول بھی یہی ہے ، امام بخاری رحمہ اللہ بھی اسی کو پسند کرتے ہیں اور اپنی کتاب صحیح بخاری شریف میں اسی کو ترجیح دیتے ہیں ، ان کی دلیل ایک یہ روایت بھی ہے کہ سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے وصیت کی کہ فزاریہ نے جس چیز پر اپنے دروازے بند کر رکھے ہیں وہ نہ کھولے جائیں ، امام بخاری رحمہ اللہ نے پھر فرمایا ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں بہ سبب وارثوں کے ساتھ بدگمانی کے اس کا یہ اقرار جائز نہیں ، لیکن میں کہتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فرمایا ہے ” بدگمانی سے بچو بدگمانی تو سب سے زیادہ جھوٹ ہے “ ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6064) قرآن کریم میں اللہ کا فرمان موجود ہے کہ «إِنَّ اللہَ یَأْمُرُکُمْ أَن تُؤَدٰوا الْأَمَانَاتِ إِلَیٰ أَہْلِہَا» ۱؎ (4-النساء:58) ’ اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ جس کی جو امانت ہو وہ پہنچا دو ‘ ، اس میں وارث اور غیر وارث کی کوئی تخصیص نہیں ، یہ یاد رہے کہ یہ اختلاف اس وقت ہے جب اقرار فی الواقع صحیح ہو اور نفس الامر کے مطابق ہو اور اگر صرف حیلہ سازی ہو اور بعض وارثوں کو زیادہ دینے اور بعض کو کم پہنچانے کے لیے ایک بہانہ بنا لیا ہو تو بالاجماع اسے پورا کرنا حرام ہے اور اس آیت کے صاف الفاظ بھی اس کی حرمت کا فتویٰ دیتے ہیں [ اقرار فی الواقع صحیح ہونے کی صورت میں اس کا پورا کرنا ضروری ہے جیسا کہ دوسری جماعت کا قول ہے اور جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا مذہب ہے ۔ مترجم ] پھر فرمایا یہ اللہ عزوجل کے احکام ہیں جو اللہ عظیم و اعلیٰ علم و حلم والا ہے ۔ النسآء
13 نافرمانوں کا حشر اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرے اور اس کی مقرر کی ہوئی حدوں سے آگے نکل جائے اسے وہ جہنم میں ڈال دے گا جس میں ہمیشہ رہے گا ایسوں کے لیے اہانت کرنے والا عذاب ہے ، یعنی یہ فرائض اور یہ مقدار جسے اللہ تعالیٰ نے مقرر کیا ہے اور میت کے وارثوں کو ان کی قرابت کی نزدیکی اور ان کی حاجت کے مطابق جتنا جسے دلوایا ہے یہ سب اللہ ذوالکرم کی حدود ہیں تم ان حدوں کو نہ توڑو نہ اس سے آگے بڑھو ۔ جو شخص اللہ عزوجل کے ان احکام کو مان لے ، کوئی حیلہ حوالہ کر کے کسی وارث کو کم بیش دلوانے کی کوشش نہ کرے حکم الہٰ اور فریضہ الہٰ جوں کا توں بجا لائے اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ اسے ہمیشہ چلنے والی نہروں کی جنت میں داخل کرے گا ، یہ کامیاب نصیب ور اور مقصد کو پہنچنے والا اور مراد کو پانے والا ہو گا ، اور جو اللہ کے کسی حکم کو بدل دے کسی وارث کے ورثے کو کم و بیش کر دے رضائے الٰہی کو پیش نظر نہ رکھے بلکہ اس کے حکم کو رد کر دے اور اس کے خلاف عمل کرے وہ اللہ کی تقسیم کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتا اور اس کے حکم کو عدل نہیں سمجھتا تو ایسا شخص ہمیشہ رہنے والی رسوائی اور اہانت والے درد ناک اور ہیبت ناک عذابوں میں مبتلا رہے گا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ایک شخص ستر سال تک نیکی کے عمل کرتا رہتا ہے پھر وصیت کے وقت ظلم و ستم کرتا ہے اس کا خاتمہ برے عمل پر ہوتا ہے اور وہ جہنمی بن جاتا ہے اور ایک شخص برائی کا عمل ستر سال تک کرتا رہتا ہے پھر اپنی وصیت میں عدل کرتا ہے اور خاتمہ اس کا بہتر ہو جاتا ہے تو جنت میں داخل جاتا ہے ، پھر اس حدیث کے راوی سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس آیت کو پڑھو «تِلْکَ حُدُودُ اللہِ وَمَنْ یُطِعِ اللہَ وَرَسُولَہُ یُدْخِلْہُ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِنْ تَحْتِہَا الْأَنْہَارُ خَالِدِینَ فِیہَا وَذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ» * «وَمَنْ یَعْصِ اللہَ وَرَسُولَہُ وَیَتَعَدَّ حُدُودَہُ یُدْخِلْہُ نَارًا خَالِدًا فِیہَا وَلَہُ عَذَابٌ مُہِینٌ» ۱؎ (4-النساء:13-14) (مسند احمد:2/278:ضعیف) ۔ سنن ابی داؤد کے باب «الاضرار فی الوصیتہ» میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ایک مرد یا عورت اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں ساٹھ سال تک لگے رہتے ہیں پھر موت کے وقت وصیت میں کوئی کمی بیشی کر جاتے ہیں تو ان کے لیے جہنم واجب ہو جاتی ہے پھر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے «مِنْ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُوصَیٰ بِہَا أَوْ دَیْنٍ» ۱؎ (4-النساء:12) سے آخر آیت تک پڑھی ، ترمذی اور ابن ماجہ میں بھی یہ حدیث ہے ، ۱؎ (سنن ابوداود:2867،قال الشیخ الألبانی:ضیعف) امام ترمذی اسے غریب کہتے ہیں ، مسند احمد میں یہ حدیث تمام و کمال کے ساتھ موجود ہے ۔ النسآء
14 النسآء
15 سیاہ کار عورت اور اس کی سزا ابتدائے اسلام میں یہ حکم تھا کہ جب عادل گواہوں کی سچی گواہی سے کسی عورت کی سیاہ کاری ثابت ہو جائے تو اسے گھر سے باہر نہ نکلنے دیا جائے گھر میں ہی قید کر دیا جائے اور جنم قید یعنی موت سے پہلے اسے چھوڑا نہ جائے ، اس فیصلہ کے بعد یہ اور بات ہے کہ اللہ ان کے لیے کوئی اور راستہ پیدا کر دے ، پھر جب دوسری صورت کی سزا تجویز ہوئی تو وہ منسوخ ہو گئی اور یہ حکم بھی منسوخ ہوا ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں جب تک سورۃ النور کی آیت نہیں اتری تھی زنا کار عورت کے لیے یہی حکم رہا پھر اس آیت میں شادی شدہ کو رجم کرنے یعنی پتھر مار مار کر مار ڈالنے اور بیشادی شدہ کو کوڑے مارنے کا حکم اترا ، عکرمہ ، سعید بن جبیر ، حسن ، عطاء خرسانی ٫ ابوصالح ، قتادہ ، زید بن اسلم اور ضحاک رحمہ اللہ علیہم کا بھی یہی قول ہے کہ یہ آیت منسوخ ہے اور اس پر سب کا اتفاق ہے ، سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب وحی اترتی تو آپ پر اس کا بڑا اثر ہوتا اور تکلیف محسوس ہوتی اور چہرے کا رنگ بدل جاتا پس اللہ تعالیٰ نے ایک دن اپنے نبی پر وحی نازل فرمائی کیفیت وحی سے نکلے تو آپ نے فرمایا :” مجھ سے حکم الٰہی لو اللہ تعالیٰ نے سیاہ کار عورتوں کے لیے راستہ نکال دیا ہے اگر شادی شدہ عورت یا شادی شدہ مرد سے اس جرم کا ارتکاب ہو تو ایک سو کوڑے اور پتھروں سے مار ڈالنا اور غیر شادی شدہ ہوں تو ایک سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی “ ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1690) ترمذی وغیرہ میں بھی یہ حدیث الفاظ کچھ تبدیلی کے ساتھ سے مروی ہے ، امام ترمذی رحمہ اللہ اسے حسن صحیح کہتے ہیں ، ۱؎ (سنن ترمذی:1434،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اسی طرح ابوداؤد میں بھی ۔ ابن مردویہ کی غریب حدیث میں کنوارے اور بیاہے ہوئے کے حکم کے ساتھ ہی یہ بھی ہے کہ دونوں اگر بوڑھے ہوں تو انہیں رجم کر دیا جائے ۔ ۱؎ (بیہقی:8/223:ضعیف) لیکن یہ حدیث غریب ہے ، طبرانی میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :” سورۃ نساء کے اترنے کے بعد اب روک رکھنے کا یعنی عورتوں کو گھروں میں قید رکھنے کا حکم نہیں رہا ۔ ۱؎ (بیہقی:6/162:ضعیف) امام احمد رحمہ اللہ کا مذہب اس حدیث کے مطابق یہی ہے کہ زانی شادی شدہ کو کوڑے بھی لگائے جائیں گے اور رجم بھی کیا جائے گا اور جمہور کہتے ہیں کوڑے نہیں لگیں گے صرف رجم کیا جائے گا اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ماعز رضی اللہ عنہ کو اور غامدیہ عورت کو رجم کیا لیکن کوڑے نہیں مارے ، اسی طرح دو یہودیوں کو بھی آپ نے رجم کا حکم دیا اور رجم سے پہلے بھی انہیں کوڑے نہیں لگوائے ، پھر جمہور کے اس قول کے مطابق معلوم ہوا کہ انہیں کوڑے لگانے کا حکم منسوخ ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» پھر فرمایا اس بےحیائی کے کام کو دو مرد اگر آپس میں کریں انہیں ایذاء پہنچاؤ یعنی برا بھلا کہہ کر شرم و غیرہ دلا کر جوتیاں لگا کر ، ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:8/85) یہ حکم بھی اسی طرح پر رہا یہاں تک کہ اسے بھی اللہ تعالیٰ نے کوڑے اور رجم سے منسوخ فرمایا ۔ عکرمہ ، عطاء ، حسن ، عبداللہ بن کثیر رحمہ اللہ علیہم فرماتے ہیں اس سے مراد بھی مرد و عورت ہیں ، سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں مراد وہ نوجوان مرد ہیں جو شادی شدہ نہ ہوں مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں لواطت کے بارے میں یہ آیت ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:82/8) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جسے تم لوطی فعل کرتے دیکھو تو فاعل مفعول دونوں کو قتل کر ڈالو ، ہاں اگر یہ دونوں باز آ جائیں اپنی بدکاری سے توبہ کر لیں اپنے اعمال کی اصلاح کر لیں اور ٹھیک ٹھاک ہو جائیں تو اب ان کے ساتھ درشت کلامی اور سختی سے پیش نہ آؤ ، اس لیے کہ گناہ سے توبہ کر لینے والا مثل گناہ نہ کرنے والے کے ہے ۔ اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا اور درگزر کرنے والا ہے ، بخاری و مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اگر کسی کی لونڈی بدکاری کرے تو اس کا مالک اسے حد لگا دے اور ڈانٹ ڈپٹ نہ کرے ۱؎ ، (صحیح بخاری:6839) یعنی حد لگ جانے کے بعد پھر اسے عار نہ دلایا کرے کیونکہ حد کفارہ ہے ۔ النسآء
16 النسآء
17 عالم نزع سے پہلے توبہ؟ مطلب یہ ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے ان بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے جو ناواقفیت کی وجہ سے کوئی برا کام کر بیٹھیں پھر توبہ کر لیں گو یہ توبہ فرشتہ موت کو دیکھ لینے کے بعد عالم نزع سے پہلے ہو ، مجاہد رحمہ اللہ وغیرہ فرماتے ہیں جو بھی قصداً یا غلطی سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرے وہ جاہل ہے جب تک کہ اس سے باز نہ آ جائے ۔ ۱؎ ؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:89/8) ابوالعالیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم فرمایا کرتے تھے کہ بندہ جو گناہ کرے وہ جہالت ہے ، ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:89/8) قتادہ رحمہ اللہ بھی صحابہ رضی اللہ عنہم کے مجمع سے اس طرح کی روایت کرتے ہیں عطاء رحمہ اللہ اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی اسی طرح مروی ہے ۔ توبہ جلدی کر لینے کی تفسیر میں منقول ہے کہ ملک الموت کو دیکھ لینے سے پہلے ، عالم سکرات کے قریب مراد ہے ، اپنی صحت میں توبہ کر لینی چاہیئے ، غر غرے کے وقت سے پہلے کی توبہ قبول ہے ، عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ساری دنیا قریب ہی ہے ، اس کے متعلق حدیثیں سنئیے ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ” اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے جب تک سانسوں کا ٹوٹنا شروع نہ ہو “ ، ۱؎ (سنن ترمذی:3537،قال الشیخ الألبانی:حسن) جو بھی مومن بندہ اپنی موت سے مہینہ بھر پہلے توبہ کر لے اس کی توبہ اللہ تعالیٰ قبول فرما لیتا ہے یہاں تک کہ اس کے بعد بھی بلکہ موت سے ایک دن پہلے تک بھی بلکہ ایک سانس پہلے بھی جو بھی اخلاص اور سچائی کے ساتھ اپنے رب کی طرف جھکے اللہ تعالیٰ اسے قبول فرماتا ہے ۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جو اپنی موت سے ایک سال پہلے توبہ کرے اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرماتا ہے اور جو مہینہ بھر پہلے توبہ کرے اللہ تعالیٰ اس کی توبہ بھی قبول فرماتا ہے اور جو ہفتہ بھر پہلے توبہ کرے اللہ تعالیٰ اس کی توبہ بھی قبول فرماتا ہے اور جو ایک دن پہلے توبہ کرے اللہ تعالیٰ اس کی توبہ بھی قبول فرماتا ہے ، یہ سن کر ایوب رحمہ اللہ نے یہ آیت پڑھی تو آپ نے فرمایا : وہی کہتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ۔ ۱؎ (طیالسی:2284:ضعیف) مسند احمد میں ہے کہ چار صحابی رضی اللہ عنہم جمع ہوئے ان میں سے ایک نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے جو شخص اپنی موت سے ایک دن پہلے بھی توبہ کر لے اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرماتا ہے ، دوسرے نے پوچھا کیا سچ مچ تم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے ہی سنا ہے ؟ اس نے کہا ہاں تو دوسرے نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ اگر آدھا دن پہلے بھی توبہ کرلے تو بھی اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے، تیسرے نے کہا تم نے یہ سنا ہے؟ کہا ہاں میں نے خود سنا ہے، کہا میں نے سنا ہے کہ اگر ایک پہر پہلے توبہ نصیب ہو جائے تو وہ بھی قبول ہوتی ہے، چوتھے نے کہا تم نے یہ سنا ہے ؟ اس نے کہا ہاں ، اس نے کہا میں نے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہاں تک سنا ہے کہ جب تک اس کے نرخرے میں روح نہ آ جائے توبہ کے دروازے اس کے لیے بھی کھلے رہتے ہیں ، ۱؎ (مسند احمد:3/:425:ضعیف) ابن مردویہ میں مروی ہے کہ جب تک جان نکلتے ہوئے گلے سے نکلنے والی آواز شروع نہ ہو تب تک توبہ قبول ہے ۱؎ ، (مسند بزار:3243:ضعیف) کئی ایک مرسل احادیث میں بھی یہ مضمون ہے ، ابوقلابہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جب ابلیس پر لعنت نازل فرمائی تو اس نے مہلت طلب کی اور کہا تیری عزت اور تیرے جلال کی قسم کہ ابن آدم کے جسم میں جب تک روح رہے گی میں اس کے دل سے نہ نکلوں گا ، اللہ تعالیٰ عزوجل نے فرمایا مجھے اپنی عزت اور اپنے جلال کی قسم کہ میں بھی جب تک اس میں روح رہے گی اس کی توبہ قبول کروں گا ، ۱؎ (:تفسیر ابن جریر الطبری:8858) ایک مرفوع حدیث میں بھی اس کے قریب قریب مروی ہے ۔ ۱؎ (مسند احمد:3/29:حسن) پس ان تمام احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جب تک بندہ زندہ ہے اور اسے اپنی حیات کی امید ہے تب تک وہ اللہ تعالیٰ کی طرف جھکے ، توبہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرماتا ہے اور اس پر رجوع کرتا ہے اللہ تعالیٰ علیم و حکیم ہے ، ہاں جب زندگی سے مایوس ہو جائے فرشتوں کو دیکھ لے اور روح بدن سے نکل کر حلق تک پہنچ جائے سینے میں گھٹن لگے حلق میں اٹکے سانسوں سے غرغرہ شروع ہو تو اس کی توبہ قبول نہیں ہوتی ۔ اسی لیے اس کے بعد فرمایا کہ مرتے دم تک جو گناہوں پر اڑا رہے اور موت دیکھ کر کہنے لگے کہ اب میں توبہ کرتا ہوں تو ایسے شخص کی توبہ قبول نہیں ہوتی ، جیسے اور جگہ ہے آیت «فَلَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا قَالُوا آمَنَّا بِ اللہِ وَحْدَہُ وَکَفَرْنَا بِمَا کُنَّا بِہِ مُشْرِکِینَ» * «فَلَمْ یَکُ یَنْفَعُہُمْ إِیمَانُہُمْ لَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا سُنَّتَ اللہِ الَّتِی قَدْ خَلَتْ فِی عِبَادِہِ وَخَسِرَ ہُنَالِکَ الْکَافِرُونَ» ۱؎ (40-غافر:84-85) مطلب یہ ہے کہ ہمارے عذابوں کا معائنہ کر لینے کے بعد ایمان کا اقرار کرنا کوئی نفع نہیں دیتا اور جگہ ہے «یَوْمَ یَأْتِی بَعْضُ آیَاتِ رَبِّکَ لَا یَنْفَعُ نَفْسًا إِیمَانُہَا لَمْ تَکُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ أَوْ کَسَبَتْ فِی إِیمَانِہَا خَیْرًا» ۱؎ (6-الأنعام:158) الخ مطلب یہ ہے کہ جب مخلوق سورج کو مغرب کی طرف سے چڑھتے ہوئے دیکھ لے گی اس وقت جو ایمان لائے یا نیک عمل کرے اسے نہ اس کا عمل نفع دے گا ، نہ اس کا ایمان ۔ پھر فرماتا ہے کہ کفر و شرک پر مرنے والے کو بھی ندامت و توبہ کوئی فائدہ نہ دے گی نہ ہی اس فدیہ اور بدلہ قبول کیا جائے گا چاہے زمین بھر کر سونا دینا چاہیئے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ فرماتے ہیں یہ آیت اہل شرک کے بارے میں نازل ہوئی ہے ، مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ اپنے بندیکی توبہ قبول کرتا ہے اور اسے بخش دیتا ہے جب تک پردہ نہ پڑ جائے پوچھا گیا پردہ پڑنے سے کیا مطلب ہے ؟ فرمایا شرک کی حالت میں جان نکل جانا ۔ ۱؎ (مسند احمد:5/174:ضعیف) ایسے لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے سخت درد ناک المناک ہمیشہ رہنے والے عذاب تیار کر رکھے ہیں ۔ النسآء
18 النسآء
19 عورت پر ظلم کا خاتمہ صحیح بخاری میں ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ قبل اسلام جب کوئی شخص مر جاتا ہے تو اس کے وارث اس کی عورت کے پورے حقدار سمجھے جاتے اگر ان میں سے کوئی چاہتا تو اپنے نکاح میں لے لیتا اگر وہ چاہتے تو دوسرے کسی کے نکاح میں دے دیتے اگر چاہتے تو نکاح ہی نہ کرنے دیتے میکے والوں سے زیادہ اس عورت کے حقدار سسرال والے ہی گنے جاتے تھے جاہلیت کی اس رسم کے خلاف یہ آیت نازل ہوئی ۱؎ ، (صحیح بخاری:2079) دوسری روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ وہ لوگ اس عورت کو مجبور کرتے کہ وہ مہر کے حق سے دست بردار ہو جائے یا یونہی بےنکاحی بیٹھی رہے ، ۱؎ (سنن ابوداود:2090،قال الشیخ الألبانی:حسن صحیح) یہ بھی مروی ہے کہ اس عورت کا خاوند مرتے ہی کوئی بھی آ کر اس پر اپنا کپڑا ڈال دیتا اور وہی اس کا مختار سمجھا جاتا ، تو ایک روایت میں ہے کہ یہ کپڑا ڈالنے والا اسے حسین پاتا تو اپنے نکاح میں لے لیتا اگر یہ بدصورت ہوتی تو اسے یونہی روکے رکھتا یہاں تک کہ مر جائے پھر اس کے مال کا وارث بنتا ۔ یہ بھی مروی ہے کہ مرنے والے کا کوئی گہرا دوست کپڑا ڈال دیتا ۔ پھر اگر وہ عورت کچھ فدیہ اور بدلہ دے تو وہ اسے نکاح کرنے کی اجازت دیتا ورنہ یونہی مر جاتی سیدنا زید بن اسلم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اہل مدینہ کا یہ دستور تھا کہ وارث اس عورت کے بھی وارث بن جاتے غرض یہ لوگ عورتوں کے ساتھ بڑی بری طرح پیش آتے تھے یہاں تک کہ طلاق دیتے وقت بھی شرط کر لیتے تھے کہ جہاں میں چاہوں تیرا نکاح ہو گا اس طرح کی قید و بند سے رہائی پانے کی پھر یہ صورت ہوتی کہ وہ عورت کچھ دے کر جان چھڑاتی ، اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو اس سے منع فرما دیا ، ابن مردویہ میں ہے کہ جب ابو قیس بن اسلت کا انتقال ہوا تو ان کے بیٹے نے ان کی بیوی سے نکاح کرنا چاہا جیسے کہ جاہلیت میں یہ دستور تھا اس پر یہ آیت نازل ہوئی عطاء رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ کسی بچے کی سنبھال پر اسے لگا دیتے تھے مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں جب کوئی مر جاتا تو اس کا لڑکا اس کی بیوی کا زیادہ حقدار سمجھا جاتا اگر چاہتا خود اپنی سوتیلی ماں سے نکاح کر لیتا اور اگر چاہتا دوسرے کے نکاح میں دے دیتا مثلاً بھائی کے بھتیجے کے یا جس کو چاہے ۔ عکرمہ رحمہ اللہ کی روایت میں ہے کہ ابو قیس کی جس بیوی کا نام کبیشہ بنت معن رضی اللہ عنہا تھا اس نے اس صورت کی خبر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دی کہ یہ لوگ نہ مجھے وارثوں میں شمار کر کے میرے خاوند کا ورثہ دیتے ہیں نہ مجھے چھوڑتے ہیں کہ میں اور کہیں اپنا نکاح کر لوں اس پر یہ آیت نازل ہوئی ، ایک روایت میں ہے کہ کپڑا ڈالنے کی رسم سے پہلے ہی اگر کوئی عورت بھاگ کھڑی ہو اور اپنے میکے آ جائے تو وہ چھوٹ جاتی تھی ، مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں جو یتیم بچی ان کی ولایت میں ہوتی اسے یہ روکے رکھتے تھے اس امید پر کہ جب ہماری بیوی مر جائے گی ہم اس سے نکاح کر لیں گے ، ان سب اقوال سے معلوم ہوا کہ ان تمام صورتوں کی اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ممانعت کر دی اور عورتوں کی جان اس مصیبت سے چھڑا دی واللہ اعلم ۔ ارشاد ہے عورتوں کی بود و باش میں انہیں تنگ کر کے تکلیف دیدے کر مجبور نہ کرو کہ وہ اپنا سارا مہر چھوڑ دیں یا اس میں سے کچھ چھوڑ دیں یا اپنے کسی اور واجبی حق وغیرہ سے دست بردار ہونے پر آمادہ ہو جائیں کیونکہ انہیں ستایا اور مجبور کیا جا رہا ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ عورت ناپسند ہے دل نہیں ملا چھوڑ دینا چاہتا ہے تو اس صورت میں حق مہر کے علاوہ بھی تمام حقوق دینے پڑیں گے اس صورت حال سے بچنے کے لیے اسے ستانا یا طرح طرح سے تنگ کرنا تاکہ وہ خود اپنے حقوق چھوڑ کر چلے جانے پر آمادہ ہو جائے ایسا رویہ اختیار کرنے سے قرآن پاک نے مسلمانوں کو روک دیا ۔ ابن سلمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ان دونوں آیتوں میں سے پہلی آیت امر جاہلیت کو ختم کرنے اور دوسری امراسلام کی اصلاح کے لیے نازل ہوئی، ابن مبارک رحمہ اللہ بھی یہی فرماتے ہیں ۔ مگر اس صورت میں کہ ان سے کھلی بےحیائی کا کام صادر ہو جائے ، اس سے مراد بقول اکثر مفسرین صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین رحمہ اللہ علیہم وغیرہ زناکاری ہے ، یعنی اس صورت میں جائز ہے کہ اس سے مہر لوٹا لینا چاہیئے اور اسے تنگ کرے تاکہ خلع پر رضامند ہو ، جیسے سورۃ البقرہ کی آیت میں ہے «وَلَا یَحِلٰ لَکُمْ أَن تَأْخُذُوا مِمَّا آتَیْتُمُوہُنَّ شَیْئًا إِلَّا أَن یَخَافَا أَلَّا یُقِیمَا حُدُودَ اللہِ » ۱؎ (2-البقرۃ:229) یعنی تمہیں حلال نہیں کہ تم انہیں دیئے ہوئے میں سے کچھ بھی لے لو مگر اس حالت میں کہ دونوں کو اللہ کی حدیں قائم نہ رکھ سکنے کا خوف ہو ۔ بعض بزرگوں نے فرمایا ہے «فَاحِشَۃٍ مٰبَیِّنَۃٍ» ۱؎ (4-النساء:19) سے مراد خاوند کے خلاف کام کرنا ، اس کی نافرمانی کرنا ، بدزبانی کج خلقی کرنا ، حقوق زوجیت اچھی طرح ادا نہ کرنا وغیرہ ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:117/8) امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں آیت کے الفاظ عام ہیں زنا کو اور تمام مذکورہ عوامل بھی شامل ہیں یعنی ان تمام صورتوں میں خاوند کو مباح ہے کہ اسے تنگ کرے تاکہ وہ اپنا کل حق یا تھوڑا حق چھوڑ دے اور پھر یہ اسے الگ کر دے امام صاحب کا یہ فرمان بہت ہی مناسب ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» یہ روایت بھی پہلے گزر چکی ہے کہ یہاں اس آیت کے اترنے کا سبب وہی جاہلیت کی رسم ہے جس سے اللہ نے منع فرما دیا ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پورا بیان جاہلیت کی رسم کو اسلام میں سے خارج کرنے کے لیے ہوا ہے ۔ ابن زید رحمہ اللہ فرماتے ہیں مکہ کے قریش میں یہ رواج تھا کہ کسی شخص نے کسی شریف عورت سے نکاح کیا موافقت نہ ہوئی تو اسے طلاق دے دی لیکن یہ شرط کر لیتا تھا کہ بغیر اس کی اجازت کے یہ دوسری جگہ نکاح نہیں کر سکتی اس بات پر گواہ مقرر ہو جاتے اور اقرار نامہ لکھ لیا جاتا اب اگر کہیں سے پیغام آئے اور وہ عورت راضی ہو تو یہ کہتا مجھے اتنی رقم دے تو میں تجھے نکاح کی اجازت دوں گا اگر وہ ادا کر دیتی تو خیر ورنہ یوں نہ اسے قید رکھتا اور دوسرا نکاح نہ کرنے دیتا اس کی ممانعت اس آیت میں نازل ہوئی ، بقول مجاہد رحمہ اللہ یہ حکم اور سورۃ البقرہ کی آیت کا حکم دونوں ایک ہی ہیں ۔ پھر فرمایا عورتوں کے ساتھ خوش سلوکی کا رویہ رکھو ، ان کے ساتھ اچھا برتاؤ برتو ، نرم بات کہو نیک سلوک کرو اپنی حالت بھی اپنی طاقت کے مطابق اچھی رکھو ، جیسے تم چاہتے ہو کہ وہ تمہارے لیے بنی سنوری ہوئی اچھی حالت میں رہے تم خود اپنی حالت بھی اچھی رکھو جیسے اور جگہ فرمایا آیت «وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِی عَلَیْہِنَّ بِالْمَعْرُوفِ » ۱؎ (2-البقرۃ:228) یعنی جیسے تمہارے حقوق ان پر ہیں ان کے حقوق بھی تم پر ہیں ۔ بہترین زوج محترم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تم سب سے بہتر شخص وہ ہے جو اپنی گھر والی کے ساتھ بہتر سے بہتر شخص وہ ہے جو اپنی گھر والی کے ساتھ بہتر سے بہتر سلوک کرنے والا ہو میں اپنی بیویوں سے بہت اچھا رویہ رکھتا ہوں ، ۱؎ (سنن ترمذی:3895،قال الشیخ الألبانی:صحیح) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کے ساتھ بہت لطف و خوشی بہت نرم اخلاقی اور خندہ پیشانی سے پیش آتے تھے ، انہیں خوش رکھتے تھے ان سے ہنسی دل لگی کی باتیں کیا کرتے تھے ، ان کے دل اپنی مٹھی میں رکھتے تھے ، انہیں اچھی طرح کھانے پینے کو دیتے تھے کشادہ دلی کے ساتھ ان پر خرچ کرتے تھے ایسی خوش طبعی کی باتیں بیان فرماتے جن سے وہ ہنس دیتیں ، ایسا بھی ہوا ہے کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ آپ نے دوڑ لگائی اس دوڑ میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا آگے نکل گئیں کچھ مدت بعد پھر دوڑ لگی اب کے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پیچھے رہ گئیں تو آپ نے فرمایا ” معاملہ برابر ہو گیا “ ، ۱؎ (سنن ابوداود:2578،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اس سے بھی آپ کا مطلب یہ تھا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا خوش رہیں ان کا دل بہلے جس بیوی صاحبہ کے ہاں آپ کو رات گزارنی ہوتی وہیں آپ کی کل بیویاں جمع ہو جاتیں دو گھڑی بیٹھتیں بات چیت ہوتی ۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ ان سب کے ساتھ ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کا کھانا تناول فرماتے پھر سب اپنے اپنے گھر چلی جاتیں اور آپ وہیں آرام فرماتے جس کی باری ہوتی، اپنی بیوی صاحبہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ ایک ہی چادر میں سوتے، کرتا نکال ڈالتے صرف تہبند بندھا ہوا ہوتا عشاء کی نماز کے بعد گھر جا کر دو گھڑی ادھر ادھر کی کچھ باتیں کرتے جس سے گھر والیوں کا جی خوش ہوتا الغرض نہایت ہی محبت پیار کے ساتھ اپنی بیویوں کو آپ رکھتے تھے ۔ پس مسلمانوں کو بھی چاہیئے کہ اپنی بیویوں کے ساتھ اچھی طرح راضی خوشی ، محبت پیار سے رہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :فرماں برداری کا دوسرا نام اچھائی ہے ۔ اس کے تفصیلی احکام کی جگہ تفسیر نہیں بلکہ اسی مضمون کی کتابیں ہیں والحمدللہ پھر فرماتا ہے کہ باوجود جی نہ چاہنے کے بھی عورتوں سے اچھی بود و باش رکھنے میں بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ بہت بڑی بھلائی عطا فرمائے ، ممکن ہے نیک اولاد ہو جائے اور اس سے اللہ تعالیٰ بہت سی بھلائیاں نصیب کرے ، صحیح حدیث میں ہے مومن مرد مومنہ عورت کو الگ نہ کرے اگر اس کی ایک آدھ بات سے ناراض ہو گا تو ایک آدھ خصلت اچھی بھی ہو گی ۔۱؎ (صحیح مسلم:1467) پھر فرماتا ہے کہ جب تم میں سے کوئی اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہے اس کی جگہ دوسری عورت سے نکاح کرنا چاہے تو اسے دئے ہوئے مہر میں سے کچھ بھی واپس نہ لے چاہے خزانہ کا خزانہ دیا ہوا ہو ۔ حق مہر کے مسائل سورۃ آل عمران کی تفسیر میں «قنطار» کا پورا بیان گزر چکا ہے اس لیے یہاں دوبارہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں ، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مہر میں بہت سارا مال دینا بھی جائز ہے ۔ امیر المؤمنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے پہلے بہت لمبے چوڑے مہر سے منع فرما دیا تھا پھر اپنے قول سے رجوع کیا ، جیسے کہ مسند احمد میں ہے کہ آپ نے فرمایا : عورتوں کے مہر باندھنے میں زیادتی نہ کرو اگر یہ دنیوی طور پر کوئی بھی چیز ہوتی یا اللہ کے نزدیک یہ تقویٰ کی چیز ہوتی تو تم سب سے پہلے اس پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم عمل کرتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کسی بیٹی کا مہر بارہ اوقیہ سے زیادہ مقرر نہیں کیا [ تقریباً سوا سو روپیہ ] انسان زیادہ مہر باندھ کر پھر مصیبت میں پڑ جاتا ہے یہاں تک کہ رفتہ رفتہ اس کی بیوی اسے بوجھ معلوم ہونے لگتی ہے ، اور اس کے دل میں اس کی دشمنی بیٹھ جاتی ہے اور کہنے لگتا ہے کہ تو نے تو میرے کندھے پر مشک لٹکا دی ، یہ حدیث بہت سی کتابوں میں مختلف الفاظ سے مروی ہے ۔ ایک میں ہے کہ آپ نے منبرنبوی پر کھڑے ہو کر فرمایا : ” لوگو ! تم نے کیوں لمبے چوڑے مہر باندھنے شروع کر دئیے ہیں ؟ “ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے زمانہ کے آپ کے اصحاب رضی اللہ عنہم نے تو چار سو درہم ( تقریباً سو روپیہ ) مہر باندھا ہے اگر یہ تقویٰ اور کرامت کے زاد ہونے کا سبب ہوتا تو تم زیادہ حق مہر ادا کرنے میں بھی ان پر سبقت نہیں لے سکتے تھے ۔ خبردار ! آج سے میں نہ سنوں کہ کسی نے چار سو درہم سے زیادہ کا مہر مقرر کیا یہ فرما کر آپ نیچے اتر آئے تو ایک قریشی خاتون سامنے آئیں اور کہنے لگیں امیر المؤمنین کیا آپ نے چار سو درہم سے زیادہ کے حق مہر سے لوگوں کو منع فرما دیا ہے ؟ آپ نے فرمایا :ہاں کہا کیا آپ نے اللہ کا کلام جو اس نے نازل فرمایا ہے نہیں سنا ؟ کہا وہ کیا ؟ کہا سنئیے اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے «وَآتَیْتُمْ إِحْدَاہُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَأْخُذُوا مِنْہُ شَیْئًا أَتَأْخُذُونَہُ بُہْتَانًا وَإِثْمًا مُبِینًا» ۱؎ (4-النساء:20) الخ یعنی تم نے انہیں خزانہ دیا ہو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ” اللہ مجھے معاف فرما ! عمر سے تو ہر شخص زیادہ سمجھدار ہے “ ، پھر واپس اسی وقت منبر پر کھڑے ہو کر لوگوں سے فرمایا : لوگو! میں نے تمہیں چار سو درہم سے زیادہ کے مہر سے روک دیا تھا لیکن اب کہتا ہوں جو شخص اپنے مال میں سے مہر میں جتنا چاہے دے اپنی خوشی سے جتنا مہر مقرر کرنا چاہے کرے میں نہیں روکتا ۔ ۱؎ (ضعیف: اس کی سند میں مجالد بن سعید راوی ضعیف ہے) اور ایک روایت میں اس عورت کا آیت کو اس طرح پڑھنا مروی ہے «وَآتَیْتُمْ إِحْدَاہُنَّ قِنْطَارًا مِن ذھب» سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی قرأت میں بھی اسی طرح ہے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا یہ فرمانا بھی مروی ہے کہ ایک عورت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پر غالب آ گئی ۔ ۱؎ (عبدالرزاق:10420:ضعیف) اور روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا تھا گو «ذی القصہ» یعنی یزیدین حصین حارثی کی بیٹی ہو پھر بھی مہر اس کا زیادہ مقرر نہ کرو اور اگر تم نے ایسا کیا تو وہ زائد رقم میں بیت المال کے لیے لے لوں گا اس پر ایک دراز قد چوڑی ناک والی عورت نے کہا سیدنا آپ یہ حکم نہیں دے سکتے۔ ۱؎ [ ضعیف: اس میں مصعب بن ثابت راوی ضعیف ہے] ۔ پھر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ تم اپنی بیوی کو دیا ہوا حق مہر واپس کیسے لے سکتے ہو ؟ جبکہ تم نے اس سے فائدہ اٹھایا یا ضرورت پوری کی وہ تم سے اور تم اس سے مل گئی یعنی میاں بیوی کے تعلقات بھی قائم ہو گئے ، بخاری و مسلم کی اس حدیث میں ہے ایک شخص نے اپنی بیوی پر زنا کا الزام لگایا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہوا ۔ بیوی نے بھی اپنے بےگناہ ہونے کی ، شوہر نے اپنے سچا ہونے کی قسم کھائی پھر ان دونوں کا قسمیں کھانا اور اس کے بعد آپ کا یہ فرمان کہ اللہ تعالیٰ کو بخوبی علم ہے کہ تم دونوں میں سے کون جھوٹا ہے ؟ کیا تم میں سے کوئی اب بھی توبہ کرتا ہے ؟ تین دفعہ فرمایا تو اس مرد نے کہا میں نے جو مال اس کے مہر میں دیا ہے اس کی بابت کیا فرماتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا اسی کے بدلے تو یہ تیرے لیے حلال ہوئی تھیں اب اگر تو نے اس پر جھوٹی تہمت لگائی ہے تو پھر اور ناممکن بات ہو گی ۱؎ (صحیح بخاری:5311) اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے کہ سیدنا بصرہ بن اکثم رضی اللہ عنہ نے ایک کنواری لڑکی سے نکاح کیا جب اس سے ملے تو دیکھا کہ اسے زنا کا حمل ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا آپ نے اسے الگ کرا دیا اور مہر دلوا دیا اور عورت کو کوڑے مارنے کا حکم دیا اور فرمایا جو بچہ ہو گا وہ تیرا غلام ہو گا اور مہر تو اس کی حلت کا سبب تھا ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2131،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) غرض آیت کا مطلب بھی یہی ہے کہ عورت اس کے بیٹے پر حرام ہو جاتی ہے اس پر اجماع ہے، سیدنا ابو قیس رضی اللہ عنہ جو بڑے بزرگ اور نیک انصاری صحابی تھے ان کے انتقال کے بعد ان کے لڑکے قیس نے ان کی بیوی سے نکاح کی خواہش کی جو ان کی سوتیلی ماں تھیں اس پر اس بیوی صاحبہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا بیشک تو اپنی قوم میں نیک ہے لیکن میں تو تجھے اپنا بیٹا شمار کرتی ہوں خیر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاتی ہوں جو وہ حکم فرمائیں وہ حاضر ہوئیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ساری کیفیت بیان کی آپ نے فرمایا اپنے گھر لوٹ جاؤ پھر یہ آیت اتری کہ ‘جس سے باپ نے نکاح کیا اس سے بیٹے کا نکاح حرام ہے،۱؎ (بیہقی:7/161:ضعیف) ایسے واقعات اور بھی اس وقت موجود تھے جنہیں اس ارادے سے باز رکھا گیا ایک تو یہی ابو قیس والا واقعہ ان بیوی صاحبہ کا نام سیدہ ام عبیداللہ ضمرہ رضی اللہ عنہا تھا۔ دوسرا واقعہ خلف کا تھا ان کے گھر میں ابوطلحہ کی صاحبزادی تھیں اس کے انتقال کے بعد اس کے لڑکے صفوان نے اسے اپنے نکاح میں لانا چاہا تھا سہیلی میں لکھا ہے جاہلیت میں اس نکاح کا معمول تھا جسے باقاعدہ نکاح سمجھا جاتا تھا اور بالکل حلال گنا جاتا تھا اسی لیے یہاں بھی فرمایا گیا کہ جو پہلے گزر چکا سو گزر چکا ، جیسے دو بہنوں کو نکاح میں جمع کرنے کی حرمت کو بیان فرما کر بھی یہی کیا گیا کنانہ بن خزیمہ نے اپنے باپ کی بیوی سے نکاح کیا تھا نضر اسی کے بطن سے پیدا ہوا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ میری اوپر کی نسل بھی باقاعدہ نکاح سے ہی ہے نہ کہ زنا سے تو معلوم ہوا کہ یہ رسم ان میں برابر جاری تھی اور جائز تھی اور اسے نکاح شمار کرتے تھے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں جاہلیت والے بھی جن جن رشتوں کو اللہ نے حرام کیا ہے ، سوتیلی ماں اور دو بہنوں کو ایک ساتھ نکاح میں رکھنے کے سوا سب کو حرام ہی جانتے تھے پس اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام پاک میں ان دونوں رشتوں کو بھی حرام ٹھہرایا عطاء اور قتادہ رحمہ اللہ علیہم بھی یہی فرماتے ہیں ۔ یاد رہے کہ سہیلی نے کنانہ کا جو واقعہ نقل کیا ہے وہ غور طلب ہے بالکل صحیح نہیں ، واللہ اعلم ۔ بہر صورت یہ رشتہ امت مسلمہ پر حرام ہے اور نہایت قبیح امر ہے ۔ یہاں تک کہ فرمایا یہ نہایت فحش برا کام بغض کا ہے ۔ پھر فرمایا کہ عقد نکاح جو مضبوط عہد و پیمان ہے اس میں تم جکڑے جا چکے ہو ، اللہ کا یہ فرمان تم سن چکے ہو کہ بساؤ تو اچھی طرح اور الگ کرو تو عمدہ طریقہ سے چنانچہ حدیث میں بھی ہے کہ تم ان عورتوں کو اللہ کی امانت کے طور پہ لیتے ہو اور ان کو اپنے لیے اللہ تعالیٰ کا کلمہ پڑھ کر یعنی نکاح کے خطبہ تشہد سے حلال کرتے ہو ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج والی رات جب بہترین انعامات عطا ہوئے ، ان میں ایک یہ بھی تھا کہ آپ سے فرمایا گیا تیری امت کا کوئی خطبہ جائز نہیں جب تک وہ اس امر کی گواہی نہ دیں کہ تو میرا بندہ اور میرا رسول ہے ( ابن ابی حاتم ) نکاح کے احکامات صحیح مسلم شریف میں جابر رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حجتہ الوداع کے خطبہ میں فرمایا تم نے عورتوں کو اللہ کی امانت کے طور پہ لیا ہے اور انہیں اللہ تعالیٰ کے کلمہ سے اپنے لیے حلال کیا ہے ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ سوتیلی ماؤں کی حرمت بیان فرماتا ہے اور ان کی تعظیم اور توقیر ظاہر کرتا ہے یہاں تک کہ باپ نے کسی عورت سے صرف نکاح کیا ابھی وہ رخصت ہو کر بھی نہیں آئی مگر طلاق ہو گئی یا باپ مر گیا وغیرہ تو بھی وہ سبب اور برا راستہ ہے ۔ اور جگہ فرمایا ہے «وَلاَ تَقْرَبُواْ الْفَوَحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ» ۱؎ (6-الأنعام:151) یعنی ’ کسی برائی بےحیائی اور فحش کام کے قریب بھی نہ جاؤ یا وہ بالکل ظاہر ہو خواہ پوشیدہ ہو ‘ ۔ اور فرمان ہے «وَلاَ تَقْرَبُواْ الزِّنَی إِنَّہُ کَانَ فَاحِشَۃً وَسَآءَ سَبِیلاً» ۱؎ (17-الإسراء:32) یعنی ’ زنا کے قریب نہ جاؤ یقیناً وہ فحش کام اور بری راہ ہے ‘ ۔ یہاں مزید فرمایا کہ یہ کام بڑے بغض کا بھی ہے یعنی فی نفسہ بھی بڑا برا امر ہے اس سے باپ بیٹے میں عداوت پڑ جاتی ہے اور دشمنی قائم ہو جاتی ہے ، یہی مشاہدہ میں آیا ہے اور عموماً یہ بھی لکھا گیا ہے کہ جو شخص کسی عورت سے دوسرا نکاح کرتا ہے وہ اس کے پہلے خاوند سے بغض ہی رکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن قرار دے گئیں اور امت پر مثل ماں کے حرام کی گئیں کیونکہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں ہیں اور آپ مثل باپ کے ہیں ، بلکہ اجماعاً ثابت ہے کہ آپ کے حق باپ دادا کے حقوق سے بھی بہت زیادہ اور بہت بڑے ہیں بلکہ آپ کی محبت خود اپنی جانوں کی محبت پر بھی مقدم ہے صلوات اللہ وسلامہ علیہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ کام اللہ کے بغض کا موجب ہے اور برا راستہ ہے اب جو ایسا کام کرے وہ دین سے مرتد ہے اسے قتل کر دیا جائے اور اس کا مال بیت المال میں بطور فئی کے داخل کر لیا جائے ، سنن اور مسند احمد میں مروی ہے کہ ایک صحابی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کی طرف بھیجا جس نے اپنے باپ کی بیوی سے باپ کے بعد نکاح کیا تھا کہ اسے قتل کر ڈالو اور اس کے مال پر قبضہ کر لو ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:1362،قال الشیخ الألبانی:صحیح) سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میرے چچا سیدنا حارث بن عمیر رضی اللہ عنہ اپنے ہاتھ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دیا ہوا جھنڈا لے کر میرے پاس سے گزرے میں نے پوچھا کہ چچا ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو کہاں بھیجا ہے ؟ فرمایا :اس شخص کی طرف جس نے اپنے باپ کی بیوی سے نکاح کیا ہے مجھے حکم ہے کہ میں اس کی گردن ماروں ۔ ۱؎ (مسند احمد:4/292) سوتیلی ماں سے نکاح حرام ہے اس پر تو علماء کا اجماع ہے کہ جس عورت سے باپ نے مباشرت کر لی خواہ نکاح کر کے ، خواہ ملکیت میں لا کر ، خواہ شبہ سے وہ عورت بیٹے پر حرام ہے ، ہاں اگر جماع نہ ہوا ہو تو صرف مباشرت ہوئی ہو یا وہ اعضاء دیکھے ہوں جن کا دیکھنا اجنبی ہونے کی صورت میں حلال نہ تھا تو اس میں اختلاف ہے ۔ امام احمد رحمہ اللہ تو اس صورت میں بھی اس عورت کو لڑکے پر حرام بتاتے ہیں ، حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ کے اس واقعہ سے بھی اس روایت کی تصدیق ہوتی ہے کہ خدیج حمصی رحمہ اللہ نے جو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے مولیٰ تھے ، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے لیے ایک لونڈی خریدی جو گورے رنگ کی اور خوبصورت تھی اسے برہنہ ان کے پاس بھیج دیا ان کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی اس سے اشارہ کر کے کہنے لگے اچھا نفع تھا اگر یہ ملبوس ہوتی پھر کہنے لگے اسے سیدنا یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس لے جاؤ پھر کہا نہیں نہیں ٹھہرو ربیعہ بن عمرو جرشی رحمہ اللہ کو میرے پاس بلا لاؤ یہ بڑے فقیہ تھے جب آئے تو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے یہ مسئلہ پوچھا کہ میں نے اس عورت کے یہ اعضاء مخصوص دیکھے ہیں ، یہ برہنہ تھی ۔ اب میں اسے اپنے لڑکے یزید کے پاس بھیجنا چاہتا ہوں تو کیا اس کے لیے یہ حلال ہے ؟ ربیعہ نے فرمایا امیر المؤمنین ایسا نہ کیجئے یہ اس کے قابل نہیں رہی فرمایا تم ٹھیک کہتے ہو اچھا جاؤ سیدنا عبداللہ بن مسعدہ فزاری رضی اللہ عنہ کو بلا لاؤ وہ آئے وہ تو گندم گوں رنگ کے تھے اس سے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اس لونڈی کو میں تمہیں دیتا ہوں تاکہ تمہاری اولاد سفید رنگ پیدا ہو یہ سیدنا عبداللہ بن مسعدہ رضی اللہ عنہ وہ ہیں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو دیا تھا آپ نے انہیں پالا پرورش کیا پھر اللہ تعالیٰ کے نام سے آزاد کر دیا پھر یہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس چلے آئے تھے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:142/8) النسآء
20 النسآء
21 النسآء
22 النسآء
23 کون سی عورتیں مردوں پر حرام ہیں؟ نسبی ، رضاعی اور سسرالی رشتے سے جو عورتیں مرد پر حرام ہیں ان کا بیان آیت کریمہ میں ہو رہا ہے ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں سات عورتیں بوجہ نسب حرام ہیں اور سات بوجہ سسرال کے پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی جس میں بہن کی لڑکیوں تک نسبی رشتوں کا ذکر ہے ۱؎ ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:142/8) جمہور علماء کرام نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ زنا سے جو لڑکی پیدا ہوئی وہ بھی اس زانی پر حرام ہے کیونکہ یہ بھی بیٹی ہے اور بیٹیاں حرام ہیں ، یہی مذہب ابوحنیفہ ، مالک اور احمد بن حنبل رحمہ اللہ علیہم کا ہے ، امام شافعی رحمہ اللہ سے کچھ اس کی اباحت میں بھی بحث کی گئی ہے اس لیے کہ شرعاً یہ بیٹی نہیں پس جیسے کہ ورثے کے حوالے سے یہ بیٹی کے حکم سے خارج ہے اور ورثہ نہیں پاتی اسی طرح اس آیت حرمت میں بھی وہ داخل نہیں ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» [ صحیح مذہب وہی ہے جس پر جمہور ہیں ۔ مترجم ] پھر فرماتا ہے کہ جس طرح تم پر تمہاری سگی ماں حرام ہے اسی طرح رضاعی ماں بھی حرام ہے بخاری و مسلم میں ہے کہ رضاعت بھی اسے حرام کرتی ہے جسے ولادت حرام کرتی ہے ۱؎ ۔ (صحیح بخاری:2646) صحیح مسلم میں ہے رضاعت سے بھی وہ حرام ہے جو نسب سے ہے ، بعض فقہاء نے اس میں سے چار صورتیں بعض نے چھ صورتیں مخصوص کی ہیں جو احکام کی فروع کی کتابوں میں مذکور ہیں لیکن تحقیقی بات یہ ہے کہ اس میں سے کچھ بھی مخصوص نہیں اس لیے کہ اسی کے مانند بعض صورتیں نسبت میں بھی پائی جاتی ہیں اور ان صورتوں میں سے بعض صرف سسرالی رشتہ کی وجہ سے حرام ہیں لہٰذا حدیث پر اعتراض خارج از بحث ہے والحمدللہ ۔ آئمہ کا اس میں بھی اختلاف ہے کہ کتنی مرتبہ دودھ پینے سے حرمت ثبات ہوتی ہے ، بعض تو کہتے ہیں کہ تعداد معین نہیں دودھ پیتے ہی حرمت ثابت ہو گئی امام مالک رحمہ اللہ یہی فرماتے ہیں، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سعید بن مسیب، عروہ بن زبیر اور زہری رحمہ اللہ علیہم کا قول بھی یہی ہے، دلیل یہ ہے کہ رضاعت یہاں عام ہے بعض کہتے ہیں تین مرتبہ جب پئے تو حرمت ثابت ہو گئی، جیسے کہ صحیح مسلم میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک مرتبہ کا چوسنا یا دو مرتبہ کا پی لینا حرام نہیں کرتا یہ حدیث مختلف الفاظ سے مروی ہے، ۱؎ (صحیح مسلم:1450) امام احمد، اسحاق بن راہویہ، ابوعبیدہ، ابوثور رحمہ اللہ علیہم بھی یہی فرماتے ہیں، سیدنا علی، سیدہ عائشہ، سیدہ ام الفضل، سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہم ، سلیمان بن یسار، سعید بن جبیر رحمہ اللہ علیہم سے بھی یہی مروی ہے ۔ بعض کہتے ہیں پانچ مرتبہ کے دودھ پینے سے حرمت ثابت ہوتی ہے اس سے کم نہیں ، اس کی دلیل صحیح مسلم کی یہ روایت ہے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ پہلے قرآن میں دس مرتبہ کی دودھ پلائی پر حرمت کا حکم اترا تھا پھر وہ منسوخ ہو کر پانچ رہ گئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فوت ہونے تک وہ قرآن میں پڑھا جاتا رہا ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1452) دوسری دلیل سیدہ سہلہ بنت سہیل رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ سالم کو جو ابوحذیفہ کے مولی تھے پانچ مرتبہ دودھ پلا دیں ، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اسی حدیث کے مطابق جس عورت کے گھر کسی کا آنا جانا دیکھتیں اسے یہی حکم دیتیں ، امام شافعی رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب کا فرمان بھی یہی ہے کہ پانچ مرتبہ دودھ پینا معتبر ہے ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1453) [ مترجم کی تحقیق میں بھی راجح قول یہی ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ] یہ بھی یاد رہے کہ جمہور کا مذہب یہ ہے کہ یہ رضاعت دودھ چھٹنے سے پہلے یعنی دو سال کے اندر اندر کی عمر میں ہو ، اس کا مفصل بیان «وَالْوَالِدَاتُ یُرْضِعْنَ أَوْلَادَہُنَّ حَوْلَیْنِ کَامِلَیْنِ لِمَنْ أَرَادَ أَنْ یُتِمَّ الرَّضَاعَۃَ» ۱؎ (2-البقرۃ:233) کی تفسیر میں سورۃ البقرہ میں گزر چکا ہے ، پھر اس میں بھی اختلاف ہے کہ اس رضاعت کا اثر رضاعی ماں کے خاوند تک بھی پہنچے گا یا نہیں ؟ تو جمہور کا اور آئمہ اربعہ کا فرمان تو یہ ہے کہ پہنچے گا اور بعض سلف کا قول ہے کہ صرف دودھ پلانے والی تک ہی رہے گا اور رضاعی باپ تک نہیں پہنچے گا اس کی تفصیل کی جگہ احکام کی بڑے بڑی کتابیں ہیں نہ کہ تفسیر [ صحیح قول جمہور کا ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» مترجم ] پھر فرماتا ہے ساس حرام ہے جس لڑکی سے نکاح ہوا بوجہ نکاح ہونے کے اس کی ماں اس پر حرام ہو گئی خواہ صحبت کرے یا نہ کرے ، ہاں جس عورت کے ساتھ نکاح کرتا ہے اور اس کی لڑکی اس کے اگلے خاوند سے اس کے ساتھ ہے تو اگر اس سے صحبت کی تو وہ لڑکی حرام ہو گی اگر مجامعت سے پہلے ہی اس عورت کو طلاق دے دی تو وہ لڑکی اس پر حرام نہیں ، اسی لیے اس آیت میں یہ قید لگائی بعض لوگوں نے ضمیر کو ساس اور اس کی پرورش کی ہوئی لڑکیوں دونوں کی طرف لوٹایا ہے وہ کہتے ہیں کہ ساس بھی اس وقت حرام ہوتی ہے جب اس کی لڑکی سے اس کے داماد نے خلوت کی ورنہ نہیں ، صرف عقد سے نہ تو عورت کی ماں حرام ہوتی ہے نہ عورت کی بیٹی ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس شخص نے کسی لڑکی سے نکاح کیا پھر دخول سے پہلے ہی طلاق دے دی تو وہ اس کی ماں سے نکاح کر سکتا ہے جیسے کہ ربیبہ لڑکی سے اس کی ماں کو اسی طرح کی طلاق دینے کے بعد نکاح کر سکتا ہے سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے بھی یہی منقول ہے ۔ ایک اور روایت میں بھی آپ سے مروی ہے آپ فرماتے تھے جب وہ عورت غیر مدخولہ مر جائے اور یہ خاوند اس کی میراث لے لے تو پھر اس کی ماں کو لانا مکروہ ہے ہاں اگر دخول سے پہلے طلاق دے دی ہے تو اگر چاہے نکاح کر سکتا ہے سیدنا ابوبکر بن کنانہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میرا نکاح میرے باپ نے طائف کی ایک عورت سے کرایا ابھی رخصتی نہیں ہوئی تھی کہ اس کا باپ میرا چچا فوت ہو گیا اس کی بیوی یعنی میری ساس بیوہ ہو گئی وہ بہت مالدار تھیں میرے باپ نے مجھے مشورہ دیا کہ اس لڑکی کو چھوڑ دوں اور اس کی ماں سے نکاح کر لوں میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ مسئلہ پوچھا تو آپ نے فرمایا :تمہارے لیے یہ جائز ہے پھر میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا یہ جائز نہیں میں نے اپنے والد سے ذکر کیا انہوں نے تو سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو ہی سوال کیا سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے تحریر فرمایا کہ میں نہ تو حرام کو حلال کروں نہ حلال کر حرام تم جانو اور تمہارا کام تم حالت دیکھ رہے ہو معاملہ کے تمام پہلو تمہاری نگاہوں کے سامنے ہیں ۔ عورتیں اس کے علاوہ بھی بہت ہیں ۔ غرض نہ اجازت دی نہ انکار کیا چنانچہ میرے باپ نے اپنا خیال اس کی ماں کی طرف سے ہٹا لیا ۔ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عورت کی لڑکی اور عورت کی ماں کا حکم ایک ہی ہے اگر عورت سے دخول نہ کیا ہو تو یہ دونوں حلال ہیں ، لیکن اس کی اسناد میں مبہم راوی ہے ، مجاہد رحمہ اللہ کا بھی یہی قول ہے ، ابن جبیر رحمہ اللہ اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بھی اسی طرف گئے ہیں ، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس میں توقف فرمایا ہے ۔ شافعیوں میں سے ابوالحسن احمد بن محمد بن صابونی رحمہ اللہ سے بھی بقول رافعی یہی مروی ہے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی اسی کے مثل مروی ہے لیکن پھر آپ نے اپنے اس قول سے رجوع کر لیا ہے طبرانی میں ہے کہ قبیلہ فزارہ کی شاخ قبیلہ بنو کمخ کے ایک شخص نے ایک عورت سے نکاح کیا پھر اس کی بیوہ ماں کے حسن پر فریفتہ ہوا تو سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مسئلہ پوچھا کہ کیا مجھے اس کی ماں سے نکاح کرنا جائز ہے آپ نے فرمایا ہاں چنانچہ اس نے اس لڑکی کو طلاق دے کر اس کی ماں سے نکاح کر لیا اس سے اولاد بھی ہوئی پھر سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ مدینہ آئے اور اس مسئلہ کی تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ یہ حلال نہیں چنانچہ آپ واپس کوفے گئے اور اس سے کہا کہ اس عورت کو الگ کر دے یہ تجھ پر حرام ہے اس نے اس فرمان کی تعمیل کی اور اسے الگ کر دیا جمہور علماء اس طرف ہیں لڑکی تو صرف عقد نکاح سے حرام نہیں ہوتی تاوقتیکہ اس کی ماں سے مباشرت نہ کی ہو ہاں ماں صرف لڑکی کے عقد نکاح ہوتے ہی حرام ہو جاتی ہے گو مباشرت نہ ہوئی ہو ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی کو دخول سے پہلے طلاق دیدے یا وہ عورت مر جائے تو اس کی ماں اس پر حلال نہیں چونکہ مبہم ہے اس لیے اسے ناپسند فرمایا، سیدنا ابن مسعود، سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہم ، مسروق، طاؤس، عکرمہ، عطا، حسن، مکحول، ابن سیرین، قتادہ اور زہری رحمہ اللہ علیہم سے بھی اسی طرح مروی ہے، چاروں اماموں ساتوں فقہاء اور جمہور علماء سلف و خلف کا یہی مذہب ہے والحمدللہ امام ابن جریج رحمہ اللہ فرماتے ہیں ٹھیک قول انہی حضرات کا ہے جو ساس کو دونوں صورتوں میں حرام بتلاتے ہیں اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی حرمت کے ساتھ دخول کی شرط نہیں لگائی جیسے کہ لڑکی کی ماں کے لیے یہ شرط لگائی ہے پھر اس پر اجماع ہے جو ایسی دلیل ہے کہ اس کا خلاف کرنا اس وقت جائز ہی نہیں جب کہ اس پر اتفاق ہو اور ایک غریب حدیث میں بھی یہ مروی ہے گو اس کی سند میں کلام ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جبکہ کوئی مرد کسی عورت سے نکاح کرے اگر اس نے اس کی ماں سے نکاح کیا ہے پھر ملنے سے پہلے ہی اسے طلاق دے دی ہے تو اگر چاہے اس کی لڑکی سے نکاح کر سکتا ہے ، گو اس حدیث کی سند کمزور ہے لیکن اس مسئلہ پر اجماع ہو چکا ہے جو اس کی صحت پر ایسا گواہ ہے جس کے بعد دوسری گواہی کی ضرورت نہیں ۔ [ ٹھیک مسئلہ یہی ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» مترجم ] (تفسیر ابن جریر الطبری:8957:ضعیف) پھر فرماتا ہے تمہاری پرورش کی ہوئی وہ لڑکیاں جو تمہاری گود میں ہوں وہ بھی تم پر حرام ہیں بشرطیکہ تم نے ان سوتیلی لڑکیوں کی ماں سے صحبت کی ہو جمہور کا فرمان ہے کہ خواہ گود میں پلی ہوں یا نہ پلیں ہوں حرام ہیں چونکہ عموماً ایسی لڑکیاں اپنی ماں کے ساتھ ہی ہوتی ہیں اور اپنے سوتیلے باپوں کے ہاں ہی پرورش پاتی ہیں اس لیے یہ کہہ دیا گیا ہے یہ کوئی قید نہیں جیسے اس آیت «وَلَا تُکْرِہُوا فَتَیَاتِکُمْ عَلَی الْبِغَاءِ إِنْ أَرَدْنَ تَحَصٰنًا» ۱؎ (24-النور:33) یعنی تمہاری لونڈیاں اگر پاکدامن رہنا چاہتی ہوں تو تم انہیں بدکاری پر بیبس نہ کرو ، یہاں بھی یہ قید کہ اگر وہ پاکدامن رہنا چاہیں صرف بااعتبار واقعہ کے غلبہ کے ہے یہ نہیں کہ اگر وہ خود ایسی نہ ہوں تو انہیں بدکاری پر آمادہ کرو ، اسی طرح اس آیت میں ہے کہ گود میں چاہے نہ ہوں پھر بھی حرام ہی ہیں ۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے کہا یا رسول اللہ ! آپ میری بہن ابوسفیان کی لڑکی عزہ سے نکاح کر لیجئے ۔ آپ نے فرمایا کیا تم یہ چاہتی ہو ؟ ام المؤمنین نے کہا ہاں میں آپ کو خالی تو رکھ نہیں سکتی پھر میں اس بھلائی میں اپنی بہن کو ہی کیوں نہ شامل کروں؟ آپ نے فرمایا ‘ سنو مجھ پر وہ حلال نہیں، ام المؤمنین رضی اللہ عنہا نے کہا میں نے سنا ہے کہ آپ سیدنا ابوسلمہ رضی اللہ عنہما کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہتے ہیں آپ نے فرمایا ان کی وہ بیٹی جو ام سلمہ سے ہے ؟ کہا ہاں ۔ فرمایا اولاً تو وہ مجھ پر اس وجہ سے حرام ہے کہ وہ میری «ربیبہ» ہے جو میرے ہاں پرورش پا رہی ہے دوسری یہ کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو بھی وہ مجھ پر حرام تھیں اس لیے کہ وہ میرے دودھ شریک بھائی کی بیٹی میری بھتیجی ہیں ۔ مجھے اور اس کے باپ ابوسلمہ کو ثوبیہ نے دودھ پلایا ہے ۔ خبردار ! اپنی بیٹیاں اور اپنی بہنیں مجھ پر پیش نہ کرو ، ۱؎ (صحیح بخاری:5101-5106) بخاری کی روایت ہے یہ الفاظ ہیں کہ اگر میرا نکاح ام سلمہ جسے نہ ہوا ہوتا تو بھی وہ مجھ پر حلال نہ تھیں ، ۱؎ (صحیح بخاری:5123) یعنی صرف نکاح کو آپ نے حرمت کا اصل قرار دیا ، یہی مذہب چاروں اماموں ساتوں فقیہوں اور جمہور سلف و خلف کا ہے ، یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر وہ اس کے ہاں پرورش پاتی ہو تو بھی حرام ہے ورنہ نہیں ۔ مالک بن اوس بن حدثان رحمہ اللہ فرماتے ہیں میری بیوی اولاد چھوڑ کر مر گئیں مجھے ان سے بہت محبت تھی اس وجہ سے ان کی موت کا مجھے بڑا صدمہ ہوا سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے میری اتفاقیہ ملاقات ہوئی تو آپ نے مجھے مغموم پا کر دریافت کیا کہ کیا بات ہے ؟ میں نے واقعہ سنایا تو آپ نے فرمایا تجھ سے پہلے خاوند سے بھی اس کی کوئی اولاد ہے ؟ میں نے کہا ہاں ایک لڑکی ہے اور وہ طائف میں رہتی ہے فرمایا پھر اس سے نکاح کر لو میں نے قرآن کریم کی آیت پڑھی کہ پھر اس کا کیا مطلب ہو گا ؟ آپ نے فرمایا یہ تو اس وقت ہے جبکہ اس نے تیرے ہاں پرورش پائی ہو اور وہ بقول تمہارے طائف میں رہتی ہے تیرے پاس ہے ہی نہیں گو اس کی اسناد صحیح ہے لیکن یہ قول بالکل غریب ہے ، امام مالک رحمہ اللہ کا بھی یہی قول بتایا ہے ، ابن حزم رحمہ اللہ نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے ، ہمارے شیخ حافظ ابوعبداللہ ذہبی رحمہ اللہ نے ہم سے کہا کہ میں نے یہ بات شیخ امام تقی الدین ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے سامنے پیش کی تو آپ نے اسے بہت مشکل محسوس کیا اور توقف فرمایا ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» «حجور» سے مراد گھر ہے جیسے کہ ابوعبیدہ رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ جو کنیز ملکیت میں ہو اور اس کے ساتھ اس کی لڑکی ہو اس کے بارے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے سوال ہوا کہ ایک کے بعد دوسری جائز ہو گی یا نہیں؟ تو آپ نے فرمایا :اسے پسند نہیں کرتا، اس کی سند منقطع ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ایسے ہی سوال کے جواب میں فرمایا ہے ایک آیت سے یہ حلال معلوم ہوتی ہے دوسری آیت سے حرام اس لیے میں تو ایسا ہرگز نہ کروں ، شیخ ابوعمر بن عبداللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ علماء میں اس مسئلہ میں کوئی اختلاف نہیں کہ کسی کو حلال نہیں کہ کسی عورت سے پھر اس کی لڑکی سے بھی اسی ملکیت کی بنا پر وطی کرے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے نکاح میں بھی حرام قرار دے دیا ہے یہ آیت ملاحظہ ہو اور علماء کے نزدیک ملکیت احکام نکاح کے تابع ہے مگر جو روایت سیدنا عمر اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہم سے کی جاتی ہے لیکن آئمہ فتاویٰ اور ان کے تابعین میں سے کوئی بھی اس پر متفق نہیں ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ربیبہ کی لڑکی اور اس لڑکی کی لڑکی اس طرح جس قدر نیچے یہ رشتہ چلا جائے سب حرام ہیں ، ابو العالیہ رحمہ اللہ سے بھی اسی طرح روایت قتادہ مروی ہے ۔ آیت «دَخَلْتُمْ بِہِنَّ» سے مراد سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما تو فرماتے ہیں ان سے نکاح کرنا ہے ۔ عطا رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہ رخصت کر دی جائیں ، کپڑا ہٹا دیا جائے ، چھیڑ ہو جائے اور ارادے سے مرد بیٹھ جائے ۔ ابن جریج رحمہ اللہ نے سوال کیا کہ اگر یہ کام عورت ہی کے گھر میں ہوا ہو فرمایا : وہاں یہاں دونوں کا حکم ایک ہی ہے ایسا اگر ہو گیا تو اس کی لڑکی اس پر حرام ہو گئی ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:148/8) امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ صرف خلوت اور تنہائی ہو جانے سے اس کی لڑکی کی حرمت ثابت نہیں ہوتی اگر مباشرت کرنے اور ہاتھ لگانے سے اور شہوت سے اس کے عضو کی طرف دیکھنے سے پہلے ہی طلاق دے دی ہے تو تمام کے اجماع سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ لڑکی اس پر حرام نہ ہو گی تاوقتیکہ جماع نہ ہوا ہو ۔ پھر فرمایا تمہاری بہوئیں بھی تم پر حرام ہیں جو تمہاری اولاد کی بیویاں ہوں یعنی لے پالک لڑکوں کی بیویاں حرام نہیں ، ہاں سگے لڑکے کی بیوی یعنی بہو اپنے سسر پر حرام ہے جیسے اور جگہ ہے «فَلَمَّا قَضَی زَیْدٌ مِّنْہَا وَطَراً زَوَّجْنَـکَہَا لِکَیْ لاَ یَکُونَ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ حَرَجٌ فِی أَزْوَاجِ أَدْعِیَآئِہِمْ» ۱؎ (33-الأحزاب:37) یعنی ’ جب زید نے اس سے اپنی حاجت پوری کر لی تو ہم نے اسے تیرے نکاح میں دے دیا تاکہ مومنوں پر ان کے لے پالک لڑکوں کی بیویوں کے بارے میں کوئی تنگی نہ رہے ‘ ۔ عطاء رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم سنا کرتے تھے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زید کی بیوی سے نکاح کر لیا تو مکہ کے مشرکوں نے کائیں کائیں شروع کر دی اس پر یہ آیت اور آیت «وَمَا جَعَلَ أَدْعِیَاءَکُمْ أَبْنَاءَکُمْ» ۱؎ (33-الأحزاب:4) اور آیت «مَا کَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَسُولَ اللہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّینَ وَکَانَ اللہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیمًا» ۱؎ (33-الأحزاب:40) نازل ہوئیں یعنی ’ بیشک صلبی لڑکے کی بیوی حرام ہے ۔ تمہارے لے پالک لڑکے شرعاً تمہاری اولاد کے حکم میں نہیں ، تمہارے مردوں میں سے محمد [ صلی اللہ علیہ وسلم ] کسی مرد کے باپ نہیں ۔ ۱؎ (:تفسیر ابن جریر الطبری:8/149) حسن بن محمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ آیتیں مبہم ہیں جیسے تمہارے لڑکوں کی بیویاں تمہاری ساسیں ، طاؤس ابراہیم زہری اور مکحول رحمہ اللہ علیہم سے بھی اسی طرح مروی ہے میرے خیال میں مبہم سے مراد عام ہیں ۔ یعنی مدخول بہا اور غیر مدخول دونوں ہی شامل ہیں اور صرف نکاح کرتے ہی حرمت ثابت ہو جاتی ہے ۔ خواہ صحبت ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو ۔ اس مسئلہ پر اتفاق ہے اگر کوئی شخص سوال کرے کہ رضاعی بیٹے کی حرمت کیسے ثابت ہو گی کیونکہ آیت میں تو صلبی بیٹے کا ذکر ہے تو جواب یہ ہے کہ وہ حرمت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا :” رضاعت سے وہ حرام ہے جو نسبت سے حرام ہے “ ۔ جمہور کا مذہب یہی ہے کہ رضاعی بیٹے کی بیوی بھی حرام ہے بعض لوگوں نے تو اس پر اجماع نقل کیا ہے ۔ پھر فرماتا ہے دو بہنوں کا نکاح میں جمع کرنا بھی تم پر حرام ہے اسی طرح ملکیت کی لونڈیوں کا حکم ہے کہ دو بہنوں سے ایک ہی وقت وطی حرام ہے مگر جاہلیت کے زمانہ میں جو ہو چکا اس سے ہم درگزر کرتے ہیں پس معلوم ہوا کہ اب یہ کام آئندہ کسی وقت جائز نہیں ، جیسے اور جگہ ہے آیت «لَا یَذُوْقُوْنَ فِیْہَا الْمَوْتَ اِلَّا الْمَوْتَۃَ الْاُوْلٰی» ۱؎ (44-الدخان:56) یعنی ’ وہاں موت نہیں آئے گی ‘ ہاں پہلی موت جو آنی تھی سو آ چکی تو معلوم ہوا کہ اب آئندہ کبھی موت نہیں آئے گی ۔ صحابہ ، تابعین ، ائمہ اور سلف و خلف کے علماء کرام کا اجماع ہے کہ دو بہنوں سے ایک ساتھ نکاح کرنا حرام ہے اور جو شخص مسلمان ہو اور اس کے نکاح میں دو بہنیں ہوں تو اسے اختیار دیا جائے گا کہ ایک کو رکھ لے اور دوسری کو طلاق دیدے اور یہ اسے کرنا ہی پڑے گا فیروز رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں جب مسلمان ہوا تو میرے نکاح میں دو عورتیں تھیں جو آپس میں بہنیں تھیں پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ { ان میں سے ایک کو طلاق دے دو } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:1129،قال الشیخ الألبانی:حسن) [ مسند احمد ] ابن ماجہ ابوداؤد اور ترمذی میں بھی یہ حدیث ہے ۔ ترمذی میں بھی یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ان میں سے جسے چاہو ایک کو رکھ لو اور ایک کو طلاق دے دو “ ، امام ترمذی اسے حسن کہتے ہیں ، ابن ماجہ میں ابوخراش کا ایسا واقعہ بھی مذکور ہے ، ۱؎ (سنن ابن ماجہ:1950،قال الشیخ الألبانی: حسن) ممکن ہے کہ سیدنا ضحاک بن فیروز رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوخراش ہو اور یہ واقعہ ایک ہی ہو اور اس کے خلاف بھی ممکن ہے ۔ سیدنا دیلمی رضی اللہ عنہ نے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میرے نکاح میں دو بہنیں ہیں آپ نے فرمایا : ” ان سے جسے چاہو ایک کو طلاق دے دو “ ، ( ابن مردویہ ) پس دیلمی سے مراد ضحاک بن فیروز ہیں [ رضی اللہ عنہ ] ، یہ یمن کے ان سرداروں میں سے تھے جنہوں نے اسود عنسی متنبی ملعون کو قتل کیا چنانچہ دو لونڈیوں کو جو آپس میں سگی بہنیں ہوں ایک ساتھ جمع کرنا ان سے وطی کرنا بھی حرام ہے ، اس کی دلیل اس آیت کا عموم ہے جو بیویوں اور اور لونڈیوں پر مشتمل ہے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے اس کا سوال ہوا تو آپ نے مکروہ بتایا سائل نے کہا قرآن میں جو ہے «اِلَّا مَامَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ» (4-النساء:24) یعنی ’ وہ جو جن کے تمہارے دائیں ہاتھ مالک ہیں ‘ ،اس پر سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا : تیرا اونٹ بھی تو تیرے داہنے ہاتھ کی ملکیت میں ہے ۔ جمہور کا قول بھی یہی مشہور ہے اور آئمہ اربعہ رحمہ اللہ علیہم وغیرہ بھی یہی فرماتے ہیں گو بعض سلف نے اس مسئلہ میں توقف فرمایا ہے ۔ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے جب یہ مسئلہ پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : ایک آیت اسے حلال کرتی ہے دوسری حرام میں تو اس سے منع کرتا سائل وہاں سے نکلا تو راستے میں ایک صحابی سے ملاقات ہوئی اس نے ان سے بھی یہی سوال کیا انہوں نے فرمایا اگر مجھے کچھ اختیار ہوتا تو میں ایسا کرنے والے کو عبرت ناک سزا دیتا، امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں میرا گمان ہے کہ یہ فرمانے والے غالباً سیدنا علی رضی اللہ عنہ تھے۔ سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ سے بھی اسی کی مثل مروی ہے۔ استذکار ابن عبد البر میں ہے کہ اس واقعہ کے راوی سیدنا قبیصہ بن ذویب رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا نام اس لیے نہیں لیا کہ وہ عبدالملک بن مروان کا مصاحب تھا اور ان لوگوں پر آپ کا نام بھاری پڑتا تھا سیدنا الیاس بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ میری ملکیت میں دو لونڈیاں ہیں ، دونوں آپس میں سگی بہنیں ہیں ایک سے میں نے تعلقات قائم کر رکھے ہیں اور میرے ہاں اس سے اولاد بھی ہوئی ہے اب میرا جی چاہتا ہے کہ اس کی بہن سے جو میری لونڈی ہے اپنے تعلقات قائم کروں تو فرمائیے شریعت کا اس میں کیا حکم ہے ؟ آپ نے فرمایا : پہلی لونڈی کو آزاد کر کے پھر اس کی بہن سے یہ تعلقات قائم کر سکتے ہو ، اس نے کہا اور لوگ تو کہتے ہیں کہ میں اس کا نکاح کرا دوں پھر اس کی بہن سے مل سکتا ہوں ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : دیکھو اس صورت میں بھی خرابی ہے وہ یہ کہ اگر اس کا خاوند اسے طلاق دیدے یا انتقال کر جائے تو وہ پھر لوٹ کر تمہاری طرف آ جائے گی ، اسے تو آزاد کر دینے میں ہی سلامتی ہے ، پھر آپ نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : سنو ! آزاد عورتوں اور لونڈیوں کے احکام حلت و حرمت کے لحاظ سے یکساں ہیں ہاں البتہ تعداد میں فرق ہے یعنی آزاد عورتیں چار سے زیادہ جمع نہیں کر سکتے اور لونڈیوں میں کوئی تعداد کی قید نہیں اور دودھ پلائی کے رشتہ سے بھی اس رشتہ کی وہ تمام عورتیں حرام ہو جاتی ہیں جو نسل اور نسب کی وجہ سے حرام ہیں ۔ (اس کے بعد تفسیر ابن کثیر کے اصل عربی نسخے میں کچھ عبارت چھوٹی ہوئی ہے بہ ظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ عبارت یوں ہو گی کہ یہ روایت ایسی ہے کہ اگر کوئی شخص مشرق سے یا مغرب سے صرف اس روایت کو سننے کے لیے سفر کر کے آئے اور سن کے جائے تو بھی اس کا سفر اس کے لیے سود مند رہے گا اور اس نے گویا بہت سستے داموں بیش بہا چیز حاصل کی۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» مترجم) یہ یاد رہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح مروی ہی جس طرح سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے چنانچہ ابن مردویہ میں ہے کہ آپ نے فرمایا : دو لونڈیوں کو جو آپس میں بہنیں ہوں ایک ہی وقت جمع کر کے ان سے مباشرت کرنا ایک آیت سے حرام ہوتا ہے اور دوسری سے حلال ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں لونڈیاں مجھ پر میری قرابت کی وجہ سے جو ان سے ہے بعض اور لونڈیوں کو حرام کر دیتی ہیں لیکن انہیں خود آپس میں جو قرابت ہو اس سے مجھ پر حرام نہیں ہوتیں ، جاہلیت والے بھی ان عورتوں کو حرام سمجھتے تھے جنہیں تم حرام سمجھتے ہو مگر اپنے باپ کی بیوی کو جو ان کی سگی ماں نہ ہو اور دو بہنوں کو ایک ساتھ ایک وقت میں نکاح میں جمع کرنا وہ حرام نہیں سمجھتے تھے لیکن اسلام نے آ کر ان دونوں کو بھی حرام قرار دیا اس وجہ سے ان دونوں کی حرمت کے بیان کے ساتھ ہی فرما دیا کہ جو نکاح ہو چکے وہ ہو چکے ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جو آزاد عورتیں حرام ہیں وہی لونڈیاں بھی حرام ہیں ہاں تعداد میں حکم ایک نہیں یعنی آزاد عورتیں چار سے زیادہ جمع نہیں کر سکتے لونڈیوں کے لیے یہ حد نہیں ، شعبی رحمہ اللہ بھی یہی فرماتے ہیں ۔ سیدنا ابوعمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اس بارے میں جو فرمایا ہے وہی سلف کی ایک جماعت بھی کہتی ہے جن میں سے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بھی ہیں لیکن اولاً تو اس کی نقل میں خود انہی حضرات سے بہت کچھ اختلاف ہوا ہے دوسرے یہ کہ اس قول کی طرف سمجھدار پختہ کار علماء کرام نے مطلقاً توجہ نہیں فرمائی اور نہ اسے قبول کیا حجاز ، عراق ، شام بلکہ مشرق و مغرب کے تمام فقہاء اس کے مخالف ہیں سوائے ان چند کے جنہوں نے الفاظ کو دیکھ کر ، سوچ سمجھ اور غور و خوض کئے بغیر ان سے علیحدگی اختیار کی ہے اور اس اجماع کی مخالفت کی ہے ۔ کامل علم والوں اور سچی سمجھ بوجھ والوں کا تو اتفاق ہے کہ دو بہنوں کو جس طرح نکاح میں جمع نہیں کر سکتے دو لونڈیوں کو بھی جو آپس میں بہنیں ہوں بوجہ ملکیت کے ایک ساتھ نکاح میں نہیں لا سکتے اسی طرح مسلمانوں کا اجماع ہے کہ اس آیت میں ماں بیٹی بہن وغیرہ حرام کی گئی ہیں ان سے جس طرح نکاح حرام ہے اسی طرح اگر یہ لونڈیاں بن کر ما تحتیٰ میں ہوں تو بھی جنسی اختلاط حرام ہے غرض نکاح اور ملکیت کے بعد کی دونوں حالتوں میں یہ سب کی سب برابر ہیں ، نہ ان سے نکاح کر کے میل جول حلال نہ ملکیت کے بعد میل جول حلال اسی طرح ٹھیک یہی حکم ہے کہ دو بہنوں کے جمع کرنے ساس اور دوسرے خاوند سے عورت کی جو لڑکی ہو کا ہے خود ان کے جمہور کا بھی یہی مذہب ہے اور یہی دلیل ان چند مخالفین پر پوری سند اور کامل حجت ہے الغرض دو بہنوں کو ایک وقت نکاح میں رکھنا بھی حرام اور دو بہنوں کو بطور لونڈی کہہ کر ان سے ملنا جلنا بھی حرام ۔ الحمدللہ تفسیر ابن کثیر کا چوتھا پارہ اپنے اختتام کو پہنچا ۔ النسآء
24 میدان جنگ سے قبضہ میں آنے والی عورتیں اور ... متعہ یعنی خاوندوں والی عورتیں بھی حرام ہیں، ہاں کفار عورتیں جو میدان جنگ میں قید ہو کر تمہارے قبضے میں آئیں تو ایک حیض گزارنے کے بعد وہ تم پر حلال ہیں، مسند احمد میں سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جنگ اوطاس میں قید ہو کر ایسی عورتیں آئیں جو خاوندوں والیاں تھیں تو ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی بابت سوال کیا تب یہ آیت اتری ہم پر ان سے ملنا حلال کیا گیا۔ ۱؎ (مسند احمد:72/3،11708:صحیح) ترمذی، ابن ماجہ اور صحیح مسلم وغیرہ میں بھی یہ حدیث ہے ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1456) طبرانی کی روایت میں ہے کہ یہ واقعہ جنگ خیبر کا ہے، سلف کی ایک جماعت اس آیت کے عموم سے استدلال کرکے فرماتی ہے کہ لونڈی کو بیچ ڈالنا ہی اس کے خاوند کی طرف سے اسے طلاق کامل کے مترادف ہے، ابراہیم رحمہ اللہ سے جب یہ مسئلہ پوچھا گیا تو آپ نے سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کا یہی فتویٰ بیان کیا اور اس آیت کی تلاوت فرمائی اور سند سے مروی ہے کہ سیدنا بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا جب کوئی خاوند والی لونڈی بیچی جائے تو اس کے جسم کا زیادہ حقدار اس کا مالک ہے، سیدنا ابی بن کعب ، سیدنا جابر بن عبداللہ ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہم کا بھی یہی فتویٰ ہے کہ اس کا بکنا ہی اس کی طلاق ہے۔ ابن جریر میں ہے کہ لونڈی کی طلاقیں چھ ہیں، بیچنا بھی طلاق ہے آزاد کرنا بھی ہبہ کرنا بھی برات کرنا بھی اور اس کے خاوند کا طلاق دینا بھی [ یہ پانچ صورتیں تو بیان ہوئیں چھٹی صورت نہ تفسیر ابن کثیر میں ہے نہ ابن جریر میں۔ مترجم ] ۔ ابن المسیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ خاوند والی عورتوں سے نکاح حرام ہے لیکن لونڈیاں کہ ان کی طلاق ان کا بک جانا ہے، معمر اور حسن رحمہ اللہ علیہما بھی یہی فرماتے ہیں ان بزرگوں کا تو یہ قول ہے لیکن جمہور ان کے مخالف ہیں وہ فرماتے ہیں کہ بیچنا طلاق نہیں اس لیے کہ خریدار بیچنے والے کا نائب ہے اور بیچنے والا اس نفع کو اپنی ملکیت سے نکال کر بیچ رہا ہے، ان کی دلیل سیدنا بریرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث ہے جو بخاری و مسلم وغیرہ میں ہے کہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے جب انہیں خرید کر آزاد کر دیا تو ان کا نکاح مغیث سے فسخ نہیں ہوا بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فسخ کرنے اور باقی رکھنے کا اختیار دیا اور سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا نے فسخ کرنے کو پسند کیا ۱؎ (صحیح بخاری:2563) یہ واقعہ مشہور ہے ۔ پس اگر بک جانا ہی طلاق ہوتا جیسے ان بزرگوں کا قول ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا کو ان کے بک جانے کے بعد اپنے نکاح کے باقی رکھنے نہ رکھنے کا اختیار نہ دیتے ، اختیار دینا نکاح کے باقی رہنے کی دلیل ہے ، تو آیت میں مراد صرف وہ عورتیں ہیں جو جہاد میں قبضہ میں آئیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ «الْمُحْصَنَاتُ» سے مراد پاک دامن عورتیں ہیں یعنی عفیفہ عورتیں جو تم پر حرام ہیں جب تک کہ تم نکاح اور گواہ اور مہر اور ولی سے ان کی عصمت کے مالک نہ بن جاؤ خواہ ایک ہو خواہ دو خواہ تین خواہ چار ابوالعالیہ اور طاؤس رحمہ اللہ علیہما یہی مطلب بیان فرماتے ہیں ۔ عمر اور عبید رحمہ اللہ علیہم فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ چار سے زائد عورتیں تم پر حرام ہیں ہاں کنیزوں میں یہ گنتی نہیں ۔ پھر فرمایا کہ حکم اللہ تعالیٰ نے تم پر لکھ دیا ہے یعنی چار کا پس تم اس کی کتاب کو لازم پکڑو اور اس کی حد سے آگے نہ بڑھو ، اس کی شریعت اور اس کے فرائض کے پابند رہو ، یہ بھی کہا گیا ہے کہ حرام عورتیں اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ظاہر کر دیں ۔ پھر فرماتا ہے کہ جن عورتوں کا حرام ہونا بیان کر دیا گیا ان کے علاوہ اور سب حلال ہیں ، ایک مطلب یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان چار سے کم تم پر حلال ہیں ، لیکن یہ قول دور کا قول ہے اور صحیح مطلب پہلا ہی ہے اور یہی عطا رحمہ اللہ کا قول ہے ۔ قتادہ رحمہ اللہ اس کا یہ مطلب بیان کرتے ہیں کہ اس سے مراد لونڈیاں ہیں ، یہی آیت ان لوگوں کی دلیل ہے جو دو بہنوں کے جمع کرنے کی حلت کے قائل ہیں اور ان کی بھی جو کہتے ہیں کہ ایک آیت اسے حلال کرتی ہے اور دوسری حرام ۔ پھر فرمایا تم ان حلال عورتوں کو اپنے مال سے حاصل کرو چار تک تو آزاد عورتیں اور لونڈیاں بغیر تعین کے لیکن ہو بطریق شرع ۔ اسی لیے فرمایا زناکاری سے بچنے کے لیے اور صرف شہوت رانی مقصود نہیں ہونا چاہیئے ۔ پھر فرمایا کہ جن عورتوں سے تم فائدہ اٹھاؤ ان کے اس فائدہ کے مقابلہ میں مہر دے دیا کرو ، جیسے اور آیت میں ہے «وَکَیْفَ تَأْخُذُونَہُ وَقَدْ أَفْضَی بَعْضُکُمْ إِلَی بَعْضٍ» ۱؎ ‏‏‏‏(4-النساء:21) یعنی ’ تم مہر کو عورتوں سے کیسے لو گے حالانکہ ایک دوسرے سے مل چکے ہو ‘ ۔ اور فرمایا «وَآتُواْ النَّسَاء صَدُقَاتِہِنَّ نِحْلَۃً» ۱؎ ‏‏‏‏(4-النساء:4) یعنی ’ عورتوں کے مہر بخوشی دے دیا کرو ‘ ۔ اور جگہ فرمایا «وَلاَ یَحِلٰ لَکُمْ أَن تَأْخُذُواْ مِمَّآ ءَاتَیْتُمُوہُنَّ شَیْئًا» ۱؎ (2-البقرۃ:229) یعنی ’ تم نے جو کچھ عورتوں کو دے دیا ہو اس میں سے واپس لینا تم پر حرام ہے ‘ ۔ اس آیت سے نکاح متعہ پر استدلال کیا ہے بیشک متعہ ابتداء اسلام میں مشروع تھا لیکن پھر منسوخ ہو گیا ، امام شافعی رحمہ اللہ اور علمائے کرام کی ایک جماعت نے فرمایا ہے کہ دو مرتبہ متعہ مباح ہوا پھر منسوخ ہوا ۔ بعض کہتے ہیں اس سے بھی زیادہ بار مباح اور منسوخ ہوا ، اور بعض کا قول ہے کہ صرف ایک بار مباح ہوا پھر منسوخ ہو گیا پھر مباح نہیں ہوا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور چند دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم سے ضرورت کے وقت اس کی اباحت مروی ہے ۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے بھی ایک روایت ایسی ہی مروی ہے سیدنا ابن عباس ، سیدنا ابی بن کعب ، سیدنا سعید بن جیبر اور سدی رضی اللہ عنہم سے «مِنْہُنَّ» کے بعد «الیٰ أَجَلٌ مٰسَمًّی» کی قرأت مروی ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:176/8) مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ آیت نکاح متعہ کی بابت نازل ہوئی ہے ، لیکن جمہور اس کے برخلاف ہیں اور اس کا بہترین فیصلہ بخاری و مسلم کی سیدنا علی رضی اللہ عنہ والی روایت کر دیتی ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر والے دن نکاح متعہ سے اور گھریلو گدھوں کے گوشت سے منع فرما دیا ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4216) اس حدیث کے الفاظ کتب احکام میں مقرر ہیں ۔ صحیح مسلم میں سیدنا سیرہ بن معبد جہنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ فتح مکہ کے غزوہ میں وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے آپ نے ارشاد فرمایا : ” اے لوگو میں نے تمہیں عورتوں سے متعہ کرنے کی رخصت دی تھی ، یاد رکھو ! بیشک اب اللہ تبارک و تعالیٰ نے اسے قیامت تک کے لیے حرام کر دیا ہے جس کے پاس اس قسم کی کوئی عورت ہو تو اسے چاہیئے کہ اسے چھوڑ دے اور تم نے جو کچھ انہیں دے رکھا ہو اس میں سے ان سے کچھ نہ لو “ ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1406) صحیح مسلم کی ایک اور روایت میں ہے کہ آپ نے حجتہ الوداع میں یہ فرمایا تھا ، یہ حدیث کئی الفاظ سے مروی ہے ، جن کی تفصیل کی جگہ احکام کی کتابیں ہیں ، پھر فرمایا کہ تقرر کے بعد بھی اگر تم بہ رضا مندی کچھ طے کر لو تو کوئی حرج نہیں ، اگلے جملے کو متعہ پر محمول کرنے والے تو اس کا یہ مطلب بیان کرتے ہیں کہ جب مدت مقررہ گزر جائے پھر مدت کو بڑھا لینے اور جو دیا ہو اس کے علاوہ اور کچھ دینے میں کوئی گناہ نہیں ۔ سدی رحمہ اللہ کہتے ہیں اگر چاہے تو پہلے کے مقرر مہر کے بعد جو دے چکا ہے وقت کے ختم ہونے سے پیشتر پھر کہدے کہ میں اتنی مدت کے لیے پھر متعہ کرتا ہوں پس اگر اس نے رحم کی پاکیزگی سے پہلے دن بڑھا لیے تو جب مدت پوری ہو جائے تو پھر اس کا کوئی دباؤ نہیں وہ عورت الگ ہو جائے گی اور حیض تک ٹھہر کر اپنے رحم کی صفائی کر لے گی ان دونوں میں میراث نہیں نہ یہ عورت اس مرد کی وارث نہ یہ مرد اس عورت کا ، اور جن حضرات نے اس جملہ کو نکاح مسنون کی بابت کہا ہے ان کے نزدیک تو مطلب صاف ہے کہ اس مہر کی ادائیگی تاکیداً بیان ہو رہی ہے جیسے فرمایا مہر بہ آسانی اور بہ خوشی دے دیا کرو ، اگر مہر کے مقرر ہو جانے کے بعد عورت اپنے پورے حق کو یا تھوڑے سے حق کو چھوڑ دے ، معاف کر دے اس سے دست بردار ہو جائے تو میاں بیوی میں سے کسی پر کوئی گناہ نہیں ۔ حضرمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ لوگ مہر مقرر کر دیتے ہیں پھر ممکن ہے کہ تنگی ہو جائے تو اگر عورت اپنا حق چھوڑ دے تو جائز ہے ، امام ابن جریر رحمہ اللہ بھی اسی قول کو پسند کرتے ہیں ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:8/180) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں مراد یہ ہے کہ مہر کی رقم پوری پوری اس کے حوالے کر دے پھر اسے بسنے اور الگ ہونے کا پورا پورا اختیار دے ، پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ علیم و حکیم ہے ان کا احکام میں جو حلت و حرمت کے متعلق ہیں جو رحمتیں ہیں اور جو مصلحتیں ہیں انہیں وہی بخوبی جانتا ہے ۔ النسآء
25 آزاد عورتوں سے نکاح اور کنیزوں سے متعلق ہدایات ارشاد ہوتا ہے کہ جسے آزاد مسلمان عورتوں سے نکاح کرنے کی وسعت قدرت نہ ہو ، ربیعہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں «طول» سے مراد قصد و خواہش یعنی لونڈی سے نکاح کی خواہش ، ابن جریر رحمہ اللہ نے اس قول کو وارد کر کے پھر اسے خود ہی توڑ دیا ہے ، مطلب یہ کہ ایسے حالات میں مسلمانوں کی ملکیت میں جو مسلمان لونڈیاں ہیں ان سے وہ نکاح کر لیں ، تمام کاموں کی حقیقت اللہ تعالیٰ پر واضح ہے ، تم حقائق کو صرف سطحی نگاہ سے دیکھتے ہو ، تم سب آزاد اور غلام ایمانی رشتے میں ایک ہو ، لونڈی کا ولی اس کا سردار ہے اس کی اجازت کے بغیر اس کا نکاح منعقد نہیں ہو سکتا ، اسی طرح غلام بھی اپنے سردار کی رضا مندی حاصل کئے بغیر اپنا نکاح نہیں کر سکتا ۔ حدیث میں ہے جو غلام بغیر اپنے آقا کی اجازت کے اپنا نکاح کر لے وہ زانی ہے ، ۱؎ (سنن ترمذی:1111،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ہاں اگر کسی لونڈی کی مالکہ کوئی عورت ہو تو اس کی اجازت سے اس لونڈی کا نکاح وہ کرائے جو عورت کا نکاح کراسکتا ہے ۔ کیونکہ حدیث میں ہے عورت عورت کا نکاح نہ کرائے نہ عورت اپنا نکاح کرائے ، وہ عورتیں زنا کار ہیں جو اپنا نکاح آپ کرتی ہیں ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:1882:صحیح) پھر فرمایا عورتوں کے مہر خوش دلی سے دے دیا کرو ، گھٹا کر کم کر کے تکلیف پہنچا کر لونڈی سمجھ کر کمی کر کے نہ دو ۔ پھر فرماتا ہے کہ دیکھ لیا کرو یہ عورتیں بدکاری کی طرف از خود مائل نہ ہوں ، نہ ایسی ہوں اگر کوئی ان کی طرف مائل ہو تو یہ جھک جائیں ، یعنی نہ تو اعلانیہ زنا کار ہوں نہ خفیہ بدکردار ہوں کہ ادھر ادھر آشنائیاں کرتی پھریں اور چپ چاپ دوست آشنا بناتی پھریں ، جو ایسی بد اطوار ہوں ان سے نکاح کرنے کو اللہ تعالیٰ منع فرما رہا ہے « احصن » کی دوسری قرأت« احصن » بھی ہے، کہا گیا ہے کہ دونوں کا معنی ایک ہی ہے، یہاں احصان سے مراد اسلام ہے یا نکاح والی ہو جانا ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:3/923:ضعیف) ابن ابی حاتم کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ ان کا احصان اسلام اور عفت ہے لیکن یہ حدیث منکر ہے اس میں ضعف بھی ہے اور ایک راوی کا نام نہیں ، ایسی حدیث حجت کے لائق نہیں ہوتی ۔ دوسرا قول یعنی احصان سے مراد نکاح ہے (تفسیر ابن جریر الطبری:8/202) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما مجاہد، عکرمہ، طاؤس، سعید بن جبیر، حسن، قتادہ رحمہ اللہ علیہم وغیرہ کا یہی قول ہے، امام شافعی رحمہ اللہ سے بھی ابوعلی طبری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ایضاح میں یہی نقل کیا ہے ، مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں لونڈی کا محصن ہونا یہ ہے کہ وہ کسی آزاد کے نکاح میں چلی جائے ، اسی طرح غلام کا احصان یہ ہے کہ وہ کسی آزاد مسلمہ سے نکاح کر لے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی یہ منقول ہے ، شعبی اور نخعی رحمہ اللہ علیہم بھی یہی کہتے ہیں ، یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان دونوں قرآتوں کے اعتبار سے معنی بھی بدل جاتے ہیں ، « احصن » سے مراد تو نکاح ہے اور « احصن » سے مراد اسلام ہے، امام ابن جریر رحمہ اللہ اسی کو پسند فرماتے ہیں، لیکن بظاہر مراد یہاں نکاح کرنا ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» اسی لیے کہ سیاق آیات کی دلالت اسی پر ہے ، ایمان کا ذکر تو لفظوں میں موجود ہے بہر دو صورت جمہور کے مذہب کے مطابق آیت کے معنی میں ابھی بھی اشکال باقی ہے اس لیے کہ جمہور کا قول ہے کہ لونڈی کو زنا کی وجہ سے پچاس کوڑے لگائے جائیں گے خواہ وہ مسلمہ ہو یا کافرہ ہو شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ ہو باوجود یہ کہ آیت کے مفہوم کا تقاضا یہ ہے کہ غیر محصنہ لونڈی پر حد ہی نہ ہو ، پس اس کے مختلف جوابات دیئے گئے ہیں ۔ جمہور کا قول ہے کہ بیشک ” جو بولا گیا “ مفہوم پر مقدم ہے اس لیے ہم نے ان عام احادیث کو جن میں لونڈیوں کو حد مارنے کا بیان ہے اس آیت کے مفہوم پر مقدم کیا ۔ صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے خطبے میں فرمایا : لوگو ! اپنی لونڈیوں پر حدیں قائم رکھو خواہ وہ محصنہ ہوں یا نہ ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنی لونڈی کے زنا پر حد مارنے کو فرمایا ، چونکہ وہ نفاس میں تھی اس لیے مجھے ڈر لگا کہ کہیں حد کے کوڑے لگنے سے یہ مر نہ جائے چنانچہ میں نے اس وقت اسے حد نہ لگائی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں واقعہ بیان کیا تو آپ نے فرمایا تم نے اچھا کیا جب تک وہ ٹھیک ٹھاک نہ ہو جائے حد نہ مارنا ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1705) ممسند احمد میں ہے کہ آپ نے فرمایا جب یہ نفاس سے فارغ ہو تو اسے پچاس کوڑے لگانا۔ ۱؎ (عبد اللہ بن احمد فی زوائد المسند:1/136،1146) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا فرماتے تھے جب تم میں سے کسی کی لونڈی زنا کرے اور زنا ظاہر ہو جائے تو اسے وہ حد مارے اور برا بھلا نہ کہے پھر اگر دوبارہ زنا کرے تو بھی حد لگائے اور ڈانٹ جھڑک نہ کرے ، پھر اگر تیسری مرتبہ زنا کرے اور ظاہر ہو تو اسے بیچ ڈالے اگرچہ بالوں کی رسی کے ٹکڑے کے بدلے ہی ہو ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6839) اور صحیح مسلم میں ہے کہ جب تین بار یہ فعل اس سے سرزد ہو تو چوتھی دفعہ فروخت کر ڈالے ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1703) عبداللہ بن عیاش بن ابو ربیعہ مخزومی فرماتے ہیں کہ ہم چند قریشی نوجوانوں کو سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے امارت کی لونڈیوں سے کئی ایک پر حد جاری کرنے کو فرمایا ہم نے انہیں زنا کی حد میں پچاس پچاس کوڑے لگائے ۔ ۱؎ (بیہقی:242/8:موقوف صحیح) دوسرا جواب ان کا ہے جو اس بات کی طرف گئے ہیں کہ لونڈی پر احصان بغیر حد نہیں وہ فرماتے ہیں کہ یہ مارنا صرف بطور ادب سکھانے اور باز رکھنے کے ہے، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اسی طرف گئے ہیں طاؤس، سعید، ابو عبید، داؤد ظاہری رحمہ اللہ علیہم کا مذہب بھی یہی ہے ان کی بڑی دلیل مفہوم آیت ہے اور یہ شرط کے مفہوموں میں سے ہے اور اکثر کے نزدیک یہ محض حجت ہے اس لیے ان کے نزدیک ایک عموم پر مقدم ہو سکتا ہے ۔ اور سیدنا ابوہریرہ اور سیدنا زید بن خالد رضی اللہ عنہما کی حدیث جس میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ جب لونڈی زنا کرے اور وہ محصنہ نہ ہو یعنی اس کا نکاح نہ ہوا ہو تو کیا کیا جائے؟ آپ نے فرمایا : ” اگر وہ زنا کرے تو اسے حد لگاؤ ، پھر زنا کرے تو پھر کوڑے لگاؤ ، پھر بیچ ڈالو اگر ایک بالوں کی رسی کے عوض ہی کیوں نہ بیچنا پڑے “ ، راوی حدیث ابن شہاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں نہیں جانتا کہ تیسری مرتبہ کے بعد یہ فرمایا یا چوتھی مرتبہ کے بعد ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2153) پس اس حدیث کے مطابق وہ جواب دیتے ہیں کہ دیکھو یہاں کی حد کی مقدار اور کوڑوں کی تعداد بیان نہیں فرمائی جیسے کہ محصنہ کے بارے میں صاف فرما دیا ہے اور جیسے کہ قرآن میں مقرر طور پر فرمایا گیا کہ محصنات کی نسبت نصف حد ان پر ہے ، پس آیت و حدیث میں اس طرح تطبیق دینا واجب ہو گئی ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» اس سے بھی زیادہ صراحت والی وہ روایت ہے جو سعید بن منصور نے بروایت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” کسی لونڈی پر حد نہیں جب تک کہ وہ «احصان» والی نہ ہو جائے یعنی جب تک نکاح والی نہ ہو جائے پس جب خاوند والی بن جائے تو اس پر آدھی حد ہے بہ نسبت اس حد کے جو آزاد نکاح والیوں پر ہے “ ۔ (بیہقی:364/6) یہ حدیث ابن خزیمہ میں بھی ہے لیکن وہ فرماتے ہیں اسے مرفوع کہنا خطا ہے یہ موقوف ہے یعنی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے، بیہقی میں بھی یہ روایت ہے اور آپ کا بھی یہی فیصلہ ہے اور کہتے ہیں کہ سیدنا علی اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما والی حدیثیں ایک واقعہ کا فیصلہ ہیں، اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث دوسرے واقعہ کا فیصلہ ہیں ۔ اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث کے بھی کئی جوابات ہیں ایک تو یہ کہ یہ محمول ہے اس لونڈی پر جو شادی شدہ ہو اس طرح ان دونوں احادیث میں تطبیق اور جمع ہو جاتی ہے دوسرے یہ کہ اس حدیث میں لفظ حد کسی راوی کا داخل کیا ہوا ہے اور اس کی دلیل جواب کا فقرہ ہے۔ تیسرا جواب یہ ہے کہ یہ حدیث دو صحابیوں کی ہے اور وہ حدیث صرف ایک صحابی کی ہے اور ایک والی پر دو والی مقدم ہے ، اور اسی طرح یہ حدیث نسائی میں بھی مروی ہے اور مسلم کی شرط پر اس کی سند ہے کہ عباد بن تمیم رحمہ اللہ اپنے چچا سے جو بدری صحابی تھے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ” جب لونڈی زنا کرے تو اسے کوڑے لگاؤ ، پھر جب زنا کرے تو کوڑے مارو ، پھر جب زنا کرے تو کوڑے لگاؤ ، پھر جب زنا کرے تو بیچ دو بالوں کی ایک رسی کے بدلے ہی بیچنا پڑے۔ “ ۔ چوتھا جواب یہ ہے کہ یہ بھی بعید نہیں کہ کسی راوی نے جلد کو حد خیال کر لیا ہو یا لفظ حد کا اطلاق کر دیا ہو اور اس نے جلد کو حد خیال کر لیا ہو یا لفظ حد کا اطلاق تادیب کے طور پر سزا دینے پر کر دیا ہو جیسے کہ لفظ حد کا اطلاق اس سزا پر بھی کیا گیا ہے جو بیمار زانی کو کھجور کا ایک خوشہ مارا گیا تھا جس میں ایک سو چھوٹی چھوٹی شاخیں تھیں ، اور جیسے کہ لفظ حد کا اطلاق اس شخص پر بھی کیا گیا ہے جس نے اپنی بیوی کی اس لونڈی کے ساتھ زنا کیا جسے بیوی نے اس کے لیے حلال کر دیا تھا حالانکہ اسے سو کوڑوں کا لگنا تعزیر کے طور پر صرف ایک سزا ہے جیسے کہ امام احمد رحمہ اللہ وغیرہ سلف کا خیال ہے۔ حد حقیقی صرف یہ ہے کہ کنوارے کو سو کوڑے اور بیاہے ہوئے کو یا لوطی کو رجم ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ابن ماجہ وغیرہ میں سعید بن جبیر رحمہ اللہ کا فرمان ہے کہ لونڈی نے جب تک نکاح نہیں کیا اسے زنا پر مارا نہ جائے، اس کی اسناد تو صحیح ہے لیکن معنی دو ہو سکتے ہیں ایک تو یہ کہ بالکل مارا ہی نہ جائے نہ حد نہ اور نہ کچھ تو یہ قول بالکل غریب ہے، ممکن ہے آیت کے الفاظ پر نظر کرکے یہ فتویٰ دے دیا ہو اور حدیث نہ پہنچی ہو، دوسرے معنی یہ ہیں کہ حد کے طور پر نہ مارا جائے اگر یہ معنی مراد لیے جائیں تو اس کے خلاف نہیں کہ اور کوئی سزا کی جائے، پس یہ قیاس سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہا وغیرہ کے فتوے کے مطابق ہو جائے گا ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» تیسرا جواب یہ ہے کہ آیت میں دلالت ہے کہ محصنہ لونڈی پر بہ نسبت آزاد عورت کے آدھی حد ہے ، لیکن محصنہ ہونے سے پہلے کتاب و سنت کے عموم میں یہ بھی شامل ہے کہ اسے بھی سو کوڑے مارے جائیں جیسے اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے «اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُـمَا مِائَـۃَ جَلْدَ» ۱؎ (24-النور:2) یعنی ’ زنا کار عورت زنا کار مرد کو ہر ایک کو سو سو کوڑے مارو ‘ ۔ جیسے حدیث میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” میری بات لے لو ، میری بات سمجھ لو ، اللہ نے ان کے لیے راستہ نکال لیا ، اگر دونوں جانب غیر شادی شدہ ہیں تو سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی اور اگر دونوں طرف شادی شدہ ہیں تو سو کوڑے اور پتھروں سے رجم کر دینا “ ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1690) یہ حدیث صحیح مسلم کی ہے اور اسی طرح کی اور حدیثیں بھی ہیں ۔ داؤد بن علی ظاہری رحمہ اللہ کا یہی قول ہے لیکن یہ سخت ضعیف ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے محصنہ لونڈیوں کو بہ نسبت آزاد کے آدھے کوڑے مارنے کا عذاب بیان فرمایا یعنی پچاس کوڑے تو پھر جب تک وہ محصنہ نہ ہوں اس سے بھی زیادہ سزا کی سزاوار وہ کیسے ہو سکتی ہیں ؟ حالانکہ قاعدہ شریعت یہ ہے کہ «احصان» سے پہلے کم سزا ہے اور «احصان» کے بعد زیادہ سزا ہے پھر اس کے برعکس کیسے صحیح ہو سکتا ہے ؟ دیکھئیے شارع علیہ السلام سے آپ کے صحابہ غیر شادی شدہ لونڈی کے زنا کی سزا پوچھتے ہیں اور آپ انہیں جواب دیتے ہیں کہ اسے کوڑے مارو لیکن یہ نہیں فرماتے کہ ایک سو کوڑے لگاؤ پس اگر اس کا حکم وہی ہوتا جو داؤد رحمہ اللہ سمجھتے ہیں تو اسے بیان کر دینا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر واجب تھا اس لیے کہ ان کا یہ سوال تو صرف اسی وجہ سے تھا کہ لونڈی کے شادی شدہ ہو جانے کے بعد اسے کوڑے مارنے کا بیان نہیں ورنہ اس قید کے لگانے کی کیا ضرورت تھی کہ سوال میں کہتے وہ غیر شادی شدہ ہے کیونکہ پھر تو شادی شدہ اور غیر شادی شدہ میں کوئی فرق ہی نہ رہا اگر یہ آیت اتری ہوئی نہ ہوتی لیکن چونکہ ان دونوں صورتوں میں سے ایک کا علم تو انہیں ہو چکا تھا اس لیے دوسری کی بابت سوال کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دے کر معلوم کرا دیا جیسے بخاری و مسلم میں ہے کہ جب صحابہ رضی اللہ عنہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ پر درود پڑھنے کی نسبت پوچھا تو آپ نے اسے بیان فرمایا اور فرمایا : ” سلام تو اسی طرح ہے جس طرح تم خود جانتے ہو “ ۔ اور ایک روایت میں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کا فرمان «یٰٓاَیٰہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلٰوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِــیْمًا» ۱؎ (33-الأحزاب:56)‏‏‏‏ نازل ہوا اور صلوۃ و سلام آپ پر بھیجنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا کہ سلام کا طریقہ اور اس کے الفاظ تو ہمیں معلوم ہیں صلوۃ کی کیفیت بیان فرمائے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4798) پس ٹھیک اسی طرح یہ سوال ہے ۔ مفہوم آیت کا چوتھا جواب ابوثور کا ہے جو داؤد رحمہ اللہ کے جواب سے زیادہ بودا ہے ، وہ فرماتے ہیں جب لونڈیاں شادی شدہ ہو جائیں تو ان کی زناکاری کی حد ان پر آدھی ہے اس حد کی جو شادی شدہ آزاد عورتوں کی زناکاری کی حد ہے تو ظاہر ہے کہ آزاد عورتوں کی حد اس صورت میں رجم ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ رجم آدھا نہیں ہو سکتا تو لونڈی کو اس صورت میں رجم کرنا پڑے گا اور شادی سے پہلے اسے پچاس کوڑے لگیں گے ، کیونکہ اس حالت میں آزاد عورت پر سو کوڑے ہیں ۔ پس دراصل آیت کا مطلب سمجھنے میں اس سے خطا ہوئی اور اس میں جمہور کا بھی خلاف ہے بلکہ امام شافعی رحمہ اللہ تو فرماتے ہیں کسی مسلمان کا اس میں اختلاف ہی نہیں کہ مملوک پر زنا کی سزا میں رجم ہے ہی نہیں ، اس لیے کہ آیت کی دلالت کرنی ہے کہ ان پر «محصنات» کا نصف عذاب ہے اور «محصنات» کے لفظ میں جو «الف لام» ہے وہ عہد کا ہے یعنی وہ «محصنات» جن کا بیان آیت کے شروع میں ہے «‏‏‏‏وَمَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ مِنْکُمْ طَوْلًا اَنْ یَّنْکِحَ الْمُحْصَنٰتِ» ‏‏‏‏(4-النساء:25) ‏‏‏‏ میں گزر چکا ہے اور مراد صرف آزاد عورتیں ہیں ۔ اس وقت یہاں آزاد عورتوں کا نکاح کے مسئلہ کی بحث نہیں بحث یہ ہے کہ پھر آگے چل کر ارشاد ہوتا ہے کہ ان پر زناکاری کی جو سزا تھی اس سے آدھی سزا ان لونڈیوں پر ہے تو معلوم ہوا کہ یہ اس سزا کا ذکر ہے جو آدھی ہو سکتی ہو اور وہ کوڑے ہیں کہ سو سے آدھے پچاس رہ جائیں گے رجم یعنی سنگسار کرنا ایسی سزا ہے جس کے حصے نہیں ہو سکتے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» مسند احمد میں ایک واقعہ ہے جو ابثور کے مذہب پوری تردید کرتا ہے اس میں ہے کہ صفیہ لونڈی نے ایک غلام سے زناکاری کی اور اسی زنا سے بچہ ہوا جس کا دعویٰ زانی نے کیا مقدمہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا آپ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اس کا تصفیہ سونپا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اس میں وہی فیصلہ کروں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ ہے بچہ تو اس کا سمجھا جائے گا جس کی یہ لونڈی ہے اور زانی کو پتھر مارے جائیں گے پھر ان دونوں کو پچاس پچاس کوڑے لگائے گئے۔ ۱؎ (مسند احمد:1/104:ضعیف ولہ شواھد) یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد مفہوم سے تنبیہہ ہے اعلیٰ کے ساتھ ادنیٰ پر یعنی جب کہ وہ شادی شدہ ہوں تو ان پر بہ نسبت آزاد عورتوں کے آدھی حد ہے پس ان پر رجم تو سرے سے کسی صورت میں ہے ہی نہیں نہ قبل از نکاح نہ بعد نکاح، دونوں حالتوں میں صرف کوڑے ہیں جس کی دلیل حدیث ہے، صاحب الایضاح یہی فرماتے ہیں اور امام شافعی رحمہ اللہ سے بھی اسکو ذکر کرتے ہیں، امام بیہقی اپنی کتاب سنن و آثار میں بھی اسے لائے ہیں لیکن یہ قول لفظ آیت سے بہت دور ہے اس طرح کی آدھی حد کی دلیل صرف آیت ہے اس کے سوا کچھ نہیں پس اس کے علاوہ میں آدھا ہونا کس طرح سمجھا جائے گا؟ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مطلب یہ ہے کہ شادی شدہ ہونے کی حالت میں صرف امام ہی حد قائم کر سکتا ہے اس لونڈی کا مالک اس حال میں اس پر حد جاری نہیں کر سکتا امام احمد رحمہ اللہ کے مذہب میں ایک قول یہی ہے ہاں شادی سے پہلے اس کے مالک کو حد جاری کرنے کا اختیار ہے بلکہ حکم ہے لیکن دونوں صورتوں میں حد آدھی ہی آدھی رہے گی اور یہ بھی دور کی بات ہے اس لیے کہ آیت میں اس کی دلالت بھی نہیں ، اگر اگر یہ آیت نہ ہوتی تو ہم نہیں جان سکتے تھے کہ لونڈیوں کے بارے میں آدھی حد ہے اور اس صورت میں انہیں بھی عموم میں داخل کر کے پوری حد یعنی سو کوڑے اور رجم ان پر بھی جاری کرنا واجب ہو جاتا جیسے کہ عام روایتوں سے ثابت ہے ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ لوگو اپنے ماتحتوں پر حدیں جاری کرو شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شدہ اور وہ عام حدیثیں جو پہلے گزر چکی ہیں جن میں خاوندوں والی اور بغیر خاوندوں والیوں کی کوئی تفصیل نہیں ، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت والی حدیث جس سے جمہور نے دلیل پکڑی ہے یہ ہے کہ جب تم میں سے کسی کی لونڈی زنا کرے اور پھر اس کا زنا ظاہر ہو جائے تو اسے چاہیئے کہ اس پر حد جاری کرے اور ڈانٹ ڈپٹ نہ کرے [ ملخص] الغرض لونڈی کی زناکاری کی حد میں کئی قول ہیں ایک تو یہ کہ جب تک اس کا نکاح نہیں ہوا اسے پچاس کوڑے مارے جائیں گے اور نکاح ہو جانے کے بعد بھی یہی حد رہے گی اور اسے جلا وطن بھی کیا جائے گا یا نہیں ؟ اس میں تین قول ہیں ایک یہ کہ جلا وطنی ہو گی دوسرے یہ کہ نہ ہو گی تیسرے یہ کہ جلا وطنی میں آدھے سال کو ملحوظ رکھا جائے گا یعنی چھ مہینے کا دیس نکالا دیا جائے گا پورے سال کا نہیں ، پورا سال آزاد عورتوں کے لیے ہے ۔ یہ تینوں قول امام شافعی رحمہ اللہ کے مذہب میں ہیں ، لیکن امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک جلا وطنی تعزیر کے طور پر ہے وہ حد میں سے نہیں امام کی رائے پر موقوف ہے اگر چاہے جلا وطنی دے یا نہ دے مرد و عورت سب اسی حکم میں داخل ہیں ہاں امام مالک رحمہ اللہ کے مذہب میں ہے کہ جلا وطنی صرف مردوں کے لیے ہے عورتوں پر نہیں اس لیے کہ جلا وطنی صرف اس کی حفاظت کے لیے ہے اور اگر عورت کو جلا وطن کیا گیا تو حفاظت میں سے نکل جائے گی اور مردوں یا عورتوں کے بارے میں دیس نکالے کی حدیث صرف سیدنا عبادہ اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے ہی مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس زانی کے بارے میں جس کی شادی نہیں ہوئی تھی حد مارنے اور ایک سال دیس نکالا دینے کا حکم فرمایا تھا ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6833) اس سے معنی مراد یہی ہے کہ اس کی حفاظت رہے اور عورت کو وطن سے نکالے جانے میں یہ حفاظت بالکل ہی نہیں ہو سکتی ۔ «واللہ اعلم» دوسرا قول یہ ہے کہ لونڈی کو اس کی زناکاری پر شادی کے بعد پچاس کوڑے مارے جائیں گے اور ادب سکھانے کے طور پر اسے کچھ مار پیٹ کی جائے گی لیکن اس کی کوئی مقرر گنتی نہیں پہلے گزر چکا ہے کہ شادی سے پہلے اسے مارا نہ جائے گا جیسے سعید بن مسیب رحمہ اللہ کا قول ہے لیکن اگر اس سے یہ مراد لی جائے کہ سرے سے کچھ مارنا ہی نہ چاہیئے تو یہ محض تاویل ہی ہو گی ورنہ قول ثانی میں اسے داخل کیا جا سکتا ہے جو یہ ہے کہ شادی سے پہلے سو کوڑے اور شادی کے بعد پچاس جیسے کے داؤد رحمہ اللہ کا قول ہے اور یہ تمام اقوال سے بودا قول ہے اور قول یہ کہ شادی سے پہلے پچاس کوڑے اور شادی کے بعد رجم جیسے کہ ابوثور رحمہ اللہ کا قول ہے لیکن یہ قول بھی بودا ہے ۔ «وَاللہُ سُبْحَانَہُ وَ تَعَالَیٰ اَعْلَمُ» پھر فرمان ہے کہ لونڈیوں سے نکاح کرنا ان شرائط کی موجودگی میں جو بیان ہوئیں ان کے لیے جنہیں زنا میں واقع ہونے کا خطرہ ہو اور تجرد اس پر بہت شاق گزر رہا ہو اور اس کی وجہ سے سخت تکلیف میں ہو تو بےشک اسے انہیں پاکدامن لونڈیوں سے نکاح کر لینا جائز ہے گو اس حالت میں بھی اپنے نفس کو روکے رکھنا اور ان سے نکاح نہ کرنا بہت بہتر ہے اس لیے کہ اس سے جو اولاد ہوگی وہ اس کے مالک کی لونڈی غلام ہوگی ہاں اگر خاوند غریب ہو تو اس کی یہ اولاد اس کے آقا کی ملکیت امام شافعی رحمہ اللہ کے قول قدیم کے مطابق نہ ہو گی۔ پھر فرمایا اگر تم صبر کرو تو تمہارے لیے افضل ہے اور اللہ غفور و رحیم ہے ، جمہور علماء نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ لونڈی سے نکاح جائز ہے لیکن یہ اس وقت جب آزاد عورتوں سے نکاح کرنے کی طاقت نہ ہو اور نہ ہی رکے رہنے کی طاقت ہو ، بلکہ زنا واقع ہو جانے کا خوف ہو ۔ کیونکہ اس میں ایک خرابی تو یہ ہے کہ اولاد غلامی میں جاتی ہے دوسرے ایک طرح کی سبکی ہے کہ آزاد عورت کو چھوڑ کر لونڈیوں کی طرف متوجہ ہونا ۔ ہاں جمہور کے مخالف امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے ساتھی کہتے ہیں یہ دونوں باتیں شرط نہیں بلکہ جس کے نکاح میں کوئی آزاد عورت نہ ہو اسے لونڈی سے نکاح جائز ہے وہ لونڈی خواہ مومنہ ہو خواہ اہل کتاب میں سے ہو ۔ چاہے اسے آزاد عورت سے نکاح کرنے کی طاقت بھی ہو اور اسے بدکاری کا خوف بھی نہ ہو ، اس کی بڑی دلیل یہ آیت « وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِینَ أُوتُوا الْکِتَابَ مِن قَبْلِکُمْ» ۱؎ (5-المائدۃ:5) یعنی ’ آزاد عورتیں ان میں سے جو تم سے پہلے کتاب اللہ دئے گئے ‘ ۔ پس وہ کہتے ہیں یہ آیت عام ہے جس میں آزاد اور غیر آزاد سب ہی شامل ہیں اور محصنات سے مراد پاکدامن باعصمت عورتیں ہیں لیکن اس کی ظاہری دلالت بھی اسی مسئلہ پر ہے جو جمہور کا مذہب ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» النسآء
26 پچاس سے پانچ نمازوں تک فرمان ہوتا ہے کہ اے مومنو ! اللہ تعالیٰ ارادہ کر چکا ہے کہ حلال و حرام تم پر کھول کھول کر بیان فرما دے جیسے کہ اس سورت میں اور دوسری سورتوں میں اس نے بیان فرمایا وہ چاہتا ہے کہ سابقہ لوگوں کی قابل تعریف راہیں تمہیں سمجھا دے تاکہ تم بھی اس کی اس شریعت پر عمل کرنے لگ جاؤ جو اس کی محبوب اور اس کی پسندیدہ ہیں وہ چاہتا ہے کہ تمہاری توبہ قبول فرما لے جس گناہ سے جس حرام کاری سے تم توبہ کرو وہ فوراً قبول فرما لیتا ہے ۔ وہ علم و حکمت والا ہے ، اپنی شریعت اپنی اندازے اپنے کام اور اپنے فرمان میں وہ صحیح علم اور کامل حکمت رکھتا ہے ، خواہش نفسانی کے پیروکار یعنی شیطانوں کے غلام یہود و نصاریٰ اور بدکاری لوگ تمہیں حق سے ہٹانا اور باطل کی طرف جھکانا چاہتے ہیں ، اللہ تعالیٰ اپنے حکم احکام میں یعنی روکنے اور ہٹانے میں ، شریعت اور اندازہ مقرر کرنے میں تمہارے لیے آسانیاں چاہتا ہے اور اسی بنا پر چند شرائط کے ساتھ اس نے لونڈیوں سے نکاح کر لینا تم پر حلال کر دیا ۔ انسان چونکہ پیدائشی کمزور ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے احکام میں کوئی سختی نہیں رکھی ۔ یہ فی نفسہ بھی کمزور اس کے ارادے اور حوصلے بھی کمزور یہ عورتوں کے بارے میں بھی کمزور ، یہاں آ کر بالکل بیوقوف بن جانے والا ۔ چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شب معراج میں سدرۃ المنتہیٰ سے لوٹے اور موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی تو آپ نے دریافت کیا کہ آپ پر کیا فرض کیا گیا ؟ فرمایا ہر دن رات میں پچاس نمازیں تو کلیم اللہ علیہ السلام نے فرمایا : واپس جائیے اور اللہ کریم سے تخفیف طلب کیجئے آپ کی امت میں اس کی طاقت نہیں میں اس سے پہلے لوگوں کا تجربہ کر چکا ہوں وہ اس سے بہت کم میں گھبرا گئے تھے اور آپ کی امت تو کانوں آنکھوں اور دل کی کمزوری میں ان سے بھی بڑھی ہوئی ہے چنانچہ آپ واپس گئے دس معاف کرا لائے پھر بھی یہی باتیں ہوئیں پھر گئے دس ہوئیں یہاں تک کہ آخری مرتبہ پانچ رہ گئیں ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:349) النسآء
27 النسآء
28 النسآء
29 خرید و فروخت اور اسلامی قواعد و ضوابط اللہ تعالیٰ اپنے ایماندار بندوں کو ایک دوسرے کے مال باطل کے ساتھ کھانے کی ممانعت فرما رہا ہے خواہ اس کمائی کی ذریعہ سے ہو جو شرعاً حرام ہے جیسے سود خوری ، قمار بازی اور ایسے ہی ہر طرح کی حیلہ سازی چاہے اسے جواز کی شرعی صورت دے دی ہو اللہ کو خوب معلوم ہے کہ اصل حقیقت کیا ہے ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سوال ہوتا ہے کہ ایک شخص کپڑا خریدتا ہے اور کہتا ہے اگر مجھے پسند آیا تو تو رکھ لوں گا ورنہ کپڑا اور ایک درہم واپس کر دوں گا آپ نے اس آیت کی تلاوت کر دی یعنی اسے باطل مال میں شامل کیا ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:217/8) سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں یہ آیت محکم ہے یعنی منسوخ نہیں نہ قیامت تک منسوخ ہو سکتی ہے ، آپ سے مروی ہے کہ جب یہ آیت اتری تو مسلمانوں نے ایک دوسرے کے ہاں کھانا چھوڑ دیا جس پر یہ آیت «لَیْسَ عَلَی الْأَعْمَیٰ حَرَجٌ وَلَا عَلَی الْأَعْرَجِ حَرَجٌ وَلَا عَلَی الْمَرِیضِ حَرَجٌ وَلَا عَلَیٰ أَنْفُسِکُمْ أَنْ تَأْکُلُوا مِنْ بُیُوتِکُمْ» الخ (24النور:61) اتری ۔ «تِجَارَۃً» کو «تِجَارَۃٌ» بھی پڑھا گیا ہے ۔ یہ استثنا منقطع ہے گویا یوں فرمایا جا رہا ہے کہ حرمت والے اسباب سے مال نہ لو ہاں شرعی طریق پر تجارت سے نفع اٹھانا جائز ہے جو خریدار اور بیچنے والے کی باہم رضا مندی سے ہو ۔ جیسے دوسری جگہ ہے«وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِی حَرَّمَ اللہُ إِلَّا بِالْحَقِّ» ۱؎ (6-الأنعام:151) یعنی ’ کسی بےگناہ جان کو نہ مارو ہاں حق کے ساتھ ہو تو جائز ہے ‘ ۔ اور جیسے دوسری آیت میں ہے «لَا یَذُوقُونَ فِیہَا الْمَوْتَ إِلَّا الْمَوْتَۃَ الْأُولَیٰ» (44-الدخان:56) وہاں موت نہ چکھیں گے مگر پہلی بار کی موت ۔ امام شافعی رحمہ اللہ اس آیت سے استدلال کر کے فرماتے ہیں خرید و فروخت بغیر قبولیت کے صحیح نہیں ہوتی اس لیے کہ رضا مندی کی پوری سند یہی ہے گو صرف لین دین کر لینا کبھی کبھی رضا مندی پر پوری دلیل نہیں بن سکتا اور جمہور اس کے برخلاف ہیں ، تینوں اور اماموں کا قول ہے کہ جس طرح زبانی بات چیت رضا مندی کی دلیل ہے اسی طرح لین دین بھی رضا مندی کی دلیل ہے ۔ بعض حضرات فرماتے ہیں کم قیمت کی معمولی چیزوں میں تو صرف دینا لینا ہی کافی ہے اور اسی طرح بیوپار کا جو طریقہ بھی ہو لیکن صحیح مذہب میں احتیاطی نظر سے تو بات چیت میں قبولیت کا ہونا اور بات ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں خرید و فروخت ہو یا بخشش ہو سب کے لیے حکم شامل ہے ۔ ابن جریر رحمہ اللہ کی مرفوع حدیث میں ہے تجارت ایک دوسرے کی رضا مندی ہے اور بیوپار کے بحد اختیار ہے ، گویا کسی مسلمان کو جائز نہیں کہ دوسرے مسلمان کو تجارت کے نام سے دھوکہ دے ، یہ حدیث مرسل ہے پوری رضا مندی میں مجلس کے خاتمہ تک کا اختیار بھی ہے ۔ بخاری و مسلم میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں دونوں بائع مشتری جب تک جدا نہ ہوں بااختیار ہیں ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2108) صحیح بخاری میں ہے جب دو شخص خرید و فروخت کریں تو ہر ایک کو اختیار ہے جب تک الگ الگ نہ ہوں۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2109،2111) اسی حدیث کے مطابق امام احمد ، امام شافعی رحمہ اللہ علیہم اور ان کے سب ساتھیوں کا فتویٰ ہے جمہور سلف و خلف رحمہ اللہ علیہم کا بھی یہی فتویٰ ہے اور اس پوری رضا مندی میں شامل ہے خرید و فروخت کے تین دن بعد تک اختیار دینا رضا مندی میں شامل ہے بلکہ یہ مدت گاؤں کی رسم کے مطابق سال بھر کی بھی ہو سکتی ہے ۔ امام مالک رحمہ اللہ کا مشہور مذہب یہی ہے گو ان کے نزدیک صرف لین دین سے ہی بیع صحیح ہو جاتی ہے ۔ شافعی مذہب میں بھی ایک قول یہ ہے اور ان میں سے بعض فرماتے ہیں کہ معمولی کم قیمت چیزوں میں جنہیں لوگ بیوپار کے لیے رکھتے ہوں صرف لین دین ہی کافی ہے ۔ بعض اصحاب کا اختیار سے مراد یہی ہے جیسے کہ متفق علیہ ہے ۔ پھر فرماتا ہے اللہ تعالیٰ کے بیان کردہ حرام کاموں کا ارتکاب کر کے اور اس کی نافرمانیاں کر کے اور ایک دوسرے کا بیجا طور پہ مال کھا کر اپنے آپ کو ہلاک نہ کرو اللہ تم پر رحیم ہے ہر حکم اور ہر ممانعت رحمت والی ہے ۔ النسآء
30 احترام زندگی مسند احمد میں ہے کہ سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو ذات السلاسل والے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا تھا آپ فرماتے ہیں مجھے ایک رات احتلام ہو گیا سردی بہت سخت تھی یہاں تک کہ مجھے نہانے میں اپنی جان جانے کا خطرہ ہو گیا تو میں نے تیمم کر کے اپنی جماعت کو صبح کی نماز پڑھا دی جب وہاں سے ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں واپس حاضر ہوئے تو میں نے یہ واقعہ کہہ سنایا آپ نے فرمایا کیا تو نے اپنے ساتھیوں کو جنبی ہونے کی حالت میں نماز پڑھا دی ؟ میں نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جاڑا سخت تھا اور مجھے اپنی جان جانے کا اندیشہ تھا تو مجھے یاد پڑا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اپنے تئیں ہلاکت نہ کر ڈالو اللہ رحیم ہے پس میں نے تیمم کر کے نماز صبح پڑھا دی تو آپ ہنس دئیے اور مجھے کچھ نہ فرمایا ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:334،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ایک روایت میں ہے کہ اور لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ واقعہ بیان کیا تب آپ کے دریافت کرنے پر سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے عذر پیش کیا۔ ۱؎ [ ضعیف جداً: اس کی سند میں یوسف بن خالد راوی سخت ضعیف ہے۔ ] بخاری و مسلم میں ہے جو شخص کسی لوہے سے خودکشی کرے گا وہ قیامت تک جہنم کی آگ میں لوہے سے خودکشی کرتا رہے گا ، اور جو جان بوجھ کر مر جانے کی نیت سے زہر کھا لے گا ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5778) وہ ہمیشہ ہمیشہ جہنم کی آگ میں زہر کھاتا رہے گا اور روایت میں ہے کہ جو شخص اپنے تئیں جس چیز سے قتل کرے گا وہ قیامت والے دن اسی چیز سے عذاب کیا جائے گا۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1363) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ تم سے پہلے کے لوگوں میں سے ایک شخص کو زخم لگے اس نے چھری سے اپنا ہاتھ کاٹ ڈالا تمام خون بہ گیا اور وہ اسی میں مر گیا تو اللہ عزوجل نے فرمایا : میرے بندے نے اپنے تئیں فنا کرنے میں جلدی کی اسی وجہ سے میں نے اس پر جنت کو حرام کیا ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1364) اسی لیے اللہ تعالیٰ یہاں فرماتا ہے جو شخص بھی ظلم و زیادتی کے ساتھ حرام جانتے ہوئے اس کا ارتکاب کرے دلیرانہ طور سے حرام پر کار بند رہے وہ جہنمی ہے ، پس ہر عقلمند کو اس سخت تنبیہہ سے ڈرنا چاہیئے دل کے کان کھول کر اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو سن کر حرام کاریوں سے اجتناب کرنا چاہیئے ۔ پھر فرماتا ہے کہ اگر تم بڑے بڑے گناہوں سے بچتے رہو گے تو ہم تمہارے چھوٹے چھوٹے گناہ معاف فرما دیں گے اور تمہیں جنتی بنادیں گے ۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ اس طرح کی کوئی سخت وعید نہیں ملی جس کی تعمیل میں تمہیں اپنے اہل و مال سے الگ ہو جانا چاہیئے پھر ہم اس کے لیے اپنے اہل و مال سے جدا نہ ہو جائیں کہ وہ ہمارے کبیرہ گناہوں کو ہمارے چھوٹے موٹے گناہوں سے معاف فرماتا ہے پھر اس آیت کی تلاوت کی ۔ اس آیت کے متعلق بہت سی حدیثیں بھی ہیں تھوڑی بہت ہم یہاں بیان کرتے ہیں ۔ مسند احمد میں سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جانتے ہو جمعہ کا دن کیا ہے ؟ “ میں نے جواب دیا کہ یہ وہ دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ہمارے باپ کو پیدا کیا آپ نے فرمایا : ” مگر اب جو میں جانتا ہوں وہ بھی سن لو جو شخص اس دن اچھی طرح غسل کر کے نماز جمعہ کے لیے مسجد میں آئے اور نماز ختم ہونے تک خاموش رہے تو اس کا یہ عمل اگلے جمعہ تک کے گناہوں کا کفارہ ہو جاتا ہے جب تک کہ وہ قتل سے بچا “ ۔ ۱؎ (مسند احمد:5/439،قال الشیخ الألبانی:حسن) ابن جریر میں ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ سناتے ہوئے فرمایا : ” اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میری جان ہے تین مرتبہ یہی فرمایا پھر سر نیچا کر لیا ہم نے بھی سر نیچا کر لیا اور ہم سب رونے لگے ہمارے دل کانپنے لگے کہ اللہ جانے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کس چیز کے لیے قسم کھائی ہے اور پھر کیوں خاموشی اختیار کی ہے ؟ تھوڑی دیر کے بعد آپ نے سر اٹھایا اور آپ کا چہرہ بشاش تھا جس سے ہم اس قدر خوش ہوئے کہ اگر ہمیں سرخ رنگ کے اونٹ ملتے تو اس قدر خوش نہ ہوتے ، اب آپ فرمانے لگے جو بندہ پانچوں نمازیں پڑھے ، رمضان کے روزے رکھے ، زکوٰۃ ادا کرتا رہے اور سات کبیرہ گناہوں سے بچا رہے اس کے لیے جنت کے سب دروازے کھل جائیں گے اور اسے کہا جائے گا کہ سلامتی کے ساتھ اس میں داخل ہو جاؤ ۔ ۱؎ (سنن نسائی:2440،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) سات کبیرہ گناہ جن سات گناہوں کا اس میں ذکر ہے ان کی تفصیل بخاری مسلم میں اس طرح ہے گناہوں سے بچو جو ہلاک کرنے والے ہیں پوچھا گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہ کون سے گناہ ہیں ؟ فرمایا اللہ کے ساتھ شرک کرنا اور جس کا قتل حرام ہو اسے قتل کرنا ہاں کسی شرعی وجہ سے اس کا خون حلال ہو گیا ہو تو اور بات ہے ۔ جادو کرنا ، سود کھانا اور یتیم کا مال کھانا اور میدان جنگ سے کفار کے مقابلے میں پیٹھ دکھانا اور بھولی بھالی پاک دامن مسلمان عورتوں کو تہمت لگانا ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2766) ایک روایت میں جادو کے بدلے ہجرت کر کے پھر واپس اپنے دیس میں قیام کر لینا ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:5202/3) یہ یاد رہے کہ ان سات گناہوں کو کبیرہ کہنے سے یہ مطلب نہیں کہ کبیرہ گناہ صرف یہی ہیں جیسے کہ بعض اور لوگوں کا خیال ہے جن کے نزدیک مفہوم مخالف معتبر ہے ۔ دراصل یہ بہت انتہائی بےمعنی قول اور غلط اصول ہے بالخصوص اس وقت جبکہ اس کے خلاف دلائل موجود ہوں اور یہاں تو صاف لفظوں میں اور کبیرہ گناہوں کا بھی ذکر موجود ہے ۔ مندرجہ ذیل حدیثیں ملاحظہ ہوں ۔ مستدرک حاکم میں ہے کہ حجتہ الوداع میں رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگو سن لو اللہ تعالیٰ کے ولی صرف نمازی ہی ہیں جو پانچوں وقت کی فرض نمازوں کو باقاعدہ بجا لاتے ہیں جو رمضان شریف کے روزے رکھتے ہیں ، فرض جان کر اور ثواب حاصل کرنے کی نیت رکھ کر ہنسی خوشی زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور ان تمام کبیرہ گناہوں سے دور رہتے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے روک دیا ہے ۔ ایک شخص نے پوچھا : یا رسول اللہ ! وہ کبیرہ گناہ کیا ہیں ؟ آپ نے فرمایا : شرک ، قتل ، میدان جنگ سے بھاگنا ، مال یتیم کھانا ، سود خوری ، پاکدامنوں پر تہمت لگانا ، ماں باپ کی نافرمانی کرنا ، بیت اللہ الحرام کی حرمت کو توڑنا جو زندگی اور موت میں تمہارا قبلہ ہے سنو جو شخص مرتے دم تک ان بڑے گناہوں سے اجتناب کرتا رہے اور نماز و زکوٰۃ کی پابندی کرتا رہے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنت میں سونے کے محلوں میں ہو گا ۔ ۱؎ (سنن نسائی:4017،قال الشیخ الألبانی:حسن) طیسلہ بن میامن فرماتے ہیں مجھ سے ایک گناہ ہو گیا جو میرے نزدیک کبیرہ تھا ، میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا : وہ کبیرہ گناہ نہیں کبیرہ گناہ نو ہیں ۔ اللہ کے ساتھ شرک کرنا کسی کو بلا وجہ مار ڈالنا ، میدان جنگ میں دشمنان دین کو پیٹھ دکھانا ، پاکدامن عورتوں کو تہمت لگانا ، سود کھانا ، یتیم کا مال ظلم سے کھا جانا ، مسجد الحرام میں الحاد پھیلانا اور ماں باپ کو نافرمانی کے سبب رلانا ، طیسلہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس بیان کے بعد بھی سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے محسوس کیا کہ خوف کم نہیں ہوا تو فرمایا کیا تمہارے دل میں جہنم کی آگ میں داخل ہونے کا ڈر اور جنت میں جانے کی چاہت ہے ؟ میں نے کہا بہت زیادہ فرمایا کیا تمہارے ماں باپ زندہ ہیں ؟ میں نے کہا صرف والدہ حیات ہیں ، فرمایا : بس تم ان سے نرم کلامی سے بولا کرو اور انہیں کھانا کھلاتے رہا کرو اور ان کبیرہ گناہوں سے بچتے رہا کرو تو تم یقیناً جنت میں جاؤ گے اور روایت میں ہے کہ طیسلہ بن علی نہدی ، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے میدان عرفات میں عرفہ کے دن پیلو کے درخت تلے ملے تھے اس وقت سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہما اپنے سر اور چہرے پر پانی بہا رہے تھے اس میں یہ بھی ہے کہ جب سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے تہمت لگانے کا ذکر کیا تو میں نے پوچھا کیا یہ بھی مثل قتل کے بہت بڑا گناہ ہے ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ہاں اور ان گناہوں کے ذکر میں جادو کا ذکر بھی ہے ۔ ۱؎ (:تفسیر ابن جریر الطبری:9189:ضعیف) اور روایت میں ہے کہ میری ان کی ملاقات شام کے وقت ہوئی تھی اور میں نے ان سے کبائر کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ کبائر سات ہیں میں نے پوچھا کیا کیا ؟ تو فرمایا : شرک اور تہمت لگانا میں نے کہا کیا یہ بھی مثل خون ناحق کے ہے ؟ فرمایا : ہاں ہاں اور کسی مومن کو بےسبب مار ڈالنا ، لڑائی سے بھاگنا ، جادو اور سود خوری، مال یتیم کھانا ، والدین کی نافرمانی اور بیت اللہ میں الحاد پھیلانا جو زندگی میں اور موت میں تمہارا قبلہ ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:9189:ضعیف) مسند احمد میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جو اللہ کا بندہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے نماز قائم رکھے زکوٰۃ ادا کرے رمضان کے روزے رکھے اور کبیرہ گناہوں سے بچے وہ جنتی ہے “ ، ایک شخص نے پوچھا کبائر کیا ہیں ؟ آپ نے فرمایا : ” اللہ کے ساتھ شرک کرنا مسلمان کو قتل کرنا لڑائی والے دن بھاگ کھڑا ہونا “ ۔ ۱؎ (مسند احمد:5/413:حسن بالشواھد) ابن مردویہ میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل یمن کو ایک کتاب لکھوا کر بھجوائی جس میں فرائض اور سنن کی تفصیلات تھیں دیت یعنی جرمانوں کے احکام تھے اور یہ کتاب سیدنا عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کے ہاتھ اہل یمن کو بھجوائی گئی تھی اس کتاب میں یہ بھی تھا کہ قیامت کے دن تمام کبیرہ گناہوں میں سب سے بڑا کبیرہ گناہ یہ ہے کہ انسان اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرے اور ایماندار شخص کا قتل بغیر حق کے کرنا اور اللہ کی راہ میں جہاد کے میدان میں جا کر لڑتے ہوئے نامردی سے جان بچانے کی خاطر بھاگ کھڑا ہونا اور ماں باپ کی نافرمانی کرنا اور ناکردہ گناہ عورتوں پر الزام لگانا اور جادو سیکھنا اور سود کھانا اور مال یتیم برباد کرنا ۔ ۱؎ (مستدرک حاکم:395/1، حسن بالشواھد) ایک اور روایت میں کبیرہ گناہوں کے بیان میں جھوٹی بات یا جھوٹی شہادت بھی ہے ۱؎ (صحیح بخاری:5977) اور حدیث میں ہے کہ کبیرہ گناہوں کے بیان کے وقت آپ ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے تھے لیکن جب یہ بیان فرمایا کہ جھوٹی گواہی اور جھوٹی بات اس وقت آپ تکیے سے ہٹ گئے اور بڑے زور سے اس بات کو بیان فرمایا اور باربار اسی کو دہراتے رہے یہاں تک کہ ہم نے دل میں سوچا کاش اب آپ نہ دہرائیں ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2654) بخاری مسلم میں ہے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کون سا گناہ سب سے بڑا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ ” تو اللہ تعالیٰ کا کسی کو شریک کرے یہ جانتے ہوئے کہ تجھے صرف اسی نے پیدا کیا ہے ؟ “ میں نے پوچھا اس کے بعد ؟ فرمایا : ” یہ کہ تو اپنے بچے کو اس ڈر سے قتل کر دے کہ وہ تیرے ساتھ کھائے گا “ ، میں نے پوچھا پھر کون سا گناہ بڑا ہے ؟ فرمایا : ” یہ کہ تو اپنی پڑوسن سے بدکاری کرے “ ، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ «وَالَّذِینَ لَا یَدْعُونَ مَعَ اللہِ إِلٰہًا آخَرَ وَلَا یَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِی حَرَّمَ اللہُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا یَزْنُونَ وَمَنْ یَفْعَلْ ذٰلِکَ یَلْقَ أَثَامًا» * «یُضَاعَفْ لَہُ الْعَذَابُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَیَخْلُدْ فِیہِ مُہَانًا» * «إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولٰئِکَ یُبَدِّلُ اللہُ سَیِّئَاتِہِمْ حَسَنَاتٍ وَکَانَ اللہُ غَفُورًا رَحِیمًا» ۱؎ (25-الفرقان:68 تا 70) تک پڑھی ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمرو بن رضی اللہ عنہ مسجد الحرام میں حطیم کے اندر بیٹھے ہوئے تھے جو ایک شخص نے شراب کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا : مجھ جیسا بوڑھا بڑی عمر کا آدمی اس جگہ بیٹھ کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ نہیں بول سکتا شراب کا پینا تمام گناہوں سے بڑا گناہ ہے ؟ یہ کام تمام خباثتوں کی ماں ہے شرابی تارک نماز ہوتا ہے وہ اپنی ماں اور خالہ اور پھوپھی سے بھی بدکاری کرنے سے نہیں چوکتا ۔ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:5197/3،حسن) یہ حدیث غریب ہے ۔ ابن مردویہ میں ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق ، سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہما اور دوسرے بہت سے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین ایک مرتبہ ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے وہاں کبیرہ گناہوں کا ذکر نکلا کہ سب سے بڑا گناہ کیا ہے ؟ تو کسی کے پاس مصدقہ جواب نہ تھا اس لیے انہوں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو بھیجا کہ تم جا کر سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے دریافت کر آؤ میں گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ سب سے بڑا گناہ شراب پینا ہے میں نے واپس آ کر اس مجلس میں یہ جواب سنا دیا اس پر اہل مجلس کو تسکین نہ ہوئی اور سب حضرات اٹھ کر سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہم کے گھر چلے اور خود ان سے دریافت کیا تو انہوں نے بیان کیا کہ لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک واقعہ بیان کیا کہ بنی اسرائیل کے بادشاہوں میں سے ایک نے ایک شخص کو گرفتار کیا پھر اس سے کہا کہ یا تو تو اپنی جان سے ہاتھ دھو ڈال یا ان کاموں میں سے کسی ایک کو کر یعنی یا تو شراب پی یا خون ناحق کر یا زنا کر یا سور کا گوشت کھا اس غور و تفکر کے بعد اس نے جان جانے کے ڈر سے شراب کو ہلکی چیز سمجھ کر پینا منظور کر لیا جب شراب پی لی تو پھر نشہ میں وہ ان تمام کاموں کو کر گزرا جن سے وہ پہلے رکا تھا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ واقعہ گوش گزار فرما کر ہم سے فرمایا جو شخص شراب پیتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی نمازیں چالیس رات تک قبول نہیں فرماتا اور جو شراب پینے کی عادت میں ہی مر جائے اور اس کے مثانہ میں تھوڑی سی شراب ہو اس پر اللہ جنت کو حرام کر دیتا ہے ۔ اگر شراب پینے کے بعد چالیس راتوں کے اندر اندر مرے تو اس کی موت جاہلیت کی موتی ہوتی ہے ۔ ۱؎ (:مستدرک حاکم:147/4،حسن) یہ حدیث غریب ہے ، ایک اور حدیث میں جھوٹی قسم کو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبیرہ گناہوں میں شمار فرمایا ہے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6675) ابن ابی حاتم میں جھوٹی قسم کے بیان کے بعد یہ فرمان بھی ہے کہ جو شخص اللہ کی قسم کھا کر کوئی بات کہے اور اس نے مچھر کے پر برابر زیادتی کی اس کے دل میں ایک سیاہ داغ ہو جاتا ہے جو قیامت تک باقی رہتا ہے ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3020،قال الشیخ الألبانی:حسن) ابن ابی حاتم میں ہے کہ انسان کا اپنے ماں باپ کو گالی دینا کبیرہ گناہ ہے لوگوں نے پوچھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ماں باپ کو کیسے گالی دے گا ؟ آپ نے فرمایا : ” اس طرح کہ اس نے دوسرے کے باپ کو گالی دی اس نے اس کے باپ کو اس نے اس کی ماں کو برا کہا اس نے اس کی ماں کو “ ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5973) صحیح بخاری میں ہے سب سے بڑا کبیرہ گناہ یہ ہے کہ آدمی اپنے ماں باپ پر لعنت کرے لوگوں نے کہا یہ کیسے ہو سکتا ہے فرمایا : ” دوسرے کے ماں باپ کو کہہ کر اپنے ماں باپ کو کہلوانا “ ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5973) صحیح حدیث میں ہے مسلمان کو گالی دینا فاسق بنا دیتا ہے اور اسے قتل کرنا کفر ہے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:48) ابن ابی حاتم میں ہے کہ اکبر الکبائر یعنی تمام کبیرہ گناہوں میں بڑا گناہ کسی مسلمان کی آبرو ریزی کرنا ہے اور ایک گالی کے بدلے دو گالیاں دینا ہے ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4877،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ترمذی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جس شخص نے دو نمازوں کو عذر کے بغیر جمع کیا وہ کبیرہ گناہوں کے دروازوں میں سے ایک دروازے میں گھسا “ ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:4877،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ابن ابی حاتم میں ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی کتاب جو ہمارے سامنے پڑھی گئی اس میں یہ بھی تھا کہ دو نمازوں کو بغیر شرعی عذر کے جمع کرنا کبیرہ گناہ ہے ، اور لڑائی کے میدان سے بھاگ کھڑا ہونا اور لوٹ کھسوٹ کرنا بھی کبیرہ گناہ ہے ، الغرض ظہر عصر یا مغرب عشاء پہلے وقت یا پچھلے وقت بغیر کسی شرعی رخصت کے جمع کر کے پڑھنا کبیرہ گناہ ہے ۔ پھر جو شخص کہ بالکل ہی نہ پڑھے اس کے گناہ کا تو کیا ٹھکانہ ہے ؟ چنانچہ صحیح مسلم میں ہے کہ بندے اور شرک کے درمیان نماز کا چھوڑ دینا ہے ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:82) سنن کی ایک حدیث میں ہے کہ ہم میں اور کافر میں فرق کرنے والی چیز نماز کا چھوڑ دینا ہے ، جس نے اسے چھوڑا اس نے کفر کیا ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2621،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اور روایت میں آپ کا یہ فرمان بھی منقول ہے کہ جس نے عصر کی نماز ترک کر دی اس کے اعمال غارت ہوئے ۱؎ (صحیح بخاری:553) اور حدیث میں ہے جس سے عصر کی نماز فوت ہوئی گویا اس کا مال اس کا اہل و عیال بھی ہلاک ہو گئے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:552) ابن ابی حاتم میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ کبیرہ گناہ کیا کیا ہیں ؟ آپ نے فرمایا : ” اللہ کے ساتھ شرک کرنا ، اللہ کی نعمت اور اس کی رحمت سے ناامید ہونا اور اس کی خفیہ تدبیروں سے بےخوف ہو جانا اور یہ سب سے بڑا گناہ ہے ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:5201/3،حسن) اسی کے مثل ایک روایت اور بھی بزار میں مروی ہے لیکن زیادہ ٹھیک یہ ہے کہ وہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ پر موقوف ہے ۔ ابن مردویہ میں ہے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں سب سے کبیرہ گناہ اللہ عزوجل کے ساتھ بدگمانی کرنا ہے ۔ ۱؎ (فتح الباری:411/10،ضعیف) یہ روایت بہت ہی غریب ہے ، پہلے وہ حدیث بھی گزر چکی ہے جس میں ہجرت کے بعد کفرستان میں آ کر بسنے کو بھی کبیرہ گناہ فرمایا ہے ، یہ حدیث ابن مردویہ میں ہے ، سات کبیرہ گناہوں میں اسے بھی گنا گیا ہے ۔ ۱؎ (:تفسیر ابن جریر الطبری:9180،ضعیف) لیکن اس کی اسناد میں اختلاف ہے اور اسے مرفوع کہنا بالکل غلط ہے ٹھیک بات وہی ہے جو تفسیر ابن جریر میں مروی ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کوفے کی مسجد میں ایک مرتبہ منبر پر کھڑے ہو کر لوگوں کو خطبہ سنا رہے تھے جس میں فرمایا : لوگو کبیرہ گناہ سات ہیں اسے سن کر لوگ چیخ اٹھے آپ نے اسی کو پھر دوہرایا پھر دوہرایا پھر فرمایا : تم مجھ سے ان کی تفصیل کیوں نہیں پوچھتے ؟ لوگوں نے کہا : امیر المؤمنین فرمائیے وہ کیا ہیں ؟ آپ نے فرمایا : اللہ کے ساتھ شرک کرنا جس جان کو مار ڈالنا اللہ نے حرام کیا ہے اسے مار ڈالنا پاکدامن عورتوں پر تہمت لگانا یتیم کا مال کھانا سود خوری کرنا لڑائی کے دن پیٹھ دکھانا اور ہجرت کے بعد پھر دارالکفر میں آ بسنا ۔ راوی حدیث محمد بن سہل رحمہ اللہ نے اپنے والد سہل بن خیثمہ رحمہ اللہ سے پوچھا کہ اسے کبیرہ گناہوں میں کیسے داخل کیا تو جواب ملا کہ پیارے بچے اس سے بڑھ کر ستم کیا ہو گا ؟ کہ ایک شخص ہجرت کر کے مسلمانوں میں ملے مال غنیمت میں اس کا حصہ مقرر ہو جائے مجاہدین میں اس کا نام درج کر دیا جائے پھر وہ ان تمام چیزوں کو چھوڑ کر اعرابی بن جائے اور دارالکفر میں چلا جائے اور جیسا تھا ویسا ہی ہو جائے ۔ مسند احمد میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حجتہ الوداع کے خطبہ میں فرمایا خبردارہو جاو وہ چار ہیں خبردار اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو خون ناحق سے بچو [ ہاں شرعی اجازت اور چیز ہے] زناکاری نہ کرو چوری نہ کرو ۔ ۱؎ (مسند احمد:339/4،حسن) وہ حدیث پہلے گزر چکی ہے جس میں ہے کہ وصیت کرنے میں کسی کو نقصان پہنچانا بھی کبیرہ گناہ ہے-۱؎ (دارقطنی:151/4،ضعیف) ابن جریر میں ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے ایک مرتبہ کبیرہ گناہوں کو دہرایا کہ اللہ کے ساتھ شریک کرنا یتیم کا مال کھانا لڑائی سے بھاگ کھڑا ہونا ، پاکدامن بےگناہ عورتوں پر تہمت لگانا ، ماں باپ کی نافرمانی کرنا ، جھوٹ بولنا ، دھوکہ دینا ، خیانت کرنا ، جادو کرنا ، سود کھانا یہ سب کبیرہ گناہ ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اور اس گناہ کو کیا کہو گے ؟ جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی تھوڑی قیمت پر بیچتے پھرتے ہیں “ آخر آیت تک آپ نے تلاوت کی ۔ اس کی اسناد میں ضعف ہے ۔ ۱؎ (:تفسیر ابن جریر الطبری:9227،ضعیف) اور یہ حدیث حسن ہے ، پس ان تمام احادیث میں کبیرہ گناہوں کا ذکر موجود ہے ۔ اب اس بارے میں سلف صالحین رحمۃ اللہ علیہم اجمعین کے جو اقوال ہیں وہ ملاحظہ ہوں، ابن جریر میں منقول ہے چند لوگوں نے مصر میں سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ بہت سی باتیں کتاب اللہ میں ہم ایسی پاتے ہیں کہ جن پر ہمارا عمل نہیں اس لیے ہم امیر المؤمنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے اس بارے میں دریافت کرنا چاہتے ہیں، سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ انہیں لے کر مدینہ آئے اپنے والد سے ملے آپ نے پوچھا کب آئے ہو؟ جواب دیا کہ چند دن ہوئے۔ پوچھا اجازت سے آئے ہو؟ اس کا بھی جواب دیا پھر اپنے ساتھ آنے والے لوگوں کا ذکر اور مقصد بیان کیا ۔ آپ نے فرمایا انہیں جمع کرو سبھی کو ان کے پاس لائے اور ان میں سے ہر ایک کو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا تجھے اللہ اور اسلام حق کی قسم بتاؤ تم نے پورا قرآن کریم پڑھا ہے؟ اس نے کہا ہاں فرمایا کیا تو نے اسے اپنے دل میں محفوظ کر لیا ہے اس نے کہا نہیں اور اگر ہاں کہتا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اسے کماحقہ دلائل سے عاجز کر دیتے پھر فرمایا کیا تم سب نے قرآن حکیم کے مفہوم کو نگاہوں میں زبان میں اور اعمال میں ڈھال لیا ہے پھر ایک ایک سے یہی سوال کیا پھر فرمایا تم عمر کو اس مشقت میں ڈالنا چاہتے ہو کہ لوگوں کو بالکل کتاب اللہ کے مطابق ہی ٹھیک ٹھاک کر دے، ہمارے رب کو پہلے سے ہی ہماری خطاؤں کا علم تھا۔ پھر آپ نے آیت «إِنْ تَجْتَنِبُوا کَبَائِرَ مَا تُنْہَوْنَ عَنْہُ نُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّئَاتِکُمْ وَنُدْخِلْکُمْ مُدْخَلًا کَرِیمًا» (4-النساء:31) کی تلاوت کی ۔ پھر فرمایا کیا اہل مدینہ کو تمہارے آنے کا مقصد معلوم ہے ؟ انہوں نے کہا نہیں فرمایا اگر انہیں بھی اس کا علم ہوتا تو مجھے اس بارے میں انہیں بھی وعظ کرنا پڑتا ۔ اس کی اسناد حسن ہے اور متن بھی حسن ہے گو یہ روایت حسن رحمہ اللہ کی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ہے جس میں انقطاع ہے لیکن اتنے سے نقصان کو اس کی پوری شہرت کافی ہے۔ ابن ابی حاتم میں ہی سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کبیرہ گناہ یہ ہیں اللہ کے ساتھ شریک کرنا ، کسی کو مار ڈالنا ، یتیم کا مال کھانا ، پاکدامن عورتوں کو تہمت لگانا ، لڑائی سے بھاگ جانا ، ہجرت کے بعد دارالکفر میں قیام کر لینا ، جادو کرنا ، ماں باپ کی نافرمانی کرنا ، سود کھانا ، جماعت سے جدا ہونا ، خرید و فروخت کا عہد توڑ دینا ۔ پہلے گزر چکا ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں بڑے سے بڑا گناہ اللہ کے ساتھ شریک کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ کی کشادگی سے مایوس ہونا اور اللہ کی رحمت سے ناامید ہونا ہے اور اللہ عزوجل کی پوشیدہ تدبیروں سے بیخوف ہونا ہے ۔ ابن جریر میں آپ ہی سے روایت ہے کہ سورۃ نساء کی شروع آیت سے لے کر تیس آیتوں تک کبیرہ گناہ کا بیان ہے پھر آپ نے «إِنْ تَجْتَنِبُوا کَبَائِرَ مَا تُنْہَوْنَ عَنْہُ نُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّئَاتِکُمْ وَنُدْخِلْکُمْ مُدْخَلًا کَرِیمًا» (4-النساء:31) کی تلاوت کی ۔ سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کبیرہ گناہ اللہ کے ساتھ شریک کرنا ، ماں باپ کو ناخوش کرنا ، آسودگی کے بعد کے بچے ہوئے پانی کو حاجت مندوں سے روک رکھنا ، اپنے پاس کے نر جانور کو کسی کی مادہ کے لیے بغیر کچھ لیے نہ دینا ۔ بخاری و مسلم کی ایک مرفوع حدیث میں ہے بچا ہوا پانی نہ روکا جائے اور نہ بچی ہوئی گھاس روکی جائے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2353) اور روایت میں ہے تین قسم کے گنہگاروں کی طرف قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نظر رحمت سے نہ دیکھے گا اور نہ ہی انہیں پاک کرے گا بلکہ ان کے لیے درد ناک عذاب ہیں ایک وہ شخص جو جنگل میں بچے ہوئے پانی پر قبضہ کر کے مسافروں کو اس سے روکے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2358) مسند احمد میں ہے جو شخص زائد پانی کو اور زائد گھاس کو روک رکھے اللہ قیامت کے دن اس پر اپنا فضل نہیں کرے گا ۔ ۱؎ (مسند احمد:221/2،قال الشیخ الألبانی:حسن) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کبیرہ گناہ وہ ہیں جو عورتوں سے بیعت لینے کے ذکر میں بیان ہوئے ہیں یعنی «یَا أَیٰہَا النَّبِیٰ إِذَا جَاءَکَ الْمُؤْمِنَاتُ یُبَایِعْنَکَ عَلَیٰ أَنْ لَا یُشْرِکْنَ بِ اللہِ شَیْئًا وَلَا یَسْرِقْنَ وَلَا یَزْنِینَ وَلَا یَقْتُلْنَ أَوْلَادَہُنَّ وَلَا یَأْتِینَ بِبُہْتَانٍ یَفْتَرِینَہُ بَیْنَ أَیْدِیہِنَّ وَأَرْجُلِہِنَّ وَلَا یَعْصِینَکَ فِی مَعْرُوفٍ فَبَایِعْہُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَہُنَّ اللہَ إِنَّ اللہَ غَفُورٌ رَحِیمٌ» (60-الممتحنۃ:12) میں ۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ اس آیت کو اللہ تعالیٰ کے عظیم الشان احسانوں میں بیان فرماتے ہیں اور اس پر بڑی خوشنودی کا اظہار فرماتے ہیں یعنی «إِنْ تَجْتَنِبُوا کَبَائِرَ مَا تُنْہَوْنَ عَنْہُ نُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّئَاتِکُمْ وَنُدْخِلْکُمْ مُدْخَلًا کَرِیمًا» (4-النساء:31) کو ۔ ایک مرتبہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے سامنے لوگوں نے کہا کبیرہ گناہ سات ہیں آپ نے کئی کئی مرتبہ فرمایا سات سے بھی زیادہ ہیں ، دوسری روایت میں ہے آپ نے فرمایا : ” سات ہلکا درجہ ہے ورنہ ستر ہیں “ ، ایک اور شخص کے کہنے پر آپ نے فرمایا : ” وہ سات سو تک ہیں اور سات بہت ہی قریب ہیں ہاں یہ یاد رکھو کہ استغفار کے بعد کبیرہ گناہ کبیرہ نہیں رہتا اور اصرار ، ہمیشگی اور دوام کرنے سے صغیرہ گناہ صغیرہ نہیں رہتا “ ۔ اور سند سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا : ” جس گناہ پر بھی جہنم کی وعید ہے اللہ تعالیٰ کے غضب لعنت یا عذاب کی ہے وہ کبیرہ گناہ ہے اور روایت میں ہے جس کام سے اللہ منع فرما دے اس کا کرنا کبیرہ گناہ ہے یعنی جس کام میں بھی اللہ عزوجل کی نافرمانی ہو وہ بڑا گناہ ہے “ ۔ تابعین کے اقوال بھی ملاحظہ ہوں ، عبیدہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کبیرہ گناہ یہ ہیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا ، قتل نفس بغیر حق ، میدان جہاد میں پیٹھ پھیرنا ، یتیم کا مال اڑانا ، سود خوری ، بہتان بازی ، ہجرت کے بعد وطن دوستی ۔ راوی حدیث ابن عون نے اپنے استاد محمد سے پوچھا کیا جادو کبیرہ گناہ میں نہیں ؟ فرمایا یہ بہتان میں آ گیا ، یہ لفظ بہت سی برائیوں پر مشتمل ہے ، عبید بن عمیر رحمہ اللہ نے کبیرہ گناہوں پر آیات قرآنی بھی تلاوت کر کے سنائیں شرک پر «وَمَنْ یُشْرِکْ بِ اللہِ فَکَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُہُ الطَّیْرُ أَوْ تَہْوِی بِہِ الرِّیحُ فِی مَکَانٍ سَحِیقٍ» ۱؎ (22-الحج:31) الخ یعنی ’ اللہ کے ساتھ شرک کرنے والا گویا آسمان سے گر پڑا اور اسے پرندے لپک لے جائیں یا ہوا اسے دور دراز نامعلوم اور بدترین جگہ پھینک دے ‘ ۔ یتیم کے مال پر «إِنَّ الَّذِینَ یَأْکُلُونَ أَمْوَالَ الْیَتَامَیٰ ظُلْمًا إِنَّمَا یَأْکُلُونَ فِی بُطُونِہِمْ نَارًا وَسَیَصْلَوْنَ سَعِیرًا» ۱؎ (4-النساء:10) الخ یعنی ’ جو لوگ ظلم سے یتیموں کا مال ہڑپ کر لیتے ہیں وہ سب پیٹ میں جہنم کے انگارے بھرتے ہیں ‘ ۔ سود خوری پر «الَّذِینَ یَأْکُلُونَ الرِّبَا لَا یَقُومُونَ إِلَّا کَمَا یَقُومُ الَّذِی یَتَخَبَّطُہُ الشَّیْطَانُ مِنَ الْمَسِّ» ۱؎ (2-البقرۃ:275) الخ یعنی ’ جو لوگ سود خواری کرتے ہیں وہ قیامت کے دن مخبوط الحواس اور پاگل بن کر کھڑے ہوں گے ‘ ۔ بہتان پر «إِنَّ الَّذِینَ یَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ الْغَافِلَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ لُعِنُوا فِی الدٰنْیَا وَالْآخِرَۃِ وَلَہُمْ عَذَابٌ عَظِیمٌ» ۱؎ (24-النور:23) الخ یعنی ’ جو لوگ پاکدامن بےخبر باایمان عورتوں پر تہمت لگائیں ‘ ۔ میدان جنگ سے بھاگنے پر «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِذَا لَقِیتُمُ الَّذِینَ کَفَرُوا زَحْفًا فَلَا تُوَلٰوہُمُ الْأَدْبَارَ» ۱؎ یعنی ’ ایمان والو جب کافروں سے مقابلہ ہو جائے تو پیٹھ نہ دکھاؤ ‘ ۔ ہجرت کے بعد کفرستان میں قیام کرنے پر «إِنَّ الَّذِینَ ارْتَدٰوا عَلَیٰ أَدْبَارِہِمْ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمُ الْہُدَی الشَّیْطَانُ سَوَّلَ لَہُمْ وَأَمْلَیٰ لَہُمْ» ۱؎ (47-محمد:25) یعنی ’ لوگ ہدایت کے بعد مرتد ہو جائیں ‘ ۔ قتل مومن پر «وَمَنْ یَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُہُ جَہَنَّمُ خَالِدًا فِیہَا وَغَضِبَ اللہُ عَلَیْہِ وَلَعَنَہُ وَأَعَدَّ لَہُ عَذَابًا عَظِیمًا» ۱؎ (4-النساء:93) یعنی ’ جو شخص کسی مسلمان کو جان بوجھ کر مار ڈالے اس کی سزا جہنم کا ابدی داخلہ ہے ‘ ۔ عطاء رحمہ اللہ سے بھی کبیرہ گناہوں کا بیان موجود ہے اور اس میں جھوٹی گواہی ہے ۔ مغیرہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ کہا جاتا تھا کہ سیدنا ابوبکر صدیق اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہما کو برا کہنا بھی کبیرہ گناہ ہے ، میں کہتا ہوں علماء کی ایک جماعت نے اسے کافر کہا ہے جو صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو برا کہے ۔ امام مالک بن انس رحمہ اللہ سے یہ مروی ہے ۔ امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں یہ باور نہیں کر سکتا کہ کسی کے دل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہو اور وہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے دشمنی رکھے ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3685،قال الشیخ الألبانی:صحیح مقطوع) زید بن اسلم رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کبائر یہ ہیں ۔ اللہ کے ساتھ شرک کرنا ، اللہ کی آیتوں اور اس کے رسولوں سے کفر کرنا ، جادو کرنا ، اولاد کو مار ڈالنا ، اللہ تعالیٰ سے اولاد اور بیوی کو نسبت دینا اور اسی جیسے وہ اعمال اور وہ اقوال ہیں جن کے بعد کوئی نیکی قبول نہیں ہوتی ہاں کئی ایسے گناہ ہیں جن کے ساتھ دین رہ سکتا ہے اور عمل قبول کیا جا سکتا ہے ایسے گناہوں کو نیکی کے بدلے اللہ عزوجل معاف فرما دیتا ہے ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے مغفرت کا وعدہ ان سے کیا ہے جو کبیرہ گناہوں سے بچیں اور ہم سے یہ بھی ذکر کیا گیا ہے ۔ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ کبیرہ گناہ سے بچو ٹھیک ٹھاک اور درست رہو اور خوشخبری سنو ۔ مسند عبدالرزاق میں بہ سند صحیح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا : ” میری امت کے کبیرہ گناہ کرنے والوں کے لیے بھی ہے “ ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2435-2436،قال الشیخ الألبانی:صحیح) امام ترمذی رحمہ اللہ بھی اسے حسن صحیح فرماتے ہیں گو اس روایت کی اور سندیں ضعف سے خالی نہیں مگر اسکے جو شواھد ہیں ان میں سے بھی صحیح روایات ہیں مثلاً ایک حدیث میں ہے کیا تم یہ جانتے ہو کہ میری شفاعت صرف متقیوں اور مومنوں کے لیے ہے ؟ نہیں نہیں بلکہ وہ خطا کاروں اور گناہوں سے آلودہ لوگوں کے لیے بھی ہے ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:4311،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اب علماء کرام کے اقوال سنئے جن میں یہ بتایا گیا ہے کہ کبیرہ گناہ کسے کہتے ہیں بعض تو کہتے ہیں کبیرہ گناہ وہ ہیں جس پر حد شرعی ہو ۔ بعض کہتے ہیں جس پر قرآن میں یا حدیث میں کسی سزاکا ذکر ہو ۔ بعض کا قول ہے جس سے دین داری کم ہوتی ہو اور دیانت داری میں کمی واقع ہوتی ہو ۔ قاضی ابوسعید ہروی رحمہ اللہ فرماتے ہیں جس کا حرام ہونا لفظوں سے ثابت ہو اور جس نافرمانی پر کوئی حد ہو جیسے قتل وغیرہ اسی طرح ہر فریضہ کا ترک اور جھوٹی گواہی اور جھوٹی روایت اور جھوٹی قسم ۔ قاضی روبانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کبائر ساتھ ہیں بےوجہ کسی کو مار ڈالنا ، زنا ، لواطت ، شراب نوشی ، چوری ، غصب ، تہمت اور ایک آٹھویں چیز بھی دوسری روایات میں مروی ہے یعنی جھوٹی گواہی اور اسی کے ساتھ یہ بھی شامل کئے گئے ہیں سود خواری ، رمضان کے روزے کا بلا عذر ترک کر دینا ، جھوٹی قسم ، قطع رحمی ، ماں باپ کی نافرمانی ، جہاد سے بھاگنا ، یتیم کا مال کھانا ، ناپ تول میں خیانت کرنا نماز وقت سے پہلے یا وقت گزار کے بےعذر ادا کرنا ، مسلمان کو بےوجہ مارنا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جان کر جھوٹ باندھنا آپ کے صحابیوں کو گالی دینا اور بے سبب گواہی چھپانا، رشوت لینا، مردوں اور عورتوں میں ناچاقی کرا دینا، بادشاہ کے پاس چغل خوری کرنا، زکوٰۃ روک لینا، باوجود قدرت کے بھلی باتوں کا حکم نہ کرنا بری باتوں سے نہ روکنا ، قرآن سیکھ کر بھول جانا ، جاندار چیز کو آگ سے جلانا ، عورت کا اپنے خاوند کے پاس بےسبب نہ آنا ، رب کی رحمت سے ناامید ہو جانا ، اللہ کے مکر سے بےخوف ہو جانا ، اہل علم اور عاملان قرآن کی برائیاں کرنا ، ظہار کرنا ، سور کا گوشت کھانا ، مردار کھانا ، ہاں اگر بوجہ ضرورت اور اضطراب کے کھایا کھایا ہو تو اور بات ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ان میں سے بعض میں توقف کی گنجائش ہے ؟ کبائر کے بارے میں بزرگان دین نے بہت سی کتابیں بھی تصنیف فرمائی ہیں ہمارے شیخ حافظ ابوعبداللہ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی ایک کتاب لکھی ہے جس میں ستر کبیرہ گناہ گنوائے ہیں ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ کبیرہ گناہ وہ ہے جس پر شارع علیہ السلام نے جہنم کی وعید سنائی ہے ۔ اس قسم کے گناہ ہی اگر گنے جائیں تو بہت نکلیں گے اور اگر کبیرہ گناہ ہر اس کام کو کہا جائے جس سے شارع علیہ السلام نے روک دیا ہے تو بہت ہی ہو جائیں گے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» النسآء
31 سات کبیرہ گناہ جن سات گناہوں کا اس میں ذکر ہے ان کی تفصیل بخاری مسلم میں اس طرح ہے گناہوں سے بچو جو ہلاک کرنے والے ہیں پوچھا گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہ کون سے گناہ ہیں ؟ فرمایا اللہ کے ساتھ شرک کرنا اور جس کا قتل حرام ہو اسے قتل کرنا ہاں کسی شرعی وجہ سے اس کا خون حلال ہو گیا ہو تو اور بات ہے ۔ جادو کرنا ، سود کھانا اور یتیم کا مال کھانا اور میدان جنگ سے کفار کے مقابلے میں پیٹھ دکھانا اور بھولی بھالی پاک دامن مسلمان عورتوں کو تہمت لگانا ۔ ایک روایت میں جادو کے بدلے ہجرت کر کے پھر واپس اپنے دیس میں قیام کر لینا ہے ۔ یہ یاد رہے کہ ان سات گناہوں کو کبیرہ کہنے سے یہ مطلب نہیں کہ کبیرہ گناہ صرف یہی ہیں جیسے کہ بعض اور لوگوں کا خیال ہے جن کے نزدیک مفہوم مخالف معتبر ہے ۔ دراصل یہ بہت انتہائی بیمعنی قول اور غلط اصول ہے بالخصوص اس وقت جبکہ اس کے خلاف دلائل موجود ہوں اور یہاں تو صاف لفظوں میں اور کبیرہ گناہوں کا بھی ذکر موجود ہے ۔ مندرجہ ذیل حدیثیں ملاحظہ ہوں ۔ مستدرک حاکم میں ہے کہ حجتہ الوداع میں رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگو سن لو اللہ تعالیٰ کے ولی صرف نمازی ہی ہیں جو پانچوں وقت کی فرض نمازوں کو باقاعدہ بجا لاتے ہیں جو رمضان شریف کے روزے رکھتے ہیں ثواب حاصل کرنے کی نیت رکھے اور فرض جان کر ہنسی خوشی زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور ان تمام کبیرہ گناہوں سے دور رہتے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے روک دیا ہے ۔ ایک شخص نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ کبیرہ گناہ کیا ہیں ؟ آپ نے فرمایا شرک ، قتل ، میدان جنگ سے بھاگنا ، مال یتیم کھانا ، سود خوری ، پاکدامنوں پر تہمت لگانا ، ماں باپ کی نافرمانی کرنا ، بیت اللہ الحرام کی حرمت کو توڑنا جو زندگی اور موت میں تمہارا قبلہ ہے سنو جو شخص مرتے دم تک ان بڑے گناہوں سے اجتناب کرتا رہے اور نماز و زکوٰۃ کی پابندی کرتا رہے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنت میں سونے کے محلوں میں ہو گا ۔ حضرت طیسلہ بن میامن فرماتے ہیں مجھ سے ایک گناہ ہو گیا جو میرے نزدیک کبیرہ تھا ، میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا وہ کبیرہ گناہ نہیں کبیرہ گناہ نو ہیں ۔ اللہ کے ساتھ شرک کرنا کسی کو بلا وجہ مار ڈالنا ، میدان جنگ میں دشمنان دین کو پیٹھ دکھانا ، پاکدامن عورتوں کو تہمت لگانا ، سود کھانا ، یتیم کا مال ظلم سے کھا جانا ، مسجد الحرام میں الحاد پھیلانا اور ماں باپ کو نافرمانی کے سبب رلانا ، طیسلہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس بیان کے بعد بھی ابن عمر رضی اللہ عنہا نے محسوس کیا کہ خوف کم نہیں ہوا تو فرمایا کیا تمہارے دل میں جہنم کی آگ میں داخل ہونے کا ڈر اور جنت میں جانے کی چاہت ہے ؟ میں نے کہا بہت زیادہ فرمایا کیا تمہارے ماں باپ زندہ ہیں ؟ میں نے کہا صرف والدہ حیات ہیں ، فرمایا بس تم ان سے نرم کلامی سے بولا کرو اور انہیں کھانا کھلاتے رہا کرو اور ان کبیرہ گناہوں سے بچتے رہا کرو تو تم یقیناً جنت میں جاؤ گے ۔ اور روایت میں ہے کہ طیسلہ بن علی نہدی ابن عمر رضی اللہ عنہا سے میدان عرفات میں عرفہ کے دن پیلو کے درخت تلے ملے تھے اس وقت عبداللہ رضی اللہ عنہ اپنے سر اور چہرے پر پانی بہا رہے تھے اس میں یہ بھی ہے کہ جب عبداللہ رضی اللہ عنہا نے تہمت لگانے کا ذکر کیا تو میں نے پوچھا کیا یہ بھی مثل قتل کے بہت بڑا گناہ ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں ہاں اور ان گناہوں کے ذکر میں جادو کا ذکر بھی ہے اور روایت میں ہے کہ میری ان کی ملاقات شام کے وقت ہوئی تھی اور میں نے ان سے کبائر کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ کبائر سات ہیں میں نے پوچھا کیا کیا ؟ تو فرمایا شرک اور تہمت لگانا میں نے کہا کیا یہ بھی مثل خون ناحق کے ہے ؟ فرمایا ہاں ہاں اور کسی مومن کو بےسبب مار ڈالنا ، لڑائی سے بھاگنا ، جادو اور سود خواری ، مال یتیم کھانا ، والدین کی نافرمانی اور بیت اللہ میں الحاد پھیلانا جو زندگی میں اور موت میں تمہارا قبلہ ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو اللہ کا بندہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے نماز قائم رکھے زکوٰۃ ادا کرے رمضان کے روزے رکھے اور کبیرہ گناہوں سے بچے وہ جنتی ہے ، ایک شخص نے پوچھا کبائر کیا ہیں ؟ آپ نے فرمایا اللہ کے ساتھ شرک کرنا مسلمان کو قتل کرنا لڑائی والے دن بھاگ کھڑا ہونا ۔ ابن مردویہ میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل یمن کو ایک کتاب لکھوا کر بھجوائی جس میں فرائض اور سنن کی تفصیلات تھیں دیت یعنی جرمانوں کے احکام تھے اور یہ کتاب عمرو بن حزم رضی اللہ عنہا کے ہاتھ اہل یمن کو بھجوائی گئی تھی اس کتاب میں یہ بھی تھا کہ قیامت کے دن تمام کبیرہ گناہوں میں سب سے بڑا کبیرہ گناہ یہ ہے کہ انسان اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرے اور ایماندار شخص کا قتل بغیر حق کے اور اللہ کی راہ میں جہاد کے میدان میں جا کر لڑتے ہوئے نامردی سے جان بچانے کی خاطر بھاگ کھڑا ہونا اور ماں باپ کی نافرمانی کرنا اور ناکردہ گناہ عورتوں پر الزام لگانا اور جادو سیکھنا اور سود کھانا اور مال یتیم برباد کرنا ۔ ایک اور روایت میں کبیرہ گناہوں کے بیان میں جھوٹی بات یا جھوٹی شہادت بھی ہے اور حدیث میں ہے کہ کبیرہ گناہوں کے بیان کے وقت آپ ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے تھے لیکن جب یہ بیان فرمایا کہ جھوٹی گواہی اور جھوٹی بات اس وقت آپ تکیے سے ہٹ گئے اور بڑے زور سے اس بات کو بیان فرمایا اور باربار اسی کو دہراتے رہے یہاں تک کہ ہم نے دل میں سوچا کاش اب آپ نہ دہرائیں ۔ بخاری مسلم میں ہے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہا نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کون سا گناہ سب سے بڑا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ تو اللہ تعالیٰ کا کسی کو شریک کرے یہ جانتے ہوئے کہ تجھے صرف اسی نے پیدا کیا ہے ؟ میں نے پوچھا اس کے بعد ؟ فرمایا یہ کہ تو اپنے بچے کو اس ڈر سے قتل کر دے کہ وہ تیرے ساتھ کھائے گا ، میں نے پوچھا پھر کون سا گناہ بڑا ہے ؟ فرمایا یہ کہ تو اپنی پڑوسن سے بدکاری کرے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت «‏‏‏‏وَالَّذِینَ لَا یَدْعُونَ مَعَ اللہِ إِلٰہًا آخَرَ وَلَا یَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِی حَرَّمَ اللہُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا یَزْنُونَ ۚ وَمَن یَفْعَلْ ذٰلِکَ یَلْقَ أَثَامًا یُضَاعَفْ لَہُ الْعَذَابُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَیَخْلُدْ فِیہِ مُہَانًا إِلَّا مَن تَابَ» ( 25-الفرقان : 68-70 ) ‏‏‏‏ تک پڑھی ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ عبداللہ بن عمرو بن رضی اللہ عنہا مسجد الحرام میں حطیم کے اندر بیٹھے ہوئے تھے جو ایک شخص نے شراب کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا مجھ جیسا بوڑھا بڑی عمر کا آدمی اس جگہ بیٹھ کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ نہیں بول سکتا شراب کا پینا تمام گناہوں سے بڑا گناہ ہے ؟ یہ کام تمام خباثتوں کی ماں ہے شرابی تارک نماز ہوتا ہے وہ اپنی ماں اور خالہ اور پھوپھی سے بھی بدکاری کرنے سے نہیں چوکتا یہ حدیث غریب ہے ۔ ابن مردویہ میں ہے کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہا عمر فاروق رضی اللہ عنہا اور دوسرے بہت سے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین ایک مرتبہ ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے وہاں کبیرہ گناہوں کا ذکر نکلا کہ سب سے بڑا گناہ کیا ہے ؟ تو کسی کے پاس مصدقہ جواب نہ تھا اس لیے انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ کو بھیجا کہ تم جا کر عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہا سے دریافت کر آؤ میں گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ سب سے بڑا گناہ شراب پینا ہے میں نے واپس آ کر اس مجلس میں یہ جواب سنا دیا اس پر اہل مجلس کو تسکین نہ ہوئی اور سب حضرات اٹھ کر عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہا کے گھر چلے اور خود ان سے دریافت کیا تو انہوں نے بیان کیا کہ لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک واقعہ بیان کیا کہ بنی اسرائیل کے بادشاہوں میں سے ایک نے ایک شخص کو گرفتار کیا پھر اس سے کہا کہ یا تو تو اپنی جان سے ہاتھ دھو ڈال یا ان کاموں میں سے کسی ایک کو کر یعنی یا تو شراب پی یا خون ناحق کر یا زنا کر یا سور کا گوشت کھا اس غور و تفکر کے بعد اس نے جان جانے کے ڈر سے شراب کو ہلکی چیز سمجھ کر پینا منظور کر لیا جب شراب پی لی تو پھر نشہ میں وہ ان تمام کاموں کو کر گزرا جن سے وہ پہلے رکا تھا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ واقعہ گوش گزار فرما کر ہم سے فرمایا جو شخص شراب پیتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی نمازیں چالیس رات تک قبول نہیں فرماتا اور جو شراب پینے کی عادت میں ہی مر جائے اور اس کے مثانہ میں تھوڑی سی شراب ہو اس پر اللہ جنت کو حرام کر دیتا ہے ۔ اگر شراب پینے کے بعد چالیس راتوں کے اندر اندر مرے تو اس کی موت جاہلیت کی موتی ہوتی ہے ، یہ حدیث غریب ہے ، ایک اور حدیث میں جھوٹی قسم کو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبیرہ گناہوں میں شمار فرمایا ہے ( بخاری وغیرہ ) ابن ابی حاتم میں جھوٹی قسم کے بیان کے بعد یہ فرمان بھی ہے کہ جو شخص اللہ کی قسم کھا کر کوئی بات کہے اور اس نے مچھر کے پر برابر زیادتی کی اس کے دل میں ایک سیاہ داغ ہو جاتا ہے جو قیامت تک باقی رہتا ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ انسان کا اپنے ماں باپ کو گالی دینا کبیرہ گناہ ہے لوگوں نے پوچھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ماں باپ کو کیسے گالی دے گا ؟ آپ نے فرمایا اس طرح کہ اس نے دوسرے کے باپ کو گالی دی اس نے اس کے باپ کو اس نے اس کی ماں کو برا کہا اس نے اس کی ماں کو ۔ بخاری شریف میں ہے سب سے بڑا کبیرہ گناہ یہ ہے کہ آدمی اپنے ماں باپ پر لعنت کرے لوگوں نے کہا یہ کیسے ہوسکتا ہے فرمایا دوسرے کے ماں باپ کو کہہ کر اپنے ماں باپ کو کہلوانا ۔ صحیح حدیث میں ہے مسلمان کو گالی دینا فاسق بنا دیتا ہے اور اسے قتل کرنا کفر ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ اکبر الکبائر یعنی تمام کبیرہ گناہوں میں بڑا گناہ کسی مسلمان کی آبرو ریزی کرنا ہے اور ایک گالی کے بدلے دو گالیاں دینا ہے ۔ ترمذی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے دو نمازوں کو عذر کے بغیر جمع کیا وہ کبیرہ گناہوں کے دروازوں میں سے ایک دروازے میں گھسا ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہا کی کتاب جو ہمارے سامنے پڑھی گئی اس میں یہ بھی تھا کہ دو نمازوں کو بغیر شرعی عذر کے جمع کرنا کبیرہ گناہ ہے ، اور لڑائی کے میدان سے بھاگ کھڑا ہونا اور لوٹ کھسوٹ کرنا بھی کبیرہ گناہ ہے ، الغرض ظہر عصر یا مغرب عشاء پہلے وقت یا پچھلے وقت بغیر کسی شرعی رخصت کے جمع کر کے پڑھنا کبیرہ گناہ ہے ۔ پھر جو شخص کہ بالکل ہی نہ پڑھے اس کے گناہ کا تو کیا ٹھکانہ ہے ؟ چنانچہ صحیح مسلم شریف میں ہے کہ بندے اور شرک کے درمیان نماز کا چھوڑ دینا ہے ، سنن کی ایک حدیث میں ہے کہ ہم میں اور کافر میں فرق کرنے والی چیز نماز کا چھوڑ دینا ہے ، جس نے اسے چھوڑا اس نے کفر کیا اور روایت میں آپ کا یہ فرمان بھی منقول ہے کہ جس نے عصر کی نماز ترک کر دی اس کے اعمال غارت ہوئے اور حدیث میں ہے جس سے عصر کی نماز فوت ہوئی گویا اس کا مال اس کا اہل و عیال بھی ہلاک ہو گئے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ کبیرہ گناہ کیا کیا ہیں ؟ آپ نے فرمایا اللہ کے ساتھ شرک کرنا ، اللہ کی نعمت اور اس کی رحمت سے ناامید ہونا اور اس خفیہ تدبیروں سے بیخوف ہو جانا اور یہ سب سے بڑا گناہ ہے اسی کے مثل ایک روایت اور بھی بزار میں مروی ہے لیکن زیادہ ٹھیک یہ ہے کہ وہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہا پر موقوف ہے ، ابن مردویہ میں ہے ابن عمر رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں سب سے کبیرہ گناہ اللہ عزوجل کے ساتھ بدگمانی کرنا ہے ، یہ روایت بہت ہی غریب ہے ، پہلے وہ حدیث بھی گزر چکی ہے جس میں ہجرت کے بعد کفرستان میں آ کر بسنے کو بھی کبیرہ گناہ فرمایا ہے ، یہ حدیث ابن مردویہ میں ہے ، سات کبیرہ گناہوں میں اسے بھی گنا گیا ہے لیکن اس کی اسناد میں اختلاف ہے اور اسے مرفوع کہنا بالکل غلط ہے ٹھیک بات وہی ہے جو تفسیر ابن جریر میں مروی ہے کہ علی رضی اللہ عنہا کوفے کی مسجد میں ایک مرتبہ منبر پر کھڑے ہو کر لوگوں کو خطبہ سنا رہے تھے جس میں فرمایا لوگو کبیرہ گناہ سات ہیں اسے سن کر لوگ چیخ اٹھے آپ نے اسی کو پھر دوہرایا پھر دوہرایا پھر فرمایا تم مجھ سے ان کی تفصیل کیوں نہیں پوچھتے ؟ لوگوں نے کہا امیر المؤمنین فرمائیے وہ کیا ہیں ؟ آپ نے فرمایا اللہ کے ساتھ شرک کرنا جس جان کو مار ڈالنا اللہ نے حرام کیا ہے اسے مار ڈالنا پاکدامن عورتوں پر تہمت لگانا یتیم کا مال کھانا سود خوری کرنا لڑائی کے دن پیٹھ دکھانا اور ہجرت کے بعد پھر دارالکفر میں آبسنا ۔ راوی حدیث محمد بن سہل رحمہ اللہ نے اپنے والد سہل بن خیثمہ رحمہ اللہ سے پوچھا کہ اسے کبیرہ گناہوں میں کیسے داخل کیا تو جواب ملا کہ پیارے بچے اس سے بڑھ کر ستم کیا ہو گا ؟ کہ ایک شخص ہجرت کر کے مسلمانوں میں ملے مال غنیمت میں اس کا حصہ مقرر ہو جائے مجاہدین میں اس کا نام درج کر دیا جائے پھر وہ ان تمام چیزوں کو چھوڑ کر اعرابی بن جائے اور دارالکفر میں چلا جائے اور جیسا تھا ویسا ہی ہو جائے ۔ مسند احمد میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حجتہ الوداع کے خطبہ میں فرمایا خبردار خبردار اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو خون ناحق سے بچو ( ہاں شرعی اجازت اور چیز ہے ) زناکاری نہ کرو چوری نہ کرو ۔ وہ حدیث پہلے گزر چکی ہے جس میں ہے کہ وصیت کرنے میں کسی کو نقصان پہنچانا بھی کبیرہ گناہ ہے ابن جریر میں ہے کہ صحابہ نے ایک مرتبہ کبیرہ گناہوں کو دہرایا کہ اللہ کے ساتھ شریک کرنا یتیم کا مال کھانا لڑائی سے بھاگ کھڑا ہونا ، پاکدامن بےگناہ عورتوں پر تہمت لگانا ، ماں باپ کی نافرمانی کرنا ، جھوٹ بولنا ، دھوکہ دینا ، خیانت کرنا ، جادو کرنا ، سود کھانا یہ سب کبیرہ گناہ ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور اس گناہ کو کیا کہو گے ؟ جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی تھوڑی قیمت پر بیچتے پھرتے ہیں آخر آیت تک آپ نے تلاوت کی ۔ اس کی اسناد میں ضعف ہے اور یہ حدیث حسن ہے ، پس ان تمام احادیث میں کبیرہ گناہوں کا ذکر موجود ہے ۔ اب اس بارے میں سلف صالحین رحمۃ اللہ علیہم اجمعین کے جو اقوال ہیں وہ ملاحظہ ہوں ، ابن جریر میں منقول ہے چند لوگوں نے مصر میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ بہت سی باتیں کتاب اللہ میں ہم ایسی پاتے ہیں کہ جن پر ہمارا عمل نہیں اس لیے ہم امیر المؤمنین عمر رضی اللہ عنہا سے اس بارے میں دریافت کرنا چاہتے ہیں ، ابن عمر رضی اللہ عنہا انہیں لے کر مدینہ آئے اپنے والد سے ملے آپ نے پوچھا کب آئے ہو ؟ جواب دیا کہ چند دن ہوئے ۔ پوچھا اجازت سے آئے ہو ؟ اس کا بھی جواب دیا پھر اپنے ساتھ آنے والے لوگوں کا ذکر اور مقصد بیان کیا آپ نے فرمایا انہیں جمع کرو سبھی کو ان کے پاس لائے اور ان میں سے ہر ایک کو عمر رضی اللہ عنہا نے پوچھا تجھے اللہ اور اسلام حق کی قسم بتاؤ تم نے پورا قرآن کریم پڑھا ہے ؟ اس نے کہا ہاں فرمایا کیا تو نے اسے اپنے دل میں محفوظ کر لیا ہے اس نے کہا نہیں اور اگر ہاں کہتا تو عمر رضی اللہ عنہا اسے کماحقہ دلائل سے عاجز کر دیتے پھر فرمایا کیا تم سب نے قرآن حکیم کے مفہوم کو نگاہوں میں زبان میں اور اعمال میں ڈھال لیا ہے پھر ایک ایک سے یہی سوال کیا پھر فرمایا تم عمر کو اس مشقت میں ڈالنا چاہتے ہو کہ لوگوں کو بالکل کتاب اللہ کے مطابق ہی ٹھیک ٹھاک کر دے ، ہمارے رب کو پہلے سے ہی ہماری خطاؤں کا علم تھا ۔ پھر آپ نے آیت « إِن تَجْتَنِبُوا کَبَائِرَ مَا تُنْہَوْنَ عَنْہُ نُکَفِّرْ عَنکُمْ سَیِّئَاتِکُمْ وَنُدْخِلْکُم مٰدْخَلًا کَرِیمًا» ( 4 ۔ النسآء : 31 ) کی تلاوت کی ۔ پھر فرمایا کیا اہل مدینہ کو تمہارے آنے کا مقصد معلوم ہے ؟ انہوں نے کہا نہیں فرمایا اگر انہیں بھی اس کا علم ہوتا تو مجھے اس بارے میں انہیں بھی وعظ کرنا پڑتا ۔ اس کی اسناد حسن ہے اور متن بھی گو یہ روایت حسن کی عمر رضی اللہ عنہا سے ہے جس میں انقطاع ہے لیکن پھر بھی اتنے سے نقصان پر اس کی پوری شہرت بھاری ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہی علی رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں کبیرہ گناہ یہ ہیں اللہ کے ساتھ شریک کرنا ، کسی کو مار ڈالنا ، یتیم کا مال کھانا ، پاکدامن عورتوں کو تہمت لگانا ، لڑائی سے بھاگ جانا ، ہجرت کے بعد دارالکفر میں قیام کر لینا ، جادو کرنا ، ماں باپ کی نافرمانی کرنا ، سود کھانا ، جماعت سے جدا ہونا ، خرید و فروخت کا عہد توڑ دینا ، پہلے گزر چکا ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں بڑے سے بڑا گناہ اللہ کے ساتھ شریک کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ کی وسعت رحمت سے مایوس ہونا اور اللہ کی رحمت سے ناامید ہونا ہے اور اللہ عزوجل کی پوشیدہ تدبیروں سے بیخوف ہونا ہے ۔ ابن جریر میں آپ ہی سے روایت ہے کہ سورۃ نساء کی شروع آیت سے لے کر تیس آیتوں تک کبیرہ گناہ کا بیان ہے پھر آپ نے آیت « إِن تَجْتَنِبُوا کَبَائِرَ مَا تُنْہَوْنَ عَنْہُ نُکَفِّرْ عَنکُمْ سَیِّئَاتِکُمْ وَنُدْخِلْکُم مٰدْخَلًا کَرِیمًا» ( 4 ۔ النسآء : 31 ) ‏‏‏‏ کی تلاوت کی ۔ حضرت بریدہ رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں کبیرہ گناہ اللہ کے ساتھ شریک کرنا ماں باپ کو ناخوش کرنا آسودگی کے بعد کے بچے ہوئے پانی کو حاجت مندوں سے روک رکھنا اپنے پاس کے نر جانور کو کسی کی مادہ کے لیے بغیر کچھ لیے نہ دینا ، بخاری و مسلم کی ایک مرفوع حدیث میں ہے بچا ہوا پانی نہ روکا جائے اور نہ بچی ہوئی گھاس روکی جائے ، اور روایت میں ہے تین قسم کے گنہگاروں کی طرف قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نظر رحمت سے نہ دیکھے گا اور نہ ہی ان کی فرد جرم ہٹائے گا بلکہ ان کے لیے درد ناک عذاب ہیں ایک وہ شخص جو جنگل میں بچے ہوئے پانی پر قبضہ کر کے مسافروں کو اس سے روکے ۔ مسند احمد میں ہے جو شخص زائد پانی کو اور زائد گھاس کو روک رکھے اللہ قیامت کے دن اس پر اپنا فضل نہیں کرے گا ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کبیرہ گناہ وہ ہیں جو عورتوں سے بیعت لینے کے ذکر میں بیان ہوئے ہیں یعنی آیت « عَلَیٰ أَن لَّا یُشْرِکْنَ بِ اللہِ شَیْئًا» ( 60 ۔ الممتحنہ : 12 ) ‏‏‏‏ میں ۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہا اس آیت کو اللہ تعالیٰ کے عظیم الشان احسانوں میں بیان فرماتے ہیں اور اس پر بڑی خوشنودی کا اظہار فرماتے ہیں یعنی آیت « إِن تَجْتَنِبُوا کَبَائِرَ مَا تُنْہَوْنَ عَنْہُ نُکَفِّرْ عَنکُمْ سَیِّئَاتِکُمْ وَنُدْخِلْکُم مٰدْخَلًا کَرِیمًا» ( 4 ۔ النسآء : 31 ) ‏‏‏‏ کو ۔ ایک مرتبہ ابن عباس رضی اللہ عنہا کے سامنے لوگوں نے کہا کبیرہ گناہ سات ہیں آپ نے کئی کئی مرتبہ فرمایا سات ہیں ، دوسری روایت میں ہے آپ نے فرمایا سات ہلکا درجہ ہے ورنہ ستر ہیں ، ایک اور شخص کے کہنے پر آپ نے فرمایا وہ سات سو تک ہیں اور سات بہت ہی قریب ہیں ہاں یہ یاد رکھو کہ استغفار کے بعد کبیرہ گناہ کبیرہ نہیں رہتا اور اصرار اور تکرار سے صغیرہ گناہ صغیرہ نہیں رہتا ، اور سند سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا جس گناہ پر بھی جہنم کی وعید اللہ تعالیٰ کے غضب لعنت یا عذاب کی ہے وہ کبیرہ گناہ ہے اور روایت میں ہے جس کام سے اللہ منع فرما دے اس کا کرنا کبیرہ گناہ ہے یعنی کام میں بھی اللہ عزوجل کی نافرمانی ہو وہ بڑا گناہ ہے ۔ تابعین کے اقوال بھی ملاحظہ ہوں ، عبیدہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کبیرہ گناہ یہ ہیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک ، قتل نفس بغیر حق ، میدان جہاد میں پیٹھ پھیرنا ، یتیم کا مال اڑانا ، سود خوری ، بہتان بازی ، ہجرت کے بعد وطن دوستی ۔ راوی حدیث ابن عون نے اپنے استاد محمد سے پوچھا کیا جادو کبیرہ گناہ میں نہیں ؟ فرمایا یہ بہتان میں آ گیا ، یہ لفظ بہت سی برائیوں پر مشتمل ہے ، عبید بن عمیر رحمہ اللہ نے کبیرہ گناہوں پر آیات قرآنی بھی تلاوت کر کے سنائیں شرک پر «وَمَن یُشْرِکْ بِ اللہِ فَکَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُہُ الطَّیْرُ أَوْ تَہْوِی بِہِ الرِّیحُ فِی مَکَانٍ سَحِیقٍ» ( 22 ۔ الحج : 31 ) ‏‏‏‏ یعنی اللہ کے ساتھ شرک کرنے والا گویا آسمان سے گر پڑا اور اسے پرندے لپک لے جائیں یا ہوا اسے دور دراز نامعلوم اور بدترین جگہ پھینک دے ۔ یتیم کے مال پر «‏‏‏‏إِنَّ الَّذِینَ یَأْکُلُونَ أَمْوَالَ الْیَتَامَیٰ ظُلْمًا إِنَّمَا یَأْکُلُونَ فِی بُطُونِہِمْ نَارًا» ‏‏‏‏ ( 4-النسأ : 10 ) یعنی جو لوگ ظلم سے یتیموں کا مال ہڑپ کر لیتے ہیں وہ سب پیٹ میں جہنم کے انگارے بھرتے ہیں ۔ سود خواری پر «‏‏‏‏اَلَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا کَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ ، » ( 2 ۔ البقرہ : 175 ) ‏‏‏‏ یعنی جو لوگ سود خواری کرتے ہیں وہ قیامت کے دن مخبوط الحواس اور پاگل بن کر کھڑے ہوں گے ۔ بہتان پر «اِنَّ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ الْغٰفِلٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ لُعِنُوْا فِی الدٰنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ ۠ وَلَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ» ( 24 ۔ النور : 23 ) ‏‏‏‏ جو لوگ پاکدامن بیخبر باایمان عورتوں پر تہمت لگائیں ۔ میدان جنگ سے بھاگنے پر «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِذَا لَقِیتُمُ الَّذِینَ کَفَرُوا زَحْفًا فَلَا تُوَلٰوہُمُ الْأَدْبَارَ » ( 8-الأنفال : 15 ) ‏‏‏‏ ایمان والو جب کافروں سے مقابلہ ہو جائے تو پیٹھ نہ دکھاؤ ، ہجرت کے بعد کفرستان میں قیام کرنے پر «إِنَّ الَّذِینَ ارْتَدٰوا عَلَیٰ أَدْبَارِہِم مِّن بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمُ الْہُدَی » ( 47 ۔ محمد : 25 ) یعنی لوگ ہدایت کے بعد مرتد ہو جائیں ، قتل مومن پر «وَمَن یَقْتُلْ مُؤْمِنًا مٰتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُہُ جَہَنَّمُ خَالِدًا فِیہَا » ( 4-النساء : 93 ) ‏‏‏‏ یعنی جو شخص کسی مسلمان کو جان بوجھ کر مار ڈالے اس کی سزا جہنم کا ابدی داخلہ ہے ۔ عطا رحمتہ اللہ علیہ سے بھی کبیرہ گناہوں کا بیان موجود ہے اور اس میں جھوٹی گواہی ہے ، مغیرہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ کہا جاتا تھا کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہا اور عمر فاروق رضی اللہ عنہا کو برا کہنا بھی کبیرہ گناہ ہے ، میں کہتا ہوں علماء کی ایک جماعت نے اسے کافر کہا ہے جو صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو برا کہے ۔ حضرت امام مالک بن انس رحمتہ اللہ علیہ سے یہ مروی ہے ، امام محمد بن سیرین رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں میں یہ باور نہیں کر سکتا کہ کسی کے دل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہو اور وہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہا سے دشمنی رکھے ( ترمذی ) زید بن اسلم رحمتہ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کبائر یہ ہیں ۔ اللہ کے ساتھ شرک کرنا اللہ کی آیتوں اور اس کے رسولوں سے کفر کرنا جادو کرنا اولاد کو مار ڈالنا اللہ تعالیٰ سے اولاد اور بیوی کی نسبت دینا اور اسی جیسے وہ اعمال اور وہ اقوال ہیں جن کے بعد کوئی نیکی قبول نہیں ہوتی ہاں کی ایسے گناہ ہیں جن کے ساتھ دین رہ سکتا ہے اور عمل قبول کر سکتا ہے ایسے گناہوں کو نیکی کے بدلے اللہ عزوجل معاف فرما دیتا ہے ۔ حضرت قتادہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے مغفرت کا وعدہ ان سے کیا ہے جو کبیرہ گناہوں سے بچیں اور ہم سے یہ بھی ذکر کیا گیا ہے ۔ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ کبیرہ گناہ سے بچو ٹھیک ٹھاک اور درست رہو اور خوشخبری سنو ۔ مسند عبدالرزاق میں بہ سند صحیح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا میری شفاعت صرف متقیوں اور مومنوں کے لیے ؟ نہیں نہیں بلکہ وہ خطا کاروں اور گناہوں سے آلودہ لوگوں کے لیے بھی ہے ۔ اب علماء کرام کے اقوال سنئے جن میں یہ بتایا گیا ہے کہ کبیرہ گناہ کسے کہتے ہیں بعض تو کہتے ہیں کبیرہ گناہ وہ ہے جس پر حد شرعی ہو ۔ بعض کہتے ہیں جس پر قرآن میں یا حدیث میں کسی سزاکا ذکر ہو ۔ بعض کا قول ہے جس سے دین داری کم ہوتی ہو اور دیانت داری میں کمی واقع ہوتی ہو ۔ قاضی ابوسعید ہروی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں جس کا حرام ہونا لفظوں سے ثابت ہو اور جس نافرمانی پر کوئی حد ہو جیسے قتل وغیرہ اسی طرح ہر فریضہ کا ترک اور جھوٹی گواہی اور جھوٹی روایت اور جھوٹی قسم ۔ قاضی روبانی فرماتے ہیں کبائر ساتھ ہیں بیوجہ کسی کو مار ڈالنا ، زنا ، لواطت ، شراب نوشی ، چوری ، غصب ، تہمت اور ایک آٹھویں گواہی اور اسی کے ساتھ یہ بھی شامل کئے گئے ہیں سود خواری ، رمضان کے روزے کا بلا عذر ترک کر دینا ، جھوٹی قسم ، قطع رحمی ، ماں باپ کی نافرمانی ، جہاد سے بھاگنا ، یتیم کا مال کھانا ، ناپ تول میں خیانت کرنا نماز وقت سے پہلے یا وقت گزار کے بےعذر ادا کرنا ، مسلمان کو بیوجہ مارنا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جان کر جھوٹ باندھنا آپ کے صحابیوں کو گالی دینا اور قدرت کے بھلی باتوں کا حکم نہ کرنا بری باتوں سے نہ روکنا ، قرآن سیکھ کر بھول جانا ، جاندار چیز کو آگ سے جلانا ، عورت کا اپنے خاوند کے پاس بےسبب نہ آنا ، رب کی رحمت سے ناامید ہو جانا ، اللہ کے مکر سے بیخوف ہو جانا ، اہل علم اور عاملان قرآن کی برائیاں کرنا ، ظہار کرنا ، سور کا گوشت کھانا ، مردار کھانا ، ہاں اگر بوجہ ضرورت اور اضطراب کے کھایا ہو تو ادویات کے مصداق ہے ۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ان میں سے بعض میں توقف کی گنجائش ہے ؟ کبائر کے بارے میں بزرگان دین نہ بہت سی کتابیں بھی تصنیف فرمائی ہیں ہمارے شیخ حافظ ابوعبداللہ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی ایک کتاب لکھی ہے جس میں ستر کبیرہ گناہ گنوائے ہیں ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ کبیرہ گناہ وہ ہے جس پر شارع علیہ السلام نے جہنم کی وعید سنائی ہے ۔ اس قسم کے گناہ ہی اگر گنے جائیں تو بہت نکلیں گے اور اگر کبیرہ گناہ ہر اس کام کو کہا جائے جس سے شارع علیہ السلام نے روک دیا ہے تو بہت ہی ہو جائیں گے ۔ واللہ اعلم پھر فرماتا ہے کہ اگر تم بڑے بڑے گناہوں سے بچتے رہو گے تو ہم تمہارے چھوٹے چھوٹے گناہ معاف فرما دیں گے اور تمہیں جنتی بنادیں گے ۔ انس رضی اللہ عنہا سے مرفوعاً مروی ہے کہ اس طرح کی کوئی اور سخت و عیدیں ملی جس کی تعمیل میں تمہیں اپنے اہل و مال سے الگ ہو جانا چاہیئے پھر ہم اس کے لیے اپنے اہل و مال سے جدا نہ ہو جائیں کہ وہ ہمارے کبیرہ گناہوں کے وہ ہمارے چھوٹے موٹے گناہوں سے معاف فرماتا ہے پھر اس آیت کی تلاوت کی ۔ اس آیت کے متعلق بہت سی حدیثیں بھی ہیں تھوڑی بہت ہم یہاں بیان کرتے ہیں ۔ مسند احمد میں سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جانتے ہو جمعہ کا دن کیا ہے ؟ میں نے جواب دیا کہ یہ وہ دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ہمارے باپ کو پیدا کیا آپ نے فرمایا مگر اب جو میں جانتا ہوں وہ بھی سن لو جو شخص اس دن اچھی طرح غسل کر کے نماز جمعہ کے لیے مسجد میں آئے اور نماز ختم ہونے تک خاموش رہے تو اس کا یہ عمل اگلے جمعہ تک کے گناہوں کا کفارہ ہو جاتا ہے جب تک کہ وہ قتل سے بچا ۔ ابن جریر میں ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ سناتے ہوئے فرمایا اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میری جان ہے تین مرتبہ یہی فرمایا پھر سرنیچا کر لیا ہم سب نے بھی سر نیچا کر لیا اور ہم سب رونے لگے ہمارے دل کانپنے لگے کہ اللہ جانے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کس چیز کے لیے قسم کھائی ہے اور پھر کیوں خاموشی اختیار کی ہے ؟ تھوڑی دیر کے بعد آپ نے سر اٹھایا اور آپ کا چہرہ بشاش تھا جس سے ہم اس قدر خوش ہوئے کہ اگر ہمیں سرخ رنگ اونٹ ملتے تو اس قدر خوش نہ ہوتے ، اب آپ فرمانے لگے جو بندہ پانچوں نمازیں پڑھے ، رمضان کے روزے رکھے ، زکوٰۃ ادا کرتا رہے اور سات کبیرہ گناہوں سے بچا رہے اس کے لیے جنت کے سب دروازے کھل جائیں گے اور اسے کہا جائے گا کہ سلامتی کے ساتھ اس میں داخل ہو جاؤ ۔ النسآء
32 جائز رشک اور جواب باصواب سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ یا رسول اللہ ! مرد جہاد کرتے ہیں اور ہم عورتیں اس ثواب سے محروم ہیں ، اسی طرح میراث میں بھی ہمیں بہ نسبت مردوں کے آدھا ملتا ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3022،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اور روایت میں ہے کہ اس کے بعد پھر «أَنِّی لَا أُضِیعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِنْکُمْ مِنْ ذَکَرٍ أَوْ أُنْثَیٰ بَعْضُکُمْ مِنْ بَعْضٍ» ۱؎ (3-آل عمران:195) اتری ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:9238) اور یہ بھی روایت میں ہے کہ عورتوں نے یہ آرزو کی تھی کہ کاش کہ ہم بھی مرد ہوتے تو جہاد میں جاتے اور روایت میں ہے کہ ایک عورت نے خدمت نبوی میں حاضر ہو کر کہا تھا کہ دیکھئیے مرد کو دو عورتوں کے برابر حصہ ملتا ہے دو عورتوں کی شہادت مثل ایک مرد کے سمجھی جاتی ہے پھر عمل اس طرح ہے ایک نیکی آدھی نیکی رہ جاتی ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:5223/3) سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں مردوں نے کہا تھا کہ جب دوہرے حصے کے مالک ہم ہیں تو دوہرا اجر بھی کیوں نہ ملے ؟ اور عورتوں نے درخواست کی تھی کہ جب ہم پر جہاد فرض ہی نہیں ہمیں تو شہادت کا ثواب کیوں نہیں ملتا ؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے دونوں کو روکا اور حکم دیا کہ میرا فضل طلب کرتے رہو ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ مطلب بیان کیا گیا ہے کہ انسان یہ آرزو نہ کرے کہ کاش کہ فلاں کا مال اور اولاد میرا ہوتا ؟ اس پر اس حدیث سے کوئی اشکال ثابت نہیں ہو سکتا جس میں ہے کہ حسد کے قابل صرف دو ہیں ایک مالدار جو راہ اللہ اپنا مال لٹاتا ہے ، ۱؎ (صحیح بخاری:73) اور دوسرا کہتا ہے کاش کہ میرے پاس بھی مال ہوتا تو میں بھی اسی طرح فی سبیل اللہ خرچ کرتا رہتا پس یہ دونوں اللہ تعالیٰ کے نزدیک اجر میں برابر ہیں اس لیے کہ یہ ممنوع نہیں یعنی ایسی نیکی کی حرص بری نہیں کسی نیک کام کو حاصل کرنے کی تمنا یا حرص کرنا محمود ہے اس کے برعکس کسی کی چیز اپنے قبضے میں لینے کی نیت کرنا ہر طرح مذموم ہے جس طرح دینی فضیلت حاصل کرنے کی حرض جائز رکھی ہے اور دنیوی فضیلت کی تمنا ناجائز ہے ۔ پھر فرمایا ہر ایک کو اس کے عمل کا بدلہ ملے گا خیر کے بدلے خیر اور شر کے بدلے شر اور یہ بھی مراد ہو سکتی ہے کہ ہر ایک کو اس کے حق کے مطابق ورثہ دیا جاتا ہے ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ہم سے ہمارا فضل مانگتے رہا کرو آپس میں ایک دوسرے کی فضیلت کی تمنا بےسود امر ہے ہاں مجھ سے میرا فضل طلب کرو تو میں بخیل نہیں کریم ہوں وہاب ہوں دوں گا اور بہت کچھ دوں گا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” لوگو اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل طلب کرو اللہ سے مانگنا اللہ کو بہت پسند ہے ، یاد رکھو سب سے اعلیٰ عبادت کشادگی اور وسعت و رحمت کا انتظار کرنا اور اس کی امید رکھنا ہیں ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3571،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) اور روایت میں ہے ایسی امید رکھنے والے اللہ کو بہت بھاتے ہیں۔ اللہ علیم ہے اسے خوب معلوم ہے کہ کون دئیے جانے کے قابل ہے اور کون فقیری کے لائق ہے اور کون آخرت کی نعمتوں کا مستحق ہے اور کون وہاں کی رسوائیوں کا سزاوار ہے اسے اس کے اسباب اور اسے اس کے وسائل وہ مہیا اور آسان کر دیتا ہے ۔ النسآء
33 مسئلہ وارثت میں موالی؟ وارث اور عصبہ کی وضاحت و اصلاحات بہت سے مفسرین سے مروی ہے کہ موالی سے مراد وارث ہے ۔ ۱؎ (:تفسیر ابن جریر الطبری:270/8) بعض کہتے ہیں «عصبہ» مراد ہیں ؟ چچا کی اولاد کو بھی «موالی» کہا جاتا ہے جیسے فضل بن عباس رحمہ اللہ کے شعر میں ہے ۔ پس مطلب آیت کا یہ ہوا کہ اے لوگو ! تم میں سے ہر ایک کے لیے ہم نے عصبہ مقرر کر دئیے ہیں جو اس مال کے وارث ہوں گے جسے ان کے ماں باپ اور قرابتدار چھوڑ مریں اور تمہارے منہ بولے بھائی ہیں تم جن کی قسمیں کھا کر بھائی بنے ہو اور وہ تمہارے بھائی بنے ہیں انہیں ان کی میراث کا حصہ دو جیسے کہ قسموں کے وقت تم میں عہد و پیمان ہو چکا تھا ، یہ حکم ابتدائے اسلام میں تھا پھر منسوخ ہو گیا اور حکم ہوا کہ جن سے عہد و پیمان ہوئے وہ نبھائے جائیں اور بھولے نہ جائیں لیکن میراث انہیں نہیں ملے گی ۔ صحیح بخاری میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ موالی سے مراد وارث ہیں اور بعد کے جملہ سے مراد یہ ہے کہ مہاجرین جب مدینہ شریف میں تشریف لائے تو یہ دستور تھا کہ ہر مہاجر اپنے انصاری بھائی بند کا وارث ہوتا اس کے ذو رحم رشتہ دار وارث نہ ہوتے پس آیت نے اس طریقے کو منسوخ قرار دیا اور حکم ہوا کہ ان کی مدد کرو انہیں فائدہ پہنچاؤ ان کی خیر خواہی کرو لیکن میراث انہیں نہیں ملے گی ہاں وصیت کر جاؤ ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4580) قبل از اسلام یہ دستور تھا کہ دو شخصوں میں عہد و پیمان ہو جاتا تھا کہ میں تیرا وارث اور تو میرا وارث اسی طرح قبائل عرب عہد و پیمان کر لیتے تھے پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” جاہلیت کی قسمیں اور عہد و پیمان کو اسلام اور مضبوظ کرتا ہے لیکن اب اسلام میں قسمیں اور اس قسم کے عہد نہیں اسے اس آیت نے منسوخ قرار دے دیا اور فرمایا معاہدوں والوں کی بہ نسبت ذی رحم رشتہ دار کتاب اللہ کے حکم سے زیادہ ترجیح کے مستحق ہیں ۔ ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جاہلیت کی قسموں اور عہدوں کے بارے میں یہاں تک تاکید فرمائی کہ اگر مجھے سرخ اونٹ دئیے جائیں اور اس قسم کے توڑنے کو کہا جائے جو دارالندوہ میں ہوئی تھی تو میں اسے بھی پسند نہیں کرتا ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2530) ابن جریر میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” میں اپنے بچپنے میں اپنے ماموؤں کے ساتھ حلف طیبین میں شامل تھا میں اس قسم کو سرخ اونٹوں کے بدلے بھی توڑنا پسند نہیں کرتا “ پس یاد رہے کہ قریش و انصار میں جو تعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم کیا تھا وہ صرف الفت و یگانگت پیدا کرنے کے لیے تھا ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:9297:صحیح بالشواھد) لوگوں کے سوال کے جواب میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان مروی ہے کہ جاہلیت کے حلف نبھاؤ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:9293:صحیح بالشواھد) لیکن فتح مکہ والے دن بھی آپ نے کھڑے ہو کر اپنے خطبہ میں اسی بات کا اعلان فرمایا ۔ داؤد بن حصین رحمہ اللہ کہتے ہیں میں سیدہ ام سعد بنت ربیع رضی اللہ عنہا سے قرآن پڑھتا تھا میرے ساتھ ان کے پوتے موسیٰ بن سعد بھی پڑھتے تھے جو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی گود میں یتیمی کے ایام گزار رہے تھے میں نے جب اس آیت میں «عاقدت» پڑھا تو مجھے میری استانی جی نے روکا اور فرمایا «عقدت» پڑھو اور یاد رکھو یہ آیت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور ان کے صاحبزادے عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے ، جب عبدالرحمٰن اسلام کے منکر تھے سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ نے قسم کھا لی کہ انہیں وارث نہ کریں گے بالآ خر جب یہ مسلمانوں کی بے پناہ تلواروں سے اسلام کی طرف آمادہ ہوئے اور مسلمان ہو گئے تو سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ کو حکم ہوا کہ انہیں ان کے ورثے کے حصے سے محروم نہ فرمائیں ، (ضعیف: اس کی سند میں ابن اسحق مدلس راوی ہے اور اس نے عن سے روایت بیان کی ہے) لیکن یہ قول غریب ہے اور صحیح قول پہلا ہی ہے الغرض اس آیت اور ان احادیث سے ان کا قول رد ہوتا ہے جو قسم اور وعدوں کی بنا پر آج بھی ورثہ پہنچنے کے قائل ہیں جیسے کہ امام ابوحنفیہ رحمہ اللہ اور ان کے ساتھیوں کا خیال ہے اور امام احمد رحمہ اللہ سے بھی اس قسم کی ایک روایت ہے ۔ جسے جمہور اور امام مالک اور امام شافعی رحمہ اللہ علیہم سے صحیح قرار دیا ہے اور مشہور قول کی بنا پر امام احمد بھی اسے صحیح مانتے ہیں ۔ پس آیت میں ارشاد ہے کہ ہر شخص کے وارث اس کے قرابتی لوگ ہیں اور کوئی نہیں ۔ بخاری و مسلم میں ہے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں حصہ دار وارثوں کو ان کے حصوں کے مطابق دے کر پھر جو بچ رہے تو عصبہ کو ملے (صحیح بخاری:6732:6725) اور وارث وہ ہیں جن کا ذکر فرائض کی دو آیتوں میں ہے اور جن سے تم سے مضبوط عہد و پیمان اور قسموں کا تبادلہ کیا ہے یعنی آس آیت کے نازل ہونے سے پہلے سے انہیں ان کا حصہ دو یعنی میراث کا اور اور اس کے بعد جو حلف ہو وہ کالعدم ہو گا اور یہ بھی کہا گیا ہے خواہ اس سے پہلے کے وعدے اور قسمیں ہوں خواہ اس آیت کے اترنے کے بعد ہوں سب کا یہی حکم ہے کہ ایسے حلف برداروں کو میراث نہ ملے ۔ اور بقول سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما ان کا حصہ نصرت امداد خیر خواہی اور وصیت ہے میراث نہیں آپ فرماتے ہیں لوگ عہدو پیمان کر لیا کرتے تھے کہ ان میں سے جو پہلے مرے گا بعد والا اس کا وارث بنے گا پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے «وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُہُمْ أَوْلَیٰ بِبَعْضٍ فِی کِتَابِ اللہِ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُہَاجِرِینَ إِلَّا أَنْ تَفْعَلُوا إِلَیٰ أَوْلِیَائِکُمْ مَعْرُوفًا» ۱؎ (33-الأحزاب:6) نازل فرما کر حکم دیا کہ ذی رحم محرم ایک سے اولیٰ ہے البتہ اپنے دوستوں کے ساتھ حسن سلوک کرو یعنی اگر ان سے مال کا تیسرا حصہ دینے کی وصیت کر جاؤ تو جائز ہے یہی معروف و مشہور امر ۔ اور بہت سے سلف سے بھی مروی ہے کہ یہ آیت منسوخ ہے اور ناسخ آیت «وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُہُمْ أَوْلَیٰ بِبَعْضٍ فِی کِتَابِ اللہِ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُہَاجِرِینَ إِلَّا أَنْ تَفْعَلُوا إِلَیٰ أَوْلِیَائِکُمْ مَعْرُوفًا» ۱؎ (33-الأحزاب:6) والی ہے ۔ سعید بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں انہیں ان کا حصہ دو یعنی میراث ۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایک صاحب کو اپنا مولیٰ بنایا تھا تو انہیں وارث بنایا۔ ابن المسیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت ان لوگوں کے حق میں اتری ہے جواپنے بیٹوں کے سوا اوروں کو اپنا بیٹا بناتے تھے اور انہیں اپنی جائیداد کا جائز وارث قرار دیتے تھے پس اللہ تعالیٰ نے ان کا حصہ وصیت میں سے دینے کو فرمایا اور میراث کو موالی یعنی ذی رحم محرم رشتہ داروں کی اور عصبہ کی طرف لوٹا دیا اور اس سے منع فرمایا اور اسے نا پسند فرمایا کہ صرف زبانی دعووں اور بنائے ہوئے بیٹوں کو ورثہ دیا جائے ہاں ان کے لیے وصیت میں سے دینے کو فرمایا ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں میرے نزدیک مختار قول یہ ہے کہ انہیں حصہ دو یعنی نصرت نصیحت اور معونت کا یہ نہیں کہ انہیں ان کے ورثہ کا حصہ دو تو یہ معنی کرنے سے پھر آیت کو منسوخ بتلانے کی وجہ باقی نہیں رہتی نہ یہ کہنا پڑتا ہے کہ یہ حکم پہلے تھا اب نہیں رہا ۔ بلکہ آیت کی دلالت صرف اسی امر پر ہے کہ جو عہد و پیمان آپس میں امداد و اعانت کے خیر خواہی اور بھلائی کے ہوتے تھے انہیں وفا کرو پس یہ آیت محکم اور غیر منسوخ ہے لیکن امام صاحب کے قول میں ذرا اشکال سے اس لیے کہ اس میں تو شک نہیں کہ بعض عہد و پیمان صرف نصرت و امداد کے ہی ہوتے تھے لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ بعض عہد و پیمان ورثے کے بھی ہوتے تھے جیسے کہ بہت سے سلف صالحین سے مروی ہے ۔ اور جیسے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی تفسیر بھی منقول ہے ۔ جس میں انہوں نے صاف فرمایا ہے کہ مہاجر انصار کا وارث ہوتا تھا اس کے قرابتی لوگ وارث نہیں ہوتے تھے نہ ذی رحم رشتہ دار وارث ہوتے تھے یہاں تک کہ یہ منسوخ ہو گیا پھر امام صاحب کیسے فرما سکتے ہیں کہ یہ آیت محکم اور غیر محکم منسوخ ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» النسآء
34 مرد عورتوں سے افضل کیوں؟ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ مرد عورت کا حاکم رئیس اور سردار ہے ۔ اسے درست اور ٹھیک ٹھاک رکھنے والا ہے ۔ اس لیے کہ مرد عورتوں سے افضل ہیں یہی وجہ ہے کہ نبوت ہمیشہ مردوں میں رہی بعینہ شرعی طور پر خلیفہ بھی مرد ہی بن سکتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں وہ لوگ کبھی نجات نہیں پاسکتے جو اپنا والی کسی عورت کو بنائیں ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4425) اسی طرح ہر طرح کا منصب قضاء وغیرہ بھی مردوں کے لائق ہی ہیں ۔ دوسری وجہ افضیلت کی یہ ہے کہ مرد عورتوں پر اپنا مال خرچ کرتے ہیں جو کتاب و سنت سے ان کے ذمہ ہے مثلاً مہر نان نفقہ اور دیگر ضروریات کا پورا کرنا ۔ پس مرد فی نفسہ بھی افضل ہے اور بہ اعتبار نفع کے اور حاجت براری کے بھی اس کا درجہ بڑا ہے ۔ اسی بنا پر مرد کو عورت پر سردار مقرر کیا گیا جیسے اور جگہ فرمان ہے «وَلِلرِّجَالِ عَلَیْہِنَّ دَرَجَۃٌ وَ اللہُ عَزِیزٌ حَکِیمٌ» (2-البقرۃ:228) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ عورتوں کو مردوں کی اطاعت کرنی پڑے گی اس کے بال بچوں کی نگہداشت اس کے مال کی حفاظت وغیرہ اس کا کام ہے ۔ حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں ایک عورت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنے خاوند کی شکایت کی پس آپ نے بدلہ لینے کا حکم دے ہی دیا تھا جو یہ آیت اتری اور بدلہ نہ دلوایا گیا ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:9305:مرسل و ضعیف) ایک اور روایت میں ہے کہ ایک انصاری رضی اللہ عنہ اپنی بیوی صاحبہ کو لیے ہوئے حاضر خدمت ہوئے اس عورت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا : یا رسول اللہ ! میرے اس خاوند نے مجھے تھپڑ مارا ہے ، جس کا نشان اب تک میرے چہرے پر موجود ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اسے حق نہ تھا “ ، وہیں یہ آیت اتری کہ ادب سکھانے کے لیے مرد عورتوں پر حاکم ہیں تو آپ نے فرمایا : ” میں اور چاہتا تھا اور اللہ تعالیٰ نے اور چاہا۔ “ ۱؎ (میزان:8131:ضعیف) شعبہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں مال خرچ کرنے سے مراد مہر کا ادا کرنا ہے دیکھو اگر مرد عورت پر زناکاری کی تہمت لگائے تو لعان کا حکم ہے اور اگر عورت اپنے مرد کی نسبت یہ بات کہے اور ثابت نہ کر سکے تو اسے کوڑے لگیں گے ۔ پس عورتوں میں سے نیک نفس وہ ہیں جو اپنے خاوندوں کی اطاعت گزار ہوں اپنے نفس اور خاوند کے مال کی حفاظت والیاں ہوں جسے خود اللہ تعالیٰ سے محفوظ رکھنے کا حکم دیا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” بہتر عورت وہ ہے کہ جب اس کا خاوند اس کی طرف دیکھے ، وہ اسے خوش کر دے اور جب حکم دے بجا لائے اور جب کہیں باہر جائے تو اپنے نفس کو برائی سے محفوظ رکھے اور اپنے خاوند کے مال کی محافظت کرے “ پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:9329:ضعیف) مسند احمد میں ہے کہ آپ نے فرمایا : ” جب کوئی پانچوں وقت نماز ادا کرے رمضان کے روزے رکھے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے اپنے خاوند کی فرمانبرداری کرے اس سے کہا جائے گا کہ جنت کے جس دروازے سے تو چاہے جنت میں چلی جا “ ۔ ۱؎ (مسند احمد:191/1،قال الشیخ الألبانی:حسن لغیرہ) پھر فرمایا : ” جن عورتوں کی سرکشی سے ڈرو یعنی جو تم سے بلند ہونا چاہتی ہو نافرمانی کرتی ہو بےپرواہی برتتی ہو دشمنی رکھتی ہو تو پہلے تو اسے زبانی نصیحت کرو ہر طرح سمجھاؤ اتار چڑھاؤ بتاؤ اللہ کا خوف دلاؤ حقوق زوجیت یاد دلاؤ اس سے کہو کہ دیکھو خاوند کے اتنے حقوق ہیں “ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” اگر میں کسی کو حکم کر سکتا کہ وہ ماسوائے اللہ تعالیٰ کے دوسرے کو سجدہ کرے تو عورت کو حکم کرتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے ۔ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے کیونکہ سب سے بڑا حق اس پر اسی کا ہے “ ۔ ۱؎ (مسند احمد:4/381،قال الشیخ الألبانی:صحیح) صحیح بخاری میں ہے کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی کو اپنے بسترے پر بلائے اور وہ انکار کر دے تو صبح تک فرشتے اس پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3237) صحیح مسلم میں ہے کہ جس رات کوئی عورت روٹھ کر اپنے خاوند کے بستر کو چھوڑے رہے تو صبح تک اللہ کی رحمت کے فرشتے اس پر لعنتیں نازل کرتے رہتے ہیں ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:120-1436) تو یہاں ارشاد فرماتا ہے کہ ایسی نافرمان عورتوں کو پہلے تو سمجھاؤ بجھاؤ پھر بستروں سے الگ کرو ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یعنی سلائے تو بستر ہی پر مگر خود اس سے کروٹ موڑ لے اور مجامعت نہ کرے ، بات چیت اور کلام بھی ترک کر سکتا ہے اور یہ عورت کی بڑی بھاری سزا ہے ۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں ساتھ سلانا ہی چھوڑ دے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوتا ہے کہ عورت کا حق اس کے میاں پر کیا ہے ؟ فرمایا یہ کہ جب تو کھا تو اسے بھی کھلا جب تو پہن تو اسے بھی پہنا اس کے منہ پر نہ مار گالیاں نہ دے اور گھر سے الگ نہ کر غصہ میں اگر تو اس سے بطور سزا بات چیت ترک کرے تو بھی اسے گھر سے نہ نکال ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2142،قال الشیخ الألبانی:صحیح) پھر فرمایا اس سے بھی اگر ٹھیک ٹھاک نہ ہو تو تمہیں اجازت ہے کہ یونہی سی ڈانٹ ڈپٹ اور مار پیٹ سے بھی راہ راست پر لاؤ ۔ صحیح مسلم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حجتہ الوداع کے خطبہ میں ہے کہ عورتوں کے بارے میں فرمایا اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو وہ تمہاری خدمت گزار اور ماتحت ہیں تمہارا حق ان پر یہ ہے کہ جس کے آنے جانے سے تم خفا ہو اسے نہ آنے دیں اگر وہ ایسا نہ کریں تو انہیں یونہی سی تنبیہہ بھی تم کر سکتے ہو لیکن سخت مار جو ظاہر ہو نہیں مار سکتے تم پر ان کا حق یہ ہے کہ انہیں کھلاتے پلاتے پہناتے اڑھاتے رہو ۔ (صحیح مسلم:1218) پس ایسی مار نہ مارنی چاہیئے جس کا نشان باقی رہے جس سے کوئی عضو ٹوٹ جائے یا کوئی زخم آئے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اس پر بھی اگر وہ باز نہ آئے تو فدیہ لو اور طلاق دے دو ۔ ایک حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اللہ کی لونڈیوں کو مارو نہیں “ اس کے بعد ایک مرتبہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ آئے اور عرض کرنے لگے یا رسول اللہ ! عورتیں آپ کے اس حکم کو سن کراپنے مردوں پر دلیر ہو گئیں اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مارنے کی اجازت دی اب مردوں کی طرف سے دھڑا دھڑ مار پیٹ شروع ہوئی اور بہت سی عورتیں شکایتیں لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں تو آپ نے لوگوں سے فرمایا : ” سنو میرے پاس عورتوں کی فریاد پہنچی یاد رکھو تم میں سے جو اپنی عورتوں کو زدو کوب کرتے ہیں وہ اچھے آدمی نہیں “ (سنن ابوداود:2146،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اشعث رحمہ اللہ فرماتے ہیں ایک مرتبہ میں سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا مہمان ہوا اتفاقاً اس روز میاں بیوی میں کچھ ناچاقی ہو گئی اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی صاحبہ کو مارا پھر مجھ سے فرمانے لگے اشعث تین باتیں یاد رکھ جو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر یاد رکھی ہیں ایک تو یہ کہ مرد سے یہ نہ پوچھا جائے گا کہ اس نے اپنی عورت کو کس بنا پر مارا؟ دوسری یہ کہ وتر پڑھے بغیر سونا مت اور اور تیسری بات راوی کے ذہن سے نکل گئی۔ ۱؎ (سنن نسائی:5/9168،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) پھر فرمایا اگر اب بھی عورتیں تمہاری فرمانبردار بن جائیں تو تم ان پر کسی قسم کی سختی نہ کرو نہ مارو پیٹو نہ بیزاری کا اظہار کرو ۔ اللہ بلندیوں اور بڑائیوں والا ہے ۔ یعنی اگر عورتوں کی طرف سے قصور سرزد ہوئے بغیر یا قصور کے بعد ٹھیک ہو جانے کے باوجود بھی تم نے انہیں ستایا تو یاد رکھو ان کی مدد پر ان کا انتقام لینے کے لیے اللہ تعالیٰ ہے اور یقیناً وہ بہت زورآور اور زبردست ہے ۔ النسآء
35 میاں بیوی مصالحت کی کوشش اور اصلاح کے اصول اوپر اس صورت کو بیان فرمایا کہ اگر نافرمانی اور کج بحثی عورتوں کی جانب سے ہو اب یہاں اس صورت کا بیان ہو رہا ہے اگر دونوں ایک دوسرے سے نالاں ہوں تو کیا کیا جائے ؟ پس علماء کرام فرماتے ہیں کہ ایسی حالت میں حاکم ثقہ سمجھدار شخص کو مقرر کرے جو یہ دیکھے کہ ظلم و زیادتی کس طرف سے ہے؟ پس ظالم کو ظلم سے روکے ، اگر اس پر بھی کوئی بہتری کی صورت نہ نکلے تو عورت والوں میں سے ایک اس کی طرف سے اور مرد والوں میں سے ایک بہتر شخص اس کی جانب سے منصب مقرر کر دے اور دونوں مل کر تحقیقات کریں اور جس امر میں مصلحت سمجھیں اس کا فیصلہ کر دیں یعنی خواہ الگ کرا دیں خواہ میل ملاپ کرا دیں لیکن شارع علیہ السلام نے تو اسی امر کی طرف ترغیب دلائی ہے کہ جہاں تک ہو سکے کوشش کریں کہ کوئی شکل نباہ کی نکل آئے ۔ اگر ان دونوں کی تحقیق میں خاوند کی طرف سے برائی بہت ہو تو اس کی عورت کو اس سے الگ کر لیں اور اسے مجبور کریں گے کہ اپنی عادت ٹھیک ہونے تک اس سے الگ رہے اور اس کے خرچ اخراجات ادا کرتا رہے اور اگر شرارت عورت کی طرف سے ثابت ہو تو اسے نان نفقہ نہیں دلائیں اور خاوند سے ہنسی خوشی بسر کرنے پر مجبور کریں گے ۔ اسی طرح اگر وہ طلاق کا فیصلہ دیں تو خاوند کو طلاق دینی پڑے گی اگر وہ آپس میں بسنے کا فیصلہ کریں تو بھی انہیں ماننا پڑے گا ، بلکہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اگر دونوں پنچ اس امر پر متفق ہوں گئے کہ انہیں رضا مندی کے ساتھ ایک دوسرے سے اپنے تعلقات نباہنے چاہئیں اور اس فیصلہ کو ایک نے منظور کرلیا اور دوسرا نہیں کرتا اور اسی حالت میں ایک کا انتقال ہو گیا تو جو راضی تھا وہ اس کی جائیداد کا وارث بنے گا لیکن جو ناراض تھا اسے اس کا ورثہ نہیں ملے گا جو راضی تھا۔ ۱؎ (:تفسیر ابن جریر الطبری:325/8) ایک ایسے ہی جھگڑے میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو منصف مقرر کیا تھا اور فرمایا تھا کہ اگر تم ان میں میل ملاپ کرنا چاہو تو میل ہو گا اور اگر جدائی کرانا چاہو تو جدائی ہو جائے گی۔ ایک روایت میں ہے کہ عقیل بن ابوطالب نے فاطمہ بنت عتبہ بن ربیعہ سے نکاح کیا تو اس نے کہا تو میرے پاس آئےگا بھی اور میں ہی تیرا خرچ بھی برداشت کرونگی ؟ اب یہ ہونے لگا کہ جب عقیل انکے پاس آنا چاہتے تو وہ پوچھتی عتبہ بن ربیعہ اور شیبہ بن ربیعہ کہاں ہیں؟ یہ فرماتے تیری بائیں جانب جہنم میں اس پر وہ بگڑ کر اپنے کپڑے ٹھیک کر لیتیں۔ ایک مرتبہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آئیں اور واقعہ بیان کیا خلیفۃ المسلمین اس پر ہنسے اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو ان کا پنچ مقرر کیا سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما تو فرماتے تھے ان دونوں میں علیحدگی کرا دی جائے لیکن سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ فرماتے تھے بنو عبد مناف میں یہ علیحدگی میں ناپسند کرتا ہوں، اب یہ دونوں حضرات سیدنا عقیل رضی اللہ عنہ کے گھر آئے دیکھا تو دروازہ بند ہے اور دونوں میاں بیوی اندر ہیں یہ دونوں لوٹ گئے۔ مسند عبدالرزاق میں ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے زمانے میں ایک میاں بیوی اپنی ناچاقی کا جھگڑا لے کر آئے اس کے ساتھ اس کی برادری کے لوگ تھے اور اس کے ہمراہ اس کے گھرانے کے لوگ بھی، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے دونوں جماعتوں میں سے ایک ایک کو چنا اور انہیں منصف مقرر کر دیا پھر دونوں پنچوں سے کہا جانتے بھی ہو تمہارا کام کیا ہے ؟ تمہارا منصب یہ ہے کہ اگر چاہو تو دونوں میں اتفاق کرا دو اور اگر چاہو تو الگ الگ کرا دو یہ سن کرعورت نے تو کہا میں اللہ تعالیٰ کے فیصلہ پر راضی ہوں خواہ ملاپ کی صورت میں ہو خواہ جدائی کی صورت میں مرد کہنے لگا مجھے جدائی نامنظور ہے اس پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا نہیں نہیں اللہ کی قسم تجھے دونوں صورتیں منظور کرنی پڑیں گی۔ پس علماء کا اجماع ہے کہ ایسی صورت میں ان دونوں منصفوں کو دونوں اختیار ہیں یہاں تک کہ ابراہیم نخعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر وہ چاہیں دو اور تین طلاقیں بھی دے سکتے ہیں، امام مالک رحمہ اللہ سے بھی یہی قول مروی ہے، ہاں حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ انہیں اجتماع کا اختیار ہے تفریق کا نہیں، قتادہ اور زید بن اسلم رحمہ اللہ علیہما کا بھی یہی قول ہے، امام احمد اور ابوثور اور داؤد رحمہ اللہ علیہم کا بھی یہی مذہب ہے ان کی دلیل «اِنْ یٰرِیْدَآ اِصْلَاحًا یٰوَفِّقِ اللّٰہُ بَیْنَہُمَا» ۱؎ (4-النساء:35) والا جملہ ہے کہ ان میں تفریق کا ذکر نہیں، ہاں اگر یہ دونوں دونوں جانب سے وکیل ہیں تو بیشک ان کا حکم جمع اور تفریق دونوں میں نافذ ہوگا تو کسی سے خلاف منقول بھی نہیں اس میں کسی کو پھر یہ بھی خیال رہے کہ یہ دونوں پنچ حاکم کی جانب سے مقرر ہوں گے اور فیصلہ کریں گے ۔ چاہے ان سے فریقین ناراض ہوں یا یہ دونوں میاں بیوی کی طرف سے ان کے بنائے ہوئے وکیل ہوں گے، جمہور کا مذہب تو پہلا ہے اور دلیل یہ ہے کہ ان کا نام قرآن حکیم نے حکم رکھا ہے اور حکم کے فیصلے سے کوئی خوش یا ناخوش بہر صورت اس کا فیصلہ قطعی ہو گا آیت کے ظاہری الفاظ بھی جمہور کے ساتھ ہی ہیں ۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا نیا قول بھی یہی ہے اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب کا بھی یہی قول ہے، لیکن مخالف گروہ کہتا ہے کہ اگر یہ حکم کی صورت میں ہوتے تو پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ اس خاوند کو کیوں فرماتے؟ کہ جس طرح عورت نے دونوں صورتوں کو ماننے کا اقرار کیا ہے اور اسی طرح تو بھی نہ مانے تو تو جھوٹا ہے۔ «واللہ اعلم» امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں علماء کرام کا اجماع ہے کہ دونوں پنچوں کا قول جب مختلف ہو تو دوسرے کے قول کا کوئی اعتبار نہیں اور اس امر پر بھی اجماع ہے کہ یہ اتفاق کرانا چاہیں تو ان کا فیصلہ نافذ ہے ہاں اگر وہ جدائی کرانا چاہیں تو بھی ان کا فیصلہ نافذ ہے یا نہیں ؟ اس میں اختلاف ہے لیکن جمہور کا مذہب یہی ہے کہ اس میں بھی ان کا فیصلہ نافذ ہے گو انہیں وکیل نہ بنایا گیا ہو ۔ النسآء
36 حقوق العباد اور حقوق اللہ اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی عبادت کا حکم دیتا ہے اور اپنی توحید کے ماننے کو فرماتا ہے اور اپنے ساتھ کسی کو شریک کرنے سے روکتا ہے اس لیے کہ جب خالق رزاق نعمتیں دینے والا تمام مخلوق پر ہر وقت اور ہر حال میں انعام کی بارش برسانے والا صرف وہی ہے تو لائق عبادت بھی صرف وہی ہوا۔ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ” جانتے ہو اللہ عزوجل کا حق بندوں پر کیا ہے ؟ “ آپ جواب دیتے ہیں اللہ اور اس کا رسول بہت زیادہ جاننے والے ہیں آپ نے فرمایا : ” یہ کہ وہ اسی کی عبادت کریں اسی کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں “ ، پھر فرمایا : ” جانتے ہو جب بندے یہ کریں تو ان کا حق اللہ تعالیٰ کے ذمہ کیا ہے؟ یہ کہ انہیں وہ عذاب نہ کرے “ ۱؎ (صحیح بخاری:6500) پھر فرماتا ہے ماں باپ کے ساتھ احسان کرتے رہو وہی تمہارے عدم سے وجود میں آنے کا سبب بنے ہیں۔ قرآن کریم کی بہت سی آیتوں میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنی عبادت کے ساتھ ہی ماں باپ سے سلوک و احسان کرنے کا حکم دیا ہے جیسے فرمایا «اَنِ اشْکُرْ لِیْ وَلِوَالِدَیْکَ» ۱؎ (31-لقمان:14) اور «وَقَضٰی رَبٰکَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا» ۱؎ (17-الإسراء:23) یہاں بھی یہ بیان فرما کر پھر حکم دیتا ہے کہ اپنے رشتہ داروں سے بھی سلوک و احسان کرتے رہو۔ حدیث میں ہے مسکین کو صدقہ دینا صرف صدقہ ہی ہے لیکن قریبی رشتہ داروں کو دینا صدقہ بھی ہے اور صلہ رحمی بھی،۱؎ (سنن ترمذی:685،قال الشیخ الألبانی:صحیح) پھر حکم ہوتا ہے کہ یتیموں کے ساتھ بھی سلوک و احسان کرو اس لیے کہ ان کی خبرگیری کرنے والا ان کے سر پر محبت سے ہاتھ پھیرنے والا ان کے ناز، لاڈ اٹھانے والا نہیں محبت کے ساتھ کھلانے پلانے والا ان کے سر سے اٹھ گیا ہے۔ پھر مسکینوں کے ساتھ نیکی کرنے کا ارشاد کیا کہ وہ حاجت مند ہے ہاتھ میں محتاج ہیں ان کی ضرورتیں تم پوری کرو ان کی احتیاج تم رفع کرو ان کے کام تم کر دیا کرو۔ فقیرو مسکین کا پورا بیان سورۃ براۃ کی تفسیر میں آئے گا ۔ «ان شاءاللہ تعالیٰ» پڑوسیوں کے حقوق اپنے پڑوسیوں کا خیال رکھو ان کے ساتھ بھی برتاؤ اور نیک سلوک رکھو خواہ وہ قرابت دار ہوں یا نہ ہو، خواہ وہ مسلمان ہوں یا یہود و نصرانی ہوں یہ بھی کہا گیا ہے کہ «الْجَارِ ذِی الْقُرْبَی» سے مراد بیوی ہے اور «الْجَارِ الْجُنُبِ» سے مراد مرد رفیق سفر ہے۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:341/8) پڑوسیوں کے حق میں بہت سی حدیثیں آئی ہیں کچھ سن لیجئے۔ مسند احمد میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” مجھے جبرائیل علیہ السلام پڑوسیوں کے بارے میں یہاں تک وصیت و نصیحت کرتے ہیں کہ مجھے گمان ہوا کہ شاید یہ پڑوسیوں کو وارث بنا دیں گے“ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6015) فرماتے ہیں : { ” بہتر ساتھی اللہ کے نزدیک وہ ہے جو اپنے ہمراہیوں کے ساتھ خوش سلوک زیادہ ہو اور پڑوسیوں میں سے سب سے بہتر اللہ کے نزدیک وہ ہے جو ہمسایوں سے نیک سلوک میں زیادہ ہو“ } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:1944،قال الشیخ الألبانی:صحیح) فرماتے ہیں : { ” انسان کو نہ چاہیئے کہ اپنے پڑوسی کی آسودگی بغیر خود شکم سیر ہو جائے“ } ۔ ۱؎ (مسند احمد:1/54:منقطع ولہ شواھد) { ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے سوال کیا : ” زنا کے بارے میں تم کیا کہتے ہو؟ “ لوگوں نے کہا : وہ حرام ہے اللہ نے اور اس کے رسول نے اسے حرام کیا ہے اور قیامت تک وہ حرام ہی رہے گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” سنو دس عورتوں سے زناکاری کرنے والا اس شخص کے گناہ سے کم گنہگار ہے جو اپنے پڑوسی کی عورت سے زنا کرے “ ، پھر دریافت فرمایا : ” تم چوری کی نسبت کیا کہتے ہو؟ “ انہوں نے جواب دیا کہ اسے بھی اللہ تعالیٰ نے اس کے رسول نے حرام کیا ہے اور وہ بھی قیامت تک حرام ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” سنو دس گھروں سے چوری کرنے والے گناہ کا اس شخص کے گناہ سے ہلکا ہے جو اپنے پڑوسی کے گھر سے کچھ چرالے “ } ۔۱؎ (مسند احمد:8/6،قال الشیخ الألبانی:صحیح) بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے { سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سوال کرتے ہیں کہ یا رسول اللہ ! کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ آپ نے فرمایا : ” یہ کہ تو اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرائے حالانکہ اسی ایک نے تجھے پیدا کیا ہے “ ، میں نے پوچھا : پھر کون سا؟ فرمایا : ” یہ کہ تو اپنی پڑوسن سے زناکاری کرے “ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6001) { ایک انصاری صحابی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے گھر سے چلا وہاں پہنچ کر دیکھتا ہوں کہ ایک صاحب کھڑے ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف متوجہ ہیں میں نے خیال کیا کہ شاید انہیں آپ سے کچھ کام ہو گا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہیں اور ان سے باتیں ہو رہی ہیں بڑی دیر ہو گئی یہاں تک کہ مجھے آپ کے تھک جانے کے خیال نے بےچین کر دیا بہت دیر کے بعد آپ لوٹے اور میرے پاس آئے میں نے کہا اے اللہ کے رسول ! اس شخص نے تو آپ کو بہت دیر کھڑا رکھا میں تو پریشان ہو گیا آپ کے پاوں تھک گئے ہوں گے، آپ نے فرمایا : ” اچھا تم نے انہیں دیکھا “ ، میں نے کہا : ہاں خوب اچھی طرح دیکھا فرمایا : ” جانتے ہو وہ کون تھے؟ وہ جبرائیل علیہ السلام تھے ، مجھے پڑوسیوں کے حقوق کی تاکید کرتے رہے یہاں تک ان کے حقوق بیان کئے کہ مجھے کھٹکا ہوا کہ غالباً آج تو پڑوسی کو وارث ٹھہرا دیں گے“ } ۱؎ (مسند احمد:5/32،قال الشیخ الألبانی:صحیح) مسند عبد بن حمید میں ہے { سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک شخص عوالی مدینہ سے آیا اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور جبرائیل علیہ الصلوۃ والسلام اس جگہ نماز پڑھ رہے تھے جہاں جنازوں کی نماز پڑھی جاتی ہے جب آپ فارغ ہوئے تو اس شخص نے کہا : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ دوسرا شخص کون نماز پڑھ رہا تھا ، آپ نے فرمایا : ” تم نے انہیں دیکھا؟ “ اس نے کہا : ہاں ، فرمایا : ” تو نے بہت بڑی بھلائی دیکھی یہ جبرائیل تھے مجھے پڑوسی کے بارے میں وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ عنقریب اسے وارث بنا دیں گے“ } ۔ ۱؎ (مسند بزار:1897:صحیح بالشواھد) آٹھویں حدیث بزار میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” پڑوسی تین قسم کے ہیں ایک حق والے یعنی ادنی، دو حق والے اور تین حق والے یعنی اعلیٰ، ایک حق والا وہ ہے جو مشرک ہو اور اس سے رشتہ داری نہ ہو، دو حق والا وہ ہے جو مسلمان ہو اور رشتہ دار نہ ہو، ایک حق اسلام دوسرا حق پڑوس، تین حق والا وہ ہے جو مسلمان بھی ہو پڑوسی بھی ہو اور رشتے ناتے کا بھی ہو تو حق اسلام کا حق ہمسائیگی حق صلہ رحمی تین تین حق اس کے ہو گئے“ } ۔ ۱؎ (مسند بزار:1896:ضعیف) نویں حدیث مسند احمد میں ہے { سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ میرے دو پڑوسی ہیں میں ایک کو ہدیہ بھیجنا چاہتی ہوں تو کسے بھجواؤں؟ آپ نے فرمایا : ” جس کا دروازہ قریب ہو“ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2259) دسویں حدیث طبرانی میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا لوگوں نے آپ کے وضو کے پانی کو لینا اور ملنا شروع کیا آپ نے پوچھا : ایسا کیوں کرتے ہو؟ “ انہوں نے کہا : اللہ اور اس کے رسول کی محبت میں ، آپ نے فرمایا : ” جسے یہ خوش لگے کہ اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کریں تو اسے چاہیئے کہ جب بات کرے سچ کرے اور جب امانت دیا جائے تو ادا کرے“ } ۔ [ تفسیر ابن کثیر میں یہ حدیث یہیں پر ختم ہے لیکن شاید اگلا جملہ اس کا سہوا رہ گیا ہے جس کا صحیح تعلق اس مسئلہ سے ہے وہ یہ کہ اسے چاہیئے پڑوسی کے ساتھ سلوک و احسان کرے۔ مترجم ] ۔ ۱؎ (بیہقی:2/1533،قال الشیخ الألبانی:صحیح) گیارھویں حدیث مسند احمد میں ہے کہ { قیامت کے دن سب سے پہلے جو جھگڑا اللہ کے سامنے پیش ہو گا وہ دو پڑوسیوں کا ہو گا} ۔۱؎ (مسند احمد:4/151،قال الشیخ الألبانی:حسن) پھر حکم ہوتا ہے «الصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ» کے ساتھ سلوک کرنے کا۔ اس سے مراد بہت سے مفسرین کے نزدیک عورت ہے اور بہت سے فرماتے ہیں مراد سفر کا ساتھی ہے اور یہ بھی مروی ہے کہ اس سے مراد دوست اور ساتھی ہے عام اس سے کہ سفر میں وہ یا قیام کی حالت میں «ابن السبیل» سے مراد مہمان ہے اور یہ بھی جو سفر میں کہیں ٹھہر گیا ہو اگر مہمان بھی یہاں مراد لی جائے کہ سفر میں جاتے جاتے مہمان بنا تو دونوں ایک ہو گئے، اس کا پورا بیان سورۃ براۃ کی تفسیر میں آ رہا ہے ۔ «ان شاءاللہ تعالیٰ» غلاموں کے بارے میں احکامات پھر غلاموں کے بارے میں فرمایا جا رہا ہے کہ ان کے ساتھ بھی نیک سلوک رکھو اس لیے کہ وہ غریب تمہارے ہاتھوں اسیر ہے اس پر تو تمہارا کامل اختیار ہے تو تمہیں چاہیئے کہ اس پر رحم کھاؤ اور اس کی ضروریات کا اپنے امکان بھر خیال رکھو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو اپنے آخری مرض الموت میں بھی اپنی امت کو اس کی وصیت فرما گئے فرماتے ہیں : { ” لوگو نماز کا اور غلاموں کا خوب خیال رکھنا باربار اسی کو فرماتے رہے یہاں تک کہ زبان رکنے لگی“ } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:1625،قال الشیخ الألبانی:صحیح) مسند کی حدیث میں ہے { آپ فرماتے ہیں تو جو خود کھائے وہ بھی صدقہ ہے جو اپنے بچوں کو کھلائے وہ بھی صدقہ ہے جو اپنی بیوی کھلائے وہ بھی صدقہ ہے جو اپنے خادم کو کھلائے وہ بھی صدقہ ہے } ۔۱؎ (مسند احمد:131/4:حسن) مسلم میں ہے کہ { سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک مرتبہ دراوغہ سے فرمایا کہ کیا غلاموں کو تم نے ان کی خوراک دے دی؟ اس نے کہا اب تک نہیں دی فرمایا جاؤ دے کر آؤ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے انسان کو یہی گناہ کافی ہے کہ جن کی خوراک کا وہ مالک ہے ان سے روک رکھے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:996) مسلم میں ہے { مملوکہ ماتحت کا حق ہے کہ اسے کھلایا پلایا پہنایا اڑھایا جائے اور اس کی طاقت سے زیادہ کام اس سے نہ لیا جائے} ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1662) بخاری شریف میں ہے { جب تم میں سے کسی کا خادم اس کا کھانا لے کر آئے تو تمہیں چاہیئے کہ اگر ساتھ بٹھا کر نہیں کھلاتے تو کم از کم اسے لقمہ دو لقمہ دے دو خیال کرو کہ اس نے پکانے کی گرمی اور تکلیف اٹھائی ہے} ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5460) اور روایت میں ہے کہ { چاہیئے تو یہ کہ اسے اپنے ساتھ بٹھا کر کھلائے اور اگر کھانا کم ہو تو لقمہ دو لقمے ہی دے دیا کرو، آپ فرماتے ہیں تمہارے غلام بھی تمہارے بھائی ہیں، اللہ تعالیٰ نے انہیں تمہارے ماتحت کر دیا ہے پس جس کے ہاتھ تلے اس کا بھائی ہو اسے اپنے کھانے سے کھلائے اور اپنے پہننے میں سے پہنائے اور ایسا کام نہ کرے کہ وہ عاجز ہو جائے اگر کوئی ایسا ہی مشکل کام آ پڑے تو خود بھی اس کا ساتھ دے} ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:30) پھر فرمایا کہ خود بین، معجب، متکبر، خود پسند، لوگوں پر اپنی فوقیت جتانے والا، اپنے آپ کو تولنے والا اپنے تیئں دوسروں سے بہتر جاننے والا اللہ کا پسندیدہ بندہ نہیں، وہ گو اپنے آپ کو بڑا سمجھے لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ ذلیل ہے لوگوں کی نظروں میں وہ حقیر ہے بھلا کتنا اندھیر ہے کہ خود تو اگر کسی سے سلوک کرے تو اپنا احسان اس پر رکھے لیکن رب کی نعمتوں کا جو اللہ تعالیٰ نے اسے دے رکھی ہیں شکر بجا نہ لائے لوگوں میں بیٹھ کر فخر کرے کہ میں اتنا بڑا آدمی ہوں میرے پاس یہ بھی ہے اور وہ بھی ہے۔ ابورجاہروی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہر بدخلق متکبر اور خود پسند ہوتا ہے پھر اسی آیت کو تلاوت کیا اور فرمایا ہر ماں باپ کا نافرمان سرکش اور بدنصیب ہوتا ہے پھر آپ نے آیت «‏‏‏‏وَبَرًّا بِوَالِدَتِی وَلَمْ یَجْعَلْنِی جَبَّارًا شَقِیًّا» ۱؎‏‏‏‏ (19-مریم:32) پڑھی، عوام بن حوشب رحمہ اللہ بھی یہی فرماتے ہیں ۔ مطرب رحمہ اللہ فرماتے ہیں مجھے سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کی ایک روایت ملی تھی میرے دل میں تمنا تھی کہ کسی وقت خود سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے مل کر اس روایت کو انہی کی زبانی سنوں چنانچہ ایک مرتبہ ملاقات ہو گئی تو میں نے کہا مجھے یہ خبر ملی ہے کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث بیان فرماتے ہیں کہ { اللہ تعالیٰ تین قسم کے لوگوں کو دوست رکھتا ہے اور تین قسم کے لوگوں کو ناپسند فرماتا ہے ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہاں یہ سچ ہے میں بھلا اپنے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم پر بہتان کیسے باندھ سکتا ہوں؟ میں نے کہا اچھا پھر وہ تین کون ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ دشمن رکھتا ہے۔ آپ نے اسی آیت «إِنَّ اللہَ لَا یُحِبٰ مَن کَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا» ۱؎‏‏‏‏ (4-النساء:36) کی تلاوت کی اور فرمایا اسے تو تم کتاب اللہ میں پاتے بھی ہو } ۱؎‏‏‏‏ (تفسیر ابن جریر الطبری:3/5313:صحیح) بنو ہجیم کا ایک شخص رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتا ہے { مجھے کچھ نصیحت کیجئے آپ نے فرمایا کپڑا ٹخنے سے نیچا نہ لٹکاؤ کیونکہ یہ تکبر اور خود پسندی ہے جسے اللہ ناپسند رکھتا ہے} ۔ ۱؎‏‏‏‏ (سنن ترمذی:2721:صحیح) النسآء
37 اللہ تعالٰی کی راہ میں خرچ سے کترانے والے بخیل لوگ ارشاد ہوتا ہے کہ جو لوگ اللہ کی خوشنودی کے موقعہ پر مال خرچ کرنے سے جی چراتے ہیں مثلاً ماں باپ کو دینا ، قرابت داروں سے اچھا سلوک نہیں کرتے ، یتیم مسکین پڑوسی رشتہ دار غیر رشتہ دار پڑوسی ساتھی مسافر غلام اور ماتحت کو ان کی محتاجی کے وقت فی سبیل اللہ نہیں دیتے ، اتنا ہی نہیں بلکہ لوگوں کو بھی بخل اور فی سبیل اللہ خرچ نہ کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ حدیث شریف میں ہے کون سی بیماری بخل کی بیماری سے بڑھ کر ہے؟ ۱؎‏‏‏‏ (صحیح بخاری:4383) اور حدیث میں ہے لوگو بخیلی سے بچو اسی نے تم سے اگلوں کو تاخت و تاراج کیا اسی کے باعث ان سے قطع رحمی اور فسق و فجور جیسے برے کام نمایاں ہوئے۔۱؎ (سنن ابوداود:1698،قال الشیخ الألبانی:صحیح) پھر فرمایا یہ لوگ ان دونوں برائیوں کے ساتھ ہی ساتھ ایک تیسری برائی کے بھی مرتکب ہیں یعنی اللہ کی نعمتوں کو چھپاتے ہیں انہیں ظاہر نہیں کرتے نہ ان کے کھانے پینے میں وہ ظاہر ہوتی ہیں نہ پہننے اوڑھنے میں نہ دینے لینے میں جیسے اور جگہ ہے «اِنَّ الْاِنْسَانَ لِرَبِّہٖ لَکَنُوْدٌ وَاِنَّہٗ عَلٰی ذٰلِکَ لَشَہِیْدٌ» ۱؎ (100-العادیات:6-7)‏‏‏‏ یعنی ’ انسان اپنے رب کا ناشکرا ہے اور وہ خود ہی اپنی اس حالت اور اس خصلت پر گواہ ہے ‘ ، پھر «وَاِنَّہٗ لِحُبِّ الْخَیْرِ لَشَدِیْدٌ» ‏‏‏‏۱؎ (100-العادیات:8) ’ وہ مال کی محبت میں مست ہے ‘ ، پس یہاں بھی فرمان ہے کہ اللہ کے فضل کو یہ چھپاتا رہتا ہے۔ پھر انہیں دھمکایا جاتا ہے کہ کافروں کے لیے ہم نے اہانت آمیز عذاب تیار کر رکھے ہیں، «کفر» کے معنی ہیں پوشیدہ رکھنا اور چھپا لینا پس بخیل بھی اللہ کی نعمتوں کا چھپانے والا ان پر پردہ ڈال رکھنے والا بلکہ ان کا انکار کرنے والا ہے پس وہ نعمتوں کا کافر ہوا ۔ حدیث شریف میں ہے اللہ جب کسی بندے پر اپنی نعمت انعام فرماتا ہے تو چاہتا ہے کہ اس کا اثر اس پر ظاہر ہو ۔ ۱؎ (مسند احمد:3/473،قال الشیخ الألبانی:صحیح) دعا نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہے «‏‏‏‏وَاجْعَلنَْا شَاکِرِیْنَ لِنِعْمَتِکَ مُثْنِیْنَ بِھَا عَلَیْکَ قَابِلِیْھَاوَاتِمَّـہَا عَلَیْناَ» اے اللہ ! ہمیں اپنی نعمتوں پر شکر گزار بنا اور ان کی وجہ سے ہمیں اپنا ثنا خوان بنا ان کا قبول کرنے والا بنا اور ان کی نعمتوں کو ہمیں بھرپور عطا فرما ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:969،قال الشیخ الألبانی:صحیح) بعض سلف کا قول ہے کہ یہ آیت یہودیوں کے اس بخل کے بارے میں ہے جو وہ اپنی کتاب میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات کے چھپانے میں کرتے تھے اسی لیے اس کے آخر میں ہے کہ کافروں کے لیے ذلت آمیز عذاب ہم نے تیار کر رکھے ہیں۔ کوئی شک نہیں کہ اس آیت کا اطلاق ان پر بھی ہو سکتا ہے لیکن یہ بظاہر یہاں مال کا بخل بیان ہو رہا ہے گو علم کا بخل بھی اس میں بطور اولیٰ داخل ہے۔ خیال کیجئے کہ بیان آیت «اقرباضعفا» کو مال دینے کے بارے میں ہے اسی طرح اس کے بعد والی آیت میں ریاکاری کے طور پر فی سبیل اللہ مال دینے کی مذمت بھی بیان کی جا رہی ہے۔ پہلے ان کا بیان ہوا جو ممسک اور بخیل ہیں کوڑی کوڑی کو دانتوں سے تھام رکھتے ہیں۔ پھر ان کا بیان ہوا جو دیتے تو ہیں لیکن بدنیتی اور دنیا میں اپنی واہ واہ ہونے کی خاطر دیتے ہیں چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ جن تین قسم کے لوگوں سے جہنم کی آگ سلگائی جائے گی وہ یہی ریاکار ہوں گے ، ریاکار عالم ، ریاکار غازی، ریا کار سخی ایسا سخی کہے گا باری تعالیٰ تیری ہر ہر راہ میں ، میں نے اپنا مال خرچ کیا تو اسے اللہ تعالیٰ کی جناب سے جواب ملے گا کہ تو جھوٹا ہے تیرا ارادہ تو صرف یہ تھا کہ تو سخی اور جواد مشہور ہو جائے سو وہ ہو چکا ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1905) یعنی تیرا مقصود دنیا کی شہرت تھی وہ میں نے تجھے دنیا میں ہی دے چکا پس تیری مراد حاصل ہو چکی ۔ اور حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تیرے باپ نے اپنی سخاوت سے جو چاہتا تھا وہ اسے مل گیا۔ ۱؎ (مسند احمد:258/4:حسن بالشواھد) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوتا ہے کہ عبداللہ بن جدعان تو بڑا سخی تھا جس نے مساکین و فقراء کے ساتھ بڑے سلوک کئے اور نام الہ بہت سے غلام آزاد کئے تو کیا اسے ان کا نفع نہ ملے گا؟ آپ نے فرمایا : ” نہیں اس سے تو عمر بھر میں ایک دن بھی نہ کہا کہ اے اللہ میرے گناہوں کو قیامت کے دن معاف فرما دینا “ ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:214) اسی لیے یہاں بھی فرماتا ہے کہ ان کا ایمان اللہ اور قیامت پر نہیں۔ ورنہ شیطان کے پھندے میں نہ پھنس جاتے اور بد کو بھلا نہ سمجھ بیٹھتے یہ شیطان کے ساتھی ہیں اور شیطان ان کا ساتھی ہے ساتھی کی برائی پر ان کی برائی بھی سوچ لو عرب شاعر کہتا ہے «عن المرء لا تسال وسل عن قرینہ» * «‏‏‏‏فکل قرین بالمقارن یقتدی» ‏‏‏‏ انسان کے بارے میں نہ پوچھ اس کے ساتھیوں کا حال دریافت کر لے۔ ہر ساتھی اپنے ساتھی کا ہی پیرو کار ہوتا ہے۔ پھر ارشاد فرماتا ہے کہ انہیں اللہ پر ایمان لانے اور صحیح راہ پر چلنے اور ریاکاری کو چھوڑ دینے اور اخلاص و یقین پر قائم ہو جانے سے کون سی چیز مانع ہے؟ ان کا اس میں کیا نقصان ہے؟ بلکہ سراسر فائدہ ہے کہ ان کی عاقبت سنور جائے گی یہ کیوں اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے سے تنگ دلی کر رہے ہیں ۔ اللہ کی محبت اور اس کی رضا مندی حاصل کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟ اللہ انہیں خوب جانتا ہے ان کی بھلی اور بری نیتوں کا اسے علم ہے ، اہل توفیق اور غیر اہل توفیق سب اس پر ظاہر ہیں ، وہ بھلوں کو عمل صالح کی توفیق عطا فرما کر اپنی خوشنودی کے کام ان سے لے کر اپنی قربت انہیں عطا فرماتا ہے اور بروں کو اپنی عالی جناب اور زبردست سرکاری سے دھکیل دیتا ہے جس سے ان کی دنیا اور آخرت برباد ہوتی ہے ۔ «عَیَاذًا ابِاللہِ مِنْ ذٰلِکَ» النسآء
38 النسآء
39 النسآء
40 بے مثال خریدار؟ باری تعالیٰ رب العالمین فرماتا ہے کہ میں کسی پر ظلم نہیں کرتا، کسی کی نیکی کو ضائع نہیں کرتا، بلکہ بڑھا چڑھا کر قیامت کے روز اس کا اجر و ثواب عطا فرماؤں گا ۔ جیسے فرمایا تھا «وَنَضَعُ الْمَوَازِینَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیَامَۃِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْئًا» ۱؎ (21-الأنبیاء:47) ’ ہم عدل کی ترازو رکھیں گے ‘ ۔ اور فرمایا کہ لقمان علیہ السلام نے اپنے صاحبزادے سے فرمایا تھا «یَا بُنَیَّ إِنَّہَا إِن تَکُ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَکُن فِی صَخْرَۃٍ أَوْ فِی السَّمَاوَاتِ أَوْ فِی الْأَرْضِ یَأْتِ بِہَا اللہُ إِنَّ اللہَ لَطِیفٌ خَبِیرٌ» ۱؎ (31-لقمان:16) ’ اے بیٹے ! اگر کوئی چیز رائی کے دانے برابر ہو گو وہ کسی پتھر میں یا آسمانوں میں ہو یا زمین کے اندر ہو اللہ اسے لا حاضر کرے گا، بیشک اللہ تعالیٰ باریک بین خریدار ہے ‘ ۔ اور جگہ فرمایا «یَوْمَئِذٍ یَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتَاتًا لِّیُرَوْا أَعْمَالَہُمْ» * «فَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَرَہُ» * «وَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَرَہُ» ‏‏‏‏۱؎ (99-الزلزلۃ:6-8) ’ اس دن لوگ اپنے مختلف احوال پر لوٹیں گے تاکہ انہیں ان کے اعمال دکھائے جائیں پس جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہو گی وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہو گی وہ اسے دیکھ لے گا ‘ ۔ بخاری و مسلم کی شفاعت کے ذکر والی مطول حدیث میں ہے کہ پھر اللہ فرمائے گا لوٹ کر جاؤ اور جس کے دل میں رائی کے دانے برابر ایمان دیکھو اسے جہنم سے نکال لاؤ۔ ‏‏‏‏۱؎ (صحیح بخاری:7439) پس بہت سی مخلوق جہنم سے آزاد ہو گی ۔ ابوسعید رحمہ اللہ یہ حدیث بیان فرما کر فرماتے ہیں اگر تم چاہو تو آیت قرآنی کے اس جملے کو پڑھ لو «إِنَّ اللہَ لَا یَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ وَإِن تَکُ حَسَنَۃً یُضَاعِفْہَا وَیُؤْتِ مِن لَّدُنْہُ أَجْرًا عَظِیمًا» ۱؎ (4-النساء:40) ابن ابی حاتم میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا فرمان مروی ہے کہ قیامت کے دن کسی اللہ کے بندے یا بندی کو لایا جائے گا اور ایک پکارنے والا سب اہل محشر کو با آواز بلند سنا کر کہے گا یہ فلاں کا بیٹا یا بیٹی ہے اس کا نام یہ ہے جس کسی کا کوئی حق اس کے ذمہ باقی ہو وہ آئے اور لے جائے اس وقت یہ حالت ہو گی کہ عورت چاہے گی کہ اس کا کوئی حق اس کے باپ پر یا ماں پر یا بھائی پر یا شوہر پر ہو تو دوڑ کر آئے اور لے۔ «فَإِذَا نُفِخَ فِی الصٰورِ فَلَا أَنسَابَ بَیْنَہُمْ یَوْمَئِذٍ وَلَا یَتَسَاءَلُونَ» ۱؎ (23-المؤمنون:101) ’ رشتے ناتے کٹ جائیں گے کوئی کسی کا پر سان حال نہ ہو گا ‘ ۔ اللہ تعالیٰ اپنا جو حق چاہے معاف فرما دے گا لیکن لوگوں کے حقوق میں سے کوئی حق معاف نہ فرمائے گا اسی طرح جب کوئی حقدار آئے گا تو کہا جائے گا کہ ان کے حق ادا کر یہ کہے گا دنیا تو ختم ہو چکی آج میرے ہاتھ میں کیا ہے جو میں دوں؟ پس اس کے نیک اعمال لیے جائیں گے اور حقداروں کو دئیے جائیں گے اور ہر ایک کا حق اسی طرح ادا کیا جائے گا۔ اب یہ شخص اگر اللہ کا دوست ہے تو اس کے پاس ایک رائی کے دانے برابر نیکی بچ رہے گی جسے بڑھا چڑھا کر صرف اسی کی بنا پر اللہ تعالیٰ اسے جنت میں لے جائے گا پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی اور اگر وہ بندہ اللہ کا دوست نہیں ہے بلکہ بدبخت اور سرکش ہے تو یہ حال ہو گا کہ فرشتہ کہے گا کہ باری تعالیٰ اس کی سب نیکیاں ختم ہو گئیں اور ابھی حقدار باقی رہ گئے حکم ہو گا کہ ان کی برائیاں لے کر اس پر لاد دو پھر اسے جہنم واصل کرو ۔ «اعاذنا اللہ منہا» اس موقوف اثر کے بعض شواہد مرفوع احادیث میں بھی موجود ہیں۔ ابن ابی حاتم میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے کہ آیت «مَن جَاءَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہُ عَشْرُ أَمْثَالِہَا» ۱؎ (6-الأنعام:160) اعراب کے بارے میں اتری ہے اس پر ان سے سوال ہوا کہ پھر مہاجرین کے بارے میں کیا ہے ، آپ نے فرمایا : اس سے بہت ہی اچھی آیت «إِنَّ اللہَ لَا یَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ وَإِن تَکُ حَسَنَۃً یُضَاعِفْہَا وَیُؤْتِ مِن لَّدُنْہُ أَجْرًا عَظِیمًا» ۱؎ (4-النساء:40) ۔ سعید بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں مشرک کے بھی عذابوں میں اس کے باعث کمی کر دی جاتی ہے ہاں جہنم سے نکلے گا تو نہیں، چنانچہ صحیح حدیث میں ہے کہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا : یا رسول اللہ ! آپ کے چچا ابوطالب آپ کے پشت پناہ بنے ہوئے تھے ، آپ کو لوگوں کی ایذاؤں سے بچاتے رہتے تھے ، آپ کی طرف سے ان سے لڑتے تھے ، تو کیا انہیں کچھ نفع بھی پہنچے گا ، آپ نے فرمایا ” ہاں وہ بہت تھوڑی سی آگ میں ہے اور اگر میرا یہ تعلق نہ ہوتا تو جہنم کے نیچے کے طبقے میں ہوتا۔ “ ۱؎ (صحیح بخاری:209) لیکن یہ بہت ممکن ہے کہ یہ فائدہ صرف ابوطالب کے لیے ہی ہو یعنی اور کفار اس حکم میں نہ ہوں اس لیے کہ مسند طیالسی کی حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ مومن کی کسی نیکی پر ظلم نہیں کرتا دنیا میں روزی رزق وغیرہ کی صورت میں اس کا بدلہ ملتا رہے گا اور آخرت میں اجر و ثواب کی شکل میں بدلہ ملے گا۔ ہاں کافر تو اپنی نیکی دنیا میں ہی کھا جاتا ہے قیامت کے دن اس کے پاس کوئی نیکی نہ ہو گی۔۱؎ (صحیح مسلم:2808) «اجر عظیم» سے مراد اس آیت میں جنت ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم لطف و رحم سے اپنی رضا مندی عطا فرمائے اور جنت نصیب کرے۔ آمین مسند احمد کی ایک غریب حدیث میں ہے ابوعثمان رحمہ اللہ فرماتے ہیں مجھے خبر ملی کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندے کو ایک نیکی کے بدلے ایک لاکھ نیکی کا ثواب دے گا مجھے بڑا تعجب ہوا اور میں نے کہا : ابوہریرہ کی خدمت میں تم سے زیادہ رہا ہوں میں نے تو کبھی آپ سے یہ حدیث نہیں سنی اب میں نے پختہ ارادہ کر لیا کہ جاؤں ، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مل کر ان سے خود پوچھ آؤں چنانچہ میں نے سامان سفر درست کیا اور اس روایت کی چھان بین کے لیے روانہ ہوا معلوم ہوا کہ وہ تو حج کو گئے ہیں تو میں بھی حج کی نیت سے وہاں پہنچا ، ملاقات ہوئی تو میں نے کہا : ابوہریرہ ! میں نے سنا آپ نے ایسی حدیث بیان کی ہے؟ کیا یہ سچ ہے؟ آپ نے فرمایا کیا تمہیں تعجب معلوم ہوتا ہے؟ تم نے قرآن میں نہیں پڑھا؟ کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو شخص اللہ کو اچھا قرض دے اللہ اسے بہت بہت بڑھا کر عنایت فرماتا ہے اور دوسری آیت میں ساری دنیا کو کم کہا گیا ہے ، اللہ تعالیٰ کی قسم ! میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ایک نیکی کو بڑھا کر اس کے بدلے دو لاکھ ملیں گی۔ ۱؎ (مسند احمد:2/521:ضعیف) یہ حدیث اور طریقوں سے بھی مروی ہے۔ پھر قیامت کے دن کی سختی اور ہولناکی بیان فرما رہا ہے کہ اس دن انبیاء علیہ السلام کو بطور گواہ کے پیش کیا جائے گا جیسے اور آیت میں ہے «وَأَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبِّہَا وَوُضِعَ الْکِتَابُ وَجِیءَ بِالنَّبِیِّینَ وَالشٰہَدَاءِ وَقُضِیَ بَیْنَہُم بِالْحَقِّ وَہُمْ لَا یُظْلَمُونَ» ۱؎ (39-الزمر:69) ’ زمین اپنے رب کے نور سے چمکنے لگے گی نامہ اعمال دئیے جائیں گے اور نبیوں اور گواہوں کو لاکھڑا کیا جائے گا ‘ ۔ اور جگہ فرمان ہے «وَیَوْمَ نَبْعَثُ فِی کُلِّ أُمَّۃٍ شَہِیدًا عَلَیْہِم مِّنْ أَنفُسِہِمْ» ۱؎ (16-النحل:89) ’ ہر امت پر انہی میں سے ہم گواہ کھڑا کریں گے‘ ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے فرمایا : ” مجھے کچھ قرآن پڑھ کر سناؤ “ ، سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا : یا رسول اللہ ! میں آپ کو کیا پڑھ کر سناؤں گا ، آپ پر تو اترا ہی ہے ، فرمایا : ” ہاں لیکن میرا جی چاہتا ہے کہ دوسرے سے سنوں “ ، پس میں نے سورۃ نساء کی تلاوت شروع کی پڑھتے پڑھتے جب میں نے اس آیت «فَکَیْفَ إِذَا جِئْنَا مِن کُلِّ أُمَّۃٍ بِشَہِیدٍ وَجِئْنَا بِکَ عَلَی ہَـؤُلَاءِ شَہِیدًا» ۱؎ (4-النساء:41) کی تلاوت کی تو آپ نے فرمایا بس کرو میں نے دیکھا کہ آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5050) سیدنا محمد بن فضالہ انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ قبیلہ بنی ظفر کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور ایک چٹان پر بیٹھ گئے جو اب تک ان کے محلے میں ہے ، آپ کے ساتھ سیدنا ابن مسعود ، سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہا اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم بھی تھے ، آپ نے ایک قاری سے فرمایا : ” قرآن پڑھو “ ، پڑھتے پڑھتے جب اس آیت «فَکَیْفَ إِذَا جِئْنَا مِن کُلِّ أُمَّۃٍ بِشَہِیدٍ وَجِئْنَا بِکَ عَلَی ہَـؤُلَاءِ شَہِیدًا» ۱؎ (4-النساء:41) تک پہنچا تو آپ اس قدر روئے کہ دونوں رخسار اور داڑھی تر ہو گئی اور عرض کرنے لگے ، یا رب ! جو موجود ہیں ان پر تو خیر میری گواہی ہو گی لیکن جن لوگوں کو میں نے دیکھا ہی نہیں ان کی بابت کیسے؟ ۱؎ (مسند احمد:374/1:حسن) (ابن ابی حاتم) ابن جریر میں ہے کہ آپ نے فرمایا میں ان پر گواہ ہوں جب تک کہ ان میں ہوں پس جب تو مجھے فوت کرے گا تب تو تو ہی ان پر نگہبان ہے۔ ۱؎ (:تفسیر ابن جریر الطبری:9520:صحیح) ابوعبداللہ قرطبی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب تذکرہ میں باب باندھا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی امت پر شہادت کے بارے میں کیا آیا ہے؟ اس میں سعید بن مسیب رحمہ اللہ کا یہ قول لائے ہیں کہ ہر دن صبح شام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر آپ کی امت کے اعمال پیش کئے جاتے ہیں مع ناموں کے پس آپ قیامت کے دن ان سب پر گواہی دیں گے پھر یہی آیت تلاوت فرمائی لیکن اولاً تو یہ سعید رحمہ اللہ کا خود کا قول ہے، دوسرے یہ کہ اس کی سند میں انقطاع ہے، اس میں ایک راوی مبہم ہے جس کا نام ہی نہیں تیسرے یہ حدیث مرفوع کر کے بیان ہی نہیں کرتے ۔ ہاں امام قرطبی رحمہ اللہ اسے قبول کرتے ہیں وہ اس کے لانے کے بعد فرماتے ہیں کہ پہلے گزر چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے ہر پیر اور ہر جمعرات کو اعمال پیش کئے جاتے ہیں پس وہ انبیاء علیہ السلام پر اور ماں باپ پر ہر جمعہ کو پیش کئے جاتے ہیں اور اس میں کوئی تعارض نہیں ممکن ہے کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہر جمعہ کو بھی پیش ہوتے ہوں اور ہر دن بھی [ ٹھیک یہی ہے کہ یہ بات صحت کے ساتھ ثابت نہیں واللہ اعلم۔ مترجم] پھر فرماتا ہے کہ اس دن کافر اور رسول کا نافرمان آرزو کرے گا کہ کاش زمین پھٹ جاتی اور یہ اس میں سما جاتا پھر زمین برابر ہو جاتی کیونکہ ناقابل برداشت ہولناکیوں ، رسوائیوں اور ڈانٹ ڈپٹ سے گھبرا اٹھے گا ، جیسے اور آیت میں ہے «یَّوْمَ یَنْظُرُ الْمَرْءُ مَا قَدَّمَتْ یَدٰہُ وَیَقُوْلُ الْکٰفِرُ یٰلَیْتَــنِیْ کُنْتُ تُرٰبًا» ۱؎ ‏‏‏‏(78-النبأ:40) جس دن انسان اپنے آگے بھیجے ہوئے اعمال اپنی آنکھوں دیکھ لے گا اور کافر کہے گا کاش کہ میں مٹی ہو گیا ہوتا۔ پھر فرمایا یہ ان تمام بدافعالیوں کا اس دن اقرار کریں گے جو انہوں نے کی تھیں اور ایک چیز بھی پوشیدہ نہ رکھیں گے ۔ ایک شخص نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا ایک جگہ تو قرآن میں ہے کہ مشرکین قیامت کے دن کہیں گے «وَاللّٰہِ رَبِّنَا مَا کُنَّا مُشْرِکِیْنَ» ۱؎ (6-الأنعام:23)‏‏‏‏ اللہ تعالیٰ کی قسم رب کی قسم ہم نے شرک نہیں کیا اور دوسری جگہ ہے کہ «وَلَا یَکْتُمُوْنَ اللّٰہَ حَدِیْثًا»۱؎ ‏‏(4-النساء:42) اللہ سے ایک بات بھی نہ چھپائیں گے پھر ان دونوں آیتوں کا کیا مطلب ہے؟ آپ نے فرمایا اس کا اور وقت ہے اس کا وقت اور ہے اور جب موحدوں کو جنت میں جاتے ہوئے دیکھیں گے تو کہیں گے آؤ تم بھی اپنے شرک کا انکار کرو کیا عجب کام چل جائے۔ پھر ان کے منہ پر مہریں لگ جائیں گی اور ہاتھ پاؤں بولنے لگیں گے اب اللہ تعالیٰ سے ایک بات بھی نہ چھپائیں گے ۔ (ابن جریر) مسند عبدالزاق میں ہے کہ اس شخص نے آ کر کہا تھا بہت سی چیزیں مجھ پر قرآن میں مختلف ہوتی ، آپ نے فرمایا کیا مطلب تجھے کیا قرآن میں شک ہے؟ اس نے کہا شک تو نہیں ہاں میری سمجھ میں اختلاف نظر آ رہا ہے، آپ نے فرمایا جہاں جہاں اختلاف تجھے نظر آیا ہو ان مقامات کو پیش کر ، تو اس نے یہ دو آیتیں پیش کیں کہ ایک سے چھپانا ثابت ہوتا ہے ، دوسرے سے نہ چھپانا پایا جاتا ہے ، تو آپ نے اسے یہ جواب دے کر دونوں آیتوں کی تطبیق سمجھا دی۔ ایک اور روایت میں سائل کا نام بھی آیا ہے کہ وہ نافع بن ازرق تھے یہ بھی ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ان سے یہ بھی فرمایا کہ شاید تم کسی ایسی مجلس سے آ رہے ہو جہاں ان کا تذکرہ ہو رہا ہو گا یا تم نے کیا ہو گا کہ میں جاتا ہوں اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے دریافت کرتا ہوں اگر میرا یہ گمان صحیح ہے تو تمہیں لازم ہے کہ جواب سن کر انہیں بھی جا کر سنا دو پھر یہی جواب دیا۔ النسآء
41 النسآء
42 النسآء
43 بتدریج حرمت شراب اور پس منظر اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے ایماندار بندوں کو نشے کی حالت میں نماز پڑھنے سے روک رہا ہے کیونکہ اس وقت نمازی کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور ساتھ ہی محل نماز یعنی مسجد میں آنے سے روکا جا رہا ہے اور ساتھ جنبی شخص جسے نہانے کی حاجت ہو محل نماز یعنی مسجد میں آنے سے روکا جا رہا ہے۔ ہاں ایسا شخص کسی کام کی وجہ سے مسجد کے ایک دروازے سے داخل ہو کر دوسرے دروازے سے نکل جائے تو جائز ہے۔ نشے کی حالت میں نماز کی قریب نہ جانے کا حکم شراب کی حرمت سے پہلے تھا ، جیسے اس حدیث سے ظاہر ہے جو ہم نے سورۃ البقرہ کی «یَسْأَلُونَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ قُلْ فِیہِمَا إِثْمٌ کَبِیرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُہُمَا أَکْبَرُ مِن نَّفْعِہِمَا وَیَسْأَلُونَکَ مَاذَا یُنفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ کَذَلِکَ یُبَیِّنُ اللہُ لَکُمُ الْآیَاتِ لَعَلَّکُمْ تَتَفَکَّرُونَ» ۱؎ (2-البقرۃ:219) کی تفسیر میں بیان کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب وہ آیت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے تلاوت کی تو آپ نے دعا مانگی کہ اے اللہ ! شراب کے بارے میں اور صاف صاف بیان نازل فرما پھر نشے کی حالت میں نماز کے قریب نہ جانے کی یہ آیت اتری اس پر نمازوں کے وقت اس کا پینا لوگوں نے چھوڑ دیا۔ اسے سن کر بھی سیدنا فاروق رضی اللہ عنہ نے یہی دعا مانگی تو «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطَانِ فَاجْتَنِبُوہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ» * «إِنَّمَا یُرِیدُ الشَّیْطَانُ أَن یُوقِعَ بَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَاءَ فِی الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ وَیَصُدَّکُمْ عَن ذِکْرِ اللہِ وَعَنِ الصَّلَاۃِ فَہَلْ أَنتُم مٰنتَہُونَ» ۱؎ (5-المائدۃ:90-91) تک نازل ہوئی جس میں شراب سے بچنے کا حکم صاف موجود ہے اسے سن کر سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہم باز آئے۔ اسی روایت کی ایک سند میں ہے کہ جب سورۃ نساء کی یہ آیت نازل ہوئی اور نشے کے وقت نماز پڑھنے کی ممانعت ہوئی اس وقت یہ دستور تھا کہ جب نماز کھڑی ہوتی تو ایک شخص آواز لگاتا کہ کوئی نشہ والا نماز کے قریب نہ آئے۔ ۱؎ (سنن ابوداود:3670،قال الشیخ الألبانی: صحیح) ابن ماجہ شریف میں ہے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میرے بارے میں چار آیتیں نازل ہوئی ہیں، ایک انصاری نے بہت سے لوگوں کی دعوت کی ہم سب نے خوب کھایا پیا پھر شرابیں پیں اور مخمور ہو گئے پھر آپس میں فخر جتانے لگے ایک شخص نے اونٹ کے جبڑے کی ہڈی اٹھا کر سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کو ماری جس سے ناک پر زخم آیا اور اس کا نشان باقی رہ گیا اس وقت تک شراب کو اسلام نے حرام نہیں کیا تھا پس یہ آیت نازل ہوئی یہ حدیث صحیح مسلم شریف میں بھی پوری مروی ہے ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1748) ابن ابی حاتم کی روایت میں ہے کہ سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے دعوت کی لوگ گئے سب نے کھانا کھایا پھر شراب پی اور مست ہو گئے اتنے میں نماز کا وقت آ گیا ایک شخص کو امام بنایا اس نے نماز میں سورۃ «‏‏‏‏قُلْ یَا أَیٰہَا الْکَافِرُونَ» ‏‏‏‏ میں اس طرح پڑھا «‏‏‏‏ما اعبد ما تعبدون ونحن نعبد ما تعبدون» اس پر یہ آیت اتری اور نشے کی حالت میں نماز کا پڑھنا منع کیا گیا۔ یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے اور حسن ہے ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3026،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابن جریر کی روایت میں ہے کہ سیدنا علی، سیدنا عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہما اور تیسرے ایک اور صاحب نے شراب پی اور سیدنا عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ نماز میں امام بنائے گئے اور قرآن کی قرأت خلط ملط کر دی اس پر یہ آیت اتری۔ ابوداؤد اور نسائی میں بھی یہ روایت ہے۔ ۱؎ (سنن ابوداود:3671،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابن جریر کی ایک اور روایت میں ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے امامت کی اور جس طرح پڑھنا چاہیئے تھا نہ پڑھ سکے اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:8/9525:صحیح بالشواھد) اور ایک روایت میں مروی ہے کہ سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے امامت کرائی اور اس طرح پڑھا «قل ایھا الکافرون اعبدما تعبدما تعبدون وانتم عابدون ما اعبدو انا عابد ما عبدتم ما عبدتم لکم دینکم ولی دین» پس یہ آیت نازل ہوئی اور اس حالت میں نماز پڑھنا حرام کر دیا گیا ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:8/9527:صحیح بالشواھد) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ شراب کی حرمت سے پہلے لوگ نشہ کی حالت میں نماز کے لیے کھڑے ہوتے تھے پس اس آیت سے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا گیا۔ (ابن جریر) قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس کے نازل ہونے کے بعد لوگ اس سے رک گئے پھر شراب کی مطلق حرمت نازل ہونے کے بعد لوگ اس سے بالکل تائب ہو گئے ۔ ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے شراب کا نشہ مراد نہیں بلکہ نیند کا خمار مراد ہے، امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں ٹھیک یہی ہے کہ مراد اس سے شراب کا نشہ ہے اور یہاں خطاب ان سے کیا گیا ہے جو نشہ میں ہیں لیکن اتنے نشہ میں بھی نہیں کہ احکام شرع ان پر جاری ہی نہ ہو سکیں کیونکہ نشے کی ایسی حالت والا شخص مجنون کے حکم میں ہے ۔ بہت سے اصولی حضرات کا قول ہے کہ خطاب ان لوگوں سے ہے جو کلام کو سمجھ سکیں ایسے نشہ والوں کی طرف نہیں جو سمجھتے ہی نہیں کہ ان سے کیا کہا جا رہا ہے اس لیے کہ خطاب کا سمجھنا شرط ہے تکلیف کی، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ گو الفاظ یہ ہیں کہ نشہ کی حالت میں نماز نہ پڑھو لیکن مراد یہ ہے کہ نشے کی چیز کھاؤ پیو بھی نہیں اس لیے کہ دن رات میں پانچ وقت نماز فرض ہے تو کیسے ممکن ہے کہ ایک شرابی ان پانچویں وقت نمازیں ٹھیک وقت پر ادا کر سکے حالانکہ شراب برابر پی رہا ہے ۔ «واللہ اعلم» پس یہ حکم بھی اسی طرح ہو گا جس طرح یہ حکم ہے کہ ایمان والو ! اللہ سے ڈرتے رہو جتنا اس سے ڈرنے کا حق ہے اور نہ مرنا تم مگر اس حالت میں کہ تم مسلمان ہو۔ تو اس سے مراد یہ ہے کہ ایسی تیاری ہر وقت رکھو اور ایسے پاکیزہ اعمال ہر وقت کرتے رہو کہ جب تمہیں موت آئے تو اسلام پر دم نکلے یہ جو اس آیت میں ارشاد ہوا ہے کہ یہاں تک کہ تم معلوم کر سکو جو تم کہہ رہے ہو، یہ نشہ کی حد ہے یعنی نشہ کی حالت میں اس شخص کو سمجھا جائے گا جو اپنی بات نہ سمجھ سکے نشہ والا انسان قرات میں غلط ملط کردے گا اسے سوچنے سمجھنے اور غور و فکر کا موقعہ نہ ملے گا نہ ہی اسے عاجزی اور خشوع خضوع حاصل ہو سکتا ہے۔ مسند احمد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ” جب تم میں سے اگر کوئی نماز میں اونگھنے لگے تو اسے چاہیئے کہ وہ نماز چھوڑ کر سو جائے جب تک کہ وہ جاننے لگے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ “ ۱؎ (صحیح بخاری:213) بخاری اور نسائی میں بھی یہ حدیث ہے اور اس کے بعض طرق میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ ممکن ہے کہ چاہے تو وہ اپنے لیے استغفار کرے لیکن اس کی زبان سے اس کے خلاف نکلے۔۱؎ (صحیح بخاری:212) آداب مسجد اور مسائل تیمم پھر فرمان ہے کہ جنبی نماز کے قریب نہ جائے جب تک غسل نہ کر لے ہاں بطور گزر جانے کے مسجد میں گزرنا جائز ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ایسی ناپاکی کی حالت میں مسجد میں جانا ناجائز ہے ہاں مسجد کے ایک طرف سے نکل جانے میں کوئی حرج نہیں مسجد میں بیٹھے نہیں ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:8/382) اور بھی بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہ اللہ علیہم کا یہی قول ہے یزید بن ابوحبیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں بعض انصار جو مسجد کے گرد رہتے تھے اور جنبی ہوتے تھے گھر میں پانی نہیں ہوتا تھا اور گھر کے دروازے مسجد سے متصل تھے انہیں اجازت مل گئی کہ مسجد سے اسی حالت میں گزر سکتے ہیں۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:8/381) بخاری شریف کی ایک حدیث سے بھی یہ بات صاف طور پر ثابت ہوتی ہے کہ لوگوں کے گھروں کے دروازے مسجد میں تھے چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری مرض الموت میں فرمایا تھا کہ مسجد میں جن جن لوگوں کے دروازے پڑتے ہیں سب کو بند کر دو ابوبکر کا دروازہ رہنے دو ۔۱؎ (صحیح بخاری:467) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ کے بعد آپ کے جانشین سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ہوں گے تو انہیں ہر وقت اور بکثرت مسجد میں آنے جانے کی ضرورت رہے گی تاکہ مسلمانوں کے اہم امور کا فیصلہ کر سکیں اس لیے آپ نے سب کے دروازے بند کرنے اور سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا دروازہ کھلا رکھنے کی ہدایت فرمائی۔ بعض سنن کی اس حدیث میں بجائے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا نام ہے۔۱؎ (سنن ترمذی:3732،قال الشیخ الألبانی:صحیح) وہ بالکل غلط ہے صحیح یہی ہے جو صحیح میں ہے اس آیت سے اکثر ائمہ نے دلیل پکڑی ہے کہ جنبی شخص کو مسجد میں ٹھہرانا حرام ہے ہاں گزر جانا جائز ہے، اسی طرح حیض و نفاس والی عورتوں کو بھی بعض کہتے ہیں ان دونوں کے گزرنا بھی جائز نہیں ممکن ہے مسجد میں آلودگی ہو اور بعض کہتے اگر اس بات کا خوف نہ ہو انکا گزرنا بھی جائز ہے۔ صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ مسجد سے مجھے بوریا اٹھا دو تو ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں حیض سے ہوں آپ نے فرمایا : ” تیرا حیض تیرے ہاتھ میں نہیں “ ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:298) اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حائضہ مسجد میں آ جا سکتی ۔ ہے اور نفاس والی کے لیے بھی یہی حکم ہے۔ یہ دونوں بطور راستہ چلنے کے جا سکتی ہیں۔ ابو داؤد میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ میں حائض اور جنبی کے لیے مسجد کو حلال نہیں کرتا۔ ۱؎ (سنن ابوداود:232،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) امام ابومسلم خطابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس حدیث کو ایک جماعت نے ضعیف کہا ہے کیونکہ ” افلت “ اس کا راوی مجہول ہے۔ لیکن ابن ماجہ میں یہ روایت ہے اس میں افلت کی جگہ مخدوج ذہلی ہیں۔۱؎ (سنن ابن ماجہ:645،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) پہلی حدیث بروایت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور دوسری بروایت سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا ہے لیکن ٹھیک نام سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا ہی ہے۔ ایک اور حدیث ترمذی میں ہے جس میں ہے کہ اے سیدنا علی رضی اللہ عنہ اس مسجد میں جنبی ہونا میرے اور تیرے سوا کسی کو حلال نہیں۔۱؎ (سنن ترمذی:3727،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) یہ حدیث بالکل ضعیف ہے اور ہرگز ثابت نہیں ہو سکتی اس میں سالم راوی ہے جو متروک ہے اور ان کے استاد عظیہ بھی ضعیف ہیں۔ واللہ اعلم۔ اس آیت کی تفسیر میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ جنبی شخص بغیر غسل کئے نماز نہیں پڑھ سکتا لیکن اگر وہ مسافر ہو اور پانی نہ ملے تو پانی کے ملنے تک پڑھ سکتا ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سعید بن جبیر اور ضحاک رحمہ اللہ علیہما سے بھی یہی مروی ہے، مجاہد ، حسن ، حکم ، زید اور عبدالرحمٰن رحمہ اللہ علیہم سے بھی اس کے مثل مروی ہے ۔ عبداللہ بن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں ہم سنا کرتے تھے کہ یہ آیت سفر کے حکم میں ہے، اس حدیث سے بھی مسئلہ کی شہادت ہو سکتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” پاک مٹی مسلمان کی طہارت ہے گو دس سال تک پانی نہ ملے اور جب مل جائے تو اسی کو استعمال کرے یہ تیرے لیے بہتر ہے۔ “۱؎ (سنن ترمذی:124،قال الشیخ الألبانی:صحیح) (سنن اور احمد) امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں ان دونوں قولوں میں اولیٰ قول ان ہی لوگوں کا ہے جو کہتے ہیں مراد بطور گزر جانے کے کیونکہ جس مسافر کو جنابت کی حالت میں پانی نہ ملے اس کا حکم تو آگے صاف بیان ہوا ہے پس اگر یہی مطلب یہاں بھی لیا جائے تو پھر دوسرے جملہ میں اسے لوٹانے کی ضرورت باقی نہیں رہتی پس معنی آیت کے اب یہ ہوئے کہ ایمان والو ! نماز کے لیے مسجد میں نہ جاؤ جب کہ تم نشے میں ہو جب تک تم اپنی بات کو آپ نہ سمجھنے لگو۔ اسی طرح جنابت کی حالت میں بھی مسجد میں نہ جاؤ جب تک نہا نہ لو ہاں صرف گزر جانا جائز ہے «عابر» کے معنی آنے جانے یعنی گزر جانے والے ہیں اس کا مصدر «عبراً» اور «عبورًا» آتا ہے جب کوئی نہر سے گزرے تو عرب کہتے ہیں «عبرفلان النھر» فلاں شخص نے نہر کو عبور کر لیا اسی طرح قوی اونٹنی کو جو سفر کاٹتی ہو «عبرالاسفار» کہتے ہیں۔ امام ابن جیریر رحمہ اللہ جس قول کی تائید کرتے ہیں یہی قول جمہور کا ہے اور آیت سے ظاہر بھی یہی ہے یعنی اللہ تعالیٰ اس ناقص حالت میں نماز سے منع فرما رہا ہے جو مقصود نماز کے خلاف ہے اسی طرح نماز کی جگہ میں بھی ایسی حالت میں آنے کو روکتا ہے جو اس جگہ کی عظمت اور پاکیزگی کے خلاف ہے ۔ «واللہ اعلم» پھر جو فرمایا کہ یہاں تک کہ تم غسل کر لو امام ابوحنیفہ، امام مالک اور شافعی رحمہ اللہ علیہم اسی دلیل کی روشنی میں کہتے ہیں کہ جنبی کو مسجد میں ٹھہرنا حرام ہے جب تک غسل نہ کر لے یا اگر پانی نہ ملے یا پانی ہو لیکن اس کے استعمال کی قدرت نہ ہو تو تیمم کر لے۔ امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں جب جنبی نے وضو کر لیا تو اسے مسجد میں ٹھہرنا جائز ہے چنانچہ مسند احمد اور سنن سعید بن منصور میں مروی ہے۔ عطا بن یسار رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کو دیکھا کہ وہ جنبی ہوتے اور وضو کر کے مسجد میں بیٹھے رہتے ۔ «واللہ اعلم» پھر تیمم کے مواقع بیان فرمائے جس بیماری کی وجہ سے تیمم جائز ہو جاتا ہے وہ وہ بیماری ہے کہ اس وقت پانی کے استعمال سے عضو کے فوت ہو جانے یا اس کے خراب ہو جانے یا مرض کی مدت بڑھ جانے کا خوف ہو ۔ بعض علماء نے ہر مرض پر تیمم کی اجازت کا فتویٰ دیا ہے کیونکہ آیت میں عموم ہے ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ایک انصاری بیمار تھے نہ تو کھڑے ہو کر وضو کر سکتے تھے ، نہ ان کا کوئی خادم تھا جو انہیں پانی دے انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا اس پر یہ حکم اترا یہ روایت مرسل ہے۔ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:3/5365:مرسل و ضعیف) دوسری حالت میں تیمم کے جواز کی وجہ سفر ہے خواہ لمبا سفر اور خواہ چھوٹا۔ «غائط» نرم زمین کو یہاں سے کنایہ کیا گیا ہے پاخانہ پیشاب سے۔ «لَامَسْتُمُ» کی دوسری قرأت «لمَسْتُمُ» ہے اس کی تفسیر میں دو قول ہیں ایک یہ کہ مراد جماع ہے جیسے اور آیت میں ہے «وَإِن طَلَّقْتُمُوہُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسٰوہُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَہُنَّ فَرِیضَۃً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ» ۱؎ (2-البقرۃ:237) یعنی اگر تم اپنی بیویوں کو مجامعت سے پہلے طلاق دو اور ان کا مہر مقرر ہو تو جو مقرر ہے اس کا آدھا دو اور آیت میں ہے ، اے ایمان والو ! جب تم ایمان والی عورتوں سے نکاح کرو پھر مجامعت سے پہلے انہیں طلاق دے دو تو ان کے ذمہ عدت نہیں، یہاں بھی لفظ «‏‏‏‏مِن قَبْلِ أَن تَمَسٰوہُنَّ»‏‏‏‏ ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ «أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ» سے مراد مجامعت ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:8/392) سیدنا علی سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہما مجاہد، طاؤس، حسن، عبید بن عمیر، سعید بن جبیر، شعبی، قتادہ، مقاتل بن حیان رحمہ اللہ علیہم سے بھی یہی مروی ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:8/392) سعید بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں ایک مرتبہ اس لفظ پر مذاکرہ ہوا تو چند موالی نے کہا یہ جماع نہیں اور چند عرب نے کہا جماع ہے، میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس کا ذکر کیا آپ نے پوچھا تم کن کے ساتھ تھے میں نے کہا موالی کے فرمایا موالی مغلوب ہو گئے لمس اور مس اور مباشرت کا معنی جماع ہے، اللہ تعالیٰ نے یہاں کنایہ کیا ہے۔ بعض اور حضرات نے اس سے مراد مطلق چھونا لیا ہے۔ خواہ جسم کے کسی حصہ کو عورت کے کسی حصہ سے ملایا جائے تو وضو کرنا پڑے گا۔ «لمس» سے مراد چھونا ہے اور اس سے بھی وضو واجب ہو جاتا ہے ۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں «لمس» جماع کے ہم معنی نہیں ، آپ فرماتے ہیں بوسہ بھی «لمس» میں داخل ہے اور اس سے بھی وضو کرنا پڑے گا فرماتے ہیں مباشرت سے ہاتھ لگانے سے بوسہ لینے سے وضو کرنا پڑے گا۔ «لمس» سے مراد چھونا ہے ۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بھی عورت کا بوسہ لینے سے وضو کرنے کے قائل تھے اور اسے «لمس» میں داخل جانتے تھے ۔ عبیدہ، ابوعثمان، ثابت، ابراہیم، زید رحمہ اللہ علیہم بھی کہتے ہیں کہ «لمس» سے مراد جماع کے علاوہ ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ انسان کا اپنی بیوی کا بوسہ لینا اور اسے ہاتھ لگانا ملامست ہے اس سے وضو کرنا پڑے گا ۔ ۱؎ (موطا:64) دارقطنی میں خود سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح مروی ہے لیکن دوسری روایت آپ سے اس کے خلاف بھی پائی جاتی ہے آپ باوضو تھے ،آپ نے اپنی بیوی کا بوسہ لیا پھر وضو نہ کیا اور نماز ادا کی۔ پس دونوں روایتوں کو صحیح ماننے کے بعد یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ آپ وضو کو مستحب جانتے تھے واللہ اعلم۔ مطلق چھونے سے وضو کے قائل امام شافعی رحمہ اللہ اور ان کے ساتھی امام مالک رحمہ اللہ ہیں اور مشہور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے بھی یہی روایت ہے۔ اس قول کے قائل کہتے ہیں کہ یہاں دو قرأتیں ہیں «لَامَسْتُمُ» اور «لمَسْتُمُ» اور لمس کا اطلاق ہاتھ لگانے پر بھی قرآن کریم میں آیا ہے چنانچہ ارشاد ہے «وَلَوْ نَزَّلْنَا عَلَیْکَ کِتٰبًا فِیْ قِرْطَاسٍ فَلَمَسُوْہُ بِاَیْدِیْہِمْ لَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِنْ ہٰذَآ اِلَّا سِحْـرٌ مٰبِیْنٌ»۱؎ ‏‏‏ (6-الأنعام:7) ظاہر ہے کہ یہاں ہاتھ لگانا ہی مراد ہے ۔ اسی طرح سیدنا ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ شاید تم نے بوسہ لیا ہو گا ہاتھ لگایا ہو گا۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6844) وہاں بھی لفظ «لَمَسْتُ» ہے۔ اور صرف ہاتھ لگانے کے معنی میں ہی اور حدیث میں ہے «‏‏‏‏والیدز ناھا اللمس» ہاتھ کا ”زنا“ چھونا اور ہاتھ لگانا ہے ۔ ۱؎ (مسند احمد:8/238:صحیح) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں بہت کم دن ایسے گزرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آ کر بوسہ نہ لیتے ہوں اور ہاتھ نہ لگاتے ہوں۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2135،قال الشیخ الألبانی:صحیح) بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع ملامست سے منع فرمایا ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2144) یہ بھی ہاتھ لگانے کے بیع ہے پس یہ لفظ جس طرح جماع پر بولا جاتا ہے ، ہاتھ سے چھونے پر بھی بولا جاتا ہے ۔ شاعر کہتا ہے «ولمست کفی کفہ اطلب الغنی» میرا ہاتھ اس کے ہاتھ سے ملا تو میں تونگری چاہتا تھا۔ ایک اور روایت میں ہے کہ ایک شخص سرکار محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہو کر عرض کرتا ہے کہ اے اللہ کے رسول ! اس شخص کے بارے میں کیا فیصلہ ہے جو ایک اجنبی عورت کے ساتھ تمام وہ کام کرتا ہے جو میاں بیوی میں ہوتے ہیں سوائے جماع کے تو «وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفَیِ النَّہَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّیْلِ» ۱؎ (11-ہود:114) ‏‏‏‏ نازل ہوتی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” وضو کر کے نماز ادا کر لے “ ، اس پر سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ پوچھتے ہیں کیا یہ اسی کے لیے خاص ہے یا سب مسلمانوں کے لیے عام ہے آپ جواب دیتے ہیں تمام ایمان والوں کے لیے ہے ۔۱؎ (سنن ترمذی:3113،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) امام ترمذی رحمہ اللہ اسے زائدہ کی حدیث سے روایت کر کے فرماتے ہیں اس کی سند متصل نہیں۔ امام نسائی رحمہ اللہ اسے مرسلاً روایت کرتے ہیں الغرض اس قول کے قائل اس حدیث سے یہ کہتے ہیں کہ اسے وضو کا حکم اسی لیے دیا تھا کہ اس نے عورت کو چھوا تھا جماع نہیں کیا تھا۔ اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ اولاً تو یہ منقطع ہے ابن ابی لیلیٰ اور معاذ کے درمیان ملاقات کا ثبوت نہیں دوسرے یہ کہ ہو سکتا ہے اسے وضو کا حکم فرض نماز کی ادائیگی کے لیے دیا ہو جیسے کہ سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ والی حدیث ہے کہ جو بندہ کوئی گناہ کرے پھر وضو کر کے دو رکعت نماز ادا کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہ معاف فرما دیتا ہے۔ یہ پوری حدیث سورۃ آل عمران میں «‏‏‏‏ذَکَرُوا اللّٰہَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِھِمْ ۠ وَ مَنْ یَّغْفِرُ الذٰنُوْبَ اِلَّا اللّٰہُ» ۱؎ (3-آل عمران:135) کی تفسیر میں گزر چکی ہے ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں ان دونوں قولوں میں سے اولیٰ قول ان کا ہے جو کہتے ہیں کہ مراد اس سے جماع نہ کہ اور کیونکہ صحیح مرفوع حدیث میں آ چکا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کسی بیوی صاحبہ کا بوسہ لیا اور بغیر وضو کئے نماز پڑھی ، ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:9634) ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں نبی کریم رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم وضو کرتے بوسہ لیتے پھر بغیر وضو کیے نماز پڑھتے۔ حبیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں { ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کسی بیوی کا بوسہ لیتے نماز کو جاتے ، میں نے کہا وہ آپ ہی ہوں گی تو آپ مسکرا دیں } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:86،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اس کی سند میں کلام ہے لیکن دوسری سندوں سے ثابت ہے کہ اوپر کے راوی یعنی سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے سننے والے سیدنا عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ہیں ۔ اور روایت میں ہے کہ { وضو کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرا بوسہ لیا اور پھر وضو کیے بغیر نماز ادا کی } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:178،قال الشیخ الألبانی:صحیح) { ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بوسہ لیتے حالانکہ آپ روزے سے ہوتے ، پھر نہ تو روزہ جاتا ، نہ نیا وضو کرتے } ۔ ۱؎ (الطبری:9638:ضعیف) (ابن جریر) { سیدہ زینت بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بوسہ لینے کے بعد وضو نہ کرتے اور نماز پڑھتے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:62/6:ضعیف) اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اگر پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی سے تیمم کر لو، اس سے اکثر فقہاء نے استدلال کیا ہے کہ پانی نہ پانے والے کے لیے تیمم کی اجازت پانی کی تلاش کے بعد ہے۔ کتب فروع میں تلاش کی کیفیت بھی لکھی ہے بخاری و مسلم میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ الگ تھلگ ہے اور لوگوں کے ساتھ اس نے نماز جماعت کے ساتھ نہیں پڑھی تو آپ نے اس سے پوچھا : ” تو نے لوگوں کے ساتھ نماز کیوں نہ پڑھی؟ کیا تو مسلمان نہیں؟ “ ، اس نے کہا : یا رسول اللہ ! ہوں تو مسلمان لیکن جنبی ہو گیا اور پانی نہ ملا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” پھر اس صورت میں تجھے مٹی کافی ہے “ ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:348) «تیمم» کے لفظی معنی قصد کرنے کے ہیں۔ عرب کہتے ہیں «تیممک اللہ بحفظہ» یعنی اللہ اپنی حفاظت کے ساتھ تیرا قصد کرے، امراء القیس کے شعر میں بھی یہ لفظ اسی معنی میں آیا ہے۔ «صعید» کے معنی میں کہا گیا ہے کہ ہر وہ چیز جو زمین میں سے اوپر کو چڑھے پس اس میں مٹی ، ریت ، درخت ، پتھر ، گھاس بھی داخل ہو جائیں گے۔ امام مالک رحمہ اللہ کا قول یہی ہے اور کہا گیا ہے کہ جو چیز مٹی کی جنس سے ہو جیسے ریت ہڑتال اور چونا یہ مذہب ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا ہے اور یہ بھی کہا گیا کہ صرف مٹی ہے مگر یہ قول ہے امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ علیہما اور ان کے تمام ساتھیوں کا ہے اس کی دلیل ایک تو قرآن کریم کے یہ الفاظ ہیں «‏‏‏‏فَتُصْبِحَ صَعِیْدًا زَلَقًا» ‏‏‏‏۱؎ (18-الکہف:40) یعنی ہو جائے وہ مٹی پھسلتی۔ دوسری دلیل صحیح مسلم شریف کی یہ حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ہمیں تمام لوگوں پر تین فضیلتیں دی گئی ہیں ، ہماری صفیں مثل فرشتوں کی صفوں کی ہیں ، ہمارے لیے تمام زمین مسجد بنائی گئی اور زمین کی مٹی ہمارے لیے پاک اور پاک کرنے والی بنائی گئی جبکہ ہم پانی نہ پائیں۔ “ ۱؎ (صحیح مسلم:522) اور ایک سند سے بجائے «تربت» کے «تراب» کا لفظ مروی ہے۔ پس اس حدیث میں احسان کے جتاتے وقت مٹی کی تخصیص کی گئی، اگر کوئی اور چیز بھی وضو کے قائم مقام کام آنے والی ہوتی تو اس کا ذکر بھی ساتھ ہی کر دیتے۔ یہاں یہ لفظ «طیب» اسی کے معنی میں آیا ہے۔ مراد حلال ہے اور کہا گیا ہے کہ مراد پاک ہے ، جیسے حدیث میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” پاک مٹی مسلمانوں کا وضو ہے گو دس سال تک پانی نہ پائے ،، پھر جب پانی ملے تو اسے اپنے جسم سے بہائے یہ اس کے لیے بہتر ہے “ ، ۱؎ (سنن ترمذی:124،قال الشیخ الألبانی:صحیح) امام ترمذی رحمہ اللہ اسے حسن صحیح کہتے ہیں حافظ ابوالحسن قطان رحمہ اللہ بھی اسے صحیح کہتے ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں سب سے زیادہ پاک مٹی کھیت کی زمین کی مٹی ہے بلکہ تفسیر ابن مردویہ میں تو اسے مرفوعاً وارد کیا ہے ۔ پھر فرمان ہے کہ اسے اپنے چہرے پر ملو تیمم وضو کا بدل ہے صرف پاکیزگی حاصل کرنے میں نہ کہ تمام اعضاء کے بارے میں م تو صرف منہ اور ہاتھ پر ملنا کافی ہے اور اس پر اجماع ہے، لیکن کیفیت تیمم میں ائمہ کا اختلاف ہے۔ جدید مذہب شافعی یہ ہے کہ دو دفعہ کر کے منہ اور دونوں ہاتھوں کا کہنیوں تک مسح کرنا واجب ہے اس لیے کہ «یدین» کا اطلاق بغلوں تک اور کہنیوں تک ہوتا ہے جیسے آیت وضو میں اور اسی لفظ کا اطلاق ہوتا ہے اور مراد صرف ہتھیلیاں ہی ہوتی ہیں جیسے کہ چور کی حد کے بارے میں فرمایا «فَاقْطَعُوا أَیْدِیَہُمَا» ‏‏‏‏۱؎ (5-المائدۃ:38) کہتے ہیں یہاں تیمم کے حکم میں ہاتھ کا ذکر مطلق ہے اور وضو کے حکم سے مشروط ہے اس لیے اس مطلق کو اس مشروط پر محمول کیا جائے گا کیونکہ طہوریت جامع موجود ہے۔ اور بعض لوگ اس کی دلیل میں دارقطنی والی روایت پیش کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تیمم کی دو ضربیں ہیں ایک مرتبہ ہاتھ مار کر منہ پر ملنا اور ایک مرتبہ ہاتھ مار کر دونوں کہنیوں تک ملنا “ ۔ ۱؎ (:مستدرک حاکم:1/179:ضعیف) لیکن یہ حدیث صحیح نہیں اس لیے کہ اس کی اسناد میں ضعف ہے حدیث ثابت نہیں۔ ابوداؤد کی ایک حدیث میں ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ ایک دیوار پر مارے اور منہ پر ملے پھر دوبارہ ہاتھ مار کر اپنی دونوں بازوؤں پر ملے} ۔۱؎ (سنن ابوداود:330،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) لیکن اس کی اسناد میں محمد بن ثابت عبدی ضعیف ہیں انہیں بعض حافظان حدیث نے ضعیف کہا ہے ۔ اور یہی حدیث ثقہ راویوں نے بھی روایت کی ہے لیکن وہ مرفوع نہیں کرتے بلکہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا فعل بتاتے ہیں ۔ امام بخاری، امام ابوزرعہ اور امام ابن عدی رحمہ اللہ علیہما کا فیصلہ ہے کہ یہ موقوف ہی ہے اور امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس حدیث کو مرفوع کرنا منکر ہے ۔ امام شافعی رحمہ اللہ کی دلیل یہ حدیث بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیمم کیا اور اپنے چہرے اور اپنے دونوں بازؤں پر ہاتھ پھیرا ۔ ۱؎ (بیہقی:205/1:ضعیف) سیدنا ابو جہیم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے دیکھا کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیشاب کر رہے ہیں میں نے آپ کو سلام کیا لیکن آپ نے جواب نہ دیا فارغ ہو کر آپ ایک دیوار کے پاس گئے اور اپنے دونوں ہاتھ اس پر مار کر منہ پر ملے پھر میرے سلام کا جواب دیا} ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:9673:ضعیف) یہ تو تھا امام شافعی رحمہ اللہ کا جدید مذہب۔ آپ کا قدیم مذہب یہ ہے کہ ضربیں تو تیمم میں دو ہی ہیں لیکن دوسری ضرب میں ہاتھوں کو پہنچوں تک ملنا چاہیئے۔ تیسرا قول یہ ہے کہ صرف ایک ہی ضرب یعنی ایک ہی مرتبہ دونوں ہاتھوں کا مٹی پر مار لینا کافی ہے۔ ان گرد آلود ہاتھوں کو منہ پر پھیر لے اور دونوں پر پہنچے تک مسند احمد میں ہے کہ { ایک شخص امیر المؤمنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس آیا کہ میں جنبی ہو گیا اور مجھے پانی نہ ملا تو مجھے کیا کرنا چاہیئے آپ نے فرمایا : نماز نہ پڑھنی چاہیئے دربار میں سیدنا عمار رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے فرمانے لگے امیر المؤمنین کیا آپ کو یاد نہیں کہ میں اور آپ ایک لشکر میں تھے اور ہم جنبی ہو گئے تھے اور ہمیں پانی نہ ملا تو آپ نے تو نماز نہ پڑھی اور میں نے مٹی میں لوٹ پوٹ کر نماز ادا کر لی جب ہم واپس پلٹے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے تو میں نے اس واقعہ کا بیان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا : ” مجھے اتنا کافی تھا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ زمین پر مارے اور ان میں پھونک مار دی اور اپنے منہ کو ملا اور ہتھیلیوں کو ملا “ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:338) مسند احمد میں ہے شقیق رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا ، سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اگر کوئی شخص پانی نہ پائے ، تو نماز نہ پڑھے اس پر سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : کیا تمہیں یاد نہیں جبکہ مجھے اور آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹوں کے بارے میں بھیجا تھا وہاں میں جنبی ہو گیا اور مٹی میں لوٹ پوٹ لیا ، واپس آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ واقعہ بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس دئیے اور فرمایا : ” تجھے اس طرح ہی کافی تھا “ ، پھر آپ نے دونوں ہاتھ زمین پر مارے اور اپنی ہتھیلیوں کو ایک ساتھ مل لیا اور اپنے چہرے پر ایک بار ہاتھ پھیر لیے اور ضرب ایک ہی رہی، تو سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : لیکن سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر قناعت نہیں کی یہ سن کر سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : پھر تم اس آیت کا کیا کرو گے جو سورۃ نساء میں ہے کہ پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی کا قصد کرو اس کا جواب سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نہ دے سکے اور فرمانے لگے سنو ! ہم نے لوگوں کو تیمم کی رخصت دیدی تو بہت ممکن ہے کہ پانی جب انہیں ٹھنڈا معلوم ہو گا تو وہ تیمم کرنے لگیں گے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:345) سورۃ المائدہ میں فرمان ہے «فَامْسَحُوْا بِوُجُوْہِکُمْ وَاَیْدِیْکُمْ مِّنْہُ» ۱؎ (5-المائدۃ:6) ’ اسے اپنے چہرے اور ہاتھ پر ملو ‘ ۔ اس سے امام شافعی رحمہ اللہ نے دلیل پکڑی ہے کہ تیمم کا پاک مٹی سے ہونا اور اس کا بھی غبارآلود ہونا جس سے ہاتھوں پر غبار لگے اور وہ منہ اور ہاتھ پر ملا جائے ضروری ہے جیسے کہ سیدنا ابوجہیم رضی اللہ عنہ والی حدیث میں گزرا ہے۔ کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو استنجاء کرتے ہوئے دیکھا اور سلام کیا اس میں یہ بھی ہے کہ فارغ ہو کر ایک دیوار کے پاس گئے اور اپنی لکڑی سے کھرچ کر پھر ہاتھ مار کر تیمم کیا۔ پھر فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ تم پر تمہارے دین میں تنگی اور سختی کرنا نہیں چاہتا بلکہ وہ تمہیں پاک صاف کرنا چاہتا ہے اسی لیے پانی نہ پانے کے وقت مٹی کے ساتھ تیمم کر لینے کو مباح قرار دے کر تم پر اپنی نعمت کا اتمام فرمایا تاکہ تم شکر کرو۔ پس یہ امت اس نعمت کے ساتھ مخصوص ہے ۔ جیسے کہ بخاری و مسلم میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” مجھے پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئیں، مہینے بھر کی راہ تک میری مدد رعب سے کی گئی ہے، میرے لیے ساری زمین مسجد اور پاک کرنے والی بنائی گئی ہے میرے جس امتی کو جہاں نماز کا وقت آ جائے وہ وہیں پڑھ لے اس کی مسجد اور اس کا وضو وہیں اس کے پاس موجود ہے، میرے لیے غنیمت کے مال حلال کیے گئے ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال نہ تھے، مجھے شفاعت دی گئی ہے تمام انبیاء صرف اپنی قوم کی طرف بھیجے جاتے رہے لیکن میں تمام دنیا کی طرف بھیجا گیا “ } ۱؎ (صحیح بخاری:335) اور صحیح مسلم کے حوالے سے وہ حدیث بھی پہلے گزر چکی ہے کہ { تمام لوگوں پر ہمیں تین فضیلتیں عنایت کی گئی ، ہماری صفیں فرشتوں کی صفوں کی طرح بنائی گئیں ، ہمارے لیے زمین مسجد بنائی گئی اور اس کی مٹی وضو بنائی گئی جب ہمیں پانی نہ ملے۔ “ ۱؎ (صحیح مسلم:521) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ بزرگ و برتر حکم دیتا ہے کہ اپنے چہرے اور اپنے ہاتھ پر مسح کر لو۔ پانی نہ ملنے کے وقت اللہ معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے اس کی عفو و درگزر کی شان ہے کہ اس نے تمہارے لیے پانی نہ ملنے کے وقت تیمم کو مشروع کر کے نماز ادا کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی اگر یہ رخصت نہ ہوتی تو تم ایک گونہ مشکل میں پڑ جاتے کیونکہ اس آیت کریمہ میں نماز کو ناقص حالت میں ادا کرنا منع کیا گیا ہے مثلاً نشے کی حالات میں ہو یا جنابت کی حالت میں ہو یا بے وضو ہو تو جب تک اپنی باتیں خود سمجھنے جتنا ہوش اور باقاعدہ غسل اور شرعی طریق پر وضو نہ ہو نماز نہیں پڑھ سکتے ، لیکن بیماری میں ، جنابت کی حالت میں اور پانی نہ ملنے کی صورت میں غسل اور وضو کے قائم مقام تیمم کر دیا، پس اللہ تعالیٰ کے اس احسان پر ہم اس کے شکر گزار ہیں ۔ «الحمداللہ» تیمم کی رخصت نازل ہونے کا واقعہ بھی سن لیجئے ہم اس واقعہ کو سورۃ نساء کی اس آیت کی تفسیر میں اسی لیے بیان کرتے ہیں کہ سورۃ المائدہ میں جو تیمم کی آیت ہے وہ نازل میں اس کے بعد کی ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ یہ واضح ہے کہ یہ آیت شراب کی حرمت سے پہلے نازل ہوئی تھی اور شراب جنگ احد کے کچھ عرصہ کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بنو نصیر کے یہودیوں کا محاصرہ کئے ہوئے تھے حرام ہوئی اور سورۃ المائدہ قرآن میں نازل ہونے والی آخری سورتوں میں ہے بالخصوص اس سورت کا ابتدائی حصہ لہٰذا مناسب یہی ہے کہ تیمم کا شان نزول یہیں بیان کیا جائے۔ اللہ نیک توفیق دے اسی کا بھروسہ ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ { سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا سے ایک ہار واپس کر دینے کے وعدے پر مستعار لیا تھا وہ سفر میں کہیں گم ہو گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ڈھونڈ نے کے لیے آدمی بھیجے انہیں ہار مل گیا لیکن نماز کا وقت اس کی تلاش میں ہی آ گیا اور ان کے ساتھ پانی نہ تھا۔ انہوں نے بے وضو نماز ادا کی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ کر اس کی شکایت کی اس پر تیمم کا حکم نازل ہوا، سیدنا اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ کہنے لگے اے ام المؤمنین ! آپ کو جزائے خیر دے اللہ کی قسم جو تکلیف آپ کو پہنچتی ہے اس کا انجام ہم مسلمانوں کے لیے خیر ہی خیر ہوتا ہے } ۔۱؎ (صحیح بخاری:336) بخاری میں ہے { سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ہم اپنے کسی سفر میں تھے بیداء میں یا ذات الجیش میں میرا ہار ٹوٹ کر کہیں گر پڑا جس کے ڈھونڈنے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مع قافلہ ٹھہر گئے ، اب نہ تو ہمارے پاس پانی تھا ، نہ وہاں میدان میں کہیں پانی تھا ، لوگ میرے والد سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس میری شکایتیں کرنے لگے کہ دیکھو ہم ان کی وجہ سے کیسی مصیبت میں پڑ گئے ، چنانچہ میرے والد صاحب میرے پاس آئے اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری ران پر اپنا سر مبارک رکھ کر سو گئے تھے ، آتے ہی مجھے کہنے لگے ، تو نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اور لوگوں کو روک دیا اب نہ تو ان کے پاس پانی ہے ، نہ یہاں اور کہیں پانی نظر آتا ہے الغرض مجھے خوب ڈانٹا ڈپٹا اور اللہ جانے کیا کیا کہا اور میرے پہلو میں اپنے ہاتھ سے کچوکے بھی مارتے رہے ، لیکن میں نے ذرا سی بھی جنبش نہ کی کہ ایسا نہ ہو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آرام میں خلل واقع ہو ، ساری رات گزر گئی صبح کو لوگ جاگے لیکن پانی نہ تھا ، اللہ نے تیمم کی آیت نازل فرمائی اور سب نے تیمم کیا سیدنا اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ کہنے لگے اے ابوبکر کے گھرانے والو ! یہ کچھ تمہاری پہلی ہی برکت نہیں، اب جب ہم نے اس اونٹ کو اٹھایا جس پر میں سوار تھی تو اس کے نیچے سے ہی ہار مل گیا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:334) مسند احمد میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اہلیہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہمراہ ذات الجیش سے گزرے۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا یمنی خر مہروں کا ہار ٹوٹ کر کہیں گر پڑا تھا اور گم ہو گیا تھا اس کی تلاش میں یہاں ٹھہر گئے ساری رات آپ کے ہم سفر مسلمانوں نے اور آپ نے یہیں گزاری صبح اٹھے تو پانی بالکل نہیں تھا ، پس اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی پر پاک مٹی سے تیمم کر کے پاکی حاصل کرنے کی رخصت کی آیت اتاری اور مسلمانوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑے ہو کر زمین پر اپنے ہاتھ مارے اور جو مٹی ان سے لت پت ہوئی اسے جھاڑے بغیر اپنے چہرے پر اور اپنے ہاتھوں پر مونڈھوں تک اور ہاتھوں کے نیچے سے بغل تک مل لی } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:320) ابن جریر کی روایت میں ہے کہ { اس سے پہلے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر سخت غصہ ہو کر گئے تھے لیکن تیمم کی رخصت کے حکم کو سن کر خوشی خوشی اپنی صاحبزادی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور کہنے لگے تم بڑی مبارک ہو مسلمانوں کو اتنی بڑی رخصت ملی پھر مسلمانوں نے زمین پر ایک ضرب سے چہرے ملے اور دوسری ضرب سے کہنیوں اور بغلوں تک ہاتھ لے گئے ۔ ۱؎ (:تفسیر ابن جریر الطبری:9675) ابن مردویہ میں روایت ہے { سیدنا اسلع بن شریک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کو چلا رہا تھا۔ جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سوار تھے ، جاڑوں کا موسم تھا ، رات کا وقت تھا ، سخت سردی پڑ رہی تھی اور میں جنبی ہو گیا ، ادھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوچ کا ارادہ کیا تو میں نے اپنی اس حالت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کو چلانا پسند نہ کیا ، ساتھ ہی یہ بھی خیال آیا کہ اگر سرد پانی سے نہاؤں گا تو مر جاؤں گا یا بیمار پڑ جاؤں گا تو میں نے چپکے سے ایک انصاری کو کہا کہ آپ اونٹنی کی نکیل تھام لیجئے ، چنانچہ وہ چلاتے رہے اور میں نے آگ سلگا کر پانی گرم کر کے غسل کیا ، پھر دوڑ بھاگ کر قافلہ میں پہنچ گیا ، آپ نے مجھے فرمایا ” اسلع کیا بات ہے؟ ، اونٹنی کی چال کیسے بگڑی ہوئی ہے؟ ، میں نے کہا : یا رسول اللہ ! میں اسے نہیں چلا رہا تھا بلکہ فلاں انصاری صاحب چلا رہے تھے ، آپ نے فرمایا : ” یہ کیوں؟ “ ، تو میں نے سارا واقعہ کہہ سنایا اس پر اللہ عزوجل نے «یٰٓاَیٰھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَاَنْتُمْ سُکٰرٰی حَتّٰی تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ وَلَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِیْ سَبِیْلٍ حَتّٰی تَغْتَسِلُوْا وَاِنْ کُنْتُمْ مَّرْضٰٓی اَوْ عَلٰی سَفَرٍ اَوْ جَاءَ اَحَدٌ مِّنْکُمْ مِّنَ الْغَایِٕطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَاءً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْہِکُمْ وَاَیْدِیْکُمْ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَفُوًّا غَفُوْرًا» ۱؎ (4-النساء:43) نازل فرمائی ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:877) یہ روایت دوسری سند سے بھی مروی ہے۔ النسآء
44 یہودیوں کی ایک مذموم خصلت اللہ تبارک وتعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ یہودیوں کی ایک مذموم خصلت یہ بھی ہے کہ وہ گمراہی کو ہدایت پر ترجیح دیتے ہیں ، نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم پر جو کتاب نازل ہوئی اس سے بھی روگردانی کرتے ہیں اور اللہ کا دیا ہوا جو علم ان کے پاس ہے اسے بھی پس پشت ڈال دیتے ہیں خود اپنی کتابوں میں نبی موعود علیہ السلام کی بشارتیں پڑھتے ہیں ۔ لیکن اپنے مریدوں سے چڑھاوا لینے کے لالچ میں ظاہر نہیں کرتے بلکہ ساتھ ہی یہ چاہتے ہیں کہ خود مسلمان بھی راہ راست سے بھٹک جائیں اللہ کی کتاب کے مخالف ہو جائیں ہدایت کو اور سچے علم کو چھوڑ دیں ، اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں سے خوب با خبر ہے وہ تمہیں ان سے مطلع کر رہا ہے کہ کہیں تم ان کے دھوکے میں نہ آ جاؤ ۔ اللہ کی حمایت کافی ہے تم یقین رکھو کہ وہ اپنی طرف جھکنے والوں کی ضرور حمایت کرتا ہے وہ اس کا مددگار بن جاتا ہے ۔ تیسری آیت جو لفظ «مِّنَ» سے شروع ہوئی ہے اس میں «مِّنَ» بیان جنس کے لیے ہے جیسے «فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزٰوْرِ» ۱؎ (22-الحج:30) میں پھر یہودیوں کے اس فرقے کی جس تحریف کا ذکر ہے اس سے مراد یہ ہے کہ وہ کلام اللہ کے مطلب کو بدل دیتے ہیں اور خلاف منشائے الٰہی تفسیر کرتے ہیں اور ان کا یہ فعل جان بوجھ کر ہوتا ہے قصداً افترا پردازی کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ پھر کہتے ہیں کہ اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم جو آپ نے کہا ہم نے سنا لیکن ہم ماننے کے نہیں خیال کیجئے ان کے کفر و الحاد کو دیکھئیے کہ جان کر سن کر سمجھ کر کھلے لفظوں میں اپنے ناپاک خیال کا اظہار کرتے ہیں اور کہتے ہیں آپ سنئے اللہ کرے آپ نہ سنیں ۔ یا یہ مطلب کہ آپ سنئے آپ کی نہ سنی جائے لیکن پہلا مطلب زیادہ اچھا ہے ۔ یہ کہنا ان کا بطور تمسخر اور مذاق کے تھا اور اللہ انہیں لعنت کرے علاوہ ازیں راعنا کہتے جس سے بظاہر یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ لوگ کہتے ہیں ہماری طرف کان لگائے لیکن وہ اس لفظ سے مراد یہ لیتے تھے کہ تم بڑی رعونت والے ہو ۔ اس کا پورا مطلب «یٰٓاَیٰہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَقُوْلُوا انْظُرْنَا وَاسْمَعُوْا وَلِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِــیْمٌ» ۱؎ (2-البقرۃ:104) ‏‏‏‏کی تفسیر میں گزر چکا ہے ، مقصد یہ ہے کہ جو ظاہر کرتے تھے اس کے خلاف اپنی زبانوں کو موڑ کر طعن آمیز لہجہ میں کہتے اور حقیقی مفہوم میں اپنے دل میں مخفی رکھتے تھے دراصل یہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بےادبی اور گستاخی کرتے تھے پس انہیں ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ان دو معنی والے الفاظ کا استعمال چھوڑ دیں اور صاف صاف کہیں کہ ہم نے سنا اور مانا ، آپ ہماری عرض سنئے ! آپ ہماری طرف دیکھئیے ! یہ کہنا ہی ان کے لیے بہتر ہے اور یہی صاف سیدھی سچی اور مناسب بات ہے لیکن ان کے دل بھلائی سے دور ڈال دیئے گئے ہیں ایمان کامل طور سے ان کے دلوں میں جگہ ہی نہیں پاتا ، اس جملے«فلا یؤمنون إلا قلیلا» کی تفسیر بھی پہلے«فَقَلِیلًا مَّا یُؤْمِنُونَ » ۱؎ (2-البقرۃ:88) میں گزر چکی ہے مطلب یہ ہے کہ نفع دینے والا ایمان ان میں نہیں ۔ النسآء
45 النسآء
46 النسآء
47 قرآن حکیم کا اعجاز تاثیر اللہ عزوجل یہود و نصاریٰ کو حکم دیتا ہے کہ میں نے اپنی زبردست کتاب اپنے بہترین نبی کے ساتھ نازل فرمائی ہے جس میں خود تمہاری اپنی کتاب کی تصدیق بھی ہے اس پر ایمان لاؤ اس سے پہلے کہ ہم تمہاری صورتیں مسخ کر دیں یعنی منہ بگاڑ کر دیں آنکھیں بجائے ادھر کے ادھر ہو جائیں ، یا یہ مطلب کہ تمہارے چہرے مٹادیں آنکھیں کان ناک سب مٹ جائیں پھر یہ مسخ چہرہ بھی الٹا ہو جائے ۔ یہ عذاب ان کے کرتوت کا پورا بدلہ ہے یہ بھی حق سے ہٹ کر باطل کی طرف ہدایت سے پھر کر ضلالت کی جانب بڑھے جا رہے ہیں تو اللہ بھی انہیں دھمکاتا ہے کہ میں بھی اسی طرح تمہارا منہ الٹ دوں گا تاکہ تمہیں پچھلے پیروں چلنا پڑے تمہاری آنکھیں گدی کی طرف کر دوں اور اسی جیسی تفسیر بعض نے«إِنَّا جَعَلْنَا فِی أَعْنَاقِہِمْ أَغْلَالًا فَہِیَ إِلَی الْأَذْقَانِ فَہُم مٰقْمَحُونَ وَجَعَلْنَا مِن بَیْنِ أَیْدِیہِمْ سَدًّا» ۱؎ (36-یس:8-9) کی آیت میں بھی کی ہے غرض یہ ان کی گمراہی اور ہدایت سے دور پڑ جانے کی بری مثال بیان ہوئی ہے ، مجاہد رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ مطلب یہ ہے کہ ہم تمہیں سچ مچ حق کے راستے سے ہٹا دیں اور گمراہی کی طرف متوجہ کر دیں ، ہم تمہیں کافر بنا دیں اور تمہارے چہرے بندروں جیسے کر دیں ، ابن زید رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ لوٹا دینا یہ تھا کہ ارض حجاز سے بلاد شام میں پہنچا دیا ۔ یہ بھی مذکور ہے کہ اسی آیت کو سن کر سیدنا کعب احبار رضی اللہ عنہ مشرف بااسلام ہوئے تھے ۔ ابن جریر میں ہے کہ ابراہیم رحمہ اللہ کے سامنے سیدنا کعب رضی اللہ عنہ کے اسلام کا تذکرہ ہوا تو آپ نے فرمایا سیدنا کعب رضی اللہ عنہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں مسلمان ہوئے یہ بیت المقدس جاتے ہوئے مدینہ میں آئے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ان کے پاس گئے اور فرمایا اے سیدنا کعب رضی اللہ عنہ مسلمان ہو جاؤ انہوں نے جواب دیا تم تو قرآن میں پڑھ چکے ہو کہ جنہیں توراۃ کا حامل بنایا گیا انہوں نے اسے کما حقہ قبول نہ کیا ۔ ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جو بوجھ لادے ہوئے ہو اور یہ بھی تم جانتے ہو کہ میں بھی ان لوگوں میں سے ہوں جو توراۃ اٹھوائے گئے اس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسے چھوڑ دیا ۔ یہ یہاں سے چل کر حمص پہنچے وہاں سنا کہ ایک شخص جو ان کے گھرانے میں سے تھا اس آیت کی تلاوت کر رہا ہے جب اس نے آیت ختم کی انہیں ڈر لگنے لگا کہ کہیں سچ مچ اس آیت کی وعید مجھ پر صادق نہ آ جائے اور میرا منہ مسخ کر پلٹ نہ جائے یہ جھٹ سے کہنے لگے «یَارَبِّ اَسْلَمْتُ» میرے اللہ میں ایمان لایا ۔ پھر حمص سے ہی واپس اپنے وطن یمن میں آئے اور یہاں سے اپنے تمام گھر والوں کو لے کر سارے کنبے سمیت مسلمان ہو گئے ۔۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:446/8:ضعیف) ابن ابی حاتم میں سیدنا کعب رضی اللہ عنہ کے اسلام کا واقعہ اس طرح مروی ہے کہ ان کے استاد ابو مسلم جلیلی ان کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے میں دیر لگانے کی وجہ سے ہر وقت انہیں ملامت کرتے رہتے تھے پھر انہیں بھیجا کہ دیکھیں کہ آپ وہی پیغمبر ہیں جن کی خوشخبری اور اوصاف توراۃ میں ہیں ؟ یہ آئے تو فرماتے ہیں جب میں مدینہ شریف پہنچا تو نا گہاں میں سنا کہ ایک شخص قرآن کریم کی اس آیت کی تلاوت کر رہا تھا کہ اے اہل کتاب ہماری نازل کردہ کتاب تمہارے پاس موجود کتاب کی تصدیق کرتی ہے بہتر ہے کہ اس پر اس سے پہلے ایمان لاؤ کہ ہم تمہارے منہ بگاڑ دیں اور انہیں الٹا کر دیں ۔ میں چونک اٹھا اور جلدی جلدی غسل کرنے بیٹھ گیا اور اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرتا جاتا تھا کہ کہیں مجھے ایمان لانے میں دیر نہ لگ جائے اور میرا چہرہ الٹا نہ ہو جائے ۔ پھر میں بہت جلد آ کر مسلمان ہو گیا ، ۱؎ (میزان الاعتدال:6465:ضعیف) اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں یا ہم ان پر لعنت کریں جیسے کہ ہفتہ والوں پر ہم نے لعنت نازل کی یعنی جن لوگوں نے ہفتہ والے دن حیلے کرکے لیے شکار کھیلا حالانکہ انہیں اس کام سے منع کیا گیا تھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بندر اور سور بنا دئیے گئے ان کا مفصل واقعہ سورۃ الاعراف میں آئے گا انشا اللہ تعالیٰ ارشاد ہوتا ہے اللہ کے کام پورے ہو کر ہی رہتے ہیں وہ جب کوئی حکم کر دے تو کوئی نہیں جو اس کی مخالفت یا ممانعت کر سکے ۔ النسآء
48 گناہوں کی تین دیوان پھر خبر دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ساتھ شرک کئے جانے کے گناہ کو نہیں بخشتا ، یعنی جو شخص اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملاقات کرے کہ وہ مشرک ہو اس پر بخشش کے دروازے بند ہیں۔ اس جرم کے سوا اور گناہوں کو خواہ وہ کیسے ہی ہوں جس کو چاہے بخش دیتا ہے اس آیت کریمہ کے متعلق بہت سی حدیثیں ہیں ہم یہاں بقدر آسانی ذکر کرتے ہیں ۔ پہلی حدیث بحوالہ مسند احمد ۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک گناہوں کے تین دیوان ہیں ، ایک تو وہ جس کی اللہ تعالیٰ کچھ پرواہ نہیں کرتا دوسرا وہ جس میں سے اللہ تعالیٰ کچھ نہیں چھوڑتا ۔ تیسرا وہ جسے اللہ تعالیٰ ہرگز نہیں بخشتا ۔ پس جسے وہ بخشتا نہیں وہ شرک ہے اللہ عزوجل خود فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ساتھ شریک کئے جانے کو معاف نہیں فرماتا اور جگہ ارشاد ہے«إِنَّہُ مَن یُشْرِکْ بِ اللہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ » ۱؎ (5-المائدۃ:72) ’ جو شخص اللہ کے ساتھ شریک کر لے ، اللہ اس پر جنت کو حرام کر دیتا ہے ۔ ‘ اور جس دیوان میں اللہ کے ہاں کوئی وقعت نہیں وہ بندے کا اپنی جان پر ظلم کرنا ہے اور جس کا تعلق اس سے اور اللہ کی ذات سے ہے مثلاً کسی دن کا روزہ جسے اس نے چھوڑ دیا یا نماز چھوڑ دی تو اللہ تعالیٰ اسے بخش دیتا ہے اور جس دیوان [ اعمالنامہ ] کی اللہ تعالیٰ کوئی چیز ترک نہیں کرتا وہ بندوں کے آپس میں مظالم ہیں جن کا بدلہ اور قصاص ضروری ہے ۔ ۱؎ (مسند احمد:240/6،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) دوسری حدیث بحوالہ مسند بزار ۔ ۱؎ (مسند بزار:3439،قال الشیخ الألبانی:حسن) الفاظ کے ہیر پھیر کے ساتھ مطلب وہی ہے ۔ تیسری حدیث بحوالہ مسند احمد ’ ممکن ہے اللہ تعالیٰ ہر گناہ کو بخش دے مگر وہ شخص جو کفر کی حالت میں مرا دوسرا وہ جس نے ایماندار کو جان بوجھ کر قتل کیا ۔ ‘ ۱؎ (سنن نسائی:3446،قال الشیخ الألبانی:صحیح لغیرہ) چوتھی حدیث بحوالہ مسند احمد ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’ اے میرے بندے تو جب تک میری عبادت کرتا رہے گا اور مجھ سے نیک امید رکھے گا میں بھی تیری جتنی خطائیں ہیں انہیں معاف فرماتا رہوں گا میرے بندے اگر تو ساری زمین بھر کی خطائیں بھی لے کر میرے پاس آئے گا تو میں بھی زمین کی وسعتوں جتنی مغفرت کے ساتھ تجھ سے ملوں گا بشرطیکہ تو نے میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو ۔ ‘ ۱؎ (مسند احمد:154/5،قال الشیخ الألبانی:صحیح) پانچویں حدیث بحوالہ مسند احمد ۔ { جو بندہ «لا الہ الا اللہ» کہے پھر اسی پر اس کا انتقال ہو وہ ضرور جنت میں جائے گا یہ سن کر سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا کہ اگر اس نے زنا اور چوری بھی کی ہو آپ نے فرمایا گو اس نے زناکاری اور چوری بھی کی ہو تین مرتبہ یہی سوال جواب ہوا ۔ چوتھے سوال پر آپ نے فرمایا چاہے ابوذر کی ناک خاک آلود ہو ، پس سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ وہاں سے اپنی چادر گھسیٹتے ہوئے یہ فرماتے ہوئے نکلے کہ چاہے ابوذر کی ناک خاک آلود ہو اور اس کے بعد جب کبھی آپ یہ حدیث بیان فرماتے یہ جملہ ضروری کہتے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5827) یہ حدیث دوسری سند سے قدرے زیادتی کے ساتھ بھی مروی ہے ، { اس میں ہے سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ کے میدان میں چلا جا رہا تھا احد کی طرف ہماری نگاہیں تھیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اے ابوذر ! “ ، میں نے کہا : لبیک ، یا رسول اللہ ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” سنو ! میرے پاس اس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو تو میں نہ چاہوں گا کہ تیسری شام کو اس میں سے کچھ بھی باقی رہ جائے بجز اس دینار کے جسے میں قرضہ چکا نے کے لیے رکھ لوں باقی تمام مال میں اس طرح راہ للہ اس کے بندوں کو دے ڈالوں گا اور آپ نے دائیں بائیں اور سامنے لپیں پھینکیں “ ۔ پھر کچھ دیر ہم چلتے رہے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے پکارا اور فرمایا : ” جن کے پاس یہاں زیادتی ہے وہی وہاں کمی والے ہوں گے مگر جو اس طرح کرے اور اس طرح کرے “ ، یعنی آپ نے اپنے دائیں بائیں اور سامنے لپیں [ ہتھیلیاں ] بھر کر دیتے ہوئے اس عمل کی وضاحت کی ۔ پھر کچھ دیر چلنے کے بعد فرمایا : ” ابوذر ! میں ابھی آتا ہوں تم یہیں ٹھہرو “ ، آپ تشریف لے گئے اور میری نگاہوں سے اوجھل ہو گئے اور مجھے آوازیں سنائی دینے لگیں دل بےچین ہو گیا کہ کہیں تنہائی میں کوئی دشمن آ گیا ہو میں نے قصد کیا کہ وہاں پہنچوں لیکن ساتھ ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان یاد آ گیا کہ میں جب تک نہ آؤں تم یہیں ٹھہرے رہنا ۔ چنانچہ میں ٹھہرا رہا یہاں تک کہ آپ تشریف لے آئے تو میں نے کہا یا رسول اللہ ! یہ آوازیں کیسی آ رہی تھیں آپ نے فرمایا : ” میرے پاس جبرائیل آئے تھے اور فرما رہے تھے کہ آپ کی امت میں سے وفات پانے والا اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے تو وہ جنت میں جائے گا “ ، میں نے کہا گو زنا اور چوری بھی اس سے سرزد ہوئی ہو تو فرمایا : ” ہاں گو زنا اور چوری بھی ہوئی ہو “ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6268) یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی ہے کہ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رات کے وقت نکلا دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تنہا تشریف لے جا رہے ہیں تو مجھے خیال ہوا کہ شاید اس وقت آپ کسی کو ساتھ لے جانا نہیں چاہتے تو میں چاند کی چاندنی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ہو لیا ۔ آپ نے جب مڑ کر مجھے دیکھا تو پوچھا : ” کون ہے ؟ “ میں نے کہا : ابوذر ، اللہ مجھے آپ پر سے قربان کر دے ۔ تو آپ نے فرمایا : ” آؤ میرے ساتھ چلو “ تھوڑی دیر ہم چلتے رہے پھر آپ نے فرمایا : ” زیادتی والے ہی قیامت کے دن کمی والے ہوں گے مگر وہ جنہیں اللہ تعالیٰ نے مال دیا پھر وہ دائیں بائیں آگے پیچھے نیک کاموں میں خرچ کرتے رہے “ پھر کچھ دیر چلنے کے بعد آپ نے مجھے ایک جگہ بٹھا کر جس کے اردگرد پتھر تھے فرمایا : ” میری واپس تک یہیں بیٹھے رہو “ پھر آپ آگے نکل گئے یہاں تک کہ میری نظر سے پوشیدہ ہو گئے آپ کو زیادہ دیر لگ گئی پھر میں نے دیکھا کہ آپ تشریف لا رہے ہیں اور زبان مبارک سے فرماتے آ رہے ہیں گو زنا کیا ہو یا چوری کی ہو جب میرے پاس پہنچے تو میں رک نہ سکا پوچھا کہ یا رسول اللہ ! اللہ مجھے آپ پر قربان کرے اس میدان کے کنارے آپ کس سے باتیں کر رہے تھے میں نے سنا کوئی آپ کو جواب بھی دے رہا تھا ۔ آپ نے فرمایا : ” وہ جبرائیل علیہ السلام تھے یہاں میرے پاس آئے اور فرمایا اپنی امت کو خوشخبری سنا دو کہ جو مرے اور اللہ کے ساتھ اس نے کسی کو شریک نہ کیا وہ جنتی ہو گا ، میں نے کہا : اے جبرائیل گو اس نے چوری کی ہو اور زنا کیا ہو “ ، فرمایا : ہاں میں نے پھر یہی سوال کیا جواب دیا ہاں میں نے پھر یہی فرمایا ہاں اور اگرچہ اس نے شراب پی ہو } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6443) چھٹی حدیث بحوالہ مسند عبد بن حمید { ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا ، اور کہا : یا رسول اللہ ! جنت واجب کر دینے والی چیزیں کیا ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جو شخص بغیر شرک کئے مرا اس کے لیے جنت واجب ہے اور جو شرک کرتے ہوئے مرا اس کے لیے جہنم واجب ہے “ } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:93) یہی حدیث اور طریق سے مروی ہے جس میں ہے کہ { جو شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہ کرتا ہوا مرا اس کے لیے بخشش حلال ہے اگر اللہ چاہے اسے عذاب کرے اگر چاہے بخش دے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنے والے کو نہیں بخشتا اس کے سوا جسے چاہے بخش دے “ } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:5425/3) اور سند سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” بندے پر مغفرت ہمیشہ رہتی ہے جب تک کہ پردے نہ پڑ جائیں “ دریافت کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول ! پردے پڑ جانا کیا ہے ؟ فرمایا : ” شرک ، جو شخص شرک نہ کرتا ہو اور اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرے اس کے لیے بخشش الٰہی حلال ہو گئی اگر چاہیئے عذاب کرے اگر چاہے بخش دے “ ۔ پھر آپ نے «إِنَّ اللہَ لَا یَغْفِرُ أَن یُشْرَکَ بِہِ وَیَغْفِرُ مَا دُونَ ذٰلِکَ لِمَن یَشَاءُ» ۱؎ (4-النساء:48) تلاوت فرمائی } ۱؎ (مسند ابو یعلیٰ:303/2) ساتویں حدیث بحوالہ مسند احمد ، { جو شخص مرے اللہ کے ساتھ شریک نہ کرتا ہو وہ جنت میں داخل ہو گا } ۔ ۱؎ (مسند احمد:79/3) آٹھویں حدیث بحوالہ مسند احمد { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس آئے اور فرمایا : ” تمہارے رب عزوجل نے مجھے اختیار دیا کہ میری امت میں سے ستر ہزار کا بے حساب جنت میں جانا پسند کر لوں یا اللہ تعالیٰ کے پاس جو چیز میرے لیے میری امت کی بابت پوشیدہ محفوظ ہے اسے قبول کر لوں “ ، تو بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا : کیا اللہ تعالیٰ آپ کے لیے یہ محفوظ چیز بچا کر بھی رکھے گا ؟ آپ یہ سن کر اندر تشریف لے گئے پھر تکبیر پڑھتے ہوئے باہر آئے اور فرمانے لگے ” میرے رب نے مجھے ہر ہزار کے ساتھ ستر ہزار کو جنت عطا کرنا مزید عطا فرمایا اور وہ پوشیدہ حصہ بھی “ ۔ سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ جب یہ حدیث بیان فرما چکے تو سیدنا ابورہم رضی اللہ عنہ نے سوال کیا کہ وہ پوشیدہ محفوظ چیز کیا ہے ؟ اس پر لوگوں نے انہیں کچھ کچھ کہنا شروع کر دیا کہ کہاں تم اور کہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اختیار کردہ چیز ؟ سیدنا ایوب رضی اللہ عنہ نے فرمایا : سنو جہاں تک ہمارا گمان ہے جو بالکل یقین کے قریب ہے یہ ہے کہ وہ چیز جنت میں جانا ہے ہر اس شخص کا جو سچے دل سے گواہی دے کہ اللہ ایک ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں } ۔ ۱؎ (مسند احمد:413/5) نویں حدیث بحوالہ ابن ابی حاتم { ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ یا رسول اللہ ! میرا بھتیجا حرام سے باز نہیں آتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اس کی دینداری کیسی ہے “ ، کہا نمازی ہے اور توحید والا ہے ، آپ نے فرمایا : ” جاؤ اور اس سے اس کا دین بطور سبہ کے طلب کرو اگر انکار کرے تو اس سے خرید لو “ ، اس نے جا کر اس سے طلب کیا تو اس نے انکار کر دیا اس نے آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی تو آپ نے فرمایا : ” میں نے اسے اپنے دین پر چمٹا ہوا پایا “ ، اس پر «إِنَّ اللہَ لَا یَغْفِرُ أَن یُشْرَکَ بِہِ وَیَغْفِرُ مَا دُونَ ذٰلِکَ لِمَن یَشَاءُ» ۱؎ (4-النساء:48) نازل ہوئی } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:5424/3:ضعیف) دسویں حدیث بحوالہ حافظ یعلیٰ { ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا یا رسول اللہ ! میں نے کوئی حاجت یا حاجت والا نہیں چھوڑا یعنی زندگی میں سب کچھ کر چکا آپ نے فرمایا : ” کیا تو یہ گواہی نہیں دیتا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں “ ، تین مرتبہ اس نے کہا : ہاں آپ نے فرمایا : ” یہ ان سب پر غالب آ جائے گا “ } ۔ ۱؎ (مسند ابویعلیٰ:3433:صحیح) گیارہویں حدیث بحوالہ مسند احمد { سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ضمضم بن جوش یمامی رحمہ اللہ سے کہا کہ اے یمامی ! کسی شخص سے ہرگز یہ نہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ تجھے نہیں بخشے گا یا تجھے جنت میں داخل نہ کرے گا ، یمامی رحمہ اللہ نے کہا یہ بات تو ہم لوگ اپنے بھائیوں اور دوستوں سے بھی غصے غصے میں کہہ جاتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا : خبردار ، ہرگز نہ کہنا سنو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ، آپ نے فرمایا : ” بنی اسرائیل میں دو شخص تھے ایک تو عبادت میں بہت چست چالاک اور دوسرا اپنی جان پر زیادتی کرنے والا اور دونوں میں دوستانہ اور بھائی چارہ تھا عابد بسا اوقات اس دوسرے کو کسی نہ کسی گناہ میں دیکھتا رہتا تھا اور کہتا رہتا تھا اے شخص باز رہ وہ جواب دیتا تو مجھے میرے رب پر چھوڑ دے کیا تو مجھ پر نگہبان بنا کر بھیجا گیا ہے ؟ ایک مرتبہ عابد نے دیکھا کہ وہ پھر کسی گناہ کے کام کو کر رہا ہے جو گناہ اسے بہت بڑا معلوم ہوا تو کہا افسوس تجھ پر باز آ اس نے وہی جواب دیا تو عابد نے کہا اللہ کی قسم اللہ تجھے ہرگز نہ بخشے گا یا جنت نے دے گا ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے پاس فرشتہ بھیجا جس نے ان کی روحیں قبض کر لیں جب دونوں اللہ تعالیٰ کے ہاں جمع ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے اس گنہگار سے فرمایا جا اور میری رحمت کی بنا پر جنت میں داخل ہو جا اور اس عابد سے فرمایا کیا تجھے حقیقی علم تھا ؟ کیا تو میری چیز پر قادر تھا ؟ اسے جہنم کی طرف لے جاؤ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمایا اس کی قسم جس کے ہاتھ میں ابوالقاسم کی جان ہے اس نے ایک کلمہ زبان سے ایسا نکال دیا جس نے اس کی دنیا اور آخرت برباد کر دی “ } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4901،قال الشیخ الألبانی:صحیح) بارہویں حدیث بحوالہ طبرانی { جس نے اس بات کا یقین کر لیا کہ میں گناہوں کی بخشش پر قادر ہوں تو میں اسے بخش ہی دیتا ہوں اور کوئی پرواہ نہیں کرتا جب تک کہ وہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرالے } ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:11615/11:ضعیف) تیرہویں حدیث بحوالہ بزار ، ابو یعلیٰ { جس عمل پر اللہ تعالیٰ نے ثواب کا وعدہ کیا ہے اسے تو مالک ضرور پورا فرمائے گا اور جس پر سزا کا فرمایا ہے وہ اس کے اختیار میں ہے چاہے بخش دے یا سزا دے } ۔ ۱؎ (مسند ابویعلی:3316:ضعیف) سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ہم صحابہ رضی اللہ عنہم قاتل کے بارے میں اور یتیم کا مال کھا جانے والے کے بارے میں اور پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانے والے کے بارے میں اور جھوٹی گواہی دینے والے کے بارے میں کوئی شک و شبہ ہی نہیں کرتے تھے یہاں تک کہ «إِنَّ اللہَ لَا یَغْفِرُ أَن یُشْرَکَ بِہِ وَیَغْفِرُ مَا دُونَ ذٰلِکَ لِمَن یَشَاءُ» ۱؎ (4-النساء:48) اتری اور اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم گواہی سے رک گئے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:9737:ضعیف) ابن جریر کی یہ روایت اس طرح ہے کہ جن گناہوں پر جہنم کا ذکر کتاب اللہ میں ہے اسے کرنے والے کے جہنمی ہونے میں ہمیں کوئی شک ہی نہیں تھا یہاں تک کہ ہم پر یہ آیت اتری جب ہم نے اسے سنا تو ہم شہادت کے لیے رک گئے اور تمام امور اللہ تعالیٰ کی طرف سونپ دئیے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:5421/3:ضعیف) بزار میں آپ ہی کی ایک روایت ہے کہ کبیرہ گناہ کرنے والوں کے لیے استغفار کرنے سے ہم رکے ہوئے تھے یہاں تک کہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ آیت سنی اور { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ میں نے اپنی شفاعت کو اپنی امت میں سے کبیرہ گناہ کرنے والوں کے لیے مؤخر کر رکھا ہے ۔ } ۱؎ (مسند بزار:3254،قال الشیخ الألبانی:حسن) ابو جعفر رازی کی روایت میں آپ کا یہ فرمان ہے کہ جب «‏‏‏‏یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ» ۱؎ (39-الزمر:53) نازل ہوئی یعنی ’ اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے تم میری رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ ‘ تو ایک شخص نے کھڑے ہو کر پوچھا حضور شرک کرنے والا بھی ؟ آپ کو اس کا یہ سوال ناپسند آیا پھر آپ نے «إِنَّ اللہَ لَا یَغْفِرُ أَن یُشْرَکَ بِہِ وَیَغْفِرُ مَا دُونَ ذٰلِکَ لِمَن یَشَاءُ وَمَن یُشْرِکْ بِ اللہِ فَقَدِ افْتَرَیٰ إِثْمًا عَظِیمًا» ۱؎ (4-النساء:48) پڑھ کر سنائی ۔ سورۃ تنزیل کی یہ آیت مشروط ہے توبہ کے ساتھ پس جو شخص جس گناہ سے توبہ کرے اللہ اس کی طرف رجوع کرتا ہے گو باربار کرے پس مایوس نہ ہونے کی آیت میں توبہ کی شرط ضرور ہے ۔ ورنہ اس میں مشرک بھی آ جائے گا اور پھر مطلب صحیح نہ ہو گا کیونکہ اس آیت میں وضاحت کے ساتھ یہاں موجود ہے کہ اللہ کے ساتھ شرک کرنے والے کی بخشش نہیں ہے ۔ ہاں اس کے سوا جسے چاہے یعنی اگر اس نے توبہ بھی نہ کی ہو اس مطلب کے ساتھ اس آیت میں جو امید دلانے والی ہے اور زیادہ امید کی آس پیدا ہو جاتی ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ پھر فرماتا ہے اللہ کے ساتھ جو شرک کرے اس نے بڑے گناہ کا افترا باندھا ، جیسے اور آیت میں ہے«إِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیمٌ » ۱؎ (31-لقمان:13) ’ شرک بہت بڑا ظلم ہے ‘ بخاری مسلم میں سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں میں نے کہا { یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بڑا گناہ کیا ہے ؟ فرمایا یہ کہ تو اللہ تعالیٰ کا کسی کو شریک بنائے حالانکہ اسی نے تجھ کو پیدا کیا ہے۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:4477) پھر پوری حدیث بیان فرمائی ۔ ابن مردویہ میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تمہیں سب سے بڑا کبیرہ گناہ بتاتا ہوں وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک کرنا ہے پھر آپ نے اسی آیت کا یہ آخری حصہ تلاوت فرمایا پھر ماں باپ کی نافرمانی کرنا } پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی کہ «اَنِ اشْکُرْ لِیْ وَلِوَالِدَیْکَ ۭ اِلَیَّ الْمَصِیْرُ» ۱؎ (31-لقمان:14) ’ میرا شکر کر اور اپنے ماں باپ کا شکریہ کر میری طرف لوٹنا ہے ‘ ۔ النسآء
49 منہ پر تعریف و توصیف کی ممانعت یہودونصاری کا قول تھا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی اولاد اور اس کہ چہیتے ہیں اور کہتے تھے کہ جنت میں صرف یہود جائیں گے یا نصرانی ان کے اس قول کی تردید میں یہ آیت«أَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِینَ یُزَکٰونَ أَنفُسَہُم ۚ بَلِ اللہُ یُزَکِّی مَن یَشَاءُ وَلَا یُظْلَمُونَ فَتِیلًا » ۱؎ (4-النساء:49) نازل ہوئی اور یہ قول مجاہد رحمہ اللہ کے خیال کے مطابق اس آیت کا شان نزول ہی ہے کہ یہ لوگ اپنے بچوں کو امام بناتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ بےگناہ ہیں ، یہ بھی مروی ہے کہ ان کا خیال تھا کہ ہمارے جو بچے فوت ہو گئے ہیں وہ ہمارے لیے قربت الٰہی کا ذریعہ ہیں ہمارے سفارشی ہیں اور ہمیں وہ بچالیں گے پس یہ آیت اتری ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما یہودیوں کا اپنے بچوں کا آگے کرنے کا واقعہ بیان کر کے فرماتے ہیں وہ جھوٹے ہیں اللہ تعالیٰ کسی گنہگار کو بےگناہ کی وجہ سے چھوڑ نہیں دیتا ، یہ کہتے تھے کہ جیسے ہمارے بچے بے خطا ہیں ایسے ہیں ہم بھی بےگناہ ہیں اور کہا گیا ہے کہ یہ آیت دوسروں کو بڑھی چڑھی مدح و ثنا بیان کرنے کے رد میں اتری ہے ، صحیح مسلم شریف میں ہے کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ہم مدح کرنے والوں کے منہ مٹی سے بھر دیں ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:3002) بخاری و مسلم میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ایک شخص کو دوسرے کی مدح و ستائش کرتے ہوئے سن کر فرمایا افسوس تو نے اس اپنے ساتھی کی گردن توڑ دی ‘ پھر فرمایا ’ اگر تم میں سے کسی کو ایسی ہی ضرورت کی وجہ سے کسی کی تعریف کرنی بھی ہو تو یوں کہے کہ میں فلاں شخص کو ایسا سمجھتا ہوں اللہ کے نزدیک پسندیدہ عمل یہی ہے کہ کسی کی منہ پر تعریف نہ کی جائے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2662) مسند احمد میں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ جو کہے میں مومن ہوں وہ کافر ہے اور جو کہے کہ میں عالم ہوں وہ جاہل ہے اور جو کہے میں جنتی ہوں جہنمی ہے ، ۱؎ (مسند الفاروق:574/2:ضعیف و منقطع) ابن مردویہ میں آپ کے فرمان میں یہ بھی مروی ہے کہ مجھے تم پر سب سے زیادہ خوف اس بات کا ہے کہ کوئی شخص خود پسندی کرنے لگے اور اپنی سمجھ پر آپ فخر کرنے بیٹھ جائے ، ۱؎ (ضعیف:اس کی سند میں موسیٰ بن عبیدہ ربذی راوی ضعیف ہے) مسند احمد میں ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ بہت ہی کم حدیث بیان فرماتے اور بہت کم جمعے ایسے ہوں گے جن میں آپ نے یہ چند حدیثیں نہ سنائی ہوں کہ { جس کے ساتھ اللہ کا ارادہ بھلائی کا ہوتا ہے اسے اپنے دین کی سمجھ عطافرماتا ہے } اور { یہ مال میٹھا اور سبز رنگ ہے جو اسے اس کے حق کے ساتھ لے گا اسے اس میں برکت دی جائے گی ، تم لوگ آپس میں ایک دوسرے کی مدح و ستائش سے پرہیز کرو اس لیے کہ یہ دوسرے پر چھری پھیرنا ہے } ۱؎ (مسند احمد:93/4،قال الشیخ الألبانی:حسن) یہ پچھلا جملہ ان سے ابن ماجہ میں بھی مروی ہے ۱؎ (سنن ابن ماجہ:3743،قال الشیخ الألبانی:صحیح) سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انسان صبح کو دین لےکر نکلتا ہے پھر جب کہ وہ لوٹتا ہے تو اس کے دین میں سے کچھ بھی نہیں ہوتا [ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے ] کہ وہ صبح کسی سے اپنا کام نکالنے کے لیے ملا ، اس کی تعریف شروع کر دی اور اس کی مدح سرائی شروع کی اور قسمیں کھا کر کہنے لگا آپ ایسے ہیں اور ایسے ہیں حلانکہ نہ وہ اس کے نقصان کا مالک ہے نہ نفع اور بسا اوقات ممکن ہے ان کی تعریفی کلمات کے بعد بھی اس سے اس کا کام نہ نکلے لیکن اس نے تو اللہ کو ناخوش کردیا ۔ پھر آپ نے آیت تزکیہ کی تلاوت فرمائی[ ابن جریر ] اور اس کا تفصیلی بیان «فَلَا تُزَکٰوا أَنفُسَکُمْ ۖ ہُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَیٰ» ۱؎ (53-النجم:32)‏‏‏‏ کی تفسیر میں آئے گا ان شاءاللہ تعالیٰ پس یہاں ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ہے وہ جسے چاہے پاک کر دے کیونکہ تمام چیزوں کی حقیقت اور اصلیت کا عالم وہی ہے ، پھر فرمایا کہ اللہ ایک دھاگے کے وزن کے برابر بھی کسی کی نیکی نہ چھوڑے گا ، فتیل کے معنی ہیں کھجور کی گٹھلی کے درمیان کا دھاگہ اور مروی ہے کہ وہ دھاگہ جسے کوئی اپنی انگلیوں سے بٹ لے ۔ پھر فرماتا ہے ان کی افترا پردازی تو دیکھو کہ کس طرح اللہ عزوجل کی اولاد اور اس کے محبوب بننے کے دعویدار ہیں ؟ اور کیسی باتیں کر رہے ہیں کہ ہمیں تو صرف چند دن آگ میں رہنا ہو گا کس طرح اپنے بروں کے نیک اعمال پر اعتماد کیے بیٹھے ہیں ؟ حالانکہ ایک کا عمل دوسرے کو کچھ نفع نہیں دے سکتا جیسے ارشاد ہے «تِلْکَ اُمَّۃٌ قَدْ خَلَتْ ۚ لَہَا مَا کَسَبَتْ وَلَکُمْ مَّا کَسَبْتُمْ ۚ وَلَا تُسْـــَٔــلُوْنَ عَمَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ» ۱؎ (2-البقرۃ:134) ’ ‏‏‏‏یہ ایک گروہ ہے جو گزر چکا ان کے اعمال ان کے ساتھ اور تمہارے اعمال تمہارے ساتھ ‘ پھر فرماتا ہے ان کا یہ کھلا کذب و افترا ہی ان کے لیے کافی ہے«جِبْتِ»کے معنی سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ وغیرہ سے جادو اور طاغوت کے معنی شیطان کے مروی ہیں ، ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:462/8) یہ بھی کہا جاتا ہے کہ «جبت» حبش کا لفظ ہے اس کے معنی شیطان کے ہیں ، شرک بت اور کاہن کے معنی بھی بتائے گئے ہیں ۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد حی بن اخطب ہے ، بعض کہتے ہیں کعب بن اشرف ہے ، ایک حدیث میں ہے فال اور پرندوں سے یعنی ان کے نام یا ان کے اڑنے یا بولنے یا ان کے نام سے شگون لینا اور زمین پر لکیریں کھینچ کر معاملہ طے کرنا یہ جبت ہے ، ۱؎ (سنن ابوداود:3907،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) حسن کہتے ہیں «جبت» شیطان کی گنگناہٹ ہے ، طاغوت کی نسبت پہلے سورہ بقرہ میں تفصیلی ذکر گزر چکا ہے اس لئے یہاں دوبارہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں، جابر رحمہ اللہ سے جب طاغوت کی نسبت سوال کیا گیا تو فرمایا کہ یہ کاہن لوگ ہیں جن کے پاس شیطان آتے تھے مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں انسانی صورت کے یہ شیاطین ہیں جن کے پاس لوگ اپنے جھگڑے لے کر آتے ہیں اور انہیں حاکم مانتے ہیں ۔ امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے مراد ہر وہ چیز ہے جس کی عبادت اللہ سوا کی جائے۔ پھر فرمایا کہ انکی جہالت بے دینی اور خود اپنی کتاب کے ساتھ کفر کی نوبت ہیاں تک پہنچ گئی ہے کہ کافروں کو مسلمانوں پر ترجیح اور افضلیت دیتے ہیں، ابن ابی حاتم میں ہے کہ حیی بن اخطب اور کعب بن اشرف مکہ والوں کے پاس آئے تو اہل مکہ نے ان سے کہا تم اہل کتاب اور صاحب علم ہو بھلا بتا ؤ تو ہم بہتر ہیں یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم انہوں نے کہا تم کیا ہو؟ اور وہ کیا ہیں؟ تو اہل مکہ نے کہا ہم صلہ رحمی کرتے ہیں تیار اونٹنیاں ذبح کرکے دوسروں کو کھلاتے ہیں، لسی پلاتے ہیں غلاموں کو آزاد کرتے ہیں حاجیوں کو پانی پلاتے ہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم صنبور ہیں ہمارے رشتہ ناتے تڑوادیے۔ ان کا ساتھ حاجیوں کے چوروں نے دیا ہے جو قبیلہ غفار میں سے ہیں اب بتا ؤ ہم اچھے یا وہ؟ تو ان دونوں نے کہا تم بہتر ہو اور تم زیادہ سیدھے راستے پرہو اس پر یہ آیت اتری دوسری روایت میں ہے انہی کے بارے میں « إِنَّ شانِئَکَ ہُوَ الأَبتَرُ » ۱؎ (108-الکوثر:3) اتری ہے ۔ بنو وائیل اور بنو نضیر کے چند سردار جب عرب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف آگ لگا رہے تھے اور جنگ عظیم کی تیاری میں تھے اس قوت جب یہ قریش کے پاس آئے تو قریشیوں نے انہیں عالم و درویش جان کر ان سے پوچھا کہ بتاؤ ہمارا دین اچھا ہے یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ؟ تو ان لوگوں نے کہا تم اچھے دین والے اور ان سے زیادہ صحیح راستے پر ہو اس پر ہی آیت اتری اور خبر دی گئی کہ یہ لعنتی گروہ ہے اور ان کا ممد و معاون دنیا اور آخرت میں کوئی نہیں اس لیے کہ صرف کفار کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے بطور چاپلوسی اور خوشامد کے یہ کلمات اپنی معلومات کے خلاف کہہ رہے ہیں لیکن یاد رکھ لیں کہ یہ کامیاب نہیں ہو سکتے چنانچہ یہی ہوا زبردست لشکر لے کر سارے عرب کو اپنے ساتھ ملا کر تمام تر قوت و طاقت اکٹھی کر کے ان لوگوں کو مدینہ شریف پر چڑھائی کی یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ کے اردگرد خندق کھودنی پڑی لیکن بالآخر دنیا نے دیکھ لیا ان کی ساری سازشیں ناکام ہوئیں یہ خائب و خاسر رہے ، نامراد و ناکام پلٹے ، دامن مراد خالی رہا بلکہ نامرادی مایوسی اور نقصان عظیم کے ساتھ لوٹنا پڑا ۔ «وَرَدَّ اللہُ الَّذِینَ کَفَرُوا بِغَیْظِہِمْ لَمْ یَنَالُوا خَیْرًا ۚ وَکَفَی اللہُ الْمُؤْمِنِینَ الْقِتَالَ ۚ وَکَانَ اللہُ قَوِیًّا عَزِیزًا » ( 33-الأحزاب : 25 ) اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی مدد آپ کی اور اپنی قوت و عزت سے [ کافروں کو ] اوندھے منہ گرا دیا ، «فالحمداللہ الکبیر المتعال» ۔ النسآء
50 النسآء
51 النسآء
52 النسآء
53 یہودیوں کی دشمنی کی انتہا اور اس کی سزا یہاں بطور انکار کے سوال ہوتا ہے کہ کیا وہ ملک کے کسی حصہ کے مالک ہیں ؟ یعنی نہیں ہیں ، پھر ان کی بخیلی بیان کی جاتی ہے کہ اگر ایسا ہوتا تو یہ کسی کو ذرا سا بھی نفع پہنچانے کے روادار نہ ہوتے خصوصاً اللہ کے اس آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنا بھی نہ دیتے جتنا کھجور کی گٹھلی کے درمیان کا پردہ ہوتا ہے جیسے اور آیت میں ہے« قُلْ لَّوْ اَنْتُمْ تَمْلِکُوْنَ خَزَاۗیِٕنَ رَحْمَۃِ رَبِّیْٓ اِذًا لَّاَمْسَکْتُمْ خَشْیَۃَ الْاِنْفَاقِ ۭ وَکَانَ الْاِنْسَانُ قَتُوْرًا» ۱؎ (17-الإسراء:100) یعنی ’ اگر تم میرے رب کی رحمتوں کے خزانوں کے مالک ہوتے تو تم تو خرچ ہو جانے کے خوف سے بالکل ہی روک لیتے ‘ گو ظاہر ہے کہ وہ کم نہیں ہو سکتے تھے لیکن تمہاری کنجوسی تمہیں ڈرا دیتی اسی لیے فرما دیا کہ ’ انسان بڑا ہی بخیل ہے ۔ ‘ ان کے ان بخیلانہ مزاج کے بعد ان کا حسد واضح کیا جا رہا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے جو نبوت کا عظیم تر منصب بخشا ہے چونکہ وہ عرب میں سے ہیں بنی اسرائیل سے نہیں اس لیے ان سے حسد کی آگ میں جل رہے ہیں اور لوگوں کو آپ کی تصدیق سے روک رہے ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یہاں «الناس» سے مراد ہم ہیں کوئی اور نہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے آل ابراہیم کو جو بنی اسرائیل کے قبائل میں اولاد ابراہیم سے ہیں نبوت دی کتاب نازل فرمائی جینے مرنے کے آداب سکھائے بادشاہت بھی دی اس کے باوجود ان میں سے بعض تو مومن ہوئے اس انعام و اکرام کو مانا لیکن بعض نے پھر بھی اسے تسلیم نہ کیا اور دوسرے لوگوں کو بھی اس سے روکا حالانکہ وہ بھی بنی اسرائیل ہی تھے تو جبکہ یہ اپنے والوں سے بھی منکر ہو چکے ہیں تو پھر اے نبی آخر الزمان آپ کا انکار ان سے کیا دور ہے ۔؟ جب کہ آپ ان میں سے بھی نہیں ، یہ بھی مطلب ہو سکتا ہے کہ بعض اس پر یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اور بعض نہ لائے پس یہ کافر اپنے کفر میں بہت سخت اور نہایت پکے ہیں اور ہدایت و حق سے بہت ہی دور ہیں پھر انہیں ان کی سزا سنائی جا رہی ہے کہ جہنم کا جلنا انہیں بس ہے ، ان کے کفر و عناد کی ان کی تکذیب اور سرکشی کی یہ سزا کافی ہے ۔ النسآء
54 النسآء
55 النسآء
56 عذاب کی تفصیل اور نیک لوگوں کا انجام بالخیر اللہ کی آیتوں کے نہ ماننے اور رسولوں سے لوگوں کو برگشتہ کرنے والوں کی سزا اور ان کے بد انجام کا ذکر ہورہا ہے انہیں اس آگ میں دھکیلا جائے گا جو انہیں چاروں طرف سے گھیرلے گی اور ان کے روم روم کو سلگا دے اور یہی نہیں بلکہ یہ عذاب دائمی ایسا ہو گا ایک چمڑا جل گیا تو دوسرا بدل دیا جائے گا جو سفید کاغذ کی مثال ہو گا ایک ایک کافر کی سو سو کھالیں ہوں گی ہر ہر کھال پر قسم قسم کے علیحدہ علیحدہ عذاب ہوں گے ایک ایک دن میں ستر ہزار مرتبہ کھال الٹ پلٹ ہو گی ۔ یعنی کہدیا جائے گا کہ جلد لوٹ آئے وہ پھر لوٹ آئے گی ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے جب اس آیت کی تلاوت ہوئی تو آپ پڑھنے والے سے دوبارہ سنانے کی فرمائش کرتے وہ دوبارہ پڑھتا تو سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں آپ کو اس کی تفسیر سناؤں ’ ایک ایک ساعت میں سو سو بار بدلی جائے گی اس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی سنا ہے ‘ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:5493/3:ضعیف و باطل) دوسری روایت میں ہے کہ اس وقت سیدنا کعب رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ مجھے اس آیت کی تفسیر یاد ہے میں نے وہ اسلام لانے سے پہلے پڑھی تھی آپ نے فرمایا اچھا بیان کرو اگر وہ وہی ہوئی جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے تو ہم اسے قبول کریں گے ورنہ ہم اسے قابل التفات نہ سمجھیں گے تو آپ نے فرمایا ’ ایک ساعت میں ایک سو بیس مرتبہ اس پر عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں نے اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ‘ ۱؎ (الدر المنثور للسیوطی:311/2:ضعیف) سیدنا ربیع بن انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں پہلی کتاب میں لکھا ہوا ہے کہ ان کی کھالیں چالیس ہاتھ یا چھہتر ہاتھ ہوں گی اور ان کے پیٹ اتنے بڑے ہوں گے کہ اگر ان میں پہاڑ رکھا جائے تو سما جائے ۔ جب ان کھالوں کو آگ کھا لے گی تو اور کھالیں آ جائیں گی ۔ ایک حدیث میں اس سے بھی زیادہ مسند احمد میں ہے ’ جہنمی جہنم میں اس قدر بڑے بڑے بنا دیئے جائیں گے کہ ان کے کان کی نوک سے کندھا سات سو سال کی راہ پر ہو گا اور ان کی کھال کی موٹائی ستر ذراع ہو گی اور کچلی مثل احد پہاڑ کے ہوں گی۔‘ ۱؎ (مسند احمد:25/2،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد کھال سے لباس ہے لیکن یہ ضعیف ہے اور ظاہر لفظ کے خلاف ہے پھر نیک لوگوں کا بیان کیا جاتا ہے کہ وہ جنت عدن میں ہوں گے جس کے چپے چپے پر نہریں جاری ہوں گی جہاں چاہیں انہیں لے جائیں اپنے محلات میں باغات میں راستوں میں غرض جہاں ان کے جی چاہیں وہیں وہ پاک نہریں بہنے لگیں گی ، پھر سب سے اعلیٰ لطف یہ ہے کہ یہ تمام نعمتیں ابدی اور ہمیشہ رہنے والی ہوں گی نہ انہیں زوال آئے گا، نہ ان میں کمی ہوگی، نہ واپس لی جائیں گی ، نہ فنا ہونگی ، نہ سڑیں نہ بگڑیں ، نہ خراب ہونگی ، نہ ختم ہوں گی ۔ پھر ان کے لیے وہاں حیض و نفاس سے گندگی اور پلیدی سے ، میل کچیل اور بو باس سے ، رذیل صفتوں اور بے ہودہ اخلاق سے پاک بیویاں ہوں گی اور گھنے لمبے چوڑے سائے ہوں گے جو بہت فرحت بخش بہت ہی سرور انگیز راحت افزا دل خوش کن ہوں گے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ’ جنت میں ایک درخت ہے جس کے سائے تلے ایک سو سال تک بھی ایک سوار چلا جائے تو اس کا سایہ ختم نہ ہو یہ شجرۃ الخلد ہے ۔ ‘ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:9843) النسآء
57 النسآء
58 امانت اور عدل و انصاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ’ جو تیرے ساتھ امانت داری کا برتاؤ کرے تو اس کی امانت ادا کر اور جو تیرے ساتھ خیانت کرے تو اس سے خیانت مت کر ۔ ‘ ۱؎ (سنن ابوداود:3535،قال الشیخ الألبانی:صحیح) آیت کے الفاظ وسیع المعنی ہیں ۔ ان میں اللہ تعالیٰ عزوجل کے حقوق کی ادائیگی بھی شامل ہے جیسے روزہ نماز زکوٰۃ کفارہ نذر وغیرہ ، اور بندوں کے آپس کے کل حقوق بھی شامل ہیں جیسے امانت دی ہوئی چیزیں وغیرہ ، پس جس حق کو ادا نہ کرے گا اسکی پکڑ قیامت کے دن ہوگی ۔ صحیح حدیث میں ہے ’ قیامت کےدن ہر حقدار کا حق اسے دلوایا جائے گا یہاں تک کہ بےسینگ والی بکری کو اگر سینگوں والی بکری نے مارا ہے تو اس کا بدلہ بھی اسے دلوایا جائے گا ۔ ‘ ۱؎ (صحیح مسلم:2582) سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ شہادت کی وجہ سے تمام گناہ مٹ جاتے ہیں مگر امانت نہیں مٹنے لگی کوئی شخص اللہ کی راہ میں شہید بھی ہوا تو اسے بھی قیامت کے دن لایا جائے گا اور کہا جائے گا کہ اپنی امانت ادا کر وہ جواب دے گا کہ دنیا تو اب ہے نہیں میں کہاں سے اسے ادا کروں ؟ فرماتے ہیں پھر وہ چیز اسے جہنم کی تہہ میں نظر آئے گی اور کہا جائے گا کہ جا اسے لے آ وہ اسے اپنے کندھے پر لاد کر لے چلے گا لیکن وہ گر پڑے گی وہ پھر اسے لینے جائے گا بس اسی عذاب میں وہ مبتلا رہے گا زاذان اس روایت کو سن کر سیدنا براء رضی اللہ عنہ کے پاس آ کر بیان کرتے ہیں وہ کہتے ہیں میرے بھائی نے سچ کہا پھر قرآن کی اس آیت کو پڑھتے ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ فرماتے ہیں ہر نیک و بد پر یہی حکم ہے ، ابوالعالیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں جس چیز کا حکم دیا گیا اور جس چیز سے منع کیا گیا وہ سب امانت ہے ۔ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں عورت اپنی شرمگاہ کی امانت دار ہے ، سیدنا ربیع بن انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جو جو معاملات تیرے اور دوسرے لوگوں کے درمیان ہوں وہ سب اسی میں شامل ہے ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس میں یہ بھی داخل ہے کہ سلطان عید والے دن عورتوں کو خطبہ سنائے ۔ اس آیت کی شان نزول میں مروی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح کیا اور اطمینان کے ساتھ بیت اللہ شریف میں آئے تو اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر طواف کیا ۔ حجر اسود کو اپنی لکڑی سے چھوتے تھے اس کے بعد سیدنا عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہما کو جو کعبہ کی کنجی برادر تھے بلایا ان سے کنجی طلب کی انہوں نے دینا چاہی اتنے میں سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اب یہ مجھے سونپئے تاکہ میرے گھرانے میں زمزم کا پانی پلانا اور کعبہ کی کنجی رکھنا دونوں ہی باتیں رہیں یہ سنتے ہی سیدنا عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ نے اپنا ہاتھ روک لیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ طلب کی پھر وہی واقعہ ہوا آپ نے سہ بارہ طلب کی سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ کہہ کر دے دی کہ اللہ کی امانت آپ کو دیتا ہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کا دروازہ کھول اندر گئے وہاں جتنے بت اور تصویریں تھیں سب توڑ کر پھینک دیں ابراہیم علیہ السلام کا بت بھی تھا جس کے ہاتھ میں فال کے تیر تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’ اللہ ان مشرکین کو غارت کرے بھلا خلیل اللہ کو ان تیروں سے کیا سروکار ؟ ‘ پھر ان تمام چیزوں کو برباد کر کے ان کی جگہ پانی ڈال کر ان کے نام و نشان مٹا کر آپ باہر آئے کعبہ کے دروازے پر کھڑے ہو کر آپ نے کہا ’ کوئی معبود نہیں بجز اللہ کے وہ اکیلا ہے جس کا کوئی شریک نہیں اس نے اپنے وعدے کو سچا کیا اپنے بندے کی مدد کی اور تمام لشکروں کو اسی اکیلے نے شکست دی ۔ ‘ پھر آپ نے ایک لمبا خطبہ دیا جس میں یہ بھی فرمایا کہ ’ جاہلیت کے تمام جھگڑے اب میرے پاؤں تلے کچل دئیے گئے خواہ مالی ہوں خواہ جانی ہوں ہاں بیت اللہ کی چوکیداری کا اور حاجیوں کو پانی پلانے کا منصب جوں کا توں باقی رہے گا ‘ اس خطبہ کو پورا کر کے آپ بیٹھے ہی تھے جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر کہا حضور چابی مجھے عنایت فرمائی جائے تاکہ بیت اللہ کی چوکیداری کا اور حاجیوں کو زمزم پلانے کا منصب دونوں یکجا ہو جائیں لیکن آپ نے انہیں نہ دی مقام ابراہیم کو کعبہ کے اندر سے نکال کر آپ نے کعبہ کی دیوار سے ملا کر رکھ دیا اور لوگوں سے کہہ دیا کہ تمہارا قبلہ یہی ہے پھر آپ طواف میں مشغول ہو گئے ابھی وہ چند پھیرے ہی پھرے تھے جو جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے اور آپ نے اپنی زبان مبارک سے اس آیت کی تلاوت شروع کی ، اس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا میرے ماں باپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا ہوں میں نے تو اس سے پہلے آپ کو اس آیت کی تلاوت کرتے نہیں سنا اب آپ نے سیدنا عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہما کو بلایا اور انہیں کنجی سونپ دی اور فرمایا ’ آج کا دن وفا کا نیکی اور سلوک کا دن ہے ۔ ‘ ۱؎ (سیرہ ابن ھشام:42/4:حسن) یہ وہی سیدنا عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہما ہیں جن کی نسل میں آج تک کعبۃ اللہ کی کنجی چلی آرہی ہے ۔ یہ صلح حدیبیہ اور فتح مکہ کے درمیان اسلام لائے جب ہی سیدنا خالد بن ولید اور سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما بھی مسلمان ہوئے تھے ان کا چچا عثمان بن طلحہ احمد کی لڑائی میں مشرکوں کے ساتھ تھا بلکہ ان کا جھنڈا بردار تھا اور وہیں بحالت کفر مارا گیا تھا ۔ الغرض مشہور تو یہی ہے کہ یہ آیت اسی بارے میں اتری ہے اب خواہ اس بارے میں نازل ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو بہرصورت اس کا حکم عام ہے جیسے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور محمد بن حنفیہ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ ہر شخص کو دوسرے کی امانت کی ادائیگی کا حکم ہے پھر ارشاد ہے کہ فیصلے عدل کے ساتھ کرو حاکموں کو احکم الحاکمین کا حکم ہو رہا ہے کہ کسی حالت میں عدل کا دامن نہ چھوڑو ، حدیث میں ہے ’ اللہ حاکم کے ساتھ ہوتا ہے جب تک کہ وہ ظلم نہ کرے جب ظلم کرتا ہے تو اسے اسی کی طرف سونپ دیتا ہے ۔ ‘ ۱؎ (سنن ترمذی:1330،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ایک اثر میں ہے { ایک دن کا عدل چالیس سال کی عبادت کے برابر ہے ۔} پھر فرماتا ہے یہ ادائیگی امانات کا اور عدل و انصاف کا حکم اور اسی طرح شریعت کے تمام احکام اور تمام ممنوعات تمہارے لیے بہترین اور نافع چیزیں ہیں جن کا امر پروردگار نے تمہیں کردیا ہے [ ابن ابی حاتم ] اور روایت میں ہے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس آیت کے آخری الفاظ پڑھتے ہوئے اپنا انگوٹھا اپنے کان میں رکھا اور شہادت کی انگلی اپنی آنکھ پر رکھی [ یعنی اشارے سے سننا دیکھنا کان اور آنکھ پر انگلی رکھ کر بتایا ] فرمایا میں نے اسی طرح پڑھتے اور کرتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے ۔ راوی حدیث ابو زکریا رحمہ اللہ فرماتے ہیں ہمارے استاد مقری رحمہ اللہ نے بھی اسی طرح پڑھ کر اشارہ کر کے ہمیں بتایا اپنے داہنے ہاتھ کا انگوٹھا اپنی دائیں آنکھ پر رکھا اور اس کے پاس کی انگلی اپنے داہنے کان پر رکھی ( ابن ابی حاتم ) یہ حدیث اسی طرح امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے بھی روایت کی ہے ۱؎ (سنن ابوداود:4728،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اور امام ابن حبان نے بھی اپنی صحیح میں اسے نقل کیا ہے ۔ اور حاکم نے مستدرک میں اور ابن مردویہ نے اپنی تفسیر میں بھی اسے وارد کیا ہے ، اس کی سند میں جو ابو یونس ہیں جو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے مولی ہیں اور ان کا نام سلیم بن جیر رحمہ اللہ ہے ۔ النسآء
59 مشروط اطاعت امیر صحیح بخاری شریف میں بروایت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چھوٹے سے لشکر میں عبداللہ بن حذافہ بن قیس کو بھیجا تھا ان کے بارے میں یہ آیت اتری ہے ، ۱؎ (صحیح بخاری:4584) بخاری و مسلم میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر بھیجا جس کی سرداری ایک انصاری رضی اللہ عنہ کو دی ایک مرتبہ وہ لوگوں پر سخت غصہ ہو گئے اور فرمانے لگے کیا تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری فرمانبرداری کا حکم نہیں دیا ؟ سب نے کہا ہاں بیشک دیا ہے ، فرمانے لگے اچھا لکڑیاں جمع کرو پھر آگ منگوا کر لکڑیاں جلائیں پھر حکم دیا کہ تم اس آگ میں کود پڑو ۔ ایک نوجوان نے کہا لوگو سنو آگ سے بچنے کے لیے ہی تو ہم نے دامن رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں پناہ لی ہے تم جلدی نہ کرو جب تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات نہ ہو جائے پھر اگر آپ بھی یہی فرمائیں تو بے جھجھک اس آگ میں کود پڑھنا چنانچہ یہ لوگ واپس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا واقعہ کہہ سنایا آپ نے فرمایا : ” اگر تم اس آگ میں کود پڑھتے تو ہمیشہ آگ ہی میں جلتے رہتے ۔ سنو فرمانبرداری صرف معروف میں ہے “ }۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4340) ابوداؤد میں ہے کہ { مسلمان پر سننا اور ماننا فرض ہے جی چاہے یا طبیعت رو کے لیکن اس وقت تک کہ [ اللہ تعالیٰ اور رسول کی ] نافرمانی کا حکم نہ دیا جائے ، جب نافرمانی کا حکم ملے تو نہ سنے نہ مانے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2955) بخاری و مسلم میں ہے { سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت لی کہ کام کے اہل سے اس کام کو نہ چھینیں ۔ لیکن جب تم ان کا کھلا کفر دیکھو جس کے بارے میں تمہارے پاس کوئی واضح الٰہی دلیل بھی ہو } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:7056) بخاری شریف میں ہے { سنو اور اطاعت کرو اگرچہ تم پر حبشی غلام امیر بنایا گیا ہو چاہے کہ اس کا سر کشمکش ہے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:693) مسلم شریف میں ہے { سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مجھے میرے خلیل یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سننے کی وصیت کی اگرچہ ناقص ہاتھ پاؤں والا حبشی غلام ہی ہو } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1837) مسلم کی ہی اور حدیث میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجتہ الوداع کے خطبہ میں فرمایا : ” چاہے تم پر غلام عامل بنایا جائے جو تمہیں کتاب اللہ کے مطابق تمہارا ساتھ چاہے تو تم اس کی سنو اور مانو “ ۔ ایک روایت میں { غلام حبشی اعضاء کٹا کے الفاظ ہیں } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1838) ابن جریر میں ہے کہ { میرے بعد والے تم سے ملیں گے نیکوں سے نیک اور بدوں سے بد تم ہر ایک اس امر میں جو مطابق ہو ان کی سنو اور مانو کہ میرے بعد نیک سے نیک اور بد سے بد تم کو ملیں گے تم پر ایک میں نے جو حق پر ہو اس کا سننا اور ماننا تم سے اور ان کے پیچھے نمازیں پڑھتے رہو اگر وہ نیکی کریں گے ۔ تو ان کے لیے تفع ہے اور تمہارے لیے بھی اور اگر وہ بدی کریں گے تو تمہارے لیے اچھائی ہے اور ان پر گناہوں کا بوجھ ہے ۔ } ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:9881:ضعیف) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” بنو اسرائیل میں مسلسل لگاتار رسول آیا کرتے تھے ایک کے بعد ایک اور میرے بعد کوئی نبی نہیں مگر خلفاء بکثرت ہوں گے “ ، لوگوں نے پوچھا : پھر اے اللہ کے رسول ! آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں ؟ فرمایا : ” پہلے کی بیعت پوری کرو پھر اس کے بعد آنے والے کی ان کے حق انہیں دے دو اللہ تعالیٰ ان سے ان کی رعیت کے بارے میں سوال کرنے والا ہے “ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3455) { آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” جو شخص اپنے امیر کا کوئی ناپسندیدہ کام دیکھے اسے صبر کرنا چاہیئے جو شخص جماعت کے بالشت بھر جدا ہو گیا پھر وہ جاہلیت کی موت مرے گا “ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:7143) ارشاد ہے { جو شخص اطاعت سے ہاتھ کھینچ لے وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے حجت و دلیل بغیر ملاقات کرے گا اور جو اس حالت میں مرے کہ اس کی گردن میں بیعت نہ ہو وہ جاہلیت کی موت مرے گا } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1851) عبدالرحمٰن رحمہ اللہ فرماتے ہیں { میں بیت اللہ شریف میں گیا دیکھا تو سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کعبہ کے سایہ میں تشریف فرما ہیں اور لوگوں کا ایک مجمع جمع ہے میں بھی اس مجلس میں ایک طرف ہوکر بیٹھ گیا اس وقت سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث بیان کی فرمایا ایک سفر میں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ایک منزل میں اترے کوئی اپنا خیمہ ٹھیک کرنے لگا کوئی اپنے نیز سنبھالنے لگا کوئی کسی اور کام میں مشغول ہو گیا ، اچانک ہم نے سنا کہ منادی والا ندا دے رہا ہے۔ ہم ہمہ تن گوش ہو گئے ۔ اور سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے ہیں : ” ہر نبی پر اللہ کی طرف سے فرض ہوتا ہے کہ اپنی امت کو تمام نیکیاں جو وہ جانتا ہے سکھادے اور تمام برائیوں سے جو اس کی نگاہ میں ہیں انہیں آگاہ کر دے ۔ سنو میری امت کی عافیت کا زمانہ اول کا زمانہ ہے آخر زمانے میں بڑی بڑی بلائیں آئیں گی اور ایسے ایسے امور نازل ہوں گے جنہیں مسلمان ناپسند کریں گے اور ایک پر ایک فتنہ برپا ہو گا ایک ایسا وقت آئے گا کہ مومن سمجھ لے گا اسی میں میری ہلاکت ہے پھر وہ ہٹے گا ۔ تو دوسرا اس سے بھی بڑا آئے گا جس میں اسے اپنی ہلاکت کا کامل یقین ہو گا بس یونہی لگاتار فتنے اور زبردست آزمائشیں اور کامل تکلیفیں آتی رہیں گے پس جو شخص اس بات کو پسند کرے کہ جہنم سے بچ جانے اور جنت کا مستحق ہو اسے چاہیئے کہ مرتے دم تک اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھے اور لوگوں سے وہ برتاؤ کرے جو خود اپنے لیے پسند کرتا ہے ۔ سنو جس نے امام سے بیعت کر لی اس نے اپنا ہاتھ اس کے قبضہ میں اور دل کی تمنائیں اسے دے دیں ۔ اور اپنے دل کا پھل دے دیا اب اسے چاہیئے کہ اس کی اطاعت کرے اگر کوئی دوسرا اس سے خلافت چھیننا چاہے تو اس کی گردن اڑا دو “ ۔ عبدالرحمٰن رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں یہ سن کر قریب گیا اور کہا آپ کو میں اللہ تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں کیا خود آپ نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی سنا ہے ؟ تو آپ نے اپنے دونوں ہاتھ اپنے کان اور دل کی طرف بڑھا کر فرمایا میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے ان دو کانوں سے سنا اور میں نے اسے اپنے اس دل میں محفوظ رکھا ہے ۔ مگر آپ کے چچا زاد بھائی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ ہمیں اپنے مال باطل سے کھانے اور آپس میں ایک دوسرے سے جنگ کرنے کا حکم دیتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کاموں سے ممانعت فرمائی ہے ، ارشاد ہے «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَأْکُلُوا أَمْوَالَکُم بَیْنَکُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَکُونَ تِجَارَۃً عَن تَرَاضٍ مِّنکُمْ وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَکُمْ إِنَّ اللہَ کَانَ بِکُمْ رَحِیمًا» ۱؎ (4-النساء:29) اسے سن کر عبداللہ ذرا سی دیر خاموش رہے پھر فرمایا اللہ کی اطاعت میں ان کی اطاعت کرو اور اگر اللہ کی نافرمانی کا حکم دیں تو اسے نہ مانو ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1844) اس بارے میں حدیثیں اور بھی بہت سی ہیں ۔ اسی آیت کی ممانعت کی تفسیر میں سدی رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ { رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر بھیجا جس کا امیر سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو بنایا اس لشکر میں سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ بھی تھے یہ لشکر جس قوم کی طرف جانا چاہتا تھا چلا ، رات کے وقت اس کی بستی کے پاس پہنچ کر پڑاؤ کیا ان لوگوں کو اپنے جاسوسوں سے پتہ چل گیا اور چھپ چھپ کر سب راتوں رات بھاگ کھڑے ہوئے ۔ صرف ایک شخص رہ گیا اس نے ان کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا انہوں نے اس کا سب اسباب جلا دیا یہ شخص رات کے اندھیرے میں سیدنا خالد رضی اللہ عنہ کے لشکر میں آیا اور سیدنا عمار رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان سے کہا کہ اے ابوالیقظان میں اسلام قبول کر چکا ہوں اور گواہی دے طکا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں میری ساری قوم تمہارا آنا سن کر بھاگ گئی ہے صرف میں باقی رہ گیا ہوں تو کیا کل میرا یہ اسلام مجھے نفع دے گا ؟ اگر نفع نہ دے تو میں بھی بھاگ جاؤں سیدنا عمار رضی اللہ عنہ نے فرمایا یقیناً یہ اسلام تمہیں نفع دے گا تم نہ بھاگو بلکہ ٹھہرے رہو ۔ صبح کے وقت جب سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے لشکر کشی کی تو سوائے اس شخص کے وہاں کسی کو نہ پایا اسے اس کے مال سمیت گرفتار کر لیا گیا جب سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا تو آپ سیدنا خالد رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا اسے چھوڑ دیجئیے یہ اسلام لا چکا ہے اور میری پناہ میں ہے سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم کون ہو جو کسی کو پناہ دے سکو ؟ اس پر دونوں بزرگوں میں کچھ تیز کلامی ہو گئی اور قصہ بڑھا یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سارا واقعہ بیان کیا گیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کی پناہ کو جائز قرار دیا اور فرمایا آئندہ امیر کی طرف سے پناہ نہ دینا پھر دونوں میں کچھ تیز کلامی ہونے لگی اس پر سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے حضور سے کہا اس ناک کٹے غلام کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ نہیں کہتے ؟ دیکھئے تو یہ مجھے برا بھلا کہہ رہا ہے ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” خالد ، عمار کو برا نہ کہو ، عمار کو گالیاں دینے والے کو اللہ گالیاں دے گا ، عمار سے دشمنی کرنے والے سے اللہ دشمنی رکھے گا ، عمار پر جو لعنت بھیجے گا اس پر اللہ کی لعنت نازل ہو گی “ ۔ اب تو سیدنا خالد رضی اللہ عنہ کو لینے کے دینے پڑھ گئے سیدنا عمار رضی اللہ عنہ غصہ میں چل دیئے ، آپ دوڑ کر ان کے پاس گئے ، دامن تھام لیا معذرت کی اور اپنی تقصیر معاف کرائی تب تک پیچھا نہ چھوڑا جب تک کہ سیدنا عمار رضی اللہ عنہ راضی نہ ہو گئے ، پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:9866:صحیح) [ امر امارت و خلافت کے متعلق شرائط وغیرہ کا بیان «وَإِذْ قَالَ رَبٰکَ لِلْمَلَائِکَۃِ إِنِّی جَاعِلٌ فِی الْأَرْضِ خَلِیفَۃً » ۱؎ (2-البقرۃ:30) کی تفسیر میں گزر چکا ہے وہاں ملاحظہ ہو ۔ مترجم ] سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی یہ رویات مروی ہے [ ابن جریر اور ابن مردویہ ] سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ فرماتے ہیں اولیٰ الامر سے مراد سمجھ بوجھ اور دین والے ہیں یعنی علماء ظاہر بات تو یہ معلوم ہوتی ہے آگے حقیقی علم اللہ کو ہے کہ یہ لفظ عام ہیں امراء علماء دونوں اس سے مراد ہیں جیسے کہ پہلے گزرا قرآن فرماتا ہے«لَوْلَا یَنْہَاہُمُ الرَّبَّانِیٰونَ وَالْأَحْبَارُ عَن قَوْلِہِمُ الْإِثْمَ وَأَکْلِہِمُ السٰحْتَ» ۱؎ (5-المائدۃ:63) یعنی ’ ان کے علماء نے انہیں جھوٹ بولنے اور حرام کھانے سے کیوں نہ روکا ؟ ‘ اور جگہ ہے «فَاسْأَلُوا أَہْلَ الذِّکْرِ إِن کُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ » ۱؎ (16-النحل:43) ’ حدیث کے جاننے والوں سے پوچھ لیا کرو کہ اگر تمہیں علم نہ ہو ۔‘ صحیح حدیث میں ہے { «مَنْ أَطَاعَنِی فَقَدْ أَطَاعَ اللہَ وَمَنْ عَصَانِی فَقَدْ عَصَی اللہَ وَمَنْ أَطَاعَ أَمِیرِی فَقَدْ أَطَاعَنِی وَمَنْ عَصَی أَمِیرِی فَقَدْ عَصَانِی» میری اطاعت کرنے والا اللہ کی اطاعت کرنے والا ہے اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی جس نے میرے امیر کی اطاعت کی اس نے میری فرمانبرداری کی اور جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی } ۱؎ (صحیح بخاری:7137) پس یہ ہیں احکام علماء امراء کی اطاعت کے اس آیت میں ارشاد ہوتا کے کہ اللہ کی اطاعت کرو یعنی اس کی کتاب کی اتباع کرو اللہ کے رسول کی اطاعت کرو اے اللہ کے رسول ! یعنی اس کی سنتوں پر عمل کرو اور حکم والوں کی اطاعت کرو یعنی اس چیز میں جو اللہ کی اطاعت ہو ، اللہ کے فرمان کے خلاف اگر ان کا کوئی حکم ہو تو اطاعت نہ کرنی چاہیئے ایسے وقت علماء یا امراء کی ماننا حرام ہے جیسے کہ پہلی حدیث گزر چکی کہ { اطاعت صرف معروف میں ہے یعنی فرمان اللہ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دائرے میں } ۔ مسند احمد میں ہے اس سے بھی زیادہ صاف حدیث ہے جس میں ہے { کسی کی اطاعت اللہ تعالیٰ کے فرمان کے خلاف جائز نہیں } ۔ ۱؎ (مسند احمد:426/4:،قال الشیخ الألبانی:صحیح) آگے چل کر فرمایا کہ اگر تم میں کسی بارے میں جھگڑ پڑے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ یعنی کتاب اللہ اور سنت رسول کی طرف جیسے کہ مجاہد رحمہ اللہ کی تفسیر ہے ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:504/8) پس یہاں صریح اور صاف لفظوں میں اللہ عزوجل کا حکم ہو رہا ہے کہ لوگ جس مسئلہ میں اختلاف کریں خواہ وہ مسئلہ اصول دین سے متعلق ہو خواہ فروغ دین سے متعلق اس کے تصفیہ کی صرف یہی صورت ہے کہ کتاب و سنت کو حاکم مان لیا جائے جو اس میں ہو وہ قبول کیا جائے ، جیسے اور آیت قرآنی میں ہے «وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِیہِ مِن شَیْءٍ فَحُکْمُہُ إِلَی اللہِ » ۱؎ (42-الشوری:10) یعنی ’ اگر کسی چیز میں تمہارا اختلاف ہو جائے اس کا فیصلہ اللہ کی طرف ہے ‘ پس کتاب و سنت جو حکم دے اور جس مسئلہ کی صحت کی شہادت دے وہی حق ہے باقی سب باطل ہے ، قرآن فرماتا ہے کہ حق کے بعد جو ہے ضلالت و گمراہی ہے ، اسی لیے یہاں بھی اس حکم کے ساتھ ہی ارشاد ہوتا ہے اگر تم اللہ تعالیٰ پر اور قیامت پر ایمان رکھتے ہو ، یعنی اگر تم ایمان کے دعوے میں سچے ہو تو جس مسئلہ کا تمہیں علم نہ ہو یعنی جس مسئلہ میں اختلاف ہو ، جس امر میں جدا جدا آراء ہوں ان سب کا فیصلہ کتاب اللہ اور حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا کرو جو ان دونوں میں ہو مان لیا کرو ۔ پس ثابت ہوا کہ جو شخص اختلافی مسائل کا تصفیہ کتاب و سنت کی طرف سے نہ لے جائے وہ اللہ پر اور قیامت پر ایمان نہیں رکھتا ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ جھگڑوں میں اور اختلافات میں کتاب اللہ و سنت رسول کی طرف فیصلہ لانا اور ان کی طرف رجوع کرنا ہی بہتر ہے ، اور یہی نیک انجام خوش آئند ہے اور یہی اچھے بدلے دلانے والا کام ہے ، بہت اچھی جزا اسی کا ثمر ہے ۔ النسآء
60 حسن سلوک اور دوغلے لوگ اوپر کی آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے دعوے کو جھٹلایا ہے جو زبانی تو اقرار کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی تمام اگلی کتابوں پر اور اس قرآن پر بھی ہمارا ایمان ہے ۔ لیکن جب کبھی کسی مسئلہ کی تحقیق کرنی ہو ، جب کبھی کسی اختلاف کو سمیٹنا ہو ، جب کبھی کسی جھگڑےکا فیصلہ کرنا ہو تو قرآن و حدیث کی طرف رجوع نہیں کرتے بلکہ کسی اور طرف لے جاتے ہیں ۔ چنانچہ یہ آیت ان دو شخصوں کے بارے میں نازل ہوئی جن میں کچھ اختلاف تھا ایک تو یہودی تھا دوسرا انصاری تھا ، یہودی تو کہتا تھا کہ چل محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے فیصلہ کرا لیں اور انصاری کہتا تھا کعب بن اشرف کے پاس چلو ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ آیت ان منافقوں کے بارے میں اتری ہے بظاہر مسلمان کہلاتے ہیں ان منافقوں کے بارے میں اتری ہے جو اسلام کو ظاہر کرتے تھے لیکن درپردہ احکام جاہلیت کی طرف جھکنا چاہتے تھے ۔ اس کے سوا اور اقوال بھی ہیں ، آیت اپنے حکم اور الفاظ کے اعتبار سے عام ہے ان تمام واقعات پر مشتمل ہے ہر اس شخص کی مذمت اور برائی کا اظہار کرتی ہے جو کتاب و سنت سے ہٹ کر کسی اور باطل کی طرف اپنا فیصلہ لے جائے اور یہی مراد یہاں طاغوت سے ہے [ یعنی قرآن و حدیث کے سوا کی چیز یا شخص ] صدور سے مراد تکبر سے منہ موڑ لینا ۔ جیسے اور آیت میں ہے«وَإِذَا قِیلَ لَہُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنزَلَ اللہُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا وَجَدْنَا عَلَیْہِ آبَاءَنَا» ۱؎ (31-لقمان:21) یعنی ’ جب ان سے کہا جائے کہ اللہ کی اتاری ہوئی وحی کی فرمانبرداری کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اپنے باپ دادا کی پیروی پر ہی اڑے رہیں گے ۔ ‘ ایمان والوں کو جواب یہ نہیں ہوتا بلکہ ان کا جواب دوسری آیت میں اس طرح مذکور ہے «اِنَّمَا کَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذَا دُعُوْٓا اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ لِیَحْکُمَ بَیْنَہُمْ اَنْ یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا ۭ وَاُولٰۗیِٕکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ » ۱؎ (24-النور:51) یعنی ’ ایمان والوں کو جب اللہ رسول کے فیصلے اور حکم کی طرف بلایا جائے تو ان کا جواب یہی ہوتا ہے کہ ہم نے سنا اور ہم نے تہہ دل سے قبول کیا ‘ ۔ النسآء
61 النسآء
62 ---- پھر منافقوں کی مذمت میں بیان ہو رہا ہے کہ ان کے گناہوں کے باعث جب تکلیفیں پہنچتی ہیں اور تیری ضرورت محسوس ہوتی ہے تو دوڑے بھاگے آتے ہیں اور تمہیں خوش کرنے کے لیے عذر معذرت کرنے بیٹھ جاتے ہیں اور قسمیں کھا کر اپنی نیکی اور صلاحیت کا یقین دلانا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ کے سوا دوسروں کی طرف ان مقدمات کے لے جانے سے ہمارا مقصود صرف یہی تھا کہ ذرا دوسروں کا دل رکھا جائے آپس کا میل جول نبھ جائے ورنہ دل سے کچھ ہم ان کی اچھائی کے معتقد نہیں ۔ جیسے اور آیت میں« فَتَرَی الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ یٰسَارِعُوْنَ فِیْہِمْ یَقُوْلُوْنَ نَخْشٰٓی اَنْ تُصِیْبَنَا دَاۗیِٕرَۃٌ ۭفَعَسَی اللّٰہُ اَنْ یَّاْتِیَ بِالْفَتْحِ اَوْ اَمْرٍ مِّنْ عِنْدِہٖ فَیُصْبِحُوْا عَلٰی مَآ اَ سَرٰوْا فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ نٰدِمِیْنَ» ۱؎ (5-المائدۃ:52) تک بیان ہوا ہے ۔ یعنی { تو دیکھے گا کہ بیمار دل یعنی منافق یہود و نصاریٰ کی باہم دوستی کی تمام تر کوششیں کرتے پھرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں ان سے اختلاف کی وجہ سے آفت میں پھنس جانے کا خطرہ ہے پس بہت ممکن ہے اللہ تعالیٰ فتح لائے یا اپنا کوئی حکم نازل فرمائیں اور یہ لوگ ان ارادوں پر پشیمان ہونے لگیں جو ان کے دلوں میں پوشیدہ ہیں } ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ابوبرزہ اسلمی ایک کاہن شخص تھا ، یہود اپنے بعض فیصلے اس سے کراتے تھے ایک واقعہ میں مشرکین بھی اس کی طرف دوڑے اس میں یہ آیتیں «أَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِینَ یَزْعُمُونَ» ۱؎ (4-النساء:60) سے «إِلَّا إِحْسَانًا وَتَوْفِیقًا» ۱؎ (4-النساء:62) تک نازل ہوئیں ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس قسم کے لوگ یعنی منافقین کے دلوں میں جو کچھ ہے ؟ اس کا علم اللہ تعالیٰ کو کامل ہے اس پر کوئی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی مخفی نہیں وہ ان کے ظاہر وباطن کا اسے علم ہے تو ان سے چشم پوشی کر ان کے باطنی ارادوں پر ڈانٹ ڈپٹ نہ کر ہاں انہیں نفاق اور دوسروں سے شر و فساد وابستہ رہنے سے باز رہنے کی نصیحت کر اور دل میں اترنے والی باتیں ان سے کہ بلکہ ان کے لیے دعا بھی کر ۔ النسآء
63 النسآء
64 اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی ضامن نجات ہے مطلب یہ ہے کہ ہر زمانہ کے رسول کی تابعداری اس کی امت پر اللہ کی طرف سے فرض ہوتی ہے منصب رسالت یہی ہے کہ اس کے سبھی احکامات کو اللہ کے احکام سمجھا جائے ، مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں «باذن اللہ» سے یہ مراد ہے کہ اس کی توفیق اللہ تعالیٰ کے ہاتھ ہے اس کی قدرت و مشیت پر موقوف ہے ، جیسے اور آیت میں ہے «وَلَقَدْ صَدَقَکُمُ اللّٰہُ وَعْدَہٗٓ اِذْ تَحُسٰوْنَھُمْ بِاِذْنِھٖ» ۱؎ (3-آل عمران:152) یہاں بھی «اذن» سے مراد امر قدرت اور مشیت ہے یعنی اس نے تمہیں ان پر غلبہ دیا ۔ پھر اللہ تعالیٰ عاصی اور خطا کاروں کو ارشاد فرماتا ہے کہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر اللہ تعالیٰ سے استغفار کرنا چاہیئے اور خود رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی عرض کرنا چاہیئے کہ آپ ہمارے لیے دعائیں کیجئے جب وہ ایسا کریں گے تو یقیناً اللہ ان کی طرف رجوع کرے گا انہیں بخش دے گا اور ان پر رحم فرمائے گا ۔ ابو منصور صباغ نے اپنی کتاب میں جس میں مشہور قصے لکھے ہیں لکھا ہے کہ عتبی کا بیان ہے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تربت کے پاس بیٹھا ہوا تھا جبکہ ایک اعرابی آیا اور اس نے کہا السلام علیکم یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے قرآن کریم کی اس آیت کو سنا اور آپ کے پاس آیا ہوں تاکہ آپ کے سامنے اپنے گناہوں کا استغفار کروں اور آپ کی شفاعت طلب کروں پھر اس نے یہ اشعار پڑھے « باخیر من دفنت بالقاع اعظمہ»« فطاب من طیبھن القاع والا کم»« نفسی الفداء لقبر انت ساکنہ»« فیہ لعاف وفیہ الجودو الکرم» جن جن کی ہڈیاں میدانوں میں دفن کی گئی ہیں اور ان کی خوشبو سے وہ میدان ٹیلے مہک اٹھے ہیں ، اے ان تمام میں سے بہترین ہستی ، میری جان اس قبر پر سے صدقے ہو جس کا ساکن تو ہے جس میں پارسائی سخاوت اور کرم ہے ۔ پھر اعرابی تو لوٹ گیا اور مجھے نیند آ گئی خواب میں کیا دیکھتا ہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے فرما رہے ہیں جا اس اعرابی کو خوشخبری سنا اللہ نے اس کے گناہ معاف فرما دئیے [ یہ خیال رہے کہ نہ تو یہ کسی حدیث کی کتاب کا واقعہ ہے نہ اس کی کوئی صحیح سند ہے ] بلکہ آیت کا یہ حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی تھا وصال کے بعد نہیں جیسے کہ «جَاءُوکَ» کا لفظ بتلا رہا ہے اور مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ ’ ہر انسان کا ہر عمل اس کی موت کے ساتھ منقطع ہو جاتا ہے ‘ ۱؎ (صحیح مسلم:1631) «وَاللہُ اَعْلَمُ» [ مترجم ] پھر اللہ تعالیٰ اپنی بزرگ اور مقدس ذات کی قسم کھا کر فرماتے ہے کہ کوئی شخص ایمان کی حدود میں نہیں آ سکتا جب تک کہ تمام امور میں اللہ کے اس آخر الزمان افضل تر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا سچا حاکم نہ مان لے اور آپ کے ہر حکم ہر فیصلے ہر سنت اور ہر حدیث کو قابل قبول اور حق صریح تسلیم نہ کرنے لگے ، دل کو اور جسم کو یکسر تابع رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہ بنا دے ۔ غرض جو بھی ظاہر باطن چھوٹے بڑے کل امور میں حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اصل اصول سمجھے وہی مومن ہے ۔ پس فرمان ہے کہ تیرے احکام کو یہ کشادہ دلی سے تسلیم کر لیا کریں اپنے دل میں پسندیدگی نہ لائیں تسلیم کلی تمام احادیث کے ساتھ رہے ، نہ تو احادیث کے ماننے سے رکیں نہ انہیں ہٹانے کے اسباب ڈھونڈیں نہ ان کے مرتبہ کی کسی اور چیز کو سمجھیں نہ ان کی تردید کریں نہ ان کا مقابلہ کریں نہ ان کے تسلیم کرنے میں جھگڑیں جیسے فرمان رسول ہے { اس کی قسم جس کے ہاتھ میری جان ہے تم میں سے کوئی صاحب ایمان نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنی خواہش کو اس چیز کا تابع نہ بنا دے جسے میں لایا ہوں } ۔ ۱؎ (فتح الباری:289/13،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) صحیح بخاری شریف میں ہے کہ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کا کسی شخص سے نالیوں سے باغ میں پانی لینے کے بارے میں جھگڑا ہو پڑا تو { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا زبیر [ رضی اللہ عنہ ] تم پانی پلا لو اس کے بعد پانی کو انصاری کے باغ میں جانے دو اس پر انصاری نے کہا ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ تو آپ کے پھوپھی کے لڑکے ہیں یہ سن کر آپ کا چہرہ متغیر ہوگیا ہے فرمایا زبیر [ رضی اللہ عنہ ] تم پانی پلا لو پھر پانی کو روکے رکھو یہاں تک کہ باغ کی دیواروں تک پہنچ جائے پھر اپنے پڑوسی کی طرف چھوڑ دو ۔} پہلے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسی صورت نکالی تھی کہ جس میں سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کو تکلیف نہ ہو اور انصاری کشادگی ہو جائے لیکن جب انصاری نے اسے اپنے حق میں بہتر نہ سمجھا تو آپ نے سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کو ان کا پورا حق دلوایا سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جہاں تک میرا خیال ہے یہ « فَلَا وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُونَ حَتَّیٰ یُحَکِّمُوکَ فِیمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ » ۱؎ (4-النساء:65) اسی بارے میں نازل ہوئی ہے ، مسند احمد کی ایک مرسل حدیث میں ہے کہ یہ انصاری رضی اللہ عنہ بدری تھے ۱؎ (صحیح بخاری:2708) اور روایت میں ہے دونوں میں جھگڑا یہ تھا کہ پانی کی نہر سے پہلے سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کا کھجوروں کا باغ پڑتا تھا پھر اس انصاری کا انصاری کہتے تھے کہ پانی روکو مت یونہی پانی دونوں باغوں میں ایک ساتھ آئے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2359) ابن ابی حاتم میں ہے کہ یہ دونوں دعویدار سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ اور سیدنا حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ تھے آپ کا فیصلہ ان میں یہ ہوا کہ پہلے اونچے والا پانی پلا لے پھر نیچے والا ۔ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:5559/3:مرسل و ضعیف) دوسری ایک زیادہ غریب روایت میں شان نزول یہ مروی ہے کہ دو شخص اپنا جھگڑا لے کر دربار محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں آئے آپ نے فیصلہ کر دیا لیکن جس کے خلاف فیصلہ تھا اس نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ ہمیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیجئیے آپ نے فرمایا بہت اچھا ان کے پاس چلے جاؤ جب یہاں آئے تو جس کے موافق فیصلہ ہوا تھا اس نے سارا ہی واقعہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو کہہ سنایا ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس دوسرے سے پوچھا کیا یہ سچ ہے ؟ اس نے اقرار کیا آپ نے فرمایا اچھا تم دونوں یہاں ٹھہرو میں آتا ہوں اور فیصلہ کر دیتا ہوں تھوڑی دیر میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ تلوار تانے آ گئے اور اس شخص کی جس نے کہا تھا کہ ہمیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیجئیے گردن اڑا دی دوسرا شخص یہ دیکھتے ہی دوڑا بھاگا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا اور کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرا ساتھی تو مار ڈالا گیا اور اگر میں بھی جان بچا کر بھاگ کر نہ آتا تو میری بھی خیر نہ تھی ۔ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں عمر کو ایسا نہیں جانتا تھا کہ وہ اس جرات کے ساتھ ایک مومن کا خون بہا دے گا } اس پر یہ آیت اتری اور اس کا خون برباد گیا اور اللہ تعالیٰ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بری کر دیا ، لیکن یہ طریقہ لوگوں میں اس کے بعد بھی جاری نہ ہو جائے اس لیے اس کے بعد ہی یہ آیت اتری«وَلَوْ اَنَّا کَتَبْنَا عَلَیْہِمْ اَنِ اقْتُلُوْٓا اَنْفُسَکُمْ اَوِ اخْرُجُوْا مِنْ دِیَارِکُمْ مَّا فَعَلُوْہُ اِلَّا قَلِیْلٌ مِّنْھُمْ» ۱؎ (4-النساء:66) جو آگے آتی ہے ۔ [ ابن ابی حاتم ] ابن مردویہ میں بھی یہ روایت ہے جو غریب اور مرسل ہے اور ابن لہیعہ راوی ضعیف ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» دوسری سند سے مروی ہے دو شخص رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنا جھگڑا لائے آپ نے حق والے کے حق میں ڈگری دے دی لیکن جس کے خلاف ہوا تھا اس نے کہا میں راضی نہیں ہوں آپ نے پوچھا تو کیا چاہتا ہے ؟ کہا یہ کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس چلیں دونوں وہاں پہنچے جب یہ واقعہ جناب سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ نے سنا تو فرمایا تمہارا فیصلہ وہی ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا وہ اب بھی خوش نہ ہوا اور کہا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس چلو وہاں گئے پھر وہ ہوا جو آپ نے اوپر پڑھا ۔ ۱؎ (مسند الفاروق:575/2:مرسل و ضعیف) [ تفسیر حافظ ابواسحاق ] النسآء
65 النسآء
66 عادت جب فطرت ثانیہ بن جائے اور صاحب ایمان کو بشارت رفاقت اللہ خبر دیتا ہے کہ اکثر لوگ ایسے ہیں کہ اگر انہیں ان منع کردہ کاموں کا بھی حکم دیا جاتا جنہیں وہ اس وقت کر رہے ہیں تو وہ ان کاموں کو بھی نہ کرتے اس لیے کہ ان کی ذلیل طبیعتیں حکم الہٰی کی مخالفت پر ہی استوار ہوئی ہیں ، پس اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کی خبر دی ہے جو ظاہر نہیں ہوئی لیکن ہوتی تو کس طرح ہوتی ؟ اس آیت کو سن کر ایک بزرگ نے فرمایا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ ہمیں یہ حکم دیتا تو یقیناً ہم کر گزرتے لیکن اس کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اس سے بچا لیا ۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات پہنچی تو { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیشک میری امت میں ایسے ایسے لوگ بھی ہیں جن کے دلوں میں ایمان پہاڑوں سے بھی زیادہ مضبوط اور ثابت ہے } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:9926:مرسل و ضعیف) [ ابن ابی حاتم ] اس روایت کی دوسری سند میں ہے کہ کسی ایک صحابہ رضی اللہ عنہ نے یہ فرمایا تھا سدی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ ایک یہودی نے سیدنا ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ سے فخریہ کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر خود ہمارا قتل بھی فرض کیا تو بھی ہم کر گزریں گے اس پر سیدنا ثابت رضی اللہ عنہ نے فرمایا واللہ اگر ہم پر یہ فرض ہوتا تو ہم بھی کر گزرتے اس پر یہ آیت اتری اور روایت میں ہے کہ جب یہ آیت اتری تو { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر یہ حکم ہوتا تو اس کے بجا لانے والوں میں ایک سیدنا ابن ام عبد رضی اللہ عنہ بھی ہوتے ہیں } ۱؎ (الدر المنثور للسیوطی:324/2:مرسل و ضعیف) [ ابن ابی حاتم ] دوسری روایت میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کو پڑھ کر سیدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کی طرف ہاتھ سے اشارہ کر کے فرمایا کہ یہ بھی اس پر عمل کرنے والوں میں سے ایک ہیں } ۔ ۱؎ (الدر المنثور للسیوطی:324/2:مرسل و ضعیف) ارشاد الٰہی ہے کہ اگر یہ لوگ ہمارے احکام بجا لاتے اور ہماری منع کردہ چیزوں اور کاموں سے رک جاتے تو یہ ان کے حق میں اس سے بہتر ہوتا کہ وہ حکم کی مخالفت کریں اور ممانعت میں مشغول ہوں ۔ یہی عمل زیادہ سچائی والا ہوتا اسکے نتیجے میں ہم انہیں جنت عطا فرماتے اور دنیا اور آخرت کی بہتر راہ کی رہنمائی کرتے پھر فرماتا ہے جو شخص اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام پر عمل کرے اور منع کردہ کاموں سے باز رہے اسے اللہ تعالیٰ عزت کے گھر میں لے جائے گا نبیوں کا رفیق بنائے گا اور صدیقوں کا جو مرتبے میں نبیوں کے بعد ہیں پھر شہیدوں کا پھر تمام مومنوں کا جنہیں صالح کہا جاتا ہے جن کا ظاہر باطن آراستہ ہے ان کا ہم جنس بنائے گا خیال تو کرو یہ کیسے پاکیزہ اور بہترین رفیق ہے صحیح بخاری شریف میں ہے { سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا کہ ہر نبی کو اس کے مرض الموت کے زمانے میں دنیا میں رہنے اور آخرت میں جانے کا اختیار دیا جاتا ہے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے تو شدت نقاہت سے اٹھ نہیں سکتے تھے آواز بیٹھ گئی تھی لیکن میں نے سنا کہ آپ فرما رہے ہیں ان کا ساتھ جن پر اللہ نے انعام کیا جو نبی ہیں ، صدیق ہیں ، شہید ہیں ، اور نیکوکار ہیں ۔ یہ سن کر مجھے معلوم ہو گیا کہ اب آپ کو اختیار دیا گیا ہے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:4463) یہی مطلب ہے جو دوسری حدیث میں آپ کے یہ الفاظ وارد ہوئے ہیں کہ { اے اللہ میں بلند و بالا رفیق کی رفاقت کا طالب ہوں یہ کلمہ آپ نے تین مرتبہ اپنی زبان مبارک سے نکالا پھر فوت ہو گئے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:4463) علیہ افضل الصلوۃ والتسلیم ۔ اس آیت کے شان نزول کا بیان ابن جریر میں ہے کہ ایک انصاری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے آپ نے دیکھا کہ سخت مغموم ہیں سبب دریافت کیا تو جواب ملا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہاں تو صبح شام ہم لوگ آپ کی خدمت میں آبیٹھے ہیں دیدار بھی ہو جاتا ہے اور دو گھڑی صحبت بھی میسر ہو جاتی ہے لیکن کل قیامت کے دن تو آپ نبیوں کی اعلیٰ مجلس میں ہوں گے ہم تو آپ تک پہنچ بھی نہ سکیں گے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ جواب نہ دیا اس پر حضرت جبرائیل علیہ السلام یہ آیت لائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آدمی بھیج کر انہیں یہ خوشخبری سنا دی ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:9929:مرسل و ضعیف) یہی اثر مرسل سند سے بھی مروی ہے جو سند بہت ہی اچھی ہے ۔ سیدنا ربیع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ یہ ظاہر ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا درجہ آپ پر ایمان لانے والوں سے یقیناً بہت ہی بڑا ہے پس جب کہ جنت میں یہ سب جمع ہوں گے تو آپس میں ایک دوسرے کو کیسے دیکھیں گے اور کیسے ملیں گے ؟ پس یہ آیت اتری اور { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اوپر کے درجہ والے نیچے والوں کے پاس اتر آئیں گے اور پربہار باغوں میں سب جمع ہوں گے اور اللہ کے احسانات کا ذکر اور اس کی تعریفیں کریں گے اور جو چاہیں گے پائیں گے ناز و نعم سے ہر وقت رہیں گے } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:9933:ضعیف) ابن مردویہ میں ہے ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ میں آپ کو اپنی جان سے اپنے اہل عیال سے اور اپنے بچوں سے بھی زیادہ محبوب رکھتا ہوں ۔ میں گھر میں ہوتا ہوں لیکن شوق زیارت مجھے بیقرار کر دیتا ہے صبر نہیں ہو سکتا دوڑتا بھاگتا آتا ہوں اور دیدار کر کے چلا جاتا ہوں لیکن جب مجھے آپ کی اور اپنی موت یاد آتی ہے اور اس کا یقین ہے کہ آپ جنت میں نبیوں کے سب سے بڑے اونچے درجے میں ہوں گے تو ڈر لگتا ہے کہ پھر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار سے محروم ہو جاؤں گا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو کوئی جواب نہیں دیا لیکن یہ آیت نازل ہوئی ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:12559/12:حسن بالشواھد) اس روایت کے اور بھی طریقے ہیں ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:12559:صحیح بالشواھد) صحیح مسلم شریف میں ہے { سیدنا ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں رات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہتا اور پانی وغیرہ لا دیا کرتا تھا ایک بار آپ نے مجھ سے فرمایا کچھ مانگ لے میں نے کہا جنت میں میں آپ کی رفاقت کا طالب ہوں فرمایا اس کے سوا اور کچھ ؟ میں نے کہا وہی کافی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری رفاقت کے لیے میری مدد کر بکثرت سجدے کرکے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:489) مسند احمد میں ہے ایک شخص نے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا میں اللہ کے لا شریک ہونے کی اور آپ کے رسول ہونے کی گواہی دیتا ہوں اور رمضان کے روزے رکھتا ہوں تو آپ نے فرمایا جو مرتے دم تک اسی پر رہے گا وہ قیامت کے دن نبیوں صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ اس طرح ہو گا پھر آپ نے اپنی دو انگلیاں اٹھا کر اشارہ کر کے بتایا ۔ لیکن یہ شرط ہے کہ ماں باپ کا نافرمان نہ ہو } ۔ ۱؎ (مجمع الزوائد:146/8:ضعیف) مسند احمد میں ہے ’ جس نے اللہ کی راہ میں ایک ہزار آیتیں پڑھیں وہ ان شاءاللہ قیامت کے دن نبیوں کے صدیقوں شہیدوں اور صالحوں کے ساتھ لکھا جائے گا ۔ ‘ ۱؎ (مسند احمد:437/8،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ترمذی میں ہے ’ سچا امانت دار ، تاجر نبیوں ، صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہو گا ۔ ‘ ۱؎ (سنن ترمذی:1209،قال الشیخ الألبانی:حسن) ان سب سے زیادہ زبردست بشارت اس حدیث میں ہے جو صحاح اور مسانید وغیرہ میں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین کی ایک زبردست جماعت سے بہ تواتر مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس شخص کے بارے میں دریافت کیا گیا جو ایک قوم سے محبت رکھتا ہے لیکن اس سے ملا نہیں تو آپ نے فرمایا [ حدیث ] « اَلمْـَرْءُ مَـعَ مَـنْ اَحَبَّ » { ہر انسان اس کے ساتھ ہو گا جس سے وہ محبت رکھتا تھا } سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مسلمان جس قدر اس حدیث سے خوش ہوئے اتنا کسی اور چیز سے خوش نہیں ہوئے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3688) سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں واللہ میری محبت تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ہے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ہے تو مجھے امید ہے کہ اللہ مجھے بھی انہی کے ساتھ اٹھائے گا گو میرے اعمال ان جیسے نہیں ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3688) [ یا اللہ تو ہمارے دل بھی اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے چاہنے والوں کی محبت سے بھر دے اور ہمارا حشر بھی انہی کے ساتھ کر دے آمین ] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { جنتی لوگ اپنے سے بلند درجہ والے جنتیوں کو ان کے بالا خانوں میں اس طرح دیکھیں گے جیسے تم چمکتے ستارے کو مشرق یا مغرب میں دیکھتے ہو ان میں بہت کچھ فاصلہ ہو گا صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا یہ منزلیں تو انبیاء کرام کے لیے ہی مخصوص ہوں گی ؟ کوئی اور وہاں تک کیسے پہنچ سکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا کیوں نہیں اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ان منزلوں تک وہ بھی پہنچیں گے جو اللہ پر ایمان لائے رسولوں کو سچا جانا اور مانا ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:3256) ایک حبشی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے { آپ فرماتے ہیں جو پوچھنا ہو پوچھو اور سمجھو وہ کہتا ہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو صورت میں رنگ میں نبوت میں اللہ عزوجل نے ہم پر فضیلت دے رکھی ہے اگر میں بھی اس چیز پر ایمان لاؤں جس پر آپ ایمان لائے ہیں اور ان احکام کو بجا لاؤں جنہیں آپ بجا لا رہے ہیں تو کیا جنت میں آپ کا ساتھ ملے گا ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں اس اللہ تعالیٰ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جنتی حبشی تو ایسا گورا چٹا ہوکر جنت میں جائے گا کہ اسکا پنڈا ایک ہزار برس کے فاصلے ہی نورانیت کے ساتھ جگمگاتا ہوا نظر آئے گا ۔ } پھر فرمایا { «لا الہ الا اللہ» کہنے والے سے اللہ کا وعدہ ہے اور «سُبْحَانَ اللَّہِ وَبِحَمْدِہِ» کہنے والے کے لیے ایک لاکھ چوبیس ہزار نیکیاں لکھی جاتی ہیں } اس پر ایک اور صاحب نے کہا { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب یہ حقائق ہیں تو پھر ہم کیسے ہلاک ہو سکتے ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا ایک انسان قیامت کے دن اس قدر اعمال لے کر آئے گا اگر کسی پہاڑ پر رکھے جائیں تو وہ بھی بوجھل ہوئے لیکن ایک نعمت جو کھڑی ہوگئی محض اسکے شکریہ میں یہ اعمال کم نظر آئیں گے ہاں یہ اور بات ہے اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کاملہ سے اسے ڈھانک لے اور جنت دے دے } اور یہ آیتیں اتریں «ہَلْ اَتٰی عَلَی الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّہْرِ لَمْ یَکُنْ شَیْـــًٔا مَّذْکُوْرًا» سے «وَاِذَا رَاَیْتَ ثَمَّ رَاَیْتَ نَعِیْمًا وَّمُلْکًا کَبِیْرًا» تک ۔ ۱؎ (76-الإنسان:1-20) { تو حبشی صحابی رضی اللہ عنہ کہنے لگا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا جنت میں جن جن چیزوں کو آپ کی آنکھیں دیکھیں گی میری آنکھیں بھی دیکھ سکیں گی ؟ آپ نے فرمایا ہاں } اس پر وہ حبشی فرط شوق میں روئے اور اس قدر روئے کہ اسی حالت میں فوت ہو گئے رضی اللہ عنہ وارضاہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں میں نے دیکھا کہ ان کی نعش مبارک کو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبر میں اتار رہے تھے ۱؎ (طبرانی کبیر:13595:ضعیف) یہ روایت غریب ہے اور اس میں اصولی خامیاں بھی ہیں اس کی سند بھی صغیف ہے ۔ ارشاد الٰہی ہے یہ خاص اللہ کی عنایت اور اس کا فضل ہے اس کی رحمت سے ہی یہ اس کے قابل ہوئے نہ کہ اپنے اعمال سے ، اللہ خوب جاننے والا ہے اسے بخوبی معلوم ہے کہ مستحق ہدایت و توفیق کون ہے ؟ النسآء
67 النسآء
68 النسآء
69 النسآء
70 النسآء
71 طاقتور اور متحد ہو کر زندہ رہو اللہ رب العزت مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ ہر وقت اپنے بچاؤ کے اسباب تیار رکھیں ہر وقت ہتھیار بند رہیں تاکہ دشمن ان پر با آسانی کامیاب نہ ہو جائے ۔ ضرورت کے ہتھیار تیار رکھیں اپنی تعداد بڑھاتے رہیں قوت مضبوط کرتے رہیں منظم مردانہ وار جہاد کے لیے بیک آواز اٹھ کھڑے ہوں چھوٹے چھوٹے لشکروں میں بٹ کر یا متحدہ فوج کی صورت میں جیسا موقعہ ہو آواز سنتے ہی ہوشیار رہیں کہ منافقین کی خصلت ہے کہ خود بھی اللہ تعالیٰ کی راہ سے جی چرائیں اور دوسروں کو بھی بزدل بنائیں ۔ جیسے عبداللہ بن ابی بن سلول سردار منافقین کا فعل تھا اللہ تعالیٰ اسے رسوا کرے اس کا کردار یہ تھا کہ اگر حکمت الہیہ سے مسلمانوں کو دشمنوں کے مقابلہ میں کامیابی نہ ہوتی دشمن ان پر چھا جاتا انہیں نقصان پہنچاتا ، ان کے آدمی شہید ہوتے تو یہ گھر بیٹھا خوشیاں مناتا اور اپنی دانائی پر اکڑتا اور اپنا اس جہاد میں شریک نہ ہونا اپنے حق میں اللہ تعالیٰ کا انعام قرار دیتا لیکن بے خبر یہ نہیں سمجھتا کہ جو اجر و ثواب ان مجاہدین کو ملا اس سب سے یہ بد نصیب یک لخت محروم رہا اگر یہ بھی ان میں شامل ہو تا تو غازی کا درجہ پاتا اپنے صبر کے ثواب سمیٹتا یا شہادت کے بلند مرتبے تک پہنچ جاتا ۔ اور اگر مسلمان مجاہدین کو اللہ کا فضل معاون ہوتا یعنی یہ دشمنوں پر غالب آ جاتے ان کی فتح ہوتی دشمنوں کو انہوں نے پامال کیا اور مال غنیمت لونڈی غلام لے کر خیر عافیت ظفر اور نصرت کے ساتھ لوٹتے تو یہ انگاروں پر لوٹتا اور ایسے لمبے لمبے سانس لے کر ہائے وائے کرتا ہے اور اس طرح پچھتاتا ہے اور ایسے کلمات زبان سے نکالتا ہے گویا یہ تمہارا کبھی تھا یہ نہیں یہ دین تمہارا نہیں بلکہ اس کا دین ہے اور کہتا افسوس میں ان کے ساتھ نہ ہوا ورنہ مجھے بھی حصہ ملتا اور میں بھی لونڈی ، غلام ، مال ، متاع والابن جاتا الغرض دنیا پر ریجھا ہوا اور اسی پر مٹا ہوا ہے ۔ پس اللہ کی راہ میں نکل کھڑے ہونے والے مومنوں کو چاہیئے کہ ان سے جہاد کریں جو اپنے دین کو دنیا کے بدلے فروخت کر رہے ہیں اپنے کفر اور عدم ایمان کے باعث اپنی آخرت کو برباد کر کے دنیا بناتے ہیں ۔ سنو ! اللہ کی راہ کا مجاہد کبھی نقصان نہیں اٹھاتا اس کے دونوں ہاتھوں میں لڈو ہیں قتل کیا گیا تو اجر موجود غالب رہا تو ثواب حاضر ۔ بخاری مسلم میں ہے کہ اللہ کی راہ کے مجاہد کا ضامن خود اللہ عزوجل ہے یا تو اس فوت کر کے جنت میں پہنچائے گا جس جگہ سے وہ چلا ہے وہیں اجر و غنیمت کے ساتھ صیح سالم واپس لائے گا ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3123) «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» النسآء
72 النسآء
73 النسآء
74 النسآء
75 شیطان کے دوستوں سے جنگ لازم ہے اللہ تعالیٰ مومنوں کو اپنی راہ کے جہاد کی رغبت دلاتا ہے اور فرماتا ہے کہ وہ کمزور بے بس لوگ جو مکہ میں ہیں جن میں عورتیں اور بچے بھی ہیں جو وہاں کے قیام سے اکتا گئے ہیں جن پر کفار نت نئی مصیبتیں توڑ رہے ہیں ۔ جو محض بے بال و پر ہیں انہیں آزاد کراؤ ، جو بیکس دعائیں مانگ رہے ہیں کہ اسی بستی یعنی مکہ سے ہمارا نکلنا ممکن ہو ۔ مکہ شریف کو اس آیت میں بھی قریہ کہا گیا ہے «وَکَاَیِّنْ مِّنْ قَرْیَۃٍ ہِیَ اَشَدٰ قُوَّۃً مِّنْ قَرْیَتِکَ الَّتِیْٓ اَخْرَجَتْکَ ۚ اَہْلَکْنٰہُمْ فَلَا نَاصِرَ لَہُمْ» ۱؎ (47-محمد:13) ’ بہت سی بستیاں اس بستی سے زیادہ طاقتور تھیں جس بستی سے [ یعنی وہاں کے رہنے والوں نے ] تمہیں نکالا ‘ ۔ اسی مکہ کے رہنے والے مسلمان کافروں کے ظلم کے شکایت بھی کر رہے ہیں اور ساتھ ہی اپنی دعاؤں میں کہہ رہے ہیں کہ اے رب کسی کو اپنی طرف سے ہمارا ولی اور مددگار بنا کر ہماری امداد کو بھیج ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما انہی کمزوروں میں تھے ۱؎ (صحیح بخاری:4587) اور روایت میں ہے کہ آپ نے«اِلَّا الْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاۗءِ وَالْوِلْدَانِ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ حِیْلَۃً وَّلَا یَہْتَدُوْنَ سَبِیْلًا» ۱؎ (4-النساء:98) پڑھ کر فرمایا میں اور میری والدہ صاحبہ بھی انہی لوگوں میں سے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے معذور رکھا ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4588) ارشاد ہے : ایماندار اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری اور اس کی رضا جوئی کے لیے جہاد کرتے ہیں اور کفار اطاعت شیطان میں لڑتے ہیں تو مسلمانوں کو چاہیئے کہ شیطان کے دوستوں سے جو اللہ کے دشمن ہیں دل کھول کر جنگ کریں اور یقین مانیں کہ شیطان کے ہتھکنڈے اور اس کے مکر و فریب سب نقش برآب ہیں ۔ النسآء
76 النسآء
77 اولین درس صبر و ضبط واقعہ بیان ہو رہا ہے کہ ابتدائے اسلام میں جب مسلمان مکہ شریف میں تھے کمزور تھے حرمت والے شہر میں تھے کفار کا غلبہ تھا یہ انہی کے شہر میں تھے وہ بکثرت تھے جنگی اسباب میں ہر طرح فوقیت رکھتے ہیں ، اس لیے اس وقت اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جہاد و قتال کا حکم نہیں دیا تھا ، بلکہ ان سے فرمایا تھا کہ کافروں کی ایذائیں سہتے چلے جائیں ان کی مخالفت برداشت کریں ، ان کے ظلم و ستم برداشت کریں ، جو احکام اللہ نازل ہو چکے ہیں ان پر عامل رہیں نماز ادا کرتے رہیں زکوٰۃ دیتے رہا کریں ، گو ان میں عموماً مال کی زیادتی بھی نہ تھی لیکن تاہم مسکینوں اور محتاجوں کے کام آنے کا اور ان کی ہمدردی کرنے کا انہیں حکم دیا گیا تھا ۔ مصلحت الٰہی کا تقاضہ یہ تھا کہ سردست یہ کفار سے نہ لڑیں بلکہ صبر و ضبط سے کام لیں ادھر کافر بڑی دلیری سے ان پر ستم کے پہاڑ توڑ رہے تھے ہر چھوٹے بڑے کو سخت سے سخت سزائیں دے رہے تھے ، مسلمانوں کا ناک میں دم کر رکھا تھا اس لیے ان کے دل میں رہ رہ کر جوش اٹھتا تھا اور زبان سے الفاظ نکل جاتے تھے کہ اس روز مرہ کی مصیبتوں سے تو یہی بہتر ہے کہ ایک مرتبہ دل کی بھڑاس نکل جائے ، دو دو ہاتھ میدان میں ہو لیں کاش کہ اللہ تعالیٰ ہمیں جہاں کا حکم دیدے ، لیکن اب تک حکم نہیں ملا تھا ۔ جب انہیں ہجرت کی اجازت ملی اور مسلمان اپنی زمین ، زر ، رشتہ ، کنبے ، اللہ عزوجل کے نام پر قربان کر کے اپنا دین لے کر مکہ سے ہجرت کر کے مدینے پہنچے یہاں انہیں اللہ تعالیٰ نے ہر طرح کی سہولت دی امن کی جگہ دی امداد کے لیے انصار مدینہ دئیے ، تعداد میں کثرت ہو گئی قوت و طاقت قدرے بڑھ گئی تو اب اللہ حاکم مطلق کی طرف سے اجازت ملی کہ اپنے لڑنے والوں سے لڑو ، جہاد کا حکم اترتے ہی بعض لوگ سٹ پٹائے ، خوف زدہ ہوئے جہاد کا تصور کر کے میدان میں قتل کئے جانے کا تصور عورتوں کے رنڈاپے کا خیال ، بچوں کی یتیمی کا منظر آنکھوں کے سامنے آ گیا گھبراہٹ میں کہہ اٹھے کہ اے اللہ ابھی سے جہاد کیوں فرض کر دیا کچھ تو مہلت دی ہوتی ۔ اسی مضمون کو دوسری آیتوں میں اس طرح بیان کیا گیا ہے ۔ «وَیَقُولُ الَّذِینَ آمَنُوا لَوْلَا نُزِّلَتْ سُورَۃٌ ۖ فَإِذَا أُنزِلَتْ سُورَۃٌ مٰحْکَمَۃٌ وَذُکِرَ فِیہَا الْقِتَالُ ۙ رَأَیْتَ الَّذِینَ فِی قُلُوبِہِم مَّرَضٌ یَنظُرُونَ إِلَیْکَ نَظَرَ الْمَغْشِیِّ عَلَیْہِ مِنَ الْمَوْتِ ۖ فَأَوْلَیٰ لَہُمْ طَاعَۃٌ وَقَوْلٌ مَّعْرُوفٌ ۚ فَإِذَا عَزَمَ الْأَمْرُ فَلَوْ صَدَقُوا اللہَ لَکَانَ خَیْرًا لَّہُمْ » ۱؎ (47-محمد:20-21) ، مختصر مطلب یہ ہے کہ ’ ایماندار کہتے ہیں کوئی سورت کیوں نازل نہیں کی جاتی جب کوئی سورت اتاری جاتی ہے اور اس میں جہاد کا ذکر ہوتا ہے تو بیمار دل لوگ چیخ اٹھتے ہیں ٹیڑھے تیوروں سے تجھے گھورتے ہیں اور موت کی غشی والوں کی طرح اپنی آنکھیں بند کر لیتے ہیں ان پر افسوس ہے ۔ ‘ سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ اور آپ کے ساتھی مکہ شریف میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں { اے نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم کفر کی حالت ذی عزت تھے آج اسلام کی حالت میں ذلیل سمجھے جانے لگے مطلب یہ تھا کہ آپ کی فرمانبرداری ضروری ہے اور آپ مقابلے سے میں منع کرتے ہیں جن سے کفار کی جرأت بڑھ گئی ہے ۔ اور وہ ہمیں ذلیل کرنے لگے ہیں تو آپ ہمیں مقابلہ کی اجازت کیوں نہیں دیتے ؟ لیکن آپ نے جواب دیا مجھے اللہ کا حکم یہی ہے کہ ہم درگزر کریں کافروں سے جنگ نہ کریں ۔ } پھر جب مدینہ کی طرف ہجرت ہوئی اور جہاد کے احکام نازل ہوئے تو لوگ ہچکچانے لگے اس پر یہ آیت اتری ۔ ۱؎ (سنن نسائی:3088،قال الشیخ الألبانی:صحیح) سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں صرف صلوۃ و زکوٰۃ کا حکم ہی تھا تو تمنائیں کرتے تھے کہ جہاد فرض ہو جب فریضہ جہاد نازل ہوا تو کمزور دل لوگ انسانوں سے ڈرنے لگے جیسے اللہ سے ڈرنا چاہیئے بلکہ اس سے بھی زیادہ اور کہنے لگے اے رب تو نے ہم پر جہاد کیوں فرض کردیا کیوں ہمیں اپنی موت کے صحیح وقت تک فائدہ نہ اٹھانے دیا ۔ انہیں جواب ملتا ہے کہ دنیوی نفع بالکل ناپائیدار اور بہت ہی کم ہے ہاں متقیوں کے لیے آخرت دنیا سے بہتر اور پاکیزہ تر ہے ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ آیت یہودیوں کے بارے میں اتری ہے ، جواباً کہا گیا کہ پرہیزگاروں کا انجام آغاز سے بہت ہی اچھا ہے ۔ تمہیں تمہارے اعمال پورے پورے دیئے جائیں گے کامل اجر ملے گا ایک بھی نیک عمل غارت نہ کیا جائے گا ناممکن ہے کہ ایک بال برابر ظلم اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی پر کیا جائے ۔ اس جملے میں انہیں دنیا سے بے رغبتی دلائی جا رہی ہے آخرت کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہے جہاد کی رغبت دی جا رہی ہے ۔ حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں اللہ اس بندے پر رحم کرے جو دنیا کے ساتھ ایسا ہی رہے ساری دنیا اول سے آخرت تک اس طرح ہے جیسے کوئی سویا ہوا شخص اپنے خواب میں اپنی پسندیدہ چیز کو دیکھے لیکن آنکھ کھلتے ہیں معلوم ہو جاتا ہے کہ کچھ نہ تھا ۔ ابو مصہر رحمہ اللہ کا یہ کلام کتنا پیارا ہے« ولا خیر فی الدنیا لمن لم یکن لہ»« من اللہ فی دار المقام نصیب»« فان تعجب الدنیا رجالا فانھا»« متاع قلیل والزوال قریب» یعنی اس شخص کے لیے دنیا بھلائی سے یکسر خالی ہے جسے کل آخرت کا کوئی حصہ ملنے والا نہیں ۔ گودنیا کو دیکھ دیکھ کر بعض لوگ ریجھ رہے ہیں لیکن دراصل یہ یونہی سا فائدہ ہے اور وہ بھی جلد فنا ہو جانے والا ۔ پھر ارشاد باری ہے کہ آخرش موت کا مزا ہر ایک چکھنا ہی ہے کوئی ذریعہ کسی کو اس سے بچا نہیں سکتا ، جسے فرمان ہے «کُلٰ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ» ۱؎ (55-الرحمن:26) ’ جتنے یہاں ہیں سب فانی ہیں ‘ ۔ اور جگہ ارشاد ہے «کُلٰ نَفْسٍ ذَاۗیِٕقَۃُ الْمَوْتِ» ۱؎ (3-آل عمران:185) ’ ہر ہر جاندار مرنے والا ہے ‘ فرماتا ہے«وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِکَ الْخُلْدَ» ۱؎ (21-الأنبیاء:34) ’ تجھ سے اگلے لوگوں میں سے بھی کسی کے لیے ہم نے ہمیشہ کی زندگی مقرر نہیں کی ‘ ۔ مقصد یہ ہے کہ خواہ جہاد کر ے یا نہ کرے ذات اللہ کے سوا موت کا مزا تو ایک نہ ایک روز ہر کسی کو چکھنا ہی پڑے گا ۔ ہر ایک کا ایک وقت مقرر ہے اور ہر ایک کی موت کی جگہ معین ہے ۔ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اس وقت جبکہ آپ بستر مرگ پر ہیں فرماتے ہیں اللہ کی قسم فلاں جگہ فلاں جگہ غرض بیسیوں لڑائیوں میں سینکڑوں معرکوں میں گیا ثابت قدمی پامردی کے ساتھ دلیرانہ جہاد کئے آؤ دیکھ لو میرے جسم کا کوئی عضو ایسا نہ پاؤ گے جہاں کوئی نہ کوئی نشان نیزے یا برچھے یا تیر یا بھالے کا تلوار اور ہتھیار کا نہ ہو لیکن چونکہ میدان جنگ میں موت نہ لکھی تھی اب دیکھو اپنے بسترے پر اپنی موت مررہا ہوں ، کہاں ہیں لڑائی سے جی چرانے والے نامرد میری ذات سے سبق سیکھیں۔ ( رضی اللہ عنہ و ارضاہ ) النسآء
78 . پھر فرماتا ہے موت کے پنجے سے بلند و بالا مضبوط اور مضبوظ قلعے اور محل بھی بچا نہیں سکتے ۔ بعض نے کہا مراد اس سے آسمان کے برج ہیں ، لیکن یہ قول ضعیف ہے صحیح یہی ہے کہ مراد محفوظ مقامات ہیں یعنی کتنی ہی حفاظت موت سے کی جائے ۔ لیکن وہ اپنے وقت سے آگے پیچھے نہیں ہو سکتی زہیر کا شعر ہے کہ موت سے بھاگنے والا گو زینہ لگا کر اسباب آسمانی بھی جمع کر لے تو بھی اسے کوئی نفع نہیں پہنچ سکتا ۔ ایک قول ہے «مٰشَیَّدَۃٍ» بہ تشدید «مَشِـْید» بغیر تشدید ایک ہی معنی میں ہیں اور بعض ان دونوں میں فرق کے قائل ہیں کہتے ہیں کہ اول کا معنی مطول دوسرے کا معنی مزین یعنی چونے سے ابن جریر اور ابن ابی حاتم میں اس موقعہ پر ایک مطول قصہ بزبان مجاہد رحمہ اللہ مروی ہے کہ اگلے زمانے میں ایک عورت حاملہ تھی جب اسے درد ہونے لگے اور بچی تولد ہوئی تو اس نے اپنے ملازم سے کہا کہ جاؤ کہیں سے آگ لے آؤ وہ باہر نکلا تو دیکھا کہ دروازے پر ایک شخص کھڑا ہے پوچھتا ہے کہ کیا ہوا لڑکی یا لڑکا ؟ اس نے کہا لڑکی ہوئی ہے کہا سن یہ لڑکی ایک سو آدمیوں سے زنا کرائے گی پھر اس کے ہاں اب جو شخص ملازم ہے اسی سے اس کا نکاح ہو گا اور ایک مکڑی اس کی موت کا باعث بنے گی ۔ یہ شخص یہیں سے پلٹ آیا اور آتے ہی ایک تیز چھری لے کر اس لڑکی کے پیٹ کو چیر ڈالا اور اسے مردہ سمجھ کر وہاں سے بھاگ نکلا ۔ اس کی ماں نے یہ حال دیکھ کر اپنی بچی کے پیٹ کو ٹانکے لگا دئیے اور علاج معالجہ شروع کیا جس سے اس کا زخم بھر گیا اب ایک زمانہ گزر گیا ادھر یہ لڑکی بلوغت کو پہنچ گئی اور تھی بھی اچھی شکل و صورت کی بدچلنی میں پڑگئی ادھر ملازم سمندر کے راستے کہیں چلا گیا کام کاج شروع کیا اور بہت رقم پیدا کی کل مال سمیٹ کر بہت مدت بعد یہ پھر اسی اپنے گاؤں میں آ گیا ایک بڑھیا عورت کو بلا کر کہا کہ میں نکاح کرنا چاہتا ہوں گاؤں میں جو بہت خوبصورت عورت ہو اس سے میرا نکاح کرا دو ، یہ عورت گئی اور چونکہ شہر بھر میں اس لڑکی سے زیادہ خوش شکل کوئی عورت نہ تھی یہیں پیغام بھیجا ، منظور ہو گیا ، نکاح بھی ہو گیا اور وداع ہو کر یہ اس کے ہاں آ بھی گئی دونوں میاں بیوی میں بہت محبت ہو گئی ۔ ایک دن ذکر اذکار میں اس عورت نے اس سے پوچھا آخر آپ کون ہیں کہاں سے آئے ہیں یہاں کیسے آ گئے ؟ وغیرہ اس نے اپنا تمام ماجرا بیان کر دیا کہ میں یہاں ایک عورت کے ہاں ملازم تھا اور وہاں سے اس کی لڑکی کے ساتھ یہ حرکت کر کے بھاگ گیا تھا اب اتنے برسوں کے بعد یہاں آیا ہوں تو اس لڑکی نے کہا جس کا پیٹ چیر کر تم بھاگے تھے میں وہی ہوں یہ کہہ کر اپنے اس زخم کا نشان بھی اسے دکھایا تب تو اسے یقین ہو گیا اور کہنے لگا جب تو وہی ہے تو ایک بات تیری نسبت مجھے اور بھی معلوم ہے وہ یہ کہ تو ایک سو آدمیوں سے مجھ سے پہلے مل چکی ہے اس نے کہا ٹھیک ہے یہ کام تو مجھ سے ہوا ہے لیکن گنتی یاد نہیں ۔ اس نے کہا کہ مجھے تیری نسبت ایک اور بات بھی معلوم ہے وہ یہ کہ تیری موت کا سبب ایک مکڑی بنے گی ، خیر چونکہ مجھے تجھ سے بہت زیادہ محبت ہے میں تیرے لیے ایک بلند و بالا پختہ اور اعلیٰ محل تعمیر کرا دیتا ہوں اسی میں تو رہ تاکہ وہاں تک ایسے کیڑے مکوڑے پہنچ ہی نہ سکیں چنانچہ ایسا ہی محل تیار ہوا اور یہ وہاں رہنے سہنے لگی ۔ ایک مدت کے بعد ایک روز دونوں میاں بیوی بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک چھت پر ایک مکڑی دکھائی دی اسے دیکھتے ہیں اس شخص نے کہا دیکھو آج یہاں مکڑی دکھائی دی عورت بولی اچھا یہ میری جان لیوا ہے ؟ تو میں اس کی جان لوں گی غلاموں کو حکم دیا کہ اسے زندہ پکڑ کر میرے سامنے لاؤ نوکر پکڑ کر لے آئے اس نے زمین پر رکھ کر اپنے پیر کے انگوٹھے سے اسے مل ڈالا اس کی جان نکل گئی لیکن اس میں سے پیپ کا ایک آدھ قطرہ اس کے انگوٹھے کے ناخن اور گوشت کے درمیان اڑ کر چپک گیا اس کا زہر چڑھا پیر سیاہ پڑ گیا اور اسی میں آخر مر گئی ۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ پر جب باغی چڑھ دوڑے تو آپ نے امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خیر خواہی اور ان کے اتفاق کی دعا کے بعد دو شعر پڑھے جن کا مطلب بھی یہی ہے کہ موت کو ٹالنے والی کوئی چیز اور کوئی حیلہ کوئی قوت اور کوئی چالاکی نہیں ، حضر کے بادشاہ ساطرون کو کسریٰ سابور ذوالا کتاف نے جس طرح قتل کیا وہ واقعہ بھی ہم یہاں لکھتے ہیں ، ابن ہشام میں ہے جب سابور عراق میں تھا تو اس کے علاقہ یر ساطرون نے چڑھائی کی تھی اس کے بدلے میں جب اس نے چڑھائی کی تو یہ قلعہ بند ہو گیا دو سال تک محاصرہ رہا لیکن قلعہ فتح نہ ہو سکا ۔ ایک روز ساطرون کی بیٹی نضیرہ اپنے باپ کے قلعہ کا گشت لگا رہی تھی اچانک اس کی نظرسابور پر پڑھ گئی یہ اس وقت شاہانہ پرتکلف ریشمی لباس میں تاج شاہی سر پر رکھے ہوئے تھا نضیرہ کے دل میں آیا کہ اس سے میری شادی ہو جائے تو کیا ہی اچھا ہو ؟ چنانچہ اس نے خفیہ پیغام بھیجنے شروع کیے اور وعدہ ہو گیا کہ اگر یہ لڑکی اس قلعہ پر سابور کا قبضہ کرا دے تو سابور اس سے نکاح کر لیگا ۔ اس کا باپ ساطرون بڑا شرابی تھا اس کی ساری رات نشہ میں کٹتی تھی اس کی لڑکی نے موقعہ پا کر رات کو اپنے باپ کو نشہ میں مد ہوش دیکھ کر اس کے سرہانے سے قلعہ کے دروازے کی کنجیاں چپکے سے نکال لیں اور اپنے ایک با اعتماد غلام کے ہاتھ سابور تک پہنچا دیں جس سے اس نے دروازہ کھول لیا اور شہر میں قتل عام کرایا اور قابض ہو گیا یہ بھی کہا گیا کہ اس قلعہ میں ایک جادو تھا جب تک اس طلسم کو توڑا نہ جائے قلعہ کا فتح ہونا ناممکن تھا اس لڑکی نے اس کے توڑنے کا گر اسے بتا دیا کہ ایک چت کبرا کبوتر لے کر اس کے پاؤں کسی باکرہ کے پہلے حیض کے خون سے رنگ لو پھر اس کبوتر کو چھوڑو وہ جا کر قلعہ کی دیوار پر بیٹھے تو فوراً وہ طلسم ٹوٹ جائے گا اور قلعہ کا پھاٹک کھل جائے گا ۔ چنانچہ سابور نے یہی کیا اور قلعہ فتح کر کے ساطرون کو قتل کر ڈالا تمام لوگوں کو تیغ کیا اور تمام شہر کو اجاڑ دیا اور اس لڑکی کو اپنے ہمراہ لے گیا اور اس سے نکاح کر لیا ۔ ایک رات جبکہ لڑکی نضیرہ اپنے بسترے پر لیٹی ہوئی تھی اسنے نیند نہ آ رہی تھی تلملا رہی تھی اور بے چینی سے کروٹیں بدل رہی تھی تو سابور نے پوچھا کیا بات ہے اس نے کہا شاید میرے بستر میں کچھ ہے جس سے مجھے نیند نہیں آ رہی ، شمع جلائی گئی بستر ٹٹولا گیا تو گل آس کی ایک بتی نکلی ۔ سابور اس نزاکت پر حیران رہ گیا کہ ایک اتنی چھوٹی سی پتی بستر میں ہونے پر اسے نیند نہیں آئی ؟ پوچھا تیرے والد کے ہاں تیرے لیے کیا ہوتا تھا ؟ اس نے کہا نرم ریشم کا بسترا تھا صرف باریک نرم ریشمی لباس تھا صرف نلیوں کا گودا کھایا کرتی تھی اور صرف انگوری خالص شراب پیتی تھی ۔ یہ انتظام میرے باپ نے میرے لیے کر رکھا تھا ۔ یہ تھی بھی ایسی کہ اس کی پنڈلی کا گودا تک باہر سے نظر آتا تھا ۔ ان باتوں سے سابور پر ایک اور رنگ چڑھا دیا اور اس نے کہا جس باپ نے تجھے اس طرح پالا پوسا اس کے ساتھ تو نے یہ سلوک کیا کہ میرے ہاتھوں اسے قتل کرایا اس کے مالک کو تاخت و تاراج کرایا پھر مجھے تجھ سے کیا امید رکھنی چاہیئے ؟ اللہ جانے میرے ساتھ تو کیا کرے ؟ اسی وقت حکم دیا کہ اس کے سر کے بال گھوڑے سے باندھ دیئے جائیں اور گھوڑے کو بیلگام چھوڑ دیا جائے ، چنانچہ یہی ہوا گھوڑا بد کا بھاگا اچھلنے کودنے لگا اور اس کی ٹاپوں سے زمین پر پچھاڑیں کھاتے ہوئے اس کے جسم کا چورا چورا ہو گیا ۔ چنانچہ اس واقعہ کو عرب شعراء نے نظم بھی کیا ہے ۔ النسآء
79 . اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اگر انہیں خوش حالی پھلواری اولاد و کھیتی ہاتھ لگے تو کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے اور اگر قحط سالی پڑے تنگ روزی ہو موت اور اولاد و مال کی کمی اور کھیت اور باغ کی کمی ہو تو جھٹ سے کہہ اٹھتے ہیں یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری کا نتیجہ ہے ، یہ فائدہ ہے مسلمان ہونے کا یہ پھل ہے صاحب ایمان بننے کا ، فرعونی بھی اسی طرح برائیوں کو موسیٰ علیہ السلام اور مسلمانوں سے منسوب بدشگونی لیا کرتے تھے ۔ جیسے کہ قرآن نے اس کا ذکر کیا ہے ایک آیت میں ہے«وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّعْبُدُ اللّٰہَ عَلٰی حَرْفٍ ۚ فَاِنْ اَصَابَہٗ خَیْرُۨ اطْـمَاَنَّ بِہٖ ۚ وَاِنْ اَصَابَتْہُ فِتْنَۃُۨ انْقَلَبَ عَلٰی وَجْہِہٖ ڗ خَسِرَ الدٰنْیَا وَالْاٰخِرَۃَ ۭ ذٰلِکَ ہُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ» ۱؎ (22-الحج:11) ، یعنی ’ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو ایک کنارے کھڑے رہ کر اللہ کی عبادت کرتے ہیں یعنی اگر بھلائی ملی تو باچھیں کھل جاتی ہیں اور اگر برائی پہنچے تو الٹے پیروں پلٹ جاتے ہیں ۔ یہ ہیں جو دونوں جہان میں برباد ہوں گے ‘ پس یہاں بھی ان منافقوں کی جو بظاہر مسلمان ہیں اور دل کے کھوٹے ہیں برائی بیان ہو رہی ہے ۔ کہ جہاں کچھ نقصان ہوا اور بہک گئے کہ اسلام لانے کی وجہ سے ہمیں نقصان ہوا ۔ سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ «حَسَنَۃٍ» سے مراد یہاں بارشوں کا ہونا ، جانوروں میں زیادتی ہونا ، بال بچے بہ کثرت ہونا ، خوشحالی میسر آنا وغیرہ ہے اگر یہ ہوا تو کہتے کہ یہ سب من جانب اللہ ہے اور اگر اس کے خلاف ہوتا تو اس بے برکتی کا باعث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتاتے اور کہتے یہ سب تیری وجہ سے ہے یعنی ہم نے اپنے بڑوں کی راہ چھوڑ دی اور اس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری اختیار کی اس لیے اس مصیبت میں پھنس گئے اور اس بلا میں گرفتار ہوئے پس پروردگار ان کے ناپاک قول اور اس پلید عقیدے کی تردید کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ سب کچھ اللہ کی طرف سے ہے ، اس کی قضاء و قدر ہر بھلے برے فاسق فاجر نیک بد مومن کافر پر جاری ہے ، بھلائی برائی سب اس کی طرف سے ہے پھر ان کے اس قول کی جو محض شک و شبہ کم علمی بیوقوفی جہالت اور ظلم کی بنا پر ہے تردید کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ انہیں کیا ہو گیا ہے ؟ بات سمجھنے کی قابلیت بھی ان سے جاتی رہی ۔ ” ایک غریب حدیث جو «قُلْ کُلٌّ مِّنْ عِندِ اللہِ » (4-النساء:78) کے متعلق ہے اسے بھی سنیے ۔ “ بزار میں ہے ۔ { ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے تھے کہ کچھ لوگوں کے ہمراہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ آئے ان دونوں کی آوازیں بلند ہو رہی تھیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آ کر دونوں صاحب بیٹھ گئے ۔ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ بلند آواز میں گفتگو کیا ہو رہی تھی ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ تو کہہ رہے تھے نیکیاں اور بھلائیاں اللہ کی طرف سے ہیں اور برائیاں اور بدیاں ہماری طرف سے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا تم کیا کہہ رہے تھے ؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا میں کہہ رہا تھا کہ دونوں باتیں اللہ جل شانہ کی طرف سے ہیں . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہی بحث اول اول جبرائیل علیہ السلام اور میکائیل علیہ السلام میں ہوئی تھی میکائیل علیہ السلام وہی کہتے تھے جو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کہہ رہے ہیں اور جبرائیل علیہ السلام وہ کہہ رہے تھے جو یے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ تم کہ رہے ہو ۔ پس آسمان والوں میں جب اختلاف ہوا تو زمین والوں میں تو ہونا لازمی تھا ۔ آخر اسرافیل علیہ السلام کی طرف فیصلہ گیا اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ حسنات اور سیات دونوں اللہ مختار کل کی طرف سے ہیں ۔ پھر آپ نے دونوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا میرا فیصلہ سنو اور یاد رکھو اگر اللہ تعالیٰ اپنی نافرمانی کے عمل کو نہ چاہتا تو ابلیس کو پیدا ہی نہ کرتا ۔ } ۱؎ (بزار:2153:موضوع) لیکن شیخ الاسلام امام تقی الدین ابو العباس ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ حدیث موضوع ہے اور تمام ان محدثین کا جو حدیث کی پرکھ رکھتے ہیں اتفاق ہے کہ یہ روایت گھڑی ہوئی ہے ۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب فرماتے ہیں جس سے مراد عموم ہے یعنی سب سے ہی خطاب ہے کہ تمہیں جو بھلائی پہنچتی ہے وہ اللہ کا فضل لطف رحمت اور جو برائی پہنچتی ہے وہ خود تمہاری طرف سے تمہارے اعمال کا نتیجہ ہے ، جیسے اور آیت میں ہے«وَمَآ اَصَابَکُمْ مِّنْ مٰصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُمْ وَیَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍ» ۱؎ (42-الشوری:30) یعنی ’ جو مصیبت تمہیں پہنچتی ہے ۔ وہ تمہارے بعض اعمال کی وجہ سے اور بھی تو اللہ تعالیٰ بہت سی بد اعمالیوں سے در گزر فرماتا رہتا ہے ‘ «مَّا أَصَابَکَ مِنْ حَسَنَۃٍ فَمِنَ اللہِ ۖ وَمَا أَصَابَکَ مِن سَیِّئَۃٍ فَمِن نَّفْسِکَ» (4-النساء:79) سے مراد بسبب گناہ ہے ، یعنی شامت اعمال ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص کا ذرا سا جسم کسی لکڑی سے جل جائے یا اس کا قدم پھسل جائے یا اسے ذرا سی محنت کرنی پڑے جس سے پسینہ آ جائے تو وہ بھی کسی نہ کسی گناہ پر ہوتا ہے اور ابھی تو اللہ تعالیٰ جن گناہوں سے چشم پوشی فرماتا ہے جنہیں معاف کر دیتا ہے وہ بہت سارے ہیں ۔ } ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:9975:مرسل و ضعیف) اس مرسل حدیث کا مضمون ایک متصل حدیث میں بھی ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ ایماندار کو رنج یا جو بھی تکلیف و مشقت پہنچتی ہے یہاں تک کہ جو کانٹا بھی لگتا ہے اسے اللہ تعالیٰ اس کی خطاؤں کا کفارہ بنا دیتا ہے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:5641) ابوصالح رحمہ اللہ فرماتے ہیں مطلب اس آیت کا یہ ہے کہ جو برائی تجھے پہنچتی ہے اس کا باعث تیرا گناہ ہے ہاں اسے مقدر کرنے والا اللہ تعالیٰ آپ ہے ، مطرف بن عبداللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں تم تقدیر کے بارے میں کیا جانتے ہو ؟ کیا تمہیں سورۃ نساء کی یہ آیت کافی نہیں ، پھر اس آیت کو پڑھ کر فرماتے ہیں اللہ سبحانہ تعالیٰ کی قسم لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف سونپ نہیں دئیے گئے انہیں حکم دیئے گئے ہیں اور اسی کی طرف وہ لوٹتے ہیں یہ قول بہت قوی اور مضبوط ہے قدریہ اور جبریہ کی پوری تردید کرتا ہے ، تفسیر اس بحث کا موضوع نہیں ، پھر فرماتا ہے کہ تیرا کام اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شریعت کی تبلیغ کرنا ہے اس کی رضا مندی اور ناراضگی کے کام کو اس کے احکام اور اس کی ممانعت کو لوگوں تک پہنچا دینا ہے ، اللہ کی گواہی کافی ہے کہ اس نے تجھے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بنا کر بھیجا ہے ، اسی طرح کی گواہی اس امر پر بھی کافی ہے کہ تو نے تبلیغ کردی تیرے ان کے درمیان جو ہو رہا ہے کہ اسے بھی وہ مشاہدہ کر رہا ہے یہ جس طرح کفار عناد اور تکبر تیرے ساتھ برتتے ہیں اسے بھی وہ دیکھ رہا ہے ۔ النسآء
80 ظاہر و باطن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مطیع بنا لو اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میرے بندے اور رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا تابعدار صحیح معنی میں میرا ہی اطاعت گزار ہے آپ کا نافرمان میرا نافرمان ہے ، اس لیے کہ آپ اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے جو فرماتے ہیں وہ وہی ہوتا ہے جو میری طرف سے وحی کیا جاتا ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ’ کہ میری ماننے والا اللہ تعالیٰ کی ماننے والا ہے اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی بات نہ مانی جس نے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی ‘ یہ حدیث بخاری و مسلم میں ثابت ہے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:7137) پھر فرماتا ہے جو بھی منہ موڑ کر بیٹھ جائے تو اس کا گناہ اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ پر نہیں آپ کا ذمہ تو طرف پہنچا دینا ہے ، جو نیک نصیب ہوں گے مان لیں گے نجات اور اجر حاصل کر لیں گے ہاں ان کی نیکیوں کا ثواب آپ کو بھی ہو گا کیونکہ دراصل اس راہ کا راہبر اس نیکی کے معلم آپ ہی ہیں ۔ اور جو نہ مانے نہ عمل کرے تو نقصان اٹھائے گا بدنصیب ہو گا اپنے بوجھ سے آپ مرے گا اس کا گناہ آپ پر نہیں اس لیے کہ آپ نے سمجھانے بجھانے اور راہ حق دکھانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ۔ حدیث میں ہے { اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے ولا رشد وہدایت والا ہے اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نافرمان اپنے ہی نفس کو ضرر و نقصان پہنچانے والا ہے ۔} ۱؎ (سنن ابوداود:1097،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) پھر منافقوں کا حال بیان ہو رہا ہے کہ ظاہری طور پر اطاعت کا اقرار کرتے ہیں موافقت کا اظہار کرتے ہیں لیکن جہاں نظروں سے دور ہوئے اپنی جگہ پر پہنچے تو ایسے ہو گئے گویا ان تلوں میں تیل ہی نہ تھا جو کچھ یہاں کہا تھا اس کے بالکل برعکس راتوں کو چھپ چھپ کر سازشیں کرنے بیٹھ گے ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ ان کی ان پوشیدہ چالاکیوں اور چالوں کو بخوبی جانتا ہے اس کے مقرر کردہ زمین کے فرشتے ان کی سب کرتوتوں اور ان کی تمام باتوں کو اس کے حکم سے ان کے نامہ اعمال میں لکھ رہے ہیں ، پس انہیں ڈانٹا جا رہا ہے کہ یہ کیا بیہودہ حرکت ہے ؟ جس نے تمہیں پیدا کیا ہے اس سے تمہاری کوئی بات چھپ سکتی ہے ؟ تم کیوں ظاہر و باطن یکساں نہیں رکھتے ، ظاہر باطن کا جاننے والا تمہیں تمہاری اس بیہودہ حرکت پر سخت سزا دے گا ۔ ایک اور آیت میں بھی منافقوں کی اس خصلت کا بیان ان الفاظ میں فرمایا ہے« وَیَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَبِالرَّسُوْلِ وَاَطَعْنَا ثُمَّ یَتَوَلّٰی فَرِیْقٌ مِّنْہُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِکَ ۭ وَمَآ اُولٰۗیِٕکَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ» ۱؎ (24-النور:47) پھر اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ آپ ان سے درگزر کیجئے ، بردباری برتئیے ، ان کی خطا معاف کیجئے ، ان کا حال ان کے نام سے دوسروں سے نہ کہئے ، ان سے بالکل بے خوف رہیے اللہ پر بھروسہ کیجئے جو اس پر بھروسہ کرے جو اس کی طرف رجوع کرے اسے وہی کافی ہے ۔ النسآء
81 النسآء
82 کتاب اللہ میں اختلاف نہیں ہمارے دماغ میں فتور ہے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ قرآن کو غور و فکر تامل و تدبر سے پڑھیں ، اس سے اعراض نہ کریں ، اس سے تغافل نہ برتیں ، بےپرواہی نہ کریں اس کے مستحکم مضامین اس کے حکمت بھرے احکام اس کے فصیح و بلیغ الفاظ پر غور کریں ، ساتھ یہ خبر دیتا ہے کہ یہ پاک کتاب اختلاف ، اضطراب ، تعارض اور تضاد سے پاک ہے اس لیے کہ حکیم و حمید اللہ کا کلام ہے وہ خود حق ہے اور اسی طرح اس کا کلام بھی سراسر حق ہے ، چنانچہ اور جگہ فرمایا «اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُہَا» ۱؎ (47-محمد:24) ’ یہ لوگ کیوں قرآن میں غور و خوض نہیں کرتے ؟ کیا ان کے دلوں پر سنگین قفل لگ گئے ہیں ۔ ‘ پھر فرماتا ہے اگر یہ قرآن اللہ کی طرف سے نازل شدہ نہ ہوتا جیسے کہ مشرکین اور منافقین کا زعم ہے یہ اگر یہ فی الحقیقت کسی کا اپنی طرف سے وضع کیا ہوا ہوتا یا کوئی اور اس کا کہنے والا ہوتا تو ضروری بات تھی کہ اس میں انسانی طبائع کے مطابق اختلاف ملتا ، یعنی ناممکن ہے کہ انسانی کلام اضطراب و تضاد سے مبرا ہو لازماً یہ ہوتا کہ کہیں کچھ کہا جاتا اور کہیں کچھ اور یہاں ایک بات کہی تو آگے جا کر اس کے خلاف بھی کہہ گئے ۔ چنانچہ اس پاک کتاب کا ایسی متضاد باتوں سے بچا ہونا اس سچائی کی صاف دلیل ہے کہ یہ اللہ قادر و مطلق کا کلام ہے ۔ اور جگہ ہے پختہ عالموں کا قول بیان کیا گیا ہے کہ وہ کہتے ہیں ہم اس پر ایمان لائے ، « آمَنَّا بِہِ کُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا» ۱؎ (3-آل عمران:7) یہ سب ہمارے رب کی طرف سے ہے یعنی محکم اور متشابہ کو محکم کی طرف لوٹا دیتے ہیں اور ہدایت پالیتے ہیں اور جن کے دلوں میں کجی ہے بد نیتی ہے وہ محکم متشابہ کی طرف موڑ توڑ کرکے گمراہ ہو جاتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پہلے صحیح مزاج والوں کی تعریف کی اور دوسری قسم کے لوگوں کی برائی بیان فرمائی ۔ عمرو بن شعیب سے مروی ہے« عَـنْ اَبِـیْـہِ عَـنْ جَـدِّہِ »والی حدیث میں ہے کہ میں ہے کہ میں اور میرے بھائی ایک ایسی مجلس میں شامل ہوئے کہ اس کے مقابلہ میں سرخ اونٹوں کا مل جانا بھی اس کے پاسنگ برابر بھی قیمت نہیں رکھتا ہم دونوں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر چند بزرگ صحابہ رضی اللہ عنہم کھڑے ہوئے ہیں ہم ادب کے ساتھ ایک طرف بیٹھ گئے ان میں قرآن کریم کی کسی آیت کی بابت مذاکرہ ہو رہا تھا جس میں اختلافی مسائل بھی تھے آخر بات بڑھ گئی اور زور زور سے آپس میں بات چیت ہونے لگی ۔ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے سن کر سخت غضبناک ہو کرباہر تشریف لائے چہرہ مبارک سرخ ہو رہا تھا ان پر مٹی ڈالتے ہوئے فرمانے لگے خاموش رہو تم سے اگلی امتیں اسی باعث تباہ و برباد ہو گئیں ، کہ انہوں نے اپنے انبیاء سے اختلاف کیا اور کتاب اللہ کی ایک آیت کو دوسری آیت کے خلاف سمجھایاد رکھو قرآن کی کوئی آیت دوسری آیت کے خلاف اسے جھٹلانے والی نہیں بلکہ قرآن کی ایک ایک آیت ایک دوسرے کی تصدیق کرتی ہے تم جسے جان لو عمل کرو جسے نہ معلوم کر سکو اس کے جاننے والے کے لیے چھوڑ دو ۔ } ۱؎ (مسند احمد:181/2،قال الشیخ الألبانی:حسن صحیح) دوسری آیت میں ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم تقدیر کے بارے میں مباحثہ کر رہے تھے ، راہی کہتے ہیں کہ کاش کہ میں اس مجلس میں نہ بیٹھتا ۔ ۱؎ (مسند احمد:178/2،قال الشیخ الألبانی:صحیح) سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں دوپہر کے وقت حاضر حضور ہوا تو بیٹھا ہی تھا کہ ایک آیت کے بارے میں دو شخصوں کے درمیان اختلاف ہوا ان کی آوازیں اونچی ہوئیں تو { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم سے پہلی امتوں کی ہلاکت کا باعث صرف ان کا کتاب اللہ کا اختلاف کرنا ہی تھا } ۱؎ (صحیح مسلم:2666) [ مسند احمد ] ۔ پھر ان جلد باز لوگوں کو روکا جا رہا ہے جو کسی امن یا خوف کی خبر پاتے ہی بے تحقیق بات ادھر سے ادھر تک پہنچا دیتے ہیں حالانکہ ممکن ہے وہ بالکل ہی غلط ہو ۔ صحیح مسلم شریف کے مقدمے میں حدیث ہے کہ ’ انسان کو یہی جھوٹ کافی ہے کہ جو سنے اس کو بیان کرنے لگ جائے ‘ ابو داذد میں بھی روایت ہے ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:5) بخاری و مسلم میں ہے کہ ’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گپ بازی سے منع فرمایا ۔ ‘ ۱؎ (صحیح بخاری:6473) یعنی سنی سنائی باتیں بیان کرنے سے جن کی تحقیق اچھی طرح سے نہ کی ہو ، ابو داذد میں ہے انسان کا یہ کہنا کہ ’ فلاں نے یہ کہا اور فلاں نے یہ کہا ، برا فعل ہے ۔ ‘ ۱؎ (سنن ابوداود:4972،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اور صحیح حدیث میں ہے ’ جو شخص کوئی بات بیان کرے اور وہ گمان کرتا ہو کہ یہ غلط ہے وہ بھی جھوٹوں میں کا ایک جھوٹا ہے ۔ ‘ ۱؎ (صحیح مسلم:1) یہاں پر ہم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ والی روایت کا ذکر کرنا بھی مناسب سمجھتے ہیں کہ جب انہیں یہ خبری پہنچی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی تو آپ اپنے گھر سے چلے مسجد میں آئے یہاں بھی لوگوں کو یہی کہتے سنا تو بذات خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے اور خود آپ سے دریافت کیا کہ کیا یہ سچ ہے ؟ کہ آپ نے اپنی ازواج مطہرات کو طلاق دے دی ؟ آپ نے فرمایا غلط ہے چنانچہ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اللہ کی بڑائی بیان کی ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:89) صحیح مسلم میں ہے کہ پھر آپ نے مسجد کے دروازے پر کھڑے ہو کر بہ آواز بلند فرمایا لوگو رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو طلاق نہیں دی ۔ اسی پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1479) پس سیدنا عمر رضی اللہ عنہ وہ ہیں جنہوں نے اس معاملہ کی تحقیق کی ۔ علمی اصطلاح میں «استنباط» کہتے ہیں کسی چیز کو اس کے منبع اور مخزن سے نکالنا مثلاً جب کوئی شخص کسی کان کو کھود کر اس کے نیجے سے کوئی چیز نکالے تو عرب کہتے ہیں «اِستَـْنـَبطَ الرَّجُـلُ » ۔ پھر فرماتا ہے اگر اللہ تعالیٰ کا فضل و رحم تم پر نہ ہوتا تو تم سب کے سب سوائے چند کامل ایمان والوں کے شیطان کے تابعدار بن جاتے ۔ ایسے موقعوں پر محاورۃً معنی ہوتے ہیں کہ تم کل کے کل شامل ہو چنانچہ عرب کے ایسے شعر بھی ہیں ۔ النسآء
83 النسآء
84 حکم جہاد امتحان ایمان ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہو رہا ہے کہ آپ تنہا اپنی ذات سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کریں چاہے کوئی بھی آپ کا ساتھ نہ دے ، ابواسحاق رحمہ اللہ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے دریافت فرماتے ہیں کہ ایک مسلمان اکیلا تنہا ہو اور دشمن ایک سو ہوں تو کیا وہ ان سے جہاد کرے ؟ آپ نے فرمایا ہاں تو کہا پھر قرآن کی اس آیت سے تو ممانعت تاکید ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے «وَلَا تُلْقُوا بِأَیْدِیکُمْ إِلَی التَّہْلُکَۃِ ۛ» ۱؎ (2-البقرۃ:195) ’ اپنے ہاتھوں آپ ہلاکت میں نہ پڑو ۔ ‘ تو سیدنا براء رضی اللہ عنہ نے فرمایا اللہ تعالیٰ اسی آیت میں اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے اللہ کی راہ میں لڑ تجھے فقط تیرے نفس کی تکلیف دی جاتی ہے اور حکم دیا جاتا ہے کہ مومنوں کو بھی ترغیب دیتا رہ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:5704/3:حسن) مسند احمد میں اتنا اور بھی ہے کہ مشرکین پر تنہا حملہ کرنے والا ہلاکت کی طرف بڑھنے والا نہیں بلہ اس سے مراد اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے رکنے والا ہے ۔ (مسند احمد:281/4:حسن) اور روایت میں ہے کہ جب یہ آیت ہلاکت اتری تو { آپ نے صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا مجھے میرے رب نے جہاد کا حکم دیا ہے پس تم بھی جہاد کرو } یہ حدیث غریب ہے ۔ ۱؎ (الدر المنثور للسیوطی:335/2:ضعیف) پھر فرماتا ہے مومنوں کو دلیری دلا اور انہیں جہاد کی رغبت دلا ، چنانچہ بدر والے دن میدان جہاد میں مسلمانوں کی صفیں درست کرتے ہوئے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اٹھو اور بڑھو اس جنت کی طرف جس کی چوڑائی آسمان و زمین ہے ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:1901)جہاد کی ترغیب کی بہت سی حدیثیں ہیں ۔ بخاری میں ہے { جو اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لائے ، صلوۃ قائم کرے ، زکوٰۃ دیتا رہے ، رمضان کے روزے رکھے اللہ پر اس کا حق ہے کہ وہ اسے جنت میں داخل کرے اللہ کی راہ میں ہجرت کی ہو یا جہاں پیدا ہوا ہے وہیں ٹھہرا رہا ہو ۔ لوگوں نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیا لوگوں کو اس کی خوشخبری ہم نہ دے دیں ؟ آپ نے فرمایا سنو جنت میں سو درجے ہیں جن میں سے ایک درجے میں اس قدر بلندی ہے جتنی زمین و آسمان میں اور یہ درجے اللہ نے ان کے لیے تیار کیے ہیں جو اس کی راہ میں جہاد کریں ۔ پس جب تم اللہ سے جنت مانگو تو جنت الفردوس طلب کرو وہ بہترین جنت ہے اور سب سے اعلیٰ ہے اس کے اوپر رحمن کا عرش ہے اور اسی سے جنت کی سب نہریں جاری ہوتی ہیں ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:2790) مسلم کی حدیث میں ہے { جو شخص اللہ کے رب ہونے پر اسلام کے دین ہونے پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول و نبی ہونے پر راضی ہو جائے اس کے لیے جنت واجب ہے } سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ اسے سن کر خوش ہو کر کہنے لگے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ ارشاد ہو { آپ نے دوبارہ اسی کو بیان فرما کر کہا ایک اور عمل ہے جس کے باعث اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے سو درجے بلند کرتا ہے ایک درجے سے دوسرے درجے تک اتنی بلندی ہے جتنی آسمان و زمین کے درمیان ہے پوچھا وہ عمل کیا ہے ؟ فرمایا اللہ کی راہ میں جہاد ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:1884) پھر ارشاد ہے جب آپ جہاد کے لیے تیار ہو جائیں گے مسلمان آپ کی تعلیم سے جہاد پر آمادہ ہو جائیں گے تو پھر اللہ کی مدد شامل حال ہو گی اللہ تعالیٰ کفر کی کمر توڑ دے گا کفار کی ہمت پست کر دے گا ان کے حوصلے ٹوٹ جائیں گے پھر کیا مجال کہ وہ تمہارے مقابلے میں آئیں ، اللہ تعالیٰ سے زیادہ جنگی قوت رکھنے والا اور اس سے زیادہ سخت سزا دینے والا کوئی نہیں ، وہ قادر ہے کہ دنیا میں بھی انہیں مغلوب کرے اور یہیں انہیں عذاب بھی دے اسی طرح آخرت میں بھی اسی کو قدرت حاصل ہے ۔ جیسے اور آیت میں ہے ۔ «وَلَوْ یَشَاۗءُ اللّٰہُ لَانْتَـصَرَ مِنْہُمْ وَلٰکِنْ لِّیَبْلُوَا۟ بَعْضَکُمْ بِبَعْـضٍ» ۱؎ (47-محمد:4) ’ اگر اللہ چاہے ان سے از خود بدلہ لے لے ، لیکن وہ ان کو اور تمہیں آزما رہا ہے ۔ ‘ جو شخص کسی امر خیر میں کوشش کرے تو اسے بھی اس خیر بھلائی کا ثواب ملے گا ، اور جو اس کے خلاف کوشش کرے اور بد نتیجہ برآمد کرے اس کی کوشش اور نیت کا اس پر بھی ویسا ہی بوجھ ہو گا ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سفارش کرو اجر پاؤ گے اور اللہ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر وہ جاری کرے گا جو چاہے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:1432) یہ آیت ایک دوسرے کی سفارش کرنے کے بارے میں نازل ہوئی ہے ، اس مہربانی کو دیکھئیے فرمایا محض شفاعت پر ہی اجر مل جائے گا خواہ اس سے کام بنے یا نہ بنے ، اللہ ہرچیز کا حافظ ہے ، ہرچیز پر حاضر ہے ، ہرچیز کا حساب لینے والا ہے ، ہرچیز پر قادر ہے ، ہرچیز کو دوام بخشنے والا ہے ، ہر ایک کو روزی دینے والا ہے ، ہر انسان کے اعمال کا اندازہ کرنے والا ہے ۔ النسآء
85 النسآء
86 سلام کہنے والے کو اس سے بہتر جواب دو مسلمانو ! جب تمہیں کوئی مسلمان سلام کرے تو اس کے سلام کے الفاظ سے بہتر الفاظ سے اس کا جواب دو ، یا کم سے کم انہی الفاظ کو دوہرا دو پس زیادتی مستحب ہے اور برابری فرض ہے ، ابن جریر میں ہے ’ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا «السلام علیکم یا رسول اللہ» آپ نے فرمایا «وعلیک السلام ورحمتہ اللہ» پھر دوسرا آیا اس نے کہا «السلام علیک یا رسول اللہ و رحمتہ اللہ» آپ نے جواب دیا «وعلیک السلام و رحمتہ اللہ وبرکاتہ» پھر ایک صاھب آئے انہوں نے کہا «السلام علیک و رحمتہ اللہ وبرکاتہ» آپ نے جواب میں فرمایا «وعلیک» تو اس نے کہا اے اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فلاں اور فلاں نے آپ کو سلام کیا تو آپ نے جواب دیا اور کچھ زیادہ دعائیہ الفاظ کے ساتھ دیا ۔ جو مجھے نہیں دیا آپ نے فرمایا تم نے ہمارے لیے کچھ باقی ہی نہ چھوڑا اللہ کا فرمان ہے جب تم پر سلام کیا جائے تو تم اس سے اچھا جواب دو یا اسی کو لوٹا دو اس لیے ہم نے وہی الفاظ لوٹا دئیے ۔‘ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:10050:ضعیف) یہ روایت ابن ابی حاتم میں بھی اسی طرح مروی ہے ، اسے ابوبکر مردویہ نے بھی روایت کیا مگر میں نے اسے مسند میں نہیں دیکھا «وَاللہُ اَعْلَمُ» اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سلام کے کلمات میں اس سے زیادتی نہیں ، اگر ہوتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس آخری صحابی کے جواب میں وہ لفظ کہہ دیتے ۔ مسند احمد میں ہے کہ ’ ایک شخص حضور کے پاس آئے اور «السلام علیکم یا رسول اللہ» کہہ کر بیٹھ گئے آپ نے جواب دیا اور فرمایا دس نیکیاں ملیں ، دوسرے آئے اور «السلام علیکم ورحمتہ اللہ یا رسول اللہ» کہہ کر بیٹھ گئے آپ نے فرمایا بیس نیکیاں ملیں ، پھر تیسرے صاحب آئے انہوں نے کہا «السلام علیکم ورحمتہ وبرکاتہ» آپ نے فرمایا تیس نیکیاں ملیں ۔ ‘ ۱؎ (سنن ترمذی:2689،قال الشیخ الألبانی:صحیح) امام ترمذی رحمہ اللہ اسے حسن غریب بتاتے ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت کو عام لیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ خلق اللہ میں سے جو کوئی سلام کرے گا اسے جواب دو گو وہ مجوسی ہو ، قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں سلام کا اس سے بہتر جواب دینا تو مسمانوں کے لیے ہے اور اسی کو لوٹا دینا اہل ذمہ کے لیے ہے ، لیکن اس تفسیر میں ذرا اختلاف ہے جیسے کہ اوپر کی حدیث میں گزر چکا ہے مراد یہ ہے کہ اس کے سلام سے اچھا جواب دیں اور اگر مسلمان سلام کے سبھی الفاظ کہہ دے تو پھر جواب دینے والا انہی کو لوٹادے ۔ ذمی لوگوں کو خود سلام کی ابتداء کرنا تو ٹھیک نہیں اور وہ خود کریں تو جواب میں اتنے ہی الفاظ کہدے ، بخاری و مسلم میں ہے ’ جب کوئی یہودی تمہیں سلام کرے تو خیال رکھو یہ کہہ دیتے ہیں «السام علیک» تو تم کہہ دو و «علیک» ‘ ۱؎ (صحیح بخاری:6257) صحیح مسلم میں ہے ’ یہود و نصاری کو تم پہلے سلام نہ کرو اور جب راستے میں مڈبھیڑ ہو جائے تو انہیں تنگی کی طرف مضطر کر ‘ ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2167) امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں سلام نفل ہے اور جواب سلام فرض ہے اور علماء کرام کا فرمان بھی یہی ہے ، پس اگر جواب نہ دے گا تو گنہگار ہو گا اس لیے کہ جواب سلام کا اللہ کا حکم ہے ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنی توحید بیان فرماتا ہے اور الوہیت اور اپنا یکتا ہونا ظاہر کرتا ہے اور اس میں ضمنی مضامین بھی ہیں ، اسی لیے دوسرے جملے کو لام سے شروع کیا جو قسم کے جواب میں آتا ہے ، تو اگلا جملہ خبر ہے اور قسم بھی ہے کہ وہ عنقریب تمام مقدم و مؤخر کو میدان محشر میں جمع کرے گا اور وہاں ہر ایک کو اس کے عمل کا بدلہ دے گا ، اس اللہ السمیع البصیر سے زیادہ سچی بات والا اور کوئی نہیں ، اس کی خبر اس کا وعدہ اس کی وعید سب سچ ہے ، وہی معبود برحق ہے ، اس کے سوا کوئی مربی نہیں ۔ النسآء
87 النسآء
88 منافقوں سے ہوشیار رہو اس میں اختلاف ہے کہ منافقوں کے کس معاملہ میں مسلمانوں کے درمیان دو قسم کے خیالات داخل ہوئے تھے ، سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب میدان احد میں تشریف لے گئے تب آپ کے ساتھ منافق بھی تھے جو جنگ سے پہلے ہی واپس لوٹ آئے تھے ان کے بارے میں بعض مسلمان تو کہتے تھے کہ انہیں قتل کر دینا چاہیئے اور بعض کہتے تھے نہیں یہ بھی ایماندار ہیں ۔ اس پر یہ آیت اتری تو { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ شہر طیبہ ہے جو خودبخود میل کچیل کو اس طرح دور کر دے گا جس طرح بھٹی لوہے کے میل کچیل کو چھانٹ دیتی ہے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:1884) ابن اسحاق میں ہے کہ کل لشکر جنگ احد میں ایک ہزار کا تھا ، عبداللہ بن ابی سلول تین سو آدمیوں کو اپنے ہمراہ لے کر واپس لوٹ آیا تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پھر سات سو ہی رہ گئے تھے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں مکہ میں کچھ لوگ تھے جو کلمہ گو تھے لیکن مسمانوں کے خلاف مشرکوں کی مدد کرتے تھے یہ اپنی کسی ضروری حاجت کے لیے مکہ سے نکلے ، انہیں یقین تھا کہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی کوئی روک ٹوک نہیں ہوگی کیونکہ بظاہر کلمہ کے قائل تھے ادھر جب مدنی مسلمانوں کو اس کا علم ہوا تو ان میں بعض کہنے لگے ان نامرادوں سے پہلے جہاد کرو یہ ہمارے دشمنوں کے طرفدار ہیں اور بعض نے کہا سبحان اللہ جو لوگ تم جیسا کلمہ پڑھتے ہیں تم ان سے لڑوگے ؟ صرف اس وجہ سے کہ انہوں نے ہجرت نہیں کی اور اپنے گھر نہیں چھوڑے ، ہم کسطرح ان کے خون اور ان کے مال اپنے اوپر حلال کرسکتے ہیں ؟ ان کا یہ اختلاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہوا آپ خاموش تھے جو یہ آیت نازل ہوئی ۔ [ ابن ابی حاتم ] ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:10/9:) سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہما کے لڑکے فرماتے ہیں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر جب تہمت لگائی گئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر کھڑے ہو کر فرمایا کوئی ہے جو مجھے عبداللہ بن ابی کی ایذاء سے بچائے اس پر اوس و خزرج کے درمیان جو اختلاف ہوا اس کی بابت یہ آیت نازل ہوئی ہے ، لیکن یہ قول غریب ہے ، ان کے سوا اور اقوال بھی ہیں ۔ اللہ نے انہیں ان کی نافرمانی کی وجہ سے ہلاک کردیا ۔ ان کی ہدایت کی کوئی راہ نہیں ۔ یہ تو چاہتے ہیں کہ سچے مسلمان بھی ان جیسے گمراہ ہو جائیں ان کے دلوں میں اس قدر عداوت ہے ، تو تمہیں ممانعت کی جاتی ہے کہ جب تک یہ ہجرت نہ کریں انہیں اپنا نہ سمجھو ، یہ خیال نہ کرو کہ یہ تمہارے دوست اور مددگار ہیں ، بلکہ یہ خود اس لائق ہیں کہ ان سے باقاعدہ جہاد کیا جائے ۔ النسآء
89 النسآء
90 . پھر ان میں سے ان حضرات کا استثنا کیا جاتا ہے جو کسی ایسی قوم کی پناہ میں چلے جائیں جس سے مسلمانوں کا عہد و پیمان صلح و سلوک ہو تو ان کا حکم بھی وہی ہو گا جو معاہدہ والی قوم کا ہے ، سیدنا سراقہ بن مالک مدلجی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب جنگ بدر اور جنگ احد میں مسلمان غالب آئے اور آس پاس کے لوگوں میں اسلام کی بخوبی اشاعت ہو گئی تو مجھے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارادہ ہے کہ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو ایک لشکر دے کر میری قوم بنو مدلج کی گوشمالی کے لیے روانہ فرمائیں تو میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا میں آپ کو احسان یاد دلاتا ہوں لوگوں نے مجھ سے کہا خاموش رہ ۔ لیکن { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے کہنے دو ، کہو کیا کہنا چاہتے ہو ؟ میں نے کہا مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ میری قوم کی طرف لشکر بھیجنے والے ہیں میں چاہتا ہوں کہ آپ ان سے صلح کر لیں اس بات پر کہ اگر قریش اسلام لائیں تو یہ بھی مسلمان ہو جائیں گے اور اگر وہ اسلام نہ لائیں تو ان پر بھی آپ چڑھائی نہ کریں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر فرمایا ان کے ساتھ جاؤ اور ان کے کہنے کے مطابق ان کی قوم سے صلح کر آؤ پس اس بات پر صلح ہو گئی کہ وہ دشمنان دین کی کسی قسم کی مدد نہ کریں اور اگر قریش اسلام لائیں تو یہ بھی مسلمان ہو جائیں } پس اللہ نے یہ آیت اتاری کہ ’ یہ چاہتے ہیں کہ تم بھی کفر کرو جیسے وہ کفر کرتے ہیں پھر تم اور وہ برابر ہو جائیں پس ان میں سے کسی کو دوست نہ جانو ۔ ‘ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:5750/3:ضعیف) یہی روایت ابن مردویہ میں ہے اور ان میں ہی آیت «إِلَّا الَّذِینَ یَصِلُونَ إِلَیٰ قَوْمٍ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَہُم مِّیثَاقٌ» ۱؎ (4-النساء:90) نازل ہوئی پس جو بھی ان سے مل جاتا وہ انہی کی طرح پر امن رہتا کلام کے الفاظ سے زیادہ مناسبت اسی کو ہے ۔ صحیح بخاری شریف میں صلح حدیبیہ کے قصے میں ہے کہ پھر جو چاہتا کفار کی جماعت میں داخل ہو جاتا اور امن پالیتا اور جو چاہتا مدنی مسلمانوں سے ملتا اور عہد نامہ کی وجہ سے مامون ہو جاتا ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2731) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہا کا قول ہے کہ اس حکم کو پھر اس آیت نے منسوخ کر دیا کہ «فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْہُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِیْنَ » ۱؎ (9-التوبۃ:5) ، یعنی ’ جب حرمت والے مہینے گزر جائیں تو مشرکین سے جہاد کرو جہاں کہیں انہیں پاؤ ‘ ۔ النسآء
91 . پھر ایک دوسری جماعت کا ذکر ہو رہا ہے جسے مستثنیٰ کیا ہے جو میدان میں لائے جاتے ہیں لیکن یہ بیچارے بے بس ہوتے ہیں وہ نہ تو تم سے لڑنا چاہتے ہیں نہ تمہارے ساتھ مل کر اپنی قوم سے لڑنا پسند کرتے ہیں بلکہ وہ ایسے بیچ کے لوگ ہیں جو نہ تمہارے دشمن کہے جا سکتے ہیں نہ دوست ۔ یہ بھی اللہ کا فضل ہے کہ اس نے ان لوگوں کو تم پر مسلط نہیں کیا اگر وہ چاہتا تو انہیں زور و طاقت دیتا اور ان کے دل میں ڈال دیتا کہ وہ تم سے لڑیں ۔ پس اگر یہ تمہاری لڑائی سے باز رہیں اور صلح و صفائی سے یکسو ہو جائیں تو تمہیں بھی ان سے لڑنے کی اجازت نہیں ، اسی قسم کے لوگ تھے جو بدر والے دن بنو ہاشم کے قبیلے میں سے مشرکین کے ساتھ آئے تھے جو دل سے اسے ناپسند رکھتے تھے ۔ جیسے سیدنا عباس رضی اللہ عنہ وغیرہ یہی وجہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے قتل کو منع فرما دیا تھا اور حکم دیا تھا کہ انہیں زندہ گرفتار کر لیا جائے ۔ پھر ایک اور گروہ کا ذکر کیا جاتا ہے جو بظاہر تو اوپر والوں جیسا ہے لیکن دراصل نیت میں بہت کھوٹ ہے یہ لوگ منافق ہیں حضور کے پاس آ کر اسلام ظاہر کر کے اپنے جان و مال مسلمانوں سے محفوظ کرا لیتے ہیں ادھر کفار میں مل کر ان کے معبودان باطل کی پرستش کر کے ان میں سے ہونا ظاہر کر کے ان سے فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں تاکہ ان کے ہاتھوں سے بھی امن میں رہیں ۔ دراصل یہ لوگ کافر ہیں ، جیسے اور جگہ ہے«وَإِذَا خَلَوْا إِلَیٰ شَیَاطِینِہِمْ قَالُوا إِنَّا مَعَکُمْ» ۱؎ (2-البقرۃ:14) ’ اپنے شیاطین کے پاس تنہائی میں جا کر کہتے ہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں ‘ یہاں بھی فرماتا ہے کہ جب کبھی فتنہ انگیزی کی طرف لوٹائے جاتے ہیں تو جی کھول کر پوری سرگرمی سے اس میں حصہ لیتے ہیں جیسے کوئی اوندھے منہ گرا ہوا ہو ۔ «فِتْنَۃِ» سے مراد یہاں شرک ہے مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ لوگ بھی مکہ والے تھے یہاں آ کر بطور ریا کاری کے اسلام قبول کرتے تھے وہاں جا کر ان کے بت پوجتے تھے تو مسلمانوں کو فرمایا جاتا ہے کہ اگر یہ اپنی دوغلی روش سے باز نہ آئیں ایذاء رسانی سے ہاتھ نہ روکیں صلح نہ کریں تو انہیں امن امان نہ دو ان سے بھی جہاد کرو ، انہیں بھی قیدی بناؤ اور جہاں پاؤ قتل کر دو ، بیشک ان پر ہم نے تمہیں ظاہر غلبہ اور کھلی حجت عطا فرمائی ہے ۔ النسآء
92 قتل مسلم ، قصاص و دیت کے مسائل اور قتل خطا ارشاد ہوتا ہے کہ کسی مسلمان کو لائق نہیں کہ کسی حال میں اپنے مسلمان بھائی کا خون ناحق کرے صحیح بخاری و مسلم میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کسی مسلمان کا جو اللہ کی ایک ہونے کی اور میرے رسول ہونے کی شہادت دیتا ہو خون بہانا حلال نہیں مگر تین حالتوں میں ایک تو یہ کہ اس نے کسی کو قتل کر دیا ہو ، دوسرے شادی شدہ ہو کر زنا کیا ہو ، تیسرے دین اسلام کو چھوڑ دینے والا جماعت سے علیحدہ ہونے والا ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:6878) پھر یہ بھی یاد رہے کہ جب ان تینوں کاموں میں سے کوئی کام کسی سے واقع ہو جائے تو رعایا میں سے کسی کو اس کے قتل کا اختیار نہیں البتہ امام یا نائب امام کو بہ عہدہ قضاء کا حق ہے ، اس کے بعد استثناء منقطع ہے ، عرب شاعروں کے کلام میں بھی اس قسم کے استثناء بہت سے ملتے ہیں ۔ اس آیت کے شان نزول میں ایک قول تو یہ مروی ہے کہ عیاش بن ابی ربیعہ جو ابوجہل کا ماں کی طرف سے بھائی تھا جس ماں کا نام اسماء بنت مخرمہ تھا اس کے بارے میں اتری ہے اس نے ایک شخص کو قتل کر ڈالا تھا جسے وہ اسلام لانے کی وجہ سے سزائیں دے رہا تھا یہاں تک کہ اس کی جان لے لی ، ان کا نام حارث بن زید عامری تھا ۔ سیدنا عیاش رضی اللہ عنہ کے دل میں یہ کانٹا رہ گیا اور انہوں نے ٹھان لی کہ موقعہ پا کر اسے قتل کر دوں گا اللہ تعالیٰ نے کچھ دنوں بعد قاتل کو بھی اسلام کی ہدایت دی وہ مسلمان ہو گئے اور ہجرت بھی کر لی لیکن سیدنا عیاش رضی اللہ عنہ کو یہ معلوم نہ تھا ، فتح مکہ والے دن یہ ان کی نظر پڑے یہ جان کر کہ یہ اب تک کفر پر ہیں ان پر اچانک حملہ کر دیا اور قتل کر دیا اس پر یہ آیت اتری ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:32/9) دوسرا قول یہ ہے کہ یہ آیت سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے جبکہ انہوں نے ایک شخص کافر پر حملہ کیا تلوار سونتی ہی تھی تو اس نے کلمہ پڑھ لیا لیکن ان کی تلوار چل گئی اور اسے قتل کر ڈالا ، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ واقعہ بیان ہوا تو سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ نے اپنا یہ عذر بیان کیا کہ اس نے صرف جان بچانے کی غرض سے یہ کلمہ پڑھا تھا ، آپ ناراض ہو کر فرمانے لگے کیا تم نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا ؟ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:10099:ضعیف) یہ واقعہ صحیح حدیث میں بھی ہے لیکن وہاں نام دوسرے صحابی کا ہے ۔ پھر قتل خطا کا ذکر ہو رہا ہے کہ اس میں دو چیزیں واجب ہیں ایک تو غلام آزاد کرنا دوسرے دیت دینا ، اس غلام کے لیے بھی شرط ہے کہ وہ ایماندار ہو ، کافر کو آزاد کرنا کافی نہ ہو گا چھوٹا نابالغ بچہ بھی کافی نہ ہو گا جب تک کہ وہ اپنے ارادے سے ایمان کا قصد کرنے والا اور اتنی عمر کا نہ ہو ، امام ابن جریر رحمہ اللہ کا مختار قول یہ ہے کہ اگر اس کے ماں باپ دونوں مسلمان ہوں تو جائز ہے ورنہ نہیں ، جمہور کا مذہب یہ ہے کہ مسلمان ہونا شرط ہے چھوٹے بڑے کی کوئی قید نہیں ۔ ایک انصاری رضی اللہ عنہ سیاہ فام لونڈی کو لے کر حاضر حضور ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میرے ذمے ایک مسلمان گردن کا آزاد کرنا ہے اگر یہ مسلمان ہو تو میں اسے آزاد کر دوں ، { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لونڈی سے پوچھا کیا تو گواہی دیتی ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ؟ اس نے کہا ہاں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس بات کی بھی گواہی دیتی ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں ؟ اس نے کہا ہاں فرمایا کیا مرنے کے بعد جی اٹھنے کی بھی تو قائل ہے ؟ اس نے کہا ہاں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے آزاد کر دو } ۱؎ (مسند احمد:452/3:صحیح) اس کی اسناد صحیح ہے اور صحابی کون تھے ؟ اس کا مخفی رہنا سند میں مضر نہیں ۔ یہ روایت حدیث کی اور بہت سی کتابوں میں اس طرح ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا اللہ کہاں ہے ؟ اس نے کہا آسمانوں میں دریافت کیا میں کون ہوں ؟ جواب دیا آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں آپ نے فرمایا اسے آزاد کر دو ۔ یہ ایماندار ہے } ۱؎ (صحیح مسلم:537) پس ایک تو گردن آزاد کرنا واجب ہے دوسرے خوں بہا دینا جو مقتول کے گھر والوں کو سونپ دیا جائے گا یہ ان کے مقتول کا عوض ہے یہ دیت سو اونٹ ہے پانچ قسموں کے ، بیس تو دوسری سال کی عمر کی اونٹنیاں اور بیس اسی عمر کے اونٹ اور بیس تیسرے سال میں لگی ہوئی اونٹنیاں اور بیس پانچویں سال میں لگی ہوئی اور بیس چوتھے سال میں لگی ہوئی یہی فیصلہ قتل خطا کے خون بہا کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے ملاحظہ ہو سنن و مسند احمد ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4545،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) یہ حدیث بروایت عبداللہ رحمہ اللہ موقوف بھی مروی ہے ۔ ۱؎ (بیہقی:47/8:موقوف) سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور ایک جماعت سے بھی یہی منقول ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ دیت چار چوتھائیوں میں بٹی ہوئی ہے یہ خون بہا قاتل کے عاقلہ اور اس کے عصبہ یعنی وارثوں کے بعد کے قریبی رشتہ داروں پر ہے اس کے اپنے مال پر نہیں ۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں میرے خیال میں اس امر میں کوئی بھی مخالف نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیت کا فیصلہ انہی لوگوں پر کیا ہے اور یہ حدیث خاصہ میں کثرت سے مذکور ہے امام صاحب جن احادیث کی طرف اشارہ کرتے ہیں وہ بہت سی ہیں ۔ بخاری و مسلم میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہذیل قبیلہ کی دو عورتیں آپس میں لڑیں ایک نے دوسرے کو پتھر مارا وہ حاملہ تھی بچہ بھی ضائع ہو گیا اور وہ بھی مر گئی قصہ نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اس بچہ کے عوض تو ایک لونڈی یا غلام دے اور عورت مقتولہ کے بدلے دیت قاتلہ عورت کے حقیقی وارثوں کے بعد کے رشتے داروں کے ذمے ہے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:6910) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو قتل عمد خطا سے ہو وہ بھی حکم میں خطاء محض کے ہے ۔ یعنی دیت کے اعتبار سے ہاں اس میں تقسیم ثلث پر ہو گی تین حصے ہونگے کیونکہ اس میں شباہت عمد یعنی بالقصد بھی ہے ، صحیح بخاری شریف میں ہے بنو جذیمہ کی جنگ کے لیے سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو حضور نے ایک لشکر پر سردار بنا کر بھیجا انہوں نے جا کر انہیں دعوت اسلام دی انہوں نے دعوت تو قبول کر لی لیکن بوجہ لاعلمی بجائے «اسلمنا» یعنی ہم مسلمان ہوئے کے «صبانا» کہا یعنی ہم بےدین ہوئے ۔ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے انہیں قتل کرنا شروع کر دیا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر پہنچی تو { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ اٹھا کر جناب باری میں عرض کی یا اللہ خالد [ رضی اللہ عنہ ] کے اس فعل میں اپنی بیزاری اور برات تیرے سامنے ظاہر کرتا ہوں ، پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بلا کر انہیں بھیجا کہ جاؤ ان کے مقتولوں کی دیت چکاؤ اور جو ان کا مالی نقصان ہوا ہو اسے بھی کوڑی کوڑی چکاؤ ۔ ‘ ۱؎ (صحیح بخاری:7189،4339) اس سے ثابت ہوا کہ امام یا نائب امام کی خطا کا بوجھ بیت المال پر ہو گا ۔ پھر فرمایا ہے کہ خوں بہا جو واجب ہے اگر اولیاء مقتول از خود اس سے دست بردار ہو جائیں تو انہیں اختیار ہے وہ بطور صدقہ کے اسے معاف کر سکتے ہیں ۔ پھر فرمان ہے کہ اگر مقتول مسلمان ہو لیکن اس کے اولیاء حربی کافر ہوں تو قاتل پر دیت نہیں ، قاتل پر اس صورت میں صرف آزادگی گردن ہے اور اگر اس کے ولی وارث اس قوم میں سے ہوں جن سے تمہاری صلح اور عہد و پیمان ہے تو دیت دینی پڑے گی اگر مقتول مومن تھا تو کامل خون بہا اور اگر مقتول کافر تھا تو بعض کے نزدیک تو پوری دیت ہے بعض کے نزدیک آدھی بعض کے نزدیک تہائی ۔ تفصیل کتب احکام میں ملاحظہ ہو اور قاتل پر مومن بردے کو آزاد کرنا بھی لازم ہے اگر کسی کو اس کی طاقت بوجہ مفلسی کے نہ ہو تو اس کے ذمے دو مہینے کے روزے ہیں جو لگاتار پے در پے رکھنے ہوں گے اگر کسی شرعی عذر مثلاً بیماری یا حیض یا نفاس کے بغیر کوئی روزہ بیچ میں سے چھوڑ دیا تو پھر نئے سرے سے روزے شروع کرنے پڑیں گے ، سفر کے بارے میں دو قول ہیں ایک تو یہ کہ یہ بھی شرعی عذر ہے دوسرے یہ کہ یہ عذر نہیں ۔ پھر فرماتا ہے قتل خطا کی توبہ کی یہ صورت ہے کہ غلام آزاد نہیں کر سکتا تو روزے رکھ لے اور جسے روزوں کی بھی طاقت نہ ہو وہ مسکینوں کو کھلا سکتا ہے یا نہیں ؟ تو ایک قول تو یہ ہے کہ ساٹھ مسکینوں کو کھلا دے جیسے کہ ظہار کے کفارے میں ہے ، وہاں صاف بیان فرما دیا یہاں اس لیے بیان نہیں کیا گیا کہ یہ ڈرانے اور خوف دلانے کا مقام ہے آسانی کی صورت اگر بیان کر دی جاتی تو ہیبت و عظمت اتنی باقی نہ رہتی ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ روزے کے نیچے کچھ نہیں اگر ہوتا تو بیان کے ساتھ ہی بیان کر دیا جاتا ، حاجب کے وقت سے بیان کو مؤخر کرنا ٹھیک نہیں [ یہ بظاہر قول ثانی ہی صحیح معلوم ہوتا ہے واللہ اعلم ۔ مترجم ] اللہ علیم وحکیم ہے ، اس کی تفسیر کئی مرتبہ گذر چکی ہے ۔ قتل عمداً اور قتل مسلم قتل خطا کے بعد اب قتل عمداً کا بیان ہو رہا ہے ، اس کی سختی برائی اور انتہائی تاکید والی ڈراؤنی وعید فرمائی جا رہی ہے یہ وہ گناہ جسے اللہ تعالیٰ نے شرک کے ساتھ ملا دیا ہے فرماتا ہے«وَالَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰہِ اِلٰــہًا اٰخَرَ وَلَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالْحَقِّ » ۱؎ (25-الفرقان:68) یعنی ’ مسلمان بندے وہ ہیں جو اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود ٹھہرا کر نہیں پکارتے اور نہ وہ کسی شخص کو ناحق قتل کرتے ہیں ۔ ‘ دوسری جگہ فرمان ہے « قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبٰکُمْ عَلَیْکُمْ اَلَّا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَـیْــــًٔـا وَّبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا ۚوَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَکُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍ» ۱؎ (6-الأنعام:151) یہاں بھی اللہ کے حرام کئے ہوئے کاموں کا ذکر کرتے ہیں شرک کا اور قتل کا ذکر فرمایا ہے اور بھی اس مضمون کی آیتیں بہت سی ہیں اور حدیث بھی اس باب میں بہت سی منقول ہوئی ہیں ۔ بخاری مسلم میں ہے کہ ’ سب سے پہلے خون کا فیصلہ قیامت کے دن ہو گا ۔ ‘ ۱؎ (صحیح بخاری:6533) ابوداؤد میں ہے ’ ایماندار نیکیوں اور بھلائیوں میں بڑھتا رہتا ہے جب تک کہ خون ناحق نہ کرے اگر ایسا کر لیا تو تباہ ہو جاتا ہے ۔ ‘ ۱؎ (سنن ابوداود:4270،قال الشیخ الألبانی:صحیح) دوسری حدیث میں ہے ’ ساری دنیا کا زوال اللہ کے نزدیک ایک مسلمان کے قتل سے کم درجے کا ہے ۔ ‘ ۱؎ (سنن ترمذی:1395،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اور حدیث میں ہے ’ اگر تمام روئے زمین کے اور آسمان کے لوگ کسی ایک مسلمان کے قتل میں شریک ہوں تو اللہ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے ۔ ‘ ۱؎ (سنن ترمذی:1398،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اور حدیث میں ہے ’ جس شخص نے کسی مسلمان کے قتل میں آدھے کلمے سے بھی اعانت کی وہ قیامت کے دن اللہ کے سامنے اس حالت میں آئے گا اس کی پیشانی میں لکھاہا ہو گا کہ یہ شخص اللہ کی رحمت سے محروم ہے ۔ ‘ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:2620،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) النسآء
93 . سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا تو قول ہے کہ جس نے مومن کو قصداً قتل کیا اس کی توبہ قبول ہی نہیں ، اہل کوفہ جب اس مسئلہ میں اختلاف کرتے ہیں تو ابن جیبر رحمہ اللہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس آ کر دریافت کرتے ہیں آپ فرماتے ہیں یہ آخری آیت ہے جسے کسی آیت نے منسوخ نہیں کیا ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4590) اور آپ فرماتے ہیں کہ دوسری آیت « وَالَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰہِ اِلٰــہًا اٰخَرَ وَلَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا یَزْنُوْنَ ۚ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ یَلْقَ اَثَامًا» ۱؎ (25-الفرقان:68) جس میں تو یہ ذکر ہے کہ وہ اہل شرک کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ پس جبکہ کسی شخص نے اسلام کی حالت میں کسی مسلمان کو غیر شرعی وجہ سے قتل کیا اس کی سزا جہنم ہے اور اس کی توبہ قبول نہیں ہو گی ، مجاہد رحمہ اللہ سے جب یہ قول سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان ہوا تو فرمانے لگے مگر جو نادم ہو ۔ سالم بن ابوالجعد فرماتے ہیں ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما جب نابینا ہو گئے تھے ایک مرتبہ ہم ان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے جو ایک شخص آیا اور آپ کو آواز دے کر پوچھا کہ اس کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں جس نے کسی مومن کو جان بوجھ کر مار ڈالا آپ نے فرمایا اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اللہ کا اس پر غضب ہے اس پر اللہ کی لعنت ہے اور اس کے لیے عذاب عظیم تیار ہے ۔ اس نے پھر پوچھا اگر وہ توبہ کرے نیک عمل کرے اور ہدایت پر جم جائے تو ؟ فرمانے لگے اس کی ماں اسے روئے اسے توبہ اور ہدایت کہاں ؟ اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میرا نفس ہے میں نے تمہارے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے اس کی ماں اسے روئے جس نے مومن کو جان بوجھ مار ڈالا ہے وہ قیامت کے دن اسے دائیں یا بائیں ہاتھ سے تھامے ہوئے رحمن کے عرش کے سامنے آئے گا اس کی رگوں سے خون بہہ رہا ہو گا اور اللہ سے کہے گا کہ اے اللہ اس سے پوچھ کہ اس نے مجھے کیوں قتل کیا ؟ } اس اللہ عظیم کی قسم جس کے ہاتھ میں عبداللہ کی جان ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک اسے منسوخ کرنے والی کوئی آیت نہیں اتری ۔۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:10193:صحیح بالشواھد) اور روایت میں اتنا اور بھی ہے کہ نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی وحی اترے گی ۔ ۱؎ (سنن نسائی:4010،قال الشیخ الألبانی:صحیح) سیدنا زید بن ثابت ، سیدنا ابوہریرہ ، سیدنا عبداللہ بن عمر ، رضی اللہ عنہم ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن ، عبید بن عمیر ، حسن ، قتادہ ، ضحاک رحمہ اللہ علیہم بھی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہا کے خیال کے ساتھ ہیں ۔ ابن مردویہ میں ہے کہ { مقتول اپنے قاتل کو پکڑ کر قیامت کے دن اللہ کے سامنے لائے گا دوسرے ہاتھ سے اپنا سر اٹھائے ہوئے ہو گا اور کہے گا میرے رب اس سے پوچھ کہ اس نے مجھے کیوں قتل کیا ؟ قاتل کہے گا پروردگار اس لیے کہ تیری عزت ہو اللہ فرمائے گا پس یہ میری راہ میں ہے ۔ دوسرا مقتول بھی اپنے قاتل کو پکڑے ہوئے لائے گا اور یہی کہے گا ، قاتل جواباً کہے گا اس لیے کہ فلاں کی عزت ہو اللہ فرمائے گا قاتل کا گناہ اس نے اپنے سر لے لیا پھر اسے آگ میں جھونک دیا جائے گا جس گڑھے میں ستر سال تک تو نیچے چلا جائے گا ۔ } ۱؎ (سنن نسائی:3989،قال الشیخ الألبانی:صحیح) مسند احمد میں ہے ’ ممکن ہے اللہ تعالیٰ تمام گناہ بخش دے ، لیکن ایک تو وہ شخص جو کفر کی حالت میں مرا دوسرا وہ جو کسی مومن کا قصداً قاتل بنا ۔ ‘ ۱؎ (مسند احمد:99/4:صحیح) ابن مردویہ میں بھی ایسی ہی حدیث ہے اور وہ بالکل غریب ہے ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4270:صحیح) محفوظ وہ حدیث ہے جو بحوالہ مسند بیان ہوئی ۔ ابن مردویہ میں اور حدیث ہے کہ ’ جان بوجھ کر ایماندار کو مار ڈالنے والا کافر ہے ۔ ‘ ۱؎ (ابن عدی فی الکامل:1059/3:ضعیف) یہ حدیث منکر ہے اور اس کی اسناد میں بہت کلام ہے ۔ حمید کہتے ہیں میرے پاس ابوالعالیہ آئے میرے دوست بھی اس وقت میرے پاس تھے ہم سے کہنے لگے تم دونوں مجھ سے کم عمر اور زیادہ یادداشت والے ہو آؤ میرے ساتھ بشر بن عاصم رحمہ اللہ کے پاس چلو جب وہاں پہنچے تو بشر رحمہ اللہ سے فرمایا انہیں بھی وہ حدیث سنا دو انہوں نے سنانی شروع کی کہ سیدنا عتبہ بن مالک لیثی رضی اللہ عنہ نے کہا { رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چھوٹا سا لشکر بھیجا تھا اس نے ایک قوم پر چھاپہ مارا وہ لوگ بھاگ کھڑے ہوئے ان کے ساتھ ایک شخص بھاگا جا رہا تھا اس کے پیچھے ایک لشکری بھاگا جب اس کے قریب ننگی تلوار لیے ہوئے پہنچ گیا تو اس نے کہا میں تو مسلمان ہوں ۔ اس نے کچھ خیال نہ کیا تلوار چلا دی ۔ اس واقعہ کی خبر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوئی تو آپ بہت ناراض ہوئے اور سخت سست کہا یہ خبر اس شخص کو بھی پہنچی ۔ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ پڑھ رہے تھے کہ اس قاتل نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی قسم اس نے تو یہ بات محض قتل سے بچنے کے لیے کہی تھی آپ نے اس کی طرف سے نگاہ پھیرلی اور خطبہ سناتے رہے ۔ اس نے دوبارہ کہا آپ نے پھر منہ موڑ لیا ، اس سے صبر نہ ہو سکا ، تیسری باری کہا تو آپ نے اس کی طرف توجہ کی اور ناراضگی آپ کے چہرے سے ٹپک رہی تھی ، فرمانے لگے ’ مومن کے قاتل کی کوئی بھی معذرت قبول کرنے سے اللہ تعالیٰ انکار کرتے ہیں تین بار یہی فرمایا . } یہ روایت نسائی میں بھی ہے ۔ ۱؎ (مسند احمد:289/5:صحیح) پس ایک مذہب تو یہ ہوا کہ قاتل مومن کی توبہ نہیں دوسرا مذہب یہ کے کہ توبہ اس کے اور اللہ کے درمیان ہے جمہور سلف وخلف کا یہی مذہب ہے کہ اگر اس نے توبہ کی اللہ کی طرف رجوع کیا خشوع خضوع میں لگا رہا نیک اعمال کرنے لگ گیا تو اللہ اس کی توبہ قبول کر لے گا اور مقتول کو اپنے پاس سے عوض دے کر اسے راضی کر لے گا ۔ اللہ فرماتا ہے «اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا» ۱؎ (19-مریم:60) اور «إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا » ۱؎ (25-الفرقان:70) یہ خبر ہے اور خبر میں نسخ کا احتمال نہیں اور اس آیت کو مشرکوں کے بارے میں اور اس آیت کو مومنوں کے بارے میں خاص کرنا بظاہر خلاف قیاس ہے اور کسی صاف دلیل کا محتاج ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے « قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ ۭ اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذٰنُوْبَ جَمِیْعًا ۭ اِنَّہٗ ہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ» ۱؎ (39-الزمر:53) ’ اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے تم میری رحمت سے مایوس نہ ہو ۔ ‘ یہ آیت اپنے عموم کے اعتبار سے ہر گناہ پر محیط ہے خواہ کفر و شرک ہو خواہ شک و نفاق ہو خواہ قتل وفسق ہو خواہ کچھ ہی ہو ، جو اللہ کی طرف رجوع کرے اللہ اس کی طرف مائل ہو گا جو توبہ کرے اللہ اسے معاف فرمائے گا ۔ فرماتا ہے «إِنَّ اللہَ لَا یَغْفِرُ أَن یُشْرَکَ بِہِ وَیَغْفِرُ مَا دُونَ ذٰلِکَ لِمَن یَشَاءُ » ۱؎ (4-النساء:48) ’ اللہ تعالیٰ شرک کو بخشتا نہیں اس کے سوا کے تمام گناہ جسے چاہے بخش دے ۔ ‘ اللہ اس کی کریمی کے صدقے جائیے کہ اس نے اسی سورت میں اس آیت سے پہلے بھی جس کی تفسیر اب ہم کر رہے ہیں اپنی عام بخشش کی آیت بیان فرمائی اور پھر اس آیت کے بعد ہی اسے دوہرا دیا اسی طرح اپنی عام بخشش کا اعلان پھر کیا تاکہ بندوں کو اس کی کامل فطرت سے کامل امید بند جائے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ بخاری مسلم کی وہ حدیث بھی اس موقعہ پر یاد رکھنے کے قابل ہے جس میں ہے کہ ’ ایک بنی اسرائیلی نے ایک سو قتل کئے تھے ۔ پھر ایک عالم سے پوچھتا ہے کہ کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے وہ جواب دیتا ہے کہ تجھ میں اور تیری توبہ میں کون ہے جو حائل ہے ؟ جاؤ اس بدبستی کو چھوڑ کر نیکوں کے شہر میں بسو چنانچہ اس نے ہجرت کی مگر راستے میں ہی فوت ہو گیا اور رحمت کے فرشتے اسے لے گئے ۔ ‘ ۱؎ (صحیح بخاری:3470) یہ حدیث پوری پوری کئی مرتبہ بیان ہو چکی ہے جبکہ بنی اسرائیل میں یہ ہے تو اس امت مرحومہ کے لیے قاتل کی توبہ کے لیے دروازے بند کیوں ہوں ؟ ہم پر تو پہلے بہت زیادہ پابندیاں تھیں جن سب سے اللہ نے ہمیں آزاد کر دیا اور رحمتہ اللعالمین جیسے سردار انبیاء کو بھیج کر وہ دین ہمیں دیا جو آسانیوں اور راحتوں والا سیدھا صاف اور واضح ہے ، لیکن یہاں جو سزا قاتل کی بیان فرمائی ہے اس سے مرادیہ ہے کہ اس کی سزا یہ ہے کہ اسے سزا ضرور دی جائے ۔ چنانچہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور سلف کی ایک جماعت بھی یہی فرماتی ہے ، بلکہ اس معنی کی ایک حدیث بھی ابن مردویہ میں ہے ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:5819/3:ضعیف) لیکن سنداً وہ صحیح نہیں اور اسی طرح ہر وعید کا مطلب یہی ہے کہ اگر کوئی عمل صالح وغیرہ اس کے مقابل میں نہیں تو اس بدی کا بدلہ وہ ہے جو وعید میں واضح بیان ہوا ہے اور یہی طریقہ وعید کے بارے میں ہمارے نزدیک نہایت درست اور احتیاط والا ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصّوَابٗ» اور قاتل کا مقدر جہنم بن گیا ۔ چاہے اس کی وجہ توبہ کی عدم قبولیت کہا جائے یا اس کے متبادل کسی نیک عمل کا مفقود ہونا خواہ بقول جمہور دوسرا نیک عمل نجات دہندہ نہ ہونے کی وجہ سے ہو ۔ وہ ہمیشہ جہنم میں نہ رہے گا بلکہ یہاں خلود سے مراد بہت دیر تک رہنا ہے جیسا کہ متواتر احادیث سے ثابت ہے کہ ’ جہنم میں سے وہ بھی نکل آئیں گے جن کے دل میں رائی کے چھوٹے سے چھوٹے دانے کے برابر بھی ایمان ہو گا ۔ ‘ اوپر جو ایک حدیث بیان ہوئی ہے کہ ممکن ہے اللہ تعالیٰ تمام گناہوں کو بجز کفر اور قتل مومن کے معاف فرما دے ۔ اس میں «عسی» ترجی کا مسئلہ ہے ان دونوں صورتوں میں ترجی یعنی اُمید گو اٹھ جائے پھر بھی وقوع پذیر ہونا یعنی ایسا ہونا ان دونوں میں سے ایک بھی ممکن نہیں اور وہ قتل ہے ، کیونکہ شرک و کفر کا معاف نہ ہونا تو الفاظ قرآن سے ثابت ہو چکا اور جو حدیثیں گذریں جن میں قاتل کو مقتول لے کر آئے گا وہ بالکل ٹھیک ہیں چونکہ اس میں انسانی حق ہے وہ توبہ سے ٹل نہیں جاتا ۔ بلکہ انسانی حق تو توبہ ہونے کی صورت میں بھی حقدار کو پہنچانا ضروری ہے اس میں جس طرح قتل ہے اسی طرح چوری ہے غضب ہے تہمت ہے اور دوسرے حقوق انسانی ہیں جن کا توبہ سے معاف نہ ہونا اجماعاً ثابت ہے بلکہ توبہ کے لیے صحت کی شرط ہے کہ ان حقوق کو ادا کرے ۔ اور جب ادائیگی محال ہے تو قیامت کے روز اس کا مطالبہ ضروری ہے ۔ لیکن مطالبہ سے سزا کا واقع ہونا ضروری نہیں ۔ ممکن ہے کہ قاتل کے اور سب اعمال صالحہ مقتول کو دے دئیے جائیں یا بعض دے دئیے جائیں اور اس کے پاس پھر بھی کچھ رہ جائیں اور یہ بخش دیا جائے اور یہ بھی ممکن ہے کہ قاتل کا مطالبہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اپنے پاس سے اور اپنی طرف سے حور و قصور اور بلند درجات جنت دے کر پورا کر دے اور اس کے عوض وہ اپنے قاتل سے درگذر کرنے پر خوش ہو جائے ۔ اور قاتل کو اللہ تعالیٰ بخش دے وغیرہ ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ جان بوجھ کر مارا ڈالنے والے کے لیے کچھ تو دنیوی احکام ہیں اور کچھ اخروی ۔ دنیا میں تو اللہ نے مقتول کے ولیوں کو اس پر غلبہ دیا ہے ۔ فرماتا ہے«وَمَن قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّہِ سُلْطَانًا فَلَا یُسْرِف فِّی الْقَتْلِ» ۱؎ (17-الإسراء:33) ’ جو ظلم سے قتل کیا جائے ہم نے اس کے پیچھے والوں کو غلبہ دیا ہے کہ انہیں اختیار ہے کہ یا تو وہ بدلہ لیں یعنی قاتل کو بھی قتل کرائیں یا معاف کر دیں یا دیت یعنی خون بہا یعنی جرمانہ وصول کر لیں ‘ اور اس کے جرمانہ میں سختی ہے جو تین قسموں پر مشتمل ہے ۔ تیس تو چوتھے سال کی عمر میں لگے ہوئے اونٹ ، تیس پانچویں سال میں لگے ہوئے ، چالیس حاملہ اونٹنیاں جیسے کہ کتب احکام میں ثابت ہیں ۔ اس میں ائمہ نے اختلاف کیا ہے کہ اس پر غلام کا آزاد کرنا یا دو ماہ کے پے در پے روزے رکھے یا کھانا کھلانا ہے یا نہیں ؟ پس امام شافعی رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب اور علماء کی ایک جماعت تو اس کی قائل ہے کہ جب خطا میں یہ حکم ہے تو عمداً میں بطور ادنیٰ یہی حکم ہونا چاہیئے اور ان پر جواباً جھوٹی غیر شرعی قسم کے کفارے کو پیش کیا گیا ہے اور انہوں نے اس کا عذر عمداً چھوڑ دی ہوئی دی نماز کو قضاء قرار دیا ہے جیسے کہ اس پر اجماع ہے خطا میں ۔ امام احمد رحمہ اللہ کے اصحاب اور دوسرے کہتے ہیں قتل عمداً ناقابل کفارہ ہے ۔ اس لیے اس یعنی کفارہ نہیں اور اسی طرح جھوٹی قسم اور ان کے لیے ان دونوں صورتوں میں اور عمداً چھوٹی ہوئی نماز میں فرق کرنے کی کوئی راہ نہیں ، اسلئے کہ یہ عمداً چھوٹی ہوئی نماز کی قضا کے وجوب کے قائل ہیں ۔ سابقہ مکتبہ خیال کی ایک دلیل یہ حدیث بھی ہے جو مسند احمد میں مروی ہے کہ لوگ سیدنا واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا کوئی ایسی حدیث سناؤ جس میں کمی زیادتی نہ ہو تو وہ بہت ناراض ہوئے اور فرمانے لگے کیا تم قرآن لے کر پڑھتے ہو تو اس میں کمی زیادتی بھی کرتے ہو ؟ انہوں نے کہا ہمارا مطلب یہ ہے کہ خود رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ نے جو سنی ہو کہا ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنوں میں سے ایک آدمی کی بابت حاضر ہوئے جس نے بوجہ قتل کے اپنے تئیں جہنمی بنا لیا تھا ۔ { تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کی طرف سے ایک غلام آزاد کرو اس کے ایک ایک عضو کے بدلہ اس کا ایک ایک عضو اللہ تعالیٰ جہنم سے آزاد کر دے گا ۔ } ۱؎ (مسند احمد:107/4:ضعیف) النسآء
94 مسلمان کے ہاتھوں مسلمان کا قتل ناقابل معافی جرم ہے ترمذوی وغیرہ کی ایک حدیث میں ہے کہ بنو سلیم کا ایک شخص بکریاں چراتا ہوا صحابہ کی ایک جمات کے پاس سے گذرا اور سلام کیا تو صحابہ آپس میں کہنے لگے یہ مسلمان تو ہے نہیں صرف اپنی جان بچانے کے لیے سلام کرتا ہے چنانچہ اسے قتل کر دیا اور بکریاں لے کر چلے آئے ، اس پر یہ آیت اتری ۔ ۱؎ (مسند احمد:229/1:قال الشیخ الألبانی:حسن صحیح) یہ حدیث تو صحیح ہے لیکن بعض نے اس میں علتیں نکالی ہیں کہ سماک راوی کے سوائے اس طریقے کا اور کوئی مخرج ہی اس کا نہیں ، اور یہ کہ عکرمہ سے اس کے روایت کرنے کے بھی قائل ہے ، اور یہ کہ اس آیت کے شان نزول میں اور واقعات بھی مروی ہیں ، بعض کہتے ہیں محکم بن جثامہ کے بارے میں اتری ہے ۔ بعض کہتے ہیں اسامہ بن زید کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور اس کے علاوہ بھی اقوال ہیں ، لیکن میرے خیال میں یہ سب ناقابل تسلیم ہے سماک سے اسے بہت سے ائمہ کبار نے روایت کیا ہے ، عکرمہ سے صحیح دلیل لی گئی ہے ، یہی روایت دوسرے طریق سے ابن عباس سے صحیح بخاری میں مروی ہے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4591) سعید بن منصور میں یہی مروی ہے ۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم میں ہے کہ ایک شخص کو اس کے والد اور اس کی قوم نے اپنے اسلام کی خبر پہنچانے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا ، راستے میں اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بھیجے ہوئے ایک لشکر سے رات کے وقت ملاقات ہوئی اس نے ان سے کہا کہ میں مسلمان ہوں لیکن انہیں یقین نہ آیا اور اسے دشمن سمجھ کر قتل کر ڈالا ۔ ان کے والد کو جب یہ علم ہوا تو یہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور واقعہ بیان کیا چنانچہ آپ نے انہیں ایک ہزار دینار دئیے اور دیت دی اور انہیں عزت کے ساتھ رخصت کیا ، اس پر یہ آیت اتری ۔ محلم بن جثامہ کا واقعہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ایک چھوٹا سا لشکر اخسم کی طرف بھیجا جب یہ لشکر بطل اخسم میں پہنچا تو عامر بن اضبط اشجعی اپنی سواری پر سوار مع اسباب کے آ رہے تھے پاس پہنچ کر سلام کیا سب تو رک گئے لیکن محکم بن جثامہ نے آپس کی پرانی عداوت کی بنا پر اس پر جھپٹ کر حملہ کر دیا ، انہیں قتل کر ڈالا اور ان کا اسباب قبضہ میں کر لیا پھر ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے اور آپ یہ واقعہ بیان کیا اس پر یہ آیت اتری ۔ ۱؎ (مسند احمد:11/6) ایک اور روایت میں ہے کہ عامر نے اسلامی طریقہ کے مطابق سلام کیا تھا لیکن جاہلیت کی پہلی عداوت کے باعث محلم نے اسے تیر مار کر مار ڈالا یہ خبر پا کر عامر کے لوگوں سے محلم بن جثامہ نے مصالحانہ گفتگو کی لیکن عیینہ نے کہا نہیں نہیں اللہ کی قسم جب تک اس کی عورتوں پر بھی وہی مصیبت نہ آئے جو میری عورتوں پر آئی ۔ چنانچہ محلم اپنی دونوں چادریں اوڑھے ہوئے آئے اور { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گئے اس اُمید پر کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لیے استغفار کریں لیکن آپ نے فرمایا اللہ تجھے معاف نہ کرے } یہ یہاں سے سخت نادم شرمسار روتے ہوئے اُٹھے اپنی چادروں سے اپنے آنسو پونچھتے جاتے تھے سات روز بھی نہ گذرنے پائے تھے انتقال کر گئے ۔ لوگوں نے انہیں دفن کیا لیکن زمین نے ان کی نعش اگل دی ، { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جب یہ ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا تمہارے اس ساتھی سے نہایت بدتر لوگوں کو زمین سنبھال لیتی ہے لیکن اللہ کا ارادہ ہے کہ وہ تمہیں مسلمان کی حرمت دکھائے } چنانچہ ان کے لاشے کو پہاڑ پر ڈال دیا گیا اور اُوپر سے پتھر رکھ دئے گئے اور یہ آیت نازل ہوئی ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:10216:ضعیف) صحیح بخاری شریف میں تعلیقاً مروی ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مقداد سے فرمایا جبکہ انہوں نے قوم کفار کے ساتھ جو مسلمان مخفی ایمان والا تھا اسے قتل کر دیا تھا باوجودیکہ اس نے اپنے سلام کا اظہار کر دیا تھا کہ تم بھی مکہ میں اسی طرح ایمان چھپائے ہوئے تھے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:6866) بزار میں یہ واقعہ پورا اس طرح مرودی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چھوٹا سا لشکر بھیجا تھا جس میں سیدہ مقداد رضی اللہ عنہ بھی تھے جب دشمنوں کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ سب تو اِدھر اُدھر ہو گئے ہیں ایک شخص مالدار وہاں رہ گیا ہے اس نے انہیں دیکھتے ہی «اشھد ان لا اللہ الا اللّٰہ» کہا ۔ تاہم انہوں نے حملہ کر دیا اور اسے قتل کر ڈالا ۔ ایک شخص جس نے یہ واقعہ دیکھا تھا وہ سخت برہم ہوا اور کہنے لگا سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ نے اسے قتل کر ڈالا جس نے کلمہ پڑھا تھا ؟ میں اس کا ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کروں گا ، جب یہ لشکر واپس پہنچا تو اس شخص نے یہ واقعہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا آپ نے مقداد کو بلوایا اور فرمایا تم نے یہ کیا کیا ؟ کل قیات کے دن تم «لا الٰہ الا اللّٰہ» کے سامنے کیا جواب دو گے ؟ } پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری اور آپ نے فرمایا کہ { اے مقداد وہ شخص مسلمان تھا جس طرح تو مکہ میں اپنے ایمان کو مخفی رکھتا تھا پھر تو نے اس کے اسلام ظاہر کرنے کے باوجود اسے مارا ؟ } ۱؎ (مسند بزار:2202،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس غنیمت کے لالچ میں تم غفلت برتتے ہو اور سلام کرنے والوں کے ایمان میں شک و شبہ کر کے انہیں قتل کر ڈالتے ہو یاد رکھو وہ غنیمت اللہ کی طرف سے ہے اس کے پاس بہت سے غنیمتیں ہیں جو وہ تمہیں حلال ذرائع سے دے گا اور وہ تمہارے لیے اس مال سے بہت بہتر ہوں گے ۔ تم بھی اپنا وہ وقت یاد کرو کہ تم بھی ایسے ہی لاچار تھے اپنے ضعف اور اپنی کمزوری کی وجہ سے ایمان ظاہر کرنے کی جرأت نہیں کر سکتے تھے قوم میں چھپے لگے پھرتے تھے آج اللہ خالق کل نے تم پر احسان کیا تمہیں قوت دی اور تم کھلے بندوں اپنے اسلام کا اظہار کر رہے ہو ، تو جو بے اسباب اب تک دشمنوں کے پنجے میں پھنسے ہوئے ہیں اور ایمان کا اعلان کھلے طور پر نہیں کر سکے جب وہ اپنا ایمان ظاہر کریں تمہیں تسلیم کر لینا چاہیئے . اور آیت میں ہے «وَاذْکُرُوْٓا اِذْ اَنْتُمْ قَلِیْلٌ مٰسْتَضْعَفُوْنَ فِی الْاَرْضِ تَخَافُوْنَ اَنْ یَّتَخَطَّفَکُمُ النَّاسُ فَاٰوٰیکُمْ وَاَیَّدَکُمْ بِنَصْرِہٖ وَرَزَقَکُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ» ۱؎ (8-الأنفال:26) ’ اس وقت کو یاد کرو جب تم مکّہ میں قلیل تعداد میں اور کمزور تھے -تم ہر آن ڈرتے تھے کہ لوگ تمہیں اچک لے جائیں گے کہ خد انے تمہیں پناہ دی اور اپنی مدد سے تمہاری تائید کی -تمہیں پاکیزہ روزی عطا کی تاکہ تم اس کا شکریہ ادا کرو ۔ ‘ الغرض ارشاد ہوتا ہے کہ جس طرح یہ بکری کا چرواہا اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھا اسی طرح اس سے پہلے جبکہ بےسرو سامانی اور قلت کی حالت میں تم مشرکوں کے درمیان تھے ایمان چھپائے پھرتے تھے ، یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے کہ تم بھی پہلے اسلام والے نہ تھے اللہ نے تم پر احسان کیا اور تمہیں اسلام نصیب فرمایا . سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ نے قسم کھائی تھی کہ اس کے بعد بھی کسی« لا الہ الا اللّٰہ» کہنے والے کو قتل نہ کروں گا کیونکہ انہیں بھی اس بارے میں پوری سرزنش ہوئی تھی ۔ پھر تاکیداً دوبارہ فرمایا کہ بخوبی تحقیق کر لیا کرو ، پھر دھمکی دی جاتی ہے کہ اللہ جل شانہ کو اپنے اعمال سے غافل نہ سمجھو ، جو تم کر رہے ، وہ سب کی پوری طرح خبر رکھتا ہے ۔ النسآء
95 مجاہد اور عوام میں فرق صحیح بخاری میں ہے کہ جب اس آیت کے ابتدائی الفاظ اترے کہ گھروں میں بیٹھ رہنے والے جہاد کرنے والے مومن برابر نہیں ، تو آپ اسے سیدنا زید رضی اللہ عنہ کو بلوا کر لکھوا رہے تھے { اس وقت سیدنا ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ نابینا آئے اور کہنے لگے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں تو نابینا ہوں معذور ہوں } اس پر الفاظ «غَیْرُ أُولِی الضَّرَرِ» نازل ہوئے ۱؎ (صحیح بخاری:4593) یعنی ’ وہ بیٹھ رہنے والے جو بےعذر ہوں ‘ ان کا ذکر ہے ۔ اور روایت میں ہے کہ سیدنا زید رضی اللہ عنہ اپنے ساتھ قلم دوات اور شانہ لے کر آئے تھے ۱؎ (صحیح بخاری:4594) اور حدیث میں ہے کہ { سیدنا ام مکتوم رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر مجھ میں طاقت ہوتی تو میں ضرور جہاد میں شامل ہوتا اس پر وہ آیت اتری اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ران سیدنا زید رضی اللہ عنہ کی ران پر تھی ان پر اس قدر بوجھ پڑا قریب تھا کہ ران ٹوٹ جائے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:2832) وہ حدیث میں ہے کہ جس وقت ان آیات کی وحی اتری اور اس کے بعد طمانیت آپ پر نازل ہوئی { میں آپ کے پہلو میں تھا اللہ کی قسم مجھ پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ران کا ایسا بوجھ پڑا کہ میں نے اس سے زیادہ بوجھل چیز زندگی بھر کوئی اٹھائی پھر وحی ہٹ جانے کے بعد آپ نے «عَظِیمًا» تک آیت لکھوائی اور میں نے اسے شانے کی ہڈی پر لکھ لیا } اور حدیث میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ ابھی تو سیدنا ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کے الفاظ ختم بھی نہ ہوئے تھے جو آپ پر وحی نازل ہونا شروع ہوئی ، سیدنا زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں { وہ منظر اب تک میری نگاہوں کے سامنے ہے گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ بعد میں اترے ہوئے الفاظ کو میں نے ان کی جگہ پر اپنی تحریر میں بعد میں بڑھایا ہے ۔ } ۱؎ (سنن ابوداود:2507،قال الشیخ الألبانی:صحیح) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں مراد بدر کی لڑائی میں جانے والے اور اس میں حاضر نہ ہونے والے ہیں . ۱؎ (صحیح بخاری:4595) { غزوہ بدر کے موقعہ پر سیدنا عبداللہ بن حجش اور سیدنا عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہما آکر حضور سے کہنے لگے ہم دونوں نابینا ہیں کیا ہمیں رخصت ہے ؟ تو انہیں آیت قرآنی میں رخصت دی گئی } پس مجاہدین کو جس قسم کے بیٹھ رہنے والوں پر فضیلت دی گئی ہے وہ وہ ہیں جو صحت و تندرستی والے ہوں ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3032:صحیح) پس پہلے تو مجاہدین کو بیٹھ رہنے والوں پر مطلقاً فضیلت تھی لیکن اسی وحی میں جو الفاظ اترے اس نے ان لوگوں کو جنہیں مباح عذر ہوں عام بیٹھ رہنے والوں سے مستثنیٰ کر دیا جیسے اندھے لنگڑے لولے اور بیمار ، یہ مجاہدین کے درجے میں ہیں ۔ پھر مجاہدین کی جو فضیلت بیان ہوئی ہے وہ ان لوگوں پر بھی ہے جو بیوجہ جہاد میں شامل نہ ہوئے ہوں ، جیسے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی تفسیر گذری اور یہ ہونا بھی چاہیئے بخاری میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مدینہ میں ایسے لوگ بھی ہیں کہ تم جس جہاد کے لیے سفر کرو اور جس جنگل میں کوچ کرو وہ تمہارے ساتھ اجر میں یکساں ہیں صحابہ نے کہا باوجود یہ کہ وہ مدینے میں مقیم ہیں ، آپ نے فرمایا اس لیے کہ انہیں عذر نے روک رکھا ہے } ۱؎ (صحیح بخاری:2839) اور روایت میں ہے کہ تم جو خرچ کرتے ہو اس کا ثواب بھی جو تمہیں ملتا ہے انہیں بھی ملتا ہے ۱؎ (سنن ابوداود:2508:صحیح) اسی مطلب کو ایک شاعر نے ان الفاظ میں « یارا حلین الی البیت العتیق لقد»«سر تم جسو ماو سرنا نحن ارواحا»«انا اقمنا علی عذروعن قدر»«ومن اقام علی عذر فقدراحا»یعنی اے اللہ کے گھر کے حج کو جانے والو ! اگر تم اپنے جسموں سمیت اس طرف چل رہے ہو لیکن ہم بھی اپنی روحانی روش سے اسی طرف لپکے جا رہے ہیں ، سنو ہماری جسمانی کمزوری اور عذر نے ہمیں روک رکھا ہے اور ظاہر ہے کہ عذر سے رک جانے والا کچھ جانے والے سے کم نہیں ۔ پھر فرمایا ہے ہر ایک سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ جنت کا اور بہت بڑے اجر کا ہے ، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جہاد فرض عین نہیں بلکہ فرض کفایہ ہے ، پھر ارشاد ہے ، مجاہدین کو غیر مجاہدین پر بڑی فضیلت ہے ۔ پھر ان کے بلند درجات ان کے گناہوں کی معافی اور ان پر جو برکت و رحمت ہے اس کا بیان فرمایا اور اپنی عام بخشش اور عام رحم کی خبر دی ۔ بخاری و مسلم میں ہے { جنت میں سو درجے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے راہ کے مجاہدین کے لیے تیار کیا ہے ہر دو درجوں میں اس قدر فاصلہ ہے جتنا آسمان و زمین میں } ۱؎ (صحیح بخاری:2790) اور حدیث میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اللہ کی راہ میں تیر چلائے اسے جنت کا درجہ ملتا ہے ایک شخص نے پوچھا درجہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا وہ تمہارے یہاں کے گھروں کے بالا خانوں جتنا نہیں بلکہ دو درجوں میں سو سال کا فاصلہ ہے ۔ } ۱؎ (الدر المنثور :365/2:ضعیف و منقطع) النسآء
96 النسآء
97 بے معنی عذر مسترد ہوں گے ، ہجرت اور نیت محمد بن عبدالرحمٰن ابوالا سود فرماتے ہیں اہل مدینہ سے جنگ کرنے کے لیے جو لشکر تیار کیا گیا اس میں میرا نام بھی تھا ۔ میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہا کے مولیٰ عکرمہ رحمہ اللہ سے ملا اور اس بات کا ذکر کیا تو انہوں نے مجھے اس میں شمولیت کرنے سے بہت سختی سے روکا ۔ اور کہا سنو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہا سے میں نے سنا ہے کہ بعض مسلمان لوگ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مشرکوں کے ساتھ تھے اور ان کی تعداد بڑھاتے تھے بسا اوقات ایسا بھی ہوتا کہ ان میں سے کوئی تیر سے ہلاک کر دیا جاتا یا مسلمانوں کی تلواروں سے قتل کر دیا جاتا ، انہی کے بارے میں یہ آیت اتری ہے یعنی موت کے وقت ان کا اپنی بےطاقتی کا حیلہ اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول نہیں ہوتا ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4596) اور روایت میں ہے کہ ایسے لوگ جو اپنے ایمان کو مخفی رکھتے تھے جب وہ بدر کی لڑائی میں کافروں کے ساتھ آ گئے تو مسلمانوں کے ہاتھوں ان میں سے بھی بعض مارے گئے جس پر مسلمان غمگین ہوئے کہ افسوس یہ تو ہمارے ہی بھائی تھے ، اور ہمارے ہی ہاتھوں مارے گئے ان کے لیے استغفار کرنے لگے اس پر یہ آیت اتری ۔ پس باقی ماندہ مسلمانوں کی طرف یہ آیت لکھی کہ ان کا کوئی عذر نہ تھا کہا یہ نکلے اور ان سے مشرکین ملے اور انہوں نے تقیہ کیا پس یہ آیت اتری«وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَبِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَمَا ھُمْ بِمُؤْمِنِیْنَ» (2-البقرۃ:8) ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:10265) عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں اتری ہے جو اسلام کا کلمہ پڑھتے تھے اور تھے مکے میں ہی ان میں علی ابن امیہ بن خلف اور ابوقیس بن ولید بن مغیرہ اور ابو منصور بن حجاج اور حارث بن زمعہ تھے ضحاک رحمہ اللہ کہتے ہیں یہ ان منافقوں کے بارے میں اتری ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے بعد مکے میں رہ گئے پھر بدر کی لڑائی میں مشرکوں کے ساتھ آئے ان میں سے بعض میدان جنگ میں کام بھی آ گئے ۔ مقصد یہ ہے کہ آیت کا حکم عام ہے ہر اس شخص کا جو ہجرت پر قادر ہو پھر بھی مشرکوں میں پڑا رہے اور دین پر مضبوط نہ رہے ۔ وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ظالم ہے اور اس آیت کی رو سے اور مسلمانوں کے اجماع سے وہ حرام کام کا مرتکب ہے اس آیت میں ہجرت سے گریز کرنے کو ظلم کہا گیا ہے ، ایسے لوگوں سے ان کے نزع کے عالم میں فرشتے کہتے ہیں کہ تم یہاں کیوں ٹھہرے رہے ؟ کیوں ہجرت نہ کی ؟ یہ جواب دیتے ہیں کہ ہم اپنے شہر سے دوسرے شہر کہیں نہیں جا سکتے تھے ، جس کے جواب میں فرشتے کہتے ہیں کیا اللہ تعالیٰ کی زمین میں کشادگی نہ تھی ؟ ابوداؤد میں ہے جو شخص مشرکین میں ملا جلا رہے انہی کے ساتھ رہے سہے وہ بھی انہی جیسا ہے ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2787،قال الشیخ الألبانی:صحیح) سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں جبکہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ عقیل اور نوفل گرفتار کئے گئے تو { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سیدنا عباس رضی اللہ عنہ تم اپنا فدیہ بھی دو اور اپنے بھتیجے کا بھی ، سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہم آپ کے قبلے کی طرف نمازیں نہیں پڑھتے تھے ؟ کیا ہم کلمہ شہادت ادا نہیں کرتے تھے ؟ آپ نے فرمایا سیدنا عباس رضی اللہ عنہ تم نے بحث تو چھیڑی لیکن اس میں تم ہار جاؤ گے سنو اللہ جل شانہ فرماتا ہے پھر آپ نے یہی تلاوت فرمائی یعنی تم نے ہجرت کیوں نہ کی ؟ } ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:10270:ضعیف و مرسل) پھر جن لوگوں کو ہجرت کے چھوڑ دینے پر ملامت نہ ہو گی ان کا ذکر فرماتا ہے کہ جو لوگ مشرکین کے ہاتھوں سے نہ چھوٹ سکیں اور اگر کبھی چھوٹ بھی جائیں تو راستے کا علم انہیں نہیں ان سے اللہ تعالیٰ درگذر فرمائے گا ، “عسی“ کلمہ اللہ کے کلام میں وجوب اور یقین کے لیے ہوتا ہے ۔ اللہ درگذر کرنے والا اور بہت ہی معافی دینے والا ہے ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز میں سمع اللہ لمن حمدہ کہنے کے بعد سجدے میں جانے سے پہلے یہ دعا مانگی اے اللہ عیاش ابو ربیعہ کو , سلمہ بن ہشام کو , ولید بن ولید [ رضی اللہ عنہم ] کو اور تمام بے بس ناطاقت مسلمانوں کو کفار کے پنجے سے رہائی دے اے اللہ اپنا سخت عذاب قبیلہ مضر پر ڈال اے اللہ ان پر ایسی قحط سالی نازل فرما جیسی یوسف علیہ السلام کے زمانے میں آئی تھی ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:4598) ابن ابی حاتم میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرنے کے بعد قبلے کی طرف منہ کئے ہوئے ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی اے اللہ ولید بن ولید کو ,عیاش بن ابو ربیعہ ,کو سلمہ بن ہشام [ رضی اللہ عنہم ] کو اور تمام ناتواں بےطاقت مسلمانوں کو اور جو بے حیلے کی طاقت رکھتے ہیں نہ راہ پانے کی کافروں کے ہاتھوں سے نجات دے ۔ } ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:5872/3:ضعیف) ابن جریر میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز کے بعد یہ دعا مانگا کرتے تھے ۔ } ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:10280:ضعیف) اس حدیث کے شواہد صحیح میں بھی اس سند کے سوا اور سندوں میں بھی ہیں کہ جیسے کہ پہلے گذرا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں میں اور میری والدہ ان ضعیف عورتوں اور بچوں میں تھے جن کا ذکر اس آیت میں ہے ۔ ہمیں اللہ نے معذور رکھا ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4597) النسآء
98 النسآء
99 . ہجرت کی ترغیب دیتے ہوئے اور مشرکوں سے الگ ہونے کی ہدایات کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والا ہراساں نہ ہو وہ جہاں جائے گا اللہ تعالیٰ اس کے لیے اسباب پناہ تیار کر دے گا اور وہ بہ آرام وہاں اقامت کر سکے گا «مراغم» کے ایک معنی ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے بھی ہیں ۔ مجاہد فرماتے ہیں وہ اپنے دکھ سے بچاؤ کی بہت سی صورتیں پالے گا ، امن کے بہت سے اسباب اسے مل جائیں گے ، دشمنوں کے شر سے بچ جائے گا اور وہ روزی بھی پائے گا گمراہی کی جگہ ہدایت اسے ملے گی اس کی فقیری تونگری سے بدل جائے ۔ ارشاد ہوتا ہے جو شخص بہ نیت ہجرت اپنے گھر سے نکلا پھر ہجرت گاہ پہنچنے سے پہلے ہی راستے میں اسے موت آ گئی اسے بھی ہجرت کا کامل ثواب مل گیا { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ہر عمل کا دارومدار نیت پر ہے اور ہرشخص کے لیے وہ ہے جو اس نے نیت کی پس جس کی ہجرت اللہ کی طرف اور اس کے رسول کی طرف ہو اس کی ہجرت اللہ کی رضا مندی اور رسول کی خوشنودی کا باعث ہو گی اور جس کی ہجرت دنیا حاصل کرنے کے لیے ہو یا کسی عورت سے نکاح کرنے کے لیے ہو تو اسے اصل ہجرت کا ثواب نہ ملے گا بلکہ اس کی ہجرت اسی طرف سمجھی جائے گی ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:54) یہ حدیث عام ہے ہجرت وغیرہ تمام اعمال پر مشتمل ہے ۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں اس شخص کے بارے میں ہے { جس نے ننانوے قتل کئے تھے پھر ایک عابد کو قتل کر کے سو پورے کئے پھر ایک عالم سے پوچھا کہ کیا اس کی توبہ قبول ہو سکتی ہے ؟ اس نے کہا تیری توبہ کے اور تیرے درمیان کوئی چیز حائل نہیں تو اپنی بستی سے ہجرت کر کے فلاں شہر چلا جا جہاں اللہ کے عابد بندے رہتے ہیں ۔ چنانچہ یہ ہجرت کر کے اس طرف چلا راستہ میں ہی تھا جو موت آ گئی ۔ رحمت اور عذاب کے فرشتوں میں اس کے بارے میں اختلاف ہوا بحث یہ تھی کہ یہ شخص توبہ کر کے ہجرت کر کے مگر چلا تو سہی یہ وہاں پہنچا تو نہیں پھر انہیں حکم کیا گیا کہ وہ اس طرف کی اور اس طرف کی زمین ناپیں جس بستی سے یہ شخص قریب ہو اس کے رہنے والوں میں اسے ملا دیا جائے پھر زمین کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ بری بستی کی جانب سے دور ہو جا اور نیک بستی والوں کی طرف قریب ہو جا ، جب زمین ناپی گئی تو توحید والوں کی بستی سے ایک بالشت برابر قریب نکلی اور اسے رحمت کے فرشتے لے گئے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:3470) ایک روایت میں ہے کہ { موت کے وقت یہ اپنے سینے کے بل نیک لوگوں کی بستی کی طرف گھسیٹتا ہوا گیا ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:2766) مسند احمد کی حدیث میں ہے ’ جو شخص اپنے گھر سے اللہ کی راہ میں ہجرت کی نیت سے نکلا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تینوں انگلیوں یعنی کلمہ کی انگلی بیچ کی انگلی اور انگھوٹھے کو ملا کر کہا ۔ پھر فرمایا کہاں ہیں مجاہد ؟ پھر وہ اپنی سواری پر سے گر پڑا یا اسے کسی جانور نے کاٹ لیا یا اپنی موت مر گیا تو اس کا ہجرت کا ثواب اللہ کے ذمے ثابت ہو گیا ۔ ‘ راوی کہتے ہیں اپنی موت مرنے کے لیے جو کلمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے استعمال کیا واللہ میں نے اس کلمہ کو آپ سے پہلے کسی عربی کی زبانی نہیں سنا اور جو شخص غضب کی حالت میں قتل کیا گیا وہ جگہ کا مستحق ہو گیا ۔ ۱؎ (مسند احمد:36/4:ضعیف) سیدنا خالد بن خرام رضی اللہ عنہ ہجرت کر کے حبشہ کی طرف چلے لیکن راہ میں ہی انہیں ایک سانپ نے ڈس لیا اور اسی میں ان کی روح قبض ہو گئی ان کے بارے میں یہ آیت اتری ۔ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں چونکہ ہجرت کر کے حبشہ پہنچ گیا اور مجھے ان کی خبر مل گئی تھی کہ یہ بھی ہجرت کر کے آ رہے ہیں اور میں جانتا تھا کہ قبیلہ بنو اسد سے ان کے سوا اور کوئی ہجرت کر کے آنے کا نہیں اور کم و بیش جتنے مہاجر تھے ان کے ساتھ رشتے کنبے کے لوگ تھے لیکن میرے ساتھ کوئی نہ تھا میں ان کا یعنی سیدنا خالد رضی اللہ عنہ کا بے چینی سے انتظار کر رہا تھا جو مجھے ان کی اس طرح کی اچانک شہادت کی خبر ملی تو مجھے بہت ہی رنج ہوا ۔ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:5888/3:حسن) یہ اثر بہت ہی غریب ہے ، یہ بھی وجہ ہے کہ یہ قصہ مکے کا ہے اور آیت مدینے میں اتری ہے ۔ لیکن بہت ممکن ہے کہ راوی کا مقصود یہ ہو کہ آیت کا حکم عام ہے گو شان نزول یہ نہ ہو «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اور روایت میں ہے کہ سیدنا ضمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ ہجرت کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چلے لیکن آپ کے پاس پہنچنے سے پہلے ہی راستے میں انتقال کر گئے ان کے بارے میں یہ آیت شریفہ نازل ہوئی ۔ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:5889/3:) اور روایت میں ہے کہ سیدنا سعد بن ابی ضمرہ رضی اللہ عنہ جن کو آنکھوں سے دکھائی نہ دیتا تھا جب وہ آیت «إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِینَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ» ۱؎ (4-النساء:98) سنتے ہیں تو کہتے ہیں میں مالدار ہوں اور چارہ کار بھی رکھتا ہوں مجھے ہجرت کرنی چاہیئے چنانچہ سامان سفر تیار کر لیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چل کھڑے ہوئے لیکن ابھی تنعیم میں ہی تھے جو موت آ گئی ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ۔ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:5890/3:ضعیف) طبرانی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو شخض میری راہ میں غزوہ کرنے کے لیے نکلا صرف میرے وعدوں کو سچا جان کر اور میرے رسولوں پر ایمان رکھ کر بس وہ اللہ کی ضمانت میں ہے یا تو وہ لشکر کے ساتھ فوت ہو کر جنت میں پہنچے گا یا اللہ کی ضمانت میں واپس لوٹے گا اجر و غنیمت اور فضل رب لے کر ۔ اگر وہ اپنی موت مر جائے یا مار ڈالا جائے یا گھوڑے سے گر جائے یا اونٹ پر سے گر پڑے یا کوئی زہریلا جانور کاٹ لے یا اپنے بستر پر کسی طرح فوت ہو جائے وہ شہید ہے ۔ ‘ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:3418:ضعیف) ابوداؤد میں اتنی زیادتی بھی ہے کہ وہ جنتی ہے ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2499،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) بعض الفاظ ابوداؤد میں نہیں ہیں ۔ ابویعلیٰ میں ہے { جو شخص حج کے لیے نکلا پھر مر گیا قیامت تک اس کے لیے حج کا ثواب لکھا جاتا ہے ، جو عمرے کے لیے نکلا اور راستے میں فوت ہو گیا اس کے لیے قیامت تک عمرے کا اجر لکھا جاتا ہے ۔ جو جہاد کے لیے نکلا اور فوت ہو گیا اس کے لیے قیامت تک کا ثواب لکھا جاتا ہے ۔ } ۱؎ (مسند ابویعلیٰ:6357،قال الشیخ الألبانی:صحیح لغیرہ) یہ حدیث بھی غریب ہے ۔ النسآء
100 النسآء
101 صلوۃ قصر ؟ فرمان الٰہی ہے کہ تم کہیں سفر میں جا رہے ہو ۔ یہی الفاظ سفر کے لیے سورۃ مزمل میں بھی آئے ہیں«عَلِمَ أَن سَیَکُونُ مِنکُم مَّرْضَیٰ ۙ وَآخَرُونَ یَضْرِبُونَ فِی الْأَرْضِ یَبْتَغُونَ مِن فَضْلِ اللہِ » ۱؎ (73-المزمل:20) ۔ تو تم پر نماز کی تخفیف کرنے میں کوئی گناہ نہیں ، یہ کمی یا تو کمیت میں یعنی بجائے چار رکعت کے دو رکعت ہے جیسے کہ جمہور نے اس آیت سے سمجھا ہے گو پھر ان میں بعض مسائل میں اختلاف ہوا ہے بعض تو کہتے ہیں یہ شرط ہے کہ سفر اطاعت کا ہو مثلاً جہاد کے لیے یا حج و عمرے کے لیے یا طلب و زیارت کے لیے وغیرہ ۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما عطاء ، یحییٰ رحمہ اللہ علیہما اور ایک روایت کی رو سے امام مالک رحمہ اللہ کا یہی قول ہے ، کیونکہ اس سے آگے فرمان ہے اگر تمہیں کفار کی ایذاء رسانی کا خوف ہو ، بعض کہتے ہیں اس قید کی کوئی ضرورت نہیں کہ سفر قربت الٰہیہ کا ہو بلکہ نماز کی کمی ہر مباح سفر کے لیے ہے جیسے اضطرار اور بے بسی کی صورت میں مردار کھانے کی اجازت ہے ۔ ہاں یہ شرط ہے کہ سفر معصیت کا نہ ہو ، امام شافعی ، امام احمد رحمہ اللہ علیہما وغیرہ ائمہ کا یہی قول ہے ، ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ میں تجارت کے سلسلے میں دریائی سفر کرتا ہوں تو آپ نے اسے دو رکعتیں پڑھنے کا حکم دیا ، یہ حدیث مرسل ہے ۔ بعض لوگوں کا مذہب ہے کہ ہر سفر میں نماز کو قصر کرنا جائز ہے سفر خواہ مباح ہو خواہ ممنوع ہو یہاں تک کہ اگر کوئی ڈاکہ ڈالنے کے لیے اور مسافروں کو ستانے کے لیے نکلا ہوا ہے اسے بھی نماز قصر کرنے کی اجازت ہے ، ابوحنیفہ ثوری اور داؤد رحمہ اللہ علیہم کا یہی قول ہے کہ آیت عام ہے ، لیکن یہ قول جمہور کے قول کے خلاف ہے ۔ کفار سے ڈر کی جو شرط لگائی ہے یہ باعتبار اکثریت کے ہے آیت کے نازل ہونے کے وقت چونکہ عموماً یہی حال تھا اس لیے آیت میں بھی اسے بیان کر دیا گیا ، ہجرت کے بعد سفر مسلمانوں کے سب کے سب خوف والے ہی ہوتے تھے قدم قدم پر دشمن کا خطرہ رہتا تھا بلکہ مسلمان سفر کے لیے نکل ہی نہ سکتے تھے بجز اس کے کہ یا تو جہاد کو جائیں یا کسی خاص لشکر کے ساتھ جائیں اور یہ قاعدہ ہے کہ جب منطوق بہ اعتبار غالب کے آئے تو اس کا مفہوم معتبر نہیں ہوتا ۔ جیسے اور آیت میں ہے«وَلَا تُکْرِہُوا فَتَیَاتِکُمْ عَلَی الْبِغَاءِ إِنْ أَرَدْنَ تَحَصٰنًا» ۱؎ (24-النور:33) ’ اپنی لونڈیوں کو بدکاری کے لیے مجبور نہ کرو اگر وہ پاکدامنی کرنا چاہیں ۔ ‘ اور جیسے فرمایا«وَرَبَائِبُکُمُ اللَّاتِی فِی حُجُورِکُم مِّن نِّسَائِکُمُ » ۱؎ (4-النساء:23) ’ ان کی بیٹیاں جو تمہاری پرورش میں ہیں جن عورتوں سے تم نے صحبت کی ہے ۔ ‘ پس جیسے کہ ان دونوں آیتوں میں قید کا بیان ہے لیکن اس کے ہونے پر ہی حکم کا دارومدار نہیں بلکہ بغیر اس کے بھی حکم وہی ہے یعنی لونڈیوں کو بدکاری کے لیے مجبور کرنا حرام ہے چاہے وہ پاکدامنی چاہتی ہوں یا نہ چاہتی ہو ۔ اسی طرح اس عورت کی لڑکی حرام ہے جس سے نکاح ہوکر صحبت ہو گئی ہو خواہ وہ اسکی پرورش میں ہو یا نہ ہو ، حالانکہ دونوں جگہ قرآن میں یہ قید موجود ہے ، پس جس طرح ان دونوں موقعوں میں بغیر ان قیود کے بھی حکم یہی ہے اسی طرح یہاں بھی گو خوف نہ ہو تو بھی محض سفر کی وجہ سے نماز کو قصر کرنا جائز ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ یعلیٰ بن امیہ رحمہ اللہ نے { سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ نماز کی تخفیف کا حکم تو خوف کی حالت میں ہے اور اب تو امن ہے ؟ عمر نے جواب دیا کہ یہی خیال مجھے ہوا تھا اور یہی سوال میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تھا تو آپ نے فرمایا یہ اللہ تعالیٰ کا صدقہ ہے جو اس نے تمہیں دیا ہے تم اس کے صدقے کو قبول کرو ۔ } مسلم اور سنن وغیرہ میں بھی یہ حدیث ہے بالکل صحیح روایت ہے ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:686) ابوحنظلہ حذاء رحمہ اللہ نے { سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے سفر کی نماز کا پوچھا تو آپ نے فرمایا دو رکعت ہیں انہوں نے کہا قرآن میں تو خوف کے وقت دو رکعت ہیں اور اس وقت تو پوری طرح امن و امان ہے تو آپ نے فرمایا یہی سنت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ۔ } ۱؎ (ابن ابی شیبہ:337/2:صحیح) ایک اور شخص کے سوال پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا آسمان سے تو یہ رخصت اتر چکی ہے اب اگر تم چاہو تو اسے لوٹا دو ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں { مکہ اور مدینہ کے درمیان ہم نے باوجود امن کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دو رکعت پڑھیں } ۱؎ (سنن ترمذی:547،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اور حدیث میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے مکے کی طرف چلے تو اللہ کے سوا کسی سے خوف نہ تھا اور آپ برابر دو رکعت ہی ادا فرماتے رہے ۔ } بخاری کی حدیث میں ہے کہ { واپسی میں بھی یہی دو رکعت آپ پڑھتے رہے اور مکے میں اس سفر میں آپ نے دس روز قیام کیا تھا ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:1081) مسند احمد میں سیدنا حارثہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ { میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ منی میں ظہر کی اور عصر کی نماز دو دو رکعت پڑھی ہیں حالانکہ اس وقت ہم بکثرت تھے اور نہایت ہی پر امن تھے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:1083) صحیح بخاری میں ہے سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں { میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ اورسیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ [ سفر میں ] دو رکعت پڑھی ہیں } لیکن اپنی خلافت کے آخری زمانے میں پوری پڑھنے لگے ہیں ۔ بخاری کی روایت میں ہے کہ جب سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی چار رکعات کا ذکر آیا تو آپ نے «اناللہ»الخ ، پڑھ کر فرمایا { میں نے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی منی میں دو رکعت پڑھی ہیں اور سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی کاش کہ بجائے ان چار رکعات کے میرے حصے میں دو ہی مقبول رکعات آئیں ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:1084) پس یہ حدیثیں کھلم کھلا دلیل ہیں اس بات کی کہ سفر کی دو رکعات کے لیے خوف کا ہونا شرط نہیں بلکہ نہایت امن و اطمینان کے سفر میں بھی دو گانہ ادا کر سکتا ہے ۔ اسی لیے بعض علماء کرام نے فرمایا ہے کہ یہاں کیفیت میں یعنی قرآت ، قومہ ، رکوع ، سجود وغیرہ میں قصر اور کمی مراد ہے نہ کہ کمیت میں یعنی تعداد رکعات میں تخفیف کرنا ، ضحاک ، مجاہد اور سدی رحمہ اللہ علیہم کا یہی قول ہے جیسے کہ آ رہا ہے ، اس کی ایک دلیل امام مالک رحمہ اللہ کی روایت کردہ یہ حدیث بھی ہے کہ { سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں نماز دو دو رکعتیں ہی سفر حضر میں فرض کی گئی تھی پھر سفر میں تو وہی دو رکعتیں رہیں اور اقامت کی حالت میں دو اور بڑھا دی گئیں ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:350) پس علماء کی یہ جماعت کہتی ہے کہ اصل نماز دو رکعتیں تھی تو پھر اس آیت میں قصر سے مراد کمیت یعنی رکعتوں کی تعداد میں کمی کیسے ہو سکتی ہے ؟ اس قول کی بہت بڑی تائید صراحتاً اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو مسند احمد میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی روایت سے ہے کہ { بزبان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سفر کی دو رکعتیں ہیں اور ضحیٰ کی نماز بھی دو رکعت ہے اور عید الفطر کی نماز بھی دو رکعت ہے اور جمعہ کی نماز بھی دو رکعت ہے یہ یہی پوری نماز ہے قصر والی نہیں ۔ } ۱؎ (سنن ابن ماجہ:1063،قال الشیخ الألبانی:صحیح) یہ حدیث نسانی ، ابن ماجہ اور صحیح ابن حبان میں بھی ہے اس کی سند بشرط مسلم ہے ۔ اس کے راوی ابن ابی لیلیٰ رحمہ اللہ کا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے سننا ثابت ہے جیسے کہ امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح کے مقدمہ میں لکھا ہے اور خود اس روایت میں اور اس کے علاوہ بھی صراحتاً موجود ہے اور یہی ٹھیک بھی ہے ان شاءاللہ ۔ گو بعض محدثین سننے پر فیصلہ دینے کے قائل نہیں ، لیکن اسے مانتے ہوئے بھی اس سند میں کمی واقع نہیں ہوتی کیونکہ بعض طرق میں ابن ابی لیلیٰ کا ایک ثقہ سے اور ان کا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے سننا مروی ہے ، اور ابن ماجہ میں ان کا کعب بن عجرہ سے روایت کرنا بھی مروی ہے ۔ «فَاللہُ اَعْلَمُ» مسلم وغیرہ میں { سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی نماز کو اقامت کی حالت میں چار رکعت فرض کی ہے اور سفر میں دو رکعت اور خوف میں ایک رکعت ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:687) پس جیسے کہ قیام میں اس سے پہلے اور اس کے پیچھے نماز پڑھتے تھے یا پڑھی جاتی تھی اسی طرح سفر میں بھی اور اس روایت میں اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا والی روایت میں جو اوپر گذری کہ حضر میں اللہ تعالیٰ نے دو رکعتیں ہی فرض کی تھیں گویا منافات نہیں اس لیے کہ اصل دو ہی تھیں بعد میں دو اور بڑھا دی گئیں پھر حضر کی چار رکعت ہو گئیں تو اب کہہ سکتے ہیں کہ اقامت کی حالت میں فرض چار رکعتیں ہیں ۔ جیسے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی اس روایت میں ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» 1۔ الغرض یہ دونوں روایتیں اسے ثابت کرتی ہیں کہ سفر میں دو رکعت نماز ہی پوری نماز ہے کم نہیں اور یہی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی روایت سے بھی ثابت ہو چکا ہے ۔ مراد اس میں قصر کمیت ہے جیسے کہ صلوٰۃ خوف میں ہے اسی لیے فرمایا ہے اگر تم ڈرو اس بات سے کہ کافر تمہیں فتنے میں ڈال دیں گے اور اس کے بعد فرمایا جب تو ان میں ہو اور نماز پڑھو تو بھی ۔ پھر قصر کا مقصود صفت اور کیفیت بھی بیان فرما دی امام المحدثین بخاری رحمہ اللہ نے کتاب صلوٰۃ خوف کو اسی آیت «وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْأَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاۃِ إِنْ خِفْتُمْ أَن یَفْتِنَکُمُ الَّذِینَ کَفَرُوا ۚ إِنَّ الْکَافِرِینَ کَانُوا لَکُمْ عَدُوًّا مٰبِینًا» ۱؎ (4-النساء:101) تک لکھ کر شروع کیا ہے ، ضحاک رحمہ اللہ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ یہ لڑائی کے وقت ہے انسان اپنی سواری پر نماز دو تکبیریں پڑھ لے اس کا منہ جس طرف بھی ہو اسی طرف صحیح ہے ۔ سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سفر میں جب تو نے دو رکعت پڑھیں تو وہ قصر کی پوری مقدار ہے ہاں جب کافروں کی فتنہ انگیزی کا خوف ہو تو ایک ہی رکعت قصر ہے اور یہ بجز ایسے خوف کے وقت کے حلال نہیں ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس آیت سے مراد وہ دن ہے جبکہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مع اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عسفان میں تھے اور مشرک ضجنان میں تھے ایک دوسرے سے برسر پیکار بالکل تیار ادھر ظہر کی نماز کا وقت آگیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ حسب معمول چار رکعتیں پوری ادا کیں پھر مشرکین نے سامان و اسباب کو لوٹ لینے کر ارادہ کیا ۔ } ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:5895/3) ابن جریر اسے مجاہد اور سدی رحمہ اللہ علیہما اور سیدنا جابر اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت کرتے ہیں اور اسی کو اختیار کرتے ہیں اور اسی کو کہتے ہیں کہ یہی ٹھیک ہے ۔ سیدنا خالد بن اسید سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے کہتے ہیں صلوٰۃ خوف کے قصر کا حکم تو ہم کتاب اللہ میں پاتے ہیں لیکن صلوٰۃ مسافر کے قصر کا حکم کتاب اللہ میں نہیں ملتا تو { سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما جواب دیتے ہیں ہم نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سفر میں نماز کو قصر کرتے ہوئے پایا اور ہم نے بھی اس پر عمل کیا ۔ } ۱؎ (سنن ابن ماجہ:1066،قال الشیخ الألبانی:صحیح) خیال فرمائیے کہ اس میں قصر کا اطلاق صلوٰۃ خوف پر کیا اور آیت سے مراد بھی صلوٰۃ خوف لی اور صلوٰۃ مسافر کو اس میں شامل نہیں کیا اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بھی اس کا اقرار کیا ۔ اس آیت سے مسافرت کی نماز کا قصر بیان نہیں فرمایا بلکہ اس کے لیے فعل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سند بتایا ۔ اس سے زیادہ صراحت والی روایت ابن جریر کی ہے کہ سماک رحمہ اللہ آپ سے صلوٰۃ پوچھتے ہیں آپ فرماتے ہیں سفر کی نماز دو رکعت ہے اور یہی دو رکعت سفر کی پوری نماز ہے قصر نہیں ، قصر تو صلوۃ خوف میں ہے کہ امام ایک جماعت کو ایک رکعت پڑھاتا ہے دوسری جماعت دشمن کے سامنے ہے پھر یہ چلے گئے وہ آ گئے ایک رکعت امام نے انہیں پڑھائی تو امام کی دو رکعت ہوئیں اور ان دونوں جماعتوں کی ایک ایک رکعت ہوئی ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:10332) النسآء
102 صلوۃ خوف کے مسائل نماز خوف کی کئی قسمیں مختلف صورتیں اور حالتیں ہیں ، کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ دشمن قبلہ کی طرف کبھی دشمن دوسری جانب ہوتا ہے ، نماز بھی کبھی چار رکعت ہوتی ہے کبھی تین رکعت جیسے مغرب اور فجر کی دو صلوٰۃ سفر ، کبھی جماعت سے ادا کرنی ممکن ہوتی ہے کبھی لشکر اس طرح باہم گتھے ہوئے ہوتے ہیں کہ نماز با جماعت ممکن ہی نہیں ہوتی ۔ بلکہ الگ الگ قبلہ کی طرف اور غیر قبلہ کی طرف پیدل اور سوار جس طرح ممکن ہو پڑھی جاتی ہے بلکہ ایسا بھی ہوتا ہے جو جائز بھی ہے کہ دشمنوں کے حملوں سے بچتے بھی جائیں ان پر برابر حملے بھی کرتے جائیں اور نماز بھی ادا کرتے جائیں ، ایسی حالت میں صرف ایک رکعت ہی نماز پڑھی جاتی ہے جس کے جواز میں علماء کا فتویٰ ہے اور دلیل سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث ہے جو اس سے اگلی آیت کی تفسیر میں بیان ہو چکی ہے عطا ، جابر ، حسن ، مجاہد ، حکم ، قتادہ ، حماد ، طاؤس ، ضحاک ، محمد بن نصر ، مروزی ، ابن حزم رحمہ اللہ علیہم اجمعین کا یہی فتویٰ ہے ، صبح کی نماز میں ایک ہی رکعت اس حالت میں رہ جاتی ہے ، اسحٰق راہویہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ایسی دوڑ دھوپ کے وقت ایک ہی رکعت کافی ہے ۔ ارشاد ہے ادا کر لے اگر اس قدر پر بھی قادریہ نہ ہو تو سجدہ کر لے یہ بھی ذکر اللہ ہے ، اور لوگ کہتے ہیں صرف ایک تکبیر ہی کافی ہے لیکن یہ ہو سکتا ہے کہ ایک سجدہ اور ایک تکبیر سے مراد بھی ایک رکعت ہو ۔ جیسے کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب کا فتویٰ ہے اور یہی قول ہے جابر بن عبداللہ ، عبداللہ بن عمر کعب وغیرہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کا ۔ سدی رحمہ اللہ بھی فرماتے ہیں ۔ لیکن جن لوگوں کا قول صرف ایک تکبیر کا ہی بیان ہوا ہے اس کا بیان کرنے والے اسے پوری رکعت پر محمول نہیں کرتے بلکہ صرف تکبیر ہی جو ظاہر ہے مراد لیتے ہیں جیسے کہ اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ کا مذہب ہے ۔ امیر عبدالوہاب بن بخت مکی رحمہ اللہ بھی اسی طرف گئے ہیں وہ یہاں تک کہتے ہیں کہ اگر اس پر بھی قدرت نہ ہو تو اسے اپنے نفس میں بھی نہ چھوڑے یعنی نیت ہی کر لے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ [ لیکن صرف نیت کے کر لینے یا صرف اللہ اکبر کہہ لینے پر اکتفا کرنے یا صرف ایک ہی سجدہ کر لینے کی کوئی دلیل قرآن حدیث سے نظر سے نہیں گذری ۔ واللہ اعلم مترجم ] بعض علماء نے ایسے خاص اوقات میں نماز کو تاخیر کر کے پڑھنے کی رخصت بھی دی ہے ان کی دلیل یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ خندق میں سورج ڈوب جانے کے بعد ظہر عصر کی نماز پڑھی تھی پھر مغرب عشاء ، ۱؎ (سنن ترمذی:179،قال الشیخ الألبانی:حسن) پھر اس کے بعد بنو قریظہ کی جنگ کے دن ان کی طرف جنہیں بھیجا تھا انہیں تاکید کر دی تھی کہ تم میں سے کوئی بھی بنو قریظہ تک پہنچنے سے پہلے عصر کی نماز نہ پڑھے یہ جماعت ابھی راستے میں ہی تھی تو عصر کا وقت آ گیا ۔ بعض نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد اس فرمان سے صرف یہی تھا کہ ہم جلدی بنو قریظہ پہنچیں نہ یہ کہ نماز کا وقت ہو جائے تو بھی نماز نہ پڑھیں چنانچہ ان لوگوں نے تو راستے میں ہی بروقت نماز ادا کرلی اوروں نے بنوقریظہ پہنچ کر نماز پڑھی جبکہ سورج غروب ہو چکا تھا ۔ جب اس بات کا ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا تو آپ نے دونوں جماعتوں میں سے کسی ایک کو بھی ڈانٹ ڈپٹ نہیں کی ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4119) ہم نے اس پر تفصیلی بحث اپنی کتاب السیرۃ میں کی ہے اور اسے ثابت کیا ہے کہ صحیح بات کے قریب وہ جماعت تھی جنہوں نے وقت پر نماز ادا کر لی گو دوسری جماعت بھی معذور تھی ، مقصود یہ ہے کہ اس جماعت نے جہاد کے موقعہ پر دشمنوں پر تاخت کرتے ہوئے ان کے قلعے کی طرف یورش جاری رکھتے ہوئے نماز کو مؤخر کر دیا ، دشمنوں کا یہ گروہ ملعون یہودیوں کا تھا جنہوں نے عہذ توڑ دیا تھا اور صلح کے خلاف کیا تھا ۔ لیکن جمہور کہتے ہیں صلوٰۃ خوف کے نازل ہونے سے یہ سب منسوخ ہو گیا یہ واقعات اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے کے ہیں صلوۃ خوف کے حکم کے بعد اب جہاد کے وقت نماز کو وقت سے ٹالنا جائز نہیں رہا ۔ سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ کی روایت سے بھی یہی ظاہر ہے جسے شافعی رحمہ اللہ نے مروی کیا ہے ، لیکن صحیح بخاری کے باب « الصلوۃ عند منا ھضتہ الحصون» میں ہے کہ اوزاعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اگر فتح کی تیاری ہو اور نماز با جماعت کا امکان نہ ہو تو ہر شخص الگ الگ اپنی اپنی نماز اشارے سے ادا کر لے ۔ اگر یہ بھی نہ ہو سکتا ہو تو نماز میں تاخیر کر لیں یہاں تک کہ جنگ ختم ہو یا امن ہو جائے اس وقت دو رکعتیں پڑھ لیں اور اگر امن نہ ملے تو ایک رکعت ادا کر لیں صرف تکبیر کا کہہ لینا کافی نہیں ۔ ایسا ہو تو نماز کو دیر کر کے پڑھیں جبکہ اطمینان نصیب ہو جائے مکحول رحمہ اللہ کا فرمان بھی یہی ہے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تستر کے قلعہ کے محاصرے میں میں موجود تھا صبح صادق کے وقت دست بدست جنگ شروع ہوئی اور سخت گھمسان کا رن پڑا ہم لوگ نماز نہ پڑھ سکے اور برابر جہاد میں مشغول رہے جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں قلعہ پر قابض کر دیا اس وقت ہم نے دن چڑھے نماز پڑھی ۔ اس جنگ میں ہمارے امام سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ تھے سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس نماز کے متبادل ساری دنیا کی تمام چیزیں بھی مجھے خوش نہیں کر سکتیں ۔ امام بخاری رحمہ اللہ اس کے بعد جنگ خندق میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نمازوں کو تاخیر کرنے کا ذکر کرتے ہیں پھر بنو قریظہ والا واقعہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ تم بنو قریظہ پہنچنے سے پہلے عصر کی نماز نہ پڑھنا وارد کرتے ہیں گویا امام ہمام امام بخاری رحمہ اللہ اسی سے اتفاق کرتے ہیں کہ ایسی اشد لڑائی اور پورے خطرے اور قرب فتح کے موقع پر اگر نماز مؤخر ہو جائے تو کوئی حرج نہیں ۔ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ والا فتح تستر کا واقعہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے زمانے کا ہے اور یہ منقول نہیں کہ خلیفۃ المسلمین نے یا کسی اور صحابی رضی اللہ عنہ نے اس پر اعتراض کیا ہو اور یہ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ خندق کے موقع پر بھی صلوٰۃ خوف کی آیتیں موجود تھیں اس لیے کہ یہ آیتیں غزوہ ذات الرقاع میں نازل ہوئی ہیں اور یہ غزوہ غزوہ خندق سے پہلے کا ہے اور اس پر جمہور علماء سیر و مغازی کا اتفاق ہے ، محمد بن اسحٰق ، موسیٰ بن عقبہ واقدی ، محمد بن سعد ، کاتب واقدی اور خطیفہ بن خیاط رحمہ اللہ علیہم وغیرہ بھی اسی کے قائل ہیں ، ۔ ہاں امام بخاری رحمہ اللہ وغیرہ کا قول ہے کہ غزوہ ذات الرقاع خندق کے بعد ہوا تھا بہ سبب بحوالہ حدیث سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کے اور یہ خود خیبر میں ہی آئے تھے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ، لیکن سب سے زیادہ تعجب تو اس امر پر ہے کہ قاضی ابو یوسف مزنی ابراہیم بن اسمٰعیل بن علیہ رحمہ اللہ علیہم کہتے ہیں کہ صلوۃ خوف منسوخ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوہ خندق میں میں دیر کر کے نماز پڑھنے سے ۔ یہ قول بالکل ہی غریب ہے اس لیے کہ غزوہ خندق کے بعد کی صلوۃ خوف کی حدیثیں ثابت ہیں ، اس دن کی نماز کی تاخیر کو مکحول اور اوزاعی رحمہ اللہ علیہما کے قول پر ہی محمول کرنا زیادہ قوی اور زیادہ درست ہے یعنی ان کا وہ قول جو بحوالہ بخاری بیان ہوا کہ قرب فتح اور عدم امکان صلوۃ خوف کے باوجود تاخیر جائز ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ آیت میں حکم ہوتا ہے کہ جب تو انہیں باجماعت نماز پڑھائے ۔ یہ حالت پہلی کے سوا ہے اس وقت یعنی انتہائی خوف کے وقت تو ایک ہی رکعت جائز ہے اور وہ بھی الگ ، الگ ، پیدل سوار قبلہ کی طرف منہ کر کے یا نہ کر کے ، جس طرح ممکن ہو ، جیسے کہ حدیث گذر چکی ہے ۔ یہ امامت اور جماعت کا حال بیان ہو رہا ہے جماعت کے واجب ہونے پر یہ آیت بہترین اور مضبوط دلیل ہے کہ جماعت کی وجہ سے بہت کمی کر دی گئی ۔ اگر جماعت واجب نہ ہوتی تو صرف ایک رکعت جائز نہ کی جاتی ۔ بعض نے اس سے ایک اور استدلال بھی کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ اس میں چونکہ یہ لفظ ہیں کہ جب تو ان میں ہو اور یہ خطاب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے تو معلوم ہوا کہ صلوۃ خوف کا حکم آپ کے بعد منسوخ ہے ، یہ استدلال بالکل ضعیف ہے ۔ یہ استدلال تو ایسا ہی ہے جیسا استدلال ان لوگوں کا تھا جو زکوٰۃ کو خلفائے راشدین سے روک بیٹھے تھے اور کہتے تھے کہ قرآن میں ہے« خُذْ مِنْ أَمْوَالِہِمْ صَدَقَۃً تُطَہِّرُہُمْ وَتُزَکِّیہِم بِہَا وَصَلِّ عَلَیْہِمْ ۖ إِنَّ صَلَاتَکَ سَکَنٌ لَّہُمْ ۗ وَ اللہُ سَمِیعٌ عَلِیمٌ » ۱؎ (9-التوبۃ:103) یعنی ’ تو ان کے مالوں سے زکوٰۃ لے جس سے تو انہیں پاک صاف کرے اور تو ان کے لیے رحمت کی دعا کر تیری دعا ان کے لیے باعث تسکین ہے ‘ ۔ تو ہم آپ کے بعد کسی کو زکوٰۃ نہ دیں گے بلکہ ہم آپ اپنے ہاتھ سے خود جسے چاہیں دیں گے اور صرف اسی کو دیں گے جس کو دعا ہمارے لیے سبب سکون بنے ۔ لیکن یہ استدلال ان کا بے معنی تھا اسی لیے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے اسے رد کر دیا اور انہیں مجبور کیا کہ یہ زکوٰۃ ادا کریں بلکہ ان میں سے جن لوگوں نے اسے روک لیا تھا ان سے جنگ کی ۔ آئیے ہم آیت کی صفت بیان کرنے سے پہلے اس کا شان نزول بیان کر دیں ۔ ابن جریر میں ہے کہ بنو نجار کی ایک قوم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ ہم برابر اِدھر اُدھر آمد و رفت کیا کرتے ہیں ، ہم نماز کس طرح پڑھیں تو اللہ عزوجل نے اپنا یہ قول نازل فرمایا« وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْأَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاۃِ » ۱؎ (4-النساء:101) اس کے بعد سال بھر تک کوئی حکم نہ آیا پھر جبکہ آپ ایک غزوے میں ظہر کی نماز کے لیے کھڑے ہوئے تو مشرکین کہنے لگے افسوس کیا ہی اچھا موقعہ ہاتھ سے جاتا رہا کاش کہ نماز کی حالت میں ہم یکبارگی ان پر حملہ کر دیتے ۔ اس پر بعض مشرکین نے کہا یہ موقعہ تو تمہیں پھر بھی ملے گا اس کے تھوڑی دیر بعد ہی یہ دوسری نماز ( یعنی نماز عصر ) کے لیے کھڑے ہوں گے ، لیکن اللہ تعالیٰ نے عصر کی نماز سے پہلے اور ظہر کی نماز کے بعد«إِنْ خِفْتُمْ أَن یَفْتِنَکُمُ الَّذِینَ کَفَرُوا ۚ إِنَّ الْکَافِرِینَ کَانُوا لَکُمْ عَدُوًّا مٰبِینًا » ۱؎ (4-النساء:101) والی پوری دو آیتوں تک نازل فرما دیں اور کافر ناکام رہے خود اللہ تعالیٰ و قدوس نے صلوۃ خوف کی تعلیم دی ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:10319:ضعیف) گویہ سیاق نہایت ہی غریب ہے لیکن اسے مضبوط کرنے والی اور روایتیں بھی ہیں ۔ سیدنا ابوعیاش زرقی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں عسفان میں ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اس وقت اسلام نہیں لائے تھے اور مشرکین کے لشکر کے سردار تھے یہ لوگ ہمارے سامنے پڑاؤ ڈالے تھے تب ہم نے قبلہ رخ ، ظہر کی نماز جب ہم نے ادا کی تو مشرکوں کے منہ میں پانی بھر آیا اور وہ کہنے لگے افسوس ہم نے موقعہ ہاتھ سے کھو دیا وقت تھا کہ یہ نماز میں مشغول تھے اِدھر ہم ان پر دفعتاً دھاوا بول دیتے پھر ان میں کے بعض جاننے والوں نے کہا خیر کوئی بات نہیں اس کے بعد ان کی ایک اور نماز کا وقت آ رہا ہے اور وہ نماز تو انہیں اپنے بال بچوں سے بلکہ اپنی جانوں سے بھی زیاہ عزیز ہے اس وقت سہی ۔ پس ظہر عصر کے درمیان اللہ عزوجل نے جبرائیل علیہ السلام کو نازل فرمایا اور «وَإِذَا کُنتَ فِیہِمْ فَأَقَمْتَ لَہُمُ الصَّلَاۃَ» ۱؎ (4-النساء:102) اتاری ۔ چنانچہ عصر کی نماز کے وقت ہمیں رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہم نے ہتھیار سجا لیے اور اپنی دو صفوں میں سے پہلی صف آپ کے ساتھ سجدے میں گئی اور دوسری صف کھڑی کی کھڑی ان کی نگہبانی کرتی رہی جب سجدوں سے فارغ ہو کر یہ لوگ کھڑے ہو گئے تو اب دوسری صف والے سجدے میں گئے جب یہ دونوں سجدے کر چلے تو اب پہلی صف والے دوسری صف کی جگہ چلے گئے اور دوسری صف والے پہلی صف والوں کی جگہ آ گئے ، پھر قیام رکوع اور قومہ سب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی ساتھ ادا کیا اور جب آپ سجدے میں گئے تو صف اول آپ کے ساتھ سجدے میں گئی اور دوسری صف والے کھڑے ہوئے پہرہ دیتے رہے جب یہ سجدوں سے فارغ ہو گئے اور التحیات میں بیٹھے تب دوسری صف کے لوگوں نے سجدے کئے اور التحیات میں سب کے سب ساتھ مل گئے اور سلام بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سب نے ایک ساتھ پھیرا ۔ صلوٰۃ خوف ایک بار تو آپ نے یہاں عسفان میں پڑھی اور دوسری مرتبہ بنو سلیم کی زمین میں ۔ یہ حدیث مسند احمد ابوداؤد اور نسائی میں بھی ہے ۔ ۱؎ () (مسند احمد:59/4،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اس کی اسناد صحیح ہے اور شاہد بھی بکثرت ہیں بخاری میں بھی یہ روایت اختصار کے ساتھ ہے اور اس میں ہے باوجود یکہ سب لوگ نماز میں تھے لیکن ایک دوسرے کی چوکیداری کر رہے تھے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:944) ابن جریر میں ہے کہ سیدنا سلیمان بن قیس یشکری رضی اللہ عنہ نے سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا نماز کے قصر کرنے کا حکم کب نازل ہوا ؟ تو آپ نے فرمایا { قریشیوں کا ایک قافلہ شام سے آ رہا تھا ہم اس کی طرف چلے ۔ وادی نخل میں پہنچے تو ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہچ گیا اور کہنے لگا کیا آپ مجھ سے ڈرتے نہیں ؟ آپ نے فرمایا نہیں اس نے کہا آپ کو مجھ سے اس وقت کون بچا سکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا اللہ مجھے تجھ سے بچا لے گا پھر تلوار کھینچ لی اور ڈرایا دھمکایا ، پھر کوچ کی منادی ہوئی اور آپ ہتھیار سجا کر چلے ۔ پھر اذان ہوئی اور صحابہ دو حصوں میں تقسیم ہو گئے ایک حصہ آپ کے ساتھ نماز ادا کر رہا تھا اور دوسرا حصہ پہرہ دے رہا تھا جو آپ کے متصل تھے وہ دو رکعت آپ کے ساتھ پڑھ کر پیچھے والوں کی جگہ چلے گئے اور پیچھے والے اب آگے بڑھ آئے اور ان اگلوں کی جگہ کھڑے ہو گئے انہیں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت پڑھائیں پھر سلام پھیر دیا پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی چار رکعت ہوئیں اور سب کی دو دو ہوئیں } اور اللہ تعالیٰ نے نماز کی کمی کا اور ہتھیار لیے رہنے کا حکم نازل فرمایا ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:10330) مسند احمد میں ہے کہ { جو شخص تلوار تانے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ آور ہوا تھا یہ دشمن کے قبیلے میں سے تھا اس کا نام غورث بن حارث تھا جب آپ نے اللہ کا نام لیا تو اس کے ہاتھ سے تلوار چھوٹ گئی آپ نے تلوار اپنے ہاتھ میں لے لی اور اس سے کہا اب تو بتا کہ تجھے کون بچائے گا تو وہ معافی مانگنے لگا کہ مجھ پر آپ رحم کیجئے ۔ آپ نے فرمایا کیا تو اللہ کے ایک ہونے کی اور میرے رسول ہونے کی شہادت دیتا ہے ؟ اس نے کہا یہ تو نہیں ہاں میں اقرار کرتا ہوں کہ آپ سے لڑوں گا نہیں اور ان لوگوں کا ساتھ نہ دوں گا جو آپ سے برسر پیکار ہوں آپ نے اسے معافی دی ۔ } جب یہ اپنے قبیلے والوں میں آیا تو کہنے لگا روئے زمین پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہتر کوئی شخص نہیں ۔ ۱؎ (مسند احمد:390/3:صحیح) اور روایت میں ہے کہ یزید فقیر نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ سفر میں جو دو رکعت ہیں کیا یہ قصر کہلاتی ہیں ؟ آپ نے فرمایا یہ پوری نماز ہے قصر تو بوقت جہاد ایک رکعت ہے پھر صلوۃ خوف کا اسی طرح ذکر کیا اس میں یہ بھی ہے کہ آپ کے سلام کے ساتھ آپ کے پیچھے والوں نے اور ان لوگوں نے سلام پھیرا اور اس میں دونوں حصہ فوج کے ساتھ ایک ایک رکعت پڑھنے کا بیان ہے پس سب کی ایک ایک رکعت ہے پھر صلوۃ خوف کا اسی طرح ذکر کیا اس میں یہ بھی ہے کہ آپ کے سلام کے ساتھ آپ کے پیچھے والوں نے ان لوگوں نے سلام پھیرا اور اس میں دونوں حصہ فوج کے ساتھ ایک ایک رکعت پڑھنے کا بیان ہے پس سب کی ایک ایک رکعت ہوئی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دو رکعتیں ۔ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:5898/4:حسن) اور روایت میں ہے کہ ایک جماعت آپ کے پیچھے صف بستہ نماز میں تھی اور ایک جماعت دشمن کے مقابل تھی پھر ایک رکعت کے بعد آپ کے پیچھے والے اگلوں کی جگہ آ گئے اور پہ پیچھے آ گئے ۔ یہ حدیث بہت سی کتابوں میں بہت سی سندوں کے ساتھ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ۔ ۱؎ (مسند احمد:298/3:صحیح) ایک اور حدیث جو بروایت سالم عن ابیہ مروی ہے اس میں یہ بھی ہے کہ پھر کھڑے ہو کر صحابہ رضی اللہ عنہم نے ایک ایک رکعت اپنی اپنی ادا کر لی ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4133) اس حدیث کی بھی بہت سی سندیں اور بہت سے الفاظ ہیں حافظ ابوبکر بن مردویہ رحمہ اللہ نے ان سب کو جمع کر دیا ، اور اسی طرح ابن جریر رحمہ اللہ نے بھی ، ہم اسے کتاب احکام کبیر میں لکھنا چاہتے ہیں ان شاءاللہ ۔ خوف کی نماز میں ہتھیار لیے رہنے کا حکم بعض کے نزدیک توبطور وجوب کے ہے کیونکہ آیت کے ظاہری الفاظ ہیں امام شافعی رحمہ اللہ کا بھی یہی قول ہے اور اسی کی تائید اس آیت کے پچھلے فقرے سے بھی ہوتی ہے کہ بارش یا بیماری کی وجہ سے ہتھیار اتار رکھنے میں تم پر گناہ نہیں اپنا بچاؤ ساتھ لیے رہو ، یعنی ایسے تیار رہو کہ وقت آتے ہی بے تکلف وبے تکلیف ہتھیار سے آراستہ ہو جاؤ ۔ اللہ نے کافروں کے لیے اہانت والا عذاب تیار کر رکھا ہے ۔ النسآء
103 صلوٰۃ خوف کے بعد کثرت ذکر اللہ تعالیٰ اس آیت میں حکم دیتا ہے کہ نماز خوف کے بعد اللہ کا ذکر بکثرت کیا کرو ، گو ذکر اللہ کا حکم اور اس کی ترغیب وتاکید اور نمازوں کے بعد بلکہ ہر وقت ہی ہے ، لیکن یہاں خصوصیت سے اس لیے بیان فرمایا کہ یہاں بہت بڑی رخصت عنایت فرمائی ہے نماز میں تخفیف کر دی ، پھر حالت نماز میں اِدھر اُدھر ہٹنا جانا اور آنا مصلحت کے مطابق جائز رکھا ، جیسے حرمت والے مہینوں کے متعلق فرمایا«فَلَا تَظْلِمُوا فِیہِنَّ أَنفُسَکُمْ» ۱؎ (9-التوبۃ:36) ’ ان میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو ‘ جب کہ اور اوقات میں بھی ظلم ممنوع ہے لیکن ان کے مہینوں میں اس سے بچاؤ کی مزید تاکید کی ہے ۔ تو فرمان ہوتا ہے کہ اپنی ہر حالت میں اللہ عزوجل کا ذکر کرتے رہو ، اور جب اطمینان حاصل ہو جائے ڈر خوف نہ رہے تو باقاعدہ خشوع خضوع سے ارکان نماز کو پابندی کے مطابق شرع بجا لاؤ ، نماز پڑھنا وقت مقررہ پر منجانب اللہ فرض عین ہے ، جس طرح حج کا وقت معین ہے اسی طرح نماز کا وقت بھی مقرر ہے ، ایک وقت کے بعد دوسرا پھر دوسرے کے بعد تیسرا ۔ پھر فرماتا ہے دشمنوں کی تلاش میں کم ہمتی نہ کرو چستی اور چالاکی سے گھات کی جگہ بیٹھ کر ان کی خبر لو ، اگر قتل و زخم ونقصان تمہیں پہنچتا ہے تو کیا انہیں نہیں پہنچتا ؟ اسی مضمون کو ان الفاظ میں بھی ادا کیا گیا ہے« إِن یَمْسَسْکُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُہُ» ۱؎ (3-آل عمران:140) پس مصیبت اور تکلیف کے پہنچنے میں تم اور وہ برابر ہیں ، لیکن بہت بڑا فرق یہ ہے کہ تمہیں ذات عزاسمہ سے وہ اُمیدیں اور وہ آسرے ہیں جو انہیں نہیں ، تمہیں اجر و ثواب بھی ملے گا تمہاری نصرت و تائید بھی ہو گی ، جیسے کہ خود باری تعالیٰ نے خبر دی ہے اور وعدہ کیا ، نہ اس کی خبر جھوٹی نہ اس کے وعدے ٹلنے والے ۔ پس تمہیں بہ نسبت ان کے بہت تگ و دو چاہیئے تمہارے دلوں میں جہاد کا ولولہ ہونا چاہیئے ، تمہیں اس کی رغبت کامل ہونی چاہیئے ، تمہارے دلوں میں اللہ کے کلمے کو مستحکم کرنے توانا کرنے پھیلانے اور بلند کرنے کی تڑپ ہر وقت موجود رہنی چاہیئے اللہ تعالیٰ جو کچھ مقرر کرتا ہے جو فیصلہ کرتا ہے جو جاری کرتا ہے جو شرع مقرر کرتا ہے جو کام کرتا ہے سب میں پوری خبر کا مالک صحیح اور سچے علم والا ساتھ ہی حکمت والا بھی ہے ، ہر حال میں ہر وقت سزاوار تعریف و حمد وہی ہے ۔ النسآء
104 النسآء
105 حقیقت چھپ نہیں سکتی اللہ تعالیٰ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ یہ قرآن کریم جو آپ پر اللہ نے اتارا ہے وہ مکمل طور پر اور ابتداء تا انتہا حق ہے ، اس کی خبریں بھی حق اس کے فرمان بھی برحق ۔ پھر فرماتا ہے تاکہ تم لوگوں کے درمیان وہ انصاف کرو جو اللہ تعالیٰ تمہیں سمجھائے ۔ بعض علمائے اصول نے اس سے استدلال کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اجتہاد سے حکم کرنے کا اختیار دیا گیا تھا ، اس کی دلیل بخاری مسلم کی حدیث بھی ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دروازے پر دو جھگڑنے والوں کی آواز سنی تو آپ باہر آئے اور فرمانے لگے میں ایک انسان ہوں جو سنتا ہوں اس کے مطابق فیصلہ کرتا ہوں بہت ممکن ہے کہ یہ ایک شخص زیادہ حجت باز اور چرب زبان ہو اور میں اس کی باتوں کو صحیح جان کر اس کے حق میں فیصلہ دے دوں اور جس کے حق میں فیصلہ کر دوں فی الواقع وہ حقدار نہ ہو تو وہ سمجھ لے کہ وہ اس کے لیے جہنم کا ٹکڑا ہے اب اسے اختیار ہے کہ لے لے یا چھوڑ دے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:2680) مسند احمد میں ہے کہ { دو انصاری ایک ورثے کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنا قضیہ لائے واقعہ کو زمانہ گذر چکا تھا دونوں کے پاس گواہ کوئی نہ تھا تو اس وقت آپ نے وہی حدیث بیان فرمائی اور فرمایا کہ میرے فیصلے کی بنا پر اپنے بھائی کا حق نہ لے لے اگر ایسا کرے گا تو قیامت کے دن اپنی گردن میں جہنم کی آگ لٹکا کر آئے گا اب تو وہ دونوں بزرگ رونے لگے اور ہر ایک کہنے لگا میں اپنا حق بھی اپنے بھائی کو دے رہا ہوں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب تم جاؤ اپنے طور پر جہاں تک تم سے ہو سکے ٹھیک ٹھیک حصے تقسیم کرو پھر قرعہ ڈال کر حصہ لے لو اور ہر ایک دوسرے کو اپنا رہا سہا غلطی کا حق معاف کر دو ۔ } ابوداؤد میں بھی یہ حدیث ہے اور اس میں یہ الفاظ ہیں کہ { میں تمہارے درمیان اپنی سمجھ سے ان امور میں فیصلہ کرتا ہوں جن میں کوئی وحی مجھ پر نازل شدہ نہیں ہوتی ۔ } ۱؎ (مسند احمد:308/6،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابن مردویہ میں ہے کہ { انصار کا ایک گروہ ایک جہاد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا وہاں ایک شخض کی ایک چادر کسی نے چرالی اور اس چوری کا گمان طعمہ بن ابیرق کی طرف تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ قصہ پیش ہوا ۔ چور نے اس چادر کو ایک شخص کے گھر میں اس کی بے خبری میں ڈال دیا اور اپنے کنبہ قبیلے والوں سے کہا میں نے چادر فلاں کے گھر میں ڈال دی ہے تم رات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ اور آپ سے ذکر کرو کہ ہمارا ساتھی تو چور نہیں چور فلاں ہے اور ہم نے پتہ لگا لیا ہے کہ چادر بھی اس کے گھر میں موجود ہے اس طرح آپ ہمارے ساتھی کی تمام لوگوں کی روبرو بریت کر دیجئے اور اس کی حمایت کیجئے ورنہ ڈر ہے کہ کہیں وہ ہلاک نہ ہو جائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا ۔ } اس پر یہ آیتیں اتری اور جو لوگ اپنے جھوٹ کو پوشیدہ کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تھے ان کے بارے میں «یَسْتَخْفُونَ مِنَ النَّاسِ وَلَا یَسْتَخْفُونَ مِنَ اللہِ وَہُوَ مَعَہُمْ إِذْ یُبَیِّتُونَ مَا لَا یَرْضَیٰ مِنَ الْقَوْلِ ۚ وَکَانَ اللہُ بِمَا یَعْمَلُونَ مُحِیطًا » ۱؎ (4-النساء:108) سے دو آیتیں نازل ہوئیں ۔ پھر اللہ عزوجل نے فرمایا جو برائی اور بدی کا کام کرے اس سے مراد بھی یہی لوگ ہیں اور چور کے اور اس کے حمایتوں کے بارے میں اترا کہ جو گناہ اور خطا کرے اور ناکردہ گناہ کے ذمہ الزام لگائے وہ بہتان باز اور کھلا گنہگار ہے ، لیکن یہ سیاق غریب ہے بعض بزرگوں سے مروی ہے کہ یہ آیت بنوابیرق کے چور کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:10413/9:ضعیف) النسآء
106 النسآء
107 النسآء
108 . یہ قصہ مطلول ترمذی کتاب التفسیر میں بزبانی قتادہ رحمہ اللہ اس طرح مروی ہے کہ ہمارے گھرانے کے بنوابیرق قبیلے کا ایک گھر تھا جس میں بشر ، بشیر اور مبشر تھے ، بشیر ایک منافق شخص تھا اشعار کو کسی اور کی طرف منسوب کر کے خوب مزے لے لے کر پڑھا کرتا تھا ۔ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم جاتنے تھے کہ یہی خبیث ان اشعار کا کہنے والا ہے ، یہ لوگ جاہلیت کے زمانے سے ہی فاقہ مست چلے آتھے مدینے کے لوگوں کا اکثر کھانا جو اور کھجوریں تھیں ، ہاں تونگر لوگ شام کے آئے ہوئے قافلے والوں سے میدہ خرید لیتے جسے وہ خود اپنے لیے مخصوص کر لیتے ، باقی گھر والے عموماً جو اور کھجوریں ہی کھاتے ۔ میرے چچا رفاعہ یزید نے بھی شام کے آئے ہوئے قافلے سے ایک بورا میدہ کا خریدا اور اپنے بالاخانے میں اسے محفوظ کر دیا جہاں ہتھیار زرہیں تلواریں وغیرہ بھی رکھی ہوئی تھیں رات کو چوروں نے نیچے سے نقب لگا کر اناج بھی نکال لیا اور ہتھیار بھی چرالے گئے ۔ صبح میرے چچا میرے پاس آئے اور سارا واقعہ بیان کیا ، اب ہم تجسس کرنے لگے تو پتہ چلا کہ آج رات کو بنو ابیرق کے گھر میں آگ جل رہی تھی اور کچھ کھا پکار رہے تھے غالباً وہ تمہارے ہاں سے چوری کر گئے ہیں ، اس سے پہلے جب اپنے گھرانے والوں سے پوچھ گچھ کر رہے تھے تو اس قبیلے کے لوگوں نے ہم سے کہا تھا کہ تمہارا چور سیدنا لبید بن سہل رضی اللہ عنہ ہے ، ہم جانتے تھے کہ سیدنا لبید رضی اللہ عنہ کا یہ کام نہیں وہ ایک دیانتدار سچا مسلمان شخص تھا ۔ سیدنا لبید رضی اللہ عنہ کو جب یہ خبر ملی تو وہ آپے سے باہر ہو گئے تلوار تانے بنوابیرق کے پاس آئے اور کہنے لگے یا تو تم میری چوری ثابت کر ورنہ میں تمہیں قتل کر دونگا ان لوگوں نے ان کی برات کی اور معافی چاہ لی وہ چلے گئے ۔ ہم سب کے سب پوری تحقیقات کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ چوری بنوابیرق نے کی ہے ، میرے چچا نے مجھے کہا کہ تم جا کر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر تو دو ، میں نے جا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سارا واقعہ بیان کیا اور یہ بھی کہا کہ آپ ہمیں ہمارے ہتھیار دلوا دیجئیے غلہ کی واپسی کی ضرورت نہیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اطمینان دلایا کہ اچھا میں اس کی تحقیق کروں گا ۔ یہ خبر جب بنوابیرق کو ہوئی تو انہوں نے اپنا ایک آدمی آپ کے پاس بھیجا جن کا نام اسیر بن عمرو تھا انہوں نے آ کر کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ تو ظلم ہو رہا ہے ، بنوابیرق تو صلاحیت اور اسلام والے لوگ ہیں انہیں قتادہ بن نعمان اور ان کے چچا چور کہتے ہیں اور بغیر کسی ثوب اور دلیل کے چور کا بدنما الزام ان پر رکھتے ہیں وغیرہ ۔ پھر جب میں خدمت نبوی میں پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا یہ تو تم بہت برا کرتے ہو کہ دیندار اور بھلے لوگوں کے ذمے چوری چپکاتے ہو جب کہ تمہارے پاس اس کا کوئی ثبوت نہیں ، میں چپ چاپ واپس چلا آیا اور دل میں سخت پشیمان اور پریشان تھا خیال آتا تھا کہ کاش کہ میں اس مال سے چپ چاپ دست بردار ہو جاتا اور آپ سے اس کا ذکر ہی نہ کرتا تو اچھا تھا ۔ اتنے میں میرے چچا آئے اور مجھ سے پوچھا تم نے کیا کیا ؟ میں نے سارا واقعہ ان سے بیان کیا جسے سن کر انہوں نے کہا «واَللہُ اْلمـُسـَتعَانُ» اللہ ہی سے ہم مدد چاہتے ہیں ، ان کا جانا تھا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی میں یہ آیتیں اتریں پس«خائنین» سے مراد بنو ابیرق ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو استغفار کا حکم ہوا یہ یہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا قتادہ رضی اللہ عنہ کو فرمایا تھا ، پھر ساتھ ہی فرما دیا گیا کہ اگر یہ لوگ استفغار کریں تو اللہ انہیں بخش دے گا ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3036،قال الشیخ الألبانی:حسن) پھر فرمایا ناکردہ گناہ کے ذمہ گناہ تھوپنا بدترین جرم ہے ، «أَجْرًا عَظِیمًا» تک یعنی انہوں نے جو سیدنا لبید رضی اللہ عنہ کی نسبت کہا کہ چور یہ ہیں جب یہ آیتیں اتریں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنوابیرق سے ہمارے ہتھیار دلوائے میں انہیں لے کر اپنے چچا کے پاس آیا یہ بیچارے بوڑھے تھے آنکھوں سے بھی کم نظر آتا تھا مجھ سے فرمانے لگے بیٹا جاؤ یہ سب ہتھیار اللہ کے نام خیرات کر دو ، میں آج تک اپنے چچا کی نسبت قدرے بدگمان تھا کہ یہ دل سے اسلام میں پورے طور پر داخل نہیں ہوئے لیکن اس واقعہ نے بدگمانی میرے دل سے دور کر دی اور میں ان کے سچے اسلام کا قائل ہو گیا ۔ بشیر یہ آیتیں سن کر مشرکین میں جا ملا اور سلافہ بنت سعد بن سمیہ کے ہاں جا کر اپنا قیام کیا ، اس کے بارے میں اس کے بعد کی آیتیں« وَمَن یُشَاقِقِ الرَّسُولَ» ۱؎ (4-النساء:115) سے «ضَلَالًا بَعِیدًا » ۱؎ (4-النساء:116) تک نازل ہوئیں اور سیدنا حسان رضی اللہ عنہ نے اس کے اس فعل کی مذمت اور اس کی ہجو اپنے شعروں میں کی ، ان اشعار کو سن کر ایک کی عورت کو بڑی غیرت آئی اور بشیر کا سب اسباب اپنے سر پر رکھ کر ابطح میدان میں پھینک آئی اور کہا تو کوئی بھلائی لے کر میرے پاس نہیں آیا بلکہ حسان کی ہجو کے اشعار لے کر آیا ہے میں تجھے اپنے ہاں نہیں ٹھہراؤں گی ۔ یہ روایت بہت سی کتابوں میں بہت سی سندوں سے مطول اور مختصر مروی ہے ۔ ان منافقوں کی کم عقلی کا بیان ہو رہا ہے کہ وہ جو اپنی سیاہ کاریوں کو لوگوں سے چھپاتے ہیں بھلا ان سے کیا نتیجہ ؟ اللہ تعالیٰ سے تو پوشیدہ نہیں رکھ سکتے ، پھر انہیں خبردار کیا جا رہا ہے کہ تمہارے پوشیدہ راز بھی اللہ سے چھپ نہیں سکتے ، ۔ پھر فرماتا ہے مانا کہ دنیوی حاکموں کے ہاں جو ظاہر داری پر فیصلے کرتے ہیں تم نے غلبہ حاصل کر لیا ، لیکن قیامت کے دن اللہ کے سامنے جو ظاہر وباطن کا عالم ہے تم کیا کر سکو گے ؟ وہاں کسے وکیل بنا کر پیش کرو گے جو تمہارے جھوٹے دعوے کی تائید کرے ، مطلب یہ ہے کہ اس دن تمہاری کچھ نہیں چلے گی ۔ النسآء
109 النسآء
110 سچی توبہ کبھی مسترد نہیں ہوتی اللہ تعالیٰ اپنا کرم اور اپنی مہربانی کو بیان فرماتا ہے کہ جس گناہ سے جو کوئی توبہ کرے اللہ اس کی طرف مہربانی سے رجوع کرتا ہے ، ہر وہ شخص جو رب کی طرف جھکے رب اپنی مہربانی سے اور اپنی وسعت رحمت سے اسے ڈھانپ لیتا ہے اور اس کے صغیرہ کبیرہ گناہ کو بخشش دیتا ہے ، چاہے وہ گناہ آسمان و زمین اور پہاڑوں سے بھی بڑے ہوں ، بنو اسرائیل میں جب کوئی گناہ کرتا تو اس کے دروازے پر قدرتی حروف میں کفارہ لکھا ہوا نظر آ جاتا تھا جو اسے ادا کرنا پڑتا اور انہیں یہ بھی حکم تھا کہ ان کے کپڑے پر اگر پیشاب لگ جائے تو اتنا کپڑا کتروا ڈالیں اللہ نے اس امت پر آسانی کر دی پانی سے دھو لینا ہی کپڑے کی پاکی رکھی اور توبہ کر لیناہی گناہ کی معافی ۔ ایک عورت نے سیدنا عبداللہ بن مفضل رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ عورت نے بدکاری کی پھر جب بچہ ہوا تو اسے مار ڈالا آپ نے فرمایا اس کی سزا جہنم ہے وہ روتی ہوئی واپس چلی تو آپ نے اسے بلایا اور «وَمَن یَعْمَلْ سُوءًا أَوْ یَظْلِمْ نَفْسَہُ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللہَ یَجِدِ اللہَ غَفُورًا رَّحِیمًا» ۱؎ (4-النساء:110) پڑھ کر سنائی تو اس نے اپنے آنسو پونچھ ڈالے اور واپس لوٹ گئی . { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جس مسلمان سے کوئی گناہ سرزد ہو جائے پھر وہ وضو کر کے دو رکعت نماز ادا کر کے اللہ سے استغفار کرے تو اللہ اس کے اس گناہ کو بخش دیتا ہے پھر آپ نے یہ آیت اور«وَالَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً اَوْ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ ذَکَرُوا اللّٰہَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِھِمْ ۠ وَ مَنْ یَّغْفِرُ الذٰنُوْبَ اِلَّا اللّٰہُ ڞ وَلَمْ یُصِرٰوْا عَلٰی مَا فَعَلُوْا وَھُمْ یَعْلَمُوْنَ» ۱؎ (3-آل عمران:135) کی تلاوت کی ۔ ‘ اس حدیث کا پورا بیان ہم نے مسند سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ میں کر دیا ہے اور کچھ بیان سورۃ آل عمران کی تفسیر میں بھی گذرا ہے ۔ سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک تھی کہ مجلس میں سے اُٹھ کر اپنے کسی کام کے لیے کبھی جاتے اور واپس تشریف لانے کا ارادہ بھی ہوتا جوتی یا کپڑا کچھ نہ کچھ چھوڑ جاتے ، ایک مرتبہ آپ اپنی جوتی چھوڑے ہوئے اُٹھے ڈولچی پانی کی ساتھ لے چلے میں بھی آپ کے پیچھے ہو لیا آپ کچھ دور جا کر بغیر حاجت پوری کئے واپس آئے اور فرمانے لگے ۔ میرے پاس میرے رب کی طرف سے ایک آنے والا آیا اور مجھے یہ پیغام دے گیا ، پھر آپ نے «وَمَن یَعْمَلْ سُوءًا أَوْ یَظْلِمْ نَفْسَہُ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللہَ یَجِدِ اللہَ غَفُورًا رَّحِیمًا» ۱؎ (4-النساء:110) پڑھی اور فرمایا میں اپنے صحابہ کو یہ خوشخبری سنانے کے لیے راستے میں ہی لوٹ آیا ہوں ۔} اس سے پہلے چونکہ «وَمَن یَعْمَلْ سُوءًا أَوْ یَظْلِمْ نَفْسَہُ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللہَ یَجِدِ اللہَ غَفُورًا رَّحِیمًا» ۱؎ (4-النساء:110) یعنی ہر برائی کرنے والے کو اس کی برائی کا بدلہ ملے گا اتر چکی تھی اس لیے صحابہ رضی اللہ عنہم بہت پریشان تھے . { میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی نے زنا کیا ہو ؟ چوری کی ہو ؟ پھر وہ استفغار کرے تو اسے بھی اللہ بخش دے گا ؟ آپ نے فرمایا ہاں ، میں نے دوبارہ پوچھا آپ نے کہا ہاں میں نے سہ بارہ دریافت کیا تو آپ نے فرمایا ہاں گو ابودراداء کی ناک خاک آلود ہو . } پس ابودرداء جب یہ حدیث بیان کرتے اپنی ناک پر مار کر بتاتے ۔ اس کی اسناد ضعیف ہے اور یہ حدیث غریب ہے ۔ پھر فرمایا گناہ کرنے والا اپنا ہی برا کرتا ہے جیسے اور جگہ ہے کوئی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا ، ایک دوسرے کو نفع نہ پہنچا سکے گا ، ہر شخص انپے کرتوت کا ذمہ دار ہے ، کوئی نہ ہوگا جو بوجھ اٹھائے ، اللہ کا علم ، اللہ کی حکمت اور الٰہی عدل و رحمت کے خلاف ہے کہ ایک گناہ کرے اور دوسرا پکڑا جائے ۔ پھر فرماتا ہے جو خود برا کام کر کے کسی بےگناہ کے سر تھوپ دے جیسے بنوابیرق نے سیدنا لبید رضی اللہ عنہ کا نام لے دیا جو واقعہ تفصیل وار اس سے اگلی آیت کی تفسیر میں بیان ہو چکا ہے ، یا مراد زید بن سمین یہودی ہے جیسے بعض اور مفسرین کا خیال ہے کہ اس چوری کی تہمت اس قبیلے نے اس بےگناہ شخص کے ذمہ لگائی تھی اور خود ہی خائن اور ظالم تھے ، آیت گو شان نزول کے اعتبار سے خاص ہے لیکن حکم کے اعتبار سے عام ہے جو بھی ایسا کرے وہ اللہ کی سزا کا مستحق ہے ۔ النسآء
111 النسآء
112 النسآء
113 . اس کے بعد کی«وَلَوْلَا فَضْلُ اللہِ عَلَیْکَ وَرَحْمَتُہُ لَہَمَّت طَّائِفَۃٌ مِّنْہُمْ أَن یُضِلٰوکَ وَمَا یُضِلٰونَ إِلَّا أَنفُسَہُمْ» ۱؎ (4-النساء:113) کا تعلق بھی اسی واقعہ سے ہے یعنی سیدنا لبید بن عروہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے بنوابیرق کے چوروں کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے برات اور ان کی پاکدامنی کا اظہار کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اصلیت سے دور رکھنے کا سارا کام پورا کر لیا تھا ، لیکن اللہ تعالیٰ نے جو آپ کی عصمت کا حقیقی نگہبان ہے آپ کو اس خطرناک موقعہ پر خائنوں کی طرف داری سے بچا لیا اور اصلی واقعہ صاف کر دیا ۔ کتاب سے مراد قرآن اور حکم سے مراد سنت ہے ۔ نزول وحی سے پہلے آپ جو نہ جانتے تھے ان کا علم پروردگار نے آپ کو بذریعہ وحی کر دیا جیسے اور آیت میں ہے«وَکَذٰلِکَ أَوْحَیْنَا إِلَیْکَ رُوحًا مِّنْ أَمْرِنَا ۚ مَا کُنتَ تَدْرِی مَا الْکِتَابُ وَلَا الْإِیمَانُ وَلٰکِن جَعَلْنَاہُ نُورًا نَّہْدِی بِہِ مَن نَّشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا ۚ وَإِنَّکَ لَتَہْدِی إِلَیٰ صِرَاطٍ مٰسْتَقِیمٍ » ۱؎ (42-الشوری:52) اور آیت میں ہے«وَمَا کُنْتَ تَرْجُوْٓا اَنْ یٰلْقٰٓی اِلَیْکَ الْکِتٰبُ اِلَّا رَحْمَۃً مِّنْ رَّبِّکَ فَلَا تَکُوْنَنَّ ظَہِیْرًا لِّـلْکٰفِرِیْنَ» ۱؎ (28-القصص:86) اسی لیے یہاں بھی فرمایا ۔ یہ سب باتیں اللہ کا فضل ہیں جو آپ کے شامل حال ہے ۔ النسآء
114 اچھے کاموں کی دعوت اور برے کاموں سے روکنے کے علاوہ تمام باتیں قابل مواخذہ ہیں لوگوں کے اکثر کلام بے معنی ہوتے ہیں سوائے ان کے جن کی باتوں کا مقصد دوسروں کی بھلائی اور لوگوں میں میل ملاپ کرانا ہو ، سیدنا سفیان ثوری رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لیے لوگ جاتے ہیں ان میں سعید بن حسان رحمہ اللہ بھی ہیں تو آپ فرماتے ہیں سعید رحمہ اللہ تم نے ام صالح کی روایت سے جو حدیث بیان کی تھی آج اسے پھر سناؤ ، آپ سند بیان کر کے فرماتے ہیں { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انسان کی تمام باتیں قابل مواخذہ ہیں بجز اللہ کے ذکر اور اچھے کاموں کے بتانے اور برے کاموں سے روکنے کے ۔} ۱؎ (سنن ترمذی:2412،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) سفیان رحمہ اللہ نے کہا یہی مضمون اس آیت میں ہے ، یہی مضمون آیت «یَوْمَ یَقُوْمُ الرٰوْحُ وَالْمَلٰۗیِٕکَۃُ صَفًّا ٷ لَّا یَتَکَلَّمُوْنَ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَہُ الرَّحْمٰنُ وَقَالَ صَوَابًا» ۱؎ (78-النبأ:38) میں ہے یہی مضمون سورۃ والعصر میں ہے«وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِی خُسْرٍ» (103-العصر:1-2) مسند احمد میں { فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ لوگوں کی آپس میں محبت بڑھانے اور صلح صفائی کے لیے جو بھی بات کہے اِدھر اُدھر سے کہے یا قسم اٹھائے وہ جھوٹوں میں داخل نہیں ،} سیدہ ام کلثوم بنت عقبہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں نے { آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اِدھر کی بات اُدھر کہنے کی تین صورتوں میں اجازت دیتے ہوئے سنا ہے جہاد کی ترغیب میں ، لوگوں میں صلح کرانے اور میاں بیوی کو ملانے کی صورت میں } یہ ہجرت کرنے والیوں اور بیعت کرنے والیوں میں سے ہیں ۔۱؎ (صحیح بخاری:6292) ایک اور حدیث میں ہے { کیا میں تمہیں ایک ایسا عمل بتاؤں ؟ جو روزہ نماز اور صدقہ سے بھی افضل ہے لوگوں نے خواہش کی تو آپ نے فرمایا وہ آپس میں اصلاح کرانا ہے فرماتے ہیں اور آپس کا فساد نیکیوں کو ختم کر دیتا ہے } [ابو داود وغیرہ] ۱؎ (مسند احمد:444/6:قال الشیخ الألبانی:صحیح) بزار میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ سے فرمایا آ میں تجھے ایک تجارت بتاؤں لوگ جب لڑ جھگڑ رہے ہوں تو ان میں مصالحت کرا دے جب ایک دوسرے سے رنجیدہ ہوں تو انہیں ملا دے ۔ } ۱؎ (مسند بزار:2060:ضعیف) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسی بھلی باتیں رب کی رضا مندی خلوص اور نیک نیتی سے جو کرے وہ اجر عظیم پائے گا ۔ جو شخص غیر شرعی طریق پر چلے یعنی شرع ایک طرف ہو اور اس کی راہ ایک طرف ہو ۔ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کچھ ہو اور اس کا مقصد عمل اور ہو ۔ حالانکہ اس پر حق واضح ہو چکا ہو دلیل دیکھ چکا ہو پھر بھی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کر کے مسلمانوں کی صاف راہ سے ہٹ جائے تو ہم بھی اسے ٹیڑھی اور بری راہ پر ہی لگا دیتے ہیں اسے وہی غلط راہ اچھی اور بھلی معلوم ہونے لگتی ہے یہاں تک کہ بیچوں بیچ جہنم میں جا پہنچتا ہے ۔ مومنوں کی راہ کے علاوہ راہ اختیار کرنا دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت اور دشمنی کے مترادف ہے جو کبھی تو شارع علیہ السلام کی صاف بات کے خلاف اور کبھی اس چیز کے خلاف ہوتا ہے جس پر ساری امت محمدیہ متفق ہے جس میں انہیں اللہ نے بوجہ ان کی شرافت وکرامت کے محفوظ کر رکھا ہے ۔ اس بارے میں بہت سی حدیثیں بھی ہیں اور ہم نے بھی احادیث اصول میں ان کا بڑا حصہ بیان کر دیا ہے ، بعض علماء تو اس کے تواتر معنی کے قائل ہیں ، امام شافعی رحمہ اللہ غورو فکر کے بعد اس آیت سے امت کے اتفاق کی دلیل ہونے پر استدلال کیا ہے حقیقتاً یہی موقف بہترین اور قوی تر ہے ، بعض دیگر ائمہ نے اس دلالت کو مشکل اور دور از آیت بھی بتایا ہے ، غرض ایسا کرنے والے کی رسی اللہ میاں بھی ڈھیلی چھوڑ دیتے ہیں ۔ جیسے فرمان ہے«فَذَرْنِی وَمَن یُکَذِّبُ بِہٰذَا الْحَدِیثِ ۖ سَنَسْتَدْرِجُہُم مِّنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُونَ» ۱؎ (68-القلم:44) یعنی ’ ہم ان کی بیخبری میں آہستہ آہستہ مہلت بڑھاتے رہتے ہیں ، ان کے بہکتے ہی ہم ان کے دلوں کو ٹیڑہ کر دیتے ہیں ‘ «فَلَمَّا زَاغُوا أَزَاغَ اللہُ قُلُوبَہُمْ» ۱؎ (61-الصف:5) ’ ہم بھی ان کے دلوں کو ٹیڑھا کر دیتے ہیں ، ہم انہیں ان کی سرکشی میں گم چھوڑ دیتے ہیں ۔ بالآخر ان کی جائے بازگشت جہنم بن جاتی ہے ۔ ‘ جیسے فرمان ہے«وَنَذَرُہُمْ فِی طُغْیَانِہِمْ یَعْمَہُونَ» ۱؎ (6-الأنعام:110) ’ ظالموں کو ان کے ساتھیوں کے ساتھ قبروں سے اٹھائیں گے ۔‘ اور جیسے فرمایا«وَرَأَی الْمُجْرِمُونَ النَّارَ فَظَنٰوا أَنَّہُم مٰوَاقِعُوہَا وَلَمْ یَجِدُوا عَنْہَا مَصْرِفًا » ۱؎ (18-الکہف:53) ’ ظالم آگ کو دیکھ کر جان لے گا کہ اس میں کودنا پڑے گا لیکن کوئی صورت چھٹکارے کی نہ پائے گا ۔‘ النسآء
115 النسآء
116 مشرک کی پہچان اور ان کا انجام اس سورت کے شروع میں پہلی آیت کے متعلق ہم پوری تفسیر کر چکے ہیں اور وہیں اس آیت سے تعلق رکھنے والی حدیثیں بھی بیان کر دی ہیں ، سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے قرآن کی کوئی آیت مجھے اس آیت سے زیادہ محبوب نہیں ۱؎ (سنن ترمذی:3037،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) مشرکین سے دنیا اور آخرت کی بھلائی دور ہو جاتی ہے اور وہ راہ حق سے دور ہو جاتے ہیں وہ اپنے آپ کو اور اپنے دونوں جہانوں کو برباد کر لیتے ہیں ، یہ مشرکین عورتوں کے پرستار ہیں ، سیدنا کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہر صنم کے ساتھ ایک جننی عورت ہے ، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں «اِنَاثًا» سے مراد بت ہیں ، یہ قول اور بھی مفسرین کا ہے ۔ ضحاک رحمہ اللہ کا قول ہے کہ مشرک فرشتوں کو پوجتے تھے اور انہیں اللہ کی لڑکیاں مانتے تھے ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:209/9) اور کہتے تھے کہ ان کی عبادت سے- ہماری اصل غرض اللہ عزوجل کی نزدیکی حاصل کرنا ہے اور ان کی تصویریں عورتوں کی شکل پر بناتے تھے پھر حکم کرتے تھے اور تقلید کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ صورتیں فرشتوں کی ہیں جو اللہ کی لڑکیاں ہیں ۔ یہ تفسیر «اَفَرَءَیْتُمُ اللّٰتَ وَالْعُزّٰی» ۱؎ (53-النجم:19) ’ کیا تم نے ﻻت اور عزیٰ کو دیکھا ‘ کے مضمون سے خوب ملتی ہے جہاں ان کے بتوں کے نام لے کر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ خوب انصاف ہے کہ لڑکے تو تمہارے اور لڑکیاں میری ؟ اور آیت میں ہے «وَجَعَلُوا الْمَلٰۗیِٕکَۃَ الَّذِیْنَ ہُمْ عِبٰدُ الرَّحْمٰنِ اِنَاثًا ۭاَشَہِدُوْا خَلْقَہُمْ ۭ سَـتُکْتَبُ شَہَادَتُہُمْ وَیُسْــَٔــلُوْنَ» ۱؎ (43-الزخرف:19) ’ اور انہوں نے فرشتوں کو جو رحمٰن کے عبادت گزار ہیں عورتیں قرار دے لیا۔ کیا ان کی پیدائش کے موقع پر یہ موجود تھے؟ ان کی یہ گواہی لکھ لی جائے گی اور ان سے (اس چیز کی) باز پرس کی جائے گی۔ ‘ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں«اناث» مراد مردے ہیں ، حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں ہر بے روح چیز «اناث» ہے خواہ خشک لکڑی ہو خواہ پتھر ہو ، لیکن یہ قول غریب ہے ۔ پھر ارشاد ہے کہ«أَلَمْ أَعْہَدْ إِلَیْکُمْ یَا بَنِی آدَمَ أَن لَّا تَعْبُدُوا الشَّیْطَانَ» ۱؎ (36-یس:60) ’ اے بنی آدم کیا میں نے تم سے شیطان کی عبادت نہ کرنے کا وعدہ نہیں لیا تھا ؟ ‘ اسی وجہ سے فرشتے قیامت کے دن صاف کہہ دینگے کہ ہماری عبادت کے دعوےدار دراصل شیطانی پوجا کے پھندے میں تھے ، شیطان کو رب نے اپنی رحمت سے دورکر دیا ہے اور اپنی بارگاہ سے نکال باہر کیا ہے ، اس نے بھی بیڑا اٹھا رکھا ہے کہ اللہ کے بندوں کو معقول تعداد میں بہکائے ۔ مقاتل بن حیان رحمہ اللہ فرماتے ہیں یعنی ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے کو جہنم میں اپنے ساتھ لے جائے گا ، ایک بچ رہے گا جو جنت کا مستحق ہو گا ، شیطان نے کہا ہے کہ میں انہیں حق سے بہکاؤں گا اور انہیں اُمید دلاتا رہوں گا یہ توبہ ترک کر بیٹھیں گے ، خواہشوں کے پیچھے پڑ جائیں گے موت کو بھول بیٹھیں گے نفس پروری اور آخرت سے غافل ہو جائیں گے ، جانوروں کے کان کاٹ کر یا سوراخ دار کر کے اللہ کے سوا دوسروں کے نام کرنے کی انہیں تلقین کروں گا ، اللہ کی بنائی ہوئی صورتوں کو بگاڑنا سکھاؤں گا جیسے جانوروں کو خصی کرنا ۔ ایک حدیث میں اس سے بھی ممانعت آئی ہے شاید مراد اس سے نسل منقطع کرنے کی غرض سے ایسا کرنا ہے ۔ ایک معنی یہ بھی کئے گئے ہیں کہ چہرے پر گودنا گدوانا ، جو صحیح مسلم کی حدیث میں ممنوع ہے ۱؎ (صحیح مسلم:2116) اور جس کے کرنے والے پر اللہ کی لعنت وارد ہوئی ہے ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2117) سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے صحیح سند سے مروی ہے کہ ’ گود نے والیوں اور گدوانے والیوں ، پیشانی کے بال نوچنے والیوں اور نچوانے والیوں اور دانتوں میں کشادگی کرنے والیوں پر جو حسن و خوبصورتی کے لیے اللہ کی بناوٹ کو بگاڑتی ہیں اللہ کی لعنت ہے ‘ میں ان پر لعنت کیوں نہ بھیجوں ؟ جن پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی ہے اور جو کتاب اللہ میں موجود ہے پھر آپ نے «وَمَآ اٰتٰیکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ ۤ وَمَا نَہٰیکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا ۚ وَاتَّقُوا اللّٰہَ ۭ اِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ» ۱؎ (59-الحشر:7) پڑھی ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5931) بعض اور مفسرین کرام سے مروی ہے کہ مراد اللہ کے دین کو بدل دینا ہے جیسے اور آیت میں ہے «فَاَقِمْ وَجْہَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًا ۭ فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْہَا ۭ لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ ۭ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْـقَیِّمُ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ» ۱؎ (30-الروم:30) ’ یعنی اپنا چہرہ قائم رکھ کر اللہ کے یکطرفہ دین کا رخ اختیار کرنا یہ اللہ کی وہ فطرت ہے جس پر تمام انسانوں کو اس نے پیدا کیا ہے اللہ کی خلق میں کوئی تبدیلی نہیں ۔ ‘ اس سے پچھلے [ آخری ] جملے کو اگر امر کے معنی میں لیا جائے تو یہ تفسیر ٹھیک ہو جاتی ہے یعنی اللہ کی فطرف کو نہ بدلو لوگوں کو میں نے جس فطرت پر پیدا کیا ہے اسی پر رہنے دو ۔ بخاری و مسلم میں ہے ’ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے لیکن اس کے ماں باپ پھر اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا لیتے ہیں ‘ جیسے بکری کا صحیح سالم بچہ بےعیب ہوتا ہے لیکن پھر لوگ اس کے کان وغیرہ کاٹ دیتے ہیں اور اسے عیب دار کر دیتے ہیں ۱؎ (صحیح بخاری:4775) صحیح مسلم میں ہے اللہ عزوجل فرماتا ہے ’ میں نے اپنے بندوں کو یکسوئی والے دین پر پیدا کیا لیکن شیطان نے آکر انہیں بہکا دیا پھر میں نے اپنے حلال کو ان پر حرام کر دیا ۔‘ ۱؎ (صحیح مسلم:2865) شیطان کو دوست بنانے والا اپنا نقصان کرنے والا ہے جس نقصان کی کبھی تلافی نہ ہو سکے ۔ کیونکہ شیطان انہیں سبز باغ دکھاتا رہتا ہے غلط راہوں میں ان کی فلاح وبہود کا یقین دلاتا ہے دراصل وہ بڑا فریب اور صاف دھوکا ہوتا ہے ۔ چنانچہ شیطان قیامت کے دن صاف کہے گا اللہ کے وعدے سچے تھے اور میں تو وعدہ خلاف ہوں ہی میرا کوئی زور تم پر تھا ہی نہیں میری پکار کو سنتے ہی کیوں تم مست و بےعقل بن گئے ؟ اب مجھے کیوں کوستے ہو ؟ اپنے آپ کو برا کہو ۔ شیطانی وعدوں کو صحیح جاننے والے اس کی دلائی ہوئی اُمیدوں کو پوری ہونے والی سمجھنے والے آخر جہنم واصل ہو نگے جہاں سے چھٹکارا محال ہو گا ۔ ان بدبختوں کے ذکر کے بعد اب نیک لوگوں کا حال بیان ہو رہا ہے کہ جو دل سے میرے ماننے والے ہیں اور جسم سے میری تابعداری کرنے والے ہیں میرے احکام پر عمل کرتے ہیں میری منع کردہ چیزوں سے باز رہتے ہیں میں انہیں اپنی نعمتیں دوں گا انہیں جنتوں میں لے جاؤں گا جن کی نہریں جہاں یہ چاہیں خودبخود بہنے لگیں جن میں زوال ، کمی یا نقصان بھی نہیں ہے ، اللہ کا یہ وعدہ اصل اور بالکل سچا ہے اور یقیناً ہونے والا ہے اللہ سے زیادہ سچی بات اور کس کی ہو گی ؟ اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں نہ ہی کوئی اس کے سوا مربی ہے ۔ ’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خطبے میں فرمایا کرتے تھے سب سے زیادہ سچی بات اللہ کا کلام ہے اور سب سے بہتر ہدایت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت ہے اور تمام کاموں میں سب سے برا کام دین میں نئی بات نکالنا ہے اور ہر ایسی نئی بات کا نام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی اور ہر گمراہی جہنم میں ہے ۔ ‘ ۱؎ (صحیح مسلم:867) النسآء
117 النسآء
118 النسآء
119 النسآء
120 النسآء
121 النسآء
122 النسآء
123 . حضرت قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ہم سے ذکر کیا گیا کہ اہل کتاب اور مسلمان میں چرچہ ہونے لگا اہل کتاب تو یہ کہ کر اپنی فضیلت جتا رہے تھے کہ ہمارے نبی تمہارے نبی سے پہلے کے ہیں اور ہماری کتاب بھی تمہاری کتاب سے پہلے کی ہے اور مسلمان کہہ رہے تھے کہ ہمارے نبی خاتم الانبیاء ہیں اور ہماری کتاب تمام اگلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اس پر یہ آیتیں اتریں اور مسلمانوں کی سابقہ دین والوں پر فضیلت بیان ہوئی . مجاہد سے مروی ہے کہ عرب نے کہا نہ تو ہم مرنے کے بعد جئیں گے نہ ہمیں عذاب ہو گا ۔ اور آیت میں ہے«وَقَالُوا لَن یَدْخُلَ الْجَنَّۃَ إِلَّا مَن کَانَ ہُودًا أَوْ نَصَارَیٰ» ۱؎ (2-البقرۃ:111) ’ یہودیوں نے کہا صرف ہم ہی جنتی ہیں . ‘ یہی قول نصرانیوں کا بھی تھا اور کہتے تھے «وَقَالُوا لَن تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَیَّامًا مَّعْدُودَۃً» ۱؎ (2-البقرۃ:80) ’ آگ ہمیں صرف چند دن ستائے گی . ‘ آیت کا مضمون یہ ہے کہ صرف اظہار کرنے اور دعویٰ کرنے سے صداقت و حقانیت ثابت نہیں ہوتی بلکہ ایماندار وہ ہے جس کا دل صاف ہو اور عمل شاہد ہوں اور اللہ تعالیٰ کی دلیل اس کے ہاتھوں میں ہو ، تمہاری خواہشیں اور زبانی دعوے کوئی وقعت نہیں رکھتے نہ اہل کتاب کی تمنائیں اور بلند باتیں ، نجات کا مدار ہیں بلکہ وقار و نجات اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی فرماں برداری اور رسولوں کی تابعداری میں ہے ۔ برائی کرنے والے کسی نسبت کی وجہ سے اس برائی کے خمیازے سے چھوٹ جائیں ناممکن ہے بلکہ«فَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَرَہُ ۔ وَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَرَہُ » ۱؎ (99-الزلزلۃ:8) ’ رتی رتی بھلائی اور برائی قیامت کے دن اپنی آنکھوں سے اپنے سامنے دیکھ لیں گے . ‘ یہ آیت صحابہ رضی اللہ عنہم پر بہت گراں گذری تھی اور { سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اب نجات کیسے ہو گی ؟ جبکہ ایک ایک عمل کا بدلہ ضروری ہے تو آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ تجھے بخشے ابوبکر یہ سزا وہی ہے جو کبھی تیری بیماری کی صورت میں ہوتی ہے کبھی تکلیف کی صورت میں کبھی صدمے اور غم و رنج کی صورت میں اور کبھی بلا و مصیبت کی شکل میں ۔ } ۱؎ (مسند احمد:11/1:صحیح بالشواھد) اور روایت میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر برائی کرنے والا دنیا میں بدلہ پالے گا ۔ } ۱؎ (مسند احمد:6/1:صحیح بالشواھد) ابن مردویہ میں ہے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا نے اپنے غلام سے فرمایا دیکھو جس جگہ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہا کو سولی دی گئی ہے وہاں تم نہ چلنا ، غلام بھول گیا ، اب سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کی نظر سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ پر پڑی تو فرمانے لگے واللہ جہاں تک میری معلومات ہیں میری گواہی ہے کہ تو روزے دار اور نمازی اور رشتے ناتے جوڑے والا تھا مجھے اللہ سے اُمید ہے کہ جو لغزشیں تجھ سے ہو گئیں ان کا بدلہ دنیا میں ہی مکمل ہو اب تجھے اللہ کوئی عذاب نہیں دے گا پھر مجاہد رحمہ اللہ کی طرف دیکھ کر فرمانے لگے میں نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے سنا ہے وہ فرماتے تھے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے سنا جو شخص برائی کرتا ہے اس کا بدلہ دنیا میں ہی پالیتا ہے ۔ } ۱؎ (مسند ابویعلیٰ:18:صحیح بالشواھد) دوسری روایت میں ہے کہ سیدنا ابن عمر علیہ السلام نے سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہا کو سولی پر دیکھ کر فرمایا اے ابوحبیب اللہ تجھ پر رحم کرے میں نے تیرے والد کی زبان سے یہ حدیث سنی ہے ۔ ۱؎ (مسند بزار:2204:ضعیف) ابن مردویہ میں ہے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں یہ آیت اتری ، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پڑھ کر سنایا سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ غم ناک ہو گئے انہیں یہ معلوم ہونے لگا کہ گویا ہر ہر عمل کا بدلہ ہی ملنا جب ٹھہرا تو نجات مشکل ہو جائے گی ۔ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سنو صدیق تم اور تمہارے ساتھی یعنی مومن تو دنیا میں ہی بدلہ دے دئیے جاؤ گے اور ان مصیبتوں کے باعث تمہارے گناہ معاف ہو جائیں گے قیامت کے دن پاک صاف اٹھو گے ہاں اور لوگ کی برائیاں جمع ہوتی جاتی ہیں اور قیامت کے دن انہیں سزا دی جائے گی ۔ } یہ حدیث ترمذی نے بھی روایت کی ہے ۱؎ (سنن ترمذی:3039،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) اور کہا ہے کہ اس کاراوی موسیٰ بن عبیدہ ضعیف ہے اور دوسرا راوی مولی بن سباع مجہول ہے اور بھی بہت سے طریق سے اس روایت کا ماحصل مروی ہے ۔ ایک اور حدیث میں ہے ، { سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ آیت سب سے زیادہ ہم پر بھاری پڑتی ہے تو آپ نے فرمایا مومن کا یہ بدلہ وہی ہے جو مختلف قسم کی پریشانیوں اور تکلیفوں کی صورت میں اسے دنیا میں ہی مل جاتا ہے ۔} ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:10537:ضعیف) اور حدیث میں ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہاں تک کہ مومن اپنی نقدی جیب میں رکھ لے پھر ضرورت کے وقت تلاش کرے تھوڑی دیر نہ ملے پھر جیب میں ہاتھ ڈالنے سے نکل آئے تو اتنی دیر میں جو اسے صدمہ ہوا اس سے بھی اس کے گناہ معاف ہوتے ہیں اور یہ بھی اس کی برائیوں کا بدلہ ہو جاتا ہے یونہی مصائب دنیا اسے کندن بنا دیتے ہیں کہ قیامت کا کوئی بوجھ اس پر نہیں رہتا جس طرح سونا بھٹی میں تپا کر نکال لیا جائے اس طرح دنیا میں پاک صاف ہو کر اللہ کے پاس جاتا ہے ۔ } ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:10536:ضعیف) ابن مردویہ میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا مومن کو ہرچیز میں اجر دیا جاتا ہے یہاں تک کہ موت کی سختی کا بھی ۔ } ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:3062/2:ضعیف) مسند احمد میں ہے { جب بندے کے گناہ زیادہ ہو جاتے ہیں اور انہیں دور کرنے والے بکثرت نیک اعمال نہیں ہوتے تو اللہ اس پر کوئی غم ڈال دیتا ہے جس سے اس کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔ } ۱؎ (مسند احمد:157/6:ضعیف) سعید بن منصور لائے ہیں کہ جب صحابہ رضی اللہ عنہم پر اس آیت کا مضمون گراں گذرا تو { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا ٹھیک ٹھاک رہو اور ملے جلے رہو مسلمان کی ہر تکلیف اس کے گناہ کا کفارہ ہے یہاں تک کہ کانٹے کا لگنا بھی اس سے کم تکلیف بھی ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:2574) روایت میں ہے کہ جب صحابہ رضی اللہ عنہم رو رہے تھے اور رنج میں تھے اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے یہ فرمایا ۔ ایک شخص نے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ہماری ان بیماریوں میں ہمیں کیا ملتا ہے ؟ آپ نے فرمایا یہ تمہارے گناہوں کا کفارہ ہوتی ہیں } اسے سن کر سیدنا کعب بن عجزہ رضی اللہ عنہ نے دعا مانگی کہ یا اللہ مرتے دم تک مجھ سے بخار جدا نہ ہو لیکن حج و عمرہ جہاد اور نماز با جماعت سے محروم نہ ہوں ان کی یہ دعا قبول ہوئی جب ان کے جسم پر ہاتھ لگایا جاتا تو بخار چڑھا رہتا ۔ ۱؎ (مسند احمد:23/3:صحیح) رضی اللہ عنہا { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک مرتبہ کہا گیا کہ کیا ہر برائی کا بدلہ دیا جائے گا ؟ آپ نے فرمایا ہاں ، اسی جیسا اور اسی جتنا لیکن ہر بھلائی کا بدلہ دس گنا کر کے دیا جائے گا پس اس پر افسوس ہے جس کی اکائیاں دہائیوں سے بڑھ جائیں ۔ } ۱؎ (ضعیف:اسکی سند میں محمد بن سائب کلب راوی ضعیف ہے) [ ابن مردویہ ] حضرت حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے مراد کافر ہیں جیسے اور آیت میں ہے«وَہَلْ نُجٰزِیْٓ اِلَّا الْکَفُوْرَ» ۱؎ (34-سبأ:17) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور سعید بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہاں برائی سے مراد شرک ہے ۔ یہ شخص اللہ کے سوا اپنا کوئی ولی اور مددگار نہ پائے گا ، ہاں یہ اور بات ہے کہ توبہ کر لے ۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں ٹھیک بات یہی ہے کہ ہر برائی کو یہ آیت شامل ہے جیسے کہ احادیث گذر چکیں «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ بدعملیوں کی سزا کا ذکر کر کے اب نیک اعمال کی جزا کا بیان فرما رہا ہے بدی کی سزا یا تو دنیا میں ہی ہو جاتی ہے اور بندے کے لیے یہی اچھا ہے یا آخرت میں ہوتی ہے اللہ اس سے محفوظ رکھے ، ہم اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ہمیں دونوں جہان کی عافیت عطا فرمائے اور مہربانی اور درگذر کرے اور اپنی پکڑ اور ناراضگی سے بچالے ۔ اعمال صالحہ کو اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے اور اپنے احسان و کرم و رحم سے انہیں قبول کرتا ہے کسی مرد عورت کے کسی نیک عمل کو وہ ضائع نہیں کرتا ہاں یہ شرط ہے کہ وہ ایماندار ہو ۔ ان نیک لوگوں کو وہ اپنی جنت میں داخل کرے گا اور ان کی حسنات میں کوئی کمی نہیں آنے دے گا ۔ فتیل کہتے ہیں اس گٹھلی کے درمیان جو ہلکا سا چھلکا ہوتا ہے اس کو مگر یہ دونوں تو کھجور کے بیج میں ہوتے ہیں اور قطمیر کہتے ہیں اس بیج کے اوپر کے لفافے کو اور یہ تینوں لفظ اس موقعہ پر قرآن میں آئے ہیں ۔ پھر فرمایا اس سے اچھے دین والا کون ہے ؟ جو اپنے اعمال خالص اسی کے لیے کرے ایمانداری اور نیک نیتی کے ساتھ اس کے فرمان کے مطابق اس کے احکام بجا لائے اور ہو بھی وہ محسن یعنی شریعت کا پابند دین حق اور ہدایت پر چلنے والا رسول کی حدیث پر عمل کرنے والا ہر نیک عمل کی قبولیت کے لیے یہ دونوں باتیں شرط ہیں ۔ یعنی خلوص اور وحی کے مطابق ہونا ، خلوص سے یہ مطلب کہ فقط اللہ کی رضا مندی مطلوب ہو اور ٹھیک ہونا یہ ہے کہ شرعیت کی ماتحتی میں ہو ، پس ظاہر تو قرآن حدیث کے موافق ہونے سے ٹھیک ہو جاتا ہے اور باطن نیک نیتی سے سنور جاتا ہے ، اگر ان دو باتوں میں سے ایک بھی نہ ہو تو وہ عمل فاسد ہوتا ہے ، اخلاص نہ ہونے سے منافقت آ جاتی ہے لوگوں کی رضا جوئی اور انہیں کھانا مقصود ہو جاتا ہے اور عمل قابل قبول نہیں رہتا . سنت کے موافق نہ ہونے سے ضلالت وجہالت کا مجموعہ ہو جاتا ہے اور اس سے بھی عمل پایہ قبولیت سے گر جاتا ہے اور چونکہ مومن کا عمل ریاکاری اور شرعیت کے مخالفت سے بچا ہوا ہوتا ہے اس لیے اس کا عمل سب سے اچھا عمل ہو جاتا ہے جو اللہ کو پسند آتا ہے اور اس کی جزا کا بلکہ اور گناہوں کی بخشش کا سبب بن جاتا ہے ۔ اعزاز خلیل کیوں اور کیسے ملا؟ اسی لیے اس کے بعد ہی فرمایا ملت ابراہیم حنیف علیہ السلام کی پیروی کرو یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اور آپ کے قدم بہ قدم چلنے والوں کی بھی جو قیامت تک ہوں ، جیسے اور آیت میں ہے«إِنَّ أَوْلَی النَّاسِ بِإِبْرَاہِیمَ لَلَّذِینَ اتَّبَعُوہُ وَہٰذَا النَّبِیٰ وَالَّذِینَ آمَنُوا» ۱؎ (3-آل عمران:68) یعنی { ابراہیم علیہ السلام سے قریب تر وہ لوگ ہیں جو ان کے ہر حکم کی تعمیل کرتے رہے اور نبی ہوئے ۔ } دوسری آیت میں فرمایا«ثُمَّ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ اَنِ اتَّبِعْ مِلَّۃَ اِبْرٰہِیْمَ حَنِیْفًا ۭ وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ» ۱؎ (16-النحل:123) { پھر ہم نے تیری طرف وحی کی کہ ابراہیم حنیف کی ملت کی پیروی کر جو مشرک نہ تھے } حنیف کہتے ہیں قصداً شرک سے بیزار اور پوری طرح حق کی طرف متوجہ ہونے والا جسے کوئی روکنے والا روک نہ سکے اور کوئی ہٹانے والا ہٹا نہ سکے ۔ پھر خلیل اللہ علیہ السلام کی اتباع کی تاکید اور ترغیب کے لیے ان کا وصف بیان کیا کہ وہ اللہ کے دوست ہیں ، یعنی بندہ ترقی کر کے جس اعلیٰ سے اعلیٰ درجے تک پہنچ سکتا ہے اس تک وہ پہنچ گئے خلت کے درجے سے کوئی بڑا درجہ نہیں محبت کا یہ اعلیٰ تر مقام ہے اور یہاں تک ابراہیم علیہ السلام عروج کر گئے ہیں اس کی وجہ ان کی کامل اطاعت ہے جیسے فرمان ہے«وَاِبْرٰہِیْمَ الَّذِیْ وَفّیٰٓ» ۱؎ (53-النجم:37) { یعنی ابراہیم کو جو حکم ملا وہ اسے بخوشی بجالائے } کبھی اللہ کی مرضی سے منہ نہ موڑا ، کبھی عبادت سے نہ اکتائے کوئی چیز انہیں عبادت الہیہ سے مانع نہ ہوئی . اور آیت میں ہے «وَاِذِ ابْتَلٰٓی اِبْرٰہٖمَ رَبٰہٗ بِکَلِمٰتٍ فَاَتَـمَّہُنَّ ۭ قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا ۭ قَالَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِیْ ۭ قَالَ لَا یَنَالُ عَہْدِی الظّٰلِمِیْنَ» ۱؎ (2-البقرۃ:124) جب جب جس جس طرح اللہ عزاسمہ نے ان کی آزمائش لی وہ پورے اترے جو جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا انہوں نے کر دکھایا ۔ فرمان ہے کہ«إِنَّ إِبْرَاہِیمَ کَانَ أُمَّۃً قَانِتًا لِّلَّـہِ حَنِیفًا وَلَمْ یَکُ مِنَ الْمُشْرِکِینَ شَاکِرًا لِّأَنْعُمِہِ ۚ اجْتَبَاہُ وَہَدَاہُ إِلَیٰ صِرَاطٍ مٰسْتَقِیمٍ وَآتَیْنَاہُ فِی الدٰنْیَا حَسَنَۃً ۖ وَإِنَّہُ فِی الْآخِرَۃِ لَمِنَ الصَّالِحِینَ » ۱؎ (16-النحل:122) { ابراہیم علیہ السلام مکمل یکسوئی سے توحید کے رنگ میں شرک سے بچتا ہوا ہمارا تابع فرمان بنا رہا ۔ } سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے یمن میں صبح کی نماز میں جب یہ آیت پڑھی تو ایک شخص نے کہا« لقدقررت عین ام ابراہیم» ابراہیم کی ماں کی آنکھیں ٹھنڈی ہوئیں ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4348) بعض لوگ کہتے ہیں کہ خلیل اللہ لقب کی یہ وجہ ہوئی کہ ایک مرتبہ قحط سالی کے موقعہ پر آپ اپنے ایک دوست کے پاس مصر میں یا موصل میں گئے تاکہ وہاں سے کچھ اناج غلہ لے آئیں یہاں کچھ نہ ملا خالی ہاتھ لوٹے جب اپنی بستی کے قریب پہنچے تو خیال آیا آؤ اس ریت کے تودے میں سے اپنی بوریاں بھر کر لے چلو تاکہ گھر والوں کو قدرے تسکین ہو جائے چنانچہ بھر لیں اور جانوروں پر لاد کے لے چلے . اللہ تعالیٰ کی قدرت سے وہ ریت سچ مچ آٹا بن گئی آپ تو گھر پہنچ کر لیٹ رہے تھکے ہارے تو تھے ہی آنکھ لگ گئی گھر والوں نے بوریاں کھولیں اور انہیں بہترین آٹے سے بھرا ہوا پایا آٹا گوندھا روٹیاں پکائیں جب یہ جاگے اور گھر میں سب کو خوش خوش پایا اور روٹیاں بھی تیار دیکھیں تو تعجب سے پوچھنے لگے آٹا کہاں سے آیا ؟ جو تم نے روٹیاں پکائیں انہوں نے کہا آپ ہی تو اپنے دوست کے ہاں سے لائے ہیں اب آپ سمجھ گئے اور فرمایا ہاں یہ میں اپنے دوست اللہ عزوجل سے لایا ہوں پس اللہ نے بھی آپ کو اپنا دوست بنا لیا اور خلیل اللہ نام رکھ دیا ، لیکن اس کی صحت اور اس واقعہ میں ذرا تامل ہے ، زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ یہ بنی اسرائیل کی روایت ہے جسے ہم سچا نہیں کہہ سکتے گو جھٹلا بھی نہیں سکتے حقیقت یہ ہے کہ آپ کو یہ لقب اس لیے ملا کہ آپ کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت حد درجہ کی تھی کامل اطاعت شعاری اور فرمانبرداری تھی اپنی عبادتوں سے اللہ تعالیٰ کو خوش کر لیا تھا { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے آخری خطبہ میں فرمایا تھا ، لوگو اگر میں زمین والوں میں سے کسی کو خلیل اور ولی دوست بنانے والا ہوتا تو ابوبکر بن ابوقحافہ رضی اللہ عنہ کو بناتا بلکہ تمہارے ساتھی اللہ تعالیٰ کے خلیل ہیں ، } ۱؎ (صحیح مسلم:2383) اور روایت میں ہے { اللہ اعلیٰ واکرم نے جس طرح ابراہیم علیہ السلام کو خلیل بنا لیا تھا اسی طرح مجھے بھی اپنا خلیل کر لیا ہے ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:532) ایک مرتبہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے انتظار میں بیٹھے ہوئے آپس میں ذکر تذکرے کر رہے تھے ایک کہہ رہا تھا تعجب ہے کہ اللہ نے اپنی مخلوق میں سے ابراہیم علیہ السلام کو اپنا خلیل بنایا دوسرے نے کہا اس سے بھی بڑھ کر مہربانی یہ کہ موسیٰ علیہ السلام سے خود باتیں کیں اور انہیں کلیم بنایا ، ایک نے کہا اور عیسیٰ علیہ السلام تو روح اللہ اور کلمتہ اللہ ہے ، ایک نے کہا آدم علیہ السلام صفی اللہ اور اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ ہیں . { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب باہر تشریف لائے سلام کیا اور یہ باتیں سنیں تو فرمایا بیشک تمہارا قول صحیح ہے ، ابراہیم علیہ السلام خلیل اللہ ہیں اور موسیٰ علیہ السلام کلیم اللہ ہیں اور عیسیٰ علیہ السلام روح اللہ اور کلمتہ اللہ ہیں اور آدم علیہ السلام صفی اللہ ہیں اور اسی طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ، مگر میں حقیقت بیان کرتا ہوں کچھ فخر کے طور پر نہیں کہتا کہ میں حبیب اللہ ہوں ، میں سب سے پہلا شفاعت کرنے والا ہوں اور سب سے پہلے شفاعت قبول کیا جانے والا ہوں اور سب سے پہلے جنت کے دروازے پر دستک دینے والا ہوں اللہ میرے لیے جنت کو کھول دے گا اور مجھے اس میں داخل کرے گا اور میرے ساتھ مومن فقراء ہوں گے قیامت کے دن تمام اگلوں پچھلوں سے زیادہ اکرام و عزت والا ہوں یہ بطور فخر کے نہیں بلکہ بطور سچائی کو معلوم کرانے کیلئے میں تم سے کہہ رہا ہوں . } ۱؎ (الدر المنثور للسیوطی:407/2:ضعیف) یہ حدیث اس سند سے تو غریب ہے لیکن اس کے بعض شاہد موجود ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں کیا تم اس سے تعجب کرتے ہو کہ خلت صرف ابراہیم علیہ السلام کے لیے تھی اور کلام موسیٰ علیہ السلام کے لیے تھا اور دیدار محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ۔ صلوات اللہ وسلامہ علیہم اجمعین [ مستدرک حاکم ] اسی طرح کی روایت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ اور بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم تابعین رحمہ اللہ علیہم اور سلف وخلف سے مروی ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے ابراہیم علیہ السلام کی عادت تھی کہ مہمانوں کے ساتھ کھائیں ۔ ایک دن آپ مہمان کی جستجو میں نکلے لیکن کوئی نہ ملا واپس آئے گھر میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ ایک شخص کھڑا ہوا ہے پوچھا اے اللہ کے بندے تجھے میرے گھر میں آنے کی اجازت کس نے دی ؟ اس نے کہا اس مکان کے حقیقی مالک نے ، پوچھا تم کون ہو ؟ کہا میں ملک الموت ہوں مجھے اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بندے کے پاس اس لیے بھیجا ہے کہ میں اسے یہ بشارت سنا دوں کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنا خلیل بنا لیا ہے ۔ یہ سن کر ابراہیم علیہ السلام نے کہا پھر تو مجھے ضرور بتائیے کہ وہ بزرگ کون ہیں ؟ اللہ عزوجل کی قسم اگر وہ زمین کے کسی دور کے گوشے میں بھی ہوں گے میں ضرور جا کر ان سے ملاقات کروں گا پھر اپنی باقی زندگی ان کے قدموں میں ہی گزاروں گا یہ سن کر ملک الموت نے کہا کہ وہ شخص خود آپ ہیں ۔ آپ نے پھر دریافت فرمایا کیا سچ مچ میں ہی ہوں ؟ فرشتے نے کہا ہاں آپ ہی ہیں ۔ آپ نے پھر دریافت فرمایا کہ آپ مجھے یہ بھی بتائیں گے کہ کس بنا پر کن کاموں پر اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنا خلیل بنایا ؟ فرشتے نے فرمایا اس لیے کہ تم ہر ایک کو دیتے رہتے ہو اور خود کسی سے کچھ طلب نہیں کرتے ۔ اور روایت میں ہے ۔ جب ابراہیم علیہ الصلٰوۃ والسلام کو خلیل اللہ کے ممتاز اور مبارک لقب سے اللہ نے ملقب کیا تب سے تو ان کے دل میں اس قدر خوف رب اور ہیبت رب سما گئی کہ ان کے دل کا اچھلنا دور سے اس طرح سنا جاتا تھا جس طرح فضا میں پرندے کے پرواز کی آواز ۔ صحیح حدیث میں { جناب رسول آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت بھی وارد ہے کہ جس وقت اللہ تعالیٰ کا خوف آپ پر غالب آ جاتا تھا تو آپ کے رونے کی آواز جسے آپ ضبط کرتے جاتے تھے اس طرح دور و نزدیک والوں کو سنائی دیتی تھی جیسے کسی ہنڈیا کے کھولنے کی آواز ہو } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:322،قال الشیخ الألبانی:صحیح) پھر فرمایا کہ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے سب اللہ کی ملکیت میں اور اس کی غلامی میں اور اسی کا پیدا کیا ہوا ہے ۔ جس طرح جب جو تصرف ان میں وہ کرنا چاہتا ہے بغیر کسی روک ٹوک کے بلامشورہ غیرے اور بغیر کسی کی شراکت اور مدد کے کر گذرتا ہے کوئی نہیں جو اس کے ارادے سے اسے باز رکھ سکے کوئی نہیں جو اس کے حکم میں حائل ہو سکے کوئی نہیں جو اس کی مرضی کو بدل سکے وہ عظمتوں اور قدرتوں والا وہ عدل وحکمت والا وہ لطف و رحم والا واحد وصمد اللہ ہے ۔ اس کا علم ہر چھوٹی بڑی چیز کو گھیرے ہوئے ہے ، مخفی سے مخفی اور چھوٹی سے چھوٹی اور دور سے دور والی چیز بھی اس پر پوشیدہ نہیں ، ہماری نگاہوں سے جو پوشیدہ ہیں اس کے علم میں سب ظاہر ہیں ۔ النسآء
124 النسآء
125 النسآء
126 النسآء
127 یتیموں کے مربیوں کی گوشمالی اور منصفانہ احکام صحیح بخاری شریف میں ہے عائشہ فرماتی ہے اس سے مراد وہ شخص ہے جس کی پرورش میں کوئی یتیم بچی ہو جس کا ولی وارث بھی وہی ہو مال میں شریک ہو گیا ہو اب چاہتا یہ ہو کہ اس یتیمہ سے میں نکاح کر لوں اس بنا پر اور جگہ اس کی شادی روکتا ہو ایسے شخص کے بارے میں یہ آیت اتری ہے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4600) ایک روایت میں ہے کہ اس آیت کے اترنے کے بعد جب پھر لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان یتیم لڑکیوں کے بارے میں سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے«وَیَسْتَفْتُونَکَ فِی النِّسَاءِ ۖ قُلِ اللہُ یُفْتِیکُمْ فِیہِنَّ وَمَا یُتْلَیٰ عَلَیْکُمْ فِی الْکِتَابِ فِی یَتَامَی النِّسَاءِ اللَّاتِی لَا تُؤْتُونَہُنَّ مَا کُتِبَ لَہُنَّ وَتَرْغَبُونَ أَن تَنکِحُوہُنَّ وَالْمُسْتَضْعَفِینَ مِنَ الْوِلْدَانِ وَأَن تَقُومُوا لِلْیَتَامَیٰ بِالْقِسْطِ ۚ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَیْرٍ فَإِنَّ اللہَ کَانَ بِہِ عَلِیمًا » ۱؎ (4-النساء:127) نازل فرمائی ۔ فرماتی ہیں کہ اس آیت میں جو یہ فرمایا گیا ہے« وَمَا یُتْلَیٰ عَلَیْکُمْ فِی الْکِتَابِ» اس سے مراد پہلی آیت«وَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِی الْیَتٰمٰی فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَاۗءِ مَثْنٰی وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ ۚ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ ۭ ذٰلِکَ اَدْنٰٓی اَلَّا تَعُوْلُوْا» ۱؎ (4-النساء:3) ہے آپ سے بھی منقول ہے کہ یتیم لڑکیوں کے ولی وارث جب ان کے پاس مال کم پاتے یا وہ حسین نہ ہوتیں تو ان سے نکاح کرنے سے باز رہتے اور اگر مالدار اور صاحب جمال پاتے تو نکاح کی رغبت کرتے لیکن اس حال میں بھی چونکہ ان لڑکیوں کا اور کوئی محافظ نہیں ہوتا تھا ان کے مہر اور حقوق میں کمی کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں روک دیا کہ بغیر پورا مہر اور پورے حقوق دینے کے نکاح کر لینے کی اجازت نہیں ۔ مقصد یہ ہے کہ ایسی یتیم بچی جس سے اس کے ولی کو نکاح حلال ہو تو وہ اس سے نکاح کر سکتا ہے بشرطیکہ جو مہر اس جیسی اس کے کنبے قبیلے کی اور لڑکیوں کو ملا ہے اسے بھی اتنا ہی دے اور اگر ایسا نہ کرے تو اسے چاہیئے اس سے نکاح بھی نہ کرے ۔ اس سورت کے شروع کی اس مضمون کی پہلی آیت کا بھی یہی مطلب ہے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس یتیم بچی سے خود اس کا ایسا ولی جسے اس سے نکاح کرنا حلال ہے اسے اپنے نکاح میں لانا نہیں چاہتا خواہ کسی وجہ سے ہو لیکن یہ جان کر کہ جب یہ دوسرے کے نکاح میں چلی جائے گی تو جو مال میرے اس لڑکی کے درمیان شراکت میں ہے وہ بھی میرے قبضے سے جاتا رہے گا ۔ تو ایسے ناواجبی فعل سے اس آیت میں روک دیا گیا ۔ یہ بھی مروی ہے کہ جاہلیت میں دستور تھا کہ یتیم لڑکی کا والی جب لڑکی کو اپنی ولایت میں لیتا تو اس پر ایک کپڑا ڈال دیتا اب کسی کی مجال نہ تھی کہ اس سے نکاح کرے اگر وہ صورت شکل میں اچھی اور مالدار ہوتی اس سے خود آپ نکاح کر لیتا اور مال بھی ہضم کر جاتا اور اگر وہ صورت شکل میں اچھی نہ ہوتی اور مالدار ہوتی تو اسے دوسری جگہ نکاح کرنے سے روک دیتا وہ بیچاری یونہی مر جاتی اور یہ اس کا مال قبضہ میں کر لیتا ۔ اس سے اللہ تعالیٰ اس آیت میں منع فرما رہا ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس کے ساتھ ہی یہ بھی مروی ہے کہ جاہلیت والے چھوٹے لڑکوں اور چھوٹی لڑکیوں کو وارث نہیں سمجھتے تھے اس رسم کو بھی قرآن نے ختم دیا اور ہر ایک کو حصہ دلوایا اور فرمایا کہ«لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَیَیْنِ» ۱؎ (4-النساء:11) لڑکی اور لڑکے کو خواہ چھوٹے ہوں خواہ بڑے حصہ ضرور دو ۔ البتہ لڑکی کو آدھا اور لڑکے کو پورا یعنی دو لڑکیوں کے برابر اور یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف کا حکم دیا کہ جب جمال و مال والی سے خود تم اپنا نکاح کر لیتے ہو تو پھر ان سے بھی کر لیا کرو جو مال وجمال میں کم ہوں پھر فرمایا یقین مانو کہ تمہارے تمام اعمال سے اللہ تعالیٰ باخبر ہے ۔ تمہیں چاہیئے کہ خیر کے کام کرو فرماں برداری کرو اور نیک جزا حاصل کرو ۔ النسآء
128 میاں بیوی میں صلح و خیر کا اصول اللہ تعالیٰ میاں بیوی کے حالات اور ان کے احکام بیان فرما رہا ہے کبھی مرد اس سے ناخوش ہو جاتا ہے کبھی چاہنے لگتا ہے اور کبھی الگ کر دیتا ہے ۔ پس پہلی حالت میں جبکہ عورت کو اپنے شوہر کی ناراضگی کا خیال ہے اور اسے خوش کرنے کے لیے اپنے تمام حقوق سے یا کسی خاص حق سے وہ دست برداری کرنا چاہے تو کر سکتی ہے ۔ مثلاً اپنا کھانا کپڑا چھوڑ دے یا شب باشی کا حق معاف کر دے تو دونوں کے لیے جائز ہے ۔ پھر اسی کی رغبت دلاتا ہے کہ صلح ہی بہتر ہے ۔ سیدہ سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا جب بہت بڑی عمر کی ہو جاتی ہیں اور انہیں معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں جدا کردینے کا ارادہ رکھتے ہیں تو کہتی ہیں کہ میں اپنی باری کاحق سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبول فرما لیا ۔ ابوداؤد میں ہے کہ اسی پر یہ آیت اتری ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں میاں بیوی جس بات پر رضامند ہو جائیں وہ جائز ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:10613:صحیح) آپ فرماتے ہیں { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے وقت آپ کی نوبیویاں تھیں جن میں سے آپ نے آٹھ کو باریاں تقسیم کر رکھی تھیں ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:5068) بخاری مسلم میں ہے کہ { سودہ کا دن بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو دیتے تھے ۔ } عروہ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا کو بڑی عمر میں جب یہ معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں چھوڑ دینا چاہتے ہیں تو خیال کیا کہ آپ کو سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوری محبت ہے اگر میں اپنی باری انہیں دیدوں تو کیا عجب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم راضی ہو جائیں اور میں آپ کی بیویوں میں ہی آخر دم تک رہ جاؤں ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات گزارنے میں اپنی تمام بیویوں کو برابر کے درجے پر رکھا کرتے تھے عموماً ہر روز سب بیویوں کے ہاں آتے بیٹھتے بولتے چالتے مگر ہاتھ نہ بڑھاتے پھر آخر میں جن بیوی صاحبہ کی باری ہوتی ان کے ہاں جاتے اور رات وہیں گزارتے ۔ } پھر سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا کا واقعہ بیان فرماتے جو اوپر گذار ۱؎ (سنن ابوداود:2135،قال الشیخ الألبانی:صحیح) معجم ابوالعباس کی ایک مرسل حدیث میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا کو طلاق کی خبر بجھوائی یہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہاں جابیٹھیں جب آپ تشریف لائے تو کہنے لگیں آپ کو اس اللہ تعالیٰ کی قسم ہے جس نے آپ پر اپنا کلام نازل فرمایا اور اپنی مخلوق میں سے آپ کو برگزیدہ اور اپنا پسندیدہ بنایا آپ مجھ سے رجوع کر لیجئے میری عمر بڑی ہو گئی ہے مجھے مرد کی خاص خواہش نہیں رہی لیکن یہ چاہت ہے کہ قیامت کے دن آپ کی بیویوں میں اٹھائی جاؤں چنانچہ آپ نے یہ منظور فرما لیا اور رجوع کر لیا پھر یہ کہنے لگیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنی باری کا دن اور رات آپ کی محبوب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو ہبہ کرتی ہوں ۔ } بخاری شریف میں آتا ہے کہ اس آیت سے مراد یہ ہے کہ { ایک بڑھیا عورت جو اپنے خاوند کو دیکھتی ہے کہ وہ اس سے محبت نہیں کر سکتا بلکہ اسے الگ کرنا چاہتا ہے تو وہ کہتی ہے کہ میں اپنے حق چھوڑتی ہوں تو مجھے جدانہ کر تو آیت دونوں کو رخصت دیتی ہے ۔} ۱؎ (صحیح بخاری:2450) یہی صورت اس وقت بھی ہے کہ جب کسی کو دو بیویاں ہوں اور ایک سے اس کی بوجہ اس کے بڑھاپے یا بدصورتی کے محبت نہ ہو اور وہ اسے جدا کرنا چاہتا اور یہ بوجہ اپنے لگاؤ یا بعض اور مصالح کے الگ ہونا پسند نہ کرتی تو اسے حق ہے کہ اپنے بعض یا سب حقوق سے الگ ہو جائے اور خاوند اس کی بات کو منظور کر کے اسے جدا نہ کرے ۔ ابن جریر میں ہے کہ ایک شخص نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ایک سوال کیا [ جسے اس کی بیہودگی کی وجہ سے ] آپ نے ناپسند فرمایا اور اسے کوڑا ماردیا پھر ایک اور نے اسی آیت کی بابت سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ ہاں یہ باتیں پوچھنے کی ہیں اس سے ایسی صورت مراد ہے کہ مثلاً ایک شخص کی بیوی ہے لیکن وہ بڑھیا ہو گئی ہے اولاد نہیں ہوتی اس نے اولاد کی خاطر کسی جوان عورت سے اور نکاح کیا پھر یہ دونوں جس چیز پر آپس میں اتفاق کر لیں جائز ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:10584) سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے جب اس آیت کی نسبت پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اس سے مراد وہ عورت ہے جو بوجہ اپنے بڑھاپے کے یا بدصورتی کے یا بدخلقی کے یا گندگی کے اپنے خاوند کی نظروں میں گر جائے اور اس کی چاہت یہ ہو کہ خاوند مجھے نہ چھوڑے تو یہ اپنا پورا یا ادھورا مہر معاف کر دے یا اپنی باری معاف کر دے وغیرہ تو اس طرح صلح کر سکتے ہیں ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:10580) سلف اور ائمہ سے برابری اس کی یہی تفسیر مروی ہے بلکہ تقریباً اس پر اتفاق ہے میرے خیال سے تو اس کا کوئی مخالف نہیں «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ محمد بن مسلم کی صاحبزادی سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کے گھر میں تھیں بوجہ بڑھاپے کے یا کسی اور امر کے یہ انہیں چاہتے نہ تھے یہاں تک کہ طلاق دینے کا ارادہ کر لیا اس پر انہوں نے کہا آپ مجھے طلاق تو نہ دیجئیے اور جو آپ چاہیں فیصلہ کریں مجھے منظور ہے ۔ اس پر یہ آیت اتری ۔ ۱؎ (مستدرک حاکم:308/2) ان دونوں آیتوں میں ذکر ہے اس عورت کا جس سے اس کا خاوند بگڑا ہوا ہو اسے چاہیئے کہ اپنی بیوی سے کہہ دے کہ اگر وہ چاہے تو اسے طلاق دیدے اور اگر وہ چاہے تو اس بات کو پسند کر کے اس کے گھر میں رہے کہ وہ مال کی تقسیم میں اور باری کی تقسیم میں اس پر دوسری بیوی کو ترجیح دے گا اب اسے اختیار ہے اگر یہ دوسری شق کو منظور کر لے تو شرعاً خاوند کو جائز ہے کہ اسے باری نہ دے اور جو مہر وغیرہ اس نے چھوڑا ہے اسے اپنی ملکیت سمجھے ۔ سیدنا رافع بن خدیج انصاری رضی اللہ عنہ کی بیوی صاحبہ جب سن رسید ہو گئیں تو انہوں نے ایک نوجوان لڑکی سے نکاح کیا اور پھر اسے زیادہ چاہنے لگے اور اسے پہلی بیوی پر مقدم رکھنے لگے آخر اس سے تنگ آ کر طلاق طلب کی آپ نے دے دی پھر عدت ختم ہونے کے قریب لوٹالی ۔ لیکن پھر وہی حال ہوا کہ جوان بیوی کو زیادہ چاہنے لگے اور اس کی طرف جھک گئے اس نے پھر طلاق مانگی آپ نے دوبارہ طلاق دے دی پھر لوٹالیا لیکن پھر وہی نقشہ پیش آیا پھر اس نے قسم دی کہ مجھے طلاق دے دو تو آپ نے فرمایا دیکھو اب یہ تیسری آخری طلاق ہے اگر تم چاہو تو میں دے دوں اور اگر چاہو تو اسی طرح رہنا منظور کرو اس نے سوچ کر جواب دیا کہ اچھا مجھے اسے طرح منظور ہے چنانچہ وہ اپنے حقوق سے دست بردار ہو گئیں اور اسی طرح رہنے سہنے لگیں ۔ اس جملے کا کہ صلح خیر ہے ایک معنی تو یہ بیان کیا گیا ہے کہ خاوند کا اپنی بیوی کو یہ اختیار دینا کہ اگر تو چاہے تو اسی طرح رہ کر دوسری بیوی کے برابر تیرے حقوق نہ ہوں اور اگر تو چاہے تو طلاق لے لے ، یہ بہتر ہے اس سے کہ یونہی دوسری کو اس پر ترجیح دئے ہوئے رہے ۔ لیکن اس سے اچھا مطلب یہ ہے کہ بیوی اپنا کچھ چھوڑے دے اور خاوند اسے طلاق نہ دے اور آپس میں مل کر رہیں یہ طلاق دینے اور لینے سے بہتر ہے ۔ جیسے کہ خود نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا کو اپنی زوجیت میں رکھا اور انہوں نے اپنا دن سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو ہبہ کر دیا ۔ آپ کے اس فعل میں بھی آپ کی امت کے لیے بہترین نمونہ ہے کہ ناموافقت کی صورت میں بھی طلاق کی نوبت نہ آئے ۔ چونکہ اللہ اعلیٰ و اکبر کے نزدیک صلح افتراق سے بہتر ہے اس لیے یہاں فرما دیا کہ صلح خیر ہے ۔ بلکہ ابن ماجہ وغیرہ کی حدیث میں ہے { تمام حلال چیزوں میں سے سب سے زیادہ ناپسند چیز اللہ کے نزدیک طلاق ہے ۔ } ۱؎ (سنن ابوداود:2178،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) پھر فرمایا تمہارا احسان اور تقویٰ کرنا یعنی عورت کی طرف کی ناراضگی سے درگذر کرنا اور اسے باوجود ناپسندیدگی کے اس کا پورا حق دینا باری میں لین دین میں برابری کرنا یہ بہترین فعل ہے جسے اللہ بخوبی جانتا ہے اور جس پر وہ بہت اچھا بدلہ عطا فرمائے گا ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ گو تم چاہو کہ اپنی کئی ایک بیویوں کے درمیان ہر طرح بالکل پورا عدل و انصاف اور برابری کرو تو بھی تم کر نہیں سکتے ۔ اس لیے کہ گو ایک ایک رات کی باری باندھ لو لیکن محبت چاہت شہوت جماع وغیرہ میں برابری کیسے کر سکتے ہو ؟ ابن ملکیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ بات سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں نازل ہوئی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں بہت چاہتے تھے ، اسی لیے ایک حدیث میں ہے کہ{ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کے درمیان صحیح طور پر مساوات رکھتے تھے لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے فرماتے تھے الٰہی یہ وہ تقسیم ہے جو میرے بس میں تھی اب جو چیز میرے قبضہ سے باہر ہے یعنی دلی تعلق اس میں تو مجھے ملامت نہ کرنا ۔ } ۱؎ (سنن ابوداود:2134،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) اس کی اسناد صحیح ہے لیکن امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں دوسری سند سے یہ مرسلاً مروی ہے اور وہ زیادہ صحیح ہے ۔ پھر فرمایا بالکل ہی ایک جانب جھک نہ جاؤ کہ دوسری کو لٹکا دو وہ نہ بے خاوند کی رہے نہ خاوند والی وہ تمہاری زوجیت میں ہو اور تم اس سے بےرخی برتو نہ تو اسے طلاق ہی دو کہ اپنا دوسرا نکاح کر لے نہ اس کے وہ حقوق ادا کرو جو ہر بیوی کے لیے اس کے میاں پر ہیں ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جس کی دو بیویاں ہوں پھر وہ بالکل ہی ایک کی طرف جھک جائے تو قیامت کے دن اللہ کے سامنے اس طرح آئے گا کہ اس کا آدھا جسم ساقط ہو گا } ۱؎ (سنن ترمذی:1141،قال الشیخ الألبانی:صحیح) امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ حدیث مرفوع طریق سے سوائے ہمام کی حدیث کے پہچانی نہیں جاتی ۔ پھر فرماتا ہے اگر تم اپنے کاموں کی اصلاح کر لو اور جہاں تک تمہارے اختیار میں ہو عورتوں کے درمیان عدل و انصاف اور مساوات برتو ہر حال میں اللہ سے ڈرتے رہا کرو ، اس کے باوجود اگر تم کسی وقت کسی ایک کی طرف کچھ مائل ہو گئے ہو اسے اللہ تعالیٰ معاف فرما دے گا ۔ پھر تیسری حالت بیان فرماتا ہے کہ اگر کوئی صورت بھی نباہ کی نہ و اور دونوں الگ ہو جائیں تو اللہ ایک کو دوسرے سے بے نیاز کر دے گا ، اسے اس سے اچھا شوہر اور اسے اس سے اچھی بیوی دیدے گا ۔ اللہ کا فضل بہت وسیع ہے وہ بڑے احسانوں والا ہے اور ساتھ ہی وہ حکیم ہے تمام افعال ساری تقدیریں اور پوری شریعت حکمت سے سراسر بھرپور ہے ۔ النسآء
129 النسآء
130 النسآء
131 مانگو تو صرف اللہ اعلیٰ و اکبر سے مانگو اللہ تعالیٰ مطلع کرتا ہے کہ زمین و آسمان کا مالک اور حاکم وہی ہے فرماتا ہے جو احکام تمہیں دیئے جاتے ہیں کہ اللہ سے ڈرو اس کی وحدانیت کو مانو اس کی عبادت کرو اور کسی اور کی عبادت نہ کرو یہی احکام تم سے پہلے کے اہل کتاب کو بھی دئے گئے تھے اور اگر تم کفر کرو [ تو اللہ کا کیا بگاڑو گے ؟ ] وہ تو زمین آسمان کا تنہا مالک ہے ۔ جیسے کہ موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا«وَقَالَ مُوسَیٰ إِن تَکْفُرُوا أَنتُمْ وَمَن فِی الْأَرْضِ جَمِیعًا فَإِنَّ اللہَ لَغَنِیٌّ حَمِیدٌ» ۱؎ (14-إبراہیم:8) کہ اگر تم اور تمام روئے زمین کے انسان کفر کرنے لگو تو بھی اللہ تعالیٰ بےپرواہ اور لائق ستائش ہے اور جگہ فرمایا «فَکَفَرُوْا وَتَوَلَّوْا وَّاسْتَغْنَی اللّٰہُ ۭ وَاللّٰہُ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ» ۱؎ (64-التغابن:6) ’ انہوں نے کفر کیا اور منہ موڑ لیا اللہ نے ان سے بے نیازی کی اور اللہ بہت ہی بے نیاز اور تعریف کیا گیا ہے ۔‘ اپنے تمام بندوں سے غنی اور اپنے تمام کاموں میں حمد کیا گیا ہے ۔ آسمان و زمین کی ہرچیز کا وہ مالک ہے اور ہر شخص کے تمام افعال پر وہ گواہ ہے اور ہرچیز کا وہ عالم اور شاہد ہے ۔ وہ قادر ہے کہ اگر تم اس کی نافرمانیاں کرو تو وہ تمہیں برباد کر دے اور غیروں کو آباد کر دے ۔ جیسا کہ دوسری آیت میں ہے « وَاِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ ۙ ثُمَّ لَا یَکُوْنُوْٓا اَمْثَالَکُمْ » ۱؎ (47-محمد:38) ’ اگر تم منہ موڑو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں بدل کر تمہارے سوا اور قوم کو لائے گا جو تم جیسے نہ ہوں گے ۔ ‘ بعض سلف سے منقول ہے کہ اس آیت پر غور کرو اور سوچو کہ گنہگار بندے اللہ اکبر و اعلیٰ کے نزدیک کس قدر ذلیل اور فرومایہ ہیں ؟ اور آیت میں یہ بھی فرمایا ہے کہ«أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللہَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ ۚ إِن یَشَأْ یُذْہِبْکُمْ وَیَأْتِ بِخَلْقٍ جَدِیدٍ ۔ وَمَا ذٰلِکَ عَلَی اللہِ بِعَزِیزٍ » ۱؎ (14-ابراھیم:19،20 ) ’ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ خدا نے آسمانوں اور زمین کو تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ اگر وہ چاہے تو تم کو نابود کر دے اور [ تمہاری جگہ ] نئی مخلوق پیدا کر دے اللہ مقتدر پر یہ کام کچھ مشکل نہیں ۔‘ پھر فرماتا ہے اے وہ شخص جس کا پورا قصد اور جس کی تمام تر کوشش صرف دنیا کے لیے ہے تو جان لے کہ دونوں جہاں دنیا اور آخرت کی بھلائیاں اللہ کے قبضے میں ہیں ، تو جب اس سے دونوں ہی طلب کرے گا تو وہ تجھے دے گا اور تجھے بےپرواہ کر دے گا اور آسودہ بنا دے گا اور جگہ فرمایا« فَمِنَ النَّاسِ مَن یَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِی الدٰنْیَا وَمَا لَہُ فِی الْآخِرَۃِ مِنْ خَلَاقٍ » ۱؎ (2-البقرۃ:200) { بعض لوگ وہ ہیں جو کہتے ہیں اللہ تعالیٰ ہمیں دنیا دے ان کا کوئی حصہ آخرت میں نہیں } ، اور ایسے بھی ہیں جو دعائیں کرتے ہیں کہ«وَمِنْہُم مَّن یَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِی الدٰنْیَا حَسَنَۃً وَفِی الْآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ» ۱؎ (2-البقرۃ:201) { اے ہمارے رب ہمیں دنیا کی بھلائیاں دے اور آخرت میں بھی بھلائیاں عطا فرما اور جہنم کے عذاب سے ہمیں نجات عطا فرما ۔ } یہ ہیں جنہیں ان کے اعمال کا پورا حصہ ملے گا اور جگہ ہے جو شخص آخرت کی کھیتی کا ارادہ رکھے ہم اس کی کھیتی میں زیادتی کریں گے اور آیت میں ہے «مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْعَاجِلَۃَ عَجَّــلْنَا لَہٗ فِیْہَا مَا نَشَاۗءُ لِمَنْ نٰرِیْدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَہٗ جَہَنَّمَ ۚ یَصْلٰیہَا مَذْمُوْمًا مَّدْحُوْرًا» ۱؎ (17-الإسراء:18) ’ جو شخص دنیا طلب ہو تو ہم جسے چاہیں جتنا چاہیں دنیا میں دے دیں ۔ ‘ امام ابن جریر رحمہ اللہ نے اس آیت کے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ جن منافقوں نے دنیا کی جستجو میں ایمان قبول کیا تھا انہیں دنیا چاہے مل گئی یعنی مسلمان سے مال غنیمت میں حصہ مل گیا ، لیکن آخرت میں ان کے لیے الہ العلمین کے پاس جو تیاری ہے وہ انہیں وہاں ملے گی یعنی جہنم کی آگ اور وہاں کے گوناگوں عذاب ۔ تو امام صاحب مذکور رحمہ اللہ کے نزدیک یہ آیت مثل« مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوۃَ الدٰنْیَا وَزِیْنَتَہَا نُوَفِّ اِلَیْہِمْ اَعْمَالَہُمْ فِیْہَا وَہُمْ فِیْہَا لَا یُبْخَسُوْنَ» ۱؎ (11-ہود:15) کے ہے ۔ کوئی شک نہیں کہ اس آیت کے معنی تو بظاہر یہی ہیں لیکن پہلی آیت کو بھی اسی معنی میں لینا ذرا غور طلب امر ہے کیونکہ اس آیت کے الفاظ تو صاف بتا رہے ہیں کہ دنیا اور آخرت کی بھلائی دینا الہ العالمین کے ہاتھ ہے تو ہر شخص کو چاہیئے کہ وہ اپنی ہمت ایک ہی چیز کی جستجو میں خرچ نہ کر دے بلکہ دونوں چیزوں کے حاصل کرنے کی کوشش کرے جو تمہیں دنیا دیتا ہے وہی آخرت کا مالک بھی ہے اور یہ بڑی پست ہمتی ہو گی کہ تم اپنی آنکھیں بند کر لو اور بہت دینے والے سے تھوڑا مانگو ، نہیں نہیں بلکہ تم دنیا اور آخرت کے بڑے بڑے کاموں اور بہترین مقاصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرو ، اپنا نصب العین صرف دنیا کو نہ بنا لو ، عالی ہمتی اور بلند پردازی سے وسعت نظری کو کام میں لا کر عیش جاودانی کی کوشش وسعی کرو ۔ یاد رکھو دونوں جہان کا مالک وہی ہے ہر ہر نفع اسی کے ہاتھ میں ہے کوئی نہیں جسے اس کے ساتھ شراکت ہو یا اس کے کاموں میں دخل ہو سعادت و شقاوت اس نے تقسیم کی ہے خزانوں کی کنجیاں اس نے اپنی مٹھی میں رکھ لی ہیں ، وہ ہر ایک مستحق کو جانتا ہے اور جس کا وہ مستحق ہوتا ہے اسے وہی پہچانتا ہے ، بھلا تم غور تو کرو کہ تمہیں دیکھنے سننے کی طاقت دینے والے کا اپنا دیکھنا سننا کیسا ہو گا ۔ النسآء
132 النسآء
133 النسآء
134 النسآء
135 انصاف اور سچی گواہی تقوے کی روح ہے اللہ تعالیٰ ایمانداروں کو حکم دیتا ہے کہ وہ عدل و انصاف پر مضبوطی سے جمے رہیں اس سے ایک انچ ادھر ادھر نہ سرکیں ، ایسا نہ ہو کہ ڈر کی وجہ سے یا کسی لالچ کی بنا پر یا کسی خوشامد میں یا کسی پر رحم کھا کر یا کسی سفارش سے عدل و انصاف چھوڑ بیٹھیں ۔ سب مل کر عدل کو قائم و جاری کریں ایک دوسری کی اس معاملہ میں مدد کریں اور اللہ کی مخلوق میں عدالت کے سکے جما دیں ۔ اللہ کے لیے گواہ بن جائیں جیسے اور جگہ ہے«وَاَقِیْمُوا الشَّہَادَۃَ لِلہِ» ۱؎ (65-الطلاق:2) ’ یعنی گواہیاں اللہ کی رضا جوئی کے لیے دو ‘ جو بالکل صحیح صاف سچی اور بیلاگ ہوں ۔ انہیں بدلو نہیں ، چھپاؤ نہیں ، چبا کر نہ بولو صاف صاف سچی شہادت دو چاہے وہ تمہارے اپنے ہی خلاف ہو تم حق گوئی سے نہ رکو اور یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ اپنے فرماں بردار غلاموں کی مخلصی کی صورتیں بہت سی نکال دیتا ہے کچھ اسی پر موقوف نہیں کہ جھوٹی شہادت سے ہی اس کا چھٹکارا ہو ۔ گو سچی شہادت ماں باپ کے خلاف ہوتی ہو گو اس شہادت سے رشتے داروں کا نقصان پہنچتا ہو ، لیکن تم سچ ہاتھ سے نہ جانے دو گواہی سچی دو ، اس لیے کہ حق ہر ایک پر غالب ہے ، گواہی کے وقت نہ تونگر کا لحاظ کرو نہ غریب پر رحم کرو ۔ ان کی مصلحتوں کو اللہ اعلیٰ و اکبر تم سے بہت بہتر جانتا ہے ، تم ہر صورت اور ہر حالت میں سچی شہادت ادا کرو ، دیکھو کسی کے برے میں آ کر خود اپنا برا نہ کر لو ، کسی کی دشمنی میں عصبیت اور قومیت میں فنا ہو کر عدل و انصاف ہاتھ سے نہ جانے دو بلکہ ہر حال ہر آن عدل و انصاف کا مجسمہ بنے رہو ۔ جیسے اور جگہ فرمان باری ہے ۔ «وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا ۭاِعْدِلُوْا ۣ ہُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی» ۱؎ (5-المائدۃ:8) ’ کسی قوم کی عداوت تمہیں خلاف عدل کرنے پر آمادہ نہ کر دے عدل کرتے رہو یہی تقویٰ کی شان کے قریب تر ہے ۔ ‘ سیدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہما کو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر والوں کی کھیتیوں اور باغوں کا اندازہ کرنے کو بھیجا تو انہوں نے آپ کو رشوت دینا چاہی کہ آپ مقدار کم بتائیں تو آپ نے فرمایا سنو اللہ کی قسم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے تمام مخلوق سے زیادہ عزیز ہیں اور تم میرے نزدیک کتوں اور خنزیروں سے بدتر ہو لیکن باوجود اس کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں آ کر یا تمہاری عداوت کو سامنے رکھ کر ناممکن ہے کہ میں انصاف سے ہٹ جاؤں اور تم میں عدل نہ کروں ۔ یہ سن کر وہ کہنے لگے بس اسی سے تو زمین و آسمان قائم ہے ۔ یہ پوری حدیث سورۃ المائدہ کی تفسیر میں آئے گی ان شاءاللہ تعالیٰ پھر فرماتا ہے«وَلَا تَکْتُمُوا الشَّہَادَۃَ ۚ وَمَن یَکْتُمْہَا فَإِنَّہُ آثِمٌ قَلْبُہُ ۗ وَ اللہُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِیمٌ » ۱؎ (2-البقرۃ:283) اگر تم نے شہادت میں تحریف کی یعنی بدل دی غلط گوئی سے کام لیا واقعہ کے خلاف گواہی دی دبی زبان سے پیچیدہ الفاظ کہے واقعات غلط پیش کر دئے یا کچھ چھپا لیا کچھ بیان کیا تو یاد رکھو اللہ جیسے باخبر حاکم کے سامنے یہ چال چل نہیں سکتی وہاں جا کر اس کا بدلہ پاؤ گے اور سزا بھگتو گے ۔ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ( حدیث ) «خَیْرِ الشٰہَدَاءِ الَّذِی یَأْتِی بِشَہَادَتِہِ قَبْلَ أَنْ یُسْأَلَہَا» { بہترین گواہ وہ ہیں جو دریافت کرنے سے پہلے ہی سچی گواہی دے دیں ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1719) النسآء
136 ایمان کی تکمیل مکمل اطاعت میں مضمر ہے ایمان والوں کو حکم دیا جا رہا ہے کہ ایمان میں پورے پورے داخل ہو جائیں تمام احکام کو کل شریعت کو ایمان کی تمام جزئیات کو مان لیں ، یہ خیال نہ ہو کہ اس میں تحصیل حاصل ہے نہیں بلکہ تکمیل کامل ہے ۔ ایمان لائے ہو تو اب اسی پر قائم رہو اللہ جل شانہ کو مانا ہے تو جس طرح وہ منوائے مانتے چلے جاؤ ۔ یہی مطلب ہر مسلمان کی اس دعا کا ہے کہ ہمیں صراط مستقیم کی ہدایت کر ، یعنی ہماری ہدایت کو ثابت رکھ مدام رکھ اس میں ہمیں مضبوط کر اور دن بدن بڑھاتا رہ ، اسی طرح یہاں بھی مومنوں کو اپنی ذات پر اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کو فرمایا ہے اور آیت میں ایمانداروں سے خطاب کر کے فرمایا اللہ سے ڈرو اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاؤ ۔ پہلی کتاب سے مراد قرآن ہے اور اس سے پہلے کی کتاب سے مراد تمام نبیوں پر جو جو کتابیں نازل ہوئیں سب ہیں ۔ قرآن کے لیے لفظ«نزل» بولا گیا اور دیگر کتابوں کے لیے «انزل» اس لیے کہ قرآن بتدریج وقتاً فوقتاً تھوڑا تھوڑا کر کے اترا اور باقی کتابیں پوری پوری ایک ساتھ نازل ہوئیں ، پھر فرمایا جو شخص اللہ جل شانہ کے ساتھ اس کے فرشتوں کے ساتھ اس کی کتابوں کے ساتھ اس کے رسولوں کے ساتھ آخرت کے دن کے ساتھ کفر کرے وہ راہ ہدایت سے بہک گیا اور بہت دور غلط راہ پڑ گیا گمراہی میں راہ حق سے ہٹ کر راہ باطل پہ چلا گیا ۔ النسآء
137 صحبت بد سے بچو ارشاد ہو رہا ہے کہ جو ایمان لا کر پھر مرتد ہو جائے پھر وہ مومن ہو کر کافر بن جائے پھر اپنے کفر پر جم جائے اور اسی حالت میں مر جائے تو نہ اس کی توبہ قبول نہ اس کی بخشش کا امکان نہ اس کا چھٹکارا ، نہ فلاح ، نہ اللہ اسے بخشے ، نہ راہ راست پر لائے ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اس آیت کی تلاوت فرما کر فرماتے تھے مرتد سے تین بار کہا جائے کہ توبہ کر لے ۔ پھر فرمایا یہ منافقوں کا حال ہے کہ آخر ان کے دلوں پر مہر لگ جاتی ہے پھر وہ مومنوں کو چھوڑ کافروں سے دوستیاں گانٹھتے ہیں ، ادھر بظاہر مومنوں سے ملے جلے رہتے ہیں اور کافروں میں بیٹھ کر ان مومنوں کا مذاق اڑاتے ہیں اور کہتے ہیں ہم تو انہیں بیوقوف بنا رہے ہیں دراصل ہم تو تمہارے ساتھ ہیں ۔ پس اللہ تعالیٰ ان کے مقصود اصلی کو ان کے سامنے پیش کر کے اس میں ان کی ناکامی کو بیان فرماتا ہے کہ تم چاہتے ہو ان کے پاس تمہاری عزت ہو مگر یہ تمہیں دھوکا ہوا ہے اور تم غلطی کر رہے ہو بگوش ہوش سنو عزتوں کا مالک تو اللہ تعالیٰ وحدہ لا شریک لہ ہے ۔ وہ جسے چاہے عزت دیتا ہے آیت میں ہے«مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْعِزَّۃَ فَلِلہِ الْعِزَّۃُ جَمِیْعًا» ۱؎ (35-فاطر:10) اورفرمایا «وَلِلہِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُولِہِ وَلِلْمُؤْمِنِینَ وَلٰکِنَّ الْمُنَافِقِینَ لَا یَعْلَمُونَ» ۱؎ (63-المنافقون:8) ’ یعنی عزت اللہ کے لیے ہے اور اس کے رسول اور مومنوں کا حق ہے ، لیکن منافق بےسمجھ لوگ ہیں ۔ } مقصود یہ ہے کہ اگر حقیقی عزت چاہتے ہو تو اللہ کے نیک بندوں کے اعمال اختیار کرو اس کی عبادت کی طرف جھک جاؤ اور اس جناب باری سے عزت کے خواہاں بنو ، دنیا اور آخرت میں وہ تمہیں وقار بنا دے گا ۔ مسند احمد بن حنبل کی یہ حدیث اس جگہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا «مَنِ انْتَسَبَ إِلَی تِسْعَۃِ آبَاءٍ کُفَّارٍ یُرِیدُ بِہِمْ عِزًّا ، فَہُوَ عَاشِرُہُمْ فِی النَّارِ» جو شخص فخر و غرور کے طور پر اپنی عزت ظاہر کرنے کے لیے اپنا نسب اپنے کفار باپ دادا سے جوڑے اور نو تک پہنچ جائے وہ بھی ان کے ساتھ دسواں جہنمی ہو گا ۔ } ۱؎ (مسند احمد:134/4،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) النسآء
138 النسآء
139 النسآء
140 . پھر فرمان ہے جب میں تمہیں منع کر چکا کہ جس مجلس میں اللہ کی آیتوں سے انکار کیا جا رہا ہو اور ان کا مذاق اڑایا جا رہا ہو اس میں نہ بیٹھو ، پھر بھی اگر تم ایسی مجلسوں میں شریک ہوتے رہو گے تو یاد رکھو میرے ہاں تم بھی ان کے شریک کار سمجھے جاؤ گے ۔ ان کے گناہ میں تم بھی انہی جیسے ہو جاؤ گے جیسے ایک حدیث میں ہے کہ { جس دستر خوان پر شراب نوشی ہو رہی ہے اس پر کسی ایسے شخص کو نہ بیٹھنا چاہیئے جو اللہ پر اور قیامت پر ایمان رکھتا ہو } ۱؎ (سنن ترمذی:2801،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اس آیت میں جس ممانعت کا حوالہ دیا گیا ہے وہ سورۃ الانعام کی آیت جو مکیہ ہے یہ« وَاِذَا رَاَیْتَ الَّذِیْنَ یَخُوْضُوْنَ فِیْٓ اٰیٰتِنَا فَاَعْرِضْ عَنْہُمْ حَتّٰی یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِہٖ» ۱؎ (6-الأنعام:68) ’ جب تو انہیں دیکھے جو میری آیتوں میں غوطے لگانے بیٹھ جاتے ہیں تو تو ان سے منہ موڑ لے ۔ ‘ مقاتل بن حیان رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس آیت کا یہ حکم «اِنَّکُمْ اِذًا مِّثْلُھُمْ ۭ اِنَّ اللّٰہَ جَامِعُ الْمُنٰفِقِیْنَ وَالْکٰفِرِیْنَ فِیْ جَہَنَّمَ جَمِیْعَۨا» ۱؎ (4-النساء:140) اللہ تعالیٰ کے اس فرمان «وَمَا عَلَی الَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ مِنْ حِسَابِہِمْ مِّنْ شَیْءٍ وَّلٰکِنْ ذِکْرٰی لَعَلَّہُمْ یَتَّقُوْنَ» ۱؎ (6-الأنعام:69) سے منسوخ ہو گیا ہے یعنی متقیوں پر ان کے احسان کا کوئی بوجھ نہیں لیکن نصیحت ہے کیا عجب کہ وہ بچ جائیں ۔ پھر فرمان باری ہے اللہ تعالیٰ تمام منافقوں کو اور سارے کافروں کو جہنم میں جمع کرنے والا ہے ۔ یعنی جس طرح یہ منافق ان کافروں کے کفر میں یہاں شریک ہیں قیامت کے دن جہنم میں بھی اور ہمیشہ رہنے والے وہاں کے سخت تر دل ہلا دینے والے عذابوں کے سہنے میں بھی ان کے شریک حال رہیں گے ۔ وہاں کی سزاؤں میں وہاں کی قید و بند میں طوق و زنجیر میں گرم پانی کے کڑوے گھونٹ اتارنے میں اور پیپ کے لہو کے زہر مار کرنے میں بھی ان کے ساتھ ہوں گے اور دائمی سزا کا اعلان سب کو ساتھ سنا دیا جائے گا ۔ النسآء
141 عمل میں صفر دعویٰ میں اصلی مسلمان منافقوں کی بد باطنی کا ذکر ہے کہ مسلمانوں کی بربادی اس کی پستی کی تلاش میں لگے رہتے ہیں ٹوہ لیتے رہتے ہیں ، اگر کسی جہاد میں مسلمان کامیاب و کامران ہو گئے اللہ کی مدد سے یہ غالب آ گئے تو ان کے پیٹ میں گھسنے کے لیے آ آ کر کہتے ہیں کیوں جی ہم بھی تو تمہارے ساتھی ہیں اور اگر کسی وقت مسلمانوں کی آزمائش کے لیے اللہ جل شانہ نے کافروں کو غلبہ دے دیا جیسے احد میں ہوا تھا گو انجام کار حق ہی غالب رہا تو یہ ان کی طرف لپکتے ہیں اور کہتے ہیں دیکھو پوشیدہ طور پر تو ہم تمہاری تائید ہی کرتے رہے اور انہیں نقصان پہنچاتے رہے یہ ہماری ہی چالاکی تھی جس کی بدولت آج تم نے ان پر فتح پا لی ۔ یہ ہیں ان کے کرتوت کہ دو کشتیوں میں پاؤں رکھ چھوڑتے ہیں “دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا“ گو یہ اپنی اس مکاری کو اپنے لیے باعث فخر جانتے ہوں لیکن دراصل یہ سراسر ان کی بےایمانی اور کم یقینی کی دلیل ہے بھلا کچا رنگ کب تک رہتا ہے ؟ گاجر کی پونگی کب تک بجے گی ؟ کاغذ کی ناؤ کب تک چلے گی ؟ وقت آ رہا ہے کہ اپنے کئے پر نادم ہوں گے اپنی بیوقوفی پر ہاتھ ملیں گے اپنے شرمناک کرتوت پر ٹسوے بہائیں گے اللہ کا سچا فیصلہ سن لیں گے اور تمام بھلائیوں سے ناامید ہو جائیں گے ۔ بھرم کھل جائے گا ہر راز فاش ہو جائے گا اندر کا باہر آ جائے گا یہ پالیسی اور حکمت عملی یہ مصلحت وقت اور مقتضائے موقعہ نہایت ڈراؤنی صورت سے سامنے آ جائے گا اور عالم الغیب کے بےپناہ عذابوں کا شکار بن جائیں گے ناممکن ہے کہ کافروں کو اللہ تعالیٰ مومنوں پر غالب کر دے ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے اس کا مطلب پوچھا تو آپ نے اول جملے کے ساتھ ملا کر پڑھ دیا ۔ مطلب یہ تھا کہ قیامت کے دن ایسا نہ ہو گا ، یہ بھی مروی ہے کہ سبیل سے مراد حجت ہے ، لیکن تاہم اس کے ظاہری معنی مراد لینے میں بھی کوئی مانع نہیں یعنی یہ ناممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ اب سے لے کر قیامت تک کوئی ایسا وقت لائے کہ کافر اس قدر غلبہ حاصل کر لیں کہ مسلمانوں کا نام مٹا دیں یہ اور بات ہے کہ کسی جگہ کسی وقت دنیاوی طور پر انہیں غلبہ مل جائے لیکن انجام کار مسلمانوں کے حق میں ہی مفید ہو گا دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ۔ فرمان الٰہی ہے«اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوۃِ الدٰنْیَا وَیَوْمَ یَقُوْمُ الْاَشْہَادُ» ۱؎ (40۔غافر:51 ) ’ ہم اپنے رسولوں اور ایماندار بندوں کو مدد دنیا میں بھی ضرور دیں گے ‘ اور یہ معنی لینے میں ایک لطافت یہ بھی ہے کہ منافقوں کے دلوں میں مسلمانوں کو ذلت اور بربادی کا شکار دیکھنے کا جو انتظار تھا مایوس کر دیا گیا کہ کفار کو مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ اس طرح غالب نہیں کرے گا کہ تم پھولے نہ سماؤ اور کچھ لوگ جس ڈر سے مسلمانوں کا ساتھ کھلے طور پر نہ دیتے تھے ان کے ڈر کو بھی زائل کر دیا کہ تم یہ نہ سمجھو کہ کسی وقت بھی مسلمان مٹ جائیں گے ۔ اسی مطلب کی وضاحت «فَتَرَی الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ یٰسَارِعُوْنَ فِیْہِمْ یَقُوْلُوْنَ نَخْشٰٓی اَنْ تُصِیْبَنَا دَاۗیِٕرَۃٌ» ۱؎ (5-المائدۃ:52) میں کر دی ہے ۔ اس آیت کریمہ سے حضرات علماء کرام نے اس امر پر بھی استدلال کیا ہے کہ مسلمان غلام کو کافر کے ہاتھ بیچنا جائز نہیں ، کیونکہ اس صورت میں ایک کافر کو ایک مسلمان پر غالب کر دینا ہے اور اس میں مسلمان کی ذلت ہے جن بعض ذی علم حضرات نے اس سودے کو جائز رکھا ہے ان کا فیصلہ ہے کہ وہ اپنی ملک سے اس کو اسی وقت آزاد کر دے ۔ النسآء
142 دو ریوڑ کے درمیان کی بکری سورۃ البقرہ کے شروع میں بھی« یُخٰدِعُوْنَ اللّٰہَ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ۚ وَمَا یَخْدَعُوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَھُمْ وَمَا یَشْعُرُوْنَ» ۱؎ (2-البقرۃ:9) اسی مضمون کی گذر چکی ہے ، یہاں بھی یہی بیان ہو رہا ہے کہ یہ کم سمجھ منافق اس اللہ تعالیٰ کے سامنے چالیں چلتے ہیں جو سینوں میں چھپی ہوئی باتوں اور دل کے پوشیدہ رازوں سے آگاہ ہے ۔ کم فہمی سے یہ خیال کئے بیٹھے ہیں کہ جس طرح ان کی منافقت اس دنیا میں چل گئی اور مسلمانوں میں ملے جلے رہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کے پاس بھی یہ مکاری چل جائے گی ۔ چنانچہ قرآن میں ہے کہ قیامت کے دن بھی یہ لوگ اللہ خبیر و علیم کے سامنے اپنی یک رنگی کی قسمیں کھائیں گے جیسے یہاں کھاتے ہیں لکین اس عالم الغیب کے سامنے یہ ناکارہ قسمیں ہرگز کارآمد نہیں ہو سکتیں ۔ اللہ بھی انہیں دھوکے میں رکھ رہا ہے وہ ڈھیل دیتا ہے حوصلہ افزائی کرتا ہے یہ پھولے نہیں سماتے خوش ہوتے ہیں اور اپنے لیے اسے اچھائی سمجھتے ہیں ، قیامت میں بھی ان کا یہی حال ہو گا مسلمانوں کے نور کے سہارے میں ہوں گے وہ آگے نکل جائیں گے یہ آوازیں دیں گے کہ ٹھہرو ہم بھی تمہاری روشنی میں چلیں جواب ملے گا کہ پیچھے مڑ جاؤ اور روشنی تلاش کر لاؤ یہ مڑیں گے ادھر حجاب حائل ہو جائے گا ۔ مسلمانوں کی جانب رحمت اور ان کے لیے زحمت ، حدیث شریف میں ہے { جو سنائے گا اللہ بھی اسے سنائے گا اور جو ریا کاری کرے گا اللہ بھی اسے ویسا ہی دکھائے گا ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:6499) ایک اور حدیث میں ہے { ان منافقوں میں وہ بھی ہوں گے کہ لوگوں کے سامنے اللہ تعالیٰ ان کی نسبت فرمائے گا کہ انہیں جنت میں لے جاؤ فرشتے لے جا کر دوزخ میں ڈال دیں گے } اللہ اپنی پناہ میں رکھے ۔ پھر ان منافقوں کی بد ذوقی کا حال بیان ہو رہا ہے کہ انہیں نماز جیسی بہترین عبادت میں بھی یکسوئی اور خشوع و خضوع نصیب نہیں ہوتا کیونکہ نیک نیتی حسن عمل ، حقیقی ایمان ، سچا یقین ، ان میں ہے ہی نہیں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما تھکے ماندے بدن سے کسما کر نماز پڑھنا مکروہ جانتے تھے اور فرماتے تھے نمازی کو چاہیئے کہ ذوق و شوق سے راضی خوشی پوری رغبت اور انتہائی توجہ کے ساتھ نماز میں کھڑا ہو اور یقین مانے کہ اس کی آواز پر اللہ تعالیٰ کے کان ہیں ، اس کی طلب پوری کرنے کو اللہ تعالیٰ تیار ہے ۔ یہ تو ہوئی ان منافقوں کی ظاہری حالت کہ تھکے ہارے تنگ دلی کے ساتھ بطور بیگار ٹالنے کے نماز کے لیے آئے پھر اندرونی حالت یہ ہے کہ اخلاص سے کوسوں دور ہیں رب سے کوئی تعلق نہیں رکھتے نمازی مشہور ہونے کے لیے لوگوں میں اپنے ایمان کو ظاہر کرنے کے لیے نماز پڑھ رہے ہیں ، بھلا ان صنم آشنا دل والوں کو نماز میں کیا ملے گا ؟ یہی وجہ ہے کہ ان نمازوں میں جن میں لوگ ایک دوسرے کو کم دیکھ سکیں یہ غیر حاضر رہتے ہیں مثلاً عشاء کی نماز اور فجر کی نماز ۔ بخاری مسلم میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سب سے زیادہ بوجھل نماز منافقوں پر عشاء اور فجر کی ہے ۔ اگر دراصل یہ ان نمازوں کے فضائل کے دل سے قائل ہوتے تو گھٹنوں کے بل بھی چل کر آنا پڑتا یہ ضرور آ جاتے ہیں تو ارادہ کر رہا ہوں کہ تکبیر کہلوا کر کسی کو اپنی امامت کی جگہ کھڑا کر کے نماز شروع کرا کر کچھ لوگوں سے لکڑیاں اٹھوا کر ان کے گھروں میں جاؤں جو جماعت میں شامل نہیں ہوتے اور لکڑیاں ان کے گھروں کے اردگرد لگا کر حکم دوں کہ آگ لگا دو اور ان کے گھروں کو جلا دو ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:657) ایک روایت میں ہے { اللہ تعالیٰ کی قسم اگر انہیں ایک چرب ہڈی یا دو اچھے کھر ملنے کی امید ہو تو دوڑے چلے آئیں لیکن آخرت کی اور اللہ کے ثوابوں کی انہیں اتنی بھی قدر نہیں ۔ اگر بال بچوں اور عورتوں کا جو گھروں میں رہتی ہیں مجھے خیال نہ ہوتا تو قطعاً میں ان کے گھر جلا دیتا ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:644) ابو یعلیٰ میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص لوگوں کی موجودگی میں نماز کو سنوار کر ٹھہر ٹھہر کر ادا کرے لیکن جب کوئی نہ ہو تو بری طرح نماز پڑھ لے یہ وہ ہے جس نے اپنے رب کی اہانت کی ۔ } ۱؎ (مسند ابویعلیٰ:5117،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) پھر فرمایا یہ لوگ ذکر اللہ بھی بہت ہی کم کرتے ہیں یعنی نماز میں ان کا دل نہیں لگتا ، یہ اپنی کہی ہوئی بات سمجھتے بھی نہیں ، بلکہ غافل دل اور بےپرواہ نفس سے نماز پڑھ لیتے ہیں ، { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں یہ نماز منافق کی ہے یہ نماز منافق کی ہے کہ بیٹھا ہوا سورج کی طرف دیکھ رہا ہے یہاں تک کہ جب وہ ڈوبنے لگا اور شیطان نے اپنے دونوں سینگ اس کے اردگرد لگا دیئے تو یہ کھڑا ہوا اور جلدی جلدی چار رکعت پڑھ لیں جن میں اللہ کا ذکر برائے نام ہی کیا } ۱؎ (صحیح مسلم:622) یہ منافق متحیر اور ششدر و پریشان حال ہیں ایمان اور کفر کے درمیان ان کا دل ڈانوا ڈول ہو رہا ہے نہ تو صاف طور سے مسلمانوں کے ساتھی ہیں نہ بالکل کفار کے ساتھ کبھی نور ایمان چمک اٹھا تو اسلام کی صداقت کرنے لگے کبھی کفر کی اندھیریاں غالب آ گئیں تو ایمان سے الگ تھلگ ہو گئے ۔ نہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی طرف ہیں نہ یہودیوں کی جانب ۔ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ { منافق کی مثال ایسی ہے جیسی دو ریوڑ کے درمیان کی بکری کہ کبھی تو وہ میں میں کرتی اس ریوڑ کی طرف دوڑتی ہے کبھی اس طرف اس کے نزدیک ابھی طے نہیں ہوا کہ ان میں جائے یا اس کے پیچھے لگے ۔} ۱؎ (صحیح مسلم:2784) ایک روایت میں ہے کہ اس معنی کی حدیث سیدنا عبید بن عمیر رضی اللہ عنہ نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی موجودگی میں کچھ الفاظ کے ہیر پھیر سے بیان کی تو عبداللہ نے اپنے سنے ہوئے الفاظ دوہرا کر کہا یوں نہیں بلکہ دراصل حدیث یوں ہے جس پر عبید ناراض ہوئے ۔ ۱؎ (صحیح ابن حبان:264:حسن لغیرہ) [ ممکن ہے ایک بزرگ نے ایک طرح کے الفاظ سنے ہوں دوسرے نے دوسری قسم کے ] ابن ابی حاتم میں ہے مومن کافر اور منافق کی مثال ان تین شخصوں جیسی ہے جو ایک دریا پر گئے ایک تو کنارے ہی کھڑا رہ گیا دوسرا پار ہو کر منزل مقصود کو پہنچ گیا تیسرا اتر چلا مگر جب بیچوں بیچ پہنچا تو ادھر والے نے پکارنا شروع کیا کہ کہاں ہلاک ہونے جا رہا ہے ادھر آ واپس چلا آ ، ادھر والے نے آواز دی آ جاؤ نجات کے ساتھ منزل مقصود پر میری طرف پہنچ جاؤ آدھا راستہ طے کر چکے ہو اب یہ حیران ہو کر کبھی ادھر دیکھتا ہے کبھی ادھر نظر ڈالتا ہے تذبذب ہے کہ کدھر جاؤں کدھر نہ جاؤں ؟ اتنے میں ایک زبردست موج آئی اور بہا کر لے گئی اور وہ غوطے کھا کھا کر مر گیا ، پس پار جانے والا مسلمان ہے کنارے کھڑا بلانے والا کافر ہے اور موج میں ڈوب مرنے والا منافق ہے ، اور حدیث میں ہے { منافق کی مثال اس بکری جیسی ہے جو ہرے بھرے ٹیلے پر بکریوں کو دیکھ کر آئی اور سونگھ کر چل دی ، پھر دوسرے ٹیلے پر چڑھی اور سونگھ کر آ گئی ۔ } ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:10737) پھر فرمایا جسے اللہ ہی راہ حق سے پھیر دے اس کا ولی و مرشد کون ہے ؟ اس کے گمراہ کردہ کو کون راہ دکھا سکے ؟ اللہ نے منافقوں کو ان کی بدترین بدعملی کے باعث راستی سے دھکیل دیا ہے اب نہ کوئی انہیں راہ راست پر لا سکے نہ چھٹکارا دلا سکے ، اللہ کی مرضی کے خلاف کون کر سکتا ہے وہ سب پر حاکم ہے اس پر کسی کی حکومت نہیں ۔ النسآء
143 النسآء
144 کافر سے دوستی آگ سے دوستی کے مترادف ہے کافروں سے دوستیاں کرنے سے ان سے دلی محبت رکھنے سے ان کے ساتھ ہر وقت اٹھنے بیٹھنے سے مسلمانوں کے بھید ان کو دینے سے اور پوشیدہ تعلقات ان سے قائم رکھنے سے اللہ تعالیٰ ایمانداروں کو روک رہا ہے جیسے اور آیت میں ہے«لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْکٰفِرِیْنَ اَوْلِیَاۗءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ ۚ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰہِ فِیْ شَیْءٍ اِلَّآ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْھُمْ تُقٰیۃً ۭ وَیُحَذِّرُکُمُ اللّٰہُ نَفْسَہٗ ۭ وَاِلَی اللّٰہِ الْمَصِیْرُ»۱؎ (3-آل عمران:28) ’ مومنوں کو چاہیئے کہ بجز مومنوں کے کفار سے دوستی نہ کریں ایسا کرنے والا اللہ کے ہاں کسی بھلائی کا مستحق نہیں ہاں اگر صرف بچاؤ کے طور پر ظاہر داری ہو تو اور بات ہے ‘ اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے آپ سے ڈرا رہا ہے یعنی اگر تم اس کی نافرمانیاں کرو گے تو تمہیں اس کے عذابوں کو یاد رکھنا چاہیئے ، ابن ابی حاتم میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا فرمان مروی ہے کہ آپ نے فرمایا قرآن میں جہاں کہیں ایسی عبارتوں میں سلطان کا لفظ ہے وہاں اس سے مراد حجت ہے یعنی تم نے اگر مومنوں کو چھوڑ کر کفار سے دلی دوستی کے تعلقات پیدا کئے تو تمہارا یہ فعل کافی ثبوت ہو گا اور پوری دلیل ہو گی جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ تمہیں سزا دے ، کئی ایک سلف مفسرین رحمۃ اللہ علیہم اجمعین نے اس آیت کی یہی تفسیر کی ہے ۔ پھر منافقوں کا انجام بیان فرماتا ہے کہ یہ اپنے اس سخت کفر کی وجہ سے جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں داخل کئے جائیں گے «درک» درجہ کے مقابل کا مظہر ہے بہشت میں درجے ہیں ایک سے ایک بلند اور دوزخ میں «درک» ہیں ایک سے ایک پست ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں انہیں آگ کے صندوقوں میں بند کر کے جہنم میں ڈالا جائے گا اور یہ جلتے بھنتے رہیں گے ، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں یہ صندوق لوہے کے ہوں گے جو آگ لگتے ہی آگ کے ہو جائیں گے اور چاروں طرف سے بالکل بند ہوں گے اور کوئی نہ ہو گا جو ان کی کسی طرح کی مدد کرے ۔ جہنم سے نکال سکے یا عذابوں میں ہی کچھ کم کروا سکے ۔ ہاں ان میں سے جو توبہ کر لیں نادم ہو جائیں اور سچے دل سے منافقت چھوڑ دیں اور رب سے اپنے اس گناہ کی معافی چاہیں ۔ پھر اپنے اعمال میں اخلاص پیدا کریں صرف خوشنودی اللہ اور مرضی مولی کے لیے نیک اعمال پر کمر کس لیں ۔ ریا کاری کو اخلاص سے بدل دیں ۔ اللہ تعالیٰ کے دین کو مضبوطی سے تھام لیں تو بیشک اللہ ان کی توبہ قبول فرمائے گا اور انہیں سچے مومنوں میں داخل کر دے گا اور بڑے ثواب اور اعلیٰ اجر عنایت فرمائے گا ، ابن ابی حاتم میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اپنے دین کو خالص کر لو تو تھوڑا عمل بھی تمہیں کافی ہو جائے گا ۔ } ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:6162/4:ضعیف) پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ غنی ہے بے نیاز ہے بندوں کو سزا کرنی وہ نہیں چاہتا ، ہاں جب گناہوں پر دلیر ہو جائیں تو گوش مالی ضروری ہے ، پس فرمایا اگر تم اپنے اعمال کو سنوار لو اور اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر سچے دل سے ایمان لے آؤ تو کوئی وجہ نہیں جو اللہ تمہیں عذاب دے ۔ وہ تو چھوٹی چھوٹی نیکیوں کی بھی قدر دانی کرنے والا ہے ، جو اس کا شکر کرے وہ اس کی عزت افزائی کرتا ہے وہ پورے اور صحیح علم والا ہے ۔ جانتا ہے کہ کس کا عمل اخلاص والا اور قبولیت اور قدر کے لائق ہے ۔ اسے معلوم ہے کہ کس دل میں قوی ایمان ہے اور کون سا دل ایمان سے خالی ہے ، جو اخلاص اور ایمان والے ہیں انہیں بھرپور اور کامل بدلے اللہ تعالیٰ عنایت فرمائے گا [ اللہ ہمیں ایمان و اخلاص کی دولت سے مالا مال کرے اور پھر اجر و ثواب سے نہال کرے آمین ] «الحمداللہ» تفسیر محمدی ابن کثیر کا پانچواں پارہ ختم ہوا ۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے اور ہمیں اپنے کلام کے سمجھنے سمجھانے کی اور اس پر عامل بن جانے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین ! الہ تو اس پاک تفسیر کو میرے ہاتھوں ختم کرا اور پوری کتاب چھپی ہوئی مجھے دکھا ۔ میرے نامہ اعمال سے گناہوں کو مٹا کر نیکیاں تحریر فرما اور اپنے نیک بندوں میں شمار کر ، «آمین» النسآء
145 النسآء
146 النسآء
147 النسآء
148 مظلوم کو فریاد کا حق ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ کسی مسلمان کو دوسرے کو بد دعا دینا جائز نہیں ، ہاں جس پر ظلم کیا گیا ہو اسے اپنے ظالم کو بد دعا دینا جائز ہے اور وہ بھی اگر صبر و ضبط کر لے تو افضل یہی ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:344/9) ابوداؤد میں ہے { سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی کوئی چیز چور چرا لے گئے تو آپ ان پر بد دعا کرنے لگیں ۔ حضور رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا ! کیوں اس کا بوجھ ہلکا کر رہی ہو ؟ } ۱؎ (سنن ابوداود:4909،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس پر بد دعا نہ کرنی چاہیئے بلکہ یہ دعا کرنی چاہیئے «اللھم اعنی علیہ واستخرج حقی منہ» ’ یا اللہ اس چور پر تو میری مدد کر اور اس سے میرا حق دلوا دے ۔ ‘ آپ سے ایک اور روایت میں مروی ہے کہ { اگرچہ مظلوم کے ظالم کو کوسنے کی رخصت ہے مگر یہ خیال رہے کہ حد سے نہ بڑھ جائے ۔ } عبدالکریم بن مالک جزری رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں “گالی دینے والے کو یعنی برا کہنے والے کو برا تو کہہ سکتے ہیں لیکن بہتان باندھنے والے پر بہتان نہیں باندھ سکتے ۔ “ ایک اور آیت میں ہے «وَلَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِہٖ فَاُولٰۗیِٕکَ مَا عَلَیْہِمْ مِّنْ سَبِیْلٍ» ۱؎ (42-الشوری:41) ’ جو مظلوم اپنے ظالم سے اس کے ظلم کا انتقام لے ، اس پر کوئی مؤاخذہ نہیں ۔ ‘ ابوداؤد میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں “دو گالیاں دینے والوں کا وبال اس پر ہے ، جس نے گالیاں دینا شروع کیا ۔ ہاں اگر مظلوم حد سے بڑھ جائے تو اور بات ہے ۔} ۱؎ (صحیح مسلم:2578) حضرت مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں جو شخص کسی کے ہاں مہمان بن کر جائے اور میزبان اس کا حق مہمانی ادا نہ کرے تو اسے جائز ہے کہ لوگوں کے سامنے اپنے میزبان کی شکایت کرے ، جب تک کہ وہ حق ضیافت ادا نہ کرے ۔ ابوداؤد ، ابن ماجہ وغیرہ میں ہے { صحابہ رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ آپ ہمیں ادھر ادھر بھیجتے ہیں ۔ بعض مرتبہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہاں کے لوگ ہماری مہمانداری نہیں کرتے“ آپ نے فرمایا اگر وہ میزبانی کریں تو درست ، ورنہ تم ان سے لوازمات میزبانی خود لے لیا کرو ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:2461) مسند احمد کی روایت میں { فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ جو مسلمان کسی اہل قبلہ کے ہاں مہمان بن کر جائے اور ساری رات گذر جائے لیکن وہ لوگ اس کی مہمانداری نہ کریں تو ہر مسلمان پر اس مہمان کی نصرت ضروری ہے تاکہ میزبان کے مال سے اس کی کھیتی سے بقدر مہمانی دلائیں ۔ } ۱؎ (سنن ابوداود:3751،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) مسند کی اور حدیث میں ہے { ضیافت کی رات ہر مسلمان پر واجب ہے ، اگر کوئی مسافر صبح تک محروم رہ جائے تو یہ اس میزبان کے ذمہ قرض ہے ، خواہ ادا کرے خواہ باقی رکھے} ۱؎ (سنن ابوداود:3750،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ان احادیث کی وجہ سے امام احمد رحمہ اللہ وغیرہ کا مذہب ہے کہ ضیافت واجب ہے ، ابوداؤد شریف وغیرہ میں ہے { ایک شخص سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہو کر عرض کرتا ہے کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے میرا پڑوسی بہت ایذاء پہنچاتا ہے ، آپ نے فرمایا ایک کام کرو ، اپنا کل مال اسباب گھر سے نکال کر باہر رکھ دو } ۔ اس نے ایسا ہی کیا راستے پر اسباب ڈال کر وہیں بیٹھ گیا ، اب جو گذرتا وہ پوچھتا کیا بات ہے ؟ یہ کہتا میرا پڑوسی مجھے ستاتا ہے میں تنگ آ گیا ہوں ، راہ گزر اسے برا بھلا کہتا ، کوئی کہتا رب کی مار اس پڑوسی پر ۔ کوئی کہتا اللہ غارت کرے اس پڑوسی کو ، جب پڑوسی کو اپنی اس طرح کی رسوائی کا حال معلوم ہوا تو اس کے پاس آیا ، منتیں کر کے کہا “اپنے گھر چلو اللہ کی قسم اب مرتے دم تک تم کو کسی طرح نہ ستاؤں گا ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:124) پھر ارشاد ہے کہ اے لوگو تم کسی نیکی کو ظاہر کرو یا پوشیدہ رکھو تم پر کسی نے ظلم کیا ہو اور تم اس سے درگزر کرو تو اللہ کے پاس تمہارے لیے بڑا ثواب ، پورا اجر اور اعلیٰ درجے ہیں ۔ خود وہ بھی معاف کرنے والا ہے اور بندوں کی بھی یہ عادت اسے پسند ہے ، وہ انتقام کی قدرت کے باوجود معاف فرماتا رہتا ہے ۔ ایک روایت میں ہے کہ { عرش کو اٹھانے والے فرشتے اللہ کی تسبیح کرتے رہتے ہیں ۔ } بعض تو کہتے ہیں دعا« سُبحانَکَ علی حلمِکَ بَعدَ عِلمِکَ» { یا اللہ تیری ذات پاک ہے کہ تو باوجود جاننے کے پھر بھی برد باری اور چشم پوشی کرتا ہے ۔ } بعض کہتے ہیں « سُبحانَکَ علی عفوِکَ بعدَ قٌدرتِکَ» { اے قدرت کے باوجود درگذر کرنے والے اللہ تمام پاکیاں تیری ذات کے لیے مختص ہیں ۔ } صحیح حدیث شریف میں ہے { صدقے اور خیرات سے کسی کا مال گھٹتا نہیں ، عفو و درگذر کرنے اور معاف کر دینے سے اللہ تعالیٰ اور عزت بڑھاتا ہے اور جو شخص اللہ کے حکم سے تواضع ، فروتنی اور عاجزی اختیار کرے اللہ اس کا مرتبہ اور توقیر مزید بڑھا دیتا ہے ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:2588) النسآء
149 النسآء
150 کسی ایک بھی نبی کو نہ ماننا کفر ہے! اس آیت میں بیان ہو رہا ہے کہ جو ایک نبی کو بھی نہ مانے کافر ہے ، یہودی سوائے عیسیٰ علیہ السلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اور تمام نبیوں کو مانتے تھے ، نصرانی افضل الرسل خاتم الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا تمام انبیاء پر ایمان رکھتے تھے ، سامری یوشع علیہ السلام کے بعد کسی کی نبوت کے قائل نہ تھے ، یوشع علیہ السلام موسیٰ بن عمران علیہ السلام کے خلیفہ تھے ۔ مجوسیوں کی نسبت مشہور ہے کہ وہ اپنا نبی زردشت کو مانتے تھے لیکن جب یہ بھی ان کی شریعت کے منکر ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے وہ شریعت ہی ان سے اٹھا لی ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ پس یہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسولوں میں تفریق کی یعنی کسی نبی کو مانا ، کسی سے انکار کر دیا ۔ کسی ربانی دلیل کی بنا پر نہیں بلکہ محض اپنی نفسانی خواہش جوش تعصب اور تقلید آبائی کی وجہ سے ، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ایک نبی کو نہ ماننے والا اللہ کے نزدیک تمام نبیوں کا منکر ہے ۔ اس لیے کہ اگر اور انبیاء علیہم السلام کو بوجہ نبی ہونے کے مانتا تو اس نبی کو ماننا بھی اسی وجہ سے اسپر ضروری تھا ، جب وہ ایک کو نہیں مانتا تو معلوم ہوا کہ جنہیں وہ مانتا ہے انہیں بھی کسی دنیاوی غرض اور ہواؤں کی وجہ سے مانتا ہے ، ان کا شریعت ماننا یا نہ ماننا دونوں بے معنی ہے ، ایسے لوگ حتماًً اور یقیناً کافر ہیں ، کسی نبی پر ان کا شرعی ایمان نہیں بلکہ تقلیدی اور تعصبی ایمان ہے جو قابل قبول نہیں ، پس ان کفار کو اہانت اور رسوائی آمیز عذاب کئے جائیں گے ۔ کیونکہ جن پر یہ ایمان نہ لا کر ان کی توہین کرتے تھے اس کا بدلہ یہی ہے کہ ان کی توہین ہو اور انہیں ذلت والے عذاب میں ڈالا جائے گا ، ان کے ایمان نہ لانے کی وجہ خواہ غور و فکر کے بغیر نبوت کی تصدیق نہ کرنا ہو ، خواہ حق واضح ہو چکنے کے بعد دنیوی وجہ سے منہ موڑ کر نبوت سے انکار کرنا ہو ۔ جیسے اکثر یہودی علماء کا شیوہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں تھا کہ محض حسد کی وجہ سے آپ کی عظیم الشان نبوت کے منکر تھے اور آپ کی مخالفت اور عداوت میں آ کر مقابلے پر تل گئے ، پس اللہ نے ان پر دنیا کی ذلت بھی مسلط کر دی اور آخرت کی ذلت کی مار بھی ان کے لیے تیار کر رکھی ۔ پھر امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف ہو رہی ہے کہ یہ اللہ پر ایمان رکھ کر تمام انبیاء علیہم السلام کو اور تمام آسمانی کتابوں کو بھی الہامی کتابیں تسلیم کرتے ہیں ۔ جیسے ایک اور آیت میں ہے «کُلٌّ آمَنَ بِ اللہِ وَمَلَائِکَتِہِ وَکُتُبِہِ وَرُسُلِہِ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ أَحَدٍ مِّن رٰسُلِہِ» ۱؎ (2-البقرۃ:285) پھر ان کے لیے جو اجر جمیل اور ثواب عظیم اس نے تیار کر رکھا ہے اسے بھی بیان فرما دیا کہ ان کے ایمان کامل کے باعث انہیں اجر و ثواب عطا ہوں گے ۔ اگر ان سے کوئی گناہ بھی سرزد ہو گیا تو اللہ معاف فرما دے گا اور ان پر اپنی رحمت کی بارش برسائیں گے ۔ النسآء
151 النسآء
152 النسآء
153 محسوس معجزہ کی مانگ اور بنی سرائیل کی حجت بازیاں یہودیوں نے جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ جس طرح موسیٰ علیہ السلام اللہ کی طرف سے توراۃ ایک ساتھ لکھی ہوئی ہمارے پاس لائے ، آپ بھی کوئی آسمانی کتاب پوری لکھی لکھائی لے آیئے ۔ یہ بھی مروی ہے کہ انہوں نے کہا تھا کہ ہمارے نام اللہ تعالیٰ خط بھیجے کہ ہم آپ کی نبوت کو مان لیں ۔ یہ سوال بھی ان کا بدنیتی سے بطور مذاق اور کفر تھا ۔ جیسا کہ اہل مکہ نے بھی اسی طرح کا ایک سوال کیا تھا ۔ جس طرح سورۃ سبحان میں مذکور ہے کہ “جب تک عرب کی سر زمین میں دریاؤں کی ریل پیل اور تروتازگی کا دور دورہ نہ ہو جائے ہم آپ پر ایمان نہیں لائیں گے ۔ ” پس بطور تسلی کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان کی اس سرکشی اور بیجا سوال پر آپ کبیدہ خاطر نہ ہوں ان کی یہ بد عادت پرانی ہے ، انہوں نے موسیٰ علیہ السلام سے اس سے بھی زیادہ بیہودہ سوال کیا تھا کہ ہمیں اللہ تعالیٰ خود کو دکھائے ۔ اس تکبر اور سرکشی اور فضول سوالوں کی پاداش بھی یہ بھگت چکے ہیں یعنی ان پر آسمانی بجلی گری تھی ۔ جیسے سورۃ البقرہ میں تفصیل وار بیان گذر چکا ۔ ملاحظہ ہو آیت «وَاِذْ قُلْتُمْ یٰمُوْسٰی لَنْ نٰؤْمِنَ لَکَ حَتّٰی نَرَی اللّٰہَ جَہْرَۃً فَاَخَذَتْکُمُ الصّٰعِقَۃُ وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ» ۱؎ (2-البقرۃ:55) یعنی ’ جب تم نے کہا تھا کہ اے موسیٰ علیہ السلام ہم تجھ پر ہرگز ایمان نہ لائیں گے جب تک کہ اللہ تعالیٰ کو ہم صاف طور پر اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں پس تمہیں بجلی کے کڑاکے نہ پکڑ لیا اور ایک دوسرے کے سامنے سب ہلاک ہو گئے ، پھر بھی ہم نے تمہاری موت کے بعد دوبارہ تمہیں زندہ کر دیا تاکہ تم شکر کرو ۔ ‘ پھر فرماتا ہے کہ ”بڑی بڑی نشانیاں دیکھ چکنے کے بعد بھی ان لوگوں نے بچھڑے کو پوجنا شروع کر دیا ۔ “ مصر میں اپنے دشمن فرعون کا موسیٰعلیہ السلام کے مقابلے میں ہلاک ہونا اس کے تمام لشکروں کا نامرادی کی موت مرنا ، ان کا دریا سے بچ کر پار نکل آنا ، ابھی ابھی ان کی نگاہوں کے سامنے ہوا تھا ۔ لیکن وہاں سے چل کر کچھ دور جا کر ہی بت پرستوں کو بت پرستی کرتے ہوئے دیکھ کر اپنے پیغمبر سے کہتے ہیں ’ ہمارا بھی ایک ایسا ہی معبود بنا دو ۔ ‘ جس کا پورا بیان سورۃ الاعراف میں ہے اور سورۃ طہٰ میں بھی ۔ پھر موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے مناجات کرتے ہیں ، ان کی توبہ کی قبولیت کی یہ صورت ٹھہرتی ہے کہ جنہوں نے گو سالہ پرستی نہیں کی وہ گوسالہ پرستوں کو قتل کریں ۔ جب قتل شروع ہو جاتا ہے ، اللہ ان کی توبہ قبول فرماتا ہے اور مرے ہوؤں کو بھی دوبارہ زندہ کر دیتا ہے ۔ پس یہاں فرماتا ہے ہم نے اس سے بھی درگذر کیا اور یہ جرم عظیم بھی بخش دیا اور موسیٰ علیہ السلام کو ظاہر حجت اور کھلا غلبہ عنایت فرمایا اور جب ان لوگوں نے توراۃ کے احکام ماننے سے انکار کر دیا ۔ موسیٰ علیہ السلام کی فرمانبرداری سے بیزاری ظاہر کی تو ان کے سروں پر طور پہاڑ کو معلق کھڑا کر دیا اور ان سے کہا کہ اب بولو ! پہاڑ گرا کر پاش پاش کر دیں یا احکام قبول کرتے ہو ؟ تو یہ سب سجدے میں گر پڑے اور گریہ وزاری شروع کی اور احکام الٰہی بجا لانے کا مضبوط عہد و پیمان کیا یہاں تک کہ دل میں دہشت تھی اور سجدے میں کنکھیوں سے اوپر دیکھ رہے تھے کہ کہیں پہاڑ نہ گر پڑے اور دب کر نہ مر جائیں ، پھر پہاڑ ہٹایا گیا ۔ ان کی دوسری کشی کا بیان ہو رہا ہے کہ قول و فعل دونوں کو بدل دیا ، حکم ملا تھا کہ بیت المقدس کے دروازے میں سجدے کرتے ہوئے جائیں اور «حطتہ» کہیں ”یعنی اے اللہ ہماری خطائیں بخش کہ ہم نے جہاد چھوڑ دیا اور تھک کر بیٹھ رہے جس کی سزا میں چالیس سال میدان تیہ میں سرگشتہ و حیران و پریشان رہے“ ۔ لیکن ان کی کم ظرفی کا یہاں بھی مظاہرہ ہوا اور اپنی رانوں کے بل گھسٹتے ہوئے دروازے میں داخل ہونے لگے اور «حنطتہ فی شعرۃ» کہنے لگے یعنی گیہوں کی بالیں ہمیں دے ۔ پھر ان کی اور شرارت سنئے ہفتہ والے دن کی تعظیم و کریم کرنے کا ان سے وعدہ لیا گیا اور مضبوط عہد و پیمان ہو گیا لیکن انہوں نے اس کی بھی مخالفت کی نافرمانی پر کمربستہ ہو کر حرمت کے ارتکاب کے حیلے نکال لیے ۔ جیسے کہ سورۃ الاعراف میں مفصل بیان ہے ملاحظہ ہو آیت «وَسْــــَٔـلْہُمْ عَنِ الْقَرْیَۃِ الَّتِیْ کَانَتْ حَاضِرَۃَ الْبَحْرِ» ۱؎ (7-الأعراف:163)، ایک حدیث میں بھی ہے کہ یہودیوں سے خاصتہ اللہ تعالیٰ نے ہفتہ والے دن کی تعظیم کا عہد لیا تھا ۔ یہ پوری حدیث سورۃ سبحان کی آیت «وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰی تِسْعَ اٰیٰتٍۢ بَیِّنٰتٍ فَسْــــَٔـلْ بَنِیْٓ اِسْرَاۗءِیْلَ اِذْ جَاۗءَہُمْ فَقَالَ لَہٗ فِرْعَوْنُ اِنِّیْ لَاَظُنٰکَ یٰمُوْسٰی مَسْحُوْرًا» ۱؎ (17-الإسراء:101)، کی تفسیر میں آئے گی ان شاءاللہ ! النسآء
154 النسآء
155 اہل کتاب ، قاتلان انبیاء ، عیسیٰ علیہ السلام کی روداد اور مراحل قیامت اہل کتاب کے ان گناہوں کا بیان ہو رہا ہے جن کی وجہ سے وہ اللہ کی رحمتوں سے دور ڈال دیئے گئے اور ملعون و جلا وطن کر دیئے گئے اولاً ان کی عہد شکنی یہ تھی کہ جو وعدے انہوں نے اللہ سے کئے ان پر قائم نہ رہے ، دوسرے اللہ کی آیتوں یعنی حجت و دلیل اور نبیوں کے معجزوں سے انکار اور کفر ، تیسرے بلا وجہ ، ناحق انبیاء کرام علیہم السلام کا قتل ۔ ان کے رسولوں کی ایک بڑی جماعت ان کے ہاتھوں قتل ہوئی ۔ چوتھی ان کا یہ خیال اور قول کہ ہمارے دل غلافوں میں ہیں یعنی پردے میں ہیں ، جیسے مشرکین نے کہا تھا آیت «وَقَالُوْا قُلُوْبُنَا فِیْٓ اَکِنَّۃٍ مِّمَّا تَدْعُوْنَآ اِلَیْہِ وَفِیْٓ اٰذَانِنَا وَقْرٌ وَّمِنْۢ بَیْنِنَا وَبَیْنِکَ حِجَابٌ فَاعْمَلْ اِنَّنَا عٰمِلُوْنَ» ۱؎ (41-فصلت:5) یعنی ’ اے نبی تیری دعوت سے ہمارے دل پردے میں ہیں ۔ ‘ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کے اس قول کا مطلب یہ ہے کہ ’ ہمارے دل علم کے ظروف ہیں وہ علم و عرفان سے پُر ہیں ۔ ‘ سورۃ البقرہ میں بھی اس کی نظیر گذر چکی ہے ، اللہ تعالیٰ ان کے اس قول کی تردید کرتا ہے کہ یوں نہیں بلکہ ان پر اللہ تعالیٰ نے مہر لگا دی ہے کیونکہ یہ کفر میں پختہ ہو چکے تھے ۔ پس پہلی تفسیر کی بنا پر یہ مطلب ہوا کہ وہ عذر کرتے تھے کہ ہمارے دل بوجہ ان پر غلاف ہونے کے نبی کی باتوں کو یاد نہیں کر سکتے تو انہیں جواب دیا گیا کہ ایسا نہیں بلکہ تمہارے کفر کی وجہ سے تمہارے دل مسخ ہو گئے ہیں اور دوسری تفسیر کی بنا پر تو جواب ہر طرح ظاہر ہے ۔ سورۃ البقرہ کی تفسیر میں اس کی پوری تفصیل و تشریح گذر چکی ہے ۔ پس بطور نتیجے کے فرما دیا کہ اب ان کے دل کفر و سرکشی اور کمی ایمان پر ہی رہیں گے ۔ پھر ان کا پانچواں جرم عظیم بیان ہو رہا ہے کہ انہوں نے سیدہ مریم علیہا السلام پر زناکاری جیسی بدترین اور شرمناک تہمت لگائی اور اسی زناکاری کے حمل سے عیسیٰ علیہ السلام کو پیدا شدہ بتایا ، بعض نے اس سے بھی ایک قدم آگے رکھا اور کہا کہ یہ بدکاری حیض کی حالت میں ہوئی تھی ۔ اللہ کی ان پر پھٹکار ہو کہ ان کی بد زبانی سے اللہ کے مقبول بندے بھی نہ بچ سکے ۔ پھر ان کا چھٹا گناہ بیان ہو رہا ہے کہ یہ بطور تمسخر اور اپنی بڑائی کے یہ ہانک بھی لگاتے ہیں کہ ” ہم نے عیسیٰ علیہ السلام کو مار ڈالا“ جیسے کہ بطور تمسخر کے مشرکین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے ہیں کہ اے وہ شخص جس پر قرآن اتارا گیا ہے تو تو مجنون ہے ۔ پورا واقعہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو نبوت دے کر بھیجا اور آپ کے ہاتھ پر بڑے بڑے معجزے دکھائے مثلاً بچپن کے اندھوں کو بینا کرنا ، کوڑھیوں کو اچھا کرنا ، مردوں کو زندہ کرنا ، مٹی کے پرند بنا کر پھونک مارنا اور ان کا جاندار ہو کر اڑ جانا وغیرہ تو یہودیوں کو سخت طیش آیا اور مخالفت پر کمربستہ ہو گئے اور ہر طرح سے ایذاء رسانی شروع کر دی ، آپ کی زندگی تنگ کر دی ، کسی بستی میں چند دن آرام کرنا بھی آپ کو نصیب نہ ہوا ، ساری عمر جنگلوں اور بیابانوں میں اپنی والدہ کے ساتھ سیاحت میں گذاری ، پھر بھی انہیں چین نہ لینے دیا ، یہ دمشق کے بادشاہ کے پاس گئے جو ستارہ پرست مشرک شخص تھا [ اس مذہب والوں کے ملک کو اس وقت یونان کہا جاتا تھا ] یہاں آکر بہت روئے پیٹے اور بادشاہ کو عیسیٰ علیہ السلام کے خلاف اکسایا اور کہا کہ یہ شخص بڑا مفسد ہے ۔ لوگوں کو بہکا رہا ہے ، روز نئے فتنے کھڑے کرتا ہے ، امن میں خلل ڈالتا ہے ۔ لوگوں کو بغاوت پہ اکساتا ہے وغیرہ ۔ بادشاہ نے اپنے گورنر کو جو بیت المقدس میں تھا ، ایک فرمان لکھا کہ وہ عیسیٰ علیہ السلام کو گرفتار کر لے اور سولی پر چڑھا کر اس کے سر پر کانٹوں کا تاج رکھ کر لوگوں کو اس دکھ سے نجات دلوائے ۔ اس نے فرمان شاہی پڑھ کر یہودیوں کے ایک گروہ کو اپنے ساتھ لے کر اس مکان کا محاصرہ کر لیا جس میں روح اللہ علیہ السلام تھے ، آپ کے ساتھ اس وقت بارہ تیرہ یا زیادہ سے زیادہ ستر آدمی تھے ، جمعہ کے دن عصر کے بعد اس نے محاصرہ کیا اور ہفتہ کی رات تک مکان کو گھیرے میں لیے رہا جب عیسیٰ علیہ السلام نے یہ محسوس کر لیا کہ اب وہ مکان میں گھس کر آپ کو گرفتار کر لیں گے یا آپ کو خود باہر نکلنا پڑے گا تو آپ نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا تم میں سے کون اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس پر میری مشابہت ڈال دی جائے یعنی اس کی صورت اللہ مجھ جیسی بنا دے اور وہ ان کے ہاتھوں گرفتار ہو اور مجھے اللہ مخلصی دے ؟ میں اس کے لیے جنت کا ضامن ہوں ۔ اس پر ایک نوجوان نے کہا مجھے یہ منظور ہے لیکن عیسیٰ علیہ السلام نے انہیں اس قابل نہ جان کر دوبارہ یہی کہا ، تیسری دفعہ بھی کہا مگر ہر مرتبہ صرف یہی تیار ہوئے رضی اللہ عنہ ۔ اب آپ نے یہی منظور فرما لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کی صورت قدرتاً بدل گئی بالکل یہ معلوم ہونے لگا کہ عیسیٰ علیہ السلام یہی ہیں اور چھت کی طرف ایک روزن نمودار ہو گیا اور عیسیٰ علیہ السلام پر اونگھ کی سی حالت ہو گئی اور اسی طرح وہ آسمان پر اٹھا لیے گئے ۔ جیسے قرآن کریم میں ہے آیت«إِذْ قَالَ اللہُ یَا عِیسَیٰ إِنِّی مُتَوَفِّیکَ وَرَافِعُکَ إِلَیَّ وَمُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِینَ کَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِینَ اتَّبَعُوکَ فَوْقَ الَّذِینَ کَفَرُوا إِلَیٰ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ» ۱؎ (3-آل عمران:55)، یعنی جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’ اے عیسیٰ میں تم سے مکمل تعاون کرنے والا ہوں اور اپنی طرف اٹھانے والا ہوں ۔ ‘ روح اللہ کے سوئے ہوئے آسمان پر اٹھائے جانے کے بعد یہ لوگ اس گھر سے باہر نکلے ، یہودیوں کی جماعت نے اس بزرگ صحابی کو جس پر جناب مسیح علیہ السلام کی شباہت ڈال دی گئی تھی ، عیسیٰ سمجھ کر پکڑ لیا اور راتوں رات اسے سولی پر چڑھا کر اس کے سر پر کانٹوں کا تاج رکھ دیا ۔ اب یہود خوشیاں منانے لگے کہ ہم نے عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کو قتل کر دیا اور لطف تو یہ ہے کہ عیسائیوں کی کم عقل اور جاہل جماعت نے بھی یہودیوں کی ہاں میں ہاں ملا دی اور ہاں صرف وہ لوگ جو مسیح علیہ السلام کے ساتھ اس مکان میں تھے اور جنہیں یقینی طور پر معلوم تھا کہ مسیح آسمان پر چڑھا لیے گئے اور یہ فلاں شخص ہے جو دھوکے میں ان کی جگہ کام آیا ۔ باقی عیسائی بھی یہودیوں کا سا راگ الاپنے لگے ، یہاں تک کہ پھر یہ بھی گھڑ لیا کہ عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ سولی تلے بیٹھ کر روتی چلاتی رہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ آپ نے ان سے کچھ باتیں بھی کیں ، «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ دراصل یہ سب باتیں اللہ کی طرف سے اپنے بزرگ بندوں کا امتحان ہیں جو اس کی حکمت بالغہ کا تقاضا ہے ، پس اس غلطی کو اللہ تعالیٰ نے واضح اور ظاہر کر کے حقیقت حال سے اپنے بندوں کو مطلع فرما دیا اور اپنے سب سے بہتر رسول اور بڑے مرتبے والے پیغمبر کی زبانی اپنے پاک ، سچے اور بہترین کلام میں صاف فرما دیا کہ حقیقتاً نہ کسی نے عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کیا ، نہ سولی دی بلکہ ان کی شبیہ جس پر ڈالی گئی تھی ، اسے عیسیٰ علیہ السلام ہی سمجھ بیٹھے ۔ جو یہود و نصاریٰ آپ کے قتل کے قائل ہو گئے وہ سب کے سب شک و شبہ میں حیرت و ضلالت میں مبتلا ہیں ۔ ان کے پاس کوئی دلیل نہیں نہ انہیں خود کچھ علم ہے صرف سنی سنائی باتوں پہ یقین کے سوا کوئی ان کے پاس دلیل نہیں ۔ اسی لیے پھر اسی کے متصل فرما دیا کہ ” یہ یقینی امر ہے کہ روح اللہ کو کسی نے قتل نہیں کیا بلکہ جناب باری عزاسمہ نے جو غالب تر ہے اور جس کی قدرتیں بندوں کے فہم میں بھی نہیں آ سکتیں اور جس کی حکمتوں کی تہ تک اور کاموں کی لم تک کوئی نہیں پہنچ سکتا ، اپنے خاص بندے کو جنہیں اپنی روح کہا تھا اپنے پاس اٹھا لیا“ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں جب اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھانا چاہا تھا ، آپ گھر میں آئے اور گھر میں بارہ حواری تھے ، آپ کے بالوں سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے ، آپ نے فرمایا ! تم میں بعض ایسے ہیں جو مجھ پر ایمان لا چکے ہیں مگر کچھ مجھ سے کفر کریں گے ۔ پھر آپ نے فرمایا ” تم میں سے کون شخص اسے پسند کرتا ہے کہ اس پر میری شبیہ ڈالی جائے اور میری جگہ وہ قتل کر دیا جائے اور جنت میں میرا رفیق بنے ۔ “ اس روایت میں یہ بھی ہے کہ روح اللہ علیہ السلام کی پیش گوئی کے مطابق بعض نے آپ سے بارہ بارہ بار کفر کیا ۔ پھر ان کے تین گروہ ہو گئے ، یعقوبیہ ، نسطوریہ اور مسلمان ، یعقوبیہ تو کہنے لگے خود اللہ ہم میں تھا ، جب تک چاہا رہا ، پھر آسمان پر چڑھ گیا ، نسطوریہ کا خیال ہو گیا کہ اللہ کا لڑکا ہم میں تھا ، جسے ایک زمانے تک ہم میں رکھ کر پھر اللہ نے اپنی طرف اٹھا لیا اور مسلمانوں کا یہ عقیدہ رہا کہ اللہ کا بندہ اور رسول ہم میں تھا جب تک اللہ نے چاہا وہ ہم میں رہا اور پھر اللہ نے اسے اپنی طرف اٹھا لیا ۔ ان پہلے دو گمراہ فرقوں کا زور ہو گیا اور انہوں نے تیسرے سچے اور اچھے فرقے کو کچلنا اور دبانا شروع کیا ، چنانچہ یہ کمزور ہوتے گئے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے پیغمبر آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرما کر اسلام کو غالب کیا ۔ اس کی اسناد بالکل صحیح ہے اور نسائی میں سیدنا ابومعاویہ رضی اللہ عنہ سے بھی یہی منقول ہے ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:1110/4) اسی طرح سلف میں سے بہت سے بزرگوں کا قول ہے ، وہب بن منبہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں جس وقت شاہی سپاہی اور یہودی عیسیٰ علیہ السلام پر چڑھ دوڑے اور گھیرا ڈال دیا اس وقت آپ کے ساتھ سترہ آدمی تھے ۔ ان لوگوں نے جب دروازے کھول کر دیکھا تو دیکھا کہ سب کے سب عیسیٰ کی صورت میں ہیں تو کہنے لگے تم لوگوں نے ہم پر جادو کر دیا ہے ، اب یا تو تم اسے جو حقیقی عیسیٰ علیہ السلام ہوں ہمیں سونپ دو یا اسے منظور کر لو کہ ہم تم سب کو قتل کر ڈالیں ۔ یہ سن کر روح اللہ نے فرمایا ” کوئی ہے جو جنت میں میرا رفیق بنے اور یہاں میرے بدلے سولی پر چڑھنا منظور کرے “ ایک صحابی اس کے لیے تیار ہو گئے اور کہنے لگے عیسیٰ میں تیار ہوں ، چنانچہ دشمنان دین نے انہیں گرفتار کیا قتل کیا اور سولی چڑھایا اور بغلیں بجانے لگے کہ ہم نے عیسیٰ کو قتل کیا ، حالانکہ دراصل ایسا نہیں ہوا بلکہ وہ دھوکے میں پڑ گئے اور اللہ نے اپنے رسول کو اسی وقت اپنے پاس چڑھا لیا ۔ تفسیر ابن جریر میں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو یہ وحی کر دیا کہ وہ دنیا سے رخصت ہونے والے ہیں تو آپ پر بہت گراں گذرا اور موت کی گھبراہٹ بڑھ گئی تو آپ نے حواریوں کی دعوت کی ، کھانا تیار کیا اور سب سے کہدیا کہ آج رات کو میرے پاس تم سب ضرور آنا ، مجھے ایک ضروری کام ہے ۔ جب وہ آئے تو خود کھانا کھلایا سب کام کاج اپنے ہاتھوں کرتے رہے ، جب وہ کھا چکے تو خود ان کے ہاتھ دھلائے اور اپنے کپڑوں سے کے ہاتھ پونچھے یہ ان پر بھاری پڑا اور برا بھی لگا لیکن آپ نے فرمایا “اس رات میں جو کچھ کر رہا ہوں ، اگر تم میں سے کسی نے مجھے اس سے روکا تو میرا اس کا کچھ واسطہ نہیں نہ وہ میرا نہ میں اس کا ۔ ” چنانچہ وہ سب خاموش رہے ۔ جب آپ ان تمام کاموں سے فارغ ہو گئے تو فرمایا دیکھو ! تمہارے نزدیک میں تم سب سے بڑے مرتبے والا ہوں اور میں نے تمہاری خدمت خود کی ہے ، یہ اس لیے کہ تم میری اس سنت کے عامل بن جاؤ ، خبردار تم میں سے کوئی اپنے آپ کو اپنے بھائیوں سے بڑا نہ سمجھے ، بلکہ ہر بڑا چھوٹے کی خدمت کرے ، جس طرح خود میں نے تمہاری خدمت کی ہے ۔ اب تم سے میرا جو خاص کام تھا جس کی وجہ سے آج میں نے تمہیں بلایا ہے وہ بھی سن لو کہ “تم سب مل کر آج رات بھر خشوع و خضوع سے میرے لیے دعائیں کرو کہ اللہ میری اجل کو مؤخر کر دے ۔ ” چنانچہ سب نے دعائیں شروع کیں لیکن خشوع و خضوع کا وقت آنے سے پہلے ہی اس طرح انہیں نیند آنے لگی کہ زبان سے ایک لفظ نکالنا مشکل ہو گیا ، آپ نے انہیں بیدار کرنے کی کوشش میں ایک ایک کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر کہا تمہیں کیا ہو گیا ؟ ایک رات بھی جاگ نہیں سکتے ؟ میری مدد نہیں کرتے ؟ لیکن سب نے جواب دیا اے رسول اللہ ہم خود حیران ہیں کہ یہ کیا ہو رہا ہے ؟ ایک چھوڑ کئی کئی راتیں جاگتے تھے ، جاگنے کے عادی ہیں لیکن اللہ جانے ، آج کیا بات ہے کہ بری طرح نیند نے گھیر رکھا ہے ، دعا کے اور ہمارے درمیان کوئی قدرتی رکاوٹ پیدا ہو گئی ہے تو آپ نے فرمایا ! اچھا پھر چرواہا نہ رہے گا اور بکریاں تین تیرہ ہو جائیں گی ، غرض اشاروں کنایوں میں اپنا مطلب ظاہر کرتے رہے ، پھر فرمایا ”دیکھو تم میں سے ایک شخص صبح کا مرغ بولنے سے پہلے تین مرتبہ میرے ساتھ کفر کرے گا اور تم میں سے ایک چندہ درہموں کے بدلے مجھے بیچ دے گا اور میری قیمت کھائے گا ۔ “ اب یہ لوگ یہاں سے باہر نکلے ادھر ادھر چلے گئے ، یہود جو اپنی جستجو میں تھے ، انہوں نے شمعون حواری کو پہچان کر اسے پکڑا اور کہا یہ بھی اس کا ساتھی ہے ، مگر شمعون نے کہا ” غلط ہے میں اس کا ساتھی نہیں ہوں ۔ “ انہوں نے یہ باور کر کے اسے چھوڑ دیا لیکن کچھ آگے جا کر یہ دوسری جماعت کے ہاتھ لگ گیا ، وہاں سے بھی اسی طرح انکار کر کے اپنا آپ چھڑایا ۔ اتنے میں مرغ نے بانگ دی اب یہ پچھتانے لگے اور سخت غمگین ہوئے ۔ صبح ایک حواری یہودیوں کے پاس پہنچتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر میں تمہیں عیسیٰ کا پتہ بتا دوں تو تم مجھے کیا دلواؤ گے ؟ انہوں نے کہا تیس درہم ، چانچہ اس نے وہ رقم لے لی ، اور عیسیٰ علیہ السلام کا پتہ بتا دیا ۔ اس سے پہلے وہ شبہ میں تھے ، اب انہوں نے گرفتار کر لیا اور رسیوں میں جکڑ کر گھسیٹتے ہوئے لے چلے اور بطور طعنہ زنی کے کہتے جاتے تھے کہ آپ تو مردوں کو زندہ کرتے تھے ، جنات کو بھگا دیا کرتے تھی ، مجنون کو اچھا کر دیا کرتے تھے ، اب کیا بات ہے کہ خود اپنے آپ کو نہیں بچا سکتے ان رسیوں کو بھی نہیں توڑ سکتے ، تھو ہے تمہارے منہ پر ! یہ کہتے جاتے تھے اور کانٹے ان کے اوپر ڈالتے جاتے تھے ۔ اسی طرح بیدردی سے گھسیتے ہوئے جب اس لکڑی کے پاس لائے جہاں سولی دینا تھی اور ارادہ کیا کہ سولی پر چڑھا دیں اس وقت اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو اپنی طرف چڑھا لیا اور انہوں نے دوسرے شخص کو جو آپ کے مشابہ تھا سولی پر چڑھا دیا ۔ پھر سات دن کے بعد مریم اور وہ عورت جس کو عیسیٰ علیہ السلام نے جن سے نجات دلوائی تھی ۔ وہاں آئیں اور رونے پیٹنے لگیں تو ان کے پاس عیسیٰ علیہ السلام آئے اور ان سے کہا کہ ”کیوں روتی ہو ؟ مجھے تو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف بلند کر لیا ہے اور مجھے ان کی اذیتیں نہیں پہنچیں ، ان پر تو شبہ ڈال دیا گیا ہے میرے حواریوں سے کہو کہ مجھ سے فلاں جگہ ملیں “ چنانچہ یہ بشارت جب حواریوں کو ملی تو وہ سب کے سب گیارہ آدمی اس جگہ پہنچے ، جس حواری نے آپ کو بیچا تھا ، اسے انہوں نے وہاں نہ پایا ، دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ ندامت اور شرمندگی کی وجہ سے اپنا گلا گھونٹ کر آپ ہی مر گیا ، اس نے خودکشی کر لی ۔ آپ نے فرمایا ” اگر وہ توبہ کرتا تو اللہ اس کی توبہ قبول فرما لیتا ۔ “ پھر پوچھا کہ یہ بچہ جو تمہارے ساتھ ہے ، اس کا نام یحییٰ ہے ، اب یہ تمہارا ساتھی ہے سنو صبح کو تمہاری زبانیں بدل دی جائیں گی ، ہر شخص اپنی اپنی قوم کی زبان بولنے لگے گا ، اسے چاہیئے کہ اسی قوم میں جا کر اسے میری دعوت پہنچائے اور اللہ سے ڈرائے ۔ یہ واقعہ نہایت ہی غریب ہے ابن اسحاق کا قول ہے کہ بنی اسرائیل کا بادشاہ جس نے عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کے لیے اپنی فوج بھیجی تھی اس کا نام داؤد تھا ۔ عیسیٰ علیہ السلام اس وقت سخت گھبراہٹ میں تھے ، کوئی شخص اپنی موت سے اس قدر پریشان حواس باختہ اور اس قدر واویلا کرنے والا نہ ہو گا ، جس قدر آپ نے اس وقت کیا ۔ یہاں تک کہ فرمایا یا اللہ اگر تو موت کے پیالے کو کسی سے بھی ٹالنے والا ہے تو مجھ سے ٹال دے اور یہاں تک کہ گھبراہٹ اور خوف کے مارے ان کے بدن سے خون پھوٹ کر بہنے لگا ، اس وقت اس مکان میں آپ کے ساتھ بارہ حواری تھے ، جن کے نام یہ ہیں فرطوس ، یعقوب ، ربداء ، یحنس ، ( یعقوب کا بھائی ) اندرا اییس ، فیلبس ابن یلما ، منتا ، طوماس ، یعقوب بن حلقایا ، تداوسیس ، قثانیا ، یودس ذکریا یوطا ۔ بعض کہتے ہیں تیرہ آدمی تھے اور ایک کا نام سرجس تھا ۔ اسی نے اپنا آپ سولی پر چڑھایا جانا عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت پر منظور کیا تھا ۔ جب عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر چڑھا لیے گئے اور بقیہ لوگ یہودیوں کے ہاتھوں میں اسیر ہو گئے ، اب جو گنتی گنتے ہیں تو ایک کم نکلا ۔ اس کے بارے میں ان میں آپس میں اختلاف ہوا ۔ یہ لوگ جب اس جماعت پر چھاپہ مارتے ہیں اور انہیں گرفتار کرنا چاہتے ہیں تو عیسیٰ علیہ السلام کو چونکہ پہچانتے نہ تھے تو یودس ذکریا یوطا نے تیس درہم لے کر ان سے کہا تھا کہ میں سب سے پہلے جاتا ہوں جسے میں جا کر بوسہ دوں تم سمجھ لینا کہ عیسیٰ علیہ السلام وہی ہے ۔ جب یہ اندر پہنچتے ہیں ، اس وقت عیسیٰ اٹھا لیے گئے تھے اور سرجس آپ کی صورت میں بنا دیئے گئے تھے ، اس نے جا کر حسب قرار داد انہی کا بوسہ لیا اور یہ گرفتار کر لیے گئے پھر تو یہ بہت نادم ہوا اور اپنے گلے میں رسی ڈال کر پھانسی پر لٹک گیا اور نصرانیوں میں ملعون بنا ۔ بعض کہتے ہیں اس کا نام یودس رکریا بوطا تھا ، یہ جیسے ہی عیسیٰ علیہ السلام کی پہچان کرانے کے لیے اس گھر میں داخل ہوا ، عیسیٰ علیہ السلام تو اٹھا لیے گئے اور خود اس کی صورت عیسیٰ علیہ السلام جیسی ہو گئی اور اسی کو لوگوں نے پکڑ لیا ، یہ ہزار چیختا چلاتا رہا کہ میں عیسیٰ نہیں ہوں ، میں تو تمہارا ساتھی ہوں ، میں نے ہی تو تمہیں عیسیٰ علیہ السلام کا پتہ دیا تھا لیکن کون سنتا ؟ آخر اسی کو تختہ دار پر لٹکا دیا ۔ اب اللہ ہی کو علم ہے کہ یہی تھا یا وہ تھا ، جس کا ذکر پہلے ہوا ۔ مجاہد رحمہ اللہ کا قول ہے کہ روح اللہ علیہ السلام کی مشابہت جس پر ڈال دی گئی تھی اسے صلیب پر چڑھایا اور عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے زندہ آسمان پر اٹھا لیا ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” عیسیٰ علیہ السلام کی شبیہ آپ کے ان تمام ساتھیوں پر ڈال دی گی تھی ۔ “ اس کے بعد ذکر ہوتا ہے کہ جناب روح اللہ علیہ السلام کی موت سے پہلے جملہ اہل کتاب آپ پر ایمان لائیں گے اور قیامت تک آپ ان کے گواہ ہوں گے ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس کی تفسیر میں کئی قول ہیں ایک تو یہ کہ عیسیٰ علیہ السلام موت سے پہلے یعنی جب آپ دجال کو قتل کرنے کے لیے دوبارہ زمین پر آئیں گے اس وقت تمام مذاہب ختم ہو چکے ہوں گے اور صرف ملت اسلامیہ جو دراصل ابراہیم علیہ السلام حنیف کی ملت ہے رہ جائے گی ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں «موتہ» سے مراد موت عیسیٰ علیہ السلام ہے ابو مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں جب جناب مسیح علیہ السلام اتریں گے ، اس وقت کل اہل کتاب آپ پر ایمان لائیں گے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:380/9) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اور روایت میں ہے خصوصاً یہودی ایک بھی باقی نہیں رہے گا ۔ حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں یعنی نجاشی اور ان کے ساتھی آپ سے مروی ہے کہ قسم اللہ کی عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے پاس اب زندہ موجود ہیں ۔ جب آپ زمین پر نازل ہوں گے ، اس وقت اہل کتاب میں سے ایک بھی ایسا نہ ہو گا جو آپ پر ایمان نہ لائے ۔ آپ سے جب اس آیت کی تفسیر پوچھی جاتی ہے تو آپ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے مسیح علیہ السلام کو اپنے پاس اٹھا لیا ہے اور قیامت سے پہلے آپ کو دوبارہ زمین پر اس حیثیت سے بھیجے گا کہ ہر نیک و بد آپ پر ایمان لائے گا ۔ قتادہ ، عبدالرحمٰن رحمہ اللہ علیہم وغیرہ بہت سے مفسرین کا یہی فیصلہ ہے اور یہی قول حق ہے اور یہی تفسیر بالکل ٹھیک ہے ، ان شاءاللہ العظیم اللہ تعالیٰ کی مدد اور اس کی توفیق سے ہم اسے بادلائل ثابت کریں گے ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ ہر اہل کتاب آپ پر اپنی موت سے پہلے ایمان لاتا ہے ۔ اس لیے کہ موت کے وقت حق و باطل سب کھل جاتا ہے تو ہر کتابی عیسیٰ  کی حقانیت کو زمین سے سدھارنے سے پہلے یاد کر لیتا ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کوئی یہودی نہیں مرتا جب تک کہ وہ روح اللہ پر ایمان نہ لائے ۔ مجاہد رحمہ اللہ کا یہی قول ہے ۔ بلکہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے تو یہاں تک مروی ہے کہ اگر کسی اہل کتاب کی گردن تلوار سے اڑا دی جائے تو اس کی روح نہیں نکلتی جب تک کہ وہ عیسیٰ پر ایمان نہ لائے اور یہ نہ کہدے کہ آپ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔ ابی رحمہ اللہ کی تو قرأت میں «قبل موتھم» ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا جاتا ہے کہ فرض کرو کوئی دیوار سے گر کر مر جائے ؟ فرمایا پھر بھی اس درمیانی فاصلے میں وہ ایمان لا چکتا ہے ۔ عکرمہ ، محمد بن سیرین ، محمد ضحاک ، سعید بن جبیر رحمہ اللہ علیہم سے بھی یہی مروی ہے ۔ ایک قول امام حسن رحمہ اللہ سے ایسا بھی مروی ہے کہ جس کا مطلب پہلے قول کا سا بھی ہو سکتا ہے اور عیسیٰ  کی موت سے پہلے کا بھی ہو سکتا ہے ۔ النسآء
156 . تیسرا قول یہ ہے کہ اہل کتاب میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہو گا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی موت سے پہلے ایمان لائے گا ۔ عکرمہ رحمہ اللہ یہی فرماتے ہیں ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں ان سب اقوال میں زیادہ تر صحیح قول پہلا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے قیامت کے قریب اتریں گے ، اس وقت کوئی اہل کتاب آپ پر ایمان لائے بغیر نہ رہے گا ۔ فی الواقع امام صاحب کا یہ فیصلہ حق بجانب ہے ۔ اس لیے کہ یہاں کی آیتوں سے صاف ظاہر ہے کہ اصل مقصود یہودیوں کے اس دعوے کو غلط ثابت کرنا ہے کہ ہم نے جناب مسیح علیہ السلام کو قتل کیا اور سولی دی اور اسی طرح جن جاہل عیسائیوں نے یہ بھی کہا ہے ان کے قول کو بھی باطل کرنا ہے ، روح اللہ نہ مقتول ہیں ، نہ مصلوب ۔ تو اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ فی الواقع نفس الامر میں نہ تو روح اللہ مقتول ہوئے ، نہ مصلوب ہوئے بلکہ ان کے لیے شبہ ڈال دیا گیا اور انہوں نے عیسیٰ علیہ السلام جیسے ایک شخص کو قتل کیا لیکن خود انہیں اس حقیقت کا علم نہ ہو سکا ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو تو اپنے پاس چڑھا لیا ۔ وہ زندہ ہیں ، اب تک باقی ہیں ، قیامت کے قریب اتریں گے ۔ جیسے صحیح متواتر احادیث میں ہے مسیح ہر گمراہ کو قتل کریں گے ، صلیب کو توڑیں گے ، خنزیروں کو قتل کریں گے ، جزیہ قبول نہیں کریں گے ، اعلان کر دیں گے کہ یا تو اسلام کو قبول کرو یا تلوار سے مقابلہ کرو ۔ پس اس آیت میں خبر دیتا ہے کہ اس وقت تمام اہل کتاب آپ کے ہاتھ پر ایمان قبول کریں گے اور ایک بھی ایسا نہ رہے گا جو اسلام کو مانے بغیر رہ جائے یا رہ سکے ۔ پس جسے یہ گمراہ یہود اور یہ جاہل نصرانی مرا ہوا جانتے ہیں اور سولی پر چڑھایا ہوا مانتے ہیں ، یہ ان کی حقیقی موت سے پہلے ہی ان پر ایمان لائیں گے اور جو کام انہوں نے ان کی موجودگی میں کئے ہیں اور کریں گے ۔ یہ ان پر قیامت کے دن اللہ کے سامنے گواہی دیں گے یعنی آسمان پر اٹھائے جانے کے قبل زندگی کے مشاہدہ کئے ہوئے کام اور دوبارہ کی آخری زندگی جو زمین پر گذاریں گے ۔ اس میں ان کے سامنے جتنے کام انہوں نے کئے وہ سب آپ کی نگاہوں کے سامنے ہوں گے اور انہیں اللہ کے سامنے انہیں پیش کریں گے ۔ ہاں اس کی تفسیر میں جو دو قول اور بیان ہوئے ہیں وہ بھی واقعہ کے اعتبار سے بالکل صحیح اور درست ہیں ۔ موت کا فرشتہ آ جانے کے بعد احوال آخرت ، سچ جھوٹ کا معائنہ ہو جاتا ہے ، اس وقت ہر شخص سچائی کو سچ کہنے اور سمجھنے لگتا ہے لیکن وہ ایمان اللہ کے نزدیک معتبر نہیں ۔ اسی سورت کے شروع میں ہے آیت «وَلَیْسَتِ التَّوْبَۃُ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السَّـیِّاٰتِ ۚ حَتّٰی اِذَا حَضَرَ اَحَدَھُمُ الْمَوْتُ قَالَ اِنِّیْ تُبْتُ الْــٰٔنَ وَلَا الَّذِیْنَ یَمُوْتُوْنَ وَھُمْ کُفَّارٌ ۭاُولٰۗیِٕکَ اَعْتَدْنَا لَھُمْ عَذَابًا اَلِـــیْمًا» ۱؎ (4-النساء:18) اور جگہ فرمان ہے آیت «فَلَمَّا رَاَوْا بَاْسَنَا قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَحْدَہٗ وَکَفَرْنَا بِمَا کُنَّا بِہٖ مُشْرِکِیْنَ» ۱؎ (40-غافر:84)، یعنی ’ جو لوگ موت کے آ جانے تک برائیوں میں مشغول رہے ان کی توبہ قبول نہیں اور جو لوگ عذاب رب دیکھ کر ایمان لائیں ، انہیں بھی ان کا ایمان نفع نہ دے گا ۔ ‘ پس ان دونوں آیتوں کو سامنے رکھ کر ہم کہتے ہیں کہ پچھلے دو اقوال جن کی امام ابن جریر رحمہ اللہ نے تردید کی ہے وہ ٹھیک نہیں ۔ اس لیے کہ امام صاحب فرماتے ہیں اگر پچھلے دونوں قولوں کو اس آیت کی تفسیر میں صحیح مانا جائے تو لازم آتا ہے کہ کسی یہودی یا نصرانی کے اقرباء اس کے وارث نہ ہوں ، اس لیے کہ وہ تو عیسیٰ علیہ السلام پر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لا کر مرا اور اس کے وارث یہود و نصاریٰ ہیں ، مسلمان کا وارث کافر نہیں ہو سکتا ۔ لیکن ہم کہتے ہیں یہ اس وقت ہے جب ایمان ایسے وقت لائے کہ اللہ کے نزدیک معتبر ہو ، نہ ایسے وقت ایمان لانا جو بالکل بےسود ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے قول پر گہری نظر ڈالئے کہ دیوار سے گرتے ہوئے ، درندے کے جبڑوں میں ، تلوار کے چلتے ہوئے وہ ایمان لاتا ہے تو ایسی حالت کا ایمان مطلق نفع نہیں دے سکتا ۔ جیسے قرآن کی مندرجہ بالا دونوں آیتیں ظاہر کر رہی ہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» میرے خیال سے تو یہ بات بہت صاف ہے کہ اس آیت کی تفسیر کے پچھلے دونوں قول بھی معتبر مان لینے سے کوئی اشکال پیش نہیں آتی ۔ اپنی جگہ وہ بھی ٹھیک ہیں ۔ لیکن ہاں آیت سے واقعی مطلب تو یہ نکلتا ہے جو پہلا قول ہے ۔ تو اس سے مراد یہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام آسمانوں پر زندہ موجود ہیں ، قیامت کے قریب زمین پر اتریں گے اور یہودیوں و نصرانیوں دونوں کو جھوٹا بتائیں گے اور جو افراط تفریط انہوں نے کی ہے ، اسے باطل قرار دیں گے ۔ ایک طرف ملعون جماعت یہودیوں کی ہے ، جنہوں نے آپ کو آپ کی عزت سے بہت گرا دیا اور ایسی ناپاک باتیں آپ کی شان میں کہیں جن سے ایک بھلا انسان نفرت کرے ۔ دوسری جانب نصرانی ہیں جنہوں نے آپ کے مرتبے کو اس قدر بڑھایا کہ جو آپ میں نہ تھا اس کے اثبات میں اتنے بڑھے کہ مقام نبوت سے مقام ربوبیت تک پہنچا دیا جس سے اللہ کی ذات بالکل پاک ہے ۔ اب ان احادیث کو سنئے جن میں بیان ہے کہ عیسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام آخر زمانے میں قیامت کے قریب آسمان سے زمین پر اتریں گے اور اللہ وحدہ لا شریک لہ کی عبادت کی طرف سب کو بلائیں گے ۔ صحیح بخاری شریف جسے ساری امت نے قبول کیا ہے اس میں امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمہ اللہ و کتاب ذکر انبیاء علیہم السلام میں یہ حدیث لائے ہیں ۔ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ عنقریب تم میں ابن مریم علیہ السلام نازل ہوں گے ۔ عادل منصف بن کر صلیب کو توڑیں گے ، خنزیر کو قتل کریں گے ۔ جزیہ ہٹا دیں گے ۔ مال اس قدر بڑھ جائے گا کہ اسے لینا کوئی منظور نہ کرے گا ، ایک سجدہ کر لینا دنیا اور دنیا کی سب چیزوں سے محبوب تر ہو گا ۔ } اس حدیث کو بیان فرما کر راوی حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بطور شہادت قرآنی کے اسی آیت «وَإِن مِّنْ أَہْلِ الْکِتَابِ إِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِہِ قَبْلَ مَوْتِہِ» ۱؎ (4-النساء:159)کی آخر تک تلاوت کی ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2476) صحیح مسلم شریف میں بھی یہ حدیث ہے اور سند سے یہی روایت بخاری مسلم میں مروی ہے اس میں ہے کہ { سجدہ اس وقت فقط اللہ رب العالمین کے لیے ہی ہو گا ۔ } اور اس آیت کی تلاوت میں «قبل موتہ» کے بعد یہ فرمان بھی ہے کہ «قبل موت عیسیٰ بن مریم» پھر اسے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا تین مرتبہ دوہرانا بھی ہے ۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے { عیسیٰ علیہ السلام حج یا عمرے پر یا دونوں پر لبیک کہیں گے ، میدان حج میں ، روحاء میں ۔ } ۱؎ (مسند احمد:240/2-272:صحیح) یہ حدیث مسلم میں بھی ہے ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1252) مسند کی اور حدیث میں ہے { عیسیٰ بن مریم علیہ السلام اتریں گے ، خنزیر کو قتل کریں گے ، صلیب کو مٹائیں گے ، نماز با جماعت ہو گی اور اللہ کی راہ میں مال اس قدر کثرت سے دیا جائے گا کہ کوئی قبول نہ کرنے والا نہ ملے گا ۔ خراج چھوڑ دیں گے ، روحاء میں جائیں گے اور وہاں سے حج یا عمرہ کریں گے یا دونوں ایک ساتھ کریں گے ۔ } پھر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہی آیت پڑھی لیکن آپ کے شاگرد حنظلہ رحمہ اللہ کا خیال ہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ”حضرت عیسیٰ کے انتقال سے پہلے آپ پر ایمان لائیں گے ۔ “ مجھے نہیں معلوم کہ یہ سب حدیث کے ہی الفاظ ہیں یا سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے اپنے ۔ ۱؎ (مسند احمد:290/2-291:صحیح) النسآء
157 . صحیح بخاری میں ہے اس وقت کیا ہو گا ، جب تم میں مسیح بن مریم علیہ السلام اتریں گے اور تمہارا امام تمہیں میں سے ہو گا ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3449) ابوداؤد ، مسند احمد وغیرہ میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “انبیاء کرام علیہم السلام سب ایک باپ کے بیٹے بھائی کی طرح ہیں ، مائیں جدا جدا اور دین ایک ۔ عیسیٰ بن مریم علیہ السلام سے زیادہ تر نزدیک میں ہوں اس لیے کہ میرے اور ان کے درمیان کوئی اور نبی نہیں ، یقیناً وہ اترنے والے ہیں پس تم انہیں پہچان رکھو ۔ درمیان قد ہے ، سرخ سفید رنگ ہے ۔ وہ دو گیروے رنگ میں رنگے ہوئے کپڑے اوڑھے اور باندھے ہوں گے ، بال خشک ہونے کے باوجود ان کے سر سے قطرے ٹپک رہے ہوں گے ، خنزیر کو قتل کریں گے ، جزیہ قبول نہ کریں گے ، لوگوں کو اسلام کی طرف بلائیں گے ۔ ان کے زمانے میں تمام ملتیں مٹ جائیں گی ، صرف اسلام ہی اسلام رہے گا ، ان کے زمانے میں اللہ تعالیٰ مسیح دجال کو ہلاک کرے گا ۔ پھر زمین پر امن ہی امن ہو گا یہاں تک کہ کالے ناگ اونٹوں کے ساتھ ، چیتے گایوں کے ساتھ اور بھیڑیئے بکریوں کے ساتھ چرتے پھریں گے اور بچے سانپوں سے کھیلیں گے ، انہیں کوئی نقصان نہ پہنچائیں گے ، چالیس برس تک ٹھہریں گے ، پھر فوت ہوں گے اور مسلمان آپ کے جنازے کی نماز ادا کریں گے ۔ } ۱؎ (سنن ابوداود:4324،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابن جریر کی اسی روایت میں ہے ، { آپ لوگوں سے اسلام کے لیے جہاد کریں گے ،} اس حدیث کا ایک ٹکڑا بخاری شریف میں بھی ہے اور روایت میں ہے { سب سے زیادہ قریب تر عیسیٰ علیہ السلام سے دنیا اور آخرت میں میں ہوں ۔} ۱؎ (صحیح بخاری:3443) صحیح مسلم میں ہے { قیامت قائم نہ ہو گی ، جب تک رومی اعماق یا والق میں نہ اتریں اور ان کے مقابلہ کے لیے مدینہ سے مسلمانوں کا لشکر نہ نکلے گا ، جو اس وقت تمام زمین کے لوگوں سے زیادہ اللہ کے پسندیدہ بندے ہوں گے ، جب صفیں بندھ جائیں گی تو رومی کہیں گے تم سے ہم لڑنا نہیں چاہتے ، ہم میں سے جو دین بدل کر تم میں ملے ہم ان سے لڑنا چاہتے ہیں تم بیچ میں سے ہٹ جاؤ لیکن مسلمان کہیں گے واللہ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ہم اپنے ان کمزور بھائیوں کو تمہارے حوالے کر دیں ۔ چنانچہ لڑائی شروع ہو گی مسلمانوں کے اس لشکر کا تہائی حصہ تو شکست کھا کر بھاگ کھڑا ہو گا ، ان کی توبہ اللہ تعالیٰ ہرگز قبول نہ فرمائے گا اور تہائی حصہ شہید ہو جائے گا ، جو اللہ کے نزدیک سب سے افضل شہید ہیں لیکن آخری تہائی حصہ فتح حاصل کرے گا اور رومیوں پر غالب آ جائے گا ۔ پھر یہ کسی فتنے میں نہ پڑیں گے ، قسطنطنیہ کو فتح کریں گے ، ابھی تو وہ اپنی تلواریں زیتون کے درختوں پر لٹکائے ہوئے مال غنیمت تقسیم کر ہی رہے ہوں گے جو شیطان چیخ کر کہے گا کہ تمہارے بال بچوں میں دجال آ گیا ، اس کے اس جھوٹ کو سچ جان کر مسلمان یہاں سے نکل کھڑے ہوں گے ، شام میں پہنچیں گے ، دشمنوں سے جنگ آزما ہونے کے لیے صفیں ٹھیک کر رہے ہوں گے کہ دوسری جانب نماز کی اقامت ہو گی ۔ اور عیسیٰ بن مریم علیہ السلام نازل ہوں گے ، ان کی امامت کرائیں گے ، جب دشمن رب انہیں دیکھے گا تو اسی طرح گھلنے لگے گا جس طرح نمک پانی میں گھلتا ہے ، اگر عیسیٰ علیہ السلام اسے یونہی چھوڑ دیں ، جب بھی وہ گھلتے گھلتے ختم ہو جائے لیکن اللہ تعالیٰ اسے آپ کے ہاتھ سے قتل کرائے گا اور آپ اپنے حربے پر اس کا خون لوگوں کو دکھائیں گے ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:2897 ) مسند احمد اور ابن ماجہ میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { معراج والی رات میں نے ابراہیم ، موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام سے ملاقات کی ، آپس میں قیامت کی نسبت بات چیت ہونے لگی ، ابراہیم علیہ السلام نے اپنی لاعلمی ظاہر کی ، اس طرح موسیٰ علیہ السلام نے بھی ، لیکن عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا اس کے آنے کا ٹھیک وقت تو سوائے اللہ عزوجل کے کوئی نہیں جانتا ، ہاں مجھ سے میرے رب نے جو عہد لیا ہے وہ یہ ہے کہ دجال نکلے گا اس کے ہمراہ دو شاخیں ہوں گی ، مجھے دیکھ کر اس طرح پگھلنے لگے گا جس طرح سیسہ پگھلتا ہے ۔ پس اللہ تعالیٰ اسے ہلاک کرے گا جب وہ مجھے دیکھ لے گا یہاں تک کہ پتھر اور درخت بھی بولنے لگیں گے کہ اے مسلمان یہاں میرے پیچھے ایک کافر ہے آو اور اسے قتل کر لیں ، اللہ تعالیٰ ان سب کو غارت کر دے گا اور لوگ امن و امان کے ساتھ اپنے اپنے وطن اور شہروں کو لوٹ جائیں گے ۔ اب یاجوج ماجوج نکلیں گے ، ہر طرف سے چڑھ دوڑیں گے ، تمام شہرں کو روندیں گے ، جس جس چیز پر گذر ہو گا اسے ہلاک کر دیں گے ، جس پانی کے پاس سے گذریں گے پی جائیں گے ، لوگ پھر لوٹ کر میرے پاس آئیں گے ، میں اللہ سے دعا کروں گا ، اللہ ان سب کو ایک ساتھ فنا کر دے گا لیکن ان کے مردہ جسموں سے ہوا بگڑ جائے گی ، بدبو پھیل جائے گی ۔ پھر مینہ برسے گا اور اس قدر کہ ان کی تمام لاشوں کو بہا کر سمندر میں ڈال دے گا ۔ بس اس وقت قیامت کی اس طرح آمد آمد ہو گی جس طرح پورے دن کی حاملہ عورت ہو کہ اس کے گھر والے نہیں جانتے کہ صبح کو بچہ ہو جائے یا شام کو ، رات کو پیدا ہو یا دن کو ؟ } ۱؎ (مسند احمد:375/1:ضعیف) مسند احمد میں ہے ابونضرہ فرماتے ہیں ہیں ہم سیدنا عثمان بن ابوالعاص رضی اللہ عنہ کے پاس جمعہ والے دن آئے کہ ہم اپنا لکھا ہوا قرآن ان کے قرآن سے ملائیں ، جب جمعہ کا وقت آیا تو آپ نے ہم سے فرمایا ”غسل کر لو “ پھر خوشبو لے آئے جو ہم نے ملی ، پھر ہم مسجد میں آئے اور ایک شخص کے پاس بیٹھ گئے جنہوں نے ہم سے دجال والی حدیث بیان کی پھر سیدنا عثمان بن ابوالعاص رضی اللہ عنہ آئے ، ہم کھڑے ہو گئے ، پھر سب بیٹھ گئے ۔ آپ نے فرمایا { میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ مسلمانوں کے تین شہر ہو جائیں گے ، ایک دونوں سمندر کے ملنے کی جگہ پر ، دوسرا حیرہ میں اور تیسرا شام میں ، پھر تین گھبراہٹیں لوگوں کو ہوں گی ، پھر دجال نکلے گا ، یہ پہلے شہر کی طرف جائے گا ، وہاں کے لوگ تین حصوں میں بٹ جائیں گے ، ایک حصہ تو کہے گا ہم اس کے مقابلہ پر ٹھہرے رہیں گے اور دیکھیں گے کہ کیا ہوتا ہے ؟ دوسری جماعت گاؤں کے لوگوں میں مل جائے گی اور تیسری جماعت دوسرے شہر میں چلی جائے گی جو ان سے قریب ہو گا ، دجال کے ساتھ ستر ہزار لوگ ہوں گے ، جن کے سروں پر تاج ہوں گے ، ان کی اکثریت یہودیوں کی اور عورتوں کی ہو گی ۔ یہاں کے یہ مسلمان ایک گھاٹی میں سمٹ کر محصور ہو جائیں گے ، ان کے جانور جو چرنے چگنے کو گئے ہوں گے ، وہ بھی ہلاک ہو جائیں گے ، اس سے ان کے مصائب بہت بڑھ جائیں گے اور بھوک کے مارے برا حال ہو جائے گا ، یہاں تک کہ اپنی کمانوں کی تانیں سینک سینک کر کھا لیں گے ، جب سخت تنگی کا عالم ہو گا تو انہیں سمندر میں سے آواز آئے گی کہ لوگو تمہاری مدد آ گئی ، اس آواز کو سن کر یہ لوگ خوش ہوں گے ، کیونکہ آواز سے جان لیں گے کہ یہ کسی آسودہ شخص کی آواز ہے { عین صبح کی نماز کے وقت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام نازل ہوں گے ، ان کا امیر آپ سے کہے گا کہ اے روح اللہ علیہ السلام آگے بڑھئے اور نماز پڑھایئے لیکن آپ کہیں گے کہ اس امت کے بعض بعض کے امیر ہیں ، چنانچہ انہی کا امیر آگے بڑھے گا اور نماز پڑھائے گا ، نماز سے فارغ ہو کر اپنا حربہ ہاتھ میں لے کر مسیح علیہ السلام دجال کا رخ کریں گے ۔ دجال آپ کو دیکھ کر سیسے کی طرح پگھلنے لگے گا ، آپ اس کے سینہ پر وار کریں گے جس سے وہ ہلاک ہو جائے گا اور اس کے ساتھی شکست کھا کر بھاگ کھڑے ہوں گے ، لیکن انہیں کہیں امن نہیں ملے گا ، یہاں تک کہ اگر وہ کسی درخت تلے چھپیں گے تو وہ درخت پکار کر کہے گا کہ اے مومن یہ ایک کافر میرے پاس چھپا ہوا ہے اور اسی طرح پتھر بھی ۔ } ۱؎ (مسند احمد:216/3:ضعیف) ابن ماجہ میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک خطبہ کا کم و بیش حصہ دجال کا واقعہ بیان کرنے اور اس سے ڈرانے میں ہی صرف کیا ، جس میں یہ بھی فرمایا کہ دنیا کی ابتداء سے لے کر انتہا تک کوئی فتنہ اس سے بڑا نہیں ، تمام انبیاء اپنی اپنی امتوں کو اس سے آگاہ کرتے رہے ہیں ۔ میں سب سے آخری نبی ہوں اور تم سب سے آخری امت ہو ، وہ یقیناً تمہیں میں آئے گا ، اگر میری موجودگی میں آ گیا تو میں آپ اس سے نمٹ لوں گا اور اگر بعد میں آیا تو ہر شخص کو اپنے آپ کو اس سے بچانا پڑے گا ۔ میں اللہ تعالیٰ کو ہر مسلمان کا خلیفہ بناتا ہوں ۔ وہ شام و عراق کے درمیان نکلے گا ، دائیں بائیں خوب گھومے گا ، لوگو اے اللہ کے بندو ! دیکھو دیکھو تم ثابت قدم رہنا ، سنو میں تمہیں اس کی ایسی صفت بتاتا ہوں جو کسی نبی نے اپنی امت کو نہیں بتائی ۔ وہ ابتداء میں دعویٰ کرے گا کہ میں نبی ہوں ، پس تم یاد رکھنا کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ، پھر وہ اس سے بھی بڑھ جائے گا اور کہے گا میں اللہ ہوں ، پس تم یاد رکھنا کہ اللہ کو ان آنکھوں سے کوئی نہیں دیکھ سکتا ، ہاں مرنے کے بعد دیدار باری تعالیٰ ہو سکتا ہے ۔ اور سنو وہ کانا ہو گا اور تمہارا رب کانا نہیں ، اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان “کافر“ لکھا ہو گا جسے پڑھا لکھا اور ان پڑھ غرض ہر ایماندار پڑھ لے گا ۔ اس کے ساتھ آگ ہو گی اور باغ ہو گا اس کی آگ دراصل جنت ہو گی اور اس کا باغ دراصل جہنم ہو گا ،} { سنو تم میں سے جسے وہ آگ میں ڈالے ، وہ اللہ سے فریاد رسی چاہے اور سورۃ الکہف کی ابتدائی آیتیں پڑھے ، اس کی وہ آگ اس پر ٹھنڈک اور سلامتی بن جائے گی جیسے کہ خلیل اللہ علیہ السلام پر نمرود کی آگ ہو گئی ، اس کا ایک فتنہ یہ بھی ہو گا کہ وہ ایک اعرابی سے کہے گا کہ اگر میں تیرے مرے ہوئے باپ کو زندہ کر دوں تو تو مجھے رب مان لے گا وہ اقرار کرے گا ، اتنے میں دو شیطان اس کی ماں اور باپ کی شکل میں ظاہر ہوں گے اور ان سے کہیں گے بیٹے یہی تیرا رب ہے تو اسے مان لے ، اس کا ایک فتنہ یہ بھی ہو گا کہ وہ ایک شخص پر مسلط کر دیا جائے گا اسے آرے سے چروا کر دو ٹکڑے کروا دے گا ، پھر لوگوں سے کہے گا میرے اس بندے کو دیکھنا اب میں اسے زندہ کر دوں گا ۔ لیکن پھر بھی یہی کہے گا کہ اس کا رب میرے سوا اور ہے ، چنانچہ یہ اسے اٹھا بیٹھائے گا اور یہ خبیث اس سے پوچھے گا کہ تیرا رب کون ہے ؟ وہ جواب دے گا میرا رب اللہ ہے اور تو اللہ کا دشمن دجال ہے ۔ اللہ کی قسم اب تو مجھے پہلے سے بھی بہت زیادہ یقین ہو گیا ۔ } دوسری سند سے مروی ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “یہ مومن میری تمام امت سے زیادہ بلند درجہ کا جنتی ہو گا ۔} سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس حدیث کو سن کر ہمارا خیال تھا کہ یہ شخص سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما ہی ہوں گے آپ کی شہادت تک ہمارا یہی خیال رہا ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:4077،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اس کا ایک فتنہ یہ بھی ہو گا کہ وہ آسمان کو پانی برسانے کا حکم دے گا اور آسمان سے بارش ہو گی ، وہ زمین کو پیداوار اگانے کا حکم دے گا اور زمین سے پیداوار نکلے گی ، اس کا ایک فتنہ یہ بھی ہو گا کہ وہ ایک قبیلے کے پاس جائے گا وہ اسے نہ مانیں گے ، اسی وقت ان کی تمام چیزیں برباد اور ہلاک ہو جائیں گی ، ایک اور قبیلے کے پاس جائے گا جو اسے خدا مان لے گا ، اسی وقت اس کے حکم سے ان پر آسمان سے بارش برسے گی اور زمین پھل اور کھیتی اگائے گی ، ان کے جانور پہلے سے زیادہ موٹے تازے اور دودھ والے ہو جائیں گے ۔ سوائے مکہ اور مدینہ کے تمام کا گشت کرے گا ، جب مدینہ کا رخ کرے گا تو یہاں ہر ہر راہ پر فرشتوں کو کھلی تلواریں لیے ہوئے پائے گا تو ضریب کی انتہائی حد پر ضریب احمر کے پاس ٹھہر جائے گا ، پھر مدینے میں تین بھونچال آئیں گے ، اس وجہ سے جتنے منافق مرد اور جس قدر منافقہ عورتیں ہوں گی ۔ سب مدینہ سے نکل کر اس کے لشکر میں مل جائیں گے اور مدینہ ان گندے لوگوں کو اس طرح اپنے میں سے دور پھینک دے گا جس طرح بھٹی لوہے کے میل کچیل کو لاگ کر دیتی ہے ، اس دن کا نام یوم الخلاص ہو گا ۔ سیدہ ام شریک رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ { یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس دن عرب کہاں ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا اولاً تو ہوں گے ہی بہت کم اور اکثریت ان کی بیت المقدس میں ہو گی ، ان کا امام ایک صالح شخص ہو گا جو آگے بڑھ کر صبح کی نماز پڑھا رہا ہوگا ، جیسے ہی عیسیٰ بن مریم علیہ السلام نازل ہونگے۔ امام پچھلے پیروں پیچھے ہٹے گا تاکہ آپ آگے بڑھ کر امامت کرائیں لیکن آپ اس کی کمر پر ہاتھ رکھ کر فرمائیں گے کہ آگے بڑھو اور نماز پڑھاؤ ، اقامت تمہارے لیے کی گی ہے پس ان کا امام ہی نماز پڑھائے گا ، فارغ ہو کر آپ فرمائیں گے ، دروازہ کھول دو ، پس کھول دیا جائے گا ۔ ادھر دجال ستر ہزار یہودیوں کا لشکر لیے ہوئے موجود ہو گا ، جن کے سر پر تاج اور جن کی تلواروں پر سونا ہو گا ، دجال آپ کو دیکھ کر اس طرح گھلنے لگے گا جس طرح نمک پانی میں گھلتا ہے اور ایک دم پیٹھ پھیر کر بھاگنا شروع کر دے گا لیکن آپ فرمائیں گے اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ تو میرے ہاتھ سے ایک ضرب کھائے تو اسے ٹال نہیں سکتا ۔ چنانچہ آپ اسے مشرقی باب لد کے پاس پکڑ لیں گے اور وہیں اسے قتل کریں گے ، اب یہودی بد حواسی سے منتشر ہو کر بھاگیں گے لیکن انہیں کہیں سر چھپانے کو جگہ نہ ملے گی ، ہر پتھر ہر درخت ہر دیوار اور ہر جانور بولتا ہو گا کہ اے مسلمان یہاں یہودی ہے ، آ اسے مار ڈال ، ہاں ببول کا درخت یہودیوں کا درخت ہے یہ نہیں بولے گا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اس کا رہنا چالیس سال تک ہو گا ، سال آدھے سال کے برابر اور سال مہینہ بھر جیسا اور مہینہ جمعہ جیسا اور باقی دن مثل شرارہ کے ۔ النسآء
158 . { صبح ہی ایک شخص شہر کے ایک دروازے سے چلے گا ، ابھی دوسرے دروازے تک نہیں پہنچا تو شام ہو جائے گی ۔ } لوگوں نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ پھر ان چھوٹے دنوں میں ہم نماز کیسے پڑھیں گے ؟ { آپ نے فرمایا اندازہ کر لیا کرو جیسے ان لمبے دنوں میں اندازہ سے پڑھا کرتے تھے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں پس عیسیٰ بن مریم علیہ السلام میری امت میں حاکم ہوں گے ، عادل ہوں گے ، امام ہوں گے ، باانصاف ہوں گے ، صلیب کو توڑیں گے ، خنزیر کو قتل کریں گے ، جزیہ کو ہٹا دیں گے صدقہ چھوڑ دیا جائے گا پس بکری اور اونٹ پر کوشش نہ کی جائے گی ، حسد اور بغض بالکل جاتا رہے گا ، ہر زہریلے جانور کا زہر ہٹا دیا جائے گا ، بچے اپنی انگلی سانپ کے منہ میں ڈالیں گے لیکن وہ انہیں کوئی ضرر نہیں پہنچائے گا ۔ شیروں سے لڑکے کھیلیں گے نقصان کچھ نہ ہو گا ، بھیڑئے بکریوں کے گلے میں اس طرح پھریں گے جیسے رکھوالا کتا ہو تمام زمین اسلام اور اصلاح سے اس طرح بھر جائے گی جیسے کوئی برتن پانی سے لبالب بھرا ہوا ہو ، سب کا کلمہ ایک ہو جائے گا ، اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ ہو گی ، لڑائی اور جنگ بالکل موقف ہو جائے گی ، قریش اپنا ملک سلب کر لیں گے ، زمین مثل سفید چاندی کے منور ہو جائے گی اور جیسی برکتیں زمانہ آدم علیہ السلام میں تھیں لوٹ آئیں گی ، ایک جماعت کو ایک انگور کا خوشہ پیٹ بھرنے کے لیے کافی ہو گا ، ایک انار اتنا ہو گا کہ ایک جماعت کھائی اور سیر ہو جائے بیل اتنی اتنی قیمت پر ملے گا اور گھوڑا چند درہموں پر ملے گا ۔ لوگوں نے پوچھا اس کی قیمت گر جانے کی کیا وجہ ؟ فرمایا اس لیے کہ لڑائیوں میں اس کی سواری بالکل نہ لی جائے گی ۔ دریافت کیا گیا بیل کی قیمت بڑھ جانے کی کیا وجہ ہے ؟ فرمایا اس لیے کہ تمام زمین پر کھیتیاں ہونی شروع ہو جائیں گی ۔} { دجال کے آنے سے تین سال پیشتر سے سخت قحط سالی ہو گی ، پہلے سال بارش کا تیسرا حصہ بحکم الٰہی روک لیا جائے گا اور زمین کی پیداوار کا بھی تیسرا حصہ کم ہو جائے گا ، پھر دوسرے سال اللہ آسمان کو حکم دے گا کہ بارش کی دو تہائیاں روک لے اور یہی حکم زمین کو اپنی پیداوار کی دو تہائیاں کم کر دے ، تیسرے سال آسمان بارش کا ایک قطرہ نہ برسے گا ، نہ زمین سے کوئی روئیدگی پیدا ہو گی ، تمام جانور اس قحط سے ہلاک ہو جائیں گے مگر جسے اللہ چاہے ۔ } آپ سے پوچھا گیا کہ پھر اس وقت لوگ زندہ کیسے رہ جائیں گے ، { آپ نے فرمایا ” ان کی غذا کے قائم مقام اس وقت ان کا «لا الہٰ الا اللہ» کہنا اور «اللہ اکبر» کہنا اور «سبحان اللہ» کہنا اور «الحمداللہ» کہنا ہو گا ۔ } امام ابن ماجہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں میرے استاد نے اپنے استاد سے سنا وہ فرماتے تھے یہ حدیث اس قابل ہے کہ بچوں کے استاد اسے بچوں کو بھی سکھا دیں بلکہ لکھوائیں تاکہ انہیں بھی یاد رہے ۔ ۱؎ (المشکاۃ للالبانی:6044:ضعیف) یہ حدیث اس سند سے ہے تو غریب لیکن اس کے بعض حصوں کی شواہد دوسری حدیثیں ہیں ۔ اسی حدیث جیسی ایک حدیث سیدنا نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اسے بھی ہم یہاں ذکر کرتے ہیں ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے { ایک دن صبح کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کا ذکر کیا اور اس طرح اسے واضح بیان فرمایا کیا کہ ہم سمجھے ، کہیں مدینہ کے نخلستان میں وہ موجود نہ ہو پھر جب ہم لوٹ کر آپ کی طرف آئے تو ہمارے چہروں سے آپ نے جان لیا اور دریافت فرمایا کہ کیا بات ہے ؟ } ہم نے دل کی بات کہہ دی تو { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ! دجال کے علاوہ مجھے تو تم سے اس سے بھی بڑا خوف ہے ، اگر وہ میری موجودگی میں نکلا تو میں آپ اس سے سمجھ لوں گا اور اگر وہ میرے بعد آیا تو ہر مسلمان اس سے آپ بھگت لے گا ، میں اپنا خلیفہ ہر مسلمان پر اللہ کو بناتا ہوں ، وہ جوان ہو گا ، آنکھ اس کی ابھری ہوئی ہو گی ، بس یوں سمجھ لو کہ عبدالعزیٰ بن قطن جیسا ہو گا ۔ تم میں جو اسے دیکھے اسے چاہیئے کہ سورۃ الکہف کی شروع کی آیتیں پڑھے وہ شام و عراق کے درمیانی گوشے سے نکلے گا اور دائیں بائیں گشت کرے گا ، اے اللہ کے بندو ! خوب ثابت قدم رہنا ، ہم نے پوچھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہ رہے گا کتنی مدت ؟ آپ نے فرمایا چالیس دن ، ایک دن سال کے برابر ، ایک دن ایک مہینے کے برابر ، ایک دن جمعہ کے برابر اور باقی دن تمہارے معمولی دنوں جیسے ، پھر ہم نے دریافت کیا کہ جو دن سال بھر کے برابر ہو گا ، کیا اس میں ایک ہی دن کی نماز کافی ہوں گی ؟ آپ نے فرمایا نہیں بلکہ اندازہ کر لو اور نماز ادا کر لو ۔ ہم نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اس کی رفتار کی سرعت کیسی ہو گی ؟ فرمایا ایسی جیسے بادل ہواؤں سے بھاگتے ہیں ۔ ایک قوم کو پانی طرف بلائے گا وہ مان لیں گے تو آسمان سے ان پر بارش برسے گی ، زمین سے کھیتی اور پھل اگیں گے ، ان کے جانور تروتازہ اور زیادہ دودھ والے ہو جائیں گے ، ایک قوم کے پاس جائے گا جو اسے جھٹلائے گی اور اس کا انکار کر دے گی ، یہ وہاں سے لوٹے گا تو ان کے ہاتھ میں کچھ نہ رہے گا وہ بنجر زمین پر کھڑے ہو کر حکم دے گا کہ اے زمین کے خزانو نکل آؤ تو وہ سب نکل آئیں گے اور شہد کی مکھیوں کی طرح اس کے پیچھے پیچھے پھریں گے ۔ { یہ ایک نوجوان کو بلائے گا اور اسے قتل کرے گا اس کے ٹھیک دو ٹکڑے کر کے اتنی اتنی دور ڈال دے گا جو کسی تیر کی کمان سے نکلے ہوئے دوری ہو ، پھر اسے آواز دے گا تو وہ زندہ ہو کر ہنستا ہوا اس کے پاس آ جائے گا ۔ اب اللہ تعالیٰ مسیح بن مریم علیہ السلام کو بھیجے گا اور وہ دمشق کے سفید شرقی مینارے کے پاس دو چادریں اوڑھے دو فرشتوں کے پروں پر بازو رکھے ہوئے اتریں گے ، جب سر جھکائیں گے تو قطرے ٹپکیں گے اور جب اٹھائیں گے تو مثل موتیوں کے وہ قطرے لڑھکیں گے ، جس کافر تک ان کا سانس پہنچ جائے وہ مر جائے گا اور آپ کا سانس وہاں تک پہنچے گا جہاں تک نگاہ پہنچے ، آپ دجال کا پیچھا کریں گے اور باب لد کے پاس اسے پا کر قتل کریں گے ، پھر ان لوگوں کے پاس آئیں گے ، جنہیں اللہ نے اس فتنے سے بچایا ہو گا ، ان کے چہروں پر ہاتھ پھیریں گے اور جنت کے درجوں کی انہیں خبر دیں گے ، اب اللہ کی طرف سے عیسیٰ علیہ السلام کے پاس وحی آئے گی کہ میں اپنے ایسے بندوں کو بھیجتا ہوں جن کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا تم میرے ان خاص بندوں کو طور کی طرف لے جاؤ ۔} { پھر یاجوج ، ماجوج نکلیں گے اور وہ ہر طرف سے کودتے پھاندتے آ جائیں گے ، بحیرہ طبریہ پر ان کا پہلا گروہ آئے گا اور اس کا سارا پانی پی جائے گا ، جب ان کے بعد ہی دوسرا گروہ آئے گا تو وہ اسے ایسا سوکھا ہوا پائے گا کہ وہ کہیں گے شاید یہاں کبھی پانی نہیں ہو گا ؟ عیسیٰ علیہ السلام اور آپ کے ساتھی مومن وہاں اس قدر محصور رہیں گے کہ ایک بیل کا سر انہیں اس سے بھی اچھا لگے جیسے تمہیں آج ایک سو دینار محبوب ہیں ، اب آپ اور مومن اللہ سے دعائیں اور التجائیں کریں گے ، اللہ ان پر گردن کی گلٹی کی بیماری بھیج دے گا ، جس میں سارے کے سارے ایک ساتھ ایک دم میں فنا ہو جائیں گے ، پھر عیسیٰ علیہ السلام اور آپ کے ساتھی زمین پر اتریں گے مگر زمین پر بالشت بھر بھی ایسی نہ پائیں گے جو ان کی لاشوں سے اور بدبو سے خالی ہو ، پھر اللہ تعالیٰ سے دعائیں اور التجائیں کریں گے تو بختی اونٹوں کی گردنوں کے برابر ایک قسم کے پرند اللہ تعالیٰ بھیجے گا جو ان کی لاشوں کو اٹھا کر جہاں اللہ چاہے ڈال آئیں گے ۔ پھر بارش ہو گی ، جس سے تمام زمین دھل دھلا کر ہتھیلی جیسی صاف ہو جائے گی ، پھر زمین کو حکم ہو گا کہ اپنے پھل نکال اور اپنی برکتیں لوٹا ، اس دن ایک انار ایک جماعت کو کافی ہو گا اور وہ سب اس کے چھلکے تلے آرام حاصل کر سکیں گے ، ایک اونٹنی کا دودھ ایک پورے قبیلے سے نہیں پیا جائے گا ۔ پھر پروردگار عالم ایک لطیف اور پاکیزہ ہوا چلائے گا جو تمام ایماندار مردوں عورتوں کی بغل تلے سے نکل جائے گی اور ساتھ ہی ان کی روح بھی پرواز کر جائے گی اور بدترین لوگ باقی رہ جائیں گے جو آپس میں گدھوں کی طرح دھینگا مشتی میں مشغول ہو جائیں گے ان پر قیامت قائم ہو گی ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:2937) مسند احمد میں بھی ایک ایسی ہی حدیث ہے اسے ہم سورۃ انبیاء کی آیت «حَتَّیٰ إِذَا فُتِحَتْ یَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ وَہُم مِّن کُلِّ حَدَبٍ یَنسِلُونَ » ۱؎ (21-الأنبیاء:96)، کی تفسیر میں بیان کریں گے ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ النسآء
159 . صحیح مسلم میں ہے کہ ایک شخص سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا کہ یہ کیا بات ہے جو مجھے پہنچی ہے کہ آپ فرماتے ہیں قیامت یہاں یہاں تک آ جائے گی آپ نے سبحان اللہ یا لا الہٰ الا اللہ کہہ کر فرمایا میرا تو اب جی چاہتا ہے کہ تمہیں اب کوئی حدیث ہی نہ سناؤں ، میں نے تو یہ کہا تھا کہ کچھ زمانے کے بعد تم بڑے بڑے امر دیکھو گے ، بیت اللہ جلا دیا جائے گا اور یہ ہو گا وہ ہو گا وغیرہ ۔ پھر فرمایا { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ دجال نکلے گا اور میری امت میں چالیس تک ٹھہرے گا ، مجھے نہیں معلوم کہ چالیس دن یا چالیس مہینے یا چالیس سال ۔ پھر اللہ تعالیٰ عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کو بھیجے گا ، آپ کی صورت مثل سیدنا عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ہے ۔ آپ اسے تلاش کر کے قتل کریں گے پھر سات سال تک لوگ اسی طرح رہیں گے کہ وہ بھی کچھ عداوت ہو گی ، پھر ٹھنڈی ہوا شام کی طرف سے چلے گی اور سب ایمان والوں کو فوت کر دے گی ، جس کے دل میں ایک ذرے برابر بھی بھلائی یا ایمان ہو گا اگرچہ وہ کسی پہاڑ کے غار میں ہو وہ بھی فوت ہو جائے گا ، پھر بدترین لوگ باقی رہ جائیں گے جو پرندوں جیسے ہلکے اور درندوں جیسے دماغوں والے ہوں گے ، اچھائی برائی کی کی کوئی تمیز ان میں نہ ہو گی ۔ شیطان ان کے پاس انسانی صورت میں آ کر انہیں بت پرستی کی طرف مائل کرے گا لیکن ان کی اس حالت میں بھی ان کی روزی کے دوازے ان پر کھلے ہوں گے اور زندگی بہ آرام گذر رہی ہو گی ، پھر صور پھونکا جائے گا ، جس سے لوگ گرنے مرنے لگیں گے ،} { ایک شخص جو اپنے اونٹوں کو پانی پلانے کے لیے ان کا حوض ٹھیک کر رہا ہو گا ، سب سے پہلے صور کی آواز اس کے کان میں پڑے گی ، جس سے یہ اور تمام اور لوگ بیہوش ہو جائیں گے ۔ غرض سب کچھ فنا ہو چکنے کے بعد اللہ تعالیٰ مینہ برسائے گا ، جو مثل شبنم کے یا مثل سائے کے ہو گا ، اس سے دوبارہ جسم پیدا ہوں گے۔ پھر دوسرا صور پھونکا جائے گا ، سب کے سب جی اٹھیں گے ، پھر کہا جائے گا لوگو اپنے رب کی طرف چلو ، انہیں ٹھہرا کر ان سے سوال کیا جائے گا پھر فرمایا جائے گا جہنم کا حصہ نکالو ، پوچھا جائے گا کتنوں سے کتنے ؟ جواب ملے گا ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے ، یہ دن ہے جو بچوں کو بوڑھا بنا دے گا اور یہی دن ہے جس میں پنڈلی کھولی جائے گی ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:2940) مسند احمد میں ہے ابن مریم علیہ السلام باب لد کے پاس یا لد کی جانب مسیح دجال کو قتل کریں گے ۔ ۱؎ (مسند احمد:420/3:صحیح لغیرہ) ترمذی میں باب لد ہے اور یہ حدیث صحیح ہے ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2244،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اس کے بعد امام ترمذی رحمہ اللہ نے چند اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے نام بھی لیے ہیں کہ ان سے بھی اس باب کی حدیثیں مروی ہیں تو اس سے مراد وہ حدیثیں ہیں جن میں دجال کا مسیح علیہ السلام کے ہاتھ سے قتل ہونا مذکور ہے ۔ صرف دجال کے ذکر کی حدیثیں تو بےشمار ہیں ، جنہیں جمع کرنا سخت دشوار ہے ۔ مسند میں ہے کہ { عرفے سے آتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کے ایک مجمع کے پاس سے گذرے اس وقت وہاں قیامت کے ذکر افکار ہو رہے تھے تو آپ نے فرمایا جب تک دس باتیں نہ ہو لیں ، قیامت قائم نہ ہو گی ، آفتاب کا مغرب کی جانب سے نکلنا ، دھوئیں کا آنا ، دابتہ الارض کا نکلنا ، یاجوج ماجوج کا آنا ، عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کا نازل ہونا ، دجال کا آنا ، تین جگہ زمین کا دھنس جانا ، شرق میں ، غرب میں اور جزیرہ عرب میں اور عدن سے ایک آگ کا نکلنا جو لوگوں کو ہنکا کر ایک جگہ کر دے گی ۔ وہ شب باشی بھی انہی کے ساتھ کرے گی اور جب دوپہر کو وہ آرام کریں گے یہ آگ ان کے ساتھ ٹھہری رہے گی ۔ } یہ حدیث مسلم اور سنن میں بھی ہے ۱؎ (صحیح مسلم:2901) اور سیدنا حذیفہ بن اسید غفاری رضی اللہ عنہ سے موقوفاً یہی مروی ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ متواتر حدیثیں جو سیدنا ابوہریرہ، سیدنا ابن مسعود، سیدنا عثمان بن ابوالعاص ، سیدنا ابوامامہ ، سیدنا نواس بن سمعان ، سیدنا عبداللہ بن عمرو، مجمع بن جاریہ، ابو شریحہ، حذیفہ بن اسید رضی اللہ عنہم اجمعین سے مروی ہیںیہ صاف دلالت کرتی ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں گے ، ساتھ ہی ان میں یہ بھی بیان ہے کہ کس طرح اتریں گے اور کہاں اتریں گے اور کس وقت اتریں گے ؟ یعنی صبح کی نماز کی اقامت کے وقت شام کے شہر دمشق کے شرقی مینارہ پر آپ اتریں گے ۔ اس زمانہ میں یعنی سن سات سو اکتالیس میں جامع اموی کا مینارہ سفید پتھر سے بہت مضبوط بنایا گیا ہے ، اس لیے کہ آگ کے شعلہ سے یہ جل گیا ہے آگ لگانے والے غالباً ملعون عیسائی تھے کیا عجب کہ یہی وہ مینارہ ہو جس پر مسیح بن مریم علیہ السلام نازل ہوں گے اور خنزیروں کو قتل کریں گے ، صلیبوں کو توڑ دیں گے ، جزیئے کو ہٹا دیں گے اور سوائے دین اسلام کے اور کوئی دین قبول نہ فرمائیں گے ۔ جیسے کہ بخاری و مسلم کی حدیثیں گذر چکیں ، جن میں پیغمبر صادق و مصدق علیہ السلام نے یہ خبر دی ہے اور اسے ثابت بتایا ہے ۔ یہ وہ وقت ہو گا جبکہ تمام شک شبے ہٹ جائیں گے ، اور لوگ عیسیٰ علیہ السلام کی پیروی کے ماتحت اسلام قبول کر لیں گے ۔ جیسے اس آیت میں ہے اور جیسے فرمان ہے آیت «وَإِنَّہُ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَۃِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِہَا وَاتَّبِعُونِ» ۱؎ (43-الزخرف:61) اور ایک قرأت میں «لعلم» ہے ۔ یعنی جناب مسیح علیہ السلام قیامت کا ایک زبردست نشان ہے ، یعنی قرب قیامت کا اس لیے کہ آپ دجال کے آچکنے کے بعد تشریف لائیں گے اور اسے قتل کریں گے ۔ جیسے کہ صحیح حدیث میں ہے کہ { اللہ تعالیٰ نے کوئی بیماری ایسی نہیں پیدا کی جس کا علاج نہ مہیا کیا ہو ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:5678) آپ ہی کے وقت میں یاجوج ماجوج نکلیں گے ، جنہیں اللہ تعالیٰ آپ کی دعا کی برکت سے ہلاک کرے گا ۔ قرآن کریم ان کے نکلنے کی خبر بھی دیتا ہے ، فرمان ہے آیت «حَتَّیٰ إِذَا فُتِحَتْ یَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ وَہُم مِّن کُلِّ حَدَبٍ یَنسِلُونَ وَاقْتَرَبَ الْوَعْدُ الْحَقٰ فَإِذَا ہِیَ شَاخِصَۃٌ أَبْصَارُ الَّذِینَ کَفَرُوا یَا وَیْلَنَا قَدْ کُنَّا فِی غَفْلَۃٍ مِّنْ ہٰذَا بَلْ کُنَّا ظَالِمِینَ » ۱؎ (21-الأنبیاء:96) یعنی ان کا نکلنا بھی قرب قیامت کی دلیل ہے ۔ اب عیسیٰ کی صفتیں ملاحظہ ہوں ۔ پہلے کی دو احادیث میں بھی آپ کی صفت گذر چکی ہے ، بخاری مسلم میں ہے کہ { لیلتہ المعراج میں میں نے موسیٰ سے ملاقات کی وہ درمیانہ قد صاف بالوں والے ہیں ، جیسی شنوہ قبیلے کے لوگ ہوتے ہیں اور عیسیٰ سے بھی ملاقات کی ، وہ سرخ رنگ میانہ قد ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے گویا ابھی حمام سے نکلے ہیں ، ابراہیم کو بھی میں نے دیکھا بس وہ بالکل مجھ جیسے تھے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:3437) بخاری کی اور روایت میں ہے { حضرت عیسیٰ سرخ رنگ ، گھنگریالے بالوں والے ، چوڑے چکلے سینے والے تھے ، موسیٰ گندمی رنگ کے جسم اور سیدھے بالوں والے تھے ، جیسے زط کے لوگ ہوتے ہیں } ۱؎ (صحیح بخاری:3438) اسی طرح آپ نے دجال کی شکل و صورت بھی بیان فرما دی ہے کہ { اس کی داہنی آنکھ کافی ہو گی ، جیسے پھولا ہوا انگور ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:3439) { آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مجھے کعبہ کے پاس خواب میں دکھلایا گیا کہ ایک بہت گندمی رنگ والے آدمی جن کے سر کے پٹھے دونوں کندھوں تک تھے ، صاف بالوں والے جن کے سر سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے ، دو شخصوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے طواف کر رہے ہیں ، میں نے پوچھا یہ کون ہیں ؟ تو مجھے بتلایا گیا کہ یہ مسیح بن مریم  ہیں ، میں نے ان کے پیچھے ہی ایک شخص کو دیکھا جس کی داہنی آنکھ کافی تھی ، ابن قطن سے بہت ملتا جلتا تھا ، سخت الجھے ہوئے بال تھے ، وہ بھی دو شخصوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے بیت اللہ کا طواف کر رہا ہے ، میں نے کہا یہ کون یہ ؟ کہا گیا یہ مسیح دجال ہے ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:169) بخاری کی اور روایت میں سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ { اللہ کی قسم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عیسیٰ علیہ السلام کو سرخ رنگ نہیں بتایا بلکہ آپ نے گندمی رنگ بتایا ہے ۔ } پھر اوپر والی پوری حدیث ہے ۔ زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں ابن قطن قبیلہ خزاعہ کا ایک شخص تھا ، جو جاہلیت میں مر چکا تھا ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3441) وہ حدیث بھی گذر چکی جس میں یہ بیان ہے کہ { جناب مسیح علیہ السلام اپنے نزول کے بعد چالیس سال یہاں رہیں گے پھر فوت ہوں گے اور مسلمان آپ کے جنازے کی نماز ادا کریں گے ۔ } ۱؎ (سنن ابوداود:4324) ہاں مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ آپ یہاں سال ہا سال رہیں گے ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2940) تو ممکن ہے کہ چالیس سال کا فرمان اس مدت سمیت کا ہو جو آپ نے دنیا میں اپنے آسمانوں پر اٹھائے جانے پہلے گذاری ہے ۔ جس وقت آپ اٹھائے گئے اس وقت آپ کی عمر تینتیس سال کی تھی اور سات سال اب آخر زمانے کے تو پورے چالیس سال ہو گئے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» [ ابن عساکر ] بعض کا قول ہے کہ جب آپ آسمانوں پر چڑھائے گئے اس وقت آپ کی عمر ڈیڑھ سال کی تھی ، یہ بالکل فضول سا قول ہے ، ہاں حافظ ابوالقاسم رحمہ اللہ نے اپنی تاریخ میں بعض سلف سے یہ بھی لکھا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرے میں آپ کے ساتھ دفن کئے جائیں گے ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3617،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) «وَاللہُ اَعْلَمُ» پھر ارشاد ہے کہ یہ قیامت کے دن ان پر گواہ ہوں گے یعنی اس بات کے کہ اللہ کی رسالت آپ نے انہیں پہنچا دی تھی اور خود آپ نے اللہ کی عبودیت کا اقرار کیا تھا ، جیسے سورۃ المائدہ کے آخر میں آیت «وَإِذْ قَالَ اللہُ یَا عِیسَی ابْنَ مَرْیَمَ » سے «أَنتَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ» (5-المائدۃ:116-118) تک ہے یعنی آپ کی گواہی کا وہاں ذکر ہے اور اللہ کے سوال کا ۔ النسآء
160 یہودیوں کے خود ساختہ حلال و حرام اس آیت کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ایک تو یہ کہ حرام کام ان کا مقدر تھا یعنی اللہ کی طرف سے لکھا جا چکا تھا کہ یہ لوگ اپنی کتاب کو بدل دیں ، اس میں تحریف کر لیں اور حلال چیزوں کو اپنے اوپر حرام ٹھہرا لیں ، صرف اپنے تشدد اور اپنی سخت گیری کی وجہ سے ، دوسرا یہ کہ یہ حرمت شرعی ہے یعنی نزول تورات سے پہلے جو بعض چیزیں ان پر حلال تھیں ، توراۃ کے اترنے کے وقت ان کی بعض بدکاریوں کی وجہ سے وہ حرام قرار دے دی گئیں جیسے فرمان ہے آیت «کُلٰ الطَّعَامِ کَانَ حِلًّا لِّبَنِیْٓ اِ سْرَاۗءِیْلَ اِلَّا مَا حَرَّمَ اِسْرَاۗءِیْلُ عَلٰی نَفْسِھٖ مِنْ قَبْلِ اَنْ تُنَزَّلَ التَّوْرٰیۃُ ۭ قُلْ فَاْتُوْا بِالتَّوْرٰیۃِ فَاتْلُوْھَآ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ» ۱؎ (3-آل عمران:93) ’ یعنی اونٹ کا گوشت اور دودھ جو اسرائیل علیہ السلام نے اپنے اوپر حرام کر لیا تھا ۔ ‘ اس کے سوا تمام طعام بنی اسرائیل کے لیے حلال تھے پھر توراۃ میں ان پر بعض چیزیں حرام کی گئیں ، جیسے سورۃ الانعام میں فرمایا آیت «وَعَلَی الَّذِینَ ہَادُوا حَرَّمْنَا کُلَّ ذِی ظُفُرٍ ۖ وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنَا عَلَیْہِمْ شُحُومَہُمَا إِلَّا مَا حَمَلَتْ ظُہُورُہُمَا أَوِ الْحَوَایَا أَوْ مَا اخْتَلَطَ بِعَظْمٍ ۚ ذٰلِکَ جَزَیْنَاہُم بِبَغْیِہِمْ ۖ وَإِنَّا لَصَادِقُونَ» ۱؎ (6-الأنعام:146) ، ’ یہودیوں پر ہم نے ہر ناخن دار جانور حرام کر دیا اور گائے بکری کی چربی بھی جو الگ تھلگ ہو ، ہم نے ان پر حرام قرار دے دی ، یہ اس لیے کہ یہ باغی ، طاغی ، مخالف رسول اور اختلاف کرنے والے لوگ تھے ‘ پہلے یہاں بھی یہی بیان ہو رہا ہے کہ ان کے ظلم و زیادتی کے سبب وہ خود اللہ کے راستہ سے الگ ہو کر اور دوسروں کو بھی بہکانے کے باعث جو ان کی پرانی عادت تھی رسولوں کے دشمن بن جاتے تھے انہیں قتل کر ڈالتے تھے ، انہیں جھٹلاتے تھے ، ان کا مقابلہ کرتے تھے۔ اور طرح طرح کے حیلے کر کے سود خوری کرتے تھے جو محض حرام تھی اور بھی جس طرح بن پڑتا لوگوں کے مال غصب کرنے کی تاک میں لگے رہتے اور اس بات کو جانتے ہوئے کہ اللہ نے یہ کام حرام کئے ہیں جرات سے انہیں کر گذرے تھے ، اس وجہ سے ان پر بعض حلال چیزیں بھی ہم نے حرام کر دیں ، ان کفار کے لیے درد ناک عذاب تیار ہیں ۔ لیکن ان میں جو سچے دین والے اور پختہ علم والے ہیں ، اس جملے کی تفسیر سورۃ آل عمران میں گذر چکی ہے اور جو با ایمان ہیں وہ تو قرآن کو اور تمام پہلی کتابوں کو مانتے ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اس سے مراد سیدنا عبداللہ بن سلام ، سیدنا ثعلبہ بن سعید ، سیدنا زید بن سعید ، سیدنا اسید بن عبید رضی اللہ عنہم اجمعین ہیں ، جو اسلام قبول کر چکے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو مان چکے تھے آگے کا جملہ آیت «وَالْمُقِیمِینَ الصَّلَاۃَ» تمام ائمہ کے قرآن میں اور سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے مصحف میں اسی طرح ہے لیکن بقول علامہ ابن جریر رحمہ اللہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے صحیفہ میں آیت «والمقیمون الصلوۃ» ہے ۔ صحیح قرأت اگلی ہے جن بعض لوگوں نے اسے کتابت کی غلطی بتایا ہے ان کا قول غلط ہے ۔ بعض تو کہتے ہیں اس کی نصبی حالت مدح کی وجہ سے ہے ، جیسے آیت «وَالْمُوْفُوْنَ بِعَہْدِہِمْ اِذَا عٰھَدُوْا» ۱؎ (2-البقرۃ:177) الخ ، میں ہے اور کلام عرب میں اور شعروں میں برابر یہ قاعدہ موجود پایا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں یہ عطف ہے اگلے جملے پر یعنی آیت «بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ» ۱؎ (2-البقرۃ:4) پر یعنی وہ اس پر بھی ایمان لاتے ہیں اور نماز قائم کرنے پر بھی ان کا ایمان ہے یعنی اسے واجب و برحق مانتے ہیں ۔ یا یہ مطلب ہے کہ اس سے مراد فرشتے ہیں یعنی ان کا قرآن پر اور الہامی کتابوں پر اور فرشتوں پر ایمان ہے ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ اسی کو پسند فرماتے ہیں لیکن اس میں تامل کی ضرورت ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ، اور زکوٰۃ ادا کرنے والے ہیں یعنی مال کی یا جان کی اور دونوں بھی مراد ہو سکتے ہیں «وَاللہُ اَعْلَمُ» اور صرف اللہ ہی کو لائق عبادت جانتے ہیں اور موت کے بعد کی زندگانی پر بھی یقین کامل رکھتے ہیں کہ ہر بھلے برے عمل کی جزا سزا اس دن ملے گی ، یہی لوگ ہیں جنہیں ہم اجر عظیم یعنی جنت دیں گے ۔ النسآء
161 النسآء
162 النسآء
163 نزول انبیاء، تعداد انبیاء، صحائف اور ان کے مرکزی مضامین سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ سکین اور عدی بن زید نے کہا ”اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہم نہیں‏ مانتے کہ موسیٰ کے بعد اللہ نے کسی انسان پر کچھ اتارا ہو ۔ “ اس پر یہ آیتیں اتریں ، محمد بن کعب قرظی رحمہ اللہ فرماتے ہیں جب آیت «یَسْأَلُکَ أَہْلُ الْکِتَابِ أَن تُنَزِّلَ عَلَیْہِمْ کِتَابًا مِّنَ السَّمَاءِ ۚ فَقَدْ سَأَلُوا مُوسَیٰ أَکْبَرَ مِن ذٰلِکَ فَقَالُوا أَرِنَا اللہَ جَہْرَۃً فَأَخَذَتْہُمُ الصَّاعِقَۃُ بِظُلْمِہِمْ ۚ ثُمَّ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ مِن بَعْدِ مَا جَاءَتْہُمُ الْبَیِّنَاتُ فَعَفَوْنَا عَن ذٰلِکَ ۚ وَآتَیْنَا مُوسَیٰ سُلْطَانًا مٰبِینًا وَرَفَعْنَا فَوْقَہُمُ الطٰورَ بِمِیثَاقِہِمْ وَقُلْنَا لَہُمُ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَقُلْنَا لَہُمْ لَا تَعْدُوا فِی السَّبْتِ وَأَخَذْنَا مِنْہُم مِّیثَاقًا غَلِیظًا فَبِمَا نَقْضِہِم مِّیثَاقَہُمْ وَکُفْرِہِم بِآیَاتِ اللہِ وَقَتْلِہِمُ الْأَنبِیَاءَ بِغَیْرِ حَقٍّ وَقَوْلِہِمْ قُلُوبُنَا غُلْفٌ ۚ بَلْ طَبَعَ اللہُ عَلَیْہَا بِکُفْرِہِمْ فَلَا یُؤْمِنُونَ إِلَّا قَلِیلًا وَبِکُفْرِہِمْ وَقَوْلِہِمْ عَلَیٰ مَرْیَمَ بُہْتَانًا عَظِیمًا » ۱؎ (4-النساء:153-156) تک اتری . اور یہودیوں کے برے اعمال کا آئینہ ان کے سامنے رکھ دیا گیا تو انہوں نے صاف کر دیا کہ کسی انسان پر اللہ نے اپنا کوئی کلام نازل ہی نہیں فرمایا ، نہ موسیٰ علیہ السلام پر ، نہ عیسیٰ علیہ السلام پر ، نہ کسی اور نبی پر ۔ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت گوٹ لگائے بیٹھے تھے ، اسے آپ نے کھول دیا اور فرمایا کسی پر بھی نہیں ؟ } پس اللہ تعالیٰ نے آیت «وَمَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہٖٓ اِذْ قَالُوْا مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ عَلٰی بَشَرٍ مِّنْ شَیْءٍ» ۱؎ (6-الأنعام:91) الخ ، نازل فرمائی . لیکن یہ قول غور طلب ہے اس لیے کہ یہ آیت سورۃ الانعام میں ہے جو مکیہ ہے اور سورۃ نساء کی مندرجہ بالا آیت مدنیہ ہے جو ان کی تردید میں ہے ، جب انہوں نے کہا تھا کہ آسمان سے کوئی کتاب آپ اتار لائیں ، جس کے جواب میں فرمایا گیا کہ«فَقَدْ سَأَلُوا مُوسَیٰ أَکْبَرَ مِن ذٰلِکَ» (4-النساء:153) موسیٰ سے انہوں نے اس سے بھی بڑا سوال کیا تھا ۔ پھر ان کے عیوب بیان فرمائے ان کی پہلی اور موجودہ سیاہ کاریاں واضح کر دیں پھر فرمایا کہ اللہ نے اپنے بندے اور رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اسی طرح وحی نازل فرمائی ہے جس طرح اور انبیاء کی طرف وحی کی ۔ زبور اس کتاب کا نام ہے جو داؤد علیہ السلام پر اتری تھی ، ان انبیاء علیہم السلام کے قصے سورۃ قصص کی تفسیر میں بیان کریں گے ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ پھر فرماتا ہے اس آیت یعنی مکی سورت کی آیت سے پہلے بہت سے انبیاء علیہم السلام کا ذکر ہو چکا ہے اور بہت سے انبیاء علیہم السلام کا ذکر نہیں بھی ہوا ۔ جن انبیاء علیہم السلام کے نام قرآن کے الفاظ میں آ گئے ہیں وہ یہ ہیں ، : آدم ، ادریس ، نوح ، ہود ، صالح ، ابراہیم ، لوط ، اسماعیل ، اسحاق ، یعقوب ، یوسف ، شعیب ، موسیٰ ، ہارون ، یونس ، داؤد ، سلیمان ، یوشع ، زکریا ، عیسیٰ ، یحییٰ ، اور بقول اکثر مفسرین ذوالکفل اور ایوب اور الیاس علیہم السلام اور ان سب کے سردار محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور بہت سے ایسے رسول بھی ہیں جن کا ذکر قرآن میں نہیں کیا گیا ۔ اسی وجہ سے انبیاء اور مرسلین کی تعداد میں اختلاف ہے ، اس بارے میں مشہور حدیث سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کی ہے جو تفسیر ابن مردویہ میں یوں ہے کہ آپ نے پوچھا { یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انبیاء کتنے ہیں ؟ فرمایا ایک لاکھ چوبیس ہزار میں نے پوچھا ان میں سے رسول کتنے ہیں ؟ فرمایا تین سو تیرہ ، بہت بڑی جماعت ۔ میں نے پھر دریافت کیا ، ”سب سے پہلے کون سے ہیں ؟ “ فرمایا ”آدم“ علیہ السلام میں نے کہا ”کیا وہ بھی رسول تھے ؟ “ فرمایا ”ہاں اللہ نے انہیں اپنے ہاتھ سے پیدا کیا ، پھر ان میں اپنی روح پھونکی ، پھر درست اور ٹھیک ٹھاک کیا “ پھر فرمایا اے ابوذر [ رضی اللہ عنہ ] چار سریانی ہیں ، آدم ، شیت ، نوح ، خنوخ علیہم السلام جن کا مشہور نام ادریس ہے ، انہی نے پہلے قلم سے خط لکھا ، چار عربی ہیں ، ہود ، صالح ، شعیب علیہم السلام اور تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، اے بوذر [ رضی اللہ عنہ ] بنو اسرائیل کے پہلے نبی موسیٰ علیہ السلام ہیں اور آخری عیسیٰ علیہ السلام ہیں ۔ تمام نبیوں میں سب سے پہلے نبی آدم علیہ السلام ہیں اور سب سے آخری نبی تمہارے نبی ہیں ۔ } ۱؎ (صحیح ابن حبان:361:ضعیف جداً) اس پوری حدیث کو جو بہت طویل ہے ۔ حافظ ابوحاتم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب الانواع و التقاسیم میں روایت کیا ہے جس پر صحت کا نشان دیا ہے ، لیکن ان کے برخلاف امام ابوالفرج بن جوزی رحمہ اللہ اسے بالکل موضوع بتلاتے ہیں ، اور ابراہیم بن ہشام اس کے ایک راوی پر وضاع ہونے کا وہم کرتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ ائمہ جرح و تعدیل میں سے بہت سے لوگوں نے ان پر اس حدیث کی وجہ سے کلام کیا ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ، لیکن یہ حدیث دوسری سند سے ابوامامہ سے بھی مروی ہے ، لیکن اس میں معان بن رفاعہ سلامی ضعیف ہیں اور علی بن یزید بھی ضعیف ہیں اور قاسم ابو بن عبدالرحمٰن بھی ضعیف ہیں ۔ ۱؎ (مسند احمد:265/5:ضعیف جداً) ایک اور حدیث ابویعلیٰ میں ہے کہ { اللہ تعالیٰ نے آٹھ ہزار نبی بھیجے ہیں ، چار ہزار بنو اسرائیل کی طرف اور چار ہزار باقی اور لوگوں کی طرف ۔ } ۱؎ (مسند ابویعلیٰ:4132:ضعیف جداً) یہ حدیث بھی ضعیف ہے اس میں رنبری اور ان کے استاد رقاشی دونوں ضعیف ہیں ، «وَاللہُ اَعْلَمُ» ابو یعلیٰ کی اور حدیث میں ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آٹھ ہزار انبیاء میرے بھائی گذر چکے ہیں ان کے بعد عیسیٰ علیہ السلام آئے اور ان کے بعد میں آیا ہوں ۔} ۱؎ (مسند ابویعلیٰ:4092:ضعیف جداً) اور حدیث میں ہے { میں آٹھ ہزار نبیوں کے بعد آیا ہوں جن میں سے چار ہزار نبی بنی اسرائیل میں سے تھے ۔ } ۱؎ (ابونعیم فی الحلیۃ:162/3:ضعیف جداً) یہ حدیث اس سند سے غریب تو ضرور ہے لیکن اس کے تمام راوی معروف ہیں اور سند میں کوئی کمی یا اختلاف نہیں بجز احمد بن طارق کے کہ ان کے بارے میں مجھے کوئی علالت یا جرح نہیں ملی ، «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ والی طویل حدیث جو انبیاء کی گنتی کے بارے میں ہے ، اسے بھی سن لیجئے ، { آپ فرماتے ہیں میں مسجد میں آیا اور اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تنہا تشریف فرماتے ، میں بھی آپ کے پاس بیٹھ گیا اور کہا آپ نے نماز کا حکم دیا ہے آپ نے فرمایا ”ہاں وہ بہتر چیز ہے ، چاہے کوئی زیادتی کرے چاہے کمی“ میں نے کہا ”یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم کون سے اعمال افضل ہیں ؟ “ فرمایا ”اللہ پر ایمان لانا ، اس کی راہ میں جہاد کرنا “ میں نے کہا ”یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم کون سا مسلمان اعلیٰ ہے ؟ فرمایا جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان سلامت رہیں“ { میں نے پوچھا ” کون سی ہجرت افضل ہے ؟ “ فرمایا ”برائیوں کو چھوڑ دینا “ میں نے پوچھا کون سی نماز افضل ہے ؟ فرمایا ”لمبے قنوت والی “ میں نے کہا کون سا روزہ افضل ہے ؟ فرمایا ”فرض کفایت کرنے والا ہے اور اللہ کے پاس بہت بڑھا چڑھا ثواب ہے “ میں نے پوچھا کون سا جہاد افضل ہے ؟ ”فرمایا جس کا گھوڑا بھی کاٹ دیا جائے اور خود اس کا بھی خون بہا دیا جائے ۔ “ میں نے کہا غلام کو آزاد کرنے کے عمل میں افضل کیا ہے ؟ ”فرمایا جس قدر گراں قیمت ہو اور مالک کو زیادہ پسند ہو ۔ “ میں نے پوچھا صدقہ کون سا افضل ہے ؟ فرمایا ”کم مال والے کا کوشش کرنا اور چپکے سے محتاج کو دے دینا ۔ “ میں نے کہا قران میں سب سے بڑی آیت کون سی ہے ؟ فرمایا ”آیت الکرسی“ پھر آپ نے فرمایا ”اے ابوذر ساتوں آسمان کرسی کے مقابلے میں ایسے ہیں جیسے کوئی حلقہ کسی چٹیل میدان کے مقابلے میں اور عرش کی فضیلت کرسی پر ، بھی ایسی ہے جیسے وسیع میدان کی حلقے پر“ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انبیاء علیہم السلام کتنے ہیں ؟ فرمایا ” ایک لاکھ چوبیس ہزار“ میں نے کہا ان میں سے رسول کتنے ہیں ؟ فرمایا ”تین سو تیرہ کی بہت بڑی پاک جماعت “ میں نے پوچھا سب سے پہلے کون ہیں ؟ فرمایا ”آدم“ علیہ السلام میں نے کہا کیا وہ بھی نبی رسول تھے ؟ فرمایا ”ہاں انہیں اللہ نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور اپنی روح ان میں پھونکی اور انہیں صحیح تر بنایا ۔ “ } { پھر آپ نے فرمایا سنو چار تو سریانی ہیں ، آدم ، شیث ، خنوخ علیہم السلام اور یہی ادریس علیہ السلام ہیں ، جنہوں نے سب سے پہلے قلم سے لکھا اور نوح اور چار عربی ہیں ہود ، شعیب ، صالح علیہم السلام اور تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، سب سے پہلے رسول آدم علیہ السلام ہیں اور سب سے آخری رسول محمد ہیں صلی اللہ علیہ وسلم ۔ میں نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ نے کتابیں کس قدر نازل فرمائی ہیں ؟ فرمایا ایک سو چار ، شیث علیہ السلام پر پچاس صحیفے ، خنوخ علیہ السلام پر تیس صحیفے ، ابراہیم علیہ السلام پر دس صحیفے اور موسیٰ علیہ السلام پر توراۃ سے پہلے دس صحیفے اور توراۃ انجیل زبور اور فرقان ۔ میں نے کہا یا رسول اللہ ابراہیم علیہ السلام کے صحیفوں میں کیا تھا ؟ فرمایا اس کا کل یہ تھا اے بادشاہ مسلط کیا ہوا اور مغروز میں نے تجھے دنیا جمع کرنے اور ملا ملا کر رکھنے کے لیے نہیں بھیجا بلکہ اس لئے کہ تو مظلوم کی پکار کو سامنے سے ہٹادے اگر میرے پاس پہنچے تو میں اسے رد نہ کروں گا گو وہ مظلوم کافر ہی ہو اور ان میں مثالیں بھی تھیں یہ کہ عاقل کو لازم ہے کہ وہ اپنے اوقات کے کئی حصے کرے ایک وقت اپنے نفس کا حساب لے ایک وقت خدا کی صفت میں غور کرے ایک وقت اپنے کھانے پینے کی فکر کرے ۔ اس کی مرکزی تعلیم جبر سے مسلط بادشاہ کو اس کے اقتدار کا مقصد سمجھانا تھا اور اسے مظلوم کی فریاد رسی کرنے کا احساس دلانا تھا ۔ جس کی دعا کو اللہ تعالیٰ لازماً قبول فرماتے ہیں ۔ چاہے وہ کافر ہی کیوں نہ ہو ! “ دنیا کا مال جمع کرنے سے روکنا تھا اور ان میں نصائح تھیں مثلاً یہ کہ عقلمند کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنا نظام الاوقات بنائے وقت کے ایک حصہ میں وہ اپنے اعمال کا محاسبہ کرے ، دوسرے حصہ میں اپنے خالق کی صفات پہ غور و فکر کرے ، بقیہ حصہ میں تدبیر معاش میں مشغول ہو ۔ عقلمند کو تین چیزوں کے سوا کسی اور چیز میں دلچسپی نہ لینا چاہیئے ، ایک تو آخرت کے زاد راہ کی فکر ، دوسرے سامان زیست اور تیسرے اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ نعمتوں سے لطف اندوز ہونا یا فکر معاش یا غیر حرام چیزوں سے سرور و لذت ، عقلمند کو اپنے وقت کو غنیمت سمجھ کر سرگرم عمل رہنا چاہیئے ، اپنی زبان پر قابو اور قول و فعل میں یکسانیت برقرار رکھنا چاہیئے ، وہ بہت کم گو ہو گا ، بات وہی کہو جو تمہیں نفع دے ، } { میں نے پوچھا موسیٰ علیہ السلام کے صحیفوں میں کیا تھا ؟ فرمایا وہ عبرت دلانے والی تحریروں کا مجموعہ تھے ، مجھے تعجب ہے اس شخص پر جو موت کا یقین رکھتا ہے پھر بھی غافل ہے ، تقدیر کا یقین رکھتا ہے پھر بھی مال دولت کے لیے پاگل ہو رہا ہے ، ہائے وائے میں پڑا ہوا ہے ، دنیا کی بے ثباتی دیکھ کر بھی اسی کو سب کچھ سمجھتا رہے ، قیامت کے دن حساب کو جانتا ہے پھر بےعمل ہے ، میں نے عرض کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اگلے انبیاء علیہم السلام کی کتابوں میں جو تھا اس میں سے بھی کچھ ہماری کتاب میں ہمارے ہاتھوں میں ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں پڑھو آیت «قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہِ فَصَلَّیٰ بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَیَاۃَ الدٰنْیَا وَالْآخِرَۃُ خَیْرٌ وَأَبْقَیٰ إِنَّ ہٰذَا لَفِی الصٰحُفِ الْأُولَیٰ صُحُفِ إِبْرَاہِیمَ وَمُوسَیٰ» ۱؎ (87-الأعلی:19-14) میں نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے وصیت کیجئے ۔ آپ نے فرمایا میں تجھے اللہ سے ڈرتے رہنے کی وصیت کرتا ہوں ، یہی تیرے اعمال کی روح ہے ، میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ اور بھی ، آپ نے فرمایا قرآن کی تلاوت اور اللہ کے ذکر میں مشغول رہ وہ تیرے لیے آسمانوں میں ذکر اور زمین میں نور کے حصول کا سبب ہو گا ، میں نے پھر کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کچھ مزید فرمایئے ، فرمایا خبردار زیادہ ہنسی سے باز رہو زیادہ ہنسی دل کو مردہ اور چہرہ کا نور دور کر دیتی ہے ، میں نے کہا اور زیادہ فرمایا جہاد میں مشغول رہو ، میری امت کی رہبانیت یعنی درویشی یہی ہے ، میں نے کہا اور وصیت کیجئے فرمایا بھلی بات کہنے کے سوا زبان بند رکھو ، اس سے شیطان بھاگ جائے گا اور دینی کاموں میں بڑی تائید ہو گی ۔} { میں نے کہا کچھ اور بھی فرما دیجئیے فرمایا اپنے سے نیچے درجے کے لوگوں کو دیکھا کر اور اپنے سے اعلیٰ درجہ کے لوگوں پر نظریں نہ ڈالو ، اس سے تمہارے دل میں اللہ کی نعمتوں کی عظمت پیدا ہو گی ۔ میں نے کہا مجھے اور زیادہ نصیحت کیجئے فرمایا مسکینوں سے محبت رکھو اور ان کے ساتھ بیٹھو ، اس سے اللہ کی رحمتیں تمہیں گراں قدر معلوم ہوں گی ، میں نے کہا اور فرمایئے فرمایا ”قرابت داروں سے ملتے رہو ، چاہے وہ تجھ سے نہ ملیں“ میں نے کہا اور ؟ فرمایا سچ بات کہو چاہے وہ کسی کو کڑوی لگے ۔ میں نے اور بھی نصیحت طلب کی فرمایا اللہ کے بارے میں ملامت کرنے والے کی ملامت کا خوف نہ کر ، میں نے کہا اور فرمایئے فرمایا اپنے عیبوں پر نظر رکھا کر ، دوسروں کی عیب جوئی سے باز رہو ، پھر میرے سینے پر آپ نے اپنا دست مبارک رکھ کر فرمایا اے ابوذر تدبیر کے مانند کوئی عقلمندی نہیں اور حرام سے رک جانے سے بڑھ کر کوئی پرہیزگاری نہیں اور اچھے اخلاق سے بہتر کوئی حسب نسب نہیں ۔} ۱؎ (صحیح ابن حبان:361،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) مسند احمد میں بھی یہ حدیث کچھ اسی مفہوم کی ہے ۔ ۱؎ (مسند احمد:178/5-179:ضعیف و منقطع) سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ پوچھتے ہیں کیا خارجی بھی دجال کے قائل ہیں ، لوگوں نے کہا نہیں فرمایا { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے میں ایک ہزار بلکہ زیادہ نبیوں کا ختم کرنے والا ہوں اور ہر ہر نبی نے اپنی امت کو دجال سے ڈرایا ہے لیکن مجھ سے اللہ نے اس کی وہ علامت بیان فرمائی ہے جو کسی اور کو نہیں فرمائی ”سنو وہ بھینگا ہو گا اور رب ایسا ہو نہیں سکتا اس کی داہنی آنکھ کافی بھینگی ہو گی ، آنکھ کا ڈھیلا اتنا اٹھا ہوا جیسے چونے کی صاف دیوار پر کسی کا کھنکار پڑا ہو اور اس کی بائیں آنکھ ایک جگمگاتے ستارے جیسی ہے ، وہ تمام زبانیں بولے گا ، اس کے ساتھ جنت کی صورت ہوگی سرسبز و شاداب اور پانی والی اور دوزخ کی صورت ہوگی سیاہ دھواں دھار۔ } ۱؎ (مسند احمد:79/3:ضعیف) ایک حدیث میں ہے ایک لاکھ نبیوں کو ختم کرنے والا ہوں بلکہ زیادہ کا ۔ پھر فرمایا ہے موسیٰ سے خود اللہ نے صاف طور پر کلام کیا ۔ یہ ان کی خاص صفت ہے کہ وہ کلیم اللہ تھے ، ایک شخص ابوبکر بن عیاش رحمہ اللہ کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ ایک شخص اس جملہ کو یوں پڑھتا ہے «وَکَلَّمَ اللہُ مُوسَیٰ تَکْلِیمًا» ’ یعنی موسیٰ نے اللہ سے بات کی ہے ‘ اس پر آپ بہت بگڑے اور فرمایا یہ کسی کافر نے پڑھا ہو گا ۔ میں نے اعمش سے، اعمش نے یحییٰ سے ، یحییٰ نے عبدالرحمٰن سے ، عبدالرحمٰن نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پڑھا ہے کہ آیت «وَکَلَّمَ اللہُ مُوسَیٰ تَکْلِیمًا» ۱؎ (4-النساء:164) ۱؎ (طبرانی اوسط:8603:ضعیف) غرض اس شخص کی معنوی اور لفظی تحریف پر آپ بہت زیادہ ناراض ہوئے مگر عجب نہیں کہ یہ کوئی معتزلی ہو ، اس لیے کہ معتزلہ کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ نے موسیٰ سے کلام کیا نہ کسی اور سے ۔ کسی معتزلی نے ایک بزرگ کے سامنے اسی آیت کو اسی طرح پڑھا تو انہوں نے اسے ڈانٹ کر فرمایا پھر اس آیت میں یہ بد دیانتی کیسے کرو گے ؟ جہاں فرمایا ہے آیت «وَلَمَّا جَاۗءَ مُوْسٰی لِمِیْقَاتِنَا وَکَلَّمَہٗ رَبٰہٗ» ۱؎ (7-الأعراف:143) ’ یعنی موسیٰ ہمارے وعدے پر آیا اور ان سے ان کے رب نے کلام کیا ‘ مطلب یہ ہے کہ یہاں تو یہ تاویل و تحریف نہیں چلے گی ۔ ابن مردویہ کی حدیث میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “جب اللہ تعالیٰ نے موسیٰ سے کلام کیا تو وہ اندھیری رات میں سیاہ چیونٹی کا کسی صاف پتھر پر چلنا بھی دیکھ لیتے تھے ۔ } ۱؎ (مجمع الزوائد:373/8:ضعیف) یہ حدیث غریب ہے اور اس کی اسناد صحیح نہیں اور جب موقوفاً بقول سیدنا ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ ثابت ہو جائے تو بہت ٹھیک ہے ۔ مستدرک حاکم وغیرہ میں ہے ۔ کہ کلیم اللہ سے جب اللہ نے کلام کیا وہ صوف کی چادر اور صوف کی سردول اور غیر مذبوح گدھے کی کھال کی جوتیاں پہنے ہوئے تھے ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:1734،قال الشیخ الألبانی:ضعیف جداً) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ایک لاکھ چالیس ہزار باتیں موسیٰ علیہ السلام کیں جو سب کی سب وصیتیں تھیں ، نتیجہ یہ کہ لوگوں کی باتیں موسیٰ علیہ السلام سے سنی نہیں جاتی تھیں کیونکہ کانوں میں اسی پاک کلام الٰہی کی گونج رہتی تھی ۔ ۱؎ (المعجم الاوسط:3949:ضعیف) اس کی اسناد بھی ضعیف ہیں ۔ پھر اس میں انقطاع بھی ہے ۔ ایک اثر ابن مردویہ میں ہے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جو کلام اللہ تعالیٰ نے طور والے دن موسیٰ علیہ السلام سے کیا تھا یہ تو میرے اندازے کے مطابق اس کی صفت جس دن پکارا تھا اس انداز کلام کی صفت سے الگ تھی ۔ موسیٰ علیہ السلام نے اس کا راز معلوم کرنا چاہا اللہ تعالیٰ نے فرمایا موسیٰ ابھی تو میں نے دس ہزار زبانوں کے برابر کی قوت سے کلام کیا ہے حالانکہ مجھے تمام زبانوں کی قوت حاصل ہے بلکہ ان سب سے بھی بہت زیادہ ۔ بنو اسرائیل نے آپ سے جب کلام زبانی کی صفت پوچھی آپ نے فرمایا ”میں تو کچھ نہیں کہہ سکتا “ انہوں نے کہا کچھ تشبیہ تو بیان کرو ، آپ نے فرمایا تم نے کڑاکے کی آواز سنی ہو گی ، وہ اس کے مشابہ تھی لیکن ویسی نہ تھی . ۱؎ (بزار:2353:ضعیف) اس کے ایک راوی فضل رقاشی ضعیف ہیں اور بہت ہی ضعیف ہیں . سیدنا کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے جب موسیٰ علیہ السلام سے کلام کیا تو یہ تمام زبانوں پہ محیط تھا ۔ کلیم اللہ علیہ السلام نے پوچھا “باری تعالیٰ یہ تیرا کلام ہے ؟ فرمایا نہیں اور نہ تو میرے کلام کی استقامت کر سکتا ہے ۔ موسیٰ علیہ السلام نے دریافت کیا کہ اسے رب تیری مخلوق میں سے کسی کا کلام تیرے کلام سے مشابہ ہے ؟ فرمایا نہیں سوائے سخت تر کڑاکے کے ۔ یہ روایت بھی موقوف ہے اور یہ ظاہر ہے کہ سیدنا کعب رضی اللہ عنہ اگلی کتابوں سے روایت کیا کرتے تھے جن میں بنو اسرائیل کی حکایتیں ہر طرح صحیح اور غیر صحیح ہوتی ہیں ۔ یہ رسول ہی ہیں جو اللہ کی اطاعت کرنے والوں اور اس کی رضا مندی کے متلاشیوں کو جنتوں کی خوشخبریاں دیتے ہیں اور اس کے فرمان کے خلاف کرنے والوں ، اور اس کے رسولوں کو جھٹلانے والوں کو عذاب اور سزا سے ڈراتے ہیں ۔ پھر فرماتا ہے اللہ تعالیٰ نے جو اپنی کتابیں نازل فرمائی ہیں اور اپنے رسول بھیجے ہیں اور ان کے ذریعہ اپنے اوامر و نواہی کی تعلیم دلوائی یہ اس لیے کہ کسی کو کوئی حجت یا کوئی عذر باقی نہ رہ جائے ۔ جیسے اور آیت میں ہے آیت «وَلَوْ اَنَّآ اَہْلَکْنٰہُمْ بِعَذَابٍ مِّنْ قَبْلِہٖ لَقَالُوْا رَبَّنَا لَوْلَآ اَرْسَلْتَ اِلَیْنَا رَسُوْلًا فَنَتَّبِعَ اٰیٰتِکَ مِنْ قَبْلِ اَنْ نَّذِلَّ وَنَخْزٰی» ۱؎ (20-طہ:134) ’ یعنی اگر ہم انہیں اس سے پہلے ہی اپنے عذاب سے ہلاک کر دیتے تو وہ یہ کہہ سکتے تھے کہ اے ہمارے رب تو نے ہماری طرف رسول کیوں نہیں بھیجے جو ہم ان کی باتیں مانتے اور اس ذلت و رسوائی سے بچ جاتے ۔ ‘ اسی جیسی یہ آیت بھی ہے آیت«وَلَوْلَآ اَنْ تُصِیْبَہُمْ مٰصِیْبَۃٌۢ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْہِمْ فَیَقُوْلُوْا رَبَّنَا لَوْلَآ اَرْسَلْتَ اِلَیْنَا رَسُوْلًا فَنَتَّبِعَ اٰیٰتِکَ وَنَکُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ» ۱؎ (28-القصص:47) بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ سے زیادہ غیرت مند کوئی نہیں اسی لیے اللہ تعالیٰ نے تمام برائیوں کو حرام کیا ہے خواہ ظاہر ہوں خواہ پوشیدہ اور ایسا بھی کوئی نہیں جسے بہ نسبت اللہ کے مدح زیادہ پسند ہو یہی وجہ ہے کہ اس نے خود اپنی مدح آپ کی ہے اور کوئی ایسا نہیں جسے اللہ سے زیادہ عذر پسند ہو ، اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے نبیوں کو خوش خبریاں سنانے والے اور ڈرانے والے بنا کر بھیجا ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4637) دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ اسی وجہ سے اس نے رسول بھیجے اور کتابیں اتاریں ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2760) النسآء
164 النسآء
165 النسآء
166 ہمارے ایمان اور کفر سے اللہ تعالٰی بےنیاز ہے چونکہ سابقہ آیتوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا ثبوت تھا اور آپ کی نبوت کے منکروں کی تردید تھی ، اس لیے یہاں فرماتا ہے کہ گو کچھ لوگ تجھے جھٹلائیں ، تیری مخالفت خلاف کریں لیکن اللہ خود تیری رسالت کا شاہد ہے ۔ وہ فرماتا ہے کہ« لَّا یَأْتِیہِ الْبَاطِلُ مِن بَیْنِ یَدَیْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہِ ۖ تَنزِیلٌ مِّنْ حَکِیمٍ حَمِیدٍ» ۱؎ (41-فصلت:42) ’ اس نے اپنی پاک کتاب قرآن مجید و فرقان حمید تجھ پر نازل فرمایا ہے جس کے پاس باطل پھٹک ہی نہیں سکتا ۔ ‘ اس کتاب میں ان چیزوں کا علم ہے جن پر اس نے اپنے بندوں کو مطلع فرمانا چاہا یعنی دلیلیں ، ہدایت اور فرقان ، اللہ کی رضا مندی اور ناراضگی کے احکام اور ماضی کی اور مستقبل کی خبریں ہیں اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی وہ مقدس صفتیں ہیں جنہیں نہ تو کؤی نبی مرسل جانتا ہے اور نہ کوئی مقرب فرشتہ ، بجز اس کے کہ وہ خود معلوم کرائے ۔ جیسے ارشاد ہے آیت «وَلَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْءٍ مِّنْ عِلْمِہٖٓ اِلَّا بِمَا شَاۗءَ» ۱؎ (2-البقرۃ:255)( 2 ۔ البقرہ : 255 ) اور فرماتا ہے آیت «وَلَا یُحِیْطُوْنَ بِہٖ عِلْمًا» (20-طہ:110) عطاء بن سائب رحمہ اللہ جب ابوعبدالرحمٰن سلمی سے قرآن شریف پڑھ چکتے ہیں تو آپ فرماتے ہیں تو نے اللہ کا علم حاصل کیا ہے پس آج تجھ سے افضل کوئی نہیں ، بجز اس کے جو عمل میں تجھ سے بڑھ جائے ، پھر آپ نے آیت«أَنزَلَہُ بِعِلْمِہِ ۖ وَالْمَلَائِکَۃُ یَشْہَدُونَ ۚ وَکَفَیٰ بِ اللہِ شَہِیدًا » ۱؎ (4-النساء:166) پڑھی ۔ پھر فرماتا ہے کہ اللہ کی شہادت کے ساتھ ہی ساتھ فرشتوں کی شہادت بھی ہے کہ تیرے پاس جو علم آیا ہے ، جو وحی تجھ پر اتری ہے وہ بالکل سچ اور سراسر حق ہے ۔ یہودیوں کی ایک جماعت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتی ہے تو { آپ فرماتے ہیں خدا کی قسم مجھے پختہ طور پر معلوم ہے کہ تم میری رسالت کا علم رکھتے ہو ۔ } ان لوگوں نے اس کا انکار کر دیا پس اللہ عزوجل نے یہ آیت اتاری ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:10854:ضعیف) پھر فرماتا ہے جن لوگوں نے کفر کیا ، حق کی اتباع نہ کی ، بلکہ اور لوگوں کو بھی راہ حق سے روکتے رہے ، یہ صحیح راہ سے ہٹ گئے ہیں اور حقیقت سے الگ ہو گئے اور ہدایت سے ہٹ گئے ہیں ۔ یہ لوگ جو ہماری آیتوں کے منکر ہیں ، ہماری کتاب کو نہیں مانتے ، اپنی جان پر ظلم کرتے ہیں ہماری راہ سے روکتے اور رکتے ہیں ، ہمارے منع کردہ کام کو کر رہے ہیں ، ہمارے احکام سے منہ پھیرتے ہیں ، انہیں ہم بخشیں گے نہ خیر و بھلائی کی طرف ان کی رہبری کریں گے ۔ ہاں انہیں جہنم کا راستہ دکھا دیں گے جس میں وہ ہمیشہ پڑے رہیں گے ۔ لوگو ! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے حق لے کر اللہ کے رسول آ گئے ، تم اس پر ایمان لاؤ اور اس کی فرمانبرداری کرو ، یہی تمہارے حق میں اچھا ہے اور اگر تم کفر کرو گے تو اللہ تم سے بے نیاز ہے ، تمہارا ایمان نہ اسے نفع پہنچائے ، نہ تمہارا کفر اسے ضرر پہنچائے ۔ زمین و آسمان کی تمام چیزیں اس کی ملکیت میں ہیں ۔ یہی قول موسیٰ علیہ السلام کا اپنی قوم سے تھا کہ تم اور روئے زمین کے تمام لوگ بھی اگر کفر پر اجماع کر لیں تو اللہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ۔ وہ تمام جہان سے بےپرواہ ہے ، وہ علیم ہے ، جانتا ہے کہ مستحق ہدایت کون ہے اور مستحق ضلالت کون ہے ؟ وہ حکیم ہے اس کے اقوال ، اس کے افعال ، اس کی شرع اس کی تقدیر سب حکمت سے پر ہیں ۔ النسآء
167 النسآء
168 النسآء
169 النسآء
170 النسآء
171 اپنی اوقات میں رہو حد سے تجاوز نہ کرو! اہل کتاب کو زیادتی سے اور حد سے آگے بڑھ جانے سے اللہ تعالیٰ روک رہا ہے ۔ عیسائی عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں حد سے نکل گئے تھے اور نبوت سے بڑھا کر الوہیت تک پہنچا رہے تھے ۔ بجائے ان کی اطاعت کرنے کے عبادت کرنے لگے تھے ، بلکہ اور بزرگان دین کی نسبت بھی ان کا عقیدہ خراب ہو چکا تھا ، وہ انہیں بھی جو عیسائی دین کے عالم اور عامل تھے معصوم محض جاننے لگ گئے تھے ۔ اور یہ خیال کر لیا تھا کہ جو کچھ یہ ائمہ دین کہہ دیں اس کا ماننا ہمارے لیے ضروری ہے ، سچ و جھوٹ ، حق و باطل ، ہدایت و ضلالت کے پرکھنے کا کوئی حق ہمیں حاصل نہیں ۔ جس کا ذکر قرآن کی اس آیت میں ہے آیت «اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَالْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ» ۱؎ (9-التوبۃ:31) مسند احمد میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” مجھے تم ایسا نہ بڑھانا جیسا نصاریٰ نے عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کو بڑھایا ، میں تو صرف ایک بندہ ہوں پس تم مجھے عبداللہ اور رسول اللہ کہنا ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:3445) یہ حدیث بخاری وغیرہ میں بھی ہے اسی کی سند ایک حدیث میں ہے کہ کسی شخص نے آپ سے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اے ہمارے سردار اور سردار کے لڑکے ، اے ہم سب سے بہتر اور بہتر کے لڑکے ! تو آپ نے فرمایا ” لوگو اپنی بات کا خود خیال کر لیا کرو تمہیں شیطان بہکا نہ دے ، میں محمد بن عبداللہ ہوں ، میں اللہ کا غلام اور اس کا رسول ہوں ، قسم اللہ کی میں نہیں چاہتا کہ تم مجھے میرے مرتبے سے بڑھا دو “ ۔ ۱؎ (سنن نسائی:10078،قال الشیخ الألبانی:صحیح) پھر فرماتا ہے اللہ پر افتراء نہ باندھو ، اس سے بیوی اور اولاد کو منسوب نہ کرو ، اللہ اس سے پاک ہے ، اس سے دور ہے ، اس سے بلند و بالا ہے ، اس کی بڑائی اور عزت میں کوئی اس کا شریک نہیں ، اس کے سوا نہ تو کوئی معبود اور نہ رب ہے ۔ مسیح عیسیٰ بن مریم علیہ السلام رسول اللہ ہیں ، وہ اللہ کے غلاموں میں سے ایک غلام ہیں اور اس کی مخلوق ہیں ، وہ صرف کلمہ کن کے کہنے سے پیدا ہوئے ہیں ۔ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:1123/4) جس کلمہ کو لے کر جبرائیل علیہ السلام مریم صدیقہ علیہا السلام کے پاس گئے اور اللہ کی اجازت سے اسے ان میں پھونک دیا پس عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے ۔ چونکہ محض اسی کلمہ سے بغیر باپ کے آپ پیدا ہوئے ، اس لیے خصوصیت سے کلمتہ اللہ کہا گیا ۔ قرآن کی ایک اور آیت میں ہے آیت «مَا الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ اِلَّا رَسُوْلٌ ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرٰسُلُ» (5-المائدۃ:75) ’ یعنی مسیح بن مریم صرف رسول اللہ ہیں ان سے پہلے بھی بہت سے رسول گذر چکے ہیں ‘ ان کی والدہ سچی ہیں ، یہ دونوں کھانا کھایا کرتے تھے ۔ اور آیت میں ہے«اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰی عِنْدَ اللّٰہِ کَمَثَلِ اٰدَمَ ۭخَلَقَہٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ» ۱؎ (3-آل عمران:59) ’ عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی طرح ہے جسے مٹی سے بنا کر فرمایا ہو جا پس وہ ہو گیا ۔ ‘ قرآن کریم اور جگہ فرماتا ہے آیت «وَالَّتِیْٓ اَحْصَنَتْ فَرْجَہَا فَنَفَخْنَا فِیْہَا مِنْ رٰوْحِنَا وَجَعَلْنٰہَا وَابْنَہَآ اٰیَۃً لِّـلْعٰلَمِیْنَ»(21-الأنبیاء:91) ’ جس نے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی اور ہم نے اپنی روح پھونکی اور خود اسے اور اس کے بچے کو لوگوں کے لیے اپنی قدرت کی علامت بنایا ۔ ‘ اور جگہ فرمایا آیت «وَمَرْیَمَ ابْنَتَ عِمْرٰنَ الَّتِیْٓ اَحْصَنَتْ فَرْجَہَا فَنَفَخْنَا فِیْہِ مِنْ رٰوْحِنَا وَصَدَّقَتْ بِکَلِمٰتِ رَبِّہَا وَکُتُبِہٖ وَکَانَتْ مِنَ الْقٰنِتِیْنَ» (66-التحریم:12) عیسیٰ کی بابت ایک اور آیت میں ہے آیت «اِنْ ہُوَ اِلَّا عَبْدٌ اَنْعَمْنَا عَلَیْہِ وَجَعَلْنٰہُ مَثَلًا لِّبَنِیْٓ اِسْرَاۗءِیْلَ» (43-الزخرف:59)( 43 ۔ الزخرف : 59 ) ، ’ وہ ہمارا ایک بندہ تھا جس پر ہم نے انعام کیا ۔ ‘ پس یہ مطلب نہیں کہ خود کلمتہ الٰہی عیسیٰ علیہ السلام بن گیا بلکہ کلمہ الٰہی سے عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ نے آیت «اذْ قَالَتِ الْمَلٰۗیِٕکَۃُ یٰمَرْیَمُ اِنَّ اللّٰہَ یُبَشِّرُکِ بِکَلِمَۃٍ مِّنْہُ» (3-آل عمران:45) کی تفسیر میں جو کچھ کہا ہے اس سے یہ مراد ٹھیک ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلمہ جو جبرائیل علیہ السلام کی معرفت پھونکا گیا ، اس سے عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے ۔ صحیح بخاری میں ہے { جس نے بھی اللہ کے ایک اور لا شریک ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عبد و رسول ہونے کی عیسیٰ علیہ السلام کے عبد و رسول ہونے اور یہ کہ آپ اللہ کے کلمہ سے تھے جو مریم رضی اللہ عنہا کی طرف پھونکا گیا تھا اور اللہ کی پھونکی ہوئی روح تھے اور جس نے جنت دوزخ کو برحق مانا وہ خواہ کیسے ہی اعمال پر ہو ، اللہ پر حق ہے کہ اسے جنت میں لے جائے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:3435) ایک روایت میں اتنی زیادہ بھی ہے کہ { جنت کے آٹھوں دروازوں میں سے جس سے چاہے داخل ہو جائے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:3435) جیسے کہ جناب عیسیٰ علیہ السلام کو آیت و حدیث میں «روح منہ» کہا ہے ایسے ہی قرآن کی ایک آیت میں ہے آیت «وَسَخَّرَ لَکُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مِّنْہُ» (45-الجاثیۃ:13) ’ اس نے مسخر کیا تمہارے لیے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے ، تمام کا تمام اپنی طرف سے ۔ ‘ یعنی اپنی مخلوق اور اپنے پاس سے یہ مطلب «روح منہ» کا ہے ۔ پس لفظ«من تبعیض» [ اس کا حصہ ] کے لیے نہیں جیسے ملعون نصرانیوں کا خیال ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام اللہ کا ایک جزو تھے بلکہ «من» ابتداء کے لیے ہے ۔ جیسے کہ دوسری آیت میں ہے«مَّا الْمَسِیحُ ابْنُ مَرْیَمَ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِہِ الرٰسُلُ وَأُمٰہُ صِدِّیقَۃٌ» (5-المائدۃ:75) ، مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں «روح منہ» سے مراد «رسول منہ» ہے ۔ اور لوگ کہتے ہیں آیت «محبتہ منہ» لیکن زیادہ قوی پہلا قول ہے یعنی آپ پیدا کئے گئے ہیں ، روح سے جو خود اللہ کی مخلوق ہے ۔ پس آپ کو روح اللہ کہنا ایسا ہی ہے جیسے «ناقتہ اللہ» اور «بت اللہ» کہا گیا ہے یعنی صرف اس کی عظمت کے اظہار کے لیے اپنی طرف نسبت کی اور حدیث میں بھی ہے کہ ”میں اپنے رب کے پاس اس کے گھر میں جاؤں گا ۔ “ پھر فرماتا ہے تم اس کا یقین کر لو کہ اللہ واحد ہے بیوی بچوں سے پاک ہے اور یقین مان لو کہ جناب عیسیٰ اللہ کا کلام اللہ کی مخلوق اور اس کے برگزیدہ رسول ہیں ۔ تم تین نہ کہو یعنی عیسیٰ علیہ السلام اور مریم رضی اللہ عنہا کو اللہ کا شریک نہ بناؤ اللہ کی الوہیت شرکت سے مبرا ہے ۔ سورۃ المائدہ میں فرمایا آیت «لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللّٰہَ ثَالِثُ ثَلٰثَۃٍ وَمَا مِنْ إِلٰہٍ إِلَّا إِلٰہٌ وَاحِدٌ» ۱؎ (5-المائدۃ:73) ’ یعنی جو کہتے ہیں کہتے ہیں کہ اللہ تین میں کا تیسرا ہے وہ کافر ہو گئے ، اللہ تعالیٰ ایک ہی ہے ، اس کے سوا کوئی اور لائق عبادت نہیں ۔ ‘ سورۃ المائدہ کے آخر میں ہے کہ قیامت کے دن عیسیٰ علیہ السلام سے سوال ہو گا کہ« وَإِذْ قَالَ اللہُ یَا عِیسَی ابْنَ مَرْیَمَ أَأَنتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِی وَأُمِّیَ إِلٰہَیْنِ مِن دُونِ اللہِ » ۱؎ (5-المائدۃ:116) ’ اپنی اور اپنی والدہ کی عبادت کا حکم لوگوں کو تم نے دیا تھا ، آپ صاف طور پر انکار کر دیں گے ۔ ‘ نصرانیوں کا اس بارے میں کوئی اصول ہی نہیں ہے ، وہ بری طرح بھٹک رہے ہیں اور اپنے آپ کو برباد کر رہے ہیں ۔ ان میں سے بعض تو عیسیٰ کو خود اللہ مانتے ہیں ، بعض شریک الہیہ مانتے اور بعض اللہ کا بیٹا کہتے ہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر دس نصرانی جمع ہوں تو ان کے خیالات گیارہ ہوں گے ۔ سعید بن بطریق اسکندری جو سن 400 ھ کے قریب گذرا ہے اس نے اور بعض ان کے اور بڑے علماء نے ذکر کیا ہے کہ قسطنطین بانی قسطنطنیہ کے زمانے میں اس وقت کے نصرانیوں کا اس بادشاہ کے حکم سے اجتماع ہوا ، جس میں دو ہزار سے زیادہ ان کے مذہبی پیشوا شامل ہوتے تھے ، باہم ان کے اختلاف کا یہ حال تھا کہ کسی بات پر ستر اسی آدمیوں کا اتفاق مفقود تھا ، دس کا عقیدہ ایک ہے ، بیس کا ایک خیال ہے ، چالیس اور ہی کچھ کہتے ہیں ، ساٹھ اور طرف جا رہے ہیں ، غرض ہزار ہا کی تعداد میں سے بہ مشکل تمام تین سو اٹھارہ آدمی ایک قول پر جمع ہوئے ۔ بادشاہ نے اسی عقیدہ کو لے لیا ، باقی کو چھوڑ دیا اور اسی کی تائید و نصرت کی اور ان کے لیے کلیساء اور گرجے بنا دئے اور کتابیں لکھوا دیں ، قوانین ضبط کر دئے ، یہیں انہوں نے امانت کبریٰ کا مسئلہ گھڑا ، جو دراصل بدترین خیانت ہے ، ان لوگوں کو ملکانیہ کہتے ہیں ۔ پھر دوبارہ ان کا اجتماع ہوا ، اس وقت جو فرقہ بنا اس کا نام یعقوبیہ ہے ۔ پھر تیسری مرتبہ کے اجتماع میں جو فرقہ بنا اس کا نام نسطوریہ ہے ، یہ تینوں فرقے اقالیم ثلثہ کو عیسیٰ علیہ السلام کے لیے ثابت کرتے ہیں ، ان میں بھی باہم دیگر اختلاف ہے اور ایک دوسرے کو کافر کہتے ہیں اور ہمارے نزدیک تو تینوں کافر ہیں ۔ اللہ فرماتا ہے اس شرک سے باز آؤ ، باز رہنا ہی تمہارے لیے اچھا ہے ، اللہ تو ایک ہی ہے ، وہ توحید والا ہے ، اس کی ذات اس سے پاک ہے کہ اس کے ہاں اولاد ہو ۔ تمام چیزیں اس کی مخلوق ہیں اور اس کی ملکیت میں ہیں ، سب اس کی غلامی میں ہیں اور سب اس کے قبضے میں ہیں ، وہ ہرچیز پر وکیل ہے ، پھر مخلوق میں سے کوئی اس کی بیوی اور کوئی اس کا بچہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ دوسری آیت میں ہے آیت «بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ اَنّٰی یَکُوْنُ لَہٗ وَلَدٌ وَّلَمْ تَکُنْ لَّہٗ صَاحِبَۃٌ» ۱؎ (6-الأنعام:101) ’ یعنی وہ تو آسمان و زمین کی ابتدائی آفرنیش کرنے والا ہے ، اس کا لڑکا کیسے ہو سکتا ہے ؟‘ ‘ سورۃ مریم میں آیت «وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا » [ ٨٨] «لَّقَدْ جِئْتُمْ شَیْئًا إِدًّا» [ ٨٩ ] «تَکَادُ السَّمَاوَاتُ یَتَفَطَّرْنَ مِنْہُ وَتَنشَقٰ الْأَرْضُ وَتَخِرٰ الْجِبَالُ ہَدًّا» [ ٩٠ ] «أَن دَعَوْا لِلرَّحْمٰنِ وَلَدًا » [ ٩١ ] « وَمَا یَنبَغِی لِلرَّحْمٰنِ أَن یَتَّخِذَ وَلَدًا » [ ٩٢ ] « إِن کُلٰ مَن فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِی الرَّحْمٰنِ عَبْدًا » [ ٩٣ ] « لَّقَدْ أَحْصَاہُمْ وَعَدَّہُمْ عَدًّا » [ ٩٤ ] « وَکُلٰہُمْ آتِیہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَرْدًا » ۱؎ (19-مریم:88-95) تک بھی اس کا مفصلاً انکار فرمایا ہے ۔ النسآء
172 اس کی گرفت سے فرار ناممکن ہے! مطلب یہ ہے کہ مسیح علیہ السلام اور اعلیٰ ترین فرشتے بھی اللہ کی بندگی سے انکار اور فرار نہیں کر سکتے ، نہ یہ ان کی شان کے لائق ہے بلکہ جو جتنا مرتبے میں قریب ہوتا ہے ، وہ اسی قدر اللہ کی عبادت میں زیادہ پابند ہوتا ہے ۔ بعض لوگوں نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ فرشتے انسانوں سے افضل ہیں ۔ لیکن دراصل اس کا کوئی ثبوت اس آیت میں نہیں ، اس لیے یہاں ملائکہ کا عطف مسیح علیہ السلام پر ہے اور استنکاف کا معنی رکنے کے ہیں اور فرشتوں میں یہ قدرت بہ نسبت مسیح علیہ السلام کے زیادہ ہے ۔ اس لیے یہ فرمایا گیا ہے اور رک جانے پر زیادہ قادر ہونے سے افضیلت ثابت نہیں ہوتی اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ جس طرح مسیح علیہ السلام کو لوگ پوجتے تھے ، اسی طرح فرشتوں کی بھی عبادت کرتے تھے ۔ تو اس آیت میں مسیح علیہ السلام کو اللہ کی عبادت سے رکنے والا بتا کر فرشتوں کی بھی یہی حالت بیان کر دی ، جس سے ثابت ہو گیا کہ جنہیں تم پوجتے ہو وہ خود اللہ کو پوجتے ہیں ، پھر ان کی پوجا کیسی ؟ جیسے اور آیت میں ہے «وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا ۗ سُبْحَانَہُ ۚ بَلْ عِبَادٌ مٰکْرَمُونَ لَا یَسْبِقُونَہُ بِالْقَوْلِ وَہُم بِأَمْرِہِ یَعْمَلُونَ یَعْلَمُ مَا بَیْنَ أَیْدِیہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ وَلَا یَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضَیٰ وَہُم مِّنْ خَشْیَتِہِ مُشْفِقُونَ وَمَن یَقُلْ مِنْہُمْ إِنِّی إِلٰہٌ مِّن دُونِہِ فَذٰلِکَ نَجْزِیہِ جَہَنَّمَ ۚ کَذٰلِکَ نَجْزِی الظَّالِمِینَ» (21-الأنبیاء:26-29) ۔ اسی لیے یہاں بھی فرمایا کہ جو اس کی عبادت سے رکے ، منہ موڑے اور بغاوت کرے ، وہ ایک وقت اسی کے پاس لوٹنے والا ہے اور اپنے بارے میں اس کا فیصلہ سننے والا ہے اور جو ایمان لائیں ، نیک اعمال کریں ، انہیں ان کا پورا ثواب بھی دیا جائے گا ، پھر رحمت ایزدی اپنی طرف سے بھی انعام عطا فرمائے گی ۔ ابن مردویہ کی حدیث میں ہے کہ اجر تو یہ ہے کہ جنت میں پہنچا دیا اور زیادہ فضل یہ ہے کہ جو لوگ قابل دوزخ ہوں ، انہیں بھی ان کی شفاعت نصیب ہو گی ، جن سے انہوں نے بھلائی اور اچھائی کی تھی ۱؎ (طبرانی کبیر:10462:ضعیف) لیکن اس کی سند ثابت شدہ نہیں ، ہاں اگر سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول پر ہی اسے روایت کیا جائے تو ٹھیک ہے ۔ پھر فرمایا جو لوگ اللہ کی عبادت و اطاعت سے رک جائیں اور اس سے تکبر کریں ، انہیں پروردگار درد ناک عذاب کرے گا اور یہ اللہ کے سوا کسی کو دلی و مددگار نہ پائیں گے ۔ جیسے اور آیت میں ہے آیت «اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَہَنَّمَ دٰخِرِیْنَ» ۱؎ (40-غافر:60) ’ جو لوگ میری عبادت سے تکبر کریں ، وہ ذلیل و حقیر ہو کر جہنم میں جائیں گے ’ یعنی ان کے انکار اور ان کے تکبر کا یہ بدلہ انہیں ملے گا کہ ذلیل و حقیر خوار و بے بس ہو کر جہنم میں داخل کئے جائیں گے ۔ النسآء
173 النسآء
174 قرآن مجید اللہ تعالٰی کی مکمل دلیل اور حجت تمام ہے اللہ تبارک و تعالیٰ تمام انسانوں کو فرماتا ہے کہ میری طرف سے کامل دلیل اور عذر معذرت کو توڑ دینے والی چیز ، شک و شبہ کو الگ کرنے والی برہان [ دلیل ] تمہاری طرف نازل ہو چکی ہے اور ہم نے تمہاری طرف کھلا نور ، صاف روشنی ، پورا اجالا اتار دیا ہے ، جس سے حق کی راہ صحیح طور پر واضح ہو جاتی ہے ۔ ابن جریج وغیرہ رحمہ اللہ علیہم فرماتے ہیں اس سے مراد قرآن کریم ہے ۔ اب جو لوگ اللہ پر ایمان لائیں اور توکل اور بھروسہ اسی پر کریں ، اس سے مضبوط رابطہٰ کر لیں ، اس کی سرکار میں ملازمت کر لیں ، مقام عبودیت اور مقام توکل میں قائم ہو جائیں ، تمام امور اسی کو سونپ دیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ پر ایمان لائیں اور مضبوطی کے ساتھ اللہ کی کتاب کو تھام لیں ان پر اللہ اپنا رحم کرے گا ، اپنا فضل ان پر نازل فرمائے گا ، نعمتوں اور سرور والی جنت میں انہیں لے جائے گا ، ان کے ثواب بڑھا دے گا ، ان کے درجے بلند کر دے گا اور انہیں اپنی طرف لے جانے والی سیدھی اور صاف راہ دکھائے گا ، جو کہیں سے ٹیڑھی نہیں ، کہیں سے تنگ نہیں ۔ پس وہ مومن دنیا میں صراط مستقیم پر ہوتا ہے ۔ راہ اسلام پر ہوتا ہے اور آخرت میں راہ جنت پر اور راہ سلامتی پر ہوتا ہے ۔ شروع تفسیر میں ایک پوری حدیث گذر چکی ہے جس میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ اللہ کی سیدھی راہ اور اللہ کی مضبوط رسی قرآن کریم ہے ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2906،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) النسآء
175 النسآء
176 عصبہ اور کلالہ کی وضاحت! مسائل وراثت سیدنا براء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں سورتوں میں سب سے آخری سورت سورۃ برأت اتری ہے اور آیتوں میں سب سے آخری آیت «یَسْتَفْتُونَکَ قُلِ اللہُ یُفْتِیکُمْ فِی الْکَلَالَۃِ» (4-النساء:176) اتری ہے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4605) سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں { میں بیماری کے سبب بیہوش پڑا تھا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کے لیے تشریف لائے ، آپ نے وضو کیا اور وہی پانی مجھ پر ڈالا ، جس سے مجھے افاقہ ہوا اور میں نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وارثوں کے لحاظ سے میں کلالہ ہوں ، میری میراث کیسے بٹے گی ؟ } اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت فرائض نازل فرمائی ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6723) اور روایت میں بھی اسی آیت کا اترنا آیا ہے ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1616) پس اللہ فرماتا ہے کہ لوگ تجھ سے پوچھتے ہیں یعنی کلالہ کے بارے میں ۔ پہلے یہ بیان گذر چکا ہے کہ لفظ کلالہ اکیل سے ماخوذ ہے جو کہ سر کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہوتا ہے ۔ اکثر علماء نے کہا ہے کہ کلالہ وہ ہے جس میت کے لڑکے پوتے نہ ہوں اور بعض کا قول یہ بھی ہے کہ جس کے لڑکے نہ ہوں ، جیسے کہا آیت میں ہے آیت «لَیْسَ لَہُ وَلَدٌ وَلَہُ» سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے سامنے جو مشکل مسائل آئے تھے ، ان میں ایک یہ مسئلہ بھی تھا ۔ چنانچہ بخاری و مسلم میں ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہا نے فرمایا { تین چیزوں کی نسبت میری تمنا رہ گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان میں ہماری طرف کوئی ایسا عہد کرتے کہ ہم اسی کی طرف رجوع کرتے دادا کی میراث ، کلالہ اور سود کے ابواب ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:3032) اور روایت میں ہے ، آپ فرماتے ہیں کہ { کلالہ کے بارے میں میں نے جس قدر سوالات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کئے ، اتنے کسی اور مسئلہ میں نہیں کئے یہاں تک کہ آپ نے اپنی انگلی سے میرے سینے میں کچوکا لگا کر فرمایا کہ تجھے گرمیوں کی وہ آیت کافی ہے ، جو سورۃ نساء کے آخر میں ہے ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:1617) اور حدیث میں ہے { اگر میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مزید اطمینان کر لیا ہوتا تو وہ میرے لیے سرخ اونٹوں کے ملنے سے زیادہ بہتر تھا } ۔۱؎ (مسند احمد:38/1:منقطع و ضعیف) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا مطلب یہ ہے کہ یہ آیت موسم گرما میں نازل ہوئی ہو گی «وَاللہُ اَعْلَمُ» اور چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سمجھنے کی طرف رہنمائی کی تھی اور اسی کو مسئلہ کا کافی حل بتایا تھا ، لہٰذا سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ اس کے معنی پوچھنے بھول گئے ، جس پر اظہار افسوس کر رہے ہیں ۔ ابن جریر میں ہے کہ { سیدنا فاروق رضی اللہ عنہ نے حضور سے کلالہ کے بارے میں سوال کیا پس فرمایا ”کیا اللہ نے اسے بیان نہیں فرمایا ۔ } پس یہ آیت اتری ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:10870:منقطع و ضعیف) سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے خطبے میں فرماتے ہیں جو آیت سورۃ نساء کے شروع میں فرائض کے بارے میں ہے ، وہ ولد و والد کے لیے ہے اور دوسری آیت میاں بیوی کے لیے ہے اور ماں زاد بہنوں کے لیے اور جس آیت سے سورۃ نساء کو ختم کیا ہے وہ سگے بہن بھائیوں کے بارے میں ہے جو رحمی رشتہ عصبہ میں شمار ہوتا ہے [ ابن جریر ] اس آیت کے معنی «ہَلَکَ» کے معنی ہیں مر گیا ، جیسے فرمان ہے«کُلٰ شَیْءٍ ہَالِکٌ اِلَّا وَجْہَہٗ» (28-القصص:88) ’ یعنی ہر چیز فنا ہونے والی ہے سوائے ذات الٰہی کے جو ہمیشہ باقی رہنے والا ہے ۔ ‘ جیسے اور آیت میں فرمایا آیت «کُلٰ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ وَّیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلٰلِ وَالْاِکْرَامِ» ۱؎ (55-الرحمن:26-27) ’ یعنی ہر ایک جو اس پر ہے فانی یہ اور تیرے رب کا چہرہ ہی باقی رہے گا جو جلال و اکرام والا ہے ۔‘ پھر فرمایا اس کا ولد نہ ہو ، اس سے بعض لوگوں نے دلیل لی ہے کہ کلالہ کی شرط میں باپ کا نہ ہونا نہیں بلکہ جس کی اولاد نہ ہو وہ کلالہ ہے ، بروایت ابن جریر سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے بھی یہی مروی ہے لیکن صحیح قول جمہور کا ہے اور سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا فیصلہ بھی یہی ہے کہ کلالہ وہ ہے جس کا نہ ولد ہو ، نہ والد اور اس کی دلیل آیت میں اس کے بعد کے الفاظ سے بھی ثابت ہوتی ہے جو فرمایا آیت «وَّلَہٗٓ اُخْتٌ فَلَہَا نِصْفُ مَا تَرَکَ» (4-النساء:176) ’ یعنی اس کی بہن ہو تو اس کے لیے کل چھوڑے ہوئے ، مال کا آدھوں آدھ ہے ۔ ‘ اور اگر بہن باپ کے ساتھ ہو تو باپ اسے ورثہ پانے سے روک دیتا ہے اور اسے کچھ بھی اجماعاً نہیں ملتا ، پس ثابت ہوا کہ کلالہ وہ ہے جس کا ولد نہ ہو جو نص سے ثابت ہے اور باپ بھی نہ ہو یہ بھی نص سے ثابت ہوتا ہے لیکن قدرے غور کے بعد ، اس لیے کہ بہن کا نصف حصہ باپ کی موجودگی میں ہوتا ہی نہیں بلکہ وہ ورثے سے محروم ہوتی ہے ۔ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مسئلہ پوچھا جاتا ہے کہ { ایک عورت مر گئی ہے اس کا خاوند ہے اور ایک سگی بہن ہے تو آپ نے فرمایا آدھا بہن کو دے دو اور آدھا خاوند کو جب آپ سے اس کی دلیل پوچھی گئی تو آپ نے فرمایا میری موجودگی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی صورت میں یہی فیصلہ صادر فرمایا تھا } ۱؎ (مسند احمد:188/5:ضعیف) سیدنا ابن عباس اور سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہم سے ابن جریر میں منقول ہے کہ ان دونوں کا فتویٰ اس میت کے بارے میں جو ایک لڑکی اور ایک بہن چھوڑ جائے ، یہ تھا کہ اس صورت میں بہن محروم رہے گی ، اسے کچھ بھی نہ ملے گا ، اسی لیے کہ قرآن کی اس آیت میں بہن کو آدھا ملنے کی صورت یہ بیان کی گئی ہے کہ میت کی اولاد نہ ہو اور یہاں اولاد ہے ۔ لیکن جمہور ان کے خلاف ہیں وہ کہتے ہیں کہ اس صورت میں بھی آدھا لڑکی کو ملے گا اور بہ سبب فرض اور عصبہ آدھا بہن کو بھی ملے گا ۔ ابراہیم اسود کہتے ہیں ہم میں سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں فیصلہ کیا کہ آدھا لڑکی کا اور آدھا بہن کا ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6741) صحیح بخاری کی ایک اور روایت میں ہے کہ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے لڑکی اور پوتی اور بہن کے بارے میں فتویٰ دیا کہ آدھا لڑکی کو اور آدھا بہن کو پھر فرمایا ذرا سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس بھی ہو آؤ وہ بھی میری موافقت ہی کریں گے ۔ لیکن جب سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے سوال ہوا اور سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کا فیصلہ بھی انہیں سنایا گیا تو آپ نے فرمایا ان سے اتفاق کی صورت میں گمراہ ہو جاؤں گا اور راہ یافتہ لوگوں میں میرا شمار نہیں رہے گا ، سنو میں اس بارے میں وہ فیصلہ کرتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے آدھا تو بیٹی کو اور چھٹا حصہ پوتی کو تو دو ثلث پورے ہو گئے اور جو باقی بچا وہ بہن کو ۔ ہم پھر واپس آئے اور سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کو یہ خبر دی تو آپ نے فرمایا جب تک یہ علامہ تم میں موجود ہیں ، مجھ سے مسائل نہ پوچھا کرو ۔۱؎ (صحیح بخاری:6736) پھر فرمان ہے کہ یہ اس کا وارث ہو گا اگر اس کی اولاد نہ ہو ، یعنی بھائی اپنی بہن کے کل مال کا وارث ہے جبکہ وہ کلالہ مرے یعنی اس کی اولاد اور باپ نہ ہو ، اس لیے کہ باپ کی موجودگی میں تو بھائی کو ورثے میں سے کچھ بھی نہ ملے گا ۔ ہاں اگر بھائی کے ساتھ ہی اور کوئی مقررہ حصے والا اور وارث ہو جیسے خاوند یا ماں جایا بھائی تو اسے اس کا حصہ دے دیا جائے گا اور باقی کا وارث بھائی ہو گا ۔ صحیح بخاری میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں فرائض کو ان کے اہل سے ملا دو ، پھر جو باقی بچے وہ اس مرد کا ہے جو سب سے زیادہ قریب ہو ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:6732) پھر فرماتا ہے اگر بہنیں دو ہوں تو انہیں مال متروکہ کے دو ثلث ملیں گے ۔ یہی حکم دو سے زیادہ بہنوں کا بھی ہے ، یہیں سے ایک جماعت نے دو بیٹیوں کا حکم لیا ہے ۔ جیسے کہ دو سے زیادہ بہنوں کا حکم لڑکیوں کے حکم سے لیا ہے جس آیت کے الفاظ یہ ہیں آیت «فَاِنْ کُنَّ نِسَاۗءً فَوْقَ اثْنَتَیْنِ فَلَھُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَکَ» ۱؎ (4-النساء:11) ۱؎ پھر فرماتا ہے اگر بہن بھائی دونوں ہوں تو ہر مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے ، یہی حکم عصبات کا ہے خواہ لڑکے ہوں یا پوتے ہوں یا بھائی ہوں ، جب کہ ان میں مرد و عورت دونوں موجود ہوں ۔ تو جتنا دو عورتوں کو ملے گا اتنا ایک مرد کو ۔ اللہ اپنے فرائض بیان فرما رہا ہے ، اپنی حدیں مقرر کر رہا ہے ، اپنی شریعت واضح کر رہا ہے ۔ تاکہ تم بہک نہ جاؤ ۔ اللہ تعالیٰ تمام کاموں کے انجام سے واقف اور ہر مصلحت سے دانا ، بندوں کی بھلائی برائی کا جاننے والا ، مستحق کے استحقاق کو پہچاننے والا ہے ۔ ابن جریر کی روایت میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کہیں سفر میں جا رہے تھے ۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کی اونٹنی کا سر رسول اللہ کے پیچھے بیٹھے ہوئے صحابی کے کجاوے کے پاس تھا اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی سواری کا سر سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کی سواری کے دوسرے سوار کے پاس تھا جو یہ آیت اتری ۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کو سنائی اور سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو ۔ اس کے بعد پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جب اس کے بارے میں سوال کیا تو کہا واللہ تم بے سمجھ ہو ، اس لیے کہ جیسے مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سنائی ویسے ہی میں نے آپ کو سنا دی ، واللہ میں تو اس پر کوئی زیادتی نہیں کر سکتا ۔ } پس سیدنا فاروق رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے الٰہی اگرچہ تو نے ظاہر کر دیا ہو مگر مجھ پر تو کھلا نہیں ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:10878:منقطع) لیکن یہ روایت منقطع ہے اسی روایت کی اور سند میں ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے دوبارہ یہ سوال اپنی خلافت کے زمانے میں کیا تھا ۱؎ (مسند بزار:2206) اور حدیث میں ہے کہ { سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا کہ کلالہ کا ورثہ کس طرح تقسیم ہو گا ؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری لیکن چونکہ کی پوری تشفی نہ ہوئی تھی ، اس لیے اپنی صاحبزادی زوجہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خوشی میں ہوں تو تم پوچھ لینا ۔ } چنانچہ حفصہ نے ایک روز ایسا ہی موقعہ پا کر دریافت کیا تو { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شاید تیرے باپ نے تجھے اس کے پوچھنے کی ہدایت کی ہے میرا خیال ہے کہ وہ اسے معلوم نہ کر سکیں گے ۔ } سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جب یہ سنا تو فرمانے لگے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرما دیا تو بس میں اب اسے جان ہی نہیں سکتا ۔ ۱؎ } [ مرسل ] اور روایت میں ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے حکم پر جب حفصہ رضی اللہ عنہا نے سوال کیا تو { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کنگھے پر یہ آیت لکھوائی ، پھر فرمایا کیا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے تم سے اس کے پوچھنے کو کہا تھا ؟ میرا خیال ہے کہ وہ اسے ٹھیک ٹھاک نہ کر سکیں گے ۔ کیا انہیں گرمی کی وہ آیت جو سورۃ نساء میں ہے کافی نہیں ؟ وہ آیت «وَاِنْ کَانَ رَجُلٌ یٰوْرَثُ کَلٰلَۃً» ۱؎ (4-النساء:12) ہے ۔ } پھر جب لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تو وہ آیت اتری جو سورۃ نساء کے خاتمہ پر ہے اور کنگھی پھینک دی ۔ یہ حدیث مرسل ہے ۔ ایک مرتبہ سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو جمع کر کے کنگھے کے ایک ٹکڑے کو لے کر فرمایا میں کلالہ کے بارے میں آج ایسا فیصلہ کر دونگا کہ پردہ نشین عورتوں تک کو معلوم رہے ۔ اسی وقت گھر میں سے ایک سانپ نکل آیا اور سب لوگ ادھر ادھر ہو گئے ، پس آپ نے فرمایا اگر اللہ عزوجل کا ارادہ اس کام کو پورا کرنے کا ہوتا تو اسے پورا کر لینے دیتا ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:10886:موقوف) اس کی اسناد صحیح ہے ۔ مستدرک حاکم میں ہے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کاش میں تین مسئلے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کر لیتا تو مجھے سرخ اونٹوں کے لینے سے بھی زیادہ محبوب ہوتا ۔ ایک تو یہ کہ آپ کے بعد خلیفہ کون ہو گا ؟ دوسرے یہ کہ جو لوگ زکوٰۃ کے ایک تو قائل ہوں لیکن کہیں کہ ہم تجھے ادا نہیں کریں گے ان سے لڑنا حلال ہے یا نہیں ؟ تیسرے کلالہ کے بارے میں ۔ ۱؎ (مستدرک حاکم:303/2:ضعیف و منقطع) ایک اور حدیث میں بجائے زکوٰۃ ادا نہ کرنے والوں کے سودی مسائل کا بیان ہے ۔ ۱؎ (مستدرک حاکم:304/2:موقوف) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے آخری وقت میں میں نے آپ سے سنا فرماتے تھے قول وہی ہے جو میں نے کہا ، تو میں نے پوچھا وہ کیا ؟ فرمایا یہ کہ کلالہ وہ ہے جس کی اولاد نہ وہ ۔ ایک اور روایت میں ہے سیدنا فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میرے اور سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ کے درمیان کلالہ کے بارے میں اختلاف ہوا اور بات وہی تھی جو میں کہتا تھا ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سگے بھائیوں اور ماں زاد بھائیوں کو جبکہ وہ جمع ہوں ، ثلث میں شریک کیا تھا اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اس کے خلاف تھے ۔ ابن جریر میں ہے کہ خلیفتہ المؤمنین سیدنا فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک رقعہ پر دادا کے ورثے اور کلالہ کے بارے میں کچھ لکھا پھر استخارہ کیا اور ٹھہرے رہے اور اللہ سے دعا کی کہ پروردگار اگر تیرے علم میں اس میں بہتری ہے تو تو اسے جاری کر دے پھر جب آپ کو زخم لگایا گیا تو آپ نے اس رقعہ کو منگوا کر مٹا دیا اور کسی کو علم نہ ہوا کہ اس میں کیا تحریر تھا پھر خود فرمایا کہ میں نے اس میں دادا کا اور کلالہ کا لکھا تھا اور میں نے استخارہ کیا تھا ۔ پھر میرا خیال یہی ہوا کہ تمہیں اسی پر چھوڑ دوں جس پر تم ہو ۔ ابن جریر میں ہے میں اس بارے میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے خلاف کرتے ہوئے شرماتا ہوں اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا فرمان تھا کہ کلالہ وہ ہے جس کا ولد و والد نہ ہو ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:439/9) اور اسی پر جمہور صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہ اللہ علیہم اور ائمہ دین ہیں اور یہی چاروں اماموں اور ساتوں فقہاء کا مذہب ہے اور اسی پر قرآن کریم کی دلالت ہے جیسے کہ باری تعالیٰ عزاسمہ نے اسے واضح کر کے فرمایا اللہ تمہارے لیے کھول کھول کر بیان فرما رہا ہے تاکہ تم گمراہ نہ ہو جاؤ اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے ، «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ الحمدللہ سورہ نساء کی تفسیر ختم ہوئی ۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔ النسآء
0 المآئدہ
1 ایک بےدلیل روایت اور وفائے عہد کی تاکید ابن ابی حاتم میں ہے کہ ایک شخص نے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے کہا ! آپ رضی اللہ عنہ مجھے خاص نصیحت کیجئے ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” جب تو قرآن میں لفظ آیت «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آَمَنُوا» سن لے تو فوراً کان لگا کر دل سے متوجہ ہو جا ، کیونکہ اس کے بعد کسی نہ کسی بھلائی کا حکم ہو گا یا کسی نہ کسی برائی سے ممانعت ہو گی “ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:196/1:ضعیف و منقطع) زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” جہاں کہیں اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو کوئی حکم دیا ہے اس حکم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی شامل ہیں “ ۔ خیثمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ توراۃ میں بجائے «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آَمَنُوا» کے «یَا أَیّہَا الْمَسَاکِین» ہے ۔ ایک روایت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے نام سے بیان کی جاتی ہے کہ ” جہاں کہیں لفظ «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آَمَنُوا» ہے ، ان تمام مواقع پر ان سب ایمان والوں کے سردار و شریف اور امیر سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہیں ، اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ہر ایک کو ڈانٹا گیا ہے بجز سیدنا علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ کے کہ انہیں کسی امر میں نہیں ڈانٹا گیا “ ، یاد رہے کہ یہ اثر بالکل بے دلیل ہے ۔ اس کے الفاظ منکر ہیں اور اس کی سند بھی صحیح نہیں ۔ حضرت امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس کا راوی عیسیٰ بن راشد مجہول ہے ، اس کی روایت منکر ہے ۔ میں کہتا ہوں اسی طرح اس کا دوسرا راوی علی بن بذیمہ گو ثقہ ہے مگر اعلیٰ درجہ کا شیعہ ہے ۔ پھر بھلا اس کی ایسی روایت جو اس کے اپنے خاص خیالات کی تائید میں ہو ، کیسے قبول کی جا سکے گی ؟ یقیناً وہ اس میں ناقابل قبول ٹھہرے گا ۔ اس روایت میں یہ کہا گیا ہے کہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کو بجز سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ڈانٹا گیا ، اس سے مراد ان کی وہ آیت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سرگوشی کرنے سے پہلے صدقہ نکالنے کا حکم دیا تھا ، پس ایک سے زیادہ مفسرین نے کہا ہے کہ اس پر عمل صرف سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہی نے کیا اور پھر یہ فرمان اترا کہ آیت «ءَاَشْفَقْتُمْ اَنْ تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوٰیکُمْ صَدَقٰتٍ» ۱؎ (58-المجادلہ:13) ، لیکن یہ غلط ہے کہ اس آیت میں صحابہ رضی اللہ عنہم کو ڈانٹا گیا ، بلکہ دراصل یہ حکم بطور واجب کے تھا ہی نہیں ، اختیاری امر تھا ۔ پھر اس پر عمل ہونے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے اسے منسوخ کر دیا ۔ پس حقیقتاً کسی سے اس کے خلاف عمل سرزد ہی نہیں ہوا ۔ پھر یہ بات بھی غلط ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو کسی بات میں ڈانٹا نہیں گیا ۔ سورۃ الأنفال کی آیت ملاحظہ ہو جس میں ان تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کو ڈانٹا گیا ہے ۔ جنہوں نے بدری قیدیوں سے فدیہ لے کر انہیں چھوڑ دینے کا مشورہ دیا تھا ، دراصل سوائے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہا کے باقی تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کا مشورہ یہی تھا پس یہ ڈانٹ بجز سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے باقی سب کو ہے ، جن میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں ، پس یہ تمام باتیں اس امر کی کھلی دلیل ہیں کہ یہ اثر بالکل ضعیف اور بودا ہے ، «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ ابن جریر میں محمد بن سلمہ فرماتے ہیں جو کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرو بن حزم کو لکھوا کر دی تھی جبکہ انہیں نجران بھیجا تھا ، اس کتاب کو میں نے ابوبکر بن حزم کے پاس دیکھا تھا اور اسے پڑھا تھا ، اس میں اللہ اور رسول کے بہت سے احکام تھے ، اس میں آیت «یٰٓاَیٰھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ» (5 ۔ المائدہ:1) سے آیت «یَسْـــَٔلُوْنَکَ مَاذَآ اُحِلَّ لَہُمْ قُلْ اُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبٰتُ وَمَا عَلَّمْتُمْ مِّنَ الْجَوَارِحِ مُکَلِّبِیْنَ تُعَلِّمُوْنَہُنَّ مِمَّا عَلَّمَکُمُ اللّٰہُ ۡ فَکُلُوْا مِمَّآ اَمْسَکْنَ عَلَیْکُمْ وَاذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلَیْہِ ۠ وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ» (5 ۔ المائدہ:4) تک بھی لکھا ہوا تھا ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:10918) ابن ابی حاتم میں ہے کہ عمرو بن حزم کے پوتے ابوبکر بن محمد نے فرمایا ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ کتاب ہے جسے آپ نے عمرو بن حزم کو لکھ کر دی تھی جبکہ انہیں یمن والوں کو دینی سمجھ اور حدیث سکھانے کے لیے اور ان سے زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے یمن بھیجا تھا ، اس وقت یہ کتاب لکھ کر دی تھی ، اس میں عہد و پیمان اور حکم احکام کا بیان یہ اس میں آیت «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» کے بعد لکھا ہے یہ کتاب ہے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ، ایمان والو وعدوں کو اور عہد و پیمان کو پورا کرو ، یہ عہد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے عمرو بن حزم کے لیے ہے جبکہ انہیں یمن بھیجا انہیں اپنے تمام کاموں میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنے کا حکم ہے یقیناً اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ہے جو اس سے ڈرتے رہیں اور جو احسان خلوص اور نیکی کریں ۔ ۱؎ (دلائل النبوۃ للبیھقی413/5:حسن) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ وغیرہ فرماتے ہیں ” عقود سے مراد عہد ہیں “ ۔ ابن جریر اس پر اجماع بتاتے ہیں ۔ خواہ قسمیہ عہد و پیمان ہو یا اور وعدے ہوں ، سب کو پورا کرنا فرض ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ ” عہد کو پورا کرنے میں اللہ کے حلال کو حلال جاننا ، اس کے حرام کو حرام جاننا ، اس کے فرائض کی پابندی کرنا ، اس کی حد بندی کی نگہداشت کرنا بھی ہے ، کسی بات کا خلاف نہ کرو ، حد کو نہ توڑو ، کسی حرام کام کو نہ کرو ، اس پر سختی بہت ہے پڑھو آیت «وَالَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَہْدَ اللّٰہِ مِنْ بَعْدِ مِیْثَاقِہٖ وَیَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖٓ اَنْ یٰوْصَلَ وَیُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ اُولٰیِٕکَ لَہُمُ اللَّعْنَۃُ وَلَہُمْ سُوْءُ الدَّارِ» (13-الرعد:25) تک “ ۔ ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” اس سے مراد یہ کہ اللہ کے حلال کو ، اس کے حرام کو ، اس کے وعدوں کو ، جو ایمان کے بعد ہر مومن کے ذمہ آجاتے ہیں پورا کرنا اللہ کی طرف سے فرض ہے ، فرائض کی پابندی ، حلال حرام کی عقیدت مندی وغیرہ وغیرہ “ ۔ حضرت زید بن اسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” یہ چھ عہد ہیں ، اللہ کا عہد ، آپس کی یگانگت کا قسمیہ عہد ، شرکت کا عہد ، تجارت کا عہد ، نکاح کا عہد اور قسمیہ وعدہ “ ۔ محمد بن کعب رحمہ اللہ کہتے ہیں ” پانچ ہیں ، جن میں جاہلیت کے زمانہ کی قسمیں ہیں اور شرکت تجارت کے عہد و پیمان ہیں ، جو لوگ کہتے ہیں کہ خرید و فروخت پوری ہو چکنے کے بعد گو اب تک خریدا اور بیچنے والے ایک دوسرے سے جدا نہ ہوئے ہوں تاہم واپس لوٹانے کا اختیار نہیں وہ اپنی دلیل اس آیت کو بتلاتے ہیں “ ۔ امام ابوحنیفہ اور امام مالک رحمہ اللہ علیہم کا یہی مذہب ہے ۔ لیکن امام شافعی اور امام احمد رحمہ اللہ علیہم اس کے خلاف ہیں اور جمہور علماء کرام بھی اس کے مخالف ہیں ، اور دلیل میں وہ صحیح حدیث پیش کرتے ہیں جو صحیح بخاری مسلم میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا { خرید و فروخت کرنے والوں کو سودے کے واپس لینے دینے کا اختیار ہے جب تک کہ جدا جدا نہ ہو جائیں } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2109) صحیح بخاری شریف کی ایک روایت میں یوں بھی ہے کہ { جب وہ شخصوں نے خرید و فروخت کرلی تو ان میں سے ہر ایک کو دوسرے سے علیحدہ ہونے تک اختیار باقی ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2111) یہ حدیث صاف اور صریح ہے کہ یہ اختیار خرید و فروخت پورے ہوچکنے کے بعد کا ہے ۔ ہاں اسے بیع کے لازم ہو جانے کے خلاف نہ سمجھا جائے بلکہ یہ شرعی طور پر اسی کا مقتضی ہے ، پس اسے نبھانا بھی اسی آیت کے ماتحت ضروری ہے ۔ پھر فرماتا ہے ’ مویشی چوپائے تمہارے لیے حلال کئے گئے ہیں ‘ یعنی اونٹ ، گائے ، بکری ۔ ابوالحسن ، قتادہ رحمہ اللہ علیہم وغیرہ کا یہی قول ہے ۔ ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” عرب میں ان کے لغت کے مطابق بھی یہی ہے “ ۔ سیدنا ابن عمر ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہم وغیرہ بہت سے بزرگوں نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ ” جس حلال مادہ کو ذبح کیا جائے اور اس کے پیٹ میں سے بچہ نکلے گو وہ مردہ ہو پھر بھی حلال ہے “ ۔ ابوداؤد ، ترمذی اور ابن ماجہ میں ہے کہ { صحابہ رضی اللہ عنہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ اونٹنی ، گائے ، بکری ذبح کی جاتی ہے ، ان کے پیٹ سے بچہ نکلتا ہے تو ہم اسے کھا لیں یا پھینک دیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اگر چاہو کھا لو ، اس کا ذبیحہ اس کی ماں کا ذیبحہ ہے } } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2827،قال الشیخ الألبانی:صحیح) امام ترمذی اسے حسن کہتے ہیں ۔ ابوداؤد میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { پیٹ کے اندر والے بچے کا ذبیحہ اس کی ماں کا ذبیحہ ہے } } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2828،قال الشیخ الألبانی:صحیح) پھر فرماتا ہے ’ مگر وہ جن کا بیان تمہارے سامنے کیا جائے گا ‘ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” اس سے مطلب مردار ، خون اور خنزیر کا گوشت ہے “ ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” مراد اس سے از خود مرا ہوا جانور اور وہ جانور ہوئے جس کے ذبیحہ پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو “ ۔ پورا علم تو اللہ تعالیٰ کو ہی ہے لیکن بہ ظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد اللہ کا فرمان آیت «حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَمَآ اُہِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ وَالْمُنْخَنِقَۃُ وَالْمَوْقُوْذَۃُ وَالْمُتَرَدِّیَۃُ وَالنَّطِیْحَۃُ وَمَآ اَ کَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَکَّیْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَی النٰصُبِ وَاَنْ تَسْـتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ ذٰلِکُمْ فِسْقٌ اَلْیَوْمَ یَیِٕسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ دِیْنِکُمْ فَلَا تَخْشَوْہُمْ وَاخْشَوْنِ اَلْیَوْمَ اَ کْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا فَمَنِ اضْطُرَّ فِیْ مَخْمَصَۃٍ غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍ فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ» ۱؎ (5-المائدہ:3) ہے یعنی تم پر مردار اور خون اور خنزیر کا گوشت اور ہر وہ چیز جو اللہ کے سوا دوسرے کے نام پر منسوب و مشہور کی جائے اور جو گلا گھونٹنے سے مر جائے ، کسی ضرب سے مر جائے ، اونچی جگہ سے گر کر مر جائے اور کسی ٹکر لگنے سے مر جائے ، جسے درندہ کھانے لگے پس یہ بھی گو مویشیوں چوپایوں میں سے ہیں لیکن ان وجوہ سے وہ حرام ہو جاتے ہیں ۔ اسی لیے اس کے بعد فرمایا ’ لیکن جس کو ذبح کر ڈالو ‘ ۔ جو جانور پرستش گاہوں پر ذبح کیا جائے ، وہ بھی حرام ہے اور ایسا حرام کہ اس میں سے کوئی چیز حلال نہیں ، اسی لیے اس سے استدراک نہیں کیا گیا اور حلال کے ساتھ اس کا کوئی فرد ملایا نہیں گیا ۔ پس یہاں یہی فرمایا جا رہا ہے کہ ’ چوپائے مویشی تم پر حلال ہیں لیکن وہ جن کا ذکر ابھی آئے گا ‘ ۔ بعض احوال میں حرام ہیں ، اس کے بعد کا جملہ حالیت کی بناء پر منصوب ہے ۔ مراد انعام سے عام ہے بعض تو وہ جو انسانوں میں رہتے پلتے ہیں ، جیسے اونٹ ، گائے ، بکری اور بعض وہ جو جنگلی ہیں جیسے ہرن ، نیل گائے اور جنگلی گدھے ، پس پالتو جانوروں میں سے تو ان کو مخصوص کرلیا جو بیان ہوئے اور وحشی جانوروں میں سے احرام کی حالت میں کسی کو بھی شکار کرنا ممنوع قرار دیا ، یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے ’ ہم نے تمہارے لیے چوپائے جانور ہر حال میں حلال کئے ہیں پس تم احرام کی حالت میں شکار کھیلنے سے رک جاؤ اور اسے حرام جانو ‘ ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا یہی حکم ہے جس طرح اس کے تمام احکام سراسر حکمت سے پر ہیں ، اسی طرح اس کی ہر ممانعت میں بھی حکمت ہے ، اللہ وہ حکم فرماتا ہے جو ارادہ کرتا ہے ۔ ’ ایماندارو ! رب کی نشانیوں کی توہین نہ کرو ‘ ، یعنی مناسک حج ، صفا ، مروہ ، قربانی کے جانور ، اونٹ اور اللہ کی حرام کردہ ہر چیز ، حرمت والے مہینوں سمیت کسی کی توہین نہ کرو ، ان کا ادب کرو ، ان کا لحاظ رکھو ، ان کی عظمت کو مانو اور ان میں خصوصیت کے ساتھ اللہ کی نافرمانیوں سے بچو اور ان مبارک اور محترم مہینوں میں اپنے دشمنوں سے از خود لڑائی نہ چھیڑو ۔ جیسے ارشاد ہے آیت «یَسْــَٔـلُوْنَکَ عَنِ الشَّہْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِیْہِ ۭ قُلْ قِتَالٌ فِیْہِ کَبِیْرٌ ۭ» ۱؎ (2-البقرۃ:217) ’ اے نبی [ صلی اللہ علیہ وسلم ] لوگ تم سے حرمت والے مہینوں میں جنگ کرنے کا حکم پوچھتے ہیں تم ان سے کہو کہ ان میں لڑائی کرنا گناہ ہے ‘ ۔ اور آیت میں ہے «إِنَّ عِدَّۃَ الشٰہُورِ عِندَ اللہِ اثْنَا عَشَرَ شَہْرًا» ۱؎ (9-التوبۃ:36) ’ مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک بارہ ہے ‘ ۔ صحیح بخاری شریف میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجتہ الودع میں فرمایا : { زمانہ گھوم گھام کر ٹھیک اسی طرز پر آگیا ہے جس پر وہ اس وقت تھا ، جس دن اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا تھا ۔ سال بارہ ماہ کا ہے ، جن میں سے چار ماہ حرمت والے ہیں ۔ تین تو یکے بعد دیگرے ذوالقعدہ ، ذوالحجہ اور محرم اور چوتھا رجب ، جسے قبیلہ مضر رجب کہتا ہے جو جمادی الاخر اور شعبان کے درمیان ہے } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3197) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ان مہینوں کی حرمت تاقیامت ہے جیسے کہ سلف کی ایک جماعت کا مذہب ہے ۔ آیت کی تفسیر میں ابن عباس رضی اللہ عنہ وغیرہ سے یہ مروی ہے کہ ان ” مہینوں میں لڑائی کرنا حلال نہ کر لیا کرو “ ۔ لیکن جمہور کا مذہب یہ ہے کہ یہ حکم منسوخ ہے اور حرمت والے مہینوں میں بھی دشمنان اسلام سے جہاد کی ابتداء کرنا بھی جائز ہے ۔ ان کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے آیت «فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْہُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَیْثُ وَجَدْتٰمُــوْہُمْ» ‏‏‏‏ ۱؎ (9-التوبۃ:5) یعنی ’ جب حرمت والے مہینے گزر جائیں تو مشرکین کو قتل کرو جہاں پاؤ ‘ اور مراد یہاں ان چار مہینوں کا گزر جانا ہے ، جب وہ چار مہینے گزر چکے جو اس وقت تھے ، تو اب ان کے بعد برابر جہاد جاری ہے اور قرآن نے پھر کوئی مہینہ خاص نہیں کیا ، بلکہ امام ابو جعفر رحمہ اللہ تو اس پر اجماع نقل کرتے ہیں کہ ” اللہ تعالیٰ نے مشرکین سے جہاد کرنا ، ہر وقت اور ہر مہینے میں جاری ہی رکھا ہے “ ۔ آپ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” اس پر بھی اجماع ہے کہ اگر کوئی کافر حرم کے تمام درختوں کی چھال اپنے اوپر لپیٹ لے تب بھی اس کے لیے امن و امان نہ سمجھی جائے گی ۔ اگر مسلمانوں نے از خود اس سے پہلے اسے امن نہ دیا ہو “ ۔ اس مسئلہ کی پوری بحث یہاں نہیں ہو سکتی ۔ پھر فرمایا کہ ’ «ھَدْی» اور «قَلاَئِد» کی بے حرمتی بھی مت کرو ‘ ۔ یعنی بیت اللہ شریف کی طرف قربانیاں بھیجنا بند نہ کرو ، کیونکہ اس میں اللہ کی نشانوں کی تعظیم ہے اور قربانی کے لیے جو اونٹ بیت الحرام کی طرف بھیجو ، ان کے گلے میں بطور نشان پٹا ڈالنے سے بھی نہ رکو ۔ تاکہ اس نشان سے ہر کوئی پہچان لے کہ یہ جانور اللہ کے لیے اللہ کی راہ کے لیے وقف ہو چکا ہے اب اسے کوئی برائی سے ہاتھ نہ لگائے گا بلکہ اسے دیکھ کر دوسروں کو بھی شوق پیدا ہوگا کہ ہم بھی اس طرح اللہ کے نام جانور بھیجیں اور اس صورت میں تمہیں اس کی نیکی پر بھی اجر ملے گا کیونکہ جو شخص دوسروں کو ہدایت کی طرف بلائے اسے بھی وہ اجر ملے گا ، جو اس کی بات مان کر اس پر عمل کرنے والوں کو ملتا ہے ۔ یہ بھی خیال رہے اللہ تعالیٰ ان کے اجر کو کم کر کے اسے نہیں دے گا بلکہ اسے اپنے پاس سے عطا فرمائے گا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب حج کے لیے نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وادی عقیق یعنی ذوالحلیفہ میں رات گزاری ، صبح اپنی نو بیویوں کے پاس گئے ، پھر غسل کر کے خوشبو ملی اور دو رکعت نماز ادا کی اور اپنی قربانی کے جانور کے کوہان پر نشان کیا اور گلے میں پٹہ ڈالا اور حج اور عمرے کا احرام باندھا ۔ قربانی کے لیے آپ نے بہت خوش رنگ مضبوط اور نوجوان اونٹ ساٹھ سے اوپر اوپر اپنے ساتھ لیے تھے ، جیسے کہ قرآن کا فرمان ہے ’ جو شخص اللہ کے احکام کی تعظیم کرے اس کا دل تقوے والا ہے ‘ ۔ بعض سلف کا فرمان ہے کہ ” تعظیم یہ بھی ہے کہ قربانی کے جانوروں کو اچھی طرح رکھا جائے اور انہیں خوب کھلایا جائے اور مضبوط اور موٹا کیا جائے ۔ “ سیدنا علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ہم قربانی کے جانوروں کی آنکھیں اور کان دیکھ بھال کر خریدیں “ ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2804،قال الشیخ الألبانی:صحیح) مقاتل بن حیان رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” جاہلیت کے زمانے میں جب یہ لوگ اپنے وطن سے نکلتے تھے اور حرمت والے مہینے نہیں ہوتے تھے تو یہ اپنے اوپر بالوں اور اون کو لپیٹ لیتے تھے اور حرم میں رہنے والے مشرک لوگ حرم کے درختوں کی چھالیں اپنے جسم پر باندھ لیتے تھے ، اس سے عام لوگ انہیں امن دیتے تھے اور ان کو مارتے پیٹتے نہ تھے ۔ “ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بروایت مجاہد رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ اس سورت کی دو آیتیں منسوخ ہیں «وَلَا الْقَلَائِدَ وَلَا آمِّینَ» اور یہ آیت «فَاِنْ جَاءُوْکَ فَاحْکُمْ بَیْنَہُمْ اَوْ اَعْرِضْ عَنْہُمْ وَاِنْ تُعْرِضْ عَنْہُمْ فَلَنْ یَّضُرٰوْکَ شَـیْـــًٔـا» ۱؎ (5-المائدہ:42) لیکن حسن رحمۃ اللہ سے جب سوال ہوتا ہے کہ ” کیا اس سورت میں سے کوئی آیت منسوخ ہوئی ہے ؟ “ تو آپ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” نہیں “ ۔ عطاء رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” وہ لوگ حرم کے درختوں کی چھالیں لٹکا لیا کرتے تھے اور اس سے انہیں امن ملتا تھا ، پس اللہ تعالیٰ نے حرم کے درختوں کو کاٹنا منع فرما دیا “ ۔ پھر فرماتا ہے ’ جو لوگ بیت اللہ کے ارادے سے نکلے ہوں ، ان سے لڑائی مت لڑو ‘ ۔ یہاں جو آئے وہ امن میں پہنچ گیا ، پس جو اس کے قصد سے چلا ہے اس کی نیت اللہ کے فضل کی تلاش اور اس کی رضا مندی کی جستجو ہے تو اب اسے ڈر خوف کے دباؤ میں نہ رکھو ، اس کی عزت اور ادب کرو اور اسے بیت اللہ سے نہ روکو ۔ بعض کا قول ہے کہ ” اللہ کا فضل تلاش کرنے سے مراد تجارت ہے “ ۔ جیسے اس آیت میں ہے «لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّکُمْ» (2-البقرۃ:198) یعنی ’ زمانہ حج میں تجارت کرنے میں تم پر کوئی گناہ نہیں ‘ ۔ «رِضْوَانْ» سے مراد حج کرنے میں اللہ کی مرضی کو تلاش کرنا ہے ۔ ابن جریر رحمہ اللہ وغیرہ فرماتے ہیں ” یہ آیت خطیم بن ہند بکری کے بارے میں نازل ہوئی ہے ، اس شخص نے مدینہ کی چراگاہ پر دھاوا ڈالا تھا پھر اگلے سال یہ عمرے کے ارادے سے آ رہا تھا تو بعض صحابہ رضی اللہ عنہم کا ارادہ ہوا کہ اسے راستے میں روکیں ، اس پر یہ فرمان نازل ہوا “ ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ نے اس مسئلہ پر اجماع نقل کیا ہے کہ ” جو مشرک مسلمانوں کی امان لیے ہوئے نہ ہو تو چاہے وہ بیت اللہ شریف کے ارادے سے جا رہا ہو یا بیت المقدس کے ارادے سے ، اسے قتل کرنا جائز ہے یہ حکم ان کے حق میں منسوخ ہے “ ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» وہاں جو شخص وہاں الحاد پھیلانے کیلئے جا رہا ہے اور شرک و کفر کے ارادے کا قصد کرتا ہو تو اسے روکا جائے گا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” پہلے مومن و مشرک سب حج کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی ممانعت تھی کہ کسی مومن کافر کو نہ روکو لیکن اس کے بعد یہ آیت اتری کہ «یٰٓاَیٰھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ فَلَا یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِہِمْ ہٰذَا وَاِنْ خِفْتُمْ عَیْلَۃً فَسَوْفَ یُغْنِیْکُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖٓ اِنْ شَاءَ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ» ۱؎ (9-التوبۃ:28) یعنی ’ مشرکین سراسر نجس ہیں اور وہ اس سال کے بعد مسجد الحرام کے پاس بھی نہ آئیں گے ‘ ۔ اور فرمان ہے «مَا کَانَ لِلْمُشْرِکِینَ أَن یَعْمُرُوا مَسَاجِدَ اللہِ » ۱؎ (9-التوبۃ:17) یعنی ’ مشرکین اللہ کی مسجد کو آباد رکھنے کے ہرگز اہل نہیں ‘ ۔ فرمان ہے آیت «إِنَّمَا یَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللہِ مَنْ آمَنَ بِ اللہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلَاۃَ وَآتَی الزَّکَاۃَ وَلَمْ یَخْشَ إِلَّا اللہَ فَعَسَیٰ أُولٰئِکَ أَن یَکُونُوا مِنَ الْمُہْتَدِینَ» ۱؎ (9-التوبۃ:18) یعنی ’ اللہ کی مسجد کو تو صرف وہی آباد رکھ سکتے ہیں جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہوں ‘ ۔ پس مشرکین مسجدوں سے روک دیئے گئے “ ۔ قتادہ رحمۃ اللہ فرماتے ہیں آیت «وَلَا الْقَلَائِدَ وَلَا آمِّینَ» الخ ، منسوخ ہے ، جاہلیت کے زمانہ میں جب کوئی شخص اپنے گھر سے حج کے ارادے سے نکلتا تو وہ درخت کی چھال وغیرہ باندھ لیتا تو راستے میں اسے کوئی نہ ستاتا ، پھر لوٹتے وقت بالوں کا ہار ڈال لیتا اور محفوظ رہتا اس وقت تک مشرکین بیت اللہ سے روکے نہ جاتے تھے ، اب مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ وہ حرمت والے مہینوں میں نہ لڑیں اور نہ بیت اللہ کے پاس لڑیں ، پھر اس حکم کو اس آیت نے منسوخ کر دیا کہ «فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِینَ حَیْثُ وَجَدتٰمُوہُمْ» ‏‏‏ ۱؎ (9-التوبۃ:5) ’ مشرکین سے لڑو جہاں کہیں انہیں پاؤ ‘ ۔ ابن جریر رحمہ اللہ کا قول ہے کہ ” «قَلَائِدَ» سے مراد یہی ہے جو ہار وہ حرم سے گلے میں ڈال لیتے تھے اور اس کی وجہ سے امن میں رہتے تھے ، عرب میں اس کی تعظیم برابر چلی آ رہی تھی اور جو اس کے خلاف کرتا تھا اسے بہت برا کہا جاتا تھا اور شاعر اس کو ہجو کرتے تھے “ ۔ پھر فرماتا ہے ’ جب تم احرام کھول ڈالو تو شکار کر سکتے ہو ‘ ۔ احرام میں شکار کی ممانعت تھی ، اب احرام کے بعد پھر اس کی اباحت ہوگئی جو حکم ممانعت کے بعد ہو اس حکم سے وہی ثابت ہوتا ہے جو ممانعت سے پہلے اصل میں تھا ۔ یعنی اگر وجوب اصلی تھا تو ممانعت کے بعد کا امر بھی وجوب کیلئے ہوگا ، اور اسی طرح مستحب و مباح کے بارے میں ۔ گو بعض نے کہا ہے کہ ایسا امر وجوب کیلئے ہی ہوتا ہے اور بعض نے کہا ہے ، صرف مباح ہونے کیلئے ہی ہوتا ہے لیکن دونوں جماعتوں کے خلاف قرآن کی آیتیں موجود ہیں ۔ پس صحیح مذہب جس سے تمام دلیلیں مل جائیں وہی ہے جو ہم نے ذکر کیا اور بعض علماء اصول نے بھی اسے ہی اختیار کیا ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ پھر فرماتا ہے ’ جس قوم نے تمہیں حدیبیہ والے سال مسجد الحرام سے روکا تھا تو تم ان سے دشمنی باندھ کر قصاص پر آمادہ ہو کر اللہ کے حکم سے آگے بڑھ کر ظلم و زیادتی پر نہ اتر آنا ، بلکہ تمہیں کسی وقت بھی عدل کو ہاتھ سے نہ چھوڑنا چاہیئے ‘ ۔ اسی طرح کی وہ آیت بھی ہے جس میں فرمایا ہے «وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَی أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا ہُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَی» ۱؎ (5-المائدۃ:8) ’ تمہیں کسی قسم کی عداوت خلاف عدل کرنے پر آمادہ نہ کر دے ۔ عدل کیا کرو ، عدل ہی تقوے سے زیادہ قریب ہے ‘ ۔ بعض سلف کا قول ہے کہ ” گو کوئی تجھ سے تیرے بارے میں اللہ کی نافرمانی کرے لیکن تجھے چاہیئے کہ تو اس کے بارے میں اللہ کی فرمانبرداری ہی کرے ، عدل ہی کی وجہ سے آسمان و زمین قائم ہے “ ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم کو جبکہ مشرکین نے بیت اللہ کی زیارت سے روکا اور حدیبیہ سے آگے بڑھنے ہی نہ دیا ، اسی رنج و غم میں صحابہ رضی اللہ عنہم واپس آ رہے تھے جو مشرقی مشرک مکہ جاتے ہوئے انہیں ملے تو ان کا ارادہ ہوا کہ جیسے ان کے گروہوں نے ہمیں روکا ہم بھی انہیں ان تک نہ جانے دیں ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:478/9:ضعیف و مرسل) اس پر یہ آیت اتری «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آمَنُوا کُونُوا قَوَّامِینَ لِلہِ شُہَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَیٰ أَلَّا تَعْدِلُوا» (5-المائدۃ:8) ۔ «شَنَآنُ» کے معنی بغض کے ہیں بعض عرب اسے «شَنَانْ» بھی کہتے ہیں لیکن کسی قاری کی یہ قرأت مروی نہیں ، ہاں عربی شعروں میں «شَنَانْ» بھی آیا ہے ۔ جیسے کہ شاعر کہتا ہے ؎ «ومَا الْعَیْشُ إِلَّا مَا تُحِبٰ وَتَشْتَہِی» «وَإِنْ لَامَ فِیہِ ذُو الشَّنَّانِ وفَنَّدَا» پھر اللہ تعالیٰ اپنے ایمان والے بندوں کو نیکی کے کاموں پر ایک دوسرے کی تائید کرنے کو فرماتا ہے ، «بِرِّ» کہتے ہیں نیکیاں کرنے کو اور «تَّقْوَیٰ» کہتے ہیں برائیوں کے چھوڑنے کو اور انہیں منع فرماتا ہے گناہوں اور حرام کاموں پر کسی کی مدد کرنے کو ۔ ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” جس کام کے کرنے کا اللہ کا حکم ہو اور انسان اسے نہ کرے ، یہ «إِثْمِ» ہے اور دین میں جو حدیں اللہ نے مقرر کر دی ہیں جو فرائض اپنی جان یا دوسروں کے بارے میں جناب باری نے مقرر فرمائے ہیں ، ان سے آگے نکل جانا «عُدْوَانَ» ہے ۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے { { اپنے بھائی کی مدد کر ، خواہ وہ ظالم ہو خواہ مظلوم ہو } تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ ” یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مظلوم ہونے کی صورت میں مدد کرنا ٹھیک ہے لیکن ظالم ہونے کی صورت میں کیسے مدد کریں ؟ “ فرمایا : { اسے ظلم نہ کرنے دو ، ظلم سے روک لو ، یہی اس وقت کی اس کی مدد ہے } } ۔ یہ حدیث بخاری و مسلم میں بھی ہے ۱؎ (صحیح بخاری:6952) مسند احمد میں ہے { جو مسلمان لوگوں سے ملے جلے اور دین کے حوالے سے ان کی ایذاؤں پر صبر کرے وہ ان مسلمانوں سے بڑے اجر والا ہے ، جو نہ لوگوں سے ملے جلے ، نہ ان کی ایذاؤں پر صبر کرے } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2507،قال الشیخ الألبانی:صحیح) مسند بزار میں ہے { «الدَّالُ عَلَی الْخَیْرِ کَفَا عِلِہِ» ” جو شخص کسی بھلی بات کی دوسرے کو ہدایت کرے وہ اس بھلائی کے کرنے والے جیسا ہی ہے “ } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2670،قال الشیخ الألبانی:حسن) امام ابوبکر بزار رحمہ اللہ اسے بیان فرما کر فرماتے ہیں کہ ” یہ حدیث صرف اسی ایک سند سے مروی ہے “ ۔ لیکن میں کہتا ہوں اس کی شاہد یہ صحیح حدیث ہے کہ { جو شخص ہدایت کی طرف لوگوں کو بلائے ، اسے ان تمام کے بابر ثواب ملے گا جو قیامت تک آئیں گے اور اس کی تابعداری کریں گے ۔ لیکن ان کے ثواب میں سے گھٹا کر نہیں اور جو شخص کسی کو برائی کی طرف چلائے تو قیامت تک جتنے لوگ اس برائی کو کریں گے ۔ ان سب کا جتنا گناہ ہو گا ، وہ سارا اس اکیلے کو ہو گا ۔ لیکن ان کے گناہ گھٹا کر نہیں } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2674) طبرانی میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { جو شخص کسی ظالم کے ساتھ جائے تاکہ اس کی اعانت و امداد کرے اور وہ جانتا ہو کہ یہ ظالم ہے وہ یقیناً دین اسلام سے خارج ہو جاتا ہے } ۔ ۱؎ (سلسلۃ احادیث ضعیفہ البانی:5367،ضعیف جدا) المآئدہ
2 حلال و حرام کی وضاحتیں ان آیتوں میں اللہ ان کا بیان فرما رہا ہے جن کا کھانا اس نے حرام کیا ہے ، یہ خبر ان چیزوں کے نہ کھانے کے حکم میں شامل ہے ۔ «الْمَیْتَۃُ» وہ ہے جو از خود اپنے آپ مر جائے ، نہ تو اسے ذبح کیا جائے ، نہ شکار کیا جائے ۔ اس کا کھانا اس لیے حرام کیا گیا کہ اس کا وہ خون جو مضر ہے اسی میں وہ جاتا ہے ، ذبح کرنے سے تو بہہ جاتا ہے اور یہ خون دین اور بدن کو مضر ہے ، ہاں یہ یاد رہے ہر مردار حرام ہے مگر مچھلی نہیں ۔ کیونکہ موطا مالک ، مسند شافعی ، مسند احمد ، ابوداؤد ، ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ ، صحیح ابن خزیمہ اور صحیح ابن حبان میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سمندر کے پانی کا مسئلہ پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اس کا پانی پاک ہے اور اس کا مردہ حلال ہے } } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:83،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اور اسی طرح ، ٹڈی بھی گو خود ہی مرگئی ہو ، حلال ہے ۔ اس کی دلیل کی حدیث آ رہی ہے ۔ «دَّمُ» سے مراد «أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا» ۱؎ (6-الأنعام:145) یعنی ’ وہ خون ہے جو بوقت ذبح بہتا ہے ‘ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سوال ہوتا ہے کہ آیا تلی کھا سکتے ہیں ؟ آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” ہاں “ ، لوگوں نے کہا وہ تو خون ہے ، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” ہاں صرف وہ خون حرام ہے جو بوقت ذبح بہا ہو “ ۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بھی یہی فرماتی ہیں کہ ” صرف بہا ہوا خون حرام ہے “ ۔ امام شافعی حدیث لائے ہیں کہ { رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا { ہمارے لیے دو قسم کے مردے اور دو خون حلال کئے گئے ہیں ، مچھلی ، ٹڈی ، کلیجی اور تلی } } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:3314،قال الشیخ الألبانی:صحیح) یہ حدیث مسند احمد ، ابن ماجہ ، دارقطنی اور بیہقی میں بھی بروایت عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم رحمہ اللہ مروی ہے اور وہ ضعیف ہیں ۔ حافظ بیہقی فرماتے ہیں ” عبد الرحمان کے ساتھ ہی اسے اسماعیل بن ادریس اور عبداللہ بھی روایت کرتے ہیں لیکن میں کہتا ہوں یہ دونوں بھی ضعیف ہیں ۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ان کے ضعف میں کمی بیشی ہے ۔ لیمان بن بلال نے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے اور وہ ہیں بھی ثقہ لیکن اس روایت کو بعض نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ پر موقوف رکھا ہے ۔ حافظ ابوزرعہ رازی فرماتے ہیں ” زیادہ صحیح اس کا موقوف ہونا ہی ہے “ ۔ ابن ابی حاتم میں سدی بن عجلان رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ ” مجھے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم کی طرف بھیجا کہ میں انہیں اللہ کی طرف بلاؤں اور احکام اسلام ان کے سامنے پیش کروں ۔ میں وہاں پہنچ کر اپنے کام میں مشغول ہوگیا ، اتفاقاً ایک روز وہ ایک پیالہ خون کا بھر کر میرے سامنے آ بیٹھے اور حلقہ باندھ کر کھانے کے ارادے سے بیٹھے اور مجھے سے کہنے لگے آؤ سدی تم بھی کھالو میں نے کہا ۔ تم غضب کر رہے ہو میں تو ان کے پاس سے آ رہا ہوں جو اس کا کھانا ہم سب پر حرام کرتے ہیں ، تب تو وہ سب کے سب میری طرف متوجہ ہو گئے اور کہا پوری بات کہو تو میں نے یہی آیت «حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنزِیرِ وَمَا أُہِلَّ لِغَیْرِ اللہِ بِہِ وَالْمُنْخَنِقَۃُ وَالْمَوْقُوذَۃُ وَالْمُتَرَدِّیَۃُ وَالنَّطِیحَۃُ وَمَا أَکَلَ السَّبُعُ إِلَّا مَا ذَکَّیْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَی النٰصُبِ وَأَن تَسْتَقْسِمُوا بِالْأَزْلَامِ ذٰلِکُمْ فِسْقٌ» الخ ، پڑھ کر سنا دی “ ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:8074:ضعیف) یہ روایت ابن مردویہ میں بھی ہے اس میں اس کے بعد یہ بھی ہے کہ ” میں وہاں بہت دنوں تک رہا اور انہیں پیغام اسلام پہنچاتا رہا لیکن وہ ایمان نہ لائے ، ایک دن جبکہ میں سخت پیاسا ہوا اور پانی بالکل نہ ملا تو میں نے ان سے پانی مانگا اور کہا کہ پیاس کے مارے میرا برا حال ہے ، تھوڑا سا پانی پلا دو ، لیکن کسی نے مجھے پانی نہ دیا ، بلکہ کہا ہم تو تجھے یونہی پیاسا ہی تڑپا تڑپا کر مار ڈالیں گے ، میں غمناک ہو کر دھوپ میں تپتے ہوئے انگاروں جیسے سنگریزوں پر اپنا کھردرا کمبل منہ پر ڈال کر اسی سخت گرمی میں میدان میں پڑا رہا ، اتفاقاً میری آنکھ لگ گئی تو خواب میں دیکھتا ہوں کہ ایک شخص بہترین جام لیے ہوئے اور اس میں بہترین خوش ذائقہ مزیدار پینے کی چیز لیے ہوئے میرے پاس آیا اور جام میرے ہاتھ میں دے دیا ، میں نے خوب پیٹ بھر کر اس میں سے پیا ، وہیں آنکھ کھل گئی تو اللہ کی قسم مجھے مطلق پیاس نہ تھی بلکہ اس کے بعد سے لے کر آج تک مجھے کبھی پیاس کی تکلیف ہی نہیں ہوئی ، بلکہ یوں کہنا چاہیئے کہ پیاس ہی نہیں لگی “ ۔ ” یہ لوگ میرے جاگنے کے بعد آپس میں کہنے لگے کہ آخر تو یہ تمہاری قوم کا سردار ہے ، تمہارا مہمان بن کر آیا ہے ، اتنی بے رخی بھی ٹھیک نہیں کہ ایک گھونٹ پانی بھی ہم اسے نہ دیں ، چنانچہ اب یہ لوگ میرے پاس کچھ لے کر آئے ، میں نے کہا اب تو مجھے کوئی حاجت نہیں ، مجھے میرے رب نے کھلا پلا دیا ، یہ کہہ کر میں نے انہیں اپنا بھرا ہوا پیٹ دکھا دیا ، اس کرامت کو دیکھ کر وہ سب کے سب مسلمان ہوگئے “ ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:8074:ضعیف) اعشی نے اپنے قصیدے میں کیا ہی خواب کہا ہے کہ «وَإِیَّاکَ وَالْمَیْتَاتِ لَا تَقْرَبَنَّہَا» «وَلَا تَأْخُذَنَّ عَظْمًا حَدِیدًا فَتَفْصِدَا» «وَذَا النٰصُبِ الْمَنْصُوبَ لَا تَأْتِیَنَّہُ» «وَلَا تَعْبُدِ الْأَصْنَامَ وَ اللہَ فَاعْبُدَا» ” مردار کے قریب بھی نہ ہو اور کسی جانور کی رگ کاٹ کر خون نکال کر نہ پی اور پرستش گاہوں پر چڑھا ہوا نہ کھا اور اللہ کے سوا دوسرے کی عبادت نہ کر ، صرف اللہ ہی کی عبادت کیا کر “ ۔ «‏‏‏‏لَحْمُ الْخِنزِیرِ» حرام ہے خواہ وہ جنگلی ہو ، لفظ «لَحْمُ» شامل ہے اس کے تمام اجزاء کو ، جس میں چربی بھی داخل ہے پس ظاہر یہ کی طرح تکلفات کرنے کی کوئی حاجت نہیں کہ وہ دوسری آیت میں سے «أَوْ لَحْمَ خِنزِیرٍ فَإِنَّہُ رِجْسٌ» ۱؎ (6-الأنعام:145) لے کر ضمیر کا مرجع خنزیر کو بتلاتے ہیں تاکہ اس کے تمام اجزاء حرمت میں آ جائیں ۔ درحقیقت یہ لغت سے بعید ہے مضاف الیہ کی طرف سے ایسے موقعوں پر ضمیر پھرتی ہی نہیں ، صرف مضاف ہی ضمیر کا مرجع ہوتا ہے ۔ صاف ظاہر بات یہی ہے کہ لفظ «لَحْمُ» شامل ہے تمام اجزاء کو ۔ لغت عرب کا مفہوم اور عام عرف یہی ہے ۔ صحیح مسلم کی حدیث کے مطابق { شطرنج کھیلنے والا اپنے ھاتھوں کو سور کے گوشت و خون میں رنگنے والا ہے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2260) خیال کیجئے کہ صرف چھونا بھی شرعاً کس قدر نفرت کے قابل ہے ، تو پھر کھانے کیلئے بے حد برا ہونے میں کیا شک رہا ؟ اور اس میں یہ دلیل بھی ہے کہ لفظ لحم شامل ہے تمام اجزاء کو خواہ چربی ہو خواہ اور ۔ بخاری و مسلم میں ہے { رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { اللہ تعالیٰ نے شراب ، مردار ، خنزیر بتوں کی تجارت کی ممانعت کر دی ہے } ، پوچھا گیا کہ ” یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مردار کی چربی کے بارے میں کیا ارشاد ہے ؟ “ وہ کشتیوں پر چڑھائی جاتی ہے ، کھالوں پر لگائی جاتی ہے اور چراغ جلانے کے کام بھی آتی ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { نہیں ! وہ حرام ہے } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2236) صحیح بخاری شریف میں ہے کہ ابوسفیان نے ہر قل سے کہا ” وہ [ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ] ہمیں مردار سے اور خون سے روکتا ہے “ ۔ ۱؎ (مسند ابی عوانہ:6734) وہ جانور بھی حرام ہے جس کو ذبح کرنے کے وقت اللہ کے سوا دوسرے کا نام لیا جائے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق پر اسے فرض کر دیا وہ اسی کا نام لے کر جانور کو ذبح کرے ، پس اگر کوئی اس سے ہٹ جائے اور اس کے نام پاک کے بدلے کسی بت وغیرہ کا نام لے ، خواہ وہ مخلوق میں سے کوئی بھی ہو تو یقیناً وہ جانور بالاجماع حرام ہو جائے گا ، ہاں جس جانور کے ذبیحہ کے وقت بسم اللہ کہنا رہ جائے ، خواہ جان بوجھ کر خواہ بھولے چوکے سے وہ حرام ہے یا حلال ؟ اس میں علماء کا اختلاف ہے جس کا بیان سورۂ انعام میں آئیگا ۔ ابوالطفیل رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” حضرت آدم کے وقت سے لے کر آج تک یہ چاروں چیزیں حرام رہیں ، کس وقت ان میں سے کوئی بھی حلال نہیں ہوئی [١] مردار [٢] خون [٣] سور کا گوشت [٤] اور اللہ کے سوا دوسرے کے نام کی چیز ۔ البتہ بنو اسرائیل کے گناہگاوں کے گناہوں کی وجہ سے بعض غیر حرام چیزیں بھی ان پر حرام کر دی گئی تھیں ۔ پھر عیسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ وہ دوبارہ حلال کر دی گئیں ، لیکن بنو اسرائیل نے آپ علیہ السلام کو سچا نہ جانا اور آپ علیہ السلام کی مخالفت کی ۔ (ابن ابی حاتم) یہ اثر غریب ہے ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ جب کوفے کے حاکم تھے اس وقت ابن نائل نامی قبیلہ بنو رباح کا ایک شخص جو شاعر تھا ، فرزوق کے دادا غالب کے مقابل ہوا اور یہ شرط ٹھہری کہ دونوں آمنے سامنے ایک ایک سو اونٹوں کی کوچیں کاٹیں گے ، چنانچہ کوفے کی پشت پر پانی کی جگہ پر جب ان کے اونٹ آئے تو یہ اپنی تلواریں لے کر کھڑے ہوگئے اور اونٹوں کی کوچیں کاٹنی شروع کیں اور دکھاوے ، سناوے اور فخریہ ریاکاری کیلئے دونوں اس میں مشغول ہو گئے ۔ کوفیوں کو جب یہ معلوم ہوا تو وہ اپنے گدھوں اور خچروں پر سوار ہو کر گوشت لینے کیلئے آنا شروع ہوئے ، اتنے میں جناب علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سفید خچر پر سوار ہو کر یہ منادی کرتے ہوئے وہاں پہنچے کہ ” لوگو یہ گوشت نہ کھانا یہ جانور «مَا اُہِلَّ بِہِ لِغَیْرِ اللہِ» میں شامل ہیں “ ۔ (ابن ابی حاتم) یہ اثر بھی غریب ہے ہاں اس کی صحت کی شاہد وہ حدیث ہے جو ابوداؤد میں ہے کہ { رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اعراب کی طرف مقابلہ میں کوچیں کاٹنے سے ممانعت فرما دی } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2820،قال الشیخ الألبانی:حسن صحیح) پھر ابوداؤد رحمہ اللہ نے فرمایا کہ محمد بن جعفر رحمہ اللہ نے اسے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ پر وقف کیا ہے ۔ ابوداؤد کی اور حدیث میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں شخصوں کا کھانا کھانا منع فرما دیا جو آپس میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانا اور ایک دوسرے کا مقابلہ کرنا اور ریا کاری کرنا چاہتے ہوں } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:3754،قال الشیخ الألبانی:صحیح) «مُنْخَنِقَۃُ» جس کا گلا گھٹ جائے خواہ کسی نے عمداگلا گھونٹ کر گلا مروڑ کر اسے مار ڈالا ہو ، خواہ از خود اس کا گلا گھٹ گیا ہو ۔ مثلاً اپنے کھوٹنے میں بندھا ہوا ہے اور بھاگنے لگا ، پھندا گلے میں پڑ گیا اور کھچ کھچاؤ کرتا ہوا مر گیا پس یہ حرام ہے ۔ «مَوْقُوْدَۃٌ» وہ ہے جس جانور کو کسی نے ضرب لگائی ، لکڑی وغیرہ ایسی چیز سے جو دھاری دار نہیں لیکن اسی سے وہ مر گیا ، تو وہ بھی حرام ہے ، جاہلیت میں یہ بھی دستور تھا کہ جانور کولٹھ سے مار ڈالتے اور پھر کھاتے ۔ لیکن قرآن نے ایسے جانور کو حرام بتایا ۔ صحیح سند سے مروی ہے کہ { سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں معراض سے شکار کھیلتا ہوں تو کیا حکم ہے ؟ فرمایا : { جب تو اسے پھینکے اور وہ جانور کو زخم لگائے تو کھا سکتا ہے اور اگر وہ چوڑائی کی طرف سے لگے تو وہ جانور لٹھ مارے ہوئے کے حکم میں ہے اسے نہ کھا } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5476) پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں جسے دھار اور نوک سے شکار کیا ہو اور اس میں جسے چوڑائی کی جانب سے لگا ہو فرق کیا ۔ اول کو حلال اور دوسرے کو حرام ۔ فقہاء کے نزدیک بھی یہ مسئلہ متفق علیہ ہے ۔ ہاں اختلاف اس میں ہے کہ جب کسی زخم کرنے والی چیز نے شکار کو صدمہ تو پہنچایا لیکن وہ مرا ہے اس کے بوجھ اور چوڑائی کی طرف سے تو آیا یہ جانور حلال ہے یا حرام ۔ امام شافعی رحمہ اللہ کے اس میں دونوں قول ہیں ، ایک تو حرام ہونا اوپر والی حدیث کو سامنے رکھ کر ۔ دوسرے حلال کرنا کتے کے شکار کی حلت کو مدنظر رکھ کر ۔ اس مسئلہ کی پوری تفصیل ملاحظہ ہو ۔ (فصل) علماء کرام کا اس میں اختلاف ہے کہ جب کسی شخص نے اپنا کتا شکار پر چھوڑا اور کتے نے اسے اپنی مار سے اور بوجھ سے مار ڈالا ، زخمی نہیں کیا تو وہ حلال ہے یا نہیں ؟ اس میں دو قول ہیں ایک تو یہ کہ یہ حلال ہے کیونکہ قرآن کے الفاظ عام ہیں «فَکُلُوا مِمَّا أَمْسَکْنَ عَلَیْکُمْ» ۱؎ (5-المائدہ:4) یعنی ’ وہ جن جانوروں کو روک لیں تم انہیں کھا سکتے ہو ‘ ۔ اسی طرح سیدنا عدی رضی اللہ عنہ وغیرہ کی صحیح حدیثیں بھی عام ہی ہیں ۔ امام شافعی رحمہ اللہ کے ساتھیوں نے امام صاحب کا یہ قول نقل کیا ہے اور متاخرین نے اس کی صحت کی ہے ، جیسے نووی اور رافعی رحمہ اللہ مگر میں کہتا ہوں کہ گو یوں کہا جاتا ہے لیکن امام صاحب کے کلام سے صاف طور پر یہ معلوم ہوتا ۔ ملاحظہ ہو کتاب الام اور مختصر ان دونوں میں جو کلام ہے وہ دونوں معنی کا احتمال رکھتا ہے ۔ پس دونوں فریقوں نے اس کی توجیہہ کر کے دونوں جانب علی الاطلاق ایک قول کہہ دیا ۔ ہم تو بصد مشکل صرف یہی کہہ سکتے ہیں کہ اس بحث میں حلال ہونے کے قول کی حکایت کچھ قدرے قلیل زخم کا ہونا بھی ہے ۔ گو ان دونوں میں سے کسی کی تصریح نہیں ، اور وہ کسی کی مضبوط رائے ، ابن الصباح نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے حلال ہونے کا قول نقل کیا ہے اور دوسرا کوئی قول ان سے نقل نہیں کیا اور امام ابن جریر رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں اس قوت کو سلمان فارسی ، ابوہریرہ ، سعد بن وقاص اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے نقل کیا ہے لیکن یہ بہت غریب ہے اور دراصل ان بزرگوں سے صراحت کے ساتھ یہ اقوال نہیں پائے جاتے ۔ یہ صرف اپنا تصرف ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ وہ حلال نہیں ، امام شافعی رحمہ اللہ کے دو قولوں میں سے ایک قول یہ ہے ، مزنی نے روایت کیا ہے اور یہی مشہور ہے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے اور یہی قول ٹھیک ہونے سے زیادہ مشابہت رکھتا ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اس لیے کہ اصولی قواعد اور احکام شرعی کے مطابق یہی جاری ہے ۔ ابن الصباغ نے رافع بن خدیج کی حدیث سے دلیل پکڑی ہے کہ { انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم کل دشمنوں سے بھڑنے والے ہیں اور ہمارے ساتھ چھریاں نہیں تو کیا ہم تیز بانس سے ذبح کر لیا کریں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { جو چیز خون بہائے اور اس کے اوپر اللہ کا نام ذکر کیا جائے اسے کھا لیا کرو } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5503) یہ حدیث گو ایک خاص موقعہ کیلئے ہے لیکن عام الفاظ کا حکم ہوگا ۔ جیسے کہ جمہور علماء اصول و فروغ کا فرمان ہے ، اس کی دلیل وہ حدیث ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ تبع جو شہد کی نبیذ سے ہے ، اس کا کیا حکم ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ہر وہ پینے کی چیز جو نشہ لائے حرام ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5585) پس یہاں سوال ہے شہد کی نبیذ سے لیکن جو اب کے الفاظ عام ہیں اور مسئلہ بھی ان سے عام سمجھا گیا ، اسی طرح اوپر والی حدیث ہے کہ گو سوال ایک خاص نوعیت میں ذبح کرنے کا ہے لیکن جواب کے الفاظ اسی اور اس کے سوا کی عام نوعیتوں پر مشتمل ہیں ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی ایک خاص معجزہ ہے کہ الفاظ تھوڑے اور معافی بہت ، اسے ذہن میں رکھنے کے بعد اب غور کیجئے کہ کتے کے صدمے سے جو شکار مر جائے یا اس کے بوجھ یا تھپڑ کی وجہ سے شکار کا دم نکل جائے ۔ ظاہر ہے کہ اس کا خون کسی چیز سے نہیں بہا ، پس اس حدیث کے مفہوم کی بناء پر وہ حلال نہیں ہو سکتا ۔ اس پر یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ اس حدیث کو کتے کے شکار کے مسئلہ سے دور کا تعلق بھی نہیں ، اس لیے کہ سائل نے ذبح کرنے کے ایک آلے کی نسبت سوال کیا تھا ۔ ان کا سوال اس چیز کی نسبت نہ تھا ، جس سے ذبح کیا جائے ، اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دانت اور ناخن کو مستثنیٰ کر لیا اور فرمایا : { سوائے دانت اور ناخن کے اور میں تمہیں بتاؤں کہ انکے سوا کیوں ؟ دانت تو ہڈی ہے اور ناخن حبشیوں کی چھری ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5498) اور یہ قاعدہ ہے کہ مستثنیٰ کی دلالت جنس مستثنیٰ منہ پر ہوا کرتی ہے ، ورنہ متصل نہیں مانا جا سکتا ، پس ثابت ہوا کہ سوال آلہ ذبح کا ہی تھا تو اب کوئی دلالت تمہارے قول پر باقی نہیں رہی ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب کے جملے کو دیکھو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے کہ { جو چیز خون بہا دے اور اس پر نام اللہ بھی لیا گیا ہو ، اسے کھا لو } ۔ یہ نہیں فرمایا کہ اس کے ساتھ ذبح کر لو ۔ پس اس جملہ سے دو حکم ایک ساتھ معلوم ہوتے ہیں ، ذبح کرنے کے آلہ کا حکم بھی اور خود ذبیحہ کا حکم بھی اور یہ کہ اس جانور کا خون کسی آلہ سے بہانا ضروری ہے ، جو دانت اور ناخن کے سوا ہو ۔ ایک مسلک تو یہ ہے ۔ دوسرا مسلک جو مزنی کا ہے وہ یہ کہ ” تیر کے بارے میں صاف لفظ آچکے کہ اگر وہ اپنی چوڑائی کی طرف سے لگا ہے اور جانور مرگیا ہے تو نہ کھاؤ اور اگر اس نے اپنی دھار اور انی سے زخم کیا ہے پھر مرا ہے تو کھا لو اور کتے کے بارے میں علی الاطلاق احکام ہیں “ ۔ پس چونکہ موجب یعنی شکار دونوں جگہ ایک ہی ہے تو مطلق کا حکم بھی مقید پر محمول ہو گا گو سبب الگ الگ ہوں ۔ جیسے کہ ظہار کے وقت آزادگی گردن جو مطلق ہے محمول کی جاتی ہے قتل کی آزادگی گردن پر جو مقید ہے ایمان کے ساتھ ۔ بلکہ اس سے بھی زیادہ ضرورت شکار کے اس مسئلہ میں ہے یہ دلیل ان لوگوں پر یقیناً بہت بڑی حجت ہے جو اس قاعدہ کی اصل کو مانتے ہیں اور چونکہ ان لوگوں میں اس قاعدے کے مسلم ہونے میں کوئی اختلاف نہیں تو ضروری ہے کہ یا تو وہ اسے تسلیم کریں ورنہ کوئی پختہ جواب دیں ۔ علاوہ ازیں فریق یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ چونکہ اس شکار کو کتے نے بوجہ اپنے ثقل کے مار ڈالا ہے اور یہ ثابت ہے کہ تیر جب اپنی چوڑائی سے لگ کر شکار کو مار ڈالے تو وہ حرام ہو جاتا ہے پس اس پر قیاس کر کے کتے کا یہ شکار بھی حرام ہو گیا کیونکہ دونوں میں یہ بات مشترک ہے کہ دونوں شکار کے آلات ہیں اور دونوں نے اپنے بوجھ اور زور سے شکار کی جان لی ہے اور آیت کا عموم اس کے معارض نہیں ہو سکتا کیونکہ عموم پر قیاس مقدم ہے جیسا کہ چاروں اماموں اور جمہور کا مذہب ہے ۔ یہ مسلک بھی بہت اچھا ہے دوسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان آیت «فَکُلُوا مِمَّا أَمْسَکْنَ عَلَیْکُمْ» یعنی ’ شکار کتے جس جانور کو روک رکھیں اس کا کھانا تمہارے لیے حلال ہے ‘ ۔ یہ عام نوعیت پر یعنی اسے بھی جسے زخم کیا ہو اور اس کے سوا کو بھی ، لیکن جس صورت پر اس وقت بحث ہے وہ یا تو ٹکر لگا ہوا ہے یا اس کے حکم پر یا گلا گھونٹا ہوا ہے یا اس کے حکم میں ، بہر صورت اس آیت کی تقدیم ان وجوہ پر ضرور ہو گی ۔ اولاً تو یہ کہ شارع نے اس آیت کا حکم شکار کی حالت میں معتبر مانا ہے ۔ کیونکہ سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا { اگر وہ چوڑائی کی طرف سے لگا ہے تو وہ لٹھ مارا ہوا ہے اسے نہ کھاؤ } ۔ جہاں تک ہمارا علم ہے ہم جانتے ہیں کہ کسی عالم نے یہ نہیں کہا کہ لٹھ سے اور مار سے مرا ہوا تو شکار کی حالت میں معتبر ہو اور سینگ اور ٹکر لگا ہوا معتبر نہ ہو ۔ پس جس صورت میں اس وقت بحث ہو رہی ہے اس جانور کو حلال کہنا اجماع کو توڑنا ہوگا ، جسے کوئی بھی جائز نہیں کہہ سکتا بلکہ اکثر علماء اسے ممنوع بتاتے ہیں ۔ دوسرے یہ کہ آیت «فَکُلُوا مِمَّا أَمْسَکْنَ عَلَیْکُمْ» اپنے عموم پر باقی نہیں اور اس پر اجتماع ہے ، بلکہ آیت سے مراد صرف حلال حیوان ہیں ۔ تو اس کے عام الفاظ سے وہ حیوان جن کا کھانا حرام ہے بالاتفاق نکل گئے اور یہ قاعدہ ہے کہ عموم محفوظ عموم غیر محفوظ پر مقدم ہوتا ہے ۔ ایک تقریر اسی مسئلہ میں اور بھی گوش گزار کر لیجئے کہ اس طرح کا شکار میتہ کے حکم میں ہے ، پس جس وجہ سے مردار حرام ہے ، وہی وجہ یہاں بھی ہے تو یہ بھی اسی قیاس سے حلال نہیں ۔ ایک اور وجہ بھی سنئے کہ حرمت کی آیت «حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃُ» (5-المائدہ:3) الخ ، بالکل محکم ہے ، اس میں کسی طرح نسخ کا دخل نہیں ، نہ کوئی تخصیص ہوئی ہے ، ٹھیک اسی طرح آیت تحلیل بھی محکم ہی ہونی چاہیئے ۔ یعنی فرمان باری تعالیٰ آیت «یَسْـــَٔلُوْنَکَ مَاذَآ اُحِلَّ لَہُمْ قُلْ اُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبٰتُ» ۱؎ (5-المائدہ:4) ’ لوگ تجھ سے دریافت کرتے ہیں کہ ان کیلئے حلال کیا ہے تو کہدے کہ تمام طیب چیزیں تمہارے لیے حلال ہیں ‘ ۔ جب دونوں آیتیں محکم اور غیر منسوخ ہیں تو یقیناً ان میں تعارض نہ ہونا چاہیئے لہٰذا حدیث کو اس کی وضاحت کیلئے سمجھنا چاہیئے اور تیر کا واقعہ اسی کی شہادت دیتا ہے ، جس میں یہ بیان کیا ہے کہ اس آیت میں یہ صورت واضح طور پر شامل ہے کہ آنی اور دھار تیزی کی طرف سے زخم کرے تو جانور حلال ہو گا ، کیونکہ وہ [طیبات] میں آگیا ۔ ساتھ ہی حدیث میں یہ بھی بیان کر دیا گیا کہ آیت تحریم میں کون سی صورت شامل ہے ۔ یعنی وہ صورت جس میں جانور کی موت تیر کی چوڑائی کی چوٹ سے ہوئی ہے ، وہ حرام ہو گیا جسے کھایا نہیں جائے گا ۔ اس لیے کہ وہ «وقیذ» ہے اور «وقیذ» آیت تحریم کا ایک فرد ہے ، ٹھیک اسی طرح اگر شکاری کتے نے جانور کو اپنے دباؤ زور بوجہ اور سخت پکڑ کی وجہ سے مار ڈالا ہے تو وہ «نطیح» ہے یا «فطیح» یعنی ٹکر اور سینگ لگے ہوئے کے حکم میں ہے اور حلال نہیں ، ہاں اگر اسے مجروح کیا ہے تو وہ آیت تحلیل کے حکم میں ہے اور یقیناً حلال ہے ۔ اس پر اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ اگر یہی مقصود ہوتا تو کتے کے شکار میں بھی تفصیل بیان کر دی جاتی اور فرما دیا جاتا کہ اگر وہ جانور کو چیرے پھاڑے ، زخمی کرے تو حلال اور اگر زخم نہ لگائے تو حرام ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ چونکہ کتے کا بغیر زخمی کئے قتل کرنا بہت ہی کم ہوتا ہے ۔ اس کی عادت یہ نہیں بلکہ عادت تو یہ ہے کہ اپنے پنجوں یا کچلیوں سے ہی شکار کو مارے یا دونوں سے ، بہت کم کبھی کبھی شاذو نادر ہی ایسا ہوتا ہے کہ وہ اپنے دباؤ اور بوجھ سے شکار کو مار ڈالے ، اس لیے اس کی ضرورت ہی نہ تھی کہ اس کا حکم بیان کیا جائے اور دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ جب آیت تحریم میں «مَیْتَۃُ ، مَوْقُوذَۃُ ، مُتَرَدِّیَۃُ ، لنَّطِیحَۃُ» کی حرمت موجود ہے تو اس کے جاننے والے کے سامنے اس قسم کے شکار کا حکم بالکل ظاہر ، تیر اور معراض میں اس حکم کو اس لیے الگ بیان کر دیا کہ وہ عموماً خطا کر جاتا ہے بالخصوص اس شخص کے ہاتھ سے جو قادر تیر انداز نہ ہو یا نشانے میں خطا کرتا ہو ، اس لیے اس کے دونوں حکم تفصیل وار بیان فرما دیئے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ دیکھئیے چونکہ کتے کے شکار میں یہ احتمال تھا کہ ممکن ہے وہ اپنے کئے ہوئے شکار میں سے کچھ کھا لے ، اس لیے یہ حکم صراحت کے ساتھ الگ بیان فرما دیا اور ارشاد ہوا کہ{ اگر وہ خود کھا لے تو تم اسے نہ کھاؤ ، ممکن ہے کہ اس نے خود اپنے لیے ہی شکار کو روکا ہو} ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1929) یہ حدیث بخاری و مسلم میں موجود ہے اور یہ صورت اکثر حضرات کے نزدیک آیت تحلیل کے عموم سے مخصوص ہے اور ان کا قول ہے کہ جس شکار کو کتا کھا لے اس کا کھانا حلال نہیں ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہی روایت کیا جاتا ہے ۔ حسن ، شعبی اور نخعی رحمہ اللہ علیہم کا قول بھی یہی ہے اور اسی کی طرف ابوحنیفہ ، ان کے دونوں اصحاب ، احمد بن حنبل اور مشہور روایت میں شافعی رحمہ اللہ علیہم بھی گئے ہیں ۔ ابن جریر نے اپنی تفسیر میں سیدنا علی ، سعد ، سلمان ، ابوہریرہ ، ابن عمر اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے نقل کیا ہے کہ گو کتے نے شکار میں سے کچھ کھا لیا ہو تاہم اسے کھا لینا جائز ہے ، بلکہ سعد ، سلمان ، ابوہریرہ رضی اللہ عنہم وغیرہ فرماتے ہیں گو کتا آدھا حصہ کھا گیا ہو تاہم اس شکار کا کھا لینا جائز ہے ۔ امام مالک اور شافعی رحمہ اللہ علیہم بھی اپنے قدیم قول میں اسی طرف گئے ہیں اور قول جدید میں دونوں قولوں کی طرف اشارہ کیا ہے ، جیسے کہ امام ابو منصور بن صباغ وغیرہ نے کہا ہے ۔ ابوداؤد میں قوی سند سے مروی ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : {جب تو اپنے کتے کو چھوڑے اور اللہ کا نام تو نے لے لیا ہو تو کھا لے ، گو اس نے بھی اس میں سے کھا لیا ہو اور کھا لے اس چیز کو جسے تیرا ہاتھ تیری طرف لوٹا لائے } } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:حدیث2852،قال الشیخ الألبانی:-منکر) نسائی میں بھی یہ روایت ہے ۔ تفسیر ابن جریر میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { جب کسی شخص نے اپنا کتا شکار پر چھوڑا ، اس نے شکار کو پکڑا اور اس کا کچھ گوشت کھا لیا تو اسے اختیار ہے کہ باقی جانور یہ اپنے کھانے کے کام میں لے } } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:11214) اس میں اتنی علت ہے کہ یہ موقوفاً سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ کے قول سے مروی ہے ، جمہور نے سیدنا عدی رضی اللہ عنہ والی حدیث کو اس پر مقدم کیا ہے اور ابوثعبلہ وغیرہ کی حدیث کو ضعیف بتایا ہے ۔ بعض علماء کرام نے اس حدیث کو اس بات پر محمول کیا ہے کہ یہ حکم اس وقت ہے ، جب کتے نے شکار پکڑا اور دیر تک اپنے مالک کا انتظار کیا ، جب وہ نہ آیا تو بھوک وغیرہ کے باعث اس نے کچھ کھا لیا اس صورت میں یہ حکم ہے کہ باقی کا گوشت مالک کھا لے کیونکہ ایسی حالت میں یہ ڈر باقی نہیں رہتا کہ شاید کتا ابھی شکار کا سدھارا ہوا نہیں ، ممکن ہے اس نے اپنے لیے ہی شکار کیا ہو ، بخلاف اس کے کہ کتے نے پکڑتے ہی کھانا شروع کر دیا تو اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ اس نے اپنے لیے ہی شکار دبوچا ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اب رہے شکاری پرند تو امام شافعی رحمۃ اللہ نے صاف کہا ہے کہ یہ کتے کے حکم میں ہیں ۔ تو اگر یہ شکار میں سے کچھ کھا لیں تو شکار کا کھانا جمہور کے نزدیک تو حرام ہے اور دیگر کے نزدیک حلال ہے ، ہاں مزنی کا مختار یہ ہے کہ گوشکاری پرندوں نے شکار کا گوشت کھا لیا ہو تاہم وہ حرام نہیں ۔ یہی مذہب ابوحنیفہ اور احمد رحمہ اللہ علیہم کا ہے ۔ اس لیے کہ پرندوں کو کتوں کی طرح مار پیٹ کر سدھا بھی نہیں سکتے اور وہ تعلیم حاصل کر ہی نہیں سکتا جب تک اسے کھائے نہیں ، یہاں بات معاف ہے اور اس لیے بھی کہ نص کتے کے بارے میں وارد ہوئی ہے پرندوں کے بارے میں نہیں ۔ المآئدہ
3 . شیخ ابوعلی افصاح رحمہ اللہ میں فرماتے ہیں ” جب ہم نے یہ طے کر لیا کہ اس شکار کا کھانا حرام ہے جس میں سے شکاری کتے نے کھا لیا ہو تو جس شکار میں سے شکاری پرند کھالے اس میں دو وجوہات ہیں “ ۔ لیکن قاضی ابو الطیب نے اس فرع کا اور اس ترتیب سے انکار کیا ہے ۔ کیونکہ امام شافعی نے ان دونوں کو صاف لفظوں میں برابر رکھا ہے ۔ «وَاللہُ سُبْحَانَہُ وَ تَعَالیٰ اَعْلَمُ» ۔ «مُتَرَدِّیـۃُ» ‏‏‏‏وہ ہے جو پہاڑی یا کسی بلند جگہ سے گر کر مرگیا ہو تو وہ جانور بھی حرام ہے ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ یہی فرماتے ہیں ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ وہ ہے جو کنویں میں گر پڑے ، ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:498/9) «نَـطِیْحَـہ» وہ ہے جسے دوسرا جانور سینگ وغیرہ سے ٹکر لگائے اور وہ اس صدمہ سے مر جائے ، گو اس سے زخم بھی ہوا ہو اور گو اس سے خون بھی نکلا ہو ، بلکہ گو ٹھیک ذبح کرنے کی جگہ ہی لگا ہو اور خون بھی نکلا ، یہ لفظ معنی میں مفعول یعنی منطوحہ کے ہے ، یہ وزن عموماً کلام عرب میں بغیر تے کے آتا ہے جیسے «عَیْـنٌ کَحِـیْلٌ» اور «‏‏‏‏کَفٌّ خَضِیْبٌ» ان مواقع میں «کَحِیْلَـۃٌ» اور «خَضِیبْـَۃٌ» نہیں کہتے ، اس جگہ تے اس لیے لایا گیا ہے کہ یہاں اس لفظ کا استعمال قائم مقام اسم کے ہے ، جیسے عرب کا یہ کلام «طَرِیْقَۃٌ طَوِیْلۃٌ» ۔ بعض نحوی کہتے ہیں تاء تانیث یہاں اس لیے لایا گیا ہے کہ پہلی مرتبہ ہی تانیث پر دلالت ہو جائے بخلاف «کَحِـیْلٌ» اور «خَضِیبْـَ» کے کہ وہاں تانیث کلام کے ابتدائی لفظ سے معلوم ہوتی ہے ۔ «‏‏‏‏مَاۤ اَکَلَ السَّـبُعُ» سے مراد وہ جانور ہے جس پر شیر ، بھیڑیا ، چیتا یا کتا وغیرہ درندہ حملہ کرے اور اس کا کوئی حصہ کھا جائے اور اس سبب سے مر جائے تو اس جانور کو کھانا بھی حرام ہے ، اگرچہ اس سے خون بہا ہو بلکہ اگرچہ ذبح کرنے کی جگہ سے ہی خون نکلا ہو تاہم وہ جانور بالاجماع حرام ہے ۔ اہل جاہلیت میں ایسے جانور کا بقیہ کھا لیا کرتے تھے ، اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو اس سے منع فرمایا ۔ پھر فرماتا ہے ’ مگر وہ جسے تم ذبح کرلو ‘ ، یعنی گلا گھونٹا ہوا ، لٹھ مارا ہوا ، اوپر سے گر پڑا ہوا ، سینگ اور ٹکر لگا ہوا ، درندوں کا کھایا ہوا ، اگر اس حالت میں مل جائے کہ اس میں جان باقی ہو اور تم اس پر باقاعدہ اللہ کا نام لے کر چھری پھیر لو تو پھر یہ جانور تمہارے لئے حلال ہوجائیں گے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ ، سعید بن جیبر رضی اللہ عنہ ، حسن اور سدی رحمۃ اللہ علیہم یہی فرماتے ہیں ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ” اگر تم ان کو اس حالت میں پالو کہ چھری پھیرتے ہوئے وہ دم رگڑیں یا پیر ہلائیں یا آنکھوں کے ڈھیلے پھرائیں تو بے شک ذبح کرکے کھا لو “ ۔ ابن جریر میں آپ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ” جس جانور کو ضرب لگی ہو یا اوپر سے گر پڑا ہو یا ٹکر لگی ہو اور اس میں روح باقی ہو اور تمہیں وہ ہاتھ پیر رگڑتا مل جائے تو تم اسے ذبح کر کے کھا سکتے ہو “ ۔ طاؤس ، حسن ، قتادہ ، عبید بن عمیر ، ضحاک رحمہ اللہ علیہم اور بہت سے حضرات سے مروی ہے کہ ” بوقت ذبح اگر کوئی حرکت بھی اس جانور کی ایسی ظاہر ہو جائے جس سے یہ معلوم ہو کہ اس میں حیات ہے تو وہ حلال ہے “ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:502/9) جمہور فقہاء کا یہی مذہب ہے حرکت بھی اس جانور کی ایسی ظاہر ہو جائے جس سے یہ معلوم ہو کہ اس میں حیات ہے تو وہ حلال ہے ۔ جمہور فقہاء کا یہی مذہب ہے تینوں اماموں کا بھی یہی قول ہے ۔ امام مالک رحمۃ اللہ اس بکری کے بارے میں جسے بھیڑیا پھاڑ ڈالے اور اس کی آنتیں نکل آئیں فرماتے ہیں ” میرا خیال ہے کہ اسے ذبح نہ کیا جائے اس میں سے کس چیز کا ذبیحہ ہو گا ؟ “ ایک مرتبہ آپ رحمہ اللہ سے سوال ہوا کہ درندہ اگر حملہ کرکے بکری کی پیٹھ توڑ دے تو کیا اس بکری کو جان نکلنے سے پہلے ذبح کر سکتے ہیں ؟ آپ رحمہ اللہ نے فرمایا ” اگر بالکل آخر تک پہنچ گیا ہے تو میری رائے میں نہ کھانی چاہیئے اور اگر اطراف میں یہ ہے تو کوئی حرج نہیں “ ۔ سائل نے کہا درندے نے اس پر حملہ کیا اور کود کر اسے پکڑ لیا ، جس سے اس کی کمر ٹوٹ گئی ہے تو ، آپ رحمہ اللہ نے فرمایا ” مجھے اس کا کھانا پسند نہیں کیونکہ اتنی زبردست چوٹ کے بعد زندہ نہیں رہ سکتی “ ۔ آپ رحمہ اللہ سے پھر پوچھا گیا کہ اچھا اگر پیٹ پھاڑ ڈالا اور آنتیں نہیں نکلیں تو کیا حکم ہے ؟ فرمایا ” میں تو یہی رائے رکھتا ہوں کہ نہ کھائی جائے “ ۔ یہ ہے امام مالک رحمہ اللہ کا مذہب لیکن چونکہ آیت عام ہے اس لیے امام صاحب نے جن صورتوں کو مخصوص کیا ہے ان پر کوئی خاص دلیل چاہیئے ، «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ بخاری و مسلم میں سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ { میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا ، ” حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہم کل دشمن سے لڑائی میں باہم ٹکرانے والے ہیں اور ہمارے ساتھ چھریاں نہیں کیا ہم بانس سے ذبح کر لیں “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { جو چیز خون بہائے اور اس پر اللہ کا نام لیا جائے ، اسے کھا لو ، سوائے دانت اور ناخن کے ، یہ اس لیے کہ دانت ہڈی ہے اور ناخن حبشیوں کی چھریاں ہیں }} ۱؎ (صحیح بخاری:5498) مسند احمد اور سنن میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ ” ذبیحہ صرف حلق اور نرخرے میں ہی ہوتا ہے ؟ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اگر تو نے اس کی ران میں بھی زخم لگا دیا تو کافی ہے } } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2825،قال الشیخ الألبانی:-منکر و ضعیف) یہ حدیث ہے تو سہی لیکن یہ حکم اس وقت ہے جبکہ صحیح طور پر ذبح کرنے پر قادر نہ ہوں ۔ «نُصُب» پر جو جانور ذبح کیے جائیں وہ بھی حرام ہیں ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ پرستش گاہیں کعبہ کے اردگرد تھیں ، ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:508/9) ابن جریج رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” یہ تین سو ساٹھ بت تھے ، جاہلیت کے عرب ان کے سامنے اپنے جانور قربان کرتے تھے اور ان میں سے جو بیت اللہ کے بالکل متصل تھا ، اس پر ان جانوروں کا خون چھڑکتے تھے اور گوشت ان بتوں پر بطور چڑھاوا چڑھاتے تھے “ ۱؎ (صحیح بخاری:1601) پس اللہ تعالیٰ نے یہ کام مومنوں پر حرام کیا اور ان جانوروں کا کھانا بھی حرام کر دیا ۔ اگرچہ ان جانوروں کے ذبح کرنے کے وقت «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» بھی کہی گئی ہو کیونکہ یہ شرک ہے جسے اللہ تعالیٰ «وَحدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ» نے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام کیا ہے ، اور اسی لائق ہے ، اس جملہ کا مطلب بھی یہی ہے کیونکہ اس سے پہلے ان کی حرمت بیان ہو چکی ہے جو اللہ کے سوا دوسروں کے نام پر چڑھائے جائیں ۔ «اَزْلاَم» سے تقسیم کرنا حرام ہے ، یہ جاہلیت کے عرب میں دستور تھا کہ انہوں نے تین تیر رکھ چھوڑے تھے ، ایک پر لکھا ہوا تھا «افعل» یعنی کر ، دوسرے پر لکھا ہوا تھا «لاتعفل» یعنی نہ کر ، تیسرا خالی تھا ۔ بعض کہتے ہیں ایک پر لکھا تھا مجھے میرے رب کا حکم ہے ، دوسرے پر لکھا تھا مجھے میرے رب کی ممانعت ہے ، تیسرا خالی تھا اس پر کچھ بھی لکھا ہوا نہ تھا ۔ بطور قرعہ اندازی کے کسی کام کے کرنے نہ کرنے میں جب انہیں تردد ہوتا تو ان تیروں کو نکالتے ، اگر حکم ، کر ، نکلا تو اس کام کو کرتے اگر ممانعت کا تیر نکلا تو باز آ جاتے اگر خالی تیر نکلا تو پھر نئے سرے سے قرعہ اندازی کرتے ، «اَزْلاَم» جمع ہے «زَلْم» کی اور بعض «زَلَم» بھی کہتے ہیں ۔ «استسقام» کے معنی ان تیروں سے تقسیم کی طلب ہے ، قریشیوں کا سب سے بڑا بت ہبل خانہ کعبہ کے اندر کے کنوئیں پر نصب تھا ، جس کنویں میں کعبہ کے ہدیے اور مال جمع رہا کرتے تھے ، اس بت کے پاس سات تیر تھے ، جن پر کچھ لکھا ہوا تھا جس کام میں اختلاف پڑتا یہ قریشی یہاں آ کر ان تیروں میں سے کسی تیر کو نکالتے اور اس پر جو لکھا پاتے اسی کے مطابق عمل کرتے ۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کعبہ میں داخل ہوئے تو وہاں ابراہیم اور اسماعیل علیہم السلام کے مجسمے گڑے ہوئے پائے ، جن کے ہاتھوں میں تیر تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اللہ انہیں غارت کرے ، انہیں خوب معلوم ہے کہ ان بزرگوں نے کبھی تیروں سے فال نہیں لی } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1601) صحیح حدیث میں ہے کہ ” سراقہ بن مالک بن جعثم جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق کو ڈھونڈنے کیلئے نکلا کہ انہیں پکڑ کر کفار مکہ کے سپرد کرے اور آپ اس وقت ہجرت کر کے مکہ سے مدینے کو جا رہے تھے تو اس نے اسی طرح قرعہ اندازی کی اس کا بیان ہے کہ پہلی مرتبہ وہ تیر نکلا جو میری مرضی کے خلاف تھا میں نے پھر تیروں کو ملا جلا کر نکالا تو اب کی مرتبہ بھی یہی نکلا تو انہیں کوئی ضرر نہ پہنچا سکے گا ، میں نے پھر نہ مانا تیسری مرتبہ فال لینے کیلئے تیر نکالا تو اب کی مرتبہ بھی یہی تیر نکلا لیکن میں ہمت کر کے ان کا کوئی لحاظ نہ کر کے انعام حاصل کرنے اور سرخرو ہونے کیلئے تیر نکالا تو اب کی مرتبہ بھی یہی تیر نکلا لیکن میں ہمت کر کے ان کا کوئی لحاظ نہ کر کے انعام حاصل کرنے اور سرخرو ہونے کیلئے آپ کی طلب میں نکل کھڑا ہوا ۔ اس وقت تک سراقہ مسلمان نہیں ہوا تھا ، یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کچھ نہ بگاڑ سکا اور پھر بعد میں اسے اللہ نے اسلام سے مشرف فرمایا “ ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3906) ابن مردویہ میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ” وہ شخص جنت کے بلند درجوں کو نہیں پا سکتا جو کہانت کرے ، یا تیر اندازی کرے یا کسی بدفالی کی وجہ سے سفر سے لوٹ آئے } ۱؎ (مجمع الزوائد:118/5:حسن بالشواہد) مجاہد رحمہ اللہ نے یہ بھی کہا ہے کہ ” عرب ان تیروں کے ذریعہ اور فارسی اور رومی پانسوں کے ذریعہ جوا کھیلا کرتے تھے جو مسلمانوں پر حرام ہے “ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:512/9) ممکن ہے کہ اس قول کے مطابق ہم یوں کہیں کہ تھے تو یہ تیر استخارے کیلئے مگر ان سے جو ابھی گاہے بگاہے کھیل لیا کرتے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اسی سورت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے جوئے کو بھی حرام کیا ہے اور فرمایا ، ’ ایمان والو! شراب ، جواء ، بت اور تیر نجس اور شیطانی کام ہیں ، تم ان سے الگ رہو تاکہ تمہیں نجات ملے ، شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ ان کے ذریعہ تمہارے درمیان عداوت و بغض ڈال دے ‘ ۔ اسی طرح یہاں بھی فرمان ہوتا ہے کہ ’ تیروں سے تقسیم طلب کرنا حرام ہے ، اس کام کا کرنا فسق ، گمراہی ، جہالت اور شرک ہے ‘ ۔ اس کے بجائے مومنوں کو حکم ہوا کہ ’ جب تمہیں اپنے کسی کام میں تردد ہو تو تم اللہ تعالیٰ سے استخارہ کرلو ، اس کی عبادت کر کے اس سے بھلائی طلب کرو ‘ ۔ (مسند احمد) ۔ بخاری اور سنن میں مروی ہے {جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس طرح قرآن کی سورتیں سکھاتے تھے ، اسی طرح ہمارے کاموں میں استخارہ کرنا بھی تعلیم فرماتے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ { جب تم سے کسی کو کوئی اہم کام آ پڑے تو اسے چاہیئے کہ دو رکعت نماز نفل پڑھ کر یہ دعا پڑھے «اللَّہُم إِنی أَسْتَخِیرُکَ ، وأستقدِرُکَ بقُدْرِتک ، و وأَسْأَلُکَ مِنْ فضْلِکَ العَظِیم ، فإِنَّکَ تَقْدِرُ ولا أَقْدِرُ ، وتعْلَمُ ولا أَعْلَمُ ، وَأَنتَ علاَّمُ الغُیُوبِ اللہُمَّ إِنْ کنْتَ تعْلَمُ أَنَّ ہذا الأمرَ خَیْرٌ لی فی دِینی وَمَعَاشی وَعَاقِبَۃِ أَمْرِی ، فاقْدُرْہُ لی وَیَسِّرْہُ لی ، ثمَّ بَارِکْ لی فِیہِ ، وَإِن کُنْتَ تعْلمُ أَنَّ ہذَا الأَمْرَ شرٌّ لی فی دِینی وَمَعاشی وَعَاقبۃِ أَمَرِی ، فاصْرِفہُ عَنی ، وَاصْرفنی عَنہُ ، وَاقدُرْ لی الخَیْرَ حَیْثُ کانَ ، ثُمَّ أرضنی بِہِ» ‏‏‏‏ ۔ یعنی اے اللہ میں تجھ سے تیرے علم کے ذریعہ بھلائی طلب کرتا ہوں اور تیری قدرت کے وسیلے سے تجھ سے قدرت طلب کرتا ہوں اور تجھ سے تیرے بڑے فضل کا طالب ہوں ، یقیناً تو ہر چیز پر قادر ہے اور میں محض مجبور ہوں ، تو تمام علم والا ہے اور میں مطلق بے علم ہوں ، تو ہی تمام غیب کو بخوبی جاننے والا ہے ، اے میرے اللہ اگر تیرے علم میں یہ کام میرے لیے دین دنیا میں آغاز و انجام کے اعتبار سے بہتر ہی بہتر ہے تو اسے میرے لیے مقدر کر دے اور اسے میرے لیے آسان بھی کر دے اور اس میں مجھے ہر طرح کی برکتیں عطا فرما اور اگر تیرے علم میں یہ کام میرے لیے دین کی دنیا زندگی اور انجام کار کے لحاظ سے برا ہے تو اسے مجھ سے دور کر دے اور مجھے اس سے دور کر دے اور میرے لیے خیر و برکت جہاں کہیں ہو مقرر کر دے پھر مجھے اسی سے راضی و رضا مند کر دے }} ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1162) دعا کے یہ الفاظ مسند احمد میں ہیں ۔ «‏‏‏‏ھٰذَا الاَمْرَ» جہاں ہے وہاں اپنے کام کا نام لے مثلاً نکاح ہو تو «ھٰذَا النّکَاحَ» سفر میں ہو تو «ھٰذَا السَّـفَـرَ» بیوپار میں ہو تو «ھٰذَا التِّجَارَۃَ» وغیرہ ۔ بعض روایتوں میں «خَیْرٌ لی فی دِینی» سے «‏‏‏‏أَمْرِی» تک کے بجائے یہ الفاظ ہیں ۔ دعا «خَیْرٌ لِّیْ فِیْ عَاجِلِ أَمْرِیْ وَ عَاجِلِہ» ۔ امام ترمذی اس حدیث کو حسن غریب بتلاتے ہیں ۔ پھر فرماتا ہے ’ آج کافر تمہارے دین سے مایوس ہوگئے ‘ ، یعنی ان کی یہ امیدیں خاک میں مل گئیں کہ وہ تمہارے دین میں کچھ خلط ملط کرسکیں یعنی اپنے دین کو تمہارے دین میں شامل کر لیں ۔ چنانچہ صحیح حدیث میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { شیطان اس سے تو مایوس ہو چکا ہے کہ نمازی مسلمان جزیرہ عرب میں اس کی پرستش کریں ، ہاں وہ اس کوشش میں رہے گا کہ مسلمانوں کو آپس میں ایک دوسرے کے خلاف بھڑکاتا رہے } } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2812) یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مشرکین مکہ اس سے مایوس ہو گئے کہ مسلمانوں سے مل جل کر رہیں ، کیونکہ احکام اسلام نے ان دونوں جماعتوں میں بہت کچھ تفاوت ڈال دیا ۔ اسی لیے حکم ربانی ہو رہا ہے کہ مومن صبر کریں ، ثابت قدم رہیں اور سوائے اللہ کے کسی سے نہ ڈریں ، کفار کی مخالفت کی کچھ پرواہ نہ کریں ، اللہ ان کی مدد کرے گا اور انہیں اپنے مخالفین پر غلبہ دے گا اور ان کے ضرر سے ان کی محافظت کی کچھ پرواہ نہ کریں ، اللہ ان کی مدد کرے گا اور انہیں اپنے مخالفین پر غلبہ دے گا اور ان کے ضرر سے ان کی محافظت کرے گا اور دنیا و آخرت میں انہیں بلند و بالا رکھے گا ۔ پھر اپنی زبردست بہترین اعلیٰ اور افضل تر نعمت کا ذکر فرماتا ہے کہ ’ میں نے تمہارا دین ہر طرح اور ہر حیثیت سے کامل و مکمل کر دیا ، تمہیں اس دین کے سوا کسی دین کی احتیاج نہیں ‘ ۔ ’ نہ اس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا اور کسی نبی کی تمہیں حاجت ہے ‘ ، اللہ نے تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء کیا ہے ، انہیں تمام جنوں اور انسانوں کی طرف بھیجا ہے ، حلال وہی ہے جسے وہ حلال کہیں ، حرام وہی ہے جسے وہ حرام کہیں ، دین وہی ہے جسے یہ مقرر کریں ، ان کی تمام باتیں حق و صداقت والی ، جن میں کسی طرح کا جھوٹ اور تضاد نہی ۔ جیسے فرمان باری ہے آیت «وَتَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ صِدْقًا وَّعَدْلًا» ۱؎ (6-الأنعام:115) یعنی ’ تیرے رب کا کلمہ پورا ہوا ، جو خبریں دینے میں سچا ہے اور حکم و منع میں عدل والا ہے ‘ ۔ دین کو کامل کرنا تم پر اپنی نعمت کو بھرپور کرنا ہے چونکہ میں خود تمہارے اس دین اسلام پر خوش ہوں ، اس لیے تم بھی اسی پر راضی رہو ، یہی دین اللہ کا پسندیدہ ، اسی کو دے کر اس نے اپنی افضل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا ہے اور اپنی اشرف کتاب نازل فرمائی ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ” اس دین اسلام کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے کامل کر دیا ہے اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنوں کو اس کا کامل ہونا خود اپنے کلام میں فرما چکا ہے اب یہ رہتی دنیا تک کسی زیادتی کا محتاج نہیں ، اسے اللہ نے پورا کیا ہے جو قیامت تک ناقص نہیں ہوگا ۔ اس سے اللہ خوش ہے اور کبھی بھی ناخوش نہیں ہونے والا “ ۔ سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” یہ آیت عرفہ کے دن نازل ہوئی ، اس کے بعد حلال و حرام کا کوئی حکم نہیں اترا ، اس حج سے لوٹ کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوگیا “ ۔ سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ” اس آخری حج میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ میں بھی تھی ، ہم جا رہے تھے اتنے میں جبرائیل علیہ السلام کی تجلی ہوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی پر جھک پڑے وحی اترنی شروع ہوئی ، اونٹنی وحی کے بوجھ کی طاقت نہیں رکھتی تھی ۔ میں نے اسی وقت اپنی چادر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اڑھادی “ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:11085:مرسل و ضعیف) ۔ ابن جریر رحمہ اللہ وغیرہ فرماتے ہیں ” اس کے بعد اکیاسی دن تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حیات رہے “ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:11086:مرسل و ضعیف) { حج اکبر والے دن جبکہ یہ آیت اتری تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ رونے لگے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سبب دریافت فرمایا تو جواب دیا کہ ہم دین کی تعمیل میں کچھ زیادہ ہی تھے ، اب وہ کامل ہو گیا اور دستور یہ ہے کہ کمال کے بعد نقصان شروع ہو جاتا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { سچ ہے } } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:11087:ضعیف) اسی معنی کی شہادت اس ثابت شدہ حدیث سے ہوتی ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے کہ { اسلام غربت اور انجان پن سے شروع ہوا اور عنقریب پھر غریب انجان ہو جائے گا ، پس غرباء کیلئے خوشخبری ہے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:145،146) مسند احمد میں ہے کہ ایک یہودی نے فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے کہا تم جو اس آیت «اَلْیَوْمَ اَ کْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا» (5 ۔ المائدہ:3) الخ ، کو پڑھتے ہو اگر وہ ہم یہودیوں پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید منا لیتے ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” واللہ مجھے علم ہے کہ آیت کس وقت اور کس دن نازل ہوئی ، عرفے کے دن جمعہ کی شام کو نازل ہوئی ہے ، ہم سب اس وقت میدان عرفہ میں تھے “ ۱؎ (صحیح بخاری:3017) تمام سیرت والے اس بات پر متفق ہیں کہ حجتہ الوادع والے سال عرفے کا دن جمعہ کو تھا ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ کعب نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے یہ کہا تھا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” یہ آیت ہمارے ہاں دوہری عید کے دن نازل ہوئی ہے “ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی زبانی اس آیت کی تلاوت سن کر بھی یہودیوں نے یہی کہا تھا کہ جس پر آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” ہمارے ہاں تو یہ آیت دوہری عید کے دن اتری ہے ، عید کا دن بھی تھا اور جمعہ کا دن بھی “ ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3044،قال الشیخ الألبانی:-صحیح) ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ” یہ آیت عرفے کے دن شام کو اتری ہے “ ۔ سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے منبر پر اس پوری آیت کی تلاوت کی اور فرمایا ” جمعہ کے دن عرفے کو یہ اتری یہ ہے “ ۔ ۱؎ (الدر المنشور للسیوطی:457/2:ضعیف) سیدنا سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم موقف میں کھڑے ہوئے تھے “ ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:6916:ضعیف) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پیر والے دن پیدا ہوئے ، پیر والے دن ہی مکہ سے نکلے اور پیر والے دن ہی مدینے میں تشریف لائے ، یہ اثر غریب ہے اور اس کی سند ضعیف ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:11113:ضعیف) مسند احمد میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پیر والے دن پیدا ہوئے ، پیر والے دن نبی بنائے گئے ، پیر والے دن ہجرت کے ارادے سے نکلے ، پیر کے روز ہی مدینے پہنچے اور پیر کے دن ہی فوت کئے گئے ، حجر اسود بھی پیر کے دن واقع ہوا ۔ ۱؎ (مسند احمد:277/1:ضعیف) اس میں سورۃ المائدہ کا پیر کے دن اترنا مذکور نہیں ، میرا خیال یہ ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا ہوگا دو عیدوں کے دن یہ آیت اتری تو دو کیلئے بھی لفظ اثنین ہے ، اور پیر کے دن کو بھی اثنین کہتے ہیں اس لیے راوی کو شبہ سا ہوگیا «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ دو قول اس میں اور بھی مروی ہیں ایک تو یہ کہ یہ دن لوگوں کو نامعلوم ہے دوسرا یہ کہ یہ آیت غدیر خم کے دن نازل ہوئی ہے جس دن کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی کی نسبت فرمایا تھا کہ { جس کا مولیٰ میں ہوں ، اس کا مولیٰ علی ہے } ۔ ۱؎ (سلسلۃ احادیث صحیحہ البانی:1750،) گویا ذی الحجہ کی اٹھارویں تاریخ ہوئی ، ۱؎ (الدر المنشور للسیوطی:457/2:ضعیف) جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حجتہ الوداع سے واپس لوٹ رہے تھے لیکن یہ یاد رہے کہ یہ دونوں قول صحیح نہیں ۔ بالکل صحیح اور بے شک و شبہ قول یہی ہے کہ یہ آیت عرفے کے دن جمعہ کو اتری ہے ، امیر المؤمنین سیدنا عمر بن خطاب اور امیر المؤمنین سیدنا علی بن ابوطالب اور امیر المؤمنین سیدنا امیر معاویہ بن سفیان اور ترجمان القرآن سیدنا عبداللہ بن عباس اور سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہم سے یہی مروی ہے اور اسی کو شعبی ، قتادہ ، شہیر وغیرہ ائمہ اور علماء رحمہ اللہ علیہم نے کہا ہے ، یہی مختار قول ابن جریر اور طبری رحمہ اللہ علیہم کا ہے ۔ پھر فرماتا ہے ، ’ جو شخص ان حرام کردہ چیزوں میں سے کسی چیز کے استعمال کی طرف مجبور و بے بس ہو جائے تو وہ ایسے اضطرار کی حالت میں انہیں کام لا سکتا ہے ۔ اللہ غفور و رحیم ہے ‘ ۔ وہ جانتا ہے کہ اس بندے نے اس کی حد نہیں توڑی لیکن بے بسی اور اضطرار کے موقعہ پر اس نے یہ کیا ہے تو اللہ سے معاف فرما دے گا ۔ صحیح ابن حبان میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ ” اللہ تعالیٰ کو اپنی دی ہوئی رخصتوں پر بندوں کا عمل کرنا ایسا بھاتا ہے جیسے اپنی نافرمانی سے رک جانا “ ۔ ۱؎ (صحیح ابن حبان:2742:قال الشیخ الألبانی:صحیح) مسند احمد میں ہے { جو شخص اللہ کی دی ہوئی رخصت نہ قبول کرے ، اس پر عرفات کے پہاڑ برابر گناہ ہے } ۔ ۱؎ (سلسلۃ احادیث ضعیفہ البانی:1949:ضعیف) اسی لیے فقہاء کہتے ہیں کہ بعض صورتوں میں مردار کا کھانا واجب ہو جاتا ہے جیسے کہ ایک شخص کی بھوک کی حالت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ اب مرا چاہتا ہے کہ کبھی جائز ہو جاتا ہے اور کبھی مباح ، ہاں اس میں اختلاف ہے کہ بھوک کے وقت جبکہ حلال چیز میسر نہ ہو تو حرام صرف اتنا ہی کھا سکتا ہے کہ جان بچ جائے یا پیٹ بھر سکتا ہے بلکہ ساتھ بھی رکھ سکتا ہے ، اس کے تفصیلی بیان کی جگہ احکام کی کتابیں ہیں ۔ اس مسئلہ میں جب بھوکا شخص جس کے اوپر اضطرار کی حالت ہے ، مردار اور دوسرے کا کھانا اور حالت احرام میں شکار تینوں چیزیں موجود پائے تو کیا وہ مردار کھا لے ؟ یہ حالت احرام میں ہونے کے باوجود شکار کر لے اور اپنی آسانی کی حالت میں اس کی جزا یعنی فدیہ ادا کر دے یا دوسرے کی چیز بلا اجازت کھا لے اور اپنی آسانی کے وقت اسے وہ واپس کر دے ، اس میں دو قول ہیں امام شافعی رحمہ اللہ سے دونوں مروی ہیں ۔ یہ بھی یاد رہے کہ مردار کھانے کی یہ شرط جو عوام میں مشہور ہے کہ جب تین دن کا فاقہ ہو جائے تو حلال ہوتا ہے یہ بالکل غلط ہے بلکہ جب اضطرار ، بے قراری اور مجبوری حالت میں ہو ، اس کیلئے مردار کھانا حلال ہو جاتا ہے ۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ { لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہم ایسی جگہ رہتے ہیں کہ آئے دن ہمیں فقر و فاقہ کی نوبت آ جاتی ہے ، تو ہمارے لیے مردار کا کھا لینا کیا جائز ہوتا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { جب صبح شام نہ ملے اور نہ کوئی سبزی ملے تو تمہیں اختیار ہے } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:218/5:حسن بالشواہد) اس حدیث کی ایک سند میں ارسال بھی ہے ، لیکن مسند والی مرفوع حدیث کی اسناد شرط شیخین پر صحیح ہے ۔ ابن عون فرماتے ہیں حسن رحمہ اللہ کے پاس سیدنا سمرہ رضی اللہ عنہ کی کتاب تھی ، جسے میں ان کے سامنے پڑھتا تھا ، اس میں یہ بھی تھا کہ صبح شام نہ ملنا اضطرار ہے ، ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:11132:ضعیف) { ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ حرام کھانا کب حلال ہو جاتا ہے ؟ ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { جب تک کہ تو اپنے بچوں کو دودھ سے شکم سیر نہ کر سکے اور جب تک ان کا سامان نہ آ جائے } } ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:11129:مرسل و ضعیف) { ایک اعرابی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حلال حرام کا سوال کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ { کل پاکیزہ چیزیں حلال اور کل خبیث چیزیں حرام ہاں جب کہ ان کی طرف محتاج ہو جائے تو انہیں کھا سکتا ہے جب تک کہ ان سے غنی نہ ہو جائے } اس نے پھر دریافت کیا کہ ” وہ محتاجی کون سی جس میں میرے لیے وہ حرام چیز حلال ہوئے اور وہ غنی ہونا کون سا جس میں مجھے اس سے رک جانا چاہئے ؟ “ فرمایا : { جبکہ تو صرف رات کو اپنے بال بچوں کو دودھ سے آسودہ کر سکتا ہو تو تو حرام چیز سے پرہیز کر } } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:11131:ضعیف) ابوداؤد میں ہے { سیدنا نجیع عامری رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ ” ہمارے لیے مردار کا کھانا کب حلال ہو جاتا ہے ؟ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { تمہیں کھانے کو کیا ملتا ہے ؟ } اس نے کہا ” صبح کو صرف ایک پیالہ دودھ اور شام کو بھی صرف ایک پیالہ دودھ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا { یہی ہے اور کون سی بھوک ہو گی ؟ } } ۱؎ (سنن ابوداود:3817،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) پس اس حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مردار کھانے کی اجازت عطا فرمائی ۔ مطلب حدیث کا یہ ہے کہ صبح شام ایک ایک پیالہ دودھ کا انہیں ناکافی تھا ، بھوک باقی رہتی تھی ، اس لیے ان پر مردہ حلال کر دیا گیا ، تاکہ وہ پیٹ بھر لیا کریں ، اسی کو دلیل بنا کر بعض بزرگوں نے فرمایا ہے کہ اضطرار کے وقت مردار کو پیٹ بھر کر کھا سکتا ہے ، صرف جان بچ جائے اتنا ہی کھانا جائز ہو ، یہ حد ٹھیک نہیں «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ ابو داؤد کی اور حدیث میں ہے کہ { ایک شخص مع اہل و عیال کے آیا اور حرہ میں ٹھہرا ، کسی صاحب کی اونٹنی گم ہوگئی تھی ، اس نے ان سے کہا اگر میری اونٹنی تمہیں مل جائے تو اسے پکڑ لینا ۔ اتفاق سے یہ اونٹنی اسے مل گئی ، اب یہ اس کے مالک کو تلاش کرنے لگے لیکن وہ نہ ملا اور اونٹنی بیمار پڑ گئی تو اس شخص کی بیوی صاحبہ نے کہا کہ ہم بھوکے رہا کرتے ہیں ، تم اسے ذبح کر ڈالو لیکن اس نے انکار کر دیا ، آخر اونٹنی مر گئی تو پھر بیوی صاحبہ نے کہا ، اب اس کی کھال کھینچ لو اور اس کے گوشت اور چربی کو ٹکڑے کر کے سکھا لو ، ہم بھوکوں کو کام آ جائے گا ، اس بزرگ نے جواب دیا ، میں تو یہ بھی نہیں کرونگا ، ہاں اگر اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اجازت دے دیں تو اور بات ہے ۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اس نے تمام قصہ بیان کیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { کیا تمہارے پاس اور کچھ کھانے کو ہے جو تمہیں کافی ہو ؟ } جواب دیا کہ نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { پھر تم کھا سکتے ہو } ۔ اس کے بعد اونٹنی والے سے ملاقات ہوئی اور جب اسے یہ علم ہوا تو اس نے کہا پھر تم نے اسے ذبح کر کے کھا کیوں نہ لیا ؟ اس بزرگ صحابی نے جواب دیا کہ شرم معلوم ہوئی } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:3816،قال الشیخ الألبانی:حسن) یہ حدیث دلیل ہے ان لوگوں کی جو کہتے ہیں کہ یہ بوقت اضطرار مردار کا پیٹ بھر کر کھانا بلکہ اپنی حاجت کے مطابق اپنے پاس رکھ لینا بھی جائز ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ پھر ارشاد ہوا ہے کہ یہ حرام بوقت اضطرار اس کیلئے مباح ہے جو کسی گناہ کی طرف میلان نہ رکھتا ہو ، اس کیلئے اسے مباح کر کے دوسرے سے خاموشی ہے ، جیسے سورۃ البقرہ میں ہے آیت «‏‏‏‏فَـمَنِ اضْـطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَلَآ اِثْمَ عَلَـیْہِ نَّ اللہَ غَفُورٌ رَّحِیمٌ» ‏‏‏‏ ۱؎ (2 ۔ البقرہ:173) ’یعنی وہ شخص بے قرار کیا جائے سوائے باغی اور حد سے گزرنے والے کے پس اس پر کوئی گناہ نہیں ، اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربانی کرنے والا ہے‘ ۔ اس آیت سے یہ استدعا کیا گیا ہے کہ جو شخص اللہ کی کسی نافرمانی کا سفر کر رہا ہے ، اسے شریعت کی رخصتوں میں سے کوئی رخصت حاصل نہیں ، اس لیے کہ رخصتیں گناہوں سے حاصل نہیں ہوتیں «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ المآئدہ
4 شکاری کتے اور شکار چونکہ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے نقصان پہنچانے والی خبیث چیزوں کی حرمت کا بیان فرمایا خواہ نقصان جسمانی ہو یا دینی یا دونوں ، پھر ضرورت کی حالت کے احکامات مخصوص کرائے گئے جیسے فرمان ہے آیت «وَقَدْ فَصَّلَ لَکُمْ مَّا حَرَّمَ عَلَیْکُمْ اِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ اِلَیْہِ» ۱؎ (6-الأنعام:119) یعنی ’ تمام حرام جانوروں کا بیان تفصیل سے تمہارے سامنے آ چکا ہے یہ اور بات ہے کہ تم حالات کی بناء پر بے بس اور بے قرار ہو جاؤ ‘ ۔ تو اس کے بعد ارشاد ہو رہا ہے کہ ’ حلال چیزوں کے دریافت کرنیوالوں سے کہہ دیجئیے کہ تمام پاک چیزیں تم پر حلال ہیں ‘ ۔ سورۃ الأعراف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ صفت بیان فرمائی گئی ہے کہ «وَیُحِلٰ لَہُمُ الطَّیِّبَاتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْہِمُ الْخَبَائِثَ» ۱؎ (7-الأعراف:157) ’ آپ [ صلی اللہ علیہ وسلم ] طیب چیزوں کو حلال کرتے ہیں اور خبیث چیزوں کو حرام کرتے ہیں ‘ ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ ” قبیلہ طائی کے دو شخصوں عدی بن حاتم اور زید بن مہلہل رضی اللہ عنہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ مردہ جانور تو حرام ہو چکا اب حلال کیا ہے ؟ اس پر یہ آیت اتری ۔ سعید رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” یعنی ذبح کئے ہوئے جانور حلال طیب ہیں “ ۔ ۱؎ (ضعیف: اس کی سند میں عبد اللہ بن لہیعۃ ضعیف ہے ) مقاتل رحمۃ اللہ فرماتے ہیں ہر حلال رزق طیبات میں داخل ہے ۔ امام زہری رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ دوا کے طور پر پیشاب کا پینا کیسا ہے ؟ جواب دیا کہ ” وہ طیبات میں داخل نہیں “ ۔ امام مالک رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ اس مٹی کا بیچنا کیسا ہے جسے لوگ کھاتے ہیں ؟ فرمایا ” وہ طیبات میں داخل نہیں “ ۔ ’ اور تمہارے لیے شکاری جانوروں کے ذریعہ کھیلا ہوا شکار بھی حلال کیا جاتا ہے ‘ مثلاً سدھائے ہوئے کتے اور شِکرے وغیرہ کے ذریعے ۔ یہی مذہب ہے جمہور صحابہ رضی اللہ عنہم تابعین ائمہ رحمہ اللہ علیہم وغیرہ کا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ” شکاری سدھائے ہوئے کتے ، باز ، چیتے ، شکرے وغیرہ ہر وہ پرندہ جو شکار کرنے کی تعلیم دیا جا سکتا ہو “ اور بھی بہت سے بزرگوں سے یہی مروی ہے ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:548/9) کہ ” پھاڑنے والے جانوروں اور ایسے ہی پرندوں میں سے جو بھی تعلیم حاصل کر لے ، ان کے ذریعہ شکار کھیلنا حلال ہے “ ۔ لیکن مجاہد رحمۃ اللہ سے مروی ہے کہ انہوں نے تمام شکاری پرندوں کا کیا ہوا شکار مکروہ کہا ہے اور دلیل میں آیت «وَمَا عَلَّمْتُمْ مِّنَ الْجَوَارِحِ مُکَلِّبِیْنَ تُعَلِّمُوْنَہُنَّ مِمَّا عَلَّمَکُمُ اللّٰہُ ۡ فَکُلُوْا مِمَّآ اَمْسَکْنَ عَلَیْکُمْ وَاذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلَیْہِ ۠ وَاتَّقُوا اللّٰہَ» ۱؎ (5-المائدہ:4) پڑھا ہے سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے بھی اسی طرح روایت کی گئی ہے ۔ ضحاک اور سدی رحمہ اللہ علیہم کا بھی یہی قول ابن جریر میں مروی ہے ۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” باز وغیرہ پرند جو شکار پکڑیں اگر وہ تمہیں زندہ مل جائے تو تم ذبح کر کے کھا لو ورنہ نہ کھاؤ “ ، لیکن جمہور علماء اسلام کا فتویٰ یہ ہے کہ شکاری پرندوں کے ذریعہ جو شکار ہو ، اس کا اور شکاری کتوں کے کئے ہوئے شکار کا ایک ہی حکم ہے ، ان میں تفریق کرنے کی کوئی چیز باقی نہیں رہتی ۔ چاروں اماموں رحمہ اللہ علیہم وغیرہ کا مذہب بھی یہی ہے ۔ امام ابن جریر بھی اسی کو پسند کرتے ہیں اور اس کی دلیل میں اس حدیث کو لاتے ہیں کہ عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم سے باز کے کئے ہوئے شکار کا مسئلہ پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { جس جانور کو وہ تیرے لیے روک رکھے تو اسے کھا لے } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:1467،قال الشیخ الألبانی:منکر) امام احمد نے سیاہ کتے کا کیا ہوا شکار بھی مستثنیٰ کر لیا ہے ، اس لیے کہ ان کے نزدیک اس کا قتل کرنا واجب ہے اور پالنا حرام ہے ، کیونکہ صحیح مسلم میں حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { نماز کو تین چیزیں توڑ دیتی ہیں ، گدھا ، عورت اور سیاہ کتا ۔ اس پر ابی نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیاہ کتے کی خصوصیت کی کیا وجہ ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { شیطان ہے } } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:510) دوسری حدیث میں ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتوں کے مار ڈالنے کا حکم دیا پھر فرمایا : { انہیں کتوں سے کیا واسطہ ؟ ان کتوں میں سے سخت سیاہ کتوں کو مار ڈالا کرو } } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1573) شکاری حیوانات کو جوارح اس لیے کہا گیا کہ جرح کہتے ہیں کسب اور کمائی کو ، جیسے عرب کہتے ہیں «فُلاَنٌ جَرَحَ اَہْلَہُ خَیْراً» یعنی فلاں شحص نے اپنی اہل کیلئے بھلائی حاصل کر لی اور عرب کہتے ہیں «فُلاَنٌ لَاَّ جَارِحَ لَہُ» شخص کا کوئی کماؤ نہیں ، قرآن میں بھی لفظ جرح کسب اور کمائی اور حاصل کرنے کے معنی میں آیا ہے فرمان ہے آیت «وَیَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّہَارِ» ۱؎ (6-الأنعام:60) یعنی ’ دن کو جو بھلائی برائی تم حاصل کرتے ہو اور اسے بھی اللہ جانتا ہے ‘ ۔ اس آیت کریمہ کے اترنے کی وجہ ابن ابی حاتم میں یہ ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتوں کے قتل کرنے کا حکم دیا اور وہ قتل کئے جانے لگے تو لوگوں نے آ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس امت کے قتل کا حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ان سے ہمارے لیے کیا فائدہ حلال ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے اس پر یہ آیت اتری ۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { جب کوئی شخص اپنے کتے کو شکار کے پیچھے چھوڑے اور «بِسْمِ اللہِ » بھی کہے پھر وہ شکار پکڑ لے اور روک رکھے تو جب تک وہ نہ کھائے یہ کھا لے } } ۔ ۱؎ (مستدرک حاکم:311/2:ضعیف) ابن جریر میں ہے { جبرائیل علیہ السلام نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اندر آنے کی اجازت چاہی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی لیکن وہ پھر بھی اندر نہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اے قاصد رب ہم تو تمہیں اجازت دے چکے پھر کیوں نہیں آتے ؟ } اس پر فرشتے نے کہا ! ” ہم اس گھر میں نہیں جاتے ، جس میں کتا ہو “ ۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابو رافع رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ { مدینے کے کل کتے مار ڈالے جائیں } ، ابو رافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ، ” میں گیا اور سب کتوں کو قتل کرنے لگا ، ایک بڑھیا کے پاس کتا تھا ، جو اس کے دامن میں لپٹنے لگا اور بطور فریاد اس کے سامنے بھونکنے لگا ، مجھے رحم آگیا اور میں نے اسے چھوڑ دیا اور آکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی “ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ { اسے بھی باقی نہ چھوڑو } ، ” میں پھر واپس گیا اور اسے بھی قتل کر دیا “ ۔ اب لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ جس امت کے قتل کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے ، ان سے کوئی فائدہ ہمارے لیے حلال بھی ہے یا نہیں ؟ اس پر آیت «یَسْأَلُونَکَ مَاذَا أُحِلَّ لَہُمْ» الخ ، نازل ہوئی } ۔ ۱؎ (مستدرک حاکم:311/2:ضعیف) ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ مدینے کے کتوں کو قتل کر کے پھر سیدنا ابو رافع رضی اللہ عنہ آس پاس کی بستیوں میں پہنچے اور مسئلہ دریافت کرنیوالوں کے نام بھی اس میں ہیں یعنی عاصم بن عذی سعید بن خیثمہ عویم بن ساعدہ رضی اللہ عنہم ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:11138:مرسل) محمد بن کعب قرظی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ آیت کا شان نزول کتوں کا قتل ہے «مُکَلِّبِیْنَ» ‏‏‏‏ کا لفظ ممکن ہے کہ «‏‏‏‏عَلَّمْـتُمْ» ‏‏‏‏کی ضمیر یعنی فاعل کا حال ہو اور ممکن ہے کہ «جَوَارِح» یعنی مقتول کا حال ہو ۔ یعنی جن شکار حاصل کرنے والے جانوروں کو تم نے سدھایا ہو اور حالانکہ وہ شکار کو اپنے پنجوں اور ناخنوں سے شکار کرتے ہوں ، اس سے بھی یہ استدلال ہو سکتا ہے کہ شکاری جانور جب شکار کو اپنے صدمے سے ہی دبوچ کر مار ڈالے تو وہ حلال نہ ہو گا ۔ جیسے کہ امام شافعی رحمہ اللہ کے دونوں قولوں میں سے ایک قول ہے اور علماء کی ایک جماعت کا خیال ہے ۔ اسی لیے فرمایا ’ تم نے انہیں اس سے کچھ سکھا دیا ہو جو اللہ نے تمہیں سکھا رکھا ہے ‘ یعنی جب تم چھوڑو ، جائے ، جب تم روک لو رک جائے اور شکار پکڑ کر تمہارے لیے روک رکھے ۔ تاکہ تم جا کر اسے لے لو ، اس نے خود اپنے لیے اسے شکار نہ کیا ہو ۔ اس لیے اس کے بعد ہی فرمایا کہ جب شکاری جانور سدھایا ہوا ہو اور اس نے اپنے چھوڑنے والے کیلئے شکار کیا ہو اور اس نے بھی اس کے چھوڑنے کے وقت اللہ کا نام لیا ہو تو وہ شکار مسلمانوں کیلئے حلال ہے گو وہ شکار مر بھی گیا ہو ، اس پر اجماع ہے ۔ اس آیت کے مسئلہ کے مطابق ہی بخاری و مسلم کی یہ حدیث ہے کہ { سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اللہ کا نام لے کر اپنے سدھائے ہوئے کتے کو شکار پر چھوڑتا ہوں ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { جس جانور کو وہ پکڑ رکھے تو اسے کھا لے اگرچہ کتے نے اسے مار بھی ڈالا ہو ، ہاں یہ ضرور ہے کہ اس کے ساتھ شکار کرنے میں دوسرا کتا نہ ملا ہو اس لیے کہ تو نے اپنے کتے کو اللہ کا نام لے کر چھوڑا ہے دوسرے کو «بِسْمِ اللہِ » پڑھ کر نہیں چھوڑا } ۔ میں نے کہا کہ میں نوکدار لکڑی سے شکار کھیلتا ہوں ۔ فرمایا : { اگر وہ اپنی تیزی کی طرف سے زخمی کرے تو کھا لے اور اگر اپنی چوڑائی کی طرف سے لگا ہو تو نہ کھا کیونکہ وہ لٹھ مارا ہوا ہے } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5476) دوسری روایت میں یہ لفظ ہیں کہ { جب تو اپنے کتے کو چھوڑے تو اللہ کا نام پڑھ لیا کر پھر وہ شکار کو تیرے لیے پکڑ رکھے اور تیرے پہنچ جانے پر شکار زندہ مل جائے تو تو اسے ذبح کر ڈال اور اگر کتے نے ہی اسے مار ڈالا ہو اور اس میں سے کھایا نہ ہو تو تو اسے بھی کھا سکتا ہے اس لیے کہ کتے کا اسے شکار کر لینا ہی اس کا ذبیحہ ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5484) اور روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ { اگر اس نے کھا لیا ہو تو پھر اسے نہ کھا ، مجھے تو ڈر ہے کہ کہیں اس نے اپنے کھانے کیلئے شکار نہ پکڑا ہو ؟ } ۱؎ (صحیح بخاری:5487) یہی دلیل جمہور کی ہے اور حقیقتاً امام شافعی رحمہ اللہ کا صحیح مذہب بھی یہی ہے کہ جب کتا شکار کو کھا لے تو وہ مطلق حرام ہو جاتا ہے اس میں کوئی گنجاش نہیں جیسا کہ حدیث میں ہے ۔ ہاں سلف کی ایک جماعت کا یہ قول بھی ہے کہ مطلقاً حلال ہے ۔ ان کے دلائل یہ ہیں ۔ سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” تو کھا سکتا ہے اگرچہ کتے نے تہائی حصہ کھا لیا ہو “ ۔ سیدنا سعید بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ” گو ایک ٹکڑا ہی باقی رہ گیا ہو پھر بھی کھا سکتے ہیں “ ۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” گو دو تہائیاں کتا کھا گیا ہو پھر بھی تو کھا سکتا ہے “ ، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بھی یہی فرمان ہے ۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” جب «بِسْمِ اللہِ » کہہ کر تو نے اپنے سدھائے ہوئے کتے کو شکار پر چھوڑا ہو تو جس جانور کو اس نے تیرے لیے پکڑ رکھا ہے تو اسے کھا لے کتے نے اس میں سے کھایا ہو یا نہ کھایا ہو “ ، یہی مروی ہے سیدنا علی اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے ۔ عطاء اور حسن بصری رحمہ اللہ علیہم سے اس میں مختلف اقوال مروی ہیں ، زہری ربیعہ اور مالک سے بھی یہی روایت کی گئی ہے ۔ اسی کی طرف امام شافعی رحمۃ اللہ اپنے پہلے قول میں گئے ہیں اور نئے قول میں اسی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے ابن جریر کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { جب کوئی شخص اپنے کتے کو شکار پر چھوڑے پھر شکار کو اس حالت میں پائے کہ کتے نے اسے کھا لیا ہو تو جو باقی ہو اسے وہ کھا سکتا ہے } } ۔ اس حدیث کی سند میں بقول ابن جریر نظر ہے اور سعید راوی کا سلمان سے سننامعلوم نہیں ہوا اور دوسرے ثقہ راوی اسے مرفوع نہیں کرتے بلکہ سلمان کا قول نقل کرتے ہیں یہ قول ہے تو صحیح لیکن اسی معنی کی اور مرفوع حدیثیں بھی مروی ہیں ۔ ابو داؤد میں ہے { عمرو بن شعیب اپنے باپ سے وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ ایک اعرابی ابو ثعلبہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس شکاری کتے سدھائے ہوئے ہیں ان کے شکار کی نسبت کیا فتویٰ ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { جو جانور وہ تیرے لیے پکڑیں وہ تجھ پر حلال ہے } ، اس نے کہا ذبح کر سکوں جب بھی اور ذبح نہ کر سکوں تو بھی ؟ اور اگرچہ کتے نے کھا لیا ہو تو بھی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ہاں گو کھا بھی لیا ہو } ۔ انہوں نے دوسرا سوال کیا کہ میں اپنے تیر کمان سے جو شکار کروں اس کا کیا فتویٰ ہے ؟ فرمایا : { اسے بھی تو کھا سکتا ہے } ، پوچھا اگر وہ زندہ ملے اور میں اسے ذبح کر سکوں تو بھی اور تیر لگتے ہی مر جائے تو بھی ؟ فرمایا { بلکہ گو وہ تجھے نظر نہ پڑے اور ڈھونڈنے سے مل جائے تو بھی ۔ بشرطیکہ اس میں کسی دوسرے شخص کے تیر کا نشان نہ ہو } ، انہوں نے تیسرا سوال کیا کہ بوقت ضرورت مجوسیوں کے برتنوں کا استعمال کرنا ہمارے لیے کیسا ہے ؟ فرمایا { تم انہیں دھو ڈالو پھر ان میں کھا پی سکتے ہو } } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2857،قال الشیخ الألبانی:حسن لکن قولہ وإن أکل منہ منکر) یہ حدیث نسائی میں بھی ہے ابو داؤد کی دوسری حدیث میں ہے { جب تو نے اپنے کتے کو اللہ کا نام لے کر چھوڑا ہو تو تو اس کے شکار کو کھا سکتا ہے گو اس نے اس میں سے کھا بھی لیا ہو اور تیرا ہاتھ جس شکار کو تیرے لیے لایا ہو اسے بھی تو کھا سکتا ہے } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2852،قال الشیخ الألبانی:منکر) ان دونوں احادیث کی سندیں بہت ہی اعلیٰ اور عمدہ ہیں اور حدیث میں ہے کہ { تیرا سدھایا ہوا کتا جو شکار تیرے لیے کھیلے تو اسے کھا لے ، سیدنا عدی رضی اللہ عنہ نے پوچھا اگرچہ اس نے اس میں سے کھا لیا ہو فرمایا : { ہاں پھر بھی } } ۔ ان آثار اور احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ شکاری کتے نے شکار کو گو کھا لیا ہو تاہم بقیہ شکار شکاری کھا سکتا ہے ۔ کتے وغیرہ کے کھائے ہوئے شکار کو حرام نہ کہنے والوں کے یہ دلائل ہیں ۔ ایک اور جماعت ان دونوں جماعتوں کے درمیان ہے وہ کہتی ہے کہ اگر شکار پکڑتے ہی کھانے بیٹھ گیا تو بقیہ حرام اور اگر شکار پکڑ کر اپنے مالک کا انتظار کیا اور باوجود خاصی دیر گزر جانے کے اپنے مالک کو نہ پایا اور بھوک کی وجہ سے اسے کھا لیا تو بقیہ حلال ۔ پہلی بات پر محمول ہے عدی والی حدیث اور دوسری پر محمول ہے ابو ثعلبہ والی حدیث میں ۔ یہ فرق بھی بہت اچھا ہے اور اس سے دو صحیح حدیثیں بھی جمع ہو جاتی ہیں ۔ استاذ ابو المعالی جوینی نے اپنی کتاب نہایہ میں یہ تمنا ظاہر کی تھی کہ کاش کوئی اس بارہ میں یہ وضاحت کرے تو «اَلْحَمْدُ لِلہِ» یہ وضاحت لوگوں نے کرلی ۔ اس مسئلہ میں ایک چوتھا قول بھی ہے وہ یہ کہ کتے کا کھایا ہوا شکار تو حرام ہے جیسا کہ عدی رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے ، اور شکرے وغیرہ کا کھایا ہوا شکار حرام نہیں اس لیے کہ وہ تو کھانے سے ہی تعلیم قبول کرتا ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ” اگر پرندہ اپنے مالک کے پاس لوٹ آیا اور مار سے نہیں پھر وہ پر نوچے اور گوشت کھائے تو کھا لے “ ۔ ابراہیم نخعی ، شعبی ، حماد بن سلیمان رحمہ اللہ علیہم یہی کہتے ہیں ان کی دلیل ابن ابی حاتم کی یہ روایت ہے کہ { عدی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ہم لوگ کتوں اور باز سے شکار کھیلا کرتے ہیں تو ہمارے لیے کیا حلال ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { جو شکاری جانور یا شکار حاصل کرنے والے خود شکار کرنے والے اور سدھائے ہوئے تمہارے لیے شکار روک رکھیں اور تم نے ان پر اللہ کا نام لے لیا ہو اسے تم کھا لو } ۔ پھر فرمایا : { جسے کتے کو تو نے اللہ کا نام لے کر چھوڑا ہو وہ جس جانور کو روک رکھے تو اسے کھا لے میں نے کہا گو اسے مار ڈالا ہو فرمایا گو مار ڈالا ہو لیکن یہ شرط ہے کہ کھایا نہ ہو } میں نے کہا اگر اس کتے کے ساتھ دوسرے کتے بھی مل گئے ہوں ؟ تو ؟ فرمایا: { پھر نہ کھا جب تک کہ تجھے اس بات کا پورا اطمینان نہ ہو کہ تیرے ہی کتے نے شکار کیا ہے } ۔ میں نے کہا ہم لوگ تیر سے بھی شکار کیا کرتے ہیں اس میں سے کون سا حلال ہے ؟ فرمایا { جو تیر زخمی کرے اور تو نے اللہ کا نام لے کر چھوڑا ہو اسے کھا لے } } ۔ ۱؎ (ضعیف) وجہ دلالت یہ ہے کہ کتے میں نہ کھانے کی شرط آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی اور باز میں نہیں بتائی ، پس ان دونوں میں فرق ثابت ہو گیا ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اللہ رب العزت فرماتا ہے کہ ’ تم کھا لو جن حلال جانوروں کو تمہارے یہ شکاری جانور پکڑ لیں اور تم نے ان کے چھوڑنے کے وقت اللہ کا نام لے لیا ہو ‘ ۔ جیسے کہ عدی اور ابو ثعلبہ رضی اللہ عنہم کی حدیث میں ہے ۱؎ (صحیح بخاری:5478) اسی لیے امام احمد رحمہ اللہ وغیرہ اماموں نے یہ شرط ضروری بتلائی ہے کہ شکار کیلئے جانور کو چھوڑتے وقت اور تیر چلاتے وقت «بِسْمِ اللہِ » پڑھنا شرط ہے ۔ جمہور کا مشہور مذہب بھی یہی ہے کہ اس آیت اور اس حدیث سے مراد جانور کے چھوڑنے کا وقت ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ” اپنے شکاری جانور کو بھیجتے وقت «بِسْمِ اللہِ » کہہ لے ہاں اگر بھول جائے تو کوئی حرج نہیں “ ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ مراد کھانے کے وقت «بِسْمِ اللہِ » پڑھنا ہے ۔ جیسے کہ بخاری و مسلم میں عمر بن ابوسلمہ کے ربیبہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا مروی ہے کہ { اللہ کا نام لے اور اپنے داہنے ہاتھ سے اپنے سامنے سے کھا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5376) صحیح بخاری شریف میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ { لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا لوگ ہمارے پاس جو لوگ گوشت لاتے ہیں وہ نو مسلم ہیں ہمیں اس کا علم نہیں ہوتا کہ انہوں نے اللہ کا نام لیا بھی ہے یا نہیں ؟ تو کیا ہم اسے کھالیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { تم خود اللہ کا نام لے لو اور کھا لو } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5507) مسند میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چھ صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ کھانا تناول فرما رہے تھے کہ ایک اعرابی نے آ کر دو لقمے اس میں سے اٹھائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اگر یہ بسم اللہ کہہ لیتا تو یہ کھانا تم سب کو کافی ہو جاتا تم میں سے جب کوئی کھانے بیٹھے تو «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» پڑھ لیا کرے اگر اول میں بھول گیا تو جب یاد آ جائے کہدے «بِسْمِ اللّٰہِ اَوَّلِہُ وَ اٰخِرِہُ» } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:143/6:حسن بالشواہد) یہی حدیث منقطع سند کے ساتھ ابن ماجہ میں بھی ہے ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:3264،قال الشیخ الألبانی:صحیح) دوسری سند سے یہ حدیث ابوداؤد ، ترمذی ، نسائی اور مسند احمد میں ہے اور امام ترمذی اسے حسن صحیح بتاتے ہیں ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:3767 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) جابربن صبیح رحمہ اللہ فرماتے ہیں مثنی بن عبدالرحمٰن خزاعی رحمہ اللہ کے ساتھ میں نے واسط کا سفر کیا ان کی عادت یہ تھی کہ کھانا شروع کرتے وقت «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» کہہ لیتے اور آخری لقمہ کے وقت «بِسْمِ اللّٰہِ اَوَّلِہُ وَ اٰخِرِہُ» کہہ لیا کرتے میں نے اس کا سبب پوچھا تو انہوں نے خالد بن امیہ بن مخشی رضی اللہ عنہ کی روایت بیان کی کہ { حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو کھاتے ہوئے دیکھا کہ اس نے «بِسْمِ اللہِ » نہیں پڑھی ، یہاں تک کہ جب آخر میں پہنچا تو بولا «بِسْمِ اللّٰہِ اَوَّلِہُ وَ اٰخِرِہُ» ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { واللہ شیطان اس شخص کے ساتھ کھانا کھاتا رہا جب تک اس نے «بِسْمِ اللہِ » نہ کہہ لی ، پھر تو شیطان نے قے کرکے سارا کھانا اپنے پیٹ سے نکال دیا } } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:3768،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) اس کے راوی کو ابن معین اور نسائی رحمہ اللہ علیہم تو ثقہ کہتے ہیں لیکن ابو الفتح ازوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ دلیل لینے کے قابل راوی نہیں ۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں { ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے کہ ایک لڑکی گرتی پڑتی آئی ، جیسے کوئی اسے دھکے دے رہا ہو اور آتے ہی اس نے لقمہ اٹھانا چاہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ہاتھ تھام لیا اور ایک اعرابی بھی اسی طرح آیا اور پیالے میں ہاتھ ڈالا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ہاتھ بھی اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا اور فرمایا : { جب کسی کھانے پر «بِسْمِ اللہِ » نہ کہی جائے تو شیطان اسے اپنے لیے حلال کر لیتا ہے وہ پہلے تو اس لڑکی کے ساتھ آیا تاکہ ہمارا کھانا کھائے تو میں نے اس کا ہاتھ تھام لیا پھر وہ اعرابی کے ساتھ میں نے اس کا بھی ہاتھ تھام لیا اس کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ شیطان کا ہاتھ ان دونوں کے ہاتھ کے ساتھ میرے ہاتھ میں ہے } } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2017) مسلم ، ابوداؤد ، نسائی اور ابن ماجہ میں ہے کہ { جب انسان اپنے گھر میں جاتے ہوئے اور کھانا کھاتے ہوئے اللہ کا نام یاد کر لیا کرتا ہے تو شیطان کہتا ہے کہ اے شیطانوں نہ تو تمہارے لیے رات گزارنے کی جگہ ہے نہ رات کا کھانا اور جب وہ گھر میں جاتے ہوئے کھاتے ہوئے اللہ کا نام نہیں لیتا تو وہ پکار دیتا ہے کہ تم نے شب باشی کی اور کھانا کھانے کی جگہ پالی } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2018) مسند ، ابوداؤد اور ابن ماجہ میں ہے کہ { ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں شکایت کی کہ ہم کھاتے ہیں اور ہمارا پیٹ نہیں بھرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { شاید تم الگ الگ کھاتے ہو گے کھانا سب مل کر کھاؤ اور «بِسْمِ اللہِ » کہہ لیا کرو اس میں اللہ کی طرف سے برکت دی جائے گی } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:3764،قال الشیخ الألبانی:حسن) المآئدہ
5 ذبیحہ کس نام اور کن ہاتھوں کا حلال ہے؟ حلال و حرام کے بیان کے بعد بطور خلاصہ فرمایا کہ ’ کل ستھری چیزیں حلال ہیں ‘ ، پھر یہود و نصاریٰ کے ذبح کئے ہوئے جانوروں کی حلت بیان فرمائی ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ ، ابوامامہ ، مجاہد ، سعید بن جبیر ، عکرمہ ، عطاء ، حسن ، مکحول ، ابراہیم ، نخعی ، سدی ، مقاتل بن حیان رحمۃ اللہ علیہم یہ سب یہی کہتے ہیں کہ طعام سے مراد ان کا اپنے ہاتھ سے ذبح کیا ہوا جانور ہے ، جس کا کھانا مسلمانوں کو حلال ہے ، ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:573/9) علماء اسلام کا اس پر مکمل اتفاق ہے کہ ان کا ذبیحہ ہمارے لیے حلال ہے ، کیونکہ وہ بھی غیر اللہ کیلئے ذبح کرنا ناجائز جانتے ہیں اور ذبح کرتے وقت اللہ کے سوا دوسرے کا نام نہیں لیتے گو ان کے عقیدے ذات باری کی نسبت یکسر اور سراسر باطل ہیں ، جن سے اللہ تعالیٰ بلند و بالا اور پاک و منزہ ہے ۔ صحیح حدیث میں سیدنا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ { جنگ خیبر میں مجھے چربی کی بھری ہوئی ایک مشک مل گئی ، میں نے اسے قبضہ میں کیا اور کہا اس میں سے تو آج میں کسی کو بھی حصہ نہ دونگا ، اب جو ادھر ادھر نگاہ پھرائی تو دیکھتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس ہی کھڑے ہوئے تبسم فرما رہے ہیں } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3153) اس حدیث سے یہ بھی استدلال کیا گیا ہے کہ مال غنیمت میں سے کھانے پینے کی ضروری چیزیں تقسیم سے پہلے بھی لے لینی جائز ہیں اور یہ استدلال اس حدیث سے صاف ظاہر ہے ، تینوں مذہب کے فقہاء نے مالکیوں پر اپنی سند پیش کی ہے اور کہا ہے کہ تم جو کہتے ہو کہ اہل کتاب کا وہی کھانا ہم پر حلال ہے جو خود ان کے ہاں بھی حلال ہو یہ غلط ہے کیونکہ چربی کو یہودی حرام جانتے ہیں لیکن مسلمان کیلئے حلال ہے لیکن یہ ایک شخص کا انفرادی واقعہ ہے ۔ البتہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ وہ چربی ہو جسے خود یہودی بھی حلال جانتے تھے یعنی پشت کی چربی انتڑیوں سے لگی ہوئی چربی اور ہڈی سے ملی ہوئی چربی ۔ اس سے بھی زیادہ دلالت والی تو وہ روایت ہے جس میں ہے کہ { خیبر والوں نے سالم بھنی ہوئی ایک بکری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تحفہ میں دی جس کے شانے کے گوشت کو انہوں نے زہر آلود کر رکھا تھا کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو شانے کا گوشت پسند ہے ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا یہی گوشت لے کر منہ میں رکھ کر دانتوں سے توڑا تو فرمان باری سے اس شانے نے کہا ، مجھ میں زہر ملا ہوا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت اسے تھوک دیا اور اس کا اثر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کے دانتوں وغیرہ میں رہ گیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بشر بن براء بن معرور رضی اللہ عنہ بھی تھے ، جو اسی کے اثر سے راہی بقاء ہوئے ، جن کے قصاص میں زہر ملانے والی عورت کو بھی قتل کیا گیا ، جس کا نام زینب تھا } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4510،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) وجہ دلالت یہ ہے کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مع اپنے ساتھیوں کے اس گوشت کے کھانے کا پختہ ارادہ کر لیا اور یہ نہ پوچھا کہ اس کی جس چربی کو تم حلال جانتے ہو اسے نکال بھی ڈالا ہے یا نہیں ؟ اور حدیث میں ہے کہ { ایک یہودی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت میں جو کی روٹی اور پرانی سوکھی چربی پیش کی تھی } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2092) مکحول رحمہ اللہ فرماتے ہیں جس چیز پر نام رب نہ لیا جائے اس کا کھانا حرام کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر رحم فرما کر منسوخ کر کے اہل کتاب کے ذبح کئے جانور حلال کر دئے یہ یاد رہے کہ اہل کتاب کا ذبیحہ حلال ہونے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ جس جانور پر بھی نام الٰہی نہ لیا جائے وہ حلال ہو ؟ اس لیے کہ وہ اپنے ذبیحوں پر اللہ کا نام لیتے تھے بلکہ جس گوشت کو کھاتے تھے اسے ذبیحہ پر موقوف نہ رکھتے تھے بلکہ مردہ جانور بھی کھا لیتے تھے لیکن سامرہ اور صائبہ اور ابراہیم و شیث علیہم السلام وغیرہ پیغمبروں کے دین کے مدعی اس سے مستثنیٰ تھے ۔ جیسے کہ علماء کے دو اقوال میں سے ایک قول ہے اور عرب کے نصرانی جیسے بنو تغلب ، تنوخ بہرا ، جذام لحم ، عاملہ کے ایسے اور بھی ہیں کہ جمہور کے نزدیک ان کے ہاتھ کا کیا ہوا ذبیحہ نہیں کھایا جائے گا ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” قبیلہ بنو تغلب کے ہاتھ کا ذبح کیا ہوا جانور نہ کھاؤ ، اس لیے کہ انہوں نے تو نصرانیت سے سوائے شراب نوشی کے اور کوئی چیز نہیں لی “ ۔ ہاں سعید بن مسیب اور حسن بنو تغلب کے نصاریٰ کے ہاتھوں ذبح کئے ہوئے جانور کے کھا لینے میں کوئی حرج نہیں جانتے تھے ، باقی رہے مجوسی ان سے گو جزیہ لیا گیا ہے کیونکہ انہیں اس مسئلہ میں یہود و نصاریٰ میں ملا دیا گیا ہے اور ان کا ہی تابع کر دیا گیا ہے ، لیکن ان کی عورتوں سے نکاح کرنا اور ان کے ذبح کئے ہوئے جانور کا کھانا ممنوع ہے ۔ ہاں ابوثور ابراہیم بن خالد کلبی رحمہ اللہ جو شافعی اور احمد رحمہ اللہ علیہم کے ساتھیوں میں سے تھے ، اس کے خلاف ہیں ، جب انہوں نے اسے جائز کہا اور لوگوں میں اس کی شہرت ہوئی تو فقہاء نے اس قول کی زبردست تردید کی ہے ۔ یہاں تک کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے تو فرمایا کہ ” ابوثور اس مسئلہ میں اپنے نام کی طرح ہی ہے یعنی بیل کا باپ “ ۔ ممکن ہے ابوثور نے ایک حدیث کے عموم کو سامنے رکھ کر یہ فتویٰ دیا ہو جس میں حکم ہے کہ { مجوسیوں کے ساتھ اہل کتاب کا سا طریقہ برتو } ۔ ۱؎ (موطا:42:قال الشیخ الألبانی:ضعیف) لیکن اولاً تو یہ روایت ان الفاظ سے ثابت ہی نہیں دوسرے یہ روایت مرسل ہے ، ہاں البتہ صحیح بخاری شریف میں صرف اتنا تو ہے کہ { ہجر کے مجوسیوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جزیہ لیا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3156) علاوہ ان سب کے ہم کہتے ہیں کہ ابوثور کی پیش کردہ حدیث کو اگر ہم صحیح مان لیں ، تو بھی ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس کے عموم سے بھی اس آیت میں حکم امتناعی کو دلیل بنا کر اہل کتاب کے سوا اور دین والوں کا ذبیحہ بھی ہمارے لیے حرام ثابت ہوتا ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ تمہارا ذبیحہ ان کیلئے حلال ہے ‘ یعنی تم انہیں اپنا ذبیحہ کھلا سکتے ہو ۔ یہ اس امر کی خبر نہیں کہ ان کے دین میں ان کیلئے تمہارا ذبیحہ حلال ہے ہاں زیادہ سے زیادہ اتنا کہا جا سکتا ہے کہ یہ اس بات کی خبر ہو کہ انہیں بھی ان کی کتاب میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ جس جانور کا ذبیحہ اللہ کے نام پر ہوا ہو اسے وہ کھا سکتا ہے بلحاظ اس سے کہ ذبح کرنے والا انہیں میں سے ہو یا ان کے سوا کوئی اور ہو ، لیکن زیادہ باوزن بات پہلی ہی ہے ، یعنی یہ کہ تمہیں اجازت ہے کہ انہیں اپنا ذبیحہ کھلاؤ جیسے کہ ان کے ذبح کئے ہوئے جانور تم کھا لیتے ہو ۔ یہ گویا اول بدل کے طور پر ہے ، { جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ابی بن سلول منافق کو اپنے خاص کرتے ہیں کفن دیا جس کی وجہ سے بعض حضرات نے یہ بیان کیا ہے کہ اس نے آپ کے چچا سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کو اپنا کرتا دیا تھا جب وہ مدینے میں آئے تھے } تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا بدلہ چکا دیا ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1350) ہاں ایک حدیث میں ہے کہ { مومن کے سوا کسی اور کی ہم نشینی نہ کر اور اپنا کھانا بجز پرہیزگاروں کے اور کسی کو نہ کھلا۱ } ؎ (سنن ابوداود:4832،قال الشیخ الألبانی:حسن) اسے اس بدلے کے خلاف نہ سمجھنا چاہیئے ، ہو سکتا ہے کہ حدیث کا یہ حکم بطور پسندیدگی اور افضیلت کے ہو ، «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ’ پاک دامن مومن عورتوں سے نکاح کرنا تمہارے لیے حلال کر دیا گیا ہے ‘ یہ بطور تمہید کے ہے اسی لیے اس کے بعد ہی فرمایا کہ ’ تم سے پہلے جنہیں کتاب دی گئی ہے ان کی عفیفہ عورتوں سے بھی نکاح تمہیں حلال ہے ‘ ۔ یہ قول بھی ہے کہ مراد «مُحْصَنَاتُ» سے آزاد عورتیں ہیں یعنی لونڈیاں نہ ہوں ۔ یہ قول مجاہد رحمہ اللہ کی طرف منسوب ہے اور مجاہد رحمہ اللہ کے الفاظ یہ ہیں کہ ” «مُحْصَنَاتُ» سے آزاد مراد ہیں “ اور جب یہ ہے تو جہاں اس قول کا وہ مطلب لیا جا سکتا ہے کہ لونڈیاں اس سے خارج ہیں وہاں یہ معنی بھی لیے جا سکتے ہیں کہ پاک دامن عفت شعار ، جیسے کہ انہی سے دوسری روایت ان ہی لفظوں میں موجود ہے ۔ جمہور بھی کہتے ہیں اور یہ زیادہ ٹھیک بھی ہے ۔ تاکہ ذمیہ ہونے کے ساتھ ہی غیر عفیفہ ہونا شامل ہو کر بالکل ہی باعث فساد نہ بن جائے اور اس کا خاوند صرف فضول بھرتی کے طور پر بری رائے پر نہ چل پڑے پس بظاہر یہی ٹھیک معلوم ہوتا ہے کہ «مُحْصَنَاتُ» سے مراد عفت مآب اور بدکاری سے بچاؤ والیاں ہی لی جائیں ، جیسے دوسری آیت میں «وَالْمُحْصَنَاتُ» کے ساتھ ہی آیت «مُحْصَنَاتٍ غَیْرَ مُسَافِحَاتٍ وَلَا مُتَّخِذَاتِ أَخْدَانٍ» ۱؎ (4-النساء:25) آیا ہے ۔ علماء اور مفسرین کا اس میں بھی اختلاف ہے کہ کیا آیت ہر کتابیہ عفیفہ عورت پر مشتمل ہے ؟ خواہ وہ آزاد ہو خواہ لونڈی ہو ؟ ابن جریر میں سلف کی ایک جماعت سے اسے نقل کیا ہے جو کہتے ہیں کہ «مُحْصَنَاتُ» سے مراد پاک دامن ہے ۔ ایک قول یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہاں مراد اہل کتاب سے اسرائیلی عورتیں ہیں ، امام شافعی رحمہ اللہ کا یہی مذہب ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد ذمیہ عورتیں ہیں سوائے آزاد عورتوں کے اور دلیل یہ آیت ہے «قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَلَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَلَا یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ وَلَا یَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ حَتّٰی یُعْطُوا الْجِزْیَۃَ عَنْ یَّدٍ وَّہُمْ صٰغِرُوْنَ» ۱؎ (9-التوبۃ:29) ، یعنی ’ ان سے لڑو جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان نہیں لاتے ‘ ۔ چنانچہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نصرانیہ عورتوں سے نکاح کرنا جائز نہیں جانتے تھے اور فرماتے تھے ” اس سے بڑا شرک کیا ہو گا ؟ کہ وہ کہتی ہو کہ اس کا رب عیسیٰ [ علیہ السلام ] ہے اور جب یہ مشرک ٹھہریں تو نص قرآنی موجود ہے کہ آیت «وَلَا تَنْکِحُوا الْمُشْرِکٰتِ حَتّٰی یُؤْمِنَّ وَلَاَمَۃٌ مٰؤْمِنَۃٌ خَیْرٌ مِّنْ مٰشْرِکَۃٍ وَّلَوْ اَعْجَبَـتْکُمْ وَلَا تُنْکِحُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَتّٰی یُؤْمِنُوْا» ۱؎ (2-البقرۃ:221) ، یعنی ’ مشرکہ عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک کہ وہ ایمان نہ لائیں ‘ ۔ ابن ابی حاتم میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب مشرکہ عورتوں سے نکاح نہ کرنے کا حکم نازل ہوا تو صحابہ رضی اللہ عنہم ان سے رک گئے یہاں تک کہ اس کے بعد کی آیت اہل کتاب کی پاکدامن عورتوں سے نکاح کرنے کی رخصت نازل ہوئی تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے اہل کتاب عورتوں سے نکاح کئے اور صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت سے ایسے نکاح اسی آیت کو دلیل بنا کر کرنے ثابت ہیں تو گویا پہلے سورۃ البقرہ کی آیت کی ممانعت میں یہ داخل تھیں لیکن دوسری آیت نے انہیں مخصوص کر دیا ۔ یہ اس وقت جب یہ مان لیا جائے کہ ممانعت والی آیت کے حکم میں یہ بھی داخل تھیں ورنہ ان دونوں آیتوں میں کوئی معارض نہیں ، اس لیے کہ اور بھی بہت سی آیتوں میں عام مشرکین سے انہیں الگ بیان کیا گیا ہے جیسے آیت «‏‏‏‏لَمْ یَکُنِ الَّذِینَ کَفَرُوا» ۱؎ (98-البینۃ:1) اور «وَقُلْ لِّلَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ وَالْاُمِّیّٖنَ ءَاَسْلَمْتُمْ فَاِنْ اَسْلَمُوْا فَقَدِ اھْتَدَوْا» ‏‏‏‏ ۱؎ (3-آل عمران:20) ۔ پھر فرماتا ہے ’ جب تم انہیں ان کے مقررہ مہر دے دو وہ اپنے نفس کو بچانے والیاں ہوں اور تم ان کے مہر ادا کرنے والے ہو ‘ ۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ عامر شعبی ابراہیم نخعی حسن بصری رحمۃ اللہ علیہم کا فتویٰ ہے کہ جب کسی شخص نے کسی عورت سے نکاح کیا اور دخول سے پہلے اس نے بدکاری کی تو میاں بیوی میں تفریق کرا دی جائے گی اور جو مہر خاوند نے عورت کو دیا ہے اسے واپس دلوایا جائے گا ۔ (ابن جریر) پھر فرماتا ہے ’ تم بھی پاک دامن عفت مآب ہو اور علانیہ یا پوشیدہ بدکار نہ ہوؤ ‘ ۔ پس عورتوں میں جس طرح پاک دامن اور عفیفہ ہونے کی شرط لگائی تھی مردوں میں بھی یہی شرط لگائی اور ساتھ ہی فرمایا کہ وہ کھلے بدکار نہ ہوں کہ ادھر ادھر منہ مارتے پھرتے ہوں اور نہ ایسے ہوں کہ خاص تعلق سے حرام کاری کرتے ہوں ۔ سورۃ نساء میں بھی اسی کے تماثل حکم گزر چکا ہے ۔ حضرت امام احمد رحمہ اللہ اسی طرف گئے ہیں کہ ” زانیہ عورتوں سے توبہ سے پہلے ہرگز کسی بھلے آدمی کو نکاح کرنا جائز نہیں “ ، اور یہی حکم ان کے نزدیک مردوں کا بھی ہے کہ ” بدکار مردوں کا نکاح نیک کار عفت شعار عورتوں سے بھی نا جائز ہے جب تک وہ سچی توبہ نہ کریں اور اس رذیل فعل سے باز نہ آ جائیں “ ۔ ان کی دلیل ایک حدیث بھی ہے جس میں ہے { کوڑے لگایا ہوا زانی اپنے جیسی سے ہی نکاح کر سکتا ہے } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2052،قال الشیخ الألبانی:صحیح) خلیفتہ المؤمنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ ” میں ارادہ کر رہا ہوں کہ جو مسلمان کوئی بدکاری کرے میں اسے ہرگز کسی مسلمان پاک دامن عورت سے نکاح نہ کرنے دوں “ ۔ اس پر سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ ” اے امیر المؤمنین شرک اس سے بہت بڑا ہے اس کے باوجود بھی اس کی توبہ قبول ہے “ ۔ اس مسئلے کو ہم آیت «اَلزَّانِیْ لَا یَنْکِحُ اِلَّا زَانِیَۃً اَوْ مُشْرِکَۃً ۡ وَّالزَّانِیَۃُ لَا یَنْکِحُہَآ اِلَّا زَانٍ اَوْ مُشْرِکٌ وَحُرِّمَ ذٰلِکَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ» ۱؎ (24-النور:3) ، کی تفسیر میں پوری طرح بیان کریں گے ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ آیت کے خاتمہ پر ارشاد ہوتا ہے کہ ’ کفار کے اعمال اکارت ہیں اور وہ آخرت میں نقصان یافتہ ہیں ‘ ۔ المآئدہ
6 وضو اور غسل کے احکامات اکثر مفسرین نے کہا ہے کہ حکم وضو اس وقت ہے جب کہ آدمی بے وضو ہو ۔ ایک جماعت کہتی ہے جب تم کھڑے ہو یعنی نیند سے جاگو یہ دونوں قول تقریباً ایک ہی مطلب کے ہیں اور حضرات فرماتے ہیں آیت تو عام ہے اور اپنے عموم پر ہی رہے گی لیکن جو بے وضو ہو اس پر وضو کرنے کا حکم وجوباً ہے اور جو با وضو ہو اس پر استحباباً ۔ ایک جماعت کا خیال ہے کہ ابتداء اسلام میں ہر صلٰوۃ کے وقت وضو کرنے کا حکم تھا پھر منسوخ ہو گیا ۔ مسند احمد وغیرہ میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کیلئے تازہ وضو کیا کرتے تھے ، فتح مکہ والے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور جرابوں پر مسح کیا اور اسی ایک وضو سے کئی نمازیں ادا کیں ، یہ دیکھ کر سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آج آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کام کیا جو آج سے پہلے نہیں کرتے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ہاں میں نے بھول کر ایسا نہیں کیا بلکہ جان بوجھ کر قصداً یہ کیا ہے } } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:277) ابن ماجہ وغیرہ میں کہ { جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ ایک وضو سے کئی نمازیں پڑھا کرتے تھے ہاں پیشاب کریں یا وضو ٹوٹ جائے تو نیا وضو کر لیا کرتے اور وضو ہی کے بچے ہوئے پانی سے جرابوں پر مسح کر لیا کرتے ۔ یہ دیکھ کر فضل بن مبشر نے سوال کیا کہ کیا آپ اسے اپنی رائے سے کرتے ہیں ؟ فرمایا ” نہیں بلکہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرتے دیکھا ہے “ } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:511،قال الشیخ الألبانی:صحیح) مسند احمد وغیرہ میں ہے کہ { سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو ہر نماز کیلئے تازہ وضو کرتے دیکھ کر خواہ وضو ٹوٹا ہو یا نہ ٹوٹا ہو ان کے صاحبزادے عبیداللہ رحمہ اللہ سے سوال ہوتا ہے کہ اس کی کیا سند ہے ؟ فرمایا اس سے سیدہ اسماء بنت زید بن خطاب رضی اللہ عنہا نے کہا ہے کہ ان سے سیدنا عبداللہ بن حنظلہ رضی اللہ عنہ نے جو فرشتوں کے غسل دئیے ہوئے کے صاحبزادے تھے بیان کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر نماز کیلئے تازہ وضو کرنے کا حکم دیا گیا تھا اس حالت میں وضو باقی ہو تو بھی اور نہ ہو تو بھی ، لیکن اس میں قدرے مشقت معلوم ہوئی تو وضو کے حکم کے بدلے مسواک کا حکم رکھا گیا ہاں جب وضو ٹوٹے تو نماز کیلئے نیا وضو ضروری ہے اسے سامنے رکھ کر سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کا خیال ہے کہ چونکہ انہیں قوت ہے اس لیے وہ ہر نماز کے وقت وضو کرتے ہیں ۔ آخری دم تک آپ کا یہی حال رہا } ۔ «رضی اللہ عنہ وعن والدہ» ۔ ۱؎ (مسند احمد:225/5:قال الشیخ الألبانی:حسن) اس کے ایک راوی محمد بن اسحاق رحمہ اللہ ہیں لیکن چونکہ انہوں نے صراحت کے ساتھ «حدثنا» کہا ہے اس لیے تدلیس کا خوف بھی جاتا رہا ۔ ہاں ابن عساکر کی روایت میں یہ لفظ نہیں «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کے اس فعل اور اس پر ہمیشگی سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ مستحب ضرور ہے اور یہی مذہب جمہور کا ہے ۔ ابن جریر میں ہے کہ خلفاء رضی اللہ عنہم ہر نماز کے وقت وضو کر لیا کرتے تھے ، سیدنا علی رضی اللہ عنہ یوم القیامہ ہر نماز کیلئے وضو کرتے اور دلیل میں یہ آیت تلاوت فرما دیتے ایک مرتبہ آپ رضی اللہ عنہ نے ظہر کی نماز ادا کی پھر لوگوں کے مجمع میں تشریف فرما رہے تھے پھر پانی لایا گیا اور آپ رضی اللہ عنہ نے منہ دھویا ہاتھ دھوئے پھر سر کا مسح کیا اور پھر پیر کا ۔ اور فرمایا ” یہ وضو ہے اس کا جو بے وضو نہ ہوا ہو “ ، ایک مرتبہ آپ رضی اللہ عنہ نے خفیف وضو کر کے بھی یہی فرمایا تھا ۔ سیدنا عمر فاروق رضوان اللہ علیہ سے بھی اسی طرح مروی ہے ۔ ابوداؤد طیالسی میں سعید بن مسیب رحمہ اللہ کا قول ہے کہ وضو ٹوٹے بغیر وضو کرنا زیادتی ہے ۔ اولاً تو یہ فعل سنداً بہت غریب ہے ، دوسرا یہ کہ مراد اس سے وہ شخص ہے جو اسے واجب جانتا ہو اور صرف مستحب سمجھ کر جو ایسا کرے وہ تو عامل بالحدیث ہے ۔ بخاری سنن وغیرہ میں مروی ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کیلئے نیا وضو کرتے تھے ، ایک انصاری نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے یہ سن کر کہا اور آپ لوگ کیا کرتے تھے ؟ فرمایا ایک وضو سے کئی نمازیں پڑھتے تھے جب تک وضو ٹوٹے نہیں } ۱؎ (صحیح بخاری:214) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مروی ہے کہ { جو شخص وضو پر وضو کرے اس کیلئے دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں } ، ترمذی وغیرہ میں بھی یہ روایت ہے ۱؎ (سنن ترمذی:59،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) اور امام ترمذی نے اسے ضعیف کہا ہے ۔ ایک جماعت کہتی ہے کہ آیت سے صرف اتنا ہی مقصود ہے کہ کسی اور کام کے وقت وضو کرنا واجب نہیں صرف نماز کیلئے ہی اس کا وجوب ہے ۔ یہ فرمان اس لیے ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت یہ تھی کہ وضو ٹوٹنے پر کوئی کام نہ کرتے تھے جب تک پھر وضو نہ کر لیں ابن ابی حاتم وغیرہ کی ایک ضعیف غریب روایت میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب پیشاب کا ارادہ کرتے ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بولتے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم جواب نہ دیتے ہم سلام علیک کرتے پھر بھی جواب نہ دیتے یہاں تک کہ یہ آیت رخصت کی اتری } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:11342:ضعیف) ابوداؤد میں ہے کہ { ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیت الخلاء سے نکلے اور کھانا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لایا گیا تو ہم نے کہا اگر فرمائیں تو وضو کا پانی کا حاضر کریں فرمایا : { وضو کا حکم تو مجھے صرف نماز کیلئے کھڑا ہونے کے وقت ہی کیا گیا ہے } } ۔ امام ترمذی اسے حسن بتاتے ہیں ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:3760،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ایک اور روایت میں ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { مجھے کچھ نماز تھوڑا ہی پڑھنی ہے جو میں وضو کروں } } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:374) آیت کے ان الفاظ سے کہ ’ جب تم نماز کیلئے کھڑے ہو تو وضو کر لیا کرو ‘ علماء کرام کی ایک جماعت نے استدلال کیا ہے کہ وضو میں نیت واجب ہے ، مطلب کلام اللہ شریف کا یہ ہے کہ نماز کیلئے وضو کر لیا کرو ۔ جیسے عرب میں کہا جاتا ہے ، جب تو امیر کو دیکھے تو کھڑا ہو جا تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ امیر کیلئے کھڑا ہو جا ۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے { اعمال کا دارومدار نیت پر ہے اور ہر شخص کیلئے صرف وہی ہے جو وہ نیت کرے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1) اور منہ کے دھونے سے پہلے وضو میں «بِسْمِ اللہِ » کہنا مستحب ہے ۔ کیونکہ ایک پختہ اور بالکل صحیح حدیث میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اس شخص کا وضو نہیں جو اپنے وضو میں «بِسْمِ اللہِ » نہ کہے } } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:101 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) [ حدیث کے ظاہری الفاظ تو نیت کی طرح «بِسْمِ اللہِ » کہنے پر بھی وجوب کی دلالت کرتے ہیں «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ مترجم ] یہ بھی یاد رہے کہ وضو کے پانی کے برتن میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے کا ان کا دھو لینا مستحب ہے اور جب نیند سے اٹھا ہو تب تو سخت تاکید آتی ہے بخاری و مسلم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مروی ہے کہ { تم میں سے کوئی نیند سے جاگ کر برتن میں ہاتھ نہ ڈالے جب تک کہ تین مرتبہ دھو نہ لے ، اسے نہیں معلوم کہ اس کے ہاتھ رات کے وقت کہاں رہے ہوں ؟ } ۱؎ (صحیح بخاری:162) منہ کی حد فقہاء کے نزدیک لمبائی میں سر کے بالوں کی اگنے کی جو جگہ عموماً ہے وہاں سے داڑھی کی ہڈی اور تھوڑی تک ہے اور چوڑائی میں ایک کان سے دوسرے کان تک ۔ اس میں اختلاف ہے کہ دونوں جانب کی پیشانی کے اڑے ہوئے بالوں کی جگہ سر کے حکم میں ہے یا منہ کے ؟ اور داڑھی کے لٹکتے ہوئے بالوں کا دھونا منہ کے دھونے کی فرضیت میں داخل ہے یا نہیں ؟ اس میں دو قول ہیں ، ایک تو یہ کہ ان پر پانی کا بہانا واجب ہے اس لیے کہ منہ سامنے کرنے کے وقت اس کا بھی سامنا ہوتا ہے ۔ ایک حدیث میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو داڑھی ڈھانپے ہوئے دیکھ کر فرمایا : { اسے کھول دے یہ بھی منہ میں داخل ہے } } ۔ ۱؎ (سلسلۃ احادیث ضعیفہ البانی:5754:ضعیف) مجاہد رحمۃ اللہ فرماتے ہیں ” عرب کا محاورہ بھی یہی ہے کہ جب بچے کے داڑھی نکلتی ہے تو وہ کہتے ہیں «طَلَعَ وَجْہُہُ» “ ۔ پس معلوم ہوتا ہے کہ کلام عرب میں داڑھی منہ کے حکم میں ہے اور لفظ «وَجْہُہُ» میں داخل ہے ۔ داڑھی گھنی اور بھری ہوئی ہو تو اس کا خلال کرنا بھی مستحب ہے ۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے وضو کا ذکر کرتے ہوئے راوی کہتا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے منہ دھوتے وقت تین دفعہ داڑھی کا خلال کیا ۔ پھر فرمایا ” جس طرح تم نے مجھے کرتے دیکھا اسی طرح میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کرتے دیکھا ہے “ ۱؎ (سنن ترمذی:31،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اس روایت کو امام بخاری اور امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہم حسن بتاتے ہیں ۔ ابوداؤد میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وضو کرتے وقت ایک چلو پانی لے کر اپنی تھوڑی تلے ڈال کر اپنی داڑھی مبارک کا خلال کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ { مجھے میرے رب عزوجل نے اسی طرح حکم فرمایا ہے } } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:145،قال الشیخ الألبانی:صحیح) حضرت امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” داڑھی کا خلال کرنا سیدنا عمار ، سیدہ عائشہ ، سیدہ ام سلمہ ، سیدنا علی رضی اللہ عنہم سے مروی ہے ، اور اس کے ترک کی رخصت ابن عمر ، حسن بن علی رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمۃ اللہ علیہم کی ایک جماعت سے مروی ہے “ ۔ صحاح وغیرہ میں مروی ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب وضو کرتے بیٹھتے کلی کرتے اور ناک میں پانی دیتے } ۔ ائمہ کا اس میں اختلاف ہے کہ یہ دونوں وضو اور غسل میں میں واجب ہیں یا مستحب ؟ امام احمد بن حنبل کا مذہب تو وجوب کا ہے اور امام شافعی اور امام مالک مستحب کہتے ہیں ان کی دلیل سنن کی وہ صحیح حدیث ہے جس میں جلدی جلدی نماز پڑھنے والے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا مروی ہے کہ { وضو کر جس طرح اللہ نے تجھے حکم دیا ہے } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:857،قال الشیخ الألبانی:صحیح) امام حنیفہ رحمۃ اللہ کا مسلک یہ ہے کہ غسل میں واجب اور وضو میں نہیں ، ایک روایت امام احمد رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ ناک میں پانی دینا تو واجب اور کلی کرنا مستحب ، کیونکہ بخاری و مسلم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے { جو وضو کرے وہ ناک میں پانی ڈالے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:161) اور روایت میں ہے { تم میں سے جو وضو کرے وہ اپنے دونوں نتھنوں میں پانی ڈالے اور اچھی طرح وضو کرے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:162) مسند احمد اور بخاری میں ہے { سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ وضو کرنے بیٹھے تو منہ دھویا ایک چلو پانی کا لے کر کلی کی اور ناک کو صاف کیا پھر ایک چلو لے کر داہنا ہاتھ دھویا پھر ایک چلو لے کر اسی سے بایاں ہاتھ دھویا ۔ پھر اپنے سر کا مسح کیا ۔ پھر پانی کا ایک چلو لے کر اپنے داہنے پاؤں پر ڈال کر اسے دھویا پھر ایک چلو سے بایاں پاؤں دھویا ۔ پھر فرمایا میں نے اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح وضو کرتے دیکھا ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:140) «إِلَی الْمَرَافِقِ» سے مراد «مَـعَ الْمَرَافِقِ» ہے ، جیسے فرمان ہے آیت «وَلَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَھُمْ اِلٰٓی اَمْوَالِکُمْ ۭ اِنَّہٗ کَانَ حُوْبًا کَبِیْرًا» ۱؎ (4-النساء:2) یعنی ’ یتیموں کے مالوں کو اپنے مالوں سمیت نہ کھا جایا کرو یہ بڑا ہی گناہ ہے ‘ ۔ اسی طرح یہاں بھی ہے کہ ہاتھوں کو کہنیوں تک نہیں ، بلکہ کہنیوں سمیت دھونا چاہیئے ۔ دارقطنی وغیرہ میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وضو کرتے ہوئے اپنی کہنیوں پر پانی بہاتے تھے } ۔ ۱؎ (سلسلۃ احادیث صحیحہ البانی:2067:صحیح) لیکن اس کے دو راویوں میں کلام ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» وضو کرنے والے کیلئے مستحب ہے کہ کہنیوں سے آگے اپنے شانے کو بھی وضو میں دھوئے کیونکہ بخاری مسلم میں حدیث ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { میری امت وضو کے نشانوں کی وجہ سے قیامت کے دن چمکتے ہوئے اعضاؤں سے آئے گی پس تم میں سے جس سے وہ ہو سکے وہ اپنی چمک کو دور تک لے جائے} ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:136) صحیح مسلم میں ہے { مومن کو وہاں تک زیور پہنائے جائیں گے جہاں تک اس کے وضو کا پانی پہنچتا تھا } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:250) «بِرُءُوسِکُمْ» میں جواب ہے اس کا الحاق یعنی ملا دینے کیلئے ہونا تو زیادہ غالب ہے اور تبعیض یعنی کچھ حصے کیلئے ہونا تامل طلب ہے ۔ بعض اصولی حضرات فرماتے ہیں چونکہ آیت میں اجمال ہے اس لیے سنت نے جو اس کی تفصیل کی ہے وہی معتبر ہے اور اسی کی طرف لوٹنا پڑے گا ۔ عبداللہ بن زید بن عاصم صحابی رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے کہا ” آپ رضی اللہ عنہ وضو کر کے ہمیں بتلائیے “ ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے پانی منگوایا اور اپنے دونوں ہاتھ دو دو دفعہ دھوئے ، پھر تین بار کلی کی اور ناک میں پانی دیا ، تین ہی دفعہ اپنا منہ دھویا ، پھر کہنیوں سمیت اپنے دونوں ہاتھ دو مرتبہ دھوئے ، پھر دونوں ہاتھ سے سر کا مسح کیا سر کے ابتدائی حصے سے گدی تک لے گئے ، پھر وہاں سے یہیں تک واپس لائے ، پھر اپنے دونوں پیر دھوئے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:185) سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کا طریقہ اسی طرح منقول ہے ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:49،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابوداؤد میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح مروی ہے ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:121،قال الشیخ الألبانی:صحیح) یہ حدیثیں دلیل ہیں اس پر کہ پورے سر کا مسح فرض ہے ۔ یہی مذہب امام مالک رحمۃ اللہ اور امام احمد رحمۃ اللہ کا ہے اور یہی مذہب ان تمام حضرات کا ہے جو آیت کو مجمل مانتے ہیں اور حدیث کو اس کی وضاحت جانتے ہیں ۔ حنیفوں کا خیال ہے کہ چوتھائی سر کا مسح فرض ہے جو سر کا ابتدائی حصہ ہے اور ہمارے ساتھی کہتے ہیں کہ فرض صرف اتنا ہے جتنے پر مسح کا اطلاق ہو جائے ، اس کی کوئی حد نہیں ۔ سر کے چند بالوں پر بھی مسح ہو گیا تو فرضیت پوری ہو گئی ۔ ان دونوں جماعتوں کی دلیل مغیرہ بن شعبہ والی حدیث ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پیچھے رہ گئے اور میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پیچھے رہ گیا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کر چکے تو مجھ سے پانی طلب کیا میں لوٹا لے آیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں پہنچے دھوئے پھر منہ دھویا پھر کلائیوں پر سے کپڑا ہٹایا اور پیشانی سے ملے ہوئے بالوں اور پگڑی پر مسح کیا اور دونوں جرابوں پر بھی } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:274) اس کا جواب امام احمد رحمۃ اللہ اور ان کے ساتھی یہ دیتے ہیں کہ سر کے ابتدائی حصہ پر مسح کر کے باقی پگڑی پر پورا کر لیا اور اس کی بہت سی مثالیں احادیث میں ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صافے پر اور جرابوں پر برابر مسح کیا کرتے تھے ، پس یہی اولیٰ ہے اور اس میں ہرگز اس بات پر کوئی دلالت نہیں کہ سر کے بعض حصے پر یا صرف پیشانی کے بالوں پر ہی مسح کر لے اور اس کی تکمیل پگڑی پر نہ ہو ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ پھر اس میں بھی اختلاف ہے کہ سر کا مسح بھی تین بار ہو یا ایک ہی بار ؟ امام شافعی رحمۃ اللہ کا مشہور مذہب اول ہے اور امام احمد رحمۃ اللہ اور ان کے متبعین کا دوم ۔ دلائل یہ ہیں : { سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ وضو کرنے بیٹھتے ہیں اپنے دونوں ہاتھوں پر تین بار پانی ڈالتے ہیں ، انہیں دھو کر پھر کلی کرتے ہیں اور ناک میں پانی دیتے ہیں ، پھر تین مرتبہ منہ دھوتے ہیں ، پھر تین تین بار دونوں ہاتھو کہنیوں سمیت دھوتے ہیں ، پہلے دایاں پھر بایاں ۔ پھر اپنے سر کا مسح کرتے ہیں پھر دونوں پیر تین تین بار دھوتے ہیں پہلے داہنا پھر بایاں ۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح وضو کرتے دیکھا “ اور وضو کے بعد آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” جو شخص میرے اس وضو جیسا وضو کرے پھر دو رکعت نماز ادا کرے جس میں دل سے باتیں نہ کرے تو اس کے تمام سابقہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں“ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:159) سنن ابی داؤد میں اسی روایت میں سر کے مسح کرنے کے ساتھ ہی یہ لفظ بھی ہیں کہ { سر کا مسح ایک مرتبہ کیا } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:108،قال الشیخ الألبانی:حسن صحیح) سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح مروی ہے ، ۱؎ (سنن ابوداود:111،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اور جن لوگوں نے سر کے مسح کو بھی تین بار کہا ہے انہوں نے حدیث سے دلیل لی ہے ۔ جس میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین تین بار اعضاء وضو کو دھویا } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:230) سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے وضو کیا پھر اسی طرح روایت ہے اور اس میں کلی کرنی اور ناک میں پانی دینے کا ذکر نہیں اور اس میں ہے کہ پھر آپ نے تین مرتبہ سر کا مسح کیا اور تین مرتبہ اپنے دونوں پیر دھوئے ۔ پھر فرمایا { میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے دیکھا اور آپ نے فرمایا جو ایسا وضو کرے اسے کافی ہے } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:107،قال الشیخ الألبانی:صحیح) لیکن سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے جو حدیثیں صحاح میں مروی ہیں ان سے تو سر کا مسح ایک بار ہی ثابت ہوتا ہے ۔ «أَرْجُلَکُمْ» لام کی زبر سے عطف ہے جو «وُجُوہِکُمْ وَأَیْدِیکُم» پر ماتحت ہے دھونے کے حکم کے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ یونہی پڑھتے تھے اور یہی فرماتے تھے ، ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:55/10) سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ، حضرت عروہ رضی اللہ عنہ ، عطاء ، عکرمہ ، حسن ، مجاہد ، ابراہیم ، ضحاک ، سدی ، مقاتل بن حیان ، زہری ، ابراہیم تیمی رحمۃ اللہ علیہم وغیرہ کا یہی قول ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:54/10) اور یہی قرأت ہے ، اور یہ بالکل ظاہر ہے کہ پاؤں دھونے چاہئیں ، یہی سلف کا فرمان ہے اور یہیں سے جمہور نے وضو کی ترتیب کے وجوب پر استدلال کیا ہے ۔ صرف ابوحنیفہ رحمۃ اللہ اس کے خلاف ہیں ، وہ وضو میں ترتیب کو شرط نہیں جانتے ۔ ان کے نزدیک اگر کوئی شخص پہلے پیروں کو دھوئے پھر سر کا مسح کرے پھر ہاتھ دھوئے پھر منہ دھوئے جب بھی جائز ہے اس لیے کہ آیت نے ان اعضاء کے دھونے کا حکم دیا ہے ۔ واؤ کی دلالت ترتیب پر نہیں ہوتی ۔ اس کے جواب جمہور نے کئی ایک دیئے ہیں ، ایک تو یہ کہ ” ف “ ترتیب پر دلالت کرتی ہے ، آیت کے الفاظ میں نماز پڑھنے والے کو منہ دھونے کا حکم لفظ «فَاغْسِلُوا» سے ہوتا ہے ۔ تو کم از کم منہ کا اول اول دھونا تو لفظوں سے ثابت ہوگیا اب اس کے بعد کے اعضاء میں ترتیب اجماع سے ثابت ہے جس میں اختلاف نظر نہیں آتا ۔ پھر جبکہ ” ف “ جو تعقیب کیلئے ہے اور جو ترتیب کی مقتضی ہے ایک پر داخل ہو چکی تو اس ایک کی ترتیب مانتے ہوئے دوسری کی ترتیب کا انکار کوئی نہیں کرتا بلکہ تو سب کی ترتیب کے قائل ہیں یا کسی ایک کی بھی ترتیب کے قائل نہیں ۔ پس یہ آیت ان پر یقیناً حجت ہے جو سرے سے ترتیب کے منکر ہیں ، دوسرا جواب یہ ہے کہ واؤ ترتیب پر دلالت نہیں کرتا اسے بھی ہم تسلیم نہیں کرتے بلکہ وہ ترتیب پر دلالت کرتا ہے جیسے کہ نحویوں کی ایک جماعت کا اور بعض فقہاء کا مذہب ہے پھر یہ چیز بھی قابل غور ہے کہ بالفرض لغتاً اس کی دلالت پر ترتیب پر نہ بھی ہو تاہم شرعاً تو جن چیزوں میں ترتیب ہو سکتی ہے ان میں اس کی دلالت ترتیب پر ہوتی ہے ۔ چنانچہ صحیح مسلم شریف میں حدیث ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت اللہ شریف کا طواف کرکے باب صفا سے نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم آیت «اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَایِٕرِاللّٰہِ فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ اَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِہِمَا وَمَنْ تَـطَوَّعَ خَیْرًا فَاِنَّ اللّٰہَ شَاکِـرٌ عَلِــیْمٌ» ۱؎ (2-البقرۃ:158) کی تلاوت کر رہے تھے اور فرمایا { میں اسی سے شروع کروں گا جسے اللہ نے پہلے بیان فرمایا } ، چنانچہ صفا سے سعی شروع کی } ۱؎ (صحیح مسلم:1218) ، نسائی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم دینا بھی مروی ہے کہ { اس سے شروع کرو جس سے اللہ تعالیٰ نے شروع کیا } ۔ ۱؎ (سنن نسائی:2965،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اس کی اسناد بھی صحیح ہے اور اس میں امر ہے ۔ پس معلوم ہوا کہ جس کا ذکر پہلے ہو اسے پہلے کرنا اور اس کے بعد اسے جس کا ذکر بعد میں ہو کرنا واجب ہے ۔ پس صاف ثابت ہو گیا کہ ایسے مواقع پر شرعاً ترتیب مراد ہوتی ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» تیسری جماعت جواباً کہتی ہے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھونے کے حکم اور پیروں کو دھونے کے حکم کے درمیان سر کے مسح کے حکم کو بیان کرنا اس امر کی صاف دلیل ہے کہ مراد ترتیب کو باقی رکھنا ہے ، ورنہ نظم کلام کو یوں الٹ پلٹ نہ کیا جاتا ۔ ایک جواب اس کا یہ بھی ہے کہ ابوداؤد وغیرہ میں صحیح سند سے مروی ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعضاء وضو کو ایک ایک بار دھو کر وضو کیا پھر فرمایا یہ وضو ہے کہ جس کے بغیر اللہ تعالیٰ نے نماز کو قبول نہیں کرتا } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:419،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) اب دو صورتیں ہیں یا تو اس وضو میں ترتیب تھی یا نہ تھی ؟ اگر کہا جائے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ وضو مرتب تھا یعنی باقاعدہ ایک کے پیچھے ایک عضو دھویا تھا تو معلوم ہوا کہ جس وضو میں تقدیم تاخیر ہو اور صحیح طور پر ترتیب نہ ہو وہ نماز نامقبول لہٰذا ترتیب واجب و فرض اور اگر یہ مان لیا جائے کہ اس وضو میں ترتیب نہ تھی بلکہ بے ترتیب تھا ، پیر دھو لیے پھر کلی کر لی پھر مسح کر لیا پھر منہ دھو لیا وغیرہ تو عدم ترتیب واجب ہو جائے گی حالانکہ اس کا قائل امت میں سے ایک بھی نہیں پس ثابت ہو گیا کہ وضو میں ترتیب فرض ہے ۔ آیت کے اس جملے کی ایک قرأت اور بھی ہے یعنی «وَاَرْجُـلِـکُمْ» لام کے زیر سے اور اسی سے شیعہ نے اپنے اس قول کی دلیل لی ہے کہ پیروں پر مسح کرنا واجب ہے کیونکہ ان کے نزدیک اس کا عطف سر کے مسح کرنے پر ہے ۔ بعض سلف سے بھی کچھ ایسے اقوال مروی ہیں جن سے مسح کے قول کا وہم پڑتا ہے ۔ چنانچہ ابن جریر میں ہے کہ موسیٰ بن انس نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے لوگوں کی موجودگی میں کہا کہ حجاج نے اہواز میں خطبہ دیتے ہوئے طہارت اور وضو کے احکام میں کہا کہ منہ ہاتھ دھوؤ اور سر کا مسح کرو اور پیروں کو دھویا کرو عموماً پیروں پر ہی گندگی لگتی ہے ۔ پس تلوؤں کو اور پیروں کی پشت کو اور ایڑی کو خوب اچھی طرح دھویا کرو ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے جواباً کہا کہ اللہ سچا ہے اور حجاج جھوٹا ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہےآیت «وَامْسَحُوا بِرُءُوسِکُمْ وَأَرْجُلَکُمْ» (المائدہ:6) اور سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی عادت تھی کہ پیروں کا جب مسح کرتے انہیں بالکل بھگو لیا کرتے ، آپ رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے کہ قرآن کریم میں پیروں پر مسح کرنے کا حکم ہے ، ہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پیروں کا دھونا ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وضو میں دو چیزوں کا دھونا ہے اور دو پر مسح کرنا ۔ قتادہ رحمۃ اللہ سے بھی یہی مروی ہے ۔ ابن ابی حاتم میں سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آیت میں پیروں پر مسح کرنے کا بیان ہے ۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ ، علقمہ ، ابو جعفر ، محمد بن علی رحمۃ اللہ علیہم اور ایک روایت میں حسن اور جابر بن زید رحمۃ اللہ علیہم اور ایک روایت میں مجاہد رحمۃ اللہ سے بھی اسی طرح مروی ہے ۔ حضرت عکرمہ رحمۃ اللہ اپنے پیروں پر مسح کر لیا کرتے تھے شعبی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ جبرائیل کی معرفت مسح کا حکم نازل ہوا ہے ، آپ رحمہ اللہ سے یہ بھی مروی ہے کہ ” کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ جن چیزوں کے دھونے کا حکم تھا ان پر تو تیمم کے وقت مسح کا حکم رہا اور جن چیزوں پر مسح کا حکم تھا تیمم کے وقت انہیں چھوڑ دیا گیا “ ۔ عامر رحمۃ اللہ سے کسی نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں جبرائیل علیہ السلام پیروں کے دھونے کا حکم لائے ہیں آپ رحمہ اللہ نے فرمایا ” جبرائیل علیہ السلام مسح کے حکم کے ساتھ نازل ہوئے تھے “ ۔ پس یہ سب آثار بالکل غریب ہیں اور محمول ہیں اس امر پر کہ مراد مسح سے ان بزرگوں کی ہلکا دھونا ہے ، کیونکہ سنت سے صاف ثابت ہے کہ پیروں کا دھونا واجب ہے ۔ یاد رہے کہ زیر کی قرأت یا تو مجاورت اور تناسب کلام کی وجہ سے ہے جیسے عرب کا کلام «حُجْرُ ضَبِّ خربٍ» میں اور اللہ کے کلام آیت «عٰلِیَہُمْ ثِیَابُ سُـنْدُسٍ خُضْرٌ وَّاِسْتَبْرَقٌ» ‏‏‏‏ ۱؎ (76-الإنسان:21) میں لغت میں عرب میں پاس ہونے کی وجہ سے دونوں لفظوں کو ایک ہی اعراب دے دینا یہ اکثر پایا گیا ہے ۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے اس کی ایک توجیہہ یہ بھی بیان کی ہے کہ یہ حکم اس وقت ہے جب پیروں پر جرابیں ہوں بعض کہتے ہیں مراد مسح سے ہلکا دھو لینا ہے جیسے کہ بعض روایتوں میں سنت سے ثابت ہے ۔ الغرض پیروں کا دھونا فرض ہے جس کے بغیر وضو نہ ہو گا ۔ آیت بھی یہی ہے اور احادیث میں بھی یہی ہے جیسے کہ اب ہم انہیں وارد کریں گے ، ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ بیہقی میں ہے { سیدنا علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ ظہر کی نماز کے بعد بیٹھک میں بیٹھے رہے پھر پانی منگوایا اور ایک چلو سے منہ کا ، دونوں ہاتھوں سر کا اور دونوں پیروں کا مسح کیا اور کھڑے ہو کر بچا ہوا پانی پی لیا پھر فرمانے لگے کہ { لوگ کھڑے کھڑے پانی پینے کو مکروہ کہتے ہیں اور میں نے جو کیا یہی کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے اور فرمایا یہ وضو ہے اس کا جو بے وضو نہ ہوا ہو } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5615) شعیوں میں سے جن لوگوں نے پیروں کو مسح اسی طرح قرار دیا جس طرح جرابوں پر مسح کرتے ہیں ان لوگوں نے یقیناً غلطی کی اور لوگوں کو گمراہی میں ڈالا ۔ اسی طرح وہ لوگ بھی خطا کار ہیں جو مسح اور دھونا دونوں کو جائز قرار دیتے ہیں اور جن لوگوں نے امام ابن جریر رحمہ اللہ کی نسبت یہ خیال کیا ہے کہ انہوں نے احادیث کی بناء پر پیروں کے دھونے کو اور آیت قرآنی کی بنا پر پیروں کے مسح کو فرض قرار دیا ہے ۔ ان کی تحقیق بھی صحیح نہیں ، تفسیر ابن جریر ہمارے ہاتھوں میں موجود ہے ان کے کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ پیروں کو رگڑنا واجب ہے اور اعضاء میں یہ واجب نہیں کیونکہ پیر زمین کی مٹی وغیرہ سے رگڑتے رہتے ہیں تو ان کو دھونا ضروری ہے تاکہ جو کچھ لگا ہو ہٹ جائے لیکن اس رگڑنے کیلئے مسح کا لفظ لائے ہیں اور اسی سے بعض لوگوں کو شبہ ہو گیا ہے اور وہ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ مسح اور غسل جمع کر دیا ہے حالانکہ دراصل اس کے کچھ معنی ہی نہیں ہوتے مسح تو غسل میں داخل ہے چاہے مقدم ہو چاہے مؤخر ہو ۔ پس حقیقتاً امام صاحب کا ارادہ یہی ہے جو میں نے ذکر کیا اور اس کو نہ سمجھ کر اکثر فقہاء نے اسے مشکل جان لیا ، میں نے مکرر غور و فکر کیا تو مجھ پر صاف طور سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ امام صاحب دونوں قرأتوں کو جمع کرنا چاہتے ہیں پس زیر کی قرأت یعنی مسح کو تو وہ محمول کرتے ہیں «ذَلِک» پر یعنی اچھی طرح مل رگڑ کر صاف کرنے پر اور زبر کی قرأت کو غسل پر یعنی دھونے پر دلیل ہے ہی پس وہ دھونے اور ملنے دونوں کو واجب کہتے ہیں تاکہ زیر اور زبر کی دونوں قرأتوں پر ایک ساتھ ہو جائے ۔ اب ان احادیث کو سنئے جن میں پیروں کے دھونے کا اور پیروں کے دھونے کے ضروری ہونے کا ذکر ہے امیرالمؤمنین عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ، امیر المؤمنین علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ ، ابن عباس رضی اللہ عنہ ، معاویہ عبداللہ بن زید عاصم مقداد بن معدی کرب رضی اللہ عنہم کی روایات پہلے بیان ہو چکی ہیں کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کرتے ہوئے اپنے پیروں کو دھویا } ، ایک بار یا دو بار یا تین بار ، عمرو بن شعیب کی حدیث میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور اپنے دونوں پیر دھوئے پھر فرمایا یہ وضو ہے جس کے بغیر اللہ تعالیٰ نماز قبول نہیں فرماتا } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:419،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) بخاری و مسلم میں ہے کہ { ایک مرتبہ ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے پیچھے رہ گئے تھے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم آئے تو ہم جلدی جلدی وضو کر رہے تھے کیونکہ عصر کی نماز کا وقت کافی دیر سے ہو چکا تھا ہم نے جلدی جلدی اپنے پیروں پر چھوا چھوئی شروع کردی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت بلند آواز سے فرمایا : { وضو کو کامل اور پورا کرو ایڑیوں کو خرابی سے آگ کے لگنے سے } } ۱؎ (صحیح بخاری:96) ایک اور حدیث میں ہے { ویل ہے ایڑیوں کیلئے اور تلوں کیلئے آگ سے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:191/4:صحیح) اور روایت میں ہے { ٹخنوں کو ویل ہے آگ سے } ۱؎ (سنن ابن ماجہ:454،قال الشیخ الألبانی:صحیح) { ایک شخص کے پیر میں ایک درہم کے برابر جگہ بے دھلی دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { خرابی ہے ایڑیوں کیلئے آگ سے } } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:454،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابن ماجہ وغیرہ میں ہے کہ { کچھ لوگوں کو وضو کرتے ہوئے دیکھ کر جن کی ایڑیوں پر اچھی طرح پانی نہیں پہنچا تھا اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ان ایڑیوں کو آگ سے خرابی ہوگی } } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:11522:صحیح) مسند احمد میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ وارد ہیں ۔ ۱؎ (مسند احمد:426/3:صحیح بالشواہد) ابن جریر میں دو مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ان الفاظ کو کہنا وارد ہے راوی ابوامامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں پھر تو مسجد میں ایک بھی شریف و وضیع ایسا نہ رہا جو اپنی ایڑیوں کو باربار دھو کر نہ دیکھتا ہو ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:11528:ضعیف) اور روایت میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا جس کی ایڑی یا ٹخنے میں بقدر نیم درہم کے چمڑی خشک رہ گئی تھی تو یہی فرمایا } پھر تو یہ حالت تھی کہ اگر ذرا سی جگہ پیر کی کسی خشک رہ جاتی تو وہ پورا وضو پھر سے کرتا ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:11529:ضعیف) پس ان احادیث سے کھلم کھلا ظاہر ہے کہ پیرو کا دھونا فرض ہے ، اگر ان کا مسح فرض ہوتا تو ذرا سی جگہ کے خشک رہ جانے پر اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وعید سے اور وہ بھی جہنم کی آگ کی وعید سے نہ ڈراتے ، اس لیے کہ مسح میں ذرا ذرا اسی جگہ پر ہاتھ کا پہنچانا داخل ہی نہیں ۔ بلکہ پھر تو پیر کے مسح کی وہی صورت ہوتی ہے جو پیر کے اوپر جراب ہونے کی صورت میں مسح کی صورت ہے ۔ یہی چیز امام ابن جریر رحمہ اللہ نے شیعوں کے مقابلہ میں پیش کی ہے صحیح مسلم شریف میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ ایک شخص نے وضو کیا اور اس کا پیر کسی جگہ سے ناخن کے برابر دھلا نہیں خشک رہ گیا تو آپ نے فرمایا { لوٹ جاؤ اور اچھی طرح وضو کرو } } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:243) بیہقی وغیرہ میں بھی یہ حدیث ہے ، ۱؎ (سنن ابن ماجہ:665،قال الشیخ الألبانی:صحیح) مسند میں ہے کہ { ایک نمازی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں دیکھا کہ اس کے پیر میں بقدر درہم کے جگہ خشک رہ گئی ہے تو اسے وضو لوٹانے کا حکم کیا } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:175،قال الشیخ الألبانی:صحیح) سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کا وضو کا طریقہ جو مروی ہے اس میں یہ بھی ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگلیوں کے درمیان خلال بھی کیا } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:230) سنن میں ہے { سیدنا صبرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وضو کی نسبت دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { وضو کامل اور اچھا کرو انگلیوں کے درمیان خلال کرو اور ناک میں پانی اچھی طرح دھو ہاں روزے کی حالت میں ہو تو اور بات ہے } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2366،قال الشیخ الألبانی:صحیح) مسند و مسلم وغیرہ میں ہے { عمرو بن عنبسہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے وضو کی بابت خبر دیجئیے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { جو شخص وضو کا پانی لے کر کلی کرتا ہے اور ناک میں پانی دیتا ہے اس کے منہ سے نتھنوں سے پانی کے ساتھ ہی خطائیں جھڑ جاتی ہیں جبکہ وہ ناک جھاڑتا ہے پھر جب وہ منہ دھوتا ہے جیسا کہ اللہ کا حکم ہے تو اس کے منہ کی خطائیں داڑھی اور داڑھی کے بالوں سے پانی کے گرنے کے ساتھ ہی جھڑ جاتی ہیں پھر وہ اپنے دونوں ہاتھ دھوتا ہے کہنیوں سمیت تو اس کے ہاتھوں کو گناہ اس کی پوریوں کی طرح جھڑ جاتے ہیں ، پھر وہ مسح کرتا ہے تو اس کے سر کی خطائیں اس کے بالوں کے کناروں سے پانی کے ساتھ ہی جھڑ جاتی ہیں پھر جب وہ اپنے پاؤں ٹخنوں سمیت حکم الٰہی کے مطابق دھوتا ہے تو انگلیوں سے پانی ٹپکنے کے ساتھ ہی اس کے پیروں کے گناہ بھی دور ہو جاتے ہیں ، پھر وہ کھڑا ہو کر اللہ تعالیٰ کے لائق جو حمد و ثناء ہے اسے بیان کر کے دو رکعت نماز جب ادا کرتا ہے تو وہ اپنے گناہوں سے ایسا پاک صاف ہو جاتا ہے جیسے وہ تولد ہوا ہو } } ۔ یہ سن کر ابوامامہ رحمہ اللہ نے عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ سے کہا خوب غور کیجئے کہ آپ رضی اللہ عنہ کیا فرما رہے ہیں ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ رضی اللہ عنہ نے اسی طرح سنا ہے ؟ کیا یہ سب کچھ ایک ہی مقام میں انسان حاصل کرلیتا ہے ؟ سیدنا عمرو رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ ابوامامہ میں بوڑھا ہو گیا ہوں ، میری ہڈیاں ضعیف ہو چکی ہیں ، میری موت قریب آ پہنچی ہے ، مجھے کیا فائدہ جو میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولوں ، ایک دفعہ نہیں ، دو دفعہ نہیں ، تین دفعہ نہیں ، میں نے تو اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی سات بار بلکہ اس سے بھی زیادہ سنا ہے ، اس حدیث کی سند بالکل صحیح ہے ۔ ۱؎ (مسند احمد:112/4:صحیح) صحیح مسلم کی دوسری سند والی حدیث میں ہے { پھر وہ اپنے دونوں پاؤں کو دھوتا ہے جیسا کہ اللہ نے اسے حکم دیا ہے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:832) پس صاف ثابت ہوا کہ قرآن حکیم کا حکم پیروں کے دھونے کا ہے ۔ ابواسحاق سبیعی نے سیدنا علی کرم اللہ وجہہ فی الجنہ سے بواسطہ حضرت حارث روایت کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا { دونوں پیر ٹخنوں سمیت دھوؤ جیسے کہ تم حکم کئے گئے ہو } ۔ ۱؎ (بیہقی:71/1:ضعیف) اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جس روایت میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں قدم جوتی میں ہی بھگو لیے } ، اس سے مراد جوتیوں میں ہی ہلکا دھونا ہے اور چپل جوتی پیر میں ہوتے ہوئے پیر دھل سکتا ہے ۔ غرض یہ حدیث بھی دھونے کی دلیل ہے البتہ اس سے ان وسواسی اور وہمی لوگوں کی تردید ہے جو حد سے گزر جاتے ہیں ۔ اسی طرح وہ دوسری حدیث ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک قوم کے کوڑا ڈالنے کی جگہ پر پیشاب کیا پھر پانی منگوا کر وضو کیا اور اپنے نعلین پر مسح کر لیا } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:11531) لیکن یہی حدیث دوسری سندوں سے مروی ہے اور ان میں کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جرابوں پر مسح کیا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:224) اور میں مطابقت کی صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ جرابیں پیروں میں تھیں اور ان پر نعلین تھے اور ان دونوں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسح کرلیا ۔ یہی مطلب اس حدیث کا بھی ہے ، مسند احمد میں اوس ابو اوس سے مروی ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے دیکھتے ہوئے وضو کیا اور اپنے نعلین پر مسح کیا اور نماز کیلئے کھڑے ہو گئے } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:160،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوڑے پر پیشاب کرنا پھر وضو کرنا اور اس میں نعلین اور دونوں قدموں پر مسح کرنا مذکور ہے ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:160،قال الشیخ الألبانی:صحیح) امام ابن جریر رحمۃ اللہ اسے بیان کرتے ہیں ، پھر فرمایا ہے کہ ” یہ محمول اس پر ہے کہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلا وضو تھا “ ۔ [ یا یہ محمول ہے اس پر کہ نعلین جرابوں کے اوپر تھے ۔ مترجم ] بھلا کوئی مسلمان یہ کیسے قبول کر سکتا ہے کہ اللہ کے فریضے میں اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں تعارض ہو اللہ کچھ فرمائے اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کچھ اور ہی کریں ؟ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمیشہ کے فعل سے وضو میں پیروں کے دھونے کی فرضیت ثابت ہے اور آیت کا صحیح مطلب بھی یہ ہے جس کے کانوں تک یہ دلیلیں پہنچ جائیں اس پر اللہ کی حجت پوری ہو گئی ۔ چونکہ زیر کی قرأت سے پیروں کا دھونا اور زیر کی قرأت کا بھی اسی پر محمول ہونا فرضیت کا قطعی ثبوت ہے اس سے بعض سلف تو یہ بھی کہہ گئے ہیں کہ اس آیت سے جرابوں کا مسح ہی منسوخ ہے ، گو ایک روایت سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بھی ایسی مروی ہے لیکن اس کی اسناد صحیح نہیں بلکہ خود آپ رضی اللہ عنہ سے صحت کے ساتھ اس کے خلاف ثابت ہے اور جن کا بھی یہ قول ہے ان کا یہ خیال صحیح نہیں بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کے نازل ہونے کے بعد بھی جرابوں پر مسح کرنا ثابت ہے ۔ مسند احمد میں جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ سورۃ المائدہ کے نازل ہونے کے بعد ہی میں مسلمان ہوا اور اپنے اسلام کے بعد میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جرابوں پر مسح کرتے دیکھا ۔ ۱؎ (مسند احمد:363/4:صحیح) بخاری و مسلم میں ہے کہ سیدنا جریر رضی اللہ عنہ نے پیشاب کیا پھر وضو کرتے ہوئے اپنی جرابوں پر مسح کیا ان سے پوچھا گیا کہ آپ رضی اللہ عنہ ایسا کرتے ہیں ؟ تو فرمایا { یہی کرتے ہوئے میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے } ۔ راوی حدیث ابراہیم فرماتے ہیں لوگوں کو یہ حدیث بہت اچھی لگتی تھی اس لیے کہ سیدنا جریر رضی اللہ عنہ کا اسلام لانا سورۃ المائدہ کے نازل ہو چکنے کے بعد کا تھا ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:387) احکام کی بڑی بڑی کتابوں میں تواتر کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل سے جرابوں پر مسح کرنا ثابت ہے ۔ اب مسح کی مدت ہے یا نہیں ؟ اس کے ذکر کی یہ جگہ نہیں احکام کی کتابوں میں اس کی تفصیل موجود ہے ، رافضیوں نے اس میں بھی گمراہی اختیار کی ہے ، اور اس کی کوئی دلیل ان کے پاس نہیں صرف جہالت اور ضلالت ہے ۔ خود سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی روایت سے صحیح مسلم میں یہ ثابت ہے ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:376) لیکن روافض اسے نہیں مانتے ، جیسے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی ہی روایت سے بخاری مسلم میں نکاح متعہ کی ممانعت ثابت ہے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4616) لیکن تاہم شیعہ اسے مباح قرار دیتے ہیں ۔ ٹھیک اسی طرح یہ آیہ کریمہ دونوں پیروں کے دھونے پر صاف دلالت کرتی ہے اور یہی امر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا متواتر احادیث سے ثابت ہے لیکن شیعہ جماعت اس کی بھی مخالف ہے ۔ فی واقع ان مسائل میں ان کے ہاتھ دلیل سے بالکل خالی ہیں ۔ «ولِلہِ الْحَمْدُ» ۔ اسی طرح ان لوگوں نے آیت کا اور سلف صالحین کا «کَعْبَیْن» کے بارے میں بھی الٹ مفہوم لیا ہے وہ کہتے ہیں کہ قدم کی پشت ابھار «کَعْبَیْن» ہے ۔ پس ان کے نزدیک ہر قدم میں ایک ہی کعب یعنی ٹخنہ ہے اور جمہور کے نزدیک ٹخنے کی وہ ہڈیاں جو پنڈلی اور قدم کے درمیان ابھری ہوئی ہیں اور وہ «کَعْبَیْن» ہیں ۔ امام شافعی رحمۃ اللہ کا فرمان ہے کہ ” جن «کَعْبَیْن» کا یہاں ذکر ہے یہ ٹخنے کی دو ہڈیاں ہیں جو ادھر ادھر قدرے ظاہر دونوں طرف ہیں “ ۔ ایک ہی قدم میں «کَعْبَیْن» ہیں لوگوں کے عرض میں بھی یہی ہے اور حدیث کی دلالت بھی اسی پر ہے ۔ بخاری مسلم میں ہے کہ { سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے وضو کرتے ہوئے اپنے داہنے پاؤں کو «کَعْبَیْن» سمیت دھویا پھر بائیں کو بھی اسی طرح } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:159) بخاری میں تعلیقاً بصیغہ جزم اور صحیح ابن خزیمہ میں اور سنن ابی داؤد میں ہے کہ { ہماری طرف متوجہ ہو کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اپنی صفیں ٹھیک ٹھیک درست کر لو } تین بار یہ فرما کر فرمایا : { قسم اللہ کی یا تو تم اپنی صفوں کو پوری طرح درست کرو گے یا اللہ تمہارے دلوں میں مخالفت ڈال دے گا } ۔ سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ راوی حدیث فرماتے ہیں پھر تو یہ ہو گیا کہ ہر شخص اپنے ساتھی کے ٹخنے سے ٹخنہ اور گھٹنے سے گھٹنا اور کندھے سے کندھا ملا لیا کرتا تھا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:725) اس روایت سے صاف معلوم ہو گیا کہ کعبین اس ہڈی کا نام نہیں جو قدم کی پشت کی طرف ہے کیونکہ اس کا ملانا دو پاس پاس کے شخصوں میں ممکن نہیں بلکہ وہی دو ابھری ہوئی ہڈیاں ہیں جو پنڈلی کے خاتمے پر ہیں اور یہی مذہب اہلسنت کا ہے ۔ ابن ابی حاتم میں یحییٰ بن حارث تیمی سے منقول ہے کہ زید کے جو ساتھی شیعہ قتل کئے گئے تھے انہیں میں نے دیکھا تو ان کا ٹخنہ قدم کی پشت پر پایا انہیں قدرتی سزا تھی جو ان کی موت کے بعد ظاہر کی گئی اور مخالفت حق اور کتمان حق کا بدلہ دیا گیا ۔ اس کے بعد تیمم کی صورتیں اور تیمم کا طریقہ بیان ہوا ہے اس کی پوری تفسیر سورۃ نساء میں گزر چکی ہے لہٰذا یہاں بیان نہیں کی جاتی ۔ آیت تیمم کا شان نزول بھی وہیں بیان کر دیا گیا ہے ۔ لیکن امیر المؤمنین فی الحدیث امام بخاری رحمۃ اللہ نے اس آیت کے متعلق خاصتًا ایک حدیث وارد کی ہے اسے سن لیجئے ۔ سیدہ عائشہ صدیقہ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ { میرے گلے کا ہار بیداء میں گرگیا ہم مدینہ میں داخل ہونے والے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سواری روکی اور میری گود میں سر رکھ کر سوگئے اتنے میں میرے والد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ میرے پاس تشریف لائے اور مجھ پر بگڑنے لگے کہ ” تونے ہار کھو کر لوگوں کو روک دیا “ اور مجھے کچوکے مارنے لگے ۔ جس سے مجھے تکلیف ہوئی لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نیند میں خلل اندازی نہ ہو ، اس خیال سے میں ہلی جلی نہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب جاگے اور صبح کی نماز کا وقت ہو گیا اور پانی کی تلاش کی گئی تو پانی نہ ملا ، اس پر یہ پوری آیت نازل ہوئی ۔ اسید بن حفیر کہنے لگے اے آل ابوبکر اللہ تعالیٰ نے لوگوں کیلئے تمہیں بابرکت بنا دیا ہے تم ان کیلئے سرتاپا برکت ہو } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4608) پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’ میں تم پر حرج ڈالنا نہیں چاہتا اسی لیے اپنے دین کو سہل آسان اور ہلکا کر دیا ہے ۔ بوجھل سخت اور مشکل نہیں ‘ ۔ حکم تو اس کا یہ تھا کہ پانی سے وضو کرو لیکن جب میسر نہ ہو یا بیماری ہو تو تمہیں تیمم کرنے کی رخصت عطا فرماتا ہے ، باقی احکام احکام کی کتابوں میں ملاحظہ ہوں ۔ بلکہ اللہ کی چاہت یہ ہے کہ تمہیں پاک صاف کر دے اور تمہیں پوری پوری نعمتیں عطا فرمائے تاکہ تم اس کی رحمتوں پر اس کی شکر گزاری کرو اس کی توسیع احکام اور رأفت و رحمت آسانی اور رخصت پر اس کا احسان مانو ۔ وضو کے بعد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دعا تعلیم فرمائی ہے جو گویا اس آیت کے ماتحت ہے ۔ مسند ، سنن اور صحیح مسلم میں عقبہ بن عامررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ { ہم باری باری اونٹوں کو چرایا کرتے تھے میں اپنی باری والی رات عشاء کے وقت چلا تو دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے لوگوں سے کچھ فرما رہے ہیں میں بھی پہنچ گیا اس وقت میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا کہ { جو مسلمان اچھی طرح وضو کر کے دلی توجہ کے ساتھ دو رکعت نماز ادا کرے اس کیلئے جنت واجب ہے } ۔ میں نے کہا واہ واہ یہ بہت ہی اچھی بات ہے ۔ میری یہ بات سن کر ایک صاحب نے جو میرے آگے ہی بیٹھے تھے فرمایا اس سے پہلے جو بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے وہ اس سے بھی زیادہ بہتر ہے ۔ میں نے جو غور سے دیکھا تو وہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ تھے آپ رضی اللہ عنہ مجھ سے فرمانے لگے تم ابھی آئے ہو ، تمہارے آنے سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ { جو شخص عمدگی اور اچھائی سے وضو کرے پھر کہے «اَشْہَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلاَّ اﷲُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ وَاَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُوْلُہُ» اس کیلئے جنت کے آٹھوں دروازے کھل جاتے ہیں جس میں سے چاہے داخل ہو } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:234) ایک اور روایت میں ہے کہ { جب ایمان و اسلام والا وضو کرنے بیٹھتا ہے اس کے منہ دھوتے ہوئے اس کی آنکھوں کی تمام خطائیں پانی کے ساتھ یا پانی کے آخری قطرے کے ساتھ جھڑ جاتی ہے ہیں اسی طرح ہاتھوں کے دھونے کے وقت ہاتھوں کی تمام خطائیں اور اسی طرح پیروں کے دھونے کے وقت پیروں کی تمام خطائیں دھل جاتی ہیں وہ گناہوں سے بالکل پاک صاف ہو جاتا ہے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:244) ابن جریر میں ہے { جو شخص وضو کرتے ہوئے جب اپنے ہاتھ یا بازوؤں کو دھوتا ہے تو ان سے ان کے گناہ دور ہو جاتے ہیں ، منہ کو دھوتے وقت منہ کے گناہ الگ ہو جاتے ہیں ، سر کا مسح سر کے گناہ جھاڑ دیتا ہے پیر کا دھونا ان کے گناہ دھو دیتا ہے } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:11549:صحیح المتن) دوسری سند میں سر کے مسح کا ذکر نہیں ۔ ۱؎ (مسند احمد:235/4:صحیح) ابن جریر میں ہے { جو شخص اچھی طرح وضو کر کے نماز کیلئے کھڑا ہوتا ہے اس کے کانوں سے آنکوں سے ہاتھوں سے پاؤں سے سب گناہ الگ ہو جاتے ہیں } ۔ ۱؎ (مسند احمد:252/5:حسن) صحیح مسلم شریف میں ہے { وضو آدھا ایمان ہے ، «الْحَمْدُ لِلہِ» کہنے سے نیکی کا پلڑا بھر جاتا ہے ۔ قرآن یا تو تیری موافقت میں دلیل ہے یا تیرے خلاف دلیل ہے ، ہر شخص صبح ہی صبح اپنے نفس کی فروخت کرتا ہے پس یا تو اپنے تئیں آزاد کرا لیتا ہے یا ہلاک کر لیتا ہے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:223) اور حدیث میں ہے { مال حرام کا صدقہ اللہ قبول نہیں فرماتا اور بے وضو کی نماز بھی غیر مقبول ہے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:224) یہ روایت ابوداؤد ، طیالسی ، مسند احمد ، ابوداؤد نسائی اور ابن ماجہ میں بھی ہے ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:59،قال الشیخ الألبانی:صحیح) المآئدہ
7 ”اسلام“ زبان سے عہد اور ”ایمان“ عمل سے اطاعت اس عہد کا اظہار اس دین عظیم اور اس رسول اللہ کو بھیج کر جو احسان اللہ تعالیٰ نے اس امت پر کیا ہے ، اسے یاد دلا رہا ہے اور اس عہدے پر مضبوط رہنے کی ہدایت کر رہا ہے جو مسلمانوں نے اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری اور امداد کرنے ، دین پر قائم رہنے ، اسے قبول کر لینے ، اسے دوسروں تک پہنچانے کیلئے کیا ہے ۔ اسلام لاتے وقت انہی چیزوں کا ہر مومن اپنی بیعت میں اقرار کرتا تھا ، چنانچہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے الفاظ ہیں کہ { ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی کہ ” ہم سنتے رہیں گے اور مانتے چلے جائیں گے ، خواہ جی چاہے خواہ نہ چاہے ، خواہ دوسروں کو ہم پر ترجیح دی جائے اور کسی لائق شخص سے ہم کسی کام کو نہیں چھینیں گے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:7056) باری تعالیٰ عزوجل کا ارشاد ہے کہ ’ تم کیوں ایمان نہیں لاتے ؟ حالانکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں رب پر ایمان لانے کی دعوت دے رہے ہیں ، اگر تمہیں یقین ہو اور اس نے تم سے عہد بھی لے لیا ہے ‘ ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس آیت میں یہودیوں کو یاد دلایا جا رہا ہے کہ تم سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری کے قول قرار ہو چکے ہیں ، پھر تمہاری نافرمانی کے کیا معنی ؟ یہ بھی کہا گیا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی پیٹھ سے نکال کر جو عہد اللہ رب العزت نے بنو آدم سے لیا تھا ، اسے یاد دلایا جا رہا ہے جس میں فرمایا تھا کہ ’ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ ‘ سب نے اقرار کیا کہ ہاں ہم اس پر گواہ ہیں ، لیکن پہلا قول زیادہ ظاہر ہے ۔ سدی رحمۃ اللہ اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے وہی مروی ہے اور امام ابن جریر رحمہ اللہ نے بھی اسی کو مختار بتایا ہے ۔ ہر حال میں ہر حال میں انسان کو اللہ کا خوف رکھنا چاہیئے ۔ دلوں اور سینوں کے بھید سے وہ واقف ہے ۔ ایمان والو لوگوں کو دکھانے کو نہیں بلکہ اللہ کی وجہ سے حق پر قائم ہو جاؤ اور عدل کے ساتھ صحیح گواہ بن جاؤ ۔ بخاری و مسلم میں سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ { میرے باپ نے مجھے ایک عطیہ دے رکھا تھا ، میری ماں عمرہ بنت رواحہ نے کہا کہ میں تو اس وقت تک مطمئن نہیں ہونے لگی جب تک کہ تم اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ نہ بنا لو ، میرے باپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے واقعہ بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا { کیا اپنی دوسری اولاد کو بھی ایسا ہی عطیہ دیا ہے ؟ } جواب دیا کہ نہیں ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اللہ سے ڈرو ، اپنی اولاد میں عدل کیا کرو ، جاؤ میں کسی ظلم پر گواہ نہیں بنتا } ۔ چنانچہ میرے باپ نے وہ صدقہ لوٹا لیا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2586) پھر فرمایا ’ دیکھو کسی کی عداوت اور ضد میں آ کر عدل سے نہ ہٹ جانا ۔ دوست ہو یا دشمن ہو ، تمہیں عدل و انصاف کا ساتھ دینا چاہیئے ، تقوے سے زیادہ قریب یہی ہے ‘ ۔ «ہُوَ» کی ضمیر کے مرجع پر دلالت فعل نے کر دی ہے جیسے کہ اس کی نظریں قرآن میں اور بھی ہے اور کلام عرب میں بھی ، جیسے اور جگہ ہے «وَإِن قِیلَ لَکُمُ ارْجِعُوا فَارْجِعُوا ہُوَ أَزْکَیٰ لَکُمْ وَ اللہُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِیمٌ» ‏‏‏‏ ۱؎ (24-النور:28) یعنی ’ اگر تم کسی مکان میں جانے کی اجازت مانگو اور نہ ملے بلکہ کہا جائے کہ واپس جاؤ تو تم واپس چلے جاؤ یہی تمہارے لیے زیادہ پاکیزگی کا باعث ہے ‘ ۔ پس یہاں «ہُوَ» کی ضمیر کا مرجع مذکور نہیں ، لیکن فعل کی دلالت موجود ہے یعنی لوٹ جانا ۔ اسی طرح مندرجہ آیت میں یعنی عدل کرنا ۔ یہ بھی یاد رہے کہ یہاں پر «ہُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَی» «أَفْعَلِ التَّفْضِیلِ» کا صیغہ ایسے موقعہ پر ہے کہ دوسری جانب اور کوئی چیز نہیں ، جیسے اس آیت میں ہے ، «اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ یَوْمَیِٕذٍ خَیْرٌ مٰسْتَــقَرًّا وَّاَحْسَنُ مَقِیْلًا» ۱؎ (25-الفرقان:24) ۔ اور جیسے کہ کسی صحابیہ رضی اللہ عنہا کا عمر رضی اللہ عنہ سے کہنا کہ «‏‏‏‏اَنْتَ اَفَظٰ وَاَغْلَظُ مِنْ رَّسُوْلِ الّلہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ» ‏‏‏‏ ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3294) ’ اللہ سے ڈرو ! وہ تمہارے عملوں سے باخبر ہے ، ہر خیر و شر کا پورا پورا بدلہ دے گا ‘ ۔ وہ ایمان والوں ، نیک کاروں سے ان کے گناہوں کی بخشش کا اور انہیں اجر عظیم یعنی جنت دینے کا وعدہ کر چکا ہے ۔ گو دراصل وہ اس رحمت کو صرف فعل الٰہی سے حاصل کرینگے لیکن رحمت کی توجہ کا سبب ان کے نیک اعمال بنے ۔ پس حقیقتاً ہر طرح قابل تعریف و ستائش اللہ ہی ہے اور یہ سب کچھ اس کا فضل و رحم ہے ۔ حکمت و عدل کا تقاضا یہی تھا کہ ایمانداروں اور نیک کاروں کو جنت دی جائے اور کافروں اور جھٹلانے والوں کو جہنم واصل کیا جائے چنانچہ یونہی ہوگا ۔ پھر اپنی ایک اور نعمت یاد دلاتا ہے ، جس کی تفصیل یہ ہے ، سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک منزل میں اترے ، لوگ ادھر ادھر سایہ دار درختوں کی تلاش میں لگ گئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہتھیار اتار کر ایک درخت پر لٹکا دئے ۔ ایک اعرابی نے آ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار اپنے ہاتھ میں لے لی اور اسے کھینچ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا اب بتا کہ مجھ سے تجھے کون بچا سکتا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً بعد جواب دیا کہ { اللہ عزوجل } ، اس نے پھر یہی سوال کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر یہی جواب دیا ، تیسری مرتبہ کے جواب کے ساتھ ہی اس کے ہاتھ سے تلوار گر پڑی ۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو آواز دی اور جب وہ آ گئے تو ان سے سارا واقعہ کہہ دیا ۔ اعرابی اس وقت بھی موجود تھا ، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کوئی بدلہ نہ لیا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4135) قتادہ رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ ” کچھ لوگوں نے دھوکے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنا چاہا تھا اور انہوں نے اس اعرابی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گھات میں بھیجا تھا لیکن اللہ نے اسے ناکام اور نامراد رکھا «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» ۔ اس اعرابی کا نام صحیح احادیث میں غوث بن حارث آیا ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ { یہودیوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کو قتل کرنے کے ارادہ سے زہر ملا کر کھانا پکا کر دعوت کردی ، لیکن اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آگاہ کر دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچ رہے ، یہ بھی کہا گیا ہے کہ کعب بن اشرف اور اس کے یہودی ساتھیوں نے اپنے گھر میں بلا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صدمہ پہنچانا چاہا تھا } ۔ ابن اسحاق رحمۃ اللہ وغیرہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد بنو نضیر کے وہ لوگ ہیں جنہوں نے چکی کا پاٹ قلعہ کے اوپر سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر گرانا چاہتا تھا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عامری لوگوں کی دیت کے لینے کیلئے ان کے پاس گئے تھے تو ان شریروں نے عمرو بن حجاش بن کعب کو اس بات پر آمادہ کیا تھا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نیچے کھڑا کر کے باتوں میں مشغول کر لیں گے تو اوپر سے یہ پھینک کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کام تمام کر دینا لیکن راستے میں ہی اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی شرارت و خباثت سے آگاہ کر دیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم مع اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کے وہیں سے پلٹ گئے ۔ اسی کا ذکر اس آیت میں ہے ، ’ مومنوں کو اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیئے جو کفایت کرنے والا ، حفاظت کرنے والا ہے ‘ ۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے حکم سے بنو نضیر کی طرف مع لشکر گئے ، محاصرہ کیا ، وہ ہارے اور انہیں جلا وطن کر دیا ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:11560) المآئدہ
8 المآئدہ
9 المآئدہ
10 المآئدہ
11 المآئدہ
12 عہد شکن لوگ اور امام مہدی کون؟ اوپر کی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو عہد و پیمان کی وفاداری ، حق پر مستقیم رہنے اور عدل کی شہادت دینے کا حکم دیا تھا ۔ ساتھ ہی اپنی ظاہری و باطنی نعمتوں کو یاد دلایا تھا ۔ تو اب ان آیتوں میں ان سے پہلے کے اہل کتاب سے جو عہد و میثاق لیا تھا ، اس کی حقیقت و کیفیت کو بیان فرما رہا ہے ، پھر جبکہ انہوں نے اللہ سے کئے ہوئے عہد و پیمان توڑ ڈالے تو ان کا کیا حشر ہوا ، اسے بیان فرما کر گویا مسلمانوں کو عہد شکنی سے روکتا ہے ۔ ان کے بارہ سردار تھے ۔ یعنی بارہ قبیلوں کے بارہ چودھری تھے جو ان سے ان کی بیعت کو پورا کراتے تھے کہ یہ اللہ اور رسول علیہ السلام کے تابع فرمان رہیں اور کتاب اللہ کی اتباع کرتے رہیں ۔ موسیٰ علیہ السلام جب سرکشوں سے لڑنے کیلئے گئے تب ہر قبیلہ میں سے ایک ایک سردار منتخب کر گئے تھے ۔ اوبیل قبیلے کا سردار شامون بن اکون تھا ، شمعونیوں کا چودھری شافاط بن جدی ، یہودا کا کالب بن یوحنا ، فیخائیل کا ابن یوسف اور افرایم کا یوشع بن نون اور بنیامین کے قبیلے کا چودھری قنطمی بن وفون ، زبولون کا جدی بن شوری ، منشاء کاجدی بن سوسی ، دان حملاسل کا ابن حمل ، اشار کا ساطور ، تفتای کا بحر اور یاسخر کالابل ۔ توراۃ کے چوتھے جز میں بنو اسرائیل کے قبیلوں کے سرداروں کے نام مذکور ہیں ۔ جو ان ناموں سے قدرے مختلف ہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ موجودہ تورات کے نام یہ ہیں ۔ بنو ادبیل پر صونی بن سادون ، بنی شمعون پر شموال بن صور ، بنو یہود پر حشون بن عمیاذب ، بنو یساخر پر شال بن صاعون ، بنو زبولوں پر الیاب بن حالوب ، بنو افرایم پر منشابن عنہور ، بنو منشاء پر حمائیل بنو بیبا میں پر ابیدن ، بنودان پر جعیذ ربنو اشاذ نحایل ۔ بون کان پر سیف بن دعوابیل ، بنو نفعالی پر اجذع ۔ یاد رہے کہ لیلتہ العقبہ میں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے بیعت لی اس وقت ان کے سردار بھی بارہ ہی تھے ۔ تین قبیلہ اوس کے ۔ حضرت اسید بن حضیر ، سعد بنی خیشمہ اور رفاعہ بن عبد المنذر رضی اللہ عنہم اور نو سردار قبیلہ خزرج تھے ۔ ابوامامہ ، اسعد بن زرارہ ، سعد بن ربیع ، عبداللہ بن رواحہ ، رافع بن مالک بن عجلان براء بن معرور عبادہ بن صامت ، سعد بن عبادہ ، عبداللہ بن عمرو بن حرام ، منذربن عمرو بن حنیش رضی اللہ عنہم اجمعین ۔ انہی سرداروں نے اپنی اپنی قوم کی طرف سے پیغمبر آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم سے فرامین سننے اور ماننے کی بیعت کی ۔ حضرت مسروق رحمۃ اللہ فرماتے ہیں ہم لوگ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے تھے ، آپ رضی اللہ عنہ ہمیں اس وقت قرآن پڑھا رہے تھے تو ایک شخص نے سوال کیا کہ آپ لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی پوچھا ہے کہ اس امت کے کتنے خلیفہ ہوں گے ؟ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” میں جب سے عراق آیا ہوں ، اس سوال کو بجز تیرے کسی نے نہیں پوچھا ، ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں دریافت کیا تھا تو { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { بارہ ہوں گے ، جتنی گنتی بنو اسرائیل کے نقیبوں کی تھی } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:389/1:ضعیف) یہ روایت سنداً غریب ہے ، لیکن مضمون حدیث بخاری اور مسلم کی روایت سے بھی ثابت ہے ۔ جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں { میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ، { لوگوں کا کام چلتا رہے گا ، جب تک ان کے والی بارہ شخص نہ ہولیں } ، پھر ایک لفظ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیکن میں نہ سن سکا تو میں نے دوسروں سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اب کون سا لفظ فرمایا ، انہوں نے جواب دیا یہ فرمایا کہ { یہ سب قریش ہوں گے } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:7223-7222) صحیح مسلم میں یہی لفظ ہیں ۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ بارہ خلیفہ صالح نیک بخت ہونگے ۔ جو حق کو قائم کریں گے اور لوگوں میں عدل کرینگے ۔ اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ سب پے در پے یکے بعد دیگرے ہی ہوں ۔ پس چار خلفاء تو پے در پے سیدنا ابوبکر ، سیدنا عمر ، سیدنا عثمان ، سیدنا علی رضی اللہ عنہم جن کی خلافت بطریق نبوت رہی ۔ انہی بارہ میں سے پانچویں عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ ہیں ۔ بنو عباس میں سے بھی بعض اسی طرح کے خلیفہ ہوئے ہیں اور قیامت سے پہلے پہلے ان بارہ کی تعداد پوری ہونی ضروری ہے اور انہی میں سے امام مہدی رحمۃ اللہ ہیں ، جن کی بشارت احادیث میں آ چکی ہے ان کا نام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر ہو گا اور ان کے والد کا نام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے والد کا ہو گا ، زمین کو عدل و انصاف سے بھر دینگے حالانکہ اس سے پہلے وہ ظلم و جبر سے پُر ہوگی ۱؎ (سنن ابوداود:4282،قال الشیخ الألبانی:صحیح) لیکن اس سے شیعوں کا امام منتظر مراد نہیں ، اس کی تو دراصل کوئی حقیقت ہی نہیں ، نہ سرے سے اس کا کوئی وجود ہے ، بلکہ یہ تو صرف شیعہ کی وہم پرستی اور ان کا تخیل ہے ، نہ اس حدیث سے شیعوں کے فرقے اثنا عشریہ کے ائمہ مراد ہیں ۔ اس حدیث کو ان ائمہ پر محمول کرنا بھی شیعوں کے اس فرقہ کی بناوٹ ہے جو ان کی کم عقلی اور جہالت کا کرشمہ ہے ۔ توراۃ میں سیدنا اسمعیل علیہ السلام کی بشارت کے ساتھ ہی مرقوم ہے کہ ان کی نسل میں سے بارہ بڑے شخص ہونگے ، اسے مراد بھی یہی مسلمانوں کے بارہ قریشی بادشاہ ہیں لیکن جو یہودی مسلمان ہوئے تھے ، وہ اپنے اسلام میں کچے اور جاہل بھی تھے ، انہوں نے شیعوں کے کان میں کہیں یہ صور پھونک دیا اور وہ سمجھ بیٹھے کہ اس سے مراد ان کے بارہ امام ہیں ، ورنہ حدیثیں اس کے واضح خلاف موجود ہیں ۔ المآئدہ
13 1 اب اس عہد و پیمان کا ذکر ہو رہا ہے جو اللہ تعالیٰ نے یہودیوں سے لیا تھا کہ وہ نمازیں پڑھتے رہیں ، زکوٰۃ دیتے رہیں ، اللہ کے رسولوں کی تصدیق کریں ، ان کی نصرت و اعانت کریں اور اللہ کی مرضی کے کاموں میں اپنا مال خرچ کریں ۔ جب وہ ایسا کریں گے تو اللہ کی مدد و نصرت ان کے ساتھ رہے گی ، ان کے گناہ معاف ہونگے اور یہ جنتوں میں داخل کئے جائیں گے ، مقصود حاصل ہوگا اور خوف زائل ہوگا ۔ لیکن اگر وہ اس عہد و پیمان کے بعد پھرگئے اور اسے غیر معروف کر دیا تو یقیناً وہ حق سے دور ہو جائیں گے ، بھٹک اور بہک جائیں گے ۔ چنانچہ یہی ہوا کہ انہوں نے میثاق توڑ دیا ، وعدہ خلافی کی تو ان پر اللہ کی لعنت نازل ہوئی ، ہدایت سے دور ہوگئے ، ان کے دل سخت ہوگئے اور وعظ و پند سے مستفید نہ ہو سکے ، سمجھ بگڑ گئی ، اللہ کی باتوں میں ہیر پھیر کرنے لگے ، باطل تاویلیں گھڑنے لگے ، جو مراد حقیقی تھی ، اس سے کلام اللہ کو پھیر کر اور ہی مطلب سمجھنے سمجھانے لگے ، اللہ کا نام لے کر وہ مسائل بیان کرنے لگے ، جو اللہ کے بتائے ہوئے نہ تھے ، یہاں تک کہ اللہ کی کتاب ان کے ہاتھوں سے چھوٹ گئی ، وہ اس سے بےعمل چھوٹ جانے کی توجہ سے نہ تو دل ٹھیک رہے ، نہ فطرت اچھی رہی ۔ نہ خلوص و اخلاص رہا ، غداری اور مکاری کو اپنا شیوہ بنا لیا ۔ نت نئے جال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اصحاب نبی کے خلاف بنتے رہے ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہوتا ہے کہ ’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے چشم پوشی کیجئے ‘ ، یہی معاملہ ان کے ساتھ اچھا ہے ، جیسے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ” جو تجھ سے اللہ کے فرمان کے خلاف سلوک کرے تو اس سے حکم الٰہی کی بجا آوری کے ماتحت سلوک کر “ ۔ اس میں ایک بڑی مصلحت یہ بھی ہے کہ ممکن ہے ان کے دل کھنچ آئیں ، ہدایت نصیب ہو جائے اور حق کی طرف آ جائیں ۔ اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے ۔ یعنی دوسروں کی بدسلوکی سے چشم پوشی کر کے خود نیا سلوک کرنے والے اللہ کے محبوب ہیں ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” درگزر کرنے کا حکم جہاد کی آیت سے منسوخ ہے “۔ المآئدہ
14 1 پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ’ ان نصرانیوں سے بھی ہم نے وعدہ لیا تھا کہ جو رسول آئے گا ، یہ اس پر ایمان لائیں گے ، اس کی مدد کرینگے اور اس کی باتیں مانیں گے ‘ ۔ ’ لیکن انہوں نے بھی یہودیوں کی طرح بدعہدی کی ، جس کی سزا میں ہم نے ان میں آپس میں عداوت ڈال دی جو قیامت تک جاری رہے گی ‘ ۔ ان میں فرقے فرقے بن گئے جو ایک دوسرے کو کافر و ملعون کہتے ہیں اور اپنے عبادت خانوں میں بھی نہیں آنے دیتے ملکیہ فرقہ یعقوبیہ فرقے کو ، یعقوبیہ ملکیہ کو کھلے بندوں کافر کہتے ہیں ، اسی طرح دوسرے تمام فرقے بھی ، انہیں ان کے اعمال کی پوری تنبیہہ عنقریب ہوگی ۔ انہوں نے بھی اللہ کی نصیحتوں کو بھلا دیا ہے اور اللہ پر تہمتیں لگائی ہیں اس پر بیوی اور اولاد والا ہونے کا بہتان باندھا ہے ، یہ قیامت کے دن بری طرح پکڑے جائیں گے ۔ اللہ تعالیٰ واحد و احد فرد « اللہُ الصَّمَدُ لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُولَدْ وَلَمْ یَکُن لَّہُ کُفُوًا أَحَدٌ» ‏‏‏‏ہے ۔ المآئدہ
15 علمی بددیانت فرماتا ہے کہ ’ رب الاعلیٰ نے اپنے عالی قدر رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ تمام مخلوق کی طرف بھیج دیا ہے ، معجزے اور روشن دلیلیں انہیں عطا فرمائی ہیں جو باتیں یہود و نصاریٰ نے بدل ڈالی تھیں ، تاویلیں کرکے دوسرے مطلب بنا لیے تھے اور اللہ کی ذات پر بہتان باندھتے تھے ، کتاب اللہ کے جو حصے اپنے نفس کے خلاف پاتے تھے ، انہیں چھپا لیتے تھے ، ان سب علمی بد دیانتیوں کو یہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم بے نقاب کرتے ہیں ۔ ہاں جس کے بیان کی ضرورت ہی نہ ہو ، بیان نہیں فرماتے ‘ ۔ مستدرک حاکم میں ہے ” جس نے رجم کے مسئلہ کا انکار کیا ، اس نے بےعملی سے قرآن سے انکار کیا “ ۔ چنانچہ اس آیت میں اسی رجم کے چھپانے کا ذکر ہے ۔ پھر قرآن عظیم کی بابت فرماتا ہے کہ ’ اسی نے اس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی یہ کتاب اتاری ہے ، جو جویائے حق کو سلامتی کی راہ بتاتی ہے ، لوگوں کو ظلمتوں سے نکال کر نور کی طرف لے جاتی ہے اور راہ مستقیم کی رہبر ہے اس کتاب کی وجہ سے اللہ کے انعاموں کو حاصل کر لینا اور اس کی سزاؤں سے بچ جانا بالکل آسان ہو گیا ہے یہ ضلالت کو مٹا دینے والی اور ہدایت کو واضح کر دینے والی ہے ‘ ۔ المآئدہ
16 المآئدہ
17 اللہ وحدہ لا شریک ہے اللہ تبارک و تعالیٰ عیسائیوں کے کفر کو بیان فرماتا ہے کہ ’ انہوں نے اللہ کی مخلوق کو الوہیت کا درجہ دے رکھا ہے ۔ اللہ تعالیٰ شرک سے پاک ہے ، تمام چیزیں اس کی محکوم اور مقدور ہیں ، ہر چیز پر اس کی حکومت اور ملکیت ہے ۔ کوئی نہیں جو اسے کسی ارادے سے باز رکھ سکے ، کوئی نہیں جو اس کی مرضی کے خلاف لب کشائی کی جرأت کر سکے ۔ وہ اگر مسیح کو ، ان کی والدہ کو اور روئے زمین کی تمام مخلوق کا موجد و خالق وہی ہے ۔ سب کا مالک اور سب کا حکمراں وہی ہے ۔ جو چاہے کر گزرے کوئی چیز اس کے اختیار سے باہر نہیں ، اس سے کوئی بازپرس نہیں کر سکتا ، اس کی سلطنت و مملکت بہت وسیع ہے ، اس کی عظمت ، عزت بہت بلند ہے ، وہ عادل و غالب ہے ۔ جسے جس طرح چاہتا ہے بناتا بگاڑتا ہے ، اس کی قدرتوں کی کوئی انتہاء نہیں ‘ ۔ نصرانیوں کی تردید کے بعد اب یہودیوں اور نصرانیوں دونوں کی تردید ہو رہی ہے کہ ’ انہوں نے اللہ پر ایک جھوٹ یہ باندھا کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے محبوب ہیں ، ہم انبیاء کی اولاد ہیں اور وہ اللہ کے لاڈلے فرزند ہیں ‘ ۔ اپنی کتاب سے نقل کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اسرائیل علیہ السلام کو کہا ہے «[ أَنْتَ ابْنِی بِکْرِی]» پھر تاویلیں کر کے مطلب الٹ پلٹ کر کے کہتے کہ جب وہ اللہ کے بیٹے ہوئے تو ہم بھی اللہ کے بیٹے اور عزیز ہوئے حالانکہ خود ان ہی میں سے جو عقلمند اور صاحب دین تھے وہ انہیں سمجھاتے تھے کہ ان لفظوں سے صرف بزرگی ثابت ہوتی ہے ، قرابت داری نہیں ۔ اسی معنی کی آیت نصرانی اپنی کتاب سے نقل کرتے تھے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا «[ إِنِّی ذَاھِبٌ اِلـٰی اَبِیْ وَاَبِیْکُمْ]» اس سے مراد بھی سگا باپ نہ تھا بلکہ ان کے اپنے محاورے میں اللہ کیلئے یہ لفظ بھی آتا تھا ۔ پس مطلب اس کا یہ ہے کہ میں اپنے اور تمہارے رب کی طرف جا رہا ہوں اور عبادت کا مفہوم واضح بتا رہا ہے کہ یہاں اس آیت میں جو نسبت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف سے ، وہی نسبت ان کی تمام امت کی طرف ہے لیکن وہ لوگ اپنے باطل عقیدے میں عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ سے جو نسبت دیتے ہیں ، اس نسبت کا اپنے اپنے اوپر اطلاق نہیں مانتے ۔ پس یہ لفظ صرف عزت و وقعت کیلئے تھا نہ کہ کچھ اور ۔ اللہ تعالیٰ انہیں جواب دیتا ہے کہ ’ اگر یہ صحیح ہے تو پھر تمہارے کفر و کذب ، بہتان و افتراء پر اللہ تمہیں سزا کیوں کرتا ہے ؟ ‘ ۔ کسی صوفی نے کسی فقیہ سے دریافت فرمایا کہ ” کیا قرآن میں یہ بھی کہیں ہے کہ حبیب اپنے حبیب کو عذاب نہیں کرتا ؟ اس سے کوئی جواب بن نہ پڑا تو صوفی نے یہی آیت تلاوت فرما دی “ ۔ یہ قول نہایت عمدہ ہے اور اسی کی دلیل مسند احمد کی یہ حدیث ہے کہ { ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت کے ساتھ راہ سے گزر رہے تھے ، ایک چھوٹا سا بچہ راستہ میں کھیل رہا تھا ، اس کی ماں نے جب دیکھا کہ اسی جماعت کی جماعت اسی راہ آ رہی ہے تو اسے ڈر لگا کہ بچہ روندا نہ جائے میرا بچہ میرا بچہ کہتی ہوئی دوڑی ہوئی آئی اور جھٹ سے بچے کو گود میں اٹھا لیا اس پر صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا ” حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ عورت تو اپنے پیارے بچے کو کبھی بھی آگ میں نہیں ڈال سکتی “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا { ٹھیک ہے ، اللہ تعالیٰ بھی اپنے پیارے بندوں کو ہرگز جہنم میں نہیں لے جائے گا } ۔ “ ۱؎ (مسند احمد:104/3:صحیح) یہودیوں کے جواب میں فرماتا ہے کہ ’ تم بھی منجملہ اور مخلوق کے ایک انسان ہو تمہیں دوسروں پر کوئی فوقیت و فضیلت نہیں ، اللہ سبحان و تعالیٰ اپنے بندوں پر حاکم ہے اور وہی ان میں سچے فیصلے کرنے والا ہے ، وہ جسے چاہے بخشے جسے چاہے پکڑے ، وہ جو چاہے کر گزرتا ہے ، اس کا کوئی حاکم نہیں ، اسے کوئی رد نہیں کر سکتا ، وہ بہت جلد بندوں سے حساب لینے والا ہے ۔ زمین و آسان اور ان کے درمیان کی مخلوق سب اس کی ملکیت ہے “ اس کے زیر اثر ہے ، اس کی بادشاہت تلے ہے ، سب کا لوٹنا اس کی طرف ہے ، وہی بندوں کے فیصلے کرے گا ، وہ ظالم نہیں عادل ہے ، نیکوں کو نیکی اور بدوں کو بدی دے گا ‘ ۔ نعمان بن آصا ، بحر بن عمرو ، شاس بن عدی جو یہودیوں کے بڑے بھاری علماء تھے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سمجھایا بجھایا ، آخرت کے عذاب سے ڈرایا تو کہنے لگے سنئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں ڈرا رہے ہیں ، ہم تو اللہ کے بچے اور اس کے پیارے ہیں ، یہی نصرانی بھی کہتے تھے پس یہ آیت اتری ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:11616:ضعیف) ان لوگوں نے ایک بات یہ بھی گھڑ کر مشہور کر دی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت اسرائیل علیہ السلام کی طرف وحی نازل فرمائی کہ تیرا پہلونٹھا بیٹا میری اولاد میں سے ہے ۔ اس کی اولاد چالیس دن تک جہنم میں رہے گی ، اس مدت میں آگ انہیں پاک کر دے گی اور ان کی خطاؤں کو کھا جائے گی ، پھر ایک فرشتہ منادی کرے گا کہ اسرائیل کی اولاد میں سے جو بھی ختنہ شدہ ہوں ، وہ نکل آئیں ، یہی معنی ہیں ان کے اس قول کے جو قرآن میں مروی ہے ’ وہ کہتے ہیں ہمیں گنتی کے چند ہی دن جہنم میں رہنا پڑے گا ‘ ۔ المآئدہ
18 المآئدہ
19 محمد صلی اللہ علیہ وسلم مطلقاً خاتم الانبیاء ہیں! اس آیت میں اللہ تعالیٰ یہود و نصاریٰ کو خطاب کرکے فرماتا ہے کہ ’ میں نے تم سب کی طرف اپنا رسول بھیج دیا ہے جو خاتم الانبیاء ہے ، جس کے بعد کوئی نبی رسول آنے والا نہیں ، یہ سب کے بعد ہیں ، دیکھ لو عیسیٰ کے بعد سے لے کر اب تک کوئی رسول نہیں آیا ، «عَلَی فَتْرَۃٍ مِنَ الرٰسُلِ» کہ اس لمبی مدت کے بعد یہ رسول آئے ‘ ۔ بعض کہتے ہیں یہ مدت چھ سو سال کی تھی ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3947) بعض کہتے ہیں ساڑھے پانچ سو برس کی ، بعض کہتے ہیں پانچ سو چالیس برس کی ۔ ۱؎ (عبد الرزاق فی المصنف:186/1:صحیح) کوئی کہتا ہے چار سو کچھ اوپر تیس برس کی ۔ ابن عساکر میں ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان کی طرف اٹھائے جانے اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہجرت کرنے کے درمیان نو سو تینتیس سال کا فاصلہ تھا ۔ لیکن مشہور قول پہلا ہی ہے یعنی چھ سو سال کا ، بعض کہتے ہیں چھ سو بیس سال کا فاصلہ تھا ۔ ان دونوں قولوں میں اس طرح تطبیق بھی ہو سکتی ہے کہ پہلا قول شمسی حساب سے ہو اور دوسرا قمری حساب سے ہو اور اس گنتی میں ہر تین سو سال میں تقریباً آٹھ کا فرق پڑ جاتا ہے ۔ اسی لیے اہل کہف کے قصے میں ہے ، «وَلَبِثُوا فِی کَہْفِہِمْ ثَلَاثَ مِائَۃٍ سِنِینَ وَازْدَادُوا تِسْعًا» ۱؎ (18-الکھف:25) ، ’ وہ لوگ اپنے غار میں تین سو سال تک رہے اور نو برس اور زیادہ کئے ‘ ۔ پس شمسی حساب سے اہل کتاب کو جو مدت ان کی غار کی معلوم تھی ، وہ تین سو سال کی تھی ، نو بڑھا کر قمری حساب پورا ہو گیا ۔ آیت سے معلوم ہوا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے لے کر جو بنی اسرائیل کے آخری نبی علیہ السلام تھے ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک جو علی الا طلاق خاتم الانبیاء تھے ، «فترۃ» کا زمانہ تھا یعنی درمیان میں کوئی نبی نہیں ہوا ۔ چنانچہ صحیح بخاری شریف میں ہے { حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { عیسیٰ علیہ السلام سے یہ بہ نسبت اور لوگوں کے میں زیادہ اولیٰ ہوں ، اس لیے کہ میرے اور ان کے درمیان کوئی نبی نہیں } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3442) اس میں ان لوگوں کی بھی تردید ہے جو خیال کرتے ہیں کہ ان دونوں جلیل القدر پیغمبروں کے درمیان بھی ایک نبی گزرے ہیں ، جن کا نام خالد بن سنان تھا ۔ جیسے کہ قضاعی وغیرہ نے حکایت کی ہے ۔ مقصود یہ ہے کہ خاتم الانبیاء حبیب اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں اس وقت تشریف لاتے ہیں جبکہ رسولوں کی تعلیم مٹ چکی ہے ، ان کی راہیں بے نشان ہو چکی ہیں ، دنیا توحید کو بھلا چکی ہے ، دنیا توحید کو بھلا چکی ہے ، جگہ جگہ مخلوق پرستی ہو رہی ہے ، سورج چاند بت آگ کی پوجا جا رہی ہے ، اللہ کا دین بدل چکا ہے ، کفر کی تاریکی نور دین پر چھا چکی ہے ، دنیا کا چپہ چپہ سرکشی اور طغیانی سے بھر گیا ہے ، عدل و انصاف بلکہ انسانیت بھی فنا ہو چکی ہے ، جہالت و قساوت کا دور دورہ ہے ، بجز چند نفوس کے اللہ کا نام لیوا زمین پر نہیں رہا ، پس معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جلالت و عزت اللہ کے پاس بہت بڑی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو رسالت کی ذمہ داری ادا کی ، وہ کوئی معمولی نہ تھی ، صلی اللہ علیہ وسلم ۔ مسند احمد میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک خطبہ میں فرمایا { مجھے میرے رب کا حکم ہے کہ میں تمہیں وہ باتیں سکھاؤں ، جن سے تم ناواقف ہو اور اللہ تعالیٰ نے مجھے آج بھی بتائی ہیں ، فرمایا ہے ’ میں نے اپنے بندوں کو جو کچھ عنایت فرمایا ہے وہ ان کیلئے حلال ہے ، میں نے اپنے سب بندوں کو موحد پیدا کیا ہے ، لیکن پھر شیطان ان کے پاس آتا ہے اور انہیں بہکاتا ہے اور میری حلال کردہ چیزیں ان پر حرام کرتا ہے اور انہیں کہتا ہے کہ وہ میرے ساتھ باوجود دلیل نہ ہونے کے شرک کریں ‘ ۔ { سنو اللہ تعالیٰ نے زمین والوں کو دیکھا اور تمام عرب و عجم کو ناپسند فرمایا بجز ان چند بقایا بنی اسرائیل کے [ جو توحید پر قائم ہیں ] پھر [ مجھ سے ] فرمایا ، ’ میں نے تجھے اسی لیے اپنا نبی بنا کر بھیجا ہے کہ تیری آزمائش کروں اور تیری وجہ سے اوروں کی بھی آزمائش کر لوں ۔ میں تجھ پر وہ کتاب نازل فرمائی ہے ، جسے پانی دھو نہیں سکتا جسے تو سوتے جاگتے پڑھتا ہے ‘ } ۔ { پھر مجھے میرے رب نے حکم دیا کہ ’ قریشیوں میں پیغام الٰہی پہنچاؤں ‘ ، میں نے کہا { یا رب یہ تو میرا سر کچل کر روٹی جیسا بنا دیں گے } ، پروردگار نے فرمایا ’ تو انہیں نکال ، جیسے انہوں نے تجھے نکالا تو ان سے جہاد کر ، تیری امداد کی جائے گی ‘ ۔ ’ تو ان پر خرچ کر ، تجھ پر خرچ کیا جائے گا ، تو ان کے مقابلے پر لشکر بھیج ، ہم اس سے پانچ گنا لشکر اور بھیجیں گے اپنے فرمانبرداروں کو لے کر اپنے نافرمانوں سے جنگ کر ، جنتی لوگ تین قسم کے ہیں ، بادشاہ عادل ، توفیق خیر والا ، صدقہ خیرات کرنے والا اور باوجود مفلس ہونے کے حرام سے بچنے والا ، حالانکہ اہل و عیال بھی ہے ، اور جہنمی لوگ پانچ قسم کے ہیں وہ سفلے لوگ جو بے دین ، خوشامد خورے اور ماتحت ہیں ، جن کی آل اولاد دھن دولت ہے اور وہ حائن لوگ جن کے دانت چھوٹی سے چھوٹی چیز پر بھی ہوتے ہیں اور حقیر چیزوں میں بھی خیانت سے نہیں چوکتے اور وہ لوگ جو صبح شام لوگوں کو ان کے اہل و مال میں دھوکہ دیتے پھرتے ہیں اور بخیل ہیں ‘ ۔ فرمایا کذاب اور شنطیر یعنی بدگو } ۔ یہ حدیث مسلم اور نسائی میں ہے ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2865) مقصود یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت سچا دین دنیا میں نہ تھا ، اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے لوگوں کو اندھیروں سے اور گمراہیوں سے نکال کر اجالے میں اور راہ راست پر لاکھڑا کیا اور انہیں روشن و ظاہر شریعت عطا فرمائی ۔ اس لیے کہ لوگوں کا عذر نہ رہے ، انہیں یہ کہنے کی گنجائش نہ رہے کہ ہمارے پاس کوئی نبی نہیں آیا ، ہمیں نہ تو کسی نے کوئی خوشخبری سنائی نہ دھمکایا ڈرایا ۔ پس کامل قدرتوں والے اللہ نے اپنے برگزیدہ پیغمبروں علیہم السلام کو ساری دنیا کی ہدایت کیلئے بھیج دیا ، وہ اپنے فرمانبرداروں کو ثواب دینے پر اور نافرمانوں کو عذاب کرنے پر قادر ہے ۔ المآئدہ
20 تسلسل انبیاء نسل انسانی پہ اللہ کی رحمت حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو اللہ کی جو نعمتیں یاد دلا کر اس کی اطاعت کی طرف مائل کیا تھا ، اس کا بیان ہو رہا ہے کہ فرمایا ” لوگو اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو کہ اس نے ایک کے بعد ایک نبی علیہ السلام تم میں تمہیں میں سے بھیجا “ ۔ سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے بعد سے انہی کی نسل میں نبوت رہی ۔ یہ سب انبیاء علیہم السلام تمہیں دعوت توحید و اتباع دیتے رہے ۔ یہ سلسلہ عیسیٰ روح اللہ علیہ السلام پر ختم ہوا ، پھر خاتم الانبیاء و الرسل محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت کاملہ عطا ہوئی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت اسماعیل علیہ السلام کے واسطہ سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے ، جو اپنے سے پہلے کے تمام رسولوں اور نبیوں سے افضل تھے ۔ اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام نازل فرمائے اور تمہیں اس نے بادشاہ بنا دیا یعنی خادم دیئے ، بیویاں دیں ، گھربار دیا اور اس وقت جتنے لوگ تھے ، ان سب سے زیادہ نعمتیں تمہیں عطا فرمائیں ۔ یہ لوگ اتنا پانے کے بعد بادشاہ کہلانے لگتے ہیں ۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے پوچھا کہ کیا میں فقراء مہاجرین میں سے نہیں ہوں ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا تیری بیوی ہے ؟ اس نے کہا ہاں گھر بھی ہے ؟ کہا ہاں ، کہا پھر تو تو غنی ہے ، اس نے کہا یوں تو میرا خادم بھی ہے ، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا پھر تو تو بادشاہوں میں سے ہے ۔ حسن بصری رحمۃ اللہ فرماتے ہیں ” سواری اور خادم ملک ہے “ ۔ بنو اسرائیل ایسے لوگوں کو ملوک کہا کرتے تھے ۔ بقول قتادہ رحمۃ اللہ خادموں کا اول رواج ان بنی اسرائیلیوں نے ہی دیا ہے ۔ ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ { ان لوگوں میں جس کے پاس خادم ، سواری اور بیوی ہو وہ بادشاہ کہا جاتا تھا } ۔ ۱؎ (ضعیف:اسکی سند میں ابن لبیعہ ضعیف ہے) ایک اور مرفوع حدیث میں ہے { جس کا گھر ہو اور خادم ہو وہ بادشاہ ہے } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:11629:مرسل و ضعیف) یہ حدیث مرسل اور غریب ہے ۔ ایک حدیث میں آیا ہے { جو شخص اس حالت میں صبح کرے کہ اس کا جسم صحیح سالم ہو ، اس کا نفس امن و امان میں ہو ، دن بھر کفایت کرے ، اس کیلئے اتنا مال بھی ہو تو اس کیلئے گویا کل دنیا سمٹ کر آگئی } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2346،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اس وقت جو یونانی قبطی وغیرہ تھے ان سے یہ اشرف و افضل مانے گئے تھے ۔ اور آیت میں ہے «وَلَقَدْ آتَیْنَا بَنِی إِسْرَائِیلَ الْکِتَابَ وَالْحُکْمَ وَالنٰبُوَّۃَ وَرَزَقْنَاہُمْ مِنَ الطَّیِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاہُمْ عَلَی الْعَالَمِینَ» ۱؎ (45-الجاثیۃ:16) ’ ہم نے بنو اسرائیل کو کتاب ، حکم ، نبوت ، پاکیزہ روزیاں اور سب پر فضیلت دی تھی ‘ ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے جب انہوں نے مشرکوں کی دیکھا دیکھی اللہ بنانے کو کہا اس کے جواب میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ کے فضل بیان کرتے ہوئے یہی فرمایا تھا کہ ” اس نے تمہیں تمام جہان پر فضیلت دے رکھی ہے “ ۔ مطلب سب جگہ یہی ہے کہ اس وقت کے تمام لوگوں پر کیونکہ یہ ثابت شدہ امر ہے کہ یہ امت ان سے افضل ہے ، کیا شرعی حیثیت سے ، کیا احامی حیثیت سے ، کیا نبوت کی حیثیت سے ، کیا بادشاہت ، عزت ، مملکت ، دولت ، حشمت مال ، اولاد وغیرہ کی حیثیت سے ۔ خود قرآن فرماتا ہے آیت «کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ» ۱؎ (3-آل عمران:110) ، اور فرمایا آیت «وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَاءَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًا» ۱؎ (2-البقرۃ:143) ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ” بنو اسرائیل کے ساتھ اس فضیلت میں امت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی شامل کر کے خطاب کیا گیا ہے “ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ” بعض امور میں انہیں فی الواقع علی الاطلاق فضیلت دی گئی تھی جیسے من و سلویٰ کا اترنا ، بادلوں سے سایہ مہیا کرنا وغیرہ جو خلاف عادت چیزیں تھیں “ ۔ یہ قول اکثر مفسرین کا ہے جیسا پہلے بیان ہو چکا ہے کہ مراد اس سے ان کے اپنے زمانے والوں پر انہیں فضیلت دیا جانا ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ پھر بیان ہوتا ہے کہ ’ بیت المقدس دراصل ان کے دادا یعقوب کے زمانہ میں انہی کے قبضے میں تھا اور جب وہ مع اپنے اہل و عیال کے حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس مصر چلے گئے تو یہاں عمالقہ قوم اس پر قبضہ جما بیٹھی ، وہ بڑے مضبوط ہاتھ پیروں کی تھی ‘ ۔ اب حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم سے فرماتے ہیں کہ ” تم ان سے جہاد کرو اللہ تمہیں ان پر غالب کرے گا اور یہاں کا قبضہ پھر تمہیں مل جائے گا “ ۔ لیکن یہ نامردی دکھاتے ہیں اور بزدلی سے منہ پھیر لیتے ہیں ۔ ان کی سزا میں انہیں چالیس سال تک وادی تیہ میں حیران و سرگرداں خانہ بدوشی میں رہنا پڑتا ہے ۔ مقدسہ سے مراد پاک ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” یہ وادی طور اور اس کے پاس کی زمین کا ذکر ہے “ ۔ ایک روایت میں اریحاء کا ذکر ہے لیکن یہ ٹھیک نہیں ، اس لیے کہ نہ تو اریحاء کا فتح کرنا مقصود تھا ، نہ وہ ان کے راستے میں تھا ، کیونکہ وہ فرعون کی ہلاکت کے بعد مصر کے شہروں سے آرہے تھے اور بیت المقدس جا رہے تھے ، یہ ہو سکتا ہے کہ وہ مشہور شہر جو طور کی طرف بیت المقدس کے مشرقی رخ پر تھا ۔ ” اللہ نے اسے تمہارے لیے لکھ دیا ہے “ ۔ مطلب یہ ہے کہ تمہارے باپ اسرائیل سے اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ تیری اولاد کے باایمان لوگوں کے ورثے میں آئے گا ، تم اپنی پیٹھوں پر مرتد نہ ہو جاؤ ۔ یعنی جہاد سے منہ پھیر کر تھک کر نہ بیٹھ جاؤ ، ورنہ زبردست نقصان میں پڑ جاؤ گے ۔ جس کے جواب میں وہ کہتے ہیں کہ جس شہر میں جانے اور جن شہریوں سے جہاد کرنے کیلئے آپ علیہ السلام فرما رہے ہیں ، ہمیں معلوم ہے کہ وہ بڑے قوی طاقتور اور جنگجو ہیں ، ہم ان سے مقابلہ نہیں کرسکتے ، جب تک وہ وہاں موجود ہیں ، ہم اس شہر میں نہیں جا سکتے ، ہاں اگر وہ لوگ وہاں سے نکل جائیں تو ہم چلے جائیں گے ، ورنہ آپ کے حکم کی تعمیل ہماری طاقت سے باہر ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ” موسیٰ علیہ السلام جب اریحاء کے قریب پہنچ گئے تو آپ علیہ السلام نے بارہ جاسوس مقرر کئے ، بنو اسرائیل کے ہر قبیلے میں سے ایک جاسوس لیا اور انہیں اریحاء میں بھیج کر صحیح خبریں لے آئیں “ ۔ یہ لوگ جب گئے تو ان کی جسامت اور قوت سے خوف زدہ ہو گئے ۔ ایک باغ میں یہ سب کے سب تھے ، اتفاقاً باغ والا پھل توڑنے کیلئے آگیا ، وہ پھل توڑتا ہوا ان کے قدموں کے نشان ڈھونڈتا ہوا ان کے پاس پہنچ گیا اور انہیں بھی پھلوں کے ساتھ ہی ساتھ اپنی گٹھڑی میں باندھ لیا اور جا کر بادشاہ کے سامنے باغ کے پھل کی گٹھڑی کھول کر ڈال دی ، جس میں یہ سب کے سب تھے ، بادشاہ نے انہیں کہا اب تو تمہیں ہماری قوت کا اندازہ ہو گیا ہے ، تمہیں قتل نہیں کرتا جاؤ واپس جاؤ اور اپنے لوگوں سے ہماری قوت بیان کر دو ۔ چنانچہ انہوں نے جا کر سب حال بیان کیا جس سے بنو اسرائیل رعب میں آگئے “ ۔ لیکن اس کی اسناد ٹھیک نہیں ۔ دوسری روایت میں ہے کہ ” ان بارہ لوگوں کو ایک شخص نے پکڑ لیا اور اپنی چادر میں گٹھڑی باندھ کر نہر میں لے گیا اور لوگوں کے سامنے انہیں ڈال دیا ، انہوں نے پوچھا تم کون لوگ ہو ؟ جواب دیا کہ ہم موسیٰ علیہ السلام کی قوم کے لوگ ہیں ، ہم تمہاری خبریں لینے کیلئے بھیجے گئے تھے ۔ انہوں نے ایک انگور ان کو دیا جو ایک شخص کو کافی تھا اور کہا جاؤ ان سے کہہ دو کہ یہ ہمارے میوے ہیں ۔ انہوں نے واپس جا کر قوم سے سب حال کہدیا ۔ اب موسیٰ علیہ السلام نے انہیں جہاد کا اور اس شہر میں جانے کا حکم دیا تو انہوں نے صاف کہہ دیا کہ آپ علیہ السلام اور آپ علیہ السلام کا اللہ جائیں اور لڑیں ہم تو یہاں سے ہلنے کے بھی نہیں ۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے ایک بانس لے کر ناپا جو پچاس یا پچپن ہاتھ کا تھا ، پھر اسے گاڑ کر فرمایا ” ان عمالیق کے قد اس قدر لانبے تھے “ ۔ مفسرین نے یہاں پر اسرائیلی روایتیں بہت سی بیان کی ہیں کہ یہ لوگ اس قدر قوی تھے ، اتنے موٹے اور اتنے لمبے قد تھے ، انہی میں عوج بن عنق بن آدم تھا ، جس کا قد لمبائی میں (3333) تین ہزار تین سو تیتس گز کا تھا ، اور چوڑائی اس کے جسم کی تین گرز کی تھی لیکن یہ سب باتیں واہی ہیں ، ان کے تو ذکر سے بھی حیاء مانع ہے ۔ پھر یہ صحیح حدیث کے خلاف بھی ہیں ، { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو ساٹھ ہاتھ پیدا کیا تھا ، پھر سے آج تک مخلوق کے قد گھٹتے ہی رہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3326) ان اسرائیلی روایتوں میں یہ بھی ہے کہ عوج بن عنق کافر تھا اور ولد الزنا تھا یہ طوفان نوح میں تھے اور نوح علیہ السلام کے ساتھ ان کی کشتی میں نہ بیٹھا تھا ، تاہم پانی اس کے گھٹنوں تک بھی نہ پہنچا تھا ۔ یہ محض لغو اور بالکل جھوٹ ہے بلکہ قرآن کے خلاف ہے ، قرآن کریم میں حضرت نوح علیہ السلام کی دعا یہ مذکور ہے کہ «رَبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْأَرْضِ مِنَ الْکَافِرِینَ دَیَّارًا» ۱؎ (71-نوح:26) ’ زمین پر ایک کافر بھی نہ بچنا چاہیئے ‘ ، یہ دعا قبول ہوئی اور یہی ہوا بھی ۔ قرآن فرماتا ہے «فَأَنْجَیْنَاہُ وَمَنْ مَعَہُ فِی الْفُلْکِ الْمَشْحُونِ ثُمَّ أَغْرَقْنَا بَعْدُ الْبَاقِینَ» ۱؎ (26-الشعراء:119-120) ” ہم نے نوح کو اور ان کی کشتی والوں کو نجات دی ، پھر باقی کے سب کافروں کو غرق کر دیا “ ۔ خود قرآن میں ہے کہ «لَا عَاصِمَ الْیَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللہِ إِلَّا مَنْ رَحِمَ» ۱؎ (11-ہود:43) ’ آج کے دن بجز ان لوگوں کے جن پر رحمت حق ہے ، کوئی بھی بچنے کا نہیں ‘ ۔ تعجب سا تعجب ہے کہ نوح علیہ السلام کا لڑکا بھی جو ایماندار نہ تھا بچ نہ سکے لیکن عوج بن عنق کافر ولد الزنا بچ رہے ۔ یہ بالکل عقل و نقل کے خلاف ہے بلکہ ہم تو سرے سے اس کے بھی قائل نہیں کہ عوج بن عنق نامی کوئی شخص تھا «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ بنی اسرائیل جب اپنے نبی کریم علیہ السلام کو نہیں مانتے بلکہ ان کے سامنے سخت کلامی اور بے ادبی کرتے تو وہ شخص جن پر اللہ کا انعام و اکرام تھا ، وہ انہیں سمجھاتے ہیں ۔ ان کے دلوں میں اللہ کا خوف تھا ، وہ ڈرتے تھے ، کہ بنی اسرائیل کی اس سرکشی سے کہیں عذاب الٰہی نہ آ جائے ۔ ایک قرأت میں «یَخَافُونَ» کے بدلے «یَـھَـابَـوْنَ» ہے ، اس سے مراد یہ ہے کہ ” ان دونوں بزرگوں کی قوم میں عزت و عظمت تھی ۔ ایک کا نام یوشع بن نون تھا دوسرے کا نام کالب بن یوفا تھا “ ۔ انہوں نے کہا کہ اگر تم اللہ پر بھروسہ رکھو گے ، اس کے رسول علیہ السلام کی اطاعت کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں ان دشمنوں پر غالب کر دے گا اور وہ تمہاری مدد کو تائید کرے گا اور تم اس شہر میں غلبے کے ساتھ پہنچ جاؤ گے ، تم دروازے تک تو چلے چلو ، یقین مانو کہ غلبہ تمہارا ہی ہے ۔ لیکن ان نامرادوں نے اپنا پہلا جواب اور مضبوط کر دیا اور کہا کہ اس جبار قوم کی موجودگی میں ہمارا ایک قدم بڑھانا بھی ناممکن ہے ۔ موسیٰ اور ہارون علیہم السلام نے دیکھ کر بہت سمجھایا یہاں تک کہ ان کے سامنے بڑی عاجزی کی لیکن وہ نہ جانے ۔ یہ حال دیکھ کر یوشع اور کالب نے اپنے کپڑے پھاڑ ڈالے اور انہیں بہت کچھ ملامت کی ۔ لیکن یہ بدنصیب اور اکڑ گئے ، بلکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان دونوں بزرگوں کو انہوں نے پتھروں سے شہید کر دیا ، ایک طوفان بدتمیزی شروع ہو گیا اور بے طرح مخالفت رسول علیہ السلام پر تل گئے ۔ ان کے اس حال کو سامنے رکھ کر پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کے حال کو دیکھئیے کہ جب نو سو یا ایک ہزار کافر اپنے قافلے کو بچانے کیلئے چلے ، قافلہ تو دوسرے راستے سے نکل گیا لیکن انہوں نے اپنی طاقت و قوت کے گھمنڈ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نقصان پہنچائے بغیر واپس جانا اپنی امیدوں پر پانی پھیرنا ، سمجھ کر اسلام اور مسلمانوں کو کچل ڈالنے کے ارادے سے مدینہ کا رخ کیا ۔ ادھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ حالات معلوم ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم سے کہا کہ { بتاؤ اب کیا کرنا چاہیئے ؟ } اللہ ان سب سے خوش رہے ، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں اپنے مال اپنی جانیں اور اپنے اہل عیال سب کو ہیچ سمجھا نہ کفار کے غلبے کو دیکھا ، نہ اسباب پر نظر ڈالی بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پہ قربان ہیں ۔ سب سے پہلے صدیق رضی اللہ عنہ نے اس قسم کی گفتگو کی ، پھر مہاجرین صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے کئی ایک نے اسی قسم کی تقریر کی ۔ لیکن پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اور بھی کوئی شخص اپنا ارادہ ظاہر کرنا چاہے تو کرے } ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد اس سے یہ تھا کہ انصار کا دلی ارادہ معلوم کریں ، اس لیے کہ یہ جگہ انہی کی تھی اور تعداد میں بھی یہ مہاجرین سے زیادہ تھے ۔ اس پر سیدنا سعد بن معاذ انصاری رضی اللہ عنہ و انصار کھڑے ہوگئے اور فرمانے لگے ” شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارادہ ہماری منشاء معلوم کرنے کا ہے ؟ سنئے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! قسم ہے اس اللہ کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ سچا نبی بنا کر بھیجا ہے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں سمندر کے کنارے کھڑا کرکے فرمائیں کہ اس میں کود جاؤ تو بغیر کسی پس و پیش کے اس میں کود جائیں گے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھ لیں گے کہ ہم میں سے ایک بھی نہ ہوگا جو کنارے پر کھڑا رہ جائے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دشمنوں کے مقابلے میں ہمیں شوق سے لے چلئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھ لیں گے کہ ہم لڑائی میں صبر اور ثابت قدمی دکھانے والے لوگ ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جان لیں گے کہ ہم اللہ کی ملاقات کو سچ جاننے والے لوگ ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کا نام لیجئے ، کھڑے ہو جایئے ہمیں دیکھ کر ہماری بہادری اور استقلال کو دیکھ کر ان شاءاللہ آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی “ ۔ یہ سن کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوگئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو انصار کی یہ باتیں بہت ہی بھلی معلوم ہوئیں رضی اللہ عنہم ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1779) ایک روایت میں ہے کہ { بدر کی لڑائی کے موقعہ پر آپ نے مسلمانوں سے مشورہ لیا ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کچھ کہا پھر انصاریوں نے کہا کہ ” اگر آپ ہماری سننا چاہتے ہیں ، تو سنئے ہم بنی اسرائیل کی طرح نہیں ، جو کہدیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اللہ جا کر لڑیں ، ہم یہاں بیٹھے ہیں ، بلکہ ہمارا جواب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی مدد لے کر جہاد کیلئے چلئے ، ہم جان و مال سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہیں } ۔ ۱؎ (مسند احمد:105/3:صحیح) مقداد انصاری رضی اللہ عنہ نے بھی کھڑے ہو کر یہی فرمایا تھا ۔ ۱؎ (مسند احمد:314/4:) سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ ” سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ کے اس قول سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہو گئے “ ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4609) انہوں نے کہا تھا کہ ” نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لڑائی کے وقت دیکھ لیں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے پیچھے دائیں بائیں ہم ہی ہم ہوں گے “ ۔ ۱؎ (مسند احمد:389/1:صحیح) [ کاش کہ کوئی ایسا موقع مجھے میسر آتا کہ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قدر خوش کر سکتا ] ۔ ایک روایت میں سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ کا یہ قول حدیبیہ کے دن مروی ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:11686:ضعیف) جبکہ مشرکین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عمرہ کیلئے بیت اللہ شریف جاتے ہوئے راستے میں روکا اور قربانی کے جانور بھی ذبح کی جگہ نہ پہنچ سکے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { میں تو اپنی قربانی کے جانور کو لے کر بیت اللہ پہنچ کر قربان کرنا چاہتا ہوں } ، تو سیدنا مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” ہم اصحاب موسیٰ علیہ السلام کی طرح نہیں کہ انہوں نے اپنے نبی کریم علیہ السلام سے کہدیا کہ آپ اور آپ کا اللہ جا کر لڑ لو ہم تو یہاں بیٹھے ہیں ۔ ہم کہتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ چلئے اللہ کی مدد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہو اور ہم سب کے سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی ہیں “ ۔ یہ سن کر اصحاب رضی اللہ عنہم نے بھی اسی طرح جاں نثاروں کے وعدے کرنے شروع کر دیئے ۔ پس اگر اس روایت میں حدیبیہ کا ذکر محفوظ ہو تو ہوسکتا ہے کہ بدر والے دن بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہو اور حدیبیہ والے دن بھی یہی فرمایا ہو «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنی امت کا یہ جواب سن کر ان پر بہت غصہ آیا اور اللہ کے سامنے ان سے اپنی بیزاری کا اظہار کیا کہ ” رب العالمین مجھے تو اپنی جان پر اور اپنے بھائی پر اختیار ہے ، تو میرے اور میری قوم کے ان فاسقوں کے درمیان فیصلہ فرما “ ۔ جناب باری تعالیٰ نے یہ دعا قبول فرمائی اور فرمایا کہ ’ اب چالیس سال تک یہاں سے جا نہیں سکتے ۔ وادی تیہ میں حیران و سرگرداں گھومتے پھرتے رہیں گے ‘ ، کسی طرح اس کی حدود سے باہر نہیں جا سکتے تھے ۔ یہاں انہوں نے عجیب و غریب خلاف عادت امور دیکھے مثلاً ابر کا سایہ ان پر ہونا ، من و سلویٰ کا اترنا ۔ ایک ٹھوس پتھر سے ، جو ان کے ساتھ تھا ، پانی کا نکلنا ، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس پتھر پر ایک لکڑی ماری تو فوراً ہی اس سے بارہ چشمے پانی کے جاری ہو گئے اور ہر قبیلے کی طرف ایک چشمہ بہہ نکلا ، اس کے سوا اور بھی بہت سے معجزے بنو اسرائیل نے وہاں پر دیکھے ، یہیں تورات اتری ، یہیں احکام الٰہی نازل ہوئے وغیرہ وغیرہ ، اسی میدان میں چالیس سال تک یہ گھومتے پھرتے رہے لیکن کوئی راہ وہاں سے گزر جانے کی انہیں نہ ملی ۔ ہاں ابر کا سایہ ان پر کر دیا گیا اور من و سلویٰ اتار دیا گیا ۔ فتون کی مطول حدیث میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ سب مروی ہے ۔ پھر ہارون علیہ السلام کی وفات ہوگئی اور اس کے تین سال بعد کلیم اللہ موسیٰ علیہ السلام بھی انتقال فرما گئے ، پھر آپ علیہ السلام کے خلیفہ یوشع بن نون علیہ السلام نبی بنائے گئے ۔ اسی اثناء میں بہت سے بنی اسرائیل مر مرا چکے تھے ، بلکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ صرف یوشع اور کالب ہی باقی رہے تھے ۔ بعض مفسرین «سَنَۃً» پر وقف تام کرتے ہیں اور «أَرْبَعِینَ سَنَۃً» کو نصب کی حالت میں مانتے ہیں اور اس کا عامل «تِیہُونَ فِی الْأَرْضِ» کو بتلاتے ہیں ۔ اس چالیس سالہ مدت کے گزرجانے کے بعد جو بھی باقی تھے ، انہیں لے کر یوشع بن نون علیہ السلام نکلے اور دوسرے پہاڑ سے بھی باقی بنو اسرائیل ان کے ساتھ ہولیے اور آپ علیہ السلام نے بیت المقدس کا محاصرہ کر لیا ۔ جمعہ کے دن عصر کے بعد جب کہ فتح کا وقت آ پہنچا دشمنوں کے قدم اکھڑ گئے ، اتنے میں سورج ڈوبنے لگا اور سورج ڈوبنے کے بعد ہفتے کی تعظیم کی وجہ سے لڑائی ہو نہیں سکتی تھی اس لیے اللہ کے نبی کریم علیہ السلام نے فرمایا ” اے سورج تو بھی اللہ کا غلام ہے اور میں بھی اللہ کا محکوم ہوں ، اے اللہ ! اسے ذرا سی دیر روک دے “ ۔ چنانچہ اللہ کے حکم سے سورج رک گیا اور آپ علیہ السلام نے دلجمعی کے ساتھ بیت المقدس کو فتح کرلیا ۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا کہ ’ بنی اسرائیل کو کہدو اس شہر کے دروازے میں سجدے کرتے ہوئے جائیں اور «حِطَّۃٌ» کہیں ‘ یعنی یا اللہ ہماری گناہ معاف فرما ۔ لیکن انہوں نے اللہ کے حکم کو بدل دیا ۔ رانوں پر گھسٹتے ہوئے ہوئے اور زبان سی «حَبَّۃٌ فِیْ شَعْرَۃٍ» کہتے ہوئے شہر میں گئے ، مزید تفصیل سورۃ البقرۃ کی تفسیر میں گزر چکی ہے ۔ دوسری روایت میں اتنی زیادتی بھی ہے کہ اس قدر مال غنیمت انہیں حاصل ہوا کہ اتنا مال کبھی انہوں نے نہیں دیکھا تھا ۔ فرمان رب کے مطابق اسے آگ میں جلانے کیلئے آگ کے پاس لے گئے لیکن آگ نے اسے جلایا نہیں اس پر ان کے نبی یوشع علیہ السلام نے فرمایا ” تم میں سے کسی نے اس میں سے کچھ چرا لیا ہے پس میرے پاس ہر قبیلے کا سردار آئے اور میرے ہاتھ پر بیعت کرے “۔ چنانچہ یونہی کیا گیا ، ایک قبیلے کے سردار کا ہاتھ اللہ کے نبی کریم علیہ السلام کے ہاتھ سے چپک گیا ، آپ علیہ السلام نے فرمایا ” تیرے پاس جو بھی خیانت کی چیز ہے ، اسے لے آ “ ۔ اس نے ایک گائے کا سر سونے کا بنا ہوا پیش کیا ، جس کی آنکھیں یاقوت کی تھیں اور دانت موتیوں کے تھے ، جب وہ بھی دوسرے مال کے ساتھ ڈال دیا گیا ، اب آگ نے اس سب مال کو جلا دیا ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ نے بھی اسی قول کو پسند کیا ہے ۔ «أَرْبَعِینَ سَنَۃً» میں «فَإِنَّہَا مُحَرَّمَۃٌ» عامل ہے ، اور بنی اسرائیل کی یہ جماعت چالیس برس تک اسی میدان تیہ میں سرگرداں رہی پھر موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ یہ لوگ نکلے اور بیت المقدس کو فتح کیا اس کی دلیل اگلے علماء یہود کا اجماع ہے کہ عوج بن عنق کو کلیم اللہ علیہ السلام نے ہی قتل کیا ہے ۔ اگر اس کا قتل عمالیق کی اس جنگ سے پہلے کا ہوتا تو کوئی وجہ نہ تھی کہ بنی اسرائیل جنگ عمالیق کا انکار کر بیٹھتے ؟ تو معلوم ہوا کہ یہ واقعہ تیہ سے چھوٹنے کے بعد کا ہے ، علماء یہود کا اس پر بھی اجماع ہے کہ بلعام بن باعورا نے قوم عمالیق کے جباروں کی اعانت کی اور اس نے موسیٰ علیہ السلام پر بد دعا کی ۔ یہ واقعہ بھی اس میدان کی قید سے چھوٹنے کے بعد کا ہے ۔ اس لیے کہ اس سے پہلے تو جباروں کو موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم سے کوئی ڈر نہ تھا ۔ ابن جریر کی یہی دلیل ہے وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام کا عصا دس ہاتھ کا تھا اور آپ علیہ السلام کا قد بھی دس ہاتھ کا تھا اور دس ہاتھ زمین سے اچھل کر آپ علیہ السلام نے عوج بن عنق کو وہ عصا مارا تھا جو اس کے ٹخنے پر لگا اور وہ مر گیا ، اس کے جثے سے نیل کا پل بنایا گیا تھا ، جس پر سے سال بھر تک اہل نیل آتے جاتے رہے ۔ نوف بکالی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ” اس کا تخت تین گز کا تھا “ ۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریم علیہ السلام کو تسلی دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ ’ تو اپنی قوم بنی اسرائیل پر غم و رنج نہ کر ، وہ اسی جیل خانے کے مستحق ہیں ‘ ۔ اس واقعہ میں درحقیقت یہودیوں کو ڈانٹ ڈپٹ کا ذکر ہے اور ان کی مخالفتوں کا اور برائیوں کا بیان ہے یہ دشمنان رب سختی کے وقت اللہ کے دین پر قائم نہیں رہتے تھے ، رسولوں کی پیروی سے انکار کر جاتے تھے ، جہاد سے جی چراتے تھے ، اللہ کے اس کلیم و بزرگ رسول علیہ السلام کی موجودگی کا ، ان کے وعدے کا ، ان کے حکم کا کوئی پاس انہوں نے نہیں کیا ، دن رات معجزے دیکھتے تھے ، فرعون کی بربادی اپنی آنکھوں دیکھ لی تھی اور اسے کچھ زمانہ بھی نہ گزرا تھا ، اللہ کے بزرگ کلیم پیغمبر علیہ السلام ساتھ ہیں ، وہ نصرت و فتح کے وعدے کر رہے ہیں ، مگر یہ ہیں کہ اپنی بزدلی میں مرے جا رہے ہیں اور نہ صرف انکار بلکہ ہولناکی کے ساتھ انکار کرتے ہیں ۔ نبی اللہ کی بے ادبی کرتے ہیں اور صاف جواب دیتے ہیں ۔ اپنی آنکھوں دیکھ چکے ہیں کہ فرعون جیسے با سامان بادشاہ کو اس کے ساز و سامان اور لشکر و رعیت سمیت اس رب نے ڈبو دیا ۔ لیکن پھر بھی اسی بستی والوں کی طرف اللہ کے بھروسے پر اس کے حکم کی ماتحتی میں نہیں بڑھتے حالانکہ یہ فرعون کے دسویں حصہ میں بھی نہ تھے ۔ پس اللہ کا غضب ان پر نازل ہوتا ہے ، ان کی بزدلی دنیا پر ظاہر ہو جاتی ہے اور آئے دن ان کی رسوائی اور ذلت بڑھتی جاتی ہے ۔ گویہ لوگ اپنے تئیں اللہ کے محبوب جانتے تھے لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس تھی ۔ رب کی نظروں سے یہ گر گئے تھے ، دنیا میں ان پر طرح طرح کے عذاب آئے ، سور بندر بھی بنائے گئے ، لعنت ابدی میں یہاں گرفتار ہو کر عذاب اخروی کے دائمی شکار بنائے گئے ۔ پس تمام تعریف اس اللہ کیلئے ہے ، جس کی فرمانبرداری تمام بھلائیوں کی کنجی ہے ۔ المآئدہ
21 المآئدہ
22 المآئدہ
23 المآئدہ
24 المآئدہ
25 المآئدہ
26 المآئدہ
27 حسد و بغض سے ممانعت اس قصے میں حسد و بغض سرکشی اور تکبر کا بدانجام بیان ہو رہا ہے کہ کس طرح کے دو صلبی بیٹوں میں کشمکش ہو گئی اور ایک اللہ کا ہو کر مظلوم بنا اور مار ڈالا گیا اور اپنا ٹھکانا جنت میں بنا لیا اور دوسرے نے اسے ظلم و زیادتی کے ساتھ بے وجہ قتل کیا اور دونوں جہان میں برباد ہوا ۔ فرماتا ہے ’ اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں آدم علیہ السلام کے دونوں بیٹوں کا صحیح صحیح بے کم و کاست قصہ سنا دو ‘ ۔ ان دونوں کا نام ہابیل و قابیل تھا ۔ مروی ہے کہ چونکہ اس وقت دنیا کی ابتدائی حالت تھی ، اس لیے یوں ہوتا تھا کہ حضرت آدم علیہ السلام کے ہاں ایک حمل سے لڑکی لڑکا دو ہوتے تھے ، پھر دوسرے حمل میں بھی اسی طرح تو اس حمل کا لڑکا اور دوسرے حمل کی لڑکی ان دونوں کا نکاح کرا دیا جاتا تھا ، ہابیل کی بہن تو خوبصورت نہ تھی اور قابیل کی بہن خوبصورت تھی تو قابیل نے چاہا کہ اپنی ہی بہن سے اپنا نکاح کرلے ، حضرت آدم علیہ السلام نے اس سے منع کیا ۔ آخر یہ فیصلہ ہوا کہ تم دونوں اللہ کے نام پر کچھ نکالو ، جس کی خیرات قبول ہو جائے اس کا نکاح اس کے ساتھ کر دیا جائے گا ۔ ہابیل کی خیرات قبول ہوگئی پھر وہ ہوا جس کا بیان قرآن کی ان آیات میں ہوا ۔ مفسرین کے اقوال سنئے آدم کی صلبی اولاد کے نکاح کا قاعدہ جو اوپر مذکور ہوا بیان فرمانے کے بعد مروی ہے کہ بڑا بھائی قابیل کھیتی کرتا تھا اور ہابیل جانوروں والا تھا ، قابیل کی بہن بہ نسبت ہابیل کی بہن کے خوب رو تھی ۔ جب ہابیل کا پیغام اس سے ہوا تو قابیل نے انکار کر دیا اور اپنا نکاح اس سے کرنا چاہا ، حضرت آدم علیہ السلام نے اس سے روکا ۔ اب ان دونوں نے خیرات نکالی کہ جس کی قبول ہو جائے وہ نکاح کا زیادہ حقدار ہے حضرت آدم علیہ السلام اس وقت مکہ چلے گئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام سے فرمایا ’ زمین پر جو میرا گھر ہے اسے جانتے ہو ؟ ‘ آپ علیہ السلام نے کہا نہیں حکم ہوا ’ مکہ میں ہے تم وہیں جاؤ ‘ ۔ حضرت آدم علیہ السلام نے آسمان سے کہا کہ میرے بچوں کی تو حفاظت کرے گا ؟ اس نے انکار کیا زمین سے کہا اس نے بھی انکار کر دیا ، پہاڑوں سے کہا انہوں نے بھی انکار کیا ، قابیل سے کہا ، اس نے کہا ہاں میں محافظ ہوں ، آپ علیہ السلام جایئے آکر ملاحظہ فرما لیں گے اور خوش ہوں گے ۔ اب ہابیل نے ایک خوبصورت موٹا تازہ مینڈھا اللہ کے نام پر ذبح کیا اور بڑے بھائی نے اپنی کھیتی کا حصہ اللہ کیلئے نکالا ۔ آگ آئی اور ہابیل کی نذر تو جلا گئی ، جو اس زمانہ میں قبولیت کی علامت تھی اور قابیل کی نذر قبول نہ ہوئی ، اس کی کھیتی یونہی رہ گئی ، اس نے راہ اللہ کرنے کے بعد اس میں سے اچھی اچھی بالیں توڑ کر کھا لیں تھیں ۔ چونکہ قابیل اب مایوس ہو چکا تھا کہ اس کے نکاح میں اس کی بہن نہیں آسکتی ، اس لیے اپنے بھائی کو قتل کی دھمکی دی تھی اس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ تقویٰ والوں کی قربانی فرمایا کرتا ہے ۔ اس میں میرا کیا قصور ؟ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ یہ مینڈھا جنت میں پلتا رہا اور یہی وہ مینڈھا ہے جسے حضرت ابراھیم علیہ السلام نے اپنے بچے کے بدلے ذبح کیا ۔ ایک روایت میں ہے کہ ہابیل نے اپنے جانوروں میں سے بہترین اور مرغوب و محبوب جانور اللہ کے نام اور خوشی کے ساتھ قربان کیا ، برخلاف اس کے قابیل نے اپنی کھیتی میں سے نہایت ردی اور واہی چیز اور وہ بے دلی سے اللہ کے نام نکالی ۔ ہابیل تنو مندی اور طاقتوری میں بھی قابیل سے زیادہ تھا تاہم اللہ کے خوف کی وجہ سے اس نے اپنے بھائی کا ظلم و زیادتی سہہ لی اور ہاتھ نہ اٹھایا ۔ بڑے بھائی کی قربانی جب قبول نہ ہوئی اور حضرت آدم علیہ السلام نے اس سے کہا تو اس نے کہا کہ چونکہ آپ ہابیل کو چاہتے ہیں اور آپ نے اس کیلئے دعا کی تو اس کی قربانی قبول ہو گئی ۔ اب اس نے ٹھان لی کہ میں اس کانٹے ہی کو اکھاڑ ڈالوں ۔ موقع کا منتظر تھا ایک روز اتفاقاً ہابیل کے آنے میں دیر لگ گئی تو انہیں بلانے کیلئے آدم نے قابیل کو بھیجا ۔ یہ ایک چھری اپنے ساتھ لے کر چلا ، راستے میں ہی دونوں بھائیوں کی ملاقات ہو گئی ، اس نے کہا میں تجھے مار ڈالوں گا کیونکہ تیری قربانی قبول ہوئی اور میری نہ ہوئی اس پر ہابیل نے کہا میں نے بہترین ، عمدہ ، محبوب اور مرغوب چیز اللہ کے نام نکالی اور تو نے بے کار بے جان چیز نکالی ، اللہ تعالیٰ اپنے متقیوں ہی کی نیکی قبول کرتا ہے ۔ اس پر وہ اور بگڑا اور چھری گھونپ دی ، ہابیل کہتے رہ گئے کہ اللہ کو کیا جواب دے گا ؟ اللہ کے ہاں اس ظلم کا بدلہ تجھ سے بری طرح لیا جائے گا ۔ اللہ کا خوف کر مجھے قتل نہ کر لیکن اس بے رحم نے اپنے بھائی کو مار ہی ڈالا ۔ قابیل نے اپنی تو امہ بہن سے اپنا ہی نکاح کرنے کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی تھی کہ ہم دونوں جنت میں پیدا ہوئے ہیں اور یہ دونوں زمین میں پیدا ہوئے ہیں ، اسی لیے میں اس کا حقدار ہوں ۔ یہ بھی مروی ہے کہ قابیل نے گیہوں نکالے تھے اور ہابیل نے گائے قربان کی تھی ۔ چونکہ اس وقت کوئی مسکین تو تھا ہی نہیں جسے صدقہ دیا جائے ، اس لیے یہی دستور تھا کہ صدقہ نکال دیتے آگ آسمان سے آتی اور اسے جلا جاتی یہ قبولیت کا نشان تھا ۔ اس برتری سے جو چھوٹے بھائی کو حاصل ہوئی ، بڑا بھائی حسد کی آگ میں بھڑکا اور اس کے قتل کے درپے ہو گیا ، یونہی بیٹھے بیٹھے دونوں بھائیوں نے قربانی کی تھی ۔ نکاح کے اختلاف کو مٹانے کی وجہ نہ تھی ، قرآن کے ظاہری الفاظ کا اقتضا بھی یہی ہے کہ ناراضگی کا باعث عدم قبولیت قربانی تھی نہ کچھ اور ۔ ایک روایت مندرجہ روایتوں کے خلاف یہ بھی ہے کہ قابیل نے کھیتی اللہ کے نام نذر دی تھی جو قبول ہوئی لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اس میں راوی کا حافظہ ٹھیک نہیں اور یہ مشہور امر کے بھی خلاف ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اللہ تعالیٰ اس کا عمل قبول کرتا ہے جو اپنے فعل میں اس سے ڈرتا رہے ۔ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” لوگ میدان قیامت میں ہوں گے تو ایک منادی ندا کرے گا کہ پرہیزگار کہاں ہیں ؟ پس پروردگار سے ڈرنے والے کھڑے ہو جائیں گے اور اللہ کے بازو کے نیچے جا ٹھہریں گے ۔ اللہ تعالیٰ نہ ان سے رخ پوشی کرے گا نہ پردہ “ ۔ راوی حدیث ابوعفیف سے دریافت کیا گیا کہ متقی کون ہیں ؟ فرمایا ” وہ جو شرک اور بت پرستی سے بچے اور خالص اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے پھر یہ سب لوگ جنت میں جائیں گے “ ۔ جس نیک بخت کی قربانی قبول کی گئی تھی ، وہ اپنے بھائی کے اس ارادہ کو سن کر اس سے کہتا ہے کہ تو جو چاہے کر ، میں تو تیری طرح نہیں کروں گا بلکہ میں صبر و ضبط کروں گا ، تھے تو زور و طاقت میں یہ اس سے زیادہ مگر اپنی بھلائی ، نیک بختی اور تواضع و فروتنی اور پرہیزگاری کی وجہ سے یہ فرمایا کہ تو گناہ پر آمادہ ہو جائے لیکن مجھ سے اس جرم کا ارتکاب نہیں ہو سکتا ، میں تو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں وہ تمام جہان کا رب ہے ۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ { { جب دو مسلمان تلواریں لے کر بھڑ گئے تو قاتل مقتول دونوں جہنمی ہیں } ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا قاتل تو خیر لیکن مقتول کیوں ہوا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اس لیے کہ وہ بھی اپنے ساتھی کے قتل پر حریص تھا } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:31) سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ نے اس وقت جبکہ باغیوں نے سیدنا عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ کو گھیر رکھا تھا کہا کہ { میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے { عنقریب فتنہ برپا ہو گا ۔ بیٹھا رہنے والا اس وقت کھڑے رہنے والے سے اچھا ہوگا اور کھڑا رہنے والا چلنے والے سے بہتر ہو گا اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہوگا } ۔ کسی نے پوچھا ” حضور صلی اللہ علیہ وسلم اگر کوئی میرے گھر میں بھی گھس آئے اور مجھے قتل کرنا چاہے “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { پھر بھی تو آدم علیہ السلام کے بیٹے کی طرح ہو جا } } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2194،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ایک روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس کے بعد اس آیت کی تلاوت کرنا بھی مروی ہے ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4257،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ایوب سختیاتی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں ” اس امت میں سب سے پہلے جس نے اس آیت پر عمل کیا وہ امیر المؤمنین عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ہیں “ ۔ { ایک مرتبہ ایک جانور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سوار تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ابوذر بتاؤ تو جب لوگوں پر ایسے فاقے آئیں گے کہ گھر سے مسجد تک نہ جاسکیں گے تو تو کیا کرے گا ؟ } میں نے کہا جو حکم رب اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہو ۔ فرمایا : { صبر کرو } ۔ پھر فرمایا : { جبکہ آپس میں خونریزی ہوگی یہاں تک کہ ریت کے تھر بھی خون میں ڈوب جائیں تو تو کیا کرے گا ؟ } میں نے وہی جواب دیا تو ،فرمایا کہ { اپنے گھر میں بیٹھ جا اور دروازے بند کر لے } ۔ کہا پھر اگرچہ میں نہ میدان میں اتروں ؟ فرمایا : { تو ان میں چلا جا ، جن کا تو ہے اور وہیں رہ } ۔ عرض کیا کہ پھر میں اپنے ہتھیار ہی کیوں نہ لے لوں ؟ فرمایا : { پھر تو تو بھی ان کے ساتھ ہی شامل ہو جائے گا بلکہ اگر تجھے کسی کی تلوار کی شعائیں پریشان کرتی نظر آئیں تو بھی اپنے منہ پر کپڑا ڈال لے تاکہ تیرے اور خود اپنے گناہوں کو وہی لے جائے } } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4261،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ربعی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں ” ہم سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کے جنازے میں تھے ، ایک صاحب نے کہا میں نے مرحوم سے سنا ہے آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنی ہوئی حدیثیں بیان فرماتے ہوئے کہتے تھے کہ اگر تم آپس میں لڑو گے تو میں اپنے سب سے دور دراز گھر میں چلا جاؤں گا اور اسے بند کرکے بیٹھ جاؤں گا ، اگر وہاں بھی کوئی گھس آئے گا تو میں کہدوں گا کہ لے اپنا اور میرا گناہ اپنے سر پر رکھ لے ، پس میں آدم کے ان دو بیٹوں میں سے جو بہتر تھا ، اس کی طرح ہو جاؤں گا “ ۔ میں تو چاہتا ہوں کہ تو میرا اور اپنا گناہ اپنے سر رکھ لے جائے ، یعنی تیرے وہ گناہ جو اس سے پہلے کے ہیں اور میرے قتل کا گناہ بھی ۔ یہ مطلب بھی مجاہد رحمۃ اللہ سے مروی ہے کہ ” میری خطائیں بھی مجھ پر آپڑیں اور میرے قتل کا گناہ بھی “ ۔ لیکن انہی سے ایک قول پہلے جیسا بھی مروی ہے ، ممکن ہے یہ دوسرا ثابت نہ ہو ۔ اسی بنا پر بعض لوگ کہتے ہیں کہ قاتل مقتول کے سب گناہ اپنے اوپر بار کر لیتا ہے اور اس معنی کی ایک حدیث بھی بیان کی جاتی ہے لیکن اس کی کوئی اصل نہیں ۔ بزار میں ایک حدیث ہے کہ { بے سبب کا قتل تمام گناہوں کو مٹا دیتا ہے } ۔ گو یہ حدیث اوپر والے معنی میں نہیں ، تاہم یہ بھی صحیح نہیں اور اس روایت کا مطلب یہ بھی ہے کہ قتل کی ایذاء کے باعث اللہ تعالیٰ مقتول کے سب گناہ معاف کر دیتا ہے ۔ اب وہ قاتل پر آ جاتے ہیں ۔ یہ بات ثابت نہیں ممکن ہے بعض قاتل ویسے بھی ہوں ، قاتل کو میدان قیامت میں مقتول ڈھونڈھتا پھرے گا اور اس کے ظلم کے مطابق اس کی نیکیاں لے جائے گا ، اور سب نیکیاں لے لینے کے بعد بھی اس ظلم کی تلافی نہ ہوئی تو مقتول کے گناہ قاتل پر رکھ دیئے جائیں گے ، یہاں تک کہ بدلہ ہو جائے تو ممکن ہے کہ سارے ہی گناہ بعض قاتلوں کے سر پڑ جائیں کیونکہ ظلم کے اس طرح کے بدلے لیے جانے احادیث سے ثابت ہیں اور یہ ظاہر ہے کہ قتل سب سے بڑھ کر ظلم ہے اور سب سے بدتر ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ امام ابن جریر رحمۃ اللہ فرماتے ہیں ” مطلب اس جملے کا صحیح تر یہی ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ تو اپنے گناہ اور میرے قتل کے گناہ سب ہی اپنے اوپر لے جائے ، تیرے اور گناہوں کے ساتھ ایک گناہ یہ بھی بڑھ جائے “ ۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ میرے گناہ بھی تجھ پر آ جائیں ، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ’ ہر عامل کو اس کے عمل کی جزا ملتی ہے ‘ ، پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ مقتول کے عمر بھر کے گناہ قاتل پر ڈال دیئے جائیں ، اور اس کے گناہوں پر اس کی پکڑ ہو ؟ باقی رہی یہ بات کہ پھر ہابیل نے یہ بات اپنے بھائی سے کیوں کہی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس نے آخری مرتبہ نصیحت کی اور ڈرایا اور خوف زدہ کیا کہ اس کام سے باز آ جا ، ورنہ گہنگار ہو کر جہنم واصل ہو جائے گا کیونکہ میں تو تیرا مقابلہ کرنے ہی کا نہیں ، سارا بوجھ تجھ ہی پر ہوگا اور تو ہی ظالم ٹھہرے گا اور ظالموں کا ٹھکانا دوزخ ہے ۔ اس نصیحت کے باوجود اس کے نفس نے اسے دھوکا دیا اور غصے اور حسد اور تکبر میں آ کر اپنے بھائی کو قتل کر دیا ، اسے شیطان نے قتل پر ابھار دیا اور اس نے اپنے نفس امارہ کی پیروی کر لی ہے اور لوہے سے اسے مار ڈالا ۔ ایک روایت میں ہے کہ یہ اپنے جانوروں کو لے کر پہاڑیوں پر چلے گئے تھے ، یہ ڈھونڈھتا ہوا وہاں پہنچا اور ایک بھاری پتھر اٹھا کر ان کے سر پردے مارا ، یہ اس وقت سوئے ہوئے تھے ۔ بعض کہتے ہیں مثل درندے کے کاٹ کاٹ کر ، گلا دبا دبا کر ان کی جان لی ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ شیطان نے جب دیکھا کہ اسے قتل کرنے کا ڈھنگ نہیں آتا ، یہ اس کی گردن مروڑ رہا ہے تو اس لعین نے ایک جانور پکڑا اور اس کا سر ایک پتھر پر رکھ کر اسے دوسرا پتھر زور سے دے مارا ، جس سے وہ جانور اسی وقت مر گیا ۔ یہ دیکھ اس نے بھی اپنے بھائی کے ساتھ یہی کیا یہ بھی مروی ہے کہ چونکہ اب تک زمین پر کوئی قتل نہیں ہوا تھا ، اس لیے قابیل اپنے بھائی کو گرا کر کبھی اس کی آنکھیں بند کرتا ، کبھی اسے تھپڑ اور گھونسے مارتا ۔ یہ دیکھ کر ابلیس لعین اس کے پاس آیا اور اسے بتایا کہ پتھر لے کر اس کا سر کچل ڈال ، جب اس نے کچل ڈالا تو لعین دوڑتا ہوا حضرت حواء رضی اللہ عنہا کے پاس آیا اور کہا قابیل نے ہابیل کو قتل کر دیا ، انہوں نے پوچھا قتل کیسا ہوا ہے ؟ کہا اب نہ وہ کھاتا پیتا ہے نہ بولتا چالتا ہے ، نہ ہلتا جلتا ہے کہا شاید موت آگئی اس نے کہا ہاں وہی موت ۔ اب تو مائی صاحبہ چیخنے چلانے لگیں ، اتنے میں حضرت آدم علیہ السلام آئے پوچھا کیا بات ہے ؟ لیکن یہ جواب نہ دے سکیں ، آپ نے دوبارہ دریافت فرمایا لیکن فرط غم و رنج کی وجہ سے ان کی زبان نہ چلی تو کہا اچھا تو اور تیری بیٹیاں ہائے وائے میں ہی رہیں گی اور میں اور میرے بیٹے اس سے بری ہیں ۔ قابیل خسارے ٹوٹے اور نقصان والا ہوگیا ، دنیا اور آخرت دونوں ہی بگڑیں ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { جو انسان ظلم سے قتل کیا جاتا ہے ، اس کے خون کا بوجھ آدم کے اس لڑکے پر بھی پڑتا ہے ، اس لیے کہ اسی نے سب سے پہلے زمین پر خون ناحق گرایا ہے } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3335) مجاہد رحمۃ اللہ کا قول ہے کہ ” قاتل کے ایک پیر کی پنڈلی کو ران سے اس دن سے لٹکا دیا گیا اور اس کا منہ سورج کی طرف کر دیا گیا ، اس کے گھومنے کے ساتھ گھومتا رہتا ہے ، جاڑوں اور گرمیوں میں آگ اور برف کے گڑھے میں وہ معذب ہے “ ۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ” جہنم کا آدھوں آدھ عذاب صرف اس ایک کو ہو رہا ہے ، سب سے بڑا معذب یہی ہے زمین کے ہر قتل کے گناہ کا حصہ اس کے ذمہ ہے “ ۔ ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں ” اس پر اور شیطان پر ہر خون ناحق کا بوجھ پڑتا ہے ۔ “ جب مار ڈالا تو اب یہ معلوم نہ تھا کہ کیا کرے ، کس طرح اسے چھپائے ؟ تو اللہ نے دو کوے بھیجے ، وہ دونوں بھی آپس میں بھائی بھائی تھے ، یہ اس کے سامنے لڑنے لگے ، یہاں تک کہ ایک نے دوسرے کو مار ڈالا ، پھر ایک گڑھا کھود کر اس میں اس کی لاش کو رکھ کر اوپر سے مٹی ڈال دی ، یہ دیکھ کر قابیل کی سمجھ میں بھی یہ ترکیب آگئی اور اس نے بھی ایسا ہی کیا ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ” از خود مرے ہوئے ایک کوے کو دوسرے کوے نے اس طرح گڑھا کھود کر دفن کیا تھا “ ۔ یہ بھی مروی ہے کہ سال بھر تک قابیل اپنے بھائی کی لاش اپنے کندھے پر لادے لادے پھرتا رہا ، پھر کوے کو دیکھ کر اپنے نفس پر ملامت کرنے لگا کہ میں اتنا بھی نہ کر سکا ۔ یہ بھی کہا گیا ہے مار ڈال کر پھر پچھتایا اور لاش کو گود میں رکھ کر بیٹھ گیا اور اس لیے بھی کہ سب سے پہلی میت اور سب سے پہلا قتل روئے زمین پر یہی تھا ۔ اہل توراۃ کہتے ہیں کہ جب قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کیا تو اللہ نے اس سے پوچھا کہ تیرے بھائی ہابیل کو کیا ہوا ؟ اس نے کہا مجھے کیا خبر ؟ میں اس کا نگہبان تو تھا ہی نہیں ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا سن تیرے بھائی کا خون زمین میں سے مجھے پکار رہا ہے ، تجھ پر میری لعنت ہے ، اس زمین میں جس کا منہ کھول کر تو نے اسے اپنے بےگناہ بھائی کا خون پلایا ہے ، اب تو زمین میں جو کچھ کام کرے گا وہ اپنی کھیتی میں سے تجھے کچھ نہیں دے گی ، یہاں تک تم زمین پر عمر بھر بے چین بھٹکتے رہو گے پھر تو قابیل بڑا ہی نادم ہوا ۔ نقصان کے ساتھ ہی پچھتاوا گویا عذاب پر عذاب تھا ۔ اس قصہ میں مفسرین کے اقوال اس بات پر تو متفق ہیں کہ یہ تو دونوں آدم کے صلبی بیٹے تھے اور یہی قرآن کے الفاظ سے بظاہر معلوم ہوتا ہے اور یہی حدیث میں بھی ہے کہ { روئے زمین پر جو قتل ناحق ہوتا ہے اس کا ایک حصہ بوجھ اور گناہ کا آدم کے اس پہلے لڑکے پر ہوتا ہے ، اس لیے کہ اسی نے سب سے پہلے قتل کا طریقہ ایجاد کیا ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3335) لیکن حسن بصری رحمہ اللہ کا قول ہے کہ ” یہ دونوں بنی اسرائیل میں تھے ، قربانی سب سے پہلے انہی میں آئی اور زمین پر سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام کا انتقال ہوا ہے “ ۔ لیکن یہ قول غور طلب ہے اور اس کی اسناد بھی ٹھیک نہیں ۔ ایک مرفوع حدیث میں یہ واقعہ بطور ایک مثال کے ہے { تم اس میں سے اچھائی لے لو اور برے کو چھوڑ دو } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:11772:مرسل) یہ حدیث مرسل ہے کہتے ہیں کہ اس صدمے سے حضرت آدم علیہ السلام بہت غمگین ہوئے اور سال بھر تک انہیں ہنسی نہ آئی ، آخر فرشتوں نے ان کے غم کے دور ہونے اور انہیں ہنسی آنے کی دعا کی ۔ حضرت آدم علیہ السلام نے اس وقت اپنے رنج و غم میں یہ بھی کہا تھا کہ شہر اور شہر کی سب چیزیں متغیر ہوگئی ، زمین کا رنگ بدل گیا اور وہ نہایت بدصورت ہو گئی ، ہر ہر چیز کا رنگ و مزہ جاتا رہا اور کشش والے چہروں کی ملاحت بھی سلب ہو گئی ۔ اس پر انہیں جواب دیا گیا کہ ” اس مردے کے ساتھ اس زندے نے بھی گویا اپنے تئیں ہلاک کر دیا اور جو برائی قاتل نے کی تھی ، اس کا بوجھ اس پر آگیا “ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:11724:ضعیف) بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ قابیل کو اسی وقت سزا دی گئی چنانچہ وارد ہوا ہے کہ اس کی پنڈلی اس کی ران سے لٹکا دی گئی اور اس کا منہ سورج کی طرف کر دیا گیا اور اس کے ساتھ ہی ساتھ گھومتا رہتا تھا یعنی جدھر سورج ہوتا ادھر ہی اس کا منہ اٹھا رہتا ۔ حدیث شریف میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { جتنے گناہ اس لائق ہیں کہ بہت جلد ان کی سزا دنیا میں بھی دی جائے اور پھر آخرت کے زبردست عذاب باقی رہیں ان میں سب سے بڑھ کر گناہ سرکشی اور قطع رحمی ہے } } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4902،قال الشیخ الألبانی:صحیح) تو قابیل میں یہ دونوں باتیں جمع ہو گئیں «فإِنَّا لِلہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ» [ یہ یاد رہے کہ اس قصہ کی تفصیلات جس قدر بیان ہوئی ہے ، ان میں سے اکثر و بیشر حصہ اہل کتاب سے اخذ کیا ہوا ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ مترجم ] المآئدہ
28 المآئدہ
29 المآئدہ
30 المآئدہ
31 المآئدہ
32 ایک بےگناہ شخص کا قتل تمام انسانوں کا قتل فرمان ہے کہ ’ حضرت آدم علیہ السلام کے اس لڑکے کے قتل بے جا کی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل سے صاف فرما دیا ان کی کتاب میں لکھ دیا اور ان کیلئے اس حکم کو حکم شرعی کر دیا کہ ’ جو شخص کسی ایک کو بلا وجہ مار ڈالے نہ اس نے کسی کو قتل کیا تھا نہ اس نے زمین میں فساد پھیلایا تھا تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کیا ‘ ، اس لیے کہ اللہ کے نزدیک ساری مخلوق یکساں ہے اور جو کسی بے قصور شخص کے قتل سے باز رہے اسے حرام جانے تو گویا اس نے تمام لوگوں کو زندگی دی ، اس لیے کہ یہ سب لوگ اس طرح سلامتی کے ساتھ رہیں گے “ ۔ امیرالمؤمنین سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو جب باغی گھیر لیتے ہیں ، تو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ان کے پاس جاتے ہیں اور کہتے ہیں میں ” آپ رضی اللہ عنہ کی طرف داری میں آپ رضی اللہ عنہ کے مخالفین سے لڑنے کیلئے آیا ہوں ، آپ رضی اللہ عنہ ملاحظہ فرمایئے کہ اب پانی سر سے اونچا ہو گیا ہے “ ۔ یہ سن کر معصوم خلیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ، ” کیا تم اس بات پر آمادہ ہو کہ سب لوگوں کو قتل کر دو ، جن میں ایک میں بھی ہوں “ ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” نہیں نہیں “ ۔ فرمایا ” سنو ایک کو قتل کرنا ایسا برا ہے جیسے سب کو قتل کرنا ۔ جاؤ واپس لوٹ جاؤ ، میری یہی خواہش ہے اللہ تمہیں اجر دے اور گناہ نہ دے “ ، یہ سن کر آپ رضی اللہ عنہ واپس چلے گئے اور نہ لڑے ۔ مطلب یہ ہے کہ قتل کا اجر دنیا کی بربادی کا باعث ہے اور اس کی روک لوگوں کی زندگی کا سبب ہے ۔ سعید بن جبیر رحمۃ اللہ فرماتے ہیں ” ایک مسلمان کا خون حلال کرنے والا تمام لوگوں کا قاتل ہے اور ایک مسلم کے خون کو بچانے والا تمام لوگوں کے خون کو گویا بچا رہا ہے “ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ” نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اور عادل مسلم بادشاہ کو قتل کرنے والے پر ساری دنیا کے انسانوں کے قتل کا گناہ ہے اور نبی اور امام عادل کے بازو کو مضبوط کرنا دنیا کو زندگی دینے کے مترادف ہے “ ۔ (ابن جریر) ایک اور روایت میں ہے کہ ” ایک کو بے وجہ مار ڈالتے ہی جہنمی ہو جاتا ہے گویا سب کو مار ڈالا “ ۔ مجاہد رحمۃ اللہ فرماتے ہیں ” مومن کو بے وجہ شرعی مار ڈالنے والا جہنمی دشمن رب ، ملعون اور مستحق سزا ہو جاتا ہے ، پھر اگر وہ سب لوگوں کو بھی مار ڈالتا تو اس سے زیادہ عذاب اسے اور کیا ہوتا ؟ جو قتل سے رک جائے گویا کہ اس کی طرف سے سب کی زندگی محفوظ ہے “ ۔ عبدالرحمٰن رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” ایک قتل کے بدلے ہی اس کا خون حلال ہو گیا ، یہ نہیں کہ کئی ایک کو قتل کرے ، جب ہی وہ قصاص کے قابل ہو ، اور جو اسے زندگی دے یعنی قاتل کے ولی سے درگزر کرے اور اس نے گویا لوگوں کو زندگی دی “ ۔ اور یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے کہ جس نے انسان کی جان بچا لی مثلاً ڈوبتے کو نکال لیا ، جلتے کو بچا لیا ، کسی کو ہلاکت سے ہٹا لیا ۔ مقصد لوگوں کو خون ناحق سے روکنا اور لوگوں کی خیر خواہی اور امن و امان پر آمادہ کرنا ہے ۔ حسن رحمۃ اللہ سے پوچھا گیا کہ ” کیا بنی اسرائیل جس طرح اس حکم کے مکلف تھے ، ہم بھی ہیں ، فرمایا ہاں یقیناً اللہ کی قسم ! بنو اسرائیل کے خون اللہ کے نزدیک ہمارے خون سے زیادہ باوقعت نہ تھے ، پس ایک شخص کا بے سبب قتل سب کے قتل کا بوجھ ہے اور ایک کی جان کے بچاؤ کا ثواب سب کو بچا لینے کے برابر ہے “ ۔ { ایک مرتبہ حمزہ بن عبدالمطلب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کوئی ایسی بات بتائیں کہ میری زندگی با آرام گزرے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { کیا کسی کو مار ڈالنا تمہیں پسند ہے یا کسی کو بچا لینا تمہیں محبوب ہے ؟ } جواب دیا بچا لینا ، فرمایا : { بس اب اپنی اصلاح میں لگے رہو } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:175/2:ضعیف) پھر فرماتا ہے ’ ان کے پاس ہمارے رسول واضح دلیلیں اور روشن احکام اور کھلے معجزات لے کر آئے لیکن اس کے بعد بھی اکثر لوگ اپنی سرکشی اور دراز دستی سے باز نہ رہے ‘ ۔ بنو قینقاع کے یہود و بنو قریظہ اور بنو نضیر وغیرہ کو دیکھ لیجئے کہ اوس اور خزرج کے ساتھ مل کر آپس میں ایک دوسرے سے لڑتے تھے اور لڑائی کے بعد پھر قیدیوں کے فدیئے دے کر چھڑاتے تھے اور مقتول کی دیت ادا کرتے تھے ۔ جس پر انہیں قرآن میں سمجھایا گیا کہ ’ تم سے عہد یہ لیا گیا تھا کہ نہ تو اپنے والوں کے خون بہاؤ ، نہ انہیں دیس سے نکالو لیکن تم نے باوجود پختہ اقرار اور مضبوط عہد پیمان کے اس کے خلاف گو فدیئے ادا کئے لیکن نکالنا بھی تو حرام تھا ‘ ۔ ’ اس کے کیا معنی کہ کسی حکم کو مانو اور کسی سے انکار کر ، ایسے لوگوں کو سزا یہی ہے کہ دنیا میں رسوا اور ذلیل ہوں اور آخرت میں سخت تر عذابوں کا شکار ہوں ، اللہ تمہارے اعمال سے غافل نہیں ‘ ۔ «محاربہ» کے معنی حکم کے خلاف کرنا ، برعکس کرنا ، مخالفت پر تل جانا ہیں ۔ مراد اس سے کفر ، ڈاکہ زنی ، زمین میں شورش و فساد اور طرح طرح کی بدامنی پیدا کرنا ہے ۔ یہاں تک کہ سلف نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ” سکے کو توڑ دینا بھی زمین میں فساد مچانا ہے “ ۔ قرآن کی ایک اور آیت میں ہے «وَإِذَا تَوَلَّیٰ سَعَیٰ فِی الْأَرْضِ لِیُفْسِدَ فِیہَا وَیُہْلِکَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَ اللہُ لَا یُحِبٰ الْفَسَادَ» ۱؎ (2-البقرۃ:205) ’ جب وہ کسی اقتدار کے مالک ہو جاتے ہیں تو فساد پھیلا دیتے ہیں اور کھیت اور نسل کو ہلاک کرنے لگتے ہیں اللہ تعالیٰ فساد کو پسند نہیں فرماتا ‘ ۔ یہ آیت مشرکین کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ اس لیے کہ اس میں یہ بھی ہے کہ جب ایسا شخص ان کاموں کے بعد مسلمانوں کے ہاتھوں میں گرفتار ہونے سے پہلے ہی توبہ تلا کر لے تو پھر اس پر کوئی مؤاخذہ نہیں ، برخلاف اس کے اگر مسلمان ان کاموں کو کرے اور بھاگ کر کفار میں جا ملے تو حد شرعی سے آزاد نہیں ہوتا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” یہ آیت مشرکوں کے بارے میں اتری ہے ، پھر ان میں سے جو کئی مسلمان کے ہاتھ آ جانے سے پہلے توبہ کرلے تو جو حکم اس پر اس کے فعل کے باعث ثابت ہو چکا ہے وہ ٹل نہیں سکتا “ ۔ المآئدہ
33 فساد اور قتل و غارت گری سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ { اہل کتاب کے ایک گروہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معاہدہ ہوگیا تھا لیکن انہوں نے اسے توڑ دیا اور فساد مچا دیا ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار دیا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہیں تو انہیں قتل کر دیں ، چاہیں تو الٹے سیدھے ہاتھ پاؤں کٹوا دیں } ۔ سعد رحمۃ اللہ فرماتے ہیں “ یہ حروریہ خوارج کے بارے میں نازل ہوئی ہے “ ۔ صحیح یہ ہے کہ جو بھی اس فعل کا مرتکب ہو اس کیلئے یہ حکم ہے ۔ چنانچہ بخاری مسلم میں ہے کہ { قبیلہ عکل کے آٹھ آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا : { اگر تم چاہو تو ہمارے چرواہوں کے ساتھ چلے جاؤ اونٹوں کا دودھ اور پیشاب تمہیں ملے گا } ۔ چنانچہ یہ گئے اور جب ان کی بیماری جاتی رہی تو انہوں نے ان چرواہوں کو مار ڈالا اور اونٹ لے کر چلتے بنے ، حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ خبر پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو ان کے پیچھے دوڑایا کہ انہیں پکڑ لائیں ، چنانچہ یہ گرفتار کئے گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کئے گئے ۔ پھر ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے گئے اور آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیری گئیں اور دھوپ میں پڑے ہوئے تڑپ تڑپ کر مر گئے } } ۔ مسلم میں ہے { یا تو یہ لوگ عکل کے تھے یا عرینہ کے ۔ یہ پانی مانگتے تھے مگر انہیں پانی نہ دیا گیا نہ ان کے زخم دھوئے گئے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:233) انہوں نے چوری بھی کی تھی ، قتل بھی کیا تھا ، ایمان کے بعد کفر بھی کیا تھا اور اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑتے بھی تھے ۔ انہوں نے چرواہوں کی آنکھوں میں گرم سلائیاں بھی پھیری تھیں ، مدینے کی آب و ہوا اس وقت درست نہ تھی ، سرسام کی بیماری تھی ، حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پیچھے بیس انصاری گھوڑ سوار بھیجے تھے اور ایک کھوجی تھا ، جو نشان قدم دیکھ کر رہبری کرتا جاتا تھا ۔ موت کے وقت ان کی پیاس کے مارے یہ حالت تھی کہ زمین چاٹ رہے تھے ، انہی کے بارے میں یہ آیت اتری ہے ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:1845 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) ایک مرتبہ حجاج نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ سب سے بڑی اور سب سے سخت سزا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو دی ہو ، تم بیان کرو تو آپ رضی اللہ عنہ نے یہ واقعہ بیان فرمایا ۔ اس میں یہ بھی ہے کہ یہ لوگ بحرین سے آئے تھے ، بیماری کی وجہ سے ان کے رنگ زرد پڑ گئے تھے اور پیٹ بڑھ گئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا : { کہ جاؤ اونٹوں میں رہو اور ان کا دودھ اور پیشاب پیو } ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” پھر میں نے دیکھا کہ حجاج نے تو اس روایت کو اپنے مظالم کی دلیل بنا لی تب تو مجھے سخت ندامت ہوئی کہ میں نے اس سے یہ حدیث کیوں بیان کی ؟ “ ۔ ۱؎ (اسنادہ ضعیف ولہ شواہد) اور روایت میں ہے کہ ان میں سے چار شخص تو عرینہ قبیلے کے تھے اور تین عکل کے تھے ، یہ سب تندرست ہو گئے تو یہ مرتد بن گئے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:11818) ایک اور روایت میں ہے کہ راستے بھی انہوں نے بند کر دیئے تھے اور زنا کار بھی تھے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:11820) جب یہ آئے تو اب سب کے پاس بوجہ فقیری پہننے کے کپڑے تک نہ تھے ، یہ قتل و غارت کر کے بھاگ کر اپنے شہر کو جا رہے تھے ۔ سیدنا جریر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ { یہ اپنی قوم کے پاس پہنچنے والے تھے جو ہم نے انہیں جا لیا ۔ وہ پانی مانگتے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے { اب تو پانی کے بدلے جہنم کی آگ ملے گی } } ۔ اس روایت میں یہ بھی ہے کہ آنکھوں میں سلائیاں پھیرنا اللہ کو ناپسند آیا ، یہ حدیث ضعیف اور غریب ہے لیکن اس سے یہ معلوم ہوا کہ جو لشکر ان مرتدوں کے گرفتار کرنے کیلئے بھیجا گیا تھا ، ان کے سردار سیدنا جریر رضی اللہ عنہ تھے ۔ ہاں اس روایت میں یہ فقرہ بالکل منکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھوں میں سلائیاں پھیرنا مکروہ رکھا ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:11815) اس لیے کہ صحیح مسلم میں یہ موجود ہے کہ { انہوں نے چرواہوں کے ساتھ بھی یہی کیا تھا ، پس یہ اس کا بدلہ اور ان کا قصاص تھا جو انہوں نے ان کے ساتھ کیا تھا وہی ان کے ساتھ کیا گیا } ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اور روایت میں ہے کہ یہ لوگ بنو فزارہ کے تھے ، اس واقعہ کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سزا کسی کو نہیں دی ۔ ۱؎ (عبد الرزاق:18541:ضعیف) ایک اور روایت میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک غلام تھا ، جس کا نام یسار تھا چونکہ یہ بڑے اچھے نمازی تھے ، اس لیے حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آزاد کر دیا تھا اور اپنے اونٹوں میں انہیں بھیج دیا تھا کہ یہ ان کی نگرانی رکھیں ، انہی کو ان مرتدوں نے قتل کیا اور ان کی آنکھوں میں کانٹے گاڑ کر اونٹ لے کر بھاگ گئے ، جو لشکر انہیں گرفتار کر کے لایا تھا ، ان میں ایک شاہ زور کرز بن جابر فہری تھے } ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:6223:ضعیف) حافظ ابوبکر بن مردویہ رحمۃ اللہ نے اس روایت کے تمام طریقوں کو جمع کر دیا اللہ انہیں جزائے خیر دے ۔ ابوحمزہ عبد الکریم رحمۃ اللہ سے اونٹوں کے پیشاب کے بارے میں سوال ہوتا ہے تو آپ ان محاربین کا قصہ بیان فرماتے ہیں اس میں یہ بھی ہے کہ یہ لوگ منافقانہ طور پر ایمان لائے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مدینے کی آب و ہوا کی ناموافقت کی شکایت کی تھی ، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی دغا بازی اور قتل و غارت اور ارتداد کا علم ہوا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منادی کرائی کہ { اللہ کے لشکریو اٹھ کھڑے ہو } ۔ یہ آواز سنتے ہی مجاہدین کھڑے ہو گئے ، بغیر اس کے کہ کوئی کسی کا انتظار کرے ان مرتد ڈاکوؤں اور باغیوں کے پیچھے دوڑے ، خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کو روانہ کر کے ان کے پیچھے چلے ، وہ لوگ اپنی جائے امن میں پہنچنے ہی کو تھے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے انہیں گھیر لیا اور ان میں سے جتنے گرفتار ہو گئے ، انہیں لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کر دیا اور یہ آیت اتری ، ان کی جلا وطنی یہی تھی کہ انہیں حکومت اسلام کی حدود سے خارج کر دیا گیا ۔ پھر ان کو عبرتناک سزائیں دی گئیں ۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کے بھی اعضاء بدن سے جدا نہیں کرائے بلکہ آپ نے اس سے منع فرمایا ہے ، جانوروں کو بھی اس طرح کرنا منع ہے ۔ بعض روایتوں میں ہے کہ قتل کے بعد انہیں جلا دیا گیا ، ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:11814:ضعیف) بعض کہتے ہیں یہ بنو سلیم کے لوگ تھے ۔ بعض بزرگوں کا قول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو سزا انہیں دی وہ اللہ کو پسند نہ آئیں اور اس آیت سے اسے منسوخ کردیا ۔ ان کے نزدیک گویا اس آیت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سزا سے روکا گیا ہے ۔ جیسے آیت «عَفَا اللہُ عَنکَ لِمَ أَذِنتَ لَہُمْ حَتَّیٰ یَتَبَیَّنَ لَکَ الَّذِینَ صَدَقُوا وَتَعْلَمَ الْکَاذِبِینَ» ‏‏‏‏۱؎ (9-التوبۃ:43) میں اور بعض کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مثلہ کرنے سے یعنی ہاتھ پاؤں کان ناک کاٹنے سے جو ممانعت فرمائی ہے ، اس حدیث سے یہ سزا منسوخ ہو گئی ۔ لیکن یہ ذرا غور طلب ہے پھر یہ بھی سوال طلب امر ہے کہ ناسخ کی تاخیر کی دلیل کیا ہے ؟ بعض کہتے ہیں حدود اسلام مقرر ہوں اس سے پہلے کا یہ واقعہ ہے لیکن یہ بھی کچھ ٹھیک نہیں معلوم ہوتا ، بلکہ حدود کے تقرر کے بعد کا واقعہ معلوم ہوتا ہے اس لیے کہ اس حدیث کے ایک راوی سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ ہیں اور ان کا اسلام سورۃ المائدہ کے نازل ہو چکنے کے بعد کا ہے ۔ بعض کہتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیرنی چاہی تھیں لیکن یہ آیت اتری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ارادے سے باز رہے ، لیکن یہ بھی درست نہیں ۔ اس لیے کہ بخاری و مسلم میں یہ لفظ ہیں کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آنکھوں میں سلائیں پھروائیں } ۔ محمد بن عجلان رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ ” نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو سخت سزا انہیں دی ، اس کے انکار میں یہ آیتیں اتری ہیں اور ان میں صحیح سزا بیان کی گئی ہے جو قتل کرنے اور ہاتھ پاؤں الٹی طرف سے کاٹنے اور وطن سے نکال دینے کے حکم پر شامل ہے چنانچہ دیکھ لیجئے کہ اس کے بعد پھر کسی کی آنکھوں میں سلائیاں پھیرنی ثابت نہیں “ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:11822:ضعیف) لیکن ” اوزاعی کہتے ہیں کہ یہ ٹھیک نہیں کہ اس آیت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فعل پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈانٹا گیا ہو ۔ بات یہ ہے کہ انہوں نے جو کیا تھا اس کا وہی بدلہ مل گیا ۔ اب آیت نازل ہوئی جس نے ایک خاص حکم ایسے لوگوں کا بیان فرمایا اور اس میں آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیرنے کا حکم نہیں دیا “ ۔ اس آیت سے جمہور علماء نے دلیل پکڑی ہے کہ راستوں کی بندش کر کے لڑنا اور شہروں میں لڑنا دونوں برابر ہے کیونکہ لفظ «وَیَسْعَوْنَ فِی الْأَرْضِ فَسَادًا» کے ہیں ۔ مالک ، اوزاعی ، لیث ، شافعی ، ، احمد رحمہم اللہ اجمعین کا یہی مذہب ہے کہ ” باغی لوگ خواہ شہر میں ایسا فتنہ مچائیں یا بیرون شہر ، ان کی سزا یہی ہے“ ۔ بلکہ امام مالک رحمۃ اللہ تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ ” اگر کوئی شخص دوسرے کو اس کے گھر میں اس طرح دھوکہ دہی سے مار ڈالے تو اسے پکڑ لیا جائے اور اسے قتل کر دیا جائے اور خود امام وقت ان کاموں کو از خود کرے گا ، نہ کہ مقتول کے اولیاء کے ہاتھ میں یہ کام ہوں بلکہ اگر وہ درگزر کرنا چاہیں تو بھی ان کے اختیار میں نہیں بلکہ یہ جرم ، بے واسطہ حکومت اسلامیہ کا ہے “ ۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا مذہب یہ نہیں ، وہ کہتے ہیں کہ ” مجاربہ اسی وقت مانا جائے گا جبکہ شہر کے باہر ایسے فساد کوئی کرے ، کیونکہ شہر میں تو امداد کا پہنچنا ممکن ہے ، راستوں میں یہ بات ناممکن سی ہے “ ۔ جو سزا ان محاربین کی بیان ہوئی ہے اس کے بارے میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” جو شخص مسلمانوں پر تلوار اٹھائے ، راستوں کو پُر خطر بنا دے ، امام المسلمین کو ان تینوں سزاؤں میں سے جو سزا دینا چاہے اس کا اختیار ہے “ ۔ یہی قول اور بھی بہت سوں کا ہے اور اس طرح کا اختیار ایسی ہی اور آیتوں کے احکام میں بھی موجود ہے جیسے محرم اگر شکار کھیلے تو اس کا بدلہ شکار کے برابر کی قربانی یا مساکین کا کھانا ہے یا اس کے برابر روزے رکھنا ہے ، بیماری یا سر کی تکلیف کی وجہ سے حالت احرام میں سر منڈوانے اور خلاف احرام کام کرنے والے کے فدیئے میں بھی روزے یا صدقہ یا قربانی کا حکم ہے ۔ قسم کے کفارے میں درمیانی درجہ کا کھانا دیں مسکینوں کا یا ان کا کپڑا یا ایک غلام کو آزاد کرنا ہے ۔ تو جس طرح یہاں ان صورتوں میں سے کسی ایک کے پسند کر لینے کا اختیار ہے ، اسی طرح ایسے محارب ، مرتد لوگوں کی سزا بھی یا تو قتل ہے یا ہاتھ پاؤں الٹی طرح سے کاٹنا ہے یا جلا وطن کرنا ۔ اور جمہور کا قول ہے کہ یہ آیت کئی احوال میں ہے ، جب ڈاکو قتل و غارت دونوں کے مرتکب ہوتے ہوں تو قابل دار اور گردن وزنی ہیں اور جب صرف قتل سرزد ہوا ہو تو قتل کا بدلہ صرف قتل ہے اور اگر فقط مال لیا ہو تو ہاتھ پاؤں الٹے سیدھے کاٹ دیئے جائیں گے اور اگر راستے پُر خطر کر دیئے ہوں ، لوگوں کو خوف زدہ کر دیا ہو اور کسی گناہ کے مرتکب نہ ہوئے ہوں اور گرفتار کر لیے جائیں تو صرف جلا وطنی ہے ۔ اکثر سلف اور ائمہ کا یہی مذہب ہے پھر بزرگوں نے اس میں بھی اختلاف کیا ہے کہ آیا سولی پر لٹکا کر یونہی چھوڑ دیا جائے کہ بھوکا پیاسا مر جائے ؟ یا نیزے وغیرہ سے قتل کر دیا جائے ؟ یا پہلے قتل کر دیا جائے پھر سولی پر لٹکایا جائے تاکہ اور لوگوں کو عبرت حاصل ہو ؟ اور کیا تین دن تک سولی پر رہنے دے کر پھر اتار لیا جائے ؟ یا یونہی چھوڑ دیا جائے لیکن تفسیر کا یہ موضوع نہیں کہ ہم ایسے جزئی اختلافات میں پڑیں اور ہر ایک کی دلیلیں وغیرہ وارد کریں ۔ ہاں ایک حدیث میں کچھ تفصیل سزا ہے ، اگر اس کی سند صحیح ہو تو وہ یہ کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان محاربین کے بارے میں جبرائیل علیہ السلام سے دریافت کیا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا ” جنہوں نے مال چرایا اور راستوں کو خطرناک بنا دیا ان کے ہاتھ تو چوری کے بدلے کاٹ دیجئیے اور جس نے قتل اور دہشت گردی پھیلائی اور بدکاری کا ارتکاب کیا ہے ، اسے سولی چڑھا دو “ } ۔ فرمان ہے کہ ’ زمین سے الگ کر دیئے جائیں ‘ یعنی انہیں تلاش کر کے ان پر حد قائم کی جائے یا وہ دار الاسلام سے بھاگ کر کہیں چلے جائیں یا یہ کہ ایک شہر سے دوسرے شہر اور دوسرے سے تیسرے شہر انہیں بھیج دیا جاتا رہے یا یہ کہ اسلامی سلطنت سے بالکل ہی خارج کر دیا جائے ۔ شعبی تو نکال ہی دیتے تھے اور عطا خراسانی کہتے ہیں ” ایک لشکر میں سے دوسرے لشکر میں پہنچا دیا جائے یونہی کئی سال تک مارا مارا پھرایا جائے لیکن دار الاسلام سے باہر نہ کیا جائے “ ۔ ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب کہتے ہیں ” اسے جیل خانے میں ڈال دیا جائے “ ۔ ابن جریر رحمہ اللہ کا مختار قول یہ ہے کہ ” اسے اس کے شہر سے نکال کر کسی دوسرے شہر کے جیل خانے میں ڈال دیا جائے “ ۔ ” ایسے لوگ دنیا میں ذلیل و رذیل اور آخرت میں بڑے بھاری عذابوں میں گرفتار ہوں گے “ ۔ آیت کا یہ ٹکڑا تو ان لوگوں کی تائید کرتا ہے جو کہتے ہیں کہ یہ آیت مشرکوں کے بارے میں اتری ہے اور مسلمانوں کے بارے وہ صحیح حدیث ہے جس میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے ویسے ہی عہد لیے جیسے عورتوں سے لیے تھے کہ ” ہم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں ، چوری نہ کریں ، زنا نہ کریں ، اپنی اولادوں کو قتل نہ کریں ، ایک دوسرے کی نافرمانی نہ کریں جو اس وعدے کو نبھائے ، اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے اور جو ان میں سے کسی گناہ کے ساتھ آلودہ ہو جائے پھر اگر اسے سزا ہو گئی تو وہ سزا کفارہ بن جائے گی اور اگر اللہ تعالیٰ نے پردہ پوشی کر لی تو اس امر کا اللہ ہی مختار ہے اگر چاہے عذاب کرے ، اگر چاہے چھوڑ دے “ } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1709) اور حدیث میں ہے { جس کسی نے کوئی گناہ کیا پھر اللہ تعالیٰ نے اسے ڈھانپ لیا اور اس سے چشم پوشی کر لی تو اللہ کی ذات اور اس کا رحم و کرم اس سے بہت بلند و بالا ہے ، معاف کئے ہوئے جرائم کو دوبارہ کرنے پہ اسے دنیوی سزا ملے گی ، اگر بے توبہ مرگئے تو آخرت کی وہ سزائیں باقی ہیں جن کا اس وقت صحیح تصور بھی محال ہے ہاں توبہ نصیب ہو جائے تو اور بات ہے } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2626،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) پھر توبہ کرنے والوں کی نسبت جو فرمایا ہے اس کا اظہار اس صورت میں تو صاف ہے کہ اس آیت کو مشرکوں کے بارے میں نازل شدہ مانا جائے ۔ لیکن جو مسلمان مغرور ہوں اور وہ قبضے میں آنے سے پہلے توبہ کر لیں تو ان سے قتل اور سولی اور پاؤں کاٹنا تو ہٹ جاتا ہے لیکن ہاتھ کا کٹنا بھی ہٹ جاتا ہے یا نہیں ، اس میں علماء کے دو قول ہیں ، آیت کے ظاہری الفاظ سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ سب کچھ ہٹ جائے ، صحابہ رضی اللہ عنہم کا عمل بھی اسی پر ہے ۔ چنانچہ جاریہ بن بدر تیمی بصریٰ نے زمین میں فساد کیا ، مسلمانوں سے لڑا ، اس بارے میں چند قریشیوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے سفارش کی ، جن میں حسن بن علی ، عبداللہ بن عباس ، عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہم بھی تھے لیکن آپ رضی اللہ عنہ نے اسے امن دینے سے انکار کر دیا ۔ وہ سعید بن قیس ہمدانی کے پاس آیا ، آپ نے اپنے گھر میں اسے ٹھہرایا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا بتائیے تو ” جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑے اور زمین میں فساد کی سعی کرے “ ، پھر ان آیتوں کی «‏‏‏‏قَبْلِ أَن تَقْدِرُوا عَلَیْہِمْ» تک تلاوت کی تو ، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” میں تو ایسے شخص کو امن لکھ دوں گا “ ، سعید نے فرمایا یہ جاریہ بن بدر ہے ، چنانچہ جاریہ نے اس کے بعد ان کی مدح میں اشعار بھی کہے ہیں ۔ قبیلہ مراد کا ایک شخص ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے پاس کوفہ کی مسجد میں جہاں کے یہ گورنر تھے ، ایک فرض نماز کے بعد آیا اور کہنے لگا اے امیر کوفہ فلاں بن فلاں مرادی قبیلے کا ہوں ، میں نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑائی لڑی ، زمین میں فساد کی کوشش کی لیکن آپ لوگ مجھ پر قدرت پائیں ، اس سے پہلے میں تائب ہوگیا اب میں آپ سے پناہ حاصل کرنے والے کی جگہ پر کھڑا ہوں ۔ اس پر ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے اور فرمایا ” اے لوگو! تم میں سے کوئی اب اس توبہ کے بعد اس سے کسی طرح کی لڑائی نہ کرے ، اگر یہ سچا ہے تو الحمدللہ اور یہ جھوٹا ہے تو اس کے گناہ ہی اسے ہلاک کر دیں گے “ ۔ یہ شخص ایک مدت تک تو ٹھیک ٹھیک رہا لیکن پھر بغاوت کر گیا ، اللہ نے بھی اس کے گناہوں کے بدلے اسے غارت کر دیا اور یہ مار ڈالا گیا ۔ علی نامی ایک اسدی شخص نے بھی گزرگاہوں میں دہشت پھیلا دی ، لوگوں کو قتل کیا ، مال لوٹا ، بادشاہ لشکر اور رعایا نے ہر چند اسے گرفتار کرنا چاہا ، لیکن یہ ہاتھ نہ لگا ۔ ایک مرتبہ یہ جنگل میں تھا ، ایک شخص کو قرآن پڑھتے سنا اور وہ اس وقت یہ آیت تلاوت کر رہا تھا «قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِینَ أَسْرَفُوا عَلَیٰ أَنفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَۃِ اللہِ » ۱؎ (39-الزمر:53) ، یہ اسے سن کر رک گیا اور اس سے کہا اے اللہ کے بندے یہ آیت مجھے دوبارہ سنا ، اس نے پھر پڑھی اللہ کی اس آواز کو سن کر کہ وہ فرماتا ہے ’ اے میرے گنہگار بندو تم میری رحمت سے ناامید نہ ہو جاؤ ، میں سب گناہوں کو بخشنے پر قادر ہوں میں غفور و رحیم ہوں ‘ ، اس شخص نے جھٹ سے اپنی تلوار میان میں کرلی ، اسی وقت سچے دل سے توبہ کی اور صبح کی نماز سے پہلے مدینے پہنچ گیا ، غسل کیا اور مسجد نبوی میں نماز صبح جماعت کے ساتھ ادا کی اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس جو لوگ بیٹھے تھے ، ان ہی میں ایک طرف یہ بھی بیٹھ گیا ۔ جب دن کا اجالا ہوا تو لوگوں نے اسے دیکھ کر پہچان لیا کہ یہ تو سلطنت کا باغی ، بہت بڑا مجرم اور مفرور شخص علی اسدی ہے ، سب نے چاہا کہ اسے گرفتار کر لیں ۔ اس نے کہا سنو بھائیو! تم مجھے گرفتار نہیں کرسکتے ، اس لیے کہ مجھ پر تمہارے قابو پانے سے پہلے ہی میں تو توبہ کر چکا ہوں بلکہ توبہ کے بعد خود تمہارے پاس آ گیا ہوں ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ! ” یہ سچ کہتا ہے “ اور اس کا ہاتھ پکڑ کر مروان بن حکم کے پاس لے چلے ، یہ اس وقت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے مدینے کے گورنر تھے ، وہاں پہنچ کر فرمایا کہ ” یہ علی اسدی ہیں ، یہ توبہ کر چکے ہیں ، اس لیے اب تم انہیں کچھ نہیں کہہ سکتے “ ۔ چنانچہ کسی نے اس کے ساتھ کچھ نہ کیا ، جب مجاہدین کی ایک جماعت رومیوں سے لڑنے کیلئے چلی تو ان مجاہدوں کے ساتھ یہ بھی ہو لیے ، سمندر میں ان کی کشتی جا رہی تھی کہ سامنے سے چند کشتیاں رومیوں کی آگئیں ، یہ اپنی کشتی میں سے رومیوں کی گردنیں مارنے کیلئے ان کی کشتی میں کود گئے ، ان کی آبدار خارا شگاف تلوار کی چمک کی تاب رومی نہ لاسکے اور نامردی سے ایک طرف کو بھاگے ، یہ بھی ان کے پیچھے اسی طرف چلے چونکہ سارا بوجھ ایک طرف ہو گیا ، اس لیے کشتی الٹ گئی جس سے وہ سارے رومی کفار ہلاک ہوگئے اور علی اسدی بھی ڈوب کر شہید ہو گئے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:284/10) [ اللہ ان پر اپنی رحمتیں ناز فرمائے ] ۔ المآئدہ
34 المآئدہ
35 تقویٰ قربت الٰہی کی بنیاد ہے تقوے کا حکم ہو رہا ہے اور وہ بھی اطاعت سے ملا ہوا ۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کے منع کردہ کاموں سے جو شخص رکا رہے ، اس کی طرف قربت یعنی نزدیکی تلاش کرے ۔ وسیلے کے یہی معنی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہیں ۔ مجاہد ، وائل ، حسن ، ابن زید رحمۃ اللہ علیہم اور بہت سے مفسرین سے بھی مروی ہے ۔ قتادہ رحمۃ اللہ فرماتے ہیں ” اللہ کی اطاعت اور اس کی مرضی کے اعمال کرنے سے اس سے قریب ہوتے جاؤ “ ۔ ابن زید نے یہ آیت بھی پڑھی «اُولٰیِٕکَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ یَبْتَغُوْنَ اِلٰی رَبِّہِمُ الْوَسِـیْلَۃَ اَیٰہُمْ اَقْرَبُ وَیَرْجُوْنَ رَحْمَتَہٗ وَیَخَافُوْنَ عَذَابَہٗ اِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ کَانَ مَحْذُوْرًا» ۱؎ (17-الاسراء:57) ’ جنہیں یہ پکارتے ہیں وہ تو خود ہی اپنے رب کی نزدیکی کی جستجو میں لگے ہوئے ہیں ‘ ۔ ان ائمہ نے وسیلے کے جو معنی اس آیت میں کئے ہیں اس پر سب مفسرین کا اجماع ہے ، اس میں کسی ایک کو بھی اختلاف نہیں ۔ امام جریر رحمۃ اللہ نے اس پر ایک عربی شعر بھی وارد کیا ہے ؎«[ إِذَا غَفَلَ الْوَاشُونَ عُدْنَا لِوصْلِنَا وَعَادَ التَّصَافِی بَیْنَنَا وَالْوَسَائِلُ] » ، جس میں وسیلہ معنی قربت اور نزدیک کے مستعمل ہوا ہے ۔ وسیلے کے معنی اس چیز کے ہیں جس سے مقصود کے حاصل کرنے کی طرف پہنچا جائے اور وسیلہ جنت کی اس اعلیٰ اور بہترین منزل کا نام ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ ہے ۔ عرش سے بہت زیادہ قریب یہی درجہ ہے ۔ جیسے اور آیت میں ہے «وَمِنَ اللَّیْلِ فَتَہَجَّدْ بِہِ نَافِلَۃً لَّکَ عَسَیٰ أَن یَبْعَثَکَ رَبٰکَ مَقَامًا مَّحْمُودًا» ۱؎ (17-الاسراء:79) ’ قریب ہے کہ خدا تم کو مقام محمود میں داخل کرے ‘ ۔ صحیح بخاری شریف کی حدیث میں ہے { جو شخص اذان سن کر دعا « اللہُمَّ رَبَّ ہَذِہِ الدَّعْوَۃِ التَّامَّۃِ ، وَالصَّلَاۃِ الْقَائِمَۃِ ، آتِ مُحَمَّدًا الْوَسِیلَۃَ وَالْفَضِیلَۃَ ، وَابْعَثْہُ مَقَامًا مَحْمُودًا الَّذِی وَعَدَتْہُ ، إِلَّا حَلَّتْ لَہُ الشَّفَاعَۃُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ» ، پڑھے اس کیلئے میری شفاعت حلال ہو جاتی ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:614) مسلم کی حدیث میں ہے { جب تم اذان سنو تو جو مؤذن کہہ رہا ہو ، وہی تم بھی کہو ، پھر مجھ پر درود بھیجو ، ایک درود کے بدلے تم پر اللہ تعالیٰ دس رحمتیں نازل فرمائے گا ۔ پھر میرے لیے اللہ تعالیٰ سے وسیلہ طلب کرو ، وہ جنت کا ایک درجہ ہے ، جسے صرف ایک ہی بندہ پائے گا ، مجھے امید ہے کہ وہ بندہ میں ہی ہوں ۔ پس جس نے میرے لیے وسیلہ طلب کیا ، اس کیلئے میری شفاعت واجب ہو گئی } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:384) مسند احمد میں ہے { { جب تم مجھ پر درود پڑھو تو میرے لیے وسیلہ مانگو } ، پوچھا گیا کہ وسیلہ کیا ہے ؟ فرمایا : { جنت کا سب سے بلند درجہ جسے صرف ایک شخص ہی پائے گا اور مجھے امید ہے کہ وہ شخص میں ہوں } } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3612،قال الشیخ الألبانی:صحیح) طبرانی میں ہے { تم اللہ سے دعا کرو کہ اللہ مجھے وسیلہ عطا فرمائے جو شخص دنیا میں میرے لیے یہ دعا کرے گا ، میں اس پر گواہ یا اس کا سفارشی قیامت کے دن بن جاؤں گا } ۔ ۱؎ (طبرانی اوسط:637:حسن) اور حدیث میں ہے { وسیلے سے بڑا درجہ جنت میں کوئی نہیں ، لہٰذا تم اللہ تعالیٰ سے میرے لیے وسیلے کے ملنے کی دعا کرو } ۔ ۱؎ (سلسلۃ احادیث صحیحہ البانی:3571:صحیح) ایک غریب اور منکر حدیث میں اتنی زیادتی بھی ہے کہ { لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ وسیلے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور کون ہوں گے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اور سیدنا حسن رضی اللہ عنہ ، سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا نام لیا } ۔ ۱؎ (ضعیف جدا) ایک اور بہت غریب روایت میں ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کوفہ کے منبر پر فرمایا کہ ” جنت میں دو موتی ہیں ، ایک سفید ایک زرد ، زرد تو عرش تلے ہے اور مقام محمود سفید موتی کا ہے ، جس میں ستر ہزار بالاخانے ہیں ، جن میں سے ہر ہر گھر تین میل کا ہے ۔ اس کے دریچے دروازہ تخت وغیرہ سب کے سب گویا ایک ہی جڑ سے ہیں ۔ اسی کا نام وسیلہ ہے ، یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہل بیت کیلئے ہے “ ۔ ۱؎ (میزان:3118:موقوف ضعیف) تقویٰ کا یعنی ممنوعات سے رکنے کا اور حکم احکام کے بجا لانے کا حکم دے کر پھر فرمایا کہ ’ اس کی راہ میں جہاد کرو ، مشرکین و کفار کو جو اس کے دشمن ہیں اس کے دین سے الگ ہیں ، اس کی سیدھی راہ سے بھٹک گئے ہیں ، انہیں قتل کرو ۔ ایسے مجاہدین بامراد ہیں ، فلاح و صلاح سعادت و شرافت انہی کیلئے ہیں ، جنت کے بلند بالاخانے اور اللہ کی بےشمار نعمتیں انہی کیلئے ہیں ، یہ اس جنت میں پہنچائے جائیں گے ، جہاں موت و فوت نہیں ، جہاں کمی اور نقصان نہیں ، جہاں ہمیشگی کی جوانی اور ابدی صحت اور دوامی عیش و عشرت ہے ‘ ۔ اپنے دوستوں کا نیک انجام بیان فرما کر اب اپنے دشمنوں کا برا نتیجہ ظاہر فرماتا ہے کہ ’ ایسے سخت اور بڑے عذاب انہیں ہو رہے ہوں گے کہ اگر اس وقت روئے زمین کے مالک ہوں بلکہ اتنا ہی اور بھی ہو تو ان عذابوں سے بچنے کیلئے بطور بدلے کے سب دے ڈالیں لیکن اگر ایسا ہو بھی جائے تو بھی ان سے اب فدیہ قبول نہیں بلکہ جو عذاب ان پر ہیں ، وہ دائمی اور ابدی اور دوامی ہیں ‘ ۔ جیسے اور جگہ ہے کہ « کُلَّمَا أَرَ‌ادُوا أَن یَخْرُ‌جُوا مِنْہَا مِنْ غَمٍّ أُعِیدُوا فِیہَا وَذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِ‌یقِ» ۱؎ (22-الحج:22) ’ جہنمی جب جہنم میں سے نکلنا چاہئیں گے تو پھر دوبارہ اسی میں لوٹا دیئے جائیں گے ۔ بھڑکتی ہوئی آگ کے شعلوں کے ساتھ اوپر آ جائیں گے کہ داروغے انہیں لوہے کے ہتھوڑے مار مار کر پھر قعر جہنم میں گرا دیں گے ۔ غرض ان دائمی عذابوں سے چھٹکارا محال ہے ‘ ۔ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { ایک جہنمی کو لایا جائے گا پھر اس سے پوچھا جائے گا کہ اے ابن آدم کہو تمہاری جگہ کیسی ہے ؟ وہ کہے گا بدترین اور سخت ترین ۔ اس سے پوچھا جائے گا کہ اس سے چھوٹنے کیلئے تو کیا کچھ خرچ کر دینے پر راضی ہے ؟ وہ کہے گا ساری زمین بھر کا سونا دے کر بھی میں یہاں سے چھوٹوں تو بھی سستا چھوٹا ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’ جھوٹا ہے میں نے تو تجھ سے اس سے بہت ہی کم مانگا تھا لیکن تو نے کچھ بھی نہ کیا ‘ ۔ پھر حکم دیا جائے گا اور اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا } ۱؎ (صحیح بخاری:6538) ایک مرتبہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بیان کیا کہ { ایک قوم جہنم میں سے نکال کر جنت میں پہنچائی جائے گی } ۔ اس پر ان کے شاگرد یزید فقیر رحمہ اللہ نے پوچھا کہ پھر اس آیت قرآنی کا کیا مطلب ہے ؟ کہ «یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّخْرُجُوْا مِنَ النَّارِ وَمَا ہُمْ بِخٰرِجِیْنَ مِنْہَا ۡ وَلَہُمْ عَذَابٌ مٰقِیْمٌ» ۱؎ (5-المائدہ:37) ، یعنی ’ وہ جہنم سے آزاد ہونا چاہیں گے لیکن وہ آزاد ہونے والے نہیں ‘ ۔ تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” اس سے پہلے کی آیت «إِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا لَوْ أَنَّ لَہُم مَّا فِی الْأَرْضِ جَمِیعًا وَمِثْلَہُ مَعَہُ لِیَفْتَدُوا بِہِ مِنْ عَذَابِ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ مَا تُقُبِّلَ مِنْہُمْ ۖ وَلَہُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ» ۱؎ (5-المائدہ:36) ، پڑھو جس سے صاف ہو جاتا ہے کہ یہ کافر لوگ ہیں یہ کبھی نہ نکلیں گے “ ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:191) دوسری روایت میں ہے کہ یزید رحمۃ اللہ کا خیال یہی تھا کہ جہنم میں سے کوئی بھی نہ نکلے گا اس لیے یہ سن کر انہوں نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ مجھے اور لوگوں پر تو افسوس نہیں ہاں آپ صحابیوں رضی اللہ عنہم پر افسوس ہے کہ آپ بھی قرآن کے الٹ کہتے ہیں اس وقت مجھے بھی غصہ آگیا تھا ۔ اس پر ان کے ساتھیوں نے مجھے ڈانٹا لیکن سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بہت ہی حلیم الطبع تھے انہوں نے سب کو روک دیا اور مجھے سمجھایا کہ ” قرآن میں جن کا جہنم سے نہ نکلنے کا ذکر ہے وہ کفار ہیں ۔ تم نے قرآن نہیں پڑھا ؟ “ میں نے کہا ہاں مجھے سارا قرآن یاد ہے ؟ کہا ” پھر کیا یہ آیت قرآن میں نہیں ہے ؟ «وَمِنَ اللَّیْلِ فَتَہَجَّدْ بِہِ نَافِلَۃً لَّکَ عَسَیٰ أَن یَبْعَثَکَ رَبٰکَ مَقَامًا مَّحْمُودًا» (17-الاسراء:79)‏‏‏‏ ، اس میں مقام محمود کا ذکر ہے یہی مقام شفاعت ہے اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کو جہنم میں ان کی خطاؤں کی وجہ سے ڈالے گا اور جب تک چاہے انہیں جہنم میں ہی رکھے گا پھر جب چاہے گا انہیں اس سے آزاد کر دے گا “ ۔ یزید رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد سے میرا خیال ٹھیک ہوگیا ۔ ۱؎ (ضعیف) ۔ طلق بن حبیب رحمۃ اللہ کہتے ہیں میں بھی منکر شفاعت تھا یہاں تک کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے ملا اور اپنے دعوے کے ثبوت میں جن جن آیتوں میں جہنم کے ہمیشہ رہنے والوں کا ذکر ہے سب پڑھ ڈالیں تو آپ رضی اللہ عنہ نے سن کر فرمایا ! ” اے طلق کیا تم اپنے تئیں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں مجھ سے افضل جانتے ہو ؟ سنو جتنی آیتیں تم نے پڑھی ہیں وہ سب اہل جہنم کے بارے میں ہیں یعنی مشرکوں کیلئے ۔ لیکن وہ لوگ نکلیں گے یہ وہ لوگ ہیں جو مشرک نہ تھے لیکن گہنگار تھے گناہوں کے بدلے سزا بھگت لی پھر جہنم سے نکال دیئے گئے “ ۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے یہ سب فرما کر اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے دونوں کانوں کی طرف اشارہ کر کے فرمایا ” یہ دونوں بہرے ہو جائیں اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ نہ سنا ہو کہ { جہنم میں داخل ہونے بعد بھی لوگ اس میں سے نکالے جائیں گے اور وہ جہنم سے آزاد کر دیئے جائیں گے } ، قرآن کی یہ آیتیں جس طرح تم پڑھتے ہو ہم بھی پڑھتے ہی ہیں “ ۔ ۱؎ (الادب المفرد:818:ضعیف) المآئدہ
36 المآئدہ
37 المآئدہ
38 احکام جرم و سزا سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی قرأت میں «وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوا أَیْمَانَہُمَا» ہے لیکن یہ قرأت شاذ ہے گو عمل اسی پر ہے لیکن وہ عمل اس قرأت کی وجہ سے نہیں بلکہ دوسرے دلائل کی بناء پر ہے ۔ چور کے ہاتھ کاٹنے کا طریقہ اسلام سے پہلے بھی تھا اسلام نے اسے تفصیل وار اور منظم کر دیا اسی طرح قسامت دیت فرائض کے مسائل بھی پہلے تھے لیکن غیر منظم اور ادھورے ۔ اسلام نے انہیں ٹھیک ٹھاک کر دیا ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ سب سے پہلے دویک نامی ایک خزاعی شخص کے ہاتھ چوری کے الزام میں قریش نے کاٹے تھے اس نے کعبے کا غلام چرایا تھا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ چوروں نے اس کے پاس رکھ دیا تھا ۔ بعض فقہاء کا خیال ہے کہ چوری کی چیز کی کوئی حد نہیں تھوڑی ہو یا بہت محفوظ جگہ سے لی ہو یا غیر محفوظ جگہ سے بہر صورت ہاتھ کاٹا جائے گا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ یہ آیت عام ہے تو ممکن ہے اس قول کا یہی مطلب ہو اور دوسرے مطالب بھی ممکن ہیں ۔ ایک دلیل ان حضرات کی یہ حدیث بھی ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اللہ تعالیٰ چور پر لعنت کرے کہ انڈا چراتا ہے اور ہاتھ کٹواتا ہے رسی چرائی ہے اور ہاتھ کاٹا جاتا ہے } } ۱؎ (صحیح بخاری:6783) جمہور علماء کا مذہب یہ ہے کہ چوری کے مال کی حد مقرر ہے ۔ گو اس کے تقرر میں اختلاف ہے ۔ امام مالک کہتے ہیں تین درہم سکے والے خالص یا ان کی قیمت یا زیادہ کی کوئی چیز ۔ چنانچہ صحیح بخاری مسلم میں { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ڈھال کی چوری پر ہاتھ کاٹنا مروی ہے اور اس کی قیمت اتنی ہی تھی } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6795) سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اترنج کے چور کے ہاتھ کاٹے تھے جبکہ وہ تین درہم کی قیمت کا تھا ۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا فعل گویا صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع سکوتی ہے اور اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ پھل کے چور کے ہاتھ بھی کاٹے جائیں گے ۔ حنفیہ اسے نہیں مانتے اور ان کے نزدیک چوری کے مال کا دس درہم کی قیمت کا ہونا ضروری ہے ۔ اس میں شافعیہ کا اختلاف ہے پاؤ یا دینار کے تقرر میں ۔ امام شافعی رحمۃ اللہ کا فرمان ہے کہ ” پاؤ دینار کی قیمت کی چیز ہو یا اس سے زیادہ “ ۔ ان کی دلیل بخاری و مسلم کی حدیث ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { چور کا ہاتھ پاؤ دینار میں پھر جو اس سے اوپر ہو اس میں کاٹنا چاہیئے } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6789) مسلم کی ایک حدیث میں ہے { چور کا ہاتھ نہ کاٹا جائے مگر پاؤ دینار پھر اس سے اوپر میں } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1684) پس یہ حدیث اس مسئلے کا صاف فیصلہ کر دیتی ہے اور جس حدیث میں تین درہم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہاتھ کاٹنے کو فرمانا مروی ہے وہ اس کے خلاف نہیں اس لیے کہ اس وقت دینار بارہ درہم کا تھا ۔ پس اصل چوتھائی دینار ہے نہ کہ تین درہم ۔ عمر بن خطاب ، عثمان بن عفان ، علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہم بھی یہی فرماتے ہیں ۔ عمر بن عبدالعزیز لیث بن سعد اوزاعی شافعی اسحاق بن راہویہ ابوثور داؤد بن علی ظاہری رحمۃ اللہ علیہم کا بھی یہی قول ہے ۔ ایک روایت میں امام اسحٰق بن راہویہ اور امام احمد بن حنبل سے مروی ہے کہ خواہ ربع دینار ہو خواہ تین درہم دونوں ہی ہاتھ کاٹنے کا نصاب ہے ۔ مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے { چوتھائی دینار کی چوری پر ہاتھ کاٹ دو اس سے کم میں نہیں } ۔ اس وقت دینار بارہ درہم کا تھا تو چوتھائی دینار تین درہم کا ہوا ۔ ۱؎ (مسند احمد:80/6:صحیح) نسائی میں ہے { چور کا ہاتھ ڈھال کی قیمت سے کم میں نہ کاٹا جائے ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا ڈھال کی قیمت کیا ہے ؟ فرمایا پاؤ دینار } ۔ ۱؎ (سنن نسائی:4939،قال الشیخ الألبانی:صحیح لغیرہ) پس ان تمام احادیث سے صاف صاف ثابت ہو رہا ہے کہ دس درہم شرط لگانی کھلی غلطی ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ اور ان کے ساتھیوں نے کہا ہے کہ جس ڈھال کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چور کا ہاتھ کاٹا گیا اس کی قیمت نو درہم تھی چنانچہ ابوبکر بن شیبہ میں یہ موجود ہے ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:944،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ مخالفت کرتے رہے ہیں اور حدود کے بارے میں اختیار پر عمل کرنا چاہیئے اور احتیاط زیادتی میں ہے اس لیے دس درہم نصاب ہم نے مقرر کیا ہے ۔ بعض سلف کہتے ہیں کہ دس درہم یا ایک دینار حد ہے سیدنا علی ، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہم ، ابراہیم نخعی ابو جعفر باقر رحمۃ اللہ علیہم سے یہی مروی ہے ۔ سعید بن جیر رحمۃ اللہ فرماتے ہیں پانچوں نہ کاٹی جائیں مگر پانچ دینار پچاس درہم کی قیمت کے برابر کے مال کی چوری میں ۔ ظاہریہ کا مذہب ہے کہ ہر تھوڑی بہت چیز کی چوری پر ہاتھ کٹے گا انہیں جمہور نے یہ جواب دیا ہے کہ اولاً تو یہ اطلاق منسوخ ہے لیکن یہ جواب ٹھیک نہیں اس لیے تاریخ نسخ کا کوئی یقینی عمل نہیں ۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ انڈے سے مراد لوہے کا انڈا ہے اور رسی سے مراد کشتیوں کے قیمتی رسے ہیں ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1687) تیسرا جواب یہ ہے کہ یہ فرمان باعتبار نتیجے کے ہے یعنی ان چھوٹی چھوٹی معمولی سی چیزوں سے چوری شروع کرتا ہے آخر قیمتی چیزیں چرانے لگتا ہے اور ہاتھ کاٹا جاتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بطور افسوس کے اوپر چور کو نادم کرنے کے فرما رہے ہیں کہ { کیسا رذیل اور بے خوف انسان ہے کہ معمولی چیز کیلئے ہاتھ جیسی نعمت سے محروم ہو جاتا ہے } ۔ مذکور ہے کہ ابو العلام معری جب بغداد میں آیا تو اس نے اس بارے میں بڑے اعتراض شروع کئے اور اس کے جی میں یہ خیال بیٹھ گیا کہ میرے اس اعتراض کا جواب کسی سے نہیں ہو سکتا تو اس نے ایک شعر کہا کہ اگر ہاتھ کاٹ ڈالا جائے تو دیت میں پانچ سو دلوائیں اور پھر اسی ہاتھ کو پاؤ دینار کی چوری پر کٹوا دیں یہ ایسا تناقض ہے کہ ہماری سمجھ میں تو آتا ہی نہیں خاموش ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارا مولا ہمیں جہنم سے بچائے ۔ لیکن جب اس کی یہ بکواس مشہور ہوئی تو علماء کرام نے اسے جواب دینا چاہا تو یہ بھاگ گیا پھر جواب بھی مشہور کر دیئے گئے ۔ قاضی عبدالوہاب نے جواب دیا تھا کہ ” جب تک ہاتھ امین تھا تب تک ثمین یعنی قیمتی تھا اور جب یہ خائن ہوگیا اس نے چوری کرلی تو اس کی قیمت گھٹ گئی “ ۔ بعض بزرگوں نے اسے قدرے تفصیل سے جواب دیا تھا کہ ” اس سے شریعت کی کامل حکمت ظاہر ہوتی ہے اور دنیا کا امن و امان قائم ہوتا ہے ، جو کسی کا ہاتھ بے وجہ کاٹ دینے کا حکم دیا تاکہ چوری کا دروازہ اس خوف سے بند ہو جائے “ ۔ پس یہ تو عین حکمت ہے اگر چوری میں بھی اتنی رقم کی قید لگائی جاتی تو چوریوں کا انسداد نہ ہوتا ۔ یہ بدلہ ہے ان کے کرتوت کا ۔ مناسب مقام یہی ہے کہ جس عضو سے اس نے دوسرے کو نقصان پہنچایا ہے ، اسی عضو پر سزا ہو ۔ تاکہ انہیں کافی عبرت حاصل ہو اور دوسروں کو بھی تنبیہہ ہو جائے ۔ اللہ اپنے انتقام میں غالب ہے اور اپنے احکام میں حکیم ہے ۔ جو شخص اپنے گناہ کے بعد توبہ کرلے اور اللہ کی طرف جھک جائے ، اللہ اسے اپنا گناہ معاف فرما دیا کرتا ہے ۔ ہاں جو مال چوری میں کسی کا لے لیا ہے چونکہ وہ اس شخص کا حق ہے ، لہٰذا صرف توبہ کرنے سے وہ معاف نہیں ہوتا تاوقتیکہ وہ مال جس کا ہے اسے نہ پہنچائے یا اس کے بدلے پوری پوری قیمت ادا کرے ۔ جمہور ائمہ کا یہی قول ہے ، صرف امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ” جب چوری پر ہاتھ کٹ گیا اور مال تلف ہو چکا ہے تو اس کا بدلہ دینا اس پر ضروری نہیں “ ۔ دارقطنی وغیرہ کی ایک مرسل حدیث میں ہے کہ { ایک چور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لایا گیا ، جس نے چادر چرائی تھی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا : { میرا خیال ہے کہ تم نے چوری نہیں کی ہوگی } ، انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے چوری کی ہے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اسے لے جاؤ اور اس کا ہاتھ کاٹ دو } ۔ جب ہاتھ کٹ چکا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { توبہ کرو } ، انہوں نے توبہ کی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اللہ نے تمہاری توبہ قبول فرما لی } ۔ ۱؎ (دارقطنی:102/3:ضعیف) رضی اللہ عنہ ۔ ابن ماجہ میں ہے کہ { عمر بن سمرہ رضی اللہ عنہ ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہتے ہیں کہ مجھ سے چوری ہو گئی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے پاک کیجئے ، فلاں قبیلے والوں کا اونٹ میں نے چرا لیا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قبیلے والوں کے پاس آدمی بھیج کر دریافت فرمایا تو انہوں نے کہا کہ ہمارا اونٹ تو ضرور گم ہوگیا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا اور ان کا ہاتھ کاٹ ڈالا گیا وہ ہاتھ کٹنے پر کہنے لگے ، اللہ کا شکر ہے جس نے تجھے میرے جسم سے الگ کر دیا ، تو نے میرے سارے جسم کو جہنم میں لے جانا چاہا تھا } ۔ رضی اللہ عنہ ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:2588،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ابن جریر میں ہے کہ { ایک عورت نے کچھ زیور چرا لیے ، ان لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اسے پیش کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا داہنا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا ، جب کٹ چکا تو اس عورت نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا میری توبہ بھی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { تم تو ایسی پاک صاف ہوگئیں کہ گویا آج ہی پیدا ہوئی } ۔ اس پر آیت «‏‏‏‏فَمَن تَابَ مِن بَعْدِ ظُلْمِہِ وَأَصْلَحَ فَإِنَّ اللہَ یَتُوبُ عَلَیْہِ ۗ إِنَّ اللہَ غَفُورٌ رَّحِیمٌ» ۱؎ (5-المائدہ:39) نازل ہوئی } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:11922:ضعیف) مسند میں اتنا اور بھی ہے کہ { اس وقت اس عورت والوں نے کہا ہم اس کا فدیہ دینے کو تیار ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبول نہ فرمایا اور ہاتھ کاٹنے کا حکم دے دیا } ۔ ۱؎ (مسند احمد:2/177:ضعیف) یہ عورت مخزوم قبیلے کی تھی اور اس کا یہ واقعہ بخاری و مسلم میں بھی موجود ہے کہ چونکہ یہ بڑی گھرانے کی عورت تھی ، لوگوں میں بڑی تشویش پھیلی اور ارادہ کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں کچھ کہیں سنیں ، یہ واقعہ غزوہ فتح میں ہوا تھا ، بالاخر یہ طے ہوا کہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت پیارے ہیں ، وہ ان کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سفارش کریں ۔ سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ نے جب اس کی سفارش کی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت ناگوار گزرا اور غصے سے فرمایا { اسامہ تو اللہ کی حدود میں سے ایک حد کے بارے میں سفارش کر رہا ہے ؟ } اب تو اسامہ بہت گھبرائے اور کہنے لگے مجھ سے بڑی خطا ہوئی ، میرے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم استفغار کیجئے ۔ { شام کے وقت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خطبہ سنایا جس میں اللہ تعالیٰ کی پوری حمد و ثنا کے بعد فرمایا کہ { تم سے پہلے کے لوگ اسی خصلت پر تباہ و برباد ہو گئے کہ ان میں سے جب کوئی شریف شخص بڑا آدمی چوری کرتا تھا تو اسے چھوڑ دیتے تھے اور جب کوئی معمولی آدمی ہوتا تو اس پر حد جاری کرتے ۔ اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی چوری کریں تو میں ان کے بھی ہاتھ کاٹ دوں } ۔ پھر حکم دیا اور اس عورت کا ہاتھ کاٹ دیا گیا ۔ سیدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں پھر اس بیوی صاحبہ نے توبہ کی اور پوری اور پختہ توبہ کی اور نکاح کرلیا ، پھر وہ میرے پاس اپنے کسی کام کاج کیلئے آتی تھیں اور میں اس کی حاجت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کر دیا کرتی تھی } ۔ [ رضی اللہ عنہما ] ۱؎ (صحیح بخاری:3732) مسلم میں ہے { ایک عورت لوگوں سے اسباب ادھار لیتی تھی ، پھر انکار کر جایا کرتی تھی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا } ۱؎ (صحیح مسلم:1688) اور روایت میں ہے یہ زیور ادھار لیتی تھی اور اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو ہوا تھا ۔ ۱؎ (سنن نسائی:4893 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) کتاب الاحکام میں ایسی بہت سی حدیثیں وارد ہیں جو چوری سے تعلق رکھتی ہیں ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» ۔ جمیع مملوک کا مالک ساری کائنات کا حقیقی بادشاہ ، سچا حاکم ، اللہ ہی ہے ۔ جس کے کسی حکم کو کوئی روک نہیں سکتا ۔ جس کے کسی ارادے کو کوئی بدل نہیں سکتا ، جسے چاہے بخشے جسے چاہے عذاب کرے ۔ ہر ہر چیز پر وہ قادر ہے اس کی قدرت کامل اور اس کا قبضہ سچا ہے ۔ المآئدہ
39 المآئدہ
40 المآئدہ
41 جھوٹ سننے اور کہنے کے عادی لوگ ان آیتوں میں ان لوگوں کی مذمت بیان ہو رہی ہے ، جو رائے ، قیاس اور خواہش نفسانی کو اللہ کی شریعت پر مقدم رکھتے ہیں ۔ اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے نکل کر کفر کی طرف دوڑتے بھاگتے رہتے ہیں ۔ گویہ لوگ زبانی ایمان کے دعوے کریں لیکن ان کا دل ایمان سے خالی ہے ۔ منافقوں کی یہی حالت ہے کہ زبان کے کھرے ، دل کے کھوٹے اور یہی خصلت یہودیوں کی ہے جو اسلام اور اہل اسلام کے دشمن ہیں ۔ یہ جھوٹ کو مزے مزے سے سنتے ہیں اور دل کھول کر قبول کرتے ہیں ۔ لیکن سچ سے بھاگتے ہیں ، بلکہ نفرت کرتے ہیں اور جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں نہیں آتے یہ یہاں کی وہاں پہنچاتے ہیں ۔ ان کی طرف سے جاسوسی کرنے کو آتے ہیں ۔ پھر نالائقی یہ کرتے ہیں کہ یہ بات کو بدل ڈالا کرتے ہیں مطلب کچھ ہو ، لے کر کچھ اڑتے ہیں ، ارادے یہی ہیں کہ اگر تمہاری خواہش کے مطابق کہے تو مان لو ، طبیعت کے خلاف ہو تو دور رہو ۔ کہا کیا گیا ہے کہ یہ آیت ان یہودیوں کے بارے میں اتری تھی جن میں ایک کو دوسرے نے قتل کر دیا تھا ، اب کہنے لگے چلو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلیں اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دیت جرمانے کا حکم دیں تو منظور کر لیں گے اور اگر قصاص بدلے کو فرمائیں تو نہیں مانیں گے ۔ لیکن زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ وہ ایک زنا کار کو لے کر آئے تھے ۔ ان کی کتاب توراۃ میں دراصل حکم تو یہ تھا کہ شادی شدہ زانی کو سنگسار کیا جائے ۔ لیکن انہوں نے اسے بدل ڈالا تھا اور سو کوڑے مار کر ، منہ کالا کر کے ، الٹا گدھا سوار کر کے رسوائی کر کے چھوڑ دیتے تھے ۔ جب ہجرت کے بعد ان میں سے کوئی زناکاری کے جرم میں پکڑا گیا تو یہ کہنے لگے آؤ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں سوال کریں ، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی وہی فرمائیں جو ہم کرتے ہیں تو اسے قبول کریں گے اور اللہ کے ہاں بھی یہ ہماری سند ہو جائے گی اور اگر رجم کو فرمائیں گے تو نہیں مانیں گے ۔ چنانچہ یہ آئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا کہ ہمارے ایک مرد عورت نے بدکاری کی ہے ، ان کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ارشاد فرماتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { تمہارے ہاں توراۃ میں کیا حکم ہے ؟ } انہوں نے کہا ہم تو اسے رسوا کرتے ہیں اور کوڑے مار کر چھوڑ دیتے ہیں ۔ یہ سن کر عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے فرمایا ، جھوٹ کہتے ہیں ، تورات میں سنگسار کا حکم ہے ۔ اور آیت میں ہے «قُلْ فَأْتُوا بِالتَّوْرَاۃِ فَاتْلُوہَا إِن کُنتُمْ صَادِقِینَ» ‏‏‏‏ ۱؎ (3-آل عمران:93) یعنی ’ اگر سچے ہو تو تورات لاؤ اور اسے پڑھو [ یعنی دلیل پیش کرو ] ‘ ، انہوں نے تورات کھولی لیکن آیت رجم پر ہاتھ رکھ کر آگے پیچھے کی سب عبارت پڑھ سنائی ۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ سمجھ گئے اور آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” اپنے ہاتھ کو تو ہٹا “ ، ہاتھ ہٹایا تو سنگسار کرنے کی آیت موجود تھی ، اب تو انہیں بھی اقرار کرنا پڑا ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے زانیوں کو سنگسار کر دیا گیا ، عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” میں نے دیکھا کہ وہ زانی اس عورت کو پتھروں سے بچانے کیلئے اس کے آڑے آجاتا تھا “ ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6841) اور سند سے مروی ہے کہ یہودیوں نے کہا ” ہم تو اسے کالا منہ کر کے کچھ مار پیٹ کر چھوڑ دیتے ہیں “ ۔ اور آیت کے ظاہر ہونے کے بعد انہوں نے کہا ، ہے تو یہی حکم لیکن ہم نے تو اسے چھپایا تھا ، جو پڑھ رہا تھا اسی نے رجم کی آیت پر اپنا ہاتھ رکھ دیا تھا ، جب اس کا ہاتھ اٹھوایا تو آیت پر اچٹتی ہوئی نظر پڑ گئی ۔ ان دونوں کے رجم کرنے والوں میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ ان لوگوں نے اپنے آدمی بھیج کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلوایا تھا ، اپنے مدرسے میں گدی پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بٹھایا تھا اور جو اب تورات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پڑھ رہا تھا ، وہ ان کا بہت بڑا عالم تھا ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4449،قال الشیخ الألبانی:حسن) ایک روایت میں ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے قسم دے کر پوچھا تھا کہ تم تورات میں شادی شدہ زانی کی کیا سزا پاتے ہو ؟ } تو انہوں نے یہی جواب دیا تھا لیکن ایک نوجوان کچھ نہ بولا ، خاموش ہی کھڑا رہا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف دیکھ کر خاص اسے دوبارہ قسم دی اور جواب مانگا ، اس نے کہا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسی قسمیں دے رہے ہیں تو میں جھوٹ نہ بولوں گا ، واقعی تورات میں ان لوگوں کی سزا سنگساری ہے ۔ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اچھا پھر یہ بھی سچ سچ بتاؤ کہ پہلے پہل اس رجم کو تم نے کیوں اور کس پر سے اڑایا ؟ } } اس نے کہا ہمارے کسی بادشاہ کے رشتے دار ، بڑے آدمی نے زناکاری کی ۔ اس کی عظمت اور بادشاہ کی ہیبت کے مارے اسے رجم کرو ورنہ اسے بھی چھوڑو ۔ آخر ہم نے مل ملا کر یہ طے کیا کہ بجائے رجم کے اس قسم کی کوئی سزا مقرر کر دی جائے ۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے توراۃ کے حکم کو جاری کیا اور اسی بارے میں آیت «‏‏‏‏إِنَّا أَنزَلْنَا التَّوْرَاۃَ فِیہَا ہُدًی وَنُورٌ» ۱؎ (5-المائدہ:44) ، اتری ۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان احکام کے جاری کرنے والوں میں سے ہیں ۱؎ (سنن ابوداود:4450،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) مسند احمد میں ہے کہ ایک شخص کو یہودی کالا منہ کئے لے جا رہے تھے اور اسے کوڑے بھی مار رکھے تھے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلا کر ان سے ماجرا پوچھا انہوں نے کہا کہ اس نے زنا کیا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ { کیا زانی کی یہی سزا تمہارے ہاں ہے ؟ } کہا ہاں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ایک عالم کو بلا کر اسے سخت قسم دے کر پوچھا تو اس نے کہا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسی قسم نہ دیتے تو میں ہرگز نہ بتاتا ، بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں دراصل زناکاری کی سزا سنگساری ہے لیکن چونکہ امیر امراء اور شرفاء لوگوں میں یہ بدکاری بڑھ گئی تھی اور انہیں اس قسم کی سزا دینی ہم نے مناسب نہ جانی ، اس لیے انہیں تو چھوڑ دیتے تھے اور اللہ کا حکم مارا نہ جائے اس لیے غریب غرباء ، کم حیثیت لوگوں کو رجم کرا دیتے تھے پھر ہم نے رائے زنی کی کہ آؤ کوئی ایسی سزا تجویز کرو کہ شریف و غیر شریف ، امیر غریب پر سب پر یکساں جاری ہو سکے چنانچہ ہمارا سب کا اس بات پر اتفاق ہوا کہ منہ کالے کر دیں اور کوڑے لگائیں ۔ یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ان دونوں کو سنگسار کرو چنانچہ انہیں رجم کر دیا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اے اللہ میں پہلا وہ شخص ہوں جس نے تیرے ایک مردہ حکم کو زندہ کیا } ۔ اس پر آیت «یٰٓاَیٰھَا الرَّسُوْلُ لَا یَحْزُنْکَ الَّذِیْنَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْکُفْرِ مِنَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِاَفْوَاہِہِمْ وَلَمْ تُؤْمِنْ قُلُوْبُہُمْ» ‏‏‏‏ ۱؎ (5-المائدہ:41) سے «وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰیِٕکَ ہُمُ الْکٰفِرُوْنَ» ۱؎ (5-المائدہ:44) تک نازل ہوئی ۔ انہی یہودیوں کے بارے میں اور آیت میں ہے کہ ’ اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ نہ کرنے والے ظالم ہیں ‘ اور آیت میں ہے ’ فاسق ہیں ‘ ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1700) اور روایت میں ہے واقعہ زنا فدک میں ہوا تھا اور وہاں کے یہودیوں نے مدینے شریف کے یہودیوں کو لکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پچھوایا تھا جو عالم ان کا آیا اس کا نام ابن صوریا تھا ، یہ آنکھ کا بھینگا تھا ، اور اس کے ساتھ دوسرا عالم بھی تھا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں قسم دی تو دونوں نے قبول دیا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کہا تھا ، { تمہیں اس اللہ کی قسم جس نے بنو اسرائیل کیلئے پانی میں راہ کر دی تھی اور ابر کا سایہ ان پر کیا تھا اور فرعونیوں سے بچا لیا تھا اور من و سلویٰ اتارا تھا } ۔ اس قسم سے وہ چونک گئے اور آپس میں کہنے لگے بڑی زبردست قسم ہے ، اس موقع پر جھوٹ بولنا ٹھیک نہیں تو کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تورات میں یہ ہے کہ بری نظر سے دیکھنا بھی مثل زنا کے ہے اور گلے لگانا بھی اور بوسہ لینا بھی ، پھر اگر چار گواہ اس بات کے ہوں کہ انہوں نے دخول خروج دیکھا ہے جیسا کہ سلائی سرمہ دانی میں جاتی آتی ہے تو رجم واجب ہو جاتا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { یہی مسئلہ ہے پھر حکم دیا اور انہیں رجم کرا دیا گیا} ۔ اس پر آیت «فَاِنْ جَاءُوْکَ فَاحْکُمْ بَیْنَہُمْ اَوْ اَعْرِضْ عَنْہُمْ وَاِنْ تُعْرِضْ عَنْہُمْ فَلَنْ یَّضُرٰوْکَ شَـیْـــًٔـا وَاِنْ حَکَمْتَ فَاحْکُمْ بَیْنَہُمْ بِالْقِسْطِ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبٰ الْمُقْسِطِیْنَ» ۱؎ (5-المائدہ:42) ، اتری ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4452 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) ایک روایت میں جو دو عالم سامنے لائے گئے تھے ، یہ دونوں صوریا کے لڑکے تھے ۔ ترک حد کا سبب اس روایت میں یہودیوں کی طرف سے یہ بیان ہوا ہے کہ جب ہم میں سلطنت نہ رہی تو ہم نے اپنے آدمیوں کی جان لینی مناسب نہ سمجھی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گواہوں کو بلوا کر گواہی لی جنہوں نے بیان دیا کہ ہم نے اپنی آنکھوں سے انہیں اس برائی میں دیکھا ہے ، جس طرح سرمہ دانی میں سلائی ہوتی ہے ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4452،قال الشیخ الألبانی:صحیح) دراصل توراۃ وغیرہ کا منگوانا ان کے عالموں کو بلوانا ، یہ سب انہیں الزام دینے کیلئے نہ تھا ، نہ اس لیے تھا کہ وہ اسی کے ماننے کے مکلف ہیں ، نہیں بلکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان واجب العمل ہے ، اس سے مقصد ایک تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کا اظہار تھا کہ اللہ کی وحی سے آپ نے یہ معلوم کر لیا کہ ان کی تورات میں بھی حکم رجم موجود ہے اور یہی نکلا ، دوسرے ان کی رسوائی کہ انہیں پہلے کے انکار کے بعد اقرار کرنا پڑا اور دنیا پر ظاہر ہو گیا کہ یہ لوگ فرمان الٰہی کو چھپا لینے والے اور اپنی رائے قیاس پر عمل کرنے والے ہیں ۔ اور اس لیے بھی کہ یہ لوگ سچے دل سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس لیے نہیں آئے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرماں برداری کریں بلکہ محض اس لیے آئے تھے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اپنے اجماع کے موافق پائیں گے تو اتحاد کر لیں گے ورنہ ہرگز قبول نہ کریں گے ۔ اسی لیے فرمان ہے کہ ’ جنہیں اللہ گمراہ کر دے تو ان کو کسی قسم سے راہ راست آنے کا اختیار نہیں ہے ان کے گندے دلوں کو پاک کرنے کا اللہ کا ارادہ نہیں ، یہ دنیا میں ذلیل و خوار ہوں گے اور آخرت میں داخل نار ہوں گے ۔ یہ باطل کو کان لگا کر مزے لے کر سننے والے ہیں اور رشوت جیسی حرام چیز کو دن دہاڑے کھانے والے ہیں ، بھلا ان کے نجس دل کیسے پاک ہوں گے ؟ اور ان کی دعائیں اللہ کیسے سنے گا ؟ اگر یہ تیرے پاس آئیں تو تجھے اختیار ہے کہ ان کے فیصلے کر یا نہ کر اگر تو ان سے منہ پھیر لے جب بھی یہ تیرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے کیونکہ ان کا قصد اتباع حق نہیں بلکہ اپنی خواہشوں کی پیروی ہے ‘ ۔ بعض بزرگ کہتے ہیں یہ آیت منسوخ ہے اس آیت سے «وَاَنِ احْکُمْ بَیْنَہُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ وَلَا تَتَّبِعْ اَہْوَاءَہُمْ وَاحْذَرْہُمْ اَنْ یَّفْتِنُوْکَ عَنْ بَعْضِ مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ اِلَیْکَ» ۱؎ (5-المائدہ:49) پھر فرمایا ’ اگر تو ان میں فیصلے کرے تو عدل و انصاف کے ساتھ کر ، گو یہ خود ظالم ہیں اور عدل سے ہٹے ہوئے ہیں اور مان لو کہ اللہ تعالیٰ عادل لوگوں سے محبت رکھتا ہے ‘ ۔ پھر ان کی خباثت بدباطنی اور سرکشی بیان ہو رہی ہے کہ ’ ایک طرف تو اس کتاب اللہ کو چھوڑ رکھا ہے ، جس کی تابعداری اور حقانیت کے خود قائل ہیں ، دوسری طرف اس جانب جھک رہے ہیں ، جسے نہیں مانتے اور جسے جھوٹ مشہور کر رکھا ہے ، پھر اس میں بھی نیت بد ہے کہ اگر وہاں سے ہماری خواہش ہے مطابق حکم ملے گا تو لے لیں گے ، ورنہ چھوڑ چھاڑ دیں گے ‘ ۔ تو فرمایا کہ ’ یہ کیسے تیری فرماں برداری کریں گے ؟ انہوں نے تو تورات کو بھی چھوڑ رکھا ہے ، جس میں اللہ کے احکامات ہونے کا اقرار انہیں بھی ہے لیکن پھر بھی بے ایمانی کر کے اس سے پھر جاتے ہیں ‘ ۔ پھر اس تورات کی مدحت و تعریف بیان فرمائی جو اس نے اپنے برگزیدہ رسول موسیٰ بن عمران علیہ السلام پر نازل فرمائی تھی کہ اس میں ہدایت و نورانیت تھی ۔ انبیاء علیہ السلام جو اللہ کے زیر فرمان تھے ، اسی پر فیصلے کرتے رہے ، یہودیوں میں اسی کے احکام جاری کرتے رہے ، تبدیلی اور تحریف سے بچے رہے ، ربانی یعنی عابد ، علماء اور احبار یعنی ذی علم لوگ بھی اسی روش پر رہے ۔ کیونکہ انہیں یہ پاک کتاب سونپی گئی تھی اور اس کے اظہار کا اور اس پر عمل کرنے کا انہیں حکم دیا گیا تھا اور وہ اس پر گواہ و شاہد تھے ۔ ’ اب تمہیں چاہیئے کہ بجز اللہ کے کسی اور سے نہ ڈرو ۔ ہاں قدم قدم اور لمحہ لمحہ پر خوف رکھو اور میری آیتوں کو تھوڑے تھوڑے مول فروخت نہ کیا کرو ۔ جان لو کہ اللہ کی وحی کا حکم جو نہ مانے وہ کافر ہے ‘ ۔ اس میں دو قول ہیں جو ابھی بیان ہوں گے ان شاءاللہ ۔ ان آیتوں کا ایک شان نزول بھی سن لیجئے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ” ایسے لوگوں کو اس آیت میں تو کافر کہا دوسری میں ظالم تیسری میں فاسق ۔ بات یہ ہے کہ یہودیوں کے دو گروہ تھے ، ایک غالب تھا ، دوسرا مغلوب ۔ ان کی آپس میں اس بات پر صلح ہوئی تھی کہ غالب ، ذی عزت فرقے کا کوئی شخص اگر مغلوب ذلیل فرقے کے کسی شخص کو قتل کر ڈالے تو پچاس وسق دیت دے اور ذلیل لوگوں میں سے کوئی عزیز کو قتل کر دے تو ایک سو وسق دیت دے ۔ یہی رواج ان میں چلا آ رہا تھا ۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینے میں آئے ، اس کے بعد ایک واقعہ ایسا ہوا کہ ان نیچے والے یہودیوں میں سے کسی نے کسی اونچے یہودی کو مار ڈالا ۔ یہاں سے آدمی گیا کہ لاؤ سو وسق دلاؤ دلواؤ ، وہاں سے جواب ملا کہ یہ صریح ناانصافی ہے کہ ہم دونوں ایک ہی قبیلے کے ، ایک ہی دین کے ، ایک ہی نسب کے ، ایک ہی شہر کے پھر ہماری دیت کم اور تمہارا زیادہ ؟ ہم چونکہ اب تک تمہارے دبے ہوئے تھے ، اس ناانصافی کو بادل ناخواستہ برداشت کرتے رہے لیکن اب جب کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسے عادل بادشاہ یہاں آگئے ہیں ہم تمہیں اتنی ہی دیت دیں گے جتنی تم ہمیں دو ۔ اس بات پر ادھر ادھر سے آستینیں چڑھ گئیں ، پھر آپس میں یہ بات طے ہوئی کہ اچھا اس جھگڑے کا فیصلہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کریں گے ۔ لیکن اونچی قوم کے لوگوں نے آپس میں جب مشورہ کیا تو ان کے سمجھداروں نے کہا دیکھو اس سے ہاتھ دھو رکھو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوئی ناانصافی پہ مبنی حکم کریں ۔ یہ تو صریح زیادتی ہے کہ ہم آدھی دیں اور پوری لیں اور فی الواقع ان لوگوں نے دب کر اسے منظور کیا تھا جو تم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم اور ثالث مقرر کیا ہے تو یقیناً تمہارا یہ حق مارا جائے گا کسی نے رائے دی کہ اچھا یوں کرو ، کسی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چپکے سے بھیج دو ، وہ معلوم کر آئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فیصلہ کیا کریں گے ؟ اگر ہماری حمایت میں ہوا تب تو بہت اچھا چلو اور ان سے حق حاصل کر آؤ اور اگر خلاف ہوا تو پھر الگ تھلگ ہی اچھے ہیں ۔ چنانچہ مدینہ کے چند منافقوں کو انہوں نے جاسوس بنا کر صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا ۔ اس سے پہلے کہ وہ یہاں پہنچیں اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں اتار کر اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ان دونوں فرقوں کے بد ارادوں سے مطلع فرما دیا ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:3576،قال الشیخ الألبانی:حسن) ایک روایت میں ہے کہ یہ دونوں قبیلے بنو نضیر اور بنو قریظہ تھے ۔ بنو نضیر کی پوری دیت تھی اور بنو قریظہ کی آدھی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کی دیت یکساں دینے کا فیصلہ صادر فرمایا ۔ ایک روایت ہے کہ قرظی اگر کسی نضری کو قتل کر ڈالے تو اس سے قصاص لیتے تھے لیکن اس کے خلاف میں قصاص تھا ہی نہیں سو وسق دیت تھی ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:3591،قال الشیخ الألبانی:حسن) یہ بہت ممکن ہے کہ ادھر یہ واقعہ ہوا ، ادھر زنا کا قصہ واقع ہوا ، جس کا تفصیلی بیان گزر چکا ہے ان دونوں پر یہ آیتیں نازل ہوئیں «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ ہاں ایک بات اور ہے جس سے اس دوسری شان نزول کی تقویت ہوتی ہے وہ یہ کہ اس کے بعد ہی فرمایا ہے آیت «وَکَتَبْنَا عَلَیْہِمْ فِیْہَآ اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَیْنَ بِالْعَیْنِ وَالْاَنْفَ بِالْاَنْفِ وَالْاُذُنَ بِالْاُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوْحَ قِصَاصٌ فَمَنْ تَصَدَّقَ بِہٖ فَہُوَ کَفَّارَۃٌ لَّہٗ وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰیِٕکَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ» ۱؎ (5-المائدہ:45) ، یعنی ’ ہم نے یہودیوں پر تورات میں یہ حکم فرض کر دیا تھا کہ جان کے عوض جان ، آنکھ کے عوض آنکھ ‘ ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ پھر انہیں کافی کہا گیا جو اللہ کی شریعت اور اس کی اتاری ہوئی وحی کے مطابق فیصلے اور حکم نہ کریں گو یہ آیت شان نزول کے اعتبار سے بقول مفسرین اہل کتاب کے بارے میں ہے لیکن حکم کے اعتبار سے ہر شخص کو شامل ہے ۔ بنو اسرائیل کے بارے میں اتری اور اس امت کا بھی یہی حکم ہے ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ” رشوت حرام ہے اور رشوت ستانی کے بعد کسی شرعی مسئلہ کے خلاف فتویٰ دینا کفر ہے “ ۔ سدی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں ” جس نے وحی الٰہی کے خلاف عمداً فتویٰ دیا جاننے کے باوجود اس کے خلاف کیا وہ کافر ہے “ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” جس نے اللہ کے فرمان سے انکار کیا ، اس کا یہ حکم ہے اور جس نے انکار تو نہ کیا لیکن اس کے مطابق نہ کہا وہ ظالم اور فاسق ہے ۔ خواہ اہل کتاب ہو خواہ کوئی اور “ ۔ شعبی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں ” مسلمانوں میں جس نے کتاب کے خلاف فتویٰ دیا وہ کافر ہے اور یہودیوں میں دیا ہو تو ظالم ہے اور نصرانیوں میں دیا ہو تو فاسق ہے “ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” اس کا کفر اس آیت کے ساتھ ہے “ ۔ طاؤس رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” اس کا کفر اس کے کفر جیسا نہیں جو سرے سے اللہ کے رسول قرآن اور فرشتوں کا منکر ہو “ ۔ عطاء رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” «کتم» [ چھپانا ] کفر سے کم ہے اسی طرح ظلم و فسق کے بھی ادنیٰ اعلیٰ درجے ہیں ۔ اس کفر سے وہ ملت اسلام سے پھر جانے والا جاتا ہے “ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” اس سے مراد وہ کفر نہیں جس کی طرف تم جا رہے ہو “ ۔ المآئدہ
42 المآئدہ
43 المآئدہ
44 المآئدہ
45 قتل کے بدلے تقاضائے عدل ہے یہودیوں کو اور سرزنش کی جا رہی ہے کہ ’ ان کی کتاب میں صاف لفظوں میں جو حکم تھا یہ کھلم کھلا اس کا بھی خلاف کر رہے ہیں اور سرکشی اور بے پرواہی سے اسے بھی چھوڑ رہے ہیں ‘ ۔ نضری یہودیوں کو تو قرظی یہودیوں کے بدلے قتل کرتے ہیں لیکن قریظہ کے یہود کو بنو نضیر کے یہود کے عوض قتل نہیں کرتے بلکہ دیت لے کر چھوڑ دیتے ہیں ۔ اسی طرح انہوں نے شادی شدہ زانی کی سنگساری کے حکم کو بدل دیا ہے اور صرف کالا منہ کر کے رسوا کر کے مار پیٹ کر چھوڑ دیتے ہیں ۔ اسی لیے وہاں تو انہیں کافر کہا یہاں انصاف نہ کرنے کی وجہ سے انہیں ظالم کہا ۔ ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا «‏‏‏‏وَالْعَیْنُ» پڑھنا بھی مروی ہے ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:3976،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) علماء کرام کا قول ہے کہ اگلی شریعت چاہے ہمارے سامنے بطور تقرر بیان کی جائے اور منسوخ نہ ہو تو وہ ہمارے لیے بھی شریعت ہے ۔ جیسے یہ احکام سب کے سب ہماری شریعت میں بھی اسی طرح ہیں ۔ امام نووی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں ” اس مسئلے میں تین مسلک ہیں ایک تو وہی جو بیان ہوا ، ایک اس کے بالکل برعکس ایک یہ کہ صرف ابراہیمی شریعت جاری اور باقی ہے اور کوئی نہیں ۔ اس آیت کے عموم سے یہ بھی استدلال کیا گیا ہے کہ مرد عورت کے بدلے بھی قتل کیا جائے گا کیونکہ یہاں لفظ نفس ہے جو مرد عورت دونوں کو شامل ہے “ ۔ چنانچہ حدیث شریف میں بھی ہے کہ { مرد عورت کے خون کے بدلے قتل کیا جائے گا } ۔ ۱؎ (سنن نسائی:4857،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) اور حدیث میں ہے کہ { مسلمانوں کے خون آپس میں مساوی ہیں } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2751،قال الشیخ الألبانی:صحیح) بعض بزرگوں سے مروی ہے کہ ” مرد جب کسی عورت کو قتل کر دے تو اسے اس کے بدلے قتل نہ کیا جائے گا بلکہ صرف دیت لی جائے گی “ ۔ لیکن یہ قول جمہور کے خلاف ہے ۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تو فرماتے ہیں کہ ” ذمی کافر کے قتل کے بدلے بھی مسلمان قتل کر دیا جائے گا اور غلام کے قتل کے بدلے آزاد بھی قتل کر دیا جائے گا “ ۔ لیکن یہ مذہب جمہور کے خلاف ہے ۔ بخاری مسلم میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { مسلمان کافر کے بدلے قتل کیا نہ کیا جائے گا } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:111) اور سلف کے بہت سے آثار اس بارے میں موجود ہیں کہ وہ غلام کا قصاص آزاد سے نہیں لیتے تھے اور آزاد غلام کے بدلے قتل نہ کیا جائے گا ۔ حدیثیں بھی اس بارے میں مروی ہیں لیکن صحت کو نہیں پہنچیں ۔ امام شافعی رحمۃ اللہ تو فرماتے ہیں ” اس مسئلہ میں امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ کے خلاف اجماع ہے “ ۔ لیکن ان باتوں سے اس قول کا بطلان لازم نہیں آتا تاوقتیکہ آیت کے عموم کو خاص کرنے والی کوئی زبردست صاف ثابت دلیل نہ ہو ۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ { حضرت انس رضی اللہ عنہ بن نضر کی پھوپھی ربیع نے ایک لونڈی کے دانت توڑ دیئے ، اب لوگوں نے اس سے معافی چاہی لیکن وہ نہ مانی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس معاملہ آیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدلہ لینے کا حکم دے دیا ، اس پر انس بن نضر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیا اس عورت کے سامنے کے دانت توڑ دیئے جائیں گے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ہاں اے انس ! اللہ کی کتاب میں قصاص کا حکم موجود ہے } ۔ یہ سن کر فرمایا نہیں نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قسم ہے اس اللہ کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ، اس کے دانت ہرگز نہ توڑے جائیں گے ، چنانچہ ہوا بھی یہی کہ لوگ راضی رضامند ہوگئے اور قصاص چھوڑ دیا بلکہ معاف کر دیا ۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { بعض بندگان رب ایسے بھی ہیں کہ اگر وہ اللہ پر کوئی قسم کھا لیں تو اللہ تعالیٰ اسے پوری ہی کر دے } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2703) دوسری روایت میں ہے کہ ” پہلے انہوں نے نہ تو معافی دی نہ دیت لینی منظور کی “ ۔ نسائی وغیرہ میں ہے ، { ایک غریب جماعت کے غلام نے کسی مالدار جماعت کے غلام کے کان کاٹ دیئے ، ان لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آکر عرض کیا کہ ہم لوگ فقیر مسکین ہیں ، مال ہمارے پاس نہیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر کوئی جرمانہ نہ رکھا } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4590 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) ہو سکتا ہے کہ یہ غلام بالغ نہ ہو اور ہو سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیت اپنے پاس سے دے دی ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان سے سفارش کرکے معاف کرا لیا ہو ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ” جان جان کے بدلے ماری جائے گی ، آنکھ پھوڑ دینے والے کی آنکھ پھوڑ دی جائے گی ، ناک کاٹنے والے کا ناک کاٹ دیا جائے گا ، دانت توڑنے والے کا دانت توڑ دیا جائے گا اور زخم کا بھی بدلہ لیا جائے گا “ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:360/10) اس میں آزاد مسلمان سب کے سب برابر ہیں ۔ مرد عورت ایک ہی حکم میں ۔ جبکہ یہ کام قصداً کئے گئے ہوں ۔ اس میں غلام بھی آپس میں برابر ہیں ، ان کے مرد بھی اور عورتیں بھی ۔ [ قاعدہ: ] اعضاء کا کٹنا تو جوڑ سے ہوتا ہے اس میں تو قصاص واجب ہے ۔ جیسے ہاتھ ، پیر ، قدم ، ہتھیلی وغیرہ ۔ لیکن جو زخم جوڑ پر نہ ہوں بلکہ ہڈی پر آئے ہوں ، ان کی بابت امام مالک رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ ” ان میں بھی قصاص ہے مگر ران میں اور اس جیسے اعضاء میں اس لیے کہ وہ خوف و خطر کی جگہ ہے “ ۔ ان کے برخلاف ابوحنیفہ رحمۃ اللہ اور ان کے دونوں ساتھیوں کا مذہب ہے کہ ” کسی ہڈی میں قصاص نہیں ، بجز دانت کے اور امام شافعی رحمۃ اللہ کے نزدیک مطلق کسی ہڈی کا قصاص نہیں “ ۔ یہی مروی ہے سیدنا عمر بن خطاب اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی اور یہی کہتے ہیں عطاء ، شبعی ، حسن بصری ، زہری ، ابراہیم ، نخعی اور عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہم بھی اور اسی کی طرف گئے ہیں سفیان ثوری اور لیث بن سعد رحمۃ اللہ علیہم بھی ۔ امام احمد رحمہ اللہ سے بھی یہی قول زیادہ مشہور ہے ۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ کی دلیل وہی انس رضی اللہ عنہ والی روایت ہے جس میں ربیع سے دانت کا قصاص دلوانے کا حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمودہ ہے ۔ لیکن دراصل اس روایت سے یہ مذہب ثابت نہیں ہوتا ۔ کیونکہ اس میں یہ لفظ ہیں کہ اس کے سامنے کے دانت اس نے توڑ دیئے تھے اور ہو سکتا ہے کہ بغیر ٹوٹنے کے جھڑ گئے ہوں ۔ اس حالت میں قصاص اجماع سے واجب ہے ۔ ان کی دلیل کا پورا حصہ وہ ہے جو ابن ماجہ میں ہے کہ { ایک شخص نے دوسرے کے بازو کو کہنی سے نیچے نیچے ایک تلوار مار دی ، جس سے اس کی کلائی کٹ گئی ، صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مقدمہ آیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ دیت ادا کرو اس نے کہا میں قصاص چاہتا ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اسی کو لے لے اللہ تجھے اسی میں برکت دے گا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قصاص کو نہیں فرمایا } } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:2636،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) لیکن یہ حدیث بالکل ضعیف اور گری ہوئی ہے ، اس کے ایک راوی ہشم بن عکلی اعرابی ضعیف ہیں ، ان کی حدیث سے حجت نہیں پکڑی جاتی ، دوسرے راوی غران بن جاریہ اعرابی بھی ضعیف ہیں ۔ پھر وہ کہتے ہیں کہ زخموں کا قصاص ان کے درست ہو جانے اور بھر جانے سے پہلے لینا جائز نہیں اور اگر پہلے لے لیا گیا پھر زخم بڑھ گیا تو کوئی بدلہ دلوایا نہ جائے گا ۔ اس کی دلیل مسند احمد کی یہ حدیث ہے کہ { ایک شخص نے دوسرے کے گھٹنے میں چوٹ مار دی ، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا مجھے بدلہ دلوایئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دلوا دیا ، اس کے بعد وہ پھر آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں تو لنگڑا ہو گیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { میں نے تجھے منع کیا تھا لیکن تو نہ مانا ، اب تیرے اس لنگڑے پن کا بدلہ کچھ نہیں } ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زخموں کے بھر جانے سے پہلے بدلہ لینے کو منع فرما دیا } ۔ ۱؎ (مسند احمد:217/2:صحیح بالشواہد) مسئلہ اگر کسی نے دوسرے کو زخمی کیا اور بدلہ اس سے لے لیا گیا ، اس میں یہ مر گیا تو اس پر کچھ نہیں ۔ مالک ، شافعی ، احمد رحمہ اللہ علیہم اور جمہوری صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین رحمہ اللہ علیہم کا یہی قول ہے ۔ ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ ” اس پر دیت واجب ہے ، اسی کے مال میں سے “ ۔ بعض اور بزرگ فرماتے ہیں ” اس کے ماں باپ کی طرف کے رشتہ داروں کے مال پر وہ دیت واجب ہے “ ۔ بعض اور حضرات کہتے ہیں ” بقدر اس کے بدلے کے تو ساقط ہے باقی اسی کے مال میں سے واجب ہے “ ۔ پھر فرماتا ہے ’ جو شخص قصاص سے درگزر کرے اور بطور صدقے کے اپنے بدلے کو معاف کر دے تو زخمی کرنے والے کا کفارہ ہو گیا اور جو زخمی ہوا ہے ، اسے ثواب ہوگا جو اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے ‘ ۔ بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ ” وہ زخمی کیلئے کفارہ ہے یعنی اس کے گناہ اسی زخم کی مقدار سے اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے “ ۔ بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ ” وہ زخمی کیلئے کفارہ ہے یعنی اس کے گناہ اسی زخم کی مقدار سے اللہ تعالیٰ بخش دیتا ہے “ ۔ ایک مرفوع حدیث میں یہ آیا ہے کہ { اگر چوتھائی دیت کے برابر کی چیز ہے اور اس نے درگزر کر لیا تو اس کے چوتھائی گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔ ثلث ہے تو تہائی گناہ ، آدھی ہے تو آدھے گناہ اور پوری ہے تو پورے گناہ } ۔ ۱؎ (الدر المنشور للسیوطی:510/2:ضعیف) ایک قریشی نے ایک انصاری کو زور سے دھکا دے دیا جس سے اس کے آگے کے دانت ٹوٹ گئے ۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس مقدمہ گیا اور جب وہ بہت سر ہوگیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ، ” اچھا جا تجھے اختیار ہے “ ۔ سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ وہیں تھے فرمانے لگے ” میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ { جس مسلمان کے جسم میں کوئی ایذاء پہنچائی جائے اور وہ صبر کر لے ، بدلہ نہ لے تو اللہ اس کے درجے بڑھاتا ہے اور اس کی خطائیں معاف فرماتا ہے } ۔ اس انصاری نے یہ سن کر کہا ، کیا سچ مچ آپ رضی اللہ عنہ نے خود ہی اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی سنا ہے ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہاں میرے ان کانوں نے سنا ہے اور میرے دل نے یاد کیا ہے ، اس نے کہا پھر گواہ رہو کہ میں نے اپنے مجرم کو معاف کر دیا ۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور اسے انعام دیا “ ۔ ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:1393،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ترمذی میں بھی یہ روایت ہے لیکن امام ترمذی کہتے ہیں یہ حدیث غریب ہےابو سفر راوی کا سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ سے سننا ثابت نہیں ۔ ۱؎ (مسند احمد:448/6:صحیح لغیرہ مرفوعا وہذا اسناد ضعیف) اور روایت میں ہے کہ تین گنی دیت وہ دینا چاہتا تھا لیکن یہ راضی نہیں ہوا تھا ، اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ { جو شخص خون یا اس سے کم کو معاف کر دے ، وہ اس کی پیدائش سے لے کر موت تک کا کفارہ ہے } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:368/10:ضعیف و منقطع) مسند میں ہے کہ { جس کے جسم میں کوئی زخم لگے اور وہ معاف کر دے تو اللہ تعالیٰ اس کے اتنے ہی گناہ معاف فرما دیتا ہے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:5/316:صحیح) مسند میں یہ بھی حدیث ہے { اللہ کے حکم کے مطابق حکم نہ کرنے والے ظالم ہیں } ۔ پہلے گزر چکا ہے کہ کفر کفر سے کم ہے ، ظلم میں بھی تفاوت ہے اور فسق بھی درجے ہیں ۔ المآئدہ
46 باطل کے غلام لوگ ’ انبیاء بنی اسرائیل کے پیچھے ہم عیسیٰ علیہ السلام نبی کو لائے جو توراۃ پر ایمان رکھتے تھے ، اس کے احکام کے مطابق لوگوں میں فیصلے کرتے تھے ، ہم نے انہیں بھی اپنی کتاب انجیل دی ، جس میں حق کی ہدایت تھی اور شبہات اور مشکلات کی توضیح تھی اور پہلی الہامی کتابوں کی تصدیق تھی ، ہاں چند مسائل جن میں یہودی اختلاف کرتے تھے ، ان کے صاف فیصلے اس میں موجود تھے ‘ ۔ جیسے قرآن میں اور جگہ ہے کہ «وَلِأُحِلَّ لَکُم بَعْضَ الَّذِی حُرِّمَ عَلَیْکُمْ» ۱؎ (3-آل عمران:50) حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا ، ’ میں تمہارے لیے بعض وہ چیزیں حلال کروں گا جو تم پر حرام کردی گئی ہیں ‘ ۔ اسی لیے علماء کا مشہور مقولہ ہے کہ انجیل نے تورات کے بعض احکام منسوخ کر دیئے ہیں ۔ انجیل سے پارسا لوگوں کی رہنمائی اور وعظ و پند ہوتی تھی کہ وہ نیکی کی طرف رغبت کریں اور برائی سے بچیں ۔ «اَھْلَ اٰلانْجِیْلِ» بھی پڑھا گیا ہے اس صورت میں «وَاُلْیَحْکُمْ» میں لام «کَیْ» معنی میں ہو گا ۔ مطلب یہ ہو گا کہ ’ ہم نے عیسیٰ کو انجیل اس لیے دی تھی کہ وہ اپنے زمانے کے اپنے ماننے والوں کو اسی کے مطابق چلائیں ‘ اور اس لام کو امر کا لام سمجھا جائے اور مشہور قراۃ «وَلْیَحْکُمْ» پڑھی جائے تو معنی یہ ہوں گے کہ ’ انہیں چاہیئے کہ انجیل کے کل احکام پر ایمان لائیں اور اسی کے مطابق فیصلہ کریں ‘ ۔ جیسے اور آیت میں ہے «قُلْ یٰٓاَہْلَ الْکِتٰبِ لَسْتُمْ عَلٰی شَیْءٍ حَتّٰی تُقِیْمُوا التَّوْرٰیۃَ وَالْاِنْجِیْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ» ۱؎ (5-المائدہ:68) ، یعنی ’ اے اہل کتاب جب تک تم تورات و انجیل پر اور جو کچھ اللہ کی طرف سے اترا ہے ، اگر اس پر قائم ہو تو تم کسی چیز پر نہیں ہو ‘ ۔ اور آیت میں ہے «‏‏‏‏اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَہٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَہُمْ فِی التَّوْرٰیۃِ وَالْاِنْجِیْلِ» ۱؎ (7-الأعراف:157) ، ’ جو لوگ اس رسول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری کرتے ہیں ، جس کی صفت اپنے ہاں توراۃ میں لکھی ہوئی پاتے ہیں وہ لوگ جو کتاب اللہ اور اپنے نبی کے فرمان کے مطابق حکم نہ کریں وہ اللہ کی اطاعت سے خارج ، حق کے تارک اور باطل کے عامل ہیں ‘ ۔ یہ آیت نصرانیوں کے حق میں ہے ۔ روش آیت سے بھی یہ ظاہر ہے اور پہلے بیان بھی گزر چکا ہے ۔ المآئدہ
47 المآئدہ
48 قرآن ایک مستقل شریعت ہے تورات و انجیل کی ثنا و صفت اور تعریف و مدحت کے بعد اب قرآن عظیم کی بزرگی بیان ہو رہی ہے کہ ’ ہم نے اسے حق و صداقت کے ساتھ نازل فرمایا ہے یہ بالیقین اللہ واحد کی طرف سے ہے اور اس کا کلام ہے ۔ یہ تمام پہلی الٰہی کتابوں کو سچا مانتا ہے اور ان کتابوں میں بھی اس کی صفت و ثنا موجود ہے اور یہ بھی بیان ان میں ہے کہ یہ پاک اور آخری کتاب آخری اور افضل رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اترے گی ، پس ہر دانا شخص اس پر یقین رکھتا ہے اور اسے مانتا ہے ‘ ۔ جیسے فرمان ہے آیت «اِنَّ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِہٖٓ اِذَا یُتْلٰی عَلَیْہِمْ یَخِرٰوْنَ لِلْاَذْقَانِ سُجَّدًا وَیَقُولُونَ سُبْحَانَ رَبِّنَا إِن کَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُولًا» ۱؎ (17-الاسراء:108-107) ، ’ جنہیں اس سے پہلے علم دیا گیا تھا ، جب ان کے سامنے اس کی تلاوت کی جاتی ہے تو وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں گر پڑتے ہیں اور زبانی اقرار کرتے ہیں کہ ہمارے رب کا وعدہ سچا ہے اور وہ سچا ثابت ہو چکا ‘ ۔ اس نے اگلے رسولوں کی زبانی جو خبر دی تھی وہ پوری ہوئی اور آخری رسول رسولوں کے سرتاج رسول آ ہی گئے اور یہ کتاب ان پہلی کتابوں کی امین ہے ۔ یعنی اس میں جو کچھ ہے ، وہی پہلی کتابوں میں بھی تھا ، اب اس کے خلاف کوئی کہے کہ فلاں پہلی کتاب میں یوں ہے تو یہ غلط ہے ۔ یہ ان کی سچی گواہ اور انہیں گھیر لینے والی اور سمیٹ لینے والی ہے ۔ جو جو اچھائیاں پہلے کی تمام کتابوں میں جمع تھیں ، وہ سب اس آخری کتاب میں یکجا موجود ہیں ، اسی لیے یہ سب پر حاکم اور سب پر مقدم ہے اور اس کی حفاظت کا کفیل خود اللہ تعالیٰ ہے ۔ جیسے فرمایا «اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ» ۱؎ (15-الحجر:9) بعض نے کہا ہے کہ مراد اس سے یہ ہے کہ ” نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کتاب پر امین ہیں “ ۔ واقع میں تو یہ قول بہت صحیح ہے لیکن اس آیت کی تفسیر یہ کرنی ٹھیک نہیں بلکہ عربی زبان کے اعتبار سے بھی یہ غور طلب امر ہے ۔ صحیح تفسیر پہلی ہی ہے ۔ امام ابن جریر رحمۃ اللہ نے بھی مجاہد رحمۃ اللہ سے اس قول کو نقل کر کے فرمایا ہے ” یہ بہت دور کی بات ہے بلکہ ٹھیک نہیں ہے اس لیے «مُہَیْمِنً» کا عطف مصدق پر ہے ، پس یہ بھی اسی چیز کی صفت ہے جس کی صفت مصدق کا لفظ تھا “ ۔ اگر مجاہد رحمہ اللہ کے معنی صحیح مان لیے جائیں تو عبارت بغیر عطف کے ہونی چاہیئے تھی ۔ خواہ عرب ہوں ، خواہ عجم ہوں ، خواہ لکھے پڑھے ہوں ، خواہ ان پڑھ ہوں ، اللہ کی طرف سے نازل کردہ سے مراد وحی اللہ ہے ۔ خواہ وہ اس کتاب کی صورت میں ہو ، خواہ جو پہلے احکام اللہ نے مقرر کر رکھے ہوں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” اس آیت سے پہلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آزادی دی گئی تھی ، اگر چاہیں ان میں فیصلے کریں چاہیں نہ کریں ، لیکن اس آیت نے حکم دیا کہ وحی الٰہی کے ساتھ ان میں فیصلے کرنے ضروری ہیں “ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:332/10) ’ ان بدنصیب جاہلوں نے اپنی طرف سے جو احکام گھڑ لیے ہیں اور ان کی وجہ سے کتاب اللہ کو پس پشت ڈال دیا ہے ، خبردار اے نبی کریم ! صلی اللہ علیہ وسلم تو ان کی چاہتوں کے پیچھے لگ کر حق کو نہ چھوڑ بیٹھنا ۔ ان میں سے ہر ایک کیلئے ہم نے راستہ اور طریقہ بنا دیا ہے ‘ ۔ کسی چیز کی طرف ابتداء کرنے کو «شِرْعَۃً» کہتے ہیں ، منہاج لغت میں کہتے ہیں واضح اور آسان راستے کو ۔ پس ان دونوں لفظوں کی یہی تفسیر زیادہ مناسب ہے ۔ پہلی تمام شریعتیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھیں ، وہ سب توحید پر متفق تھیں ، البتہ چھوٹے موٹے احکام میں قدرے ہیر پھیر تھا ۔ جیسے حدیث شریف میں ہے { ہم سب انبیاء علیہم السلام علاتی بھائی ہیں ، ہم سب کا دین ایک ہی ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3443) ہر نبی علیہ السلام توحید کے ساتھ بھیجا جاتا رہا اور ہر آسمانی کتاب میں توحید کا بیان اس کا ثبوت اور اسی کی طرف دعوت دی جاتی رہی ۔ جیسے قرآن فرماتا ہے کہ «وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِکَ مِن رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِی إِلَیْہِ أَنَّہُ لَا إِلٰہَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ» ۱؎ (21-الأنبیاء:25) ’ تجھ سے پہلے جتنے بھی رسول ہم نے بھیجے ، ان سب کی طرف یہی وحی کی کہ میرے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں ، تم سب صرف میری ہی عبادت کرتے رہو ‘ ۔ اور آیت میں «وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ» (16-النحل:36) ، ’ ہم نے ہر امت کو بزبان رسول کہلوادیا کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا دوسروں کی عبادت سے بچو ‘ ۔ ہاں احکام کا اختلاف ضرور ، کوئی چیز کسی زمانے میں حرام تھی پھر حلال ہوگئی یا اس کے برعکس ۔ یا کسی حکم میں تخفیف تھی اب تاکید ہوگئی یا اس کے خلاف اور یہ بھی حکمت اور مصلحت اور حجت ربانی کے ساتھ مثلاً توراۃ ایک شریعت ہے ، انجیل ایک شریعت ہے ، قرآن ایک مستقل شریعت ہے تاکہ ہر زمانے کے فرمانبرداروں اور نافرمانوں کا امتحان ہو جایا کرے ۔ البتہ توحید سب زمانوں میں یکساں رہی اور معنی اس جملہ کے یہ ہیں کہ ’ اے امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! تم میں سے ہر شخص کیلئے ہم نے اپنی اس کتاب قرآن کریم کو شریعت اور طریقہ بنایا ہے ، تم سب کو اس کی اقتدأ اور تابعداری کرنی چاہیئے ‘ ۔ اس صورت میں «جَعَلْنَا» کے بعد ضمیر «ہ» کی محذوف ماننی پڑے گی ۔ پس بہترین مقاصد حاصل کرنے کا ذریعہ اور طریقہ صرف قرآن کریم ہی ہے لیکن صحیح قول پہلا ہی ہے اور اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اس کے بعد ہی فرمان ہوا ہے کہ ’ اگر اللہ چاہتا تو سب کو ایک ہی امت کر دیتا ‘ ۔ پس معلوم ہوا کہ اگلا خطاب صرف اس امت سے ہی نہیں بلکہ سب امتوں سے ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی اور کامل قدرت کا بیان ہے کہ اگر وہ چاہتا تو سب لوگوں کو ایک ہی شریعت اور دین پر کر دیتا کوئی تبدیلی کسی وقت نہ ہوتی ۔ لیکن رب کی حکمت کاملہ کا تقاضا یہ ہوا کہ علیحدہ علیحدہ شریعتیں مقرر کرے ، ایک کے بعد دوسرا نبی علیہ السلام بھیجے اور بعض احکام اگلے نبی کے پچھلے نبی سے بدلوا دے ، یہاں تک کہ اگلے دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے منسوخ ہوگئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام روئے زمین کی طرف بھیجے گئے اور خاتم الانبیاء بنا کر بھیجے گئے ۔ یہ مختلف شریعتیں صرف تمہاری آزمائش کیلئے ہوئیں تاکہ تابعداروں کو جزاء اور نافرمانوں کو سزا ملے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ تمہیں آزمائے ، اس چیز میں جو تمہیں اس نے دی ہے یعنی کتاب ۔ پس تمہیں خیرات اور نیکیوں کی طرف سبقت اور دوڑ کرنی چاہیئے ۔ اللہ کی اطاعت ، اس کی شریعت کی فرمانبرداری کی طرف آگے بڑھنا چاہیئے اور اس آخری شریعت ، آخری کتاب اور آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی بہ دل و جاں فرماں برداری کرنی چاہیئے ۔ لوگو ! تم سب کا مرجع و ماویٰ اور لوٹنا پھرنا اللہ ہی کی طرف ہے ، وہاں وہ تمہیں تمہارے اختلاف کی اصلیت بتا دے گا ۔ سچوں کو ان کی سچائی کا اچھا پھل دے گا اور بروں کو ان کی کج بحثی ، سرکشی اور خواہش نفس کی پیروی کی سزا دے گا ۔ ’ جو حق کو ماننا تو ایک طرف بلکہ حق سے چڑتے ہیں اور مقابلہ کرتے ہیں ‘ ۔ ضحاک رحمہ اللہ کہتے ہیں مراد امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے ، مگر اول ہی اولیٰ ہے ۔ پھر پہلی بات کی اور تاکید ہو رہی ہے اور اس کے خلاف سے روکا جاتا ہے اور فرمایا جاتا ہے کہ ’ دیکھو کہیں اس خائن ، مکار ، کذاب ، کفار یہود کی باتوں میں آکر اللہ کے کسی حکم سے ادھر ادھر نہ ہو جانا ۔ اگر وہ تیرے احکام سے روگردانی کریں اور شریعت کے خلاف کریں تو تو سمجھ لے کہ ان کی سیاہ کاریوں کی وجہ سے اللہ کا کوئی عذاب ان پر آنے والا ہے ۔ اسی لیے توفیق خیر ان سے چھین لی گئی ہے ۔ اکثر لوگ فاسق ہیں یعنی اطاعت حق سے خارج ۔ اللہ کے دین کے مخالف ، ہدایت سے دور ہیں ‘ ۔ جیسے فرمایا آیت «وَمَآ اَکْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِیْنَ» ۱؎ (12-یوسف:103) یعنی ’ گو تو حرص کر کے چاہے لیکن اکثر لوگ مومن نہیں ہیں ‘ ۔ اور فرمایا آیت «وَاِنْ تُطِعْ اَکْثَرَ مَنْ فِی الْاَرْضِ یُضِلٰوْکَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ» ۱؎ (6-الأنعام:116) ’ اگر تو زمین والوں کی اکثریت کی مانے گا تو وہ تجھے بھی راہ حق سے بہکا دیں گے ‘ ۔ یہودیوں کے چند بڑے بڑے رئیسوں اور عالموں نے آپس میں ایک میٹنگ کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جانتے ہیں اگر ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مان لیں تو تمام یہود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا اقرار کر لیں گے اور ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننے کیلئے تیار ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف اتنا کیجئے کہ ہم میں اور ہماری قوم میں ایک جھگڑا ہے ، اس کا فیصلہ ہمارے مطابق کر دیجئیے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کر دیا اور اسی پر یہ آیتیں اتریں ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:12156:ضعیف) اس کے بعد جناب باری تعالیٰ ان لوگوں کا ذکر کر رہا ہے جو اللہ کے حکم سے ہٹ جائیں ، جس میں تمام بھلائیاں موجود اور تمام برائیاں دور ہیں ۔ ایسے پاک حکم سے ہٹ کر رائے قیاس کی طرف ، خواہش نفسانی کی طرف اور ان احکام کی طرف جھکے جو لوگوں نے از خود اپنی طرف سے بغیر دلیل شرعی کے گھڑ لیے ہیں جیسے کہ اہل جاہلیت اپنی جہالت و ضلالت اور اپنی رائے اور اپنی مرضی کے مطابق حکم احکام جاری کر لیا کرتے تھے اور جیسے کہ تاتاری ملکی معاملات میں چنگیز خان کے احکام کی پیروی کرتے تھے جو الیاسق نے گھڑ دیئے تھے ۔ وہ بہت سے احکام کے مجموعے اور دفاتر تھے جو مختلف شریعتوں اور مذہبوں سے چھانٹے گئے تھے ۔ یہودیت ، نصرانیت ، اسلامیت وغیرہ سب کے احکام کا وہ مجموعہ تھا اور پھر اس میں بہت سے احکام وہ بھی تھے ، جو صرف اپنی عقلی اور مصلحت وقت کے پیش نظر ایجاد کئے گئے تھے ، جن میں اپنی خواہش کی ملاوٹ بھی تھی ۔ پس وہی مجموعے ان کی اولاد میں قابل عمل ٹھہر گئے اور اسی کو کتاب و سنت پر فوقیت اور تقدیم دے لی ۔ درحقیقت ایسا کرنے والے کافر ہیں اور ان سے جہاد واجب ہے یہاں تک کہ وہ لوٹ کر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی طرف آ جائیں اور کسی چھوٹے یا بڑے اہم یا غیر اہم معاملہ میں سوائے کتاب و سنت کے کوئی حکم کسی کا نہ لیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’ یہ جاہلیت کے احکام کا ارادہ کرتے ہیں اور حکم رب سے سرک رہے ہیں ؟ یقین والوں کیلئے اللہ سے بہتر حکمران اور کار فرما کون ہوگا ؟ اللہ سے زیادہ عدل و انصاف والے احکام کس کے ہوں گے ؟ ‘ ایماندار اور یقین کامل والے بخوبی جانتے اور مانتے ہیں کہ اس احکم الحاکمین اور الرحم الراحمین سے زیادہ اچھے ، صاف ، سہل اور عمدہ احکام و قواعد مسائل و ضوابط کسی کے بھی نہیں ہو سکتے ۔ وہ اپنی مخلوق پر اس سے بھی زیادہ مہربان ہے جتنی ماں اپنی اولاد پر ہوتی ہے ، وہ پورے اور پختہ علم والا کامل اور عظیم الشان قدرت والا اور عدل و انصاف والا ہے ۔ حسن رحمۃ اللہ فرماتے ہیں ” اللہ کے فیصلے کے بغیر جو فتویٰ دے اس کا فتویٰ جاہلیت کا حکم ہے “ ۔ ایک شخص نے طاؤس رحمہ اللہ سے پوچھا کیا میں اپنی اولاد میں سے ایک کو زیادہ اور ایک کو کم دے سکتا ہوں ؟ تو آپ رحمہ اللہ نے یہی آیت پڑھی ۔ طبرانی میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { سب سے بڑا اللہ کا دشمن وہ ہے جو اسلام میں جاہلیت کا طریقہ اور حیلہ تلاش کرے اور بے وجہ کسی کی گردن مارنے کے درپے ہو جائے } } ۔ یہ حدیث بخاری میں بھی قدرے الفاظ کی زیادتی کے ساتھ ہے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6882) المآئدہ
49 المآئدہ
50 المآئدہ
51 دشمن اسلام سے دوستی منع ہے دشمنان اسلام یہود و نصاریٰ سے دوستیاں کرنے کی اللہ تبارک و تعالیٰ ممانعت فرما رہا ہے اور فرماتا ہے کہ ’ وہ تمہارے دوست ہرگز نہیں ہو سکتے کیونکہ تمہارے دین سے انہیں بغض و عداوت ہے ۔ ہاں اپنے والوں سے ان کی دوستیاں اور محبتیں ہیں ۔ میرے نزدیک تو جو بھی ان سے دلی محبت رکھے وہ ان ہی میں سے ہے ‘ ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کو اس بات پر پوری تنبیہہ کی اور یہ آیت پڑھ سنائی ۔ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:1156/4:حسن) حضرت عبداللہ بن عتبہ رحمہ اللہ نے فرمایا ” لوگو! تمہیں اس سے بچنا چاہیئے کہ تمہیں خود تو معلوم نہ ہو اور تم اللہ کے نزدیک یہود و نصرانی بن جاؤ “ ، ہم سمجھ گئے کہ آپ کی مراد اسی آیت کے مضمون سے ہے ۔ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:1156/4:حسن) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے عرب نصرانیوں کے ذبیحہ کا مسئلہ پوچھا گیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے یہی آیت تلاوت کی ۔ جس کے دل میں کھوٹ ہے وہ تو لپک لپک کر پوشیدہ طور پر ان سے ساز باز اور محبت و مودت کرتے ہیں اور بہانہ یہ بناتے ہیں کہ ہمیں خطرہ ہے اگر مسلمانوں پر یہ لوگ غالب آگئے تو پھر ہماری تباہی کردیں گے ، اس لیے ہم ان سے بھی میل ملاپ رکھتے ہیں ، ہم کیوں کسی سے بگاڑیں ؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’ ممکن ہے اللہ مسلمانوں کو صاف طور پر غالب کر دے ، مکہ بھی ان کے ہاتھوں فتح ہو جائے ، فیصلے اور حکم ان ہی کے چلنے لگیں ، حکومت ان کے قدموں میں سر ڈال دے ۔ یا اللہ تعالیٰ اور کوئی چیز اپنے پاس سے لائے یعنی یہود نصاریٰ کو مغلوب کر کے انہیں ذلیل کر کے ان سے جزیہ لینے کا حکم مسلمانوں کو دیدے پھر تو یہ منافقین جو آج لپک لپک کر ان سے گہری دوستی کرتے پھرتے ہیں ، بڑے بھنانے لگیں گے اور اپنی اس چالاکی پر خون کے آنسو بہانے لگیں گے ۔ ان کے پردے کھل جائیں گے اور یہ جیسے اندر تھے ویسے ہی باہر سے نظر آئیں گے ۔ اس وقت مسلمان ان کی مکاریوں پر تعجب کریں گے اور کہیں گے اے لو یہی وہ لوگ ہیں ، جو بڑی بڑی قسمیں کھا کھا کر ہمیں یقین دلاتے تھے کہ یہ ہمارے ساتھی ہیں ۔ انہوں نے جو پایا تھا وہ کھو دیا تھا اور برباد ہو گئے ‘ ۔ «‏‏‏‏وَیَقُولُ» تو جمہور کی قرأت ہے ۔ ایک قرأت بغیر واؤ کے بھی ہے اہل مدینہ کی یہی قرأت ہے ۔ «یَقُولُ» تو مبتداء اور دوسری قرأت اس کی «یَقُوْلَ» ہے تو یہ «فَعَسَی» پر عطف ہو گا گویا «وَاَنْ یَقُوْلَ» ہے اہلِ مدینہ کے نزدیک ۔ ان آیتوں کا شان نزول یہ ہے کہ جنگ احد کے بعد ایک شخص نے کہا کہ میں اس یہودی سے دوستی کرتا ہوں تاکہ موقع پر مجھے نفع پہنچے ، دوسرے نے کہا ، میں فلاں نصرانی کے پاس جاتا ہوں ، اس سے دوستی کر کے اس کی مدد کروں گا ۔ اس پر یہ آیتیں اتریں ۔ عکرمہ رحمۃ اللہ فرماتے ہیں ” ابو لبابہ بن عبد المنذر رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ آیتیں اتریں جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بنو قریظہ کی طرف بھیجا تو انہوں نے آپ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ساتھ کیا سلوک کریں گے ؟ تو آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے گلے کی طرف اشارہ کیا یعنی تم سب کو قتل کرا دیں گے “ ۔ ایک روایت میں ہے کہ یہ آیتیں عبداللہ بن ابی بن سلول کے بارے میں اتری ہیں ۔ عبادہ بن صامت نے صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ بہت سے یہودیوں سے میری دوستی ہے مگر میں ان سب کی دوستیاں توڑتا ہوں ، مجھے اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دوستی کافی ہے ۔ اس پر اس منافق نے کہا میں دور اندیش ہوں ، دور کی سوچنے کا عادی ہوں ، مجھ سے یہ نہ ہو سکے گا ، نہ جانے کس وقت کیا موقعہ پڑ جائے ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اے عبداللہ تو عبادہ کے مقابلے میں بہت ہی گھاٹے میں رہا } ، اس پر یہ آیتیں اتریں ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:12162:مرسل و ضعیف) ایک روایت میں ہے کہ ” جب بدر میں مشرکین کو شکست ہوئی تو بعض مسلمانوں نے اپنے ملنے والے یہودیوں سے کہا کہ یہی تمہاری حالت ہو ، اس سے پہلے ہی تم اس دین برحق کو قبول کر لو انہوں نے جواب دیا کہ چند قریشیوں پر جو لڑائی کے فنون سے بے بہرہ ہیں ، فتح مندی حاصل کر کے کہیں تم مغرور نہ ہو جانا ، ہم سے اگر پالا پڑا تو ہم تو تمہیں بتا دیں گے کہ لڑائی اسے کہتے ہیں ۔ اس پر عبادہ اور عبداللہ بن ابی کا وہ مکالمہ ہوا جو اوپر بیان ہو چکا ہے “ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:12163:مرسل و ضعیف) جب یہودیوں کے اس قبیلہ سے مسلمانوں کی جنگ ہوئی اور بفضل رب یہ غالب آگئے تو اب عبداللہ بن ابی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے دوستوں کے معاملے میں مجھ پر احسان کیجئے ، یہ لوگ خزرج کے ساتھی تھے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کوئی جواب نہ دیا ، اس نے پھر کہا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منہ موڑ لیا ، یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن سے چپک گیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غصہ سے فرمایا کہ { چھوڑ دے } ، اس نے کہا نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نہ چھوڑوں گا ، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے بارے میں احسان کریں ، ان کی بڑی پوری جماعت ہے اور آج تک یہ لوگ میرے طرفدار رہے اور ایک ہی دن میں یہ سب فنا کے گھاٹ اتر جائیں گے ۔ مجھے تو آنے والی مصیبتوں کا کھٹکا ہے ۔ آخر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { جا وہ سب تیرے لیے ہیں } ۔ ۱؎ (دلائل النبوۃ للبیھقی:174/3:مرسل و ضعیف) ایک روایت میں ہے کہ جب بنو قینقاع کے یہودیوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کی اور اللہ نے انہیں نیچا دکھایا تو عبداللہ بن ابی ان کی حمایت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کرنے لگا اور عبادہ بن صامت نے باوجودیکہ یہ بھی ان کے حلیف تھے لیکن انہوں نے ان سے صاف برأت ظاہر کی ۔ اس پر یہ آیتیں «فَإِنَّ حِزْبَ اللہِ ہُمُ الْغَالِبُونَ» ‏‏‏‏ ۱؎ (5-المائدہ:56) تک اتریں ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:12164) مسند احمد میں ہے کہ اس منافق عبداللہ بن ابی کی عیادت کیلئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے تو { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { میں نے تو تجھے بارہا ان یہودیوں کی محبت سے روکا } } تو اس نے کہا سعد بن زرارہ تو ان سے دشمنی رکھتا تھا وہ بھی مر گیا ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:3094،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) المآئدہ
52 المآئدہ
53 المآئدہ
54 قوت اسلام اور مرتدین اللہ رب العزت جو قادر و غالب ہے خبر دیتا ہے کہ اگر کوئی اس پاک دین سے مرتد ہو جائے تو وہ اسلام کی قوت گھٹا نہیں دے گا ، اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے بدلے ان لوگوں کو اس سچے دین کی خدمت پر مامور کرے گا ، جو ان سے ہر حیثیت میں اچھے ہوں گے ۔ جیسے اور آیت میں ہے «وَإِن تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ ثُمَّ لَا یَکُونُوا أَمْثَالَکُم» ‏‏‏‏ ۱؎ (47-محمد:38) اور آیت میں ہے «اِنْ یَّشَاْ یُذْہِبْکُمْ اَیٰھَا النَّاسُ وَیَاْتِ بِاٰخَرِیْنَ» ۱؎ (4-النساء:133) اور جگہ فرمایا «‏‏‏‏إِن یَشَأْ یُذْہِبْکُمْ وَیَأْتِ بِخَلْقٍ جَدِیدٍ» ۱؎ (14-إبراہیم:19) ، مطلب ان سب آیتوں کا وہی ہے جو بیان ہوا ۔ ارتداد کہتے ہیں ، حق کو چھوڑ کر باطل کی طرف پھر جانے کو ۔ محمد بن کعب رحمۃ اللہ فرماتے ہیں ” یہ آیت سرداران قریش کے بارے میں اتری ہے “ ۔ حسن بصری رحمۃ اللہ فرماتے ہیں ” خلافت صدیق رضی اللہ عنہ میں جو لوگ اسلام سے پھر گئے تھے ، ان کا حکم اس آیت میں ہے ۔ جس قوم کو ان کے بدلے لانے کا وعدہ دے رہا ہے وہ اہل قادسیہ ہیں یا قوم سبا ہے ۔ یا اہل یمن ہیں جو کندہ اور سکون بیلہ کے ہیں “ ۔ ایک بہت ہی غریب مرفوع حدیث میں بھی یہ پچھلی بات بیان ہوئی ہے ۔ ایک روایت میں ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا { وہ اس کی قوم ہے } } ۔ ۱؎ (سلسلۃ احادیث صحیحہ البانی:3368:صحیح) اب ان کامل ایمان والوں کی صفت بیان ہو رہی ہے کہ ’ یہ اپنے دوستوں یعنی مسلمانوں کے سامنے تو بچھ جانے والے ، جھک جانے والے ہوتے ہیں اور کفار کے مقابلہ میں تن جانے والے ، ان پر بھاری پڑنے والے اور ان پر تیز ہونے والے ہوتے ہیں ‘ ۔ جیسے فرمایا آیت «اَشِدَّاءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَاءُ بَیْنَہُمْ» ۱؎ (48-الفتح:29) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفتوں میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خندہ مزاج بھی تھے اور قتال بھی یعنی دوستوں کے سامنے ہنس مکھ خندہ رو اور دشمنان دین کے مقابلہ میں سخت اور جنگجو ۔ سچے مسلمان راہ حق کے جہاد سے نہ منہ موڑتے ہیں ، نہ پیٹھ دکھاتے ہیں ، نہ تھکتے ہیں ، نہ بزدلی اور آرام طلبی کرتے ہیں ، نہ کسی کی مروت میں آتے ہیں ، نہ کسی کی ملامت کا خوف کرتے ہیں ، وہ برابر اطاعت الٰہی میں اس کے دشمنوں سے جنگ کرنے میں بھلائی کا حکم کرنے میں اور برائیوں سے روکنے میں مشغول رہتے ہیں ۔ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں { مجھے میرے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم نے سات باتوں کا حکم دیا ہے ۔ مسکینوں سے محبت رکھنے ، ان کے ساتھ بیٹھنے اٹھنے اور دنیوی امور میں اپنے سے کم درجے کے لوگوں کو دیکھنے اور اپنے سے بڑھے ہوؤں کو نہ دیکھنے ، صلہ رحمی کرتے رہنے ، گو دوسرے نہ کرتے ہوں اور کسی سے کچھ بھی نہ مانگنے ، حق بات بیان کرنے کا گو وہ سب کو کڑوی لگے اور دین کے معاملات میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈرنے کا اور بہ کثرت «لاَحَولَ وَلاَ قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللہِ» پڑھنے کا ، کیونکہ یہ کلمہ عرش کے نیچے کا خزانہ ہے } ۔ ۱؎ (سلسلۃ احادیث صحیحہ البانی:2166:صحیح) ایک روایت میں ہے { میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پانچ مرتبہ بیعت کی ہے اور سات باتوں کی آپصلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یاددہانی کی ہے اور سات مرتبہ اپنے اوپر اللہ کو گواہ کرتا ہوں کہ میں اللہ کے دین کے بارے میں کسی بدگو کی بدگوئی کی مطلق پرواہ نہیں کرتا ۔ مجھے بلا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { کیا مجھ سے جنت کے بدلے میں بیعت کرے گا ؟ } میں نے منظور کر کے ہاتھ بڑھایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرط کی کہ کسی سے کچھ بھی نہ مانگنا ۔ میں نے کہا بہت اچھا ، فرمایا : { اگرچہ کوڑا بھی ہو } ۔ یعنی اگر وہ گر پڑے تو خود سواری سے اتر کر لے لینا } ۔ ۱؎ (مسند احمد:172/5:ضعیف) { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { لوگوں کی ہیبت میں آ کر حق گوئی سے نہ رکنا ، یاد رکھو نہ تو کوئی موت کو قریب کر سکتا ہے ، نہ رزق کو دور کر سکتا ہے } } ۔ ملاحظہ ہو امام احمد رحمۃ اللہ کی مسند ۔ ۱؎ (مسند احمد:87/3:ضعیف) فرماتے ہیں { خلاف شرع امر دیکھ کر ، سن کر اپنے تئیں کمزور جان کر ، خاموش نہ ہو جانا ۔ ورنہ اللہ کے ہاں اس کی بازپرس ہوگی ، اس وقت انسان جواب دے گا کہ میں لوگوں کے ڈر سے چپکا ہو گیا تو جناب باری تعالیٰ فرمائے گا ، ’ میں اس کا زیادہ حقدار تھا کہ تو مجھ سے ڈرتا ‘ } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:4008،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) فرماتے ہیں { اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے قیامت کے دن ایک سوال یہ بھی کرے گا کہ ’ تو نے لوگوں کو خلاف شرع کام کرتے دیکھ کر اس سے روکا کیوں نہیں ؟ ‘ پھر اللہ تعالیٰ خود ہی اسے جواب سمجھائے گا اور یہ کہے گا پروردگار میں نے تجھ پر بھروسہ کیا اور لوگوں سے ڈرا } (ابن ماجہ) ۱؎ (سنن ابن ماجہ:4017،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ایک اور صحیح حدیث میں ہے { { مومن کو نہ چاہیئے کہ اپنے تئیں ذلت میں ڈالے } ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا ، یہ کس طرح ؟ فرمایا : { ان بلاؤں کو اپنے اوپر لے لے ، جن کی برداشت کی طاقت نہ ہو } } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:4016،قال الشیخ الألبانی:صحیح) پھر فرمایا ’ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے دے ‘ ۔ یعنی کمال ایمان کی یہ صفتیں خاص اللہ کا عطیہ ہیں ، اسی کی طرف سے ان کی توفیق ہوتی ہے ، اس کا فضل بہت ہی وسیع ہے اور وہ کامل علم والا ہے ، خوب جانتا ہے کہ اس بہت بڑی نعمت کا مستحق کون ہے ؟ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ’ تمہارے دوست کفار نہیں بلکہ حقیقتاً تمہیں اللہ سے اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنوں سے دوستیاں رکھنی چاہئیں ‘ ۔ مومن بھی وہ جن میں یہ صفتیں ہوں کہ وہ نماز کے پورے پابند ہوں ، جو اسلام کا اعلیٰ اور بہترین رکن ہے اور صرف اللہ کا حق ہے اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں جو اللہ کے ضعیف مسکین بندوں کا حق ہے اور آخری جملہ جو ہے اس کی نسبت بعض لوگوں کو وہم سا ہو گیا ہے کہ یہ «وَیُؤْتُونَ الزَّکَاۃَ وَہُمْ رَاکِعُونَ» سے حال واقع یعنی ’ رکوع کی حالت میں زکوٰۃ ادا کرتے ہیں ‘ ۔ یہ بالکل غلط ہے ، اگر اسے مان لیا جائے تو یہ تو نمایاں طور پر ثابت ہو جائے گا کہ رکوع کی حالت میں زکوٰۃ دینا افضل ہے حالانکہ کوئی عالم اس کا قائل ہی نہیں ، ان وہمیوں نے یہاں ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نماز کے رکوع میں تھے جو ایک سائل آ گیا تو آپ نے اپنی انگوٹھی اتار کر اسے دے دی ، ۱؎ (ضعیف) «وَالَّذِینَ آمَنُوا» سے مراد بقول عتبہ جملہ مسلمان اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہیں ۔ اس پر یہ آیت اتری ہے ۔ ایک مرفوع حدیث میں بھی انگوٹھی کا قصہ ہے اور بعض دیگر مفسرین نے بھی یہ تفسیر کی ہے لیکن سند ایک کی بھی صحیح نہیں ، رجال ایک کے بھی ثقہ اور ثابت نہیں ، پس یہ واقعہ بالکل غیر ثابت شدہ ہے اور صحیح نہیں ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:12219) ٹھیک وہی ہے جو ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ یہ سب آیتیں عبادہ بن صامت کے بارے میں نازل ہوئی ہیں جبکہ انہوں نے کھلے لفظوں میں یہود کی دوستی توڑی اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ایمان دار لوگوں کی دوستی پر راضی ہوگئے ، اسی لئے ان تمام آیتوں کے آخر میں فرمان ہوا کہ جو شخص اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور با ایمان لوگوں کی دوستی رکھے وہ اللہ کے لشکر میں داخل ہے اور یہی اللہ کا لشکر غالب ہے ۔ جیسے فرمان باری ہے آیت «‏‏‏‏کَتَبَ اللہُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِی إِنَّ اللہَ قَوِیٌّ عَزِیزٌ لَّا تَجِدُ قَوْمًا یُؤْمِنُونَ بِ اللہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ یُوَادٰونَ مَنْ حَادَّ اللہَ وَرَسُولَہُ وَلَوْ کَانُوا آبَاءَہُمْ أَوْ أَبْنَاءَہُمْ أَوْ إِخْوَانَہُمْ أَوْ عَشِیرَتَہُمْ أُولٰئِکَ کَتَبَ فِی قُلُوبِہِمُ الْإِیمَانَ وَأَیَّدَہُم بِرُوحٍ مِّنْہُ وَیُدْخِلُہُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِن تَحْتِہَا الْأَنْہَارُ خَالِدِینَ فِیہَا رَضِیَ اللہُ عَنْہُمْ وَرَضُوا عَنْہُ أُولٰئِکَ حِزْبُ اللہِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللہِ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ» ۱؎ ‏‏‏‏(58-المجادلۃ:21-22) یعنی ’ اللہ تعالیٰ یہ دیکھ چکا ہے کہ میں اور میرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی غالب رہیں گے اللہ پر اور آخرت پر ایمان رکھنے والوں کو تو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں سے دوستی رکھنے والا کبھی پسند نہ آئے گا چاہے وہ باپ بیٹے بھائی اور کنبے قبیلے کے لوگوں میں سے ہی کیوں نہ ہو ، یہی ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان لکھ دیا ہے اور اپنی روح سے ان کی تائید کی ہے ، انہیں اللہ تعالیٰ ان جنتوں میں لے جائے گا ، جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ، رب ان سے راضی ہے ، یہ اللہ سے خوش ہیں ، یہی اللہ کے لشکر ہیں اور اللہ ہی کا لشکر فلاح پانے والا ہے ‘ ۔ پس جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنوں کی دوستیوں پر راضی اور رضامند ہو جائے ، وہ دنیا میں فاتح ہے اور آخرت میں فلاح پانے والا ہے ۔ اسی لیے اس آیت کو بھی اس جملے پر ختم کیا ۔ المآئدہ
55 المآئدہ
56 المآئدہ
57 اذان اور دشمنان دین اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو غیر مسلموں کی محبت سے نفرت دلاتا ہے اور فرماتا ہے کہ ’ کیا تم ان سے دوستیاں کرو گے جو تمہارے طاہر و مطہر دین کی ہنسی اڑاتے ہیں اور اسے ایک بازیچہ اطفال بنائے ہوئے ہیں ‘ ۔ «مِّنَ» ‏‏‏‏ بیان جنس کیلئے جیسے «مِنَ الْاَوْثَانِ» میں ۔ ۱؎ (22-الحج:30) بعض نے «وَالْکُفَّارَ» پڑھا ہے اور عطف ڈالا ہے اور بعض نے «وَالْکُفَّارِ» پڑھا ہے اور «لاَ تَّتخِذُوْا» کا نیا معمول بنایا ہے تو تقدیر عبارت «وَالاَ الْکُفَّارَ اَوْلِیَآءَ» ہو گی ، کفار سے مراد مشرکین ہیں ، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی قرأت میں «وَ مِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا» ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:430/10:) ’ اللہ سے ڈرو اور ان سے دوستیاں نہ کرو اگر تم سچے مومن ہو ۔ یہ تو تمہارے دین کے ، اللہ کی شریعت کے دشمن ہیں ‘ ۔ جیسے فرمایا آیت «لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْکٰفِرِیْنَ اَوْلِیَاءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ» (3 ۔ آل عمران:28) ، ’ مومن مومنوں کو چھوڑ کر کفار سے دوستیاں نہ کریں اور جو ایسا کرے وہ اللہ کے ہاں کسی بھلائی میں نہیں ‘ ۔ ہاں ان سے بچاؤ مقصود ہو تو اور بات ہے ، اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی ذات سے ڈرا رہا ہے اور اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے ۔ اسی طرح یہ کفار اہل کتاب اور مشرک اس وقت بھی مذاق اڑاتے ہیں جب تم نمازوں کیلئے لوگوں کو پکارتے ہو حالانکہ وہ اللہ تعالیٰ کی سب سے پیاری عبادت ہے ، لیکن یہ بیوقوف اتنا بھی نہیں جانتے ، اس لیے کہ یہ متبع شیطان ہیں ، { اس کی یہ حالت ہے کہ اذان سنتے ہی بدبو چھوڑ کر دم دبائے بھاگتا ہے اور وہاں جا کر ٹھہرتا ہے ، جہاں اذان کی آواز نہ سن پائے ۔ اس کے بعد آ جاتا ہے پھر تکبیر سن کر بھاگ کھڑا ہوتا ہے اور اس کے ختم ہوتے ہی آ کر اپنے بہکاوے میں لگ جاتا ہے ، انسان کو ادھر ادھر کی بھولی بسری باتیں یاد دلاتا ہے یہاں تک کہ اسے یہ بھی خبر نہیں رہتی کہ نماز کی کتنی رکعت پڑھیں ؟ جب ایسا ہو تو وہ سجدہ سہو کر لے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1231) امام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” اذان کا ذکر قرآن کریم میں بھی ہے پھر یہی آیت تلاوت کی “ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:1164/4) ایک نصرانی مدینے میں تھا ، اذان میں جب «‏‏‏‏اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اﷲِ» سنتا تو کہتا کذاب جل جائے ۔ ایک مرتبہ رات کو اس کی خادمہ گھر میں آگ لائی ، کوئی پتنگا اڑا جس سے گھر میں آگ لگ گئی ، وہ شخص اس کا گھربار سب جل کر ختم ہو گیا ۔ فتح مکہ والے سال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو کعبے میں اذان کہنے کا حکم دیا ، قریب ہی ابوسفیان بن حرب ، عتاب بن اسید ، حارث بن ہشام بیٹھے ہوئے تھے ، عتاب نے تو اذان سن کر کہا میرے باپ پر تو اللہ کا فضل ہوا کہ وہ اس غصہ دلانے والی آواز کے سننے سے پہلے ہی دنیا سے چل بسا ۔ حارث کہنے لگا اگر میں اسے سچا جانتا تو مان ہی نہ لیتا ۔ ابوسفیان نے کہا بھئی میں تو کچھ بھی زبان سے نہیں نکالتا ، ڈر ہے کہ کہیں یہ کنکریاں اسے خبر نہ کر دیں انہوں نے باتیں ختم کی ہی تھیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آ گئے اور فرمانے لگے { اس وقت تم نے یہ یہ باتیں کیں ہیں } ، یہ سنتے ہی عتاب اور حارث تو بول پڑے کہ ہماری گواہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ، یہاں تو کوئی چوتھا تھا ہی نہیں ، ورنہ گمان کر سکتے تھے کہ اس نے جا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہدیا ہوگا ۔ ۱؎ (دلائل النبوۃ للبیھقی:78/5) حضرت عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ جب شام کے سفر کو جانے لگے تو ابو محذورہ رضی اللہ عنہ سے جن کی گود میں انہوں نے ایام یتیمی بسر کئے تھے ، کہا آپ رضی اللہ عنہ کی اذان کے بارے میں مجھ سے وہاں کے لوگ ضرور سوال کریں گے تو آپ رضی اللہ عنہ اپنے واقعات تو مجھے بتا دیجئیے ۔ فرمایا ہاں سنو { جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حنین سے واپس آ رہے تھے ، راستے میں ہم لوگ ایک جگہ رکے ، تو نماز کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مؤذن نے اذان کہی ، ہم نے اس کا مذاق اڑانا شروع کیا ، کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کان میں بھی آوازیں پڑ گئیں ۔ سپاہی آیا اور ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ { تم سب میں زیادہ اونچی آواز کس کی تھی ؟ } سب نے میری طرف اشارہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور سب کو چھوڑ دیا اور مجھے روک لیا اور فرمایا : { اٹھو اذان کہو } ۔ واللہ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرماں برداری سے زیادہ بری چیز میرے نزدیک کوئی نہ تھی لیکن بے بس تھا ، کھڑا ہو گیا ، اب خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اذان سکھائی اور جو سکھاتے رہے ، میں کہتا رہا ، پھر اذان پوری بیان کی ، جب میں اذان سے فارغ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک تھیلی دے ، جس میں چاندی تھی ، پھر اپنا دست مبارک میرے سر پر رکھا اور پیٹھ تک لائے ، پھر فرمایا : { اللہ تجھ میں اور تجھ پر اپنی برکت نازل کرے } ۔ اب تو اللہ کی قسم میرے دل سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عداوت بالکل جاتی رہی ، ایسی محبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دل میں پیدا ہوگئی ، میں نے آرزو کی کہ مکے کا مؤذن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھ کو بنادیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری یہ درخواست منظور فرمالی اور میں مکے میں چلا گیا اور وہاں کے گورنر عتاب بن اسید سے مل کر اذان پر مامور ہوگیا } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:389) ابو مخدورہ کا نام سمرہ بن مغیرہ بن لوذان تھا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چار مؤذنوں میں سے ایک آپ تھے اور لمبی مدت تک آپ اہل مکہ کے مؤذن رہے ۔ رضی اللہ عنہ وارضاہ ۔ المآئدہ
58 المآئدہ
59 بدترین گروہ اور اس کا انجام حکم ہوتا ہے کہ ’ جو اہل کتاب تمہارے دین پر مذاق اڑاتے ہیں ، ان سے کہو کہ تم نے جو دشمنی ہم سے کر رکھی ہے ، اس کی کوئی وجہ اس کے سوا نہیں کہ ہم اللہ پر اور اس کی تمام کتابوں پر ایمان رکھتے ہیں ‘ ۔ پس دراصل نہ تو یہ کوئی وجہ بغض ہے ، نہ سبب مذمت بہ استثناء منقطع ہے ۔ اور آیت میں ہے «وَمَا نَقَمُوْا مِنْہُمْ اِلَّآ اَنْ یٰؤْمِنُوْا باللّٰہِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِ» (85-البروج:8) ، یعنی ’ فقط اس وجہ سے انہوں نے ان سے دشمنی کی تھی کہ وہ اللہ عزیز و حمید کو مانتے تھے ‘ ۔ اور جیسے اور آیت میں «وَمَا نَقَمُوا إِلَّا أَنْ أَغْنَاہُمُ اللہُ وَرَسُولُہُ مِن فَضْلِہِ» ۱؎ (9-التوبۃ:74) ۔ یعنی ’ انہوں نے صرف اس کا انتقام لیا ہے کہ انہیں اللہ نے اپنے فضل سے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مال دے کر غنی کر دیا ہے ‘ ۔ بخاری مسلم کی حدیث میں ہے { ابن جمیل اسی کا بدلہ لیتا ہے کہ وہ فقیر تھا تو اللہ نے اسے غنی کر دیا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1468) اور یہ کہ تم میں سے اکثر صراط مستقیم سے الگ اور خارج ہو چکے ہیں ، تم جو ہماری نسبت گمان رکھتے ہو آؤ میں تمہیں بتاؤں کہ اللہ کے ہاں سے بدلہ پانے میں کون بدتر ہے ؟ اور وہ تم ہو کہ کیونکہ یہ خصلتیں تم میں ہی پائی جاتی ہیں ۔ یعنی جسے اللہ نے لعنت کی ہو ، اپنی رحمت سے دور پھینک دیا ہو ، اس پر غصبناک ہوا ہو ، ایسا جس کے بعد رضامند نہیں ہوگا اور جن میں سے بعض کی صورتیں بگاڑ دی ہوں ، بندر اور سور بنا دیئے ہوں ۔ اس کا پورا بیان سورۃ البقرہ میں گزر چکا ہے ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ یہ بندر و سور وہی ہیں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، جس قوم پر اللہ کا ایسا عذاب نازل ہوتا ہے ، ان کی نسل ہی نہیں ہوتی ، ان سے پہلے بھی سور اور بندر تھے } } ۔ روایت مختلف الفاظ میں صحیح مسلم اور نسائی میں بھی ہے ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2663) مسند میں ہے کہ { جنوں کی ایک قوم سانپ بنا دی گئی تھی ۔ جیسے کہ بندر اور سور بنا دیئے گئے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:348/1:صحیح) یہ حدیث بہت ہی غریب ہے ، { انہی میں سے بعض کو غیر اللہ کے پرستار بنا دیئے } ۔ ایک قرأت میں اضافت کے ساتھ طاغوت کی زیر سے بھی ہے ۔ یعنی ’ انہیں بتوں کا غلام بنا دیا ‘ ۔ برید اسلمی رحمہ اللہ اسے «عَابِدُ الطَّاغُوْتِ» پڑھتے تھے ۔ ابو جعفر قاری رحمہ اللہ سے «وَعْبِدَ الطَّاغُوْتُ» بھی منقول ہے جو بعید از معنی ہو جاتا ہے لیکن فی الواقع ایسا نہیں ہوتا مطلب یہ ہے کہ ’ تم ہی وہ ہو ، جنہوں نے طاغوت کی عبادت کی ‘ ۔ الغرض اہل کتاب کو الزام دیا جاتا ہے کہ ہم پر تو عیب گیری کرتے ہو ، حالانکہ ہم موحد ہیں ، صرف ایک اللہ برحق کے ماننے والے ہیں اور تم تو وہ ہو کہ مذکورہ سب برائیاں تم میں پائی گئیں ۔ اسی لیے خاتمے پر فرمایا کہ یہی لوگ باعتبار قدر و منزلت کے بہت برے ہیں اور باعتبار گمراہی کے انتہائی غلط راہ پر پڑے ہوئے ہیں ۔ اس افعل التفصیل میں دوسری جانب کچھ مشارکت نہیں اور یہاں تو سرے سے ہے ہی نہیں ۔ جیسے اس آیت میں «اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ یَوْمَیِٕذٍ خَیْرٌ مٰسْتَــقَرًّا وَّاَحْسَنُ مَقِیْلًا» ۱؎ (25-الفرقان:24) پھر منافقوں کی ایک اور بدخصلت بیان کی جا رہی ہے کہ ’ ظاہر میں تو وہ مومنوں کے سامنے ایمان کا اظہار کرتے ہیں اور ان کے باطن کفر سے بھرے پڑے ہیں ۔ یہ تیرے کفر کی حالت میں پاس آتے ہیں اور اسی حالت میں تیرے پاس سے جاتے ہیں تو تیری باتیں ، تیری نصیحتیں ان پر کچھ اثر نہیں کرتیں ۔ بھلا یہ پردہ داری انہیں کیا کام آئے گی ، جس سے ان کا معاملہ ہے ، وہ تو عالم الغیب ہے ، دلوں کے بھید اس پر روشن ہیں ۔ وہاں جا کر پورا پورا بدلہ بھگتنا پڑے گا ‘ ۔ ’ تو دیکھ رہا ہے کہ یہ لوگ گناہوں پر ، حرام پر اور باطل کے ساتھ لوگوں کے مال پر کس طرح چڑھ دوڑتے ہیں ؟ ان کے اعمال نہایت ہی خراب ہو چکے ہیں ۔ ان کے اولیاء اللہ یعنی عابد و عالم اور ان کے علماء انہیں ان باتوں سے کیوں نہیں روکتے ؟ دراصل ان کے علماء اور پیروں کے اعمال بدترین ہوگئے ہیں ‘ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ” علماء اور فقراء کی ڈانٹ کیلئے اس سے زیادہ سخت آیت کوئی نہیں “ ۔ ضحاک رحمۃ اللہ سے بھی اسی طرح منقول ہے ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ایک خطبے میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا ” لوگو تم سے اگلے لوگ اسی بناء پر ہلاک کر دیئے گئے کہ وہ برائیاں کرتے تھے تو ان کے عالم اور اللہ والے خاموش رہتے تھے ، جب یہ عادت ان میں پختہ ہو گئی تو اللہ نے انہیں قسم قسم کی سزائیں دیں ۔ پس تمہیں چاہیئے کہ بھلائی کا حکم کرو ، برائی سے روکو ، اس سے پہلے کہ تم پر بھی وہی عذاب آ جائیں جو تم سے پہلے والوں پر آئے ، یقین رکھو کہ اچھائی کا حکم برائی سے ممانعت نہ تو تمہارے روزی گھٹائے گا ، نہ تمہارے موت قریب کر دے گا “ ۔ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ { جس قوم میں کوئی اللہ کی نافرمانی کرے اور وہ لوگ باوجود روکنے کی قدرت اور غلبے کے اسے نہ مٹائیں تو اللہ تعالیٰ سب پر اپنا عذاب نازل فرمائے گا } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:363/3:حسن) ابوداؤد میں ہے کہ { یہ عذاب ان کی موت سے پہلے ہی آئے گا } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4339،قال الشیخ الألبانی:حسن) ابن ماجہ میں بھی یہ روایت ہے ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:4009،قال الشیخ الألبانی:صحیح) المآئدہ
60 المآئدہ
61 المآئدہ
62 المآئدہ
63 المآئدہ
64 بخل سے بچو اور فضول خرچی سے ہاتھ روکو اللہ تعالیٰ ملعون یہودیوں کا ایک خبیث قول بیان فرما رہا ہے کہ ’ یہ اللہ کو بخیل کہتے تھے ، یہی لوگ اللہ کو فقیر بھی کہتے ہیں ۔ اللہ کی ذات ان کے اس ناپاک مقولے سے بہت بلند و بالا ہے ‘ ۔ پس اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ، مطلب ان کا یہ نہ تھا کہ ہاتھ جکڑ دیئے گئے ہیں بلکہ مراد اس سے بخل تھا ۔ یہی محاورہ قرآن میں اور جگہ بھی ہے فرماتا ہے آیت «وَلَا تَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُوْلَۃً اِلٰی عُنُقِکَ وَلَا تَبْسُطْہَا کُلَّ الْبَسْطِ فَتَـقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا» ۱؎ (17-الإسراء:29) ۔ یعنی ’ اپنے ہاتھ اپنی گردن سے باندھ بھی نہ لے اور نہ حد سے زیادہ پھیلا دے کہ پھر تھکان اور ندامت کے ساتھ بیٹھے رہنا پڑے ‘ ۔ پس بخل سے اور اسراف سے اللہ نے اس آیت میں روکا ۔ پس ملعون یہودیوں کی بھی ہاتھ باندھا ہوا ہونے سے یہی مراد تھی ۔ فخاص نامی یہودی نے یہ کہا تھا اور اسی ملعون کا وہ دوسرا قول بھی تھا کہ «إِنَّ اللہَ فَقِیرٌ وَنَحْنُ أَغْنِیَاءُ» ۱؎ (3-آل عمران:181) ’ اللہ فقیر ہے اور ہم غنی ہیں ‘ ۔ جس پر سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اسے پیٹا تھا ۔ ایک روایت میں ہے کہ شماس بن قیس نے یہی کہا تھا جس پر یہ آیت اتری ۔ اور ارشاد ہوا کہ ’ بخیل اور کنجوس ذلیل اور بزدل یہ لوگ خود ہیں ‘ ۔ چنانچہ اور آیت میں ہے کہ «أَمْ لَہُمْ نَصِیبٌ مِّنَ الْمُلْکِ فَإِذًا لَّا یُؤْتُونَ النَّاسَ نَقِیرًا أَمْ یَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَیٰ مَا آتَاہُمُ اللہُ مِن فَضْلِہِ» ۱؎ (4-النساء:55) ’ اگر یہ بادشاہ بن جائیں تو کسی کو کچھ بھی نہ دیں ۔ بلکہ یہ تو اوروں کی نعمتیں دیکھ کر جلتے ہیں ۔ یہ ذلیل تر لوگ ہیں ۔ بلکہ اللہ کے ہاتھ کھلے ہیں وہ سب کچھ خرچ کرتا رہتا ہے اس کا فضل وسیع ہے ، اس کی بخشش عام ہے ، ہر چیز کے خزانے اس کے ہاتھوں میں ہیں ۔ ہر نعمت اس کی طرف سے ہے ۔ ساری مخلوق دن رات ہر وقت ہر جگہ اسی کی محتاج ہے ‘ ۔ فرماتا ہے آیت «وَاٰتٰیکُمْ مِّنْ کُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْہُ ۭ وَاِنْ تَعُدٰوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْہَا ۭ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ کَفَّارٌ» ۱؎ (14-إبراہیم:34) ۔ ’ تم نے جو مانگا ، اللہ نے دیا ، اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو شمار بھی نہیں کر سکتے ، یقیناً انسان بڑا ہی ظالم بے حد ناشکرا ہے ‘ ۔ مسند میں حدیث ہے کہ { اللہ تعالیٰ کا داہنا ہاتھ اوپر ہے ، دن رات کا خرچ اس کے خزانے کو گھٹاتا نہیں ، شروع سے لے کر آج تک جو کچھ بھی اس نے اپنی مخلوق کو عطا فرمایا ، اس نے اس کے خزانے میں کوئی کمی نہیں کی اس کا عرش پہلے پانی پر تھا ، اسی کے ہاتھ میں فیض ہی فیض ہے ، وہی بلند اور پست کرتا ہے ۔ اس کا فرمان ہے کہ لوگو تم میری راہ میں خرچ کرو گے تم تو دیئے جاؤں گے } ۔ بخاری مسلم میں بھی یہ حدیث ہے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:7419) ۔ پھر فرمایا ’ اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ! جس قدر اللہ کی نعمتیں تم پر زیادہ ہوں گی ، اتنا ہی ان شیاطین کا کفر حسد اور جلاپا بڑھے گا ۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح مومنوں کا ایمان اور ان کی تسلیم و اطاعت بڑھتی ہے ‘ ۔ جیسے اور آیت میں ہے ،«قُلْ ہُوَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ہُدًی وَّشِفَاءٌ» ۱؎ (41-فصلت:44) ’ ایمان والوں کیلئے تو یہ ہدایت و شفاء ہے اور بے ایمان اس سے اندھے بہرے ہوتے ہیں ۔ یہی ہیں جو دروازے سے پکارے جاتے ہیں ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا ہُوَ شِفَاءٌ وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ وَلَا یَزِیْدُ الظّٰلِمِیْنَ اِلَّا خَسَارًا» ۱؎ (17-الإسراء:82) ’ ہم نے وہ قرآن اتارا ہے جو مومنوں کیلئے شفاء اور رحمت ہے اور ظالموں کا تو نقصان ہی بڑھتا رہتا ہے ‘ ۔ پھر ارشاد ہوا کہ ’ ان کے دلوں میں سے خود آپس کا بغض و بیر بھی قیامت تک نہیں مٹے گا ، ایک دوسرے کا آپس میں ہی خون پینے والے لوگ ہیں ۔ ناممکن ہے کہ یہ حق پر جم جائیں ، یہ اپنے ہی دین میں فرقہ فرقہ ہو رہے ہیں ، ان کے جھگڑے اور عداوتیں آپس میں جاری ہیں اور جاری رہیں گی ۔ یہ لوگ بسا اوقات لڑائی کے سامان کرتے ہیں ، تیرے خلاف چاروں طرف ایک آگ بھڑکانا چاہتے ہیں لیکن ہر مرتبہ منہ کی کھاتے ہیں ، ان کا مکر انہی پر لوٹ جاتا ہے ، یہ مفسد لوگ ہیں اور اللہ کے دشمن ہیں ، کسی مفسد کو اللہ اپنا دوست نہیں بناتا ‘ ۔ ’ اگر یہ با ایمان اور پرہیزگار بن جائیں تو ہم ان سے تمام ڈر دور کر دیں اور اصل مقصد حیات سے انہیں ملا دیں ۔ اگر یہ تورات و انجیل اور اس قرآن کو مان لیں ‘ ۔ کیونکہ توراۃ و انجیل کا ماننا ، قرآن کے ماننے کو لازم کر دے گا ، ان کتابوں کی صحیح تعلیم یہی ہے کہ یہ قرآن سچا ہے اس کی اور نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق پہلے کی کتابوں میں موجود ہے تو اگر یہ اپنی ان کتابوں کو بغیر تحریف و تبدیل اور تاویل و تفسیر کے مانیں تو وہ انہیں اسی اسلام کی ہدایت دیں گی ، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بتاتے ہیں ۔ ’ اس صورت میں اللہ انہیں دنیا کے کئی فائدے دے گا ، آسمان سے پانی برسائے گا ، زمین سے پیداوار اگائے گا ، نیچے اوپر کی یعنی زمین و آسمان کی برکتیں انہیں مل جائیں گی ‘ ۔ جیسے اور آیت میں ہے «وَلَوْ اَنَّ اَہْلَ الْقُرٰٓی اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْہِمْ بَرَکٰتٍ مِّنَ السَّمَاءِ وَالْاَرْضِ وَلٰکِنْ کَذَّبُوْا فَاَخَذْنٰہُمْ بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ» ۱؎ (7-الأعراف:96) یعنی ’ اگر بستیوں والے ایمان لاتے ہیں اور پرہیزگاری کرتے تو ہم ان پر آسمان و زمین سے برکتیں نازل فرماتے ‘ ۔ اور آیت میں «ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیْقَہُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ» ۱؎ (30-الروم:41) ’ لوگوں کی برائیوں کی وجہ سے خشکی اور تری میں فساد ظاہر ہو گیا ہے ‘ ، اور یہ بھی معنی ہو سکتے ہیں کہ ’ بغیر مشقت و مشکل کے ہم انہیں بکثرت بابرکت روزیاں دیتے ہیں ‘ ۔ بعض نے اس جملہ کا مطلب یہ بھی بیان کیا ہے کہ ’ یہ لوگ ایسا کرتے تو بھلائیوں سے مستفید ہو جاتے ‘ ۔ لیکن یہ قول اقوال سلف کے خلاف ہے ۔ ابن ابی حاتم نے اس جگہ ایک اثر وارد کیا ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { قریب ہے کہ علم اٹھا لیا جائے } ۔ یہ سن کر زیاد بن لبید رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ علم اٹھ جائے ، ہم نے قرآن سیکھا ، اپنی اولادوں کو سکھایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { افسوس میں تو تمام مدینے والوں سے زیادہ تم کو سمجھدار جانتا تھا لیکن کیا تو نہیں دیکھتا کہ یہود و نصاریٰ کے ہاتھوں میں بھی تورات و انجیل ہے ۔ لیکن کس کام کی ؟ جبکہ انہوں نے اللہ کے احکام چھوڑ دیئے } پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی آیت «وَلَوْ أَنَّ أَہْلَ الْکِتَابِ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَکَفَّرْنَا عَنْہُمْ سَیِّئَاتِہِمْ وَلَأَدْخَلْنَاہُمْ جَنَّاتِ النَّعِیمِ» (5-المائدۃ:65) ‏‏‏‏ تلاوت فرمائی } ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:75/18:مرسل) یہ حدیث مسند میں بھی ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی چیز کا بیان فرمایا کہ { یہ بات علم کے جاتے رہنے کے وقت ہوگی ، اس پر ابن لبید رضی اللہ عنہ نے کہا علم کیسے جاتا رہے گا ؟ ہم قرآن پڑھے ہوئے ہیں اپنے بچوں کو پڑھا رہے ہیں ، وہ اپنی اولادوں کو پڑھائیں گے ، یہی سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا ، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا جو اوپر بیان ہوا } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:4048،قال الشیخ الألبانی:صحیح) پھر فرمایا ’ ان میں ایک جماعت میانہ رو بھی ہے مگر اکثر بداعمال ہے ‘ ۔ جیسے فرمان آیت «وَمِنْ قَوْمِ مُوْسٰٓی اُمَّۃٌ یَّہْدُوْنَ بالْحَقِّ وَبِہٖ یَعْدِلُوْنَ» ۱؎ (7-الأعراف:159) ’ موسیٰ [ علیہ السلام ] کی قوم میں سے ایک گروہ حق کی ہدایت کرنے والا اور اسی کے ساتھ عدل انصاف کرنے والا بھی تھا ‘ ۔ اور قوم عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں فرمان ہے ، «فَاٰتَیْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْہُمْ اَجْرَہُمْ» ۱؎ (57-الحدید:27) ’ ان میں سے با ایمان لوگوں کو ہم نے ان کے ثواب عنایت فرمائے ‘ ۔ یہ نکتہ خیال میں رہے کہ ان کا بہترین درجہ بیچ کا درجہ بیان فرمایا اور اس امت کا یہ درجہ دوسرا درجہ ہے ، جس پر ایک تیسرا اونچا درجہ بھی ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ آیت «ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْکِتٰبَ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَا فَمِنْہُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِہِ وَمِنْہُمْ مٰقْتَصِدٌ وَمِنْہُمْ سَابِقٌ بِالْخَــیْرٰتِ بِاِذْنِ اللّٰہِ ذٰلِکَ ہُوَ الْــفَضْلُ الْکَبِیْرُ» ۱؎ (35-فاطر:32) ۔ یعنی ’ پھر ہم نے کتاب کا وارث اپنے چیدہ بندوں کو بنایا ، ان میں سے بعض تو اپنے نفسوں پر ظلم کرنے والے ہیں ، بعض میانہ رو ہیں اور بعض اللہ کے حکم سے نیکیوں میں آگے بڑھنے والے ہیں ، یہی بہت بڑا فضل ہے ‘ ۔ تینوں قسمیں اس امت کی داخل جنت ہونے والی ہیں ۔ ابن مردویہ میں ہے کہ { صحابہ رضی اللہ عنہم کے سامنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { موسیٰ علیہ السلام کی امت کے اکہتر گروہ ہوگئے ، جن میں سے ایک تو جنتی ہے ، باقی ستر دوزخی ۔ میری یہ امت دونوں سے بڑھ جائے گی ۔ ان کا بھی ایک گروہ تو جنت میں جائے گا ، باقی بہتر گروہ جہنم میں جائیں گے ، لوگوں نے پوچھا ، وہ کون ہیں ؟ فرمایا : { جماعتیں جماعتیں } } } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:3992 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) یعقوب بن یزید کہتے ہیں ” جب سیدنا علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ یہ حدیث بیان کرتے تو قرآن کی آیت ۔ «وَلَوْ اَنَّ اَہْلَ الْکِتٰبِ اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَکَفَّرْنَا عَنْہُمْ سَیِّاٰتِہِمْ وَلَاَدْخَلْنٰہُمْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ» (5-المائدہ:65) ، اور «وَمِمَّنْ خَلَقْنَآ اُمَّۃٌ یَّہْدُوْنَ بالْحَقِّ وَبِہٖ یَعْدِلُوْنَ» ۱؎ (7-الأعراف:181) بھی پڑھتے اور فرماتے ہیں ” اس سے مراد امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے “ ۔ ۱؎ (مسند ابویعلیٰ:3668: ضعیف) لیکن یہ حدیث ان لفظوں اور اس سند سے بے حد غریب ہے اور ستر سے اوپر اوپر فرقوں کی حدیث بہت سی سندوں سے مروی ہے ، جسے ہم نے اور جگہ بیان کر دیا ہے «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» ۔ المآئدہ
65 المآئدہ
66 المآئدہ
67 نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالٰی کے کسی حکم کو چھپایا نہیں اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول کے پیارے خطاب سے آواز دے کر اللہ تعالیٰ حکم نے دیا ہے کہ ’ اللہ تعالیٰ کے کل احکام لوگوں کو پہنچا دو ‘ ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسا ہی کیا ۔ صحیح بخاری میں ہے { ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں جو تجھ سے کہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ کسی حکم کو چھپا لیا تو جان لو کہ وہ جھوٹا ہے ، اللہ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا ہے پھر اس آیت کی تلاوت آپ رضی اللہ عنہا نے کی } ۔ یہ حدیث یہاں مختصر ہے اور جگہ پر مطول بھی ہے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4612) بخاری و مسلم میں ہے { اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے کسی فرمان کو چھپانے والے ہوتے تو اس آیت کو چھپا لیتے ۔ آیت «وَتُخْــفِیْ فِیْ نَفْسِکَ مَا اللّٰہُ مُبْدِیْہِ وَتَخْشَی النَّاسَ وَاللّٰہُ اَحَقٰ اَنْ تَخْشٰـیہُ» ۱؎ (33-الأحزاب:37) ۔ یعنی ’ تو اپنے دل میں وہ چھپاتا تھا جسے اللہ ظاہر کرنے والا تھا اور لوگوں سے جھینپ رہا تھا حالانکہ اللہ زیادہ حقدار ہے کہ تو اس سے ڈرے ‘ } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:177) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کسی نے کہا کہ لوگوں میں یہ چرچا ہو رہا ہے کہ تمہیں کچھ باتیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی بتائی ہیں جو اور لوگوں سے چھپائی جاتی تھیں تو آپ رضی اللہ عنہ نے یہی آیت «یَا أَیٰہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَیْکَ مِن رَّبِّکَ» ۱؎ (5-المائدہ:67) پڑھی اور فرمایا ” قسم اللہ کی ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ایسی مخصوص چیز کا وارث نہیں بنایا “ ۔ (ابن ابی حاتم) صحیح بخاری شریف میں ہے کہ { سیدنا علی رضی اللہ عنہما سے ایک شخص نے پوچھا کیا تمہارے پاس قرآن کے علاوہ کچھ اور وحی بھی ہے ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس اللہ کی قسم جس نے دانے کو اگایا ہے اور جانوروں کو پیدا کیا ہے کہ کچھ نہیں بجز اس فہم و روایت کے جو اللہ کسی شخص کو دے اور جو کچھ اس صحیفے میں ہے ، اس نے پوچھا صحیفے میں کیا ہے ؟ فرمایا دیت کے مسائل ہیں ، قیدیوں کو چھوڑ دینے کے احکام ہیں اور یہ ہے کہ مسلمان کافر کے بدلے قصاصاً قتل نہ کیا جائے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3047) صحیح بخاری شریف میں زہری رحمہ اللہ کا فرمان ہے کہ ” اللہ کی طرف سے رسالت ہے اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمے تبلیغ ہے اور ہمارے ذمہ قبول کرنا اور تابع فرمان ہونا ہے “ ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:753) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی سب باتیں پہنچا دیں ، اس کی گواہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام امت ہے کہ فی الواقع آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امانت کی پوری ادائیگی کی اور سب سے بڑی مجلس جو تھی ، اس میں سب نے اس کا اقرار کیا یعنی حجتہ الوداع خطبے میں ، جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے چالیس ہزار صحابہ کا گروہ عظیم تھا ۔ صحیح مسلم میں ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خطبے میں لوگوں سے فرمایا : «‏‏‏‏أَیٰہَا النَّاسُ إِنَّکُمْ مَسْؤُولُونَ عَنِّی ، فَمَا أَنْتُمْ قَائِلُونَ ؟» ‏‏‏‏ تم میرے بارے میں اللہ کے ہاں پوچھے جاؤ گے تو بتاؤ کیا جواب دو گے ؟ } سب نے کہا ہماری گواہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ کر دی اور حق رسالت ادا کر دیا اور ہماری پوری خیر خواہی کی ، { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر آسمان کی طرف اٹھا کر فرمایا : « اللہُمَّ ہَلْ بَلَّغْتُ ؟ اللہُمَّ ہَلْ بَلَّغْتُ ؟» ‏‏‏‏ اے اللہ! کیا میں نے تیرے تمام احکامات کو پہنچا دیا ، اے اللہ! کیا میں نے پہنچا دیا ؟ } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1218) مسند احمد میں یہ بھی ہے کہ { { آپ نے اس خطبے میں پوچھا کہ لوگو یہ کون سا دن ہے ؟ } سب نے کہا حرمت والا ، پوچھا { یہ کون سا شہر ہے } ، جواب دیا ، حرمت والا ۔ فرمایا: یہ کون سا مہینہ ہے ؟ جواب ملا ، حرمت والا ، فرمایا: { پس تمہارے مال اور خون و آبرو آپس میں ایک دوسرے پر ایسی ہی حرمت والے ہیں جیسے اس دن کی اس شہر میں اور اس مہینے میں حرمت ہے } ۔ پھر باربار اسی کو دوہرایا ۔ پھر اپنی انگلی آسمان کی طرف اٹھا کر فرمایا : { اے اللہ ! کیا میں نے پہنچا دیا ؟ } } ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اللہ کی قسم یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رب کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت تھی ۔ { پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { دیکھو ہر حاضر شخص غیر حاضر کو یہ بات پہنچا دے ۔ دیکھو میرے پیچھے کافر نہ ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارتے پھرو } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1739) امام بخاری رحمۃ اللہ نے بھی اسے روایت کیا ہے ۔ پھر فرماتا ہے ’ اگر تو نے میرے فرمان میرے بندوں تک نہ پہنچائے تو تو نے حق رسالت ادا نہیں کیا ، پھر اس کی جو سزا ہے وہ ظاہر ہے ، اگر ایک آیت بھی چھپا لی تو حق رسالت ادا نہ ہو ‘ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:468/10) حضرت مجاہد رحمۃ اللہ فرماتے ہیں ” جب یہ حکم نازل ہوا کہ جو کچھ اترا ہے سب پہنچا دو تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اللہ میں اکیلا ہوں اور یہ سب مل کر مجھ پر چڑھ دوڑتے ہیں ، میں کس طرح کروں } ۔ تو دوسرا جملہ اترا کہ ’ اگر تو نے نہ کیا تو تو نے رسالت کا حق ادا نہیں کیا ‘ ۔ پھر فرمایا ’ تجھے لوگوں سے بچا لینا میرے ذمہ ہے ۔ تیرا حافظ و ناصر میں ہوں ، بے خطر رہئیے وہ کوئی تیرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ‘ ۔ اس آیت سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چوکنے رہتے تھے ، لوگ نگہبانی پر مقرر رہتے تھے ۔ چنانچہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ { ایک رات کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیدار تھے انہیں نیند نہیں آ رہی تھی میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آج کیا بات ہے ؟ فرمایا { کاش کہ میرا کوئی نیک بخت صحابی رضی اللہ عنہ آج پہرہ دیتا } ، یہ بات ہو ہی رہی تھی کہ میرے کانوں میں ہتھیار کی آواز آئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کون ہے ؟ جواب ملا کہ میں سعد بن مالک ہوں ، فرمایا : { کیسے آئے ؟ } جواب دیا اس لیے کہ رات بھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی چوکیداری کروں ۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باآرام سوگئے ، یہاں تک کہ خراٹوں کی آواز آنے لگی } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2885) ایک روایت میں ہے کہ { یہ واقعہ سنہ٢ھ کا ہے ۔ اس آیت کے نازل ہوتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سر نکال کر چوکیداروں سے فرمایا : { جاؤ اب میں اللہ کی پناہ میں آگیا ، تمہاری چوکیداری کی ضرورت نہیں رہی } } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3046 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) ایک روایت میں ہے کہ { ابوطالب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ کسی نہ کسی آدمی کو رکھتے ، جب یہ آیت اتری تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { بس چچا ! اب میرے ساتھ کسی کے بھیجنے کی ضرورت نہیں ، میں اللہ کے بچاؤ میں آ گیا ہوں } } ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:11663:ضعیف) لیکن یہ روایت غریب اور منکر ہے یہ واقعہ ہو تو مکہ کا ہو اور یہ آیت تو مدنی ہے ، مدینہ کی بھی آخری مدت کی آیت ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ مکے میں بھی اللہ کی حفاظت اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہی باوجود دشمن جاں ہونے کے اور ہر ہر اسباب اور سامان سے لیس ہونے کے سردار ان مکہ اور اہل مکہ آپ کا بال تک بیکا نہ کرسکے ، ابتدائے رسالت کے زمانہ میں اپنے چچا ابوطالب کی وجہ سے جو کہ قریشیوں کے سردار اور بارسوخ شخص تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت ہوتی رہی ، ان کے دل میں اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور عزت ڈال دی ، یہ محبت اور عزت ڈال دی ، یہ محبت طبعی تھی شرعی نہ تھی ۔ اگر شرعی ہوتی تو قریش نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی ان کی بھی جان کے خواہاں ہو جاتے ۔ ان کے انتقال کے بعد اللہ تعالیٰ نے انصار کے دلوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شرعی محبت پیدا کر دی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہی کے ہاں چلے گئے ۔ اب تو مشرکین بھی اور یہود بھی مل ملا کر نکل کھڑے ہوئے ، بڑے بڑے سازو سامان لشکر لے کر چڑھ دوڑے ، لیکن باربار کی ناکامیوں نے ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ۔ اسی طرح خفیہ سازشیں بھی جتنی کیں ، قدرت نے وہ بھی انہی پر الٹ دیں ۔ ادھر وہ جادو کرتے ہیں ، ادھر سورۃ معوذتین نازل ہوتی ہے اور ان کا جادو اتر جاتا ہے ۔ ادھر ہزاروں جتن کرکے بکری کے شانے میں زہر ملا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھتے ہیں ، ادھر اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی دھوکہ دہی سے آگاہ فرما دیتا ہے اور یہ ہاتھ کاٹتے رہ جاتے ہیں اور بھی ایسے واقعات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بہت سارے نظر آتے ہیں ۔ ابن جریر میں ہے کہ { ایک سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک درخت تلے ، جو صحابہ رضی اللہ عنہم اپنی عادت کے مطابق ہر منزل میں تلاش کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے چھوڑ دیتے تھے ، دوپہر کے وقت قیولہ کر رہے تھے تو ایک اعرابی اچانک آنکلا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار جو اسی درخت میں لٹک رہی تھی ، اتار لی اور میان سے باہر نکال لی اور ڈانٹ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگا ، اب بتا کون ہے جو تجھے بچا لے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اللہ مجھے بچائے گا } ، اسی وقت اس اعرابی کا ہاتھ کانپنے لگتا ہے اور تلوار اس کے ہاتھ سے گر جاتی ہے اور وہ درخت سے ٹکراتا ہے ، جس سے اس کا دماغ پاش پاش ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ یہ آیت اتارتا ہے } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:12281:ضعیف) ابن ابی حاتم میں ہے کہ { جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نجار سے غزوہ کیا ذات الرقاع کھجور کے باغ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک کنوئیں میں پیر لٹکائے بیٹھے تھے ، جو بنو نجار کے ایک شخص وارث نامی نے کہا دیکھو میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرتا ہوں ۔ لوگوں نے کہا کیسے ؟ کہا میں کسی حیلے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار لے لوں گا اور پھر ایک ہی وار کر کے پار کردوں گا ۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور ادھر ادھر کی باتیں بنا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تلوار دیکھنے کو مانگی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دے دی لیکن تلوار کے ہاتھ میں آتے ہی اس پر اس بلا کا لرزہ چڑھا کہ آخر تلوار سنبھل نہ سکی اور ہاتھ سے گر پڑی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { تیرے اور تیرے بد ارادے کے درمیان اللہ حائل ہوگیا اور یہ آیت اتری } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2913 [ نزول آیت کے ذکر کے بغیر یہ روایت صحیح ہے] ) حویرث بن حارث کا بھی ایسا قصہ مشہور ہے ۔ ابن مردویہ میں ہے کہ { صحابہ رضی اللہ عنہم کی عادت تھی کہ سفر میں جس جگہ ٹھہرتے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے گھنا سایہ دار بڑا درخت چھوڑ دیتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی کے تلے آرام فرمائیں ، ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح ایسے درخت تلے سوگئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار اس درخت میں لٹک رہی تھی ، ایک شخص آگیا اور تلوار ہاتھ میں لے کر کہنے لگا ، اب بتا کہ میرے ہاتھ سے تجھے کون بچائے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اللہ بچائے گا ، تلوار رکھ دے } اور وہ اس قدر ہیبت میں آگیا کہ تعمیل حکم کرنا ہی پڑی اور تلوار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ڈال دی ، اور اللہ نے یہ آیت اتاری کہ «وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ» ۱؎ (5-المائدہ:67)} ۔ ۱؎ (صحیح ابن حبان:1739:حسن) مسند میں ہے کہ { حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موٹے آدمی کے پیٹ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا : { اگر یہ اس کے سوا میں ہوتا تو تیرے لیے بہتر تھا } ۔ ایک شخص کو صحابہ رضی اللہ عنہم پکڑ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے اور کہا یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا ارادہ کر رہا تھا ، وہ کانپنے لگا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { گھبرا نہیں چاہے تو ارادہ کرے لیکن اللہ اسے پورا نہیں ہونے دے گا } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:471/3:ضعیف) پھر فرماتا ہے ’ تیرے ذمہ صرف تبلیغ ہے ، ہدایت اللہ کے ہاتھ ہے ، وہ کافروں کو ہدایت نہیں دے گا ۔ تو پہنچا دے ، حساب کا لینے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے ‘ ۔ المآئدہ
68 آخری رسول پر ایمان اولین شرط ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’ یہود و نصاریٰ کسی دین پر نہیں ، جب تک کہ اپنی کتابوں پر اور اللہ کی اس کتاب پر ایمان لائیں لیکن ان کی حالت تو یہ ہے کہ جیسے جیسے قرآن اترتا ہے یہ لوگ سرکشی اور کفر میں بڑھتے جاتے ہیں ۔ پس اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو ان کافروں کیلئے حسرت و افسوس کر کے کیوں اپنی جان کو روگ لگاتا ہے ‘ ۔ صابی ، نصرانیوں اور مجوسیوں کی بے دین جماعت کو کہتے ہیں اور صرف مجوسیوں کو بھی علاوہ ازیں ایک اور گروہ تھا ، یہود اور نصاریٰ دونوں مثل مجوسیوں کے تھے ۔ قتادہ رحمۃ اللہ کہتے ہیں ” یہ زبور پڑھتے تھے غیر قبلہ کی طرف نمازیں پڑھتے تھے اور فرشتوں کو پوجتے تھے “ ۔ وہب فرماتے ہیں ” اللہ کو پہچانتے تھے ، اپنی شریعت کے حامل تھے ، ان میں کفر کی ایجاد نہیں ہوئی تھی ، یہ عراق کے متصل آباد تھے ، یلوثا کہے جاتے تھے ، نبیوں کو مانتے تھے ، ہر سال میں تیس روزے رکھتے تھے اور یمن کی طرف منہ کر کے دن بھر میں پانچ نمازیں بھی پڑھتے تھے “ ۔ اس کے سوا اور قول بھی ہیں چونکہ پہلے دو جملوں کے بعد انکا ذکر آیا تھا ، اس لیے رفع کے ساتھ عطف ڈالا ۔ ان تمام لوگوں سے جناب باری فرماتا ہے کہ ’ امن و امان والے بے ڈر اور بے خوف وہ ہیں جو اللہ پر اور قیامت پر سچا ایمان رکھیں اور نیک اعمال کریں اور یہ ناممکن ہے ، جب تک اس آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ ہو جو کہ تمام جن و انس کی طرف اللہ کے رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں ‘ ۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والے آنے والی زندگی کے خطرات سے بے خوف ہیں اور یہاں چھوڑ کر جانے والی چیزوں کو انہیں کوئی تمنا اور حسرت نہیں ۔ سورۃ البقرہ کی تفسیر میں اس جملے کے مفصل معنی بیان کر دیئے گئے ہیں ۔ المآئدہ
69 المآئدہ
70 سیاہ عمل یہود اور نصاریٰ اللہ تعالیٰ نے یہود و نصاریٰ سے وعدے لیے تھے کہ وہ اللہ کے احکام کے عامل اور وحی کے پابند رہیں گے ۔ لیکن انہوں نے وہ میثاق توڑ دیا ۔ اپنی رائے اور خواہش کے پیچھے لگ گئے کتاب اللہ کی جو بات ان کی منشاء اور رائے کے مطابق تھی مان لی جس میں اختلاف نظر آیا ترک کر دی ، نہ صرف اتنا ہی کیا بلکہ رسولوں کے مخالف ہو کر بہت سے رسولوں کو جھوٹا بتایا اور بہتیروں کو قتل بھی کر دیا کیونکہ ان کے لائے ہوئے احکام ان کی رائے اور قیاس کے خلاف تھے اتنے بڑے گناہ کے بعد بھی بے فکر ہو کر بیٹھے رہے اور سمجھ لیا کہ ہمیں کوئی سزا نہ ہوگی ۔ لیکن انہیں زبردست روحانی سزا دی گئی یعنی وہ حق سے دور پھینک دیئے گئے اور اس سے اندھے اور بہرے بنا دیئے گئے نہ حق کو سنیں اور نہ ہدایت کو دیکھ سکیں لیکن پھر بھی اللہ نے ان پر مہربانی کی افسوس اس کے بعد بھی ان میں سے اکثر حق سے نابینا اور حق کے سننے سے محروم ہی ہو گئے اللہ ان کے اعمال سے باخبر ہے وہ جانتا ہے کہ کون کس چیز کا مستحق ہے ۔ المآئدہ
71 المآئدہ
72 خود ساختہ معبود بنانا ناقابل معافی جرم ہے نصرانیوں کے فرقوں کی یعنی ملکیہ ، یعقوبیہ ، نسطوریہ کی کفر کی حالت بیان کی جا رہی ہے کہ ’ یہ مسیح ہی کو اللہ کہتے ہیں اور مانتے ہیں ۔ اللہ ان کے قول سے پاک ، منزہ اور مبرا ہے مسیح تو اللہ کے غلام تھے سب سے پہلا کلمہ ان کا دنیا میں قدم رکھتے ہی گہوارے میں ہی یہ تھا کہ «اِنِّیْ عَبْدُ الّلہِ» (19-مریم:30) ’ میں اللہ کا غلام ہوں ‘ ۔ انہوں نے یہ نہیں کہا تھا کہ میں اللہ ہوں یا اللہ کا بیٹا ہوں بلکہ اپنی غلامی کا اقرار کیا تھا اور ساتھ ہی فرمایا تھا کہ میرا اور تم سب کا رب اللہ ہی ہے اسی کی عبادت کرتے رہو سیدھی اور صحیح راہ یہی ہے اور یہی بات اپنی جوانی کے بعد کی عمر میں بھی کہی کہ اللہ ہی کی عبادت کرو اس کے ساتھ دوسرے کی عبادت کرنے والے یہ جنت حرام ہے اور اس کیلئے جہنم واجب ہے ‘ ۔ جیسے قرآن کی اور آیت میں ہے «إِنَّ اللہَ لَا یَغْفِرُ أَن یُشْرَکَ بِہِ» ۱؎ (4-النساء:48) ’ اللہ تعالیٰ شرک کو معاف نہیں فرماتا ‘ ۔ «وَنَادَیٰ أَصْحَابُ النَّارِ أَصْحَابَ الْجَنَّۃِ أَنْ أَفِیضُوا عَلَیْنَا مِنَ الْمَاءِ أَوْ مِمَّا رَزَقَکُمُ اللہُ قَالُوا إِنَّ اللہَ حَرَّمَہُمَا عَلَی الْکَافِرِینَ» ۱؎ ‏‏‏‏(7-الأعراف:50) ’ جہنمی جب جنتیوں سے کھانا پانی مانگیں گے تو اہل جنت کا یہی جواب ہوگا کہ یہ دونوں چیزیں کفار پر حرام ہے ‘ ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بذریعہ منادی کے مسلمانوں میں آواز لگوائی تھی کہ جنت میں فقط ایمان و اسلام والے ہی جائیں گے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:114) سورۃ نساء کی آیت «اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یٰشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَاءُ وَمَنْ یٰشْرِکْ باللّٰہِ فَقَدِ افْتَرٰٓی اِثْمًا عَظِیْمًا» ۱؎ (4-النساء:48) ، کی تفسیر میں وہ حدیث بھی بیان کر دی گئی ہے جس میں ہے کہ { گناہ کے تین دیوان ہیں جس میں سے ایک وہ ہے جسے اللہ نے کبھی نہیں بخشا اور وہ اللہ کے ساتھ شرک کا ہے } ۔ مسیح نے بھی اپنی قوم میں یہی وعظ بیان کیا اور فرما دیا کہ ” ایسے ناانصاف مشرکین کا کوئی مددگار بھی کھڑا نہ ہوگا “ ۔ اب ان کا کفر بیان ہو رہا ہے کہ جو اللہ کو تین میں سے ایک مانتے تھے یہودی عزیر علیہ السلام کو اور نصرانی عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا کہتے تھے اور اللہ تین میں کا ایک مانتے تھے پھر ان تینوں کے مقرر کرنے میں بھی بہت بڑا اختلاف تھا اور ہر فرقہ دوسرے کو کافر کہتا تھا اور حق تو یہ ہے کہ سبھی سب کافر تھے ، حضرت مسیح علیہ السلام کو اور انکی ماں کو اور اللہ کو ملا کر اللہ مانتے تھے اسی کا بیان اس سورت کے آخر میں ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے فرمائے گا ’ کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو بھی اللہ مانو ، وہ اس سے صاف انکار کریں گے اور اپنی لاعلمی اور بےگناہی ظاہر کریں گے ‘ ۔ زیادہ ظاہر قول بھی یہی ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ دراصل لائق عبادت سوائے اس ذات واحد کے اور کوئی نہیں تمام کائنات اور کل موجودات کا معبود برحق وہی ہے ۔ اگر یہ اپنے اس کافرانہ نظریہ سے باز نہ آئے تو یقیناً یہ المناک عذابوں کا شکار ہوں گے ۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے کرم وجود کو ، بخشش و انعام اور لطف و رحمت کو بیان فرما رہا ہے اور باوجود ان کے اس قدر سخت جرم ، اتنی اشد بے حیائی اور کذب و افتراء کے انہیں اپنی رحمت کی دعوت دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ ’ اب بھی میری طرف جھک جاؤ ابھی سب معاف فرما دوں گا اور دامن رحمت تلے لے لوں گا ۔ مسیح اللہ کے بندے اور رسول ہی تھے ، ان جیسے رسول ان سے پہلے بھی ہوئے ہیں ‘ ۔ جیسے فرمایا «‏‏‏‏إِنْ ہُوَ إِلَّا عَبْدٌ أَنْعَمْنَا عَلَیْہِ وَجَعَلْنَاہُ مَثَلًا لِّبَنِی إِسْرَائِیلَ» ۱؎ (43-الزخرف:59) ، ’ وہ ہمارے ایک غلام ہی تھے ہاں ہم نے ان پر رحمت نازل فرمائی تھی اور بنی اسرائیل کیلئے قدرت کی ایک نشائی بنائی ‘ ۔ ’ والدہ عیسیٰ علیہ السلام مومنہ اور سچ کہنے والی تھیں ‘ ، اس لیے معلوم ہوا کہ نبیہ نہ تھیں کیونکہ یہ مقام وصف ہے تو بہترین وصف جو آپ کا تھا وہ بیان کر دیا ۔ اگر نبوت والی ہوتیں تو اس موقعہ پر اس کا بیان نہایت ضروری تھا ۔ ابن حزم رحمۃ اللہ وغیرہ کا خیال ہے کہ ام اسحاق اور ام موسیٰ اور ام عیسیٰ رضی اللہ عنہا نبیہ تھیں اور دلیل یہ دیتے ہیں کہ فرشتوں نے سارہ اور مریم سے خطاب اور کلام کیا اور والدہ موسیٰ رضی اللہ عنہا کی نسبت فرمان ہے آیت «وَأَوْحَیْنَا إِلَیٰ أُمِّ مُوسَیٰ أَنْ أَرْضِعِیہِ» ۱؎ (28-القصص:7) الخ ، ’ ہم نے موسیٰ کی والدہ کی طرف وحی کی کہ تو انہیں دودھ پلا ‘ ۔ لیکن جمہور کا مذہب اس کے خلاف ہے وہ کہتے ہیں کہ نبوت مردوں میں ہی رہی ۔ جیسے قرآن کا فرمان ہے آیت «وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِکَ إِلَّا رِجَالًا نٰوحِی إِلَیْہِم مِّنْ أَہْلِ الْقُرَیٰ» ۱؎ (12-یوسف:109) ، ’ تجھ سے پہلے ہم نے بستی والوں میں سے مردوں ہی کی طرف رسالت انعام فرمائی ہے ‘ ۔ شیخ ابوالحسن اشعری نے تو اس پر اجماع نقل کیا ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ ماں بیٹا تو دونوں کھانے پینے کے محتاج تھے ‘ اور ظاہر ہے کہ جو اندر جائے گا وہ باہر بھی آئے گا پس ثابت ہوا کہ وہ بھی مثل اوروں کے بندے ہی تھے اللہ کی صفات ان میں نہ تھیں ۔ ’ دیکھ تو ہم کس طرح کھول کھول کر ان کے سامنے اپنی حجتیں پیش کر رہے ہیں ؟ پھر یہ بھی دیکھ کہ باوجود اس کے یہ کس طرح ادھر ادھر بھٹکتے اور بھاگتے پھرتے ہیں ؟ کیسے گمراہ مذہب قبول کر رہے ہیں ؟ اور کیسے ردی اور بے دلیل اقوال کو گرہ میں باندھے ہوئے ہیں ؟‘ المآئدہ
73 المآئدہ
74 المآئدہ
75 المآئدہ
76 . معبودان باطل کی جو اللہ کے سوا ہیں عبادت کرنے سے ممانعت کی جاتی ہے کہ ان تمام لوگوں سے کہہ تو دو کہ جو تم سے ضرر کو دفع کرنے کی اور نفع کے پہنچانے کی کچھ بھی طاقت نہیں رکھتے ، آخر تم کیوں انہیں پوجے چلے جا رہے ہو ؟ تمام باتوں کے سننے والے تمام چیزوں سے باخبر اللہ سے ہٹ کر بے سمع و بصر ، بے ضرر و بے نفع و بے قدر اور بے قدرت چیزوں کے پیچھے پڑ جانا یہ کون سی عقلمندی ہے ؟ اے اہل کتاب اتباع حق کی حدود سے آگے نہ بڑھو ، جس کی توقیر کرنے کا جتنا حکم ہو اتنی ہی اس کی توقیر کرو ۔ انسانوں کو جنہیں اللہ نے نبوت دی ہے نبوت کے درجے سے معبود تک نہ پہنچاؤ ۔ جیسے کہ تم جناب مسیح کے بارے میں غلطی کر رہے ہو اور اس کی اور کوئی وجہ نہیں بجز اس کے کہ تم اپنے پیروں مرشدوں استادوں اور اماموں کے پیچھے لگ گئے ہو وہ تو خود ہی گمراہ ہیں بلکہ گمراہ کن ہیں ۔ استقامت اور عدل کے راستے کو چھوڑے ہوئے انہیں زمانہ گزر گیا ۔ ضلالت اور بدعتوں میں مبتلا ہوئے عرصہ ہو گیا ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ ایک شخص ان میں بڑا پابند دین حق تھا ایک زمانہ کے بعد شیطان نے اسے بہکا دیا کہ جو اگلے کر گئے وہی تم بھی کر رہے ہو اس میں کیا رکھا ہے ؟ اس کی وجہ سے نہ تو لوگوں میں تمہاری قدر ہو گی نہ شہرت تمہیں چاہیئے کہ کوئی نئی بات ایجاد کرو اسے لوگوں میں پھیلاؤ پھر دیکھو کہ کیسی شہرت ہوتی ہے ؟ اور کس طرح جگہ بہ جگہ تمہارا ذکر ہونے لگتا ہے چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا اس کی بدعتیں لوگوں میں پھیل گئیں اور زمانہ اس کی تقلید کرنے لگا ۔ اب تو اسے بڑی ندامت ہوئی سلطنت و ملک چھوڑ دیا اور تنہائی میں اللہ کی عبادتوں میں مشغول ہو گیا لیکن اللہ کی طرف سے اسے جواب ملا کہ میری خطا ہی صرف کی ہوتی تو میں معاف کر دیتا لیکن تو نے عام لوگوں کو بگاڑ دیا اور انہیں گمراہ کر کے غلط راہ پر لگا دیا ۔ جس راہ پر چلتے چلتے وہ مر گئے ان کا بوجھ تجھ پر سے کیسے ٹلے گا ؟ میں تو تیری توبہ قبول نہیں فرماؤں گا پس ایسوں ہی کے بارے میں یہ آیت اتری ہے ۔ المآئدہ
77 المآئدہ
78 امر معروف سے گریز کا انجام ارشاد ہے کہ بنو اسرائیل کے کافر پرانے ملعون ہیں ، حضرت داؤد اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زبانی انہی کے زمانہ میں ملعون قرار پا چکے ہیں ۔ کیونکہ وہ اللہ کے نافرمان تھے اور مخلوق پر ظالم تھے ، توراۃ ، انجیل ، زبور اور قرآن سب کتابیں ان پر لعنت برساتی آئیں ۔ یہ اپنے زمانہ میں بھی ایک دوسرے کو برے کاموں دیکھتے تھے لیکن چپ چاپ بیٹھے رہتے تھے ، حرام کاریاں اور گناہ کھلے عام ہوتے تھے اور کوئی کسی کو روکتا نہ تھا ۔ یہ تھا ان کا بدترین فعل ۔ مسند احمد میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ { بنو اسرائیل میں پہلے پہل جب گناہوں کا سلسلہ چلا تو ان کے علماء نے انہیں روکا ۔ لیکن جب دیکھا کہ باز نہیں آتے تو انہوں نے انہیں الگ نہیں کیا بلکہ انہی کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے کھاتے پیتے رہے ، جس کی وجہ سے دونوں گروہوں کے دلوں میں آپس میں ٹکرا دیا اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے کے دل بھڑا دیئے اور حضرت داؤد اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زبانی ان پر اپنی لعنت نازل فرمائی ۔ کیونکہ وہ نافرمان اور ظالم تھے ۔ اس کے بیان کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ٹیک لگائے ہوئے تھے لیکن اب ٹھیک ہو کر بیٹھ گئے اور فرمایا { نہیں نہیں اللہ کی قسم تم پر ضروری ہے کہ لوگوں کو خلاف شرع باتوں سے روکو اور انہیں شریعت کی پابندی پر لاؤ } ۔ ۱؎ (مسند احمد:391/1:منقطع) ابو داؤد کی حدیث میں ہے کہ { سب سے پہلے برائی بنی اسرائیل میں داخل ہوئی تھی کہ ایک شخص دوسرے کو خلاف شرع کوئی کام کرتے دیکھتا تو اسے روکتا ، اسے کہتا کہ اللہ سے ڈر اور اس برے کام کو چھوڑ دے یہ حرام ہے ۔ لیکن دوسرے روز جب وہ نہ چھوڑتا تو یہ اس سے کنارہ کشی نہ کرتا بلکہ اس کا ہم نوالہ ہم پیالہ رہتا اور میل جول باقی رکھتا ، اس وجہ سے سب میں ہی سنگدلی آ گئی ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پوری آیت کی تلاوت کر کے فرمایا : { واللہ تم پر فرض ہے کہ بھلی باتوں کا ہر ایک کو حکم کرو ، برائیوں سے روکو ، ظالم کو اس کے ظلم سے باز رکھو اور اسے تنگ کرو کہ حق پر آ جائے } } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4336،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ترمذی اور ابن ماجہ میں بھی یہ حدیث موجود ہے ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3047،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ابو داؤد وغیرہ میں اسی حدیث کے آخر میں یہ بھی ہے کہ { اگر تم ایسا نہ کرو گے تو اللہ تمہارے دلوں کو بھی آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ ٹکرا دے گا اور تم پر اپنی پھٹکار نازل فرمائے گا جیسی ان پر نازل فرمائی } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4337،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) اس بارے میں اور بہت سی حدیثیں ہیں کچھ سن بھی لیجئے جابر والی حدیث تو آیت «لَوْلَا یَنْھٰیہُمُ الرَّبّٰنِیٰوْنَ وَالْاَحْبَارُ عَنْ قَوْلِہِمُ الْاِثْمَ وَاَکْلِہِمُ السٰحْتَ لَبِئْسَ مَا کَانُوْا یَصْنَعُوْنَ» ۱؎ (5-المائدہ:63) ، کی تفسیر میں گزر چکی اور یا آیت «یٰٓاَیٰھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْکُمْ اَنْفُسَکُمْ لَا یَضُرٰکُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اہْتَدَیْتُمْ اِلَی اللّٰہِ مَرْجِعُکُمْ جَمِیْعًا فَیُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ» ۱؎ (5-المائدہ:105) کی تفسیر میں سیدنا ابوبکررضی اللہ عنہ اور ابو ثعلبہ رضی اللہ عنہ کی حدیثیں آئیں گی ، ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ مسند اور ترمذی میں ہے کہ { یا تو تم بھلائی کا حکم اور برائی سے منع کرتے رہو گے یا اللہ تم پر اپنی طرف سے کوئی عذاب بھیج دے گا پھر تم اس سے دعائیں بھی کرو گے لیکن وہ قبول نہیں فرمائے گا } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2129،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابن ماجہ میں ہے { اچھائی کا حکم اور برائی سے ممانعت کرو اس سے پہلے کہ تمہاری دعائیں قبول ہونے سے روک دی جائیں } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:4004،قال الشیخ الألبانی:حسن) صحیح حدیث میں ہے { تم میں سے جو شخص خلاف شرع کام دیکھے ، اس پر فرض ہے کہ اسے اپنے ہاتھ سے مٹائے اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے ، اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو دل سے اور بہت ہی ضعیف ایمان والا ہے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:49) مسند احمد میں ہے { اللہ تعالیٰ خاص لوگوں کے گناہوں کی وجہ سے عام لوگوں کو عذاب نہیں کرتا لیکن اس وقت کہ برائیاں ان میں پھیل جائیں اور وہ باوجود قدرت کے انکار نہ کریں ، اس وقت عام خاص سب کو اللہ تعالیٰ عذاب میں گھیر لیتا ہے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:196/4:صحیح بالشواہد) ابوداؤد میں ہے کہ { جس جگہ اللہ کی نافرمانی ہونی شروع ہو وہاں جو بھی ہو ، ان خلاف شرع امور سے ناراض ہو [ ایک اور روایت میں ہے ان کا انکار کرتا ہو ] وہ مثل اس کے ہے جو وہاں حاضر ہی نہ ہو اور جو ان خطاؤں سے راضی ہو گو وہاں موجود نہ ہو وہ ایسا ہے گویا ان میں حاضر ہے } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4345،قال الشیخ الألبانی:حسن) ابوداؤد میں ہے { لوگوں کے عذر جب تک ختم نہ ہو جائیں وہ ہلاک نہ ہوں گے } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4347،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابن ماجہ میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبے میں فرمایا : { خبردار کسی شخص کو لوگوں کی ہیبت حق بات کہنے سے روک نہ دے } ۔ اس حدیث کو بیان فرما کر سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ رو پڑے اور فرمانے لگے افسوس ہم نے ایسے موقعوں پر لوگوں کی ہیبت مان لی } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:4007،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابوداؤد ، ترمذی اور ابن ماجہ میں ہے { افضل جہاد کلمہ حق ظالم بادشاہ کے سامنے کہدینا ہے } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4344،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابن ماجہ میں ہے کہ { جمرہ اولیٰ کے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک شخص آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ سب سے افضل جہاد کون سا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم جمرہ ثانیہ پر آئے تو اس نے پھر وہی سوال کیا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو رہے ۔ جب جمرہ عقبہ پر کنکر مار چکے اور سواری پر سوار ہونے کے ارادے سے رکاب میں پاؤں رکھے تو دریافت فرمایا کہ { وہ پوچھنے والا کہاں ہے ؟ } اس نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوں فرمایا : { حق بات ظالم بادشاہ کے سامنے کہہ دینا } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:4012،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابن ماجہ میں ہے کہ { { تم میں سے کسی شخص کو اپنی بےعزتی نہ کرنی چاہیئے } لوگوں نے پوچھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ کیسے ؟ فرمایا : { خلاف شرع کوئی امر دیکھے اور کچھ نہ کہے قیامت کے دن اس سے بازپرس ہوگی کہ فلاں موقعے پر تو کیوں خاموش رہا ؟ یہ جواب دے گا کہ لوگوں کے ڈر کی وجہ سے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’ میں سب سے زیادہ حقدار تھا کہ تو مجھ سے خوف کھائے ‘ } } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:4007،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ایک روایت میں ہے کہ { جب اسے اللہ تلقین حجت کرے گا تو یہ کہے گا کہ تجھ سے تو میں نے امید رکھی اور لوگوں سے خوف کھا گیا ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:4017،قال الشیخ الألبانی:صحیح) مسند احمد میں ہے کہ { { مسلمانوں کو اپنے تئیں ذلیل نہ کرنا چاہیئے } ۔ لوگوں نے پوچھا کیسے ؟ فرمایا : { ان بلاؤں کو سر پر لینا جن کی برداشت کی طاقت نہ ہو } } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2254،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابن ماجہ میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کب چھوڑی جائے ؟ فرمایا : { اس وقت جب تم میں بھی وہی خرابی ہو جائے جو تم سے اگلوں میں ظاہر ہوئی تھی } ہم نے پوچھا وہ کیا چیز ہے ؟ فرمایا : { کمینے آدمیوں میں سلطنت کا چلا جانا ۔ بڑے آدمیوں میں بدکاری کا آ جانا ۔ رذیلوں میں علم کا آ جانا } ۔ زید کہتے ہیں رذیلوں میں علم آجانے سے مراد فاسقوں میں علم کا آ جانا ہے } } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:4105 ، قال الشیخ الألبانی: ضعیف) اس حدیث کی شاہد حدیثیں ابو ثعلبہ کی روایت سے آیت «‏‏‏‏لَا یَضُرٰکُم مَّن ضَلَّ إِذَا اہْتَدَیْتُمْ» ۱؎ (5-المائدۃ:105) کی تفسیر میں آئیں گی ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ اکثر منافقوں کو تو دیکھے گا کہ وہ کافروں سے دوستیاں گانٹتھے ہیں ان کے اس فعل کی وجہ سے یعنی مسلمانوں سے دوستیاں چھوڑ کر کافروں سے دوستیاں کرنے کی وجہ سے انہوں نے اپنے لیے برا ذخیرہ جمع کر رکھا ہے ‘ ۔ اس کی پاداش میں ان کے دلوں میں نفاق پیدا ہو گیا ہے ۔ اور اسی بناء پر اللہ کا غضب ان پر نازل ہوا ہے اور قیامت کے دن کیلئے دائمی عذاب بھی ان کیلئے آگے آ رہے ہیں ۔ ابن ابی حاتم میں ہے { { اے مسلمانو ! زناکاری سے بچو ، اس سے چھ برائیاں آتی ہیں ، تین دنیا میں اور تین آخرت میں ۔ اس سے عزت و وقار ، رونق و تازگی جاتی رہتی ہے ۔ اس سے فقرو فاقہ آ جاتا ہے ۔ اس سے عمر گھٹتی ہے اور قیامت کے دن تین برائیاں یہ ہیں اللہ کا غضب ، حساب کی سختی اور برائی ، اور جہنم کا خلود } ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی آخری جملے کی تلاوت فرمائی } ۔ ۱؎ (بیہقی فی شعب الایمان:5475:ضعیف جدا) یہ حدیث ضعیف ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ پھر فرماتا ہے ’ اگر یہ لوگ اللہ پر اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اور قرآن پر پورا ایمان رکھتے تو ہرگز کافروں سے دوستیاں نہ کرتے اور چھپ چھپا کر ان سے میل ملاپ جاری نہ رکھتے ۔ نہ سچے مسلمانوں سے دشمنیاں رکھتے ۔ دراصل بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثر لوگ فاسق ہیں یعنی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے خارج ہو چکے ہیں اس کی وحی اور اس کے پاک کلام کی آیتوں کے مخالف بن بیٹھے ہیں ‘ ۔ المآئدہ
79 المآئدہ
80 المآئدہ
81 المآئدہ
82 یہودیوں کا تاریخی کردار یہ آیت اور اس کے بعد کی چار آیتیں نجاشی اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں اتری ہیں ۔ جب ان کے سامنے حبشہ کے ملک میں جعفر بن ابوطالب رضی اللہ عنہ نے قرآن کریم پڑھا تو ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور ان کی داڑھیاں تر ہو گئیں ۔ یہ خیال رہے کہ یہ آیتیں مدینے میں اتری ہیں اور جعفر رضی اللہ عنہ کا یہ واقعہ ہجرت سے پہلے کا ہے ۔ یہ بھی مروی ہے کہ یہ آیتیں اس وفد کے بارے میں نازل ہوئی ہیں جسے نجاشی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا تھا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملیں ، حاضر خدمت ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات و صفات دیکھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام سنیں ۔ جب یہ آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے قرآن کریم سنا تو ان کے دل نرم ہو گئے بہت روئے دھوئے اور اسلام قبول کیا اور واپس جا کر نجاشی سے سب حال کہا نجاشی اپنی سلطنت چھوڑ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہجرت کر کے آنے لگے لیکن راستے میں ہی انتقال ہو گیا ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:12318:مرسل) یہاں بھی یہ خیال رہے کہ یہ بیان صرف سدی رحمۃ اللہ کا ہے اور صحیح روایات سے یہ ثابت ہے کہ وہ حبشہ میں ہی سلطنت کرتے ہوئے فوت ہوئے { ان کے انتقال والے دن ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو ان کے انتقال کی خبر دی اور ان کی نماز جنازہ غائبانہ ادا کی } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1318) بعض تو کہتے ہیں اس وفد میں سات تو علماء تھے اور پانچ زاہد تھے یا پانچ علماء اور سات زاہد تھے ۔ بعض کہتے ہیں یہ کل پچاس آدمی تھے اور کہا گیا ہے کہ ساٹھ سے کچھ اوپر تھے ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ ستر تھے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ عطاء رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” جن کے اوصاف آیت میں بیان کئے گئے ہیں یہ اہل حبشہ ہیں ۔ مسلمان مہاجرین حبشہ جب ان کے پاس پہنچے تو یہ سب مسلمان ہو گئے تھے “ ۔ قتادہ رحمۃ اللہ فرماتے ہیں ” پہلے یہ دین عیسوی پر قائم تھے لیکن جب انہوں نے مسلمانوں کو دیکھا اور قرآن کریم کو سنا تو فوراً سب مسلمان ہو گئے “ ۔ امام ابن جریر رحمۃ اللہ کا فیصلہ ان سب اقوال کو ٹھیک کر دیتا ہے اور فرماتے ہیں کہ ” یہ آیتیں ان لوگوں کے بارے میں ہیں جن میں یہ اوصاف ہوں خواہ وہ حبشہ کے ہوں یا کہیں کے “ ۔ یہودیوں کو مسلمانوں سے جو سخت دشمنی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں سرکشی اور انکار کا مادہ زیادہ ہے اور جان بوجھ کر کفر کرتے ہیں اور ضد سے ناحق پر اڑتے ہیں ، حق کے مقابلہ میں بگڑ بیٹھتے ہیں حق والوں پر حقارت کی نظریں ڈالتے ہیں ان سے بغض و بیر رکھتے ہیں ۔ علم سے کورے ہیں علماء کی تعداد ان میں بہت ہی کم ہے اور علم اور ذی علم لوگوں کی کوئی وقعت ان کے دل میں نہیں یہی تھے جنہوں نے بہت سے انبیاء علیہم السلام کو قتل کیا خود پیغمبر الزمان احمد مجتبیٰ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا ارادہ بھی کیا اور ایک دفعہ نہیں بلکہ باربار ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زہر دیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا اور اپنے جیسے بدباطن لوگوں کو اپنے ساتھ ملا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر حملے کئے لیکن اللہ نے ہر مرتبہ انہیں نامراد اور ناکام کیا ۔ ابن مردویہ میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { جب کبھی کوئی یہودی کسی مسلمانوں کو تنہائی میں پاتا ہے اس کے دل میں اس کے قتل کا قصد پیدا ہوتا ہے } } ۔ ۱؎ (سلسلۃ احادیث ضعیفہ البانی:4439:ضعیف) ایک دوسری سند سے بھی یہ حدیث مروی ہے لیکن ہے بہت ہی غریب ہاں مسلمانوں سے دوستی میں زیادہ قریب وہ لوگ ہیں جو اپنے تئیں نصاریٰ کہتے ہیں مسیح کے تابعدار ہیں انجیل کے اصلی اور صحیح طریقے پر قائم ہیں ان میں ایک حد تک فی الجملہ مسلمانوں اور اسلام کی محبت ہے یہ اس لیے کہ ان میں نرم دلی ہے جیسے ارشاد باری آیت «وَجَعَلْنَا فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُ رَاْفَۃً وَّرَحْمَۃً» ۱؎ (57-الحدید:27) ، یعنی ’ عیسیٰ علیہ السلام کے تابعداروں کے دلوں میں ہم نے نرمی اور رحم ڈال دیا ہے ۔ ان کی کتاب میں حکم ہے کہ جو تیرے داہنے رخسار پر تھپڑ مارے تو اس کے سامنے بایاں رخسار بھی پیش کر دے ‘ ۔ ان کی شریعت میں لڑائی ہے ہی نہیں ۔ یہاں ان کی اس دوستی کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ ان میں خطیب اور واعظ ہیں ۔ «قِسِسِیْنٌ» اور «قِسٌ» کی جمع «‏‏‏‏قِسِّیْسِیْنَ» ہے «‏‏‏‏قُسُوْسٌ» بھی اس کی جمع آتی ہے «رُہْبَانٌ» جمع ہے راہب کی ، راہب کہتے ہیں عابد کو ۔ یہ لفظ مشتق ہے رہب سے اور رہبت کے معنی ہیں خوف اور ڈر کے ۔ جیسے «رَاکِبٌ» کی جمع «رُکْبَانٌ» ہے اور «فُرْسَانٌ» ہے امام ابن جریر فرماتے ہیں کبھی «رُہْبَانٌ» واحد کیلئے بھی آتا ہے اور اس کی جمع «رَھَابِیْنَ» آتی ہے جیسے «قُرْبَانٌ» اور «قَرَابِیْنَ» اور «جوازن» اور «جوازین» اور کبھی اس کی جمع «رَہَابِنَہ» بھی آتی ہے ۔ عرب کے اشعار میں بھی لفظ «رُہْبَانٌ» واحد کیلئے آیا ۔ سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ سے ایک شخص «قِسِّیسِینَ وَرُہْبَانًا» ‏‏‏‏ پڑھ کر اس کے معنی دریافت کرتا ہے تو آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں «‏‏‏‏قِسِسِیْنٌ» ‏‏‏‏کو خانقاہوں اور غیر آباد جگہوں میں چھوڑ مجھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے «صدیقین وَرُہْبَانًا» ‏‏‏‏ پڑھایا ہے ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:6175:ضعیف جدا) الغرض ان کے تین اوصاف یہاں بیان ہوئے ہیں ان میں عالموں کا ہونا ، ان میں عابدوں کا ہونا ، ان میں تواضع فروتنی اور عاجزی کا ہونا ۔ المآئدہ
83 ایمان والو کی پہچان اوپر بیان گزر چکا ہے کہ عیسائیوں میں سے جو نیک دل لوگ اس پاک مذہب اسلام کو قبول کئے ہوئے ہیں ان میں جو اچھے اوصاف ہیں مثلاً عبادت ، علم ، تواضع ، انکساری وغیرہ ، ساتھ ہی ان میں رحمدلی وغیرہ بھی ہے حق کی قبولیت بھی ہے اللہ کے احکامات کی اطلاعت بھی ہے ادب اور لحاظ سے کلام اللہ سنتے ہیں ، اس سے اثر لیتے ہیں اور نرم دلی سے رو دیتے ہیں کیونکہ وہ حق کے جاننے والے ہیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے بشارت سے پہلے ہی آگاہ ہوچکے ہیں ۔ اس لیے قرآن سنتے ہی دل موم ہو جاتے ہیں ۔ ایک طرف آنکھیں آنسو بہانے لگتی ہیں دوری جانب زبان سے حق کو تسلیم کرتے ہیں ۔ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ” یہ آیتیں نجاشی رحمۃ اللہ اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہیں “ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:12330:مرسل) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ ” کچھ لوگ جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ساتھ جشہ سے آئے تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے قرآن کریم سن کر ایمان لائے اور بے تحاشا رونے لگے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریاف فرمایا کہ { کہیں اپنے وطن پہنچ کر اس سے پھر تو نہیں جاؤ گے ؟ } انہوں نے کہا ناممکن ہے اسی کا بیان ان آیتوں میں ہے “ ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:12455:ضعیف) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ” شاہدوں سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کی تبلیغ کی شہادت ہے “ ۔ پھر اس قسم کے نصرانیوں کا ایک اور وصف بیان ہو رہا ہے ان ہی کا دوسرا وصف اس آیت میں ہے «وَإِنَّ مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ لَمَن یُؤْمِنُ بِ اللہِ وَمَا أُنزِلَ إِلَیْکُمْ وَمَا أُنزِلَ إِلَیْہِمْ خَاشِعِینَ لِلہِ» (3-آل عمران:199) یعنی ’ اہل کتاب میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اللہ پر اور اس قرآن پر اور جو ان پر نازل کیا گیا ہے سب پر ایمان رکھتے ہیں اور پھر اللہ سے ڈرنے والے بھی ہیں ‘ ۔ ان ہی کے بارے میں فرمان ربانی ہے «اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰہُمُ الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِہٖ ہُمْ بِہٖ یُؤْمِنُوْنَ وَاِذَا یُتْلٰی عَلَیْہِمْ قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِہٖٓ اِنَّہُ الْحَقٰ مِنْ رَّبِّنَآ اِنَّا کُنَّا مِنْ قَبْلِہٖ مُسْلِمِیْنَ اُولٰیِٕکَ یُؤْتَوْنَ اَجْرَہُمْ مَّرَّتَیْنِ بِمَا صَبَرُوْا وَیَدْرَءُوْنَ بالْحَسَنَۃِ السَّیِّئَۃَ وَمِمَّا رَزَقْنٰہُمْ یُنْفِقُوْنَ وَاِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ اَعْرَضُوْا عَنْہُ وَقَالُوْا لَنَآ اَعْمَالُنَا وَلَکُمْ اَعْمَالُکُمْ ۡ سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ ۡ لَا نَبْتَغِی الْجٰہِلِیْنَ» ‏‏‏‏ (28 ۔ القصص:52 - 55) ۔ کہ ’ یہ لوگ اس کتاب کو اور اس کتاب کو سچ جانتے ہیں اور دونوں پر ایمان رکھتے ہیں ‘ ۔ پس یہاں بھی فرمایا کہ ’ وہ کہتے ہیں کہ جب ہمیں صالحین میں ملنا ہے تو اللہ پر اور اس کی اس آخری کتاب پر ہم ایمان کیوں نہ لائیں ؟ ان کے اس ایمان و تصدیق اور قبولیت حق کا بدلہ اللہ نے انہیں یہ دیا کہ وہ ہمیشہ رہنے والے تروتازہ باغات و چشموں والی جنتوں میں جائیں گے ۔ محسن ، نیکوکار ، مطیع حق ، تابع فرمان الٰہی لوگوں کی جزا یہی ہے ، وہ کہیں کے بھی ہوں کوئی بھی ہوں ۔ جو ان کے خلاف ہیں انجام کے لحاظ سے بھی ان کے برعکس ہیں ، کفرو تکذب اور مخالفت یہاں ان کا شیوہ ہے اور وہاں جہنم ان کا ٹھکانا ہے ‘ ۔ المآئدہ
84 المآئدہ
85 المآئدہ
86 المآئدہ
87 راہبانیت (خانقاہ نشینی) اسلام میں ممنوع ہے ابن ابی حاتم میں ہے کہ { چند صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپس میں کہا کہ ہم خصی ہو جائیں ، دنیوی لذتوں کو ترک کر دیں ، بستی چھوڑ کر جنگلوں میں جا کر تارک دنیا لوگوں کی طرح زندگی یاد الٰہی میں بسر کریں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی یہ باتیں معلوم ہوگئیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یاد فرمایا اور ان سے پوچھا ، انہوں نے اقرار کیا ، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { تم دیکھ نہیں رہے ؟ کہ میں نفلی روزے رکھتا ہوں اور نہیں بھی رکھتا ۔ رات کو نفلی نماز پڑھتا بھی ہوں اور سوتا بھی ہوں ۔ میں نے نکاح بھی کر رکھے ہیں ۔ سنو جو میرے طریقے پر ہو وہ تو میرا ہے اور جو میری سنتوں کو نہ لے وہ میرا نہیں } } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:12350) صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے کہ { لوگوں نے امہات المؤمنین سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال کی نسبت سوال کیا پھر بعض نے کہا کہ ہم گوشت نہیں کھائیں گے بعض نے کہا ہم نکاح نہیں کریں گے بعض نے کہا ہم بستر پر سوئیں گے ہی نہیں ۔ جب یہ واقعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گوش گزار ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا { ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ ان میں سے بعض یوں کہتے ہیں حالانکہ میں روزہ رکھتا ہوں اور نہیں بھی رکھتا ، سوتا بھی ہوں اور تہجد بھی پڑھتا ہوں ، گوشت بھی کھاتا ہوں اور نکاح بھی کئے ہوئے ہوں جو میری سنت سے منہ موڑے وہ میرا نہیں } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5063) ترمذی وغیرہ میں ہے کہ { کسی شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا کہ گوشت کھانے سے میری قوت باہ بڑھ جاتی ہے اس لیے میں نے اپنے اوپر گوشت کو حرام کر لیا ہے اس پر یہ آیت اتری } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3054 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) امام ترمذی اسے حسن غریب بتاتے ہیں اور سند سے بھی یہ روایت مرسلاً مروی ہے اور موقوفاً بھی «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ بخاری و مسلم میں ہے { سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ماتحتی میں جہاد کرتے تھے اور ہمارے ساتھ ہماری بیویاں نہیں ہوتی تھیں تو ہم نے کہا اچھا ہوگا اگر ہم خصی ہوجائیں لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس سے روکا اور مدت معینہ تک کیلئے کپڑے کے بدلے پر نکاح کرنے کی رخصت ہمیں عطا فرمائی پھر سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے یہی آیت پڑھی } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4615) یہ یاد رہے کہ یہ نکاح کا واقعہ متعہ کی حرمت سے پہلے کا ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ معقل بن مقرن نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو کہا کہ ” میں نے تو اپنا بستر اپنے اوپر حرام کر لیا ہے “ ، تو آپ رضی اللہ عنہ نے یہی آیت تلاوت فرمائی ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے سامنے کھانا لایا جاتا ہے تو ایک شخص اس مجمع سے الگ ہو جاتا ہے آپ رضی اللہ عنہ اسے بلاتے ہیں کہ ” آؤ ہمارے ساتھ کھا لو “ ۔ وہ کہتا ہے میں نے تو اس چیز کا کھانا اپنے اوپر حرام کر رکھا ہے ۔ آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” آؤ کھالو اپنی قسم کا کفارہ دے دینا “ ، پھر آپ رضی اللہ عنہ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی ۔ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:1187/4:صحیح) ابن ابی حاتم میں ہے کہ سیدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے گھر کوئی مہمان آئے آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے رات کو جب واپس گھر پہنچے تو معلوم ہوا کہ گھر والوں نے آپ رضی اللہ عنہ کے انتظار میں اب تک مہمان کو بھی کھانا نہیں کھلایا ۔ آپ رضی اللہ عنہ کو بہت غصہ آیا اور فرمایا ” تم نے میری وجہ سے مہمان کو بھوکا رکھا ، یہ کھانا مجھ پر حرام ہے “ ۔ بیوی صاحبہ بھی ناراض ہو کر یہی کہہ بیٹھیں ۔ مہمان نے دیکھ کر اپنے اوپر بھی حرام کرلیا اب تو عبداللہ بہت گھبرائے کھانے کی طرف ہاتھ بڑھایا اور سب سے کہا چلو بسم اللہ کرو ۔ کھا پی لیا پھر جب حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے سارا واقعہ کہہ سنایا پس یہ آیت اتری ، لیکن اثر منقطع ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:1187/4:مرسل و ضعیف) صحیح بخاری شریف میں اس جیسا ایک قصہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا اپنے مہمانوں کے ساتھ کا ہے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:602) اس سے امام شافعی رحمۃ اللہ وغیرہ علماء کا وہ قول ثابت ہوتا ہے کہ جو شخص علاوہ عورتوں کے کسی اور کھانے پینے کی چیز کو اپنے اوپر حرام کر لے تو وہ اس پر حرام نہیں ہو جاتی اور نہ اس پر اس میں کوئی کفارہ ہے ، دلیل یہ آیت اور دوسری وہ حدیث ہے جو اوپر گزر چکی کہ جس شخص نے اپنے اوپر گوشت حرام کر لیا تھا اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کفارے کا حکم نہیں فرمایا ۔ لیکن امام احمد رحمہ اللہ اور ان کے ہم خیال جماعت علماء کا خیال ہے کہ جو شخص کھانے پہننے وغیرہ کی کسی چیز کو اپنے اوپر حرام کرلے تو اس پر قسم کا کفارہ ہے ۔ جیسے اس شخص پر جو کسی چیز کے ترک پر قسم کھالے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا فتویٰ یہی ہے اور اس کی دلیل یہ آیت «یٰٓاَیٰہَا النَّبِیٰ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ اَحَلَّ اللّٰہُ لَکَ تَبْتَغِیْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِکَ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ» ۱؎ (66-التحریم:2-1) بھی ہے اور اس آیت کے بعد ہی کفارہ قسم کا ذکر بھی اسی امر کا مقتضی ہے کہ یہ حرمت قائم مقام قسم کے ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” بعض حضرات نے ترک دنیا کا ، خصی ہو جانے کا اور ٹاٹ پہننے کا عزم مصمم کر لیا اس پر یہ آیتیں اتریں “ ۔ ایک روایت میں ہے کہ سیدنا عثمان بن مظعون ، علی بن ابی طالب ، عبداللہ بن مسعود ، مقداد بن اسود ، سالم مولی ، ابی حذیفہ رضی اللہ عنہم وغیرہ ترک دنیا کا ارادہ کر کے گھروں میں بیٹھ رہے باہر آنا جانا ترک کر دیا عورتوں سے علیحدگی اختیار کرلی ٹاٹ پہننے لگے اچھا کھانا اور اچھا پہننا حرام کرلیا اور بنی اسرائیل کے عابدوں کی وضع کرلی بلکہ ارادہ کرلیا کہ خصی ہو جائیں تاکہ یہ طاقت ہی سلب ہو جائے اور یہ بھی نیت کرلی کہ تمام راتیں عبادت میں اور تمام دن روزے میں گزاریں گے اس پر یہ آیت اتری یعنی یہ خلاف سنت ہے ۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلا کر فرمایا کہ { تمہاری جانوں کا تم پر حق ہے ، تمہاری آنکھوں کا بھی تم پر حق ہے ۔ نفل روزے رکھو اور کبھی کبھی چھوڑ بھی دو ۔ نفل نماز رات کو پڑھو اور کچھ دیر سو بھی جاؤ جو ہماری سنت کو چھوڑ دے وہ ہم میں سے نہیں } ۔ اس پر ان بزرگوں نے فرمایا یا اللہ ہم نے سنا اور جو فرمان ہوا اس پر ہماری گردنیں خم ہیں ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:12352:مرسل و ضعیف) یہ واقعہ بہت سے تابعین سے مرسل سندوں سے مروی ہے ۔ اس کی شاہد وہ مرفوع حدیث بھی ہے جو اوپر بیان ہو چکی ۔ «فَالْحَمْدُ لِلہِ» ۔ ابن جریر میں ہے کہ ایک دن رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کے سامنے وعظ کیا اور اس میں خوف اور ڈر کا ہی بیان تھا اسے سن کر دس صحابیوں نے جن میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ ، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ بن مظعون وغیرہ تھے آپس میں کہا کہ ہمیں تو کوئی بڑے بڑے طریقے عبادت کے اختیار کرنا چاہئیں نصرانیوں کو دیکھو کہ انہوں نے اپنے نفس پر بہت سی چیزیں حرام کر رکھی ہیں اس پر کسی نے گوشت اور چربی وغیرہ کھانا اپنے اوپر حرام کیا ، کسی نے دن کو کھانا بھی حرام کرلیا ، کسی نے رات کی نیند اپنے اوپر حرام کرلی ، کسی نے عورتوں سے مباشرت حرام کرلی ۔ عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی سے میل جول اسی بنا پر ترک کر دیا ۔ میاں بیوی اپنے صحیح تعلقات سے الگ رہنے لگے ۔ ایک دن یہ بیوی صاحبہ خولہ رضی اللہ عنہا ، ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئیں وہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات بھی تھیں انہیں پراگندہ حالت میں دیکھ کر سب نے پوچھا کہ تم نے اپنا یہ حلیہ کیا بنا رکھا ہے ؟ نہ کنگھی نہ چوٹی کی خبر ہے نہ لباس ٹھیک ٹھاک ہے نہ صفائی اور خوبصورتی کا خیال ہے ؟ کیا بات ہے ؟ خولہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا مجھے اب اس بناؤ سنگار کی ضرورت ہی کیا رہی ؟ اتنی مدت ہوئی جو میرے میاں مجھ سے ملے ہی نہیں نہ کبھی انہوں نے میرا کپڑا ہٹایا ، یہ سن کر اور بیویاں ہنسنے لگیں اتنے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور دریاف فرمایا کہ { یہ ہنسی کیسی ہے ؟ } سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے سارا واقعہ بیان فرمایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت آدمی بھیج کر عثمان رضی اللہ عنہ کو بلوایا اور فرمایا { یہ کیا قصہ ہے ؟ } عثمان رضی اللہ عنہ نے کل واقعہ بیان کرکے کہا کہ میں نے اسے اس لیے چھوڑ رکھا ہے کہ اللہ کی عبادت دلچسپی اور فارغ البالی سے کر سکوں بلکہ میرا ارادہ ہے کہ میں خصی ہو جاؤں تاکہ عورتوں کے قابل ہی نہ رہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { میں تجھے قسم دیتا ہوں جا اپنی بیوی سے میل کرلے اور اس سے بات چیت کر } ۔ جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تو میں روزے سے ہوں ۔ فرمایا : { جاؤ روزہ توڑ ڈالو } ، چنانچہ انہوں نے حکم برداری کی ، روزہ توڑ دیا اور بیوی سے بھی ملے ۔ اب پھر جو سیدہ خولہ رضی اللہ عنہا آئیں تو وہ اچھی ہئیت میں تھیں ۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ہنس کر پوچھا ” کہو اب کیا حال ہے ؟ “ جواب دیا کہ ” اب عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنا عہد توڑ دیا ہے اور کل وہ مجھ سے ملے بھی “ ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں میں فرمایا : { لوگو یہ تمہارا کیا حال ہے کہ کوئی بیویاں حرام کر رہا ہے ، کوئی کھانا ، کوئی سونا ۔ تم نہیں دیکھتے کہ میں سوتا بھی ہوں اور قیام بھی کرتا ہوں ، افطار بھی کرتا ہوں اور روزے سے بھی رہتا ہوں ۔ عورتوں سے ملتا بھی ہوں نکاح بھی کر رکھے ہیں ۔ سنو جو مجھ سے بے رغبتی کرے وہ مجھ سے نہیں ہے } } ، اس پر یہ آیت اتری ۔ ” حد سے نہ گزرو “ سے مطلب یہ ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ کو خصی نہیں ہونا چاہیئے ۔ یہ حد سے گزر جانا ہے اور ان بزرگوں کو اپنی قسموں کا کفارہ ادا کرنے کا حکم ہوا اور فرمایا آیت «لَا یُؤَاخِذُکُمُ اللہُ بِاللَّغْوِ فِی أَیْمَانِکُمْ وَلَکِنْ یُؤَاخِذُکُمْ بِمَا عَقَّدْتُمُ الْأَیْمَانَ» ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:12349) پس «لَا تَعْتَدُوا» سے مراد یا تو یہ ہے کہ ’ اللہ نے جن چیزوں کو تمہارے لیے مباح کیا ہے تم انہیں اپنے اوپر حرام کرکے تنگی نہ کرو ‘ اور یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ ’ حلال بقدر کفایت لے لو اور اس حد سے آگے نہ نکل جاؤ ‘ ۔ جیسے فرمایا «وَکُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا» ۱؎ (7-الأعراف:31) ’ کھاؤ پیو لیکن حد سے نہ بڑھو ‘ ۔ ایک اور آیت میں ہے «وَالَّذِینَ إِذَا أَنفَقُوا لَمْ یُسْرِفُوا وَلَمْ یَقْتُرُوا وَکَانَ بَیْنَ ذٰلِکَ قَوَامًا» ۱؎ (25-الفرقان:67) ’ ایمانداروں کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ وہ خرچ کرنے میں اسراف اور بخیلی کے درمیان درمیان رہتے ہیں ‘ ۔ پس افراط و تفریط اللہ کے نزدیک بری بات ہے اور درمیانی روش رب کو پسند ہے ۔ اسی لیے یہاں بھی فرمایا ’ حد سے گزر جانے والوں کو اللہ ناپسند فرماتا ہے ‘ ۔ پھر فرمایا ’ اللہ تعالیٰ جو حلال و طیب چیزیں تمہیں دے رکھی ہیں انہیں کھاؤ پیو اور اپنے تمام امور میں اللہ سے ڈرتے رہو اس کی اطاعت اور طلب رضا مندی میں رہا کرو ۔ اس کی نافرمانی اور اس کی حرام کردہ چیزوں سے الگ رہو ۔ اسی اللہ پر تم یقین رکھتے ہو ، اسی پر تمہارا ایمان ہے پس ہر امر میں اس کا لحاظ رکھو ‘ ۔ المآئدہ
88 المآئدہ
89 غیر ارادی قسمیں اور کفارہ لغو قسمیں کیا ہوتی ہیں ؟ ان کے کیا احکام ہیں ؟ یہ سب سورۃ البقرہ کی تفسیر ۱؎ (2-البقرۃ:225) میں بالتفصیل بیان کر چکے ہیں اس لیے یہاں ان کے دوہرانے کی ضرورت نہیں «فَالْحَمْدُ لِلہِ» ۔ مقصد یہ ہے کہ روانی کلام میں انسان کے منہ سے بغیر قصد کے جو قسمیں عادتاً نکل جائیں وہ لغو قسمیں ہیں ۔ امام شافعی کارحمہ اللہ یہی مذہب ہے ، مذاق میں قسم کھا بیٹھنا ، اللہ کی نافرمانی کے کرنے پر قسم کھا بیٹھنا ، زیادتی گمان کی بنا پر قسم کھا بیٹھنا بھی اس کی تفسیر میں کہا گیا ہے ۔ غصے اور عضب میں ، نسیان اور بھول چوک سے کھانے پینے پہننے اوڑھنے کی چیزوں میں قسم کھا بیٹھنا مراد ہے ، اس قول کی دلیل میں آیت «یٰٓاَیٰھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَیِّبٰتِ مَآ اَحَلَّ اللّٰہُ لَکُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبٰ الْمُعْتَدِیْنَ» ۱؎ (5-المائدہ:87) کو پیش کیا جاتا ہے ۔ بالکل صحیح بات یہ ہے کہ لغو قسموں سے مراد بغیر قصد کی قسمیں ہیں اور اس کی دلیل «وَلٰکِن یُؤَاخِذُکُم بِمَا عَقَّدتٰمُ الْأَیْمَانَ» ‏‏‏‏ ۱؎ (5-المائدہ:89) ہے یعنی ’ جو قسمیں بالقصد اور بالعزم ہوں ان پر گرفٹ ہے اور ان پر کفارہ ہے ‘ ۔ کفارہ دس مسکینوں کا کھانا جو محتاج فقیر ہوں جن کے پاس بقدر کفایت کے نہ ہو اوسط درجے کا کھانا جو عموماً گھر میں کھایا جاتا ہو وہی انہیں کھلا دینا ۔ مثلاً دودھ روٹی ، گھی روٹی ، زیتون کا تیل روٹی ۔ یہ بھی مطلب بیان کیا گیا ہے کہ بعض لوگوں کی خوراک بہت اعلی ہوتی ہے بعض لوگ بہت ہی ہلکی غذا کھاتے ہیں تو نہ وہ ہو نہ یہ ہو ، تکلف بھی نہ ہو اور بخل بھی نہ ہو ، سختی اور فراخی کے درمیان ہو ، مثلاً گوشت روٹی ہے ، سرکہ اور روٹی ہے ، روٹی اور کھجوریں ہیں ۔ جیسی جس کی درمیانی حثییت ، اسی طرح قلت اور کثرت کے درمیان ہو ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ صبح شام کا کھانا ، حسن رحمۃ اللہ اور محمد بن حنفیہ رحمۃ اللہ کا قول ہے کہ دس مسکینوں کو ایک ساتھ بٹھا کر روٹی گوشت کھلا دینا کافی ہے یا اپنی حیثیت کے مطابق روٹی کسی اور چیز سے کھلا دینا ۔ بعض نے کہا ہے ہر مسکین کو آدھا صاع گہیوں کھجوریں وغیرہ دے دینا ، امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ کا قول ہے کہ گہیوں تو آدھا صاع کافی ہے اور اس کے علاوہ ہر چیز کا پورا صاع دیدے ۔ ابن مردویہ کی روایت میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صاع کھجوروں کا کفارے میں ایک ایک شخص کو دیا ہے اور لوگوں کو بھی یہی حکم فرمایا ہے ۔ لیکن جس کی اتنی حثییت نہ ہو وہ آدھا صاع گہیوں کا دیدے } ۔ یہ حدیث ابن ماجہ میں بھی ہے ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:2112،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) لیکن اس کا ایک راوی بالکل ضعیف ہے جس کے ضعف پر محدثین کا اتفاق ہے ۔ در قطنی نے اسے متروک کہا ہے اس کا نام عمر بن عبداللہ ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ ” ہر مسکین کو ایک مد گہیوں مع سالن کے دیدے “ ، امام شافعی رحمۃ اللہ بھی یہی فرماتے ہیں لیکن سالن کا ذکر نہیں ہے اور دلیل ان کی وہ حدیث ہے جس میں ہے کہ { رمضان شریف کے دن میں اپنی بیوی سے جماع کرنے والے کو ایک کمتل [ خاص پیمانہ ] میں سے ساٹھ مسکینوں کو کھلانے کا حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا تھا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1936) اس میں پندرہ صاع آتے ہیں تو ہر مسکین کے لیے ایک مد ہوا ۔ ابن مردویہ کی ایک اور حدیث میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم کے کفارے میں گہیوں کا ایک مد مقرر کیا ہے } لیکن اس کی اسناد بھی ضعیف ہیں کیونکہ نضیر بن زرارہ کوفی کے بارے میں امام ابوحاتم رازی رحمۃ اللہ کا قول ہے کہ وہ مجہول ہے گو اس سے بہت سے لوگوں نے روایت کی ہے اور امام ابن حبان رحمۃ اللہ نے اسے ثقہ کہا ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ، پھر ان کے استاد عمری بھی ضعیف ہیں ۔ امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ کا فرمان ہے کہ گہیوں کا ایک مد اور باقی اناج کے دو مد دے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» [ یہ یاد رہے کہ صاع انگریزی اسی روپے بھر کے سیر کے حساب سے تقریباً پونے تین سیر کا ہوتا ہے اور ایک صاع کے چار مد ہوتے ہیں «وَاللہُ اَعْلَمُ» ، مترجم ] یا ان دس کو کپڑا پہنانا ، امام شافعی رحمۃ اللہ کا قول ہے کہ ہر ایک کو خواہ کچھ ہی کپڑا دیدے جس پر کپڑے کا اطلاق ہوتا ہو کافی ہے ، مثلاً کرتہ ہے ، پاجامہ ہے ، تہمد ہے ، پگڑی ہے یا سر پر لپیٹنے کا رومال ہے ۔ پھر امام صاحب کے شاگردوں میں سے بعض تو کہتے ہیں ٹوپی بھی کافی ہے ۔ بعض کہتے ہیں یہ ناکافی ہے ، کافی کہنے والے یہ دلیل دیتے ہیں کہ عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے جب اس کے بارے میں سوال ہوتا ہے تو آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” اگر کوئی وفد کسی امیر کے پاس آئے اور وہ انہیں ٹوپیاں دے تو عرب تو یہی کہیں گے کہ «قَدْ کُسُوْا» انہیں کپڑے پہنائے گئے “ ۔ لیکن اس کی اسناد بھی ضعیف ہیں کیونکہ محمد بن زبیر ضعیف ہیں «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:1193/4:موقوف و ضعیف) موزے پہنانے کے بارے میں بھی اختلاف ہے ، صحیح یہ ہے کہ جائز نہیں ۔ امام مالک اور امام احمد رحمہ اللہ علیہم فرماتے ہیں کہ ” کم سے کم اتنا اور ایسا کپڑا ہو کہ اس میں نماز جائز ہو جائے مرد کو دیا ہے تو اس کی اور عورت کو دیا ہے تو اس کی “ ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” عبا ہو یا شملہ ہو “ ۔ مجاہد رحمۃ اللہ فرماتے ہیں ” ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ ایک کپڑا ہو اور اس سے زیادہ جو ہو “ ۔ غرض کفارہ قسم میں ہر چیز سوائے جانگئے کے جائز ہے ۔ بہت سے مفسرین فرماتے ہیں ایک ایک کپڑا ایک ایک مسکین کو دیدے ۔ ابراہیم نخعی کا قول ہے ” ایسا کپڑا جو پورا کار آمد ہو مثلاً لحاف چادر وغیرہ نہ کہ کرتہ دوپٹہ وغیرہ “ ۔ ابن سیرین اور حسن رحمۃ اللہ علیہم دو دو کپڑے کہتے ہیں ، سعید بن مسیب کہتے ہیں ” عمامہ جسے سر پر باندھے اور عبا جسے بدن پر پہنے “ ۔ ابوموسیٰ قسم کھاتے ہیں پھر اسے توڑتے ہیں تو دو کپڑے بحرین کے دے دیتے ہیں ۔ ابن مردویہ کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ { ہر مسکین کیلئے ایک عبا } ۔ ۱؎ (میزان:8741:ضعیف) یہ حدیث غریب ہے ، یا ایک غلام کا آزاد کرنا ، امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تو فرماتے ہیں کہ یہ مطلق ہے کافر ہو یا مسلمان ۔ امام شافعی رحمہ اللہ اور دوسرے بزرگان دین فرماتے ہیں ” اس کا مومن ہونا ضروری ہے کیونکہ قتل کے کفارے میں غلام کی آزادی کا حکم ہے اور وہ مقید ہے کہ وہ مسلمان ہونا چاہے “ ، دونوں کفاروں کا سبب چاہے جداگانہ ہے لیکن وجہ ایک ہی ہے اور اس کی دلیل وہ حدیث بھی ہے جو مسلم وغیرہ میں ہے کہ { معاویہ بن حکم اسلمی رضی اللہ عنہ کے ذمے ایک گردن آزاد کرنا تھی وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنے ساتھ ایک لونڈی لیے ہوئے آئے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سیاہ فام لونڈی سے دریافت فرمایا کہ { اللہ کہاں ہے ؟ } اس نے کہا آسمان میں پوچھا { ہم کون ہیں ؟ } جواب دیا کہ آپ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اسے آزاد کرو یہ ایماندار عورت ہے } } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:537) پس ان تینوں کاموں میں سے جو بھی کر لے وہ قسم کا کفارہ ہو جائے گا اور کافی ہو گا اس پر سب کا اجماع ہے ۔ قرآن کریم نے ان چیزوں کا بیان سب سے زیادہ آسان چیز سے شروع کیا ہے اور بتدریج اوپر کو پہنچایا ہے ۔ پس سب سے سہل کھانا کھلانا ہے ۔ پھر اس سے قدرے بھاری کپڑا پہنانا ہے اور اس سے بھی زیادہ بھاری غلام کو آزاد کرنا ہے ۔ پس اس میں ادنٰی سے اعلٰی بہتر ہے ۔ اب اگر کسی شخص کو ان تینون میں سے ایک کی بھی قدرت نہ ہو تو وہ تین دن کے روزے رکھ لے ۔ سعید بن جبیر اور حسن بصری رحمہ اللہ علیہم سے مروی ہے کہ ” جس کے پاس تین درہم ہوں وہ تو کھانا کھلا دے ورنہ روزے رکھ لے “ ، اور بعض متاخرین سے منقول ہے کہ ” یہ اس کے لیے ہے جس کے پاس ضروریات سے فاضل چیز نہ ہو معاش وغیرہ پونجی کے بعد جو فالتو ہو اس سے کفارہ ادا کرے “ ۔ امام ابن جریررحمہ اللہ فرماتے ہیں ” جس کے پاس اس دن کے اپنے اور اپنے بال بچوں کے کھانے سے کچھ بچے اس میں سے کفارہ ادا کرے “ ۔ قسم کے توڑنے کے کفارے کے روزے پے در پے رکھنے واجب ہیں یا مستحب ہیں اس میں دو قول ہیں ایک یہ کہ واجب نہیں ، امام شافعی رحمۃ اللہ نے باب الایمان میں اسے صاف لفظوں میں کہا ہے ۔ امام مالک رحمۃ اللہ کا قول بھی یہی ہے کیونکہ قرآن کریم میں روزوں کا حکم مطلق ہے تو خواہ پے در پے ہوں خواہ الگ الگ ہوں تو سب پر یہ صادق آتا ہے جیسے کہ رمضان کے روزوں کی قضاء کے بارے میں آیت «فَعِدَّۃٌ مِّنْ أَیَّامٍ أُخَرَ» ۱؎ (2-البقرۃ:184) فرمایا گیا ہے وہاں بھی پے در پے کی یا علیحدہ علیحدہ کی قید نہیں اور امام شافعی رحمہ اللہ نے کتاب الام میں ایک جگہ صراحت سے کہا ہے کہ قسم کے کفارے کے روزے پے در پے رکھنے چاہیئں یہی قول حنیفہ اور حنابلہ کا ہے ۔ اس لیے کہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ وغیرہ سے مروی ہے کہ ان کی قرأت آیت «فَصِیَامُ ثَلَاثَۃِ أَیَّامٍ مٰتَتَابِعَاتٍ» ہے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی یہی قرأت مروی ہے ، اس صورت میں اگرچہ اس کا متواتر قرأت ہونا ثابت نہ ہو ۔ تاہم خبر واحد یا تفسیر صحابہ رضی اللہ عنہم سے کم درجے کی تو یہ قرأت نہیں پس حکماً یہ بھی مرفوع ہے ۔ ابن مردویہ کی ایک بہت ہی غریب حدیث میں ہے کہ { سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اختیار ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ہاں ، تو اختیار پر ہے خواہ گردن آزاد کر خواہ کپڑا پہنا دے خواہ کھانا کھلا دے اور جو نہ پائے وہ پے در پے تین روزے رکھ لے } } ۔ ۱؎ (الدر المنشور للسیوطی:555/2:ضعیف) پھر فرماتا ہے کہ ’ تم جب قسم کھا کر توڑ دو تو یہ کفارہ ہے لیکن تمہیں اپنی قسموں کی حفاظت کرنی چاہیئے انہیں بغیر کفارے کے نہ چھوڑنا چاہیئے اسی طرح اللہ تعالیٰ تمہارے سامنے اپنی آیتیں واضح طور پر بیان فرما رہا ہے تاکہ تم شکر گزاری کرو ‘ ۔ المآئدہ
90 پانسہ بازی ، جوا اور شراب ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ بعض چیزوں سے روکتا ہے ۔ شراب کی ممانعت فرمائی ، پھر جوئے کی روک کی ۔ امیر المونین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ” شطرنج بھی جوئے میں داخل ہے “ ۔ (ابن ابی حاتم) عطاء ، مجاہد اور طاؤس رحمہ اللہ علیہم سے یا ان میں سے دو سے مروی ہے کہ ” جوئے کی ہر چیز میسر میں داخل ہے گو بچوں کے کھیل کے طور پر ہو “ ۔ جاہلیت کے زمانے میں جوئے کا بھی عام رواج تھا جسے اسلام نے غارت کیا ۔ ان کا ایک جوا یہ بھی تھا کہ گوشت کو بکری کے بدلے بیچتے تھے ، پانسے پھینک کر مال یا پھل لینا بھی جوا ہے ۔ قاسم بن محمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” جو چیز ذکر اللہ اور نماز سے غافل کر دے وہ جوا ہے “ ۔ ابن ابی حاتم کی ایک مرفوع غریب حدیث میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ان پانسوں سے بچو جن سے لوگ کھیلا کرتے تھے ، یہ بھی جوا ہے } } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:1196/4:ضعیف) صحیح مسلم شریف میں ہے { پانسوں سے کھیلنے والا گویا اپنے ہاتھوں کو سور کے خون اور گوشت میں آلودہ کرنے والا ہے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2260) سنن میں ہے کہ { وہ اللہ اور رسول کا نافرمان ہے } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4938،قال الشیخ الألبانی:حسن) سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کا قول بھی اسی طرح مروی ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ، مسند میں ہے { پانسوں سے کھیل کر نماز پڑھنے والے کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص قے اور گندگی سے اور سور کے خون سے وضو کر کے نماز ادا کرے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:370/5:ضعیف) سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” میرے نزدیک شطرنج اس سے بھی بری ہے “ ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے شطرنج کا جوئے میں سے ہونا پہلے بیان ہو چکا ہے ۔ امام مالک رحمہ اللہ ، امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ، امام احمد رحمہ اللہ تو کھلم کھلا اسے حرام بتاتے ہیں اور امام شافعی رحمہ اللہ بھی اسے مکروہ بتاتے ہیں ۔ «أَنصَابُ» ان پتھروں کو کہتے ہیں جن پر مشرکین اپنے جانور چڑھایا کرتے تھے اور انہیں وہیں ذبح کرتے تھے ۔ «اَزْلاَمُ» ان تیروں کو کہتے ہیں جن میں وہ فال لیا کرتے تھے ۔ ان سب چیزوں کی نسبت فرمایا کہ ’ یہ اللہ کی ناراضگی کے اور شیطانی کام ہیں ۔ یہ گناہ کے اور برائی کے کام ہیں تم ان شیطانی کاموں سے بچو انہیں چھوڑ دو تاکہ تم نجات پاؤ ‘ ۔ اس فقرے میں مسلمانوں کو ان کاموں سے روکنے کی ترغیب ہے ۔ پھر رغبت آمیز دھمکی کے ساتھ مسلمانوں کو ان چیزوں سے روکا گیا ہے ۔ المآئدہ
91 المآئدہ
92 حرمت شراب کی مزید وضاحت اب ہم یہاں پر حرمت شراب کی مزید احادیث وارد کرتے ہیں ۔ مسند احمد میں ہے { سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں شراب تین مرتبہ حرام ہوئی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینے شریف میں آئے تو لوگ جواری شرابی تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں سوال ہوا اور آیت «یَسْــَٔـلُوْنَکَ عَنِ الْخَــمْرِ وَالْمَیْسِرِ قُلْ فِیْہِمَآ اِثْمٌ کَبِیْرٌ وَّمَنَافِعُ للنَّاسِ ۡ وَاِثْـمُہُمَآ اَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِہِمَا» ۱؎ (2-البقرۃ:219) نازل ہوئی ۔ اس پر لوگوں نے کہا یہ دونوں چیزیں ہم پر حرام نہیں کی گئیں بلکہ یہ فرمایا گیا ہے کہ ’ ان میں بہت بڑا گناہ ہے اور لوگوں کیلئے کچھ فوائد بھی ہیں ‘ ۔ چنانچہ شراب پیتے رہے ۔ ایک دن ایک صحابی رضی اللہ عنہ اپنے ساتھیوں کو مغرب کی نماز پڑھانے کیلئے کھڑے ہوئے تو قرأت خط ملط ہو گئی اس پر آیت «‏‏‏‏یٰٓاَیٰھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَاَنْتُمْ سُکٰرٰی حَتّٰی تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ وَلَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِیْ سَبِیْلٍ حَتّٰی تَغْتَسِلُوْا» ۱؎ (4-النسآء:43) نازل ہوئی ۔ یہ بہ نسبت پہلی آیت کے زیادہ سخت تھی اب لوگوں نے نمازوں کے وقت شراب چھوڑ دی لیکن عادت برابر جاری رہی ۔ اس پر اس سے بھی زیادہ سخت اور صریح آیت «یٰٓاَیٰھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ» ۱؎ (5-المائدہ:90) نازل ہوئی اسے سن کر سارے صحابہ رضی اللہ عنہم بول اٹھے «اِنْتَہَیْنَا رَبَّنَا» ” اے اللہ ہم اب باز رہے ، ہم رک گئے “ ۔ پھر لوگوں نے ان لوگوں کے بارے میں دریافت فرمایا جو شراب اور جوئے کی حرمت کے نازل ہونے سے پیشتر اللہ کی راہ میں شہید کئے گئے تھے اس کے جواب میں اس کے بعد کی آیت «لَیْسَ عَلَی الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِیمَا طَعِمُوا إِذَا مَا اتَّقَوا وَّآمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ثُمَّ اتَّقَوا وَّآمَنُوا ثُمَّ اتَّقَوا وَّأَحْسَنُوا وَ اللہُ یُحِبٰ الْمُحْسِنِینَ» ۱؎ (5-المائدہ:93) ، نازل ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اگر ان کی زندگی میں یہ حکم اترا ہوتا تو وہ بھی تمہاری طرح اسے مان لیتے } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:351/2:ضعیف) مسند احمد میں ہے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے تحریم شراب کے نازل ہونے پر فرمایا یا اللہ ہمارے سامنے اور کھول کر بیان فرما پس سورۃ البقرہ کی آیت «فِیہِمَا إِثْمٌ کَبِیرٌ» ‏‏‏‏ (2-البقرہ:219) نازل ہوئی ۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو بلوایا گیا اور ان کے سامنے اس کی تلاوت کی گئی پھر بھی آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” اے اللہ تو ہمیں اور واضح لفظوں میں فرما! “ ۔ پس سورۃ نساء کی آیت «لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاۃَ وَأَنتُمْ سُکَارَیٰ» ۱؎ (4-النساء:43) نازل ہوئی اور مؤذن جب «حی علی الصلوۃ» کہتا تو ساتھ ہی کہہ دیتا کہ نشہ باز ہرگز ہرگز نماز کے قریب بھی نہ آئیں ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بلوایا گیا اور یہ آیت بھی انہیں سنائی گئی لیکن پھر بھی آپ رضی اللہ عنہ نے یہی فرمایا کہ ” اے اللہ اس بارے میں صفائی سے بیان فرما “ ۔ پس سورۃ المائدہ کی آیت اتری آپ رضی اللہ عنہ کو بلوایا گیا اور یہ آیت «إِنَّمَا یُرِیدُ الشَّیْطَانُ أَن یُوقِعَ بَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَاءَ فِی الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ وَیَصُدَّکُمْ عَن ذِکْرِ اللہِ وَعَنِ الصَّلَاۃِ فَہَلْ أَنتُم مٰنتَہُونَ» (5-المائدہ:91) سنائی گئی جب «فَہَلْ أَنتُم مٰنتَہُونَ» تک سنا تو فرمانے لگے «‏‏‏‏ اِنْتَہَیْنَا اِنْتَہَیْنَا» ہم رک گئے ہم رک گئے ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:3670 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) بخاری و مسلم میں ہے کہ ” سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے منبرنبوی پر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ ” شراب کی حرمت جب نازل ہوئی اس وقت شراب پانچ چیزوں کی بنائی جاتی تھی ، انگور ، شہد ، کھجور ، گہیوں اور جو ۔ ہر وہ چیز جو عقل پر غالب آ جائے خمر ہے ۔ یعنی شراب کے حکم میں ہے اور حرام ہے “ ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4619) صحیح بخاری میں ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ” شراب کی حرمت کی آیت کے نزول کے موقع پر مدینے شریف میں پانچ قسم کی شرابیں تھیں ان میں انگور کی شراب نہ تھی “ ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4616) ابوداؤد طیالسی میں ہے { سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” شراب کے بارے میں تین آیتیں اتریں ۔ اول تو آیت «یَسْأَلُونَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ قُلْ فِیہِمَا إِثْمٌ کَبِیرٌ» ۱؎ (2-البقرۃ:219) والی آیت اتری تو کہا گیا کہ شراب حرام ہوگئی ۔ اس پر بعض صحابہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اس سے نفع اٹھانے دیجئیے جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوگئے ۔ پھر آیت «لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاۃَ وَأَنتُمْ سُکَارَیٰ» ۱؎ (4-النساء:43) والی آیت اتری اور کہا گیا کہ شراب حرام ہوگئی ۔ لیکن صحابہ رضی اللہ عنہم نے فرمایا رسول اللہ ہم بوقت نماز نہ پئیں گے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر چپ رہے پھر یہ دونوں آیتیں اتری اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمادیا کہ { اب شراب حرام ہوگئی } } ۔ ۱؎ (بیہقی فی شعب الایمان:5570:ضعیف) مسلم وغیرہ میں ہے کہ { حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک دوست تھا قبیلہ ثقیف میں سے یا قبیلہ دوس میں سے ۔ فتح مکہ والے دن وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا اور ایک مشک شراب کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تحفتاً دینے لگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اسے حرام کر دیا ہے } ۔ اب اس شخص نے اپنے غلام سے کہا کہ جا اسے بیچ ڈال ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { کیا کہا ؟ } اس نے جواب دیا کہ بیچنے کو کہہ رہا ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { جس اللہ نے اس کا پینا حرام کیا ہے اسی نے اس کا بیچنا بھی حرام کیا ہے } ۔ اس نے اسی وقت کہا جاؤ اسے لے جاؤ اور بطحاء کے میدان میں بہا آؤ } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1579) ابو یعلیٰ موصلی میں ہے کہ { سیدنا تمیم دارمی رضی اللہ عنہ ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تحفہ دینے کیلئے ایک مشک شراب کی لائے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے دیکھ کر ہنس دیئے اور فرمایا : { یہ تو تمہارے جانے کے بعد حرام ہو گئی ہے } ۔ کہا خیر یا رسول اللہ میں اسے واپس لے جاتا ہوں اور بیچ کر قیمت وصول کر لوں گا ، یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { یہودیوں پر اللہ کی لنعٹ ہوئی کہ ان پر جب گائے بکری کی چربی حرام ہوئی تو انہوں نے اسے پگھلا کر بیچنا شروع کیا ، اللہ تعالیٰ نے شراب کو اور اس کی قیمت کو حرام کر دیا ہے } } ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:1275:ضعیف) مسند احمد میں بھی یہ روایت ہے ، اس میں ہے کہ { ہر سال دارمی ایک مشک ہدیہ کرتے تھے ، اس کے آخر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا دو مرتبہ یہ فرمانا ہے کہ { شراب بھی حرام اور اس کی قیمت بھی حرام } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:227/4:صحیح) ایک حدیث مسند احمد میں اور ہے اس میں ہے کہ { کیسان رضی اللہ عنہ شراب کے تاجر تھے جس سال شراب حرام ہوئی اس سال یہ شام کے ملک سے بہت سی شراب تجارت کیلئے لائے تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اب تو حرام ہوگئی } ۔ پوچھا پھر میں اسے بیچ ڈالوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { یہ بھی حرام ہے اور اس کی قیمت بھی حرام ہے } ۔ چنانچہ کیسان رضی اللہ عنہ نے وہ ساری شراب بہا دی } ۔ ۱؎ (مسند احمد:335/4:ضعیف) مسند احمد میں ہے { سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ، میں ابوعبیدہ بن جراح ابی بن کعب ، سہل بن بیضاء اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت کو شراب پلا رہا تھا دور چل رہا تھا سب لذت اندوز ہو رہے تھے قریب تھا کہ نشے کا پارہ بڑھ جائے ، اتنے میں کسی صحابی رضی اللہ عنہ نے آکر خبر دی کہ کیا تمہیں علم نہیں شراب تو حرام ہو گئی ؟ انہیں نے کہا بس کرو جو باقی بچی ہے اسے لنڈھا دو اللہ کی قسم اس کے بعد ایک قطرہ بھی ان میں سے کسی کے حلق میں نہیں گیا ۔ یہ شراب کھجور کی تھی اور عموماً اسی کی شراب بنا کرتی تھی } ۔ یہ روایت بخاری مسلم میں بھی ہے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5582) اور روایت میں ہے کہ شراب خوری کی یہ مجلس سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے مکان پر تھی ، ناگاہ منادی کی آواز پڑی مجھ سے کہا گیا باہر جاؤ دیکھو کیا منادی ہو رہی ہے ؟ میں نے جا کر سنا منادی ندا دے رہا ہے کہ شراب تم پر حرام کی گئی ہے ، میں نے آکر خبر دی تو ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اٹھو جتنی شراب ہے سب بہادو میں نے بہادی اور میں نے دیکھا کہ مدینے کے گلی کوچوں میں شراب بہہ رہی ہے ۔ بعض اصحاب رضی اللہ عنہم نے کہا ” ان کا کیا حال ہوگا جن کے پیٹ میں شراب تھی اور وہ قتل کر دیئے گئے ؟ “ اس پر اس کے بعد کی آیت «لَیْسَ عَلَی الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِیمَا طَعِمُوا إِذَا مَا اتَّقَوا وَّآمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ثُمَّ اتَّقَوا وَّآمَنُوا ثُمَّ اتَّقَوا وَّأَحْسَنُوا وَ اللہُ یُحِبٰ الْمُحْسِنِینَ» ‏‏‏‏ (5-المائدہ:93) ، نازل ہوئی یعنی ان پر کوئی حرج نہیں } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2464) ابن جریر کی روایت میں اس مجلس والوں کے ناموں میں ابودجانہ اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہم کا نام بھی ہے اور یہ بھی ہے کہ ندا سنتے ہی ہم نے شراب بہا دی ، مٹکے اور پیپے توڑ ڈالے ۔ کسی نے وضو کر لیا ، کسی نے غسل کر لیا اور ام سلیم رضی اللہ عنہا کے ہاں سے خوشبو منگوا کر لگائی اور مسجد پہنچے تو دیکھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ آیت پڑھ رہے تھے ، ایک شخص نے سوال کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس سے پہلے جو لوگ فوت ہو گئے ہیں ان کا کیا حکم ہے ؟ پس اس کے بعد آیت اتری ۔ کسی نے قتادہ رحمۃ اللہ سے پوچھا کہ آپ نے یہ حدیث خود سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے سنی ہے ؟ فرمایا ” ہاں ہم جھوٹ نہیں بولتے بلکہ ہم تو جانتے بھی نہیں کہ جھوٹ کسے کہتے ہیں ؟ “ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:12531:صحیح بالشواہد) مسند احمد میں ہے { حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تبارک و تعالیٰ نے شراب اور پانسے اور بربط کا باجا حرام کر دیا ہے ، شراب سے بچو «غُبَیْرَا» نام کی شراب عام ہے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:422/3:ضعیف) مسند احمد میں ہے { عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { جو شخص مجھ سے وہ بات منسوب کرے جو میں نے نہ کہی ہو وہ اپنی جگہ جہنم میں بنالے } ۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ شراب جوا پانسے اور غبیرا سب حرام ہیں اور ہر نشے والی چیز حرام ہے } ۱؎ (مسند احمد:171/2:صحیح) مسند احمد میں ہے { شراب کے بارے میں دس لعنتیں ہیں خود شراب پر ، اس کے پینے والے پر ، اس کے پلانے والے پر ، اس کے بیچنے والے پر ، اس کے خریدنے والے پر اس کے نچوڑنے والے پر ، اس کے بنانے والے پر ، اس کے اٹھانے والے پر اور اس پر بھی جس کے پاس یہ اٹھا کر لے جایا جائے اور اس کی قیمت کھانے والے پر } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:3674،قال الشیخ الألبانی:صحیح) مسند میں ہے { سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باڑے کی طرف نکلے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں جانب چل رہا تھا جو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آئے میں ہٹ گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے داہنے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ چلنے لگے تھوڑی دیر میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ آگئے میں ہٹ گیا آپ رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں طرف ہوگئے ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم باڑے میں پہنچے تو دیکھا کہ وہاں پر چند مشکیں شراب کی رکھی ہوئی ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا اور فرمایا : { چھری لاؤ } ۔ جب میں لایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ یہ مشکیں کاٹ دی جائیں ، پھر فرمایا : { شراب پر ، اس کے پینے والے پر ، پلانے والے پر ، بیچنے والے پر ، خریدار پر ، اٹھانے والے پر ، اٹھوانے والے پر ، بنانے والے پر ، بنوانے والے پر ، قیمت لینے والے پر سب پر لعنت ہے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:71/2:صحیح) مسند احمد کی اور روایت میں ہے کہ { حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ مشکیں کٹوا دیں پھر مجھے اور میرے ساتھیوں کو چھری دے کر فرمایا جاؤ جتنی مشکیں شراب کی جہاں پاؤ سب کاٹ کر بہا دو ، پس ہم گئے اور سارے بازار میں ایک مشک بھی نہ چھوڑی } ۔ ۱؎ (مسند احمد:132/2:صحیح) بیہقی کی حدیث میں ہے کہ { ایک شخص شراب بیچتے تھے اور بہت خیرات کیا کرتے تھے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے شراب فروشی کا مسئلہ پوچھا گیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” یہ حرام ہے اور اس کی قیمت بھی حرام ہے ، اے امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اگر تمہاری کتاب کے بعد کوئی کتاب اترنے والی ہوتی اور اگر تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی اور آنے والا ہوتا ، جس طرح اگلوں کی رسوائیاں اور ان کی برائیاں تمہاری کتاب میں اتریں تمہاری خرابیاں ان پر نازل ہوتیں لیکن تمہارے افعال کا اظہار قیامت کے دن پر مؤخر رکھا گیا ہے اور یہ بہت بھاری اور بڑا ہے “ ۔ پھر سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے یہ سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا ” سنو میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسجد میں تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گوٹھ لگائے ہوئے بیٹھے تھے فرمانے لگے { جس کے پاس جتنی شراب ہو وہ ہمارے پاس لائے } ۔ لوگوں نے لانی شروع کی ، جس کے پاس جتنی تھی حاضر کی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { جاؤ اسے بقیع کے میدان میں فلاں فلاں جگہ رکھو ۔ جب سب جمع ہوجائے مجھے خبر کرو } ۔ جب جمع ہوگئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے داہنے جانب تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ پر ٹیک لگائے چل رہے تھے ۔ { سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جب آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ہٹا دیا اپنے بائیں کردیا اور میری جگہ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے لے لی ، پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ملاقت ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اور پیچھے ہٹا دیا اور جناب فاروق رضی اللہ عنہ کو اپنے بائیں لے لیا اور وہاں پہنچے لوگوں سے فرمایا : { جانتے ہو یہ کیا ہے ؟ } سب نے کہا ہاں جانتے ہیں یہ شراب ہے ۔ فرمایا : { سنو اس پر اس کے بنانے والے پر ، بنوانے والے پر ، پینے والے پر ، پلانے والے پر ، اٹھانے والے پر ، اٹھوانے والے پر ، بیچنے والے پر ، خریدنے والے پر ، قیمت لینے والے پر اللہ کی پھٹکار ہے } ۔ پھر چھری منگوائی اور فرمایا : { اسے تیز کرلو } ۔ پھر اپنے ہاتھ سے مشکیں پھاڑنی اور مٹکے توڑنے شروع کئے لوگوں نے کہا بھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مشکوں اور مٹکوں کو رہنے دیجئیے اور کام آئیں گی ۔ فرمایا : { ٹھیک ہے لیکن میں تو اب ان سب کو توڑ کر ہی رہوں گا یہ غضب و غصہ اللہ کیلئے ہے کیونکہ ان تمام چیزوں سے رب ناراض ہے } ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود کیوں تکلیف کرتے ہیں ہم حاضر ہیں ۔ فرمایا : { نہیں میں اپنے ہاتھ سے انہیں نیست و نابود کروں گا} ۔ ۱؎ (بیھقی:287/8:صحیح) بیہقی کی حدیث میں ہے کہ ” شراب کے بارے میں چار آیتیں اتری ہیں ۔ پھر حدیث بیان فرما کر کہا کہ ایک انصاری نے دعوت کی ہم دعوت میں جمع ہوئے خوب شرابیں پیں ۔ نشے میں جھومتے ہوئے اپنے نام و نسب پر فخر کرنے لگے ، ہم افضل ہیں ۔ قریشی نے کہا ہم افضل ہیں ۔ ایک انصاری نے اونٹ کے جبڑا لے کرسیدنا سعد رضی اللہ عنہ کو مارا اور ہاتھا پائی ہونے لگی پھر شراب کی حرمت کی آیت اتری “ ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1748) بیہقی میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یہ شراب پی کر بدمست ہو گئے اور آپس میں لاف زنی ہونے لگی جب نشے اترے تو دیکھتے ہیں اس کی ناک پر زخم ہے اس کے چہرے پر زخم ہے اس کی داڑھی نچی ہوئی ہے اور اسے چوٹ لگی ہوئی ہے ، کہنے لگے مجھے فلاں نے مارا میری بے حرمتی فلاں نے کی اگر اس کا دل میری طرف سے صاف ہوتا تو میرے ساتھ یہ حرکت نہ کرتا دلوں میں نفرت اور دشمنی بڑھنے لگی پس یہ آیت اتری ۔ اس پر بعض لوگوں نے کہا جب یہ گندگی ہے تو فلاں فلاں صحابہ رضی اللہ عنہم تو اسے پیتے ہوئے ہی رحلت کر گئے ہیں ان کا کیا حال ہو گا ؟ ان میں سے بعض احد کے میدان میں شہید ہوئے ہیں اس کے جواب میں اگلی آیت «لَیْسَ عَلَی الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ» ۱؎ (5-المائدۃ:93) الخ اتری ۔ ۱؎ (بیہقی السنن الکبری:285/8:حسن) ابن جریر میں ہے ” ابوبریدہ رضی اللہ عنہ کے والد کہتے ہیں کہ ہم چار شخص ریت کے ایک ٹیلے پر بیٹھے شراب پی رہے تھے دور چل رہا تھا جام گردش میں تھا ناگہاں میں کھڑا ہوا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ سلام کیا وہیں حرمت شراب کی یہ آیت نازل ہوئی ۔ میں پچھلے پیروں اپنی اسی مجلس میں آیا اور اپنے ساتھیوں کو یہ آیت پڑھ کر سنائی ، بعض وہ بھی تھے ، جن کے منہ سے جام لگا ہوا تھا لیکن واللہ انہوں نے اسی وقت اسے الگ کر دیا اور جتنا پیا تھا اسے قے کر کے نکال دیا اور کہنے لگے یا اللہ ہم رک گئے ہم باز آ گئے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:12527:ضعیف) صحیح بخاری شریف میں ہے کہ ” جنگ احد کی صبح بعض لوگوں نے شرابیں پی تھیں اور میدان میں اسی روز اللہ کی راہ میں شہید کر دیئے گئے اس وقت تک شراب حرام نہیں ہوئی تھی “ ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4618) بزار میں یہ ذیادتی بھی ہے کہ اسی پر بعض یہودیوں نے اعتراض کیا اور جواب میں آیت «لَیْسَ عَلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ فِیْمَا طَعِمُوْٓا اِذَا مَا اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاَحْسَنُوْا وَاللّٰہُ یُحِبٰ الْمُحْسِنِیْنَ» ۱؎ (5-المائدہ:93) نازل ہوئی ۔ ابو یعلیٰ موصلی میں ہے کہ { ایک شخص خیبر سے شراب لا کر مدینے میں فروخت کیا کرتا تھا ایک دن وہ لا رہا تھا ایک صحابی رضی اللہ عنہ راستے میں ہی اسے مل گئے اور فرمایا شراب تو اب حرام ہو گئی وہ واپس مڑگیا اور ایک ٹیلے تلے اسے کپڑے سے ڈھانپ کر آگیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگا کیا یہ سچ ہے کہ شراب حرام ہو گئی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ہاں سچ ہے } ۔ کہا پھر مجھے اجازت دیجئیے کہ جس سے لی ہے اسے واپس کر دوں ۔ فرمایا : { اس کا لوٹانا بھی جائز نہیں } ، کہا پھر اجازت دیجئیے کہ میں اسے ایسے شخص کو تحفہ دوں جو اس کا معاوضہ مجھے دے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { یہ بھی ٹھیک نہیں } ۔ کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس میں یتیموں کا مال بھی لگا ہوا ہے ۔ فرمایا : { دیکھو جب ہمارے پاس بحرین کا مال آئے گا اس سے ہم تمہارے یتیموں کی مدد کریں گے } ۔ پھر مدینہ میں منا دی ہوگئی ۔ ایک شخص نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم شراب کے برتنوں سے نفع حاصل کرنے کی اجازت دیجئیے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { جاؤ مشکوں کو کھول ڈالو اور شراب بہا دو اس قدر شراب بہی کہ میدان بھر گئے } } ۔ یہ حدیث غریب ہے ۔ ۱؎ (مسند ابویعلیٰ:1884:ضعیف) مسند احمد میں ہے کہ { ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ میرے ہاں جو یتیم بچے پل رہے ہیں ان کے ورثے میں انہیں شراب ملی ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { جاؤ اس بہا دو } ۔ عرض کیا اگر اجازت ہو تو اس کا سرکہ بنا لوں ؟ فرمایا : { نہیں } } ۔ یہ حدیث مسلم ابوداؤد اور ترمذی میں بھی ہے ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1983) ابن ابی حاتم میں صحیح سند سے مروی ہے کہ ” عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” جیسے یہ آیت قرآن میں ہے تورات میں بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حق کو نازل فرمایا تاکہ اس کی وجہ سے باطل کو دور کر دے اور اس سے کھیل تماشے باجے گاجے بربط دف طنبورہ راگ راگنیاں فنا کر دے ۔ شرابی کیلئے شراب نقصان دہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی عزت کی قسم کھائی ہے کہ ’ جو اسے حرمت کے بعد پئے گا اسے میں قیامت کے دن پیاسا رکھوں گا اور حرمت کے بعد جوا سے چھوڑے گا میں اسے جنت کے پاکیزہ چشمے سے پلاؤں گا ‘ “ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:1196/4:موقوف) حدیث شریف میں ہے { جس شخص نے نشہ کی وجہ سے ایک وقت کی نماز چھوڑی وہ ایسا ہے جیسے کہ سے روئے زمین کی سلطنت جھن گئی اور جس شخص نے چار بار کی نماز نشے میں چھوڑ دی اللہ تعالیٰ اسے «طِینَۃِ الْخَبَالِ» پلائے گا ۔ پوچھا گیا کہ یہ «طِینَۃِ الْخَبَالِ» کیا ہے ؟ فرمایا : { جہنمیوں کا لہو پیپ پسینہ پیشاب وغیرہ } ۔ ۱؎ (مسند احمد:178/2:حسن) ابو داؤد میں ہے کہ { { ہر عقل کو ڈھانپنے والی چیز خمر ہے اور ہر نشہ والی چیز حرام ہے اور جو شخص نشے والی چیز پئے گا اس کی چالیس دن کی نمازیں ناقبول ہیں ۔ اگر وہ توبہ کرے گا تو توبہ قبول ہو گی اگر اس نے چوتھی مرتبہ شراب پی تو اللہ تعالیٰ اسے ضرور «طِینَۃِ الْخَبَالِ» پلائے گا } پوچھا گیا وہ کیا ہے ؟ فرمایا { جہنمیوں کا نچوڑ اور ان کی پیپ اور جو شخص اسے کسی بچہ کو پلائے گا جو حلال حرام کی تمیز نہ رکھتا ہو اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ اسے بھی جہنمیوں کا پیپ پلائے } } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:3680،قال الشیخ الألبانی:صحیح) بخاری مسلم وغیرہ میں ہے { دنیا میں جو شراب پیئے گا اور توبہ نہ کرے گا وہ جنت کی شراب سے محروم رہے گا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5575) صحیح مسلم شریف میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہر نشے والی چیز خمر ہے اور ہر نشے والی چیز حرام ہے اور جس شخص نے شراب کی عادت ڈالی اور بے توبہ مر گیا وہ جنت کی شراب سے محروم رہے گا } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2003) نسائی وغیرہ میں ہے { تین شخصوں کی طرف اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نظر رحمت سے نہ دیکھے گا ، ماں باپ کا نافرمان ، شراب کی عادت والا اور اللہ کی راہ میں دے کر احسان جتلانے والا } ۔ ۱؎ (سنن نسائی:2563،قال الشیخ الألبانی:صحیح) مسند احمد میں ہے کہ { دے کر احسان جتانے والا ، ماں باپ کا نافرمان اور شرابی جنت میں نہیں جائے گا } ۔ ۱؎ (مسند احمد:27/3:صحیح) مسند احمد میں اس کے ساتھ ہی ہے کہ { زنا کی اولاد بھی } ۔ ۱؎ (مسند احمد:203/2:صحیح) سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” شراب سے پرہیز کرو وہ تمام برائیوں کی جڑ ہے ۔ سنو اگلے لوگوں میں ایک ولی اللہ تھا جو بڑا عبادت گزر تھا اور تارک دنیا تھا ۔ بستی سے الگ تھلگ ایک عبادت خانے میں شب و روز عبادت الٰہی میں مشغول رہا کرتا تھا ، ایک بدکار عورت اس کے پیچھے لگ گئی ، اس نے اپنی لونڈی کو بھیج کر اسے اپنے ہاں ایک شہادت کے بہانے بلوایا ، یہ چلے گئے لونڈی اپنے گھر میں انہیں لے گئی جس دروازے کے اندر یہ پہنچ جاتے پیچھے سے لونڈی اسے بند کرتی جاتی ۔ آخری کمرے میں جب گئے تو دیکھا کہ ایک بہت ہی خوبصورت عورت بیٹھی ہے ، اس کے پاس ایک بچہ ہے اور ایک جام شراب لبالب بھرا رکھا ہے ۔ اس عورت نے اس سے کہا سنئے جناب میں نے آپ کو درحقیقت کسی گواہی کیلئے نہیں بلوایا فی الواقع اس لیے بلوایا ہے کہ یا تو آپ میرے ساتھ بدکاری کریں یا اس بچے کو قتل کر دیں یا شراب کو پی لیں درویش نے سوچ کر تینوں کاموں میں ہلکا کام شراب کا پینا جان کر جام کو منہ سے لگا لیا ، سارا پی گیا ۔ کہنے لگا اور لاؤ اور لاؤ ، خوب پیا ، جب نشے میں مدہوش ہو گیا تو اس عورت کے ساتھ زنا بھی کر بیٹھا اور اس لڑکے کو بھی قتل کر دیا ۔ پس اے لوگو! تم شراب سے بچو سمجھ لو کہ شراب اور ایمان جمع نہیں ہوتے ایک کا آنا دوسرے کا جانا ہے “ ۔ (بیہقی) امام ابوبکر بن ابی الدنیا رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ذم المسکر میں بھی اسے وارد کیا ہے اور اس میں مرفوع ہے لیکن زیادہ صحیح اس کا موقوف ہونا ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» اس کی شاہد بخاری و مسلم کی مرفوع حدیث بھی ہے جس میں ہے کہ { زانی زنا کے وقت ، چور چوری کے وقت ، شرابی شراب خوری کے وقت مومن نہیں رہتا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5578) مسند احمد میں ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” جب شراب حرام ہوئی تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے سوال کیا کہ اس کی حرمت سے پہلے جو لوگ انتقال کر چکے ہیں ان کا کیا حکم ہے ؟ اس پر یہ آیت «‏‏‏‏لَیْسَ عَلَی الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِیمَا طَعِمُوا إِذَا مَا اتَّقَوا وَّآمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ثُمَّ اتَّقَوا وَّآمَنُوا ثُمَّ اتَّقَوا وَّأَحْسَنُوا وَ اللہُ یُحِبٰ الْمُحْسِنِینَ» ‏‏‏‏ ۱؎ (5-المائدہ:93) ، نازل ہوئی یعنی ’ ان پر اس میں کوئی حرج نہیں ‘ اور جب بیت المقدس کا قبلہ بدلا اور بیت اللہ شریف قبلہ ہوا اس وقت بھی صحابہ رضی اللہ عنہم نے پہلے قبلہ کی طرف نمازیں پڑھتے ہوئے انتقال کر جانے والوں کی نسبت دریافت کیا تو آیت «وَمَا کَانَ اللہُ لِیُضِیعَ إِیمَانَکُمْ» ۱؎ (2-البقرۃ:143) الخ ، نازل ہوئی یعنی ’ ان کی نمازیں ضائع نہ ہوں گی ‘ ۔ ۱؎ (مسند احمد:295/1:صحیح) مسند احمد میں ہے { جو شخص شراب پئے چالیس دن تک اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اس پر رہتی ہے اگر وہ اسی حالت میں مرگیا تو کافر مرے گا ہاں اگر اس نے توبہ کی تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرمائے گا اور اگر اس نے پھر بھی شراب پی تو اللہ تعالیٰ دوزخیوں کا فضلہ پلائے گا } ۔ ۱؎ (مسند احمد:295/1:حسن) اور روایت میں ہے کہ { جب یہ حکم اترا کہ ایمانداروں پر حرمت سے پہلے پی ہوئی کا کوئی گناہ نہیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { مجھ سے کہا گیا ہے کہ تو انہی میں سے ہے } } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2454) مسند احمد میں ہے { پانسوں کے کھیل سے بچو یہ عجمیوں کا جوا ہے } ۔ ۱؎ (مجمع الزوائد:116/8:ضعیف) المآئدہ
93 المآئدہ
94 احرام میں شکار کے مسائل کی تفصیلات سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں چھوٹے چھوٹے شکار اور کمزور شکار اور ان کے بچے جنہیں انسان اپنے ہاتھ سے پکڑلے اور اپنے نیزے کی نوک پر رکھ لے اس سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی آزمائش کرے گا ۔ یعنی انہیں منع فرمایا ہے کہ تم باوجود اس کے بھی ان کا شکار حالت احرام میں نہ کرو خواہ چھوٹے ہوں خواہ بڑے خواہ آسانی سے شکار ہو سکتا ہو خواہ سختی سے ۔ چنانچہ عمرہ حدیبیہ کے موقعہ پر یہی ہوا کہ قسم قسم کے شکار اس قدر بکثرت آپڑے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے خیموں میں گھسنے لگے ادھر اللہ کی طرف سے ممانعت ہوگئی تاکہ پوری آزمائش ہو جائے ادھر شکار گویا ہنڈیا میں ہے ادھر ممانعت ہے ہتھیار تو کہاں یونہی اگر چاہیں تو ہاتھ سے پکڑ سکتے ہیں اور پوشیدہ طور سے شکار قبضہ میں کر سکتے ہیں ۔ یہ صرف اس لیے تھا کہ فرمانبردار اور نافرمان کا امتحان ہو جائے پوشیدگی میں بھی اللہ کا ڈر رکھنے والے غیروں سے ممتاز ہو جائیں ۔ چنانچہ فرمان ہے کہ ’ جو لوگ اللہ تعالیٰ سے غائبانہ ڈرتے رہتے ہیں ان کے لیے بڑی بھاری مغفرت اور بہت بڑا اجر ہے ۔ اب جو شخص اس حکم کے آنے کے بعد بھی حالت احرام میں شکار کھیلے گا شریعت کی مخالفت کرے گا ‘ ۔ پھر فرمایا ’ ایماندارو حالت احرام میں شکار نہ کھیلو ‘ ۔ یہ حکم اپنے معنی کی حیثیت سے تو حلال جانوروں اور ان سے جو چیزیں حاصل ہوتی ہیں کیلئے ہے ، لیکن جو خشکی کے حرام جانور ہیں ان کا شکار کھیلنا امام شافعی رحمۃ اللہ کے نزدیک تو جائز ہے اور جمہور کے نزدیک حرام ہے ، ہاں اس عام الحکم سے صرف وہ چیزیں مخصوص ہیں جن کا ذکر بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { پانچ جانور فاسق ہیں وہ حرام میں قتل کر دیئے جائیں اور غیر حرم میں بھی ، کوا ، چیل بچھو ، چوہا اور کانٹے والا کالا کتا } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3314) اور روایت کے الفاظ یوں ہیں کہ { ان پانچ جانوروں کے قتل میں احرام والے پر بھی کوئی گناہ نہیں } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1862) اس روایت کو سن کر حضرت ایوب رحمہ اللہ اپنے استاد نافع رحمہ اللہ سے پوچھتے ہیں کہ سانپ کا کیا حکم ہے ؟ آپ رحمہ اللہ نے فرمایا ” وہ اس میں شامل ہے یہ بھی قتل کر دیا جائے “ ۔ اس میں کسی کو اختلاف نہیں بعض علماء نے جیسے امام احمد ،امام مالک رحمہ اللہ علیہم وغیرہ نے کتے کے حکم پر درندوں کو بھی رکھا ہے جیسے بھیڑیا شیر وغیرہ ۔ اس لیے کہ یہ کتے سے بہت زیادہ ضرر والے ہیں ۔ زید بن اسلم اور سفیان بن عیینہ رحمۃ اللہ علیہم فرماتے ہیں کہ ہر حملہ کرنے والے درندے کا حکم ہے دیکھئیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عتبہ بن ابولہب کے حق میں جب دعا کی تو فرمایا : { اے اللہ اس پر شام میں اپنا کوئی کتا مقرر کر دے } ، پاس جب وہ زرقا میں پہنچا وہاں اسے بھیڑئیے نے پھاڑ ڈالا ۔ ہاں اگر محرم نے حالت احرام میں کوے کو یا لومڑی وغیرہ کو مار ڈالا تو اسے بدلہ دینا پڑے گا ۔ اسی طرح ان پانچوں قسم کے جانوروں کے بچے اور حملہ کرنے والے درندوں کے بچے بھی اس حکم سے مستثنیٰ ہیں ۔ امام شافعی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں ” ہر وہ جانور جو کھایا نہیں جاتا اس کے قتل میں اور اس کے بچوں کے قتل میں محرم پر کوئی حرج نہیں ، وجہ یہ ہے کہ ان کا گوشت کھایا نہیں جاتا “ ۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ فرماتے ہیں ” کالا کتا حملہ کرنے والا اور بھیڑیا تو محرم قتل کرسکتا ہے اس لیے کہ بھیڑیا بھی جنگلی کتا ہے ان کے سوا جس جانور کا شکار کھیلے گا فدیہ دنیا پڑے گا ۔ ہاں اگر کوئی شیر وغیرہ جنگی درندہ اس پر حملہ کرے اور یہ اسے مار ڈالے تو اس صورت میں فدیہ نہیں “ ۔ آپ رحمہ اللہ کے شاگرد زفر رحمۃ اللہ کہتے ہیں یہ حملہ کرنے کی صورت میں بھی اگر مار ڈالے گا تو فدیہ دینا پڑے گا ۔ بعض احادیث میں «الْغُرَابُ الْأَبْقَعُ» کا لفظ آیا ہے ۱؎ (صحیح مسلم:1198) یہ وہ کوا ہے جس کے پیٹ اور پیٹھ پر سفیدی ہوتی ہے ۔ مطلق سیاہ اور بالکل سفید کوے کو غراب ابقع نہیں کہتے لیکن جمہور کا مذہب یہ ہے کہ ہر قسم کے کوے کا یہی حکم ہے کیونکہ بخاری و مسلم کی حدیث میں مطلق کوے کا ذکر ہے ۔ امام ملک رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کوے کو بھی اس حال میں مار سکتا ہے کہ وہ اس پر حملہ کرے یا اسے ایذاء دے مجاہد رحمۃ اللہ وغیرہ کا قول ہے کہ اس حالت میں بھی مار نہ ڈالے بلکہ اسے پتھر وغیرہ پھینک کر ہٹا دے ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بھی یہ مروی ہے ۔ ایک روایت میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ محرم کس کس جانور کو قتل کر دے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { سانپ ، بچھو اور چوہا اور کوے کو کنکر مارے اسے مار نہ ڈالے اور کالا کتا اور چیل اور حملہ کرنے والا درندہ } } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:1198،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) پھر فرماتا ہے کہ ’ جو شخص جان بوجھ کر حالت احرام میں شکار کرے اس پر فدیہ ہے ‘ ۔ حضرت طاؤس رحمۃ اللہ کا فرمان ہے کہ ” خطا سے قتل کرنے والے پر کچھ نہیں “ ۔ لیکن یہ مذہب غریب ہے اور آیت کے ظاہری الفاظ سے یہی مشتق ہے ۔ مجاہد بن جیبر رحمۃ اللہ سے مروی ہے کہ ” مراد وہ شخص ہے جو شکار تو قصداً کرتا ہے لیکن اپنی حالت احرام کی یاد اسے نہیں رہی ۔ لیکن جو شخص باوجود احرام کی یاد کے عمداً شکار کرے وہ تو کفارے کی حد سے نکل گیا اس کا احرام باطل ہوگیا “ ۔ یہ قول بھی غریب ہے ۔ جمہور کا مذہب یہ ہے کہ قصداً شکار کرنے والا اور بھول کر کرنے والا دونوں کفارے میں برابر ہیں امام زہری رحمۃ اللہ فرماتے ہیں ” قرآن سے تو قصداً شکار کھیلنے والے پر کفارہ ثابت ہوا اور حدیث نے یہی حکم بھولنے والے کا بھی بیان فرمایا “ ۔ مطلب اس قول کا یہ ہے کہ قصداً شکار کھیلنے والے پر کفارہ قرآن کریم سے ثابت ہے اور اس کا گنہگار ہونا بھی ۔ کیونکہ اس کے بعد آیت «لِّیَذُوْقَ وَبَالَ اَمْرِہٖ» ۱؎ (5-المائدہ:95) میں فرمایا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم سے خطا میں بھی یہی حکم ثابت ہے اور اس لیے بھی کہ شکار کو قتل کرنا اس کا تلف کرنا ہے اور ہر تلف کرنے کا بدلہ ضروری ہے خواہ وہ بالقصد ہو یا انجان پنے سے ہو ۔ ہاں قصداً کرنے والا گنہگار بھی ہے اور بلا قصد جس سے سرزد ہو جائے وہ قابل ملامت نہیں ۔ پھر فرمایا ’ اس کا بدلہ یہ ہے کہ اسی کے مثل چوپایہ جانور راہ للہ قربان کرے ‘ ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی قرأت میں «فَجَزَاۤؤُہُ» ہے ان دونوں قرأتوں میں مالک ، شافعی ، احمد رحمۃ اللہ علیہم اور جمہور کی دلیل ہے کہ جب شکار چوپایوں کی مانند ہو تو وہی اس کے بدلے میں دینا ہوگا ۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ اس کے خلاف کہتے ہیں کہ خواہ شکار کے کسی جانور کی مثل ہو یا نہ ہو دونوں صورتوں میں قیمت دینی پڑے گی ہاں اس محرم شکاری کو اختیار ہے کہ خواہ اس قیمت کو صدقہ کردے خواہ اس سے قربانی کا کوئی جانور خرید لے ۔ لیکن یہ یاد رہے کہ امام صاحب کے اس قول سے صحابہ رضی اللہ عنہم کا فیصلہ ہمارے لیے زیادہ قابل عمل ہے انہوں نے شترمرغ کے شکار کے بدلے اونٹ مقرر کیا ہے اور جنگلی گائے کے بدلے پالتو گائے مقرر فرمائی ہے اور ہرن کے بدلے بکری ۔ یہ فیصلے ان بزرگ صحابیوں کی سندوں سمیت احکام کی کتابوں میں موجود ہیں جہاں شکار جیسا اور کوئی پالتو چوپایہ نہ ہو اس میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کا فیصلہ قیمت کا ہے جو مکہ شریف پہنچائی جائے ۔ (بیہقی) پھر فرمایا کہ ’ اس کا فیصلہ دو عادل مسلمان کردیں ‘ کہ کیا قیمت ہے یا کون سا جانور بدلے میں دیا جائے ۔ فقہاء نے اس بارے میں اختلاف کیا کہ فیصلہ کرنے والے دو میں ایک خود قاتل ہو سکتا ہے یا نہیں ؟ تو امام مالک رحمۃ اللہ وغیرہ نے تو انکار کیا ہے کیونکہ اسی کا معاملہ ہو اور وہی حکم کرنے والا ہو اور امام شافعی امام احمد رحمۃ اللہ علیہم وغیرہ نے آیت کے عموم کو سامنے رکھ کر فرمایا ہے کہ ” یہ بھی ہو سکتا ہے “ ۔ پہلے مذہب کی دلیل تو یہ ہے کہ خود حاکم اپنے اوپر اپنا ہی حکم کرکے اسی حکم میں اپنا منصف آپ نہیں بن سکتا ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ ایک اعرابی سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا میں نے ایک شکار کو احرام کی حالت میں قتل کر دیا ہے اب آپ رضی اللہ عنہ فرمائیے کہ اس میں مجھ پر بدلہ کیا ہے ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھ کر ان سے دریافت فرمایا کہ ” آپ رضی اللہ عنہ فرمائیے کیا حکم ہے ؟ “ اس پر اعرابی نے کہا سبحان اللہ میں آپ رضی اللہ عنہ سے دریافت کرنے آیا ہوں آپ رضی اللہ عنہ خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور آپ رضی اللہ عنہ کسی سے دریافت فرما رہے ہیں ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” اس میں تیرا کیا بگڑا ؟ “ یہ تو اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ دو عادل جو فیصلہ کر دیں اس لیے میں نے اپنے ساتھی سے دریافت کیا ۔ جب ہم دونوں کسی بات پر اتفاق کر لیں گے تو تجھ سے کہہ دیں گے ۔ اس کی سند تو بہت مضبوط ہے لیکن اس میں میمون اور سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے ۔ یہاں یہی چاہیئے تھا صدیق رضی اللہ عنہ نے جب دیکھا کہ اعرابی جاہل ہے اور جہل کی دوا تعلیم ہے تو آپ رضی اللہ عنہ نے اسے نرمی اور محبت سے سمجھا دیا اور جبکہ اعتراض کرنے والا خود مدعی علم ہو پھر وہاں یہ صورت نہیں رہتی ۔ چنانچہ ابن جریر میں ہے قبیصہ بن جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہم حج کیلئے چلے ہماری عادت تھی کہ صبح کی نماز پڑھتے ہی ہم سواریوں سے اتر پڑتے اور انہیں چلاتے ہوئے باتیں کرتے ہوئے پیدل چل پڑتے ۔ ایک دن اسی طرح جا رہے تھے کہ ایک ہرن ہماری نگاہ میں پڑا ہم میں سے ایک شخص نے اسے پتھر مارا جو اسے پوری طرح لگا اور وہ مر کر گرگیا وہ شخص اسے مردہ چھوڑ کر اپنی سواری پر سوار ہو گیا ۔ ہمیں یہ کام بڑا برا معلوم ہوا اور ہم نے اسے بہت کچھ کہا سنا مکہ شریف پہنچ کر میں اسے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس لے گیا اس نے سارا واقعہ خود بیان کیا ۔ اس وقت جناب فاروق رضی اللہ عنہ کے پہلو میں ایک صاحب کھڑے تھے جن کا چہرہ چاندی کی طرح جگمگا رہا تھا یہ سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ تھے ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے ان کی طرف متوجہ ہو کر کچھ باتیں کیں پھر میرے ساتھی سے فرمایا کہ ” تو نے اسے جان بوجھ کر مار ڈالا یا بھول چوک سے “ ۔ اس نے کہا میں نے پتھر اسی پر پھینکا اور قصداً پھینکا لیکن اسے مار ڈالنے کی میری نیت نہ تھی ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” پھر تو خطا اور عمد کے درمیان درمیان ہے ۔ جا تو ایک بکری ذبح کر دے اس کا گوشت صدقہ کر دے اور اس کی کھال اپنے کام میں لا “ ۔ یہ سن کر ہم وہاں سے چلے آئے میں نے اپنے ساتھی سے کہا دیکھ تو نے بڑا قصور کیا ہے اللہ جل شانہ کی نشانیوں کی تجھے عظمت کرنی چاہیئے اور ایک بات یہ بھی ہے کہ خود امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ کو تو یہ مسئلہ معلوم نہ تھا انہوں نے اپنے ساتھی سے دریافت کیا میرے خیال سے تو اپنی اونٹنی اللہ کے نام سے قربان کر دے شاید اس سے تیرا جرم معاف ہو جائے ۔ افسوس کہ اس وقت مجھے یہ آیت یاد ہی نہ رہی کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے تو اس حکم پر عمل کیا ہے کہ دو عادل شخص باہم اتفاق سے جو فیصلہ کریں ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بھی میرا یہ فتوی دینا معلوم ہو گیا اچانک آپ رضی اللہ عنہ کوڑہ لیے ہوئے آگئے ۔ اول تو میرے ساتھی پر کوڑا اٹھا کر فرمایا ” تو نے ایک تو جرم میں قتل کیا دوسرے حکم کی تعمیل میں بیوقوفی کر رہا ہے “ ۔ اب میری طرف متوجہ ہوئے میں نے کہا امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ اگر آپ رضی اللہ عنہ نے مجھے تکلیف پہنچائی تو میں آپ رضی اللہ عنہ کو آج کی تکلیف ہرگز معاف نہیں کروں گا ۔ آپ رضی اللہ عنہ نرم پڑ گئے اور مجھ سے فرمانے لگے ” اے قبصیہ میرے خیال سے تو تو جوانی کی عمر والا کشادہ سینے والا اور چلتی زبان والا ہے ۔ یاد رکھ نوجوانوں میں اگر نو خصلتیں اچھی ہوں اور ایک بری ہو تو وہ ایک بری خصلت نو بھلی خصلتوں کو مات کر دیتی ہے ۔ سن جوانی کی لغزشوں سے بچا رہ “ ۔ ابن جریر میں ہے کہ سیدنا جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ نے احرام کی حالت میں ایک ہرن کا شکار کر لیا پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” جاؤ اپنے دو رشتے داروں کو لے آؤ وہی فیصلہ کریں گے “ میں جا کر عبدالرحمٰن کو اور سعد رضی اللہ عنہم کو بلا لایا ۔ دونوں نے فیصلہ کیا کہ میں ایک موٹا تازہ بکرا فدیہ دوں ۔ حضرت طارق رحمۃ اللہ فرماتے ہیں ” ایک شخص نے ایک ہرن کو تیر مارا وہ مر گیا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے اس نے مسئلہ پوچھا تو آپ رضی اللہ عنہ نے خود اس کو بھی مشورے میں شریک کرلیا دونوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ گھر کی پالتو بکری راہ للہ قربان کرو اس میں یہ دلیل ہے کہ خود قاتل بھی دو حکم کرنے والوں میں ایک بن سکتا ہے ۔ جیسے کہ امام شافعی رحمۃ اللہ اور امام احمد رحمۃ اللہ کا مذہب ہے ۔ پھر آیا ہر معاملہ میں اب بھی موجودہ لوگوں میں سے دو حکم فیصلہ کریں گے یا صحابہ رضی اللہ عنہم کے فیصلے کافی ہیں ؟ اس میں بھی اختلاف ہے امام مالک اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہم فرماتے ہیں ہر فیصلہ اس وقت کے موجود دو عقلمند لوگوں سے کرایا جائے گو اس میں پہلے کا کوئی فیصلہ ہو یا نہ ہو ۔ پھر فرماتا ہے ’ یہ فدیئے کی قربانی حرم میں پہنچے ‘ یعنی وہیں ذبح ہو اور وہیں اس کا گوشت مسکینوں میں تقسیم ہو اس پر سب کا اتفاق ہے پھر فرمایا کفارہ ہے مسکینوں کا کھانا کھلانا یا اس کے برابر کے روزے ، یعنی جب محرم اپنے قتل کئے ہوئے شکار کے مانند کوئی جانور نہ پائے یا خود شکار ایسا ہوا ہی نہیں جس کے مثل کوئی جانور پالتو ہو یہاں پر لفظ «او» اختیار کے ثابت کرنے کیلئے ہے یعنی بدلے کے جانور میں کھانا کھالانے میں اور روزے رکھنے میں اختیار ہے جیسے کہ امام مالک ، امام ابوحنیفہ ، امام ابو یوسف ، امام محمد بن حسن اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہم کے دو قولوں میں سے ایک قول اور امام احمد رحمۃ اللہ کا مشہور قول ہے اور آیت کے ظاہر الفاظ بھی یہی ہیں ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ یہ ترتیب وار ہیں ، یعنی پہلے تو بدلہ پس مالک ، ابوحنیفہ رحمہ اللہ ان کے ساتھی ، حماد اور ابراہیم رحمۃ اللہ علیہم کا تو قول ہے کہ خود شکار کی قیمت لگائی جائے گی اور امام شافعی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں شکار کے برابر کے جانور کی قیمت لگائی جائے گی اگر وہ موجود ہو پھر اس کا اناج خریدا جائے گا اور اس میں سے ایک ایک مد ایک ایک مسکین کو دیا جائے گا مالک اور فقہاء حجاز کا قول بھی یہی ہے ، امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ اور ان کے ساتھی کہتے ہیں ہر مسکین کو دو مد دیئے جائیں گے مجاہد رحمۃ اللہ کا قول یہی ہے ، امام احمد رحمۃ اللہ فرماتے ہیں گیہوں ہوں تو ایک مد اور اس کے سوا کچھ ہو تو دو مد ، پس اگر نہ پائے یا اختیار اس آیت سے ثابت ہو جائے تو ہر مسکین کے کھانے کے عوض ایک روزہ رکھ لے ، بعض کہتے ہیں جتنا اناج ہو اس کے ہر ایک صاع کے بدلے ایک روزہ رکھے جیسے کہ اس شخص کے لیے یہ حکم ہے جو خوشبو وغیرہ لگائے ۔ { حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا کہ وہ ایک فرق کو چھ شخصوں کے درمیان تقسیم کر دیں یا تین دن کے روزے رکھیں } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1815) فرق تین صاع کا ہوتا ہے اب کھانا پہنچانے کی جگہ میں بھی اختلاف ہے ، امام شافعی رحمۃ اللہ کا فرمان ہے کہ اس کی جگہ حرم ہے ، عطاء کا قول بھی یہی ہے ، مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں جہاں شکار کیا ہے وہیں کھلوا دے ، یا اس سے بہت زیادہ کی قریب کی جگہ میں ، امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ فرماتے ہیں خواہ حرم میں خواہ غیر حرم میں اختیار ہے ۔ سلف کی اس آیت کے متعلق اقوال ملاحظہ ہوں ، ابن ابی حاتم میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ” جب محرم شکار کھیل لے اس پر اس کے بدلے کے چوپائے کا فیصلہ کیا جائے گا اگر نہ ملے تو دیکھا جائے گا کہ وہ کس قیمت کا ہے ، پھر اس نقدی کے اناج کا اندازہ کیا جائے گا پھر جتنا اناج ہو گا اسی کے ناپ سے ہر نصف صاع کے بدلے ایک روزہ رکھنا ہو گا پھر جب طعام پایا جائے گا جزا پالی گئی “ ۔ اور روایت میں ہے جب محرم نے ہرن کو مار ڈالا تو اس پر ایک بکری ہے جو مکے میں ذبح کی جائے گی اگر نہ پائے تو چھ مسکین کا کھانا ہے اگر نہ پائے تو تین روزے ہیں اگر کسی نے اونٹ کو قتل کیا تو اس کے ذمہ ایک گائے ہے اگر نہ پائے تو بیس مسکینوں کا کھانا دینا اگر یہ بھی نہ پائے تو بیس روزے ، اگر شتر مرغ یا گورخر وغیرہ مارا ہے تو اس پر ایک اونٹنی ہے اگر نہ ملے تو تیس مسکینوں کا کھانا دینا اگر یہ بھی نہ پائے تو تین روزے ہیں ۔ اگر کسی نے اونٹ کو قتل کیا تو اس کے ذمہ ایک گائے ہے اگر نہ پائے تو بیس مسکینوں کا کھانا دینا اگر یہ بھی نہ پائے تو بیس روزے ، اگر شتر مرغ یا گورخر غیرہ مارا ہے تو اس پر ایک اونٹنی ہے اگر نہ ملے تو تیس مسکینوں کا کھانا ہے اگر نہ پائے تو تیس دن کے روزے ۔ ابن جریر کی اسی روایت میں اتنی زیادتی بھی ہے کہ طعام ایک ایک مد ہو جو ان کا پیٹ بھر دے ، دوسرے بہت سے تابعین نے بھی طعام کی مقدار بتلائی ہے ۔ سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ سب چیزیں ترتیب وار ہیں اور بزرگ فرماتے ہیں کہ تینوں باتوں میں اختیار ہے ، امام ابن جریر رحمۃ اللہ کا مختار قول بھی یہی ہے ۔ پھر فرمان ہے کہ ’ یہ کفارہ ہم نے اس لیے واجب کیا ہے کہ وہ اپنے کرتوت کی سزا کو پہنچ جائے ، زمانہ جاہلیت میں جو کچھ کسی نے خطا کی ہے وہ اسلام کی اچھائی کی وجہ سے معاف ہے ، اب اسلام میں ان احکام کی موجودگی میں بھی پھر سے اگر کوئی شخص یہ گناہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس سے انتقام لے گا ‘ ۔ گو اس میں حد نہیں امام وقت اس پر کوئی سزا نہیں دے سکتا یہ گناہ اللہ اور بندے کے درمیان ہے ہاں اسے فدیہ ضرور دینا پڑے گا یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ فدیہ ہی انتقام ہے ۔ یہ یاد رہے کہ جب کبھی محرم حالت احرام میں شکار کو مارے گا اس پر بدلہ واجب ہو گا خواہ کئی دفعہ اس سے یہ حرکت ہو جائے اور خواہ عمداً ہو خواہ خطا ہو ایک دفعہ شکار کے بعد اگر دوبارہ شکار کیا تو اسے کہہ دیا جائے کہ اللہ تجھ سے بدلہ لے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ایک روایت یہ بھی مروی ہے کہ پہلی دفعہ کے شکار پر فدیہ کا حکم ہو گا دوبارہ کے شکار پر خود اللہ اس سے انتقام لے گا اس پر فیصلہ فدیہ کا نہ ہو گا لیکن امام ابن جریر کا مختار مذہب پہلا قول ہی ہے ، امام حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ایک شخص نے محرم ہو کر شکار کیا اس پر فدائے کا فیصلہ کیا گیا اس نے پھر شکار کیا تو آسمان سے آگ آ گئی اور اسے جلا کر بھسم کر دیا یہی معنی ہیں اللہ کے فرمان آیت «‏‏‏‏فَیَنتَقِمُ اللہُ مِنْہُ» (5-المائدہ:95) کے ۔ اللہ اپنی سلطنت میں غالب ہے اسے کوئی مغلوب نہیں کر سکتا کوئی اسے انتقام سے روک نہیں سکتا اس کا عذاب جس پر آ جائے کوئی نہیں جو اسے ٹال دے ، مخلوق سب اسی کی پیدا کی ہوئی ہے حکم اس کا سب پر نافذ ہے عزت اور غلبہ اسی کیلئے ہے ، وہ اپنے نافرمانوں سے زبردست انتقام لیتا ہے ۔ المآئدہ
95 المآئدہ
96 طعام اور شکار میں فرق اور حلال کی مزید تشریحات دریائی شکار سے مراد تازہ پکڑے ہوئے جانور اور طعام سے مراد ہے ان کا جو گوشت سکھا کر نمکین بطور توشے کے ساتھ رکھا جاتا ہے ۔ یہ بھی مروی ہے کہ پانی میں سے جو زندہ پکڑا جائے وہ صید یعنی شکار ہے اور جو مردہ ہو کر باہر نکل آئے وہ طعام یعنی کھانا ہے ۔ سیدنا ابوبکر صدیق ، زید بن ثابت ، عبداللہ بن عمرو ، ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہم اجمعین ، عکرمہ ، ابوسلمہ ، ابراہیم نخعی ، حسن بصری رحمہ اللہ علیہم سے بھی یہی مروی ہے ۔ خلیفۃ بلا فصل سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ” پانی میں جتنے بھی جانور ہیں وہ سب طعام ہیں “ ۔ (ابن ابی حاتم وغیرہ) آپ رضی اللہ عنہ نے ایک خطبے میں اس آیت کے اگلے حصے کی تلاوت کر کے فرمایا کہ ” جو چیز سمندر پھینک دے وہ طعام ہے “ ۔ (ابن جریر) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی یہی منقول ہے ایک روایت میں ہے کہ جو مردہ جانور پانی نکال دے ۔ سعید بن مسیب رحمۃ اللہ سے اس کی تفسیر میں مروی ہے کہ جس زندہ آبی جانور کو پانی کنارے پر ڈال دے یا پانی اس سے ہٹ جائے یا وہ باہر مردہ ملے (ابن ابی حاتم) ابن جریر میں ہے کہ عبدالرحمٰن بن ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ ” سمندر نے بہت سی مردہ مچھلیاں کنارے پر پھینک دی ہیں تو آپ رضی اللہ عنہ کیا فرماتے ہیں ؟ ہم انہیں کھا سکتے ہیں یا نہیں ؟ “ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا ” نہیں نہ کھاؤ “ ، جب واپس آئے تو سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے قرآن کریم کھول کر تلاوت کی اور سورۃ المائدہ کی اس آیت پر نظر پڑی تو ایک آدمی کو دوڑایا اور کہا ” جاؤ کہہ دو کہ وہ اسے کھالیں یہی بحری طعام ہے “ ۔ امام ابن جریر رحمۃ اللہ کے نزدیک بھی قول مختار یہی ہے کہ مراد طعام سے وہ آبی جانور ہیں جو پانی میں ہی مر جائیں ، فرماتے ہیں اس بارے میں ایک روایت مروی ہے گو بعض نے اسے موقوف روایت کہا ہے ۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت «اُحِلَّ لَکُمْ صَیْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُہٗ مَتَاعًا لَّکُمْ وَلِلسَّیَّارَۃِ وَحُرِّمَ عَلَیْکُمْ صَیْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًا وَاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْٓ اِلَیْہِ تُحْشَرُوْنَ» ۱؎ (5-المائدہ:96) پڑھ کر فرمایا : { اس کا طعام وہ ہے جسے وہ پھینک دے اور وہ مرا ہوا ہو } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:12733:موقوف) بعض لوگوں نے اسے بقول ابوہریرہ رضی اللہ عنہ موقوف روایت کیا ہے ۔ پھر فرماتا ہے ’ یہ منفعت ہے تمہارے لیے اور راہ رو مسافروں کے لیے ‘ ، یعنی جو سمندر کے کنارے رہتے ہوں اور جو وہاں وارد ہوئے ہوں ، پس کنارے رہنے والے تو تازہ شکار خود کھیلتے ہیں پانی جسے دھکے دے کر باہر پھینک دے اور مر جائے اسے کھا لیتے ہیں اور نمکین ہو کر دور دراز والوں کو سوکھا ہوا پہنچتا ہے ۔ الغرض جمہور علماء کرام نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ پانی کا جانور خواہ مردہ ہی ہو حلال ہے ۔ اس کی دلیل علاوہ اس آیت کے امام مالک رحمۃ اللہ کی روایت کردہ وہ حدیث بھی ہے کہ { حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سمندر کے کنارے پر ایک چھوٹا سا لشکر بھیجا جس کا سردار ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا ، یہ لوگ کوئی تین سو تھے سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں بھی ان میں سے تھا ہم ابھی راستے میں ہی تھے جو ہمارے توشے تھے ختم ہو گئے ، امیر لشکر کو جب یہ علم ہوا تو حکم دیا کہ جو کچھ جس کسی کے پاس ہو میرے پاس لاؤ چنانچہ سب جمع کر لیا اب حصہ رسدی کے طور پر ایک مقررہ مقدار ہر ایک کو بانٹ دیتے تھے یہاں تک کہ آخر میں ہمیں ہر دن ایک ایک کھجور ملنے لگی آخر میں یہ بھی ختم ہو گئی ۔ اب سمندر کے کنارے پہنچ گئے دیکھتے ہیں کہ کنارے پر ایک بڑی مچھلی ایک ٹیلے کی طرح پڑی ہوئی ہے ، سارے لشکر نے اٹھارہ راتوں تک اسے کھایا ، وہ اتنی بڑی تھی کہ اس کی دو پسلیاں کھڑی کی گئیں تو اس کے نیچے سے ایک شتر سوار نکل گیا اور اس کا سر اس پسلی کی ہڈی تک نہ پہنچا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2483) یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی ہے ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ اس کا نام عنبر تھا ایک روایت میں ہے کہ یہ مردہ ملی تھی اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپس میں کہا تھا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بھیجے ہوئے ہیں اور اس وقت سخت دقت اور تکلیف میں ہیں اسے کھا لو ہم تین سو آدمی ایک مہینے تک وہیں رہے اور اسی کو کھاتے رہے یہاں تک کہ ہم موٹے تازے اور تیار ہو گئے اس کی آنکھ کے سوراخ میں سے ہم چربی ہاتھوں میں بھربھر کر نکالتے تھے تیرہ شخص اس کی آنکھ کی گہرائی میں بیٹھ گئے تھے ، اس کی پسلی کی ہڈی کے درمیان سے سانڈنی سوار گزر جاتا تھا ، ہم نے اس کے گوشت اور چربی سے مٹکے بھر لیے جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس پہنچے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { یہ اللہ کی طرف سے روزی تھی جو اللہ جل مجدہ نے تمہیں دی کیا اس کا گوشت اب بھی تمہارے پاس ہے ؟ اگر ہو تو ہمیں بھی کھلاؤ ، ہمارے پاس تو تھا ہی ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا اور خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کھایا } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1935) مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ { اس واقعہ میں خود پیغمبر اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی موجود تھے } اس وجہ سے بعض محدثین کہتے ہیں کہ ممکن ہے یہ دو واقعے ہوں اور بعض کہتے ہیں واقعہ تو ایک ہی ہے ، شروع میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے ساتھ تھے بعد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مختصر جماعت کو بہ ماتحتی ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کے روانہ فرمایا تھا اور انہیں یہ واقعہ پیش آیا ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ { حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سمندر کے سفر کو جاتے ہیں ہمارے ساتھ پانی بہت کم ہوتا ہے اگر اسی سے وضو کرتے ہیں تو پیاسے رہ جائیں تو کیا ہمیں سمندر کے پانی سے وضو کر لینے کی اجازت ہے ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { سمندر کا پانی پاک ہے اور اس کا مردہ حلال ہے } } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:83،قال الشیخ الألبانی:صحیح) امام شافعی ، امام احمد رحمۃ اللہ علیہم اور سنن اربعہ والوں نے اسے روایت کیا ہے امام بخاری امام ترمذی امام ابن خزیمہ امام ابن حبان رحمۃ اللہ علیہم وغیرہ نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مثل روایت کیا ہے ۔ ابوداؤد ترمذی ابن ماجہ اور مسند احمد میں ہے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں { ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج یا عمرے میں تھے اتفاق سے ٹڈیوں کا دل کا دل آ پہنچا ہم نے انہیں مارنا اور پکڑنا شروع کیا لیکن پھر خیال آیا کہ ہم تو احرام کی حالت میں ہیں انہیں کیا کریں گے ؟ چنانچہ ہم نے جا کر حضور علیہ السلام سے مسئلہ پوچھا تو { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ { دریائی جانوروں کے شکار میں کوئی حرج نہیں } } } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:1854 ، قال الشیخ الألبانی: ضعیف) اس کا ایک راوی ابو المہزم ضعیف ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ ابن ماجہ میں ہے کہ { جب ٹڈیاں نکل آتیں اور نقصان پہنچاتیں تو رسول اللہ علیہ افضل الصلوۃ و التسلیم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے کہ { اے اللہ ان سب کو خواہ چھوٹی ہوں خواہ بڑی ہلاک کر ان کے انڈے تباہ کر ان کا سلسلہ کاٹ دے اور ہماری معاش سے ان کے منہ بند کر دیے یا اللہ ہمیں روزیاں دے یقیناً تو دعاؤں کا سننے والا ہے } ، سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ ان کے سلسلہ کے کٹ جانے کی دعا کرتے ہیں حالانکہ وہ بھی ایک قسم کی مخلوق ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ان کی پیدائش کی اصل مچھلی سے ہے } } ، زیاد رحمۃ اللہ کا قول ہے کہ جس نے انہیں مچھلی سے ظاہر ہوتے دیکھا تھا خود اسی نے مجھ سے بیان کیا ہے ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:3221 ، قال الشیخ الألبانی: ۔ موضوع) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے حرم میں ٹڈی کے شکار سے بھی منع کیا ہے جن فقہاء کرام کا یہ مذہب ہے کہ سمندر میں جو کچھ ہے سب حلال ہے ان کا استدلال اسی آیت سے ہے وہ کسی آبی جانور کو حرام نہیں کہتے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا وہ قول بیان ہو چکا ہے کہ طعام سے مراد پانی میں رہنے والی ہر ایک چیز ہے ، بعض حضرات نے صرف مینڈک کو اس حکم سے الگ کر لیا ہے اور مینڈک کے سوا پانی کے تمام جانوروں کو وہ مباح کہتے ہیں کیونکہ مسند وغیرہ کی ایک حدیث میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مینڈک کے مارنے سے منع فرمایا ہے } ۱؎ (سنن ابوداود:3871،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اور فرمایا ہے کہ { اس کی آواز اللہ کی تسبیح ہے } ۔ ۱؎ (سلسلۃ احادیث ضعیفہ البانی:4788:ضعیف) بعض اور کہتے ہیں سمندر کے شکار سے مچھلی کھائی جائے گی اور مینڈک نہیں کھایا جائے گا اور باقی کی چیزوں میں اختلاف ہے کچھ تو کہتے ہیں کہ باقی سب حلال ہے اور کچھ کہتے ہیں باقی سب نہ کھایا جائے ، ایک جماعت کا خیال ہے کہ خشکی کے جو جانور حلال ہیں ان جیسے جو جانور پانی کے ہوں وہ بھی حلال ہیں اور خشکی کے جو جانور حرام ہیں ان کی مشابہت کے جو جانور تری کے ہوں وہ بھی حرام ، یہ سب وجوہ مذہب شافعی میں ہیں حنفی مذہب یہ ہے کہ سمندر میں مر جائے اس کا کھانا حلال نہیں جیسے کہ خشکی میں از خود مرے ہوئے جانور کا کھانا حلال نہیں کیونکہ قرآن نے اپنی موت آپ مرے ہوئے جانور کو آیت «حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَمَآ اُہِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ» ۔ الخ (5-المائدہ:3) میں حرام کر ذیا ہے اور یہ عام ہے ۔ ابن مردویہ میں حدیث ہے کہ { جو تم شکار کر لو اور وہ زندہ ہو پھر مر جائے تو اسے کھا لو اور جسے پانی آپ ہی پھینک دے اور وہ مرا ہوا الٹا پڑا ہوا ہو اسے نہ کھاؤ } ۱؎ (سنن ابوداود:3815 ، قال الشیخ الألبانی: ضعیف) لیکن یہ حدیث مسند کی رو سے منکر ہے صحیح نہیں ۔ مالکیوں شافعیوں اور حنبلیوں کی دلیل ایک تو ہی عنبر والی حدیث ہے جو پہلے گزر چکی دوسری دلیل وہ حدیث ہے جس میں ہے کہ { سمندر کا پانی پاک اور اس کا مردہ حلال کئے گئے ہیں دو مردے مچھلی اور ٹڈی اور دو خون کلیجی اور تلی } ۱؎ (سنن ابن ماجہ:3314،قال الشیخ الألبانی:صحیح) یہ حدیث مسند احمد ابن ماجہ دارقطنی اور بیہقی میں بھی ہے اور اس کے شواہد بھی ہیں اور یہی روایت موقوفاً بھی مروی ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ تم پر احرام کی حالت میں شکار کھیلنا حرام ہے ‘ ۔ پس اگر کسی احرام والے نے شکار کر لیا اور اگر قصداً کیا ہے تو اسے کفارہ بھی دینا پڑے گا اور گنہگار بھی ہو گا اور اگر خطا اور غلطی سے شکار کر لیا ہے تو اسے کفارہ دینا پڑے گا اور اس کا کھانا اس پر حرام ہے خواہ وہ احرام والے ہوں یا نہ ہوں ۔ عطا قاسم سالم ابو یوسف محمد بن حسن رحمۃ اللہ علیہم وغیرہ بھی یہی کہتے ہیں ، پھر اگر اسے کھا لیا تو عطا وغیرہ کا قول ہے کہ اس پر دو کفارے لازم ہیں لیکن امام مالک رحمۃ اللہ وغیرہ فرماتے ہیں کہ کھانے میں کوئی کفارہ نہیں ، جمہور بھی امام صاحب کے ساتھ ہیں ، ابوعمر نے اس کی توجیہ یہ بیان کی ہے کہ جس طرح زانی کے کئی زنا پر حد ایک ہی ہوتی ہے ۔ ابوحنیفہ رحمۃ اللہ کا قول ہے کہ ” شکار کر کے کھانے والے کو اس کی قیمت بھی دینی پڑے گی “ ۔ ابوثور رحمۃ اللہ کہتے ہیں کہ ” محرم نے جب کوئی شکار مارا تو اس پر جزا ہے ، ہاں اس شکار کا کھانا اس کیلئے حلال ہے لیکن میں اسے اچھا نہیں سمجھتا ، کیونکہ فرمان رسول ہے کہ { خشکی کے شکار کو کھانا تمہارے لیے حلال ہے جب تک کہ تم آپ شکار نہ کرو اور جب تک کہ خاص تمہارے لیے شکار نہ کیا جائے } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:1851،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) اس حدیث کا تفصیلی بیان آگے آ رہا ہے ، ان کا یہ قول غریب ہے ، ہاں شکاری کے سوا اور لوگ بھی اسے کھا سکتے ہیں یا نہیں ؟ اس میں اختلاف ہے ، بعض تو منع کرتے ہیں جیسے پہلے گزر چکا اور بعض جائز بتاتے ہیں ان کی دلدل وہی حدیث ہے جو اوپر ابوثور کے قول کے بیان میں گزری ، «وَاللہُ اَعْلَمُ» ، اگر کسی ایسے شخص نے شکار کیا جو احرام باندھے ہوئے نہیں پھر اس نے کسی احرام والے کو وہ جانور ہدیئے میں دیا تو بعض تو کہتے ہیں کہ یہ مطلقاً حلال ہے خواہ اسی کی نیت سے شکار کیا ہو خواہ اس کے لیے شکار نہ کیا ہو ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ، سیدنا زبیر کعب احبار رضی اللہ عنہ ، مجاہد ، عطا ، سعید بن جیر رحمۃ اللہ علیہم اور کوفیوں کا یہی خیال ہے ۔ چنانچہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ مسئلہ پوچھا گیا کہ غیر محرم کے شکار کو محرم کھا سکتا ہے ؟ تو آپ نے جواز کا فتوی دیا ، جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو یہ خبر ملی تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” اگر تو اس کے خلاف فتوی دیتا تو میں تیری سزا کرتا “ ۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس صورت میں بھی محرم کو اس کا کھانا درست نہیں ، ان کی دلیل اس آیت کے کا عموم ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ اور ابن عمر رضی اللہ عنہ سے بھی یہی مروی ہے اور بھی صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین تابعین اور ائمہ دین رحمۃ اللہ علیہم اس طرف گئے ہیں ۔ تیسری جماعت نے اس کی تفصیل کی ہے وہ کہتے ہیں کہ اگر کسی غیر محرم نے کسی محرم کے ارادے سے شکار کیا ہے تو اس محرم کو اس کا کھانا جائز نہیں ، ورنہ جائز ہے ان کی دلیل سیدنا صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ { انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابوا کے میدان میں یا ودان کے میدان میں ایک گورخر شکار کردہ بطور ہدئیے کے دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے واپس کردیا جس سے صحابی رضی اللہ عنہم اجمعین رنجیدہ ہوئے ، آثار رنج ان کے چہرے پر دیکھ کر رحمتہ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اور کچھ خیال نہ کرو ہم نے بوجہ احرام میں ہونے کے ہی اسے واپس کیا ہے } } ۱؎ (صحیح بخاری:1825) یہ حدیث بخاری و مسلم میں موجود ہے ۔ تو یہ لوٹانا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسی وجہ سے تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سمجھ لیا تھا کہ اس نے یہ شکار خاص میرے لیے ہی کیا ہے اور جب شکار محرم کیلئے ہی نہ ہو تو پھر اسے قبول کرنے اور کھانے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ ابوقتادہ رحمۃ اللہ کی حدیث میں ہے کہ { انہوں نے بھی جبکہ وہ احرام کی حالت میں نہ تھے ایک گورخر شکار کیا صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین جو احرام میں تھے انہوں نے اس کے کھانے میں توقف کیا اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا { کیا تم میں سے کسی نے اسے اشارہ کیا تھا ؟ یا اسے کوئی مدد دی تھی ؟ } سب نے انکار کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { پھر کھا لو اور خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کھایا } } ۔ یہ واقعہ بھی بخاری و مسلم میں موجود ہے ۱؎ (صحیح بخاری:1824) مسند احمد میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { جنگلی شکار کا کھانا تمہارے لیے حلال ہے اس حالت میں بھی کہ تم احرام میں ہو جب تک کہ خود تم نے شکار نہ کیا ہو اور جب تک کہ خود تمہارے لیے شکار نہ کیا گیا ہو } } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:1851،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ابوداؤد ترمذی نسائی میں بھی یہ حدیث موجود ہے ، امام ترمذی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ اس کے راوی مطلب کا سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے سننا ثابت نہیں ۔ ربیعہ فرماتے ہی کہ عرج میں جناب خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ تھے ، آپ رضی اللہ عنہ احرام کی حالت میں تھے جاڑوں کے دن تھے ایک چادر سے آپ رضی اللہ عنہ منہ ڈھکے ہوئے تھے کہ آپ رضی اللہ عنہ کے سامنے شکار کا گوشت پیش کیا گیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا ” تم کھا لو “ ۔ انہوں نے کہا اور آپ رضی اللہ عنہ کیوں نہیں کھاتے ؟ فرمایا ” مجھ میں تم میں فرق ہے یہ شکار میرے ہی لیے کیا گیا ہے اس لیے میں نہیں کھاؤں گا تمہارے لیے نہیں گیا اس لیے تم کھا سکتے ہو “ ۔ ۱؎ (موطا:354/1:حسن) المآئدہ
97 المآئدہ
98 المآئدہ
99 المآئدہ
100 رزق حلال کم ہو تو برکت حرام زیادہ بھی ہو تو بےبرکت اور کثرت سوالات مقصد یہ ہے کہ حلال گو تھوڑا ہو وہ بہتر ہے حرام سے گو بہت سارا ہو جیسے وارد ہے کہ جو کم ہو اور کفایت کرے وہ بہتر ہے اس سے جو زیادہ ہو اور غافل کر دے ۔ ۱؎ (مسند ابو یعلی:1053:حسن) { ابن حاطب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی کہ یا رسول اللہ دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ مجھے مال عطا فرمائے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { کم مال جس کا شکریہ تو ادا کرے یہ بہتر ہے اس زیادہ سے جس کی تو طاقت نہ رکھے } } ۱؎ (سلسلۃ احادیث ضعیفہ البانی:4081 : ضعیف) ’ اے عقلمند لوگو اللہ سے ڈرو حرام سے بچو حلال پر اکتفا کرو قناعت کیا کرو تاکہ دین و دنیا میں کامیاب ہو جاؤ ‘ ۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو ادب سکھاتا ہے کہ ’ بے فائدہ سوالات مت کیا کرو ، کرید میں نہ پڑو ، ایسے نہ ہو کہ پھر ان کا جواب اور ان امور کا اظہار تم پر شاق گزرے ‘ ۔ صحیح حدیث میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا { مجھے کوئی کسی کی برائی کی بات نہ پہنچائے ، میں چاہتا ہوں کہ تمہاری طرف اس حالت میں آؤں کہ میرے دل میں کسی کی طرف سے کوئی برائی نہ ہو } } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4860 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) صحیح بخاری شریف میں سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ { ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ سنایا ، ایسا بے مثل کہ ہم نے کبھی ایسا خطبہ نہ سنا تھا اسی میں فرمایا کہ { اگر تم وہ جانتے جو میں جانتا ہوں تو تم بہت کم ہنستے اور بہت زیادہ روتے } ، یہ سن کر اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم منہ ڈھانپ کر رونے لگے اسی اثناء میں ایک شخص آپ سے پوچھ بیٹھا کہ میرا باپ کون ہے ؟ { آپ نے فرمایا فلاں } ، اس پر یہ آیت اتری } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4621) بخاری مسلم کی اور حدیث میں ہے کہ { ایک مرتبہ لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بہ کثرت سوالات شروع کر دیئے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر آ گئے اور فرمایا { آؤ اب جس کسی کو جو کچھ پوچھنا ہو پوچھ لو جو پوچھو گے جواب پاؤ گے } ۔ صحابہ رضی اللہ عنہ کانپ اٹھے کہ ایسا نہ ہو اس کے پیچھے کوئی اہم امر ظاہر ہو جتنے بھی تھے سب اپنے اپنے چہرے کپڑوں سے ڈھانپ کر رونے لگے ، ایک شخص تھے جن سے مذاق کیا جاتا تھا اور جنہیں لوگ ان کے باپ کے سوا دوسرے کی طرف نسبت کرکے بلاتے تھے اس نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرا باپ کون ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { خزافہ } ، پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم اللہ کے رب ہونے پر اسلام کے دین ہونے پر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوال ہونے پر راضی ہوگئے ، ہم تمام فتنوں سے اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { آج کی طرح میں نے بھلائی برائی کبھی نہیں دیکھی جنت دوزخ میرے سامنے اس دیوار کے پیچھے بطور نقشے کے پیش کردی گئی تھی } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6362) اور روایت میں ہے یہ سوال کرنے والے عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ تھے ۔ ان سے ان کی والدہ نے کہا تجھ سے بڑھ کر ماں باپ کا نافرمان میں نے نہیں دیکھا ۔ تجھے کیا خبر تھی جاہلیت میں کس چیز کا پرہیز تھا ۔ فرض کرو اگر میں بھی کسی معصیت میں اس وقت آلودہ ہوگئی ہوتی تو آج اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی میری رسوائی ہوتی اور سب کے سامنے بےآبروئی ہوتی ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” سنو ماں اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی مجھے معلوم ہوتا کہ فلاں حبشی غلام کا میں بیٹا ہوں تو واللہ میں اسی سے مل جاتا “ ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:7294) ابن جریر میں ہے کہ { ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سخت غصے کی حالت میں آئے منبر پر بیٹھ گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک اس وقت سرخ ہو رہا تھا ایک شخص نے کھڑے ہو کر پوچھا میں کہاں جاؤں گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا { جہنم میں } ۔ دوسرے نے پوچھا میرا باپ کون ہے ؟ آپ نے فرمایا { حذافہ } ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر فرمایا ہم اللہ کے رب ہونے پر ، اسلام کے دین ہونے پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پر ، قرآن کے امام ہونے پر راضی ہیں یا رسول اللہ جاہلیت اور شرک میں ہم ابھی ابھی آپ کی طرف آئے ہیں ، اللہ ہی جانتا ہے کہ میرے آباؤ اجداد کون ہیں ؟ اس سے آپ کا غصہ کم ہوا اور یہ آیت اتری } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:12806:ضعیف) ایک مرسل حدیث میں ہے کہ { اس دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر بیٹھ کر فرمایا : { جو چاہو پوچھو ، جو پوچھو گے ، بتاؤں گا } ، یہ شخص جس نے اپنے باپ کا نام پوچھا تھا یہ قریش کے قبیلے بنو سہم میں سے تھا ۔ اس روایت میں یہ بھی ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم چوم کر یہ عرض کیا تھا اور یہ بھی فرمایا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے درگزر فرمائیے اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے درگزر فرمائے ، اسی دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ قاعدہ مقرر فرمایا تھا کہ { اولاد اسے ملے گی جس کی بیوی یا لونڈی ہو اور زانی کو پتھر ملیں گے } } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:12805) بخاری شریف میں ہے کہ { بعض لوگ از روئے مذاق حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے باپ کا نام اور اپنی گمشدہ اونٹینیوں کی جگہ وغیرہ دریافت کرتے تھے جس پر یہ آیت اتری } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4622) مسند احمد میں ہے کہ { جب آیت «وَلِلہِ عَلَی النَّاسِ حِجٰ الْبَیْتِ مَنِ اسْـتَـطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا» ۱؎ (3-آل عمران:97) نازل ہوئی یعنی ’ صاحب مقدور لوگوں پر حج بیت اللہ فرض ہے ‘ ، تو لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ کیا ہر سال حج فرض ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو رہے انہوں نے پھر دوبارہ یہی سوال کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر سکوت فرمایا انہوں نے تیسری دفعہ پھر یہی پوچھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ہر سال نہیں اور اگر میں ہاں کہ دیتا تو ہر سال واجب ہو جاتا اور تم ادا نہ کر سکتے } } ۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری ۔ یہ حدیث ترمذی اور ابن ماجہ میں بھی ہے ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:814 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) امام ترمذی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں یہ روایت اس سند سے غریب ہے اور میں نے امام بخاری رحمۃ اللہ سے سنا ہے کہ اس کے راوی ابو الخجزی نے سیدنا علی ابن طالب رضی اللہ عنہ سے ملاقات نہیں کی ۔ ابن جریر کی اس روایت میں یہ بھی ہے کہ { میری ہاں کے بعد اگر تم اسے چھوڑ دیتے تو یقیناً کافر ہو جاتے } ، ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ پوچھنے والے محصن اسدی رضی اللہ عنہ تھے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:12808:ضعیف) دوسری روایت میں ان کا نام عکاشہ بن محصن مروی ہے ، یہی زیادہ ٹھیک ہے ، اور روایت میں ہے کہ سائل ایک اعرابی تھے اس میں یہ بھی ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { تم سے اگلے لوگ ائمہ حرج کے ایسے ہی سوالوں کی وجہ سے ہلاک ہوئے واللہ تمہاری حالت تو یہ ہے کہ اگر میں ساری زمین تمہارے لیے حلال کردوں اور صرف ایک موزے کے برابر کی جگہ حرام کردوں تو تم اسی حرمت والی زمین پر گرو گے } } ، اس کی سند بھی ضعیف ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:12811:ضعیف) ظاہر آیت کے الفاظ کا مطلب تو صاف ہے یعنی ان باتوں کا پوچھنا منع ہے جن کا ظاہر ہونا برا ہو ، پس اولیٰ یہ ہے کہ ایسے سوالات ترک کر دیئے جائیں اور ان سے اعراض کرلیا جائے ۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ { حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرما دیا { دیکھو مجھے کسی کی کوئی برائی نہ پہنچائے میں چاہتا ہوں کہ تمہارے پاس صاف سینہ لے کر آؤں } } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3896،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) پھر فرماتا ہے کہ ’ جن چیزوں کے سوال سے تمہیں روکا جا رہا ہے اگر تم نے ان کی بابت پوچھ گچھ کی اور تم دیکھ رہے ہو کہ وحی نازل ہو رہی ہے تو تمہارے سوالات کا جواب آ جائے گا اور جس چیز کا ظاہر ہونا تمہیں برا معلوم ہوتا تھا وہ ظاہر ہو جائے گی ، اس سے پہلے کے ایسے سوالات سے تو اللہ تعالیٰ نے درگزر فرما لیا ۔ اللہ ہے ہی بخشش والا اور حلم و بردباری والا ‘ ۔ مطلب یہ ہے کہ سوالات ترک کر دو ایسا نہ ہو کہ تمہارے سوال کی وجہ سے کوئی آسانی سختی میں بدل جائے ۔ حدیث شریف میں ہے { مسلمانوں میں سب سے بڑا گنہگار وہ ہے جس نے کسی چیز کی نسبت دریافت کیا جو حرام نہ تھی پھر اس کے سوال کی وجہ سے وہ حرام ہو گئی } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:7289) یہ بات اور ہے کہ قرآن شریف میں کوئی حکم آئے اس میں اجمال ہو اس کی تفصیل دریافت کی جائے ، اللہ تعالیٰ نے جس چیز کا ذکر اپنی پاک کتاب میں نہیں کیا اس سے خود اس نے درگزر فرما لیا ہے ، پس تمہیں بھی اس سے خاموشی اختیار کرنی چاہیئے جیسے کہ خود اللہ تعالیٰ نے کی ہے ۔ صحیح حدیث میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { جب تک میں تمہیں چھوڑے رکھوں تم بھی مجھے چھوڑ رکھو ، یاد رکھو کہ تم سے اگلے لوگوں کی حالت کی وجہ صرف کثرت سوال اور انبیاء پر اختلاف ہی ہوئی ہے } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:7288) اور حدیث میں ہے { اللہ تعالیٰ نے فرائض مقرر کر دیئے ہیں انہیں ضائع نہ کرو حدیں باندھ دی ہیں انہیں نہ توڑو ، جو چیزیں حرام کر دی ہیں ان کی حرمت کو سنبھالو جن چیزوں سے خاموشی کی ہے صرف تم پر رحم کھا کر نہ کہ بھول کر تم بھی اس کو پوچھ گچھ نہ کرو } ۔ ۱؎ (دارقطنی:183/4:ضعیف) پھر فرماتا ہے ’ ایسے ہی مسائل تم سے اگلے لوگوں نے بھی دریافت کئے انہیں بتائے گئے پھر وہ ان پر ایمان نہ لائے بلکہ ان کے باعث کافر بن گئے ان پر وہ باتیں بیان کی گئیں ان سے انہوں نے فائدہ نہ اٹھایا کیونکہ ان کے سوال ہی سرکشی پر تھے نہ کہ سمجھنے اور ماننے کیلئے ‘ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس آیت کی تفسیر میں مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں میں اعلان کیا پھر فرمایا کہ { اللہ تعالیٰ نے تم پر حج فرض کر دیا ہے } ، بنو اسد قبیلے کا ایک شخص کھڑا ہوا اور کہا یا رسول اللہ کیا ہر سال ؟ آپ سخت غضبناک ہوئے اور فرمایا : { قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر میں ہاں کہہ دیتا تو ہر سال فرض ہو جاتا اور اگر ایسا ہوتا تو اس پر عمل تمہاری طاقت سے باہر تھا اور جب عمل نہ کرتے تو کافر ہو جاتے پس جب تک میں نہ کہوں تم بھی نہ پوچھو میں خود جب تمہیں کسی بات کا حکم دوں تو اسے بجا لاؤ اور جب میں تمہیں کسی چیز سے روکوں تو رک جاؤ } ۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کو ممانعت کردی کہ کہیں وہ بھی نصرانیوں کی طرح آسمانی دستر خوان طلب نہ کریں جس کے طلب کرنے کے بعد اور آنے کے بعد پھر وہ کافر ہوگئے پس منع کردیا اور صاف فرما دیا کہ ایسی باتیں نہ پوچھو کہ اگر قرآن میں ان کی بابت سخت احکام نازل ہوں تو تمہیں برے لگیں بلکہ تم منتظر رہو قرآن اتر رہا ہے جو پوچھنا چاہتے ہو سب کا بیان اس میں پاؤ گے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:12812:ضعیف) بہ روایت مجاہد رحمۃ اللہ ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس آیت کی تفسیر میں یہ بھی مروی ہے کہ مراد اس سے وہ جانور ہیں جن کا ذکر اس آیت کے بعد ہی ہے ۔ عکرمہ رحمۃ اللہ فرماتے ہیں مراد معجزات کی طلبی ہے جیسے کہ قریشیوں نے کہا تھا کہ عرب میں نہریں جاری ہو جائیں اور صفا پہاڑ سونے کا ہو جائے وغیرہ اور جیسے یہود نے کہا تھا کہ خود ان پر آسمان سے کتاب اترے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آیت «وَمَا مَنَعَنَآ اَنْ نٰرْسِلَ بالْاٰیٰتِ اِلَّآ اَنْ کَذَّبَ بِہَا الْاَوَّلُوْنَ» ۱؎ (17-الإسراء:59) یعنی ’ معجزوں کے ظاہر کرنے سے مانع تو کچھ بھی نہیں مگر یہ کہ اگلے لوگوں نے بھی اسے جھٹلایا ہم نے ثمود کو اونٹنی کا نشان دیا تھا جس پر انہوں نے ظلم کیا ہم تو نشانات صرف دھمکانے کیلئے بھیجتے ہیں ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَاَقْسَمُوْا باللّٰہِ جَہْدَ اَیْمَانِہِمْ لَیِٕنْ جَاءَتْہُمْ اٰیَۃٌ لَّیُؤْمِنُنَّ بِہَا قُلْ اِنَّمَا الْاٰیٰتُ عِنْدَ اللّٰہِ وَمَا یُشْعِرُکُمْ اَنَّہَآ اِذَا جَاءَتْ لَا یُؤْمِنُوْنَ وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَہُمْ وَأَبْصَارَہُمْ کَمَا لَمْ یُؤْمِنُوا بِہِ أَوَّلَ مَرَّۃٍ وَنَذَرُہُمْ فِی طُغْیَانِہِمْ یَعْمَہُونَ وَلَوْ أَنَّنَا نَزَّلْنَا إِلَیْہِمُ الْمَلَائِکَۃَ وَکَلَّمَہُمُ الْمَوْتَیٰ وَحَشَرْنَا عَلَیْہِمْ کُلَّ شَیْءٍ قُبُلًا مَّا کَانُوا لِیُؤْمِنُوا إِلَّا أَن یَشَاءَ اللہُ وَلٰکِنَّ أَکْثَرَہُمْ یَجْہَلُونَ» ۱؎ ۱؎ (6-الأنعام:111-109) ’ بڑی زور دار قسمیں کھاتے ہیں کہ اگر کوئی معجزہ آ گیا تو ضرور ایمان لائیں گے تو جواب دے کہ یہ تو اللہ کے قبضے کی چیز ہے ہو سکتا ہے کہ معجزہ دیکھ کر بھی ایمان نہ لائیں ہم ان کے دلوں کو اور آنکھوں کو الٹ دیں گے جیسے کہ پہلی دفعہ قرآن پر ایمان نہیں لائے تھے اور ہم انہیں ان کی سرکشی کی حالت میں ہی پڑے رہنے دیں گے بھٹکتے پھریں اگر ہم ان پر آسمان سے فرشتے بھی اتارتے اور مردے بھی ان سے باتیں کرنے لگتے اور تمام چیزیں یہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے تب بھی تو اللہ کی چاہت کے بغیر انہیں ایمان نصیب نہ ہوتا ۔ ان میں سے اکثر ہیں ہی بے علم ‘ ۔ المآئدہ
101 المآئدہ
102 المآئدہ
103 بتوں کے نام کٹے ہوئے جانوروں کے نام؟ صحیح بخاری شریف میں سعید بن مسیب رحمتہ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ «بَحِیرَۃٍ» اس جانور کو کہتے ہیں جس کے بطن کا دودھ وہ لوگ اپنے بتوں کے نام کر دیتے تھے اسے کوئی دو ہتا نہ تھا «سَائِبَۃٍ» ان جانوروں کو کہتے تھے جنہیں وہ اپنے معبود باطل کے نام پر چھوڑ دیتے تھے سواری اور بوجھ سے آزاد کر دیتے تھے ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا { میں نے عمرو بن عامر خزاعی کو دیکھا کہ وہ جہنم میں اپنی آنتیں گھسیٹ رہا ہے اس نے سب سے پہلے یہ رسم ایجاد کی تھی ۔ «وَصِیلَۃٍ» وہ اونٹنی ہے جس کے پلوٹھے دو بچے اوپر تلے کے مادہ ہوں ان دونوں کے درمیان کوئی نر اونٹ پیدا نہ ہوا ہو اسے بھی وہ اپنے بتوں کے نام وقف کر دیتے تھے ۔ «حَامٍ» اس نر اونٹ کا نام تھا جس کی نسل سے کئی بچے ہو گئے ہوں پھر اسے بھی اپنے بزرگوں کے نام پر چھوڑ دیتے تھے اور کسی کام میں نہ لیتے تھے } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4623) ایک حدیث میں ہے کہ { میں نے جہنم کو دیکھا اس کا ایک حصہ دوسرے کو گویا کھائے جا رہا تھا اس میں میں نے عمرو کو دیکھا کہ اپنی آنتیں گھسیٹا پھرتا ہے اسی نے سائبہ کا رواج سب سے پہلے نکالا تھا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4624) ایک حدیث میں ہے { حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عمورو کا یہ ذکر حصرت اکتم بن جون رضی اللہ عنہ سے کر کے فرمایا { وہ صورت و شکل میں بالکل تیرے جیسا ہے } اس پر اکتم نے فرمایا یا رسول اللہ کہیں یہ مشابہت مجھے نقصان نہ پہنچائے ؟ آپ نے فرمایا { نہیں بے فکر رہو وہ کافر تھا تم مسلمان ہو ۔ اسی نے ابراہیم علیہ السلام کے دین کو سب سے پہلے بدلا اسی نے بحیرہ ، سائبہ اور حام کی رسم نکالی ، اسی نے بت پرستی دین ابراہیمی میں ایجاد کی } } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:12820:صحیح) ایک روایت میں ہے { یہ بنو کعب میں سے ہے ، جہنم میں اس کے جلنے کی بدبو سے دوسرے جہنمیوں کو بھی تکلیف پہنچتی ہے ۔ بحیرہ کی رسم کو ایجاد کرنے والا بنو مدلج کا ایک شخص تھا اس کی دو اونٹنیاں تھیں جن کے کان کاٹ دیئے اور دودھ حرام کر دیا پھر کچھ عرصہ کے بعد پینا شروع کر دیا ، میں نے اسے بھی دوزخ میں دیکھا دونوں اونٹنیاں اسے کاٹ رہی تھیں اور روند رہی تھیں } ۔ یاد رہے کہ یہ عمر ولحی بن قمعہ کا لڑکا ہے جو خزاعہ کے سرداروں میں سے ایک تھا قبیلہ جرہم کے بعد بیت اللہ شریف کی تولیت انہی کے پاس تھی یہی شخص عرب میں بت لایا اور سفلے لوگوں میں ان کی عبادت جاری کی اور بہت سی بدعتیں ایجاد کیں جن میں سے چوپایوں کو الگ الگ طریقے سے بتوں کے نام کرنے کی رسم بھی تھی ۔ جس کی طرف اشارہ آیت «وَجَعَلُوْا لِلہِ مِمَّا ذَرَاَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْاَنْعَامِ نَصِیْبًا فَقَالُوْا ھٰذَا لِلہِ بِزَعْمِہِمْ وَھٰذَا لِشُرَکَایِٕنَا فَمَا کَانَ لِشُرَکَایِٕہِمْ فَلَا یَصِلُ اِلَی اللّٰہِ وَمَا کَانَ لِلہِ فَہُوَ یَصِلُ اِلٰی شُرَکَایِٕہِمْ سَاءَ مَا یَحْکُمُوْنَ» ۱؎ (6-الأنعام:136) میں ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اونٹنی کے جب پانچ بچے ہوتے تو پانچواں اگر نر ہوتا تو اسے ذبح کر ڈالتے اور اس کا گوشت صرف مرد کھاتے عورتوں پر حرام جانتے اور اگر مادہ ہوتی تو اس کے کان کاٹ کر اس کا نام بحیرہ رکھتے ۔ سائبہ کی تفسیر میں مجاہد رحمۃ اللہ سے اسی کے قریب قریب بکریوں میں مروی ہے ۔ محمد بن اسحاق رحمۃ اللہ کا قول ہے کہ جس اونٹنی کے پے در پے دس اونٹنیاں پیدا ہوتیں اسے چھوڑ دیتے نہ سواری لیتے نہ بال کاٹتے نہ دودھ دوہتے اور اسی کا نام سائبہ ہے ۔ صرف مہمان کے لیے تو دودھ نکال لیتے ورنہ اس کا دودھ یونہی رکا رہتا ، ابو روق کہتے ہیں یہ نذر کا جانور ہوتا تھا جب کسی کی کوئی حاجت پوری ہو جاتی تو وہ اپنے بت اور بزرگ کے نام کوئی جانور آزاد کر دیتا پھر اس کی نسل بھی آزاد سمجھی جاتی ، سدی کہتے ہیں اگر کوئی شخص اس جانور کی بیحرمتی کرتا تو اسے یہ لوگ سزا دیتے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وصیلہ اس جانور کو کہتے ہیں کہ مثلاً ایک بکری کا ساتواں بچہ ہے اب اگر وہ نر ہے اور ہے مردہ تو اسے مرد عورت کھاتے اور اگر وہ مادہ ہے تو اسے زندہ باقی رہنے دیتے اور اگر نر مادہ دونوں ایک ساتھ ہوئے ہیں تو اس نر کو بھی زندہ رکھتے اور کہتے کہ اس کے ساتھ اس کی بہن ہے اس نے اسے ہم پر حرام کر دیا ۔ سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ جس اونٹنی کے مادہ پیدا ہو پھر دوسرا بچہ بھی مادہ ہو تو اسے وصیلہ کہتے تھے ، محمد بن اسحاق رحمۃ اللہ فرماتے ہیں جو بکری پانچ دفعہ دو دو مادہ بکریاں بچے دے اس کا نام وصیلہ تھا پھر اسے چھوڑ دیا جاتا تھا اس کے بعد اس کا جو بچہ ہوتا اسے ذبح کر کے صرف مرد کھا لیتے اور اگر مردہ پیدا ہوتا تو مرد عورت سب کا حصہ سمجھا جاتا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حام اس نر اونٹ کو کہتے ہیں جس کی نسل سے دس بچے پیدا ہو جائیں یہ بھی مروی ہے کہ جس کے بچے سے کوئی بچہ ہو جائے اسے وہ آزاد کر دیتے نہ اس پر سواری لیتے نہ اس پر بوجھ لادتے ، نہ اس کے بال کام میں لیتے نہ کسی کھیتی یا چارے یا حوض سے اسے روکتے ، اور اقوال بھی ہیں ۔ حضرت مالک بن نفلہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں { میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت میں پھٹے پرانے میلے کچیلے کپڑے پہنے ہوئے تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھ کر فرمایا : { تیرے پاس کچھ مال بھی ہے ؟ } میں نے کہا ہاں ، فرمایا : { کس قسم کا ؟ } کہا ہر قسم کا اونٹ بکریاں گھوڑے غلام وغیرہ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { پھر تو اللہ نے تجھے بہت کچھ دے رکھا ہے سن اونٹ کے جب بچہ ہوتا ہے تو صحیح سالم کان والا ہی ہوتا ہے ؟ } میں نے کہا ہاں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { پھر تو استرا لے کر ان کے کان کاٹ دیتا ہے اور ان کا نام بحیرہ رکھ دیتا ہے ؟ اور بعض کے کان چیر کر انہیں حرام سمجھنے لگتا ہے ؟ } میں نے کہا جی ہاں ۔ فرمایا : { خبردار ایسا نہ کرنا اللہ نے تجھے جتنے جانور دے رکھے ہیں سب حلال ہیں } ۔ پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی } ۔ ۱؎ (مسند احمد:473/3:صحیح) بحیرہ وہ ہے جس کے کان کاٹ دیئے جاتے تھے پھر گھر والوں میں سے کوئی بھی اس سے کسی قسم کا فائدہ نہیں اٹھا سکتا تھا ہاں جب وہ مر جاتا تو سب بیٹھ کر اس کا گوشت کھا جاتے ، سائبہ اس جانور کو کہتے ہیں جسے اپنے معبودوں کے پاس لے جا کر ان کے نام کا کر دیتے تھے ۔ وصیلہ اس بکری کو کہتے تھے جس کے ہاں ساتویں دفعہ بچہ ہو اس کے کان اور سینگ کاٹ کر آزاد کر دیتے ، اس روایت کے مطابق تو حدیث ہی میں ان جانورون کی تفصیل ملی جلی ہے ایک روایت میں یہ بقول عوف بن مالک مروی ہے اور یہی زیادہ ٹھیک ہے ۔ پھر فرمان قرآن ہے کہ ’ یہ نام اور چیزیں اللہ کی مقرر کردہ نہیں نہ اس کی شریعت میں داخل ہیں نہ ذریعہ ثواب ہیں ‘ ۔ یہ لوگ اللہ کی پاک صاف شریعت کی طرف دعوت دیئے جاتے ہیں تو اپنے باپ دادوں کے طریقوں کو اس کے مقابلے میں پیش کرتے ہیں حالانکہ ان کے بڑے محض ناواقف اور بے راہ تھے ان کی تابعداری تو وہ کرے گا جو ان سے بھی زیادہ بہکا ہوا اور بے عقل ہو ۔ المآئدہ
104 المآئدہ
105 اپنی اصلاح آپ کرو اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو حکم دیتا ہے کہ ’ وہ خود اپنی اصلاح کریں اور اپنی طاقت کے مطابق نیکیوں میں مشغول رہیں ، جب وہ خود ٹھیک ٹھاک ہو جائیں گے تو برے لوگوں کا ان پر کوئی بوجھ نہیں پڑے گا خواہ وہ رشتے دار اور قریبی ہوں خواہ اجنبی اور دور کے ہوں ‘ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ جب کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عامل ہو جائے برائیوں سے بچ جائے تو اس پر گنہگار لوگوں کے گناہ کا کوئی بوجھ بار نہیں ۔ مقاتل رحمۃ اللہ سے مروی ہے کہ ہر عامل کو اس کے عمل کا بدلہ ملتا ہے بروں کو سزا اچھوں کو جزا ۔ اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ اچھی بات کا حکم اور بری باتوں سے منع بھی نہ کرے ، کیونکہ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ { سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے خطبے میں فرمایا لوگو تم اس آیت کو پڑھتے ہو اور اس کا مطلب غلط لیتے ہو سنو! میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ { لوگ جب بری باتوں کو دیکھتے ہوئے انہیں نہیں روکیں گے تو بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی عام عذاب آ جائے } } ۔ امیر المومنین رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان بھی ہے کہ جھوٹ سے بچو جھوٹ ایمان کی ضد ہے ۱؎ (سنن ترمذی:2168،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ سے اس آیت کی بابت سوال ہوا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا { میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں سوال کیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { نہیں بلکہ تم بھلائی کا حکم اور برائی سے ممانعت کرتے رہو یہاں تک کہ بخیلی کی پیروی اور خواہش نفس کی اتباع اور دنیا کی پسندیدگی اور ہر شخص کا اپنی رائے پر پھولنا عام نہ ہو جائے اس وقت تم صرف اپنی اصلاح میں مشغول ہو جاؤ اور عام لوگوں کو چھوڑ دو ، یاد رکھو تمہارے پیچھے صبر کے دن آ رہے ہیں اس وقت دین اسلام پر جما رہنے والا ایسا ہوگا جیسے کوئی انگارے کو مٹھی میں لیے ہوئے ہو اس وقت عمل کرنے والے کو مثل پچاس شخصوں کے عمل کا اجر ملے گا جو بھی اچھے اعمال کرے گا } } ۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ { صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے پوچھا یا رسول اللہ مثل پچاس شخصوں کے ان میں سے یا ہم میں سے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { نہیں بلکہ تم میں سے } } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4341،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی جب اس آیت کا مطلب دریافت کیا گیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” یہ وہ وقت نہیں آج تو تمہاری باتیں مان لی جاتی ہیں لیکن ہاں ایک زمانہ ایسا بھی آنے والا ہے کہ نیک باتیں کہنے اور بھلائی کا حکم کرنے والوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کی جائے گی اور اس کی بات قبول نہ کی جائے گی اس وقت تم صرف اپنے نفس کی اصلاح میں لگ جانا “ ۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی مجلس میں کچھ لوگ بیٹھے ہوئے تھے دو شخصوں میں کچھ جھگڑا ہوگیا اور وہ آمنے سامنے کھڑے ہوگئے تو ایک نے کہا میں اٹھتا ہوں اور انہیں نیکی کا حکم کرتا ہوں اور برائی سے روکتا ہوں تو دوسرے نے کہا مجھے کیا پڑی ؟ تو اپنی اصلاح میں لگا رہ ، پھر یہی آیت تلاوت کی اسے سن کر سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” چپ رہ اس آیت کے عمل کا یہ وقت نہیں قرآن میں کئی طرح کی آیتیں ہیں بعض تو وہ ہیں جن کے مضامین گزرچکے بعض وہ ہیں جن کے واقعات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہو گئے ، بعض کے واقعات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہوئے بعض قیامت کے دن ہوں گے مثلاً جنت دوزخ وغیرہ ، سنو جب تک تمہارے دل نہ پھٹیں تمہارا مقصود ایک ہی ہو تم میں پھوٹ نہ پڑی ہو تم میں لڑائی دنگے شروع نہ ہوئے ہوں تم اچھی باتوں کی ہدایت کرتے رہو اور بری باتوں سے روکتے رہو ۔ ہاں جب دلوں میں جدائی ہو جائے ۔ آپس میں اختلاف پڑ جائیں لڑائیاں شروع ہو جائیں اس وقت صرف اپنے تیئس پابند شریعت رکھنا کافی ہے اور وہی وقت ہے اس آیت کے عمل کا “ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری) سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا گیا کہ ان دنوں تو آپ رضی اللہ عنہ اگر اپنی زبان روک لیں تو اچھا ہو آپ رضی اللہ عنہ کو کیا پڑی کوئی کچھ ہی کرے آپ رضی اللہ عنہ نہ کسی کو روکیں نہ کچھ کہیں ۔ دیکھئیے قرآن میں بھی تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’ تم اپنے تئیں سنبھا لو گمراہوں کی گمراہی کا وبال تم پر نہیں جبکہ تم خود راہ راست پر ہو ‘ ۔ تو سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا یہ حکم میرے اور میرے ساتھیوں کیلئے نہیں اس لیے کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا ہے { خبردار ہر موجود شخص غیر موجود لوگوں کو پہنچا دے } ۔ پس ہم موجود تھے اور تم غیر موجود تھے ۔ یہ آیت تو ان لوگوں کے حق میں ہے جو بعد میں آئیں گے وہ لوگوں کو نیک باتیں کہیں گے لیکن ان کی بات قبول نہ کی جائے گی ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:12855:ضعیف) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی مجلس میں ایک صاحب آئے بڑے غصیل اور تیز زبان ، کہنے لگے سنیئے جناب چھ شخص ہیں سب قرآن پڑھے ہوئے جاننے بوجھنے والے مجہتد سمجھدار لیکن ہر ایک دوسرے کو مشرک بتلاتا ہے ، اس نے کہا میں تم سے نہیں پوچھتا میں تو ابن عمر رضی اللہ عنہ سے سوال کرتا ہوں اور پھر وہی بات دوہرا دی تو عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” شاید تو یہ چاہتا ہے کہ میں تجھے یہ کہہ دوں کہ جا انہیں قتل کر ڈال نہیں میں کہتا ہوں جا انہیں نصیحت کر انہیں برائی سے روک نہ مانیں تو اپنی راہ لگ “ ، پھر آپ نے یہی آیت تلاوت کی ۔ خلیفہ ثالث سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ابن مازن رحمۃ اللہ مدینے میں آتے ہیں یہاں مسلمانوں کا ایک مجمع جمع تھا جس میں سے ایک شخص نے اسی آیت کی تلاوت کی تو اکثر لوگوں نے کہا اس کے عمل کا وقت ابھی تک نہیں آیا ۔ جبیر بن نفیر رحمۃ اللہ کہتے ہیں میں ایک مجلس میں تھا جس میں بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین موجود تھے یہی ذکر ہو رہا تھا کہ اچھی باتوں کا حکم کرنا چاہیئے اور بری باتوں سے روکنا چاہیئے میں اس مجلس میں سب سے چھوٹی عمر کا تھا لیکن جرأت کر کے یہ آیت پڑھ دی اور کہا کہ پھر اس کا کیا مطلب ہو گا ؟ تو سب نے ایک زبان ہو کر مجھے جواب دیا کہ اس کا صحیح مطلب تمہیں معلوم نہیں اور جو مطلب تم لے رہے ہو بالکل غلط ہے مجھے بڑا افسوس ہوا ۔ پھر وہ اپنی باتوں میں مشغول ہو گئے جب اٹھنے کا وقت آیا تو مجھ سے فرمایا تم ابھی بچے ہو بے موقعہ آیت پڑھ دیتے ہو اصلی مطلب تک نہیں پہنچتے بہت ممکن ہے کہ تم اس آیت کے زمانے کو پالو یہ حکم اس وقت ہے جب بخیلی کا دور دورہ ہو خواہش پرستی عام ہو ہر شخص اپنی سمجھ پر نازاں ہو اس وقت انسان خود نیکیوں اور بھلائیوں میں مشغول رہے گمراہوں کی گمراہی اسے کوئی نقصان نہیں پہنچائے گی ۔ حسن رحمۃ اللہ نے اس آیت کی تلاوت کر کے فرمایا ” اس پر بھی اللہ کا شکر ہے اگلے اور پچھلے مومنوں کے ساتھ منافق ضرور رہے جو ان کے اعمال سے بیزار ہی رہے “ ۔ حضرت سعید بن مسیب رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ” جب تم نے اچھی بات کی نصیحت کر دی اور بری بات سے روک دیا پھر بھی کسی نے برائیاں کیں نیکیاں چھوڑیں تو تمہیں کوئی نقصان نہیں “ ۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ بھی یہی فرماتے ہیں ۔ کعب رحمۃ اللہ فرماتے ہیں ” اس کا وقت وہ ہے جب مسجد دمشق کا کلیسا ڈھا دیا جائے اور تعصب بڑھ جائے “ ۔ المآئدہ
106 معتبر گواہی کی شرائط بعض لوگوں نے اس آیت کے عزیز حکم کو منسوخ کہا ہے لیکن اکثر حضرات اس کے خلاف ہیں «اِثْنَانِ» خبر ہے ، اس کی تقدیر «شَہَادَۃُ اثْنَیْنِ» ہے مضاف کو حذف کر کے مضاف الیہ اس کے قائم مقام کر دیا گیا ہے یا دلالت کلام کی بنا پر فعل محذوف کر دیا گیا ہے یعنی «‏‏‏‏اَنْ یَّشْہَدَ اِثْنَانِ» - «ذَوَاعَدْلٍ» صفت ہے ، «مِنْکُمْ» سے مراد مسلمانوں میں سے ہونا یا وصیت کرنے والے کے اہل میں سے ہونا ہے ، «مِنْ غَیْرِکُمْ» سے مراد اہل کتاب ہیں ، یہ بھی کہا گیا ہے کہ «مِنْکُمْ» سے مراد قبیلہ میں اور «مِنْ غَیْرِکُمْ» سے مراد اس کے قبیلے کے سوا ، شرطیں دو ہیں ایک مسافر کے سفر میں ہونے کی صورت میں موت کے وقت وصیت کے لیے غیر مسلم کی گواہی چل سکتی ہے ، شریح سے یہی مروی ہے ۔ امام احمد رحمۃ اللہ بھی یہی فرماتے ہیں اور تینوں امام خلاف ہیں ، امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ ذمی کافروں کی گواہی آپس میں ایک دوسرے پر جائز مانتے ہیں ، زہری رحمۃ اللہ کا قول ہے کہ سنت جاری ہو چکی ہے کہ کافر کی شہادت جائز نہیں نہ سفر میں نہ حضر میں ۔ ابن زید کہتے ہیں کہ یہ آیت اس شخص کے بارے میں اتری ہے جس کی موت کے وقت اس کے پاس کوئی مسلمان نہ تھا یہ ابتدائے اسلام کا وقت تھا جبکہ زمین کافروں سے بھری تھی اور وصیت سے ورثہ بٹتا تھا ، ورثے کے احکام نازل نہیں ہوئے تھے ، پھر وصیت منسوخ ہو گئی ورثے کے احکام اترے اور لوگوں نے ان پر عمل درآمد شروع کر دیا ، پھر یہ بھی کہ ان دونوں غیر مسلموں کو وصی بنایا جائے گا یا گواہ ؟ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ یہ حکم اس شخص کے بارے میں ہے جو سفر میں ہو اور وہیں اجل آ جائے اور مال اس کے پاس ہو پس اگر دو مسلمان اسے مل جائیں تو انہیں اپنا مال سونپ دے اور دو گواہ مسلمان مقرر کر لے ، اس قول کے مطابق تو یہ دونوں وصی ہوئے ، دوسرا قول یہ ہے کہ یہ دونوں گواہ ہوں گے ، آیت کے الفاظ کا ظاہر مطلب بھی یہی معلوم ہوتا ہے ، ہاں جس صورت میں ان کے ساتھ اور گواہ نہ ہوں تو یہی وصی ہوں گے اور یہی گواہ بھی ہوں گے امام ابن جریررحمۃ اللہ نے ایک مشکل اس میں یہ بیان کی ہے کہ شریعت کے کسی حکم میں گواہ پر قسم نہیں ۔ لیکن ہم کہتے ہیں یہ ایک حکم ہے جو مستقل طور پر بالکل علیحدہ صورت میں ہے اور احکام کا قیاس اس پر جاری نہیں ہے ، یہ ایک خاص شہادت خاص موقعہ کی ہے اس میں اور بھی بہت سی ایسی باتیں جو دوسرے احکام میں نہیں ۔ پس شک کے قرینے کے وقت اس آیت کے حکم کے مطابق ان گواہوں پر قسم لازم آتی ہے ۔ ’ نماز کے بعد ٹھہرا لو ‘ سے مطلب نماز عصر کے بعد ہے ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ نماز سے مراد مسلمانوں کی نماز ہے ۔ تیسرا قول یہ ہے کہ ان کے مذہب کی نماز ، مقصود یہ ہے کہ انہیں نماز کے بعد لوگوں کی موجودگی میں کھڑا کیا جائے اور اگر خیانت کا شک ہو تو ان سے قسم اٹھوائی جائے وہ کہیں کہ اللہ کی قسم ہم اپنی قسموں کو کسی قیمت بیچنا نہیں چاہتے ۔ دنیوی مفاد کی بناء پر جھوٹی قسم نہیں کھاتے چاہے ہماری قسم سے کسی ہمارے قریبی رشتہ دار کو نقصان پہنچ جائے تو پہنچ جائے لیکن ہم جھوٹی قسم نہیں کھائیں گے اور نہ ہم سچی گواہی چھپائیں گے ۔ اس گواہی کی نسبت اللہ کی طرف اس کی عزت و عظمت کے اظہار کیلئے ہے بعض نے اسے قسم کی بنا پر مجرور پڑھا ہے لیکن مشہور قرأت پہلی ہی ہے وہ ساتھ ہی یہ بھی کہیں کہ اگر ہم شہادت کو بدلیں یا الٹ پلٹ کریں یا کچھ حصہ چھپالیں تو ہم بھی گنہگار ۔ المآئدہ
107 1 پھر اگر یہ مشہور ہو یا ظاہر ہو جائے یا اطلاع مل جائے کہ ان دونوں نے مرنے والے کے مال میں سے کچھ چرا لیا یا کسی قسم کی خیانت کی ۔ «أَوْلَیَانِ» کی دوسری قرأت «‏‏‏‏اَوّلَانِ» بھی ہے مطلب یہ ہے کہ جب کسی خبر صحیح سے پتہ چلے کہ ان دونوں نے کوئی خیانت کی ہے تو میت کے وارثوں میں سے جو میت کے زیادہ نزدیک ہوں وہ دو شخص کھڑے ہوں اور حلیفہ بیان دیں کہ ہماری شہادت ہے کہ انہوں نے چرایا اور یہی زیادہ حق زیادہ صحیح اور پوری سچی بات ہے ، ہم ان پر جھوٹ نہیں باندھتے اگر ہم ایسا کریں تو ہم ظالم ۔ یہ مسئلہ اور قسامت کا مسئلہ اس بارے میں بہت ملتا جلتا ہے ، اس میں بھی مقتول کے اولیاء قسمیں کھاتے ہیں ، تمیم داری سے منقول ہے کہ اور لوگ اس سے بری ہیں صرف میں اور عدی بن بداء اس سے متعلق ہیں ، یہ دونوں نصرانی تھے اسلام سے پہلے ملک شام میں بغرض تجارت آتے جاتے تھے ابن سہم کے مولی بدیل بن ابومریم بھی مال تجارت لے کر شام کے ملک گئے ہوئے تھے ان کے ساتھ ایک چاندی کا جام تھا ، جسے وہ خاص بادشاہ کے ہاتھ فروخت کرنے کیلئے لے جا رہے تھے ۔ اتفاقاً وہ بیمار ہوگئے ان دونوں کو وصیت کی اور مال سونپ دیا کہ یہ میرے وارثوں کو دے دینا اس کے مرنے کے بعد ان دونوں نے وہ جام تو مال سے الگ کر دیا اور ایک ہزار درہم میں بیچ کر آدھوں آدھ بانٹ لیے باقی مال واپس لا کر بدیل کے رشتہ داروں کو دے دیا ، انہوں نے پوچھا کہ چاندی کا جام کیا ہوا ؟ دونوں نے جواب دیا ہمیں کیا خبر ؟ ہمیں تو جو دیا تھا وہ ہم نے تمہیں دے دیا ۔ تمیم داری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینے میں آئے اور اسلام نے مجھ پر اثر کیا ، میں مسلمان ہوگیا تو میرے دل میں خیال آیا کہ یہ انسانی حق مجھ پر رہ جائے گا اور اللہ تعالیٰ کے ہاں میں پکڑا جاؤں گا تو میں بدیل کے وارثان کے پاس آیا اور اس سے کہا پانچ سو درہم جو تونے لے لیے ہیں وہ بھی واپس کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ { اس سے قسم لی جائے } ۔ اس پر یہ آیت اتری اور عمرو بن العاص نے اور ان میں سے ایک اور شخص نے قسم کھائی عدی بن بداء کو پانچ سو درہم دینے پڑے ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3059،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ایک روایت میں ہے کہ عدی جھوٹی قسم بھی کھا گیا تھا اور روایت میں ہے کہ اس وقت ارض شام کے اس حصے میں کوئی مسلمان نہ تھا ، یہ جام چاندی کا تھا اور سونے سے منڈھا ہوا تھا اور مکے میں سے جام خریدا گیا تھا جہاں سے ملا تھا انہوں نے بتایا تھا کہ ہم نے اسے تمیم اور عدی سے خریدا ہے ، اب میت کے دو وارث کھڑے ہوئے اور قسم کھائی ، اسی کا ذکر اس آیت میں ہے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2780) ایک روایت میں ہے کہ قسم عصر کی نماز کے بعد اٹھائی تھی ۔ ابن جریر میں ہے کہ ایک مسلمان کی وفات کا موقعہ سفر میں آیا ، جہاں کوئی مسلمان اسے نہ ملا تو اس نے اپنی وصیت پر دو اہل کتاب گواہ رکھے ، ان دونوں نے کوفے میں آ کر ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے سامنے شہادت دی وصیت بیان کی اور ترکہ پیش کیا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ واقعہ پہلا ہے پس عصر کی نماز کے بعد ان سے قسم لی کہ نہ انہوں نے خیانت کی ہے ، نہ جھوٹ بولا ہے ، نہ بدلا ہے ، نہ چھپایا ہے ، نہ الٹ پلٹ کیا ہے بلکہ سچ وصیت اور پورا ترکہ انہوں نے پیش کر دیا ہے آپ رضی اللہ عنہ نے ان کی شہادت کو مان لیا ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:3065،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کے فرمان کا مطلب یہی ہے کہ ایسا واقعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تمیم اور عدی کا ہوا تھا اور اب یہ دوسرا اس قسم کا واقع ہے ، تمیم بن داری رضی اللہ عنہ کا اسلام سنہ ٩ ہجری کا ہے اور یہ آخری زمانہ ہے ۔ سدی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں لازم ہے کہ موت کے وقت وصیت کرے اور دو گواہ رکھے اگر سفر میں ہے اور مسلمان نہیں ملتے تو خیر غیر مسلم ہی سہی ۔ انہیں وصیت کرے اپنا مال سونپ دے ، اگر میت کے وارثوں کو اطمینان ہو جائے تو خیر آئی گئی بات ہوئی ورنہ سلطان اسلام کے سامنے وہ مقدمہ پیش کر دیا جائے ۔ اوپر جو واقعہ بیان ہوا اس میں یہ بھی ہے کہ جب ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے ان سے عصر کے بعد قسم لینی چاہی تو آپ رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ انہیں عصر کے بعد کی کیا پرواہ ؟ ان سے ان کی نماز کے وقت قسم لی جائے اور ان سے کہا جائے کہ اگر تم نے کچھ چھپا یا یا خیانت کی تو ہم تمہیں تمہاری قوم میں رسوا کر دیں گے اور تمہاری گواہی کبھی بھی قبول نہ کی جائے گی اور تمہیں سنگین سزا دی جائے گی ، بہت ممکن ہے کہ اس طرح ان کی زبان سے حق بات معلوم ہو جائے پھر بھی اگر شک شبہ رہ جائے اور کسی اور طریق سے ان کی خیانت معلوم ہو جائے تو مرحوم کے دو مسلمان وارث قسمیں کھائیں کہ ان کافروں کی شہادت غلط ہے تو ان کی شہادت غلط مان لی جائے گی اور ان سے ثبوت لے کر فیصلہ کر دیا جائے گا ۔ پھر بیان ہوتا ہے کہ ’ اس صورت میں فائدہ یہ ہے کہ شہادت ٹھیک ٹھیک آ جائے گی ایک تو اللہ کی قسم کا لحاظ ہوگا دوسرے لوگوں میں رسوا ہونے کا ڈر رہے گا ، لوگو! اللہ تعالیٰ سے اپنے سب کاموں میں ڈرتے رہو اس کی باتیں سنتے رہو اور مانتے چلے جاؤ ، جو لوگ اس کے فرمان سے ہٹ جائیں اور اس کے احکام کے خلاف چلیں وہ راہ راست نہیں پاتے ‘ ۔ المآئدہ
108 المآئدہ
109 روز قیامت انبیاء سے سوال اس آیت میں بیان فرمایا گیا ہے کہ ’ رسولوں سے قیامت کے دن سوال ہو گا کہ تمہاری امتوں نے تمہیں مانا یا نہیں ؟ ‘ ۔ جیسے اور آیت میں ہے «فَلَنَسْــــَٔـلَنَّ الَّذِیْنَ اُرْسِلَ اِلَیْہِمْ وَلَنَسْــــَٔـلَنَّ الْمُرْسَلِیْنَ» ۱؎ (7-الأعراف:6) یعنی ’ رسولوں سے بھی اور ان کی امتوں سے بھی یہ ضرور دریافت فرمائیں گے ‘ ۔ اور جگہ ارشاد ہے آیت «فَوَرَبِّکَ لَنَسْــَٔـلَنَّہُمْ اَجْمَعِیْنَ عَمَّا کَانُوا یَعْمَلُونَ» ‏‏‏‏ ۱؎ (15-الحجر:93-92) ’ تیرے رب کی قسم ہم سب سے ان کے اعمال کا سوال ضرور ضرور کریں گے ‘ ۔ رسولوں کا یہ جواب کہ ’ ہمیں مطلق علم نہیں ‘ ، اس دن کی ہول و دہشت کی وجہ سے ہو گا ، گھبراہٹ کی وجہ سے کچھ جواب بن نہ پڑے گا ، یہ وہ وقت ہو گا کہ عقل جاتی رہے گی پھر دوسری منزل میں ہر نبی اپنی اپنی امت پر گواہی دے گا ۔ ایک مطلب اس آیت کا یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ سوال کی غرض یہ ہے کہ تمہاری امتوں نے تمہارے بعد کیا کیا عمل کئے اور کیا کیا نئی باتیں نکا لیں ؟ تو وہ ان سے اپنی لاعلمی ظاہر کریں گے ، یہ معنی بھی درست ہو سکتے ہیں کہ ہمیں کوئی ایسا علم نہیں جو اے جناب باری تیرے علم میں نہ ہو ۔ حقیقتاً یہ قول بہت ہی درست ہے کہ اللہ کے علم کے مقابلے میں بندے محض بے علم ہیں تقاضائے ادب اور طریقہ گفتگو یہی مناسب مقام ہے ، گو انبیاء علیہم السلام جانتے تھے کہ کس کس نے ہماری نبوت کو ہمارے زمانے میں تسلیم کیا لیکن چونکہ وہ ظاہر کے دیکھنے والے تھے اور رب عالم باطن بین ہے اس لیے ان کا یہی جواب بالکل درست ہے کہ ہمیں حقیقی علم مطلقاً نہیں تیرے علم کی نسبت تو ہمارا علم محض لاعلمی ہے حقیقی عالم تو صرف ایک تو ہی ہے ۔ المآئدہ
110 عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات جناب مسیح علیہ الصلوۃ والسلام پر جو احسانات تھے انکا اور آپکے معجزوں کا بیان ہو رہا ہے کہ بغیر باپ کے صرف ماں سے آپ علیہ السلام کو پیدا کیا اور اپنی کمال قدرت کا نشان آپ علیہ السلام کو بنایا ۔ پھر آپ علیہ السلام کی والدہ پر احسان کیا کہ ان کی برأت اسی بچے کے منہ سے کرائی اور جس برائی کی نسبت ان کی طرف بے ہودہ لوگ کر رہے تھے اللہ نے آج کے پیدا شدہ بچے کی زبان سے ان کی پاک دامنی کی شہادت اپنی قدرت سے دلوائی ، جبرائیل علیہ السلام کو اپنے نبی علیہ السلام کی تائید پر مقرر کر دیا ۔ بچپن میں اور بڑی عمر میں انہیں اپنی دعوت دینے والا بنایا گیا ، گہوارے میں ہی بولنے کی طاقت عطا فرمائی ، اپنی والدہ محترمہ کی برات ظاہر کر کے اللہ کی عبودیت کا اقرر کیا اور اپنی رسالت کی طرف لوگوں کو بلایا ۔ مراد کلام کرنے سے اللہ کی طرف بلانا ہے ورنہ بڑی عمر میں کلام کرنا کوئی خاص بات یا تعجب کی چیز نہیں ۔ لکھنا اور سمجھنا آپ کو سکھایا ۔ تورات جو کلیم اللہ علیہ السلام پر اتری تھی اور انجیل جو آپ پر نازل ہوئی دونوں کا علم آپ کو سکھایا ۔ آپ علیہ السلام مٹی سے پرند کی صورت بناتے پھر اس میں دم کر دیتے تو وہ اللہ کے حکم سے چڑیا بن کر اڑ جاتا ، اندھوں اور کوڑھیوں کے بھلا چنگا کرنے کی پوری تفسیر سورۃ آل عمران میں گزر چکی ہے ، مردوں کو آپ علیہ السلام بلاتے تو وہ بحکم الٰہی زندہ ہو کر اپنی قبروں سے اٹھ کر آ جاتے ۔ ابو ہذیل فرماتے ہیں جب عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کسی مردے کے زندہ کرنے کا ارادہ کرتے تو دو رکعت نماز ادا کرتے پہلی میں سورۃ تبارک «تَبَارَکَ الَّذِی بِیَدِہِ الْمُلْکُ» (67-الملک) اور دوسری میں سورۃ «الم تَنزِیلُ الْکِتَابِ» (32-السجدہ) پڑھتے پھر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا پڑھتے اور اس کے سات نام لیتے جو یہ ہیں «یَا قَدِیمُ ، یَا خَفِیٰ ، یَا دَائِمُ ، یَا فَرْدُ ، یَا وَتْرُ ، یَا أَحَدُ ، یَا صَمَدُ» پھر آپ علیہ السلام کو کوئی سختی پہنچتی تو اللہ تعالیٰ کے سات نام اور لیتے «یَا حَیٰ یَا قَیٰومُ» ، «یا اللہُ» ، «یا رَّحْمٰن» ‏‏‏‏ ، «یا رَّحِیم» ، «یا ذُوالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ» ، «یا نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَا بَیْنَھُمَا وَرَبّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ یارَبّ» ‏‏‏‏ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:1241/4) یہ اثر بڑا زبردست اور عظمت والا ہے ۔ ’ اور میرے اس احسان کو بھی یاد کرو کہ جب تم دلائل و براہیں لے کر اپنی امت کے پاس آئے اور ان میں سے جو کافر تھے انہوں نے اسے جادو بتایا اور درپے آزار ہوئے تو ان کے شر سے میں نے تمہیں بچا لیا ، انہوں نے قتل کرنا چاہا ، سولی دینا چاہی ، لیکن میں ہمیشہ تیرا کفیل و حفیظ رہا ‘ ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ احسان آپ علیہ السلام کے آسمان پر چڑھا لینے کے بعد کے ہیں یا یہ کہ یہ خطاب آپ علیہ السلام سے بروز قیامت ہوگا اور ماضی کے صیغہ سے اس کا بیان اس کے پختہ اور یقینی ہونے کے سبب ہے ۔ یہ غیبی اسرار میں سے ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مطلع فرما دیا ۔ پھر اپنا ایک اور احسان بتایا کہ ’ میں نے تیرے مددگار اور ساتھی بنا دیئے ، حواریوں کے دل میں الہام اور القا کیا ‘ ۔ یہاں بھی لفظ وحی کا اطلاق ویسا ہی ہے جیسا ام موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ہے اور شہد کی مکھی کے بارے میں ہے ۔ انہوں نے الہام رب پر عمل کیا ، یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ میں نے تیری زبانی ان تک اپنی وحی پہنچائی اور انہیں قبولیت کی توفیق دی ، تو انہوں نے مان لیا اور کہہ دیا کہ ہم تو مسلمین یعنی تابع فرمان اور فرماں بردار ہیں ۔ المآئدہ
111 المآئدہ
112 بنی اسرائیل کی ناشکری اور عذاب الٰہی یہ مائدہ کا واقعہ ہے اور اسی کی وجہ سے اس سورت کا نام سورۃ المائدہ ہے یہ بھی جناب مسیح علیہ السلام کی نبوت کی ایک زبردست دلیل اور آپ علیہ السلام کا ایک اعلی معجزہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کی دعا سے آسمانی دستر خوان اتارا اور آپ علیہ السلام کی سچائی ظاہر کی ۔ بعض ائمہ نے فرمایا ہے کہ اس کا ذکر موجودہ انجیل میں نہیں عیسائیوں نے اسے مسلمانوں سے لیا ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ عیسیٰ علیہ السلام کے ماننے والے آپ علیہ السلام سے تمنا کرتے ہیں کہ اگر ہو سکے تو اللہ تعالیٰ سے ایک خوان کھانے سے بھرا ہوا طلب کیجئے ایک قرأت میں آیت «‏‏‏‏ یَا عِیسَی ابْنَ مَرْیَمَ ہَلْ یَسْتَطِیعُ رَبٰکَ» ۱؎ (5-المائدہ:112) یعنی ’ کیا آپ سے یہ ہو سکتا ہے ؟ کہ آپ علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے دعا کریں ؟ ‘ ۔ مائدہ کہتے ہیں اس دستر خوان کو جس پر کھانا رکھا ہوا ہو ، بعض لوگوں کا بیان ہے کہ انہوں نے بوجہ فقر و فاقہ ، تنگی اور حاجت کے یہ سوال کیا تھا ، جناب مسیح علیہ السلام نے ان سے فرمایا کہ ” اللہ پر بھروسہ رکھو اور رزق کی تلاش کرو ، ایسے انوکھے سوالات نہ کرو ، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ فتنہ ہو جائے اور تمہارے ایمان ڈگمگا جائیں “ ۔ انہوں نے جواب دیا کہ اے اللہ کے رسول علیہ السلام ہم تو کھانے پینے سے تنگ ہو رہے ہیں محتاج ہو گئے ہیں اس سے ہمارے دل مطمئن ہو جائیں گے کیونکہ ہم اپنی آنکھوں سے اپنی روزیاں آسمان سے اترتی خود دیکھ لیں گے ، اسی طرح آپ علیہ السلام پر جو ایمان ہے وہ بھی بڑھ جائے گا ، آپ علیہ السلام کی رسالت کو یوں تو ہم مانتے ہی ہیں لیکن یہ دیکھ کر ہمارا یقین اور بڑھ جائے گا اور اس پر خود ہم گواہ بن جائیں گے ، اللہ کی قدرت اور آپ علیہ السلام کے معجزہ کی یہ ایک روشن دلیل ہوگی جس کی شہادت ہم خود دیں گے اور یہ آپ علیہ السلام کی نبوت کی کافی دلیل ہوگی ۔ المآئدہ
113 المآئدہ
114 1 اب عیسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی ۔ عید ہونے سے مراد تو عید کا دن یا نماز گزار نے کا دن ہونا ہے یا اپنے بعد والوں کے لیے یادگار کا دن ہونا ہے یا اپنی اور اپنے بعد کی نسلوں کیلئے نصیحت و عبرت ہونا ہے یا اگلوں پچھلوں کے لیے کافی وافی ہونا ہے ۔ عیسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں ” یا اللہ یہ تیری قدرت کی ایک نشانی ہوگی اور میری سچائی کی بھی کہ تونے میری دعا قبول فرما لی ، پس لوگوں تک ان باتوں کو جو تیرے نام سے ہیں انہیں پہنچاؤں گا یقین کر لیا کریں گے ، یا اللہ تو ہمیں یہ روزی بغیر مشقت و تکلیف کے محض اپنے فضل و کرم سے عطا فرما تو تو بہترین رازق ہے “ ۔ اللہ تعالیٰ نے دعا کی قبولیت کا وعدہ فرما لیا اور ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا کہ ’ اس کے اترنے کے بعد تم میں سے جو کوئی بھی جھٹلائے گا اور کفر کرے گا تو میں اسے وہ عذاب دوں گا جو تمہارے زمانے میں کسی اور کو نہ دیا ہو ‘ ۔ جیسے آل فرعون کو قیامت کے دن کہا جائے «وَیَوْمَ تَقُومُ السَّاعَۃُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ» ‏‏‏‏ ۱؎ (40-غافر:46) کہ ’ تم سخت تر عذاب میں داخل ہو جاؤ ‘ ، اور «إِنَّ الْمُنَافِقِینَ فِی الدَّرْکِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ وَلَن تَجِدَ لَہُمْ نَصِیرًا» ۱؎ (4-النساء:145) ’ جیسے منافقوں کے لیے جہنم کا سب سے نیچے کا طبقہ ہے اور تم ان کا کسی کو مددگار نہ پاؤ گے ‘ ۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قیامت کے دن بدترین عذاب تین قسم کے لوگوں کو ہو گا ، منافقوں کو اور مائدہ آسمانی کے بعد انکار کرنے والوں کو اور فرعونیوں کو ۔ اب ان روایات کو سنیئے جو اس بارے میں سلف سے مروی ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں عیسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل سے فرمایا کہ ” تم اللہ کے لیے ایک مہینے کے روزے رکھو پھر رب سے دعا کرو وہ قبول فرمائے گا “ ۔ انہوں نے تیس روزے پورے کرکے کہا اے بھلائیوں کے بتانے والے ہم اگر کسی کا کام ایک ماہ کامل کرتے تو وہ بعد فراغت ضرور ہماری دعوت کرتا تو آپ علیہ السلام بھی اللہ سے بھرے ہوئے خوان کے آسمان سے اترنے کی دعا کیجئے ۔ عیسیٰ علیہ السلام نے پہلے تو انہیں سمجھایا لیکن ان کی نیک نیتی کے اظہار پر اللہ تعالیٰ سے دعا کی ، اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی ساتھ ہی دھمکا بھی دیا پھر فرشتوں کے ہاتھوں آسمان سے خوان نعمت اتارا ، جس پر سات مچھلیاں تھیں سات روٹیاں تھیں ، جہاں یہ تھے وہیں وہ ان کے کھانے کو رکھ گئے سب بیٹھ گئے اور شکم سیر ہو کر اٹھے ۔ ابن ابی حاتم کی ایک مر فوع حدیث میں ہے کہ { اس مائدہ آسمانی میں گوشت روٹی اترا تھا حکم تھا کہ خیانت نہ کریں کل کے لیے نہ لے جائیں لیکن انہوں نے حکم کی خلاف ورزی کی ، لے بھی گئے اور چرا بھی لیا ، جس کی سزا میں وہ سور بندر بن گئے } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3061،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) سیدنا عمار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس میں جنت کے میوے تھے ، آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اگر وہ لوگ خیانت اور ذخیرہ نہ کرتے تو وہ خوان یوں ہی رہتا لیکن شام ہونے سے پہلے ہی انہوں نے چوریاں شروع کردیں ، پھر سخت عذاب کئے گئے ، اے عرب بھائیو! یاد کرو تم اونٹوں اور بکریوں کی دمیں مروڑتے تھے ، اللہ نے تم پر احسان کیا خود تم ہی میں سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا جن سے تم واقف تھے جن کے حسب و نسب سے تم آگاہ تھے ، اس رسول علیہ سلام نے تمہیں بتا دیا کہ ’ عجمیوں کے ملک تمہارے ہاتھوں فتح ہوں گے لیکن خبردار تم سونے چاندی کے خزانوں کے درپے نہ ہو جانا ‘ لیکن واللہ دن رات وہی ہیں اور تم وہ نہ رہے ، تم نے خزانے جمع کرنے شروع کر دیئے ، مجھے تو خوف ہے کہ کہیں تم پر بھی اللہ کا عذاب برس نہ پڑے ۔ اسحٰق بن عبداللہ فرماتے ہیں جن لوگوں نے مائدہ آسمانی میں سے چرایا ان کا خیال ہے تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ ختم ہو جائے اور کل کے لیے ہمارے پاس کچھ نہ رہے ۔ مجاہد رحمۃ اللہ سے مروی ہے کہ جب وہ اتر تے ان پر مائدہ اترتا عطیہ رحمۃ اللہ فرماتے ہیں گو وہ تھی تو مچھلی لیکن اس میں ذائقہ ہر چیز کا تھا ۔ وہب بن منبہ رحمۃ اللہ فرماتے ہیں ہر دن اس مائدہ پر آسمان سے میوے اترتے تھے قسم قسم کی روزیاں کھاتے تھے ، چار ہزار آدمی ایک وقت اس پر بیٹھ جاتے پھر اللہ کی طرف سے غذا تبدیل ہو جاتی یہ بھی فرماتے ہیں کہ اس پر روٹیاں جو کی تھیں ۔ سعید بن جیبررحمہ اللہ فرماتے ہیں اس پر سوائے گوشت کے تمام چیزیں تھیں ۔ عکرمہ رحمۃ اللہ فرماتے ہیں اس پر چاول کی روٹی تھی ، وہب رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ ان کے اس سوال پر عیسیٰ علیہ السلام بہت رنجیدہ ہوئے تھے اور فرمایا تھا کہ ” زمین کے رزق پر قناعت کرو اور آسمانی دستر خوان نہ مانگو اگر وہ اترا تو چونکہ زبردست نشان ہوگا اگر ناقدری کی تو بری طرح پکڑے جاؤ گے ۔ ثمودیوں کی ہلاکت کا باعث بھی یہی ہوا کہ انہوں نے اپنے نبی علیہ السلام سے نشان طلب کیا تھا “ ۔ لیکن حواریوں نے عیسیٰ علیہ السلام کی ایک نہ مانی اور اصرار کیا کہ نہیں آپ علیہ السلام ضرور دعا کیجئے اب جناب عیسیٰ علیہ السلام اٹھے ، صوف کا جبہ اتار دیا ، سیاہ بالوں کا لبادہ پہن لیا اور چادر بھی بالوں کی اوڑھ لی ، وضو کرکے غسل کرکے ، مسجد میں جا کر نماز پڑھ کر قبلہ کی طرف متوجہ ہو کر کھڑے ہوگئے ، دونوں پیر ملائے ، ایک پنڈلی دوسری پنڈالی سے لگا لی ، انگلیاں بھی ملالیں ، اپنے سینے پر اپنا داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھا ، نگاہیں زمین میں گاڑ لیں سر جھکا دیا اور نہایت خشوع و خضوع سے عاجزانہ طور پر گریہ وزاری شروع کر دی ، آنسو رخساروں سے بہ کر داڑھی کو تر کر کے زمین پر ٹپکنے لگے یہاں تک کہ زمین بھی تر ہوگئی ۔ اب دعا کی جس کا بیان اس آیت میں ہے ، اللہ تعالیٰ نے اس دعا کو قبول فرمایا اور ایک سرخ رنگ کا خوان دو بادلوں کے درمیان آسمان سے اترا ، جسے اترتے ہوئے سب نے دیکھا ، سب تو خوشیاں منا رہے تھے لیکن روح اللہ علیہ السلام کانپ رہے تھے ، رنگ اڑ گیا تھا اور زار و قطار رو رہے تھے کہ اللہ ہی خیر کرے ، ذرا بے ادبی ہوئی تو مارے گئے ۔ زبان مبارک سے یہ دعا نکل رہی تھی کہ ” یا اللہ اسے تو رحمت کا سبب بنا عذاب کا سب نہ بنا ، یا اللہ بہت سی عجیب و غریب چیزیں میں نے تجھ سے طلب کیں اور تو نے عطا فرمائیں ، باری تعالیٰ تو ان نعمتوں کے شکر کی ہمیں توفیق عطا فرما ، اے پروردگار تو اپنی اس نعمت کو ہمارے لیے سبب غضب نہ بنا ، الٰہی تو اسے سلامتی اور عافیت کر ، اسے فتنہ اور عذاب نہ کر “ ۔ یہاں تک کہ وہ خوان زمین تک پہنچ گیا اور عیسیٰ حواری اور عیسائیوں کے سامنے رکھ دیا گیا ، اس میں سے ایسی پاکیزہ خوشبوئیں آ رہی تھیں کہ کسی دماغ میں ایسی خوشبو اس سے پہلے کبھی نہیں آئی تھی ، عیسیٰ علیہ السلام اور آپ علیہ السلام کے اصحاب اسے دیکھ کر سجدے میں گر پڑے یہودی بھی یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے اور جل بھن رہے تھے ۔ عیسیٰ علیہ السلام اور آپ علیہ السلام کے ساتھی اس دستر خوان کے اردگرد بیٹھ گئے دیکھا کہ اس پر ایک رومال ڈھکا ہوا ہے ، مسیح علیہ السلام نے فرمایا ” کون نیک بخت جرات و ہمت کر کے اسے کھولتا ہے ؟ “ حواریوں نے کہا اے کلمتہ اللہ آپ علیہ السلام سے زیادہ حقدار اس کا کون ہے ؟ یہ سن کر عیسیٰ علیہ السلام کھڑے ہوئے ، نئے سرے سے وضو کیا ، مسجد میں جا کر کئی رکعت نماز ادا کی دیر تک روتے رہے پھر دعا کی کہ ” یا اللہ اس کے کھولنے کی اجازت مرحمت ہو اور اسے برکت و رزق بنا دیا جائے “ ۔ پھر واپس آئے اور «بِسْمِ اللَّہِ خَیْرُ الرَّازِقِینَ» کہہ کر رومال اٹھایا ، تو سب نے دیکھا کہ ایک بہت بڑی لمبی چوڑی اور موٹی بھنی ہوئی مچھلی ہے ، جس کے اوپر چھلکا نہیں اور جس میں کانٹے نہیں ، گھی اس میں سے بہہ رہا ہے اسی میں ہر قسم کی سبزیاں بھی ہیں ، سوائے گندنا اور مولی کے اس کے سر کے پاس سرکہ رکھا ہوا ہے اور دم کے پاس نمک ہے ، سبزیوں کے پاس پانچ روٹیاں ہیں ، ایک پر زیتون کا تیل ہے دوسری پر کھجوریں ہیں اور ایک پر پانچ انار ہیں ۔ شمعون نے جو حواریوں کے سردار تھے کہا کہ اے روح اللہ علیہ السلام یہ دنیا کا کھانا ہے یا جنت کا ؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا ” ابھی تک تمہارے سوال ختم نہیں ہوئے ؟ ابھی تک کریدنا باقی ہی ہے ؟ واللہ مجھے تو ڈر لگ رہا ہے کہ کہیں اس پر تمہیں کوئی عذاب نہ ہو “ ۔ شمعون نے کہا اسرائیل کے معبود برحق کی قسم میں کسی سرکشی کی بنا پر نہیں پوچھ رہا ، اے سچی ماں کے اچھے بیٹے ! یقین مانئے کہ میری نیت بد نہیں ۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا ” نہ یہ طعام دنیا ہے نہ طعام جنت بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص حکم سے اسے آسمان و زمین کے درمیان اسی طرح کا پیدا کر دیا ہے اور تمہارے پاس بھیج دیا ہے ، اب اللہ کا نام لے کر کھاؤ اور کھا کر اس کا شکر ادا کرو شکر گزاروں کو وہ زیادہ دیتا ہے اور وہ ابتداء پیدا کرنے والا قادر اور قدر دان ہے “ ۔ شمعون نے کہا اے نبی اللہ علیہ السلام ہم چاہتے ہیں کہ اس نشان قدرت میں ہی اور نشان قدرت دیکھیں ۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا ” «سُبْحَانَ اللہِ » گویا ابھی تم نے کوئی نشان قدرت دیکھا ہی نہیں ؟ اچھا لو دیکھو “ ، یہ کہہ کر آپ علیہ السلام نے اس مچھلی سے فرمایا ” اے مچھلی اللہ کے حکم سے جیسی تو زندہ تھی ، زندہ ہو جا “ ، اسی وقت اللہ کی قدرت سے وہ زندہ ہو گئی اور ہل جل کر چلنے پھرنے لگی ، آنکھیں چمکنے لگیں ، دیدے کھل گئے اور شیر کی طرح منہ پھاڑ نے لگی اور اس کے جسم پر کھپرے بھی آ گئے ، یہ دیکھتے ہی تمام حاضرین ڈر گئے اور ادھر ادھر ہٹنے اور دبکنے لگے ۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا ” دیکھو تو خود ہی نشان طلب کرتے ہو خود ہی اسے دیکھ کر گھبراتے ہو واللہ مجھے ڈر لگتا ہے کہ یہ مائدہ آسمانی تمہارے لیے غضب اللہ کا نمونہ نہ بن جائے ، اے مچھلی تو بحکم الٰہی جیسی تھی ، ویسی ہی ہو جا “ ۔ چنانچہ اسی وقت وہ ویسی ہی ہو گئی ، اب سب نے کہا کہ اے نبی اللہ آپ علیہ السلام اسے کھانا شروع کیجئے اگر آپ علیہ السلام کو کوئی برائی نہ پہنچے تو ہم بھی کھالیں گے ۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا ” معاذاللہ وہی پہلے کھائے جس نے مانگی ہے “ ، اب تو سب کے دلوں میں دہشت بیٹھ گئی کہ کہیں اس کے کھانے سے کسی وبال میں نہ پڑ جائیں ۔ عیسیٰ علیہ السلام نے یہ دیکھ کر فقیروں کو مسکینوں کو اور بیماروں کو بلا لیا اور حکم دیا کہ ” تم کھانا شروع کر دو یہ تمہارے رب کی دی ہوئی روزی ہے جو تمہارے نبی علیہ السلام کی دعا سے اتری ہے ، اللہ کا شکر کر کے کھاؤ تمہیں مبارک ہو اس کی پکڑ اوروں پر ہوگی تم «بِسْمِ اللہِ » پڑھ کر کھانا شروع کرو اور «الْحَمْدُ لِلہِ» پر ختم کرو “ ۔ پس تیرہ سو آدمیوں نے بیٹھ کر پیٹ بھر کر کھانا کھایا لیکن وہ کھانا مطلقاً کم نہیں ہوا تھا پھر سب نے دیکھا وہ دستر خوان آسمان پر چڑھ گیا وہ کل فقیر غنی ہوگئے وہ تمام بیمار تندرست ہوگئے اور ہمیشہ تک امیری اور صحت والے رہے ، حواری اور صحابی سب کے سب بڑے ہی نادم ہوئے اور مرتے دم تک حسرت و افسوس کرتے رہے ۔ آپ فرماتے ہیں اس کے بعد جب یہ دستر خوان اترتا تو بنی اسرائیل ادھر ادھر سے دوڑے بھاگے آتے کیا چھوٹا ، کیا بڑا ، کیا امیر ، فقیر تندرست کیا مریض ایک بھیڑ لگ جاتی ایک دوسرے پر گرتے پڑتے آتے ، یہ دیکھ کر باری مقرر ہو گئی ایک دن اترتا ایک دن نہ اترتا ، چالیس دن تک یہی کیفیت رہی کہ دن چڑھے اترتا اور ان کے سونے کے وقت چڑھ جاتا جس کا سایہ سب دیکھتے رہتے ۔ اس کے بعد فرمان ہوا کہ اب اس میں صرف یتیم فقیر اور بیمار لوگ ہی کھائیں ، مالداروں نے اس سے بہت برا مانا اور لگے باتیں بنانے ۔ خود بھی شک میں پڑگئے اور لوگوں کے دلوں میں بھی طرح طرح کے وسوسے ڈالنے لگے یہاں تک عیسیٰ علیہ السلام کے پاس آکر کہنے لگے کہ آپ علیہ السلام سچ سچ بتائیے کہ کیا واقعی یہ آسمان سے ہی اترتا ہے ؟ سنئے ہم میں سے بہت سے لوگ اس میں متردد ہیں ۔ جناب مسیح علیہ السلام سخت ناراض ہوئے اور فرمانے لگے ” قسم ہے مسیح کے رب کی اب تمہاری ہلاکت کا وقت آگیا ، تم نے خود طلب کیا ، تمہارے نبی علیہ السلام کی دعا اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی آسمانی دستر خوان تم پر اترا ، تم نے آنکھوں سے اسے اترتے دیکھا ، رب کی رحمت و روزی اور برکت تم پر نازل ہوئی ، بڑی عبرت و نصیحت کی نشانی تم نے دیکھ لی ۔ آہ ! اب تک تمہارے دلوں کی کمزوری نہ گئی اور تمہاری زبانیں نہ رکیں ، مجھے تو ڈر ہے کہ اگر رب نے تم پر رحم نہ کیا تو عنقریب تم بدترین عذابوں کے شکار ہو جاؤ گے “ ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے اور نبی عیسیٰ علیہ السلام پر وحی نازل فرمائی کہ ’ جس طرح میں نے پہلے ہی فرما دیا تھا کہ میں ان لوگوں کو وہ عبرتناک سزائیں دوں گا جو کسی کو نہ دی ہو ‘ ۔ دن غروب ہوا اور یہ بے ادب ، گستاخ ، جھٹلانے والے اور بڑھ بڑھ کر باتیں بنانے والے اپنے اپنے بستروں پر جا لیٹے نہایت امن و امان سے ہمیشہ کی طرح اپنے بال بچوں کے ساتھ میٹھی نیند میں تھے کہ پچھلی رات عذاب الٰہی آگیا اور جتنے بھی یہ لوگ تھے سب کے سب سور بنا دیئے گئے جو صبح کے وقت پاخانوں کی پلیدی کھا رہے تھے ، یہ اثر بہت غریب ہے ، ابن ابی حاتم میں قصہ ٹکڑے ٹکڑے کر کے منقول ہے لیکن میں نے اسے پورا بیان کر دیا ہے تاکہ سمجھ آ جائے ۔ «وَاللہُ سُبْحَانَہُ وَ تَعَالَیٰ اَعْلَمُ» ۔ بہر صورت ان تمام آثار سے صاف ظاہر ہے کہ جناب مسیح علیہ السلام کے زمانے میں بنو اسرائیل کی طلب پر آپ علیہ السلام کی دعا سے اللہ تعالیٰ نے آسمان سے یہ دستر خوان نازل فرمایا ۔ یہی قرآن عظیم کے الفاظ سے ظاہر ہے ۔ بعض کا یہ بھی قول ہے کہ یہ مائدہ اترا ہی نہ تھا یہ صرف بطور مثال کے بیان فرما دیا ہے ۔ چنانچہ مجاہد رحمۃ اللہ سے منقول ہے کہ ” جب عذاب کی دھمکی سنی تو خاموش ہوگئے اور مطالبہ سے دستبردار ہوگئے “ ۔ حسن رحمۃ اللہ کا قول بھی یہی ہے اس قول کی تائید اس سے بھی ہو سکتی ہے کہ نصرانیوں کی کتب میں اس کا ذکر نہیں ۔ اتنے بڑے اہم واقع کا ان کی کتابوں میں مطلق نہ پایا جانا حسن اور مجاہد رحمہ اللہ علیہم کے اس قول کو قوی بناتا ہے اور اس کی سند بھی ان دونوں بزرگوں تک صحت کے ساتھ پہنچتی ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ لیکن جمہور کا مذہب یہی ہے کہ مائدہ نازل ہوا تھا امام ابن جریر رحمۃ اللہ کا مختار مذہب بھی یہی ہے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ فرمان ربی آیت «اِنِّیْ مُنَزِّلُہَا عَلَیْکُمْ فَمَنْ یَّکْفُرْ بَعْدُ مِنْکُمْ فَاِنِّیْٓ اُعَذِّبُہٗ عَذَابًا لَّآ اُعَذِّبُہٗٓ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ» ۱؎ (5-المائدہ:115) میں وعدہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے وعدے سچے ہوتے ہیں صحیح اور حقیقی علم تو اللہ ہی کو ہے لیکن زیادہ ٹھیک قول یہی ہے جیسے کہ سلف کے آثار و اقوال سے ظاہر ہے ۔ تاریخ میں بھی اتنا تو ہے کہ بنی امیہ کے نائب موسیٰ بن نصیر نے مغربی شہروں کی فتح کے موقعہ پر وہیں یہ مائدہ پایا تھا اور اسے امیر المؤمنین ولید بن عبدالملک کی خدمت میں جو بانی جامع دمشق ہیں بھیجا تھا لیکن ابھی قاصد راستے ہی میں تھے کہ خلیفۃ المسلمین کا انتقال ہوگیا ۔ آپ کے بعد آپ کے بھائی سلیمان بن عبدالملک خلیفہ ہوئے اور ان کی خدمت میں اسے پیش کیا گیا یہ ہر قسم کے جڑاؤ اور جواہر سے مرصع تھا جسے دیکھ کر بادشاہ اور درباری سب دنگ رہ گئے یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ مائدہ سلیمان بن داؤد علیہ السلام کا تھا ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ مسند احمد میں ہے کہ { قریشیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ صفا پہاڑ کو ہمارے لیے سونے کا بنا دے تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں گے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { بالکل سچا وعدہ ہے } ، انہوں نے کہا نہایت پختہ اور بالکل سچا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی اسی وقت جبرائیل علیہ السلام آئے اور فرمایا ” اللہ تعالیٰ آپ کو سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ ’ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہیں تو میں کوہ صفا کو سونے کا بنا دیتا ہوں لیکن اگر پھر ان لوگوں نے کفر کیا تو میں انہیں وہ عذاب دوں گا جو کسی کو نہ دیا ہو اس پر بھی اگر آپ کا ارادہ ہو تو میں ان کے لیے توبہ اور رحمت کا دروازہ کھول دوں ‘ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { یا اللہ معاف فرما ، توبہ اور رحمت کا دروازہ ہی کھول دے } } ، یہ حدیث ابن مردویہ اور مستدرک حاکم میں بھی ہے ۔ ۱؎ (سلسلۃ احادیث صحیحہ البانی:3388:صحیح) المآئدہ
115 المآئدہ
116 روز قیامت نصاریٰ کی شرمندگی جن لوگوں نے مسیح پرستی یا مریم پرستی کی تھی ، ان کی موجودگی میں قیامت کے دن اللہ تبارک و تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام سے سوال کرے گا کہ ’ کیا تم ان لوگوں سے اپنی اور اپنی والدہ کی پوجا پاٹ کرنے کو کہہ آئے تھے ؟ ‘ اس سوال سے مردود نصرانیوں کو ڈانٹ ڈپٹ کرنا اور ان پر غصے ہونا ہے تاکہ وہ تمام لوگوں کے سامنے شرمندہ اور ذلیل و خوار ہوں ۔ قتادہ رحمہ اللہ وغیرہ کا یہی قول ہے اور اس پر وہ آیت «ہٰذَا یَوْمُ یَنْفَعُ الصّٰدِقِیْنَ صِدْقُہُمْ» ۱؎ (5-المائدہ:119) سے استدلال کرتے ہیں ۔ سدی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں یہ خطاب اور جواب دینا ہی کافی ہے ، امام ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ اس قول کو ٹھیک بتا کر فرماتے ہیں کہ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ کو آسمان دنیا پر چڑھا لیا تھا ، اس کی دلیل ایک تو یہ ہے کہ کلام لفظ ماضی کے ساتھ ہے ، دوسری دلیل آیت «‏‏‏‏إِن تُعَذِّبْہُمْ فَإِنَّہُمْ عِبَادُکَ وَإِن تَغْفِرْ لَہُمْ فَإِنَّکَ أَنتَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ» ‏‏‏‏ (5-المائدۃ:118) ہے لیکن یہ دونوں دلیلیں ٹھیک نہیں ۔ پہلی دلیل کا جواب تو یہ ہے کہ بہت سے امور جو قیامت کے دن ہونے والے ہیں ان کا ذکر قرآن کریم میں لفط ماضی کے ساتھ موجود ہے ، اس سے مقصود صرف اسی قدر ہے کہ وقوع اور ثبوت بخوبی ثابت ہو جائے ۔ دوسری دلیل کا جواب یہ ہے کہ اس سے مقصود جناب مسیح علیہ السلام کا یہ ہے کہ ان سے اپنی برأت ظاہر کر دیں اور ان کا معاملہ اللہ کے سپرد کر دیں ، اسے شرط کے ساتھ معلق رکھنے سے اس کا وقوع لازم نہیں جیسے کہ اسی جگہ اور آیتوں میں ہے ، زیادہ ظاہر وہی تفسیر ہے جو قتادہ رحمۃ اللہ وغیرہ سے مروی ہے اور جو اوپر گزر چکی ہے یعنی یہ کہ یہ گفتگو اور یہ سوال جواب قیامت کے دن ہوں گے تاکہ سب کے سامنے نصرانیوں کی ذلت اور ان پر ڈانٹ ڈپٹ ہو ۔ چنانچہ ایک مرفوع غریب و عزیز حدیث میں بھی مروی ہے ، جسے حافظ ابن عساکر رحمتہ اللہ علیہ ابوعبداللہ مولی عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ کے حالات میں لائے ہیں کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا { قیامت کے دن انبیاء اپنی اپنی امتوں سمیت اللہ کے سامنے بلوائے جائیں گے پھر عیسیٰ علیہ السلام بلوائے جائیں گے اور اللہ تعالیٰ اپنے احسان انہیں جتلائے گا جن کا وہ اقرار کریں گے فرمائے گا کہ «ا عِیسَی ابْنَ مَرْیَمَ اذْکُرْ نِعْمَتِی عَلَیْکَ وَعَلَیٰ وَالِدَتِکَ» (5-المائدہ:110) ’ اے عیسیٰ علیہ السلام جو احسان میں نے تجھ پر اور تیری والدہ پر کئے ، انہیں یاد کر ‘ ، پھر فرمائے گا ’ تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ کو چھوڑ کر مجھے اور میری والدہ کو الہ سمجھنا ‘ ۔ آپ علیہ السلام اس کا بالکل انکار کریں گے ، پھر نصرانیوں کو بلا کر ان سے دریافت فرمائے گا تو وہ کہیں گے ، ہاں انہوں نے ہی ہمیں اس راہ پر ڈالا تھا اور ہمیں یہی حکم دیا تھا ۔ اسی لیے عیسیٰ علیہ السلام کے سارے بدن کے بال کھڑے ہو جائیں گے ، جنہیں لے کر فرشتے اللہ کے سامنے جھکا دیں گے بہ مقدار ایک ہزار سال کے یہاں تک کہ عیسائیوں پر حجت قائم ہو جائے گی ، اب ان کے سامنے صلیب کھڑی کی جائے گی اور انہیں دھکے دے کر جہنم میں پہنچا دیا جائے گا } } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:1236/4:ضعیف) جناب عیسیٰ علیہ السلام کے جواب کو دیکھئیے کہ کس قدر با ادب اور کامل ہے ؟ دراصل یہ بھی اللہ کی ایک نعمت ہے ، آپ علیہ السلام کو اسی وقت یہ جواب سکھایا جائے گا جیسے کہ ایک مرفوع حدیث میں بھی ہے کہ { آپ علیہ السلام فرمائیں گے کہ باری تعالیٰ نے مجھے ایسی بات کہنے کا حق تھا نہ میں نے کہا ، تجھ سے نہ میری کوئی بات پوشیدہ ہے نہ میرا کوئی ارادہ چھپا ہوا ہے ، دلی راز تجھ پر ظاہر ہیں ، ہاں تیرے بھید کسی نے نہیں پائے تمام ڈھکی چھپی باتیں تجھ پر کھلی ہوئی ہیں غیبوں کا جاننے والا تو ہی ہے } ۔ { جس تبلیغ پر میں مامور اور مقرر تھا میں نے تو وہی تبلیغ کی تھی جو کچھ مجھ سے اے جناب باری تو نے ارشاد فرمایا تھا وہی بلا کم و کاست میں نے ان سے کہہ دیا تھا ۔ جس کا ما حصل یہ ہے کہ صرف ایک اللہ ہی کی عبادت کرو ، وہی میرا رب ہے اور وہی تم سب کا پالنہار ہے ، جب میں ان میں موجود تھا ان کے اعمال دیکھتا بھالتا تھا لیکن جب تو نے مجھے بلا لیا پھر تو ، تو ہی دیکھتا بھالتا رہا اور تو تو ہر چیز پر شاہد ہے } المآئدہ
117 1 ابوداؤد طیالسی میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک واعظ میں فرمایا : { اے لوگو ! تم سب اللہ عز و جل کے سامنے ننگے پیر ، ننگے بدن ، بے ختنہ جمع ہونے والے ہو ، جیسے کہ ہم نے شروع پیدائش کی تھی ویسے ہی دوبارہ لوٹائیں گے ، سب سے پہلے خلیل اللہ ابراہیم علیہ السلام کو کپڑے پہنائے جائیں گے سنو کچھ لوگ میری امت کے ایسے لائے جائیں گے جنہیں بائیں جانب گھسیٹ لیا جائے گا تو میں کہوں گا یہ تو میرے ہیں ، کہا جائے گا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں معلوم کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد انہوں نے کیا کیا گل کھلائے تھے ، تو میں وہی کہوں گا جو اللہ کے صالح بندے کا قول ہے کہ { جب تک میں ان میں رہا ، ان کے اعمال پر شاہد تھا } ۔ پس فرمایا جائے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ تو دین سے مرتد ہی ہوتے رہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4625) اس کے بعد کی آیت کا مضمون اللہ تعالیٰ کی چاہت اور اس کی مرضی کی طرف کاموں کو لوٹانا ہے ، وہ جو کچھ چاہے کرتا ہے اس سے کوئی کسی قسم کا سوال نہیں کرسکتا اور وہ ہر ایک سے بازپرس کرتا ہے ، ساتھ ہی اس مقولے میں جناب مسیح کی بیزاری ہے ، ان نصرانیوں سے جو اللہ پر اور اس کے رسول علیہ السلام پر بہتان باندھتے تھے اور اللہ کا شریک ٹھہراے تھے اور اس کی اولاد اور بیوی بتاتے تھے ، اللہ تعالیٰ ان کی ان تہمتوں سے پاک ہے اور وہ بلند و برتر ہے ۔ اس عظیم الشان آیت کی عظمت کا اظہار اس حدیث سے ہوتا ہے ، جس میں ہے کہ { پوری ایک رات اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی ایک آیت کی تلاوت فرماتے رہے } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:1350،قال الشیخ الألبانی:حسن) چنانچہ مسند احمد میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات نماز پڑھی اور صبح تک ایک ہی آیت کی تلاوت فرماتے رہے ، اسی کو رکوع میں اور اسی کو سجدے میں پڑھتے رہے ، وہ آیت یہی ہے ۔ صبح کو سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ آج کی رات تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی ایک آیت میں گزاری رکوع میں بھی اس کی تلاوت رہی اور سجدے میں بھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { میں نے اللہ تعالیٰ سے اپنی امت کی شفاعت کیلئے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے اس دعا کو قبول فرما لیا ، پس میری یہ شفاعت ہر موحد شخص کیلئے ہو گی } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:149/5:حسن) ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ مسند احمد کی اور حدیث میں ہے { سیدہ جرہ بنت دجاجہ رضی اللہ عنہا عمرے کے ارادے سے جاتی ہیں جب ربذہ میں پہنچتی ہیں تو سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے حدیث سنتی ہیں کہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز پڑھائی ، فرضوں کے بعد دیکھا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نماز میں مشغول ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خیمے کی طرف تشریف لے گئے ، جب جگہ خالی ہوگئی اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین چلے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لائے اور نماز میں کھڑے ہو گئے میں بھی آگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑا ہو گیا تو ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دائیں طرف کھڑا ہونے کا مجھے اشارہ کیا ، میں دائیں جانب آ گیا ، پھر سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ آئے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑے ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بائیں طرف کھڑے ہونے کا اشارہ کیا چنانچہ وہ آکر بائیں جانب کھڑے ہوگئے ۔ اب ہم تینوں نے اپنی اپنی نماز شروع کی الگ الگ تلاوت قرآن اپنی نماز میں کررہے تھے اور حضور علیہ السلام کی زبان مبارک پر ایک ہی آیت تھی ، باربار اسی کو پڑھ رہے تھے ، جب صبح ہوئی تو میں نے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ذرا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت تو کرو کہ رات کو ایک ہی آیت کے پڑھنے کی کیا وجہ تھی ؟ انہوں نے کہا اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود کچھ فرمائیں تو اور بات ہے ورنہ میں تو کچھ بھی نہ پوچھوں گا ۔ اب میں نے خود ہی جرأت کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر میرے ماں باپ فدا ہوں ، سارا قرآن تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اترا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سینے میں ہے } ۔ { پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہی آیت میں ساری رات کیسے گزار دی ؟ اگر کوئی اور ایسا کرتا تو ہمیں تو بہت برا معلوم ہوتا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اپنی امت کے لیے دعا کر رہا تھا } ۔ میں نے پوچھا پھر کیا جواب ملا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اتنا اچھا ، ایسا پیارا ، اس قدر آسانی والا کہ اگر عام لوگ سن لیں تو ڈر ہے کہ کہیں نماز بھی نہ چھوڑ بیٹھیں } ، میں نے کہا مجھے اجازت ہے کہ میں لوگوں میں یہ خوشخبری پہنچا دوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی ، میں ابھی کچھ ہی دور گیا ہوں گا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر یہ خبر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عام طور پر کرا دی تو ڈر ہے کہ کہیں لوگ عبادت سے بے پرواہ نہ ہو جائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آواز دی کہ لوٹ آئے اور وہ آیت «إِن تُعَذِّبْہُمْ فَإِنَّہُمْ عِبَادُکَ وَإِن تَغْفِرْ لَہُمْ فَإِنَّکَ أَنتَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ» (5-المائدہ:118) تھی } ۔ ۱؎ (مسند احمد:170/5:حسن) ابن ابی حاتم میں ہے { حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عیسیٰ علیہ السلام کے اس قول کی تلاوت کی پھر ہاتھ اٹھا کر فرمایا: { اے میرے رب میری امت! اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم رونے لگے } ۔ اللہ تعالیٰ نے جبرائیل علیہ السلام کو حکم دیا کہ جا کر پوچھو کہ کیوں رو رہے ہیں ؟ حالانکہ اللہ کو سب کچھ معلوم ہے ، جبرائیل علیہ السلام آئے دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اپنی امت کے لیے! } اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’ جاؤ کہہ دو کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے بارے میں خوش کردیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بالکل رنجیدہ نہ ہوں گے ‘ ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:202) مسند احمد میں ہے { حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک روز رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے ہی نہیں یہاں تک کہ ہم نے خیال کیا کہ آج آپ صلی اللہ علیہ وسلم آئیں گے ہی نہیں ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور آتے ہی سجدے میں گر پڑے اتنی دیر لگ گئی کہ ہمیں خوف ہوا کہ کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح پرواز نہ کر گئی ہو ؟ تھوڑی دیر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھایا اور فرمانے لگے { مجھ سے میرے رب عزوجل نے میری امت کے بارے میں دریافت فرمایا کہ میں ان کے ساتھ کیا کروں ؟ میں نے عرض کیا کہ باری تعالیٰ وہ تیری مخلوق ہے وہ سب تیرے بندے اور تیرے غلام ہیں تجھے اختیار ہے ، پھر مجھ سے دوبارہ میرے اللہ نے دریافت فرمایا میں نے پھر بھی یہی جواب دیا تو مجھ سے اللہ عزوجل نے فرمایا ’ اے نبی [ صلی اللہ علیہ وسلم ] میں آپ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے بارے میں کبھی شرمندہ نہ کروں گا ‘ ۔ سنو مجھے میرے رب نے خوشخبری دی ہے کہ سب سے پہلے میری امت میں سے میرے ساتھ ستر ہزار شخص جنت میں جائیں گے ، ہر ہزار کے ساتھ ستر ہزار اور ہوں گے ، ان سب پر حساب کتاب مطلقاً نہیں ، پھر میری طرف پیغام بھیجا کہ ’ میرے حبیب مجھ سے دعا کرو میں قبول فرماؤں گا مجھ سے مانگو میں دوں گا ‘ ۔ میں نے اس قاصد سے کہا کہ جو میں مانگوں مجھے ملے گا ؟ اس نے جواب دیا کہ ہاں اسی لیے تو مجھے اللہ نے بھیجا ہے ۔ { چنانچہ میرے رب نے بہت کچھ عطا فرمایا ، میں یہ سب کچھ فخر کے طور پر نہیں کہہ رہا ، مجھے میرے رب نے بالکل بخش دیا ، اگلے پچھلے سب گناہ معاف فرما دیئے حالانکہ زندہ سلامت چل پھر رہا ہوں ، مجھے میرے رب نے یہ بھی عطا فرمایا کہ میری تمام امت قحط سالی کی وجہ سے بھوک کے مارے ہلاک نہ ہو گی اور نہ سب کے سب مغلوب ہو جائیں گے ، مجھے میرے رب نے حوص کوثر دیا ہے ، وہ جنت کی ایک نہر ہے جو میرے حوض میں بہ رہی ہے ، مجھے اس نے عزت ، مدد اور رعب دیا ہے جو امتیوں کے آگے آگے مہینہ بھر کی راہ پر چلتا ہے ، تمام نبیوں میں سب سے پہلے میں جنت ہی میں جاؤں گا ، میرے اور میری امت کے لیے غنیمت کا مال حلال طیب کر دیا گیا وہ سختیاں جو پہلوں پر تھیں ہم پر سے ہٹا دی گئیں اور ہمارے دین میں کسی طرح کی کوئی تنگی نہیں رکھی گئی } ۔ ۱؎ (مسند احمد:393/5:ضعیف) المآئدہ
118 المآئدہ
119 موحدین کے لیے خوش خبریاں حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کو ان کی بات کا جو جواب قیامت کے دن ملے گا اس کا بیان ہو رہا ہے کہ ’ آج کے دن موحدوں کو توحید نفع دے گی ، وہ ہمیشگی والی جنت میں جائیں گے ، وہ اللہ سے خوش ہوں گے اور اللہ ان سے خوش ہو گا ، «وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللہِ أَکْبَرُ» ۱؎ (9-التوبۃ:72) فی الواقع رب کی رضا مندی زبردست چیز ہے ‘ ۔ ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے کہ { پھر اللہ تعالیٰ ان پر تجلی فرمائے گا اور ان سے کہے گا تم جو چاہو مجھ سے مانگو میں دوں گا ، وہ اللہ تعالیٰ سے اس کی خوشنودی طلب کریں گے ، اللہ تعالیٰ سب کے سامنے اپنی رضا مندی کا اظہار کرے گا } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:1256/4:ضعیف) پھر فرماتا ہے ’ یہ ایسی بے مثل کامیابی ہے جس سے بڑھ کر اور کوئی کامیابی نہیں ہو سکتی ‘ ۔ جیسے اور جگہ ہے «‏‏‏‏لِمِثْلِ ہٰذَا فَلْیَعْمَلِ الْعَامِلُونَ» ۱؎ ‏‏‏‏(37-الصفات:61) ’ اسی کیلئے عمل کرنے والوں کو عمل کی کوشش کرنی چاہیئے ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَفِی ذٰلِکَ فَلْیَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُونَ» (83-المطففین:26) ’ رغبت کرنے والے اس کی رغبت کر لیں ‘ ۔ پھر فرماتا ہے ’ سب کا خالق ، سب کا مالک ، سب پر قادر ، سب کا متصرف اللہ تعالیٰ ہی ہے ، ہر چیز اسی کی ملکیت میں اسی کے قبضے میں اسی کی چاہت میں ہے ، اس جیسا کوئی نہیں ، نہ کوئی اس کا وزیر و مشیر ہے ، نہ کوئی نظیر و عدیل ہے نہ اس کی ماں ہے ، نہ باپ ، نہ اولاد نہ بیوی ۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں نہ کوئی اس کے سوا رب ہے ‘ ۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ما فرماتے ہیں ۔ سب سے آخری سورت یہی سورۃ المائدہ اتری ہے ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3063،قال الشیخ الألبانی:-ضعیف) [ الحمداللہ سورۃ المائدہ کی تفسیر ختم ہوئی ] المآئدہ
120 المآئدہ
0 الانعام
1 اللہ کی بعض صفات اللہ تعالیٰ اپنی تعریف کر رہا ہے گویا ہمیں اپنی تعریفوں کا حکم دے رہا ہے ، اس کی تعریف جن امور پر ہے ان میں سے ایک زمین و آسمان کی پیدائش بھی ہے دن کی روشنی اور رات کا اندھیرا بھی ہے اندھیرے کو جمع کے لفظ سے اور نور کو واحد کے لفظ سے لانا نور کی شرافت کی وجہ سے ہے ۔ جیسے فرمان ربانی آیت «عَنِ الْیَمِینِ وَالشَّمَائِلِ» ۱؎ (16-النحل:48) میں اور اس سورت کے آخری حصے کی آیت «وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِـیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ وَلَا تَتَّبِعُوا السٰبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ ذٰلِکُمْ وَصّٰیکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ» ۱؎ (6 ۔ الانعام:153) میں ۔ یہاں بھی راہ راست کو واحد رکھا اور غلط راہوں کو جمع کے لفظ سے بتایا ، اللہ ہی قابل حمد ہے ، کیونکہ وہی خالق کل ہے مگر پھر بھی کافر لوگ اپنی نادانی سے اس کے شریک ٹھہرا رہے ہیں کبھی بیوی اور اولاد قائم کرتے ہیں کبھی شریک اور ساجھی ثابت کرنے بیٹھتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان تمام باتوں سے پاک ہے ، اس رب نے تمہارے باپ آدم کو مٹی سے پیدا کیا اور پھر تمہیں اس کی نسل سے مشرق مغرب میں پھیلا دیا ، موت کا وقت بھی اسی کا مقرر کیا ہوا ہے ، آخرت کے آنے کا وقت بھی اسی کا مقرر کیا ہوا ہے ، پہلی اجل سے مراد دنیاوی زندگی دوسری اجل سے مراد قبر کی رہائش ، گویا پہلی اجل خاص ہے یعنی ہر شخص کی عمر اور دوسری اجل عام ہے یعنی دنیا کی انتہا اور اس کا خاتمہ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ اور مجاہدرحمہ اللہ وغیرہ سے مروی ہے کہ «قَضَی أَجَلًا» سے مراد مدت دنیا ہے اور «أَجَلٌ مُسَمًّی» سے مراد عمر انسان ہے ۔ بہت ممکن ہے کہ اس کا استدلال آنے والی آیت «وَہُوَ الَّذِیْ یَتَوَفّٰیکُمْ بالَّیْلِ وَیَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بالنَّہَارِ ثُمَّ یَبْعَثُکُمْ فِیْہِ لِیُقْضٰٓی اَجَلٌ مٰسَمًّی» ۱؎ (6 ۔ الأنعام:60) سے ہو ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آیت «ثُمَّ قَضٰۤی اَجَلًا» سے مراد نیند ہے جس میں روح قبض کی جاتی ہے ، پھر جاگنے کے وقت لوٹا دی جاتی ہے اور «أَجَلٌ مُسَمًّی» سے مراد موت ہے یہ قول غریب ہے ۔ «عِنْدَہُ» سے مراد اس کے علم کا اللہ ہی کے ساتھ مخصوص ہونا ہے ، جیسے فرمایا آیت «قُلْ اِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ رَبِّیْ لَا یُجَلِّیْہَا لِوَقْتِہَآ اِلَّا ہُوَ» ۱؎ (7 ۔ الأعراف:187) یعنی ’ قیامت کا علم تو صرف میرے رب کے پاس ہی ہے ‘ ، سورۃ النازعات میں بھی فرمان ہے کہ «یَسْأَلُونَکَ عَنِ السَّاعَۃِ أَیَّانَ مُرْسَاہَا فِیمَ أَنتَ مِن ذِکْرَاہَا إِلَیٰ رَبِّکَ مُنتَہَاہَا» ۱؎ (79-النازعات:42-44) ’ لوگ تجھ سے قیامت کے صحیح وقت کا حال دریافت کرتے ہیں حالانکہ تجھے اس کا علم کچھ بھی نہیں وہ تو صرف اللہ ہی کو معلوم ہے ‘ ۔ باوجود اتنی پختگی کے اور باوجود کسی قسم کا شک شبہ نہ ہونے کے پھر بھی لوگ قیامت کے آنے نہ آنے میں تردد اور شک کر رہے ہیں ۔ اس کے بعد جو ارشاد جناب باری نے فرمایا ہے ، اس میں مفسرین کے کئی ایک اقوال ہیں لیکن کسی کا بھی وہ مطلب نہیں جو جہمیہ لے رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات سے ہر جگہ ہے ، نعوذ باللہ ، اللہ کی برتر و بالا ذات اس سے بالکل پاک ہے ۔ آیت کا بالکل صحیح مطلب یہ ہے کہ آسمانوں میں بھی اسی کی ذات کی عبادت کی جاتی ہے اور زمینوں میں بھی ، اسی کی الوہیت وہاں بھی ہے اور یہاں بھی ، اوپر والے اور نیچے والے سب اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے ہیں ، سب کی اسی سے امیدیں وابستہ ہیں اور سب کے دل اسی سے لرز رہے ہیں جن و انس سب اسی کی الوہیت اور بادشاہی مانتے ہیں جیسے اور آیت میں ہے «وَہُوَ الَّذِیْ فِی السَّمَاءِ اِلٰہٌ وَّفِی الْاَرْضِ اِلٰہٌ وَہُوَ الْحَکِیْمُ الْعَلِیْمُ» ۱؎ (43 ۔ الزخرف:84) یعنی ’ وہی آسمانوں میں معبود برحق ہے اور وہی زمین میں معبود برحق ہے ، یعنی آسمانوں میں جو ہیں ، سب کا معبود وہی ہے اور اسی طرح زمین والوں کا بھی سب کا معبود وہی ہے ‘ ۔ اب اس آیت کا اور جملہ «یَعْلَمُ سِرَّکُمْ وَجَہْرَکُمْ وَیَعْلَمُ مَا تَکْسِبُوْنَ» ۱؎ (6 ۔ الأنعام:3) خبر ہو جائے گا یا حال سمجھا جائے گا اور یہ بھی قول ہے کہ اللہ وہ ہے جو آسمانوں کی سب چیزوں کو اس زمین کی سب چیزوں کو چاہے وہ ظاہر ہوں یا پوشیدہ ، جانتا ہے ۔ پس «یَعْلَمُ» متعلق ہو گا «فِی السَّمَاوَاتِ وَفِی الْأَرْضِ» کا اور تقدیر آیت یوں ہو جائے گی آیت «وَہُوَ اللہُ یعلمُ سِرَّکُمْ وَجَہْرَکُمْ فِی السَّمَاوَاتِ وَفِی الْأَرْضِ وَیَعْلَمُ مَا تَکْسِبُوْنَ» ایک قول یہ بھی ہے کہ آیت «وَہُوَ اللہُ فِی السَّمَاوَاتِ» پر وقف تام ہے اور پھر جملہ مستانفہ کے طور پر خبر ہے کہ آیت «وَفِی الْأَرْضِ یَعْلَمُ سِرَّکُمْ وَجَہْرَکُمْ» امام ابن جریر اسی تیسرے قول کو پسند کرتے ہیں ۔ پھر فرماتا ہے ’ تمہارے کل اعمال سے خیر و شر سے وہ واقف ہے ‘ ۔ الانعام
2 الانعام
3 الانعام
4 کفار کو نافرمانی پر سخت انتباہ کفار کی سرکشی کی انتہا بیان ہو رہی ہے کہ ہر امر کی تکذیب پر گویا انہوں نے کمر باندھ لی ہے ، نیت کر کے بیٹھے ہیں کہ جو نشانی دیکھیں گے ، اسی کا انکار کریں گے ، ان کی یہ خطرناک روش انہیں ایک دن ذلیل کرے گی اور وہ ذائقہ آئے گا کہ ہونٹ کاٹتے رہیں ، یہ یوں نہ سمجھیں کہ ہم نے انہیں چھوڑ دیا ہے نہیں بلکہ عنقریب انہیں اللہ کی پکڑ ہوگی ، کیا ان سے پہلے کے ایسے سرکشوں کے حالات ان کے کان میں نہیں پڑے ؟ کیا ان کے عبرتناک انجام ان کی نگاہوں کے سامنے نہیں ؟ وہ تو قوت طاقت میں اور زور میں ان سے بہت بڑھے چڑھے ہوئے تھے ، وہ اپنی رہائش میں اور زمین کو بسانے میں ان سے کہیں زیادہ آگے تھے ، ان کے لاؤ لشکر ، ان کی جاہ و عزت ، غرور و تمکنت ان سے کہیں زیادہ تھی ، ہم نے انہیں خوب مست بنا رکھا تھا ، بارشیں پے در پے حسن ضرورت ان پر برابر برسا کرتی تھیں ، زمین ہر وقت تروتازہ رہتی تھی چاروں طرف پانی کی ریل پیل کی وجہ سے آبشاریں اور چشمے صاف شفاف پانی کے بہتے رہتے تھے ۔ جب وہ تکبر میں آ گئے ، ہماری نشانیوں کی حقارت کرنے لگے تو آخر نتیجہ یہ ہوا کہ برباد کر دیئے گئے ۔ تہس نہس ہو گئے ، بھوسی اڑ گئی ۔ لوگوں میں ان کے فسانے باقی رہ گئے اور ان میں سے ایک بھی نہ بچا حرف غلط کی طرح صفحہ ہستی سے مٹا دیئے گئے اور ان کے بعد ان کے قائم مقام اور زمانہ آیا ۔ اگر وہ بھی اسی روش پر چلا تو یہی سلوک ان کے ساتھی بھی ہوتا ، اتنی نظریں جب تمہاری آنکھوں کے سامنے موجود ہیں پھر بھی تم عبرت حاصل نہیں کرتے ، یہ کس قدر تمہاری غفلت ہے ، یاد رکھو تم کچھ اللہ کے ایسے لاڈلے نہیں ہو کہ جن کاموں کی وجہ سے اوروں کو وہ تباہ کر دے وہ کام تم کرتے رہو اور تباہی سے بچ جاؤ ۔ اسی طرح جن رسولوں کو جھٹلانے اور ان کو نہ ماننے کی وجہ سے وہ ہلاک ہوئے ان رسولوں سے کسی طرح یہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کم درجے کے نہیں بلکہ ان سے زیادہ اللہ کے ہاں یہ با عزت ہیں ۔ یقین مانو کہ پہلوں سے بھی سخت اور نہایت سخت عذاب تم پر آئیں گے ، پس تم اپنی اس غلط روش کو چھوڑ دو ، یہ صرف اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم ہے کہ اس نے تمہاری بدترین اور انتہائی شرارتوں کے باوجود تمہیں ڈھیل دے رکھی ہے ۔ الانعام
5 الانعام
6 الانعام
7 انسانوں میں سے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عظیم احسان کفار کی ضد اور سرکشی بیان ہو رہی ہے کہ یہ تو حق کے دشمن ہیں ۔ بالفرض یہ کتاب اللہ کو آسمان سے اترتی ہوئی اپنی آنکھوں دیکھ لیتے اور اپنے ہاتھ لگا کر اسے اچھی طرح معلوم کر لیتے پھر بھی ان کا کفر نہ ٹوٹتا اور یہ کہہ دیتے کہ یہ تو کھلا جادو ہے ، محسوسات کا انکار بھی ان سے بعید نہیں ۔ جیسے اور جگہ ہے آیت «وَلَوْ فَتَحْنَا عَلَیْہِمْ بَابًا مِّنَ السَّمَاءِ فَظَلٰوْا فِیْہِ یَعْرُجُوْنَ لَقَالُوا إِنَّمَا سُکِّرَتْ أَبْصَارُنَا بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَّسْحُورُونَ» ۱؎ (15۔الحجر:15،14) یعنی ’ اگر ہم آسمان کا دروازہ کھول دیتے اور یہ خود اوپر چڑھ جاتے ، جب یہ بھی یہی کہتے کہ ہماری آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی ہے بلکہ ہم پر جادو کر دیا گیا ہے ‘ ۔ اور ایک آیت میں ہے «وَاِنْ یَّرَوْا کِسْفًا مِّنَ السَّمَاءِ سَاقِـطًا یَّقُوْلُوْا سَحَابٌ مَّرْکُوْمٌ» ۱؎ (52۔الطور:44) غرض کہ جن باتوں کے ماننے کے عادی نہیں انہیں ہوتے ہوئے دیکھ کر بھی ایمان نصیب نہیں ہونے کا ۔ یہ کہتے ہیں کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سچے رسول ہیں تو ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے کسی فرشتے کی ڈیوٹی کیوں نہیں لگائی ؟ اللہ تعالیٰ جواب دیتا ہے کہ ’ ان کی اس بے ایمانی پر اگر فرشتے آ جاتے تو پھر تو کام ہی ختم کر دیا جاتا ، چنانچہ اور آیت میں ہے «مَا نُنَزِّلُ الْمَلٰیِٕکَۃَ اِلَّا بالْحَقِّ وَمَا کَانُوْٓا اِذًا مٰنْظَرِیْنَ» ۱؎ (15۔الحجر:8) یعنی ’ فرشتوں کو ہم حق کے ساتھ ہی اتارتے ہیں ۔ اگر یہ آ جائیں تو پھر مہلت و تاخیر ناممکن ہے ‘ اور جگہ ہے آیت «یَوْمَ یَرَوْنَ الْمَلٰیِٕکَۃَ لَا بُشْرٰی یَوْمَیِٕذٍ لِّلْمُجْرِمِیْنَ وَیَقُوْلُوْنَ حِجْـرًا مَّحْجُوْرًا» ۱؎ (25۔الفرقان:22) ’ جس دن یہ لوگ فرشتوں کو دیکھ لیں گے اس دن گہنگار کو کوئی بشارت نہیں ہوگی ‘ ۔ الانعام
8 الانعام
9 1 پھر فرماتا ہے ’ بالفرض رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کوئی فرشتہ ہم اتارتے یا خود فرشتے ہی کو اپنا رسول بنا کر انسانوں میں بھیجتے تو لا محالہ اسے بصورت انسانی ہی بھیجتے تاکہ یہ لوگ اس کے ساتھ بیٹھ اٹھ سکیں ، بات چیت کر سکیں اس سے حکم احکام سیکھ سکیں ۔ یکجہتی کی وجہ سے طبیت مانوس ہو جائے اور اگر ایسا ہوتا تو پھر انہیں اسی شک کا موقعہ ملتا کہ نہ جانے یہ سچ مچ فرشتہ ہے بھی یا نہیں ؟ کیونکہ وہ بھی انسان جیسا ہے ‘ ۔ اور آیت میں ہے «قُلْ لَّوْ کَانَ فِی الْاَرْضِ مَلٰیِٕکَۃٌ یَّمْشُوْنَ مُطْمَیِٕنِّیْنَ لَنَزَّلْنَا عَلَیْہِمْ مِّنَ السَّمَاءِ مَلَکًا رَّسُوْلًا» ۱؎ (17 ۔ الاسراء:95) یعنی ’ اگر زمین میں فرشتوں کی آبادی ہوتی تو ہم ان کی طرف فرشتے ہی کو رسول بنا کر نازل فرماتے ‘ ۔ پس درحقیقت اس رب محسن کا ایک احسان یہ بھی ہے کہ انسانوں کی طرف انہی کی جنس میں سے انسان ہی کو رسول بنا کر بھیجا تاکہ اس کے پاس اٹھ بیٹھ سکیں اس سے پوچھ گچھ لیں اور ہم جنسی کی وجہ سے خلط ملط ہو کر فائدہ اٹھا سکیں ۔ چنانچہ ارشاد ہے آیت «لَقَدْ مَنَّ اللہُ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ إِذْ بَعَثَ فِیہِمْ رَسُولًا مِنْ أَنْفُسِہِمْ یَتْلُو عَلَیْہِمْ آیَاتِہِ وَیُزَکِّیہِمْ» ۱؎ (3-آل عمران:164) یعنی ’ یقیناً اللہ تعالیٰ محسن حقیقی کا ایک زبردست احسان مسلمانوں پر یہ بھی ہے کہ اس نے انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو آیات الہیہ ان کے سامنے تلاوت کرتا رہتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے ‘ ۔ مطلب یہ ہے کہ اگر فرشتہ ہی اترتا تو چونکہ اس نور محض کو یہ لوگ دیکھ ہی نہیں سکتے اس لیے اے انسانی صورت میں ہی بھیجتے تو پھر بھی ان پر شبہ ہی رہتا ، پھر اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو تسکین اور تسلی دیتا ہے کہ ’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دل گرفتہ نہ ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی جتنے انبیاء علیہم السلام آئے ان کا بھی مذاق اڑایا گیا لیکن بالاخر مذاق اڑانے والے تو برباد ہو گئے اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی جو لوگ بے ادبی سے پیش آتے ہیں ایک رو پیس دیئے جائیں گے ‘ ۔ ’ لوگو ! ادھر ادھر پھر پھرا کر عبرت کی آنکھوں سے ان کے انجام کو دیکھو جنہوں نے تم سے پہلے رسولوں کے ساتھ بدسلوکی کی ، ان کی نہ مانی اور ان پر پھبتیاں کسیں دنیا میں بھی وہ خراب و خستہ ہوئے اور آخرت کی مار ابھی باقی ہے ، رسولوں کو اور ان کے ماننے والوں کو ہم نے یہاں بھی ترقی دی اور وہاں بھی انہیں بلند درجے عطا فرمائے ‘ ۔ الانعام
10 الانعام
11 الانعام
12 ہر چیز کا مالک اللہ ہے آسمان و زمین اور جو کچھ ان میں ہے ، سب اللہ کا ہے ، اس نے اپنے نفس مقدس پر رحمت لکھ لی ہے ۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ { اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو جب پیدا کیا تو ایک کتاب لکھی جو اس کے پاس اس کے عرش کے اوپر ہے کہ میری رحمت غضب پر غالب ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3194) پھر اپنے پاک نفس کی قسم کھا کر فرماتا ہے کہ ’ وہ اپنے بندوں کو قیامت کے دن ضرور جمع کرے گا اور وہ دن یقیناً آنے والا ہے شکی لوگ چاہے شک شبہ کریں لیکن وہ ساعت اٹل ہے ‘ ۔ { حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ کیا اس دن پانی بھی ہوگا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اس اللہ کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے اس دن پانی ہو گا ، اولیاء اللہ ان ہوضوں پر آئیں گے جو انبیاء علیہم السلام کی ہوں گی ۔ ان حوضوں کی نگہبانی کیلئے ایک ہزار فرشتے نور کی لکڑیاں لیے ہوئے مقرر ہوں گے جو کافروں کو وہاں سے ہٹا دیں گے } } ۔ ۱؎ (ضعیف) یہ حدیث ابن مردویہ میں ہے لیکن ہے غریب ۔ ترمذی شریف کی حدیث میں ہے { ہر نبی علیہ السلام کے لیے ہوض ہو گا مجھے امید ہے کہ سب سے زیادہ لوگ میرے حوض پر آئیں گے } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2443،قال الشیخ الألبانی:صحیح) جو لوگ اللہ پر ایمان نہیں رکھتے اور اس دن کو نہیں مانتے وہ اپنی جانوں سے خود ہی دشمنی رکھتے ہیں اور اپنا نقصان آپ ہی کرتے ہیں ، زمین و آسمان کی ساکن چیزیں یعنی کل مخلوق اللہ کی ہی پیدا کردہ ہے اور سب اس کے ماتحت ہے ، سب کا مالک وہی ہے ، وہ سب کی باتیں سننے والا اور سب کی حرکتیں جاننے والا ہے ، چھپا کھلا سب اس پر روشن ہے ۔ پھر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جنہیں توحید خالص کے ساتھ اور کامل شریعت کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے ۔ حکم دیتا ہے کہ ’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اعلان کر دیں کہ آسمان و زمین پیدا کرنے والے اللہ کے سوا میں کسی اور کو اپنا دوست و مددگار نہیں جانتا ، وہ ساری مخلوق کا رازق ہے سب اس کے محتاج ہیں اور وہ سب سے بے نیاز ہے ‘ ۔ فرماتا ہے ’ میں نے تمام انسانوں جنوں کو اپنی غلامی اور عبادت کیلئے پیدا کیا ہے ‘ ، ایک قرأت میں «وَلَا یَطْعَمُ» بھی ہے یعنی ’ وہ خود نہیں کھاتا ‘ ۔ { قباء کے رہنے والے ایک انصاری رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی ، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ، ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گئے ، جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کھانا تناول فرما کر ہاتھ دھو چکے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اللہ کا شکر ہے جو سب کو کھلاتا ہے اور خود نہیں کھاتا ، اس کے بہت بڑے احسان ہم پر ہیں کہ اس نے ہمیں ہدایت دی اور کھانے پینے کو دیا اور تمام بھلائیاں عطا فرمائیں اللہ کا شکر ہے جسے ہم پورا ادا کر ہی نہیں سکتے اور نہ اسے چھوڑ سکتے ہیں ، ہم اس کی ناشکری نہیں کرتے ، نہ اس سے کسی وقت ہم بے نیاز ہو سکتے ہیں ، «اَلْحَمْدُ لِلہِ» اللہ نے ہمیں کھانا کھلایا ، پانی پلایا ، کپڑے پہنائے ، گمراہی سے نکال کر رہ راست کھائی ، اندھے پن سے ہٹا کر آنکھیں عطا فرمائیں اور اپنی بہت سی مخلوق پر ہمیں فضیلت عنایت فرمائی ۔ اللہ ہی کے لیے سب تعریفیں مختص ہیں جو تمام جہان کا پالنہار ہے } } ۔ ۱؎ (نسائی فی السنن الکبری:10133/6:صحیح) پھر فرماتا ہے کہ ’ اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ! اعلان کر دو کہ مجھے حکم ملا ہے کہ اس امت میں سب سے پہلے اللہ کا غلام میں بن جاؤں ‘ ۔ پھر فرماتا ہے ’ خبردار ہرگز ہرگز مشرکوں سے نہ ملنا ، یہ بھی اعلان کر دیجئیے کہ مجھے خوف ہے اگر میں اللہ کی نافرمانی کروں تو مجھے قیامت کے دن عذاب ہوں گے جو اس روز عذابوں سے محفوظ رکھا گیا یقین ماننا کہ اس پر رحمت رب نازل ہوئی ، سچی کامیابی یہی ہے ‘ اور آیت میں فرمایا ہے «فَمَن زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ» ۱؎ (3-آل عمران:185) ’ جو بھی جہنم سے ہٹا دیا گیا اور جنت میں پہنچا دیا گیا اس نے منہ مانگی مراد پالی ‘ ۔ «فَوْزٌ» کے معنی نفع مل جانے اور نقصان سے بچ جانے کے ہیں ۔ الانعام
13 الانعام
14 الانعام
15 الانعام
16 الانعام
17 قرآن کریم کا باغی جہنم کا ایندھن اللہ تعالیٰ خبر دے رہا ہے کہ ’ نفع و نقصان کا مالک وہی ہے اپنی مخلوق میں جیسی وہ چاہے تبدیلیاں کرتا ہے اس کے احکام کو کوئی ٹال نہیں سکتا اس کے فیصلوں کو کوئی رد نہیں کر سکتا ‘ ۔ اسی آیت جیسی آیت «مَا یَفْتَحِ اللّٰہُ للنَّاسِ مِنْ رَّحْمَۃٍ فَلَا مُمْسِکَ لَہَا وَمَا یُمْسِکْ فَلَا مُرْسِلَ لَہٗ مِنْ بَعْدِہٖ وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ» ۱؎ (35۔فاطر:2) ہے یعنی ’ اللہ مقتدر اعلی جسے جو رحمت دینا چاہے اسے کوئی روک نہیں سکتا ، اور جس سے وہ روک لے اسے کوئی دے نہیں سکتا ‘ ۔ اس آیت میں خاص اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کر کے بھی یہی فرمایا ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے «اللہم لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَیْتَ ولا مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ ولا یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدٰ» { اے اللہ جسے تو دے اس سے کوئی روک نہیں سکتا اور جس سے تو روک لے اسے کوئی دے نہیں سکتا } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:844) اس کے بعد فرماتا ہے ’ وہ اپنے بندوں پر قاہر و غالب ہے ، سب کی گردنین اس کے سامنے پست ہیں ، سب بڑے اس کے سامنے چھوٹے ہیں ، ہر چیز اس کے قبضے اور قدرت میں ہے تمام مخلوق اس کی تابعدار ہے اس کے جلال اس کی کبریائی اس کی عظمت اس کی بلندی اس کی قدرت تمام چیزوں پر غالب ہے ہر ایک کا مالک وہی ہے ، حکم اسی کا چلتا ہے ، حقیقی شہنشاہ اور کامل قدرت والا وہی ہے ، اپنے تمام کاموں میں وہ باحکمت ہے ، وہ ہر چھوٹی بڑی چھپی کھلی چیز سے با خبر ہے ، وہ جسے جو دے وہ بھی حکمت سے اور جس سے جو روک لے وہ بھی حکمت ہے ‘ ۔ پھر فرماتا ہے ’ پوچھو تو سب سے بڑا اور زبردست اور بالکل سچا گواہ کون ہے ؟ جواب دے کہ مجھ میں تم میں اللہ ہی گواہ ہے ، جو میں تمہارے پاس لایا ہوں اور جو تم مجھ سے کر رہے ہو اسے وہ خوب دیکھ بھال رہا ہے اور بخوبی جانتا ہے ، میری جانب اس قرآن کی وحی کی گئی ہے تاکہ میں تم سب حاضرین کو بھی اس سے آگاہ کر دوں اور جسے بھی یہ پہنچی اس تک میرا پیغام پہنچ جائے ‘ ۔ جیسے اور آیت میں ہے «وَمَنْ یَّکْفُرْ بِہٖ مِنَ الْاَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُہٗ فَلَا تَکُ فِیْ مِرْیَۃٍ مِّنْہُ» ۱؎ (11۔ھود:17) یعنی ’ دنیا کے تمام لوگوں میں سے جو بھی اس قرآن سے انکار کرے اس کا ٹھکانا جہم ہی ہے ‘ ۔ محمد بن کعب رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” جسے قرآن پہنچ گیا اس نے گویا خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لیا بلکہ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے باتیں کر لیں اور اس پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کا دین پیش کر دیا “ ۔ قتادہ رحمہ اللہ کا قول ہے ” اللہ کا پیغام اس کے بندوں کو پہنچاؤ جسے ایک آیت قرآنی پہنچ گئی اسے اللہ کا امر پہنچ گیا “ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:13122:مرسل و ضعیف) ربیع بن انس رحمہ اللہ کا قول ہے ” اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام تابعی لوگوں پر حق ہے کہ وہ مثل دعوت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لوگوں کو دعوت خیر دیں اور جن چیزوں اور کاموں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈرا دیا ہے یہ بھی اس سے ڈراتے رہیں “ ۔ ’ مشرکو تم چاہے اللہ کے ساتھ اور معبود بھی بتاؤ لیکن میں تو ہرگز ایسا نہیں کروں گا ‘ جیسے اور آیت میں ہے «فَاِنْ شَہِدُوْا فَلَا تَشْہَدْ مَعَہُمْ وَلَا تَتَّبِعْ اَہْوَاءَ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَالَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بالْاٰخِرَۃِ وَہُمْ بِرَبِّہِمْ یَعْدِلُوْنَ» ۱؎ (6۔الأنعام:150) ’ یہ گو شہادت دیں لیکن تو ان کا ہمنوا نہ بن ‘ ۔ یہاں فرمایا ’ تم صاف کہہ دو کہ اللہ تو ایک ہی ہے اور تمہارے تمام معبودان باطل سے میں الگ تھلگ ہوں ۔ میں ان سب سے بیزار ہوں کسی کا بھی روادار نہیں ‘ ۔ پھر فرماتا ہے ’ یہ اہل کتاب اس قرآن کو اور اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خوب جانتے ہیں جس طرح انسان اپنی اولاد سے واقف ہوتا ہے اسی طرح یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین سے واقف اور با خبر ہیں کیونکہ خود ان کی کتابوں میں یہ سب خبریں موجود ہیں ‘ ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی خبریں ان کی آسمانی کتابوں میں لکھی ہوئی ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفتیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وطن ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کی صفت ، ان تمام چیزوں سے یہ لوگ آگاہ ہیں اور ایسے صاف طور پر کہ جس میں کسی قسم کا شک شبہ نہیں ، پھر ایسے ظاہر باہر صاف شفاف کھلم کھلا امر سے بے ایمانی کرنا انہی کا حصہ ہے جو خود اپنا برا چاہنے والے ہوں اور اپنی جانوں کو ہلاک کرنے والے ہوں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے پہلے ہی نشان ظاہر ہو چکے جو نبی علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارتیں دیتا ہوا آیا ، پھر انکار کرنا سورج چاند کے وجود سے انکار کرنا ہے ، اس سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹ باندھ لے ؟ اور فی الواقع اس سے بھی زیادہ ظالم کوئی نہیں جو سچ کو جھوٹ کہے اور اپنے رب کی باتوں اور اس کی اٹل حجتوں اور روشن دلیلوں سے انکار کرے ، ایسے لوگ فلاح سے ، کامیابی سے ، اپنا مقصد پانے سے اور نجات و آرام سے محروم محض ہیں ۔ الانعام
18 الانعام
19 الانعام
20 الانعام
21 الانعام
22 قیامت کے دن مشرکوں کا حشر قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کا حشر اپنے سامنے کرے گا پھر جو لوگ اللہ کے سوا اوروں کی پرستش کرتے تھے انہیں لا جواب شرمندہ اور بے دلیل کرنے کے لیے ان سے فرمائے گا کہ ’ جن جن کو تم میرا شریک ٹھہراتے رہے آج وہ کہاں ہیں ؟ ‘ سورۃ قصص کی آیت «وَیَوْمَ یُنَادِیْہِمْ فَیَقُوْلُ اَیْنَ شُرَکَاءِیَ الَّذِیْنَ کُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ» ۱؎ (28-القصص:62) میں بھی یہ موجود ہے ۔ اس کے بعد کی آیت میں جو لفظ «فِتْنَتُہُمْ» ہے اس کا مطلب فتنہ سے مراد حجت و دلیل ، عذرو معذرت ، ابتلا اور جواب ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کسی نے مشرکین کے اس انکار شرک کی بابت سوال کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ ” ایک وقت یہ ہوگا کہ اللہ سے کوئی بات چھپائیں گے نہیں “ ۔ پس ان دونوں آیتوں میں کوئی تعارض و اختلاف نہیں جب مشرکین دیکھیں گے کہ موحد نمازی جنت میں جانے لگے تو کہیں گے آؤ ہم بھی اپنے مشرک ہونے کا انکار کر دیں ، اس انکار کے بعد ان کی زبانیں بند کر دی جائیں گی اور ان کے ہاتھ پاؤں گواہیاں دینے لگیں گے تو اب کوئی بات اللہ سے نہ چھپائیں گے ۔ یہ توجہیہ بیان فرما کر سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” اب تو تیرے دل میں کوئی شک نہیں رہا ؟ سنو بات یہ ہے کہ قرآن میں ایسی چیزوں کا دوسری جگہ بیان و توجیہ موجود ہے لیکن بے علمی کی وجہ سے لوگوں کی نگاہیں وہاں تک نہیں پہنچتیں “ ۔ یہ بھی مروی ہے کہ یہ آیت منافقوں کے بارے میں ہے ۔ لیکن یہ کچھ ٹھیک نہیں ۔ اس لیے کہ آیت مکی ہے اور منافقوں کا وجود مکہ شریف میں تھا ہی نہیں ۔ ہاں منافقوں کے بارے میں آیت «یَوْمَ یَبْعَثُہُمُ اللّٰہُ جَمِیْعًا فَیَحْلِفُوْنَ لَہٗ کَمَا یَحْلِفُوْنَ لَکُمْ وَیَحْسَبُوْنَ اَنَّہُمْ عَلٰی شَیْءٍ اَلَآ اِنَّہُمْ ہُمُ الْکٰذِبُوْنَ» ۱؎ (58-المجادلۃ:18) ہے ۔ دیکھ لو کہ کس طرح انہوں نے خود اپنے اوپر جھوٹ بولا ؟ اور جن جھوٹے معبودوں کا افترا انہوں نے کر رکھا تھا کیسے ان سے خالی ہاتھ ہوگئے ؟ چنانچہ دوسری جگہ ہے کہ«ثُمَّ قِیلَ لَہُمْ أَیْنَ مَا کُنتُمْ تُشْرِکُونَ مِن دُونِ اللہِ قَالُوا ضَلٰوا عَنَّا» ۱؎ (40-غافر:73،74) ’ جب ان سے یہ سوال ہوگا خود یہ کہیں گے «ضَلٰوا عَنَّا» وہ سب آج ہم سے دور ہوگئے ‘ ۔ پھر فرماتا ہے ’ بعض ان میں وہ بھی ہیں جو قرآن سننے کو تیرے پاس آتے ہیں لیکن اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاتے ۔ ان کے دلوں پر پردے ہیں وہ سمجھتے ہی نہیں ان کے کان انہیں یہ مبارک آوازیں اس طرح سناتے ہی نہیں کہ یہ اس سے فائدہ اٹھا سکیں اور احکام قرآنی کو قبول کریں ‘ ۔ جیسے اور جگہ ہے «وَلَوْ أَسْمَعَہُمْ لَتَوَلَّوا وَّہُم مٰعْرِضُونَ» ۱؎ (8-الأنفال:23) ان کی مثال ان چوپائے جانوروں سے دی گئی جو اپنے چروا ہے کی آواز تو سنتے ہیں لیکن مطلب خاک نہیں سمجھتے ، یہ وہ لوگ ہیں جو بکثرت دلائل و براہن اور معجزات اور نشانیاں دیکھتے ہوئے بھی ایمان قبول نہیں کرتے ، ان ازلی بد قسمتوں کے نصیب میں ایمان ہے ہی نہیں ، یہ بے انصاف ہونے کے ساتھ ہی بے سمجھ بھی ہیں ۔ اگر اب ان میں بھلائی دیکھتا تو ضرور انہیں سننے کی توفیق کے ساتھ ہی توفیق عمل و قبول بھی مرحمت فرماتا ، ہاں انہیں اگر سوجھتی ہے تو یہ کہ اپنے باطل کے ساتھ تیرے حق کو دبا دیں تجھ سے جھگڑتے ہیں اور صاف کہہ جاتے ہیں کہ یہ تو اگلوں کے فسانے ہیں جو پہلی کتابوں سے نقل کر لیے گئے ہیں ۔ اس کے بعد کی آیت کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ ’ یہ کفار خود بھی ایمان نہیں لاتے ہیں اور دوسروں کو بھی ایمان لانے سے روکتے ہیں ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو برحق جانتے ہیں اور خود حق کو قبول نہیں کرتے ‘ ۔ جیسے کہ ابوطالب کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا بڑا ہی حمایتی تھا لیکن ایمان نصیب نہیں ہوا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دس چچا تھے جو اعلانیہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی تھے لیکن خفیہ مخالف تھے ۔ لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل وغیرہ سے روکتے تھے لیکن خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین سے دور ہوتے جاتے تھے ۔ افسوس اس اپنے فعل سے خود اپنے ہی تئیں غارت کرتے تھے لیکن جانتے ہی نہ تھے کہ اس کرتوت کا وبال ہمیں ہی پڑ رہا ہے ۔ الانعام
23 الانعام
24 الانعام
25 الانعام
26 الانعام
27 کفار کا واویلا مگر سب بےسود کفار کا حال اور ان کا برا انجام بیان ہو رہا ہے کہ ’ جب یہ جہنم کو وہاں کے طرح طرح کے عذابوں وہاں کی بدترین سزاؤں طوق و زنجیر کو دیکھ لیں گے اس وقت ہائے وائے مچائیں گے اور تمنا کریں گے کہ کیا اچھا ہو کہ دنیا کی طرف لوٹائے جائیں تاکہ وہاں جا کر نیکیاں کریں اللہ کی باتوں کو نہ جھٹلائیں اور پکے سچے موحد بن جائیں ‘ ۔ حقیقت یہ ہے کہ جس کفر و تکذیب کو اور سختی و بے ایمانی کو یہ چھپا رہے تھے وہ ان کے سامنے کھل گئی ، جیسے اس سے اوپر کی آیتوں میں گزرا کہ اپنے کفر کا تھوڑی دیر پہلے انکار تھا اب یہ تمنا گویا اس انکار کے بعد کا اقرار ہے اور اپنے جھوٹ کا خود اعتراف ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جس سچائی کو دنیا میں چھپاتے رہے اسے آج کھول دیں گے ۔ چنانچہ موسیٰ علیہ السلام نے فرعون سے کہا تھا کہ «قَالَ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا أَنزَلَ ہٰؤُلَاءِ إِلَّا رَبٰ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ بَصَائِرَ» ۱؎ (17-الإسراء:102) ’ تو بخوبی جانتا ہے کہ یہ تمام نشانیاں آسمان و زمین کے رب کی اتاری ہوئی ہیں ‘ ۔ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے آیت «وَجَحَدُوْا بِہَا وَاسْتَیْقَنَتْہَآ اَنْفُسُہُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا فَانْظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُفْسِدِیْنَ» ۱؎ (17۔النمل:14) یعنی ’ فرعونیوں کے دلوں میں تو کامل یقین تھا لیکن صرف اپنی بڑائی اور سنگدلی کی وجہ سے بہ بظاہر منکر تھے ‘ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس سے مراد منافق ہوں جو ظاہراً مومن تھے اور دراصل کافر تھے اور یہ خبر جماعت کفار سے متعلق ہو ۔ اگرچہ منافقوں کا وجود مدینے میں پیدا ہوا لیکن اس عادت کے موجود ہونے کی خبر مکی سورتوں میں بھی ہے ۔ ملاحظہ ہو سورۃ العنکبوت جہاں صاف فرمان ہے «وَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَیَعْلَمَنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ» ۱؎ (29۔العنکبوت:11) پس یہ منافقین دار آخرت میں عذابوں کو دیکھ لیں گے اور جو کفر و نفاق چھپا رہے تھے وہ آج ان پر ظاہر ہو جائیں گے ، «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اب ان کی تمنا ہوگی کاش کہ ہم دنیا کی طرف لوٹائے جائیں یہ بھی دراصل طمع ایمانی کی وجہ سے نہیں ہوگی بلکہ عذابوں سے چھوٹ جانے کے لیے ہو گی ۔ چنانچہ عالم الغیب اللہ ﷻ فرماتا ہے کہ ’ اگر یہ لوٹا دیئے جائیں جب بھی ان ہی نافرمانیوں میں پھر سے مشغول ہو جائیں گے ‘ ۔ ان کا یہ قول کہ وہ رغبت ایمان کر رہے ہیں اب بھی غلط ہے ۔ نہ یہ ایمان لائیں گے نہ جھٹلانے سے باز رہیں گے بلکہ لوٹنے کے بعد بھی وہی پہلا سبق رٹنے لگیں گے کہ بس اب تو یہی دنیا ہی زندگانی ہے ، دوسری زندگی اور آخرت کوئی چیز نہیں ، نہ مرنے کے بعد ہم اٹھائے جائیں گے ۔ پھر ایک اور حال بیان ہو رہا ہے کہ ’ یہ اللہ عزوجل کے سامنے کھڑے ہو نگے ، اس وقت جناب باری ان سے فرمائے گا ’ کہو اب تو اس کا سچا ہونا تم پر ثابت ہو گیا ؟ اب تو مان گئے کہ یہ غلط اور باطل نہیں ؟ ‘ اس وقت سرنگوں ہو کر کہیں گے کہ ہاں اللہ کی قسم یہ بالکل سچ اور سراسر حق ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’ اب اپنے جھٹلانے اور نہ ماننے اور کفر و انکار کا خمیازہ بھگتو اور عذابوں کا مزہ چکھو ‘ ۔ «أَفَسِحْرٌ ہٰذَا أَمْ أَنتُمْ لَا تُبْصِرُونَ» ۱؎ (52-الطور:15) ’ بتاؤ جادو ہے یا تم اندھے ہو ‘ ۔ الانعام
28 الانعام
29 الانعام
30 الانعام
31 پشیمانی مگر جہنم دیکھ کر! قیامت کو جھٹلانے والوں کا نقصان ان کا افسوس اور ان کی ندامت و خجالت کا بیان ہو رہا ہے جو اچانک قیامت کے آ جانے کے بعد انہیں ہو گا ۔ نیک اعمال کے ترک افسوس الگ ، بد اعمالیوں پر پچھتاوا جدا ہے ۔ «فِیہَا» کی ضمیر کا مرجع ممکن ہے «الْحَیَاۃِ» ہو اور ممکن ہے «الْأَعْمَالِ» ہو اور ممکن ہے «الدَّارُ الْآخِرَۃُ» ہو ، ’ یہ اپنے گناہوں کے بوجھ سے لدے ہوئے ہوں گے ، اپنی بد کرداریاں اپنے اوپر اٹھائے ہوئے ہوں گے ‘ ۔ آہ ! کیا برا بوجھ ہے ؟ ابو مرزوق رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” کافر یا فاجر جب اپنی قبر سے اٹھے گا اسی وقت اس کے سامنے ایک شخص آئے گا جو نہایت بھیانک ، خوفناک اور بدصورت ہو گا اس کے جسم سے تعفن والی سڑاند کی سخت بدبو آ رہی ہوگی وہ اس کے پاس جب پہنچے گا یہ دہشت و وحشت سے گھبرا کر اس سے پوچھے گا تو کون ہے ؟ وہ کہے گا خواب ! کیا تو مجھے پہچانتا نہیں ؟ یہ جواب دے گا ہرگز نہیں صرف اتنا جانتا ہوں کہ تو نہایت بدصورت کریہہ منظر اور تیز بدبو والا ہے تجھ سے زیادہ بدصورت کوئی بھی نہ ہوگا ، وہ کہے گا سن میں تیرا خبیث عمل ہوں جسے تو دنیا میں مزے لے کر کرتا رہا ۔ سن تو دنیا میں مجھ پر سوار رہا اب کمر جھکا میں تجھ پر سوار ہو جاؤں گا چنانچہ وہ اس پر سوار ہو جائے گا یہی مطلب ہے اس آیت کا کہ ’ وہ لوگ اپنے بد اعمال کو اپنی پیٹھ پر لادے ہوئے ہوں گے ‘ ۔ حضرت سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” جو بھی ظالم شخص قبر میں جاتا ہے اس کی لاش کے قبر میں پہنچتے ہی ایک شخص اس کے پاس جاتا ہے سخت بدصورت سخت بدبودار سخت میلے اور قابل نفرت لباس والا یہ اسے دیکھتے ہی کہتا ہے تو تو بڑا ہی بدصورت ہے بدبو دار ہے یہ کہتا ہے تیرے اعمال ایسے ہی گندے تھے وہ کہتا ہے تیرا لباس نہایت متعفن ہے ، یہ کہتا ہے تیرے اعمال ایسے ہی قابل نفرت تھے وہ کہتا ہے اچھا بتا تو سہی اے منحوس تو ہے کون ؟ یہ کہتا ہے تیرے عمل کا مجسمہ ، اب یہ اس کے ساتھ ہی رہتا ہے اور اس کیلئے عذابوں کے ساتھ ہی ایک عذاب ہوتا ہے جب قیامت کے دن یہ اپنی قبر سے چلے گا تو یہ کہے گا ٹھہر جاؤ دنیا میں تو نے میری سواری لی ہے اب میں تیری سواری لوں گا چنانچہ وہ اس پر سوار ہو جاتا ہے اور اسے مارتا پیٹتا ذلت کے ساتھ جانوروں کی طرح ہنکاتا ہوا جہنم میں پہنچاتا ہے ۔ یہی معنی ہیں اس آیت کے اس جملے کے ہیں “ ۔ دنیا کی زندگانی بجز کھیل تماشے کے ہے ہی کیا ، آنکھ بند ہوئی اور خواب ختم ، البتہ اللہ سے ڈرنے والے لوگوں کیلئے آخرت کی زندگانی بڑی چیز ہے اور بہت ہی بہتر چیز ہے تمہیں کیا ہوگیا کہ تم عقل سے کام ہی نہیں لیتے ؟ الانعام
32 الانعام
33 حق کے دشمن کو اس کے حال پر چھوڑئیے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) سچے ہیں اللہ تعالیٰ اپنے نبی محترم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتا ہے کہ ’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم کو جھٹلانے نہ ماننے اور ایذائیں پہنچانے سے تنگ دل نہ ہوں ‘ ۔ فرماتا ہے کہ ’ ہمیں ان کی حرکت خوب معلوم ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی اس لغویت پر ملال نہ کرو ‘ ، «فَلَا تَذْہَبْ نَفْسُکَ عَلَیْہِمْ حَسَرَاتٍ» ۱؎ (34-فاطر:8) اور «لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ أَلَّا یَکُونُوا مُؤْمِنِینَ» ۱؎ (26-الشعراء:3) اور «فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ عَلَیٰ آثَارِہِمْ إِن لَّمْ یُؤْمِنُوا بِہٰذَا الْحَدِیثِ أَسَفًا» ۱؎ (18-الکہف:6) ’ کیا اگر یہ ایمان نہ لائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پیچھے اپنی جان کو روگ لگا لیں گے ؟ کہاں تک ان کے لیے حسرت و افسوس کریں گے ؟ سمجھا دیجئیے اور ان کا معاملہ سپرد الہ کیجئے ۔ یہ لوگ دراصل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھوٹا نہیں جانتے بلکہ یہ تو حق کے دشمن ہیں ‘ ۔ چنانجہ ابوجہل نے صاف کہا تھا کہ ہم تجھے نہیں جھٹلاتے لیکن تو جو لے کر آیا ہے اسے نہیں مانتے ، مستدرک حاکم کی روایت میں ہے کہ اسی بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3064،قال الشیخ الألبانی:اسنادہ ضعیف) ابن ابی حاتم میں ہے کہ ابوجہل کو حضور سے مصافحہ کرتے ہوئے دیکھ کر کسی نے اس سے کہا کہ اس بے دین سے تو مصافحہ کرتا ہے ؟ تو اس نے جواب دیا کہ اللہ کی قسم مجھے خوب علم ہے اور کامل یقین ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے سچے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ ہم صرف خاندانی بنا پر ان کی نبوت کے ماتحت نہیں ہوتے ۔ ہم نے آج تک بنی عبد عناف کی تابعداری نہیں کی ۔ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:7239/4:مرسل و ضعیف) الغرض حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول اللہ مانتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری سے بھاگتے تھے ۔ امام محمد بن اسحٰق رحمتہ اللہ علیہ نے بیان فرمایا ہے کہ ” زہری رحمتہ اللہ علیہ اس قصے کو بیان کرتے ہوئے جس میں ابوجہل ، ابوسفیان ، صحر بن حرب ، اخنس بن شریق کا رات کے وقت پوشیدہ طور پر آن کر ایک دوسرے کی بے خبری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زبانی قرآن سننا ہے ، کہتے ہیں کہ ” ان لوگوں نے صبح تک قرآن سنا روشنی ذرا سی نمودار ہوئی تھی تو یہ واپس چلے ۔ اتفاقاً ایک چوک میں ایک دوسرے سے ملاقات ہو گئی حیرت سے ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ اس وقت یہاں کہاں ؟ پھر ہر ایک دوسرے سے صاف صاف کہہ دیتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن سننے کے لیے چپ چاپ آ گئے تھے ۔ اب تینوں بیٹھ کر معاہدہ کرتے ہیں کہ آئندہ ایسا نہ کرنا ورنہ اگر اوروں کو خبر ہوئی اور وہ آئے تو وہ تو سچے پکے مسلمان ہو جائیں گے ۔ دوسری رات کو ہر ایک نے اپنے طور یہ گمان کرکے کہ کل رات کے وعدے کے مطابق وہ دونوں تو آئیں گے نہیں میں تنہا کیوں نہ جاؤں ؟ میرے جانے کی کسے خبر ہوگی ؟ اپنے گھر سے پچھلی رات کے اندھیرے اور سوفتے میں ہر ایک چلا اور ایک کونے میں دب کر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی تلاوت قرآن کا مزہ لیتا رہا اور صبح کے وقت واپس چلا ۔ اتفاقاً آج بھی اسی جگہ تینوں کا میل ہو گیا ۔ ہر ایک نے ایک دوسرے کو بڑی ملامت کی بہت طعن ملامت کی اور نئے سرے سے عہد کیا کہ اب ایسی حرکت نہیں کریں گے ۔ لیکن تیسری شب پھر صبر نہ ہو سکا اور ہر ایک اسی طرح پوشیدہ طور پر پہنچا اور ہر ایک کو دوسرے کے آنے کا علم بھی ہو گیا ، پھر جمع ہو کر اپنے تئیں برا بھلا کہنے لگے اور بڑی سخت قسمیں کھا کر قول قرار کئے کہ اب ایسا نہیں کریں گے ۔ صبح ہوتے ہی اخنس بن شریق کپڑے پہن کر تیار ہو کر ابوسفیان بن حرب کے پاس اس کے گھر میں گیا اور کہنے لگا اے ابوحنظلہ ایمان سے بتاؤ سچ سچ کہو جو قرآن تم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی سنا اس کی بابت تمہاری اپنی ذاتی رائے کیا ہے ؟ اس نے کہا ابو ثعلبہ سنو ! واللہ بہت سی آیتوں کے الفاظ معنی اور مطلب تو میں سمجھ گیا اور بہت سی آیتوں کو ان کی مراد کو میں جانتا ہی نہیں ۔ اخنس نے کہا واللہ یہی حال میرا بھی ہے ، اب یہاں سے اٹھ کر اخنس سیدھا ابوجہل کے پاس پہنچا اور کہنے لگا ابو الحکم تم سچ بتاؤ جو کچھ تم حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنتے ہو اس میں تمہارا خیال کیا ہے ؟ اس نے کہا سن جو سنا ہے اسے تو ایک طرف رکھ دے بات یہ ہے کہ بنو عبد مناف اور ہم میں چشمک ہے وہ ہم سے اور ہم ان سے بڑھنا اور سبقت کرنا چاہتے ہیں اور مدت سے یہ رسہ کشی ہو رہی ہے ، انہوں نے مہمانداریاں اور دعوتیں کیں تو ہم نے بھی کیں انہوں نے لوگوں کو سواریاں دیں تو ہم نے بھی یہی کیا ۔ انہوں نے عوام الناس کے ساتھ احسان و سلوک کئے تو ہم نے بھی اپنی تھیلیوں کے منہ کھول ڈالے گویا ہم کسی معاملہ میں ان سے کم نہیں رہے ۔ اب جبکہ برابر کی ٹکر چلی جا رہی تھی تو انہوں نے کہا ہم میں ایک نبی ہے ، سنو چاہے ادھر کی دنیا ادھر ہو جائے نہ تو ہم اس کی تصدیق کریں گے نہ مانیں گے ۔ اخنس مایوس ہو گیا اور اٹھ کر چل دیا ۔ ۱؎ (دلائل النبوۃ للبیہقی:206/2:مرسل و ضعیف) اسی آیت کی تفسیر میں ابن جریر میں ہے کہ بدر والے دن اخنس بن شریق نے قبیلہ بنو زہرہ سے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہاری قرابت کے ہیں تم ان کی ننہیال میں ہو تمہیں چاہئیے کہ اپنے بھانجے کی مدد کرو ، اگر وہ واقعی نبی ہے تو مقابلہ بےسود ہی نہیں بلکہ سراسر نقصان دہ ہے اور بالفرض نہ بھی ہو تو بھی وہ تمہارا ہے ، اچھا ٹھہرو دیکھو میں ابو الحکم [ یعنی ابوجہل ] سے بھی ملتا ہوں ۔ سنو ! اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم غالب آگئے تو وہ تمہیں کچھ نہیں کہیں گے تم سلامتی کے ساتھ واپس چلے جاؤ گے اور اگر تمہاری قوم غالب آگئی تو ان میں تو تم ہی ہو ، اسی دن سے اس کا نام اخنس ہوا اصل نام ابی تھا ۔ اب اخنس تنہائی میں ابوجہل سے ملا اور کہنے لگا سچ بتا محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے نزدیک سچے ہیں یا جھوٹے ؟ دیکھو یہاں میرے اور تمہارے سوا کوئی اور نہیں دل کی بات مجھ سے نہ چھپانا ۔ اس نے کہا جب یہی بات ہے تو سو اللہ کی قسم محمد صلی اللہ علیہ وسلم بالکل سچے اور یقیناً صادق ہیں عمر بھر میں کسی چھوٹی سی چھوٹی بات میں کبھی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹ نہیں بولا ۔ ہمارا رکنے اور مخالفت کرنے کی وجہ ایک اور صرف ایک ہی ہے وہ یہ کہ جب بنو قصی کے خاندان میں جھنڈے اور پھریرے چلے گئے جب حج کے حاجیوں کے اور بیت اللہ شریف کے مہتمم و منتظم یہی ہو گئے پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ نبوت بھی اسی قبیلے میں چلی گئی تو اب اور قریشیوں کے لیے کون سی فضیلت باقی رہ گئی ؟ اسی کا ذکر اس آیت میں ہے ، پس آیات اللہ سے مراد ذات محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔ پھر دوبارہ تسلی دی جاتی ہے کہ ’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم کی تکذیب ایذاء رسانی وغیرہ پر صبر کیجئے جیسے اولوالعزم پیغمبروں علیہم السلام نے صبر کیا اور یقین مانئے کہ جس طرح انجام کار گزشہ نبیوں کا غلبہ رہا اور ان کے مخالفین تباہ و برباد ہوئے اسی طرح اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غالب کرے گا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفین مغلوب ہوں گے ۔ دونوں جہان میں حقیقی بلندی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی ہو گی ۔ رب تو یہ بات فرما چکا ہے اور اللہ کی باتوں کو کوئی بدل نہیں سکتا ‘ ۔ جیسے اور آیت میں ہے آیت «وَلَقَدْ سَبَقَتْ کَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِیْنَ إِنَّہُمْ لَہُمُ الْمَنصُورُونَ وَإِنَّ جُندَنَا لَہُمُ الْغَالِبُونَ» ۱؎ (37۔الصافات:173-171) یعنی ’ ہم تو پہلے سے ہی یہ فرما چکے ہیں کہ ہمارے رسولوں کو مدد دی جائے گی اور ہمارا لشکر ہی غالب رہے گا ‘ اور آیت میں فرماتا ہے «کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ اِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ» ۱؎ (58-المجادلۃ:21) ’ اللہ تعالیٰ یہ لکھ چکا ہے کہ میں اور میرے رسول ہی غالب آئیں گے یقیناً اللہ تعالیٰ قوت ولا اور غلبہ والا ہے ‘ ۔ ’ ان نبیوں کے اکثر قصے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیان ہو چکے ہیں ان کے حالات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچ چکے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوب جانتے ہیں کہ کس طرح ان کی نصرت و تائید ہوئی اور مخالفین پر انہیں کامیابی حاصل ہوئی ‘ ۔ پھر فرماتا ہے ’ اگر ان کی یہ بےرخی تجھ پر گراں گزرتی ہے اگر تجھ سے ہوسکے تو زمین میں کوئی سرنگ کھودلے اور جو معجزہ یہ تجھ سے مانگتے ہیں لا دے یا تیرے بس میں ہو تو کوئی زینہ لگا کر آسمان پر چڑھ جا اور وہاں سے ان کی چاہت کی کوئی نشانی لے آ ۔ میں نے تجھے اتنی نشانیاں اس قدر معجزے دیئے ہیں کہ ایک اندھا بھی شک نہ کرسکے ۔ اب ان کی طلب معجزات محض مذاق ہے اور عناد و ضد ہے کوئی ضرورت نہیں کہ تو انہیں ان کی چاہت کے معجزے ہر وقت دیکھاتا پھرے ، یا اگر وہ تیرے بس کے نہ ہوں تو ، تم غم کر کے رہو ، اگر اللہ چاہتا تو ان سب کو ہدایت پر متفق کر دیتا ، تجھے نادانوں میں نہ ملنا چاہیئے ‘ ۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ «وَلَوْ شَاءَ رَبٰکَ لَآمَنَ مَن فِی الْأَرْضِ کُلٰہُمْ جَمِیعًا أَفَأَنتَ تُکْرِہُ النَّاسَ حَتَّیٰ یَکُونُوا مُؤْمِنِینَ» ۱؎ (10-یونس:99) ’ اگر رب چاہتا تو روئے زمین کی مخلوق کو مومن بنا دیتا ‘ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حرص تھی کہ سب لوگ ایماندار بن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری کریں تو رب نے فرما دیا کہ ’ یہ سعادت جس کے حصے میں ہے توفیق کی اسی کی رفیق ہوگئی ‘ ۔ پھر فرمایا کہ ’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر لبیک کہنا اسے نصیب ہو گی جو کان لگا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کو سنے سمجھے یاد رکھے اور دل میں جگہ دے ، جیسے اور آیت میں ہے کہ «لِّیُنذِرَ مَن کَانَ حَیًّا وَیَحِقَّ الْقَوْلُ عَلَی الْکَافِرِینَ» ۱؎ (36-یس:70) ’ یہ اسے آگاہ کرتا ہے جو زندگی ہو ، کفار پر تو کلمہ عذاب ثابت ہو چکا ہے ‘ ۔ ’ اللہ تعالیٰ مردوں کو اٹھا کر بٹھائے گا پھر اسی کی طرف سب کے سب لوٹائے جائیں گے ‘ ۔ مردوں سے مراد یہاں کفار ہیں کیونکہ وہ مردہ دل ہیں تو انہیں مردہ جسموں سے تشبیہ دی ۔ جس میں ان کی ذلت و خواری ظاہر ہوتی ہے ۔ الانعام
34 الانعام
35 الانعام
36 الانعام
37 معجزات کے عدم اظہار کی حکمت کافر لوگ بطور اعتراض کہا کرتے تھے کہ «وَقَالُوا لَن نٰؤْمِنَ لَکَ حَتَّیٰ تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْأَرْضِ یَنبُوعًا» ۱؎ (17-الإسراء:90) جو معجزہ ہم طلب کرتے ہیں یہ کیوں نہیں دکھاتے ؟ مثلاً عرب کی کل زمین میں چشموں اور آبشاروں کا جاری ہو جانا وغیرہ ۔ فرماتا ہے کہ ’ قدرت الٰہی سے تو کوئی چیز باہر نہیں لیکن اس وقت حکمت الہیہ کا تقاضا یہ نہیں ‘ ۔ «وَمَا مَنَعَنَا أَن نٰرْسِلَ بِالْآیَاتِ إِلَّا أَن کَذَّبَ بِہَا الْأَوَّلُونَ وَآتَیْنَا ثَمُودَ النَّاقَۃَ مُبْصِرَۃً فَظَلَمُوا بِہَا وَمَا نُرْسِلُ بِالْآیَاتِ إِلَّا تَخْوِیفًا» ۱؎ (17-الإسراء:59) ’ اس میں ایک ظاہری حکمت تو یہ ہے کہ تمہارے چاہے ہوئے معجزے کو دیکھ لینے کے بعد بھی اگر تم ایمان نہ لائے تو اصول الہیہ کے مطابق تم سب کو اسی جگہ ہلاک کر دیا جائے گا جیسے تم سے اگلے لوگوں کے ساتھ ہوا ، ثمودیوں کی نظیر تمہارے سامنے موجود ہے ہم تو جو چاہیں نشان بھی دکھا سکتے ہیں اور جو چاہیں عذاب بھی کر سکتے ہیں ‘ ۔ چرنے چگنے والے جانور اڑنے والے پرند بھی تمہاری طرح قسم قسم کے ہیں مثلاً پرند ایک امت ، انسان ایک امت ، جنات ایک امت وغیرہ ، یا یہ کہ وہ بھی سب تمہاری ہی طرح مخلوق ہیں ، سب پر اللہ کا علم محیط ہے ، سب اس کی کتاب میں لکھے ہوئے ہیں ، نہ کسی کا وہ رزق بھولے نہ کسی کی حاجت اٹکے نہ کسی کی حسن تدبیر سے وہ غافل خشکی تری کا ایک ایک جاندار اس کی حفاظت میں ہے ۔ جیسے فرمان ہے آیت «وَمَا مِنْ دَابَّۃٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ رِزْقُہَا وَیَعْلَمُ مُسْتَــقَرَّہَا وَمُسْـتَوْدَعَہَا کُلٌّ فِیْ کِتٰبٍ مٰبِیْنٍ» ۱؎ (11-ہود:6) یعنی ’ جتنے جاندار زمین پر چلتے پھرتے ہیں سب کی روزیاں اللہ کے ذمہ ہیں وہی ان کے جیتے جی کے ٹھکانے کو اور مرنے کے بعد سونپے جانے کے مقام کو بخوبی جانتا ہے اس کے پاس لوح محفوظ میں یہ سب کچھ درج بھی ہے ، ان کے نام ، ان کی گنتی ، ان کی حرکات و سکنات سب سے وہ واقف ہے اس کے وسیع علم سے کوئی چیز خارج اور باہر نہیں ‘ ۔ اور مقام پر ارشاد ہے آیت «وَکَأَیِّنْ مِنْ دَابَّۃٍ لَا تَحْمِلُ رِزْقَہَا اللہُ یَرْزُقُہَا وَإِیَّاکُمْ وَہُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ» ۱؎ (29۔العنکبوت:60) ’ بہت سے وہ جاندار ہیں جن کی روزی تیرے ذمہ نہیں انہیں اور تم سب کو اللہ ہی روزیاں دیتا ہے وہ باریک سے باریک آواز کو سننے والا ہے اور ہر چھوٹی بڑی چیز کا جاننے والا ہے ‘ ۔ ابو یعلیٰ میں جابر بن عبداللہ سے مروی ہے کہ ” سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی دو سال کی خلافت کے زمانہ میں سے ایک سال ٹڈیاں دکھائی ہی نہیں دیں تو آپ رضی اللہ عنہ کو بہت خیال ہوا اور شام ، عراق ، یمن وغیرہ کی طرف سوار دوڑائے کہ دریافت کر آئیں کہ ٹڈیاں اس سال کہیں نظر بھی پڑیں یا نہیں ؟ یمن والا قاصد جب واپس آیا تو ، آپ رضی اللہ عنہ نے ساتھ مٹھی بھر ٹڈیاں بھی لیتا آیا اور سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے سامنے ڈال دیں ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھ کر تین مرتبہ تکبیر کہی اور فرمایا ” میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ { اللہ عزوجل نے ایک ہزار امتیں پیدا کی ہیں جن میں سے چھ سو تری میں ہیں اور چار سو خشکی میں ۔ ان تمام امتوں میں سے سب سے پہلے ٹڈی ہلاک ہو گی اس کے بعد تو ہلاکت کا سلسلہ شروع ہو جائے گا بالکل اس طرح جیسے کسی تسبیح کا دھاگہ ٹوٹ گیا اور موتی یکے بعد دیگرے جھڑنے لگ گئے } ۔ ۱؎ (بیہقی فی شعب الایمان:10132/7:موضوع) پھر فرماتا ہے ’ سب کا حشر اللہ کی طرف ہے ‘ یعنی سب کو موت ہے ، چوپایوں کی موت ہی ان کا حشر ہے ۔ ایک قول تو یہ ہے ، دوسرا قول یہ ہے کہ میدان محشر میں بروز قیامت یہ بھی اللہ جل شانہ کے سامنے جمع کئے جائیں گے ۔ جیسے فرمایا آیت «وَاِذَا الْوُحُوْشُ حُشِرَتْ» (81 ۔ التکویر:5) مسند احمد میں ہے کہ { دو بکریوں کو آپس میں لڑتے ہوئے دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے دریافت فرمایا کہ { جانتے ہو یہ کیوں لڑ رہی ہیں ؟ } جواب ملا کہ میں کیا جانوں ؟ فرمایا : { لیکن اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور ان کے درمیان وہ فیصلہ بھی کرے گا } } ۔ ۱؎ (سلسلۃ احادیث صحیحہ البانی:1588:صحیح) ۔ ابن جریر کی ایک اور روایت میں اتنی زیادتی بھی ہے کہ { اڑنے والے ہر ایک پرند کا علم بھی ہمارے سامنے بیان کیا گیا ہے } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:13227:حسن بالشواہد) مسند کی اور روایت میں ہے کہ { بے سینگ بکری قیامت کے دن سینگ والی بکری سے اپنا بدلہ لے گی } ۔ ۱؎ (مسند احمد:323/2:حسن لغیرہ) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ { تمام مخلوق چوپائے بہائم پرند وغیرہ غرض تمام چیزیں اللہ کے سامنے حاضر ہوں گی ۔ پھر ان میں یہاں تک عدل ہوگا کہ بےسینگ والی بکری کو اگر سینگ والی بکری نے مارا ہو گا تو اس کا بھی بدلہ دلوایا جائے گا پھر ان سے جناب باری فرمائے گا ’ تم مٹی ہو جاؤ ‘ ۔ اس وقت کافر بھی یہی آرزو کریں گے کہ «یَا لَیْتَنِی کُنتُ تُرَابًا» ۱؎ (78-النبأ:40) ’ کاش ہم بھی مٹی ہو جاتے ‘ } ۔ صور والی حدیث میں یہ مرفوعاً بھی مروی ہے ۔ پھر کافروں کی مثال بیان کی گئی ہے کہ ’ وہ اپنی کم علمی اور کج فہمی میں ان بہروں گونگوں کے مثل ہیں جو اندھیروں میں ہوں ۔ بتاؤ تو وہ کیسے راہ راست پر آ سکتے ہیں ؟ نہ کسی کی سنیں نہ اپنی کہیں نہ کچھ دیکھ سکیں ‘ ۔ جیسے سورۃ البقرہ کی ابتداء میں ہے کہ «مَثَلُہُمْ کَمَثَلِ الَّذِی اسْتَوْقَدَ نَارًا فَلَمَّا أَضَاءَتْ مَا حَوْلَہُ ذَہَبَ اللہُ بِنُورِہِمْ وَتَرَکَہُمْ فِی ظُلُمَاتٍ لَّا یُبْصِرُونَ صُمٌّ بُکْمٌ عُمْیٌ فَہُمْ لَا یَرْجِعُونَ» (2-البقرۃ:17-18) ’ ان کی مثال اس شخص جیسی ہے جو آگ سلگائے جب آس پاس کی چیزیں اس پر روشن ہو جائیں اس وقت آگ بجھ جائے اور وہ اندھیریوں میں رہ جائے اور کچھ نہ دیکھ سکے ۔ ایسے لوگ بہرے گونگے اندھے ہیں وہ راہ راست کی طرف لوٹ نہیں سکتے ‘ ۔ اور آیت میں ہے «اَوْ کَظُلُمٰتٍ فِیْ بَحْرٍ لٰجِّیٍّ یَّغْشٰـیہُ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِہٖ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِہٖ سَحَابٌ ظُلُمٰتٌ بَعْضُہَا فَوْقَ بَعْضٍ» ۱؎ (24-النور:40) یعنی ’ مثل ان اندھیروں کے جو گہرے سمندر میں ہوں جس کی موجوں پر موجیں اٹھ رہی ہوں اور اوپر سے ابر چھایا ہو اندھیروں پر اندھیریاں ہوں کہ ہاتھ بھی نظر نہ آ سکے ۔ جسے قدرت نے نور نہیں بخشا وہ بے نور ہے ‘ ۔ پھر فرمایا ’ ساری مخلوق میں اللہ ہی کا تصرف ہے وہ جسے چاہے صراط مستقیم پر کردے ‘ ۔ الانعام
38 الانعام
39 الانعام
40 سخت لوگ اور کثرت دولت مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے تمام مخلوق اس کے آگے پست و لاچار ہے جو چاہتا ہے حکم کرتا ہے ، اس کا کوئی ارادہ بدلتا نہیں ، اس کا کوئی حکم ٹلتا نہیں کوئی نہیں جو اس کی چاہت کے خلاف کر سکے یا اس کے حکم کو ٹال سکے یا اس کی قضاء کو پھیر سکے وہ سارے ملک کا تنہا مالک ہے اس کی کسی بات میں کوئی شریک یا دخیل نہیں جو اسے مانگے وہ اسے دیتا ہے ، جس کی چاہے دعا قبول فرماتا ہے ۔ پس فرماتا ہے ’ خود تمہیں بھی ان تمام باتوں کا علم و اقرار ہے یہی وجہ ہے کہ آسمانی سزاؤں کے آ پڑنے پر تم اپنے تمام شریکوں کو بھول جاتے ہو اور صرف اللہ واحد کو پکارتے ہو ، اگر تم سچے ہو کہ اللہ کے ساتھ اس کے کچھ اور شریک بھی ہیں تو ایسے کٹھن موقعوں پر ان میں سے کسی کو کیوں نہیں پکارتے ؟ بلکہ صرف اللہ واحد کو پکارتے ہو اور اپنے تمام معبودان باطل کو بھول جاتے ہو ‘ ۔ چنانچہ اور آیت میں ہے کہ «وَإِذَا مَسَّکُمُ الضٰرٰ فِی الْبَحْرِ ضَلَّ مَن تَدْعُونَ إِلَّا إِیَّاہُ» ۱؎ (17-الإسراء:67) ’ سمندر میں جب ضرر پہنچتا ہے تو اللہ کے سوا ہر ایک تمہاری یاد سے نکل جاتا ہے ‘ ۔ ’ ہم نے اگلی امتوں کی طرف بھی رسول بھیجے پھر ان کے نہ ماننے پر ہم نے انہیں فقرو فاقہ میں تنگی ترشی میں بیماریوں اور دکھ درد میں مبتلا کر دیا کہ اب بھی وہ ہمارے سامنے گریہ و زاری کریں عاجزانہ طور پر ہمارے سامنے جھک جائیں ، ہم سے ڈر جائیں اور ہمارے دامن سے چمٹ جائیں ، پھر انہوں نے ہمارے عذابوں کے آ جانے کے بعد بھی ہمارے سامنے عاجزی کیوں نہ کی ؟ مسکینی کیوں نہ جتائی ؟ ‘ ’ بلکہ ان کے دل سخت ہو گئے ، شرک ، دشمنی ، ضد ، تعصب ، سرکشی ، نافرمانی وغیرہ کو شیطان نے انہیں بڑا حسن میں دکھایا اور یہ اس پر جمے رہے ، جب یہ لوگ ہماری باتوں کو فراموش کر گئے ہماری کتاب کو پس پشت ڈال دیا ہمارے فرمان سے منہ موڑ لیا تو ہم نے بھی انہیں ڈھیل دے دی کہ یہ اپنی برائیوں میں اور آگے نکل جائیں ، ہر طرح کی روزیاں اور زیادہ سے زیادہ مال انہیں دیتے رہے یہاں تک کہ مال اولاد و رزق وغیرہ کی وسعت پر وہ بھولنے لگے اور غفلت کے گہرے گڑھے میں اترگئے تو ہم نے انہیں ناگہاں پکڑ لیا ، اس وقت وہ مایوس ہو گئے ‘ ۔ امام حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ کا صوفیانہ مقولہ ہے کہ ” جس نے کشادگی کے وقت اللہ تعالیٰ کی ڈھیل نہ سمجھی وہ محض بےعقل ہے اور جس نے تنگی کے وقت رب کی رحمت کی امید چھوڑ دی وہ بھی محض بیوقوف ہے ۔ پھر آپ اسی آیت کی تلاوت فرماتے ہیں ، رب کعبہ کی قسم ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنی چاہتوں کو پوری ہوتے ہوئے دیکھ کر اللہ کو بھول جاتے ہیں اور پھر رب کی گرفت میں آ جاتے ہیں “ ۔ حضرت قتادہ رحمہ اللہ کا فرمان ہے کہ ” جب کوئی قوم اللہ کے فرمان سے سر تابی کرتی ہے تو اول تو انہیں دنیا خوب مل جاتی ہے جب وہ نعمتوں میں پڑ کر بد مست ہو جاتے ہیں تو اچانک پکڑ لیے جاتے ہیں لوگو اللہ کی ڈھیل کو سمجھ جایا کرو نافرمانیوں پر نعمتیں ملیں تو غافل ہو کر نافرمانیوں میں بڑھ نہ جاؤ ۔ اس لیے کہ یہ تو بدکار اور بے نصیب لوگوں کا کام ہے “ ۔ زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” ہر چیز کے دروازے کھول دینے سے مراد دنیا میں آسائش و آرام کا دینا ہے “ ۔ مسند احمد میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { جب تم دیکھو کہ کسی گنہگار شخص کو اس کی گنہگاری کے باوجود اللہ کی نعمتیں دنیا میں مل رہی ہیں تو اسے استدراج سمجھنا یعنی وہ ایک مہلت ہے } ۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی } ۔ ۱؎ (سلسلۃ احادیث صحیحہ البانی:413:حسن) اور حدیث میں ہے کہ { جب کسی قوم کی بربادی کا وقت آ جاتا ہے تو ان پر خیانت کا دروازہ کھل جاتا ہے یہاں تک کہ وہ ان دی گئی ہوئی چیزوں پر اترانے لگتے ہیں تو ہم انہیں ناگہاں پکڑ لیتے ہیں اور اس وقت وہ محض ناامید ہو جاتے ہیں ۔ پھر فرمایا ظالموں کی باگ ڈور کاٹ دی جاتی ہے ۔ تعریفوں کے لائق وہ معبود بر حق ہے جو سب کا پالنہار ہے } ۔ ۱؎ (سلسلۃ احادیث ضعیفہ البانی:2306:ضعیف و منقطع) ۔ الانعام
41 الانعام
42 الانعام
43 الانعام
44 الانعام
45 الانعام
46 محروم اور کامران کون؟ فرمان ہے کہ ’ ان مخالفین اسلام سے پوچھو تو کہ اگر اللہ تعالیٰ تم سے تمہارے کان اور تمہاری آنکھیں چھین لے جیسے کہ اس نے تمہیں دیئے ہیں ‘ ، جیسے فرمان ہے آیت «ہُوَ الَّذِی أَنْشَأَکُمْ وَجَعَلَ لَکُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَۃَ قَلِیلًا مَا تَشْکُرُونَ» ۱؎ (67-الملک:23) یعنی ’ اللہ خالق کل وہ ہے جس نے تمہیں پیدا کیا اور تمہیں سننے کو کان اور دیکھنے کو آنکھیں دیں ‘ ، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مراد چھین لینے سے شرعی نفع نہ پہنچانا ہو اس کی دلیل اس کے بعد کا جملہ دل پر مہر لگا دینا ہے ۔ جیسے فرمان ہے آیت «اَمَّنْ یَّمْلِکُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَمَنْ یٰخْرِجُ الْـحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَیُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ وَمَنْ یٰدَبِّرُ الْاَمْرَ» ۱؎ (10 ۔ یونس:31) ’ کون ہے جو کان کا اور آنکھوں کا مالک ہو ؟ ‘ اور فرمان ہے آیت «وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ یَحُوْلُ بَیْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِہٖ وَاَنَّہٗٓ اِلَیْہِ تُحْشَرُوْنَ» ۱؎ (8 ۔ الأنفال:24) ’ جان لو کہ اللہ تعالیٰ انسان کے اور اس کے دل کے درمیان حائل ہے ‘ ۔ یہاں ان سے سوال ہوتا ہے کہ ’ بتلاؤ تو کہ اللہ کے سوا اور کوئی ان چیزوں کے واپس دلانے پر قدرت رکھتا ہے ؟ ‘ یعنی کوئی نہیں رکھتا ، دیکھ لے کہ میں نے اپنی توحید کے کس قدر زبردست ، پرزور صاف اور جچے تلے دلائل بیان کر دیئے ہیں اور یہ ثابت کر دیا کہ میرے سوا سب بے بس ہیں لیکن یہ مشرک لوگ باوجود اس قدر کھلی روشن اور صاف دلیلوں کے حق کو نہیں مانتے بلکہ اوروں کو بھی حق کو تسلیم کرنے سے روکتے ہیں ۔ پھر فرماتا ہے ’ ذرا اس سوال کا جواب بھی دو کہ اللہ کا عذاب تمہاری بے خبری میں یا ظاہر کھلم کھلا تمہارے پاس آ جائے تو کیا سوا ظالموں اور مشرکوں کے کسی اور کو بھی ہلاکت ہوگی ؟ ‘ یعنی نہ ہوگی ۔ اللہ کی عبادت کرنے والے اس ہلاکت سے محفوظ رہیں گے ۔ جیسے اور آیت میں ہے آیت «اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ یَلْبِسُوْٓا اِیْمَانَہُمْ بِظُلْمٍ اُولٰیِٕکَ لَہُمُ الْاَمْنُ وَہُمْ مٰہْتَدُوْنَ» (6 ۔ الأنعام:82) ’ جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان کو شرک سے خراب نہ کیا ان کیلئے امن و امان ہے اور وہ ہدایت یافتہ ہیں ‘ ۔ پھر فرمایا کہ ’ رسولوں کا کام تو یہی ہے کہ ایمان والوں کو ان کے درجوں کی خوشخبریاں سنائیں اور کفار کو اللہ کے عذاب سے ڈرائیں ، جو لوگ دل سے آپ کی بات مان لیں اور اللہ کے فرمان کے مطابق اعمال بجا لائیں ، انہیں آخرت میں کوئی ڈر خوف نہیں اور دنیا کے چھوڑنے پر کوئی ملال نہیں ، ان کے بال بچوں کا اللہ والی ہے اور ان کے ترکے کا وہی حافظ ہے ‘ ۔ کافروں کو اور جھٹلانے والوں کو ان کے کفر و فسق کی وجہ سے بڑے سخت عذاب ہوں گے کیونکہ انہوں نے اللہ کے فرمان چھوڑ رکھے تھے اور اس کی نافرمانیوں میں مشغول تھے ۔ اس کے حرام کردہ کاموں کو کرتے تھے اور اس کے بتائے ہوئے کاموں سے بھاگتے تھے ۔ الانعام
47 الانعام
48 الانعام
49 الانعام
50 مسلمانو ! طبقاتی عصبیت سے بچو اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ ’ لوگوں میں اعلان کر دو کہ میں اللہ کے خزانوں کا مالک نہیں نہ مجھے ان میں کسی طرح کا اختیار ہے ، نہ میں یہ کہتا ہوں کہ میں غیب کا جاننے والا ہوں ، رب نے جو چیزیں خاص اپنے علم میں رکھی ہیں مجھے ان میں سے کچھ بھی معلوم نہیں ، ہاں جن چیزوں سے خود اللہ نے مجھے مطلع کر دے ان پر مجھے اطلاع ہو جاتی ہے ، میرا یہ بھی دعویٰ نہیں کہ میں کوئی فرشتہ ہوں ، میں تو انسان ہوں ، اللہ تعالیٰ نے مجھے جو شرف دیا ہے یعنی میری طرف جو وحی نازل فرمائی ہے میں اسی کا عمل پیرا ہوں ، اس سے ایک بالشت ادھر ادھر نہیں ہٹتا ۔ کیا حق کے تابعدار جو بصارت والے ہیں اور حق سے محروم جو اندھے ہیں برابر ہو سکتے ہیں ؟ کیا تم اتنا غور بھی نہیں کرتے ؟ ‘ اور آیت میں ہے کہ «أَفَمَن یَعْلَمُ أَنَّمَا أُنزِلَ إِلَیْکَ مِن رَّبِّکَ الْحَقٰ کَمَنْ ہُوَ أَعْمَیٰ إِنَّمَا یَتَذَکَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ» ۱؎ ( 13-الرعد : 19 ) ’ کیا وہ شخص جو جانتا ہے کہ جو کچھ تیری طرف تیرے رب کی جانب سے اترا ہے حق ہے اس شخص جیسا ہو سکتا ہے جو نابینا ہے ؟ نصیحت تو صرف وہی حاصل کرتے ہیں جو عقلمند ہیں ‘ ۔ ’ اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ قرآن کے ذریعہ انہیں راہ راست پر لائیں جو رب کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف دل میں رکھتے ہیں ، حساب کا کھٹکا رکھتے ہیں ، جانتے ہیں کہ رب کے سامنے پیش ہونا ہے اس دن اس کے سوا اور کوئی ان کا قریبی یا سفارشی نہ ہو گا ، وہ اگر عذاب کرنا چاہے تو کوئی شفاعت نہیں کر سکتا ۔ یہ تیرا ڈرانا اس لیے ہے کہ شاید وہ تقی بن جائیں حاکم حقیقی سے ڈر کر نیکیاں کریں اور قیامت کے عذابوں سے چھوٹیں اورثواب کے مستحق بن جائیں ‘ ۔ الانعام
51 الانعام
52 آیات ۵۲-۵۳ پھر فرماتا ہے ’ یہ مسلمان غرباء جو صبح شام اپنے پروردگار کا نام جپتے ہیں خبردار انہیں حقیر نہ سمجھنا انہیں اپنے پاس سے نہ ہٹانا بلکہ انہی کو اپنی صحبت میں رکھ کر انہی کے ساتھ بیٹھ اٹھ ‘ ۔ جیسے اور آیت میں ہے آیت «وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ بالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْہَہٗ وَلَا تَعْدُ عَیْنٰکَ عَنْہُمْ» ۱؎ (18-الکہف:28) یعنی ’ انہی کے ساتھ رہ جو صبح شام اپنے پروردگار کو پکارتے ہیں اسی کی رضا مندی کی طلب کرتے ہیں ، خبردار ان کی طرف سے آنکھیں نہ پھیرنا کہ دنیا کی زندگی کی آسائش طلب کرنے لگو اس کا کہا نہ کرنا جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے اور اس نے اپنی خواہش کی پیروی کی ہے اور اس کا ہر کام حد سے گزرا ہوا ہے بلکہ ان کا ساتھ دے جو صبح شام اللہ کی عبادت کرتے ہیں اور اسی سے دعائیں مانگتے ہیں ‘ ۔ بعض بزرگ فرماتے ہیں مراد اس سے فرض نمازیں ہیں اور آیت میں ہے «وَقَالَ رَبٰکُمُ ادْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَہَنَّمَ دٰخِرِیْنَ» (40 ۔ غافر:60) ’ تمہارے رب کا اعلان ہے کہ مجھ سے دعائیں کرو میں قبول کروں گا ان اطاعتوں اور عبادتوں سے ان کا ارادہ اللہ کریم کے دیدار کا ہے ، محض خلوص اخلاص والی ان کی نیتیں ہیں ، ان کا کوئی حساب تجھ پر نہیں نہ تیرا کوئی حساب ان پر ‘ ۔ جناب نوح علیہ السلام سے جب ان کی قوم کے شرفا نے کہا تھا کہ ہم تجھے کیسے مان لیں تیرے ماننے والے تو اکثر غریب مسکین لوگ ہیں تو آپ علیہ السلام نے یہی جواب دیا کہ ان کے اعمال کا مجھے کیا علم ہے ان کا حساب تو میرے رب پر ہے لیکن تمہیں اتنا بھی شعور نہیں پھر بھی تم نے ان غریب مسکین لوگوں کو اپنی مجلس میں نہ بیٹھنے دیا ۔ ان سے ذرا بھی بےرخی کی تو یاد رکھنا تمہارا شمار بھی ظالموں میں ہو جائے گا ۔ مسند احمد میں ہے کہ { قریش کے بڑے لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس مبارک میں صہیب رضی اللہ عنہ ، بلال رضی اللہ عنہ ، خباب رضی اللہ عنہ ، عمار رضی اللہ عنہ تھے ، انہیں دیکھ کر یہ لوگ کہنے لگے دیکھو تو ہمیں چھوڑ کر کن کے ساتھ بیٹھے ہیں ؟ تو آیت «وَأَنذِرْ بِہِ الَّذِینَ یَخَافُونَ» ۱؎ (6-الأنعام:51) سے «لَیْسَ اللہُ بِأَعْلَمَ بِالشَّاکِرِینَ» ۱؎ (6-الأنعام:53) تک اتری } ۔ ۱؎ (مسند احمد:420/1:حسن) ابن جریر میں ہے کہ { ان لوگوں اور ان جیسے اوروں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں دیکھ کر مشرک سرداروں نے یہ بھی کہا تھا کہ کیا یہی لوگ رہ گئے ہیں کہ اللہ نے ہم سب میں سے چن چن کر انہی پر احسان کیا ؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ یہ بے زر ، بے سہارا لوگ ہم امیروں رئیسوں کے برابر بیٹھیں ، دیکھئے حضرت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو اپنی مجلس سے نکال دیں تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھ سکتے ہیں ، آیت «‏‏‏‏وَأَنذِرْ بِہِ الَّذِینَ یَخَافُونَ» ۱؎ (6-الأنعام:51) سے «لَیْسَ اللہُ بِأَعْلَمَ بِالشَّاکِرِینَ» ۱؎ (6-الأنعام:53) تک نازل ہوئی } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:13258:) ابن ابی حاتم میں ہے { قریش کے ان معززین لوگوں میں سے دو کے نام یہ ہیں اقرع بن حابس تیمی ، عینیہ بن حصن فزاری ، اس روایت میں یہ بھی ہے کہ تنہائی میں مل کر انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سمجھایا کہ ان غلام اور گرے پڑے بے حیثیت لوگوں کے ساتھ بیٹھتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں عرب کے وفد آیا کرتے ہیں ۔ وہ ہمیں ان کے ساتھ دیکھ کر ہمیں بھی ذلیل خیال کریں گے تو اپ صلی اللہ علیہ وسلم کم از کم اتنا ہی کیجئے کہ جب ہم آئیں تب خاص مجلس ہو اور ان جیسے گرے پڑے لوگ اس میں شامل نہ کئے جائیں ۔ ہاں جب ہم نہ ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار ہے ۔ جب یہ بات طے ہو گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کا اقرار کر لیا تو انہوں نے کہا ، ہمارا یہ معاہدہ تحریر میں آ جانا چاہیئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کاغذ منگوایا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو لکھنے کے لیے بلوایا ۔ مسلمانوں کا یہ غریب طبقہ ایک کونے میں بیٹھا ہوا تھا ۔ اسی وقت جبرائیل علیہ السلام اترے اور یہ آیت «‏‏‏‏وَأَنذِرْ بِہِ الَّذِینَ یَخَافُونَ» ۱؎ (6-الأنعام:51) سے «لَیْسَ اللہُ بِأَعْلَمَ بِالشَّاکِرِینَ» ۱؎ (6-الأنعام:53) تک نازل ہوئی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کاغذ پھینک دیا اور ہمیں اپنے پاس بلا لیا اور ہم نے پھر سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے حلقے میں لے لیا } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:7331/4:ضعیف) لیکن یہ حدیث غریب ہے ۔ آیت مکی ہے اور اقرع اور عیینہ ہجرت کے بہت سارے زمانے کے بعد اسلام میں آئے ہیں ۔ سیدنا شریح رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ { یہ آیت اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سے چھ کے بارے میں نازل ہوئی ہے جن میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بھی تھے ۔ ہم لوگ سب سے پہلے خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں جاتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد بیٹھتے تاکہ پور طرح شروع سے آخر تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سنیں ۔ قریش کے بڑے لوگوں پر یہ بات گراں گزرتی تھی ۔ اس کے برخلاف آیت اتری } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2413) ۔ پھر فرماتا ہے ’ اس طرح ہم ایک دوسرے کو پرکھ لیتے ہیں اور ایک سے ایک کا امتحان لے لیتے ہیں کہ یہ امراء ان غرباء سے متعلق اپنی رائے ظاہر کر دیں کہ کیا یہی لوگ ہیں جن پر اللہ نے احسان کیا اور ہم سب میں اللہ کو یہی لوگ پسند آئے ؟‘ الانعام
53 الانعام
54 1 حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے پہلے تسلیم کرنے والے یہی بیچارے بے مایہ غریب غرباء لوگ تھے مرد عورت لونڈی غلام وغیرہ ، بڑے بڑے اور ذی وقعت لوگوں میں سے تو اس وقت یونہی کوئی اکا دکا آ گیا تھا ۔ یہی لوگ دراصل انبیاء علیہم السلام کے مطیع اور فرمانبردار ہوتے رہے ۔ قوم نوح نے کہا تھا «وَمَا نَرٰیکَ اتَّبَعَکَ اِلَّا الَّذِیْنَ ہُمْ اَرَاذِلُـنَا بَادِیَ الرَّاْیِ» (11 ۔ ھود:27) یعنی ’ ہم تو دیکھتے ہیں کہ تیری تابعداری رذیل اور بیوقوف لوگوں نے ہی کی ہے ‘ ۔ { شاہ روم ہرقل نے جب ابوسفیان سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت یہ دریافت کیا کہ شریف لوگوں نے اس کی پیروی اختیار کی ہے ؟ یا ضعیف لوگوں نے ؟ تو ابوسفیان نے جواب دیا تھا کہ ضعیف لوگوں نے ، بادشاہ نے اس سے یہ نتیجہ نکالا کہ فی الواقع تمام نبیوں کا اول پیرو یہی طبقہ ہوتا ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:7) الغرض مشرکین مکہ ان ایمان داروں کا مذاق اڑاتے اور انہیں ستاتے تھے جہاں تک بس چلتا انہیں سزائیں دیتے اور کہتے کہ یہ ناممکن ہے کہ بھلائی انہیں تو نظر آ جائے اور ہم یونہی رہ جائیں ؟ قرآن میں ان کا قول یہ بھی ہے کہ آیت «لَوْ کَانَ خَیْرًا مَّا سَبَقُوْنَآ اِلَیْہِ» (46 ۔ الاحقاف:11) ’ اگر یہ کوئی اچھی چیز ہوتی تو یہ لوگ ہم سے آگے نہ بڑھ سکتے ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَإِذَا تُتْلَیٰ عَلَیْہِمْ آیَاتُنَا بَیِّنَاتٍ قَالَ الَّذِینَ کَفَرُوا لِلَّذِینَ آمَنُوا أَیٰ الْفَرِیقَیْنِ خَیْرٌ مَّقَامًا وَأَحْسَنُ نَدِیًّا» ۱؎ (19 ۔ مریم:73) ’ جب ان کے سامنے ہماری صاف اور واضح آیتیں تلاوت کی جاتی ہیں تو یہ کفار ایمانداروں سے کہتے یہیں کہ بتاؤ تو مرتبے میں عزت میں حسب نسب میں کون شریف ہے ؟ ‘ اس کے جواب میں رب نے فرمایا آیت «وَکَمْ اَہْلَکْنَا قَبْلَہُمْ مِّنْ قَرْنٍ ہُمْ اَحْسَنُ اَثَاثًا وَّرِءْیًا» ۱؎ (19 ۔ مریم:74) یعنی ’ ان سے پہلے ہم نے بہت سی بستیاں تباہ کر دی ہیں جو باعتبار سامان و اسباب کے اور باعتبار نمود و ریا کے ان سے بہت ہی آگے بڑھی ہوئی تھیں ‘ ۔ چنانچہ یہاں بھی ان کے ایسے ہی قول کے جواب میں فرمایا گیا کہ ’ شکر گزاروں تو اللہ کو رب جانتا ہے جو اپنے اقوال و افعال اور ولی ارادوں کو درست رکھتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں سلامتیوں کی راہیں دکھاتا ہے اور اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لاتا ہے اور صحیح راہ کی رہنمائی کرتا ہے ‘ ۔ جیسے فرمان ہے آیت «وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا لَـنَہْدِیَنَّہُمْ سُـبُلَنَا وَاِنَّ اللّٰہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ» ۱؎ (29۔العنکبوت:69) ’ جو لوگ ہماری فرمانبرداری کی کوشس کرتے ہیں ہم انہیں اپنی صحیح رہ پر لگا دیتے ہیں اللہ تعالیٰ نیک کاروں کا ساتھ دیتا ہے ‘ ۔ صحیح حدیث میں ہے { اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور رنگوں کو نہیں دیکھتا بلکہ نیتوں اور اعمال کو دیکھتا ہے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2564) عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں { ربیعہ کے دونوں بیٹے عتبہ اور شیبہ اور عدی کا بیٹا مطعم اور نوفل کا بیٹا حارث اور عمرو کا بیٹا قرطہٰ اور ابن عبد مناف کے قبیلے کے کافر سب کے سب جمع ہو کر ابوطالب کے پاس گئے اور کہنے لگے دیکھ آپ کے بھتیجے اگر ہماری ایک درخواست قبول کر لیں تو ہمارے دلوں میں ان کی عظمت و عزت ہو گی اور پھر ان کی مجلس میں بھی آمدو رفت شروع کر دیں گے اور ہو سکتا ہے کہ ان کی سچائی سمجھ میں آ جائے اور ہم بھی مان لیں ۔ ابوطالب نے قوم کے بڑوں کا یہ پیغام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچایا سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی اس وقت اس مجلس میں تھے فرمانے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کرنے میں کیا حرج ہے ؟ اللہ عزوجل نے «وَأَنْذِرْ» سے «بِالشَّاکِرِینَ» تک آیتیں اتاریں } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:13264/11:مرسل و ضعیف) یہ غرباء جنہیں یہ لوگ فیض صحبت سے محروم کرنا چاہتے تھے یہ تھے بلال ، عمار ، سالم صبیح ، ابن مسعود ، مقداد ، مسعود ، واقد ، عمرو ذوالشمالین ، یزید اور انہی جیسے اور حضرات رضی اللہ عنہم اجمعین ، انہی دونوں جماعتوں کے بارے میں آیت «وَکَذٰلِکَ فَتَنَّا بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ لِّیَقُوْلُوْٓا اَہٰٓؤُلَاءِ مَنَّ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِّنْ بَیْنِنَا اَلَیْسَ اللّٰہُ بِاَعْلَمَ بالشّٰکِرِیْنَ» (6۔الأنعام:53) بھی نازل ہوئی ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ان آیتوں کو سن کر عذر معذرت کرنے لگے اس پر آیت «وَاِذَا جَاءَکَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِنَا فَقُلْ سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ کَتَبَ رَبٰکُمْ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ اَنَّہٗ مَنْ عَمِلَ مِنْکُمْ سُوْءًا بِجَہَالَۃٍ ثُمَّ تَابَ مِنْ بَعْدِہٖ وَاَصْلَحَ فَاَنَّہٗ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ» ۱؎ (6۔الأنعام:54) نازل ہوئی ۔ آخری آیت میں حکم ہوتا ہے کہ ’ ایمان والے جب تیرے پاس آ کر سلام کریں تو ان کے سلام کا جواب دو ان کا احترام کرو اور انہیں اللہ کی وسیع رحمت کی خبر دو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے اپنے نفس پر رحم و کرم واجب کر لیا ہے ‘ ۔ بعض سلف سے منقول ہے کہ گناہ ہر شخص جہالت سے ہی کرتا ہے ، عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں” دنیا ساری جہالت ہے “ ۔ غرض جو بھی کوئی برائی کرے پھر اس سے ہٹ جائے اور پورا ارادہ کرلے کہ آئندہ کبھی ایسی حرکت نہیں کرے گا اور آگے کیلئے اپنے عمل کی اصلاح بھی کرلے تو وہ یقین مانے کہ غفور و رحیم اللہ اسے بخشے گا بھی اور اس پر مہربانی بھی کرے گا ۔ مسند احمد میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ { اللہ تعالیٰ نے جب مخلوق کی قضاء و قدر مقرر کی تو اپنی کتاب میں لکھا جو اس کے پاس عرش کے اوپر ہے کہ میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3194) ابن مردویہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ { جس وقت اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے فیصلے کر دے گا اپنے عرش کے نیچے سے ایک کتاب نکالے گا جس میں یہ تحریر ہے کہ ” میرا رحم و کرم میرے غصے اور غضب سے زیادہ بڑھا ہوا ہے اور میں سب سے زیادہ رحمت کرنے والا ہوں “ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ ایک بار مٹھیاں بھر کر اپنی مخلوق کو جہنم میں سے نکالے گا جنہوں نے کوئی بھلائی نہیں کی ان کی پیشانیوں پر لکھا ہوا ہوگا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے آزاد کردہ ہیں } ۔ سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ { توراۃ میں ہم لکھا دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اور اپنی رحمت کے سو حصے کئے پھر ساری مخلوق میں ان میں سے ایک حصہ رکھا اور ننانوے حصے اپنے پاس باقی رکھے اسی ایک حصہ رحمت کا یہ ظہور ہے کہ مخلوق بھی ایک دوسرے پر مہربانی کرتی ہے اور تواضع سے پیش آتی ہے اور آپس کے تعلقات قائم ہیں ، اونٹنی گائے بکری پرند مچھلی وغیرہ جانور اپنے بچوں کی پرورش میں تکلیفیں جھیلتے ہیں اور ان پر پیار و محبت کرتے ہیں ، روز قیامت میں اس حصے کو کامل کرنے کے بعد اس میں ننانوے حصے ملا لیے جائیں گے فی الواقع رب کی رحمت اور اس کا فضل بہت ہی وسیع اور کشادہ ہے } ۔ یہ حدیث دوسری سند ہے مرفوعاً بھی مروی ہے اور ایسی ہی اکثر حدیثیں ، آیت «وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْءٍ» ۱؎ (7 ۔ الأعراف:156) کی تفسیر میں آئیں گی ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ ایسی ہی احادیث میں سے ایک یہ بھی ہے کہ { حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے پوچھا { جانتے ہو اللہ کا حق بندوں پر کیا ہے ؟ وہ یہ ہے کہ وہ سب اسی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں } ۔ پھر فرمایا : { جانتے ہو بندے جب یہ کر لیں تو ان کا حق اللہ تعالیٰ کے ذمہ کیا ہے ؟ یہ ہے کہ وہ انہیں عذاب نہ کرے } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:7373) مسند احمد میں یہ حدیث بروایت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مروی ہے ۔ الانعام
55 نیک و بد کی وضاحت کے بعد؟ یعنی جس طرح ہم نے اس سے پہلے ہدایت کی باتیں اور بھلائی کی راہیں واضح کر دیں نیکی بدی کھول کھول کر بیان کر دی اسی طرح ہم ہر اس چیز کا تفصیلی بیان کرتے ہیں جس کی تمہیں ضرورت پیش آنے والی ہے ۔ اس میں علاوہ اور فوائد کے ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ مجرموں کا راستہ نیکوں پر عیاں ہو جائے ۔ ایک اور قرأت کے اعتبار سے یہ مطلب ہے تاکہ تو گنہگاروں کا طریقہ واردات لوگوں کے سامنے کھول دے ۔ پھر حکم ہوتا ہے کہ ’ اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں اعلان کر دو کہ میرے پاس الٰہی دلیل ہے میں اپنے رب کی دی ہوئی سچی شریعت پر قائم ہوں ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے میرے پاس وحی آتی ہے ، افسوس کہ تم اس حق کو جھٹلا رہے ہو ، تم اگرچہ عذابوں کی جلدی مچا رہے ہو لیکن عذاب کا لانا میرے اختیار کی چیز نہیں ۔ یہ سب کچھ اللہ کے حکم کے ماتحت ہے ۔ اس کی مصلحت وہی جانتا ہے اگر چاہے دیر سے لائے اگر چاہے تو جلدی لائے ، وہ حق بیان فرمانے والا اور اپنے بندوں کے درمیان بہترین فیصلے کرنے والا ہے ‘ ۔ ’ سنو اگر میرا ہی حکم چلتا میرے ہی اختیار میں ثواب و عذاب ہوتا ، میرے بس میں بقا اور فنا ہوتی تو میں جو چاہتا ہو جایا کرتا اور میں تو ابھی اپنے اور تمہارے درمیان فیصلہ کر لیتا اور تم پر وہ عذاب برس پڑتے جن سے میں تمہیں ڈرا رہا ہوں ، بات یہ ہے کہ میرے بس میں کوئی بات نہیں ، اختیار والا اللہ تعالیٰ اکیلا ہی ہے ، وہ ظالموں کو بخوبی جانتا ہے ‘ ۔ بخاری و مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ { ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ ” یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! احد سے زیادہ سختی کا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی دن نہ آیا ہو گا ؟ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { عائشہ [ رضی اللہ عنہا ] کیا پوچھتی ہو کہ مجھے اس قوم نے کیا کیا ایذائیں پہنچیں ؟ سب سے زیادہ بھاری دن مجھ پر عقبہ کا دن تھا جبکہ میں عبدالیل بن عبد کلال کے پاس پہنچا اور میں نے اس سے آرزو کی کہ وہ میرا ساتھ دے مگر اس نے میری بات نہ مانی ، واللہ میں سخت غمگین ہو کر وہاں سے چلا مجھے نہیں معلوم تھا کہ میں کدھر جا رہا ہوں ۔ قرن ثعالب میں آکر میرے حواس ٹھیک ہوئے تو میں نے دیکھا کہ اوپر سے ایک بادل نے مجھے ڈھک لیا ہے ، سر اٹھا کر دیکھتا ہوں تو جبرائیل علیہ السلام مجھے آواز دے کر فرما رہے ہیں ” اللہ تعالیٰ نے تیری قوم کی باتیں سنیں اور جو جواب انہوں نے تجھے دیا وہ بھی سنا ۔ اب پہاڑوں کے داروغہ فرشتے کو اس نے بھیجا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو چاہیں انہیں حکم دیجئیے یہ بجا لائیں گے “ ۔ اسی وقت اس فرشتے نے مجھے پکارا سلام کیا اور کہا ” اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم کی باتیں سنیں اور مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا ہے کہ ان کے بارے میں جو ارشاد آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمائیں میں بجا لاؤں ، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم حکم دیں تو مکہ شریف کے ان دونوں پہاڑوں کو جو جنوب شمال میں ہیں میں اکٹھے کر دوں اور ان تمام کو ان دونوں کے درمیان پیس دوں “ ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جواب دیا کہ { نہیں میں یہ نہیں چاہتا بلکہ مجھے تو امید ہے کہ کیا عجب ان کی نسل میں آگے جا کر ہی کچھ ایسے لوگ ہوں جو اللہ «وَحدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ» کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں } } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3231) ہاں یہاں یہ بات خیال میں رہے کہ کوئی اس شبہ میں نہ پڑے کہ قرآن کی اس آیت میں تو ہے کہ اگر میرے بس میں عذاب ہوتے تو ابھی ہی فیصلہ کر دیا جاتا ۔ اور حدیث میں ہے کہ { اللہ تعالیٰ نے بس میں کر دیئے پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کیلئے تاخیر طلب کی } ۔ اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ آیت سے اتنا معلوم ہوتا ہے کہ جب وہ عذاب طلب کرتے اس وقت اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بس میں ہوتا تو اسی وقت ان پر عذاب آ جاتا اور حدیث میں یہ نہیں کہ اس وقت انہوں نے کوئی عذاب مانگا تھا ۔ حدیث میں تو صرف اتنا ہے کہ پہاڑوں کے فرشتے نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بتلایا کہ ” بحکم الہ میں یہ کر سکتا ہوں صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک کے ہلنے کا منتظر ہوں “ ۔ لیکن رحمتہ للعالمین کو رحم آگیا اور نرمی برتی ، پس آیت و حدیث میں کوئی معارضہ نہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے { غیب کی کنجیاں پانچ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت «اِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗ عِلْمُ السَّاعَۃِ وَیُنَزِّلُ الْغَیْثَ وَیَعْلَمُ مَا فِی الْاَرْحَامِ وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌ مَّاذَا تَکْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌ بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ» ۱؎ (31 ۔ لقمان:34) پڑھی ، یعنی ’ قیامت کا علم ، بارش کا علم ، پیٹ کے بچے کا علم ، کل کے کام کا علم ، موت کی جگہ کا علم ‘ } ۔ (صحیح بخاری:4627) اس حدیث میں جس میں جبرائیل علیہ السلام کا بصورت انسان آ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایمان اسلام احسان کی تفصیل پوچھنا بھی مروی ہے یہ بھی ہے کہ { جب قیامت کے صحیح وقت کا سوال ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ ان پانچ چیزوں میں سے ہے جن کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو نہیں ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت «اِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗ عِلْمُ السَّاعَۃِ وَیُنَزِّلُ الْغَیْثَ وَیَعْلَمُ مَا فِی الْاَرْحَامِ وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌ مَّاذَا تَکْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌ بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ» ۱؎ (31 ۔ لقمان:34) تلاوت فرمائی } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:50) پھر فرماتا ہے اس کا علم تمام موجودات کو احاطہٰ کئے ہوئے ہے ۔ بری بحری کوئی چیز اس کے علم سے باہر نہیں ۔ آسمان و زمین کا ایک ذرہ اس پر پوشیدہ نہیں ۔ صرصری کا کیا ہی اچھا شعر ہے ۔ «فَلا یَخْفَی عَلَیْہِ الذَّرٰ إمَّا» «تَرَاءَی لِلنَّوَاظِرِ أَوْ تَوَارَی» یعنی کسی کو کچھ دکھائی دے نہ دے رب پر کچھ بھی پوشیدہ نہیں ، وہ سب کی ہر کات سے بھی واقف ہے ، جمادات کا ہلنا جلنا یہاں تک کہ پتے کا جھڑنا بھی اس کے وسیع علم سے باہر نہیں ۔ پھر بھلا جنات اور انسان کا کون سا علم اس پر مخفی رہ سکتا ہے ؟ جیسے فرمان عالی شان ہے آیت «یَعْلَمُ خَایِٕنَۃَ الْاَعْیُنِ وَمَا تُخْفِی الصٰدُوْرُ» (40 ۔ غافر:19) ’ آنکھوں کی خیانت اور دلوں کے پوشیدہ بھید بھی اس پر عیاں ہیں ‘ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ” خشکی تری کا کوئی درخت ایسا نہیں جس پر اللہ کی طرف سے کوئی فرشتہ مقرر نہ ہو جو اس کے جھڑ جانے والے پتوں کو بھی لکھ لے “ ۔ پھر فرماتا ہے ’ زمین کے اندھیروں کے دانوں کا بھی اس اللہ کو علم ہے ‘ ۔ سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ، ” تیسری زمین کے اوپر اور چوتھی کے نیچے اتنے جن بستے ہیں کہ اگر وہ اس زمین پر آ جائیں تو ان کی وجہ سے کوئی روشنی نظر نہ پڑے ، زمین کے ہر کونے پر اللہ کی مہروں میں سے ایک مہر اور ہر مہر پر ایک فرشتہ مقرر ہے اور ہر دن اللہ کی طرف سے ہے اس کے پاس ایک اور فرشتے کے ذریعہ سے حکم پہنچتا ہے کہ تیرے پاس جو ہے اس کی بخوبی حفاظت کر “ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:7370/4:) سیدنا عبداللہ بن حارث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ” زمین کے ہر ایک درخت وغیرہ پر فرشتے مقرر ہیں جو ان کی خشکی تری وغیرہ کی بابت اللہ کی جناب میں عرض کر دیتے ہیں “ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ” اللہ تعالیٰ نے نون یعنی دوات کو پیدا کیا اور تختیاں بنائیں اور اس میں دنیا کے تمام ہونے والے اموار لکھے ۔ کل مخلوق کی روزیاں ، حلال حرام نیکی بدی سب کچھ لکھ دیا ہے “ پھر یہی آیت پڑھی ۔ الانعام
56 الانعام
57 الانعام
58 الانعام
59 الانعام
60 نیند موت کی چھوٹی بہن «وفاۃ صغریٰ» یعنی چھوٹی موت کا بیان ہو رہا ہے اس سے مراد نیند ہے ، جیسے اس آیت میں ہے «اِذْ قَال اللّٰہُ یٰعِیْسٰٓی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ وَمُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَاَحْکُمُ بَیْنَکُمْ فِیْمَا کُنْتُمْ فِیْہِ تَخْتَلِفُوْنَ» (3-آل عمران:55) یعنی ’ جبکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے عیسیٰ میں تجھے فوت کرنے والا ہوں [ یعنی تجھ پر نیند ڈالنے والا ہوں ] اور اپنی طرف چڑھا لینے والا ہوں ‘ ۔ اور جیسے اس آیت میں ہے «اَللّٰہُ یَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِہَا وَالَّتِیْ لَمْ تَمُتْ فِیْ مَنَامِہَا فَیُمْسِکُ الَّتِیْ قَضٰی عَلَیْہَا الْمَوْتَ وَیُرْسِلُ الْاُخْرٰٓی اِلٰٓی اَجَلٍ مٰسَمًّی اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّــقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ» ۱؎ (39-الزمر:42) یعنی ’ اللہ تعالیٰ نفسوں کو ان کی موت کے وقت مار ڈالتا ہے اور جن کی موت نہیں آئی انہیں نیند کے وقت فوت کر لیتا ہے [ یعنی سلا دیتا ہے ] موت والے نفس کو تو اپنے پاس روک لیتا ہے اور دوسرے کو مقررہ وقت پورا کرنے کے لیے پھر بھیج دیتا ہے ‘ ۔ اس آیت میں دونوں وفاۃ بیان کر دی ہیں ، وفاۃ کبریٰ اور وفاۃ صغریٰ اور جس آیت کی اس وقت تفسیر ہو رہی ہے اس میں بھی دونوں وفاتوں کا ذکر ہے ، وفاۃ صغری ٰ یعنی نیند کا پہلے پھر وفاۃ کبریٰ یعنی حقیقی موت کا ۔ بیچ کا جملہ آیت «وَیَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بالنَّہَارِ ثُمَّ یَبْعَثُکُمْ فِیْہِ لِیُقْضٰٓی اَجَلٌ مٰسَمًّی» ۱؎ (6 ۔ الأنعام:60) جملہ معترضہ ہے جس سے اللہ کے وسیع علم کی دلالت ہو رہی ہے کہ وہ دن رات کے کسی وقت اپنی مخلوق کی کسی حالت سے بےعلم نہیں ، ان کی حرکات و سکنات سب جانتا ہے ۔ جیسے فرمان ہے آیت «سَوَاءٌ مِّنْکُمْ مَّنْ اَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَنْ جَہَرَ بِہٖ وَمَنْ ہُوَ مُسْتَخْفٍ بِالَّیْلِ وَسَارِبٌ بِالنَّہَارِ» ۱؎ (13 ۔ الرعد:10) یعنی ’ چھپا کھلا رات کا دن کا سب باتوں کا اسے علم ہے ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَمِنْ رَّحْمَتِہٖ جَعَلَ لَکُمُ الَّیْلَ وَالنَّہَارَ لِتَسْکُنُوْا فِیْہِ وَلِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِہٖ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ» ۱؎ (28-القصص:73) یعنی ’ یہ بھی رب کی رحمت ہے کہ اس نے تمہارے سکون کا وقت رات کو بنایا اور دن کو تلاش معاش کا وقت بنایا ‘ ۔ اور آیت میں ارشاد ہے «وَّجَعَلْنَا الَّیْلَ لِبَاسًا وَجَعَلْنَا النَّہَارَ مَعَاشًا» ۱؎ (78۔النبأ:11۔10) ’ رات کو ہم نے لباس اور دن کو سبب معاش بنایا ‘ ۔ یہاں فرمایا ’ رات کو وہ تمہیں سلا دیتا ہے اور دنوں کو جو تم کرتے ہو اس سے وہ آگاہ ہے ، پھر دن میں تمہیں اٹھا بٹھا دیتا ہے ‘ ۔ ایک معنی یہ بھی بیان کئے گئے ہیں کہ ’ وہ نیند میں یعنی خواب میں تمہیں اٹھا کھڑا کرتا ہے ‘ لیکن اول معنی ہی اولیٰ ہیں ۔ ابن مردویہ کی ایک مرفوع روایت میں ہے کہ { ہر انسان کے ساتھ ایک فرشتہ مقرر ہے جو سونے کے وقت اس کی روح کو لے جاتا ہے پھر اگر قبض کرنے کا حکم ہوتا ہے تو وہ اس روح کو نہیں لوٹاتا ورنہ بحکم الٰہی لوٹا دیتا ہے } ۔ ۱؎ (الدر المنشور للسیوطی:29/3:ضعیف) یہی معنی اس آیت کے جملے «وَہُوَ الَّذِیْ یَتَوَفّٰیکُمْ بالَّیْلِ وَیَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بالنَّہَارِ» ۱؎ (6 ۔ الأنعام:60) کا ہے تاکہ اس طرح عمر کا پورا وقت گزرے اور جو اجل مقرر ہے وہ پوری ہو ، قیامت کے دن سب کا لوٹنا اللہ ہی کی طرف ہے پھر وہ ہر ایک کو اس کے عمال کا بدلہ دے گا نیکوں کو نیک اور بدوں کو برا ، وہی ذات ہے جو ہر چیز پر غالب و قادر ہے اس کی جلالت عظمت عزت کے سامنے ہر کوئی پست ہے بڑائی اس کی ہے اور سب اس کے سامنے عاجز و مسکین ہیں وہ اپنے محافظ فرشتوں کو بھیجتا ہے جو انسان کی دیکھ بھال رکھتے ہیں ۔ جیسے فرمان عالیشان ہے آیت «لَہٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہٖ یَحْفَظُوْنَہٗ مِنْ اَمْرِ اللّٰہِ» ۱؎ (13۔الرعد:11) پس یہ فرشتے تو وہ ہیں جو انسان کی جسمانی حفاظت رکھتے ہیں اور دائیں بائیں آگے پیچھے سے اسے بحکم الٰہی بلاؤں سے بچاتے رہتے ہیں ، دوسری قسم کے وہ فرشتے ہیں جو اس کے اعمال کی دیکھ بھال کرتے ہیں اور ان کی نگہبانی کرتے رہتے ہیں ۔ جیسے فرمایا آیت «وَاِنَّ عَلَیْکُمْ لَحٰفِظِیْنَ کِرَامًا کَاتِبِینَ یَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ» ۱؎ (82-الانفطار:12-10) ان ہی فرشتوں کا ذکر آیت «اِذْ یَتَلَقَّی الْمُتَلَقِّیٰنِ عَنِ الْیَمِیْنِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِیْدٌ» ۱؎ (50-ق:17) میں ہے ۔ پھر فرمایا ’ یہاں تک کہ تم میں سے کسی کی موت کا وقت آ جاتا ہے تو سکرات کے عالم میں اس کے پاس ہمارے وہ فرشتے آتے ہیں جو اسی کام پر مقرر ہیں ‘ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” ملک الموت کے بہت سے مددگار فرشتے ہیں جو روح کو جسم سے نکالتے ہیں اور حلقوم تک جب روح آ جاتی ہے پھر ملک الموت اسے قبض کر لیتے ہیں “ ۔ اس کا مفصل بیان آیت «یُثَبِّتُ اللہُ الَّذِینَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیَاۃِ الدٰنْیَا وَفِی الْآخِرَۃِ» ۱؎ (14-إبراہیم:27) میں آئے گا ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ پھر فرمایا ’ وہ کوئی کمی نہیں کرتے ‘ یعنی روح کی حفاظت میں کوتاہی نہیں کرتے ۔ اسے پوری حفاظت کے ساتھ یا تو علین میں یک روحوں سے ملا دیتے ہیں یا سجبین میں بری روحوں ڈال دیتے ہیں ۔ پھر وہ سب اپنے سچے مولٰی کی طرف بلا لیے جائیں گے ۔ مسند احمد میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ { مرنے والے کی روح کو نکالنے کے لیے فرشتے آتے ہیں اور اگر وہ نیک ہے تو اس سے کہتے ہیں اے مطمئن روح جو پاک جسم میں تھی تو نہایت اچھائیوں اور بھلائیوں سے چل تو راحت و آرام کی خوشخبری سن تو اس رب کی طرف چل جو تجھ پر کبھی خفا نہ ہو گا ، وہ اسے سنتے ہی نکلتی ہے اور جب تک وہ نکل نہ چکے تب تک یہی مبارک صدا اسے سنائی جاتی ہے پھر اسے آسمانوں پر لے جاتے ہیں اس کیلئے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور فرشتے اس کی آؤ بھگت کرتے ہیں مرحبا کہتے ہوئے ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں اور جو موت کے فرشتوں نے کہا تھا وہی خوشخبری یہ بھی سناتے ہیں یہاں تک کہ اسی طرح نہایت تپاک اور گرم جوشی سے فرشتوں کے استقبال کے ساتھ یہ نیک روح اس آسمان تک پہنچتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ ہے ۔ [ اللہ تعالیٰ ہماری موت بھی نیک پر کرے ] ۔ اور جب کوئی برا آدمی ہوتا ہے تو موت کے فرشتے اس سے کہتے ہیں کہ اے خبیث روح جو گندے جسم میں تھی تو بری بن کر چل گرم کھولتے ہوئے پانی اور سڑی بھسی غذا اور طرح طرح کے عذابوں کی طرف چل ، پھر وہ اس روح کو نکالتے ہیں اور یہی کہتے رہے ہیں پھر اسے آسمان کی طرف چڑھاتے ہیں دروازہ کھولنا چاہتے ہیں ، آسمان کے فرشتے پوچھتے ہیں کون ہے ؟ یہ اس کا نام بتاتے ہیں تو وہ کہتے ہیں اس خبیث نفس کے لیے مرحبا نہیں ، یہ تھا بھی ناپاک جسم میں تو برائی کے ساتھ لوٹ جا ، تیرے لیے آسمانوں کے دروازے نہیں کھلتے ، چنانچہ اسے زمین کی طرف پھینک دیا جاتا ہے ، پھر قبر پر لائی جاتی ہے ، پھر قبر میں ان دونوں روحوں سے سوال جواب ہوتے ہیں } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:364/2:صحیح) جیسے پہلی حدیثیں گزر چکیں ۔ ’ پھر اللہ کی طرف لوٹائے جاتے ہیں ‘ ، اس سے مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ فرشتے لوٹائے جاتے ہیں یا یہ کہ مخلوق لوٹائی جاتی ہے یعنی قیامت کے دن ، پھر جناب باری ان میں عدل و انصاف کرے گا اور احکام جاری فرمائے گا ، جیسے فرمایا آیت «قُلْ اِنَّ الْاَوَّلِیْنَ وَالْاٰخِرِیْنَ لَمَجْمُوعُونَ إِلَیٰ مِیقَاتِ یَوْمٍ مَّعْلُومٍ» (56-الواقعۃ:49-50) یعنی ’ کہہ دے کہ اول آخر والے سب قیامت کے دن جمع ہوں گے ‘ ۔ اور آیت میں ہے آیت «وَحَشَرْنَاہُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْہُمْ أَحَدًا» ۱؎ (18-الکہف:47) ’ ہم سب کو جمع کریں گے اور کسی کو بھی باقی نہ چھوڑیں گے ‘ ۔ یہاں بھی فرمایا کہ «مَوْلَاہُمُ الْحَقِّ أَلَا لَہُ الْحُکْمُ وَہُوَ أَسْرَعُ الْحَاسِبِینَ» ۱؎ (6-الأنعام:62) ’ اپنے سچے مولٰی کی طرف سب کو لوٹنا ہے ۔ جو بہت جلدی حساب لینے والا ہے ۔ اس سے زیادہ جلدی حساب میں کوئی نہیں کر سکتا ‘ ۔ الانعام
61 الانعام
62 الانعام
63 احسان فراموش نہ بنو اللہ تعالیٰ اپنا احسان بیان فرماتا ہے کہ ’ جب تم خشکی کے بیابانوں اور لق و دق سنسان جنگلوں میں راہ بھٹکے ہوئے قدم قدم پر خوف و خطر میں مبتلا ہوتے ہو اور جب تم کشتیوں میں بیٹھے ہوئے طوفان کے وقت سمندر کے تلاطم میں مایوس و عاجز ہو جاتے ہو ۔ اس وقت اپنے دیوتاؤں اور بتوں کو چھوڑ کر صرف اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے ہو ‘ ۔ یہی مضمون قرآن کریم کی آیت «وَاِذَا مَسَّکُمُ الضٰرٰ فِی الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُوْنَ اِلَّآ اِیَّاہُ» ۱؎ (17-الاسراء:67) میں اور آیت «ھُوَ الَّذِیْ یُسَیِّرُکُمْ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ» ۱؎ (10-یونس:22) میں اور آیت «اَمَّنْ یَّہْدِیْکُمْ فِیْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَنْ یٰرْسِلُ الرِّیٰحَ بُشْرًا بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِہٖ ءَاِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ تَعٰلَی اللّٰہُ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ» ۱؎ (27-النمل:63) میں بھی بیان ہوا ہے ۔ «تَضَرٰعًا وَخُفْیَۃً» کے معنی «جَہْرًا أَوْ سِرًّا» یعنی بلند آواز اور پست آواز کے ہیں ۔ الغرض اس وقت صرف اللہ کو ہی پکارتے ہیں اور وعدہ کرتے ہیں کہ اگر تو ہمیں اس وقت سے نجات دے گا تو ہم ہمیشہ تیرے شکر گزار رہیں گے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’ باوجود اس عہد و پیمان کے ادھر ہم نے انہیں تنگی اور مصیبت سے چھوڑا اور ادھر یہ آزاد ہوتے ہی ہمارے ساتھ شرک کرنے لگے اور اپنے جھوٹے معبودوں کو پھر پکارنے لگے ‘ ۔ پھر فرماتا ہے ’ کیا تم نہیں جانتے کہ جس اللہ نے تمہیں اس وقت آفت میں ڈالا تھا وہ اب بھی قادر ہے کہ تم پر کوئی اور عذاب اوپر سے یا نیجے سے لے آئے ‘ ۔ جیسے کہ سورۃ سبحان میں آیت «رَبٰکُمُ الَّذِیْ یُزْجِیْ لَکُمُ الْفُلْکَ فِی الْبَحْرِ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِہٖ اِنَّہٗ کَانَ بِکُمْ رَحِـیْمًا وَإِذَا مَسَّکُمُ الضٰرٰ فِی الْبَحْرِ ضَلَّ مَن تَدْعُونَ إِلَّا إِیَّاہُ فَلَمَّا نَجَّاکُمْ إِلَی الْبَرِّ أَعْرَضْتُمْ وَکَانَ الْإِنسَانُ کَفُورًا أَفَأَمِنتُمْ أَن یَخْسِفَ بِکُمْ جَانِبَ الْبَرِّ أَوْ یُرْسِلَ عَلَیْکُمْ حَاصِبًا ثُمَّ لَا تَجِدُوا لَکُمْ وَکِیلًا أَمْ أَمِنتُمْ أَن یُعِیدَکُمْ فِیہِ تَارَۃً أُخْرَیٰ فَیُرْسِلَ عَلَیْکُمْ قَاصِفًا مِّنَ الرِّیحِ فَیُغْرِقَکُم بِمَا کَفَرْتُمْ ثُمَّ لَا تَجِدُوا لَکُمْ عَلَیْنَا بِہِ تَبِیعًا» ۱؎ (17 ۔ الاسراء:69-66) تک بیان فرمایا ۔ یعنی ’ تمہارا پروردگار وہ ہے جو دریا میں تمہارے لیے کشتیاں چلاتا ہے تاکہ تم اس کا فضل حاصل کرو اور وہ تم پر بہت ہی مہربان ہے ۔ لیکن جب تمہیں دریا میں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو جن کی تم عبادت کرتے رہتے تھے وہ سب تمہارے خیال سے نکل جاتے ہیں اور صرف اللہ ہی کی طرف لو لگ جاتی ہے ، پھر جب وہ تمہیں خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو تم اس سے منہ پھیر لیتے ہو فی الواقع انسان بڑا ہی ناشکرا ہے کیا تم اس سے بے خوف ہو کہ وہ تمہیں خشکی میں ہی دھنسا دے یا تم پر آندھی کا عذاب بھیج دے پھر تم کسی کو بھی اپنا کار ساز نہ پاؤ ۔ کیا تم اس بات سے بھی نڈر ہو کہ وہ تمہیں پھر دوبارہ دریا میں لے جائے اور تم پر تندو تیز ہوا بھیج دے اور تمہیں تمہارے کفر کے باعث غرق کر دے تو پھر کسی کو نہ پاؤ جو ہمارا پیچھا کر سکے ‘ ۔ حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” اوپر نیچے کے عذاب مشرکوں کیلئے ہیں “ ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” اس آیت میں اسی امت کو ڈرایا گیا تھا لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے معافی دے دی “ ۔ ہم یہاں اس آیت سے تعلق رکھنے والی حدیثیں اور آثار بیان کرتے ہیں ملاحظہ ہوں ۔ اللہ تعالیٰ پر ہمارا بھروسہ ہے اور اس سے ہم مدد چاہتے ہیں ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے { «یَلْبِسَکُمْ» کے معنی «یَخْلِطَکُمْ» کے ہیں یہ لفظ «اِلْتِبَاسِ» سے ماخوذ ہے «شِیَعًا» کے معنی «فِرَقًا» کے ہیں ۔ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت اتری کہ ’ اللہ قادر ہے کہ تمہارے اوپر سے عذاب نازل فرمائے ‘ ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی کہ { یا اللہ میں تیرے پر عظمت و جلال چہرہ کی پناہ میں آتا ہوں } ، اور جب یہ سنا کہ نیچے سے عذاب لے آئے تو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا کی ۔ پھر یہ سن کر کہ ’ یا وہ تم میں اختلاف ڈال دے اور تمہیں ایک دوسرے سے تکلیف پہنچے ‘ ، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا { یہ بہت زیادہ ہلکا ہے } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4628) ابن مردویہ کی اس حدیث کے آخر میں جابر رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان بھی مروی ہے کہ { اگر اس آپس کی ناچاقی سے بھی پناہ مانگتے تو پناہ مل جاتی } ۔ ۱؎ (الدر المنشور للسیوطی:32/3:ضعیف) مسند میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جب اس آیت کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { یہ تو ہونے والا ہی ہے اب تک یہ ہوا نہیں }} ۔ ۱؎ (مسند احمد:171/1:ضعیف) یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے اور امام ترمذی اسے غریب بتاتے ہیں ۔ مسند احمد میں سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ { ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آ رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد بنی معاویہ میں گئے اور دور رکعت نماز ادا کی ہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لمبی مناجات کی اور فرمایا : { میں نے اپنے رب سے تین چیزیں طلب کیں ایک تو یہ کہ میری تمام امت کو ڈبوئے نہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ چیز عطا فرمائی ، پھر میں نے دعا کی کہ میری عام امت کو قحط سالی سے اللہ تعالیٰ ہلاک نہ کرے ، اللہ تعالیٰ نے میری یہ دعا بھی قبول فرمائی پھر میں نے دعا کی کہ ان میں آپس میں پھوٹ نہ پڑے میری یہ دعا قبول نہ ہوئی } } ۔ صحیح مسلم وغیرہ میں بھی یہ حدیث ہے ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2890) مسند احمد میں ہے { سیدنا عبداللہ بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہمارے پاس سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بنی معاویہ کے محلے میں آئے اور مجھ سے دریافت فرمایا کہ ” جانتے ہو تمہاری اس مسجد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کس جگہ پڑھی ؟ “ میں نے مسجد کے ایک کونے کو دکھا کر کہا یہاں پھر پوچھا ” جانتے ہو یہاں تین دعائیں حضور نے کیا کیا کیں ؟ “ میں نے کہا ایک تو یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر کوئی غیر مسلم طاقت اس طرح غالب نہ آ جائے کہ ان کو پیس ڈالے ، دوسرے یہ کہ ان پر عام قحط سالی ایسی نہ آئے کہ یہ سب تباہ ہو جائیں اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دونوں دعائیں قبول فرمائیں پھر تیسری دعا یہ کی کہ ان میں آپس میں لڑائیاں نہ ہوں لیکن یہ دعا قبول نہ ہوئی ۔ یہ سن کر عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” تم نے سچ کہا یاد رکھو قیامت تک یہ آپس کی لڑائیاں چلی جائیں گی “ } ۔ ۱؎ (مسند احمد:445/5:صحیح) ابن مردویہ میں ہے کہ { حضور علیہ السلام بنو معاویہ کے محلے میں گئے اور وہاں آٹھ رکعت نماز ادا کی ، بڑی لمبی رکعت پڑھیں پھر میری طرف توجہ فرما کر فرمایا : { میں نے اپنے رب سے تین چیزیں مانگیں اللہ پاک نے دو تو دیں اور ایک نہ دی ، میں نے سوال کیا کہ میری امت پر ان کے دشمن اس طرح نہ چھا جائیں کہ انہیں برباد کر دیں اور ان سب کو ڈبویا نہ جائے ، اللہ نے ان دونوں باتوں سے مجھے امن دیا پھر میں نے آپ سے لڑائیاں نہ ہونے کی دعا کی لیکن اس سے مجھے منع کر دیا } ۔ ۱؎ (التاریخ الکبیر للبخاری:285/6:ضعیف) ابن ماجہ اور مسند احمد میں ہے { معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو مجھے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے اب دریافت کرتا کرتا حضور صلی اللہ علیہ وسلم جہاں تھے وہیں پہنچا دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے ہیں ۔ میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز میں کھڑا ہو گیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی لمبی نماز پڑھی ، جب فارغ ہوئے تو میں کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم بڑی لمبی نماز آج آپ صلی اللہ علیہ وسلم ے پڑھی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ہاں یہ نماز رغبت ور ڈر کی نماز تھی } ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تینوں دعاؤں کا ذکر کیا } ۔ ۱؎ (سلسلۃ احادیث صحیحہ البانی:1724:صحیح) نسائی وغیرہ میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ { ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز کی آٹھ رکعت پڑھیں اور سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے سوال پر اپنی دعاؤں کا ذکر کیا اس میں عام قحط سالی کا ذکر ہے } ۔ ۱؎ (نسائی فی السنن الکبری:920/1:صحیح لغیرہ) نسائی وعیرہ میں ہے کہ { حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ساری رات نماز میں گزار دی صبح کے وقت سلام پھیرا تو خباب بن ارث رضی اللہ عنہ نے جو بدری صحابی ہیں پوچھا کہ ایسی طویل نماز میں تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی نہیں دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں وہی فرمایا جو اوپر مذکور ہوا ، اس میں ایک دعا یہ ہے کہ { اگلی امتوں پر جو عام عذاب آئے وہ میری امت پر عام طور پر نہ آئیں } } ۔ ۱؎ (سنن نسائی:1639،قال الشیخ الألبانی:صحیح) تفسیر ابن جریر میں ہے کہ { حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی جس کے رکوع سجود پورے تھے اور نماز ہلکی تھی پھر سوال و جواب وہی ہیں جو اوپر بیان ہوئے } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:13370:صحیح بالشواہد) مسند احمد میں ہے { رسول اکرام صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { میرے لیے زمین لپیٹ دی گئی یہاں تک کہ میں نے مشرقین مغربین دیکھ لیے جہاں جہاں تک یہ زمین میری لیے لپیٹ دی گئی تھی وہاں وہاں تک میری امت کی بادشاہت پہنچے گی ، مجھے دونوں خزانے دیئے گئے ہیں سفید اور سرخ ، میں نے اپنے رب عزوجل سے سوال کیا کہ میری امت کو عام قحط سالی سے ہلاک نہ کر اور ان پر کوئی ان کے سوا ایسا دشمن مسلط نہ کر جو انہیں عام طور پر ہلاک کر دے یہاں تک کہ یہ خود آپس میں ایک دوسروں کو ہلاک کرنے لگیں اور ایک دوسروں کو قتل کرنے لگیں اور ایک دوسروں کو قید کرنے لگیں } ، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { میں اپنی امت پر کسی چیز سے نہیں ڈرتا بجز گمراہ کرنے والے اماموں کے پھر جب میری امت میں تلوار رکھ دی جائے گی تو قیامت تک ان میں سے اٹھائی نہ جائے گی } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:123/4:صحیح) ابن مردویہ میں ہے کہ { جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں نماز پڑھتے تو نماز ہلکی ہوتی ، رکوع و سجود پورے ہوتے ایک روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت دیر تک بیٹھے رہے یہاں تک کہ ہم نے ایک دوسرے کو اشارے سے سمجھا دیا کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اتر رہی ہے خاموشی سے بیٹھے رہو ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فارغ ہوئے تو بعض لوگوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم آج تو اس قدر زیادہ دیر تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹھے رہنے سے ہم نے یہ خیال کیا تھا اور آپس میں ایک دوسرے کو اشارے سے یہ سمجھایا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { نہیں یہ بات تو نہ تھی بلکہ میں نے یہ نماز بڑی رغبت و یکسوئی سے ادا کی تھی ، میں نے اس میں تین چیزیں اللہ تبارک و تعالیٰ سے طلب کی تھیں جن میں سے دو تو اللہ تعالیٰ نے دے دیں اور ایک نہیں دی ۔ میں نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا کہ وہ تمہیں وہ عذاب نہ کرے جو تم سے پہلی قوموں کو کئے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے اسے پورا کیا میں نے پھر کہا کہ یا اللہ میری امت پر کوئی ایسا دشمن چھا نہ جائے جو ان کا صفایا کر دے تو اللہ تعالیٰ نے میری یہ مراد بھی پوری کر دی ، پھر میں نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ تم میں پھوٹ نہ ڈالے کہ ایک دوسرے کو ایذاء پہنچائیں مگر اللہ تعالیٰ نے یہ دعا قبول نہ فرمائی } } ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:4112:صحیح بالشواہد) مسند احمد کی حدیث میں ہے { میں نے اللہ تبارک و تعالیٰ سے چار دعائیں کیں تو تین پوری ہوئیں اور ایک رد ہو گئی ۔ چوتھی دعا اس میں یہ ہے کہ میری امت گمراہی پر جمع نہ ہو جائے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:396/6:صحیح) اور حدیث میں ہے { دو چیزیں اللہ نے دیں دو نہ دیں آسمان سے پتھروں کا سب پر برسانا موقوف کر دیا گیا زمین کے پانی کے طوفان سے سب کا غرق ہو جانا موقوف کر دیا گیا لیکن قتل اور آپس کی لڑائی موقوف نہیں کی گئی } ۔ (الدر المنشور للسیوطی:33/3:ضعیف) { سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب یہ آیت اتری تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وضو کر کے اٹھ کھرے ہوئے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ میری امت پر نہ تو ان کے اوپر سے عذاب اتار نہ نیچے سے انہیں عذاب چکھا اور نہ ان میں تفرقہ ڈال کر ایک دوسرے کی مصیبت پہنچا ، اسی وقت جبرائیل علیہ السلام اترے اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے آپ کی امت کو اس سے پناہ دے دی کہ ان کے اوپر سے یا ان کے نیچے سے ان پر عام عذاب اتارا جائے } ۱؎ (الدر المنشور للسیوطی:33/3:ضعیف) سیدنا ابن ابی کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ { دو چیزیں اس امت سے ہٹ گئیں اور دور رہ گئیں اوپر کا عذاب یعنی پتھراؤ اور نیچے کا عذاب یعنی زمین کا دھنساؤ ہٹ گیا اور آپس کی پھوٹ اور ایک کا ایک کو ایذائیں پہنچانا رہ گیا ، آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس آیت میں چار چیزوں کا ذکر ہے جن میں سے دو تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے پچیس [۲۵] سال بعد ہی شروع ہو گئیں یعنی پھوٹ اور آپس کی دشمنی ۔ دو باقی رہ گئیں وہ بھی ضرور ہی آنے والی ہیں یعنی رجم اور خسف آسمان سے سنگباری اور زمین میں دھنسایا جانا } ۔ ۱؎ (مسند احمد:134/5:ضعیف) حسن رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں ” گناہ سے لوگ بچے ہوئے تھے عذاب رکے ہوئے تھے جب گناہ شروع ہوئے عذاب اتر پڑے “ ۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ با آواز بلند مجلس میں یا منبر پر فرماتے تھے لوگو تم پر آیت «قُلْ ہُوَ الْقَادِرُ عَلٰٓی اَنْ یَّبْعَثَ عَلَیْکُمْ عَذَابًا مِّنْ فَوْقِکُمْ اَوْ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِکُمْ اَوْ یَلْبِسَکُمْ شِیَعًا وَّیُذِیْقَ بَعْضَکُمْ بَاْسَ بَعْضٍ» ۱؎ (6۔الأنعام:65) اتر چکی ہے اگر آسمانی عذاب آ جائے ایک بھی باقی نہ بچے اگر تمہیں وہ زمین میں دھنسا دے تو تم سب ہلاک ہو جاؤ اور تم میں سے ایک بھی نہ بچے لیکن تم پر آپس کی پھوٹ کا تیسرا عذاب آ چکا ہے “ ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ” اوپر کا عذاب برے امام اور بد بادشاہ ہیں نیچے کا عذاب بد باطن غلام اور بد دیانت نوکر چاکر ہیں “ یہ قول بھی گو صحیح ہو سکتا ہے لیکن پہلا قول ہی زیادہ ظاہر اور قوی ہے ، اس کی شہادت میں آیت «ءَاَمِنْتُمْ مَّنْ فِی السَّمَاءِ اَنْ یَّخْسِفَ بِکُمُ الْاَرْضَ فَاِذَا ہِیَ تَمُوْرُ» ۱؎ (67-الملک:16) پیش ہو سکتی ہے ۔ ایک حدیث میں ہے { میری امت میں سنگ باری اور زمین میں دھنس جانا اور صورت بدل جانا ہوگا } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2152،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اس قسم کی بہت سی حدیثیں ہیں جو قیامت کے قرب کی علامتوں کے بیان میں اس کے موقعہ پر جا بجا آئیں گی ۔ ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ آپس کی پھوٹ سے مراد فرقہ بندی ہے ، خواہشوں کو پیشوا بنانا ہے ، ایک حدیث میں ہے { یہ امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی سب جہنمی ہوں گے سوائے ایک کے } (سنن ترمذی:2641،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ، ایک دوسرے کی تکلیف کا مزہ چکھے اس سے مراد سزا اور قتل ہے ، ’ دیکھ لے کہ ہم کس طرح اپنی آیتیں وضاحت کے ساتھ بیان فرما رہے ہیں ۔ تاکہ لوگ غورو تدبر کریں سوچیں سمجھیں ‘ ۔ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { لوگو ! میرے بعد کافر بن کر نہ لوٹ جانا کہ ایک دوسروں کی گردنوں پر تلواریں چلانے لگو } ، اس پر لوگوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہم اللہ کی واحدانیت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو مانتے ہوئے ایسا کر سکتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ہاں ہاں یہی ہوگا } ۔ کسی نے کہا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم مسلمان رہتے ہوئے مسلمانوں ہی کو قتل کریں اس پر آیت کا آخری حصہ اور اس کے بعد کی آیت «وَکَذَّبَ بِہِ قَوْمُکَ وَہُوَ الْحَقٰ قُل لَّسْتُ عَلَیْکُم بِوَکِیلٍ» ۱؎ (6-الانعام:66) ، اتری } ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:13381:مرسل و ضعیف) الانعام
64 الانعام
65 الانعام
66 غلط تاویلیں کرنے والوں سے نہ ملو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’ جس قرآن کو اور جس ہدایت و بیان کو تو اللہ عالی کی طرف سے لایا ہے اور جسے تیری قوم قریش جھٹلا رہی ہے حقیقتاً وہ سرا سر حق ہے بلکہ اس کے سوا اور کوئی حق ہے ہی نہیں ان سے کہہ دیجئیے میں نہ تو تمہارا محافظ ہوں نہ تم پر وکیل ہوں ‘ ۔ جیسے اور آیت میں ہے «وَقُلِ الْحَقٰ مِن رَّبِّکُمْ فَمَن شَاءَ فَلْیُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْیَکْفُرْ» ۱؎ (18-الکہف:29) ’ کہہ دے کہ یہ تمہارے رب کی طرف سے حق ہے جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے نہ مانے ‘ ، یعنی مجھ پر صرف تبلیغ کرنا فرض ہے ، تمہارے ذمہ سننا اور ماننا ہے ماننے والے دنیا اور آخرت میں نیکی پائیں گے اور نہ ماننے والے دونوں جہان میں بد نصیب رہیں گے ، ہر خبر کی حقیقت ہے وہ ضرور واقع ہونے والی ہے اس کا وقت مقرر ہے ، تمہیں عنقریب حقیقت حال معلوم ہو جائے گی ، واقعہ کا انکشاف ہو جائے گا اور جان لو گے ۔ پھر فرمایا ’ جب تو انہیں دیکھے جو میری آیتوں کو جھٹلاتے ہیں اور ان کا مذاق اڑاتے ہیں تو تو ان سے منہ پھیر لے اور جب تک وہ اپنی شیطانیت سے باز نہ آ جائیں تو ان کے ساتھ نہ اٹھو نہ بیٹھو ‘ ۔ اس آیت میں گو فرمان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے لیکن حکم عام ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے ہر شخص پر حرام ہے کہ وہ ایسی مجلس میں یا ایسے لوگوں کے ساتھ بیٹھے جو اللہ کی آیتوں کی تکذیب کرتے ہوں ان کے معنی الٹ پلٹ کرتے ہوں اور ان کی بے جا تاویلیں کرتے ہوں ، اگر بالفرض کوئی شخص بھولے سے ان میں بیٹھ بھی جائے تو یاد آنے کے بعد ایسے ظالموں کے پاس بیٹھنا ممنوع ہے حدیث شریف میں ہے کہ { اللہ تعالیٰ نے میری امت کو خطا اور بھول سے درگزر فرما لیا ہے اور ان کاموں سے بھی جو ان سے زبردستی مجبور کرکے کرائے جائیں } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:2045،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اس آیت کے اسی حکم کی طرف اشارہ اس آیت میں ہے «وَقَدْ نَزَّلَ عَلَیْکُمْ فِی الْکِتَابِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آیَاتِ اللہِ یُکْفَرُ بِہَا وَیُسْتَہْزَأُ بِہَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَہُمْ حَتَّی یَخُوضُوا فِی حَدِیثٍ غَیْرِہِ إِنَّکُمْ إِذًا مِثْلُہُمْ» ۱؎ (4-النساء:140) یعنی ’ تم پر اس کتاب میں یہ فرمان نازل ہو چکا ہے کہ جب اللہ کی آیتوں کے ساتھ کفر اور مذاق ہوتا ہوا سنو تو ایسے لوگوں کے ساتھ نہ بیٹھو اور اگر تم نے ایسا کیا تو تم بھی اس صورت میں ان جیسے ہی ہو جاؤ گے ہاں جب وہ اور باتوں میں مشغول ہوں تو خیر ‘ ، مطلب یہ ہے کہ اگر تم ان کے ساتھ بیٹھے اور ان کی باتوں کو برداشت کر لیا تو تم بھی ان کی طرح ہی ہو ۔ پھر فرمان ہے کہ ’ جو لوگ ان سے دوری کریں ان کے ساتھ شریک نہ ہوں ان کی ایسی مجلسوں سے الگ رہیں وہ بری الذمہ ہیں ان پر ان کا کوئی گناہ نہیں ، ان پر اس بدکرداری کا کوئی بوجھ ان کے سر نہیں ‘ ۔ دیگر مفسرین کہتے ہیں کہ اس کے یہ معنی ہیں کہ اگرچہ ان کے ساتھ بیٹھیں لیکن جبکہ ان کے کام میں اور ان کے خیال میں ان کی شرکت نہیں تو یہ بے گناہ ہیں لیکن یہ حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ حکم سورۃ نساء مدنی کی آیت «إِنَّکُمْ إِذًا مِثْلُہُمْ» ۱؎ (4-النساء:140)سے منسوخ ہے ۔ ان مفسرین کی اس تفسیر کے مطابق آیت کے آخری جملے کے یہ معنی ہوں گے کہ ’ ہم نے تمہیں ان سے الگ رہنے کا حکم اس لیے دیا ہے کہ انہیں عبرت حاصل ہو اور ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے گناہ سے باز آ جائیں اور ایسا نہ کریں ‘ ۔ الانعام
67 الانعام
68 الانعام
69 الانعام
70 1 یعنی ’ بے دینوں سے منہ پھیر لو ان کا انجام نہایت برا ہے اس قرآن کو پڑھ کر سنا کر لوگوں کو ہوشیار کر دو اللہ کی ناراضگی سے اور اس کے عذابوں سے انہیں ڈرا دو تاکہ کوئی شخص اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے ہلاک نہ ہو پکڑا نہ جائے رسوا نہ کیا جائے اپنے مطلوب سے محروم نہ رہ جائے ‘ ۔ جیسے فرمان ہے آیت «کُلٰ نَفْسٍ بِمَا کَسَبَتْ رَہِیْنَۃٌ إِلَّا أَصْحَابَ الْیَمِینِ» ۱؎ (74-المدثر:39-38) ’ ہر شخص اپنے اعمال کا گروی ہوا ہے مگر داہنے ہاتھ والے ، یاد رکھو کسی کا کوئی والی اور سفارشی نہیں ‘ ۔ جیسے ارشاد فرمایا آیت «مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ یَوْمٌ لَّا بَیْعٌ فِیْہِ وَلَا خُلَّۃٌ وَّلَا شَفَاعَۃٌ وَالْکٰفِرُوْنَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ» ۱؎ (2-البقرۃ:254) ’ اس سے پہلے کہ وہ دن آ جائے جس میں نہ خرید و فروخت ہے نہ دوستی اور محبت سفارش اور شفاعت کافر پورے ظالم ہیں اگر یہ لوگ قیامت کے دن تمام دنیا کی چیزیں فدئیے یا بدلے میں دے دینا چاہیں تو بھی ان سے نہ فدیہ لیا جائے گا نہ بدلہ ۔ کسی چیز کے بدلے وہ عذابوں سے نجات نہیں پا سکتے ‘ ۔ جیسے فرمان ہے آیت «إِنَّ الَّذِینَ کَفَرُ‌وا وَمَاتُوا وَہُمْ کُفَّارٌ‌ فَلَن یُقْبَلَ مِنْ أَحَدِہِم مِّلْءُ الْأَرْ‌ضِ ذَہَبًا وَلَوِ افْتَدَیٰ بِہِ أُولٰئِکَ لَہُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ وَمَا لَہُم مِّن نَّاصِرِ‌ینَ» ۱؎ (3-آل عمران:91) ’ جو لوگ کفر پر جئے اور کفر پر ہی مرے یہ اگر زمین بھر کر سونا بھی دیں تو ناممکن ہے کہ قبول کیا جائے اور انہیں چھوڑا جائے ‘ ۔ پس فرما دیا گیا کہ ’ یہی وہ لوگ ہیں جو اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے رسوا کر دیئے گئے انہیں گرم کھولتا ہوا پانی پینے کو ملے گا اور انہیں سخت المناک عذاب ہو گا کیونکہ یہ کافر تھے ‘ ۔ الانعام
71 اسلام کے سوا سب راستوں کی منزل جہنم ہے مشرکوں نے مسلمانوں سے کہا تھا کہ ہمارے دین میں آ جاؤ اور اسلام چھوڑ دو اس پر یہ آیت اتری کہ ’ کیا ہم بھی تمہاری طرح بے جان و بے نفع و نقصان معبودوں کو پوجنے لگیں ؟ اور جس کفر سے ہٹ گئے ہیں کیا پھر لوٹ کر اسی پر آ جائیں ؟ اور تم جیسے ہی ہو جائیں ؟ بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ اب تو ہماری آنکھیں کھل گئیں صحیح راہ مل گئی اب اسے کیسے چھوڑ دیں ؟ اگر ہم ایسا کر لیں تو ہماری مثال اس شخص جیسی ہو گی جو لوگوں کے ساتھ سیدھے راستے پر جا رہا تھا مگر راستہ گم ہو گیا شیطان نے اسے پریشان کر دیا اور ادھر ادھر بھٹکانے لگا اس کے ساتھ جو راستے پر تھے وہ اسے پکارنے لگے کہ ہمارے ساتھ مل جا ہم صحیح راستے پر جا رہے ہیں یہی مثال اس شخص کی ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جان اور پہچان کے بعد مشرکوں کا ساتھ دے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی پکارنے والے ہیں اور اسلام ہی سیدھا اور صحیح راستہ ہے ‘ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” یہ مثال اللہ تعالیٰ نے معبودان باطل کی طرف بلانے والوں کی بیان فرمائی ہے اور ان کی بھی جو اللہ کی طرف بلاتے ہیں ، ایک شخص راستہ بھولتا ہے وہیں اس کے کان میں آواز آتی ہے کہ اے فلاں ادھر آ سیدھی راہ یہی ہے لیکن اس کے ساتھی جس غلط راستے پر لگ گئے ہیں وہ اسے تھپکتے ہیں اور کہتے ہیں یہی راستہ صحیح ہے اسی پر چلا چل ۔ اب اگر یہ سچے شخص کو مانے گا تو راہ راست لگ جائے گا ورنہ بھٹکتا پھرے گا “ ۔ اللہ کے سوا دوسروں کی عبادت کرنے والے اس امید میں ہوتے ہیں کہ ہم بھی کچھ ہیں لیکن مرنے کے بعد انہیں معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ کچھ نہ تھے اس وقت بہت نادم ہوتے ہیں اور سوائے ہلاکت کے کوئی چیز انہیں دکھائی نہیں دیتی ، یعنی جس طرح کسی جنگ میں گمشدہ انسان کو جنات اس کا نام لے کر آوازیں دے کر اسے اور غلط راستوں پر ڈال دیتے ہیں جہاں وہ مارا مارا پھرتا ہے اور بالآخر ہلاک اور تباہ ہو جاتا ہے اسی طرح جھوت معبودوں کا پجاری بھی برباد ہو جاتا ہے ۔ ہدایت کے بعد گمراہ ہونے والے کی یہی مثال ہے جس راہ کی طرف شیطان اسے بلا رہے ہیں وہ تو تباہی اور بربادی کی راہ ہے اور جس راہ کی طرف اللہ بلا رہا ہے اور اس کے نیک بندے جس راہ کو سجھا رہے ہیں وہ ہدایت ہے گو وہ اپنے ساتھیوں کے مجمع میں سے نہ نکلے اور انہیں ہی راہ راست پر سمجھتا رہے اور وہ ساتھی بھی اپنے تئیں ہدایت یافتہ کہتے رہیں ۔ لیکن یہ قول آیت کے لفظوں سے مطابق نہیں کیونکہ آیت میں موجد ہے کہ وہ اسے ہدایت کی طرف بلاتے ہیں پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ ضلالت ہو ؟ «حَیْرَانَ» پر زبر حال ہونے کی وجہ سے ہے صحیح مطلب یہی ہے کہ اس کے ساتھی جو ہدایت پر ہیں اب اسے غلط راہ پر دیکھتے ہیں تو اس کی خیر خواہی کے لیے پکار پکار کر کہتے ہیں کہ ہمارے پاس آ جا سیدھا راستہ یہی ہے لیکن یہ بد نصیب ان کی بات پر اعتماد نہیں کرتا بلکہ توجہ تک نہیں کرتا ، سچ تو یہ ہے کہ ہدایت اللہ کے قبضے میں ہے ، وہ جسے راہ دکھائے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا ۔ چنانچہ خود قرآن میں ہے کہ «وَمَن یَہْدِ اللہُ فَمَا لَہُ مِن مٰضِلٍّ» (39-الزمر:37) اور آیت «إِن تَحْرِصْ عَلَیٰ ہُدَاہُمْ فَإِنَّ اللہَ لَا یَہْدِی مَن یُضِلٰ وَمَا لَہُم مِّن نَّاصِرِینَ» ۱؎ (16-النحل:37) ’ تو چاہے ان کی ہدایت پر حرص کرے لیکن جسے اللہ بھٹکا دے اسے وہی راہ پر لا سکتا ہے ایسوں کا کوئی مددگار نہیں ‘ ۔ ہم سب کو یہی حکم کیا گیا ہے کہ ہم خلوص سے ساری عبادتیں محض اسی «وَحدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ» کے لیے کریں اور یہ بھی حکم ہے کہ نمازیں قائم رکھیں اور ہر حال میں اس سے ڈرتے رہیں قیامت کے دن اسی کے سامنے حشر کیا جائے گا سب وہیں جمع کئے جائیں گے ، اسی نے آسمان و زمین کو عدل کے ساتھ پیدا کیا ہے وہی مالک اور مدبر ہے قیامت کے دن فرمائے گا ہو جا تو ہو جائے گا ایک لمحہ بھی دیر نہ لگے گی ۔ «یَوْمَ» کا زبر یا تو «وَاتَّقُوہُ» پر عطف ہونے کی وجہ سے ہے یعنی اس دن سے ڈرو جس دن اللہ فرمائے گا ہو اور ہو جائے گا اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ «یَوْمَ» کا زبر «وَہُوَ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ» پر عطف ہونے کی بنا پر ہو تو گویا ابتدائے پیدائش کو بیان فرما کر پھر دوبارہ پیدائش کو بیان فرمایا یہی زیادہ مناسب ہے ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ فعل مضمر ہو یعنی «اُذْکُرْ» اور اس وجہ سے «یَوْمَ» پر زبر آیا ہو ، اس کے بعد کے دونوں جملے محلاً مجرور ہیں ، پس یہ دونوں جملے بھی محلاً مجرور ہیں ۔ ان میں پہلی صفت یہ ہے کہ اللہ کا قول حق ہے رب کے فرمان سب کے سب سچ ہیں ، تمام ملک کا وہی اکیلا مالک ہے ، سب چیزیں اسی کی ملکیت ہیں «یَوْمَ یُنْفَخُ» میں «یَوْمَ» ممکن ہے کہ «وَیَوْمَ یَقُولُ» کا بدل ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ «وَلَہُ الْمُلْکُ» کا ظرف ہو ۔ جیسے اور آیت میں ہے «لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ» ۱؎ (40۔غافر:16) ’ آج کس کا ملک ہے ؟ صرف اللہ اکیلے غالب کا ‘ ، اور جیسے اس آیت میں ارشاد ہوا ہے «اَلْمُلْکُ یَوْمَیِٕذِ الْحَقٰ للرَّحْمٰنِ وَکَانَ یَوْمًا عَلَی الْکٰفِرِیْنَ عَسِیْرًا» ۱؎ (25-الفرقان:26) یعنی ’ ملک آج صرف رحمان کا ہے اور آج کا دن کفار پر بہت سخت ہے ‘ ۔ اور بھی اس طرح کی اور اس مضمون کی بہت سی آیتیں ہیں بعض کہتے ہیں صور جمع ہے صورۃ کی جیسے سورۃ شہر پناہ کو کہتے ہیں اور وہ جمع ہے سورۃ کی لیکن صحیح یہ ہے کہ مراد صور سے قرن ہے جسے اسرافیل پھونکین گے ۔ امام بن جریر رحمہ اللہ بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں ۔ حضور کا ارشاد ہے کہ { اسرافیل صور کو اپنے منہ میں لیے ہوئے اپنی پیشانی جھکائے ہوئے حکم الٰہی کے منتظر ہیں } ۔۱؎ (سنن ترمذی:3243،قال الشیخ الألبانی:صحیح) مسند احمد میں ہے کہ { ایک صحابی رضی اللہ عنہ کے سوال پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { صور ایک نر سنگھے جیسا ہے جو پھونکا جائے گا } } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4742،قال الشیخ الألبانی:صحیح) طبرانی کی مطولات میں ہے { حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ { اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کی پیدائش کے بعد صور کو پیدا کیا اور اسے اسرافیل کو دیا وہ اسے لیے ہوئے ہیں اور عرش کی طرف نگاہ جمائے ہوئے ہیں کہ کب حکم ہو اور میں اسے پھونک دوں } ۔ سیدنا ابوہریرہ فرماتے ہیں میں نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صور کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ایک نرسنگھا ہے } ۔ میں نے کہا وہ کیسا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { بہت ہی بڑا ہے وللہ اس کے دائرے کی چوڑائی آسمان وہ زمین کے برابر ہے اس میں سے تین نفحے پھونکے جائیں گے ، پہلا گھبراہٹ کا دوسرا بیہوشی کا تیسرا رب العلمیں کے سامنے کھڑے ہونے کا ۔ اول اول جناب باری اسرافیل کو صور پھونکنے کا حکم دے گا وہ پھونک دیں گے جس سے آسمان و زمین کی تمام مخلوق گھبرا اٹھے گی مگر جسے اللہ چاہے یہ صور بحکم رب دیر تک برابر پھونکا جائے گا } ۔ اسی طرف اشارہ اس آیت میں ہے «وَمَا یَنظُرُ ہٰؤُلَاءِ إِلَّا صَیْحَۃً وَاحِدَۃً مَّا لَہَا مِن فَوَاقٍ» ۱؎ (38-ص:15) یعنی ’ انہیں صرف بلند زور دار چیخ کا انتظار ہے پہاڑ اس صور سے مثل بادلوں کے چلنے پھرنے لگیں گے پھر ریت ریت ہو جائیں گے زمین میں بھونچال آ جائے گا اور وہ اس طرح تھر تھرانے لگے گی جیسے کوئی کشتی دریا کے بیچ زبردست طوفان میں موجوں سے ادھر ادھر ہو رہی ہو اور غوطے کھا رہی ہو ۔ مثل اس ہانڈی کے جو عرش میں لٹکی ہوئی ہے جسے ہوائیں ہلا جلا رہی ہیں ‘ ۔ اسی کا بیان اس آیت میں ہے «یَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاجِفَۃُ تَتْبَعُہَا الرَّادِفَۃُ قُلُوبٌ یَوْمَئِذٍ وَاجِفَۃٌ» ۱؎ (79-النازعات:6-8) ، ’ اس دن زمین جنبش میں آ جائے گی اور بہت ہی ہلنے لگے گی اس کے پیچھے ہی پیچھے لگنے والی آ جائے گی ۔ دل دھرکنے لگیں گے اور کلیجے الٹنے لگیں گے ‘ ۔ لوگ ادھر ادھر گرنے لگیں گے مائیں اپنے دودھ پیتے بچوں کو بھول جائیں گی ، حاملہ عورتوں کے حمل گر جائیں گے بجے بوڑھے ہو جائیں گے شیاطین مارے گھبراہٹ اور پریشانی کے بھاگتے بھاگتے زمین کے کناروں پر آ جائیں گے ، یہاں سے فرشتے انہیں مار مار کر ہٹائیں گے ، لوگ پریشان حال حواس باختہ ہوں گے کوئی جائے پناہ نظر نہ آئے گی امر الٰہی سے بچاؤ نہ ہو سکے گا ایک دوسرے کو آوازیں دیں گے لیکن سب اپنی اپنی مصیبت میں پڑے ہوئے ہوں گے کہ ناگہاں زمین پھٹنی شروع ہو گی کہیں ادھر سے پھٹی کہیں ادھر سے پھٹی اب تو ابتر حالت ہو جائے گی کلیجہ کپکپانے لگے گا دل الٹ جائے گا اور اتنا صدرمہ اور غم ہو گا جس کا اندازہ نہیں ہو سکتا ، جو آسمان کی طرف نظر اٹھائیں گے تو دیکھیں گے کہ گھل رہا ہے اور وہ بھی پھٹ رہا ہے ستارے جھڑ رہے ہیں سورج چاند بے نور ہوگیا ہے ، ہاں مردوں کو اس کا کچھ علم نہ ہوگا ۔ { سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے سوال کیا کہ ” یا رسول اللہ قرآن کی آیت میں جو فرمایا گیا ہے «وَیَوْمَ یُنفَخُ فِی الصٰورِ فَفَزِعَ مَن فِی السَّمَاوَاتِ وَمَن فِی الْأَرْضِ إِلَّا مَن شَاءَ اللہُ وَکُلٌّ أَتَوْہُ دَاخِرِینَ» ‏‏‏‏ ۱؎ (27-النمل:87) یعنی ’ زمین و آسمان کے سب لوگ گھبرا اٹھیں گے لیکن جنہیں اللہ چاہے ‘ ، اس سے مراد کون لوگ ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { یہ شہید لوگ ہیں کہ وہ اللہ کے ہاں زندہ ہیں روزیاں پاتے ہیں اور سب زندہ لوگ گھبراہٹ میں ہوں گے لیکن اللہ تعلای انہیں پریشانی سے محفوظ رکھے گا یہ تو عذاب ہے جو وہ اپنی بدترین مخلوق پر بھیجے گا } ، اسی کا بیان آیت «یَا أَیٰہَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّکُمْ إِنَّ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَیْءٌ عَظِیمٌ یَوْمَ تَرَوْنَہَا تَذْہَلُ کُلٰ مُرْضِعَۃٍ عَمَّا أَرْضَعَتْ وَتَضَعُ کُلٰ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَہَا وَتَرَی النَّاسَ سُکَارَیٰ وَمَا ہُم بِسُکَارَیٰ وَلٰکِنَّ عَذَابَ اللہِ شَدِیدٌ» (22-لحج:1-2) میں ہے یعنی ’ اے لوگو اپنے رب سے ڈرو یاد رکھو قیامت کا زلزلہ بہت بڑی چیز ہے جس دن تم اسے دیکھ لو گے ہر ایک دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچے سے غافل ہو جائے گی ہر حمل والی کا حمل گر جائے گا تو دیکھا جائے گا کہ سب لوگ بیہوش ہوں گے حالانکہ وہ نشہ پئے ہوئے نہیں بلکہ اللہ کے سخت عذابوں نے انہیں بدحواس کر رکھا ہے ‘ - یہی حالت رہے گی جب تک اللہ چاہے بہت دیر تک یہی گھبراہٹ کا عالم رہے گا پھر اللہ تبارک و تعالیٰ جبرائیل کو بیہوشی کے نفحے کا حکم دے گا اس نفحہ کے پھونکتے ہی زمین و آسمان کی تمام مخلوق بیہوش ہو جائیں گی مگر جسے اللہ چاہے اور اچانک سب کے سب مر جائیں گے ۔ ملک الموت اللہ تعالیٰ کے حضور میں حاضر ہو کر عرض کریں گے کہ ” اے باری تعالیٰ زمین آسمان کی تمام مخلوق مرگئی مگر جسے تو نے چاہا “ ، اللہ تعالیٰ باوجود علم کے سوال کرے گا کہ ’ یہ بتاؤ اب باقی کون کون ہے ؟ ‘ وہ جواب دیں گے ” تو باقی ہے تو «أَنْتَ الْحَیٰ الَّذِی لَا تَمُوتُ» تجھ پر کبھی فنا نہیں اور عرش کے اٹھانے والے فرشتے اور جبرائیل و میکائیل اس وقت عرش کو زبان ملے گی اور وہ کہے گا اے پروردگار کیا جبرئل وہ میکائل علیہم السلام بھی مریں گے ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’ میں نے اپنے عرش سے نیچے والوں پر سب پر موت لکھ دی ہے ‘ ۔ چنانچہ یہ دونوں بھی فوت ہو جائیں گے پھر ملک الموت رب جبار و قہار کے پاس آئیں گے اور خبر دیں گے کہ جبرائیل و میکائیل علیہم السلام بھی انتقال کرگئے ۔ { جناب اللہ علم کے باوجودہ پھر دریافت فرمائے گا کہ ’ اب باقی کون ہے ؟ ‘ ملک الموت جواب دیں گے کہ باقی ایک تو تو ہے ایسی بقا ولا جس پر فنا ہے ہی نہیں اور تیرے عرش کے اٹھانے والے اللہ فرمائے گا ’ عرش کے اٹھانے والے بھی مر جائیں گے ‘ ، اس وقت وہ بھی مر جائیں گے ، پھر اللہ کے حکم سے اسرافیل علیہ السلام سے صور کو عرش لے لے گا ، ملک الموت حاضر ہو کر عرض کریں گے کہ ” یا اللہ عرش کے اٹھانے والے فرشتے بھی مر گئے “ -اللہ تعالیٰ دریافت فرمائے گا حالانکہ وہ خوب جانتا ہے کہ ’ اب باقی کون رہا ؟ ‘ ملک الموت جواب دیں گے کہ ایک تو جس پر موت ہے ہی نہیں اور ایک تیرا غلام میں ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرمائے گا ’ تو بھی میری مخلوق میں سے ایک مخلوق ہے تجھے میں نے ایک کام کیلئے پیدا کیا تھا جسے تو کر چکا اب تو بھی مرجا ‘ ، چنانچہ وہ بھی مر جائیں گے ۔ اب اللہ تعالیٰ اکیلا باقی رہ جائے گا جو غلبہ والا یگانگت والا بے ماں باپ اور بے اولاد کے ہے ۔ جس طرح مخلوق کے پیدا کرنے سے پہلے وہ یکتا اور اکیلا تھا ۔ پھر آسمانوں اور زمینوں کو وہ اس طرح لپیٹ لے گا جیسے دفتری کاغذ کو لپیٹتا ہے پھر انہیں تین مرتبہ الٹ پلٹ کرے گا اور فرمائے گا ’ میں جبار ہوں میں کبریائی والا ہوں ‘ ۔ پھر تین مرتبہ فرمائے گا ’ آج ملک کا مالک کون ہے ؟ کوئی نہ ہو گا جو جواب دے تو خود ہی جواب دے گا ’ «لِلہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِ» ۱؎ (40-الغافر:16) اللہ واحد وقہار ‘ ۔ قرآن میں ہے «یَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَیْرَ الْأَرْضِ وَالسَّمَاوَاتُ» ۱؎ (14-إبراہیم:48) ’ اس دن آسمان و زمین بدل دیئے جائیں گے ۔ اللہ تعالیٰ انہیں پھیلا دے گا اور کھینچ دے گا جس طرح چمڑا کھینچا جاتا ہے ‘ «لَّا تَرَیٰ فِیہَا عِوَجًا وَلَا أَمْتًا» ۱؎ (20-طہ:107) ’ کہیں کوئی اونچ نیچ باقی نہ رہے گی ‘ ۔ پھر ایک الٰہی آواز کے ساتھ ہی ساری مخلوق اس تبدیل شدہ زمین میں آ جائے گی اندر والے اندر اور اوپر ولے اوپر پھر اللہ تعالیٰ اپنے عرش تلے سے اس پر بارش برسائے گا پھر آسمان کو حکم ہوگا اور وہ چالیس دن تک مینہ برسائے گا یہاں تک کہ پانی ان کے اوپر بارہ ہاتھ چڑھ جائے گا ۔ پھر جسموں کو حکم ہو گا کہ وہ اگیں اور وہ اس طرح اگنے لگیں گے جیسے سبزیاں اور ترکاریاں اور وہ پورے پورے کامل جسم جیسے تھے ویسے ہی ہو جائیں گے پھر حکم فرمائے گا کہ ’ میرے عرش کے اٹھانے والے فرشتے جی اٹھیں ‘ چنانچہ وہ زندہ ہو جائیں گے پھر اسرافیل کو حکم ہو گا کہ ’ صور لے کر منہ سے لگا لیں ‘ ۔ { پھر فرمان ہو گا کہ ’ جبرائیل و میکائیل علیہم السلام زندہ ہو جائیں ‘ یہ دونوں بھی اٹھیں گے ، پھر اللہ تعالیٰ روحوں کو بلائے گا مومنوں کو نورانی ارواح اور کفار کی ظلماتی روحیں آئیں گی انہیں لے کر اللہ تعالیٰ صور میں ڈال دے گا - پھر اسرافیل علیہ السلام کو حکم ہو گا کہ ’ اب صور پھونک دو ‘ چنانچہ بعث کا صور پھونکا جائے گا جس سے ارواح اس طرح نکلیں گی جیسے شہد کی مکھیاں -تمام خلأ ان سے بھر جائے گا پھر رب عالم کا ارشاد ہو گا کہ ’ مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم ہے ہر روح اپنے اپنے جسم میں چلی جائے ‘ ، چنانجہ سب روحیں اپنے اپنے جسموں میں نتھنوں کے راستے چلی جائیں گی اور جس طرح زہر رگ وپے میں اثر کر جاتا ہے روہ روئیں روئیں میں دوڑ جائے گی ، پھر زمین پھٹ جائے گی اور لوگ اپنی قبروں سے نکل کھڑے ہوں گے ۔ سب سے پہلے میرے اوپر سے زمین شق ہو گی ، «مٰہْطِعِینَ إِلَی الدَّاعِ یَقُولُ الْکَافِرُونَ ہٰذَا یَوْمٌ عَسِرٌ» ۱؎ (54-القمر:8) ’ لوگ نکل کر دوڑتے ہوئے اپنے رب کی طرف چل دیں گے ، اس وقت کافر کہیں گے کہ آج کا دن بڑا بھاری ہے ‘ ۔ سب ننگے پیروں ننگے بدن بے ختنہ ہوں گے ایک میدان میں بقدر ستر سال کے کھڑے رہیں گے ، نہ ان کی طرف نگاہ اٹھائی جائے گی نہ ان کے درمیان فیصلے کئے جائیں گے ، لوگ بے طرح گریہ وزاری میں مبتلا ہوں گے یہاں تک کہ آنسو ختم ہو جائیں گے اور خون آنکھوں سے نکلنے لگے گا ، پسینہ اس قدر آئے گا کہ منہ تک یا ٹھوریوں تک اس میں ڈوبے ہوئے ہوں گے ، آپس میں کہیں گے آؤ کسی سے کہیں کہ وہ ہماری شفاعت کرے ، ہمارے پروردگار سے عرض کرے کہ وہ آئے اور ہمارے فیصلے کرے ، تو کہیں گے کہ اس کے لائق ہمارے باپ آدم علیہ السلام سے بہتر کون ہو گا ؟ جنہیں اللہ نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا ، اپنی روح ان میں پھونکی اور آمنے سامنے ان سے باتین کیں ۔ چنانچہ سب مل کر آپ علیہ السلام کے پاس آجائیں گے اور سفاش طلب کریں گے لیکن آدم علیہ السلام صاف انکار کر جائیں گے اور فرمائیں گے مجھ میں اتنی قابلیت نہیں پھر وہ اسی طرح ایک ایک نبی علیہ السلام کے پاس جائیں گے اور سب انکار کر دیں گے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { پھر سب کے سب میرے پاس آئیں گے ، میں عرش کے آگے جاؤں گا اور سجدے میں گر پڑوں گا ، اللہ تعالیٰ میرے پاس فرشتہ بھیجے گا وہ میرا بازو تھام کر مجھے سجدے سے اٹھائے گا ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں جواب دوں گا کہ { ہاں اے میرے رب ، اللہ عزوجل } باوجود عالم کل ہونے کے مجھے سے دریافت فرمائے گا کہ ’ کیا بات ہے ؟ ‘ میں کہوں گا { یا اللہ تو نے مجھ سے شفاعت کی قبولیت کا وعدہ فرمایا ہے اپنی مخلوق کے بارے میں میری شفاعت کو قبول فرما اور ان کے فیصلوں کے لیے تشریف لے آ } ۔ { رب العالمین فرمائے گا ’ میں نے تیری سفارش قبول کی اور میں آ کر تم میں فیصلے کئے دیتا ہوں ‘ ۔ میں لوٹ کر لوگوں کے ساتھ ٹھہر جاؤں گا کہ ناگہاں آسمانوں سے ایک بہت بڑا دھماکہ سنائی دے گا جس سے لوگ خوفزدہ ہو جائیں گے اتنے میں آسمان کے فرشتے اترنے شروع ہوں گے جن کی تعداد کل انسانوں اور سارے جنوں کے برابر ہوگی ۔ جب وہ زمین کے قریب پہنچیں گے تو ان کے نور سے زمین جگمگا اٹھے گی وہ صفیں باندھ کر کھڑے ہو جائیں گے ہم سب ان سے دریافت کریں گے کہ کیا تم میں ہمارا رب آیا ہے ؟ وہ جواب دیں گے نہیں پھر اس تعداد سے بھی زیادہ تعداد میں اور فرشتے آئیں گے ۔ آخر ہمارا رب عزوجل ابر کے سائے میں نزول فرمائے گا اور فرشتے بھی اس کے ساتھ ہوں گے اس کا عرش اس دن آٹھ فرشتے اٹھائے ہوئے ہوں گے اس وقت عرش کے اٹھانے والے جار فرشتے ہیں ان کے قدم آخری نیچے والی زمین کی تہ میں ہیں زمین و آسمان ان کے نصف جسم کے مقابلے میں ہے ان کے کندھوں پر عرش الٰہی ہے ۔ ان کی زبانین ہر وقت اللہ تبارک و تعالیٰ کی پاکیزگی کے بیان میں تر ہیں ۔ ان کی تسبیح یہ ہے «سُبْحَانَ ذِی الْعَرْشِ وَالْجَبَرُوتِ ، سُبْحَانَ ذِی الْمُلْکِ وَالْمَلَکُوتِ ، سُبْحَانَ الْحَیِّ الَّذِی لَا یَمُوتُ ، سُبْحَانَ الَّذِی یُمِیتُ الْخَلَائِقَ وَلَا یَمُوتُ ، سُبٰوحٌ قُدٰوسٌ قُدٰوسٌ قُدٰوسٌ ، سُبْحَانَ رَبِّنَا الْأَعْلَی ، رَبِّ الْمَلَائِکَۃِ وَالرٰوحِ ، سُبْحَانَ رَبِّنَا الْأَعْلَی ، الَّذِی یُمِیتُ الْخَلَائِقَ وَلَا یَمُوتُ» ۔ پھر اللہ جس جگہ چاہے گا اپنی کرسی زمین پر رکھے گا اور بلند آواز سے فرمائے گا ’ اے جنو اور انسانو ! میں نے تمہیں جس دن سے پیدا کیا تھا اس دن سے آج تک میں خاموش رہا تمہاری باتیں سنتا رہا تمہارے اعمال دیکھتا رہا سنو تمہارے اعمال نامے میرے سامنے پڑھے جائیں گے جو اس میں بھلائی پائے وہ اللہ کی حمد کرے اور جو اس میں اور کچھ پائے وہ اپنی جان کو ملامت کرے ‘ ۔ { پھر بحکم الہ جہنم میں سے ایک دھکتی ہوئی گردن نکلے گی اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’ «أَلَمْ أَعْہَدْ إِلَیْکُمْ یَا بَنِی آدَمَ أَن لَّا تَعْبُدُوا الشَّیْطَانَ إِنَّہُ لَکُمْ عَدُوٌّ مٰبِینٌ وَأَنِ اعْبُدُونِی ہٰذَا صِرَاطٌ مٰسْتَقِیمٌ وَلَقَدْ أَضَلَّ مِنکُمْ جِبِلًّا کَثِیرًا أَفَلَمْ تَکُونُوا تَعْقِلُونَ ہٰذِہِ جَہَنَّمُ الَّتِی کُنتُمْ تُوعَدُونَ اصْلَوْہَا الْیَوْمَ بِمَا کُنتُمْ تَکْفُرُونَ» ‘ ۱؎ (36-یس:60-64) ’ اے آدم کی اولاد کیا میں نے تم سے عہد نہیں لیا تھا کہ شیطان کی پوجانہ کرنا وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ؟ اور صرف میری ہی عبادت کرتے رہنا یہی سیدھی راہ ہے ، شیطان نے تو بہت سی مخلوق کو گمراہ کر دیا ہے کیا تمہیں عقل نہیں ؟ یہ ہے وہ جہنم جس کا تم وعدہ دیئے جاتے تھے اور جسے تم جھٹلاتے رہے اے گنہگارو ! آج تم نیک بندوں سے الگ ہو جاؤ ‘ - اس فرمان کے ساتھ ہی بد لوگ نیکوں سے الگ ہو جائیں گے تمام امتیں گھٹنوں کے بل گر پڑیں گی جیسے قرآن کریم میں ہے کہ «وَتَرَی کُلَّ أُمَّۃٍ جَاثِیَۃً کُلٰ أُمَّۃٍ تُدْعَی إِلَی کِتَابِہَا الْیَوْمَ تُجْزَوْنَ مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُونَ» ۱؎ (45-الجاثیۃ:28) ’ تو ہر امت کو گھٹنوں کے بل گرے ہوئے دیکھے گا ہر امت اپنے نامہ اعمال کی طرف بلائی جائے گی ‘ - پھر اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں فیصلے کرے گا پہلے جانوروں میں فیصلے ہوں گے یہاں تک کہ بے سینگ والی بکری کا بدلہ سینگ والی بکری سے لیا جائے گا ، جب کسی کا کسی کے ذمہ کوئی دعویٰ باقی نہ رہے گا تو اللہ تعالیٰ انہیں فرمائے گا ’ تم سب مٹی ہو جاؤ ‘ ، اس فرمان کے ساتھ ہی تمام جانور مٹی بن جائیں گے ، «وَیَقُولُ الْکَافِرُ یَا لَیْتَنِی کُنتُ تُرَابًا» ۱؎ (78-النبأ:40) ’ اس وقت کافر بھی یہی آرزو کریں گے کہ کاش ہم بھی مٹی ہو جاتے ‘ } ۔ { پھر اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کے فیصلے شروع کرے گا سب سے پہلے قتل و خون کا فیصلہ ہوگا ، اللہ تعالیٰ اپنی راہ کے شہیدوں کو بھی بلائے گا ان کے ہاتھوں سے قتل شدہ لوگ اپنا سر اٹھائے ہوئے حاضر ہوں گے رگوں سے خون بہہ رہا ہوگا کہیں گے کہ باری تعالیٰ دریافت فرما کہ اس نے مجھے کیوں قتل کیا ؟ پس باوجود علم کے اللہ عزوجل مجاہدین سے پوچھے گا کہ ’ تم نے انہیں کیوں قتل کیا ؟ ‘ وہ جواب دیں گے اس لیے کہ تیری بات بلند ہو اور تیری عزت ہو اللہ عالی فرمائے گا ’ تم سچے ہو ‘ ، اسی وقت ان کا چہرہ نورانی ہو جائے گا سورج کی طرح چمکنے لگے گا اور فرشتے انہیں اپنے جھرمٹ میں لے کر جنت کی طرف چلیں گے - پھر باقی کے اور تمام قاتل و مقتول اسی طرح پیش ہوں گے اور جو نفس ظلم سے قتل کیا گیا ہے اس کا بدلہ ظالم قاتل سے دلوایا جائے گا اسی طرح ہر مظلوم کو ظالم سے بدلہ دلوایا جائے گا یہاں تک کہ جو شخص دودھ میں پانی ملا کر بیچتا تھا اسے فرمایا جائے گا کہ’ اپنے دودھ سے پانی جدا کر دے ‘ ، ان فیصلوں کے بعد ایک منادی باآواز بلند ندا کرے گا جسے سب سنیں گے ، ہر عابد اپنے معبود کے پیچھے ہولے اور اللہ کے سوا جس نے کسی اور کی عبادت کی ہے وہ جہنم میں چل دے - «لَوْ کَانَ ہٰؤُلَاءِ آلِہَۃً مَّا وَرَدُوہَا وَکُلٌّ فِیہَا خَالِدُونَ» (21-الأنبیاء:99) ’ سنو اگر یہ سچے معبود ہوتے تو جہنم میں وارد نہ ہوتے یہ سب تو جہنم میں ہی ہمیشہ رہیں گے ‘ ۔ اب صرف با ایمان لوگ باقی رہیں گے ان میں منافقین بھی شامل ہوں گے اللہ تعالیٰ ان کے پاس جس ہیئت میں چاہے تشریف لائے گا اور ان سے فرمائے گا کہ ’ سب اپنے معبودوں کے پیچھے چلے گئے تم بھی جس کی عبادت کرتے تھے اس کے پاس چلے جاؤ ‘ ۔ یہ جواب دیں گے کہ واللہ ہمارا تو کوئی معبود نہیں بجز الہ العالمین کے ، ہم نے کسی اور کی عبادت نہیں کی ۔ اب ان کے لیے پنڈلی کھول دی جائے گی اور اللہ تعالیٰ اپنی عظمت کی تجلیاں ان پر ڈالے گا جس سے یہ اللہ تعالیٰ کو پہچان لیں گے اور سجدے میں گر پڑیں گے لیکن منافق سجدہ نہیں کر سکیں گے یہ اوندھے اور الٹے ہو جائیں گے اور اپنی کمر کے بل گر پڑیں گے ۔ ان کی پیٹھ سیدھی کر دی جائے گی مڑ نہیں سکیں گے ۔ پھر اللہ تعالیٰ مومنوں کو سجدے سے اٹھنے کا حکم دے گا اور جہنم پر پل صراط رکھی جائے گی جو تلوار جیسی تیز دھار والی ہوگی اور جگہ جگہ آنکڑے اور کانٹے ہوں گے بڑی پھسلنی اور خطرناک ہوگی ایماندار تو اس پر سے اتنی سی دیر میں گزر جائیں گے جتنی دیر میں کوئی آنکھ بند کر کے کھول دے جس طرح بجلی گزرجاتی ہے اور جیسے ہوا تیزی سے چلتی ہے ۔ یا جیسے تیز رو گھوڑے یا اونٹ ہوتے ہیں یا خوب بھاگنے والے آدمی ہوتے ہیں بعض صحیح سالم گزر جائیں گے ، بعض زخمی ہو کر پار اتر جائیں گے ، بعض کٹ کر جہنم میں گر جائیں گے ۔ جتنی لوگ جب جنت کے پاس پہنچیں گے تو کہیں گے کون ہمارے رب سے ہماری سفارش کرے کہ ہم جنت میں چلے جائیں ؟ دوسرے لوگ جواب دیں گے اس کے حقدار تمہارے باپ آدم علیہ السلام سے زیادہ اور کون ہوں گے ؟ جنہیں رب ذوالکریم نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور اپنی روح ان میں پھونکی اور آمنے سامنے باتیں کیں ۔ { پس سب لوگ آپ علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور آپ علیہ السلام سے سفارش کرانی چاہیں گے لیکن اپنا گناہ یاد کرکے جواب دیں گے کہ ” میں اس لائق نہیں ہوں تم نوح علیہ السلام کے پاس جاؤ وہ اللہ کے پہلے رسول ہیں “ ، لوگ نوح علیہ السلام کے پاس آکر ان سے یہ درخواست کریں گے لیکن وہ بھی اپنے گناہ کو یاد کر کے یہی فرمائیں گے اور کہیں گے کہ ” تم سب سیدنا ابراھیم علیہ السلام کے پاس جاؤ وہ خلیل اللہ ہیں “ ۔ لوگ آپ علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور یہی کہیں گے آپ علیہ السلام بھی اپنے گناہ کو یاد کر کے یہی جواب دیں گے اور موسیٰ علیہ السلام کے پاس جانے کی ہدایت کریں گے کہ اللہ نے انہیں سرگوشیاں کرتے ہوئے نزدیک کیا تھا وہ کلیم اللہ ہیں ان پر توراۃ نازل فرمائی گئی تھی ۔ لوگ آپ علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور آپ علیہ السلام سے طلب سفارش کریں گے آپ علیہ السلام بھی اپنے گناہ کا ذکر کریں گے اور روح اللہ اور کلمتہ اللہ عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کے پاس بھیجیں گے لیکن عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے ” میں اس قابل نہیں تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ “ ۔ { حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { پس سب لوگ میرے پاس آئیں گے ، میں اللہ کے سامنے تین شفاعتیں کروں گا میں جاؤں گا جنت کے پاس پہنچ کر دروازے کا کنڈا پکڑ کر کھٹکھٹاؤں گا مجھے مرحبا کہا جائے گا اور خوش آمدید کہا جائے گا میں جنت میں جا کر اپنے رب کو دیکھ کر سجدے میں گرپڑوں گا اور وہ وہ حمد و ثنا جناب باری کی بیان کروں گا جو کسی نے نہ کی ہو ، پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنا سر اٹھاؤ شفاعت کرو قبول کی جائے گی مانگو ملے گا ‘ ۔ میں سر اٹھاؤں گا اللہ تعالیٰ تو دلوں کے بھید بھی جانتا ہے تاہم وہ دریافت فرمائے گا کہ ’ کیا کہنا چاہتے ہو ؟ ‘ میں کہوں گا { اے اللہ تو نے میری شفاعت کے قبول فرمانے کا وعدہ کیا ہے } ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ میری شفاعت ان جنتیوں کے بارے میں قبول فرمائے گا اور انہیں جنت کے داخلے کی اجازت ہو جائے گی ۔ واللہ جیسے تم اپنے گھر سے اپنے بال بچوں سے آگاہ ہو اس سے بہت زیادہ یہ جنتی اپنی جگہ اور اپنی بیویوں سے واقف ہوں گے ہر ایک اپنے اپنے ٹھکانے پہنچ جائے گا ستر ستر حوریں اور دو دو عورتیں ملیں گی ، یہ دونوں عورتیں اپنی کی ہوئی نیکیوں کے سبب پر فضیلت چہروں کی مالک ہوں گی جتنی ان میں سے ایک کے پاس جائے گا جو یاقوت کے بالاخانے میں سونے کے جڑاؤ تخت پر ستر ریشمی حلے پہنے ہوئے ہوگی اس کا جسم اس قدر نورانی ہوگا کہ ایک طرف اگر جنتی اپنا ہاتھ رکھے تو دوسری طرف سے نظر آئے گا اس کی صفائی کی وجہ سے اس کی پنڈلی کا گودا گوشت پوست میں نظر آ رہا ہو گا اس کا دل اس کا آئینہ ہوگا نہ یہ اس سے بس کرے نہ وہ اس سے اکتائے ، جب کبھی اس کے پاس جائے گا باکرہ پائے گا ، نہ یہ تھکے نہ اسے تکلیف ہو ، نہ کوئی مکرو چیز ہو ، یہ اپنی اسی مشغولی میں مزے میں اور لطف و راحت میں اللہ جانے کتنی مدت گزار دے گا جو ایک آواز آئے گی کہ مانا نہ تمہارا دل اس سے بھرتا ہے نہ ان کا دل تم سے بھرے گا ۔ لیکن اللہ نے تمہارے لیے اور بیویاں بھی رکھی ہوئی ہیں ۔ اب یہ اوروں کے پاس جائے گا جس کے پاس جائے گا بے ساختہ زبان سے یہی نکلے گا اللہ کی قسم کی سازی جنت میں تم سے بہتر کوئی چیز نہیں مجھے تو جنت کی تمام چیزوں سے زیادہ تم سے محبت ہے ، ہاں جنہیں ان کی بد عملیوں اور گناہوں نے تباہ کر رکھا ہے وہ جہنم میں جائیں گے اپنے اپنے اعمال کے مطابق آگ میں جلیں گے ، بعض قدموں تک بعض آدھی پنڈلی تک بعض گھٹنے تک بعض آدھے بدن تک بعض گردن تک ، صرف چہرہ باقی رہ جائے گا کیونکہ صورت کا بگاڑنا اللہ نے آگ پر حرام کر دیا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے اپنی امت کے گنہگار دوزخیوں کی شفاعت کریں گے اللہ تعالیٰ فرمائے گا جاؤ جنہیں پہچانو انہیں نکال لاؤ ، پھر یہ لوگ جہنم سے آزاد ہوں گے یہاں تک کہ ان میں سے کوئی باقی نہ رہے گا ۔ پھر تو شفاعت کی عام اجازت مل جائے گی کل انبیاء علیہم السلام اور شہداء شفاعت کریں گے ، جناب باری کا ارشاد ہو گا کہ ’ جس کے دل میں ایک دینار برابر بھی ایمان پاؤ اسے نکال لاؤ ‘ ۔ پس یہ لوگ بھی آزاد ہوں گے اور ان میں سے بھی کوئی باقی نہ رہے گا ، پھر فرمائے گا ’ انہیں بھی نکال لاؤ جس کے دل میں دو ثلث دینار کے برابر ایمان ہو ‘ ۔ پھر فرمائے گا ’ ایک ثلث والوں کو بھی ، پھر ارشاد ہو گا چوتھائی دینار کے برابر والوں کو بھی ‘ ۔ { پھر فرمائے گا ’ ایک قیراط کے برابر والوں کو بھی ‘ ، پھر ارشاد ہوگا ’ انہیں بھی جہنم سے نکال لاؤ جن کے دل میں رائی کے دانے کے برابر ایمان ہو ‘ - پس یہ سب بھی نکل آئیں گے اور ان میں سے ایک شخص بھی باقی نہ بچے گا ، بلکہ جہنم میں ایک شخص بھی ایسا نہ رہ جائے گا جس نے خلوص کے ساتھ کوئی نیکی بھی اللہ کی فرمانبرداری کے ماتحت کی ہو ، جتنے شفیع ہوں گے سب سفارش کرلیں گے یہاں تک کہ ابلیس کو بھی امید بندھ جائے گی اور وہ بھی گردن اٹھا اٹھا کر دیکھے گا کہ شاید کوئی میری بھی شفاعت کرے کیونکہ وہ اللہ کی رحمت کا جوش دیکھ رہا ہوگا - اس کے بعد اللہ تعالیٰ ارحم الراحمین فرمائے گا کہ ’ اب تو صرف میں ہی باقی رہ گیا اور میں تو سب سے زیادہ رحم و کرم کرنے والا ہوں ‘ ، پس اپنا ہاتھ ڈال کر خود اللہ تبارک و تعالیٰ جہنم میں سے لوگوں کو نکالے گا جن کی تعداد سوائے اس کے اور کوئی نہیں جانتا وہ جلتے جھلستے ہوئے کوئلے کی طرح ہو گئے ہوں گے ، انہیں نہر حیوان میں ڈالا جائے گا جہاں وہ اس طرح اگیں گے جس طرح دانہ اگتا ہے جو کسی دریا کے کنارے بویا گیا ہو کہ اس کا دھوپ کا رخ تو سبز رہتا ہے اور سائے کا رخ زرد رہتا ہے ان کی گردنوں پر تحریر ہو گا کہ یہ رحمان کے آزاد کردہ ہیں ، اس تحریر سے انہیں دوسرے جنتی پہچان لیں گے ۔ ایک مدت تک تو یونہی رہیں گے پھر اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے کہ ” اے اللہ یہ حروف بھی مٹ جائیں “ اللہ عزوجل یہ بھی مٹا دے گا } ۱؎ (طبرانی فی الطوالات اجزء المبطوع فی آخر المعجم الکبیر:36:ضعیف) یہ حدیث اور آگے بھی ہے اور بہت ہی غریب ہے اور اس کے بعض حصوں کے شواہد متفرق احادیث میں ملتے ہیں ، اس کے بعض الفاظ منکر ہیں ۔ اسماعیل بن رافع قاضی اہل مدینہ اس کی روایت کے ساتھ منفرد ہیں ان کو بعض محدثین نے تو ثقہ کہا ہے اور بعض نے ضعیف کہا ہے اور ان کی حدیث کی نسبت کئی ایک محدثین نے منکر ہونے کی صراحت کی ہے ۔ جیسے امام احمد امام ابوحاتم امام عمرو بن علی ، بعض نے ان کے بارے میں فرمایا ہے کہ یہ متروک ہیں ، امام ابن عدی فرماتے ہیں ان کی سب احادیث میں نظر ہے مگر ان کی حدیثیں ضعیف احادیث میں لکھنے کے قابل ہیں ، میں نے اس حدیث کی سندوں میں نے جو اختلاف کئی وجوہ سے ہے اسے علیحدہ ایک جزو میں بیان کر دیا ہے اس میں شک نہیں کہ اس کا بیان بہت ہی غریب ہے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ بہت سی احادیث کو ملا کر ایک حدیث بنا لی ہے اسی وجہ سے اسے منکر کہا گیا ہے ، میں نے اپنے استاد حافظ ابو الحجاج مزی سے سنا ہے کہ انہوں نے امام ولید بن مسلم کی ایک کتاب دیکھی ہے جس میں ان باتوں کے جو اس حدیث میں ہی ہیں شواہد بیان کئے ہیں «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ الانعام
72 الانعام
73 الانعام
74 ابراہیم علیہ السلام اور آزر میں مکالمہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ ” ابراہیم علیہم السلام کے والد کا نام آزر نہ تھا بلکہ تارخ تھا ۔ آزر سے مراد بت ہے ۔ آپ علیہ السلام کی والدہ کا نام مثلے تھا آپ علیہ السلام کی بیوی صاحبہ کا نام سارہ تھا ۔ اسماعیل علیہ السلام کی والدہ کا نام ہاجرہ رضی اللہ عنہا تھا یہ ابراہیم علیہ السلام کی سریہ تھیں “ ۔ علماء نسب میں سے اوروں کا بھی قول ہے کہ آپ علیہ السلام کے والد کا نام تارخ تھا ۔ مجاہد اور سدی رحمہ اللہ علیہم فرماتے ہیں آزر اس بت کا نام تھا جس کے پجاری اور خادم ابراہیم علیہ السلام کے والد تھے ہو سکتا ہے کہ اس بت کے نام کی وجہ سے انہیں بھی اسی نام سے یاد کیا جاتا ہو اور یہی نام مشہور ہو گیا ہو ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ آزر کا لفظ ان میں بطور عیب گیری کے استعمال کیا جاتا تھا اس کے معنی ٹیڑھے آدمی کے ہیں ۔ لیکن اس کلام کی سند نہیں نہ امام صاحب نے اسے کسی سے نقل کیا ہے ۔ سلیمان رحمہ اللہ کا قول ہے کہ اس کے معنی ٹیڑھے پن کے ہیں اور یہی سب سے سخت لفظ ہے جو خلیل اللہ علیہ السلام کی زبان سے نکلا ۔ ابن جریر رحمہ اللہ کا فرمان ہے کہ ٹھیک بات یہی ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام آزر تھا اور یہ جو عام تاریخ داں کہتے ہیں کہ ان کا نام تارخ تھا اس کا جواب یہ ہے کہ ممکن ہے دونوں نام ہوں یا ایک تو نام ہو اور دوسرا لقب ہو ۔ بات تو یہ ٹھیک اور نہایت قوی ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ «آزَر» اور «آزُر» دونوں قرأتیں ہیں پچھلی قرأت یعنی راء کے زبر کے ساتھ تو جمہور کی ہے ۔ پیش والی قرأت میں ندا کی وجہ سے پیش ہے اور زبر والی قرأت «لِأَبِیہِ» سے بدل ہونے کی ہے اور ممکن ہے کہ عطف بیان ہو اور یہی زیادہ مشابہ ہے ۔ یہ لفظ علمیت اور عجمیت کی بنا پر غیر منصرف ہے بعض لوگ اسے صفت بتلاتے ہیں اس بنا پر بھی یہ غیر منصرف رہے گا جیسے احمر اور اسود ۔ بعض اسے «أَتَتَّخِذُ» کا معمول مان کر منصوب کہتے ہیں -گویا ابراہیم علیہ السلام یوں فرماتے کہ ” اے باپ ، کیا آپ آزر بت کو معبود مانتے ہیں ؟ “ لیکن یہ دور کی بات ہے -خلاف لغت ہے کیونکہ حرف اتفہام کے بعد الا پنے سے پہلے میں عامل نہیں ہوتا ۔ اس لیے کہ اس کے لیے ابتداء کلام کا حق ہے ۔ عربی کا یہ تو مشہور قاعدہ ہے ۔ الغرض ابراھیم خلیل اللہ علیہ السلام اپنے باپ کو وعظ سنا رہے ہیں اور انہیں بت پرستی سے روک رہے ہیں لیکن وہ باز نہ آئے ۔ آیت میں ہے کہ «وَاذْکُرْ فِی الْکِتَابِ إِبْرَاہِیمَ إِنَّہُ کَانَ صِدِّیقًا نَّبِیًّا إِذْ قَالَ لِأَبِیہِ یَا أَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا یَسْمَعُ وَلَا یُبْصِرُ وَلَا یُغْنِی عَنکَ شَیْئًا یَا أَبَتِ إِنِّی قَدْ جَاءَنِی مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ یَأْتِکَ فَاتَّبِعْنِی أَہْدِکَ صِرَاطًا سَوِیًّا یَا أَبَتِ لَا تَعْبُدِ الشَّیْطَانَ إِنَّ الشَّیْطَانَ کَانَ لِلرَّحْمٰنِ عَصِیًّا یَا أَبَتِ إِنِّی أَخَافُ أَن یَمَسَّکَ عَذَابٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ فَتَکُونَ لِلشَّیْطَانِ وَلِیًّا قَالَ أَرَاغِبٌ أَنتَ عَنْ آلِہَتِی یَا إِبْرَاہِیمُ لَئِن لَّمْ تَنتَہِ لَأَرْجُمَنَّکَ وَاہْجُرْنِی مَلِیًّا قَالَ سَلَامٌ عَلَیْکَ سَأَسْتَغْفِرُ لَکَ رَبِّی إِنَّہُ کَانَ بِی حَفِیًّا وَأَعْتَزِلُکُمْ وَمَا تَدْعُونَ مِن دُونِ اللہِ وَأَدْعُو رَبِّی عَسَیٰ أَلَّا أَکُونَ بِدُعَاءِ رَبِّی شَقِیًّا» ۱؎ (19-مریم:41-48) آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ یہ تو نہایت بری بات ہے کہ تم ایک بت کے سامنے الحاج اور عاجزی کرو جو اللہ کا حق ہے ۔ یقیناً اس مسلک کے لوگ سب کے سب بہکے ہوئے اور راہ بھٹکے ہوئے ہیں ۔ اور آیت میں کہ صدیق نبی ابراھیم خلیل اللہ علیہ السلام نے اپنے والد سے فرمایا ، ابا آپ ان کی پرستش کیوں کرتے ہیں جو نہ سنیں نہ دیکھیں نہ کچھ فائدہ پہنچائیں ۔ ابا میں آپ کو وہ کھری بات سناتا ہوں جو اب تک آپ کے علم میں نہیں آئی تھی ۔ اپ میری بات مان لیجئے ۔ میں آپ کو صحیح راہ کی رہنمائی کروں گا ۔ ابا شیطان کی عبادت سے ہٹ جائیے ۔ وہ تو رحمن کا نافرمان ہے ۔ ابا مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو آپ پر اللہ کا کوئی عذاب آ جائے اور آپ شیطان کے رفیق کار بن جائیں ۔ باپ نے جواب دیا کہ ابراھیم [ علیہ السلام ] کیا تو میرے معبودوں سے ناراض ہے ؟ سن اگر تو اس سے باز نہ آیا تو میں تجھے سنگسار کر دوں گا ۔ پس اب تو مجھ سے الگ ہو جا ۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا ، اچھا میرا سلام لو ۔ میں اب بھی اپنے پروردگار سے تمہاری معافی کی درخواست کروں گا ۔ وہ مجھ پر بہت مہربان ہے ۔ میں تم سب کو اور تمہارے ان معبودوں کو جو اللہ کے سوا ہیں ، چھوڑتا ہوں ۔ اپنے رب کی عبادت میں مشغول ہوتا ہوں ۔ ناممکن ہے کہ میں اس کی عبادت بھی کروں اور پھر بے نصیب اور خالی ہاتھ رہوں ۔ چنانچہ حسبِ وعدہ خلیل اللہ علیہ السلام اپنے والد کی زندگی تک استغفار کرتے رہے لیکن جبکہ مرتے ہوئے بھی وہ شرک سے باز نہ آئے تو آپ علیہ السلام نے استغفار بند کر دیا اور بیزار ہوگئے ۔ چنانچہ قرآن کریم میں ہے «وَمَا کَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَہِیمَ لاًّبِیہِ إِلاَّ عَن مَّوْعِدَۃٍ وَعَدَہَآ إِیَّاہُ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہُ أَنَّہُ عَدُوٌّ لِلہِ تَبَرَّأَ مِنْہُ إِنَّ إِبْرَہِیمَ لأَوَّاہٌ حَلِیمٌ» ۱؎ (9-التوبۃ:114) ’ ابراھیم علیہ السلام کا پنے باپ کے لیے استغفار کرنا ایک وعدے کی بناء پر تھا -پھر جب ان پر یہ بات ظاہر ہو گئی کہ اللہ کا دشمن ہے تو وہ اس سے محض بے تعلق ہو گئے و اقعی ابراہیم علیہ السلام بڑے نرم دل اور بردبار تھے ‘ - حدیث صحیح میں ہے { قیامت کے روز ابراہیم علیہ السلام اپنے باپ سے ملیں گے تو آزر ان سے کہے گا اے بیٹے ! آج میں تمہاری نافرمانی نہ کروں گا تو ابراہیم علیہ السلام اپنے رب سے عرض کریں گے کہ اے رب ! کیا تو نے مجھ سے وعدہ نہ فرمایا تھا کہ مجھے قیامت کے دن ذلیل نہ کرے گا ۔ اورآج میرے لئے اس سے بڑی اور کون سی رسوائی ہو سکتی ہے کہ میرا باپ اس حال میں ہے تو ارشاد فرمایا جائے گا کہ ’ اے ابراہیم ! تم اپنے پیچھے دیکھو تو ‘ وہ اپنے باپ کو دیکھنے کی بجائے ایک بجو کو دیکھیں گے ، جو کیچڑ میں لتھڑا ہوا ہے اور اس کی ٹانگیں پکڑ کر اس کو دوزخ کی طرف کھینچ کر لے جایا جا رہا ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3350) ’ مخلوق کو دیکھ کر خالق کی وحدانیت سمجھ میں آ جائے اس لیے ہم نے ابراھیم علیہ السلام کو آسمان و زمین کی مخلوق دکھادی ‘ جیسے اور آیت میں ہے «أَوَلَمْ یَنظُرُوا فِی مَلَکُوتِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا خَلَقَ اللہُ مِن شَیْءٍ» ۱؎ (7-الأعراف:185) اور جگہ ہے «أَفَلَمْ یَرَوْا إِلَیٰ مَا بَیْنَ أَیْدِیہِمْ وَمَا خَلْفَہُم مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ إِن نَّشَأْ نَخْسِفْ بِہِمُ الْأَرْضَ أَوْ نُسْقِطْ عَلَیْہِمْ کِسَفًا مِّنَ السَّمَاءِ إِنَّ فِی ذٰلِکَ لَآیَۃً لِّکُلِّ عَبْدٍ مٰنِیبٍ» ۱؎ (34-سبأ:9) ۔ یعنی ’ کیا پس وہ اپنے آگے پیچھے آسمان و زمین کو دیکھ نہیں رہے ہیں ؟ اگر ہم چاہیں تو انہیں زمین میں دھنسا دیں یا ان پر آسمان کے ٹکڑے گرا دیں یقیناً اس میں پوری دلیل ہے ہر اس بندے کے لیے جو [ دل سے ] متوجہ ہو ‘ ۔ ‏ ابن جریر رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے کہ ” ابراہیم علیہ السلام کی نگاہوں کے سامنے آسمان پھٹ گئے تھے اور ابراہیم علیہ السلام آسمان کی سب چیزوں کو دیکھ رہے تھے ۔ یہاں تک کہ ان کی نظر عرش تک پہنچی اور ساتوں زمینیں ان کے لیے کھل گئیں اور وہ زمین کے اندر کی چیزیں دیکھنے لگے “ ۔ بعض نے اس مضمون کا بھی اضافہ کیا ہے کہ ” وہ لوگوں کے معاص کو بھی دیکھنے لگے تھے اور ان گنہگاروں پر بد دعا کرنے لگے تھے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’ نہیں اے ابراہیم [ علیہ السلام ] ! میں تم سے زیادہ اپنے بندوں پر کریم ہوں کیا عجب کہ بعد کو وہ توبہ کر لیں اور رجوع کر لیں ‘ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ اس آیت کے بارے میں کہتے ہیں ” اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کو اپنی قدرت سے آسمان و زمین کی چھپی ہوئی اور علانیہ ساری چیزیں دکھلا دیں ان میں کچھ بھی چھپا نہ رہا ۔ اور جب وہ اصحاب گناہ پر لعن کر رہے تھے تو فرمایا کہ ’ ایسا نہیں اور ان کی بد دعا کو رد کر دیا ‘ ۔ پھر وہ حسب سابق ہو گئے “ ۔ اس لیے محتمل ہے کہ ان کی نگاہوں پر سے پردہ ہٹ گیا ہو جہاں ان کے لیے عیاں ہو گیا ہو ۔ اور یہ بھی محتمل ہے کہ اس کو دل کی آنکھوں سے دیکھا ہو ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کی حکمت باہرہ اور دلالت قاطعہ کو معلوم کر لیا ہو ۔ جیسا کہ امام احمد رحمہ اللہ اور امام ترمذی رحمہ اللہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا خواب مروی ہے کہ { عالم خواب میں اللہ تعالیٰ ایک بہترین شکل میں میرے پاس آیا اور فرمانے لگا اے محمد [ صلی اللہ علیہ وسلم ] املا اعلیٰ میں کیا بحث ہو رہی ہے ؟ ‘ میں نے کہا یا رب میں نہیں جانتا تو اس نے اپنا ہاتھ میرے دونوں شانوں کے درمیان رکھ دیا کہ اس کی انگلیوں کی ٹھنڈک میں پنے سینے میں پانے لگا ۔ پھر تو تمام چیزیں میرے سامنے کھل گئیں اور میں نے اسے پہچان لیا } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3235،قال الشیخ الألبانی:صحیح) «وَلِیَکُونَ مِنَ الْمُوقِنِینَ» میں «وَلِیَکُونَ» کا واؤ زائد ہے ۔ اس کی تقدیر یوں ہوئی کہ «وَکَذَلِکَ نُرِی إِبْرَاہِیمَ مَلَکُوتَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ لِیَکُونَ مِنَ الْمُوقِنِینَ» ۱؎ (6-الأنعام:75) یعنی بغیر واؤ کے جیسے کہ اس آیت «[ وَکَذَلِکَ ] نُفَصِّلُ الْآیَاتِ وَلِتَسْتَبِینَ سَبِیلُ الْمُجْرِمِینَ» ۱؎ (6-الأنعام:55) میں ۔ اس میں «الْآیَاتِ» کے بعد واؤ زائد ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ زائد نہیں ہے بلکہ سابقہ بات کی بنیاد پر بات کو اٹھایا گیا ہے ۔ یعنی ’ ہم نے اس پر ملکوت ظاہر کر دیا تاکہ وہ دیکھے اور یقین بھی کرلے ‘ ۔ یہ سب بطور مناظرہ کے تھا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے دوسری بات ہی مروی ہے ۔ ابن جریر میں بھی اسی کو پسند کیا گیا ہے ، اس کی دلیل میں آپ رحمہ اللہ کا یہ قول لاتے ہیں کہ ” اگر مجھے میرا رب ہدایت نہ کرتا تو میں گمراہ میں ہو جاتا “ - امام محمد بن اسحاق رحمتہ اللہ علیہ نے ایک لمبا قصہ نقل کیا ہے جس میں ہے : نمرود بن کنعان بادشاہ سے یہ کہا گیا تھا کہ ایک بچہ پیدا ہونے والا ہے جس کے ہاتھوں تیرا تخت تارج ہو گا تو اس نے حکم دے دیا تھا کہ اس سال میری مملکت میں جتنے بچے پیدا ہوں سب قتل کر دیئے جائیں ۔ ابراہیم علیہ السلام کی والدہ نے جب یہ سنا تو کجھ وقت قبل شہر کے باہر ایک غار میں چلی گئیں ، وہیں خلیل اللہ علیہ السلام پیدا ہوئے ، تو جب آپ علیہ السلام اس غار سے باہر نکلے تب آپ علیہ السلام نے یہ سب فرمایا تھا جس کا ذکر ان آیتوں میں ہے ۔ بالکل صحیح بات یہ ہے کہ یہ گفتگو اللہ کے خلیل ابراہیم علیہ السلام کی مناظرانہ تھی اپنی قوم کی باطل پرستی کا احوال اللہ کو سمجھا رہے تھے ، اول تو آپ علیہ السلام نے اپنے والد کی خطا ظاہر کی کہ وہ زمین کے ان بتوں کی پوجا کرتے تھے جنہیں انہوں نے فرشتوں وغیرہ کی شکل پر بنا لیا تھا اور جنہیں وہ سفارشی سمجھ رہے تھے ۔ یہ لوگ بزعم خود اپنے آپ کو اس قابل نہیں جانتے تھے کہ براہ راست اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں ۔ اس لیے بطور وسیلے کے فرشتوں کو پوجتے تھے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ان کے بارے میں کہہ سن کر ان کی روزی وغیرہ بڑھوا دیں اور ان کی حاجتیں پوری کرا دیں پھر جن آسمانی چیزوں کو یہ پوجتے تھے ان میں ان کی خطا بیان کی ۔ یہ ستارہ پرست بھی تھے ساتوں ستاروں کو جو چلنے پھرنے والے ہیں ۔ پوجتے تھے ، چاند ، عطارد ، زہرہ ، سورج ، مریخ ، مستری ، زحل ۔ ان کے نزدیک سب سے زیادہ روشن سورج ہے ، پھر چاند پھر زہرہ پس آپ علیہ السلام نے ادنیٰ سے شروع کیا اور اعلیٰ تک لے گئے ۔ پہلے تو زہرہ کی نسبت فرمایا کہ وہ پوجا کے قابل نہیں کیونکہ یہ دوسرے کے قابو میں ہیں یہ مقررہ چال سے چلتا اور مقررہ جگہ پر چلتا ہے دائیں بائیں ذرا بھی کھسک نہیں سکتا ۔ تو جبکہ وہ خود بے شمار چیزوں میں سے ایک چیز ہے ۔ اس میں روشنی بھی اللہ کی دی ہوئی ہے یہ مشرق سے نکلتا ہے پھر چلتا پھرتا رہتا ہے اور ڈوب جاتا ہےپھر دوسری رات اسی طرح ظاہر ہوتا ہے تو ایسی چیز معبود ہونے کی صلاحیت کیا رکھتی ہے ؟ پھر اس سے زیادہ روشن چیز یعنی چاند کو دیکھتے ہیں اور اس کو بھی عبادت کے قابل نہ ہونا ظاہر فرما کر پھر سورج کو لیا اور اس کی مجبوری اور اس کی غلامی اور مسکینی کا اظہار کیا اور کہا کہ ” لوگو میں تمہارے ان شرکاء سے ، ان کی عبادت سے ، ان کی عقیدت سے ، ان کی محبت سے دور ہوں -سنو اگر یہ سچے معبود ہیں اور کچھ قدرت رکھتے ہیں تو ان سب کو ملا لو اور جو تم سب سے ہو سکے میرے خلاف کر لو ۔ میں تو اس اللہ کا عابد ہوں جو ان مصنوعات کا صانع جو ان مخلوقات کا خالق ہے جو ہر چیز کا مالک رب اور سچا معبود ہے “ ۔ جیسے قرآنی ارشاد ہے : «إِنَّ رَبَّکُمُ اللہُ الَّذِی خَلَقَ السَمَـوَتِ وَالاٌّرْضَ فِی سِتَّۃِ أَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَی عَلَی الْعَرْشِ یُغْشِی الَّیْلَ النَّہَارَ یَطْلُبُہُ حَثِیثًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنٰجُومَ مُسَخَّرَتٍ بِأَمْرِہِ أَلاَ لَہُ الْخَلْقُ وَالاٌّمْرُ تَبَارَکَ اللہُ رَبٰ الْعَـلَمِینَ» ۱؎ (7-الأعراف:54) ’ تمہارا رب صرف وہی ہے جس نے چھ دن میں آسمان و زمین کو پیدا کیا پھر عرش پر مستوی ہو گیا رات کو دن سے دن کو رات سے ڈھانپتا ہے ایک دوسرے کے برابر پیچھے جا آ رہا ہے سورج چاند اور تارے سب اس کے فرمان کے تحت ہیں خلق و امر اسی کی ملکیت میں ہیں وہ رب العالمین ہے بڑی برکتوں والا ہے ‘ ۔ یہ تو بالکل ناممکن سا معلوم ہوتا ہے کہ ابراہیم علیہ سلام کے یہ سب فرمان بطور واقعہ کے ہوں اور حقیقت میں آپ علیہ السلام اللہ کو پہچانتے ہی نہ ہوں ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : «وَلَقَدْ ءَاتَیْنَآ إِبْرَہِیمَ رُشْدَہُ مِن قَبْلُ وَکُنَّا بِہِ عَـلِمِینَ ـ إِذْ قَالَ لاًّبِیہِ وَقَوْمِہِ مَا ہَـذِہِ التَّمَـثِیلُ الَّتِی أَنتُمْ لَہَا عَـکِفُونَ» ۱؎ (21-الأنبیاء:51-52) ’ ہم نے پہلے سے ابراہیم کو سیدھا راستہ دے دیا تھا اور ہم اس سے خوب واقف تھے جبکہ اس نے اپنے باپ سے اور اپنی قوم سے فرمایا یہ صورتیں کیا ہیں جن کی تم پرستش اور مجاورت کر رہے ہو ؟ ‘ اور آیت میں ہے : « إِنَّ إِبْرَاہِیمَ کَانَ أُمَّۃً قَانِتًا لِلہِ حَنِیفًا وَلَمْ یَکُ مِنَ الْمُشْرِکِینَ شَاکِرًا لِأَنْعُمِہِ اجْتَبَاہُ وَہَدَاہُ إِلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ وَآتَیْنَاہُ فِی الدٰنْیَا حَسَنَۃً وَإِنَّہُ فِی الْآخِرَۃِ لَمِنَ الصَّالِحِینَ ثُمَّ أَوْحَیْنَا إِلَیْکَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّۃَ إِبْرَاہِیمَ حَنِیفًا وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِینَ» ۱؎ (16-النحل:120-123) ’ بیشک ابراہیم پیشوا اور اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار اور ایک طرفہ مخلص تھے ۔ وہ مشرکوں میں نہ تھے ۔ ‏ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے شکر گزار تھے ، اللہ نے انہیں اپنا برگزیدہ کر لیا تھا اور انہیں راہ راست سمجھا دی تھی ۔ ‏ ہم نے اس دنیا میں بھی بہتری دی تھی اور بیشک وہ آخرت میں بھی نیکو کاروں میں ہیں ۔ ‏ پھر ہم نے آپ کی جانب وحی بھیجی کہ آپ ملت ابراہیم حنیف کی پیروی کریں ، جو مشرکوں میں سے نہ تھے ‘ ۔ ‏ بخاری و مسلم میں ہے ، حضور علیہ السلام فرماتے ہیں { ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے } -۱؎ (صحیح بخاری:4775) صحیح مسلم کی حدیث قدسی میں ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے { میں نے اپنے بندوں کو موحد پیدا کیا ہے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2865) کتاب اللہ میں ہے : «فِطْرَۃَ اللہِ الَّتِی فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْہَا لَا تَبْدِیلَ لِخَلْقِ اللہِ » ۱؎ (30-الروم:30) ’ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو فطرت اللہ پر پیدا کیا ہے ، اللہ کی خلق کی تبدیلی نہیں ‘ اور آیت میں ہے : «وَإِذْ أَخَذَ رَبٰکَ مِنْ بَنِی آدَمَ مِنْ ظُہُورِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ وَأَشْہَدَہُمْ عَلَی أَنْفُسِہِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوا بَلَی» ۱؎ ( 7-الأعراف : 172 ) ’ اور جب آپ کے رب نے اولاد آدم کی پشت سے ان کی اولاد کو نکالا اور ان سے ان ہی کے متعلق اقرار لیا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ سب نے جواب دیا کیوں نہیں ! ہم سب گواہ بنتے ہیں ‘ ۔ پس یہی فطرت اللہ ہے جیسے کہ اس کا ثبوت عنقریب آئے گا ان شاءاللہ ۔ پس جبکہ تمام مخلوق کی پیدائش دین اسلام پر اللہ کی سچی توحید پر ہے تو ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام جن کی توحید اور اللہ پرستی کا ثنا خواں خود کلام رحمن ہے ان کی نسبت کون کہہ سکتا ہے کہ آپ علیہ السلام اللہ جل شانہ سے آگاہ نہ تھے اور کبھی تارے کو اور کبھی چاند سورج کو اپنا اللہ سمجھ رہے تھے ۔ نہیں نہیں آپ علیہ السلام کی فطرت سالم تھی آپ علیہ السلام کی عقل صحیح تھی آپ علیہ السلام اللہ کے سچے دین پر اور خالص توحید پر تھے ۔ آپ علیہ السلام کا یہ تمام کلام بحیثیت مناظرہ تھا اور اس کی زبردست دلیل اس کے بعد کی آیت ہے ۔ الانعام
75 الانعام
76 الانعام
77 الانعام
78 الانعام
79 الانعام
80 مشرکین کا توحید سے فرار ابراہیم علیہ السلام کی سچی توحید کے دلائل سن کر پھر بھی مشرکین آپ علیہ السلام سے بحث جاری رکھتے ہیں تو آپ علیہ السلام ان سے فرماتے ہیں ” تعجب ہے کہ تم مجھ سے اللہ جل جلالہ کے بارے میں جھگڑا کر رہے ہو ؟ حالانکہ وہ یکتا اور لا شریک ہے اس نے مجھے راہ دکھا دی ہے اور دلیل عطا فرمائی ہے میں یقیناً جانتا ہوں کہ تمہارے یہ سب معبود محض بے بس اور بے طاقت ہیں ، میں نہ تو تمہاری فضول اور باطل باتوں میں آؤں گا نہ تمہاری دھمکیاں سچی جانوں گا ، جاؤ تم سے اور تمہارے باطل معبودوں سے جو ہو سکے کر لو ۔ ہرگز ہرگز کمی نہ کرو بلکہ جلدی کر گزرو اگر تمہارے اور ان کے قبضے میں میرا کوئی نقصان ہے تو جاؤ پہنچا دو ۔ میرے رب کی منشا بغیر کچھ بھی نہیں ہو سکتا ضرر نفع سب اسی کی طرف سے ہے تمام جیزیں اسی کے علم میں ہیں اس پر چھوٹی سے جھوتی چیز بھی پوشیدہ نہیں ۔ افسوس اتنی دلیلیں سن کر بھی تمہارے دل نصیحت حاصل نہیں کرتے “ ۔ حضرت ھود علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کے سامنے یہی دلیل پیش کی تھی ۔ قرآن میں موجود ہے کہ «قَالُوا یَا ہُودُ مَا جِئْتَنَا بِبَیِّنَۃٍ وَمَا نَحْنُ بِتَارِکِی آلِہَتِنَا عَنْ قَوْلِکَ وَمَا نَحْنُ لَکَ بِمُؤْمِنِینَ إِنْ نَقُولُ إِلَّا اعْتَرَاکَ بَعْضُ آلِہَتِنَا بِسُوءٍ قَالَ إِنِّی أُشْہِدُ اللہَ وَاشْہَدُوا أَنِّی بَرِیءٌ مِمَّا تُشْرِکُونَ مِنْ دُونِہِ فَکِیدُونِی جَمِیعًا ثُمَّ لَا تُنْظِرُونِ إِنِّی تَوَکَّلْتُ عَلَی اللہِ رَبِّی وَرَبِّکُمْ مَا مِنْ دَابَّۃٍ إِلَّا ہُوَ آخِذٌ بِنَاصِیَتِہَا إِنَّ رَبِّی عَلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ» ۱؎ (11-ہود:53-56) ’ ان کی قوم نے ان سے کہا اے ہود ! تم کوئی دلیل تو لائے نہیں ہو اور صرف تمہارے قول سے ہم اپنے معبودوں سے دست بردار نہیں ہو سکتے نہ ہم تجھ پر ایمان لائیں گے -ہمارا اپنا خیال تو یہ ہے کہ ہمارے معبودوں نے تجھے کچھ کر دیا ہے ۔ آپ نے جواب دیا کہ میں اللہ کو گواہ کرتا ہوں اور تم بھی گواہ رہو کہ تم جن کو بھی اللہ کا شریک ٹھہرا رہے ہو ، میں سب سے بیزار ہوں ۔ جاؤ تم سب مل کر جو کچھ مکر میرے ساتھ کرنا چاہتے ہو وہ کر لو اور مجھے مہلت بھی نہ دو ، میں نے تو اس رب پر توکل کر لیا ہے جو تمہارا میرا سب کا پالنہار ہے ۔ تمام جانداروں کی پیشانیاں اسی کے ہاتھ میں ہیں ۔ سمجھو اور سوچو تو سہی کہ میں تمہارے ان باطل معبودوں سے کیوں ڈراؤں گا ؟ جبکہ تم اس اکیلے اللہ وحدہ لا شریک سے نہیں ڈرتے اور کھلم کھلا اس کی ذات کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہرا رہے ہو ۔ تم ہی بتلاؤ کہ ہم تم میں سے امن کا زیادہ حقدار کون ہے ؟ دلیل میں اعلی کون ہے ؟ ‘ یہ آیت مثل آیت «أَمْ لَہُمْ شُرَکَاءُ شَرَعُوا لَہُم مِّنَ الدِّینِ مَا لَمْ یَأْذَن بِہِ اللہُ» ۱؎ (42-الشوری:21) اور آیت «اِنْ ہِیَ اِلَّآ اَسْمَاءٌ سَمَّیْتُمُوْہَآ اَنْتُمْ وَاٰبَاؤُکُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللّٰہُ بِہَا مِنْ سُلْطٰنٍ» ۱؎ (53۔النجم:23) کے ہے مطلب یہ ہے کہ اس کا بندہ جو خیر و شر ، کا نفع و ضر کا مالک ہے امن والا ہوگا یا اس کا بندہ جو محض بے بس اور بے قدرت ہے قیامت کے دن کے عذابوں سے امن میں رہے گا ۔ پھر جناب باری تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’ جو لوگ صرف اللہ ہی کی عبادت کریں اور خلوص کے ساتھ دینداری کریں رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں امن و امان اور راہ راست والے یہی لوگ ہیں ‘ -جب یہ آیت اتری تو صحابہ رضی اللہ عنہم ظلم کا لفط سن کر چونک اٹھے اور کہنے لگے یا رسول اللہ ہم میں سے ایسا کون ہے جس نے کوئی گناہ ہی نہ کیا ہو ؟ اس پر آیت «اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ» ۱؎ (31 ۔ لقمان:13) نازل ہوئی یعنی یہاں مراد ظلم سے شرک ہے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:32) اور روایت میں ہے کہ { حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس سوال پر فرمایا : { کیا تم نے اللہ کے نیک بندے کا یہ قول نہیں سنا کہ ” اے میرے پیارے بچے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا شرک بڑا بھاری ظلم ہے “ } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:387/1:صحیح) پس مراد یہاں ظلم سے شرک ہے ۔ اور روایت میں ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ { تم جو سمجھ رہے ہو وہ مقصد نہیں } } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:124) اور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خود «بِظُلْمٍ» کی تفسیر «بِشِرْکٍ» سے کرنا مروی ہے ۔ بہت سے صحابیوں رضی اللہ عنہم سے بہت سی سندوں کے ساتھ بہت سی کتابوں میں یہ حدیث مروی ہے ۔ ایک روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ { مجھ سے کہا گیا کہ تو ان ہی لوگوں میں سے ہے } ۔ مسند احمد میں زاذن اور جریر رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ { ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے جب ہم مدینہ شریف سے باہر نکل گئے تو ہم نے دیکھا کہ ایک اونٹ سوار بہت تیزی سے اپنے اونٹ کو دوڑتا ہوا آ رہا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { تمہاری طرف ہی آ رہا ہے } ، اس نے پہنچ کر سلام کیا ہم نے جواب دیا -حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا { کہاں سے آ رہے ہو ؟ } اس نے کہا اپنے گھر سے ، اپنے بال بچوں میں سے ، اپنے کنبے قبیلے میں سے ۔ دریافت فرمایا : { کیا ارادہ ہے ؟ کیسے نکلے ہو ؟ } جواب دیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جستجو میں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { پھر تو تم اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے میں ہی اللہ کا رسول [ صلی اللہ علیہ وسلم ] ہوں } ۔ اس نے خوش ہو کر کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے سمجھائیے کہ ایمان کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { یہ کہہ دو کہ اللہ ایک ہے اور محمد [ صلی اللہ علیہ وسلم ] اللہ کے رسول ہیں اور نمازوں کو قائم رکھے اور زکوٰۃ ادا کرتا رہے اور رمصان کے روزے رکھے اور بیت اللہ کا حج کرے } ۔ اس نے کہا مجھے سب باتیں منظور ہیں میں سب اقرار کرتا ہوں ۔ اتنے میں ان کے اونٹ کا پاؤں ایک سوراخ میں گر پڑا اور اونٹ ایک دم سے جھٹکا لے کر جھک گیا اور وہ اوپر سے گرے اور سر کے بل گرے اور اسی وقت روح پرواز کرگئی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے گرتے ہی فرمایا کہ { دیکھو انہیں سنبھالو } ۔ اسی وقت عمار بن یاسر اور حذیفہ بن یمان اپنے اونٹوں سے کود پڑے اور انہیں اٹھا لیا دیکھا تو روح جسم سے علیحدہ ہو چکی ہے ۔ حضور سے کہنے لگے یا رسول اللہ یہ تو فوت ہو گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منہ پھیر لیا ۔ پھر ذرا سی دیر میں فرمانے لگے { تم نے مجھے منہ موڑتے ہوئے دیکھا ہو گا اس کی وجہ یہ تھی کہ میں نے دیکھا دو فرشتے آئے تھے اور مرحوم کے منہ میں جنت کے پھول دے رہے تھے اس سے میں نے جان لیا کہ بھوکے فوت ہوئے ہیں ۔ سنو یہ انہیں لوگوں میں سے ہیں جن کی بابت اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ ’ جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان کو ظلم سے نہ ملایا ان کے لیے امن و امان ہے اور وہ راہ یافتہ ہیں ۔ اچھا اپنے پیارے بھائی کو دفن کرو } ۔ { چنانچہ ہم انہیں پانی کے پاس اٹھا لے گئے غسل دیا خوشبو ملی اور قبر کی طرف جنازہ لے کر چلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قبر کے کنارے بیٹھ گئے اور فرمانے لگے { بغلی قبر بناؤ سیدھی نہ بناؤ بغلی قبر ہمارے لیے ہے اور سیدھی ہمارے سوا اوروں کے لیے ہے } ۔ (مسند احمد:359/4:ضعیف) { لوگو یہ وہ شخص ہے جس نے عمل بہت ہی کم کیا اور ثواب زیادہ پایا } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:359/4:ضعیف) یہ ایک اعرابی تھے انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ” یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سلسلہ کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں اپنے گھر سے اپنے بال بجوں سے اپنے مال سے اپنے کنبے قبیلے سے اس لیے اور صرف اس لیے الگ ہوا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کو قبول کروں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر علم کروں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں لوں “ ۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں گھاس پھوس کھاتا ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ اسلام سکھائیے “ ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھایا اس نے قبول کیا ہم سب ان کے اردگرد بھیڑ لگائے کھڑے تھے اتنے میں جنگلی چوہے کے بل میں ان کے اونٹ کا پاؤں پڑ گیا یہ گر پڑے اور گردن ٹوٹ گئی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اس اللہ کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا یہ سچ مچ فی الواقع اپنے گھر سے اپنی اہل و عیال سے اور اپنے مال مویشی سے صرف میری تابعداری کی دھن میں نکلا تھا اور وہ اس بات میں بھی سچے تھے کہ وہ میرے پاس نہیں پہنچے یہاں تک کہ ان کا کھانا صرف سبز پتے اور گھاس رہ گیا تھا تم نے ایسے لوگ بھی سنے ہوں گے جو عمل کم کرتے ہیں اور ثواب بہت پاتے ہیں ۔ یہ بزرگ انہی میں سے تھے } ۔ رضی اللہ عنہ پھر فرمایا ’ ابراہیم علیہ السلام کو یہ دلیلیں ہم نے سکھائیں جن سے وہ اپنی قوم پر غالب آگئے ‘ -جیسے انہوں نے ایک اللہ کے پرستار کا امن اور اس کی ہدایت بیان فرمائی اور خود اللہ کی طرف سے اس بات کی تصدیق کی گئی آیت «نَرْفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنْ نَّشَاءُ اِنَّ رَبَّکَ حَکِیْمٌ عَلِیْمٌ» ۱؎ (6۔الأنعام:83) کی یہی ایک قرأت ہے ، اضافت کے ساتھ اور بے اضافت دونوں طرح پڑھا گیا ہے جیسے سورۃ یوسف میں ہے اور معنی دونوں قرأتوں کے قریب قریب برابر ہیں ۔ ’ تیرے رب کے اقوال رحمت والے اور اس کے کام بھی حکمت والے ہیں ۔ وہ صحیح راستے والوں کو اور گمراہوں کو بخوبی جانتا ہے ‘ ۔ جیسے فرمان ہے «إِنَّ الَّذِینَ حَقَّتْ عَلَیْہِمْ کَلِمَۃُ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُونَ وَلَوْ جَاءَتْہُمْ کُلٰ آیَۃٍ حَتَّی یَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِیمَ» (10-یونس:96-97) ’ جن پر تیرے رب کی بات صادق آ گئی ہے ان کے پاس چاہے تم تمام نشانیاں لے آؤ پھر بھی انہیں ایمان نصیب نہیں ہوگا یہاں تک کہ وہ اپنی آنکھوں سے عذاب دیکھ لیں ‘ ۔ پس رب کی حکمت اور اس کے علم میں کوئی شبہ نہیں ۔ الانعام
81 الانعام
82 الانعام
83 الانعام
84 خلیل الرحمن کو بشارت اولاد اللہ تعالیٰ اپنا احسان بیان فرما رہا ہے کہ خلیل الرحمن کو اس نے ان کے بڑھاپے کے وقت بیٹا عطا فرمایا جن کا نام اسحٰق [ علیہ السلام ] ہے اس وقت آپ علیہ السلام بھی اولاد سے مایوس ہو چکے تھے اور آپ علیہ السلام کی بیوی صاحبہ سارہ رضی اللہ عنہا بھی مایوس ہو چکی تھیں جو فرشتے بشارت سنانے آتے ہیں وہ قوم لوط کی ہلاکت کیلئے جا رہے تھے ۔ آیت میں ہے کہ «قَالَتْ یَا وَیْلَتَیٰ أَأَلِدُ وَأَنَا عَجُوزٌ وَہٰذَا بَعْلِی شَیْخًا إِنَّ ہٰذَا لَشَیْءٌ عَجِیبٌ قَالُوا أَتَعْجَبِینَ مِنْ أَمْرِ اللہِ رَحْمَتُ اللہِ وَبَرَکَاتُہُ عَلَیْکُمْ أَہْلَ الْبَیْتِ إِنَّہُ حَمِیدٌ مَّجِیدٌ» ۱؎ (11-ہود:72-73) ان سے بشارت سن کر مائی صاحبہ سخت متعجب ہو کر کہتی ہیں میں بڑھیا کھوسٹ ہو چکی میرے خاوند عمر سے اتر چکے ہمارے ہاں بچہ ہونا تعجب کی بات ہے ۔ فرشتوں نے جواب دیا اللہ کی قدرت میں ایسے تعجبات عام ہوتے ہیں ۔ اے نبی علیہ السلام کے گھرانے والو تم پر رب کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں اللہ بڑی تعریفوں والا اور بڑی بزرگیوں والا ہے اتنا ہی نہیں کہ تمہارے ہاں بچہ ہو گا بلکہ وہ نبی زادہ خود بھی نبی ہوگا اور اس سے تمہاری نسل پھیلے گی اور باقی رہے گی ۔ قرآن کی اور آیت «وَبَشَّرْنَاہُ بِإِسْحَاقَ نَبِیًّا مِّنَ الصَّالِحِینَ» ۱؎ (37-الصافات:112) میں بشارت کے الفاظ میں ”نبیا“ کا لفظ بھی ہے ۔ پھر لطف یہ ہے کہ «فَبَشَّرْنَاہَا بِإِسْحَاقَ وَمِن وَرَاءِ إِسْحَاقَ یَعْقُوبَ» ۱؎ (11-ہود:71) اولاد کی اولاد بھی تم دیکھ لوگے اسحاق کے گھر یعقوب پیدا ہوں گے اور تمہیں خوشی پر خوشی ہوگی اور پھر پوتے کا نام یعقوب رکھنا جو عقب سے مشتق ہے خوشخبری ہے اس امر کی کہ یہ نسل جاری رہے گی ۔ فی الواقع خلیل اللہ علیہ السلام اس بشارت کے قابل بھی تھے قوم کو چھوڑا ان سے منہ موڑا شہر کو چھوڑا ہجرت کی ، اللہ نے دنیا میں بھی انعام دیئے ، اتنی نسل پھیلائی جو آج تک دنیا میں آباد ہے - فرمان الٰہی ہے کہ «فَلَمَّا اعْتَزَلَہُمْ وَمَا یَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللہِ وَہَبْنَا لَہُ إِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ وَکُلًّا جَعَلْنَا نَبِیًّا» ۱؎ (19-مریم:49) ’ جب ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم کو اور ان کے معبودوں کو چھوڑا تو ہم نے انہیں اسحاق و یعقوب بخشا اور دونوں کو نبی بنایا ‘ ۔ یہاں فرمایا ’ ان سب کو ہم نے ہدایت دی تھی اور ان کی بھی نیک اولاد دنیا میں باقی رہی ‘ ۔ طوفان نوح میں کفار سب غرق ہو گئے پھر نوح علیہ السلام کی نسل پھیلی انبیاء علیہم السلام انہی کی نسل میں سے ہوتے رہے ، ابراہیم علیہ السلام کے بعد تو نبوت انہی کے گھرانے میں رہی ۔ جیسے فرمان ہے آیت «وَجَعَلْنَا فِیْ ذُرِّیَّتِہِ النٰبُوَّۃَ وَالْکِتٰبَ وَاٰتَیْنٰہُ اَجْرَہٗ فِی الدٰنْیَا» ۱؎ (29۔العنکبوت:27) ’ ہم نے ان ہی کی اولاد میں نبوت اور کتاب رکھی ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا وَّاِبْرٰہِیْمَ وَجَعَلْنَا فِیْ ذُرِّیَّـتِہِمَا النٰبُوَّۃَ وَالْکِتٰبَ فَمِنْہُمْ مٰہْتَدٍ وَکَثِیْرٌ مِّنْہُمْ فٰسِقُوْنَ» ۱؎ (57۔الحدید:26) یعنی ’ ہم نے نوح اور ابراہیم کو رسول بنا کر پھر ان ہی دونوں کی اولاد میں نبوت اور کتاب کردی ‘ ۔ اور آیت میں ہے «أُولٰئِکَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللہُ عَلَیْہِم مِّنَ النَّبِیِّینَ مِن ذُرِّیَّۃِ آدَمَ وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ وَمِن ذُرِّیَّۃِ إِبْرَاہِیمَ وَإِسْرَائِیلَ وَمِمَّنْ ہَدَیْنَا وَاجْتَبَیْنَا إِذَا تُتْلَیٰ عَلَیْہِمْ آیَاتُ الرَّحْمٰنِ خَرٰوا سُجَّدًا وَبُکِیًّا ۩» ۱؎ (19-مریم:58) ’ یہ ہیں جن پر انعام الٰہی ہوا ۔ نبیوں میں سے آدم کو اولاد میں سے اور جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ کشتی میں لے لیا تھا اور ابراہیم اور اسرائیل کی اولاد میں سے اور جنہیں ہم نے ہدایت کی تھی اور پسند کر لیا تھا ان پر جب رحمان کی آیتیں پڑھی جاتی تھیں تو روتے گڑگڑاتے سجدے میں گر پڑتے تھے ‘ ۔ پھر فرمایا ’ ہم نے اس کی اولاد میں سے داؤد و سلیمان کو ہدایت کی ‘ ، اس میں اگر ضمیر کا مرجع نوح علیہ السلام کو کیا جائے تو ٹھیک ہے اس لیے کہ ضمیر سے پہلے سب سے قریب نام یہی ہے ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ اسی کو پسند فرماتے ہیں اور ہے بھی یہ بالکل ظاہر جس میں کوئی اشکال نہیں ہاں اسے ابراہیم علیہ السلام کی طرف لوٹانا بھی ہے تو اچھا اس لیے کہ کلام انہی کے بارے میں ہے قصہ انہی کا بیان ہو رہا ہے لیکن بعد کے ناموں میں سے لوط علیہ السلام کا نام اولاد آدم میں ہونا ذرا مشکل ہے اس لیے کہ لوط علیہ السلام خلیل اللہ علیہ السلام کی اولاد میں نہیں بلکہ ان کے والد کا نام ماران ہے وہ آزر کے لڑکے تھے تو وہ آپ علیہ السلام کے بھتیجے ہوئے - ہاں اس کا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ با اعتبار غلبے کے انہیں بھی اولاد میں شامل کر لیا گیا جیسے کہ آیت «اَمْ کُنْتُمْ شُہَدَاءَ اِذْ حَضَرَ یَعْقُوْبَ الْمَوْتُ اِذْ قَالَ لِبَنِیْہِ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ بَعْدِیْ» ۱؎ (2 ۔ البقرہ:133) میں اسمعیل علیہ السلام کو جو اولاد یعقوب کے چچا تھا باپوں میں شمار کر لیا گیا ہے ، ہاں یہ بھی خیال رہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کو اولاد ابراہیم علیہ السلام یا اولاد نوح علیہ السلام میں گننا اس بنا پر ہے کہ لڑکیوں کی اولاد یعنی نواسے بھی اولاد میں داخل ہیں کیونکہ عیسیٰ علیہ السلام بن باپ کے پیدا ہوئے تھے ۔ روایت میں ہے حجاج نے یحییٰ بن یعمر کے پاس آدمی بھیجا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ تو حسن ، حسین رضی اللہ عنہم کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد میں گنتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ قرآن سے ثابت ہے لیکن میں تو پورے قرآن میں کسی جگہ یہ نہیں پاتا ، آپ نے جواب دیا کیا تو نے سورۃ الانعام میں آیت «وَمِنْ ذُرِّیَّتِہٖ دَاوٗدَ وَسُلَیْمٰنَ وَاَیٰوْبَ وَیُوْسُفَ وَمُوْسٰی وَہٰرُوْنَ وَکَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ» ۱؎ (6-الأنعام:84) نہیں پڑھا اس نے کہا ہاں یہ تو پڑھا ہے کہا پھر دیکھو اس میں عیسیٰ علیہ السلام کا نام ہے اور ان کا کوئی باپ تھا ہی نہیں تو معلوم ہوا کہ لڑکی کی اولاد بھی اولاد ہی ہے ۔ حجاج نے کہا بے شک آپ سچے ہیں ۔ اسی لیے مسئلہ ہے کہ جب کوئی شخص اپنی ذریت کے لیے وصیت کرے یا وقف کرے یا ہبہ کرے تو لڑکیوں کی اولاد بھی اس میں داخل ہے ۔ ہاں اگر اس نے اپنے لڑکوں کو دیا ہے یا ان پر وقف کیا ہے تو اس کے اپنے صلبی لڑکے اور لڑکوں کے لڑکے اس میں شامل ہوں گے اس کی دلیل عربی شاعر کا یہ شعر سنئے ۔ «بنو نا بنوا ابنا ئنا و بنا تنا بنو ھن ابناء الرجال الا جانب» یعنی ہمارے لڑکوں کے لڑکے تو ہمارے لڑکے ہیں اور ہماری لڑکیوں کے لڑکے اجنبیوں کے لڑکے ہیں اور لوگ کہتے ہیں کہ لڑکیوں کے لڑکے بھی ان میں داخل ہیں کیونکہ صحیح بخاری شریف کی حدیث میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن بن علی رضی اللہ عنہ کی نسبت فرمایا : { میرا یہ لڑکا سید ہے اور ان شاءاللہ اس کی وجہ سے مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں میں اللہ تعالیٰ صلح کرا دے گا } } ۔ (صحیح بخاری:2704) پس نواسے کو اپنا لڑکا کہنے سے لڑکیوں کی اولاد کا بھی اپنی اولاد میں داخل ہونا ثابت ہوا اور لوگ کہتے ہیں کہ یہ مجاز ہے ۔ اس کے بعد فرمایا ان کے باپ دادے ان کی اولادیں ان کے بھائی الغرض اصول و فروع اور اہل طبقہ کا ذکر آگیا کہ ہدایت اور پسندیدگی ان سب کو گھیرے ہوئے ہے ، یہ اللہ کی سچی اور سیدھی راہ پر لگا دیئے گئے ہیں ۔ یہ جو کچھ انہیں حاصل ہوا یہ اللہ کی مہربانی اس کی توفیق اور اس کی ہدایت سے ہے ۔ پھر شرک کا کامل برائی لوگوں کے ذہن میں آجائے اس لیے فرمایا کہ ’ اگر بالفرض نبیوں کا یہ گروہ بھی شرک کر بیٹھے تو ان کی بھی تمام تر نیکیاں ضائع ہو جائیں ‘ ۔ جیسے ارشاد ہے آیت «وَلَقَدْ اُوْحِیَ اِلَیْکَ وَاِلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکَ لَیِٕنْ اَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ وَلَتَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ» ۱؎ (39۔الزمر:65) ’ تجھ پر اور تجھ سے پہلے کے ایک ایک نبی پر یہ وحی بھیج دی گئی کہ اگر تو نے شرک کیا تو تیرے اعمال اکارت ہو جائیں گے ‘ ۔ یہ یاد رہے کہ یہ شرط ہے اور شرط کا واقع ہونا ہی ضروری نہیں ۔ جیسے فرمان ہے آیت «قُلْ اِنْ کَان للرَّحْمٰنِ وَلَدٌ فَاَنَا اَوَّلُ الْعٰبِدِیْنَ» ۱؎ (43-الزخرف:81) یعنی ’ اگر اللہ کی اولاد ہو تو میں تو سب سے پہلے ماننے والا بن جاؤں ‘ ۔ اور جیسے اور آیت میں ہے «لَـوْ اَرَدْنَآ اَنْ نَّتَّخِذَ لَہْوًا لَّاتَّخَذْنٰہُ مِنْ لَّدُنَّآ اِنْ کُنَّا فٰعِلِیْنَ» ۱؎ (21-الأنبیاء:17) یعنی ’ اگر کھیل تماشا بنانا ہی چاہتے ہو تو اپنے پاس سے ہی بنا لیتے ‘ ۔ اور فرمان ہے آیت «لَوْ اَرَاد اللّٰہُ اَنْ یَّتَّخِذَ وَلَدًا لَّاصْطَفٰی مِمَّا یَخْلُقُ مَا یَشَاءُ سُبْحٰنَہٗ» ۱؎ (39۔الزمر:4) ’ اگر اللہ تعالیٰ اولاد کا ہی ارادہ کرتا تو اپنی مخلوق میں سے جسے چاہتا چن لیتا لیکن وہ اس سے پاک ہے اور وہ یکتا اور غالب ہے ‘ ۔ پھر فرمایا ’ بندوں پر رحمت نازل فرمانے کیلئے ہم نے انہیں کتاب حکمت اور نبوت عطا فرمائی پس اگر یہ لوگ یعنی اہل مکہ اس کے ساتھ یعنی نبوت کے ساتھ یا کتاب و حکمت و نبوت کے ساتھ کفر کریں یہ اگر ان نعمتوں کا انکار کریں خواہ قریش ہوں خواہ اہل کتاب ہوں خواہ کوئی اور عربی یا عجمی ہوں تو کوئی حرج نہیں ۔ ہم نے ایک قوم ایسی بھی تیار کر رکھی ہے جو اس کے ساتھ کبھی کفر نہ کرے گی ‘ ۔ یعنی مہاجرین انصار اور ان کی تابعداری کرنے والے ان کے بعد آنے والے یہ لوگ نہ کسی امر کا انکار کریں گے نہ تحریف یا ردوبدل کریں گے بلکہ ایمان کامل لے آئیں گے ہر ہر حرف کو مانیں گے محکم متشابہ سب کا اقرار کریں گے سب پر عقیدہ رکھیں گے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنے فضل و کرم سے ان ہی باایمان لوگوں میں کر دے ۔ پھر اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب کرکے فرماتا ہے ’ جن انبیاء کرام علیہم السلام کا ذکر ہوا اور جو مجمل طور پر ان کے بڑوں چھوٹوں اور لواحقین میں سے مذکور ہوئے یہی سب اہل ہدایت ہیں تو اپنے نبی آخر الزمان ہی کی اقتداء اور اتباع کرو ‘ ، اور جب یہ حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے تو ظاہر ہے کہ آپ کی امت بطور اولیٰ اس میں داخل ہے ۔ صحیح بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر میں حدیث لائے ہیں { سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے آپ رضی اللہ عنہ کے شاگرد رشید مجاہد رحمتہ اللہ علیہ نے سوال کیا کہ کیا سورۃ ص میں سجدہ ہے ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” ہاں ہے “ ۔ پھر آپ نے یہ یہ آیت تلاوت فرمائی اور فرمایا ” نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی تابعداری کا حکم ہوا ہے “ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4632) پھر فرماتا ہے کہ ’ اے نبی [ صلی اللہ علیہ وسلم ] ! ان میں اعلان کر دو کہ یہ میں تو قرآن پہنچانے کا کوئی معاوضہ یا بدلہ یا اجرت تم سے نہیں چاہتا ۔ یہ تو صرف دنیا کیلئے نصیحت ہے کہ وہ اندھے پن کو چھوڑ کر آنکھوں کا نور حاصل کر لیں اور برائی سے کٹ کر بھلائی پا لیں اور کفر سے نکل کر ایمان میں آ جائیں ‘ ۔ الانعام
85 الانعام
86 الانعام
87 الانعام
88 الانعام
89 الانعام
90 الانعام
91 تمام رسول انسان ہی ہیں اللہ کے رسولوں کے جھٹلانے والے دراصل اللہ کی عظمت کے ماننے والے نہیں ۔ عبداللہ بن کثیر کہتے ہیں کفار قریش کے حق میں یہ آیت اتری ہے اور قول ہے کہ یہود کی ایک جماعت کے حق میں ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ فخاص یہودی کے حق میں اور یہ بھی ہے کہ مالک بن صیف کے بارے میں کہا گیا ہے ۔ صحیح بات یہ ہے کہ پہلا قول حق اس لیے ہے کہ آیت مکیہ ہے اور اس لیے بھی کہ یہودی آسمان سے کتاب اترنے کے بالکل منکر نہ تھے ، ہاں البتہ قریشی اور عام عرب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے قائل نہ تھے اور کہتے تھے کہ انسان اللہ کا رسول نہیں ہو سکتا ۔ جیسے قرآن ان کا تعجب نقل کرتا ہے آیت «أَکَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا أَنْ أَوْحَیْنَا إِلَی رَجُلٍ مِنْہُمْ أَنْ أَنْذِرِ النَّاسَ وَبَشِّرِ الَّذِینَ آمَنُوا أَنَّ لَہُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّہِمْ» ۱؎ (10-یونس:2) یعنی ’ کیا لوگوں کو اس بات پر اچنبھا ہوا کہ ہم نے انہی میں سے ایک شخص کی طرف وحی نزول فرمائی کہ وہ لوگوں کو ہوشیار کر دے ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَمَا مَنَعَ النَّاسَ اَنْ یٰؤْمِنُوْٓا اِذْ جَاءَہُمُ الْہُدٰٓی اِلَّآ اَنْ قَالُوْٓا اَبَعَثَ اللّٰہُ بَشَرًا رَّسُوْلًا قُل لَّوْ کَانَ فِی الْأَرْضِ مَلَائِکَۃٌ یَمْشُونَ مُطْمَئِنِّینَ لَنَزَّلْنَا عَلَیْہِم مِّنَ السَّمَاءِ مَلَکًا رَّسُولًا» ۱؎ (17-الاسراء:95-94) ’ لوگوں کے اس خیال نے ہی کہ کیا اللہ نے انسان کو اپنا رسول بنا لیا انہیں ایمان سے روک دیا ہے ، سنو اگر زمین میں فرشتے بستے ہوتے تو ہم بھی آسمان سے کسی فرشتے کو رسول بنا کر بھیجتے ‘ ۔ یہاں بھی کفار کا یہی اعتراض بیان کرکے فرماتا ہے کہ ’ انہیں جواب دو کہ تم جو بالکل انکار کرتے ہو کہ کسی انسان پر اللہ تعالیٰ نے کچھ بھی نازل نہیں فرمایا یہ تمہاری کیسی کھلی غلطی ہے ؟ بھلا بتلاؤ موسیٰ [ علیہ السلام ] پر تورات کس نے اتاری تھی جو سراسر نور و ہدایت تھی ‘ ۔ الغرض تورات کے تم سب قائل ہو جو مشکل مسائل آسان کرنے والی ، کفر کے اندھیروں کو چھانٹنے ، شبہ کو ہٹانے اور راہ راست دکھانے والی ہے ، تم نے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر رکھے ہیں صحیح اور اصلی کتاب میں سے بہت سا حصہ چھپا رکھا ہے کچھ اس میں سے لکھ لاتے ہو اور پھر اسے بھی تحریف کر کے لوگوں کو بتا رہے ہو ، اپنی باتوں اپنے خیالات کو اللہ کی کتاب کی طرف منسوب کرتے ہو ۔ قرآن تو وہ ہے جو تمہارے سامنے وہ علوم پیش کرتا ہے جن سے تم اور تمہارے اگلے اور تمہارے بڑے سب محروم تھے ، پچھلی سچی خبریں اس میں موجود ، آنے والے واقعات کی صحیح خبریں اس میں موجود ہیں جو آج تک دنیا کے علم میں نہیں آئی تھیں -کہتے ہیں اس سے مراد مشرکین عرب ہیں اور بعض کہتے ہیں اس سے مراد مسلمان ہیں ۔ پھر حکم دیتا ہے کہ ’ یہ لوگ تو اس کا جواب کیا دیں گے کہ تورات کس نے اتاری ؟ تو خود کہہ دے کہ اللہ نے اتاری ہے پھر انہیں ان کی جہالت و ضلالت میں ہی کھیلتا ہوا چھوڑ دے یہاں تک کہ انہیں موت آئے اور یقین کی آنکھوں سے خود ہی دیکھ لیں کہ اس جہان میں یہ اچھے رہتے ہیں یا مسلمان متقی ؟ یہ کتاب یعنی قرآن کریم ہمارا اتارا ہوا ہے ، یہ بابرکت ہے یہ اگلی کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے ہم نے اسے تیری طرف اس لیے نازل فرمایا کہ تو اہل مکہ کو ، اس کے پاس والوں کو یعنی عرب کے قبائل اور عجمیوں کو ہوشیار کر دے اور ڈراوا دیدے ‘ ۔ «مَنْ حَوْلَہَا» سے مراد ساری دنیا ہے اور آیت میں ہے «قُلْ یَا أَیٰہَا النَّاسُ إِنِّی رَسُولُ اللہِ إِلَیْکُمْ جَمِیعًا» ۱؎ (7 ۔ الأعراف:158) یعنی ’ اے دنیا جہان کے لوگو میں تم سب کی طرف اللہ کا پیغمبر ہوں ‘ ۔ اور آیت میں ہے «لِأُنْذِرَکُمْ بِہِ وَمَنْ بَلَغَ» ۱؎ (6 ۔ الأنعام:19) ’ تاکہ میں تمہیں بھی اور جسے یہ پہنچے اسے ڈرا دوں اور قرآن سنا کر عذابوں سے خبردار کر دوں ‘ ۔ اور فرمان ہے آیت «وَمَنْ یَکْفُرْ بِہِ مِنَ الْأَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُہُ» (11-ھود:17) ’ جو بھی اس کے ساتھ کفر کرے اس کا ٹھکانا جہنم ہے ‘ ۔ اور آیت میں فرمایا گیا «تَبٰرَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہٖ لِیَکُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرَا» ۱؎ (25 ۔ الفرقان:1) یعنی ’ اللہ برکتوں والا ہے جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل فرمایا تاکہ وہ تمام جہان والوں کو آگاہ کر دے ‘ ۔ اور آیت میں ارشاد ہے «وَقُلْ لِلَّذِینَ أُوتُوا الْکِتَابَ وَالْأُمِّیِّینَ أَأَسْلَمْتُمْ فَإِنْ أَسْلَمُوا فَقَدِ اہْتَدَوْا وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَیْکَ الْبَلَاغُ وَ اللہُ بَصِیرٌ بِالْعِبَادِ» ۱؎ (3-آل عمران:20) یعنی ’ اہل کتاب سے اور ان پڑھوں سے بس سے کہہ دو کہ کیا تم اسلام قبول کرتے ہو ؟ اگر قبول کر لیں تو راہ راست پر ہیں اور اگر منہ موڑ لیں تو تجھ پر تو صرف پہنچا دینا ہے اللہ اپنے بندے کو خوب دیکھ رہا ہے ‘ ۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { مجھے پانچ چیزیں دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی علیہ السلام کو نہیں دی گئیں } ان کو بیان فرماتے ہوئے ایک یہ بیان فرمایا کہ { ہر نبی علیہ السلام صرف ایک قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا لیکن میں تمام لوگوں کی طرف بھیجا گیا ہوں } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:335) اسی لیے یہاں بھی ارشاد ہوا کہ ’ قیامت کے معتقد تو اسے مانتے ہیں جانتے ہیں کہ یہ قرآن اللہ کی سچی کتاب ہے اور وہ نمازیں بھی صحیح وقتوں پر برابر پڑھا کرتے ہیں اللہ کے اس فرض کے قیام میں اور اس کی حفاظت میں سستی اور کاہلی نہیں کرتے ‘ ۔ الانعام
92 الانعام
93 مغضوب لوگ اللہ پر جھوٹ باندھنے والوں سے زیادہ ظالم اور کوئی نہیں خواہ اس جھوٹ کی نوعیت یہ ہو کہ اللہ کی اولاد ہے یا اس کے کئی شریک ہیں یا یوں کہے کہ وہ اللہ کا رسول ہے حالانکہ دراصل رسول نہیں -خواہ مخواہ کہہ دے کہ میری طرف وحی نازل ہوتی ہے حالانکہ کوئی وحی نہ اتری ہو اور اس سے بڑھ کر بھی کوئی ظالم نہیں ہو جو اللہ کی سچی وحی سے صف آرائی کا مدعی ہو ۔ چنانچہ اور آیتوں میں ایسے لوگوں کا بیان ہے کہ ’ وہ قرآن کی آیتوں کو سن کر کہا کرتے تھے کہ اگر ہم چاہیں تو ہم بھی ایسا کلام کہہ سکتے ہیں ، کاش کہ تو ان ظالموں کو سکرات موت کی حالت میں دیکھتا جبکہ فرشتوں کے ہاتھ ان کی طرف بڑھ رہے ہوں گے اور وہ مار پیٹ کر رہے ہونگے ‘ ۔ یہ محاورہ مار پیٹ سے ہے ، جیسے ہابیل قابیل کے قصے میں آیت «لَیِٕنْ بَسَطْتَّ اِلَیَّ یَدَکَ لِتَقْتُلَنِیْ مَآ اَنَا بِبَاسِطٍ یَّدِیَ اِلَیْکَ لِاَقْتُلَکَ اِنِّیْٓ اَخَاف اللّٰہَ رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ» ۱؎ (5۔المائدہ:28) ہے اور آیت میں «وَّیَبْسُطُوْٓا اِلَیْکُمْ اَیْدِیَہُمْ وَاَلْسِنَتَہُمْ بالسٰوْءِ وَوَدٰوْا لَوْ تَکْفُرُوْنَ» ۱؎ (60-الممتحنۃ:2) ہے ۔ ضحاک اور ابوصالح رحمہ اللہ علیہم نے بھی یہی تفسیر کی ہے ۔ خود قرآن کی آیت میں «یَضْرِبُوْنَ وُجُوْہَہُمْ وَاَدْبَارَہُمْ وَذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ» (8-الانفال:50) موجود ہے یعنی ’ کافروں کی موت کے وقت فرشتے ان کے منہ پر اور کمر پر مارتے ہیں ‘ ۔ یہی بیان یہاں ہے کہ ’ فرشتے ان کی جان نکالنے کیلئے انہیں مار پیٹ کرتے ہیں اور کہتے ہیں اپنی جانیں نکالو ‘ ۔ کافروں کی موت کے وقت فرشتے انہیں عذابوں ، زنجیروں ، طوقوں کی ، گرم کھولتے ہوئے جہنم کے پانی اور اللہ کے غضب و غصے کی خبر سناتے ہیں جس سے ان کی روح ان کے بدن میں چھپتی پھرتی ہے اور نکلنا نہیں چاہتی ، اس پر فرشتے انہیں مار پیٹ کر جبراً گھسیٹتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اب تمہاری بدترین اہانت ہوگی اور تم بری طرح رسوا کئے جاؤ گے جیسے کہ تم اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے تھے اس کے فرمان کو نہیں مانتے تھے اور اس کے رسولوں کی تابعداری سے چڑتے تھے ۔ مومن و کافر کی موت کا منظر جو احادیث میں آیا ہے وہ سب آیت «یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیٰوۃِ الدٰنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ وَیُضِلٰ اللّٰہُ الظّٰلِمِیْنَ وَیَفْعَلُ اللّٰہُ مَا یَشَاءُ» ۱؎ (14 ۔ ابراہیم:27) کی تفسیر میں ہے ، ابن مردویہ نے اس جگہ ایک بہت لمبی حدیث بیان کی ہے لیکن اس کی سند غریب ہے ۔ ۱؎ (الدر المنشور للسیوطی:56/3:ضعیف) «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ جس دن انہیں ان کی قبروں سے اٹھایا جائے گا اس دن ان سے کہا جائے گا کہ «وَعُرِضُوا عَلَیٰ رَبِّکَ صَفًّا لَّقَدْ جِئْتُمُونَا کَمَا خَلَقْنَاکُمْ أَوَّلَ مَرَّۃٍ» ۱؎ (18-الکہف:48) ’ تم تو اسے بہت دور اور محال مانتے تھے تو اب دیکھ لو جس طرح شروع شروع میں ہم نے تمہیں پیدا کیا تھا اوب دوبارہ بھی پیدا کر دیا -جو کچھ مال متاع ہم نے تمہیں دنیا میں دیا تھا سب تم وہیں اپنے پیچھے چھوڑ آئے ‘ ۔ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { انسان کہتا ہے میرا مال میرا مال حالانکہ تیرا مال وہی ہے جسے تو نے کھا پی لیا وہ تو فنا ہو گیا یا تو نے پہن اوڑھ لیا وہ پھٹا پرانا ہو کر ضائع ہو گیا یا تو نے نام مولٰی پر خیرات کیا وہ باقی رہا اس کے سوا جو کچھ ہے اسے تو ، تو اوروں کے لیے چھوڑ کر یہاں سے جانے والا ہے } } } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2958) حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں انسان کو قیامت کے دن اللہ کے سامنے کھڑا کیا جائے گا اور رب العالمین اس سے دریافت فرمائے گا کہ ’ جو تو نے جمع کیا تھا وہ کہاں ہے ؟ ‘ یہ جواب دے گا کہ خوب بڑھا چڑھا کر اسے دنیا میں چھوڑ آیا ہوں ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’ اے ابن آدم پیچھے چھوڑا ہوا تو یہاں نہیں ہے البتہ آگے بھیجا ہوا یہاں موجود ہے ‘ -اب جو یہ دیکھے گا تو کچھ بھی نہ پائے گا پھر آپ رحمہ اللہ نے یہی آیت پڑھی ، پھر انہیں ان کا شرک یاد دلا کر دھمکایا جائے گا کہ «أَیْنَ شُرَکَاؤُکُمُ الَّذِینَ کُنتُمْ تَزْعُمُونَ» ۱؎ (6-الأنعام:22) ’ جنہیں تم اپنا شریک سمجھ رہے تھے اور جن پر ناز کر رہے تھے کہ ہمیں بچا لیں گے اور نفع دیں گے وہ آج تمہارے ساتھ کیوں نہیں ؟ وہ کہاں رہ گئے ؟ انہیں شفاعت کے لیے کیوں آگے نہیں بڑھاتے ؟ ‘ حق یہ ہے کہ قیامت کے دن سارے جھوٹ بہتان افترا کھل جائیں گے ۔ اللہ تعالیٰ سب کو سنا کر ان سے فرمائے گا ’ جنہیں تم نے میرے شریک ٹھہرا رکھا تھا وہ کہاں ہیں ؟ ‘ اور ان سے کہا جائے گا کہ ’ جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے تھے وہ کہاں ہیں ؟ کیا وجہ ہے کہ نہ وہ تمہاری مدد کرتے ہیں نہ خود اپنی مدد وہ آپ کرتے ہیں ۔ تم تو دنیا میں انہیں مستحق عبادت سمجھتے رہے ‘ ۔ «بَیْنَکُمْ» کی ایک قرأت «بَیْنُکُمْ» بھی ہے یعنی تمہاری یکجہتی ٹوٹ گئی اور پہلی قرأت پر یہ معنی ہیں کہ جو تعلقات تم میں تھے جو وسیلے تم نے بنا رکھے تھے سب کٹ گئے معبودان باطل سے جو غلط منصوبے تم نے باندھ رکھے تھے سب برباد ہو گئے ۔ جیسے فرمان باری ہے آیت «إِذْ تَبَرَّأَ الَّذِینَ اتٰبِعُوا مِنَ الَّذِینَ اتَّبَعُوا وَرَأَوُا الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِہِمُ الْأَسْبَابُ وَقَالَ الَّذِینَ اتَّبَعُوا لَوْ أَنَّ لَنَا کَرَّۃً فَنَتَبَرَّأَ مِنْہُمْ کَمَا تَبَرَّءُوا مِنَّا کَذٰلِکَ یُرِیہِمُ اللہُ أَعْمَالَہُمْ حَسَرَاتٍ عَلَیْہِمْ وَمَا ہُم بِخَارِجِینَ مِنَ النَّارِ» (2-البقرہ:166-167) یعنی ’ تابعداری کرنے والے ان سے بیزار ہوں گے جن کی تابعداری وہ کرتے رہے اور سارے رشتے ناتے اور تعلقات کٹ جائیں گے ‘ ۔ اس وقت تابعدار لوگ حسرت و افسوس سے کہیں گے کہ اگر ہم دنیا میں واپس جائیں تو تم سے بھی ایسے ہی بیزار ہو جائیں گے جیسے تم ہم سے بیزار ہوئے ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ انہیں ان کے کرتوت دکھائے گا ان پر حسرتیں ہوں گی اور یہ جہنم سے نہیں نکلیں گے ۔ اور آیت میں ہے «فَإِذَا نُفِخَ فِی الصٰورِ فَلاَ أَنسَـبَ بَیْنَہُمْ یَوْمَئِذٍ وَلاَ یَتَسَآءَلُونَ» (23-المؤمنون:101) ’ جب صور پھونکا جائے گا تو آپس کے نسب منقطع ہو جائیں گے اور کوئی کسی کا پرسان حال نہ ہو گا ‘ ۔ اور آیت میں ہے کہ «إِنَّمَا اتَّخَذْتُم مِّن دُونِ اللہِ أَوْثَانًا مَّوَدَّۃَ بَیْنِکُمْ فِی الْحَیَاۃِ الدٰنْیَا ثُمَّ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ یَکْفُرُ بَعْضُکُم بِبَعْضٍ وَیَلْعَنُ بَعْضُکُم بَعْضًا وَمَأْوَاکُمُ النَّارُ وَمَا لَکُم مِّن نَّاصِرِینَ» ۱؎ (29-العنکبوت:25) ’ جن جن کو تم نے اپنا معبود ٹھہرا رکھا ہے اور ان سے دوستیاں رکھتے ہو وہ قیامت کے دن تمہارے اور تم ان کے منکر ہو جاؤ گے اور ایک دوسرے پر لعنت کرو گے تو تم سب کا ٹھکانا جہنم ہو گا اور کوئی بھی تمہارا مددگار کھڑا نہ ہو گا ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَقِیْلَ ادْعُوْا شُرَکَاءَکُمْ فَدَعَوْہُمْ فَلَمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَہُمْ وَرَاَوُا الْعَذَابَ لَوْ اَنَّہُمْ کَانُوْا یَہْتَدُوْنَ» ۱؎ (28-القصص:64) یعنی ’ ان سے کہا جائے گا کہ اپنے شریکوں کو آواز دو وہ پکاریں گے لیکن انہیں کوئی جواب نہ ملے گا ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَیَوْمَ نَحْشُرُہُمْ جَمِیْعًا ثُمَّ نَقُوْلُ لِلَّذِیْنَ اَشْرَکُوْٓا اَیْنَ شُرَکَاؤُکُمُ الَّذِیْنَ کُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ» ۱؎ (6۔الأنعام:22) یعنی ’ قیامت کے دن ہم ان سب کا حشر کریں گے پھر مشرکوں سے فرمائیں گے کہاں ہیں تمہارے شریک ؟‘ اس بارے کی اور آیتیں بھی بہت ہیں ۔ الانعام
94 الانعام
95 اس کی حیرت ناک قدرت دانوں سے کھیتیاں بیج اور گٹھلی سے درخت اللہ ہی اگاتا ہے تم تو انہیں مٹی میں ڈال کر چلے آتے ہو وہاں انہیں اللہ تعالیٰ پھاڑتا ہے ۔ کونپل نکالتا ہے پھر وہ بڑھتے ہیں قوی درخت بن جاتے ہیں اور دانے اور پھل پیدا ہوتے ہیں ۔ پھر گویا اسی کی تفسیر میں فرمایا کہ زندہ درخت اور زندہ کھیتی کو مردہ بیج اور مردہ دانے سے وہ نکالتا ہے ۔ جیسے سورۃ یٰسین میں ارشاد ہے آیت «وَاٰیَۃٌ لَّہُمُ الْاَرْضُ الْمَیْتَۃُ اَحْیَیْنٰہَا وَاَخْرَجْنَا مِنْہَا حَبًّا فَمِنْہُ یَاْکُلُوْنَ وَجَعَلْنَا فِیہَا جَنَّاتٍ مِّن نَّخِیلٍ وَأَعْنَابٍ وَفَجَّرْنَا فِیہَا مِنَ الْعُیُونِ لِیَأْکُلُوا مِن ثَمَرِہِ وَمَا عَمِلَتْہُ أَیْدِیہِمْ ۖ أَفَلَا یَشْکُرُونَ سُبْحَانَ الَّذِی خَلَقَ الْأَزْوَاجَ کُلَّہَا مِمَّا تُنبِتُ الْأَرْضُ وَمِنْ أَنفُسِہِمْ وَمِمَّا لَا یَعْلَمُونَ» ۱؎ (36-یس:36-33) ’ اور ایک نشانی ان کے لیے زمین مردہ ہے کہ ہم نے اس کو زندہ کیا اور اس میں سے اناج اُگایا ۔ پھر یہ اس میں سے کھاتے ہیں اور اس میں کھجوروں اور انگوروں کے باغ پیدا کیے اور اس میں چشمے جاری کر دیئے تاکہ یہ ان کے پھل کھائیں اور ان کے ہاتھوں نے تو ان کو نہیں بنایا تو پھر یہ شکر کیوں نہیں کرتے ؟ وہ خدا پاک ہے جس نے زمین کی نباتات کے اور خود ان کے اور جن چیزوں کی ان کو خبر نہیں سب کے جوڑے بنائے ‘ ۔ «مُخْرِجُ» کا عطف «فَالِقُ» پر ہے اور مفسرین نے دوسرے انداز سے ان جملوں میں ربط قائم کیا ہے لیکن مطلب سب کا یہی ہے اور اسی کے قریب قریب ہے ، کوئی کہتا ہے مرغی کا انڈے سے نکلنا اور مرغ سے انڈے کا نکلنا مراد ہے ۔ بد شخص کے ہاں نیک اولاد ہونا اور نیکوں کی اولاد کا بد ہونا مراد ہے ، وغیرہ ۔ آیت درحقیقت ان تمام صورتوں کو گھیرے ہوئے ہے ۔ پھر فرماتا ہے ’ ان تمام کاموں کا کرنے والا اکیلا اللہ ہی ہے پھر کیا وجہ کہ تم حق سے پھر جاتے ہو ؟ اور اس لا شریک کے ساتھ دوسروں کو شریک کرنے لگتے ہو ؟ ‘ «وَالضٰحَی وَاللَّیْلِ إِذَا سَجَی» (93-الضحی:1-2) ’ وہی دن کی روشنی کا لانے والا اور رات کے اندھیرے کا پیدا کرنے والا ہے ‘ ۔ جیسے کہ اس سورت کے شروع میں فرمایا تھا کہ «الْحَمْدُ لِلہِ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَجَعَلَ الظٰلُمَاتِ وَالنٰورَ» ۱؎ (6-الأنعام:1) ’ وہی نور و ظلمت کا پیدا کرنے والا ہے ۔ رات کے گھٹا ٹوپ اندھیرے کو دن کی نورانیت سے بدل دیتا ہے ‘ ۔ «وَاللَّیْلِ إِذَا یَغْشَیٰ وَالنَّہَارِ إِذَا تَجَلَّیٰ» ۱؎ (92-اللیل:1-2) ’ رات اپنے اندھیروں سمیت چھپ جاتی ہے اور دن اپنی تجلیوں سمیت کائنات پر قبضہ جما لیتا ہے ‘ ، «وَالنَّہَارِ إِذَا جَلَّاہَا وَاللَّیْلِ إِذَا یَغْشَاہَا» ۱؎ (91-الشمس:3-4) جیسے فرمان ہے «یُغْشِی اللَّیْلَ النَّہَارَ یَطْلُبُہُ حَثِیثًا» ۱؎ (7-الأعراف:54) ’ وہی دن رات چڑھاتا ہے ‘ ۔ الغرض چیز اور اس کی ضد اس کے زیر اختیار ہے اور یہ اس کی بے انتہا عظمت اور بہت بڑی سلطنت پر دلیل ہے ۔ دن کی روشنی اور اس کی چہل پہل کی ظلمت اور اس کا سکون اس کی عظیم الشان قدرت کی نشانیاں ہیں ۔ جیسے فرمان ہے آیت «وَالضٰحٰی وَالَّیْلِ اِذَا سَـجٰی» (93-الضحی:1-2) اور جیسے اس آیت میں فرمایا آیت «وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰی وَالنَّہَارِ اِذَا تَجَلّٰی» ۱؎ (92۔اللیل:1-2) اور آیت میں ہے «وَالنَّہَارِ اِذَا جَلّٰیہَا وَاللَّیْلِ اِذَا یَغْشٰـیہَا» (91-والشمس:3-4) ان تمام آیتوں میں دن رات کا اور نور و ظلمت روشنی اور اندھیرے کا ذکر ہے ۔ حضرت صہیب رومی رحمتہ اللہ علیہ سے ایک بار ان کی بیوی صاحبہ نے کہا کہ رات ہر ایک کے لیے آرام کی ہے لیکن میرے خاوند صہیب کے لیے وہ بھی آرام کی نہیں اس لیے کہ وہ رات کو اکثر حصہ جاگ کر کاٹتے ہیں -جب انہیں جنت یاد آتی ہے تو شوق بڑھ جاتا ہے اور یاد اللہ میں رات گزار دیتے ہیں اور جب جہنم کا خیال آ جاتا ہے تو مارے خوف کے ان کی نیند اڑ جاتی ہے ۔ سورج چاند اس کو مقرر کئے ہوئے اندازے پر برابر چل رہے ہیں کوئی تغیر اور اضطراب اس میں نہیں ہوتا ہر ایک کی منزل مقرر ہے جاڑے کی الگ گرمی کی الگ اور اسی اعتبار سے دن رات ظاہر ہوتے ہیں چھوٹے اور بڑے ہوتے ہیں ۔ جیسے فرمان ہے آیت «ھُوَ الَّذِیْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَاءً وَّالْقَمَرَ نُوْرًا وَّقَدَّرَہٗ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّـنِیْنَ وَالْحِسَابَ» ۱؎ (10۔یونس:5) ’ اسی اللہ نے سورج کو روشن اور چاند کو منور کیا ہے ان کی منزلیں مقرر کر دی ہیں ‘ ۔ اور آیت میں ہے «لَا الشَّمْسُ یَنْبَغِیْ لَہَآ اَنْ تُدْرِکَ الْقَمَرَ وَلَا الَّیْلُ سَابِقُ النَّہَارِ» ۱؎ (36-یس:40) ’ نہ تو آفتاب ہی سے بن پڑتا ہے کہ چاند کو جا لے اور نہ رات دن پر سبق لے سکتی ہے ہر ایک اپنے فلک میں تیرتا پھرتا ہے ‘ اور جگہ فرمایا «وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنٰجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِأَمْرِہِ» ۱؎ (7-الأعراف:54) ، ’ سورج چاند ستارے سب اس کے فرمان کے ماتحت ہیں ‘ ۔ یہاں فرمایا ’ یہ سب اندازے اس اللہ کے مقرر کردہ ہیں جسے کوئی روک نہیں سکتا جس کے خلاف کوئی کچھ نہیں کر سکتا ۔ جو ہر چیز کو جانتا ہے جس کے علم سے ایک ذرہ باہر نہیں ۔ زمین و آسمان کی کوئی مخلوق اس سے پوشیدہ نہیں ‘ ۔ عموماً قرآن کریم جہاں کہیں رات دن سورج چاند کی پیدائش کا ذکر کرتا ہے وہاں کلام کا خاتمہ اللہ جل و علا نے اپنی عزت و علم کی خبر پر کیا ہے ، جیسے اس آیت میں اور «وَآیَۃٌ لَّہُمُ اللَّیْلُ نَسْلَخُ مِنْہُ النَّہَارَ فَإِذَا ہُم مٰظْلِمُونَ وَالشَّمْسُ تَجْرِی لِمُسْتَقَرٍّ لَّہَا ذٰلِکَ تَقْدِیرُ الْعَزِیزِ الْعَلِیمِ» ۱؎ (36۔یس:37-38) میں اور سورۃ حم سجدہ کی شروع کی آیت «وَزَیَّنَّا السَّمَاءَ الدٰنْیَا بِمَصَابِیْحَ وَحِفْظًا ذٰلِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ» ۱؎ (41۔فصلت:12) میں ۔ پھر فرمایا ’ ستارے تمہیں خشکی اور تری میں راہ دکھانے کے لیے ہیں ‘ ۔ بعض سلف کا قول ہے کہ ستاروں میں ان تین فوائد کے علاوہ اگر کوئی اور کچھ مانے تو اس نے خطا کی اور اللہ پر چھوٹ باندھا ایک تو یہ کہ یہ آسمان کی زینت ہیں دوسرے یہ شیاطین پر آگ بن کر برستے ہیں جبکہ وہ آسمانوں کی خبریں لینے کو چڑھیں تیسرے یہ کہ مسافروں اور مقیم لوگوں کو یہ راستہ دکھاتے ہیں ۔ پھر فرمایا ’ ہم نے عقلمندوں عالموں اور واقف کار لوگوں کیلئے اپنی آیتیں بالتفصیل بیان فرما دی ہیں ‘ ۔ الانعام
96 الانعام
97 الانعام
98 قدرت کی نشانیاں فرماتا ہے کہ ’ تم سب انسانوں کو اللہ تعالیٰ نے تن واحد یعنی آدم سے پیدا کیا ہے ‘ -جیسے اور آیت میں ہے «یَا أَیٰہَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّکُمُ الَّذِی خَلَقَکُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَۃٍ» ۱؎ (4-النساء:1) ’ لوگو اپنے اس رب سے ڈور جس نے تمہیں ایک نفس سے پیدا کی اسی سے اس کا جوڑ پیدا کیا پھر ان دونوں سے مرد و عورت خوب پھیلا دیئے ‘ ۔ «مُسْتَقَرٌّ» سے مراد ماں کا پیٹ اور «مُسْتَوْدَعٌ» سے مراد باپ کی پیٹھ ہے اور قول ہے کہ جائے قرار دنیا ہے اور سپردگی کی جگہ موت کا وقت ہے ۔ سعید بن جبیر فرماتے ہیں ماں کا پیٹ ، زمین اور جب مرتا ہے سب جائے قرار کی تفسیر ہے ۔ حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں جو مر گیا اس کے عمل رک گئے یہی مراد مستقر سے ہے ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے مستقر آخرت میں ہے لیکن پہلا قول ہی زیادہ ظاہر ہے ، «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ سمجھداروں کے سامنے نشان ہائے قدرت بہت کچھ آچکے ، اللہ کی بہت سی باتیں بیان ہو چکیں جو کافی وافی ہیں -وہی اللہ ہے جس نے آسمان سے پانی اتارا نہایت صحیح اندازے سے بڑا با برکت پانی جو بندوں کی زندگانی کا باعث بنا اور سارے جہاں پر اللہ کی رحمت بن کر برسا ، اسی سے تمام تر تروتازہ چیزیں اگیں ۔ جیسے فرمان ہے آیت «وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ کُلَّ شَیْءٍ حَیٍّ اَفَلَا یُؤْمِنُوْنَ» (21-الأنبیاء:30) ’ پانی سے ہم نے ہر چیز کی زندگانی قائم کر دی ۔ پھر اس سے سبزہ یعنی کھیتی اور درخت اگتے ہیں جس میں سے دانے اور پھل نکلتے ہیں ، دانے بہت سارے ہوتے ہیں گتھے ہوئے تہ بہ تہ چڑھے ہوئے اور کھجور کے خوشے جو زمین کی طرف جھکے پڑتے ہیں ۔ بعض درخت خرما چھوٹے ہوتے ہیں اور خوشے چمٹے ہوئے ہوتے ہیں ‘ ۔ «قِنْوَانٌ» کو قبیلہ تمیم «قِنْیَانٌ» کہتا ہے اس کا مفرد «قِنْوٍ» ہے ، جیسے «صِنْوَانٌ» «صِنْوٍ » کی جمع ہے اور باغات انگوروں کے ۔ پس عرب کے نزدیک یہی دنوں میوے سب میوں سے اعلیٰ ہیں کھجور اور انگور اور فی الحقیقت ہیں بھی یہ اسی درجے کے ۔ قرآن کی دوسری آیت «وَمِنْ ثَمَرٰتِ النَّخِیْلِ وَالْاَعْنَابِ تَتَّخِذُوْنَ مِنْہُ سَکَرًا وَّرِزْقًا حَسَـنًا اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ» ۱؎ (16۔النحل:67) میں اللہ تعالیٰ نے ان ہی دونوں چیزوں کا ذکر فرما کر اپنا احسان بیان فرمایا ہے اس میں جو شراب بنانے کا ذکر ہے اس پر بعض حضرات کہتے ہیں کہ حرمت شراب کے نازل ہونے سے پہلے کی یہ آیت ہے ۔ اور آیت میں بھی باغ کے ذکر میں فرمایا کہ «وَجَعَلْنَا فِیہَا جَنَّاتٍ مِّن نَّخِیلٍ وَأَعْنَابٍ» (36-یس:34) ’ ہم نے اس میں کھجور و انگور کے درخت پیدا کئے تھے ‘ ۔ زیتون بھی ہیں انار بھی ہیں آپس میں ملتے جلتے پھل الگ الگ ، شکل صورت مزہ حلاوت فوائد و غیرہ ہر ایک کے جدا گانہ ، ان درختوں میں پھلوں کا آنا اور ان کا پکنا ملاحظہ کر اور اللہ کی ان قدرتوں کا نظارہ اپنی آنکھوں سے کرو کہ لکڑی میں میوہ نکالتا ہے ۔ عدم وجود میں لاتا ہے ۔ سوکھے کو گیلا کرتا ہے ۔ مٹھاس لذت خوشبو سب کچھ پیدا کرتا ہے رنگ روپ شکل صورت دیتا ہے فوائد رکھتا ہے ۔ جیسے اور جگہ فرمایا ہے کہ «وَفِی الْأَرْضِ قِطَعٌ مٰتَجَاوِرَاتٌ وَجَنَّاتٌ مِّنْ أَعْنَابٍ وَزَرْعٌ وَنَخِیلٌ صِنْوَانٌ وَغَیْرُ صِنْوَانٍ یُسْقَیٰ بِمَاءٍ وَاحِدٍ وَنُفَضِّلُ بَعْضَہَا عَلَیٰ بَعْضٍ فِی الْأُکُلِ إِنَّ فِی ذٰلِکَ لَآیَاتٍ لِّقَوْمٍ یَعْقِلُونَ» ۱؎ (13-الرعد:4) ’ پانی ایک زمین ایک کھیتیاں باغات ملے جلے لیکن ہم جسے چاہیں جب چاہیں بنا دیں کھٹاس مٹھاس کمی زیادتی سب ہمارے قبضہ میں ہے یہ سب خالق کی قدرت کی نشانیاں ہیں جن سے ایماندار اپنا عقیدہ مضبوط کرتے ہیں ‘ ۔ الانعام
99 الانعام
100 شیطانی وعدے دھوکہ ہیں جو لوگ اللہ کے سوا اوروں کی عبادت کرتے تھے جنات کو پوجتے تھے ان پر انکار فرما رہا ہے -ان کے کفر و شرک سے اپنی بیزاری کا اعلان فرماتا ہے اگر کوئی کہے کہ جنوں کی عبادت کیسے ہوئی وہ تو بتوں کی پوجا پاٹ کرتے تھے تو جواب یہ ہے کہ بت پرستی کے سکھانے والے جنات ہی تھے ۔ جیسے خود قرآن کریم میں ہے آیت «إِن یَدْعُونَ مِن دُونِہِ إِلَّا إِنَاثًا وَإِن یَدْعُونَ إِلَّا شَیْطَانًا مَّرِیدًا لَّعَنَہُ اللہُ ۘ وَقَالَ لَأَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبَادِکَ نَصِیبًا مَّفْرُوضًا وَلَأُضِلَّنَّہُمْ وَلَأُمَنِّیَنَّہُمْ وَلَآمُرَنَّہُمْ فَلَیُبَتِّکُنَّ آذَانَ الْأَنْعَامِ وَلَآمُرَنَّہُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللہِ وَمَن یَتَّخِذِ الشَّیْطَانَ وَلِیًّا مِّن دُونِ اللہِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مٰبِینًا یَعِدُہُمْ وَیُمَنِّیہِمْ وَمَا یَعِدُہُمُ الشَّیْطَانُ إِلَّا غُرُورًا» (4-النساء:120-117) یعنی ’ یہ لوگ اللہ کے سوا جنہیں پکار رہے ہیں وہ سب عورتیں ہیں اور یہ سوائے سرکش ملعون شیطان کے اور کسی کو نہیں پکارتے وہ تو پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ کچھ نہ کچھ انسانوں کو تو میں اپنا کر ہی لوں گا انہیں بہکا کر سبز باغ دکھا کر اپنا مطیع بنا لوں گا ۔ پھر تو وہ بتوں کے نام پر جانوروں کے کان کاٹ کر چھوڑ دیں گے ۔ اللہ کی پیدا کردہ ہئیت کو بگاڑنے لگیں گے ۔ حقیقتاً اللہ کو چھوڑ کر شیطان کی دوستی کرنے والے کے نقصان میں کیا شک ہے ؟ شیطانی وعدے تو صرف دھوکے بازیاں ہیں ‘ ۔ اور آیت میں ہے آیت «اَفَتَتَّخِذُوْنَہٗ وَذُرِّیَّتَہٗٓ اَوْلِیَاءَ مِنْ دُوْنِیْ وَہُمْ لَکُمْ عَدُوٌّ بِئْسَ للظّٰلِمِیْنَ بَدَلًا» (18-الکہف:50) ’ کیا تم مجھے چھوڑ کر شیطان اور اولاد شیطان کو اپنا ولی بناتے ہو ؟ ‘ ۔ خلیل اللہ علیہ السلام نے اپنے والد سے فرمایا «یٰٓاَبَتِ لَا تَعْبُدِ الشَّیْطٰنَ اِنَّ الشَّیْطٰنَ کَان للرَّحْمٰنِ عَصِیًّا» ۱؎ (19 ۔ مریم:44) ’ میرے باپ ! شیطان کی پرستش نہ کرو وہ تو اللہ کا نافرمان ہے ‘ ۔ سورۃ یٰسین میں ہے کہ «أَلَمْ أَعْہَدْ إِلَیْکُمْ یَا بَنِی آدَمَ أَن لَّا تَعْبُدُوا الشَّیْطَانَ إِنَّہُ لَکُمْ عَدُوٌّ مٰبِینٌ وَأَنِ اعْبُدُونِی ہٰذَا صِرَاطٌ مٰسْتَقِیمٌ» ۱؎ (36-یس:60-61) ’ کیا میں نے تم سے یہ عہد نہیں لیا تھا کہ اے اولاد آدم تم شیطان کی عبادت نہ کرنا وہ تمہارا کھلا دشمن ہے اور یہ کہ تم صرف میری ہی عبادت کرنا سیدھی راہ یہی ہے ‘ ۔ قیامت کے دن فرشتے بھی کہیں گے آیت «قَالُوْا سُبْحٰنَکَ اَنْتَ وَلِیٰنَا مِنْ دُوْنِہِمْ بَلْ کَانُوْا یَعْبُدُوْنَ الْجِنَّ اَکْثَرُہُمْ بِہِمْ مٰؤْمِنُوْنَ» ۱؎ (34 ۔ سبأ:41) یعنی ’ تو پاک ہے یہ نہیں بلکہ سچا والی ہمارا تو تو ہی ہے یہ لوگ تو جنوں کو پوجتے تھے ان میں سے اکثر لوگوں کا ان پر ایمان تھا ‘ ۔ پس یہاں فرمایا ہے کہ ’ انہوں نے جنات کی پرستش شروع کر دی حالانکہ پرستش کے لیے صرف اللہ ہے وہ سب کا خالق ہے ‘ ۔ جب خالق وہی ہے تو معبود بھی وہی ہے ۔ جیسے خلیل اللہ نے علیہ السلام فرمایا آیت «قَالَ اَ تَعْبُدُوْنَ مَا تَنْحِتُوْنَ وَ اللہُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ» (37-الصافات:96-95) یعنی ’ کیا تم ان کی عبادت کرتے ہو جنہیں خود گھڑ لیتے ہو حالانکہ تمہارے اور تمہارے تمام کاموں کا خالق اللہ تعالیٰ ہے ‘ ۔ یعنی معبود وہی ہے جو خالق ہے ۔ پھر ان لوگوں کی حماقت و ضلالت بیان ہو رہی ہے ، جو اللہ کی اولاد بیٹے بیٹیاں قرار دیتے تھے ۔ یہودی عزیر علیہ السلام کو اور نصرانی عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا جبکہ مشرکین عرب فرشتوں کو اللہ کی لڑکیاں کہتے تھے ۔ یہ سب ان کی من گھڑت اور خود تراشیدہ بات تھی اور محض غلط اور جھوٹ تھا ۔ حقیقت سے بہت دور نرا بہتان باندھا تھا اور بےسمجھی سے اللہ کی شان کے خلاف ایک زبان سے اپنی جہالت سے کہہ دیا تھا بھلا اللہ کو بیٹوں اور بیٹیوں سے کیا واسطہ نہ اس کی اولاد نہ اس کی بیوی نہ اس کی کفو کا کوئی ۔ وہ سب کا خالق وہ کسی کی شرکت سے پاک وہ کسی کی حصہ داری سے پاک ، یہ گمراہ جو کہہ رہے ہیں سب سے وہ پاک اور برتر سب سے دور اور بالا تر ہے ۔ الانعام
101 اللہ بےمثال ہے وحدہ لا شریک ہے زمین و آسمان کا موجد بغیر کسی مثال اور نمونے کے انہیں عدم سے وجود میں لانے والا اللہ ہی ہے -بدعت کو بھی بدعت اسی لیے کہتے ہیں کہ پہلے اس کی کوئی نظیر نہیں ہوتی ، بھلا اس کا صاحب اولاد ہونا کیسے ممکن ہے جبکہ اس کی بیوی ہی نہیں ، اولاد کیلئے تو جہاں باپ کا ہونا ضروری ہے وہیں ماں کا وجود بھی لازمی ہے ، اللہ کے مشابہ جبکہ کوئی نہیں ہے اور جوڑا تو ساتھ کا اور جنس کا ہوتا ہے پھر اس کی بیوی کیسے ؟ اور بیوی نہیں تو اولاد کہاں ؟ وہ ہر چیز کا خالق ہے اور یہ بھی اس کے منافی ہے کہ اس کی اولاد اور زوجہ ہو ۔ جیسے فرمان ہے آیت «وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا لَّقَدْ جِئْتُمْ شَیْئًا إِدًّا تَکَادُ السَّمَاوَاتُ یَتَفَطَّرْنَ مِنْہُ وَتَنشَقٰ الْأَرْضُ وَتَخِرٰ الْجِبَالُ ہَدًّا أَن دَعَوْا لِلرَّحْمٰنِ وَلَدًا وَمَا یَنبَغِی لِلرَّحْمٰنِ أَن یَتَّخِذَ وَلَدًا إِن کُلٰ مَن فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِی الرَّحْمٰنِ عَبْدًا لَّقَدْ أَحْصَاہُمْ وَعَدَّہُمْ عَدًّا وَکُلٰہُمْ آتِیہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَرْدًا» (19-مریم:88-95) ’ لوگ کہتے ہیں اللہ کی اولاد ہے ۔ ان کی بڑی فضول اور غلط افواہ ہے عجب نہیں کہ اس بات کو سن کر آسمان پھٹ جائیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں ۔ رحمن اور اولاد ؟ وہ تو ایسا ہے کہ آسمان و زمین کی کل مخلوق اس کی بندگی میں مصروف ہے ۔ سب پر اس کا علبہ سب پر اس کا علم سب اس کے سامنے فردا فرداً آنے والے ۔ وہ خالق کل ہے اور عالم کل ہے ۔ اس کی جوڑ کا کوئی نہیں وہ اولاد سے اور بیوی سے پاک ہے اور مشرکوں کے اس بیان سے بھی پاک ہے ‘ ۔ الانعام
102 ہماری آنکھیں اور اللہ جل شانہ جس کے یہ اوصاف ہیں یہی تمہارا اللہ ہے ، یہی تمہارا پالنہار ہے ، یہی سب کا خالق ہے تم اسی ایک کی عبادت کرو ، اس کی وحدانیت کا اقرار کرو -اس کے سوا کسی کو عبادت کے لائق نہ سمجھو ۔ اس کی اولاد نہیں ، اس کے ماں باپ نہیں ، اس کی بیوی نہیں ، اس کی برابری کا اس جیسا کوئی نہیں ، وہ ہر چیز کا حافظ نگہبان اور وکیل ہے ہر کام کی تدبیر وہی کرتا ہے سب کی روزیاں اسی کے ذمہ ہیں ، ہر ایک کی ہر وقت وہی حفاظت کرتا ہے ۔ سلف کہتے ہیں دنیا میں کوئی آنکھ اللہ کو نہیں دیکھ سکتی ۔ ہاں قیامت کے دن مومنوں کو اللہ کا دیدار ہو گا ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4855) سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ { جو کہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے اس نے جھوٹ کہا پھر آپ رضی اللہ عنہا نے یہی آیت «لَا تُدْرِکُہُ الْأَبْصَارُ وَہُوَ یُدْرِکُ الْأَبْصَارَ وَہُوَ اللَّطِیفُ الْخَبِیرُ» (6-الأنعام:103) پڑھی } ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس کے برخلاف مروی ہے { انہوں نے روایت کو مطلق رکھا ہے اور فرماتے ہیں اپنے دل سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ اللہ کو دیکھا } -۱؎ (صحیح مسلم:176) سورۃ النجم میں یہ مسئلہ پوری تفصیل سے بیان ہو گا ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ اسمعیل بن علی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” دنیا میں کوئی شخص اللہ کو نہیں دیکھ سکتا “ اور حضرات فرماتے ہیں ” یہ تو عام طور پر بیان ہوا ہے پھر اس میں سے قیامت کے دن مومنوں کا اللہ کو دیکھنا مخصوص کر لیا ہے “ ۔ ہاں معتزلہ کہتے ہیں دنیا اور آخرت میں کہیں بھی اللہ کا دیدار نہ ہو گا ۔ اس میں انہوں نے اہلسنت کی مخالفت کے علاوہ کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی نادانی برتی ، کتاب اللہ میں موجود ہے آیت «وُجُوْہٌ یَّوْمَیِٕذٍ نَّاضِرَۃٌ اِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ» ۱؎ (75-القیامۃ:22-23) یعنی ’ اس دن بہت سے چہرے تروتازہ ہوں گے اپنے رب کی طرف دیکھنے والے ہوں گے ‘ ۔ اور فرمان ہے آیت «کَلَّآ اِنَّہُمْ عَنْ رَّبِّہِمْ یَوْمَیِٕذٍ لَّمَحْجُوْبُوْنَ» ۱؎ (83۔المطففین:15) یعنی ’ کفار قیامت والے دن اپنے رب کے دیدار سے محروم ہوں گے ‘ ۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” اس سے صاف ظاہر ہے کہ مومنوں کے لیے اللہ تعالیٰ کا حجاب نہیں ہوگا “ ، متواتر احادیث سے بھی یہی ثابت ہے ۔ ابوسعید ، ابوہریرہ ، انس ، جریج ، صہیب ، بلال رضی اللہ عنہم وغیرہ سے مروی ہے کہ { حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ { مومن اللہ تبارک و تعالیٰ کو قیامت کے میدانوں میں جنت کے باغوں میں دیکھیں گے } } ۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ہمیں بھی انہیں میں سے کرے آمین ! یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسے آنکھیں نہیں دیکھ پاتیں یعنی عقلیں ، لیکن یہ قول بہت دور کا ہے اور ظاہر کے خلاف ہے اور گویا کہ ادراک کو اس نے رؤیت کے معنی میں سمجھا ، «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اور حضرات دیدار کے دیکھنے کو ثابت شدہ مانتے ہوئے لیکن ادراک کے انکار کے بھی مخالف نہیں اس لیے کہ ادراک رؤیت سے خاص ہے اور خاص کی نفی عام کی نفی کو لازم نہیں ہوتی ۔ اب جس ادراک کی یہاں نفی کی گئی ہے یہ ادراک کیا ہے اور کس قسم کا ہے اس میں کئی قول ہیں مثلاً معرفت حقیقت پس حقیقت کا عالم بجز اللہ کے اور کوئی نہیں گو مومن دیدار کریں گے لیکن حقیقت اور چیز ہے چاند کو لوگ دیکھتے ہیں لیکن اس کی حقیقت اس کی ذات اس کی ساخت تک کس کی رسائی ہوتی ہے ؟ پس اللہ تعالیٰ تو بے مثل ہے ۔ ابن علیہ فرماتے ہیں نہ دیکھنا دنیا کی آنکھوں کے ساتھ مخصوص ہے ، بعض کہتے ہیں ادراک اخص ہے رؤیت سے کیونکہ ادراک کہتے ہیں احاطہٰ کر لینے کو اور عدم احاطہٰ سے عدم رؤیت لازم نہیں آتی جیسے علم کا احاطہٰ نہ ہونے سے مطلق علم کا نہ ہونا ثابت نہیں ہوتا -احاطہٰ علم کا نہ ہونا اس آیت سے ثابت ہے کہ «یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ وَلَا یُحِیْطُوْنَ بِہٖ عِلْمًا» (20-طہ:110) ۔ صحیح مسلم میں ہے { «لَا أُحْصِی ثَنَاءً عَلَیْکَ أَنْتَ کَمَا أَثْنَیْتَ عَلَی نَفْسِکَ» یعنی { اے اللہ میں تیری ثناء کا احاطہٰ نہیں کر سکتا } } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:486) لیکن ظاہر ہے کہ اس سے مراد مطلق ثناء کا نہ کرنا نہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ ” کسی کی نگاہ مالک الملک کو گھیر نہیں سکتی “ ۔ عکرمہ رحمہ اللہ سے کہا گیا کہ آیت «لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ ۡ وَہُوَ یُدْرِکُ الْاَبْصَارَ وَہُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ» ۱؎ (6-الأنعام:103) تو آپ رحمہ اللہ نے فرمایا ” کیا تو آسمان کو نہیں دیکھ رہا “ ؟ اس نے کہا ہاں ، فرمایا ” پھر سب دیکھ چکا ہے ؟ “ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” اللہ اس سے بہت بڑا ہے کہ اسے آنکھیں ادراک کر لیں “ ۔ چنانچہ ابن جریر میں آیت «وُجُوْہٌ یَّوْمَیِٕذٍ نَّاضِرَۃٌ» ۱؎ (75-القیامۃ:22) کی تفسیر میں ہے کہ اللہ کی طرف دیکھیں گے ان کی نگاہیں اس کی عظمت کے باعث احاطہٰ نہ کر سکیں گی اور اس کی نگاہ ان سب کو گھیرے ہوئے ہوگی ۔ اس آیت کی تفسیر میں ایک مرفوع حدیث میں ہے { اگر انسان جن شیطان فرشتے سب کے سب ایک صف باندھ لیں اور شروع سے لے کر آخر تک کے سب موجودہ ہوں تاہم ناممکن ہے کہ کبھی بھی وہ اللہ کا احاطہٰ کرسکیں } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:7736/4:ضعیف) یہ حدیث غریب ہے اس کی اس کے سوا کوئی سند نہیں نہ صحاح ستہ والوں میں سے کسی نے اس حدیث کو روایت کیا ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» حضرت عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سنا کہ ” نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تبارک و تعالیٰ کو دیکھا “ ، تو میں نے کہا ” کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ ’ اللہ کو آنکھیں نہیں پاسکتیں اور وہ تمام نگاہوں کو گھیر لیتا ہے ‘ ، تو آپ رضی اللہ عنہ نے مجھے فرمایا ” یہ اللہ کا نور ہے اور وہ جو اس کا ذاتی نور ہے جب وہ اپنی تجلی کرے تو اس کا ادراک کوئی نہیں کرسکتا “ ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3279،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) اور روایت میں ہے اس کے بالمقابل کوئی چیز نہیں ٹھہر سکتی ، اسی جواب کے مترادف معنی وہ حدیث ہے جو بخاری مسلم میں ہے کہ { اللہ تعالیٰ سوتا نہیں نہ اسے سونا لائق ہے وہ ترازو کو جھکاتا ہے اور اٹھاتا ہے اس کی طرف دن کے عمل رات سے پہلے اور رات کے عمل دن سے پہلے چڑھ جاتے ہیں اس کا حجاب نور ہے یا نار ہے اگر وہ ہٹ جائے تو اس کے چہرے کی تجلیاں ہر اس چیز کو جلا دیں جو اس کی نگاہوں تلے ہے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:179) اگلی کتابوں میں ہے کہ سیدنا موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دیدار دیکھنے کی خواہش کی تو جواب ملا کہ ’ اے موسیٰ [ علیہ السلام ] جو زندہ مجھے دیکھے گا وہ مر جائے گا اور جو خشک مجھے دیکھ لے گا وہ ریزہ ریزہ ہو جائے گا ‘ ۔ خود قرآن میں ہے کہ «فَلَمَّا تَجَلَّیٰ رَبٰہُ لِلْجَبَلِ جَعَلَہُ دَکًّا وَخَرَّ مُوسَیٰ صَعِقًا فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ سُبْحَانَکَ تُبْتُ إِلَیْکَ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِینَ» ۱؎ (7-الأعراف:143) ’ جب تیرے رب نے پہاڑ پر تجلی ڈالی تو وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا اور موسیٰ بیہوش ہو کر گر پڑے افاقہ کے بعد کہنے لگے اللہ تو پاک ہے میں تیری طرف توبہ کرتا ہوں اور میں سب سے پہلا مومن ہوں ‘ ۔ یاد رہے کہ اس خاص ادراک کے انکار سے قیامت کے دن مومنوں کے اپنے رب کے دیکھنے سے انکار نہیں ہو سکتا ۔ اس کی کیفیت کا علم اسی کو ہے ۔ ہاں بیشک اس کی حقیقی عظمت جلالت قدرت بزرگی وغیرہ جیسی ہے وہ بھلا کہاں کسی کی سمجھ میں آ سکتی ہے ؟ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ” آخرت میں دیدار ہوگا اور دنیا میں کوئی بھی اللہ کو نہیں دیکھ سکتا “ اور یہی آیت تلاوت فرمائی ۔ پس جس ادراک کی نفی کی ہے وہ معنی میں عظمت و جلال کی روایت کے ہے جیسا کہ وہ ہے ۔ یہ تو انسان کیا فرشتوں کے لیے بھی ناممکن ہے ہاں وہ سب کو گھیرے ہوئے ہے جب وہ خالق ہے تو عالم کیوں نہ ہو گا جیسے فرمان ہے آیت «اَلَا یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَہُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ» ۱؎ (67-الملک:14) ’ کیا وہ نہیں جانے گا جو پیدا کرتا ہے جو لطف و کرم والا اور بڑی خبرداری والا ہے ‘ اور ہو سکتا ہے کہ نگاہ سے مراد نگاہ ولا ہو یعنی اسے کوئی نہیں دیکھ سکتا اور وہ سب کو دیکھتا ہے وہ ہر ایک کو نکالنے میں لطیف ہے اور ان کی جگہ سے خبیر ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» جیسے کہ لقمان رحمہ اللہ نے اپنے بیٹے کو وعظ کہتے ہوئے فرمایا تھا کہ «یَا بُنَیَّ إِنَّہَا إِن تَکُ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَکُن فِی صَخْرَۃٍ أَوْ فِی السَّمَاوَاتِ أَوْ فِی الْأَرْضِ یَأْتِ بِہَا اللہُ إِنَّ اللہَ لَطِیفٌ خَبِیرٌ» ۱؎ (31-لقمان:16) ’ بیٹا اگر کوئی بھلائی یا برائی رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو خواہ پتھر میں ہو یا آسمانوں میں یا زمین میں اللہ اسے لائے گا اللہ تعالیٰ بڑا باریک بین اور خبردار ہے ‘ ۔ الانعام
103 الانعام
104 ہدایت و شفا قرآن و حدیث میں ہے «بَصَائِرُ» سے مراد دلیلیں اور حجتیں ہیں جو قرآن و حدیث میں موجود ہیں جو انہیں دیکھے اور ان سے نفع حاصل کرے وہ اپنا ہی بھلا کرتا ہے -جیسے فرمان ہے کہ «مَّنِ اہْتَدَیٰ فَإِنَّمَا یَہْتَدِی لِنَفْسِہِ وَمَن ضَلَّ فَإِنَّمَا یَضِلٰ عَلَیْہَا» ۱؎ (17-الإسراء:15) ’ راہ پانے والا اپنے لیے راہ پاتا ہے اور گمراہ ہونے والا اپنا ہی بگاڑتا ہے ‘ ۔ یہاں بھی فرمایا ’ اندھا اپنا ہی نقصان کرتا ہے کیونکہ آخر گمراہی کا اسی پر اثر پڑتا ہے ‘ ۔ جیسے ارشاد ہے «فَإِنَّہَا لَا تَعْمَی الْأَبْصَارُ وَلٰکِن تَعْمَی الْقُلُوبُ الَّتِی فِی الصٰدُورِ» ۱؎ (22-الحج:46) ’ آنکھیں اندھی نہیں ہوتی بلکہ سینوں کے اندر دل اندھے ہو جاتے ہیں ‘ ۔ میں تم پر نگہبان حافظ چوکیدار نہیں بلکہ میں تو صرف مبلغ ہوں ہدایت اللہ کے ہاتھ ہے ، جس طرح توحید کے دلائل واضح فرمائے اسی طرح اپنی آیتوں کو کھول کھول کر تفسیر اور وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا تاکہ کوئی جاہل نہ رہ جائے اور مشرکین مکذبین اور کافرین یہ نہ کہہ دیں کہ تو نے اے نبی [ صلی اللہ علیہ وسلم ] اہل کتاب سے یہ درس لیا ہے ان سے پڑھا ہے انہی نے تجھے سکھایا ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ معنی بھی مروی ہیں کہ ” تو نے پڑھ سنایا تو نے جھگڑا کیا “ ، تو یہ اسی آیت کی طرح آیت ہوگی جہاں بیان ہے «وَقَالَ الَّذِینَ کَفَرُوا إِنْ ہَذَا إِلَّا إِفْکٌ افْتَرَاہُ وَأَعَانَہُ عَلَیْہِ قَوْمٌ آخَرُونَ فَقَدْ جَاءُوا ظُلْمًا وَزُورًا وَقَالُوا أَسَاطِیرُ الْأَوَّلِینَ اکْتَتَبَہَا فَہِیَ تُمْلَی عَلَیْہِ بُکْرَۃً وَأَصِیلًا» ۱؎ (25-الفرقان:5-4) ’ کافروں نے کہا کہ یہ تو صرف بہتان ہے جسے اس نے گھڑ لیا ہے اور دوسروں نے اس کی تائید کی ہے ‘ ۔ اور آیتوں میں ان کے بڑے کا قول ہے کہ «إِنَّہُ فَکَّرَ وَقَدَّرَ فَقُتِلَ کَیْفَ قَدَّرَ ثُمَّ قُتِلَ کَیْفَ قَدَّرَ ثُمَّ نَظَرَ ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَ ثُمَّ أَدْبَرَ وَاسْتَکْبَرَ فَقَالَ إِنْ ہٰذَا إِلَّا سِحْرٌ یُؤْثَرُ إِنْ ہٰذَا إِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ» ۱؎ (74-المدثر:18-25) ’ اس نے بہت کچھ غور وخوض کے بعد فیصلہ کیا کہ یہ تو چلتا ہوا جادو ہے ، یقیناً یہ انسانی قول ہے اور اس لیے کہ ہم علماء کے سامنے وضاحت کر دیں تاکہ وہ حق کے قائل اور باطل کے دشمن بن جائیں ‘ ۔ رب کی مصلحت وہی جانتا ہے کہ جو ایک گروہ کو ہدایت اور دوسرے کو ضلالت عطا کرتا ہے ، جیسے فرمایا «یُضِلٰ بِہِ کَثِیرًا وَیَہْدِی بِہِ کَثِیرًا وَمَا یُضِلٰ بِہِ إِلَّا الْفَاسِقِینَ» ۱؎ (2-البقرہ:26) ’ اس کے ساتھ بہت کو ہدایت کرتا ہے اور بہت کو گمراہ کرتا ہے ‘ ۔ اور آیت میں ہے «لِّیَجْعَلَ مَا یُلْقِی الشَّیْطَانُ فِتْنَۃً لِّلَّذِینَ فِی قُلُوبِہِم مَّرَضٌ وَالْقَاسِیَۃِ قُلُوبُہُمْ وَإِنَّ الظَّالِمِینَ لَفِی شِقَاقٍ بَعِیدٍ» ۱؎ (22-الحج:53) ’ تاکہ وہ شیطان کے القا کو بیمار دلوں کیلئے سبب فتنہ کر دے ‘ ۔ اور فرمایا آیت «وَمَا جَعَلْنَآ اَصْحٰبَ النَّارِ اِلَّا مَلٰیِٕکَۃً ۠ وَّمَا جَعَلْنَا عِدَّتَہُمْ اِلَّا فِتْنَۃً لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْا» ۱؎ (74-المدثر:31) یعنی ’ ہم نے دوزخ کے پاسبان فرشتے مقرر کئے ہیں ان کی مقررہ تعداد بھی کافروں کے لیے فتنہ ہے تاکہ اہل کتاب کامل یقین کرلیں ایماندار ایمان میں بڑھ جائیں اہل کتاب اور مومن شک شبہ سے الگ ہو جائیں اور بیمار دل کفر والے کہتے ہیں کہ اس مثال سے اللہ کی کیا مراد ہے اسی طرح جسے اللہ چاہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہے راہ راست دکھاتا ہے ، تیرے رب کے لشکروں کو بجز اس کے کوئی نہیں جانتا ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا ہُوَ شِفَاءٌ وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ وَلَا یَزِیْدُ الظّٰلِمِیْنَ اِلَّا خَسَارًا» (17-الاسراء:82) یعنی ’ ہم نے قرآن اتارا ہے جو مومنوں کے لیے شفاء اور رحمت ہے البتہ ظالموں کو تو نقصان ہی ملتا ہے ‘ ۔ اور آیت میں ہے کہ «قُلْ ہُوَ لِلَّذِینَ آمَنُوا ہُدًی وَشِفَاءٌ وَالَّذِینَ لَا یُؤْمِنُونَ فِی آذَانِہِمْ وَقْرٌ وَہُوَ عَلَیْہِمْ عَمًی أُولٰئِکَ یُنَادَوْنَ مِن مَّکَانٍ بَعِیدٍ» ۱؎ (41-فصلت:44) ’ یہ ایمان والوں کے لیے ہدایت و شفاء ہے اور بے ایمان وں کے کانوں میں بوجھ ہے اور ان پر اندھا پن غالب ہے یہ دور کی جگہ سے پکارے جا رہے ہیں ‘ ۔ اور بھی اس مضمون کی بہت سی آیتیں ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن سے لوگ نصیحت حاصل کرتے ہیں اور گمراہ بھی ہوتے ہیں ۔ «دَارَسْتَ» کی دوسری قرأت «دَرَسْتَ» بھی ہے یعنی پڑھا اور سیکھا اور یہ معنی ہیں کہ اسے تو مدت گزر چکی یہ تو تو پہلے سے لایا ہوا ہے ، یہ تو تو پڑھایا گیا ہے اور سکھایا گیا ہے ۔ ایک قرأت میں «دَرَسَ» بھی ہے ۔ ۱؎ (الدر المنشور للسیوطی:70/3:) لیکن یہ غریب ہے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے «درَسْتَ» پڑھایا ہے ۔ ۱؎ (الدر المنشور للسیوطی:70/3:) الانعام
105 الانعام
106 وحی کے مطابق عمل کرو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو حکم ہو رہا ہے کہ وحی الٰہی کی اتباع اور اسی کے مطابق عمل کرو جو وحی اللہ کی جانب سے اترتی ہے وہ سراسر حق ہے اس کے حق ہونے میں زرا سا بھی شبہ نہیں ۔ معبود برحق صرف وہی ہے ، مشرکین سے درگزر کر ، ان کی ایذاء دہی پر صبر کر ، ان کی بد زبانی برداشت کرلے ، ان کی بد زبانی سن لے ، یقین مان کر تیری فتح کا تیرے غلبہ کا تیری طاقت و قوت کا وقت دور نہیں ۔ اللہ کی مصلحتوں کو کوئی نہیں جانتا دیر گو ہو لیکن اندھیرا نہیں ۔ اگر اللہ چاہتا تو سب کو ہدایت دیتا اس کی مشیت اس کی حکمت وہی جانتا ہے نہ کوئی اس سے بازپرس کر سکے نہ اس کا ہاتھ تھام سکے وہ سب کا حاکم اور سب سے سوال کرنے پر قادر ہے تو اس کے اقوال و اعمال کا محافظ نہیں تو ان کے رزق وغیرہ امور کا وکیل نہیں تیرے ذمہ صرف اللہ کے حکم کو پہنچا دینا ہے ۔ جیسے فرمایا «فَذَکِّرْ إِنَّمَا أَنتَ مُذَکِّرٌ لَّسْتَ عَلَیْہِم بِمُصَیْطِرٍ» ۱؎ (88-الغاشیۃ:21-22) ’ نصیحت کر دے کیونکہ تیرا کام یہی ہے تو ان پر داروغہ نہیں ‘ اور فرمایا «فَإِنَّمَا عَلَیْکَ الْبَلَاغُ وَعَلَیْنَا الْحِسَابُ» ۱؎ (13-الرعد:40) ’ تمہاری ذمہ داری تو صرف پہنچا دینا ہے حساب ہمارے ذمہ ہے ‘ ۔ الانعام
107 الانعام
108 سودا بازی نہیں ہو گی اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والوں کو مشرکین کے معبودوں کو گالیاں دینے سے منع فرماتا ہے گو کہ اس میں کچھ مصلحت بھی ہو لیکن اس میں مفسدہ بھی ہے اور وہ بہت بڑا ہے یعنی ایسا نہ ہو کہ مشرک اپنی نادانی سے اللہ کو گالیاں دینے لگ جائیں ۔ ایک روایت میں ہے کہ مشرکین نے ایسا ارادہ ظاہر کیا تھا اس پر یہ آیت اتری ، قتادہ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ ایسا ہوا تھا اس لیے یہ آیت اتری اور ممانعت کر دی گئی ۔ ابن ابی حاتم میں سدی رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ ابوطالب کی موت کی بیماری کے وقت قریشیوں نے آپس میں کہا کہ چلو چل کر ابوطالب سے کہیں کہ وہ اپنے بھتیجے [ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ] کو روک دیں ورنہ یہ یقینی بات ہے کہ اب ہم اسے مار ڈالیں گے تو ممکن ہے کہ عرب کی طرف سے آواز اٹھے کہ چچا کی موجودگی میں تو قریشیوں کو چلی نہیں اس کی موت کے بعد مار ڈالا ۔ یہ مشورہ کرکے ابوجہل ، ابوسفیان ، نضیر بن حارث ، امیہ بن ابی خلف ، عقبہ بن ابو محیط ، عمرو بن العاص اور اسود بن بختری چلے ۔ مطلب نامی ایک شخص کو ابوطالب کے پاس بھیجا کہ وہ ان کے آنے کی خبر دیں اور اجازت لیں ۔ اس نے جا کر کہا کہ آپ کی قوم کے سردار آپ سے ملنا چاہتے ہیں ابوطالب نے کہا بلا لو یہ لوگ گئے اور کہنے لگے آپ کو ہم اپنا بڑا اور سردار مانتے ہیں آپ کو معلوم ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ستا رکھا ہے وہ ہمارے معبودوں کو برا کہتا ہے ، ہم چاہتے ہیں کہ آپ بلا کر منع کر دیجئیے ہم بھی اس سے رک جائیں گے ۔ ابوطالب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بلایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ابوطالب نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم کے بڑے یہاں جمع ہیں یہ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کنبے قبیلے اور رشتے کے ہیں یہ چاہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اور ان کے معبودوں کو چھوڑ دیں یہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اللہ کو چھوڑ دیں گے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { خیر ایک بات میں کہتا ہوں یہ سب لوگ سوچ سمجھ کر اس کا جواب دیں ۔ میں ان سے صرف ایک کلمہ طلب کرتا ہوں اور وعدہ کرتا ہوں کہ اگر یہ میری ایک بات مان لیں تو تمام عرب ان کا ماتحت ہو جائے تمام عجم ان کی مملکت میں آ جائے بڑی بڑی سلطنتیں انہیں خراج ادا کریں } ۔ یہ سن کر ابوجہل نے کہا قسم ہے ایک ہی نہیں ایسی دس باتیں بھی اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہوں تو ہم ماننے کو موجود ہیں فرمائیے وہ کلمہ کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { بس «لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ» کہہ دو } ۔ اس پر ان سب نے انکار کیا اور ناک بھوں چڑھائی ۔ یہ بات دیکھ کر ابوطالب نے کہا پیارے بھتیجے اور کوئی بات کہو دیکھو تمہاری قوم کے سرداروں کو تمہاری یہ بات پسند نہیں آئی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { چچا جان آپ مجھے کیا سمجھتے ہیں اللہ کی قسم مجھے اسی ایک کلمہ کی دھن ہے اگر یہ لوگ سورج کو لا کر میرے ہاتھ میں رکھ دیں جب بھی میں کوئی اور کلمہ نہیں کہوں گا } ۔ یہ سن کر وہ لوگ اور بگڑے اور کہنے لگے بس ہم کہہ دیتے ہیں کہ یا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے معبودوں کو گالیاں دینے سے رک جائیں ورنہ پھر ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معبود کو گالیاں دیں گے ۔ اس پر رب العالمین نے یہ آیت اتاری ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:13744:مرسل) اسی مصلحت کو مد نظر رکھ کر { رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { وہ ملعون ہے جو اپنے ماں باپ کو گالیاں دے } ۔ صحابہ نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوئی شخص اپنے ماں باپ کو گالی کیسے دے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اس طرح کہ یہ دوسرے کے باپ کو گالی دے دوسرا اس کے باپ کو ، یہ کسی کی ماں کو گالی دے وہ اس کی ماں کو } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5973) پھر فرماتا ہے ’ اسی طرح اگلی امتیں بھی اپنی گمراہی کو اپنے حق میں ہدایت سمجھتی رہیں ‘ ۔ یہ بھی رب کی حکمت ہے یاد رہے کہ سب کا لوٹنا اللہ ہی کی طرف ہے وہ انہیں ان کے سب برے بھلے اعمال کا بدلہ دے گا اور ضرور دے گا ۔ الانعام
109 معجزوں کے طالب لوگ صرف مسلمانوں کو دھوکا دینے کیلئے اور اس لیے بھی کہ خود مسلمان شک شبہ میں پڑ جائیں کافر لوگ قسمیں کھا کھا کر بڑے زور سے کہتے تھے کہ ہمارے طلب کردہ معجزے ہمیں دکھا دیئے جائیں تو واللہ ہم بھی مسلمان ہو جائیں ۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو ہدایت فرماتا ہے کہ ’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیں کہ معجزے میرے قبضے میں نہیں یہ اللہ کے ہاتھ میں ہیں وہ چاہے دکھائے چاہے نہ دکھائے ‘ ۔ ابن جریر میں ہے کہ { مشرکین نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں موسیٰ علیہ السلام ایک پتھر پر لکڑی مارتے تھے تو اس سے بارہ چشمے نکلے تھے اور عیسیٰ علیہ السلام مردوں میں جان ڈال دیتے تھے اور ثمود علیہ السلام نے اونٹنی کا معجزہ دکھایا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی جو معجزہ ہم کہیں دکھا دیں واللہ ہم سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو مان لیں گے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { کیا معجزہ دیکھنا چاہتے ہو ؟ } انہوں نے کہا کہ آپ صفا پہاڑ کو ہمارے لیے سونے کا بنا دیں پھر تو قسم اللہ کی ہم سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا جاننے لگیں گے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے اس کلام سے کچھ امید بندھ گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنی شروع کی وہیں جبرائیل آئے اور فرمانے لگے ” سنئے اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہیں تو اللہ بھی اس صفا پہار کو سونے کا کر دے گا لیکن اگر یہ ایمان نہ لائے تو اللہ کا عذاب ان سب کو فنا کر دے گا ورنہ اللہ تعالیٰ اپنے عذابوں کو روکے ہوئے ہے ممکن ہے ان میں نیک سمجھ والے بھی ہوں اور وہ ہدایت پر آ جائیں “ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { نہیں اللہ تعالیٰ میں صفا کا سونا نہیں چاہتا بلکہ میں چاہتا ہوں کہ تو ان پر مہربانی فرما کر انہیں عذاب نہ کر اور ان میں سے جسے چاہے ہدایت نصیب فرما } ۔ اسی پر یہ آیتیں «وَلٰکِنَّ اَکْثَرَہُمْ یَجْہَلُوْنَ» ۱؎ (6-الأنعام:111) تک نازل ہوئیں } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:13750:مرسل) یہ حدیث گو مرسل ہے لیکن اس کے شاہد بہت ہیں ۔ چنانچہ قرآن کریم میں اور جگہ ہے آیت «وَمَا مَنَعَنَآ اَنْ نٰرْسِلَ بالْاٰیٰتِ اِلَّآ اَنْ کَذَّبَ بِہَا الْاَوَّلُوْنَ» ۱؎ (17-الاسراء:59) یعنی ’ معجزوں کے اتارنے سے صرف یہ چیز مانع ہے کہ ان سے اگلوں نے بھی انہیں جھٹلایا ‘ ۔ «أَنَّہَا» کی دوسری قرأت «اِنَّہَا» بھی ہے اور «لَا یُؤْمِنُونَ» کی دوسری قرأت «لَا تُؤْمِنُونَ» ہے اس صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ ’ اے مشرکین کیا خبر ممکن ہے خود تمہارے طلب کردہ معجزوں کے آ جانے کے بعد بھی تمہیں ایمان لانا نصیب نہ ہو ‘ ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس آیت میں خطاب مومنوں سے ہے یعنی ’ اے مسلمانو ! تم نہیں جانتے یہ لوگ ان نشانیوں کے ظاہر ہو چکنے پر بھی بے ایمان ہی رہیں گے ‘ ۔ اس صورت میں «أَنَّہَا» الف کے زیر کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے اور الف کے زبر کے ساتھ بھی «یُشْعِرُکُمْ» کا معمول ہو کر اور «لَا یُؤْمِنُونَ» کا لام اس صورت میں صلہ ہو گا جیسے آیت «قَالَ مَا مَنَعَکَ اَلَّا تَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُکَ» ۱؎ (7-الأعراف:12) میں ۔ اور آیت «وَحَرَامٌ عَلَی قَرْیَۃٍ أَہْلَکْنَاہَا أَنَّہُمْ لَا یَرْجِعُونَ» (21-الأنبیاء:95) میں تو مطلب یہ ہوتا کہ ’ اے مومنو تمہارے پاس اس کا کیا ثبوت ہے کہ یہ اپنی من مانی اور منہ مانگی نشانی دیکھ کر ایمان لائیں گے بھی ؟ ‘ ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ «أَنَّہَا» معنی میں «لَعَلَّہَا» کے ہے ،بلکہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی قرأت میں «أَنَّہَا» کے بدلے «لَعَلَّہَا» ہی ہے ۔ عرب کے محاورے میں اور شعروں میں بھی یہی پایا گیا ہے ، امام ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ اسی کو پسند فرماتے ہیں اور اس کے بہت سے شواہد بھی انہوں نے پیش کئے ہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» پھر فرماتا ہے کہ ’ ان کے انکار اور کفر کی وجہ سے ان کے دل اور ان کی نگاہیں ہم نے پھیر دی ہیں ، اب یہ کسی بات پر ایمان لانے والے ہی نہیں -ایمان اور ان کے درمیان دیوار حائل ہو چکی ہے ، روئے زمین کے نشانات دیکھ لیں گے تو بھی بے ایمان ہی رہیں گے اگر ایمان قسمت میں ہوتا تو حق کی آواز پر پہلے ہی لبیک پکار اٹھتے ‘ ۔ اللہ تعالیٰ ان کی بات سے پہلے یہ جانتا تھا کہ یہ کیا کہیں گے ؟ اور ان کے عمل سے پہلے جانتا تھا کہ یہ کیا کریں گے ؟ اسی لیے اس نے بتلا دیا کہ ایسا ہو گا فرماتا ہے آیت «وَلَا یُنَبِّئُکَ مِثْلُ خَبِیْرٍ» ۱؎ (35-فاطر:14) ’ اللہ تعالیٰ جو کامل خبر رکھنے والا ہے اور اس جیسی خبر اور کون دے سکتا ہے ؟ ‘ ۔ اس نے فرمایا کہ «أَن تَقُولَ نَفْسٌ یَا حَسْرَتَیٰ عَلَیٰ مَا فَرَّطتُ فِی جَنبِ اللہِ وَإِن کُنتُ لَمِنَ السَّاخِرِینَ أَوْ تَقُولَ لَوْ أَنَّ اللہَ ہَدَانِی لَکُنتُ مِنَ الْمُتَّقِینَ أَوْ تَقُولَ حِینَ تَرَی الْعَذَابَ لَوْ أَنَّ لِی کَرَّۃً فَأَکُونَ مِنَ الْمُحْسِنِینَ» ۱؎ (39-الزمر:56-58) ’ یہ لوگ قیامت کے روز حسرت و افسوس کے ساتھ آرزو کریں گے کہ اگر اب لوٹ کر دنیا کی طرف جائیں تو نیک اور بھلے بن کر رہیں ‘ ۔ لیکن اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتا ہے «وَلَوْ رُدٰوا لَعَادُوا لِمَا نُہُوا عَنْہُ وَإِنَّہُمْ لَکَاذِبُونَ» ۱؎ (6-الأنعام:28) ’ اگر بالفرض یہ لوٹا بھی دیئے جائیں تو بھی یہ ایسے کے ایسے ہی رہیں گے اور جن کاموں سے روکے گئے ہیں انہی کو کریں گے ، ہرگز نہ چھوڑیں گے ‘ ۔ یہاں بھی فرمایا کہ ’ معجزوں کا دیکھنا بھی ان کے لیے مفید نہ ہوگا ان کی نگاہیں حق کو دیکھنے والی ہی نہیں رہیں ان کے دل میں حق کیلئے کوئی جگہ خالی ہی نہیں ۔ پہلی بار ہی انہیں ایمان نصیب نہیں ہوا اسی طرح نشانوں کے ظاہر ہونے کے بعد بھی ایمان سے محروم رہیں گے ۔ بلکہ اپنی سرکشی اور گمراہی میں ہی بہکتے اور بھٹکتے حیران و سرگرداں رہیں گے ‘ ۔ [ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو اپنے دین پر ثابت رکھے ۔ آمین ] ۔ الانعام
110 الانعام
111 آیت ۱۱۱ فرماتا ہے کہ ’ یہ کفار جو قسمیں کھا کھا کر تم سے کہتے ہیں کہ اگر کوئی معجزہ وہ دیکھ لیتے تو ضرور ایمان لے آتے -یہ غلط کہتے ہیں تمہیں ان کے ایمان لانے سے مایوس ہو جانا چاہیئے ‘ ۔ یہ کہتے ہیں کہ «وَقَالَ الَّذِینَ لَا یَرْجُونَ لِقَاءَنَا لَوْلَا أُنزِلَ عَلَیْنَا الْمَلَائِکَۃُ أَوْ نَرَیٰ رَبَّنَا لَقَدِ اسْتَکْبَرُوا فِی أَنفُسِہِمْ وَعَتَوْا عُتُوًّا کَبِیرًا» ۱؎ (25-الفرقان:21) ’ اگر فرشتے اترتے تو ہم مان لیتے لیکن یہ بھی جھوٹ ہے فرشتوں کے آ جانے پر بھی اور ان کے کہہ دینے پر بھی کہ یہ رسول برحق ہیں انہیں ایمان نصیب نہیں ہوگا ، یہ صرف ایمان نہ لانے کے بہانے تراشتے ہیں ‘ کہ «أَوْ تَأْتِیَ بِ اللہِ وَالْمَلَائِکَۃِ قَبِیلًا» ۱؎ (17-الإسراء:92) ’ کبھی کہہ دیتے ہیں اللہ کو لے آ ۔ کبھی کہتے ہیں فرشتوں کو لے آ ‘ ۔ کبھی کہتے ہیں اگلے نبیوں جیسے معجزے لے آ ، یہ سب حجت بازی اور حیلے حوالے ہیں ، دلوں میں تکبر بھرا ہوا ہے زبان سے سرکشی اور برائی ظاہر کرتے ہیں ، اگر مردے بھی قبروں سے اٹھ کر آ جائیں اور کہہ دیں کہ یہ رسول برحق ہیں ان کے دلوں پر اس کا بھی کوئی اثر نہیں ہو گا ۔ «قُبُلًا» کی دوسری قرأت «قِبَلًا» ہے جس کے معنی مقابلے اور معائنہ کے ہوتے ہیں ایک قول میں «قُبُلاً» کے معنی بھی یہی بیان کئے گئے ہیں ۔ ہاں مجاہد رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ ” اس کے معنی گروہ گروہ کے ہیں ان کے سامنے اگر ایک امت آ جاتی اور رسولوں کی ہدایت دیدے وہ جو کرنا چاہے کوئی اس سے پوچھ نہیں سکتا اور وہ چونکہ حاکم کل ہے ہر ایک سے بازپرس کر سکتا ہے وہ علیم و حکیم ہے ، حاکم و غالب و قہار ہے “ اور آیت میں ہے «اِنَّ الَّذِیْنَ حَقَّتْ عَلَیْہِمْ کَلِمَتُ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ وَلَوْ جَاءَتْہُمْ کُلٰ آیَۃٍ حَتَّیٰ یَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِیمَ» (10-یونس:97-96) یعنی ’ جن لوگوں کے ذمہ کلمہ عذاب ثابت ہو گیا ہے وہ تمام تر نشانیاں دیکھتے ہوئے بھی ایمان نہ لائیں گے جب تک کہ المناک عذاب نہ دیکھ لیں ‘ ۔ الانعام
112 ہر نبی کو ایذاء دی گئی ارشاد ہوتا ہے کہ ’ اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ تنگ دل اور مغموم نہ ہوں جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے یہ کفار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دشمنی کرتے ہیں «فَإِن کَذَّبُوکَ فَقَدْ کُذِّبَ رُسُلٌ مِّن قَبْلِکَ» ۱؎ (3-آل عمران:184) اسی طرح ہر نبی کے زمانے کے کفار اپنے اپنے نبیوں کے ساتھ دشمنی کرتے رہے ہیں ‘ - جیسے اور آیت میں تسلی دیتے ہوئے فرمایا «وَلَقَدْ کُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِکَ فَصَبَرُوْا عَلٰی مَا کُذِّبُوْا وَاُوْذُوْا حَتّٰی اَتٰیہُمْ نَصْرُنَا وَلَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِ اللّٰہِ وَلَقَدْ جَاءَکَ مِنْ نَّبَاِی الْمُرْسَلِیْنَ» ۱؎ (6-الأنعام:34) ’ تجھ سے پہلے کے پیغمبروں کو بھی جھٹلایا گیا انہیں بھی ایذائیں پہنچائی گئیں جس پر انہوں نے صبر کیا ‘ ۔ اور آیت میں کہا گیا ہے کہ «مَا یُقَالُ لَکَ إِلَّا مَا قَدْ قِیلَ لِلرٰسُلِ مِنْ قَبْلِکَ إِنَّ رَبَّکَ لَذُو مَغْفِرَۃٍ وَذُو عِقَابٍ أَلِیمٍ» (41-فصلت:43) ’ تجھ سے بھی وہی کہا جاتا ہے جو تجھ سے پہلے کے نبیوں کو کہا گیا تھا تیرا رب بڑی مغفرت والا ہے اور سات ہی المناک عذاب کرنے والا بھی ہے ‘ اور آیت میں ہے «وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا مِّنَ الْمُجْرِمِیْنَ وَکَفٰی بِرَبِّکَ ہَادِیًا وَّنَصِیْرًا» ۱؎ (25-الفرقان:31) ’ ہم نے گنہگاروں کو ہر نبی علیہ السلام کا دشمن بنا دیا ہے ‘ ۔ یہی بات ورقہ بن نوفل نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہی تھی کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیسی چیز جو رسول بھی لے کر آیا اس سے عداوت کی گئی } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3) نبیوں کے دشمن شریر انسان بھی ہوتے ہیں اور جنات بھی «عَدُوًّا» سے بدل «شَیَاطِینَ الْإِنسِ وَالْجِنِّ» ہے ، انسانوں میں بھی شیطان ہیں اور جنوں میں بھی ۔ { سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ ایک دن نماز پڑھ رہے تھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا : { کیا تم نے شیاطین انس و جن سے اللہ کی پناہ بھی مانگ لی ؟ } صحابی رضی اللہ عنہ نے پوچھا کیا انسانوں میں بھی شیطان ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ہاں } } ۔ یہ حدیث منقطع ہے ۔ ۱؎ (تفسیر عبد الرزاق:846:ضعیف و منقطع) ایک اور روایت میں ہے کہ { میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس مجلس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم دیر تک تشریف فرما رہے ، مجھ سے فرمانے لگے { ابوذر [ رضی اللہ عنہ ] تم نے نماز پڑھ لی ؟ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں پڑھی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اٹھو اور دو رکعت ادا کرلو } ۔ جب میں فارغ ہوکر آیا تو فرمانے لگے { کیا تم نے شیاطین انس و جن سے اللہ کی پناہ بھی مانگ لی ؟ } میں نے کہا نہیں ، کیا انسانوں میں بھی شیطان ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ہاں ! اور وہ جنوں اور شیطانوں سے زیادہ شریر ہیں } } } ۔ یہ حدیث منقطع ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:13773:ضعیف و منقطع) ایک متصل روایت مسند احمد میں مطول ہے اس میں یہ بھی ہے کہ یہ واقعہ مسجد کا ہے ۱؎ (مسند احمد:178/5:ضعیف) اور روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس فرمان کے بعد یہ پڑھنا بھی مروی ہے کہ آیت «وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَـیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ یُوْحِیْ بَعْضُہُمْ اِلٰی بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا» ۱؎ (6-الأنعام:112) ۱؎ (مسند احمد:265/5:ضعیف) -الغرض یہ حدیث بہت سی سندوں سے مروی ہے جس سے قوت صحت کا فائدہ ہو جاتا ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» - عکرمہ رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ ” انسانوں میں شیطان نہیں جنات کے شیاطین ایک دوسرے سے کانا پھوسی کرتے ہیں “ ۔ آپ رحمہ اللہ سے یہ بھی مروی ہے کہ ” انسانوں کے شیطان جو انسانوں کو گمراہ کرتے ہیں اور جنوں کے شیطان جو جنوں کو گمراہ کرتے ہیں جب آپس میں ملتے ہیں تو ایک دوسرے سے اپنی کار گزاری بیان کرتے ہیں کہ میں نے فلاں کو اس طرح بہکا یا تو فلاں کو اس طرح بہکایا ایک دوسرے کو گمراہی کے طریقے بتاتے ہیں “ ۔ اس سے امام ابن جریر رحمہ اللہ تو یہ سمجھے ہیں کہ شیطان تو جنوں میں سے ہی ہوتے ہیں لیکن بعض انسانوں پر لگے ہوئے ہوتے ہیں بعض جنات پر تو یہ مطلب عکرمہ رحمہ اللہ کے قول سے تو ظاہر ہے ہاں سدی رحمہ اللہ کے قول میں متحمل ہے ۔ ایک قول میں عکرمہ اور سدی رحمہ اللہ علیہم دونوں سے یہ مروی ہے ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” جنات کے شیاطین ہیں جو انہیں بہکاتے ہیں جیسے انسانوں کے شیطان جو انہیں بہکاتے ہیں اور ایک دوسرے سے مل کر مشورہ دیتے ہیں کہ اسے اس طرح بہکا “ ۔ صحیح وہی ہے جو سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ والی حدیث میں اوپر گزرا ۔ عربی میں ہر سرکش شریر کو شیطان کہتے ہیں صحیح مسلم میں ہے کہ { حضور نے سیاہ رنگ کے کتے کو شیطان فرمایا ہے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:510) تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ وہ کتوں میں شیطان ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” کفار جن ، کفار انسانوں کے کانوں میں صور پھونکتے رہتے ہیں “ ۔ عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” میں مختار ابن ابی عبید کے پاس گیا اس نے میری بڑی تعظیم تکریم کی اپنے ہاں مہمان بنا کر ٹھہرایا رات کو بھی شاید اپنے ہاں سلاتا لیکن مجھ سے اس نے کہا کہ جاؤ لوگوں کو کجھ سناؤ میں جا کر بیٹھا ہی تھا کہ ایک شخص نے مجھ سے پوچھا آپ وحی کے بارے میں کیا فرماتے ہیں ؟ میں نے کہا وحی کی دو قسمیں ہیں ایک اللہ کی طرف سے جیسے فرمان ہے آیت «بِمَآ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ وَاِنْ کُنْتَ مِنْ قَبْلِہٖ لَمِنَ الْغٰفِلِیْنَ» (12-یوسف:3) اور دوسری وحی شیطانی جیسے فرمان ہے «وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَـیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ یُوْحِیْ بَعْضُہُمْ اِلٰی بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا» (6-الأنعام:112) اتنا سنتے ہی لوگ میرے اوپر پل پڑے قریب تھا کہ پکڑ کر مارپیٹ شروع کر دیں میں نے کہا ارے بھائیو ! یہ تم میرے ساتھ کیا کرنے لگے ؟ میں نے تو تمہارے سوال کا جواب دیا اور میں تو تمہارا مہمان ہوں چنانچہ انہوں نے مجھے چھوڑ دیا “ ۔ مختار ملعون لوگوں سے کہتا تھا کہ میرے پاس وحی آتی ہے اس کی بہن صفیہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے گھر میں تھیں اور بڑی دیندار تھیں ۔ جب عبداللہ رضی اللہ عنہ کو مختار کا یہ قول معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا وہ ٹھیک کہتا ہے قرآن میں ہے «وَاِنَّ الشَّیٰطِیْنَ لَیُوْحُوْنَ اِلٰٓی اَوْلِیٰـــِٕــہِمْ لِیُجَادِلُوْکُمْ وَاِنْ اَطَعْتُمُوْہُمْ اِنَّکُمْ لَمُشْرِکُوْنَ» ۱؎ (6-الأنعام:121) یعنی ’ شیطان بھی اپنے دوستوں کی طرف وحی لے جاتے ہیں ‘ - الغرض ایسے متکبر سرکش جنات و انس آپ میں ایک دوسرے کو دھوکے بازی کی باتین سکھاتے ہیں یہ بھی اللہ تعالیٰ کی قضاء و قدر اور چاہت و مشیت ہے وہ ان کی وجہ سے اپنے نبیوں کی اولوالعزمی اپنے بندوں کو دکھا دیتا ہے ، تو ان کی عداوت کا خیال بھی نہ کر ، ان کا جھوٹ تجھے کچھ بھی نقصان نہ پہنچا سکے گا تو اللہ پر بھروسہ رکھ اسی پر توکل کر اور اپنے کام اسے سونپ کر بے فکر ہو جا ، وہ تجھے کافی ہے اور وہی تیرا مددگار ہے - یہ لوگ جو اس طرح کی خرافات کرتے ہیں یہ محض اسلئے کہ بے ایمانوں کے دل ان کی نگاہیں اور ان کے کان ان کی طرف جھک جائیں وہ ایسی باتوں کو پسند کریں اس سے خوش ہو جائیں پس ان کی باتیں وہی قبول کرتے ہیں جنہیں آخرت پر ایمان نہیں ہوتا ، ایسے واصل جہنم ہونے والے بہکے ہوئے لوگ ہی ان کی فضول اور چکنی چپڑی باتوں میں پھنس جاتے ہیں پھر وہ کرتے ہیں جو ان کے قابل ہے ۔ الانعام
113 الانعام
114 اللہ کے فیصلے اٹل ہیں حکم ہوتا ہے کہ ’ مشرک جو کہ اللہ کے سوا دوسروں کی پرستش کر رہے ہیں ان سے کہہ دیجئیے کہ کیا میں آپس میں فیصلہ کرنے والا بجز اللہ تعالیٰ کے کسی اور کو تلاش کروں ؟ اسی نے صاف کھلے فیصلے کرنے والی کتاب نازل فرما دی ہے یہود و نصاری جو صاحب کتاب ہیں اور جن کے پاس اگلے نبیوں کی بشارتیں ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ یہ قرآن کریم اللہ کی طرف سے حق کے ساتھ نازل شدہ ہے تجھے شکی لوگوں میں نہ ملنا چاہیئے ‘ - جیسے فرمان ہے «فَاِنْ کُنْتَ فِیْ شَکٍّ مِّمَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ فَسْــــَٔـلِ الَّذِیْنَ یَقْرَءُوْنَ الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکَ لَقَدْ جَاءَکَ الْحَقٰ مِنْ رَّبِّکَ فَلَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ» (10-یونس:94) یعنی ’ ہم نے جو کچھ وحی تیری طرف اتاری ہے اگر تجھے اس میں شک ہو تو جو لوگ اگلی کتابیں پڑھتے ہیں تو ان سے پوچھ لے یقین مان کہ تیرے رب کی جانب سے تیری طرف حق اتر چکا ہے پس تو شک کرنے والوں میں نہ ہو ‘ - یہ شرط ہے اور شرط کا واقع ہونا کچھ ضروری نہیں اسی لیے مروی ہے کہ { حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { نہ میں شک کروں نہ کسی سے سوال کروں } } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:17907:مرسل و ضعیف) ’ تیرے رب کی باتیں صداقت میں پوری ہیں ، اس کا ہر حکم عدل ہے ، وہ اپنے حکم میں بھی عادل ہے اور خبروں میں صادق ہے اور یہ خبر صداقت پر مبنی ہے ، جو خبریں اس نے دی ہیں وہ بلاشبہ درست ہیں اور جو حکم فرمایا ہے وہ سراسر عدل ہے اور جس چیز سے روکا وہ یکسر باطل ہے کیونکہ وہ جس چیز سے روکتا ہے وہ برائی والی ہی ہوتی ہے ‘ ۔ جیسے فرمان ہے آیت «یَاْمُرُہُمْ بالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہٰیہُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُحِلٰ لَہُمُ الطَّیِّبٰتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْہِمُ الْخَـبٰیِٕثَ وَیَضَعُ عَنْہُمْ اِصْرَہُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْہِمْ» ۱؎ (7-الأعراف:157) ’ وہ انہیں بھلی باتوں کا حکم دیتا ہے اور بری باتوں سے روکتا ہے کوئی نہیں جو اس کے فرمان کو بدل سکے ، اس کے حکم اٹل ہیں ، دنیا میں کیا اور آخرت میں کیا اس کا کوئی حکم ٹل نہیں سکتا ۔ اس کا تعاقب کوئی نہیں کر سکتا ۔ وہ اپنے بندوں کی باتیں سنتا ہے اور ان کی حرکات سکنات کو بخوبی جانتا ہے ۔ ہر عامل کو اس کے برے بھلے عمل کا بدلہ وہ ضرور دے گا ‘ ۔ الانعام
115 الانعام
116 بیکار خیالوں میں گرفتار لوگ اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ ’ اکثر لوگ دنیا میں گمراہ کن ہوتے ہیں ‘ ۔ جیسے فرمان ہے آیت «وَلَقَدْ ضَلَّ قَبْلَہُمْ اَکْثَرُ الْاَوَّلِیْنَ» (37-الصافات:71) اور جگہ ہے آیت «وَمَآ اَکْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِیْنَ» ۱؎ (12-یوسف:103) ’ گو تو حرص کرے لیکن اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں ‘ ۔ پھر یہ لوگ اپنی گمراہی میں بھی کسی یقین پر نہیں صرف باطل گمان اور بے کار خیالوں کا شکار ہیں اندازے سے باتیں بنا لیتے ہیں پھر ان کے پیچھے ہو لیتے ہیں ، خیالات کے پرو ہیں توہم پرستی میں گھرے ہوئے ہیں یہ سب مشیت الٰہی ہے وہ گمراہوں کو بھی جانتا ہے اور ان پر گمراہیاں آسان کر دیتا ہے ، وہ راہ یافتہ لوگوں سے بھی واقف ہے اور انہیں ہدایت آسان کر دیتا ہے ، ہر شخص پر وہی کام آسان ہوتے ہیں جن کیلئے وہ پیدا کیا گیا ہے ۔ الانعام
117 الانعام
118 صرف اللہ تعالیٰ کے نام کا ذبیحہ حلال باقی سب حرام حکم بیان ہو رہا ہے کہ ’ جس جانور کو اللہ کا نام لے کر ذبح کیا جائے اسے کھا لیا کرو ‘ ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس جانور کے ذبح کے وقت اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اس کا کھانا مباح نہیں ، جیسے مشرکین از خود مرگیا ہو اور مردار جانور ، بتوں اور تھالوں پر ذبح کیا ہوا جانور کھا لیا کرتے تھے ۔ کوئی وجہ نہیں کہ جن حلال جانوروں کو شریعت کے حکم کے مطابق ذبح کیا جائے اس کے کھانے میں حرج سمجھا جائے بالخصوص اس وقت کہ ہر حرام جانور کا بیان کھول کھول کر دیا گیا ہے ۔ «فَصَّلَ» کی دوسری قرأت «فَصَلَ» ہے وہ حرام جانور کھانے ممنوع ہیں سوائے مجبوری اور سخت بے بسی کے کہ اس وقت جو مل جائے اس کے کھا لینے کی اجازت ہے ۔ پھر کافروں کی زیادتی بیان ہو رہی ہے کہ وہ مردار جانور کو اور ان جانوروں کو جن پر اللہ کے سوا دوسروں کے نام لیے گئے ہوں حلال جانتے تھے ۔ یہ لوگ بلا علم صرف خواہش پرستی کر کے دوسروں کو بھی راہ حق سے ہٹا رہے ہیں ۔ ایسوں کی افتراء پردازی دروغ بافی اور زیادتی کو اللہ بخوبی جانتا ہے ۔ الانعام
119 الانعام
120 ظاہری اور باطنی گناہوں کو ترک کر دو چھوٹے بڑے پوشیدہ اور ظاہر ، ہر گناہ کو چھوڑو ۔ نہ کھلی بدکار عورتوں کے ہاں جاؤ نہ چوری چھپے بدکاریاں کرو ، کھلم کھلا ان عورتوں سے نکاح نہ کرو جو تم پر حرام کر دی گئی ہیں ۔ غرض ہر گناہ سے دور رہو ، کیونکہ ہر بدکاری کا برا بدلہ ہے ۔ { حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ گناہ کسے کہتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { جو تیرے دل میں کھٹکے اور تو نہ چاہے کہ کسی کو اس کی اطلاع ہو جائے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2553) الانعام
121 سدھائے ہوئے کتوں کا شکار یہی آیت ہے جس سے بعض علماء نے یہ سمجھا ہے کہ گو کسی مسلمان نے ہی ذبح کیا ہو لیکن اگر بوقت ذبح اللہ کا نام نہیں لیا تو اس ذبیحہ کا کھانا حرام ہے ، اس بارے میں علماء کے تین قول ہیں ایک تو وہی جو مذکور ہوا ، خواہ جان بوجھ کر اللہ کا نام نہ لیا ہو یا بھول کر ، اس کی دلیل آیت «فَکُلُوْا مِمَّآ اَمْسَکْنَ عَلَیْکُمْ وَاذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلَیْہِ ۠ وَاتَّقُوا اللّٰہَ ۭاِنَّ اللّٰہَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ» ۱؎ (5-المائدہ:4) ہے یعنی ’ جس شکار کو تمہارے شکاری کتے روک رکھیں تم اسے کھا لو اور اللہ کا نام اس پر لو ‘ - اس آیت میں اسی کی تاکید کی اور فرمایا کہ ’ یہ کھلی نافرمانی ہے ‘ یعنی اس کا کھانا یا غیر اللہ کے نام پر ذبح کرنا ۔ احادیث میں بھی شکار کے اور ذبیحہ کے متعلق حکم وارد ہوا ہے { آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب تو اپنے سدھائے ہوئے کتے کو اللہ کا نام لے کر چھوڑے جس جانور کو وہ تیرے لیے پکڑ کر روک لے تو اسے کھا لے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5475) اور حدیث میں ہے { جو چیز خون بہا دے اور اللہ کا نام بھی اس پر لیا گیا ہو اسے کھا لیا کرو } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5503) { جنوں سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا { تمہارے لیے ہر وہ ہڈی غذا ہے جس پر اللہ کا نام لیا جائے } } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:450) عید کی قربانی کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مروی ہے کہ { جس نے نماز عید پڑھنے سے پہلے ہی ذبح کر لیا وہ اس کے بدلے دوسرا جانور ذبح کر لے اور جس نے قربانی نہیں کی وہ ہمارے ساتھ عید کی نماز پڑھے پھر اللہ کا نام لے کر اپنی قربانی کے جانور کو ذبح کرے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:985) { چند لوگوں نے حضور سے پوچھا کہ بعض نو مسلم ہمیں گوشت دیتے ہیں کیا خبر انہوں نے ان جانوروں کے ذبح کرنے کے وقت اللہ کا نام بھی لیا یا نہیں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { تم ان پر اللہ کا نام لو اور کھا لو } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5507) الغرض اس حدیث سے بھی یہ مذہب قوی ہوتا ہے کیونکہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی سمجھا کہ «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» پڑھنا ضروری ہے اور یہ لوگ احکام اسلام سے صحیح طور پر واقف نہیں ابھی ابھی مسلمان ہوئے ہیں کیا خبر اللہ کا نام لیتے بھی ہیں یا نہیں ؟ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بطور مزید احتیاط فرما دیا کہ { تم خود اللہ کا نام لے لو تاکہ بالفرض انہوں نے نہ بھی لیا ہو تو یہ اس کا بدلہ ہو جائے } ، ورنہ ہر مسلمان پر ظاہر احسن ظن ہی ہو گا ۔ دوسرا قول اس مسئلہ میں یہ ہے کہ بوقت ذبح «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» کا پڑھنا شرط نہیں بلکہ مستحب ہے اگر چھوٹ جائے گوہ عمداً ہو یا بھول کر ، کوئی حرج نہیں ۔ اس آیت میں جو فرمایا گیا ہے کہ یہ فسق ہے اس کا مطلب یہ لوگ یہ لیتے ہیں کہ اس سے مراد غیر اللہ کے لیے ذبح کیا ہوا جانور ہے جیسے اور آیت میں ہے «اَوْ فِسْقًا اُہِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ» ۱؎ (6-الأنعام:145) بقول عطاء رحمہ اللہ ان جانوروں سے روکا گیا ہے جنہیں کفار اپنے معبودوں کے نام ذبح کرتے تھے اور مجوسیوں کے ذبیحہ سے بھی ممانعت کی گئی ۔ اس کا جواب بعض متأخرین نے یہ بھی دیا ہے کہ «وَإِنَّہُ» میں واؤ حالیہ ہے تو فسق اسی وقت ہوگا جب اسے غیر اللہ کے نام کا مان لیں اور واؤ عطف کا ہو ہی نہیں سکتا ورنہ اس سے جملہ اسمیہ جریہ کا عطف جملہ فعلیہ حالیہ پر لازم آئے گا ۔ لیکن یہ دلیل اس کے بعد کے جملے «وَإِنَّ الشَّیَاطِینَ» سے ہی ٹوٹ جاتی ہے اس لیے کہ وہ تو یقیناً عاطفہ جملہ ہے ۔ تو جس اگلے واؤ کو حالیہ کہا گیا ہے اگر اسے حالیہ مان لیا جائے تو پھر اس پر اس جملے کا عطف ناجائز ہوگا اور اگر اسے پہلے کے حالیہ جملے پر عطف ڈالا جائے تو جو اعتراض یہ دوسرے پر وارد کر رہے تھے وہی ان پر پڑے گا ہاں اگر اس واؤ کو حالیہ نہ مانا جائے تو یہ اعتراض ہٹ سکتا ہے لیکن جو بات اور دعویٰ تھا وہ سرے سے باطل ہو جائے گا ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے ” مراد اس سے مردار جانور ہے جو اپنی موت آپ مر گیا ہو “ ۔ اس مذہب کی تائید ابوداؤد کی ایک مرسل حدیث سے بھی ہو سکتی ہے جس میں { حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ { مسلمان کا ذبیحہ حلال ہے اس نے اللہ کا نام لیا ہو یا نہ لیا ہو کیونکہ اگر وہ لیتا تو اللہ کا نام ہی لیتا } } ۔ ۱؎ (ابوداود فی المراسیل:341،قال الشیخ الألبانی:مرسل و ضعیف) اس کی مضبوطی دارقطنی کی اس روایت سے ہوتی ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” جب مسلمان ذبح کرے اور اللہ کا نام نہ ذکر کرے تو کھا لیا کرو کیونکہ مسلمان اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے “ ۔ اسی مذہب کی دلیل میں وہ حدیث بھی پیش ہو سکتی ہے جو پہلے بیان ہو چکی ہے کہ نو مسلموں کے ذبیحہ کے کھانے کی جس میں دونوں اہتمال تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی تو اگر «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» کا کہنا شرط اور لازم ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم تحقیق کرنے کا حکم دیتے ۔ تیسرا قول یہ ہے کہ اگر «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» کہنا بوقت ذبح بھول گیا ہے تو حلال ہے ، ذبیحہ پر عمداً «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» نہ کہی جائے وہ حرام ہے ۔ اسی لیے امام ابو یوسف اور مشائخ نے کہا ہے کہ اگر کوئی حاکم اسے بیچنے کا حکم بھی دے تو وہ حکم جاری نہیں ہو سکتا کیونکہ اجماع کے خلاف ہے ۔ لیکن صاحب ہدایہ کا یہ قول محض غلط ہے ، امام شافعی رحمہ اللہ سے پہلے بھی بہت سے ائمہ اس کے خلاف تھے ۔ چنانچہ اوپر جو دوسرا مذہب بیان ہوا ہے کہ بسم اللہ پڑھنا شرط نہیں بلکہ مستحب ہے یہ امام شافعی رحمہ اللہ کا ان کے سب ساتھیوں کا اور ایک روایت میں امام احمد رحمہ اللہ کا اور امام مالک رحمہ اللہ کا اور اشہب بن عبدالعزیز کا مذہب ہے اور یہی بیان کیا گیا ہے ۔ ابن عباس ، ابوہریرہ رضی اللہ عنہم ، عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ کا اس سے اختلاف ہے ۔ پھر اجماع کا دعویٰ کرنا کیسے درست ہو سکتا ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ امام ابو جعفر بن جریر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ” جن لوگوں نے بوقت ذبح بسم اللہ بھول کر نہ کہے جانے پر بھی ذبیحہ حرام کہا ہے انہوں نے اور دلائل سے اس حدیث کی بھی مخالفت کی ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { مسلم کو اس کا نام ہی کافی ہے اگر وہ ذبح کے وقت اللہ کا نام ذکر کرنا بھول گیا تو اللہ کا نام لے اور کھالے } } -۱؎ (دارقطنی:296/4:ضعیف و موقوف) یہ حدیث بیہقی میں ہے لیکن اس کا مرفوع روایت کرنا خطا ہے اور یہ خطا معقل بن عبیداللہ خرزمی کی ہے ، ہیں تو یہ صحیح مسلم کے راویوں میں سے مگر سعید بن منصور اور عبداللہ بن زبیر حمیری اسے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے موقوف روایت کرتے ہیں -بقول امام بہیقی رحمہ اللہ یہ روایت سب سے زیادہ صحیح ہے ۔ شعبی اور محمد بن سیرین رحمہ اللہ علیہم اس جانور کا کھانا مکروہ جانتے تھے جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو گو بھول سے ہی رہ گیا ہو ۔ ظاہر ہے کہ سلف کراہئیت کا اطلاق حرمت پر کرتے تھے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ ہاں یہ یاد رہے کہ امام ابن جریر رحمہ اللہ کا قاعدہ یہ ہے کہ وہ ان دو ایک قولوں کو کوئی چیز نہیں سمجھتے جو جمہور کے مخالف ہوں اور اسے اجماع شمار کرتے ہیں ۔ «وَاللہُ سُبْحَانَہُ وَ تَعَالیٰ الْمُوَفِّق» ۔ امام حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ سے ایک شخص نے مسئلہ پوچھا کہ میرے پاس بہت سے پرند ذبح شدہ آئے ہیں ان سے بعض کے ذبح کے وقت بسم اللہ پڑھی گئی ہے اور بعض پر بھول سے رہ گئی ہے اور سب غلط ملط ہوگئے ہیں ۔ آپ رحمہ اللہ نے فتویٰ دیا کہ سب کھا لو ۔ پھر محمد بن سیرین رحمہ اللہ سے یہی سوال ہوا تو آپ رحمہ اللہ نے فرمایا ” جن پر اللہ کا نام ذکر نہیں کیا گیا انہیں نہ کھاؤ “ ۔ اس تیسرے مذہب کی دلیل میں یہ حدیث بھی پیش کی جاتی ہے کہ { حضور علیہ السلام نے فرمایا : { اللہ تعالیٰ نے میری امت کی خطاء کو بھول کو اور جس کام پر زبردستی کی جائے اس کو معاف فرما دیا ہے } } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:2043،قال الشیخ الألبانی:صحیح) لیکن اس میں ضعف ہے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ { ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! بتائیے تو ہم میں سے کوئی شخص ذبح کرے اور بسم اللہ کہنا بھول جائے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اللہ کا نام ہر مسلمان کی زبان پر ہے } } ۔ ۱؎ (بیہقی فی السنن الکبری:240/9:ضعیف) [ یعنی وہ حلال ہے ] ۔ لیکن اس کی اسناد ضعیف ہے ۔ مردان بن سالم ابوعبداللہ شامی اس حدیث کا راوی ہے اور ان پر بہت سے ائمہ نے جرح کی ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ میں نے اس مسئلہ پر ایک مستقل کتاب لکھی ہے اس میں تمام مذاہب اور ان کے دلائل وغیرہ تفصیل سے لکھے ہیں اور پوری بحث کی ہے ، بظاہر دلیلوں سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ذبح کے وقت بسم اللہ کہنا ضروری ہے لیکن اگر کسی مسلمان کی زبان سے جلدی میں یا بھولے سے یا کسی اور وجہ سے نہ نکلے اور ذبح ہو گیا تو وہ حرما نہیں ہوتا [ «وَاللہُ اَعْلَمُ» مترجم ] عام اہل علم تو کہتے ہیں کہ اس آیت کا کوئی حصہ منسوخ نہیں لیکن بعض حضرات کہتے ہیں اس میں اہل کتاب کے ذبیحہ کا استثناء کر لیا گیا ہے اور ان کا ذبح کیا ہوا حلال جانور کھا لینا ہمارے ہاں حلال ہے تو گو وہ اپنی اصطلاح میں اسے نسخ سے تعبیر کریں لیکن دراصل یہ ایک مخصوص صورت ہے ۔ پھر فرمایا کہ ’ شیطان اپنے ولیوں کی طرف وحی کرتے ہیں ‘ -سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے جب کہا گیا کہ مختار گمان کرتا ہے کہ اس کے پاس وحی آتی ہے تو آپ رضی اللہ عنہ نے اسی آیت کی تلاوت فرما کر فرمایا ” وہ ٹھیک کہتا ہے ۔ شیطان بھی اپنے دوستوں کی طرف وحی کرتے ہیں “ ۔ اور روایت میں ہے کہ اس وقت مختار حج کو آیا ہوا تھا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے اس جواب سے کہ وہ سچا ہے اس شخص کو سخت تعجب ہوا ۔ اس وقت آپ رضی اللہ عنہ نے تفصیل بیان فرمائی کہ ” ایک تو اللہ کی وحی جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آئی اور ایک شیطانی وحی ہے جو شیطان کے دوستوں کی طرف آتی ہے ۔ شیطانی وساوس کو لے کر لشکر شیطان اللہ والوں سے جھگڑتے ہیں “ ۔ چنانچہ { یہودیوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ یہ کیا اندھیر ہے ؟ کہ ہم اپنے ہاتھ سے مارا ہوا جانور تو کھا لیں اور جسے اللہ مار دے یعنی اپنی موت آپ مر جائے اسے نہ کھائیں ؟ اس پر یہ آیت اتری } ۱؎ (سنن ابوداود:2819،قال الشیخ الألبانی:صحیح لکن ذکر الیہود فیہ منکر والمحفوظ أنہم المشرکون) اور بیان فرمایا کہ وجہ حلت اللہ کے نام کا ذکر ہے لیکن ہے یہ قصہ غور طلب اولاً اس وجہ سے کہ یہودی از خود مرے ہوئے جانور کا کھانا حلال نہیں جانتے تھے دوسرے اس وجہ سے بھی کہ یہودی تو مدینے میں تھے اور یہ پوری سورت مکہ میں اتری ہے ۔ تیسرے یہ کہ یہ حدیث ترمذی میں مروی تو ہے لیکن مرسل طبرانی میں ہے کہ اس حکم کے نازل ہونے کے بعد کہ جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو اسے کھا لو اور جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اسے نہ کھاؤ تو اہل فارس نے قریشوں سے کہلوا بھیجا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ جھگڑیں اور کہیں کہ جسے تم اپنی چھری سے ذبح کرو وہ تو حلال اور جسے اللہ تعالیٰ سونے کی چھری سے خود ذبح کرے وہ حرام ؟ یعنی میتہ از خود مرا ہوا جانور ۔ اس پر یہ آیت اتری ۔ پس شیاطین سے مراد فارسی ہیں اور ان کے اولیاء قریش ہیں ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:13808:ضعیف) اور بھی اس طرح کی بہت سی روایتیں کئی ایک سندوں سے مروی ہیں لیکن کسی میں بھی یہود کا ذکر نہیں ۔ پس صحیح یہی ہے کیونکہ آیت مکی ہے اور یہود مدینے میں تھے اور اس لیے بھی کہ یہودی خود مردار خوار نہ تھے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” جسے تم نے ذبح کیا یہ تو وہ ہے جس پر اللہ کا نام لیا گیا اور جو از خود مر گیا وہ وہ ہے جس پر اللہ کا نام نہیں لیا گیا “ ۔ (سنن ابوداود:2818،قال الشیخ الألبانی:صحیح) مشرکین قریش فارسیوں سے خط و کتابت کر رہے تھے اور رومیوں کے خلاف انہیں مشورے اور امداد پہنچاتے تھے اور فارسی قریشیوں سے خط و کتابت رکھتے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف انہیں اکساتے اور ان کی امداد کرتے تھے ۔ اسی میں انہوں نے مشرکین کی طرف یہ اعتراض بھی بھیجا تھا اور مشرکین نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے یہی اعتراض کیا اور بعض صحابہ رضی اللہ عنہم کے دل میں بھی یہ بات کھٹکی اس پر یہ آیت اتری ۔ پھر فرمایا ’ اگر تم نے ان کی تابعداری کی تو تم مشرک ہو جاؤ گے کہ تم نے اللہ کی شریعت اور فرمان قرآن کے خلاف دوسرے کی مان لی ‘ اور یہی شرک ہے کہ اللہ کے قول کے مقابل دوسرے کا قول مان لیا چنانچہ قرآن کریم میں ہے آیت «اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَالْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِیَعْبُدُوْٓا اِلٰــہًا وَّاحِدًا لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ سُبْحٰنَہٗ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ» ۱؎ (9-التوبۃ:31) یعنی ’ انہوں نے اپنے عالموں اور درویشوں کو الہ بنا لیا ہے ‘ ۔ ترمذی میں ہے کہ { جب عدی بن حاتم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم انہوں نے ان کی عبادت نہیں کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { انہوں نے حرام کو حلال کہا اور حلال کو حرام کہا اور انہوں نے ان کا کہنا مانا یہی عبادت ہے } } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3095،قال الشیخ الألبانی:حسن) الانعام
122 مومن اور کافر کا تقابلی جائزہ مومن اور کافر کی مثال بیان ہو رہی ہے ایک تو وہ جو پہلے مردہ تھا یعنی کفر و گمراہی کی حالت میں حیران و سرگشتہ تھا اللہ نے اسے زندہ کیا ، ایمان و ہدایت بخشی اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا چسکا دیا قرآن جیسا نور عطا فرمایا جس کے منور احکام کی روشنی میں وہ اپنی زندگی گزارتا ہے اسلام کی نورانیت اس کے دل میں رچ گئی ہے - دوسرا وہ جو جہالت و ضلالت کی تاریکیوں میں گھرا ہوا ہے جو ان میں سے نکلنے کی کوئی راہ نہیں پاتا کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں ؟ اسی طرح مسلم و کافر میں بھی تفاوت ہے نور و ظلمت کا فرق اور ایمان و کفر کا فرق ظاہر ہے ۔ اور آیت میں ہے «اَللّٰہُ وَلِیٰ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُخْرِجُہُمْ مِّنَ الظٰلُمٰتِ اِلَی النٰوْرِ» ۱؎ (2-البقرۃ:257) ’ ایمان داروں کا ولی اللہ تعالیٰ ہے وہ انہیں اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لاتا ہے اور کافروں کے ولی طاغوت ہیں جو انہیں نور سے ہٹا کر اندھیروں میں لے جاتے ہیں یہ ابدی جہنمی ہیں ‘ ۔ اور آیت میں ہے «أَفَمَن یَمْشِی مُکِبًّا عَلَیٰ وَجْہِہِ أَہْدَیٰ أَمَّن یَمْشِی سَوِیًّا عَلَیٰ صِرَاطٍ مٰسْتَقِیمٍ» ۱؎ (67-الملک:22) یعنی ’ خمیدہ قامت والا ٹیڑھی راہ چلنے والا اور سیدھے قامت والا سیدھی راہ چلنے والا کیا برابر ہے ؟ ‘ ۔ اور آیت میں ہے «مَثَلُ الْفَرِیقَیْنِ کَالْأَعْمَیٰ وَالْأَصَمِّ وَالْبَصِیرِ وَالسَّمِیعِ ہَلْ یَسْتَوِیَانِ مَثَلًا أَفَلَا تَذَکَّرُونَ» ۱؎ (11-ھود:24) ’ ان دونوں فرقوں کی مثال اندھے بہرے اور سنتے دیکھتے کی طرح ہے کہ دونوں میں فرق نمایاں ہے افسوس پھر بھی تم عبرت حاصل نہیں کرتے ‘ ۔ اور جگہ فرمان ہے «وَمَا یَسْتَوِی الْأَعْمَیٰ وَالْبَصِیرُ وَلَا الظٰلُمَاتُ وَلَا النٰورُ وَلَا الظِّلٰ وَلَا الْحَرُورُ وَمَا یَسْتَوِی الْأَحْیَاءُ وَلَا الْأَمْوَاتُ إِنَّ اللہَ یُسْمِعُ مَن یَشَاءُ وَمَا أَنتَ بِمُسْمِعٍ مَّن فِی الْقُبُورِ إِنْ أَنتَ إِلَّا نَذِیرٌ» ۱؎ (35-فاطر:19-23) ’ اندھا اور بینا ، اندھیرا اور روشنی ، سایہ اور دھوپ ، زندے اور مردے برابر نہیں ۔ اللہ جسے چاہے سنا دے لیکن تو قبر والوں کو سنا نہیں سکتا تو تو صرف آگاہ کر دینے والا ہے ‘ اور بھی آیتیں اس مضمون کی بہت سی ہیں اس سورۃ کے شروع میں «وَجَعَلَ الظٰلُمَاتِ وَالنٰورَ» ۱؎ (6-الأنعام:1) ظلمات اور نور کا ذکر تھا اسی مناسبت سے یہاں بھی مومن اور کافر کی یہی مثال بیان فرمائی گئی ۔ بعض کہتے ہیں مراد اس سے وہ خاص معین شخص ہیں ، جیسے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہ یہ پہلے گمراہ تھے اللہ نے انہیں اسلامی زندگی بخشی اور انہیں نور عطا فرمایا جسے لے کر لوگوں میں چلتے پھرتے ہیں اور کہا گیا ہے کہ اس سے مراد سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما ہیں اور ظلمات میں جو پھنسا ہوا ہے اس سے مراد ابوجہل ہے ۔ صحیح یہی ہے کہ آیت عام ہے ہر مومن اور کافر کی مثال ہے ، کافروں کی نگاہ میں ان کی اپنی جہالت و ضلالت اسی طرح آراستہ و پیراستہ کر کے دکھائی جاتی ہے ۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی قضاء و قدر ہے کہ وہ اپنی برائیوں کو ہی اچھائیاں سمجھتے ہیں ۔ مسند کی ایک حدیث میں ہے کہ { اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو اندھیرے میں پیدا کر کے پھر اپنا نور ان پر ڈالا جسے اس نور کا حصہ ملا اس نے دنیا میں آکر راہ پائی اور جو وہاں محروم رہا وہ یہاں بھی بہکا ہی رہا } ۔ ۱؎ (مسند احمد:176/2:صحیح) ۔ جیسے فرمان ہے کہ ’ اللہ نے اپنے بندوں کو اندھیروں سے اجالے کی طرف لے جاتا ہے ‘ اور جیسے فرمان ہے ’ اندھا اور دیکھتا اور اندھیرا اور روشنی برابر نہیں ‘ ۔ الانعام
123 بستیوں کے رئیس گمراہ ہو جائیں تو تباہی کی علامت ہوتے ہیں ان آیتوں میں بھی اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تسکین فرماتا ہے اور ساتھ ہی کفار کو ہوشیار کرتا ہے ، فرماتا ہے «وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا مِّنَ الْمُجْرِمِینَ وَکَفَیٰ بِرَبِّکَ ہَادِیًا وَنَصِیرًا» ۱؎ (25-الفرقان:31) کہ ’ جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بستی میں روسائے کفر موجود ہیں جو دوسروں کو بھی دین برحق سے روکتے ہیں اسی طرح ہر پیغمبر علیہ السلام کے زمانے میں اس کی بستی میں کفر کے ستون اور مرکز رہے ہیں لیکن آخر کار و غارت اور تباہ ہوتے ہیں اور نتیجہ ہمیشہ نبیوں کا ہی اچھا رہتا ہے ‘ ۔ جیسے فرمایا کہ ’ ہر نبی کے دشمن ان کے زمانے کے گنہگار رہے ‘ اور آیت میں ہے «وَإِذَا أَرَدْنَا أَن نٰہْلِکَ قَرْیَۃً أَمَرْنَا مُتْرَفِیہَا فَفَسَقُوا فِیہَا فَحَقَّ عَلَیْہَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَاہَا تَدْمِیرًا» ۱؎ (17-الإسراء:16) ’ ہم جب کسی بستی کو تباہ کرنا چاہتے ہیں تو وہاں کے رئیسوں کو کچھ حکم احکام دیتے ہیں جس میں وہ کھلم کھلا ہماری نافرمانی کرتے ہیں پس اطاعت سے گریز کرنے پر عذابوں میں گھر جاتے ہیں ، وہاں کے شریر لوگ اوج پر آ جاتے ہیں پھر بستی ہلاک ہوتی ہے اور قسمت کا ان مٹ لکھا سامنے آ جاتا ہے ‘ ۔ چنانچہ اور آیتوں میں ہے کہ «وَمَا أَرْسَلْنَا فِی قَرْیَۃٍ مِّن نَّذِیرٍ إِلَّا قَالَ مُتْرَفُوہَا إِنَّا بِمَا أُرْسِلْتُم بِہِ کَافِرُونَ وَقَالُوا نَحْنُ أَکْثَرُ أَمْوَالًا وَأَوْلَادًا وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِینَ» ۱؎ (34-سبأ:34-35) ’ جہاں کہیں کوئی پیغمبر آیا وہاں کے رئیسوں اور بڑے لوگوں نے جھٹ سے کہہ دیا کہ ہم تمہارے رسالت کے منکر ہیں ، مال میں اولاد میں ہم تم سے زیادہ ہیں اور ہم اسے بھی مانتے نہیں کہ ہمیں سزا ہو ‘ ۔ اور آیت میں ہے کہ «وَکَذٰلِکَ مَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِکَ فِی قَرْیَۃٍ مِّن نَّذِیرٍ إِلَّا قَالَ مُتْرَفُوہَا إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَیٰ أُمَّۃٍ وَإِنَّا عَلَیٰ آثَارِہِم مٰقْتَدُونَ» ۱؎ (43-الزخرف:23) ’ ہم نے جس بستی میں جس رسول کو بھیجا وہاں کے بڑے لوگوں نے جواب دیا کہ ہم نے تو جس طریقے پر اپنے بڑوں کو پایا ہے ہم تو اسی پر چلے چلیں گے ‘ ۔ «مَکْرً» سے مراد گمراہی کی طرف بلانا ہے اور اپنی چکنی چپڑی باتوں میں لوگوں کو پھنسانا ہے جیسے کہ قوم نوح کے بارے میں ہے آیت «وَمَکَرُوْا مَکْرًا کُبَّارًا» ۱؎ (71-نوح:22) ۔ اور آیت میں ہے «وَقَالَ الَّذِینَ کَفَرُوا لَن نٰؤْمِنَ بِہٰذَا الْقُرْآنِ وَلَا بِالَّذِی بَیْنَ یَدَیْہِ وَلَوْ تَرَیٰ إِذِ الظَّالِمُونَ مَوْقُوفُونَ عِندَ رَبِّہِمْ یَرْجِعُ بَعْضُہُمْ إِلَیٰ بَعْضٍ الْقَوْلَ یَقُولُ الَّذِینَ اسْتُضْعِفُوا لِلَّذِینَ اسْتَکْبَرُوا لَوْلَا أَنتُمْ لَکُنَّا مُؤْمِنِینَ قَالَ الَّذِینَ اسْتَکْبَرُوا لِلَّذِینَ اسْتُضْعِفُوا أَنَحْنُ صَدَدْنَاکُمْ عَنِ الْہُدَیٰ بَعْدَ إِذْ جَاءَکُم بَلْ کُنتُم مٰجْرِمِینَ وَقَالَ الَّذِینَ اسْتُضْعِفُوا لِلَّذِینَ اسْتَکْبَرُوا بَلْ مَکْرُ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ إِذْ تَأْمُرُونَنَا أَن نَّکْفُرَ بِ اللہِ وَنَجْعَلَ لَہُ أَندَادًا وَأَسَرٰوا النَّدَامَۃَ لَمَّا رَأَوُا الْعَذَابَ وَجَعَلْنَا الْأَغْلَالَ فِی أَعْنَاقِ الَّذِینَ کَفَرُوا ہَلْ یُجْزَوْنَ إِلَّا مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ» (34-سبأ:31-33) ’ قیامت کے دن بھی جبکہ یہ ظالم اللہ کے سامنے کھڑے ہوں گے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرائیں گے جھوٹے لوگ بڑے لوگوں سے کہیں گے کہ اگر تم نہ ہوتے تو ہم تو مسلمان ہو جاتے وہ جواب دیں گے کہ ہم نے تمہیں ہدایت سے کب روکا تھا ؟ تم تو خود گنہگار تھے ، یہ کہیں گے تمہاری دن رات کی فتنہ انگیزیوں نے اور کفر و شرک کی دعوت نے ہمیں گمراہ کر دیا ‘ ۔ «مَکْرً» کے معنی سفیان رحمہ اللہ نے ہر جگہ عمل کے کئے ہیں ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ ان کے مکر کا وبال انہی پر پڑے گا لیکن انہیں اس کا شعور نہیں ، جن لوگوں کو انہوں نے بہکایا ان کا وبال بھی انہیں کے دوش پر ہوگا ‘ - جیسے فرمان ہے آیت «وَلَیَحْمِلُنَّ اَثْــقَالَہُمْ وَاَثْــقَالًا مَّعَ اَثْقَالِہِمْ ۡ وَلَیُسْـَٔــلُنَّ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ عَمَّا کَانُوْا یَفْتَرُوْنَ» ۱؎ (29-العنکبوت:13) یعنی ’ اپنے بوجھ کے ساتھ ان کے بوجھ بھی ڈھوئیں گے ، جن کو بےعلمی کے ساتھ انہوں نے بہکایا تھا ‘ ۔ جب کوئی نشان اور دلیل دیکھتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ کچھ بھی ہو جب تک اللہ کا پیغام فرشتے کی معرفت خود ہمیں نہ آئے ہم تو باور کرنے والے نہیں ۔ کہا کرتے تھے کہ «وَقَالَ الَّذِینَ لَا یَرْجُونَ لِقَاءَنَا لَوْلَا أُنزِلَ عَلَیْنَا الْمَلَائِکَۃُ أَوْ نَرَیٰ رَبَّنَا لَقَدِ اسْتَکْبَرُوا فِی أَنفُسِہِمْ وَعَتَوْا عُتُوًّا کَبِیرًا» ۱؎ (25-الفرقان:21) ’ ہم پر فرشتے کیوں نازل نہیں ہوتے ؟ اللہ ہمیں اپنا دیدار کیوں نہیں دکھاتا ؟ حالانکہ رسالت کے مستحق کی اصلی جگہ کو اللہ ہی جانتا ہے ‘ ۔ ان کا ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ «وَقَالُوا لَوْلَا نُزِّلَ ہٰذَا الْقُرْآنُ عَلَیٰ رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْیَتَیْنِ عَظِیمٍ أَہُمْ یَقْسِمُونَ رَحْمَتَ رَبِّکَ نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَہُم مَّعِیشَتَہُمْ فِی الْحَیَاۃِ الدٰنْیَا وَرَفَعْنَا بَعْضَہُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِّیَتَّخِذَ بَعْضُہُم بَعْضًا سُخْرِیًّا وَرَحْمَتُ رَبِّکَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُونَ» ۱؎ (43-الزخرف:31-32) ’ ان دونوں بستیوں میں کسی بڑے رئیس پر یہ قرآن کیوں نہ اترا ؟ ‘ جس کے جواب میں اللہ عزوجل نے فرمایا ’ کیا تیرے رب کی رحمت کے تقسیم کرنے والے وہ ہیں ؟ ‘ پس مکے یا طائف کے کسی رئیس پر قرآن کے نازل نہ ہونے سے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تحقیر کا ارادہ کرتے تھے اور یہ صرف ضد اور تکبر کی بناء پر تھا ۔ جیسے فرمان ہے کہ «وَإِذَا رَآکَ الَّذِینَ کَفَرُوا إِن یَتَّخِذُونَکَ إِلَّا ہُزُوًا أَہٰذَا الَّذِی یَذْکُرُ آلِہَتَکُمْ وَہُم بِذِکْرِ الرَّحْمٰنِ ہُمْ کَافِرُونَ» ۱؎ (21-الأنبیاء:36) ’ تجھے دیکھتے ہی یہ لوگ مذاق اڑاتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ کیا یہی ہے جو تمہارے معبودوں کا ذکر کیا کرتا ہے ؟ ‘ یہ لوگ ذکر رحمن کے منکر ہیں ، کہا کرتے تھے کہ «وَإِذَا رَأَوْکَ إِن یَتَّخِذُونَکَ إِلَّا ہُزُوًا أَہٰذَا الَّذِی بَعَثَ اللہُ رَسُولًا» (25-الفرقان:41) ’ اچھا یہی ہیں جنہیں اللہ نے اپنا رسول بنایا ؟ ‘ نتیجہ یہ ہوا کہ ان مسخروں کا مسخرا پن انہی پر الٹا پڑا ، انہیں ماننا ہی پڑا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم شریف النسب ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سچے اور امین ہیں یہاں تک کہ نبوت سے پہلے قوم کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو امین کا خطاب ملا تھا - ابوسفیان جیسے ان کافر قریشیوں کے سردار نے بھی دربار ہرقل میں بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عالی نسب ہونے اور سچے ہونے کی شہادت دی تھی ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:7) جس سے شاہ روم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت طہارت نبوت وغیرہ کو مان لیا تھا ۔ مسند کی حدیث میں ہے { حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { اللہ تعالیٰ نے اولاد ابراہیم علیہ السلام سے اسمعیل علیہ السلام کو پسند فرمایا ۔ اولاد اسماعیل علیہ السلام سے بنو کنانہ کو پسند فرمایا ۔ بنو کنانہ سے قریش کو قریش میں سے بنو ہاشم کو اور بنو ہاشم میں سے مجھے } } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2276) فرمان ہے کہ ’ یکے بعد دیگرے قرنوں میں سے میں سب سے بہتر زمانے میں پیغمبر بنایا گیا ‘ ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3557) { ایک مرتبہ جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں کی بعض کہی ہوئی باتیں پہنچیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور لوگوں سے پوچھا { میں کون ہوں ؟ } انہوں نے کہا آپ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ فرمایا : { میں محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب ہوں اللہ تعالیٰ نے اپنی تمام مخلوق میں مجھے بہتر بنایا ہے مخلوق کو جب دو حصوں میں تقسیم کیا تو مجھے ان دونوں میں جو بہتر حصہ تھا اس میں کیا پھر قبیلوں کی تقسیم کے وقت مجھے سب سے بہتر قیبلے میں کیا پھر جب گھرداریوں میں تقسیم کیا تو مجھے سب سے اچھے گھرانے میں بنایا پس میں گھرانے کے اعتبار سے اور ذات کے اعتبار سے تم سب سے بہتر ہوں صلوات اللہ وسلامیہ علیہ } } ۔ ۱؎ (سلسلۃ احادیث ضعیفہ البانی:3073 ، ) { جبرائیل علیہ السلام نے ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا ” میں نے تمام مشرق و مغرب ٹٹول لیا لیکن آپ سے زیادہ افضل کسی کو نہیں پایا “ } ۔ ۱؎ (دلائل النبوۃ للبیہقی:176/1:ضعیف) مسند احمد میں ہے { اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں کو دیکھا اور سب سے بہتر دل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پایا ۔ پھر مخلوق کے دلوں پر نگاہ ڈالی تو سب سے بہتر دل والے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم پائے پس حضور کو اپنا خاص چیدہ رسول بنایا اور اصحاب رضی اللہ عنہم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وزیر بنایا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے دشمنوں کے دشمن ہیں ۔ پس یہ مسلمان جس چیز کو بہتر سمجھیں وہ اللہ وحدہ لاشریک کے نزدیک بھی بہتر ہے اور جسے یہ برا سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی بری ہے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:379/1:حسن) ایک باہر کے شخص نے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو مسجد کے دروازے سے آتا ہوا دیکھ کر مرعوب ہو کر لوگوں سے پوچھا یہ کون بزرگ ہیں ؟ لوگوں نے کہا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے لڑکے عبداللہ بن عباس ہیں رضی اللہ عنہ ۔ تو ان کے منہ سے بےساختہ یہ آیت نکلی کہ « اللہُ أَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہُ» ( الانعام : 124 ) ’ نبوت کی جگہ کو اللہ ہی بخوبی جانتا ہے ‘ ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ جو لوگ اس عظیم الشان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت میں شک شبہ کر رہے ہیں اطاعت سے منہ پھیر رہے ہیں انہیں اللہ کے سامنے قیامت کے دن بڑی ذلت اٹھانی پڑے گی دنیا کے تکبر کی سزا خواری کی صورت میں انہیں ملے گی جو ان پر دائمی ہوگی ‘ ۔ جیسے فرمان ہے کہ «إِنَّ الَّذِینَ یَسْتَکْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِی سَیَدْخُلُونَ جَہَنَّمَ دَاخِرِینَ» ۱؎ (40-غافر:60) ’ جو لوگ میری عبادت سے جی چراتے ہیں وہ ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں جائیں گے ۔ انہیں ان کے مکر کی سزا اور سخت سزا ملے گی چونکہ مکاروں کی چالیں خفیہ اور ہلکی ہوتی ہیں اس کے بدلے میں عذاب علانیہ اور سخت ہوں گے ۔ یہ اللہ کا ظلم نہیں بلکہ ان کا پورا بدلہ ہے اس دن ساری چھپی عیاریاں کھل جائیں گی ‘ ۔ { حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ { ہر بد عہد کی رانوں کے پاس قیامت کے دن ایک جھنڈا لہراتا ہوگا اور اعلان ہوتا ہوگا کہ یہ فلاں بن فلاں کی غداری ہے } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3186) پس اس دنیا کی پوشیدگی اس طرح قیامت کے دن ظاہر ہوگی ۔ اللہ ہمیں بچائے ۔ الانعام
124 الانعام
125 جس پر اللہ کا کرم اس پہ راہ ہدایت آسان اللہ کا ارادہ جسے ہدایت کرنے کا ہوتا ہے اس پر نیکی کے راستے آسان ہو جاتے ہیں -جیسے فرمان ہے آیت «أَفَمَن شَرَحَ اللہُ صَدْرَہُ لِلْإِسْلَامِ فَہُوَ عَلَیٰ نُورٍ مِّن رَّبِّہِ فَوَیْلٌ لِّلْقَاسِیَۃِ قُلُوبُہُم مِّن ذِکْرِ اللہِ أُولٰئِکَ فِی ضَلَالٍ مٰبِینٍ» ۱؎ (39-الزمر:22) ، یعنی ’ اللہ ان کے سینے اسلام کی طرف کھول دیتا ہے اور انہیں اپنا نور عطا فرماتا ہے ‘ - اور آیت میں فرمایا «وَلٰکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِلَیْکُمُ الْاِیْمَانَ وَزَیَّنَہٗ فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَکَرَّہَ اِلَیْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْیَانَ اُولٰیِٕکَ ہُمُ الرّٰشِدُوْنَ» ۱؎ (49-الحجرات:7) ’ اللہ نے تمہارے دلوں میں ایمان کی محبت پیدا کر دی اور اسے تمہارے دلوں میں زینت دار بنا دیا اور کفر فسق اور نافرمانی کی تمہارے دلوں میں کراہیت ڈال دہی یہی لوگ راہ یافتہ اور نیک بخت ہیں ‘ - سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” اس کا دل ایمان و توحید کی طرف کشادہ ہو جاتا ہے “ ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ سب سے زیادہ دانا کون سا مومن ہے ؟ فرمایا : { سب سے زیادہ موت کو یاد رکھنے والا اور سب سے زیادہ موت کے بعد کی زندگی کے لیے تیاریاں کرنے والا } } ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کی بابت سوال ہوا تو فرمایا کہ { اس کے دل میں ایک نور ڈال دیا جاتا ہے جس سے اس کا سینہ کھل جاتا ہے } ، لوگوں نے اس کی نشانی درریافت کی تو فرمایا : { جنت کی طرف جھکنا اور اس کی جانب رغبت کام رکھنا اور دنیا کے فریب سے بھاگنا اور الگ ہونا اور موت کے آنے سے پہلے تیاریاں کرنا } } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:13857:ضعیف) «ضَیِّقًا» کی ایک قرأت «ضَیْقًا» بھی ہے ۔ «حَرَجًا» کی دوسری «حَرِجاً» بھی ہے یعنی گنہگار یا دونوں کے ایک ہی معنی یعنی تنگ جو ہدایت کے لیے نہ کھلے اور ایمان اس میں جگہ نہ پائے ۔ ایک مرتبہ ایک بادیہ نشین بزرگ سے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے «حَرجہ» کے بارے میں دریافت فرمایا تو اس نے کہا یہ ایک درخت ہوتا ہے جس کے پاس نہ تو چرواہے جاتے ہیں نہ جانور نہ وحشی ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” سچ ہے ایسا ہی منافق کا دل ہوتا ہے کہ اس میں کوئی بھلائی جگہ پاتی ہی نہیں “ ۔ سیدنا ابن عباس کا قول ہے کہ ” اسلام باوجود آسان اور کشادہ ہونے کے اسے سخت اور تنگ معلوم ہوتا ہے “ ۔ خود قرآن میں ہے «وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ» ۱؎ (22-الحج:78) ’ اللہ نے تمہارے دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی ‘ ۔ لیکن منافق کا شکی دل اس نعمت سے محروم رہتا ہے اسے «لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ» کا اقرار ایک مصیبت معلوم ہوتی ہے ، جیسے کسی پر آسمان پر جڑھائی مشکل ہو ، جیسے وہ اس کے بس کی بات نہیں اسی طرح توحید و ایمان بھی اس کے قبضے سے باہر ہیں ۔ پس مردہ دل والے کبھی بھی اسلام قبول نہیں کرتے ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ بے ایمانوں پر شیطان مقرر کر دیتا ہے جو انہیں بہکاتے رہتے ہیں اور خیر سے ان کے دل کو تنگ کرتے رہتے ہیں ۔ نحوست ان پر برستی رہتی ہے اور عذاب ان پر اتر آتے ہیں ۔ الانعام
126 قرآن حکیم ہی صراط مستقیم کی تشریح ہے گمراہوں کا طریقہ بیان فرما کر اپنے اس دین حق کی نسبت فرماتا ہے کہ ’ سیدھی اور صاف راہ جو بے روک اللہ کی طرف پہنچا دے ‘ یہی ہے «مُسْتَقِیمًا» کا نصب حالیت کی وجہ سے ہے -پس شرع محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کلام باری تعالیٰ ہی راہ راست ہے ۔ چنانچہ حدیث میں بھی قرآن کی صفت میں کہا گیا ہے کہ { اللہ کی سیدھی راہ اللہ کی مضبوط رسی اور حکمت والا ذکر یہی ہے } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2906،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) [ ملاحظہ ہو ترمذی مسند وغیرہ ] جنہیں اللہ کی جانب سے عقل و فہم و عمل دیا گیا ہے ان کے سامنے تو وضاحت کے ساتھ اللہ کی آیتیں آچکیں ۔ ان ایمانداروں کیلئے اللہ کے ہاں جنت ہے ، جیسے کہ یہ سلامتی کی راہ یہاں چلے ویسے ہی قیامت کے دن سلامتی کا گھر انہیں ملے گا ۔ وہی سلامتیوں کا مالک اللہ تعالیٰ ہے ان کا کار ساز اور دلی دوست ہے ۔ حافظ و ناصر موید و مولٰی ان کا وہی ہے ان کے نیک اعمال کا بدلہ یہ پاک گھر ہو گا جہاں ہمیشگی ہے اور یکسر راحت و اطمینان ، سرور اور خوشی ہی خوشی ہے ۔ الانعام
127 الانعام
128 یوم حشر وہ دن بھی قریب ہے جبکہ اللہ تعالیٰ ان سب کو جمع کرے گا -جناب انسان عابد معبود سب ایک میدان میں کھڑے ہوں گے اس وقت جنات سے ارشاد ہوگا کہ ’ تم نے انسانوں کو خوب بہکایا اور ورغلایا -انسانوں کو یاد دلایا جائے گا کہ «أَلَمْ أَعْہَدْ إِلَیْکُمْ یَا بَنِی آدَمَ أَن لَّا تَعْبُدُوا الشَّیْطَانَ إِنَّہُ لَکُمْ عَدُوٌّ مٰبِینٌ وَأَنِ اعْبُدُونِی ہٰذَا صِرَاطٌ مٰسْتَقِیمٌ وَلَقَدْ أَضَلَّ مِنکُمْ جِبِلًّا کَثِیرًا أَفَلَمْ تَکُونُوا تَعْقِلُونَ» ۱؎ (یس:60-62) ’ میں نے تو تمہیں پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ شیطان کی نہ ماننا وہ تمہارا دشمن ہے میری ہی عبادت کرتے رہنا یہی سیدھی راہ ہے لیکن تم نے سمجھ سے کام نہ لیا اور شیطانی راگ میں آگئے ‘ ‘ ۔ اس وقت جنات کے دوست انسان جواب دیں گے کہ ہاں انہوں نے حکم دیا اور ہم نے عمل کیا دنیا میں ایک دوسرے کے ساتھ رہے اور فائدہ حاصل کرتے رہے ۔ جاہلیت کے زمانہ میں جو مسافر کہیں اترتا تو کہتا کہ اس وادی کے بڑے جن کی پناہ میں میں آتا ہوں ۔ انسانوں سے جنات کو بھی فائدہ پہنچتا تھا کہ وہ اپنے آپ کو ان کے سردار سمجھنے لگے تھے موت کے وقت تک یہی حالت رہی اس وقت انہیں کہا جائے گا کہ اچھا اب بھی تم ساتھ ہی جہنم میں جاؤ وہیں ہمیشہ پڑے رہنا ۔ یہ استثناء جو ہے وہ راجع ہے برزخ کی طرف بعض کہتے ہیں دنیا کی مدت کی طرف ، اس کا پورا بیان سورۃ ہود کی آیت «خٰلِدِیْنَ فِیْہَا مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ اِلَّا مَا شَاءَ رَبٰکَ اِنَّ رَبَّکَ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ» ۱؎ (11-ہود:107) کی تفسیر میں آئے گا ان شاء اللہ ۔ اس آیت سے معلوم ہورہا ہے کہ کوئی کسی کے لیے جنت دوزخ کا فیصلہ نہیں کرسکتا ۔ سب مشیت رب پر موقوف ہے ۔ الانعام
129 ہم مزاج ہی دوست ہوتے ہیں لوگوں کی دوستیاں اعمال پر ہوتی ہیں مومن کا دل مومن سے ہی لگتا ہے گو وہ کہیں کا ہو اور کیسا ہی ہو اور کافر کافر بھی ایک ہی ہیں گو وہ مختلف ممالک اور مختلف ذات پات کے ہوں -ایمان تمناؤں اور ظاہر داریوں کا نام نہیں ۔ اس مطلب کے علاوہ اس آیت کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اسی طرح یکے بعد دیگرے تمام کفار جہنم میں جھونک دیئے جائیں گے ۔ مالک بن دینار کہتے ہیں میں نے زبور میں پڑھا ہے اللہ فرماتا ہے ’ میں منافقوں سے انتقام منافقوں کے ساتھ ہی لوں گا پھر سب سے ہی انتقام لوں گا ‘ ۔ اس کی تصدیق قرآن کی مندرجہ بالا آیت سے بھی ہوتی ہے کہ ’ ہم ولی بنائیں گے بعض ظالموں کا ‘ یعنی ظالم جن اور ظالم انس ۔ پھر آپ نے آیت «وَمَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِکْرِ الرَّحْمٰنِ نُـقَیِّضْ لَہٗ شَیْطٰنًا فَہُوَ لَہٗ قَرِیْنٌ» ۱؎ (43-الزخرف:36) کی تلاوت کی اور فرمایا کہ ” ہم سرکش جنوں کو سرکش انسانوں پر مسلط کر دیں گے “ ۔ ایک مرفوع حدیث میں ہے { جو ظالم کی مدد کرے گا اللہ اسی کو اس پر مسلط کر دے گا } ۔ ۱؎ (سلسلۃ احادیث ضعیفہ البانی:1937) کسی شاعر کا قول ہے ، ؎ «وَمَا مِنْ یَدٍ إِلَّا یَدُ اللہِ فَوْقَہَا» «وَلَا ظَالِمٍ إِلَّا سَیُبلَی بِظَالِمٍ» یعنی ہر ہاتھ ہر طاقت پر اللہ کا ہاتھ اور اللہ کی طاقت بالا ہے اور ہر ظالم دوسرے ظالم کے پنجے میں پھنسنے والا ہے ۔ مطلب آیت کا یہ ہے کہ ہم نے جس طرح ان نقصان یافتہ انسانوں کے دوست ان بہکانے والے جنوں کو بنا دیا اسی طرح ظالموں کو بعض کو بعض کا ولی بنا دیتے ہیں اور بعض بعض سے ہلاک ہوتے ہیں اور ہم ان کے ظلم و سرکشی اور بغاوت کا بدلہ بعض سے بعض کو دلا دیتے ہیں ۔ الانعام
130 جن اور انسان اور پاداش عمل یہ اور سرزنش اور ڈانت ڈپٹ ہے جو قیامت کے دن اللہ کی طرف سے انسانوں اور جنوں کو ہوگی ان سے سوال ہو گا کہ ’ کیا تم میں سے ہی تمہارے پاس میرے بھیجے ہوئے رسول نہیں آئے تھے ‘ - یہ یاد رہے کہ رسول کل کے کل انسان ہی تھے کوئی جن رسول نہیں ہوا ۔ ائمہ سلف خلف کا مذہب یہی ہے جنات میں نیک لوگ اور جنوں کو نیکی کی تعلیم کرتے تھے ، بدی سے روکتے تھے لیکن رسول صرف انسانوں میں سے ہی آتے رہے ۔ ضحاک بن مزاحم سے ایک روایت مروی ہے کہ جنات میں بھی رسول ہوتے ہیں اور ان کی دلیل ایک تو یہ آیت ہے سو یہ کوئی دلیل نہیں اس لیے کہ اس میں صراحت نہیں اور یہ آیت تو بالکل ویسی ہی ہے جیسے آیت «مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰنِ» ۱؎ (55-الرحمن:19) سے «یَخْرُجُ مِنْہُمَا اللٰؤْلُؤُ وَالْمَرْجَانُ» ۱؎ (55-الرحمن:22) تک کی آیتیں صاف ظاہر ہے کہ موتی مرجان صرف کھاری پانی کے سمندروں میں نکلتے ہیں ۔ میٹھے پانی سے نہیں نکلتے لیکن ان آیتوں میں دونوں قسم کے سمندروں میں سے موتیوں کا نکلنا پایا جاتا ہے کہ ان کی جنس میں سے مراد یہی ہے ۔ اس طرح اس آیت میں مراد جنوں انسانوں کی جنس میں سے ہے نہ کہ ان دونوں میں سے ہر ایک میں سے اور رسولوں کے صرف انسان ہی ہونے کی دلیل آیت «اِنَّآ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ کَمَآ اَوْحَیْنَآ اِلٰی نُوْحٍ وَّالنَّـبِیّٖنَ مِنْ بَعْدِہٖ وَاَوْحَیْنَآ اِلٰٓی اِبْرٰہِیْمَ وَاِسْمٰعِیْلَ وَاِسْحٰقَ وَیَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطِ وَعِیْسٰی وَاَیٰوْبَ وَیُوْنُسَ وَہٰرُوْنَ وَسُلَیْمٰنَ وَاٰتَیْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا وَرُسُلًا قَدْ قَصَصْنٰہُمْ عَلَیْکَ مِنْ قَبْلُ وَرُسُلًا لَّمْ نَقْصُصْہُمْ عَلَیْکَ وَکَلَّمَ اللّٰہُ مُوْسٰی تَکْلِــیْمًا رُسُلًا مٰبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ لِئَلَّا یَکُوْنَ للنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّــۃٌ بَعْدَ الرٰسُلِ» ۱؎ (4-النساء:165-163) اور « وَجَعَلْنَا فِی ذُرِّیَّتِہِ النٰبُوَّۃَ وَالْکِتَابَ» ۱؎ (29-العنکبوت:27) پس ثابت ہوتا ہے کہ خلیل اللہ ابراہیم علیہ السلام کے بعد نبوت کا انحصار آپ علیہ السلام ہی کی اولاد میں ہو رہا ، ،اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اس انوکھی بات کا قائل ایک بھی نہیں کہ آپ علیہ السلام سے پہلے نبی ہوتے تھے اور پھر ان میں سے نبوت چھین لی گئی ۔ اور آیت اس سے بھی صاف ہے فرمان ہے «وَمَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَکَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّآ اِنَّہُمْ لَیَاْکُلُوْنَ الطَّعَامَ وَیَمْشُوْنَ فِی الْاَسْوَاقِ وَجَعَلْنَا بَعْضَکُمْ لِبَعْضٍ فِتْنَۃً اَتَصْبِرُوْنَ وَکَانَ رَبٰکَ بَصِیْرًا» ۱؎ (25-الفرقان:20) یعنی ’ تجھ سے پہلے جتنے رسول ہم نے بھیجے سب کھانا کھاتے تھے اور بازاروں میں آتے جاتے تھے ‘ ۔ اور آیت میں ہے اور اس نے یہ مسئلہ بالکل صاف کر دیا ہے فرماتا ہے «وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ اِلَّا رِجَالًا نٰوْحِیْٓ اِلَیْہِمْ مِّنْ اَہْلِ الْقُرٰی» ۱؎ (12-یوسف:109) یعنی ’ تجھ سے پہلے ہم نے مردوں کو ہی بھیجا ہے جو شہروں کے ہی تھے جن کی طرف ہم نے اپنی وحی نازل فرمائی تھی ‘ ۔ چنانچہ جنات کا یہی قول قرآن میں موجود ہے «وَاِذْ صَرَفْنَآ اِلَیْکَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ یَسْتَمِعُوْنَ الْقُرْاٰنَ فَلَمَّا حَضَرُوْہُ قَالُوْٓا اَنْصِتُوْا فَلَمَّا قُضِیَ وَلَّوْا اِلٰی قَوْمِہِمْ مٰنْذِرِیْنَ قَالُوا یَا قَوْمَنَا إِنَّا سَمِعْنَا کِتَابًا أُنزِلَ مِن بَعْدِ مُوسَیٰ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ یَہْدِی إِلَی الْحَقِّ وَإِلَیٰ طَرِیقٍ مٰسْتَقِیمٍ یَا قَوْمَنَا أَجِیبُوا دَاعِیَ اللہِ وَآمِنُوا بِہِ یَغْفِرْ لَکُم مِّن ذُنُوبِکُمْ وَیُجِرْکُم مِّنْ عَذَابٍ أَلِیمٍ وَمَن لَّا یُجِبْ دَاعِیَ اللہِ فَلَیْسَ بِمُعْجِزٍ فِی الْأَرْضِ وَلَیْسَ لَہُ مِن دُونِہِ أَوْلِیَاءُ أُولٰئِکَ فِی ضَلَالٍ مٰبِینٍ» ۱؎ (46-الأحقاف:32-29) ’ جبکہ ہم نے جنوں کی ایک جماعت کو تیری طرف پھیرا جو قرآن سنتے رہے جب سن چکے تو واپس اپنی قوم کے پاس گئے اور انہیں آگاہ کرتے ہوئے کہنے لگے کہ ہم نے موسیٰ [ علیہ السلام ] کے بعد کی نازل شدہ کتاب سنی جو اپنے سے پہلے کی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور راہ حق دکھاتی ہے اور صراط مستقیم کی رہبری کرتی ہے ، پس تم سب اللہ کی طرف دعوت دینے والے کی مانو اور اس پر ایمان لاؤ تاکہ اللہ تمہارے گناہوں کو بخشے اور تمہیں المناک عذابوں سے بچائے اللہ کی طرف سے جو پکارنے والا ہے اس کی نہ ماننے والے اللہ کو عاجز نہیں کر سکتے نہ اس کے سوا اپنا کوئی اور کار ساز اور والی پا سکتے ہیں بلکہ ایسے لوگ کھلی گمراہی میں ہیں ‘ ۔ ترمذی وغیرہ کی حدیث میں ہے کہ { اس موقعہ پر جنات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ الرحمن پڑھ کر سنائی تھی } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3219،قال الشیخ الألبانی:حسن) جس میں ایک آیت «سَنَفْرُغُ لَکُمْ اَیٰہَا الثَّقَلٰنِ فَبِأَیِّ آلَاءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ» ۱؎ (55-الرحمن:32-31) ہے یعنی ’ اے جنو انسانوں ہم صرف تمہاری ہی طرف تمام تر توجہ کرنے کیلئے عنقریب فارغ ہوں گے ۔ پھر تم اپنے رب کی کس نعمت کو جھٹلا رہے ہو ؟ ‘ ۔ الغرض انسانوں اور جنوں کو اس آیت میں نبیوں کے ان میں سے بھیجنے میں بطور خطاب کے شامل کر لیا ہے ورنہ رسول سب انسان ہی ہوتے ہیں ۔ نبیوں کا کام یہی رہا کہ وہ اللہ کی آیتیں سنائیں اور قیامت کے دن سے ڈرائیں ۔ اس سوال کے جواب میں سب کہیں گے کہ ہاں ہمیں اقرار ہے تیرے رسول ہمارے پاس آئے اور تیرا کلام بھی پہنچایا اور اس دن سے بھی متنبہ کر دیا تھا ۔ پھر جناب باری فرماتا ہے ’ انہوں نے دنیا کی زندگی دھوکے میں گزاری ، رسولوں کو جھٹلاتے رہے ، معجزوں کی مخالفت کرتے رہے دنیا کی آرائش پر جان دیتے رہے گئے ۔ شہوت پرستی میں پڑے رہے قیامت کے دن اپنی زبانوں سے اپنے کفر کا اقرار کریں گے کہ ہاں بیشک ہم نے نبیوں کی نہیں مانی ‘ ۔ «صَلَوَاتُ اللہِ وَسَلَامُہُ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِینَ» ۔ الانعام
131 حجت تمام جن اور انسانوں کی طرف رسول بھیج کر ، کتابیں اتار کر ان کے عذر ختم کر دیئے اس لیے کہ یہ اللہ کا اصول نہیں کہ وہ کسی بستی کے لوگوں کو اپنی منشاء معلوم کرائے بغیر چپ چاپ اپنے عذابوں میں جکڑ لے اور اپنا پیغام پہنچائے بغیر بلا وجہ ظلم کے ساتھ ہلاک کر دے - فرماتا ہے آیت «وَاِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیْہَا نَذِیْرٌ» ۱؎ (35-فاطر:24) یعنی ’ کوئی بستی ایسی نہیں جہاں کوئی آگاہ کرنے والا نہ آیا ہو ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِی کُلِّ أُمَّۃٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللہَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ» ۱؎ (16-النحل:36) ’ ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ اے لوگو ! اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے سوا ہر ایک کی عبادت سے بچو ‘ ۔ اور جگہ ہے «وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِینَ حَتَّیٰ نَبْعَثَ رَسُولًا» ۱؎ (17-الإسراء:15) ’ ہم رسولوں کو بھیجنے سے پہلے عذاب نہیں کیا کرتے ‘ ۔ سورۃ تبارک میں ہے «تَکَادُ تَمَیَّزُ مِنَ الْغَیْظِ کُلَّمَا أُلْقِیَ فِیہَا فَوْجٌ سَأَلَہُمْ خَزَنَتُہَا أَلَمْ یَأْتِکُمْ نَذِیرٌ قَالُوا بَلَیٰ قَدْ جَاءَنَا نَذِیرٌ فَکَذَّبْنَا وَقُلْنَا مَا نَزَّلَ اللہُ مِن شَیْءٍ إِنْ أَنتُمْ إِلَّا فِی ضَلَالٍ کَبِیرٍ» ۱؎ (67-الملک:8-9) ’ جب جہنم میں کوئی جماعت جائے گی تو وہاں کے داروغے ان سے کہیں گے کہ کیا تمہارے پاس آ گاہ کرنے والے نہیں آئے تھے ؟ وہ کہیں گے آئے تھے ‘ اور بھی اس مضمون کی بہت سی آیتیں ہیں ۔ اس آیت کے پہلے جملے کے ایک معنی امام ابن جریر رحمہ اللہ نے اور بھی بیان کئے ہیں اور فی الواقع وہ معنی بہت درست ہیں امام صاحب نے بھی اسی کو ترجیح دی ہے یعنی یہ کہ ” کسی بستی والوں کے ظلم اور گناہوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ انہیں اسی وقت ہلاک نہیں کرتا جب تک نبیوں کو بھیج کر انہیں غفلت سے بیدار نہ کر دے ، ہر عامل اپنے عمل کے بدلے کا مستحق ہے ۔ نیک نیکی کا اور بد بدی کا ، خواہ انسان ہو خواہ جن ہو “ ۔ بدکاروں کے جہنم میں درجے ان کی بدکاری کے مطابق مقرر ہیں جو لوگ خود بھی کفر کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی راہ الہیہ سے روکتے ہیں انہیں عذاب پر عذاب ہوں گے اور ان کے فساد کا بدلہ ملے گا ہر عامل کا عمل اللہ پر روشن ہے تاکہ قیامت کے دن ہر شخص کو اس کے کئے ہوئے کا بدلہ مل جائے ۔ الانعام
132 الانعام
133 سب سے بےنیاز اللہ اللہ تعالیٰ اپنی تمام مخلوق سے بے نیاز ہے ، اسے کسی کی کوئی حاجت نہیں ، اسے کسی سے کوئی فائدہ نہیں وہ کسی کا محتاج نہیں ، ساری مخلوق اپنے ہر حال میں اس کی محتاج ہے ۔ وہ بڑی ہی رافت و رحمت والا ہے رحم و کرم اس کی خاص صفتیں ہیں ۔ جیسے فرمان ہے آیت «اِنَّ اللّٰہَ بالنَّاسِ لَرَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ» ۱؎ (2-البقرۃ:143) ’ اللہ اپنے بندوں کے ساتھ مہربانی اور لطف سے پیش آنے والا ہے ‘ ، تو جو اس کی مخالفت کر رہے ہو تو یاد رکھو کہ «إِن یَشَأْ یُذْہِبْکُمْ أَیٰہَا النَّاسُ وَیَأْتِ بِآخَرِینَ وَکَانَ اللہُ عَلَیٰ ذٰلِکَ قَدِیرًا» ۱؎ (4-النساء:133) ’ اگر وہ چاہے تو تمہیں ایک آن میں غارت کر سکتا ہے اور تمہارے بعد ایسے لوگوں کو بسا سکتا ہے جو اس کی اطاعت کریں ‘ ۔ یہ اس کی قدرت میں ہے تم دیکھ لو اس نے آخر اوروں کے قائم مقام تمہیں بھی کیا ہے ۔ ایک قرن کے بعد دوسرا قرن وہی لاتا ہے ایک کو مار ڈالتا ہے ، دوسرے کو پیدا کر دیتا ہے لانے لے جانے پر اسے مکمل قدرت ہے ۔ جیسے فرمان ہے ’ اگر وہ چاہے تو اے لوگو تم سب کو فنا کر دے اور دوسروں کو لے آئے وہ اس پر قادر ہے ‘ ۔ فرمان ہے آیت «یٰٓاَیٰہَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ اِلَی اللّٰہِ وَاللّٰہُ ہُوَ الْغَنِیٰ الْحَمِیْدُ إِن یَشَأْ یُذْہِبْکُمْ وَیَأْتِ بِخَلْقٍ جَدِیدٍ وَمَا ذٰلِکَ عَلَی اللہِ بِعَزِیزٍ» ۱؎ (35-فاطر:17-15) ’ لوگو تم سب کے سب اللہ کے محتاج ہو اور اللہ تعالیٰ بے نیاز اور تعریفوں والا ہے ۔ اگر وہ چاہے تو تم سب کو فنا کر دے اور نئی مخلوق لے آئے اللہ کے لیے کوئی انوکھی بات نہیں ‘ ۔ اور فرمان ہے آیت «وَاللّٰہُ الْغَنِیٰ وَاَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ» (47-محمد:38) ’ اللہ غنی ہے اور تم سب فقیر ہو ‘ ۔ فرماتا ہے ’ اگر تم نافرمان ہو گئے تو وہ تمہیں بدل کر اور قوم لائے گا جو تم جیسے نہ ہوں گے ‘ ۔ «ذٰرِّیَّۃُ» سے مراد اصل و نسل ہے ۔ ’ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے کہہ دیجئیے کہ قیامت جنت دوزخ وغیرہ کے جو وعدے تم سے کئے جا رہے ہیں وہ یقیناً سچے ہیں اور یہ سب کچھ ہونے والا ہے تم اللہ کو عاجز نہیں کر سکتے وہ تمہارے اعادے پر قادر ہے ۔ تم گل سڑ کر مٹی ہو جاؤ گے پھر وہ تمہیں نئی پیدائش میں پیدا کرے گا اس پر کوئی عمل مشکل نہیں ‘ ۔ { حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { اے بنی آدم اگر تم میں عقل ہے تو اپنے تئیں مردوں میں شمار کرو واللہ اللہ کی فرمائی ہوئی سب باتیں بہ یقین ہونے والی ہیں کوئی نہیں جو اللہ کے ارادے میں اسے ناکام کر دے ، اس کی چاہت کو نہ ہونے دے } } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:7907/4:ضعیف) لوگوں تم اپنی کرنی کئے جاؤ میں اپنے طریقے پر قائم ہوں ابھی ابھی معلوم ہو جائے گا کہ ہدایت پر کون تھا ؟ اور ضلالت پر کون تھا ؟ کون نیک انجام ہوتا ہے اور کون گھٹنوں میں سر ڈال کر روتا ہے ۔ جیسے فرمایا «وَقُل لِّلَّذِینَ لَا یُؤْمِنُونَ اعْمَلُوا عَلَیٰ مَکَانَتِکُمْ إِنَّا عَامِلُونَ وَانتَظِرُوا إِنَّا مُنتَظِرُونَ» (11-ھود:121-122) ’ بے ایمانوں سے کہہ دو کہ تم اپنے شغل میں رہو میں بھی اپنے کام میں لگا ہوں ۔ تم منتظر رہو ہم بھی انتظار میں ہیں معلوم ہو جائے گا کہ انجام کے لحاظ سے کون اچھا رہا ؟ یاد رکھو اللہ نے جو وعدے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کئے ہیں سب اٹل ہیں ‘ ۔ چنانچہ دنیا نے دیکھ لیا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جس کا چپہ چپہ مخالف تھا جس کا نام لینا دوبھر تھا ، جو یکہ و تنہا تھا ، جو وطن سے نکال دیا گیا تھا ، جس کی دشمنی ایک ایک کرتا تھا ، اللہ نے اسے غلبہ دیا لاکھوں دلوں پر اس کی حکومت ہو گئی اس کی زندگی میں ہی تمام جزیرہ عرب کا وہ تنہا مالک بن گیا یمن اور بحرین پر بھی اس کے سامنے اس کا جھنڈا لہرانے لگا ۔ پھر اس کے جانشینوں نے دنیا کو کھنگال ڈالا بڑی بڑی سلطنتوں کے منہ پھیر دیئے ، جہاں گئے غلبہ پایا جدھر رخ کیا ، فتح حاصل کی ، یہی اللہ کا وعدہ تھا کہ ’ میں اور میرے رسول غالب آئیں گے ، مجھ سے زیادہ قوت وعزت کسی کی نہیں ‘ ۔ فرما دیا تھا کہ «کَتَبَ اللہُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِی» ۱؎ (58-المجادلۃ:20) ’ اللہ کا حکم ناطق ہے کہ میں اور میرے پیغمبر ضرور غالب رہیں گے ‘ ۔ « إِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِینَ آمَنُوا فِی الْحَیَاۃِ الدٰنْیَا وَیَوْمَ یَقُومُ الْأَشْہَادُ یَوْمَ لَا یَنْفَعُ الظَّالِمِینَ مَعْذِرَتُہُمْ وَلَہُمُ اللَّعْنَۃُ وَلَہُمْ سُوءُ الدَّارِ» ۱؎ (40-غافر:51-52) ’ ہم اپنے رسولوں کی اور ایمانداروں کی مدد فرمائیں گے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ‘ ۔ رسولوں کی طرف اس نے وحی بھیجی تھی کہ «وَعَدَ اللہُ الَّذِینَ آمَنُوا مِنکُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِی الْأَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِینَ مِن قَبْلِہِمْ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمْ دِینَہُمُ الَّذِی ارْتَضَیٰ لَہُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّہُم مِّن بَعْدِ خَوْفِہِمْ أَمْنًا یَعْبُدُونَنِی لَا یُشْرِکُونَ بِی شَیْئًا» ۱؎ (24-النور:55) ’ ہم ظالموں کو تہ و بالا کر دیں گے اور ان کے بعد زمینوں کے سرتاج تمہیں بنا دیں گے کیونکہ تم مجھ سے اور میرے عذابوں سے ڈرنے والے ہو ‘ ۔ وہ پہلے ہی فرما چکا تھا کہ تم میں سے ایمانداروں اور نیک کاروں کو میں زمین کا سلطان بنا دوں گا جیسے کہ پہلے سے یہ دستور چلا آ رہا ہے ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ ان کے دین میں مضبوطی اور کشائش دے گا جس کے دین سے وہ خوش ہے اور ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا کہ وہ میری عبادت کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھرائیں ۔ «اَلْحَمْدُ لِلہِ» اللہ تعالیٰ نے اس امت سے اپنا یہ وعدہ پورا فرمایا ۔ «وَلَہُ الْحَمْدُ وَالْمِنَّۃِ أَوَّلًا وَآخِرًا ، بَاطِنًا وَظَاہِرًا» ۔ الانعام
134 الانعام
135 الانعام
136 ہدعت کا آغاز مشرکین کی ایک نو ایجاد [ بدعت ] جو کفر و شرک کا ایک طریقہ تھی بیان ہو رہی ہے کہ ’ ہر چیز پیدا کی ہوئی تو ہماری ہے پھر یہ اس میں سے نذرانہ کا کچھ حصہ ہمارے نام کا ٹھہراتے ہیں اور کچھ اپنے گھڑے ہوئے معبودوں کا جنہیں وہ ہمارا شریک بنائے ہوئے ہیں ، اسی کے ساتھ ہی یہ بھی کرتے ہیں کہ اللہ کے نام کا ٹھہرایا ہوا نذرانہ بتوں کے نام والے میں مل گیا تو وہ تو بتوں کا ہوگیا لیکن اگر بتوں کے لیے ٹھہرائے ہوئے میں سے کچھ اللہ کے نام والے میں مل گیا تو اسے جھٹ سے نکال لیتے تھے -کوئی ذبیحہ اپنے معبودوں کے نام کا کریں تو بھول کر بھی اس پر اللہ کا نام نہیں لیتے یہ کیسی بری تقسیم کرتے ہیں ‘ ۔ اولاً تو یہ تقسیم ہی جہالت کی علامت ہے کہ سب چیزیں اللہ کی پیدا کی ہوئی اسی کی ملکیت پھر ان میں سے دوسرے کے نام کی کسی چیز کو نذر کرنے والے یہ کون ؟ جو اللہ لا شریک ہے انہیں اس کے شریک ٹھہرانے کا کیا مقصد ؟ پھر اس ظلم کو دیکھو اللہ کے حصے میں سے تو بتوں کو پہنچ جائے اور بتوں کا حصہ ہرگز اللہ کو نہ پہنچ سکے یہ کیسے بدترین اصول ہیں ۔ ایسی ہی غلطی یہ بھی تھی کہ «وَیَجْعَلُونَ لِلہِ الْبَنَاتِ سُبْحَانَہُ وَلَہُم مَّا یَشْتَہُونَ» ۱؎ (16-النحل:57) ’ اللہ کے لیے لڑکیاں اور اپنے لیے لڑکے ‘ ، اور جیسے کہ آیت میں ہے «أَلَکُمُ الذَّکَرُ وَلَہُ الْأُنثَیٰ تِلْکَ إِذًا قِسْمَۃٌ ضِیزَیٰ» ۱؎ (53-النجم:21،22) ’ [ مشرکو ! ] کیا تمہارے لیے تو بیٹے اور خدا کے لیے بیٹیاں جن لڑکیوں سے تم بیزار وہ اللہ کی ہوں ، کیسی بری تقسیم ہے ‘ ۔ الانعام
137 شیطان کے چیلے جیسے کہ شیطانوں نے انہیں راہ پر لگا دیا ہے کہ وہ اللہ کے لیے خیرات کریں تو اپنے بزرگوں کا نام کا بھی حصہ نکالیں اسی طرح انہیں شیطان نے اس راہ پر بھی لگا رکھا ہے کہ وہ اپنی اولادوں کو بے وجہ قتل کردیں ۔ کوئی اس وجہ سے کہ ہم اسے کھلائیں گے کہاں سے ؟ کوئی اس وجہ سے کہ ان بیٹیوں کی بنا پر ہم کسی کے خسر بنیں گے وغیرہ ۔ اس شیطانی حرکت کا نتیجہ ہلاکت اور دین کی الجھن ہے ۔ یہاں تک کہ یہ بدترین طریقہ ان میں پھیل گیا تھا کہ لڑکی کے ہونے کی خبر ان کے چہرے سیاہ کر دیتی تھی ان کے منہ سے یہ نکلتا نہ تھا کہ میرے ہاں لڑکی ہوئی ۔ قرآن نے فرمایا کہ ’ ان بےگناہ زندہ درگور کی ہوئی بچیوں سے قیامت کے دن سوال ہوگا کہ وہ کس گناہ پر قتل کر دی گئیں ‘ ۔ پس یہ سب وسوسے شیطانی تھے لیکن یہ یاد رہے کہ رب کا ارادہ اور اختیار اس سے الگ نہ تھا اگر وہ چاہتا تو مشرک ایسا نہ کر سکتے ۔ لیکن اس میں بھی اس کی حکمت ہے ، اس سے کوئی بازپرس نہیں کر سکتا اور اس کی بازپرس سے کوئی بچ نہیں سکتا ۔ پس ’ اے نبی تو ان سے اور ان کی اس افترا پردازی سے علیحدگی اختیار کرلو اللہ خود ان سے نمٹ لے گا ‘ ۔ الانعام
138 اللہ کا مقرر کردہ راستہ «الْحِجْرُ» کے معنی احرام کے ہیں -یہ طریقے شیطانی تھے کوئی اللہ کا مقرر کردہ راستہ نہ تھا ۔ اپنے معبودوں کے نام یہ چیزیں کر دیتے تھے ، پھر جسے چاہتے کھلاتے ۔ جیسے فرمان ہے آیت «قُلْ اَرَءَیْتُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللّٰہُ لَکُمْ مِّنْ رِّزْقٍ فَجَــعَلْتُمْ مِّنْہُ حَرَامًا وَّحَلٰلًا» (10-یونس:59) یعنی ’ بتلاؤ تو یہ اللہ کے دیئے رزق میں سے تم جو اپنے طور پر حلال حرام مقرر کر لیتے ہو اس کا حکم تمہیں اللہ نے دیا ہے یا تم نے خود ہی خود پر تراش لیا ہے ؟ ‘ دوسری آیت میں صاف فرمایا «مَا جَعَلَ اللّٰہُ مِنْ بَحِیْرَۃٍ وَّلَا سَایِٕبَۃٍ وَّلَا وَصِیْلَۃٍ وَّلَا حَامٍ وَّلٰکِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ وَاَکْثَرُہُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ» ۱؎ (5-المائدہ:103) یعنی ’ یہ کافروں کی نادانی ، افتراء اور جھوٹ ہے ۔ بحیرہ سائبہ اور حام نام رکھ کر ان جانوروں کو اپنے معبودان باطل کے نام پر داغ دیتے تھے پھر ان سے سواری نہیں لیتے تھے ، جب ان کے بچے ہوتے تھے تو انہیں ذبح کرتے تھے حج کے لیے بھی ان جانوروں پر سواری کرنا حرام جانتے تھے ‘ ۔ نہ کسی کام میں ان کو لگاتے تھے نہ ان کا دودھ نکالتے تھے پھر ان کاموں کو شرعی کام قرار دیتے تھے اور اللہ کا فرمان جانتے تھے اللہ انہیں ان کے اس کرتوت کا اور بہتان بازی کا بدلہ دے گا ۔ الانعام
139 نذر نیاز سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” جاہلیت میں یہ بھی رواج تھا کہ جن چوپایوں کو وہ اپنے معبودان باطل کے نام کر دیتے تھے ان کا دودھ صرف مرد پیتے تھے جب انہیں بچہ ہوتا تو اگر نر ہوتا تو صرف مرد ہی کھاتے اگر مادہ ہوتا تو اسے ذبح ہی نہ کرتے اور اگر پیٹ ہی سے مردہ نکلتا تو مرد عورت سب کھاتے اللہ نے اس فعل سے بھی روکا “ - شعبی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ ” بحیرہ کا دودھ صرف مرد پیتے اور اگر وہ مر جاتا تو گوشت مرد عورت سب کھاتے “ ۔ «وَلَا تَقُولُوا لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُکُمُ الْکَذِبَ ہٰذَا حَلَالٌ وَہٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوا عَلَی اللہِ الْکَذِبَ إِنَّ الَّذِینَ یَفْتَرُونَ عَلَی اللہِ الْکَذِبَ لَا یُفْلِحُونَ مَتَاعٌ قَلِیلٌ وَلَہُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ» (16-النحل:116-117) ان کی ان جھوٹی باتوں کا بدلہ اللہ انہیں دے گا کیونکہ یہ سب ان کا جھوٹ اللہ پر باندھا ہوا تھا ، فلاح و نجات اسی لیے ان سے دور کر دی گئی تھی ۔ یہ اپنی مرضی سے کسی کو حلال کسی کو حرام کر لیتے تھے پھر اسے رب کی طرف منسوب کر دیتے تھے اللہ جیسے حکیم کا کوئی فعل کوئی قول کوئی شرع کوئی تقدیر بے حکمت نہیں تھی وہ اپنے بندوں کے خیر و شر سے دانا ہے اور انہیں بدلے دینے والا ہے ۔ الانعام
140 اولاد کے قاتل اولاد کے قاتل اللہ کے حلال کو حرام کرنے والے دونوں جہان کی بربادی اپنے اوپر لینے والے ہیں -دنیا کا گھاٹا تو ظاہر ہے ان کے یہ دونوں کام خود انہیں نقصان پہنچانے والے ہیں بے اولاد یہ ہو جائیں گے مال کا ایک حصہ ان کا تباہ ہو جائے گا ۔ رہا آخرت کا نقصان سو چونکہ یہ مفتری ہیں ، کذاب ہیں ، وہاں کی بدترین جگہ انہیں ملے گی ، عذابوں کے سزاوار ہوں گے ۔ جیسے فرمان ہے کہ «قُلْ إِنَّ الَّذِینَ یَفْتَرُونَ عَلَی اللہِ الْکَذِبَ لَا یُفْلِحُونَ مَتَاعٌ فِی الدٰنْیَا ثُمَّ إِلَیْنَا مَرْجِعُہُمْ ثُمَّ نُذِیقُہُمُ الْعَذَابَ الشَّدِیدَ بِمَا کَانُوا یَکْفُرُونَ» ۱؎ (10-یونس:69-70) ’ اللہ پر جھوٹ باندھنے والے نجات سے محروم کامیابی سے دور ہیں یہ دنیا میں گو کچھ فائدہ اٹھا لیں لیکن آخر تو ہمارے بس میں آئیں گے پھر تو ہم انہیں سخت تر عذاب چکھائیں گے کیونکہ یہ کافر تھے ‘ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ” اگر تو اسلام سے پہلے کے عربوں کی بد خصلتی معلوم کرنا چاہے تو سورۃ الانعام کی ایک سو تیس آیات کے بعد آیت «قَدْ خَسِرَ الَّذِینَ قَتَلُوا أَوْلَادَہُمْ سَفَہًا بِغَیْرِ عِلْمٍ وَحَرَّمُوا مَا رَزَقَہُمُ اللہُ افْتِرَاءً عَلَی اللہِ قَدْ ضَلٰوا وَمَا کَانُوا مُہْتَدِینَ» ۱؎ (6-الأنعام:140) والی آیت پڑھو ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3524) الانعام
141 مسائل زکوٰۃ اور عشر مظاہر قدرت خالق کل اللہ تعالیٰ ہی ہے کھیتیاں پھل چوپائے سب اسی کے پیدا کئے ہوئے ہیں کافروں کو کوئی حق نہیں کہ حرام حلال کی تقسیم از خود کریں ۔ درخت بعض تو بیل والے ہیں جیسے انگور وغیرہ کہ وہ محفوظ ہوتے ہیں بعض کھڑے جو جنگلوں اور پہاڑوں پر کھڑے ہوئے ہیں ۔ دیکھنے میں ایک دورے سے ملتے جلتے مگر پھلوں کے ذائقے کے لحاظ سے الگ الگ ۔ انگور کھجور یہ درخت تمہیں دیتے ہیں کہ تم کھاؤ مزہ اٹھاؤ لطف پاؤ ۔ اس کا حق اس کے کٹنے اور ناپ تول ہونے کے دن ہی دو یعنی فرض زکوٰۃ جو اس میں مقرر ہو وہ ادا کر دو ۔ پہلے لوگ کچھ نہیں دیتے تھے شریعت نے دسواں حصہ مقرر کیا اور ویسے بھی مسکینوں اور بھوکوں کا خیال رکھنا ۔ چنانچہ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ { حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمان صادر فرمایا تھا کہ { جس کی کھجوریں دس وسق سے زیادہ ہوں وہ چند خوشے مسجد میں لا کر لٹکا دے تاکہ مساکین کھالیں } } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:1662،قال الشیخ الألبانی:صحیح) یہ بھی مراد ہے کہ زکوٰۃ کے سوا اور کچھ سلوک بھی اپنی کھیتیوں باڑیوں اور باغات کے پھلوں سے اللہ کے بندوں کے ساتھ کرتے رہو- مثلاً پھل توڑنے اور کھیت کاٹنے کے وقت عموماً مفلس لوگ پہنچ جایا کرتے ہیں انہیں کچھ چھوڑ دو تاکہ مسکینوں کے کام آئے ۔ ان کے جانوروں کا چارہ ہو ، زکوٰۃ سے پہلے بھی حقداروں کو کچھ نہ کچھ دیتے رہا کرو ، پہلے تو یہ بطور وجوب تھا لیکن زکوٰۃ کی فرضیت کے بعد بطور نفل رہ گیا زکوٰۃ اس میں عشر یا نصف عشر مقرر کر دی گئی لیکن اس سے فسخ نہ سمجھا جائے ۔ پہلے کچھ دینار ہوتا تھا پھر مقدار مقرر کر دی گئی زکوٰۃ کی مقدار سنہ ٢ ہجری میں مقرر ہوئی ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ کھیتی کاٹتے وقت اور پھل اتارتے وقت صدقہ نہ دینے والوں کی اللہ تعالیٰ نے مذمت بیان فرمائی سورۃ القلم ، میں ان کا قصہ بیان فرمایا کہ «إِنَّا بَلَوْنَاہُمْ کَمَا بَلَوْنَا أَصْحَابَ الْجَنَّۃِ إِذْ أَقْسَمُوا لَیَصْرِمُنَّہَا مُصْبِحِینَ وَلَا یَسْتَثْنُونَ فَطَافَ عَلَیْہَا طَائِفٌ مِّن رَّبِّکَ وَہُمْ نَائِمُونَ فَأَصْبَحَتْ کَالصَّرِیمِ فَتَنَادَوْا مُصْبِحِینَ أَنِ اغْدُوا عَلَیٰ حَرْثِکُمْ إِن کُنتُمْ صَارِمِینَ فَانطَلَقُوا وَہُمْ یَتَخَافَتُونَ أَن لَّا یَدْخُلَنَّہَا الْیَوْمَ عَلَیْکُم مِّسْکِینٌ وَغَدَوْا عَلَیٰ حَرْدٍ قَادِرِینَ فَلَمَّا رَأَوْہَا قَالُوا إِنَّا لَضَالٰونَ بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ قَالَ أَوْسَطُہُمْ أَلَمْ أَقُل لَّکُمْ لَوْلَا تُسَبِّحُونَ قَالُوا سُبْحَانَ رَبِّنَا إِنَّا کُنَّا ظَالِمِینَ فَأَقْبَلَ بَعْضُہُمْ عَلَیٰ بَعْضٍ یَتَلَاوَمُونَ قَالُوا یَا وَیْلَنَا إِنَّا کُنَّا طَاغِینَ عَسَیٰ رَبٰنَا أَن یُبْدِلَنَا خَیْرًا مِّنْہَا إِنَّا إِلَیٰ رَبِّنَا رَاغِبُونَ کَذٰلِکَ الْعَذَابُ وَلَعَذَابُ الْآخِرَۃِ أَکْبَرُ لَوْ کَانُوا یَعْلَمُونَ» (68-القلم:17-33) ان باغ والوں نے قسمیں کھا کر کہا کہ صبح ہوتے ہی آج کے پھل ہم اتار لیں گے اس پر انہوں نے ان شاءاللہ بھی نہ کہا ۔ یہ ابھی رات کو بے خبری کی نیند میں ہی تھے وہاں آفت ناگہانی آ گئی اور سارا باع ایسا ہو گیا گویا پھل توڑ لیا گیا ہے بلکہ جلا کر خاکستر کر دیا گیا ہے یہ صبح کو اٹھ کر ایک دوسرے کو جگا کر پوشیدہ طور سے چپ چاپ چلے کہ ایسا نہ ہو حسب عادت فقیر مسکین جمع ہو جائیں اور انہیں کچھ دینا پڑے یہ اپنے دلوں میں یہی سوچتے ہوئے کہ ابھی پھل توڑ لائیں گے بڑے اہتمام کے ساتھ صبح سویرے ہی وہاں پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ سارا باغ تو خاک بنا ہوا ہے اولاً تو کہنے لگے بھئی ہم راستہ بھول گئے کسی اور جگہ آ گئے ہمارا باغ تو شام تک لہلہا رہا تھا ۔ پھر کہنے لگا نہیں باغ تو یہی ہے ہماری قسمت پھوٹ گئی ہم محروم ہو گئے -اس وقت ان میں جو باخبر شخص تھا کہنے لگا دیکھو میں تم سے نہ کہتا تھا کہ اللہ کا شکر کرو اس کی پاکیزگی بیان کرو ۔ اب تو سب کے سب کہنے لگے ہمارا رب پاک ہے یقیناً ہم نے ظلم کیا پھر ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے کہ ہائے ہماری بدبختی کہ ہم سر کش اور حد سے گزر جانے والے بن گئے تھے ۔ ہمیں اب بھی اللہ عزوجل سے امید ہے کہ وہ ہمیں اس سے بہتر عطا فرمائے گا ہم اب صرف اپنے رب سے امید رکھتے ہیں ۔ ناشکری کرنے اور تنہا خوری پسند کرنے والوں پر اسی طرح ہمارے عذاب آیا کرتے ہیں اور بھی آخرت کے بڑے عذاب باقی ہیں لیکن افسوس کہ یہ سمجھ بوجھ اور علم و عقل سے کام ہی نہیں لیتے ۔ یہاں اس آیت میں صدقہ دینے کا حکم فرما کر خاتمے پر فرمایا کہ ’ فضول خرچی سے بچو فضول خرچ اللہ کا دوست نہیں ۔ اپنی اوقات سے زیادہ نہ لٹا فخر دریا کے طور پر اپنا مال برباد نہ کرو ‘ ۔ ثابت بن قیس بن شماس نے اپنے کھجوروں کے باغ سے کھجوریں اتاریں اور عہد کر لیا کہ آج جو لینے آئے گا میں اسے دوں گا لوگ ٹوٹ پڑے شام کو ان کے پاس ایک کھجور بھی نہ رہی ۔ اس پر یہ فرمان اترا ۔ ہر چیز میں اسراف منع ہے ، اللہ کے حکم سے تجاوز کر جانے کا نام اسراف ہے خواہ وہ کسی بارے میں ہو ۔ اپنا سارا ہی مال لٹا کر فقیر ہو کر دوسروں پر اپنا انبار ڈال دینا بھی اسراف ہے اور منع ہے ، یہ بھی مطلب ہے کہ صدقہ نہ روکو جس سے اللہ کے نافرمان بن جاؤ یہ بھی اسراف ہے گویہ مطلب اس آیت کے ہیں لیکن بظاہر الفاظ یہ معلوم ہوتا ہے کہ پہلے کھانے کا ذکر ہے تو اسراف اپنے کھانے پینے میں کرنے کی ممانعت یہاں ہے کیونکہ اس سے عقل میں اور بدن میں ضرر پہنچا ہے ۔ قرآن کی اور آیت میں ہے «وَّکُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا اِنَّہٗ لَا یُحِبٰ الْمُسْرِفِیْنَ» ۱؎ (7-الأعراف:31) ’ کھاؤ پیو اور اسراف نہ کرو ‘ ۔ صحیح بخاری میں ہے { کھاؤ پیو پہنو اوڑھو لیکن اسراف اور کبر سے بچو } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:3605،قال الشیخ الألبانی:حسن) «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اسی اللہ نے تمہارے لیے چوپائے پیدا کئے ہیں ان میں سے بعض تو بوجھ ڈھونے والے ہیں جیسے اونٹ گھوڑے خچر گدھے وغیرہ اور بعض پستہ قد ہیں جیسے بکری وغیرہ -انہیں «فَرْشً» اس لیے کہا گیا کہ یہ قد و قامت میں پست ہوتے ہیں زمین سے ملے رہتے ہیں -یہ بھی کہا گیا ہے کہ «حَمُولَۃً» سے مراد سواری کے جانور اور «فَرْشًا» سے مراد جن کا دودھ پیا جاتا ہے اور جن کا گوشت کھایا جاتا ہے جو سواری کے قابل نہیں ان کے بالوں سے لحاف اور فرش تیار ہوتے ہیں ۔ یہ قول سدی کا ہے اور بہت ہی مناسب ہے ۔ خود قرآن کی سورۃ یاسین میں موجود ہے کہ «أَوَلَمْ یَرَوْا أَنَّا خَلَقْنَا لَہُم مِّمَّا عَمِلَتْ أَیْدِینَا أَنْعَامًا فَہُمْ لَہَا مَالِکُونَ وَذَلَّلْنَاہَا لَہُمْ فَمِنْہَا رَکُوبُہُمْ وَمِنْہَا یَأْکُلُونَ» ۱؎ (36-یس:71-72) ’ کیا انہوں نے اس بات پر نظر نہیں کی ؟ کہ ہم نے ان کے لیے چوپائے پیدا کر دیئے ہیں جو ہمارے ہی ہاتھوں کے بنائے ہوئے ہیں اور اب یہ ان کے مالک بن بیٹھے ہیں ہم نے ہی تو انہیں ان کے بس میں کر دیا ہے کہ بعض سوریاں کر رہے ہیں اور بعض کو یہ کھانے کے کام میں لاتے ہیں ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَاِنَّ لَکُمْ فِی الْاَنْعَامِ لَعِبْرَۃً نُسْقِیْکُمْ مِّمَّا فِیْ بُطُوْنِہٖ مِنْ بَیْنِ فَرْثٍ وَّدَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَایِٕغًا لِّلشّٰرِبِیْنَ» ۱؎ (16-النحل:66) مطلب یہ ہے کہ ’ ہم تمہیں ان چوپایوں کا دودھ پلاتے ہیں اور ان کے بال اون وغیرہ سے تمہارے اوڑھنے بچھونے اور طرح طرح کے فائدے اٹھانے کی چیزیں بناتے ہیں ‘ ۔ اور جگہ ہے «وَالْأَنْعَامَ خَلَقَہَا لَکُمْ فِیہَا دِفْءٌ وَمَنَافِعُ وَمِنْہَا تَأْکُلُونَ» ۱؎ (16-النحل:5) ’ اور چارپایوں کو بھی اسی نے پیدا کیا ۔ ان میں تمہارے لیے جڑاول اور بہت سے فائدے ہیں اور ان میں سے بعض کو تم کھاتے بھی ہو ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَلَکُمْ فِیہَا مَنَافِعُ وَلِتَبْلُغُوا عَلَیْہَا حَاجَۃً فِی صُدُورِکُمْ وَعَلَیْہَا وَعَلَی الْفُلْکِ تُحْمَلُونَ وَیُرِیکُمْ آیَاتِہِ فَأَیَّ آیَاتِ اللہِ تُنکِرُونَ» ۱؎ (40-غافر:79-81) ’ اللہ وہ ہے جس نے تمہارے لیے چوپائے جانور پیدا کئے تاکہ تم ان پر سواریاں کرو انہیں کھاؤ اور بھی فائدے اٹھاؤ ان پر اپنے سفر طے کر کے اپنے کام پورے کرو اسی نے تمہاری سواری کیلئے کشتیاں بنا دیں وہ تمہیں اپنی بےشمار نشانیاں دکھا رہا ہے بتاؤ تو کس کس نشانی کا انکار کرو گے ؟ ‘ پھر فرماتا ہے ’ اللہ کی روزی کھاؤ پھل ، اناج ، گوشت وغیرہ -شیطانی راہ پر نہ چلو ، اس کی تابعداری نہ کرو ‘ ۔ جیسے کہ مشرکوں نے اللہ کی چیزوں میں از خود حلال حرام کی تقسیم کر دی ، «إِنَّ الشَّیْطَانَ لَکُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوہُ عَدُوًّا إِنَّمَا یَدْعُو حِزْبَہُ لِیَکُونُوا مِنْ أَصْحَابِ السَّعِیرِ» ۱؎ (35-فاطر:6) ’ تم بھی یہ کر کے شیطان کے ساتھی نہ بنو ۔ وہ تمہارا دشمن ہے ، اسے دوست نہ سمجھو ۔ وہ تو اپنے ساتھ تمہیں بھی اللہ کے عذابوں میں پھنسانا چاہتا ہے ‘ ۔ «یَا بَنِی آدَمَ لَا یَفْتِنَنَّکُمُ الشَّیْطَانُ کَمَا أَخْرَجَ أَبَوَیْکُم مِّنَ الْجَنَّۃِ یَنزِعُ عَنْہُمَا لِبَاسَہُمَا لِیُرِیَہُمَا سَوْآتِہِمَا» ۱؎ (7-الأعراف:27) ’ دیکھو کہیں اس کے بہکانے میں نہ آ جانا اسی نے تمہارے باپ آدم کو جنت سے باہر نکلوایا ، اس کھلے دشمن کو بھولے سے بھی اپنا دوست نہ سمجھو ‘ ۔ «أَفَتَتَّخِذُونَہُ وَذُرِّیَّتَہُ أَوْلِیَاءَ مِن دُونِی وَہُمْ لَکُمْ عَدُوٌّ بِئْسَ لِلظَّالِمِینَ بَدَلًا» (18-الکہف:50) ’ اس کی ذریت سے اور اس کے یاروں سے بھی بچو ، یاد رکھو ظالموں کو برا بدلہ ملے گا ‘ ۔ اس مضمون کی اور بھی آیتیں کلام اللہ شریف میں بہت سی ہیں ۔ الانعام
142 الانعام
143 خود ساختہ حلال و حرام جہالت کا ثمر ہے اسلام سے پہلے عربوں کی جہالت بیان ہو رہی ہے کہ انہوں نے چوپائے جانوروں میں تقسیم کر کے اپنے طور پر بہت سے حلال بنائے تھے اور بہت سے حرام کر لیے تھے جیسے بحیرہ ، سائبہ ، وسیلہ اور حام وغیرہ -اسی طرح کھیت اور باغات میں بھی تقسیم کر رکھی تھی ۔ اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ ’ سب کا خالق اللہ ہے ، کھیت ہوں باغات ہوں ، چوپائے ہوں ‘ ، پھر ان چوپایوں کی قسمیں بیان فرمائیں ’ بھیڑ ، مینڈھا ، بکری ، بکرا ، اونٹ ، اونٹنی ، گائے ، بیل ۔ اللہ نے یہ سب چیزیں تمہارے کھانے پینے ، سواریاں لینے ، اور دوری قسم کے فائدوں کے لیے پیدا کی ہیں ‘ ۔ جیسے فرمان ہے آیت «وَاَنْزَلَ لَکُمْ مِّنَ الْاَنْعَامِ ثَمٰنِیَۃَ اَزْوَاجٍ یَخْلُقُکُمْ فِیْ بُطُوْنِ اُمَّہٰتِکُمْ خَلْقًا مِّنْ بَعْدِ خَلْقٍ فِیْ ظُلُمٰتٍ ثَلٰثٍ» ۱؎ (39-الزمر:6) ’ اس نے تمہارے لیے آٹھ قسم کے مویشی پیدا کئے ہیں ‘ ۔ بچوں کا ذکر اس لیے کیا کہ ان میں بھی کبھی وہ مردوں کیلئے مخصوص کر کے عورتوں پر حرام کر دیتے تھے پھر ان سے ہی سوال ہوتا ہے کہ آخر اس حرمت کی کوئی دلیل کوئی کیفیت کوئی وجہ تو پیش کرو ۔ چار قسم کے جانور اور مادہ اور نر ملا کر آٹھ قسم کے ہوگئے ، ان سب کو اللہ نے حلال کیا ہے کیا تو اپنی دیکھی سنی کہہ رہے ہو ؟ اس فرمان الٰہی کے وقت تم موجود تھے ؟ کیوں جھوٹ کہہ کر افترا پردازی کرکے بغیر علم کے باتیں بنا کر اللہ کی مخلوق کی گمراہی کا بوجھ اپنے اوپر لاد کر سب سے بڑھ کر ظالم بن رہے ہو ؟ اگر یہی حال رہا تو دستور ربانی کے ماتحت ہدایت الٰہی سے محروم ہو جاؤ گے ۔ سب سے پہلے یہ ناپاک رسم عمرو بن لحی بن قمعہ خبیث نے نکالی تھی اسی نے انبیاء علیہم السلام کے دین کو سب سے پہلے بدلا اور غیر اللہ کے نام پر جانور چھوڑے ۔ جیسے کہ صحیح حدیث میں آ چکا ہے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4624) الانعام
144 الانعام
145 اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ حلال و حرام اللہ تعالیٰ عزوجل اپنے بندے اور نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ ’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کافروں سے جو اللہ کے حلال کو اپنی طرف سے حرام کرتے ہیں فرمادیں کہ جو وحی الٰہی میرے پاس آئی ہے اس میں تو حرام صرف ان چیزوں کو کیا گیا ہے ، جو میں تمہیں سناتا ہوں ، اس میں وہ چیزیں حرمت والی نہیں ، جن کی حرمت کو تم رائج کر رہے ہو ‘ -کسی کھانے والے پر حیوانوں میں سے سوا ان جانوروں کے جو بیان ہوئے ہیں کوئی بھی حرام نہیں - اس آیت کے مفہوم کا رفع کرنے والی سورۃ المائدہ کی آئندہ آیتیں اور دوسری حدیثیں ہیں جن میں حرمت کا بیان ہے وہ بیان کی جائیں گی ۔ بعض لوگ اسے نسخ کہتے ہیں اور اکثر متأخرین اسے نسخ نہیں کہتے کیونکہ اس میں تو اصلی مباح کو اٹھا دینا ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ خون وہ حرام ہے جو بوقت ذبح بہہ جاتا ہے ، رگوں میں اور گوشت میں جو خون مخلوط ہو وہ حرام نہیں ۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا گدھوں اور درندوں کا گوشت اور ہنڈیا کے اوپر جو خون کی سرخی آ جائے ، اس میں کوئی حرج نہیں جانتی تھیں ۔ عمرو بن دینار نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ ” لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ خیبر کے موقعہ پر پالتو گدھوں کا کھانا حرام کر دیا ہے “ ، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ، ” ہاں حکم بن عمرو رضی اللہ عنہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی روایت کرتے ہیں لیکن سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ اس کا انکار کرتے ہیں اور آیت «قُل لَّا أَجِدُ فِی مَا أُوحِیَ إِلَیَّ مُحَرَّمًا عَلَیٰ طَاعِمٍ یَطْعَمُہُ إِلَّا أَن یَکُونَ مَیْتَۃً أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنزِیرٍ فَإِنَّہُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُہِلَّ لِغَیْرِ اللہِ بِہِ ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ رَبَّکَ غَفُورٌ رَّحِیمٌ» ۱؎ (6-الأنعام:145) تلاوت کرتے ہیں “ ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5529) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ ” اہل جاہلیت بعض چیزیں کھاتے تھے بعض کو بوجہ طبعی کراہیت کے چھوڑ دیتے تھے ۔ اللہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا ، اپنی کتاب اتاری ، حلال حرام کی تفصیل کر دی ، پس جسے حلال کر دیا وہ حلال ہے اور جسے حرام کر دیا وہ حرام ہے اور جس سے خاموش رہے وہ معاف ہے ۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے اسی آیت «قُل لَّا أَجِدُ فِی مَا أُوحِیَ إِلَیَّ مُحَرَّمًا عَلَیٰ طَاعِمٍ یَطْعَمُہُ إِلَّا أَن یَکُونَ مَیْتَۃً أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنزِیرٍ فَإِنَّہُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُہِلَّ لِغَیْرِ اللہِ بِہِ ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ رَبَّکَ غَفُورٌ رَّحِیمٌ» ۱؎ (6-الأنعام:145) کی تلاوت کی ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:3800،قال الشیخ الألبانی:صحیح) { سیدہ سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا کی بکری مرگئی ، جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { تم نے اس کی کھال کیوں نہ اتار لی ؟ } جواب دیا کہ کیا مردہ بکری کی کھال اتار لینی جائز ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی آیت تلاوت فرما کر فرمایا کہ { اس کا صرف کھانا حرام ہے ، لیکن تم اسے دباغت دے کر نفع حاصل کر سکتے ہو } ۔ چنانچہ انہوں نے آدمی بھیج کر کھال اتروالی اور اس کی مشک بنوائی جو ان کے پاس مدتوں رہی اور کام آئی } ۔ رضی اللہ عنہ (صحیح بخاری:6686) { سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے قنفد [ یعنی خار پشت جسے اردو میں ساہی بھی کہتے ہیں ] کے کھانے کی نسبت سوال ہوا تو آپ رضی اللہ عنہ نے یہی آیت پڑھی اس پر ایک بزرگ نے فرمایا میں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا ہے کہ { ایک مرتبہ اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ خبیثوں میں سے ایک خبیث ہے } اسے سن کر ابن عمر نے فرمایا اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے تو وہ یقیناً ویسی ہی ہے جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرما دیا } -۱؎ (سنن ابوداود:3799،قال الشیخ الألبانی:ضعیف الاسناد) پھر فرمایا ’ جو شخص ان حرام چیزوں کو کھانے پر مجبور ہو جائے لیکن وہ باغی اور ہد سے تجاوز کرنے والا نہ ہو تو اسے اس کا کھا لینا جائز ہے اللہ اسے بخش دے گا کیونکہ وہ غفور و رحیم ہے ‘ - اس کی کامل تفسیر سورۃ البقرہ میں گزر چکی ہے یہاں تو مشرکوں کے اس فعل کی تردید منظور ہے جو انہوں نے اللہ کے حلال کو حرام کر دیا تھا اب بتا دیا گیا کہ یہ چیزیں تم پر حرام ہیں اس کے علاوہ کوئی چیز حرام نہیں ۔ اگر اللہ کی طرف سے وہ بھی حرام ہوتیں تو ان کا ذکر بھی آ جاتا ۔ پھر تم اپنی طرف سے حلال کیوں مقرر کرتے ہو ؟ اس بنا پر پھر اور چیزوں کی حرمت باقی رہتی جیسے کہ گھروں کے پالتو گدھوں کی ممانعت اور درندوں کے گوشت کی اور جنگل والے پرندوں کی جیسے کہ علماء کا مشہور مذہب ہے [ یہ یاد رہے کہ ان کی حرمت قطعی ہے کیونکہ صحیح احادیث سے ثابت ہے اور قرآن نے حدیث کا ماننا بھی فرض کیا ہے ۔ مترجم ] الانعام
146 مزید تفصیل متعلقہ حلال و حرام ناخن دار جانور چوپایوں اور پرندوں میں سے وہ ہیں ، جن کی انگلیاں کھلی ہوئی نہ ہوں جیسے اونٹ ، شتر مرغ ، بطخ وغیرہ ۔ سعید بن جبیر کا قول ہے کہ ” جو کھلی انگلیوں والا نہ ہو “ ۔ ایک روایت میں ان سے مروی ہے کہ ” ہر ایک جدا انگلیوں والا اور انہی میں سے مرغ ہے “ ۔ قتادہ رحمہ اللہ کا قول ہے ” جیسے اونٹ ، شتر مرغ اور بہت سے پرند ، مچھلیاں ، بطخ اور اس جیسے جانور جن کی انگلیاں الگ الگ ہیں “ ۔ ان کا کھانا یہودیوں پر حرام تھا ۔ اسی طرح گائے بکری کی چربی بھی ان پر حرام تھی ۔ یہود کا مقولہ تھا کہ اسرائیل نے اسے حرام کر لیا تھا ، اس لیے ہم بھی اسے حرام کہتے ہیں ۔ ہاں جو چربی پیٹھ کے ساتھ لگی ہوئی ہو ، انتڑیوں کے ساتھ ، اوجھڑی کے ساتھ ، ہڈی کے ساتھ ہو وہ ان پر حلال تھی ، ’ یہ بھی ان کے ظلم ، تکبر اور سرکشی کا بدلہ تھا اور ہماری نافرمانی کا انجام ‘ ۔ جیسے فرمان ہے آیت «فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِینَ ہَادُوا حَرَّمْنَا عَلَیْہِمْ طَیِّبَاتٍ أُحِلَّتْ لَہُمْ وَبِصَدِّہِمْ عَن سَبِیلِ اللہِ کَثِیرًا» ۱؎ (4-النساء:160) ’ یہودیوں کے ظلم وستم اور راہ حق سے روک کی وجہ سے ہم نے ان پر بعض پاکیزہ چیزیں بھی حرام کر دی تھیں اور اس جزا میں ہم عادل ہی تھے اور جیسی خبر ہم نے تجھے اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم دی ہے ، وہی سچ اور حق ہے ‘ ۔ یہودیوں کا یہ کہنا کہ اسرائیل نے اسے حرام کیا تھا ، اس لیے ہم اسے اپنے آپ پر بھی حرام کرتے ہیں -سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو جب معلوم ہوا کہ سمرہ نے شراب فروشی کی ہے تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” اللہ اسے غارت کرے ، کیا یہ نہیں جانتا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے { اللہ تعالیٰ نے یہودیوں پر لعنت کی کہ جب ان پر چربی حرام ہوئی تو انہوں نے اسے پگھلا کر بیچنا شروع کر دیا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2223) جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فتح مکہ والے سال فرمایا کہ ” اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب ، مردار ، سور اور بتوں کی خرید و فروخت حرام فرمائی ہے ۔ آپ رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا گیا کہ مردار کی چربیوں کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ اس سے چمڑے رنگے جاتے ہیں اور کشتیوں پر چڑھایا جاتا ہے اور چراغ میں جلایا جاتا ہے ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” وہ بھی حرام ہے “ ۔ پھر اس کے ساتھ ہی آپ رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ ” اللہ تعالیٰ یہودیوں کو غارت کرے ، جب ان پر چربی حرام ہوئی تو انہوں نے اسے پگھلا کر بیچ کر اس کی قیمت کھانا شروع کر دی “ ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2236) { ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ میں مقام ابراہیم کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے آسمان کی طرف نظر اٹھائی اور تین مرتبہ یہودیوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا : { اللہ نے ان پر چربی حرام کی تو انہوں نے اسے بیچ کر اس کی قیمت کھائی ۔ اللہ تعالیٰ جن پر جو چیز حرام کرتا ہے ان پر اس کی قیمت بھی حرام فرما دیتا ہے } ایک مرتبہ آپ مسجد الحرام میں حطیم کی طرف متوجہ ہو کر بیٹھے ہوئے تھے آسمان کی طرف دیکھ کر ہنسے اور یہی فرمایا } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:3488،قال الشیخ الألبانی:صحیح) { اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ وغیرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے زمانے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عیادت کے لیے گئے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم عدن کی چادر اوڑھے ہوئے لیٹے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چہرہ سے چادر ہٹا کر فرمایا : { اللہ یہودیوں پر لعنت کرے کہ بکریوں کی چربی کو حرام مانتے ہوئے اس کی قیمت کھاتے ہیں } } ۔ ۱؎ (مسند بزار:2608:صحیح) ابوداؤد میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً مروی ہے کہ { اللہ جب کسی قوم پر کسی چیز کا کھانا حرام کرتا ہے تو اس کی قیمت بھی حرام فرما دیتا ہے } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:3488،قال الشیخ الألبانی:صحیح) الانعام
147 مشرک ہو یا کافر توبہ کر لے تو معاف! ’ اب بھی اگر تیرے مخالف یہودی اور مشرک وغیرہ تجھے جھوٹا بتائیں تو بھی تو انہیں میری رحمت سے مایوس نہ کر بلکہ انہیں رب کی رحمت کی وسعت یاد دلا تاکہ انہیں اللہ کی رضا جوئی کی تبلیغ ہو جائے ، ساتھ ہی انہیں اللہ کے اٹل عذابوں سے بچنے کی طرف بھی متوجہ کر ‘ - پس رغبت رہبت امید ڈر دونوں ہی ایک ساتھ سنا دے -قرآن کریم میں امید کے ساتھ خوف اکثر بیان ہوتا ہے اسی سورت کے آخر میں فرمایا «إِنَّ رَبَّکَ سَرِیعُ الْعِقَابِ وَإِنَّہُ لَغَفُورٌ رَّحِیمٌ» ۱؎ (6-الأنعام:165) ’ تیرا رب جلد عذاب کرنے والا ہے اور غفور و رحیم بھی ہے ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَإِنَّ رَبَّکَ لَذُو مَغْفِرَۃٍ لِّلنَّاسِ عَلَیٰ ظُلْمِہِمْ وَإِنَّ رَبَّکَ لَشَدِیدُ الْعِقَابِ» ۱؎ (13-الرعد:6) ’ تیرا رب لوگوں کے گناہوں پر انہیں بخشنے والا بھی ہے اور وہ سخت تر عذاب کرنیوالا بھی ہے ‘ ۔ ایک آیت میں ارشاد ہے «نَبِّئْ عِبَادِی أَنِّی أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِیمُ وَأَنَّ عَذَابِی ہُوَ الْعَذَابُ الْأَلِیمُ» (15-الحجر:49 ، 50) ’ میرے بندوں کو میرے غفور و رحیم ہونے کی اور میرے عذابوں کے بڑے ہی درد ناک ہونے کی خبر پہنچا دے ‘ ۔ اور جگہ ہے «غَافِرِ الذَّنبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ شَدِیدِ الْعِقَابِ» ۱؎ (40-غافر:3) ’ وہ گناہوں کا بخشنے والا اور توبہ کا قبول کرنے والا ہے ‘ ۔ نیز کئی آیتوں میں ہے «إِنَّ بَطْشَ رَبِّکَ لَشَدِیدٌ إِنَّہُ ہُوَ یُبْدِئُ وَیُعِیدُ وَہُوَ الْغَفُورُ الْوَدُودُ» ۱؎ (85-البروج:12-14) ’ تیرے رب کی پکڑ بڑی بھاری اور نہایت سخت ہے ۔ وہی ابتداء کرتا ہے اور وہی دوبارہ لوٹائے گا وہ غفور ہے ، ودود ہے ، بخشش کرنے والا ہے ، مہربان اور محبت کرنے والا ہے ‘ اور بھی اس مضمون کی بہت سی آیات ہیں ۔ الانعام
148 غلط سوچ سے باز رہو مشرک لوگ دلیل پیش کرتے تھے کہ ہمارے شرک کا حلال کو حرام کرنے کا حال تو اللہ کو معلوم ہی ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ وہ اگر چاہے تو اس کے بدلنے پر بھی قادر ہے ۔ اس طرح کہ ہمارے دل میں ایمان ڈال دے یا کفر کے کاموں کی ہمیں قدرت ہی نہ دے ۔ پھر بھی اگر وہ ہماری اس روش کو نہیں بدلتا تو ظاہر ہے کہ وہ ہمارے ان کاموں سے خوش ہے اگر وہ چاہتا تو ہم کیا ہمارے بزرگ بھی شرک نہ کرتے ۔ جیسے ان کا یہی قول آیت «وَقَالُوا لَوْ شَاءَ الرَّحْمٰنُ مَا عَبَدْنَاہُم مَّا لَہُم بِذٰلِکَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ ہُمْ إِلَّا یَخْرُصُونَ» ۱؎ (43-الزخرف:20) میں اور سورۃ النحل میں ہے ۔ اللہ فرماتا ہے «کَذٰلِکَ کَذَّبَ الَّذِینَ مِن قَبْلِہِمْ» ’ اسی شبہ نے ان سے پہلی قوموں کو تباہ کر دیا ‘ ۔ اگر یہ بات سچ ہوتی تو ان کے پہلے باپ دادا پر ہمارے عذاب کیوں آتے ؟ رسولوں کی نافرمانی اور شرک و کفر پر مصر رہنے کی وجہ سے وہ روئے زمین سے ذلت کے ساتھ یوں ہٹا دیئے جاتے ؟ اچھا تمہارے پاس اللہ کی رضا مندی کا کوئی سرٹیفکیٹ ہو تو پیش کرو ۔ ہم تو دیکھتے ہیں کہ تم وہم پرست ہو فاسد عقائد پر جمے ہوئے ہو اور اٹکل پچو باتیں اللہ کے ذمے گھڑ لیتے ہو ۔ وہ بھی یہی کہتے تھے تم بھی یہی کہتے ہو کہ ہم ان معبودوں کی عبادت اسلئے کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ سے ملا دیں حالانکہ وہ نہ ملانے والے ہیں نہ اس کی انہیں قدرت ہے ، ان سے تو اللہ نے سمجھ بوجھ چھین رکھی ہے ، ہدایت و گمراہی کی تقسیم میں بھی اللہ کی حکمت اور اس کی حجت ہے ، سب کام اس کے ارادے سے ہو رہے ہیں وہ مومنوں کو پسند فرماتا ہے اور کافروں سے ناخوش ہے ۔ فرمان ہے آیت «وَلَوْ شَاءَ اللّٰہُ لَجَمَعَہُمْ عَلَی الْہُدٰی فَلَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الْجٰہِلِیْنَ» ۱؎ (6-الأنعام:35) ’ اگر اللہ چاہتا تو ان سب کو راہ حق پر جمع کر دیتا پس تم ہرگز نادانوں میں نہ ہونا ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَلَوْ شَاءَ رَبٰکَ لَآمَنَ مَن فِی الْأَرْضِ کُلٰہُمْ جَمِیعًا» ۱؎ (10-یونس:99) ’ اگر تیرے رب کی چاہت ہوتی تو سب لوگوں کو ایک ہی امت کر دیتا ‘ ۔ اور جگہ ہے «وَلَوْ شَاءَ رَبٰکَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّۃً وَاحِدَۃً وَلَا یَزَالُونَ مُخْتَلِفِینَ إِلَّا مَن رَّحِمَ رَبٰکَ وَلِذٰلِکَ خَلَقَہُمْ وَتَمَّتْ کَلِمَۃُ رَبِّکَ لَأَمْلَأَنَّ جَہَنَّمَ مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِینَ» ۱؎ (11-ھود:118 ، 119) ’ یہ تو اختلاف سے نہیں ہٹیں گے سوائے ان لوگوں کے جن پر تیرا رب رحم کرے بلکہ انہیں اللہ نے اسی لیے پیدا کیا ہے تیرے رب کی یہ بات حق ہے کہ میں جنات اور انسان سے جہنم کو پر کر دونگا ‘ ۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ نافرمانوں کی کوئی حجت اللہ کے ذمہ نہیں بلکہ اللہ کی حجت بندوں پر ہے ۔ تم نے خواہ مخواہ اپنی طرف سے جانوروں کو حرام کر رکھا ہے ان کی حرمت پر کسی کی شہادت تو پیش کر دو ۔ اگر یہ ایسی شہادت والے لائیں تو تو ان جھوٹے لوگوں کی ہاں میں ہاں نہ ملانا ۔ ان منکرین قیامت ، منکرین کلام اللہ شریف کے جھانسے میں کہیں تم بھی نہ آ جانا ۔ الانعام
149 الانعام
150 الانعام
151 نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیتیں سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ” جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وصیت کو دیکھنا چاہتا ہو جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری وصیت تھی تو وہ ان آیتوں کو «ذٰلِکُمْ وَصَّاکُم بِہِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ» (الأنعام:151تا153) تک پڑھے ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3070،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ” سورۃ الأنعام میں محکم آیتیں ہیں “ پھر یہی آیتیں (الأنعام:151تا153) آپ رضی اللہ عنہ نے تلاوت فرمائیں ۔ { ایک مرتبہ حضور نے اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم سے فرمایا : { تم میں سے کوئی شخص ہے جو میرے ہاتھ پر ان تین باتوں کی بیعت کرے } ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی آیتیں تلاوت فرمائیں اور فرمایا : { جو اسے پورا کرے گا ، وہ اللہ سے اجر پائے گا اور جو ان میں سے کسی بات کو پورا نہ کرے گا تو دنیا میں ہی اسے شرعی سزا دے دی جائے گی اور اگر سزا نہ دی گئی تو پھر اس کا معاملہ قیامت پر ہے اگر اللہ چاہے تو اسے بخش دے چاہے تو سزا دے} } ۔ ۱؎ (مستدرک حاکم:318/2:صحیح) بخاری مسلم میں ہے { تم لوگ میرے ہاتھ پر بیعت کرو ، اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنے کی } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:18) اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے نبی سلام علیہ سے فرماتا ہے کہ ’ ان مشرکین کو جو اللہ کی اولاد کے قائل ہیں اللہ کے رزق میں سے بعض کو اپنی طرف سے حلال اور بعض کو حرام کہتے ہیں اللہ کے ساتھ دوسروں کو پوجتے ہیں کہہ دیجئیے کہ سچ مچ جو چیزیں اللہ کی حرام کردہ ہیں انہیں مجھ سے سن لو جو میں بذریعہ وحی الٰہی بیان کرتا ہوں تمہاری طرح خواہش نفس ، توہم پرستی اور اٹکل و گمان کی بناء پر نہیں کہتا ‘ ۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ جس کی وہ تمہیں وصیت کرتا ہے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا ، یہ کلام عرب میں ہوتا ہے کہ ایک جملہ کو حذف کر دیا پھر دوسرا جملہ ایسا کہہ دیا جس سے حذف شدہ جملہ معلوم ہو جائے اس آیت کے آخری جملے «ذٰلِکُمْ وَصَّاکُم» سے «أَلَّا تُشْرِکُوا» اس سے پہلے کے محذوف جملے «وَصَّاکُمْ» پر دلالت ہوگئی ۔ عرب میں یوں بھی کہہ دیا کرتے ہیں «أَمَرْتُکَ أَلَّا تَقُومَ» بخاری و مسلم میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { میرے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے اور مجھے یہ خوشخبری سنائی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے جو شخص اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے وہ داخل جنت ہوگا تو میں نے کہا { گو اس نے زنا کیا ہو ، گو اس نے چوری کی ہو ؟ } آپ علیہ السلام نے فرمایا ” ہاں گو اس نے زنا اور چوری کی ہو “ ۔ میں نے پھر یہی سوال کیا مجھے پھر یہی جواب ملا پھر بھی میں نے یہ بات پوچھی اب کے جواب دیا کہ گو شراب نوشی بھی کی ہو } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6443) بعض روایتوں میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے موحد کے جنت میں داخل ہونے کا سن کر سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے یہ سوال کیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جواب دیا تھا اور آخری مرتبہ فرمایا تھا { اور ابوذر کی ناک خاک آلود ہو } چنانچہ راوی حدیث جب اسے بیان فرماتے تو یہی لفظ دوہرا دیتے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5727) سنن میں مروی ہے کہ { اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’ اے ابن آدم تو جب تک مجھ سے دعا کرتا رہے گا اور میری ذات سے امید رکھے گا میں بھی تیری خطاؤں کو معاف فرماتا رہوں گا خواہ وہ کیسی ہی ہوں کوئی پرواہ نہ کروں گا تو اگر میرے پاس زمین بھر کر خطائیں لائے گا تو میں تیرے پاس اتنی ہی مغفرت اور بخشش لے کر آؤں گا بشرطیکہ تو میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو گو تونے خطائیں کی ہوں یہاں تک کہ وہ آسمان تک پہنچ گئی ہوں پھر بھی تو مجھ سے استغفار کرے تو میں تجھے بخش دوں گا ‘ } ۔ (مسند احمد:172/5:حسن لغیرہ) اس حدیث کی شہادت میں یہ آیت آسکتی ہے «اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یٰشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَاۗءُ ۚوَمَنْ یٰشْرِکْ باللّٰہِ فَقَدِ افْتَرٰٓی اِثْمًا عَظِیْمًا» ۱؎ (4-النساء:48) یعنی ’ مشرک کو تو اللہ مطلق نہ بخشے گا باقی گنہگار اللہ کی مشیت پر ہیں جسے چاہے بخش دے ‘ ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے { جو توحید پر مرے وہ جنتی ہے } ۔ (صحیح مسلم:92) اس بارے میں بہت سی آیتیں اور حدیثیں ہیں -ابن مردویہ میں ہے کہ { اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو گو تمہارے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے جائیں یا تمہیں سولی چڑھا دیا جائے یا تمہیں جلا دیا جائے } - ابن ابی حاتم میں ہے کہ { ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سات باتوں کا حکم دیا (١) اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا گو تم جلا دیئے جاؤ یا کاٹ دیئے جاؤ یا سولی دے دیئے جاؤ } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:8058/5:اسنادہ فیہ جھالتہ) اس آیت میں توحید کا حکم دے کر پھر ماں باپ کے ساتھ احسان کرنے کا حکم ہوا «وَقَضَیٰ رَبٰکَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا» ۱؎ (17-الإسراء:23) بعض کی قرأت «وَوَصَّی رَبٰکَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا» بھی ہے ۔ قرآن کریم میں اکثر یہ دونوں حکم ایک ہی جگہ بیان ہوئے ہیں جیسے آیت «وَوَصَّیْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَیْہِ حَمَلَتْہُ أُمٰہُ وَہْنًا عَلَیٰ وَہْنٍ وَفِصَالُہُ فِی عَامَیْنِ أَنِ اشْکُرْ لِی وَلِوَالِدَیْکَ إِلَیَّ الْمَصِیرُ وَإِن جَاہَدَاکَ عَلَیٰ أَن تُشْرِکَ بِی مَا لَیْسَ لَکَ بِہِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْہُمَا وَصَاحِبْہُمَا فِی الدٰنْیَا مَعْرُوفًا وَاتَّبِعْ سَبِیلَ مَنْ أَنَابَ إِلَیَّ ثُمَّ إِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَأُنَبِّئُکُم بِمَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ» ۱؎ (31-لقمان:14-15) میں مشرک ماں باپ کے ساتھ بھی بقدر ضرورت احسان کرنے کا حکم ہوا ہے ۔ اور آیت «وَإِذْ أَخَذْنَا مِیثَاقَ بَنِی إِسْرَائِیلَ لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللہَ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا» ۱؎ (2-البقرۃ:83) ، میں بھی دونوں حکم ایک ساتھ بیان ہوئے ہیں اور بھی بہت سی اس مفہوم کی آیتیں ہیں ۔ بخاری و مسلم میں ہے { سیدنا ابن مسعود فرماتے ہیں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ کون سا عمل افضل ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { نماز وقت پر پڑھنا } -میں نے پوچھا پھر ؟ فرمایا : { ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنا } ، میں نے پوچھا پھر ؟ فرمایا : { اللہ کی راہ میں جہاد کرنا } -میں اگر اور بھی دریافت کرتا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم بتا دیتے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5970) ابن مردویہ میں عبادہ بن صامت اور ابودرداء سے مروی ہے کہ { مجھے میرے خلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت کی کہ اپنے والدین کی اطاعت کر اگرچہ وہ تجھے حکم دیں کہ تو ان کیلئے ساری دنیا سے الگ ہو جائے تو بھی مان لے } ۔ ۱؎ (بیہقی فی شعب الایمان:5589/5:حسن) اس کی سند ضعیف ہے ۔ باپ داداؤں کی وصیت کرکے اولاد اور اولاد کی اولاد کی بات وصیت فرمائی کہ انہیں قتل نہ کرو جیسے کہ شیاطین نے اس کام کو تمہیں سکھا رکھا ہے لڑکیوں کو تو وہ لوگ بوجہ عار کے مار ڈالتے تھے اور بعض لڑکوں کو بھی بوجہ اس کے کہ ان کے کھانے کا سامان کہاں سے لائیں گے ، مار ڈالتے تھے ۔ { سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ ” سب سے بڑا گناہ کیا ہے ؟ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اللہ کے ساتھ شریک کرنا حالانکہ اسی اکیلے نے پیدا کیا ہے } ۔ پوچھا پھر کون سا گناہ ہے ؟ فرمایا : { اپنی اولاد کو اس خوف سے قتل کرنا کہ یہ میرے ساتھ کھائے گی } ۔ پوچھا پھر کون سا ہے ؟ فرمایا : { اپنی پڑوس کی عورت سے بدکاری کرنا } پھر حضور نے آیت «وَالَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰہِ اِلٰــہًا اٰخَرَ وَلَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بالْحَقِّ وَلَا یَزْنُوْنَ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ یَلْقَ اَثَامًا» ۱؎ (25-الفرقان:68) کی تلاوت فرمائی } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:7420) اور آیت میں ہے «وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَکُمْ خَشْـیَۃَ اِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُہُمْ وَاِیَّاکُمْ اِنَّ قَتْلَہُمْ کَانَ خِطْاً کَبِیْرًا» ۱؎ (17-الإسراء:31) ’ اپنی اولاد کو فقیری کے خوف سے قتل نہ کرو ‘ ، اسی لیے اس کے بعد ہی فرمایا کہ ’ ہم انہیں روزی دیتے ہیں اور تمہاری روزی بھی ہمارے ذمہ ہے ‘ ۔ یہاں چونکہ فرمایا تھا کہ ’ فقیری کی وجہ سے اولاد کا گلا نہ گھونٹو ‘ تو ساتھ ہی فرمایا ’ تمہیں روزی ہم دیں گے اور انہیں بھی ہم ہی دے رہے ہیں ‘ ۔ پھر فرمایا کسی ظاہر اور پوشیدہ برائی کے پاس بھی نہ جاؤ جیسے اور آیت میں ہے «قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ وَالْاِثْمَ وَالْبَغْیَ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَاَنْ تُشْرِکُوْا باللّٰہِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ سُلْطٰنًا وَّاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَی اللّٰہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ» ۱؎ (7-الأعراف:33) ، یعنی ’ تمام ظاہری ، باطنی برائیاں ، ظلم و زیادتی ، شرک و کفر اور جھوٹ بہتان سب کچھ اللہ نے حرام کر دیا ہے ‘ -اس کی پوری تفسیر آیت «وَذَرُوا ظَاہِرَ الْإِثْمِ وَبَاطِنَہُ إِنَّ الَّذِینَ یَکْسِبُونَ الْإِثْمَ سَیُجْزَوْنَ بِمَا کَانُوا یَقْتَرِفُونَ» ۱؎ (6-الأنعام:120) کی تفسیر میں گزر چکی ہے ۔ صحیح حدیث میں ہے { اللہ سے زیادہ غیرت ولا کوئی نہیں اسی وجہ سے تمام بے حیائیاں اللہ نے حرام کردی ہیں خواہ وہ ظاہر ہوں یا پوشیدہ ہوں } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4634) { سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر میں کسی کو اپنی بیوی کے ساتھ دیکھ لوں تو میں تو ایک ہی وار میں اس کا فیصلہ کر دوں جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ان کا یہ قول بیان ہوا تو فرمایا : { کیا تم سعد کی غیرت پر تعجب کر رہے ہو ؟ واللہ میں اس سے زیادہ غیرت والا ہوں اور میرا رب مجھ سے زیادہ غیرت والا ہے ، اسی وجہ سے تمام فحش کام ظاہر و پوشیدہ اس نے حرام کر دیئے ہیں } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:7316) { ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ ” ہم غیرت مند لوگ ہیں “ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { واللہ میں بھی غیرت والا ہوں اور اللہ مجھ سے زیادہ غیرت والا ہے ۔ یہ غیرت ہی ہے جو اس نے تمام بری باتوں کو حرام قرار دے دیا ہے } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:326/2:صحیح وہذا اسناد ضعیف) اس حدیث کی سند ترمذی کی فباء پر ہے ترمذی میں یہ حدیث ہے کہ { میری امت کی عمریں ساٹھ ستر کے درمیان ہیں } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2331،قال الشیخ الألبانی:حسن) اس کے بعد کسی کے ناحق قتل کی حرمت کو بیان فرمایا گو وہ بھی فواحش میں داخل ہے لیکن اس کی اہمیت کی وجہ سے اسے الگ کرکے بیان فرما دیا ۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ { جو مسلمان اللہ کی توحید اور میری رسالت اقرار کرتا ہو اسے قتل کرنا بجز تین باتوں کے جائز نہیں یا تو شادی شدہ ہو کر پھر زنا کرے یا کسی کو قتل کر دے یا دین کو چھوڑ دے اور جماعت سے الگ ہو جائے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6878) مسلم میں ہے { اس کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں کسی مسلمان کا خون حلال نہیں } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1676) ابوداؤد اور نسائی میں تیسرا شخص وہ بیان کیا گیا ہے { جو اسلام سے نکل جائے اور اللہ کے رسولوں سے جنگ کرنے لگے اسے قتل کر دیا جائے گا یا صلیب پر چڑھا دیا جائے گا یا مسلمانوں کے ملک سے جلا وطن کردیا جائے گا } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4502،قال الشیخ الألبانی:صحیح) امیرالمؤمنین سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے اس وقت جبکہ باغی آپ رضی اللہ عنہ کو محاصرے میں لیے ہوئے تھے فرمایا : ” میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کسی مسلمان کا خون بجز ان تین کے حلال نہیں ایک تو اسلام کے بعد کافر ہو جانے والا دوسرا شادی ہو جانے کے بعد زنا کرنے والا اور بغیر قصاص کے کسی کو قتل کر دینے والا -اللہ کی قسم نہ تو میں نے جاہلیت میں زنا کیا نہ اسلام لانے کے بعد ، اور نہ اسلام لانے کے بعد کبھی میں نے کسی اور دین کی تمنا کی اور نہ میں نے کسی کو بلا وجہ قتل کیا ۔ پھر تم میرا خون بہانے کے درپے کیوں ہو ؟ “ ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4502،قال الشیخ الألبانی:صحیح) حربی کافروں میں سے جو امن طلب کرے اور مسلمانوں کے معاہدہ امن میں آجائے اس کے قتل کرنے والے کے حق میں بھی بہت وعید آئی ہے اور اس کا قتل بھی شرعاً حرام ہے ۔ بخاری میں ہے { معاہدہ امن کا قاتل جنت کی خوشبو بھی نہ پائے گا حالانکہ اس کی خوشبو چالیس سال کے راستے تک پہنچ جاتی ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3166) اور روایت میں ہے { کیونکہ اس نے اللہ کا ذمہ توڑا اس میں ہے پچاس برس کے راستے کے فاصلے سے ہی جنت کی خوشبو پہنچی ہے } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:1403،قال الشیخ الألبانی:صحیح) پھر فرماتا ہے ’ یہ ہیں اللہ کی وصیتیں اور اس کے احکام تاکہ تم دین حق کو ، اس کے احکام کو اور اس کی منع کردہ باتوں کو سمجھ لو ‘ ۔ الانعام
152 یتیموں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید ابو داؤد وغیرہ میں ہے کہ { جب آیت «وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْیَتِیمِ» اور آیت «إِنَّ الَّذِینَ یَأْکُلُونَ أَمْوَالَ الْیَتَامَیٰ ظُلْمًا» ۱؎ (4-النساء:10) نازل ہوئیں تو اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یتیموں کا کھانا پینا اپنے کھانے پینے سے بالکل الگ تھلگ کردیا اس میں علاوہ ان لوگوں کے نقصان اور محنت کے یتیموں کا نقصان بھی ہونے لگا اگر بچ رہا تو یا تو وہ باسی کھائیں یا سڑ کر خراب ہو جائے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر ہوا تو آیت «وَیَسْــَٔـلُوْنَکَ عَنِ الْیَتٰمٰی قُلْ اِصْلَاحٌ لَّھُمْ خَیْرٌ وَاِنْ تُخَالِطُوْھُمْ فَاِخْوَانُکُمْ» ۱؎ (2-البقرۃ:220) نازل ہوئی کہ ’ ان کے لیے خیر خواہی کرو ان کا کھانا پینا ساتھ رکھنے میں کوئی حرج نہیں وہ تمہارے بھائی ہیں ‘ ۔ اسے پڑھ کر سن کر صحابہ رضی اللہ عنہم نے ان کا کھانا اپنے ساتھ ملا لیا } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2871،قال الشیخ الألبانی:حسن) یہ حکم ان کے سن بلوغ تک پہنچنے تک ہے گو بعض نے تیس سال بعض نے چالیس سال اور بعض نے ساٹھ سال کہے ہیں لیکن یہ سب قول یہاں مناسب نہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ پھر حکم فرمایا کہ ’ لین دین میں ، ناپ تول میں کمی بیشی نہ کرو ، ان کے لیے ہلاکت ہے جو لیتے وقت پورا لیں اور دیتے وقت کم دیں ، ان امتوں کو اللہ نے غارت کر دیا جن میں یہ بد خصلت تھی ‘ -جامع ابو عیسیٰ ترمذی میں ہے کہ { حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپنے اور تولنے والوں سے فرمایا : { تم ایک ایسی چیز کے والی بنائے گئے ہو ، جس کی صحیح نگرانی نہ رکھنے والے تباہ ہو گئے } } - ۱؎ (سنن ترمذی:1217،قال الشیخ الألبانی:موقوفاً صحیح) پھر فرماتا ہے ’ کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ ہم نہیں لادتے ‘ یعنی اگر کسی شخص نے اپنی طاقت بھر کوشش کرلی دوسرے کا حق دے دیا ، اپنے حق سے زیادہ نہ لیا ، پھر بھی نادانستگی میں غلطی سے کوئی بات رہ گئی ہو تو اللہ کے ہاں اس کی پکڑ نہیں ۔ ایک روایت میں ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت کے یہ دونوں جملے تلاوت کرکے فرمایا کہ { جس نے صحیح نیت سے وزن کیا ، تولا ، پھر بھی واقع میں کوئی کمی زیادتی بھول چوک سے ہو گئی تو اس کا مؤاخذہ نہ ہوگا } } ۔ ۱؎ (الدر المنشور للسیوطی:105/3:مرسل) یہ حدیث مرسل اور غریب ہے ۔ پھر فرماتا ہے ’ بات انصاف کی کہا کرو کہ قرابت داری کے معاملے میں ہی کچھ کہنا پڑے ‘ -جیسے فرمان ہے آیت «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آمَنُوا کُونُوا قَوَّامِینَ لِلہِ شُہَدَاءَ بِالْقِسْطِ» ۱؎ (5-المائدہ:8) اور سورۃ نساء میں بھی یہی حکم دیا کہ «یٰٓاَیٰھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بالْقِسْطِ شُہَدَاءَ لِلہِ» (4-النساء:135) ’ ہر شخص کو ہر حال میں سچائی اور انصاف نہ چھوڑنا چاہیئے ، جھوٹی گواہی اور غلط فیصلے سے بچنا چاہیئے ‘ ۔ اللہ کے عہد کو پورا کرو ، اس کے احکام بجا لاؤ ، اس کی منع کردہ چیزوں سے الگ رہو ، اس کی کتاب اس کے رسول کی سنت پر چلتے رہو ، یہی اس کے عہد کو پورا کرنا ہے ، انہی چیزوں کے بارے اللہ کا تاکیدی حکم ہے ، یہی فرمان تمہارے وعظ و نصیحت کا ذریعہ ہیں تاکہ تم جو اس سے پہلے نکمے بلکہ برے کاموں میں تھے ، اب ان سے الگ ہو جاؤ ۔ بعض کی قرأت میں «تَذَّکَـرُوْنَ» بھی ہے ۔ الانعام
153 شیطانی راہیں فرقہ سازی یہ اور ان جیسی آیتوں کی تفسیر میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول تو یہ ہے کہ ” اللہ تعالیٰ مومنوں کو باہم اعتماد کا حکم دیتا ہے اور اختلاف و فرقہ بندی سے روکتا ہے اس لیے کہ اگلے لوگ اللہ کے دین میں پھوٹ ڈالنے ہی سے تباہ ہوئے تھے “ ۔ مسند میں ہے کہ { اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سیدھی لکیر کھینچی اور فرمایا : { اللہ کی سیدھی راہ یہی ہے } پھر اس کے دائیں بائیں اور لکیریں کھینچ کر فرمایا : { ان تمام راہوں پر شیطان ہے جو اپنی طرف بلا رہا ہے } پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کا ابتدائی حصہ تلاوت فرمایا } ۔ ۱؎ (مسند احمد:465/1:حسن) اسی حدیث کی شاہد وہ حدیث ہے جو مسند وغیرہ میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ { ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سامنے ایک سیدھی لکیر کھینچی اور فرمایا : { یہ شیطانی راہیں ہیں } اور بیچ کی لکیر پر انگلی رکھ کر اس آیت کی تلاوت فرمائی } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:11،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابن ماجہ میں اور بزار میں بھی یہ حدیث ہے ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا صراط مستقیم کیا ہے ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” جس پر ہم نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑا اسی کا دوسرا سرا جنت میں جا ملتا ہے اس کے دائیں بائیں بہت سی اور راہیں ہیں جن پر لوگ چل رہے ہیں اور دوسروں کو بھی اپنی طرف بلا رہے ہیں جو ان راہوں میں سے کسی راہ ہو لیا وہ جہنم میں پہنچا “ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:14170/1:اسنادہ ضعیف جدا) { حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { اللہ تعالیٰ نے صراط مستقیم کی مثال بیان فرمائی ، اس راستے کے دونوں طرف دو دیواریں ہیں جن میں بہت سے دروازے ہیں اور سب چوپٹ کھلے پڑے ہیں اور ان پر پردے لٹکے ہوئے ہیں اس سیدھی راہ کے سرے پر ایک پکارنے والا ہے پکارتا رہتا ہے کہ لوگو ! تم سب اس صراط مستقیم پر آ جاؤ راستے میں بکھر نہ جاؤ ، بیچ راہ کے بھی ایک شخص ہے ، جب کوئی شخص ان دروازوں میں سے کسی کو کھولنا چاہتا ہے تو وہ کہتا ہے خبردار اسے نہ کھول ، کھولو گے تو سیدھی راہ سے دور نکل جاؤ گے -پس سیدھی راہ اسلام ہے دونوں دیواریں اللہ کی حدود ہیں کھلے ہوئے دروازے اللہ کی حرام کردہ چیزیں ہیں نمایاں شخص اللہ کی کتاب ہے اوپر سے پکارنے والا اللہ کی طرف کا نصیحت کرنے والا ہے جو ہر مومن کے دل میں ہے } } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2859 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) اس نکتے کو نہ بھولنا چاہیئے کہ اپنی راہ کیلئے «سَبِیلِ» واحد کا لفظ بولا گیا اور گمراہی کی راہوں کے لیے «سٰبُلَ» جمع کا لفظ استعمال کیا گیا اس لیے کہ راہ حق ایک ہی ہوتی ہے اور ناحق کے بہت سے طریقے ہوا کرتے ہیں ۔ جیسے آیت «اَللّٰہُ وَلِیٰ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُخْرِجُہُمْ مِّنَ الظٰلُمٰتِ اِلَی النٰوْرِ» ۱؎ (2-البقرۃ:257) میں «لظٰلُمٰتِ» کو جمع کے لفظ سے اور «النٰوْرِ» کو واحد کے لفظ سے ذکر کیا گیا ہے ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ «قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبٰکُمْ عَلَیْکُمْ» سے تین آیتوں (6-الأنعام:151تا153) تک تلاوت کر کے فرمایا : { تم میں سے کون کون ان باتوں پر مجھ سے بیعت کرتا ہے ؟ } پھر فرمایا : { جس نے اس بیعت کو اپنا لیا اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے اور جس نے ان میں سے کسی بات کو توڑ دیا اس کی دو صورتیں ہیں یا تو دنیا میں ہی اس کی سزا شرعی اسے مل جائے گی یا اللہ تعالیٰ آخرت تک اسے مہلت دے پھر رب کی مشیت پر منحصر ہے اگر چاہے سزا دے اگر چاہے تو معاف فرما دے } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:8077/5:ضعیف) الانعام
154 جنوں نے قرآن حکیم سنا امام ابن جریر نے تو لفظ «ثُمَّ» کو ترتیب کے لیے مانا ہے یعنی ان سے یہ بھی کہہ دے اور ہماری طرف سے یہ خبر بھی پہنچا دے ، لیکن میں کہتا ہوں «ثُمَّ» کو ترتیب کیلئے مان کر خبر کا خبر پر عطف کر دیں تو کیا حرج ؟ ایسا ہوتا ہے اور شعروں میں موجود ہے چونکہ قرآن کریم کی مدح آیت «وَأَنَّ ہٰذَا صِرَاطِی مُسْتَقِیمًا» ۱؎ (6-الأنعام:153) میں گزری تھی اس لیے اس پر عطف ڈال کر توراۃ کی مدح بیان کر دی ۔ جیسے کہ اور بھی بہت سی آیتوں میں ہے - چنانچہ فرمان ہے آیت «وَمِن قَبْلِہِ کِتَابُ مُوسَیٰ إِمَامًا وَرَحْمَۃً وَہٰذَا کِتَابٌ مٰصَدِّقٌ لِّسَانًا عَرَبِیًّا» ۱؎ (46-الأحقاف:12) یعنی ’ اس سے پہلے توراۃ امام رحمت تھی اور اب یہ قرآن عربی تصدیق کرنے والا ہے ‘ ۔ اسی سورت کے اول میں ہے آیت «قُلْ مَنْ اَنْزَلَ الْکِتٰبَ الَّذِیْ جَاءَ بِہٖ مُوْسٰی نُوْرًا وَّہُدًی لِّلنَّاسِ» ۱؎ (6-الأنعام:91) ، اس آیت میں بھی تورات کے بیان کے بعد «وَہٰذَا کِتَابٌ أَنزَلْنَاہُ مُبَارَکٌ» ۱؎ (6-الانعام:92) اس قرآن کے نزول کا بیان ہے ۔ کافروں کا حال بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے آیت «فَلَمَّا جَاءَہُمُ الْحَقٰ مِنْ عِندِنَا قَالُوا لَوْلَا أُوتِیَ مِثْلَ مَا أُوتِیَ مُوسَیٰ» ۱؎ (28-القصص:48) ، ’ جب ان کے پاس ہماری طرف سے حق آ پہنچا تو کہنے لگے اسے اس جیسا کیوں نہ ملا جو موسیٰ علیہ السلام کو ملا تھا ‘ ، جس کے جواب میں فرمایا گیا «أَوَلَمْ یَکْفُرُوا بِمَا أُوتِیَ مُوسَیٰ مِن قَبْلُ قَالُوا سِحْرَانِ تَظَاہَرَا وَقَالُوا إِنَّا بِکُلٍّ کَافِرُونَ» ۱؎ (28-القصص:48) ’ کیا انہوں نے موسیٰ علیہ السلام کی اس کتاب کے ساتھ کفر نہیں کیا تھا ؟ کیا صاف طور سے نہیں کہا تھا کہ یہ دونوں جادوگر ہیں اور ہم تو ہر ایک کے منکر ہیں ‘ ۔ جنوں کا قول بیان ہوا ہے کہ «قَالُوا یَا قَوْمَنَا إِنَّا سَمِعْنَا کِتَابًا أُنزِلَ مِن بَعْدِ مُوسَیٰ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ یَہْدِی إِلَی الْحَقِّ وَإِلَیٰ طَرِیقٍ مٰسْتَقِیمٍ» ۱؎ (46-الأحقاف:30) ’ انہوں نے اپنی قوم سے کہا ہم نے وہ کتاب سنی ہے جو موسیٰ علیہ السلام کے بعد اتری ہے جو اپنے سے اگلی کتابوں کو سچا کہتی ہیں اور راہ حق کی ہدایت کرتی ہیں ‘ ۔ «وَکَتَبْنَا لَہُ فِی الْأَلْوَاحِ مِن کُلِّ شَیْءٍ» ۱؎ (7-الأعراف:145) ’ وہ کتاب جامع اور کامل تھی ‘ ۔ شریعت کی جن باتوں کی اس وقت ضرورت تھی سب اس میں موجود تھیں یہ احسان تھا نیک کاروں کی نیکیوں کے بدلے کا ۔ جیسے فرمان ہے ’ احسان کا بدلہ احسان ہی ہے ‘ ۔ اور جیسے فرمان ہے کہ «وَجَعَلْنَا مِنْہُمْ أَئِمَّۃً یَہْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا وَکَانُوا بِآیَاتِنَا یُوقِنُونَ» (32-السجدہ:24) ’ بنی اسرائیلیوں کو ہم نے ان کا امام بنا دیا جبکہ انہوں نے صبر کیا اور ہماری آیتوں پر یقین رکھا ‘ ۔ غرض یہ بھی اللہ کا فضل تھا اور «ہَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ» ۱؎ (55-الرحمن:60) ’ نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا کچھ نہیں ہے ‘ ۔ احسان کرنے والوں پر اللہ بھی احسان پورا کرتا ہے یہاں اور وہاں بھی ۔ امام ابن جریر «الَّذِی» کو مصدریہ مانتے ہیں جیسے آیت «وَخُضْتُمْ کَالَّذِی خَاضُوا» ۱؎ (9-التوبۃ:69) میں ۔ ابن رواحہ رضی اللہ عنہ کا شعر ہے «وَثَبَّتَ اللَّہ مَا آتَاک مِنْ حُسْن» «فِی الْمُرْسَلِینَ وَنَصْرًا کَاَلَّذِی نُصِرُوا» اللہ تیری اچھائیاں بڑھائے اور اگلے نبیوں کی طرح تیری بھی مدد فرمائے ۔ بعض کہتے ہیں یہاں «الَّذِی» معنی میں «الَّذِینَ» کا ہے ۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی قرأت «تَمَامًا عَلَی الَّذِینَ أَحْسَنُوا» ہے ۔ پس مومنوں اور نیک لوگوں پر اللہ کا یہ احسان ہے اور پورا احسان ہے ۔ بغوی رحمہ اللہ کہتے ہیں ” مراد اس سے انبیاء علیہم السلام اور عام مومن ہیں ۔ یعنی ان سب پر ہم نے اس کی فضیلت ظاہر کی ۔ جیسے فرمان ہے آیت «قَالَ یٰمُوْسٰٓی اِنِّی اصْطَفَیْتُکَ عَلَی النَّاسِ بِرِسٰلٰتِیْ وَبِکَلَامِیْ» ۱؎ (7-الأعراف:144) ، یعنی ’ اے موسیٰ [ علیہ السلام ] میں نے اپنی رسالت اور اپنے کلام سے تجھے لوگوں پر بزرگی عطا فرمائی ‘ ۔ ہاں سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی اس بزرگی سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو خاتم الانبیاء ہیں اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام جو خلیل اللہ ہیں مستثنیٰ ہیں بہ سبب ان دلائل کے جو وارد ہو چکے ہیں ۔ یحییٰ بن یعمر «أَحْسَنُ ہُوَ» کو مخذوف مان کر «أَحْسَنُ» پڑھتے تھے ، ہو سکتا ہے ؟ امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں اس قرأت کو جائز نہیں رکھوں گا اگرچہ عربیت کی بنا پر اس میں نقصان نہیں ۔ آیت کے اس جملے کا ایک مطلب یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام پر احسان رب کو تمام کرنے کیلئے یہ اللہ کی کتاب ان پر نازل ہوئی ، ان دونوں کے مطلب میں کوئی تفاوت نہیں ۔ پھر تورات کی تعریف بیان فرمائی کہ اس میں ہر حکم بہ تفصیل ہے اور وہ ہدایت و رحمت ہے تاکہ لوگ قیامت کے دن اپنے رب سے ملنے کا یقین کر لیں ۔ پھر قرآن کریم کی اتباع کی رغبت دلاتا ہے اس میں غور و فکر کی دعوت دیتا ہے اور اس پر عمل کرنے کی ہدایت فرماتا ہے اور اس کی طرف لوگوں کو بلانے کا حکم دیتا ہے برکت سے اس کا وصف بیان فرماتا ہے کہ جو بھی اس پر کار بند ہو جائے وہ دونوں جہان کی برکتیں حاصل کرے گا اس لیے کہ یہ اللہ کی طرف مضبوط رسی ہے ۔ الانعام
155 الانعام
156 لاف زنی عیب ہے دوسروں کو بھی نیکی سے روکنے والے بدترین ہیں فرماتا ہے کہ ’ اس آخری کتاب نے تمہارے تمام عذر ختم کر دیئے ‘ ۔ جیسے فرمان ہے «وَلَوْلَآ اَنْ تُصِیْبَہُمْ مٰصِیْبَۃٌ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْہِمْ فَیَقُوْلُوْا رَبَّنَا لَوْلَآ اَرْسَلْتَ اِلَیْنَا رَسُوْلًا فَنَتَّبِعَ اٰیٰتِکَ وَنَکُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْن» ۱؎ (28-القصص:47) ، یعنی ’ اگر انہیں ان کی بد اعمالیوں کی وجہ سے کوئی مصیبت پہنچتی تو کہہ دیتے کہ تونے ہماری طرف کوئی رسول کیوں نہ بھیجا کہ ہم تیرے فرمان کو مانتے ‘ ۔ اگلی دو جماعتوں سے مراد یہود و نصرانی ہیں ۔ ’ اگر یہ عربی زبان کا قرآن نہ اترتا تو وہ یہ عذر کر دیتے کہ ہم پر تو ہماری زبان میں کوئی کتاب نہیں اتری ہم اللہ کے فرمان سے بالکل غافل رہے پھر ہمیں سزا کیوں ہو ؟ نہ یہ عذر باقی رہا نہ یہ کہ اگر ہم پر آسان کتاب اترتی تو ہم تو اگلوں سے آگے نکل جاتے اور خوب نیکیاں کرتے ‘ ۔ جیسے فرمان ہے آیت «وَأَقْسَمُوا بِ اللہِ جَہْدَ أَیْمَانِہِمْ لَئِن جَاءَہُمْ نَذِیرٌ لَّیَکُونُنَّ أَہْدَیٰ مِنْ إِحْدَی الْأُمَمِ فَلَمَّا جَاءَہُمْ نَذِیرٌ مَّا زَادَہُمْ إِلَّا نُفُورًا» ۱؎ (35-فاطر:42) ، یعنی ’ مؤکد قسمیں کھا کھا کر لاف زنی کرتے تھے کہ ہم میں اگر کوئی نبی آ جائے تو ہم ہدایت کو مان لیں ‘ ۔ اللہ فرماتا ہے ’ اب تو تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ہدایت و رحمت بھرا قرآن بزبان رسول عربی آ چکا جس میں حلال حرام کا بخوبی بیان ہے اور دلوں کی ہدایت کی کافی نورانیت اور رب کی طرف سے ایمان والوں کیلئے سراسر رحمت و رحم ہے ، اب تم ہی بتاؤ کہ جس کے پاس اللہ کی آیتیں آ جائیں اور وہ انہیں جھٹلائے ان سے فائدہ نہ اٹھائے نہ عمل کرے نہ یقین لائے نہ نیکی کرے نہ بدی چھوڑے نہ خود مانے نہ اوروں کو ماننے دے اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے ؟ ‘ ۔ اسی سورت کے شروع میں فرمایا ہے آیت «وَہُمْ یَنْہَوْنَ عَنْہُ وَیَنْأَوْنَ عَنْہُ وَإِن یُہْلِکُونَ إِلَّا أَنفُسَہُمْ» ۱؎ (6-الانعام:26) ’ خود اس کے مخالف اوروں کو بھی اسے ماننے سے روکتے ہیں دراصل اپنا ہی بگاڑتے ہیں ‘ ۔ جیسے فرمایا آیت «الَّذِینَ کَفَرُوا وَصَدٰوا عَن سَبِیلِ اللہِ زِدْنَاہُمْ عَذَابًا فَوْقَ الْعَذَابِ» ۱؎ (16-النحل:88) یعنی ’ جو لوگ خود کفر کرتے ہیں اور راہ الٰہی سے روکتے ہیں انہیں ہم عذاب بڑھاتے رہیں گے ‘ ۔ پس یہ لوگ ہیں جو نہ مانتے تھے نہ فرماں بردار ہوتے تھے ۔ جیسے فرمان ہے آیت «فَلَا صَدَّقَ وَلَا صَلّٰی وَلٰکِن کَذَّبَ وَتَوَلَّیٰ» ۱؎ (75-القیامۃ:32-31) یعنی ’ نہ تونے مانا نہ نماز پڑھی بلکہ نہ مان کر منہ پھیر لیا ‘ ۔ ان دونوں تفسیروں میں پہلی بہت اچھی ہے یعنی خود بھی انکار کیا اور دوسروں کا بھی انکار پر آمادہ کیا ۔ الانعام
157 الانعام
158 قیامت اور بےبسی اللہ تعالیٰ کافروں کو اور پیغمبروں کے مخالفوں کو اور اپنی آیات کے جھٹلانے والوں کو اور اپنی راہ سے روکنے والوں کو ڈرا رہا ہے کہ ’ کیا انہیں قیامت کا انتظار ہے ؟ جبکہ فرشتے بھی آئیں گے اور خود اللہ قہار بھی ۔ وہ بھی وقت ہو گا جب ایمان بھی بے سود اور توبہ بھی بیکار ‘ ۔ بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { قیامت قائم نہ ہو گی جب تک کہ سورج مغرب سے نہ نکلے جب یہ نشان ظاہر ہو جائے گا تو زمین پر جتنے لوگ ہوں گے سب ایمان لائیں گے لیکن اس وقت کا ایمان محض بے سود ہے } ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی آیت پڑھی } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3635) اور حدیث میں ہے { جب قیامت کی تین نشانیاں ظاہر ہو جائیں تو بے ایمان کو ایمان لانا ، خیر سے رکے ہوئے لوگوں کو اس کے بعد نیکی یا توبہ کرنا کچھ سود مند نہ ہوگا ۔ سورج کا مغرب سے نکلنا ، دجال کا آنا ، دابتہ الارض کا ظاہر ہونا } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:158) ایک اور روایت میں اس کے ساتھ ہی ایک دھویں کے آنے کا بھی بیان ہے ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:158) اور حدیث میں ہے { سورج کے مغرب سے طلوع ہونے سے بیشتر جو توبہ کرے اس کی توبہ مقبول ہے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2703) { سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا { جانتے ہو یہ سورج غروب ہو کر کہاں جاتا ہے ؟ } جواب دیا کہ ” نہیں “ ، فرمایا : { عرش کے قریب جا کر سجدے میں گر پڑتا ہے اور ٹھہرا رہتا ہے یہاں تک کہ اسے اجازت ملے اور کہا جائے لوٹ جا قریب ہے کہ ایک دن اس سے کہہ دیا جائے کہ جہاں سے آیا ہے وہیں لوٹ جا یہی وہ وقت ہو گا کہ ایمان لانا بے نفع ہو جائے گا } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3199) { ایک مرتبہ لوگ قیامت کی نشانیوں کا ذکر کر رہے تھے اتنے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لے آئے اور فرمانے لگے { قیامت قائم نہ ہوگی جب تک تم دس نشانیاں نہ دیکھ لو گے ۔ سورج کا مغرب سے طلوع ہونا ، دھواں ، دابتہ الارض ، یاجوج ماجوج کا آنا ، عیسیٰ بن مریم کا آنا اور دجال کا نکلنا ، مشرق ، مغرب اور جزیرہ عرب میں تین جگہ زمین کا دھنس جانا اور عدن کے درمیان سے ایک زبردست آگ کا نکلنا جو لوگوں کو ہانک لے جائے گی رات دن ان کے پیچھے ہی پیچھے رہے گی } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2901) { سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ سورج کے مغرب سے طلوع ہونے کا نشان کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { وہ رات بہت لمبی ہو جائے گی بقدر دو راتوں کے لوگ معمول کے مطابق اپنے کام کاج میں ہوں گے اور تہجد گذاری میں بھی ۔ ستارے اپنی جگہ ٹھہرے ہوئے ہوں گے پھر لوگ سو جائیں گے پھر اٹھیں گے کام میں لگیں گے پھر سوئیں گے پھر اٹھیں گے لیکن دیکھیں گے کہ نہ ستارے ہٹے ہیں نہ سورج نکلا ہے کروٹیں دکھنے لگیں گی لیکن صبح نہ ہوگی اب تو گھبرا جائیں گے اور دہشت زدہ ہو جائیں گے منتظر ہوں گے کہ کب سورج نکلے مشرق کی طرف نظریں جمائے ہوئے ہوں گے کہ اچانک مغرب کی طرف سے سورج نکل آئے گا اس وقت تو تمام روئے زمین کے انسان مسلمان ہو جائینگے لیکن اس وقت کا ایمان محض بے سود ہوگا } } ۔ ۱؎ (الدر المنشور للسیوطی:109/3:موضوع) ۔ ایک حدیث میں { حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اس آیت کے اس جملے کو تلاوت فرما کر اس کی تفسیر میں سورج کا مغرب سے نکلنا فرمانا بھی ہے } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3071،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ایک روایت میں ہے { سب سے پہلی نشانی یہی ہوگی } ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:8022:ضعیف) اور حدیث میں ہے { اللہ تعالیٰ نے مغرب کی طرف ایک بڑا دروازہ کھول رکھا ہے جس کا عرض ستر سال کا ہے یہ توبہ کا دروازہ ہے یہ بند نہ ہوگا جب تک کہ سورج مغرب سے نہ نکلے } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3536 ، قال الشیخ الألبانی:حسن) اور حدیث میں ہے { لوگوں پر ایک رات آئے گی جو تین راتوں کے برابر ہوگی اسے تہجد گزار جان لیں گے یہ کھڑے ہوں گے ایک معمول کے مطابق تہجد پڑھ کر پھر سو جائیں گے پھر اٹھیں گے اپنا معمول ادا کر کے پھر لیٹیں گے لوگ اس لمبائی سے گھبرا کر چیخ پکار شروع کردیں گے اور دوڑے بھاگے مسجدوں کی طرف جائیں گے کہ ناگہاں دیکھیں گے کہ سورج طلوع ہوگیا یہاں تک کہ وسط آسمان میں پہنچ کر پھر لوٹ جائے گا اور اپنے طلوع ہونے کی جگہ سے طلوع ہوگا ، یہی وہ وقت ہے جس وقت ایمان سود مند نہیں } ۔ ۱؎ (الدر المنشور للسیوطی:111/3:ضعیف) اور روایت میں ہے کہ تین مسلمان شخص مروان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے مروان ان سے کہہ رہے تھے کہ سب سے پہلی نشانی دجال کا خروج ہے یہ سن کر یہ لوگ سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور یہ بیان کیا آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” اس نے کچھ نہیں کہا مجھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان خوب محفوظ ہے کہ { سب سے پہلی نشانی سورج کا مغرب سے نکلنا ہے اور دآبتہ الارض کا دن چڑھے ظاہر ہونا ہے } ۔ ان دونوں میں سے جو بھی پہلے ظاہر ہو اسی کے بعد دوسری ظاہر ہوگی ، عبداللہ کتاب پڑھتے جاتے تھے فرمایا ” میرا خیال ہے کہ پہلے سورج کا نشان ظاہر ہوگا وہ غروب ہوتے ہی عرش تلے جاتا ہے اور سجدہ کر کے اجازت مانگتا ہے اجازت مل جاتی ہے جب مشیت الٰہی سے مغرب سے ہی نکلنا ہوگا تو اس کی بار بار کی اجازت طلبی پر بھی جواب نہ ملے گا رات کا وقت ختم ہونے کے قریب ہوگا اور یہ سمجھ لے گا کہ اب اگر اجازت ملی بھی تو مشرق میں نہیں پہنچ سکتا تو کہے گا کہ یا اللہ دنیا کو سخت تکلیف ہوگی تو اس سے کہا جائے گا ’ یہیں سے طلوع ہو ‘ چنانچہ وہ مغرب سے ہی نکل آئے گا پھر عبداللہ رضی اللہ عنہ نے یہی آیت تلات فرمائی ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2941) طبرانی میں ہے کہ ” جب سورج مغرب سے نکلے گا ابلیس سجدے میں گر پڑے گا اور زور زور سے کہے گا الٰہی مجھے حکم کر میں مانوں گا جسے تو فرمائے میں سجدہ کرنے کیلئے تیار ہوں اس کی ذریت اس کے پاس جمع ہو جائے گی اور کہے گی یہ ہائے وائے کیسی ہے ؟ وہ کہے گا مجھے یہیں تک کی ڈھیل دی گئی تھی ، اب وہ آخری وقت آ گیا پھر صفا کی پہاڑی کے غار سے دابتہ الارض نکلے گا اس کا پہلا قدم انطاکیہ میں پڑے گا وہ ابلیس کے پاس پہنچے گا اور اسے تھپڑ مارے گا “ ۔ ۱؎ (طبرانی اوسط:94:منکر) یہ حدیث بہت ہی غریب ہے اس کی سند بالکل ضعیف ہے ممکن ہے کہ یہ ان کتابوں میں سے عبداللہ بن عمرو نے لی ہو جن کے دو تھیلے انہیں یرموک کی لڑائی والے دن ملے تھے ۔ ان کا فرمان رسول ہونا ناقابل تسلیم ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ { حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { ہجرت منقطع نہ ہوگی جب تک کہ دشمن برسر پیکار رہے -ہجرت کی دو قسمیں ہیں ایک تو گناہوں کو چھوڑنا دوسرے اللہ اور اس کے رسول کے پاس ترک وطن کرکے جانا یہ بھی باقی رہے گا جب تک کہ توبہ قبول ہوتی ہے اور توبہ قبول ہوتی رہے گی جب تک کہ سورج مغرب سے نہ نکلے ۔ سورج کے مغرب سے نکلتے ہی پھر جو کچھ جس حال میں ہے اسی پر مہر لگ جائے گی اور اعمال بےسود ہو جائیں گے } } ۔ (مسند احمد:192/2:حسن) سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ ” بہت سے نشانات گزر چکے صرف چار باقی رہ گئے ہیں ، سورج کا نکلنا دجال ، دابتہ الارض اور یاجوج ماجوج کا آنا جس علامت کے ساتھ اعمال ختم ہو جائیں گے وہ طلوع شمس منجانب مغرب ہے “ ۔ ایک طویل مرفوع غیب منکر حدیث میں ہے کہ ” اس دن سورج چاند ملے جلے طلوع ہوں گے آدھے آسمان سے واپس چلے جائیں گے پھر حسب عادت ہو جائینگے “ ۔ ۱؎ (الدر المنشور للسیوطی:114/3:ضعیف) اس حدیث کا تو مرفوع ہونے کا دعویٰ اس حدیث کے موضوع ہونے کا ثبوت ہے ۔ ہاں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ یا وہیب بن منبہ رحمہ اللہ پر موقوف ہونے کی حیثیت سے ممکن ہے موضوع کی گنتی سے نکل جائے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ” قیامت کی پہلی نشانی کے ساتھ ہی اعمال کا کاتمہ ہے اس دن کسی کافر کا مسلمان ہونا بے سود ہوگا ، ہاں مومن جو اس سے پہلے نیک اعمال والا ہوگا وہ بہتری میں رہے گا اور جو نیک عمل نہ ہوگا اس کی توبہ بھی اس وقت مقبول نہ ہوگی “ ۔ جیسے کہ پہلے حدیثیں گزر چکیں برے لوگوں کے نیک اعمال بھی اس نشان عظیم کو دیکھ لیں گے بعد کام نہ آئیں گے ۔ پھر کافروں کو تنبیہہ کی جاتی ہے کہ ’ اچھا تم انتظار میں ہی رہو تا آنکہ توبہ کے اور ایمان کے قبول نہ ہونے کا وقت آ جائے اور قیامت کے زبردست آثار ظاہر ہو جائیں ‘ ۔ جیسے اور آیت میں ہے «فَہَلْ یَنظُرُونَ إِلَّا السَّاعَۃَ أَن تَأْتِیَہُم بَغْتَۃً فَقَدْ جَاءَ أَشْرَاطُہَا فَأَنَّیٰ لَہُمْ إِذَا جَاءَتْہُمْ ذِکْرَاہُمْ» ۱؎ (47-محمد:18) ، ’ قیامت کے اچانک آ جانے کا ہی انتظار ہے اس کی بھی علامات ظاہر ہو چکی ہیں اس کے آچکنے کے بعد نصیحت کا وقت کہاں ؟ ‘ اور آیت میں ہے «فَلَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا قَالُوا آمَنَّا بِ اللہِ وَحْدَہُ وَکَفَرْنَا بِمَا کُنَّا بِہِ مُشْرِکِینَ فَلَمْ یَکُ یَنفَعُہُمْ إِیمَانُہُمْ لَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا سُنَّتَ اللہِ الَّتِی قَدْ خَلَتْ فِی عِبَادِہِ وَخَسِرَ ہُنَالِکَ الْکَافِرُونَ» (40-غافر:84-85) یعنی ’ پھر جب انہوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا تو کہنے لگے کہ ہم خدائے واحد پر ایمان لائے اور جس چیز کو اس کے ساتھ شریک بناتے تھے اس سے نا معتقد ہوئے لیکن جب وہ ہمارا عذاب دیکھ چکے [ اس وقت ] ان کے ایمان نے ان کو کچھ بھی فائدہ نہ دیا ۔ [ یہ ] خدا کی عادت [ ہے ] جو اس کے بندوں [ کے بارے ] میں چلی آتی ہے ۔ اور وہاں کافر گھاٹے میں پڑ گئے ۔ ہمارے عذابوں کا مشاہدہ کر لینے کے بعد کا ایمان اور شرک سے انکار بے سود ہے ‘ ۔ الانعام
159 اہل بدعت گمراہ ہیں کہتے ہیں کہ یہ آیت یہود و نصاریٰ کے بارے میں اتری ہے ۔ یہ لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے پہلے سخت اختلافات میں تھے جن کی خبر یہاں دی جا رہی ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:14257:) ایک حدیث میں ہے { «شَیْءٍ» تک اس آیت کی تلاوت فرما کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { وہ بھی تجھ سے کوئی میل نہیں رکھتے ۔ اس امت کے اہل بدعت شک شبہ والے اور گمراہی والے ہیں } } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:14271:) اس حدیث کی سند صحیح نہیں ۔ یعنی ممکن ہے یہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول ہو ۔ ابوامامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” اس سے مراد خارجی ہیں “ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:8150/6:ضعیف) یہ بھی مرفوعاً مروی ہے لیکن صحیح نہیں ۔ ایک اور غریب حدیث میں ہے { حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { مراد اس سے اہل بدعت ہے } } ۔ ۱؎ (طبرانی صغیر:203/1:ضعیف) اس کا بھی مرفوع ہونا صحیح نہیں ۔ بات یہ ہے کہ آیت عام ہے جو بھی اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی مخالفت کرے اور اس میں پھوٹ اور افتراق پیدا کرے گمراہی کی اور خواہش پرستی کی پیروی کرے نیا دین اختیار کرے نیا مذہب قبول کرے وہی وعید میں داخل ہے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جس حق کو لے کر آئے ہیں وہ ایک ہی ہے کئی ایک نہیں ۔ اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فرقہ بندی سے بچایا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو بھی اس لعنت سے محفوظ رکھا ہے ۔ اسی مضمون کی دوسری آیت «شَرَعَ لَکُم مِّنَ الدِّینِ مَا وَصَّیٰ بِہِ نُوحًا وَالَّذِی أَوْحَیْنَا إِلَیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہِ إِبْرَاہِیمَ وَمُوسَیٰ وَعِیسَیٰ» ۱؎ (42-الشوری:13) ہے -ایک حدیث میں بھی ہے کہ { ہم جماعت انبیاء علیہم السلام علاقی بھائی ہیں ۔ ہم سب کا دین ایک ہی ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3443) پس صراط مستقیم اور دین پسندیدہ اللہ کی توحید اور رسولوں کی اتباع ہے اس کے خلاف جو ہو ضلالت جہالت رائے خواہش اور بد دینی ہے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بیزار ہیں ان کا معاملہ سپرد رب ہے وہی انہیں ان کے کرتوت سے آگاہ کرے گا ۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ «إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَالَّذِینَ ہَادُوا وَالصَّابِئِینَ وَالنَّصَارَیٰ وَالْمَجُوسَ وَالَّذِینَ أَشْرَکُوا إِنَّ اللہَ یَفْصِلُ بَیْنَہُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ إِنَّ اللہَ عَلَیٰ کُلِّ شَیْءٍ شَہِیدٌ» ۱؎ (22-الحج:17) ’ مومنوں ، یہودیوں ، صابیوں اور نصرانیوں میں مجوسیوں میں مشرکوں میں اللہ خود قیامت کے دن فیصلے کر دے گا ‘ اس کے بعد اپنے احسان حکم اور عدل کا بیان فرماتا ہے ۔ الانعام
160 نیکی کا دس گنا ثواب اور غلطی کی سزا برابر برابر ایک اور آیت میں مجملاً یہ آیا ہے کہ «مَن جَاءَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہُ خَیْرٌ مِّنْہَا» ۱؎ (27-النمل:89) ’ جو نیکی لائے اس کیلئے اس سے بہتر بدلہ ہے ‘ ۔ اسی آیت کے مطابق بہت سی حدیثیں بھی وارد ہوتی ہیں ایک میں ہے { تمہارا رب عزوجل بہت بڑا رحیم ہے نیکی کے صرف قصد پر نیکی کے کرنے کا ثواب عطا فرما دیتا ہے اور ایک نیکی کے کرنے پر دس سے ساٹھ تک بڑھا دیتا ہے اور بھی بہت زیادہ اور بہت زیادہ اور اگر برائی کا قصد ہوا پھر نہ کرسکا تو بھی نیکی ملتی ہے اور اگر اس برائی کو کر گزرا تو ایک برائی ہی لکھی جاتی ہے اور بہت ممکن ہے کہ اللہ معاف ہی فرما دے اور بالکل ہی مٹا دے سچ تو یہ ہے کہ ہلاکت والے ہی اللہ کے ہاں ہلاک ہوتے ہیں } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6491) ایک حدیث قدسی میں ہے { نیکی کرنے والے کو دس گنا ثواب ہے اور پھر بھی میں زیادہ کردیتا ہوں اور برائی کرنے والے کو اکہرا عذاب ہے اور میں معاف بھی کر دیتا ہوں زمین بھر تک جو شخص خطائیں لے آئے اگر اس نے میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا تو میں اتنی ہی رحمت سے اس کی طرف متوجہ ہوتا ہوں جو میری طرف بالشت بھر آئے میں اس کی طرف ایک ہاتھ بڑھتا ہوں اور جو ہاتھ بھر آئے میں اس کی طرف دو ہاتھ برھتا ہوں اور جو میری طرف چلتا ہوا آئے میں اس کی طرف دوڑتا ہوا جاتا ہوں } - ۱؎ (صحیح مسلم:2687) اس سے پہلے گزری ہوئی حدیث کی طرح ایک اور حدیث بھی ہے اس میں فرمایا ہے کہ { برائی کا اردہ کر کے پھر اسے چھوڑ دینے والے کو بھی نیکی ملتی ہے اس سے مراد وہ شخص ہے جو اللہ کے ڈر سے چھوڑ دے } چنانچہ بعض روایات میں تشریح آ بھی چکی ہے ۔ دوسری صورت چھوڑ دینے کی یہ ہے کہ اسے یاد ہی نہ آئے بھول بسر جائے تو اسے نہ ثواب ہے نہ عذاب کیونکہ اس نے اللہ سے ڈر کر نیک نیتی سے اسے ترک نہیں کیا اور اگر بد نیتی سے اس نے کوشش بھی کی اسے پوری طرح کرنا بھی چاہا لیکن عاجز ہو گیا کر نہ سکا موقعہ ہی نہ ملا اسباب ہی نہ بنے تھک کر بیٹھ گیا تو ایسے شخص کو اس برائی کے کرنے کے برابر ہی گناہ ہوتا ہے ۔ چنانچہ حدیث میں ہے { { جب دو مسلمان تلواریں لے کر ایک دوسرے سے جنگ کریں تو جو مار ڈالے اور جو مار ڈالا جائے دونوں جہنمی ہیں } لوگوں نے کہا مار ڈالنے والا تو خیر لیکن جو مارا گیا وہ جہنم میں کیوں جائے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اس لیے کہ وہ بھی دوسرے کو مار ڈالنے کا آرزو مند تھا } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:31) اور حدیث میں ہے { حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { نیکی کے محض ارادے پر نیکی لکھ لی جاتی ہے اور عمل میں لانے کے بعد دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں برائی کے محض ارادے کو لکھا نہیں جاتا اگر عمل کر لے تو ایک ہی گناہ لکھا جاتا ہے اور اگر چھوڑ دے تو نیکی لکھی جاتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس نے گناہ کے کام کو میرے خوف سے ترک کر دیا } } ۔ ۱؎ (ضعیف) { حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { لوگوں کی چار قسمیں ہیں اور اعمال کی چھ قسمیں ہیں ۔ بعض لوگ تو وہ ہیں جنہیں دنیا اور آخرت میں وسعت اور کشادگی دی جاتی ہے بعض وہ ہیں جن پر دنیا میں کشادگی ہوتی ہے اور آخرت میں تنگی بعض وہ ہیں جن پر دنیا میں تنگی رہتی ہے اور آخرت میں انہیں کشادگی ملے گی ۔ بعض وہ ہیں جو دونوں جہان میں بدبخت رہتے ہیں یہاں بھی وہاں بھی بے آبرو ، اعمال کی چھ قسمیں یہ ہیں دو قسمیں تو ثواب واجب کر دینے والی ہیں ایک برابر کا ، ایک دس گنا اور ایک سات سو گنا ۔ واجب کر دینے والی دو چیزیں وہ ہیں جو شخص اسلام و ایمان پر مرے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو اس کیلئے جنت واجب ہے اور جو کفر پر مرے اس کیلئے جہنم واجب ہے اور جو نیکی کا ارادہ کرے گو کہ نہ ہو اسے ایک نیکی ملتی ہے اس لیے کہ اللہ جانتا ہے کہ اس کے دل نے اسے سمجھا اس کی حرص کی اور جو شخص برائی کا ارادہ کرے اس کے ذمہ گناہ نہیں لکھا جاتا اور جو کر گذرے اسے ایک ہی گناہ ہوتا ہے اور وہ بڑھتا نہیں ہے اور جو نیکی کا کام کرے اسے دس نیکیاں ملتی ہیں اور جو راہ اللہ عزوجل میں خرچ کرے اسے سات سو گنا ملتا ہے } ۔ ۱؎ (سنن نسائی:3186،قال الشیخ الألبانی:صحیح) فرمان ہے کہ { جمعہ میں آنے والے لوگ تین طرح کے ہیں ایک وہ جو وہاں لغو کرتا ہے اس کے حصے میں تو وہی لغو ہے ، ایک دعا کرتا ہے اسے اگر اللہ چاہے دے چاہے نہ دے -تیسرا وہ شخص ہے جو سکوت اور خاموشی کے ساتھ خطبے میں بیٹھتا ہے کسی مسلمان کی گردن پھلانگ کر مسجد میں آگے نہیں بڑھتا نہ کسی کو ایذاء دیتا ہے اس کا جمعہ اگلے جمعہ تک گناہوں کا کفارہ ہو جاتا ہے بلکہ اور تین دن تک کے گناہوں کا بھی اس لیے کہ وعدہ الٰہی میں ہے آیت «مَنْ جَاءَ بالْحَسَنَۃِ فَلَہٗ عَشْرُ اَمْثَالِہَا» (6-الأنعام:160) جو نیکی کرے اسے دس گنا اجر ملتا ہے } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:1113،قال الشیخ الألبانی:حسن) طبرانی میں ہے { جمعہ جمعہ تک بلکہ اور تین دن تک کفارہ ہے اس لیے کہ اللہ کا فرمان ہے نیکی کرنے والے کو اس جیسی دس نیکیوں کا ثواب ملتا ہے } -۱؎ (طبرانی کبیر:3459:ضعیف و منقطع ولہ شواہد) فرماتے ہیں { جو شخص ہر مہینے میں تین روزے رکھے اسے سال بھر کے روزوں کا یعنی تمام عمر سارا زمانہ روزے سے رہنے کا ثواب دس روزوں کا ملتا ہے } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:762،قال الشیخ الألبانی:صحیح) سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ اور سلف کی ایک جماعت سے منقول ہے کہ ” اس آیت میں حسنہ سے مراد کلمہ توحید ہے اور سیئہ سے مراد شرک ہے “ ۔ ایک مرفوع حدیث میں بھی یہ ہے لیکن اس کی کوئی صحیح سند میری نظر سے نہیں گذری ۔ اس آیت کی تفسیر میں اور بھی بہت سی حدیثیں اور آثار ہیں لیکن ان شاءاللہ یہ ہی کافی ہیں ۔ الانعام
161 بے وقوف وہی ہے جو دین حنیف سے منہ موڑ لے سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہو رہا ہے کہ ’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ کی جو نعمت ہے اس کا اعلان کردیں کہ اس رب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صراط مستقیم دکھا دی ہے جس میں کوئی کجی یا کمی نہیں وہ ثابت اور سالم سیدھی اور ستھری راہ ہے ‘ - «وَمَن یَرْغَبُ عَن مِّلَّۃِ إِبْرَاہِیمَ إِلَّا مَن سَفِہَ نَفْسَہُ» ۱؎ (2-البقرۃ:130) ’ ابراہیم حنیف کی ملت ہے جو مشرکوں میں نہ تھے اس دین سے وہی ہٹ جاتا ہے جو محض بیوقوف ہو ‘ - اور آیت میں ہے «إِنَّ إِبْرَاہِیمَ کَانَ أُمَّۃً قَانِتًا لِّلَّـہِ حَنِیفًا وَلَمْ یَکُ مِنَ الْمُشْرِکِینَ شَاکِرًا لِّأَنْعُمِہِ اجْتَبَاہُ وَہَدَاہُ إِلَیٰ صِرَاطٍ مٰسْتَقِیمٍ وَآتَیْنَاہُ فِی الدٰنْیَا حَسَنَۃً وَإِنَّہُ فِی الْآخِرَۃِ لَمِنَ الصَّالِحِینَ ثُمَّ أَوْحَیْنَا إِلَیْکَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّۃَ إِبْرَاہِیمَ حَنِیفًا وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِینَ» ۱؎ (16-النحل:120-123) ’ اللہ کی راہ میں پورا جہاد کرو وہی اللہ ہے جس نے تمہیں برگزیدہ کیا اور کشادہ دین عطا فرمایا جو تمہارے باپ ابراہیم کا دین ہے ، ابراہیم [ علیہ السلام ] اللہ کے سچے فرمانبردار تھے مشرک نہ تھے اللہ کی نعمتوں کے شکر گزار تھے اللہ کے پسندیدہ تھے راہ مستقیم کی ہدایت پائے ہوئے تھے دنیا میں بھی ہم نے انہیں بھلائی دی تھی اور میدان قیامت میں بھی وہ نیک کار لوگوں میں ہوں گے ‘ ۔ ’ پھر ہم نے تیری طرف وحی کی کہ ملت ابراہیم حنیف کی پیروی کر کہ وہ مشرکین میں نہ تھا ‘ یہ یاد رہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ علیہ السلام کی ملت کی پیروی کا حکم ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ خلیل اللہ علیہ السلام آپ سے افضل ہیں اس لیے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا قیام اس پر پورا ہوا اور یہ دین آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ہاتھوں کمال کو پہنچا ۔ اسی لیے حدیث میں ہے کہ { میں نبیوں کا ختم کرنے والا ہوں اور تمام اولاد آدم کا علی الاطلاق سردار ہوں اور مقام محمود والا ہوں جس سے ساری مخلوق کو امید ہو گی یہاں تک کہ خلیل اللہ علیہ السلام کو بھی } ۔ ابن مردویہ میں ہے کہ { حضور صلی اللہ علیہ وسلم صبح کے وقت فرمایا کرتے تھے «أَصْبَحْنَا عَلَی مِلَّۃَ الْإِسْلَامِ ، وَکَلِمَۃِ الْإِخْلَاصِ ، وَدِیْنَ نَبِیِّنَا مُحَمَّدٍ ، وَمِلَّۃِ أَبِینَا مِلَّۃَ إِبْرَاہِیمَ حَنِیفًا وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِینَ» یعنی ہم نے ملت اسلامیہ پر کلمہ اخلاص پر ہمارے نبی کے دین پر اور ملت ابراہیم حنیف پر صبح کی ہے جو مشرک نہ تھے } - ۱؎ (مسند احمد:406/3:صحیح) { حضور علیہ السلام سے سوال ہوا کہ سب سے زیادہ محبوب دین اللہ کے نزدیک کون سا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { وہ جو یکسوئی اور آسانی والا ہے } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:236/1:حسن لغیرہ) مسند کی حدیث میں ہے کہ { جس دن ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مونڈھوں پر منہ رکھ کر حبشیوں کے جنگی کرتب ملاحظہ فرمائے تھے اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ { یہ اس لیے کہ یہودیہ جان لیں کہ ہمارے دین میں کشادگی ہے اور میں یکسوئی والا آسانی والا دین دے کر بھیجا گیا ہوں } } -(مسند احمد:116/6:حسن) اور حکم ہوتا ہے کہ ’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مشرکوں سے اپنا مخالف ہونا بھی بیان فرما دیں وہ اللہ کے سوا دوسروں کی عبادت کرتے ہیں دوسروں کے نام پر ذبیحہ کرتے ہیں میں صرف اپنے رب کی عبادت کرتا ہوں اسی کے نام پر ذبیح کرتا ہوں ‘ - چنانچہ { بقرہ عید کے دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دو مینڈھے ذبح کئے تو «إِنِّی وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِی فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ حَنِیفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِکِینَ» (6-الانعام:79) ، کے بعد یہی آیت پڑھی } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2795 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) آپ علیہ السلام ہی اس امت میں اول مسلم تھے اس لیے کہ یوں تو ہر نبی علیہ السلام اور ان کی ماننے والی امت مسلم ہی تھی ، سب کی دعوت اسلام ہی کی تھی سب اللہ کی خالص عبادت کرتے رہے جیسے فرمان ہے آیت «وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِکَ مِن رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِی إِلَیْہِ أَنَّہُ لَا إِلٰہَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ» ۱؎ (21-الأنبیاء:25) یعنی ’ تجھ سے پہلے بھی جتنے رسول ہم نے بھیجے سب کی طرف وحی کی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں تم سب میری ہی عبادت کرو ‘ ۔ نوح علیہ السلام کا فرمان قرآن میں موجود ہے کہ آپ علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا کہ ” میں تم سے کوئی اجرت طلب نہیں کرتا میرا اجر تو میرے رب کے ذمہ ہے مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں مسلمانوں میں رہوں “ ۔ اور آیت میں ہے «وَمَن یَرْغَبُ عَن مِّلَّۃِ إِبْرَاہِیمَ إِلَّا مَن سَفِہَ نَفْسَہُ وَلَقَدِ اصْطَفَیْنَاہُ فِی الدٰنْیَا وَإِنَّہُ فِی الْآخِرَۃِ لَمِنَ الصَّالِحِینَ إِذْ قَالَ لَہُ رَبٰہُ أَسْلِمْ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِینَ وَوَصَّیٰ بِہَا إِبْرَاہِیمُ بَنِیہِ وَیَعْقُوبُ یَا بَنِیَّ إِنَّ اللہَ اصْطَفَیٰ لَکُمُ الدِّینَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مٰسْلِمُونَ» ۱؎ (2-البقرۃ:130-132) ’ ملت ابراہیمی سے وہی ہٹتا ہے جس کی قسمت پھوٹ گئی ہو ، وہ دنیا میں بھی برگزیدہ رب تھا اور آخرت میں بھی صالح لوگوں میں سے ہے اسے جب اس کے رب نے فرمایا تو تابعدار بن جا اس نے جواب دیا کہ میں رب العالمین کا فرمانبردار ہوں اسی کی وصیت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بچوں کو کی تھی اور یعقوب علیہ السلام نے اپنی اولاد کو کہ اے میرے بچو اللہ نے تمہارے لیے دین کو پسند فرما لیا ہے ۔ پس تم اسلام ہی پر مرنا ‘ ۔ حضرت یوسف علیہ السلام کی آخری دعا میں ہے «رَبِّ قَدْ آتَیْتَنِی مِنَ الْمُلْکِ وَعَلَّمْتَنِی مِن تَأْوِیلِ الْأَحَادِیثِ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَنتَ وَلِیِّی فِی الدٰنْیَا وَالْآخِرَۃِ تَوَفَّنِی مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِی بِالصَّالِحِینَ» ۱؎ (12-یوسف:101) ’ یا اللہ تو نے مجھے ملک عطا فرمایا خواب کی تعبیر سکھائی آسمان و زمین کا ابتداء میں پیدا کرنے والا تو ہی ہے تو ہی دنیا اور آخرت میں میرا ولی ہے مجھے اسلام کی حالت میں فوت کرنا اور نیک کاروں میں ملا دینا ‘ ۔ موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا «وَقَالَ مُوسَیٰ یَا قَوْمِ إِن کُنتُمْ آمَنتُم بِ اللہِ فَعَلَیْہِ تَوَکَّلُوا إِن کُنتُم مٰسْلِمِینَ فَقَالُوا عَلَی اللہِ تَوَکَّلْنَا رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَۃً لِّلْقَوْمِ الظَّالِمِینَ وَنَجِّنَا بِرَحْمَتِکَ مِنَ الْقَوْمِ الْکَافِرِینَ» ۱؎ (10-یونس:84-86) ’ میرے بھائیو اگر تم ایماندار ہو اگر تم مسلم ہو تو تمہیں اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیئے سب نے جواب دیا کہ ہم نے اللہ ہی پر توکل رکھا ہے ، اللہ ! ہمیں ظالموں کے لیے فتنہ نہ بنا اور ہمیں اپنی رحمت کے ساتھ ان کافروں سے بچا لے ‘ ۔ اور آیت میں فرمان باری ہے «إِنَّا أَنزَلْنَا التَّوْرَاۃَ فِیہَا ہُدًی وَنُورٌ یَحْکُمُ بِہَا النَّبِیٰونَ الَّذِینَ أَسْلَمُوا لِلَّذِینَ ہَادُوا وَالرَّبَّانِیٰونَ وَالْأَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوا مِن کِتَابِ اللہِ » ۱؎ (5-المائدۃ:44) ’ ہم نے تورات اتاری جس میں ہدایت و نور ہے جس کے مطابق وہ انبیاء حکم کرتے ہیں جو مسلم ہیں یہودیوں کو بھی اور ربانیوں کو بھی اور احبار کو بھی ‘ ۔ اور فرمان ہے آیت «وَاِذْ اَوْحَیْتُ اِلَی الْحَوَارِیّٖنَ اَنْ اٰمِنُوْا بِیْ وَبِرَسُوْلِیْ قَالُوْٓا اٰمَنَّا وَاشْہَدْ بِاَنَّنَا مُسْلِمُوْنَ» (5-المائدۃ:111) ’ میں نے حواریوں کی طرف وحی کی کہ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لاؤ سب نے کہا ہم نے ایمان قبول کیا ہمارے مسلمان ہونے پر تم گواہ رہو ‘ ۔ یہ آیتیں صاف بتلا رہی ہیں کہ اللہ نے اپنے نبیوں کو اسلام کے ساتھ ہی بھیجا ہے ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ اپنی اپنی مخصوص شریعتوں کے ساتھ مختص تھے احکام کا ادل بدل ہوتا رہتا تھا یہاں تک کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے ساتھ پہلے کے کل دین منسوخ ہوگئے اور نہ منسوخ ہونے والا نہ بدلنے والا ہمیشہ رہنے والا دین اسلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملا جس پر ایک جماعت قیامت تک قائم رہے گی اور اس پاک دین کا جھنڈا ابد الآباد تک لہراتا رہے گا ۔ { آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ { ہم انبیاء کی جماعت علاقی بھائی ہیں ہم سب کا دین ایک ہی ہے } } - ۱؎ (صحیح بخاری:3443) - بھائیوں کی ایک قسم تو علاقی ہے جن کا باپ ایک ہو مائیں الگ الگ ہوں ایک قسم اخیافی جن کی ماں ایک ہو اور باپ جدا گانہ ہوں اور ایک عینی بھائی ہیں جن کا باپ بھی ایک ہو اور ماں بھی ایک ہو ۔ پس کل انبیاء علیہم السلام کا دین ایک ہے یعنی اللہ «وَحدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ» کی عبادت اور شریعت مختلف ہیں بہ اعتبار احکام کے ۔ اس لیے انہیں علاتی بھائی فرمایا ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر اولیٰ کے بعد نماز میں «إِنِّی وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِی فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ حَنِیفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِکِینَ» ۱؎ (6-الانعام:79) اور یہ آیت «إِنَّ صَلَاتِی وَنُسُکِی وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِی لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ لَا شَرِیکَ لَہُ وَبِذٰلِکَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِینَ» پڑھ کر پھر یہ پڑھتے «اللَّہُمَّ أَنْتَ الْمَلِکُ ، لاَ إِلَہَ إِلاَّ أَنْتَ ، أَنَا عَبْدُکَ ، ظَلَمْتُ نَفْسِی ، وَاعْتَرَفْتُ بِذَنْبِی ، فَاغْفِرْ لِی ذُنُوبِی جَمِیعًا ، لاَ یَغْفِرُ الذٰنُوبَ إِلاَّ أَنْتَ ، وَاہْدِنِی لِأَحْسَنِ الأَخْلاَقِ ، لاَ یَہْدِی لِأَحْسَنِہَا إِلاَّ أَنْتَ ، وَاصْرِفْ عَنِّی سَیِّئَہَا ، لاَ یَصْرِفُ عَنِّی سَیِّئَہَا إِلاَّ أَنْتَ ، لَبَّیْکَ وَسَعْدَیْکَ ، وَالْخَیْرُ کُلٰہُ فِی یَدَیْکَ ، وَالشَّرٰ لَیْسَ إِلَیْکَ ، أَنَا بِکَ وَإِلَیْکَ ، تَبَارَکْتَ وَتَعَالَیْتَ ، أَسْتَغْفِرُکَ وَأَتُوبُ إِلَیْکَ» } یہ حدیث لمبی ہے اس کے بعد راوی نے رکوع و سجدہ اور تشہد کی دعاؤں کا ذکر کیا ہے ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:771) الانعام
162 الانعام
163 الانعام
164 جھوٹے معبود غلط سہارے کافروں کو نہ تو خلوص عبادت نصیب ہے نہ سچا توکل رب میسر ہے ان سے کہہ دے کہ ’ کیا میں بھی تمہاری طرح اپنے اور سب کے سچے معبود کو چھوڑ کر جھوٹے معبود بنا لوں ؟ ‘ میری پرورش کرنے والا حفاظت کرنے والا مجھے بچانے والا میرے کام بنانے والا میری بگڑی کو سنوارنے والا تو اللہ ہی ہے پھر میں دوسرے کا سہارا کیوں لوں ؟ مالک خالق کو چھوڑ کر بے بس اور محتاج کے پاس کیوں جاؤں ؟ گویا اس آیت میں توکل علی اللہ اور عبادت رب کا حکم ہوتا ہے -یہ دونوں چیزیں عموماً ایک ساتھ بیان ہوا کرتی ہیں جیسے آیت «إِیَّاکَ نَعْبُدُ وَإِیَّاکَ نَسْتَعِینُ» (1-الفاتحۃ:5) میں اور «فَاعْبُدْہُ وَتَوَکَّلْ عَلَیْہِ» (10-ہود:123) میں اور «قُلْ ہُوَ الرَّحْمٰنُ اٰمَنَّا بِہٖ وَعَلَیْہِ تَوَکَّلْنَا فَسَتَعْلَمُوْنَ مَنْ ہُوَ فِیْ ضَلٰلٍ مٰبِیْنٍ» (67-الملک:29) میں اور «رَبٰ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ فَاتَّخِذْہُ وَکِیْلًا» (73-المزمل:9) میں اور دوسری آیتوں میں بھی ۔ پھر قیامت کے دن کی خبر دیتا ہے کہ ہر شخص کو اس کے اعمال کا بدلہ عدل و انصاف سے ملے گا -نیکوں کو نیک بدوں کو بد ۔ «وَإِن تَدْعُ مُثْقَلَۃٌ إِلَیٰ حِمْلِہَا لَا یُحْمَلْ مِنْہُ شَیْءٌ وَلَوْ کَانَ ذَا قُرْبَیٰ» (35-فاطر:18) ’ ایک کے گناہ دوسرے پر نہیں جائیں گے ۔ کوئی قرابت دار دوسرے کے عوض پکڑا نہ جائے گا ‘ ، «فَلَا یَخَافُ ظُلْمًا وَلَا ہَضْمًا» ۱؎ (20-طہ:112) ’ اس دن ظلم بالکل ہی نہ ہو گا ‘ ۔ نہ کسی کے گناہ بڑھائے جائیں گے نہ کسی کی نیکی گھٹائی جائے گی ، اپنی اپنی کرنی اپنی اپنی بھرنی ۔ «کُلٰ نَفْسٍ بِمَا کَسَبَتْ رَہِینَۃٌ إِلَّا أَصْحَابَ الْیَمِینِ» ۱؎ (74-المدثر:38 ، 39) ’ ہاں جن کے دائیں ہاتھ میں اعمال نامے ملے ہیں ان کے نیک اعمال کی برکت ان کی اولاد کو بھی پہنچے گی ‘ ۔ جیسے فرمان ہے آیت «وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَاتَّبَعَتْہُمْ ذُرِّیَّــتُہُمْ بِاِیْمَانٍ اَلْحَـقْنَا بِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ وَمَآ اَلَتْنٰہُمْ مِّنْ عَمَلِہِمْ مِّنْ شَیْءٍ کُلٰ امْرِی بِمَا کَسَبَ رَہِیْنٌ» ۱؎ (52-الطور:21) یعنی ’ جو ایمان لائے اور ان کی اولاد نے بھی ان کے ایمان میں ان کی تابعداری کی ہم ان کی اولاد کو بھی ان کے بلند درجوں میں پہنچا دیں گے ‘ ۔ گو ان کے اعمال اس درجے کے نہ ہوں لیکن چونکہ ان کی ایمان میں شرکت ہے اس لیے درجات میں بھی بڑھا دیں گے اور یہ درجے ماں باپ کے درجے گھٹا کر نہ بڑھا دیں گے اور یہ درجے ماں باپ کے درجے گھٹا کر نہ بڑھیں گے بلکہ یہ اللہ کا فضل و کرم ہوگا ۔ ہاں برے لوگ اپنے بد اعمال کے جھگڑے میں گھرے ہوں گے تم بھی عمل کئے جا رہے ہو ہم بھی کئے جا رہے ہیں اللہ کے ہاں سب کو جانا ہے وہاں اعمال کا حساب ہونا ہے پھر معلوم ہو جائے گا کہ اس اختلاف میں حق اور رضائے رب ، مرضی مولیٰ کس کے ساتھ تھی ؟ «قُل لَّا تُسْأَلُونَ عَمَّا أَجْرَمْنَا وَلَا نُسْأَلُ عَمَّا تَعْمَلُونَ قُلْ یَجْمَعُ بَیْنَنَا رَبٰنَا ثُمَّ یَفْتَحُ بَیْنَنَا بِالْحَقِّ وَہُوَ الْفَتَّاحُ الْعَلِیمُ» ۱؎ (34-سبأ:25-26) ’ ہمارے اعمال سے تم اور تمہارے اعمال سے ہم اللہ کے ہاں پوچھے نہ جائیں گے ۔ قیامت کے دن اللہ کے ہاں سچے فیصلے ہوں گے اور وہ باعلم اللہ ہمارے درمیان سچے فیصلے فرما دے گا ‘ ۔ الانعام
165 اللہ کی رحمت اللہ کے غضب پر غالب ہے اس اللہ نے تمہیں زمین کا آباد کار بنایا ہے ، وہ تمہیں یکے بعد دیگرے پیدا کرتا رہتا ہے «وَلَوْ نَشَاءُ لَجَعَلْنَا مِنکُم مَّلَائِکَۃً فِی الْأَرْضِ یَخْلُفُونَ» ۱؎ (43-الزخرف:60) ’ ایسا نہیں کیا کہ زمین پر فرشتے بستے ہوں ‘ ۔ فرمان ہے «عَسَیٰ رَبٰکُمْ أَن یُہْلِکَ عَدُوَّکُمْ وَیَسْتَخْلِفَکُمْ فِی الْأَرْضِ فَیَنظُرَ کَیْفَ تَعْمَلُونَ» ۱؎ (7-الأعراف:129) ’ ممکن ہے ، تمہارا رب تمہارے دشمن کو غارت کر دے اور تمہیں زمین میں خلیفہ بنا کر آزمائے کہ تم کیسے اعمال کرتے ہو ؟ ‘ اس نے تمہارے درمیان مختلف طبقات بنائے ، کوئی غریب ہے ، کوئی خوش خو ہے ، کوئی بد اخلاق ، کوئی خوبصورت ہے ، کوئی بدصورت ، یہ بھی اس کی حکمت ہے ، «نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَہُم مَّعِیشَتَہُمْ فِی الْحَیَاۃِ الدٰنْیَا وَرَفَعْنَا بَعْضَہُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِّیَتَّخِذَ بَعْضُہُم بَعْضًا سُخْرِیًّا» (43-الزخرف:32) ’ اسی نے روزیاں تقسیم کی ہیں ایک کو ایک کے ماتحت کر دیا ہے ‘ ۔ فرمان ہے آیت «اُنْظُرْ کَیْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَلَلْاٰخِرَۃُ اَکْبَرُ دَرَجٰتٍ وَّاَکْبَرُ تَفْضِیْلًا» ۱؎ (17-الإسراء:21) ’ دیکھ لے کہ ہم نے ان میں سے ایک کو ایک پر کیسے فضیلت دی ہے ؟ ‘ اس سے منشاء یہ ہے کہ آزمائش و امتحان ہو جائے ، امیر آدمیوں کا شکر ، فقیروں کا صبر معلوم ہو جائے ۔ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { دنیا میٹھی اور سبز رنگ ہے اللہ تمہیں اس میں خلیفہ بنا کر دیکھ رہا ہے کہ تم کیسے اعمال کرتے ہو ؟ پس تمہیں دنیا سے ہوشیار رہنا چاہیئے اور عورتوں کے بارے میں بہت احتیاط سے رہنا چاہیئے ، بنی اسرائیل کا پہلا فتنہ عورتیں ہی تھیں } } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2742) اس سورت کی آخری آیت میں اپنے دونوں وصف بیان فرمائے ، عذاب کا بھی ، ثواب کا بھی ، پکڑ کا بھی اور بخشش کا بھی اپنے نافرمانوں پر ناراضگی کا اور اپنے فرمانبرداروں پر رضا مندی کا ، عموماً قرآن کریم میں یہ دونوں صفتیں ایک ساتھ ہی بیان فرمائی جاتی ہیں ۔ جیسے فرمان ہے آیت «وَاِنَّ رَبَّکَ لَذُوْ مَغْفِرَۃٍ لِّلنَّاسِ عَلٰی ظُلْمِہِمْ وَاِنَّ رَبَّکَ لَشَدِیْدُ الْعِقَابِ» ۱؎ (13-الرعد:6) اور آیت میں ہے «نَبِّئْ عِبَادِی أَنِّی أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِیمُ وَأَنَّ عَذَابِی ہُوَ الْعَذَابُ الْأَلِیمُ» ۱؎ (15-الحجر:49) یعنی ’ تیرا رب اپنے بندوں کے گناہ بخشنے والا بھی ہے اور وہ سخت اور درد ناک عذاب دینے والا بھی ہے ‘ - پس ان آیتوں میں رغبت رہبت دونوں ہیں اپنے فضل کا اور جنت کا لالچ بھی دیتا ہے اور آگ کے عذاب سے دھمکاتا بھی ہے کبھی کبھی ان دونوں وصفوں کو الگ الگ بیان فرماتا ہے تاکہ عذابوں سے بچنے اور نعمتوں کے حاصل کرنے کا خیال پیدا ہو ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے احکام کی پابندی اور اپنی ناراضگی کے کاموں سے نفرت نصیب فرمائے اور ہمیں کامل یقین عطا فرمائے کہ ہم اس کے کلام پر ایمان و یقین رکھیں ۔ وہ قریب و مجیب ہے وہ دعاؤں کا سننے والا ہے ، وہ جواد ، کریم اور وہاب ہے ۔ مسند احمد میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { اگر مومن صحیح طور پر اللہ کے عذاب سے واقف ہو جائے تو اپنے گناہوں کی وجہ سے جنت کے حصول کی آس ہی نہ رہے اور اگر کافر اللہ کی رحمت سے کماحقہ واقف ہو جائے تو کسی کو بھی جنت سے مایوسی نہ ہو اللہ نے سو رحمتیں بنائی ہیں جن میں سے صرف ایک بندوں کے درمیان رکھی ہے اسی سے ایک دوسرے پر رحم و کرم کرتے ہیں باقی ننانوے تو صرف اللہ ہی کے پاس ہیں } } ۔ یہ حدیث ترمذی اور مسلم شریف میں بھی ہے ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2755) ایک اور روایت میں ہے کہ { اللہ تعالیٰ نے مخلوق کی پیدائش کے وقت ایک کتاب لکھی جو اس کے پاس عرش پر ہے کہ ’ میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے ‘ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:7404) صحیح مسلم شریف میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { اللہ تعالیٰ نے رحمت کے سو حصے کئے جن میں سے ایک کم ایک سو تو اپنے پاس رکھے اور ایک حصہ زمین پر نازل فرمایا اسی ایک حصے میں مخلوق کو ایک دوسرے پر شفقت و کرم ہے یہاں تک کہ جانور بھی اپنے بچے کے جسم سے اپنا پاؤں رحم کھا کر اٹھا لیتا ہے کہ کہیں اسے تکلیف نہ ہو } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6000) «اَلْحَمْدُ لِلہِ» سورۃ الأنعام کی تفسیر ختم ہوئی ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» الانعام
0 الاعراف
1 1 اس سورت کی ابتداء میں جو حروف ہیں ، ان کے متعلق جو کچھ بیان ہمیں کرنا تھا ، اسے تفصیل کے ساتھ سورۃ البقرہ کی تفسیر کے شروع میں معہ اختلاف علماء کے ہم لکھ آئے ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس کے معنی میں مروی ہے کہ ” اس سے مراد «اَنَا اللہُ اُفَصِّلُ» ہے یعنی میں اللہ ہوں ، میں تفصیل وار بیان فرما رہا ہوں ۔ “ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:14315) سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے بھی یہ مروی ہے ۔ ” یہ کتاب قرآن کریم تیری جانب تیرے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہے ۔ اس میں کوئی شک نہ کرنا ، دل تنگ نہ ہونا ، اس کے پہنچانے میں کسی سے نہ ڈرنا ، نہ کسی کا لحاظ کرنا ، بلکہ سابقہ اولوالعزم پیغمبروں علیہم السلام کی طرح صبر و استقامت کے ساتھ کلام اللہ کی تبلیغ مخلوق الٰہی میں کرنا ۔ اس کا نزول اس لیے ہوا ہے کہ تو کافروں کو ڈرا کر ہوشیار اور چوکنا کر دے ۔ یہ قرآن مومنوں کے لئے نصیحت و عبرت ، وعظ و پند ہے ۔ “ اس کے بعد تمام دنیا کو حکم ہوتا ہے کہ ” اس نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری پیروی کرو ، اس کے قدم بہ قدم چلو ۔ یہ تمہارے رب کا بھیجا ہوا ہے ، کلام اللہ تمہارے پاس لایا ہے ۔ وہ اللہ تم سب کا خالق ، مالک ہے اور تمام جان داروں کا رب ہے ۔ خبردار ! ہرگز ہرگز نبی سے ہٹ کر دوسرے کی تابعداری نہ کرنا ورنہ حکم عدولی پر سزا ملے گی ۔ افسوس ! تم بہت ہی کم نصیحت حاصل کرتے ہو ۔ “ جیسے فرمان ہے کہ ’ گو تم چاہو لیکن اکثر لوگ اپنی بے ایمانی پر اڑے ہی رہیں گے ۔ ‘ ۱؎ (12-یوسف:103) اور آیت میں ہے : «وَاِنْ تُطِعْ اَکْثَرَ مَنْ فِی الْاَرْضِ یُضِلٰوْکَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ» ۱؎ (6-الأنعام:116) یعنی ’ اگر تو انسانوں کی کثرت کی طرف جھک جائے گا تو وہ بھی تجھے بہکا کر ہی چین لیں گے ۔ ‘ سورۃ یوسف میں فرمان ہے : ’ اکثر لوگ اللہ کو مانتے ہوئے بھی شرک سے باز نہیں رہتے ۔ ‘ ۱؎ (12-یوسف:106) الاعراف
2 الاعراف
3 الاعراف
4 سابقہ باغیوں کی بستیوں کے کھنڈرات باعث عبرت ہیں ان لوگوں کو جو ہمارے رسولوں کی مخالفت کرتے تھے ، انہیں جھٹلاتے تھے ، تم سے پہلے ہم ہلاک کر چکے ہیں ۔ دنیا اور آخرت کی ذلت ان پر برس پڑی ۔ جیسے فرمان ہے : ” تجھ سے اگلے رسولوں سے بھی مذاق کیا گیا ، لیکن نتیجہ یہ ہوا کہ مذاق کرنے والوں کے مذاق نے انہیں تہہ و بالا کر دیا ۔ “ ایک اور آیت میں ہے : ” بہت سی ظالم بستیوں کو ہم نے غارت کر دیا جو اب تک الٹی پڑی ہیں ۔ “ اور جگہ ارشاد ہے : بہت سے اتراتے ہوئے لوگوں کے شہر ہم نے ویران کر دیئے ۔ دیکھ لو کہ اب تک ان کے کھنڈرات تمہارے سامنے ہیں جو بہت کم آباد ہوئے ۔ حقیقتاً وارث و مالک ہم ہی ہیں ۔ ایسے ظالموں کے پاس ہمارے عذاب اچانک آ گئے اور وہ اپنی غفلتوں اور عیاشیوں میں مشغول تھے ۔ کہیں دن کو دوپہر کے آرام کے وقت ، کہیں رات کے سونے کے وقت ۔ چنانچہ ایک آیت میں ہے «أَفَأَمِنَ أَہْلُ الْقُرَیٰ أَن یَأْتِیَہُم بَأْسُنَا بَیَاتًا وَہُمْ نَائِمُونَ أَوَأَمِنَ أَہْلُ الْقُرَیٰ أَن یَأْتِیَہُم بَأْسُنَا ضُحًی وَہُمْ یَلْعَبُونَ» ۱؎ (7-الأعراف:97) یعنی ’ لوگ اس سے بے خوف ہو گئے ہیں کہ ان کے سوتے ہوئے راتوں رات اچانک ہمارا عذاب آ جائے ؟ یا انہیں ڈر نہیں کہ دن دیہاڑے دوپہر کو ان کے آرام کے وقت ان پر ہمارے عذاب آ جائیں ؟ ‘ اور آیت میں ہے : کیا مکاریوں سے ہماری نافرمانیاں کرنے والے اس بات سے نڈر ہو گئے ہیں کہ اللہ انہیں زمین میں دھنسا دے ؟ یا ان کے پاس عذاب الٰہی اس طرح آ جائیں کہ انہیں پتہ بھی نہ چلے ، یا اللہ انہیں ان کی بے خبری میں آرام کی گھڑیوں میں ہی پکڑ لے ۔ کوئی نہیں جو اللہ کو عاجز کر سکے ، یہ تو رب کی رحمت و رافت ہے جو گنہگار زمین پر چلتے پھرتے ہیں ۔ عذاب رب آ جانے کے بعد تو یہ خود اپنی زبانوں سے اپنے گناہوں کا اقرار کر لیں گے لیکن اس وقت کیا نفع ؟ اسی مضمون کو آیت «وَکَمْ قَصَمْنَا مِن قَرْیَۃٍ کَانَتْ ظَالِمَۃً وَأَنشَأْنَا بَعْدَہَا قَوْمًا آخَرِینَ» ۱؎ (21-الأنبیاء:11) میں بیان فرمایا ہے ۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ { جب تک اللہ تعالیٰ بندوں کے عذر ختم نہیں کر دیتا ، انہیں عذاب نہیں کرتا ۔ عبدالملک سے جب یہ حدیث ان کے شاگردوں نے سنی تو دریافت کیا کہ اس کی صورت کیا ہے ؟ تو آپ نے یہ آیت «فَمَا کَانَ دَعْوَاہُمْ إِذْ جَاءَہُم بَأْسُنَا إِلَّا أَن قَالُوا إِنَّا کُنَّا ظَالِمِینَ» پڑھ سنائی ۔ } ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:14328:منقطع) پھر فرمایا : امتوں سے بھی ، ان کے رسولوں سے بھی یعنی سب سے قیامت کے دن سوال ہو گا ۔ جیسے فرمان ہے «وَیَوْمَ یُنَادِیْہِمْ فَیَقُوْلُ مَاذَآ اَجَبْتُمُ الْمُرْسَلِیْنَ» ۱؎ (28-القصص:65) یعنی ’ اس دن ندا کی جائے گی اور دریافت کیا جائے گا کہ تم نے رسولوں کو کیا جواب دیا ؟ ‘ اس آیت میں امتوں سے سوال کیا جانا بیان کیا گیا ہے ۔ اور آیت میں ہے «یَوْمَ یَجْمَعُ اللّٰہُ الرٰسُلَ فَیَقُوْلُ مَاذَآ اُجِبْتُمْ قَالُوْا لَا عِلْمَ لَنَا اِنَّکَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ» ۱؎ (5-المائدۃ:109) ’ رسولوں کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ جمع کرے گا اور ان سے پوچھے گا کہ تمہیں کیا جواب ملا ؟ وہ کہیں گے کہ ہمیں کوئی علم نہیں ، غیب کا جاننے والا تو ہی ہے ۔ ‘ پس امت سے رسولوں کی قبولیت کی بابت اور رسولوں سے تبلیغ کی بابت قیامت کے دن سوال ہو گا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : { تم میں سے ہر ایک بااختیار ہے اور اپنے زیر اختیار لوگوں کی بابت اس سے سوال کیا جانے والا ہے ۔ بادشاہ سے اس کی رعایا کا ، ہر آدمی سے اس کے اہل و عیال کا ، ہر عورت سے اس کے خاوند کے گھر کا ، ہر غلام سے اس کے آقا کے مال کا سوال ہو گا ۔ } راوی حدیث طاؤس نے اس حدیث کو بیان فرما کر پھر اسی آیت کی تلاوت کی ۔ اس زیادتی کے بغیر یہ حدیث بخاری و مسلم کی نکالی ہوئی بھی ہے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:893) اور زیادتی ابن مردویہ نے نقل کی ہے ۔ قیامت کے دن اعمال نامے رکھے جائیں گے اور سارے اعمال ظاہر ہو جائیں گے ۔ اللہ تعالیٰ ہر شخص کو اس کے اعمال کی خبر دے گا ۔ کسی کے عمل کے وقت اللہ غائب نہ تھا ۔ ہر ایک چھوٹے بڑے ، چھپے کھلے عمل کی اللہ کی طرف سے خبر دی جائے گی ۔ اللہ ہر شخص کے اعمال سے باخبر ہے ، اس پر کوئی چیز پوشیدہ نہیں ۔ نہ وہ کسی چیز سے غافل ہے ۔ آنکھوں کی خیانت سے سینوں کی چھپی ہوئی باتوں کا جاننے والا ہے ۔ ’ ہر پتے کے جھڑنے کا اسے علم ہے ۔ زمین کی اندھیریوں میں جو دانہ ہوتا ہے ، اسے بھی وہ جانتا ہے ۔ تر و خشک چیز اس کے پاس کھلی کتاب میں موجود ہے ۔ ‘ ۱؎ (6-الأنعام:59) الاعراف
5 الاعراف
6 الاعراف
7 الاعراف
8 میزان اور اعمال کا دین قیامت کے دن نیکی ، بدی ، انصاف و عدل کے ساتھ تولی جائے گی ، اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہ کرے گا ۔ جیسے فرمان ہے «وَنَضَعُ الْمَوَازِینَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیَامَۃِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْئًا وَإِن کَانَ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ أَتَیْنَا بِہَا وَکَفَیٰ بِنَا حَاسِبِینَ» ۱؎ (21-الأنبیاء:47) ’ قیامت کے دن ہم عدل کا ترازو رکھیں گے ، کسی پر کوئی ظلم نہ ہو گا ، رائی کے دانے کے برابر بھی عمل ہو گا تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم حساب لینے میں کافی ہیں ۔ ‘ اور آیت میں ہے : ’ اللہ تعالیٰ ایک ذرے کے برابر بھی ظلم نہیں کرتا ، وہ نیکی کو بڑھاتا ہے اور اپنے پاس سے اجر عظیم عطا فرماتا ہے ۔ ‘ ۱؎ (4-النساء:40) سورۃ القارعہ میں فرمایا : ’ جس کی نیکیوں کا پلڑا بھاری ہو گیا اسے عیش و نشاط کی زندگی ملی اور جس کا نیکیوں کا پلڑا ہلکا ہو گیا اس کا ٹھکانا ہاویہ ہے جو بھڑکتی ہوئی آگ کے خزانے کا نام ہے ۔ ‘ ۱؎ (101-القارعۃ:6-11) اور آیت میں ہے «فَإِذَا نُفِخَ فِی الصٰورِ فَلَا أَنسَابَ بَیْنَہُمْ یَوْمَئِذٍ وَلَا یَتَسَاءَلُونَ فَمَن ثَقُلَتْ مَوَازِینُہُ فَأُولٰئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِینُہُ فَأُولٰئِکَ الَّذِینَ خَسِرُوا أَنفُسَہُمْ فِی جَہَنَّمَ خَالِدُونَ» ۱؎ (23-المؤمنون:101) یعنی ’ جب نفحہ پھونک دیا جائے گا ، سارے رشتے ناطے اور نسب حسب ٹوٹ جائیں گے ، کوئی کسی کا پرسان حال نہ ہو گا ۔ اگر تول میں نیک اعمال بڑھ گئے تو فلاح پا لی ورنہ خسارے کے ساتھ جہنم میں داخل ہوں گے ۔ ‘ فصل کوئی تو کہتا ہے کہ خود اعمال تولے جائیں گے ، کوئی کہتا ہے : نامہ اعمال تولے جائیں گے ۔ کوئی کہتا ہے : خود عمل کرنے والے تولے جائیں گے ۔ ان تینوں قولوں کو اس طرح جمع کرنا بھی ممکن ہے کہ ہم کہیں یہ سب صحیح ہیں ۔ کبھی اعمال تولے جائیں گے ، کبھی نامہ اعمال ، کبھی خود اعمال کرنے والے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ ان تینوں باتوں کی دلیلیں بھی موجود ہیں ۔ پہلے قول کا مطلب یہ ہے کہ اعمال گو ایک بےجسم چیز ہیں لیکن قیامت کے دن اللہ تعالیٰ انہیں جسم عطا فرمائے گا جیسے کہ صحیح حدیث میں ہے : { سورۃ البقرہ اور سورۃ آل عمران قیامت کے دن دو سائبانوں کی یا دو ابر کی یا پر پھیلائے ہوئے پرندوں کے دو جھنڈ کی صورت میں آئیں گی ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:805) اور حدیث میں ہے کہ { قرآن اپنے قاری اور عامل کے پاس ایک نوجوان خوش شکل ، نورانی چہرے والے کی صورت میں آئے گا ۔ یہ اسے دیکھ کر پوچھے گا کہ تو کون ہے ؟ یہ کہے گا : میں قرآن ہوں جو تجھے راتوں کی نیند نہیں سونے دیتا تھا اور دنوں میں پانی پینے سے روکتا تھا ۔ } ۱؎ (سنن ابن ماجہ:3781 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) سیدنا براء رضی اللہ عنہ والی حدیث میں ، جس میں قبر کے سوال جواب کا ذکر ہے ، اس میں یہ بھی فرمان ہے کہ { مومن کے پاس ایک نوجوان خوبصورت ، خوشبودار آئے گا ۔ یہ اس سے پوچھے گا کہ تو کون ہے ؟ وہ جواب دے گا کہ میں تیرا نیک عمل ہوں ۔ } ۱؎ (مسند احمد:287/4:صحیح) اور کافر و منافق کے پاس اس کے برخلاف شخص کے آنے کا بیان ہے ۔ یہ تو تھیں پہلے قول کی دلیلیں ۔ دوسرے قول کی دلیلیں یہ ہیں : ایک حدیث میں ہے کہ { ایک شخص کے سامنے اس کے گناہوں کے ننانوے دفتر پھیلائے جائیں گے جس میں سے ہر ایک اتنا بڑا ہو گا جتنی دور تک نظر پہنچے ۔ پھر ایک پرچہ نیکی کا لایا جائے گا جس پر «لَا اِلٰہَ اِلَا اللہُ» ہو گا ۔ یہ کہے گا : یااللہ ! اتنا سا پرچہ ان دفتروں کے مقابلے میں کیا حیثیت رکھتا ہے ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : تو اس سے بےخطر رہ کہ تجھ پر ظلم کیا جائے ۔ اب وہ پرچہ ان دفتروں کے مقابلہ میں نیکی کے پلڑے میں رکھا جائے گا تو وہ سب دفتر اونچے ہو جائیں گے اور یہ سب سے زیادہ وزن دار اور بھاری ہو جائیں گے ۔ } ۱؎ (سنن ترمذی:2639 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) [ ترمذی ] تیسرا قول بھی دلیل رکھتا ہے : حدیث میں ہے : { ایک بہت موٹا تازہ گنہگار انسان اللہ کے سامنے لایا جائے گا لیکن ایک مچھر کے پر کے برابر بھی وزن اللہ کے پاس اس کا نہ ہو گا ۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی «اُولٰیِٕکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّہِمْ وَلِقَایِٕہٖ فَحَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ فَلَا نُقِیْمُ لَہُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَزْنًا» ۱؎ (18-الکہف:105) ’ ہم قیامت کے دن ان کے لیے کوئی وزن قائم نہ کریں گے ۔ ‘ } ۱؎ (صحیح بخاری:4729) سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی تعریف میں جو حدیثیں ہیں ، ان میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ان کی پتلی پنڈلیوں پہ نہ جانا ۔ اللہ کی قسم ! اللہ کے نزدیک یہ احد پہاڑ سے بھی زیادہ وزن دار ہے ۔ } ۱؎ (مسند احمد:420/1:حسن) الاعراف
9 الاعراف
10 اللہ تعالیٰ کے احسانات اللہ تعالیٰ اپنا احسان بیان فرما رہا ہے کہ اس نے زمین اپنے بندوں کے رہنے سہنے کے لئے بنائی ۔ اس میں مضبوط پہاڑ گاڑ دیئے کہ ہلے جلے نہیں ، اس میں چشمے جاری کر دیئے ، اس میں منزلیں اور گھر بنانے کی طاقت انسان کو عطا فرمائی اور بہت سی نفع کی چیزیں اس لیے پیدا فرمائیں ۔ ابر مقرر کر کے اس میں سے پانی برسا کر ان کے لیے کھیت اور باغات پیدا کئے ۔ تلاش معاش کے وسائل مہیا فرمائے ۔ تجارت اور کمائی کے طریقے سکھا دیئے ۔ باوجود اس کے اکثر لوگ پوری شکر گزاری نہیں کرتے ۔ ایک آیت میں فرمان ہے «وَإِن تَعُدٰوا نِعْمَتَ اللہِ لَا تُحْصُوہَا إِنَّ الْإِنسَانَ لَظَلُومٌ کَفَّارٌ» ۱؎ (14-إبراہیم:34) یعنی ’ اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننے بیٹھو تو یہ بھی تمہارے بس کی بات نہیں لیکن انسان بڑا ہی ناانصاف اور ناشکرا ہے ۔ ‘ «مَعَایِشَ» تو جمہور کی قرأت ہے لیکن عبدالرحمٰن بن ہرمز اعرج «مَعَاۤیِـْش» پڑھتے ہیں اور ٹھیک وہی ہے جس پر اکثریت ہے ۔ اس لیے کہ «مَعَایِشَ» جمع ہے «مَعِیْشَتہٌ» کی ۔ اس کا باب «عَاشَ یَعِیْشُ عَیْشًا» ہے ۔ «مَعِیْشَتہٌ» کی اصل «مَعِیْشَتہٌ» ہے ۔ کسرہ «یا» پر تقلیل تھا ، نقل کر کے ماقبل کو دیا «مَعِیْشَتہٌ» ہو گیا لیکن جمع کے وقت پھر کسرہ «یا» پر آ گیا کیونکہ اب ثقل نہ رہا ۔ پس «مَفَاعِلٌ» کے وزن پر «مَعَایِشَ» ہو گیا کیونکہ اس کلمہ میں «یا» اصلی ہے ۔ بخلاف «مدائن» ، «صحائف» اور «بصائر» کے جو «مدینہ» ، «صحیفہ» اور «بصیرہ» کی جمع ہے باب «مدن» ، «صحف» اور «ابصر» سے ۔ ان میں چونکہ «یا» زائد ہے اس لیے ہمزہ دی جاتی ہے اور «مفاعل» کے وزن پر جمع آتی ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ الاعراف
11 ابلیس، آدم علیہ السلام اور نسل آدم انسان کے شرف کو اس طرح بیان فرماتا ہے کہ تمہارے باپ آدم کو میں نے خود ہی بنایا اور ابلیس کی عداوت کو بیان فرما رہا ہے کہ اس نے تمہارے باپ آدم کا حسد کیا ۔ ہمارے فرمان سے سب فرشتوں نے سجدہ کیا مگر اس نے نافرمانی کی ۔ پس تمہیں چاہئے کہ دشمن کو دشمن سمجھو اور اس کے داؤ پیچ سے ہوشیار رہو ۔ اسی واقعہ کا ذکر آیت «وَإِذْ قَالَ رَبٰکَ لِلْمَلَائِکَۃِ إِنِّی خَالِقٌ بَشَرًا مِّن صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ فَإِذَا سَوَّیْتُہُ وَنَفَخْتُ فِیہِ مِن رٰوحِی فَقَعُوا لَہُ سَاجِدِینَ فَسَجَدَ الْمَلَائِکَۃُ کُلٰہُمْ أَجْمَعُونَ إِلَّا إِبْلِیسَ أَبَیٰ أَن یَکُونَ مَعَ السَّاجِدِینَ» ۱؎ (15-الحجر28-30) آدم علیہ السلام کو پروردگار نے اپنے ہاتھ سے مٹی سے بنایا ، انسانی صورت عطا فرمائی ۔ پھر اپنے پاس سے اس میں روح پھونکی ۔ پھر اپنی شان کی جلالت منوانے کیلئے فرشتوں کو حکم دیا کہ ان کے سامنے جھک جاؤ ۔ سب نے سنتے ہی اطاعت کی لیکن ابلیس نہ مانا ۔ اس واقعہ کو سورۃ البقرہ کی تفسیر میں ہم خلاصہ وار لکھ آئے ہیں ۔ اس آیت کا بھی یہی مطلب ہے اور اسی کو امام ابن جریر رحمہ اللہ نے بھی پسند فرمایا ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انسان اپنے باپ کی پیٹھ سے پیدا کیا جاتا ہے اور اپنی ماں کے پیٹ میں صورت دیا جاتا ہے اور بعض سلف نے بھی لکھا ہے کہ اس آیت میں مراد اولاد آدم علیہ السلام ہے ۔ ضحاک رحمہ اللہ کا قول ہے کہ آدم کو پیدا کیا پھر اس کی اولاد کی صورت بنائی ۔ لیکن یہ سب اقوال غور طلب ہیں کیونکہ آیت میں اس کے بعد ہی فرشتوں کے سجدے کا ذکر ہے اور ظاہر ہے کہ سجدہ آدم علیہ السلام کے لیے ہی ہوا تھا ۔ جمع کے صیغہ سے اس کا بیان اس لیے ہوا کہ آدم علیہ السلام تمام انسانوں کے باپ ہیں آیت «وَظَلَّلْنَا عَلَیْکُمُ الْغَمَامَ وَأَنزَلْنَا عَلَیْکُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَیٰ» ۱؎ (2-البقرۃ:57) اسی کی نظیر ہے ۔ یہاں خطاب ان بنی اسرائیل سے ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں موجود تھے اور دراصل ابر کا سایہ ان کے سابقوں پر ہوا تھا جو موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں تھے نہ کہ ان پر ۔ لیکن چونکہ ان کے اکابر پر سایہ کرنا ایسا احسان تھا کہ ان کو بھی اس کا شکر گزار ہونا چاہیئے تھا ۔ اس لیے انہی کو خطاب کر کے اپنی وہ نعمت یاد دلائی ، یہاں یہ بات واضح ہے ۔ اس کے بالکل برعکس آیت «وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن سُلَالَۃٍ مِّن طِینٍ ثُمَّ جَعَلْنَاہُ نُطْفَۃً فِی قَرَارٍ مَّکِینٍ» ۱؎ (23-المؤمنون:12) ہے کہ مراد آدم علیہ السلام ہیں کیونکہ صرف وہی مٹی سے بنائے گئے ۔ ان کی کل اولاد نطفے سے پیدا ہوئی اور یہی صحیح ہے کیونکہ مراد جنس انسان ہے نہ کہ معین ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» الاعراف
12 عذر گناہ بدتر از گناہ «أَلَّا تَسْجُدَ» «لَا» بقول بعض نحویوں کے زائد ہے اور بعض کے نزدیک انکار کی تاکید کے لئے ہے ۔ جیسے کہ شاعر کے قول «مَا اِنْ رَاَیْتُ وَلَا سَمِعْتُ بِمِثْلِہِ» میں «ما» نافیہ پر «اِن» نفی کے لیے صرف تاکیداً داخل ہوا ہے ۔ اسی طرح یہاں بھی ہے کہ پہلے «لَمْ یَکُنْ مِنَ السَّاجِدِینَ» ہے ۔ پھر «مَا مَنَعَکَ أَلَّا تَسْجُدَ» ہے ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ ان دونوں قولوں کو بیان کر کے انہیں رد کرتے ہیں اور فرماتے ہیں «مَنَعَکَ» ایک دوسرے فعل مقدر کا متضمن ہے تو تقدیر عبارت یوں ہوئی «مَا اَحْرَجَکَ وَ اَلْزَمَکَ وَ اضْطَرَّکَ اَلَّا تَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُکَ» یعنی تجھے کس چیز نے بےبس ، محتاج اور ملزم کر دیا کہ تو سجدہ نہ کرے ؟ وغیرہ ۔ یہ قول بہت ہی قوی ہے اور بہت عمدہ ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ ابلیس نے جو وجہ بتائی ، سچ تو یہ ہے کہ وہ عذر گناہ بدتر از گناہ کی مصداق ہے ۔ گویا وہ اطاعت سے اس لیے باز رہتا ہے کہ اس کے نزدیک فاضل کو مفضول کے سامنے سجدہ کئے جانے کا حکم ہی نہیں دیا جا سکتا ۔ تو وہ ملعون کہہ رہا ہے کہ میں اس سے بہتر ہوں پھر مجھے اس کے سامنے جھکنے کا حکم کیوں ہو رہا ہے ؟ پھر اپنے بہتر ہونے کے ثبوت میں کہتا ہے کہ میں آگ سے بنا ، یہ مٹی سے ۔ ملعون اصل عنصر کو دیکھتا ہے اور اس فضیلت کو بھول جاتا ہے کہ مٹی والے کو اللہ عز و جل نے اپنے ہاتھ سے بنایا اور اپنی روح پھونکی ہے ۔ پس اس وجہ سے کہ اس نے فرمان الٰہی کے مقابلے میں قیاس فاسد سے کام لیا اور سجدے سے رک گیا ، اللہ کی رحمتوں سے دور کر دیا گیا اور تمام نعمتوں سے محروم ہو گیا ۔ اس ملعون نے اپنے قیاس اور اپنے دعوے میں بھی خطا کی ۔ مٹی کے اوصاف ہیں : نرم ہونا ، حامل مشقت ہونا ، دوسروں کا بوجھ سہارنا ، چیزوں کو اگانا ، پرورش کرنا ، اصلاح کرنا وغیرہ اور آگ کی صفت ہے : جلدی کرنا ، جلا دینا ، بےچینی پھیلانا ، پھونک دینا ۔ اسی وجہ سے ابلیس اپنے گناہ پر اڑ گیا اور آدم علیہ السلام نے اپنے گناہ کی معذرت کی ، اس سے توبہ کی اور اللہ کی طرف رجوع کیا ۔ رب کے احکام کو تسلیم کیا ، اپنے گناہ کا اقرار کیا ، رب سے معافی چاہی ، بخشش کے طالب ہوئے ۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { فرشتے نور سے پیدا کئے گئے ہیں ، ابلیس آگ کے شعلے سے اور انسان اس چیز سے جو تمہاے سامنے بیان کر دی گئی ہے یعنی مٹی سے ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:2996) [ مسلم ] ایک اور روایت میں ہے : { فرشتے نور عرش سے ، جنات آگ سے ۔ } ایک غیر صحیح حدیث میں اتنی زیادتی بھی ہے کہ { حور عین زعفران سے بنائی گئی ہیں ۔ } ۱؎ (طبرانی کبیر:7813/8:ضعیف) امام حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ابلیس نے یہ قیاس کیا اور یہی پہلا شخص ہے جس نے قیاس کا دروازہ کھولا ۔ اس کی اسناد صحیح ہے ۔ امام ابن سیرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں : سب سے پہلے قیاس کرنے والا ابلیس ہے ۔ یاد رکھو ! سورج چاند کی پرستش اسی قیاس کی بدولت شروع ہوئی ہے ۔ اس کی اسناد بھی صحیح ہے ۔ الاعراف
13 نافرمانی کی سزا ابلیس کو اسی وقت حکم ملا کہ ” میری نافرمانی اور میری اطاعت سے رکنے کے باعث اب تو یہاں جنت میں رہ نہیں سکتا ، یہاں سے اتر جا کیونکہ یہ جگہ تکبر کرنے کی نہیں ۔ “ بعض نے کہا ہے : «فیھا» کی ضمیر کا مرجع منزلت ہے یعنی جن ملکوت اعلی میں تو ہے ، اس مرتبے میں کوئی سرکش رہ نہیں سکتا ۔ جا یہاں سے چلا جا ۔ تو اپنی سرکشی کے بدلے ذلیل و خوار ہستیوں میں شامل کر دیا گیا ۔ تیری ضد اور ہٹ دھرمی کی یہی سزا ہے ۔ اب لعین گھبرایا اور اللہ سے مہلت چاہنے لگا کہ مجھے قیامت تک کی ڈھیل دی جائے ۔ چونکہ جناب باری جل جلالہ کی اس میں مصلحتیں اور حکمتیں تھیں ، بھلے بروں کو دنیا میں ظاہر کرنا تھا اور اپنی حجت پوری کرنا تھی ۔ اس ملعون کی اس درخواست کو منظور فرما لیا ۔ اس حاکم پر کسی کی حکومت نہیں ، اس کے سامنے بولنے کی کسی کو مجال نہیں ، کوئی نہیں جو اس کے ارادے کو ٹال سکے ، کوئی نہیں جو اس کے حکم کو بدل سکے ۔ وہ سریع الحساب ہے ۔ الاعراف
14 الاعراف
15 الاعراف
16 ابلیس کا طریقہ واردات اس کی اپنی زبانی ابلیس نے جب عہد الٰہی لے لیا تو اب بڑھ بڑھ کر باتیں بنانے لگا کہ جیسے تو نے میری راہ ماری ، میں بھی اس کی اولاد کی راہ ماروں گا اور حق و نجات کے سیدھے راستے سے انہیں روکوں گا ، تیری توحید سے بہکا کر تیری عبادت سے سب کو ہٹا دوں گا ۔ بعض نحوی کہتے ہیں کہ «فَبِمَا» میں «با» قسم کے لیے ہے یعنی مجھے قسم ہے ، میں اپنی بربادی کے مقابلہ میں اس کی اولاد کو برباد کر کے رہوں گا ۔ عون بن عبداللہ کہتے ہیں : میں مکے کے راستے میں بیٹھ جاؤں گا لیکن صحیح یہی ہے کہ نیکی کے ہر راستے پر ۔ چنانچہ مسند احمد کی مرفوع حدیث میں ہے کہ { شیطان ابن آدم کی تمام راہوں میں بیٹھتا ہے ۔ وہ اسلام کی راہ میں رکاوٹ بننے کے لئے اسلام لانے والے کے دل میں وسوسے پیدا کرتا ہے کہ تو اپنے اور اپنے باپ دادا کے دین کو کیوں چھوڑتا ہے ۔ اللہ کو اگر بہتری منظور ہوتی ہے تو وہ اس کی باتوں میں نہیں آتا اور اسلام قبول کر لیتا ہے ۔ ہجرت کی راہ سے روکنے کیلئے آڑے آتا ہے اور اسے کہتا ہے کہ تو اپنے وطن کو کیوں چھوڑتا ہے ؟ اپنی زمین و آسمان سے کیوں الگ ہوتا ہے ؟ غربت و بےکسی کی زندگی اختیار کرتا ہے ؟ لیکن مسلمان اس کے بہکاوے میں نہیں آتا اور ہجرت کر گزرتا ہے ۔ پھر جہاد کی روک کے لیے آتا ہے اور جہاد مال سے ہے اور جان سے ۔ اس سے کہتا ہے کہ تو کیوں جہاد میں جاتا ہے ؟ وہاں قتل کر دیا جائے گا ، پھر تیری بیوی دوسرے کے نکاح میں چلی جائے گی ، تیرا مال اوروں کے قبضے میں چلا جائے گا لیکن مسلمان اس کی نہیں مانتا اور جہاد میں قدم رکھ دیتا ہے ۔ پس ایسے لوگوں کا اللہ پر حق ہے کہ وہ انہیں جنت میں لے جائے گو وہ جانور سے گر کر ہی مر جائیں ۔ } ۱؎ (مسند احمد:483/3:حسن) اس دوسری آیت کی تفسیر میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ آگے سے آنے کا مطلب آخرت کے معاملہ میں شک و شبہ میں پیدا کرنا ہے ۔ دوسرے جملے کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی رغبتیں دلاؤں گا ۔ دائیں طرف سے آنا ، امر دین کو مشکوک کرنا ہے ۔ بائیں طرف سے آنا ، گناہوں کو لذیذ بنانا ہے ۔ شیطانوں کا یہی کام ہے ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ شیطان کہتا ہے : میں ان کی دنیا و آخرت ، نیکیاں ، بھلائیاں سب تباہ کر دینے کی کوشش میں رہوں گا اور برائیوں کی طرف ان کی رہبری کروں گا ۔ وہ سامنے سے آ کر کہتا ہے کہ جنت ، دوزخ ، قیامت کوئی چیز نہیں ۔ وہ پشت کی جانب سے آ کر کہتا ہے : دیکھ دنیا کس قدر زینت دار ہے ۔ وہ دائیں سے آ کر کہتا ہے : خبردار نیکی کی راہ بہت کٹھن ہے ۔ وہ بائیں سے آ کر کہتا ہے : دیکھ گناہ کس قدر لذیذ ہیں ۔ پس ہر طرف سے آ کر ہر طرح بہکاتا ہے ۔ ہاں ! یہ اللہ کا کرم ہے کہ وہ اوپر کی طرف سے نہیں آ سکتا ۔ اللہ کے اور بندے کے درمیان حائل ہو کر رحمت الٰہی کو روک نہیں بن سکتا ۔ پس سامنے یعنی دنیا اور پیچھے یعنی آخرت اور دائیں یعنی اس طرح کی دیکھیں اور بائیں یعنی اس طرح نہ دیکھ سکیں ، یہ سبب اقوال ٹھیک ہیں ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : مطلب یہ ہے کہ تمام خیر کے کاموں سے روکتا ہے اور شر کے تمام کام سمجھا جاتا ہے ، اوپر کی سمت کا نام آیت میں نہیں ۔ وہ سمت رحمت رب کے آنے کیلئے خالی ہے ، وہاں شیطان کی روک نہیں ۔ وہ کہتا ہے کہ اکثروں کو تو شاکر نہیں پائے گا یعنی موحد ۔ ابلیس کو یہ وہم ہی وہم تھا لیکن نکلا مطابق واقعہ ۔ جیسے فرمان ہے آیت «وَلَقَدْ صَدَّقَ عَلَیْہِمْ إِبْلِیسُ ظَنَّہُ فَاتَّبَعُوہُ إِلاَّ فَرِیقاً مِّنَ الْمُؤْمِنِینَ ـ وَمَا کَانَ لَہُ عَلَیْہِمْ مِّن سُلْطَـنٍ إِلاَّ لِنَعْلَمَ مَن یُؤْمِنُ بِالاٌّخِرَۃِ مِمَّنْ ہُوَ مِنْہَا فِی شَکٍّ وَرَبٰکَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ حَفُیظٌ» ۱؎ (34-سبأ:20-21) یعنی ’ ابلیس نے اپنا گمان پورا کر دکھایا ۔ سوائے مومنوں کی پاکباز جماعت کے اور لوگ اس کے مطیع بن گئے حالانکہ شیطان کی کچھ حکومت تو ان پر نہ تھی مگر ہاں ! ہم صحیح طور سے ایمان رکھنے والوں کو اور شکی لوگوں کو الگ الگ کر دینا چاہتے تھے ۔ تیرا رب ہر چیز کا حافظ ہے ۔ ‘ مسند بزار کی ایک حدیث میں ہر طرف سے پناہ مانگنے کی ایک دعا آئی ہے ۔ الفاظ یہ ہیں « اللہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ الْعَافِیَۃَ فِی الدٰنْیَا وَالْآخِرَۃِ ، اللہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ فِی دِینِی وَدُنْیَایَ وَأَہْلِی وَمَالِی ، اللہُمَّ اسْتُرْ عَوْرَاتِی وَآمِنْ رَوْعَاتِی ، اللہُمَّ احْفَظْنِی مِنْ بَیْنِ یَدَیَّ وَمِنْ خَلْفِی وَعَنْ یَمِینِی وَعَنْ شِمَالِی وَمِنْ فَوْقِی وَأَعُوذُ بِعَظَمتِکَ أَنْ أُغْتَالَ مِنْ تَحْتِی» ۱؎ (طبرانی فی الدعا:1297:ضعیف) مسند احمد میں { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر صبح و شام اس دعا کو پڑھتے تھے : « اللہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ الْعَافِیَۃَ فِی الدٰنْیَا وَالْآخِرَۃِ» } اس کے بعد کی دعا کے کچھ فرق سے تقریباً وہی الفاظ ہیں جو اوپر مذکور ہوئے ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:5074 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) الاعراف
17 الاعراف
18 اللہ تعالیٰ کے نافرمان جہنم کا ایندھن ہیں اس پر اللہ کی لعنت نازل ہوتی ہے ، رحمت سے دور کر دیا جاتا ہے ۔ فرشتوں کی جماعت سے الگ کر دیا جاتا ہے ۔ عیب دار کر کے اتار دیا جاتا ہے ۔ لفظ «مَذْءُومًا» ماخوذ ہے ، «ذام» اور «ذیم» سے ۔ یہ لفظ بہ نسبت لفظ «ذم» کے زیادہ مبالغے والا ہے ، پس اس کے معنی عیب دار کے ہوئے اور «مَّدْحُورً» کے معنی دور کئے ہوئے کے ہیں ۔ مقصد دونوں سے ایک ہی ہے ۔ پس یہ ذلیل ہو کر اللہ کے غضب میں مبتلا ہو کر نیچے اتار دیا گیا ۔ اللہ کی لعنت اس پر نازل ہوئی اور نکال دیا گیا ۔ اور فرمایا گیا کہ تو اور تیرے ماننے والے سب کے سب جہنم کا ایندھن ہیں ۔ جیسے اور آیت میں ہے «قَالَ اذْہَبْ فَمَن تَبِعَکَ مِنْہُمْ فَإِنَّ جَہَنَّمَ جَزَآؤُکُمْ جَزَاءً مَّوفُورًا ـ وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْہُمْ بِصَوْتِکَ وَأَجْلِبْ عَلَیْہِم بِخَیْلِکَ وَرَجِلِکَ وَشَارِکْہُمْ فِی الاٌّمْوَلِ وَالاٌّوْلَـدِ وَعِدْہُمْ وَمَا یَعِدُہُمُ الشَّیْطَـنُ إِلاَّ غُرُورًا ـ إِنَّ عِبَادِی لَیْسَ لَکَ عَلَیْہِمْ سُلْطَـنٌ وَکَفَی بِرَبِّکَ وَکِیلاً» ۱؎ (17-الإسراء:63-65) ’ تمہاری سب کی سزا جہنم ہے تو جس طرح چاہ انہیں بہکا لیکن اس سے مایوس ہو جا کہ میرے خاص بندے تیرے وسوسوں میں آ جائیں ان کا وکیل میں آپ ہوں ۔ ‘ الاعراف
19 پہلا امتحان اور اسی میں لغزش اور اس کا انجام ابلیس کو نکال کر آدم و حواء علیہم السلام کو جنت میں پہنچا دیا گیا اور بجز ایک درخت کے ، انہیں ساری جنت کی چیزیں کھانے کی رخصت دے دی گئی ۔ اس کا تفصیلی بیان سورۃ البقرہ کی تفسیر میں گزر چکا ہے ۔ شیطان کو اس سے بڑا ہی حسد ہوا ، ان کی نعمتوں کو دیکھ کر لعین جل گیا اور ٹھان لی کہ جس طرح سے ہو ، انہیں بہکا کر اللہ کے خلاف کرا دوں ۔ چنانچہ جھوٹ ، افتراء باندھ کر ان سے کہنے لگا کہ دیکھو یہ درخت وہ ہے جس کے کھانے سے تم فرشتے بن جاؤ گے اور ہمیشہ کی زندگی اسی جنت میں پاؤ گے ۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ ابلیس نے کہا : میں تمہیں ایک درخت کا پتہ دیتا ہوں جس سے تمہیں بقاء اور ہمیشگی والا ملک مل جائے گا ۔ یہاں ہے کہ ان سے کہا : تمہیں اس درخت سے اس لیے روکا گیا ہے کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ ۔ جیسے فرمان ہے «یُبَیِّنُ اللہُ لَکُمْ أَن تَضِلٰواْ» ۱؎ (4-النساء:176) مطلب یہ ہے کہ «أَن لَّا تَضِلٰواْ» اور آیت میں ہے «وَأَلْقَی فِی الاٌّرْضِ رَوَاسِیَ أَن تَمِیدَ بِکُمْ» ۱؎ (16-النحل:15) «أَن تَمِیدَ بِکُمْ» یہاں بھی یہی مطلب ہے ۔ «مَلَکَیْنِ» کی دوسری قرأت «مَلِکَیْنِ» بھی ہے لیکن جمہور کی قرأت «لام» کے زبر کے ساتھ ہے ۔ پھر اپنا اعتبار جمانے کیلئے قسمیں کھانے لگا کہ دیکھو میری بات کو سچ مانو ، میں تمہارا خیرخواہ ہوں ۔ تم سے پہلے سے ہی یہاں رہتا ہوں ، ہر ایک چیز کے خواص سے واقف ہوں ۔ تم اسے کھا لو ، بس پھر یہیں رہو گے بلکہ فرشتے بن جاؤ گے ۔ «قَاسَمَ» گو باب «مفاعلہ» سے ہے اور اس کی خاصیت طرفین کی مشارکت ہے لیکن یہاں یہ خاصیت نہیں ہے ۔ ایسے اشعار بھی ہیں جہاں «قَاسَمَ» آیا ہے اور صرف ایک طرف کے لیے ۔ اس قسم کی وجہ سے اس خبیث کے بہکاوے میں آدم علیہ السلام آ گئے ۔ سچ ہے ! مومن اس وقت دھوکا کھا جاتا ہے جب کوئی ناپاک انسان اللہ کو بیچ میں دیتا ہے ۔ چنانچہ سلف کا قول ہے کہ ہم اللہ کے نام کے بعد اپنے ہتھیار ڈال دیا کرتے ہیں ۔ الاعراف
20 الاعراف
21 الاعراف
22 لغزش کے بعد کیا ہوا ؟ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ” آدم علیہ السلام کا قد مثل درخت کھجور کے ، بہت لمبا تھا اور سر پر بہت لمبے لمبے بال تھے ، درخت کھانے سے پہلے انہیں اپنی شرمگاہ کا علم بھی نہ تھا ، نظر ہی نہ پڑی تھی ۔ لیکن اس خطا کے ہوتے ہی وہ ظاہر ہو گئی ۔ بھاگنے لگے تو بال ایک درخت میں الجھ گئے ، کہنے لگے : اے درخت ! مجھے چھوڑ دے ۔ درخت سے جواب ملا کہ ناممکن ہے ۔ اسی وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے آواز آئی کہ اے آدم ! مجھ سے بھاگ رہا ہے ؟ کہنے لگے : یا اللہ ! شرمندگی ہے ، شرمسار ہوں ۔ “ گو یہ روایت مرفوع بھی مروی ہے لیکن زیادہ صحیح موقوف ہونا ہی ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ” درخت کا پھل کھا لیا اور چھپانے کی چیز ظاہر ہو گئی ، جنت کے پتوں سے چھپانے لگے ، ایک کو ایک پر چپکا نے لگے ، آدم علیہ السلام مارے غیرت کے ادھر ادھر بھاگنے لگے لیکن ایک درخت کے ساتھ الجھ کر رہ گئے ۔ اللہ تعالیٰ نے ندا دی کہ آدم ! مجھ سے بھاگتا ہے ؟ آپ نے فرمایا : نہیں ، یااللہ ! مگر شرماتا ہوں ۔ جناب باری نے فرمایا : آدم جو کچھ میں نے تجھے دے رکھا تھا ، کیا وہ تجھے کافی نہ تھا ؟ آپ نے جواب دیا : بیشک کافی تھا لیکن یااللہ مجھے یہ علم نہ تھا کہ کوئی تیرا نام لے کر ، تیری قسم کھا کر جھوٹ کہے گا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اب تو میری نافرمانی کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا اور تکلیفیں اٹھانا ہوں گی ۔ چنانچہ جنت سے دونوں کو اتار دیا گیا ، اب اس کشادگی کے بعد کی یہ تنگی ان پر بہت گراں گزری ، کھانے پینے کو ترس گئے -پھر انہیں لوہے کی صنعت سکھائی گئی ، کھیتی کا کام بتایا گیا ، آپ نے زمین صاف کی ، دانے بوئے ، وہ آگے بڑھے ، بالیں نکلیں ، دانے پکے ، پھر توڑے گئے ، پھر پیسے گئے ، آٹا گندھا ، پھر روٹی تیار ہوئی ، پھر کھائی -جب جا کر بھوک کی تکلیف سے نجات پائی ۔ تین کے پتوں سے اپنا آگا پیچھا چھپاتے پھرتے تھے جو مثل کپڑے کے تھے ، وہ نورانی پردے جن سے ایک دوسرے سے یہ اعضاء چھپے ہوئے تھے ، نافرمانی ہوتے ہی ہٹ گئے اور وہ نظر آنے لگے ۔ آدم علیہ السلام اسی وقت اللہ کی طرف رغبت کرنے لگے ، توبہ استغفار کی طرف جھک پڑے ، بخلاف ابلیس کے کہ اس نے سزا کا نام سنتے ہی اپنے ابلیسی ہتھیار یعنی ہمیشہ کی زندگی وغیرہ طلب کی ۔ اللہ نے دونوں کی دعا سنی اور دونوں کی طلب کردہ چیزیں عنایت فرمائی ۔ “ مروی ہے کہ آدم علیہ السلام نے جب درخت کھا لیا ، اسی وقت اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اس درخت سے میں نے تمہیں روک دیا تھا ، پھر تم نے اسے کیوں کھایا ؟ کہنے لگے : حواء نے مجھے اس کی رغبت دلائی ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ان کی سزا یہ ہے کہ حمل کی حالت میں بھی تکلیف میں رہیں گی ، بچہ ہونے کے وقت بھی تکلیف اٹھائیں گی ۔ یہ سنتے ہی حواء نے نوحہ شروع کیا ، حکم ہوا کہ یہی تجھ پر اور تیری اولاد پر لکھ دیا گیا ۔ آدم علیہ السلام نے جناب باری میں عرض کی اور اللہ نے انہیں دعا سکھائی ۔ انہوں نے دعا کی ، جو قبول ہوئی ، قصور معاف فرما دیا گیا ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» ! الاعراف
23 الاعراف
24 سفر ارضی کے بارے میں یہودی روایات بعض کہتے ہیں یہ خطاب آدم ، حواء ، شیطان ملعون اور سانپ کو ہے -بعض سانپ کا ذکر نہیں کرتے -یہ ظاہر ہے کہ اصل مقصد آدم علیہ السلام ہیں اور شیطان ملعون ۔ جیسے سورۃ طہٰ میں ہے آیت «اہْبِطَا مِنْہَا جَمِیعاً» ۱؎ (20-طہ:123) حواء آدم علیہ السلام کے تابع تھیں اور سانپ کا ذکر اگر صحت تک پہنچ جائے تو وہ ابلیس کے حکم میں آ گیا ۔ مفسرین نے بہت سے اقوال ذکر کئے ہیں کہ آدم کہاں اترے ؟ شیطان کہاں پھینکا گیا وغیرہ ۔ لیکن دراصل ان کا مخرج بنی اسرائیل کی روایتیں ہیں اور ان کی صحت کا علم اللہ ہی کو ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اس جگہ کے جان لینے سے کوئی فائدہ نہیں ۔ اگر ہوتا تو ان کا بیان قرآن یا حدیث میں ضرور ہوتا ۔ کہہ دیا گیا کہ اب تمہارے قرار کی جگہ زمین ہے ، وہیں تم اپنی مقررہ زندگی کے دن پورے کرو گے ۔ جیسے کہ ہماری پہلی کتاب لوح محفوظ میں اول سے ہی لکھا ہوا موجود ہے ۔ اسی زمین پر جیو گے اور مرنے کے بعد بھی اسی میں دبائے جاؤ گے اور پھر حشر و نشر بھی اسی میں ہو گا ۔ جیسے فرمان ہے «مِنْہَا خَلَقْنَـکُمْ وَفِیہَا نُعِیدُکُمْ وَمِنْہَا نُخْرِجُکُمْ تَارَۃً أُخْرَی» ۱؎ (20-طہ:55) پس اولاد آدم کے جینے کی جگہ بھی یہی اور مرنے کی جگہ بھی یہی ، قبریں بھی اسی میں اور قیامت کے دن اٹھیں گے بھی اسی سے ، پھر بدلہ دیئے جائیں گے ۔ الاعراف
25 الاعراف
26 لباس اور داڑھی جمال و جلال یہاں اللہ تعالیٰ اپنا احسان یاد دلاتا ہے کہ اس نے لباس اتارا اور ریش بھی ۔ لباس تو وہ ہے جس سے انسان اپنا ستر چھپائے اور ریش وہ ہے جو بطور زینت ، رونق اور جمال کے پہنا جائے ۔ اول تو ضروریات زندگی سے ہے اور ثانی زیادتی ہے ۔ ریش کے معنی مال کے بھی ہیں اور ظاہری پوشاک کے بھی ہیں اور جمال ، خوش لباسی کے بھی ہیں ۔ سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ نے نیا کرتہ پہنتے ہوئے جبکہ گلے تک وہ پہن لیا فرمایا «اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ کَسَانِیْ مَا اُوَارِیْ بِہٖ عَوْرَتِیْ وَ اَتَجَمَّلُ بِہٖ فِیْ حَیَاتِیْ» پھر فرمانے لگے : میں نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے سنا ہے ، فرماتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : { جو شخص نیا کپڑا پہنے اور اس کے گلے تک پہنچتے ہی یہ دعا پڑھے ، پھر پرانا کپڑا راہ للہ دے دے تو وہ اللہ کے ذمہ میں ، اللہ کی پناہ میں اور اللہ کی حفاظت میں آ جاتا ہے ۔ زندگی میں بھی اور بعد از مرگ بھی ۔ } ۱؎ (سنن ابن ماجہ:3557 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) [ ترمذی ، ابن ماجہ وغیرہ ] مسند احمد میں ہے : { سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ایک نوجوان سے ایک کرتہ تین درہم کا خریدا اور اسے پہنا -جب پہنچوں اور ٹخنوں تک پہنچا تو آپ نے یہ دعا پڑھی «الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی رَزَقَنِی مِنَ الرِّیَاشِ مَا أَتَجَمَّلُ بِہِ فِی النَّاسِ وَأُوَارِی بِہِ عَوْرَتِی» یہ دعا سن کر آپ سے کسی نے پوچھا کہ کیا آپ نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ اسے کپڑا پہننے کے وقت پڑھتے تھے یا آپ از خود اسے پڑھ رہے ہیں ؟ فرمایا : میں نے اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ۔ } ۱؎ (مسند احمد:158/1:ضعیف) «لِبَاسُ التَّقْوَیٰ» کی دوسری قرأت «لِبَاسَ التَّقْوَیٰ» سین کے زبر سے بھی ہے -رفع سے پڑھنے والے اسے مبتدا کہتے ہیں اور اس کے بعد کا جملہ اس کی خبر ہے -عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ” اس سے مراد قیامت کے دن پرہیزگاروں کو جو لباس عطا ہو گا ، وہ ہے ۔ “ ابن جریج کا قول ہے : ” لباس تقویٰ ایمان ہے ۔ “ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ” عمل صالح ہے اور اسی سے ہنس مکھ ہوتا ہے ۔ “ عروہ رحمہ اللہ کہتے ہیں : ” مراد اس سے مشیت ربانی ہے ۔ “ عبدالرحمٰن کہتے رحمہ اللہ کہتے ہیں : ” اللہ کے ڈر سے اپنی ستر پوشی کرنا لباس تقویٰ ہے ۔ “ یہ کل اقوال آپس میں ایک دوسرے کے خلاف نہیں بلکہ مراد یہ سب کچھ ہے اور یہ سب چیزیں ملی جلی اور آپس میں ایک دوسرے کے قریب قریب ہیں ۔ ایک ضعیف سند والی روایت میں حسن سے مرقوم ہے کہ { میں نے سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو منبر نبوی پر کھلی گھنڈیوں کا کرتا پہنے ہوئے کھڑا دیکھا ۔ اس وقت آپ کتوں کے مار ڈالنے اور کبوتر بازی کی ممانعت کا حکم دے رہے تھے ۔ پھر آپ نے فرمایا : لوگو اللہ سے ڈرو ! خصوصاً اپنی پوشیدگیوں میں اور چپکے چپکے کانا پھوسی کرنے میں ۔ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ، آپ قسم کھا کر بیان فرماتے تھے کہ جو شخص جس کام کو پوشیدہ سے پوشیدہ کرے گا ، اللہ تعالیٰ اسی کی چادر اس پر اعلانیہ ڈال دے گا ۔ اگر نیک ہے تو نیک اور اگر بد ہے تو بد ۔ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:14451:ضعیف) اور فرمایا اس سے مراد خوش خلقی ہے ۔ } ہاں صحیح حدیث میں صرف اتنا مروی ہے کہ { سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے جمعہ کے دن منبر پر کتوں کے قتل کرنے اور کبوتروں کے ذبح کرنے کا حکم دیا ۔ } ۱؎ (مسند احمد:72/1:ضعیف) الاعراف
27 ابلیس سے بچنے کی تاکید تمام انسانوں کو اللہ تبارک و تعالیٰ ہوشیار کر رہا ہے کہ دیکھو ابلیس کی مکاریوں سے بچتے رہنا ، وہ تمہارا بڑا ہی دشمن ہے ۔ دیکھو ! اسی نے تمہارے باپ آدم علیہ السلام کو دار سرور سے نکالا اور اس مصیبت کے قید خانے میں ڈالا ، ان کی پردہ دری کی ۔ پس تمہیں اس کے ہتھکنڈوں سے بچنا چاہیئے ۔ جیسے فرمان ہے «اَفَتَتَّخِذُوْنَہٗ وَذُرِّیَّتَہٗٓ اَوْلِیَاءَ مِنْ دُوْنِیْ وَہُمْ لَکُمْ عَدُوٌّ بِئْسَ للظّٰلِمِیْنَ بَدَلً» ۱؎ یعنی (18-الکہف:50) ’ کیا تم ابلیس اور اس کی قوم کو اپنا دوست بناتے ہو ؟ مجھے چھوڑ کر ؟ حالانکہ وہ تو تمہارا دشمن ہے ۔ ظالموں کا بہت ہی برا بدلہ ہے ۔ ‘ الاعراف
28 جہالت اور طواف کعبہ مشرکین ننگے ہو کر بیت اللہ کا طواف کرتے تھے اور کہتے تھے کہ جیسے ہم پیدا ہوئے ہیں اسی حالت میں طواف کریں گے ۔ عورتیں بھی آگے کوئی چمڑے کا ٹکڑا یا کوئی چیز رکھ لیتی تھیں اور کہتی تھیں ۔ «اَلْیَوْمَ یَبْدَوُ بَعْضُہُ اَوْ کُلٰہُ» «وَمَا بَدَاَ مِنْہُ فَلَا اُحِلٰہُ» آج اس کا تھوڑا سا حصہ یا کل حصہ ظاہر ہو جائے گا ۔ اور جتنا بھی ظاہر ہو ، میں اسے اس کے لیے جائز نہیں رکھتی ۔ اس پر آیت «وَإِذَا فَعَلُوا فَاحِشَۃً قَالُوا وَجَدْنَا عَلَیْہَا آبَاءَنَا وَ اللہُ أَمَرَنَا بِہَا» الخ ، نازل ہوئی ہے ۔ یہ دستور تھا کہ قریش کے سوا تمام عرب بیت اللہ شریف کا طواف اپنے پہنے ہوئے کپڑوں میں نہیں کرتے تھے ۔ سمجھتے تھے کہ یہ کپڑے جنہیں پہن کر اللہ کی نافرمانیاں کی ہیں ، اس قابل نہیں رہے کہ انہیں پہنے ہوئے طواف کر سکیں ۔ ہاں قریش جو اپنے آپ کو حمس کہتے تھے ، اپنے کپڑوں میں ہی طواف کرتے تھے اور جن لوگوں کو قریش کپڑے بطور ادھار دیں ، وہ بھی ان کے دیئے ہوئے کپڑے پہن کر طواف کر سکتا تھا یا وہ شخص کپڑے پہنے طواف کر سکتا تھا جس کے پاس نئے کپڑے ہوں ۔ پھر طواف کے بعد ہی انہیں اتار ڈالتا تھا ، اب یہ کسی کی ملکیت نہیں ہو سکتے تھے ۔ پس جس کے پاس نیا کپڑا نہ ہو اور حمس بھی اس کو اپنا کپڑا نہ دے تو اسے ضروری تھا کہ وہ ننگا ہو کر طواف کرے ۔ خواہ عورت ہو خواہ مرد ۔ عورت اپنے آگے کے عضو پر ذرا سی کوئی چیز رکھ لیتی اور وہ کہتی جس کا بیان اوپر گزرا لیکن عموماً عورتیں رات کے وقت طواف کرتی تھیں ۔ یہ بدعت انہوں نے از خود گھڑ لی تھی ۔ اس فعل کی دلیل سوائے باپ دادا کی تقلید کے اور ان کے پاس کچھ نہ تھی لیکن اپنی خوش فہمی اور نیک ظنی سے کہہ دیتے تھے کہ اللہ کا بھی یہی حکم ہے ۔ کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اگر یہ فرمودہ رب نہ ہوتا تو ہمارے بزرگ اس طرح نہ کرتے ۔ اس لیے حکم ہوتا ہے کہ اے نبی ! آپ ان سے کہہ دیجئیے کہ اللہ تعالیٰ بےحیائی کے کاموں کا حکم نہیں کرتا ۔ ایک تو برا کام کرتے ہو ۔ دوسرے جھوٹ موٹ اس کی نسبت اللہ کی طرف کرتے ہو ۔ یہ چوری اور سینہ زوری ہے ۔ الاعراف
29 1 کہہ دے کہ رب العالمین کا حکم تو عدل و انصاف کا ہے ، استقامت اور دیانت داری کا ہے ، برائیوں اور گندے کاموں کو چھوڑنے کا ہے ، عبادات ٹھیک طور پر بجا لانے کا ہے ۔ جو اللہ کے سچے رسولوں کے طریقہ کے مطابق ہوں ، جن کی سچائی ان کے زبردست معجزوں سے اللہ نے ثابت کر دی ہے ، ان کی لائی ہوئی شریعت پر اخلاص کے ساتھ عمل کرتے ہوں ۔ جب تک اخلاص اور پیغمبر کی تابعداری کسی کام میں نہ ہو ، اللہ کے ہاں وہ مقبول نہیں ہوتا ۔ اس نے جس طرح تمہیں اول اول پیدا کیا ہے ، اسی طرح وہ دوبارہ بھی لوٹائے گا ۔ دنیا میں بھی اسی نے پیدا کیا ، آخرت میں بھی وہی قبروں سے دوبارہ پیدا کرے گا ۔ پہلے تم کچھ نہیں تھے ، اس نے تمہیں بنایا ۔ اب مرنے کے بعد پھر بھی وہ تمہیں زندہ کر دے گا ۔ جیسے اس نے شروع میں تمہاری ابتداء کی تھی ، اسی طرح پھر سے تمہارا اعادہ کرے گا ۔ چنانچہ حدیث میں بھی ہے : { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک وعظ میں فرمایا : لوگو ! تم اللہ کے سامنے ننگے پیروں ، ننگے بدنوں ، بےختنہ جمع کئے جاؤ گے ۔ جیسے کہ ہم نے تمہیں پیدائش میں کیا تھا اسی کو پھر دوہرائیں گے ۔ یہ ہمارا وعدہ ہے اور ہم اسے کر کے ہی رہنے والے ہیں ۔ } یہ روایت بخاری و مسلم میں بھی نکالی گئی ہے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4625) یہ معنی بھی کئے گئے ہیں کہ جیسے ہم نے لکھ دیا ہے ، ویسے ہی تم ہوؤ گے ۔ ایک روایت میں ہے : جیسے تمہارے اعمال تھے ویسے ہی تم ہوؤ گے ۔ یہ بھی معنی ہیں کہ جس کی ابتداء میں بدبختی لکھ دی ہے ، وہ بدبختی اور بداعمالی کی طرف ہی لوٹے گا ، گو درمیان میں نیک ہو گیا ہو ۔ اور جس کی تقدیر میں شروع سے ہی نیکی اور سعادت لکھ دی گئی ہے ، وہ انجام کار نیک ہی ہو گا ، گو اس سے کسی وقت برائی کے اعمال بھی سرزد ہو جائیں گے ۔ جیسے کہ فرعون کے زمانے کے جادوگر کہ ساری عمر سیاہ کاریوں اور کفر میں کٹی لیکن آخر وقت مسلمان اولیاء ہو کر مرے ۔ یہ بھی معنی ہیں کہ اللہ تم میں سے ہر ایک کو ہدایت پر یا گمراہی پر پیدا کر چکا ہے ، ایسے ہی ہو کر تم ماں کے بطن سے نکلو گے ۔ یہ بھی مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابن آدم کی پیدائش مومن و کافر ہونے کی حالت میں کی ۔ جیسے فرمان ہے «ہُوَ الَّذِی خَلَقَکُمْ فَمِنکُمْ کَافِرٌ وَمِنکُم مٰؤْمِنٌ» ۱؎ (64-التغابن:2) پھر انہیں اسی طرح قیامت کے دن لوٹائے گا یعنی مومن و کافر کے گروہوں میں ۔ اسی قول کی تائید صحیح بخاری کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : { اس کی قسم جس کے سوا کوئی اور معبود نہیں کہ تم میں سے ایک شخص جنتیوں کے اعمال کرتا ہے ۔ یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے درمیان صرف ایک بام بھر کا یا ہاتھ بھر کا فرق رہ جاتا ہے ۔ پھر اس پر لکھا ہوا سبقت کر جاتا ہے اور دوزخیوں کے اعمال شروع کر دیتا ہے اور اسی میں داخل ہو جاتا ہے اور کوئی جہنمیوں کے اعمال کرنے لگتا ہے یہاں تک کہ جہنم سے ایک ہاتھ یا ایک بام دور رہ جاتا ہے کہ تقدیر کا لکھا آگے آ جاتا ہے اور وہ جنتیوں کے اعمال کرنے لگتا ہے اور جنت نشین ہو جاتا ہے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:6594) دوسری روایت بھی اسی طرح کی ہے ۔ اس میں یہ بھی ہے کہ { اس کے وہ کام لوگوں کی نظروں میں جہنم اور جنت کے ہوتے ہیں ۔ اعمال کا دارومدار خاتمے پر ہے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:6493) اور حدیث میں ہے : { ہر نفس اسی پر اٹھایا جائے گا جس پر تھا ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:2878) [ مسلم ] ایک اور روایت میں ہے : { جس پر مرا ۔ } ۱؎ اگر اس آیت سے مراد یہی لی جائے تو اس میں اس کے بعد فرمان «فَأَقِمْ وَجْہَکَ لِلدِّینِ حَنِیفًا فِطْرَتَ اللہِ الَّتِی فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْہَا» ۱؎ (30-الروم:30) میں اور بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ { ہر بچہ فطرت پر پیدا کیا جاتا ہے ۔ پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا لیتے ہیں ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:4775) اور صحیح مسلم کی حدیث میں { فرمان باری ہے کہ میں نے اپنے بندوں کو موحد و حنیف پیدا کیا ۔ پھر شیطان نے ان کے دین سے انہیں بہکا دیا ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:2865) اس میں کوئی جمع کی وجہ ہونی چاہیئے اور وہ یہ ہے کہ اللہ نے انہیں دوسرے حال میں مومن و کافر ہونے کے لئے پیدا کیا ۔ گو پہلے حال میں تمام مخلوق کو اپنی معرفت و توحید پر پیدا کیا تھا کہ اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ۔ جیسے کہ اس نے ان سے روز میثاق میں عہد بھی لیا تھا اور اسی وعدے کو ان کی جبلت گھٹی میں رکھ دیا تھا ۔ اس کے باوجود اس نے مقدر کیا تھا کہ ان میں سے بعض شقی اور بدبخت ہوں گے اور بعض سعید اور نیک بخت ہوں گے ۔ جیسے فرمان ہے : اسی نے تمہیں پیدا کیا پھر تم میں سے بعض کافر ہیں اور بعض مومن ۔ اور حدیث میں ہے : { ہر شخص صبح کرتا ہے ، پھر اپنے نفس کی خرید و فروخت کرتا ہے ۔ کچھ لوگ ایسے ہیں جو اسے آزاد کرا لیتے ہیں ۔ کچھ ایسے ہیں جو اسے ہلاک کر بیٹھتے ہیں ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:223) اللہ کی تقدیر ، اللہ کی مخلوق میں جاری ہے ، اسی نے مقدر کیا ، اسی نے ہدایت کی ، اسی نے ہر ایک کو اس کی پیدائش دی ، پھر رہنمائی کی ۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ { جو لوگ سعادت والوں میں سے ہیں ، ان پر نیکوں کے کام آسان ہوں گے اور جو شقاوت والے ہیں ، ان پر بدیاں آسان ہوں گی ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:1362) چنانچہ قرآن کریم میں ہے : ایک فرقے نے راہ پائی اور ایک فرقے پر گمراہی ثابت ہو چکی ۔ پھر اس کی وجہ بیان فرمائی کہ انہوں نے اللہ کو چھوڑ کر شیطانوں کو دوست بنا لیا ہے ۔ اس آیت سے اس مذہب کی تردید ہوتی ہے جو یہ خیال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی شخص کو کسی معصیت کے عمل پر یا کسی گمراہی کے عقیدے پر عذاب نہیں کرتا تاوقتیکہ اس کے پاس صحیح چیز صاف آ جائے اور پھر وہ اپنی برائی پر ضد اور عناد سے جما رہے ۔ کیونکہ اگر یہ مذہب صحیح ہوتا تو جو لوگ گمراہ ہیں لیکن اپنے آپ کو ہدایت پر سمجھتے ہیں اور جو واقعی ہدایت پر ہیں ، ان میں کوئی فرق نہ ہونا چاہیئے تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان دونوں میں فرق کیا ۔ ان کے نام میں بھی اور ان کے احکام میں بھی ۔ آیت آپ کے سامنے موجود ہے ، پڑھ لیجئے ۔ الاعراف
30 الاعراف
31 برہنہ ہو کر طواف ممنوع قرار دے دیا گیا اس آیت میں مشرکین کا رد ہے ۔ وہ ننگے ہو کر بیت اللہ کا طواف کرتے تھے جیسے کہ پہلے گزرا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ { ننگے مرد دن کو طواف کرتے اور ننگی عورتیں رات کو ، اس وقت عورتیں کہا کرتی تھیں کہ آج اس کے خاص جسم کا کل حصہ یا کچھ حصہ گو ظاہر ہو لیکن کسی کو وہ اس کا دیکھنا جائز نہیں کرتیں ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:3028) پس اس کے برخلاف مسلمانوں کو حکم ہوتا ہے کہ اپنا لباس پہن کر مسجدوں میں جائیں ، اللہ تعالیٰ زینت کے لینے کا حکم دیتا ہے اور زینت سے مراد لباس ہے اور لباس وہ ہے جو اعضاء مخصوصہ کو چھپا لے اور جو اس کے سوا ہو مثلاً اچھا کپڑا وغیرہ ۔ ایک حدیث میں ہے کہ { یہ آیت جوتیوں سمیت نماز پڑھنے کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ } ۱؎ (الدر المنشور للسیوطی:146/3:ضعیف) لیکن ہے یہ غور طلب اور اس کی صحت میں بھی کلام ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ یہ آیت اور جو کچھ اس کے معنی میں سنت میں وارد ہے ، اس سے نماز کے وقت زینت کرنا مستحب ثابت ہوتا ہے ۔ خصوصاً جمعہ اور عید کے دن ، اور خوشبو لگانا بھی مسنون طریقہ ہے ۔ اس لیے کہ وہ زینت میں سے ہی ہے اور مسواک کرنا بھی ۔ کیونکہ وہ بھی زینت کو پورا کرنے میں داخل ہے ۔ یہ بھی یاد رہے کہ سب سے افضل لباس سفید کپڑا ہے ۔ جیسے کہ مسند احمد کی صحیح حدیث میں ہے : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : { سفید کپڑے پہنو ، وہ تمہارے تمام کپڑوں سے افضل ہیں اور اسی میں اپنے مردوں کو کفن دو ۔ سب سرموں میں بہتر سرمہ اثمد ہے ، وہ نگاہ کو تیز کرتا ہے اور بالوں کو اگاتا ہے ۔ } ۱؎ (سنن ترمذی:994،قال الشیخ الألبانی:صحیح) سنن کی ایک اور حدیث میں ہے : { سفید کپڑوں کو ضروری جانو اور انہیں پہنو ، وہ بہت اچھے اور بہت پاک صاف ہیں ، انہی میں اپنے مردوں کو کفن دو ۔ } ۱؎ (سنن ترمذی:2810،قال الشیخ الألبانی:صحیح) طبرانی میں مروی ہے کہ سیدنا تمیم داری رضی اللہ عنہ نے ایک چادر ایک ہزار کو خریدی تھی , نمازوں کے وقت اسے پہن لیا کرتے تھے ۔ اس کے بعد آدھی آیت میں اللہ تعالیٰ نے تمام طب کو اور حکمت کو جمع کر دیا . ارشاد ہے : کھاؤ پیو لیکن حد سے تجاوز نہ کرو ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے : ” جو چاہے کھا ، جو چاہے پی لیکن دو باتوں سے بچو ، اسراف اور تکبر سے ۔ “ ایک مرفوع حدیث میں ہے : { کھاؤ پیو ، پہنو اوڑھو لیکن صدقہ بھی کرتے رہو اور تکبر اور اسراف سے بچتے رہو ۔ اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے کہ اپنی نعمت کا اثر اپنے بندے کے جسم پر دیکھے ۔ } ۱؎ (مسند احمد:181/2:حسن) آپ فرماتے ہیں : { کھاؤ اور پہنو اور صدقہ کرو اور اسراف سے اور خود نمائی سے رکو ۔ } ۱؎ (سنن نسائی:2560 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) فرماتے ہیں : { انسان اپنے پیٹ سے زیادہ برا کوئی برتن نہیں بھرتا ۔ انسان کو چند لقمے جس سے اس کی پیٹھ سیدھی رہے ، کافی ہیں ۔ اگر یہ بس میں نہ ہو تو زیادہ سے زیادہ اپنے پیٹ کے تین حصے کر لے ۔ ایک کھانے کے لئے ، ایک پانی کے لئے ، ایک سانس کے لئے ۔ } ۱؎ (سنن ترمذی:2380 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) فرماتے ہیں : { یہ بھی اسراف ہے کہ تو جو چاہے ، کھائے ۔ } ۱؎ (سنن ابن ماجہ:3352 ، قال الشیخ الألبانی:موضوع) لیکن یہ حدیث غریب ہے ۔ مشرکین جہاں ننگے ہو کر طواف کرتے تھے وہاں زمانہ حج میں چربی کو بھی اپنے اوپر حرام جانتے تھے ۔ اللہ نے دونوں باتوں کے خلاف حکم نازل فرمایا ۔ یہ بھی اسراف ہے کہ اللہ کے حلال کردہ کھانے کو حرام کر لیا جائے ۔ اللہ کی دی ہوئی حلال روزی بیشک انسان کھائے پئے ۔ حرام چیز کا کھانا بھی اسراف ہے ۔ اللہ کی مقرر کردہ حرام حلال کی حدوں سے گزر نہ جاؤ ۔ نہ حرام کو حلال کرو ، نہ حلال کو حرام کہو ۔ ہر ایک حکم کو اسی کی جگہ پر رکھو ۔ ورنہ مسرف اور دشمن رب بن جاؤ گے ۔ الاعراف
32 آخر کار مومن ہی اللہ کی رحمت کا سزا وار ٹھہرا کھانے ، پینے ، پہننے ، اوڑھنے کی ان بعض چیزوں کو بغیر اللہ کے فرمائے ، حرام کر لینے والوں کی تردید ہو رہی ہے اور انہیں ان کے فعل سے روکا جا رہا ہے ۔ یہ سب چیزیں اللہ پر ایمان رکھنے والوں اور اس کی عبادت کرنے والوں کے لیے ہی تیار ہوئی ہیں ۔ گو دنیا میں ان کے ساتھ اور لوگ بھی شریک ہیں لیکن پھر قیامت کے دن یہ الگ کر دیئے جائیں گے اور صرف مومن ہی اللہ کی نعمتوں سے نوازے جائیں گے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما راوی ہیں کہ مشرک ننگے ہو کر اللہ کے گھر کا طواف کرتے تھے ۔ سیٹیاں اور تالیاں بجاتے جاتے تھے ۔ پس یہ آیتیں اتریں ۔ الاعراف
33 اثم اور بغی، کیا فرق ہے؟ بخاری و مسلم میں ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : { اللہ سے زیادہ غیرت والا کوئی نہیں ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:4634) سورۃ الانعام میں چھپی کھلی بےحیائیوں کے متعلق پوری تفسیر گزر چکی ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہر گناہ کو حرام کر دیا ہے اور ناحق ظلم و تعدی ، سرکشی اور غرور کو بھی اس نے حرام کیا ہے ۔ پس «اثم» سے مراد ہر وہ گناہ ہے جو انسان آپ کرے اور «بغی» سے مراد وہ گناہ ہے جس میں دوسرے کا نقصان کرے یا اس کی حق تلفی کرے ۔ اسی طرح رب کی عبادت میں کسی کو شریک کرنا بھی حرام ہے اور ذات حق پر بہتان باندھنا بھی ۔ مثلاً اس کی اولاد بتانا وغیرہ ۔ خلاف واقعہ باتیں بھی جہالت کی باتیں ہیں ۔ جیسے فرمان ہے «فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ» ۱؎ (22-الحج:30) ’ بتوں کی نجاست سے بچو ۔ ‘ الاعراف
34 موت کی ساعت طے شدہ اور اٹل ہے ہر زمانے اور ہر زمانے والوں کے لیے اللہ کی طرف سے انتہائی مدت مقرر ہے جو کسی طرح ٹل نہیں سکتی ۔ ناممکن ہے کہ اس سے ایک منٹ کی تاخیر ہو یا ایک لمحے کی جلدی ہو ۔ انسانوں کو ڈراتا ہے کہ جب وہ رسولوں سے ڈرانا اور رغبت دلانا سنیں تو بدکاریوں کو ترک کر دیں اور اللہ کی اطاعت کی طرف جھک جائیں ۔ جب وہ یہ کریں گے تو وہ ہر کھٹکے ، ہر ڈر سے ، ہر خوف اور ناامیدی سے محفوظ ہو جائیں گے اور اگر اس کے خلاف کیا ۔ نہ دل سے مانا ، نہ عمل کیا تو وہ دوزخ میں جائیں گے اور وہیں پڑے جھلستے رہیں گے ۔ الاعراف
35 الاعراف
36 الاعراف
37 اللہ پر بہتان لگانے والا سب سے بڑا ظالم ہے واقعہ یہ ہے کہ سب سے بڑا ظالم وہ ہے جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹا بہتان باندھے اور وہ بھی جو اللہ کے کلام کی آیتوں کو جھوٹا سمجھے ، انہیں ان کا مقدر ملے گا ۔ اس کے معنی ایک تو یہ ہیں کہ انہیں سزا ہو گی ، ان کے منہ کالے ہوں گے ، ان کے اعمال کا بدلہ مل کر رہے گا ۔ اللہ کے وعدے وعید پورے ہو کر رہیں گے ۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ ان کی عمر ، عمل ، رزق جو لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے وہ دنیا میں تو ملے گا ۔ یہ قول قوی معلوم ہوتا ہے کیونکہ اس کے بعد کا جملہ اس کی تائید کرتا ہے ۔ اسی مطلب کی آیت «إِنَّ الَّذِینَ یَفْتَرُونَ عَلَی اللہِ الْکَذِبَ لَا یُفْلِحُونَ مَتَاعٌ فِی الدٰنْیَا ثُمَّ إِلَیْنَا مَرْجِعُہُمْ ثُمَّ نُذِیقُہُمُ الْعَذَابَ الشَّدِیدَ بِمَا کَانُوا یَکْفُرُونَ» ۱؎ (10-یونس:69-70) ہے کہ ’ اللہ پر جھوٹ باتیں گھڑ لینے والے فلاح کو نہیں پاتے ، گو دنیا میں کچھ فائدہ اٹھا لیں لیکن آخر کار ہمارے سامنے ہی پیش ہوں گے ، اس وقت ان کے کفر کے بدلے ہم انہیں سخت سزا دیں گے ۔ ‘ ایک اور آیت میں ہے : کافروں کے کفر سے تو غمگین نہ ہو ، ان کا لوٹنا ہماری جانب ہی ہو گا ، پھر ہم خود انہیں ان کے کرتوت سے آگاہ کر دیں گے ۔ اللہ تعالیٰ دلوں کے بھیدوں سے واقف ہے ، وہ تھوڑا سا دنیوی فائدہ اٹھا لیں ، الخ ۔ پھر فرمایا کہ ” ان کی روحوں کو قبض کرنے کیلئے ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے آتے ہیں تو ان کو بطور طنز کہتے ہیں کہ اب اپنے معبودوں کو کیوں نہیں پکارتے کہ وہ تمہیں اس عذاب سے بچا لیں ، آج وہ کہاں ہیں ؟ تو یہ نہایت حسرت سے جواب دیتے ہیں کہ افسوس وہ تو کھو گئے ، ہمیں ان سے اب کسی نفع کی امید نہیں رہی ۔ پس اپنے کفر کا آپ ہی اقرار کر کے مرتے ہیں ۔ “ الاعراف
38 کفار کی گردنوں میں طوق اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مشرکوں کو جو اللہ پر افتراء باندھتے تھے ، اس کی آیتوں کو جھٹلاتے تھے ، فرمائے گا کہ تم بھی اپنے جیسوں کے ساتھ جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں خواہ وہ جنات میں سے ہوں خواہ انسانوں میں سے جہنم میں جاؤ ۔ «فِی النَّارِ» یا تو «فِی أُمَمٍ» کا بدل ہے یا «فِی أُمَمٍ» میں «فِی» معنی میں «مع» کے ہے ۔ ہر گروہ اپنے ساتھ کے اپنے جیسے گروہ پر لعنت کرے گا ۔ جیسے کہ خلیل اللہ علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ” تم ایک دوسرے سے اس روز کفر کرو گے ۔ “ الخ اور آیت میں ہے «إِذْ تَبَرَّأَ الَّذِینَ اتٰبِعُوا مِنَ الَّذِینَ اتَّبَعُوا وَرَأَوُا الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِہِمُ الْأَسْبَابُ وَقَالَ الَّذِینَ اتَّبَعُوا لَوْ أَنَّ لَنَا کَرَّۃً فَنَتَبَرَّأَ مِنْہُمْ کَمَا تَبَرَّءُوا مِنَّا کَذٰلِکَ یُرِیہِمُ اللہُ أَعْمَالَہُمْ حَسَرَاتٍ عَلَیْہِمْ وَمَا ہُم بِخَارِجِینَ مِنَ النَّارِ» ۱؎ (2-البقرۃ:166-167) یعنی ’ وہ ایسا برا وقت ہو گا کہ گرو اپنے چیلوں سے دست بردار ہو جائیں گے ، عذابوں کو دیکھتے ہی آپس کے سارے تعلقات ٹوٹ جائیں گے ۔ مرید لوگ اس وقت کہیں گے کہ اگر ہمیں بھی یہاں سے پھر واپس دنیا میں جانا مل جائے تو جیسے یہ لوگ ہم سے بیزار ہیں ، ہم بھی ان سے بالکل ہی دست بردار ہو جائیں گے ۔ اللہ تعالیٰ اسی طرح ان کے کرتوت ان کے سامنے لائے گا جو ان کے لئے سراسر موجب حسرت ہوں گے اور یہ دوزخ سے کبھی آزاد نہ ہوں گے ۔ ‘ یہاں فرماتا ہے کہ جب یہ سارے کے سارے جہنم میں جا چکیں گے تو پچھلے یعنی تابعدار اور مرید اور تقلید کرنے والے اگلوں سے یعنی جن کی وہ مانتے رہے ، ان کی بابت اللہ تعالیٰ سے فریاد کریں گے ۔ اس سے ظاہر ہے کہ یہ گمراہ کرنے والے ان سے پہلے ہی جہنم میں موجود ہوں گے کیونکہ ان کا گناہ بھی بڑھا ہوا تھا ۔ کہیں گے کہ یااللہ ! انہیں دگنا عذاب کر ۔ چنانچہ اور آیت میں ہے «یَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوہُہُمْ فِی النَّارِ یَقُولُونَ یَا لَیْتَنَا أَطَعْنَا اللہَ وَأَطَعْنَا الرَّسُولَا وَقَالُوا رَبَّنَا إِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَکُبَرَاءَنَا فَأَضَلٰونَا السَّبِیلَا رَبَّنَا آتِہِمْ ضِعْفَیْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنْہُمْ لَعْنًا کَبِیرًا» ۱؎ (33-الأحزاب:66) ’ جبکہ ان کے چہرے آتش جہنم میں ادھر سے ادھر جھلسے جاتے ہوں گے ۔ اس وقت حسرت و افسوس کرتے ہوئے کہیں گے کہ کاش کہ ہم اللہ کے رسول کے مطیع ہوتے ۔ یااللہ ! ہم نے اپنے سرداروں اور بڑوں کی تابعداری کی جنہوں نے ہمیں گمراہ کر دیا ۔ یااللہ ! انہیں دگنا عذاب کر ۔ ‘ انہیں جواب ملا کہ ہر ایک کے لئے دگنا ہے ۔ یعنی ہر ایک کو اس کی برائیوں کا پورا پورا بدلہ مل چکا ہے ۔ جیسے فرمان ہے «اَلَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَصَدٰوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ زِدْنٰہُمْ عَذَابًا فَوْقَ الْعَذَابِ بِمَا کَانُوْا یُفْسِدُوْن» ۱؎ (16-النحل:88) ’ جنہوں نے کفر کیا اور راہ رب سے روکا ، ان کا ہم اب عذاب اور زیادہ کریں گے ۔ ‘ اور آیت میں ہے «وَلَیَحْمِلُنَّ اَثْــقَالَہُمْ وَاَثْــقَالًا مَّعَ اَثْقَالِہِمْ ۡ وَلَیُسْـَٔــلُنَّ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ عَمَّا کَانُوْا یَفْتَرُوْنَ» ۱؎ (29-العنکبوت:13) یعنی ’ اپنے بوجھ کے ساتھ ان کے بوجھ بھی اٹھائیں گے ۔ ‘ اور آیت میں ہے : ان کے بوجھ ان پر لادے جائیں گے جن کو انہوں نے بےعلمی سے گمراہ کیا ۔ اب وہ جن کی مانی جاتی رہی ، اپنے ماننے والوں سے کہیں گے کہ جیسے ہم گمراہ تھے ، تم بھی گمراہ ہوئے ۔ اب اپنے کرتوت کا بدلہ اٹھاؤ ۔ اور آیت میں ہے «وَلَوْ تَرَیٰ إِذِ الظَّالِمُونَ مَوْقُوفُونَ عِندَ رَبِّہِمْ یَرْجِعُ بَعْضُہُمْ إِلَیٰ بَعْضٍ الْقَوْلَ یَقُولُ الَّذِینَ اسْتُضْعِفُوا لِلَّذِینَ اسْتَکْبَرُوا لَوْلَا أَنتُمْ لَکُنَّا مُؤْمِنِینَ قَالَ الَّذِینَ اسْتَکْبَرُوا لِلَّذِینَ اسْتُضْعِفُوا أَنَحْنُ صَدَدْنَاکُمْ عَنِ الْہُدَیٰ بَعْدَ إِذْ جَاءَکُم بَلْ کُنتُم مٰجْرِمِینَ وَقَالَ الَّذِینَ اسْتُضْعِفُوا لِلَّذِینَ اسْتَکْبَرُوا بَلْ مَکْرُ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ إِذْ تَأْمُرُونَنَا أَن نَّکْفُرَ بِ اللہِ وَنَجْعَلَ لَہُ أَندَادًا وَأَسَرٰوا النَّدَامَۃَ لَمَّا رَأَوُا الْعَذَابَ وَجَعَلْنَا الْأَغْلَالَ فِی أَعْنَاقِ الَّذِینَ کَفَرُوا ہَلْ یُجْزَوْنَ إِلَّا مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ» ۱؎ (34-سبأ:31-33) ’ کاش کہ تو دیکھتا جب کہ یہ گنہگار اللہ کے سامنے کھڑے ہوئے ہوں گے ۔ ایک دوسرے پر الزام رکھ رہے ہوں گے ۔ ضعیف لوگ متکبروں سے کہیں گے کہ اگر تم نہ ہوتے تو ہم مومن بن جاتے ۔ وہ جواب دیں گے کہ کیا ہم نے تمہیں ہدایت سے روکا تھا ؟ وہ تو تمہارے سامنے کھلی ہوئی موجود تھی ۔ بات یہ ہے کہ تم خود ہی گنہگار ، بدکردار تھے ۔ یہ پھر کہیں گے کہ نہیں نہیں ! تمہاری دن رات کی چالاکیوں نے اور تمہاری اس تعلیم نے [ کہ ہم اللہ کے ساتھ کفر کریں اور اس کے شریک ٹھہرائیں ] ہمیں گم کردہ راہ بنا دیا ۔ بات یہ ہے کہ سب کے سب اس وقت سخت نادم ہوں گے لیکن ندامت کو دبانے کی کوشش میں ہوں گے ۔ کفار کی گردنوں میں طوق پڑے ہوں گے اور انہیں ان کے اعمال کا بدلہ ضرور دیا جائے گا ۔ نہ کم ، نہ زیادہ [ پورا پورا ] ۔ الاعراف
39 الاعراف
40 بدکاروں کی روحیں دھتکاری جاتی ہیں کافروں کے نہ تو نیک اعمال اللہ کی طرف چڑھیں ، نہ ان کی دعائیں قبول ہوں ، نہ ان کی روحوں کے لیے آسمان کے دروازے کھلیں ۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ { جب بدکاروں کی روحیں قبض کی جاتی ہیں اور فرشتے انہیں لے کر آسمانوں کی طرف چڑھتے ہیں تو فرشتوں کی جس جماعت کے پاس سے گزرتے ہیں ، وہ کہتے ہیں : یہ خبیث روح کس کی ہے ؟ یہ اس کا بد سے بد نام لے کر بتاتے ہیں کہ فلاں کی ۔ یہاں تک کہ یہ اسے آسمان کے دروازے تک پہنچاتے ہیں لیکن ان کے لیے دروازہ کھولا نہیں جاتا ۔ { پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت «لَا تُفَتَّحُ لَہُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا یَدْخُلُونَ الْجَنَّۃَ حَتَّیٰ یَلِجَ الْجَمَلُ فِی سَمِّ الْخِیَاطِ» پڑھی ۔ } یہ بہت لمبی حدیث ہے جو سنن میں موجود ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:14620:صحیح) مسند احمد میں یہ حدیث پوری یوں ہے : { سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ایک انصاری کے جنازے میں ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ۔ جب قبرستان پہنچے تو قبر تیار ہونے میں کچھ دیر تھی ۔ سب بیٹھ گئے ، ہم اس طرح خاموش اور باادب تھے کہ گویا ہمارے سروں پر پرند ہیں ۔ آپ کے ہاتھ میں ایک تنکا تھا جسے آپ زمین پر پھرا رہے تھے ۔ تھوڑی دیر میں آپ نے سر اٹھا کر دو بار یا تین بار ہم سے فرمایا کہ عذاب قبر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرو ۔ پھر فرمایا : مومن جب دنیا کی آخری اور آخرت کی پہلی گھڑی میں ہوتا ہے ، اس کے پاس آسمان سے نورانی چہروں والے فرشتے آتے ہیں گویا کہ ان کا منہ آفتاب ہے ، ان کے ساتھ جنت کا کفن اور جنت کی خوشبو ہوتی ہے ۔ وہ آ کر مرنے والے مومن کے پاس بیٹھ جاتے ہیں جہاں تک اس کی نگاہ کام کرتی ہے ، فرشتے ہی فرشتے نظر آتے ہیں پھر ملک الموت آ کر اس کے سرہانے بیٹھ جاتے ہیں اور فرماتے ہیں : اے اطمینان والی روح ! اللہ کی مغفرت اور رضا مندی کی طرف چل ۔ یہ سنتے ہی وہ روح اس طرح بدن سے نکل جاتی ہے جیسے مشک کے منہ سے پانی کا قطرہ ٹپک جائے ۔ اسی وقت ایک پلک جھپکنے کے برابر کی دیر میں وہ جنتی فرشتے اس پاک روح کو اپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہیں اور جنتی کفن اور جنتی خوشبو میں رکھ لیتے ہیں ، اس میں ایسی عمدہ اور بہترین خوشبو نکلتی ہے کہ کبھی دنیا والوں نے نہ سونگھی ہو ۔ اب یہ اسے لے کر آسمانوں کی طرف چڑھتے ہیں ۔ فرشتوں کی جو جماعت انہیں ملتی ہے ، وہ پوچھتی ہے کہ یہ پاک روح کس کی ہے ؟ یہ اس کا بہتر سے بہتر جو نام دنیا میں مشہور تھا ، وہ لے کر کہتے ہیں : فلاں کی ۔ یہاں تک کہ آسمان دنیا تک پہنچ جاتے ہیں ۔ دروازہ کھلوا کر اوپر چڑھ جاتے ہیں ۔ یہاں سے اس کے ساتھ اسے دوسرے آسمان تک پہنچانے کے لیے فرشتوں کی اور بڑی جماعت ہو جاتی ہے ، اس طرح ساتویں آسمان تک پہنچتے ہیں ۔ اللہ عزوجل فرماتا ہے : اس میرے بندے کی کتاب علیین میں رکھ دو اور اسے زمین کی طرف لوٹا دو ۔ میں نے انہیں اسی سے پیدا کیا ہے اسی میں لوٹاؤں گا اور اسی سے دوبارہ نکالوں گا ۔ { پس وہ روح لوٹا دی جاتی ہے ۔ وہیں اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں ، اسے بٹھاتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے ؟ وہ جواب دیتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے ۔ پھر پوچھتے ہیں : تیرا دین کیا ہے ؟ وہ کہتا ہے : میرا دین اسلام ہے ۔ پھر پوچھتے ہیں کہ وہ شخص جو تم میں بھیجے گئے ، کون تھے ؟ وہ کہتا ہے : وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے ۔ فرشتے اس سے دریافت کرتے ہیں کہ تجھے کیسے معلوم ہوا ؟ جواب دیتا ہے کہ میں نے اللہ کی کتاب پڑھی ، اس پر ایمان لایا اور اسے سچا مانا ۔ وہیں آسمان سے ایک منادی ندا کرتا ہے کہ میرا بندہ سچا ہے ، اس کے لئے جنت کا فرش بچھا دو ۔ اسے جنتی لباس پہنا دو اور اس کے لئے جنت کا دروازہ کھول دو ۔ پس اس کے پاس جنت کی تروتازگی ، اس کی خوشبو اور وہاں کی ہوا آتی رہتی ہے اور اس کی قبر کشادہ کر دی جاتی ہے ۔ جہاں تک اس کی نظر پہنچتی ہے ، اسے کشادگی ہی کشادگی نظر آتی ہے ۔ اس کے پاس ایک نہایت حسین و جمیل شخص لباس فاخرہ پہنے ہوئے خوشبو لگائے ہوئے آتا ہے اور اس سے کہتا ہے : خوش ہو جا ، یہی وہ دن ہے جس کا تجھے وعدہ دیا جاتا تھا ۔ یہ اس سے پوچھتا ہے : تو کون ہے ؟ تیرے چہرے سے بھلائی پائی جاتی ہے ۔ وہ جواب دیتا ہے کہ میں تیرا نیک عمل ہوں ۔ اب تو مومن آرزو کرنے لگتا ہے کہ اللہ کرے قیامت آج ہی قائم ہو جائے تاکہ میں جنت میں پہنچ کر اپنے مال اور اپنے اہل و عیال کو پا لوں اور کافر کی جب دنیا کی آخری گھڑی آتی ہے تو اس کے پاس سیاہ چہرے والے فرشتے آسمان سے آتے ہیں ، ان کے ساتھ ٹاٹ ہوتا ہے ، اس کی نگاہ تک اسے یہی نظر آتے ہیں ۔ پھر ملک الموت آ کر اس کے سرہانے بیٹھ جاتے ہیں اور فرماتے ہیں : اے خبیث روح ! اللہ کی ناراضگی اور اس کے غضب کی طرف چل ۔ یہ سن کر روح بدن میں چھپنے لگتی ہے جسے ملک الموت جبراً گھسیٹ کر نکالتے ہیں ۔ اسی وقت وہ فرشتے ان کے ہاتھ سے ایک آنکھ جھپکنے میں لے لیتے ہیں اور اس جہنمی ٹاٹ میں لپیٹ لیتے ہیں اور اس سے نہایت ہی سڑی ہوئی بدبو نکلتی ہے ، یہ اسے لے کر چڑھنے لگتے ہیں ۔ فرشتوں کا جو گروہ ملتا ہے ، اس سے پوچھتا ہے کہ ناپاک روح کس کی ہے ؟ یہ اس کی روح کا بدترین نام دنیا میں تھا ، انہیں بتاتے ہیں ۔ پھر آسمان کا دروازہ اس کیلئے کھلوانا چاہتے ہیں مگر کھولا نہیں جاتا ۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کی یہ آیت «لَا تُفَتَّحُ لَہُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا یَدْخُلُونَ الْجَنَّۃَ حَتَّیٰ یَلِجَ الْجَمَلُ فِی سَمِّ الْخِیَاطِ» تلاوت فرمائی ۔ جناب باری عزوجل کا ارشاد ہوتا ہے : اس کی کتاب سجین میں سب سے نیچے کی زمین میں رکھو پھر اس کی روح وہاں سے پھینک دی جاتی ہے ۔ { پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی : «وَمَن یُشْرِکْ بِ اللہِ فَکَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُہُ الطَّیْرُ أَوْ تَہْوِی بِہِ الرِّیحُ فِی مَکَانٍ سَحِیقٍ» ۱؎ (22-الحج:31) یعنی ’ جس نے اللہ کے ساتھ شریک کیا گویا وہ آسمان سے گر پڑا پس اسے یا تو پرند چرند اچک لے جائیں گے یا ہوائیں کسی دور دراز کی ڈراؤنی ویران جگہ پر پھینک دیں گی ۔ ‘ اب اس کی روح اس کے جسم میں لوٹائی جاتی ہے ۔ اور اس کے پاس دو فرشتے پہنچتے ہیں ۔ اسے اٹھا کر بٹھاتے ہیں اور پوچھتے ہیں : تیرا رب کون ہے ؟ یہ کہتا ہے : ہائے ہائے ! مجھے خبر نہیں ۔ پوچھتے ہیں : تیرا دین کیا ہے ؟ جواب دیتا ہے : افسوس ! مجھے اس کی بھی خبر نہیں ۔ پوچھتے ہیں : بتا اس شخص کی بابت تو کیا کہتا ہے جو تم میں بھیجے گئے تھے ؟ یہ کہتا ہے : آہ ! میں اس کا جواب بھی نہیں جانتا ۔ اسی وقت آسمان سے ندا ہوتی ہے کہ میرے غلام نے غلط کہا ۔ اس کے لئے جہنم کی آگ بچھا دو اور جہنم کا دروازہ اس کی قبر کی طرف کھول دو ۔ وہاں سے گرمی اور آگ کے جھونکے آنے لگتے ہیں ، اس کی قبر تنگ ہو جاتی ہے ۔ یہاں تک کہ ادھر کی پسلیاں ادھر اور ادھر کی ادھر ہو جاتی ہیں ۔ اس کے پاس ایک شخص نہایت مکروہ اور ڈراؤنی صورت والا ، برے کپڑے پہنے ، بری بدبو والا آتا ہے اور اس سے کہتا ہے کہ اب اپنی برائیوں کا مزہ چکھ ، اسی دن کا تجھ سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ یہ پوچھتا ہے : تو کون ہے ؟ تیرے تو چہرے سے وحشت اور برائی ٹپک رہی ہے ؟ یہ جواب دیتا ہے : میں تیرا خبیث عمل ہوں ۔ یہ کہتا ہے : یااللہ ! قیامت قائم نہ ہو ۔ } ۱؎ (مسند احمد:287/4-288:صحیح) اسی روایت کی دوسری سند میں ہے کہ { مومن کی روح کو دیکھ کر آسمان و زمین کے تمام فرشتے دعائے مغفرت و رحمت کرتے ہیں ۔ اس کے لئے آسمانوں کے دروازے کھل جاتے ہیں اور ہر دورازے کے فرشتوں کی تمنا ہوتی ہے کہ اللہ کرے ، یہ روح ہماری طرف سے آسمان پر چڑھے ۔ } اس میں یہ بھی ہے کہ { کافر کی قبر میں اندھا ، بہرا ، گونگا فرشتہ مقرر ہو جاتا ہے جس کے ہاتھ میں ایک گرز ہوتا ہے کہ اگر اسے کسی بڑے پہاڑ پر مارا جائے تو وہ مٹی ہو جائے ۔ پھر اسے جیسا وہ تھا ، اللہ تعالیٰ کر دیتا ہے ۔ فرشتہ دوبارہ اسے گرز مارتا ہے جس سے یہ چیخنے چلانے لگتا ہے جسے انسان اور جنات کے سوا تمام مخلوق سنتی ہے ۔ } ۱؎ (مسند احمد:295/4-296:صحیح) ابن جریر میں ہے کہ { نیک صالح شخص سے فرشتے کہتے ہیں : اے مطمئن نفس ! جو طیب جسم میں تھا ، تو تعریفوں والا بن کر نکل اور جنت کی خوشبو اور نسیم جنت کی طرف چل ۔ اس اللہ کے پاس چل جو تجھ پر غصے نہیں ہے ۔ { فرماتے ہیں کہ جب اس روح کو لے کر آسمانوں کی طرف چڑھتے ہیں ، دروازہ کھلواتے ہیں تو پوچھا جاتا ہے کہ یہ کون ہے ؟ یہ اس کا نام بتاتے ہیں تو وہ اسے مرحبا کہہ کر وہی کہتے ہیں ۔ یہاں تک کہ یہ اس آسمان میں پہنچتے ہیں جہاں اللہ ہے ۔ } اس میں یہ بھی ہے کہ { برے شخص سے وہ کہتے ہیں : اے خبیث نفس ! جو خبیث جسم میں تھا ، تو برا بن کر نکل اور تیز کھولتے ہوئے پانی اور لہو پیپ اور اسی قسم کے مختلف عذابوں کی طرف چل ۔ اس کے نکلنے تک فرشتے یہی سناتے رہتے ہیں ۔ پھر اسے لے کر آسمانوں کی طرف چڑھتے ہیں ۔ پوچھا جاتا ہے کہ یہ کون ہے ؟ یہ اس کا نام بتاتے ہیں تو آسمان کے فرشتے کہتے ہیں ، اس خبیث کو مرحبا نہ کہو ۔ یہ تھی بھی خبیث جسم میں ، تو بد بن کر لوٹ جا ۔ اس کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھلتے اور آسمان و زمین کے درمیان چھوڑ دی جاتی ہے ۔ پھر قبر کی طرف لوٹ آتی ہے ۔ } ۱؎ (سنن ابن ماجہ:4262 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) امام ابن جریر نے لکھا ہے کہ نہ ان کے اعمال چڑھیں ، نہ ان کی روحیں ۔ اس سے دونوں قول مل جاتے ہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اس کے بعد کے جملے میں جمہور کی قرأت تو «جمل» ہے جس کے معنی نر اونٹ کے ہیں لیکن ایک قرأت میں «جمل» ہے اس کے معنی بڑے پہاڑ کے ہیں ۔ مطلب یہ ہر دو صورت ایک ہی ہے کہ نہ اونٹ سوئی کے ناکے سے گزر سکے ، نہ پہاڑ ۔ اسی طرح کافر جنت میں نہیں جا سکتا ۔ ان کا اوڑھنا بچھونا آگ ہے ۔ ظالموں کی یہی سزا ہے ۔ الاعراف
41 الاعراف
42 اللہ تعالیٰ کے احکامات کی تعمیل انسانی بس میں ہے ! اوپر گنہگاروں کا ذکر ہوا ۔ یہاں اب نیک بختوں کا ذکر ہو رہا ہے کہ جن کے دلوں میں ایمان ہے اور جو اپنے جسم سے قرآن و حدیث کے مطابق کام کرتے ہیں بخلاف بدکاروں کے کہ وہ دل میں کفر رکھتے ہیں اور عمل سے دور بھاگتے ہیں ۔ پھر فرمان ہے کہ ایمان اور نیکیاں انسان کے بس میں ہیں ، اللہ کے احکام انسانی طاقت سے زیادہ نہیں ہیں ۔ ایسے لوگ جنتی ہیں اور ہمیشہ جنت میں ہی رہیں گے ۔ ان کے دلوں میں سے آپس کی کدورتیں ، حسد ، بغض دور کر دیئے جائیں گے ۔ چنانچہ صحیح بخاری شریف کی حدیث میں ہے کہ { مومن آگ سے چھٹکارا حاصل کر کے جنت و دوزخ کے درمیان ایک پل پر روک دیئے جائیں گے ، وہاں ان کے آپس کے مظالم کا بدلہ ہو جائے گا اور پاک ہو کر جنت میں جانے کی اجازت پائیں گے ۔ واللہ ! وہ لوگ اپنے اپنے درجوں کو اور مکانوں کو اس طرح پہچان لیں گے جیسے دنیا میں جان لیتے تھے بلکہ اس سے بھی زیادہ ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:2440) سدی رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ اہل جنت دروازہ جنت پر ایک درخت دیکھیں گے جس کی جڑوں کے پاس سے دو نہریں بہہ رہی ہوں گی ۔ یہ ان میں سے ایک کا پانی پئیں گے جس سے دلوں کی کدورتیں دھل جائیں گی ، یہ شراب طہور ہے ۔ پھر دوسری نہر میں غسل کریں گے جس سے چہروں پر تروتازگی آ جائے گی ۔ پھر نہ تو بال بکھریں ، نہ سرمہ لگانے اور سنگھار کرنے کی ضرورت پڑے ۔ سیدنا علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ سے بھی اسی جیسا قول مروی ہے ، جو آیت «وَسِیْقَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّہُمْ اِلَی الْجَنَّۃِ زُمَرًا حَتّیٰٓ اِذَا جَاءُوْہَا وَفُتِحَتْ اَبْوَابُہَا وَقَالَ لَہُمْ خَزَنَـــتُہَا سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوْہَا خٰلِدِیْنَ» ۱؎ (39-الزمر:73) کی تفسیر میں آئے گا ان شاءاللہ ۔ آپ سے یہ بھی مروی ہے کہ ان شاءاللہ میں اور عثمان رضی اللہ عنہ اور طلحہ رضی اللہ عنہ اور زبیر رضی اللہ عنہ ان لوگوں میں سے ہوں گے جن کے دل اللہ تعالیٰ صاف کر دے گا ۔ فرماتے ہیں کہ ہم اہل بدر کے بارے میں یہ آیت اتری ہے ۔ ابن مردویہ میں ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : { ہر جنتی کو اپنا جہنم کا ٹھکانا دکھایا جائے گا تاکہ وہ اور بھی شکر کرے اور وہ کہے گا کہ اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے ہدایت عنایت فرمائی اور ہر جہنمی کو اس کا جنت کا ٹھکانا دکھایا جائے گا تاکہ اس کی حسرت بڑھے ۔ اس وقت وہ کہے گا : کاش کہ میں بھی راہ یافتہ ہوتا ۔ } ۱؎ (مسند احمد:512/2:صحیح) پھر جنتیوں کو ان جہنمیوں کی جنت کی جگہیں دے دی جائیں گی اور ایک منادی ندا کرے گا کہ یہی وہ جنت ہے جس کے تم بہ سبب اپنی نیکیوں کے وارث بنا دیئے گئے یعنی تمہارے اعمال کی وجہ سے تمہیں رحمت رب ملی اور رحمت رب سے تم داخل جنت ہوئے ۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { یاد رکھو ! تم میں سے کوئی بھی صرف اپنے اعمال کی وجہ سے جنت میں نہیں جا سکتا ۔ لوگوں نے پوچھا : آپ بھی نہیں ؟ فرمایا : ہاں ! میں بھی نہیں مگر یہ کہ اللہ مجھے اپنی رحمت و فضل میں ڈھانپ لے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:5673) الاعراف
43 الاعراف
44 جنتیوں اور دوزخیوں میں مکالمہ جنتی جب جنت میں جا کر امن چین سے بیٹھ جائیں گے تو دوزخیوں کو شرمندہ کرنے کے لئے ان سے دریافت فرمائیں گے کہ ہم نے تو اپنے رب کے ان وعدوں کو جو ہم سے کئے گئے تھے ، صحیح پایا ۔ تم اپنی کہو ! «ان» یہاں پر مفسرہ ہے قول محذوف کا اور «قد» تحقیق کے لئے ہے ۔ اس کے جواب میں مشرکین ندامت سے کہیں گے کہ ہاں ! ہم نے بھی اپنے رب کے ان وعدوں کو جو ہم سے تھے ٹھیک پایا ۔ جیسا سورۃ الصافات میں فرمان ہے کہ ’ اہل جنت میں سے ایک کہے گا کہ میرا ساتھی تھا جو مجھ سے تعجب کے ساتھ سوال کیا کرتا تھا کہ کیا تو بھی ان لوگوں میں سے ہے جو قیامت کے قائل ہیں ؟ جب ہم مر کر مٹی ہو جائیں گے اور ہڈیاں ہو کر رہ جائیں گے ، کیا واقعی ہم دوبارہ زندہ کئے جائیں گے ؟ اور ہمیں بدلے دیئے جائیں گے ؟ یہ جنتی کہے گا کہ کیا تم بھی میرے ساتھ ہو کر اسے جھانک کر دیکھنا چاہتے ہو ؟ یہ کہہ کر وہ اوپر سے جھانک کر دیکھے گا تو اپنے اس ساتھی کو بیچ جہنم میں پائے گا ۔ کہے گا : قسم اللہ کی ! تو تو مجھے بھی تباہ کرنے ہی کو تھا ، اگر میرے رب کا فضل شامل حال نہ ہوتا تو میں بھی آج گرفتار عذاب ہوتا ۔ ‘ ۱؎ (37-الصافات:51-57) اب بتاؤ ! دنیا میں جو کہا کرتا تھا ، کیا سچا تھا کہ ہم مر کر جینے والے اور بدلہ بھگتنے والے ہی نہیں ؟ اس وقت فرشتے کہیں گے : یہی وہ جہنم ہے جسے تم جھوٹا مان رہے تھے ۔ اب بتاؤ ! کیا یہ جادو ہے ؟ یا تمہاری آنکھیں نہیں ہیں ؟ اب یہاں پڑے جلتے بھنتے رہو ۔ صبر اور بے صبری دونوں نتیجے کے اعتبار سے تمہارے لیے یکساں ہے ۔ تمہیں اپنے کئے کا بدلہ پانا ہی ہے ۔ اسی طرح { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار قریش کے ان مقتولوں کو جو بدر میں کام آئے تھے اور جن کی لاشیں ایک کھائی میں تھیں ، ڈانٹا تھا اور یہ فرمایا تھا کہ اے ابوجہل بن ہشام ، اے عتبہ بن ربیعہ ، اے شیبہ بن ربیعہ ! اور دوسرے سرداروں کا بھی نام لیا اور فرمایا : کیا تم نے اپنے رب کے وعدے کو سچا پایا ؟ میں نے تو اپنے رب کے وہ وعدے دیکھ لیے جو اس نے مجھ سے کئے تھے ۔ { سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ ان سے باتیں کر رہے ہیں جو مر کر مردار ہو گئے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میری بات کو تم بھی ان سے زیادہ نہیں سن رہے لیکن وہ جواب نہیں دے سکتے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:3976) پھر فرماتا ہے کہ اسی وقت ایک منادی ندا کر کے معلوم کرا دے گا کہ ظالموں پر رب کی ابدی لعنت واقع ہو چکی ۔ جو لوگوں کو راہ حق اور شریعت ہدیٰ سے روکتے تھے اور چاہتے تھے کہ اللہ کی شریعت ٹیڑھی کر دیں تاکہ اس پر کوئی عمل نہ کرے ۔ آخرت پر بھی انہیں یقین نہ تھا ، اللہ کی ملاقات کو نہیں مانتے تھے اسی لیے بےپرواہی سے برائیاں کرتے تھے ۔ حساب کا ڈر نہ تھا ، اس لیے سب سے زیادہ بدزبان اور بداعمال تھے ۔ الاعراف
45 الاعراف
46 جنت اور جہنم میں دیوار اور اعراف والے جنتیوں اور دوزخیوں کی بات بیان فرما کر ارشاد ہوتا ہے کہ جنت دوزخ کے درمیان ایک حجاب ، حد فاصل اور دیوار ہے کہ دوزخیوں کو جنت سے فاصلے پر رکھے ۔ اسی دیوار کا ذکر آیت «فَضُرِبَ بَیْنَہُمْ بِسُوْرٍ لَّہٗ بَابٌ بَاطِنُہٗ فِیْہِ الرَّحْمَۃُ وَظَاہِرُہٗ مِنْ قِبَلِہِ الْعَذَاب» ۱؎ (57-الحدید:13) میں ہے یعنی ’ ان کے درمیان ایک دیوار حائل کر دی جائے گی جس میں ایک دروازہ ہے ۔ اس کے اندر رحمت ہے اور باہر عذاب ہے ۔ ‘ اسی کا نام «الْأَعْرَافِ» ہے ۔ «الْأَعْرَاف» «عرف» کی جمع ہے ، ہر اونچی زمین کو عرب میں «عرفہ» کہتے ہیں ۔ اسی لیے مرغ کے سر کی کلنگ کو بھی عرب میں «عرف الدیک» کہا جاتا ہے کیونکہ اونچی جگہ ہوتا ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ” یہ ایک اونچی جگہ ہے ، جنت دوزخ کے درمیان جہاں کچھ لوگ روک دیئے جائیں گے ۔ “ سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اس کا نام «اعراف» اس لیے رکھا گیا ہے کہ یہاں کے لوگ اور لوگوں کو جانتے پہچانتے ہیں ۔ یہاں کون لوگ ہوں گے ؟ اس میں بہت سے اقوال ہیں ۔ سب کا حاصل یہ ہے کہ وہ یہ لوگ ہوں گے جن کے گناہ اور نیکیاں برابر ہوں گی ، بعض سلف سے بھی یہی منقول ہے ۔ سیدنا حذیفہ ، سیدنا ابن عباس ، سیدنا سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہم نے یہی فرمایا ہے ۔ یہی بعد والے مفسرین کا قول ہے ۔ ایک مرفوع حدیث میں بھی ہے لیکن سنداً وہ حدیث غریب ہے ۔ اور سند سے مروی ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جب ان لوگوں کی بابت جن کی نیکیاں بدیاں برابر ہوں اور جو اعراف والے ہیں ، سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا : یہ وہ نافرمان لوگ ہیں جو اپنے باپ کی اجازت کے بغیر نکلے پھر اللہ کی راہ میں قتل کر دیئے گئے ۔ } ۱؎ (الدر المنشور للسیوطی:164/3:ضعیف) اور روایت میں ہے کہ { یہ لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے گئے اور اپنے والدین کے نافرمان تھے تو جنت میں جانے سے باپ کی نافرمانی نے روک دیا اور جہنم میں جانے سے شہادت نے روک دیا ۔ } ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:14713:ضعیف) ابن ماجہ وغیرہ میں بھی یہ روایتیں ہیں ۔ اب اللہ ہی کو ان کی صحت کا علم ہے ۔ بہت ممکن ہے ، یہ موقوف روایتیں ہوں گی ۔ بہر صورت ان سے اصحاب اعراف کا حال معلوم ہو رہا ہے ۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے جب ان کی بابت سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا : یہ وہ لوگ ہیں جن کی نیکیاں بدیاں برابر برابر تھیں ۔ برائیوں کی وجہ سے جنت میں نہ جا سکے اور نیکیوں کی وجہ سے جہنم سے بچ گئے ۔ یہاں آڑ میں روک دیئے جائیں گے ، یہاں تک کہ اللہ کا فیصلہ ان کے بارے میں سرزد ہو ۔ اور آیت میں آپ سے مروی ہے کہ یہ دوزخیوں کو دیکھ دیکھ کر ڈر رہے ہوں گے اور اللہ سے نجات طلب کر رہے ہوں گے کہ ناگاہ انکا رب ان کی طرف دیکھے گا اور فرمائے گا : جاؤ جنت میں داخل ہو جاؤ ، میں نے تمہیں بخشا ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : قیامت کے دن لوگوں کا حساب ہو گا ۔ ایک نیکی بھی اگر برائیوں سے بڑھ گئی تو داخل جنت ہو گا اور ایک برائی بھی اگر نیکیوں سے زیادہ ہو گی تو دوزخ میں جائے گا ۔ پھر آپ نے «فَمَن ثَقُلَتْ مَوَازِینُہُ فَأُولٰئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِینُہُ فَأُولٰئِکَ الَّذِینَ خَسِرُوا أَنفُسَہُمْ فِی جَہَنَّمَ خَالِدُونَ» ۱؎ (23-المؤمنون:102-103) سے دو آیتوں تک تلاوت کیں اور فرمایا : ایک رائی کے دانے کے برابر کی کمی زیادتی سے میزان کا پلڑا ہلکا بھاری ہو جاتا ہے اور جن کی نیکیاں بدیاں برابر ہوئیں ، یہ اعراف والے ہیں ۔ یہ ٹھہرا لیے جائیں گے اور جنتی دوزخی مشہور ہو جائیں گے ۔ یہ جنت کو دیکھیں گے تو اہل جنت پر سلام کریں گے اور جب جہنم کو دیکھیں گے تو اللہ سے پناہ طلب کریں گے ۔ نیک لوگوں کو نور ملے گا جو ان کے آگے اور ان کے داہنے موجود رہے گا ۔ ہر انسان کو وہ مرد ہوں خواہ عورتیں ہوں ، ایک نور ملے گا لیکن پل صراط پر منافقوں کا نور چھین لیا جائے گا ۔ اس وقت سچے مومن اللہ سے اپنے نور کے باقی رہنے کی دعائیں کریں گے ۔ اعراف والوں کا نور چھینا نہیں جائے گا وہ ان کے آگے آگے موجود ہو گا ، انہیں جنت میں جانے کی طمع ہو گی ، لوگو ! ایک نیکی دس گنا کر کے لکھی جاتی ہے اور برائی اتنی ہی لکھی جاتی ہے ، جتنی ہو ۔ افسوس ان پر جن کی اکائیاں دہائیوں پر غالب آ جائیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے کہ اعراف ایک دیوار ہے جو جنت دوزخ کے درمیان ہے ، اصحاب اعراف وہیں ہوں گے ۔ جب انہیں عافیت دینے کا اللہ کا ارادہ ہو گا تو حکم ملے گا : انہیں نہر حیات کی طرف لے جاؤ ۔ اس کے دونوں کناروں پر سونے کے خیمے ہوں گے جو موتیوں سے مرصع ہوں گے ، اس کی مٹی مشک خالص ہو گی ، اس میں غوطہٰ لگاتے ہی ان کی رنگتیں نکھر جائیں گی اور ان کی گردنوں پر ایک سفید چمکیلا نشان ہو جائے گا جس سے وہ پہچان لیے جائیں گے ۔ یہ اللہ کے سامنے لائے جائیں گے ، اللہ تعالیٰ فرمائے گا : جو چاہو ، مانگو ۔ یہ مانگیں گے یہاں تک کہ ان کی تمام تمنائیں اللہ تعالیٰ پوری کر دے گا ۔ پھر فرمائے گا : ان جیسی ستر گنا اور نعمتیں بھی میں نے تمہیں دیں ۔ پھر یہ جنت میں جائیں گے ، وہ علامت ان پر موجود ہو گی ۔ جنت میں ان کا نام مساکین اہل جنت ہو گا ۔ یہی روایت مجاہد کے اپنے قول سے بھی مروی ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ ایک حسن سند کی مرسل حدیث میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اعراف والوں کی نسبت دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ ان کا فیصلہ سب سے آخر میں ہو گا ۔ رب العالمین جب اپنے بندوں کے فیصلے کر چکے گا تو ان سے فرمائے گا کہ تم لوگوں کو تمہاری نیکیوں نے دوزخ سے تو محفوظ کر لیا لیکن تم جنت میں جانے کے حقدار ثابت نہیں ہوئے ۔ اب تم کو میں اپنی طرف سے آزاد کرتا ہوں ۔ جاؤ ! جنت میں رہو سہو اور جہاں چاہو کھاؤ پیو ۔ } ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:14723:مرسل و ضعیف) یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ زنا کی اولاد ہیں ۔ ابن عساکر میں فرمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ { مومن جنوں کو ثواب ہے اور ان میں سے جو برے ہیں ، انہیں عذاب بھی ہو گا ۔ ہم نے ان کے ثواب اور ان کے ایمانداروں کے بابت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا : وہ اعراف پر ہوں گے ، جنت میں میری امت کے ساتھ نہ ہوں گے ۔ ہم نے پوچھا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اعراف کیا ہے ؟ فرمایا : جنت کا ایک باغ جہاں نہریں جاری ہیں اور پھل پک رہے ہیں ۔ } ۱؎ (بیہقی فی البعث:117:ضعیف جداً) [ بیہقی ] مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ” یہ صالح دیندار فقہاء علما لوگ ہوں گے ۔ “ ابومجاز رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ” یہ فرشتے ہیں ، جنت دوزخ والوں کو جانتے ہیں پھر آپ نے ان آیتوں کی تلاوت کی اور فرمایا : سب جنتی جنت میں جانے لگیں گے تو کہا جائے گا کہ تم امن و امان کے ساتھ بےخوف و خطر ہو کر جنت میں جاؤ ۔ “ اس کی سند گو ٹھیک ہے لیکن یہ قول بہت غریب ہے بلکہ روانی عبارت بھی اس کے خلاف ہے اور جمہور کا قول ہی مقدم ہے ۔ کیونکہ آیت کے ظاہری الفاظ کے مطابق ہے ۔ مجاہد رحمہ اللہ کا قول بھی جو اوپر بیان ہوا ، غرابت سے خالی نہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ قرطبی رحمہ اللہ نے اس میں بارہ قول نقل کئے ہیں ۔ صلحاء ، انبیاء ، ملائکہ وغیرہ ۔ یہ جنتیوں کو ان کے چہرے کی رونق اور سفیدی سے اور دوزخیوں کو ان کے چہرے کی سیاہی سے پہچان لیں گے ۔ یہ یہاں اسی لیے ہیں کہ ہر ایک کا امتیاز کر لیں اور سب کو پہچان لیں ۔ یہ جنتیوں سے سلام کریں گے ، جنتیوں کو دیکھ دیکھ کر اللہ کی پناہ چائیں گے اور طمع رکھیں گے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے انہیں بھی بہشت بریں میں پہنچا دے ۔ یہ طمع ان کے دل میں اللہ نے اسی لیے ڈالا ہے کہ اس کا ارادہ انہیں جنت میں لے جانے کا ہو چکا ہے ۔ جب وہ اہل دوزخ کو دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ پروردگار ! ہمیں ظالموں سے نہ کر ۔ جب کوئی جماعت جہنم میں پہنچائی جاتی ہے تو یہ اپنے بچاؤ کی دعائیں کرنے لگتے ہیں ۔ جہنم سے ان کے چہرے کوئلے جیسے ہو جائیں گے لیکن جب جنت والوں کو دیکھیں گے تو یہ چیز چہروں سے دور ہو جائے گی ۔ جنتیوں کے چہروں کی پہچان نورانیت ہو گی اور دوزخیوں کے چہروں پر سیاہی اور آنکھوں میں بھینگا پن ہو گا ۔ الاعراف
47 الاعراف
48 کفر کے ستون اور ان کا حشر کفر کے جن ستونوں کو ، کافروں کے جن سرداروں کو اعراف والے ان کے چہروں سے پہچان لیں گے ، انہیں ڈانٹ ڈپٹ کر کے پوچھیں گے کہ آج تمہاری اکثریت جمعیت کہاں گئی ؟ اس نے تو تمہیں مطلقاً فائدہ نہ پہنچایا ۔ آج وہ تمہاری اکڑفوں کیا ہوئی ؟ تم تو بری طرح عذابوں میں جکڑ دیئے گئے ۔ اس کے بعد ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں فرمایا جائے گا کہ بدبختو ! انہی کی نسبت تم کہا کرتے تھے کہ اللہ انہیں کوئی راحت نہیں دے گا ۔ اے اعراف والو ! میں تمہیں اجازت دیتا ہوں کہ جاؤ با آرام ، بے کھٹکے جنت میں جاؤ ۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اعراف والوں کے اعمال صالحہ اس قابل نہ نکلے کہ انہیں جنت میں پہنچائیں لیکن اتنی برائیاں بھی ان کی نہ تھیں کہ دوزخ میں جائیں تو یہ اعراف پر ہی روک دیئے گئے ، لوگوں کو ان کے اندازے سے پہچانتے ہوں گے ۔ جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں فیصلے کر چکے گا ، شفاعت کی اجازت دے گا ۔ لوگ سیدنا آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور کہیں گے کہ اے آدم علیہ السلام ! آپ ہمارے باپ ہیں ، ہماری شفاعت اللہ تعالیٰ کی جناب میں کیجئے ۔ آپ جواب دیں گے : کیا تم نہیں جانتے ہو کہ میرے سوا کسی کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا ہو ، اپنی روح اس میں پھونکی ہو ، اپنی رحمت اس پر اپنے غضب سے پہلے پہنچائی ہو ، اپنے فرشتوں سے اسے سجدہ کرایا ہو ؟ سب جواب دیں گے : نہیں ، ایسا آپ کے سوا نہیں ۔ آپ فرمائیں گے : میں اس کی حقیقت سے بےخبر ہوں ، میں تمہاری شفاعت نہیں کر سکتا ۔ ہاں ! تم میرے لڑکے ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ ۔ اب سب لوگ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے پاس پہنچیں گے اور ان سے شفاعت کرنے کی درخواست کریں گے ۔ آپ جواب دیں گے کہ کیا تم جانتے ہو کہ میرے سوا اور کوئی خلیل اللہ ہوا ہو ؟ یا اللہ کے بارے میں اس کی قوم نے آگ میں پھینکا ہو ؟ سب کہیں گے : آپ کے سوا اور کوئی نہیں ۔ فرمائیں گے : مجھے اس کی حقیقت معلوم نہیں ، میں تمہاری درخواست شفاعت نہیں لے جا سکتا ، تم میرے لڑکے موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ ۔ موسیٰ علیہ السلام جواب دیں گے کہ بتاؤ میرے سوا اللہ نے کسی کو اپنا کلیم اللہ بنایا ، اپنی سرگوشیوں کے لیے نزدیکی عطا فرمائی ؟ جواب دیں گے کہ نہیں ۔ فرمائیں گے : میں اس کی حقیقت سے بےخبر ہوں ، میں تمہاری سفارش کرنے کی طاقت نہیں رکھتا ۔ ہاں ! تم عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ ۔ لوگ عیسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں گے ، ان سے شفاعت طلبی کا تقاضا کریں گے ۔ یہ جواب دیں گے کہ کیا تم جانتے ہو کہ میرے سوا کسی کو اللہ نے بے باپ کے پیدا کیا ہو ؟ جواب ملے گا کہ نہیں ۔ پوچھیں گے : جانتے ہو کہ کوئی مادر زاد اندھوں اور کوڑھیوں کو بحکم اللہ میرے سوا اچھا کرتا ہو یا کوئی مردہ کو بحکم اللہ زندہ کر دیتا ہو ؟ کہیں گے کہ کوئی نہیں ۔ فرمائیں گے کہ میں تو آج اپنے نفس کے بچاؤ میں ہوں ، میں اس کی حقیقت سے بےخبر ہوں ۔ مجھ میں اتنی طاقت کہاں کہ تمہاری سفارش کر سکوں ، ہاں ! تم سب کے سب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ ۔ چنانچہ سب لوگ میرے پاس آئیں گے ، میں اپنا سینہ ٹھونک کر کہوں گا کہ ہاں ہاں ! میں اسی لیے موجود ہوں ، پھر میں چل کر اللہ کے عرش کے سامنے ٹھہر جاؤں گا ۔ اپنے رب عزوجل کے پاس پہنچ جاؤں گا اور ایسی ایسی اس کی تعریفیں بیان کروں گا کہ کسی سننے والے نے کبھی نہ سنی ہوں ۔ پھر سجدے میں گر پڑوں گا ، پھر مجھ سے فرمایا جائے گا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! اپنا سر اٹھاؤ ، مانگو دیا جائے گا ۔ شفاعت کرو ، قبول کی جائے گی ۔ پس میں اپنا سر اٹھا کر کہوں گا : میرے رب ! میری امت ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : وہ سب تیرے ہی ہے ۔ پھر تو ہر ہر پیغمبر اور ہر ایک فرشتہ رشک کرنے لگے گا ۔ یہی مقام ، مقام محمود ہے ۔ پھر میں ان سب کو لے کر جنت کی طرف آؤں گا ۔ جنت کا دروازہ کھلواؤں گا اور وہ میرے لیے اور ان کے لئے کھول دیا جائے گا ۔ پھر انہیں ایک نہر کی طرف لے جائیں گے جس کا نام نہر الحیوان ہے ، اس کے دونوں کناروں پر سونے کے محل ہیں جو یاقوت سے جڑاؤ کئے گئے ہیں ، اس میں غسل کریں گے جس سے جنتی رنگ اور جنتی خوشبو ان میں پیدا ہو جائے گی اور چمکتے ہوئے ستاروں جیسے وہ نورانی ہو جائیں گے ۔ ہاں ! ان کے سینوں پر سفید نشان باقی رہ جائیں گے جس سے وہ پہچانے جائیں گے ۔ انہیں مساکین اہل جنت کہا جائے گا ۔ الاعراف
49 الاعراف
50 جیسی کرنی ویسی بھرنی دوزخیوں کی ذلت و خواری اور ان کا بھیک مانگنا اور ڈانٹ دیا جانا بیان ہو رہا ہے کہ وہ جنتیوں سے پانی یا کھانا مانگیں گے ۔ اپنے نزدیک کے رشتے ، کنبے والے جیسے باپ ، بیٹے ، بھائی ، بہن وغیرہ سے کہیں گے کہ ہم جل بھن رہے ہیں ، بھوکے پیاسے ہیں ، ہمیں ایک گھونٹ پانی یا ایک لقمہ کھانا دے دو ۔ وہ بحکم الٰہی انہیں جواب دیں گے کہ یہ سب کچھ کفار پر حرام ہے ۔ { سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سوال ہوتا ہے کہ کس چیز کا صدقہ افضل ہے ؟ فرمایا : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ سب سے افضل خیرات پانی ہے ۔ دیکھو جہنمی اہل جنت سے اسی کا سوال کریں گے ۔ } ۱؎ (مسند ابویعلیٰ:2673:اسنادہ فیہ جہالۃ) مروی ہے کہ { جب ابوطالب موت کی بیماری میں مبتلا ہوا تو قریشیوں نے اس سے کہا : کسی کو بھیج کر اپنے بھتیجے سے کہلواؤ کہ وہ تمہارے پاس جنتی انگور کا ایک خوشہ بھجوا دے تاکہ تیری بیماری جاتی رہے ۔ جس وقت قاصد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتا ہے ، سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ کے پاس موجود تھے ۔ سنتے ہی فرمانے لگے : اللہ نے جنت کی کھانے پینے کی چیزیں کافروں پر حرام کر دی ہیں ۔ } ۱؎ (الدر المنشور للسیوطی:166/3:مرسل) پھر ان کی بدکرداری بیان فرمائی کہ یہ لوگ دین حق کو ایک ہنسی کھیل سمجھے ہوئے تھے ۔ دنیا کی زینت اور اس کے بناؤ چناؤ میں ہی عمر بھر مشغول رہے ۔ یہ چونکہ اس دن کو بھول بسر گئے تھے ۔ اس کے بدلے ہم بھی ان کے ساتھ ایسا معاملہ کریں گے جو کسی بھول جانے والے کا معاملہ ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ بھولنے سے پاک ہے ، اس کے علم سے کوئی چیز نکل نہیں سکتی ۔ فرماتا ہے : «لَا یَضِلٰ رَبِّیْ وَلَا یَنْسَی» ۱؎ (20-طہ:52) ’ نہ وہ بہکے ، نہ بھولے ۔ ‘ یہاں جو فرمایا : یہ صرف مقابلہ کیلئے ہے ۔ جیسے فرمان ہے : «نَسُوا اللہَ فَنَسِیَہُمْ» ۱؎ (9-التوبۃ:67) اور جیسے دوسری آیت میں ہے «قَالَ کَذٰلِکَ اَتَتْکَ اٰیٰتُنَا فَنَسِیْتَہَا وَکَذٰلِکَ الْیَوْمَ تُنْسٰی» ۱؎ (20-طہ:126) فرمان ہے «وَقِیلَ الْیَوْمَ نَنسَاکُمْ کَمَا نَسِیتُمْ لِقَاءَ یَوْمِکُمْ ہٰذَا» ۱؎ (45-الجاثیۃ:34) ’ تیرے پاس ہماری نشانیاں آئی تھیں جنہیں تو بھلا بیٹھا تھا اسی طرح آج تجھے بھی بھلا دیا جائے گا ۔ ‘ وغیرہ ۔ پس یہ بھلائیوں سے بالقصد بھلا دیئے جائیں گے ۔ ہاں برائیاں اور عذاب برابر ہوتے رہیں گے ۔ انہوں نے اس دن کی ملاقات کو بھلایا ، ہم نے انہیں آگ میں چھوڑا ، رحمت سے دور کیا جیسے یہ عمل سے دور تھے ۔ صحیح حدیث میں ہے : { قیامت کے دن اللہ تعالیٰ بندے سے فرمائے گا : کیا میں نے تجھے بیوی بچے نہیں دیئے تھے ؟ یا عزت آبرو نہیں دی تھی ؟ کیا گھوڑے اور اونٹ تیرے مطیع نہیں کئے تھے ؟ اور کیا تجھے قسم قسم کی راحتوں میں آزاد نہیں رکھا تھا ؟ بندہ جواب دے گا کہ ہاں پروردگار ! بیشک تو نے ایسا ہی کیا تھا ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : پھر کیا تو میری ملاقات پر ایمان رکھتا تھا ؟ وہ جواب دے گا کہ نہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : پس میں بھی آج تجھے ایسا ہی بھول جاؤں گا جیسے تو مجھے بھول گیا تھا ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:2968) الاعراف
51 الاعراف
52 آخری حقیقت جنت اور دوزخ کا مشاہدہ اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کے کل عذر ختم کر دیئے تھے ۔ اپنے رسولوں کی معرفت ، اپنی کتاب بھیجی جو مفصل اور واضح تھی ۔ جیسے فرمان ہے «الرٰ کِتٰبٌ اُحْکِمَتْ اٰیٰتُہٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَکِیْمٍ خَبِیْرٍ» ۱؎ (11-ہود:1) ’ اس قرآن کی آیتیں مضبوط اور تفصیل وار ہیں ۔ ‘ اس کی جو تفصیل ہے ، وہ بھی علم پر ہے ۔ جیسے فرمان ہے «أَنزَلَہُ بِعِلْمِہِ» ۱؎ (4-النساء:166) ’ اسے اپنے علم کے ساتھ اتارا ہے ۔ ‘ امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : یہ آیت اسی آیت پر جاتی ہے ، جس میں فرمان ہے «کِتٰبٌ اُنْزِلَ اِلَیْکَ فَلَا یَکُنْ فِیْ صَدْرِکَ حَرَجٌ مِّنْہُ لِتُنْذِرَ بِہٖ وَذِکْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَ» ۱؎ (7-الأعراف:2) ’ یہ کتاب تیری طرف نازل فرمائی گئی ہے ۔ پس اس سے تیرے سینے میں کوئی حرج نہ ہونا چاہیئے ۔ ‘ یہاں فرمایا «وَلَقَدْ جِئْنَاہُم بِکِتَابٍ فَصَّلْنَاہُ عَلَیٰ عِلْمٍ ہُدًی وَرَحْمَۃً لِّقَوْمٍ یُؤْمِنُونَ» لیکن یہ محل نظر ہے اس لیے کہ فاصلہ بہت ہے اور یہ قول بے دلیل ہے ۔ درحقیقت جب ان کے اس خسارے کا ذکر ہوا جو انہیں آخرت میں ہو گا تو بیان فرمایا کہ دنیا میں ہی ہم نے تو اپنا پیغام پہنچا دیا تھا ۔ رسول بھی ، کتاب بھی ۔ جیسے ارشاد ہے کہ ” جب تک ہم رسول نہ بھیج دیں ، عذاب نہیں کرتے ۔ “ اسی لیے اس کے بعد ہی فرمایا : ” انہیں تو اب جنت دوزخ کے اپنے سامنے آنے کا انتظار ہے ۔ “ یا یہ مطلب کہ اس کی حقیقت یکے بعد دیگرے روشن ہوتی رہے گی ۔ یہاں تک کہ آخری حقیقت یعنی جنت دوزخ ہی سامنے آ جائیں گی اور ہر ایک اپنے لائق مقام میں پہنچ جائے گا ۔ قیامت والے دن یہ واقعات رونما ہو جائیں گے ۔ اب جو سن رہے ہیں ، اس وقت دیکھ لیں گے ۔ اس وقت اسے فراموش کر کے بیٹھ رہنے والے عمل سے کورے لوگ مان لیں گے کہ بیشک اللہ کے انبیاء علیہم السلام سچے تھے ، رب کی کتابیں برحق تھیں ۔ کاش اب کوئی ہمارا سفارشی کھڑا ہو اور ہمیں اس ہلاکت سے نجات دلائے یا ایسا ہو کہ ہم پھر سے دنیا کی طرف لوٹا دیئے جائیں تو جو کام کئے تھے اب ان کے خلاف کریں ۔ جیسے فرمان ہے «وَلَوْ تَرٰٓی اِذْ وُقِفُوْا عَلَی النَّارِ فَقَالُوْا یٰلَیْتَنَا نُرَدٰ وَلَا نُکَذِّبَ بِاٰیٰتِ رَبِّنَا وَنَکُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ بَلْ بَدَا لَہُم مَّا کَانُوا یُخْفُونَ مِن قَبْلُ وَلَوْ رُدٰوا لَعَادُوا لِمَا نُہُوا عَنْہُ وَإِنَّہُمْ لَکَاذِبُونَ» ۱؎ (6-الأنعام:27) ’ کاش کہ ہم پھر دنیا میں لوٹائے جاتے ، اپنے رب کی آیتوں کو نہ جھٹلاتے اور مومن بن جاتے ۔ اس سے پہلے جو وہ چھپا رہے تھے ، اب ظاہر ہو گیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر یہ دوبارہ دنیا میں بھیجے بھی جائیں تو جس چیز سے روکے جائیں گے ، وہی دوبارہ کریں گے اور جھوٹے ثابت ہوں ۔ ‘ انہوں نے آپ ہی اپنا برا کیا ۔ اللہ کے سوا اوروں سے امیدیں رکھتے رہے ۔ آج سب باطل ہو گئیں ۔ نہ کوئی ان کا سفارشی ، نہ حمایتی ۔ الاعراف
53 الاعراف
54 اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بہت سی آیتوں میں یہ بیان ہوا ہے کہ آسمان و زمین اور کل مخلوق اللہ تعالیٰ نے چھ دن میں بنائی ہے یعنی اتوار سے جمعہ تک ۔ جمعہ کے دن ساری مخلوق پیدا ہو چکی ۔ اسی دن سیدنا آدم علیہ السلام پیدا ہوئے یا تو یہ دن دنیا کے معمول کے دنوں کے برابر ہی تھے جیسے کہ آیت کے ظاہری الفاظ سے فی الفور سمجھا جاتا ہے یا ہر دن ایک ہزار سال کا تھا جیسے کہ مجاہد رحمہ اللہ کا قول ہے اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا فرمان ہے اور بروایت ضحاک ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے ۔ ہفتہ کے دن کوئی مخلوق پیدا نہیں ہوئی ۔ اسی لیے اس کا نام عربی میں «یوم السبت» ہے ۔ «سبت» کے معنی ” قطع کرنے ، ختم کرنے “ کے ہیں ۔ ہاں مسند احمد ، نسائی اور صحیح مسلم میں جو حدیث ہے کہ { اللہ نے مٹی کو ہفتہ کے دن پیدا کیا اور پہاڑوں کو اتوار کے دن اور درختوں کو پیر کے دن اور برائیوں کو منگل کے دن اور نور کو بدھ کے دن اور جانوروں کو جمعرات کے دن اور آدم علیہ السلام کو جمعہ کے دن ، عصر کے بعد دن کی آخری گھڑی میں عصر سے لے کر مغرب تک ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر یہ گنوایا ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:2789) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سات دن تک پیدائش کا سلسلہ جاری رہا حالانکہ قرآن میں موجود ہے کہ چھ دن میں پیدائش ختم ہوئی ۔ اسی وجہ سے امام بخاری رحمہ اللہ وغیرہ زبردست حفاظ حدیث نے اس حدیث پر کلام کیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ عبارت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کعب احبار رحمہ اللہ سے لی ہے ۔ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ پھر فرماتا ہے کہ وہ اپنے عرش پر مستوی ہوا ۔ اس پر لوگوں نے بہت کچھ چہ میگوئیاں کی ہیں ، جنہیں تفصیل سے بیان کرنے کی یہ جگہ نہیں ۔ مناسب یہی ہے کہ اس مقام میں سلف صالحین کی روش اختیار کی جائے ۔ جیسے امام مالک ، امام اوزاعی ، امام ثوری ، امام لیث بن سعد ، امام شافعی ، امام احمد ، امام اسحاق بن راہویہ وغیرہ وغیرہ ائمہ سلف و خلف رحمۃ اللہ علیہم ۔ ان سب بزرگان دین کا مذہب یہی تھا کہ جیسی یہ آیت ہے ، اسی طرح اسے رکھا جائے ۔ بغیر کیفیت کے ، بغیر تشبیہ کے اور بغیر مہمل چھوڑنے کے ۔ ہاں مشبہین کے ذہنوں میں جو چیز آ رہی ہے ، اس سے اللہ تعالیٰ پاک اور بہت دور ہے ۔ اللہ کے مشابہ اس کی مخلوق میں سے کوئی نہیں ۔ فرمان ہے «لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْءٌ وَہُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ» ۱؎ (42-الشوری:11) ’ اس کے مثل کوئی نہیں اور وہ سننے ، دیکھنے والا ہے ۔ ‘ بلکہ حقیقت یہی ہے جو ائمہ کرام رحمۃ اللہ علیہم نے فرمائی ہے ۔ انہی میں سے نعیم بن حماد خزاعی رحمہ اللہ ہیں ۔ آپ امام بخاری رحمہ اللہ کے استاد ہیں ۔ فرماتے ہیں : ” جو شخص اللہ کو مخلوق سے تشبیہ دے ، وہ کافر ہے اور جو شخص اللہ کے اس وصف سے انکار کرے جو اس نے اپنی ذات پاک کیلئے بیان فرمایا ہے ، وہ بھی کافر ہے ۔ “ خود اللہ تعالیٰ نے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اوصاف ذات باری تعالیٰ جل شانہ کے بیان فرمائے ہیں ، ان میں ہرگز تشبیہ نہیں ۔ پس صحیح ہدایت کے راستے پر وہی ہے جو آثار صحیحہ اور اخبار صریحہ سے جو اوصاف رب العزت وحدہ لاشریک لہ کے ثابت ہیں ، انہیں اسی طرح جانے ۔ جو اللہ کی جلالت شان کے شایان ہے اور ہر عیب و نقصان سے اپنے رب کو پاک اور مبرا و منزہ سمجھے ۔ پھر فرمان ہے کہ رات کا اندھیرا دن کے اجالے سے اور دن کا اجالا رات کے اندھیرے سے دور ہو جاتا ہے ۔ ہر ایک دوسرے کے پیچھے لپکا چلا آتا ہے ۔ یہ گیا وہ آیا ، وہ گیا یہ آیا ۔ جیسے فرمایا «وَآیَۃٌ لَّہُمُ اللَّیْلُ نَسْلَخُ مِنْہُ النَّہَارَ فَإِذَا ہُم مٰظْلِمُونَ وَالشَّمْسُ تَجْرِی لِمُسْتَقَرٍّ لَّہَا ذٰلِکَ تَقْدِیرُ الْعَزِیزِ الْعَلِیمِ وَالْقَمَرَ قَدَّرْنَاہُ مَنَازِلَ حَتَّیٰ عَادَ کَالْعُرْجُونِ الْقَدِیمِ لَا الشَّمْسُ یَنبَغِی لَہَا أَن تُدْرِکَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّیْلُ سَابِقُ النَّہَارِ وَکُلٌّ فِی فَلَکٍ یَسْبَحُونَ» ۱؎ (36-یس:37-40) ’ ان کے سمجھنے کے لئے ہماری ایک نشانی رات ہے کہ اس میں سے ہم دن کو نکالتے ہیں جس سے یہ اندھیرے میں آ جاتے ہیں ۔ سورج اپنے ٹھکانے کی طرف برابر جا رہا ہے ۔ یہ ہے اندازہ اللہ کا مقرر کیا ہوا جو غالب اور باعلم ہے ۔ ہم نے چاند کی بھی منزلیں ٹھہرا دی ہیں یہاں تک کہ وہ کھجور کی پرانی ٹہنی جیسا ہو کر رہ جاتا ہے ۔ نہ آفتاب ماہتاب سے آگے نکل سکتا ہے ، نہ رات دن سے پہلے آ سکتی ہے ۔ سب کے سب اپنے اپنے مدار میں تیرتے پھرتے ہیں ۔ رات دن میں کوئی فاصلہ نہیں ، ایک کا جانا ہی دوسرے کا آ جانا ہے ۔ ہر ایک دوسرے کے برابر پیچھے ہے ۔ ‘ «وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنٰجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِأَمْرِہِ» ۱؎ (7-الأعراف:54) کو بعض نے پیش سے بھی پڑھا ہے ۔ معنی مطلب دونوں صورتوں میں قریب قریب برابر ہے ۔ یہ سب اللہ کے زیر فرمان ، اس کے ماتحت اور اس کے ارادے میں ہیں ۔ ملک اور تصرف اسی کا ہے ۔ وہ برکتوں والا اور تمام جہان کا پالنے والا ہے ۔ فرمان ہے «تَبٰرَکَ الَّذِیْ جَعَلَ فِی السَّمَاءِ بُرُوْجًا وَّجَعَلَ فِیْہَا سِرٰجًا وَّقَمَرًا مٰنِیْرً» ۱؎ (25-الفرقان:61) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : { جس کسی نے کسی نیکی پر اللہ کی حمد نہ کی بلکہ اپنے نفس کو سراہا ، اس نے کفر کیا اور اس کے اعمال غارت ہوئے اور جس نے یہ عقیدہ رکھا کہ اللہ نے کچھ اختیارات اپنے بندوں کو بھی دیئے ہیں ، اس نے اس کے ساتھ کفر کیا جو اللہ نے اپنے نبیوں پر نازل فرمایا ہے کیونکہ اس کا فرمان ہے «اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ تَبٰرَکَ اللّٰہُ رَبٰ الْعٰلَمِیْنَ» } [ ابن جریر ] ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:14784:ضعیف جداً) ایک منقول دعا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بھی مروی ہے کہ { آپ فرماتے تھے «اللَّہُمَّ لَکَ الْحَمْدُ کُلٰہُ وَلَکَ الْمُلْکُ کُلٰہُ وَإِلَیْکَ یَرْجِعُ الأَمْرُ کُلٰہُ أَسْأَلُکَ مِنَ الْخَیْرِ کُلِّہِ عَاجِلِہِ وَآجِلِہِ ، مَا عَلِمْتُ مِنْہُ وَمَا لَمْ أَعْلَمْ ، وَأَعُوذُ بِکَ مِنَ الشَّرِّ کُلِّہِ» ۱؎ (بیہقی فی شعب الایمان:4400:ضعیف) یااللہ ! سارا ملک تیرا ہی ہے ، سب حمد تیرے لیے ہی ہے ، سب کام تیری ہی طرف لوٹتے ہیں ، میں تجھ سے تمام بھلائیاں طلب کرتا ہوں اور ساری برائیوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں ۔ } الاعراف
55 انسان دعا مانگے قبول ہو گی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو دعا کی ہدایت کرتا ہے جس میں ان کی دنیا اور آخرت کی بھلائی ہے ۔ فرماتا ہے کہ اپنے پروردگار کو عاجزی ، مسکینی اور آہستگی سے پکارو ۔ جیسے فرمان ہے «وَاذْکُر رَّبَّکَ فِی نَفْسِکَ تَضَرٰعًا وَخِیفَۃً وَدُونَ الْجَہْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ وَلَا تَکُن مِّنَ الْغَافِلِینَ» ۱؎ (7-الأعراف:205) ’ اپنے رب کو اپنے نفس میں یاد کر ۔ ‘ بخاری و مسلم میں { سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگوں نے دعا میں اپنی آوازیں بہت بلند کر دیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لوگو ! اپنی جانوں پر رحم کرو ۔ تم کسی بہرے کو یا غائب کو نہیں پکار رہے ۔ جسے تم پکار رہے ہو ، وہ بہت سننے والا اور بہت نزدیک ہے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:2992) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ پوشیدگی مراد ہے ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ” «تَضَرٰعًا» کے معنی ذلت مسکینی اور اطاعت گزاری کے ہیں اور «خُفْیَۃً» کے معنی دلوں کے خشوع خضوع سے ، یقین کی صحت سے ، اس کی وحدانیت اور ربوبیت کا ، اس کے اور اپنے درمیان یقین رکھتے ہوئے پکارو ۔ نہ کہ ریا کاری کے ساتھ ، بہت بلند آواز سے ۔ “ حسن رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ لوگ حافظ قرآن ہوتے تھے اور کسی کو معلوم بھی نہیں ہوتا تھا ، لوگ بڑے فقیہہ ہو جاتے تھے اور کوئی جانتا بھی نہ تھا ۔ لوگ لمبی لمبی نمازیں اپنے گھروں میں پڑھتے تھے اور مہمانوں کو بھی پتہ نہ چلتا تھا ۔ یہ وہ لوگ تھے کہ جہاں تک ان کے بس میں ہوتا تھا ، اپنی کسی نیکی کو لوگوں پر ظاہر نہیں ہونے دیتے تھے ۔ پوری کوشش سے دعائیں کرتے تھے لیکن اس طرح جیسے کوئی سرگوشی کر رہا ہو ۔ یہ نہیں کہ چیخیں چلائیں ۔ یہی فرمان رب ہے کہ اپنے رب کو عاجزی اور آہستگی سے پکارو ۔ دیکھو اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک نیک بندے کا ذکر کیا جس سے وہ خوش تھا کہ اس نے اپنے رب کو خفیہ طور پر پکارا ۔ امام ابن جریج رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ” دعا میں بلند آواز ، ندا اور چیخنے کو مکروہ سمجھا جاتا تھا بلکہ گریہ وزاری اور آہستگی کا حکم دیا جاتا تھا ۔ “ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ” دعا وغیرہ میں حد سے گزر جانے والوں کو اللہ دوست نہیں رکھتا ۔ “ ابومجاز رحمہ اللہ کہتے ہیں : ” مثلاً اپنے لیے نبی بن جانے کی دعا کرنا وغیرہ ۔ “ { سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے سنا کہ ان کا لڑکا اپنی دعا میں کہہ رہا ہے کہ اے اللہ ! میں تجھ سے جنت اور اس کی نعمتیں اور اس کے ریشم و حریر وغیرہ وغیرہ طلب کرتا ہوں اور جہنم سے ، اس کی زنجیروں اور اس کے طوق وغیرہ سے تیری پناہ چاہتا ہوں ۔ تو آپ نے فرمایا : تو نے اللہ سے بہت سی بھلائیاں طلب کیں اور بہت سی برائیوں سے پناہ چاہی ۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ، آپ فرماتے تھے کہ عنقریب کچھ لوگ ہوں گے جو دعا میں حد سے گزر جایا کریں گے ۔ } ۱؎ (مسند احمد:172/1-183:حسن لغیرہ) ایک سند سے مروی ہے کہ { وہ دعا مانگنے میں اور وضو کرنے میں حد سے نکل جائیں گے ۔ پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی اور فرمایا : تجھے اپنی دعا میں یہی کہنا کافی ہے کہ اے اللہ ! میں تجھ سے جنت اور جنت سے قریب کرنے والے قول و فعل کی توفیق طلب کرتا ہوں اور جہنم اور اس سے نزدیک کرنے والے قول و فعل سے تیری پناہ چاہتا ہوں ۔ } ۱؎ (سنن ابوداود:1480 ، قال الشیخ الألبانی:حسن صحیح) [ ابوداؤد ] ابن ماجہ وغیرہ میں ہے : { ان کے صاحبزادے اپنی دعا میں کہہ رہے تھے کہ یااللہ ! جنت میں داخل ہونے کے بعد جنت کی دائیں جانب کا سفید رنگ کا عالیشان محل میں تجھ سے طلب کرتا ہوں ۔ } ۱؎ (سنن ابوداود:96 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) پھر زمین پر امن و امان کے بعد فساد کرنے کو منع فرما رہا ہے کیونکہ اس وقت کا فساد خصوصیت سے زیادہ برائیاں پیدا کرتا ہے ۔ پس اللہ اسے حرام قرار دیتا ہے اور اپنی عبادت کرنے کا ، دعا کرنے کا ، مسکینی اور عاجزی کرنے کا حکم دیتا ہے کہ اللہ کو اس کے عذابوں سے ڈر کر اور اس کی نعمتوں کے امیدوار بن کر پکارو ۔ اللہ کی رحمت نیکو کاروں کے سروں پر منڈلا رہی ہے ۔ جو اس کے احکام بجا لاتے ہیں ، اس کے منع کردہ کاموں سے باز رہتے ہیں ۔ جیسے فرمایا «وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْءٍ فَسَاَکْتُبُہَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَالَّذِیْنَ ہُمْ بِاٰیٰتِنَا یُؤْمِنُوْنَ» ۱؎ (7-الأعراف:156) ’ یوں تو میری رحمت تمام چیزوں کو گھیرے ہوئے ہے لیکن میں اسے مخصوص کر دوں گا پرہیزگار لوگوں کے لیے ۔ ‘ چونکہ رحمت ثواب کی ضامن ہوتی ہے ، اس لیے «قَرِیْبٌ» کہا ، «قَرِیْبَۃٌ» نہ کہا یا اس لیے کہ وہ اللہ کی طرف مضاف ہے ۔ انہوں نے اللہ کے وعدوں کا سہارا لیا ۔ اللہ نے اپنا فیصلہ کر دیا کہ اس کی رحمت بالکل قریب ہے ۔ الاعراف
56 الاعراف
57 تمام مظاہر قدرت اس کی شان کے مظہر ہیں اوپر بیان ہوا کہ زمین و آسمان کا خالق اللہ ہے ۔ سب پر قبضہ رکھنے والا ، حاکم ، تدبیر کرنے والا ، مطیع اور فرمانبردار رکھنے والا اللہ ہی ہے ۔ پھر دعائیں کرنے کا حکم دیا کیونکہ وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ اب یہاں بیان ہو رہا ہے کہ رزاق بھی وہی ہے اور قیامت کے دن مردوں کو زندہ کر دینے والا بھی وہی ہے ۔ پس فرمایا کہ بارش سے پہلے بھینی بھینی خوش گوار ہوائیں وہی چلاتا ہے ۔ «بُشْرًا» کی دوسری قرأت «مُـبَـشِّـَراتٍ» بھی ہے ۔ رحمت سے مراد یہاں بارش ہے ۔ جیسے فرمان ہے «وَہُوَ الَّذِیْ یُنَزِّلُ الْغَیْثَ مِنْ بَعْدِ مَا قَنَطُوْا وَیَنْشُرُ رَحْمَتَہٗ وَہُوَ الْوَلِیٰ الْحَمِیْدُ» ۱؎ (42-الشوری:28) ’ وہ ہے جو لوگوں کی ناامیدی کے بعد بارش اتارتا ہے اور اپنی رحمت کی ریل پیل کر دیتا ہے ۔ وہ والی ہے اور قابل تعریف ۔ ‘ ایک اور آیت میں ہے : ’ رحمت رب کے آثار دیکھو کہ کس طرح مردہ زمین کو وہ جلا دیتا ہے ، وہی مردہ انسانوں کو زندہ کرنے والا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ ‘ ۱؎ (30-الروم:50) بادل جو پانی کی وجہ سے بوجھل ہو رہے ہیں ، انہیں یہ ہوائیں اٹھالے چلتی ہیں ۔ یہ زمین سے بہت قریب ہوتے ہیں اور سیاہ ہوتے ہیں ۔ چنانچہ زید بن عمرو بن نفیل رحمہ اللہ کے شعروں میں ہے : میں اس کا مطیع ہوں جس کے اطاعت گزار میٹھے اور صاف پانی کے بھرے ہوئے بادل ہیں اور جس کے تابع فرمان بھاری بوجھل پہاڑوں والی زمین ہے ۔ پھر ہم ان بادلوں کو مردہ زمین کی طرف لے چلتے ہیں جس میں کوئی سبزہ نہیں ، خشک اور بنجر ہے ۔ جیسے آیت «وَآیَۃٌ لَّہُمُ الْأَرْضُ الْمَیْتَۃُ أَحْیَیْنَاہَا وَأَخْرَجْنَا مِنْہَا حَبًّا فَمِنْہُ یَأْکُلُونَ» ۱؎ (36-یس:33) میں بیان ہوا ہے ۔ پھر اس سے پانی برسا کر اسی غیر آباد زمین کو سرسبز بنا دیتے ہیں ۔ اسی طرح ہم مردوں کو زندہ کر دیں گے ۔ حالانکہ وہ بوسیدہ ہڈیاں اور پھر ریزہ ریزہ ہو کر مٹی میں مل گئے ہوں گے ۔ قیامت کے دن ان پر اللہ عزوجل بارش برسائے گا ، چالیس دن تک برابر برستی رہے گی جس سے جسم قبروں میں اگنے لگیں گے جیسے دانہ زمین پر اگتا ہے ۔ یہ بیان قرآن کریم میں کئی جگہ ہے ۔ قیامت کی مثال بارش کی پیداوار سے دی جاتی ہے ۔ پھر فرمایا : یہ تمہاری نصیحت کے لیے ہے ۔ اچھی زمین میں سے پیداوار عمدہ بھی نکلتی ہے اور جلدی بھی ۔ جیسے فرمان ہے «فَتَقَبَّلَہَا رَبٰہَا بِقَبُولٍ حَسَنٍ وَأَنبَتَہَا نَبَاتًا حَسَنًا» ۱؎ (3-آل عمران:37) اور جو زمین خراب ہے جیسے سنگلاخ زمین ، شور زمین وغیرہ ، اس کی پیداوار بھی ویسی ہی ہوتی ہے ۔ یہی مثال مومن و کافر کی ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : { جس علم و ہدایت کے ساتھ اللہ نے مجھے بھیجا ہے ، اس کی مثال ایسی ہے جیسے زمین پر بہت زیادہ بارش ہوئی ۔ زمین کے ایک صاف عمدہ ٹکڑے نے تو پانی قبول کیا ، گھاس اور چارہ بہت سا اس میں سے نکلا ۔ ان میں بعض ٹکڑے ایسے بھی تھے جن میں پانی جمع ہو گیا اور وہاں رک گیا ۔ پس اس سے بھی لوگوں نے فائدہ اٹھایا ، پیا اور پلایا ۔ کھیتیاں ، باغات تازہ کئے ، زمین کے جو چٹیل سنگلاخ ٹکڑے تھے ، ان پر بھی وہ پانی برسا لیکن نہ تو وہاں رکا ، نہ وہاں کچھ اگا ۔ یہی مثال اس کی ہے جس نے دین کی سمجھ پیدا کی اور میری بعثت سے اس نے فائدہ اٹھایا ، خود سیکھا اور دوسروں کو سکھایا اور ایسے بھی ہیں کہ انہوں نے سر ہی نہ اٹھایا اور اللہ کی وہ ہدایت ہی نہ کی جو میری معرفت بھیجی گئی ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:79) [ مسلم و نسائی ] الاعراف
58 الاعراف
59 پھر تذکرہ انبیاء چونکہ سورت کے شروع میں سیدنا آدم علیہ السلام کا قصہ بیان ہوا تھا ۔ پھر اس کے متعلقات بیان ہوئے اور اس کے متصل اور بیانات فرما کر اب پھر اور انبیاء علیہم السلام کے واقعات کے بیان کا آغاز ہوا اور پے در پے ان کے بیانات ہوئے ۔ سب سے پہلے نوح علیہ السلام کا ذکر ہوا کیونکہ سیدنا آدم علیہ السلام کے بعد سب سے پہلے پیغمبر اہل زمین کی طرف آپ ہی آئے تھے ۔ آپ نوح بن لامک بن متوشلخ بن اخنوخ [ یعنی ادریس علیہ السلام یہی پہلے وہ شخص ہیں جنہوں نے قلم سے لکھا ] بن برد بن مہلیل بن قنین بن یانشن بن شیث بن آدم علیہ السلام ۔ ائمہ نسب امام محمد بن اسحاق رحمہ اللہ وغیرہ نے آپ کا نسب نامہ اسی طرح بیان فرمایا ہے ۔ امام صاحب فرماتے ہیں : نوح علیہ السلام جیسا کوئی اور نبی امت کی طرف سے ستایا نہیں گیا ۔ ہاں انبیاء قتل ضرور کئے گئے ۔ انہیں نوح اسی لیے کہا گیا کہ یہ اپنے نفس کا رونا بہت روتے تھے ۔ آدم اور نوح علیہم السلام کے درمیان دس زمانے تھے جو اسلام پر گزرے تھے ۔ اصنام پرستی کا رواج اس طرح شروع ہوا کہ جب اولیاء اللہ فوت ہو گئے تو ان کی قوم نے ان کی قبروں پر مسجدیں بنا لیں اور ان میں ان بزرگوں کی تصویریں بنا لیں تاکہ ان کا حال اور ان کی عبادت کا نقشہ سامنے رہے اور اپنے آپ کو ان جیسا بنانے کی کوشش کریں لیکن کچھ زمانے کے بعد ان تصویروں کے مجسمے بنا لیے ۔ کچھ اور زمانے کے بعد انہی بتوں کی پوجا کرنے لگے اور ان کے نام انہی اولیاء اللہ کے ناموں پر رکھ لیے ۔ ود ، سواع ، یغوث ، یعوق ، نسر وغیرہ ۔ جب بت پرستی کا رواج ہو گیا ، اللہ نے اپنے رسول نوح علیہ السلام کو بھیجا ۔ آپ نے انہیں اللہ واحد کی عبادت کی تلقین کی اور کہا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ مجھے تو ڈر ہے کہ کہیں قیامت کے دن تمہیں عذاب نہ ہو ۔ قوم نوح کے بڑوں نے ، ان کے سرداروں نے اور ان کے چودھریوں نے نوح علیہ السلام کو جواب دیا کہ تم تو بہک گئے ہو ، ہمیں اپنے باپ دادوں کے دین سے ہٹا رہے ہو ۔ ہر بد شخص نیک لوگوں کو گمراہ سمجھا کرتا ہے ۔ قرآن میں ہے کہ جب یہ بدکار ان نیک کاروں کو دیکھتے ہیں ، کہتے ہیں کہ یہ تو بہکے ہوئے ہیں ۔ کہا کرتے تھے کہ اگر یہ دین اچھا ہوتا تو ان سے پہلے ہم نہ مان لیتے ؟ یہ تو بات ہی غلط اور جھوٹ ہے ۔ نوح علیہ السلام نے جواب دیا کہ میں بہکا ہوا نہیں ہوں بلکہ میں اللہ کا رسول ہوں ، تمہیں پیغام رب پہنچا رہا ہوں ۔ تمہارا خیرخواہ ہوں اور اللہ کی وہ باتیں جانتا ہوں جنہیں تم نہیں جانتے ۔ ہر رسول مبلغ ، فصیح ، بلیغ ، ناصح ، خیرخواہ اور عالم باللہ ہوتا ہے ۔ ان صفات میں اور کوئی ان کی ہمسری اور برابری نہیں کر سکتا ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفے کے دن اپنے اصحاب سے فرمایا جبکہ وہ بہت بڑی تعداد میں بہت زیادہ تھے کہ اے لوگو ! میری بابت اللہ کے ہاں پوچھے جاؤ گے تو بتاؤ کیا جواب دو گے ؟ سب نے کہا : ہم کہیں گے کہ آپ نے تبلیغ کر دی تھی اور حق رسالت ادا کر دیا تھا اور پوری خیر خواہی کی تھی ۔ پس آپ نے اپنی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اور پھر نیچے زمین کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا یااللہ ! تو گواہ رہ ، اے اللہ ! تو شاہد رہ ، یااللہ ! تو گواہ رہ ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:1218) الاعراف
60 الاعراف
61 الاعراف
62 الاعراف
63 نوح علیہ السلام پر کیا گزری؟ نوح علیہ السلام اپنی قوم سے فرما رہے ہیں کہ تم اس بات کو انوکھا اور تعجب والا نہ سمجھو کہ اللہ تعالیٰ اپنے لطف و کرم سے کسی انسان پر اپنی وحی نازل فرمائے اور اسے اپنی پیغمبری سے ممتاز کر دے تاکہ وہ تمہیں ہو شیار کر دے ۔ پھر تم شرک و کفر سے الگ ہو کر عذاب الٰہی سے نجات پا لو اور تم پر گو نا گوں رحمتیں نازل ہوں ۔ نوح علیہ السلام کی ان دلیلوں اور وعظوں سے ان سنگدلوں پر کوئی اثر نہ ہوا ۔ یہ انہیں جھٹلاتے رہے ، مخالفت سے باز نہ آئے ، ایمان قبول نہ کیا ۔ صرف چند لوگ سنور گئے ۔ پس ہم نے ان لوگوں کو اپنے نبی علیہ السلام کے ساتھ کشتی میں بٹھا کر طوفان سے نجات دی اور باقی لوگوں کو تہ آب غرق کر دیا ۔ جیسے سورۃ نوح میں فرمایا ہے کہ وہ اپنے گناہوں کے باعث غرق کر دیئے گئے ۔ پھر دوزخ میں ڈال دیئے گئے اور کوئی ایسا نہیں تھا جو ان کی کسی قسم کی مدد کرتا ۔ یہ لوگ حق سے آنکھیں بند کئے ہوئے تھے ، نابینا ہو گئے تھے ، راہ حق انہیں آخر تک سجھائی نہ دی ۔ پس اللہ نے اپنے نبی علیہ السلام کو ، اپنے دوستوں کو نجات دی ۔ اپنے اور ان کے دشمنوں کو تہ آب برباد کر دیا ۔ جیسے اس کا وعدہ ہے کہ ہم اپنے رسولوں کی اور ایمانداروں کی ضرور مدد فرمایا کرتے ہیں ، دنیا میں ہی نہیں بلکہ آخرت میں بھی وہ ان کی امداد کرتا ہے ۔ ان پرہیزگاروں کے لئے ہی عافیت ہے ۔ انجام کار غالب اور مظفر و منصور یہی رہتے ہیں جیسے کہ نوح علیہ السلام آخر کار غالب رہے اور کفار ناکام و نامراد ہوئے ۔ یہ لوگ تنگ پکڑ میں آ گئے اور غارت کر دئیے گئے ۔ صرف اللہ کے رسول علیہ السلام کے اسی [ ۸۰ ] آدمیوں نے نجات پائی ۔ ان ہی میں ایک صاحب جرہم نامی تھے جن کی زبان عربی تھی ۔ ابن ابی حاتم میں یہ روایت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے متصلاً مروی ہے ۔ الاعراف
64 الاعراف
65 ہود علیہ السلام اور ان کا رویہ! فرماتا ہے کہ جیسے قوم نوح کی طرف نوح علیہ السلام کو ہم نے بھیجا تھا ، قوم عاد کی طرف ہود علیہ السلام کو ہم نے نبی بنا کر بھیجا ، یہ لوگ عاد بن ارم بن عوص بن سام بن نوح کی اولاد تھے ۔ یہ عاد اولیٰ ہیں ۔ یہ جنگل میں ستونوں میں رہتے تھے ۔ فرمان ہے «أَلَمْ تَرَ کَیْفَ فَعَلَ رَبٰکَ بِعَادٍ إِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ الَّتِی لَمْ یُخْلَقْ مِثْلُہَا فِی الْبِلَادِ» (89-الفجر:6-8) یعنی ’ کیا تو نے نہیں دیکھا کہ عاد ، ارم کے ساتھ تیرے رب نے کیا کیا ؟ جو بلند قامت تھے ۔ دوسرے شہروں میں جن کی مانند لوگ پیدا ہی نہیں کئے گئے ۔ ‘ یہ لوگ بڑے قوی ، طاقتور اور لمبے چوڑے قد کے تھے ۔ جیسے فرمان ہے کہ عادیوں نے زمین میں ناحق تکبر کیا اور نعرہ لگایا کہ ہم سے زیادہ قوی کون ہے ؟ کیا انہیں اتنی بھی تمیز نہیں کہ ان کا پیدا کرنے والا یقیناً ان سے زیادہ قوت و طاقت والا ہے ۔ وہ ہماری آیتوں سے انکار کر بیٹھے ۔ ان کے شہر یمن میں احقاف تھے ، یہ ریتلے پہاڑ تھے ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے حضر موت کے ایک شخص سے کہا کہ تو نے ایک سرخ ٹیلہ دیکھا ہو گا جس میں سرخ رنگ کی راکھ جیسی مٹی ہے ۔ اس کے آس پاس پیلو اور بیری کے درخت بکثرت ہیں ، وہ ٹیلہ فلاں جگہ حضر موت میں ہے ۔ اس نے کہا : امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ آپ تو اس طرح کے نشان بتا رہے ہیں گویا آپ نے بچشم خود دیکھا ہے ۔ آپ نے فرمایا : نہیں دیکھا تو نہیں لیکن ہاں مجھ تک حدیث پہنچی ہے کہ وہیں ہود علیہ السلام کی قبر ہے ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان لوگوں کی بستیاں یمن میں تھیں ۔ اس لیے ان کے پیغمبر وہیں مدفون ہیں ۔ آپ ان سب میں شریف قبیلے کے تھے ۔ اس لیے کہ انبیاء ہمیشہ حسب نسب کے اعتبار سے عالی خاندان میں ہی ہوتے رہے ہیں لیکن آپ کی قوم جس طرح جسمانی طور سے سخت اور زوردار تھی ، اسی طرح دلوں کے اعتبار سے بھی بہت سخت تھی ۔ جب اپنے نبی کی زبانی اللہ کی عبادت اور تقویٰ کی نصیحت سنی تو لوگوں کی بھاری اکثریت اور ان کے سردار اور بڑے بول اٹھے کہ تو تو پاگل ہو گیا ہے ، ہمیں اپنے بتوں کی ان خوبصورت تصویروں کی عبادت سے ہٹا کر اللہ واحد کی عبادت کی طرف بلا رہا ہے ۔ یہی تعجب قریش کو ہوا تھا ۔ انہوں نے کہا تھا کہ اس نے سارے معبودوں کو عبادت سے ہٹا کر ایک کی دعوت کیوں دی ؟ ہود علیہ السلام نے انہیں جواب دیا کہ مجھ میں تو بیوقوفی کی بفضلہ کوئی بات نہیں ۔ میں جو کہہ رہا ہوں وہ اللہ کا فرمودہ ہے ۔ اس لیے کہ میں رسول اللہ ہوں ۔ رب کی طرف سے حق لایا ہوں ۔ وہ رب ہر چیز کا مالک ، سب کا خالق ہے ۔ میں تو تمہیں کلام اللہ پہنچا رہا ہوں ، تمہاری خیر خواہی کرتا ہوں اور امانت داری سے حق رسالت ادا کر رہا ہوں ۔ یہی وہ صفتیں ہیں جو تمام رسولوں میں یکساں ہوتی ہیں یعنی پیغام حق پہنچانا ، لوگوں کی بھلائی چاہنا اور امانت داری کا نمونہ بننا ۔ تم میری رسالت پر تعجب نہ کرو بلکہ اللہ کا شکر بجا لاؤ کہ اس نے تم میں سے ایک فرد کو اپنا پیغمبر بنایا کہ وہ تمہیں عذاب الٰہی سے ڈرا دے ۔ تمہیں رب کے اس احسان کو بھی فراموش نہ کرنا چاہیئے کہ اس نے تمہیں ہلاک ہونے والوں کے بقایا میں سے بنایا ، تمہیں باقی رکھا ۔ اتنا ہی نہیں بلکہ تمہیں قوی ہیکل ، مضبوط اور طاقتور کر دیا ۔ یہی نعمت طالوت پر تھی کہ انہیں جسمانی اور علمی کشادگی دی گئی تھی ۔ ۱؎ (2-البقرۃ:247) تم اللہ کی نعمتوں کو یاد رکھو تاکہ نجات حاصل کر سکو ۔ الاعراف
66 الاعراف
67 الاعراف
68 الاعراف
69 الاعراف
70 قوم عاد کا باغیانہ رویہ قوم عاد کی سرکشی ، تکبر ، ضد اور عناد کا بیان ہو رہا ہے کہ انہوں نے ہود علیہ السلام سے کہا کہ کیا آپ کی تشریف آوری کا مقصد یہی ہے کہ ہم اللہ واحد کے پرستار بن جائیں اور باپ دادوں کے پرانے معبودوں سے روگردانی کر لیں ؟ سنو ! اگر یہی مقصود ہے تو اس کا پورا ہونا محال ہے ۔ ہم تیار ہیں اگر تم سچے ہو تو اپنے اللہ سے ہمارے لیے عذاب طلب کرو ۔ یہی کفار مکہ نے کہا تھا ۔ کہنے لگے کہ ’ یااللہ ! محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کہا حق ہے اور واقعی تیرا کلام ہے اور ہم نہیں مانتے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا یا کوئی اور سخت المناک عذاب ہمیں کر ۔ ‘ ۱؎ (8-الأنفال:32) قوم عاد کے بتوں کے نام یہ ہیں : صمد ، صمودھبا ۔ ان کی اس ڈھٹائی کے مقابلے میں اللہ کے پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا کہ تمہاری ین باتوں سے بےشک تم پر اللہ کا عذاب اور اس کا غضب ثابت ہو گیا ۔ «رِجْسٌ» سے مراد «رجز» یعنی عذاب ہے ۔ ناراضی اور غصے کے معنی یہی ہیں ۔ پھر فرمایا کہ تم ان بتوں کی بابت مجھ سے جھگڑ رہے ہو جن کے نام بھی تم نے خود رکھے ہیں یا تمہارے بڑوں نے اور خواہ مخواہ بےوجہ انہیں معبود سمجھ بیٹھے ہو ، یہ پتھر کے ٹکڑے محض بےضرر اور بےنفع ہیں ۔ نہ اللہ نے ان کی عبادت کی کوئی دلیل اتاری ہے ۔ ہاں اگر مقابلے پر اتر ہی آئے ہو تو منتظر رہو ، میں بھی منتظر ہوں ۔ ابھی معلوم ہو جائے گا کہ مقبول بارگاہ رب کون ہے اور مردود بارگاہ کون ہے ؟ کون مستحق عذاب ہے اور کون قابل ثواب ہے ؟ آخر ہم نے اپنے نبی علیہ السلام کو اور ان کے ایماندار ساتھیوں کو نجات دی اور کافروں کی جڑیں کاٹ دیں ۔ قرآن کریم کے کئی مقامات پر جناب باری عزوجل نے ان کی تباہی کی صورت بیان فرمائی ہے کہ ان پر خیر سے خالی ، تند اور تیز ہوائیں بھیجی گئیں جس نے انہیں اور ان کی تمام چیزوں کو غارت اور برباد کر دیا ۔ عاد لوگ بڑے زناٹے کی سخت آندھی سے ہلاک کر دیئے گئے جو ان پر برابر سات رات اور آٹھ دن چلتی رہی ۔ سارے کے سارے اس طرح ہو گئے جیسے کھجور کے درختوں کے تنے الگ ہوں اور شاخیں الگ ہوں ۔ دیکھ لے ! ان میں سے ایک بھی اب نظر آ رہا ہے ؟ ان کی سرکشی کی سزا میں سرکش ہوا ان پر مسلط کر دی گئی جو ان میں سے ایک ایک کو اٹھا کر آسمان کی بلندی کی طرف لے جاتی اور وہاں سے گراتی جس سے سر الگ ہو جاتا ، دھڑ الگ گر جاتا ۔ یہ لوگ یمن کے ملک میں ، عمان اور حضر موت میں رہتے تھے ۔ ادھر ادھر نکلتے ، لوگوں کو مار پیٹ کی جبراً و قہراً ان کے ملک و مال پر غاصبانہ قبضہ کر لیتے ۔ سارے کے سارے بت پرست تھے ۔ ہود علیہ السلام جو ان کے شریف خاندانی شخص تھے ، ان کے پاس رب کی رسالت لے کر آئے ۔ اللہ کی توحید کا حکم دیا ، شرک سے روکا ، لوگوں پر ظلم کرنے کی برائی سمجھائی لیکن انہوں نے اس نصیحت کو قبول نہ کیا ۔ مقابلے پر تن گئے اور اپنی قوت سے حق کو دبانے لگے ۔ گو بعض لوگ ایمان لائے تھے لیکن وہ بھی بےچارے جان کے خوف سے پوشیدہ رکھے ہوئے تھے ۔ باقی لوگ بدستور اپنی بےایمانی اور ناانصافی پر جمے رہے ، خواہ مخواہ فوقیت ظاہر کرنے لگے ، بے کار عمارتیں بناتے اور پھولے نہ سماتے ۔ ان کاموں کو اللہ کے رسول ناپسند فرماتے ، انہیں روکتے ۔ تقویٰ کی ، اطاعت کی ہدایت کرتے لیکن یہ کبھی تو انہیں بےدلیل بتاتے ، کبھی انہیں مجنون کہتے ۔ آپ اپنی برات ظاہر کرتے اور ان سے صاف فرماتے کہ مجھے تمہاری قوت طاقت کا مطلقاً خوف نہیں ۔ جاؤ تم سے جو ہو سکے ، کر لو ۔ میرا بھروسہ اللہ پر ہے ۔ اس کے سوا نہ کوئی بھروسے کے لائق ، نہ عبادت کے قابل ۔ ساری مخلوق اس کے سامنے عاجز ، پست اور لاچار ہے ۔ سچی راہ اللہ کی راہ ہے ۔ آخر جب یہ اپنی برائیوں سے باز نہ آئے تو ان پر بارش نہ برسائی گئی ، تین سال تک قحط سالی رہی ۔ زچ ہو گئے ، تنگ آ گئے ۔ آخر یہ سوچا کہ چند آدمیوں کو بیت اللہ شریف بھیجیں ۔ وہ وہاں جا کر اللہ سے دعائیں کریں ۔ یہی ان کا دستور تھا کہ جب کسی مصیبت میں پھنس جاتے تو وہاں وفد بھیجتے ۔ اس وقت ان کا قبیلہ عمالیق حرم شریف میں بھی رہتا تھا ۔ یہ لوگ عملیق بن لاوذ بن سام بن نوح کی نسل میں سے تھے ۔ ان کا سردار اس زمانے میں معاویہ بن بکر تھا ۔ اس کی ماں قوم عاد سے تھی جس کا نام کلھدہ بنت خبیری تھا ۔ عادیوں نے اپنے ہاں سے ستر شخصوں کو منتخب کر کے بطور وفد مکے شریف کو روانہ کیا ۔ یہاں آ کر یہ معاویہ کے مہمان بنے ۔ پرتکلف دعوتوں کے اڑانے ، شراب خوری کرنے اور معاویہ کی دو لونڈیوں کا گانا سننے میں اس بےخودی سے مشغول ہو گئے کہ کامل ایک مہینہ گزر گیا ۔ انہیں اپنے کام کی طرف مطلق توجہ نہ ہوئی ۔ معاویہ ان کی یہ روش دیکھ کر اور اپنی قوم کی بری حالت سامنے رکھ کر بہت کڑھتا تھا لیکن یہ مہمان نوازی کے خلاف تھا کہ خود ان سے کہتا کہ جاؤ ۔ اس لیے اس نے کچھ اشعار لکھے اور ان ہی دونوں کنیزوں کو یاد کرائے کہ وہ یہی گا کر انہیں سنائیں ۔ ان شعروں کا مضمون یہ تھا کہ اے لوگو ! جو قوم کی طرف سے اللہ سے دعائیں کرنے کے لیے بھیجے گئے ہو کہ اللہ عادیوں پر بارش برسائے جو آج قحط سالی کی وجہ سے تباہ ہو گئے ہیں ۔ بھوکے پیاسے مر رہے ہیں ۔ بڈھے ، بچے ، مرد ، عورتیں تباہ حال پھر رہے ہیں ۔ یہاں تک کہ بولنا چالنا ان پر دو بھر ہو گیا ہے ۔ جنگلی جانور ان کی آبادیوں میں پھر رہے ہیں کیونکہ کسی آدمی میں اتنی قوت کہاں کہ وہ تیر چلا سکے ۔ لیکن افسوس کہ تم یہاں اپنے من مانے مشغلوں میں منہمک ہو گئے اور بےفائدہ وقت ضائع کرنے لگے ۔ تم سے زیادہ برا وفد دنیا میں کوئی نہ ہو گا ۔ یاد رکھو ! اگر اب بھی تم نے مستعدی سے قومی خدمت نہ کی تو تم برباد اور غارت ہو جاؤ گے ۔ یہ سن کر ان کے کان کھڑے ہوئے ۔ یہ حرم میں گئے اور دعائیں مانگنا شروع کیں ۔ اللہ تعالیٰ نے تین بادل ان کے سامنے پیش کئے ۔ ایک سفید ، ایک سیاہ ، ایک سرخ ۔ اور ایک آواز آئی کہ ان میں سے کسی ایک کو اختیار کر لو ۔ اس نے سیاہ بادل پسند کیا ۔ آوز آئی کہ تو نے سیاہ بادل پسند کیا ، جو عادیوں میں سے کسی کو بھی باقی نہ چھوڑے گا ۔ نہ باپ کو ، نہ بیٹے کو ۔ سب کو غارت کر دے گا سوائے بنی لوذید کے ۔ یہ بنی لوذید بھی عادیوں کا ایک قبیلہ تھا جو مکہ میں مقیم تھے ۔ ان پر وہ عذاب نہیں آئے تھے ۔ یہی باقی رہے اور انہی میں سے عاد اخریٰ ہوئے ۔ اس وفد کے سردار نے سیاہ بادل پسند کیا تھا جو اسی وقت عادیوں کی طرف چلا ۔ اس شخص کا نام قیل بن غز تھا ۔ جب یہ بادل عادیوں کے میدان میں پہنچا جس کا نام مغیث تھا تو اسے دیکھ کر لوگ خوشیاں منانے لگے کہ اس ابر سے پانی ضرور برسے گا حالانکہ یہ وہ تھا جس کی یہ لوگ نبی کے مقابلہ میں جلدی مچا رہے تھے جس میں المناک عذاب تھا جو تمام چیزوں کو فنا کر دینے والا تھا ۔ سب سے پہلے اس عذاب الٰہی کو ایک عورت نے دیکھا جس کا نام ممید تھا ۔ یہ چیخ مار کر بےہوش ہو گئی ۔ جب ہوش آئی تو لوگوں نے اس سے پوچھا کہ تو نے کیا دیکھا ؟ اس نے کہا : آگ کا بگولہ جو بصورت ہوا کے تھا جسے فرشتے گھسیٹے لیے چلے آتے تھے ۔ برابر سات راتیں اور آٹھ دن تک یہ آگ والی ہوا ان پر چلتی رہی اور عذاب کا بادل ان پر برستا رہا ۔ تمام عادیوں کا ستیاناس ہو گیا ۔ ہود علیہ السلام اور آپ کے مومن ساتھی ایک باغیچے میں چلے گئے ۔ وہاں اللہ نے انہیں محفوظ رکھا ۔ وہی ہوا ٹھنڈی اور بھینی بھینی ہو کر ان کے جسموں کو لگتی رہی جس سے روح کو تازگی اور آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچتی رہی ۔ ہاں عادیوں پر اس ہوا نے سنگباری شروع کر دی ، ان کے دماغ پھٹ گئے ۔ آخر انہیں اٹھا اٹھا کر دے پٹخا ، سر الگ ہو گئے ، دھڑ الگ جا پڑے ۔ یہ ہوا سوار کو سواری سمیت ادھر اٹھا لیتی تھی اور بہت اونچے لے جا کر اسے اوندھا دے پٹختی تھی الخ ۔ یہ سیاق بہت غریب ہے اور اس میں بہت سے فوائد ہیں ۔ عذاب الٰہی کے آ جانے سے ہود علیہ السلام کو اور مومنوں کو نجات مل گئی ۔ رحمت حق ان کے شامل حال رہی اور باقی کفار اس بدترین سزا میں گرفتار ہوئے ۔ مسند احمد میں ہے ، { حارث بکری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں اپنے ہاں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں علا بن حضرمی کی شکایت لے کر چلا جب میں ربذہ میں پہنچا تو بنو تمیم کی ایک بڑھیا لاچار ہو کر بیٹھی ہوئی ملی ۔ مجھ سے کہنے لگی : اے اللہ کے بندے ! مجھے سرکار رسالت مآب میں پہنچنا ہے ۔ کیا تو میرے ساتھ اتنا سلوک کرے گا کہ مجھے دربار رسالت میں پہنچا دے ؟ میں نے کہا : آؤ ۔ چنانچہ میں نے اسے اپنے اونٹ پر بٹھا لیا اور مدینے پہنچا ۔ دیکھا کہ مسجد لوگوں سے بھری ہوئی ہے ۔ سیاہ جھنڈے لہرا رہے ہیں اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تلوار لٹکائے کھڑے ہیں ۔ میں نے پوچھا : کیا بات ہے ؟ لوگوں نے کہا : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی ماتحتی میں کہیں لشکر بھیجنے والے ہیں ۔ میں تھوری دیر بیٹھا رہا ۔ اتنے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی منزل میں تشریف لے گئے ۔ میں آپ کے پیچھے ہی گیا ۔ اجازت طلب کی ۔ اجازت ملی ، جب میں نے اندر جا کر سلام کیا تو آپ نے مجھ سے دریافت کیا : تم میں اور بنو تمیم میں کچھ چشمک ہے ؟ میں نے کہا : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ذمہ دار وہی ہیں ۔ میں اب حاضر خدمت ہو رہا تھا تو راستے میں قبیلہ تمیم کی ایک بڑھیا عورت مل گئی جس کے پاس سواری وغیرہ نہ تھی ۔ اس نے مجھ سے درخواست کی اور میں اسے اپنی سواری پر بٹھا کر یہاں لایا ہوں ۔ وہ دروازے پر بیٹھی ہے ۔ آپ نے اسے بھی اندر آنے کی اجازت دی ۔ { میں نے کہا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم میں اور بنو تمیم میں کوئی روک کر دیجئے ۔ اس پر بڑھیا تیز ہو کر بولی : اگر آپ نے ایسا کر دیا تو آپ کے ہاں کے بےبس کہاں پناہ لیں گے ؟ میں نے کہا : سبحان اللہ ! تیری اور میری تو وہی مثل ہوئی کہ بکری اپنی موت کو آپ اٹھا کر لے گئی ۔ میں نے ہی تجھے یہاں پہنچایا ہے ، مجھے اس کے انجام کی کیا خبر تھی ؟ اللہ نہ کرے کہ میں عادی قبیلے کے وفد کی طرح ہو جاؤں ۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ بھئی عادیوں کے وفد کا قصہ کیا ہے ؟ باوجود یہ کہ آپ کو مجھ سے زیادہ اس کا علم تھا لیکن یہ سمجھ کر کہ اس وقت آپ باتیں کرنا چاہتے ہیں ۔ میں نے قصہ شروع کر دیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جس وقت عادیوں میں قحط سالی نمودار ہوئی تو انہوں نے قیل نامی ایک شخص کو بطور اپنے قاصد کے بیت اللہ شریف دعا وغیرہ کرنے کے لئے بھیجا ۔ یہ معاویہ بن بکر کے ہاں آ کر مہمان بنا ۔ یہاں شراب و کباب اور راگ رنگ میں ایسا مشغول ہوا کہ مہینے بھر تک جام لنڈھاتا رہا اور معاویہ کی دو لونڈیوں کے گانے سنتا رہا ، ان کا نام جرادہ تھا ۔ مہینے بھر کے بعد مہرہ کے پہاڑوں پر گیا اور اللہ سے دعا مانگنے لگا کہ باری تعالیٰ ! میں کسی بیمار کی دوا کے لیے یا کسی قیدی کے فدیئے کے لیے نہیں آیا ۔ یااللہ ! عادیوں کو تو وہ پلا جو پلایا کرتا تھا ۔ اتنے میں وہ دیکھتا ہے کہ چند سیاہ رنگ کے بادل اس کے سر پر منڈلا رہے ہیں ۔ ان میں سے ایک غیبی صدا آئی کہ ان میں سے جو تجھے پسند ہو ، قبول کر لے ۔ اس نے سخت سیاہ بادل کو اختیار کیا ۔ اسی وقت دوسری آواز آئی کہ لے لے خاک راکھ جو عادیوں میں سے ایک کو بھی نہ چھوڑے ۔ عادیوں پر ہوا کے خزانے میں سے صرف بقدر انگوٹھی کے حلقے کے ہوا چھوڑی گئی تھی جس نے سب کو غارت اور تہ و بالا کر دیا ۔ ابووائل کہتے ہیں : یہ واقعہ سارے عرب میں ضرب المثل ہو گیا تھا جب لوگ کسی کو بطور وفد کے بھیجتے تھے تو کہہ دیا کرتے تھے کہ عادیوں کے وفد کی طرح نہ ہو جانا ۔ } ۱؎ (مسند احمد:482/3:حسن) اسی طرح مسند احمد میں بھی یہ روایت موجود ہے ۔ سنن کی اور کتابوں میں بھی یہ واقعہ موجود ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» الاعراف
71 الاعراف
72 الاعراف
73 ثمود کی قوم اور اس کا عبرت ناک انجام علمائے نسب نے بیان کیا ہے کہ ثمود بن عامر بن ارم بن سام بن نوح , یہ بھائی تھا جدیس بن عامر کا ۔ اسی طرح قبیلہ طسم یہ سب خالص عرب تھے ۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے پہلے ثمودی عادیوں کے بعد ہوئے ہیں ۔ ان کے شہر حجاز اور شام کے درمیان وادی القری اور اس کے اردگرد مشہور ہیں ۔ سنہ ٩ھ میں تبوک جاتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی اجاڑ بستیوں میں سے گزرے تھے ۔ مسند احمد میں ہے کہ { جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تبوک کے میدان میں اترے ۔ لوگوں نے ثمودیوں کے گھروں کے پاس ڈیرے ڈالے اور انہی کے کنوؤں کے پانی سے آٹے گوندھے ، ہانڈیاں چڑھائیں تو آپ نے حکم دیا کہ سب ہانڈیاں الٹ دی جائیں اور گندھے ہوئے آٹے اونٹوں کو کھلا دیئے جائیں ۔ پھر فرمایا : یہاں سے کوچ کرو اور اس کنوئیں کے پاس ٹھہرو جس سے صالح علیہ السلام کی اونٹنی پانی پیتی تھی اور فرمایا : آئندہ عذاب والی بستیوں میں پڑاؤ نہ کیا کرو ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اسی عذاب کے شکار تم بھی بن جاؤ ۔ } ۱؎ (مسند احمد:117/2:صحیح) ایک روایت میں ہے کہ { ان کی بستیوں سے روتے اور ڈرتے ہوئے گزرو کہ مبادا وہی عذاب تم پر آ جائیں جو ان پر آئے تھے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:4420) اور روایت میں ہے : { غزوہ تبوک میں لوگ بہ عجلت ہجر کے لوگوں کے گھروں کی طرف لپکے ۔ آپ نے اسی وقت یہ آواز بلند کرنے کا کہا : «اَلصَلٰوۃُ جَامِعۃٌ» جب لوگ جمع ہو گئے تو آپ نے فرمایا کہ ان لوگوں کے گھروں میں کیوں گھسے جا رہے ہو جن پر غضب الٰہی نازل ہوا ۔ راوی حدیث ابوکبشہ انماری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ایک نیزہ تھا ۔ میں نے یہ سن کر عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم تو صرف تعجب کے طور پر انہیں دیکھنے چلے گئے تھے ۔ آپ نے فرمایا : میں تمہیں اس سے بھی تعجب خیز چیز بتا رہا ہوں ۔ تم میں سے ہی ایک شخص ہے جو تمہیں وہ چیز بتا رہا ہے جو گزر چکیں اور وہ خبریں دے رہا ہے جو تمہارے سامنے ہیں اور جو تمہارے بعد ہونے والی ہیں ۔ پس تم ٹھیک ٹھاک رہو اور سیدھے چلے جاؤ ۔ تمہیں عذاب کرتے ہوئے بھی اللہ تعالیٰ کو کوئی پرواہ نہیں ۔ یاد رکھو ! ایسے لوگ آئیں گے جو اپنی جانوں سے کسی چیز کو دفع نہ کر سکیں گے ۔ } ۱؎ (مسند احمد:231/4:حسن) سیدنا ابوکبشہ رضی اللہ عنہ کا نام عمر بن سعد ہے اور کہا گیا ہے کہ عامر بن سعد ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ ایک روایت میں ہے کہ { ہجر کی بستی کے پاس آتے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : معجزے نہ طلب کرو ۔ دیکھو ! قوم صالح نے معجزہ طلب کیا جو ظاہر ہوا یعنی اونٹنی جو اس راستے سے آتی تھی اور اس راستے سے جاتی تھی لیکن ان لوگوں نے اپنے رب کے حکم سے سرتابی کی اور اونٹنی کی کوچیں کاٹ دیں ۔ ایک دن اونٹنی ان کا پانی پیتی تھی اور ایک دن یہ سب اس کا دودھ پیتے تھے ۔ اس اونٹنی کو مار ڈالنے پر ان پر ایک چیخ آئی اور یہ جتنے بھی تھے ، سب کے سب ڈھیر ہو گئے ۔ بجز اس ایک شخص کے جو حرم شریف میں تھا ۔ لوگوں نے پوچھا : اس کا نام کیا تھا ؟ فرمایا : ابورغال ، یہ بھی جب حد حرم سے باہر آیا تو اسے بھی وہی عذاب ہوا ۔ } ۱؎ (مسند احمد:296/3:حسن) یہ حدیث صحاح ستہ میں تو نہیں لیکن ہے مسلم شریف کی شرط پر ۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ ثمودی قبیلے کی طرف سے ان کے بھائی صالح علیہ السلام کو نبی بنا کر بھیجا گیا ۔ تمام نبیوں کی طرح آپ نے بھی اپنی امت کو سب سے پہلے توحید الٰہی سکھائی کہ فقط اس کی عبادت کریں ۔ اس کے سوا اور کوئی لائق عبادت نہیں ۔ اللہ کا فرمان ہے : جتنے بھی رسول آئے سب کی طرف یہی وحی کی جاتی رہی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں ، صرف میری ہی عبادت کرو ۔ اور ارشاد ہے : ہم نے ہر امت میں رسول بھیجے کہ اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے سوا اوروں کی عبادت سے بچو ۔ صالح علیہ السلام فرماتے ہیں : لوگو ! تمہارے پاس دلیل الٰہی آ چکی جس میں میری سچائی ظاہر ہے ۔ ان لوگوں نے صالح علیہ السلام سے معجزہ طلب کیا تھا کہ ایک سنگلاخ چٹان جو ان کی بستی کے ایک کنارے پڑی تھی جس کا نام کاتبہ تھا ، اس سے آپ ایک اونٹنی نکالیں جو گابھن ہو [ دودھ دینے والی اونٹنی جو دس ماہ کی حاملہ ہو ] صالح علیہ السلام نے ان سے فرمایا کہ اگر ایسا ہو جائے تو تم ایمان قبول کر لو گے ؟ انہوں نے پختہ وعدے کئے اور مضبوط عہد و پیمان کئے ۔ صالح علیہ السلام نے نماز پڑھی ، دعا کی ۔ ان سب کے دیکھتے ہی چٹان نے ہلنا شروع کیا اور چٹخ گئی ۔ اس کے پیچھے سے ایک اونٹنی نمودار ہوئی ۔ اسے دیکھتے ہی ان کے سردار جندع بن عمرو نے تو اسلام قبول کر لیا اور اس کے ساتھیوں نے بھی ۔ باقی جو اور سردار تھے وہ ایمان لانے کیلئے تیار تھے مگر ذواب بن عمرو بن لبید نے اور حباب نے جو بتوں کا مجاور تھا اور رباب بن صمعر بن جلھس وغیرہ نے انہیں روک دیا ۔ جندع کا بھتیجا شہاب نامی ، یہ ثمودیوں کا بڑا عالم فاضل اور شریف شخص تھا ۔ اس نے بھی ایمان لانے کا ارادہ کر لیا ۔ انہی بدبختوں نے اسے بھی روکا جس پر ایک مومن ثمودی مہوش بن عثمہ نے کہا کہ آل عمرو نے شہاب کو دین حق کی دعوت دی ۔ قریب تھا کہ وہ مشرف بہ اسلام ہو جائے اور اگر ہو جاتا تو اس کی عزت سو اور ہو جاتی مگر بدبختوں نے اسے روک دیا اور نیکی سے ہٹا کر بدی پر لگا دیا ۔ اس حاملہ اونٹنی کو اس وقت بچہ ہوا ۔ ایک مدت تک دونوں ان میں رہے ۔ ایک دن اونٹنی ان کا پانی پیتی ، اس دن اس قدر دودھ دیتی کہ یہ لوگ اپنے سب برتن بھر لیتے ۔ دوسرے دن نی پیتی اور ثمودیوں کے اور جانور پی لیتے ۔جیسے قرآن میں ہے آیت «وَنَبِّئْہُمْ اَنَّ الْمَاءَ قِسْمَۃٌ بَیْنَہُمْ کُلٰ شِرْبٍ مٰحْتَضَرٌ» ۱؎ (54-القمر:28) اور آیت میں ہے «قَالَ ہٰذِہٖ نَاقَۃٌ لَّہَا شِرْبٌ وَّلَکُمْ شِرْبُ یَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ» ۱؎ (26-الشعراء:155) ’ یہ ہے اونٹنی ، اس کے اور تمہارے پانی پینے کے دن تقسیم شدہ اور مقررہ ہیں ۔ ‘ یہ اونٹنی ثمودیوں کی بستی حجر کے اردگرد چرتی چگتی تھی ۔ ایک راہ جاتی ، دوسری راہ آتی ۔ یہ بہت ہی موٹی تازی اور ہیبت والی اونٹنی تھی ۔ جس راہ سے گزرتی سب جانور ادھر ادھر ہو جاتے ۔ کچھ زمانہ گزرنے کے بعد ان اوباشوں نے ارادہ کیا کہ اس کو مار ڈالیں تاکہ ہر دن ان کے جانور برابر پانی پی سکیں ۔ ان اوباشوں کے ارادوں پر سب نے اتفاق کیا ۔ یہاں تک کہ عورتوں اور بچوں نے بھی ان کی ہاں میں ہاں ملائی اور انہیں شہ دی کہ ہاں اس پاپ کو کاٹ دو ۔ اس اونٹنی کو مار ڈالو ۔ چنانچہ قرآن کریم میں ہے «فَکَذَّبُوْہُ فَعَقَرُوْہَا ١ فَدَمْدَمَ عَلَیْہِمْ رَبٰہُمْ بِذَنْبِہِمْ فَسَوّٰیہَا» ۱؎ (91-الشمس:14) ’ قوم صالح نے اپنے نبی کو جھٹلایا اور اونٹنی کی کوچیں کاٹ کر اسے مار ڈالا تو ان کے پروردگار نے ان کے گناہوں کے بدلے ان پر ہلاکت نازل فرمائی اور ان سب کو یکساں کر دیا ۔ ‘ اور آیت میں ہے کہ ہم نے ثمودیوں کو اونٹنی دی جو ان کے لیے پوری سمجھ بوجھ کی چیز تھی لیکن انہوں نے اس پر ظلم کیا یہاں بھی فرمایا کہ انہوں نے اس اونٹنی کو مار ڈالا ۔ پس اس فعل کی اسناد سارے ہی قبیلے کی طرف ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ چھوٹے بڑے سب اس امر پر متفق تھے ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ وغیرہ کا فرمان ہے کہ اس کے قتل کی وجہ یہ ہوئی کہ عنیزہ بنت مجلز جو ایک بڑھیا کافرہ تھی اور صالح علیہ السلام سے بڑی دشمنی رکھتی تھی ، اس کی لڑکیاں بہت خوبصورت تھیں اور تھی بھی یہ عورت مالدار ۔ اس کے خاوند کا نام ذواب بن عمرو تھا جو ثمودیوں کا ایک سردار تھا یہ بھی کافر تھا ۔ اسی طرح ایک اور عورت تھی جس کا نام صدوف بنت محیا بن مختار تھا ۔ یہ بھی حسن کے علاوہ مال اور حسب نسب میں بڑھی ہوئی تھی ، اس کے خاوند مسلمان ہو گئے تھے رضی اللہ عنہ ۔ اس سرکش عورت نے ان کو چھوڑ دیا ۔ اب یہ دونوں عورتیں لوگوں کو اکساتی تھیں کہ کوئی آمادہ ہو جائے اور صالح علیہ السلام کی اونٹنی کو قتل کر دے ۔ صدوف نامی عورت نے ایک شخص حباب کو بلایا اور اس سے کہا کہ میں تیرے گھر آ جاؤں گی ، اگر تو اس اونٹنی کو قتل کر دے لیکن اس نے انکار کر دیا ۔ اس پر اس نے مصدع بن مہرج بن محیاء کو بلایا جو اس کے چچا کا لڑکا تھا اور اسے بھی اسی بات پر آمادہ کیا ۔ یہ خبیث اس کے حسن و جمال کا مفتون تھا ، اس برائی پر آمادہ ہو گیا ۔ ادھر عنیزہ نے قدار بن سالف بن جذع کو بلا کر اس سے کہا کہ میری ان خوبصورت نوجوان لڑکیوں میں سے جسے تو پسند کرے ، اسے میں تجھے دے دوں گی ، اسی شرط پر کہ تو اس اونٹنی کی کوچیں کاٹ ڈال ۔ یہ خبیث بھی آمادہ ہو گیا ۔ یہ تھا بھی زناکاری کا بچہ ، سالف کی اولاد میں نہ تھا ۔ صھیاد نامی ایک شخص سے اس کی بدکار ماں نے زناکاری کی تھی ، اسی سے یہ پیدا ہوا تھا ۔ اب دونوں چلے اور اہل ثمود اور دوسرے شریروں کو بھی اس پر آمادہ کیا ۔ چنانچہ سات شخص اور بھی اس پر آمادہ ہو گئے اور یہ نو فسادی شخص اس بد ارادے پر تل گئے ۔ جیسے قرآن کریم میں ہے «وَکَانَ فِی الْمَدِیْنَۃِ تِسْعَۃُ رَہْطٍ یٰفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ وَلَا یُصْلِحُوْنَ» ۱؎ (27-النمل:49-50) اس شہر میں نو شخص تھے جن میں اصلاح کا مادہ ہی نہ تھا ، سراسر فسادی ہی تھے ۔ چونکہ یہ لوگ قوم کے سردار تھے ۔ ان کے کہنے سننے سے تمام کفار بھی اس پر راضی ہو گئے اور اونٹنی کے واپس آنے کے راستے میں یہ دونوں شریر اپنی اپنی کمین گاہوں میں بیٹھ گئے ۔ جب اونٹنی نکلی تو پہلے مصدع نے اسے تیر مارا جو اس کی ران کی ہڈی میں پیوست ہو گیا ۔ اسی وقت عنیزہ نے اپنی خوبصورت لڑکی کو کھلے منہ قدار کے پاس بھیجا ۔ اس نے کہا : قدار کیا دیکھتے ہو ؟ اٹھو اور اس کا کام تمام کر دو ۔ یہ اس کا منہ دیکھتے ہی دوڑا اور اس کے دونوں پچھلے پاؤں کاٹ دیئے ۔ اونٹنی چکرا کر گری اور ایک آواز نکالی جس سے اس کا بچہ ہوشیار ہو گیا اور اس راستے کو چھوڑ کر پہاڑی پر چلا گیا ۔ یہاں قدار نے اونٹنی کا گلا کاٹ دیا اور وہ مر گئی ۔ اس کا بچہ پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ کر تین مربتہ بلبلایا ۔ حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اس نے اللہ کے سامنے اپنی ماں کے قتل کی فریاد کی ۔ پھر جس چٹان سے نکلا تھا ، اسی میں سما گیا ۔ یہ روایت بھی ہے کہ اسے بھی اس کی ماں کے ساتھ ہی ذبح کر دیا گیا تھا ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ صالح علیہ السلام کو جب یہ خبر پہنچی تو آپ گھبرائے ہوئے موقعہ پر پہنچے ۔ دیکھا کہ اونٹنی بےجان پڑی ہے ۔ آپ کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے اور فرمایا بس اب تین دن میں تم ہلاک کر دیئے جاؤ گے ، ہوا بھی یہی ۔ بدھ کے دن ان لوگوں نے اونٹنی کو قتل کیا تھا اور چونکہ کوئی عذاب نہ آیا ۔ اس لیے اترا گئے اور ان مفسدوں نے ارادہ کر لیا کہ آج شام کو صالح علیہ السلام کو بھی مار ڈالو ۔ اگر واقعی ہم ہلاک ہونے والے ہی ہیں تو پھر یہ کیوں بچا رہے ؟ اگر ہم پر عذاب نہیں آتا تو بھی آؤ ، روز روز کے اس جھنجھٹ سے پاک ہو جائیں ۔ چنانچہ قرآن کریم کا بیان ہے کہ ان لوگوں نے مل کر مشورہ کیا اور پھر قسمیں کھا کر اقرار کیا کہ رات کو صالح کے گھر پر چھاپہ مارو اور اسے اور اس کے گھرانے کو تہہ تیغ کرو اور صاف انکار کر دو کہ ہمیں کیا خبر کہ کس نے مارا ؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہے : ان کے اس مکر کے مقابل ہم نے بھی مکر کیا اور یہ ہمارے مکر سے بالکل بےخبر رہے ۔ اب انجام دیکھ لو کہ کیا ہوا ؟ رات کو یہ اپنی بد نیتی سے صالح علیہ السلام کے گھر کی طرف چلے ۔ آپ کا گھر پہاڑ کی بلندی پر تھا ۔ ابھی یہ اوپر چڑھ ہی رہے تھے جو اوپر سے ایک چٹان پتھر کی لڑھکتی ہوئی آئی اور سب کو ہی پیس ڈالا ۔ ان کا تو یہ حشر ہوا ۔ ادھر جمعرات کے دن تمام ثمودیوں کے چہرے زرد پڑ گئے ۔ جمعہ کے دن ان کے چہرے آگ جیسے سرخ ہو گئے اور ہفتہ کے دن جو مہلت کا آخری دن تھا ، ان کے منہ سیاہ ہو گئے ۔ تین دن جب گزر گئے تو چوتھا دن اتوار صبح ہی صبح سورج کے روشن ہوتے ہی اوپر آسمان سے سخت کڑاکا ہوا جس کی ہولناک ، دہشت انگیز چنگھاڑ نے ان کے کلیجے پھاڑ دیئے ، ساتھ ہی نیچے سے زبردست زلزلہ آیا ۔ ایک ہی ساعت میں ایک ساتھ ہی ان سب کا ڈھیر ہو گیا ۔ مردوں سے مکانات ، بازار ، گلی ، کوچے بھر گئے ۔ مرد ، عورت ، بچے ، بوڑھے اول سے آخر تک سارے کے سارے تباہ ہو گئے ۔ شان رب دیکھئیے کہ اس واقعہ کی خبر دنیا کو پہنچانے کے لیے ایک کافرہ عورت بچا دی گئی ۔ یہ بھی بڑی خبیثہ تھی ، صالح علیہ السلام کی عداوت کی آگ سے بھری ہوئی تھی ، اس کی دونوں ٹانگیں نہیں تھیں لیکن ادھر عذاب آیا ، ادھر اس کے پاؤں کھل گئے ، اپنی بستی سے سرپٹ بھاگی اور تیز دوڑتی ہوئی دوسرے شہر میں پہنچی اور وہاں جا کر ان سب کے سامنے سارا واقعہ بیان کر ہی چکنے کے بعد ان سے پانی مانگا ۔ ابھی پوری پیاس بھی بجھی نہ تھی کہ عذاب الٰہی آ پڑا اور وہیں ڈھیر ہو کر رہ گئی ۔ ہاں ابورغال نامی ایک شخص اور بچ گیا تھا ۔ یہ یہاں نہ تھا حرم کی پاک زمین میں تھا لیکن کچھ دنوں کے بعد جب یہ اپنے کسی کام کی غرض سے حد حرم سے باہر آیا ، اسی وقت آسمان سے پتھر آیا اور اسے بھی جہنم واصل کیا ۔ ثمودیوں میں سے سوائے صالح علیہ السلام اور ان کے مومن صحابہ رضی اللہ عنہم کے اور کوئی بھی نہ بچا ۔ ابورغال کا واقعہ اس سے پہلے حدیث سے بیان ہو چکا ہے ۔ قبیلہ ثقیف جو طائف میں ہے ، مذکور ہے کہ یہ اسی نسل میں سے ہیں ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:14823/12:معضل ضعیف) عبدالرزاق میں ہے کہ اس کی قبر کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب گزرے تو فرمایا : جانتے ہو یہ کس کی قبر ہے ؟ لوگوں نے جواب دیا کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ علم ہے ۔ آپ نے فرمایا : یہ ابورغال کی قبر ہے ۔ یہ ایک ثمودی شخص تھا ، اپنی قوم کے عذاب کے وقت حرم میں تھا ۔ اس وجہ سے عذاب الٰہی سے بچ رہا لیکن حرم شریف سے نکلا تو اسی وقت اپنی قوم کے عذاب سے یہ بھی ہلاک ہوا اور یہیں دفن کیا گیا اور اس کے ساتھ اس کی سونے کی لکڑی بھی دفنا دی گئی ۔ چنانچہ لوگوں نے اس گڑھے کو کھود کر اس میں سے وہ لکڑی نکال لی ۔ اور حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا تھا : ثقیف قبیلہ اسی کی اولاد ہے ۔ ایک مرسل حدیث میں بھی یہ ذکر موجود ہے ۔ یہ بھی ہے کہ آپ نے فرمایا تھا : { اس کے ساتھ سونے کی شاخ دفن کر دی گئی ہے ۔ یہی نشان اس کی قبر کا ہے ، اگر تم اسے کھودو تو وہ شاخ ضرور نکل آئے گی چنانچہ بعض لوگوں نے اسے کھودا اور وہ شاخ نکال لی ۔ } ۱؎ (سنن ابوداود:3088 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ابوداؤد میں بھی یہ روایت ہے اور حسن عزیز ہے لیکن میں کہتا ہوں : اس حدیث کے وصل کا صرف ایک طریقہ بجیر بن ابی بحیر کا ہے اور یہ صرف اسی حدیث کے ساتھ معروف ہے ۔ اور بقول امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ سوائے اسماعیل بن امیہ کے ، اس سے اور کسی نے روایت نہیں کیا ۔ احتمال ہے کہ کہیں اس حدیث کے مرفوع کرنے میں خطا نہ ہو ۔ یہ عبداللہ بن عمرو ہی کا قول ہو اور پھر اس صورت میں یہ بھی ممکنات سے ہے کہ انہوں نے اسے ان دو دفتروں سے لے لیا ہو جو انہیں جنگ یرموک میں ملے تھے ۔ میرے استاد شیخ ابوالحجاج رحمہ اللہ اس روایت کو پہلے تو حسن عزیز کہتے تھے لیکن جب میں نے ان کے سامنے یہ حجت پیش کی تو آپ نے فرمایا : بیشک ان امور کا اس میں احتمال ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ الاعراف
74 الاعراف
75 الاعراف
76 الاعراف
77 الاعراف
78 الاعراف
79 صالح علیہ السلام ہلاکت کے اسباب کی نشاندہی کرتے ہیں قوم کی ہلاکت دیکھ کر افسوس و حسرت اور آخری ڈانٹ ڈپٹ کے طور پر پیغمبر حق صالح علیہ السلام فرماتے ہیں کہ نہ تمہیں رب کی رسالت نے فائدہ پہنچایا ، نہ میری خیر خواہی ٹھکانے لگی ۔ تم اپنی بےسمجھی سے دوست کو دشمن سمجھ بیٹھے اور آخر اس روز بد کو دعوت دے لی ۔ چنانچہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی جب بدری کفار پر غالب آئے ، وہیں تین دن تک ٹھہرے رہے ۔ پھر رات کے آخری وقت اونٹنی پر زین کس کر آپ تشریف لے چلے اور جب اس گھاٹی کے پاس پہنچے جہاں ان کافروں کی لاشیں ڈالی گئی تھیں تو آپ ٹھہر گئے اور فرمانے لگے : اے ابوجہل ، اے عتبہ ، اے شیبہ ، اے فلاں ، اے فلاں ! بتاؤ رب کے وعدے تم نے درست پائے ؟ میں نے تو اپنے رب کے فرمان کی صداقت اپنی آنکھوں دیکھ لی ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ ان جسموں سے باتیں کر رہے ہیں جو مردار ہو گئے ؟ آپ نے فرمایا : اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میں جو کچھ ان سے کہہ رہا ہوں ، اسے یہ تم سے زیادہ سن رہے ہیں لیکن جواب کی طاقت نہیں ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:3976) سیرت کی کتابوں میں ہے کہ { آپ نے فرمایا : تم نے میرا خاندان ہونے کے باوجود میرے ساتھ وہ برائی کی کہ کسی خاندان نے اپنے پیغمبر کے ساتھ نہ کی ۔ تم نے میرے ہم قبیلہ ہونے کے باوجود مجھے جھٹلایا اور دوسرے لوگوں نے مجھے سچا سمجھا ۔ تم نے رشتہ داری کے باوجود مجھے دیس سے نکال دیا اور دوسرں نے مجھے اپنے ہاں جگہ دی ۔ افسوس ! تم اپنے ہو کر مجھ سے برسر جنگ رہے اور دوسروں نے میری امداد کی ۔ پس تم اپنے نبی کے بدترین قبیلے ہو ۔ } ۱؎ (سیرۃ ابن ہشام:212/2:معضل ضعیف) یہی صالح علیہ السلام اپنی قوم سے فرما رہے ہیں کہ میں نے تو ہمدردی کی انتہا کر دی ، اللہ کے پیغام کی تبلیغ میں تمہاری خیر خواہی میں کوئی کوتاہی نہیں کی لیکن آہ ! نہ تم نے اس سے کوئی فائدہ اٹھایا ، نہ حق کی پیروی کی ، نہ اپنے خیرخواہ کی مانی ۔ بلکہ اسے اپنا دشمن سمجھا ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ ہر نبی جب دیکھتا کہ اب میری امت پر عام عذاب آنے والا ہے ، انہیں چھوڑ کر نکل کھڑا ہوتا اور حرم مکہ میں پناہ لیتا ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ مسند احمد میں ہے کہ { حج کے موقعہ پر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وادی عسفان پہنچے تو سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے دریافت فرمایا کہ یہ کون سی وادی ہے ؟ آپ نے جواب دیا : وادی عسفان ۔ فرمایا : میرے سامنے سے ہود اور صالح علیہما السلام ابھی ابھی گزرے ، اونٹنیوں پر سوار تھے جن کی نکیلیں کھجور کے پتوں کی تھیں ۔ کمبلوں کے تہ بند بندھے ہوئے اور موٹی چادریں اوڑھے ہوئے تھے ۔ لبیک پکارتے ہوئے بیت اللہ شریف کی طرف تشریف لے جا رہے تھے ۔ } ۱؎ (مسند احمد:232/1:ضعیف) یہ حدیث غریب ہے ۔ صحاح ستہ میں نہیں ۔ الاعراف
80 لوط علیہ السلام کی بدنصیب قوم فرمان ہے کہ لوط علیہ السلام کو بھی ہم نے ان کی قوم کی طرف اپنا رسول بنا کر بھیجا ۔ تو ان کے واقعہ کو بھی یاد کر ۔ لوط علیہ السلام ہاران بن آزر کے بیٹے تھے ، ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے تھے ۔ آپ ہی کے ہاتھ پر ایمان قبول کیا تھا اور آپ ہی کے ساتھ شام کی طرف ہجرت کی تھی ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنا نبی بنا کر سدوم نامی بستی کی طرف بھیجا ۔ آپ نے انہیں اور آس پاس کے لوگوں کو اللہ کی توحید اور اپنی اطاعت کی طرف بلایا ۔ نیکیوں کے کرنے ، برائیوں کو چھوڑنے کا حکم دیا ۔ جن میں ایک برائی اغلام بازی تھی جو ان سے پہلے دنیا سے مفقود تھی ۔ اس بدکاری کے موجد یہی ملعون لوگ تھے ۔ عمرو بن دینار رحمہ اللہ یہی فرماتے ہیں ۔ جامع دمشق کے بانی خلیفہ ولید بن عبدالملک کہتے ہیں : اگر یہ خبر قرآن میں نہ ہوتی تو اس بات کو کبھی نہ مانتا کہ مرد مرد سے حاجت روائی کر لے ۔ اسی لیے لوط علیہ السلام نے ان حرام کاروں سے فرمایا کہ تم سے پہلے تو یہ ناپاک اور خبیث فعل کسی نے نہیں کیا ۔ عورتوں کو جو اس کام کے لئے تھیں ، چھوڑ کر تم مردوں پر ریجھ رہے ہو ؟ اس سے بڑھ کر اسراف اور جہالت اور کیا ہو گی ؟ چنانچہ اور آیت میں ہے کہ آپ نے فرمایا : ’ یہ ہیں میری بچیاں یعنی تمہاری قوم کی عورتیں ۔ ‘ ۱؎ (15-الحجر:71) لیکن انہوں نے جواب دیا کہ ہمیں ان کی چاہت نہیں ۔ ہم تو تمہارے ان مہمان لڑکوں کے خواہاں ہیں ۔ مفسرین فرماتے ہیں : جس طرح مرد مردوں میں مشغول تھے ، عورتیں عورتوں میں پھنسی ہوئی تھیں ۔ الاعراف
81 الاعراف
82 1 قوم لوط پر بھی نبی کی نصیحت کار گر نہ ہوئی بلکہ الٹا دشمنی کرنے لگے اور دیس سے نکال دینے پر تل گئے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو مع ایمانداروں کے وہاں سے صحیح سالم بچا لیا اور تمام بستی والوں کو ذلت و پستی کے ساتھ تباہ و غارت کر دیا ۔ ان کا یہ کہنا کہ یہ بڑے پاکباز لوگ ہیں ، بطور طعنے کے تھا اور یہ بھی مطلب تھا کہ یہ اس کام سے جو ہم کرتے ہیں ، دور ہیں ۔ پھر ان کا ہم میں کیا کام ؟ مجاہد رحمہ اللہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کا یہی قول ہے ۔ الاعراف
83 لوطی تباہ ہو گئے لوط علیہ السلام اور ان کا گھرانا اللہ کے ان عذابوں سے بچ گیا جو لوطیوں پر نازل ہوئے ۔ بجز آپ کے گھرانے کے اور کوئی آپ پر ایمان نہ لایا ۔ جیسے فرمان رب ہے «فَأَخْرَجْنَا مَن کَانَ فِیہَا مِنَ الْمُؤْمِنِینَ فَمَا وَجَدْنَا فِیہَا غَیْرَ بَیْتٍ مِّنَ الْمُسْلِمِینَ» ۱؎ (51-الذاریات:35-36) یعنی ’ وہاں جتنے مومن تھے ، ہم نے سب کو نکال دیا لیکن بجز ایک گھر والوں کے ، وہاں ہم نے کسی مسلمان کو پایا ہی نہیں ۔ ‘ بلکہ خاندان لوط میں سے بھی خود لوط علیہ السلام کی بیوی ہلاک ہوئی کیونکہ یہ بد نصیب کافرہ ہی تھی بلکہ قوم کے کافروں کی طرف دار تھی ۔ اگر کوئی مہمان آتا تو اشاروں سے قوم کو خبر پہنچا دیتی ۔ اسی لیے لوط علیہ السلام سے کہہ دیا گیا تھا کہ اسے اپنے ساتھ نہ لے جانا بلکہ اسے خبر بھی نہ کرنا ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ ساتھ تو چلی لیکن جب قوم پر عذاب آیا تو اس کے دل میں ان کی محبت آ گئی اور رحم کی نگاہ سے انہیں دیکھنے لگی ۔ وہیں اسی وقت وہی عذاب اس بد نصیب پر بھی آ گیا لیکن زیادہ قوی پہلا ہی ہے یعنی نہ اسے لوط علیہ السلام نے عذاب کی خبر کی ، نہ اسے اپنے ساتھ لے گئے ۔ یہ یہیں باقی رہ گئی اور پھر ہلاک ہو گئی ۔ «غابرین» کے معنی بھی باقی رہ جانے والے ہیں ۔ جن بزرگوں نے اس کے معنی ہلاک ہونے والے کے کئے ہیں ، وہ بطور لزوم کے ہیں ۔ کیونکہ جو باقی تھے ، وہ ہلاک ہونے والے ہی تھے ۔ لوط علیہ السلام اور ان کے مسلمان صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے شہر سے نکلتے ہی عذاب الٰہی ان پر بارش کی طرح برس پڑا ۔ وہ بارش پتھروں اور ڈھیلوں کی تھی جو ہر ایک پر بالخصوص نشان زدہ اسی کے لئے آسمان سے اتر رہے تھے ۔ گو اللہ کے عذاب کو بےانصاف لوگ دور سمجھ رہے ہوں لیکن حقیقتاً ایسا نہیں ۔ اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ خود دیکھ لیجئے کہ اللہ کی نافرمایوں اور رسول کی تکذیب کرنے والوں کا کیا انجام ہوتا ہے ؟ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ” لوطی فعل کرنے والے کو اونچی دیوار سے گرا دیا جائے ، پھر اوپر سے پتھراؤ کر کے اسے مار ڈالنا چاہیئے ۔ کیونکہ لوطیوں کو اللہ کی طرف سے یہی سزا دی گئی ۔ “ اور علماء کرام کا فرمان ہے کہ ” اسے رجم کر دیا جائے خواہ وہ شادی شدہ ہو یا بےشادی شدہ ہو ۔ “ امام شافعی رحمہ اللہ کے دو قول میں سے ایک یہی ہے ۔ اس کی دلیل مسند احمد ، ابوداؤد ، ترمذی اور ابن ماجہ کی یہ حدیث ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب تم لوطی فعل کرتے پاؤ ، اسے اور اس کے نیچے والے دونوں کو قتل کر دو ۔ } ۱؎ (سنن ابوداود:4462،قال الشیخ الألبانی:صحیح) علماء کی ایک جماعت کا قول ہے : ” یہ بھی مثل زناکاری کے ہے ۔ شادی شدہ ہوں تو رجم ورنہ سو کوڑے ۔ “ امام شافعی رحمہ اللہ کا دوسرا قول بھی یہی ہے ۔ عورتوں سے اس قسم کی حرکت کرنا بھی چھوٹی لواطت ہے اور بہ اجماع امت حرام ہے ۔ بجز ایک شاذ قول کے اور بہت سی احادیث میں اس کی حرمت موجود ہے ۔ اس کا پورا بیان سورۃ البقرہ کی تفسیر میں گزر چکا ہے ۔ الاعراف
84 الاعراف
85 خطیب الانبیاء شعیب علیہ اسلام مشہور مؤرخ امام محمد بن اسحاق رحمہ اللہ فرماتے ہیں : یہ لوگ مدین بن ابراہیم کی نسل سے ہیں ۔ شعیب علیہ السلام میکیل بن یشجر کے لڑکے تھے ، ان کا نام سریانی زبان میں یژون تھا ۔ یہ یاد رہے کہ قبیلے کا نام بھی مدین تھا اور اس بستی کا نام بھی یہی تھا ۔ یہ شہر معان سے ہوتے ہوئے حجاز جانے والے راستے میں آتا ہے ۔ آیت قرآن «وَلَمَّا وَرَدَ مَاءَ مَدْیَنَ وَجَدَ عَلَیْہِ أُمَّۃً مِّنَ النَّاسِ یَسْقُونَ» ۱؎ (28-القصص:23) میں شہر مدین کے کنویں کا ذکر موجود ہے ۔ اس سے مراد ایکہ والے ہیں ۔ جیسا کہ ان شاء اللہ بیان کریں گے ۔ آپ نے بھی تمام رسولوں کی طرح انہیں توحید کی اور شرک سے بچنے کی دعوت دی اور فرمایا کہ اللہ کی طرف سے میری نبوت کی دلیلیں تمہارے سامنے آ چکی ہیں ۔ خالق کا حق بتا کر پھر مخلوق کے حق کی ادائیگی کی طرف رہبری کی اور فرمایا کہ ناپ تول میں کمی کی عادت چھوڑو ، لوگوں کے حقوق نہ مارو ۔ کہو کچھ اور ، کرو کچھ ، یہ خیانت ہے ۔ فرمان ہے «وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِینَ» ۱؎ (83-المطففین:1-4) ’ ان ناپ تول میں کمی کرنے والوں کیلئے «ویل» ہے الخ ۔ اللہ اس بدخصلت سے ہر ایک کو بچائے ۔ پھر شعیب علیہ السلام کا اور وعظ بیان ہوتا ہے ۔ آپ کو بہ سبب فصاحت عبارت اور عمدگی وعظ کے خطیب الانبیاء کہا جاتا تھا ۔ علیہ الصلٰوۃ والسلام ۔ الاعراف
86 قوم شعیب کی بداعمالیاں فرماتے ہیں کہ مسافروں کے راستے میں دہشت گردی نہ پھیلاؤ ، ڈاکہ نہ ڈالو اور انہیں ڈرا دھمکا کر ان کا مال زبردستی نہ چھینو ۔ میرے پاس ہدایت حاصل کرنے کے لئے جو آنا چاہتا ہے ، اسے خوفزدہ کر کے روک دیتے ہو ؟ ایمانداروں کو اللہ کی راہ پر چلنے میں روڑے اٹکاتے ہو ؟ راہ حق کو ٹیڑھا کر دینا چاہتے ہو ؟ ان تمام برائیوں سے بچو ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے بلکہ زیادہ ظاہر ہے کہ ہر راستے پر نہ بیٹھنے کی ہدایت تو قتل و غارت سے روک کے لیے ہو جو ان کی عادت تھی اور پھر راہ حق سے مومنوں کو نہ روکنے کی ہدایت پھر کی ہو ۔ تم اللہ کے اس احسان کو یاد کرو کہ گنتی میں ، قوت میں تم کچھ نہ تھے ، بہت ہی کم تھے ۔ اس نے اپنی مہربانی سے تمہاری تعداد بڑھا دی اور تمہیں زور آور کر دیا ۔ رب کی اس نعمت کا شکریہ ادا کرو ۔ عبرت کی آنکھوں سے ان کا انجام دیکھ لو جو تم سے پہلے ابھی ابھی گزرے ہیں جن کے ظلم و جبر کی وجہ سے ، جن کی بد امنی اور فساد کی وجہ سے رب کے عذاب ان پر ٹوٹ پڑے ۔ وہ اللہ کی نافرمانیوں میں رسولوں کے جھٹلانے میں مشغول رہے ، دلیر بن گئے جس کے بدلے اللہ کی پکڑ ان پر نازل ہوئی ۔ آج ان کی ایک آنکھ جھپکتی ہوئی باقی نہیں رہی ۔ نیست و نابود ہو گئے ، مر مٹ گئے ۔ دیکھو ! میں تمہیں صاف بے لاگ ایک بات بتا دوں ۔ تم میں سے ایک گروہ مجھ پر ایمان لا چکا ہے اور ایک گروہ نے میرا انکار اور بری طرح مجھ سے کفر کیا ۔ اب تم خود دیکھ لو گے کہ مدد ربانی کس کا ساتھ دیتی ہے اور اللہ کی نظروں سے کون گر جاتا ہے ؟ تم رب کے فیصلے کے منتظر رہو ۔ وہ سب فیصلہ کرنے والوں سے اچھا اور سچا فیصلہ کرنے والا ہے ۔ تم خود دیکھ لو کہ اللہ والے با مراد ہوں گے اور دشمنان اللہ نامراد ہوں گے ۔ الاعراف
87 الاعراف
88 شعیب علیہ السلام کی قوم نے اپنی بربادی کو آواز دی شعیب علیہ السلام کی قوم نے آپ کی تمام نصیحتیں سن کر جو جواب دیا ، اس کا ذکر کیا جا رہا ہے ۔ ہوا یہ کہ دلیلوں سے ہار کر یہ لوگ اپنی قوت جتانے پر اتر آئے اور کہنے لگے : اب تجھے اور تیرے ساتھیوں کو ہم دو باتوں میں سے ایک کا اختیار دیتے ہیں یا تو جلا وطنی قبول کرو یا ہمارے مذہب میں آ جاؤ ۔ جس پر آپ نے فرمایا کہ ہم تو دل سے تمہارے ان مشرکانہ کاموں سے بیزار ہیں ۔ انہیں سخت ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں ۔ پھر تمہارے اس دباؤ اور اس خواہش کے کیا معنی ؟ اگر اللہ نہ کرے ، ہم پھر سے تمہارے کفر میں شامل ہو جائیں تو ہم سے بڑھ کر گناہگار کون ہو گا ؟ اس کے تو صاف معنی یہ ہیں کہ ہم نے دو گھڑی پہلے محض ایک ڈھونگ رچایا تھا ۔ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ اور بہتان باندھ کر نبوت کا دعویٰ کیا تھا ۔ خیال فرمائیے کہ اس جواب میں اللہ کے نبی علیہ السلام نے ایمان داروں کو مرتد ہونے سے کس طرح دھمکایا ہے ؟ لیکن چونکہ انسان کمزور ہے ۔ نہ معلوم کس کا دل کیسا ہے اور آگے چل کر کیا ظاہر ہونے والا ہے ؟ اس لیے فرمایا کہ اللہ کے ہاتھ سب کچھ ہے ۔ اگر وہی کسی کے خیالات الٹ دے تو میرا زور نہیں ۔ ہر چیز کے آغاز ، انجام کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے ۔ ہمارا توکل اور بھروسہ اپنے تمام کاموں میں صرف اسی کی ذات پاک پر ہے ۔ اے اللہ ! تو ہم میں اور ہماری قوم میں فیصلہ فرما ۔ ہماری مدد فرما ۔ تو سب حاکموں کا حاکم ہے ، سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے ، عادل ہے ، ظالم نہیں ۔ الاعراف
89 الاعراف
90 قوم شعیب کا شوق تباہی پورا ہوا اس قوم کی سرکشی ، بد باطنی ملاحظہ ہو کر مسلمانوں کو اسلام سے ہٹانے کے لئے انہیں یقین دلا رہے ہیں کہ شعیب علیہ السلام کی اطاعت تمہیں غارت کر دے گی اور تم بڑے نقصان میں اتر جاؤ گے ۔ ان مومنوں کے دلوں کو ڈرانے کا نتیجہ یہ ہوا کہ آسمانی عذاب بصورت زلزلہ زمین سے آیا اور انہیں سچ مچ لرزا دیا اور غارت و برباد ہو کر خود ہی نقصان میں پھنس گئے ۔ یہاں اس طرح بیان ہوا ۔ سورۃ ہود میں بیان ہے کہ آسمانی کڑاکے کی آواز سے یہ ہلاک کئے گئے ۔ ۱؎ (11-ہود:94) یہ اس لیے وہاں بیان ہے کہ انہوں نے اپنے وطن سے نکل جانے کی ڈانٹ ایمان داروں کو دی تھی تو آسمانی ڈانٹ کی آواز نے ان کی آواز پست کر دی اور ہمیشہ کے لئے یہ خاموش کر دیئے گئے ۔ سورۃ الشعراء میں بیان ہے کہ بادل ان پر عذاب بن کر برسا ۔ کیونکہ وہیں ذکر ہے کہ خود انہوں نے اپنے نبی علیہ السلام سے کہا تھا کہ ’ اگر سچے ہو تو ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرا دو الخ ۔ ‘ ۱؎ (26-الشعراء:187) واقعہ یہ ہے کہ یہ تینوں عذاب ان پر ایک ساتھ آئے ۔ ادھر ابر اٹھا جس سے شعلہ باری ہونے لگی ، آگ برسنے لگی ۔ ادھر تند اور سخت کڑاکے کی آواز آئی ، ادھر زمین پر زلزلہ آیا ۔ نیچے اوپر کے عذابوں سے دیکھتے ہی دیکھتے تہ و بالا کر دیئے گئے ، اپنی اپنی جگہ ڈھیر ہو گئے ۔ یا وہ وقت تھا کہ یہاں سے مومنوں کو نکالنا چاہتے تھے یا یہ وقت ہے کہ یہ بھی نہیں معلوم ہوتا کہ کسی وقت یہاں یہ لوگ آباد بھی تھے ، مسلمانوں سے کہہ رہے تھے کہ تم نقصان میں اترو گے یا یہ ہے کہ خود برباد ہو گئے ۔ الاعراف
91 الاعراف
92 الاعراف
93 . قوم پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آ چکنے کے بعد شعیب علیہ السلام وہاں سے چلے اور بطور ڈانٹ ڈپٹ کے فرمایا کہ میں سبکدوش ہو چکا ہوں ۔ اللہ کا پیغام سنا چکا ، سمجھا بجھا چکا ، غم خواری ، ہمدردی کر چکا ۔ لیکن تم کافر کے کافر ہی رہے ۔ اب مجھے کیا پڑی کہ تمہارے افسوس میں اپنی جان ہلکان کروں ؟ الاعراف
94 ادوار ماضی اگلی امتوں میں بھی اللہ تعالیٰ کے رسول آئے اور ان کے انکار پر وہ امتیں مختلف بلاؤں میں مبتلا کی گئیں مثلاً بیماریاں ، فقیری ، مفلسی ، تنگی وغیرہ تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے اکڑنا چھوڑ دیں اور اس کے سامنے جھک جائیں ، مصیبتوں کے ٹالنے کی دعائیں کریں اور اس کے رسول کی مان لیں ۔ لیکن انہوں نے اس موقعہ کو ہاتھ سے نکال دیا ۔ باوجود بری حالت ہونے کے دل کا کفر نہ ٹوتا ، اپنی ضد سے نہ ہٹے تو ہم نے دوسری طرح پھر ایک موقعہ دیا ۔ سختی کو نرمی سے ، برائی کو بھلائی سے ، بیماری کو تندرستی سے ، فقیری کو امیری سے بدل دیا تاکہ شکر کریں اور ہماری حکمرانی کے قائل ہو جائیں لیکن انہوں نے اس موقعہ سے بھی فائدہ نہ اٹھایا ۔ جیسے جیسے ڈھیل دیے گئے ، ویسے ویسے کفر میں پھنسے ، بد مستی میں اور بڑھے اور مغرور ہو گئے اور کہنے لگے کہ یہ زمانہ کے اتفاقات ہیں ۔ پہلے سے یہی ہوتا چلا آیا ہے ۔ کبھی دن بڑے ، کبھی راتیں ۔ زمانہ ہمیشہ ایک حالت پر نہیں رہتا ۔ الغرض اتفاق پر محمول کر کے معمولی سی بات سمجھ کر دونوں موقعے ٹال دیئے ۔ ایمان والے دونوں حالتوں میں عبرت پکڑتے ہیں ۔ مصیبت پر صبر ، راحت پر شکر ان کا شیوہ ہوتا ہے ۔ بخاری و مسلم میں ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : { مومن پر تعجب ہے ۔ اس کی دونوں حالتیں انجام کے لحاظ سے اس کے لئے بہتر ہوتی ہیں ۔ یہ دکھ پر صبر کرتا ہے ، انجام بہتر ہوتا ہے ۔ سکھ پر شکر کرتا ہے ، نیکیاں پاتا ہے ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:2999) پس مومن رنج و راحت دونوں میں اپنی آزمائش کو سمجھ لیتا ہے ۔ ایک اور حدیث میں ہے : { بلاؤں کی وجہ سے مومن کے گناہ بالکل دور ہو جاتے ہیں اور پاک صاف ہو جاتا ہے ۔ ہاں منافق کی مثال گدھے جیسی ہے جسے نہیں معلوم کہ کیوں باندھا گیا اور کیوں کھولا گیا ؟ } ۱؎ (مسند احمد:287/2:حسن) «اَوْ کَمَا قَالَ» پس ان لوگوں کو اس کے بعد اللہ کے عذاب نے اچانک آ پکڑا ۔ یہ محض بےخبر تھے ، اپنی خرمستیوں میں لگے ہوئے تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ { اچانک موت مومن کے لیے رحمت ہے اور کافروں کے لیے حسرت ہے ۔ } ۱؎ (مسند احمد:136/6:ضعیف) الاعراف
95 الاعراف
96 عوام کی فطرت لوگوں سے عام طور پر جو غلطی ہو رہی ہے ، اس کا ذکر ہے کہ عموماً ایمان سے اور نیک کاموں سے بھاگتے رہتے ہیں ۔ صرف یونس علیہ السلام کی پوری بستی ایمان لائی تھی اور وہ بھی اس وقت جبکہ عذابوں کو دیکھ لیا اور یہ بھی صرف ان کے ساتھ ہی ہوا کہ آئے ہوئے عذاب واپس کر دیئے گئے اور دنیا و آخرت کی رسوائی سے بچ گئے ۔ ’ یہ لوگ ایک لاکھ بلکہ زائد تھے ۔ اپنی پوری عمر تک پہنچے اور دنیوی فائدے بھی حاصل کرتے رہے ۔ ‘ ۱؎ (37-الصافات:147-148) تو فرماتا ہے کہ اگر نبیوں کے آنے پر ان کے امتی صدق دل سے ان کی تابعداری کرتے ، برائیوں سے رک جاتے اور نیکیاں کرنے لگتے تو ہم ان پر کشادہ طور پر بارشیں برساتے اور زمین سے پیداوار اگاتے ۔ لیکن انہوں نے رسولوں کی نہ مانی بلکہ انہیں جھوٹا سمجھا اور روبرو جھوٹا کہا ۔ برائیوں سے ، حرام کاریوں سے ایک انچ نہ ہٹے ۔ اس وجہ سے تباہ کر دیے گئے ۔ کیا کافروں کو اس بات کا خوف نہیں کہ راتوں رات ان کی بےخبری میں ان کے سوتے ہوئے عذاب الٰہی آ جائے اور یہ سوئے کے سوئے رہ جائیں ؟ کیا انہیں ڈر نہیں لگتا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ دن دہاڑے ان کے کھیل کود اور غفلت کی حالت میں اللہ جل جلالہ کا عذاب آ جائے ؟ اللہ کے عذابوں سے ، اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے ۔ اس کی بےپایاں قدرت کے اندازے سے غافل وہی ہوتے ہیں جو اپنے آپ بربادی کی طرف بڑھے چلے جاتے ہوں ۔ امام حسن بصری رحمہ اللہ کا قول ہے کہ مومن نیکیاں کرتا ہے اور پھر ڈرتا رہتا ہے اور فاسق ، فاجر شخص برائیاں کرتا ہے اور بےخوف رہتا ہے ۔ نتیجے میں مومن امن پاتا ہے اور فاجر پیس دیا جاتا ہے ۔ الاعراف
97 گناہوں میں ڈوبے لوگ؟ ارشاد ہے کہ ایک گروہ نے ہمارا مقابلہ کیا اور ہم نے انہیں تاخت و تاراج کیا ۔ دوسرا گروہ ان کے قائم مقام ہوا تو کیا اس پر بھی یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ اگر وہ بداعمالیاں کریں گے تو اپنے سے اگلوں کی طرح کھو دیئے جائیں گے ؟ جیسے فرمان ہے «أَفَلَمْ یَہْدِ لَہُمْ کَمْ أَہْلَکْنَا قَبْلَہُمْ مِّنَ الْقُرُونِ یَمْشُونَ فِی مَسَـکِنِہِمْ» ۱؎ (20-طہ:128) یعنی ’ کیا انہیں اب تک سمجھ نہیں آئی کہ ہم نے ان سے پہلے بہت سی آباد بستیاں اجاڑ کر رکھ دیں جن کے مکانوں میں اب یہ رہتے سہتے ہیں ۔ اگر یہ عقل مند ہوتے تو ان کے لیے بہت سی عبرتیں تھیں ۔ ‘ اور اس بیان کے بعد کی آیت میں ہے کہ اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ۔ کیا یہ سن نہیں رہے ؟ ایک آیت میں فرمایا : ” تم اس سے پہلے پورے یقین سے کہتے تھے کہ تمہیں زوال آئے گا ہی نہیں ۔ حالانکہ تم جن کے گھروں میں تھے ، وہ خود بھی اپنے مظالم کے سبب تباہ کر دیئے گئے تھے ۔ خالی گھر رہ گئے ۔ “ ایک اور آیت میں ہے «وَکَمْ أَہْلَکْنَا قَبْلَہُم مِّن قَرْنٍ ہَلْ تُحِسٰ مِنْہُم مِّنْ أَحَدٍ أَوْ تَسْمَعُ لَہُمْ رِکْزًا» ۱؎ (19-مریم:98) ’ ان سے پہلے ہم نے بہت سی بستیاں تباہ کر دیں ۔ نہ ان میں سے اب کوئی نظر آئے ، نہ کسی کی آواز سنائی دے ۔ ‘ اور آیت میں ہے کہ وہ لوگ تو ان سے زیادہ مست تھے ، مال دار تھے ، عیش و عشرت میں تھے ، راحت و آرام میں تھے ، اوپر سے ابر برستا تھا ، نیچے سے چشمے بہتے تھے لیکن گناہوں میں ڈوبے رہے کہ آخر تہس نہس ہو گئے اور دوسرے لوگ ان کے قائم مقام آئے ۔ عادیوں کی ہلاکت کا بیان فرما کر ارشاد ہوا کہ ایسے عذاب اچانک آ گئے کہ ان کے وجود کی دھجیاں اڑ گئیں ، کھنڈر کھڑے رہ گئے اور کسی چیز کا نام و نشان نہ بچا ۔ مجرموں کا یہی حال ہوتا ہے ۔ ’ حالانکہ دنیوی وجاہت بھی ان کے پاس تھی ۔ آنکھ ، کان ، دل سب تھا لیکن اللہ جل شانہ کی باتوں کا تمسخر کرنے پر اور ان کے انکار پر جب عذاب آیا تو حیران و ششدر رہ گئے ۔ نہ عقل آئی ، نہ اسباب بچے ۔ اپنے آس پاس کی ویران بستیاں دیکھ کر عبرت حاصل کرو ۔ اگلوں نے جھٹلایا تو دیکھ لو کہ کس طرح برباد ہوئے ؟ ‘ ۱؎ (46-الأحقاف:25-27) ’ تم تو ابھی تک ان کے دسویں حصے کو بھی نہیں پہنچے ۔ تم سے پہلے کے منکروں پر میرے عذاب آئے ، انہیں غور سے سنو ۔ ‘ ۱؎ (34-سبأ:45) ’ ظالموں کی بستیاں میں نے الٹ دیں اور ان کے محلات کھنڈر بنا دیئے ۔ زمین میں چل پھر کر ، آنکھیں کھول کر ، کان لگا کر ذرا عبرت حاصل کرو ۔ جس کی آنکھیں نہ ہوں ، وہی اندھا نہیں بلکہ سچ مچ اندھا وہ ہے جس کی دلی آنکھیں بےکار ہوں ۔ ‘ ۱؎ (22-الحج:45-46) اگلے نبیوں کے ساتھ بھی مذاق اڑائے گئے لیکن نتیجہ یہی ہوا کہ ایسے مذاق کرنے والوں کا نشان مٹ گیا ۔ ایسے گھیرے گئے کہ ایک بھی نہ بچا ۔ اللہ تعالیٰ کی باتیں سچی ہیں ، اس کے وعدے اٹل ہیں ۔ وہ ضرور اپنے دوستوں کی مدد کرتا ہے اور اپنے دشمنوں کو نیچا دکھاتا ہے ۔ الاعراف
98 الاعراف
99 الاعراف
100 الاعراف
101 عہد شکن لوگوں کی طے شدہ سزا پہلے قوم نوح ، ہود ، صالح ، لوط اور قوم شعیب کا بیان گزر چکا ہے ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ ان سب کے پاس ہمارے رسول حق لے کر پہنچے ، معجزے دکھائے ، سمجھایا ، بجھایا ، دلیلیں دیں لیکن وہ نہ مانے اور اپنی بد عادتوں سے باز نہ آئے ۔ جس کی پاداش میں ہلاک ہو گئے ۔ صرف ماننے والے بچ گئے ۔ اللہ کا طریقہ اسی طرح جاری ہے کہ ’ جب تک رسول نہ آ جائیں ، خبردار نہ کر دیئے جائیں ، عذاب نہیں کئے جاتے ۔ ‘ ۱؎ (17-الإسراء:15) ہم ظالم نہیں لیکن جبکہ لوگ خود ظلم پر کمر کس لیں تو پھر ہمارے عذاب انہیں آ پکڑتے ہیں ۔ ان سب نے جن چیزوں کا انکار کر دیا تھا ، ان پر باوجود دلیلیں دیکھ لینے کے بھی ایمان نہ لائے ۔ آیت «بِمَا کَذَّبُوا» میں «ب» سببیہ ہے ۔ جیسے ساتویں پارے کے آخر میں فرمایا ہے کہ ’ تم کیا جانو ؟ یہ لوگ تو معجزے آنے پر بھی ایمان نہ لائیں گے ۔ ہم ان کے دلوں اور آنکھوں کو الٹ دیں گے ۔ جیسے کہ یہ اس قرآن پر پہلی بار ایمان نہ لائے تھے اور ہم انہیں ان کی سرکشی کی حالت میں بھٹکتے ہوئے چھوڑ دیں گے ۔ ‘ ۱؎ (6-الأنعام:109-110) یہاں بھی فرمان ہے کہ کفار کے دلوں پر اسی طرح ہم مہر لگا دیا کرتے ہیں ۔ ان میں سے اکثر بدعہد ہیں بلکہ عموماً فاسق ہیں ۔ یہ عہد وہ ہے جو روز ازل میں لیا گیا تھا اور اسی پر پیدا کئے گئے ۔ اسی فطرت اور جبلت میں رکھا گیا ، اسی کی تاکید انبیاء علیہم السلام کرتے رہے ۔ لیکن انہوں نے اس عہد کو پس پشت ڈال دیا یا مطلق پرواہ نہ کی اور اس عہد کے خلاف غیر اللہ کی پرستش شروع کر دی ۔ اللہ کو مالک ، خالق اور لائق عبادت مان کر آئے تھے لیکن یہاں اس کے سراسر خلاف کرنے لگے اور بےدلیل ، خلاف عقل و نقل ، خلاف فطرت اور خلاف شرع ، اللہ کے سوا دوسروں کی عبادت میں لگ گئے ۔ صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ { اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میں نے اپنے بندوں کو موحد اور یکطرفہ پیدا کیا لیکن شیطان نے آ کر انہیں بہکا دیا اور میری حلال کردہ چیزیں ان پر حرام کر دیں ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:2865) بخاری و مسلم میں ہے : { ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے پھر اسے اس کے ماں باپ یہودی ، نصرانی ، مجوسی بنا لیتے ہیں الخ ۔ } (صحیح بخاری:4775) خود قرآن کریم میں ہے : ’ ہم نے تجھ سے پہلے جتنے رسول بھیجے تھے ، سب کی طرف یہی وحی کی تھی کہ میرے سوا اور کوئی معبود نہیں ۔ اے دنیا کے لوگو ! تم سب صرف میری ہی عبادت کرتے رہو ۔ ‘ ۱؎ (21-الأنبیاء:25) اور آیت میں ہے : ’ اپنے سے پہلے کے رسولوں سے دریافت کر لو کہ کیا ہم نے اپنے سوا اور معبود ان کے لیے مقرر کئے تھے ؟ ‘ ۱؎ (43-الزخرف:45) اور فرمان ہے «وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِی کُلِّ أُمَّۃٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللہَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ» ۱؎ (16-النحل:36) ’ ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ لوگو ! صرف اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے سوا ہر ایک کی عبادت سے الگ رہو ۔ ‘ اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں ۔ اس جملے کے معنی یہ بھی کئے گئے ہیں کہ چونکہ پہلے ہی سے اللہ کے علم میں یہ بات مقرر ہو گئی تھی کہ انہیں ایمان نصیب نہیں ہو گا ۔ یہی ہو کر رہا کہ باوجود دلائل سامنے آ جانے کے ، ایمان نہ لائے ۔ میثاق والے دن گو یہ ایمان قبول کر بیٹھے لیکن ان کے دلوں کی حالت اللہ جل شانہ کو معلوم تھی کہ ان کا ایمان جبراً اور ناخوشی سے ہے ۔ جیسے فرمان ہے کہ ’ یہ اگر دوبارہ دنیا کی طرف لوٹائے جائیں تو پھر بھی وہی کام نئے سرے سے کرنے لگیں گے جن سے انہیں روکا گیا ہے ۔ ‘ (6-الأنعام:28) الاعراف
102 الاعراف
103 نابکار لوگوں کا تذکرہ ، انبیاء اور مومنین پر نظر کرم جن رسولوں کا ذکر گزر چکا ہے یعنی نوح ، ہود ، صالح ، لوط ، شعیب «صلوات اللہ علیہم اجمعین» کے بعد ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو اپنی دلیلیں عطا فرما کر بادشاہ مصر فرعون اور اس کی قوم کی طرف بھیجا ۔ لیکن انہوں نے بھی جھٹلایا اور ظلم و زیادتی کی اور صاف انکار کر دیا حالانکہ ان کے دلوں میں یقین گھر کر چکا تھا ۔ اب تو آپ دیکھ لیں کہ اللہ کی راہ سے روکنے والوں اور اس کے رسولوں کا انکار کرنے والوں کا کیا انجام ہوا ؟ وہ مع اپنی قوم کے ڈبو دیئے گئے اور پھر لطف یہ ہے کہ مومنوں کے سامنے بے بسی کی پکڑ میں پکڑ لیا گیا تاکہ ان کے دل ٹھنڈے ہوں اور عبرت ہو ۔ الاعراف
104 موسیٰ علیہ السلام اور فرعون موسیٰ علیہ السلام کے اور فرعون کے درمیان جو گفتگو ہوئی ، اس کا ذکر ہو رہا ہے کہ اللہ کے کلیم علیہ السلام نے فرمایا کہ اے فرعون ! میں رب العالمین کا رسول ہوں جو تمام عالم کا خالق و مالک ہے ۔ مجھے یہی لائق ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بارہ میں وہی باتیں کہوں جو سراسر حق ہوں «ب» اور «علی» یہ متعاقب ہوا کرتے ہیں ۔ جیسے «رَمَیْتَ بِالْقَوْسِ» اور «رَمَیْتَ علی الْقَوْسِ» وغیرہ ۔ اور بعض مفسرین کہتے ہیں : «حَقِیْقٌ» کے معنی «حَرِیْصٌ» کے ہیں ۔ یہ معنی بھی بیان کئے گئے ہیں کہ مجھ پر واجب اور حق ہے کہ اللہ ذوالمنن کا نام لے کر وہی خبر دوں جو حق و صداقت والی ہو کیونکہ میں اللہ عزوجل کی عظمت سے واقف ہوں ، میں اپنی صداقت پر الٰہی دلیل بھی ساتھ ہی لایا ہوں ۔ تو قوم بنی اسرائیل کو اپنے مظام سے آزاد کر دے ، انہیں اپنی زبردستی کی غلامی سے نکال دے ، انہیں ان کے رب کی عبادت کرنے دے ۔ یہ ایک زبردست بزرگ پیغمبر کی نسل سے ہیں یعنی یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم خلیل اللہ علیہم السلام کی اولاد ہیں ۔ فرعون نے کہا : میں تجھے سچا نہیں سمجھتا ، نہ تیری طلب پوری کروں گا اور اگر تو اپنے دعوے میں واقعی سچا ہے تو کوئی معجزہ پیش کر ۔ الاعراف
105 الاعراف
106 الاعراف
107 عصائے موسیٰ اور فرعون آپ نے فرعون کی اس طلب پر اپنے ہاتھ کی لکڑی زمین پر ڈال دی جو بہت بڑا سانپ بن گئی اور منہ پھاڑے فرعون کی طرف لپکی ۔ وہ مارے خوف کے تخت پر سے کود گیا اور فریاد کرنے لگا کہ موسیٰ اللہ کے لیے اسے روک ۔ اس نے اس قدر اپنا منہ کھولا تھا کہ نیچے کا جبڑا تو زمین پر تھا اور اوپر کا جبڑا محل کی بلندی پر ۔ خوف کے مارے فرعون کی ہوا نکل گئی اور چیخنے لگا کہ موسیٰ اسے روک لے ۔ میں ایمان لاتا ہوں اور اقرار کرتا ہوں کہ بنی اسرائیل کو تیرے ساتھ کر دوں گا ۔ موسیٰ علیہ السلام نے اسی وقت اس پر ہاتھ رکھا اور وہ اسی وقت لکڑی جیسی لکڑی بن گیا ۔ وہب رحمہ اللہ فرماتے ہیں : موسیٰ علیہ السلام کو دیکھتے ہی فرعون کہنے لگا : میں تجھے پہچانتا ہوں ۔ آپ نے فرمایا : یقیناً ۔ اس نے کہا : تو نے بچپن ہمارے گھر کے ٹکڑوں پر ہی تو گزارا ہے ۔ اس کا جواب موسیٰ علیہ السلام دے ہی رہے تھے کہ اس نے کہا : اسے گرفتار کر لو ۔ آپ نے جھٹ سے اپنی لکڑی زمین پر ڈال دی جس نے سانپ بن کر ان پر حملہ کر دیا ۔ اس بد حواسی میں ایک دوسرے کو کچلتے اور قتل کرتے ہوئے وہ سب کے سب بھاگے ۔ چنانچہ پچیس ہزار آدمی اسی ہنگامے میں ایک دوسرے کے ہاتھوں مارے گئے اور فرعون سیدھا اپنے گھر میں گھس گیا لیکن اس واقعہ کے بیان کی سند میں غرابت ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اسی طرح دوسرا معجزہ آپ نے یہ ظاہر کیا کہ اپنا ہاتھ اپنی چادر میں ڈال کر نکالا تو بغیر اس کے کہ کوئی روگ یا برص یا داغ ہو ، وہ سفید چمکتا ہوا بن کر نکل آیا جسے ہر ایک نے دیکھا پھر ہاتھ اندر کیا تو یہ ویسا ہی ہو گیا ۔ الاعراف
108 الاعراف
109 . جب ڈر خوف جاتا رہا ، فرعون پھر سے اپنے تخت پر آ بیٹھا اور درباریوں کے اوسان درست ہو گئے تو فرعون نے کہا : بھئی مجھے تو یہ جادوگر لگتا ہے اور ہے بھی بڑا استاد ۔ ان لوگوں نے اس کی تائید کی اور کہا حضور درست فرما رہے ہیں ۔ اب مشورے کرنے لگے کہ اگر یہ معاملہ یونہی رہا تو لوگ اس کی طرف مائل ہو جائیں گے اور جب یہ قوت پکڑے گا تو ہم سے بادشاہت چھین لے گا ۔ ہمیں جلا وطن کر دے گا ۔ بتاؤ کیا کرنا چاہیئے ؟ اللہ کی شان ہے جس سے خوف کھایا ، وہی سامنے آیا ۔ الاعراف
110 الاعراف
111 درباریوں کا مشورہ درباریوں نے مشورہ دیا کہ ان دونوں بھائیوں کا معاملہ تو اس وقت رفع دفع کرو ، اسے ملتوی رکھو اور ملک کے ہر حصے میں ہرکارے بھیج دو جو جادوگروں کو جمع کر کے آپ کے دربار میں لائیں ۔ تو جب تمام استادان فن جادوگر آ جائیں ، ان سے مقابلہ کرایا جائے تو یہ ہار جائے گا اور منہ دکھانے کے قابل نہ رہے گا ، یہ اگر جادو جانتا ہے تو ہماری رعایا میں جادوگروں کی کیا کمی ہے ؟ بڑے بڑے ماہر جادوگر ہم میں موجود ہیں جو اپنے فن میں بےنظیر ہیں اور بہت چست و چالاک ہیں ۔ چنانچہ موسیٰ علیہ السلام سے کہا گیا کہ ہم سمجھ گئے کہ تو جادو کے زور سے ہمیں ہمارے ملک سے نکال دینے کے ارادے سے آیا ہے تو اگر تجھ میں کوئی سکت ہے تو آ ہاتھ ملا ، ہم تجھ سے مقابلہ کا دن اور جگہ مقرر کرتے ہیں اور جب جگہ مقرر ہو جائے ، پھر جو بھاگے وہی ہارا ۔ آپ نے فرمایا : اچھا یہ ہوس بھی نکال لو ۔ جاؤ تمہارا عید کا دن مجھے منظور ہے اور دن چڑھے اجالے کا وقت اور شرط یہ کہ یہ مقابلہ مجمع عام میں ہو ۔ چنانچہ فرعون اس تیاری میں مصروف ہو گیا ۔ الاعراف
112 الاعراف
113 . جادوگروں نے پہلے ہی فرعون سے قول و قرار لے لیا تاکہ محنت خالی نہ جائے اور اگر ہم جیت جائیں تو خالی ہاتھ نہ رہ جائیں ۔ فرعون نے وعدہ کیا کہ منہ مانگا انعام اور ہمیشہ کے لئے خاص درباریوں میں داخلہ دوں گا ۔ جادوگر یہ قول و قرار لے کر میدان میں اتر آئے ۔ الاعراف
114 الاعراف
115 جادوگروں سے مقابلہ جادوگروں کو اپنی قوت پر بڑا گھمنڈ تھا ۔ وہ سب فی الحقیقت اپنے اس فن کے لاجواب استاد تھے ۔ اس لیے انہوں نے آتے ہی موسیٰ علیہ السلام کو چیلنج دیا کہ لو ہوشیار ہو جاؤ ۔ تمہیں اختیار ہے کہ میدان میں اپنے کرتب پہلے دکھاؤ اور اگر کہو تو پہل ہم کر دیں ۔ آپ نے فرمایا : بہتر ہے کہ تمہارے حوصلے نکل جائیں اور لوگ تمہارا کمال فن دیکھ لیں اور پھر اللہ کی قدرت کو بھی دیکھ لیں اور حق و باطل میں دیکھ بھال کر فیصلہ کر سکیں ۔ وہ تو یہ چاہتے ہی تھے ، انہوں نے جھٹ سے اپنی رسیاں اور لکڑیاں نکال نکال کر میدان میں ڈالنی شروع کر دیں ۔ ادھر وہ میدان میں پڑتے ہی چلتی پھرتی اور بنی بنائی سانپ معلوم ہونے لگیں ۔ یہ صرف نظر بندی تھی ۔ فی الواقع خارج میں ان کا وجود بدل نہیں گیا تھا بلکہ اس طرح لوگوں کو دکھائی دیتی تھیں کہ گویا زندہ ہیں ۔ موسیٰ علیہ السلام اپنے دل میں خطرہ محسوس کرنے لگے ۔ اللہ کی طرف سے وحی آئی کہ خوف نہ کر ، تو ہی غالب رہے گا ۔ اپنے دائیں ہاتھ کی لکڑی ڈال تو سہی ! ان کا کیا دھرا یہ تو سب کو ہڑپ کر جائے گی ۔ یہ سب تو جادوگری کا کرشمہ ہے ۔ بھلا جادو والے بھی کبھی کامیاب ہوئے ہیں ؟ بڑی موٹی موٹی رسیاں اور لمبی لمبی لکڑیاں انہوں نے ڈالی تھیں جو سب چلتی پھرتی ، دوڑتی بھاگتی معلوم ہو رہی تھیں ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:21/6) یہ جادوگر پندرہ ہزار یا تیس ہزار سے اوپر اوپر تھے یا ستر ہزار کی تعداد میں تھے ۔ ہر ایک اپنے ساتھ رسیاں اور لکڑیاں لایا تھا ۔ صف بستہ کھڑے تھے اور لوگ چاروں طرف موجود تھے ۔ ہر ایک ہمہ تن شوق بنا ہوا تھا ۔ فرعون اپنے لاؤ لشکر اور درباریوں سمیت بڑے رعب سے اپنے تخت پر بیٹھا ہوا تھا ۔ ادھر وقت ہوا ، ادھر سب کی نگاہوں نے دیکھا کہ ایک درویش صفت اللہ کا نبی علیہ السلام اپنے ساتھ اپنے بھائی کو لیے ہوئے لکڑی ٹکاتے ہوئے آ رہا ہے ۔ یہ تھے جن کے مقابلے کی یہ دھوم دھام تھی ۔ آپ کے آتے ہی جادوگروں نے صرف یہ دریافت کر کے کہ ابتداء کس کی طرف سے ہونی چاہیئے ، خود ابتداء کر دی ۔ موسیٰ علیہ السلام کی ، پھر فرعون کی ، پھر تماشائیوں کی آنکھوں پر جادو کر کے سب کو ہیبت زدہ کر دیا ۔ اب جو انہوں نے اپنی اپنی رسیاں اور لاٹھیاں پھینکیں تو ہزارہا کی تعداد میں پہاڑوں کے برابر سانپ نظر آنے لگے جو اوپر تلے ایک دوسرے سے لپٹ رہے ہیں ۔ ادھر ادھر دوڑ رہے ہیں ، میدان بھر گیا ہے ۔ انہوں نے اپنے فن کا پورا مظاہرہ کر دکھایا ۔ الاعراف
116 الاعراف
117 جادوگر سجدہ ریز ہو گئے اسی میدان میں جادوگروں کے اس حملے کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی علیہ السلام کو بذریعہ وحی حکم فرمایا کہ اپنے دائیں ہاتھ سے لکڑی کو صرف زمین پر گرا ، وہ اسی وقت ان کے سارے ہی لغویات ہضم کر جائے گی ۔ چنانچہ یہی ہوا ۔ آپ کی لکڑی نے اژدھا بن کر سارے میدان کو صاف کر دیا ۔ جو کچھ وہاں تھا ، سب کو ہڑپ کر گیا ۔ ایک بھی چیز اب میدان میں نہ نظر آتی تھی ۔ پھر موسیٰ علیہ السلام نے جہاں اس پر ہاتھ رکھا ویسی کی ویسی لکڑی بن گئی ۔ یہ دیکھتے ہی جادوگر سمجھ گئے کہ یہ جادو نہیں ۔ یہ تو سچ مچ اللہ کی طرف سے معجزہ ہے ۔ حق ثابت ہو گیا ، باطل دب گیا ۔ تمیز ہو گئی ، معاملہ صاف ہو گیا ۔ فرعونی بری طرح ہارے اور بری طرح پسپا ہوئے ۔ ادھر جادوگر اپنا ایمان چھپا نہ سکے ۔ جان کے خوف کے باوجود وہ اسی میدان میں سجدہ ریز ہو گئے اور کہنے لگے : موسیٰ علیہ السلام کے پاس جادو نہیں ، یہ تو اللہ کی طرف سے معجزہ ہے جو خود اللہ نے اسے عطا فرما رکھا ہے ۔ ہم تو اس اللہ پر ایمان لائے ۔ حقیقتاً رب العالمین وہی ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:24/6) پھر کسی کو کچھ اور شبہ نہ ہو یا کوئی کسی طرح کی تاویل نہ کر سکے اور صفائی کر دی کہ ان دونوں بھائیوں اور اللہ کے سچے نبیوں یعنی موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کے پروردگار کو ہم نے تو مان لیا ۔ قاسم کا بیان ہے کہ جب یہ سجدے میں گرے تو اٹھنے سے پہلے ہی پروردگار عالم نے دوزخ دکھائی جس سے انہیں بچایا گیا تھا اور جنت دکھائی جو انہیں دی گئی ۔ الاعراف
118 الاعراف
119 الاعراف
120 الاعراف
121 الاعراف
122 الاعراف
123 فرعون سیخ پا ہو گیا جادوگروں کے اس طرح مجمع عام میں ہار جانے ، پھر اس طرح سب کے سامنے بےدھڑک اسلام قبول کر لینے سے فرعون آگ بگولا ہو گیا اور اس اثر کو روکنے کے لئے سب سے پہلے تو ان مسلمانوں سے کہنے لگا : تمہارا بھید مجھ پر کھل گیا ہے ۔ تم سب مع موسیٰ کے ایک ہی ہو ۔ یہ تمہارا استاد ہے ، تم اس کے شاگرد ہو ۔ ۱؎ (20-طہ:71) تم نے آپس میں پہلے یہ طے کیا کہ تو پہلے چلا جا ، پھر ہم آ جائیں گے ۔ اس طرح میدان قائم ہو ۔ ہم مصنوعی لڑائی لڑ کر ہار جائیں گے اور اس طرح اس ملک کے اصلی باشندوں کو یہاں سے نکال باہر کریں گے ۔ فرعون کے اس جھوٹ پر اللہ کی مار ہے ۔ کوئی بےوقوف بھی اس کے اس بیان کو صحیح نہیں سمجھ سکتا ۔ سب کو معلوم تھا موسیٰ علیہ السلام اپنا بچپن فرعون کے محل میں گزارتے ہیں ، اس کے بعد مدین میں عمر کا ایک حصہ بسر کرتے ہیں ۔ مدین سے سیدھے مصر کو پہنچ کر اپنی نبوت کا اعلان کرتے ہیں اور معجزے دکھاتے ہیں جن سے عاجز آ کر فرعون اپنے جادوگروں کو جمع کرتا ہے ۔ وہ براہ راست اس کی سپاہ کے ساتھ اس کے دربار میں پیش ہوتے ہیں ۔ انعام و اکرام کے لالچ سے ان کے دل بڑھائے جاتے ہیں ۔ وہ اپنی فتح مندی کا یقین دلاتے ہیں ، فرعون انہیں اپنی رضا مندی کا یقین دلاتا ہے ۔ خوب تیاریاں کر کے میدان جماتے ہیں ۔ موسیٰ علیہ السلام ان میں سے ایک سے بھی واقف نہیں ، کبھی نہ کسی کو دیکھا ہے ، نہ سنا ہے ، نہ ملے ہیں ، نہ جانتے ہیں ۔ لیکن وزیرے چنیں شہر یارے چناں ۔ وہاں تو ان لوگوں کا مجمع تھا کہ فرعون نے جب کہا کہ میں رب اعلیٰ ہوں تو سب نے گردنیں جھکا کر کہا : بیشک حضور آپ خدا ہیں تو ایسے جہالت کے پلندوں سے کوئی بات منوا لینی کیا مشکل تھی ؟ اس کے رعب میں آ کر ایمان لانے کا ارادہ بدلا اور سمجھ بیٹھے کہ واقعی فرعون ٹھیک کہہ رہا ہے ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے جادوگروں کے امیر سے فرمایا کہ اگر میں غالب آ جاؤں تو کیا تو مجھ پر ایمان لائے گا ؟ اس نے کہا : آج میدان میں ہماری جانب سے جو جادو پیش کیا جائے گا ، اس کا جواب ساری مخلوق کے پاس نہیں ۔ تو اگر اس پر غالب آ گیا تو مجھے بیشک یقین ہو جائے گا کہ وہ جادو نہیں معجزہ ہے ۔ یہ گفتگو فرعون کے کانوں تک پہنچی ، اسے یہ دوہرا رہا ہے کہ تم نے ملی بھگت کر لی ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:24/6) اس طرح لوگوں کے دل حقانیت سے ہٹا کر انہیں بدظن کرنے کیلئے دوسری چال چلتا ہے اور کہتا ہے کہ تم اپنے اتفاق اور پوشیدہ جال سے جاہتے یہ ہو کہ ہماری دولت و شوکت چھین لو ، ہمیں یہاں سے نکال باہر کرو ۔ اس طرح اپنی قوم کے دل ان کی طرف سے پھیر کر پھر انہیں خوفزدہ کرنے کیلئے چوتھی چال چلتا ہے کہ ان نومسلموں سے کہتا ہے کہ دیکھو تو تمہیں ابھی معلوم ہو جائے گا کہ سو میں کتنے بیس ہوتے ہیں ۔ مجھے بھی قسم ہے جو تمہارے ہاتھ پاؤں نہ کٹوائے اور وہ بھی الٹی طرح یعنی پہلے اگر سیدھا ہاتھ کاٹا جائے تو پھر بایاں پاؤں اور اگر پہلے سیدھا پاؤں کاٹا گیا تو پھر الٹا ہاتھ ۔ اسی طرح بےدست و پا کر کےکھجوروں کی شاخوں پر لٹکا دوں گا ۔ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ اس ظالم بادشاہ سے پہلے ان دونوں سزاؤں کا رواج نہ تھا ۔ یہ دھمکی دے کر وہ سمجھتا تھا کہ اب یہ نرم پڑ جائیں گے لیکن وہ تو ایمان میں اور پختہ ہو گئے ۔ بالاتفاق جواب دیتے ہیں کہ اچھا ڈرایا ؟ یہاں سے تو واپس اللہ کے پاس جانا ہی ہے ۔ اسی کے قبضہ و قدرت میں سب کچھ ہے ۔ آج اگر تیری سزاؤں سے بچ گئے تو کیا اللہ کے ہاں کی سزائیں بھی معاف ہو جائیں گی ؟ ہمارے نزدیک تو دنیا کی سزائیں بھگت لینا بہ نسبت آخرت کے عذاب کے بھگتنے کے بہت ہی آسان ہے ۔ تو ہم سے اللہ کے نبی کا مقابلہ کرا چکا ہے لیکن اب ہم پر حق واضح ہو گیا ۔ ہم اس پر ایمان لے آئے ، تو تو چڑ رہا ہے ۔ کہنے کو تو یہ سب کچھ کہہ گئے لیکن خیال آیا کہ کہیں ہمارا قدم پھسل نہ جائے ۔ اس لیے دعا میں دل کھول دیا کہ اے اللہ ! ہمیں صبر عطا فرما ، ثابت قدمی دے ، ہمیں اسلام پر ہی موت دے ، تیرے نبی موسیٰ علیہ السلام کی اتباع کرتے ہوئے ہی دنیا سے رخصت ہوں ۔ ایسا نہ ہو ، اس ظالم کے رعب میں یا اس کی دھمکیوں میں آ جائیں یا سزاؤں سے ڈر جائیں یا ان کے برداشت کی تاب نہ لائیں ۔ ان دعاؤں کے بعد دل بڑھ جاتے ہیں ، ہمتیں دگنی ہو جاتی ہیں ۔ فرعون کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتے ہیں : ’ تجھے جو کرنا ہے اس میں کمی نہ کر ، کسر اٹھا نہ رکھ ۔ جو جی میں ہے ، کر گزر ۔ تو دنیا ہی میں سزائیں دے سکتا ہے ، ہم صبر کر لیں گے ۔ کیا عجب کہ ہمارے ایمان کی وجہ سے اللہ ہماری خطائیں معاف فرمائے ۔ خصوصاً ابھی کی یہ خطا کہ ہم نے جھوٹ سے سچ کا مقابلہ کیا ۔ بیشک اللہ بہتر ہے اور زیادہ باقی ۔ گناہگاروں کے لیے اس کے ہاں جہنم کی سزا ہے ۔ جہاں نہ موت آئے ، نہ کارآمد زندگی ہو ۔ اور مومنوں کے لیے اس کے پاس جنتیں ہیں جہاں بڑے بلند درجے ہیں ۔ ‘ ۱؎ (20-طہ:72-75) سبحان اللہ ! یہ لوگ دن کے ابتدائی حصے میں کافر اور جادوگر تھے اور اسی دن کے آخری حصے میں مومن بلکہ نیک شہید تھے ۔ الاعراف
124 الاعراف
125 الاعراف
126 الاعراف
127 آخری حربہ بغاوت کا الزام فرعون اور فرعونیوں نے موسیٰ علیہ السلام اور مسلمانوں کے خلاف جو منصوبے سوچے گانٹھے ، ان کا بیان ہو رہا ہے کہ ایک دوسرے کو ان مسلمانوں کے خلاف ابھارتے رہے ۔ کہنے لگے : یہ تو آپ کی رعایا کو بہکاتے ہیں ۔ بغاوت پھیلا دیں گے ، ملک میں بد امنی پیدا کریں گے ۔ ان کا ضرور اور جلد کوئی انتظام کرنا چاہیئے ۔ اللہ کی شان دیکھئے ! یہ کیسے مصلح بنے ہوئے ہیں کہ اللہ کے رسول اور مومنوں کے فساد سے دنیا کو بچانا چاہتے ہیں حالانکہ مفسد اور بد نفس خود ہیں ۔ «وَیَذَرَکَ» میں بعض تو کہتے ہیں واؤ حالیہ ہے یعنی در آنحالیکہ موسیٰ علیہ السلام اور قوم موسیٰ نے تیری پرستش چھوڑ رکھی ہے ، پھر بھی تو انہیں زندہ رہنے دیتا ہے ؟ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی قرأت میں ہے : «وَقَدْ تَرَکُوْکَ اَنْ یَّعْبُدْوْکَ وَالِھَتَکَ» ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:26/6) اور قول ہے کہ واؤ عاطفہ ہے یعنی تو نے انہیں چھوڑ رکھا ہے ۔ جس فساد کو یہ برپا کر رہے ہیں اور تیرے معبودوں کے چھوڑنے پر اکسا رہے ہیں ۔ بعض کی قرأت «اِلَاھَتَکَ» ہے یعنی تیری عبادت سے ۔ بعض کا بیان ہے کہ فرعون بھی کسی کو پوجا کرتا تھا ۔ ایک قول ہے کہ اسے وہ پوشیدہ راز میں رکھتا تھا ۔ ایک روایت میں ہے کہ اس کا بت اس کی گردن میں ہی لٹکتا رہتا تھا جسے یہ سجدہ کرتا تھا ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ کسی بہترین گائے پر فرعون کی نگاہ پڑی جاتی تو لوگوں سے کہہ دیتا کہ اس کی پرستش کرو ۔ اسی لیے سامری نے بھی بنی اسرائیل کے لیے بچھڑا نکالا ۔ الغرض اپنے سرداروں کی بات سن کر فرعون جواب دیتا ہے کہ اب ان کے لیے ہم احکام جاری کریں گے کہ ان کے ہاں جو اولاد ہو ، دیکھ لی جائے ۔ اگر لڑکا ہو تو قتل کر دیا جائے ، لڑکی ہو تو زندہ چھوڑ دی جائے ۔ پہلے سرکش فرعون ان مساکین کے ساتھ یہی کر چکا تھا جبکہ اسے یہ منظور تھا کہ موسیٰ علیہ السلام پیدا ہی نہ ہوں ۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا ارادہ غالب آیا اور موسیٰ علیہ السلام باوجود اس کے حکم کے زندہ و سالم بچے رہے ۔ اب دوبارہ اس نے یہی قانون جاری کیا تاکہ بنی اسرائیل کی جمعیت ٹوٹ جائے ، یہ کمزور پڑ جائیں اور بالاخر ان کا نام مٹ جائے لیکن قدرت نے اس کا بھی خلاف کر دکھایا ، اس کو اور اس کی قوم کو غارت کر دیا اور بنی اسرائیل کو اوج و ترقی پر پہنچا دیا ۔ موسیٰ علیہ السلام نے اس تکبر کے مقابلے میں تحمل اور اس کے ظلم کے مقابلے میں صبر سے کام لیا ۔ اپنی قوم کو سمجھایا اور بتایا کہ اللہ فرما چکا ہے کہ انجام کے لحاظ سے تم ہی اچھے رہو گے ۔ تم اللہ سے مدد چاہو اور صبر کرو ۔ قوم والوں نے کہا : اے اللہ کے نبی علیہ السلام ! آپ کی نبوت سے پہلے بھی ہم اسی طرح ستائے جاتے رہے ، اسی ذلت و اہانت میں مبتلا رہے اور اب پھر یہی نوبت آئی ہے ۔ آپ نے مزید تسلی دی اور فرمایا کہ گھبراؤ نہیں ۔ یقین مانو کہ تمہارا بدخواہ ہلاک ہو گا اور تم کو اللہ تعالیٰ اوج پر پہنچائے گا ۔ اس وقت وہ دیکھے گا کہ کون کتنا شکر بجا لاتا ہے ؟ تکلیف کا ہٹ جانا ، راحت کامل جانا انسان کو نہال نہال کر دیتا ہے ۔ یہ پورے شکریئے کا وقت ہوتا ہے ۔ الاعراف
128 الاعراف
129 الاعراف
130 اعمال کا خمیازہ اب آل فرعون پر بھی سختی کے مواقع آئے تاکہ ان کی آنکھیں کھلیں اور اللہ کے دین کی طرف جھکیں ۔ کھیتیاں کم آئیں ، قحط سالیاں پڑ گئیں ، درختوں میں پھل کم لگے یہاں تک کہ ایک درخت میں ایک ہی کھجور لگی ۔ یہ صرف بطور آزمائش تھا کہ وہ اب بھی ٹھیک ہو جائیں ۔ لیکن ان عقل کے اندھوں کو راستی سے دشمنی ہو گئی ۔ شادابی اور فراخی دیکھ کر تو اکڑ کر کہتے کہ یہ ہماری وجہ سے ہے اور خشک سالی اور تنگی دیکھ کر آواز لگاتے کہ یہ موسیٰ علیہ السلام اور مومنوں کی وجہ سے ہے ۔ غلط خیال تھا ۔ جب کہ مصیبتیں اور راحتیں اللہ کی جانب سے ہیں لیکن بےعملی کی باتیں بناتے رہے ۔ ان کی بدشگونی ان کے بد اعمال تھے جو اللہ کی طرف سے ان پر مصیبتیں لاتے تھے ۔ الاعراف
131 الاعراف
132 سیاہ دل لوگ اقرار کے بعد انکار کرتے رہے ان کی سرکشی اور ضد دیکھئیے کہ موسیٰ علیہ السلام سے صاف کہتے ہیں کہ آپ خواہ کتنی ہی دلیلیں پیش کریں ، کیسے ہی معجزے بتائیں ، ہم ایمان لانے والے نہیں ۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ سب آپ کے جادو کے کرشمے ہیں ۔ ان پر طوفان آیا ، بکثرت بارشیں برسیں جس سے پھل اور اناج تباہ ہو گئے اور اسی سے وبا اور طاعون کی بیماری پھیل پڑی ۔ اسی لیے بعض مفسرین نے کہا ہے : ” طوفان سے مراد موت ہے ۔ “ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:15005) بعض کہتے ہیں : کوئی زبردست آسمانی آفت آئی تھی جس نے انہیں گھیر لیا تھا ۔ ٹڈیوں کی مصیبت ان پر آئی ۔ یہ ایک حلال جانور ہے ۔ { سیدنا عبداللہ بن ابی اونی رضی اللہ عنہ سے سوال ہوا تو آپ نے فرمایا : سات غزوے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کئے ہیں ۔ ہر ایک میں ہم تو ٹڈیاں کھاتے رہے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:5495) مسند احمد اور ابن ماجہ میں ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : { دو مردے اور دو خون ہمارے لیے حلال ہیں ، مچھلی اور ٹڈی اور کلیجی اور تلی ۔ } ۱؎ (سنن ابن ماجہ:3314،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابوداؤد میں ہے : { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ٹڈی کی نسبت سوال ہوا تو آپ نے فرمایا : اللہ کے لشکر بہت سے ہیں جنہیں نہ میں کھاتا ہوں ، نہ حرام کہتا ہوں ۔ } ۱؎ (سنن ابوداود:3813،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جی نہ چاہنے کی وجہ سے اسے چھوڑ دیا جیسے گوہ آپ نے نہیں کھایا حالانکہ دوسروں کو اس کے کھانے کی اجازت مرحمت فرمائی ۔ حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ نے ایک مستقل رسالہ اسی میں تصنیف فرمایا ہے ۔ اس میں ایک روایت یہ بھی ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ٹڈی نہیں کھاتے تھے اور نہ گردے کھاتے تھے اور نہ گوہ ۔ { لیکن انہیں آپ نے حرام نہیں کیا ۔ ٹڈی اس وجہ سے کہ وہ عذاب ہے ، گردے اس وجہ سے کہ یہ پیشاب کے قریب ہیں اور گوہ اس وجہ سے کہ آپ کو خوف تھا کہ کہیں یہ مسخ شدہ امت نہ ہو ۔ } ۱؎ (ضعیف الجامع الصغیر:3392) پھر یہ روایت بھی غریب ہے ، صرف یہی ایک سند ہے ۔ { امیر المؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ٹڈی کو بڑی رغبت سے کھایا کرتے ، تلاش کر کے منگوایا کرتے ۔ چنانچہ کسی نے آپ سے مسئلہ پوچھا کہ ٹڈی کھائی جائے ؟ آپ نے فرمایا کہ کاش کہ ایک دو لپیں مل جاتیں تو کیسے مزے سے کھاتے ۔ } ۱؎ (موطا:30:صحیح) ابن ماجہ میں ہے کہ { امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن تو طباقوں میں لگا کر ٹڈیاں ہدیے اور تحفے کے طور پر بھیجتی تھیں ۔ } ۱؎ (سنن ابن ماجہ:3220 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) امام بغوی ایک روایت لائے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { مریم بنت عمران علیہا السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ ایسا گوشت مجھے کھلا جس میں خون نہ ہو ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں ٹڈی کھلائی آپ نے ان کے لیے دعا کی کہ اے اللہ ! اسے بغیر دودھ پینے کے زندگی دے اور اس کی اولاد کو بغیر آواز نکالے اس کے پیچھے لگا دے ۔ } (بیہقی فی السنن الکبری:258/9:ضعیف) ایک بہت ہی غریب حدیث میں ہے : { ٹڈیوں کو مارو نہیں ، یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا لشکر ہے ۔ } ۱؎ (طبرانی کبیر:297/22:حسن) مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ” ٹڈیاں ان کے دروازوں کی کیلیں کھا جاتی تھیں اور لکڑی چھوڑ دیتی تھیں ۔ “ اوزاعی کہتے ہیں : ” میں ایک دن جنگل میں تھا ۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ٹڈیاں بہت سی آسمان کی طرف ہیں اور ان میں سے ایک ٹڈی پر ایک شخص سوار ہے جو ہتھیار بند ہے جو جس طرف اشارہ کرتا ہے ، ساری ٹڈیاں اس طرف کو جھک جاتی ہیں اور وہ زبان سے برابر کہہ رہا ہے کہ دنیا باطل ہے اور اس میں جو ہے وہ بھی باطل ہے ۔ “ شریح قاضی فرماتے ہیں : ” اس جانور میں سات مختلف جانوروں کی شان ہے : اس کا سر گھوڑے جیسا ہے ، گردن بیل جیسی ہے ، سینہ شیر جیسا ہے ، پر گدھ جیسے ہیں ، پیر اونٹ جیسے ہیں ، دم سانپ کی طرح کی ہے ، پیٹ بچھو جیسا ہے ۔ “ آیت «أُحِلَّ لَکُمْ صَیْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُہُ مَتَاعًا لَّکُمْ وَلِلسَّیَّارَۃِ» ۱؎ (5-المائدۃ:96) کی تفسیر میں یہ روایت گزر چکی ہے کہ { ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج یا عمرے میں جا رہے تھے تو سامنے سے ہمیں ٹڈی دل ملا ۔ ہم نے احرام کی حالت میں انہیں لکڑیوں سے مارنا شروع کیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرنے پر آپ نے فرمایا : دریائی شکار میں محرم کو کوئی حرج نہیں ۔ } ۱؎ (سنن ابن ماجہ:3222،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب ان ٹڈیوں کے لئے بد دعا کرتے تو فرماتے : اے اللہ ! جتنی ان میں سے بڑی ہیں تو انہیں سب کو ہلاک کر ڈال اور جتنی چھوٹی ہیں ، سب کو قتل کر ڈال ۔ ان کے انڈے خراب کر دے ، ان کی نسل کاٹ دے ۔ ان کے منہ ہماری روزی سے روک لے ۔ ہمیں روزیاں عطا فرما ۔ بیشک تو دعاؤں کا سننے والا ہے ۔ اس پر سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ کے ایک لشکر کے غارت و برباد ہو جانے کی آپ دعا کرتے ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا کہ یہ تو سمندر کے اندر کی مچھلیوں کا ناک جھاڑنا ہے ۔ چنانچہ بعض لوگوں نے اسے مچھلی میں سے اسی طرح نکلتے دیکھا ہے ۔ } ۱؎ (سنن ابن ماجہ:3221،قال الشیخ الألبانی:موضوع و باطل) جب مچھلی سمندر کے کنارے انڈے دے جاتی ہے ، وہاں سے جب پانی ہٹ جاتا ہے اور دھوپ پڑنے لگتی ہے تو وہ انڈے سب کے سب پھوٹ جاتے ہیں اور ان میں سے ٹڈیاں نکلتی ہیں جو پرواز کر جاتی ہیں ۔ آیت قرآن «إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُکُم» ۱؎ (6-الأنعام:38) کی تفسیر میں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی وہ حدیث ہم نے بیان کر دی ہے کہ { اللہ تعالیٰ نے ایک ہزار امتیں پیدا کی ہیں جن میں سے چھ سو تری میں ہیں اور جار سو خشکی میں ۔ سب سے پہلے ہلاکت ٹڈیوں کی ہو گی ۔ } ۱؎ (سلسلۃ احادیث ضعیفہ البانی:4811) امام ابوبکر بن ابوداؤد ایک حدیث لائے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { لکڑی تلوار کے مقابلے پر کچھ نہیں اور درخت کی چھال ٹڈی کے مقابلے میں کچھ نہیں ۔ } ۱؎ (میزان:1808:ضعیف) یہ حدیث غریب ہے ۔ «قُمَّل» کے بارے میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ یہ وہ سیاہ رنگ کے چھوٹے چھوٹے جانور ہیں جو گیہوں میں سے نکلتے ہیں ۔ اور قول ہے کہ یہ بھی ایک قسم کی بےپر ٹڈیاں ہیں ۔ سعید کہتے ہیں : سیاہ رنگ کے چھوٹے سے کیڑے ہیں ۔ اس کا واحد «قملہ» ہے ۔ یہ جانور جب اونٹ کو چمٹ جاتے ہیں تو اسے ہلاک کر دیتے ہیں ۔ الغرض ایسے ہی موذی جانور بصورت عذاب فرعونیوں کے لیے بھیجے گئے تھے ۔ فرعون کی سرکشی اور انکار پر طوفان آیا جس سے انہیں یقین ہو گیا کہ یہ اللہ کا عذاب ہے ۔ گڑگڑا کر موسیٰ علیہ السلام سے عرض کرنے لگے کہ اللہ سے دعا کیجئے ، یہ موسلا دھار پانی رک جائے تو ہم آپ پر ایمان لائیں گے اور بنی اسرائیل کو آپ کے ساتھ کر دیں گے ۔ آپ نے دعا کی ، طوفان ہٹ گیا تو یہ اپنے وعدے سے پھر گئے ۔ پھر اللہ کی شان ہے کہ کھیتیاں اور باغات اس قدر پھلے کہ اس سے پہلے کبھی ایسے نہیں پھلے تھے ۔ جب تیار ہو گئے تو ٹڈیوں کا عذاب آیا ، اسے دیکھ کر پھر گھبرائے اور موسیٰ علیہ السلام سے عرض کرنے لگے کہ اللہ سے دعا کیجئے کہ یہ عذاب ہٹا لے ، اب ہم پختہ وعدہ کرتے ہیں ۔ چنانچہ آپ کی دعا سے یہ عذاب بھی ہٹ گیا لیکن انہوں نے پھر وعدہ شکنی کی ۔ فصلیں کاٹ لائے ، کھلیان اٹھا لیے ۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا عذاب پھر اور شکل میں آیا ۔ تمام اناج وغیرہ میں کیڑا لگ گیا ، اس قدر بکثرت یہ جانور پھیل گئے کہ دس پیمانے لے کر کوئی شخص پسوانے نکلتا تو پسوانے تک یہ جانور سات پیمانے کھا لیتے ۔ گھبرا کر موسیٰ علیہ السلام کی طرف متوجہ ہوئے ، پھر وعدے کئے ۔ آپ نے پھر دعا کی ۔ اللہ تعالیٰ نے اس آفت کو بھی ہٹا لیا ۔ لیکن انہوں نے پھر بےایمانی کی ۔ نہ بنی اسرائیل کو رہا کیا ، نہ ایمان قبول کیا ۔ اس پر مینڈکوں کا عذاب آیا ۔ دربار میں فرعون بیٹھا ہوا ہے تو وہیں مینڈک ظاہر ہو کر ٹرانے لگا ۔ سمجھ گئے کہ یہ نئی شکل کا عذاب الٰہی ہے ۔ اب یہ پھیلنے اور بڑھنے شروع ہوئے ، یہاں تک کہ آدمی بیٹھتا تو اس کی گردن تک آس پاس سے اسے مینڈک گھیر لیتے ۔ جہاں بات کرنے کے لئے کوئی منہ کھولتا کہ مینڈک تڑپ کر اس کے منہ میں گھس جاتا ۔ پھر تنگ آ کر موسیٰ علیہ السلام سے اس عذاب کے ہٹنے کی درخواست کی اور اقرار کیا کہ ہم خود ایمان لائیں گے اور بنی اسرائیل کو بھی آزاد کر دیں گے ۔ چنانچہ آپ نے دعا کی ، اللہ تعالیٰ نے اس مصیبت کو بھی دفع کر دیا لیکن پھر مکر گئے ۔ چنانچہ ان پر خون کا عذاب آیا ۔ تمام برتنوں میں خون ، کھانے پینے کی چیزوں میں خون ، کنویں میں سے پانی نکالیں تو خون ، تالاب سے پانی لائیں تو خون ۔ پھر تڑپ اٹھے ، فرعون نے کہا : یہ بھی جادو ہے ۔ لیکن جب تنگ آ گئے تو آخر موسیٰ علیہ السلام سے مع وعدہ درخواست کی کہ ہم تو پانی سے ترس گئے ۔ چنانچہ آپ نے قول و قرار لے کر پھر دعا کی اور الل تعالیٰ نے اس عذاب کو بھی ہٹا لیا لیکن یہ پھر منکر ہو گئے ۔ فرعون جب میدان سے ناکام واپس لوٹا تھا ، اس نے ٹھان لی تھی کہ خواہ کچھ بھی ہو ، میں ایمان نہ لاؤں گا ۔ چنانچہ طوفان کی وجہ سے بھوکوں مرنے لگے پھر ٹڈیوں کا عذاب آیا تو درخت تو کیا گھر کی چوکھٹیں اور دروازوں تک وہ کھا گئیں ، مکانات گرنے لگے ۔ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے ایک پتھر پر لکڑی ماری جس میں سے بےشمار چچڑیاں نکل پڑیں اور پھیل گئیں ۔ کھانا ، پینا ، سونا ، بیٹھنا سب بند ہو گیا ۔ پھر مینڈکوں کا عذاب آیا جہاں دیکھو ، مینڈک نظر آنے لگے ۔ پھر خون کا عذاب آیا ۔ نہریں ، تالاب ، کنویں ، مٹکے ، گھڑے وغیرہ غرض بجائے پانی کے خون ہی خون سب چیزیں ہو گئیں ۔ عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں : مینڈک کو نہ مارو ۔ یہ جب بصورت عذاب فرعونیوں کے پاس آئے تو ایک نے اللہ کی رضا جوئی کے لیے تنور میں چھلانگ ماری ۔ اللہ نے اس کے بدلے انہیں پانی کی ٹھنڈک عطا فرمائی اور ان کی آواز کو اپنی تسبیح بنایا ۔ یہ بھی مروی ہے کہ خون سے مراد نکسیر پھوٹنا ہے ۔ الغرض ہر عذاب کو دیکھ کر اقرار کرتے لیکن جب موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے وہ ہٹ جاتا تو پھر انکار کر جاتے ۔ الاعراف
133 الاعراف
134 الاعراف
135 الاعراف
136 انجام سرکشی جب یہ لوگ اپنی سرکشی اور خود پسندی میں اتنے بڑھ گئے کہ باری تعالیٰ کی بار بار کی نشانیاں دیکھتے ہوئے بھی ایمان لانے سے برابر انکار کرتے رہے تو قدرت نے اپنے زبردست انتقام میں انہیں پھانس لیا اور سب کو دریا برد کر دیا ۔ بنی اسرائیل بحکم الٰہی ہجرت کر کے چلے تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے دریا ان کے لیے خشک ہو گیا ۔ پھر فرعون اور اس کے ساتھی اس میں اترے تو دریا میں پھر روانی آ گئی اور پانی کا ریلہ آیا اور وہ سب ڈوب گئے ۔ یہ تھا انجام اللہ کی باتوں کو جھوٹ سمجھنے اور ان سے غافل رہنے کا ۔ پھر پروردگار نے بنو اسرائیل جیسے کمزور ، ناتواں لوگوں کو اس زمین کا وارث بنا دیا ۔ مشرق و مغرب ان کے قبضے میں آ گیا ۔ جیسے فرمان ہے کہ ہم نے ان بے بسوں پر احسان کرنا چاہا اور انہیں امام اور وارث بنانا چاہا ۔ انہیں حکومت سونپ دی اور فرعون و ہامان اور ان کے لشکریوں کو وہ نتیجہ دکھایا جس سے وہ بھاگ رہے تھے ۔ اور آیتوں میں ہے کہ فرعونیوں سے ہرے بھرے باغات ، چشمے ، کھیتیاں ، عمدہ مقامات ، فراواں نعمتیں چھڑوا کر ہم نے دوسری قوم کے سپرد کر دیں ۔ سرزمین شام برکت والی ہے ۔ یہ ہماری قدرت کی نشانیوں میں سے ہے ۔ بنی اسرائیل کا صبر نیک نتیجہ لایا ، فرعون اور اس کی قوم کی بنی بنائی چیزیں غارت ہوئیں ۔ الاعراف
137 الاعراف
138 شوق بت پرستی اتنی ساری اللہ کی قدرت کی نشانیاں بنی اسرائیل دیکھ چکے لیکن دریا پار اترتے ہی بت پرستوں کے ایک گروہ کو اپنے بتوں کے آس پاس اعتکاف میں بیٹھے دیکھتے ہی موسیٰ علیہ السلام سے کہنے لگے کہ ہمارے لیے بھی کوئی چیز مقرر کر دیجئے تاکہ ہم بھی اس کی عبادت کریں جیسے کہ ان کے معبود ان کے سامنے ہیں ۔ یہ کافر لوگ کنعانی تھے ۔ ایک قول ہے کہ لحم قبیلہ کے تھے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:46/6) یہ گائے کی شکل بنائے ہوئے اس کی پوجا کر رہے تھے ۔ موسیٰ علیہ السلام نے اس کے جواب میں فرمایا کہ تم اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال سے محض ناواقف ہو ۔ تم نہیں جانتے کہ اللہ شریک و مثیل سے پاک اور بلند تر ہے ۔ یہ لوگ جس کام میں مبتلا ہیں ، وہ تباہ کن ہے اور ان کا عمل باطل ہے ۔ سیدنا ابوواقد لیثی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ { جب لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکے شریف سے حنین کو روانہ ہوئے تو راستے میں انہیں بیری کا وہ درخت ملا جہاں مشرکین مجاور بن کر بیٹھا کرتے تھے اور اپنے ہتھیار وہاں لٹکایا کرتے تھے ، اس کا نام ذات انواط تھا تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ایک ذات انواط ہمارے لیے بھی مقرر کر دیں ۔ آپ نے فرمایا : اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم نے قوم موسیٰ علیہ السلام جیسی بات کہہ دی کہ ہمارے لیے بھی معبود مقرر کر دیجئے جیسا ان کا معبود ہے ۔ جس کے جواب میں کلیم اللہ علیہ السلام نے فرمایا : تم جاہل لوگ ہو ، یہ لوگ جس شغل میں ہیں ، وہ ہلاکت خیز ہے اور جس کام میں ہیں ، وہ باطل ہے ۔ } ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:15065) [ ابن جریر ] مسند احمد کی ایک روایت میں ہے کہ یہ درخواست کرنے والے ابوواقد لیثی تھے ۔ جواب سے پہلے یہ سوال سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اللہ اکبر کہنا بھی مروی ہے اور یہ بھی کہ آپ نے فرمایا کہ { تم بھی اپنے اگلوں کی سی چال چلنے لگے ۔ } ۱؎(سنن ترمذی:2180،قال الشیخ الألبانی:صحیح) الاعراف
139 الاعراف
140 ماضی کی یاد دہانی انہیں اس گمراہ خیالی سے روکنے کے لئے آپ اللہ تعالیٰ کے احسانات یاد دلا رہے ہیں کہ فرعونیوں کی غلامی سے اللہ نے تمہیں آزادی دلوائی ، ذلت و رسوائی سے چھٹکارا دیا ۔ پھر اوج و عزت عطا فرمائی ، تمہارے دیکھتے ہوئے تمہارے دشمنوں کو غارت کر دیا ۔ ایسے رب کے سوا اور کون لائق عبادت ہو سکتا ہے ؟ فرعون کے وقت کی اپنی ابتری کو بھول گئے جس سے اللہ نے نجات دی ۔ اس کی پوری تفسیر سورۃ البقرہ میں گزر چکی ہے ۔ الاعراف
141 الاعراف
142 احسانات پہ احسانات اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل کو اپنا وہ احسان یاد دلاتا ہے جس کی وجہ سے موسیٰ علیہ السلام کو شرف ہم کلامی حاصل ہوا اور تورات ملی جو ان سب کے لیے باعث ہدایت و نور تھی جس میں ان کی شریعت کی تفصیل تھی اور اللہ کے تمام احکام موجود تھے ۔ تیس راتوں کا وعدہ ہوا ، آپ نے یہ دن روزوں سے گذارے ۔ وقت پورا کر کے ایک درخت کی چھال کو چبا کر مسواک کی ۔ حکم ہوا کہ دس اور پورے کر کے پورے چالیس کرو ۔ کہتے ہیں کہ ایک مہینہ تو ذوالقعدہ کا تھا اور دس دن ذوالحجہ کے ۔ تو عید والے دن وہ وعدہ پورا ہوا اور اسی دن اللہ کے کلام سے آپ کو شرف ملا ۔ اسی دن دین محمدی صلی اللہ علیہ وسلم بھی کامل ہوا ہے ۔ جیسے اللہ کا فرمان ہے «الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیتُ لَکُمُ الْإِسْلَامَ دِینًا» ۱؎ (5-المائدۃ:3) وعدہ پورا کرنے کے بعد موسیٰ علیہ السلام نے طور کا قصد کیا ۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ ا’ ے گروہ بنی اسرائیل ! ہم نے تمہیں دشمن سے نجات دی اور طور ایمن کا وعدہ کیا الخ ۔ ‘ ۱؎ (20-طہ:80) آپ نے جاتے ہوئے اپنے بھائی ہارون علیہ السلام کو اپنا خلیفہ بنایا اور انہیں اصلاح کی اور فساد سے بچنے کی ہدایت کی ۔ یہ صرف بطور وعظ کے تھا ورنہ خود ہارون علیہ السلام بھی اللہ کے شریف و کریم اور ذی عزت پیغمبر تھے ۔ «صلوات اللہ علیھم اجمعین» الاعراف
143 طلب زیارت اور موت وعدے کے مطابق موسیٰ علیہ السلام طور پہاڑ پر پہنچے ، اللہ کا کلام سنا تو دیدار کی آرزو کی ، جواب ملا کہ یہ تیرے لیے نا ممکن ہے ۔ اس سے معتزلہ نے استدلال کیا ہے کہ دنیا اور آخرت میں اللہ کا دیدار نہ ہو گا کیونکہ «لن» ابدی نفی کے لیے آتا ہے لیکن یہ قول بالکل ہی بودا ہے کیونکہ متواتر احادیث سے ثابت ہے کہ مومنوں کو قیامت کے دن اللہ کا دیدار ہو گا ۔ وہ حدیثیں آیت «وُجُوہٌ یَوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ إِلَیٰ رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ» ۱؎ (75-القیامۃ:22-23) اور آیت «کَلَّا إِنَّہُمْ عَن رَّبِّہِمْ یَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوبُونَ» ۱؎ (83-المطففین:15) کی تفسیر میں آئیں گی ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ ایک قول اس آیت کی تفسیر میں یہ ہے کہ یہ نفی ابدی ہے لیکن دنیاوی زندگی کے لیے نہ کہ آخرت کے لیے ۔ کیونکہ آخرت میں دیدار باری تعالیٰ مومنوں کو قطعاً ہو گا جیسے کہ آیات و احادیث سے ثابت ہے ۔ اس طرح کوئی معارضہ بھی باقی نہیں رہتا ۔ یہ آیت مثل «لَّا تُدْرِکُہُ الْأَبْصَارُ وَہُوَ یُدْرِکُ الْأَبْصَارَ» ۱؎ (6-الأنعام:103) کے ہے جس کی تفسیر سورۃ الانعام میں گزر چکی ہے ۔ اگلی کتابوں میں ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کی اس درخواست پر ان سے کہا گیا تھا کہ اے موسیٰ ! مجھے جو زندہ شخص دیکھ لے ، وہ مر جائے ۔ میرے دیدار کی تاب کوئی زندہ لا نہیں سکتا ۔ خشک چیزیں بھی میری تجلی سے تھرا اٹھتی ہیں ۔ چنانچہ پہاڑ کا حال خود کلیم اللہ علیہ السلام نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا اور خود بھی بےہوش ہو گئے ۔ امام ابو جعفر طبری رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ { جب اس کے رب نے پہاڑ پر تجلی ڈالی ، اپنی شہادت کی انگلی سے اشارہ کیا تو وہ چکنا چور ہو گیا ۔ راوی حدیث ابواسماعیل نے اپنے شاگردوں کو اپنی شہادت کی انگلی سے اشارہ کر کے بتایا ۔ } ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:15096) لیکن اس حدیث کی سند میں ایک راوی مبہم ہے جس کا نام واضح نہیں کیا گیا ۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے انگوٹھے کو اپنی چھنگلیا کی اوپر کی پور پر رکھ کر بتایا کہ اتنے سے جمال سے پہاڑ زمین کے ساتھ ہموار ہو گیا ۔ مسند کی روایت میں ہے کہ { حمید نے اپنے استاد سے کہا : اس سے آپ کی کیا مراد ہے ؟ تو استاد نے ان کے سینے پر ہاتھ مار کر فرمایا کہ یہ میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا بلکہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے میں نے سنا اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ۔ } ترمذی میں بھی یہ روایت ہے اور امام صاحب رحمہ اللہ نے اسے حسن صحیح غریب فرمایا ہے ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3074 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) مستدرک میں اسے وارد کر کے کہا ہے کہ یہ شرط مسلم پر ہے اور صحیح ہے ۔ خلال کہتے ہیں : ” اس کی سند صحیح ہے ، اس میں کوئی علت نہیں ۔ “ ابن مردویہ میں بھی مرفوعاً مروی ہے لیکن اس کی بھی سند صحیح نہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ” صرف بقدر چھنگلی کے تجلی ہوئی تھی جس سے وہ مٹی کی طرح چور چور ہو گیا اور کلیم اللہ علیہ السلام بھی بےہوش ہو گئے ۔ “ کہتے ہیں : ” وہ پہاڑ دھنس گیا ، سمندر میں چلا گیا اور موسیٰ علیہ السلام بےہوش ہو کر گر پڑے ۔ “ بعض بزرگ فرماتے ہیں : ” وہ پہاڑ اب قیامت تک ظاہر نہ ہو گا بلکہ زمین میں اترتا چلا جاتا ہے ۔ “ ایک حدیث میں ہے : { اس تجلی سے چھ پہاڑ اپنی جگہ سے اڑ گئے ۔ جن میں سے تین مکے میں ہیں اور تین مدینے میں ۔ احد ، ورقان اور رضوی مدینے میں ۔ حرا ، ثبیر اور ثور مکے میں ۔ } ۱؎ (الخطیب:441/10:موضوع) لیکن یہ حدیث غریب ہے بلکہ منکر ہے ۔ کہتے ہیں کہ طور پر تجلی کے ظہور سے پہلے پہاڑ بالکل صاف تھے ، اس کے بعد ان میں غار اور کھڈ اور شاخیں قائم ہو گئیں ۔ جناب کلیم اللہ علیہ السلام کی آرزو کے جواب میں انکار ہوا اور پھر مزید تشفی کے لیے فرمایا گیا کہ میری ادنیٰ سی تجلی کی برداشت تجھ سے تو کیا ، بہت زیادہ قوی مخلوق میں بھی نہیں ۔ دیکھ پہاڑ کی جانب ! خیال رکھ ۔ پھر اس پر اپنی تجلی ڈالی جس سے پہاڑ جھک گیا اور موسیٰ بےہوش ہو گئے ۔ صرف اللہ کی نظر نے پہاڑ کو ریزہ ریزہ کر دیا اور وہ بالکل مٹی ہو کر ریت کا میدان ہو گیا ۔ بعض قرأتوں میں اسی طرح ہے اور ابن مردویہ میں ایک مرفوع حدیث بھی ہے : موسیٰ علیہ السلام کو غشی آ گئی ، یہ ٹھیک نہیں کہ موت آ گئی ۔ گو لغۃً یہ بھی ہو سکتا ہے ۔ جیسے «فَصَعِقَ مَن فِی السَّمَاوَاتِ» ۱؎ (39-الزمر:68) میں موت کے معنی ہیں ۔ لیکن وہاں قرینہ موجود ہے جو اس لفظ سے اسی معنی کے ہونے کی تائید کرتا ہے اور یہاں کا قرینہ بےہوشی کی تائید کرتا ہے ۔ کیونکہ آگے فرمان ہے «فَلَمَّا أَفَاقَ» ظاہر ہے کہ افاقہ بیہوشی سے ہوتا ہے ۔ موسیٰ علیہ السلام ہوش میں آتے ہی اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی اور تعظیم و جلال بیان فرمانے لگے کہ واقعی وہ ایسا ہی ہے کہ کوئی زندہ اس کے جمال کی تاب نہیں لا سکتا ۔ پھر اپنے سوال سے توبہ کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ سب بنی اسرائیل سے پہلے میں ایمان لانے والا بنتا ہوں ۔ میں اس پر سب سے پہلے ایمان لاتا ہوں کہ واقعی کوئی زندہ آنکھ تجھے دیکھ نہیں سکتی ۔ یہ مطلب نہیں کہ آپ سے پہلے کوئی مومن ہی نہ تھا بلکہ مراد یہ ہے کہ اللہ کا دیدار زندوں کے لیے نا ممکن ہے ۔ اس فرمان کو سنتے ہی سب سے پہلے ماننے والا میں ہوں کہ واقعی مخلوق میں سے کوئی قیامت تک اللہ کو نہیں دیکھ سکتا ۔ ابن جریر میں اس آیت کی تفسیر میں محمد بن اسحاق بن یسار کی روایت سے ایک عجیب و غریب مطول اثر نقل کیا گیا ہے ۔ عجب نہیں کہ یہ اسرائیلی روایتوں میں سے ہو ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ { ایک یہودی کو کسی نے ایک تھپڑ مارا تھا ، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شکایت لایا کہ آپ کے فلاں انصاری نے مجھے تھپڑ مارا ہے ۔ آپ نے اسے بلوایا اور اس سے پوچھا ۔ اس نے کہا : سچ ہے ۔ وجہ یہ ہوئی کہ یہ کہہ رہا تھا ، اس اللہ کی قسم ہے جس نے موسیٰ علیہ السلام کو تمام جہاں پر فضیلت دی تو میں نے کہا : کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ؟ اور غصے میں آ کر میں نے اسے تھپڑ مار دیا ۔ آپ نے فرمایا : سنو ! نبیوں کے درمیان تم مجھے فضیلت نہ دیا کرو ۔ قیامت میں سب بےہوش ہوں گے ۔ سب سے پہلے مجھے ہوش آئے گا تو میں دیکھوں گا کہ موسیٰ علیہ السلام عرش الٰہی کا پایہ تھامے ہوئے ہیں ۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ انہیں مجھ سے پہلے افاقہ ہوا ؟ { یا طور کی بےہوشی کے بدلے یہاں بےہوش ہی نہیں ہوئے ؟ } ۱؎ (صحیح بخاری:4638) یہ حدیث بخاری شریف میں کئی جگہ ہے اور مسلم شریف میں بھی ہے اور ابوداؤد میں بھی ہے ۔ بخاری و مسلم کی ایک اور روایت میں ہے کہ { ایک مسلمان اور ایک یہودی کا جھگڑا ہو گیا ۔ اس پر مسلمان نے کہا : اس کی قسم جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام جہان پر فضیلت دی اور یہودی نے کہا : اس کی قسم جس نے موسیٰ علیہ السلام کو تمام جہان پر فضیلت دی ۔ اس پر مسلمان نے اسے تھپڑ مارا ۔ اس روایت میں ہے کہ شاید موسیٰ علیہ السلام ان میں سے ہوں جن کا اللہ تعالیٰ نے بےہوشی سے استثنا کر لیا ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:3408) حافظ ابوبکر ابن ابی الدنیا رحمہ اللہ کی روایت میں ہے کہ یہ تھپڑ مارنے والے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے ۔ لیکن بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ یہ کوئی انصاری رضی اللہ عنہ تھے ۔ یہی زیادہ صحیح اور زیادہ صریح ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اس حدیث میں یہ فرمان کہ تم نبیوں کے درمیان مجھے فضیلت نہ دو ایسا ہی ہے جیسے اور حدیث میں بھی فرمان ہے کہ { نبیوں میں مجھے فضیلت نہ دو ۔ نہ یونس بن متی علیہ السلام پر فضیلت دو ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:3412-3414) یہ فرمان بطور تواضع کے ہے یا یہ فرمان اس سے پہلے ہے کہ آپ کو اپنی فضیلت کا علم اللہ کی طرف سے ہوا ہو ۔ یا یہ مطلب ہے کہ غصے میں آ کر یا تعصب کی بنا پر مجھے فضیلت نہ دو یا یہ کہ صرف اپنی رائے سے میری فضیلت قائم نہ کرو ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ لوگ قیامت کے دن بےہوش ہوں گے ۔ یہ بےہوشی میدان قیامت کی بعض ہولناکیوں کی وجہ سے ہو گی ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ بہت ممکن ہے ، یہ اس وقت کا حال ہو جب مالک الملک تبارک و تعالیٰ لوگوں کے درمیان حق فیصلے کرنے کے لئے تشریف لائے گا تو اس کی تجلی سے لوگ بےہوش ہو جائیں گے ۔ جیسے موسیٰ علیہ السلام اللہ کے جمال کی برداشت کو طور پہاڑ پر نہ لا سکے ۔ اسی لیے آپ کا فرمان ہے کہ نہ معلوم مجھ سے پہلے انہیں افاقہ ہوا یا طور کی بےہوشی کے بدلے یہاں بےہوش نہ ہوئے ۔ قاضی عیاض رحمہ اللہ اپنی کتاب الشفاء کے شروع میں لکھتے ہیں کہ { دیدار الٰہی کی اس تجلی کی وجہ سے موسیٰ علیہ السلام اس چیونٹی کو بھی دیکھ لیا کرتے تھے جو دس فرسخ دور رات کے اندھیرے میں کسی پتھر پر چل رہی ہو ۔ } ۱؎ (الدر المنشور للسیوطی:222/3:ضعیف) اور بہت ممکن ہے کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان چیزوں سے جن کا ہم نے ذکر کیا ، معراج کے واقعہ کے بعد مخصوص ہوئے ہوں اور آپ نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں ملاحظہ فرمائیں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ گویا قاضی صاحب کے نزدیک یہ روایت صحیح ہے حالانکہ اس کی سند غور طلب ہے ۔ اس میں مجہول راوی ہیں اور ایسی باتیں جب تک ثقہ راویوں کے سلسلے سے نہ ثابت ہوں ، قابل قبول نہیں ہوتیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ الاعراف
144 انبیاء کی فضیلت پر ایک تبصرہ موسیٰ علیہ السلام کو جناب باری فرماتا ہے کہ دوہری نعمت آپ کو عطا ہوئی یعنی رسالت اور ہم کلامی ۔ مگر چونکہ ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمام اول و آخر نبیوں کے سردار ہیں ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے رسالت ختم کرنے والا آپ کو بنایا کہ قیامت تک آپ ہی کی شریعت جاری رہے گی اور تمام انبیاء اور رسولوں سے آپ کے تابعدار تعداد میں زیادہ ہوں گے ۔ فضیلت کے اعتبار سے آپ کے بعد سب سے افضل ابراہیم علیہ السلام ہیں جو خلیل اللہ تھے ۔ پھر موسیٰ علیہ السلام ہیں جو کلیم اللہ تھے ۔ اے موسیٰ ! جو مناجات اور کلام تجھے میں نے دیا ہے ، وہ لے لے اور مضبوطی سے اس پر استقامت رکھ اور اس پر جتنا تجھ سے ہو سکے ، شکر بجا لایا کر ۔ کہا گیا ہے کہ تورات کی تختیاں جواہر کی تھیں اور ان میں اللہ تعالیٰ نے تمام احکام حلال حرام کے تفصیل کے ساتھ لکھ دیئے تھے ۔ ان ہی تختیوں میں تورات تھی جس کے متعلق فرمان ہے کہ اگلے لوگوں کی ہلاکت کے بعد ہم نے موسیٰ کو لوگوں کی ہدایت کے لیے کتاب عطا فرمائی ۔ یہ بھی مروی ہے کہ تورات سے پہلے یہ تختیاں ملی تھیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ الغرض دیدار الٰہی جس کی تمنا آپ نے کی تھی ، اس کے عوض یہ چیز آپ کو ملی ۔ کہا گیا : اسے ماننے کے ارادے سے لے لو اور اپنی قوم کو ان اچھائیوں پر عمل کرنے کی ہدایت کرو ۔ آپ کو زیادہ تاکید ہوئی اور قوم کو ان سے کم ۔ تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ میری حکم عدولی کرنے والے کا کیا انجام ہوتا ہے ؟ جیسے کوئی کسی کو دھمکاتے ہوئے کہے کہ تم میری مخالفت کا انجام بھی دیکھ لو گے ۔ یہ بھی مطلب ہو سکتا ہے کہ میں تمہیں شام کے بدکاروں کے گھروں کا مالک بنا دوں گا ۔ یا مراد اس سے فرعونیوں کا ترکہ ہو ۔ لیکن پہلی بات ہی زیادہ ٹھیک معلوم ہوتی ہے کیونکہ یہ فرمان تیہ کے میدان سے پہلے اور فرعون سے نجات پا لینے کے بعد کا ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ الاعراف
145 الاعراف
146 تکبر کا پھل محرومی تکبر کا نتیجہ ہمیشہ جہالت ہوتا ہے ۔ ایسے لوگوں کو حق سمجھنے ، اسے قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق نصیب نہیں ہوتی ۔ ان کی بےایمانی کی وجہ سے ان کے دل الٹ جاتے ہیں ، آنکھ کان بےکار ہو جاتے ہیں ۔ ان کی کجی ان کے دلوں کو بھی کج کر دیتی ہے ۔ علماء کا مقولہ ہے کہ متکبر اور پوچھنے سے جی چرانے والا کبھی عالم نہیں ہو سکتا ۔ جو شخص تھوڑی دیر کے لیے علم کے حاصل کرنے میں اپنے آپ کو دوسرے کے سامنے نہ جھکائے ، وہ عمر بھر ذلت و رسوائی میں رہتا ہے ۔ متکبر لوگوں کو قرآن کی سمجھ کہاں ؟ وہ تو رب کی آیتوں سے بھاگتے رہتے ہیں ۔ اس امت کے لوگ ہوں یا دوسری امتوں کے ، سب کے ساتھ اللہ کا طریقہ یہی رہا ہے کہ تکبر کی وجہ سے حق کی پیروی نصیب نہیں ہوتی ۔ چونکہ یہ لوگ اللہ کے عذاب کے مستحق ہو چکے ہیں ۔ اگرچہ یہ بڑے بڑے معجزے بھی دیکھ لیں ، انہیں ایمان نصیب نہیں ہو گا ۔ گو نجات کے راستے ان پر کھل جائیں لیکن اس راہ پر چلنا ان کے لیے دشوار ہے ۔ ہاں بری راہ سامنے آتے ہی یہ بےطرح اس پر لپکتے ہیں ۔ اس لیے کہ ان کے دلوں میں جھٹلانا ہے اور اپنے اعمال کے نتیجوں سے بےخبر ہیں ۔ جو لوگ ہماری آیتوں کو جھٹلائیں ، آخرت کا یقین نہ رکھیں ، اسی عقیدے پر مریں ، ان کے اعمال اکارت ہیں ۔ ہم کسی پر ظلم نہیں کرتے ، بدلہ صرف کئے ہوئے اعمال کا ہی ملتا ہے ۔ بھلے کا بھلا اور برے کا برا ، جیسا کرو گے ، ویسا بھرو گے ۔ الاعراف
147 الاعراف
148 بنی اسرائیل کا بچھڑے کو پوجنا موسیٰ علیہ السلام تو اللہ کے وعدے کے مطابق تورات لینے گئے ، ادھر فرعونیوں کے جو زیور بنی اسرائیل کے پاس رہ گئے تھے ، سامری نے انہیں جمع کیا اور اپنے پاس سے اس میں خاک کی مٹھی ڈال دی جو جبرائیل علیہ السلام کے گھوڑے کی ٹاپ تلے سے اس نے اٹھالی تھی ۔ اللہ کی قدرت سے وہ سونا گل کر مثل ایک گائے کے جسم کے ہو گیا اور چونکہ کھوکھلا تھا ، اس میں سے آواز بھی آنے لگی اور وہ بالکل ہو بہو گائے کی سی آواز تھی ۔ اس نے بنی اسرائیل کو بہکا کر اس کی عبادت کرانی شروع کر دی ، بہت سے لوگ اسے پوجنے لگے ۔ اللہ تعالیٰ نے طور پر موسیٰ علیہ السلام کو اس فتنے کی خبر دی ۔ یہ بچھڑا یا تو سچ مچ خون گوشت کا بن گیا تھا یا سونے کا ہی تھا مگر شکل گائے کی تھی ، یہ اللہ ہی جانے ۔ بنی اسرائیل تو آواز سنتے ہی ناچنے لگے اور اس پر ریجھ گئے ۔ سامری نے کہہ دیا کہ اللہ تو یہی ہے ، موسیٰ علیہ السلام بھول گئے ہیں ۔ انہیں اتنی بھی تمیز نہ آئی کہ وہ اللہ تو کسی بات کا جواب بھی نہیں دے سکتا اور کسی نفع نقصان کا اختیار بھی نہیں رکھتا ۔ اس بچھڑے کو اس اللہ کو چھوڑ کر پوجو جو سب کا مالک اور سب کا خالق ہے ۔ اس کی وجہ سوائے اندھے پن اور بےعقلی کے اور کیا ہو سکتی ہے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا : { کسی چیز کی محبت انسان کو اندھا ، بہرا کر دیتی ہے ۔ } ۱؎ (مسند احمد:194/5:ضعیف) پھر جب اس محبت میں کمی آئی ، آنکھیں کھلیں تو اپنے اس فعل پر نادم ہونے لگے اور یقین کر لیا کہ واقعی ہم گمراہ ہو گئے تو اللہ سے بخشش مانگنے لگے ۔ ایک قرأت میں «تَغْفِرْ» ” ت “ سے بھی ہے ۔ جان گئے کہ اگر معافی نہ ملی تو بڑے نقصان سے دو چار ہو جائیں گے ۔ غرض اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ سے جھکے اور التجا کرنے لگے ۔ الاعراف
149 الاعراف
150 موسیٰ علیہ السلام کی کوہ طور سے واپسی موسیٰ علیہ السلام کو چونکہ طور پر ہی اپنی قوم کا یہ کفر معلوم ہو چکا تھا ، اس لیے سخت غضبناک ہو کر واپس آئے اور فرمانے لگے کہ تم نے تو میرے بعد سخت نالائقی کی ۔ تم نے میرا انتظار بھی نہ کیا ، میری ذرا سی تاخیر میں یہ ظلم ڈھایا ۔ غصے کے مارے تختیاں ہاتھ سے پھینک دیں ۔ کہا گیا ہے کہ یہ زمرد یا یاقوت یا کسی اور چیز کی تھیں ۔ سچ ہے ، جو حدیث میں ہے کہ { دیکھنا سننا برابر نہیں ۔ } ۱؎ (مستدرک حاکم:321/2) اپنی قوم پر غصے ہو کر الواح ہاتھ سے گرا دیں ۔ ٹھیک بات یہی ہے اور جمہور سلف کا قول بھی یہی ہے لیکن ابن جریر نے قتادہ سے ایک عجیب قول نقل کیا ہے جس کی سند بھی صحیح نہیں ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:15142-15143:باطل) ابن عطیہ وغیرہ نے اس کی بہت تردید کی ہے اور وہ واقعی تردید کے قابل بھی ہے ۔ بہت ممکن ہے کہ قتادہ نے یہ اہل کتاب سے لیا ہو اور ان کا کیا اعتبار ہے ؟ ان میں جھوٹے ، بناوٹ کرنے والے ، گھڑ لینے والے ، بددین ، بےدین طرح کے لوگ ہیں ۔ اس خوف سے کہ کہیں ہارون علیہ السلام نے انہیں باز رکھنے کی پوری کوشش نہ کی ہو ، آپ نے ان کے سر کے بالوں کے بل انہیں گھسیٹ لیا اور فرمانے لگے : انہیں گمراہ ہوتے ہوئے دیکھ کر بھی تو نے میری ماتحتی میں انہیں کیوں نہ روکا ؟ کیا تو بھی میرے فرمان کا منکر بن گیا ؟ اس پر ہارون علیہ السلام نے جواب دیا کہ بھائی جان ! میرے سر کے اور داڑھی کے بال نہ پکڑیں ۔ میں نے تو ہر ممکن طریقے سے انہیں روکا ، زیادہ اس لیے نہ الجھا کہ کہیں آپ یہ نہ فرما دیں کہ تو نے بنی اسرائیل میں تفریق ڈال دی ؟ تو نے میرا انتظار کیوں نہ کیا ؟ ورنہ میں تو ان گمراہوں سے اب تک زمین کو پاک کر چکا ہوتا ۔ انہوں نے تو مجھے کچھ بھی نہ سمجھا بلکہ میرے قتل کے درپے ہو گئے ۔ آپ مجھے ان ہی کی طرح نہ سمجھیں ، نہ ان میں ملائیں ۔ ہارون علیہ السلام کا یہ فرمانا کہ اے میرے ماں جائے بھائی ! یہ صرف اس لیے تھا کہ موسیٰ علیہ السلام کو رحم آ جائے ، ماں باپ دونوں کے ایک ہی تھے ۔ جب آپ کو اپنے بھائی ہارون کی برات کی تحقیق ہو گئی اور اللہ کی طرف سے بھی ان کی پاک دامنی اور بےقصوری معلوم ہو گئی کہ انہوں نے اپنی قوم سے پہلے ہی یہ فرما دیا تھا کہ افسوس ! تم فتنے میں پڑ گئے ، اب بھی کچھ نہیں بگڑا ۔ پروردگار بڑا ہی رحیم و کریم ہے ، تم میری مان لو اور پھر سے میرے تابع دار بن جاؤ تو آپ اللہ سے دعائیں کرنے لگے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ { اللہ تعالیٰ موسیٰ علیہ السلام پر رحم کرے ، واقعی دیکھنے والے میں اور خبر سننے والے میں بہت فرق ہوتا ہے ۔ قوم کی گمراہی کی خبر سنی تو تختیاں ہاتھ سے نہ گرائیں لیکن اسی منظر کو دیکھ کر قابو میں نہ رہے ، تختیاں پھینک دیں ۔ } ۱؎ (مسند احمد:271/1:صحیح) الاعراف
151 الاعراف
152 باہم قتل کی سزا ان گوسالہ پرستوں پر اللہ کا غضب نازل ہوا ۔ جب تک ان لوگوں نے آپس میں ایک دوسرے کو قتل نہ کر لیا ، ان کی توبہ قبول نہ ہوئی ۔ جیسے کہ سورۃ البقرہ کی تفسیر میں تفصیل وار بیان ہو چکا ہے کہ انہیں حکم ہوا تھا کہ اپنے خالق سے توبہ کرو اور آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرو ۔ یہی تمہارے حق میں ٹھیک ہے پھر وہ تمہاری توبہ قبول فرمائے گا ۔ وہ توبہ قبول کرنے والا اور رحم و کرم والا ہے ۔ اسی طرح دنیا میں بھی ان یہودیوں پر ذلت نازل ہوئی ۔ ہر بدعتی کی جو اللہ کے دین میں جھوٹا طوفان اٹھائے ، یہی سزا ہے ۔ رسول کی مخالفت اور بدعت کا بوجھ اس کے دل سے نکل کر اس کے کندھوں پر آ پڑتا ہے ۔ حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ” گو وہ دنیوی ٹھاٹھ رکھتا ہو لیکن ذلت اس کے چہرے پر برستی ہے ۔ قیامت تک یہی سزا ہر جھوٹے ، افترا باز کی اللہ کی طرف سے مقرر ہے ۔ “ سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” ہر بدعتی ذلیل ہے ۔ “ پھر فرماتا ہے کہ اللہ توبہ قبول کرنے والا ہے خواہ کیسا ہی گناہ ہو لیکن توبہ کے بعد وہ معاف فرما دیتا ہے ، گو کفر و شرک اور نفاق و شفاق ہی کیوں نہ ہو ۔ فرمان ہے کہ جو لوگ برائیوں کے بعد توبہ کر لیں اور ایمان لائیں تو اے رسول رحمت اور اے نبی کریم ! تیرا رب اس فعل کے بعد بھی غفور و رحیم ہے ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے سوال ہوا کہ اگر کوئی شخص کسی عورت سے زناکاری کرے ۔ پھر اس سے نکاح کر لے ؟ تو آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی ۔ کوئی دس مرتبہ اسے تلاوت کیا اور کوئی حکم یا منع نہیں کیا ۔ الاعراف
153 الاعراف
154 . موسیٰ علیہ السلام کو اپنی قوم پر جو غصہ تھا جب وہ جاتا رہا تو سخت غصے کی حالت میں جن تختیوں کو انہوں نے زمین پر ڈال دیا تھا ، اب اٹھا لیں ۔ یہ غصہ صرف اللہ کی راہ میں تھا کیونکہ آپ کی قوم نے بچھڑے کی پوجا کی تھی ۔ ان تختیوں میں ہدایت و رحمت تھی ۔ کہتے ہیں کہ جب کلیم اللہ نے تختیاں زمین پر ڈال دیں تو وہ ٹوٹ گئیں ، پھر انہیں جمع کیا ۔ تو ان میں رہبری اور رحم پایا اور تفصیل اٹھا لی گئی تھی ۔ کہتے ہیں کہ ان تختیوں کے ٹکڑے شاہی خزانوں میں بنی اسرائیل کے پاس دولت اسلامیہ کے ابتدائی زمانے تک محفوظ رہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اس کی صحت کا کوئی پتہ نہیں حالانکہ یہ بات مشہور ہے کہ وہ تختیاں جنتی جوہر کی تھیں اور اس آیت میں ہے کہ پھر موسیٰ علیہ السلام نے خود ہی انہیں اٹھا لیا اور ان میں رحمت و ہدایت پائی چونکہ رہبت متضمن ہے خشوع و خضوع کو ، اس لیے اسے لام سے متعدی کیا ۔ قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں : ” ان میں آپ نے لکھا دیکھا کہ ایک امت تمام امتوں سے بہتر ہو گی جو لوگوں کے لیے قائم کی جائے گی جو بھلی باتوں کا حکم کرے گی اور برائیوں سے روکے گی تو موسیٰ علیہ السلام نے دعا کی کہ اے اللہ ! میری امت کو یہی امت بنا دے ۔ جواب ملا کہ یہ امت امت احمد ہے صلی اللہ علیہ وسلم ۔ پھر پڑھا کہ ایک امت ہو گی جو دنیا میں سب سے آخر آئے گی اور جنت میں سب سے پہلے جائے گی تو بھی آپ نے یہی درخواست کی اور یہی جواب پایا ۔ پھر پڑھا کہ ایک امت ہو گی جن کی کتاب ان کے سینوں میں ہو گی جس کی وہ تلاوت کریں گے یعنی حفظ کریں گے اور دوسرے لوگ دیکھ کر پڑھتے ہیں ۔ اگر ان کی کتابیں اٹھ جائیں تو علم جاتا رہے کیونکہ انہیں حفظ نہیں ۔ اس طرح کا حافظہ اسی امت کے لئے مخصوص ہے ، کسی اور امت کو نہیں ملا ۔ اس پر بھی آپ نے یہی درخواست کی اور یہی جواب پایا ۔ پھر دیکھا کہ اس میں لکھا ہوا ہے کہ ایک امت ہو گی جو اگلی پچھلی تمام کتابوں پر ایمان لائے گی اور گمراہوں سے جہاد کرے گی یہاں تک کہ کانے دجال سے جہاد کرے گی ۔ اس پر بھی آپ نے یہی دعا کی اور یہی جواب پایا ۔ پھر دیکھا کہ ایک امت ہو گی جو اپنے صدقے آپ کھائے گی اور اجر بھی پائے گی حالانکہ اور امتیں جو صدقہ کرتی رہیں ، اگر قبول ہوا تو آگ آ کر اسے کھا گئی اور اگر نامقبول ہوا تو اسے درندوں پرندوں نے کھا لیا ۔ اللہ نے تمہارے صدقے تمہارے مالداروں سے تمہارے مفلسوں کے لیے لیے ہیں ۔ اس پر بھی کلیم اللہ نے یہی دعا کی اور یہی جواب ملا ۔ پھر پڑھا کہ ایک امت ہو گی جو اگر نیکی کا ارادہ کر لے پھر نہ کرے تو بھی نیکی لکھ لی جائے گی اور اگر کر بھی لی تو دس نیکیاں لکھی جائیں گی ، سات سو تک اسی طرح بڑھتی چلی جائیں گی اس پر بھی آپ نے یہی دعا کی اور یہی جواب پایا ۔ پھر ان تختیوں میں آپ نے پڑھا کہ ایک امت ہو گی جو خود بھی شفاعت کرے گی اور ان کی شفاعت دوسرے بھی کریں گے ۔ آپ نے پھر یہی دعا کی کہ اے اللہ! یہ مرتبہ میری امت کو دے ۔ جواب ملا : یہ امت امت احمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔ اس پر آپ نے تختیاں لے لیں اور کہنے لگے : اے اللہ ! مجھے امت احمد میں کر دے ۔ “ الاعراف
155 موسیٰ علیہ السلام کی کوہ طور سے واپسی موسیٰ علیہ السلام نے حسب فرمان الٰہی اپنی قوم میں سے ستر شخصوں کو منتخب کیا اور جناب باری سے دعائیں مانگنا شروع کیں ۔ لیکن یہ لوگ اپنی دعا میں حد سے تجاوز کر گئے ۔ کہنے لگے : اللہ تو ہمیں وہ دے جو نہ ہم سے پہلے کسی کو دیا ہو ، نہ ہمارے بعد کسی کو دے ۔ یہ دعا اللہ تعالیٰ کو ناپسند آئی اور ان پر بھونچال آ گیا ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:74/6) جس سے گھبرا کر موسیٰ علیہ السلام اللہ سے دعائیں کرنے لگے ۔ سدی رحمہ اللہ کہتے ہیں : ” انہیں لے کر آپ اللہ تعالیٰ سے بنی اسرائیل کی گوسالہ پرستی کی معذرت کرنے کے لئے گئے تھے ۔ یہاں جب وہ پہنچے تو کہنے لگے : ہم تو جب تک خود اللہ تعالیٰ کو کھلم کھلا اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں ، ایمان نہ لائیں گے ۔ ہم کلام سن رہے ہیں لیکن دیکھنا چاہتے ہیں ۔ اس پر کڑاکے کی آواز ہوئی اور یہ سب مر کھپ گئے ۔ موسیٰ علیہ السلام نے رونا شروع کیا کہ میں بنی اسرائیل کو کیا منہ دکھاؤں گا ؟ ان کے یہ بہترین لوگ تھے ۔ اگر یہی منشاء تھی تو اس سے پہلے ہی ہمیں ہلاک کر دیا ہوتا ۔ “ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:73/6) امام محمد بن اسحاق کا قول ہے کہ انہیں اس بت پرستی سے توبہ کرنے کیلئے بطور وفد کے آپ لے چلے تھے ۔ ان سے فرما دیا تھا کہ پاک صاف ہو جاؤ ، پاک کپڑے پہن لو اور روزے سے چلو ۔ یہ اللہ کے بتائے ہوئے وقت پر طور سینا پہنچے ۔ مناجات میں مشعول ہوئے تو انہوں نے خواہش کی کہ اللہ سے دعا کیجئے کہ ہم بھی اللہ کا کلام سنیں ۔ آپ نے دعا کی ، جب حسب عادت بادل آیا اور موسیٰ علیہ السلام آگے بڑھ گئے اور بادل میں چھپ گئے ۔ قوم سے فرمایا : تم بھی قریب آ جاؤ ، یہ بھی اندر چلے گئے اور حسب عادت موسیٰ علیہ السلام کی پیشانی پر ایک نور چمکنے لگا جو اللہ کے کلام کے وقت برابر چمکتا رہتا تھا ۔ اس وقت کوئی انسان آپ کے چہرے پر نگاہ نہیں ڈال سکتا تھا ۔ آپ نے حجاب کر لیا ، لوگ سب سجدے میں گر پڑے اور اللہ کا کلام شروع ہوا جو یہ لوگ بھی سن رہے تھے کہ فرمان ہو رہا ہے ، یہ نہ کر وغیرہ ۔ جب باتیں ہو چکیں اور ابر اٹھ گیا تو ان لوگوں نے کہا : ہم تو جب تک اللہ کو خوب ظاہر نہ دیکھ لیں ، ایمان نہیں لائیں گے تو ان پر کڑاکا نازل ہوا اور سب کے سب ایک ساتھ مر گئے ۔ موسیٰ علیہ السلام بہت گھبرائے اور مناجات شروع کر دی ۔ اس میں یہاں تک کہا کہ اگر ہلاک ہی کرنا تھا تو اس سے پہلے ہلاک کیا ہوتا ۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ { موسیٰ علیہ السلام ، ہارون علیہ السلام کو اور شبر ، شبیر کو لے کر پہار کی گھاٹی میں گئے ۔ ہارون ایک بلند جگہ کھڑے تھے کہ ان کی روح قبض کر لی گئی ۔ جب آپ واپس بنی اسرائیل کے پاس پہنچے تو انہوں نے کہا کہ چونکہ آپ کے بھائی بڑے ملنسار اور نرم آدمی تھے آپ نے ہی انہیں الگ لے جا کر قتل کر دیا ۔ اس پر آپ نے فرمایا : اچھا تم اپنے میں سے ستر آدمی چھانٹ کر میرے ساتھ کر دو ۔ انہوں نے کر دیئے جنہیں لے کر آپ گئے اور ہارون علیہ السلام کی لاش سے پوچھا کہ آپ کو کس نے قتل کیا ؟ اللہ کی قدرت سے وہ بولے : کسی نے نہیں بلکہ میں اپنی موت مرا ہوں ۔ انہوں نے کہا : بس موسیٰ علیہ السلام ، اب سے آپ کی نافرمانی ہرگز نہ کی جائے گی ۔ اسی وقت زلزلہ آیا جس سے وہ سب مر گئے ۔ اب تو موسیٰ علیہ السلام بہت گھبرائے ، دائیں بائیں گھومنے لگے اور وہ عرض کرنے لگے جو قرآن میں مذکور ہے ۔ پس اللہ تعالیٰ نے آپ کی التجا قبول کر لی ۔ ان سب کو زندہ کر دیا اور بعد میں وہ سب انبیاء بنے ۔ } ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:74/6) لیکن یہ اثر بہت ہی غریب ہے ۔ اس کا ایک راوی عمارہ بن عبد غیر معروف ہے ۔ یہ بھی مروی ہے کہ ان پر اس زلزلے کے آنے کی وجہ یہ تھی کہ یہ بچھڑے کی پرستش کے وقت خاموش تھے ۔ ان پجاریوں کو روکتے نہ تھے ۔ اس قول کی دلیل میں موسیٰ علیہ السلام کا یہ فرمان بالکل ٹھیک اترتا ہے کہ اے اللہ ! ہم میں سے چند بیوقوفوں کے فعل کی وجہ سے تو ہمیں ہلاک کر رہا ہے ؟ پھر فرماتے ہیں : یہ تو تیری طرف کی آزمائش ہی ہے ، تیرا حکم چلتا ہے اور تیری ہی چاہت کامیاب ہے ۔ ہدایت و ضلالت تیرے ہی ساتھ ہے . جس کو تو ہدایت دے , اسے کوئی بہکا نہیں سکتا اور جسے تو بہکائے , اس کی کوئی رہبری نہیں کر سکتا ۔ تو جس سے روک لے , اسے کوئی دے نہیں سکتا اور جسے دے دے ، اس سے کوئی چھین نہیں سکتا ۔ ملک کا مالک تو اکیلا ، حکم کا حاکم صرف تو ہی ۔ خلق و امر تیرا ہی ہے ، تو ہمارا ولی ہے ۔ ہمیں بخش ، ہم پر رحم فرما ، تو سب سے اچھا معاف فرمانے والا ہے ۔ غفر کے معنی ہیں : چھپا دینا اور پکڑ نہ کرنا ۔ جب رحمت بھی اس کے ساتھ مل جائے تو یہ مطلب ہوتا ہے کہ آئندہ اس گناہ سے بچاؤ ہو جائے ۔ گناہوں کا بخش دینے والا صرف تو ہی ہے ۔ پس جس چیز سے ڈر تھا ، اس کا بچاؤ طلب کرنے کے بعد اب مقصود حاصل کرنے کے لئے دعا کی جاتی ہے کہ ہمیں دنیا میں بھلائی عطا فرما ۔ اسے ہمارے نام لکھ دے ۔ واجب و ثابت کر دے ۔ «حسنہ» کی تفسیر سورۃ البقرہ میں گزر چکی ہے ۔ ہم تیری طرف رجوع کرتے ہیں ، رغبت ہماری تیری ہی جانب ہے ، ہماری توبہ اور عاجزی تیری طرف ہے ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ” چونکہ انہوں نے «ھُدْنَا» کہا تھا ، اس لیے انہیں یہودی کہا گیا ہے ۔ “ لیکن اس روایت کی سند میں جابر بن یزید جعفی ہیں جو ضعیف ہیں ۔ الاعراف
156 اللہ تعالٰی کی رحمت اور انسان چونکہ کلیم اللہ علیہ السلام نے اپنی دعا میں کہا تھا کہ یہ محض تیری طرف سے آزمائش ہے ۔ اس کے جواب میں فرمایا جا رہا ہے کہ عذاب تو صرف گنہگاروں کو ہی ہوتا ہے اور گنہگاروں میں سے بھی انہی کو جو میری نگاہ میں گنہگار ہیں ، نہ کہ ہر گنہگار کو ۔ میں اپنی حکمت ، عدل اور پورے علم کے ذریعے سے جانتا ہوں کہ مستحق عذاب کون ہے ؟ صرف اسی کو عذاب پہنچاتا ہوں ۔ ہاں البتہ میری رحمت بڑی وسیع چیز ہے جو سب کو شامل ، سب پر حاوی اور سب پر محیط ہے ۔ چنانچہ عرش کے اٹھانے والے اور اس کے اردگرد رہنے والے فرشتے فرماتے رہتے ہیں کہ اے رب ! تو نے اپنی رحمت اور اپنے علم سے تمام چیزوں کو گھیر رکھا ہے ۔ مسند امام احمد میں ہے کہ { ایک اعرابی آیا ۔ اونٹ بٹھا کر ، اسے باندھ کر نماز میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑا ہو گیا ۔ نماز سے فارغ ہو کر اونٹ کو کھول کر اس پر سوار ہو کر اونچی آواز سے دعا کرنے لگا کہ اے اللہ ! مجھ پر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر رحم کر اور اپنی رحمت میں کسی اور کو ہم دونوں کا شریک نہ کر ۔ آپ یہ سن کر فرمانے لگے : بتاؤ یہ خود راہ گم کردہ ہونے میں بڑھا ہوا ہے یا اس کا اونٹ ؟ تم نے سنا بھی ، اس نے کیا کہا ؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : ہاں ! یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، سن لیا ۔ آپ نے فرمایا : اے شخص ! تو نے اللہ کی بہت ہی کشادہ رحمت کو بہت تنگ چیز سمجھ لیا ۔ سن ! اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کے سو حصے کئے جن میں سے صرف ایک حصہ مخلوق میں اتارا جو تمام مخلوق میں تقسیم ہوا یعنی انسان ، حیوان ، جنات سب میں اور ننانوے حصے اپنے لیے باقی رکھے ۔ لوگو ! بتاؤ یہ زیادہ راہ بہکا ہوا ہے یا اس کا اونٹ ؟ } ۱؎ (مسند احمد:312/4:ضعیف) مسند کی اور حدیث میں ہے : { اللہ عز و جل نے اپنی رحمت کے سو حصے کئے جن میں سے صرف ایک ہی حصہ دنیا میں اتارا ۔ اسی سے مخلوق ایک دوسرے پر ترس کھاتی ہے اور رحم کرتی ہے ، اسی سے حیوان بھی اپنی اولاد کے ساتھ نرمی اور رحم کا برتاؤ کرتے ہیں ۔ باقی کے ننانوے حصے تو اس کے پاس ہی ہیں جن کا اظہار قیامت کے دن ہو گا ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:2753) اور روایت میں ہے کہ { بروز قیامت اسی حصے کے ساتھ اور ننانوے حصے جو مؤخر ہیں ، ملا دیئے جایں گے ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:2742) ایک اور روایت میں ہے کہ { اسی نازل کردہ ایک حصے میں پرند بھی شریک ہیں ۔ } ۱؎ (سنن ابن ماجہ:4294 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) طبری میں ہے : { قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ جو اپنے دین میں فاجر ہے ، جو اپنی معاش میں احمق ہے وہ بھی اس میں داخل ہے ۔ اس کی قسم جو میری جان اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے ! وہ بھی جنت میں جائے گا جو مستحق جہنم ہو گا ۔ اس کی قسم جس کے قبضے میں میری روح ہے ! قیامت کے دن اللہ کی رحمت کے کرشمے دیکھ کر ابلیس بھی امیدوار ہو کر ہاتھ پھیلا دے گا ۔ } ۱؎ (طبرانی کبیر:3022:ضعیف) یہ حدیث بہت ہی غریب ہے اس کا راوی سعد غیر معروف ہے ۔ پس میں اپنی اس رحمت کو ان کے لیے واجب کر دوں گا اور یہ بھی محض اپنے فضل و کرم سے ۔ جیسے فرمان ہے : ’ تمہارے رب نے اپنی ذات پر رحمت کو واجب کر لیا ہے ۔ ‘ ۱؎ (6-الأنعام:12) پس جن پر رحمت رب واجب ہو جائے گی ، ان کے جو اوصاف بیان فرمائے ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مراد اس سے امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے جو تقویٰ کریں یعنی شرک سے اور کبیرہ گناہوں سے بچیں ، زکوٰۃ دیں یعنی اپنے ضمیر کو پاک رکھیں اور مال کی زکوٰۃ بھی ادا کریں ۔ [ کیونکہ یہ آیت مکی ہے ] اور ہماری آیتوں کو مان لیں ، ان پر ایمان لائیں اور انہیں سچ سمجھیں ۔ الاعراف
157 . سابقہ کتابوں میں آخری پیغمبر خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے جو اوصاف بیان ہوئے تھے جس سے ان نبیوں کی امت آپ کو پہچان جائے , وہ بیان ہو رہے ہیں ۔ سب کو حکم تھا کہ ان صفات کا پیغمبر اگر تمہارے زمانے میں ظاہر ہو تو تم سب ان کی تابعداری میں لگ جانا ۔ مسند احمد میں ہے : { ایک صاحب فرماتے ہیں : میں کچھ خرید و فروخت کا سامان لے کر مدینے آیا ۔ جب اپنی تجارت سے فارغ ہوا تو میں نے کہا : اس شخص سے بھی مل لوں ۔ میں چلا تو دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ کہیں جا رہے ہیں ۔ میں بھی پیچھے پیچھے چلنے لگا ۔ آپ ایک یہودی عالم کے گھر گئے ، اس کا نوجوان تنومند بیٹا نزع کی حالت میں تھا اور وہ اپنے دل کو تسکین دینے کیلئے تورات کھولے ہوئے اس کے پاس بیٹھا ہوا تلاوت کر رہا تھا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دریافت فرمایا کہ تجھے اس کی قسم جس نے یہ تورات نازل فرمائی ہے ، کیا میری صفت اور میرے معبوث ہونے کی خبر اس میں تمہارے پاس ہے یا نہیں ؟ اس نے اپنے سر کے اشارے سے انکار کیا ۔ اسی وقت اس کا بچہ بول اٹھا کہ اس کی قسم جس نے تورات نازل فرمائی ہے ! ہم آپ کی صفات اور آپ کے آنے کا پورا حال اس تورات میں موجود پاتے ہیں اور میری تہہ دل سے گواہی ہے کہ معبود برحق صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے اور آپ اس کے سچے رسول ہیں ۔ { آپ نے فرمایا : اس یہودی کو اپنے بھائی کے پاس سے ہٹاؤ ۔ پھر آپ ہی اس کے کفن دفن کے والی بنے اور اس کے جنازے کی نماز پڑھائی ۔ } ۱؎ (مسند احمد:411/5:ضعیف) مستدرک حاکم میں ہے : ہشام بن عاص اموی فرماتے ہیں کہ میں اور ایک صاحب روم کے بادشاہ ہرقل کو دعوت اسلام دینے کے لئے روانہ ہوئے ۔ غوطہ دمشق میں پہنچ کر ہم جبلہ بن ایہم غسانی کے گھر گئے ۔ اس نے اپنا قاصد بھیجا کہ ہم اس سے باتیں کر لیں ۔ ہم نے کہا : واللہ ! ہم تم سے کوئی بات نہ کریں گے ۔ ہم بادشاہ کے پاس بھیجے گئے ہیں ، اگر وہ چاہیں تو ہم سے خود سنیں اور خود جواب دیں ورنہ ہم قاصدوں سے گفتگو کرنا نہیں چاہتے ۔ قاصدوں نے یہ خبر بادشاہ کو پہنچائی ، اس نے اجازت دی اور ہمیں اپنے پاس بلا لیا چنانچہ میں نے اس سے باتیں کیں اور اسلام کی دعوت دی ۔ وہ اس وقت سیاہ لباس پہنے ہوئے تھا ۔ کہنے لگا کہ دیکھ میں نے یہ لباس پہن رکھا ہے اور حلف اٹھایا ہے کہ جب تک تم لوگوں کو شام سے نہ نکال دوں گا ، اس سیاہ لبادے کو نہ اتاروں گا ۔ قاصد اسلام نے یہ سن کر پھر کہا : بادشاہ ہوش سنبھالو ۔ اللہ کی قسم ! یہ آپ کے تخت کی جگہ اور آپ کے بڑے بادشاہ کا پائے تخت بھی ان شاءاللہ ہم اپنے قبضے میں کر لیں گے ۔ یہ کوئی ہماری ہوس نہیں بلکہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمیں یہ پختہ خبر مل چکی ہے ۔ اس نے کہا : تم وہ لوگ نہیں ۔ ہاں ہم سے ہمارا یہ تخت و تاج و قوم چھینے گی جو دنوں کو روزے سے رہتے ہوں اور راتوں کو تہجد پڑھتے ہوں ۔ اچھا تم بتاؤ ! تمہارے روزے کے احکام کیا ہیں ؟ اب جو ہم نے بتائے تو اس کا منہ کالا ہو گیا ۔ اس نے اسی وقت ہمارے ساتھ اپنا ایک آدمی کر دیا اور کہا : انہیں شاہ روم کے پاس لے جاؤ ۔ جب ہم اس کے پائے تخت کے پاس پہنچے تو وہ کہنے لگا : تم اس حال میں تو اس شہر میں نہیں جا سکتے ، اگر تم کہو تو میں تمہارے لیے عمدہ سواریاں لا دوں ، ان پر سوار ہو کر تم شہر میں چلو ۔ ہم نے کہا : نا ممکن ہے ، ہم تو اسی حالت میں انہی سواریوں پر چلیں گے ۔ انہوں نے بادشاہ سے کہلوا بھیجا ۔ وہاں سے اجازت آئی کہ اچھا ! انہیں اونٹوں پر ہی لے آؤ ۔ ہم اپنے اونٹوں پر سوار ، گلے میں تلواریں لٹکائے شاہی محل کے پاس پہنچے ۔ وہاں ہم نے اپنی سواریاں بٹھائیں ۔ بادشاہ دریچے میں سے ہمیں دیکھ رہا تھا ، ہمارے منہ سے بےساختہ «لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَ اللہُ اَکْبَرُ» کا نعرہ نکل گیا ۔ اللہ خوب جانتا ہے کہ اسی وقت شاہ روم کا محل تھرا اٹھا ، اس طرح جس طرح کسی خوشے کو تیز ہوا کا جھونکا ہلا رہا ہو ۔ اسی وقت محل سے شاہی قاصد دوڑتا ہوا آیا اور کہنے لگا : آپ کو یہ نہیں چاہیئے کہ اپنے دین کا اس طرح ہمارے سامنے اعلان کرو ، چلو ! تم کو بادشاہ سلامت یاد کر رہے ہیں ۔ چنانچہ ہم اس کے ساتھ دربار میں گئے ۔ دیکھا کہ چاروں طرف سرخ مخمل اور سرخ ریشم ہے ۔ خود بھی سرخ لباس پہنے ہوئے ہے ۔ تمام دربار پادریوں اور ارکان سلطنت سے بھرا ہوا ہے ۔ جب ہم پاس پہنچ گئے تو مسکرا کر کہنے لگا : جو سلام تم میں آپس میں مروج ہے ، تم نے مجھے وہ سلام کیوں نہ کیا ؟ ترجمان کی معرفت ہمیں بادشاہ کا یہ سوال پہنچا تو ہم نے جواب دیا کہ جو سلام ہم میں ہے ، اس کے لائق تم نہیں اور جو آداب کا دستور تم میں ہے ، وہ ہمیں پسند نہیں ۔ اس نے کہا : اچھا تمہارا سلام آپس میں کیا ہے ؟ ہم نے کہا : السلام علیکم ۔ اس نے کہا : اپنے بادشاہ کو تم کس طرح سلام کرتے ہو ؟ ہم نے کہا : صرف ان ہی الفاظ سے ۔ پوچھا : اچھا وہ بھی تمہیں کوئی جواب دیتے ہیں ؟ ہم نے کہا : یہی الفاظ وہ کہتے ہیں ۔ بادشاہ نے دریافت کیا کہ تمہارے ہاں سب سے بڑا کلمہ کون سا ہے ؟ ہم نے کہا «لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَ اللہُ اَکْبَرُ» ۔ اللہ عزوجل کی قسم ! ادھر ہم نے یہ کلمہ کہا ، ادھر پھر سے محل میں زلزلہ پڑا ۔ یہاں تک کہ سارا دربار چھت کی طرف نظریں کر کے سہم گیا ۔ بادشاہ ہیبت زدہ ہو کر پوچھنے لگا : کیوں جی اپنے گھروں میں بھی جب کبھی تم یہ کلمہ پڑھتے ہو ، تمہارے گھر بھی اس طرح زلزلے میں آ جاتے ہیں ؟ ہم نے کہا : کبھی نہیں ۔ ہم نے تو یہ بات یہیں آپ کے ہاں ہی دیکھی ہے ۔ بادشاہ کہنے لگا : کاش کہ تم جب کبھی اس کلمے کو کہتے ، تمام چیزیں اسی طرح ہل جاتیں اور میرا آدھا ملک ہی رہ جاتا ۔ ہم نے پوچھا : یہ کیوں ؟ اس نے جواب دیا اس لیے کہ یہ آسان تھا بہ نسبت اس بات کے کہ یہ امر نبوت ہو ۔ پھر اس نے ہم سے ہمارا ارادہ دریافت کیا : ہم نے صاف بتایا ۔ اس نے کہا : اچھا ! یہ بتاؤ کہ تم نماز کس طرح پڑھتے ہو اور روزہ کس طرح رکھتے ہو ؟ ہم نے دونوں باتیں بتا دیں ۔ اس نے اب ہمیں رخصت کیا اور بڑے اکرام و احترام سے ہمیں شاہی معزز مہمانوں میں رکھا ۔ تین دن جب گزرے تو رات کے وقت ہمیں قاصد بلانے آیا ، ہم پھر دربار میں گئے تو اس نے ہم سے پھر ہمارا مطلب پوچھا : ہم نے اسے دوہرایا ۔ پھر اس نے ایک حویلی کی شکل کی سونا مڑھی ہوئی ایک چیز منگوائی جس میں بہت سارے مکانات تھے اور ان کے دروازے تھے ۔ اس نے اسے کنجی سے کھول کر ایک سیاہ رنگ کا ریشمی جامہ نکالا ۔ ہم نے دیکھا کہ اس میں ایک شخص ہے جس کی بڑی بڑی آنکھیں ہیں ، بڑی رانیں ہیں ۔ بڑی لمبی اور گھنی داڑھی ہے اور سر کے بال دو حصوں میں نہایت کو خوبصورت لمبے لمبے ہیں ۔ ہم سے پوچھا : انہیں جانتے ہو ؟ ہم نے کہا : نہیں ۔ کہا : یہ آدم علیہ السلام ہیں ۔ ان کے جسم پر بال بہت ہی تھے ۔ پھر دوسرا دروازہ کھول کر اس میں سے سیاہ رنگ ریشم کا پارچہ نکالا جس میں ایک سفید صورت تھی جس کے گھنگریالے بال تھے ، سرخ رنگ آنکھیں تھیں ، بڑے کلے کے آدمی تھے اور بڑی خوش وضع داڑھی تھی ۔ ہم سے پوچھا : انہیں پہچانتے ہو ؟ ہم نے انکار کیا تو کہا : یہ نوح علیہ السلام ہیں ۔ پھر ایک دروازہ کھول کر اس میں سے سیاہ ریشمی کپڑا نکالا ، اس میں ایک شخص تھا نہایت ہی گورا چٹا رنگ ، بہت خوبصورت آنکھیں ، کشادہ پیشانی ، لمبے رخسار ، سفید داڑھی ، یہ معلوم ہوتا تھا کہ گویا وہ مسکرا رہے ہیں ۔ ہم سے پوچھا : انہیں پہچانا ؟ ہم نے انکار کیا تو کہا : یہ ابراہیم علیہ السلام ہیں ۔ پھر ایک دروازہ کھولا ، اس میں سے ایک خوبصورت سفید شکل دکھائی دی جو ہو بہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تھی ۔ ہم سے پوچھا : انہیں پہچانتے ہو ؟ ہم نے کہا : یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ یہ کہا اور ہمارے آنسو نکل آئے ۔ بادشاہ اب تک کھڑا ہوا تھا ، اب وہ بیٹھ گیا ۔ اور ہم سے دوبارہ پوچھا کہ یہی شکل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے ؟ ہم نے کہا : واللہ ! یہی ہے ۔ اسی طرح کہ گویا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں دیکھ رہا ہے ۔ پس وہ تھوڑی دیر تک تو غور سے اسے دیکھتا رہا ، پھر ہم سے کہنے لگا کہ یہ آخری گھر تھا لیکن میں نے اور گھروں کو چھوڑ کر اسے بیچ میں ہی کھول دیا کہ تمہیں آزما لوں کہ تم پہچان جاتے ہو یا نہیں ۔ پھر ایک اور دروازہ کھول کر اس میں سے بھی سیاہ رنگ ریشمی کپڑا نکالا جس میں ایک گندم گوں نرمی والی صورت تھی ۔ بال گھونگھریالے ، آنکھیں گہری ، نظریں تیز ، تیور تیکھے ، دانت پر دانت ، ہونٹ موٹے ہو رہے تھے جیسے کہ غصے میں بھرے ہوئے ہیں ۔ اس نے ہم سے پوچھا : انہیں پہچانا ؟ ہم نے انکار کیا ۔ بادشاہ نے کہا : یہ موسیٰ علیہ السلام ہیں ۔ اسی کے متصل ایک اور صورت تھی جو قریب قریب اسی کی سی تھی ۔ مگر ان کے سر کے بال گویا تیل لگے ہوئے تھے ۔ ماتھا کشادہ تھا ، آنکھوں میں کچھ فراخی تھی ۔ ہم سے پوچھا : انہیں جانتے ہو ؟ ہمارے انکار پر کہا : یہ ہارون بن عمران علیہ السلام ہیں ۔ پھر ایک دروازہ کھول کر اس میں سے ایک سفید رنگ ریشم کا ٹکڑا نکالا جس میں ایک گندم گوں رنگ میانہ قد سیدھے بالوں والا ایک شخص تھا گویا وہ غضبناک ہے ۔ پوچھا : انہیں پہچانا ؟ ہم نے کہا : نہیں ۔ کہا یہ لوط علیہ السلام ہیں ۔ پھر ایک دروازہ کھول کر اس میں سے ایک سفید ریشمی کپڑا نکال کر دکھایا جس میں سنہرے رنگ کے ایک آدمی تھے جن کا قد طویل نہ تھا ، رخسار ہلکے تھے ، چہرہ خوبصورت تھا ۔ اس نے ہم سے پوچھا : انہیں جانتے ہو ؟ ہم نے کہا نہیں ۔ کہا : یہ اسحاق علیہ السلام ہیں ۔ پھر ایک اور دروازہ کھول کر اس میں سے سفید ریشمی کپڑا نکال لر ہمیں دکھایا ۔ اس میں جو صورت تھی ، وہ پہلی صورت کے بالکل مشابہ تھی مگر ان کے ہونٹ پر تل تھا ۔ اس نے ہم سے پوچھا : اسے پہچان لیا ؟ ہم نے کہا : نہیں ۔ کہا : یہ یعقوب علیہ السلام ہیں ۔ پھر ایک دروازہ کھول کر اس میں سے سیاہ رنگ کا ریشمی کپڑا نکالا جس میں ایک شکل تھی سفید رنگ ، خوبصورت اونچی ناک والے ، نورانی چہرے والے جس میں خوف الٰہی ظاہر تھا ۔ رنگ سرخی مائل سفید تھا ۔ پوچھا اس نے : انہیں جانتے ہو ؟ ہم نے کہا : نہیں ۔ کہا : یہ تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا اسماعیل علیہ السلام ہیں ۔ پھر اور دروازہ کھول کر سفید ریشمی کپڑے کا ٹکڑا نکال کر دکھایا جس میں ایک صورت تھی جو آدم علیہ السلام کی صورت سے بہت ہی ملتی جلتی تھی اور چہرہ تو سورج کی طرح روشن تھا ۔ اس نے پوچھا : انہیں پہچانا ؟ ہم نے لاعلمی ظاہر کی تو کہا : یہ یوسف علیہ السلام ہیں ۔ پھر ایک دروازہ کھول کر اس میں سے سفید ریشم کا پارچہ نکال کر ہمیں دکھایا جس میں ایک صورت تھی ۔ سرخ رنگ ، بھری پنڈلیاں ، کشادہ آنکھیں ، اونچا پیٹ ، قدرے چھوٹا قد ، تلوار لٹکائے ہوئے ۔ اس نے پوچھا : انہیں جانتے ہو ؟ ہم نے کہا : نہیں ۔ کہا : یہ داؤد علیہ السلام ہیں ۔ پھر اور دروازہ کھول کر سفید ریشم کا کپڑا نکالا جس میں ایک صورت تھی ۔ موٹی رانوں والی ، لمبے پیروں والی ، گھوڑے پر سوار ۔ اس نے پوچھا : انہیں پہچانا ؟ ہم نے کہا : نہیں ۔ کہا : یہ سلیمان علیہ السلام ہیں ۔ پھر ایک اور دروازہ کھولا اور اس میں سے سیاہ رنگ حریری پارچہ نکالا جس میں ایک صورت تھی ۔ سفید رنگ ، نوجوان ، سخت سیاہ داڑھی ، بہت زیادہ بال ، خوشمنا آنکھیں ، خوبصورت چہرہ ۔ اس نے پوچھا : انہیں جانتے ہو ؟ ہم نے کہا : نہیں ۔ کہا : یہ عیسیٰ بن مریم علیہ السلام ہیں ۔ ہم نے پوچھا : آپ کے پاس یہ صورتیں کہاں سے آئیں ؟ یہ تو ہمیں یقین ہو گیا ہے کہ یہ تمام انبیاء کی اصلی صورتوں کے بالکل ٹھیک نمونے ہیں ۔ کیونکہ ہم نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت کو بالکل ٹھیک اور درست پایا ۔ بادشاہ نے جواب دیا : بات یہ ہے کہ آدم علیہ السلام نے رب العزت سے دعا کی کہ آپ کی اولاد میں سے جو انبیاء علیہم السلام ہیں وہ سب کو دکھائے جائیں ۔ پس ان کی صورتیں آپ پر نازل ہوئیں جو آدم علیہ السلام کے خزانے میں جو سورج کے غروب ہونے کی جگہ پر تھا ، محفوظ تھیں ۔ ذوالقرنین نے وہاں سے لے لیں اور دانیال کو دیں ۔ پھر بادشاہ کہنے لگا کہ میں تو اس پر خوش ہوں کہ اپنی بادشاہی چھوڑ دوں ۔ میں اگر غلام ہوتا تو تمہارے ہاتھوں بک جاتا اور تمہاری غلامی میں اپنی پوری زندگی بسر کرتا ۔ پھر اس نے ہمیں بہت کچھ تحفے تحائف دے کر اچھی طرح رخصت کیا ۔ جب ہم خلیفہ المسلمین امیر المؤمنین ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دربار میں پہنچے اور یہ سارا واقعہ بیان کیا تو سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ رو دیئے اور فرمانے لگے : اس مسکین کے ساتھ اللہ کی توفیق رفیق ہوتی تو یہ ایسا کر گزرتا ۔ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا ہے کہ نصرانی اور یہودی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف اپنی کتابوں میں برابر پاتے ہیں ۔ ۱؎ (دلائل النبوۃ للبیھقی:385/1-390) یہ روایت امام بیہقی رحمہ اللہ کی کتاب دلائل النبوۃ میں بھی ہے ۔ اس کی اسناد بھی خوف و خطر سے خالی ہے ۔ { عطاء بن یسار رحمہ اللہ فرماتے ہیں : میں نے سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو صفتیں تورات میں ہوں ، وہ مجھے بتاؤ تو انہوں نے فرمایا : ہاں واللہ آپ کی صفتیں تورات میں ہیں ، جو قرآن میں بھی ہیں کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم نے آپ کو گواہ اور خوشخبری سنانے والا اور آگاہ کرنے والا اور ان پڑھوں کو گمراہی سے بچانے والا بنا کر بھیجا ہے ۔ آپ میرے بندے اور رسول ہیں ، آپ کا نام متوکل ہے ، آپ بدگو اور بدخلق نہیں ہیں ۔ اللہ تعالیٰ آپ کو قبض نہ کرے گا جب تک کہ آپ کی وجہ سے لوگوں کی زبان سے «لَا اِلٰہَ اِلّاََ اللہُ» کہلوا کر ٹیڑھے دین کو درست نہ کر دے ، بند دلوں کو کھول نہ دے ، بہرے کانوں کو سننے والا نہ بنا دے ، اندھی آنکھوں کو دیکھتی نہ کر دے ۔ } یہ روایت صحیح بخاری شریف میں بھی ہے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4838) عطا رحمہ اللہ فرماتے ہیں : پھر میں کعب رحمہ اللہ سے ملا اور ان سے بھی یہی سوال کیا تو انہوں نے بھی یہی جواب دیا ۔ ایک حرف کی بھی کمی بیشی دونوں صاحبوں کے بیان میں نہ تھی ۔ یہ اور بات ہے کہ آپ نے اپنی لغت میں دونوں کے الفاظ بولے ۔ بخاری شریف کی اس روایت میں اس ذکر کے بعد کہ آپ بدخلق نہیں ، یہ بھی ہے کہ { آپ بازاروں میں شور و غل کرنے والے نہیں ، آپ برائی کے بدلے برائی کرنے والے نہیں بلکہ معافی اور درگزر کرنے والے ہیں ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:4838) سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کی حدیث کے ذکر کے بعد ہے کہ سلف کے کلام میں عموماً تورات کا لفظ اہل کتاب کی کتابوں پر بولا جاتا ہے ۔ اس کے مشابہ اور بھی روایتیں ہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ طبرانی میں { جبیر بن مطعم سے مروی ہے کہ میں تجارت کی غرض سے شام میں گیا ۔ وہاں میری ملاقات اہل کتاب کے ایک عالم سے ہوئی ۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ نبی تم میں ہوئے ہیں ؟ میں نے کہا : ہاں ۔ اس نے کہا : اگر تمہیں ان کی صورت دکھائیں تو تم پہچان لو گے ؟ میں نے کہا : ضرور ! چنانچہ وہ مجھے ایک گھر میں لے گیا جہاں بہت سی صورتیں تھیں لیکن ان میں میری نگاہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی شبیہ نہ آئی ، اسی وقت ایک اور عالم آیا ۔ ہم سے پوچھا : کیا بات ہے ؟ جب اسے ساری بات معلوم ہوئی تو وہ ہمیں اپنے مکان لے گیا ۔ وہاں جاتے ہی میری نگاہ آپ کی شبیہ پر پڑی اور میں نے دیکھا کہ گویا کوئی آپ کے پیچھے ہی آپ کو تھامے ہوئے ہے ، میں نے یہ دیکھ کر اس سے پوچھا : یہ دوسرے صاحب پیچھے کیسے ہیں ؟ { اس نے جواب دیا کہ جو نبی آیا ، اس کے بعد بھی نبی آیا لیکن اس نبی کے بعد کوئی نبی نہیں ۔ اس کے پیچھے کا یہ شخص اس کا خلیفہ ہے ۔ اب جو میں نے غور سے دیکھا تو وہ بالکل سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی شکل تھی ۔ } ۱؎ (طبرانی کبیر:1537:ضعیف) { امیر المؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ اپنے مؤذن اقرع کو ایک پادری کے پاس بھیجا ۔ آپ اسے بلا لائے ، امیر المؤمنین نے اس سے پوچھا کہ بتاؤ تم میری صفت اپنی کتابوں میں پاتے ہو ؟ اس نے کہا : ہاں ۔ کہا کیا ؟ اس نے جواب دیا کہ قرن ۔ آپ نے کوڑا اٹھا کر فرمایا : قرن کیا ہے ؟ اس نے کہا : گویا کہ وہ لوہے کا سینگ ہے ، وہ امیر ہے ، دین میں بہت سخت ۔ فرمایا : اچھا میرے بعد والے کی صفت کیا ہے ؟ اس نے کہا کہ خلیفہ تو وہ نیک صالح ہے لیکن اپنے قرابتداروں کو وہ دوسروں پر ترجیح دے گا ۔ آپ نے فرمایا : اللہ عثمان پر رحم کرے ! تین بار یہ فرمایا ، پھر فرمایا : اچھا ! ان کے بعد ؟ اس نے کہا : لوہے کے ٹکڑے جیسا ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنا ہاتھ اپنے سر پر رکھ لیا اور افسوس کرنے لگے ۔ اس نے کہا : اے امیر المؤمنین ! ہوں گے تو وہ نیک خلیفہ لیکن بنائے ہی اس وقت جائیں گے جب تلوار کھچی ہوئی ہو اور خون بہہ رہا ہو ۔ } ۱؎ (سنن ابوداود:4656 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) [ ابوداؤد ] ان کتابوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صفت یہ بھی تھی کہ آپ نیکیوں کا حکم دیں گے ، برائیوں سے روکیں گے ۔ فی الواقع آپ ایسے ہی تھے ۔ کون سی بھلائی ہے جس کا آپ نے حکم نہ دیا ہو ؟ کون سی برائی ہے جس سے آپ نے نہ روکا ہو ؟ جیسے کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ” تم جب قرآن کے یہ لفظ سنو کہ اے ایمان والو تو اسی وقت ہمہ تن گوش ہو جاؤ کیونکہ یا تو کسی خیر کا تمہیں حکم کیا جائے گا یا کسی شر سے تمہیں بچایا جائے گا ۔ ان میں سب سے زیادہ تاکید اللہ کی وحدانیت کی تھی جس کا حکم برابر ہر نبی کو ہوتا رہا ۔ “ قرآن شاہد ہے کہ ہر امت کے رسول کو پہلا حکم یہی ملا کہ وہ لوگوں سے کہہ دیں کہ ایک اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ماسوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ مسند احمد میں فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ { جب تم میری کسی حدیث کو سنو جسے تمہارے دل پہچان لیں ، تمہارے جسم اس کی قبولیت کے لیے تیار ہو جائیں اور تمہیں یہ معلوم ہو کہ وہ میرے لائق ہے تو میں اس سے بہ نسبت تمہارے زیادہ لائق ہوں اور جب تم میرے نام سے کوئی ایسی بات سنو جس سے تمہارے دل انکار کریں اور تمہارے جسم نفرت کریں اور تم دیکھو کہ وہ تم سے بہت دور ہے ۔ پس میں بہ نسبت تمہارے بھی اس سے بہت دور ہوں ۔ } ۱؎ (مسند احمد:425/5:حسن) اس کی سند بہت پکی ہے اسی کی ایک اور روایت میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ { جب تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول کوئی حدیث سنو تو اس کے ساتھ وہ خیال کرو جو خوب راہ والا بہت مبارک اور بہت پرہیزگاری والا ہو ۔ } ۱؎ (مسند احمد:122/1:مرسل صحیح) پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صفت بیان ہو رہی ہے کہ آپ کل پاک صاف اور طیب چیزوں کو حلال کرتے ہیں ۔ بہت سی چیزیں ان میں ایسی تھیں جنہیں لوگوں نے از خود حرام قرار دے لیا تھا ۔ جیسے جانوروں کو بتوں کے نام کر کے نشان ڈال کر انہیں حرام سمجھنا وغیرہ اور خبیث اور گندی چیزیں آپ لوگوں پر حرام کرتے ہیں ۔ جیسے سور کا گوشت ، سود وغیرہ اور جو حرام چیزیں لوگوں نے از خود حلال کر لی تھیں ۔ بعض علماء کا فرمان ہے کہ اللہ کی حلال کردہ چیزیں کھاؤ ۔ وہ دین میں بھی ترقی کرتی ہیں اور بدن میں بھی فائدہ پہنچاتی ہیں اور جو چیزیں حرام کر دی ہیں ، ان سے بچو کیونکہ ان سے دین کے نقصانات کے علاوہ صحت میں بھی نقصان ہوتا ہے ۔ اس آیت کریمہ سے بعض لوگوں نے استدلال کیا ہے کہ چیزوں کی اچھائی برائی دراصل عقلی ہے ۔ اس کے بہت سے جواب دیئے گئے ہیں لیکن یہ جگہ اس کے بیان کی نہیں ۔ اسی آیت کو زیر نظر رکھ کر بعض اور علماء نے کہا ہے کہ جن چیزوں کا حلال حرام ہونا کسی کو نہ پہنچا ہو اور کوئی آیت یا حدیث اس کے بارے میں نہ ملی ہو تو دیکھنا چاہیئے کہ عرب اسے اچھی چیز سمجھتے ہیں یا اس سے کراہت کرتے ہیں ۔ اگر اسے اچھی چیز جان کر استعمال میں لاتے ہیں تو حلال ہے اور اگر بری چیز سمجھ کر نفرت کر کے اسے نہ کھاتے ہوں تو وہ حرام ہے ۔ اس اصول میں بھی بہت کچھ گفتگو ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ آپ بہت صاف ، آسان اور سہل دین لے کر آئیں گے ۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ { میں ایک طرف آسان دین دے کر معبوث کیا گیا ہوں ۔ } ۱؎ (مسند احمد:116/6:صحیح) { سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یمن کا امیر بنا کر بھیجتے ہیں تو فرماتے ہیں : تم دونوں خوش خبری دینا ، نفرت نہ دلانا ۔ آسانی کرنا ، سختی نہ کرنا ۔ مل کر رہنا ، اختلاف نہ کرنا ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:6124) { آپ کے صحابی ابوبرزہ اسلمی فرماتے ہیں : میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہا ہوں اور آپ کی آسانیوں کا خوب مشاہدہ کیا ہے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:1211) پہلی امتوں میں بہت سختیاں تھیں لیکن پروردگار عالم نے اس امت سے وہ تمام تنگیاں دور فرما دیں ۔ آسان دین اور سہولت والی شریعت انہیں عطا فرمائی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : { میری امت کے دلوں میں جو وسوسے گزریں ، ان پر انہیں پکڑ نہیں جب تک کہ زبان سے نہ نکالیں یا عمل نہ لائیں ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:2043) فرماتے ہیں : { میری امت کی بھول چوک اور غلطی سے اور جو کام ان سے جبراً کرائے جائیں ، ان سے اللہ تعالیٰ نے قلم اٹھا لیا ہے ۔ } ۱؎ (سنن ابن ماجہ:2043 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) یہی وجہ ہے کہ اس امت کو خود اللہ تعالیٰ نے یہ تعلیم فرمائی کہ ’ کہو اے ہمارے پروردگار ! تو ہماری بھول چوک پر ہماری پکڑ نہ کر ۔ اے ہمارے رب ! ہم پر وہ بوجھ نہ لاد جو ہم سے پہلوں پر تھا ۔ اے ہمارے رب ! ہمیں ہماری طاقت سے زیادہ بوجھل نہ کر ۔ ہمیں معاف فرما ، ہمیں بخش ، ہم پر رحم فرما ۔ تو ہی ہمارا کار ساز مولیٰ ہے ۔ پس ہمیں کافروں پر مدد عطا فرما ۔ ‘ ۱؎ (2-البقرۃ:286) صحیح مسلم شریف میں ہے کہ { جب مسلمانوں نے یہ دعائیں کیں تو ہر جملے پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : میں نے یہ قبول فرمایا ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:126) پس جو لوگ اس نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں اور آپ کا ادب ، عزت کریں اور جو وحی آپ پر اتری ہے ، اس نور کی پیروی کریں ۔ وہی دنیا و آخرت میں فلاح پانے والے ہیں ۔ الاعراف
158 النبی العالم اور النبی الخاتم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ اپنے نبی و رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرماتا ہے کہ تمام عرب ، عجم ، گوروں ، کالوں سے کہہ دو کہ میں تم سب کی طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں ۔ آپ کی شرافت و عظمت ہے کہ آپ خاتم الانبیاء ہیں اور تمام دنیا کے لیے صرف آپ ہی نبی ہیں ۔ جیسے فرمان قرآن ہے «قُلِ اللہُ شَہِیدٌ بَیْنِی وَبَیْنَکُمْ وَأُوحِیَ إِلَیَّ ہٰذَا الْقُرْآنُ لِأُنذِرَکُم بِہِ وَمَن بَلَغَ» ۱؎ (6-الأنعام:19) یعنی ’ اعلان کر دے کہ مجھ میں اور تم میں اللہ گواہ ہے ۔ اس پاک قرآن کی وحی میری جانب اس لیے اتاری گئی ہے کہ میں اس سے تمہیں اور جن لوگوں تک یہ پہنچے سب کو ہوشیار کر دوں ۔ ‘ اور آیت میں ہے «وَمَن یَکْفُرْ بِہِ مِنَ الْأَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُہُ» ۱؎ (11-ہود:17) یعنی ’ مخلوق کے مختلف گروہ میں سے جو بھی آپ کا انکار کرے ، اس کی وعدہ گاہ جہنم ہے ۔ ‘ اور آیت میں ہے «وَقُل لِّلَّذِینَ أُوتُوا الْکِتَابَ وَالْأُمِّیِّینَ أَأَسْلَمْتُمْ فَإِنْ أَسْلَمُوا فَقَدِ اہْتَدَوا وَّإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَیْکَ الْبَلَاغُ» ۱؎ (3-آل عمران:20) یعنی ’ اہل کتاب اور غیر اہل کتاب سے کہہ دو کہ کیا تم مانتے ہو ؟ اگر تسلیم کر لیں ، مسلمان ہو جائیں تو راہ پر ہیں ورنہ تیرے ذمے تو صرف پہنچا دینا ہی ہے ۔ ‘ اس مضمون کی اور بھی قرآنی آیتیں بکثرت ہیں اور حدیثیں تو اس بارے میں بےشمار ہیں ۔ دین اسلام کی ذرا سی بھی سمجھ جسے ہے ، وہ بالیقین جانتا اور مانتا ہے کہ آپ تمام جہان کے لوگوں کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ اس آیت کی تفسیر میں صحیح بخاری شریف میں ہے کہ { اتفاق سے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ میں کچھ چشمک ہو گئی ۔ سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ نے سیدنا فاروق رضی اللہ عنہ کو ناراض کر دیا ۔ سیدنا فاروق رضی اللہ عنہ اسی حالت میں چلے گئے ۔ صدیق رضی اللہ عنہ نے درخواست کی کہ آپ معاف فرمائیں اور اللہ سے میرے لیے بخشش چاہیں لیکن عمر رضی اللہ عنہ راضی نہ ہوئے بلکہ کواڑ بند کر لیے ۔ آپ لوٹ کر دربار محمدی صلی اللہ علیہ وسلم میں آئے اور اس وقت اور صحابہ رضی اللہ عنہم بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں موجود تھے ۔ آپ نے فرمایا : تمہارے اس ساتھی نے انہیں ناراض اور غضبناک کر دیا ۔ { عمر رضی اللہ عنہ صدیق رضی اللہ عنہ کی واپسی کے بعد بہت ہی نادم ہوئے اور اسی وقت دربار رسالت مآب میں حاضر ہو کر تمام بات کہہ سنائی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سخت ناراض ہوئے ۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ باربار کہتے جاتے تھے کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! زیادہ ظلم تو مجھ سے سرزد ہوا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا تم میرے ساتھی کو میری وجہ سے چھوڑتے نہیں ؟ سنو ! جب میں نے اس آواز حق کو اٹھایا کہ لوگو ! میں تم سب کی طرف اللہ کا پیغمبر بنا کر بھیجا گیا ہوں تو تم نے کہا : تو جھوٹا ہے لیکن اس ابوبکر نے کہا : آپ سچے ہیں ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:4640) { ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں ۔ یاد رہے کہ میں اسے فخراً نہیں کہتا ۔ میں تمام سرخ و سیاہ لوگوں کی جانب بھیجا گیا ہوں اور میری مدد مہینے بھر کے فاصلے سے صرف رعب کے ساتھ کی گئی ہے اور میرے لیے غنیمتوں کے مال حلال کر دیئے گئے ہیں حالانکہ مجھ سے پہلے وہ کسی کے لئے حلال نہیں کئے گئے تھے اور میرے لیے ساری زمین مسجد اور وضو کے لیے حلال کر دی گئی ہے اور مجھے اپنی امت کی شفاعت عطا فرمائی گئی ہے جسے میں نے ان لوگوں کے لیے مخصوص کر رکھا ہے جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں ۔ } [ مسند امام احمد ] ۱؎ (مسند احمد:301/1:حسن) { عمرو بن شعیب اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ غزوہ تبوک والے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو تہجد کی نماز کے لیے کھڑے ہوئے ، پس بہت سے صحابہ آپ کے پیچھے جمع ہو گئے کہ آپ کی چوکیداری کریں ۔ نماز کے بعد آپ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : اس رات مجھے پانچ چیزیں دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے اور کسی کو نہیں دی گئیں ۔ میں تمام لوگوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں { مجھ سے پہلے کے تمام رسول صرف اپنی اپنی قوم کی طرف ہی نبی بنا کر بھیجے جاتے رہے ، مجھے اپنے دشمنوں پر رعب کے ساتھ مدد دی گئی ہے گو وہ مجھ سے مہینے بھر کے فاصلے پر ہوں ، وہیں وہ مرعوب ہو جاتے ہیں ۔ میرے لیے مال غنیمت حلال کیا گیا حالانکہ مجھ سے پہلے کے لوگ ان کی بہت عظمت کرتے تھے ، وہ اس مال کو جلا دیا کرتے تھے اور میرے لیے ساری زمین مسجد اور وضو کی پاک چیز بنادی گئی ہے ۔ جہاں کہیں میرے امتی کو نماز کا وقت آ جائے ، وہ تیمم کر لے اور نماز ادا کر لے ۔ مجھ سے پہلے کے لوگ اس کی عظمت کرتے تھے ، سوائے ان جگہوں کے جو نماز کے لیے مخصوص تھیں اور جگہ نماز نہیں پڑھ سکتے تھے اور پانچویں خصوصیت یہ ہے کہ مجھ سے فرمایا گیا : آپ دعا کیجئے ، مانگئے کیا مانگتے ہیں ؟ ہر نبی مانگ چکا ہے تو میں نے اپنے اس سوال کو قیامت پر اٹھا رکھا ہے پس وہ تم سب کے لیے ہے اور ہر اس شخص کیلئے جو «لا الٰہ الا اللہ» کی گواہی دے ۔ } ۱؎ (مسند احمد:222/2:صحیح) اس کی اسناد بہت پختہ ہے اور مسند احمد میں یہ حدیث موجود ہے ۔ مسند کی اور حدیث میں ہے کہ { میری امت میں سے جس یہودی یا نصرانی کے کان میں میرا ذکر پڑے اور وہ مجھ پر ایمان نہ لائے ، وہ جنت میں نہیں جا سکتا ۔ } ۱؎ (مسند احمد:398/4:صحیح لغیرہ) یہ حدیث اور سند سے صحیح مسلم شریف میں بھی ہے ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:153) مسند احمد میں ہے کہ { اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! میرا ذکر اس امت کے جس یہودی ، نصرانی کے پاس پہنچے اور وہ مجھ پر اور میری وحی پر ایمان نہ لائے اور مر جائے ، وہ جہنمی ہے ۔ } ۱؎ (مسند احمد:350/2:صحیح) مسند کی ایک اور حدیث میں آپ نے ان پانچوں چیزوں کا ذکر فرمایا جو صرف آپ کو ہی ملی ہیں ۔ پھر فرمایا : { ہر نبی نے شفاعت کا سوال کر لیا ہے اور میں نے اپنے سوال کو چھپا رکھا ہے اور ان کے لیے اٹھا رکھا ہے جو میری امت میں سے توحید پر مرے ۔ } ۱؎ (مسند احمد:416/4:صحیح) یہ حدیث سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے بخاری و مسلم میں بھی موجود ہے کہ { مجھے پانچ چیزیں دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کے انبیاء کو نہیں دی گئیں ۔ مہینے بھر کی مسافت تک رعب سے امداد و نصرت ، ساری زمین کا مسجد و طہور ہونا کہ میری امت کو جہاں وقت نماز آ جائے ، ادا کر لے ۔ غنیمتوں کا حلال کیا جانا جو پہلے کسی کے لیے حلال نہ تھیں ۔ شفاعت کا دیا جانا ۔ تمام لوگوں کی طرف مبعوث کیا جانا حالانکہ پہلے انبیاء صرف اپنی قوم کی طرف ہی بھیجے جاتے تھے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:335) پھر فرماتا ہے کہ کہو ، مجھے اس اللہ نے بھیجا ہے جو زمین و آسمان کا بادشاہ ہے ، سب چیزوں کا خالق ، مالک ہے ۔ جس کے ہاتھ میں ملک ہے ، جو مارنے ، جلانے پر قادر ہے ۔ جس کا حکم چلتا ہے ۔ پس اے لوگو ! تم اللہ پر اور اس کے رسول و نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاؤ جو ان پڑھ ہونے کے باوجود دنیا کو پڑھا رہے ہیں ۔ انہی کا تم سے وعدہ تھا اور ان ہی کی بشارت تمہاری کتابوں میں بھی ہے ، انہی کی صفتیں اگلی کتابوں میں ہیں ۔ یہ خود اللہ کی ذات پر اور اس کے کلمات پر ایمان رکھتے ہیں ۔ قول و فعل سب میں اللہ کے کلام کے مطیع ہیں ۔ تم سب ان کے ماتحت اور فرمانبردار ہو جاؤ ۔ انہی کے طریقے پر چلو ، انہی کی فرمانبرداری کرو ، تم راہ راست پر آ جاؤ گے ۔ الاعراف
159 انبیاء کا قاتل گروہ اللہ تعالیٰ خبر دیتے ہیں کہ امت موسیٰ میں بھی ایک گروہ حق کا ماننے والا ہے ۔ جیسے فرمان ہے «مِّنْ أَہْلِ الْکِتَابِ أُمَّۃٌ قَائِمَۃٌ یَتْلُونَ آیَاتِ اللہِ آنَاءَ اللَّیْلِ وَہُمْ یَسْجُدُونَ» ۱؎ (3-آل عمران:113) ’ اہل کتاب میں سے ایک جماعت حق پر قائم ہے ، راتوں کو اللہ کے کلام کی تلاوت کرتی رہتی ہے اور برابر سجدے کیا کرتی ہے ۔ ‘ اور آیت میں ہے «وَإِنَّ مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ لَمَن یُؤْمِنُ بِ اللہِ وَمَا أُنزِلَ إِلَیْکُمْ وَمَا أُنزِلَ إِلَیْہِمْ خَاشِعِینَ لِلہِ لَا یَشْتَرُونَ بِآیَاتِ اللہِ ثَمَنًا قَلِیلًا أُولٰئِکَ لَہُمْ أَجْرُہُمْ عِندَ رَبِّہِمْ إِنَّ اللہَ سَرِیعُ الْحِسَابِ» ۱؎ (3-آل عمران:199) یعنی ’ اہل کتاب میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اللہ پر اور اس پر جو تمہاری طرف نازل کیا گیا ہے اور اس پر جو ان کی طرف اتارا گیا ہے ، ایمان لاتے ہیں ، اللہ سے ڈرتے رہتے ہیں ۔ اللہ کی باتوں کو دنیوی نفع کی خاطر فروخت نہیں کرتے ۔ ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے ۔ اللہ بہت جلد حساب لینے والا ہے ۔ ‘ اور آیت میں ہے «الَّذِینَ آتَیْنَاہُمُ الْکِتَابَ مِن قَبْلِہِ ہُم بِہِ یُؤْمِنُونَ وَإِذَا یُتْلَیٰ عَلَیْہِمْ قَالُوا آمَنَّا بِہِ إِنَّہُ الْحَقٰ مِن رَّبِّنَا إِنَّا کُنَّا مِن قَبْلِہِ مُسْلِمِینَ أُولٰئِکَ یُؤْتَوْنَ أَجْرَہُم مَّرَّتَیْنِ بِمَا صَبَرُوا وَیَدْرَءُونَ بِالْحَسَنَۃِ السَّیِّئَۃَ وَمِمَّا رَزَقْنَاہُمْ یُنفِقُونَ» ۱؎ (28-القصص:52-54) ’ جنہیں ہم نے اس قرآن سے پہلے اپنی کتاب دی ہے ، وہ اس قرآن پر ایمان لاتے ہیں اور اس کی آیتیں سن کر اپنے ایمان کا اور اس کی حقانیت کا اعلان کرتے ہیں ۔ اور کہتے ہیں کہ ام اس سے پہلے ہی مسلمان تھے ۔ انہیں ان کے صبر کا اجر ہے ۔ ‘ اور آیت میں ہے «الَّذِینَ آتَیْنَاہُمُ الْکِتَابَ یَتْلُونَہُ حَقَّ تِلَاوَتِہِ أُولٰئِکَ یُؤْمِنُونَ بِہِ» ۱؎ (2-البقرۃ:121) ’ جو لوگ ہماری کتاب پائے ہوئے ہیں اور اسے حق تلاوت کی ادائیگی کے ساتھ پڑھتے ہیں وہ اس قرآن پر بھی ایمان رکھتے ہیں ۔ ‘ اور فرمان ہے «قُلْ آمِنُوا بِہِ أَوْ لَا تُؤْمِنُوا إِنَّ الَّذِینَ أُوتُوا الْعِلْمَ مِن قَبْلِہِ إِذَا یُتْلَیٰ عَلَیْہِمْ یَخِرٰونَ لِلْأَذْقَانِ سُجَّدًا وَیَقُولُونَ سُبْحَانَ رَبِّنَا إِن کَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُولًا وَیَخِرٰونَ لِلْأَذْقَانِ یَبْکُونَ وَیَزِیدُہُمْ خُشُوعًا ۩» ۱؎ (17-الإسراء:107-109) ’ جو لوگ پہلے علم دیئے گئے ہیں ، وہ ہمارے پاک قرآن کی آیتیں سن کر سجدوں میں گر پڑتے ہیں ۔ ہماری پاکیزگی کا اظہار کر کے ہمارے وعدوں کی سچائی بیان کرتے ہیں ۔ اپنی ٹھوڑیوں کے بل روتے ہوئے سجدے کرتے ہیں اور عاجزی اور اللہ سے خوف کھانے میں سبقت لے جاتے ہیں ۔ ‘ امام ابن جریر نے اپنی تفسیر میں اس جگہ ایک عجیب خبر لکھی ہے کہ ابن جریج رحمہ اللہ فرماتے ہیں : جب بنی اسرائیل نے کفر کیا اور اپنے نبیوں کو قتل کیا ، ان کے بارہ گروہ تھے ۔ ان میں سے ایک گروہ اس نالائق گروہ سے الگ رہا ۔ اللہ تعالیٰ سے معذورت کی اور دعا کی کہ ان میں اور ان گیارہ گروہوں میں وہ تفریق کر دے ۔ چنانچہ زمین میں ایک سرنگ ہو گئی ۔ یہ اس میں چلے گئے اور چین کے پرلے پار نکل گئے ۔ وہاں پر سچے سیدھے مسلمان انہیں ملے جو ہمارے قبلہ کی طرف نمازیں پڑھتے تھے ۔ کہتے ہیں کہ آیت «وَقُلْنَا مِن بَعْدِہِ لِبَنِی إِسْرَائِیلَ اسْکُنُوا الْأَرْضَ فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ الْآخِرَۃِ جِئْنَا بِکُمْ لَفِیفًا» ۱؎ (17-الإسراء:104) کا یہی مطلب ہے ۔ اس آیت میں جس دوسرے وعدے کا ذکر ہے ، یہ آخرت کا وعدہ ہے ۔ کہتے ہیں : اس سرنگ میں ڈیڑھ سال تک وہ چلتے رہے ۔ کہتے ہیں : اس قوم کے اور تمہارے درمیان ایک نہر ہے الاعراف
160 . یہ سب آیتیں سورۃ البقرہ میں گزر چکی ہیں اور وہیں ان کی پوری تفسیر بھی بحمد اللہ ہم نے بیان کر دی ہے ۔ وہ سورت مدنیہ ہے اور یہ مکیہ ہے ۔ ان آیتوں اور ان آیتوں کا فرق بھی مع لطافت کے ، ہم نے وہیں ذکر کر دیا ہے ۔ دوبارہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں ۔ الاعراف
161 الاعراف
162 الاعراف
163 تصدیق رسالت سے گریزاں یھودی علماء پہلے آیت «وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِینَ اعْتَدَوْا مِنکُمْ فِی السَّبْتِ فَقُلْنَا لَہُمْ کُونُوا قِرَدَۃً خَاسِئِینَ» ۱؎ (2-البقرۃ:65) گزر چکی ہے ، اسی واقعہ کا تفصیلی بیان اس آیت میں ہے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلوات اللہ و سلامہ علیہ کو حکم دیتا ہے کہ آپ اپنے زمانے کے یہودیوں سے ان کے پہلے باپ دادوں کی بابت سوال کیجئے ، جنہوں نے اللہ کے فرمان کی مخالفت کی تھی ۔ پس ان کی سرکشی اور حیلہ جوئی کی وجہ سے ہماری اچانک پکڑ ان پر مسلط ہوئی ۔ اس واقعہ کو یاد دلا تاکہ یہ بھی میری ناگہانی سزا سے ڈر کر اپنی اس ملعون صفت کو بدل دیں اور آپ کے جو اوصاف ان کی کتابوں میں ہیں ، انہیں نہ چھپائیں ۔ ایسا نہ ہو کہ ان کی طرح ان پر بھی ہمارے عذاب بے خبری میں برس پڑیں ۔ ان لوگوں کی یہ بستی بحر قلزم کے کنارے واقع تھی جس کا نام آیلہ تھا ۔ مدین اور طور کے درمیان یہ شہر تھا ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس بستی کا نام مدین تھا ۔ ایک قول یہ ہے کہ اس کا نام معتا تھا ۔ یہ مدین اور عینونا کے درمیان تھا ۔ انہیں حکم ملا کہ یہ ہفتہ کے دن کی حرمت کریں اور اس دن شکار نہ کریں ، مچھلی نہ پکڑیں ۔ ادھر مچھلیوں کی بحکم الٰہی یہ حالت ہوئی کہ ہفتے والے دن تو چڑھی چلی آتیں ، کھلم کھلا ہاتھ لگتیں ، تیرتی پھرتیں ، سب طرف سے سمٹ کر آ جاتیں اور جب ہفتہ نہ ہوتا ، ایک مچھلی بھی نظر نہ آتی بلکہ تلاش پر بھی ہاتھ نہ لگتی ۔ یہ ہماری آزمائش تھی کہ مچھلیاں ہیں تو شکار منع اور شکار جائز ہے تو مچھلیاں ندارد ۔ چونکہ یہ لوگ فاسق اور بےحکم تھے ، اس لیے ہم نے بھی ان کو اس طرح آزمایا ۔ آخر ان لوگوں نے حیلہ جوئی شروع کی ۔ ایسے اسباب جمع کرنے شروع کئے جو باطن میں اس حرام کام کا ذریعہ بن جائیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ { یہودیوں کی طرح حیلے کر کے ذرا سی دیر کے لیے اللہ کے حرام کو حلال نہ کر لینا ۔ } ۱؎ (جزء فی الخلع و ابطال الحیل[ص:24]لابی عبداللہ بن بطۃ کما فی ارواء الغلیل:1535) اس حدیث کو امام ابو عبداللہ بن بطۃ رحمہ اللہ لائے ہیں اور اس کی سند نہایت عمدہ ہے ۔ اس کے راوی احمد بن محمد بن مسلم کا ذکر امام خطیب رحمہ اللہ نے اپنی تاریخ میں کیا ہے اور انہیں ثقہ کہا ہے ۔ باقی سب راوی بہت مشہور ہیں اور سب کے سب ثقہ ہیں ۔ ایسی بہت سی سندوں کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے ۔ الاعراف
164 اصحاب سبت جس بستی کے لوگوں کا ذکر ہو رہا ہے ، ان کے تین گروہ ہو گئے تھے ۔ ایک تو حرام شکار کھیلنے والا اور حیلے بہانوں سے مچھلی پکڑنے والا ، دوسرا گروہ انہیں روکنے والا اور ان سے بیزاری ظاہر کر کے ان سے الگ ہو جانے والا اور تیسرا گروہ چپ چاپ رہ کر نہ اس کام کو کرنے والا ، نہ اس سے روکنے والا ۔ جیسا کہ سورۃ البقرہ کی تفسیر میں ہم خلاصہ وار بیان کر آئے ہیں ۔ جو لوگ خاموش تھے نہ برائی کرتے تھے ، نہ بروں کو برائی سے روکتے تھے انہوں نے روکنے والوں کو سمجھانا شروع کیا کہ میاں ان لوگوں کو کہنے سننے سے کیا فائدہ ؟ انہوں نے تو اللہ کے عذاب مول لے لیے ہیں ، رب کے غضب کیلئے تیار ہو گئے ہیں ۔ اب تم ان کے پیچھے کیوں پڑے ہو ؟ تو اس پاک گروہ نے جواب دیا کہ اس میں دو فائدے ہیں : ایک تو یہ کہ اللہ کے پاس ہم معذرت خواہ ہو جائیں کہ ہم اپنا فرض برابر ادا کرتے رہے ، انہیں ہر وقت سمجھاتے بجھاتے رہے ۔ «معذرۃ» ت کے پیش سے بھی ایک قرأت ہے تو گویا «ھذا» کا لفظ یہاں مقدر مانا یعنی انہوں نے کہا : یہ ہماری معذرت ہے اور زبر کی قرأت پر یہ مطلب ہے کہ ہم جو انہیں روک رہے ہیں ، یہ کام اس لیے کر رہے ہیں کہ اللہ کے ہاں ہم پر الزام نہ آئے کیونکہ اللہ کا حکم ہے کہ ہمیشہ نیکی کا حکم کرتے رہو اور برائی سے روکتے رہو ۔ دوسرا فائدہ اس میں یہ ہے کہ بہت ممکن ہے ، کسی وقت نصیحت ان پر اثر کر جائے ۔ یہ لوگ اپنی اس حرام کاری سے باز آ جائیں ، اللہ سے توبہ کریں تو اللہ تعالیٰ بھی ان پر مہربانی کرے اور ان کے گناہ معاف فرما دے ۔ آخر کار ان کی نصیحت خیر خواہی بھی بےنتیجہ ثابت ہوئی ۔ ان بدکاروں نے ایک نہ مانی تو ہم نے اس مسلم گروہ کو جو برابر ان سے نالاں رہا ، ان سے الگ رہا اور انہیں سمجھاتا بجھاتا رہا ، نجات دے دی اور باقی کے ظالموں کو جو ہماری نافرمانیوں کے مرتکب تھے ، اپنے بدترین عذابوں سے پکڑ لیا ۔ عبارت کی عمدگی ملاحظہ ہو کہ روکنے والوں کو نجات کا کھلے لفظوں میں اعلان کیا ، ظالموں کی ہلاکت کا بھی غیر مشتبہ الفاظ میں بیان کیا اور چپ رہنے والوں کی حالت سے سکوت کیا گیا ۔ اس لئے کہ ہر عمل کی جزا اسی کی ہم جنس ہے ۔ یہ لوگ نہ تو اس ظلم عظیم میں شریک تھے کہ ان کی مذمت اعلانیہ کی جائے ، نہ دلیری سے روکتے تھے کہ صاف طور پر قابل تعریف ٹھہریں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ” جو گروہ ممانعت کرنے کے بعد تھک کر بیٹھ گیا تھا اور پھر روکنا چھوڑ دیا تھا ، اللہ کا عذاب جب آیا تو یہ گروہ بھی اس عذاب سے بچ گیا ۔ صرف وہی ہلاک ہوئے جو گناہ میں مبتلا تھے ۔ “ آپ کے شاگرد عکرمہ کا بیان ہے کہ پہلے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کو اس میں بڑا تردد تھا کہ آیا یہ لوگ ہلاک ہوئے یا بچ گئے ، یہاں تک کہ ایک روز میں آیا تو دیکھا کہ قرآن گود میں رکھے ہوئے رو رہے ہیں ۔ اول اول تو میرا حوصلہ نہ پڑا کہ سامنے آؤں لیکن دیر تک جب یہی حالت رہی تو میں نے قریب آ کر سلام کیا ، بیٹھ گیا اور رونے کی وجہ دریافت کی تو آپ نے فرمایا : دیکھو یہ سورۃ الاعراف ہے ، اس میں ایلہ کے یہودیوں کا ذکر ہے کہ انہیں ہفتے کے روز مچھلی کے شکار کی ممانعت کر دی گئی اور ان کی آزمائش کے لیے مچھلیوں کو حکم ہوا کہ وہ صرف ہفتے کے دن ہی نکلیں ، ہفتے کے دن دریا مچھلیوں سے بھرے رہتے تھے ۔ تروتازہ موٹی اور عمدہ بکثرت مچھلیاں پانی کے اوپر اچھلتی کودتی رہتی تھیں اور دنوں میں سخت کوشش کے باوجود بھی نہ ملتی تھیں ۔ کچھ دنوں تک تو ان کے دلوں کے اندر حکم الٰہی کی عظمت رہی اور یہ ان کے پکڑنے سے رکے رہے ۔ لیکن پھر شیطان نے ان کے دل میں یہ قیاس ڈال دیا کہ اس دن منع کھانے سے ہے ، تم نے آج کھانا نہیں ۔ پکڑ لو اور جائز دن کھا لینا ۔ سچے مسلمانوں نے انہیں اس حیلہ جوئی سے ہر چند روکا اور سمجھایا کہ دیکھو ! شکار کھیلنا شروع نہ کرو ۔ شکار اور کھانا دونوں منموع ہیں ۔ اگلے جمعہ کے دن جو جماعت شیطانی پھندے میں پھنس چکی تھی ، وہ اپنے بال بچوں سمیت شکار کو نکل کھڑی ہوئی ۔ باقی کے لوگوں کی دو جماعتیں بن گئیں ۔ ایک ان کے دائیں ، ایک بائیں ۔ دائیں جانب والی تو برابر انہیں روکتی رہی کہ اللہ سے ڈرو اور اللہ کے عذابوں کے لیے تیاری نہ کرو ۔ بائیں والوں نے کہا : میاں ! تمہیں کیا پڑی ؟ یہ تو خراب ہونے والے ہیں ۔ اب تم انہیں نصیحت کر کے کیا لو گے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ خیر ! اللہ کے ہاں ہم تو چھوٹ جائیں گے اور ہمیں تو اب تک مایوسی بھی نہیں ۔ کیا عجب کہ یہ لوگ سنور جائیں تو ہلاکت اور عذاب سے محفوظ رہیں ، ہماری تو عین منشا یہ ہے ۔ لیکن یہ بدکار اپنی بےایمانی سے باز نہ آئے اور نصیحت انہیں کارگر نہ ہوئی تو دائیں طرف کے لوگوں نے کہا : تم نے ہمارا کہا نہ مانا ، اللہ کی نافرمانی کی ، ارتکاب حرمت کیا ۔ عجب نہیں ، راتوں رات تم پر کوئی عذاب رب آئے ۔ اللہ تمہیں زمین میں دھنسا دے یا تم پر پتھر برسا دے یا کسی اور طرح تمہیں سزا دے ۔ رات ہم تو یہیں گزاریں گے ، تمہارے ساتھ شہر میں نہیں رہیں گے ۔ جب صبح ہو گئی اور شہر کے دروازے نہ کھلے تو انہوں نے کواڑ کھٹکھٹائے ، آوازیں دیں لیکن کوئی جواب نہ آیا ۔ آخر سیڑھی لگا کر ایک شخص کو قلعہ کی دیوار پر چڑھایا ، اس نے دیکھا تو حیران ہو گیا کہ سب لوگ بندر بنا دیئے گئے ۔ اس نے ان سب مسلمانوں کو خبر دی ، یہ دروازے توڑ کر اندر گئے تو دیکھا کہ سب دم دار بندر بن گئے ہیں ، یہ تو کسی کو پہچان نہ سکے لیکن وہ پہچان گئے ۔ ہر بندر اپنے اپنے رشتے دار کے قدموں میں لوٹنے لگا ، ان کے کپڑے پکڑ پکڑ کر رونے لگا تو انہوں نے کہا : دیکھو ہم تو تمہیں منع کر رہے تھے لیکن تم نے مانا ہی نہیں ۔ وہ اپنا سر ہلاتے تھے کہ ہاں ٹھیک ہے ، ہمارے اعمال کی شامت نے ہی ہمیں برباد کیا ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ یہ تو قرآن میں ہے کہ روکنے والوں نجات یافتہ ہوئے لیکن یہ بیان نہیں کہ جو روکنے والوں کو منع کرتے تھے , ان کا کیا حشر ہوا ؟ اب ہم بھی بہت سی خلاف شرع باتیں دیکھتے ہیں اور کچھ نہیں کر سکتے ۔ عکرمہ کہتے ہیں : میں نے آپ سے یہ سن کر کہا : اللہ مجھے آپ پر نثار کر دے ، آپ یہ تو دیکھئے کہ وہ لوگ ان کے اس فعل کو برا سمجھتے رہے تھے ، ان کی مخالفت کرتے تھے ، جانتے تھے کہ یہ ہلاک ہونے والے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ یہ بچ گئے ۔ آپ کی سمجھ میں آ گیا اور اسی وقت حکم دیا کہ مجھے دو چادریں انعام میں دی جائیں ۔ الغرض اس بیچ کی جماعت کی نسبت ایک قول تو یہ ہے کہ عذاب سے بچ گئی ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ عذاب ان پر بھی آیا ۔ ابن رومان فرماتے ہیں کہ ہفتے والے دن خوب مچھلیاں آتیں ، پانی ان سے بھر جاتا ۔ پھر بیچ کے کسی دن نظر نہ آتیں ، دوسرے ہفتے کو پھر یہی حال ہوتا ۔ سب سے پہلے ایک شخص نے یہ حیلہ نکالا کہ ڈور اور کانٹا تیار کیا ، مچھلی کو اس میں پھنسا لیا اور پانی میں ہی چھوڑ دیا ۔ اتوار کی رات کو جا کر نکال لیا ، بھونا ، لوگوں کو مچھلی کی خوشبو پہنچی تو سب نے گھیر لیا ۔ ہر چند پوچھا لیکن اول تو یہ سختی سے انکار کرتا رہا ، آخر بات بنا دی کہ دراصل ایک مچھلی کا چھلکا مجھے مل گیا تھا ، میں نے اسے بھونا تھا ۔ دوسرے ہفتے کے دن اس نے اسی طرح دو مچھلیاں پھانس لیں ، اتوار کی رات کو نکال کر بھوننے لگا ۔ لوگ آ گئے تو اس نے کہا : میں نے ایک ترکیب نکال لی ہے جس سے نافرمانی بھی نہ ہو اور کام بھی نہ رکے ۔ اب جو حیلہ بیان کیا تو ان سب نے اسے پسند کیا اور بکثرت لوگ یونہی کرنے لگے ۔ یہ لوگ رات کو شہر پناہ کا پھاٹک بند کر کے سوتے تھے ۔ جس رات عذاب آیا ، حسب دستور یہ شہر پناہ کا پھاٹک لگا کر سوئے تھے ۔ صبح کو جب باہر والے شہر میں داخل ہونے کو آئے تو خلاف معمول اب تک دروازے بند پائے ۔ آوازیں دیں ، کوئی جواب نہ ملا ۔ قلعہ پر چڑھ گئے ، دیکھا تو بندر بنا دیئے گئے ہیں ۔ کھول کر اندر گئے تو بندر اپنے اپنے رشتہ داروں کے قدموں میں لوٹنے لگے ۔ اس سے پہلے سورۃ البقرہ کی ایسی ہی آیت کی تفسیر کے موقعہ پر بالتفصیل ان واقعات کو اچھی طرح بیان کر چکے ہیں ، وہیں دیکھ لیجئے ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» دوسرا قول یہ ہے کہ جو چپ رہے تھے ، وہ بھی ان گنہگاروں کے ساتھ ہلاک ہوئے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ پہلے ہفتہ کے دن کی تعظیم بطور بدعت خود ان لوگوں نے نکالی ، اب اللہ کی طرف سے بطور آزمائش کے وہ تعظیم ان پر ضروری قرار دے دی گئی اور حکم ہو گیا کہ اس دن مچھلی کا شکار نہ کرو ۔ پھر مچھلیوں کا اس دن نمایاں ہونا اور دوسرے دنوں میں نہ نکلنا وغیرہ بیان فرما کر فرمایا کہ پھر ان میں سے ایک شخص نے ایک مچھلی ہفتے کے دن پکڑی ، اس کی ناک میں سوراخ کر کے ڈور باندھ کر ایک کیل کنارے گاڑ کر اس میں ڈور اٹکا کر مچھلی کو دریا میں ڈال دیا ۔ دوسرے دن جا کر پانی میں سے نکال لایا اور بھون کر کھا لی ۔ سوائے اس پاک باز حق گو جماعت کے لوگوں کے کسی نے نہ اسے روکا ، نہ منع کیا ، نہ سمجھایا لیکن ان کی نصیحت کا ان پر کوئی اثر نہ ہوا ۔ اس ایک کی دیکھا دیکھی اور بھی یہی کام کرنے لگے ۔ یہاں تک کہ بازاروں میں مچھلی آنے لگی اور اعلانیہ یہ کام ہونے لگا ۔ ایک اور جماعت کے لوگوں نے اس حق والی جماعت سے کہا کہ تم ان لوگوں کو کیوں وعظ کرتے ہو ؟ اللہ تو انہیں ہلاک کرنے والا یا سخت عذاب کرنے والا ہے تو انہوں نے یہ جواب دیا یعنی اللہ کا فرمان دہرایا ۔ لیکن لوگ فرمان ربانی کو بھول بیٹھے اور عذاب رب کے خود شکار ہو گئے ۔ یہ تین گروہوں میں بٹ گئے تھے : ایک تو شکار کھیلنے والا ، ایک منع کرنے والا ، ایک ان منع کرنے والوں سے کہنے والا کہ اب نصیحت بے کار ہے ۔ بس وہ تو بچ گئے جو برابر روکتے رہے تھے اور باقی دونوں جماعتیں ہلاک کر دی گئیں ۔ سند اس کی نہایت عمدہ ہے لیکن سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا عکرمہ کے قول کی طرف رجوع کرنا ، اس قول کے کہنے سے اولیٰ ہے ۔ اس لیے کہ اس قول کے بعد ان پر ان کے حال کی حقیقت کھل گئی ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ پھر فرمان ہے کہ ہم نے ظالموں کو سخت عذابوں سے دبوچ لیا ۔ مفہوم کی دلالت تو اس بات پر ہے کہ جو باقی رہے ، بچ گئے ۔ «بَئِیسٍ» کی کئی ایک قرأتیں ہیں ۔ اس کے معنی سخت کے ، درد ناک کے ، تکلیف دہ کے ہیں ۔ اور سب کا مطلب قریب قریب یکساں ہے ۔ ان کی سرکشی اور ان کے حد سے گزر جانے کے باعث ہم نے ان سے کہہ دیا کہ تم ذلیل ، حقیر اور ناقدرے بندر بن جاؤ ۔ چنانچہ وہ ایسے ہی ہو گئے ۔ الاعراف
165 الاعراف
166 الاعراف
167 اللہ تعالٰی کی نافرمانی کا انجام ذلت و رسوائی اللہ تعالیٰ نے یہود کو اطلاع کر دی کہ ان کی اس سخت نافرمانی اور باربار کی بغاوت اور ہر موقعہ پر نافرمانی ، رب سے سرکشی اور اللہ کے حرام کو اپنے کام میں لانے کے لئے حیلہ جوئی کر کے اسے حلال کی جامہ پوشی کا بدلہ یہ ہے کہ قیامت تک یہ دبے رہیں گے ، ذلت میں رہیں گے ، لوگ ان کو پست کرتے چلے جائیں گے ۔ خود موسیٰ علیہ السلام نے بھی ان پر تاوان مقرر کر دیا تھا ۔ سات سال یا تیرہ سال تک یہ اسے ادا کرتے رہے ، سب سے پہلے خراج کا طریقہ آپ نے ہی ایجاد کیا ۔ پھر ان پر یونانیوں کی حکومت ہوئی ، پھر کشدانیوں اور کلدانیوں کی ، پھر نصرانیوں کی ۔ سب کے زمانے میں ذلیل اور حقیر رہے ، ان سے جزیہ لیا جاتا رہا اور انہیں پستی سے ابھرنے کا کوئی موقعہ نہ ملا ۔ پھر اسلام آیا اور اس نے بھی انہیں پست کیا ، جزیہ اور خراج برابر ان سے وصول ہوتا رہا ۔ غرض یہ ذلیل رہے ۔ اس امت کے ہاتھوں بھی حقارت کے گڑھے میں گرے رہے ۔ بالآخر یہ دجال کے ساتھ مل جائیں گے لیکن مسلمان عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ جا کر پھر ان کی تخم ریزی کر دیں گے ۔ جو بھی اللہ کی شریعت کی مخالفت کرتا ہے ، اللہ کے فرمان کی تحقیر کرتا ہے ، اللہ اسے جلد ہی سزا دے دیتا ہے ۔ ہاں جو اس کی طرف رغبت و رجوع کرے ، توبہ کرے ، جھکے تو وہ بھی اس کے ساتھ بخشش و رحمت سے پیش آتا ہے ۔ چونکہ ایمان نام ہے خوف اور امید کا ، اسی لیے یہاں اور اکثر جگہ عذاب و ثواب ، پکڑ دھکڑ اور بخشش ، ڈراوا اور لالچ دونوں کا ایک ساتھ بیان ہوا ہے ۔ الاعراف
168 رشوت خوری کا انجام ذلت و رسوائی ہے بنی اسرائیل مختلف فرقے اور گروہ کر کے زمین میں پھیلا دیئے گئے ۔ جیسے فرمان ہے کہ ’ ہم نے بنی اسرائیل سے کہا : تم زمین میں رہو سہو ۔ جب آخرت کا وعدہ آئے گا ، ہم تمہیں جمع کر کے لائیں گے ۔ ان میں کچھ تو نیک لوگ تھے ، کچھ بد تھے ۔ ‘ ۱؎ (17-الإسراء:104) جنات میں بھی یہی حال ہے ۔ جیسے سورۃ الجن میں ان کا قول ہے کہ ’ ہم میں کچھ تو نیک ہیں اور کچھ اور طرح کے ہیں ۔ ہمارے بھی مختلف فرقے ہوتے آئے ہیں ۔ ‘ ۱؎ (72-الجن:11) پھر فرمان ہے کہ ہم نے انہیں سختی نرمی سے ، لالچ اور خوف سے ، عافیت اور بلا سے ، غرض ہر طرح پرکھ لیا تاکہ وہ اپنے کرتوت سے ہٹ جائیں ۔ جب یہ زمانہ بھی گزرا جس میں نیک و بد ہر طرح کے لوگ تھے ، ان کے بعد تو ایسے ناخلف اور نالائق آئے جن میں کوئی بھلائی اور خیریت تھی ہی نہیں ۔ یہ اب تورات کی تلاوت کرنے والے رہ گئے ۔ ممکن ہے اس سے مراد صرف نصرانی ہوں اور ممکن ہے کہ یہ خبر عام نصرانی ، غیر نصرانی سب پر مشتمل ہو ۔ وہ حق بات کے بدلنے اور مٹانے کی فکر میں لگ گئے ، جیب بھر دو ، جو چاہو کہلوا لو ۔ پس ہوس یہ ہے کہ ہے کیا ؟ توبہ کر لیں گے ، معاف ہو جائے گا ۔ پھر موقعہ آیا پھر دنیا لے کر اللہ کی باتیں بدل دیں ۔ گناہ کیا ، توبہ کی ۔ پھر موقعہ ملتے ہی لپک کر گناہ کر لیا ۔ مقصود ان کا دنیا طلبی ہے ۔ حلال سے ملے ، چاہے حرام سے ملے ۔ پھر بھی مغفرت کی تمنا ہے ۔ یہ ہیں جو وارث رسول کہلواتے ہیں اور جن سے اللہ نے عہد لیا ہے ۔ جیسے دوسری آیت میں ہے کہ ’ ان کے بعد ایسے ناخلف آئے جنہوں نے نماز تک ضائع کر دی ۔ ‘ ۱؎ (19-مریم:59) بنی اسرائیل کا آوے کا آوا بگڑ گیا ۔ آج ایک کو قاضی بناتے ہیں ، وہ رشوتیں کھانے اور احکام بدلنے لگتا ہے ۔ وہ اسے ہٹا کر دوسرے کو قائم مقام کرتے ہیں ، اس کا بھی یہی حال ہوتا ہے ۔ پوچھتے ہیں : بھئی ایسا کیوں کرتے ہو ؟ جواب ملتا ہے : اللہ غفور و رحیم ہے ۔ پھر وہ ان لوگوں میں سے کسی کو اس عہدے پر لاتے ہیں جو اگلے قاضیوں ح ، اکموں اور ججوں کا شاکی تھا ۔ لیکن وہ بھی رشوتیں لینے لگتا ہے اور ناحق فیصلے کرنے لگتا ہے ۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم ایسا کیوں کرتے ہو ؟ حالانکہ تم سے مضبوط عہد و پیمان ہم نے لے لیا ہے کہ تم حق کو ظاہر کیا کرو ، اسے نہ چھپاؤ لیکن ذلیل دنیا کے لالچ میں آ کر عذاب رب مول لے رہے ہو ۔ اسی وعدے کا بیان آیت «وَإِذْ أَخَذَ اللہُ مِیثَاقَ الَّذِینَ أُوتُوا الْکِتَابَ لَتُبَیِّنُنَّہُ لِلنَّاسِ وَلَا تَکْتُمُونَہُ فَنَبَذُوہُ وَرَاءَ ظُہُورِہِمْ وَاشْتَرَوْا بِہِ ثَمَنًا قَلِیلًا فَبِئْسَ مَا یَشْتَرُونَ» ۱؎ (3-آل عمران:187) میں ہوا ہے یعنی ’ اللہ تعالیٰ نے یہود و نصاری سے عہد لیا تھا کہ وہ کتاب اللہ لوگوں کے سامنے بیان کرتے رہیں گے اور اس کی کوئی بات نہ چھپائیں گے ۔ ‘ یہ بھی اس کے خلاف تھا کہ گناہ کرتے چلے جائیں ، توبہ نہ کریں اور بخشش کی امید رکھیں ۔ پھر اللہ تعالیٰ انہیں اپنے پاس کے اجر و ثواب کا لالچ دکھاتا ہے کہ اگر تقویٰ کیا ، حرام سے بچے ، خواہش نفسانی کے پیچھے نہ لگے ، رب کی اطاعت کی تو آخرت کا بھلا تمہیں لے گا جو اس فانی دنیا کے ٹھاٹھ سے بہت ہی بہتر ہے ۔ کیا تم میں اتنی بھی سمجھ نہیں کہ گراں بہا چیز کو چھوڑ کر ردی چیز کے پیچھے پڑے ہو ؟ پھر جناب باری عزوجل ان مومنوں کی تعریف کرتا ہے جو کتاب اللہ پر قائم ہیں اور اس کتاب کی راہنمائی کے مطابق اس پیغمبر آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہیں ، کلام رب پر جم کر عمل کرتے ہیں ، احکام الٰہی کو دل سے مانتے ہیں اور بجا لاتے ہیں ، اس کے منع کردہ کاموں سے رک گئے ہیں ، نماز کو پابندی ، دلچسپی ، خشوع اور خضوع سے ادا کرتے ہیں ۔ حقیقتاً یہی لوگ اصلاح پر ہیں اور ناممکن ہے کہ ان نیک اور پاکباز لوگوں کا بدلہ اللہ ضائع کر دے ۔ الاعراف
169 الاعراف
170 الاعراف
171 . اسی طرح کی آیت «وَرَفَعْنَا فَوْقَہُمُ الطٰورَ بِمِیثَاقِہِمْ» ۱؎ (4-النساء:154) ہے یعنی ’ ہم نے ان کے سروں پر طور پہاڑ لا کھڑا کیا ۔ ‘ اسے فرشتے اٹھا لائے تھے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ ” جب موسیٰ علیہ السلام انہیں ارض مقدس کی طرف لے چلے اور غصہ اتر جانے کے بعد تختیاں اٹھا لیں اور ان میں جو حکم احکام تھے ، وہ انہیں سنائے تو انہیں وہ سخت معلوم ہوئے اور تسلیم و تعمیل سے صاف انکار کر دیا تو بحکم الٰہی فرشتوں نے پہاڑ اٹھا کر ان کے سروں پر لا کھڑا کر دیا ۔ “ [ نسائی ] مروی ہے کہ جب کلیم اللہ علیہ السلام نے فرمایا کہ لو اللہ کی کتاب کے احکام قبول کرو تو انہوں نے جواب دیا کہ ہمیں سناؤ ، اس میں کیا احکام ہیں ؟ اگر آسان ہوئے تو ہم منظور کر لیں گے ۔ ورنہ نہ مانیں گے ۔ موسیٰ علیہ السلام کے باربار کے اصرار پر بھی یہ لوگ کہتے رہے ۔ آخر اسی وقت اللہ کے حکم سے پہاڑ اپنی جگہ سے اٹھ کر ان کے سروں پر معلق کھڑا ہو گیا اور اللہ کے پیغمبر نے فرمایا : بولو اب مانتے ہو یا اللہ تعالیٰ تم پر پہاڑ گرا کر تمہیں فنا کر دے ؟ اسی وقت یہ سب کے سب مارے ڈر کے سجدے میں گر پڑے لیکن بائیں آنکھ سجدے میں تھی اور دائیں سے اوپر دیکھ رہے تھے کہ کہیں پہاڑ گر نہ پڑے ۔ چنانچہ یہودیوں میں اب تک سجدے کا طریقہ یہی ہے ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اسی طرح کے سجدے نے ہم پر سے عذاب الٰہی دور کر دیا ہے ۔ پھر جب موسیٰ علیہ السلام نے ان تختیوں کو کھولا تو ان میں کتاب تھی جسے خود اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے لکھا تھا ۔ اسی وقت تمام پہاڑ ، درخت ، پتھر سب کانپ اٹھے ۔ آج بھی یہودی تلاوت تورات کے وقت کانپ اٹھتے ہیں اور ان کے سر جھک جاتے ہیں ۔ الاعراف
172 ہر روح نے اللہ تعالٰی کو اپنا خالق مانا اولاد آدم علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے ان کی نسلیں ان کی پیٹھوں سے روز اول میں نکالیں ۔ پھر ان سب سے اس بات کا اقرار لیا کہ رب ، خالق ، مالک ، معبود صرف وہی ہے ۔ اسی فطرت پر پھر دنیا میں ان سب کو ان کے وقت پر اس نے پیدا کیا ۔ یہی وہ فطرت ہے جس کی تبدیلی نا ممکن ہے ۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ { ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:1385) ایک روایت میں ہے کہ { اس دین پر پیدا ہوتا ہے ، پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی ، نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں ۔ جیسے کہ بکری کا بچہ صحیح سالم پیدا ہوتا ہے لیکن پھر لوگ اس کے کان کاٹ دیتے ہیں ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:4775) حدیث قدسی میں ہے کہ { میں نے اپنے بندوں کو موحد و مخلص پیدا کیا ۔ پھر شیطان نے آ کر انہیں ان کے سچے دین سے بہکا کر میری حلال کردہ چیزیں ان پر حرام کر دیں ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:2865) قبیلہ بنو سعد کے ایک صحابی { سیدنا اسود بن سریع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چار غزوے کئے ۔ لوگوں نے لڑنے والے کفار کے قتل کے بعد ان کے بچوں کو بھی پکڑ لیا ، جب آپ کو اس کا علم ہوا تو بہت ناراض ہوئے اور فرمایا : لوگ ان بچوں کو کیوں پکڑ رہے ہیں ؟ کسی نے کہا : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ بھی تو مشرکوں کے ہی بچے ہیں ؟ فرمایا : سنو ! تم میں سے بہتر لوگ مشرکین کی اولاد میں ہیں ۔ یاد رکھو ! ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے ۔ پھر زبان چلنے پر اس کے ماں باپ یہودیت یا نصرانیت کی تعلیم دینے لگتے ہیں ۔ } اس کے راوی حسن فرماتے ہیں : اسی کا ذکر اس آیت میں ہے کہ اللہ نے اولاد آدم سے اپنی توحید کا اقرار لیا ہے ۔ [ ابن جریر ] ۱؎ (مسند احمد:435/3:ضعیف) اس اقرار کے بارے میں کئی ایک حدیثیں مروی ہیں ۔ مسند احمد میں ہے کہ { قیامت کے دن دوزخی سے کہا جائے گا : اگر تمام دنیا تیری ہو تو کیا تو خوش ہے کہ اسے اپنے فدئیے میں دے کر میرے عذابوں سے آج بچ جائے ؟ وہ کہے گا : ہاں ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : میں نے تو اس سے بہت ہلکے درجے کی چیز تجھ سے طلب کی تھی اور اس کا وعدہ بھی تجھ سے لے لیا تھا کہ میرے سوا تو کسی اور کی عبادت نہ کرے ۔ لیکن تو اسے توڑے بغیر نہ رہا اور دوسرے کو میرا شریک عبادت ٹھہرایا ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:3334) مسند میں ہے : نعمان نامی میدان میں اللہ تعالیٰ نے پشت آدم میں سے عرفے کے دن ان کی تمام اولاد ظاہر فرمائی ۔ سب کو اس کے سامنے پھیلا دیا اور فرمایا : کیا میں تم سب کا رب نہیں ہوں ؟ سب نے کہا : ہاں ! ہم گواہ ہیں ۔ پھر آپ نے «مُبْطِلُوْنَ» تک آیت تلاوت فرمائی ۔ } ۱؎ (مسند احمد:272/1:صحیح) یہ روایت موقوف سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی مروی ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اس وقت لوگ چیونٹیوں کی طرح تھے اور تر زمین پر تھے ۔ ضحاک بن مزاحم کے چھ دن کی عمر کے صاحبزادے کا انتقال ہو گیا تو آپ نے فرمایا : جابر اسے دفن کر کے اس کا منہ کفن سے کھول دینا اور گرہ بھی کھول دینا کیونکہ میرا یہ بچہ بٹھا دیا جائے گا اور اس سے سوال کیا جائے گا ۔ جابر نے حکم کی بجا آوری کی ۔ پھر میں نے پوچھا کہ آپ کے بچے سے کیا سوال ہو گا ؟ اور کون سوال کرے گا ؟ فرمایا : اس میثاق کے بارے میں جو صلب آدم میں لیا گیا ہے ، سوال کیا جائے گا ۔ میں نے پوچھا : وہ میثاق کیا ہے ؟ فرمایا : میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا تو جتنے انسان قیامت تک پیدا ہونے والے ہیں ، سب کی روحیں آ گئیں ۔ اللہ نے ان سے عہد و پیمان لیا کہ وہ اسی کی عبادت کریں گے ، اس کے سوا کسی اور کو معبود نہیں مانیں گے ۔ خود ان کے رزق کا کفیل بنا ، پھر انہیں صلب آدم میں لوٹا دیا ۔ پس یہ سب قیامت سے پہلے ہی پہلے پیدا ہوں گے ۔ جس نے اس وعدے کو پورا کیا اور اپنی زندگی میں اس پر قائم رہا ، اسے وہ وعدہ نفع دے گا اور جس نے اپنی زندگی میں اس کی خلاف ورزی کی ، اسے پہلے کا وعدہ کچھ فائدہ نہ دے گا ۔ اور جو بچپن میں ہی مر گیا ، وہ میثاق اول پر اور فطرت پر مرا ۔ ان آثار سے بھی بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ اوپر والی حدیث کا موقوف ہونا ہی اکثر اور زیادہ ثبوت والا ہے ۔ ابن جریر رحمہ اللہ کی حدیث میں ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : { بنی آدم کی پیٹھ سے اللہ تعالیٰ نے ان کی نسلیں ایسے نکالیں جیسے کنگھی بالوں میں سے نکلتی ہے ۔ ان سے اپنی ربوبیت کا سوال کیا ، انہوں نے اقرار کیا ، فرشتوں نے شہادت دی ۔ اس لیے کہ یہ لوگ قیامت کے دن اس سے غفلت کا بہانہ نہ کریں ۔ } ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:15365) { سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے اس آیت کی تفسیر پوچھی گئی تو آپ نے فرمایا : یہی سوال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا تھا تو آپ نے میرے سنتے ہوئے فرمایا کہ اللہ عزوجل نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا ۔ اپنے داہنے ہاتھ سے ان کی پیٹھ کو چھوا ، اس سے اولاد نکلی ۔ فرمایا : میں نے انہیں جہنم کے لئے پیدا کیا ہے ، یہ جہنمیوں کے اعمال کریں گے تو آپ سے سوال ہوا کہ پھر عمل کس گنتی میں ہیں ؟ آپ نے فرمایا : جو جنتی ہے ، اس سے مرتے دم تک جنتیوں کے ہی اعمال سرزد ہوں گے اور جنت میں جائے گا ۔ ہاں ! جو جہنم کے لئے پیدا کیا گیا ہے ، اس سے وہی اعمال سرزد ہوں گے ، انہی پر مرے گا اور جہنم میں داخل ہو گا ۔ } ۱؎ (سنن ابوداود:4703،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) [ ابوداؤد ] اور حدیث میں ہے کہ { اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو نکال کر ان کی دونوں آنکھوں کے درمیان ایک نور رکھ کر آدم علیہ السلام کے سامنے پیش کیا ۔ انہوں نے پوچھا کہ یااللہ ! یہ کون ہیں ؟ فرمایا : یہ تیری اولاد ہے ۔ ان میں سے ایک کے ماتھے کی چمک آدم علیہ السلام کو بہت اچھی لگی ۔ پوچھا : یااللہ ! یہ کون ہے ؟ جواب ملا کہ یہ تیری اولاد میں سے بہت دور جا کر ہیں ، ان کا نام داؤد ہے ۔ پوچھا : ان کی عمر کیا ہے ؟ فرمایا : ساٹھ سال ۔ کہا : یااللہ ! چالیس سال میری عمر میں سے ان کی عمر میں زیادہ کر ۔ پس جب آدم علیہ السلام کی روح کو قبض کرنے کے لئے فرشتہ آیا تو آپ نے فرمایا : میری عمر میں سے تو ابھی چالیس سال باقی ہیں ۔ فرشتے نے کہا : آپ کو یاد نہیں کہ آپ نے یہ چالیس سال اپنے بچے داؤد کو ہبہ کر دیئے ہیں ۔ بات یہ ہے کہ چونکہ آدم علیہ السلام نے انکار کیا تو ان کی اولاد بھی انکار کی عادی ہے ۔ آدم علیہ السلام خود بھول گئے ، ان کی اولاد بھی بھولتی ہے ۔ آدم علیہ السلام نے خطا کی ، ان کی اولاد بھی خطا کرتی ہے ۔ } ۱؎ (سنن ترمذی:3076،قال الشیخ الألبانی:صحیح) یہ حدیث ترمذی میں ہے ، امام ترمذی رحمہ اللہ اسے حسن صحیح لکھتے ہیں ۔ اور روایت میں ہے کہ { جب آدم علیہ السلام نے دیکھا کہ کوئی ان میں جذامی ہے ، کوئی کوڑھی ہے ، کوئی اندھا ہے ، کوئی بیمار ہے تو پوچھا کہ یااللہ ! اس میں کیا مصلحت ہے ؟ فرمایا : یہ کہ میرا شکریہ ادا کیا جائے ۔ آدم علیہ السلام نے پوچھا کہ یااللہ ! ان میں سے یہ زیادہ روشن اور نورانی چہروں والے کون ہیں ؟ فرمایا : یہ انبیاء ہیں الخ ۔ } ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:8535/5:ضعیف) { کسی شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ہم جو کچھ کرتے ہیں ، یہ ہمارا ذاتی عمل ہے یا کہ فیصل شدہ ہے ؟ آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی اولاد کو ان کی پیٹھوں سے نکالا ہے ۔ انہیں گواہ بنایا پھر اپنی دونوں مٹھیوں میں لے لیا اور فرمایا : یہ جنتی ہیں اور یہ جہنمی ۔ پس اہل جنت پر تو نیک کام آسان ہوتے ہیں اور دوزخیوں پر برے کام آسان ہوتے ہیں ۔ } ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:15377:حسن بالشواھد) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : { جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا اور قصہ ختم کیا تو جن کے دائیں ہاتھ میں نامہ اعمال ملنے والا ہے ، انہیں اپنی داہنی مٹھی میں لیا اور بائیں والوں کو بائیں مٹھی میں لیا ۔ پھر فرمایا : اے دائیں طرف والو ! انہوں نے کہا : «لبیک و سعدیک» ۔ فرمایا : کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ سب نے کہا : ہاں ۔ پھر فرمایا : اے بائیں طرف والو ! انہوں نے کہا : «لبیک و سعدیک» ۔ فرمایا : کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ سب نے کہا : ہاں ۔ پھر سب کو ملا دیا ۔ کسی نے پوچھا : یہ کیوں کیا ؟ فرمایا : اس لیے کہ ان کے لیے اور اعمال ہیں ، جنہیں یہ کرنے والے ہیں ۔ یہ تو صرف اس لیے کہلوایا گیا ہے کہ انہیں یہ عذر نہ رہے کہ ہم اس سے غافل تھے ۔ پھر سب کو صلب آدم علیہ السلام میں لوٹا دیا ۔ } ۱؎ (طبرانی کبیر:7943:ضعیف جداً) ابی بن کعب فرماتے ہیں کہ اس دن سب کو جمع کیا ، صورتیں دیں ، بولنے کی طاقت دی ، پھر عہد و میثاق لیا اور اپنے رب ہونے پر خود انہیں گواہ بنایا اور ساتوں آسمانوں ، ساتوں زمینوں اور آدم علیہ السلام کو گواہ کیا کہ قیامت کے دن کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ہمیں علم نہ تھا ۔ جان لو کہ میرے سوا کوئی اور معبود نہیں ، نہ میرے سوا کوئی اور مربی ہے ۔ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا ۔ میں اپنے رسولوں کو بھیجوں گا جو تمہیں یہ وعدہ یاد دلائیں گے ۔ میں اپنی کتابیں اتاروں گا تاکہ تمہیں یہ عہد و میثاق یاد دلاتی رہیں ۔ سب نے جواب میں کہا : ہم گواہی دیتے ہیں کہ تو ہی ہمارا رب ہے ، تو ہی ہمارا معبود ہے ، تیرے سوا ہمارا کوئی مربی نہیں ۔ پس سب سے اطاعت کا وعدہ لیا ۔ اب جو آدم علیہ السلام نے نظر اٹھا کر دیکھا تو امیر ، غریب ، خوبصورت اور اس کے سوا مختلف لوگوں پر نظر پڑی تو آپ کہنے لگے : کیا اچھا ہوتا کہ سب برابر ایک ہی حالت میں ہوتے تو جواب ملا کہ یہ اس لیے ہے کہ ہر شخص میری شکر گزاری کرے ۔ آپ نے دیکھا کہ ان میں اللہ کے پیغمبر بھی ہیں ، ان سے پھر علیحدہ ایک اور میثاق لیا گیا ۔ جس کا بیان آیت «وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِیِّینَ مِیثَاقَہُمْ» ۱؎ (33-الأحزاب:7) میں ہے ۔ اسی عام میثاق کا بیان آیت «فَأَقِمْ وَجْہَکَ لِلدِّینِ حَنِیفًا فِطْرَتَ اللہِ » ۱؎ (30-الروم:30) میں ہے ۔ اسی لیے فرمان ہے «ہٰذَا نَذِیرٌ مِّنَ النٰذُرِ الْأُولَیٰ» ۱؎ (53-النجم:56) اسی کا بیان اس آیت میں ہے «وَمَا وَجَدْنَا لِأَکْثَرِہِم مِّنْ عَہْدٍ» ۱؎ (7-الأعراف:102) [ مسند احمد ] مجاہد ، عکرمہ ، سعید بن جبیر ، حسن ، قتادہ ، سدی اور بہت سے سلف رحمۃ اللہ علیہم سے ان احادیث کے مطابق اقوال مروی ہیں جن سب کے وارد کرنے سے بہت طول ہو جائے گا ۔ ماحصل سب کا یہی ہے جو ہم نے بیان کر دیا ۔ اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو آپ کی پیٹھ سے نکالا ۔ جنتی ، دوزخی الگ الگ کئے اور وہیں ان کو اپنے رب ہونے پر گواہ کر لیا ۔ یہ جن دو احادیث میں ہے ، وہ دونوں مرفوع نہیں بلکہ موقوف ہیں ۔ اسی لیے سلف و خلف میں اس بات کے قائل گزرے ہیں کہ اس سے مراد فطرت پر پیدا کرنا ہے ۔ جیسے کہ مرفوع اور صحیح احادیث میں وارد ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آیت میں «مِن بَنِی آدَمَ» فرمایا اور «مِن ظُہُورِہِمْ» کہا ، ورنہ «مِنْ اٰدَمَ» اور «مِنْ ظَھْرِہِ» ہوتا ۔ ان کی نسلیں اس روز نکالی گئیں جو کہ یکے بعد دیگرے مختلف قرنوں میں ہونے والی تھیں ۔ جیسے فرمان ہے «وَہُوَ الَّذِی جَعَلَکُمْ خَلَائِفَ الْأَرْضِ» ۱؎ (6-الأنعام:165) ’ اللہ ہی نے تمہیں زمین میں دوسروں کا جانشین کیا ہے ۔ ‘ اور جگہ ہے : وہی تمہیں زمین کا خلیفہ بنا رہا ہے ۔ اور آیت میں ہے : جیسے تمہیں دوسرے لوگوں کی اولاد میں کیا ۔ الغرض حال و قال سے سب نے اللہ کے رب ہونے کا اقرار کیا ۔ شہادت قولی ہوتی ہے . جیسے آیت «قَالُوا شَہِدْنَا عَلَیٰ أَنفُسِنَا» ۱؎ (6-الأنعام:130) میں ۔ اور شہادت کبھی حال ہوتی ہے ۔ جیسے آیت «مَا کَانَ لِلْمُشْرِکِینَ أَن یَعْمُرُوا مَسَاجِدَ اللہِ شَاہِدِینَ عَلَیٰ أَنفُسِہِم بِالْکُفْرِ» ۱؎ (9-التوبۃ:17) میں یعنی ان کا حال ان کے کفر کی کھلی اور کافی شہادت ہے ۔ اس طرح کی آیت «وَإِنَّہُ عَلَیٰ ذٰلِکَ لَشَہِیدٌ» ۱؎ (100-العادیات:7) ہے ۔ اسی طرح سوال بھی کبھی زبان سے ہوتا ہے ، کبھی حال سے ۔ جیسے فرمان ہے «وَآتَاکُم مِّن کُلِّ مَا سَأَلْتُمُوہُ» ۱؎ (14-إبراہیم:34) ’ اس نے تمہیں تمہارا منہ مانگا دیا ۔ ‘ کہتے ہیں کہ اس بات کی دلیل بھی ہے کہ ان کے شرک کرنے پر یہ حجت ان کے خلاف پیش کی ۔ پس اگر یہ واقع میں ہوا ہوتا ، جیسا کہ ایک قول ہے تو چاہیئے تھا کہ ہر ایک کو یاد ہوتا تاکہ اس پر حجت رہے ۔ اگر اس کا جواب یہ ہو کہ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے خبر پا لینا کافی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ رسولوں کو ہی نہیں مانتے ، وہ رسولوں کی دی ہوئی خبروں کو کب صحیح جانتے ہیں ؟ حالانکہ قرآن کریم نے رسولوں کی تکذیب کے علاوہ خود اس شہادت کو مستقل دلیل ٹھہرایا ہے ۔ پس اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ اس سے مراد فطرت ربانی ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے ساری مخلوق کو پیدا کیا ہے اور وہ فطرت توحید باری تعالیٰ ہے ۔ اسی لیے فرمایا ہے کہ یہ اس لیے کہ تم قیامت کے دن یہ نہ کہہ سکو کہ ہم توحید سے غافل تھے اور یہ بھی نہ کہہ سکو کہ شرک تو ہمارے اگلے باپ دادوں نے کیا تھا ، ان کے اس ایجاد کردہ گناہ پر ہمیں سزا کیوں ؟ پھر تفصیل وار آیات کا بیان فرمانے کا راز ظاہر کیا کہ اس کو سن کر برائیوں سے باز آ جانا ممکن ہو جاتا ہے ۔ الاعراف
173 الاعراف
174 الاعراف
175 بلعم بن باعورا مروی ہے کہ جس کا واقعہ ان آیتوں میں بیان ہو رہا ہے اس کا نام ” بلعم بن باعوراء “ ہے ۔ یہ بھی کہ کہا گیا ہے کہ اس کا نام ” صیفی بن راہب “ تھا ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ بلقاء کا ایک شخص تھا جو اسم اعظم جانتا تھا اور جبارین کے سات بیت المقدس میں رہا کرتا تھا ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ یمنی شخص تھا جس نے کلام اللہ کو ترک کر دیا تھا ۔ یہ شخص بنی اسرائیل کے علماء میں سے تھا ، اس کی دعا مقبول ہو جایا کرتی تھی ۔ بنی اسرائیل سختیوں کے وقت اسے آگے کر دیا کرتے تھے ، اللہ اس کی دعا مقبول فرما لیا کرتا تھا ۔ اسے موسیٰ علیہ السلام نے مدین کے بادشاہ کی طرف اللہ کے دین کی دعوت دینے کے لئے بھیجا تھا ۔ اس عقلمند بادشاہ نے اسے مکر و فریب سے اپنا کر لیا ، اس کے نام کئی گاؤں کر دیئے اور بہت کچھ انعام و اکرام دیا ۔ یہ بد نصیب دین موسوی کو چھوڑ کر اس کے مذہب میں جا ملا ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کا نام ” بلعام “ تھا ۔ یہ بھی ہے کہ یہ ” امیہ بن ابوصلت “ ہے ۔ ممکن ہے کہ یہ کہنے والے کی یہ مراد ہو کہ یہ امیہ بھی اسی کے مشابہ تھا ، اسے بھی اگلی شریعتوں کا علم تھا لیکن یہ ان سے فائدہ نہ اٹھا سکا ۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کو بھی اس نے پایا ، آپ کی آیات و بینات دیکھیں ، معجزے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیے ، ہزارہا کو دین حق میں داخل ہوتے دیکھا ، لیکن مشرکین کے میل جول ، ان میں امتیاز ، ان میں دوستی اور وہاں کی سرداری کی ہوس نے اسے اسلام اور قبول حق سے روک دیا ۔ اسی نے بدری کافروں کے ماتم میں مرثیے کہے ، «لعنتہ اللہ» ۔ بعض احادیث میں وارد ہے کہ { اس کی زبان تو ایمان لا چکی تھی لیکن دل مومن نہیں ہوا تھا ۔ کہتے ہیں کہ اس شخص سے اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا تھا کہ اس کی تین دعائیں جو بھی یہ کرے گا ، مقبول ہوں گی ۔ اس کی بیوی نے ایک مرتبہ اس سے کہا کہ ان تین دعاؤں میں سے ایک دعا میرے لیے کر ۔ اس نے منظور کر لیا اور پوچھا : کیا دعا کرانا چاہتی ہو ؟ اس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس قدر حسن و خوبصورتی عطا فرمائے کہ مجھ سے زیادہ حسین عورت بنی اسرائیل میں کوئی نہ ہو ۔ { اس نے دعا کی اور وہ ایسی ہی حسین ہو گئی ۔ اب تو اس نے پر نکالے اور اپنے میاں کو محض بے حقیقت سمجھنے لگی ، بڑے بڑے لوگ اس کی طرف جھکنے لگے اور یہ بھی ان کی طرف مائل ہو گئی ۔ اس سے یہ بہت کڑھا اور اللہ سے دعا کی کہ یااللہ ! اسے کتیا بنا دے ۔ یہ بھی منظور ہوئی ، وہ کتیا بن گئی ۔ اب اس کے بچے آئے ، انہوں نے گھیر لیا کہ آپ نے غضب کیا ۔ لوگ ہمیں طعنہ دیتے ہیں اور ہم کتیا کے بچے مشہور ہو رہے ہیں ۔ آپ دعا کیجئے کہ اللہ اسے اس کی اصلی حالت میں پھر سے لا دے ۔ اس نے وہ تیسری دعا بھی کر لی ، تینوں دعائیں یوں ہی ضائع ہو گئیں اور یہ خالی ہاتھ بےخیر رہ گیا ۔ } ۱؎ (الدر المنشور للسیوطی:266/3:ضعیف) مشہور بات تو یہی ہے کہ بنی اسرائیل کے بزرگوں میں سے یہ ایک شخص تھا ۔ بعض لوگوں نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ یہ نبی تھا ۔ یہ محض غلط ہے ، بالکل جھوٹ ہے اور کھلا افترا ہے ۔ مروی ہے کہ { موسیٰ علیہ السلام جب قوم جبارین سے لڑائی کے لیے بنی اسرائیل کی ہمراہی میں گئے ، انہی جبارین میں بلعام نامی یہ شخص تھا ، اس کی قوم اور اس کے قرابت دار چچا وغیرہ سب اس کے پاس آئے اور کہا کہ موسیٰ علیہ السلام اور اس کی قوم کے لیے آپ بد دعا کیجئے ۔ اس نے کہا : یہ نہیں ہو سکتا ، اگر میں ایسا کروں گا تو میری دنیا و آخرت دونوں خراب ہو جائیں گی لیکن قوم سر ہو گئی ۔ یہ بھی لحاظ مروت میں آ گیا ۔ بد دعا کی ، اللہ تعالیٰ نے اس سے کرامت چھین لی اور اسے اس کے مرتبے سے گرا دیا ۔ } ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:122/6) سدی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ جب بنی اسرائیل کو وادی تیہ میں چالیس سال گزر گئے تو اللہ تعالیٰ نے یوشع بن نون علیہ السلام کو نبی بنا کر بھیجا ۔ انہوں نے فرمایا کہ مجھے حکم ہوا ہے کہ میں تمہیں لے کر جاؤں اور ان جبارین سے جہاد کروں ۔ یہ آمادہ ہو گئے ، بیعت کر لی ۔ انہی میں بلعام نامی ایک شخص تھا جو بڑا عالم تھا ، اسم اعظم جانتا تھا ۔ یہ بد نصیب کافر ہو گیا ، قوم جبارین میں جا ملا اور ان سے کہا : تم نہ گھبراؤ ۔ جب بنی اسرائیل کا لشکر آ جائے گا ، میں ان پر بد دعا کروں گا تو وہ دفعتاً ہلاک ہو جائے گا ۔ اس کے پاس تمام دنیوی ٹھاٹھ تھے لیکن عورتوں کی عظمت کی وجہ سے یہ ان سے نہیں ملتا تھا بلکہ ایک گدھی پال رکھی تھی ۔ اسی بد قسمت کا ذکر اس آیت میں ہے ۔ شیطان اس پر غالب آ گیا ، اسے اپنے پھندے میں پھانس لیا ۔ جو وہ کہتا تھا ، یہ کرتا تھا ۔ آخر ہلاک ہو گیا ۔ مسند ابویعلیٰ موصلی میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تم پر سب سے زیادہ اس سے ڈرتا ہوں جو قران پڑھ لے گا ، جو اسلام کی چادر اوڑھے ہوئے ہو گا اور دینی ترقی پر ہو گا کہ ایک دم اس سے ہٹ جائے گا ، اسے پس پشت ڈال دے گا ، اپنے پڑوسی پر تلوار لے دوڑے گا اور اسے شرک کی تہمت لگائے گا ۔ سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر دریافت کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مشرک ہونے کے زیادہ قابل کون ہو گا ؟ یہ تہمت لگانے والا یا وہ جسے تہمت لگا رہا ہے ؟ فرمایا : نہیں بلکہ تہمت دھرنے والا ۔ } ۱؎ (المطالب العالیہ لابن حجر:273/4-274) پھر فرمایا کہ اگر ہم چاہتے تو قادر تھے کہ اسے بلند مرتبے پر پہنچائیں ، دنیا کی آلائشوں سے پاک رکھیں ، اپنی دی ہوئی آیتوں کی تابعداری پر قائم رکھیں لیکن وہ دنیوی لذتوں کی طرف جھک پڑا یہاں تک کہ شیطان کا پورا مرید ہو گیا ، اسے سجدہ کر لیا ۔ کہتے ہیں کہ اس بلعام سے لوگوں نے درخواست کی کہ آپ موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کے حق میں بد دعا کیجئے ۔ اس نے کہا : اچھا ! میں اللہ سے حکم لے لوں ۔ جب اس نے اللہ تعالیٰ سے مناجات کی تو اسے معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل مسلمان ہیں اور ان میں اللہ کے نبی موجود ہیں ۔ اس نے سب سے کہا کہ مجھے بد دعا کرنے سے روک دیا گیا ہے ۔ انہوں نے بہت سارے تحفے تحائف جمع کر کے اسے دیئے ، اس نے سب رکھ لیے ۔ پھر دوبارہ درخواست کی کہ ہمیں ان سے بہت خوف ہے ، آپ ضرور ان پر بد دعا کیجئے ۔ اس نے جواب دیا کہ جب تک میں اللہ تعالیٰ سے اجازت نہ لے لوں ، میں ہرگز یہ نہ کروں گا ۔ اس نے پھر اللہ سے مناجات کی لیکن اسے کچھ معلوم نہ ہو سکا ۔ اس نے یہی جواب انہیں دیا تو انہوں نے کہا : دیکھو ! اگر منع ہی مقصود ہوتا تو آپ کو روک دیا جاتا جیسا کہ اس سے پہلے روک دیا گیا ۔ اس کی بھی سمجھ میں آ گیا ، اٹھ کر بد دعا شروع کی ۔ اللہ کی شان سے بد دعا ان پر کرنے کے بجائے اس کی زبان سے اپنی ہی قوم کے لیے بد دعا نکلی اور جب اپنی قوم کی فتح کی دعا مانگنا چاہتا تو بنی اسرائیل کی فتح و نصرت کی دعا نکلتی ۔ قوم نے کہا : آپ کیا غضب کر رہے ہیں ؟ اس نے کہا : کیا کروں ؟ میری زبان میرے قابو میں نہیں ۔ سنو ! اگر سچ مچ میری زبان سے ان کے لیے بد دعا نکلی تو قبول نہ ہو گی ۔ سنو ! اب میں تمہیں ایک ترکیب بتاتا ہوں ، اگر تم اس میں کامیاب ہو گئے تو سمجھ لو کہ بنی اسرائیل برباد ہو جائیں گے ۔ تم اپنی نوجوان لڑکیوں کو بناؤ سنگھار کرا کے ان کے لشکروں میں بھیجو اور انہیں ہدایت کر دو کہ کوئی ان کی طرف جھکے تو یہ انکار نہ کریں ۔ ممکن ہے کہ بوجہ مسافرت یہ لوگ زناکاری میں مبتلا ہو جائیں ۔ اگر یہ ہوا تو چونکہ حرام کاری اللہ کو سخت ناپسند ہے ، اسی وقت ان پر عذاب آ جائے گا اور یہ تباہ ہو جائیں گے ۔ ان بےغیرتوں نے اس بات کو مان لیا اور یہی کیا ۔ خود بادشاہ کی بڑی حسین و جمیل لڑکی بھی بن ٹھن کر نکلی ۔ اسے ہدایت کر دی تھی کہ سوائے موسیٰ علیہ السلام کے اور کسی کو اپنا نفس نہ سونپے ۔ یہ عورتیں جب بنی اسرائیل کے لشکر میں پہنچیں تو عام لوگ بےقابو ہو گئے ، حرام کاری سے بچ نہ سکے ۔ شہزادی بنی اسرائیل کے ایک سردار کے پاس پہنچی ، اس سردار نے اس لڑکی پر ڈورے ڈالے لیکن اس لڑکی نے انکار کیا ۔ اس نے بتایا کہ میں فلاں فلاں ہوں ، اس نے اپنے باپ سے یا بلعام سے پچھوایا ، اس نے اجازت دی ۔ یہ خبیث اپنا منہ کالا کر رہا تھا جسے ہارون علیہ السلام کی اولاد میں سے کسی صاحب نے دیکھ لیا ، اپنے نیزے سے ان دونوں کو پرو دیا ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے دست و بازی قوی کر دیئے ، اس نے یونہی ان دونوں کو چھدے ہوئے اٹھا لیا ۔ لوگوں نے بھی انہیں دیکھ لیا ۔ اب اس لشکر پر عذاب رب بشکل طاعون آیا اور ستر ہزار آدمی فوراً ہلاک ہو گئے ۔ بلعام اپنی گدھی پر سوار ہو کر چلا ، وہ ایک ٹیلے پر چڑھ کر رک گئی ۔ اب بلعام اسے مارتا پیٹتا ہے لیکن وہ قدم نہیں اٹھاتی ۔ آخر گدھی نے اس کی طرف دیکھا اور کہا : مجھے کیوں مارتا ہے ، سامنے دیکھ کون ہے ؟ اس نے دیکھا تو شیطان لعین کھڑا ہوا تھا ، یہ اتر پڑا اور سجدے میں گر گیا ۔ الغرض ایمان سے خالی ہو گیا ۔ اس کا نام یا تو بلعام تھا یا بلعم بن باعوراء یا ابن ابر یا ابن باعور بن شہتوم بن قوشتم بن مآب بن لوط بن ہاران یا ابن حران بن آزر ۔ یہ بلقا کا رئیس تھا ، اسم اعظم جانتا تھا لیکن اخیر میں دین حق سے ہٹ گیا ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ ایک روایت میں ہے کہ قوم کے زیادہ کہنے سننے سے جب یہ اپنی گدھی پر سوار ہو کر بد دعا کے لیے چلا تو اس کی گدھی بیٹھ گئی ۔ اس نے اسے مار پیٹ کر اٹھایا ، کچھ دور چل کر پھر بیٹھ گئی ۔ اس نے اسے پھر مار پیٹ کر اٹھایا ، اسے اللہ نے زبان دی ۔ اس نے کہا : تیرا ناس جائے ! تو کہاں اور کیوں جا رہا ہے ؟ اللہ کے مقابلے کو ، اس کے رسول سے لڑنے اور مومنوں کو نقصان دلانے جا رہا ہے ؟ دیکھو تو سہی ! فرشتے میری راہ روکے کھڑے ہیں ۔ اس نے پھر بھی کچھ خیال نہ کیا ، آگے بڑھ گیا ۔ حبان نامی پہاڑی پر چڑھ گیا جہاں سے بنو اسرائیل کا لشکر سامنے ہی نظر آتا تھا ۔ اب ان کے لئے بد دعا اور اپنی قوم کے لیے دعائیں کرنے لگا لیکن زبان الٹ گئی ، دعا کی جگہ بد دعا اور بد دعا کی جگہ دعا نکلنے لگی ۔ قوم نے کہا : کیا کر رہے ہو ؟ کہا بےبس ہوں ۔ اسی وقت اس کی زبان نکل پڑی ، سینے پر لٹکنے لگی ۔ اس نے کہا : لو میری دنیا بھی خراب ہوئی اور دین تو بالکل برباد ہو گیا ۔ پھر اس نے خوبصورت لڑکیاں بھیجنے کی ترکیب بتائی جیسے کہ اوپر بیان ہوا اور کہا کہ اگر ان میں سے ایک نے بھی بدکاری کر لی تو ان پر عذاب رب آ جائے گا ۔ ان عورتوں میں سے ایک بہت ہی حسین عورت جو کنعانیہ تھی اور جس کا نام کسبی تھا جو صور نامی ایک رئیس کی بیٹی تھی ، جب وہ بنی اسرائیل کے ایک بہت بڑے سردار زمری بن شلوم کے پاس سے گزری جو شمعون بن یعقوب کی نسل میں سے تھا ، وہ اس پر فریفتہ ہو گیا ۔ دلیری کے ساتھ اس کا ہاتھ تھامے ہوئے موسیٰ علیہ السلام کے پاس گیا اور کہنے لگا : آپ تو شاید کہہ دیں گے کہ یہ مجھ پر حرام ہے ؟ آپ نے کہا : بیشک ۔ اس نے کہا : اچھا ! میں آپ کی یہ بات تو نہیں مان سکتا ، اسے اپنے خیمے میں لے گیا اور اس سے منہ کالا کرنے لگا ۔ وہیں اللہ تعالیٰ نے ان پر طاعون بھیج دیا ۔ فنحاض بن عیزار بن ہارون اس وقت لشکر گاہ سے کہیں باہر گئے ہوئے تھے ، جب آئے تو تمام حقیقت سنی تو بیتاب ہو کر غصے کے ساتھ اس بد کردار کے خیمے میں پہنچے اور اپنے نیزے میں ان دونوں کو پرو لیا اور اپنے ہاتھ میں نیزہ لیے ہوئے انہیں اوپر اٹھائے ہوئے باہر نکلے ۔ کہنی کوکھ پر لگائے ہوئے کہنے لگے : یااللہ ! ہمیں معاف فرما ۔ ہم پر سے یہ وبا دور فرما ۔ دیکھ لے ، ہم تیرے نافرمانوں کے ساتھ یہ کرتے ہیں ۔ ان کی دعا اور اس فعل سے طاعون اٹھ گیا لیکن اتنی دیر میں جب حساب لگایا گیا تو ستر ہزار آدمی اور ایک روایت کی رو سے بیس ہزار مر چکے تھے ۔ دن کا وقت تھا اور کنعانیوں کی یہ چھوکریاں سودا بیچنے کے بہانے صرف اس لیے آئی تھیں کہ بنو اسرائیل بدکاری میں پھنس جائیں اور ان پر اللہ کے عذاب آ جائیں ۔ بنو اسرائیل میں اب تک یہ دستور چلا آتا ہے کہ وہ اپنے ذبیحہ میں سے گردن اور دست اور سری اور ہر قسم کا سب سے پہلے پھل فنحاص کی اولاد کو دیا کرتے ہیں ۔ اسی بلعام بن باعوراء کا ذکر ان آیتوں میں ہے ۔ فرمان ہے کہ اس کی مثال کتے کی سی ہے کہ خالی ہے تو ہانپتا ہے اور دھتکارا جائے تو ہانپتا رہتا ہے ۔ یا تو اس مثال سے یہ مطلب ہے کہ بلعام کی زبان نیچے کو لٹک پڑی تھی جو پھر اندر کو نہ ہوئی ، کتے کی طرح ہانپتا رہتا تھا اور زبان باہر لٹکائے رہتا تھا ۔ یہ بھی معنی ہیں کہ اس کی ضلالت اور اس پر جمے رہنے کی مثال دی کہ اسے ایمان کی دعوت ، علم کی دولت غرض کسی چیز نے برائی سے نہ ہٹایا ۔ جیسے کتے کی زبان لٹکنے کی حالت برابر قائم رہتی ہے خواہ اسے پاؤں تلے روندو خواہ چھوڑ دو ۔ جیسے بعض کفار مکہ کی نسبت فرمان ہے کہ ’ انہیں وعظ و پند کہنا ، نہ کہنا سب برابر ہے ۔ انہیں ایمان نصیب نہیں ہونے کا ۔ ‘ ۱؎ (2-البقرۃ:6) اور جیسے بعض منافقوں کی نسبت فرمان ہے کہ ’ ان کے لیے تو استغفار کر یا نہ کر ، اللہ انہیں نہیں بخشے گا ۔ ‘ ۱؎ (9-التوبۃ:80) یہ بھی مطلب اس مثال کا بیان کیا گیا ہے کہ ان کافروں ، منافقوں اور گمراہ لوگوں کے دل بودے اور ہدایت سے خالی ہیں ، یہ کبھی مطمئن نہیں ہوتے ۔ پھر اللہ عزوجل اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ تو انہیں پند و نصیحت کرتا رہ تاکہ ان میں سے جو عالم ہیں ، وہ غور و فکر کر کے اللہ کی راہ پر آ جائیں ۔ یہ سوچیں کہ بلعام ملعون کا کیا حال ہوا ؟ دینی علم جیسی زبردست دولت کو جس نے دنیا کی سفلی راحت پر کھو دیا ۔ آخر نہ یہ ملا نہ وہ ۔ دونوں ہاتھ خالی رہ گئے ۔ اسی طرح یہ علماء یہود جو اپنی کتابوں میں اللہ کی ہدایتیں پڑھ رہے ہیں ، آپ کے اوصاف لکھے پاتے ہیں ، انہیں چاہیئے کہ دنیا کی طمع میں پھنس کر اپنے مریدوں کو پھانس کر پھول نہ جائیں ورنہ یہ بھی اسی کی طرح دنیا میں کھو دیئے جائیں گے ۔ انہیں چاہیئے کہ اپنی علمیت سے فائدہ اٹھائیں ۔ سب سے پہلے تیری اطاعت کی طرف جھکیں اور اوروں پر حق کو ظاہر کریں ۔ دیکھ لو کہ کفار کی کیسی بری مثالیں ہیں کہ کتوں کی طرح صرف نگلنے اگلنے اور شہوت زنی میں پڑے ہوئے ہیں ۔ پس جو بھی علم و ہدایت کو چھوڑ کر خواہش نفس کے پورا کرنے میں لگ جائے ، وہ بھی کتے جیسا ہی ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : { ہمارے لیے بری مثالیں نہیں ، اپنی ہبہ کی ہوئی چیز کو پھر لے لینے والا کتے کی طرح ہے جو قے کر کے چاٹ لیتا ہے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:2622) پھر فرماتا ہے کہ گنہگار لوگ اللہ کا کچھ بگاڑتے نہیں ، یہ تو اپنا ہی خسارہ کرتے ہیں ۔ طاعت مولیٰ ، اتباع ہدیٰ سے ہٹا کر خواہش کی غلامی ، دنیا کی چاہت میں پڑ کر اپنے دونوں جہان خراب کرتے ہیں ۔ الاعراف
176 الاعراف
177 الاعراف
178 بہترین دعا رب جنہیں راہ دکھائے ، انہیں کوئی بےراہ نہیں کر سکتا اور جسے وہی غلط راہ پر ڈال دے ، اس کی شومی قسمت میں کیا شک ہے ؟ اللہ کا چاہا ہوتا ہے ، اس کا نہ چاہا کبھی نہیں ہو سکتا ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ { سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں ۔ ہم اس کی حمد و ثنا بیان کرتے ہیں اور اسی سے مدد چاہتے ہیں اور اسی سے ہدایت طلب کرتے ہیں اور اسی سے بخشش مانگتے ہیں ۔ ہم اپنے نفس کی شرارتوں سے اللہ کی پناہ لیتے ہیں اور اپنے اعمال کی برائیوں سے بھی ۔ اللہ کے راہ دکھائے ہوئے کو کوئی بہکا نہیں سکتا اور اس کے گمراہ کئے ہوئے کو کوئی راہ راست پر لا نہیں سکتا ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ معبود صرف اللہ ہی ہے ۔ وہ اکیلا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں اور میری گواہی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں الخ ۔ } ۱؎ (سنن ابوداود:2118 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) [ مسند احمد وغیرہ ] الاعراف
179 اللہ تعالٰی عالم الغیب ہے بہت سے انسان اور جن جہنمی ہونے والے ہیں اور ان سے ویسے ہی اعمال سرزد ہوتے ہیں ۔ مخلوق میں سے کون کیسے عمل کرے گا ؟ یہ علام الغیوب کو ان کی پیدائش سے پہلے ہی معلوم ہوتا ہے ، پس { اپنے علم کے مطابق اپنی کتاب میں آسمان و زمین کی پیدائش سے پچاس ہزار برس پہلے ہی لکھ لیا ۔ جبکہ اس کا عرش پانی پر تھا ۔ } یہ صحیح مسلم شریف کی حدیث ہے ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2653) ایک اور روایت میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک انصاری نابالغ بچے کے جنازے پر بلوائے گئے تو میں نے کہا : مبارک ہو اس کو ، یہ تو جنت کی چڑیا ہے ۔ نہ برائی کی ، نہ برائی کا وقت پایا ۔ آپ نے فرمایا : کچھ اور بھی ؟ سن ! اللہ تعالیٰ نے جنت اور جنت والوں کو پیدا کیا ہے اور انہیں جنتی مقرر کر دیا ہے حالانکہ وہ ابھی تو اپنے باپوں کی پیٹھوں میں ہی تھے ۔ اسی طرح اس نے جہنم بنائی ہے اور اس کے رہنے والے پیدا کئے ہیں ۔ انہیں اسی لیے مقرر کر دیا ۔ درآں حالیکہ اب تک وہ اپنے باپوں کی پشت میں ہی ہیں ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:2662) بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے : { ماں کے رحم میں اللہ تعالیٰ اپنا فرشتہ بھیجتا ہے جو اس کے حکم سے چاروں چیزوں یعنی روزی ، عمل ، عمر اور نیکی یا بدی لکھ لیتا ہے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:3208) یہ بھی بیان گزر چکا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو پشت آدم سے نکالا تو ان کے دو حصے کر دیئے ، دائیں والے اور بائیں والے ۔ اور فرما دیا : یہ جنتی ہیں اور مجھے کوئی پرواہ نہیں اور یہ جہنمی ہیں اور مجھے کوئی پرواہ نہیں ۔ اس بارے میں بہت سی حدیثیں ہیں اور تقدیر کا مسئلہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں کہ یہاں پورا بیان ہو جائے ۔ یہاں مقصد یہ ہے کہ ایسے خالی از خیر محروم قسمت لوگ کسی چیز سے فائدہ نہیں اٹھاتے ۔ تمام اعضاء ہوتے ہیں لیکن قوتیں سب سے چھن جاتی ہیں ۔ اندھے ، بہرے ، گونگے بن کر زندگی گڑھے میں ہی گزار دیتے ہیں ۔ اگر ان میں خیر باقی ہوتی تو اللہ اپنی باتیں انہیں سناتا بھی ۔ یہ تو خیر سے بالکل خالی ہو گئے ، سنتے ہیں اور ان سنی کر جاتے ہیں ۔ آنکھیں ہی نہیں بلکہ دل کی آنکھیں اندھی ہو گئی ہیں ۔ رحمان کے ذکر سے منہ موڑنے کی سزا یہ ملی ہے کہ شیطان کے بھائی بن گئے ہیں ، راہ حق سے دور جا پڑے ہیں مگر سمجھ یہی رہے ہیں کہ ہم سچے اور صحیح راستے پر ہیں ۔ ان میں اور چوپائے جانوروں میں کوئی فرق نہیں ۔ نہ یہ حق کو دیکھیں ، نہ ہدایت کو دیکھیں ، نہ اللہ کی باتوں کو سوچیں ۔ چوپائے بھی تو اپنے حواس کو دنیا کے کام میں لاتے ہیں ، اسی طرح یہ بھی فکر عقبیٰ سے ، ذکر رب سے ، راہ مولا سے غافل ، گونگے اور اندھے ہیں ۔ جیسے فرمان ہے «وَمَثَلُ الَّذِینَ کَفَرُوا کَمَثَلِ الَّذِی یَنْعِقُ بِمَا لَا یَسْمَعُ إِلَّا دُعَاءً وَنِدَاءً صُمٌّ بُکْمٌ عُمْیٌ فَہُمْ لَا یَعْقِلُونَ» ۱؎ (2-البقرۃ:171) یعنی ’ ان کافروں کی مثال تو اس شخص کی سی ہے جو اس کے پیچھے چلا رہا ہے جو درحقیقت سنتی ونتی خاک بھی نہیں ۔ ہاں ! صرف شور و غل تو اس کے کان میں پڑتا ہے ۔ ‘ چوپائے آواز تو سنتے ہیں لیکن کیا کہا ؟ اسے سمجھے ان کی بلا ۔ پھر ترقی کر کے فرماتا ہے کہ یہ ظالم تو چوپایوں سے بھی بدترین ہیں کہ چوپائے گو نہ سمجھیں لیکن آواز پر کان تو کھڑے کر دیتے ہیں ، اشاروں پر حرکت تو کرتے ہیں ، یہ تو اپنے مالک کو اتنا بھی نہیں سمجھتے ۔ اپنی پیدائش کی غایت کو آج تک معلوم ہی نہیں کیا ، جبھی تو اللہ سے کفر کرتے ہیں اور غیر اللہ کی عبادت کرتے ہیں ۔ اس کے برخلاف جو اللہ کا مطیع انسان ہو ، وہ اللہ کے اطاعت گزار فرشتے سے بہتر ہے اور کفار انسان سے چوپائے جانور بہتر ہیں ، ایسے لوگ پورے غافل ہیں ۔ الاعراف
180 اسماء الحسنیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : { اللہ تعالیٰ کے ایک کم ایک سو نام ہیں ۔ انہیں جو محفوظ کر لے ، وہ جنتی ہے ۔ وہ وتر ہے ، طاق کو ہی پسند فرماتا ہے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:4610) [ بخاری وغیرہ ] ترمذی میں یہ { ننانوے نام اس طرح ہیں : «ہُوَ اللَّہُ الَّذِی لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ ، الْمَلِکُ ، الْقُدٰوْسُ ، السَّلَامُ ، الْمُؤْمِنُ ، الْمُھَیْمِنُ ، الْعَزِیْزُ ، الْجَبَّارُ ، الْمُتَکَبِّرُ ، الْخَالِقُ ، الْبَارِیُٔ ، الْمُصَوِّرُ ، الْغَفَّارُ ، الْقَھَّارُ ، الْوَھَّابُ ، الرَّزَّاقُ ، الْفَتَّاحُ ، الْعَلِیْمُ ، الْقَابِضُ ، الْبَاسِطُ ، الْخَافِضُ ، الرَّافِعُ ، الْمُعِزٰ ، الْمُذِلٰ ، السَّمِیْعُ ، الْبَصِیْرُ ، الْحَکَمُ ، الْعَدْلُ ، اللَّطِیْفُ ، الْخَبِیْرُ ، الْحَلِیْمُ ، الْعَظِیْمُ ، الْغَفُوْرُ ، الشَّکُوْرُ ، الْعَلِیٰ ، الْکَبِیْرُ ، الْحَفِیْظُ ، الْمُقِیْتُ ، الْحَسِیْبُ ، الْجَلِیْلُ ، الْکَرِیْمُ ، الرَّقِیْبُ ، الْمُجِیْبُ ، الْوَاسِعُ ، الْحَکِیْمُ ، الْوَدُوْدُ ، الْمَجِیْدُ ، الْبَاعِثُ ، الشَّھِیْدُ ، الْحَقٰ ، الْوَکِیْلُ ، الْقَوِیٰ ، الْمَتِیْنُ ، الْوَلِیٰ ، الْحَمِیْدُ ، الْمُحْصِی ، الْمُبْدِیُٔ ، الْمُعِیْدُ ، الْمُحْییِ ، الْمُمِیْتُ ، الْحَیٰ الْقَیٰوْمُ ، الْوَاجِدُ ، الْمَاجِدُ ، الْوَاحِدُ ، الصَّمَدُ ، الْقَادِرُ ، الْمُقْتَدِرُ ، الْمُقَدِّمُ ، الْمُؤَخِّرُ ، الْاَوَّلُ الْاٰخِرُ ، الظَّاھِرُ ، الْبَاطِنُ ، الْوَالِیُ ، الْمُتَعَالُ ، الْبَرٰ ، التَّوَّابُ ، الْمُنْتَقِمُ ، الْعَفُوٰ ، الرَّئُوْفُ ، مَالِکُ ، الْمُلْکِ ، ذُوالْجَلَالِ وَالْاِکْرَا مِ ، الْمُقْسِطُ ، الْجَامِعُ ، الْغَنِیٰ ، الْمُغْنِی ، الْمَانِعُ ، الضَّآرٰ ، النَّافِعُ ، النٰوْرُ ، الْھَادِیُ ، الْبَدِیْعُ ، الْبَاقِی ، الْوَارِثُ ، الرَّشِیْدُ ، الصَّبُوْرُ» ۔ } ۱؎ (سنن ترمذی:3507 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) یہ حدیث غریب ہے ۔ کچھ کمی ، زیادتی کے ساتھ اسی طرح یہ نام ابن ماجہ کی حدیث میں بھی وارد ہیں ۔ بعض بزرگوں کا خیال ہے کہ یہ نام راویوں نے قرآن میں چھانٹ لیے ہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ یہ یاد رہے کہ یہی ننانوے نام اللہ کے ہوں ، اور نہ ہوں ، یہ بات نہیں ۔ مسند احمد میں ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : { جسے کبھی بھی کوئی غم و رنج پہنچے اور وہ یہ دعا کرے : « اللہُمَّ إنِّی عَبْدُکَ ابْنُ عَبْدِکَ ابْنُ أَمَتِکَ ، نَاصِیَتِی بِیَدِکَ ، مَاضٍ فِیَّ حُکْمُکَ ، عَدْلٌ فِیَّ قَضَاؤُکَ ، أَسْأَلُکَ بکُلِّ اسْمٍ ہُوَ لَکَ ، سَمَّیْتَ بہِ نَفْسَکَ ، أَوْ أَنْزَلْتَہُ فِی کِتَابِکَ ، أَوْ عَلَّمْتَہُ أَحَداً مِنْ خَلْقِکَ ، أَوِ اسْتَأْثَرْتَ بِہِ فِی عِلْمِ الْغَیْبِ عِنْدَکَ : أَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ العظیم رَبِیعَ قَلْبِی ، وَنُورَ صَدرِی ، وَجلاَءَ حزنِی ، وَذَہَابَ ہَمِّی» ۔ تو اللہ تعالیٰ اس کے غم و رنج کو دور کر دے گا اور اس کی جگہ راحت و خوشی عطا فرمائے گا ۔ آپ سے سوال کیا گیا کہ پھر کیا ہم اسے اوروں کو بھی سکھائیں ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ! بیشک جو اسے سنے ، اسے چاہیئے کہ دوسروں کو بھی سکھائے ۔ } ۱؎ (صحیح ابن حبان:972:صحیح بالشواھد) امام ابوحاتم بن حبان بستی رحمہ اللہ بھی اس روایت کو اسی طرح اپنی صحیح میں لائے ہیں ۔ امام ابوبکر بن عربی رحمہ اللہ بھی اپنی کتاب الاحوذی فی شرح الترمذی میں لکھتے ہیں کہ بعض لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنی کتاب و سنت سے جمع کئے ہیں جن کی تعداد ایک ہزار تک پہنچ گئی ہے ، «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اللہ کے ناموں سے الحاد کرنے والوں کو چھوڑ دو ۔ جیسے کہ لفظ اللہ سے کافروں نے اپنے بت کا نام لات رکھا اور عزیز سے مشتق کر کے عزیٰ نام رکھا ۔ یہ بھی معنی ہیں کہ جو اللہ کے ناموں میں شریک کرتے ہیں ، انہیں چھوڑو ۔ جو انہیں جھٹلاتے ہیں ، ان سے منہ موڑ لو ۔ «الحاد» کے لفظی معنی ہیں : درمیانے ، سیدھے راستے سے ہٹ جانا اور گھوم جانا ۔ اسی لیے بغلی قبر کو «لحد» کہتے ہیں کیونکہ سیدھی کھدائی سے ہٹا کر بنائی جاتی ہے ۔ الاعراف
181 امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف یعنی بعض لوگ حق و عدل پر قائم ہیں ۔ حق بات ہی زبان سے نکالتے ہیں ، حق کام ہی کرتے ہیں ، حق کی طرف ہی اوروں کو بلاتے ہیں ، حق کے ساتھ ہی انصاف کرتے ہیں اور بعض آثار میں مروی ہے کہ اس سے مراد امت محمدیہ ہے ۔ چنانچہ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : مجھے یہ روایت پہنچی ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب اس آیت کی تلاوت فرماتے تو فرماتے کہ یہ تمہارے لیے ہے ۔ تم سے پہلے یہ وصف قوم موسیٰ علیہ السلام کا تھا ۔ } ۱؎ (الدر المنشور للسیوطی:272/3:ضعیف) ربیع بن انس رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : { میری امت میں سے ایک جماعت حق پر قائم رہے گی یہاں تک کہ عیسیٰ بن مریم علیہ السلام اتریں ، وہ خواہ کبھی بھی اتریں ۔ } ۱؎ (الدر المنشور للسیوطی:272/3:ضعیف) بخاری و مسلم میں ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر ظاہر رہے گا ۔ انہیں ان کی دشمنی کرنے والے کچھ نقصان نہ پہنچا سکیں گے یہاں تک کہ قیامت آ جائے ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:1923) ایک اور روایت میں ہے کہ { یہاں تک کہ اللہ کا امر آ جائے گا ، وہ اسی پر رہیں گے ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:174) ایک روایت میں ہے : { [ اس وقت ] وہ شام میں ہوں گے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:7460) الاعراف
182 سامان تعیش کی کثرت عتاب الٰہی بھی ہے اور آیت میں ہے «فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُکِّرُوا بِہِ فَتَحْنَا عَلَیْہِمْ أَبْوَابَ کُلِّ شَیْءٍ حَتَّیٰ إِذَا فَرِحُوا بِمَا أُوتُوا أَخَذْنَاہُم بَغْتَۃً فَإِذَا ہُم مٰبْلِسُونَ فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِینَ ظَلَمُوا وَالْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ» ۱؎ (6-الأنعام:44-45) یعنی ایسے لوگوں کو روزی میں کشادی دی جائے گی ، معاش کی آسانیاں ملیں گی ، وہ دھوکے میں پڑ جائیں گے اور حقانیت کو بھول جائیں گے ۔ جب پورے مست ہو جائیں گے اور ہماری نصیحت کو گئی گزری کر دیں گے تو ہم انہیں ہر طرح کے آرام دیں گے یہاں تک کہ وہ مست ہو جائیں گے ، تب انہیں ہم ناگہانی پکڑ میں پکڑ لیں گے ۔ اس وقت وہ مایوسی کے ساتھ منہ تکتے رہ جائیں گے اور ان ظالموں کی رگ کٹ جائے گی ۔ حقیقتاً تعریفوں کے لائق صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ انہیں میں تو ڈھیل دوں گا اور یہ میرے اس داؤ سے بےخبر ہوں گے ۔ میری تدبیر کبھی ناکام نہیں ہوتی ، وہ بڑی مضبوط اور مستحکم ہوتی ہے ۔ الاعراف
183 الاعراف
184 صداقت رسالت پر اللہ کی گواہی کیا ان کافروں نے کبھی اس بات پر غور کیا کہ «وَمَا صَاحِبُکُم بِمَجْنُونٍ» ۱؎ (81-التکویر:22) ’ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں جنون کی کوئی بات بھی ہے ؟ ‘ جیسے فرمان ہے «قُلْ إِنَّمَا أَعِظُکُم بِوَاحِدَۃٍ أَن تَقُومُوا لِلہِ مَثْنَیٰ وَفُرَادَیٰ ثُمَّ تَتَفَکَّرُوا مَا بِصَاحِبِکُم مِّن جِنَّۃٍ إِنْ ہُوَ إِلَّا نَذِیرٌ لَّکُم بَیْنَ یَدَیْ عَذَابٍ شَدِیدٍ» ۱؎ (34-سبأ:46) ’ آؤ میری ایک بات تو مان لو ، ذرا سی دیر خلوص کے ساتھ اللہ کو حاضر جان کر اکیلے وکیلے غور تو کرو کہ مجھ میں کون سا دیوانہ پن ہے ؟ میں تو تمہیں آنے والے سخت خطرے کی اطلاع دے رہا ہوں کہ اس سے ہوشیار رہو ۔ ‘ جب تم یہ کرو گے تو خود اس نتیجے پر پہنچ جاؤ گے کہ میں مجنون نہیں بلکہ اللہ کا پیغام دے کر تم میں بھیجا گیا ہوں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ صفا پہاڑ پر چڑھ کر قریشیوں کے ایک ایک قبیلے کا الگ الگ نام لے کر انہیں اللہ کے عذابوں سے ڈرایا اور اسی طرح صبح کر دی تو بعض کہنے لگے کہ دیوانہ ہو گیا ہے ۔ اس پر یہ آیت اتری ۔ الاعراف
185 شیطانی چکر اللہ تعالیٰ جل شانہ کی اتنی بڑی وسیع بادشاہت میں سے اور زمین و آسمان کی ہر طرح کی مخلوق میں سے کسی ایک چیز نے بھی بعد از غور و فکر انہیں یہ توفیق نہ دی کہ یہ باایمان ہو جاتے ؟ اور رب کو بےنظیر و بےشبہ واحد و فرد مان لیتے ؟ اور جان لیتے کہ اتنی بڑی خلق کا خالق ، اتنے بڑے ملک کا واحد مالک ہی عبادتوں کے لائق ہے ؟ پھر یہ ایمان قبول کر لیتے اور اسی کی عبادتوں میں لگ جاتے اور شرک و کفر سے یکسو ہو جاتے ؟ انہیں ڈر لگنے لگتا کہ کیا خبر ہماری موت کا وقت قریب ہی آ گیا ہو ؟ ہم کفر پر ہی مر جائیں تو ابدی سزاؤں میں پڑ جائیں ؟ جب انہیں اتنی نشانیوں کے دیکھ لینے کے بعد ، اس قدر باتیں سمجھا دینے کے بعد بھی ایمان و یقین نہ آیا ، اللہ کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے آ جانے کے بعد بھی یہ راہ راست پر نہ آئے تو اب کس بات کو مانیں گے ؟ مسند کی ایک حدیث میں ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ { معراج والی رات جب میں ساتویں آسمان پر پہنچا تو میں نے دیکھا کہ گویا اوپر کی طرف بجلی کی کڑک اور کھڑکھڑاہٹ ہو رہی ہے ۔ میں کچھ ایسے لوگوں کے پاس پہنچا جن کے پیٹ بڑے بڑے گھروں جتنے اونچے تھے جن میں سانپ پھر رہے تھے جو باہر سے ہی نظر آتے تھے ، میں نے جبرائیل علیہ السلام سے دریافت کیا کہ یہ کون لوگ ہیں ؟ انہوں نے بتایا : یہ سود خور ہیں ۔ جب میں وہاں سے اترنے لگا تو آسمان اول پر آ کر میں نے دیکھا : نیچے کی جانب دھواں ، غبار اور شور و غل ہے ۔ میں نے پوچھا : یہ کیا ہے ؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا : یہ شیاطین ہیں جو اپنی خرمستیوں اور دھینگا مشتیوں سے لوگوں کی آنکھوں پر پردے ڈال رہے ہیں کہ وہ آسمان و زمین کی بادشاہت کی چیزوں میں غور و فکر نہ کر سکیں ۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو وہ بڑے عجائبات دیکھتے ۔ } ۱؎ (مسند احمد:353/2:ضعیف) اس کے ایک راوی علی بن زید بن جدعان کی بہت سی روایات منکر ہیں ۔ الاعراف
186 میری نشانیاں اور تعلیم گمراہوں کے لئے بےسود ہیں جس پر گمراہی لکھ دی گئی ہے ، اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا ۔ وہ چاہے ساری نشانیاں دیکھ لے لیکن بےسود ۔ «وَمَن یُرِدِ اللہُ فِتْنَتَہُ فَلَن تَمْلِکَ لَہُ مِنَ اللہِ شَیْئًا» ۱؎ (5-المائدۃ:41)’ اللہ کا ارادہ جس کے لیے فتنے کا ہو ، تو اس کا کوئی اختیار نہیں رکھتا ۔ ‘ «قُلِ انظُرُوا مَاذَا فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا تُغْنِی الْآیَاتُ وَالنٰذُرُ عَن قَوْمٍ لَّا یُؤْمِنُونَ» ۱؎ (10-یونس:101) میرا حکم تو یہی ہے کہ ’ آسمان و زمین کی میری بےشمار نشانیوں پر غور کرو ۔ لیکن یہ ظاہر ہے کہ آیتیں اور ڈراوے بےایمانوں کے لیے سود مند نہیں ۔ الاعراف
187 قیامت کب اور کس وقت؟ یہ دریافت کرنے والے قریشی بھی تھے اور یہودی بھی ۔ لیکن چونکہ یہ آیت مکی ہے اس لیے ٹھیک یہی ہے کہ قریشیوں کا سوال تھا چونکہ وہ قیامت کے قائل ہی نہ تھے ، اس لیے اس قسم کے سوال کیا کرتے تھے کہ «وَیَقُولُونَ مَتَیٰ ہٰذَا الْوَعْدُ إِن کُنتُمْ صَادِقِینَ» (21-الأنبیاء:38) ’ اگر سچے ہو تو اس کا ٹھیک وقت بتا دو ۔ ‘ «یَسْتَعْجِلُ بِہَا الَّذِینَ لَا یُؤْمِنُونَ بِہَا وَالَّذِینَ آمَنُوا مُشْفِقُونَ مِنْہَا وَیَعْلَمُونَ أَنَّہَا الْحَقٰ أَلَا إِنَّ الَّذِینَ یُمَارُونَ فِی السَّاعَۃِ لَفِی ضَلَالٍ بَعِیدٍ» ۱؎ (42-الشوری:18) ’ ادھر بےایمان اس کی جلدی مچا رہے ہیں ، ادھر ایماندار اسے حق جان کر اس سے ڈر رہے ہیں ۔ بات یہ ہے کہ جنہیں اس میں بھی شک ہے ، دوردراز کی گمراہی میں تو وہی ہیں ۔ ‘ «یَسْأَلُکَ النَّاسُ عَنِ السَّاعَۃِ قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِندَ اللہِ وَمَا یُدْرِیکَ لَعَلَّ السَّاعَۃَ تَکُونُ قَرِیبًا» ۱؎ (33-الأحزاب:63) ’ پوچھا کرتے تھے کہ قیامت واقع کب ہو گی ؟ جواب سکھایا گیا کہ اس کے صحیح وقت کا علم سوائے اللہ کے ، کسی کو نہیں ۔ ‘ وہی اس کے صحیح وقت سے واقف ہے ، بجز اس کے ، کسی کو اس کے واقع ہونے کا وقت معلوم نہیں ۔ اس کا علم زمین و آسمان پر بھی بھاری ہے ، ان کے رہنے والی ساری مخلوق اس علم سے خالی ہے ۔ وہ جب آئے گی ، سب پر ایک ہی وقت واقع ہو گی ، سب کو ضرر پہنچے گا ۔ آسمان پھٹ جائے گا ، ستارے جھڑ جائیں گے ، سورج بے نور ہو جائے گا ، پہاڑ اڑنے لگیں گے ۔ اسی لیے وہ ساری مخلوق پر گراں گزر رہی ہے ۔ اس کے واقع ہونے کے صحیح وقت کا علم ساری مخلوق پر بھاری ہے ، زمین و آسمان والے سب اس سے عاجز اور بےخبر ہیں ۔ وہ تو اچانک سب کی بے خبری میں ہی آئے گی ۔ کوئی بزرگ سے بزرگ فرشتہ ، کوئی بڑے سے بڑا پیغمبر بھی اس کے آنے کے وقت کا عالم نہیں ۔ وہ تو سب کی بے خبری میں ہی آ جائے گی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : { دنیا کے تمام کام حسب دستور ہو رہے ہوں گے ، جانوروں والے اپنے جانوروں کے پانی پینے والے حوض درست کر رہے ہوں گے ، تجارت والے ناپ تول میں مشغول ہوں گے ، قیامت آ جائے گی ۔ } صحیح بخاری شریف میں ہے کہ { قیامت قائم ہونے سے پہلے سورج مغرب کی طرف سے نکلے گا ، اسے دیکھتے ہی سب لوگ ایمان قبول کر لیں گے ۔ لیکن اس وقت کا ایمان ان کے لیے بےسود ہو گا ۔ { جو اس سے پہلے ایمان نہ لائے ہوں اور جنہوں نے اس سے پہلے نیکیاں نہ کی ہوں ۔ قیامت اس طرح دفعتاً آ جائے گی کہ ایک شخص کپڑا پھیلائے دوسرے کو دکھا رہا ہو گا اور دوسرا دیکھ رہا ہو گا ، بھاؤ تاؤ ہو رہا ہو گا کہ قیامت واقع ہو جائے گی ۔ نہ یہ خرید و فروخت کر سکیں گے ، نہ کپڑے کی تہہ کر سکیں گے ۔ کوئی دودھ دوہ کر آ رہا ہو گا ، پی نہ سکے گا کہ قیامت آ جائے گی ۔ کوئی حوض درست کر رہا ہو گا ، ابھی جانوروں کو پانی نہ پلا چکا ہو گا کہ قیامت آ جائے گی ۔ کوئی لقمہ اٹھائے ہوئے ہو گا ، ابھی منہ میں نہ ڈالا ہو گا کہ قیامت آ جائے گی ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:6506) صحیح مسلم شریف میں ہے : { آدمی دودھ کا کٹورا [ برتن ] اٹھا کر پینا چاہتا ہی ہو گا ، ابھی منہ سے نہ لگا پائے گا کہ قیامت قائم ہو جائے گی ۔ کپڑے کے خریدار بھی سودا نہ کر چکے ہوں گے کہ قیامت آ جائے گی ۔ حوض والے بھی لیپاپوتی کر رہے ہوں گے کہ قیامت برپا ہو جائے گی ۔ } تجھ سے اس طرح پوچھتے ہیں گویا تو ان کا سچا رفیق ہے ، یہ تیرے پکے دوست ہیں ۔ اس طرح پوچھتے ہیں گویا کہ تجھے اس کا حال معلوم ہے حالانکہ کسی مقرب فرشتے یا نبی یا رسول کو اس کا علم ہرگز نہیں ۔ قریشیوں نے یہ بھی کہا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہم تو آپ کے قرابت دار ہیں ، ہمیں تو بتا دیجئے کہ قیامت کب اور کس دن ، کس سال آئے گی ؟ اس طرح پوچھا کہ گویا آپ کو معلوم ہے ۔ حالانکہ اس کا علم صرف اللہ کے پاس ہی ہے ۔ جیسے فرمان ہے : «إِنَّ اللہَ عِندَہُ عِلْمُ السَّاعَۃِ» ۱؎ (31-لقمان:34) ’ قیامت کا علم صرف اللہ ہی کو ہے ۔ ‘ یہی معنی زیادہ ترجیح والے ہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ { جبرائیل علیہ السلام نے بھی جب اعرابی کا روپ دھار کر سائل کی شکل میں آپ کے پاس بیٹھ کر آپ سے قیامت کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف جواب دیا کہ اس کا علم نہ مجھے ہے ، نہ تجھے ۔ اس سے پہلے کے سوالات آپ بتا چکے تھے ، اس سوال کے جواب میں اپنی لاعلمی ظاہر کر کے پھر سورۃ لقمان کی آخری آیت پڑھی کہ ان پانچ چیزوں کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ یعنی علم قیامت ، بارش کا آنا ، مادہ کے پیٹ کے بچے کا حال ، کل کے حالات ، موت کی جگہ ۔ ہاں ! جب انہوں نے اس کی علامتیں پوچھیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتا دیں ۔ پھر آپ نے اسی آیت کو تلاوت فرمایا ، جبکہ جبرائیل علیہ السلام آپ کے ہر جواب پر یہی فرماتے جاتے تھے کہ آپ نے سچ فرمایا ۔ ان کے چلے جانے کے بعد صحابہ رضی اللہ عنہم نے تعجب سے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ کون صاحب تھے ؟ آپ نے فرمایا : جبرائیل علیہ السلام تھے ، تمہیں دین سکھانے آئے تھے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:50) جب کبھی وہ میرے پاس جس شکل میں بھی آئے ، میں نے انہیں پہچان لیا لیکن اس مرتبہ تو میں خود اب تک نہ پہچان سکا تھا ۔ [ الحمداللہ میں نے اس کے تمام طریقے کل سندوں کے ساتھ پوری بحث کر کے بخاری شریف کی شرح کے اول میں ہی ذکر کر دیئے ہیں ۔ ] { ایک اعرابی نے آ کر با آواز بلند آپ کا نام لے کر آپ کو پکارا ، آپ نے اسی طرح جواب دیا ۔ اس نے کہا : قیامت کب ہو گی ؟ { آپ نے فرمایا : وہ آنے والی تو قطعاً ہے ۔ تو بتا ، تو نے اس کے لیے کیا تیاری کی ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ روزے نماز تو میرے پاس زیادہ نہیں ۔ البتہ میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے اپنے دل کو لبریز پاتا ہوں ۔ آپ نے فرمایا : انسان اسی کے ہمراہ ہو گا جس سے محبت رکھتا ہو ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:6567) مومن اس حدیث کو سن کر بہت ہی خوش ہوئے کہ اس قدر خوشی انہیں اور کسی چیز پر نہیں ہوئی تھی ۔ آپ کی عادت مبارکہ تھی کہ جب کوئی آپ سے ایسا سوال کرے جس کی ضرورت نہ ہو تو آپ اسے وہ بات بتاتے جو اس سے کہیں زیادہ مفید ہو ۔ اسی لیے اس سائل کو بھی فرمایا کہ وقت کا علم کیا فائدہ دے گا ؟ ہو سکے تو تیاری کر لو ۔ صحیح مسلم میں ہے کہ { اعراب لوگ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جب کبھی قیامت کے بارے سوال کرتے تو آپ جو ان میں سب سے کم عمر ہوتا ، اسے دیکھ کر فرماتے کہ اگر یہ اپنی طبعی عمر تک پہنچا تو اس کے بڑھاپے تک ہی تم اپنی قیامت کو پالو گے ۔ اس سے مراد ان کی موت ہے جو آخرت کے برزخ میں پہنچا دیتی ہے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:6511) بعض روایات میں ان کے اس قسم کے سوال پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا علی الاطلاق یہی فرمانا بھی مروی ہے کہ اس نوعمر کے بڑھاپے تک قیامت آ جائے گی ۔ یہ اطلاق بھی اسی تقلید پر مجمول ہو گا ۔ یعنی مراد اس سے ان لوگوں کی موت کا وقت ہے ۔ وفات سے ایک ماہ قبل آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { تم مجھ سے قیامت کے بارے میں سوال کرتے ہو ؟ اس کے صحیح وقت کا علم تو صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہے ، میں حلفاً بیان کرتا ہوں کہ اس وقت روئے زمین پر جتنے متنفس ہیں ، ان میں سے ایک بھی سو سال تک باقی نہ رہے گا ـ } (صحیح مسلم:2538) [ مسلم ] مطلب اس سے یہ ہے کہ سو سال تک اس زمانے کے موجود لوگوں سے یہ دنیا خالی ہو جائے گی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : { معراج والی شب میری ملاقات موسیٰ اور عیسیٰ علیہما السلام سے ہوئی ، وہاں قیامت کے وقت کا ذکر چلا تو ابراہیم علیہ السلام کی طرف سب نے بات کو جھکا دیا ۔ آپ نے جواب دیا کہ مجھے تو اس کا علم نہیں ۔ سب موسیٰ علیہ السلام کی طرف متوجہ ہوئے ، یہی جواب وہاں سے ملا ۔ پھر عیسیٰ علیہ السلام کی طرف متوجہ ہوئے تو آپ نے فرمایا : اس کے واقع ہونے کا وقت تو بجز اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا ۔ ہاں ! مجھ سے میرے رب نے فرما رکھا ہے کہ دجال نکلنے والا ہے ۔ میرے ساتھ دو شاخیں ہوں گی ، وہ مجھے دیکھ کر سیسے کی طرح پگھلنے لگے گا ۔ آخر اللہ اسے میرے ہاتھوں ہلاک کرے گا یہاں تک کہ درخت اور پتھر بھی بولنے لگیں گے کہ اے مسلمان ! یہاں میرے نیچے ایک کافر چھپا ہوا ہے ، آ اور اسے قتل کر ڈال ۔ جب اللہ تعالیٰ ان سب کو ہلاک کر دے گا ، تب لوگ اپنے شہروں اور وطنوں کو لوٹیں گے ۔ اس وقت یاجوج ماجوج نکلیں گے جو کودتے پھلانگتے چاروں طرف پھیل جائیں گے ۔ جہاں سے گزریں گے ، تباہی پھیلا دیں گے ۔ جس پانی سے گزریں گے ، سب پی جائیں گے ۔ آخر لوگ تنگ آ کر مجھ سے شکایت کریں گے ۔ میں اللہ سے دعا کروں گا ۔ اللہ تعالیٰ سب کو ہلاک کر دے گا ، ان کی لاشوں کا سڑاند پھیلے گی جس سے لوگ تنگ آ جائیں گے ، اللہ تعالیٰ بارش برسائے گا جو ان کی لاشوں کو بہا کر سمندر میں ڈال آئے گی ۔ پھر تو پہاڑ اڑنے لگیں گے اور زمین سکڑنے لگے گی ۔ جب یہ سب کچھ ظاہر ہو گا ، اس وقت قیامت ایسی قریب ہو گی جیسی پورے دن والی حاملہ عورت کے بچہ جننے کا زمانہ قریب ہوتا ہے کہ گھر کے لوگ ہوشیار رہتے ہیں کہ نہ جانے دن کو پیدا ہو جائے یا رات کو ۔ } ۱؎ (سنن ابن ماجہ:4081،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) [ ابن ماجہ ، مسند وغیرہ ] اس سے معلوم ہوا کہ قیامت کا علم کسی رسول کو بھی نہیں ۔ عیسیٰ علیہ السلام بھی اس کی علامات بیان فرماتے ہیں ، نہ کہ مقررہ وقت ۔ اس لیے کہ آپ احکام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جاری کرنے اور دجال کو قتل کرنے اور اپنی دعا کی برکت سے یاجوج ماجوج کو ہلاک کرنے کے لئے اس امت کے آخر زمانے میں نازل ہوں گے جس کا علم اللہ نے آپ کو دے دیا ہے ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قیامت کی بابت سوال ہوا تو آپ نے فرمایا : اس کا علم اللہ کے پاس ہی ہے ۔ سوائے اس کے اسے اور کوئی نہیں جانتا ۔ ہاں ! میں تمہیں اس کی شرطیں بتلاتا ہوں ، اس سے پہلے بڑے بڑے فتنے اور لڑائیاں ہوں گی ، لوگوں کے خون ایسے سفید ہو جائیں گے کہ گویا کوئی کسی کو جانتا پہچانتا ہی نہیں ۔ } ۱؎ (مسند احمد:389/5:صحیح لغیرہ) [ مسند ] آپ اس آیت کے اترنے سے پہلے بھی اکثر قیامت کا ذکر فرماتے رہا کرتے تھے ۔ پس غور کر لو کہ یہ نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم جو سید الرسل ہیں ، خاتم الانبیاء ہیں ، نبی الرحمہ ہیں ، نبی اللہ ہیں ، الملحمہ ہیں ، عاقب ہیں ، مقفی ہیں ، حاشر ہیں جن کے قدموں پر لوگوں کا حشر ہو گا ۔ جن کا فرمان ہے کہ { میں اور قیامت اس طرح آئے ہیں اور آپ نے اپنی دونوں انگلیاں جوڑ کر بتائیں یعنی شہادت کی انگلی اور اس کے پاس کی انگلی ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:6504) لیکن باوجود اس کے ، قیامت کا علم آپ کو نہ تھا ۔ آپ سے جب سوال ہوا تو یہی حکم ملا ، جواب دو کہ «یَسْأَلُونَکَ عَنِ السَّاعَۃِ أَیَّانَ مُرْسَاہَا فِیمَ أَنتَ مِن ذِکْرَاہَا إِلَیٰ رَبِّکَ مُنتَہَاہَا» ۱؎ (79-النازعات:42) ’ اس کا علم صرف اللہ ہی کو ہے لیکن اکثر لوگ بےعلم ہیں ۔ ‘ الاعراف
188 نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو علم غیب نہیں تھا اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرماتا ہے کہ آپ تمام کام اللہ کے سپرد کریں اور صاف کہہ دیں کہ غیب کی کسی بات کا مجھے علم نہیں ، میں تو صرف وہ جانتا ہوں جو اللہ تعالیٰ مجھے معلوم کرا دے ۔ جیسے سورۃ الجن میں ہے کہ «عَالِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْہِرُ عَلَیٰ غَیْبِہِ أَحَدًا» ۱؎ (72-الجن:26) ’ عالم الغیب اللہ تعالیٰ ہی ہے ، وہ اپنے غیب پر کسی کو آگاہ نہیں کرتا ۔ ‘ مجھے اگر غیب کی اطلاع ہوتی تو میں اپنے لیے بہت سی بھلائیاں سمیٹ لیتا ۔ مجاہد رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ ” اگر مجھے اپنی موت کا علم ہوتا تو نیکیوں میں بھی سبقت لے جاتا ۔ “ لیکن یہ قول غور طلب ہے کیونکہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال دائمی تھے ، جو نیکی ایک بار کرتے ، پھر اسے معمول بنا لیتے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:1987) ساری زندگی اور زندگی کا ہر ایک دن بلکہ ہر ایک گھڑی ایک ہی طرح کی تھی ۔ گویا کہ آپ کی نگاہیں ہر وقت اللہ تعالیٰ کی طرف لگتی رہتی تھیں ۔ زیادہ سے زیادہ یہ بات یوں ہو سکتی ہے کہ دوسروں کو میں ان کی موت کے وقت سے خبردار کر کے انہیں اعمال نیک کی رغبت دلاتا «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اس سے زیادہ اچھا قول اس کی تفسیر میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ہے کہ ” میں مال جمع کر لیتا ، مجھے معلوم ہو جاتا کہ اس چیز کے خریدنے میں نفع ہے ، میں اسے خرید لیتا ۔ جانتا کہ اس کی خریداری میں نقصان ہے ، نہ خریدتا ۔ خشک سالی کے لیے ترسالی میں ذخیرہ جمع کر لیتا ، ازرانی کے وقت گرانی کے علم سے سودا جمع کر لیتا ۔ کبھی کوئی برائی مجھے نہ پہنچتی کیونکہ میں علم غیب سے جان لیتا کہ یہ برائی ہے تو میں پہلے سے ہی اس سے جتن کر لیتا ۔ لیکن میں علم غیب نہیں جانتا ۔ اس لیے فقیری بھی مجھ پر آتی ہے ، تکلیف بھی ہوتی ہے ۔ مجھ میں تم یہ وصف نہ مانو ۔ سنو ! مجھ میں وصف یہ ہے کہ میں برے لوگوں کو عذاب الٰہی سے ڈراتا ہوں ، ایمانداروں کو جنت کی خوشخبری سناتا ہوں ۔ “ جیسے کہ ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں «فَإِنَّمَا یَسَّرْنَاہُ بِلِسَانِکَ لِتُبَشِّرَ بِہِ الْمُتَّقِینَ وَتُنذِرَ بِہِ قَوْمًا لٰدًّا» ۱؎ (19-مریم:97) ’ ہم نے اسے تیری زبان پر آسان کر دیا ہے کہ تو پرہیزگاروں کو خوشخبری سنا دے اور بروں کو ڈرا دے ۔ ‘ الاعراف
189 ایک ہی باپ ایک ہی ماں اور تمام نسل آدم تمام انسانوں کو اللہ تعالیٰ نے صرف آدم علیہ السلام سے ہی پیدا کیا , انہی سے ان کی بیوی حواء کو پیدا کیا . پھر ان دونوں سے نسل انسان جاری کی ۔ جیسے فرمان ہے «یَا أَیٰہَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاکُم مِّن ذَکَرٍ وَأُنثَیٰ وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِندَ اللہِ أَتْقَاکُمْ» ۱؎ (49-الحجرات:13) ’ لوگو ! ہم نے تمہیں ایک ہی مرد و عورت سے پیدا کیا ہے , پھر تمہارے کنبے اور قبیلے بنا دیئے تاکہ آپس میں ایک وسرے کو پہچانتے رہو ۔ اللہ کے ہاں سب سے زیادہ ذی عزت وہ ہے جو پرہیزگاری میں سب سے آگے ہے ۔ ‘ سورۃ نساء کے شروع میں ہے «یَا أَیٰہَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّکُمُ الَّذِی خَلَقَکُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَۃٍ وَخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالًا کَثِیرًا وَنِسَاءً» ۱؎ (4-النساء:1) ’ اے لوگو اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تم سب کو ایک ہی شخص یعنی آدم علیہ السلام سے پیدا کیا ہے ۔ انہی سے ان کی بیوی کو پیدا کیا ، پھر ان دونوں میاں بیوی سے بہت سے مرد و عورت پھیلا دیئے ۔ ‘ یہاں فرماتا ہے کہ انہی سے ان کی بیوی کو بنایا تاکہ یہ آرام اٹھائیں ۔ چنانچہ ایک اور آیت میں ہے : «وَمِنْ آیَاتِہِ أَنْ خَلَقَ لَکُم مِّنْ أَنفُسِکُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوا إِلَیْہَا وَجَعَلَ بَیْنَکُم مَّوَدَّۃً وَرَحْمَۃً» ۱؎ (30-الروم:21) ’ لوگو ! یہ بھی اللہ کی ایک مہربانی ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری بیویاں بنا دیں تاکہ تم ان سے سکون و آرام حاصل کرو اور اس نے تم میں باہم محبت و الفت پیدا کر دی ۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے چاہت ہے جو میاں بیوی میں وہ پیدا کر دیتا ہے ۔ ‘ اسی لیے جادوگروں کی برائی بیان کرتے ہوئے قرآن نے فرمایا کہ وہ اپنی مکاریوں سے میاں بیوی میں جدائی ڈلوا دیتے ہیں ۔ عورت مرد کے ملاپ سے بحکم الٰہی عورت کو حمل ٹھہر جاتا ہے ۔ جب تک وہ نطفے ، خون اور لوتھڑے کی شکل میں ہوتا ہے ہلکا سا رہتا ہے ، وہ برابر اپنے کام کاج میں آمد و رفت میں لگی رہتی ہے ، کوئی ایسی زیادہ تکلیف اور بار نہیں معلوم ہوتا اور اندر ہی اندر وہ برابر بڑھتا رہتا ہے ۔ اسے تو یونہی کبھی کچھ وہم سا ہوتا ہے کہ شاید کچھ ہو ۔ کچھ وقت یونہی گزر جانے کے بعد بوجھ معلوم ہونے لگتا ہے ، حمل ظاہر ہو جاتا ہے ، بچہ پیٹ میں بڑا ہو جاتا ہے ، طبیعت تھکنے لگتی ہے ، اب ماں باپ دونوں اللہ سے دعائیں کرنے لگتے ہیں کہ اگر وہ ہمیں صحیح سالم بیٹا عطا فرمائے تو ہم شکر گزاری کریں گے ۔ ڈر لگتا ہے کہ کہیں کچھ اور بات نہ ہو جائے ۔ اب جبکہ اللہ تعالیٰ نے مہربانی فرمائی اور صحیح سالم انسانی شکل و صورت کا بچہ عطا فرمایا تو اللہ کے ساتھ شرک کرنے لگتے ہیں ۔ مفسرین نے اس جگہ بہت سے آثار و احادیث بیان کئے ہیں جنہیں میں یہاں نقل کرتا ہوں اور ان میں جو بات ہے ، وہ بھی بیان کروں گا ۔ پھر جو بات صحیح ہے ، اسے بتاؤں گا ۔ ان شاءاللہ ۔ مسند احمد میں ہے کہ { جب حواء کو اولاد ہوئی تو ابلیس گھومنے لگا ، ان کے بچے زندہ نہیں رہتے تھے ۔ شیطان نے سکھایا کہ اب اس کا نام عبدالحارث رکھ دے تو یہ زندہ رہے گا چنانچہ انہوں نے یہی کیا اور یہی ہوا اور اصل میں یہ شیطانی حرکت تھی اور اسی کا حکم تھا ۔ } ۱؎ (سنن ترمذی:3077 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) امام ترمذی رحمہ اللہ نے بھی اسے نقل کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ یہ حدیث حسن غریب ہے ۔ میں کہتا ہوں ، اس حدیث میں کئی کمزوریاں ہیں : ایک تو یہ کہ اس کے ایک راوی عمر بن ابراہیم مصری کی بابت امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ راوی ایسا نہیں کہ اس سے حجت پکڑی جائے ، گو امام ابن معین رحمہ اللہ نے اس کی توثیق کی ہے ۔ لیکن ابن مردویہ رحمہ اللہ نے اسے معمر سے ، اس نے اپنے باپ سے ، اس نے سمرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت کیا ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ دوسرے یہ کہ یہی روایت موقوفاً سمرہ کے اپنے قول سے مروی ہوئی ہے جو کہ مرفوع نہیں ۔ ابن جریر رضی اللہ عنہ میں خود سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کا اپنا فرمان ہے کہ ” آدم علیہ السلام نے اپنے لڑکے کا نام عبدالحارث رکھا ۔ “ تیسرے اس آیت کی تفسیر اس کے راوی حسن سے اس کے علاوہ بھی مروی ہے ۔ ظاہر ہے کہ اگر یہ مرفوع حدیث ان کی روایت کردہ ہوتی تو یہ خود اس کے خلاف تفسیر نہ کرتے ۔ چنانچہ ابن جریر میں ہے , حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ” آدم علیہ السلام کا واقعہ نہیں بلکہ بعض مذاہب والوں کا واقعہ ہے ۔ “ اور روایت میں آپ کا یہ فرمان منقول ہے کہ ” اس سے مراد بعض مشرک انسان ہیں جو ایسا کرتے ہیں ، “ فرماتے ہیں کہ ” یہ یہود و نصاریٰ کا فعل بیان ہوا ہے کہ اپنی اولادوں کو اپنی روش پر ڈال لیتے ہیں ۔ “ یہ سب اسنادیں حسن رحمہ اللہ تک بالکل صحیح ہیں اور اس آیت کی جو کچھ تفسیر کی گئی ہے ، اس میں سب سے بہتر تفسیر یہی ہے ۔ خیر مقصد یہ تھا کہ اتنا بڑا متقی اور پرہیزگار آدمی ایک آیت کی تفسیر میں ، ایک مرفوع حدیث قول پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم روایت کرے ، پھر اس کے خلاف خود تفسیر کرے ، یہ بالکل ان ہونی بات ہے ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ حدیث مرفوع نہیں بلکہ وہ سمرہ رضی اللہ عنہ کا اپنا قول ہے ۔ اس کے بعد یہ بھی خیال ہوتا ہے کہ بہت ممکن ہے کہ سمرہ رضی اللہ عنہ نے اسے اہل کتاب سے ماخوذ کیا ہو ۔ جیسے کعب ، وہب وغیرہ جو مسلمان ہو گئے تھے اس کا بیان بھی سنئے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں : ” حواء علیہ السلام کے جو بچے پیدا ہوتے تھے ، ان کا نام عبداللہ ، عبیداللہ وغیرہ رکھتی تھیں ، وہ بچے فوت ہو جاتے تھے ۔ پھر ان کے پاس ابلیس آیا اور کہا : اگر تم کوئی اور نام رکھو تو تمہارے بچے زندہ رہیں گے ۔ چنانچہ ان دونوں نے یہی کیا ، جو بچہ پیدا ہوا ، اس کا نام عبدالحارث رکھا ۔ “ اس کا بیان ان آیات میں ہے ۔ اور روایت میں ہے کہ ان کے دو بچے اس سے پہلے مر چکے تھے ، اب حالت حمل میں شیطان ان کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ تمہیں معلوم بھی ہے کہ تمہارے پیٹ میں کیا ہے ؟ ممکن ہے ، کوئی جانور ہی ہو ۔ ممکن ہے ، صحیح سالم ہو گا ، زندہ رہے گا ۔ یہ بھی اس کے بہکاوے میں آ گئے اور عبدالحارث نام رکھا ، اسی کا بیان ان آیتوں میں ہے ۔ اور روایت میں ہے کہ پہلی دفعہ حمل کے وقت یہ آیا اور انہیں ڈرایا کہ میں وہی ہوں جس نے تمہیں جنت سے نکلویا ، اب یا تو تم میری اطاعت کرو ، ورنہ میں اسے یہ کر ڈالوں گا ، وہ کر ڈالوں گا وغیرہ ۔ ہر چند ڈرایا مگر انہوں نے اس کی اطاعت نہ کی ۔ اللہ کی شان وہ بچہ مردہ پیدا ہوا ۔ دوبارہ حمل ٹھہرا ، پھر یہ ملعون پھر آن پہنچا اور اسی طرح خوف زدہ کرنے لگا ، اب بھی انہوں نے اس کی اطاعت نہ کی ۔ چنانچہ یہ دوسرا بچہ بھی مردہ ہوا ۔ تیسرے حمل کے وقت یہ خبیث پھر آیا ، اب کی مرتبہ اولاد کی محبت میں آ کر انہوں نے اس کی مان لی اور اس کا نام عبدالحارث رکھا ۔ اسی کا بیان ان آیتوں میں ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس اثر کو لے کر ان کے شاگردوں کی ایک جماعت نے بھی یہی کہا ہے ۔ جیسے مجاہد ، سعید بن جبیر رحمہ اللہ ، عکرمہ رحمہ اللہ اور دوسرے طبقے میں سے قتادہ رحمہ اللہ ، سدی رحمہ اللہ وغیرہ ۔ اسی طرح سلف سے خلف تک بہت سے مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں یہی کہا ہے ، لیکن ظاہر یہ ہے کہ یہ اثر اہل کتاب سے لیا گیا ہے ۔ اس کی ایک بڑی دلیل یہ ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اسے ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں جیسے کہ ابن ابی حاتم میں ہے ، پس ظاہر ہے کہ یہ اہل کتاب کے آثار سے ہے ۔ جن کی بابت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ { ان کی باتوں کو نہ سچی کہو نہ جھوٹی ۔ } ۱؎ (سنن ابوداود:3644 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ان کی روایات تین طرح کی ہیں : ایک تو وہ جن کی صحت ہمارے ہاں کسی آیت یا حدیث سے ہوتی ہے ۔ دوسرا وہ جن کی تکذیب کسی آیت یا حدیث سے ہوتی ہو ۔ تیسرا وہ جس کی بابت کوئی ایسا فیصلہ ہمارے دین میں نہ ملے تو بقول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم { اس روایت کے بیان میں تو کوئی حرج نہیں ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:3461) لیکن تصدیق ، تکذیب جائز نہیں ۔ میرے نزدیک تو یہ اثر دوسری قسم کا ہے یعنی ماننے کے قابل نہیں اور جن صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہ اللہ علیہم سے یہ مروی ہے ، انہوں نے اسے تیسری قسم کا سمجھ کر روایت کر دیا ہے ۔ امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” مشرکوں کا اپنی اولاد کے معاملے میں اللہ کے ساتھ کرنے کا بیان ان آیتوں میں ہے نہ کہ آدم و حواء کا ۔ “ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ اس شرک سے اور ان کے شریک ٹھہرانے سے بلند و بالا ہے ۔ ان آیات میں یہ ذکر اور ان سے پہلے آدم و حواء کا ذکر مثل تمہید کے ہے کہ ان اصلی ماں باپ کا ذکر کر کے پھر اور ماں باپوں کا ذکر ہوا ، اور ان ہی کا شرک بیان ہوا ۔ ذکر شخص سے ذکر جنس کی طرف استطراد کے طور پر ، جیسے آیت «وَلَقَدْ زَیَّنَّا السَّمَاءَ الدٰنْیَا بِمَصَابِیحَ وَجَعَلْنَاہَا رُجُومًا لِّلشَّیَاطِینِ» ۱؎ (67-الملک:5) میں ہے یعنی ’ ہم نے دنیا کے آسمان کو ستاروں سے زینت دی اور انہیں شیطانوں پر انگارے برسانے والا بنایا ۔ ‘ اور یہ ظاہر ہے کہ جو ستارے زینت کے ہیں ، وہ جھڑتے نہیں ، ان سے شیطانوں کو مار نہیں پڑتی ۔ یہاں بھی استطراد تاروں کی شخصیت سے تاروں کی جنس کی طرف ہے ۔ اس کی اور بھی بہت سی مثالیں قرآن کریم میں موجود ہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ الاعراف
190 الاعراف
191 انسان کا المیہ خود ساز خدا اور اللہ سے دوری ہے جو لوگ اللہ کے سوا اوروں کو پوجتے ہیں ، وہ سب اللہ کے ہی بنائے ہوئے ہیں ، وہی ان کا پالنے والا ہے ۔ وہ بالکل بے اختیار ہیں ، کسی نفع نقصان کا انہیں اختیار نہیں ، وہ اپنے پجاریوں کو کوئی نفع نہیں پہنچا سکتے بلکہ وہ تو ہل جل بھی نہیں سکتے ، دیکھ اور سن بھی نہیں سکتے ۔ ان بتوں سے تو ان کے پجاری ہی توانا ، تندرست اور اچھے ہیں کہ ان کی آنکھیں بھی ہیں ، کان بھی ہیں ۔ یہ بےوقوف تو انہیں پوجتے ہیں جنہوں نے ساری مخلوق میں سے ایک چیز کو بھی پیدا نہیں کیا بلکہ وہ خود اللہ تعالیٰ کے پیدا کئے ہوئے ہیں ۔ جیسے اور جگہ ہے کہ «یَا أَیٰہَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوا لَہُ إِنَّ الَّذِینَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللہِ لَن یَخْلُقُوا ذُبَابًا وَلَوِ اجْتَمَعُوا لَہُ وَإِن یَسْلُبْہُمُ الذٰبَابُ شَیْئًا لَّا یَسْتَنقِذُوہُ مِنْہُ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ مَا قَدَرُوا اللہَ حَقَّ قَدْرِہِ إِنَّ اللہَ لَقَوِیٌّ عَزِیزٌ» ۱؎ (22-الحج:73-74) ’ لوگو ! آؤ ایک لطیف مثال سنو ، تم جنہیں پکار رہے ہو ، یہ سارے ہی جمع ہو کر ایک مکھی بھی پیدا کرنا چاہیں تو ان کی طاقت سے خارج ہے ۔ بلکہ ان کی کمزوری تو یہاں تک ہے کہ کوئی مکھی ان کی کسی چیز کو چھین لے جائے تو یہ اس سے واپس بھی نہیں کر سکتے ، طلب کرنے والے اور جن سے طلب کی جا رہی ہے ، بہت ہی بودے ہیں ۔ ‘ تعجب ہے کہ اتنے کمزوروں کی عبادت کی جاتی ہے جو اپنا حق بھی ایک مکھی سے نہیں لے سکتے ، وہ تمہاری روزیوں اور مدد پر کیسے قادر ہوں گے ؟ خلیل اللہ علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا کہ «قَالَ أَتَعْبُدُونَ مَا تَنْحِتُونَ» ۱؎ (37-الصافات:95) ’ کیا تم ان کی عبادت کرتے ہو جنہیں تم خود ہی گھڑتے اور بناتے ہو ؟ ‘ وہ نہ تو اپنے پجاریوں کی مدد کر سکتے ہیں ، نہ خود اپنی ہی کوئی مدد کر سکتے ہیں ۔ یہاں تک کہ «فَجَعَلَہُمْ جُذَاذًا إِلَّا کَبِیرًا لَّہُمْ لَعَلَّہُمْ إِلَیْہِ یَرْجِعُونَ» ۱؎ (21-الأنبیاء:58) ’ خلیل اللہ علیہ السلام نے انہیں توڑ توڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ۔ ‘ لیکن ان سے یہ نہ ہو سکا کہ اپنے آپ کو ان کے ہاتھ سے بچا لیتے ۔ ہاتھ میں تبر لے کر سب کو چورا کر دیا اور ان معبودان باطل سے یہ بھی نہ ہو سکا کہ کسی طرح اپنا بچاؤ کر لیتے ۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی سیدنا معاذ بن عمرو بن جموح اور سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہما یہی کام کرتے تھے کہ رات کے وقت چپکے سے جا کر مشرکین کے بت توڑ آتے اور جو لکڑی کے ہوتے ، انہیں توڑ کر بیوہ عورتوں کو دے دیتے کہ وہ اپنا ایندھن بنا لیں اور قوم کے بت پرست عبرت حاصل کریں ۔ خود معاذ رضی اللہ عنہ کا باپ عمرو بن جموح بھی بت پرست تھا ، یہ دونوں نوجوان دوست وہاں بھی پہنچتے اور اس بت کو پلیدی سے آلودہ کر آتے ۔ جب یہ آتا تو اپنے معبود کو اس حالت میں دیکھ کر بہت پیچ و تاب کھاتا ، پھر دھوتا ، پھر اس پر خوشبو ملتا ۔ ایک مرتبہ اس نے اس کے پاس تلوار رکھ دی اور کہا : دیکھ ! آج تیرا دشمن آئے تو اس تلوار سے اس کا کام تمام کر دینا ۔ یہ اس رات بھی پہنچے اور اس کی درگت کر کے پاخانے سے لیپ کر کے چلے آئے مگر تاہم اسے اثر نہ ہوا ، صبح کو اسی طرح اس نے دھو دھا کر ٹھیک ٹھاک کر کے خوشبو لگا کر بیٹھا کر ڈنڈوت کی یعنی [ اٹھک بیٹھک ] کی ۔ جب ان دونوں نے دیکھا کہ کسی طرح یہ نہیں مانتا تو ایک رات اس بت کو اٹھا لائے اور ایک کتے کا پلا جو مرا پڑا تھا ، اس کے گلے میں باندھ دیا اور محلے کے ایک کنویں میں ڈال دیا ۔ صبح اس نے اپنے بت کو نہ پا کر تلاش کیا تو کنویں میں اسے نظر آیا کہ کتے کے مردہ بچے کے ساتھ پڑا ہوا ہے ، اب اسے بت سے اور بت پرستی سے نفرت ہو گئی ۔ اور اس نے کہا : «تاللہ لو کنت الھا مستدن لم تک والکلب جمیعا فی قرن» یعنی اگر تو سچ مچ معبود ہوتا تو کنوئیں میں کتے کے پلے کے ساتھ پڑا ہوا نہ ہوتا ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور مشرف بہ اسلام ہو گئے ، پھر تو اسلام میں پورے پکے ہو گئے ۔ احد کی لڑائی میں شریک ہوئے اور کفار کو قتل کرتے ہوئے شہید ہو گئے ۱؎ (سیرۃ ابن ہشام:354/1) «رضی اللہ عنہ وارضاہ وجعل جنت الفردوس ماوا» ۔ انہیں اگر بلایا جائے تو یہ قبول کرنا تو درکنار ، سن بھی نہیں سکتے ۔ محض پتھر ہیں ، بےجان ہیں ، بےآنکھ اور بےکان ہیں ۔ جیسے کہ خلیل اللہ علیہ السلام نے فرمایا کہ ’ میرے والد ! آپ ان کی عبادت کیوں کرتے ہیں ، جو نہ سنیں ، نہ دیکھیں ، نہ تجھے کوئی نفع پہنچا سکیں ، نہ تیرے کسی کام آ سکیں ۔ ‘ ۱؎ (19-مریم:42) انہیں پکارنا اور نہ پکارنا دونوں برابر ہیں ۔ یہ تو تم جیسے ہی بے بس اور اللہ کی مخلوق ہیں ۔ بتاؤ تو کبھی انہوں نے تمہاری فریاد رسی کی ہے ؟ یا کبھی تمہاری دعا کا جواب دیا ہے ؟ حقیقت میں ان سے افضل و اعلیٰ تو تم خود ہو ۔ تم سنتے ، دیکھتے ، چلتے پھرتے ، بولتے چالتے ہو ، یہ تو اتنا بھی نہیں کر سکتے ۔ اچھا ! تم ان سے میرا کچھ بگاڑنے کی درخواست کرو ، میں اعلان کرتا ہوں کہ اگر ان سے ہو سکے تو بلاتامل اپنی پوری طاقت سے جو میرا بگاڑ سکتے ہوں ، بگاڑ لیں ۔ سنو ! میں تو اللہ کو اپنا حمایتی اور مددگار سمجھتا ہوں ، وہی میرا بچانے والا ہے اور وہ مجھے کافی وافی ہے ۔ اسی پر میرا بھروسہ ہے ، اسی سے میرا لگاؤ ہے ۔ میں ہی نہیں ، ہر نیک بندہ یہی کرتا ہے اور وہ بھی اپنے تمام سچے غلاموں کی نگہبانی اور حفاظت کرتا رہتا ہے اور کرتا رہے گا ۔ میرے بعد بھی ان سب کا نگراں اور محافظ وہی ہے ۔ ہود علیہ السلام سے آپ کی قوم نے کہا کہ ہمارا تو خیال ہے کہ تو جو ہمارے معبودوں پر ایمان نہیں رکھتا ، اسی سبب سے انہوں نے تجھے ان مشکلات میں ڈال دیا ہے ۔ اس کے جواب میں اللہ کے پیغمبر نے فرمایا : سنو ! تم کو اور اللہ کو گواہ کر کے علی الاعلان کہتا ہوں کہ میں اللہ کے سوا تمہارے تمام معبودوں سے بری اور بیزار اور ان سب کا دشمن ہوں ، تم میرا کچھ بگاڑ سکتے ہو تو بگاڑ لو ۔ تمہیں بھی قسم ہے جو ذرا سی کوتاہی کرو ۔ میرا توکل اللہ کی ذات پر ہے ۔ تمام جانداروں کی چوٹیاں اس کے ہاتھ ہیں ، میرا رب ہی سچی راہ پر ہے ۔ خلیل اللہ علیہ السلام نے بھی یہی فرمایا تھا کہ تم اور تمہارے بزرگ جن کی تم پرستش کرتے ہو ، میں ان سب کا دشمن ہوں اور وہ مجھ سے دور ہیں ۔ سوائے اس رب العالمین کے ، جس نے مجھے پیدا کیا ، وہی میری رہبری کی ۔ آپ نے اپنے والد اور قوم سے بھی یہی فرمایا کہ «وَإِذْ قَالَ إِبْرَ‌اہِیمُ لِأَبِیہِ وَقَوْمِہِ إِنَّنِی بَرَ‌اءٌ مِّمَّا تَعْبُدُونَ إِلَّا الَّذِی فَطَرَ‌نِی فَإِنَّہُ سَیَہْدِینِ وَجَعَلَہَا کَلِمَۃً بَاقِیَۃً فِی عَقِبِہِ لَعَلَّہُمْ یَرْ‌جِعُونَ» ۱؎ (43-الزخرف:26-28) ’ میں تمہارے معبودان باطل سے بری اور بیزار ہوں ، سوائے اس سچے معبود کے جس نے مجھے پیدا کیا ہے ، وہی میری رہبری کرے گا ۔ ہم نے اسی کلمے کو اس کی نسل میں ہمیشہ کے لئے باقی رکھ دیا تاکہ لوگ اپنے باطل خیالات سے ہٹ جائیں ۔ ‘ پہلے تو غائبانہ فرمایا تھا ، پھر اور تاکید کے طور پر خطاب کر کے فرماتا ہے کہ جن جن کو اللہ کے سوا تم پکارتے ہو ، وہ تمہاری امداد نہیں کر سکتے اور نہ وہ خود اپنا ہی کوئی نفع کر سکتے ہیں ۔ یہ تو سن ہی نہیں سکتے ، تجھے تو یہ آنکھوں والے دکھائی دیتے ہیں ، لیکن دراصل ان کی اصلی آنکھیں ہی نہیں کہ کسی کو دیکھ سکیں ۔ جیسے فرمان ہے کہ اگر تم انہیں پکارو تو وہ سنتے نہیں چونکہ وہ تصاویر اور بت ہیں ، ان کی مصنوعی آنکھیں ہیں ، محسوس تو یہ ہوتا ہے کہ وہ دیکھ رہے ہیں لیکن دراصل دیکھ نہیں رہے چونکہ وہ پتھر بصورت انسان ہیں ، اس لیے ضمیر بھی ذی العقول کی لائے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد کفار ہیں لیکن اول ہی اولیٰ ہے ، یہی امام ابن جریر اور قتادہ رحمۃ اللہ علیہم کا قول ہے ۔ الاعراف
192 الاعراف
193 الاعراف
194 الاعراف
195 الاعراف
196 الاعراف
197 الاعراف
198 الاعراف
199 اچھے اعمال کی نشاندہی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ” مطلب یہ ہے کہ ان سے وہ مال لے جو ان کی ضرورت سے زیادہ ہوں اور جسے یہ بخوشی اللہ کی راہ میں پیش کریں ۔ “ پہلے چونکہ زکوٰۃ کے احکام تفصیل کے ساتھ نہیں اترے تھے ، اس لیے یہی حکم تھا ۔ یہ بھی معنی کئے گئے ہیں کہ ” ضرورت سے زائد چیز اللہ کی راہ میں خرچ کر دیا کرو ۔ ” یہ بھی مطلب ہے کہ ” مشرکین سے بدلہ نہ لو ۔ “ دس سال تک تو یہی حکم رہا کہ درگزر کرتے رہو ، پھر جہاد کے احکام اترے ۔ یہ بھی مطلب ہے کہ ” لوگوں کے اچھے اخلاق اور عمدہ عادات جو ظاہر ہوں ، انہی پر نظریں رکھو ، ان کے باطن نہ ٹٹولو ، تجسس نہ کرو ۔ “ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما وغیرہ سے بھی یہی تفسیر مروی ہے اور یہی قول زیادہ مشہور ہے ۔ حدیث میں ہے کہ { اس آیت کو سن کر جبرائیل علیہ السلام سے آپ نے دریافت کیا کہ اس کا کیا مطلب ہے ؟ آپ نے فرمایا : یہ کہ جو تجھ پر ظلم کرے ، تو اس سے درگزر کر ۔ جو تجھے نہ دے ، تو اس کے ساتھ بھی احسان و سلوک کر ۔ جو تجھ سے قطع تعلق کرے ، تو اس کے ساتھ بھی تعلق رکھ ۔ } (تفسیر ابن جریر الطبری:15559) مسند احمد میں ہے : { عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا اور آپ کا ہاتھ تھام کر درخواست کی کہ مجھے افضل اعمال بتائیے ۔ آپ نے فرمایا : جو تجھ سے توڑے ، تو اس سے بھی جوڑ ۔ جو تجھ سے روکے ، تو اسے دے ، جو تجھ پر ظلم کرے ، تو اس پر بھی رحم کر ۔ } ۱؎ (سلسلۃ احادیث صحیحہ البانی:891) اوپر والی روایت مرسل ہے اور یہ روایت ضعیف ہے ۔ «عرف» سے مراد نیک ہے ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ { عیینہ بن حصن بن حذیفہ اپنے بھائی حر بن قیس کے ہاں آ کے ٹھہرا ، حر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے خاص درباریوں میں تھے ، آپ کے درباری اور نزدیکی کا شرف صرف انہیں حاصل تھا جو قرآن کریم کے ماہر تھے ۔ خواہ وہ جوان ہوں ، خواہ بوڑھے ۔ اس نے درخواست کی کہ مجھے آپ امیر المؤمنین عمر کے دربار میں حاضری کی اجازت دلوا دیجئیے ۔ آپ نے وہاں جا کر ان کے لیے اجازت چاہی ۔ امیر المؤمنین نے اجازت دے دی ، یہ جاتے ہی کہنے لگے : اے ابن خطاب ! تو ہمیں بکثرت مال بھی نہیں دیتا اور ہم میں عدل کے ساتھ فیصلے بھی نہیں کرتا ۔ آپ کو یہ کلام بھی برا لگا ، ممکن تھا کہ اسے اس کی اس تہمت پر سزا دیتے لیکن اسی وقت حر نے کہا : اے امیر المؤمنین ! اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرمایا ہے کہ عفودرگزر کی عادت رکھ ، اچھائیوں کا حکم کرتا رہ اور جاہلوں سے چشم پوشی کر ۔ امیر المؤمنین یقین کیجئے ، یہ نرا جاہل ہے ۔ قرآن کریم کی اس آیت کا امیر المؤمنین کے کان میں پڑنا تھا کہ آپ کا تمام رنج و غم ، غصہ و غضب جاتا رہا ۔ آپ کی یہ تو عادت ہی تھی کہ ادھر اللہ کا نام سنا ، ادھر گردن جھکا دی ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:4642) امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ کے پوتے سالم بن عبداللہ رحمہ اللہ کا ذکر ہے کہ آپ نے شامیوں کے ایک قافلے کو دیکھا ، جس میں گھنٹی تھی تو آپ نے فرمایا : یہ گھنٹیاں منع ہیں ۔ انہوں نے کہ ہم اس مسئلے کو آپ سے زیادہ جانتے ہیں ۔ بڑی بڑی گھنٹیوں سے منع ہے ، اس جیسی چھوٹی گھنٹیوں میں کیا حرج ہے ؟ سالم نے آیت کا آخری جملہ پڑھ کر ان جاہلوں سے چشم پوشی کر لی ۔ عرف ، معروف ، عارف ، عارفہ سب کے ایک ہی معنی ہیں ۔ اس میں ہر اچھی بات کی اطاعت کا ذکر آ گیا ۔ پھر حکم دیا کہ جاہلوں سے منہ پھیر لیا کر ۔ گو یہ حکم آپ کو ہے لیکن دراصل تمام بندوں کو یہی حکم ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ تکلیف برداشت کر لیا کرو ، تکلیف دہی کا خیال بھی نہ کرو ۔ یہ معنی نہیں کہ دین حق کے معاملے میں جو جہالت سے پیش آئے ، تم اسے کچھ نہ کہو ، مسلمانوں سے جو کفر پر جم کر مقابلہ کرے ، تم اسے کچھ نہ کہنا ، یہ مطلب اس جملے کا نہیں ۔ یہ وہ پاکیزہ اخلاق ہیں جن کا مجسم عملی نمونہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے ۔ کسی نے اسی مضمون کو اپنے شعروں میں باندھا ہے ۔ «خذ العفو وامر بعرف کما امرت واعرض عن الجاھلین ولن فی الکلام بکل الانام فمستحسن من ذوی الجاھلین» یعنی درگزر کیا کر ، بھلی بات بتا دیا کر ، جیسے کہ تجھے حکم ہوا ہے ، نادانوں سے ہٹ جایا کر ، ہر ایک سے نرم کلامی سے پیش آیا کر ، یاد رکھ کہ عزت و جاہ پر پہنچ کر نرم اور خوش اخلاق رہنا ہی کمال ہے ۔ بعض مسلمانوں کا مقولہ ہے کہ لوگ دو طرح کے ہیں ، ایک تو بھلے اور محسن جو احسان و سلوک کریں ، قبول کر لے اور ان کے سر نہ ہو جا کہ ان کی وسعت سے زیادہ ان پر بوجھ ڈال دے ۔ دوسرے بد اور ظالم ، انہیں نیکی اور بھلائی کا حکم دے ۔ پھر بھی اگر وہ اپنی جہالت پر اور بد کرداری پر اڑے رہیں اور تیرے سامنے سرکشی اختیار کریں تو ، تو ان سے روگردانی کر لے ۔ یہی چیز اسے اس کی برائی سے ہٹا دے گی ۔ جیسے کہ اللہ کا فرمان ہے «ادْفَعْ بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ السَّیِّئَۃَ نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا یَصِفُونَ ادْفَعْ بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ السَّیِّئَۃَ نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا یَصِفُونَ وَقُل رَّبِّ أَعُوذُ بِکَ مِنْ ہَمَزَاتِ الشَّیَاطِینِ وَأَعُوذُ بِکَ رَبِّ أَن یَحْضُرُونِ» ۱؎ (23-المؤمنون:96-98) اور آیت «وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیِّئَۃُ ادْفَعْ بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِی بَیْنَکَ وَبَیْنَہُ عَدَاوَۃٌ کَأَنَّہُ وَلِیٌّ حَمِیمٌ وَمَا یُلَقَّاہَا إِلَّا الَّذِینَ صَبَرُوا وَمَا یُلَقَّاہَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِیمٍ وَإِمَّا یَنزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِ اللہِ إِنَّہُ ہُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ» ۱؎ (41-فصلت:34-36) بہترین طریق سے دفع کر دو تو تمہارے دشمن بھی تمہارے دوست بن جائیں گے ، لیکن یہ انہی سے ہو سکتا ہے جو صابر ہوں اور نصیبوں والے ہوں ۔ اس کے بعد شیطانی وسوسوں سے اللہ کی پناہ مانگنے کا حکم ہوا ، اس لیے کہ وہ سخت ترین دشمن ہے اور ہے بھی احسان فراموش ۔ انسانی دشمنوں سے بچاؤ تو عفوودرگزر اور سلوک و احسان سے ہو جاتا ہے ۔ لیکن اس ملعون سے سوائے اللہ کی پناہ کے اور کوئی بچاؤ نہیں ۔ یہ تینوں حکم جو سورۃ الاعراف کی ان تین آیات میں ہیں ، یہی سورۃ مومنون میں بھی ہیں اور سورۃ حم السجدہ میں بھی ہیں ۔ شیطان تو آدم علیہ السلام کے وقت سے دشمن انسان ہے ۔ یہ جب غصہ دلائے ، جوش میں لائے ، فرمان الٰہی کے خلاف ابھارے ، جاہلوں سے بدلہ لینے پر آمادہ کرے تو اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگ لیا کرو ۔ وہ جاہلوں کی جہالت کو بھی جانتا ہے اور تیرے بچاؤ کی ترکیبوں کو بھی جانتا ہے ۔ ساری مخلوق کا اسے علم ہے وہ تمام کاموں سے خبردار ہے ۔ کہتے ہیں کہ جب اگلے تین حکم سنے تو کہا : اسے اللہ ان کاموں کے کرنے کے وقت تو شیطان ان کے خلاف بری طرح آمادہ کر دے گا اور نفس تو جوش انتقام سے پر ہوتا ہی ہے ، کہیں ان کی خلاف ورزی نہ ہو جائے تو یہ پچھلی آیت نازل ہوئی کہ ایسا کرنے سے شیطانی وسوسہ دفع ہو جائے گا اور تم ان اخلاق کریمانہ پر عامل ہو جاؤ گے ۔ میں نے اپنی اسی تفسیر کے شروع میں ہی «اعوذ» کی بحث میں اس حدیث کو بھی وارد کیا ہے کہ { دو شخص لڑ جھگڑ رہے تھے جن میں سے ایک سخت غضبناک تھا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے ایک ایسا کلمہ یاد ہے ، اگر یہ کہہ لے تو ابھی یہ بات جاتی رہے ۔ وہ کلمہ «اعُوذُ بِاللّہِ مِن الشِّیطانِ الرَّجِیمِ» ہے ۔ کسی نے اس میں بھی ذکر کیا تو اس نے کہا کہ کیا میں کوئی دیوانہ ہو گیا ہوں ؟ } ۱؎ (صحیح بخاری:3282) «نزغ» کے اصلی معنی فساد کے ہیں ، وہ خواہ غصے سے ہو یا کسی اور وجہ سے ۔ فرمان قرآن ہے کہ «وَقُل لِّعِبَادِی یَقُولُوا الَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ إِنَّ الشَّیْطَانَ یَنزَغُ بَیْنَہُمْ» ۱؎ (17-الإسراء:53) ’ میرے بندوں کو آگاہ کر دو کہ وہ بھلی بات زبان سے نکالا کریں ۔ شیطان ان میں فساد کی آگ بھڑکانا چاہتا ہے ۔ ‘ «عیاذ» کے معنی التجا اور استناد کے ہیں اور «ملاذ» کا لفظ طلب خیر کے وقت بولا جاتا ہے جیسے حسن بن ہانی کا شعر ہے ۔ «بامن الوذبہ فیما اوملہ ومن اعوذ بہ مما احاذرہ لا یجبر الناس عظما انت کاسرہ ولا یھیضون عظما انت جابرہ» یعنی اے اللہ ! تو میری آرزوؤں کا مرکز ہے اور میرے بچاؤ اور پناہ کا مسکن ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ جس ہڈی کو تو توڑنا چاہے ، اسے کوئی جوڑ نہیں سکتا اور جسے تو جوڑنا چاہے ، اسے کوئی توڑ نہیں سکتا ۔ باقی احادیث جو تعوذ [ اعوذ باللہ ] کے متعلق تھیں ، وہ ہم اپنی اس تفسیر کے شروع میں ہی لکھ آئے ہیں ۔ الاعراف
200 الاعراف
201 جو اللہ سے ڈرتا ہے ، شیطان اس سے ڈرتا ہے طائف کی دوسری قرأت «طیف» ہے ۔ یہ دونوں مشہور قرأتیں ہیں ۔ دونوں کے معنی ایک ہیں ۔ بعض نے لفظی تعریف بھی کی ہے ۔ فرمان ہے کہ وہ لوگ جو اللہ سے ڈرنے والے ہیں ، جنہیں اللہ کا ڈر ہے ، جو نیکیوں کے عامل اور برائیوں سے رکنے والے ہیں ، انہیں جب کبھی غصہ آ جائے ، یا شیطان ان پر اپنا کوئی داؤ چلانا چاہے ، یا ان کے دل میں کسی گناہ کی رغبت ڈالے ، اور ان سے کوئی گناہ کرانا چاہے تو یہ اللہ کے عذاب سے بچنے میں جو ثواب ہے ، یہ اسے بھی یاد کر لیتے ہیں ، رب کے وعدے وعید کی یاد کرتے ہیں اور فوراً چوکنے ہو جاتے ہیں ، توبہ کر لیتے ہیں ، اللہ کی طرف جھک جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے شیطانی شر سے پناہ مانگنے لگتے ہیں اور اسی وقت اللہ کی جناب میں رجوع کرنے لگتے ہیں اور استقامت کے ساتھ صحت پر جم جاتے ہیں ۔ ابن مردویہ میں ہے کہ ایک عورت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی ، جسے مرگی کا دورہ پڑا کرتا تھا ، اس نے درخواست کی کہ آپ میرے لیے آپ دعا کیجئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر تم چاہو تو میں دعا کروں اور اللہ تمہیں شفا بخشے اور اگر چاہو تو صبر کرو تو اللہ تم سے حساب نہ لے گا ۔ اس نے کہا لی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں صبر کرتی ہوں کہ میرا حساب معاف ہو جائے ۔ سنن میں بھی یہ حدیث ہے کہ { اس عورت نے کہا تھا کہ میں گر پڑتی ہوں اور بیہوشی کی حالت میں میرا کپڑا کھل جاتا ہے جس سے بےپردگی ہوتی ہے ۔ اللہ سے میری شفا کی درخواست کیجئے ۔ آپ نے فرمایا : تم ان دونوں باتوں میں سے ایک کو پسند کر لو ، یا تو میں دعا کروں اور تمہیں شفا ہو جائے ، یا تم صبر کرو اور تمہیں جنت ملے ۔ اس نے کہا : میں صبر کرتی ہوں کہ مجھے جنت ملے ۔ لیکن اتنی دعا تو ضرور کیجئے کہ میں بےپردہ نہ ہو جایا کروں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی ۔ چنانچہ ان کا کپڑا کیسی ہی وہ تلملاتیں ، اپنی جگہ سے نہیں ہٹتا تھا ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:5652) حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ اپنی تاریخ میں عمرو بن جامع کے حالات میں نقل کرتے ہیں کہ ایک نوجوان عابد مسجد میں رہا کرتا تھا اور اللہ کی عبادت کا بہت مشتاق تھا ۔ ایک عورت نے اس پر ڈورے ڈالنے شروع کئے ، یہاں تک کہ اسے بہکا لیا ۔ قریب تھا کہ وہ اس کے ساتھ کوٹھڑی میں چلا جائے اچانک اسے یہ آیت «إِذَا مَسَّہُمْ طَائِفٌ مِّنَ الشَّیْطَانِ تَذَکَّرُوا فَإِذَا ہُم مٰبْصِرُونَ» یاد آئی اور غش کھا کر گر پڑا ۔ بہت دیر کے بعد جب اسے ہوش آیا ، اس نے پھر اس آیت کو یاد کیا اور اس قدر اللہ کا خوف اس کے دل میں سمایا کہ اس کی جان نکل گئی ۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس کے والد سے ہمدردی اور غم خواری کی ۔ چونکہ انہیں رات ہی کو دفن کر دیا گیا تھا ، آپ ان کی قبر پر گئے ، آپ کے ساتھ بہت سے آدمی تھے ۔ آپ نے وہاں جا کر ان کی قبر پر نماز جنازہ ادا کی اور اسے آواز دے کر فرمایا : اے نوجوان ! «وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ» ۱؎ (55-الرحمن:46) ’ جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کا ڈر رکھے ، اس کیلئے دو دو جنتیں ہیں ۔ ‘ اسی وقت قبر کے اندر سے آواز آئی کہ مجھے میرے رب عزوجل نے وہ دونوں مرتبے دو دو عطا فرما دیئے ۔ یہ تو تھا حال اللہ والوں کا اور پرہیزگاروں کا کہ وہ شیطانی جھٹکوں سے بچ جاتے ہیں ، اس کے فن فریب سے چھوٹ جاتے ہیں ۔ اب ان کا حال بیان ہو رہا ہے جو خود شیطان کے بھائی بنے ہوئے ہیں ، جیسے «إِنَّ الْمُبَذِّرِینَ کَانُوا إِخْوَانَ الشَّیَاطِینِ» ۱؎ (17-الإسراء:27) فضول خرچ لوگوں کو قرآن نے شیطان کے بھائی قرار دیا ہے ۔ ایسے لوگ اس کی باتیں٘ سنتے ہیں ، مانتے ہیں اور ان پر ہی عمل کرتے ہیں ۔ شیاطین ان کے سامنے برائیاں اچھے رنگ میں پیش کرتے ہیں ، ان پر وہ آسان ہو جاتی ہیں اور یہ پوری مشغولیت کے ساتھ ان میں پھنس جاتے ہیں ۔ دن بدن اپنی بدکاری میں بڑھتے جاتے ہیں ، جہالت اور نادانی کی حد کر دیتے ہیں ۔ جیسے آیت میں ہے «أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّیَاطِینَ عَلَی الْکَافِرِینَ تَؤُزٰہُمْ أَزًّا» ۱؎ (19-مریم:83) ’ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ ہم نے شیطانوں کو کافروں پر چھوڑ رکھا ہے کہ ان کو برانگیختہ کرتے رہتے ہیں ۔ ‘ نہ شیطان ان کے بہکانے میں کوتاہی برتتے ہیں ، نہ یہ برائیاں کرنے میں کمی کرتے ہیں ۔ یہ ان کے دلوں میں وسوسے ڈالتے رہتے ہیں اور وہ ان وسوسوں میں پھنستے رہتے ہیں ، یہ انہیں بھڑکاتے رہتے ہیں اور گناہوں پر آمادہ کرتے رہتے ہیں ، وہ برے عمل کئے جاتے ہیں اور برائیوں پر مداومت اور لذت کے ساتھ جمے رہتے ہیں ۔ الاعراف
202 الاعراف
203 سب سے بڑا معجزہ قرآن کریم ہے یہ لوگ کوئی معجزہ مانگتے اور آپ اسے پیش نہ کرتے تو کہتے کہ نبی ہوتا تو ایسا کر لیتا ، بنا لیتا ، اللہ سے مانگ لیتا ، اپنے آپ گھڑ لیتا ، آسمان سے گھسیٹ لاتا ۔ الغرض معجزہ طلب کرتے اور وہ طلب بھی سرکشی اور عناد کے ساتھ ہوتی ۔ جیسے فرمان قرآن ہے «اِنْ نَّشَاْ نُنَزِّلْ عَلَیْہِمْ مِّنَ السَّمَاءِ اٰیَۃً فَظَلَّتْ اَعْنَاقُہُمْ لَہَا خٰضِعِیْنَ» ۱؎ (26-الشعراء:4) ’ اگر ہم چاہتے تو کوئی نشان ان پر آسمان سے اتارتے جس سے ان کی گردنین جھک جاتیں ۔ ‘ وہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے رہتے تھے کہ جو ہم مانگتے ہیں ، وہ معجزہ اپنے رب سے طلب کر کے ہمیں ضرور دکھا دیجئے ۔ تو حکم دیا کہ ان سے فرما دیجئے کہ میں تو اللہ کی باتیں ماننے والا اور ان پر عمل کرنے والا وحی الٰہی کا تابع ہوں ، میں اس کی جناب میں کوئی گستاخی نہیں کر سکتا ، آگے نہیں بڑھ سکتا ۔ جو حکم دے ، صرف اسے بجا لاتا ہوں ۔ اگر کوئی معجزہ وہ عطا فرمائے ، دکھا دوں ۔ جو وہ ظاہر نہ فرمائے ، اسے میں لا نہیں سکتا ۔ میرے بس میں کچھ نہیں ۔ میں اس سے معجزہ طلب نہیں کیا کرتا ، مجھ میں اتنی جرات نہیں ، ہاں اس کی اجازت پا لیتا ہوں تو اس سے دعا کرتا ہوں ۔ وہ حکمتوں والا اور علم والا ہے ۔ میرے پاس تو میرے رب کا سب سے بڑا معجزہ قرآن کریم ہے جو سب سے زیادہ واضح دلیل ، سب سے زیادہ سچی حجت اور سب سے زیادہ روشن برہان ہے ۔ جو حکمت ، ہدایت اور رحمت سے پر ہے ۔ اگر دل میں ایمان ہے تو اس اچھے ، سچے ، عمدہ اور اعلیٰ معجزے کے بعد دوسرے معجزے کی طلب باقی ہی نہیں رہتی ۔ الاعراف
204 سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی چونکہ اوپر کی آیت میں بیان تھا کہ یہ قرآن لوگوں کے لیے بصیرت و بصارت ہے اور ساتھ ہی ہدایت اور رحمت ہے ۔ اس لیے اس آیت میں اللہ تعالیٰ جل و علا حکم فرماتا ہے کہ اس کی عظمت اور احترام کے طور پر اس کی تلاوت کے وقت کان لگا کر اسے سنو ۔ ایسا نہ کرو جیسا کفار قریش نے کیا کہ وہ کہتے تھے «وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَا تَسْمَعُوْا لِھٰذَا الْقُرْاٰنِ وَالْـغَوْا فِیْہِ لَعَلَّکُمْ تَغْلِبُوْنَ» ۱؎ (41-فصلت:26) ’ اس قران کو نہ سنو اور اس کے پڑھے جانے کے وقت شور و غل مچا دو ۔ ‘ اس کی اور زیادہ تاکید ہو جاتی ہے جبکہ فرض نماز میں امام با آواز بلند قرأت پڑھتا ہو ۔ جیسے کہ صحیح مسلم شریف میں سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ { امام اقتداء کئے جانے کیلئے مقرر کیا گیا ہے ۔ جب وہ تکبیر کہے ، تم تکبیر کہو اور جب وہ پڑھے ، تم خاموش رہو ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:404) اسی طرح سنن میں بھی یہ حدیث بروایت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مروی ہے ۔ امام مسلم بن حجاج رحمہ اللہ نے بھی اسے صحیح کہا ہے اور اپنی کتاب میں نہیں لائے ـ [ یہ یاد رہے کہ اس حدیث میں جو خاموش رہنے کا حکم ہے ، یہ صرف اس قرأت کے لئے ہے جو الحمد [ سورۃ الفاتحہ ] کے سوا ہو ] ۔ جیسے کہ طبرانی کبیر میں صحیح حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : «مَنْ صَلَّی خَلْفَ اَلاِمَاْم فَلیَقَرَْا بِفَاتِحَۃ الکِتَْابِ» یعنی جو شخص امام کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہو ، وہ سورۃ فاتحہ ضرور پڑھ لے ۔ پس سورۃ فاتحہ پڑھنے کا حکم ہے اور قرأت کے وقت خاموشی کا حکم ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ [ مترجم ] اس آیت کے شان نزول کے متعلق سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگ پہلے نماز پڑھتے ہوئے باتیں بھی کر لیا کرتے تھے ، تب یہ آیت اتری ۔ اور دوسری آیت میں چپ رہنے کا حکم کیا گیا ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نماز پڑھتے ہوئے ہم آپس میں ایک دوسرے کو سلام کیا کرتے تھے ، پس یہ آیت اتری ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:15593:ضعیف) آپ نے ایک مرتبہ نماز میں لوگوں کو امام کے ساتھ ہی ساتھ پڑھتے ہوئے سن کر فارغ ہو کر فرمایا کہ تم اب تک اس با کو سمجھ نہیں سکے ، جب قرآن پڑھا جائے تو اسے سنو اور چپ رہو ۔ جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں حکم دیا ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:15592:ضعیف) [ واضح رہے کہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی رائے میں اس سے مراد امام کے با آواز بلند الحمد کے سوا دوسری قرأت کے وقت مقتدی کا خاموش رہنا ہے ، نہ کہ پست آواز کی قرأت والی نماز میں ، اور بلند آواز کی قرأت والی نماز میں الحمد سے خاموشی [ نہیں مراد ، کیونکہ ] امام کے پیچھے الحمد تو خود آپ بھی پڑھا کرتے تھے ۔ جیسے کہ جزاء القراۃ بخاری میں ہے : «انہ قرا فی العصر خلف الا مام فی الرکعتین الاولیین بام القران و سورۃ» یعنی آپ نے امام کے پیچھے عصر کی نماز کی پہلی دو رکعتوں میں سورۃ الحمد بھی پڑھی اور دوسری سورت بھی ملائی ۔ پس آپ کے مندرجہ بالا فرمان کا مطلب صرف اسی قدر ہے کہ جب امام اونچی آواز سے قرأت کرے تو مقتدی الحمد کے سوا دوسری قرأت کے وقت سنے اور چپ رہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ مترجم ] زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت اس انصاری نوجوان کے بارے میں نازل ہوئی ہے جس کی عادت تھی کہ جب کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن سے کچھ پڑھتے ، یہ بھی اسے پڑھتا ۔ پس یہ آیت اتری ۔ مسند احمد اور سنن میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس نماز سے فارغ ہو کر پلٹے جس میں آپ نے باآواز بلند قرأت پڑھی تھی ۔ پھر پوچھا کہ کیا تم میں سے کسی نے میرے ساتھ پڑھا تھا ؟ ایک شخص نے کہا : ہاں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں کہہ رہا تھا کہ یہ کیا بات ہے کہ مجھ سے قرآن کی چھینٹا جھپٹی ہو رہی ہے ؟ } ۱؎ (سنن ابوداود:826،قال الشیخ الألبانی:صحیح) راوی کا کہنا ہے کہ اس کے بعد لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان نمازوں میں جن میں آپ اونچی آواز سے قرأت پڑھا کرتے تھے ، قرأت سے رک گئے جبکہ انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا ۔ امام ترمذی رحمہ اللہ اسے حسن کہتے ہیں اور ابوحاتم رازی اس کی تصحیح کرتے ہیں ۔ [ مطلب اس حدیث کا بھی یہی ہے کہ امام جب پکار کر قرأت پڑھے ، اس وقت مقتدی سوائے الحمد کے کچھ نہ پڑھے کیونکہ ایسی ہی روایت ابوداؤد ، ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ ، موطا امام مالک ، مسند احمد وغیرہ میں ہے ، جس میں ہے کہ جب آپ کے سوال کے جواب میں یہ کہا گیا ہے کہ ہم پڑھتے ہیں تو آپ نے فرمایا «لا تفعلوا الا بفاتحۃ فانہ لاصلوۃ لمن لم یقراء بھا» یعنی ایسا نہ کیا کرو ، صرف سورۃ فاتحہ پڑھو کیونکہ جو اسے نہیں پڑھتا ، اس کی نماز نہیں ہوتی ۔ پس لوگ اونچی آواز والی قرأت کی نماز میں جس قرأت سے رک گئے ، وہ الحمد کے علاوہ تھی کیونکہ اسی سے روکا تھا ، اسی سے صحابہ رضی اللہ عنہم رک گئے ۔ الحمد تو پڑھنے کا حکم دیا تھا ، بلکہ ساتھ ہی فرما دیا تھا کہ اس کے بغیر نماز ہی نہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ مترجم ] زہری کا قول ہے کہ امام جب اونچی آواز سے قرأت پڑھے تو انہیں امام کی قرأت کافی ہے ، امام کے پیچھے والے نہ پڑھیں ۔ گو انہیں امام کی آواز سنائی بھی نہ دے ۔ ہاں ! البتہ جب امام آہستہ آواز سے پڑھ رہا ہو ، اس وقت مقتدی بھی آہستہ پڑھ لیا کریں اور کسی کو لائق نہیں کہ اس کے ساتھ ساتھ پڑھے ، خواہ جہری نماز ہو خواہ سری ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ” جب قرآن پڑھا جائے تو تم اسے سنو اور چپ رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے ۔ “ علماء کے ایک گروہ کا مذہب ہے کہ جب امام اونچی آواز سے قرأت کرے تو مقتدی پر نہ سورۃ فاتحہ پڑھنا واجب ہے ، نہ کچھ اور ۔ امام شافعی رحمہ اللہ کے دو اقوال جن میں سے ایک قول یہ بھی ہے لیکن یہ ان کا پہلا قول ہے جیسے کہ امام مالک رحمہ اللہ کا مذہب ۔ ایک اور روایت میں امام احمد کا بہ سبب ان دلائل کے جن کا ذکر گزر چکا ۔ یعنی نیا دوسرا قول آپ کا یہ ہے : مقتدی صرف سورۃ فاتحہ امام کے سکتوں کے درمیان پڑھ لے جبکہ صحابہ رضی اللہ عنہم ، تابعین رحمۃ اللہ علیہم اور ان کے بعد والے گروہ کا بھی یہی فرمان ہے ۔ امام ابوحنیفہ اور امام احمد فرماتے ہیں : مقتدی پر مطلقاً قرأت واجب نہیں ، نہ اس نماز میں جس میں امام آہستہ قرأت پڑھے اور نہ اس میں جس میں بلند آواز سے قرأت پڑھے ۔ اس لیے کہ حدیث میں ہے : { امام کی قرأت مقتدیوں کی بھی قرأت ہے ۔ } ۱؎ (سنن ابن ماجہ:850 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) اسے امام احمد نے اپنی مسند میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت کیا ہے ۔ یہی حدیث موطا امام مالک میں موقوفاً مروی ہے اور یہی صحیح ہے یعنی یہ قول سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کا ہونا زیادہ صحیح ہے ، نہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان [ لیکن یہ بھی یاد رہے کہ خود سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے ابن ماجہ میں مروی ہے کہ «کنا نقرا فی الظھر والعصر خلف الامام فی الرکعتین الاولیین بفاتحۃ الکتاب وسورۃ وفی الاخریین بفاتحۃ الکتاب» یعنی ہم ظہر اور عصر کی نماز میں امام کے پیچھے پہلی دو رکعتوں میں سورۃ فاتحہ بھی پڑھتے تھے اور کوئی اور سورت بھی اور پچھلی دو رکعتوں میں صرف سورۃ فاتحہ پڑھا کرتے تھے ۔ پس معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے جو فرمایا کہ امام کی قرأت اسے کافی ہے ، اس سے مراد سورۃ الفاتحی کے علاوہ قرأت ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ مترجم ] یہ مسئلہ اور جگہ نہایت تفصیل سے بیان کیا گیا ہے ۔ اسی خاص مسئلے پر امام ابوعبداللہ بخاری رحمہ اللہ نے ایک مستقل رسالہ لکھا ہے اور اس میں ثابت کیا ہے کہ ہر نماز میں خواہ اس میں قرأت اونچی پڑھی جاتی ہو یا آہستہ ، مقتدیوں پر سورۃ فاتحہ کا پڑھنا فرض ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ” یہ آیت فرض نماز کے بارے میں ہے ۔ “ طلحہ کا بیان ہے کہ عبید بن عمر اور عطاء بن ابی رباح کو میں نے دیکھا کہ واعظ وعظ کہہ رہا تھا اور وہ آپس میں باتیں کر رہے تھے تو میں نے کہا : تم اس وعظ کو نہیں سنتے اور وعید کے قابل ہو رہے ہو ؟ انہوں نے میری طرف دیکھا ، پھر باتوں میں مشغول ہو گئے ۔ میں نے پھر یہی کہا ، انہوں نے پھر میری طرف دیکھا اور پھر باتوں میں مشغول ہو گئے ۔ میں نے پھر یہی کہا ، انہوں نے پھر میری طرف دیکھا اور پھر اپنی باتوں میں لگ گئے ، میں نے پھر تیسری مرتبہ ان سے یہی کہا ۔ تیسری بار انہوں نے میری طرف دیکھ کر فرمایا : یہ نماز کے بارے میں ہے ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ” نماز کے سوا جب کوئی قرآن کریم پڑھ رہا ہو تو کلام کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔ “ اور بھی بہت سے بزرگوں کا فرمان ہے کہ مراد اس سے نماز میں ہے ۔ مجاہد رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ یہ آیت نماز اور جمعہ کے خطبے کے بارے میں ہے ۔ عطاء رحمہ اللہ سے بھی اسی طرح مروی ہے ۔ حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ” نماز میں اور ذکر کے وقت ۔ “ سعید بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : عید الاضحیٰ ، عید الفطر ، جمعہ کے دن اور جن نمازوں میں امام اونچی قرأت پڑھے ۔ ابن جریر رحمہ اللہ کا فیصلہ بھی یہی ہے کہ مراد اس سے نماز میں اور خطبے میں چپ رہنا ہے جیسے کہ حکم ہوا ہے ۔ امام کے پیچھے خطبے کی حالت میں چپ رہو ۔ مجاہد رحمہ اللہ نے اسے مکروہ سمجھا کہ جب امام خوف کی آیت یا رحمت کی آیت تلاوت کرے تو اس کے پیچھے سے کوئی شخص کچھ کہے بلکہ خاموشی کے لیے کہا ۔ [ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کبھی کسی خوف کی آیت سے گزرتے تو پناہ مانگتے اور جب کبھی کسی رحمت کے بیان والی آیت سے گزرتے تو اللہ سے سوال کرتے ۔ مترجم ] حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ” جب تو قرآن سننے بیٹھے تو اس کے احترام میں خاموش رہا کر ۔ “ مسند احمد میں فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ { جو شخص کان لگا کر کتاب اللہ کی کسی آیت کو سنے تو اس کے لیے کثرت سے بڑھنے والی نیکی لکھی جاتی ہے اور اگر اسے پڑھے تو اس کے لیے قیامت کے دن نور ہو گا ۔ } ۱؎ (مسند احمد:341/2:ضعیف) الاعراف
205 اللہ کی یاد بکثرت کرو مگر خاموشی سے اللہ تعالیٰ یہاں حکم فرماتا ہے کہ صبح شام اس کو بکثرت یاد کر ۔ اور جگہ بھی ہے «وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغُرُوبِ» ۱؎ (50-ق:39) یعنی ’ اپنے رب کی تسبیح اور حمد بیان کیا کرو ، سورج طلوع اور سورج غروب ہونے سے پہلے ۔ ‘ یہ آیت مکیہ ہے اور یہ حکم معراج سے پہلے کا ہے ۔ «غدو» کہتے ہیں دن کے ابتدائی حصے کو ۔ «اصال» جمع ہے «اصیل» کی ، جیسے کہ ایمان جمع ہے یمین کی ۔ حکم دیا کہ رغبت ، لالچ اور ڈر خوف کے ساتھ اللہ کی یاد اپنے دل میں ، اپنی زبان سے کرتے رہو ۔ چیخنے چلانے کی ضرورت نہیں ۔ اسی لیے مستحب یہی ہے کہ پکار کے ساتھ اور چلا چلا کر اللہ کا ذکر نہ کیا جائے ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ ہمارا رب قریب ہے کہ ہم اس سے سرگوشی چپکے چپکے کر لیا کریں یا دور ہے کہ ہم پکار پکار کر آوازیں دیں ؟ تو اللہ تعالیٰ جل و علا نے یہ آیت اتاری «وَإِذَا سَأَلَکَ عِبَادِی عَنِّی فَإِنِّی قَرِیبٌ أُجِیبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ» ۱؎ (2-البقرۃ:186) ’ جب میرے بندے تجھ سے میری بابت سوال کریں تو جواب دے کہ میں بہت ہی نزدیک ہوں ۔ دعا کرنے والے کی دعا کو جب بھی وہ مجھ سے دعا کرے ، قبول فرما لیا کرتا ہوں ۔ ‘ بخاری و مسلم میں ہے کہ { لوگوں نے ایک سفر میں باآواز بلند دعائیں کرنی شروع کیں تو آپ نے فرمایا : لوگو ! اپنی جانوں پر ترس کھاؤ ۔ تم کسی بہرے کو ، یا کسی غائب کو نہیں پکار رہے ۔ جسے تم پکارتے ہو ، وہ تو بہت ہی پست آواز سننے والا اور بہت ہی قریب ہے ۔ تمہاری سواری کی گردن جتنی تم سے قریب ہے ، اس سے بھی زیادہ وہ تم سے نزدیک ہے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:6610) ہو سکتا ہے کہ مراد اس آیت سے بھی وہی ہو جو آیت «وَلَا تَجْہَرْ بِصَلَاتِکَ وَلَا تُخَافِتْ بِہَا وَابْتَغِ بَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیلًا» ۱؎ (17-الإسراء:110) یعنی ’ اور نماز نہ بلند آواز سے پڑھو اور نہ آہستہ بلکہ اس کے بیچ کا طریقہ اختیار کرو ۔ ‘ سے ہے ۔ مشرکین قرآن سن کر قرآن کو ، جبرئیل کو ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور خود اللہ تعالیٰ کو گالیاں دینے لگتے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ نہ تو آپ اس قدر بلند آواز سے پڑھیں کہ مشرکین چڑ کر بکنے جھکنے لگیں ، نہ اس قدر پست آواز سے پڑھیں کہ آپ کے صحابہ بھی نہ سن سکیں بلکہ اس کے درمیان کا راستہ ڈھونڈ نکالیں یعنی نہ بہت بلند ، نہ بہت آہستہ ۔ یہاں بھی فرمایا کہ بہت بلند آواز سے نہ ہو اور غافل نہ بننا ۔ امام ابن جریر اور ان سے پہلے عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم رحمہما اللہ نے فرمایا ہے کہ مراد اس سے یہ ہے کہ اوپر کی آیت میں قرآن کے سننے والے کو جو خاموشی کا حکم تھا ، اسی کو دہرایا جا رہا ہے کہ اللہ کا ذکر اپنی زبان سے اپنے دل میں کیا کرو ۔ لیکن یہ بعید ہے اور انصاف کے منافی ہے جس کا حکم فرمایا گیا ہے اور مراد اس سے یا تو نماز میں ہے ، یا نماز اور خطبے میں ۔ اور یہ ظاہر ہے کہ اس وقت خاموشی بہ نسبت ذکر ربانی کے افضل ہے خواہ وہ پوشیدہ ہو خواہ ظاہر ، پس ان دونوں کی متابعت نہیں کی گئی ۔ اس لیے مراد اس سے بندوں کو صبح شام ذکر کی کثرت کی رغبت دلانا ہے تاکہ وہ غافلوں میں سے نہ ہو جائیں ۔ [ ان دونوں بزرگوں کے علاوہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ کا بھی یہی فرمان ہے ۔ تفسیر بیضاوی وغیرہ میں بھی یہی ہے اور دونوں آیات کے ظاہری ربط کا تقاضا بھی یہی ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ] اسی لیے فرشتوں کی تعریف بیان ہوئی کہ وہ دن رات اللہ کی تسبیح میں لگے رہتے ہیں ، بالکل تھکتے نہیں ۔ پس فرماتا ہے کہ جو تیرے رب کے پاس ہیں ، وہ اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے ۔ ان کا ذکر اس لیے کیا کہ اس کثرت عبادت و اطاعت میں ان کی اقتدا کی جائے ، اسی لیے ہمارے لیے بھی شریعت نے سجدہ مقرر کیا ، فرشتے بھی سجدہ کرتے رہتے ہیں ۔ حدیث شریف میں ہے : { تم اسی طرح صفیں کیوں نہیں باندھتے جیسے کہ فرشتے اپنے رب کے پاس صفیں باندھتے ہیں کہ وہ پہلے اول صف کو پورا کرتے ہیں اور صفوں میں ذرا سی بھی گنجائش اور جگہ باقی نہیں چھوڑتے ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:430) اس آیت پر اجماع کے ساتھ سجدہ واجب ہے ۔ پڑھنے والے پر بھی اور سننے والے پر بھی ۔ قرآن میں تلاوت کا پہلا سجدہ یہی ہے ۔ ابن ماجہ میں حدیث ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کو سجدے کی آیات میں شمار کیا ہے ۔ } ۱؎ (سنن ابن ماجہ:1056 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) الحمدللہ ! تفسیر سورۃ الاعراف ختم ہوئی ۔ الاعراف
206 الاعراف
0 الانفال
1 بخاری شریف میں ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں سورۃ الانفال غزوہ بدر کے بارے میں اتری ہے ۔۱؎ (صحیح بخاری:4645) فرماتے ہیں انفال سے مراد غنیمتیں ہیں۔ ۱؎ (صحیح بخاری کتاب التفسیر سورۃ الانفال باب:1) جو صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہی تھیں ان میں سے کوئی چیز کسی اور کیلئے نہ تھی ۔ آپ نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا گھوڑا بھی انفال میں سے ہے اور سامان بھی ۔ سائل نے پھر پوچھا آپ نے پھر یہی جواب دیا اس نے پھر پوچھا کہ جس انفال کا ذکر کتاب اللہ میں ہے اس سے کیا مراد ہے ؟ غرض پوچھتے پوچھتے آپ کو تنگ کر دیا تو آپ نے فرمایا اس کا یہ کرتوت اس سے کم نہیں جسے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مارا تھا ۔۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:168/6) سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے جب سوال ہوتا تو آپ فرماتے نہ تجھے حکم دیتا ہوں نہ منع کرتا ہوں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں واللہ حق تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈانٹ ڈپٹ کرنے والا حکم فرمانے والا حلال حرام کی وضاحت کرنے والا ہی بنا کر بھیجا ہے ۔ آپ نے اس سائل کو جواب دیا کہ کسی کسی کو بطور نفل ( مال غنیمت ) گھوڑا بھی ملتا اور ہتھیار بھی ۔ دو تین دفعہ اس نے یہی سوال کیا جس سے آپ غضبناک ہو گئے اور فرمانے لگے یہ تو ایسا ہی شخص ہے جسے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کوڑے لگائے تھے یہاں تک کہ اس کی ایڑیاں اور ٹخنے خون آلود ہو گئے تھے ۔ اس پر سائل کہنے لگا کہ خیر آپ سے تو اللہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا بدلہ لے ہی لیا ۔ الغرض سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے نزدیک تو یہاں نفل سے مراد پانچویں حصے کے علاوہ وہ انعامی چیزیں ہیں جو امام اپنے سپاہیوں کو عطا فرمائے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ»۔ حضرت مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس پانچویں حصے کا مسئلہ پوچھا جو چار ایسے ہی حصوں کے بعد رہ جائے ۔ پس یہ آیت اتری ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:168/6) سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ وغیرہ فرماتے ہیں لڑائی والے دن اس سے زیادہ امام نہیں دے سکتا بلکہ لڑائی کے شروع سے پہلے اگر چاہے دیدے ۔ عطا فرماتے ہیں کہ یہاں مراد مشرکوں کا وہ مال ہے جو بے لڑے بھڑے مل جائے خواہ جانور ہو خواہ لونڈی غلام یا اسباب ہو پس وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہی تھا آپ کو اختیار تھا کہ جس کام میں چاہیں لگا لیں تو گویا ان کے نزدیک مال فے انفال ہے ۔۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:169/6) یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد لشکر کے کسی رسالے کو بعوض ان کی کارکردگی یا حوصلہ افزائی کے امام انہیں عام تقسیم سے کچھ زیادہ دے اسے انفال کہا جاتا ہے ۔ مسند احمد میں سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بدر والے دن جب میرے بھائی عمیر قتل کئے گئے میں نے سعید بن العاص کو قتل کیا اور اس کی تلوار لے لی جسے ذوالکتیعہ کہا جاتا تھا سے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { جاؤ اسے باقی مال کے ساتھ رکھ آؤ ۔ } میں نے حکم کی تعمیل تو کر لی لیکن اللہ ہی کو معلوم ہے کہ اس وقت میرے دل پر کیا گذری ۔ ایک طرف بھائی کے قتل کا صدمہ دوسری طرف اپنا حاصل کردہ سامان واپس ہونے کا صدمہ ۔ ابھی میں چند قدم ہی چلا ہوں گا جو سورۃ الانفال نازل ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا : { جاؤ اور وہ تلوار جو تم ڈال آئے ہو لے جاؤ } ۔ ۱؎ (مسند احمد:180/1:حسن لغیرہ) مسند میں سعد بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ { میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آج کے دن اللہ تعالیٰ نے مجھے مشرکوں سے بچا لیا اب آپ یہ تلوار مجھے دے دیجئیے آپ نے فرمایا : { سنو نہ یہ تمہاری ہے نہ میری ہے ۔ اسے بیت المال میں داخل کر دو } ،میں نے رکھ دی اور میرے دل میں خیال آیا کہ آج جس نے مجھ جیسی محنت نہیں کی اسے یہ انعام مل جائے گا یہ کہتا ہوا جا ہی رہا تھا جو آواز آئی کہ کوئی میرا نام لے کر میرے پیچھے سے مجھے پکار رہا ہے لوٹا اور پوچھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کہیں میرے بارے میں کوئی وحی نہیں اتری ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ہاں تم نے مجھ سے تلوار مانگی تھی اس وقت وہ میری نہ تھی اب وہ مجھے دے دی گئی اور میں تمہیں دے رہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری ہے۔ } } ۱؎ (سنن ابوداود:2740،قال الشیخ الألبانی:حسن) پس آیت « یَسْــــَٔـلُوْنَکَ عَنِ الْاَنْفَالِ ۭقُلِ الْاَنْفَالُ لِلہِ وَالرَّسُوْلِ ۚ فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاَصْلِحُوْا ذَاتَ بَیْنِکُمْ ۠ وَاَطِیْعُوا اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗٓ اِنْ کُنْتُمْ مٰؤْمِنِیْنَ» ۱؎ (8-الأنفال:1) ، اس بارے میں اتری ہے جو ابوداؤد طیالسی میں انہی سے مروی ہے کہ { میرے بارے میں چار آیتیں نازل ہوئی ہیں ۔ مجھے بدر والے دن ایک تلوار ملی میں اسے لے کر سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یہ تلوار آپ مجھے عنایت فرمائیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { جاؤ جہاں سے لی ہے وہیں رکھ دو } ۔ میں نے پھر طلب کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر یہی جواب دیا ۔ میں نے پھر مانگی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر یہی فرمایا ۔ اسی وقت یہ آیت اتری ۔} یہ پوری حدیث ہم نے آیت « وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حُسْـنًا ۭ وَاِنْ جَاہَدٰکَ لِتُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْہُمَا ۭ اِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَاُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ » ۱؎ ( 29- العنکبوت : 8 ) ، کی تفسیر میں وارد کی ہے ۔ پس ایک تو یہ آیت دوسری آیت «یٰٓاَیٰھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ» ۱؎ ( 5- المآئدہ : 90 ) ، چوتھی آیت وصیت۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1748) سیرت ابن اسحاق میں ہے ابوسعید مالک بن ربیعہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بدر کی لڑائی میں مجھے سیف بن عاند کی تلوار ملی جسے مرزبان کہا جاتا تھا ۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو حکم دیا کہ جو کچھ جس کسی کے پاس ہو وہ جمع کرا دے ، میں بھی گیا اور وہ تلوار رکھ آیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک تھی کہ اگر کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ مانگتا تو آپ انکار نہ کرتے ۔ ارقم بن ارقم خزاعی رضی اللہ عنہ نے اس تلوار کو دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کا سوال کیا آپ نے انہیں عطا فرما دی ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:15672) اس آیت کے نزول کا سبب مسند امام احمد میں ہے کہ ابوامامہ رضی اللہ عنہ نے عبادہ رضی اللہ عنہ سے انفال کی بابت سوال کیا تو آپ نے فرمایا ہم بدریوں کے بارے میں ہے جبکہ ہم مال کفار کے بارے میں باہم اختلاف کرنے لگے اور جھگڑے بڑھ گئے تو یہ آیت اتری اور یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد ہو گئی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مال کو برابری سے تقسیم فرمایا ۔۱؎ (مسند احمد:319/5:حسن لغیرہ) مسند احمد میں ہے کہ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں غزوۂ بدر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔۱؎ (مسند احمد:324/5:حسن لغیرہ) ہم غزوہ بدر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے اللہ تعالیٰ نے کافروں کو شکست دے دی ہماری ایک جماعت نے تو ان کا تعاقب کیا کہ پوری ہزیمت دیدے دوسری جماعت نے مال غنیمت میدان جنگ سے سمیٹنا شروع کیا اور ایک جماعت اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد کھڑی ہو گئی کہ کہیں کوئی دشمن آپ کو کوئی ایذاء نہ پہنچائے ۔ رات کو سب لوگ جمع ہوئے اور ہر جماعت اپنا حق اس مال پر جتانے لگی ۔ پہلی جماعت نے کہا دشمنوں کو ہم نے ہی ہرایا ہے ۔ دوسری جماعت نے کہا مال غنیمت ہمارا ہی سمیٹا ہوا ہے ۔ تیسری جماعت نے کہا ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی چوکیداری کی ہے پس یہ آیت اتری اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس مال کو ہم میں تقسیم فرمایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک تھی کہ حملے کی موجودگی میں چوتھائی بانٹتے اور لوٹتے وقت تہائی آپ انفال کو مکروہ سمجھتے ۔۱؎ (سنن ترمذی:1561،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابن مردویہ میں ہے کہ بدر والے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ { جو ایسا کرے اسے یہ انعام اور جو ایسا کرے اسے یہ انعام ۔ } اب نوجوان تو دوڑ پڑے اور کار نمایاں انجام دیئے ۔ بوڑھوں نے مورچے تھامے اور جھنڈوں تلے رہے ۔ اب جوانوں کا مطالبہ تھا کہ کل مال ہمیں ملنا چاہیئے بوڑھے کہتے تھے کہ لشکر گاہ کو ہم نے محفوظ رکھا تم اگر شکست اٹھاتے تو یہیں آتے ۔ اسی جھگڑے کے فیصلے میں یہ آیت اتری ۔۱؎ (سنن ابوداود:2737،قال الشیخ الألبانی:صحیح) مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اعلان ہو گیا تھا کہ { جو کسی کافر کو قتل کرے اسے اتنا ملے گا اور جو کسی کافر کو قید کرے اسے اتنا ملے گا ۔} ابوالیسر رضی اللہ عنہ دو قیدی پکڑ لائے اور رسول اللہ ﷺ کو وعدہ یاد دلایا اس پر سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہما نے کہا کہ پھر تو ہم سب یونہی رہ جائیں گے ۔ بزدلی یا بے طاقتی کی وجہ سے ہم آگے نہ بڑھے ہوں یہ بات نہیں بلکہ اس لیے کہ پچھلی جانب سے کفار نہ آ پڑیں ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی تکلیف نہ پہنچے اس لیے ہم آپ کے اردگرد رہے ، اسی جھگڑے کے فیصلے میں یہ آیت اتری اور آیت «وَاعْلَمُوْٓا اَنَّـمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَاَنَّ لِلہِ خُمُسَہٗ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ ۙ اِنْ کُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ باللّٰہِ وَمَآ اَنْزَلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا یَوْمَ الْفُرْقَانِ یَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعٰنِ ۭوَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ» ۱؎ ( 8- الانفال : 41 ) ، بھی اتری۔ امام ابو عبیداللہ قاسم بن سلام نے اپنی کتاب احوال الشرعیہ میں لکھا ہے کہ انفال غنیمت ہے اور حربی کافروں کے جو مال مسلمانوں کے قبضے میں آئیں وہ سب ہیں پس انفال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ملکیت میں تھے بدر والے دن بغیر پانچواں حصہ نکالے جس طرح اللہ نے آپ کو سمجھایا آپ نے مجادین میں تقسیم کیا اس کے بعد پانچواں حصہ نکالنے کے حکم کی آیت اتری ۱؎ (سلسلۃ احادیث صحیحہ البانی:0000،۔) اور یہ پہلا حکم منسوخ ہو گیا لیکن ابن زید وغیرہ اسے منسوخ نہیں بتلاتے بلکہ محکم کہتے ہیں ۔ انفال غنیمت کی جمع ہے مگر اس میں سے پانجواں حصہ مخصوص ہے ۔ اس کی اہل کیلئے جیسے کہ کتاب اللہ میں حکم ہے اور جیسے کہ سنت رسول اللہ جاری ہوئی ہے ۔ انفال کے معنی کلام عرب میں ہر اس احسان کے ہیں جسے کوئی بغیر کسی پابندی یا وجہ کے دوسرے کے ساتھ کرے ۔ پہلے کی تمام امتوں پر یہ مال حرام تھے اس امت پر اللہ نے رحم فرمایا اور مال غنیمت ان کے لیے حلال کیا ۔ چنانچہ بخاری و مسلم میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { مجھے پانچ چیزیں دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئیں پھر ان کے ذکر میں ایک یہ ہے کہ آپ نے فرمایا میرے لیے غنیمتیں حلال کی گئیں مجھ سے پہلے کسی کو حلال نہ تھیں ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:335) امام ابو عبید رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام جن لشکریوں کو کوئی انعام دے جو اس کے مقررہ حصہ کے علاوہ ہو اسے نفل کہتے ہیں غنیمت کے انداز اور اس کے کارنامے کے صلے کے برابر یہ ملتا ہے ۔ اس نفل کی چار صورتیں ہیں ایک تو مقتول کا مال اسباب وغیرہ جس میں سے پانچواں حصہ نہیں نکالا جاتا ۔ دوسرے وہ نفل جو پانچواں حصہ علیحدہ کرنے کے بعد دیا جاتا ہے ۔ مثلاً امام نے کوئی چھوٹا سا لشکر کسی دشمن پر بھیج دیا وہ غنیمت یا مال لے کر پلٹا تو امام اس میں سے اسے چوتھائی یا تہائی بانٹ دے تیسرے صورت یہ کہ جو پانچواں حصہ نکال کر باقی کا تقسیم ہو چکا ہے ، اب امام بقدر خزانہ اور بقدر شخصی جرات کے اس میں سے جسے جتنا چاہے دے ۔ چوتھی صورت یہ کہ امام پانچواں حصہ نکالنے سے پہلے ہی کسی کو کچھ دے مثلاً چرواہوں کو ، سائیسوں کو ، بہشتیوں کو وغیرہ ۔ پھر ہر صورت میں بہت کچھ اختلاف ہے ۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ نکالنے سے پہلے جو سامان اسباب مقتولین کا مجاہدین کو دیا جائے وہ انفال میں داخل ہے ، دوسری وجہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا حصہ پانچویں حصے میں سے پانچواں جو تھا اس میں سے آپ جسے جاہیں جتنا چاہیں عطا فرمائیں یہ نفل ہے ۔ پس امام کو چاہیئے کہ دشمنوں کی کثرت مسلمانوں کی قلت اور ایسے ہی ضروری وقتوں میں اس سنت کی تابعیداری کرے ۔ ہاں جب ایسا موقع نہ ہو تو نفل ضروری نہیں ۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ امام ایک چھوٹی سی جماعت کہیں بھیجتا ہے اور ان سے کہدیتا ہے کہ جو شخص جو کچھ حاصل کرے پانچواں حصہ نکال کر باقی سب اسی کا ہے تو وہ سب انہی کا ہے کیونکہ انہوں نے اسی شرط پر غزوہ کیا ہے اور یہ رضا مندی سے طے ہو چکی ہے ۔ لیکن ان کے اس بیان میں جو کہا گیا ہے کہ بدر کی غنیمت کا پانچواں حصہ نہیں نکالا گیا ۔ اس میں ذرا کلام ہے ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ دو اونٹنیاں وہ ہیں جو انہیں بدر کے دن پانچویں حصے میں ملی تھیں میں نے اس کا پورا بیان کتاب السیرہ میں کر دیا ہے ۔«فالْحَمْدُ لِلّٰہ»۔ قولہ تعالیٰ «یَسْأَلُونَکَ عَنِ الْأَنْفَالِ قُلِ الْأَنْفَالُ لِلہِ وَالرَّسُولِ فَاتَّقُوا اللہَ وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَیْنِکُمْ» ’ تم اپنے کاموں میں اللہ کا ڈر رکھو ، آپس میں صلح و صفائی رکھو ، ظلم ، جھگڑے اور مخالفت سے باز آ جاؤ ۔ جو ہدایت و علم اللہ کی طرف سے تمہیں ملا ہے اس کی قدر کرو ۔ اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرتے رہو ، عدل و انصاف سے ان مالوں کو تقسیم کرو ۔ پرہیزگاری اور صلاحیت اپنے اندر پیدا کرو ‘ ۔ سدی رحمۃ اللہ کہتے ہیں کہ «وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَیْنِکُمْ» کے معنی ہیں کہ آپس میں لڑو جھگرو نہیں اور گالی گلوچ نہ بکو۔ مسند ابویعلیٰ میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے بیٹھے ایک مرتبہ مسکرائے اور پھر ہنس دیئے ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہا نے دریافت کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر میرے ماں باپ فدا ہوں ، کیسے ہنس دیئے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { میری امت کے دو شخص اللہ رب العزت کے سامنے گھٹنوں کے بل کھڑے ہو گئے ایک نے کہا اللہ میرے بھائی سے میرے ظلم کا بدلہ لے اللہ نے اس سے فرمایا ٹھیک ہے اسے بدلہ دے اس نے کہا اللہ میرے پاس تو نیکیاں اب باقی نہیں رہیں اس نے کہا پھر اللہ میری برائیاں اس پر لا دھ دے ۔} اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آنسو نکل آئے اور فرمانے لگے { وہ دن بڑا ہی سخت ہے لوگ چاہتے ہوں گے تلاش میں ہوں گے کہ کسی پر ان کا بوجھ لادھ دیا جائے ۔ اس وقت اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے طالب اپنی نگاہ اٹھا اور ان جنتیوں کو دیکھ وہ دیکھے گا اور کہے گا چاندی کے قلعے اور سونے کے محل میں دیکھ رہا ہوں جو لؤ لؤ اور موتیوں سے جڑاؤ کئے ہوئے ہیں پروردگار مجھے بتایا جائے کہ یہ مکانات اور یہ درجے کسی نبی کے ہیں یا کسی صدیق کے یا کسی شہید کے ؟ اللہ فرمائے گا یہ اس کے ہیں جو ان کی قیمت ادا کر دے ۔ وہ کہے گا اللہ کس سے ان کی قیمت ادا ہو سکے گی ؟ فرمائے گا تیرے پاس تو اس کی قیمت ہے وہ خوش ہو کر پوچھے گا کہ پروردگار کیا ؟ اللہ فرمائے گا یہی کہ تیرا جو حق اس مسلمان پر ہے تو اسے معاف کر دے ، بہت جلد کہے گا کہ اللہ میں نے معاف کیا ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہو گا کہ اب اس کا ہاتھ تھام لے اور تم دونوں جنت میں چلے جاؤ۔ } پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کا آخری حصہ تلاوت فرمایا کہ { اللہ سے ڈرو اور آپس کی اصلاح کرو دیکھو اللہ تعالیٰ خود قیامت کے دن مومنوں میں صلح کرائے گا ۔}۱؎ (سلسلۃ احادیث ضعیفہ البانی:0000،۔) الانفال
2 ایمان سے خالی لوگ اور حقیقت ایمان سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں منافقوں کے دل میں نہ فریضے کی ادائیگی کے وقت ذکر اللہ ہوتا ہے نہ کسی اور وقت پر ۔ نہ ان کے دلوں میں ایمان کا نور ہوتا ہے نہ اللہ پر بھروسہ ہوتا ہے ۔ نہ تنہائی میں نمازی رہتے ہیں نہ اپنے مال کی زکوٰۃ دیتے ہیں ، ایسے لوگ ایمان سے خالی ہوتے ہیں ، لیکن ایماندار ان کے برعکس ہوتے ہیں ۔ ان کے دل یاد خالق سے کپکپاتے رہتے ہیں فرائض ادا کرتے ہیں آیات الٰہی سن کر ایمان چمک اٹھتے ہیں تصدیق میں بڑھ جاتے ہیں رب کے سوا کسی پر بھروسہ نہیں کرتے اللہ کی یاد سے تھر تھراتے رہتے ہیں اللہ کا ڈر ان میں سمایا ہوا ہوتا ہے اسی وجہ سے نہ تو حکم کا خلاف کرتے ہیں نہ منع کئے ہوئے کام کو کرتے ہیں ۔ جیسے فرمان ہے کہ«وَالَّذِینَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَۃً أَوْ ظَلَمُوا أَنفُسَہُمْ ذَکَرُوا اللہَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِہِمْ وَمَن یَغْفِرُ الذٰنُوبَ إِلَّا اللہُ وَلَمْ یُصِرٰوا عَلَیٰ مَا فَعَلُوا وَہُمْ یَعْلَمُونَ» ۱؎ ( 3-آل عمران : 135 ) ’ ان سے اگر کوئی برائی سرزد ہو بھی جاتی ہے تو یاد اللہ کرتے ہیں پھر اپنے گناہ سے استغفار کرتے ہیں حقیقت میں سوائے اللہ کے کوئی گناہوں کا بخشنے والا بھی نہیں ۔ یہ لوگ باوجود علم کے کسی گناہ پر اصرار نہیں کرتے ۔ ‘ اور آیتوں میں ہے آیت «وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہِ وَنَہَی النَّفْسَ عَنِ الْہَوَیٰ فَإِنَّ الْجَنَّۃَ ہِیَ الْمَأْوَیٰ» ۱؎ ( 79- النازعات : 40 ، 41 ) ، یعنی ’ جو شخص اپنے رب کے پاس کھڑا ہونے سے ڈرا اور اپنے نفس کو خواہشوں سے روکا اس کا ٹھکانا جنت ہے ۔ ‘ سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں کہ ان کے جی میں ظلم کرنے کی یا گناہ کرنے کی آتی ہے لیکن اگر ان سے کہا جائے کہ اللہ سے ڈر جا وہیں ان کا دل کانپنے لگتا ہے ، ام الدرداء رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ دل اللہ کے خوف سے حرکت کرنے لگتے ہیں ایسے وقت انسان کو اللہ عزوجل سے دعا مانگنی چاہیئے ۔ ایمانی حالت بھی ان کی روز بروز زیادتی میں رہتی ہے ادھر قرآنی آیات سنیں اور ایمان بڑھا ۔ جیسے اور جگہ ہے کہ«وَإِذَا مَا أُنزِلَتْ سُورَۃٌ فَمِنْہُم مَّن یَقُولُ أَیٰکُمْ زَادَتْہُ ہٰذِہِ إِیمَانًا ۚ فَأَمَّا الَّذِینَ آمَنُوا فَزَادَتْہُمْ إِیمَانًا وَہُمْ یَسْتَبْشِرُونَ» ۱؎ ( 9-التوبۃ : 124 ) ’ جب کوئی سورت اترتی ہے تو ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ اس نے تم میں سے کس کا ایمان بڑھا دیا ؟ بات یہ ہے کہ ایمان والوں کے ایمان بڑھ جاتے ہیں اور وہ خوش ہو جاتے ہیں ۔‘ اس آیت سے اور اس جیسی اور آیتوں سے امام الائمہ امام بخاری رحمہ اللہ وغیرہ ائمہ کرام رحمہ اللہ علیہم نے استدلال کیا ہے کہ ایمان کی زیادتی سے مراد ہے کہ دلوں میں ایمان کم یا زیادہ ہوتا رہتا ہے یہی مذہب جمہور امت کا ہے بلکہ کئی ایک نے اس پر اجماع نقل کیا ہے جیسے شافعی ، احمد بن حنبل ، ابوعبیدہ رحمہ اللہ علیہم وغیرہ جیسے کہ ہم نے شرح بخاری کے شروع میں پوری طرح بیان کر دیا ہے ۔ «والْحَمْدُ لِلّٰہ» ۔ «وَعَلَیٰ رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُونَ» یعنی ’ ان کا بھروسہ صرف اپنے رب پر ہوتا ہے ‘ نہ اس کے سوا کسی سے وہ امید رکھیں نہ اس کے سوا کوئی ان کا مقصود ، نہ اس کے سوا کسی سے وہ پناہ چاہیں نہ اس کے سوا کسی سے مرادیں مانگیں نہ کسی اور کی طرف جھکیں وہ جانتے ہیں کہ قدرتوں والا وہی ہے جو وہ چاہتا ہے ہوتا ہے جو نہیں چاہتا ہرگز نہیں ہوتا تمام ملک میں اسی کا حکم چلتا ہے ملک صرف وہی ہے وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں نہ اس کے کسی حکم کو کوئی ٹال سکے وہ جلد ہی حساب لینے والا ہے ۔ سعید بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں اللہ پر توکل کرنا ہی پورا ایمان ہے ۔ «الَّذِینَ یُقِیمُونَ الصَّلَاۃَ وَمِمَّا رَزَقْنَاہُمْ یُنفِقُونَ »۱؎ (8-الأنفال:3) ان مومنوں کے ایمان اور اعتقاد کی حالت بیان فرما کر اب ان کے اعمال کا ذکر ہو رہا ہے کہ ’ وہ نمازوں کے پابند ہوتے ہیں ۔ وقت کی ، وضو کی ، رکوع کی ، سجدے کی ، کامل پاکیزگی کی ، قرآن کی تلاوت ، تشہد ، درود ، سب چیزوں کی حفاظت و نگرانی کرتے ہیں ۔‘ اللہ کے اس حق کی ادائیگی کے ساتھ ہی بندوں کے حق بھی نہیں بھولتے ۔ واجب خرچ یعنی زکوٰۃ مستحب خرچ یعنی للہ فی اللہ خیرات برابر دیتے ہیں چونکہ تمام مخلوق اللہ کی عیال ہے اس لیے اللہ کو سب سے زیادہ پیارا وہ ہے جو اس کی مخلوق کی سب سے زیادہ خدمت کرے اللہ کے دیئے ہوئے کو اللہ کی راہ میں دیتے رہو یہ مال تمہارے پاس اللہ کی امانت ہے بہت جلد تم اسے چھوڑ کر رخصت ہونے والے ہو ۔ پھر فرماتا ہے کہ «أُولٰئِکَ ہُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا»۱؎ (8-الأنفال:4) ’ جن میں یہ اوصاف ہوں وہ سچے مومن ہیں ‘ طبرانی میں ہے کہ حارث بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گذرے تو آپ نے ان سے دریافت فرمایا کہ { تمہاری صبح کس حال میں ہوئی ؟ } انہوں نے جواب دیا کہ سچے مومن ہونے کی حالت میں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ { سمجھ لو کہ کیا کہہ رہے ہو ؟ ہرچیز کی حقیقت ہوا کرتی ہے ۔ جانتے ہو حقیقت ایمان کیا ہے ؟ } جواب دیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے اپنی خواہشیں دنیا سے الگ کر لیں راتیں یاد اللہ میں جاگ کر دن اللہ کی راہ میں بھوکے پیاسے رہ کر گذراتا ہوں ۔ گویا میں اللہ کے عرش کو اپنی نگاہوں کے سامنے دیکھتا رہتا ہوں اور گویا کہ میں اہل جنت کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ آپس میں ہنسی خوشی ایک دوسرے سے مل جل رہے ہیں اور گویا کہ میں اہل دوزخ کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ دوزخ میں جل بھن رہے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { حارثہ تو نے حقیقت جان لی پس اس حال پر ہمیشہ قائم رہنا ۔ } تین مرتبہ یہی فرمایا ۔۱؎ (سلسلۃ احادیث ضعیفہ البانی:0000،) پس آیت میں بالکل محاورہ عرب کے مطابق ہے جیسے وہ کہا کرتے ہیں کہ گو فلاں قوم میں سردار بہت سے ہیں لیکن صحیح معنی میں سردار فلاں ہے یا فلاں قبیلے میں تاجر بہت ہیں لیکن صحیح طور پر تاجر فلاں ہے ، فلاں لوگوں میں شاعر ہیں لیکن سچا شاعر فلاں ہے ۔ آیت میں ہے«ہُمْ دَرَجَاتٌ عِندَ اللہِ ۗ وَ اللہُ بَصِیرٌ بِمَا یَعْمَلُونَ» ۱؎ ( 3-آل عمران : 163 ) یعنی ’ ان کے مرتبے اللہ کے ہاں بڑے بڑے ہیں اللہ ان کے اعمال دیکھ رہا ہے وہ ان کی لغزشوں سے درگذر فرمائے گا ان کی نیکیوں کی قدردانی کرے گا ۔ ‘ گویہ درجے اونچے نیچے ہوں گے لیکن کسی بلند مرتبہ شخص کے دل میں یہ خیال نہ ہو گا کہ میں فلاں سے اعلیٰ ہوں اور نہ کسی ادنیٰ درجے والوں کو یہ خیال ہو گا کہ میں فلاں سے کم ہوں ۔ بخاری و مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ علیین والوں کو نیچے کے درجے کے لوگ اس طرح دیکھیں گے جیسے تم آسمان کے کناروں کے ستاروں کو دیکھتے ہو ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا یہ مرتبے تو انبیاء کے ہونگے ؟ کوئی اور تو اس مرتبے پر نہ پہنچ سکے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { کیوں نہیں ؟ اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے وہ لوگ بھی جو اللہ پر ایمان لائیں اور رسولوں کو سچ جانیں ۔} ۱؎ (صحیح بخاری:3656) اہل سنن کی حدیث میں ہے کہ { اہل جنت بلند درجہ جنتیوں کو ایسے دیکھیں گے جیسے تم آسمان کے کناروں کے چمکیلے ستاروں کو دیکھا کرتے ہو یقیناً سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہم انہی میں ہیں اور بہت اچھے ہیں ۔} ۱؎ (سنن ابن ماجہ:0000،قال الشیخ الألبانی:صحیح) الانفال
3 الانفال
4 الانفال
5 شمع رسالت کے جاں نثاروں کی دعائیں مفسرین نے اس میں اختلاف کیا ہے کہ«کَمَا أَخْرَجَکَ» میں «کَمَا» کے آنے کا کیا سبب ہے۔ بعض نے کہا کہ آیت زیر ذکر میں تشبیہہ دی گئی ہے ، مومنین کے باہمی صلح ساتھ ان کے ارتقاب اور اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ۔ ایک مطلب تو اس کا یہ ہے کہ جیسے تم نے مال غنیمت میں اختلاف کیا آخر اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اپنے نبی کو اس کی تقسیم کا اختیار دے دیا اور اپنے عدل و انصاف کے ساتھ اسے تم میں بانٹ دیا درحقیقت تمہارے لیے اسی میں بھلائی تھی اسی طرح اس نے باوجود تمہاری اس چاہت کے کہ قریش کا تجارتی قافلہ تمہیں مل جائے اور جنگی جماعت سے مقابلہ نہ ہو اس نے تمہارا مقابلہ بغیر کسی وعدے کے ایک پر شکوہ جماعت سے کرا دیا اور تمہیں اس پر غالب کر دیا کہ اللہ کی بات بلند ہو جائے اور تمہیں فتح ، نصرت ، غلبہ اور شان شوکت عطا ہو ۔ جیسے فرمان ہے آیت «کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِتَالُ وَہُوَ کُرْہٌ لَّکُمْ ۖ وَعَسَیٰ أَن تَکْرَہُوا شَیْئًا وَہُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ ۖ وَعَسَیٰ أَن تُحِبٰوا شَیْئًا وَہُوَ شَرٌّ لَّکُمْ ۗ وَ اللہُ یَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ » ۱؎ ( 2-البقرۃ : 216 ) ، یعنی ’ تم پر جہاد فرض کیا گیا حالانکہ تم اسے برا جانتے ہو بہت ممکن ہے کہ ایک چیز کو اپنے حق میں اچھی نہ جانو اور درحقیقت وہی تمہارے حق میں بہتر ہو اور حق میں وہ بد تر ہو ۔ دراصل حقائق کا علم اللہ ہی کو ہے تم محض بےعلم ہو ۔ ‘ دوسرا مطلب یہ ہے کہ جیسے مومنوں کے ایک گروہ کی چاہت کے خلاف تجھے تیرے رب نے شہر سے باہر لڑائی کیلئے نکالا اور نتیجہ اسی کا اچھا ہوا ایسے ہی جو لوگ جہاد کیلئے نکلنا بوجھ سمجھ رہے ہیں دراصل یہی ان کے حق میں بہتر ہے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ مال غنیمت میں ان کا اختلاف بالکل بدر والے دن کے اختلاف کے مشابہ تھا ۔ کہنے لگے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں قافلے کا فرمایا تھا لشکر کا نہیں ہم جنگی تیاری کر کے نکلے ہی نہیں ۔ میں کہتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینے سے اسی ارادے سے نکلے تھے کہ ابوسفیان کے اس قافلے کو روکیں جو شام سے مدینہ کو قریشیوں کے بہت سے مال اسباب لے کر آ رہا تھا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو تیار کیا اور تین سو دس سے کچھ اوپر لوگوں کو لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینے سے چلے اور سمندر کے کنارے کے راستے کی طرف سے بدر کے مقام سے چلے ۔ ابوسفیان کو چونکہ آپ کے نکلنے کی خبر پہنچ چکی تھی اس نے اپنا راستہ بدل دیا اور ایک تیز رو قاصد کو مکے دوڑایا ۔ وہاں سے قریش قریب ایک ہزار کے لشکر جرار لے کر لوہے میں ڈوبے ہوئے بدر کے میدان میں پہنچ گئے پس یہ دونوں جماعتیں ٹکرا گئیں ایک گھمسان کی لڑائی ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے حق کو فتح دلوائی اپنا دین بلند کیا اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی اور اسلام کو کفر پر غالب کیا جیسے کہ اب بیان ہو گا ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ یہاں مقصد بیان صرف اتنا ہی ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ پتہ چلا کہ مشرکین کی جنگی مہم مکے سے آ رہی ہے اس وقت اللہ تعالیٰ نے آپ سے بذریعہ وحی کے وعدہ کیا کہ یا تو قافلہ آپ کو ملے گا یا لشکر کفار ۔ اکثر مسلمان جی سے چاہتے تھے کہ قافلہ مل جائے کیونکہ یہ نسبتاً ہلکی چیز تھی لیکن اللہ کا ارادہ تھا کہ اسی وقت بغیر زیادہ تیاری اور اہتمام کے اور آپس کے قول قرار کے مڈبھیڑ ہو جائے اور حق وباطل کی تمیز ہو جائے کفار کی ہمت ٹوٹ جائے اور دین حق نکھر آئے ۔ تفسیر ابن مردویہ میں ہے ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں کہ مدینے میں ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ { مجھے خبر پہنچی ہے کہ ابوسفیان کا قافلہ لوٹ رہا ہے تو کیا تم اس کے لیے تیار ہو کہ ہم اس قافلے کی طرف بڑھیں ؟ بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں مال غنیمت دلوا دے ۔ } ہم سب نے تیاری ظاہر کی آپ ہمیں لے کر چلے ایک دن یا دو دن کا سفر کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا کہ { قریشیوں سے جہاد کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ انہیں تمہارے چلنے کا علم ہو گیا ہے اور وہ تم سے لڑنے کیلئے چل پڑے ہیں ۔} ہم نے جواب دیا کہ واللہ ہم میں ان سے مقابلے کی طاقت نہیں ہم تو صرف قافلے کے ارادے سے نکلے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر یہی سوال کیا اور ہم نے پھر یہی جواب دیا ۔ اب مقداد بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم اس وقت آپ کو وہ نہ کہیں گے جو موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا کہ تو اور تیرا رب جا کر کافروں سے لڑے ، ہم تو یہاں بیٹھے ہوئے ہیں ۔ اب تو ہمیں بڑا ہی رنج ہونے لگا کہ کاش یہی جواب ہم بھی دیتے تو ہمیں مال کے ملنے سے اچھا تھا ، پس یہ آیت «کَمَا أَخْرَجَکَ رَبٰکَ مِن بَیْتِکَ بِالْحَقِّ وَإِنَّ فَرِیقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِینَ لَکَارِہُونَ» ۱؎ (8-الأنفال:5) اتری ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ بدر کی جانب چلتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روحا میں پہنچے تو آپ نے لوگوں کو خطبہ دیا اور اس میں فرمایا کہ { بتاؤ تمہاری کیا رائے ہے ؟ } صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہاں ہمیں بھی معلوم ہوا ہے کہ وہ لوگ فلاں فلاں جگہ ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر خطبہ دیا اور یہی فرمایا اب کی مرتبہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے یہی جواب دیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر تیسرے خطبے میں یہی فرمایا اس پر سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے دریافت فرما رہے ہیں ؟ اس اللہ کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عزت وبزرگی عنایت فرمائی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی کتاب نازل فرمائی ہے نہ میں ان راستوں میں کبھی چلا ہوں اور نہ مجھے اس لشکر کا علم ہے ہاں اتنا میں کہہ سکتا ہوں کہ اگر آپ برک غماد تک بھی چڑھائی کریں تو واللہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رکاب تھامے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ہوں گے ہم ان کی طرح نہیں جنہوں نے موسیٰ علیہ السلام سے کہدیا تھا کہ«فَاذْہَبْ أَنتَ وَرَبٰکَ فَقَاتِلَا إِنَّا ہَاہُنَا قَاعِدُونَ» ۱؎ ( 5-المائدہ : 24 ) یعنی ’ تو اپنے ساتھ اپنے پروردگار کو لے کر چلا جا اور تم دونوں ان سے لڑ لو ہم تو یہاں بیٹھے ہیں ۔‘ نہیں نہیں بلکہ اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ چلئے اللہ آپ کا ساتھ دے ہم تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر حکم کفار سے جہاد کے لیے صدق دل سے تیار ہیں ۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گو آپ کسی کام کو زیر نظر رکھ رکھ نکلے ہوں لیکن اس وقت کوئی اور نیا کام پیش نگاہ ہو تو «بِسْمِ اللہِ » کیجئے ، ہم تابعداری سے منہ پھیرنے والے نہیں ۔ آپ جس سے چاہیں ناطہٰ توڑ لیجئے اور جس سے چاہیں جوڑ لیجئے جس سے چاہیں عداوت کیجئے اور جس سے چاہیں محبت کیجئے ہم اسی میں آپ کے ساتھ ہیں ۔ یا رسول اللہ ہماری جانوں کے ساتھ ہمارے مال بھی حاضر ہیں ، آپ کو جس قدر ضرورت ہو لیجئے اور کام میں لگائیے ۔ پس سعد کے اس فرمان پر قران کی یہ آیتیں اتری ہیں ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:15724:ضعیف) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمن سے بدر میں جنگ کرنے کی بابت صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا اور سعد بن عباد رضی اللہ عنہ نے جواب دیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجاہدین کو کمر بندی کا حکم دے دیا اس وقت بعض مسلمانوں کو یہ ذرا گراں گذرا اس پر یہ آیتیں اتریں ۔ پس حق میں جھگڑنے سے مراد جہاد میں اختلاف کرنا ہے اور مشرکوں کے لشکر سے مڈبھیڑ ہونے اور ان کی طرف چلنے کو ناپسند کرنا ہے ۔ اس کے بعد ان کے لیے واضح ہو گیا یعنی یہ امر کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بغیر حکم رب العزت کے کوئی حکم نہیں دیتے ۔ دوسری تفسیر میں ہے کہ اس سے مراد مشرک لوگ ہیں جو حق میں روڑے اٹکاتے ہیں ۔ اسلام کا ماننا ان کے نزدیک ایسا ہے جیسے دیکھتے ہوئے موت کے منہ میں کودنا ۔ یہ وصف مشرکوں کے سوا اور کسی کا نہیں اہل کفر کی پہلی علامت یہی ہے ابن زید کا یہ قول وارد کر کے امام ابن جرید رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ قول بالکل بے معنی ہے اس لیے کہ اس سے پہلے کا قول آیت «یُجَادِلُونَکَ فِی الْحَقِّ بَعْدَمَا تَبَیَّنَ کَأَنَّمَا یُسَاقُونَ إِلَی الْمَوْتِ وَہُمْ یَنظُرُونَ» ۱؎ ( 8-الانفال : 6 ) اہل ایمان کی خبر ہے تو اس سے متصل خبر بھی انہی کی ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ اور ابن اسحاق رحمہ اللہ ہی کا قول اس بارے میں ٹھیک ہے کہ یہ خبر مومنوں کی ہے نہ کہ کافروں کی ۔ حق بات یہی ہے جو امام صاحب نے کہی ۔ سیاق کلام کی دلالت بھی اسی پر ہے ـ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ مسند احمد میں ہے کہ بدر کی لڑائی کی فتح کے بعد بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اب چلئے قافلے کو بھی دبالیں اب کوئی روک نہیں ہے ۔ اس وقت سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کفار سے قید ہو کر آئے ہوئے زنجیروں سے جکڑے ہوئے تھے اونچی آواز سے کہنے لگے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایسا نہ کیجئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا : { کیوں ؟ } انہوں نے جواب دیا اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دو جماعتوں میں سے ایک کا وعدہ کیا تھا وہ اللہ نے پورا کیا ایک جماعت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مل گئی ۔۱؎ (سنن ترمذی:3080،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) مسلمانوں کی چاہت تھی کہ لڑائی والے گروہ سے تو مڈبھیڑ نہ ہو البتہ قافلے والے مل جائیں اور اللہ کی چاہت تھی کہ شوکت و شان والی قوت و گھمنڈوالی لڑائی بھڑائی والی جماعت سے تمہارا مقابلہ ہو جائے تاکہ اللہ تعالیٰ ان پر تمہیں غالب کر کے تمہاری مدد کرے ، اپنے دین کو ظاہر کر دے اور اپنے کلمے کو بلند کر دے اور اپنے دین کو دوسرے تمام دینوں پر اونچا کر دے پس انجام کی بھلائی اس کے سوا کوئی نہیں جانتا وہ اپنی عمدہ تدبیر سے تمہیں سنبھال رہا ہے تمہاری مرضی کے خلاف کرتا ہے اور اسی میں تمہاری مصلحت اور بھلائی ہوتی ہے جیسے فرمایا کہ «کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِتَالُ وَہُوَ کُرْہٌ لَّکُمْ ۖ وَعَسَیٰ أَن تَکْرَہُوا شَیْئًا وَہُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ ۖ وَعَسَیٰ أَن تُحِبٰوا شَیْئًا وَہُوَ شَرٌّ لَّکُمْ ۗ وَ اللہُ یَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ»۱؎ (2-البقرۃ:216) ’ جہاد تم پر لکھا گیا اور وہ تمہیں ناپسند ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ تمہاری ناپسندیدگی کی چیز میں ہی انجام کے لحاظ سے تمہارے لیے بہتری ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کرو اور وہ درحقیقت تمہارے حق میں بری ہو ۔‘ اب جنگ بدر کا مختصر سا واقعہ بزبان سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سنئے ۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا کہ ابوسفیان شام سے مع قافلے کے اور مع اسباب کے آ رہا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو فرمایا کہ { چلو ان کا راستہ روکو ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے یہ اسباب تمہیں دلوا دے ۔} چونکہ کسی لڑانے والی جماعت سے لڑائی کرنے کا خیال بھی نہ تھا ، اس لیے لوگ بغیر کسی خاص تیاری کے جیسے تھے ویسے ہی ہلکے پھلکے نکل کھڑے ہوئے ۔ ابوسفیان بھی غافل نہ تھا اس نے جاسوس چھوڑ رکھے تھے اور آتے جاتوں سے بھی دریافت حال کر رہا تھا ایک قافلے سے اسے معلوم ہو گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو لے کر تیرے اور تیرے قافلے کی طرف چل پڑے ہیں ۔ اس نے ضیغم بن عمرو غفاری کو انعام دے دلا کر اسی وقت قریش مکہ کے پاس یہ پیغام دے کر روانہ کیا کہ تمہارے مال خطرے میں ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مع اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم کے اس طرف آ رہے ہیں تمہیں چاہیئے کہ پوری تیاری سے فوراً ہماری مدد کو آؤ اس نے بہت جلد وہاں پہنچ کر خبر دی تو قریشیوں نے زبردست حملے کی تیار کر لی اور نکل کھڑے ہوئے ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب ذفران وادی میں پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قریش کے لشکروں کا سازو سامان سے نکلنا معلوم ہو گیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ لیا اور یہ خبر بھی کر دی ۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر جواب دیا اور بہت اچھا کہا ۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور آپ نے بھی معقول جواب دیا ۔ پھر مقداد رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کا جو حکم ہو اسے انجام دیجئیے ہم جان و مال سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہیں اور ہر طرح فرمانبردار ہیں ہم بنو اسرائیل کی طرح نہیں کہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہدیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رب جا کر لڑ لو ہم تماشا دیکھتے ہیں نہیں بلکہ ہمارا یہ قول ہے کہ اللہ کی مدد کے ساتھ چلئے جنگ کیجئے ہم آپکے ساتھ ہیں اس اللہ کی قسم جس نے آپ کو نبی برحق بنا کر بھیجا ہے کہ اگر آپ برک غماد تک یعنی حبشہ کے ملک تک بھی چلیں تو ہم ساتھ سے منہ نہ موڑیں گے اور وہاں پہنچائے اور پہنچے بغیر کسی طرح نہ رہیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بہت اچھا کہا اور ان کو بڑی دعائیں دیں لیکن پھر بھی یہی فرماتے رہے کہ { لوگو مجھے مشورہ دو میری بات کا جواب دو ۔} اس سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انصاریوں کے گروہ سے تھی ایک تو اس لیے کہ گنتی میں یہی زیادہ تھے ۔ دوسرے اس لیے بھی کہ عقبہ میں جب انصار نے بیعت کی تھی تو اس بات پر کی تھی کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکے سے نکل کر مدینے میں پہنچ جائیں پھر ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہیں جو بھی دشمن آپ پر چڑھائی کر کے آئے ہم اس کے مقابلے میں سینہ سپر ہو جائیں گے اس میں چونکہ یہ وعدہ نہ تھا کہ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم اگر کسی پر چڑھ کر جائیں تو بھی ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیں گے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے کہ اب ان کا ارادہ معلوم کر لیں ۔ یہ سمجھ کر سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے اور عرض کیا کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے جواب طلب فرما رہے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { ہاں یہی بات ہے } تو سعد نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان ہے ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا جانتے ہیں اور جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لائے ہیں اسے بھی حق مانتے ہیں ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان سننے اور اس پر عمل کرنے کی بیعت کر چکے ہیں ۔ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو حکم اللہ تعالیٰ کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوا ہے اسے پورا کیجئے ، ہم آپ کی ہمرکابی سے نہ ہٹیں گے ۔ اس اللہ کی قسم جس نے آپ کو اپنا سچا رسول بنا کر بھیجا ہے کہ اگر سمندر کے کنارے پر کھڑے ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں گھوڑا ڈال دیں تو ہم بھی بلا تامل اس میں کود پڑیں گے ہم میں سے ایک کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا نہ پائیں گے جسے ذرا سا بھی تامل ہو ہم اس پر بخوشی رضامند ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں دشمنوں کے مقابلے پر چھوڑ دیں ۔ ہم لڑائیوں میں بہادری کرنے والے مصیبت کے جھیلنے والے اور دشمن کے دل پر سکہ جما دینے والے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے کام دیکھ کر ان شاءاللہ خوش ہوں گے چلئے اللہ کا نام لے کر چڑھائی کیجئے اللہ برکت دے ۔ ان کے اس جواب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت ہی مسرور ہوئے اسی وقت کوچ کا حکم دیا کہ { چلو اللہ کی برکت پر خوش ہو جاؤ ۔ رب مجھ سے وعدہ کر چکا ہے کہ دو جماعتوں میں سے ایک جماعت ہمارے ہاتھ لگے گی واللہ میں تو ان لوگوں کے گرنے کی جگہ ابھی یہیں سے گویا اپنی آنکھوں دیکھ رہا ہوں ۔} ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:15732) الانفال
6 الانفال
7 الانفال
8 الانفال
9 سب سے پہلا غزوہ بدر بنیاد لا الہ الا اللہ مسند احمد میں ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بدر والے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم کی طرف نظر ڈالی وہ تین سو سے کچھ اوپر تھے پھر مشرکین کو دیکھا ان کی تعدد ایک ہزار سے زیادہ تھی ۔ اسی وقت آپ قبلہ کی طرف متوجہ ہوئے چادر اوڑھے ہوئے تھے اور تہبند باندھے ہوئے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنا شروع کی کہ { الٰہی جو تیرا وعدہ ہے اسے اب پورا فرما الٰہی جو وعدہ تو نے مجھ سے کیا ہے وہی کر اے اللہ اہل اسلام کی یہ تھوڑی سی جماعت اگر ہلاک ہو جائے گی تو پھر کبھی بھی تیری توحید کے ساتھ زمین پر عبادت نہ ہو گی ۔ یونہی آپ دعا اور فریاد میں لگے رہے یہاں تک کہ چادر مبارک کندھوں پر سے اتر گئی اسی وقت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آگے بڑھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر اٹھا کر آپ کے جسم مبارک پر ڈال کر [ پیچھے سے آپ کو اپنی بانہوں میں لے کر ] کو آپ کو وہاں سے ہٹانے لگے اور عرض کرنے لگے کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اب بس کیجئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب سے جی بھر کر دعا مانگ لی وہ اپنے وعدے کو ضرور پورا کرے گا اسی وقت یہ آیت اتری ۔} اس کے بعد مشرک اور مسلمان آپس میں لڑائی میں گتھم گتھا ہو گئے اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کو شکست دی ان میں سے ستر شخص تو قتل ہوئے اور ستر قید ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان قیدی کفار کے بارے میں سیدنا ابوبکر ، سیدنا عمر ، سیدنا علی رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا ۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے تو فرمایا رسول اللہ آخر یہ ہمارے کنبے برادری کے خویش و اقارب ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے فدیہ لے کر چھوڑ دیجئیے مال ہمیں کام آئے گا اور کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ کل انہیں ہدایت دیدے اور یہ ہمارے قوت و بازو بن جائیں ۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا ۔ آپ نے فرمایا میری رائے تو اس بارے میں سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ کی رائے کے خلاف ہے میرے نزدیک تو ان میں سے فلاں جو میرا قریشی رشتہ دار ہے مجھے سونپ دیجئیے کہ میں اس کی گردن ماروں اور عقیل کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے سپرد کیجئے کہ وہ اس کا کام تمام کریں اور حمزہ رضی اللہ عنہ کے سپرد ان کا فلاں بھائی کیجئے کہ وہ اسے صاف کر دیں ۔ ہم چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے یہ ظاہر کر دیں کہ ہمارے دل ان مشرکوں کی محبت سے خالی ہیں ، اللہ رب العزت کے نام پر انہیں چھوڑ چکے ہیں اور رشتہ داریاں ان سے توڑ چکے ہیں ۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ لوگ سرداران کفر ہیں اور کافروں کے گروہ ہیں ۔ انہیں زندہ چھوڑنا مناسب نہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مشورہ قبول کیا اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی بات کی طرف مائل نہ ہوئے ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ دوسرے دن صبح ہی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رو رہے ہیں ۔ میں نے پوچھا کہ آخر اس رونے کا کیا سبب ہے ؟ اگر کوئی ایسا ہی باعث ہو تو میں بھی ساتھ دوں ورنہ تکلف سے ہی رونے لگوں کیونکہ آپ دونوں بزرگوں کو روتا دیکھتا ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { یہ رونا بوجہ اس عذاب کے ہے جو تیرے ساتھیوں پر فدیہ لے لینے کے باعث پیش ہوا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاس کے ایک درخت کی طرف اشارہ کر کے فرمایا دیکھو اللہ کا عذاب اس درخت تک پہنچ چکا ہے۔ } اسی کا بیان آیت « مَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّکُوْنَ لَہٗٓ اَسْرٰی حَتّٰی یُثْخِنَ فِی الْاَرْضِ ۭتُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الدٰنْیَا وَاللّٰہُ یُرِیْدُ الْاٰخِرَۃَ ۭوَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ » ۱؎ ( 8- الانفال : 67 ) سے « فَکُلُوْا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلٰلًا طَیِّبًا ڮ وَّاتَّقُوا اللّٰہَ ۭاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ» ۱؎ ( 8- الانفال : 69 ) تک ہے ـ پس اللہ تعالیٰ نے مال غنیمت حلال فرمایا پھر اگلے سال جنگ احد کے موقعہ پر فدیہ لینے کے بدلے ان کی سزا طے ہوئی ستر مسلمان صحابہ شہید ہوئے لشکر اسلام میں بھگدڑ مچ گئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کے چار دانت شہید ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر جو خود تھا وہ ٹوٹ گیا چہرہ خون آلودہ ہو گیا ۔ پس یہ آیت اتری « اَوَلَمَّآ اَصَابَتْکُمْ مٰصِیْبَۃٌ قَدْ اَصَبْتُمْ مِّثْلَیْھَا ۙ قُلْتُمْ اَنّٰی ہٰذَا ۭ قُلْ ھُوَ مِنْ عِنْدِ اَنْفُسِکُمْ ۭ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ» ۱؎ ( 3- آل عمران : 165 ) ، ’ یعنی جب تمہیں مصیبت پہنچی تو کہنے لگے کہ یہ کہاں سے آ گئی ؟ جواب دے کہ یہ خود تمہاری اپنی طرف سے ہے ۔ تم اس سے پہلے اس سے دگنی راحت بھی تو پا چکے ہو یقین مانو کہ اللہ ہرچیز پر قادر ہے ۔ ‘ مطلب یہ ہے کہ یہ فدیہ لینے کا بدل ہے یہ حدیث مسلم شریف وغیرہ میں بھی ہے ۔۱؎ (صحیح مسلم:1763) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ کا فرمان ہے کہ یہ آیت «إِذْ تَسْتَغِیثُونَ رَبَّکُمْ»الخ انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے بارے میں ہے اور روایت میں ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا میں اپنا پورا مبالغہ کیا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اب مناجات ختم کیجئے اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا ہے وہ اسے ضرور پورا کرے گا ۔۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:15754) اس آیت کی تفسیر میں صحیح بخاری شریف میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ مقداد بن اسود نے ایک ایسا کام کیا کہ اگر میں کرتا تو مجھے اپنے اور تمام اعمال سے زیادہ پسندیدہ ہوتا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب مشرکوں پر بد دعا کر رہے تھے تو آپ آئے اور کہنے لگے ہم آپ سے وہ نہیں کہیں گے جو قوم موسیٰ نے کہا تھا کہ«فَاذْہَبْ أَنتَ وَرَبٰکَ فَقَاتِلَا إِنَّا ہَاہُنَا قَاعِدُونَ» ۱؎ ( 5-المائدہ : 24 ) خود اپنے رب کو ساتھ لے کر جا اور لڑ بھڑ لو بلکہ ہم جو کہتے ہیں وہ کر کے بھی دکھائیں گے چلئے ہم آپ کے دائیں بائیں برابر کفار سے جہاد کریں گے آگے پیچھے بھی ہم ہی ہم نظر آئیں گے میں نے دیکھا کہ ان کے اس قول سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہو گئے اور آپ کا چہرہ مبارک چمکنے لگا ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ اس دعا کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہتے ہوئے تشریف لائے کہ{ «سَیُہْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلٰونَ الدٰبُرَ » ۱؎ ( 54-القمر : 45 ) عنقریب مشرکین شکست کھائیں گے اور پیٹھ دکھائیں گے۔} ۱؎ (صحیح بخاری:3953) ارشاد ہوا کہ «إِذْ تَسْتَغِیثُونَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ أَنِّی مُمِدٰکُم بِأَلْفٍ مِّنَ الْمَلَائِکَۃِ مُرْدِفِینَ» یعنی ’ ایک ہزار فرشتوں سے تمہاری امداد کی جائے گی جو برابر ایک دوسرے کے پیچھے سلسلہ وار آئیں گے اور تمہاری مدد کریں گے ایک کے بعد ایک آتا رہے گا ۔‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جبرائیل علیہ السلام ایک ہزار فرشتوں کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لشکر کے دائیں حصے میں آئے تھے جس پر کمان سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی تھی اور بائیں حصے پر میکائیل علیہ السلام ایک ہزار فرشتوں کی فوج کے ساتھ اترے تھے ۔ اس طرف میری کمان تھی ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:15769:ضعیف) ایک قرأت میں «مُرْدَفِینَ» بھی ہے ۔ مشہور یہ ہے کہ ان دونوں فرشتوں کے ساتھ پانچ پانچ سو فرشتے تھے جو بطور امداد آسمان سے بحکم الٰہی اترے تھے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک مسلمان ایک کافر پر حملہ کرنے کیلئے اس کا تعاقت کر رہا تھا کہ اچانک ایک کوڑا مانگنے کی آواز اور ساتھ ہی ایک گھوڑ سوار کی آواز آئی کہ اے خیروم آگے بڑھ وہیں دیکھا کہ وہ مشرک چت گرا ہوا ہے اس کا منہ کوڑے کے لگنے سے بگڑ گیا ہے اور ہڈیاں پسلیاں چور چور ہو گئی ہیں ۔ اس انصاری صحابی رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ واقعہ بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { تو سچا ہے یہ تیری آسمانی مدد تھی۔ } پس اس دن ستر کافر قتل ہوئے اور ستر قید ہوئے ۔۱؎ (صحیح مسلم:1763) امام بخاری رحمہ اللہ نے باب باندھا ہے کہ ” بدر والے دن فرشتوں کا اترنا “ پھر حدیث لائے ہیں کہ جبرائیل علیہ السلام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور پوچھا کہ بدری صحابہ رضی اللہ عنہم کا درجہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں کیسا سمجھا جاتا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { اور مسلمانوں سے بہت افضل ۔} جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا: اس طرح بدر میں آنے والے فرشتے بھی اور فرشتوں میں افضل گنے جاتے ہیں ۔۱؎ (صحیح بخاری:3992) بخاری اور مسلم میں ہے کہ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حاطب بن ابو بلتعہ رضی اللہ عنہ کے قتل کا مشورہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { وہ تو بدری صحابی ہیں تم نہیں جانتے اللہ تعالیٰ نے بدریوں پر نظر ڈالی اور فرمایا تم جو چاہے کرو میں نے تمہیں بخش دیا ۔ }۱؎ (صحیح بخاری:3007) پھر اللہُ سُبْحَانَہُ وَ تَعَالَیٰ فرماتا ہے کہ«وَمَا جَعَلَہُ اللہُ إِلَّا بُشْرَیٰ وَلِتَطْمَئِنَّ بِہِ قُلُوبُکُمْ ۚ وَمَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِندِ اللہِ ۚ إِنَّ اللہَ عَزِیزٌ حَکِیمٌ»۱؎ (8-الأنفال:10) ’ فرشتوں کا بھیجنا اور تمہیں اس کی خوشخبری دینا صرف تمہاری خوشی اور اطمینان دل کے لیے تھا ورنہ اللہ تعالیٰ ان کو بھیجے بغیر بھی اس پر قادر ہے جس کی چاہے مدد کرے اور اسے غالب کر دے ۔ ‘ بغیر نصرت پروردگار کے کوئی فتح پا نہیں سکتا اللہ ہی کی طرف سے مدد ہوتی ہے۔ جیسے فرمان ہے آیت «فَإِذَا لَقِیتُمُ الَّذِینَ کَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّیٰ إِذَا أَثْخَنتُمُوہُمْ فَشُدٰوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً حَتَّیٰ تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَہَا ۚ ذٰلِکَ وَلَوْ یَشَاءُ اللہُ لَانتَصَرَ مِنْہُمْ وَلٰکِن لِّیَبْلُوَ بَعْضَکُم بِبَعْضٍ ۗ وَالَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیلِ اللہِ فَلَن یُضِلَّ أَعْمَالَہُمْ سَیَہْدِیہِمْ وَیُصْلِحُ بَالَہُمْ وَیُدْخِلُہُمُ الْجَنَّۃَ عَرَّفَہَا لَہُمْ » ۱؎ ( 47- محمد : 6-4 ) ، یعنی ’ کافروں سے جب میدان ہو تو گردن مارنا ہے جب اس میں کامیابی ہو جائے تو پھر قید کرنا ہے ۔ اس کے بعد یا احسان کے طور پر چھوڑ دینا یا فدیہ لے لینا ہے یہاں تک کہ لڑائی موقوف ہو جائے ۔ ‘ یہ ظاہری صورت ہے«فَإِذَا لَقِیتُمُ الَّذِینَ کَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّی إِذَا أَثْخَنْتُمُوہُمْ فَشُدٰوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً حَتَّی تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَہَا ذَلِکَ وَلَوْ یَشَاءُ اللہُ لَانْتَصَرَ مِنْہُمْ وَلَکِنْ لِیَبْلُوَ بَعْضَکُمْ بِبَعْضٍ وَالَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیلِ اللہِ فَلَنْ یُضِلَّ أَعْمَالَہُمْ سَیَہْدِیہِمْ وَیُصْلِحُ بَالَہُمْ وَیُدْخِلُہُمُ الْجَنَّۃَ عَرَّفَہَا لَہُمْ» یعنی ’ اگر رب چاہے تو آپ ہی ان سے بدلے لے لے لیکن وہ ایک سے ایک کو آزما رہا ہے اللہ کی راہ میں شہید ہونے والوں کے اعمال اکارت نہیں جائیں گے ۔ انہیں اللہ تعالیٰ راہ رکھائے گا اور انہیں خوشحال کر دے گا اور جان پہچان کی جنت میں لے جائے گا ۔‘ ۱؎ (47-محمد:4-6) اور آیت میں ہے «وَتِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ ۚ وَلِیَعْلَمَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَیَتَّخِذَ مِنْکُمْ شُہَدَاۗءَ ۭ وَاللّٰہُ لَا یُحِبٰ الظّٰلِمِیْنَ وَلِیُمَحِّصَ اللہُ الَّذِینَ آمَنُوا وَیَمْحَقَ الْکَافِرِینَ» ۱؎ ( 3- آل عمران : 141 ، 140 ) ، ’ یہ دن ہم لوگوں میں گھماتے رہتے ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ جانچ لے اور شہیدوں کو الگ کر لے ظالموں سے اللہ ناخوش رہتا ہے اس میں ایمانداروں کا امتیاز ہو جاتا ہے اور یہ کفار کے مٹانے کی صورت ہے ۔‘ جہاد کا شرعی فلسفہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ مشرکوں کو موحدوں کے ہاتھوں سزا دیتا ہے ۔ اس سے پہلے عام آسمانی عذابوں سے وہ ہلاک کر دیئے جاتے تھے جیسے قوم نوح پر طوفان آیا ، عاد والے آندھی میں تباہ ہوئے ، ثمودی چیخ سے غارت کر دیئے گئے ، قوم لوط پر پتھر بھی برسے ، زمین میں بھی دھنسائے گئے اور ان کی بستیاں الٹ دی گئیں ، قوم شعیب پر ابر کا عذاب آیا ۔ پھر موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں دشمنان دین مع فرعون اور اس کی قوم اور اس کے لشکروں کے ڈبو دیئے گئے ۔ اللہ نے توراۃ اتاری اور اس کے بعد سے اللہ کا حکم جاری ہو گیا جیسے فرمان ہےآیت « وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ مِنْۢ بَعْدِ مَآ اَہْلَکْنَا الْقُرُوْنَ الْاُوْلٰی بَصَاۗیِٕرَ للنَّاسِ وَہُدًی وَّرَحْمَۃً لَّعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ» ( 28- القص : 43 ) یعنی ’ پہلی بستیوں کو ہلاک کرنے کے بعد ہم نے موسیٰ کو کتاب دی جو سوچنے سمجھنے کی بات تھی ۔‘ پھر سے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے ہاتھوں کافروں کو سزا دینا شروع کر دیا تاکہ مسلمانوں کے دل صاف ہو جائیں اور کافروں کی ذلت اور بڑھ جائے جیسے اس امت کو اللہ جل شانہ کا حکم ہے آیت « قَاتِلُوْہُمْ یُعَذِّبْہُمُ اللّٰہُ بِاَیْدِیْکُمْ وَیُخْزِہِمْ وَیَنْصُرْکُمْ عَلَیْہِمْ وَیَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مٰؤْمِنِیْنَ» ۱؎ ( 9- التوبہ : 14 ) ، یعنی ’ اے مومنو ! ان سے جہاد کرو اللہ انہیں تمہارے ہاتھوں سزا دے گا انہیں ذلیل کرے گا اور تمہیں ان پر مدد عطا فرما کر مومنوں کے سینے صاف کر دے گا ۔ ‘ اسی میدان بدر میں گھمنڈ و نخوت کے پتلوں کا ، کفر کے سرداروں کا ان مسلمانوں کے ہاتھ قتل ہونا جن پر ہمیشہ ان کی نظریں ذلت و حقارت کے ساتھ پڑتی رہیں کچھ کم نہ تھا ۔ ابوجہل اگر اپنے گھر میں اللہ کے کسی عذاب سے ہلاک ہو جاتا تو اس میں وہ شان نہ تھی جو معرکہ قتال میں مسلمانوں کے ہاتھوں ٹکڑے ہونے میں ہے ۔ جیسے کہ ابولہب کی موت اسی طرح کی واقع ہوئی تھی کہ اللہ کے عذاب میں ایسا سڑا کہ موت کے بعد کسی نے نہ تو اسے نہلایا نہ دفنایا بلکہ دور سے پانی ڈال کر لوگوں نے پتھر پھینکنے شروع کئے اور انہیں میں وہ دب گیا ۔ اللہ عزت والا ہے پھر اس کا رسول اور ایماندار ۔ دنیا آخرت میں عزت اور بھلائی ان ہی کے حصے کی چیز ہے۔ جیسے ارشاد ہے ہے آیت «إِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِینَ آمَنُوا فِی الْحَیَاۃِ الدٰنْیَا وَیَوْمَ یَقُومُ الْأَشْہَادُ یَوْمَ لَا یَنفَعُ الظَّالِمِینَ مَعْذِرَتُہُمْ ۖ وَلَہُمُ اللَّعْنَۃُ وَلَہُمْ سُوءُ الدَّارِ » ۱؎ ( 40- غافر : 52 ، 51 ) ، یعنی ’ ہم ضرور بضرور اپنے رسولوں کی ، ایماندار بندوں کی اس جہان میں اور اس جہان میں مدد فرمائیں گے ۔ اللہ حکیم ہے گو وہ قادر تھا کہ بغیر تمہارے لڑے بھڑے کفار کو ملیامیٹ کر دے لیکن اس میں بھی اس کی حکمت ہے جو وہ تمہارے ہاتھوں انہیں ڈھیر کر رہا ہے ۔‘ الانفال
10 الانفال
11 . تائید الٰہی کے بعد فتح و کامرانی ۔ اللہ تعالیٰ اپنے احسانات بیان فرماتا ہے کہ اس جنگ بدر میں جبکہ اپنی کمی اور کافروں کی زیادتی ، اپنی بےسرو سامانی اور کافروں کے پر شوکت سروسامان دیکھ کر مسلمانوں کے دل پر برا اثر پڑ رہا تھا پروردگار نے ان کے دلوں کے اطمینان کیلئے ان پر اونگھ ڈال دی جنگ احد میں بھی یہی حال ہوا تھا جیسے فرمان ہے آیت « ثُمَّ اَنْزَلَ عَلَیْکُمْ مِّنْۢ بَعْدِ الْغَمِّ اَمَنَۃً نٰعَاسًا یَّغْشٰی طَاۗیِٕفَۃً مِّنْکُمْ ۙ وَطَاۗیِٕفَۃٌ قَدْ اَہَمَّتْھُمْ اَنْفُسُھُمْ» ۱؎ ( 3- آل عمران : 154 ) ، یعنی ’ پورے غم و رنج کے بعد اللہ تعالیٰ نے تمہیں امن دیا جو اونگھ کی صورت میں تمہیں ڈھانکے ہوئے تھا ایک جماعت اسی میں مشغول تھی ۔ ‘ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں بھی ان لوگوں میں سے تھا جن پر احد والے دن اونگھ غالب آ گئی تھی اس وقت میں نیند میں جھوم رہا تھا میری تلوار میرے ہاتھ سے گر پڑتی تھی اور میں اٹھاتا تھا میں نے جب نظر ڈالی تو دیکھا کہ لوگ ڈھالیں سروں پر رکھے ہوئے نیند کے جھولے لے رہے ہیں ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ بدر والے دن ہمارے پورے لشکر میں گھوڑ سوار صرف ایک ہی مقداد تھے میں نے نگاہ بھر کر دیکھا کہ سارا لشکر نیند میں مست ہے صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک درخت تلے نماز میں مشغول تھے روتے جاتے تھے اور نماز پڑھتے جاتے تھے صبح تک آپ اسی طرح مناجات میں مشغول رہے ۔۱؎ (مسند احمد:125/1:صحیح) سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی للہ عنہ فرماتے ہیں کہ میدان جنگ میں اونگھ کا آنا اللہ کی طرف سے امن کا ملنا ہے اور نماز میں اونگھ کا آنا شیطانی حرکت ہے ، اونگھ صرف آنکھوں میں ہی ہوتی ہے اور نیند کا تعلق دل سے ہے ۔ یہ یاد رہے کہ اونگھ آنے کا مشہور واقعہ تو جنگ احد کا ہے لیکن اس آیت میں جو بدر کے واقعہ کے قصے کے بیان میں اونگھ کا اترنا موجود ہے پس سخت لڑائی کے وقت یہ واقعہ ہوا اور مومنوں کے دل اللہ کے عطا کردہ امن سے مطمئن ہو گئے یہ بھی مومنوں پر اللہ کا فضل و کرم اور اس کا لطف و رحم تھا« فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا» ۱؎ ( 94-الشرح : 5 ، 6 ) سچ ہے سختی کے بعد آسانی ہے ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک چھپر تلے دعا میں مشغول تھے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم اونگھنے لگے ۔ تھوڑی دیر میں جاگے اور تبسم فرما کر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: { خوش ہو یہ ہیں جبرائیل علیہ السلام گرد آلود پھر آیت قرآنی «سَیُہْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلٰونَ الدٰبُرَ» ۱؎ ( 54-القمر : 45 ) پڑھتے ہوئے جھونپڑی کے دروازے سے باہر تشریف لائے ۔ یعنی ابھی ابھی یہ لشکر شکست کھائے گا اور پیٹھ پھیر کر بھاگے گا ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:2915) دوسرا احسان اس جنگ کے موقعہ پر یہ ہوا کہ بارش برس گئی۔ قولہ تعالٰی «وَیُنَزِّلُ عَلَیْکُمْ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً» یعنی ’ اللہ نے تم پر آسمان سے پانی برسایا ۔ ‘ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مشرکوں نے میدان بدر کے پانی پر قبضہ کر لیا تھا مسلمانوں کے اور پانی کے درمیان وہ حائل ہو گئے تھے مسلمان کمزوری کی حالت میں تھے شیطان نے ان کے دلوں میں وسوسہ ڈالنا شروع کیا کہ تم تو اپنے تئیں اللہ والے سمجھتے ہو اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے میں موجود مانتے ہو اور حالت یہ ہے کہ پانی تک تمہارے قبضہ میں نہیں مشرکین کے ہاتھ میں پانی ہے تم نماز بھی جنبی ہونے کی حالت میں پڑھ رہے ہو ایسے وقت آسمان سے مینہ برسنا شروع ہوا اور پانی کی ریل پیل ہو گئی ۔ مسلمانوں نے پانی پیا بھی ، پلایا بھی ، نہا دھو کر پاکی بھی حاصل کر لی اور پانی بھر بھی لیا اور شیطانی وسوسہ بھی زائل ہو گیا اور جو چکنی مٹی پانی کے راستے میں تھی دھل کر وہاں کی سخت زمین نکل آئی اور ریت جم گئی کہ اس پر آمد ورفت آسان ہو گئی اور فرشتوں کی امداد آسمان سے آ گئی پانچ سو فرشتے تو جبرائیل علیہ السلام کی ما تحتیٰ میں اور پانچ سو میکائیل کی ما تحتیٰ میں ۔۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:15783:ضعیف و منقطع) مشہور یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب بدر کی طرف تشریف لے چلے تو سب سے پہلے جو پانی تھا وہاں ٹھہرے حباب بن منذر رضی اللہ عنہ نے آپ سے عرض کیا کہ اگر آپ کو اللہ کا حکم یہاں پڑاؤ کرنے کا ہوا تب تو خیر اور اگر جنگی مصلحت کے ساتھ پڑاؤ یہاں کیا ہو تو آپ اور آگے چلئے آخری پانی پر قبضہ کیجئے وہیں حوض بنا کر یہاں کے سب پانی وہاں جمع کر لیں تو پانی پر ہمارا قبضہ رہے گا اور دشمن پانی بغیر رہ جائے گا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی کیا بھی ۔۱؎ (سلسلۃ احادیث ضعیفہ البانی:0000،) مغازی اموی میں ہے کہ اس رائے کے بعد جبرائیل علیہ السلام کی موجودگی میں ایک فرشتے نے آ کر آپ کو سلام پہنچایا اور اللہ کا حکم بھی کہ یہی رائے ٹھیک ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا کہ آپ انہیں جانتے ہیں ؟ جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا میں آسمان کے تمام فرشتوں سے واقف نہیں ہوں ہاں ہیں یہ فرشتے شیطان نہیں ۔ سیرت ابن اسحاق میں ہے کہ مشرکین ڈھلوان کی طرف تھے اور مسلمان اونچائی کی طرف تھے بارش ہونے سے مسلمانوں کی طرف تو زمین دھل کر صاف ہو گئی اور پانی سے انہیں نفع پہنچا لیکن مشرکین کی طرف پانی کھڑا ہو گیا ۔ کیچڑ اور پھسلن ہو گئی کہ انہیں چلنا پھرنا دو بھر ہو گیا بارش اس سے پہلے ہوئی تھی غبار جم گیا تھا زمین سخت ہو گئی تھی دلوں میں خوشی پیدا ہو گئی تھی ثابت قدمی میسر ہو چکی تھی اب اونگھ آنے لگی اور مسلمان تازہ دم ہو گئے ۔ صبح لڑائی ہونے والی ہے رات کو ہلکی سی بارش ہو گئی ہم درختوں تلے جاچھپے حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کو جہاد کی رغبت دلاتے رہے ۔ یہ اس لیے کہ اللہ تمہیں پاک کر دے وضو بھی کر لو اور غسل بھی اس ظاہری پاکی کے ساتھ ہی باطنی پاکیزگی بھی حاصل ہوئی شیطانی وسوسے بھی دور ہو گئے دل مطمئن ہو گئے جیسے کہ جنتیوں کے بارے میں فرمان ہے کہ آیت « عَالِیَہُمْ ثِیَابُ سُندُسٍ خُضْرٌ وَإِسْتَبْرَقٌ ۖ وَحُلٰوا أَسَاوِرَ مِن فِضَّۃٍ وَسَقَاہُمْ رَبٰہُمْ شَرَابًا طَہُورًا» ۱؎ ( 76-الإنسان : 21 ) ، یعنی ’ ان کے بدن پر نہیں اور موٹے ریشمی کپڑے ہوں گے اور انہیں چاندی کے کنکھن پہنائے جائیں گے اور انہیں ان کا رب پاک اور پاک کرنے والا شربت پلائے گا ۔ ‘ پس لباس اور زیور تو ظاہری زینت کی چیز ہوئی اور پاک کرنے والا پانی جس سے دلوں کی پاکیزگی اور حسد و بغض کی دوری ہو جائے ۔ یہ تھی باطنی زینت ۔ پھر فرماتا ہے کہ اس سے مقصود دلوں کی مضبوطی بھی تھی کہ صبرو برداشت پیدا ہو شجاعت و بہادری ہو دل بڑھ جائے ثابت قدمی ظاہر ہو جائے اور حملے میں استقامت پیدا ہو جائے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ پھر اپنی ایک باطنی نعمت کا اظہار فرما رہا ہے تاکہ مسلمان اس پر بھی اللہ کا شکر بجا لائیں کہ اللہ تعالیٰ تبارک و تقدس و تمجد نے فرشتوں کو حکم دیا کہ تم جاؤ مسلمانوں کی مدد و نصرت کرو ، ان کے ساتھ مل کر ہمارے دشمنوں کو نیچا دکھاؤ ۔ ان کی گنتی گھٹاؤ اور ہمارے دوستوں کی تعداد بڑھاؤ ۔ کہا گیا ہے کہ فرشتہ کسی مسلمان کے پاس آتا اور کہتا کہ مشرکوں میں عجیب بد دلی پھیلی ہوئی ہے ۔ وہ تو کہہ رہے ہیں کہ اگر مسلمانوں نے حملہ کر دیا تو ہمارے قدم نہیں ٹک سکتے ہم تو بھاگ کھڑے ہوں گے ۔ اب ہر ایک دوسرے سے کہتا دوسرا تیسرے سے پھر صحابہ رضی اللہ عنہم کے دل بڑھ جاتے اور سمجھ لیتے کہ مشرکوں میں طاقت و قوت نہیں ۔ پھر فرماتا ہے «إِذْ یُوحِی رَبٰکَ إِلَی الْمَلَائِکَۃِ أَنِّی مَعَکُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِینَ آمَنُوا» کہ ’ تم اے فرشتوں اس کام میں لگو ادھر میں مشرکوں کے دلوں میں مسلمانوں کی دھاک بٹھا دوں گا میں ان کے دلوں میں ذلت اور حقارت ڈال دوں گا میرے حکم کے نہ ماننے والوں کا میرے رسول کے منکروں کا یہی حال ہوتا ہے ۔ ‘ پھر تم ان کے سروں پر وار لگا کر دماغ نکال دو ، گردنوں پر تلوار مار کے سر اور دھڑ میں جدائی کر دو ۔ «فَوْقَ الْأَعْنَاقِ» ہاتھ پاؤں اور جوڑ جوڑ پور پور کو تاک تاک کر زخم لگاؤ ۔ پس گردنوں کے اوپر سے بعض کے نزدیک مراد تو سر ہیں اور بعض کے نزدیک خود گردن مراد ہے، چنانچہ اور جگہ ہے آیت «فَإِذا لَقِیتُمُ الَّذِینَ کَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّی إِذَا أَثْخَنْتُمُوہُمْ فَشُدٰوا الْوَثَاقَ»۱؎ (47-محمد:4) ’ جب تم کافروں سے بھڑ جاؤ تو ان کی گردنیں اُڑا دو ۔ ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : { میں قدرتی عذابوں سے لوگوں کو ہلاک کرنے کیلئے نہیں بھیجا گیا بلکہ گردن مارنے اور قید کرنے کیلئے بھیجا گیا ہوں ۔ }۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:15798) امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ گردن پر اور سر پر وار کرنے کا استدلال اس سے ہو سکتا ہے ۔ مغازی اموی میں ہے کہ مقتولین بدر کے پاس سے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گذرے تو ایک شعر کا ابتدائی ٹکڑا «نُفَلِّقُ ہَامًا . . . » یعنی سر ٹوٹے پڑے ہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھ دیا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے پورا شعر پڑھ دیا«مِنْ رِجَالٍ أَعِزَّۃٍ عَلَیْنَا وَہُمْ کَانُوا أَعَقَّ وَأَظْلَمَا» یعنی سر ٹوٹے پڑے ہیں ان لوگو کے جو ہم پر غرور کرتے تھے کیونکہ وہ لوگ بڑے ہی ظالم اور نافرمان تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ شعر یاد تھے نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائق ، جیسے آیت میں ہے «وَمَا عَلَّمْنَاہُ الشِّعْرَ وَمَا یَنبَغِی لَہُ» ۱؎ ( 36-یس : 69 ) ’ اور ہم نے ان ( پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ) کو شعر گوئی نہیں سکھائی اور نہ وہ ان کو شایاں ہے ۔ ‘ اس شعر کا مطلب یہی ہے کہ جو لوگ ظالم اور باغی تھے اور آج تک غلبے اور شوکت سے تھے آج ان کے سر ٹوٹے ہوئے اور ان کے دماغ بکھرے ہوئے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ جو مشرک لوگ فرشتوں کے ہاتھ قتل ہوئے تھے انہیں مسلمان اس طرح پہچان لیتے تھے کہ ان کی گردنوں کے اوپر اور ہاتھ پیروں کے جوڑ ایسے زخم زدہ تھے جیسے آگ سے جلے ہونے کے نشانات ۔ « وَاضْرِبُوا مِنْہُمْ کُلَّ بَنَانٍ» ’ اے مومنو! دشمنوں کو مارو ان کے جوڑ بندوں پر تاکہ ہاتھ پاؤں ٹوٹ جائیں۔‘ «بَنَانٍ» جمع ہے « بَنَانَۃً » کی ۔ عربی شعروں میں بَنَانَۃً کا استعمال موجود ہے پس ہر جوڑ اور ہر حصے کو «بَنَانٍ» کہتے ہیں ۔ اوزاعی رحمہ اللہ کہتے ہیں منہ پر آنکھ پر آگ کے کوڑے برساؤ ہاں جب انہیں گرفتار کر لو پھر نہ مارنا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ بدر کا قصہ بیان کرتے ہیں کہ ابوجہل ملعون نے کہا تھا کہ جہاں تک ہو سکے مسلمانوں کو زندہ گرفتار کر لو تاکہ ہم انہیں اس بات کا مزہ زیادہ دیر تک چکھائیں کہ وہ ہمارے دین کو برا کہتے تھے ، ہمارے دین سے ہٹ گئے تھے ، لات و عزی کی پرستش چھوڑ بیٹھے ٹھے ۔ پس اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں اور فرشتوں کو یہ حکم دیا ۔ چنانچہ جو ستر آدمی ان کافروں کے قتل ہوئے ان میں ایک یہ پاجی بھی تھا اور جو ستر آدمی قید ہوئے ان میں ایک عقبہ بن ابی معیط بھی تھا لعنہ اللہ تعالیٰ ، اس کو قید میں ہی قتل کیا گیا اور اس سمیت مقتولین مشرکین کی تعداد ستر ہی تھی ۔ «ذَلِکَ بِأَنَّہُمْ شَاقٰوا اللہَ وَرَسُولَہُ» ’ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی مخالفت کا نتیجہ اور بدلہ یہ ہے ۔‘ شقاق ماخوذ ہے شق سے ۔ شق کہتے ہیں پھاڑنے چیرنے اور دو ٹکڑے کرنے کو ۔ پس ان لوگوں نے گویا شریعت ، ایمان اور فرماں برداری کو ایک طرف کیا اور دوسری جانب خود رہے ۔ لکڑی کے پھاڑنے کو بھی عرب یہی کہتے ہیں جبکہ لکڑی کے دو ٹکڑے کر دیں ۔ اللہ اور اس کے رسول کے خلاف چل کر کوئی بچ نہیں سکا ۔ کون ہے جو اللہ سے چھپ جائے ؟ اور اس کے بےپناہ اور سخت عذابوں سے بچ جائے ؟ نہ کوئی اس کے مقابلے کا نہ کسی کو اس کے عذابوں کی طاقت نہ اس سے کوئی بچ نکلے ۔ نہ اس کا غضب کوئی سہہ سکے ۔ وہ بلند و بالا وہ غالب اور انتقام والا ہے ۔ اس کے سوا کوئی معبود اور رب نہیں ۔ وہ اپنی ذات میں ، اپنی صفتوں میں یکتا اور لا شریک ہے ۔ «ذَلِکُمْ فَذُوقُوہُ وَأَنَّ لِلْکَافِرِینَ عَذَابَ النَّارِ » ’ اے کافرو ! دنیا کے یہ عذاب اٹھاؤ اور ابھی آخرت میں دوزخ کا عذاب باقی ہے ۔‘ الانفال
12 الانفال
13 الانفال
14 الانفال
15 شہیدان وفا کے قصے جہاد کے میدان میں جو مسلمان بھی بھاگ کھڑا ہوا اس کی سزا اللہ کے ہاں جہنم کی آگ ہے ۔ جب لشکر کفار سے مڈبھیڑ ہو جائے اس وقت پیٹھ پھیڑ ہو جائے اس وقت پیٹھ پھیرنا حرام ہے ہاں اس شخص کے لیے جو فن جنگ کے طور پر پینترا بدلے یا دشمن کو اپنے پیچھے لگا کر موقعہ پر وار کرنے کے لیے بھاگے یا اس طرح لشکر پیچھے ہٹے اور دشمن کو گھات میں لے کر پھر ان پر اچانک چھاپہ مار دے تو بیشک اس کیلئے پیٹھ پھیرنا جائز ہے ۔ دوسری صورت یہ ہے کہ ایک لشکر میں سے دوسرے لشکر میں جانا ہو جہاں چھوٹے سے لشکر سے بڑے لشکر کا ٹکراؤ ہو یا امام اعظم سے ملنا ہو تو وہ بھی اس میں داخل ہے ۔ مسند احمد میں ہے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چھوٹا سا لشکر بھیجا تھا میں بھی اس میں ہی تھا لوگوں میں بھگدڑ مچی میں بھی بھاگا ہم لوگ بہت ہی نادم ہوئے کہ ہم اللہ کی راہ سے بھاگے ہیں اللہ کا غضب ہم پر ہے ہم اب مدینے جائیں اور وہاں رات گذار کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہوں اگر ہماری توبہ کی کوئی صورت نکل آئے تو خیر ورنہ ہم جنگوں میں نکل جائیں ۔ چنانچہ نماز فجر سے پہلے ہم جا کر بیٹھ گئے جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ { تم کون لوگ ہو ؟ } ہم نے کہا بھاگنے والے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { نہیں بلکہ تم لوٹنے والے ہو میں تمہاری جماعت ہوں اور میں تمام مسلمانوں کی جماعت ہوں۔ } ہم نے بےساختہ آگے بڑھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ چوم لیے ۔۱؎ (سنن ترمذی:1716،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ابوداؤد و ترمذی اور ابن ماجہ میں بھی یہ حدیث ہے ۔ امام ترمذی رحمہ اللہ اسے حسن کہہ کر فرماتے ہیں ہم اسے ابن ابی زیاد کے علاوہ کسی کی حدیث سے پہچانتے نہیں۔ ابن ابی حاتم میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے بعد آپ کا اس آیت «أَوْ مُتَحَیِّزًا إِلَی فِئَۃٍ» کا تلاوت کرنا بھی مذکور ہے ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2647،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ابوعبیدہ جنگ فارس میں ایک پل پر گھیر لیے گئے مجوسیوں کے ٹڈی دل لشکروں نے چاروں طرف سے آپ کو گھیر لیا موقعہ تھا کہ آپ ان میں سے بچ کر نکل آتے لیکن آپ نے مردانہ وار اللہ کی راہ میں جام شہادت نوش فرمایا جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو یہ واقعہ معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا اگر وہ وہاں سے میرے پاس چلے آتے تو ان کے لیے جائز تھا کیونکہ میں مسلمانوں کی جماعت ہوں مجھ سے مل جانے میں کوئی حرج نہیں اور روایت میں ہے میں تمام مسلمانوں کی جماعت ہوں ۔ اور روایت میں ہے کہ تم اس آیت کا غلط مطلب نہ لینا یہ واقعہ بدر کے متعلق ہے ۔ اب تمام مسلمانوں کیلئے وہ فعتہ جس کی طرف پناہ لینے کے لیے واپس مڑنا جائز ہے ، میں ہوں ۔ ابن عمر سے نافع نے سوال کیا کہ ہم لوگ دشمن کی لڑائی کے وقت ثابت قدم نہیں رہ سکتے اور ہمیں یہ معلوم نہیں کہ فئتہ سے مراد امام لشکر ہے یا مسلمانوں کو جنگی مرکز آپ نے فرمایا فئتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے میں نے اس آیت«إِذَا لَقِیتُمُ الَّذِینَ کَفَرُوا زَحْفًا فَلَا تُوَلٰوہُمُ الْأَدْبَارَ» کی تلاوت کی تو آپ نے فرمایا یہ آیت بدر کے دن اتری ہے نہ اس سے پہلے نہ اس کے بعد ۔ «مُتَحَیِّزًا» کے معنی ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پناہ لینے والا ۔ ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں لشکر کفار سے بھاگ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس پناہ لے اس کے لیے جائز ہے ۔ آج بھی امیر اور سالار لشکر کے پاس یا اپنے مرکز میں جو بھی آئے اس کیلئے یہی حکم ہے ۔ ہاں اس صورت کے سوا نامردی اور بزدلی کے طور پر لشکر گاہ سے جو بھاگ کھڑا ہو لڑائی میں پشت دکھائے وہ جہنمی ہے اور اس پر اللہ کا غضب ہے وہ حرمت کے کبیرہ گناہ کا مرتکب ہے ۔ بخاری مسلم کی حدیث میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { سات ہلاک کرنے والی چیزوں سے بچو (۱) شرک باللہ (۲) جادو کرنا (۳) کسی کو نا حق قتل کردینا (۴) سود کھانا (۵) مالِ یتیم کھاجانا (۶) جہاد میں پیٹھ پھیر کر بھاگ جانا (۷) پاک دامن اور بے گناہ عورتوں پر الزام لگانا۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:2766) یہ بات اور کئی طرح بھی ثابت ہے کہ یہ آیت بدر کے متعلق نازل ہوئی ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’ وہ بھاگے تو اللہ تعالیٰ کا غضب لے کر بھاگے گا۔ اس کا ٹھکانہ دوزخ ہے جو بہت ہی برا ٹھکانہ ہے۔‘ ۱؎ (مسند احمد:224/5:ضعیف) . بشر بن معبد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں بیعت کرنے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو بیعت کے لئے اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ شرط کی کہ { «لَا إِلَہَ إِلَّا اللہ» کی گواہی دو، میری رسالت کو مانو، نماز پابندی سے پڑھو، زکواۃ دیتے رہو، حج کرو، رمضان کے روزے رکھو اور یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کروگے۔ } میں نے کہا یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم اس میں دو باتیں میرے لئے دشوار ہیں ایک تو جہاد کہ اگر بہ حالت جنگ کوئی پیٹھ پھیر کر بھاگ جائے گا تو اللہ تعالیٰ کا غضب اس پر نازل ہوجائے گا اور مجھے خوف ہے کہ موت سے گھبرا کر کہیں مجھ سے یہ گناہ سرزد نہ ہوجائے۔ دوسرے صدقہ سو اللہ تعالیٰ کی قسم مجھے غنیمت اور اس کے سوا کچھ نہیں ملتا ہے اور دس اونٹنیاں ہیں جن کا دودھ دوھ لیا، پیا پلایا، اس پر سواری کرلی۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ تھام لیا اس کو ہلایا اور کہا { جہاد بھی نہ کرو گے، صدقہ بھی نہ دوگے تو پھر جنت کا استحقاق کیسے حاصل کروگے۔} میں نے کہا یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم مجھے منظور ہے میں ہر شرط پر بیعت کروں گا۔۱؎ (مسند احمد:224/5:ضعیف) طبرانی میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ تین گناہوں کے ساتھ کوئی نیکی نفع نہیں دیتی اللہ کے ساتھ شرک ، ماں باپ کی نافرمانی ، لڑائی سے بھاگنا ، یہ حدیث بھی بہت غریب ہے ۔ ۱؎ (سلسلۃ احادیث ضعیفہ البانی:1384) اسی طرح طبرانی میں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { جس نے دعا«أَسْتَغْفِرُ اللہ الَّذِی لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ وَأَتُوبُ إِلَیْہِ» پڑھ لیا اس کے سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں گو وہ لڑائی سے بھاگا ہو ۔} ۱؎ (سنن ترمذی:3577،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابوداؤد اور ترمذی میں بھی یہ حدیث ہے امام ترمذی رحمہ اللہ اسے غریب بتاتے ہیں اور نبی کریم کے مولیٰ زید رضی اللہ عنہ اس کے راوی ہیں ۔ ان سے اس کے سوا کوئی حدیث نظر سے نہیں گزری ۔ بعض حضرات کا قول ہے کہ بھاگنے کی حرمت کا یہ حکم صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ مخصوص تھا اس لیے کہ ان پر جہاد فرض عین تھا اور کہا گیا ہے کہ انصار کے ساتھ ہی مخصوص تھا اسلئے کہ ان کی بیعت سننے اور ماننے کی تھی خوشی میں بھی اور ناخوشی میں بھی ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ بدری صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ یہ خاص تھا کیونکہ ان کی کوئی جماعت تھی ہی نہیں چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعا میں کہا تھا کہ { اے اللہ اگر تو اس جماعت کو ہلاک کر دے گا تو پھر زمین میں تیری عبادت نہ کی جائے گی ۔} ۱؎ (صحیح مسلم:1763) حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں «وَمَنْ یُوَلِّہِمْ یَوْمَئِذٍ دُبُرَہُ» سے مراد بدر کا دن ہے اب اگر کوئی اپنی بری جماعت کی طرف آ جائے یا کسی قلعے میں پناہ لے تو میرے خیال میں تو اس پر کوئی حرج نہیں ۔ یزید بن ابی حبیب فرماتے ہیں کہ بدر والے دن جو بھاگے اس کیلئے دوزخ واجب تھی اس کے بعد جنگ احد ہوئی اس وقت یہ آیتیں اتریں « إِنَّ الَّذِینَ تَوَلَّوْا مِنکُمْ یَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعَانِ إِنَّمَا اسْتَزَلَّہُمُ الشَّیْطَانُ بِبَعْضِ مَا کَسَبُوا ۖ وَلَقَدْ عَفَا اللہُ عَنْہُمْ» ۱؎ ( 3- آل عمران : 155 ) تک ۔ اس کے سات سال بعد جنگ حنین ہوئی جس کے بارے میں قرانی ذکر ہے آیت « ثُمَّ وَلَّیْتُمْ مٰدْبِرِیْنَ» ۱؎ ( 9- التوبہ : 25 ) یعنی ’ پھر اللہ نے جس کی چاہی توبہ قبول فرمائی ۔ ‘ اور آیت میں ہے«ثُمَّ یَتُوبُ اللہُ مِن بَعْدِ ذٰلِکَ عَلَیٰ مَن یَشَاءُ» ۱؎ ( 9- التوبہ : 27 ) یعنی ’ پھر اللہ اس کے بعد جس پر چاہے مہربانی سے توجہ فرمائے ۔‘ ابوداؤد نسائی مستدرک حاکم وغیرہ میں ہے کہ ابوسعید رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ آیت بدریوں کے بارے میں اتری ہے۱؎ (سنن ابوداود:2648،قال الشیخ الألبانی:صحیح) لیکن یہ یاد رہے کہ گویہ مان لیا جائے کہ سبب نزول اس آیت کا بدری لوگ ہیں مگر لڑائی سے منہ پھیرنا تو حرام ہے جیسے کہ اس سے پہلے حدیث میں گذرا کہ سات ہلاک کرنے والے گناہوں میں ایک یہ بھی ہے اور یہی مذہب جمہور کا ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ الانفال
16 الانفال
17 اللہ کی مدد ہی وجہ کامرانی ہے اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ بندوں کے کل کاموں کا خالق وہی ہے ان سے جو بھی اچھائیاں سرزد ہوں اس پر قابل تعریف وہی ہے اس لیے کہ توفیق اسی کی طرف سے ہے اور اعانت و مدد بھی اسی کی جانب سے ہے اسی لیے فرماتا ہے کہ ’ اے مسلمانوں تم نے آپ اپنی طاقت و قوت سے اپنے دشمنوں کو قتل نہیں کیا تم تو مٹی بھر تھے اور دشمن بہت زیادہ تھے تم بیکس اور کمزور تھے دشمن کس بل والے قوت طاقت والے تھے ۔ یہ اللہ ہی کی مدد تھی کہ اس نے تمہیں ان پر غالب کر دیا ‘ ۔ جیسے فرمان ہے آیت « وَلَقَدْ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ بِبَدْرٍ وَّاَنْتُمْ اَذِلَّۃٌ ۚ فَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ» ۱؎ ( 3- آل عمران : 123 ) ، ’ اللہ نے بدر کے دن تمہاری مدد کی ‘ اور آیت میں ہے آیت « لَقَدْ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ فِیْ مَوَاطِنَ کَثِیْرَۃٍ ۙ وَّیَوْمَ حُنَیْنٍ ۙ اِذْ اَعْجَبَتْکُمْ کَثْرَتُکُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْکُمْ شَیْــــًٔـا وَّضَاقَتْ عَلَیْکُمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّیْتُمْ مٰدْبِرِیْنَ» ۱؎ ( 9- التوبہ : 25 ) ، ’ بہت سی جگہ اللہ جل شانہ نے تمہاری امداد فرمائی ہے ، حنین کے دن بھی جبکہ تمہیں اپنی زیادتی پر گھمنڈ ہوا لیکن وہ بیکارثابت ہوئی اور یہ وسیع زمین تم پر تنگ ہو گئی اور آخر منہ موڑ کر تم بھاگ کھڑے ہوئے ۔ ‘ پس ثابت ہے کہ گنتی کی زیادتی ، ہتھیاروں کی عمدگی اور سازو سامان کی فروانی پر غلبہ موقوف نہیں وہ تو اللہ کی مدد پر موقوف ہے ۔ جیسے ارشاد الٰہی ہے آیت «کَم مِّن فِئَۃٍ قَلِیلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیرَۃً بِإِذْنِ اللہِ ۗ وَ اللہُ مَعَ الصَّابِرِینَ» ( 2-البقرۃ : 249 ) یعنی ’ بسا اوقات چھوٹی چھوٹی جماعتوں نے بڑے بڑے لشکروں کے منہ پھیر دیئے ہیں اور ان پر غلبہ حاصل کر لیا ہے یہ سب اللہ کے حکم اور اس کی مدد سے ہے اور یقیناً اللہ تعالیٰ کی مدد صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ۔ ‘ پھر مٹی کی اس مٹھی کا ذکر ہو رہا ہے«وَمَا رَمَیْتَ إِذْ رَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللہَ رَمَیٰ» جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کی لڑائی میں کافروں کی طرف پھینکی تھی پہلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جھونپڑی میں اللہ تعالیٰ سے دعا کی ۔ روئے ، گڑگڑائے اور مناجات کر کے باہر نکلے اور کنکریوں کی ایک مٹھی اٹھا کر کافروں کی طرف پھینکی اور فرمایا: { ان کے چہرے بگڑ جائیں ، ان کے منہ پھر جائیں ساتھ ہی صحابہ رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ فوراً عام حملہ کر دو ۔} ادھر حملہ ہوا ادھر سے وہ کنکریاں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے کافروں کی آنکھوں میں ڈال دیں ۔ وہ سب اپنی آنکھیں مل ہی رہے تھے جو لشکر اسلام ان کے کلے پر پہنچ گیا ۔ پس فرماتا ہے کہ وہ مٹھی تو نے نہیں بلکہ ہم نے پھینکی تھی یعنی پھینکی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لیکن ان کی آنکھوں تک پہنچا کر انہیں شکست دینے والا اللہ تعالیٰ ہی تھا نہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ اٹھا کر دعا کی جس میں یہ بھی کہا کہ { اے میرے پروردگار اگر تو نے اس جماعت کو ہلاک کر دیا تو پھر کبھی بھی تیری عبادت زمین پر نہ کی جائے گی ۔ } اسی وقت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ ایک مٹھی زمین سے مٹی کی بھرلیں اور ان کے منہ کی طرف پھینک دیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی کیا پس مشرکین کے سارے لشکر کے منہ اور آنکھ اور نتھنوں میں وہ مٹی گھس گئی اور انہیں پیٹھ پھیرتے ہی بنی ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:15740:ضعیف و منقطع) مسلمانوں نے ان کو قتل کرتے ہوئے ان کا پیچھا کیا اور قید کرلیا۔ کافروں کو یہ ہزیمت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزے کے سبب ہوئی۔ عبدالرحمٰن بن زید رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تین کنکر لئے تھے ایک سامنے پھینکا دو کنکر دشمن فوج کے سیدھی و بائیں طرف پھینکے تھے۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:15839:مرسل و ضعیف) سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ بدر میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: { کنکریوں کی ایک مٹھی زمین سے بھر کر مجھے دو } سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے مٹھی بھردی جس میں کنکریاں تھیں اور مٹی بھی ۔ آپ نے مشرکوں کی طرف وہ مٹھی پھینکی جس سے ان کی آنکھیں بھر گئیں ۔۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:15835:ضعیف) ادھر سے مسلمانوں نے ان پر حملہ کر دیا اور قتل کرنا اور قیمہ کرنا شروع کر دیا اسی کا بیان اس آیت میں ہے کہ یہ تیرے بس کی بات نہ تھی بلکہ یہ اللہ کے بس کی چیز تھی ۔ ایک روایت میں ہے کہ تین کنکر لے کر آپ نے پھینکے تھے ایک دائیں ایک بائیں ایک بیچ میں ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:15839:مرسل و ضعیف) گو حنین والے دن بھی آپ نے کنکریاں مشرکوں کی طرف پھینکی تھیں لیکن یہاں ذکر جنگ بدر کے دن کا ہے ۔ حکیم بن حزام کا بیان ہے کہ جنگ بدر کے دن ہم نے ایک آواز سنی کہ گویا آسمان سے کوئی کنکر کسی طشت میں گرا اسی وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھینکی ہوئی کنکریاں ہم میں پہنچیں اور ہمیں شکست ہوئی ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:15835:ضعیف) یہ روایت اس سند سے بہت غریب ہے ۔ یہاں دو قول اور بھی ہیں لیکن بالکل غریب ہیں ۔ ایک تو یہ کہ خیبر کی جنگ کے موقع پر یوم ابن ابی حقیق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کمان منگائی لوگوں نے بہت لمبی کمان لا کر آپ کو دی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے قلعے کی طرف تیر پھینکا وہ گھومتا ہوا چلا اور سردار قلعہ الوالحقیق کو اس کے گھر میں اس کے بسترے پر جا کر لگا اور اسی سے وہ مرا اس کا ذکر اس آیت میں ہے کہ ’ وہ تیر تو نے نہیں بلکہ ہم نے پھینکا تھا ۔ ‘۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:443/13:مرسل و ضعیف) یہ روایت غریب ہے ممکن ہے راوی کو شبہ ہو گیا ہو یا مراد ان کی یہ ہو کہ یہ آیت عام ہے یہ واقعہ بھی اسی میں شامل ہے ۔ ورنہ یہ تو ظاہر ہے کہ سورۃ الانفال کی اس آیت میں جنگ بدر کے بیان کا ذکر ہے ۔ تو یہ واقعہ اسی جنگ بدر کا ہے اور یہ بات بالکل ظاہر ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ پھر فرماتا ہے «وَلِیُبْلِیَ الْمُؤْمِنِینَ مِنْہُ بَلَاءً حَسَنًا» ’ تاکہ مومنوں کو اپنی نعمت کا اقرار کرا دے کہ باوجود ان کی کثرت ان کی قلت ، ان کے سازو سامان ان کی بےسرو سامانی کے رب العالمین نے انہیں ان پر غالب کر دیا ۔‘ حدیث میں ہے { اللہ تعالیٰ نے بڑا اچھا امتحان ہم سے لیا ہے۔} «إِنَّ اللہَ سَمِیعٌ عَلِیمٌ » ’ اللہ دعاؤں کا سننے والا ہے ۔ وہ خوب جانتا ہے کہ مدد اور غلبے کا مستحق کون ہے ؟ ‘ پھر فرماتا ہے «ذٰلِکُمْ وَأَنَّ اللہَ مُوہِنُ کَیْدِ الْکَافِرِینَ» ’ اس فتح کے ساتھ ہی یہ خوشخبری بھی سن لو کہ اللہ تعالیٰ کافروں کے حیلے حوالے کمزور کر دے گا ان کی شان گھٹا دے گا ان کا انجام تباہی کے سوا اور کچھ نہ ہوگا ‘ اور یہی ہوا بھی ۔ الانفال
18 الانفال
19 ایمان والوں کا متعین و مددگار اللہ عزاسمہ اللہ تعالیٰ کافروں سے فرما رہا ہے کہ«إِن تَسْتَفْتِحُوا فَقَدْ جَاءَکُمُ الْفَتْحُ» ’ تم یہ دعائیں کرتے تھے کہ ہم میں اور مسلمانوں میں اللہ تعالیٰ فیصلہ کر دے جو حق پر ہوا سے غالب کر دے اور اس کی مد فرمائے تو اب تمہاری یہ خواہش بھی پوری ہو گئی مسلمان بحکم الٰہی اپنے دشمنوں پر غالب آ گئے ۔‘ ۱؎ (سنن نسائی:221،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابوجہل نے بدر والے دن کہا تھا کہ اے اللہ ہم میں سے جو رشتوں ناتوں کا توڑنے والا ہو اور غیر معروف چیز لے کر آیا ہو اسے توکل کی لڑائی میں شکست دے پس اللہ تعالیٰ نے یہی کیا اور یہ اور اس کا لشکر ہار گئے ، مکے سے نکلنے سے پہلے ان مشرکوں نے خانہ کعبہ کا غلاف پکڑ کر دعا کی تھی کہ الٰہی دونوں لشکروں میں سے تیرے نزدیک جو اعلیٰ ہو اور زیادہ بزرگ ہو اور زیادہ بہتری والا ہو تو اس کی مدد کر ۔ پس اس آیت میں ان سے فرمایا جا رہا ہے کہ ’ لو اللہ کی مدد آ گئی تمہارا کہا ہوا پورا ہو گیا ۔ ہم نے اپنے نبی کو جو ہمارے نزدیک بزرگ ، بہتر اور اعلیٰ تھے غالب کر دیا ۔‘ خود قرآن نے ان کی دعا نقل کی ہے کہ یہ کہتے تھے دعا«وَاِذْ قَالُوا اللّٰہُمَّ اِنْ کَانَ ہٰذَا ہُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِکَ فَاَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَۃً مِّنَ السَّمَاۗءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ» ۱؎ ( 8- الانفال : 32 ) ، ’ الٰہی اگر یہ تیری جانب سے راست ہے تو تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا یا کوئی اور درد ناک عذاب ہم پر لا ۔‘ پھر فرماتا ہے «وَإِن تَعُودُوا نَعُدْ وَلَن تُغْنِیَ عَنکُمْ فِئَتُکُمْ شَیْئًا وَلَوْ کَثُرَتْ» کہ ’ اگر اب بھی تم اپنے کفر سے باز آ جاؤ تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے ۔ اللہ جل جلالہ اور اس کے رسول کو نہ جھٹلاؤ تو دونوں جہان میں بھلائی پاؤ گے۔ ‘ اور«وَإِنْ عُدتٰمْ عُدْنَا» ۱؎ ( 17-الاسراء : 8 ) ’ اگر پھر تم نے یہی کفر و گمراہی کو تو ہم بھی اسی طرح مسلمانوں کے ہاتھوں تمہیں پست کریں گے ۔ اگر تم نے پھر اسی طرح فتح مانگی تو ہم پھر اپنے نیک بندوں پر اپنی مدد اتاریں گے ‘ لیکن اول قول قوی ہے ۔ یاد رکھو گو تم سب کے سب مل کر چڑھائی کرو تمہاری تعداد کتنی ہی بڑھ جائے اپنے تمام لشکر جمع کر لو لیکن سب تدبیریں دھری کی دھری رہ جائیں گی ۔ جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہو اسے کوئی مغلوب نہیں کر سکتا ۔ «وَأَنَّ اللہَ مَعَ الْمُؤْمِنِینَ» ظاہر ہے کہ ’ خالق کائنات مومنوں کے ساتھ ہے‘ اس لیے کہ وہ اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہیں ۔ الانفال
20 اللہ کی نگاہ میں بدترین مخلوق اللہ تعالیٰ اپنے ایماندار بندوں کو اپنی اور اپنے رسول کی فرمانبرداری کا حکم دیتا ہے اور مخالفت سے اور کافروں جیسا ہونے سے منع فرماتا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے کہ «لَا تَوَلَّوْا عَنْہُ» ’ اطاعت کو نہ چھوڑو ، تابع داری سے منہ نہ موڑو ۔ جن کاموں سے اللہ اور اس کا رسول روک دے رک جایا کرو ۔ ‘ «وَأَنتُمْ تَسْمَعُونَ » ’ سن کر ان سنی نہ کر دیا کرو ، مشرکوں کی طرح نہ بن جاؤ کہ سنا نہیں اور کہدیا کہ سن لیا ، نہ منافقوں کی طرح بنو کہ بظاہر ماننے والا ظاہر کر دیا اور درحقیقت یہ بات نہیں ۔‘ بدترین مخلوق جانوروں ، کیڑے مکوڑوں سے بھی برے اللہ کے نزدیک ایسے ہی لوگ ہیں جو حق باتوں سے اپنے کان بہرے کر لیں اور حق کے سمجھنے سے گونگے بن جائیں ، بےعقلی سے کام لیں ۔ اس لیے کہ تمام جانور بھی اللہ قادر کل کے زیر فرمان ہیں جو جس کام کیلئے بنایا گیا ہے اس میں مشغول ہے مگر یہ ہیں کہ پیدا کئے گئے عبادت کے لیے لیکن کفر کرتے ہیں ۔ چنانچہ اور آیت میں انہیں جانوروں سے تشبیہ دی گئی ۔ فرمان ہے آیت «وَمَثَلُ الَّذِینَ کَفَرُوا کَمَثَلِ الَّذِی یَنْعِقُ بِمَا لَا یَسْمَعُ إِلَّا دُعَاءً وَنِدَاءً صُمٌّ بُکْمٌ عُمْیٌ فَہُمْ لَا یَعْقِلُونَ» ۱؎ ( 2-البقرۃ : 171 ) ، یعنی ’ کافروں کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی انہیں آواز دے تو سوائے پکارا اور ندا کے کچھ نہ سنیں ۔ ‘ اور آیت میں ہے کہ«أُولٰئِکَ کَالْأَنْعَامِ بَلْ ہُمْ أَضَلٰ ۚ أُولٰئِکَ ہُمُ الْغَافِلُونَ» ۱؎ ( 7-الأعراف : 179 ) ، یعنی ’ یہ لوگ مثل چوپایوں کے ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ بہکے ہوئے اور غافل ۔‘ ایک قول یہ بھی ہے کہ مراد اس سے بنا عبدالدار کے قریشی ہیں ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4646) محمد بن اسحاق رحمہ اللہ کہتے ہیں مراد اس سے منافق ہیں ۔ بات یہ ہے کہ مشرک منافق دونوں ہی مراد ہیں دونوں ہی مراد ہیں دونوں میں صحیح فہم اور سلامتی والی عقل نہیں ہوتی نہ ہی عمل صالح کی انہیں توفیق ہوتی ہے ۔ اگر ان میں بھلائی ہوتی تو اللہ انہیں سنا دیتا لیکن نہ ان میں بھلائی نہ توفیق الہٰ ۔ اللہ جل شانہُ کو علم ہے کہ انہیں سنایا بھی سمجھایا بھی تو بھی یہ اپنی سرکشی سے باز نہیں آئیں گے بلکہ اور اکڑ کر بھاگ جائیں گے ۔ الانفال
21 الانفال
22 الانفال
23 الانفال
24 دل رب کی انگلیوں میں ہیں صحیح بخاری شریف میں ہے«اسْتَجِیبُوا» معنی میں «أَجِیبُوا» کے ہے«لِمَا یُحْیِیکُمْ» معنی «بِما یُصْلِحُکُم» کے ہے یعنی ’ اللہ اور اس کا رسول تمہیں جب آواز دے تم جواب دو اور مان لو کیونکہ اس کے فرمان کے ماننے میں ہی تمہاری مصلحت ہے ۔‘ ابوسعید بن معلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ { میں نماز میں تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گذرے ۔ مجھے آواز دی ، میں آپ کے پاس نہ آیا ۔ جب نماز پڑھ چکا تو حاضر خدمت ہوا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تجھے کس نے روکا تھا کہ تو میرے پاس چلا آئے ؟ کیا اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا کہ اے ایمان والو اللہ اور اللہ کا رسول تمہیں جب آواز دیں تم قبول کر لیا کرو کیونکہ اسی میں تمہاری زندگی ہے ۔ سنیں اس مسجد سے نکلنے سے پہلے ہی میں تمہیں قرآن کی سب سے بڑی سورت سکھاؤں گا ۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد سے جانے کا ارادہ کیا تو میں نے آپ کو آپ کا وعدہ یاد دلایا } ۱؎ (صحیح بخاری:4647) اور روایت میں ہے کہ یہ واقعہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ سورت فاتحہ بتلائی اور فرمایا: { سات آیتیں دوہرائی ہوئی یہی ہیں ۔ } اس حدیث کا پورا پورا بیان سورۃ فاتحہ کی تفسیر میں گذر چکا ہے ۔ زندگی ، آخرت میں نجات ، عذاب سے بچاؤ اور چھٹکارا قرآن کی تعلیم ، حق کو تسلیم کرنے اور اسلام لانے اور جہاد میں ہے ۔ ان ہی چیزوں کا حکم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے ۔ اللہ انسان اور اس کے دل میں حائل ہے ۔ یعنی مومن میں اور کفر میں کافر میں اور ایمان میں ۔ یہ معنی ایک مرفوع حدیث میں بھی ہیں لیکن ٹھیک یہی ہے کہ یہ قول سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا ہے مرفوع حدیث نہیں ۔(الدر المنشور للسیوطی:320/3) مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں یعنی اسے اس حال میں چھوڑنا ہے کہ وہ کسی چیز کو سمجھتا نہیں ۔ سدی رحمہ اللہ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر نہ ایمان لا سکے نہ کفر کر سکے ۔ قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں یہ آیت مثل آیت « وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ» ۱؎ ( 50- ق : 16 ) کے ہے یعنی ’ بندے کی رگ جان سے بھی زیادہ نزدیک ہم ہیں ۔ ‘ اس آیت کے مناسب حدیثیں بھی ہیں ۔ مسند احمد میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر فرمایا کرتے تھے کہ { «یَا مُقَلِّبَ القُلُوبِ ثَبِّت قَلْبِی عَلَی دِینِکَ» اے دلوں کے پھیرنے والے میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھ ۔ } تو ہم نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اتری ہوئی وحی پر ایمان لا چکے ہیں کیا پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہماری نسبت خطرہ ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { ہاں اللہ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان دل ہیں وہ جس طرح چاہتا ہے ان کا تغیر و تبدل کرتا رہتا ہے ۔} ۱؎ (سنن ترمذی:2140،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ترمذی میں بھی یہ روایت کتاب القدر میں موجود ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا پڑھا کرتے تھے { «یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِی عَلَی دِینِکَ» اے دلوں کے پھیر نے والے میرے دل کو اپنے دین پر مضبوطی سے قائم رکھ ۔ } مسند احمد میں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { ہر دل اللہ تعالیٰ رب العالمین کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہے جب سیدھا کرنا چاہتا ہے کر دیتا ہے اور جب ٹیڑھا کرنا چاہتا ہے کر دیتا ہے } (سنن ترمذی:2140،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا تھی کہ { اے مقلب القلوب اللہ میرا دل اپنے دین پر ثابت قدم رکھ ، فرماتے ہیں میزان رب رحمان کے ہاتھ میں ہے ، جھکاتا ہے اور اونچی کرتا ہے ۔ } ۱؎ (سنن ابن ماجہ:199،قال الشیخ الألبانی:صحیح) مسند کی اور حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعا کو اکثر سن کر مائی عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ بکثرت اس دعا کے کرنے کی کیا وجہ ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { انسان کا دل اللہ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہے جب چاہتا ہے ٹیڑھا کر دیتا ہے اور جب چاہتا ہے سیدھا کر دیتا ہے ۔} مسند احمد میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعا کو بکثرت سن کر سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ { کیا دل پلٹ جاتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی جواب دیا ۔ ہم اللہ تعالیٰ سے جو ہمارا پروردگار ہے دعا کرتے ہیں کہ « رَبَّنَا أَنْ لَا یُزِیغَ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ ہَدَانَا ، وَنَسْأَلُہُ أَنْ یَہَبَ لَنَا مِنْ لَدُنْہُ رَحْمَۃً إِنَّہُ ہُوَ الْوَہَّابُ» وہ ہدایت کے بعد ہمارے دل ٹیڑھے نہ کر دے اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت و نعمت عطا فرمائے وہ بڑی ہی بخشش کرنے والا اور بہت انعاموں والا ہے۔ } سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں { میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پھر درخواست کی کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے میرے لیے بھی کوئی دعا سکھائیں گے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں یہ دعا مانگا کرو دعا« اللَّہُمَّ رَبَّ النَّبِیِّ مُحَمَّدٍ ، اغْفِرْ لِی ذَنْبِی ، وَأَذْہِبْ غَیْظَ قَلْبِی ، وَأَجِرْنِی مِنْ مُضِلاتِ الْفِتَنِ» یعنی اے اللہ اسے محمد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پروردگار میرے گناہ معاف فرما میرے دل کی سختی دور کر دے مجھے گمراہ کرنے والے فتنوں سے بجا لے جب تک بھی تو مجھے زندہ رکھ ۔ } ۱؎ (مسند احمد:302/6:ضعیف) مسند احمد میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { تمام انسانوں کے دل ایک ہی دل کی طرح اللہ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہیں ۔ جس طرح چاہتا ہے انہیں الٹ پلٹ کرتا رہتا ہے پھر آپ نے دعا کی کہ « اللہُمَّ مُصَرِّفَ الْقُلُوبِ ، صَرِّفْ قُلُوبَنَا إِلَی طَاعَتِکَ» اے دلوں کے پھیر نے والے اللہ ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت کی طرف پھیر لے۔ }۱؎ (صحیح مسلم:2654) الانفال
25 برائیوں سے نہ روکنا عذاب الٰہی کا سبب ہے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈرا رہا ہے کہ اس امتحان اور اس محنت اور فتنے کا خوف رکھو جو گنہگاروں بدکاروں پر ہی نہیں رہے گا بلکہ اس بلاء کی وبا عام ہو گی ۔ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ سے لوگوں نے کہا کہ اے ابوعبداللہ تمہیں کون سی چیز لائی ہے ؟ تم نے مقتول خلیفہ کو دھوکہ دیا پھر اس کے خون کے بدلے کی جستجو میں تم آئے اس پر سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے زمانے میں اس آیت «وَاتَّقُوا فِتْنَۃً لَّا تُصِیبَنَّ الَّذِینَ ظَلَمُوا مِنکُمْ خَاصَّۃً ۖ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللہَ شَدِیدُ الْعِقَابِ» ۱؎ ( 8-الانفال : 25 ) ، کو پڑھتے تھے لیکن یہ خیال بھی نہ تھا کہ ہم ہی اس کے اہل ہیں یہاں تک کہ یہ واقعات رونما ہوئے۔ ۱؎ (مسند احمد:165/1:جید) اور روایت میں ہے کہ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہی ہم اس آیت سے ڈرا دئے گئے تھے لیکن یہ خیال بھی نہ تھا کہ ہم ہی اس کے ساتھ مخصوص کر دیئے گئے ہیں ۔ سدی رحمہ اللہ کہتے ہیں یہ آیت خاصتاً اہل بدر کے بارے میں اتری ہے کہ وہ جنگ جمل میں آپس میں خوب لڑے بھڑے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مراد اس سے خاص اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ فرماتے ہیں اس آیت میں اللہ تعالیٰ مومنوں کو حکم فرما رہا کہ وہ آپس میں کسی خلاف شرع کام کو باقی اور جاری نہ رہنے دیں ۔ ورنہ اللہ کے عام عذاب میں سب پکڑ لیے جائیں گے ۔ یہ تفسیر نہایت عمدہ ہے۔ مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں یہ حکم تمہارے لیے بھی ہے ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں تم میں سے ہر شخص فتنے میں مشغول ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ« إِنَّمَا أَمْوَالُکُمْ وَأَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌ» ۱؎ ( 64-التغابن : 15 ) ’ تمہارے مال اور تمہاری اولادیں فتنہ ہیں پس تم میں سے جو بھی پناہ مانگے وہ اللہ تعالیٰ سے مانگے ہر گمراہ کن فتنے سے پناہ طلب کر لیا کرے ۔‘ صحیح بات یہی ہے کہ اس فرمان میں صحابہ اور غزوی صحابہ رضی اللہ عنہم سب کو تنبیہ ہے گو خطاب انہی سے ہے اسی پر دلالت ان احادیث کی ہے جو فتنے سے ڈرانے کیلئے ہیں گو ان کے بیان میں ائمہ کرام کی مستقل تصانیف ہیں لیکن بعض مخصوص حدیثیں ہم یہاں بھی وارد کرتے ہیں اللہ ہماری مدد فرمائے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: { خاص لوگوں کے گناہوں کی وجہ سے عام لوگوں کو اللہ عزوجل عذاب نہیں کرتا ہاں اگر وہ کوئی برائی دیکھیں اور اس کے مٹانے پر قادر ہوں پھر بھی اس خلاف شرع کام کو نہ روکیں تو اللہ تعالیٰ سب کو عذاب کرتا ہے۔} ۱؎ (مسند احمد:192/4:حسن لغیرہ) اس کی اسناد میں ایک راوی مبہم ہے ۔ اور حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: { اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ یا تو تم اچھی باتوں کا حکم اور بری باتوں سے منع کرتے رہو گے یا اللہ تعالیٰ تم پر اپنے پاس سے کوئی عام عذاب نازل فرمائے گا ۔} ۱؎ (سنن ترمذی:2129،قال الشیخ الألبانی:حسن) سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہا کا فرمان ہے کہ ایک آدمی ایک بات زبان سے نکالتا تھا اور منافق ہو جاتا تھا لیکن اب تو تم ایک ہی مجلس میں نہایت بےپرواہی سے چار چار دفعہ ایسے کلمات اپنی زبان سے نکال دیا کرتے ہو واللہ یا تو تم نیک باتوں کا حکم بری باتوں سے روکو اور نیکیوں کی رغبت دلاؤ ورنہ اللہ تعالیٰ تم سب کو تہس نہس کر دے گا یا تم پر برے لوگوں کو مسلط کر دے گا پھر نیک لوگ دعائیں کریں گے لیکن وہ قبول نہ فرمائے گا۔ ۱؎ (مسند احمد:390/5:ضعیف) نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نے اپنے خطبے میں اپنے کانوں کی طرف اپنی انگلیوں سے اشارہ کر کے فرمایا اللہ کی حدوں پر قائم رہنے والے ، ان میں واقع ہونے والے اور ان کے بارے میں سستی کرنے والوں کی مثال ان لوگوں کی سی ہے جو ایک کشتی میں سوار ہوئے کوئی نیچے تھا کوئی اوپر تھا ۔نیچے والے پانی لینے کے لیے اوپر آتے تھے اوپر والوں کو تکلیف ہوتی تھی آخر انہوں نے کہا آؤ یہیں سے نیچے سے ہی کشتی کا ایک تختہ توڑ لیں حسب ضرورت پانی یہیں سے لے لیا کریں گے تاکہ نہ اوپر جانا پڑے نہ انہیں تکلیف پہنچے پس اگر اوپر والے ان کے کام اپنے ذمہ لے لیں اور انہیں کشی کے نیچے کا تختہ اکھاڑ نے سے روک دیں تو وہ بھی بچیں اور یہ بھی ورنہ وہ بھی ڈوبیں گے اور یہ بھی۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2686) ایک اور حدیث میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: { جب میری امت میں گناہ ظاہر ہوں گے تو اللہ تعالیٰ اپنے عام عذاب آب پر بھیجے گا ۔ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے دریافت کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان میں تو نیک لوگ بھی ہوں گے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیوں نہیں ؟ پوچھا پھر وہ لوگ کیا کریں گے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انہیں بھی وہی پہنچے گا جو اوروں کو پہنچا اور پھر انہیں اللہ کی مغفرت اور رضا مندی ملے گی۔ ۱؎ (مسند احمد:294/6:صحیح) ایک اور حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ { جو لوگ برے کام کرنے لگیں اور ان میں کوئی ذی عزت ذی اثر شخص ہو اور وہ منع نہ کرے روکے نہیں تو ان سب کو اللہ کا عذاب ہو گا سزا میں سب شامل رہیں گے۔ } ( مسند و ابوداؤد وغیرہ ) اور روایت میں ہے کہ { کرنے والے تھوڑے ہوں نہ کرنے والے زیادہ اور ذی اثر ہوں پھر بھی وہ اس برائی کو نہ روکیں تو اللہ ان سب کو اجتماعی سزا دے گا ۔} مسند کی اور روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { جب زمین والوں میں بدی ظاہر ہو جائے تو اللہ تعالیٰ ان پر اپنا عذاب اتارتا ہے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا کہ ان ہی میں اللہ کے اطاعت گذار بندے بھی ہوں گے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عذاب عام ہو گا پھر وہ اللہ کی رحمت کی طرف لوٹ جائیں گے ۔} الانفال
26 اہل ایمان پر اللہ کے احسانات مومنوں کو پروردگار عالم اپنے احسانات یاد دلا رہا ہے کہ ان کی گنتی اس نے بڑھا دی ، ان کی کمزوری کو زور سے بدل دیا ، ان کے خوف کو امن سے بدل دیا ، ان کی ناتوانی کو طاقت سے بدل دیا ، ان کی فقیری کو امیری سے بدل دیا ، انہوں نے جیسے جیسے اللہ کے فرمان کی بجا آوری کی ویسے ویسے یہ تری پا گئے ۔ مومن صحابہ رضی اللہ عنہم مکہ کے قیام کی حالت میں تعداد میں بہت تھوڑے تھے ، چھپے پھرتے تھے ، بیقرار رہتے تھے ، ہر وقت دشمنوں کا خطرہ لگا رہتا تھا ، مجوسی ان کے دشمن تھے ، یہودی ان کی جان کے پیچھے ، بت پرست ان کے خون کے پیاسے ، نصرانی ان کی فکر میں ۔ دشمنوں کی یہ حالت تھی تو ان کی اپنی یہ حالت کہ تعداد میں انگلیوں پر گن لو ۔ بغیر طاقت شان شوکت مطلقاً نہیں ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ انہیں مدینے کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیتا ہے یہ مان لیتے ہیں وہاں پہنچتے ہی اللہ ان کے قدم جما دیتا ہے وہاں مدینہ والوں کو ان کا ساتھی بلکہ پشت پناہ بنا دیتا ہے وہ ان کی مدد پر اور ساتھ دینے پر تیار ہو جاتے ہیں بدر والے دن اپنی جانیں ہتھیلیوں پر لیے نکل کھڑے ہوتے ہیں ، اپنے مال پانی کی طرح راہ حق میں بہاتے ہیں اور دوسرے موقعوں پر بھی نہ اطاعت چھوڑتے ہیں نہ ساتھ نہ سخاوت ۔«وَ اذۡکُرُوۡۤا اِذۡ اَنۡتُمۡ قَلِیۡلٌ مٰسۡتَضۡعَفُوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ» نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ چاند کی طرح چمکنے لگتے ہیں اور سورج کی طرح دمکنے لگتے ہیں ۔ قتادہ بن دعامہ سدوسی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ عرب کے یہ لوگ سب سے زیادہ گرے ہوئے ، سب سے زیادہ تنگ حال ، سب سے زیادہ بھوکے ننگے ، سب سے زیادہ گمراہ اور بےدین و مذہب تھے ۔ جیتے تو ذلت کی حالت میں ، مرتے تو جہنمی ہو کر ، ہر ایک ان کے سر کچلتا لیکن یہ آپ میں الجھے رہتے ۔ واللہ روئے زمین پر ان سے زیادہ گمراہ کوئی نہ تھا ۔ اب یہ اسلام لائے اللہ کے رسول کے اطاعت گذار بنے تو ادھر سے ادھر تک شہروں بلکہ ملکوں پر ان کا قبضہ ہو گیا دنیا کی دولت ان کے قدموں پر بکھرنے لگی لوگوں کی گردنوں کے مالک اور دنیا کے بادشاہ بن گئے یاد رکھو یہ سب کچھ سچے دین اور اللہ کے رسول کی تعلیم پر عمل کے نتائج تھے پس تم اپنے پروردگار کے شکر میں لگے رہو اور اس کے بڑے بڑے احسان تم پر ہیں وہ شکر کو اور شکر کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے سنو شکر گذار نعمتوں کی زیادتی میں ہی رہتے ۔ الانفال
27 اللہ اور اس کے رسول کی خیانت نہ کرو کہتے ہیں کہ یہ آیت ابولبابہ بن عبد المنذر رضی اللہ عنہ کے بارے میں اتری ہے ۔ انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو قریظہ کے یہودیوں کے پاس بھیجا تھا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کی شرط کے ماننے پر قلعہ خالی کر دیں ان یہودیوں نے آپ ہی سے مشورہ دریافت کیا تو آپ نے اپنی گردن پر ہاتھ پھیر کر انہیں بتا دیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ تمہارے حق میں یہی ہوگا ۔ اب ابو لبابہ رضی اللہ عنہ بہت ہی نادم ہوئے کہ افسوس میں نے بہت برا کیا اللہ کی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خیانت کی ۔ اسی ندامت کی حالت میں قسم کھا بیٹھے کہ جب تک میری توبہ قبول نہ ہو میں کھانے کا ایک لقمہ بھی نہ اٹھاؤں گا چاہے مر ہی جاؤں ۔ مسجد نبوی میں آ کر ایک ستون کے ساتھ اپنے تئیں بندھوا دیا نو دن اسی حالت میں گذر گئے غشی آ گئی بیہوش ہو کر مردے کی طرح گر پڑے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی توبہ قبول کر لی اور یہ آیتیں نازل ہوئیں لوگ آئے آپ کو خوشخبری سنائی اور اس ستون سے کھولنا چاہاتو انہوں نے فرمایا واللہ میں اپنے تئیں کسی سے نہ کھلواؤں گا بجز اس کے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ مبارک سے کھولیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود تشریف لائے اور اپنے ہاتھ سے انہیں کھولا تو آپ عرض کرنے لگے کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے نذر مانی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ میری توبہ قبول کر لے تو میں اپنا کل مال راہ للہ صدقہ کر دونگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: { نہیں صرف ایک تہائی فی سبیل اللہ دے دو یہی کافی ہے ۔ } ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:15937:مرسل) مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بارے میں نازل ہوئی ہے کیونکہ امیر کو فتنہ و فساد کرکے قتل کردینا اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خیانت ہے۔۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:15939:ضعیف) حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ابوسفیان مکے سے چلا جبر ئیل علیہ السلام نے آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی کہ ابوسفیان فلاں جگہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے ذکر کیا اور فرما دیا کہ { اس طرف چلو لیکن کسی کو کانوں کان خبر نہ کرنا } ،لیکن ایک منافق نے اسے لکھ بھیجا کہ تیرے پکڑنے کے ارادے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لا رہے ہیں ہوشیار رہنا ۔ پس یہ آیت اتری لیکن یہ روایت بہت غریب ہے اور اس کی سند اور متن دونوں ہی قابل نظر ہیں ۔ بخاری و مسلم میں حاطب بن ابو بلتعہ رضی اللہ عنہ کا قصہ ہے کہ فتح مکہ والے سال انہوں نے قریش کو خط بھیج دیا جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارادے سے انہیں مطلع کیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر کر دی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آدمی ان کے پیچھے دوڑائے اور خط پکڑا گیا ۔ حاطب رضی اللہ عنہ نے اپنے قصور کا اقرار کیا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان کی گردن مارنے کی اجازت چاہی کہ اس نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنوں سے خیانت کی ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { اسے چھوڑ دو یہ بدری صحابی ہے ۔ تم نہیں جانتے بدری کی طرف اللہ تعالیٰ نے بذات خود فرما دیا ہے جو چاہو تم کرو میں نے تمہیں بخش دیا ہے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:3007) میں کہتا ہوں کسی خاص واقعہ کے بارے میں اترنے کے باوجود الفاظ کی عمومیت اپنے حکم عموم پر ہی رہے گی یہی جمہور علماء کا قول ہے ۔ خیانت عام ہے چھوٹے بڑے لازم متعدی سب گناہ خیانت میں داخل ہیں ۔ اپنی امانتوں میں بھی خیانت نہ کرو یعنی فرض کو ناقص نہ کرو ، پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو نہ چھوڑو ، اس کی نافرمانی نہ کرو ۔ عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ کسی کے سامنے اس کے حق کا اظہار کرنا اور درپردہ کرنا اس کے الٹ ، باتیں کرنا اور کے سامنے اس کے خلاف کرنا بھی امانت کو ضائع کرنا اور اپنے نفس کی خیانت کرنا ہے ۔ سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں جب کسی نے اللہ و رسول کی خیانت کی تو اس نے امانت داری میں رخنہ ڈال دیا ، ایک صورت اس کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہ بھی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سنی پھر اسے مشرکوں میں پھیلا دیا ۔ پس منافقوں کے اس فعل سے مسلمانوں کو روکا جا رہا ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ تمہارے مال اور تمہاری اولادیں تمہارے امتحان کا باعث ہیں ‘ ۔ یہ دیکھیں آیا اللہ کا شکر کرتے ہو اور اس کی اطاعت کرتے ہو ؟ یا ان میں مشغول ہو کر ، ان کی محبت میں پھنس کر اللہ کی باتوں اور اس کی اطاعت سے ہٹ جاتے ہو ؟ اسی طرح ہر خیرو شر سے اللہ اپنے بندوں کو آزماتا ہے ۔ اس کا ارشاد ہے کہ« إِنَّمَا أَمْوَالُکُمْ وَأَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌ» ۱؎ ( 64-التغابن : 15 ) یعنی ’ تمہارا مال اور تمہاری اولاد تو آزمائش ہے ‘ ، مسلمانو مال و اولاد کے چکر میں اللہ کی یاد نہ بھول جانا ۔ ایسا کرنے والے نقصان پانے والے ہیں اور آیت میں ہے کہ« یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنَّ مِنْ أَزْوَاجِکُمْ وَأَوْلَادِکُمْ عَدُوًّا لَّکُمْ فَاحْذَرُوہُمْ» ۱؎ ( 64-التغابن : 14 ) ’ تمہاری بعض بیویاں اور بعض اولادیں تمہاری دشمن ہیں ، ان سے ہوشیار رہنا ۔ سمجھ لو کہ اللہ کے پاس اجر یہاں کے مال و اولاد سے بہت بہتر ہیں اور بہت بڑے ہیں کیونکہ ان میں سے بعض تو دشمن ہی ہوتے ہیں اور اکثر بینفع ہوتے ہیں ۔‘ اللہ سبحانہ و تعالیٰ متصرف و مالک ہے ، دنیا و آخرت اسی کی ہے قیامت کے ثواب اسی کے قبضے میں ہیں ، ایک اثر میں فرمان الٰہی ہے کہ ’ اے ابن آدم مجھے ڈھونڈ تو پائے گا ، مجھے پالینا تمام چیزوں کو پالینا ہے ، میرا فوت ہو جانا تمام چیزوں کا فوت ہو جانا ہے ، میں تیری تمام چیزوں سے تیری محبت کا زیادہ حقدار ہوں ۔ ‘ صحیح حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے { تین چیزیں جس میں ہوں اس نے ایمان کی مٹھاس چکھ لی (1) جسے اللہ اور اس کا رسول سب سے زیادہ پیارا ہو ، (2) جو محض اللہ کے لیے دوستی رکھتا ہو اور (3) جسے آگ میں جل جانے سے بھی زیادہ برا ایمان کے بعد کفر کرنامعلوم ہوتا ہو ۔ } بلکہ یاد رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت بھی اولاد و مال اور نفس کی محبت پر مقدم ہے جیسے کہ صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم میں سے کوئی باایمان نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کو اس کے نفس سے اور اہل سے اور مال سے اور سب لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں ۔} الانفال
28 الانفال
29 دنیا و آخرت کی سعادت مندی ’ اے مومنو! اگر تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو تو اللہ تم کو دین اور دنیا میں نجات دے گا ۔‘ «فُرۡقَانً» سے مراد نجات ہے دنیوی بھی اور اخروی بھی اور فتح و نصرت غلبہ و امتیاز بھی مراد ہے جس سے حق و باطل میں تمیز ہو جائے ۔ بات یہی ہے کہ جو اللہ کی فرمانبرداری کرے ، نافرمانی سے بچے اللہ اس کی مدد کرتا ہے ۔ جو حق و باطل میں تمیز کر لیتا ہے ، دنیاو آخرت کی سعادت مندی حاصل کر لیتا ہے اس کے گناہ مٹ جاتے ہیں لوگوں سے پوشیدہ کروئے جات یہیں اور اللہ کی طرف سے اجر و ثواب کا وہ کامل مستحق ٹھہر جاتا ہے ۔ جیسے فرمان عالی شان ہے« یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَآمِنُوا بِرَسُولِہِ یُؤْتِکُمْ کِفْلَیْنِ مِن رَّحْمَتِہِ وَیَجْعَل لَّکُمْ نُورًا تَمْشُونَ بِہِ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ۚ وَ اللہُ غَفُورٌ رَّحِیمٌ» ۱؎ ( 57-الحدید : 28 ) یعنی ’ اے مسلمانو ! اللہ کا ڈر دلوں میں رکھو ۔ اس کے رسول پر ایمان لاؤ وہ تمہیں اپنی رحمت کے دوہرے حصے دے گا اور تمہارے لیے ایک نور مہیا کر دے گا جس کے ساتھ تم چلتے پھرتے رہو گے اور تمہیں بخش بھی دے گا ، اللہ غفورو رحیم ہے ۔‘ الانفال
30 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی ناپاک سازش کافروں نے یہی تین ارادے کئے تھے جب ابوطالب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار کے راز اور ان کے پوشیدہ چالیں معلوم بھی ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { ہاں وہ تین شورشیں کر رہے ہیں قید، قتل یا جلاوطنی ۔ } اس نے تعجب ہو کر پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر کس نے دی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { میرے پروردگار نے } ، اس نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پروردگار بہترین پروردگار ہے ، تم اس کی خیر خواہی میں ہی رہنا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { میں اس کی خیر خواہی کیا کرتا وہ خود میری حفاظت اور بھلائی کرتا ہے ۔} ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:15978:مرسل و ضعیف) اسی کا ذکر اس آیت میں ہے لیکن اس واقعہ میں ابوطالب کا ذکر بہت غریب بلکہ منکر ہے اس لیے کہ آیت تو مدینے میں اتری ہے اور کافروں کا یہ مشورہ ہجرت کی رات تھا اور یہ واقعہ ابوطالب کی موت کے تقریباً تین سال کے بعد کا ہے ۔ اسی کی موت نے ان کی جرأتیں دو بالا کر دی تھیں ، اس ہمت اور نصرت کے بعد ہی تو کافروں نے آپ کی ایذاء دہی پر کمر باندھی تھی ۔ چنانچہ مسند احمد میں ہے کہ قریش کے تمام قبیلوں کے سرداروں نے دارالندوہ میں جمع ہونے کا ارادہ کیا ۔ ملعون ابلیس انہیں ایک بہت بڑے مقطع بزرگ کی صورت میں ملا ۔ انہوں نے پوچھا آپ کون ہیں ؟ اس نے کہا اہل نجد کا شیخ ہوں ۔ مجھے معلوم ہوا تھا کہ آپ لوگ آج ایک مشورے کی غرض سے جمع ہونے والے ہیں ، میں بھی حاضر ہوا کہ اس مجلس میں شامل ہو جاؤں اور رائے میں اور خیر خواہی میں کوئی کمی نہ کروں ۔ آخرمجلس جمع ہوئی تو اس نے کہا اس شخص کے بارے میں پورے غور و خوض سے کوئی صحیہ رائے قائم کر لو ۔ واللہ اس نے تو سب کا ناک میں دم کر دیا ہے ۔ وہ دلوں پر کیسے قبضہ کر لیتا ہے ؟ کوئی نہیں جو اس کی باتوں کا بھوکوں کی طرح مشتاق نہ رہتا ہو ۔ واللہ اگر تم نے اسے یہاں سے نکالا تو وہ اپنی شیریں زبانی اور آتش بیانی سے ہزارہا ساتھی پیدا کر لے گا اور پھر جو ادھر کا رخ کرے گا تو تمہیں چھٹی کا دودھ یاد آ جائے گا پھر تو تمہارے شریفوں کو تہ تیغ کر کے تم سب کو یہاں سے بیک بینی و دوگوش نکال باہر کرے گا ۔ سب نے کہا شیخ جی سچ فرماتے ہیں اور کوئی رائے پیش کرو اس پر ابوجہل ملعون نے کہا ایک رائے میری سن لو ۔ میرا خیال ہے کہ تم سب کے ذہن میں بھی یہ بات نہ آئی ہو گی ، بس یہی رائے ٹھیک ہے ، تم اس پر بے کھٹکے عمل کرو ۔ سب نے کہا چچا بیان فرما ئیے ! اس نے کہا ہر قبیلے سے ایک نوجوان جری بہادر شریف مانا ہوا شخص چن لو یہ سب نوجوان ایک ساتھ اس پر حملہ کریں اور اپنی تلواروں سے اس کے ٹکڑے اڑا دیں پھر تو اس کے قبیلے کے لوگ یعنی بنی ہاشم کو یہ تو ہمت نہ ہو گی قریش کے تمام قبیلوں سے لڑیں کیونکہ ہر قبیلے کا ایک نوجوان اس کے قتل میں شریک ہو گا ۔ اس کا خون تمام قبائل قریش میں بٹا ہوا ہو گا نا چار وہ دیت لینے پر آمادہ ہو جائیں گے ، ہم اس بلا سے چھوٹ جائیں گے اور اس شخص کا خاتمہ ہو جائے گا ۔ اب تو شیخ نجدی اچھل پڑا اور کہنے لگا اللہ جانتا ہے واللہ بس یہی ایک رائے بالکل ٹھیک ہے اس کے سوا کوئی اور بات سمجھ میں نہیں آتی بس یہی کرو اور اس قصے کو ختم کرو اس سے بہتر کوئی صورت نہیں ہو سکتی ۔ چنانچہ یہ پختہ فیصلہ کر کے یہ مجلس برخاست ہوئی ۔ وہیں جبرائیل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا آج کی رات آپ اپنے گھر میں اپنے بسترے پر نہ سوئیں کافروں نے آپ کے خلاف آج میٹنگ میں یہ تجویز طے کی ہے ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی کیا اس رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر اپنے بستر پر نہ لیٹے ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہجرت کی اجازت دے دی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینے پہنچ جانے کے بعد اس آیت میں اپنے اس احسان کا ذکر فرمایا اور ان کے اس فریب کا ذکر کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا «وَیَمْکُرُونَ وَیَمْکُرُ اللہُ ۖ وَ اللہُ خَیْرُ الْمَاکِرِینَ» ’ وہ تو اپنی تدبیریں کر رہے تھے اور اللہ اپنی تدبیر کر رہا تھا اور سب سے زیادہ مستحکم تدبیر واﻻ اللہ ہے۔ ‘ ان کا قول تھا «ثُمَّ تَرَبَّصُوا بِہِ رَیْب الْمَنُون حَتَّی یَہْلِک کَمَا ہَلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلہ مِنْ الشٰعَرَاء» اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشادِ باری تعالیٰ ہے « أَمْ یَقُولُونَ شَاعِرٌ نَّتَرَبَّصُ بِہِ رَیْبَ الْمَنُونِ» ۱؎ ( 52-الطور : 30 ) ، یعنی ’ کیا یہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ شاعر ہے ہم اس کے بارے میں حادثہ موت کا انتظار کررہے ہیں۔‘ اس دن کا نام ہی یوم الزحمہ ہو گیا کیونکہ اس روز حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی سازش کی گئی تھی۔۱؎(دلائل النبوۃ للبیھقی:468/2) ان کے انہی ارادوں کا ذکر آیت«وَإِن کَادُوا لَیَسْتَفِزٰونَکَ مِنَ الْأَرْضِ لِیُخْرِجُوکَ مِنْہَا ۖ وَإِذًا لَّا یَلْبَثُونَ خِلَافَکَ إِلَّا قَلِیلًا » ۱؎ ( 17-الإسراء : 76 ) میں ہے ’ اور قریب تھا کہ یہ لوگ تمہیں زمین ( مکہ ) سے پھسلا دیں تاکہ تمہیں وہاں سے جلا وطن کر دیں ۔ اور اس وقت تمہارے پیچھے یہ بھی نہ رہتے مگر کم ۔‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ شریف میں اللہ کے حکم کے منتظر تھے یہاں تک کہ قریشیوں نے جمع ہو کر مکر کا ارادہ کیا ۔ جبرائیل علیہ اسللام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر کر دی اور کہا کہ آج آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس مکان میں نہ سوئیں جہاں سویا کرتے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بلا کر اپنے بسترے پر اپنی سبز چادر اوڑھا کر لیٹنے کو فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر آئے ۔ قریش کے مختلف قبیلوں کا مقررہ جتھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دراوزے کو گھیرے کھڑا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین سے ایک مٹھی مٹی اور کنکر بھر کر ان کے سروں اور آنکھوں میں ڈال کر سورۃ یاسین کی «یس وَالْقُرْآنِ الْحَکِیمِ إِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِینَ عَلَیٰ صِرَاطٍ مٰسْتَقِیمٍ تَنزِیلَ الْعَزِیزِ الرَّحِیمِ لِتُنذِرَ قَوْمًا مَّا أُنذِرَ آبَاؤُہُمْ فَہُمْ غَافِلُونَ لَقَدْ حَقَّ الْقَوْلُ عَلَیٰ أَکْثَرِہِمْ فَہُمْ لَا یُؤْمِنُونَ إِنَّا جَعَلْنَا فِی أَعْنَاقِہِمْ أَغْلَالًا فَہِیَ إِلَی الْأَذْقَانِ فَہُم مٰقْمَحُونَ وَجَعَلْنَا مِن بَیْنِ أَیْدِیہِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِہِمْ سَدًّا فَأَغْشَیْنَاہُمْ فَہُمْ لَا یُبْصِرُونَ» ۱؎ ( 36-یس : 1-9 ) تک کی تلاوت کرتے ہوئے نکل گئے ۔۱؎ (دلائل النبوۃ للبیھقی:469/2:معضل و ضعیف) صحیح ابن حبان اور مستدرک حاکم میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس روتی ہوئی آئیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ { پیاری بیٹی کیوں رو رہی ہو ؟} عرض کیا کہ ابا جی کیسے نہ روؤں یہ قریش خانہ کعبہ میں جمع ہیں لات و عزیٰ کی قسمیں کھا کر یہ طے کیا ہے کہ ہر قبیلے کے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے ہی اٹھ کھڑے ہوں اور ایک ساتھ حملہ کر کے قتل کر دیں تاکہ الزام سب پر آئے اور ایک بلوہ قرارپائے کوئی خاص شخص قاتل نہ ٹھہرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { بیٹی پانی لاؤ } پانی آیا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور مسجد الحرام کی طرف چلے۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور دیکھتے ہی غل مچایا کہ لو وہ آ گیا اٹھو اسی وقت ان کے سر جھک گئے ٹھوڑیاں سینے سے لگ گئیں نگاہ اونچی نہ کر سکے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مٹھی مٹی کی بھر کر ان کی طرف پھینکی اور فرمایا: { یہ منہہ الٹے ہو جائیں گے یہ چہرے برباد ہو جائیں } ،جس شخص پر ان کنکریوں میں سے کوئی کنکر پڑا وہ ہی بدر والے دن کفر کی حالت میں قتل کیا گیا ۔ ۱؎ (مسند احمد:303/1:حسن) کسی نے کہا صبح کو اسے قید کر دو ، کسی نے کہا مار ڈالو ، کسی نے کہا دیس نکالا دے دو ، اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پر مطلع فرما دیا ۔ اس رات سیدنا علی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بسترے پر سوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکے سے نکل کھڑے ہوئے ۔ غار میں جا کر بیٹھے رہے ۔ مشرکین یہ سمجھ کر کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بسترے پر لیٹے ہوئے ہیں سار رات پہرہ دیتے رہے صبح سب کود کر اندر پہنچے دیکھا تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہیں ساری تدبیر چوپٹ ہو گئی پوچھا کہ تمہارے ساتھی کہاں ہیں ؟ آپ نے اپنی لاعلمی ظاہر کی ۔ یہ لوگ قدموں کے نشان دیکھتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے اس پہاڑ تک پہنچ گئے ۔ وہاں سے پھر کوئی پتہ نہ چلا سکا ۔ پہاڑ پر چڑھ گئے ، اس غار کے پاس سے گذرے لیکن دیکھا کہ وہاں مکڑی کا جالا تنا ہوا ہے کہنے لگے اگر اس میں جاتے تو یہ جالا کیسے ثابت رہ جاتا ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین راتین اسی غار میں گذاریں ۔۱؎ (سلسلۃ احادیث ضعیفہ البانی:1129) پس فرماتا ہے کہ ’ انہوں نے مکر کیا میں بھی ان سے ایسی مضبوط چال چلا کہ آج تجھے ان سے بچا کر لے ہی آیا ۔‘ الانفال
31 عذاب الٰہی نہ آنے کا سبب : اللہ کے رسول اور استغفار اللہ تعالیٰ مشرکوں کے غرور و تکبر ، ان کی سرکشی اور ناحق شناسی کی ، ان کی ضد اور ہٹ دھرمی کی حالت بیان کرتا ہے کہ ’ جھوٹ موت بک دیتے ہیں کہ ہاں بھئی ہم نے قرآن سن لیا ، اس میں رکھا کیا ہے ۔ ہم خود قدر ہیں ، اگر چاہیں تو اسی جیسا کلام کہدیں ۔ حالانکہ وہ کہہ نہیں سکتے ۔‘ اپنی عاجزی اور تہی دستی کو خوب جانتے ، لیکن زبان سے شیخی بگھارتے تھے ۔ جہاں قرآن سنا تو اس کی قدر گھٹانے کیلئے بک دیا جب کہ ان سے زبردست دعوے کے ساتھ کہا گیا کہ لاؤ اس جیسی ایک ہی سورت بنا کر لاؤ تو سب عاجز ہو گئے ۔ پس یہ قول صرف جاہلوں کی خوش طبعی کیلئے کہتے تھے ۔ کہا گیا ہے کہ یہ کہنے والا نصر بن حارث ملعون تھا ۔ یہ خبیث فارس کے ملک گیا تو تھا اور رستم و اسفند یار کے قصے یاد کر آیا تھا ۔ یہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت مل چکی تھی آپ لوگوں کو کلام اللہ شریف سنا رہے ہوتے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فارغ ہوتے تو یہ اپنی مجلس جماتا اور فارس کے قصے سناتا ، پھر فخراً کہتا کہو میرا بیان اچھا ہے یا محمد کا ؟ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ یہ بدر کے دن قید ہو کر لایا گیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس کی گردن ماری گئی «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» اسے قید کرنے والے سیدنا مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ تھے ۔ قبہ بن ابی معیط ، طعیمہ بن عدی ، نصر بن حارث ، یہ تینوں اسی قید میں قتل کئے گئے ۔ سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ نے کہا بھی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرا قیدی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { یہ اللہ عزوجل کی کتاب کے بارے میں زبان درازی کرتا تھا ۔} انہوں نے بعد از قتل پھر کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں جسے باندھ کر لایا ہوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی کہ { یا اللہ اپنے فضل سے مقداد کو غنی کر دے ۔} ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:15993) آپ خوش ہو گئے اور عرض کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہی میرا مقصد اور مقصود تھا ۔ اسی کے بارے میں یہ آیت«وَإِذَا تُتْلَیٰ عَلَیْہِمْ آیَاتُنَا قَالُوا قَدْ سَمِعْنَا لَوْ نَشَاءُ لَقُلْنَا مِثْلَ ہٰذَا ۙ إِنْ ہٰذَا إِلَّا أَسَاطِیرُ الْأَوَّلِینَ» اتری ہے ۔ ایک روایت میں طعیمہ کی بجائے مطعم بن عدی کا نام ہے لیکن یہ غلط ہے بدر والے دن وہ تو زندہ ہی نہ تھا بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مروی ہے کہ { اگر آج یہ زندہ ہوتا اور مجھ سے ان قیدیوں کو طلب کرتا تو میں اسے دے دیتا ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:3139) اس لیے کہ طائف سے لوٹتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہی اپنی پناہ میں مکہ میں لے گیا تھا ۔ یہ کفار کہتے تھے کہ قرآن میں سوائے پہلے لوگوں کی لکھی ہوئی کہانیوں کے کیا دھرا ہے انہیں کو پڑھ پڑھ کر لوگوں کو سناتا رہتا ہے ۔ حالانکہ یہ محض جھوت بات تھی جو انہوں نے گھڑ لی تھی اسی لیے ان کے اس قول کو نقل کر کے جناب باری نے فرمایا ہے کہ« وَقَالُوا أَسَاطِیرُ الْأَوَّلِینَ اکْتَتَبَہَا فَہِیَ تُمْلَیٰ عَلَیْہِ بُکْرَۃً وَأَصِیلًا قُلْ أَنزَلَہُ الَّذِی یَعْلَمُ السِّرَّ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ إِنَّہُ کَانَ غَفُورًا رَّحِیمًا » ۱؎ ( 25-الفرقان : 5 ، 6 ) ’ انہیں جواب دے کہ اسے تو آسمان و زمین کی تمام غائب باتوں کے جاننے والے نے اتارا ہے جو غفور بھی ہے اور رحیم بھی ہے ۔ توبہ کرنے والوں کی خطائیں معاف فرماتا ہے ، اپنے سامنے جھکنے والوں پر بڑے کرم کرتا ہے ۔ ‘ پھر ان کی جہالت کا کرشمہ بیان ہو رہا ہے کہ چاہیئے تو یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے کہ یا اللہ اگر یہ حق ہے تو ہمیں اس کی ہدایت دے اور اس کی اتباع کی توفیق نصیب فرما لیکن بجائے اس کے یہ دعا کرنے لگے کہ ہمیں جلد عذاب کر ۔ «وَیَسْتَعْجِلُونَکَ بِالْعَذَابِ ۚ وَلَوْلَا أَجَلٌ مٰسَمًّی لَّجَاءَہُمُ الْعَذَابُ وَلَیَأْتِیَنَّہُم بَغْتَۃً وَہُمْ لَا یَشْعُرُونَ» ۱؎ ( 29-العنکبوت : 53 ) بات یہ ہے کہ ’ اللہ کی طرف سے ہرچیز کا وقت مقرر ہے ورنہ اس پر بھی عذاب آ جاتا لیکن اگر تمہارا یہی حال رہا تو پھر بھی وہ دن دور نہیں اچانک ان کی بیخبری میں اپنے وقت پر آ ہی جائے گا ۔‘ یہ تو کہا کرتے تھے کہ« وَقَالُوا رَبَّنَا عَجِّل لَّنَا قِطَّنَا قَبْلَ یَوْمِ الْحِسَابِ»۱؎ (38-ص:16) ’ ہمارا فیصلہ فیصلے کے دن سے پہلے ہی ہو جائے گا ‘ بطور مذاق عذاب کے واقع ہونے کی درخواست کرتے تھے جو کافروں پر آنے ولا ہے ، جسے کوئی روک نہیں سکتا ، آیت میں ہے «سَأَلَ سَائِلٌ بِعَذَابٍ وَاقِعٍ لِّلْکَافِرِینَ لَیْسَ لَہُ دَافِعٌ مِّنَ اللہِ ذِی الْمَعَارِجِ » ۱؎ ( 70-المعارج : 1 - 3 ) ’ جو اس اللہ کی طرف سے ہو گا جو سیڑھیوں والا ہے ۔‘ اگلی امتوں کے جاہلوں کا بھی یہی وطیرہ رہا ۔ قوم شعیب نے کہا تھا کہ اے مدعی نبوت اگر تو سچا ہے تو ہم پر آسمان کو گرا دے ۔ اسی طرح ان لوگوں نے کہا ۔ ابوجہل وغیرہ نے یہ دعا کی تھی جس کے جواب میں فرمایا گیا کہ ’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی اور انہی میں سے بعض کا استغفار اللہ کے عذاب کی ڈھال ہے ۔ ‘ ۱؎ (صحیح بخاری:4648) نصر بن حارث بن کلدہ نے بھی یہی دعا کی تھی جس کا ذکر «سَأَلَ سَائِلٌ» میں ہے ان کے اسی قول کا ذکر آیت« وَقَالُوا رَبَّنَا عَجِّلْ لَنَا قِطَّنَا قَبْلَ یَوْمِ الْحِسَابِ » ۱؎ ( 38-ص : 16 ) ، میں ہے اور آیت« وَلَقَدْ جِئْتُمُونَا فُرَادَیٰ کَمَا خَلَقْنَاکُمْ أَوَّلَ مَرَّۃٍ» ۱؎ ( 6-الأنعام : 94 ) ، میں ہے اور آیت «سَأَلَ سَائِلٌ بِعَذَابٍ وَاقِعٍ لِّلْکَافِرِینَ لَیْسَ لَہُ دَافِعٌ مِّنَ اللہِ ذِی الْمَعَارِجِ» ۱؎ ( 70-المعارج : 1 - 3 ) ، میں ہے ۔ غرض دس سے اوپر اوپر آیتیں اس بیان میں ہیں ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:231/6) عمرو بن العاص جنگ احد میں اپنے گھوڑے پر سوار تھا اور کہہ رہا تھا کہ اے اللہ اگر محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا لایا ہوا دین حق ہے تو مجھے میرے گھوڑے سمیت زمین میں دھنسا دے گو اس امت کے بیوقوفوں نے یہ تمنا کی لیکن اللہ نے اس امت پر رحم فرمایا اور جواب دیا کہ ایک تو پیغمبر کی موجودگی عام عذاب سے مانع ہے دوسرے تم لوگوں کا استغفار ۔۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:231/6) ابن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ مشرک حج میں طواف کے وقت کہتے تھے «لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ لَبَّیْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ» اسی وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: { بس بس یہیں تک بولو آگے نہ بڑھو } لیکن وہ پھر کہتے «اَلاَ شَرِیْکّا ہُوَ لَکَ تَمْلِکُہُ وَمَا مَلَک» یعنی ہم حاضر ہیں اے اللہ تیرا کوئی شریک نہیں ۔پھر کہتے ہاں وہ شریک جو خود بھی تیری ملکیت میں ہیں اور جن چیزوں کو وہ مالک ہیں ان کا بھی اصل مالک تو ہی ہے اور کہتے «غُفْرَانَکَ غُفْرَانَکَ» اے اللہ ہم تجھ سے استغفار کرتے ہیں اے اللہ تو ہمیں معاف فرما۔ اسی طلب بخشش کو عذاب کے جلد نہ آنے کا سبب بتایا گیا ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ان میں دو سبب تھے ایک تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے استغفار پس آپ تو چل دیئے اور استغفار باقی رہ گیا۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3082،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) قریشی آپس میں کہا کرتے تھے کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو اللہ نے ہم میں سے ہم پر بزرگ بنایا اے اللہ اگر یہ سچا ہے تو تو ہمیں عذاب کر ۔ جب ایمان لائے تو اپنے اس قول پر برا ہی نادم ہوئے اور استغفار کیا اسی کا بیان دوسری آیت میں ہے ۔ پس انبیاء کی موجودگی میں قوموں پر عذاب نہیں آتا ہاں وہ نکل جائیں پھر عذاب برس پڑتے ہیں اور چونکہ ان کی قسمت میں ایمان تھا اور بعد از ایمان وہ استغفار اہل مکہ کے لیے باعث امن و امان تھا ۔ ان دو وجہہ امن میں سے ایک تو اب نہ رہا دوسرا اب بھی موجود ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ { مجھ پر دو امن میری امت کیلئے اترے ہیں ایک میری موجودگی دوسرے ان کا استغفار پس جب میں چلا جاؤں گا تو استغفار قیامت تک کیلئے ان میں چھوڑ جاؤں گا ۔ } ایک اور حدیث میں ہے کہ شیطان نے کہا اے اللہ مجھے تیری عزت کی قسم میں تو جب تک تیرے بندوں کے جسم میں روح ہے انہیں بہکاتا رہوں گا ۔ اللہ عزوجل نے فرمایا: ’ مجھے بھی میری جلالت اور میری بزرگی کی قسم جب تک وہ مجھ سے استغفار کرتے رہیں گے میں بھی انہیں بخشتا رہوں گا۔‘ ۱؎ (سلسلۃ احادیث صحیحہ البانی:104) مسند احمد میں ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { بندہ اللہ کے عذابوں سے امن میں رہتا ہے جب تک وہ اللہ عزوجل سے استغفار کرتا ہے ۔} ۱؎ (مسند احمد:20/6:صحیح) الانفال
32 الانفال
33 الانفال
34 . ارشاد ہے کہ فی الواقع یہ کفار عذابوں کے لائق ہیں لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی سے عذاب رکے ہوئے ہیں چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے بعد ان پر عذاب الٰہی آیا ۔ بدر کے دن ان کے تمام سردار مار ڈالے گئے یا قید کر دیئے گئے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ ٰ نے انہیں استغفار کی ہدایت کی کہ ’ اپنے شرک و فساد سے ہٹ جائیں اور اللہ سے معاف طلب کریں ۔ ‘ قتادہ اور سدی رحمہ اللہ علیہم کہتے ہیں کہ وہ لوگ معافی نہیں مانگتے تھے ورنہ عذاب نہ ہوتا ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:235/6) ہاں ان میں جو کمزر مسلمان رہ گئے تھے اور ہجرت پر قادر نہ تھے وہ استغفار میں لگے رہتے تھے اور ان کی ان میں موجودگی اللہ کے عذابوں کے رکنے کا ذریعہ تھی چنانچہ حدیبیہ کے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد الٰہی ہے «ہُمُ الَّذِینَ کَفَرُوا وَصَدٰوکُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَالْہَدْیَ مَعْکُوفًا أَن یَبْلُغَ مَحِلَّہُ ۚ وَلَوْلَا رِجَالٌ مٰؤْمِنُونَ وَنِسَاءٌ مٰؤْمِنَاتٌ لَّمْ تَعْلَمُوہُمْ أَن تَطَئُوہُمْ فَتُصِیبَکُم مِّنْہُم مَّعَرَّۃٌ بِغَیْرِ عِلْمٍ ۖ لِّیُدْخِلَ اللہُ فِی رَحْمَتِہِ مَن یَشَاءُ ۚ لَوْ تَزَیَّلُوا لَعَذَّبْنَا الَّذِینَ کَفَرُوا مِنْہُمْ عَذَابًا أَلِیمًا » ۱؎ ( 48-الفتح : 25 ) ، یعنی ’ یہ مکے والے ہی تو وہ ہیں جنہوں نے کفر کیا اور تمہیں مسجد الحرام سے روکا اور قربانی کے جانوروں کو بھی نہ آنے دیا کہ وہ جہاں تھے وہیں رکے کھڑے رہے اور اپنے حلال ہونے کی جگہ نہ پہنچ سکے ۔ اگر شہر مکہ میں کچھ مسلمان مرد اور کچھ مسلمان عورتیں ایسی نہ ہوتیں کہ تم ان کے حال سے واقف نہیں تھے ، اور عین ممکن تھا کہ لڑائی کی صورت میں تم انہیں بھی پامال کر ڈالتے اور نادانستہ ان کی طرف سے تمہیں نقصان پہنچ جاتا تو بیشک تمہیں اسی وقت لڑائی کی اجازت مل جاتی ۔ اس وقت کی صلح اس لیے ہے کہ اللہ جسے چاہے اپنی رحمت میں لے لے ۔‘ اگر مکے میں رکے ہوئے مسلمان وہاں سے کہیں تل جاتے تو یقیناً ان کافروں کو درد ناک مار ماری جاتی ۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی اہل مکہ کے لیے باعث امن رہی پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے بعد جو ضعیف مسلمان وہاں رہ گئے تھے اور استغفار کرتے رہے تھے ، ان کی موجودگی کی وجہ سے عذاب نہ آیا جب وہ بھی مکے سے نکل گئے تب یہ آیت اتری کہ اب کوئی مانع باقی نہ رہا پس مسلمانوں کو مکے پر چڑھائی کرنے کی اجازت مل گئی اور یہ مفتوح ہوئے ۔ ہاں ایک قول یہ بھی ہے کہ اگر مراد ان کا خود کا استغفار ہو تو اس آیت نے پہلی آیت «وَمَا کَانَ اللہُ لِیُعَذِّبَہُمْ وَأَنتَ فِیہِمْ» کو منسوخ کر دیا ۔ چنانچہ عکرمہ اور حسن بصری رحمہ اللہ علیہم وغیرہ کا یہ قول بھی ہے کہ«انفال» میں «وَمَا کَانَ اللہُ لِیُعَذِّبَہُمْ وَأَنتَ فِیہِمْ» والی آیت کو اسکے بعد والی آیت «وَمَا لَہُمْ أَلَّا یُعَذِّبَہُمُ اللہُ» نے منسوخ کردیا ہے۔ چنانچہ «فَذُوقُوا الْعَذَابَ» فرمایا گیا چنانچہ اہل مکہ سے جنگ بھی ہوئی ، انہیں ضرور بھی پہنچے ، ان پر قحط سالیاں بھی آئیں پس ان مشرکوں کا اس آیت میں استثنا کر لیا گیا ہے ۔ انہیں اللہ کے عذاب کیوں نہ ہوں ؟ یہ مومن لوگوں کو کعبتہ اللہ میں نماز پڑھنے سے روکتے ہیں جو مومن بوجہ اپنی کمزوری کے اب تک مکہ میں ہی ہیں اور ان کے سوار اور مومنوں کو بھی طواف و نماز سے روکتے ہیں حالانکہ اصل اہلیت ان ہی میں ہے ۔ ان مشرکوں میں اس کی اہلیت نہیں جیسے فرمان ہے «مَا کَانَ لِلْمُشْرِکِینَ أَن یَعْمُرُوا مَسَاجِدَ اللہِ شَاہِدِینَ عَلَیٰ أَنفُسِہِم بِالْکُفْرِ ۚ أُولٰئِکَ حَبِطَتْ أَعْمَالُہُمْ وَفِی النَّارِ ہُمْ خَالِدُونَ»۱؎ (9-التوبۃ:17) ، ’ مشرکین اللہ کے گھروں کی آبادی کے اہل نہیں وہ تو کفر میں مبتلا ہیں ان کے اعمال اکارت ہیں اور وہ ہمیشہ کے جہنمی ہیں ۔‘ « إِنَّمَا یَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللہِ مَنْ آمَنَ بِ اللہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلَاۃَ وَآتَی الزَّکَاۃَ وَلَمْ یَخْشَ إِلَّا اللہَ ۖ فَعَسَیٰ أُولٰئِکَ أَن یَکُونُوا مِنَ الْمُہْتَدِینَ » ۱؎ ( 9-التوبہ : 18 ) ’ مسجدوں کی آبادی کے اہل اللہ پر ، قیامت پر ایمان رکھنے والے ، نمازی ، زکوٰۃ ادا کرنے والے ، صرف خوف الٰہی رکھنے والے ہی ہیں اور وہی راہ یافتہ لوگ ہیں۔ ‘ اور آیت میں ہے کہ«مَا کَانَ لِلْمُشْرِکِینَ أَن یَعْمُرُوا مَسَاجِدَ اللہِ شَاہِدِینَ عَلَیٰ أَنفُسِہِم بِالْکُفْرِ ۚ أُولٰئِکَ حَبِطَتْ أَعْمَالُہُمْ وَفِی النَّارِ ہُمْ خَالِدُونَ » ۱؎ ( 9-التوبہ : 17 ) ’ مشرکوں کی زیبا نہیں کہ خدا کی مسجدوں کو آباد کریں جب کہ وہ اپنے آپ پر کفر کی گواہی دے رہے ہیں ۔ ان لوگوں کے سب اعمال بیکار ہیں اور یہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے۔ ‘ «وَصَدٌّ عَن سَبِیلِ اللہِ وَکُفْرٌ بِہِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِخْرَاجُ أَہْلِہِ مِنْہُ أَکْبَرُ عِندَ اللہِ » ۱؎ ( 2-البقرۃ : 217 ) ’ راہ رب سے روکنا ، اللہ کے ساتھ کفر کرنا ، مسجد الحرام کی بیحرمتی کرنا اور اس کے لائق لوگوں کو اس سے نکالنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت بڑا جرم ہے ۔‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوست کون ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { ہر ایک پرہیزگار اللہ سے ڈرنے والا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھا«إِنْ أَوْلِیَاؤُہُ إِلَّا الْمُتَّقُونَ»۔ } ۱؎ (سلسلۃ احادیث ضعیفہ البانی:1304) مستدرک حاکم میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قریشیوں کو جمع کیا پھر پوچھا کہ { تم میں اس وقت کوئی اور تو نہیں ؟ } انہوں نے کہا بہنوں کی اولاد اور حلیف اور مولیٰ ہیں ۔ فرمایا: { یہ تینوں تو تم میں سے ہی ہیں ۔ سنو تم میں سے میرے دوست وہی ہیں جو تقوے اور پرہیزگاری والے ہوں }۱؎ (سلسلۃ احادیث صحیحہ البانی:1688) پس اللہ کے اولیاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم اور کل مجاہد خواہ وہ کوئی ہو اور کہیں کے ہوں ۔ پھر ان کی ایک اور شرارت اور بےڈھنگا پن بیان فرماتا ہے ۔ کعبے میں آ کر کیا کرتے ہیں ؟ یا تو جانوروں کی سی سیٹیاں بجاتے ہیں ، منہ میں انگلیاں رکھین اور سیٹیاں شروع کریں یا تالیاں پیٹنے لگے ۔ طواف کرتے ہیں تو ننگے ہو کر ، رخسار جھکا کر ، سیٹی بجائی ، تالی بجائی ، چلئے نماز ہو گئی ۔ کبھی رخسار زمین پر لٹکا لیا ۔ بائیں طرف سے طواف کیا ۔ یہ بھی مقصود تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز بگاڑیں ، مومنوں کا مذاق اڑائیں ، لوگوں کو راہ رب سے روکیں ۔ اب اپنے کفر کا بھرپور پھل چکھو ، بدر کے دن قید ہو کے قتل ہوئے ، تو لاچاری ، چیخ اور زلزلے آئے ۔ الانفال
35 الانفال
36 شکست خوردہ کفار کی سازشیں قریشیوں کو بدر میں شکست فاش ہوئی ، اپنے مردے اور اپنے قیدی مسلمانوں کے ہاتھوں میں چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے ۔ ابوسفیان اپنا قافلہ اور مال و متاع لے کر پہنچا تو عبداللہ بن ابی ربیعہ ، عکرمہ بن ابی جہل ، صفوان بن امیہ اور وہ لوگ جن کے عزیز و اقارب اس لڑائی میں کام آئے تھے ابو ابوسفیان کے پاس پہنچے اور کہا کہ آپ دیکھتے ہیں ہماری کیا درگت ہوئی ؟ اب اگر آپ رضامند ہوں تو یہ سارا مال روک لیا جائے اور اسی خزانے سے دوسری جنگ کی تیاری وسیع پیمانے پر کی جائے اور انہیں مزا چکھا دیا جائے چنانچہ یہ بات مان لی گئی اور پختہ ہوگئ ۔ اسی پر یہ آیت «إِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا یُنفِقُونَ أَمْوَالَہُمْ لِیَصُدٰوا عَن سَبِیلِ اللہِ »الخ اتری کہ ’ بلاشک یہ کافر لوگ اپنے مالوں کو اس لئے خرچ کر رہے ہیں کہ اللہ کی راہ سے روکیں سو یہ لوگ تو اپنے مالوں کو خرچ کرتے ہی رہیں گے، پھر وہ مال ان کے حق میں باعث حسرت ہو جائیں گے۔ پھر مغلوب ہو جائیں گے اور کافر لوگوں کو دوزخ کی طرف جمع کیا جائے گا۔ ‘ ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ آیت بھی بدر کے بارے میں اتری ہے ۔ الفاظ آیت کے عام ہیں گو سبب نزول خاص ہو حق کو روکنے کے لیے جو بھی مال خرچ کرے وہ آخر ندامت کے ساتھ رہ جائے گا ۔ دین کا چراغ انسانی پھونکوں سے بجھ نہیں سکتا ۔ اس خواہش کا انجام نا مرادی ہی ہے ۔ خود اللہ اپنے دین کا ناصر اور حافظ ہے ۔ اس کا کلمہ بلند ہو گا ، اس کا بول بالا ہو گا ، اس کا دین غالب ہو گا کفار منہ دیکھتے رہ جائیں گے ۔ قولہ تعالیٰ:«لِیَمِیزَ اللہُ الْخَبِیثَ مِنَ الطَّیِّبِ وَیَجْعَلَ الْخَبِیثَ بَعْضَہُ عَلَیٰ بَعْضٍ فَیَرْکُمَہُ جَمِیعًا فَیَجْعَلَہُ فِی جَہَنَّمَ ۚ أُولٰئِکَ ہُمُ الْخَاسِرُونَ» سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اہلِ سعادت کا امتیاز اہلِ شقاوت سے ہے کہ مومن کافر سے ممتاز ہوجائے گا اور یہ بھی محتمل ہے کہ امتیاز سے مراد آخرت کا امتیاز ہو۔ دنیا میں الگ رسوائی اور ذلت ہو گی آخرت میں الگ بربادی اور خواری ہو گی ۔ جیتے جی یا تو اپنے سامنے اپنی پستی ذلت نکبت و ادبار اور خوری دیکھ لیں گے یا مرنے پر عذاب نار دیکھ لیں گے ۔ پستی و غلامی کی مار اور شکست ان کے ماتھے پر لکھ دی گئی ہے ۔ پھر آخری ٹھکانا جہنم ہے تاکہ اللہ شقی اور سعید کو الگ الگ کر دے ۔ برے اور بھلے کو ممتاز کر دے یہ تفریق اور امتیاز آخرت میں ہو گی اور دنیا میں بھی ۔ فرمان ہے «ثُمَّ نَقُولُ لِلَّذِینَ أَشْرَکُوا مَکَانَکُمْ أَنتُمْ وَشُرَکَاؤُکُمْ ۚ فَزَیَّلْنَا بَیْنَہُمْ» ۱؎ ( 10-یونس : 28 ) ، ’ قیامت کے دن ہم کافروں سے کہیں گے کہ تم اور تمہارے معبود یہیں اسی جگہ ٹھہرے رہو ۔ ‘ اور آیت میں ہے «وَیَوْمَ تَقُومُ السَّاعَۃُ یَوْمَئِذٍ یَتَفَرَّقُونَ» ۱؎ ( 30-الروم : 14 ) ’ قیامت کے دن یہ سب جدا جدا ہو جائیں گے‘ اور آیت میں ہے«یَوْمَئِذٍ یَصَّدَّعُونَ» ۱؎ ( الروم : 43 ) ’ اس دن یہ منتشر ہو جائیں گے ‘ اور آیت میں ہے « وَامْتَازُوا الْیَوْمَ أَیٰہَا الْمُجْرِمُونَ وَلِیَعْلَمَ الَّذِینَ نَافَقُوا ۚ وَقِیلَ لَہُمْ تَعَالَوْا قَاتِلُوا فِی سَبِیلِ اللہِ أَوِ ادْفَعُوا ۖ قَالُوا لَوْ نَعْلَمُ قِتَالًا لَّاتَّبَعْنَاکُمْ» ۱؎ ( 36-یس : 59 ) ’ اے گنہگار و تم آج نیک کاروں سے الگ ہو جاؤ ۔ ‘ اسی طرح دنیا میں بھی ایک دوسرے سے بالکل ممتاز تھے ۔ مومنوں کے اعمال ان کے اپنے ہیں اور ان سے بالکل جدا گانہ «لِیَمِیزَ» کا لام تو دلیل ہو سکتا ہے یعنی کافر اپنے مالوں کو اللہ کی راہ کی روک کیلئے خرچ کرتے ہیں تاکہ مومن و کافر میں علیحدگی ہو جائے کہ کون اللہ کا فرمانبردار ہے اور کون نافرمانی میں ممتاز ہے ؟ چنانچہ فرمان ہے «وَمَا أَصَابَکُمْ یَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعَانِ فَبِإِذْنِ اللہِ وَلِیَعْلَمَ الْمُؤْمِنِینَ وَلِیَعْلَمَ الَّذِینَ نَافَقُوا ۚ وَقِیلَ لَہُمْ تَعَالَوْا قَاتِلُوا فِی سَبِیلِ اللہِ أَوِ ادْفَعُوا ۖ قَالُوا لَوْ نَعْلَمُ قِتَالًا لَّاتَّبَعْنَاکُمْ» ۱؎ ( 3-آل عمران : 166 ، 167 ) ، یعنی ’ دونوں لشکروں کی مڈبھیڑ کے وقت جو کچھ تم سے ہوا وہ اللہ کے حکم سے تھا تاکہ مومنوں اور منافقوں میں تمیز ہو جائے ان سے جب کہا گیا کہ آؤ راہ حق میں جہاد کرو یا دشمنوں کو دفع کرو تو انہوں نے جواب دیا کہ اگر ہم فنون جنگ سے واقف ہوتے تو ضرور تمہارا ساتھ دیتے۔ ‘ اور آیت میں ہے « مَّا کَانَ اللہُ لِیَذَرَ الْمُؤْمِنِینَ عَلَیٰ مَا أَنتُمْ عَلَیْہِ حَتَّیٰ یَمِیزَ الْخَبِیثَ مِنَ الطَّیِّبِ ۗ وَمَا کَانَ اللہُ لِیُطْلِعَکُمْ عَلَی الْغَیْبِ» ۱؎ ( 3-آل عمران : 179 ) ، یعنی ’ اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری موجودہ حالتوں پر ہی چھوڑنے والا نہیں وہ پاک اور پلید کو علیحدہ علیحدہ کرنے والا ہے ۔‘ یہ ہی نہیں کہ اللہ تمہیں اپنے غیب پر خبردار کر دے ۔ فرمان ہے «أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَعْلَمِ اللہُ الَّذِینَ جَاہَدُوا مِنکُمْ وَیَعْلَمَ الصَّابِرِینَ» ۱؎ ( 3-آل عمران : 142 ) ، ’ کیا تم یہ گمان کئے بیٹھے ہو کہ یونہی جنت میں چلے جاؤ گے حالانکہ اب تک تو اللہ نے تم میں سے مجاہدین کو اور صبر کرنے والوں کو کھلم کھلا نہیں کیا ۔ ‘ سورۃ برات میں بھی اسی جیسی آیت موجود ہے تو مطلب یہ ہوا کہ ہم نے تمہیں کافروں کے ہاتھوں میں اس لیے مبتلا کیا ہے اور اس لیے انہیں اپنے مال باطل میں خرچ کرنے پر لگایا ہے کہ نیک و بد کی تمیز ہو جائے ۔ «فَیَجْعَلَہُ فِی جَہَنَّمَ ۚ أُولٰئِکَ ہُمُ الْخَاسِرُونَ» ’ خبیث کو خبیث سے ملا کر جمع کر کے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ دنیا و آخرت میں یہ لوگ برباد ہیں ۔‘ الانفال
37 الانفال
38 فتنے کے اختتام تک جہاد جاری رکھو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب ہورہا ہے کہ ’ کافروں سے کہدو کہ اگر وہ اپنے کفر سے اور ضد سے باز آ جائیں ، اسلام اور اطاعت قبول کر لیں ، رب کی طرف جھک جائیں تو ان سے جو ہو چکا ہے سب معاف کر دیا جائے گا ، کفر بھی ، خطا بھی گناہ بھی ۔‘ حدیث میں ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { جو شخص اسلام لا کر نیکیاں کرے وہ اپنے جاہلیت کے اعمال پر پکڑا نہ جائے گا اور اسلام میں بھی پھر برائیاں کرے تو اگلی پچھلی تمام خطاؤں پر اس کی پکڑ ہو گی } ۱؎ (صحیح بخاری:6921) اور حدیث میں ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { اسلام سے پہلے کے سب گناہ معاف ہیں توبہ بھی اپنے سے پہلے کے گناہ کو مٹا دیتی ہے ۔} ۱؎ (صحیح مسلم:121) پھر فرماتا ہے کہ ’ اگر یہ نہ مانیں اور اپنے کفر پر قائم رہیں تو وہ اگلوں کی حالت دیکھ لیں کہ ہم نے انہیں ان کے کفر کی وجہ سے کیسا غارت کیا ؟ ابھی بدری کفار کا حشر بھی ان کے سامنے ہے ۔ جب تک فتنہ باقی ہے تم جنگ جاری رکھو ۔‘ ایک شخص نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آیت «وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَیْنَہُمَا» ۱؎ ( 49-الحجرات : 9 ) ، کو پیش نظر رکھ کر آپ اس وقت کی باہمی جنگ میں شرکت کیوں نہیں کرتے ؟ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم لوگوں کا یہ طعنہ اس سے بہت ہلکا ہے کہ میں کسی مومن کو قتل کر کے جہنمی بن جاؤں جیسے فرمان الٰہی ہے «وَمَن یَقْتُلْ مُؤْمِنًا مٰتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُہُ جَہَنَّمُ خَالِدًا فِیہَا وَغَضِبَ اللہُ عَلَیْہِ وَلَعَنَہُ وَأَعَدَّ لَہُ عَذَابًا عَظِیمًا » ۱؎ ( 4-النساء : 93 ) ، اس نے کہا اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ’ فتنہ باقی ہو تب تک لڑائی جاری رکھو ۔‘ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہی ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کیا ۔ اس وقت مسلمان کم تھے، انہیں کافر گرفتار کر لیتے تھے اور دین میں فتنے ڈالتے تھے یا تو قتل کر ڈالتے تھے یا قید کر لیتے تھے۔ جب مسلمان بڑھ گئے وہ فتنہ جاتا رہا۔ اس معترض شخص نے جب دیکھا کہ آپ رضی اللہ عنہ مانتے نہیں تو کہا اچھا سیدنا علی اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہم کے بارے میں کیا خیال رکھتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو اللہ نے معاف فرمایا لیکن تمہیں اللہ کی وہ معافی بری معلوم ہوتی ہے ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی تھے اور آپ کے داماد تھے ، یہ ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی ، یہ کہتے ہوئے ان (سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا) کے مکان کی طرف اشارہ کیا ۔۱؎ (صحیح بخاری:4650) سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ایک مرتبہ لوگوں کے پاس آئے تو کسی نے کہا کہ اس فتنے کے وقت کی لڑائی کی نسبت جناب کا کیا خیال ہے ؟ آپ نے فرمایا جانتے بھی ہو فتنے سے کیا مراد ہے ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کافروں سے جنگ کرتے تھے ، اس وقت ان کا زور تھا ، ان میں جانا فتنہ تھا ، تمہاری تو یہ ملکی لڑائیاں ہیں۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4651) اور روایت میں ہے کہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں دو شخص سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ لوگ جو کچھ کر رہے ہیں وہ آپ کے سامنے ہے آپ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں ، آپ کیوں میدان جنگ میں نہیں اترے ؟ فرمایا اس لیے کہ اللہ نے ہر مومن کا خون حرام کر دیا ہے انہوں نے کہا کیا فتنے کے باقی رہنے تک لڑنا اللہ کا حکم نہیں ؟ آپ نے فرمایا ہے اور ہم نے اسے نبھایا بھی یہاں تک کہ فتنہ دور ہو گیا اور دین سب اللہ ہی کا ہو گیا ، اب تم اپنی اس باہمی جنگ سے فتنہ کھڑا کرنا اور غیر اللہ کے دین کے لیے ہو جانا جاہتے ہو ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4513) ذوالسطبین اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے میں ہرگز اس شخص سے جنگ نہ کروں گا جو «لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ» کا قائل ہو ۔ سعد بن مالک رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر اس کی تائید کی اور فرمایا میں بھی یہی کہتا ہوں تو ان پر بھی یہی آیت «وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّیٰ لَا تَکُونَ فِتْنَۃٌ وَیَکُونَ الدِّینُ کُلٰہُ لِلہِ» پیش کی گئی اور یہی جواب آپ نے بھی دیا ۔ بقول سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ وعیرہ فتنہ سے مراد شرک ہے اور یہ بھی کہ مسلمانوں کی کمزوری ایسی نہ رہے کہ کوئی انہیں ان کے سچے دین سے مرتد کرنے کی طاقت رکھے ۔ دین سب اللہ کا ہو جائے یعنی توحید نکھر جائے «لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ» کا کلمہ زبانوں پر چڑھ جائے شرک اور معبود ان باطل کی پرستش اٹھ جائے ، تمہارے دین کے ساتھ کفر باقی نہ رہے ۔ بخاری و مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { مجھے حکم فرمایا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جہاد جاری رکھوں یہاں تک کہ وہ «لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ» کہہ لیں جب وہ اسے کہہ لیں گے تو مجھ سے اپنی جانیں اور اپنے مال بچا لیں گے ہاں حق اسلام کے ساتھ اور ان کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے ۔} ۱؎ (صحیح بخاری:1399) بخاری مسلم کی ایک اور روایت میں ہے کہ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ ایک شخص اپنی بہادری کیلئے ، ایک شخص غیرت کیلئے ، ایک شخص ریا کاری کیلئے لڑائی کر رہا ہے تو اللہ کی راہ میں ان میں سے کون ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { جو اللہ کے کلمے کو بلند کرنے کی غرض سے جہاد کرے وہ اللہ کی راہ میں ہے ۔ پھر فرمایا کہ اگر تمہارے جہاد کی وجہ سے یہ اپنے کفر سے باز آ جائیں تو تم ان سے لڑائی موقوف کر دو ان کے دلوں کا حال سپرد رب کر دو ۔ اللہ ان کے اعمال کا دیکھنے والا ہے ۔} ۱؎ (صحیح بخاری:2810) جیسے فرمان ہے «فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاۃَ وَآتَوُا الزَّکَاۃَ فَخَلٰوا سَبِیلَہُمْ ۚ إِنَّ اللہَ غَفُورٌ رَّحِیمٌ » ۱؎ ( 9-التوبہ : 5 ) ، یعنی ’ اگر یہ توبہ کر لیں اور نمازی اور زکوٰۃ دیین والے بن جائیں تو ان کی راہ چھوڑ دو ، ان کے راستے نہ روکو‘ ۔ اور آیت میں ہے کہ«فَإِخْوَانُکُمْ فِی الدِّینِ» ۱؎ ( 9-التوبہ : 11 ) ’ اس صورت میں وہ تمہارے دینی بھائی ہیں۔ ‘ اور آیت میں ہے کہ«وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّیٰ لَا تَکُونَ فِتْنَۃٌ وَیَکُونَ الدِّینُ لِلہِ ۖ فَإِنِ انتَہَوْا فَلَا عُدْوَانَ إِلَّا عَلَی الظَّالِمِینَ» ۱؎ ( 2-البقرۃ : 193 ) ’ ان سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کا ہو جائے پھر اگر وہ باز آ جائیں تو زیادتی کا بدلہ تو صرف ظالموں کے لیے ہی ہے ۔‘ ایک صحیح رویت میں ہے کہ سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ ایک شخص پر تلوار لے کر چڑھ گئے جب وہ زد میں آ گیا اور دیکھا کہ تلوار چلا جاتی ہے تو اس نے جلدی سے «لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ» کہہ دیا لیکن اس کے سر پر تلوار پڑ گئی اور وہ قتل ہو گیا ۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس واقعہ کا بیان ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسامہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: { کیا تو نے اسے اس کے «لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ» کہنے کے بعد قتل کیا ؟ تو «لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ» کے ساتھ قیامت کے دن کیا کرے گا ؟} حضرت اسامہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ یہ تو اس نے صرف اپنے بچاؤ کیلئے کہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { کیا تو نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا؟ بتا کون ہو گا جو قیامت کے دن «لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ» کا مقابلہ کرے۔ باربار آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہی فرماتے رہے} ، یہاں تک کہ اسامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میرے دل میں خیال آنے لگا کہ کاش کہ میں آج کے دن سے پہلے مسلمان ہی نہ ہوا ہوتا، تاکہ اسلام کے زعم میں اس کو قتل نہ کردیتا۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4269) پھر فرماتا ہے کہ ’ اگر یہ اب بھی باز نہ رہیں تمہاری مخالفت اور تم سے لڑائی نہ چھوڑیں تو تم یقین مانو کہ اللہ تعالیٰ تمہارا مولا ، تمہارا مالک ، تمہارا مددگار اور ناصر ہے ۔ وہ تمہیں ان پر غالب کرے گا ۔ وہ بہترین مولا اور بہترین مددگار ہے ۔‘ ابن جریر میں ہے کہ عبدالملک بن مروان نے عروہ رحمہ اللہ سے کچھ باتیں دریافت کی تھیں جس کے جواب میں آپ نے انہیں لکھا سلام علیک کے بعد میں آپ کے سامنے اس اللہ کی تعریفیں کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ۔ بعد حمد و صلوۃ کے آپ کا خط ملا آپ نے ہجرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت مجھ سے سوال کیا ہے میں آپ کو اس واقعہ کی خبر لکھتا ہوں ۔ اللہ ہی کی مدد پر خیر کرنا اور شر سے روکنا موقوف ہے مکہ شریف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لے جانے کا واقعہ یوں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ ٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت دی ، سبحان اللہ کیسے اچھے پیشوا بہترین رہنما تھے ، اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جزائے خیر عطا فرمائے ہمیں جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب فرمائے ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے دین پر زندہ رکھے اسی پر موت دے اور اسی پر قیامت کے دن کھڑا کرے ، آمین ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم کو ہدایت اور نور کی طرف دعوت دی جو اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمایا تھا تو شروع شروع تو انہیں کچھ زیادہ برا نہیں معلوم ہوا بلکہ قریب تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سننے لگیں مگر جب ان کے معبودان باطل کا ذکر آیا اس وقت وہ بگڑے بیٹھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کا برا ماننے لگے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سختی کرنے لگے ۔ اسی زمانے میں طائف کے چند قریشی مال لے کر پہنچے وہ بھی ان کے شریک حال ہو گئے ، اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کے ماننے والے مسلمانوں کو طرح طرح سے ستانے لگے جس کی وجہ سے عام لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس آنے جانے سے ہٹ گئے بجز ان چند ہستیوں کے جو اللہ کی حفاظت میں تھیں یہی حالت ایک عرصے تک رہی جب تک کہ مسلمانوں کی تعداد کی کمی زیادتی کی حد تک نہیں پہنچی تھی ۔ پھر سرداران کفر نے آپس میں مشورہ کیا کہ جتنے لوگ ایمان لا چکے ہیں ان پر اور زیادہ سختی کی جائے جو جس کا رشتہ دار اور قریبی ہو وہ اسے ہر طرح تنگ کرے تاکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ چھوڑ دیں اب فتنہ بڑھ گیا اور بعض لوگ ان کی سزاؤں کی تاب نہ لا کر ان کی ہاں میں ہاں ملانے لگے ۔ کھرے اور ثابت قدم لوگ دین حق پر اس مصیبت کے زمانے میں بھی جمے رہے اور اللہ نے انہیں مضبوط کر دیا اور محفوظ رکھ لیا ۔ آخر جب تکلیفیں حد سے گذر نے لگیں تو رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حبشہ کی طرف ہجرت کر جانے کی اجازت دے دی ۔ حبشہ کا بادشاہ نجاشی ایک نیک آدمی تھا اس کی سلطنت ظلم و زیادتی سے خالی تھی ہر طرف اس کی تعریفیں ہو رہی تھیں ۔ یہ جگہ قریش کی تجارتی منڈی تھی جہاں ان کے تاجر رہا کرتے تھے اور بے خوف و خطر بڑی بڑی تجارتیں کیا کرتے تھے ۔ پس جو لوگ یہاں مکہ شریف میں کافروں کے ہاتھوں بہت تنگ آ گئے تھے اور اب مصیبت جھیلنے کے قابل نہیں رہے تھے اور ہر وقت انہیں اپنے دین کے اپنے ہاتھ سے چھوٹ جانے کا خطرہ لگا رہتا تھا وہ سب حبشہ چلے گئے ۔ لیکن خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہیں ٹھہرے رہے ۔ اس پر بھی جب کئی سال گذر گئے تو یہاں اللہ کے فضل سے مسلمانوں کی تعداد خاصی ہو گئی اسلام پھیل گیا اور شریف اور سردار لوگ بھی اسلامی جھنڈے تلے آ گئے یہ دیکھ کر کفر کو اپنی دشمنی کا جوش ٹھنڈا کرنا پڑا ۔ وہ ظلم و زیادتی سے بالکل تو نہیں لیکن کچھ نہ کچھ رک گئے ۔ پس وہ فتنہ جس کے زلزلوں نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو وطن چھوڑ نے اور حبشہ جانے پر مجبور کیا تھا اس کے کچھ دب جانے کی خبروں نے مہاجرین حبشہ کو پھر آمادہ کیا کہ وہ مکے شریف واپس چلے آئیں ۔ چنانچہ وہ بھی تھوڑے بہت آ گئے اسی اثناء میں مدینہ شریف کے چند انصار مسلمان ہو گئے ۔ ان کی وجہ سے مدینہ شریف میں بھی اشاعت اسلام ہونے لگی ۔ ان کا مکہ شریف آنا جانا شروع ہوا اس سے مکہ والے کچھ بگڑے اور بپھر کر ارادہ کر لیا کہ دوبارہ سخت سختی کریں چنانچہ دوسری مرتبہ پھر فتنہ شروع ہوا ۔ ہجرت حبشہ پر پہلے فتنے نے آمادہ کیا واپسی پر پھر فتنہ پھیلا ۔ اب ستر بزرگ سرداران مدینہ یہاں آئے اور مسلمان ہو کر نبی کریم رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی ۔ موسم حج کے موقعہ پر یہ آئے تھے ۔ قبہ میں انہوں نے بیعت کی ، عہدو پیمان ، قول و قرر ہوئے کہ ہم آپ کے اور آپ ہمارے ۔ اگر کوئی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا آدمی ہمارے ہاں آ جائے تو ہم اس کے امن و امان کے ذمے دار ہیں خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم اگر تشریف لائیں تو ہم جان مال سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہیں ۔ اس چیز نے قریش کو اور بھڑکا دیا اور انہوں نے ضعیف اور کمزور مسلمانوں کو اور ستانا شروع کر دیا ۔ ان کی سزائیں بڑھا دیں اور خون کے پیاسے ہو گئے ۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی کہ وہ مدینہ شریف کی طرف ہجرت کر جائیں یہ تھا آخری اور انتہائی فتنہ جس نے نہ صرف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ہی نکالا بلکہ خود اللہ کے محترم رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی مکے کو خالی کر گئے ۔۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:16097:مرسل) یہی ہے وہ فتنہ جسے اللہ فرماتا ہے ’ ان سے جہاد جاری رکھو یہاں تک کہ فتنہ مٹ جائے اور سارا دین اللہ کا ہی ہو جائے ۔ ‘ «الْحَمْدُ لِلّٰہ» نویں پارے کی تفسیر بھی ختم ہوئی ۔ اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے ۔ الانفال
39 الانفال
40 الانفال
41 مال غنیمت کی تقسیم کا بیان اللہ تعالیٰ یہاں مال غنیمت کی تفصیل بیان کرتا ہے جو اس نے خاص طور پر امت کے لئے حلال کیا ہے۔ اس سے قبل تمام اگلی امتوں پر مال غنیمت حرام تھا ۔ لیکن اس امت کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی مہربانی سے اسے حلال کر دیا ۔ اس کی تقسیم کی تفصیل یہاں بیان ہو رہی ہے ۔ مال غنیمت وہ ہے جو مسلمانوں کو جہاد کے بعد کافروں سے ہاتھ لگے اور جو مال بغیر لڑے جنگ کے ہاتھ آئے مثلاً صلح ہو گئی اور مقررہ تاوان جنگ ان سے وصول کیا یا کوئی مر گیا اور لاوارث تھا یا جزئیے اور خراج کی رقم وغیرہ وہ فے ہے ۔ سلف و خلف کی ایک جماعت کا اور امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کا یہی خیال ہے ۔ بعض لوگ غنیمت کا اطلاق فے پر اور فے کا اطلاق غنیمت پر بھی کرتے ہیں ۔ اسی لیے قتادہ رحمہ اللہ وغیرہ کا قول ہے کہ یہ آیت سورۃ الحشر کی« مَّا أَفَاءَ اللہُ عَلَیٰ رَسُولِہِ مِنْ أَہْلِ الْقُرَیٰ فَلِلہِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِی الْقُرْبَیٰ وَالْیَتَامَیٰ وَالْمَسَاکِینِ» ۱؎ ( 59-الحشر : 7 ) کی ناسخ ہے ۔ اب مال غنیمت میں فرق کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ وہ آیت تو فے کے بارے میں ہے اور یہ غنیمت کے بارے میں ۔ بعض بزرگوں کا خیال ہے کہ ان دونوں قسم کے مال کی تقسیم امام کی رائے پر ہے ۔ پس مقررہ حشر کی آیت اور اس آیت میں کوئی اختلاف نہیں جبکہ امام کی مرضی ہو «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ آیت میں بیان ہے کہ خمس یعنی پانچواں حصہ مال غنیمت میں سے نکال دینا چاہیئے ۔ چاہے وہ کم ہو یا زیادہ ہو ۔ گو سوئی ہو یا دھاگہ ہو ۔ پروردگار عالم فرماتا ہے «وَمَن یَغْلُلْ یَأْتِ بِمَا غَلَّ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ۚ ثُمَّ تُوَفَّیٰ کُلٰ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَہُمْ لَا یُظْلَمُونَ» ۱؎ (3-آل عمران:161) ’ جو خیانت کرے گا وہ اسے لے کر قیامت کے دن پیش ہو گا اور ہر ایک کو اس عمل کا پورا بدلہ ملے گا کسی پر ظلم نہ کیا جائے گا۔‘ کہتے ہیں کہ خمس میں سے اللہ کے لیے مقرر شدہ حصہ کعبے میں داخل کیا جائے گا ۔ حضرت ابوالعالیہ ریاحی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ غنیمت کے مال کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پانچ حصے کرتے تھے ۔ چار مجاہدین میں تقسیم ہوتے پانچویں میں سے آپ مٹھی بھر کر نکال لیتے اسے کعبے میں داخل کر دیتے پھر جو بچا اس کے پانچ حصے کر ڈالتے ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک قرابت داروں کا ۔ ایک یتیموں کا ایک مسکینوں کا ایک مسافروں کا۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:16117) یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہاں اللہ کا نام صرف بطور تبرک ہے گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حصے کے بیان کا وہ شروع ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کوئی لشکر بھیجتے اور مال غنیمت کا مال ملتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پانچ حصے کرتے اور پھر پانچویں حصے کے پانچ حصے کر ڈالتے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی آیت تلاوت فرمائی ۔ پس یہ فرمان کہ «أَنَّ لِلہِ خُمُسَہُ» یہ صرف کلام کے شروع کیلئے ہے ۔ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے اللہ ہی کا ہے ۔ پانچویں حصے میں سے پانچواں حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے بہت سے بزرگوں کا قول یہی ہے کہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ہی حصہ ہے ۔ اسی کی تائید بیھقی کی اس صحیح سند والی حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وادی القریٰ میں آ کر سوال کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غنیمت کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ارشاد فرماتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { اس میں سے پانچواں حصہ اللہ کا ہے باقی کے چار حصے لشکریوں کے ۔ } اس نے پوچھا تو اس میں کسی کو کسی پر زیادہ حق نہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { ہرگز نہیں یہاں تک کہ تو اپنے کسی دوست کے جسم سے تیر نکالے تو اس تیر کا بھی تو اس سے زیادہ مستحق نہیں۔ } ۱؎ (بیہقی فی السنن الکبری:324/6) سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے کہا کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے مال کے پانجویں حصے کی وصیت کی اور فرمایا کیا میں اپنے لیے اس حصے پر رضامند نہ ہو جاؤں جو اللہ تعالیٰ نے خود اپنا رکھا ہے ؟ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مال غنیمت کے پانچ حصے برابر کئے جاتے تھے چار تو ان لشکریوں کو ملتے تھے جو اس جنگ میں شامل تھے پھر پانچویں حصے کے چار حصے کئے جاتے تھے ایک چوتھائی اللہ کا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا پھر یہ حصہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لیتے تھے یعنی پانچویں حصے کا پانچواں حصہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نائب ہو اس کا ہے ۔ سیدنا عبداللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اللہ کا حصہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے اور جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حصہ تھا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کا ہے۔ عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ فرماتے ہیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا جو حصہ ہے وہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا ہے اختیار ہے جس کام میں آپ چاہیں لگائیں۔ مقدام بن معدیکرب عبادہ بن صامت ابودرداء اور حارث بن معاویہ کندی رضی اللہ عنہم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کا ذکر ہونے لگا تو ابوداؤد نے عبادہ بن صامت سے کہا فلاں فلاں غزوے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خمس کے بارے میں کیا ارشاد فرمایا تھا ؟ آپ نے فرمایا کہ { حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جہاد میں خمس کے ایک اونٹ کے پیچھے صحابہ رضی اللہ عنہم کو نماز پڑھائی سلام کے بعد کھڑے ہو گئے اور چند بال چٹکی میں لے کر فرمایا کہ ” مال غنیمت کے اونٹ کے یہ بال بھی مال غنیمت میں سے ہی ہیں اور میرے نہیں ہیں میرا حصہ تو تمہارے ساتھ صرف پانچواں ہے اور پھر وہ بھی تم ہی کو واپس دے دیا جاتا ہے پس سوئی دھاگے تک ہر چھوٹی بڑی چیز پہنچا دیا کرو ، خیانت نہ کرو ، خیانت عار ہے اور خیانت کرنے والے کیلئے دونوں جہان میں آگ ہے ۔ قریب والوں سے دور والوں سے راہ حق میں جہاد جاری رکھو ۔ شرعی کاموں میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا خیال تک نہ کرو ۔ وطن میں اور سفر میں اللہ کی مقرر کردہ حدیں جاری کرتے رہو اللہ کے لیے جہاد کرتے رہو جہاد جنت کے بہت بڑے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے اسی جہاد کی وجہ سے اللہ تعالیٰ غم و رنج سے نجات دیتا ہے۔ } ۱؎ (سنن ابن ماجہ:2850،قال الشیخ الألبانی:صحیح) یہ حدیث حسن ہے اور بہت ہی اعلیٰ ہے۔ صحاح ستہ میں اس سند سے مروی نہیں لیکن مسند ہی کی دوسری روایت میں دوسری سند سے خمس کا اور خیانت کا ذکر مروی ہے ۔ ابوداؤد اور نسائی میں بھی مختصراً یہ حدیث مروی ہے اس حصے میں سے نبی کریم رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم بعض چیزیں اپنی ذات کے لیے بھی مخصوص فرما لیا کرتے تھے لونڈی غلام تلوار گھوڑا وغیرہ ۔۱؎ (سنن ابوداود:2694،قال الشیخ الألبانی:) جیسا کہ محمد بن سیرین اور عامر شعبی رحمہ اللہ علیہم اور اکثر علماء نے فرمایا ہے ترمذی وغیرہ میں ہے کہ ذوالفقار نامی تلوار بدر کے دن کے مال غنیمت میں سے تھی جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھی اسی کے بارے میں احد والے دن خواب دیکھا تھا ۔۱؎ (سنن ترمذی:1561،قال الشیخ الألبانی:حسن) ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا بھی اسی طرح آئیں تھیں ۔۱؎ (سنن ابوداود:2994،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابوداؤد وغیرہ میں ہے یزید بن عبداللہ کہتے ہیں کہ ہم باڑے میں بیٹھے ہوئے تھے جو ایک صاحب تشریف لائے ان کے ہاتھ میں چمڑے کا ایک ٹکڑا تھا ہم نے اسے پڑھا تو اس میں تحریر تھا کہ { یہ محمد رسول اللہ کی طرف سے زہیر بن اقیش کی طرف ہے کہ اگر تم اللہ کی وحدت کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دو اور نمازیں قائم رکھو اور زکوٰۃ دیا کرو اور غنیمت کے مال سے خمس ادا کرتے رہو اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حصہ اور خالص حصہ ادا کرتے رہو تو تم اللہ اور اس کے رسول کی امان میں ہو ۔ } ہم نے ان سے پوچھا کہ تجھے یہ کس نے لکھ دیا ہے اس نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ۔۱؎ (سنن ابوداود:2999،قال الشیخ الألبانی:صحیح) پس ان صحیح احادیث کی دلالت اور ثبوت اس بات پر ہے اسی لیے اکثر بزرگوں نے اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خواص میں سے شمار کیا ہے ۔ صلوات اللہ وسلامہ علیہ ۔ اور لوگ کہتے ہیں کہ خمس میں امام وقت مسلمانوں کی مصلحت کے مطابق جو چاہے کر سکتا ہے ، جیسے کہ مال فے میں اسے اختیار ہے ۔ ہمارے شیخ علامہ ابن تیمیہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہی قول امام مالک رحمہ اللہ کا ہے اور اکثر سلف کا ہے اور یہی سب سے زیادہ صحیح قول ہے ۔ جب یہ ثابت ہو گیا اور معلوم ہو گیا تو یہ بھی خیال رہے کہ خمس جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حصہ تھا اسے اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کیا کیا جائے بعض تو کہتے ہیں کہ اب یہ حصہ امام وقت یعنی خلیفتہ المسلمین کا ہو گا ۔ سیدنا ابوبکر، سیدنا علی رضی اللہ عنہم ،قتادہ رحمہ اللہ اور ایک جماعت کا یہی قول ہے ۔ اور اس بارے میں ایک مرفوع حدیث بھی آئی ہے کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ مسلمانوں کی مصلحت میں صرف ہو گا ایک قول ہے کہ یہ بھی اہل حاجت کی بقایا قسموں پر خرچ ہو گا یعنی قرابت دار یتیم مسکین اور مسافر ۔ امام ابن جریر کا مختار مذہب یہی ہے اور بزرگوں کا فرمان ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت داروں کا حصہ یتیموں مسکینوں اور مسافروں کو دے دیا جائے ۔ عراق والوں کی ایک جماعت کا یہی قول ہے اور کہا گیا ہے خمس کا یہ پانچواں حصہ سب کا سب قرابت داروں کا ہے ۔ چنانچہ عبداللہ بن محمد بن علی اور علی بن حسین رحمہ اللہ علیہم کا قول ہے کہ یہ ہمارا حق ہے پوچھا گیا کہ آیت میں یتیموں اور مسکینوں کا بھی ذکر ہے تو امام علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس سے مراد بھی ہمارے یتیم اور مسکین ہیں ۔ امام حسن بن محمد بن حنفیہ رحمہ اللہ تعالیٰ سے اس آیت کے بارے میں سوال ہوتا ہے تو فرماتے ہیں کہ کلام کا شروع اس طرح ہوا ہے ورنہ دنیا آخرت کا سب کچھ اللہ ہی کا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ان دونوں حصوں کے بارے میں کیا ہوا اس میں اختلاف ہے ۔ بعض کہتے ہیں کا حصہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ کو ملے گے ۔ بعض کہتے ہیں آپ کے قرابت داروں کو ۔ بعض کہتے ہیں خلیفہ کے قرابت داروں کو ان کی رائے میں ان دونوں حصوں کو گھوڑوں اور ہتھیاروں کے کام میں لگایا جائے اسی طرح خلافت صدیقی و فاروقی میں ہوتا بھی رہا ہے ۔ ابراہیم رحمہ اللہ کہتے ہیں صدیق اکبر اور فاروق اعظم رضی اللہ عنہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حصے کو جہاد کے کام میں خرچ کرتے تھے ۔ پوچھا گیا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اس بارے میں کیا کرتے تھے ؟ فرمایا وہ اس بارے میں ان سے سخت تھے ۔ اکثر علماء رحمہ اللہ علیہم کا یہی قول ہے ۔ ہاں ذوی القربیٰ کا جو حصہ ہے وہ بنو ہاشم اور بنو عبدالمطلب کا ہے ۔ اس لیے کہ اولاد عبدالمطلب نے اولاد ہاشم کی جاہلیت میں اور اول اسلام میں موافقت کی اور انہی کے ساتھ انہوں نے گھاٹی میں قید ہونا بھی منظور کر لیا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ستائے جانے کی وجہ سے یہ لوگ بگڑ بیٹھے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت میں تھے ، ان میں سے مسلمان تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی وجہ سے ۔ کافر خاندانی طرف داری اور رشتوں ناتوں کی حمایت کی وجہ سے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابوطالب کی فرمانبرداری کی وجہ سے ستائے گئے ہاں بنو عبدشمس اور بنو نوفل گو یہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازاد بھائی تھے ۔ لیکن وہ ان کی موافقت میں نہ تھے بلکہ ان کے خلاف تھے انہیں الگ کر چکے تھے اور ان سے لڑ رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ قریش کے تمام قبائل ان کے مخالف ہیں اسی لیے ابوطالب نے اپنے قصیدہ لامیہ میں ان کی بہت ہی مذمت کی ہے کیونکہ یہ قریبی قرابت دار تھے اس قصیدے میں انہوں نے کہا ہے کہ انہیں بہت جلد اللہ کی طرف سے ان کی اس شرارت کا پورا پورا بدلہ ملے گا ۔ ان بیوقوفوں نے اپنے ہو کر ایک خاندان اور ایک خون کے ہو کر ہم سے آنکھیں پھیر لی ہیں وغیرہ ۔ ایک موقعہ پر ابن جبیر بن معطم بن عدی بن نوفل اور سیدنا عثمان بن عفان بن ابوالعاص بن امیہ بن عبد شمس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور شکایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے خمس میں سے بنو عبدالملطب کو تو دیا لیکن ہمیں چھوڑ دیا حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرابت داری کے لحاظ سے وہ اور ہم بالکل یکساں اور برابر ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { سنو! بنو ہاشم اور بنو المطلب تو بالکل ایک ہی چیز ہیں۔} ۱؎ (صحیح بخاری:3140) ۔ بعض روایت میں یہ بھی ہے کہ { انہوں نے تو مجھ سے نہ کبھی جاہلیت میں جدائی برتی نہ اسلام میں۔} ۱؎ (سنن ابوداود:2980،قال الشیخ الألبانی:) مجاہد رحمہ اللہ کا قول ہے کہ اللہ کو علم تھا کہ بنو ہاشم میں فقراء ہیں پس صدقے کی جگہ ان کا حصہ مال غنیمت میں مقرر کر دیا ۔ یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ قرابت دار ہیں جن پر صدقہ حرام ہے ۔ علی بن حسین رحمہ اللہ سے بھی اسی طرح مروی ہے ۔ بعض کہتے ہیں یہ سب قریش ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے استفتاء کیا گیا کہ ذوی القربیٰ کون ہیں ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے جواب تحریر فرمایا کہ ہم تو کہتے تھے ہم ہیں لیکن ہماری قوم نہیں مانتی وہ سب کہتے ہیں کہ سارے ہی قریش ہیں۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1812) بعض روایتوں میں صرف پہلا جملہ ہی ہے ۔ دوسرے جملے کی روایت کے راوی ابو معشر نجیح بن عبدالرحمٰن مدنی کی روایت میں ہی یہ جملہ ہے کہ سب کہتے ہیں کہ سارے قریش ہیں ۔ اس میں ضعف بھی ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { تمہارے لیے لوگوں کے میل کچیل سے تو میں نے منہ پھیر لیا خمس کا پانچواں حصہ تمہیں کافی ہے۔ } یہ حدیث حسن ہے اس کے راوی ابراہیم بن مہدی کو امام ابوحاتم ثقہ بتاتے ہیں لیکن یحییٰ بن معین کہتے ہیں کہ یہ منکر روایتیں لاتے ہیں۔ ۱؎ (میزان الاعتدال:68/1) «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ آیت میں یتیموں کا ذکر ہے یعنی مسلمانوں کے وہ بچے جن کا باپ فوت ہو چکا ہو ۔ پھر بعض تو کہتے ہیں کہ یتیمی کے ساتھ فقیری بھی ہو تو وہ مستحق ہیں اور بعض کہتے ہیں ہر امیر فقیر یتیم کو یہ الفاظ شامل ہیں ۔ «مَسَاکِینِ» سے مراد وہ محتاج ہیں جن کے پاس اتنا نہیں کہ ان کی فقیری اور ان کی حاجت پوری ہو جائے اور انہیں کافی ہو جائے ۔ «ابْنِ السَّبِیلِ» وہ مسافر ہے جو اتنی حد تک وطن سے نکل چکا ہو یا جا رہا ہو کہ جہاں پہنچ کر اسے نماز کو قصر پڑھنا جائز ہو اور سفر خرچ کافی اس کے پاس نہ رہا ہو ۔ اس کی تفسیر سورۃ برات کی« إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاکِینِ وَالْعَامِلِینَ عَلَیْہَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوبُہُمْ وَفِی الرِّقَابِ» ۱؎ ( 9-التوبہ : 60 ) کی تفسیر میں آئے گی ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ ہمارا اللہ پر بھروسہ ہے اور اسی سے ہم مدد طلب کرتے ہیں ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ اگر تمہارا اللہ پر اور اس کی اتاری ہوئی وحی پر ایمان ہے تو جو وہ فرما رہا ہے لاؤ یعنی مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ الگ کر دیا کرو ۔‘ بخاری و مسلم میں ہے کہ وفد عبدالقیس کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { میں تمہیں چار باتوں کا حکم کرتا ہوں اور چار سے منع کرتا ہوں میں تمہیں اللہ پر ایمان لانے کا حکم دیتا ہوں ۔ جانتے بھی ہو کہ اللہ پر ایمان لانا کیا ہے ؟ گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں اور نماز کو پابندی سے ادا کرنا زکوٰۃ دینا اور غنیمت میں سے خمس ادا کرنا ۔} ۱؎ (صحیح بخاری:53) پس خمس کا دینا بھی ایمان میں داخل ہے ۔ امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب صحیح بخاری شریف میں باب باندھا ہے کہ خمس کا ادا کرنا ایمان میں ہے پھر اس حدیث کو وارد فرمایا ہے اور ہم نے شرح صحیح بخاری میں اس کا پورا مطلب واضح بھی کر دیا ہے «وَلِلہِ الْحَمْد وَالْمِنَّۃ»۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنا ایک احسان و انعام بیان فرماتا ہے کہ ’ اس نے حق و باطل میں فرق کر دیا ۔ اپنے دین کو غالب کیا اپنے نبی کی اور آپ کے لشکریوں کی مدد فرمائی اور جنگ بدر میں انہیں غلبہ دیا ۔ کلمہ ایمان کلمہ کفر پر چھا گیا۔ ‘ پس یوم الفرقان سے مراد بدر کا دن ہے جس میں حق و باطل کی تمیز ہوگئی ۔ بہت سے بزرگوں سے یہی تفسیر مروی ہے ۔ یہی سب سے پہلا غزوہ تھا ۔ مشرک لوگ عتبہ بن ربیعہ کی ماتحتی میں تھے جمعہ کے دن انیس یا سترہ رمضان کو یہ لڑائی ہوئی تھی اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم تین سو دس سے کچھ اوپر تھے اور مشرکوں کی تعداد نو سو سے ایک ہزار تھی ۔ باوجود اس کے اللہ تبارک و تعالیٰ نے کافروں کو شکست دی ستر سے زائد تو کافر مارے گئے اور اتنے ہی قید کر لیے گئے ۔ مستدرک حاکم میں ہے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لیلتہ القدر کو گیارہویں رات میں ہی یقین کے ساتھ تلاش کرو اس لیے کہ اس کی صبح کو بدر کی لڑائی کا دن تھا ۔ سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لیلتہ الفرقان جس دن دونوں جماعتوں میں گھمسان کی لڑائی ہوئی رمضان شریف کی سترہویں تھی یہ رات بھی جمعہ کی رات تھی ۔ غزوے اور سیرت کے مرتب کرنے والے کے نزدیک یہی صحیح ہے ۔ ہاں یزید بن ابوجعد رحمہ اللہ جو اپنے زمانے کے مصری علاقے کے امام تھے فرماتے ہیں کہ بدر کا دن پیر کا دن تھا لیکن کسی اور نے ان کی متابعت نہیں کی اور جمہور کا قول یقیناً ان کے قول پر مقدم ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ الانفال
42 اللہ تعالی نے غزوہ بدر کے ذریعے ایمان کو کفر سے ممتاز کر دیا فرماتا ہے کہ ’ اس دن تم وادی الدینا میں تھے جو مدینے شریف سے قریب ہے اور مشرک لوگ مکے کی جانب مدینے کی دور کی وادی میں تھے اور ابوسفیان اور اس کا قافلہ تجارتی اسباب سمیت نیچے کی جانب دریا کی طرف تھا اگر تم کفار قریش سے جنگ کا ارادہ پہلے سے کرتے تو یقیناً تم میں اختلاف پڑتا کہ لڑائی کہاں ہو ؟‘ یہ بھی مطلب کہا گیا ہے کہ ’ اگر تم لوگ آپس میں طے کر کے جنگ کے لیے تیار ہوتے اور پھر تمہیں ان کی کثرت تعداد اور کثرت اسباب معلوم ہوتی تو بہت ممکن تھا کہ ارادے پست ہو جاتے ۔ ‘ اس لیے قدرت نے پہلے سے طے کئے بغیر دونوں جماعتوں کو اچانک ملا دیا کہ اللہ کا یہ ارادہ پورا ہو جائے کہ اسلام اور مسلمانوں کو بلندی حاصل ہو اور شرک اور مشرکوں کو پستی ملے پس جو کرنا تھا اللہ پاک کر گذرا ۔ چنانچہ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمان تو صرف قافلے کے ارادے سے ہی نکلے تھے اللہ نے دشمن سے مڈبھیڑ کرا دی بغیر کسی تقرر کے اور بغیر کسی جنگی تیاری کے ۔ ابوسفیان ملک شام سے قافلہ لے کر چلا ابوجہل اسے مسلمانوں سے بچانے کیلئے مکے سے نکلا ۔ قافلہ دوسرے راستے سے نکل گیا اور مسلمانوں اور کافروں کی جنگ ہو گئی اس سے پہلے دونوں ایک دوسرے سے بے خبر تھے ایک دوسرے کو خصوصاً پانی لانے والوں کو دیکھ کر انہیں ان کا اور انہیں ان کا علم ہوا ۔ سیرت محمد بن اسحاق میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم برابر اپنے ارادے سے جا رہے تھے صفراء کے قریب پہنچ کر سیس بن عمرو اور عدی بن ابو الزعباء جہنی کو ابوسفیان کا پتہ چلانے کیلئے بھیجا ان دونوں نے بدر کے میدان میں پہنچ کر بطحاء کے ایک ٹیلے پر اپنی سواریاں بٹھائیں اور پانی کے لیے نکلے ۔ راستے میں دو لڑکیوں کو آپس میں جھگڑتے ہوئے دیکھا ایک دوسری سے کہتی ہے تو میرا قرضہ کیوں ادا نہیں کرتی ؟ اس نے کہا جلدی نہ کر کل یا پرسوں یہاں قافلہ آنے والا ہے میں تجھے تیرا حق دے دوں گی ۔ مجدیٰ بن عمرو بیچ میں بول اٹھا اور کہا یہ سچ کہتی ہے اسے ان دونوں صحابیوں رضی اللہ عنہم نے سن لیا اپنے اونٹ کسے اور فوراً خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں جا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی ۔ ادھر ابوسفیان اپنے قافلے سے پہلے یہاں اکیلا پہنچا اور مجدی بن عمرو سے کہا کہ اس کنویں پر تم نے کسی کو دیکھا ؟ اس نے کہا نہیں البتہ دو سوار آئے تھے اپنے اونٹ اور ٹیلے پر بٹھائے اپنی مشک میں پانی بھر اور چل دئیے ۔ یہ سن کر یہ اس جگہ پہنچا مینگنیاں لیں اور انہیں توڑا اور کھجورں کی گھٹلیاں ان میں پا کر کہنے لگا واللہ یہ مدنی لوگ ہیں وہیں سے واپس اپنے قافلے میں پہنچا اور راستہ بدل کر سمندر کے کنارے چل دیا جب اسے اس طرف سے اطمینان ہو گیا تو اس نے اپنا قاصد قریشیوں کو بھیجا کہ اللہ نے تمہارے قافلے مال اور آدمیوں کو بچا لیا تم لوٹ جاؤ یہ سن کر ابوجہل نے کہا نہیں جب یہاں تک ہم آ چکے ہیں تو ہم بدر تک ضرور جائیں گے یہاں ایک بازار لگا کرتا تھا ۔ وہاں ہم تین روز ٹھہریں گے وہاں اونٹ ذبح کریں گے ۔ شرابیں پئیں گے کباب بنائیں گے تاکہ عرب میں ہماری دھوم مچ جائے اور ہر ایک کو ہماری بہادری اور بے جگری معلوم ہو اور وہ ہمیشہ ہم سے خوف زدہ رہیں ۔ لیکن اخنس بن شریق نے کہا کہ بنو زہرہ کے لوگو اللہ تعالیٰ نے تمہارے مال محفوظ کر دیئے تم کو چاہیئے کہ اب واپس چلے جاؤ ۔ اس کے قبیلے نے اس کی مان لی یہ لوگ اور بنو عدی لوٹ گئے۔۱؎ (دلائل النبوۃ للبیھقی:31/3:) بدر کے قریب پہنچ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی بن ابی طالب ، سعد بن وقاص اور زبیر بن عوام رضی اللہ عنہم کو خبر لانے کے لیے بھیجا چند اور صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی ان کے ساتھ کر دیا انہیں بنوسعید بن عاص کا اور بنو حجاج کا غلام کنویں پر مل گیا دونوں کو گرفتار کر لیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں تھے صحابہ رضی اللہ عنہم نے ان سے سوال کرنا شروع کیا کہ تم کون ہو ؟ انہوں نے کہا قریش کے سقے ہیں انہوں نے ہمیں پانی لانے کیلئے بھیجا تھا ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کا خیال تھا کہ یہ ابوسفیان کے آدمی ہیں اس لیے انہوں نے ان پر سختی شروع کی آخر گھبرا کر انہوں نے کہدیا کہ ہم ابوسفیان کے قافلے کے ہیں تب انہیں چھوڑا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رکعت پڑھ کر سلام پھیر دیا اور فرمایا کہ { جب تک یہ سچ بولتے رہے تم انہیں مارتے پیٹتے رہے اور جب انہوں نے جھوٹ کہا تم نے چھوڑ دیا واللہ یہ سچے ہیں یہ قریش کے غلام ہیں۔ ہاں جی بتاؤ قریش کا لشکر کہاں ہے ؟} انہوں نے کہا وادی قصویٰ کے اس طرف ٹیلے کے پیچھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { وہ تعداد میں کتنے ہیں ؟} انہوں نے کہا بہت ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { آخر کتنے ایک ؟ } انہوں نے کہا تعداد تو ہمیں معلوم نہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { اچھا یہ بتا سکتے ہو ہر روز کتنے اونٹ کٹتے ہیں ؟ } انہوں نے کہا ایک دن نو ایک دن دس ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { پھر وہ نو سو سے ایک ہزار تک ہیں ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ ان میں سرداران قریش میں سے کون کون ہیں ؟ } انہوں نے جواب دیا کہ عتبہ بن ربیعہ ، شیبہ بن ربیعہ ، ابوالبختری بن ہشام ، حکیم بن حزام ، نوفل ، طعیمہ بن عدی ، نضر بن حارث ، زمعہ بن اسود ، ابوجہل ، امیہ بن خلف ، منبہ بن حجاج ، سہیل بن عمرو ، عمرو بن عبدود ۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا: { لو مکے نے اپنے جگر کے ٹکڑے تمہاری طرف ڈال دیئے ہیں ۔} ۱؎ (صحیح مسلم:1779) بدر کے دن جب دونوں جماعتوں کا مقابلہ شروع ہونے لگا تو سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اجازت دیں تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک جھونپڑی بنا دیں آپ وہاں رہیں ہم اپنے جانوروں کو یہیں بٹھا کر میدان میں جا کودیں اگر فتح ہوئی تو «الْحَمْدُ لِلّٰہ» یہی مطلوب ہے ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے جانوروں پر سوار ہو کر انہیں اپنے ساتھ لے کر ہماری قوم کے ان حضرات کے پاس چلے جائیں جو مدینہ شریف میں ہیں وہ ہم سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتے ہیں ۔ انہیں معلوم نہ تھا کہ کوئی جنگ ہونے والی ہے ورنہ وہ ہرگز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نہ چھوڑتے آپ کی مدد کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم رکاب نکل کھڑے ہوتے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس مشورے کی قدر کی انہیں دعا دی اور اس ڈیرے میں آپ ٹھہر گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے اور کوئی نہ تھا ۔۱؎ (دلائل النبوۃ للبیھقی:44/3:) صبح ہوتے ہی قریشیوں کے لشکر ٹیلے کے پیچھے سے آتے ہوئے نمودار ہوئے انہیں دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جناب باری میں دعا کی کہ { باری تعالیٰ یہ فخر و غرور کے ساتھ تجھ سے لڑنے اور تیرے رسول کو جھٹلانے کیلئے آ رہے ہیں ، باری تعالیٰ تو انہیں پست و ذلیل کر۔} اس آیت کے آخری جملے کی تفسیر سیرۃ ابن اسحاق میں ہے کہ یہ اس لیے کہ کفر کرنے والے دلیل ربانی دیکھ لیں گو کفر ہی پر رہیں اور ایمان والے بھی دلیل کے ساتھ ایمان لائیں ۔ یعنی آمادگی اور بغیر شرط و قرار داد کے اللہ تعالیٰ نے مومنوں اور مشرکوں کا یہاں اچانک آمنا سامنا کرا دیا کہ حقانیت کو باطل پر غلبہ دے کر حق کو مکمل طور پر ظاہر کر دے اس طرح کہ کسی کو شک شبہ باقی نہ رہے ۔ اب جو کفر پر رہے وہ بھی کفر کو کفر سمجھ کے رہے اور جو ایمان والا ہو جائے وہ دلیل دیکھ کر ایماندار بنے ایمان ہی دلوں کی زندگی ہے اور کفر ہی اصلی ہلاکت ہے ۔ جیسے فرمان قرآن ہے«أَوَمَن کَانَ مَیْتًا فَأَحْیَیْنَاہُ وَجَعَلْنَا لَہُ نُورًا یَمْشِی بِہِ فِی النَّاسِ » ۱؎ ( 6-الأنعام : 122 ) یعنی ’ وہ جو مردہ تھا پھر ہم نے اسے جلا دیا اور اس کے لیے نور بنا دیا کہ اس کی روشنی میں وہ لوگوں میں چل پھر رہا ہے ۔‘ تہمت کے قصہ میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے الفاظ ہیں کہ ” پھر جسے ہلاک ہونا تھا وہ ہلاک ہو گیا یعنی بہتان میں حصہ لیا۔“ ۱؎ (صحیح بخاری:2966) ’ اللہ تعالیٰ تمہارے تضرع و زاری اور تمہاری دعا و استغفار اور فریاد و مناجات کا سننے والا ہے وہ خوب جانتا ہے کہ تم اہل حق ہو تم مستحق امداد ہو تم اس قابل ہو کر تمہیں کافروں اور مشرکوں پر غلبہ دیا جائے ۔‘ الانفال
43 لڑائی میں مومن کم اور کفار زیادہ دکھائی دئیے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں مشرکوں کی تعداد بہت کم دکھائی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم سے ذکر کیا ، یہ چیز ان کی ثابت قدمی کا باعث بن گئی ۔ بعض بزرگ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے ان کی تعداد کم دکھائی ۔ جن آنکھوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوتے تھے ۔ لیکن یہ قول غریب ہے جب قرآن میں «مَنَامِ» کے لفظ ہیں تو اس کی تاویل بلا دلیل کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے ؟ ممکن تھا کہ ان کی تعداد کی زیادتی میں رعب بٹھا دے اور آپس میں اختلاف شروع ہو جائے کہ آیا ان سے لڑیں یا نہ لڑیں ؟ اللہ تعالیٰ نے اس بات سے ہی بچا لیا اور ان کی تعداد کم کر کے دکھائی ۔ اللہ پاک دلوں کے بھید سے سینے کے راز سے واقف ہے آنکھوں کی خیانت اور دل کے بھید جانتا ہے ۔ خواب میں تعداد میں کم دکھا کر پھر یہ بھی مہربانی فرمائی کہ بوقت جنگ بھی مسلمانوں کی نگاہوں اور ان کی جانچ میں وہ بہت ہی کم آئے تاکہ مسلمان دلیر ہو جائیں اور انہیں کوئی چیز نہ سمجھیں ۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں میں نے اندازہ کر کے اپنے ساتھی سے کہا کہ یہ لوگ تو کوئی ستر کے قریب ہوں گے اس نے پورا اندازہ کر کے کہا نہیں کوئی ایک ہزار کا یہ لشکر ہے ۔ پھر اسی طرح کافروں کی نظروں میں بھی اللہ حکیم نے مسلمانوں کی تعداد کم دکھائی اب تو وہ ان پر اور یہ ان پر ٹوٹ پڑے ۔ تاکہ رب کا کام جس کا کرنا وہ اپنے علم میں مقرر کر چکا تھا پورا ہو جائے کافروں پر اپنی پکڑ اور مومنوں پر اپنی رحمت نازل فرما دے ۔ جب تک لڑائی شروع نہیں ہوئی تھی یہی کیفیت دونوں جانب رہی لڑائی شروع ہوتے ہی اللہ تعالیٰ نے ایک ہزار فرشتوں سے اپنے بندوں کی مدد فرمائی مسلمانوں کا لشکر بڑھ گیا اور کافروں کا زور ٹوٹ گیا ۔ چنانچہ اب تو کافروں کو مسلمان اپنے سے دگنے نظر آنے لگے اور اللہ نے موحدوں کی مدد کی اور آنکھوں والوں کیلئے عبرت کا خزانہ کھول دیا ۔ جیسے کہ« قَدْ کَانَ لَکُمْ آیَۃٌ فِی فِئَتَیْنِ الْتَقَتَا ۖ فِئَۃٌ تُقَاتِلُ فِی سَبِیلِ اللہِ وَأُخْرَیٰ کَافِرَۃٌ یَرَوْنَہُم مِّثْلَیْہِمْ رَأْیَ الْعَیْنِ ۚ وَ اللہُ یُؤَیِّدُ بِنَصْرِہِ مَن یَشَاءُ ۗ إِنَّ فِی ذٰلِکَ لَعِبْرَۃً لِّأُولِی الْأَبْصَارِ» ۱؎ ( 3-آل عمران : 13 ) ، میں بیان ہوا ہے ۔ پس دونوں آیتیں ایک سی ہیں مسلمان تب تک کم نظر آتے رہے جب تک لڑائی شروع نہیں ہوئی ۔ شروع ہوتے ہیں مسلمان دگنے دکھائی دینے لگے ۔ الانفال
44 الانفال
45 جہاد کے وقت کثرت سے اللہ کا ذکر اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو لڑائی کی کامیابی کی تدبیر اور دشمن کے مقابلے کے وقت شجاعت کا سبق سکھا رہا ہے ایک غزوے میں رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج ڈھلنے کے بعد کھڑے ہو کر فرمایا: { لوگو دشمن سے مقابلے کی تمنا نہ کرو اللہ تعالیٰ سے عافیت مانگتے رہو لیکن جب دشمنوں سے مقابلہ ہو جائے تو استقلال رکھو اور یقین مانو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اے سچی کتاب کے نازل فرمانے والے اے بادلوں کے چلانے والے اور لشکروں کو ہزیمت دینے والے اللہ ان کافروں کو شکست دے اور ان پر ہماری مدد فرما۔ }۱؎ (صحیح بخاری:2818) عبدالرزاق کی روایت میں ہے کہ { دشمن کے مقابلے کی تمنا نہ کرو اور مقابلے کے وقت ثابت قدمی اور اولوالعزمی دکھاؤ گو وہ چیخیں چلائیں لیکن تم خاموش رہا کرو ۔} ۱؎ (عبد الرزاق:9518:ضعیف) طبرانی میں ہے تین وقت ایسے ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کو خاموشی پسند ہے ( ١ ) تلاوت قرآن کے وقت ( ٢ ) جہاد کے وقت اور ( ٣ ) جنازے کے وقت ۔۱؎ (طبرانی کبیر:5130:ضعیف) ایک اور حدیث میں ہے { کامل بندہ وہ ہے جو دشمن کے مقابلے کے وقت میرا ذکر کرتا رہے یعنی اس حال میں بھی میرے ذکر کو مجھ سے دعا کرنے اور فریاد کرنے کو ترک نہ کرے ۔} ۱؎ (سنن ترمذی:3580،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں لڑائی کے دوران یعنی جب تلوار چلتی ہو تب بھی اللہ تعالیٰ نے اپنا ذکر فرض رکھا ہے ۔ عطا رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ چپ رہنا اور ذکر اللہ کرنا لڑائی کے وقت بھی واجب ہے پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی ۔ تو جریج نے آپ سے دریافت کیا کہ اللہ تعالیٰ کی یاد بلند آواز سے کریں ؟ آپ نے فرمایا ہاں کعب احبار فرماتے ہیں قرآن کریم کی تلاوت اور ذکر اللہ سے زیادہ محبوب اللہ کے نزدیک اور کوئی چیز نہیں ۔ اس میں بھی اولیٰ وہ ہے جس کا حکم لوگوں کو نماز میں کیا گیا ہے اور جہاد میں کیا تم نہیں دیکھتے ؟ کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے بوقت جہاد بھی اپنے ذکر کا حکم فرمایا ہے پھر آپ رحمہ اللہ نے یہی آیت پڑھی ۔ شاعر کہتا ہے کہ عین جنگ و جدال کے وقت بھی میرے دل میں تیری یاد ہوتی ہے ۔ عنترہ کہتا ہے نیزوں اور تلواروں کے شپاشپ چلتے ہوئے بھی میں تجھے یاد کرتا رہتا ہوں ۔ پس آیت میں جناب باری نے دشمنوں کے مقابلے کے وقت میدان جنگ میں ثابت قدم رہنے اور صبر و استقامت کا حکم دیا کہ ’ نامرد ، بزدل اور ڈرپوک نہ بنو اللہ کو یاد کرو اسے نہ بھولو ۔ اس سے فریاد کرو اس سے دعائیں کرو اسی پر بھروسہ رکھو اس سے مدد طلب کرو ۔ یہی کامیابی کے گر ہیں ۔ اس وقت بھی اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو ہاتھ سے نہ جانے دو وہ جو فرمائیں بجا لاؤ جن سے روکیں رک جاؤ آپس میں جھگڑے اور اختلاف نہ پھیلاؤ ورنہ ذلیل ہو جاؤ گے بزدلی جم جائے گی ہوا اکھڑ جائے گی ۔ قوت اور تیزی جاتی رہے گی اقبال اور ترقی رک جائے گی ۔ دیکھو صبر کا دامن نہ چھوڑو اور یقین رکھو کہ صابروں کے ساتھ خود اللہ ہوتا ہے۔‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان احکام میں ایسے پورے اترے کہ ان کی مثال اگلوں میں بھی نہیں پیچھے والوں کا تو ذکر ہی کیا ہے ؟ یہی شجاعت یہی اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہی صبر و استقلال تھا جس کے باعث مدد ربانی شامل حال رہی اور بہت ہی کم مدت میں باوجود تعداد اور اسباب کی کمی کے مشرق و مغرب کو فتح کر لیا نہ صرف لوگوں کے ملکوں کے ہی مالک بنے بلکہ ان کے دلوں کو بھی فتح کر کے اللہ کی طرف لگا دیا ۔ رومیوں اور فارسیوں کو ترکوں اور صقلیہ کو بربریوں اور حبشیوں کو سوڈانیوں اور قبطیوں کو غرض دنیا کے گوروں کالوں کو مغلوب کر لیا اللہ کے کلمہ کو بلند کیا دین حق کو پھیلایا اور اسلامی حکومت کو دنیا کے کونے کونے میں جما دیا اللہ ان سے خوش رہے اور انہیں بھی خوش رکھے ۔ خیال تو کرو کہ تیس سال میں دنیا کا نقشہ بدل دیا تاریخ کا ورق پلٹ دیا ۔ اللہ تعالیٰ ہمارا بھی انہی کی جماعت میں حشر کرے وہ کریم و وھاب ہے ۔ الانفال
46 الانفال
47 میدان بدر میں ابلیس مشرکین کا ہمراہی تھا جہاد میں ثابت قدمی نیک نیتی ذکر اللہ کی کثرت کی نصیحت فرما کر مشرکین کی مشابہت سے روک رہا ہے کہ ’ جیسے وہ حق کو مٹانے اور لوگوں میں اپنی بہادری دھانے کے لیے فخر و غرور کے ساتھ اپنے شہروں سے چلے تم ایسا نہ کرنا ۔ ‘ چنانچہ ابوجہل سے جب کہا گیا کہ قافلہ تو بچ گیا اب لوٹ کر واپس چلنا چاہیئے تو اس ملعون نے جواب دیا کہ واہ کس کا لوٹنا بدر کے پانی پر جا کر پڑاؤ کریں گے ۔ وہاں شرابیں اڑائیں گے کباب کھائیں گے گانا سنیں گے تاکہ لوگوں میں شہرت ہو جائے ۔ اللہ کی شان کے قربان جائیے ان کے ارمان قدرت نے پلٹ دیئے یہیں ان کی لاشیں گریں اور یہیں کے گڑھوں میں ذلت کے ساتھ ٹھونس دیئے گئے ۔ اللہ ان کے اعمال کا احاطہٰ کرنے والا ہے ان کے ارادے اس پر کھلے ہیں اسی لیے انہیں برے وقت سے پالا پڑا ۔ پس یہ مشرکین کا ذکر ہے جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم رسولوں کے سرتاج سے بدر میں لڑنے چلے تھے ان کے ساتھ گانے والیاں بھی تھیں باجے گاجے بھی تھے ۔ شیطان لعین ان کا پشت پناہ بنا ہوا تھا انہیں پھسلا رہا تھا ۔ ان کے کام کو خوبصورت بھلا دکھا رہا تھا ان کے کانوں میں پھونک رہا تھا کہ بھلا تمہیں کون ہرا سکتا ہے ؟ ان کے دل سے بنوبکر کا مکہ پر چڑھائی کرنے کا خوف نکال رہا تھا اور سراقہ بن مالک بن جعشم کی صورت میں ان کے سامنے کھڑا ہو کر کہہ رہا تھا کہ میں تو اس علاقے کا سردار ہوں بنو مدلج سب میرے تابع ہیں میں تمہارا حمایتی ہوں بیفکر رہو ۔ «یَعِدُہُمْ وَیُمَنِّیہِمْ ۖ وَمَا یَعِدُہُمُ الشَّیْطَانُ إِلَّا غُرُورًا » ۱؎ (4-النساء : 120 ) ’ شیطان کا کام بھی یہی ہے کہ جھوٹے وعدے ، نہ پورا ہونے والی امیدوں کے سبز باغ دکھائے اور دھوکے کے جال میں پھنسائے ۔‘ بدر والے دن یہ اپنے جھنڈے اور لشکر کو ساتھ لے کر مشرکوں کی حمایت میں نکلا ان کے دلوں میں ڈالتا رہا کہ بس تم بازی لے گئے میں تمہارا مددگار ہوں ۔ لیکن جب مسلمانوں سے مقابلہ شروع ہوا اور اس خبیث کی نظریں فرشتوں پر پڑیں تو پچھلے پیروں بھاگا اور کہنے لگا میں وہ دیکھتا ہوں جس سے تمہاری آنکھیں اندھی ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہا کہتے ہیں بدر والے دن ابلیس اپنا جھنڈا بلند کئے مدلجی شخص کی صورت میں اپنے لشکر سمیت پہنچا اور شیطان سراقہ بن مالک بن جعشم کی صورت میں نمودار ہوا اور مشرکین کے دل بڑھائے ہمت دلائی جب میدان جنگ میں صف بندی ہو گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹی کی مٹھی بھر کر مشرکوں کے منہ پر ماری اس سے ان کے قدم اکھڑ گئے اور ان میں بھگدڑ مچ گئی ۔ جبرائیل علیہ السلام شیطان کی طرف چلے اس وقت یہ ایک مشرک کے ہاتھ میں ہاتھ دیئے ہوئے تھا آپ کو دیکھتے ہی اس کے ہاتھ سے ہاتھ چھڑا کر اپنے لشکروں سمیت بھاگ کھڑا ہوا اس شخص نے کہا سراقہ تم تو کہہ رہے تھے کہ تم ہمارے حمایتی ہو پھر یہ کیا کر رہے ہو ؟ یہ ملعون چونکہ فرشتوں کو دیکھ رہا تھا کہنے لگا میں وہ دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے میں تو اللہ سے ڈرنے والا آدمی ہوں اللہ کے عذاب بڑے بھاری ہیں۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:16198:منقطع) اور روایت میں ہے کہ اسے پیٹھ پھیرتا دیکھ کر حارث بن ہشام نے پکڑ لیا ۔ اس نے اس کے منہ پر تھپڑ مارا جس سے یہ بیہوش ہو کر گر پڑا دوسرے لوگوں نے کہا سراقہ تو اس حال میں ہمیں ذلیل کرتا ہے ؟ اور ایسے وقت ہمیں دھوکہ دیتا ہے وہ کہنے لگا ہاں ہاں میں تم سے بری الذمہ اور بے تعلق ہوں میں انہیں دیکھ رہا ہوں جنہیں تم نہیں دیکھ رہے ۔۱؎ (سلسلۃ احادیث ضعیفہ البانی:0000،) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر تھوڑی سی دیر کے لیے ایک طرح کی بیخودی سی طاری ہو گئی پھر ہوشیار ہو کر فرمانے لگے { صحابیو خوش ہو جاؤ یہ ہیں تمہاری دائیں جانب جبرائیل علیہ السلام اور یہ ہیں تمہاری بائیں طرف میکائیل علیہ السلام اور یہ ہیں اسرافیل علیہ السلام تینوں مع اپنی اپنی فوجوں کے آ موجود ہوئے ہیں ۔ } ابلیس سراقہ بن مالک بن جعشم مدلجی کی صورت میں مشرکوں میں تھا ان کے دل بڑھا رہا تھا اور ان میں پشین گوئیاں کر رہا تھا کہ بے فکر رہو آج تمہیں کوئی ہرا نہیں سکتا ۔ لیکن فرشتوں کے لشکر کو دیکھتے ہی اس نے تو منہ موڑا اور یہ کہتا ہوا بھاگا کہ میں تم سے بری ہوں میں انہیں دیکھ رہا ہوں جو تمہاری نگاہ میں نہیں آتے ۔ حارث بن ہشام چونکہ اسے سراقہ ہی سمجھے ہوئے تھا اس لیے اس نے اس کا ہاتھ تھام لیا اس نے اس کے سینے میں اس زور سے گھونسہ مارا کہ یہ منہ کے بل گر پڑا اور شیطان بھاگ گیا سمندر میں کود پڑا اور اپنا کپڑا اونچا کر کے کہنے لگایا اللہ میں تجھے تیرا وہ وعدہ یاد دلاتا ہوں جو تو نے مجھ سے کیا ہے ۔ طبرانی میں رفاعہ بن رافع سے بھی اسی کے قریب قریب مروی ہے ۔۱؎ (سلسلۃ احادیث ضعیفہ البانی:0000،) سیدنا عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جب قریشیوں نے مکے سے نکلنے کا ارادہ کیا تو انہیں بنی بکر کی جنگ یاد آ گئی اور خیال کیا کہ ایسا نہ ہو ہماری عدم موجودگی میں یہاں چڑھائی کر دیں قریب تھا کہ وہ اپنے ارادے سے دست بردار ہو جائیں اسی وقت ابلیس لعین سراقہ کی صورت میں ان کے پاس آیا جو بنو کنانہ کے سرداروں میں سے تھا کہنے لگا اپنی قوم کا میں ذمہ دار ہوں تم ان کا بے خطر ساتھ دو اور مسلمانوں کے مقابلے کے لیے مکمل تیار ہو کر جاؤ ۔ خود بھی ان کے ساتھ چلا ہر منزل میں یہ اسے دیکھتے تھے سب کو یقین تھا کہ سراقہ خود ہمارے ساتھ ہے یہاں تک کہ لڑائی شروع ہو گئی اس وقت یہ مردود دم دبا کر بھاگا ۔ حارث بن ہشام یا عمیر بن وہب نے اسے جاتے دیکھ لیا اس نے شور مچا دیا کہ سراقہ کہاں بھاگا جا رہا ہے ؟ شیطان انہیں موت اور دوزخ کے منہ میں دھکیل کر خود فرار ہو گیا ۔ کیونکہ اس نے اللہ کے لشکروں کو مسلمانوں کی امداد کے لیے آتے ہوئے دیکھ لیا تھا صاف کہدیا کہ میں تم سے بری ہوں میں وہ دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے اس بات میں وہ سچا بھی تھا ۔ پھر کہتا ہے میں اللہ کے خوف سے ڈرتا ہوں ۔ اللہ کے عذاب سخت اور بھاری ہیں ۔ اس نے جبرائیل علیہ السلام کو فرشتوں کے ساتھ اترتے دیکھ لیا تھا سمجھ گیا تھا کہ ان کے مقابلے کی مجھ میں یا مشرکوں میں طاقت نہیں وہ اپنے اس قول میں تو جھوٹا تھا کہ میں خوف الٰہی کرتا ہوں یہ تو صرف اس کی زبانی بات تھی دراصل وہ اپنے میں طاقت ہی نہیں پاتا تھا ۔ یہی اس دشمن رب کی عادت ہے کہ بھڑکاتا اور بہکاتا ہے حق کے مقابلے میں لاکھڑا کر دیتا ہے پھر روپوش ہو جاتا ہے ۔ قران فرماتا ہے«کَمَثَلِ الشَّیْطَانِ إِذْ قَالَ لِلْإِنسَانِ اکْفُرْ فَلَمَّا کَفَرَ قَالَ إِنِّی بَرِیءٌ مِّنکَ إِنِّی أَخَافُ اللہَ رَبَّ الْعَالَمِینَ» ۱؎ ( 59-الحشر : 16 ) ’ شیطان انسان کو کفر کا حکم دیتا ہے پھر جب وہ کفر کر چکتا ہے تو یہ کہنے لگتا ہے کہ میں تجھ سے بیزار ہوں میں اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں۔ ‘ اور آیت میں ہے کہ«وَقَالَ الشَّیْطَانُ لَمَّا قُضِیَ الْأَمْرُ إِنَّ اللہَ وَعَدَکُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدتٰکُمْ فَأَخْلَفْتُکُمْ ۖ وَمَا کَانَ لِیَ عَلَیْکُم مِّن سُلْطَانٍ إِلَّا أَن دَعَوْتُکُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِی ۖ فَلَا تَلُومُونِی وَلُومُوا أَنفُسَکُم ۖ مَّا أَنَا بِمُصْرِخِکُمْ وَمَا أَنتُم بِمُصْرِخِیَّ ۖ إِنِّی کَفَرْتُ بِمَا أَشْرَکْتُمُونِ مِن قَبْلُ ۗ إِنَّ الظَّالِمِینَ لَہُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ » ۱؎ ( 14-إبراہیم : 22 ) ’ جب حق واضح جاتا ہے تو یہ کہتا ہے اللہ کے وعدے سچے ہیں میں خود جھوٹا میرے وعدے بھی سراسر جھوٹے میرا تم پر کوئی زور دعویٰ تو تھا ہی نہیں تم نے تو آپ میری آرزو پر گردن جھکا دی اب مھے سرزنش نہ کرو خود اپنے تئیں ملامت کرو نہ میں تمہیں بچا سکوں گا نہ تم میرے کام آسکو گے ۔ اس سے پہلے جو تم مجھے شریک رب بنا رہے تھے میں تو آج اس کا بھی انکاری ہوں ۔ یقین مانو کہ ظالموں کے لیے دوزخ کا عذاب ہے۔‘ سیدنا ابواسید مالک بن ربیعہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اگر میری آنکھیں آج بھی ہوتیں تو میں تمہیں بدر کے میدان میں وہ گھاٹی دکھا دیتا جہاں سے فرشتے آتے تھے بیشک و شبہ مجھے وہ معلوم ہے۔ ۱؎ (دلائل النبوۃ للبیھقی:52/3:ضعیف) انہیں ابلیس نے دیکھ لیا اور اللہ نے انہیں حکم دیا کہ مومنوں کو ثابت قدم رکھو یہ لوگوں کے پاس ان کے جان پہچان کے آدمیوں کی شکل میں آتے اور کہتے خوش ہو جاؤ یہ کافر بھی کوئی چیز ہیں اللہ کی مدد تمہارے ساتھ ہے بے خوفی کے ساتھ شیر کا سا حملہ کر دو ۔ ابلیس یہ دیکھ کر بھاگ کھڑا ہوا اب تک وہ سراقہ کی شکل میں کفار میں موجود تھا ۔ ابوجہل نے یہ حال دیکھ کر اپنے لشکروں میں گشت شروع کیا کہہ رہا تھا کہ گھبراؤ نہیں اس کے بھاگ کھڑے ہونے سے دل تنگ نہ ہو جاؤ ، وہ تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے سیکھا پڑھا آیا تھا کہ تمیں عین موقعہ پر بزدل کر دے کوئی گھبرانے کی بات نہیں لات و عزیٰ کی قسم ! آج ان مسلمانوں کو ان کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سمیت گرفتار کر لیں گے نامردی نہ کرو دل بڑھاؤ اور سخت حملہ کرو ۔ دیکھو خبردار انہیں قتل نہ کرنا زندہ پکڑنا تاکہ انہیں دل کھول کر سزا دیں ۔ یہ بھی اپنے زمانے کا فرعون ہی تھا اس نے بھی جادوگروں کے ایمان لانے کو کہا تھا کہ«إِنَّ ہٰذَا لَمَکْرٌ مَّکَرْتُمُوہُ فِی الْمَدِینَۃِ لِتُخْرِجُوا مِنْہَا أَہْلَہَا» ۱؎ ( 7-الاعراف : 123 ) ’ یہ تو صرف تمہارا ایک مکر ہے کہ یہاں سے تم ہمیں نکال دو ۔‘ اس نے بھی کہا تھا کہ«إِنَّہُ لَکَبِیرُکُمُ الَّذِی عَلَّمَکُمُ السِّحْرَ» ۱؎ ( 20-طہٰ : 71 ) ’ جادوگرو یہ موسیٰ تمہارا استاد ہے حالانکہ یہ محض اس کا فریب تھا ۔‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { عرفے کے دن جس قدر ابلیس حقیر و ذلیل رسوا اور درماندہ ہوتا ہے اتنا کسی اور دن نہیں دیکھا گیا ۔ کیونکہ وہ دیکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عام معافی اور عام رحمت اتری ہے ہر ایک کے گناہ عموماً معاف ہو جاتے ہیں ہاں بدر کے دن اس کی ذلت و رسوائی کا کچھ مت پوچھو جب اس نے دیکھا کہ فرشتوں کی فوجیں جبرائیل کی ماتحتی میں آ رہی ہیں ۔} ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:16204:ضعیف) جب دونوں فوجیں صف بندی کر کے آمنے سامنے آ گئیں تو اللہ کی قدرت و حکمت سے مسلمان کافروں کو بہت کم نظر آنے لگے اور کافر مسلمانوں کی نگاہ میں کم جچنے لگے ۔ اس پر کافروں نے قہقہہ لگایا کہ دیکھو مسلمان کیسے مذہبی دیوانے ہیں ؟ مٹھی بھر آدمی ہم ایک ہزار کے لشکر سے ٹکرا رہے ہیں ابھی کوئی دم میں ان کا چورا ہو جائے گا پہلے ہی حملے میں وہ چوٹ کھائیں گے کہ سر ہلاتے رہ جائیں ۔ رب العالمین فرماتا ہے ’ انہیں نہیں معلوم کہ یہ متوکلین کا گروہ ہے ان کا بھروسہ اس پر ہے جو غلبہ کا مالک ہے ، حکمت کا مالک ہے اللہ کے دین کی سختی مسلمانوں میں محسوس کر کے ان کی زبان سے یہ کلمہ نکلا کہ انہیں ذہبی دیوانگی ہے ۔‘ دشمن الٰہی ابوجہل ملعون ٹیلے کے اوپر سے جھانک کر اللہ والوں کی کمی اور بےسروسامانی دیکھ کر گدھے کی طرح پھول گیا اور کہنے لگا لو پالا مار لیا ہے ، بس آج سے اللہ کی عبادت کرنے والوں سے زمین خالی نظر آئے گی ، ابھی ہم ان میں سے ایک ایک کے دو دو کر کے رکھ دیں گے ۔ ابن جریج کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے دین میں طعنہ دینے والے مکہ کے منافق تھے ۔ عامر کہتے ہیں یہ چند لوگ تھے جو زبانی مسلمان ہوئے تھے لیکن آج بدر کے میدان میں مشرکوں کے ساتھ تھے ۔ انہیں مسلمانوں کی کمی اور کمزوری دیکھ کر تعجب معلوم ہوا اور کہا کہ یہ لوگ تو مذہبی فریب خوردہ ہیں ۔ مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں یہ قریش کی ایک جماعت تھی قیس بن ولید بن مغیرہ ، ابوقیس بن فاکہ بن مغیرہ ، حارث بن زمعہ بن اسود بن عبدالمطلب اور علی بن امیہ بن خلف اور عاص بن منبہ بن حجاج یہ قریش کے ساتھ تھے لیکن یہ متردد تھے اور اسی میں رکے ہوئے تھے یہاں مسلمانوں کی حالت دیکھ کر کہنے لگے یہ لوگ تو صرف مذہبی مجنوں ہیں ورنہ مٹھی بھر بے رسد اور بے ہتھیار آدمی اتنی ٹڈی دل شوکت و شان والی فوجوں کے سامنے کیوں کھڑے ہو جاتے ؟ حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ لوگ بدر کی لڑائی میں نہیں آئے تھے ان کا نام منافق رکھ دیا گیا ۔ کہتے ہیں کہ یہ قوم اسلام کا اقرار کرتی تھی لیکن مشرکوں کی رو میں بہہ کر یہاں چلی آئی یہاں آ کر مسلمانوں کا قلیل سا لشکر دیکھ کر انہوں نے یہ کہا۔ جناب باری جل شانہ ارشاد فرماتا ہے کہ ’ جو اس مالک الملک پر بھروسہ کرے اسے وہ ذی عزت کر دیتا ہے کیونکہ عزت اس کی لونڈی ہے ، غلبہ اس کا غلام ہے وہ بلند جناب ہے وہ بڑا ذی شان ہے وہ سچا سلطان ہے ۔ وہ حکیم ہے اس کے سب کام الحکمت سے ہوتے ہیں وہ ہرچیز کو اس کی ٹھیک جگہ رکھتا ہے ۔ مستحقین امداد کی وہ مدد فرماتا ہے اور مستحقین ذلت کو وہ ذلیل کرتا ہے وہ سب کو خوب جانتا ہے ۔‘ الانفال
48 الانفال
49 الانفال
50 کفار کے لیے سکرات موت کا وقت بڑا شدید ہے ’ کاش کہ تو اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم تو دیکھتا کے فرشتے کس بری طرح کافروں کی روح قبض کرتے ہیں وہ اس وقت ان کے چہروں اور کمروں پر مارتے ہیں اور کہتے ہیں آگ کا عذاب اپنی بداعمالیوں کے بدلے چکھو ۔ ‘ یہ بھی مطلب بیان کیا گیا ہے کہ یہ واقعہ بھی بدر کے دن کا ہے کہ سامنے سے ان کافروں کے چہروں پر تلواریں پڑتی تھیں اور جب بھاگتے تھے تو پیٹھ پر وار پڑتے تھے فرشتے انکا خوب بھرتہ بنا رہے تھے ۔ ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا ” میں نے ابوجہل کی پیٹھ پر کانٹوں کے نشان دیکھے ہیں“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { ہاں یہ فرشتوں کی مار کے نشان ہیں ۔ } ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:16220:مرسل و ضعیف) حق یہ ہے کہ یہ آیت بدر کے ساتھ مخصوص تو نہیں الفاظ عام ہیں ہر کافر کا یہی حال ہوتا ہے ۔ سورۃ قتال میں بھی اس بات کا بیان ہوا ہے اور سورۃ الانعام کی «وَلَوْ تَرَیٰ إِذِ الظَّالِمُونَ فِی غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلَائِکَۃُ بَاسِطُو أَیْدِیہِمْ أَخْرِجُوا أَنفُسَکُمُ» ۱؎ ( 6-الأنعام : 93 ) میں بھی اس کا بیان مع تفسیر گذر چکا ہے ۔ چونکہ یہ نافرمان لوگ تھے ان کی موت سے بدن میں چھپتی پھرتی ہیں جنہیں فرشتے جبراً گھسیٹا جاتا ہے جس طرح کسی زندہ شخص کی کھال کو اتارا جائے اسی کے ساتھ رگیں اور پٹھے بھی آ جاتے ہیں ۔ ۱؎ (مسند احمد:287/4:حسن) فرشتے اس سے کہتے ہیں اب جلنے کا مزہ چکھو ۔ یہ تمہاری دینوی بداعمالی کی سزا ہے اللہ تعالیٰ ظالم نہیں وہ تو عادل حاکم ہے ۔ برکت و بلندی ، غنا ، پاکیزگی والا بزرگ اور تعریفوں والا ہے ۔ چنانچہ صحیح مسلم شریف کی حدیث قدسی میں ہے کہ ’ میرے بندو میں نے اپنے اوپر ظلم حرام کر لیا ہے اور تم پر بھی حرام کر دیا ہے پس آپس میں کوئی کسی پر ظلم و ستم نہ کرے میرے غلاموں میں تو صرف تمہارے کئے ہوئے اعمال ہی کو گھیرے ہوئے ہوں بھلائی پاکر میری تعریفیں کرو اور اس کے سوا کچھ اور دیکھو تو اپنے تئیں ہی ملامت کرو ۔‘ ۱؎ (صحیح مسلم:2577) الانفال
51 الانفال
52 کفار اللہ کے ازلی دشمن ہیں ’ ان کافروں نے بھی تیرے ساتھ وہی کیا جو ان سے پہلے کافروں نے اپنے نبیوں کے ساتھ کیا تھا پس ہم نے بھی ان کے ساتھ وہی کیا جو ہم نے ان سے گذشتہ لوگوں کے ساتھ کیا تھا جو ان ہی جیسے تھے ۔‘ مثلاً فرعونی اور ان سے پہلے کے لوگ جنہوں نے اللہ کی آیتوں کو نہ مانا جس کے باعث اللہ کی پکڑ ان پر آئی ۔ تمام قوتیں اللہ ہی کی ہیں اور اس کے عذاب بھی بڑے بھاری ہیں کوئی نہیں جو اس پر غالب آ سکے کوئی نہیں جو اس سے بھاگ سکے ۔ الانفال
53 اللہ ظالم نہیں لوگ خود اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کے عدل و انصاف کا بیان ہو رہا ہے کہ وہ اپنی دی ہوئی نعمتیں گناہوں سے پہلے نہیں چھینتا ۔ جیسے ایک اور آیت میں ہے«إِنَّ اللہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّیٰ یُغَیِّرُوا مَا بِأَنفُسِہِمْ ۗ وَإِذَا أَرَادَ اللہُ بِقَوْمٍ سُوءًا فَلَا مَرَدَّ لَہُ ۚ وَمَا لَہُم مِّن دُونِہِ مِن وَالٍ» ۱؎ ( 13-الرعد : 11 ) ’ اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک کہ وہ اپنی ان باتوں کو نہ بدل دیں جو ان کے دلوں میں ہیں ۔ جب وہ کسی قوم کی باتوں کی وجہ سے انہیں برائی پہنچانا چاہتا ہے تو اس کے ارادے کوئی بدل نہیں سکتا ۔ نہ اس کے پاس کوئی حمایتی کھڑا ہو سکتا ہے ۔‘ ’ تم دیکھ لو کہ فرعونیوں اور ان جیسے ان سے گزشتہ لوگوں کے ساتھ بھی یہی ہوا ۔ انہیں اللہ نے اپنی نعمتیں دیں وہ سیاہ کاریوں میں مبتلا ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے دیئے ہوئے باغات چشمے کھیتیاں خزانے محلات اور نعمتیں جن میں وہ بد مست ہو رہے تھے سب چھین لیں ۔ اس بارے میں انہوں نے اپنا برا آپ کیا ۔ اللہ نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا تھا ۔‘ الانفال
54 الانفال
55 زمیں کی بدترین مخلوق وعدہ خلاف کفار ہیں زمین پر جتنے بھی چلتے پھرتے ہیں ان سب سے بد تر اللہ کے نزدیک بے ایمان کافر ہیں جو عہد کر کے توڑ دیتے ہیں ۔ ادھر قول و قرار کیا ادھر پھر گئے ، ادھر قسمیں کھائیں ادھر توڑ دیں ۔ نہ اللہ کا خوف نہ گناہ کا کھٹکا ۔ پس جو ان پر لڑائی میں غالب آ جائے تو ایسی سزا کے بعد آنے والوں کو بھی عبرت حاصل ہو ۔ وہ بھی خوف زدہ ہو جائیں پھر ممکن ہے کہ اپنے ایسے کرتوت سے باز رہیں ۔ الانفال
56 الانفال
57 الانفال
58 اللہ خائنوں کو پسند نہیں فرماتا ارشاد ہوتا ہے کہ ’ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اگر کسی سے تمہارا عہد و پیمان ہو اور تمہیں خوف ہو کہ یہ بدعہدی اور وعدہ خلافی کریں گے تو تمہیں اختیار دیا جاتا ہے کہ برابری کی حالت میں عہد نامہ توڑ دو اور انہیں اطلاع کر دو تاکہ وہ بھی صلح کے خیال میں نہ رہیں ۔ کچھ دن پہلے ہی سے انہیں خبر دو ۔ اللہ خیانت کو ناپسند فرماتا ہے کافروں سے بھی تم خیانت نہ کرو ۔‘ مسند احمد میں ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے لشکریوں کی روم کی سرحد کی طرف پیش قدمی شروع کی کہ مدت صلح ختم ہوتے ہی ان پر اچانک حملہ کر دیں تو ایک شیخ اپنی سواری پر سوار یہ کہتے ہوئے آئے کہ وعدہ وفائی کرو ، عذر درست نہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ { جب کسی قوم سے عہد و پیمان ہو جائیں تو نہ کوئی گرہ کھولو نہ باندھو جب تک کہ مدت صلح ختم نہ جوئے یا انہیں اطلاع دے کر عہد نامہ چاک نہ ہو جائے ۔} جب یہ بات سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو پہنچی تو آپ نے اسی وقت فوج کو واپسی کا حکم دے دیا ۔ یہ شیخ عمرو بن عنبسہ رضی اللہ عنہ تھے ۔۱؎ (سنن ابوداود:2759،قال الشیخ الألبانی:صحیح) سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے ایک شہر کے قلعے کے پاس پہنچ کر اپنے ساتھیوں سے فرمایا ” تم مجھے بلاؤ میں تمہیں بلاؤں گا جیسے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو انہیں بلاتے دیکھا ہے ۔“ پھر فرمایا ” میں بھی انہیں میں سے ایک شخص تھا پس مجھے اللہ عزوجل نے اسلام کی ہدایت کی اگر تم بھی مسلمان ہو جاؤ تو جو ہمارا حق ہے وہی تمہارا حق ہو گا اور جو ہم پر ہے تم پر بھی وہی ہو گا اور اگر تم اس نہیں مانتے تو ذلت کے ساتھ تمہیں جزیہ دینا ہو گا اسے بھی قبول نہ کرو تو ہم تمہیں ابھی سے مطلع کرتے ہیں جب کہ ہم تم برابری کی حالت میں ہیں اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں رکھتا ۔“ تین دن تک انہیں اسی طرح دعوت دی آخر چوتھے روز صبح ہی حملہ کر دیا ۔ اللہ تعالیٰ نے فتح دی اور مدد فرمائی ۔۱؎ (سنن ترمذی:1548،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) الانفال
59 کفار کے مقابلہ کے ہر وقت تیار رہو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’ کافر لوگ یہ نہ سمجھیں کہ وہ ہم سے بھاگ نکلے ہم ان کی پکڑ پر قادر نہیں بلکہ وہ ہر وقت ہمارے قبضہ قدرت میں ہیں وہ ہمیں ہرا نہیں سکتے۔ ‘ اور آیت میں ہے«أَمْ حَسِبَ الَّذِینَ یَعْمَلُونَ السَّیِّئَاتِ أَن یَسْبِقُونَا ۚ سَاءَ مَا یَحْکُمُونَ » ۱؎ ( 29-العنکبوت : 4 ) ’ برائیاں کرنے والے ہم سے آگے بڑھ نہیں سکتے ۔‘ اور جگہ فرماتا ہے« لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا مُعْجِزِینَ فِی الْأَرْضِ ۚ وَمَأْوَاہُمُ النَّارُ ۖ وَلَبِئْسَ الْمَصِیرُ» ۱؎ ( 24-النور : 57 ) ’ کافر ہمیں یہاں ہرا نہیں سکتے وہاں کا ٹھکانا آگ ہے جو بدترین جگہ ہے‘ اور فرمان ہے« لَا یَغُرَّنَّکَ تَقَلٰبُ الَّذِینَ کَفَرُوا فِی الْبِلَادِ مَتَاعٌ قَلِیلٌ ثُمَّ مَأْوَاہُمْ جَہَنَّمُ ۚ وَبِئْسَ الْمِہَادُ» ۱؎ ( 3-آل عمران : 196 ، 197 ) ’ کافروں کا شہروں میں آنا جانا چلنا پھرنا کہیں تجھے دھوکے میں نہ ڈال دے ۔ یہ تو سب آنی جانی چیزیں ہیں ان کا ٹھکانا دوزخ ہے جو بدترین گود ہے ۔‘ پھر مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ اپنی طاقت و امکان کے مطابق ان کفار کے مقابلے کے لیے ہر وقت مستعد رہو جو قوت طاقت گھوڑے ، لشکر رکھ سکتے ہیں موجود رکھو ۔ مسند میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر قوت کی تفسیر تیر اندازی سے کی اور دو مرتبہ یہی فرمایا: { تیر اندازی کیا کرو سواری کیا کرو اور تیر اندازی گھوڑ سواری سے بہتر ہے ۔} ۱؎ (صحیح مسلم:1917) فرماتے ہیں { گھوڑوں کے پالنے والے تین قسم کے ہیں ایک تو اجر و ثواب پانے والے ، ایک نہ تو ثواب نہ عذاب پانے والے ایک عذاب بھگتنے والے ۔ جو جہاد کے ارادے سے پالے اس کے گھوڑے کا چلنا پھرنا تیرنا ، چگنا باعث ثواب ہے یہاں تک کہ اگر وہ اپنی رسی توڑ کر کہیں چڑھ جائے تو بھی اس کے نشانات قدم اور اس کی لید پر اسے نیکیاں ملتی ہیں کسی نہر پر گزارتے ہوئے وہ پانی پی لے اگرچہ مجاہد نے پلانے کا ارادہ نہ بھی کیا ہو تاہم اسے نیکیاں ملتی ہیں ۔ پس یہ گھوڑا تو اس کے پالنے والے کے لیے بڑے اجرو ثواب کا ذریعہ ہے ۔ اور جس شخص نے گھوڑا اس نیت سے پالا کہ وہ دوسروں سے بے نیاز ہو جائے پھر اللہ کا حق بھی اس کی گردن اور اس کی سواری میں نہیں بھولا یہ اس کے لیے جائز ہے یعنی نہ اسے اجر نہ اسے گناہ ۔ تیسرا وہ شخص جس نے فخر و ریا کے طور پر پالا اور مسلمانوں کے مقابلے کے لیے وہ اس کے ذمے و بال ہے اور اس کی گردن پر بوجھ ہے} ۱؎ (سنن ترمذی:1637،قال الشیخ الألبانی:حسن) آپصلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ اچھا گدھوں کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ فرمایا: { اس کے بارے میں کوئی آیت تو اتری نہیں ہاں یہ جامع عام آیت موجود ہے کہ«فَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَرَہُ وَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَرَہُ » ۱؎ ( 99- الزلزلۃ : 7 ، 8 ) ’ جو شخص ایک ذرے کے برابر نیکی کرے گا وہ اسے دیکھ لے گا اور جو کوئی ایک ذرے کے برابر بھی برائی کرے گا وہ اسے دیکھ لے گا ۔‘ } ۱؎ (صحیح بخاری:2371) یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی ہے اور حدیث میں یہ الفاظ ہیں { گھوڑے تین طرح کے ہیں ۔ رحمان کے شیطان کے اور انسان کے ۔ اس میں ہے کی شیطانی گھوڑے وہ ہیں جو گھوڑ دوڑ کی شرطیں لگانے اور جوئے بازی کرنے کے لیے ہوں ۔} ۱؎ (مسند احمد:395/1:صحیح) اکثر علماء کا قول ہے کہ تیر اندازی گھوڑ سواری سے افضل ہے ۔ امام مالک رحمہ اللہ اس کے خلاف ہیں لیکن جمہور کا قول قوی ہے کہ کیونکہ حدیث میں آ چکا ہے ۔ حضرت معاویہ بن خدیج سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اس وقت وہ اپنے گھوڑے کی خدمت کر رہے تھے پوچھا تمہیں یہ گھوڑا کیا کام آتا ہے ؟ فرمایا ” میرا خیال ہے کہ اس جانور کی دعا میرے حق میں قبول ہو گی ۔“ کہا جانور اور دعا ؟ فرمایا ” ہاں اللہ کی قسم ہر گھوڑا ہرصبح دعا کرتا ہے کہ اے اللہ تو نے مجھے اپنے بندوں میں سے ایک کے حوالے کیا ہے تو مجھے اس کی تمام اہل سے اور مال سے اور اولاد سے زیادہ محبوب بنا کر اس کے پاس رکھ ۔“۱؎ (مسند احمد:162/5:صحیح) ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ ہر عربی گھوڑے کو ہر صبح دو دعائیں کرنے کی اجازت ملتی ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { گھوڑوں کی پیشانیوں میں بھلائی بندھی ہوئی ہے گھوڑوں والے اللہ کی مدد میں ہیں اسے نیک نیتی سے جہاد کے ارادے سے پالنے والا ایسا ہے جیسے کوئی شخص ہر وقت ہاتھ بڑھاکر خیرات کرتا رہے ۔} ۱؎ (سنن ابوداود:4089،قال الشیخ الألبانی:صحیح موقوف) اور بھی حدیثیں اس بارے میں بہت سی ہیں ۔ صحیح بخاری شریف میں بھلائی کی تفصیل ہے کہ { اجر اور غنیمت ۔} ۱؎ (صحیح بخاری:2850) فرماتا ہے ’ اس سے تمہارے دشمن خوف زدہ اور ہیبت خوردہ رہیں گے ان ظاہری مقابلے کے دشمنوں کے علاوہ اور دشمن بھی ہیں۔ ‘ یعنی بنو قریظہ ، فارس اور محلوں کے شیاطین ۔ ایک مرفوع حدیث میں بھی ہے کہ اس سے مراد جنات ہیں ۔ ایک منکر حدیث میں ہے جس گھر میں کوئی آزاد گھوڑا ہو وہ گھر کبھی بد نصیب نہیں ہو گا۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:ضعیف189/17) لیکن اس روایت کی تو سند ٹھیک ہے نہ یہ صحیح ہے ۔ اور اس سے مراد منافق بھی لی گئی ہے ۔ اور یہی قول زیادہ مناسب بھی ہے جیسے فرمان الٰہی ہے« وَمِمَّنْ حَوْلَکُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَ وَمِنْ اَھْلِ الْمَدِیْنَۃِ ڀ مَرَدُوْا عَلَی النِّفَاقِ ۣ لَا تَعْلَمُھُمْ ۭ نَحْنُ نَعْلَمُھُمْ ۭ سَنُعَذِّبُھُمْ مَّرَّتَیْنِ ثُمَّ یُرَدٰوْنَ اِلٰی عَذَابٍ عَظِیْمٍ» ۱؎ ( 9- التوبہ : 101 ) ’ تمہارے چاروں طرف دیہاتی اور شہری منافق ہیں جنہیں تم نہیں جانتے لیکن ہم ان سے خوب واقف ہیں ۔‘ پھر ارشاد ہے کہ ’ جہاد میں جو کچھ تم خرچ کرو گے اس کا پورا بدلہ پاؤ گے ۔‘ ابوداؤد میں ہے کہ ایک درہم کا ثواب سات سو گنا کر کے ملے گا۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2498،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) جیسے کہ« مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنْۢبَتَتْ سَـبْعَ سَـنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنْۢبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ ۭوَاللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَاۗءُ ۭ وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ » ۱؎ ( 2- البقرۃ : 261 ) اتری تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ { وہ بھی جو سوال کرے چاہے وہ کسی دین کا ہو اس کے ساتھ حسن سلوک کرو ۔} ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:9114/5:ضعیف) یہ روایت غریب ہے ابن ابی حاتم نے اسے روایت کیا ہے ۔ الانفال
60 الانفال
61 جس قوم سے بدعہدی کا خوف ہو انہیں آگاہ کر کے عہد نامہ چاک کر دو فرمان ہے کہ ’ جب کسی قوم کی خیانت کا خوف ہو تو برابری سے آگاہ کر کے عہد نامہ چاک کر ڈالو ، لڑائی کی اطلاع کر دو ۔ اس کے بعد اگر وہ لڑائی پر آمادگی ظاہر کریں تو اللہ پر بھروسہ کر کے جہاد شروع کر دو اور اگر وہ پھر صلح پر آمادہ ہو جائیں تو تم پھر صلح و صفائی کر لو ۔ ‘ اسی آیت کی تعمیل میں حدیبیہ والے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین مکہ سے نو سال کی مدت کے لیے صلح کر لی جو شرائط کے ساتھ طے ہوئی ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہا سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { عنقریب اختلاف ہو گا اور بہتر یہ ہے کہ ہو سکے تو صلح ہی کر لینا۔ } ۱؎ (مسند احمد:90/1:ضعیف) مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں یہ بنو قریظہ کے بارے میں اتری ہے لیکن یہ محل نظر میں ہے سارا قصہ بدر کا ہے ۔ بہت سے بزرگوں کا خیال ہے کہ سورۃ براۃ کی آیت سے«قَاتِلُوا الَّذِینَ لَا یُؤْمِنُونَ بِ اللہِ وَلَا بِالْیَوْمِ الْآخِرِ» ۱؎ ( 9-التوبہ : 29 ) سے منسوخ ہے کہ لیکن اس میں بھی نظر ہے کیونکہ اس آیت میں جہاد کا حکم طاقت و استطاعت پر ہے لیکن دشموں کی زیادتی کے وقت ان سے صلح کر لینا بلا شک و شبہ جائز ہے جیسے کہ اس آیت میں ہے اور جیسے کہ حدیبیہ کی صلح اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کی ۔ پس اس کے بارے میں کوئی نص اس کے خلاف یا خصوصیت یا منسوخیت کی نہیں آئی «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ پھر فرماتا ہے ’ اللہ پر بھروسہ رکھ وہی تجھے کافی ہے وہی تیرا مددگار ہے ۔ اگر یہ دھوکہ بازی کر کے کوئی فریب دینا چاہتے ہیں اور اس درمیان میں اپنی شان و شوکت اور آلات جنگ بڑھانا چاہتے ہیں تو تو بے فکر رہ اللہ تیرا طرف دار ہے اور تجھے کافی ہے اس کے مقابلے کا کوئی نہیں۔ ‘ پھر اپنی ایک اعلیٰ نعمت کا ذکر فرماتا ہے کہ ’ مہاجرین و انصار سے صرف اپنے فضل سے تیری تائید کی ۔‘ ’ انہیں تجھ پر ایمان لانے تیری اطاعت کرنے کی توفیق دی ۔ تیری مدد اور تیری نصرت پر انہیں آمادہ کیا ۔ اگرچہ آپ روئے زمین کے تمام خزانے خرچ کر ڈالتے لیکن ان میں وہ الفت وہ محبت پیدا نہ کر سکتے جو اللہ نے خود کر دی ۔ ان کی صدیوں پرانی عداوتیں دور کر دیں اور اوس و خزرج انصار کے دونوں قبیلوں میں جاہلیت میں آپس میں خوب تلوار چلا کرتی تھی ۔ نور ایمان نے اس عداوت کو محبت سے بدل دیا ۔‘ جیسے قرآن کا بیان ہے کہ«وَاذْکُرُوا نِعْمَتَ اللہِ عَلَیْکُمْ إِذْ کُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَیْنَ قُلُوبِکُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِہِ إِخْوَانًا وَکُنتُمْ عَلَیٰ شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَکُم مِّنْہَا ۗ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللہُ لَکُمْ آیَاتِہِ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُونَ» ۱؎ ( 3-آل عمران : 103 ) ’ اللہ کے اس احسان کو یاد کرو کہ تم آپس میں اپنے دوسرے کے دشمن تھے اس نے تمہارے دل ملادئیے اور اپنے فضل سے تمہیں بھائی بھائی بنا دیا تم جہنم کے کنارے تک پہنچ گئے تھے لیکن اس نے تمہیں بچا لیا ۔ اللہ تعالیٰ تمہاری ہدایت کے لیے اسی طرح اپنی باتیں بیان فرماتا ہے ۔‘ بخاری و مسلم میں ہے کہ حنین کے مال غنیمت کی تقسیم کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے فرمایا کہ { اے انصاریو کیا میں نے تمہیں گمراہی کی حالت میں پاکر اللہ کی عنایت سے تمہیں راہ راست نہیں دکھائی ؟ کیا تم فقیر نہ تھے ؟ اللہ تعالیٰ نے تمہیں میری وجہ سے امیر کر دیا جدا جدا تھے اللہ تعالیٰ نے میری وجہ سے تمہارے دل ملا دیئے ۔} آپ کی ہر بات پر انصار کہتے جاتے تھے کہ بیشک اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اس سے بھی زیادہ احسان ہم پر ہے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4330) الغرض اپنے اس انعام و اکرام کو بیان فرما کر اپنی عزت و حکمت کا اظہار کیا کہ ’ وہ بلند جناب ہے اس سے اُمید رکھنے والا نا اُمید نہیں رہتا اس پر توکل کرنے والا سرسبز رہتا ہے اور اپنے کاموں میں اپنے حکموں میں حکیم ہے ۔‘ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس سے قرابت داری کے رشتے ٹوٹ جاتے ہیں اور یہ تب ہوتا ہے جب نعمت کی ناشکری کی جاتی ہے ۔ جناب باری سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’ اگر روئے زمین کے خزانے بھی ختم کر دیتا تو تیرے بس میں نہ تھا کہ ان کے دل ملا دے ۔‘ شاعر کہتا ہے« إِذَا مَتَّ ذُو الْقُرْبَی إِلَیْکَ بِرَحِمِہِ فَغَشَّکَ وَاسْتَغْنَی فَلَیْسَ بِذِی رَحِمِ وَلَکِنَّ ذَا الْقُرْبَی الَّذِی إِنْ دَعَوْتَہُ» تجھ سے دھوکا کرنے والا تجھ سے بےپرواہی برتنے والا تیرا رشتے دار نہیں بلکہ تیرا حقیقی رشتے دار وہ ہے جو تیری آواز پر لبیک کہے اور تیرے دشمنوں کی سرکوبی میں تیرا ساتھ دے ۔ اور شاعر کہتا ہے «وَلَقَدْ صَحِبْتُ النَّاسَ ثُمَّ سَبَرْتُہُمْ وَبَلَوْتُ مَا وَصَلُوا مِنَ الأَسْبَابِ فَإِذَا الْقَرَابَۃُ لا تُقَرِّبُ قَاطِعًا وَإِذَا الْمَوَدَّۃُ أَقْرَبُ الأَنْسَابِ» میں نے تو خوب مل جل کر آزما کر دیکھ لیا کہ قرابت داری سے بھی بڑھ کر دلوں کا میل جول ہے ۔ امام بیہقی فرماتے ہیں میں نہ جان سکا کہ یہ سب قول سیدنا ابن عباسرضی اللہ عنہ کا ہے یا ان سے نیچے کے راویوں میں سے کسی کا ہے ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ان کی یہ محبت راہ حق میں تھی توحید و سنت کی بنا پر تھی ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رشتے داریاں ٹوٹ جاتی ہیں احسان کی بھی ناشکری کر دی جاتی ہے لیکن جب اللہ کی جانب سے دل ملا دیئے جاتے ہیں انہیں کوئی جدا نہیں کر سکتا ہے پھر آپ نے اسی جملے کی تلاوت فرمائی ۔ عبدہ بن ابی لبابہ فرماتے ہیں میری مجاہد رحمتہ اللہ علیہ سے ملاقات ہوئی آپ نے مجھ سے مصافحہ کر کے فرمایا کہ ” جب دو شخص اللہ کی راہ میں محبت رکھنے والے آپس میں ملتے ہیں ایک دوسرے خندہ پیشانی سے ہاتھ ملاتے ہیں تو دونوں کے گناہ ایسے جھڑ جاتے ہیں جیسے درخت کے خشک پتے۔ “ میں نے کہا یہ کام تو بہت آسان ہے فرمایا ” یہ نہ کہو یہی الفت وہ ہے جس کی نسبت جناب باری فرماتا ہے کہ ’ اگر روئے زمین کے خزانے خرچ کر دے تو بھی یہ تیرے بس کی بات نہیں کہ دلوں میں الفت ومحبت پیدا کر دے ۔‘ ان کے اس فرمان سے مجھے یقین ہو گیا کہ یہ مجھ سے بہت زیادہ سمجھ دار ہیں ۔ ولید بن ابی مغیث رحمہ اللہ کہتے ہیں میں نے مجاہد رحمہ اللہ سے سنا کہ جب دو مسلمان آپس میں ملتے ہیں اور مصافحہ کرتے ہیں تو ان کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں میں نے پوچھا صرف مصافحہ سے ہی ؟ تو آپ نے فرمایا کیا تم نے اللہ کا یہ فرمان نہیں سنا ؟ پھر آپ نے اسی جملے کی تلاوت کی ۔ تو ولید رحمہ اللہ نے فرمایا تم مجھ سے بہت بڑے عالم ہو ۔ عمیر بن اسحاق کہتے ہیں سب سے پہلے چیز جو لوگوں میں سے اُٹھ جائے گی و الفت و محبت ہے ۔ طبرانی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں کہ { مسلمان جب اپنے مسلمان بھائی سے مل کر اس سے مصافحہ کرتا ہے تو دونوں کے گناہ ایسے جھڑ جاتے ہیں جیسے درخت کے خشک پتے ہوا سے ۔ ان کے سب گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں گوہ وہ سمندر کی جھاگ جتنے ہوں ۔} ۱؎ (سلسلۃ احادیث ضعیفہ البانی:6663،) الانفال
62 الانفال
63 الانفال
64 ایک غازی دس کفار پہ بھاری اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو جہاد کی رغبت دلا رہا ہے اور انہیں اطمینان دلارہا ہے کہ وہ انہیں دشمنوں پر غالب کرے گا چاہے وہ ساز و سامان اور افرادی قوت میں زیادہ ہوں ، ٹڈی دل ہوں اور گو مسلمان بےسرو سامان اور مٹھی بھر ہوں ۔ فرماتا ہے ’ اللہ کافی ہے اور جتنے مسلمان تیرے ساتھ ہوں گے وہی کافی ہیں ۔ پھر اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ مومنوں کو جہاد کی رغبت دلاتے رہو۔ ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صف بندی کے وقت مقابلے کے وقت برابر فوجوں کا دل بڑھاتے بدر کے دن فرمایا: { اٹھو اس جنت کو حاصل کرو جس کی چوڑائی آسمان و زمین کی ہے۔ } عمیر بن حمام کہتے ہیں اتنی چوڑی ؟ فرمایا: { ہاں ہاں اتنی ہی۔ } اس نے کہا واہ واہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { یہ کس ارادے سے کہا ؟} کہا اس امید پر کہ اللہ مجھے بھی جنتی کر دے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { میری پیشگوئی ہے کہ تو جنتی ہے۔ } وہ اٹھتے ہیں دشمن کی طرف بڑھتے ہیں اپنی تلوار کامیان توڑ دیتے ہیں کچھ کھجوریں جو پاس ہیں کھانی شروع کرتے ہیں پھر فرماتے ہیں جتنی دیر میں انہیں کھاؤں اتنی دیر تک بھی اب یہاں ٹھہرنا مجھ پر شاق ہے انہیں ہاتھ سے پھینک دیتے ہیں اور حملہ کر کے شیر کی طرح دشمن کے بیچ میں گھس جاتے ہیں اور جوہر تلوار دکھاتے ہوئے کافروں کی گردنیں مارتے ہیں اور حملہ کرتے ہوئے شہید ہو جاتے ہیں رضی اللہ عنہ و رجاء ۔۱؎ (صحیح مسلم:1901) ابن المسیب اور سعد بن جیر رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں یہ آیت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام کے وقت اتری جب کہ مسلمانوں کی تعداد پوری چالیس کی ہوئی ۔ لیکن اس میں ذرا نظر ہے اس لیے کہ یہ آیت مدنی ہے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام کا واقعہ مکہ شریف کا ہے ۔ حبشہ کی ہجرت کے بعد اور مدینہ کی ہجرت سے پہلے کا ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ مومنوں کو بشارت دیتا ہے اور حکم فرماتا ہے کہ ’ تم میں سے بیس ان کافروں میں سے دو سو پر غالب آئیں گے ۔ ایک سو ایک ہزار پر غالب رہیں گے غرض ایک مسلمان دس کافروں کے مقابلے کا ہے ۔‘ پھر حکم منسوخ ہو گیا لیکن بشارت باقی ہے جب یہ حکم مسلمانوں پر گراں گذرا ۔ ایک دس کے مقابلے سے ذرا جھجکا تو اللہ تعالیٰ نے تخفیف کر دی اور فرمایا ۔ اب اللہ نے بوجھ ہلکا کر دیا ۔ لیکن جتنی تعداد کم ہوئی اتنا ہی صبر ناقص ہو گیا پہلے حکم تھا کہ ’ بیس مسلمان دو سو کافروں سے پیچھے نہ ہٹیں ‘ اب یہ ہوا کہ ’ اپنے سے دگنی تعداد یعنی سو دو سو سے نہ بھاگیں ۔‘ پس گرانی گزرنے پر ضعیفی اور ناتوانی کو قبول فرما کر اللہ نے تخفیف کر دی ۔ پس دگنی تعداد کے کافروں سے تو لڑائی میں پیچھے ہٹنا لائق نہیں ہاں اس سے زیادتی کے وقت طرح دے جانا جرم نہیں ۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں یہ آیت ہم صحابیوں رضی اللہ عنہم کے بارے میں اتری ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت پڑھ کر فرمایا: { پہلا حکم اٹھ گیا ۔} ۱؎(مستدرک حاکم:239/2:ضعیف) الانفال
65 الانفال
66 الانفال
67 اسیران بدر اور مشورہ مسند امام احمد میں ہے کہ بدر کے قیدیوں کے بارے میں رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مشورہ لیا کہ { اللہ نے انہیں تمہارے قبضے میں دے دیا ہے بتاؤ کیا ارادہ ہے ؟} سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر عرض کیا کہ ” ان کی گردنیں اڑا دی جائیں“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے منہ پھیر لیا پھر فرمایا: { اللہ نے تمہارے بس میں کر دیا ہے یہ کل تک تمہارے بھائی بند ہی تھے ۔} پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر اپنا جواب دوہرایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر منہ پھیر لیا اور پھر وہی فرمایا اب کی دفعہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری رائے میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی خطا سے درگزر فرما لیجئے اور انہیں فدیہ لے کر آزاد کیجئے اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے سے غم کے آثار جاتے رہے عفو عام کر دیا اور فدیہ لے کر سب کو آزاد کر دیا اس پر اللہ عزوجل نے یہ آیت اتاری ۔۱؎ (مسند احمد:243/3:حسن لغیرہ) اسی سورۃ کے شروع میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت گزر چکی ہے صحیح مسلم میں بھی اسی جیسی حدیث ہے کہ بدر کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ { ان قیدیوں کے بارے میں تم کیا کہتے ہو ؟ } سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ” یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم کے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم والے ہیں انہیں زندہ چھوڑا جائے ان سے توبہ کرالی جائے گی عجب کہ کل اللہ کی ان پر مہربانی ہو جائے۔ “ لیکن سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ” یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلانے والے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نکال دینے والے ہیں حکم دیجئیے کہ ان کی گردنیں ماری جائیں ۔“ حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے کہا ” یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی میدان میں درخت بکثرت ہیں آگ لگوا دیجئیے اور انہیں جلا دیجئیے۔ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو رہے کسی کو کوئی جواب نہیں دیا اور اٹھ کر تشریف لے گئے لوگوں میں بھی ان تینوں بزرگوں کی رائے کا ساتھ دینے والے ہو گئے اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر تشریف لائے اور فرمانے لگے{ بعض دل نرم ہوتے ہوتے دودھ سے بھی زیادہ نرم ہو جاتے ہیں اور بعض دل سخت ہوتے ہوتے پتھر سے بھی زیادہ سخت ہو جاتے ہیں ۔ اے ابوبکر تمہاری مثال نبی کریم ابراہیم علیہ السلام جیسی ہے کہ«فَمَن تَبِعَنِی فَإِنَّہُ مِنِّی ۖ وَمَنْ عَصَانِی فَإِنَّکَ غَفُورٌ رَّحِیمٌ » ۱؎ ( 14-ابراھیم : 36 ) ’ اللہ سے عرض کرتے ہیں کہ میرے تابعدار تو میرے ہیں ہی لیکن مخالف بھی تیری معافی اور بخشش کے ماتحت ہیں‘ اور تمہاری مثال عیسیٰ علیہ السلام جیسی ہے «إِن تُعَذِّبْہُمْ فَإِنَّہُمْ عِبَادُکَ ۖ وَإِن تَغْفِرْ لَہُمْ فَإِنَّکَ أَنتَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ » ۱؎ ( 5-المائدہ : 118 ) ’ جو کہیں گے یا اللہ اگر تو انہیں عذاب کرے تو وہ تیرے بندے ہیں اور اگر انہیں بخش دے تو تو عزیز و حکیم ہے‘ اور اے عمر تمہاری مثال موسیٰ علیہ السلام جیسی ہے جنہوں نے اپنی قوم پر بد دعا کی کہ«رَبَّنَا اطْمِسْ عَلَیٰ أَمْوَالِہِمْ وَاشْدُدْ عَلَیٰ قُلُوبِہِمْ فَلَا یُؤْمِنُوا حَتَّیٰ یَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِیمَ» ۱؎ ( 10-یونس : 88 ) ’ اے پروردگار ان کے مال کو برباد کر دے اور ان کے دلوں کو سخت کر دے کہ ایمان نہ لائیں جب تک عذاب الیم نہ دیکھ لیں‘ ، اور اے عمر تمہاری مثال نوح علیہ السلام جیسی ہے جنہوں نے اپنی قوم پر بد دعا کی کہ« لَا تَذَرْ عَلَی الْأَرْضِ مِنَ الْکَافِرِینَ دَیَّارًا» ۱؎ ( 71-نوح : 26 ) ’ یا اللہ زمین پر کسی کافر کو بستا ہوا باقی نہ رکھ ۔‘ سنو تمہیں اس وقت احتیاج ہے ان قیدیوں میں سے کوئی بھی بغیر فدیئے کے رہا نہ ہو ورنہ ان کی گردنیں ماری جائیں۔} اس پر سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے درخواست کی کہ ” یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سہیل بن بیضا کو اس سے مخصوص کر لیا جائے اس لیے وہ اسلام کا ذکر کیا کرتا تھا۔ “ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے واللہ میں سارا دن خوف زدہ رہا کہ کہیں مجھ پر آسمان سے پتھر نہ برسائے جائیں یہاں تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { مگر سہیل بن بیضا اسی کا ذکر اس آیت میں ہے} یہ حدیث ترمذی مسند احمد وغیرہ میں ہے ۔۱؎ (سنن ترمذی:3084،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ان قیدیوں میں عباس رضی اللہ عنہ بھی تھے انہیں ایک انصاری نے گرفتار کیا تھا انصار کا خیال تھا کہ اسے قتل کر دیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی یہ حال معلوم تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رات کو مجھے اس خیال سے نیند نہیں آئی ۔ اس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اجازت دیں تو میں انصار کے پاس جاؤں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ انصار کے پاس آئے اور کہا ” عباس رضی اللہ عنہ کو چھوڑ دو“ انہوں نے جواب دیا واللہ ہم اسے نہ چھوریں آپ نے فرمایا” گو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا مندی اسی میں ہو ؟ انہوں نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو آپ اب انہیں لے جائیں ہم نے بخوشی چھوڑا ۔ اب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ ” عباس اب مسلمان ہو جاؤ واللہ تمہارے اسلام لانے سے مجھے اپنے باپ کے اسلام لانے سے بھی زیادہ خوشی ہو گی اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے اسلام لانے سے خوش ہو جائیں گے۔“ ان قیدیوں کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے مشورہ لیا تو آپ نے تو فرمایا یہ سب ہمارے ہی کنبے قبیلے کے لوگ ہیں انہیں چھوڑ دیجئیے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے جب مشورہ لیا تو آپ نے جواب دیا کہ ان سب کو قتل کر دیا جائے ۔ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فدیہ لے کر انہیں آزاد کیا۔ ۱؎ (مستدرک حاکم:329/2:حسن) سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جبرائیل علیہ السلام آئے اور فرمایا کہ اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو اختیار دیجئیے کہ وہ ان دو باتوں میں سے ایک کو پسند کر لیں اگر چاہیں تو فدیہ لے لیں اور اگر چاہیں تو ان قیدیوں کو قتل کر دیں لیکن یہ یاد رہے کہ فدیہ لینے کی صورت میں اگلے سال ان میں اتنے ہی شہید ہوں گے ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا ہمیں یہ منطور ہے اور ہم فدیہ لے کر چھوڑیں گے ( ترمذی نسائی وغیرہ ) لیکن یہ حدیث بہت ہی غریب ہے ۔۱؎ (سنن ترمذی:1567،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ان بدری قیدیوں کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ { اے صحابیو اگر چاہو تو انہیں قتل کر دو اور اگر چاہو ان سے زر فدیہ وصول کر کے انہیں رہا کر دو لیکن اس صورت میں اتنے ہی آدمی تمہارے شہید کئے جائیں گے ۔} پس ان ستر شہیدوں میں سب سے آخر ثاب بین قیس رضی اللہ عنہما تھے جو جنگ یمامہ میں شہید ہوئے رضی اللہ عنہ ، یہ روایت سیدنا عبیدہ رضی اللہ عنہ سے مرسلاً بھی مروی ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ ’ اگر پہلے ہی سے اللہ کی کتاب میں تمہارے لیے مال غنیمت سے حلال نہ لکھا ہوا ہوتا اور جب تک ہم بیان نہ فرمادیں تب تک عذاب نہیں کیا کرتے ایسادستور ہمارا نہ ہوتا تو جو مال فدیہ تم نے لیا اس پر تمہیں بڑا بھاری عذاب ہوتا اسی طرح پہلے سے اللہ طے کر چکا ہے کہ کسی بدری صحابی رضی اللہ عنہم کو وہ عذاب نہیں کرے گا ۔ ان کے لیے مغفرت کی تحریر ہو چکی ہے ۔ ام الکتاب میں تمہارے لیے مال غنیمت کی حلت لکھی جا چکی ہے ۔ پس مال غنیمت تمہارے لیے حلال طیب ہے شوق سے کھاؤ پیو اور اپنے کام میں لاؤ ۔‘ پہلے لکھا جا چکا تھا کہ اس امت کے لیے یہ حلال ہے یہی قول امام ابن جریر کا پسندیدہ ہے اور اسی کی شہادت بخاری مسلم کی حدیث سے ملتی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { مجھے پانچ چیزیں دی گئیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں مہینے بھر کے فاصلے تک میری مدد رعب سے کی گئی ۔میرے لیے پوری زمین مسجد پاکی اور نماز کی جگہ بنا دی گئی مجھ پر غنیمتیں حلال کی گئیں جو مجھ سے پہلے کسی پر حلال نہ تھیں، مجھے شفاعت عطا فرمائی گئی ہر نبی خاصتہ اپنی قوم کی طرف ہی بھیجا جاتا تھا لیکن میں عام لوگوں کی طرف پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم بنا کر بھیجا گیا ہوں۔} ۱؎ (صحیح بخاری:335) آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { کسی سیاہ سر والے انسان کے لیے میرے سوا غنیمت حلال نہیں کی گئی ۔}۱؎ (سنن ترمذی:3085،قال الشیخ الألبانی:صحیح) پس صحابہ رضی اللہ عنہم نے ان بدری قیدیوں سے فدیہ لیا اور ابوداؤد میں ہے ہر ایک سے چار سو کی رقم بطور تاوان جنگ کے وصول کی گئی ۔۱؎ (سنن ابوداود:2691،قال الشیخ الألبانی:صحیح) پس جمہور علماء کرام کا مذہب یہ ہے کہ امام وقت کو اختیار ہے کہ اگر چاہے قیدی کفار کو قتل کر دے ، جیسے بنو قریضہ کے قدیوں کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ۔ اگر چاہے بدلے کا مال لے کر انہیں چھوڑ دے جیسے کہ بدری قیدیوں کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا یا مسلمان قیدیوں کے بدلے چھوڑ دے جیسے کہ حضور اللہ علیہ والہ وسلم نے قبیلہ سلمہ بن اکوع کی ایک عورت اس کی لڑکی مشرکوں کے پاس جو مسلمان قیدی تھے ان کے بدلے میں دیا اور اگر چاہے انہیں غلام بنا کر رکھے ۔ یہی مذہب امام شافعی کا اور علماء کرام کی ایک جماعت کا ہے ۔ گو اوروں نے اس کا خلاف بھی کیا ہے یہاں اس کی تفصیل کی جگہ نہیں ۔ الانفال
68 الانفال
69 الانفال
70 فدیہ طے ہو گیا بدر والے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ { مجھے یقیناً معلوم ہے کہ بعض بنو ہاشم وغیرہ زبردستی اس لڑائی میں نکالے گئے ہیں انہیں ہم سے لڑائی کرنے کی خواہش نہ تھی ۔ پس بنو ہاشم کو قتل نہ کرنا ۔ ابوالبختری بن ہشام کو بھی قتل نہ کیا جائے ۔ عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کو بھی قتل نہ کیا جائے ۔ اسے بھی بادل ناخواستہ ان لوگوں نے اپنے ساتھ کھینچا ہے ۔} اس پر ابوحذیفہ بن عتبہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ” کیا ہم اپنے باپ دادوں کو اپنے بچوں کو اپنے بھائیوں کو اور اپنے قبیلے کو قتل کریں اور عباس رضی اللہ عنہ کو چھوڑ دیں ؟ واللہ اگر وہ مجھے مل گیا تو میں اس کی گرد ماروں گا ۔“ جب یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا { اے ابو حفصہ رضی اللہ عنہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے منہ پر تلوار ماری جائے گی ؟} سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” یہ پہلا موقع تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری کنیت سے مجھے یاد فرمایا۔ “ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اجازت دیجئیے کہ میں ابوحذیفہ کی گردن اڑادوں واللہ وہ تو منافق ہو گیا ۔“ ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” واللہ مجھے اپنے اس دن کے قول کا کھٹکا آج تک ہے میں اس سے ابھی تک ڈر ہی رہا ہوں تو میں اس دن چین پاؤں گا جس دن اس کا کفارہ ہو جائے اور وہ یہ ہے کہ میں راہ حق میں شہید کر دیا جاؤں۔ “ چنانچہ جنگ یمامہ میں آپ شہید ہوئے رضی اللہ عنہ و رضا ۔۱؎ (دلائل النبوۃ للبیھقی:140/3:ضعیف) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں جس دن بدری قیدی گرفتار ہو کر آئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس رات نیند نہ آئی صحابہ رضی اللہ عنہم نے سبب پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { میرے چچا کی آہ و بکا کی آواز میرے کانوں میں ان قیدیوں میں سے آ رہی ہے۔ } صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس وقت ان کی قید کھول دی تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نیند آئی ۔۱؎ (دلائل النبوۃ للبیھقی:141/3:ضعیف) ایک انصاری صحابی رضی اللہ عنہ نے سیدنا عباس رضی اللہ عنہ گرفتار کیا تھا ۔ یہ بہت مالدار تھے انہوں نے سو اوقیہ سونا اپنے فدئیے میں دیا ۔ بعض انصاریوں نے سرکار نبوت میں گزارش بھی کی کہ ہم چاہتے ہیں اپنے چچا عباس رضی اللہ عنہ کو بغیر کوئی زر فدیہ لیے آزاد کر دیں لیکن مساوات کے علم بردار صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { ایک چونی بھی کم نہ لینا پورا فدیہ لو ۔} ۱؎ (صحیح بخاری:2537) قریش نے فدئیے کی رقمیں دے کر اپنے آدمیوں کو بھیجا تھا ہر ایک نے اپنے اپنے قیدی کی من مانی رقم وصول کی ۔ عباس رضی اللہ عنہ نے کہا بھی کہ ” اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں تو مسلمان ہی تھا۔ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { مجھے تمہارے اسلام کا علم ہے اگر یہ تمہارا قول صحیح ہے تو اللہ تمہیں اس کا بدلہ دے گا لیکن چونکہ احکام ظاہر پر ہیں اس لیئے آپ اپنا فدیہ ادا کیجئے بلکہ اپنے دونوں بھتیجوں کا بھی ۔ نوفل بن حارث بن عبدالمطلب کا اور عقیل بن ابی طالب بن عبدالمطلب کا اور اپنے حلیف عتبہ بن عمرو کا جو بنو حارث بن فہر کے قبیلے سے ہے ۔} انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تو اتنا مال نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { وہ مال کہاں گیا جو تم نے اور ام الفضل نے زمیں میں دفنایا ہے اور تم نے کہا ہے کہ اگر اپنے اس سفر میں کامیاب رہا تو یہ مال بنو الفضل اور عبداللہ اور قشم کا ہے ؟} اب تو عباس رضی اللہ عنہ کی زبان سے بےساختہ نکل گیا کہ ” واللہ میرے علم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے سچے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اس مال کو بجز میرے اور ام الفضل کے کوئی نہیں جانتا ۔ اچھا یوں کیجئے کہ میرے پاس سے بیس اوقیہ سونا آپ کے لشکریوں کو ملا ہے اسی کو میرا زر فدیہ سمجھ لیا جائے ۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { ہرگز نہیں وہ مال تو ہمیں اللہ نے اپنے فضل سے دلوا ہی دیا ۔} چنانچہ اب آپ نے اپنا اور اپنے دونوں بھتیجوں کا اور اپنے حلیف کا فدیہ اپنے پاس سے ادا کیا۔ اور اس بارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ اگر تم میں بھلائی ہے تو اللہ اس سے بہتر بدلہ دے گا ۔۱؎ (دلائل النبوۃ للبیھقی:142/3:حسن) سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ” اللہ کا یہ فرمان پورا اترا اور ان بیس اوقیہ کے بدلے مجھے اسلام میں اللہ نے بیس غلام دلوائے جو سب کے سب مالدار تھے ساتھ ہی مجھے اللہ عزوجل کی مغفرت کی بھی اُمید ہے ۔“ آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” میرے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے میں نے اپنے اسلام کی خبر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دی اور کہا کہ میرے بیس اوقیہ کا بدلہ مجھے دلوایئے جو مجھ سے لیے گئے ہیں ۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کیا الحمداللہ کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کے بدلے مجھے بیس غلام عطا فرمائے جو سب تاجر ہیں ۔۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:16335:ضعیف) آپ رضی اللہ عنہ اور آپ رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا کہ ” ہم تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی پر ایمان لا چکے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے گواہ ہیں ہم اپنی قوم میں آپ کی خیر خواہی کرتے رہے۔ “ اس پر یہ آیت اتری کہ ’ اللہ دلوں کے حال سے واقف ہے جس کے دل میں نیکی ہو گی اس سے جو لیا گیا ہے اس سے بہت زیادہ دے دیا جائے گا اور پھر اگلا شرک بھی معاف کر دیا جائے گا ۔‘ فرماتے ہیں کہ ” ساری دنیا مل جانے سے بھی زیادہ خوشی مجھے اس آیت کے نازل ہونے سے ہوئی ہے مجھ سے جو لیا گیا واللہ اس سے سو حصے زیادہ مجھے ملا ۔ اور مجھے امید ہے کہ میرے گناہ بھی دھل گئے ۔“ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:16340:مرسل و ضعیف) مذکور ہے کہ جب بحرین کا خزانہ سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں پہنچا وہ اسی (۸۰) ہزار کا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز ظہر کے لیے وضو کر چکے تھے پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ایک شکایت کرنے والے کی اور ہر ایک سوال کرنے والے کی داد رسی اور نماز سے پہلے ہی سارا خزانہ راہ اللہ لٹا دیا ۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ { لو اس میں سے لے لو اور گٹھری باندھ کر لے جاؤ۔ } پس یہ ان کے لیے بہت بہتر تھا۔ اور اللہ تعالیٰ گناہ بھی معاف فرمائے گا۔۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:16337:مرسل) یہ خزانہ ابن الحضرمی نے بھیجا تھا اتنا مال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس سے پہلے یا اس کے بعد کبھی نہیں آیا ۔ سب کا سب بوریوں پر پھیلادیا گیا اور نماز کی اذان ہوئی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور مال کے پاس کھڑے ہو گئے مسجد کے نمازی بھی آ گئے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ایک کو دینا شروع کیا نہ تو اس دن ناپ تول تھی نہ گنتی اور شمار تھا ، پس جو آیا وہ لے گیا اور دل کھول کر لے گیا ۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے تو اپنی چادر میں گٹھڑی باندھ لی لیکن اٹھا نہ سکے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذرا اونچا کر دیجئیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بےساختہ ہنسی آ گئی اتنی کہ دانت چمکنے لگے ۔ فرمایا: { کچھ کم کر دو جتنا اٹھے اتنا ہی لو ۔ } چنانچہ کچھ کم لیا اور اٹھا کر یہ کہتے ہوئے چلے کہ الحمداللہ اللہ تعالیٰ نے ایک بات تو پوری ہوتی دکھا دی اور دوسرا وعدہ بھی ان شاءاللہ پورا ہو کر ہی رہے گا ۔ اس سے بہتر ہے جو ہم سے لیا گیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم برابر اس مال کی تقسیم فرماتے رہے یہاں تک کہ اس میں سے ایک پائی بھی نہ بچی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہل کو اس میں سے ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں دی ۔ پھر نماز کے لیے آگے بڑھے اور نماز پڑھائی۔ ۱؎ (مستدرک حاکم:329/3:صحیح) دوسری حدیث ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بحرین سے مال آیا اتنا کہ اس سے پہلے یا اس کے بعد اتنا مال کبھی نہیں آیا ۔حکم دیا کہ مسجد میں پھیلا دو پھر نماز کے لیے آئے کسی کی طرف سے التفات نہ کیا نماز پڑھا کر بیٹھ گئے پھر تو جسے دیکھتے دیتے اتنے میں عباس رضی اللہ عنہ آ گئے اور کہنے لگے ” یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے دلوائیے میں نے اپنا اور عقیل کا فدیہ دیا ہے۔ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { اپنے ہاتھ سے لے لو ۔} انہوں نے چادر میں گٹھڑی باندھی لیکن وزنی ہونے کے باعث اٹھا نہ سکے تو کہا ” یا رسول اللہ کسی کو حکم دیجئیے کہ میرے کاندھے پر چڑھا دے۔ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { میں تو کسی سے نہیں کہتا۔ } کہا ” اچھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ذرا اٹھوا دیجئیے“ ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا بھی انکار کیا اب تو بادل ناخواستہ اس میں کچھ کم کرنا پڑا پھر اٹھا کر کندھے پر رکھ کر چل دیئے ۔ ان کے اس لالچ کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہیں جب تک یہ آپ کی نگاہ سے اوجھل نہ ہو گئے انہیں پر رہیں پس جب کل مال بانٹ چکے ایک کوڑی بھی باقی نہ بچی تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے اٹھے امام بخاری شریف میں تعلیقاً جزم کے صیغہ کے ساتھ وارد کی ہے ۔۱؎ (صحیح بخاری:3165) ’ اگر یہ لوگ خیانت کرنا چاہیں گے تو یہ کوئی نئی بات نہیں اس سے پہلے وہ خود اللہ کی خیانت بھی کر چکے ہیں ۔ تو ان سے یہ بھی ممکن ہے کہ اب جو ظاہر کریں اس کے خلاف اپنے دل میں رکھیں ۔ اس سے تو نہ گھبرا جیسے اللہ تعالیٰ نے اس وقت انہیں تیرے قابو میں کر دیا ہے ۔ ایسے ہی وہ ہمیشہ قادر ہے ۔ اللہ کا کوئی کام علم و حکمت سے خالی نہیں ۔ ان کے اور تمام مخلوق کے ساتھ جو کچھ وہ کرتا ہے اپنے ازلی ابدی پورے علم اور کامل حکمت کے ساتھ۔‘ قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں یہ آیت عبداللہ بن سعد بن ابی سرح کاتب کے بارے میں اتری ہے جو مرتد ہو کر مشرکوں میں جا ملا تھا ۔ عطاء خراسانی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں اتری ہے جبکہ انہوں نے کہا تھا کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خیر خواہی کرتے رہیں گے ۔ سدی نے اسے عام اور سب کو شامل کہی یہی ٹھیک بھی ہے۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ الانفال
71 الانفال
72 مجاہدین بدر کی شان مسلمانوں کی قسمیں بیان ہو رہی ہیں ایک تو مہاجر جنہوں نے اللہ کے نام پر وطن ترک کیا اپنے گھربار ، مال ، تجارت ، کنبہ ، قبیلہ ، دوست احباب چھوڑے ، اللہ کے دین پر قائم رہنے کے لیے نہ جان کو جان سمجھا نہ مال کو مال ۔ دوسرے انصار ، مدنی جنہوں نے ان مہاجروں کو اپنے ہاں ٹھہرایا اپنے مالوں میں ان کا حصہ لگا دیا ان کے ساتھ مل کر ان کے دشمنوں سے لڑائی کی یہ سب آپس میں ایک ہی ہیں ۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں بھائی چارہ کرا دیا ایک انصاری ایک مہاجر کو بھائی بھائی بنا دیا ۔ یہ بھائی بندی قرابت داری سے بھی مقدم تھی ایک دوسرے کا وارث بنتا تھا آخر میں یہ منسوخ ہو گئی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { مہاجرین اور انصار سب آپس میں ایک دوسرے کے والی وارث ہیں اور فتح مکہ کے بعد کے آزاد کردہ مسلمان لوگ قریشی اور آزاد شدہ ثقیف آپس میں ایک دوسرے کے ولی ہیں قیامت تک ۔} ۱؎ (مسند احمد:363/4:صحیح) اور روایت میں ہے { دنیا اور آخرت میں۔ } ۱؎ (مسند ابویعلیٰ:5033:ضعیف) مہاجر و انصار کی تعریف میں اور بھی بہت سی آیتیں ہیں فرمان ہے ۔ «وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُہٰجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ ۙ رَّضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَآ اَبَدًا ۭذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ» ۱؎ ( 9- التوبہ : 100 ) ’ پہلے پہل سبقت کرنے والے مہاجرین و انصار اور ان کے احسان کے تابعدار وہ ہیں جن سے اللہ خوش ہے اور وہ اس سے خوش ہیں اس نے ان کے لیے جنتیں تیار کر رکھی ہیں جن کے درختوں کے نیچے چشمے بہ رہے ہیں ۔‘ اور آیت میں ہے«لَقَدْ تَّاب اللّٰہُ عَلَی النَّبِیِّ وَالْمُہٰجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُ فِیْ سَاعَۃِ الْعُسْرَۃِ» ۱؎ ( 9-التوبۃ : 117 ) ’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اور ان مہاجرین و انصار پر اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کی توجہ فرمائی جنہوں نے سختی کے وقت بھی آپ کی اتباع نہ چھوڑی ۔‘ اور آیت میں ہے«لِلْفُقَرَاءِ الْمُہَاجِرِینَ الَّذِینَ أُخْرِجُوا مِن دِیَارِہِمْ وَأَمْوَالِہِمْ یَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللہِ وَرِضْوَانًا وَیَنصُرُونَ اللہَ وَرَسُولَہُ ۚ أُولٰئِکَ ہُمُ الصَّادِقُونَ وَالَّذِینَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِیمَانَ مِن قَبْلِہِمْ یُحِبٰونَ مَنْ ہَاجَرَ إِلَیْہِمْ وَلَا یَجِدُونَ فِی صُدُورِہِمْ حَاجَۃً مِّمَّا أُوتُوا وَیُؤْثِرُونَ عَلَیٰ أَنفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ ۚ وَمَن یُوقَ شُحَّ نَفْسِہِ فَأُولٰئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ» ۱؎ ( 59-الحشر : 8 ، 9 ) ’ ان مہاجر محتاجوں کے لیے جو اپنے مالوں سے اور اپنے شہروں سے نکال دئیے گئے جو اللہ کے فضل اور اس کی رضا مندی کی جستجو میں ہیں جو اللہ کی اور رسول کی مدد میں لگے ہوئے ہیں یہی سچے لوگ ہیں ۔ اور جنہوں نے ان کو جگہ دی ان سے محبت رکھی انہیں کشادہ دلی کے ساتھ دیا بلکہ اپنی ضرورت پر ان کی حاجت کو مقدم رکھا ۔‘ یعنی جو ہجرت کی فضیلت اللہ نے مہاجرین کو دی ہے ان پر وہ ان کا حسد نہیں کرتے ۔ ان آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ مہاجر انصار پر مقدم ہیں ۔ علماء کا اس میں اتفاق ہے ۔ مسند بزار میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کو ہجرت اور نصرت میں اختیار دیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے ہجرت کو پسند فرمایا ۔۱؎ (مسند بزار:2818:ضعیف) پھر فرماتا ہے ’ جو ایمان لائے لیکن انہوں نے ترک وطن نہیں کیا تھاانہیں ان کی رفاقت حاصل نہیں ۔‘ یہ مومنوں کی تیسری قسم ہے جو اپنی جگہ ٹھہرے ہوئے تھے ان کا مال غنیمت میں کوئی حصہ نہ تھا نہ خمس میں ہاں کسی لڑائی میں شرکت کریں تو اور بات ہے ۔ مسند احمد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کو کسی فوجی دستے کا سپہ سالار بنا کر بھیجتے تو اسے نصیحت فرماتے کہ { دیکھو اپنے دل میں اللہ کا ڈر رکھنا ، مسلمانوں کے ساتھ ہمیشہ خیر خواہانہ برتاؤ کرنا ۔ جاؤ اللہ کا نام لے کر اللہ کی راہ میں جہاد کرو ، اللہ کے ساتھ کفر کرنے والوں سے لڑو ، اپنے دشمن مشرکوں کے سامنے تین باتیں پیش کرو ، ان میں سے جو بھی وہ منظور کر لیں انہیں اختیار ہے ۔ ان سے کہو کہ اسلام قبول کریں ، اگر مان لیں تو پھر ان سے رک جاؤ اور ان میں سے جو اس پر قائم ہو جائیں گے اور جو مہاجروں پر ہے ان پر بھی ہو گا ۔ ورنہ یہ دیہات کے اور مسلمانوں کی طرح ہوں گے ایمان کے احکام ان پر جاری رہیں گے ۔ فے اور غینمت کے مال میں ان کا کوئی حصہ نہ ہوگا ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ کسی فوج میں شرکت کریں اور کوئی معرکہ سر کریں ۔ یہ نہ مانیں تو انہیں کہو کہ جزیہ دیں اگر یہ قبول کر لیں تو تم لڑائی سے رک جاؤ اور ان سے جزیہ لے لیا کرو ۔ اگر ان دونوں باتوں کا انکار کریں تو اللہ کی مدد کے بھروسے پر اللہ سے نصرت طلب کر کے ان سے جہاد کرو ۔ جو دیہاتی مسلمان وہیں مقیم ہیں ہجرت نہیں کی یہ اگر کسی وقت تم سے مدد کی خواہش کریں ، دشمنان دین کے مقابلے میں تمہیں بلائیں تو ان کی مدد تم پر واجب ہے لیکن اگر مقابلے پر کوئی ایسا قبیلہ ہو کہ تم میں اور ان میں صلح کا معاہدہ ہے تو خبردار تم عہد شکنی نہ کرنا ۔ قسمیں نہ توڑنا ۔} الانفال
73 دو مختلف مذاہب والے آپس میں دوست نہیں ہو سکتے اوپر مومنوں کے کارنامے اور رفاقت و ولایت کا ذکر ہوا اب یہاں کافروں کی نسبت بھی بیان فرما کر کافروں اور مومنوں میں سے دوستانہ کاٹ دیا ۔ مستدرک حاکم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { دو مختلف مذہب والے آپس میں ایک دوسرے کے وارث نہیں ہو سکتے نہ مسلمان کافر کا وارث اور نہ کافر مسلمان کا وارث پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی ۔} ۱؎ (مستدرک حاکم:240/2:صحیح) بخاری و مسلم میں بھی ہے { مسلمان کافر کا اور کافر مسلمان کا وارث نہیں بن سکتا ۔} ۱؎ (صحیح بخاری:6864) سنن وغیرہ میں ہے { دو مختلف مذہب والے آپس میں ایک دوسرے کے وارث نہیں ۔ } ۱؎ (سنن ابوداود:2911،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اسے امام ترمذی رحمہ اللہ حسن کہتے ہیں ۔ ابن جریر میں ہے کہ ایک نئے مسلمان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عہد لیا کہ { نماز قائم رکھنا ، زکوٰۃ دینا ، بیت اللہ شریف کا حج کرنا ، رمضان المبارک کے روزے رکھنا اور جب اور جہاں شرک کی آگ بھڑک اٹھے تو اپنے آپ کو ان کا مقابل اور ان سے برسر جنگ سمجھنا ۔} ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:16353:صحیح بالشواھد)۔ یہ روایت مرسل ہے اور مفصل روایت میں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { میں ہر اس مسلمان سے بری الذمہ ہوں جو مشرکین میں ٹھہرا رہے ۔ کیا وہ دونوں جگہ لگی ہوئی آگ نہیں دیکھتا ؟ } ۱؎ (سنن ابوداود:2645،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابوداؤد میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { جو مشرکوں سے خلا ملا رکھے اور ان میں ٹھہرا رہے وہ انہی جیسا ہے ۔} ۱؎ (سنن ابوداود:2787،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابن مردویہ میں ہے اللہ کے رسول رسولوں کے سرتاج محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { جب تمہارے پاس وہ آئے جس کے دین اور اخلاق سے تم رضامند ہو تو اس کے نکاح میں دے دو اگر تم نے ایسا نہ کیا تو ملک میں زبردست فتنہ فساد برپا ہو گا ۔} لوگوں نے دریافت کیا کہ یا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ چاہے وہ انہیں میں رہتا ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: { جب تمہارے پاس کسی ایسے شخص کی طرف سے پیغام نکاح آئے جس کے دین اور اخلاق سے تم خوش ہو تو اس کا نکاح کر دو تین بار یہی فرمایا ۔} ۱؎ (سنن ترمذی:1084،قال الشیخ الألبانی:صحیح) آیت کے ان الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ ’ اگر تم نے مشرکوں سے علیحدگی اختیار نہ کی اور ایمان داروں سے دوستیاں نہ رکھیں تو ایک فتنہ برپا ہو جائے گا ۔ یہ اختلاط برے نتیجے دکھائے گا لوگوں میں زبردست فساد برپا ہو جائے گا ۔‘ الانفال
74 مہاجر اور انصار میں وحدت مومنوں کا دنیوی حکم ذکر فرما کر اب آخرت کا حال بیان فرما رہا ہے ان کے ایمان کی سچائی ظاہر کر رہا ہے جیسے کہ سورت کے شروع میں بیان ہوا ہے انہیں بخشش ملے گی ان کے گناہ معاف ہوں گے انہیں عزت کی پاک روزی ملے گی جو برکت والی ہمیشگی والی طیب و طاہر ہو گی قسم قسم کی لذیذ عمدہ اور نہ ختم ہونے والی ہو گی ۔ ان کی اتباع کرنے والے ایمان و عمل صالح میں ان کا ساتھ دینے والے آخرت میں بھی درجوں میں ان کے ساتھ ہی ہوں گے ۔جیسا کہ «وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُہٰجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ ۙ رَّضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَآ اَبَدًا ۭذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ » ۱؎ ( 9- التوبہ : 100 ) اور «وَالَّذِیْنَ جَاۗءُوْ مِنْۢ بَعْدِہِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بالْاِیْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِنَّکَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ» ۱؎ ( 59- الحشر : 10 ) میں ہے ۔ متفق علیہ بلکہ متواتر حدیث میں ہے کہ { انسان اس کے ساتھ ہو گا جس سے محبت رکھتا ہے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:6167) دوسری حدیث میں ہے { جو کسی قوم سے محبت رکھے وہ ان میں سے ہی ہے ۔ ایک روایت میں ہے اس کا حشر بھی انہیں کے ساتھ ہو گا ۔} ۱؎ (طبرانی صغیر:874) مسند احمد کی حدیث گذر چکی ہے کہ { مہاجر و انصار آپس میں ایک دوسری کے ولی ہیں فتح مکہ کے بعد مسلمان قریشی اور ثقیف کے آزاد شدہ آپس میں ایک ہیں ، قیامت تک یہ سب آپس میں ولی ہیں ۔} ۱؎ (مسند احمد:363/4:صحیح) پھر اولو الارحام کا بیان ہوا یہاں ان سے مراد وہی قرابت دار نہیں جو علماء فرائض کے نزدیک اس نام سے یاد کئے جاتے ہیں یعنی جن کا کوئی حصہ مقرر نہ ہو اور جو عصبہ بھی ہوں جیسے خالہ، ماموں، پھوپھی، نواسے، نواسیاں، بھانجے، بھانجیاں وغیرہ ۔ بعض کا یہی خیال ہے آیت سے حجت پکڑتے ہیں اور اسے اس بارے میں صراحت والی بتاتے ہیں ۔ یہ نہیں بلکہ حق یہ ہے کہ یہ آیت عام ہے تمام قرابت داروں کو شامل ہے جیسے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ ،مجاہد ،عکرمہ ،حسن ،قتادہ رحمہ اللہ علیہم وغیرہ کہتے ہیں کہ یہ ناسخ ہے آپس کی قسموں پر وارث بننے کی اور بھائی چارے پر وارث بننے کی جو پہلے دستور تھا پس یہ علماء فرائض کے ذوی الارحام کو شامل ہو گی خاص نام کے ساتھ ۔ اور جو انہیں وارث نہیں بناتے ان کے پاس کئی دلیلیں ہیں سب سے قوی یہ حدیث ہے کہ { اللہ نے ہر حقدار کو اس کا حق دلوادیا ہے پس کسی وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں ۔} ۱؎ (سنن ابوداود:2870،قال الشیخ الألبانی:صحیح) وہ کہتے ہیں کہ اگر یہ بھی حقدار ہوتے تو ان کے بھی حصے مقرر ہو جاتے جب یہ نہیں تو وہ بھی نہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ «الْحَمْدُ لِلّٰہ» سورۂ انفال کی تفسیر ختم ہوئی اللہ تعالیٰ پر ہمیں بھروسہ ہے وہی ہمیں کافی ہے اور وہی کارساز ہے۔ الانفال
75 الانفال
1 . یہ سورت سب سے آخر رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اتری ہے ۔ بخاری شریف میں ہے سب سے آخر میں آیت «یَسْتَفْتُونَکَ» ۱؎ ( 4-النساء : 176 ) اتری ۔ اور سب سے آخری سورت سورۃ براۃ اتری ہے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4654) اس کے شروع میں بسم اللہ نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے امیر المؤمنین سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی اقتداء کر کے اسے قرآن میں نہیں لکھی تھی ۔ ترمذی شریف میں ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ ” آخر کیا وجہ ہے؟ جو آپ نے سورۃ الانفال کو جو مثانی میں سے ہے اور سورۃ براۃ کو جو مئین میں سے ہے ملا دیا اور ان کے درمیان « بِسمِ اللَّہِ الرَّحمٰنِ الرَّحیمِ » نہیں لکھی اور پہلے کی سات لمبی سورتوں میں انہیں رکھا ؟ “ تو آپ نے جواب دیا کہ ” بسا اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک ساتھ کئی سورتیں اترتی تھیں ۔ جب آیت اترتی آپ وحی کے لکھنے والوں میں سے کسی کو بلا کر فرما دیتے کہ اس آیت کو فلاں سورت میں لکھ دو جس میں یہ ذکر ہے سورۃ الانفال مدینہ منورہ میں سب سے پہلے نازل ہوئی تھی اور سورۃ براۃ سب سے آخر میں اتری تھی ۔ “ بیانات دونوں کے ملتے جلتے تھے مجھے خیال ہوا کہ کہیں یہ بھی اسی میں سے نہ ہو حضور اکرم صلی اللہ علیہ کا انتقال ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے نہیں فرمایا کہ یہ اس میں سے ہے اس لیے میں نے دونوں سورتوں کو متصل لکھا اور ان کے درمیان « بِسمِ اللَّہِ الرَّحمٰنِ الرَّحیمِ » نہیں لکھی اور سات پہلی لمبی سورتوں میں انہیں رکھا ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:786،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) اس سورت کا ابتدائی حصہ اس وقت اترا جب آپ غزوہ تبوک سے واپس آ رہے تھے ۔ حج کا زمانہ تھا ۔ مشرکین اپنی عادت کے مطابق حج میں آ کر بیت اللہ شریف کا طواف ننگے ہو کر کیا کرتے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں خلا ملا ہونا ناپسند فرما کر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو حج کا امام بنا کر اس سال مکہ مکرمہ روانہ فرمایا کہ مسلمانوں کو احکام حج سکھائیں اور مشرکوں میں اعلان کر دیں کہ وہ آئندہ سال سے حج کو نہ آئیں اور سورۃ براۃ کا بھی عام لوگوں میں اعلان کر دیں ۔ آپ کے پیچھے پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا کہ آپ کا پیغام بحیثیت آپ کے نزدیکی قرابت داری کے آپ بھی پہنچا دیں ، جیسے کہ اس کا تفصیلی بیان آ رہا ہے ، ان شاءاللہ ۔ پس فرمان ہے کہ یہ بے تعلقی ہے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بعض تو کہتے ہیں : " یہ اعلان اس عہد و پیمان کے متعلق ہے جن سے کوئی وقت معین نہ تھا یا جن سے عہد چار ماہ سے کم کا تھا لیکن جن کا لمبا عہد تھا وہ بدستور باقی رہا " ۔ جیسے فرمان ہے کہ « فَأَتِمّوا إِلَیہِم عَہدَہُم إِلیٰ مُدَّتِہِم » ۱؎ ( 9- التوبہ : 4 ) ان کی مدت پوری ہونے تک تم ان سے ان کا عہد نبھاؤ ۔ حدیث میں بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " ہم سے جن کا عہد و پیمان ہے ہم اس پر مقررہ وقت تک پابندی سے قائم ہیں ۔ " ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:16384) گو اس بارے میں اور اقوال بھی ہیں لیکن سب سے اچھا اور سب سے قوی قول یہی ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ " جن لوگوں سے عہد ہو چکا تھا ان کے لیے چار ماہ کی حد بندی اللہ تعالیٰ نے مقرر کی اور جن سے عہد نہ تھا ان کے لیے حرمت والے مہینوں کے گزر جانے کی عہد بندی مقرر کر دی یعنی دس ذی الحجہ سے محرم ختم تک پچاس دن " ۔ اس مدت کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سے جنگ کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے جب تک وہ اسلام قبول نہ کر لیں ۔ اور جن سے عہد ہے وہ دس ذی الحجہ کے اعلان کے دن سے لے کر بیس ربیع الآخر تک اپنی تیاری کر لیں پھر اگر چاہیں مقابلے پر آ جائیں ۔ یہ واقعہ ٩ ھ کا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امیر حج مقرر کر کے بھیجا تھا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو تیس یا چالیس آیتیں قرآن کی اس صورت کی دے کر بھیجا کہ آپ چار ماہ کی مدت کا اعلان کر دیں ۔ آپ نے ان کے ڈیروں میں ، گھروں میں ، منزلوں میں جا جا کر یہ آیتیں انہیں سنا دیں اور ساتھ ہی سرکار نبوت کا یہ حکم بھی سنا دیا کہ اس سال کے بعد حج کے لیے کوئی مشرک نہ آئے اور بیت اللہ کا طواف کوئی ننگا شخص نہ کرے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:16376) قبیلہ خزاعہ قبیلہ مدلج اور دوسرے سب قبائل کے لیے بھی یہی اعلان تھا ۔ تبوک سے آ کر آپ نے حج کا ارادہ کیا تھا لیکن مشرکوں کا وہاں آنا اور ان کا ننگے ہو کر وہاں کا طواف کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ناپسند تھا اس لیے حج نہ کیا اور اس سال سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا انہوں نے ذی المجاز کے بازاروں میں اور ہر گلی کوچے اور ہر ہر پڑاؤ اور میدان میں اعلان کیا کہ " چار مہینے تک کی تو شرک اور مشرک کو مہلت ہے اس کے بعد ہماری اسلامی تلواریں اپنا جوہر دکھائے گی " بیس دن ذی الحجہ کے ، محرم پورا ، صفر پورا ، اور ربیع الاول پورا اور دس دن ربیع الآخر کے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:16377) زہری رحمہ اللہ کہتے ہیں : " شوال محرم تک کی ڈھیل تھی " لیکن یہ قول غریب ہے ۔ اور سمجھ سے بھی بالا تر ہے کہ حکم پہنچنے سے پہلے ہی مدت شماری کیسے ہو سکتی ہے ؟ التوبہ
2 التوبہ
3 حج اکبر کے دن اعلان اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے عام اعلان ہے اور ہے بھی بڑے حج کے دن یعنی عید قرباں کو جو حج کے تمام دنوں سے بڑا اور افضل دن ہے کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم مشرکوں سے بری الذمہ بیزار اور الگ ہے اگر اب بھی تم گمراہی اور شرک و برائی چھوڑ دو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے توبہ کر لو نیک بن جاؤ اسلام قبول کر لو ، شرک و کفر چھوڑ دو ۔ اور اگر تم نے نہ مانا اپنی ضلالت پر قائم رہے تو تم نہ اب اللہ تعالی کے قبضے سے باہر ہو نہ آئندہ کسی وقت اللہ کو دبا سکتے ہو وہ تم پر قادر ہے تمہاری چوٹیاں اس کے ہاتھ میں ہیں وہ کافروں کو دنیا میں بھی سزا کرے گا اور آخرت میں بھی عذاب کرے گا ۔ صحیح بخاری میں ہے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ " مجھے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے قربانی والے دن ان لوگوں میں جو اعلان کے لیے بھیجے گئے تھے بھیجا ۔ ہم نے منادی کر دی کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج کو نہ آئے اور بیت اللہ شریف کا طواف کوئی شخص ننگا ہو کر نہ کرے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا کہ سورۃ براۃ کا اعلان کر دیں پس آپ نے بھی منٰی میں ہمارے ساتھ عید کے دن انہیں احکام کی منادی کی " ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:369 ) حج اکبر کا دن بقر عید کا دن ہے ۔ کیونکہ لوگ حج اصغر بولا کرتے تھے ۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اعلان کے بعد حجتہ الوداع میں ایک بھی مشرک حج کو نہیں آیا تھا ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3177) حنین کے زمانے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جعرانہ سے عمرے کا احرام باندھا تھا پھر اس سال سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو امیر حج بنا کر بھیجا اور آپ نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو منادی کے لیے روانہ فرمایا ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا کہ براءت کا اعلان کر دیں امیر حج سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے آنے کے بعد بھی سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی رہے ۔ لیکن اس روایت میں غربت ہے ۔ ۱؎ (تفسیر عبد الرزاق:1037:مرسل) عمرہ جعرانہ والے سال امیر حج سیدنا عتاب بن اسید رضی اللہ عنہ تھے سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ تو سنہ ٩ ھ میں امیر حج تھے ۔ مسند کی روایت میں ہے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : " اس سال سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ میں تھا ۔ ہم نے پکار پکار کر منادی کر دی کہ جنت میں صرف ایماندار ہی جائیں گے بیت اللہ کا طواف آئندہ سے کوئی شخص عریانی کی حالت میں نہیں کر سکے گا ۔ جن کے ساتھ ہمارے عہد و پیمان ہیں ان کی مدت آج سے چار ماہ کی ہے اس مدت کے گزر جانے کے بعد اللہ تعالی اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم مشرکوں سے بری الذمہ ہیں اس سال کے بعد کسی کافر کو بیت اللہ کے حج کی اجازت نہیں ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں یہ منادی کرتے کرتے مرا گلا پڑ گیا " ۔ ۱؎ (مسند احمد:299/2:حسن) سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی آواز بیٹھ جانے کے بعد میں نے منادی شروع کر دی تھی ۔ ایک روایت میں ہے جس سے عہد ہے اس کی مدت وہی ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:16382) امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : " مجھے تو ڈر ہے کہ یہ جملہ کسی راوی کے وہم کی وجہ سے نہ ہو ۔ کیونکہ مدت کے بارے میں اس کے خلاف بہت سی روایتیں ہیں ۔ " مسند میں ہے کہ براۃ کا اعلان کرنے کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کو بھیجا وہ ذوالحلیفہ پہنچے ہوں گے جو آپ نے فرمایا کہ ” یہ اعلان تو یا میں خود کروں گا یا میرے اہل بیت میں سے کوئی شخص کرے گا “ ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3090،قال الشیخ الألبانی:حسن) سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سورۃ برات کی دس آیتیں جب اتریں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بلا کر فرمایا : ” انہیں لے جاؤ اور اہل مکہ کو سناؤ “ ۔ پھر مجھے یاد فرمایا اور ارشاد ہوا کہ ” تم جاؤ ابوبکر سے ملو جہاں وہ ملیں ان سے کتاب لے لینا اور مکہ والوں کے پاس جا کر انہیں پڑھ سنانا “ ، میں چلا جحفہ میں جا کر ملاقات ہوئی ۔ میں نے ان سے کتاب لے لی ۔ آپ رضی اللہ عنہ واپس لوٹے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ " کیا میرے بارے میں کوئی آیتیں نازل ہوئی ہیں ؟ " آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” نہیں جبرائیل میرے پاس آئے اور فرمایا کہ یا تو یہ پیغام خود آپ پہنچائیں یا اور کوئی شخص جو آپ میں سے ہو “ ۔ ۱؎ (مسند احمد:151/1:ضعیف) اس سند میں ضعف ہے اور اس سے یہ مراد بھی نہیں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس وقت لوٹ آئے نہیں بلکہ آپ نے اپنی سرداری میں وہ حج کرایا حج سے فارغ ہو کر پھر واپس آئے ۔ جیسے کہ اور روایتوں میں صراحتاً مروی ہے اور حدیث میں ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پیغام رسانی کا ذکر کیا تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے عذر پیش کیا کہ " میں عمر کے لحاظ سے اور تقریر کے لحاظ سے اپنے میں کمی پاتا ہوں ۔ " آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” لیکن ضرورت اس کی ہے کہ اسے یا تو میں آپ پہنچاؤں یا تو پہنچائے “ ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا : اگر یہی ہے تو لیجئے میں جاتا ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جاؤ اللہ تیری زبان کو ثابت رکھے اور تیرے دل کو ہدایت دے ۔پھر اپناہاتھ ان کے منہ پر رکھا “ ۔ ۱؎ (عبد اللہ فی المسند:1289:ضعیف) لوگوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ " حج کے موقع پر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا بات پہنچانے بھیجا تھا ؟ " آپ رضی اللہ عنہ نے اوپر والی چاروں باتیں بیان فرمائیں ۔۱؎ (سنن ترمذی:3092،قال الشیخ الألبانی:صحیح) مسند احمد وغیرہ میں یہ روایت کسی طریق سے آئی ہے ۔ اس میں لفظ یہ ہیں کہ جن سے معاہدہ ہے وہ جس مدت تک ہے اسی تک رہے گا ۔ اور حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے لوگوں نے کہا کہ " آپ صلی اللہ علیہ وسلم حج میں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو بھیج چکے ہیں کاش کہ یہ پیغام بھی انہیں پہنچا دیتے ۔ " آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " اسے تو کوئ میرے گھر والا ہی پہنچاۓ گا ۔ " اس میں ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غضبأ نامی اونٹنی پر سوار ہو کر تشریف لے گے تھے انہیں راستے میں دیکھ کر سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ " سردار ہو یا ماتحت ؟ " فرمایا : " نہیں میں تو ماتحت ہوں ۔ " وہاں جا کر آپ نے تو حج کا انتظام کیا اور عید والے دن سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ احکام پہنچائے ۔ پھر یہ دونوں آپ کے پاس آئے ۔ پس مشرکین میں سے جن سے عام عہد تھا ان کے لیے تو چار ماہ کی مدت ہو گئی ۔ باقی جس سے جتنا عہد تھا وہ بدستور رہا ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:16391:ضعیف) اور روایت میں ہے کہ ابوبکر صدیق کو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امیر حج بنا کر بھیجا تھا اور مجھے ان کے پاس چالیس آیتیں سورۃ برات کی دے کر بھیجا تھا ۔ آپ نے عرفات کے میدان میں عرفہ کے دن لوگوں کو خطبہ دیا ۔ پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : " اُٹھئے اور سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام لوگوں کو سنا دیجئیے ۔ " پس سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر ان چالیس آیتوں کی تلاوت فرمائی ۔ پھر لوٹ کر منٰی میں آ کر جمرہ پر کنکریاں پھینکیں ۔ اونٹ نحر کیا سر منڈوایا ۔ پھر مجھے معلوم ہوا کہ سب حاجی اس خطبے کے وقت موجود نہ تھے ۔ اس لیے میں نے ڈیروں میں اور خیموں میں اور پڑاؤ میں جا جا کر منادی شروع کر دی میرا خیال ہے کہ شاید اس وجہ سے لوگوں کو یہ گمان ہو گیا یہ دسویں تاریخ کا ذکر ہے حالانکہ اصل پیغام نویں کو عرفہ کے دن پہنچا دیا گیا تھا ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:16392:ضعیف) ابواسحٰق رحمہ اللہ کہتے ہیں : ” میں نے ابوجحیفہ رحمہ اللہ سے پوچھا کہ حج اکبر کا کون سا دن ہے ؟ “ آپ نے فرمایا : ” عرفے کا دن ۔ “ میں نے کہا : ” یہ آپ اپنی طرف سے فرما رہے ہیں یا صحابہ رضی اللہ عنہم سے سنا ہوا ۔ “ فرمایا : ” سب کچھ یہی ہے ۔ “ عطاء رحمہ اللہ بھی یہی فرماتے ہیں ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بھی یہی فرما کر فرماتے ہیں : ” پس اس دن کو کوئی روزہ نہ رکھے ۔ “ راوی کہتا ہے : ” میں نے اپنے باپ کے بعد حج کیا ۔ مدینے پہنچا اور پوچھا کہ یہاں آج کل سب سے افضل کون ہیں ؟ “ لوگوں نے کہا : ” سعید بن مسیب رحمہ اللہ ہیں ۔ “ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ ” میں نے مدینے والوں سے پوچھا کہ یہاں آج کل سب سے افضل کون ہیں ؟ تو انہوں نے آپ کا نام لیا تو میں آپ کے پاس آیا ہوں یہ فرمائیے کہ عرفہ کے دن کے روزے کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں ؟ “ آپ نے فرمایا : ” لو میں تمہیں اپنے سے ایک سو درجے بہتر شخص کو بتاؤں وہ سیدنا عمر یا ابن عمر رضی اللہ عنہما ہیں وہ اس روزے سے منع فرماتے تھے اور اسی دن کو حج اکبر فرماتے تھے ۔ “ ( ابن ابی حاتم وغیرہ ) اور بھی بہت سے بزرگوں نے یہی فرمایا ہے کہ حج اکبر سے مراد عرفے کا دن ہے ایک مرسل حدیث میں بھی ہے آپ نے اپنے عرفے کے خطبے میں فرمایا یہی حج اکبر کا دن ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:16407) دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد بقرہ عید کا دن ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ یہی فرماتے ہیں ۔ ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ بقر عید والے دن اپنے سفید خچر پر سوار جا رہے تھے کہ ایک شخص نے ان کی لگام تھام لی اور یہی پوچھا آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا حج اکبر کا دن آج ہی کا دن ہے لگام چھوڑ دے ۔ عبداللہ بن ابی اوفی کا قول بھی یہی ہے ۔ سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے اپنے عید کے خطبے میں فرمایا : ” آج ہی کا دن یوم الاضحی ہے آج ہی کا دن یوم النحر ہے ۔ آج ہی کا دن حج اکبر کا دن ہے ۔ “ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی یہی مروی ہے اور بھی بہت سے لوگ اسی طرف گئے ہیں کہ حج اکبر بقر عید کا دن ہے ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ کا پسندیدہ قول بھی یہی ہے ۔ صحیح بخاری کے حوالے سے پہلے حدیث گذر چکی ہے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے منادی کرنے والوں کو منٰی میں عید کے دن بھیجا تھا ۔ ابن جریر میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجتہ الوداع میں جمروں کے پاس دسویں تاریخ ذی الحجہ کو ٹھہرے اور فرمایا : ” یہی دن حج اکبر کا دن ہے ۔ “ ۱؎ (صحیح بخاری تعلیقا:1742) اور روایت میں ہے کہ آپ کی اونٹنی سرخرنگ کی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے پوچھا کہ ” جانتے بھی ہو آج کیا دن ہے ؟ “ لوگوں نے کہا : ” قربانی کا دن ہے ۔ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” سچ ہے یہی دن حج اکبر کا ہے ۔ “ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:16462) اور روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اونٹنی پر سوار تھے لوگ اس کی نکیل تھامے ہوئے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے پوچھا کہ ” یہ دن کون سا ہے جانتے ہو ؟ “ ہم اس خیال سے خاموش ہو گئے کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا کوئی اور ہی نام بتلائیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” کیا یہ حج اکبر کا دن نہیں ؟ “ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:16460) اور روایت میں ہے کہ لوگوں نے آپ کے سوال پر جواب دیا کہ ” یہ حج اکبر کا دن ہے ۔ “ ۱؎ (سنن ترمذی:2159،قال الشیخ الألبانی:صحیح) سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ ” عید کے بعد کا دن ہے ۔ “ مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں : ” حج کے سب دنوں کا یہی نام ہے ۔ “ سفیان رحمہ اللہ بھی یہی کہتے ہیں کہ ” جیسے یوم جمل ، یوم صفین ان لڑائیوں کے تمام دنوں کا نام ہے ایسے ہی یہ بھی ہے ۔ “ حسن بصری رحمہ اللہ سے جب یہ سوال ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تمہیں اس سے کیا حاصل یہ تو اس سال تھا جس سال حج کے امیر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے ۔ “ ابن سیرین رحمہ اللہ اسی سوال کے جواب میں فرماتے ہیں : ” یہی وہ دن تھا جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اور عام لوگوں کا حج ہوا ۔ “ التوبہ
4 عہد نامہ کی شرط پہلے جو حدیثیں بیان ہو چکی ہیں ان کا اور اس آیت کا مضمون ایک ہی ہے ۔ اس سے صاف ظاہر ہو گیا کہ جن میں مطلقاً عہد و پیمان ہوئے تھے انہیں تو چار ماہ کی مہلت دی گئی کہ اس میں وہ اپنا جو چاہیں کر لیں اور جن سے کسی مدت تک عہد پیمان ہو چکے ہیں وہ سب عہد ثابت ہیں بشرطیکہ وہ لوگ معاہدے کی شرائط پر قائم رہیں نہ مسلمانوں کو خود کوئی ایذاء پہنچائیں نہ ان کے دشمنوں کی کمک اور امداد کریں ۔ اللہ تعالیٰ وعدوں کے پورے لوگوں سے محبت رکھتے ہیں ۔ التوبہ
5 جہاد اور حرمت والے مہینے حرمت والے مہینوں سے مراد یہاں وہ چار مہینے ہیں جن کا ذکر« مِنْہَآ اَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ » ۱؎ ( 9- التوبہ : 36 ) میں ہے پس ان کے حق میں آخری حرمت والا مہینہ محرم الحرام کا ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور ضحاک رحمہ اللہ سے بھی یہی مروی ہے لیکن اس میں ذرا تأمل ہے بلکہ مراد اس سے یہاں وہ چار مہینے ہیں جن میں مشرکین کو پناہ ملی تھی کہ ان کے بعد تم سے لڑائی ہے ۔ چنانچہ خود اسی سورت میں اس کا بیان اور آیت میں آ رہا ہے ۔ فرماتا ہے ان چار ماہ کے بعد مشرکوں سے جنگ کرو انہیں قتل کرو انہیں گرفتار کرو جہاں بھی پالو ۔ پس یہ عام ہے لیکن مشہور یہ ہے کہ یہ خاص ہے حرم میں لڑائی نہیں ہو سکتی ۔ جیسے فرمان ہے « وَلَا تُقٰتِلُوْھُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ» ۱؎ ( 2- البقرۃ : 191 ) مسجد الحرام کے پاس ان سے نہ لڑو جب تک کہ وہ اپنی طرف سے لڑائی کی ابتداء نہ کریں ۔ اگر یہ وہاں تم سے لڑیں تو پھر تمہیں بھی ان سے لڑائی کرنے کی اجازت ہے چاہو قتل کرو چاہو قید کر لو ان کے قلعوں کا محاصرہ کرو ان کے لیے ہر گھاٹی میں بیٹھ کر تاک لگاؤ انہیں زد پر لا کر مارو ۔ یعنی یہی نہیں کہ مل جائیں تو جھڑپ ہو جائے خود چڑھ کر جاؤ ۔ ان کی راہیں بند کرو اور انہیں مجبور کر دو کہ یا تو اسلام لائیں یا لڑیں ۔ اس لیے فرمایا کہ اگر وہ توبہ کر لیں ، پابند نماز ہو جائیں ، زکوٰۃ دینے لگیں تو بےشک ان کی راہیں کھول دو ان پر سے تنگیاں اٹھالو ۔ زکوٰۃ کے مانعین سے جہاد کرنے کی اسی جیسی آیتوں سے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے دلیل لی تھی کہ لڑائی اس شرط پر حرام ہے کہ اسلام میں داخل ہو جائیں اور اسلام کے واجبات بجا لائیں ۔ اس آیت میں ارکان اسلام کو ترتیب وار بیان فرمایا ہے اعلٰی پھر ادنٰی پس شہادت کے بعد سب سے بڑا رکن اسلام نماز ہے جو اللہ عزوجل کا حق ہے ۔ نماز کے بعد زکوٰۃ ہے جس کا نفع فقیروں ، مسکینوں ، محتاجوں کو پہنچتا ہے اور مخلوق کا زبردست حق جو انسان کے ذمے ہے ادا ہو جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر نماز کے ساتھ ہی زکوٰۃ کا ذکر اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے ۔ بخاری و مسلم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” مجھے حکم کیا گیا ہے کہ لوگوں سے جہاد جاری رکھوں ۔ جب تک کہ وہ یہ گواہی نہ دیں کہ کوئی معبود بجز اللہ کے نہیں ہے اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور نمازوں کو قائم کریں اور زکوٰۃ دیں ۔ “ ۱؎ الخ (صحیح بخاری:25) سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں کہ ” تمہیں نمازوں کے قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے کا حکم کیا گیا ہے جو زکوٰۃ نہ دے اس کی نماز بھی نہیں ۔ “ عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ” اللہ تعالیٰ ہرگز کسی کی نماز قبول نہیں فرماتا جب تک وہ زکوٰۃ ادا نہ کرے ۔ “ اللہ تعالیٰ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ پر رحم فرمائے آپ کی فقہ سب سے بڑھی ہوئی تھی جو آپ نے زکوٰۃ کے منکروں سے جہاد کیا ۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” مجھے لوگوں سے جہاد کا حکم دیا گیا ہے ۔ جب تک کہ وہ یہ گواہی نہ دیں کہ بجز اللہ تعالیٰ برحق کے اور کوئی لائق عبادت نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ۔ جب وہ ان دونوں باتوں کا اقرار کر لیں ہمارے قبلے کی طرف منہ کر لیں ، ہمارا ذبیحہ کھانے لگیں ، ہم جیسی نمازیں پڑھنے لگیں تو ہم پر ان کے خون ان کے مال حرام ہیں مگر احکام اسلام حق کے ماتحت انہیں ہر وہ حق حاصل ہے جو اور مسلمانوں کا ہے اور ان کے ذمے ہر وہ چیز ہے جو اور مسلمانوں کے ذمے ہے ۔ “ یہ روایت صحیح بخاری میں اور سنن میں بھی ہے سوائے ابن ماجہ کے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:392) ابن جریر میں ہے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” جو دنیا سے اس حال میں جائے کہ اللہ تعالیٰ اکیلے کی خالص عبادت کرتا ہو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا ہو تو وہ اس حال میں جائے گا کہ اللہ اس سے خوش ہو گا ۔ “ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ” یہی اللہ کا دین ہے اسی کو تمام پیغمبر علیہم السلام لائے تھے اور اپنے رب کی طرف سے اپنی اپنی امتوں کو پہنچایا تھا اس سے پہلے کہ باتیں پھیل جائیں اور خواہشیں ادھر ادھر لگ جائیں ۔ اس کی سچائی کی شہادت اللہ تعالیٰ کی آخری وحی میں موجود ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے « فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاۃَ وَآتَوُا الزَّکَاۃَ فَخَلٰوا سَبِیلَہُمْ» ۱؎ ( 9-التوبہ : 5 ) پس توبہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ واحد برحق ہے پس توبہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ واحد برحق کے سوا اوروں کی عبادت سے دست بردار ہو جائیں نماز اور زکوٰۃ کے پابند ہو جائیں ۔ اور آیت میں ہے کہ ان تینوں کاموں کے بعد وہ تمہارے دینی برادر ہیں ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:13489:ضعیف) ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ” یہ تلوار کی آیت ہے اس نے ان تمام عہد و پیمان کو چاک کر دیا جو مشرکوں سے تھے “ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ ” برأت کے نازل ہونے پر چار مہینے گزر جانے کے بعد کوئی عہد و ذمہ باقی نہیں رہا ، پہلی شرطیں برابری کے ساتھ توڑ دی گئیں اب اسلام اور جہاد باقی رہ گیا “ ۔ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ” اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو چار تلواروں کے ساتھ بھیجا ایک تو مشرکین عرب میں“ ۔ فرماتا ہے «فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَیْثُ وَجَدْتٰمُــوْہُمْ » ۱؎ ( 9- التوبہ : 5 ) مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کرو ۔ یہ روایت اسی طرح مختصراً ہے ۔ میرا خیال ہے کہ دوسری تلوار اہل کتاب میں ، فرماتا ہے« قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ باللّٰہِ » ۱؎ ( 9- التوبہ : 29 ) الخ اللہ تبارک و تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان نہ لانے والوں اور اللہ تعالیٰ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حرام کردہ کو حرام نہ ماننے والوں اور اللہ تعالیٰ کے سچے دین کو قبول کرنے والوں سے جو اہل کتاب ہیں جہاد کرو تاوقتیکہ وہ ذلت کے ساتھ جزیہ دینا قبول نہ کر لیں ۔ تیری تلوار منافقوں میں ، فرمان ہے« یٰٓاَیٰھَا النَّبِیٰ جَاہِدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنٰفِقِیْنَ » ۱؎ ( 9- التوبہ : 73 ) اے نبی کافروں اور منافقوں سے جہاد کرو ۔ چوتھی تلوار باغیوں میں ، ارشاد ہے« وَاِنْ طَایِٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا » ۱؎ ( 49- الحجرات : 9 ) اگر مسلمانوں کی دو جماعتوں میں لڑائی ہو جائے تو ان میں صلح کرا دو پھر بھی اگر کوئی جماعت دوسری کو دباتی چلی جائے تو ان باغیوں سے تم لڑو جب تک کہ وہ پلٹ کر اللہ کے حکم کی ماتحتی میں نہ آ جائیں ۔ ضحاک رحمہ اللہ اور سدی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ ” آیت یہ تلوار آیت «فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً » ۱؎ ( 47-محمد : 4 ) سے منسوخ ہے “ یعنی بطور احسان کے یا فدیہ لے کر کافر قیدیوں کو چھوڑ دو ۔ قتادہ رحمہ اللہ اس کے برعکس کہتے ہیں کہ ” پچھلی آیت پہلی سے منسوخ ہے “ ۔ التوبہ
6 امن مانگنے والوں کو امن دو منافقوں کی گردن مار دو اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرماتا ہے کہ جن کافروں سے آپ کو جہاد کا حکم دیا گیا ہے ان میں سے اگر کوئی آپ سے امن طلب کرے تو آپ اس کی خواہش پوری کر دیں اسے امن دیں یہاں تک کہ وہ قرآن کریم سن لے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سن لے دین کی تعلیم معلوم کر لے حجت الہٰی پوری ہو جائے پھر اپنے امن میں ہی اسے اس کے وطن پہنچا دو بے خوفی کے ساتھ یہ اپنے امن کی جگہ پہنچ جائے ممکن ہے کہ سوچ سمجھ کر حق کو قبول کر لے ۔ یہ اس لیے کہ یہ بےعلم لوگ ہیں انہیں دینی معلومات بہم پہنچاؤ اللہ کی دعوت اس کے بندوں کے کانوں تک پہنچا دو ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جو تیرے پاس دینی باتیں سننے کے لیے آئے خواہ وہ کوئی ہی کیوں نہ ہو وہ امن میں ہے یہاں تک کہ کلام اللہ سنے پھر جہاں سے آیا ہے وہاں باامن پہنچ جائے ۔ اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے جو دین سمجھنے کے لیے آۓ اور اسے جو پیغام لے کر آۓ امن دے دیا کرتے تھے حدیبیہ والے سال بھی یہی ہوا قریش کے جتنے قاصد آئے یہاں انہیں کوئی خطرہ نہ تھا ۔ عروہ بن مسعود ، مکرزبن حفص ، سہیل بن عمرو وغیرہ یکے بعد دیگرے آتے رہے ۔ یہاں آ کر انہیں وہ شان نظر آئی جو قیصر و کسریٰ کے دربار میں بھی نہ تھی یہی انہوں نے اپنی قوم سے کہا پس یہ چیز بھی بہت سے لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ بن گئ ۔ مسیلمہ کذاب مدعی نبوت کا قاصد جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں پہنچا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ ” کیا تم مسلیمہ کی رسالت کے قائل ہو ؟ “ اس نے کہا : ” ہاں “ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اگر قاصدوں کا قتل میرے نزدیک ناجائز نہ ہوتا تو میں تیری گردن اڑا دیتا “ ۔ ۱؎ (مسند احمد:383/1:صحیح) آخر یہ شخص سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہا کی کوفہ میں امارت کے زمانے میں قتل کر دیا گیا ۔ اسے ابن النواحہ کہا جاتا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب معلوم ہوا کہ یہ مسیلمہ کا ماننے والا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلوایا اور فرمایا : ” اب تو قاصد نہیں ہے اب تیری گردن مارنے سے کوئی امر مانع نہیں ، اسے قتل کر دیا گیا ۔ اللہ کی لعنت اس پر ہو ۔ الغرض دارالحرب سے جو قاصد آئے یا تاجر آئے یا صلح کا طالب آئے یا آپس میں اصلاح کے ارادے سے آئے یا جزیہ لے کر حاضر ہو امام یا نائب امام نے اسے امن وامان دے دیا ہو تو جب تک وہ دارالاسلام میں رہے یا اپنے وطن نہ پہنچ جائے اسے قتل کرنا حرام ہے ۔ علماء کہتے ہیں ایسے شخص کو دارالاسلام میں سال بھر تک نہ رہنے دیا جائے ، زیادہ سے زیادہ چار ماہ تک وہ یہاں ٹھہر سکتا ہے ۔ پھر چار ماہ سے زیادہ اور سال بھر کے اندر کے دو قول امام شافعی رحمہم اللہ تعالیٰ وغیرہ علماء کے ہیں ۔ التوبہ
7 پابندی عہد کی شرائط اوپر والے حکم کی حکمت بیان ہو رہی ہے کہ چارہ ماہ کی مہلت دینے پر لڑائی کی اجازت دینے کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے شرک و کفر کو چھوڑنے والے اور اپنے عہد و پیمان پر قائم رہنے والے ہی نہیں ہاں صلح حدیبیہ جب تک ان کی طرف سے نہ ٹوٹے تم بھی نہ توڑنا ۔ یہ صلح دس سال کے لیے ہوئی تھی ، ماہ ذی القعدہ سنہ ٦ ہجری سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاہدہ کو نبھایا یہاں تک کہ قریشیوں کی طرف سے معاہدہ توڑا گیا ان کے حلیف بنو بکر نے رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے حلیف خزاعہ پر چڑھائی کی بلکہ حرم میں بھی انہیں قتل کیا اس بنا پر رمضان شریف ٨ ہجری میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر چڑھائی کی ۔ رب العالمین نے مکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں فتح کرایا اور انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بس میں کر دیا ۔ (وللّٰہ الحمد والمنہ) لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باوجود غلبہ اور قدرت کے ان میں سے جنہوں نے اسلام قبول نہ کیا سب کو آزاد کر دیا ۔ انہی لوگوں کو طلقاء کہتے ہیں یہ تقریباً دو ہزار تھے جو کفر پر پھر بھی باقی رہے اور ادھر ادھر ہو گئے ۔ رحمتہ اللعالمین نے سب کو عام پناہ دے دی اور انہیں مکہ شریف میں آنے اور یہاں اپنے مکانوں میں رہنے کی اجازت مرحمت فرمائی کہ چارماہ تک وہ جہاں چاہیں آ جا سکتے ہیں ۔ انہی میں صفوان بن اُمیہ اور عکرمہ بن ابی جہل وغیرہ تھے پھر اللہ نے ان کی رہبری کی اور انہیں اسلام نصیب فرمایا ۔ اللہ تعالیٰ اپنے ہر اندازے کے کرنے میں اور ہر کام کے کرنے میں تعریفوں والا ہی ہے ۔ التوبہ
8 کافروں کی دشمنی اللہ تعالیٰ کافروں کے مکر و فریب اور ان کی دلی عداوت سے مسلمانوں کو آگاہ کرتا ہے تاکہ وہ ان کی دوستی اپنے دل میں نہ رکھیں نہ ان کے قول و قرار پر مطمئن رہیں ان کا کفر شرک انہیں وعدوں کی پابندی پر رہنے نہیں دیتا ۔ یہ تو وقت کے منتظر ہیں ان کا بس چلے تو یہ تو تمہیں کچے چبا ڈالیں نہ قرابت داری کو دیکھیں نہ وعدوں کی پاسداری کریں اس سے جو ہو سکے وہ تکلیف تم پر توڑیں اور خوش ہوں ۔ «آل» کے معنی قرابت داری کے ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی یہی مروی ہے اور سیدنا حسان رضی اللہ عنہ کے شعر میں بھی یہی معنی کئے گئے ہیں کہ وہ اپنے غلبہ کے وقت اللہ کا بھی لحاظ نہ کریں گے نہ کسی اور کا یہی لفظ «ال » سے «إیل» بن کر جبرائیل ، میکائیل اور اسرافیل میں آیا یعنی اس کا معنی اللہ تعالیٰ ہے لیکن پہلا قول ہی ظاہر اور مشہور ہے اور اکثر مفسرین کا بھی یہی قول ہے ۔ مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں : ” مراد عہد ہے “ ۔ قتادہ رحمہ اللہ کا قول ہے مراد قسم ہے ۔ التوبہ
9 جہاد ہی راہ اصلاح ہے مشرکوں کی مذمت کے ساتھ ہی مسلمانوں کو ترغیب جہاد دی جا رہی ہے کہ ان کافروں نے دنیائے خسیس کو آخرت نفیس کے بدلے پسند کر لیا ہے خود راہ رب سے ہٹ کر مومنوں کو بھی ایمان سے روک رہے ہیں ان کے اعمال بہت ہی بد ہیں یہ تو مومنوں کو نقصان پہنچانے کے ہی درپے ہیں نہ انہیں رشتے داری کا خیال نہ معاہدے کا پاس ۔ یہ تو حد سے تجاوز کر گئے ہیں ۔ ہاں اب بھی سچی توبہ اور نماز و زکوٰۃ کی پابندی انہیں تمہارا بنا سکتی ہے ۔ چنانچہ بزار کی حدیث میں ہے کہ جو دنیا کو اس حال میں چھوڑے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادتیں خلوص کے ساتھ کر رہا ہو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناتا ہو نماز و زکوٰۃ کا پابند ہو تو اللہ تعالیٰ اس سے خوش ہو کر ملے گا ۔ یہی اللہ تعالیٰ کا وہ دین ہے جسے انبیاء علیہم السلام لاتے رہے اور اسی کی تبلیغ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ کرتے رہے ۔ اس سے پہلے کہ باتیں پھیل جائیں اور خواہشیں بڑھ جائیں اس کی تصدیق کتاب اللہ میں موجود ہے کہ اگر وہ توبہ کر لیں یعنی بتوں کو اور بت پرستی کو چھوڑ دیں اور نمازی اور زکوٰۃ دینے والے بن جائیں تو تم ان کے راستے چھوڑ دو ۔ ۱؎ (9-التوبۃ:5) اور آیت میں ہے کہ پھر تو یہ تمہارے دینی بھائی ہیں ۔ ۱؎ (9-التوبۃ:11) امام بزار رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ” میرے خیال سے تو مرفوع حدیث وہیں پر ختم ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے رضامند ہو کر ملے گا اس کے بعد کا کلام راوی حدیث ربیع بن انس رحمہ اللہ علیہ کا ہے ۔ واللہ تعالیٰ اعلم “ ۔ التوبہ
10 التوبہ
11 التوبہ
12 وعدہ خلاف قوم کو دندان شکن جواب دو اگر یہ مشرک اپنی قسموں کو توڑ کر وعدہ خلافی اور عہد شکنی کریں اور تمہارے دین پر اعتراض کرنے لگیں تو تم ان کے کفر کے سروں کو توڑ مروڑ دو ۔ اسی لیے علماء نے کہا ہے کہ ” جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دے ، دین میں عیب جوئی کرے ، اس کا ذکر اہانت کے ساتھ کرے اسے قتل کر دیا جائے “ ۔ ان کی قسمیں محض بے اعتبار ہیں ۔ یہی طریقہ ان کے کفر و عناد سے روکنے کا ہے ۔ ابوجہل ، عتبہ ، شیبہ امیہ وغیرہ یہ سب سردارن کفر تھے ۔ ایک خارجی نے سیدنا سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ کو کہا کہ ” یہ کفر کے پیشواؤں میں سے ایک ہے “ آپ نے فرمایا : ” تو جھوٹا ہے میں تو ان میں سے ہوں جنہوں نے کفر کے پیشواؤں کو قتل کیا تھا “ ۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ” اس آیت والے اس کے بعد قتل نہیں کئے گئے “ ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح مروی ہے ۔ صحیح یہ ہے کہ آیت عام ہے گو سبب نزول کے اعتبار سے اس سے مراد مشرکین قریش ہیں لیکن حکماً یہ انہیں اور سب کو شامل ہے واللہ اعلم ۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے شام کی طرف لشکر بھیجا تو ان سے فرمایا کہ ” تمہیں ان میں کچھ لوگ ایسے ملیں گے جن کی چندھیا منڈی ہوئی ہو گی تو تم اس شیطانی بیٹھک کو تلوار سے دو ٹکڑے کر دینا واللہ ! ان میں سے ہر ایک کا قتل اور ستر لوگوں کے قتل سے مجھے زیادہ پسند ہے اسلیے کہ فرمان الٰہی ہے کفر کے اماموں کو قتل کرو “ ( ابن ابی حاتم ) التوبہ
13 ظالموں کو ان کے کیفر کردار کو پہنچاؤ مسلمانوں کو پوری طرح جہاد پر آمادہ کرنے کے لیے فرما رہا ہے کہ یہ عہد شکن قسمیں توڑنے والے کفار وہی ہیں جنہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جلا وطن کرنے کی پوری ٹھان لی تھی چاہتے تھے کہ قید کر لیں یا قتل کر ڈالیں یا دیس نکالا دے دیں ان کے مکر سے اللہ کا مکر کہیں بہتر تھا ۔ ۱؎ (8-الأنفال:30) صرف ایمان کی بناء پر دشمنی کر کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو اور مومنوں کو وطن سے خارج کرتے تھے بھڑ بھڑا کر اُٹھ کھڑے ہو جاتے تھے کہ تجھے مکہ مکرمہ سے نکال دیں ۔ برائی کی ابتداء بھی انہیں کی طرف سے ہے ۔ بدر کے دن لشکر لے کر نکلے معلوم ہو چکا تھا کہ قافلہ بچ کر چلا گیا ہے ۔ لیکن تاہم غرور و فخر سے ربانی لشکر کو شکست دینے کے ارادے سے مسلمانوں سے بھڑ گئے ۔ جیسے کہ پورا واقعہ اس سے پہلے بیان ہو چکا ہے ۔ انہوں نے عہد شکنی کی اور اپنے حلیفوں کے ساتھ مل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیفوں سے جنگ کی بنو بکر کی خزاعہ کے خلاف مدد کی اس خلاف وعدہ کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر لشکر کشی کی ان کی خوب سرکوبی کی اور مکہ فتح کر لیا ۔ فالحمدللہ ۔ فرماتا ہے کہ تم ان نجس لوگوں سے خوف کھاتے ہو ۔ اگر تم مومن ہو تو تمہارے دل میں بجز اللہ تعالیٰ کے کسی کا خوف نہ ہونا چاہیئے وہی اس کے لائق ہے کہ اس سے ایماندار ڈرتے رہیں ۔ اور آیت میں ہے ان سے نہ ڈرو صرف مجھ سے ہی ڈرتے رہو میرا غلبہ ، میری سلطنت ، میری سزاء ، میری قدرت ، میری ملکیت بیشک اس قابل ہے کہ ہر وقت ہر دل میری ہیبت سے لزرتا رہے تمام کام میرے ہاتھ میں ہیں جو چاہوں کر سکتا ہوں اور کر گذرتا ہوں ۔ میری منشا کے بغیر کچھ بھی نہیں ہو سکتا ۔ مسلمانوں پر جہاد کی فرضیت کا راز بیان ہو رہا ہے کہ اللہ قادر تھا جو عذاب چاہتا ان پر بھیج دیتا لیکن اس کی منشاء یہ ہے کہ تمہارے ہاتھوں انہیں سزا دے ان کی بربادی تم آپ کرو تمہارے دل کی خود بھڑاس نکل جائے اور تمہیں راحت و آرام شادمانی و کامرانی حاصل ہو ۔ یہ بات کچھ انہی کے ساتھ مخصوص نہ تھی بلکہ تمام مومنوں کے لیے بھی ہے ۔ خصوصاً خزاعہ کا قبیلہ جن پر خلاف عہد قریش اپنے حلیفوں میں مل کر چڑھ دوڑے ان کے دل اسی وقت ٹھنڈے ہوں گے ان کے غبار اسی وقت دھلیں گے جب مسلمانوں کے ہاتھوں کفار نیچے ہوں ۔ ابن عساکر میں ہے کہ جب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا غضبناک ہوتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی ناک پکڑ لیتے اور فرماتے عویش! یہ دعا کرو « اللَّہُمَّ رَبَّ النَّبِیَّ مُحَمَّدٍ اغْفِرْ ذَنْبِی ، وَأَذْہِبْ غَیْظَ قَلْبِی وَأَجِرْنِی مِنْ مُضِلاتِ الْفِتَنِ» اے اللہ ! محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پروردگار میرے گناہ بخش اور میرے دل کا غصہ دور کر اور مجھے گمراہ کن فتنوں سے بچالے ۔ ۱؎ (الموسوعہ الحدیثیہ للشعیب الأناؤط:26576: ضعیف) اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس کی چاہے توبہ قبول فرما لے ۔ وہ اپنے بندوں کی تمام تر مصلحتوں سے خوب آگاہ ہے ۔ اپنے تمام کاموں میں اپنے شرعی احکام میں اپنے تمام حکموں میں حکمت والا ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے جو ارادہ کرتا ہے حکم دیتا ہے وہ عادل و حاکم ہے ظلم سے پاک ہے ایک ذرے برابر بھلائی برائی ضائع نہیں کرتا بلکہ اس کا بدلہ دنیا اور آخرت میں دیتا ہے ۔ التوبہ
14 مسلمان بھی آزمائیں جائیں گے یہ نا ممکن ہے کہ امتحان بغیر مسلمان بھی چھوڑ دیئے جائیں سچے اور جھوٹے مسلمان کو ظاہر کر دینا ضروری ہے ۔ «وَلِیجَۃً» کے معنی بھیدی اور دخل دینے والے کے ہیں ۔ پس سچے وہ ہیں جو جہاد میں آگے بڑھ کر حصہ لیں اور ظاہر باطن میں اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خیر خواہی اور حمایت کریں ۔ ایک قسم کا بیان دوسری قسم کو ظاہر کر دیتا تھا اس لیے دوسری قسم کے لوگوں پر بیان چھوڑ دیا ایسی عبارتیں شاعروں کے شعروں میں بھی ہیں ۔ اور جگہ قرآن کریم ہے کہ کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ وہ صرف یہ کہنے سے چھوڑ دیئے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور ان کی آزمائش ہو گی ہی نہیں حالانکہ اگلے مومنوں کی بھی ہم نے آزمائش کی یاد رکھو اللہ تعالیٰ سچے اور جھوٹوں کو ضرور الگ کر دے گا ۔ ۱؎ (29-العنکبوت:3،2) اور آیت میں اسی مضمون کو «أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُواْ الْجَنَّۃَ» ۱؎ (3-آل عمران:142) کے لفظوں سے بیان فرمایا ہے ۔ اور آیت میں ہے «مَّا کَانَ اللہُ لِیَذَرَ الْمُؤْمِنِینَ» ۱؎ (3-آل عمران:179) اللہ ایسا نہیں کہ تم مومنوں کو تمہاری حالت پر ہی چھوڑ دے اور امتحان کر کے یہ نہ معلوم کر لے کہ خبیث کون ہے اور طیب کون ہے ؟ پس جہاد کے مشروع کرنے میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ کھرے کھوٹے کی تمیز ہو جاتی ہے ۔ گو اللہ تعالیٰ ہر چیز سے واقف ہے جو ہو گا وہ بھی اسے معلوم ہے اور جو نہیں ہوا وہ جب ہو گا تب کس طرح ہو گا یہ بھی وہ جانتا ہے چیز کے ہونے سے پہلے ہی اسے اس کا علم حاصل ہے اور ہر چیز کی ہر حالت سے وہ واقف ہے لیکن وہ چاہتا ہے کہ دنیا پر بھی کھرا کھوٹا ، سچا جھوٹا ظاہر کر دے ۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں نہ اس کے سوا کوئی پروردگار ہے نہ اس کی قضاء و قدر اور ارادے کو کوئی بدل سکتا ہے ۔ التوبہ
15 التوبہ
16 التوبہ
17 مشرکوں کو اللہ کے گھر سے کیا تعلق؟ یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کی مسجدوں کی آبادی کرنے والے بننا لائق ہی نہیں یہ مشرک ہیں بیت اللہ سے انہیں کیا تعلق ؟ «مساجد» کو «مسجد» بھی پڑھا گیا ہے پس مراد مسجد الحرام ہے جو روئے زمین کی مسجدوں سے اشرف ہے جو اول دن سے صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے بنائی گئی ہے جس کی بنیادیں خلیل اللہ نے رکھیں تھیں ۔ اور یہ لوگ مشرک ہیں حال و قال دونوں اعتبار سے ۔ تم نصرانی سے پوچھو وہ صاف کہے گا میں تو نصرانی ہوں ۔ یہود سے پوچھو وہ اپنی یہودیت کا اقرار کریں گے صابی سے پوچھو وہ بھی اپنا صابی ہونا اپنی زبان سے کہے گا مشرک بھی اپنے مشرک ہونے کے اقراری ہیں ان کے اس شرک کی وجہ سے ان کے اعمال اکارت ہو چکے ہیں اور وہ ہمیشہ کے لیے ناری ہیں ۔ یہ تو مسجد الحرام سے اوروں کو روکتے ہی ہیں یہ گو کہیں لیکن دراصل یہ اللہ تعالیٰ کے اولیاء نہیں‏ اولیاء اللہ تو وہ ہیں جو متقی ہوں لیکن اکثر لوگ علم سے کورے اور خالی ہوتے ہیں ۔ ہاں مسجدوں کی آبادی مومنوں کے ہاتھوں ہوتی ہے ۔ پس جس کے ہاتھ سے مسجدوں کی آبادی ہو اس کے ایمان کا قرآن گواہ ہے ۔ مسند احمد میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” جب تم کسی کو مسجد میں آنے جانے کی عادت والا دیکھو تو اس کے ایمان کی شہات دو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی آیت تلاوت فرمائی “ ۱؎ (سنن ترمذی:2617،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) اور حدیث میں ہے مسجدوں کے آباد کرنے والے اللہ والے ہیں ۱؎ (میزان الاعتدال:3773:ضعیف) اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ ان مسجد والوں پر نظریں ڈال کر اپنے عذاب پوری قوم پر سے ہٹا لیتا ہے ۔ ۱؎ (المیزان:5502:ضعیف) اور حدیث میں ہے اللہ عزوجل فرماتا ہے مجھے اپنی عزت اور اپنے جلال کی قسم ! کہ میں زمین والوں کو عذاب کرنا چاہتا ہوں لیکن اپنے گھروں کے آباد کرنے والوں اور اپنی راہ میں آپس میں محبت رکھنے والوں اور صبح سحری کے وقت استغفار کرنے والوں پر نظریں ڈال کر اپنے عذاب ہٹا لیتا ہوں ۔ ۱؎ (بیہقی فی شعب الایمان:9051:ضعیف) ابن عساکر میں ہے کہ شیطان انسان کا بھیڑیا ہے جیسے بکریوں کا بھیڑیا ہوتا ہے کہ وہ الگ تھلگ پڑی ہوئی ادھر ادھر کی بکری کو پکڑ لے جاتا ہے پس تم پھوٹ اور اختلاف سے بچو جماعت کو اور امام کو اور مسجدوں کو لازم پکڑے رہو ۔ ۱؎ (مسند احمد:232/5:ضعیف) اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا بیان ہے کہ مسجدیں اس زمین پر اللہ کا گھر ہیں ۔ جو یہاں آۓ اللہ تعالیٰ کا ان پر حق ہے کہ وہ ان کا احترام کریں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں جو نماز کی اذان سن کر پھر بھی مسجد میں آ کر باجماعت نماز نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی وہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نافرمان ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ مسجدوں کی آبادی کرنے والے اللہ تعالیٰ کے اور قیامت کے ماننے والے ہی ہوتے ہیں ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:793،قال الشیخ الألبانی:صحیح) پھر فرمایا یہ نمازی ہوتے ہیں بدنی عبادت نماز کے پابند ہوتے ہیں اور مالی عبادت زکوٰۃ کے بھی ادا کرنے والے ہوتے ہیں ان کی بھلائی اپنے لیے بھی ہوتی ہے اور پھر عام مخلوق کے لیے بھی ہوتی ہے ان کے دل اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی سے ڈرتے نہیں یہی راہ یافتہ لوگ ہیں ۔ موحد ، ایماندار ، قرآن و حدیث کے ماتحت پانچوں نمازوں کے پابند ، صرف اللہ تعالیٰ کا خوف کھانے والے ، اس کے سوا دوسرے کی بندگی نہ کرنے والے ہی راہ یافتہ اور کامیاب اور بامقصد ہیں ۔ یہ یاد رہے کہ بقول سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما قرآن کریم میں جہاں بھی لفظ «عَسَیٰ» وہاں یقین کے معنی میں ہے اُمید کے معنی میں نہیں مثلاً فرمان ہے«عَسَیٰ أَن یَبْعَثَکَ رَبٰکَ مَقَامًا مَّحْمُودًا » ۱؎ (17-الاسراء:79) تو مقام محمود میں پہنچانا یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا شافع محشر بننا یقینی چیز ہے جس میں کوئی شک و شبہ نہیں ۔ محمد بن اسحاق رحمہ اللہ فرماتے ہیں«عَسَیٰ» کلام اللہ میں حق و یقین کے لیے آتا ہے ۔ التوبہ
18 التوبہ
19 سب سے بری عبادت اللہ کی راہ میں جہاد ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ” کافروں کا قول تھا کہ بیت اللہ کی خدمت اور حاجیوں کے پانی پلانے کی سعادت بہتر ہے ایمان و جہاد سے ۔ ہم چونکہ یہ دونوں خدمتیں انجام دے رہے ہیں اس لیے ہم سے بہتر کوئی نہیں ۔ اللہ نے ان کا فخر و غرور اور حق سے تکبر اور منہ پھیرنا فرمایا کہ میری آیتوں کی تمہارے سامنے تلاوت ہوتے ہوئے تم اس سے بےپرواہی سے منہ موڑ کر اپنی بات چیت میں مشغول رہتے ہو ، پس تمہارا گمان بےجا ، تمہارا غرور غلط ، تمہارا فخر نا مناسب ہے ۔ یوں بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کا ایمان اور اس کی راہ کا جہاد بڑی چیز ہے لیکن تمہارے مقابلے میں تو وہ اور بھی بڑی چیز ہے کیونکہ تمہاری تو کوئی نیکی ہو بھی تو اسے شرک کا گھن کھا جاتا ہے ۔ پس فرماتا ہے کہ یہ دونوں گروہ برابر کے بھی نہیں یہ اپنے آپ کو آبادی کرنے والا کہتے تھے اللہ تعالیٰ نے ان کا نام ظالم رکھا اللہ تعالیٰ کے گھر کی خدمت بیکار کر دی ۔ کہتے ہیں کہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے اپنی قید کے زمانے میں کہا تھا کہ ” تم اگر اسلام و جہاد میں تھے تو ہم بھی اللہ تعالیٰ کے گھر کی خدمت اور حاجیوں کو آرام پہنچانے میں تھے “ ۔ اس پر یہ آیت اتری کہ شرک کے وقت کی نیکی بیکار ہے ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ان پر جب لے دے شروع کی تو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ ” ہم مسجد الحرام کے متولی تھے ہم غلاموں کو آزاد کرتے تھے ہم بیت اللہ کو غلاف چڑھاتے تھے ہم حاجیوں کو پانی پلاتے تھے اس پر یہ آیت اتری ۔ مروی ہے کہ یہ گفتگو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ میں ہوئی ہو۔ مروی ہے کہ طلحہ بن شیبہ ، عباس بن عبدالمطلب ، علی بن ابی طالب بیٹھے بیٹھے اپنی اپنی بزرگیاں بیان کرنے لگے ، طلحہ نے کہا میں بیت اللہ کا کنجی بردار ہوں میں اگر چاہوں وہاں رات گزار سکتا ہوں ۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے کہا : ” میں زمزم کا پانی پلانے والا ہوں اور اس کا نگہبان ہوں اگر چاہوں تو مسجد ساری رات رہ سکتا ہوں “ ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا : ” میں نہیں جانتا کہ تم دونوں صاحب کیا کہہ رہے ہو ؟ میں نے لوگوں سے چھ ماہ پہلے قبلہ کی طرف نماز پڑھی ہے میں مجاہد ہوں “ ۔ اس پر یہ آیت اتری ، سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے اپنا ڈر ظاہر کیا کہ کہیں میں چاہ زمزم کے پانی کے عہدے سے نہ ہٹا دیا جاؤں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” نہیں تم اپنے اس منصب پر قائم رہو تمہارے لیے اس میں بھلائی ہے “ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:16575:مرسل و ضعیف) اس آیت کی تفسیر میں ایک مرفوع حدیث وارد ہوئی ہے جس کا ذکر بھی یہاں ضروری ہے سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ” ایک شخص نے کہا اسلام کے بعد اگر میں کوئی عمل نہ کروں تو مجھے پرواہ نہیں بجز اس کے کہ میں حاجیوں کو پانی پلاؤں ۔ دوسرے نے اسی طرح مسجد الحرام کی آبادی کو کہا ۔ تیسرے نے اسی طرح اللہ کی راہ کے جہاد کو کہا ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں ڈانٹ دیا اور فرمایا منبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آوازیں بلند نہ کرو ۔ یہ واقعہ جمعہ کے دن کا ہے جمعہ کے بعد ہم سب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی “ ۔ ۱؎ (عبد الرزاق فی تفسیر:1060) اور روایت میں ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے وعدہ کیا تھا کہ نماز جمعہ کے بعد میں خود جا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات دریافت کر لوں گا ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1879۔111) التوبہ
20 التوبہ
21 التوبہ
22 التوبہ
23 ترک موالات و مودت کا حکم اللہ تعالیٰ کافروں سے ترک موالات کا حکم دیتا ہے ان کی دوستیوں سے روکتا ہے گوہ وہ ماں باپ ہوں ، بہن بھائی ہوں بشرطیکہ وہ کفر کو اسلام پر پسند کریں ۔ اور آیت میں ہے «لاَّ تَجِدُ قَوْماً یُؤْمِنُونَ بِ اللہِ » ۱؎ (58المجادلۃ:22) اللہ پر اور قیامت پر ایمان لانے والوں کو تو ہرگز اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں سے دوستیاں کرنے والا نہیں پائے گا گو وہ ان کے باپ ہوں بیٹے ہوں یا بھائی ہوں یا رشتے دار ہوں یہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں ایمان لکھ دیا گیا ہے اور اپنی خاص روح سے ان کی تائید فرمائی ہے ۔ انہیں نہروں والی جنت میں پہنچائے گا ۔ بیہقی میں ہے سیدنا ابوعبیدبن جراح رضی اللہ عنہ کے باپ نے بدر والے دن ان کے سامنے اپنے بتوں کی تعریفیں شروع کیں آپ نے اسے ہر چند روکنا چاہا لیکن وہ بڑھتا ہی چلا گیا باپ بیٹوں میں جنگ شروع ہو گئی آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے باپ کو قتل کر دیا ۔ اس پر آیت «لاَّ تَجِدُ» الخ ، نازل ہوئی ۔ ۱؎ (بیہقی فی شعب الایمان:27/9:منقطع) پھر ایسا کرنے والوں کو ڈراتا ہے اور فرماتا ہے کہ ” اگر یہ رشتے دار اور اپنے حاصل کئے ہوئے مال اور مندے ہو جانے کی دہشت کی تجارتیں اور پسندیدہ مکانات اگر تمہیں اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور جہاد سے بھی زیادہ مرغوب ہیں تو تمہیں اللہ تعالیٰ کے عذابوں کے برداشت کے لیے تیار رہنا چاہیئے ۔ ایسے بدکاروں کو اللہ تعالیٰ بھی راستہ نہیں دکھاتا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ جا رہے تھے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں تھا ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے : ” یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ مجھے ہرچیز سے زیادہ عزیز ہیں بجز میری اپنی جان کے “ ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اس کی قسم جس کے ہاتھ میرا نفس ہے تم میں سے کوئی مومن نہ ہو گا جب تک کہ وہ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز نہ رکھے “ ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ” اللہ کی قسم ! اب آپ کی محبت مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ ہے “ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اب اے عمر رضی اللہ عنہ ! ( تو مومن ہو گیا ) صحیح بخاری ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6632) صحیح حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ثابت ہے کہ اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم میں سے کوئی ایماندار نہ ہو گا جب تک میں اسے اس کے ماں باپ سے اولاد سے اور دنیا کے کل لوگوں سے زیادہ عزیز نہ ہو جاؤں ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:15) مسند امام احمد اور ابوداؤد میں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” جب تم عین کی خرید و فروخت کرنے لگو گے اور گائے بیل کی دمیں تھام لو گے اور جہاد چھوڑ دو گے تو اللہ تعالیٰ تم پر ذلت ڈال دے گا وہ اس وقت تک دور نہ ہو گی جب تک کہ تم اپنے دین کی طرف نہ لوٹ آؤ ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:3462،قال الشیخ الألبانی:صحیح) التوبہ
24 التوبہ
25 التوبہ
26 نصرتِ الٰہی کا ذکر مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں : ” برأت کی یہ پہلی آیت ہے جس میں اللہ تعالیٰ اپنے بہت بڑا احسان مومنوں پر ذکر فرما رہا ہے کہ اس نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کی آپ امداد فرمائی انہیں دشمنوں پر غالب کر دیا اور ایک جگہ نہیں ہر جگہ اس کی مدد شامل حال رہی اسی وجہ سے فتح و ظفر نے کبھی ہم رکابی نہ چھوڑی “ ۔ یہ صرف تائید الہٰی تھی نہ کہ مال اسباب اور ہتھیار کی فراوانی اور نہ تعداد کی زیادتی ۔ یاد کر لو حنین والے دن ذرا تمہیں اپنی تعداد کی کثرت پر ناز ہو گیا تو کیا حال ہوا ؟ پیٹھ دکھا کر بھاگ نکلے تھے ۔ معدودے چند ہی پیغمبرِ رب صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ٹھہر گئے اسی وقت اللہ تعالیٰ کی مدد سے چھوٹی چھوٹی جماعتوں نے بڑے بڑے گروہ کے منہ پھیر دیئے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی امداد صابروں کے ساتھ ہوتی ہے ۔ یہ واقعہ ہم عنقریب تفصیل وار بیان کریں ، ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ مسند کی حدیث میں ہے بہترین ساتھی چار ہیں اور بہترین چھوٹا لشکر چار سو کا ہے اور بہترین بڑا لشکر چار ہزار کا ہے اور بارہ ہزار کی تعداد تو اپنی کمی کے باعث کبھی مغلوب نہیں ہو سکتی ۔ یہ حدیث ابوداؤد اور ترمذی میں بھی ہے ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2611،قال الشیخ الألبانی:صحیح) امام ترمذی رحمہ اللہ اسے حسن غریب بتلاتے ہیں ۔ یہ روایت سوائے ایک راوی کے باقی سب راویوں نے مرسلاً بیان کی ہے ابن ماجہ اور بہیقی میں بھی یہ روایت اسی طرح مروی ہے ، واللہ اعلم ۔ ٨ ہجری میں فتح مکہ کے بعد ماہِ شوال میں جنگ حنین ہوئی تھی ۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ سے فارغ ہوئے اور ابتدائی امور سب انجام دے چکے اور عموماً مکی حضرات مسلمان ہو چکے اور انہیں آپ آزاد بھی کر چکے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ملی کہ قبیلہ ہوازن جمع ہوا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کرنے پر آمادہ ہے ۔ ان کا سردار مالک بن عوف نضری ہے ۔ ثقیف کا سارا قبیلہ ان کے ساتھ ہے اسی طرح بنو جشم ، بنو سعد بن بکر بھی ہیں اور بنو ہلال کے بھی کچھ لوگ ہیں اور کچھ لوگ بنو عمرو بن عامر کے اور عون بن عامر کے بھی ہیں یہ سب لوگ مع اپنی عورتوں اور بچوں اور گھریلو مال کے میدان میں نکل کھڑے ہوئے ہیں ، یہاں تک کہ اپنی بکریوں اور اونٹوں کو بھی انہوں نے ساتھ رکھا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اس لشکر کو لے کر جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مہاجرین اور انصار وغیرہ کا تھا ان کے مقابلے کے لیے چلے ۔ تقریباً دو ہزار تو مسلم مکی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہو لیے ۔ مکہ اور طائف کے درمیان کی وادی میں دونوں لشکر مل گئے اس جگہ کا نام حنین تھا ۔ صبح سویرے منہ اندھیرے قبیلہ ہوازن جو کمین گاہ میں چپھے ہوئے تھے انہوں نے بےخبری میں مسلمانوں پر اچانک حملہ کر دیا بےپناہ تیر اندازی کرتے ہوئے آگے بڑھے اور تلواریں چلانی شروع کر دیں ۔ یہاں تک کہ مسلمانوں میں دفعتاً ابتری پھیل گی اور یہ منہ پھر کر بھاگ کھڑے ہوئے ۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف بڑھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت سفید خچر پر سوار تھے سیدنا عباس رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانور کی دائیں جانب سے نکیل تھامے ہوئے تھے اور سیدنا ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ بائیں طرف سے نکیل پکڑے ہوئے تھے جانور کی تیزی کو یہ لوگ روک رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم با آواز بلند اپنے آپ کو پہنچوا رہے تھے مسلمانوں کو واپسی کا حکم فرما رہے تھے اور ندا کرتے جاتے تھے کہ اللہ کے بندو ! کہاں چلے میری طرف آؤ میں اللہ تعالیٰ کا سچا رسول ہوں میں نبی ہوں جھوٹا نہیں ہوں ، میں اولادِ عبدالمطلب میں سے ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس وقت صرف اسی یا سو کے قریب صحابہ رضی اللہ عنہم رہ گئے تھے ۔ سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ، سیدنا عباس رضی اللہ عنہ ، سیدنا علی رضی اللہ عنہ ، سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہ ، سیدنا ابوسفیان بن حارث رضی اللہ عنہ ، سیدنا ایمن بن ام ایمن رضی اللہ عنہ ، سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ وغیرہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی تھے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کو جو بہت بلند آواز والے تھے حکم دیا کہ درخت کے نیچے بیعت کرنے والے میرے صحابیوں کو آواز دو کہ وہ نہ بھاگیں ۔ پس آپ نے یہ کہہ کر اے ببول کے درخت تلے بیعت کرنے والو ! اے سورۃ البقرہ کے حاملو ! پس یہ آواز ان کے کانوں میں پہنچنی تھی کہ انہوں نے ہر طرف سے «لبیک لبیک» کہنا شروع کیا اور آواز کی جانب لپک پڑے اور اسی وقت لوٹ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آس پاس آ کر کھڑے ہو گئے یہاں تک کہ اگر کسی کا اونٹ اڑ گیا تو اس نے اپنی زرہ پہن لی اونٹ پر سے کود گیا اور پیدل سرکار نبوت میں حاضر ہو گیا ۔ جب کچھ جماعت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد جمع ہو گئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ سے دعا مانگنی شروع کی کہ باری تعالیٰ جو وعدہ تیرا میرے ساتھ ہے اسے پورا فرما ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین سے مٹی کی ایک مٹھی بھرلی اور اسے کافروں کی طرف پھینکا جس سے ان کی آنکھیں اور ان کا منہ بھر گیا وہ لڑائی کے قابل نہ رہے ۔ ادھر مسلمانوں نے ان پر دھاوا بول دیا ان کے قدم اکھڑ گئے بھاگ نکلے ۔ مسلمانوں نے ان کا پیچھا کیا ۔ اور مسلمانوں کی باقی فوج نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچی اتنی دیر میں تو انہوں نے ان کفار کو قید کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ڈھیر کر دیا ۔ مسند احمد میں ہے سیدنا عبدالرحمٰن فہری رضی اللہ عنہ جن کا نام یزید بن اسید ہے یا یزید بن انیس ہے اور کرز بھی کہا گیا ہے فرماتے ہیں کہ ” میں اس معرکے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا دن سخت گرمی والا تھا دوپہر کو ہم درختوں کے سائے تلے ٹھہر گئے ۔ سورج ڈھلنے کے بعد میں نے اپنے ہتھیار لگا لئے اور اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمے میں پہنچا سلام کے بعد میں نے کہا : ” نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ! ہوائیں ٹھنڈی ہو گئی ہیں ۔ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ہاں ٹھیک ہے“ (آواز دی) ، بلال رضی اللہ عنہ ! اس وقت بلال رضی اللہ عنہ ایک درخت کے سائے میں تھے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سنتے ہی پرندے کی طرح گویا اڑ کر «لبیک و سعدیک و انا فداوک» کہتے ہوئے حاضر ہوئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” میری سواری کسو “ ۔ اسی وقت انہوں نے زین نکالی جس کے دونوں پلے کھجور کی رسی کے تھے جس میں کوئی فخر و غرور کی چیز نہ تھی ۔ جب کس چکے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے ہم نے صف بندی کر لی شام اور رات اسی طرح گذری پھر دونوں لشکروں کی مڈبھیڑ ہو گئی تو مسلمان بھاگ کھڑے ہوئے جیسے قرآن نے فرمایا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آواز دی کہ اے اللہ کے بندو ! میں اللہ کا بندہ اور رسول ہوں اے مہاجرین ! میں اللہ کا بندہ اور رسول ہوں ، پھر اپنے گھوڑے سے اتر پڑے مٹی کی ایک مٹھی بھرلی اور یہ فرما کر ان کے چہرے بگڑ جائیں کافروں کی طرف پھینک دی ۔ اسی سے اللہ نے انہیں شکست دے دی ۔ ان مشرکوں کا بیان ہے کہ ہم میں سے ایک بھی ایسا نہ تھا جس کی آنکھوں اور منہ میں یہ مٹی نہ آئی ہو اسی وقت ہمیں ایسا معلوم ہونے لگا کہ گویا زمین و آسمان کے درمیان لوہا کسی لوہے کی کے طشت پر بج رہا ہے “ ۔ ۱؎ (مسند احمد:276/5:حسن) ایک روایت میں ہے کہ بھاگے ہوئے مسلمان جب ایک سو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس پہنچ گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت حملہ کا حکم دے دیا ۔ اول تو منادی انصار کی تھی پھر خزرج ہی پر رہ گئی ۔ یہ قبیلہ لڑائی کے وقت بڑا ہی صابر تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سواری پر سے میدان جنگ کا نظارہ دیکھا اور فرمایا اب لڑائی گرما گرمی سے ہو رہی ہے اس میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس کافر کو چاہا قتل کرا دیا جسے چاہا قید کرا دیا اور ان کے مال اور اولادیں اپنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فے میں دلا دیں ۔ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے کسی نے کہا کہ ” اے ابو عمارہ ! کیا تم لوگ رسول اللہ علیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے حنین والے دن بھاگ نکلے تھے “ ؟ آپ نے فرمایا : ” لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قدم پیچھے نہ ہٹا تھا بات یہ ہے کہ قبیلہ ہوازن کے لوگ تیر اندازی کے فن کے استاد تھے اللہ کے فضل سے ہم نے انہیں پہلے ہی حملے میں شکست دے دی لیکن جب لوگ مال غنیمت پر جھک پڑے تو انہوں نے موقع دیکھ کر پھر جو وقار اندازی کے ساتھ تیروں کی بارش برسائی تو یہاں بھگڈر مچ گئی ۔ سبحان اللہ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل شجاعت اور پوری بہادری کا یہ موقع تھا ، لشکر بھاگ نکلا ہے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی تیز سواری پر نہیں جو بھاگنے دوڑنے میں کام آئے بلکہ خچر پر سوار ہیں اور مشرکوں کی طرف بڑھ رہے ہیں اور اپنے آپ کو چھپاتے نہیں بلکہ اپنا نام اپنی زبان سے پکار پکار کر بتلا رہے ہیں کہ نہ پہنچاننے والے بھی پہنچا لیں “ ۔ ۱؎ (مسند احمد:376/3:حسن) خیال فرمائیے کہ کس قدر ذات واحد پر توکل ہے اور کتنا کامل یقین ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی مدد پر ہے جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ امر رسالت کو پورا کر کے ہی رہے گا ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو دنیا کے اور دینوں پر غالب کر کے ہی رہے گا فصلوات اللہ وسلامہ علیہ ابداً ابدا ۔ اب اللہ تعالیٰ اپنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر اور مسلمانوں کے اوپر سکینت نازل فرماتا ہے اور اپنے فرشتوں کا لشکر بھیجتا ہے جنہیں کوئی نہ دیکھتا تھا ۔ ایک مشرک کا بیان ہے کہ حنین والے دن جب ہم مسلمانوں سے لڑنے لگے ایک بکری کا دودھ نکالا جائے اتنی دیر میں ہم نے بھی انہیں اپنے سامنے جمنے نہیں دیا فوراً بھاگ کھڑے ہوئے اور ہم نے ان کا تعاقب شروع کیا یہاں تک کہ ہمیں ایک صاحب سفید خچر پر سوار نظر آۓ ، ہم نے دیکھا یہ کہ خوبصورت نورانی سفید چہرے والے کچھ لوگ ان کے اردگرد ہیں ان کی زبان سے نکلا کہ تمہارے چہرے بگڑ جائیں واپس لوٹ جاؤ بس یہ کہنا تھا کہ ہمیں شکست ہو گئی یہاں تک کہ مسلمان ہمارے کندھوں پر سوار ہو گئے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:3151) سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ” میں بھی اس لشکر میں تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف اسیّ (80) مہاجر و انصار رہ گئے تھے ہم نے پیٹھ نہیں دکھائی تھی ہم پر اللہ تعالیٰ نے اطمینان و سکون نازل فرما دیا تھا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سفید خچر پر سوار دشمنوں کی طرف بڑھ رہے تھے جانور نے ٹھوکر کھائی آپ صلی اللہ علیہ وسلم زین پر سے نیچے کی طرف جھک گئے میں نے آواز دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اونچے ہو جائیے اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اونچا ہی رکھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ایک مٹھی مٹی کی تو بھر دو “ ۔ میں نے بھر دی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کافروں کی طرف پھینکی جس سے ان کی آنکھیں بھر گئیں پھر فرمایا : ” مہاجر و انصار کہاں ہیں “ ؟ میں نے کہا : ” یہیں ہیں “ ۔ فرمایا : ” انہیں آواز دو “ میرا آواز دینا تھا کہ وہ تلواریں تولے ہوئے لپک لپک کر آ گئے ۔ اب تو مشرکین کی کچھ نہ چلی اور وہ بھاگ کھڑے ہوئے “ ۔ ۱؎ (مسند احمد:454/1:حسن) بیہیقی کی ایک روایت میں ہے شیبہ بن عثمان کہتے ہیں کہ ” حنین کے دن جبکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حالت میں دیکھا کہ لشکر شکست کھا کر بھاگ کھڑا ہوا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تنہا رہ گئے ہیں تو مجھے بدر والے دن اپنے باپ اور چچا کا مارنا یاد آگیا کہ وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں مارے گئے ہیں ۔ میں نے اپنے جی میں کہا کہ ان کے انتقام لینے کا اس سے اچھا موقعہ اور کون سا ملے گا ؟ آؤ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر دوں ۔ اس ارادے سے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دائیں جانب سے بڑھا لیکن وہاں میں نے سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کو پایا ۔ سفید چاندی جیسی زرہ پہنے مستعد کھڑے ہیں ۔ میں نے سوچا کہ یہ چچا ہیں اپنے بھتیجے کی پوری حمایت کریں گے چلو بائیں جانب سے جا کر اپنا کام کروں ، ادھر سے آیا تو دیکھا ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب کھڑے ہیں ، میں نے کہا ان کے بھی چچا کے لڑکے بھائی ہیں ، اپنے بھائی کی ضرور حمایت کریں گے پھر میں کاوا کاٹ کر پیچھے کی طرف آیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچ گیا اب یہی باقی رہ گیا تھا کہ تلوار سونپ کر وار کر دوں کہ میں نے دیکھا کہ ایک آگ کا کوڑا بجلی کی طرف چمک کر مجھ پر پڑنا چاہتا ہے میں نے آنکھیں بند کر لیں اور پچھلے پاؤں پیچھے کی طرف ہٹا ۔ اسی وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میری جانب التفات کیا اور فرمایا : ” شیبہ میرے پاس آ ۔ اے اللہ اس کا شیطان دور کر دے “ ، اب میں نے آنکھ کھول کر جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھا تو واللہ ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے میرے کانوں اور آنکھوں سے بھی زیادہ محبوب تھے “ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” شیبہ جا کافروں سے لڑ “ ۔ ۱؎ (دلائل النبوۃ للبیہقی:145/5:ضعیف) شیبہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ اس جنگ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ میں بھی تھا لیکن میں اسلام کی وجہ سے یا اسلام کی معرفت کی بناء پر نہیں نکلا تھا بلکہ میں نے کہا واہ ! یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہوازن قریش پر غالب آ جائیں ؟ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہی کھڑا ہوا تھا جو میں نے ابلق رنگ کے گھوڑے دیکھ کر کہا : ” یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں تو ابلق رنگ کے گھوڑے دیکھ رہا ہوں “ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” شیبہ وہ تو سواۓ کافروں کے کسی کو نظر نہیں آتے “ ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سینے پر ہاتھ مار کر دعا کی یا اللہ ! شیبہ کو ہدایت کر ، پھر دوبارہ سہ بارہ یہی کیا اور یہی کہا ۔ واللہ ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ ہٹنے سے پہلے ہی ساری دنیا سے زیادہ محبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی میں اپنے دل میں پانے لگا ۔ ۱؎ (دلائل النبوۃ للبیہقی:145/5:ضعیف) سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ” میں اس غزوے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم رکاب تھا میں نے دیکھا کہ کوئی چیز آسمان سے اتر رہی ہے چیونٹیوں کی طرح اس نے میدان کو گھیر لیا اور اسی وقت مشرکوں کے قدم اکھڑ گئے واللہ ! ہمیں کوئی شک نہیں کہ وہ آسمانی مدد تھی “ ۔ ۱؎ (دلائل النبوۃ للبیہقی:146/5:ضعیف) یزید بن عامر سوائ اپنے کفر کے زمانے میں جنگ حنین میں کافرں کے ساتھ تھے بعد میں مسلمان ہو گئے تھے ۔ ان سے جب دریافت کیا جاتا کہ اس موقعہ پر تمہارے دلوں پر رعب و خوف کا کیا حال تھا ؟ تو وہ طشت میں کنکریاں رکھ کر بجا کر کہتے : ” بس یہی آواز ہمیں ہمارے دل سے آ رہی تھی بےطرح کلیجہ اچھل رہا تھا اور دل دہل رہا تھا “ ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:237،238/22:ضعیف) صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” مجھے رعب کے ساتھ مدد دی گئی ہے ۔ مجھے جامع کلمات دیئے گئے ہیں ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:523) الغرض کفار کو اللہ تعالیٰ نے یہ سزا دی اور یہ ان کے کفر کا بدلہ تھا ۔ باقی ہوازن پر اللہ تعالیٰ نے مہربانی کی انہیں توبہ نصیب ہوئی مسلمان ہو کر خدمت مخدوم میں حاضر ہوئے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مندی کے ساتھ لوٹتے ہوئے مکہ مکرمہ کے قریب جعرانہ کے پاس پہنچ چکے تھے ۔ جنگ کو بیس دن کے قریب گذر چکے تھے اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” اب تم دو چیزوں میں سے ایک پسند کر لو یا تو قیدی یا مال “ ؟ انہوں نے قیدیوں کا واپس لینا پسند کیا ان قیدیوں کی چھوٹوں بڑوں کی ، مرد عورت کی ، بالغ نابالغ کی تعداد چھ ہزار تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سب انہیں لوٹا دیئے ان کا مال بطور غنیمت کے مسلمانوں میں تقسیم ہوا ، اور نو مسلم جو مکہ کے آزاد کردہ تھے انہیں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مال میں سے دیا کہ ان کے دل اسلام کی طرف پورے مائل ہو جائیں ان میں سے ایک ایک کو سو سو اونٹ عطا فرمائے ۔ مالک بن عوف نصری کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سو اونٹ دیئے اور اس کو اس کی قوم کا سردار بنا دیا جیسے کہ وہ تھا ۔ اس کی تعریف میں اسی نے اپنے مشہور قصیدے میں کہا ہے کہ ” میں نے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسا نہ کسی اور کو دیکھا نہ سنا ، دینے میں اور بخشش و عطا کرنے میں اور قصوروں سے درگزر کرنے میں دنیا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ثانی نہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کل قیامت کے دن ہونے والے تمام امور سے مطلع فرماتے رہتے تھے ۔ یہی نہیں شجاعت اور بہادری میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم بےمثل ہیں میدان جنگ میں گرجتے ہوئے شیر کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم دشمنوں کی طرف بڑھتے ہیں “ ۔ التوبہ
27 التوبہ
28 مشرکین کو حدود حرم سے نکال دو اللہ تعالیٰ احکم الحاکمین اپنے پاک دین والے پاکیزہ اور طہارت والے مسلمان بندوں کو حکم فرماتا ہے کہ دین کی رو سے نجس مشرکوں کو بیت اللہ کے پاس نہ آنے دیں ۔ یہ آیت سنہ 9ہجری میں نازل ہوئی اسی سال نبی کریم رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھیجا اور حکم دیا کہ مجمع حج میں اعلان کر دو کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج کو نہ آئے اور کوئی شخص ننگا بیت اللہ کا طواف نہ کرے ۔ اس شرعی حکم کو اللہ تعالیٰ قادر و قیوم نے یوں ہی پورا کیا کہ نہ وہاں مشرکوں کو داخلہ نصیب ہوا تو نہ کسی نے اس کے بعد عریانی کی حالت میں اللہ تعالیٰ کے گھر کا طواف کیا ۔ ۱؎ (مسند احمد:392/3:صحیح) سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما غلام اور ذمی شخص کو مستثنیٰ بتاتے ہیں ۔ مسند کی حدیث میں فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ ہماری اس مسجد میں اس سال کے بعد سوائے معاہدہ والے اور تمہارے غلاموں کے اور کوئی کافر نہ آئے ۔ ۱؎ (مسند احمد:339/3:ضعیف و منقطع) لیکن اس مرفوع سے زیادہ صحیح سند والی موقوف روایت ہے ۔ خلیفتہ المسلمین سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ علیہ نے فرمان جاری کر دیا تھا کہ یہود و نصرانی کو مسلمانوں کی مسجدوں میں نہ آنے دو ۔ اس منع کرنے میں آپ اس آیت کی ماتحتی میں تھے ۔ عطاء رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” حرم سارا اس حکم میں مثل مسجد الحرام کے ہے “ ۔ یہ آیت مشرکوں کی نجاست پر بھی دلیل ہے ۔ صحیح حدیث میں ہے مومن نجس نہیں ہوتا ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:283) باقی رہی یہ بات کہ مشرکوں کا بدن اور ذات بھی نجس ہے یا نہیں ، پس جمہور کا قول تو یہ ہے کہ نجس نہیں اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کا ذبیحہ حلال کیا ہے ۔ بعض ظاہریہ کہتے ہیں کہ مشرکوں کے بدن بھی ناپاک ہی ۔ حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ” جو ان سے مصافحہ کرے وہ ہاتھ دھو ڈالے “ ۔ اس حکم پر بعض لوگوں نے کہا کہ ” پھر تو ہماری تجارت کا مندا ہو جائے گا ہمارے بازار بےرونق ہو جائیں گے اور بہت سے فائدے جاتے رہیں گے “ ۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ غنی و حمید فرماتا ہے کہ ” تم اس بات سے نہ ڈرو اللہ تعالیٰ تمہیں اور بہت سی صورتوں سے دلا دے گا تمہیں اہل کتاب سے جزیہ دلائے گا اور تمہیں غنی کر دے گا ۔ تمہاری مصلحتوں کو تم سے زیادہ تمہارا رب جانتا ہے اس کا حکم اس کی ممانعت کسی نہ کسی حکمت سے ہی ہوتی ہے ، یہ تجارت اتنے فائدے کی نہیں جتنا فائدہ وہ تمہیں جزیئے سے دے گا “ ، ان اہل کتاب سے جو اللہ تعالیٰ کے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اور قیامت کے منکر ہیں جو کسی نبی کے صحیح معنی میں اور پورے متبع نہیں بلکہ اپنی خواہشوں کے اور اپنے بڑوں کی تقلید کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اگر انہیں اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی شریعت پر پورا ایمان ہوتا تو وہ ہمارے اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ضرور ایمان لاتے ۔ ان کی بشارت تو ہر نبی دیتا رہا ان کی اتباع کا حکم ہر نبی نے دیا لیکن باوجود اس کے وہ اس اشرف الرسل صلی اللہ علیہ وسلم کے انکاری ہیں پس اگلے نبیوں کے شرع سے بھی دراصل انہیں کوئی سروکار بھی نہیں اسی وجہ سے ان نبیوں کا زبانی اقرار ان کے لیے بےسود ہے کیونکہ یہ سید الانبیاء افضل الرسل خاتم النبین اکمل المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم سے کفر کرتے ہیں اس لیے ان سے بھی جہاد کرو ۔ ان سے جہاد کی یہ پہلی آیت ہے اس وقت تک آس پاس کے مشرکین سے جنگ ہو چکی تھی ان میں سے اکثر توحید کے جھنڈے تلے آ چکے تھے جزیرۃ العرب میں اسلام نے جگہ کر لی تھی اب یہود و نصاریٰ کی خبر لینے اور انہیں راہ حق دکھانے کا حکم ہوا ، سنہ 9 ہجری میں یہ حکم اترا اور آپ نے صلی اللہ علیہ وسلم رومیوں سے جہاد کی تیاری کی لوگوں کو اپنے ارادے سے مطلع کیا مدینہ کے اردگرد کے عربوں کو آمادہ کیا اور تقریباً تیس ہزار کا لشکر لے کر روم کا رخ کیا بجز منافقین کے یہاں کوئی نہ رکا سوائے بعض کے ۔ موسم سخت گرم تھا پھلوں کا وقت تھا روم سے جہاد کیلئے شام کے ملک کا دور دراز کا کٹھن سفر تھا تبوک تک تشریف لے گئے وہاں تقریباً بیس روز قیام فرمایا ۔ پھر اللہ تعالیٰ سے استخارہ کر کے واپس لوٹے حالت کی تنگی اور لوگوں کی ضعیفی کی وجہ سے واپس لوٹے ۔ جیسے کہ عنقریب اس کا واقعہ ان شاءاللہ تعالیٰ بیان ہو گا ۔ اسی آیت سے استدلال کر کے بعض نے فرمایا ہے کہ جزیہ صرف اہل کتاب سے اور ان جیسوں سے ہی لیا جائے جیسے مجوس ہیں ۔ چنانچہ ہجر کے مجسیوں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جزیہ لیا تھا ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3156) امام شافعی رحمہ اللہ کا یہی مذہب ہے اور مشہور مذہب امام احمد کا رحمہ اللہ بھی یہی ہے ۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں : ” سب عجمیوں سے لیا جائے خواہ وہ اہل کتاب ہوں خواہ مشرک ہوں ۔ ہاں عرب میں سے صرف اہل کتاب سے ہی لیا جائے “ ۔ امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” جزیئے کا لینا تمام کفار سے جائز ہے خواہ وہ کتابی ہوں یا مجوسی ہوں یا بت پرست وغیرہ ہوں ۔ ان مذاہب کے دلائل وغیرہ کے بسط کی یہ جگہ نہیں واللہ اعلم ۔ پس فرماتا ہے کہ جب تک وہ ذلت و خواری کے ساتھ اپنے ہاتھوں جزیہ نہ دیں انہیں نہ چھوڑو ۔ پس اہل ذمہ کو مسلمانوں پر عزت و توقیر دینی اور انہیں اوج و ترقی دینی جائز نہیں ۔ صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” یہود و نصاریٰ سے سلام کی ابتداء نہ کرو اور جب ان سے کوئی راستے میں مل جائے تو اسے تنگی سے مجبور کرو “ ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2167) یہی وجہ تھی جو سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان سے ایسی ہی شرطیں کی تھیں ۔ سیدنا عبدالرحمٰن بن غنم اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں نے اپنے ہاتھ سے عہد نامہ لکھ کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو دیا تھا کہ اہل شام کے فلاں فلاں شہری لوگوں کی طرف سے یہ معاہدہ ہے امیر المؤمنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے کہ جب آپ کا لشکر ہم پر آئے ہم نے آپ سے اپنی جان ، مال اور اہل و عیال کے لیے امن طلب کی ہم ان شرطوں پر وہ امن حاصل کرتے ہیں کہ ہم اپنے ان شہرں میں اور ان کے آس پاس کوئی گرجا گھر اور خانقاہ نیا نہیں بنائیں گے ۔ اور نہ ایسے کسی خرابی والے مکان کی اصلاح کریں گے اور جو مٹ چکے ہیں انہی درست نہیں کریں گے ۔ ان میں اگر کوئی مسلمان مسافر اترنا چاہے تو روکیں گے نہیں خواہ دن ہو خواہ رات ہو ہم ان کے دروازے راہ گزر اور مسافروں کے لیے کشادہ رکھیں گے اور جو مسلمان آئے ہم اس کی تین دن تک مہمانداری کریں گے ہم اپنے ان مکانوں یا رہائشی مکانوں وغیرہ میں کہیں کسی جاسوس کو نہ چھپائیں گے مسلمانوں سے کوئی دھوکہ فریب نہیں کریں گے اپنی اولاد کو قرآن نہ سکھائیں گے شرک کا اظہار نہ کریں گے نہ کسی کو شرک کی طرف بلائیں گے ۔ ہم میں سے کوئی اگر اسلام قبول کرنا چاہے ہم اسے ہرگز نہ روکیں گے مسلمانوں کی توقیر و عزت کریں گے ہماری جگہ اگر وہ بیٹھنا چاہیں تو ہم اٹھ کر انہیں جگہ دے دیں گے ہم مسلمانوں سے کسی چیز میں برابری نہ کریں گے نہ لباس میں نہ جوتی میں نہ مانگ نکالنے میں ، ہم ان کی زبانیں نہیں بولیں گے ، ان کی کنیتیں نہیں رکھیں گے ، زین والے گھوڑوں پر سواریاں نہ کریں گے نہ تلواریں لٹکائیں گے نہ اپنے ساتھ رکھیں گے ۔ انگوٹھیوں پر عربی نقش نہیں کرائیں گے شراب فروشی نہیں کریں گے اپنے سروں کے اگلے بالوں کو تراشوا دیں گے اور جہاں کہیں ہوں گے زنار ضرورتاً ڈالیں رہیں گے صلیب کا نشان اپنے گرجوں پر ظاہر نہیں کریں گے ۔ اپنی مذہبی کتابیں مسلمانوں کی گزر گاہوں اور بازاروں میں ظاہر نہیں کریں گے گرجوں میں ناقوس بلند آواز سے نہیں بجائیں گے ۔ نہ مسلمانوں کی موجودگی میں با آواز بلند اپنی مذہبی کتابیں پڑھیں گے نہ اپنے مذہبی شعار کو راستوں پر کریں گے نہ اپنے مردوں پر اونچی آواز سے ہائے وائے کریں گے نہ ان کے ساتھ مسلمانوں کے راستوں میں آگ لے کر جائیں گے ۔ مسلمانوں کے حصے میں آئے ہوئے غلام ہم نہ لیں گے مسلمانوں کی خیر خواہی ضرور کرتے رہیں گے ان کے گھروں میں جھانکیں گے نہیں ۔ جب یہ عہد نامہ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شرط اور بھی اس میں بڑھوائی کہ ہم کسی مسلمانوں کو ہرگز ماریں گے نہیں یہ تمام شرطیں ہمیں قبول و منظور ہیں اور ہمارے سب ہم مذہب لوگوں کو بھی ۔ انہیں شرائط پر ہمیں امن ملی ہے اگر ان میں سے کسی ایک شرط کی بھی ہم خلاف ورزی کریں تو ہم سے آپ کا ذمہ الگ ہو جائے گا اور جو کچھ آپ اپنے دشمنوں اور مخالفوں سے کرتے ہیں ان تمام کے مستحق ہم بھی ہو جائیں گے ۔ التوبہ
29 التوبہ
30 بزرگ بڑے نہیں اللہ جل شانہ سب سے بڑا ہے ان آیتوں میں بھی جناب باری عزوجل مومنوں کو مشرکوں ، کافروں سے یہودیوں ، نصرانیوں سے جہاد کرنے کی رغبت دلاتا ہے ۔ فرماتا ہے دیکھو وہ اللہ کی شان میں کیسی گستاخیاں کرتے ہیں ؟ یہود عزیر کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا بتلاتے ہیں اللہ تعالیٰ اس سے پاک اور برتر و بلند ہے کہ اس کی اولاد ہو ۔ ان لوگوں کو سیدنا عزیر علیہ السلام کی نسبت جو یہ وہم ہوا اس کا قصہ یہ ہے کہ جب عمالقہ بنی اسرائیل پر غالب آ گئے ان کے علماء کو قتل کر دیا ان کے رئیسوں کو قید کر لیا ۔ عزیر علیہ السلام کا علم اٹھ جانے اور علماء کے قتل ہو جانے سے اور بنی اسرائیل کی تباہی سے سخت رنجیدہ ہوئے اب جو رونا شروع کیا تو آنکھوں سے آنسو ہی نہ تھمتے تھے روتے روتے پلکیں بھی جھڑ گئیں ۔ ایک دن اسی طرح روتے ہوئے ایک میدان سے گزر ہوا تو دیکھا کہ ایک عورت ایک قبر کے پاس بیٹھی رو رہی ہے اور کہہ رہی ہے ہائے اب میرے کھانے کا کیا ہو گا ؟ میرے کپڑوں کا کیا ہو گا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس ٹھہر گئے اور اس سے فرمایا : ” اس شخص سے پہلے تجھے کون کھلاتا تھا اور کون پہناتا تھا “ ؟ اس نے کہا : ” اللہ تعالیٰ “ ۔ آپ نے فرمایا : ” پھر اللہ تعالیٰ تو اب بھی زندہ ، باقی ہے اس پر تو کبھی نہیں موت آئے گی ہی نہیں “ ۔ یہ سن کر اس عورت نے کہا : ” اے عزیر ! پھر تم یہ تو بتلاؤ کہ بنی اسرائیل سے پہلے علماء کو کون علم سکھاتا تھا “ ؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ “ ۔ اس نے کہا : ” آپ علیہ السلام یہ رونا دھونا لے کر کیوں بیٹھے ہیں “ ؟ آپ علیہ السلام کو سمجھ میں آ گیا کہ یہ جناب باری سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے آپ کو تنبیہہ ہے پھر آپ علیہ السلام سے فرمایا گیا کہ فلاں نہر پر جا کر غسل کرو وہیں دو رکعت نماز ادا کرو وہاں تمہیں ایک شخص ملیں گے وہ جو کچھ کھلائیں گے وہ کھا لو ۔ چنانچہ آپ علیہ السلام وہیں تشریف لے گئے نہا کر نماز ادا کی ، دیکھا کہ ایک شخص ہیں کہہ رہے ہیں منہ کھولو آپ علیہ السلام نے منہ کھول دیا انہوں نے تین مرتبہ کوئی چیز آپ علیہ السلام کے منہ میں بڑی ساری ڈالی اسی وقت اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کا سینہ کھول دیا ، اور آپ علیہ السلام توراۃ کے سب سے بڑے عالم بن گئے بنی اسرائیل میں گئے ان سے فرمایا کہ ” میں تمہارے پاس تورات لایا ہوں “ ۔ انہوں نے کہا : ” آپ علیہ السلام ہم سب کے نزدیک سچے ہیں “ ۔ آپ علیہ السلام نے اپنی انگلی کے ساتھ قلم کو لپیٹ لیا اور اسی انگلی سے بیک وقت پوری تورات لکھ ڈالی ۔ ادھر لوگ لڑائی سے لوٹے ان میں ان کے علماء بھی واپس آئے تو انہیں سیدنا عزیر علیہ السلام کی اس بات کا علم ہوا یہ گئے اور پہاڑوں اور غاروں میں تورات شریف کے جو نسخے چھپا آئے تھے وہ نکال لائے اور ان نسخوں سے سیدنا عزیر علیہ السلام کے لکھے ہوئے نسخے کا مقابلہ کیا تو بالکل صحیح پایا ۔ اس پر بعض جاہلوں کے دل میں شیطان نے یہ وسوسہ ڈال دیا کہ آپ علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں ۔ سیدنا مسیح علیہ السلام کو نصرانی اللہ کا بیٹا کہتے تھے ان کا واقعہ تو ظاہر ہے ۔ پس ان دونوں گروہ کی غلط بیانی قرآن بیان فرما رہا ہے اور فرماتا ہے کہ یہ ان کی صرف زبانی باتیں ہیں جو محض بےدلیل ہیں جس طرح ان سے پہلے کے لوگ کفر و ضلالت میں تھے یہ بھی انہی کے مرید و مقلد ہیں اللہ تعالیٰ انہیں لعنت کرے حق سے کیسے بھٹک گئے ۔ مسند احمد و ترمذی اور ابن جریر میں ہے کہ جب عدی بن حاتم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دین پہنچا تو شام کی طرف بھاگ نکلا ۔ جاہلیت میں ہی یہ نصرانی بن گیا تھا یہاں اس کی بہن اور اس کی جماعت قید ہو گئی پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور احسان اس کی بہن کو آزاد کر دیا اور رقم بھی دی ۔ یہ سیدھی اپنے بھائی کے پاس گئیں اور انہیں اسلام کی رغبت دلائی اور سمجھایا کہ تم رسول اللہ علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس چلے جاؤ ۔ چنانچہ یہ مدینہ منورہ آ گئے تھے اپنی قوم طے کے سردار تھے ان کے باپ کی سخاوت دنیا بھر میں مشہور تھی ۔ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر پہنچائی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود ان کے پاس آئے ۔ اس وقت عدی کی گردن میں چاندی کی صلیب لٹک رہی تھی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے اسی آیت «اتَّخَذُوا» کی تلاوت ہو رہی تھی ۔ تو انہوں نے کہا کہ ” یہود و نصاریٰ نے اپنے علماء اور درویشوں کی عبادت نہیں کی “ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ہاں سنو ان کے کئے ہوئے حرام کو حرام سمجھنے لگے اور جسے ان کے علماء اور درویش حلال بتا دیں اسے حلال سمجھنے لگے یہی ان کی عبادت تھی “ ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” عدی کیا تم اس سے منکر ہو کہ اللہ تعالیٰ سب سے بڑا ہے ، کیا تمہارے خیال میں اللہ تعالیٰ سے بڑا اور کوئی ہے کیا تم اس سے انکار کرتے ہو کہ معبود برحق اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں ؟ کیا تمہارے نزدیک اس کے سوا اور کوئی بھی عبادت کے لائق ہے “ ؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اسلام کی دعوت دی ، انہوں نے مان لی اور اللہ تعالیٰ کی توحید اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی ادا کی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ خوشی سے چمکنے لگا اور فرمایا : ” یہود پر غضب اللہ اترا ہے اور نصرانی گمراہ ہو گئے ہیں “ ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3095،قال الشیخ الألبانی:حسن) سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ اور سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ سے بھی اس آیت کی تفسیر اسی طرح مروی ہے کہ اس سے مراد حلال و حرام کے مسائل میں علماء اور ائمہ کی محض باتوں کی تقلید ہے ۔ سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں انہوں نے بزرگوں کی ماننی شروع کر دی اور اللہ تعالیٰ کی کتاب ایک طرف ہٹا دی ، اسی لیے اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے کہ انہیں حکم تو صرف یہ تھا کہ اللہ تعاللیٰ کے سوا اور کی عبادت نہ کریں وہی جسے حرام کر دے حرام ہے اور وہ جسے حلال فرما دے حلال ہے اسی کے فرمان شریعت ہیں ، اسی کے احکام بجا لانے کے لائق ہیں اسی کی ذات عبادت کی مستحق ہے ۔ وہ مشرک سے اور شرک سے پاک ہے اس جیسا ، اس کا شریک ، اس کا نظیر ، اس کا مددگار ، اس کی ضد کا کوئی نہیں ، وہ اولاد سے پاک ہے نہ اس کے سوا کوئی معبود نہ پروردگار ۔ التوبہ
31 التوبہ
32 کفارہ کی دلی مذموم خواہش فرماتا ہے کہ ہر قسم کے کفار کا ارادہ اور چاہت یہی ہے کہ اللہ کا نور بجھا دیں ہدایتِ ربانی اور دینِ حق کو مٹا دیں تو خیال کر لو کہ اگر کوئی شخص اپنے منہ کی پھونک سے آفتاب یا مہتاب کی روشنی بجھانی چاہے تو کیا یہ ہو سکتا ہے ؟ اسی طرح یہ لوگ بھی اللہ کے نور کے بجھانے کی چاہت میں اپنی امکانی کوشش کرلیں آخر عاجز ہو کر رہ جائیں گے ۔ ضروری بات ہے اور اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ دین حق تعلیمِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا بول بالا ہو گا ۔ تم مٹانا چاہتے ہو اللہ تعالیٰ بلند کرنا چاہتا ہے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی چاہت تمہاری چاہت پر غالب رہے گی تم گو ناخوش رہو لیکن آفتابِ ہدایت بیچ آسمان میں پہنچ کر ہی رہے گا ۔ عربی لغت میں کافر کہتے ہیں کسی چیز کے چھپا لینے والے کو اسی اعتبار سے رات کو بھی کافر کہتے ہیں اس لیے کہ وہ بھی تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ، کسان کو کافر کہتے ہیں کیونکہ وہ دانے زمین میں چھپا دیتا ہے ۔ جیسے فرمان ہے«اَعْجَبَ الْکُفَّارَ نَبَاتُہٗ» ۱؎ (57-الحدید:20) اسی اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ اپنا پیغمبر بنا کر بھیجا ہے ۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی خبریں اور صحیح ایمان اور نفع والا علم یہ ہدایت ہے اور عمدہ اعمال جو دنیا آخرت میں نفع دیں یہ دین حق ہے ۔ یہ تمام مذاہب عالم پر چھا کر رہے گا ۔ نبی کریم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” میرے لیے مشرق و مغرب کی زمین لپیٹ دی گئی میری امت کا ملک ان تمام جگہوں تک پہنچے گا “ ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2889) فرماتے ہیں تمہارے ہاتھوں پر مشرق و مغرب فتح ہو گا ۔ تمہارے سردار جہنمی ہیں ، بجز ان کے جو متقی ، پرہیزگار اور امانت دار ہوں ۔ ۱؎ (مسند احمد:366،367/5:صحیح) فرماتے ہیں یہ دین تمام اس جگہ پر پہنچے گا جہاں پر دن رات پہنچیں کوئی کچا پکا گھر ایسا باقی نہ رہے گا جہاں اللہ عزوجل اسلام کو نہ پہنچائے ۔ عزیزوں کو عزیز کرے گا اور ذلیلوں کو ذلیل کرے گا ۔ اسلام کو عزت دینے والوں کو عزت ملے گی اور کفر کو ذلت نصیب ہو گی ۔ سیدنا تمیم داری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے تو یہ بات خود اپنے گھر میں بھی دیکھ لی جو مسلمان ہوا اسے خیر و برکت ، عزت و شرافت ملی اور جو کافر رہا اسے ذلت و نکبت ، نفرت و لعنت نصیب ہوئی ، پستی اور حقارت دیکھی اور کمینہ پن کے ساتھ جزیہ دینا پڑا ۔ ۱؎ (مسند احمد:103/4:صحیح) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ” روئے زمین پر کوئی کچا پکا گھر ایسا باقی نہ رہے گا جس میں اللہ تبارک و تعالیٰ کلمہ اسلام کو داخل نہ کر دے وہ عزت والوں کو عزت دے گا اور ذلیلوں کو ذلیل کرے گا جنہیں عزت دینی چاہے گا انہیں اسلام نصیب کرے گا اور جنہیں ذلیل کرنا ہو گا وہ اسے مانیں گے نہیں لیکن اس کی ماتحتی میں انہیں آنا پڑے گا “ ۔ ۱؎ (مسند احمد:4/6:صحیح) سیدنا عدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” میرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے مجھ سے فرمایا : ” اسلام قبول کر تاکہ سلامتی ملے “ ۔ میں نے کہا : ” میں تو ایک دین کو مانتا ہوں “ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تیرے دین کا تجھ سے زیادہ مجھے علم ہے “ ۔ میں نے کہا : ” سچ “ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” بالکل سچ ۔ کیا تو رکوسیہ میں سے نہیں ہے ؟ کیا تو اپنی قوم سے ٹیکس وصول نہیں کرتا “ ؟ میں نے کہا : ” یہ تو سچ ہے “ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تیرے دین میں یہ تیرے لیے حلال نہیں “ ۔ پس یہ سنتے ہی میں تو جھک گیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” میں خوب جانتا ہوں کہ تجھے اسلام سے کون سی چیز روکتی ہے ۔ سن ! صرف ایک یہی بات تجھے روک رہی ہے کہ مسلمان بالکل ضعیف اور کمزور اور ناتواں ہیں تمام عرب انہیں گھیرے ہوئے ہے یہ ان سے نپٹ نہیں سکتے لیکن سن ! حیرہ کا تجھے علم ہے “ ؟ میں نے کہا : ” دیکھا تو نہیں سنا ضرور ہے “ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اللہ تعالیٰ اس امر دین کو پورا فرمائے گا یہاں تک کہ ایک سانڈنی سوار حیرہ سے چل کر بغیر کسی کی امان کےُمکہ معظمہ پہنچے گا اور بیت اللہ کا طواف کرے گا ۔ واللہ ! تم کسریٰ کے خزانے فتح کرو گے “ ۔ میں نے کہا : ” کسریٰ بن ہرمز کے “ ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ہاں ہاں کسریٰ بن ہرمز کے ، تم میں مال کی اس قدر کثرت ہو پڑے گی کہ کوئی لینے والا نہ ملے گا “ ۔ اس حدیث کو بیان کرتے وقت عدی رحمہ اللہ نے فرمایا : ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان پورا ہوا یہ دیکھو آج حیرہ سے سواریاں چلتی ہیں بےخوف و خطر بغیر کسی کی پناہ کے بیت اللہ پہنچ کر طواف کرتی ہیں ۔ صادق و مصدوق صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری پیشن گوئی بھی پوری ہوئی ۔ کسریٰ کے خزانے فتح ہوئے میں خود اس فوج میں تھا جس نے ایران کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور کسریٰ کے مخفی خزانے اپنے قبضے میں کئے ۔ واللہ ! مجھے یقین ہے کہ صادق و مصدوق صلی اللہ علیہ وسلم کی تیسری پیشین گوئی بھی قطعاً پوری ہو کر ہی رہے گی “ ۔ ۱؎ (مسند احمد:378/4:حسن) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ” دن رات کا دور ختم نہ ہو گا ۔ جب تک کہ پھر لات و عزیٰ کی عبادت نہ ہونے لگے “ ۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم «ہُوَ الَّذِی أَرْسَلَ» کے نازل ہونے کے بعد سے میرا خیال تو آج تک یہی رہا کہ یہ پوری بات ہے “ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ہاں پوری ہو گئی اور مکمل ہی رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور ہو پھر اللہ تعالیٰ رب العالمین ایک پاک ہوا بھیجیں گے جو ہر اس شخص کو بھی فوت کرلے گی جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو ۔ پھر وہی لوگ باقی رہ جائیں گے جن میں کوئی خیر و خوبی نہ ہو گی ۔ پس وہ اپنے باپ دادوں کے دین کی طرف پھر سے لوٹ جائیں گئے “ ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2907) التوبہ
33 التوبہ
34 . یہودیوں کے علماء کو احبار اور نصرانیوں کے عابدوں کو رہبان کہتے ہیں ۔ «لَوْلَا یَنْھٰیہُمُ الرَّبّٰنِیٰوْنَ وَالْاَحْبَارُ» ۱؎ (5-المآئدہ:63) میں یہود کے علماء کو احبار کہا گیا ہے ۔ نصرانیوں کے عابدوں کو رہبان اور ان کے علماء کو قسیس اس آیت میں کہا گیا ہے «ذٰلِکَ بِاَنَّ مِنْہُمْ قِسِّیْسِیْنَ وَرُہْبَانًا» ۱؎ (5-المآئدہ:82) آیت کا مقصود لوگوں کو برے علماء گمراہ صوفیوں اور عابدوں سے ہوشیار کرانا اور ڈرانا ہے ۔ سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ” ہمارے علماء میں سے وہی بگڑتے ہیں جن میں کچھ نہ کچھ شائبہ یہودیت کا ہوتا ہے اور صوفیوں اور عابدوں میں سے وہی بگڑتے ہیں جن میں نصرانیت کا شائبہ ہوتا ہے “ ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ تم یقیناً اپنے سے پہلوں کی روش پر چل پڑو گے ایسی پوری مشابہت سے کہ ذرا بھی فرق نہ رہے ۔ لوگوں نے پوچھا کیا یہود و نصاریٰ کی روش پر ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ہاں انہی کی روش پر “ ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:7319) اور روایت میں ہے کہ لوگوں نے پوچھا کیا فارسیوں اور رومیوں کی روش پر ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اور کون لوگ ہیں “ ؟ ۱؎ (صحیح بخاری:7320) پس ان کے اقوال افعال کی مشابہت سے بہت ہی بچنا چاہیئے ۔ یہ اس لیے کہ یہ منصب و ریاست حاصل کرنا اور اس وجاہت سے لوگوں کے مال مارنا چاہتے ہیں ۔ احبار یہود کو زمانہ جاہلیت میں بڑا ہی رسوخ حاصل تھا ان کے تحفے ، ہدیے ، خراج ، چراغی مقرر تھی جو بغیر مانگے انہیں پہنچ جاتی تھی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے بعد اسی طمع نے انہیں قبول اسلام سے روکا ۔ لیکن حق کے مقابلے کی وجہ سے اس طرف سے بھی کورے رہے اور آخرت سے بھی گئے گزرے ، ذلت و حقارت ان پر برس پڑی اور غضب الٰہی میں مبتلا ہو کر تباہ و برباد ہو گئے ۔ یہ حرام کھانی جماعت خود حق سے رک کر اوروں کے بھی درپے رہتی تھی حق کو باطل میں خلط ملط کر کے لوگوں کو بھی راہ حق سے روک دیتے تھے ۔ جاہلوں میں بیٹھ کر گپ ہانکتے کہ ہم لوگوں کو راہ حق کی طرف بلاتے ہیں حالانکہ یہ صریح دھوکہ ہے وہ تو جہنم کی طرف بلانے والے ہیں قیامت کے دن یہ بےیارو مددگار چھوڑ دیئے جائیں گے ۔ عالموں کا ، اور صوفیوں کا یعنی واعظوں اور عابدوں کا ذکر کر کے اب امیروں دولت مندوں اور رئیسوں کا حال بیان ہو رہا ہے کہ جس طرح یہ دونوں طبقے اپنے اندر بدترین لوگوں کو بھی رکھتے ہیں ایسے ہی اس تیسرے طبقے میں بھی شریر النفس لوگ ہوتے ہیں ۔ عموماً انہی تین طبقے کے لوگوں کا عوام پر اثر ہوتا ہے عوام کی کثیر تعداد ان کے ساتھ بلکہ ان کے پیچھے ہوتی ہیں پس ان کا بگڑنا گویا مذہبی دنیا کا ستیاناس ہونا ہے جیسے کہ ابن مبارک رحمہ اللہ علیہ کہتے ہیں ۔ «وھل افسدالدین الا الملوک واحبار سوء ورھبانھا» یعنی دین واعظوں ، عالموں ، صوفیوں اور درویشوں کے پلید طبقے سے ہی بگڑتا ہے ۔ ” کنز “ اصطلاح شرع میں اس مال کو کہتے ہیں جس کی زکوٰۃ ادا نہ کی جاتی ہو ۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے یہی مروی ہے بلکہ آپ فرماتے ہیں : ” جس مال کی زکوٰۃ دے دی جاتی ہو وہ اگر ساتویں زمین تلے بھی ہو تو وہ کنز نہیں اور جس کی زکوٰۃ نہ دی جاتی ہو وہ گو زمین پر ظاہر پھیلا پڑا ہو کنز ہے “ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی موقوفاً اور مرفوعاً یہی مروی ہے ۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی یہی فرماتے ہیں اور فرماتے ہیں : ” بے زکوٰۃ کے مال سے اس مالدار کو داغا جائے گا “ ۔ آپ رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ یہ زکوٰۃ کے اترنے سے پہلے تھا زکوٰۃ کا حکم نازل فرما کر اللہ نے اسے مال کی طہارت بنا دیا ۔ خلیفہ برحق عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ علیہ اور عراک بن مالک رحمہ اللہ نے بھی یہی فرمایا ہے کہ اسے قول ربانی «خُذْ مِنْ أَمْوَالِہِمْ» ۱؎ (التوبہ:103) الخ نے منسوخ کر دیا ہے ۔ ابوامامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” تلواروں کا زیور بھی کنز یعنی خزانہ ہے ۔ یاد رکھو میں تمہیں وہی سناتا ہوں جو میں نے جناب پیغمبر حق صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے “ ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ” چار ہزار اور اس سے کم تو نفقہ ہے اور اس سے زیاہ کنز ہے “ ۔ ۱؎ (بیہقی فی السنن الکبریٰ:82/2:موقوف) لیکن یہ قول غریب ہے ۔ مال کی کثرت کی مذمت اور کمی کی مدحت میں بہت سی حدیثیں وارد ہوئی ہیں بطور نمونے کے ہم بھی یہاں ان میں سے چند نقل کرتے ہیں ۔ مسند عبدالرزاق میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” سونے چاندی والوں کے لیے ہلاکت ہے “ تین مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی فرمان سن کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر شاق گزرا اور انہوں نے سوال کیا کہ پھر ہم کس قسم کا مال رکھیں ؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حالت بیان کر کے یہی سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” ذکر کرنے والی زبان شکر کرنے والا دل اور دین کے کاموں میں مدد دینے والی بیوی “ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:16676:مرسل) مسند احمد میں ہے کہ سونے چاندی کی مذمت کی یہ آیت جب اتری اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپس میں چرچا کیا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : ” لو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کر آتا ہوں “ ، اپنی سواری تیز کر کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملے ۔ ۱؎ (مسند احمد:372/5:صحیح) اور روایات میں ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا پھر ہم اپنی اولادوں کے لیے کیا چھوڑ جائیں ؟ اس میں ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پیچھے ہی پیچھے ثوبان رضی اللہ عنہ بھی تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے سوال پر فرمایا کہ ” اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ اسی لیے مقرر فرمائی ہے کہ بعد کا مال پاک ہو جائے ۔ میراث کا مقرر کرنا بتلا رہا ہے کہ جمع کرنے میں کوئی حرج نہیں “ ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ یہ سن کر مارے خوشی کے تکبیریں کہنے لگے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” لو اور سنو ! میں تمہیں بہترین خزانہ بتلاؤں نیک عورت جب اس کا خاوند اس کی طرف نظر ڈالے تو وہ اسے خوش کر دے اور جب حکم دے فوراً بجا لائے اور جب وہ موجود نہ ہو تو حفاظت کرے ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:1664،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) حسان بن عطیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سیدنا شداد بن اوس رضی اللہ عنہ ایک سفر میں تھے ایک منزل میں اترے اور اپنے غلام سے فرمایا کہ ” چھری لاؤ کھیلیں “ ۔ مجھے برا معلوم ہوا آپ نے افسوس ظاہر کیا اور فرمایا : ” میں نے تو اسلام کے بعد سے اب تک ایسی بے احتیاطی کی بات کبھی نہیں کی تھی اب تم اسے بھول جاؤ اور ایک حدیث بیان کرتا ہوں اسے یاد رکھو لو “ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ” جب لوگ سونا چاندی جمع کرنے لگیں تم ان کلمات کو بکثرت کہا کرو ۔ « اللہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ الثَّبَاتَ فِی الْأَمْرِ ، وَالْعَزِیمَۃَ عَلَی الرٰشْدِ ، وَأَسْأَلُکَ مُوجِبَاتِ رَحْمَتِکَ ، وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِکَ ، وَأَسْأَلُکَ شُکْرَ نِعْمَتِکَ ، وَحُسْنَ عِبَادَتِکَ ، وَأَسْأَلُکَ قَلْبَاً سَلِیمَاً ، وَلِسَانَاً صَادِقَاً ، وَأَسْأَلُکَ مِنْ خَیْرِ مَا تَعْلَمُ ، وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا تَعْلَمُ ، وَأَسْتَغْفِرُکَ لِمَا تَعْلَمُ ، إِنَّکَ أنْتَ عَلاَّمُ الْغُیُوبِ» یعنی یا اللہ ! میں تجھ سے کام کی ثابت قدمی اور بھلائیوں کی پختگی اور تیری نعمتوں کا شکریہ اور تیری عبادتوں کی اچھائی اور سلامتی والا دل اور سچی زبان اور تیرے علم میں جو بھلائی ہے وہ اور تیرے علم میں جو برائی ہے اس سے پناہ اور جن برائیوں کو تو جانتا ہے ان سے استغفار طلب کرتا ہوں میں مانتا ہوں کہ تو تمام غیب کا جاننے والا ہے “ ۔ ۱؎ (مسند احمد:123/4:حسن بالشواھد) آیت میں بیان ہے کہ اللہ کی راہ میں اپنے مال کو نہ خرچ کرنے والے اور اسے چھپا چھپا کر رکھنے والے درد ناک عذابوں سے مطلع ہو جائیں ۔ قیامت کے دن اسی مال کو خوب تپا کر گرم آگ جیسا کر کے اس سے ان کی پیشانیاں اور پہلو اور کمر داغی جائے گی اور بطور ڈانٹ ڈپٹ کے ان سے فرمایا جائے گا کہ لو اپنی جمع جتھا کا مزہ چکھو ۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ فرشتوں کو حکم ہو گا کہ جہنمی گرم پانی کا تریڑ ان کے سروں پر بہاؤ اور ان سے کہو کہ عذاب کا لطف اٹھاؤ تم بڑے ذی عزت اور بزرگ سمجھے جاتے رہے ، ۱؎ (44-الدخان:48،49) یہ ہے بدلہ اس کا ۔ ثابت ہوا کہ جو شخص جس چیز کو محبوب بنا کر اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے اسے مقدم کرے گا اسی کے ساتھ اسے عذاب ہو گا ۔ ان مالداروں نے مال کی محبت میں اللہ تعالیٰ کے فرمان کو بھلا دیا تھا آج اسی مال سے انہیں سزا دی جا رہی ہے ۔ جیسے کہ ابولہب کھلم کھلا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دشمنی کرتا تھا اور اس کی بیوی اس کی مدد کرتی تھی قیامت کے دن آگ کے اور بھڑکانے کے لیے وہ اپنے گلے میں رسی ڈال کر لکڑیاں لا لا کر اسے سلگائے گی اور اس میں وہ جلتا رہے گا ۔ یہ مال جو یہاں سے سب سے زیادہ پسندیدہ ہیں یہی مال قیامت کے دن سب سے زیادہ مضر ثابت ہوں گے ۔ اسی کو گرم کر کے اس سے داغ دیئے جائیں گے ۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ” ایسے مالداروں کے جسم اتنے لمبے چوڑے کر دیئے جائیں گے کہ ایک ایک دینار و درہم اس پر آ جائے پھر کل مال آگ جیسا بنا کر علیحدہ علیحدہ کر کے سارے جسم پر پھیلا دیا جائے گا یہ نہیں ایک کے بعد ایک داغ لگے ، بلکہ ایک ساتھ سب کے سب “ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:233/14) مرفوعاً بھی یہ روایت آئی تو ہے لیکن اس کی سند صحیح نہیں ، واللہ اعلم ۔ طاؤس رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” اس کا مال ایک اژدھا بن کر اس کے پیچھے لگے گا جو عضو سامنے آ جائے گا اسی کو چبا جائے گا “ ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو اپنے بعد خزانہ چھوڑ جائے اس کا وہ خزانہ قیامت کے دن زہریلا اژدھا بن کر جس کی آنکھوں پر نقطے ہوں گے اس کے پیچھے لگے گا یہ بھاگتا ہوا پوچھے گا کہ تو کون ہے ؟ وہ کہے گا تیرا جمع کردہ اور مرنے کے بعد چھوڑا ہوا خزانہ آخر اسے پکڑ لے گا اور اس کا ہاتھ چبا جائے گا پھر باقی جسم بھی “ ۔ ۱؎ (صحیح ابن خریمہ:2255) صحیح مسلم وغیرہ میں ہے کہ جو شخص اپنے مال کی زکوٰۃ نہ دے اس کا مال قیامت کے دن آگ کی تختیوں جیسا بنا دیا جائے گا اور اس سے اس کی پیشانی پہلو اور کمر داغی جائے گی ۔ پچاس ہزار سال تک لوگوں کے فیصلے ہو جانے تک تو اس کا یہی حال رہے گا پھر اسے اس کی منزل کی راہ دکھا دی جائے گی جنت کی طرف یا جہنم کی طرف ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:978) امام بخاری رحمہ اللہ اسی آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ زید بن وہب رحمہ اللہ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے ربذہ میں ملے اور دریافت کیا کہ تم یہاں کیسے آ گئے ہو ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ” ہم شام میں تھے وہاں میں نے آیت «وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ» (9-التوبہ:34) کی تلاوت کی “ تو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ” یہ آیت ہم مسلمانوں کے بارے میں نہیں یہ تو اہل کتاب کے بارے میں ہے “ ۔ میں نے کہا : ” ہمارے اور ان کے سب کے حق میں ہے “ ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4660) اس میں میرا ان کا اختلاف ہو گیا انہوں نے میری شکایت کا خط دربار عثمانی میں لکھا ، خلافت کا فرمان میرے نام آیا کہ تم یہاں چلے آؤ ۔ جب میں مدینہ طیبہ پہنچا تو دیکھا کہ چاروں طرف سے مجھے لوگوں نے گھیر لیا ۔ اس طرح بھیڑ لگ گئی کہ گویا انہوں نے اس سے پہلے مجھے دیکھا ہی نہ تھا ۔ غرض میں مدینہ منورہ میں ٹھہرا لیکن لوگوں کی آمد و رفت سے تنگ آ گیا ۔ آخر میں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے شکایت کی تو آپ نے مجھے فرمایا کہ ” تم مدینے کے قریب ہی کسی صحرا میں چلے جاؤ “ ۔ میں نے اس حکم کی بھی تعمیل کی لیکن یہ کہہ دیا کہ واللہ ! جو میں کہتا تھا اسے ہرگز نہیں چھوڑ سکتا ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1406) آپ کا خیال یہ تھا کہ بال بچوں کے کھلانے کے بعد جو بچے اسے جمع کر رکھنا مطلقاً حرام ہے ۔ اسی کا آپ فتویٰ دیتے تھے اور اسی بات کو لوگوں میں پھیلاتے تھے اور لوگوں کو بھی اس پر آمادہ کرتے تھے اسی کا حکم دیتے تھے اور اس کے مخالف لوگوں پر بڑا ہی تشدد کرتے تھے ۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے آپ کو روکنا چاہا کہ کہیں لوگوں میں عام ضرر نہ پھیل جائے یہ نہ مانے تو آپ نے خلیفہ سے شکایت کی ۔ امیر المؤمنین نے انہیں بلا کر ربذہ میں تنہا رہنے کا حکم دیا ۔ آپ وہیں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ہی رحلت فرما گئے ۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے بطور امتحان ایک مرتبہ ان کے پاس ایک ہزار اشرفیاں بھجوائیں آپ نے شام سے پہلے ہی پہلے سب ادھر ادھر اللہ کی راہ میں خرچ کر ڈالیں ۔ شام کو وہی صاحب جو انہیں صبح کو ایک ہزار اشرفیاں دے گئے تھے وہ آئے اور کہا مجھ سے غلطی ہو گئی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے وہ اشرفیاں اور صاحب کے لیے بھجوائی تھیں ۔ میں نے غلطی سے آپ کو دے دیں ۔ وہ واپس کیجئے ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم پر افسوس ہے میرے پاس تو اب ان میں سے ایک پائی بھی نہیں اچھا جب میرا مال آ جائے گا تو میں آپ کو آپ کی اشرفیاں واپس کر دوں گا ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما بھی اس آیت کے حکم کو عام بتلاتے ہیں ۔ سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” یہ آیت اہل قبلہ کے بارے میں ہے “ ۔ احنف بن قیس رحمہ اللہ فرماتے ہیں : میں مدینہ منورہ میں آیا دیکھا کہ ایک جماعت قریشیوں کی محفل لگائے بیٹھی ہے میں بھی اس مجلس میں بیٹھ گیا کہ ایک صاحب تشریف لائے میلے کچیلے ، موٹے ، چھوٹے کپڑے پہنے ہوئے بہت خستہ حال میں اور آکر کھڑے ہو کر فرمانے لگے روپیہ پیسہ جمع کرنے والے اس سے خبردار رہیں کہ قیامت کے دن جہنم کے انگارے ان کی چھاتی کی بٹنی پر رکھے جائیں گے جو کھوے کی ہڈی کے پار ہو جائیں گے پھر پیچھے کی طرف سے آگے کو سوراخ کرتے اور جلاتے ہوئے نکل جائیں گے ۔ لوگ سب سر نیچا کئے بیٹھے رہے کوئی بھی کچھ نہ بولا وہ بھی مڑ کر چل دیئے ۔ اور ایک ستون سے لگ کر بیٹھ گئے میں ان کے پاس پہنچا اور ان سے کہا کہ میرے خیال میں تو ان لوگوں کو آپ کی بات بری لگی آپ نے فرمایا یہ کچھ نہیں جانتے ۔ ایک صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ ” میرے پاس اگر احد پہاڑ کے برابر بھی سونا ہو تو مجھے یہ بات اچھی نہیں معلوم ہوتی کہ تین دن گزرنے کے بعد میرے پاس اس میں سے کچھ بھی بچا ہوا رہے ہاں اگر قرض کی ادائیگی کے لیے میں کچھ رکھ لوں تو اور بات ہے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2444) غالباً اسی حدیث نے سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کا یہ مذہب کر دیا تھا ۔ جو آپ نے اوپر پڑھا ، واللہ اعلم ۔ ایک مرتبہ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کو ان کا حصہ ملا آپ کی لونڈی نے اسی وقت ضروریات کو فراہم کرنا شروع کیا ۔ سامان کی خرید کے بعد سات بچ رہے ۔ حکم دیا کہ اس کے فلوس لے لو تو سیدنا سیدنا عبداللہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ” اسے آپ اپنے پاس رہنے دیجئیے تاکہ بوقت ضرور کام نکل جائے یا کوئی مہمان آ جائے تو کوئ کام نہ اٹکے ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ” نہیں مجھ سے میرے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم نے عہد لیا ہے کہ جو سونا چاندی سربند کر کے رکھی جائے وہ رکھنے والے کے لیے آگ کا انگارا ہے جب تک کہ اسے راہ اللہ نہ دے دے ۔ ۱؎ (مسند احمد:156/5:صحیح) ابن عساکر میں ہے سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ سے فقیر بن کر مل غنی بن کر نہ مل “ ۔ انہوں نے پوچھا : ” یہ کس طرح “ ؟ فرمایا : ” سائل کو رد نہ کر جو ملے اسے چھپا نہ رکھ “ ۔ انہوں نے کہا : ” یہ کیسے ہو سکے گا “ ؟ آپ نے فرمایا : ” یہی ہے ورنہ آگ ہے “ ۔ ۱؎ (سلسلۃ احادیث صحیحہ البانی:6742،) اس کی سند ضعیف ہے ۔ اہل صفہ میں ایک صاحب کا انتقال ہو گیا وہ دینار یا دو درہم ان کے بچے ہوئے نکلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” یہ آگ کے دو داغ ہیں تم لوگ اپنے ساتھی کے جنازے کی نماز پڑھ لو “ ۔ ۱؎ (مسند احمد:101/1:حسن لغیرہ) اور روایت میں ہے کہ ایک اہل صفہ کے انتقال کے بعد ان کی تہبند کی آنٹی میں سے ایک دینار نکلا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ایک داغ آگ کا “ ۔ پھر دوسرے کا انتقال ہوا ان کے پاس سے دو دینار برآمد ہوئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” یہ دو داغ آگ کے “ ۔ ۱؎ (مسند احمد:253،252/5:صحیح) فرماتے ہیں جو لوگ سرخ و سفید یعنی سونا چاندی چھوڑ کر مرے ایک ایک قیراط کے بدلے ایک ایک تختی آگ کی بنادی جائے گی اور اس کے قدم سے لے کے ٹھوڑی تک اس کے جسم میں آگ سے داغ کئے جائیں گے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جس نے دینار سے دینار اور درہم سے درہم ملا کر جمع کر کے رکھ چھوڑا اس کی کھال کشادہ کر کے پیشانی اور کروٹ اور کمر پر اس کے داغ کئے جائیں گے اور کہا جائے گا یہ ہے جسے تم اپنی جانوں کے لیے خزانہ بناتے رہے اب اس کا بدلہ چکھو ۔ اس کا راوی سیف کذاب و متروک ہے ۔ التوبہ
35 التوبہ
36 احترام آدمیت کا منشور مسند احمد میں ہے کہ رسول مقبول , صادق و مصدوق سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حج کے خطبے میں ارشاد فرمایا کہ زمانہ گھوم گھام کر اپنی اصلیت پر آ گیا ہے سال کے بارہ مہینے ہوا کرتے ہیں جن میں سے چار حرمت و ادب والے ہیں ۔ تین تو پے در پے ذوالقعدہ ، ذوالحجہ اور محرم اور چوتھا رجب جو مضر کے ہاں ہے جو جمادی الاخریٰ اور شعبان کے درمیان میں ہے ۔ پھر پوچھا یہ کون سا دن ہے ؟ ہم نے کہا : ” اللہ تعالیٰ کو اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی پورا علم ہے “ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکوت فرمایا ۔ ہم سمجھے کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دن کا کوئی اور ہی نام رکھیں گے پھر پوچھا ” کیا یہ یوم النحر یعنی قربانی کی عید کا دن نہیں “ ؟ ہم نے کہا : ” ہاں “ ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : ” یہ کون سا مہینہ ہے “ ؟ ہم نے کہا : ” اللہ تعالیٰ جانے اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر سکوت فرمایا یہاں تک کہ ہم نے خیال کیا کہ شاید آپ اس مہینے کا نام اور ہی رکھیں گے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” کیا یہ ذوالحجہ نہیں ہے “ ؟ ہم نے کہا : ” ہاں “ ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : ” یہ کون سا شہر ہے “ ؟ ہم نے کہا : ” اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم خوب جاننے والے ہیں “ ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر خاموش ہو رہے اور ہمیں پھر خیال آنے لگا کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا کوئی اور ہی نام رکھیں گے ۔ پھر فرمایا : ” کیا یہ بلدہ ( مکہ ) نہیں ہے “ ہم نے کہا : ” بیشک “ ۔ آپ نے فرمایا : ” یاد رکھو تمہارے خون تمہارے مال اور تمہاری عزتیں تم میں آپس میں ایسی ہی حرمت والی ہیں جیسی حرمت و عزت تمہارے اس دن کی تمہارے اس مہینہ میں تمہارے اس شہر میں ، تم ابھی ابھی اپنے رب سے ملاقات کرو گے اور وہ تم سے تمہارے اعمال کا حساب لے گا سنو ! میرے بعد گمراہ نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردن زدنی کرنے لگو بتلاؤ کیا میں نے تبلیغ کر دی ؟ سنو تم میں سے جو موجود ہیں انہیں چاہیئے کہ جو موجود نہیں ان تک پہنچا دیں ۔ بہت ممکن ہے کہ جسے وہ پہنچائے وہ ان بعض سے بھی زیادہ نگہداشت رکھنے والا ہو “ ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4406) اور روایت میں ہے کہ وسط ایام تشریق میں ، منیٰ میں حجتہ الوداع کے خطبے کے موقعہ کا یہ ذکر ہے ، ابوحرہ رقاشی رحمہ اللہ کے چچا جو صحابی ہیں کہتے ہیں کہ اس خطبے کے وقت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ناقہ کی نکیل تھامے ہوئے تھا اور لوگوں کی بھیڑ کو روکے ہوئے تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلے جملے کا یہ مطلب ہے کہ جو کمی بیشی ، تقدیم تاخیر مہینوں کی جاہلیت کے زمانے کے مشرک کیا کرتے تھے وہ الٹ پلٹ کر اس وقت ٹھیک ہو گئی ہے جو مہینہ آج ہے وہی درحقیقت بھی ہے ۔ جیسے کہ فتح مکہ کے موقعہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” یہ شہر ابتداء مخلوق سے باحرمت و باعزت ہے وہ آج بھی حرمت والا ہے اور قیامت تک حرمت والا ہی رہے گا “ ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1834) پس عربوں میں جو یہ رواج پڑ گیا تھا کہ ان کے اکثر حج ذی الحجہ کے مہینے میں نہیں ہوتے تھے اب کی مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کے موقعہ پر یہ بات نہ تھی بلکہ حج اپنے ٹھیک مہینے پر تھا ۔ بعض لوگ اس کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا حج ذوالقعدہ میں ہوا لیکن یہ غور طلب قول ہے ۔ جیسے کہ ہم مع ثبوت بیان کریں گے ۔ آیت «اِنَّمَا النَّسِیْ» ۱؎ (9-التوبہ:37) کی تقسیر میں ہے ۔ اس قول سے بھی زیادہ غرابت والا ایک قول بعض سلف کا یہ بھی ہے کہ اس سال یہود و نصاریٰ مسلمان سب کے حج کا دن اتفاق سے ایک ہی تھا یعنی عید الاضحیٰ کا دن ۔ فصل ” فصل “ شیخ علم الدین سخاوی نے اپنی کتاب ” المشہور فی اسماء الایام و المشہور “ میں لکھا ہے کہ محرم کے مہینے کو محرم اس کی تعظیم کی وجہ سے کہتے ہیں لیکن میرے نزدیک تو اس نام کی وجہ سے اس کی حرمت کی تاکید ہے اس لیے کہ عرب جاہلیت میں اسے بدل ڈالتے تھے کبھی حلال کر ڈالتے کبھی حرام کر ڈالتے ، اس کی جمع محرمات ، محارم ، محاریم ہے ، صفر کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس مہینے میں عموماً ان کے گھر خالی رہتے تھے کیونکہ یہ لڑائی بھڑائی اور سفر میں چل دیتے تھے جب مکان خالی ہو جائے تو عرب کہتے ہیں (صفر المکان) اس کی جمع اصفار ہے جیسے جمل کی جمع اجمال ہے ۔ ربیع الاول کے نام کا سبب یہ ہے کہ اس مہینہ میں ان کی اقامت ہو جاتی ہے ۔ «ارتباع» کہتے ہیں اقامت کو اس کی جمع «اربعاء» ہے جیسے نصیب کی جمع «انصباء» ۔ اور اس کی جمع «اربعہ» ہے جیسے «رغیف» کی جمع «ارغفہ» ہے ۔ ربیع الاخر کے مہینے کا نام رکھنا بھی اسی وجہ سے ہے ۔ گویا یہ اقامت کا دوسرا مہینہ ہے ۔ جمادی الاولیٰ کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس مہینے میں پانی جمع جاتا تھا ان کے حساب میں مہینے گردش نہیں کرتے تھے ۔ یعنی ٹھیک ہر موسم پر ہی ہر مہینہ آتا تھا لیکن یہ بات کچھ حجت نہیں اس لئے کہ جب ان مہینوں کا حساب چاند پر ہے تو ظاہر ہے کہ موسمی حالت ہر ماہ میں ہر سال یکساں نہیں رہے گی ہاں یہ ممکن ہے کہ اس مہینہ کا نام جس سال رکھا گیا ہو اس سال یہ مہینہ کڑکڑاتے ہوئے جاڑے میں آیا ہو اور پانی میں جمود ہو گیا ہو ۔ چنانچہ ایک شاعر نے یہی کہا ہے جمادی کی سخت اندھیری راتیں جن میں کتا بھی بمشکل ایک آدھ مرتبہ ہی بھونک لیتا ہے ۔ اس کی جمع «جمادیات» جیسے «حباری» اور «حباریات» ۔ یہ مذکر مونث دونوں طرح مستعمل ہے ، جمادی الاولیٰ اور جمادی الاخریٰ کہا جاتا ہے ۔ جمادی الاخری کی وجہ تسمیہ بھی یہی ہے گویا یہ پانی کے جم جانے کا دوسرا مہینہ ہے ۔ رجب یہ ماخوذ ہے ترجیب سے ، ترجیب کہتے ہیں تعظیم کو چونکہ یہ مہینہ عظمت و عزت والا ہے اس لیے اسے رجب کہتے ہیں ۔ اس کی جمع ارجاب رجاب اور رجبات ہے ۔ شعبان کا نام شعبان اس لیے ہے کہ اس میں عرب لوگ لوٹ مار کے لیے ادھر ادھر متفرق ہو جاتے تھے ۔ تشعب کے معنی ہیں جدا جدا ہونا پس اس مہینے کا بھی یہی نام رکھ دیا گیا ۔ اس کی جمع شعابین ، شعبانات آتی ہے ۔ رمضان کو رمضان اس لیے کہتے ہیں کہ اس میں اونٹینوں کے پاؤں بوجہ شدت گرما کے جلنے لگتے ہیں ۔ (رمضت الفصال) اس وقت کہتے ہیں جب اونٹنیوں کے بچے سخت پیاسے ہوں ۔ اس کی جمع رمضانات اور رماضین اور ارمضہ آتی ہے ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے یہ محض غلط اور ناقابل التفات قول ہے ۔ میں کہتا ہوں اس بارے میں ایک حدیث بھی وارد ہوئی ہے ۔ لیکن ہے وہ ضعیف میں نے کتاب الصیام کے شروع میں اس کا بیان کر دیا ہے ۔ شوال ماخوذ ہے (شالت الابل) سے یہ مہینہ اونٹوں کے مستیوں کا مہینہ تھا یہ دمیں اٹھا دیا کرتے تھے اس لیے اس مہینہ کا یہی نام ہو گیا ۔ اس کی جمع شواویل ، شواول ، شوالات آتی ہے ۔ ذوالقعدہ یا ذوی القعدہ کا نام ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس ماہ میں عرب لوگ بیٹھ جایا کرتے تھے نہ لڑائی کے لیے نکلتے نہ کسی اور سفر کے لیے ۔ اس کی جمع ذوات القعدہ ہے ۔ ذوالحجہ کو ذوالحجہ بھی کہہ سکتے ہیں چونکہ اسی ماہ میں حج ہوتا تھا اس لیے اس کا یہ نام مقرر ہو گیا ، اس کی جمع ذوات الحجہ آتی ہے ۔ یہ تو تھی ان مہینوں کے ناموں کی وجہ تسمیہ ۔ اب ہفتے کے سات دنوں کے نام اور ان ناموں کی جمع سنئے ۔ اتوار کے دن کو یوم الاحد کہتے ہیں اس کی جمع اَحاد اُحاد اور وحود آتی ہے ۔ پیر کے دن کو اثنین کہتے ہیں اس کی جمع اثانین آتی ہے ۔ منگل کو ثلاثا کہتے ہیں یہ مذکر بھی بولا جاتا ہے اور مونث بھی اس کی جمع ثلاثاوات اور اثالث آتی ہے ۔ بدھ کے دن کو اربعاء کہتے ہیں ۔ جمع اربعاوات اور ارابیع آتی ہے ۔ جمعرات کو خمیس کہتے ہیں جمع اس کی اخمسہ ، اخامس آتی ہے ۔ جمعہ کو جمعہ اور جمعہ کہتے ہیں اس کی جمع : جُمُعٌ اور جَمَاعَاتٌ آتی ہے ۔ سنیچر یعنی ہفتے کے دن کو سبت کہتے ہیں سبت کے معنی ہیں قطع کے چونکہ گنتی ہفتے کی دنوں کی یہیں پر ختم ہو جاتی ہے اس لیے اسے سبت کہتے یں ۔ قدیم عربوں میں ہفتے کے دن کے نام یہ تھے اول ، اھون ، جبار ، دبار ، مونس ، عروبہ ، شیار ۔ قدیم خالص عربوں کے اشعار میں بھی دنوں کے نام پائے جاتے ہیں ۔ قرآن کریم فرماتا ہے کہ ان بارہ ماہ میں چار حرمت والے ہیں ۔ جاہلیت کے عرب بھی انہیں حرمت والے مانتے تھے لیکن بسل نامی ایک گروہ اپنے تشدد کی بنا پر آٹھ مہینوں کو حرمت والا خیال کرتے تھے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان میں رجب کو قبیلہ مضر کی طرف اضافت کرنے کی وجہ یہ ہے کہ جس مہینے کو وہ رجب مہینہ شمار کرتے تھے ۔ دراصل وہی رجب کا مہینہ عند اللہ بھی تھا جو جمادی الاخریٰ اور شعبان کے درمیان میں ہے ۔ قبیلہ ربیعہ کے نزدیک رجب ، شعبان ، اور شوال کے درمیان کے مہینے کا یعنی رمضان کا نام تھا پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھول دیا کہ حرمت والا رجب مضر کا ہے نہ کہ ربیعہ کا ۔ ان چار ذی حرمت مہینوں میں سے تین پے در پے اس مصلحت سے ہیں کہ حاجی ذوالقعدہ کے مہینے میں نکلے تو اس وقت تک لڑائیاں مار پیٹ جنگ و جدال قتل و قتال بند ہو لوگ اپنے گھروں میں بیٹھے ہوئے ہوں پھر ذی الحجہ میں احکام کی ادائیگی امن و امان عمدگی اور شان سے ہو جائے پھر ماہ محرم کی حرمت میں واپس گھر پہنچ جائے ۔ درمیان سال میں رجب کو حرمت والا بنانے کی غرض یہ ہے کہ زائرین اپنے طواف بیت اللہ کے شوق کو عمرے کی صورت میں ادا کر لیں گو دور دراز علاقوں والے ہوں وہ بھی مہینہ بھر میں آمد و رفت کرلیں ۔ یہی اللہ کا سیدھا اور سچا دین ہے ۔ پس اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق تم ان پاک مہینوں کی حرمت کرو ، ان میں خصوصیت کے ساتھ گناہوں سے بچو اس لیے کہ اس میں گناہوں کی برائی اور بڑھ جاتی ہے ، جیسے کہ حرم شریف کا گناہ اور جگہ کے گناہ سے بڑھ جاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ جو حرم میں الحاد کا ارادہ ظلم سے کرے ہم اسے درد ناک عذاب کریں گے ۔ ۱؎ (22-الحج:25) اسی طرح سے ان محترم مہینوں کا گناہ اور دنوں کے گناہوں سے بڑھ جاتا ہے اس لیے امام شافعی رحمہ اللہ اور علماء کی ایک بڑی جماعت کے نزدیک ان مہینوں کے قتل کی دیت بھی سخت ہے ۔ اس طرح حرم کے اندر قتل کی اور ذی محرم رشتے دار کے قتل کی بھی ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں (فیھن) سے مراد سال بھر کے کل مہینے ہیں ۔ پس ان کل مہینوں میں گناہوں سے بچو خصوصاً ان چار مہینوں میں کہ یہ حرمت والے ہیں ۔ ان کی بڑی عزت ہے ان میں گناہ سزا کے اعتبار سے اور نیکیاں اجر و ثواب کے اعتبار سے بڑھ جاتی ہیں ۔ سیدنا قتادہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ ان حرمت والے مہینوں میں گناہ کی سزا اور بوجھ بڑھ جاتا ہے گو ظلم ہر حال میں بری چیز ہے لیکن اللہ تعالیٰ اپنے جس امر کو چاہے بڑھا دے ۔ دیکھئیے اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے بھی پسند فرما لیا فرشتوں میں انسانوں میں اپنے رسول چن لیے اسی طرح کلام میں سے اپنے ذکر کو پسند فرما لیا اور زمین میں سے مسجدوں کو پسند فرما لیا اور مہینوں میں سے رمضان المبارک کو اور ان چاروں مہینوں کو پسند فرما لیا اور دنوں میں سے جمعہ کے دن اور راتوں میں لیلتہ القدر کو پس تمہیں ان چیزوں کی عظمت کا لحاظ رکھنا چاہیئے جنہیں اللہ تعالیٰ نے عظمت دی ہے ۔ امور کی تعظیم اتنی کرنی عقلمند اور فہیم لوگوں کے نزدیک اتنی ضروری ہے جتنی تعظیم ان کی اللہ تعالیٰ سبحانہ نے بتلائی ہو ۔ ان کی حرمت کا ادب نہ کرنا حرام ہے ان میں جو کام حرام ہیں انہیں حلال نہ کر لو جو حلال ہیں انہیں حرام نہ بنا لو جیسے کہ اہل شرک کرتے تھے یہ ان کے کفر میں زیادتی کی بات تھی ۔ پھر فرمایا کہ تم سب کے سب کافروں سے جہاد کرتے رہو جیسے کہ وہ سب کے سب تم میں سے برسر جنگ ہیں ، حرمت والے ان چار مہینوں میں جنگ کی ابتداء کرنی منسوخ یا محکم ہونے کے بارے میں علماء کے دو قول ہیں پہلا تو یہ کہ یہ منسوخ ہے یہ قول زیادہ مشہور ہے ۔ اس آیت کے الفاظ پر غور کیجئے کہ پہلے تو فرمان ہوا کہ ان مہینوں میں ظلم نہ کرو پھر مشرکوں سے جنگ کرنے کو فرمایا ۔ ظاہری الفاظ سے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم عام ہے حرمت کے مہینے بھی اس میں آ گئے اگر یہ مہینے اس سے الگ ہوتے تو ان کے گزر جانے کی قید ساتھ ہی بیان ہوتی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کا محاصرہ ماہ ذوالقعدہ میں کیا تھا جو حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے ۔ جیسے کہ بخاری و مسلم میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہوازن قبیلے کی طرف ماہِ شوال میں چلے جب ان کو ہزیمت ہوئی اور ان میں سے بچے ہوئے بھاگ کر طائف میں پناہ گزین ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں گئے اور چالیس دن تک محاصرہ رکھا پھر بغیر فتح کئے ہوئے وہاں سے واپس لوٹ آئے ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1059) پس ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرمت والے مہینے میں محاصرہ کیا ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ حرمت والے مہینوں میں جنگ کی ابتداء کرنی حرام ہے اور ان مہینوں کی حرمت کا حکم منسوخ نہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ شعائر الہی کو اور حرمت والے مہینوں کو حلال نہ کیا کرو اور فرمان ہے حرمت والے مہینے حرمت والے مہینوں کے بدلے ہیں اور حرمتیں قصاص ہیں پس جو تم پر زیادتی کرے تو تم بھی ان سے ویسی ہی زیادتی کا بدلہ لو اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے «فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْہُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِیْنَ» ۱؎ (9-التوبہ:5) حرمت والے مہینوں کے گزر جانے کے بعد مشرکوں سے جہاد کرو ۔ یہ پہلے گزر چکا ہے کہ یہ چار مہینے ہیں ہر سال میں ۔ نہ کہ تسییر کے مہینے جو کہ دو قولوں میں سے ایک قول ہے ۔ پھر فرمایا کہ تم سب مسلمان ان سے اسی طرح لڑو جیسے وہ تم سے سب کے سب لڑتے ہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ یہ اپنے پہلے سے جداگانہ ہوں اور ہو سکتا ہے کہ یہ حکم بالکل نیا اور الگ ہو مسلمانوں کو رغبت دلانے اور انہیں جہاد پر آمادہ کرنے کے لیے ۔ تو فرماتا ہے کہ جیسے تم سے جنگ کرنے کے لیے وہ بھڑبھڑا کر جمع ہو کر چاروں طرف سے ابل پڑتے ہیں تم بھی اپنے سب کلمہ گو اشخاص کو لے کر ان سے مقابلہ کرو ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس حملے میں مسلمانوں کو حرمت والے مہینوں میں جنگ کرنے کی رخصت دی ہو ۔ جبکہ حملہ ان کی طرف سے ہو ، جیسے آیت «اَلشَّہْرُ الْحَرَام» ۱؎ (2-البقرۃ:194) میں ہے اور جیسے آیت میں ہے «‏‏‏‏وَلَا تُقٰتِلُوْھُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتّٰی یُقٰتِلُوْکُمْ فِیْہِ» ۱؎ (2-البقرۃ:191) میں بیان ہے کہ ان سے مسجد الحرام کے پاس نہ لڑو جب تک کہ وہ وہاں لڑائی نہ کریں ہاں اگر وہ تم سے لڑیں تو تم بھی ان سے لڑو ۔ یہی جواب حرمت والے مہینے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طائف کے محاصرے کا ہے کہ دراصل ہوازن اور ثقیف کے ساتھ جنگ کا یہ لڑائی تتمہ تھی ہوازن کی اور ان کے ثقفی حلیفوں کی لڑائ کا ۔ انہوں نے ہی لڑائ کی ابتداء کی تھی ۔ ادھر ادھر سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفین کو جمع کر کے لڑائی کی دعوت دی تھی ۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف پیش قدمی کی یہ پیش قدمی بھی حرمت والے مہینے میں نہ تھی ۔ یہاں شکست کھا کر یہ لوگ طائف میں بھاگے اور وہاں قلعہ بند ہو گئے ۔ آپ اس مرکز کو خالی کرانے کے لیے اور آگے بڑھے ، انہوں نے مسلمانوں کو نقصان پہنچایا مسلمانوں کی ایک جماعت کو قتل کر ڈالا ۔ ادھر محاصرہ جاری رہا منجنیق وغیرہ سے چالیس دن تک ان کو گھیرے رہے ۔ الغرض اس جنگ کی ابتداء حرمت والے مہینے میں نہیں تھی لیکن جنگ نے طول کھینچا حرمت والا مہینہ بھی آ گیا ۔ جب چند دن گزر گئے آپ نے محاصرہ ہٹا لیا ۔ پس جنگ کا جاری رکھنا اور چیز ہے اور جنگ کی ابتدء اور چیز ہے اس کی بہت سی نظیریں ہیں ، واللہ اعلم ۔ اب اس میں جو حدیثیں ہیں ہم انہیں سیرت میں بھی بیان کر چکے ہیں ۔ واللہ اعلم ۔ التوبہ
37 احکامات دین میں رد و بدل انتہائی مذموم سوچ ہے مشرکوں کے کفر کی زیادتی بیان ہو رہی ہے کہ وہ کس طرح اپنی فاسد رائے کو اور اپنی ناپاک خواہش کو شریعت الہٰی میں داخل کر کے اللہ کے دین کے احکام کو الٹ پلٹ کر دیتے تھے ۔ حرام کو حلال اور حلال کو حرام بنا لیتے تھے ۔ تین مہینے کی حرمت کو تو ٹھیک رکھا پھر چوتھے مہینے محرم کی حرمت کو اس طرح بدل دیا کہ محرم کو صفر کے مہینے میں کر دیا اور محرم کی حرمت نہ کی ۔ تاکہ بظاہر سال کے چار مہینے کی حرمت بھی پوری ہو جائے اور اصلی حرمت کے محرم مہینے میں لوٹ مار قتل و غارت بھی ہو جائے اور اس پر اپنے قصیدوں میں مبالغہ کرتے تھے اور فخریہ اپنا یہ فعل اچھالتے تھے ۔ ان کا ایک سردار تھا جنادہ بن عمرو بن امیہ کنانی یہ ہر سال حج کو آتا اس کی کنیت ابوثمامہ تھی یہ منادی کر دیتا کہ نہ تو ابو ثمامہ کے مقابلے میں کوئی آواز اٹھا سکتا ہے نہ اس کی بات میں کوئی عیب جوئی کر سکتا ہے ۔ سنو پہلے سال صفر کا مہینہ حلال ہے اور دوسرے سال کا حرام ۔ پس ایک سال کے محرم کی حرمت نہ رکھتے دوسرے سال کے محرم کی حرمت منا لیتے ان کی اسی زیادتی کفر کا بیان اس آیت میں ہے ۔ یہ شخص اپنے گدھے پر سوار آتا اور جس سال یہ محرم کو حرمت والا بنا دیتا لوگ اس کی حرمت کرتے اور جس سال وہ کہ دیتا کہ محرم کو ہم نے ہٹا کر صفر اور صفر کو آگے بڑھا کر محرم میں کر دیا ہے اس سال عرب میں اس ماہ محرم کی حرمت کوئی نہ کرتا ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ بنی کنانہ کے اس شخص کو قلمس کہا جاتا تھا یہ منادی کر دیتا کہ اس سال محرم کی حرمت نہ منائی جائے اگلے سال محرم اور صفر دونوں کی حرمت رہے گی ، پس اس کے قول پر جاہلیت کے زمانے میں عمل کر لیا جاتا ، اور اب حرمت کے اصلی مہینے میں جس میں ایک انسان اپنے باپ کے قاتل کو پا کر بھی اس کی طرف نگاہ بھر کر نہیں دیکھتا تھا اب آزادی سے آپس میں خانہ جنگیاں اور لوٹ مار ہوتی ۔ لیکن یہ قول کچھ ٹھیک نہیں معلوم ہوتا کیونکہ قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ گنتی میں وہ موافقت کرتے تھے اور اس میں گنتی کی موافقت بھی نہیں ہوتی بلکہ ایک سال میں تین مہینے رہ جاتے ہیں اور دوسرے سال میں پانچ ماہ ہو جاتے ہیں ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تو حج فرض تھا ذی الحجہ کے مہینے میں لیکن مشرک ذی الحجہ کا نام محرم رکھ لیتے پھر برابر گنتے جاتے اور اس حساب سے جو ذی الحجہ آتا اس میں حج ادا کرتے پھر محرم سے خاموشی برت لیتے اس کا ذکر ہی نہ کرتے ۔ پھر لوٹ کر صفر نام رکھ دیتے پھر رجب کو جمادی الاخریٰ پھر شعبان کو رمضان اور رمضان کو شوال پھر ذوالقعدہ کو شوال ذی الحجہ کو ذی القعدہ اور محرم کو ذی الحجہ کہتے اور اس میں حج کرتے ، پھر اس کا اعادہ کرتے اور دو سال تک ہر ایک مہینے میں برابر حج کرتے ۔ جس سال سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حج کیا ، اس سال مشرکوں کی اس گنتی کے مطابق دوسرے برس کا ذوالقعدہ کا مہینہ تھا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے موقعہ پر ٹھیک ذوالحجہ کا مہینہ تھا اور اسی کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبے میں اشارہ فرمایا اور ارشاد ہوا کہ زمانہ الٹ پلٹ کر اسی ہئیت پر آ گیا ہے جس ہئیت پر اس وقت تھا جب زمین و آسمان اللہ تعالیٰ نے رچائے ۔ لیکن یہ قول بھی درست نہیں معلوم ہوتا ۔ اس وجہ سے کہ اگر ذی القعدہ میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا حج ہوا تو یہ حج کیسے صحیح ہو سکتا ہے ؟ ۱؎ حالانکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے«وَأَذَانٌ مِّنَ اللہِ وَرَسُولِہِ إِلَی النَّاسِ یَوْمَ الْحَجِّ الْأَکْبَرِ» ۱؎ (9-التوبۃ:3) یعنی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے آج کے حج اکبر کے دن مشرکوں سے علیحدگی اور بیزاری کا اعلان ہے ۔ اس کی منادی سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے حج میں ہی کی گئی پس اگر یہ حج ذی الحجہ کے مہینے میں نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس دن کو حج کا دن نہ فرماتا ۔ اور صرف مہینوں کی تقدیم و تاخیر کو جس کا بیان اس آیت میں ہے ثابت کرنے کے لیے اس تکلف کی ضرورت بھی نہیں کیونکہ وہ تو اس کے بغیر بھی ممکن ہے ۔ کیونکہ مشرکین ایک سال تو محرم الحرام کے مہینے کو حلال کر لیتے اور اس کے عوض ماہ صفر کو حرمت والا کر لیتے سال کے باقی مہینے اپنی جگہ رہتے ۔ پھر دوسرے سال محرم کو حرام سمجھتے اور اس کی حرمت و عزت باقی رکھتے تاکہ سال کے چار حرمت والے مہینے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر تھے ان کی گنتی میں موافقت کر لیں پس کبھی تو حرمت والے تینوں مہینے جو پے در پے ہیں ان میں سے آخری ماہ محرم کی حرمت رکھتے کبھی اسے صفر کی طرف مؤخر کر دیتے ۔ رہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ زمانہ گھوم گھام کر اپنی اصلی حالت پر آ گیا ہے یعنی اس وقت جو مہینہ ان کے نزدیک ہے وہی مہینہ صحیح گنتی میں بھی ہے اس کا پورا بیان ہم اس سے پہلے کر چکے ہیں واللہ اعلم ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ عقبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہرے مسلمان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہو گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی پوری حمد و ثناء بیان فرما کر فرمایا کہ ” مہینوں کی تاخیر شیطان کی طرف سے کفر کی زیادتی تھی کہ کافر بہکیں ، وہ ایک سال محرم کو حرمت والا کرتے اور صفر کو حلت والا پھر محرم کو حلت والا کر لیتے “ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:10019/6:ضعیف) یہی ان کی وہ تقدیم تاخیر ہے جو اس آیت میں بیان ہوئی ہے ۔ امام محمد بن اسحاق رحمہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب السیرۃ میں اس پر بہت اچھا کلام کیا ہے جو بے حد مفید اور عمدہ ہے ۔ آپ تحریر فرماتے ہیں کہ اس کام کو سب سے پہلے کرنے والا قلمس تھا (حذیفہ بن عبد بن فقیم بن عدی بن عامر بن ثعلبہ بن حارث بن مالک بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان) پھر اس کا بیٹا عباد پھر اس کا لڑکا قلع پھر اس کا لڑکا امیہ پھر اس کا بیٹا عوف پھر اس کا لڑکا ابو ثمامہ جنادہ ، اسی کے زمانہ میں اشاعتِ اسلام ہوئی ۔ عرب لوگ حج سے فارغ ہو کر اس کے پاس جمع ہوتے یہ کھڑا ہو کر انہیں لیکچر دیتا اور رجب ، ذوالقعدہ اور ذوالحجہ کی حرمت بیان کرتا اور ایک سال تو محرم کو حلال کر دیتا اور محرم صفر کو بنا دیتا اور ایک سال محرم کو ہی حرمت والا کہ دیتا کہ اللہ کی حرمت کے مہینوں کی گنتی موافق ہو جائے اور اللہ کا حرام حلال بھی ہو جائے ۔ التوبہ
38 غزوہ تبوک اور جہاد سے گریزاں لوگوں کو انتباہ ایک طرف تو گرمی سخت پڑ رہی تھی دوسری طرف پھل پک گئے تھے اور درختوں کے سائے بڑھ گئے تھے ، ایسے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دور دراز کے سفر کے لیے تیار ہو گئے غزوہ تبوک میں اپنے ساتھ چلنے کو سب سے فرما دیا ۔ کچھ لوگ جو رہ گئے تھے انہیں تنبیہ کی گئی ان آیتوں کا شروع اس آیت سے ہے کہ جب تمہیں اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کی طرف بلایا جاتا ہے تو تم کیوں زمین میں دھنسنے لگتے ہو ؟ کیا دنیا کی ان فانی چیزوں پر ریجھ کر آخرت کی باقی نعمتوں کو بھلا بیٹھے ہو ؟ سنو دنیا کی تو آخرت کے مقابلے میں کوئی حیثیت ہی نہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کلمے کی انگلی کی طرف اشارہ کر کے فرمایا : ” اس انگلی کو کوئی سمندر میں ڈبو کر نکالے اس پر جتنا پانی سمندر کے مقابلے میں ہے اتنا ہی مقابلہ دنیا کا آخرت میں ہے “ ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2858) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا کہ ” میں نے سنا ہے آپ حدیث بیان فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ ایک نیکی کے بدلے ایک لاکھ کا ثواب دیتا ہے “ ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ” بلکہ میں نے دو لاکھ کا فرمان بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے “ ۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے اس آیت کے اسی جملے کی تلاوت کر کے فرمایا کہ ” دنیا جو گزر گئی اور جو باقی ہے وہ سب آخرت کے مقابلے میں بہت ہی کم ہے “ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:10030/6:ضعیف) مروی ہے کہ عبدالعزیز بن مروان رحمہ اللہ نے اپنے انتقال کے وقت اپنا کفن منگوایا اسے دیکھ کر فرمایا : ” بس میرا تو دنیا سے یہی حصہ تھا میں اتنی دنیا لے کر جا رہا ہوں پھر پیٹھ موڑ کر رو کر کہنے لگے ہائے دنیا تیرا بہت بھی کم ہے اور تیرا کم تو بہت ہی چھوٹا ہے افسوس ہم تو دھوکے میں ہی رہے “ ۔ پھر ترک جہاد پر اللہ تعالیٰ ڈانٹتا ہے کہ سخت درد ناک عذاب ہوں گے ۔ ایک قبیلے کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد کے لیے بلوایا وہ نہ اٹھے اللہ تعالیٰ نے ان سے بارش روک لی ۔ پھر فرماتا ہے کہ اپنے دل میں پھولنا نہیں کہ ہم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مددگار ہیں اگر تم درست نہ رہے تو اللہ تعالیٰ تمہیں برباد کر کے اپنے رسول صلی اللہ علیہ کے ساتھی اوروں کو کر دے گا جو تم جیسے نہ ہوں گے ۔ تم اللہ تعالیٰ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ۔ یہ نہیں کہ تم نہ جاؤ تو مجاہدین جہاد کر ہی نہ سکیں ، اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے وہ تمہارے بغیر بھی اپنے دشمنوں پر اپنے غلاموں کو غالب کر سکتا ہے ۔ کہا گیا ہے کہ یہ آیت «اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّثِــقَالًا» ۱؎ (9-التوبہ:41) اور آیت «مَا کَانَ لِاَھْلِ الْمَدِیْنَۃِ وَمَنْ حَوْلَھُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ اَنْ یَّتَخَلَّفُوْا عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰہِ» ۱؎ (9-التوبہ:120) یہ سب آیتیں آیت «وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا کَاۗفَّۃً» ۱؎ (9-التوبہ:12) سے منسوخ ہیں ۔ لیکن امام ابن جریر رحمہ اللہ علیہ اس کی تردید کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ” یہ منسوخ نہیں بلکہ ان آیتوں کا مطلب یہ ہے کہ جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جہاد کے لیے نکلنے کو فرمائیں وہ فرمان سنتے ہی اٹھ کھڑے ہو جائیں “ ۔ فی الواقع یہ توجیہ بہت عمدہ ہے واللہ اعلم ۔ التوبہ
39 التوبہ
40 آغاز ہجرت تم اگر میرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی امداد و تائید چھوڑ دو تو میں کسی کا محتاج نہیں ہوں ، میں آپ اس کا ناصر موید کافی اور حافظ ہوں ۔ یاد کر لو ہجرت والے سال جبکہ کافروں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل یا قید یا دیس سے نکال دینے کی سازش کی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سچے ساتھی سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ تن تنہا مکہ مکرمہ سے نکل بھاگے تھے تو کون اس کا مددگار تھا ۔ تین دن مارے خوف کے اس ڈر سے غار میں گزارے تاکہ ڈھونڈھنے والے مایوس ہو کر واپس چلے جائیں تو یہاں سے نکل کر مدینہ منورہ کا راستہ لیں ۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ لمحہ بہ لمحہ گھبرا رہے تھے کہ کسی کو پتہ نہ چل جائے ایسا نہ ہو کہ وہ رسول اللہ علیہ الصلوۃ والسلام کو کوئی ایذاء پہنچائے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی تسکین فرماتے اور ارشاد فرماتے کہ ” ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ان دو کی نسبت تیرا کیا خیال ہے جن کا تیسرا خود اللہ تعالیٰ ہے “ ۔ مسند احمد میں ہے کہ سیدنا ابوبکر بن ابوقحافہ رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے غار میں کہا کہ ” اگر ان کافروں میں سے کسی نے اپنے قدموں کو بھی دیکھا تو وہ ہمیں دیکھ لے گا “ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ان دو کو کیا سمجھتا ہے جن کا تیسرا خود اللہ تعالیٰ ہے “ ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3922) الغرض اس موقعہ پر جناب باری سبحانہ و تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد فرمائی ۔ بعض بزرگوں نے فرمایا کہ مراد اس سے یہ ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پر اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف سے تسکین نازل فرمائی ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ کی تفسیر یہی ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو مطمئن اور سکون و تسکین والے تھے ہی ۔ لیکن اس خاص حال میں تسکین کا از سر نو بھیجنا کچھ اس کے خلاف نہیں ۔ اسی لئے اسی کے ساتھ فرمایا کہ اپنے غائبانہ لشکر اتار کر اس کی مدد فرمائی یعنی بذریعہ فرشتوں کے ۔ اللہ تعالیٰ نے کلمہ کفر دبا دیا اور اپنے کلمے کا بول بالا کیا شرک کو پست کیا اور توحید کو اونچا کیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوتا ہے کہ ایک شخص اپنی بہادری کے لیے ، دوسرا حمیت قومی کے لیے ، تیسرا لوگوں کو خوش کرنے کیلئے لڑ رہا ہے تو ان میں سے اللہ کی راہ کا مجاہد کون ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جو کلمہء اللہ کو بلند و بالا کرنے کی نیت سے لڑے وہ اللہ کی راہ کا مجاہد ہے “ ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2810) اللہ تعالیٰ انتقام لینے پر غالب ہے ۔ جس کی مدد کرنا چاہے کرتا ہے نہ اس کے سامنے کوئی پڑ سکے نہ اس کے ارادے کو کوئی بدل سکے کون ہے جو اس کے سامنے لب ہلا سکے یا آنکھ ملا سکے ؟ اس کے سب اقوال افعال ، حکمت و مصلحت بھلائی اور خوبی سے پر ہیں ۔ تعالیٰ شانہ وجد مجدہ ۔ التوبہ
41 جہاد ہر مسلمان پر فرض ہے کہتے ہیں کہ سورۃ براۃ میں یہی آیت پہلے اتری ہے اس میں ہے کہ غزوہ تبوک کے لیے تمام مسلمانوں کو ہمراہ ہادی امم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکل کھڑے ہونا چاہیئے اہل کتاب رومیوں سے جہاد کے لیے تمام مومنوں کو چلنا چاہیئے خواہ جی مانے یا نہ مانے خواہ آسانی نظر آئے یا بھاری پڑے ۔ ذکر ہو رہا تھا کہ کوئی بڑھاپے کا کوئی بیمار کا عذر کر دے گا تو یہ آیت اتری ۔ بوڑھے جوان سب کو پیغمبر کا ساتھ دینے کا عام الحکم ہوا کسی کا کوئی عذر نہ چلا ۔ سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے اس آیت کی یہی تفسیر کی اور اس حکم کی تعمیل میں سر زمین شام میں چلے گئے ۔ اور نصرانیوں سے جہاد کرتے ہی رہے یہاں تک کہ جان بخش کو جان سونپی ۔ رضی اللہ عنہ وارضاہ ۔ اور روایت میں ہے کہ ایک مرتبہ آپ قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہوئے اس آیت پر آئے تو فرمانے لگے ہمارے رب نے تو میرے خیال سے بوڑھے جوان سب کو جہاد کے لیے چلنے کی دعوت دی ہے میرے پیارے بچو میرا سامان تیار کرو ۔ میں ملک شام کے جہاد میں شرکت کے لیے ضرور جاؤں گا ۔ بچوں نے کہا : ” ابا جی ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات تک آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ماتحتی میں جہاد کیا ۔ خلافت صدیقی میں آپ مجاہدین کے ساتھ رہے ، خلافت فاروقی کے آپ مجاہد مشہور ہیں اب آپ کی عمر جہاد کی نہیں رہی آپ گھر پر آرام کیجئے ہم لوگ آپ کی طرف سے میدان جہاد میں نکلتے ہیں اور اپنی تلوار کے جوہر دکھاتے ہیں “ لیکن آپ نہ مانے اور اسی وقت گھر سے روانہ ہو گئے سمندر پار جانے کے لیے کشتی لی اور چلے ہنوز منزل مقصود سے کئی دن کی راہ پر تھے جو بیچ سمندر میں روح پروردگار کو سونپ دی ، نو دن تک کشتی چلتی رہی لیکن کوئی جزیرہ یا ٹاپو نظر نہ آیا کہ وہاں آپ کو دفنایا جاتا ۔ نو دن کے بعد خشکی پر اترے اور آپ کو سپرد لحد کیا اب تک نعش مبارک جوں کی توں تھی رضی اللہ عنہا وارضاہ اور بھی بہت سے بزرگوں سے خفافاً و ثقالاً کی تفسیر جوان اور بوڑھے مروی ہے ۔ الغرض جوان ہوں ، بوڑھے ہوں ، امیر ہوں ، فقیر ہوں ، فارغ ہوں ، مشغول ہوں ، خوش حال ہوں یا تنگ دل ہوں ، بھاری ہوں یا ہلکے ہوں ، حاجت مند ہوں ، کاریگر ہوں ، آسانی والے ہوں ، سختی والے ہوں ، پیشہ ور ہوں یا تجارتی ہوں ، قوی ہوں یا کمزور ، جس حالت میں بھی ہوں بلاعذر کھڑے ہو جائیں اور راہ الہٰی کے جہاد کے لیے چل پڑیں ۔ اس مسئلے کی تفصیل کے طور پر ابوعمرو اوزاعی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ جب اندرون روم پر حملہ ہوا ہو تو مسلمان ہلکے پھلکے اور سوار چلیں ۔ اور جب ان بندرگاہوں کے کناروں پر حملہ ہو تو ہلکے ، بوجھل ، سوار ، پیدل ہر طرح نکل کھڑے ہو جائیں ۔ بعض حضرات کا قول ہے کہ آیت «فَلَوْلَا نَفَرَ» ۱؎ (9-التوبہ:122) سے یہ حکم منسوخ ہے ۔ اس پر ہم پوری روشنی ڈالیں گے ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ مروی ہے کہ ایک بھاری بدن کے بڑے شخص نے آپ سے اپنا حال ظاہر کر کے اجازت چاہی لیکن آپ نے انکار کر دیا اور یہ آیت اتری ، لیکن یہ حکم صحابہ رضی اللہ عنہم پر سخت گزرا ۔ پھر جناب باری تعالیٰ نے اسے آیت «لَیْسَ عَلَی الضٰعَفَاۗءِ» ۱؎ (9-التوبہ:91) سے منسوخ کر دیا ، یعنی ضعیفوں ، بیماروں ، تنگ دست فقیروں پر جبکہ ان کے پاس خرچ تک نہ ہو اگر وہ دین ربانی اور شرع مصطفیٰ کے حامی اور طرف دار اور خیرخواہ ہوں تو میدان جنگ میں نہ جانے پر کوئی حرج نہیں ۔ سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ اول غزوے سے لے کر پوری عمر تک سوائے ایک سال کے ہر غزوے میں موجود رہے اور فرماتے رہے کہ ” خفیف وثقیل دونوں کو نکلنے کا حکم ہے اور انسان کی حالت ان دو حالتوں سے سوا نہیں ہوتی “ ۔ ابو راشد حبرانی رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ میں نے سیدنا مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ سوار سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کو حمص میں دیکھا کہ ہڈی اتر گئی ہے پھر بھی ہودج میں سوار ہو کر جہاد کو جا رہے ہیں تو میں نے کہا : ” اب تو شریعت آپ کو معذور سمجھتی ہے پھر آپ یہ تکلیف کیوں اٹھا رہے ہیں “ ؟ آپ نے فرمایا : ” سنو ! سورۃ الجوث یعنی سورۃ برات ہمارے سامنے اتری ہے جس میں حکم ہے کہ ہلکے بھاری سب جہاد کو جاؤ “ ۔ حیان بن زید شرعی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ہم صفوان بن عمرو والی حمص کے ساتھ جراجمہ کی جانب جہاد کے لیے چلے میں نے دمشق کے ایک عمر رسیدہ بزرگ کو دیکھا کہ حملہ کرنے والوں کے ساتھ اپنے اونٹ پر سوار وہ بھی آ رہے ہیں ان کی بھوئیں ان کی آنکھوں پر پڑ رہی ہیں شیخ فانی ہو چکے ہیں ۔ میں نے پاس جا کر کہا : ” چچا صاحب ! آپ تو اب اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی معذور ہیں “ ۔ یہ سن کر آپ نے اپنی آنکھوں پر سے بھوئیں ہٹائیں اور فرمایا : ” بھتیجے سنو ! اللہ تعالیٰ نے ہلکے اور بھاری ہونے کی دونوں صورتوں میں ہم سے جہاد میں نکلنے کی طلب کی ہے ، سنو جس سے اللہ تعالیٰ کی محبت ہوتی ہے اس کی آزمائش بھی ہوتی ہے پھر اس پر بعد از ثابت قدمی اللہ تعالیٰ کی رحمت برستی ہے ، سنو اللہ کی آزمائش شکر و صبر و ذکر اللہ اور توحید خالص سے ہوتی ہے ۔ جہاد کے حکم کے بعد مالک زمین و زماں اپنی راہ میں اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی میں مال و جان کے خرچ کا حکم دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ دنیا آخرت کی بھلائی اسی میں ہے ۔ دنیوی نفع تو یہ ہے کہ یونہی سا خرچ ہو گا اور بہت سی غنیمت ملے گی آخرت کے نفع سے بڑھ کر کوئی نیکی نہیں “ ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ” اللہ تعالیٰ کے ذمے دو باتوں میں سے ایک ضروری ہے وہ مجاہد کو یا تو شہید کر کے جنت کا مالک بنا دیتا ہے یا اسے سلامتی اور غنیمت کے ساتھ واپس لوٹاتا ہے “ ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3123) خود اللہ تعالیٰ کا فرمان عالی شان ہے کہ تم پر جہاد فرض کر دیا گیا ہے باوجود یہ کہ تم اس سے کنی کھا رہے ہو ، لیکن بہت ممکن ہے کہ تمہاری نہ چاہی ہوئی چیز ہی دراصل تمہارے لیے بہتر ہو اور ہو سکتا ہے کہ تمہاری چاہت کی چیز فی الواقع تمہارے حق میں بےحد مضر ہو سنو تم تو بالکل نادان ہو اور اللہ تعالیٰ پورا پورا دانا بینا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے فرمایا : ” مسلمان ہو جا “ ۔ اس نے کہا : ” جی تو چاہتا نہیں “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” گو نہ چاہے “ ۔ ۱؎ (مسند احمد:109،181/3:صحیح) التوبہ
42 عیار لوگوں کو بےنقاب کر دو جو لوگ غزوہ تبوک میں جانے سے رہ گئے تھے اور اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر اپنے جھوٹے جھوٹے بناوٹی عذر پیش کرنے لگے تھے ، انہیں اس آیت میں ڈانٹا جا رہا ہے کہ دراصل انہیں کوئی معذوری نہ تھی اگر کوئی آسان غنیمت کا اور قریب کا سفر ہوتا تو یہ لالچی ساتھ ہو لیتے ۔ لیکن شام تک کے لمبے سفر نے ان کے گھٹنے توڑ دیئے ، اس مشقت کے خیال نے ان کے ایمان کمزور کر دیئے ، اب یہ آ آ کر جھوٹی قسمیں کھا کھا کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دھوکہ دے رہے ہیں کہ اگر کوئی عذر نہ ہوتا تو بھلا ہم شرف ہم رکابی چھوڑنے والے تھے ، ہم تو جان و دل سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں حاضر ہو جاتے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کے جھوٹ کا مجھے علم ہے انہوں نے تو اپنے آپ کو غارت کر دیا ۔ التوبہ
43 نہ ادھر کے نہ ادھر کے سبحان اللہ ! اللہ تعالیٰ کی اپنے محبوب سے کیسی پیار بھری باتیں ہو رہی ہیں ، سخت بات سنانے سے پہلے ہی معافی کا اعلان سنایا جا رہا ہے کہ اس کے بعد رخصت دینے کا عہد بھی سورۃ النور میں سونپ دیا جاتا ہے ۔ اور ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے «فَإِذَا اسْتَأْذَنُوکَ لِبَعْضِ شَأْنِہِمْ فَأْذَن لِّمَن شِئْتَ مِنْہُمْ» ۱؎ (24-النور:62) یعنی ان میں سے کوئی اگر آپ سے اپنے کسی کام اور شغل کی وجہ سے اجازت چاہے تو آپ جسے چاہیں اجازت دے سکتے ہیں ۔ یہ آیت ان کے بارے میں اتری ہے جن لوگوں نے آپس میں طے کر لیا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلبی تو کریں اگر اجازت ہو جائے تو اور اچھا اور اگر اجازت نہ بھی دیں تاہم اس غزوے میں جائیں گے تو نہیں ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر انہیں اجازت نہ ملتی تو اتنا فائدہ ضرور ہوتا کہ سچے عذر والے اور جھوٹے بہانے بنانے والے کھل جاتے ، نیک و بد میں ظاہری تمیز ہو جاتی ، اطاعت گزار تو حاضر ہو جاتے نافرمان باوجود اجازت نہ ملنے کے بھی نہ نکلتے ، کیونکہ انہوں نے تو طے کر لیا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہاں کہیں یا نہ کہیں ہم تو جہاد میں جانے کے نہیں ۔ اسی لیے جناب باری تعالیٰ نے اس کے بعد کی آیت میں فرمایا کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ سچے ایماندار لوگ راہ ربانی کے جہاد سے رکنے کی اجازت تجھ سے طلب کریں ، وہ تو جہاد کو موجب قربت الہی مان کر اپنی جان و مال کے فدا کرنے کے آرزو مند رہتے ہیں اللہ تعالیٰ بھی اس متقی جماعت سے بخوبی آگاہ ہے ۔ یہ بلا عذر شرعی بہانے بنا کر جہاد سے رک جانے کی اجازت طلب کرنے والے تو بے ایمان لوگ ہیں جنہیں دار آخرت کی جزا کی کوئی امید ہی نہیں ان کے دل آج تک تیری شریعت سے شک شبہ میں ہی ہیں یہ حیران و پریشان ہیں ایک قدم ان کا آگے بڑھتا ہے تو دوسرا پیچھے ہٹتا ہے انہیں ثابت قدمی اور استقلال نہیں یہ ہلاک ہونے والے ہیں یہ نہ ادھر ہیں نہ ادھر یہ اللہ کے گمراہ کئے ہوئے ہیں تو ان کے سنوارنے کا کوئی رستہ نہ پائے گا ۔ التوبہ
44 التوبہ
45 التوبہ
46 غلط گو غلط کار کفار و منافق یہ عذر کرتے ہیں ۔ ان کے غلط ہونے کی ایک ظاہری دلیل یہ بھی ہے کہ اگر ان کا ارادہ ہوتا تو کم از کم سامان سفر تو تیار کر لیتے لیکن یہ تو اعلان اور حکم کے بعد بھی کئی دن گزرنے پر بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے ایک تنکا بھی ادھر سے ادھر نہ کیا ۔ بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ان کا تمہارے ساتھ نکلنا پسند ہی نہ تھا اس لیے انہیں پیچھے ہٹا دیا ، اور قدرتی طور پر ان سے کہ دیا گیا کہ تم تو بیٹھنے والوں کا ہی ساتھ دو ۔ سنو ان کے ساتھ کو ناپسند رکھنے کی وجہ یہ تھی کہ یہ پورے نامراد اعلیٰ درجے کے بزدل بڑے ہی ڈرپوک ہیں ۔ اگر یہ تمہارے ساتھ ہوتے تو پتہ کھڑکا اور بندہ سرکا کی مثل کو اصل کر دکھاتے اور ان کے ساتھ ہی تم میں بھی فساد برپا ہو جاتا ۔ یہ ادھر کی ادھر ، ادھر کی ادھر لگا بجھا کر بات کا بتنگڑ بنا کر آپس میں پھوٹ اور عداوت ڈلوا دیتے اور کوئی نیا فتنہ کھڑا کر کے تمہیں آپس میں ہی الجھا دیتے ، ان کے ماننے والے ان کے ہم خیال ان کی پالیسی کو اچھی نظر سے دیکھنے والے خود تم میں بھی موجود ہیں وہ اپنے بھولے پن سے ان کی شر انگیزیوں سے بے خبر رہتے ہیں جس کا نتیجہ مومنوں کے حق میں نہایت برا نکلتا ہے آپس میں شر و فساد پھیل جاتا ہے ۔ مجاہد رحمہ اللہ وغیرہ کا مطلب یہ ہے کہ ان کے گویندے ان کی سی آئ ڈی اور جاسوس بھی تم میں لگے ہوئے تھے جو تمہاری رتی رتی کی خبریں انہیں پہنچاتے ہیں ۔ لیکن یہ معنی کرنے سے وہ لطافت باقی نہیں رہتی جو شروع آیت سے ہے یعنی ان لوگوں کا تمہارے ساتھ نہ نکلنا اللہ تعالیٰ کو اس لیے بھی ناپسند رہا کہ تم میں بعض وہ بھی ہیں جو ان کی مان لیا کرتے ہیں ۔ یہ تو بہت درست ہے لیکن ان کے نہ نکلنے کی وجہ کے لیے جاسوسی کی کوئی خصوصیت ان کی نہ نکلنے کی وجہ کے لئے نہیں ہو سکتی ۔ اسی لیے قتادہ رحمہ اللہ وغیرہ مفسرین کا یہی قول ہے ۔ امام محمد بن اسحاق رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اجازت طلب کرنے والوں میں عبداللہ بن ابی بن سلول اور جد بن قیس بھی تھا اور یہی بڑے بڑے رؤسا اور ذی اثر منافق تھے اللہ تعالیٰ نے انہیں دور ڈال دیا ، اگر یہ ساتھ ہوتے تو ان کی منہ دیکھی ماننے والے وقت پر ان کے ساتھ ہو کر مسلمانوں کے نقصان کا باعث بن جاتے محمدی لشکر میں ابتری پھیل جاتی کیونکہ یہ لوگ وجاہت والے تھے اور کچھ مسلمان ان کے حال سے ناواقف ہونے کی وجہ سے ان کے ظاہری اسلام اور چرب کلامی پر مفتون تھے اور اب تک ان کے دلوں میں ان کی محبت تھی ، یہ ان کی لاعلمی کی وجہ سے تھی ، سچ ہے پورا علم اللہ ہی کو ہے غائب حاضر جو ہو چکا ہو اور ہونے والا ہو سب اس پر روشن ہے اسی اپنے علم غیب کی بنا پر وہ فرماتا ہے کہ تم مسلمانو ! ان کا نہ نکلنا غنیمت سمجھو یہ ہوتے تو اور فساد و فتنہ برپا کرتے ، نہ کرتے نہ کرنے دیتے ، اسی باعث فرمان ہے کہ اگر کفار دوبارہ بھی دنیا میں لوٹائے جائیں تو نئے سرے سے پھر وہی کریں جس سے منع کئے جائیں اور یہ جھوٹے کے جھوٹے ہی رہیں ۔ ۱؎ (6-الأنعام:28) ایک اور آیت میں ہے کہ اگر علم اللہ تعالیٰ میں ان کے دلوں میں کوئی بھی خیر ہوتی تو اللہ تعالیٰ عزوجل انہیں ضرور سنا دیتا لیکن اب تو یہ حال ہے کہ سنیں بھی تو منہ موڑ کر لوٹ جائیں ۔ ۱؎ (8-الأنفال:23) اور جگہ ہے کہ اگر ہم ان پر لکھ دیتے کہ تم آپس میں ہی موت کا کھیل کھیلو یا جلا وطن ہو جاؤ تو بجز بہت کم لوگوں کے یہ ہرگز اسے نہ کرتے ، حالانکہ ان کے حق میں بہتر اور اچھا یہی تھا کہ جو نصیحت انہیں کی جائے یہ اسے بجا لائیں تاکہ اس صورت میں ہم انہیں اپنے پاس سے اجر عظیم دیں اور راہ مستقیم دکھائیں ۔ ۱؎ (4-النساء:68،66) اور بھی ایسی آیتیں بہت ساری ہیں ۔ التوبہ
47 التوبہ
48 فتنہ و فساد کی آگ منافق اللہ تعالیٰ منافقین سے نفرت دلانے کے لیے فرما رہا ہے کہ کیا بھول گئے مدتوں تو یہ فتنہ و فساد کی آگ سلگاتے رہے ہیں اور تیرے کام کے الٹ دینے کی بیسیوں تدبیریں کر چکے ہیں مدینے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قدم آتے ہی تمام عرب نے ایک ہو کرمصیبتوں کی بارش آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر برسا دی ۔ باہر سے وہ چڑھ دوڑے اندر سے یہود مدینہ اور منافقین مدینہ نے بغاوت کر دی لیکن اللہ تعالیٰ نے ایک ہی دن میں سب کی کمانیں اتار دیں ان کے جوڑ ڈھیلے کر دیئے ان کے جوش ٹھنڈے کر دیئے بدر کے معرکے نے ان کے ہوش حواس بھلا دیئے اور ان کے ارمان ذبح کر دیئے ۔ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی نے صاف کہ دیا کہ بس اب یہ لوگ ہمارے بس کے نہیں رہے اب تو سوا اس کے کوئی چارہ نہیں کہ ظاہر میں اسلام کی موافقت کی جائے دل میں جو ہے سو ہے وقت آنے دو دیکھی جائے گی اور دکھا دی جائے گی ۔ پھر جوں جوں حق کی بلندی اور توحید کی اونچائ ہوتی گئ یہ جلتے جھلستے گئے ۔ آخر حق نے قدم جمائے اور کلمہ ربانی غالب آ گیا اور یہ یونہی پیٹ پیٹتے اور ڈنڈے بجاتے رہے ۔ التوبہ
49 جد بن قیس جیسے بدتمیزوں کا حشر جد بن قیس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اس سال نصرانیوں کے جلا وطن کرنے میں تو ہمارا ساتھ دے گا “ ۔ تو اس نے کہا : ” یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے تو معاف رکھئے میری ساری قوم جانتی ہے کہ میں عورتوں کا بےطرح شیدا ہوں عیسائی عورتوں کو دیکھ کر مجھ سے تو اپنا نفس روکا نہ جائے گا “ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منہ موڑ لیا ۔ اسی کا بیان اس آیت میں ہے کہ اس منافق نے یہ بہانہ بنایا حالانکہ وہ فتنے میں تو پڑا ہوا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ چھوڑنا جہاد سے منہ موڑنا یہ کیا کم فتنہ ہے ؟ یہ منافق بنو سلمہ قبیلے کا رئیس اعظم تھا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اس قبیلے کے لوگوں سے دریافت فرمایا کہ ” تمہارا سردار کون ہے “ ؟ تو انہوں نے کہا ” جد بن قیس جو بڑا ہی شوم اور بخیل ہے “ ۔ آپ نے فرمایا : ” بخل سے بڑھ کر اور کیا بری بیماری ہے “ ؟ سنو اب سے تمہارا سردار نوجوان سفید اور خوبصورت بشر بن برابن معرور ہے ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:163،164/19:صحیح) جہنم کافروں کو گھیر لینے والی ہے نہ اس سے وہ بچ سکیں نہ بھاگ سکیں نہ نجات پا سکیں ۔ التوبہ
50 بدفطرت لوگوں کا دوغلا پن ان بدظن لوگوں کی اندرونی خباثت کا بیان ہورہا ہے کہ مسلمانوں کی فتح و نصرت سے ، ان کی بھلائی اور ترقی سے ان کے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے اور اگر اچانک یہاں اس کے خلاف ہوا تو الاپ الاپ کر اپنی چالاکی کے افسانے گائے جاتے ہیں کہ میاں اسی وجہ سے ہم تو ان سے بچتے رہے مارے خوشی کے بغلیں بجانے لگتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کو جواب دے کہ رنج و راحت اور ہم خود اللہ تعالیٰ کی تقدیر اور اس کی منشاء کے ماتحت ہیں وہ ہمارا مولیٰ ہے وہ ہمارا آقا ہے وہ ہماری پناہ ہے ہم مومن ہیں اور مومنوں کا بھروسہ اسی پر ہوتا ہے وہ ہمیں کافی ہے بس ہے وہ ہمارا کار ساز ہے اور بہترین کار ساز ہے ۔ التوبہ
51 التوبہ
52 شہادت ملی تو جنت، بچ گئے تو غازی مسلمانوں کے جہاد میں دو ہی انجام ہوتے ہیں اور دونوں ہر طرح اچھے ہیں ۔ اگر شہادت ملی تو جنت اپنی ہے اور اگر فتح ملی تو غنیمت و اجر ہے ۔ پس اے منافقو ! تم جو ہماری بابت انتظار کر رہے ہو وہ انہی دو اچھائیوں میں سے ایک ، ہے اور ہم جس بات کا انتظار تمہارے بارے میں کر رہے ہیں وہ دو برائیوں میں سے ایک کا ہے یعنی یا تو یہ کہ عذابِ رب براہ راست تم پر آ جائے یا ہمارے ہاتھوں سے تم پر رب کی مار پڑے کہ قتل و قید ہو جاؤ ۔ اچھا اب تم اپنی جگہ اور ہم اپنی جگہ منتظر رہیں دیکھیں پردہ غیب سے کیا ظاہر ہوتا ہے ؟ تمہارے خرچ کرنے کا اللہ بھوکا نہیں تم خوشی سے دو تو اور ناراضگی سے دو تو وہ تو قبول فرمانے کا نہیں اس لیے کہ تم فاسق لوگ ہو ۔ تمہارے خرچ کی عدم قبولیت کا باعث کفر ہے اور اعمال کی قبولیت کی شرط کفر کا نہ ہونا بلکہ ایمان کا ہونا ہے ۔ ساتھ ہی کسی عمل میں تمہارا نیک قصد اور سچی ہمت نہیں نماز کو آتے ہو تو بھی ہارے دل سے گرتے پڑتے ، مرتے بچھڑتے ، سست اور کاہل ہو کر ۔ دیکھا دیکھی مجمع میں دو چار دے بھی دیتے ہو تو مرے جی سے ، دل کی تنگی سے ۔ صادق و مصدوق محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نہیں تھکتا لیکن تم تھک جاتے ہو ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:43) اللہ پاک ہے وہ پاک چیز ہی قبول فرماتا ہے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1410) متقیوں کی اعمال قبول ہوتے ہیں تم فاسق ہو تمہارے اعمال قبولیت سے گرے ہوئے ہیں ۔ التوبہ
53 التوبہ
54 التوبہ
55 کثرت مال و دولت عذاب بھی ہے ان کے مال و اولاد کو للچائی ہوئی نگاہوں سے نہ دیکھ ، ان کی دنیا کی اس ہیرا پھیری کی کوئی حقیقت نہ گن یہ ان کے حق میں کوئی بھلی چیز نہیں یہ تو ان کے لیے دنیوی سزا بھی ہے کہ نہ اس میں سے زکوٰۃ نکلے نہ اللہ کے نام خیرات ہو ۔ قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں یہاں مطلب مقدم مؤخر ہے یعنی تجھے ان کے مال و اولاد اچھے نہ لگنے چاہئیں اللہ کا ارادہ اس سے انہیں اس حیات دنیا میں ہی سزا دینے کا ہے ۔ پہلا قول حسن بصری رحمہ اللہ کا ہے وہی اچھا اور قوی ہے ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں ۔ اس میں یہ ایسے پھنسے رہیں گے کہ مرتے دم تک راہ ہدایت نصیب نہیں ہو گی ، یوں ہی بتدریج پکڑ لیے جائیں گے اور انہیں پتہ بھی نہ چلے گا ۔ یہی حشمت و جاہت ، مال و دولت جہنم کی آگ بن جائے گا ۔ التوبہ
56 جھوٹی قسمیں کھانے والوں کی حقیقت ان کی تنگ دلی ان کی غیر مستقل مزاجی , ان کی سراسیمگی اور پریشانی گھبراہٹ اور بے اطمینانی کا یہ حال ہے کہ تمہارے پاس آ کر تمہارے دل میں گھر کرنے کے لیے اور تمہارے ہاتھوں سے بچنے کے لیے بڑی لمبی چوڑی زبردست قسمیں کھاتے ہیں کہ واللہ ! ہم تمہارے ہیں ہم مسلمان ہیں حالانکہ حقیقت اس کے برخلاف ہے یہ صرف خوف و ڈر ہے جو ان کے پیٹ میں درد پیدا کر رہا ہے ۔ اگر آج انہیں اپنے بچاؤ کے لیے کوئی قلعہ مل جائے اگر آج یہ کوئی محفوظ غار دیکھ لیں یا کسی اچھی سرنگ کا پتہ انہیں چل جائے تو یہ تو سارے کے سارے دم بھر میں اس طرح اڑن چھو ہو جائیں تیرے پاس ان میں سے ایک بھی نظر نہ آئے کیونکہ انہیں تجھ سے کوئی محبت یا انس تو نہیں ہے یہ تو ضرورت مجبوری اور خوف کی بناء پر تمہاری چاپلوسی کر لیتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ جوں جوں اسلام ترقی کر رہا ہے یہ بجھتے چلے جا رہے ہیں مومنوں کی ہر خوشی سے یہ جلتے تڑپتے ہیں ان کی ترقی انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتی ، موقعہ مل جائے تو آج بھاگ جائیں ۔ التوبہ
57 التوبہ
58 مال ودولت کے حریص منافق بعض منافق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر تہمت لگاتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مال زکوٰۃ صحیح تقسیم نہیں کرتے وغیرہ ، اور اس سے ان کا ارادہ سوائے اپنے نفع کے حصول کے اور کچھ نہ تھا ۔ انہیں کچھ مل جائے تو راضی راضی ہیں اگر یہ رہ جائیں تو بس ان کے نتھنے پھولے ہوئے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مال زکوٰۃ جب ادھر ادھر تقسیم کر دیا تو انصار میں سے کسی نے ہانک لگائی کہ یہ انصاف نہیں اس پر یہ آیت اتری ۔ اور روایت میں ہے کہ ایک نو مسلم صحرائی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سونا چاندی بانٹتے ہوئے دیکھ کر کہنے لگا کہ ” اگر اللہ نے تجھے عدل کا حکم دیا ہے تو تو عدل نہیں کرتا “ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تو تباہ ہو اگر میں بھی عادل نہیں تو زمین پر اور کون عادل ہو گا “ ؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اس سے اور اس جیسوں سے بچو ، میری امت میں اس جیسے لوگ ہوں گے قرآن پڑھیں گے لیکن حلق سے نیچے نہیں اترے گا وہ جب نکلیں انہیں قتل کر ڈالو پھر نکلیں تو مار ڈالو پھر جب ظاہر ہوں پھر گردنیں مارو “ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ کی قسم نہ میں تمہیں دوں نہ تم سے روکوں میں تو ایک خازن ہوں ۔ جنگ حنین کے مال غنیمت کی تقسیم کے وقت ذوالخویصرہ حرقوص نامی ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کیا تھا اور کہا تھا تو عدل نہیں کرتا انصاف سے کام کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اگر میں بھی عدل نہ کروں تو تو پھر تیری بربادی کہیں نہیں جا سکتی “ ۔ جب اس نے پیٹھ پھیری تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اس کی نسل سے ایک قوم نکلے گی جن کی نمازوں کے مقابلے میں تمہاری نمازیں تمہیں حقیر معلوم ہوں گی اور ان کے روزوں کے مقابلے میں تم میں سے ایک اور کو اپنے روزے حقیر معلوم ہوں گے لیکن وہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے ۔ تمہیں جہاں بھی وہ مل جائیں ان کے قتل میں کمی نہ کرو آسمان تلے ان مقتولوں سے بدتر مقتول اور کوئی نہیں “ ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3610) پھر ارشاد ہے کہ انہیں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں جو کچھ بھی اللہ نے دلوادیا تھا اگر یہ اس پر قناعت کرتے ، صبر و شکر کرتے اور کہتے کہ اللہ ہمیں کافی ہے وہ اپنے فضل سے اپنے رسول کے ہاتھوں ہمیں اور بھی دلوائے گا ہماری امیدیں ذات الٰہی سے وابستہ ہیں تو یہ ان کے حق میں بہتر تھا ۔ پس اس میں اللہ تعالیٰ کی تعلیم ہے کہ اللہ تعالیٰ جو دے اس پر انسان کو صبر و شکر کرنا چاہیئے توکل ذات واحد پر رکھے اسی کو کافی وافی سمجھے رغبت اور توجہ اور لالچ اور امید اور توقع اس کی ذات پاک سے رکھے ، رسول اللہ علیہ افضل الصلوۃ و التسلیم کی اطاعت میں سرمو فرق نہ کرے اور اللہ تعالیٰ سے توفیق طلب کرے کہ جو احکام ہوں انہیں بجالانے اور جو منع کام ہوں انہیں چھوڑ دینے اور جو خبریں ہوں انہیں مان لینے اور صحیح اطاعت کرنے میں وہ رہبری فرمائے ۔ التوبہ
59 التوبہ
60 زکوۃ اور صدقات کا مصرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم نہیں بلکہ اللہ کے حکم کے تحت ہے؟ اوپر کی آیت میں ان جاہل منافقوں کا ذکر تھا جو ذات رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر تقسیم صدقات میں اعتراض کر بیٹھتے تھے ۔ اب یہاں اس آیت میں بیان فرما دیا کہ تقسیم زکوٰۃ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی پر موقوف نہیں بلکہ ہمارے بتلائے ہوئے مصارف میں ہی لگتی ہے ، ہم نے آپ اس کی تقسیم کر دی ہے کسی اور کے سپرد نہیں کی ۔ ابوداؤد میں ہے زیاد بن حارث صدائی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے سرکار نبوت میں حاضر ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی ایک شخص نے آ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ مجھے صدقے میں سے کچھ دلوائیے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ نبی غیر نبی کسی کے حکم پر تقسیم زکوٰۃ کے بارے میں راضی نہیں ہوا یہاں تک کہ خود اس نے تقسیم کر دی ہے آٹھ مصرف مقرر کر دیئے ہیں اگر تو ان میں سے کسی میں ہے تو میں تجھے دے سکتا ہوں “ ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:1630،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) امام شافعی وغیرہ تو فرماتے ہیں کہ زکوٰۃ کے مال کی تقسیم ان آٹھوں قسم کے تمام لوگوں پر کرنی واجب ہے اور امام مالک رحمہ اللہ وغیرہ کا قول ہے کہ واجب نہیں بلکہ ان میں سے کسی ایک کو ہی دے دینا کافی ہے گو اور قسم کے لوگ بھی ہوں ۔ عام اہل علم کا قول بھی یہی ہے ، آیت میں بیان مصرف ہے نہ کہ ان سب کو دینے کا وجوب کا ذکر ۔ ان اقوال کی دلیلوں اور مناظروں کی جگہ یہ کتاب نہیں واللہ اعلم ۔ فقیروں کو سب سے پہلے اس لیے بیان فرمایا کہ ان کی حاجت بہت سخت ہے ۔ گو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک مسکین فقیر سے بھی برے حال والا ہے ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ” جس کے ہاتھ تلے مال نہ ہو اسی کو فقیر نہیں کہتے بلکہ فقیر وہ بھی ہے جو محتاج ہو گرا پڑا ہو گو کچھ کھاتا پیتا کماتا بھی ہو “ ۔ ابن علیہ کہتے ہیں اس روایت میں اخلق کا لفظ ہے ۔ اخلق کہتے ہیں ہمارے نزدیک تجارت کو ، لیکن جمہور اس کے برخلاف ہیں ۔ اور بہت سے حضرات فرماتے ہیں فقیر وہ ہے جو سوال سے بچنے والا ہو ، اور مسکین وہ ہے جو سائل ہو لوگوں کے پیچھے لگنے والا اور گھروں اور گلیوں میں گھومنے والا ۔ قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں فقیر وہ ہے جو بیماری والا ہو اور مسکین وہ ہے جو صحیح سالم جسم والا ہو ۔ ابراہیم رحمہ اللہ کہتے ہیں مراد اس سے مہاجر فقراء ہیں ۔ سفیان ثوری رحمہ اللہ کہتے ہیں یعنی دیہاتیوں کو اس میں سے کچھ نہ ملے ۔ عکرمہ رحمہ اللہ کہتے ہیں مسلمان فقراء کو مساکین نہ کہو مسکین تو صرف اہل کتاب کے لوگ ہیں ۔ اب وہ حدیثیں سنئے جو ان آٹھوں قسموں کے متعلق ہیں ۔ فقراء ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ” صدقہ مالدار اور تندرست توانا پر حلال نہیں “ ، ۱؎ (سنن ترمذی:652،قال الشیخ الألبانی:صحیح) دو شخصوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صدقے کا مال مانگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بغور نیچے سے اوپر تک انہیں ہٹا کٹا ، قوی ، تندرست دیکھ کر فرمایا : ” اگر تم چاہو تو تمہیں دے دوں لیکن امیر شخص کا اور قوی طاقتور کماؤ شخص کا اس میں کوئی حصہ نہیں “ ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:1633،قال الشیخ الألبانی:صحیح) مساکین ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ” مسکین یہی گھوم گھوم کر ایک لقمہ ، دو لقمے ، ایک کھجور ، دو کھجور لے کر ٹل جانے والے ہی نہیں “ ۔ لوگوں نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ پھر مساکین کون لوگ ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جو بےپرواہی کے برابر نہ پائے نہ اپنی ایسی حالت رکھے کہ کوئی دیکھ کر پہچان لے اور کچھ دے دے نہ کسی سے خود کوئی سوال کرے “ ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1479) صدقہ وصول کرنے والے یہ تحصیل دار ہیں انہیں اجرت اسی مال سے ملے گی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت دار جن پر صدقہ حرام ہے اس عہدے پر نہیں آ سکتے ۔ عبدالمطلب بن ربیعہ بن حارث اور فضل بن عباس رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہ درخواست لے کر گئے کہ ہمیں صدقہ کا عامل بنا دیجئیے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر صدقہ حرام ہے یہ تو لوگوں کا میل کچیل ہے ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1072) جن کے دل پر چائے جاتے ہیں ، ان کی کئی قسمیں ہیں بعضوں کو تو اس لیے دیا جاتا ہے کہ وہ اسلام قبول کر لیں جیسے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صفوان بن امیہ کو غنیمت حنین کا مال دیا تھا حالانکہ وہ اس وقت کفر کی حالت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلا تھا اس کا اپنا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس داد و دہش نے میرے دل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے زیادہ محبت پیدا کر دی حالانکہ پہلے سب سے بڑا دشمن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا میں ہی تھا ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2313) بعضوں کو اس لیے دیا جاتا ہے کہ ان کا اسلام مضبوط ہو جائے اور ان کا دل اسلام پر لگ جائے ، جیسے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین والے دن مکہ کے آزاد کردہ لوگوں کے سرداروں کو سو سو اونٹ عطا فرمائے اور ارشاد فرمایا کہ ” میں ایک کو دیتا ہوں اور دوسرے کو جو اس سے زیادہ میرا محبوب ہے نہیں دیتا اس لیے کہ ایسا نہ ہو کہ وہ اوندھے منہ جہنم میں گر پڑے “ ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:27) ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے یمن سے کچا سونا مٹی سمیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا تو آپ نے صرف چار شخصوں میں ہی تقسیم فرمایا ، اقرع بن حابس ، عیینہ بن بدر ، عقلمہ بن علاثہ اور زید خیر ، اور فرمایا : ” میں ان کی دلجوئی کے لیے انہیں دے رہا ہوں “ ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3344) بعض کو اس لیے بھی دیا جاتا ہے کہ اس جیسے اور لوگ بھی اسلام قبول کر لیں ۔ بعض کو اس لیے دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے آس پاس والوں سے صدقہ پہنچائے یا آس پاس کے دشمنوں کی نگہداشت رکھے اور انہیں اسلامیوں پر حملہ کرنے کا موقعہ نہ دے ۔ ان سب کی تفصیل کی جگہ احکام وفروع کی کتابیں ہیں نہ کہ تفسیر ، و اللہ اعلم ۔ عمر رضی اللہ عنہ اور عمار شعبی اور ایک جماعت کا قول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد اب یہ مصرف باقی نہیں رہا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کو عزت دے دی ہے مسلمان ملکوں کے مالک بن گئے ہیں اور بہت سے بندگان رب ان کے ماتحت ہیں ۔ لیکن اور بزرگوں کا قول ہے کہ اب بھی مولفتہ القلوب کو زکوٰۃ دینی جائز ہے ۔ فتح مکہ اور فتح ہوازن کے بعد بھی حضور علیہ الصلوۃ والتسلیم نے ان لوگوں کو مال دیا ۔ دوسرے یہ کہ اب بھی ایسی ضرورتیں پیش آ جایا کرتی ہیں ۔ آزادگی گردن کے بارے میں بہت سے بزرگ فرماتے ہیں کہ مراد اس سے وہ غلام ہیں جنہوں نے رقم مقرر کر کے اپنے مالکوں سے اپنی آزادگی کی شرط کر لی ہے انہیں مال زکوٰۃ سے رقم دی جائے کہ وہ ادا کر کے آزاد ہو جائیں ۔ اور بزرگ فرماتے ہیں کہ وہ غلام جس نے یہ شرط نہ لکھوائی ہو اسے بھی مال زکوٰۃ سے خرید کر آزاد کرنے میں کوئی ڈر خوف نہیں ۔ غرض مکاتب غلام اور محض غلام دونوں کی آزادگی زکوٰۃ کا ایک مصرف ہے احادیث میں بھی اس کی بہت کچھ فضیلت وارد ہوئی ہے یہاں تک کہ فرمایا ہے کہ آزاد کردہ غلام کے ہر ہر عضو کے بدلے آزاد کرنے والے کا ہر ہر عضو جہنم سے آزاد ہو جاتا ہے یہاں تک کہ شرمگاہ کے بدلے شرمگاہ بھی ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4715) اس لیے کہ ہر نیکی کی جزا اسی جیسی ہوتی ہے ۔ قرآن فرماتا ہے تمہیں وہی جزا دی جائے گی جو تم نے کیا ہو گا ۔ ۱؎ (37-الصافات:39) حدیث میں ہے تین قسم کے لوگوں کی مدد اللہ کے ذمے حق ہے ، وہ غازی جو اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہو ، وہ مکاتب غلام اور قرض دار جو ادائیگی کی نیت رکھتا ہو ، وہ نکاح کرنے والا جس کا ارادہ بدکاری سے محفوظ رہنے کا ہو ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:1655،قال الشیخ الألبانی:حسن) کسی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جو مجھے جنت سے قریب اور دوزخ سے دور کر دے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” نسمہ آزاد کر اور گردن خلاصی کر “ ۔ اس نے کہا کہ ” یہ دونوں ایک ہی چیز نہیں “ ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” نہیں نسمہ کی آزادگی یہ ہے کہ تو اکیلا ہی کسی غلام کو آزاد کر دے اور گردن خلاصی یہ ہے کہ تو بھی اس میں جو تجھ سے ہو سکے مدد کرے “ ۔ ۱؎ (مسند احمد:299/4:صحیح) قرض داران کی بھی کئی قسمیں ہیں ایک شخص دوسرے کا بوجھ اپنے اوپر لے لے کسی کے قرض کا آپ ضامن بن جائے پھر اس کا مال ختم ہو جائے یا وہ خود قرض دار بن جائے یا کسی نے برائی پر قرض اٹھایا ہو اور اب وہ توبہ کر لے پس انہیں مال زکوٰۃ دیا جائے گا کہ یہ قرض ادا کر دیں ۔ اس مسئلے کی اصل قبیصہ رضی اللہ عنہ بن مخارق ہلالی کی یہ روایت ہے کہ میں نے دوسرے کا حوالہ اپنی طرف لیا تھا پھر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تم ٹھہرو ہمارے پاس مال صدقہ آئے گا ہم اس میں سے تمہں دیں گے “ ۔ پھر فرمایا : ” قبیصہ سن ! تین قسم کے لوگوں کو ہی سوال حلال ہے ایک تو وہ جو ضامن پڑے پس اس رقم کے پورا ہونے تک اسے سوال جائز ہے پھر سوال نہ کرے ۔ دوسرا وہ جس کا مال کسی آفت ناگہانی سے ضائع ہو جائے اسے بھی سوال کرنا درست ہے یہاں تک کہ پیٹ بھرائ ہو جائے ، تیسرا وہ شخص جس پر فاقہ گذرنے لگے اور اس کی قوم کے تین ذی ہوش لوگ اس کی شہادت کے لیے کھڑے ہو جائیں کہ ہاں بیشک فلاں شخص پر فاقے گذرنے لگے ہیں ، اسے بھی مانگ لینا جائز ہے تاوقتیکہ اس کا سہارا ہو جائے اور سامان زندگی مہیا ہو جائے ، ان کے سوا اوروں کو سوال کرنا حرام ہے اگر وہ مانگ کر کچھ لے کر کھائیں گے تو حرام کھائیں گے ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1044) ایک شخص نے زمانہ نبوی میں ایک باغ خریدا قدرت الٰہی سے آسمانی آفت سے باغ کا پھل مارا گیا اس سے وہ بہت قرض دار ہو گیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے قرض خواہوں سے فرمایا کہ ” تمہیں جو ملے لے لو ۔ اس کے سوا تمہارے لیے اور کچھ نہیں “ ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1556-18) آپ فرماتے ہیں کہ ” ایک قرض دار کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بلا کر اپنے سامنے کھڑا کر کے پوچھے گا کہ تو نے قرض کیوں لیا اور کیوں رقم ضائع کر دی ؟ جس سے لوگوں کے حقوق برباد ہوئے ۔ وہ جواب دے گا کہ اے اللہ ! تجھے خوب علم ہے میں نے یہ رقم کھائی نہ پی نہ اڑائی بلکہ میرے ہاں مثلاً چوری ہو گئی یا آگ لگ گئی یا کوئی اور آفت آ گئی ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا میرا بندہ سچا ہے آج تیرے قرض کے ادا کرنے کا سب سے زیادہ مستحق میں ہی ہوں ۔ پھر اللہ تعالیٰ کوئی چیز منگوا کر اس کی نیکیوں کے پلڑے میں رکھ دے گا جس سے نیکیاں برائیوں سے بڑھ جائیں گی اور اللہ تبارک و تعالیٰ اسے اپنے فضل و رحمت سے جنت میں لے جائے گا “ ۔ ۱؎ (مسند احمد:197،198/1:ضعیف) اللہ کی راہ ، میں وہ مجاہدین غازی داخل ہیں جن کا دفتر میں کوئی حق نہیں ہوتا ۔ حج بھی اللہ کی راہ میں داخل ہے ۔ مسافر ، جو سفر میں بےسروسامان رہ گیا ہو اسے بھی مال زکوٰۃ سے اپنی رقم دی جائے جس سے وہ اپنے شہر پہنچ سکے ، گو وہ اپنے ہاں مالدار ہی ہو ۔ یہی حکم ان کا بھی ہے جو اپنے شہر سے سفر کو جانے کا قصد رکھتے ہوں لیکن مال نہ ہو تو اسے بھی سفر خرچ مال زکوٰۃ سے دینا جائز ہے جو اسے آمد و رفت کے لیے کافی ہو ۔ آیت کے اس لفظ کی دلیل کے علاوہ ابوداؤد وغیرہ کی یہ حدیث بھی اس کی دلیل ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” مالدار پر زکوٰۃ حرام ہے ۔ بجز پانچ قسم کے مالداروں کے ایک تو وہ جو زکوٰۃ وصول کرنے پر مقرر ہو ، دوسرا وہ جو مال زکوٰۃ کی کسی چیز کو اپنے مال سے خرید لے ، تیسرا قرض دار ، چوتھا راہ الٰہی کا غازی مجاہد ، پانچواں وہ جسے کوئی مسکین بطور تحفے کے اپنی کوئی چیز جو زکوٰۃ میں اسے ملی ہو دے “ ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:1841،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اور روایت ہے کہ زکوٰۃ مالدار کے لیے حلال نہیں مگر فی سبیل اللہ جو ہو اور جو مسافرت میں ہو اور جسے اس کا کوئی مسکین پڑوسی بطور تحفے ، ہدیئے کے دے یا اپنے ہاں بلا لے ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:1637،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) زکوٰۃ کے ان آٹھوں مصارف کو بیان فرما کر پھر ارشاد ہوتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرض ہے یعنی مقدر ہے اللہ کی تقدیر ، اس کی تقسیم اور اس کا فرض کرنے سے ۔ اللہ تعالیٰ ظاہر و باطن کا عالم ہے اپنے بندوں کی مصلحتوں سے واقف ہے ، وہ اپنے قول ، فعل ، شریعت اور حکم میں حکمت والا ہے ۔ بجز اس کے کوئی بھی لائق عبادت نہیں نہ اس کے سوا کوئی کسی کا پالنے والا ہے ۔ التوبہ
61 نکتہ چین منافقوں کا مقصد منافقوں کی ایک جماعت بڑی موذی ہے اپنے باتوں سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھ پہنچاتی ہے اور کہتی ہے کہ یہ نبی تو کانوں کا بڑا ہی کچا ہے جس سے جو سنا مان لیا ۔ جب ہم اس کے پاس جائیں گے اور قسمیں کھائیں گے وہ ہماری بات بھی باور کر لے گا ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ بہتر کانوں والا اچھی سننے والا اور صادق و کاذب کو خوب جانتا ہے ۔ وہ اللہ تعالیٰ کی باتیں مانتا ہے اور با ایمان لوگوں کی سچائی بھی جانتا ہے وہ مومنوں کے لیے رحمت ہے اور بے ایمانوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی حجت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ستانے والوں کے لیے دکھ کی مار ہے ۔ التوبہ
62 نادان اور کوڑ مغز کون؟ واقعہ یہ ہوا تھا کہ منافقوں میں سے ایک شخص کہہ رہا تھا کہ ہمارے سردار اور رئیس بڑے ہی عقلمند دانا اور تجربہ کار ہیں اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں حق ہوتیں تو یہ کیا ایسے بیوقوف تھے کہ انہیں نہ مانتے ؟ یہ بات ایک سچے مسلمان صحابی رضی اللہ عنہ نے سن لی اور اس نے کہا : ” واللہ ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سب باتیں بالکل سچ ہیں اور نہ ماننے والوں کی بیوقوفی اور کودن پنے میں کوئی شک نہیں “ ۔ جب یہ صحابی رضی اللہ عنہ دربار نبوت میں حاضر ہوئے تو یہ واقعہ بیان کیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو بلوا بھیجا لیکن وہ سخت قسمیں کھا کھا کر کہنے لگا کہ میں نے تو یہ بات کہی ہی نہیں یہ تو مجھ پر تہمت باندھتا ہے ۔ اس صحابی رضی اللہ عنہ نے دعا کی کہ پروردگار ! تو سچے کو سچا اور جھوٹے کو جھوٹا کر دکھا ۔ اس پر یہ آیت شریف نازل ہوئی ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:16922:ضعیف و مرسل) کیا ان کو یہ بات معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالف ابدی جہنمی ہیں ذلت و رسوائی عذاب دوزخ بھگتنے والے ہیں اس سے بڑھ کر شومی طالع ، اس سے زیادہ رسوائی اس سے بڑھ کر شقاوت اور کیا ہو گی ؟ التوبہ
63 التوبہ
64 نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے گھبراتے بھی ہیں آپس میں بیٹھ کر باتیں تو گانٹھ لیتے لیکن پھر خوف زدہ رہتے کہ کہ کہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلمانوں کو بذریعہ وحی الٰہی خبر نہ ہو جائے ، اور آیت میں ہے تیرے سامنے آ کر وہ دعائیں دیتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے نہیں دیں پھر اپنے جی میں اکڑتے ہیں کہ ہمارے اس قول پر اللہ تعالیٰ ہمیں کوئی سزا کیوں نہیں دیتا ؟ ان کے لیے جہنم کی کافی سزا موجود ہے جو بدترین جگہ ہے ۔ ۱؎ (58-المجادلۃ:8) یہاں فرماتا ہے دینی باتوں ، مسلمانوں کی حالتوں پر دل کھول کر مذاق اڑالو ، اللہ تعالیٰ بھی وہ کھول دے گا جو تمہارے دلوں میں ہے ، یاد رکھو ایک دن رسوا اور فضیحت ہو کر رہو گے ۔ چنانچہ فرمان ہے کہ یہ بیمار دل لوگ یہ نہ سمجھیں کہ ان کے دلوں کی بدیاں ظاہر ہی نہ ہوں گی ، ہم تو انہیں اس قدر فضیحت کریں گے ، اور ایسی نشانیاں تیرے سامنے رکھ دیں گے کہ تو ان کے لب و لہجے سے ہی انہیں پہچان لے ۔ ۱؎ (47-محمد:29،30)اس سورت کا نام ہی سورۃ الفاضحہ ہے اس لیے کہ اس نے منافقوں کی قلعی کھول دی ۔ التوبہ
65 مسلمان باہم گفتگو میں محتاط رہا کریں ایک منافق کہہ رہا تھا کہ ہمارے یہ قرآن خواں لوگ بڑے پیٹو ، اور بڑے فضول اور بڑے بزدل ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب اس کا ذکر ہوا تو یہ عذر پیش کرتا ہوا آیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم تو یونہی وقت گزاری کے لیے ہنس بول رہے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ہاں تمہارے ہنسی کے لیے اللہ تعالیٰ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن ہی رہ گیا ہے یاد رکھو ! اگر کسی کو ہم معاف کر دیں گے تو کسی کو سخت سزا بھی کریں گے “ ، اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی پر سوار جا رہے تھے یہ منافق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار پر ہاتھ رکھے پتھروں سے ٹھوکریں کھاتا ہوا یہ کہتا ہوا ساتھ جا رہا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف دیکھتے بھی نہ تھے جس مسلمان نے اس کا یہ قول سنا تھا اس نے اسی وقت جواب بھی دیا تھا کہ تو بکتا ہے جھوٹا ہے تو منافق ہے ۔ یہ واقعہ جنگ تبوک کے موقعہ کا ہے ، مسجد میں اس نے یہ ذکر کیا تھا ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:16928:مرسل) سیرت ابن اسحاق میں ہے کہ تبوک جاتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ منافقوں کا ایک گروہ بھی تھا جن میں ودیعہ بن ثابت اور مخشی بن حمیر وغیرہ تھے ۔ یہ آپس میں کہ رہے تھے کہ نصرانیوں کی لڑائی عربوں کی آپس کی لڑائی جیسی سمجھنا سخت خطرناک غلطی ہے اچھا ہے انہیں وہاں پٹنے دو پھر ہم بھی یہاں ان کی درگت بنائیں گے ۔ اس پر ان کے دوسرے سردار مخشی نے کہا : ” بھئی ان باتوں کو چھوڑو ورنہ یہ ذکر پھر قرآن میں آئے گا ۔ کوڑے کھا لینا ہمارے نزدیک تو اس رسوائی سے بہتر ہے “ ، آگے آگے یہ لوگ یہ تذکرے کرتے جا ہی رہے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمار رضی اللہ عنہ سے فرمایا : ” جانا ذرا دیکھنا یہ لوگ جل گئے ان سے پوچھ تو کہ یہ کیا ذکر کر رہے تھے ؟ اگر یہ انکار کریں تو تو کہنا کہ تم یہ یہ باتیں کر رہے تھے “ ۔ سیدنا عمار صلی اللہ علیہ وسلم نے جا کر ان سے یہ کہا یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عذر معذرت کرنے لگے اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہنسی ہنسی میں ہمارے منہ سے ایسی بات نکل گئی ۔ ودیعہ نے تو یہ کہا لیکن مخشی بن حمیر نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ میرا اور میرے باپ کا نام ملاحظہ فرمائیے پس اس وجہ سے یہ لغو حرکت اور حماقت مجھ سے سرزد ہوئی معاف فرمایا جاؤں ۔ پس اس سے جناب باری تعالیٰ نے درگذر فرما لیا اور اس آیت میں اسی سے درگذر فرمانے کا ذکر بھی ہوا ہے اس کے بعد اس نے اپنا نام بدل کر عبدالرحمٰن رکھا سچا مسلمان بن گیا اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ یا اللہ مجھے اپنی راہ میں شہید کرتا کہ یہ دھبہ دھل جائے چنانچہ یمامہ والے دن یہ بزرگ شہید کر دیئے گئے ، اور ان کی نعش بھی نہ ملی ، رضی اللہ عنہ وارضاہ ۔ ۱؎ (سیرۃ ابن ہشام:121،122/4) ان منافقوں نے بطور طعنہ زنی کے کہا تھا کہ لیجئے کیا آنکھیں پھٹ گئیں ہیں اب یہ چلے ہیں کہ رومیوں کے قلعے اور ان کے محلات کو فتح کریں بھلا اس عقلمندی اور دور بینی کو تو دیکھئے ۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے ان کی ان باتوں پر مطلع کر دیا تو یہ صاف منکر ہو گئے اور قسمیں کھا کھا کر کہا کہ ہم نے یہ بات نہیں کہی ہم تو آپس میں ہنسی کھیل کر رہے تھے ۔ ہاں ان میں ایک شخص تھا جسے ان شاءاللہ اللہ تعالیٰ نے معاف فرما دیا ہو گا یہ کہا کرتا تھا کہ اللہ میں تیرے پاک کلام کی ایک آیت سنتا ہوں جس میں میرے گناہ کا ذکر ہے جب بھی سنتا ہوں میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور میرا دل کپکپانے لگتا ہے ، پروردگار تو میری توبہ قبول فرما اور مجھے اپنی راہ میں شہید کر اور اس طرح کہ نہ کوئی مجھے غسل دے نہ کفن دے نہ دفن کرے ۔ یہی ہوا جنگ یمامہ میں یہ شہداء کے ساتھ شہید ہوئے تمام شہداء کی لاشیں مل گئیں لیکن ان کی نعش کا پتہ ہی نہ چلا ۔ جناب باری تعالیٰ کی طرف سے اور منافقوں کو جواب ملا کہ اب بہانے نہ بناؤ تم گو زبانی ایماندار بنے تھے لیکن اب اسی زبان سے تم کافر ہو گئے ۔ یہ قول کفر کا کلمہ ہے کہ تم نے اللہ تعالیٰ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کی ہنسی اڑائی ۔ ہم اگر کسی سے درگذر بھی کر جائیں لیکن تم سب سے یہ معاملہ نہیں ہو گا تمہارے اس جرم اور اس بدترین خطا اور اس مقولہء کفر کی تمہیں سخت ترین سزا بھگتنی پڑے گی ۔ التوبہ
66 التوبہ
67 ایک کے ہاتھ نیکیوں کے کھیت دوسرے کے ہاتھ برائیوں کی وبا منافقوں کی حصلتیں مومنوں کے بالکل برخلاف ہوتی ہیں ۔ مومن بھلائیوں کا حکم کرتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں منافق برائیوں کا حکم دیتے ہیں اور بھلائیوں سے منع کرتے ہیں ، مومن سخی ہوتے ہیں ، منافق بخیل ہوتے ہیں ، مومن ذکر اللہ میں مشغول رہتے ہیں ، منافق یاد الٰہی بھلائے رہتے ہیں ۔ اسی کے بدلے اللہ بھی ان کے ساتھ وہ معاملہ کرتا ہے جیسے کسی کو کوئی بھول گیا ہو ۔ قیامت کے دن یہی ان سے کہا جائے گا کہ آج ہم تمہیں ٹھیک اسی طرح بھلا دیں گے جیسے تم اس دن کی ملاقات کو بھلائے ہوئے تھے ۔ منافق راہ حق سے دور ہو گئے ہیں گمراہی کے چکر دار بھول بھلیوں میں پھنس گئے ہیں ، ان منافقوں اور کافروں کی ان بداعمالیوں کی سزا ان کے لیے اللہ تعالیٰ جہنم کو مقرر فرما چکا ہے وہ ابدالآباد تک رہیں گے وہاں کا عذاب انہیں بس ہو گا ، انہیں رب رحیم اپنی رحمت سے دور کر چکا ہے اور ان کے لیے اس نے دائمی اور دیرپا عذاب رکھے ہیں ۔ التوبہ
68 التوبہ
69 ان لوگوں کو بھی اگلے لوگوں کی طرح عذاب پہنچے ان لوگوں کو بھی اگلے لوگوں کی طرح عذاب پہنچے ، «خَلَاقِ» سے مراد یہاں دین ہے ، جیسے اگلے لوگ جھوٹ اور باطل میں کودتے پھاندتے رہے ، ایسے ہی ان لوگوں نے بھی کیا ۔ ان کے یہ فاسد اعمال اکارت گئے نہ دنیا میں سود مند ہوئے نہ آخرت میں ثواب دلانے والے ہوئے یہی صریح نقصان ہے کہ عمل کیا اور ثواب نہ ملا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں جیسے آج کی رات کل کی رات سے مشابہ ہوتی ہے اسی طرح اس امت میں بھی یہودیوں کی مشابہت آ گئی ۔ میرا تو خیال ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ” اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم اپنے سے پہلے کے لوگوں کے طریقوں کی تابعداری کرو گے بالکل بالشت بہ بالشت اور ذراع بہ ذراع اور ہاتھ بہ ہاتھ یہاں تک کہ وہ اگر کسی گوہ کے بل میں گھسے ہیں تو یقیناً تم بھی گھسو گے “ ۔ لوگوں نے پوچھا : ” اس سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کون لوگ ہیں ؟ کیا اہل کتاب “ ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اور کون “ ؟ ۱؎ (صحیح بخاری:3456) اس حدیث کو بیان فرما کر ابوہریرہ نے فرمایا اگر چاہو تو قرآن کے ان لفظوں کو پڑھ لو «کَالَّذِینَ مِن قَبْلِکُمْ» (9-التوبہ:69) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” «خَلَاقِ» سے مراد دین ہے ۔ اور تم نے بھی اسی طرح کا خوض کیا جس طرح کا انہوں نے کیا “ ۔ لوگوں نے پوچھا : ” کیا فارسیوں اور رومیوں کی طرح “ ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اور لوگ ہیں ہی ہیں کون “ ؟ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:3994،قال الشیخ الألبانی:حسن صحیح) اس حدیث کے شواہد صحیح احادیث میں بھی ہیں ۔ التوبہ
70 بدکاروں کے ماضی سے عبرت حاصل کرو ان بدکردار منافقوں کو وعظ سنایا جا رہا ہے کہ اپنے سے پہلے کے اپنے جیسوں کے حالات پر عبرت کی نظر ڈالو ، دیکھو کہ نبیوں کی تکذیب کیا پھل لائی ؟ قوم نوح علیہ السلام کا غرق ہونا سوائے مسلمانوں کے کسی کا نہ بچنا یاد کرو ، عادیوں کا ہود علیہ السلام کے نہ ماننے کی وجہ سے ہوا کے جھونکوں سے تباہ ہونا یاد کرو ، ثمودیوں کا سیدنا صالح علیہ السلام کے جھٹلانے اور اللہ کی نشانی اونٹنی کے کاٹ ڈالنے سے ایک جگر دوز کڑاکے کی آواز سے تباہ و بربار ہونا یاد کرو ، سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا دشمنوں کے ہاتھوں سے بچ جانا اور ان کے دشمنوں کا غارت ہونا ، نمرود بن کنعان بن کوش جیسے بادشاہ کا مع اپنے لاؤ لشکر کے تباہ ہونا نہ بھولو وہ سب لعنت کے مارے بے نشان کر دیئے گئے ، قوم شعیب انہی بدکرداریوں اور کفر کے بدلے زلزلے اور سائبان والے دن کے عذاب سے تہ و بالا کر دی گئی ، جو مدین کی رہنے والی تھی ، قوم لوط جن کی بستیاں الٹی پڑی ہیں مدین اور سدوم وغیرہ اللہ تعالیٰ نے انہیں بھی اپنے نبی لوط علیہ السلام کے نہ ماننے اور اپنی بدفعلی نہ چھوڑنے کے باعث ایک ایک کو پیوند زمین کر دیا ، ان کے پاس ہمارے رسول ہماری کتاب اور کھلے معجزے اور صاف دلیلیں لے کر پہنچے لیکن انہوں نے ایک نہ مانی ، بالآخر اپنے ظلم سے آپ برباد ہوئے اللہ تعالیٰ نے تو حق واضح کر دیا کتاب اتار دی رسول بھیج دیئے حجت ختم کر دی لیکن یہ رسولوں کے مقابلے پر آمادہ ہوئے کتاب اللہ کی تعمیل سے بھاگے حق کی مخالفت کی پس لعنت الہٰی اتری ، اور انہیں خاک سیاہ کر گئی ۔ التوبہ
71 مسلمان ایک دوسرے کے دست و بازو ہیں منافقوں کی بدخصلتیں بیان فرما کر مسلمانوں کی نیک صفتیں بیان فرما رہا ہے کہ یہ ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں ، ایک دوسرے کا دست و بازو بنے رہتے ہیں ، صحیح حدیث میں ہے کہ مومن مومن کے لیے مثل دیوار کے ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو تقویت پہنچاتا اور مضبوط کرتا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرماتے ہوئے اپنے ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسری میں ڈال کردکھا بھی دیا ، ۱؎ (صحیح بخاری:481) اور صحیح حدیث میں ہے کہ مومن اپنی دوستیوں اور سلوکوں میں مثل ایک جسم کے ہیں کہ ایک حصے کو بھی اگر تکلیف ہو تو تمام جسم بیماری اور بے داری میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6011) یہ پاک نفس لوگوں اوروں کی تربیت سے بھی غافل نہیں رہتے ، سب کو بھلائیاں سکھاتے ہیں اچھی باتیں بتلاتے ہیں برے کاموں سے بری باتوں سے امکان بھر روکتے ہیں ۔ حکم الٰہی بھی یہی ہے ، فرماتا ہے تم میں ایک جماعت ضرور ایسی ہونی چاہیئے جو بھلائیوں کا حکم کرے برائیوں سے منع کرے ، یہ نمازی ہوتے ہیں ، ساتھ ہی زکوٰۃ بھی دیتے ہیں تاکہ ایک طرف اللہ کی عبادت ہو دوسری جانب مخلوق کی دلجوئی ہو ، اللہ تعالیٰ و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہی ان کا دلچسپ مشغلہ ہے جو حکم ملا بجا لائے جس سے روکا رک گئے ، یہی لوگ ہیں جو رحم الٰہی کے مستحق ہیں ، یہی صفتیں ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کی رحمت ان کی طرف لپکتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ عزیز ہے وہ اپنے فرماں برداروں کی خود بھی عزت کرتا ہے اور انہیں ذی عزت بنا دیتا ہے ۔ دراصل عزت اللہ ہی کے لیے ہے اور اس نے اپنے رسولوں اور اپنے ایمانداروں اور غلاموں کو بھی عزت دے رکھی ہے ۔ اس کی حکمت ہے کہ ان میں یہ صفتیں رکھیں اور منافقوں میں وہ خصلتیں رکھیں ۔ اس کی حکمت کی تہہ کو کون پہنچ سکتا ہے ؟ جو چاہے کرے ، وہ برکتوں اور بلندیوں والا ہے ۔ التوبہ
72 مومنوں کو نیکی کے انعامات مومنوں کی ان نیکیوں پر جو اجر و ثواب انہیں ملے گا اس کا بیان ہو رہا ہے کہ ابدی نعمتیں ، ہمیشگی کی راحتیں ، باقی رہنے والی جنتیں ، جہاں قدم قدم پر خوشگوار پانی کے چشمے ابل رہے ہیں جہاں بلند و بالاخوبصورت مزین صاف ستھرے آرائش و زیبائش والے محلات اور مکانات ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں دو جنتیں تو صرف سونے کی ہیں ان کے برتن اور جو کچھ بھی وہاں ہے سب سونے ہی سونے کا ہے اور دو جنتیں چاندی کی ہیں برتن بھی اور کل چیزیں بھی ان میں اور دیدارالٰہی میں کوئی حجاب بجز اس کبریائی کی چادر کے نہیں جو اللہ جل وعلا کے چہرے پر ہے یہ جنت عدن میں ہوں گے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3878) اور حدیث میں ہے کہ مومن کے لیے جنت میں ایک خیمہ ہو گا ایک ہی موتی کا بنا ہوا اس کا طول ساٹھ میل کا ہو گا ۔ مومن کی بیویاں وہیں ہوں گی جن کے پاس یہ آتاجاتا رہے گا لیکن ایک دوسرے کو دکھائی نہ دیں گی ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4879) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جو اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے ، نماز قائم رکھے ، رمضان کے روزے رکھے ، اللہ پر حق ہے کہ اسے جنت میں لے جائے اس نے ہجرت کی ہو یا اپنے وطن میں ہی رہا ہو ۔ لوگوں نے کہا : ” پھر ہم اوروں سے بھی یہ حدیث بیان کر دیں “ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جنت میں ایک سو درجے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنی راہ کے مجاہدوں کے لیے بنائے ہیں ہر دو درجوں میں اتنا ہی فاصلہ ہے جتنا زمین و آسمان میں ، پس جب بھی تم اللہ تعالیٰ سے جنت کا سوال کرو توجنت الفردوس طلب کرو وہ سب سے اونچی اور سب سے بہتر جنت ہے جنتوں کی سب نہریں وہیں سے نکلتی ہیں اس کی چھت رحمن کا عرش ہے ، ۱؎ (صحیح بخاری:2790) فرماتے ہیں اہل جنت جنتی بالاخانوں کو اس طرح دیکھیں گے جس طرح تم آسمان کے چمکتے دمکتے ستاروں کو دیکھتے ہو ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6555) یہ بھی معلوم رہے کہ تمام جنتوں میں خاص ایک اعلیٰ مقام ہے جس کا نام وسیلہ ہے کیونکہ وہ عرش سے بالکل ہی قریب ہے یہ جگہ ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے جب تم مجھ پر درود پڑھو تو اللہ تعالیٰ سے میرے لیے وسیلہ طلب کیا کرو ۔ پوچھا گیا وسیلہ کیا ہے ؟ فرمایا : ” جنت کا وہ اعلیٰ درجہ جو ایک ہی شخص کو ملے گا اور مجھے اللہ تعالیٰ کی ذات سے قوی امید ہے وہ شخص میں ہی ہوں “ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مؤذن کی اذان کا جواب دو جیسے کلمات وہ کہتا ہے تم بھی کہو پھر مجھ پر درود پڑھو جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر اپنی دس رحمتیں نازل فرماتا ہے پھر میرے لیے وسیلہ طلب کرو اور جنت کی ایک منزل ہے جو تمام مخلوق الہیہ میں سے ایک ہی شخص کو ملے گی مجھے امید ہے کہ وہ مجھے ہی عنایت ہو گی ۱؎ (مسند احمد:7588:صحیح) جو شخص میرے لیے اللہ سے اس وسیلے کی طلب کرے اس کیلئے میری شفاعت بروز قیامت حلال ہو گئی ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:384) فرماتے ہیں میرے لیے اللہ تعالیٰ سے وسیلہ طلب کرو دنیا میں یہ جو بھی میرے لیے وسیلے کی دعا کرے گا میں قیامت کے دن اس کا گواہ اور سفارشی بنوں گا ۔ ۱؎ (طبرانی:1/333:صحیح) صحابہ رضی اللہ عنہم نے ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ” یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمیں جنت کی باتیں سنائیے ان کی بنا کس چیز کی ہے “ ؟ فرمایا : ” سونے چاندی کی اینٹوں کی ، اس کا گارا خالص مشک ہے اس کے کنکر لوءلوء اور یاقوت ہیں ، اس کی مٹی زعفران ہے اس میں جو جائے گا وہ نعمتوں میں ہو گا جو کبھی خالی نہ ہوں وہ ہمیشہ کی زندگی پائے گا جس کے بعد موت کا کھٹکا بھی نہیں نہ اس کے کپڑے خراب ہوں نہ اس کی جوانی ڈھلے “ ۔ ۱؎ (مسند احمد:304/2:صحیح) فرماتے ہیں جنت میں ایسے بالاخانے ہیں جنکا اندر کا حصہ باہر سے نظر آتا ہے اور باہر کا حصہ اندر سے ۔ ایک اعرابی نے پوچھا : ” نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ بالاخانے کن کے لیے ہیں “ ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ” جو اچھا کلام کرے ، کھانا کھلائے ، روزے رکھے ، اور راتوں کو لوگوں کے سونے کے وقت تہجد کی نماز ادا کرے “ ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:1984،قال الشیخ الألبانی:صحیح) فرماتے ہیں کوئی ہے جو جنت کا شائق اور اس کے لیے محنت کرنے والا ہو ؟ واللہ ! جنت کی کوئی چار دیواری محدود کرنے والا نہیں وہ تو ایک چمکتا ہوا بقعہ نور ہے اور مہکتا ہوا گلستان ہے اور بلند و بالا پاکیزہ محلات ہیں اور جاری و ساری لہریں مارنے والی نہریں ہیں اور گدرائے ہوئے اور پکے میوؤں کے گچھے ہیں اور جوش جمال خوبصورت پاک سیرت حوریں ہیں اور بیش قیمت رنگین جوڑے ہیں ، مقام ہے ہمیشگی کا ، گھر ہے سلامتی کا ، میوے ہیں لدھے پھدے ، سبزہ ہے پھیلا ہوا ، کشادگی اور راحت ہے ، امن اور چین ہے ، نعمت اور رحمت ہے ، عالیشان خوش منظر کوشک اور حویلیاں ہیں ۔ یہ سن کر لوگ بول اٹھے کہ ” یا رسول اللہ ﷺ ! ہم سب اس جنت کے مشتاق اور اس کے حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں “ ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ” ان شاءاللہ کہو “ ۔ پس لوگوں نے ان شاءاللہ کہا ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:4332،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) پھر فرماتا ہے ان تمام نعمتوں سے اعلیٰ اور بالا نعمت اللہ کی رضا مندی ہے ۔ فرماتے ہں اللہ تعالیٰ عزوجل جنتیوں کو پکارے گا کہے گا اے اہل جنت ! وہ کہیں گے «لبیک ربنا وسعدیک والخیر فی یدیک» ۔ پوچھے گا ” کہو تم خوش ہو گئے “ ؟ وہ جواب دیں گے کہ ” خوش کیوں نہ ہوتے تو نے تو اے پروردگار ! ہمیں وہ دیا جو مخلوق میں سے کسی کو نہ ملا ہو گا “ ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ” لو میں تمہیں اس سے بہت ہی افضل و اعلیٰ چیز عطا فرماتا ہوں “ ۔ وہ کہیں گے ” اے اللہ ! اس سے بہتر چیز اور کیا ہو سکتی ہے “ ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ” سنو ! میں نے اپنی رضا مندی تمہیں عطا فرمائی آج کے بعد میں کبھی بھی تم سے ناخوش نہ ہوں گا ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6549) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب جنتی جنت میں پہنچ جائیں گے اللہ عزوجل فرمائے گا کچھ اور چاہیئے تو دوں ۔ وہ کہیں گے ” اے اللہ ! جو تو نے ہمیں عطا فرما رکھا ہے اس سے بہتر تو کوئی اور چیز ہو ہی نہیں سکتی “ ، اللہ فرمائے گا ” وہ میری رضا مندی ہے جو سب سے بہتر ہے “ ۔ ۱؎ (مستدرک حاکم:82/1:صحیح) امام حافظ ضیاء مقدسی نے صفت جنت میں ایک مستقل کتاب لکھی ہے اس میں اس حدیث کو شرط صحیح پر بتلایا ہے ۔ واللہ اعلم ۔ التوبہ
73 چار تلواریں؟ کافروں منافقوں سے جہاد کا اور ان پر سختی کا حکم ہوا ، مومنوں سے جھک کر ملنے کا حکم ہوا ، کافروں کی اصلی جگہ جہنم مقرر فرما دی ، پہلے حدیث گذر چکی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے چار تلواروں کے ساتھ مبعوث فرمایا ایک تلوار تو مشرکوں میں ، فرماتا ہے « فَإِذَا انسَلَخَ الْأَشْہُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِینَ» ۱؎ (9-التوبۃ:5) حرمت والے مہینوں کے گذرتے ہی مشرکوں کی خوب خبر لو ، دوسری تلوار اہل کتاب کے کفار میں ، فرماتا ہے ، «قَاتِلُوا الَّذِینَ لَا یُؤْمِنُونَ» ۱؎ (9-التوبۃ:29) الخ جو اللہ تعالیٰ پر قیامت کے دن پر ایمان نہیں لاتے اللہ اور رسول ﷺ کے حرام کئے ہوئے کو حرام نہیں مانتے ، دین حق کو قبول نہیں کرتے ، ان اہل کتاب سے جہاد کرو جب تک کہ وہ ذلت کے ساتھ جھک کر اپنے ہاتھ سے جزیہ دینا منظور نہ کر لیں ، تیسری تلوار منافقین میں ، ارشاد ہوتا ہے ۔ «جَاہِدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنَافِقِینَ» ۱؎ (9-التوبۃ:73) (66-التحریم:9)کافروں اور منافقوں سے جہاد کرو ۔ چوتھی تلوار باغیوں میں ، فرمان ہے «فَقَاتِلُوا الَّتِی تَبْغِی حَتَّیٰ تَفِیءَ إِلَیٰ أَمْرِ اللہِ » ۱؎ (49-الحجرات:9) باغیوں سے لڑو جب تک کہ پلٹ کر وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی حکم برداری کی طرف نہ آ جائیں ، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ منافق جب اپنا نفاق ظاہر کرنے لگیں تو ان سے تلوار سے جہاد کرنا چاہیئے ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ کا پسندیدہ قول بھی یہی ہے ۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہاتھ سے نہ ہو سکے تو ان کے منہ پر ڈانٹ ڈپٹ سے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے کافروں سے تو تلوار کے ساتھ جہاد کرنے کا حکم دیا ہے اور منافقوں کے ساتھ زبانی جہاد کو فرمایا ہے اور یہ کہ ان پر نرمی نہ کی جائے ۔ مجاہد رحمہ اللہ کا بھی تقریباً یہی قول ہے ۔ ان پر حد شرعی کا جاری کرنا بھی ان سے جہاد کرنا ہے مقصود یہ ہے کہ کبھی تلوار بھی ان کے خلاف اٹھانی پڑے گی ورنہ جب تک کام چلے زبان کافی ہے جیسا موقعہ ہو کر لے ۔ قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں کہ انہوں نے ایسی کوئی بات زبان سے نہیں نکالی ، حالانکہ درحقیقت کفر کا بول بول چکے ہیں اور اپنے ظاہری اسلام کے بعد کھلا کفر کر چکے ہیں ۔ یہ آیت عبداللہ بن ابی کے بارے میں اتری ہے ۔ ایک جہنی اور ایک انصاری میں لڑائی ہو گئی ۔ جہنی شخص انصار پر چھا گیا تو اس منافق نے انصار کو اس کی مدد پر ابھارا اور کہنے لگا واللہ ! ہماری اور اس محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تو وہی مثال ہے کہ ” اپنے کتے کو موٹا تازہ کر کہ وہ تجھے ہی کاٹے “ ۔ واللہ ! اگر ہم اب کی مرتبہ مدینے واپس گئے تو ہم ذی عزت لوگ ان تمام کمینے لوگوں کو وہاں سے نکال کر باہر کریں گے ۔ ایک مسلمان نے جا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ گفتگو دہرادی ۔ آپ ﷺ نے اسے بلوا کر اس سے سوال کیا تو یہ قسم کھا کر انکار کر گیا ۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ۔ ۱؎ (9-التوبۃ:29) سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میری قوم کے جو لوگ حرہ کی جنگ میں کام آئے ان پر مجھے بڑی ہی رنج و صدمہ ہو رہا تھا ۔ اس کی خبر سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کو پہنچی تو آپ رضی اللہ عنہ نے مجھے خط لکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے سنا ہے آپ ﷺ دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ ! انصار کو اور انصار کے لڑکوں کو بخش دے ۔ نیچے کے راوی ابن الفضل کو اس میں شک ہے کہ آپ ﷺ نے اپنی اس دعا میں ان کے پوتوں کا نام بھی لیا یا نہیں ؟ پس سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے موجود لوگوں میں سے کسی سے سیدنا زید رضی اللہ عنہ کی نسبت سوال کیا تو اس نے کہا یہی وہ زید رضی اللہ عنہ ہیں جن کے کانوں کی سنی ہوئی بات کی سچائی کی شہادت خود رب علیم نے دی ۔ واقعہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ پڑھ رہے تھے کہ ایک منافق نے کہا اگر یہ سچا ہے تو ہم تو گدھوں سے بھی زیادہ احمق ہیں ۔ سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے کہا واللہ ! نبی کریم صلی اللہ علی وسلم بالکل سچے ہیں اور بیشک تو اپنی حماقت میں گدھے سے بڑھا ہوا ہے ۔ پھر آپ نے یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گوش گذار کی ، لیکن وہ منافق پلٹ گیا اور صاف انکار کر گیا اور کہا کہ زید نے جھوٹ بولا ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری اور سیدنا زید رضی اللہ عنہ کی سچائی بیان فرمائی ۔ لیکن مشہور بات یہ ہے کہ یہ واقعہ غزوہ بنی المطلق کا ہے ممکن ہے راوی کو اس آیت کے ذکر میں وہم ہو گیا ہو اور دوسری آیت کے بدلے اسے بیان کر دیا ہو ۔ یہی حدیث بخاری شریف میں ہے ۱؎ (صحیح بخاری:4906) لیکن اس جملے تک کہ سیدنا زید رضی اللہ عنہ وہ ہیں جن کے کانوں کی سنی ہوئی بات کی سچائی کی شہادت خود رب علیم نے دی ، ممکن ہے کہ بعد کا حصہ موسیٰ بن عقبہ راوی کا اپنا قول ہو ، اسی کی ایک روایت میں یہ پچھلا حصہ ابن شہاب کے قول سے مروی ہے واللہ اعلم ۔ مغازی اموی میں سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کے بیان کردہ تبوک کے واقعہ کے بعد ہے کہ جو منافق مؤخر چھوڑ دیئے گئے تھے اور جن کے بارے میں قرآن نازل ہوا ان میں سے بعض نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی تھے ۔ ان میں جلاس بن سوید بن صامت بھی تھا ان کے گھر میں عمیر بن سعد کی والدہ تھیں جو اپنے ساتھ سیدنا عمیر رضی اللہ عنہ کو بھی لے گئی تھیں ۔ جب ان منافقوں کے بارے میں قرآنی آیتیں نازل ہوئیں تو جلاس کہنے لگا کہ واللہ ! اگر یہ شخص اپنے قول میں سچا ہے تو ہم تو گدھوں سے بھی بدتر ہیں سیدنا عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ یہ سن کر فرمانے لگے کہ یوں تو آپ مجھے سب سے زیادہ محبوب ہیں اور آپ کی تکلیف مجھ پر میری تکلیف سے بھی زیادہ شاق ہے لیکن آپ نے اسوقت تو ایسی بات منہ سے نکالی ہے کہ اگر میں اسے پہنچاؤں تو رسوائی ہے اور نہ پہنچاؤں تو ہلاکت ہے ، رسوائی یقیناً ہلاکت سے ہلکی چیز ہے ۔ یہ کہہ کر یہ بزرگ حاضر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہوئے اور ساری بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہہ سنائی ۔ جلاس کو جب یہ پتہ چلا تو اس نے سرکار نبوت صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہو کر قسمیں کھا کھا کر کہا کہ عمیر جھوٹا ہے میں نے یہ بات ہرگز نہیں کہی ۔ اس پر یہ آیت اتری ۔ مروی ہے کہ اس کے بعد جلاس نے توبہ کر لی اور درست ہو گئے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:17464) یہ توبہ کی بات بہت ممکن ہے کہ امام محمد بن اسحاق کی اپنی کہی ہوئی ہو سیدنا کعب رضی اللہ عنہ کی یہ بات نہیں ، واللہ اعلم ، اور روایت میں ہے کہ جلاس بن سوید بن صامت اپنے سوتیلے بیٹے سیدنا مصعب رضی اللہ عنہ کے ساتھ قباء سے آ رہے تھے دونوں گدھوں پر سوار تھے اس وقت جلاس نے یہ کہا تھا اس پر ان کے صاحبزادے نے فرمایا کہ ” اے دشمن رب ! میں تیری اس بات کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دوں گا “ فرماتے ہیں کہ مجھے تو ڈر لگ رہا تھا کہ کہیں میرے بارے میں قرآن نہ نازل ہو یا مجھ پر کوئی عذاب الٰہی نہ آ جائے یا اس گناہ میں میں بھی اپنے باپ کا شریک نہ کر دیا جاؤں ، چنانچہ میں سیدھا حاضر ہوا اور تمام بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مع اپنے ڈر کے سنا دی ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:16982) ابن جریر میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علی وسلم ایک سائے دار درخت تلے بیٹھے ہوئے فرمانے لگے کہ ” ابھی تمہارے پاس ایک شخص آئے گا اور تمہیں شیطان دیکھے گا خبردار ! تم اس سے کلام نہ کرنا “ ، اسی وقت ایک انسان کیری آنکھوں والا آیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تو اور تیرے ساتھی مجھے گالیاں کیوں دیتے ہو “ ؟ وہ اسی وقت گیا اور اپنے ساتھیوں کو لے کر آیا سب نے قسمیں کھا کھا کر کہا ہم نے کوئی ایسا لفظ نہیں کہا یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے درگذر فرما لیا پھر یہ آیت اتری ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:16988) اس میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ انہوں نے وہ قصد کیا جو پورا نہ ہوا مراد اس سے جلاس کا یہ ارادہ ہے کہ اپنے سوتیلے لڑکے کو جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بات کہ دی تھی قتل کر دے ۔ ایک قول ہے کہ عبداللہ بن ابی نے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا ارادہ کیا تھا ۔ یہ قول بھی ہے کہ بعض لوگوں نے ارادہ کر لیا تھا کہ اسے سردار بنا دیں گو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم راضی نہ ہوں ۔ یہ بھی مروی ہے کہ دس سے اوپر اوپر آدمیوں نے غزوہ تبوک میں راستے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دھوکہ دے کر قتل کرنا چاہا تھا ، چنانچہ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں اور سیدنا عمار رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کے آگے پیچھے تھے ایک چلتا تھا دوسرا نکیل تھامتا تھا ۔ ہم عقبہ میں تھے کہ بارہ شخص منہ پر نقاب ڈالے آئے اور اونٹنی کو گھیر لیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں للکارا اور وہ دم دبا کر بھاگ کھڑے ہوئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا : ” کیا تم نے انہیں پہچانا “ ؟ ہم نے کہا : ” نہیں لیکن ان کی سواریاں ہماری نگاہوں میں ہیں “ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” یہ منافق تھے اور قیامت تک ان کے دل میں نفاق رہے گا ۔ جانتے ہو کہ کس ارادے سے آئے تھے “ ؟ ہم نے کہا : ” نہیں “ ۔ فرمایا : ” اللہ تعالیٰ کے رسول کو عقبہ میں پریشان کرنے اور تکلیف پہنچانے کے لیے “ ۔ ہم نے کہا : ” نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ! ان کی قوم کے لوگوں سے کہلوا دیجئیے کہ ہر قوم والے اپنی قوم کے جس آدمی کی شرکت اس میں پائیں اس کی گردن اڑا دیں “ ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ” نہیں ورنہ لوگوں میں چہ مگوئیاں ہونے لگیں گی کہ محمد ﷺ پہلے تو انہی لوگوں کو لے کر اپنے دشمنوں سے لڑے ان پر فتح حاصل کر کے اپنے ان ساتھیوں کو بھی قتل کر ڈالا “ ۔ آپ ﷺ نے ان کے لیے بد دعا کی کہ اے اللہ ! ان کے دلوں پر آتشیں پھوڑے پیدا کر دے ۔ ۱؎ (دلائل النبوۃ للبیہقی:260/5:ضعیف) اور روایت میں ہے کہ غزوہ تبوک سے واپسی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کرا دیا کہ میں عقبہ کے راستے میں جاؤں گا ۔ اس کی راہ کوئی نہ آئے ۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کی نکیل تھامے ہوئے تھے اور سیدنا عمار رضی اللہ عنہ پیچھے سے چلا رہے تھے کہ ایک جماعت اپنی اونٹنیوں پر سوار آ گئی ۔ سیدنا عمار رضی اللہ عنہ نے ان کی سواریوں کو مارنا شروع کیا اور سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کو نیچے کی طرف چلانی شروع کر دی ۔ جب نیچے میدان آ گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سواری سے اتر آئے اتنے میں عمار رضی اللہ عنہ بھی واپس پہنچ گئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ ” یہ لوگ کون تھے پہچانا بھی “ ؟ سیدنا عمار رضی اللہ عنہ نے کہا : ” منہ تو چھپے ہوئے تھے لیکن سواریاں معلوم ہیں “ ۔ پوچھا : ” انکا ارادہ کیا تھا جانتے ہو “ ؟ جواب دیا کہ نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” انہوں نے چاہا تھا کہ شور کر کے ہماری اونٹنی کو بھڑکا دیں اور ہمیں گرا دیں “ ۔ ایک سے سیدنا عمار رضی اللہ عنہ نے ان کی تعداد دریافت کی تو اس نے کہا چودہ ۔ آپ نے فرمایا : ” اگر تو بھی ان میں تھا تو پندرہ “ ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے تین شخصوں کے نام گنوائے ۔ انہوں نے کہا واللہ ! ہم نے تو منادی کی ندا سنی اور نہ ہمیں اپنے ساتھیوں کے کسی بد ارادے کا علم تھا ۔ سیدنا عمار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ” باقی کے بارہ لوگ اللہ و رسول ﷺ سے لڑائی کرنے والے ہیں دنیا میں اور آخرت میں بھی ۔ ۱؎ (مسند احمد:390،391/5:صحیح) امام محمد بن اسحاق رحمہ اللہ نے ان میں سے بہت سے لوگوں کے نام بھی گنوائے ہیں ، واللہ اعلم ۔ صحیح مسلم میں ہے کہ اہل عقبہ میں سے ایک شخص کے ساتھ سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کا کچھ تعلق تھا تو اس سے آپ نے قسم دے کر اصحاب عقبہ کی گنتی دریافت کی ۔ لوگوں نے بھی اس سے کہا کہ ہاں بتلاؤ ۔ اس نے کہا کہ ہمیں معلوم ہے کہ وہ چودہ تھے اگر مجھے بھی شامل کیا جائے تو پندرہ ہوئے ۔ ان میں سے بارہ تو دشمن الہٰی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے اور تین شخصوں کی اس قسم پر کہ نہ ہم نے منادی کی نہ ندا سنی نہ ہمیں جانے والوں کے ارادے کا علم تھا اس لیے معذور رکھا گیا ۔ گرمی کاموسم تھا پانی بہت کم تھا آپ نے فرما دیا تھا کہ مجھ سے پہلے وہاں کوئی نہ پہنچے لیکن اس پر بھی کچھ لوگ پہنچ گئے تھے آپ نے ان پر لعنت کی ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2779۔11) آپ کا فرمان ہے کہ میرے ساتھیوں میں بارہ منافق ہیں جو نہ جنت میں جائیں گے نہ اس کی خوشبو پائیں گے آٹھ کے مونڈھوں پر تو آتشی پھوڑا ہو گا جو سینے تک پہنچے گا اور انہیں ہلاک کر دے گا ۔ ۱؎ (مسند احمد:319،262/4:صحیح) اسی باعث سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علی وسلم کا راز دار کہا جاتا تھا ۔ آپ ﷺ نے صرف انہی کو ان منافقوں کے نام بتلائے تھے ۔ واللہ اعلم ۔ طبرانی میں ان کے نام یہ ہیں معتب بن قشیر ، ودیعہ بن ثابت ، جد بن عبداللہ بن نبتل بن حارث جو عمرو بن عوف کے قبیلے کا تھا اور حارث بن یزید طائی اور اوس بن قیظی اور حارث بن سوید اور سعد بن زرارہ اور قیس بن فہر اور سوید اور داعس قبیلہ بنو حبلیٰ کے اور قیس بن عمرو بن سہل اور زید بن لصیت اور سلالہ بن حمام یہ دونوں قبیلہ بنو قینقاع کے ہیں یہ سب بظاہر مسلمان بنے ہوئے تھے ۔ اس آیت میں اس کے بعد فرمایا گیا ہے کہ انہوں نے اسی بات کا بدلہ لیا ہے کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اپنے رسول ﷺ کے ہاتھوں مالدار بنایا ، اگر ان پر اللہ تعالیٰ کا پورا فضل ہو جاتا تو انہیں ہدایت نصیب ہو جاتی جیسے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے فرمایا : ” کیا میں نے تمہیں گمراہی کی حالت میں نہیں پایا تھا ؟ کہ پھر اللہ تعالیٰ نے میری وجہ سے تمہاری رہبری کی ، تم متفرق تھے اللہ تعالیٰ نے میری وجہ سے تم میں الفت ڈال دی تم فقیر بے نوا تھے اللہ تعالیٰ نے میرے سبب سے تمہیں غنی اور مالدار کر دیا “ ۔ ہر ہر سوال کے جواب میں انصار رضی اللہ عنہم فرماتے جاتے تھے کہ بیشک اللہ تعالیٰ کا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اس سے زیادہ احسان ہے ۱؎ (صحیح بخاری:4330) ۔ الغرض بیان یہ ہے کہ بے وجہ ، بے قصور یہ لوگ دشمنی اور بےایمانی پر اتر آئے ، جیسے سورۃ البروج میں ہے کہ ان مسلمانوں میں سے ایک کافروں کا انتقام صرف ان کے ایمان کے باعث تھا ۔ حدیث میں ہے کہ ابن جمیل صرف اس بات کا انتقام لیتا ہے کہ وہ فقیر تھا اللہ تعالیٰ نے اسے غنی کر دیا ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1768) پھر فرماتا ہے کہ اگر یہ اب بھی توبہ کر لیں تو ان کے حق میں بہتر ہے اور اگر وہ اپنے اسی طریقہ پر کاربند رہے تو انہیں دنیا میں بھی سخت سزا ہو گی قتل سے بھی صدمہ و غم سے بھی اور دوزخ کے ذلیل و پست کرنے والے ناقابلِ برداشت عذابوں سے بھی ، دنیا میں کوئی نہ ہو گا جو ان کی طرف داری کرے ان کی مدد کرے ان کے کام آئے ان سے برائی ہٹائے یا نفع پہنچائے یہ بے یارو مددگار رہ جائیں گے ۔ التوبہ
74 التوبہ
75 دعا قبول ہوئی تو اپنا عہد بھول گیا بیان ہو رہا ہے کہ ان منافقوں میں وہ بھی ہے جس نے عہد کیا کہ اگر مجھے اللہ تعالیٰ مالدار کر دے تو میں بڑی سخاوت کروں اور نیک بن جاؤں ۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ نے اسے امیر اور خوشحال بنا دیا اس نے وعدہ شکنی کی اور بخیل بن بیٹھا جس کی سزا میں قدرت نے اس کے دل میں ہمیشہ کے لیے نفاق ڈال دیا ۔ (نوٹ) اس واقعہ میں ثعبلہ کا نام صحیح سند سے ثابت نہیں یہ آیت بھی منافقین کے بارے مین اتری ہے (محمد انور زاہد) یہ آیت ثعلبہ بن حاطب انصاری کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ میرے لیے مالداری کی دعا کیجئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تھوڑا جس کا شکر ادا ہو اس بہت سے اچھا ہے جو اپنی طاقت سے زیادہ ہو “ ۔ اس نے پھر دوبارہ یہی درخواست کی تو آپ ﷺ نے سمجھایا کہ ” تو اپنا حال اللہ تعالیٰ کے نبی جیسا رکھنا پسند نہیں کرتا ؟ واللہ ! اگر میں چاہتا تو یہ پہاڑ سونے چاندی کے بن کر میرے ساتھ چلتے “ ۔ اس نے کہا : ” اے اللہ کے رسول ! واللہ ! میرا ارادہ ہے کہ اگر اللہ مجھے مالدار کر دے تو میں خوب سخاوت کی داد دوں ہر ایک کو اس کا حق ادا کروں “ ۔ آپ ﷺ نے اس کے لیے مال میں برکت کی دعا کی ۔ اس کی بکریوں میں اس طرح زیادتی شروع ہوئی جیسے کیڑے بڑھ رہے ہوں ۔ یہاں تک کہ مدینہ منورہ اس کے جانوروں کے لیے تنگ ہو گیا ۔ یہ ایک میدان میں نکل گیا ظہر عصر تو جماعت کے ساتھ ادا کرتا باقی نمازیں جماعت سے نہیں ملتی تھیں ۔ جانوروں میں اور برکت ہوئی اسے اور دور جانا پڑا ۔ اب سوائے جمعہ کے اور سب جماعتیں اس سے چھوٹ گئیں ، مال اور بڑھتا گیا ، ہفتہ بعد جمعہ کے لیے آنا بھی اس نے چھوڑ دیا ۔ آنے جانے والے قافلوں سے پوچھ لیا کرتا تھا کہ جمعہ کے دن کیا بیان ہوا ؟ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حال دریافت کیا ۔ لوگوں نے سب کچھ بیان کر دیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اظہار افسوس کیا ادھر آیت اتری کہ ان کے مال سے صدقے لے اور صدقے کے احکام بھی بیان ہوئے ۔ آپ نے دو شخصوں کو جن میں ایک قبیلہ جہنیہ کا اور دوسرا قبیلہ سلیم کا تھا انہیں تحصیلدار بنا کر صدقہ لینے کے احکام لکھ کر انہیں پروانہ دے کر بھیجا اور فرمایا کہ ثعلبہ سے اور فلانے بنی سلیم سے صدقہ لے آؤ ۔ یہ دونوں ثعلبہ کے پاس پہنچے فرمان پیغمبر دکھایا صدقہ طلب کیا تو وہ کہنے لگا واہ واہ ! یہ تو جزیئے کی بہن ہے یہ تو بالکل ایسا ہی ہے جیسے کافروں سے جزیہ لیا جاتا ہے یہ کیا بات ہے ؟ اچھا اب تو جاؤ لوٹتے ہوئے آنا ۔ دوسرا شخص سلمی جب اسے معلوم ہوا تو اس نے اپنے بہترین جانور نکالے اور انہیں لے کر خود ہی آگے بڑھا ۔ انہوں نے ان جانوروں کو دیکھ کر کہا : ” نہ تو یہ ہمارے لینے کے لائق نہ تجھ پر ان کا دینا واجب “ ۔ اس نے کہا : ” میں تو اپنی خوشی سے ہی بہترین جانور دینا چاہتا ہوں آپ انہیں قبول فرمائیے “ ۔ بالآخر انہوں نے لے لیے ۔ اوروں سے بھی وصول کیا اور لوٹتے ہوئے پھر ثعلبہ کے پاس آئے ۔ اس نے کہا : ” ذرا مجھے وہ پرچہ تو پڑھاؤ جو تمہیں دیا گیا ہے “ ۔ پڑھ کر کہنے لگا ” بھئی یہ تو صاف صاف جزیہ ہے کافروں پر جو ٹیکس مقرر کیا جاتا ہے یہ تو بالکل ویسا ہی ہے اچھا تم جاؤ میں سوچ سمجھ لوں “ ۔ یہ واپس چلے گئے ۔ انہیں دیکھتے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ثعلبہ پر اظہار افسوس کیا اور سلیمی شخص کے لیے برکت کی دعا کی ۔ اب انہوں نے بھی ثعلبہ اور سلمی دونوں کا واقعہ کہہ سنایا ۔ پس اللہ تعالیٰ جل وعلانے یہ آیت نازل فرمائی ۔ ثعلبہ کے ایک قریبی رشتہ دار نے جب یہ سب کچھ سنا تو ثعلبہ سے جا کر واقعہ بیان کیا اور آیت بھی پڑھ سنائی ۔ یہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور درخواست کی کہ اس کا صدقہ قبول کیا جائے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : " اللہ تعالیٰ نے مجھے تیرا صدقہ قبول کرنے سے منع فرما دیا ہے “ ۔ یہ اپنے سر پر خاک ڈالنے لگا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ” یہ تو سب تیرا ہی کیا دھرا ہے ۔ میں نے تو تجھے کہا تھا لیکن تو نہ مانا “ ۔ یہ واپس اپنی جگہ چلا آیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انتقال تک اس کی کوئی چیز قبول نہ فرمائی ۔ پھر یہ خلافت صدیقی میں آیا اور کہنے لگا : ” میری جو عزت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھی وہ اور میرا جو مرتبہ انصار میں ہے وہ آپ خوب جانتے ہیں آپ میرا صدقہ قبول فرمائیے “ آپ نے جواب دیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول نہیں فرمایا تو میں کون ؟ غرض آپ نے بھی انکار کر دیا ۔ جب آپ کا بھی انتقال ہو گیا اور امیر المؤمنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے ولی ہوئے تو یہ پھر آیا اور کہا کہ ” امیر المؤمنین آپ میرا صدقہ قبول فرمائیے “ ۔ آپ نے جواب دیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول نہیں فرمایا خلیفہ اول نے قبول نہیں فرمایا تو اب میں کیسے قبول کر سکتا ہوں ؟ چنانچہ آپ نے بھی اپنی خلافت کے زمانے میں اس کا صدقہ قبول نہیں فرمایا ۔ پھر خلافت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے سپرد ہوئی تو یہ ازلی منافق پھر آیا اور لگا منت سماجت کرنے لیکن آپ نے بھی یہی جواب دیا کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ کے دونوں خلیفہ نے تیرا صدقہ قبول نہیں فرمایا تو میں کیسے قبول کر لوں ؟ چنانچہ قبول نہیں کیا اسی اثنا میں یہ شخص ہلاک ہو گیا ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:7873:ضعیف) الغرض پہلے تو وعدے کئے تھے سخاوت کے اور وہ بھی قسمیں کھا کھا کر ، پھر اپنے وعدے سے پھر گیا اور سخاوت کے عوض بخیلی کی اور وعدہ شکنی کر لی ، اس جھوٹ اور عہد شکنی کے بدلے اس کے دل میں نفاق پیوست ہو گیا جو اس وقت اس کی پوری زندگی تک اس کے ساتھ ہی رہا ۔ حدیث میں بھی ہے کہ منافق کی تین علامتیں ہیں جب بات کرے جھوٹ بولے جب وعدہ کرے خلاف کرے جب امانت سونپی جائے خیانت کرے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:33) کیا یہ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ چھپے کھلے دل کے ارادوں اور سینے کے بھیدوں کا عالم ہے وہ پہلے سے ہی جانتا ہے ۔ یہ خالی زبان بکواس ہے کہ مالدار ہو جائیں تو یوں خیراتیں کریں ، یوں شکر گذاری کریں ، یوں نیکیاں کریں ، لیکن دلوں پر نظریں رکھنے والا رب خوب جانتا ہے کہ یہ مال میں مست ہو جائیں گے اور دولت پا کر خرمستیاں ، ناشکری اور بخل کرنے لگیں گے ۔ وہ ہر حاضر غائب کا جاننے والا ہے وہ ہر چھپے کھلے کا عالم ہے ظاہر باطن سب اس پر روشن ہے التوبہ
76 التوبہ
77 التوبہ
78 التوبہ
79 منافقوں کا مومنوں کی حوصلہ شکنی کا ایک انداز یہ بھی منافقوں کی ایک بدخصلت ہے کہ ان کی زبانوں سے کوئی بھی بچ نہیں سکتا نہ سخی نہ بخیل ، یہ عیب جو ، بدگو لوگ بہت برے ہیں ۔ اگر کوئی شخص بڑی رقم اللہ کی راہ میں دے تو یہ اسے ریاکار کہنے لگتے ہیں اور اگر کوئی مسکین اپنی مالی کمزوری کی بنا پر تھوڑا بہت دے تو یہ ناک بھوں چڑھا کر کہتے ہیں لو ان کی اس حقیر چیز کا بھی اللہ بھوکا تھا ۔ چنانچہ جب صدقات دینے کی آیت اتری ہے تو صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنے اپنے صدقات لیے ہوئے حاضر ہوتے ہیں ایک صاحب نے دل کھول کر بڑی رقم دی ، اسے تو ان منافقوں نے ریاکار کا خطاب دیا اور ایک صاحب بیچارے مسکین آدمی تھی صرف ایک صاع اناج لائے تھے ، انہیں کہا کہ اس کے اس صدقے کی اللہ کو کیا ضرورت پڑی تھی ؟ اس کا بیان اس آیت میں ہے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4668) ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بقیع میں فرمایا کہ ” جو صدقہ دے گا میں اس کی بابت قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے سامنے گواہی دوں گا “ ۔ اس وقت ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے اپنے عمامہ میں سے کچھ دینا چاہا لیکن پھر لپیٹ لیا ۔ اتنے میں ایک صاحب جو سیاہ رنگ اور چھوٹے قد کے تھے ایک اونٹنی لے کر آگے بڑھے جس سے زیادہ اچھی اونٹنی بقیع بھر میں نہ تھی ۔ کہنے لگے : ” یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ اللہ تعالیٰ کے نام پر خیرات ہے “ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” بہت اچھا “ اس نے کہا : ” سنبھال لیجئے“ ۔ اس پر کسی نے کہا اس سے تو اونٹنی ہی اچھی ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سن لیا اور فرمایا : ” تو جھوٹا ہے یہ تجھ سے اور اس سے تین گنا اچھا ہے افسوس ! سینکڑوں اونٹ رکھنے والے تجھ جیسوں پر افسوس ۔ تین مرتبہ یہی فرمایا ، مگر وہ جو اپنے مال کو اس طرح اس طرح کرے “ ، اور لپیں بھر بھر کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں سے دائیں بائیں اشارہ کیا ، یعنی راہ اللہ ہر نیک کام میں خرچ کرے ۔ پھر فرمایا : ” انہوں نے فلاح پالی جو کم مال والے اور زیادہ عبادت والے ہوں “ ۔ (مسند احمد:34/5:ضعیف) سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ چالیس 40 اوقیہ چاندی لائے اور ایک غریب انصاری ایک صاع اناج لائے ، منافقوں نے ایک کو ریاکار بتلایا دوسرے کے صدقے کو حقیر بتلایا ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:17018:ضعیف) ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے لوگوں نے مال خیرات دینا اور جمع کرنا شروع کیا ۔ ایک صاحب ایک صاع کھجوریں لے آئے اور کہنے لگے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس کھجوروں کے دو صاع تھے ایک میں نے اپنے اور اپنے بچوں کے لیے روک لیا اور ایک لے آیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بھی جمع شدہ مال میں ڈال دینے کو فرمایا اس پر منافق بکواس کرنے لگے کہ اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم تو اس سے بے نیاز ہے ۔ سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف نے کہا : ” میرے پاس ایک سو اوقیہ سونا ہے سب کو صدقہ کرتا ہوں “ ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ” ہوش میں بھی ہو “ ؟ آپ نے جواب دیا ہاں ہوش میں ہوں ۔ فرمایا : ” پھر کیا کر رہا ہے “ ؟ آپ نے فرمایا : ” سنو ! میرے پاس آٹھ ہزار ہیں جن میں سے چار ہزار تو میں اللہ تعالیٰ کو قرض دے رہا ہوں اور چار ہزار اپنے لیے رکھ لیتا ہوں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ تجھے برکت دے جو تو نے رکھ لیا ہے اور جو تو نے خرچ کر دیا ہے ۔ منافق ان پر باتیں بنانے لگے کہ پھول گئے اپنی سخاوت دکھانے کے لیے اتنی بڑی رقم دے دی ۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتار کر بڑی رقم اور چھوٹی رقم والوں کی سچائی اور ان منافقوں کا موذی پن ظاہر کر دیا ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:17019:ضعیف) بنو عجلان کے عاصم بن عدی رضی اللہ عنہما نے بھی اس وقت بڑی رقم خیرات کی تھی ایک سو وسق کجھوریں دی تھیں ۔ منافقوں نے اسے ریاکاری پر محمول کیا تھا ۔ اپنی محنت مزدوری کی تھوڑی سی خیرات دینے والے ابوعقیل رضی اللہ عنہ تھے ۔ یہ قبیلہ بنو انیف کے شخص تھے ان کے ایک صاع خیرات پر منافقوں نے ہنسی اور ہجو کی تھی ۔ اور روایت میں ہے کہ یہ چندہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجاہدین کی ایک جماعت کو جہاد پر روانہ کرنے کے لیے کیا تھا ۔ اس میں ہے کہ عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ نے دو ہزار دیئے تھے اور دو ہزار رکھے تھے دوسرے بزرگ نے رات بھر کی محنت میں دو صائع کھجوریں حاصل کر کے ایک صائع رکھ لیں اور ایک صائع دے دیں ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:17029:ضعیف) یہ سیدنا ابوعقیل رضی اللہ عنہ تھے رات بھر اپنی پیٹھ پر بوجھ ڈھوتے رہے تھے ۔ ان کا نام حجاب تھا ۔ اور قول ہے کہ عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن ثعلبہ تھا ۔ پس منافقوں کے اس تمسخر کی سزا میں اللہ تعالیٰ نے بھی ان سے یہی بدلہ لیا ، ان منافقوں کے لیے اخروی المناک عذاب ہیں ۔ اور ان کے اعمال کا ان عملوں جیسا ہی برا بدلہ ہے ۔ التوبہ
80 منافق کے لئے استغفار کرنے کی ممانعت ہے فرماتا ہے کہ یہ منافق اس قابل نہیں کہ تو اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو ان کے لیے اللہ سے بخشش طلب کرے ۔ ایک بار نہیں اگر تو ستر مرتبہ بھی بخشش ان کے لیے چاہے تو اللہ تعالیٰ انہیں نہیں بخشے گا ۔ یہ جو ستر کا ذکر ہے اس سے مراد صرف زیادتی ہے وہ ستر سے کم ہو یا بہت زیادہ ہو ۔ بعض نے کہا ہے کہ مراد اس سے ستر کا ہی عدد ہے چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” میں تو ان کے لیے ستر بار سے بھی زیادہ استغفار کروں گا تاکہ اللہ انہیں بخش دے “ ۔ پس اللہ تعالیٰ نے ایک اور آیت میں فرما دیا کہ ان کے لیے تیرا استغفار کرنا نہ کرنے کے برابر ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:17045:ضعیف) عبداللہ بن ابی منافق کا بیٹا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرتا ہے کہ میرا باپ نزع کی حالت میں ہے میری چاہت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس تشریف لے چلیں اس کے جنازے کی نماز بھی پڑھائیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ” تیرا نام کیا ہے “ ؟ اس نے کہا : ” حباب “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تیرا نام عبداللہ ہے حباب تو شیطان کا نام ہے “ ۔ اب آپ ان کے ساتھ ہو لئے ان کے باپ کو اپنا کرتہ اپنے پسینے والا پہنایا اس کی جنازے کی نماز پڑھائی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا بھی گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے جنازے پر نماز پڑھ رہے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” اللہ تعالیٰ نے ستر مرتبہ کے استغفار سے ہی نہ بخشنے کو فرمایا ہے میں تو ستر بار پھر ستر بار پھر ستر بار پھر استغفار کروں گا ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:17044:ضعیف) التوبہ
81 جہنم کی آگ کالی ہے جو لوگ غزوہ تبوک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہیں گئے تھے اور گھروں میں ہی بیٹھنے پر اکڑ رہے تھے ، جنہیں اللہ کی راہ میں مال و جان سے جہاد کرنا مشکل معلوم ہوتا تھا ، جنہوں نے ایک دوسرے کے کان بھرے تھے کہ اس گرمی میں کہاں نکلو گے ؟ ایک طرف پھر پکے ہوئے ہیں سائے بڑھے ہوئے ہیں دوسری جانب لو کے تھپیڑے چل رہے ہیں ۔ پس اللہ تعالیٰ ان سے فرماتا ہے کہ جہنم کی آگ جس کی طرف تم اپنی اس بد کرداری سے جا رہے ہو وہ اس گرمی سے زیادہ بڑھی ہوئی حرارت اپنے اندر رکھتی ہے یہ آگ تو اس آگ کا سترواں حصہ ہے ، جیسے کہ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے ۱؎ (صحیح بخاری:3265) اور روایت میں ہے کہ تمہاری یہ آگ آتش دوزخ کے ستر اجزاء میں سے ایک جزء ہے پھر بھی یہ سمندر کے پانی میں دو دفعہ بجھائی ہوئی ہے ورنہ تم اس سے کوئی فائدہ حاصل نہ کر سکتے ۔ ۱؎ (مسند احمد:244/2:صحیح) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ایک ہزار سال تک آتش دوزخ دھونکی گئی تو سرخ ہو گئی ایک ہزار سال جلائی گئی تو سفید ہو گئی پھر ایک ہزار سال تک دھونکی گئی پس وہ اندھیری رات جیسی سخت سیاہ ہے ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2591،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ایک بار آپ نے آیت «وَّقُوْدُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ» ۱؎ (66-التحریم:6) کی تلاوت کی اور فرمایا : ” ایک ہزار سال تک جلائے جانے سے وہ سفید پڑ گئی پھر ایک ہزار سال تک بھڑکانے سے سرخ ہو گئی پھر ایک ہزار سال تک دھونکے جانے سے سیاہ ہو گئی پس وہ سیاہ رات جیسی ہے اس کے شعلوں میں بھی چمک نہیں “ ۔ ۱؎ (بیہقی فی شعب الایمان:799:ضعیف) ایک حدیث میں ہے کہ اگر دوزخ کی آگ کی ایک چنگاری مشرق میں ہو تو اس کی حرارت مغرب تک پہنچ جائے ۔ ابو یعلیٰ کی ایک غریب روایت میں ہے کہ اگر اس مسجد میں ایک لاکھ بلکہ اس سے بھی زیادہ آدمی ہوں اور کوئی جہنمی یہاں آ کر سانس لے تو اس کی گرمی سے مسجد اور مسجد والے سب جل جائیں ۔ ۱؎ (مسند ابویعلیٰ:6670:ضعیف) اور حدیث میں ہے کہ سب سے ہلکے عذاب والا دوزخ میں وہ ہو گا جس کے دونوں پاؤں میں دو جوتیاں آگ کے تسمے سمیت ہوں گی جس سے اس کی کھوپڑی ابل رہی ہو گی ، اور وہ سمجھ رہا ہو گا کہ سب سے زیادہ سخت عذاب اسی کو ہو رہا ہے حالانکہ دراصل سب سے ہلکا عذاب اسی کا ہے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6562) قرآن فرماتا ہے کہ وہ آگ ایسی شعلہ زن ہے جو کھال اتار دیتی ہے ۔ اور آیتوں میں ہے کہ ان کے سروں پر کھولتا ہوا گرم پانی بہایا جائے گا جس سے ان کے پیٹ کی تمام چیزیں اور ان کے کھالیں جھلس جائیں گی پھر لوہے کے ہتھوڑوں سے ان کے سر کچلے جائیں گے وہ جب وہاں سے نکلنا چاہیں گے اسی میں لوٹا دیئے جائیں گے اور کہا جائے گا کہ جلنے کا عذاب چکھو ۔ ایک اور آیت میں ہے کہ جن لوگوں نے ہماری آیتوں سے انکار کیا انہیں ہم بھڑکتی ہوئی آگ میں ڈال دیں گے ، ان کی کھالیں جھلستی جائیں گی اور ہم اور اور بدلتے جائیں گے کہ وہ خوب عذاب چکھیں ۔ ۱؎ (مسند ابویعلیٰ:4134:ضعیف) اس آیت میں بھی فرمایا ہے کہ اگر انہیں سمجھ ہوتی تو وہ جان لیتے کہ جہنم کی آگ کی گرمی اور تیزی بہت زیادہ ہے تو یقیناً یہ باوجود موسم گرمی کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد میں خوشی خوشی نکلتے اور اپنے جان و مال کو اللہ کی راہ میں فدا کرنے پر تل جاتے ۔ عرب کا شاعر کہتا ہے کہ تو نے اپنی عمر سردی گرمی سے بچنے کی کوشش میں گذار دی حالانکہ تجھے لائق تھا کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں سے بچتا کہ جہنم کی آگ سے بچ جائے ۔ اب اللہ تعالیٰ ان بدباطن منافقوں کو ڈرا رہا ہے کہ تھوڑی سی زندگی میں یہاں تو جتنا چاہیں ہنس لیں ۔ لیکن اس آنے والی زندگی میں ان کے لیے رونا ہے جو کبھی ختم نہ ہو گا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ لوگو روؤ اور رونا نہ آئے تو زبردستی روؤ جہنمی روئیں گے یہاں تک کہ ان کے رخساروں پر نہر جیسے گڑھے پڑ جائیں گے آخر آنسو ختم ہو جائیں گے اب آنکھیں خون برسانے لگیں گی ان کی آنکھوں سے اس قدر آنسو اور خون بہا ہو گا کہ اگر کوئی اس میں کشتی چلانی چاہے تو چلا سکتا ہے ۔ ۱؎ (مسند ابویعلیٰ:4134:ضعیف) اور حدیث میں ہے کہ جہنمی جہنم میں روئیں گے اور خوب روتے رہیں گے ، آنسو ختم ہونے کے بعد پیپ نکلنا شروع ہو گا ۔ اس وقت دوزخ کے داروغے ان سے کہیں گے اے بدبخت ! رحم کی جگہ تو تم کبھی ہو نہ روئے اب یہاں کا رونا دھونا لاحاصل ہے ، اب یہ اونچی آوازوں سے چلا چلا کر جنتیوں سے فریاد کریں گے کہ تم لوگ ہمارے رشتے کنبے کے ہو سنو ! ہم قبروں سے پیاسے اٹھے تھے پھر میدان محشر میں بھی پیاسے ہی رہے اور آج تک یہاں بھی پیاسے ہی ہیں ہم پر رحم کرو کچھ پانی ہمارے حلق میں چھو دو یا جو روزی اللہ تعالیٰ نے تمہیں دی ہے اس میں سے ہی تھوڑا بہت ہمیں دے دو ۔ چالیس سال تک کتوں کی طرح چیختے رہیں گے چالیس سال کے بعد انہیں جواب ملے گا کہ تم یونہی دھتکارے ہوئے بھوکے پیاسے ہی ان سڑیل اور اٹل سخت عذابوں میں پڑے رہو ۔ اب یہ تمام بھلائیوں سے مایوس ہو جائیں گے ۔ التوبہ
82 التوبہ
83 مکاروں کی سزا فرمان ہے کہ جب اللہ تعالیٰ تجھے سلامتی کے ساتھ اس غزوے سے واپس مدینے پہنچا دے اور ان میں سے کوئی جماعت تجھ سے کسی اور غزوے میں تیرے ساتھ چلنے کی درخواست کرے تو بطور ان کو سزا دینے کے تو صاف کہ دینا کہ نہ تو تم میرے ساتھ والوں میں میرے ساتھ چل سکتے ہو نہ تم میری ہمراہی میں دشمنوں سے جنگ کر سکتے ہو ، تم جب موقعہ پر دغا دے گئے اور پہلی مرتبہ ہی بیٹھ رہے تو اب تیاری کے کیا معنی ؟ پس یہ آیت مثل آیت «وَنُقَلِّبُ اَفْــــِٕدَتَہُمْ وَاَبْصَارَہُمْ کَمَا لَمْ یُؤْمِنُوْا بِہٖٓ اَوَّلَ مَرَّۃٍ» ۱؎ (6-الانعام:110) الخ کے ہے ۔ بدی کا برا بدلہ بدی کے بعد ملتا ہے جیسے کہ نیکی کی جزا بھی نیکی کے بعد ملتی ہے ۔ عمرہ حدیبیہ کے وقت قرآن نے فرمایا تھا ۔ ۱؎ «سَیَقُوْلُ الْمُخَلَّفُوْنَ اِذَا انْــطَلَقْتُمْ اِلٰی مَغَانِمَ» (48-الفتح:15) الخ یعنی یہ پیچھے رہ جانے والے لوگ تم سے جب تم غنیمتیں لینے چلو گے کہیں گے کہ ہمیں اجازت دو ہم بھی تمہارے ساتھ ہو لیں ، یہاں فرمایا کہ ان سے کہ دینا کہ بیٹھ رہنے والوں میں ہی تم بھی رہو ، جو عورتوں کی طرح گھروں میں گھسے رہتے ہیں ۔ التوبہ
84 منافقوں کا جنازہ حکم ہوتا ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! تم منافقوں سے بالکل بے تعلق ہو جاؤ ۔ ان میں سے کوئی مر جائے تو تم نہ اس کے جنازے کی نماز پڑھو نہ اس کی قبر پر جا کر اس کے لیے دعائے استغفار کرو ، اس لیے کہ یہ کفر و فسق پر زندہ رہے اور اسی پر مرے ۔ یہ حکم تو عام ہے گو اس کا شان نزول خاص عبداللہ بن ابی بن سلول کے بارے میں ہے ۔ جو منافقوں کا رئیس اور امام تھا ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ اس کے مرنے پر اس کے صاحبزادے سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور درخواست کی کہ میرے باپ کے کفن کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاص اپنا پہنا ہوا کرتا عنایت فرمائیے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دے دیا ۔ پھر کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود اس کے جنازے کی نماز پڑھائیے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ درخواست بھی منظور فرمالی اور نماز پڑھانے کے ارادے سے اٹھے ۔ لیکن سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن تھام لیا اور عرض کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ اس کے جنازے کی نماز پڑھائیں گے ؟ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرمایا ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ” سنو ! اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا ہے فرمایا ہے کہ تو ان کے لیے استغفار کر یا نہ کر اگر تو ان کے لیے ستر مرتبہ استغفار کرے گا تو بھی اللہ تعالیٰ انہیں نہیں بخشے گا ۔ تو میں ستر مرتبہ سے بھی زیادہ استغفار کروں گا ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے یا رسول اللہ ﷺ یہ منافق تھا ۔ تاہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جنازے کی نماز پڑھائی اس پر یہ آیت اتری ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4670) ایک اور روایت میں ہے کہ اس نماز میں صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں تھے ۔ اور روایت میں ہے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب آپ ﷺ اس کی نماز کے لیے کھڑے ہو گئے تو میں صف میں سے نکل کر آپ ﷺ کے سامنے کھڑا ہو گیا اور کہا کہ ” کیا آپ ﷺ اس دشمن رب عبداللہ بن ابی کے جنازے کی نمازیں پڑھائیں گے ؟ حالانکہ فلاں دن اس نے یوں کہا اور فلاں دن یوں کہا “ ۔ اس کی وہ تمام باتیں دہرائیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسکراتے ہوئے سب سنتے رہے آخر میں فرمایا : ” عمر ! مجھے چھوڑ دے ، اللہ تعالیٰ نے استغفار کا مجھے اختیار دیا ہے اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ ستر مرتبہ سے زیادہ استغفار ان کے گناہ معاف کرا سکتا ہے تو میں یقیناً ستر مرتبہ سے زیادہ استغفار کروں گا “ ۔ چنانچہ آپ ﷺ نے نماز بھی پڑھائی جنازے کے ساتھ بھی چلے دفن میں بھی موجود رہے ۔ اس کے بعد مجھے اپنی اس گستاخی پر بہت ہی افسوس ہونے لگا کہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ خوب علم والے ہیں میں نے ایسی اور اس قدر جرأت کیوں کی ؟ کچھ ہی دیر ہوئی ہوگی جو یہ دونوں آیتیں نازل ہوئیں ۔ اس کے بعد آخر دم تک نہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی منافق کے جنازے کی نماز پڑھی نہ اس کی قبر پر آ کر دعا کی ۔ ۱؎ (مسند احمد:16/1:صحیح) اور روایت میں ہے کہ اس کے صاحبزادے رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺ سے یہ بھی کہا تھا کہ ” اگر آپ ﷺ تشریف نہ لائے تو ہمیشہ کیلئے یہ بات ہم پر رہ جائے گی “ ۔ جب آپ ﷺ تشریف لائے تو اسے قبر میں اتار دیا گیا تھا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ” اس سے پہلے مجھے کیوں نہ لائے “ ؟ چنانچہ وہ قبر سے نکالا گیا ۔ آپ ﷺ نے اس کے سارے جسم پر تھتکار کر دم کیا اور اسے اپنا کرتہ پہنایا ۔ ۱؎ (مسند احمد:371/3:صحیح) اور روایت میں ہے کہ وہ خود یہ وصیت کر کے مرا تھا کہ اس کے جنازے کی نماز خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھائیں ۔ اس کے لڑکے نے آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی آرزو اور اس کی آخری وصیت کی بھی خبر کی تھی اور یہ بھی کہا تھا کہ ” اس کی وصیت یہ بھی ہے کہ اسے آپ ﷺ کے پیراہن میں کفنایا جائے “ ۔ آپ ﷺ اس کے جنازے کی نماز سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ سیدنا جبرائیل علیہ السلام یہ آیتیں لے کر اترے ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:1524،قال الشیخ الألبانی:منکر بذکر الوصیۃ) اور روایت میں ہے کہ جبرائیل علیہ السلام نے آپ ﷺ کا دامن تان کر نماز کے ارادے کے وقت یہ آیت سنائی ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:17068:ضعیف) لیکن یہ روایت ضعیف ہے ۔ اور روایت میں ہے اس نے اپنی بیماری کے زمانے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بلایا آپ ﷺ تشریف لے گئے اور جا کر فرمایا کہ ” یہودیوں کی محبت نے تجھے تباہ کر دیا “ ۔ اس نے کہا : : ” یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ وقت ڈانٹ ڈپٹ کا نہیں بلکہ میری خواہش ہے کہ آپ میرے لیے دعا استغفار کریں میں مر جاؤں تو مجھے اپنے پیرہن میں کفنائیں “ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:17073:ضعیف) بعض سلف سے مروی ہے کہ کرتہ دینے کی وجہ یہ تھی کہ جب سیدنا عباس رضی اللہ عنہ آئے تو ان کے جسم پر کسی کا کپڑا ٹھیک نہیں آیا آخر اس کا کرتا لیا وہ ٹھیک آ گیا یہ بھی لمبا چوڑا چوڑی چکلی ہڈی کا آدمی تھا پس اس کے بدلے میں آپ ﷺ نے اسے اس کے کفن کے لیے اپنا کرتا عطا فرمایا ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3008) اس آیت کے اترنے کے بعد نہ تو کسی منافق کے جنازے کی نماز آپ ﷺ نے پڑھی ۔ نہ کسی کے لیے استغفار کیا ۔ مسند احمد میں ہے کہ جب آپ ﷺ کو کسی جنازے کی طرف بلایا جاتا تو آپ ﷺ پوچھ لیتے اگر لوگوں سے بھلائیاں معلوم ہوتیں تو آپ ﷺ جا کر اس کے جنازے کی نماز پڑھاتے اور اگر کوئی ایسی ویسی بات کان میں پڑتی تو صاف انکار کر دیتے ۔ ۱؎ (مسند احمد:299/5:صحیح) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا طریقہ آپ ﷺ کے بعد یہ رہا کہ جس کے جنازے کی نماز سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہا پڑھتے اس کے جنازے کی نماز آپ بھی پڑھتے جس کی سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نہ پڑھتے آپ بھی نہ پڑھتے اس لیے کہ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منافقوں کے نام گنوا دیئے تھے اور صرف انہی کو یہ نام معلوم تھے اسی بناء پر انہیں راز دار رسول اللہ ﷺ کہا جاتا تھا ۔ بلکہ ایک مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ایک شخص کے جنازے کی نماز کے لیے کھڑا ہونے لگے تو سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے چٹکی لے کر انہیں روک دیا ۔ جنازے کی نماز اور استغفار ان دونوں چیزوں سے منافقوں کے بارے میں مسلمانوں کو روک دینا یہ دلیل ہے اس امر کی کہ مسلمانوں کے بارے میں ان دونوں چیزوں کی پوری تاکید ہے ان میں مردوں کے لیے بھی پورا نفع ہے اور زندوں کے لیے بھی کامل ثواب ہے ۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ آپ ﷺ فرماتے ہیں جو جنازے میں جائے اور نماز پڑھی جانے تک ساتھ رہے اسے ایک قیراط کا ثواب ملتا ہے اور جو دفن تک ساتھ رہے اسے دو قیراط ملتے ہیں ، پوچھا گیا کہ قیراط کیا ہے ؟ فرمایا : ” سب سے چھوٹا قیراط احد پہاڑ کے برابر ہوتا ہے “ ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1325) اسی طرح یہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک تھی کہ میت کے دفن سے فارغ ہو کر وہیں اس کی قبر کے پاس ٹھہر کر حکم فرماتے کہ اپنے ساتھی کے لیے استغفار کرو اس کے لیے ثابت قدمی کی دعا کرو اس سے اس وقت سوال و جواب ہو رہا ہے ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:3221،قال الشیخ الألبانی:صحیح) التوبہ
85 . اسی مضمون کی آیت کریمہ گذر چکی ہے اور وہیں اس کی پوری تفسیر بھی بحمد اللہ لکھ دی گئی ہے جس کے دوہرانے کی ضرورت نہیں ۔ التوبہ
86 . ان لوگوں کی برائی بیان ہو رہی ہے جو وسعت ، طاقت ، قوت ہوتے ہوئے جہاد کے لیے نہیں نکلتے جی چرا جاتے ہیں اور حکم الہٰی سن کر پھر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ آ کر اپنے رک رہنے کی اجازت چاہتے ہیں ۔ ان کی بے حمیتی تو دیکھو کہ یہ عورتوں جیسے ہو گئے ۔ لشکر چلے گئے یہ نامرد زنانے عورتوں کی طرح پیچھے رہ گئے ۔ بوقت جنگ بزدل ڈرپوک اور گھروں میں گھسے رہنے والے اور بوقت امن بڑھ بڑھ کر باتیں بنانے والے ، یہ بھونکنے والے کتوں اور گرجنے والے بادلوں کی طرح ڈھول کے پول ہیں ۔ چنانچہ ایک اور جگہ خود قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے کہ خوف کے وقت ایسی آنکھیں پھیرنے لگتے ہیں جیسے کوئی مر رہا ہو ، اور جہاں وہ موقع گذر گیا لگے چرب زبانی کرنے اور لمبے چوڑے دعوے کرنے اور باتیں بنانے ۔ امن کے وقت تو مسلمانوں میں فساد پھلانے لگتے ہیں اور وہ بلند و بانگ بہادری کے ڈھول پیٹتے ہیں کہ کچھ ٹھیک نہیں لیکن لڑائی کے وقت عورتوں کی طرح چوڑیاں پہن کر پردہ نشین بن جاتے ہیں بل اور سوراخ ڈھونڈ ڈھونڈ کر اپنے آپ کو چھپاتے پھرتے ہیں ۔ ایماندار تو سورت اترنے اور اللہ تعالیٰ کے حکم ہونے کا انتظار کرتے ہیں لیکن بیمار دلوں والے جہاں سورت اتری ، اور جہاد کا حکم سنا کہ آنکھیں بند کر لیں ۔ ان پر افسوس ہے اور ان کے لیے تباہی خیز مصیبت ہے ۔ اگر یہ اطاعت گزار ہوتے اگر ان کی زبان سے اچھی بات نکلتی ان کے ارادے اچھے ہوتے یہ اللہ تعالیٰ کی باتوں کی تصدیق کرتے تو یہی چیز ان کے حق میں بہتر تھی لیکن ان کے دلوں پر تو ان کی بداعمالیوں سے مہر لگ چکی ہے اب تو ان میں اس بات کی صلاحیت بھی نہیں رہی کہ اپنے نفع نقصان کو ہی سمجھ لیں ۔ التوبہ
87 التوبہ
88 منافق کی آخرت خراب منافقوں کی مذمت اور ان کی اخروی درگت بیان فرما کر اب مومنوں کی مدحت اور ان کی اخروی راحت بیان ہو رہی ہے ۔ یہ جہاد کے لئے کمر باندھے رہتے ہیں ۔ یہ جان و مال اللہ کی راہ میں فدا کرتے رہتے ہیں ۔ انہی کے حصے میں بھلائیاں اور خوبیاں ہیں ۔ یہی فلاح پانے والے لوگ ہیں ۔ انہی کے لیے جنت الفردوس ہے اور انہی کے لیے بلند درجے ہیں ۔ یہی مقصد حاصل کرنے والے یہی کامیابی کو پہنچ جانے والے لوگ ہیں ۔ التوبہ
89 التوبہ
90 جہاد اور معذور لوگ یہ بیان ان لوگوں کا ہے جو حقیقتاً کسی شرعی عذر کے باعث جہاد میں شامل نہ ہو سکتے تھے مدینہ کے اردگرد کے یہ لوگ آ آ کر اپنی کمزور ضعیفی ، بےطاقتی بیان کر کے اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لیتے ہیں کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں واقعی معذور سمجھیں تو اجازت دے دیں ۔ یہ بنو غفار کے قبیلے کے لوگ تھے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی قرأت میں « وَجَاۤءَ الْـمُ۔عْزِرُوْنَ» ہے یعنی اہل عذر لوگ ۔ یہی معنی مطلب زیادہ ظاہر ہے کیونکہ اسی جملے کے بعد ان لوگوں کا بیان ہے جو جھوٹے تھے ۔ یہ نہ آئے نہ اپنا رک جانے کا سبب پیش کیا نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے رک رہنے کی اجازت چاہی ۔ بعض بزرگ فرماتے ہیں کہ عذر پیش کرنے والے بھی دراصل عذر والے نہ تھے اسی لیے ان کے عذر مقبول نہ ہوئے ۔ لیکن پہلا قول پہلا ہی ہے وہی زیادہ ظاہر ہے ، واللہ اعلم ۔ اس کی ایک وجہ تو وہی ہے جو ہم نے اوپر بیان کی ہے ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ عذاب کا وعدہ ان ہوا جو بیٹھے رہی رہے ۔ التوبہ
91 عدم جہاد کے شرعی عذر اس آیت میں ان شرعی عذروں کا بیان ہو رہا ہے جن کے ہوتے ہوئے اگر کوئی شخص جہاد میں نہ جائے تو اس پر شرعی حرج نہیں ۔ پس ان سببوں میں سے ایک قسم تو وہ ہے جو لازم ہوتی ہے کسی حالت میں انسان سے الگ نہیں ہوتیں جیسے پیدائشی کمزوری یا اندھا پن یا لنگڑا پن ، کوئی لولا لنگڑا اپاہج بیمار یا بالکل ہی نا طاقت ہو ، دوسری قسم کے وہ عذر ہوتے ہیں جو کبھی ہیں اور کبھی نہیں اتفاقیہ اسباب ہیں مثلاً کوئی بیمار ہو گیا ہے یا بالکل فقیر ہو گیا ہے سامان سفر ، سامان جہاد مہیا نہیں کر سکتا وغیرہ پس یہ لوگ شرکت جہاد نہ کر سکیں تو ان پر شرعاً کوئی مواخذہ گناہ یا عار نہیں ۔ لیکن انہیں اپنے دل میں صلاحیت اور خلوص رکھنا چاہیئے ۔ مسلمانوں کے دین الہٰی کے خیرخواہ بنے رہیں اوروں کو جہاد پر آمادہ کریں بیٹھے بیٹھے جو خدمت مجاہدین کی انجام دے سکتے ہوں دیتے رہیں ، ایسے نیک کاروں پر کوئی وجہ الزام نہیں ، اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ حواریوں نے عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے نبی سے پوچھا کہ ” ہمیں بتلائیے اللہ کا خیرخواہ کون ہے “ ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ” جو اللہ تعالیٰ کے حق کو لوگوں کے حق پر مقدم کرے اور جب ایک کام دین کا اور ایک دنیا کا آ جائے تو دینی کام کی اہمیت کا پورا لحاظ رکھے پھر فارغ ہو کر دنیوی کام کو انجام دے “ ۔ ایک مرتبہ قحط سالی کے موقعہ پر لوگ نماز استسقاء کیلئے میدان میں نکلے ، ان میں سیدنا بلال بن سعد رحمہ اللہ بھی تھے ۔ آپ نے کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی پھر فرمایا : ” اے حاضرین ! کیا تم یہ مانتے ہو کہ تم سب اللہ کے گنہگار بندے ہو “ ؟ سب نے اقرار کیا ۔ اب آپ نے دعا شروع کی کہ پروردگار ہم نے تیرے کلام میں سنا ہے کہ نیک کاروں پر کوئی راہ نہیں ۔ ہم اپنی برائیوں کے اقراری ہیں پس تو ہمیں معاف فرما ، ہم پر رحم فرما ، ہم پر اپنی رحمت سے بارشیں برسا اب آپ رحمہ اللہ نے ہاتھ اٹھائے اور آپ کے ساتھ ہی اور سب نے ۔ رحمت ربانی جوش میں آئی اور اسی وقت جھوم جھوم کر رحمت کی بدلیاں برسنے لگیں ۔ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا منشی تھا سورۃ برات جب اتر رہی تھی میں اسے بھی لکھ رہا تھا میرے کان میں قلم اڑا ہوا تھا جہاد کی آیتیں اتر رہی تھیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منتظر تھے کہ دیکھیں کہ اب کیا حکم نازل ہوتا ہے ؟ جو ایک نابینا صحابی رضی اللہ عنہ آئے اور کہنے لگے ” نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ! میں جہاد کے احکام اس اندھاپے میں کیسے بجا لا سکتا ہوں “ ؟ اسی وقت یہ آیت اتری ۔ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:186/6) پھر ان کا بیان ہوتا ہے جو جہاد کی شرکت کے لیے تڑپتے ہیں مگر قدرتی اسباب سے مجبور ہو کر بادل ناخواستہ رک جاتے ہیں ۔ جہاد کا حکم ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اعلان ہوا مجاہدین کا لشکر جمع ہونا شروع ہوا تو ایک جماعت آئی جن میں عبداللہ بن مغفل بن مقرن مزنی رضی اللہ عنہم وغیرہ تھے ۔ انہوں نے کہا کہ ” نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمارے پاس سواریاں نہیں آپ ہماری سواریوں کا انتظام کر دیں تاکہ ہم بھی راہ حق میں جہاد کرنے کا اور آپ ﷺ کی ہمرکابی کا شرف حاصل کریں “ ۔ آپ ﷺ نے جواب دیا کہ ” واللہ ! میرے پاس تو ایک بھی سواری نہیں “ ۔ یہ ناامید ہو کر روتے پیٹتے غم زدہ اور رنجیدہ ہو کر لوٹے ان پر اس سے زیادہ بھاری بوجھ کوئی نہ تھا کہ یہ اس وقت ہم رکابی کی اور جہاد کی سعادت سے محروم رہ گئے اور عورتوں کی طرح انہیں یہ مدت گھروں میں گزارنی پڑے گی نہ ان کے پاس خود ہی کچھ ہے نہ کہیں سے کچھ ملتا ہے ۔ پس جناب باری تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما کر ان کی تسکین کر دی ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:17093:ضعیف) یہ آیت قبیلہ مزینہ کی شاخ بنی مقرن کے بارے میں اتری ہے ۔ محمد بن کعب رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ یہ سات آدمی تھے بنی عمرو کے سالم بن عمیر ، بنی واقف کے ھرمی بن عمرو ، بنی مازن کے عبدالرحمٰن بن کعب ، بنو معلیٰ کے سلمان بن صخر ، بنی سلمی کے عمرو بن عنمہ ، اور عبداللہ بن عمرو مزنی ، اور بنو حارثہ کے علیہ بن زید ۔ بعض روایتوں میں کچھ ناموں میں ہیر پھیر بھی ہے ۔ انہی نیک نیت بزرگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے رسول ، رسولوں کے سرتاج «صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ و اصحابہ و ازوجہ و اہل بیتہ و سلم» کا فرمان ہے کہ ” اے میرے مجاہد ساتھیو ! تم نے مدینے میں جو لوگ اپنے پیچھے چھوڑے ہیں ان میں وہ بھی ہیں کہ تم جو خرچ کرتے ہو جس میدان میں چلتے ہو جو جہاد کرتے ہو سب میں وہ بھی ثواب کے شریک ہیں “ ۔ پھر آپ ﷺ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی ۔ اور روایت میں ہے کہ یہ سن کر صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا : ” وہ باوجود اپنے گھروں میں رہنے کے ثواب میں ہمارے شریک ہیں “ ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ” ہاں اس لیے کہ وہ معذور ہیں عذر کے باعث رکے ہیں ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2839) ایک اور آیت میں ہے انہیں بیماریوں نے روک لیا ہے ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1911) پھر ان لوگوں کا بیان فرمایا جنہیں فی الواقع کوئی عذر نہیں مالدار ، ہٹے کٹے ہیں لیکن پھر بھی سرکار نبوت میں آ کر بہانے تراش تراش کر جہاد میں ساتھ نہیں دیتے ، عورتوں کی طرح گھر میں بیٹھ جاتے ہیں زمین پکڑ لیتے ہیں ۔ فرمایا ان کی بداعمالیوں کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر الہٰی لگ چکی ہے ، اب وہ اپنے بھلے برے کے علم سے بھی کورے ہو گئے ہیں ۔ التوبہ
92 التوبہ
93 التوبہ
94 فاسق اور چوہے کی مماثلت اللہ تعالیٰ نے منافقین سے یہ معلوم کرا دیا کہ جب تم مدینہ واپس ہو گے تو تمہارے سامنے اپنے عذرات پیش کریں گے ۔ لیکن تم ان سے کہہ دو کہ عذارت باطلہ پیش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہم تمہاری بات کو کبھی سچ نہ مانیں گے ۔ اللہ تعالیٰ نے تمہارے احوال معلوم کرا دئیے ہیں ۔ عنقریب اللہ پاک تمہارے اعمال دنیا میں لوگوں کے سامنے ظاہر فرما دے گا اور تمہیں تمہارے اچھے برے سارے اعمال کی خبر دے دے گا اور اعمال کا نتیجہ بھی دیکھنا پڑے گا ۔ پھر ان سے متعلق مزید خبر دی گئی کہ وہ قسمیں کھا کھا کر بیان کریں گے تاکہ تم ان سے درگزر کر جاؤ اور چشم پوشی کر لو ۔ یہ اس وقت ہو گا جب تم مدینہ واپس ہو جاؤ گے ۔ لیکن تم ہرگز ان کی تصدیق نہ کرنا اور ان سے اظہار حقارت کے لئے اعراض کر جاؤ ۔ ان میں نفس کی گندگی ہے ، ان کے باطن اور ان کے اعتقاد نجس ہیں ، آخرت میں ان کا ٹھکانا دوزخ ہے یہ ان کے اعمال یعنی خطاکاریوں کا صحیح بدلہ ہے ۔ اور یہ بھی بتلا دیا تم ان سے قسمیں کھانے کے سبب راضی ہو بھی جاؤ تو اللہ تعالیٰ تو ان لوگوں سے راضی نہ ہو گا جو اللہ کی اطاعت اور رسولوں کی فرمابرداری سے باہر ہو گئے ہیں ۔ وہ لوگ فاسق ہیں اور فسق کے لغوی معنی باہر نکلنے کے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ «الفارۃ فویسقۃ» یعنی چوہا خرابیاں اور فساد پیدا کرنے کے لئے ہی اپنے بل سے نکلتا ہے ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے «فسقت الرطبۃ» یعنی ڈالیوں سے کجھور کے خوشے نکل آۓ ۔ التوبہ
95 التوبہ
96 التوبہ
97 دیہات، صحرا اور شہر ہر جگہ انسانی فطرت یکساں ہے اللہ تعالیٰ نے خبر دیٍ ہے کہ دیہاتیوں اور صحرا نشین بدؤں میں کفار بھی ہیں اور مومنین بھی ۔ لیکن ان کا کفر اور ان کا نفاق دوسروں کی بہ نسبت بہت عظیم اور شدید ہوتا ہے اور وہ اسی بات کے سزاوار ہیں کہ اللہ پاک نے اپنے رسول پر جو بھی حدود و احکام نازل فرمائے ہیں ان سے بےخبر ہیں ۔ جیسے کہ اعمش نے ابراہیم سے روایت کی ہے کہ ایک اعرابی بدوی زید بن صوحان رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا اور وہ اپنے ساتھیوں سے باتیں کر رہے تھے اور جنگ نہاوند میں ان کا ہاتھ کٹ گیا تھا ۔ اعرابی ان سے کہنے لگا کہ ” تمہاری باتیں تو بڑی پیاری ہیں اور تم بڑے اچھے آدمی معلوم ہوتے ہو لیکن یہ تمہارا کٹا ہوا ہاتھ مجھے تمہارے بارے میں شک پیدا کرتا ہے “ تو زید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ” میرے کٹے ہوئے ہاتھ سے تمہیں شک کیوں ہوتا ہے یہ تو بایاں ہاتھ ہے “ ۔ تو اعرابی نے کہا : ” واللہ ! میں نہیں جانتا کہ چوری میں بایاں ہاتھ کاٹتے ہیں یا دایاں ہاتھ ۔ تو زید بن صوحان بول اٹھے کہی اللہ عزوجل نے سچ فرمایا تھا کہ «الأَعرابُ أَشَدٰ کُفرًا وَنِفاقًا وَأَجدَرُ أَلّا یَعلَموا حُدودَ ما أَنزَلَ اللہُ عَلیٰ رَسولِہِ» یعنی یہ کفار اعراب اسی کے سزاوار ہیں کہ حدود اللہ سے نا واقف ہیں ۔ امام احمد رحمہ اللہ نے بالاسناد سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ” جو صحرا نشین ہو وہ گویا جلا وطن ہے اور جو شکار کے پیچھے دوڑا دوڑا پھرتا ہے بڑا ہی بے سمجھ ہے اور جس نے کسی بادشاہ کی ہمنشینی اختیار کی وہ فتنہ سے دوچار ہو گیا “ ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2859،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابوداؤد اور ترمذی ، نسائی میں بھی سفیان ثوری رحمہ اللہ سے یہ حدیث مروی ہے ۔ ترمذی رحمہ اللہ نے اسے حسن غریب بتایا ہے ۔ ثوری رحمہ اللہ سے روایت کے سوا اور کسی سے روایت کا ہمیں علم نہیں ۔ صحرا نشینوں میں چونکہ عموماً بدمزاجی اجڈپن اور بدتمیزی ہوتی ہے اس لئے اللہ عزوجل نے ان میں اپنا رسول نہیں پیدا کیا ۔ بعثت نبوت ہمیشہ شہری اور مہذب لوگوں میں ہوا کرتی ہے ۔ جیسا کہ اللہ پاک نے فرمایا ہے کہ «وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِکَ إِلَّا رِجَالًا نٰوحِی إِلَیْہِم مِّنْ أَہْلِ الْقُرَیٰ» ۱؎ (12-یوسف:109) یعنی ہم نے تم سے پہلے بھی جتنے رسولوں کو انسانوں کی طرف بھیجا وہ سب شہری اور متمدن بستیوں کے لوگ تھے ۔ ایک مرتبہ ایک اعرابی نے اپنا ہدیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھیجا تو اس وقت تک اس کا دل خوش نہ ہوا جب تک کہ اس سے کئی گناہ زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے پاس نہ بھیج دیا ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” اب سے میں نے تو ارادہ کر لیا ہے کہ قریشی ، ثقفی ، انصاری اور دوسی کے سوا کسی کا ہدیہ قبول نہ کروں گا ۔ ۱؎ (مسند احمد:2687:صحیح) دعاؤں کے طلبگار متبع ہیں، مبتدع نہیں! کیونکہ یہ لوگ متمدن شہری ہیں مکہ ، طائف ، مدینہ اور یمن میں رہتے ہیں اخلاق میں یہ بدویوں سے بہت اچھے ہوتے ہیں کیونکہ اعرابی بہت اجڈ ہوتے ہیں ۔ حدیث مسلم بالاسناد سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ چند بدوی اللہ کے رسول ﷺ کی پاس حاظر ہوئے اور کہنے لگے : ” کیا تم اپنے بچوں کو چومتے ہو ؟ تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا ہاں ۔ تو انہوں نے کہا : ” لیکن اللہ کی قسم ہم نہیں چومتے “ ۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” اگر اللہ نے تمہارے دلوں سے محبت اور رحمت کو نکال دیا ہے تو کیا میں اس کا ذمہ دار ہوں “ ؟ ۱؎ (صحیح بخاری:5998) اور اللہ خوب واقف ان لوگوں سے جو اس بات کے مستحق ہیں کہ انہیں علم اور ایمان کی توفیق دی جائے اور اس نے اپنے بندوں میں علم ، جہل ایمان ، کفر اور نفاق کی تقسیم بڑی دانشوری سے کی ہے ۔وہ اپنی حکمت اور علم کی بنا پر جو کچھ کرتا ہے کون اس پر حرف گیری کر سکتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ ان میں ایسے کم حوصلہ بھی ہیں کہ اللہ کی راہ میں اگر وہ کچھ خرچ کرتے ہیں تو اس کو تاوان اور خسارہ سمجھ بیٹھتے ہیں ، اور تم پر حوادث و آفات کے منتظر ہیں ۔ لیکن یہ حوادث انہیں پر منعکس ہوں گے اور گھوم ہھر کر انہیں پر نازل ہوں گے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی پکار کو سننے والا ہے ۔ اور اس بات کو جانتا ہے کہ ذلت خذلان و نامرادی کا مستحق کون ہے اور نصرہ و کامیابی کا کون سزاوار ہے ؟ اور اعراب کی ایک اور قسم ممدوح ہے یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں تو اس اللہ کے پاس قربت اور پسندیدگی کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس کے سبب اپنے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائے خیر حاصل ہو ۔ ہاں یقیناً یہ انفاق ان کے لئے قربت الہٰی کا سبب ہوگا اور اللہ پاک ان کو اپنی رحمت میں داخل فرمائے گا ۔ اللہ بڑا غفور و رحیم ہے ۔ التوبہ
98 التوبہ
99 التوبہ
100 سابقوں کو بشارت اللہ تعالٰی خبر دے رہا ہے کہ میں ان مہاجرین اور انصار اور تابعین سے راضی ہوں جنہوں نے میری رضا مندی اور خوشنودی حاصل کرنے میں سبقت کی ہے اور میری خوشنودی اس طرح ثابت ہے کہ میں نے ان کے لئے جناتِ نعیم تیار کر رکھی ہے ۔ شعبی رحمہ اللہ کہتے ہیں ان سے مراد وہ مہاجر و انصار میں سے سابقین و اولین وہ ہیں جنہوں نے صلح حدیبیہ میں بیت رضوان کا شرف حاصل کیا اور شعبی رحمہ اللہ سیدنا موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہما اور سعید بن المسیّب اور محمد بن سیرین اور حسن اور قتادہ رحمہ اللہ علیہم نے کہا یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قبلتین کی طرف نماز پڑھی تھی ۔ محمد بن کعب رحمہ اللہ القرظی کہتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ایک آدمی کے پاس سے گزرے اور وہ یہ آیت پڑھ رہاتھا «وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُہَاجِرِینَ وَالْأَنصَارِ» (9-التوبۃ:100) تو عمر رضی اللہ عنہما نے اس کا ہاتھ تھام لیا اور پوچھا کہ کس نے تمھیں یہ پڑھایا ہے ؟ تو کہنے لگا کہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے ! تو کہنے لگے اچھا چلو میں تمھیں ابی کے پاس لے چلتا ہوں تا کہ پوچھ لوں ۔ اور جب حضرت ابی رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے تو پوچھا ، کیا تم نے اس آیت کو اس طرح پڑھنا بتایا ہے ؟ تو ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا ہاں فرمایا تو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح سنا ہے ؟ کہا ہاں ! تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کہنے لگے کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ ہم نے وہ اعلٰی و ارفع درجہ پا لیا ہے کہ ہمارے بعد کوئی دوسرا یہ منزلت حاصل نہیں کر سکتا ۔ تو ابی رضی اللہ عنہ کہنے لگے اس آیت کی تصدیق سورۃ جمعہ کے اول میں بھی ہے ۔ یعنی «وَآخَرِینَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوا بِہِمْ وَہُوَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ» ( 62-الجمعۃ : 3 ) اور سورۃ الحشرمیں بھی «وَالَّذِیْنَ جَاءُوْ مِنْ بَعْدِہِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بالْاِیْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِنَّکَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ» ( 59- الحشر : 10 ) اور سورۃ الانفال میں بھی ہے ۔ «وَالَّذِینَ آمَنُوا مِن بَعْدُ وَہَاجَرُوا وَجَاہَدُوا مَعَکُمْ فَأُولٰئِکَ مِنکُمْ» ( 8- الانفال : 75 )الخ ابن جریر رحمہ اللہ نے اس کی روایت کی ہے اور کہا کہ حسن بصری «وَالْاَنٰصَارِ» کے لفظ پڑھتے ہیں ۔ اور «وَّالسّٰبِقُوْنَ اَلْاَوَّلُوْنٗ» پر عطف قرار دیتے تھے ۔ گویا عبارت یوں ہوئی کہ مہاجرین میں سے سابقین اولین اور انصار اور ان کے تابعین سے اللہ راضی ہے ۔ افسوس کیا کم بختی ہے ان لوگوں کی جو ان صحابہ رضی اللہ عنہم سے بغض رکھتے ہیں انہیں گالیاں دیتے ہیں یہ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم کو سبٰ و شتم کرتے ہیں ، خصوصاً وہ صحابی جو تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کا سردار ہے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا جانشین ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اسی کا درجہ ہے جس کو افضل صحابہ رضی اللہ عنہ کا درجہ حاصل ہے یعنی سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہما اور خلیفہ اعظم ابوبکر بن ابی قحافہ رضی اللہ عنہما یہ رافضیوں کا بامراد فرقہ افضل صحابی سے دشمنی رکھتا ہے انہیں گالی گلوچ کرتا ہے ۔ ایسی حرکت سے اللہ کی پناہ ۔ یہ چیز اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ انکی عقلیں اوندھی ہو گئی ہیں ان کے قلوب الٹ گئے ہیں ، اگر وہ کمبخت ان لوگوں کو گالیاں دیں جن سے اللہ راضی ہو چکا ہے اور قرآن میں اپنی رضا مندی کی انھیں سند دے دی تو پھر کسی منہ سے وہ قرآن پر ایمان لانے کا دعویٰ کرتے ہیں اب قرآن پر ایمان ہی کہاں رہا ؟ اہل سنت ان لوگوں کی قدر کرتے ہیں اور ان سے راضی ہیں جن سے اللہ راضی ہے اور یہ اہل سنت برا بھلا کہتے ہیں تو ان کو جنہیں خعد اللہ نے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے برا کہا ہے اور ان لوگوں کو دوست رکھتے ہیں جن کو اللہ دوست رکھتا ہے اور ان کے مخالف ہیں کہ اللہ خود جن کا مخالف ہے یہ اتباعِ ہدایت کرتے ہیں بدعتی نہیں ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا کرتے ہیں اور مذہب و اعتقادات میں نئے نئے شاخسانے نہیں نکالتے ۔ فلاح پانے والے اور مومن بندوں کی جماعت یہی ہے ۔ التوبہ
101 منافقت کے خوگر شہری اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دے رہا ہے کہ عرب کے قبائل میں جو مدینہ کے اطراف میں رہتے ہیں بعض منافق ہیں اور خود مدینہ کے رہنےوالے بعض مسلمان بھی درحقیقت منافق ہیں کہ اپنے نفاق کو لیے چل رہے ہیں اور منافقت سے باز نہیں آتے ۔ چنانچہ کہا جاتا ہے شیطان مریدو مارد ۔ اور «تَمَرَّدَ فُلاَنٌ عَلَی اللّٰہِ» یعنی فلاں نے اللہ کی نافرمانی اور سرکشی کی ۔ اللہ کا قول «لَا تَعۡلَمُہُمۡ نَحۡنُ نَعۡلَمُہُمۡ» اللہ کے اس قول «وَلَوْ نَشَاءُ لَأَرَیْنَاکَہُمْ فَلَعَرَفْتَہُم بِسِیمَاہُمْ وَلَتَعْرِفَنَّہُمْ فِی لَحْنِ الْقَوْلِ» ( 47-محمد : 30 ) کے منافی و متضاد نہیں ہے یعنی تم انہیں نہیں پہچانتے ، ہم انہیں خوب جانتے ہیں اور یہ قول ہے کہ اگر ہم چاہیں تو ہم تمھیں بتلا دیں گے کہ وہ کیسے ہیں تو پھر تم انہیں جان جاؤ گے ان کی صورت دیکھتے ہی اور انہیں پہچان لو گے ان کی کج مج باتوں ہی سے ۔ یہ دونوں آیتیں آپس میں ضد نہیں ، اس لئے کہ یہ اس قسم کی چیز ہے کہ اس کے ذریعہ ان کی صفات کی نشاندہی کی گئی ہے تاکہ وہ پہچان جا سکیں یہ بات نہیں کہ تم تمام ہی منافقین کو علی الیقین جانتے ہو ۔ آپ اہل مدینہ میں سے صرف ان بعض اہل نفاق کو جانتے تھے جو رات دن ملتے جلتے رہتے تھے اور جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح و شام دیکھتے تھےصحیح طور پر اس کی تصدیق اس روایت سے بھی ہوتی ہے ، جو امام احمد رحمہ اللہ نے بالاسناد سیدنا جبیر بن معطم رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ جبیر فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !وہ لوگ گمان کرتے ہیں کہ مکہ میں ہمیں کوئی اجر نہیں ملا ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے جبیر!رضی اللہ عنہ تم لوگوں کا اجر تم کو ضرور دیاجائے گا خوان تم لوگ لومڑی کے بھٹ ہی میں کیوں نہ ہو ۔ پھر آپ نے میری طرف سر جھکا کر رازدانہ طور پر فرمایا کہ میرے اصحاب میں بعض منافق بھی ہیں ۔ (مسند احمد:82/4-83:ضعیف) مطلب یہ ہے کہ بعض منافقین ایسی کج مج باتیں بولتے رہتے ہیں جن میں کوئی صداقت نہیں ہوتی چنانچہ یہ بھی ایک اسی قسم کا کلام تھا جس کو جبیر بن معطم رضی اللہ عنہ نے سنا تھا ۔ «وَہَمٰوا بِمَا لَمْ یَنَالُوا» ( 9-التوبہ : 74 ) کی تفسیر میں یہ بات گزر چکی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمنے حذیفہ کو یہ بات معلوم کرا دی تھی کہ چودہ یا پندری شخص اصحاب ایسے ہیں جو دع حقیقت منافق ہیں اور یہ تخصیص اس بات کی متقاضی نہیں آپ ان تمام کے نام جانتے تھے اور ان کے تشخّص سے واقف تھے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» حافض ابن عساکر نے ترجمہ ابو عمر البیروتی میں بالاسناد روایت کرتے ہوئے کہا کہ ایک آدمی جس کا نام حرملہ تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا کہ ایمان تو یہاں ہے اور اشارہ کیا اپنی زبان کی طرف اور نفاق یہاں ہوتا ہے اور اشارہ کیا اپنے ہاتھ سے اپنے قلب کی طرف اور اللہ کا نام بھی لیا تو کچھ یونہی سا ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا کہ اے اللہ !تو اس کی زبان کو ذاکر بنا دے اورقلب کو شاکر بنا دے اور اس کو میری محبت عطا فرما اور مجھ سے محبت کرنے والوں کو محبت عطا فرما اور اس کے سارے امور خیر کی طرف پھیر دے ۔ اب اس کی ساری منافقت دور ہو گئی اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم میرے اکثر ساتھی منافقین ہیں اور میں ان سب کا سردار تھا کیا ان سب کو میں آپ کے پاس پکڑ کر نہ لاؤں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو آپ ہی میرے پاس آئے گا تو ہم اس کے لئے اللہ سے مغفرت چاہیں گے اور جو نفاق پر اصرار کئے رہے گا اللہ اس کو دیکھ لے گا ۔ تم کسی کا راز فاش نہ کرو ایسی ہی روایت ابو احمد الحاکم نے بھی کی ہے ۔ (مختصر تاریخ دمشق لابن منظور:76/29:ضعیف) اس آیت کے بارے میں قتادہ رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ ان لوگوں کو کیا ہو گیا جو بے تکلف لوگوں کے بارے میں جانتا ہے کہ دوزخی ہیں یا جنتی وہ تو ایسی بات کا دعویٰ کر بیٹھے ہیں جس کا دعویٰ تو انبیاء نے بھی نہیں کیا ۔ اللہ کے نبی حضرت نوح علیہ السلام نے کہا تھا کہ «وَمَا عِلْمِی بِمَا کَانُوا یَعْمَلُونَ» ( 26-الشعراء : 112 ) یعنی میں نہیں جانتا کہ وہ کیا کرتے ہیں ۔ اللہ کے نبی شعیب علیہ السلام نے فرمایا «بَقِیَّتُ اللہِ خَیْرٌ لَّکُمْ إِن کُنتُم مٰؤْمِنِینَ وَمَا أَنَا عَلَیْکُم بِحَفِیظٍ» (11-ہود:86) اللہ تعالیٰ کے پاس تمھارے لئے خیر ہے اگر تم مومنین ہو ، اور میں تم پر کوئی نگران تو نہیں ۔ اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے فرمایا «لاَتَعْلَمُہُمْ نَحْنُ نَعْلَمُہُمْ» تو انہیں نہیں جانتا ہم ہی جانتے ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس آیت کے بارے میں مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک روز جمعہ کا خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ اے فلاں فلاں لوگو ! تم مسجد سے نکل جاؤ کہ تم منافق لوگ ہو ۔ چنانچہ رسوائی کے ساتھ وہ مسجد سے نکالے گئے ۔ وہ مسجد سے نکل رہے تھے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ یہ سمجھ کر کہ لوگ پلٹ رہے ہیں تو شاید نماز جمعہ ہو چکی ہے شرما گئے اور شرم کے مارے ان لوگوں سے اپنے آپ کو چھپانے لگے اور یہ لوگ بھی اپنے کو عمر رضی اللہ عنہ سے چھپانے لگے یہ سمجھ کر کہ عمر رضی اللہ عنہما کو بھی ہمارے اس نفاق کا عل ہو گیا ہے غرض سیدنا عمر رضی اللہ عنہما مسجد میں آئے تو معلوم ہوا کہ ابھی نماز نہیں ہوئی اور ایک مسلمان نے انہیں اطلاع دی اور کہا کہ اے عمر رضی اللہ عنہ خوش ہو جاؤ کہ آج منافقین کو اللہ نے رسوا کر دیا ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ یہ مسجد سے نکالا جانا عذابِ اوّل ہے اور عذاب ثانی عذاب دنیا اور عذاب قبر ہو گا ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:17137:ضعیف) ثوری رحمہ اللہ نے بھی بالاسناد یہی کہا ہے مجاہد رحمہ اللہ نے قولہ تعالیٰ «سَنُعَذَّبُھُمْ مَزَّبَیْنِ» کے بارے میں کہا ہے کہ اس سے مراد قتل اور قید ہے اور ایک دوسری روایت میں بھوک اور عذابِ قبر سے تعبیر کی گئی ہے ۔ پھر وہ عذاب عظیم کی طرف روکے جائیں گے ابن جریج رحمہ اللہ کا قول ہے کہ عذاب قبر مراد ہے پھر وہ عذاب عظیم یعنی عذاب روزخ میں مبتلا کئے جائیں گے ، حسن بصری رحمہ اللہ نے کہا ہے دنیا کا اور قبر کا عذاب مراد ہے ۔ عبدالرحمٰن بن زید کہتے ہیں کہ دنیا کا عذاب اموال اور اولاد کے فتنہ کا عذاب ہے پھر اللہ کا یہ قول پڑھ کر سنایا «وَلَا تُعْجِبْکَ أَمْوَالُہُمْ وَأَوْلَادُہُمْ إِنَّمَا یُرِیدُ اللہُ أَن یُعَذِّبَہُم بِہَا فِی الدٰنْیَا» ( 9- التوبہ : 55 ) یعنی ان کافروں کے اموال اور اولاد تم کو حسد میں مبتلا نہ کر دیں اللہ کا منشا یہ ہے کہ ان چیزوں کے ذریعہ دنیا کی زندگی ہی میں اللہ انہیں عذاب میں مبتلا کر دے کیونکہ یہ مصائب ان کے لئے عذاب ہیں لیکن مومنین کے لئے باعث اجر ہیں اور آخرت کے عذاب سے مراد دوزخ کا عذاب ہے ۔ محمد بن اسحاق رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ پہلے عذاب سے مراد وہ عذاب ہے جو اسلام کے پھیل جانے سے انہیں پہنچا ہے اور بے انتہا رنج و افسوس جو ان پر طاری ہوا ہے ۔ دوسرا عذاب قبر کا عذاب ہے اور عذاب عظیم وہ ہےجو آخرت میں انہیں ملے گا اور ہمیشہ ہمیشہ کا ملے گا ۔ سعید نے قتادہ رحمہ اللہ سے روایت کرتے ہوئے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حذیفہ رضی اللہ عنہ کے کان میں کہا کہ بارہ منافقین ہیں ان میں سے چھ کو دبیلہ کافی ہے یہ نار جہنم کا ایک شعلہ ہو گا جو ان کے کاندھے پر لگے گا تو سینے تک پہنچے گا یعنی پیٹ کے درد اندرونی بیماریوں اور دمبلوں سے مریں گے اور چھ اپنی موت سے مر جائیں گے ۔ سعید رحمہ اللہ نے ہم سے بیان کیا کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جب کوئی مرتا اور وہ ان کی نظر میں مشتبہ ہوتا تو حذیفہ رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھتے ۔ اگر وہ اس میت کی نماز جنازہ پڑھتے تو خود بھی پڑھتے ، یہ یقین کرکے کہ یہ میت ان بارہ منافقین میں سے نہیں ہے اور حذیفہ رضی اللہ عنہ اگر نہ پڑھتے تو پھر خود بھی نہ پڑھتے ، معلوم ہوا ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے یہ بھی پوچھا تھا کہ اللہ کی قسم بتادو کہ میں ان بارہ میں سے تو نہیں ہوں تو حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم نہیں ہو ، لیکن تمھارے سوا میں کسی اور ی ذمہ داری نہیں لیتا ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:17145:مرسل و ضعیف) التوبہ
102 تساہل اور سستی سے بچو جب اللہ تعالیٰ ان منافقوں کا حال بیان کر چکا جو مسلمانوں کے ساتھ جہاد میں شریک ہونے سے رکے گئے تھے ۔ اور شریک جنگ سے بے رغبتی ، تکذیب اور شک کا مظاہرہ کرتے تھے تو پھر ان گنہگاروں کا ذکر شروع کرتا ہے جو جہاد میں شریک ہونے سے باز رہے تھے صرف سستی اور آرام طلبی کے سبب حالانکہ انہیں تصدیق حق اور ایمان حاصل تھا ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان منافقین کے سوا اور دوسرے لوگ جو جہاد سے دک رہے ، انہوں نے اپنے قصور کا اعتراف و اقرار کر لیا ۔ لیکن یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کے دوسرے اعمال صالحہ بھی ہیں ، اور ان اعمال صالحہ کے ساتھ اپنی بعض تقصیرات جیسے جہاد سے باز رہنا بھی انہوں نے شامل کر دیا ہے لیکن ان کی اس تقصیر کو اللہ پاک نے معاف فرما دیا ہے ۔ اور ان منافقین کی تقصیر کو وہ معاف نہیں کرے گا اور ان کے کوئی اعمال صالح ہیں بھی نہیں ۔ یہ آیت اگرچہ چند معین اشخاص کے بارے میں نازل ہوئی ہے لیکن سارے مخلص خطاکاروں اور گنہگاروں پر بھی عام ہے ۔ اور مجاہد رحمہ اللہ کا قول ہے کہ یہ ابولبابہ ‏‏‏‏‏‏‏رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے جب انہوں نے بنی قریظہ سے کہا تھا کہ یہ ذبح کی جگہ ہے اور ہاتھ سے اپنے حلق کی طرف اشارہ کیا تھا ۔ سیدنا ابن عباس ‏‏رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ «اَخَرُوْنَ» سے مراد ابولبابہ اور ان کے اصحاب کی جماعت ہے جو غزوہ تبوک میں شرکت جہاد سے پہلو تہی کئے ہوئے تھے ۔ بعض نے کہا ہے کہ ابو لبابہ کے ساتھ پانچ آدمی اور تھے ، یا سات تھے ، یا نو تھے ، اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک سے واپس ہوئے تو ان لوگوں نے اپنے آپ کو مسجد کے ستونوں سے باندھ دیا اور قسم کھا لی تھی کہ جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود ہم کو نہ کھولیں ، ہم نہ کھولیں جائیں ۔ اور جب یہ آیت «وَآخَرُونَ اعْتَرَفُوا بِذُنُوبِہِمْ» نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کھول دیا اور ان کا جنگ سے کوتاہی کا قصور معاف کر دیا ۔ امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آج کی رات دو آدمی میرے پاس آئے اور مجھے ایک ایسے شہر تک لے آئے جو چاندی اور سونے کی اینٹوں سے بنا ہوا تھا وہاں ہمیں بعض ایسے آدمی دکھائی دئیے کہ ان کا آدھا حصہ تو نہایت ہی خوش منظر تھا اور دوسرا آدھا حصہ جسم نہایت ہی بد صورت کہ دیکھنے کو جی نہ چاہے ۔ میرے ان ساتھیوں نے ان سے کہا کہ تم اس نہر میں غوطہ لگاؤ وہ غوطہ لگا کر جب باہر نکلے تو ان کا یہ عیب جاتا رہا اور ان کے اجسام سب کے سب حسین دکھائی دیتے تھے ۔ میرے ساتھیوں نے مجھ سے کہا کہ یہ جنت عدن ہے اور یہی تمھاری منزل ہے اور کہا کہ وہ لوگ جن کا آدھا جسم خوبصورت سا تھا اور آدھا جسم نہایت بد صورت سا تھا سو اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اعمال نیک کے ساتھ اعمال بد بھی ملا رکھے تھا اور اللہ عز و جل کی حدود سے تجاوز کر گئے تھے ۔ (صحیح بخاری:4674:صحیح) اس آیت کی تفسیر میں امام بخاری رحمہ اللہ نے مختصراً اسی طرح روایت کی ہے ۔ التوبہ
103 صدقہ مال کا تزکیہ ہے اللہ تعالیٰ نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ ان کے اموال سے زکٰوۃ وصول کر لیا کرو یہ مال زکٰوۃ ان کو پاک اور صاف بنائے گا ۔ اگرچہ بعض لوگوں نے «اَمْوَالِھِمْ» کی ضمیر ان لوگوں کی طرف پھیری ہے جنہوں نے اپنے گناہوں کا اعتراف کر لیا تھا اور اچھے اور برے دونوں قسم کے اعمال کئے تھے ۔ لیکن در حقیقت یہ حکم خاص نہیں بلکہ عام ہے اسی لئے قبائل عرب میں سے بعض مانعین زکٰوۃ نے یہ اعتقاد کر لیا تھا کہ امام کو زکٰوۃ لینے کا حق نہیں ، اور یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مخصوص تھی اور اسی لئے قولہ تعالیٰ «خُذۡ مِنۡ اَمۡوَالِہِمۡ صَدَقَۃً» سے انہوں نے دلیل لی ہے ۔ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور تمام صحابہ رضی اللہ عنہم نے ان کی تاویل اور فہم فاسد کی تردید کر دی اور ان سے جنگ کی تب کہیں انہوں نے خلیفہ وقت کو زکوٰۃ ادا کی جیسا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ادا کیا کرتے تھے ۔ حتیٰ کہ سیدنا صدیق رضی اللہ عنہما نے فرمایا تھا کہ ” اگر اونٹنی کا ایک بچہ یا رسی کا ایک ٹکڑا بھی مال زکٰوۃ کا روک لیں گے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم لو ادا کرتے تھے تو منع زکٰوۃ پر میں ان سے قتال کروں گا “ ۔ (صحیح بخاری:1400:صحیح) قولہ تعالیٰ «وَ صَلِّ عَلَیۡہِمۡ» یعنی ان کے لئے دعا کرو اور طلبِ مغفرت کرو جیسا کہ صحیح مسلم میں عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب کسی کے پاس سے زکٰوۃ کا مال آتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم حسبِ حکم الٰہی اسکے لئے دعا کرتے تھے چنانچہ جب میرے باپ نے مال زکٰوۃ پیش کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اے اللہ ! ” آل ابی اوفی پر رحم فرما “ (صحیح مسلم:1087:صحیح) ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ایک عورت نے کہا کہ یا رسول اللہ ! میرے اور میرے زوج کے لئے دعا فرمائیے تو کہا کہ اللہ تیرے اور تیرے زوج پر رحم و کرم فرمائے ۔ (سنن ابوداود:1533 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) قولہ تعالٰی «اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّہُمۡ» تمھاری دعا ان کے لئے سکونِ قلب کا سبب ہے بعض نے صلٰوۃ کو جمع قرار دے کر صَلَوَاَتُک پڑھا ہے اور دوسروں نے واحد قرار دے کر «اِنَّ صَلَاتَکَ» پڑھا ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا ہے کہ سکوں کے معنی رحمت کے ہیں اور قتادہ رحمہ اللہ نے کہا ہے اس کے معنی ہیں وقار «وَ اللّٰہُ سَمِیۡعٌ» یعنی اے نبی !صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تمھاری دعاؤں کو سننے والا ہے ۔ اور علیم ہے کہ کون تمھاری دعا کا مستحق ہے ؟ امام احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ وکیع نے بالاسناد روایت کی ہے کہ نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کے لئے دعا فرماتے تھے تو وہ اس کے اور اس کے بیٹوں اور پوتوں کے حق میں قبول ہو جاتی تھی ۔ (مسند احمد:385/5:ضعیف) پھر ابو نعیم سے بالاسناد مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کسی آدمی اور اس کے بیٹوں اور پوتوں کے حق میں ضرور قبول ہو جاتی تھی ۔ (مسند احمد:400/5:ضعیف) اور اللہ کا قول ہے «أَلَمْ یَعْلَمُوا أَنَّ اللہَ ہُوَ یَقْبَلُ التَّوْبَۃَ عَنْ عِبَادِہِ وَیَأْخُذُ الصَّدَقَاتِ» (9-التوبۃ:104) یعنی کیا انہیں اس کا علم نہیں کہ اللہ تعالیٰ بندوں کی نیکیوں کو لیتا ہے اور توبہ قبول فرماتا ہے ۔ اس سے مقصد توبہ اور صدقہ پر لوگوں کو ابھارنا ہے کیونکہ یہی دونوں چیزیں گناہوں کو انسان سے چھڑا دیتی ہیں اور معاصی کو ملیامیٹ کر دیتی ہیں ۔ اور اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ جو اس کے پاس توبہ پیش کرے وہ بندے کی توبہ قبول کر لیتا ہے اور کسب حلال کا ٹکڑا بھی صدقہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو اپنے سیدھے ہاتھ سے لے لیتا ہے پھر وہ صدقہ دینے والے کے لئے اس صدقہ کی پرورش کرتا جاتا ہے اور اس کو چھوٹے سے بڑا بناتا ہے حتٰی کہ صدقہ کی وہ ایک کھجور کوہِ احد کی مانند ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ اسی حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے اور جیسا کہ وکیع نے بھی بالاسناد سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ صدقے کو قبول فرماتا ہے اور اس کی اپنے سیدھے ہاتھ میں لیتا ہے اور اس کی نشوونما کرتا ہے جیسا کہ تم اپنے گھوڑے ے بچے کو پال کر بڑا کرتے ہو یہاں تک کہ صدقہ کا ایک لقمہ بھی احد کا پہاڑ بن جاتا ہے ۔ (مسند احمد:401/2:منکر بزیادۃ و تصدیق ذلک) اسکی تصدیق کتاب اللہ عز و جل سے بھی ہوتی ہے ” کیا انہیں علم نہیں کہ اللہ اپنے بندوں کی توبہ کو قبول کرتا ہے اور زکٰوۃ و صدقات کو لے لیتا ہے اور قولہ تعالیٰ «یَمْحَقُ اللہُ الرِّبَا وَیُرْبِی الصَّدَقَاتِ» (2-البقرۃ:276) ۔ یعنی اللہ تعالیٰ سود کے منافع کو برباد کر دیتا ہے اور صدقات کو اضعافاً مضاعفاً بڑھاتا رہتا ہے ۔ ثوری رحمہ اللہ نے بالاسناد سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ صدقہ کا مال سائل کے ہاتھ میں پڑنے سے پہلے اللہ کے ہاتھ میں پڑتا ہے ۔ پھر سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے یہ آیت پڑھی «اَلَمۡ یَعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ ہُوَ یَقۡبَلُ التَّوۡبَۃَ عَنۡ عِبَادِہٖ وَ یَاۡخُذُ الصَّدَقٰتِ » ابن عساکر رحمہ اللہ نے اپنی تاریخ میں بہ ضمن تاریخ عبداللہ بن الشاعر سکسکی ( جو دمشقی تھے لیکن اصل وطن حمص تھا اور فقہا میں سے تھے ) بیان کیا کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانے میں لوگوں نے جہاد کیا جن کے سردار عبدالرحمٰن بن خالد بن ولید رحمہ اللہ تھے ، تو ایک مسلمان نے مال غنیمت میں سے سو دینار رومی غبن کر لئے اور جب لشکر واپس ہو گیا اور لوگ گھروں کو چلے گئے تو اس کو ندامت نے آ گھیرا ۔ اس نے یہ دینار اب امیر لشکر کے پاس پہنچائے ۔ اس نے ان کے لینے سے انکار کر دیا کہ وہ سب لوگ تو اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے جن میں یہ تقسیم کیا جا سکتا تھا ۔ اب تو میں اس کو لے نہیں سکتا اب تم قیامت کے روز اس کو اللہ کے سامنے پیش کر دینا ۔ اب یہ آدمی صحابہ میں سے ہر ایک سے پوچھتا رہا لیکن سب یہی کہتے رہے ۔ پھر وہ دمشق آیا اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو قبول کرنے کے لیے کہا لیکن وہ بھی انکار کر گئے ۔ وہ وہاں سے اپنی حالت پر روتا ہوا نکلا اور عبداللہ بن الشاعر السکسکی کے پاس سے گزرا ۔ اس نے پوچھا کیوں روتا ہے ؟ اس نے سارا واقعہ کہہ سنایا کہ کوئی امیر بھی ان کو نہیں لیتا ۔ تو عبداللہ نے کہا کہ تم میری سنو گے اس نے کہا ضرور ۔ تو اس نے کہا تم سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ اورکہو کہ پانچواں حصہ جو بیت المال کا حق ہے لے لو ۔ چنانچہ بیس دینار ان کے حوالے کر دو اور باقی اسی دینار ان لشکریوں کی طرف سے خیرات کر دو جو ان کے حق دار ہوسکتے تھے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ ان کے ناموں اور مقامات وغیرہ سے بھی واقف ہے وہ انہیں اس کا ثواب پہنچا دے گا ۔ تو اس آدمی نے ایسا ہی کیا ۔ تو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر میں نے اس کو ایسا فتویٰ دیا ہوتا تو مجھے یہ بات اپنی تمام مملکت سے زیادہ محبوب تھی ۔ اس نے بہت اچھی تدبیر بتائی ہے ۔ التوبہ
104 التوبہ
105 . مجاہد رحمہ اللہ کا قول ہے کہ یہ مخالفین امر اللہ کے لئے اللہ کی طرف سے وعید ہے کہ ان کے اعمال اللہ تبارک و تعالیٰ کے سامنے پیش کئے جائیں گے ۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنین میں بھی ان کے اعمال ظاہر کئے جائیں گے اور قیامت کے روز یہ ہونا ضرور ہے ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ «یَوْمَئِذٍ تُعْرَضُونَ لاَ تَخْفَی مِنکُمْ خَافِیَۃٌ» ( 69-الحاقۃ : 18 ) یعنی بروز قیامت تمھارے اعمال پیش ہوں گے اور کوئی ڈھکی چھپی بات بھی پوشیدہ نہ رہ سکے گی ۔ اور فرمایا اللہ پاک نے «یَوْمَ تُبْلَی السَّرَآئِرُ» ( 86-الطارق : 9 ) یعنی دلوں کے چھپے ہوئے بھید ظاہر ہو جائیں گے اور فرمایا «وَحُصِّلَ مَا فِی الصٰدُورِ» ( 100-العادیات : 10 ) یعنی دلوں میں جو کچھ ہے وہ ظاہر ہو جائے گا اور دنیا کے لوگ اس سے واقف ہو جائیں گے جیسا کہ امام احمد رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ حسن بن موسیٰ نے باسناد مرفوعاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ حضرت نے فرمایا کہ اگر تم میں سے کوئی سخت پتھر کے اندر بھی سما جائے جس میں نہ کوئی سوراخ باقی رہے نہ دروازہ اس کے اندر بھی چھپ کر کوئی کوئی عمل کرے تو اللہ تعالیٰ اس کو بھی لوگوں پر ایسا ظاہر کردے گا گویا یہ ان کے سامنے ہوا ہے ۔ (مسند احمد:28/3:ضعیف) اور حدیث مین وارد ہے کہ زندوں کے اعمال ان اموات پر پیش کئے جاتے ہیں جو ان کے عزیز و اقارب ہیں یا ان کے قبائل ہیں اور جو اس وقت عالم برزخ میں ہیں جیسا کہ ابوداؤد الطیالسی نے کہا ہے ۔ صلت بن دینار نے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمھارے اعمال تمھارے مردہ اقرباء اور عشائر پر ان کی قبروں میں پیش کئے جاتے ہیں ، اگر اعمال خیر ہوتے ہیں تو وہ خوش ہو جاتے ہیں اور اگر بد ہوں تو دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ !تو اپنی اطاعت کی انہیں توفیق عطا فرما ۔ (مسند طیالسی :1794:ضعیف) امام احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ عبدالرزاق نے ہمیں خبر دی کہ سفیان نے ایک شخص کو کہتے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ تمھارے اعمال تمھارے مردہ اقارب و عشائر پر پیش کئے جاتے ہیں اگر وہ اچھے عمل ہوں تو وہ مردے خوش ہو جاتے ہیں اور اچھے نہ ہوں تو کہتے ہیں کہ اے اللہ ! تو انہیں موت نہ دے جب تک تو انہیں بھی ایسی ہدایت نہ دے جیسی تو نے ہمیں دی تھی ۔ (مسند احمد:165/3:ضعیف) امام بخاری رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ ام المؤمنین عائشہرضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ جب کسی مسلمان کی عمل نیک تمھیں پسند خاطر ہوتو کہو کئے جاؤ اللہ تمھارے عمل کو دیکھ رہا ہے اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنین بھی اس سے واقف ہو رہے ہیں ۔ (صحیح بخاری ، تعلیقاً:کتاب التوحید:3530) اسی قسم کی ایک اور حدیث میں وارد ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ نے کہا کہ بالاسناد سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی کے اچھے عمل کو دیکھ کر خوش نہ ہو جاؤ انتظار کرو کہ اس کا خاتمہ بھی اس عمل نیک پر ہوتا ہے یا نہیں ۔ اس لئے کہ عامل ایک زمانہ طویل تک نیک عمل کرتا رہتا ہے اور وہ اس نیک عمل پر مر جائے تو جنت میں داخل ہو جائے لیکن ناگہاں اس کے حالات بدل جاتے ہیں اور وہ برے اعمال کرنے لگتا ہے ۔ اور ایک بندہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک زمانے تک برے اعمال کرتا رہتا ہے کہ اگر اسی پر مر جائے تو دوزخ میں چلا جائے گا لیکن یکایک اس کی کایا پلٹ جاتی ہے اور وہ نیک عمل کرنے لگتا ہے ۔ اللہ جب اپنے کسی بندے کے ساتھ خیر کا ارادہ فرمائے تو موت سے پہلے اس کو نیکی کی توفیق دے دیتا ہے اور وہ نیکی پر مرتا ہے ۔ لوگوں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ کیسے ہوتا ہے ؟ تو فرمایا کہ قبض روح کے وقت وہ عمل صالح کے ساتھ ہوتا ہے ۔ (مسند احمد:120/3:صحیح) التوبہ
106 . سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور مجاہد اور عکرمہ اور ضحاک رحمہ اللہ علیہم وغیرہ نے کہا کہ یہ تین شخص تھے کہ جن کی توبہ کی قبولیت پیچھے پڑ گئی تھی اور وہ مرارہ بن ربیع اور کعب بن مالک اور ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہم تھے اور غزوہ تبوک میں یہ بھی ان لوگوں کے ساتھ پیچھے رہ گئے تھے جنہوں نے جنگ میں شرکت نہیں کی تھی بہ سبب سستی اور آرام طلبی کے اور اس سبب سے کہ ان کے باغات میں پھل پکنے کا موسم تھا کاشت تیار کھڑی تھی ۔ سایہ دار اور بہار کی لطف انگیزی کا زمانہ تھا ۔ یہ کوتاہی اور منافقت کی بنا پر نہیں تھی چنانچہ ان میں چند لوگ ایسے تھے جنہوں نے اپنے آپ کو ستونوں سے باندھ رکھا تھا جیسے کہ ابولبابہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی ۔ دوسرے چند لوگوں نے ایسا نہ کیا اور یہ مذکورہ بالا تین اشخاص تھے ۔ ابولبابہ اور ان کے ساتھیوں کی توبہ تو ان لوگوں سے پہلے ہی قبول ہو چکی تھی ۔ اور زیر ذکر لوگوں کی توبہ کی قبولیت التوا میں پڑ گئی تھی حتیٰ کہ یہ آیت نازل ہوئی اور وہ ہے «لَّقَد تَّابَ اللہُ عَلَی النَّبِیِّ وَالْمُہَاجِرِینَ وَالْأَنصَارِ» (9-التوبۃ:117) اور «وَعَلَی الثَّلَاثَۃِ الَّذِینَ خُلِّفُوا حَتَّیٰ إِذَا ضَاقَتْ عَلَیْہِمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ» (9-التوبۃ:118) یعنی اللہ نے نبی اور مہاجرین اور انصار کی توبہ قبول کر لی (آخر آیت تک) اور ان تینوں شخصوں کی توبہ بھی قبول کر لی جو جنگ سے پیچھے رہ گئے تھے حتیٰ کہ اتنی وسیع دنیا بھی ان پر تنگ ہو گئی تھی اور کہیں انہیں پناہ نہ مل سکتی تھی جیسا کہ حدیث کعب بن مالک میں اس کا بیان آنے والا ہے اور قولہ تعالیٰ «إِمَّا یُعَذِّبُہُمْ وَإِمَّا یَتُوبُ عَلَیْہِمْ» (9-التوبۃ:106) یعنی وہ تحتِ عفوِ ربانی ہیں اگر وہ چاہے تو ان سے ایسا برتاؤ کرے اور اگر چاہے تو ویسا ۔ لیکن اللہ کی رحمت تو اس کے غضب پر سبقت رکھتی ہے اور اللہ تو مستحق عقوبت کو جانتا ہے کہ کون عفو کا مستحق ہے اور وہ اپنے افعال و اقوال میں حکیم ہے اس کے سوا کوئی اللہ اور کوئی رب نہیں ۔ التوبہ
107 ایک قصہ ایک عبرت، مسجد ضرار ان آیات کا سبب نزول یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ تشریف سے لانے سے پہلے مدنہ میں قبیلہ خزرج کا آدمی رہتا تھا جس کا نام تھا ابو عامر راہب ۔ یہ ایام جاہلیت میں نصرانی ہو گیا تھا اور اہل کتاب کا علم حاصل کر چکا تھا ۔ یہ ایام جاہلیت میں ایک عبادت گزار شخص تھا اپنے قبیلے میں اس کو بڑی بزرگی حاصل تھی ۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت فرما کر مدینے تشریف لائے اور مسمانوں کا آپ کے پاس اجتماع ہونے لگا اور اسلام کا بول بالا ہو گیا اور بدر کی لڑائی میں بھی اللہ تعالیٰ نے مسمانوں کو غالب رکھا تو ابو عامر پر یہ بات بہت شاق گزری اور کھلم کھلا عداوت ظاہر کرنے لگا اور مدینہ سے بھاگ کر کفار اور مشرکین مکہ سے جا ملا اور انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کرنے پر مائل کرتا تھا اب عرب کے سارے قبیلے اکٹھے ہو گئے اور جنگ احد کے لئے پیش قدمی کی نتیجہ مسلمانوں کو جو ضرر پہنچا اللہ عزوجل نے اس جنگ مین مسلمانوں کا امتحان لیا دنیا نہ سہی لیکن عاقبت تو متقین کے لئے ہے ۔ اس فاسق نے دونوں طرف کی صفوں کے درمیان کئی گڑھے کھود رکھے تھے ان میں سے ایک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گر پڑے آپ کو مضرت پہنچی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ زخمی ہو گیا نیچے کی طرف سے سامنے کے چار دانت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ٹوٹ گئے ۔ سر بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا زخمی ہو گیا ۔ ابو عامر نےشروع جنگ میں اپنی قوم انصار کی طرف بڑھ کر انہیں مخاطب کیا اور انہیں اپنی مدد اور اپنی موافقت کی دعوت دی ۔ جب انصار نے ابو عامر کی یہ حرکت دیکھی تو کہنے لگے کہ اے فاسق اے عدو اللہ ! اللہ تجھے برباد کرے اور اس کو گالیاں دیں اس کی عزت ریزی کی ۔ اب وہ یہ کہتا ہوا واپس ہو گیا کہ میرے بعد میری قوم تو اور بگڑ گئی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے فرار ہونے سے پہلے اس کو دعوت اسلام دی تھی اور قرآن کی وحی سے سنائی تھی ، لیکن اسلام لانے سے اس نے انکار کیا اور سر کشی اختیار کی ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بد دعا کی کہ کم بخت جلا وطنی اور پردیسی موت مرے ۔ چنانچہ یہ بد دعا اس پر کارگر ہوئی اور یہ بات اس طرح وقوع پذیر ہوئی کہ لوگ جب جنگ احد سے فارغ ہوئے تو اس نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تو بول بالا ہو رہا ہے ۔ اسلام بڑھتا چلا جا رہا ہے تو وہ ملک روم ہرقل کے پاس گیا اس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بر خلاف مدد مانگی ۔ اس نے وعدہ کیا ۔ اس نے اپنی امیدیں کامیاب ہوتی دیکھیں تو ہرقل کے پاس ٹھہر گیا اور اپنی قوم انصار میں سے ان لوگوں کو مکہ بھیجا جو اہل نفاق تھے کہ لشکر لے کر آ رہا ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خوب جنگ ہو گئی ، ان پر غالب آ جاؤں گا اور انہیں اپنی اسلام سے پہلے کی سابقہ حالت پر آنا ہو گا اور ان اہل نفاق کو حکم بھیجا کہ اس کے لئے پناہ کی جگہ بنائے رکھو اور میرے احکام اور مراسلے جو لے کر آیا کریں ان کے لئے قیامگاہ اور مآمن بنائے رکھو تا کہ اس کے بعد جب وہ خود آئے تو اس کے لئے کمین گاہ کا کام دے ۔ چنانچہ ان منافقین نے مسجد قباء کے قریب ہی ایک اور مسجد بنا ڈالی ، اس کی تعمیر کردی اس کو پختہ کر دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تبوک سے بکلنے سے پہلے اس کام سے فارغ بھی ہو لئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہ درخواست کے کر آئے کہ آپ ہمارے پاس آئیے ہماری مسجد میں نماز پڑھئے تاکہ اس بات کی سند ہو سکے کہ یہ مسجد اپنی جگہ قابل استقرار اور قابل اثبات ہے ۔ اور آپ کے سامنے یہ بیان کیا کہ ضعیفوں اور کمزوروں کی خاطر یہ مسجد بنائی گئی ہے اور سردی کی راتوں میں جو بیمار لوگ دور مسجد میں نہیں جا سکتے ان کے لئے آسانی کی غرض ہے ۔ لیکن اللہ تعالیٰ تو اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس مسجد میں نماز پڑھنے سے بچانا چاہتا تھا ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمیں اس وقت سفر در پیش ہے جب ہم واپس ہوں گے اور اللہ نے چاہا تو دیکھا جائے گا اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنگ تبوک سے فارغ ہو کر مدینہ کی طرف واپس ہوئے اور مدینہ تک مسافت جب ایک دن یا دن اس سے کچھ کم رہ گئی تو جبرائیل علیہ السلام مسجد ضرار کی خبر لئے ہوئے آ پہنچے اور منافقین کے اس راز کو ظاہر کر دیا کہ مسجد قبا کے قریب ایک اور مسجد بنانے سے مسلمانوں کی جماعت میں تفریق پیدا کرنے کا مقصد ان کافروں اور منافقوں نے پیش کر رکھا ہے ، وہ مسجد قبا ہے جس کی بنیاد اوّل روز سے تقوٰی پر اٹھائی گئی ہے ۔ اس علم کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مدینے پہنچنے سے پہلے ہی چند لوگوں کو اس مسجد ضرار کی طرف بھیج دیا کہ اس کو منہدم کر دیا جائے ۔ جیسا کہ علی بن ابی طلحہ نے اس آیت کی تفسیر میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہوئے کہا کہ وہ انصار کے لوگ تھے جنہوں نے ایک مسجد بنائی تھی اور ابو عامر نے ان سے کہا کہ تم ایک مسجد بناؤ اور جس قدر بھی تم سے ممکن ہو اس میں ہتھیار جنگ چھپائے رکھو اور اس کو اپنی پناہ اور کمیں گاہ بنائے رہو کیونکہ میں قیصر ملک روم کی طرف جا رہا ہوں ، روم سے لشکر لے کر آؤں گا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب کو مدینہ سے نکال دونگا ۔ چنانچہ یہ منافقین جب مسجد ضرار بنا کر فارغ ہو گئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدنت میں حاضر ہوئے اور درخواست کی کہ ہم یہ دلی خواہش رکھتے ہیں کہ ایک بار آپ اس مسجد میں آ کر نماز پڑھ لیں اور اس میں ہمارے لئے برکت کی دعا کریں ، تو اللہ عزوجل نے یہ وحی نازل فرما دی «لَا تَقُمْ فِیہِ أَبَدًا لَّمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَی التَّقْوَیٰ مِنْ أَوَّلِ یَوْمٍ أَحَقٰ أَن تَقُومَ فِیہِ فِیہِ رِجَالٌ یُحِبٰونَ أَن یَتَطَہَّرُوا وَ اللہُ یُحِبٰ الْمُطَّہِّرِینَ ، أَفَمَنْ أَسَّسَ بُنْیَانَہُ عَلَیٰ تَقْوَیٰ مِنَ اللہِ وَرِضْوَانٍ خَیْرٌ أَم مَّنْ أَسَّسَ بُنْیَانَہُ عَلَیٰ شَفَا جُرُفٍ ہَارٍ فَانْہَارَ بِہِ فِی نَارِ جَہَنَّمَ وَ اللہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ» (9-التوبۃ:107-108) تک ۔ یعنی ہر گز اس میں نماز نہ پڑھنا یقیناً وہ مسجد جس کی بنیاد اول یوم سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے زیادہ حقدار ہے اس بات کی کہ تم اسی میں نماز پڑھو ، اس میں ایسے پاکیزہ لوگ رہتے ہیں کہ پاک دل ہیں اور اللہ تعالیٰ ایسے ہی پاکیزہ دلوں کو پسند کرتا ہے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:17201:مرسل) سعید بن جبیر رحمہ اللہ نے بھی بالاسناد یہی روایت کی ہے اور محمد بن اسحاق نے بھی بالاسناد یہ روایت کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک سے واپس ہوئے اور مقام ذی اوان میں فروکش ہوئے ۔ مدینہ یہاں سے چند گھنٹوں کی مسافت پر ہے ۔ تو اس مسجد ضرار کی خبر اللہ کی طرف سے آپ کو مل گئی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی سالم کے بھائی مالک بن خشم کو بلایا اور معن بن عدی یا اس کے بھائی عامر بن عدی ، غرض ان دونوں کو بلایا اور فرمایا کہ تم دونوں ان ظالموں کی مسجد کی طرف جاؤ اور اس کو منہدم کر دو اور جلا ڈالو ۔ یہ دونوں فوراً گئے اور بنی سالم بن عوف کے پاس آئے ۔ یہ مالک بن الدخشم کے قبیلہ کے لوگ تھے ، اب مالک نے معن سے کہا ٹھہرو ! میں اپنے لوگوں میں سے کسی کے پاس سے آگ لے آتا ہوں ۔ اب وہ مالک اپنے لوگوں میں آئے ۔ درخت کی ایک بڑی سی لکڑی لی اس کو سلگایا اور فوراً نکل کھڑے ہوئے ۔ یہ دونوں مسجد پہنچے ، مسجد میں یہ کفار موجود تھے ، ان دونوں نے مسجد کو جلا دیا اور اس کو گرا دیا ۔ لوگ وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے اور قرآن کی یہ آیت ان منافقین کے بارے میں نازل ہوئی ، «وَالَّذِینَ اتَّخَذُوا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَکُفْرًا» ۔ یہ لوگ جنھوں نے یہ مسجد ضرار بنائی بارہ افراد تھے خذام بن خالد ، اسی کے گھر سے مسجد شقاق کی راہ نکلتی ہے ، اور ثعلبہ بن حاطب بنی امیہ کے خادم ، اور معتب بن قشیر اور ابو حبیبہ بن الازعر ، اور عباد بن حنیف ، اور حارثہ بن عامر ، اور اس کے دونوں بیٹے مجمع اور زید اور نبتل الحارث ، اور مخرج اور بجاد بن عثمان ، اور ودیعہ بن ثابت ، الو ابو لبابہ کے قبیلہ کے خادم ، (تفسیر ابن جریر الطبری:17200) وہ لوگ جنہوں نے اس کو بنایا وہ قسمیں کھا کر کہہ رہے تھے کہ ہم نے تو نیک ارادے سے اس کی بناء ڈالی ہے ۔ ہمارے پیش نظر تو صرف لوگوں کی خیر خواہی تھی ۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ «وَ اللہُ یَشْہَدُ إِنَّہُمْ لَکَاذِبُونَ» اللہ تعالیٰ شہادت دیتا ہے کہ یہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں یعنی جو انہوں نے قصد کیا اور نیت رکھی ہے ، اس میں جھوٹے ہیں ۔ محض اس مقصد سے مسجد بنائی ہے کہ مسجد قبا کی ضرر پہنچائیں اور کفر کی اشاعت کریں ، مسلمانوں میں تفریق ڈال دیں ، اللہ سے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑنے کی خاطر کمین گاہ بنائے رکھیں ، جہان ان کے مشورے اور کونسل ہوا کرے ، وہ شخص ابو عامر وہ فاسق جس کو راہب سمجھا جاتا ہے ، اللہ اس پر لعنت کرے ۔ (وَ قَوْلُہُ ) «لَا تَقُمْ فِیہِ أَبَدًا» نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس میں نماز پڑھنے سے ممانعت فرما دی ۔ نماز نہ پڑھنے میں ان کی تابع ان کی امت بھی ہے چنانچہ مسلمانوں کو بھی تاکید ہے کہ کبھی اس میں نماز نہ پڑھیں ۔ پھر یہ مسجد قبا میں نماز پڑھنے پر ابھارا مسجد قبا کی بنیاد شروع ہی سے تقویٰ اطاعت اللہ اور اطاعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہیں یہاں مسلمان مل بیٹھتے ہیں دینی مشورے کرتے ہیں اور یہ اسلام اور اہل اسلام کی پناہ کی جگہ ہے اور اسی کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے «مَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَی التَّقْوَیٰ مِنْ أَوَّلِ یَوْمٍ أَحَقٰ أَن تَقُومَ فِیہِ» اور سیاق عبارت مسجد قبا سے متعلق ہے ۔ اس لئے حدیث صحیح میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسجد قبا میں نماز پڑھنا ایک عمرہ کے ثواب کے برابر ہے ۔ (سنن ترمذی:324 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) صحیح حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد قبا کی طرف سوار ہو کر بھی آتے تھے اور پیادہ بھی ۔ (صحیح بخاری:1191) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اسے بنایا تو آپ کی سب سے پہلے تشریف آواری بن عمرو بن عوف کے پاس تھی اور جہتِ قبلہ جبرائیل علیہ السلام نے معین کی تھی ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ابوداؤد نے بالاسناد ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب یہ آیت اہل قبا کے بارے میں نازل ہوئی ۔ «فِیہِ رِجَالٌ یُحِبٰونَ أَن یَتَطَہَّرُوا» ( التوبہ : 108 ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ پانی سے طہارت کرتے تھے ، (سنن ابوداود:44 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) چنانچہ ان کی تعریف میں یہ آیت اتری ہ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب متذکرہ بالا آیت اتری تو آپ عویم بن ساعدہ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے اور پوچھا کہ تمھاری وہ کون سی طہارت ہے ؟ کہ اللہ عز و جل نے تمھارے لئے جس کی تعریف کی ہے ۔ تو عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم میں سے جب کوئی مرد یا عورت حاجت سے فارغ ہوتے ہیں تو پانی سے اپنے اندام نہانی کو اچھی طرح دھو لیتے ہیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں یہی بات ہے ۔ (طبرانی کبیر:1065:ضعیف) امام احمد رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد قبا میں تشریف لائے اور کہا کہ نماز کے لئے تمھاری طہارت کی اللہ پاک نے بڑے اچھے الفاظ میں تعریف کی ہے سو وہ تمھاری کون سی طہارت ہے ؟ تو انہوں نے کہا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم تو اس کے سوا کوئی علم نہیں کہ یہود ہمارے پڑوسی ہیں اور وہ حاجت سے فارغ ہونے کے بعد پانی سے دھوتے ہیں چنانچہ ہم نے بھی یہی طریقہ اختیار کر رکھا ہے ۔ (مسند احمد:422/3:حسن لغیرہ) ابن خزیمہ نے اپنی کتاب حدیث میں لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عویم بن ساعدہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ تمھاری کس طہارت کی تعریف اللہ پاک نے کی ہے ؟ تو کہا کہ ہم طہارت کرنے میں پانی استعمال کرتے ہیں ۔ ابن جریر نے کہا کہ آیت «فِیہِ رِجَالٌ یُحِبٰونَ أَن یَتَطَہَّرُوا وَ اللہُ یُحِبٰ الْمُطَّہِّرِینَ» (9-التوبۃ:108) جو اتری ہے وہ حاجت کے بعد پانی سے دھونے والوں کی شان میں ہے ۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (بالاسناد) روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد قبا میں آئے اور کہا کہ اللہ تعالیٰ نے تمھاری طہارت کی بہت اچھی تعریف کی ہے ، وہ کیا ہے ؟ تو کہا یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے تو آیت میں پانی سے طہارت کے احکام پائے ہیں ۔ (مسند احمد:6/6:ضعیف)( اس میں ایک راوہ عبداللہ بن سلام تھے جو اہل توریت تھے ) حدیث صحیح میں وارد ہے کہ مدینے کے اندر جو مسجد نبوی ہ یہی وہ مسجد ہے جس کے لئے ہا گیا کہ تقویٰ پر اس کی بنیاد اٹھی ہوئی ہے ۔ اور یہ صحیح بات ہے اس آیت اور اس آیت میں کوئی منافات نہیں کیونکہ جب قبا کی تاسیس اول یوم سے بر بنائے تقویٰ ہے تو بدرجہ اولیٰ مسجد نبوی کو یہ خصوصیت حاصل ہونی چاہیے اسی لئے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اپنی مسند میں بیان کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو مسجد تقویٰ کا اساس رکھتی ہے وہ میری یہ مسجد ہے ۔ (مسند احمد:116/5:صحیح) امام احمد رحمہ اللہ نے پھر (بالاسناد ) روایت کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں دو آدمیوں نے اس بارے میں اختلاف کیا کہ اس خصوصیت والی مسجد کونسی ہے ؟ تو ایک نے کہا کہ وہ مسجد نبوی ہے اور دوسرے نے کہا کہ وہ مسجد قبا ہے ، یہ دونوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تحقیق کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس سے یہی میری مسجد مراد ہے ۔ (مسند احمد:331/5:صحیح) امام احمد رحمہ اللہ نے پھر (بالاسناد) روایت کی کہ دو آدمی اس خصوصیت والی مسجد کے بارے میں مختلف الرائے تھے ایک مسجد قبا کو اور دوسرا مسجد نبوی کو بتا رہا تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسجد تقویٰ یہ میری مسجد ہے ۔ (مسند احمد:89/3:صحیح) پھر اس کے بعد حدیثیں اسی مضمون کی وارد ہیں ، چنانچہ الخراط المدنی نے ابو سلمہ سے پوچھا کہ تم نے اپنے باپ سے مسجد تقویٰ کے بارے میں کیا سنا ہے ؟ تو کہا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور پوچھا یا رسول اللہ !صلی اللہ علیہ وسلم مسجد تقویٰ کونسی ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹھی بھر کنکریاں زمین سے اٹھائیں اور انہیں مار کر کہا کہ وہ یہی مسجد ہے ۔ اس وقت آپ مسجد کے صحن میں اپنی بیوی کے ایک کمرے میں تشریف فرما تھے ۔ (صحیح مسلم:1398:صحیح) پھر وہ کہتے ہیں کہ اس کو مسلم نے بالاسناد حمید الخراط سے روایت کیا ہے کہ خلف اور سلف کی ایک جماعت اسی بات کی قائل ہے کہ وہ مسجد نبوی ہے اور سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما اور عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہما سے بھی یہی روایت ہے کہ «لَمَسْجِدٌ اُسَّسَ» والی آیت پاک اس بات کی دلیل ہے کہ مساجد قدیمہ میں جن کی اول بنیاد عبادت خاوندی پر اٹھائی گئی ہے نماز پڑھنا مستحب ہے ۔ اور اس استحباب کی بھی دلیل ہے کہ جماعت صالحین اور عباد عاملین کے ساتھ نماز پڑھی جائے اور وضو باقاعدہ طور پر مکمل کیا جائے اور نماز میں میلے یا گندے کپڑوں سے بالکل پاک رہا جائے ۔ امام احمد رحمہ اللہ نے (بالاسناد) روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز پڑھائی اور اس میں سورۃ روم پڑھی ، پڑھنے میں آپ کو کچھ شک سا ہو گیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب واپس ہوئے تو فرمایا قرآن پڑھنے میں کچھ گڑ بڑ ہو جاتی ہے دیکھو تم میں بعض لوگ ایسے ہیں جو ہمارے ساتھ نماز پڑھتے ہیں لیکن وضو اچھی طرح نہیں کرتے پس جو ہمارے ساتھ نماز پڑھنا چاہے اس کے چاہیے کہ وضو کامل کیا کرے ، وضو میں کوئی خرابی نہ کرنے پائے ۔ (مسند احمد:472/3:حسن) ذوالکلاع سے مروی ہے انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہدایت فرمائی تھی ، یہ چیز اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حسن طہارت قیام فی العبادت میں آسانی پیدا کرتا ہے اور عبادت کی تتمیم و تکمیل میں مددگار ثابت ہوتا ہے ۔ ابو العالیہ نے قول پاک «وَ اللہُ یُحِبٰ الْمُطَّہِّرِینَ» کے بارے میں کہا کہ پانی سے طہارت کرنا تو بیشک بہت اچھی بات ہے لیکن جن کی طہارت کی اللہ تعالیٰ تعریف فرما رہا ہے وہ گناہوں سے اپنے آپ کو پاک رکھنے والے لوگ ہیں ۔ اعمش رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس طہارت سے مراد گناہوں سے توبہ اور شرک سے پاکیزگی ہے ۔ حدیث میں وارد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل قباء سے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے جو تمھاری طہارت کی تعریف کی ہے وہ کیسی طہارت ہے ؟ تو انہوں نے کہا کہ ہم پانی سے استنجاء کرتے ہیں ۔ حافظ ابوبکر بزار رحمہ اللہ نے بالاسناد سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ یہ آیت اہل قباء کے بارے میں اتری ہے ۔ اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے سوال کیا تھا تو کہا تھا کہ ہن پہلے ڈھیلے لیتے تھے پھر پانی سے دھوتے تھے ۔ (مجمع الزوائد:1053:ضعیف) اس کو بزار نے روایت کیا ہے ۔ اس کو صرف محمد بن عبدالعزیز نے اور ان سے ان کے بیٹے نے روایت کیا ہے ۔ میں نے یہاں یہ تصریح اس لئے کر دی ہے کہ یہ چیز اگرچہ فقہاء میں مشہور ہے لیکن اکثر متاخرین اس کو معروف تسلین نہیں کرتے ، «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ التوبہ
108 التوبہ
109 . اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے مسجد کی بنیاد تقویٰ اور رضائے الہٰی پر رکھی ہے اور وہ لوگ جنہوں نے مسجد ضرار اور مسجد کفر بنائی اور مومنین میں تفریق ڈال دی اور اللہ سے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑنے کے لئے اس کو جائے پناہ قرار دیا ، کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں ؟ ان لوگوں نے تو اس مسجد ضرار کی بنیاد گویا ایک گڑھے کے ڈھلتے ہوئے کنارے پر رکھی جو اسے جہنم کی آگ میں لے گری ۔ اور حدود سے تجاوز کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ ہدایت نہیں فرماتا ۔ یعنی مفسدین کے عمل کو اصلاح پزیر نہیں بناتا ۔ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ مسجد ضرار کو میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسبِ فرمان جب اس میں آگ لگا دی گئی تو اس میں دھواں نکل رہا تھا ۔ ابن جریج رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ہمیں معلوم ہوا کہ بعض لوگوں نے ایک جگہ گڑھا کھودا تو اس میں سے دھواں نکلتا ہوا پایا ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:17262:ضعیف) قتادہ رحمہ اللہ نے بھی اسی طرح کہا ہے ۔ خلف بن یاسین کوفی کہتے ہیں کہ میں نے منافقین کی اس مسجد کو دیکھا کہ جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے ، یہ دیکھا کہ اس میں ایک سوراخ ہے جس میں سے دھواں نکل رہا ہے اور آج کے روز وہ جگہ گندگی پھینکنے کی جگہ بنی ہوئی ہے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:17264:ضعیف) ابن جریر رحمہ اللہ نے اس کو روایت کیا ، اور قولہ تعالیٰ «لَا یَزَالُ بُنْیَانُہُمُ الَّذِی بَنَوْا رِیبَۃً فِی قُلُوبِہِمْ» (9-التوبۃ:110) یعنی ان کی بنائی ہوئی یہ عمارت تو ہمیشہ ان کے دلوں میں شک و شبہ کی باعث ہی رہے گی اور اس عمل شنیع کا اقدام کرنے کی وجہ سے ان کے دلوں میں نفاق کا بیج بوتی رہے گی ، جیسا کہ گوسالہ پرستوں کے دل میں گوسالہ کی محبت پڑی ہوئی تھی «إِلَّا أَن تَقَطَّعَ قُلُوبُہُمْ» البتہ اس صورت میں ان منافقین کی بیخ کنی ہو سکتی ہے جب کہ اس مسجد ہی کو ختم کر کے ان کے دلوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے جائیں ۔ اللہ اپنے بندوں کے اعمال کو خوب جانتا ہے اور خیر و شر کا بدلہ دینے میں بڑا حکیم ہے ۔ التوبہ
110 التوبہ
111 مجاہدین کے لئے استثنائی انعامات اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ مومن بندے جب راہ حق میں اپنے مال اور اپنی جانیں دیں ۔ اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں اپنے فضل و کرم اور لطف و رحم سے انہیں جنت عطا فرمائے گا ۔ بندہ اپنی چیز جو درحقیقت اللہ تعالیٰ کی ہی ہے اس کی راہ میں خرچ کرتا ہے تو اس کی اطاعت گذاری سے مالک الملک خوش ہو کر اس پر اپنا اور فضل کرتا ہے سبحان اللہ کتنی زبردست اور گراں قیمت پروردگار کیسی حقیر چیز پر دیتا ہے ۔ دراصل ہر مسلمان اللہ سے یہ سودا کر چکا ہے ۔ اسے اختیار ہے کہ وہ اسے پورا کرے یا یونہی اپنی گردن میں لٹکائے ہوئے دنیا سے اٹھ جائے ۔ اسی لیے مجاہدین جب جہاد کے لیے جاتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ اسنے اللہ تعالیٰ سے بیوپار کیا ۔ یعنی وہ خرید و فروخت جسے وہ پہلے سے کر چکا تھا اس نے پوری کی ۔ عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے لیلۃالعقبہ میں بیعت کرتے ہوئے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب کے لیے اور اپنے لیے جو چاہیں شرط منوالیں ۔ آپ نے فرمایا میں اپنے رب کے لیے تم سے یہ شرط قبول کراتا ہوں کہ اسی کی عبادت کرنا ، اس کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کرنا ۔ اور اپنے لیے تم سے اس بات کی پابندی کراتا ہوں کہ جس طرح اپنی جان و مال کی حفاظت کرتے ہو میری بھی حفاظت کرنا ۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا جب ہم یونہی کریں تو ہمیں کیا ملے گا ؟ آپ نے فرمایا جنت ! یہ سنتے ہی خوشی سے کہنے لگا واللہ اس سودے میں تو ہم بہت ہی نفع میں رہیں گے ۔ بس اب پختہ بات ہے نہ ہم اسے توڑیں گے نہ توڑنے کی درخواست کریں گے پس یہ آیت نازل ہوئی یہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں ، نہ اس کی پرواہ ہوتی ہے کہ ہم مارے جائیں گے نہ اللہ کے دشمنوں پر وار کرنے میں انہیں تامل ہوتا ہے ، مرتے ہیں اور مارتے ہیں ۔ ایسوں کے لیے یقیناً جنت واجب ہے ۔ بخاری مسلم کی حدیث میں ہے کہ جو شخص اللہ کی راہ میں نکل کھڑا ہو جہاد کے لیے ، رسولوں کی سچائی مان کر ، اسے یا تو فوت کر کے بہشت بریں میں اللہ تبارک و تعالیٰ لے جاتا ہے یا پورے پورے اجر اور بہترین غنیمت کے ساتھ واپس اسے لوٹاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بات اپنے ذمے ضروری کر لی ہے اور اپنے رسولوں پر اپنی بہترین کتابوں میں نازل بھی فرمائی ہے ۔ موسیٰ پر اتری ہوئی تورات میں ، عیسیٰ پر اتری ہوئی انجیل میں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اترے ہوئے قرآن میں اللہ کا یہ وعدہ موجود ہے ۔ صلوات اللہ وسلامہ علیہم اجمعین ۔ اللہ کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتا ۔ اللہ سے زیادہ وعدوں کا پورا کرنے والا اور کوئی نہیں ہو سکتا ۔ نہ اس سے زیادہ سچائی کسی کی باتوں میں ہوتی ہے ۔ «وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللہِ حَدِیثاً» ( 4-النساء : 87 ) اللہ تعالیٰ سے زیادہ سچی بات والا اور کون ہوگا«وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللہِ قِیلاً» ( 4-النساء : 122 ) اور کون ہے جو اپنی بات میں اللہ سے زیادہ سچا ہو ۔ «فَاسْتَبْشِرُوا بِبَیْعِکُمُ الَّذِی بَایَعْتُمْ بِہِ ۚ وَذَلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ» ( التوبہ-۱۱۱ ) جس نے اس خرید و فروخت کو پورا کیا اس کے لیے خوشی ہے اور مبارکباد ہے ، وہ کامیاب ہے اور جنتوں کی ابدی نعمتوں کا مالک ہے ۔ التوبہ
112 مومنین کی صفات جن مومنوں کا اوپر ذکر ہوا ہے ان کی پاک اور بہترین صفتیں بیان ہو رہی ہیں کہ وہ تمام گناہوں سے توبہ کرتے رہتے ہیں ، برائیوں کو چھوڑتے جاتے ہیں ، اپنے رب کی عبادت پر جمے رہتے ہیں ، ہر قسم کی عبادتوں میں خاص طور پر قابل ذکر چیز اللہ کی حمد و ثنا ہے اس لیے وہ اس کی حمد بکثرت ادا کرتے ہیں اور فعلی عبادتوں میں خصوصیت کے ساتھ افضل عبادت روزہ ہے اس لیے وہ اسے بھی اچھائی سے رکھتے ہیں ۔ کھانے پینے کو ، جماع کو ترک کر دیتے ہیں ۔ یہی مراد لفظ «سَّائِحُونَ» سے یہاں ہے ۔ یہی وصف نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بیویوں کا قرآن نے بیان فرمایا ہے «سائحات » ( التحریم : 5 ) اور یہی لفظ «سائحات» وہاں بھی ہے ۔ رکوع سجود کرتے رہتے ہیں ۔ یعنی نماز کے پابند ہیں ۔ اللہ کی ان عبادتوں کے ساتھ ہی ساتھ مخلوق کے نفع سے بھی غافل نہیں ۔ اللہ کی اطاعت کا ہر ایک کو حکم کرتے ہیں ۔ برائیوں سے روکتے رہتے ہیں ۔ خود علم حاصل کر کے بھلائی برائی میں تمیز کر کے اللہ کے احکام کے حفاظت کر کے پھر اوروں کو بھی اس کی رغبت دیتے ہیں ۔ حق تعالیٰ کی عبادت اور اس کی مخلوق کی حفاظت دونوں زیر نظر رکھتے ہیں ۔ یہی باتیں ایمان کی ہیں اور یہی اوصاف مومنوں کے ہیں ۔ انہیں خو شخبریاں ہوں ۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سیاحت سے مراد روزہ لیتے ہیں ۔ اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہما بھی بلکہ آپ سے مروی ہے کہ قرآن کریم میں جہاں کہیں یہ لفظ آیا ہے وہاں یہی مطلب ہے ۔ ضحاک بھی یہی کہتے ہیں ۔ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ۔ کہ اس امت کی سیاحت روزہ ہے ۔ مجاہد ، سعید ، عطاء ، عبدالرحمٰن ، ضحاک سفیان وغیرہ کہتے ہیں کہ مراد «سَّائِحُونَ» سے «صائمون» ہے ۔ یعنی جو روزے رمضان کے رکھیں ۔ ابوعمرو کہتے ہیں روزہ پر دوام کرنے والے ۔ ایک مرفوع حدیث میں بھی ہے کہ مراد« سَّائِحُونَ »سے روزے دار ہیں لیکن اس حدیث کا موقف ہونا ہی زیادہ صحیح ہے ۔ ایک مرسل حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس لفظ کا مطلب پوچھا گیا تو آپ نے یہ فرمایا ۔ تمام اقوال سے زیادہ صحیح اور زیادہ مشہور تو یہی قول ہے ۔ اور ایسی دلیلیں بھی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ مراد سیاحت سے اللہ کی راہ میں جہاد ہے ۔ ابوداؤد میں ہے کہ ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ مجھے سیاحت کی اجازت دیجئیے ۔ آپ نے فرمایا میری امت کی سیاحت اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ہے ۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مجلس میں سیاحت کا ذکر آیا تو آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کے بدلے اپنی راہ کا جہاد اور ہر اونچائی پر اللہ اکبر کہنا عطا فرمایا ہے ۔ عکرمہ فرماتے ہیں اور مراد اس سے علم دین کے طالب علم ہیں ۔ عبدالرحمٰن فرماتے ہیں اللہ کی راہ کے مہاجر ہیں ۔ بعض لوگ صوفیہ طبقہ کے جو اس سے مراد لیتے ہیں کہ زمین کی سیر کرنا ، سفر میں رہنا ، ادھر ادھر جانا آنا ، پہاڑوں ، دوروں ، جنگلوں اور بندوں میں پھرنا اس کا نام سیاحت ہے ، یہ محض غلط فہمی ہے ، یہ سیاحت مشروع نہیں ۔ ہاں اللہ نہ کرے اگر بستی میں رہنے سے دین میں کوئی فتنہ پڑنے کا اندیشہ ہو تو اور بات ہے ۔ جیسے کہ صحیح بخاری شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں قریب ہے کہ مومن کا سب سے بہتر مال بکریاں بن جائیں جن کے پیچھے وہ پہاڑوں کی چوٹیوں اور بارش برسنے کی جگہوں میں پڑا رہے ، اپنے دین کو لے کر فتنوں سے بھاگتا اور بچتا رہے ۔ اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والے یعنی بقول ابن عباس اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر قائم رہنے والے بقول حسن بصری فرائض کی پابندی کرنے والے ، اللہ تعالیٰ کے حکم کے بجا لانے والے ۔ التوبہ
113 مشرکین کے لیے دعائے مغفرت کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو ممانعت مسند احمد میں ہے کہ ابوطالب کی موت کے وقت اس کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم تشریف لے گئے ۔ وہاں اس وقت ابوجہل اور عبداللہ بن ابی اُمیہ بھی تھا ۔ آپ نے فرمایا چچا «لا الہ الاللہ »کہہ لے اس کلمے کی وجہ سے اللہ عزوجل کے ہاں میں تیری سفارش تو کر سکوں ۔ یہ سن کر ان دونوں نے کہا کہ اے ابوطالب کیا تو عبدالمطلب کے دین سے پھر جائے گا ؟ اس پر اس نے کہا میں تو عبدالمطلب کے دین پر ہوں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خیر میں جب تک منع نہ کر دیا جاؤں تیرے لیے بخشش مانگتا رہونگا ۔ لیکن « مَا کَانَ لِلنَّبِیِّ وَالَّذِینَ آمَنُوا أَن یَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِکِینَ وَلَوْ کَانُوا أُولِی قُرْبَیٰ مِن بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّہُمْ أَصْحَابُ الْجَحِیمِ » ( التوبہ : 113 ) اتری ۔ یعنی نبی کو اور مومنوں کو لائق نہیں کہ وہ مشرکوں کے لیے بخشش مانگیں گو وہ ان کے قریبی رشتہ دار ہی ہوں ۔ ان پر تو یہ ظاہر ہو چکا ہے کہ مشرک جہنمی ہیں ۔ اسی بارے میں «اِنَّکَ لَا تَہْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَہْدِیْ مَنْ یَّشَاۗءُ ۚوَہُوَ اَعْلَمُ بالْمُہْتَدِیْنَ» ( 28- القص : 56 ) بھی اتری ہے ۔ یعنی تو جسے محبت کرے اسے راہ نہیں دکھا سکتا بلکہ اللہ تعالیٰ جسے چاہے راہ دکھاتا ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کی زبانی اپنے مشرک ماں باپ کے لیے استغفار سن کر اس سے کہا کہ تو مشرکوں کے لیے استغفار کرتا ہے اس نے جواب دیا کہ کیا ابراہیم نے اپنے باپ کے لیے استغفار نہیں کیا ؟ فرماتے ہیں میں نے جا کر یہ ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا ۔ اس پر یہ آیت اتری ۔ کہا جب کہ وہ مرگیا پھر میں نہیں جانتا یہ قول مجاہد کا ہے ۔ مسند احمد میں ہے ہم تقریباً ایک ہزار آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے ، آپ منزل پر اترے ، دو رکعت نماز ادا کی پھر ہماری طرف منہ کر کے بیٹھے ۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے انسو جاری تھے ۔ عمر رضی اللہ عنہ یہ دیکھ کر تاب نہ لا سکے ، اُٹھ کر عرض کیا کہ میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں کیا بات ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بات یہ ہے کہ میں نے اپنے رب عزوجل سے اپنی والدہ کے لیے استغفار کرنے کی اجازت طلب کی تو مجھے اجازت نہ ملی ۔ اس پر میری آنکھں بھر آئیں کہ میری ماں ہے اور جہنم کی آگ ہے ۔ اچھا اور سنو ! میں نے تمہیں تین چیزوں سے منع کیا تھا اب وہ ممانعت ہٹ گئی ہے ۔ زیارت قبور سے منع کیا تھا ، اب تم کرو کیونکہ اس سے تمہیں بھلائی یاد آئے گی ۔ میں نے تمہیں تین دن سے زیادہ قربانی کے گوشت کو روکنے سے منع فرمایا تھا اب تم کھاؤ اور جس طرح چاہو روک رکھو ۔ اور میں نے تمہیں بعض خاص برتنوں میں پینے کو منع فرمایا تھا لیکن اب تم جس برتن میں چاہو پی سکتے ہیں لیکن خبردار نشے والی چیز ہرگز نہ پینا ۔ ابن جریر میں ہے کہ مکہ شریف آتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک نشان قبر کے پاس بیٹھ گئے اور کچھ دیر خطاب کر کے آپ کھڑے ہوئے ہم نے پوچھا کہ یا رسول اللہ یہ کیا بات تھی ؟ آپ نے فرمایا میں نے اپنے پروردگار سے اپنی ماں کی قبر کے دیکھنے کی اجازت مانگی وہ تو مل گئی لیکن اس کے لیے استغفار کرنے کی اجازت مانگی تو نہ ملی ۔ اب جو آپ نے رونا شروع کیا تو ہم نے تو آپ کو کبھی ایسا اتنا روتے نہیں دیکھا ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ آپ قبرستان کی طرف نکلے ، ہم بھی آپ کے ساتھ تھے ۔ وہاں آپ ایک قبر کے پاس بیٹھ کر دیر تک مناجات میں مشغول رہے ، پھر رونے لگے ۔ ہم بھی خوب روئے پھر کھڑے ہوئے تو ہم سب بھی کھڑے ہو گئے آپ نے عمر رضی اللہ عنہ کو اور ہمیں بلا کر فرمایا کہ تم کیسے روئے ؟ ہم نے کہا آپ کو روتا دیکھ کر آپ نے فرمایا یہ قبر میری ماں آمنہ کی تھی میں نے اسے دیکھنے کی اجازت چاہی تھی جو مجھے ملی تھی ۔ اور روایت میں ہے کہ دعا کی اجازت نہ ملی اور«مَا کَانَ لِلنَّبِیِّ وَالَّذِینَ آمَنُوا أَن یَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِکِینَ وَلَوْ کَانُوا أُولِی قُرْبَیٰ مِن بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّہُمْ أَصْحَابُ الْجَحِیمِ » اتری پس جو ماں کی محبت میں صدمہ ہونا چاہیئے مجھے ہوا ۔ دیکھو میں نے زیارت قبر کی تمہیں ممانعت کی تھی ۔ لیکن اب میں رخصت دیتا ہوں کیونکہ اس سے آخرت یاد آتی ہے ۔ طبرانی میں ہے کہ غزوہ تبوک کی واپسی میں عمرے کے وقت ثنیہ عسفان سے اترتے ہوئے آپ نے صحابہ سے فرمایا تم عقبہ میں ٹھہرو ، میں ابھی آیا ۔ وہاں سے اتر کر آپ اپنی والدہ کی قبر پر گئے ۔ اللہ تعالیٰ سے دیر تک مناجات کرتے رہے ۔ پھر پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کیا آپ کے رونے سے سب لوگ رونے لگے اور یہ سمجھے کہ آپ کی امت کے بارے میں کوئی نئی بات پیدا ہوئی جس سے آپ اس قدر رو رہے ہیں ۔ انہیں روتا دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس پلٹے اور دریافت فرمایا کہ تم لوگ کیوں رو رہے ہو ؟ انہوں نے جواب دیا آپ کو روتا دیکھ کر اور یہ سمجھ کر کہ شاید آپ کی امت کے بارے میں کوئی ایسا نیا حکم اترا جو طاقت سے باہر ہے ۔ آپ نے فرمایا سنو بات یہ ہے کہ یہاں میری ماں کی قبر ہے ۔ میں نے اپنے پروردگار سے قیامت کے دن اپنی ماں کی شفاعت کی اجازت طلب کی لیکن اللہ تعالیٰ نے عطا نہیں فرمائی تو میرا دل بھر آیا اور میں رونے لگا ۔ جبرائیل آئے اور مجھ سے فرمایا ابراہیم کا استغفار اپنے باپ کے لیے صرف ایک وعدے سے تھا جس کا وعدہ ہو چکا تھا لیکن جب اس پر کھل گیا تو کہ اس کا باپ اللہ کا دشمن ہے توہ وہ فوراً بیزار ہو گیا پس آپ بھی اپنی ماں سے اسی طرح بیزار ہو جائیے جس طرح ابراہیم علیہ السلام اپنے باپ سے بیزار ہو گئے ۔ پس مجھے اپنی ماں پر رحم اور ترس آیا ۔ پھر میں نے دعا کی کہ میری امت پر سے چاروں سختیاں دور کر دی جائیں اللہ تعالیٰ نے دو تو دور فرما دیں لیکن دو کے دور فرمانے سے انکار فرما دیا ۔ ا ۔ آسمان سے پتھر برسا کر ان کی ہلاکت ٢ ۔ زمین انہیں دھنسا کر ان کی ہلاکت ۔ ٣ ۔ ان میں پھوٹ اور اختلاف کا پڑنا ۔ ٤ ۔ ان میں ایک کو ایک سے ایذائیں پہنچنا ۔ ان چاوروں چیزوں سے بچاؤ کی میری دعا تھی دو پہلی چیزیں تو مجھے عنایت ہو گئیں میری امت آسمانی پتھراؤ سے اور زمین میں دھنسائے جانے سے تو بچا دی گئی ۔ ہاں آپس کا اختلاف آپس کی سر پھٹول یہ نہیں اٹھی ۔ آپ کی والدہ کی قبر ایک ٹیلے تلے تھی اس لیے آپ راستے سے گھوم کر وہاں گئے تھے ۔ یہ روایت غریب ہے اور سیاق عجیب ہے ۔ لیکن اس سے بھی زیادہ غریب اور منکر وہ روایت ہے جو امام خطیب بغدادی نے اپنی کتاب بنام سابق لاحق میں مجہول سند سے وارد کی ہے جس میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی والدہ کو زندہ کر دیا اور ایمان لائیں پھر مر گئیں ۔ اس طرح کی سہیلی کی ایک روایت ہے جس میں ایک نہیں کئی ایک راوی مجہول ہیں ۔ اس میں ہے کہ آپ کے ماں باپ دونوں دوبارہ زندہ ہوئے پھر ایمان لائے ۔ ابن دحیہ کہتے ہی کہ یہ حدیث جھوٹی ہے ۔ قرآن اور اجماع دونوں اس بات کو رد کرتے ہیں اللہ تعالیٰ نے خود قرآن میں فرمایا ہے : «وَلَا الَّذِینَ یَمُوتُونَ وَہُمْ کُفَّارٌ » ( 4-النساء : 18 ) اور ان کی توبہ بھی قبول نہیں جو کفر پر ہی مر جائیں ابن دحیہ نے اسی روایت پر نظریں جما کر کہا ہے کہ یہ نئی زندگی اسی طرح کی ہے جس طرح مروی ہے کہ سورج ڈوب جانے کے بعد واپس لوٹا اور علی نے نماز عصر ادا کی ۔ طحاوی تو کہتے ہیں کہ سورج والی یہ روایت ثابت ہے ۔ قرطبی کہتے ہیں ان کی دوبار کی زندگی شرعاً یا عقلاً ممتنع نہیں ۔ کہتے ہیں میں نے سنا ہے کہ آپ کے چچا ابوطالب کو بھی اللہ تعالیٰ نے زندہ کیا اور آپ پر ایمان لایا ۔ میں کہتا ہوں اگر صیح روایت سے یہ روایتیں ثابت ہوں تو بیشک مانع کوئی نہیں ( لیکن تینوں روایتیں محض گپ ہیں ) واللہ اعلم ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں آپ نے ارادہ کیا کہ اپنی ماں کے لیے استغفار کریں اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ۔ تو آپ نے ابراہیم کے استغفار کو پیش کیا ۔ اس کا جواب«وَمَا کَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰہِیْمَ لِاَبِیْہِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَۃٍ وَّعَدَھَآ اِیَّاہُ ۚ فَلَمَّا تَـبَیَّنَ لَہٗٓ اَنَّہٗ عَدُوٌّ لِّلّٰہِ تَبَرَّاَ مِنْہُ ۭ اِنَّ اِبْرٰہِیْمَ لَاَوَّاہٌ حَلِیْمٌ » ( 9- التوبہ : 114 ) میں مل گیا ۔ فرماتے ہیں اس آیت سے پہلے مشرکین کے لیے استغفار کیا جاتا تھا ۔ اب ممنوع ہو گیا ۔ ہاں زندوں کے لیے جائز رہا ۔ لوگوں نے آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ ہمارے بڑوں میں ایسے بھی تھے جو پڑوس کا اکرام کرتے تھے ، صلہ رحمی کرتے تھے ، غلام آزاد کرتے تھے ، ذمہ داری کا خیال رکھتے تھے ۔ تو کیا ہم ان کے لیے استغفار نہ کریں ؟ آپ نے فرمایا کیوں نہیں ، میں بھی اپنے والد کے لیے استغفار کرتا ہوں جیسے کہ ابراہیم اپنے والد کے لیے کرتے تھے ۔ اس پر «مَا کَانَ لِلنَّبِیِّ وَالَّذِینَ آمَنُوا أَن یَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِکِینَ وَلَوْ کَانُوا أُولِی قُرْبَیٰ مِن بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّہُمْ أَصْحَابُ الْجَحِیمِ » ( 9- التوبہ : 113 ) نازل ہوئی ۔ پھر ابراہیم علیہ السلام کا عذر بیان ہوا اور فرمایا«وَمَا کَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰہِیْمَ لِاَبِیْہِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَۃٍ وَّعَدَھَآ اِیَّاہُ ۚ فَلَمَّا تَـبَیَّنَ لَہٗٓ اَنَّہٗ عَدُوٌّ لِّلّٰہِ تَبَرَّاَ مِنْہُ ۭ اِنَّ اِبْرٰہِیْمَ لَاَوَّاہٌ حَلِیْمٌ » ( 9- التوبہ : 114 ) مذکور ہے کہ نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے چند باتیں وحی کی ہیں جو میرے کانوں میں گونج رہی ہیں اور میرے دل میں جگہ پکڑے ہوئے ہیں ۔ مجھے حکم فرمایا گیا کہ میں کسی اس شخص کے لیے استغفار نہ کروں جو شرک پر مرا ہو ۔ اور یہ کہ جو شخص اپنا فالتو مال دیدے اس کے لیے یہی افضل ہے اور جو روک رکھے اس کے لیے برائی ہے ۔ ہاں برابر سرابر حسب ضرورت پر اللہ کے ہاں ملامت نہیں ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ایک یہودی مر گیا جس کا ایک لڑکا تھا لیکن وہ مسلمان تھا اس لیے اپنے باپ کے جنازے میں وہ شریک نہ ہوا ۔ جب عبداللہ بن عباس کو یہ بات معلوم ہوئی تو فرمانے لگے اسے جنازے میں جانا چاہیئے تھا اور دفن میں بھی موجود رہنا چاہیئے تھا اور باپ کی زندگی تک اس کے لیے ہدایت کی دعا کرنی چاہیئے تھی ۔ ہاں موت کے بعد اسے اس کی حالت پر چھوڑ دیتا ۔ پھر آپ نے« وَمَا کَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَاہِیمَ لِأَبِیہِ إِلَّا عَن مَّوْعِدَۃٍ وَعَدَہَا إِیَّاہُ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہُ أَنَّہُ عَدُوٌّ لِّلَّہِ تَبَرَّأَ مِنْہُ ۚ إِنَّ إِبْرَاہِیمَ لَأَوَّاہٌ حَلِیمٌ » تلاوت فرمائی کہ ابراہیم نے یہ طریقہ نہیں چھوڑا ۔ اس کی صحت کی گواہ ابوداؤد وغیرہ کہ یہ روایت بھی ہو سکتی ہے کہ ابوطالب کی موت پر علی رضی اللہ عنہا آ کر کہتے ہیں کہ یا رسول اللہ آپ کے بوڑھے چچا گمراہ مر گئے ہیں ۔ آپ نے فرمایا جاؤ انہیں دفنا کر سیدھے میرے پاس آؤ الخ ۔ مروی ہے کہ جب ابوطالب کا جنازہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرا تو آپ نے فرمایا میں تجھ سے صلہ رحمی کا رشتہ نبھا چکا ۔ عطا بن ابی رباح فرماتے ہیں میں تو قبلہ کی طرف منہ کرنے والوں میں سے کسی کے جنازے کی نماز نہ چھوڑوں گا ۔ گو وہ کوئی حبشن زنا سے حاملہ ہی ہو ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے مشرکوں پر ہی نماز و دعا حرام کی ہے اور فرمایا ہے«مَا کَانَ لِلنَّبِیِّ وَالَّذِینَ آمَنُوا أَن یَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِکِینَ وَلَوْ کَانُوا أُولِی قُرْبَیٰ مِن بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّہُمْ أَصْحَابُ الْجَحِیمِ ، » ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے سنا کہ وہ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ اس پر رحم فرمائے جو ابوہریرہ اور اس کی ماں کے لیے استغفار کرے ۔ تو اس نے کہا باپ کے لیے بھی ۔ آپ نے فرمایا نہیں اس لیے کہ میرا باپ شرک پر مرا ہے ۔ آیت میں فرمان الٰہی ہے کہ« قَالَ أَرَاغِبٌ أَنتَ عَنْ آلِہَتِی یَا إِبْرَاہِیمُ ۖ لَئِن لَّمْ تَنتَہِ لَأَرْجُمَنَّکَ ۖ وَاہْجُرْنِی مَلِیًّا قَالَ سَلَامٌ عَلَیْکَ ۖ سَأَسْتَغْفِرُ لَکَ رَبِّی ۖ إِنَّہُ کَانَ بِی حَفِیًّا» ( 19-مریم : 46 ، 47 ) اس نے ( ان کے والد نے ) کہا ابراہیم کیا تو میرے معبودوں سے برگشتہ ہے ؟ اگر تو باز نہ آئے گا تو میں تجھے سنگسار کر دوں گا اور تو ہمیشہ کے لیے مجھ سے دور ہو جا ، ابراہیم نے سلام علیک کہا ( اور کہا کہ ) میں آپ کے لیے اپنے پروردگار سے بخشش مانگوں گا ۔ بیشک وہ مجھ پر نہایت مہربان ہے ۔ جب ابراہیم علیہ السلام پر اپنے باپ کا اللہ کا دشمن ہونا کھل گیا ۔ یعنی وہ کفر ہی پر مر گیا ۔ مروی ہے کہ قیامت کے دن جب ابراہیم علیہ السلام سے ان کا باپ ملے گا ۔ نہایت سرا سیمگی پریشانی کی حالت میں چہرہ غبار آلود اور کالا پڑا ہوا ہو گا کہے گا کہ ابراہیم آج میں تیری نافرمانی نہ کروں گا ۔ ابراہیم علیہ السلام جناب باری میں عرض کریں گے کہ میرے رب تو نے مجھے قیامت کے دن رسوا نہ کرنے کا وعدہ کیا ہوا ہے ۔ اور میرا باپ تیری رحمت سے دور ہو کر عذاب میں مبتلا ہو یہ بہت بڑی رسوائی ہے ۔ اس پر فرمایا جائے گا کہ اپنی پیٹھ پیچھے دیکھو ۔ دیکھیں گے کہ ایک بجو کیچڑ میں لتھڑا ہوا کھڑا ہے ۔ یعنی آپ کے والد کی صورت مسخ ہو گئی ہو گی اور اس کے پاؤں پکڑ کر گھسیٹ کر اسے دوزخ میں ڈال دیا جائے گا ۔ فرماتا ہے کہ ابراہیم بڑا ہی دعا کرنے والا تھا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے «أَوَّاہٌ » کا مطلب دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا رونے دھونے والا ، اللہ تعالیٰ کے سامنے گریہ و زاری کرنے والا ۔ ابن مسعود فرماتے ہیں بہت ہی رحم کرنے والا ، مخلوق رب کے ساتھ نرمی اور سلوک اور مہربانی کرنے والا ۔ ابن عباس کا قول ہے پورے یقین والا ۔ سچے ایمان والا ، توبہ کرنے والا ، حبشی زبان میں«أَوَّاہٌ » مومن اور موقن یقین و ایمان والے کو کہتے ہیں ۔ ذوالنجادین نامی ایک صحابی کو اس بنا پر کہ جب قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ذکر ہوتا تو وہ اسی وقت دعا کے ساتھ آواز اٹھاتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے «أَوَّاہٌ » فرمایا ۔ ( مسند احمد ) «أَوَّاہٌ » سے مراد تسبیح پڑھنے والا ۔ ضحٰی کی نماز پڑھنے والا ۔ اپنے گناہوں کی یاد آنے پر استغفار کرنے والا ۔ اللہ کے دین کی حفاظت کرنے والا ۔ رب سے ڈرنے والا ۔ پوشیدہ اگر کوئی گناہ ہو جائے تو توبہ کرنے والا بھی مروی ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک شخص کا ذکر ہوا کہا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بکثرت یاد کرتا ہے اور اللہ کی تسبیح بیان کرتا رہتا ہے ۔ آپ نے فرمایا وہ «أَوَّاہٌ » ہے ۔ ( ابن جریر ) اسی ابن جریر میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک میت کو دفن کر کے فرمایا یقیناً تو «أَوَّاہٌ » یعنی بکثرت تلاوت کلام اللہ شریف کرنے والا تھا ۔ اور روایت میں ہے کہ ایک شخص بیت اللہ شریف کا طواف کرتے ہوئے اپنی دوا میں «أَوَّاہٌ » «أَوَّاہٌ » کر رہا تھا ۔ اس کے انتقال کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے دفن میں شامل تھے چونکہ رات کا وقت تھا اس لیے آپ کے ساتھ چراغ بھی تھا ۔ ( ابن جریر ) یہ روایت غریب ہے ۔ کعب احبار فرماتے ہیں کہ جب ابراہیم کے سامنے جہنم کا ذکر ہوتا تھا تو آپ اس سے پناہ مانگا کرتے تھے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں «أَوَّاہٌ » یعنی« فقیہ» ۔ امام ابن جریر کا فیصلہ یہ ہے کہ سب سے بہتر قول ان تمام اقوال میں یہ ہے کہ مراد اس لفظ سے بکثرت دعا کرنے والا ہے ۔ الفاظ کے مناسب بھی یہی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہاں ذکر یہ فرمایا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام اپنے والد کے لیے استغفار کیا کرتے تھے اور تھے بھی بکثرت دعا مانگنے والے ۔ بردبار بھی تھے ، جو آپ پر ظلم کرے ، آپ سے برا پیش آئے آپ تحمل کر جایا کرتے تھے ۔ باپ نے آپ کو ایذاء دی صاف کہہ دیا تھا کہ تو میرے معبودوں سے منہ پھیر رہا ہے تو اگر اپنی اس حرکت سے باز نہ آیا تو میں تجھے پتھر مار مار کر مار ڈالوں گا ۔ وغیرہ لیکن پھر بھی آپ نے ان کے لیے استغفار کرنے کا وعدہ کر لیا ، پس اللہ فرماتا ہے کہ«إِنَّ إِبْرَاہِیمَ لَأَوَّاہٌ حَلِیمٌ» ابراہیم «أَوَّاہٌ » اور حلیم تھے ۔ التوبہ
114 التوبہ
115 معصیت کا تسلسل گمراہی کا بیج ہے اللہ تعالیٰ خبر دے رہا ہے کہ وہ کریم و عادل اللہ کسی قوم کو ہدایت کرنے کے بعد حجت پوری کئے بغیر گمراہ نہیں کرتا ۔ جیسے اور جگہ ہے کہ«وَأَمَّا ثَمُودُ فَہَدَیْنَاہُمْ فَاسْتَحَبٰوا الْعَمَیٰ عَلَی الْہُدَیٰ» ( 41-فصلت : 17 ) ثمودیوں کو ہم نے ہدایت دی لیکن انہوں نے بینائی کے باجود اندھے پن کو ترجیح دی ۔ اوپر کی آیت کی مناسبت کی وجہ سے مشرکوں کے لیے استغفار نہ کرنے کے بارے میں خاص طور پر اور اللہ تعالیٰ کی ہر معصیت کے چھوڑنے اور ہر طاعت کے بجا لانے میں عام طور پر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے لیے بیان فرما چکا ہے ۔ اب جو چاہے کرے ، جو چاہے چھوڑے ۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کرتا کہ مومنوں کو مشرک مردوں کے استغفار سے روکے بغیر ہی ان کے اس استغفار کی وجہ سے انہیں اپنے نزدیک گمراہ بنا دے ۔ حالانکہ اس سے پیشتر وہ انہیں ایمان کی راہ پر لاچکا ہے ۔ پس پہلے اپنی کتاب کے ذریعے انہیں اس سے روک رہا ہے ۔ اب جو مان گیا اور اللہ کی ممانعت کے کام سے رک گیا اس پر اس سے پہلے کئے ہوئے کام کی وجہ سے گمراہی لازم نہیں ہو جاتی ۔ اس لیے کہ طاعت و معصیت حکم و ممانعت کے بعد ہوتی ہے ۔ اس سے پہلے مطیع اور عاصی ظاہر نہیں ہوتا ۔ پہلے ہی ان چیزوں کو وہ ظاہر فرما دیتا ہے جس سے بچانا چاہتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ خبر دے رہا ہے کہ وہ کریم و عادل اللہ کسی قوم کو ہدایت کرنے کے بعد حجت پوری کئے بغیر گمراہ نہیں کرتا ۔ جیسے اور جگہ ہے کہ ثمودیوں کو ہم نے ہدایت دی لیکن انہوں نے بینائی کے باجود اندھے پن کو ترجیح دی ۔ اوپر کی آیت کی مناسبت کی وجہ سے مشرکوں کے لیے استغفار نہ کرنے کے بارے میں خاص طور پر اور اللہ تعالیٰ کی ہر معصیت کے چھوڑنے اور ہر طاعت کے بجا لانے میں عام طور پر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے لیے بیان فرما چکا ہے ۔ اب جو چاہے کرے ، جو چاہے چھوڑے ۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کرتا کہ مومنوں کو مشرک مردوں کے استغفار سے روکے بغیر ہی ان کے اس استغفار کی وجہ سے انہیں اپنے نزدیک گمراہ بنا دے ۔ حالانکہ اس سے پیشتر وہ انہیں ایمان کی راہ پر لاچکا ہے ۔ پس پہلے اپنی کتاب کے ذریعے انہیں اس سے روک رہا ہے ۔ اب جو مان گیا اور اللہ کی ممانعت کے کام سے رک گیا اس پر اس سے پہلے کئے ہوئے کام کی وجہ سے گمراہی لازم نہیں ہو جاتی ۔ اس لیے کہ طاعت و معصیت حکم و ممانعت کے بعد ہوتی ہے ۔ اس سے پہلے مطیع اور عاصی ظاہر نہیں ہوتا ۔ پہلے ہی ان چیزوں کو وہ ظاہر فرما دیتا ہے جس سے بچانا چاہتا ہے ۔ وہ پورا باخبر اور سب سے بڑھ کر علم والا ہے ۔ پھر مومنین کو مشرکین سے اور ان کے ذی اختیار بادشاہوں سے جہاد کی رغبت دلاتا ہے ۔ اور انہیں اپنی مدد پر بھروسہ کرنے کو فرماتا ہے کہ زمین و آسمان کا ملک میں ہی ہوں ۔ تم میرے دشمنوں سے مرعوب مت ہونا ۔ کون ہے جو ان کا حمایتی بن سکے ؟ اور کون ہے جو ان کی مدد پر میرے مقابلے میں آسکتا ہے ؟ ابن ابی حاتم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ اپنے اصحاب کے مجمع میں بیٹھے ہوئے فرمانے لگے کیا جو میں سنتا ہوں تم بھی سن رہے ہو ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہمارے کان میں کوئی آواز نہیں آ رہی ۔ آپ نے فرمایا میں آسمانوں کا چرچرانا سن رہا ہوں درحقیقت میں ان کا چرچرانا ٹھیک بھی ہے ۔ ان میں ایک بالشت بھر جگہ ایسی نہیں جہاں کوئی نہ کوئی فرشتہ سجدے میں اور قیام میں نہ ہو ۔ کعب احبار فرماتے ہیں ساری زمین میں سوئی کے ناکے برابر کی جگہ بھی ایسی نہیں جہاں کوئی نہ کوئی فرشتہ مقرر نہ ہو جو یہاں کا علم اللہ کی طرف نہ پہنچاتا ہو ۔ آسمان کے فرشتوں کی گنتی زمین کے سنگریزوں سے بڑی ہے ۔ عرش کے اٹھانے والے فرشتوں کے ٹخنے اور پنڈلی کے درمیان کا فاصلہ ایک سو سال کا ہے ۔ التوبہ
116 التوبہ
117 . مجاہدرحمہ اللہ وغیرہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت جنگ تبوک کے بارے میں اتری ہے اس جنگ میں جانے کے وقت سال بھی قحط کا تھا ، گرمیوں کا موسم تھا ، کھانے پینے کی کمی تھی ، راستوں میں پانی نہ تھا ۔ شام کے ملک تک کا دور دراز کا سفر تھا ۔ سامان رسد کی اتنی کمی کہ دو دو آدمیوں میں ایک ایک کھجور بٹتی تھی ۔ پھر تو یہ ہو گیا تھا کہ ایک کھجور ایک جماعت کو ملتی یہ چوس کر اسے دیتا وہ اور کو اور ایک ایک چوس کر پانی پی لیتا ۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت ان پر لازم کر دی اور انہیں واپس لایا ۔ عمر رضی اللہ عنہ سے جب اس سختی کا سوال ہوا تو آپ نے فرمایا ۔ سخت گرمیوں کے زمانے میں ہم نگلنے کو تھے ، ایک منزل میں تو پیاس کے مارے ہماری گردنیں ٹوٹنے لگیں یہاں تک کہ لوگ اپنے اونٹوں کو ذبح کر کے اس کی اوجھڑی نچوڑ کر اس پانی کو پیتے اور پھر اسے اپنے کلیجے سے لگا لیتے اس وقت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ اور عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعاؤں کو ہمیشہ ہی قبول فرمایا ہے ۔ اب بھی دعا کیجئے کہ اللہ قبول فرمائے آپ نے ہاتھ اٹھا کر دعا شروع کی اس وقت آسمان پر ابر چھا گیا اور برسنے لگا اور خوب برسا جس کے پاس جتنے برتن تھے سب بھر لیے پھر بارش رک گئی اب جو ہم دیکھتے ہیں تو ہمارے لشکر کے احاطے سے باہر ایک قطرہ بھی کہیں نہیں برسا تھا ۔ پس اس جہاد میں جنہوں نے روپے پیسے سے ، سواری سے ، خوراک سے ، سامان رسد اور ہتھیار سے پانی وغیرہ سے غرض کسی طرح بھی مومنوں کی مدد کی تھی ، ان کی فضیلت و برتری بیان ہو رہی ہے ۔ یہی وہ وقت تھا کہ بعض کے دل پھر جانے کے قریب ہو گئے تھے ۔ مشقت شدت اور بھوک پیاس نے دلوں کو ہلا دیا تھا ، مسلمان جھنجھوڑ دیئے گئے تھے لیکن رب نے انہیں سنبھال لیا اور اپنی طرف جھکا لیا اور ثابت قدمی عطا فرما کر خود بھی ان پر مہربان ہو گیا ، اللہ تعالیٰ جیسی رافعت و رحمت اور کس کی ہے ؟ وہ ان پر خوب ہی رحمت و کرم رکھتا ہے ۔ التوبہ
118 . سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے سیدنا عبیداللہ جو آپ کے نابینا ہو جانے کے بعد آپ کا ہاتھ تھام کر لے جایا ، لے آیا کرتے تھے ۔ کہتے ہیں کہ جنگ تبوک کے موقع پر میرے والد کے رہ جانے کا واقعہ خود کی زبانی یہ ہے کہ فرماتے ہیں ” میں اس کے سوا کسی اور غزوے میں پچھے نہیں رہا ۔ ہاں غزوہ بدر کا ذکر نہیں ، اس میں جو لوگ شامل نہیں ہوئے تھے ، ان پر کوئی سرزنش نہیں ہوئی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو قافلے کے ارادے سے چلے تھے لیکن وہاں اللہ کی مرضی سے قریش کے جنگی مرکز سے لڑائی ٹھہر گئی ۔ تو چونکہ یہ لڑائی بیخبری میں ہوئی اس لیے میں اس میں حاضر نہ ہو سکا ، اس کے بجائے الحمداللہ میں لیلۃالعقبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ تھا جب کہ ہم نے اسلام پر موافقت کی تھی ۔ اور میرے نزدیک تو یہ چیز بدر سے بھی زیادہ محبوب ہے گو بدر کی شہرت لوگوں میں بہت زیادہ ہے ۔ اچھا اب غزوہ تبوک کی غیر حاضری کا واقعہ سنئے ۔ اس وقت مجھے جو آسانی اور قوت تھی وہ اس سے پہلے کبھی میسر نہ آئی تھی ۔ اس وقت میرے پاس دو اونٹنیاں تھیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس غزوے میں جاتے توریہ کرتے یعنی ایسے الفاظ کہتے کہ لوگ صاف مطلب نہ سمجھیں ۔ لیکن چونکہ اس وقت موسم سخت گرم تھا ، سفر بہت دور دراز کا تھا ، دشمن بڑی تعداد میں تھا ، پس آپ نے مسلمانوں کے سامنے اپنا مقصد صاف صاف واضح کر دیا کہ وہ پوری پوری تیاری کر لیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس وقت مسلمانوں کی تعداد بھی اتنی زیادہ تھی کہ رجسٹر میں ان کے نام نہ آ سکے ۔ پس کوئی بازپرس نہ تھی جو بھی چاہتا کہ میں رک جاؤں وہ رک سکتا تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اس کا رکنا مخفی رہ سکتا تھا ۔ ہاں اللہ کی وحی آ جائے یہ تو بات ہی اور ہے اس لڑائی کے سفر کے وقت پھل پکے ہوئے تھے ، سائے بڑھے ہوئے تھے ۔ مسلمان صحابہ رضی اللہ عنہم اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تیاریوں میں تھے ، میری یہ حالت تھی کہ صبح نکلتا تھا کہ سامان تیار کر لوں لیکن ادھر ادھر شام ہو جاتی اور میں خالی ہاتھ گھر لوٹ جاتا ۔ اور کہتا کوئی بات نہیں ، روپیہ ہاتھ تلے ہے ، کل خرید لوں گا اور تیاری کر لوں گا ۔ یہاں تک کہ یوں ہی صبح شام ، صبح شام آج کل آج کل کرتے کوچ کا دن آ گیا اور لشکر اسلام بجانب تبوک چل پڑا میں نے کہا کوئی بات نہیں ایک دو دن میں میں بھی پہنچتا ہوں ۔ یونہی آج کا کام کل پر ڈالا اور کل کا پرسوں پر یہاں تک کہ لشکر دور جا پہنچا ۔ گرے پڑے لوگ بھی چل دیئے ۔ میں نے کہا خیر چلے گئے اور کئی دن ہو گئے تو کیا ہوا میں تیز چل کر جا ملوں گا ؟ لیکن افسوس کہ یہ بھی مجھ سے نہ ہو سکا ۔ ارادوں ہی ارادوں میں رہ گیا ۔ اب تو یہ حالت تھی میں بازاروں میں نکلتا تو مجھے سوائے منافقوں اور بیمار لولے لنگڑے اندھے مریضوں اور معذور لوگوں کے اور کوئی نظر نہ آتا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبوک پہنچ کر مجھے یاد فرمایا کہ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے کیا کیا ؟ اس پر بنو سلمہ کے ایک شخص نے کہا : ” اسے تو اچھے کپڑوں اور جسم کی راحت رسانی نے روک رکھا ہے “ ۔ یہ سن کر سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ” آپ یہ درست نہیں فرما رہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمارا خیال تو کعب کی نسبت بہتر ہی ہے “ ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو رہے ۔ جب مجھے معلوم ہوا کہ اب آپ لوٹ رہے ہیں تو میرا جی بہت ہی گھبرایا ۔ اور میں حیلے بہانے سوچنے لگا کہ یوں یوں بہانہ بنا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے غصے سے نکل جاؤں گا اپنے والوں سے بھی رائے ملا لوں گا ۔ یہاں تک کہ مجھے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینے شریف کے قریب آگئے تو میرے دل سے باطل اور جھوٹ بالکل الگ ہو گیا ۔ اور میں نے سمجھ لیا کہ جھوٹے حیلے مجھے نجات نہیں دلوا سکے ۔ سچ ہی کا آخر بول بالا رہتا ہے ۔ پس میں نے پختہ ارادہ کر لیا کہ جھوٹ نہیں بولوں گا ۔صاف صاف سچ سچ بات کہ دوں گا ۔ آپ خیر سے تشریف لائے اور حسبِ عادت پہلے مسجد میں آئے ، دو رکعت نماز ادا کی اور وہیں بیٹھے اسی وقت اس جہاد میں شرکت نہ کرنے والےآنے لگے اور عذر معذرت کرنے لگے ۔ یہ لوگ اسی 80 سے کچھ اوپر تھے ۔ آپ ان کی باتیں سنتے اور اندرونی حالت سپرد الہٰ کر کے ظاہری باتوں کو قبول فرما کر ان کے لئے استغفار کرتے ۔ میں بھی حاضر ہوا اور سلام کیا ۔ آپ نے غصے سے تبسم فرمایا اورر مجھے اپنے پاس بلایا میں قریب آن کر بیٹھ گیا ۔ آپ نے فرمایا: ” تم کیسے رک گئے ؟ تم نے سواری بھی خرید لی تھی “ ۔ میں نے کہا : ” یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر آپ کے سوا کسی اور کے پاس میں بیٹھا ہوتا تو بیسیوں باتیں بنا لیتا ۔ بولنے میں اور باتیں بنانے میں میں کسی سے پیچھے نہیں ہوں ۔ لیکن میں جانتا ہوں کہ اگر آج جھوٹ سچ ملا کر آپ کے غصے سے میں آزاد ہو گیا تو ممکن ہے کل اللہ تعالیٰ آپ کو حقیقت حال سے مطلع فرما دے کر پھر مجھ سے ناراض کر دے ۔ اور آج سچ کی بنا پر اگر آپ مجھ سے بگڑیں تو ہو سکتا ہے کہ میری سچائی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ آپ کو مجھ سے پھر خوش کر دے “ ۔ ” یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! سچ تو یہ ہے کہ واللہ ! مجھے کوئی عذر نہ تھا ۔ مجھے اس وقت جو آسانی اور فرصت تھی ، اتنی تو کبھی اس سے پہلے میسر بھی نہیں ہوئی “ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ہے تو یہ سچا ۔ اچھا تم جاؤ اللہ تمہارے بارے میں جو فیصلہ کرے گا وہی ہو گا “ ۔ میں کھڑا ہو گیا ، بنو سلمہ کے چند شخص بھی میرے ساتھ ہی اٹھے اور ساتھ ہی چلے اور مجھ سے کہنے لگے اس سے پہلے تو تم سے کبھی کوئی اس قسم کی خطا نہیں ہوئی ۔ لیکن تعجب ہے کہ تو نے کوئی عذر معذرت پیش نہیں کی جیسے کہ اوروں نے کی ، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم تمہارے لیے استغفار کرتے تو تمہیں یہ کافی تھا ۔ الغرض کچھ اس طرح یہ لوگ میرے پیچھے پڑے کہ مجھے خیال آنے لگا کہ پھر واپس جاؤں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی پہلی بات کو جھٹلا کر کوئی حیلہ غلط سلط میں بھی پیش کر دوں ۔ پھر میں نے پوچھا : ” کیوں جی کوئی اور بھی میرے جیسا اس معاملے میں اور ہے “ ؟ انہوں نے کہا : ” ہاں دو شخص اور ہیں اور انہیں بھی وہی جواب ملا ہے جو تمہیں ملا ہے “ ۔ میں نے کہا : ” وہ کون کون ہیں “ ؟ انہوں نے جواب دیا مرارہ بن ربیع عامری اور حلال بن امیہ واقفی رضی اللہ عنہما ۔ ان دونوں صالح اور نیک بدری صحابیوں کا نام جب میں نے سنا تو مجھے پورا اطمینان ہو گیا اور میں گھر چلا گیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم تینوں سے کلام کرنے سے مسلمانوں کو روک دیا تھا ۔ لوگ ہم سے الگ ہو گئے ، کوئی ہم سے بولتا چالتا نہ تھا یہاں تک کہ مجھے تو اپنا وطن پر دیس معلوم ہونے لگا کہ گویا میں یہاں کی کسی چیز سے واقف ہی نہیں ہوں ۔ پچاس راتیں ہم پر اسی طرح گزر گئیں ۔ وہ دونوں بدری بزرگ تو تھک ہار کر اپنے اپنے مکانوں میں بیٹھ رہے ، باہر اندر آنا جانا بھی انہوں نے چھوڑ دیا ۔ میں ذرا زیادہ آنے جانے والا اور تیز طبعیت والا تھا ۔ نہ میں نے مسجد جانا چھوڑا ، نہ بازاروں میں جانا آنا ترک کیا ۔ مجھ سے کوئی بولتا نہ تھا ۔ نماز کے بعد جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں لوگوں کے مجمع میں تشریف فرما ہوتے تو میں آتا اور سلام کرتا اور اپنے جی میں کہتا کہ میرے سلام کے جواب میں آپ کے ہونٹ ہلے بھی یا نہیں ؟ پھر آپ کے قریب ہی کہیں بیٹھ جاتا اور کن انکھیوں سے آپ کو دیکھتا رہتا ۔ جب میں نماز میں ہوتا تو آپ کی نگاہ مجھ پر پڑتی لیکن جہاں میں آپ کی طرف التفات کرتا ، آپ میری طرف سے منہ موڑ لیتے ۔ آخر اس ترک کلامی کی طویل مدت نے مجھے پریشان کر دیا ۔ ایک روز میں اپنے چچا زاد بھائی ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کے باغ کی دیوار سے کود کر ان کے پاس گیا ۔ مجھے ان سے بہت ہی محبت تھی ۔ میں نے سلام کیا لیکن واللہ ! انہوں نے جواب نہ دیا ۔ میں نے کہا : ” ابو قتادہ رضی اللہ عنہ تجھے اللہ کی قسم کیا تو نہیں جانتا میں اللہ ، رسول سے محبت رکھتا ہوں “ ؟ اس نے پھر خاموشی اختیار کی میں نے دوبارہ انہیں قسم دی اور پوچھا وہ پھر بھی خاموش رہے میں نے سہ بارہ انہیں قسم دے کر یہی سوال کیا اس کے جواب میں بھی وہ خاموش رہے اور فرمایا : ” اللہ اور اس کے رسول کو ذیادہ علم ہے “ ۔ اب تو میں اپنے دل کو نہ روک سکا ۔ میری دونوں آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور بہت ہی غمگین ہو کر میں پھر دیوار پر چڑھ کر باہر نکل گیا ۔ میں بازار جا رہا تھا کہ میں نے شام کے ایک قبطی کو جو مدینہ میں غلہ بیچنے آیا تھا یہ پوچھتے ہوئے سنا کہ کوئی مجھے کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کا پتہ بتا دے ۔ لوگوں نے اسے میری طرف اشارہ کر کے بتا دیا وہ میرے پاس آیا اور مجھے شاہ غسان کا خط دیا ۔ میں لکھا پڑھا تو تھا ہی ۔ میں نے پڑھا تو اس میں لکھا تھا ہمیں معلوم ہوا ہے کہ تمہارے سردار نے تم پر ظلم کیا ہے تم کوئی ایسے گرے پڑے آدمی نہیں ہو تم یہاں دربار میں چلے آؤ ۔ ہم ہر طرح کی خدمت گزاریوں کے لیے تیار ہیں ۔ میں نے اپنے دل میں سوچا یہ ایک اور مصیبت اور منجانب اللہ آزمائش ہے ۔ میں نے تو جا کر چولھے میں اس رقعے کو جلا دیا ۔ چالیس راتیں جب گزر چکیں تو میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد میرے پاس آ رہا ہے اس نے آ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام پہنچایا تم اپنی بیوی سے علیحدہ رہو ۔ میں نے پوچھا : ” یعنی کیا طلاق دے دوں یا کیا کروں “ ؟ اس نے کہا : ” نہیں طلاق نہ دو لیکن ان سے ملو جلو نہیں “ ۔ میرے دونوں ساتھیوں کے پاس بھی یہی پیغام پہنچا ۔ میں نے تو اپنی بیوی سے کہہ دیا کہ تم اپنے میکے چلی جاؤ اور وہیں رہو جب تک کہ اللہ تعالیٰ اس امر کا فیصلہ نہ کر دے ۔ ہاں سیدنا ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ کی بیوی نے آن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ ” میرے خاوند بہت بوڑھے ہیں ، کمزور بھی ہیں اور گھر میں کوئی خادم بھی نہیں اگر آپ اجازت دیں تو میں ان کا کام کاج کر دیا کروں “ ۔ آپ نے فرمایا : ” اس میں کوئی حرج نہیں لیکن وہ تم سے ملیں نہیں “ ۔ انہوں نے کہا : ” واللہ ! ان میں تو حرکت کی قوت ہی نہیں اور جب سے یہ بات پیدا ہوئی ہے تب سے لے کر آج تک ان کے آنسو تھمے ہی نہیں “ ۔ مجھ سے بھی میرے بعض دوستوں نے کہا کہ تم بھی اتنی اجازت تو حاصل کر لو جتنی سیدنا ہلال رضی اللہ عنہ کے لیے ملی ہے ۔ لیکن میں نے جواب دیا کہ میں اس بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ نہیں کہوں گا ۔ اللہ جانے آپ جواب میں کیا ارشاد فرمائیں ؟ ظاہر ہے کہ وہ بوڑھے آدمی ہیں اور میں جوان ہوں ۔ دس دن اس بات پر بھی گزر گئے ۔ اور ہم سے سلام کلام بند ہونے کی پوری پچاس راتیں گزر چکیں ۔ اس پچاسویں رات کو صبح کی نماز میں نے اپنے گھر کی چھت پر ادا کی ۔ اور میں دل برداشتہ حیران و پریشان اسی حالت میں بیٹھا ہوا تھا جس کا نقشہ قرآن کریم نے کھینچا ہے کہ اپنی جان سے تنگ تھا ، زمین باوجود اپنی کشادگی کے مجھ پر تنگ تھی کہ میرے کان میں سلع پہاڑی پر سے کسی کی آواز آئی کہ وہ با آواز بلند کہہ رہا تھا کہ اے کعب بن مالک رضی اللہ عنہ خوش ہو جا ۔ واللہ ! میں اس وقت سجدے میں گڑ پڑا اور سمجھ گیا کہ اللہ عزوجل کی طرف سے قبولیت توبہ کی کوئی خبر آ گئی ۔ بات بھی یہی تھی صبح کی نماز کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خبر صحابہ سے بیان فرمائی تھی اور یہ سنتے ہی وہ پیدل اور سوار ہم تینوں کی طرف دوڑ پڑے تھے کہ ہمیں خبر پہنچائیں ۔ ایک صاحب تو اپنے گھوڑے پر سوار میری طرف خوشخبری لیے ہوئے آ رہے تھے لیکن اسلم کے ایک صاحب نے دوڑ کر پہاڑ پر چڑھ کر باآواز بلند میرا نام لے کر مجھے خوشخبری پہنچائی سوار سے پہلے ان کی آواز میرے کان میں آ گئی ۔ جب یہ صاحب میرے پاس پہنچے تو میں نے اپنے پہنے ہوئے دونوں کپڑے انہیں بطور انعام دے دیئے واللہ ! اس دن میرے پاس اور کچھ بھی نہ تھا ۔ دو کپڑے اور ادھار لے کر میں نے پہنے ۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے گھر سے نکلا ۔ راستے میں جوق در جوق لوگ مجھ سے ملنے لگے اور مجھے میری توبہ کی بشارت مبارکباد دینے لگے ۔ کہ کعب رضی اللہ عنہ اللہ تعالیٰ کا تمہاری توبہ کو قبول فرما لینا تمہیں مبارک ہو ۔ میں جب مسجد میں پہنچا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے اور دیگر صحابہ بھی حاضر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھے ۔ مجھے دیکھتے ہی طلحہ بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے اور دوڑتے ہوئے آگے بڑھ کر مجھ سے مصافحہ کیا اور مجھے مبارک باد دی ۔ مہاجرین میں سے سوائے ان کے اور کوئی صاحب کھڑے نہیں ہوئے ۔ کعب طلحہ کی اس محبت کو ہمیشہ ہی اپنے دل میں لیے رہے ۔ جب میں نے جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سلام کیا ، اس وقت آپ کے چہرہ مبارک کی رگیں خوشی سے چمک رہی تھیں ۔ آپ نے فرمایا کعب تم پر تمہاری پیدائش سے لے کر آج تک آج جیسا خوشی کا دن کوئی نہیں گزرا ۔ میں نے کہا یا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ یہ خوشخبری آپ کی طرف سے ہے یا اللہ تعالیٰ عزوجل کی جانب سے ؟ آپ نے فرمایا نہیں نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کوئی خوشی ہوتی تو آپ کا چہرہ مثل چاند کے ٹکڑے کے چمکنے لگ جاتا تھا اور ہر شخص چہرے مبارک کو دیکھتے ہی پہنچان لیا کرتا تھا ۔ میں نے آپ کے پاس بیٹھ کر عرض کیا کہ یا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ میں نے نذر مانی ہے کہ اللہ تعالیٰ میری توبہ قبول فرما لے تو میرا سب مال اللہ کے نام صدقہ ہے ۔ اس کے رسول کے سپرد ہے ۔ آپ نے فرمایا تھوڑا بہت مال اپنے پاس رکھ لو ، یہی تمہارے لیے بہتر ہے ۔ میں نے کہا جو حصہ میرا خیبر میں ہے وہ تو میرا رہا باقی للہ خیرات ہے ۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری نجات کا ذریعہ میرا سچ بولنا ہے میں نے یہ بھی نذر مانی ہے کہ باقی زندگی بھی سوائے سچ کے کوئی کلمہ زبان سے نہیں نکالوں گا ۔ میرا ایمان ہے کہ سچ کی وجہ سے جو نعمت اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا فرمائی وہ کسی مسلمان کو نہیں ملی ۔ اس وقت سے لے کر آج تک بحمد اللہ میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا ۔ اور جو عمر باقی ہے ، اس میں بھی اللہ تعالیٰ سے مجھے یہی امید ہے ۔ اللہ رب العزت نے «لَّقَد تَّابَ اللہُ عَلَی النَّبِیِّ وَالْمُہَاجِرِینَ وَالْأَنصَارِ» ( 9-التوبہ : 117 ) سے کئی آیتیں تک ہماری توبہ کے بارے نازل فرمائیں ۔ اسلام کی نعمت کے بعد مجھ پر اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت یہ بھی ہے کہ میں نے اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کوئی جھوٹ بات نہ کہی جیسے کہ اوروں نے جھوٹی باتیں بنائیں ورنہ میں بھی ان کی طرح ہلاک ہو جاتا ۔ ان جھوٹے لوگوں کو کلام اللہ شریف میں بہت ہی برا کہا گیا ۔ فرمایا«سَیَحْلِفُونَ بِ اللہِ لَکُمْ إِذَا انقَلَبْتُمْ إِلَیْہِمْ لِتُعْرِضُوا عَنْہُمْ ۖ فَأَعْرِضُوا عَنْہُمْ ۖ إِنَّہُمْ رِجْسٌ ۖ وَمَأْوَاہُمْ جَہَنَّمُ جَزَاءً بِمَا کَانُوا یَکْسِبُونَ یَحْلِفُونَ لَکُمْ لِتَرْضَوْا عَنْہُمْ ۖ فَإِن تَرْضَوْا عَنْہُمْ فَإِنَّ اللہَ لَا یَرْضَیٰ عَنِ الْقَوْمِ الْفَاسِقِینَ » ( 9- التوبۃ : 95 ، 96 ) یعنی تمہارے واپس آنے کے بعد یہ لوگ قسمیں کھا کھا کر چاہتے ہیں کہ تم ان سے چشم پوشی کر لو ۔ اچھا تم چشم پوشی کر لو لیکن یاد رہے کہ اللہ کے نزدیک یہ لوگ گندے اور پلید ہیں ۔ ان کا ٹھکانا جہنم ہے جو ان کے عمل کا بدلہ ہو گا ۔ یہ تمہیں رضامند کرنے کے لیے حلف اٹھا رہے ہیں تم گو ان سے راضی ہو جاؤ لیکن ایسے فاسق لوگوں سے اللہ خوش نہیں ۔ تم تینوں کے امر ان لوگوں کے امر سے پیچھے ڈال دیا گیا تھا ۔ ان کے عذر تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرمائے تھے ، ان سے دوبارہ بیعت کر لی تھی اور ان کے لیے استغفار بھی کیا تھا ۔ اور ہمارا معاملہ تاخیر میں پڑ گیا تھا جس کا فیصلہ خود اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ۔ اسی لیے آیت کے الفاظ«وَعَلَی الثَّلَاثَۃِ الَّذِینَ خُلِّفُوا» ہیں ۔ پس اس پیچھے چھوڑ دئیے جانے سے مراد غزوے سے رک جانا نہیں بلکہ ان لوگوں کے جھوٹے عذر کے قبول کئے جانے سے ہمارا معاملہ مؤخر کر دینا ہے ۔ یہ حدیث بالکل صحیح ہے بخاری مسلم دونوں میں ہے ۔ الحمداللہ اس حدیث میں اس آیت کی پوری اور صحیح تفسیر موجود ہے ۔ کہ تینوں بزرگ انصاری تھے رضی اللہ عنہم اجمعین ۔ ایک روایت میں مرارہ بن ربیعہ کے بدلے ربیع بن مرارہ آیا ہے ۔ ایک میں ربیع بن مرار یا مرار بن ربیع ہے ۔ لیکن صحیح وہی ہے جو بخاری و مسلم میں ہے یعنی مرارہ بن ربیع رضی اللہ عنہ ۔ ہاں زہری کی اوپر والی روایت میں جو یہ لفظ ہے کہ وہ دونوں بدری صحابی تھے جو کعب کی طرح چھوڑ دئیے گئے تھے یہ خطا ہے ۔ ان تینوں بزرگوں میں سے ایک بھی بدری نہیں واللہ اعلم ۔ چونکہ آیت میں ذکر تھا کہ کسی طرح ان بزرگوں نے صحیح سچا واقع کہہ دیا جس سے گو کچھ دنوں تک وہ رنج و غم میں رہے لیکن آخر سلامتی اور ابدی راحت ملی ۔ اس کے بعد ہی فرماتا ہے کہ اے مومنو سچ بولا کرو اور سچائی کو لازم پکڑے رہو سچوں میں ہو جاؤ تاکہ ہلاکت سے نجات پاؤ ، غم رنجم سے چھوٹ جاؤ ۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ لوگو سچائی کو لازم کر لو ، سچ بھلائی کی رہبری کرتا ہے اور بھلائی جنت کی رہبری کرتی ہے ۔ انسان کے سچ بولنے اور سچ پر کار بند رہنے سے اللہ کے ہاں صدیق لکھ لیا جاتا ہے ۔ جھوٹ سے بچو ۔ جھوٹ بولتے رہنے سے اللہ کے ہاں کذاب لکھ لیا جاتا ہے ۔ یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی ہے ۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں قصداً یا مذاقاً کسی حالت میں بھی جھوٹ انسان کے لائق نہیں ۔ کیونکہ اللہ مالک الملک فرماتا ہے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھی بن جاؤ ، پس کیا تم اس میں کسی کے لیے بھی رخصت پاتے ہو ؟ بقول عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سچوں سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب ہیں ۔ اگر سچوں کے ساتھ بننا چاہتے ہو تو دنیا میں بیرغبت رہو اور مسلمانوں کو نہ ستاؤ ۔ التوبہ
119 التوبہ
120 غزوہ تبوک میں شامل نہ ہو نے والوں کو تنبیہہ ان لوگوں کو غزوہ تبوک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہیں گئے تھے اللہ تعالیٰ ڈانٹ رہا ہے کہ مدینے والوں کو اور اس کے آس پاس کے لوگوں کو مجاہدین کے برابر ثواب والا نہیں سمجھنا چاہیئے ۔ وہ اس اجر و ثواب سے محروم رہ گئے جو ان مجاہدین فی سبیل اللہ کو ملا ۔ مجاہدین کو ان کی پیاس پر ، تکلیف پر بھوک پر ، ٹھہرنے اور چلنے پر ، ظفر اور غلبے پر ، غرض ہر ہر حرکت و سکون پر اللہ کی طرف سے اجر عظیم ملتا رہتا ہے ۔ رب کی ذات اس سے پاک ہے کہ کسی نیکی کرنے والے کی محنت برباد کر دے ۔ ۱؎ (18-الکھف:30) التوبہ
121 مجاہدین کے اعمال کا بہترین بدلہ قربت الٰہی ہے یہ مجاہد جو کچھ تھوڑا بہت خرچ کریں اور راہ اللہ میں جس زمین پر چلیں پھریں ، وہ سب ان کے لیے لکھ لیا جاتا ہے ۔ یہ نکتہ یاد رہے کہ اوپر کا کام ذکر کر کے اجر کے بیان میں لفظ «بہ» لائے تھے اور یہاں نہیں لائے اس لیے کہ وہ غیر اختیار افعال تھے اور یہ خود ان سے صادر ہوتے ہیں ۔ پس یہاں فرماتا ہے کہ انہیں ان کے اعمال کا بہترین بدلہ اللہ تعالیٰ دے گا ۔ اس آیت کا بہت بڑا حصہ اور اس کا کامل اجر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے سمیٹا ہے ۔ غزوہ تبوک میں آپ رضی اللہ عنہ نے دل کھول کر خرچ کیا ۔ چنانچہ مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبے میں اس سختی کے لشکر کی امداد کا ذکر فرما کر اس کی رغبت دلائی تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ” ایک سو اونٹ مع کجاوے ، پالان ، رسیوں وغیرہ کے میں دوں گا “ ۔ آپ نے پھر اسی کو بیان فرمایا تو پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ” ایک سو اور بھی دوں گا “ ۔ آپ ایک زینہ منبر کا اترے پھر رغبت دلائی تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے پھر فرمایا : ” ایک سو اور بھی “ آپ نے خوشی خوشی اپنا ہاتھ ہلاتے ہوئے فرمایا : ” بس عثمان ! آج کے بعد کوئی عمل نہ بھی کرے تو بھی یہی کافی ہے “ ۔ ۱؎ (مسند احمد:75/4:ضعیف) اور روایت میں ہے کہ ایک ہزار دینار کی تھیلی لا کر سیدنا عثمان نے آپ کے پلے میں ڈال دی ۔ آپ انہیں اپنے ہاتھ سے الٹ پلٹ کرتے جاتے تھے اور فرما رہے تھے آج کے بعد یہ جو بھی عمل کریں انہیں نقصان نہ دے گا ۔ باربار یہی فرماتے رہے ۔ ۱؎ (مسند احمد:63/5:حسن) اس آیت کی تفسیر میں سیدنا قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” جس قدر انسان اپنے وطن سے اللہ کی راہ میں دور نکلتا ہے ، اتنا ہی اللہ کے قرب میں بڑھتا ہے “ ۔ التوبہ
122 نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو تنہا نہ چھوڑو اس آیت میں اس بیان کی تفصیل ہے جو غزوہ تبوک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلنے کے متعلق تھا ۔ سلف کی ایک جماعت کا خیال ہے کہ جب خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جہاد میں نکلیں تو آپ کا ساتھ دینا ہر مسلمان پر واجب ہے ۔ جیسے فرمایا «اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّثِــقَالًا» ۱؎ (9-التوبہ:41) اور فرمایا ہے «مَا کَانَ لِأَہْلِ الْمَدِینَۃِ» ۱؎ (9-التوبہ:120) یعنی ہلکے بھاری نکل کھڑے ہو جاؤ ۔ مدینے اور اس کے آس پاس کے لوگوں کو لائق نہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے رہ جائیں ۔ پس یہ حکم اس آیت سے منسوخ ہو گیا ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ قبیلوں کے نکلنے کا بیان ہے اور ہر قبیلے کی ایک جماعت کے نکلنے کا اگر وہ سب نہ جائیں ۔ تاکہ آپ کے ساتھ جانے والے آپ پر اتری ہوئی وحی کو سمجھیں اور واپس آ کر اپنی قوم کو دشمن کے حالات سے باخبر کریں ۔ پس انہی دونوں باتیں اس کوچ میں حاصل ہو جائیں گی ۔ اور آپ کے بعد قبیلوں میں سے جانے والی جماعت یا تو دینی سمجھ کے لیے ہو گی یا جہاد کے لیے ۔ کیونکہ یہ فرض کفایہ ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس آیت کے یہ معنی بھی مروی ہیں کہ مسلمانوں کو یہ چاہیئے کہ سب کے سب چلے جائیں اور اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تنہا چھوڑ دیں ۔ ہر جماعت میں سے چند لوگ جائیں اور آپ کی جازت سے جائیں جو باقی ہیں وہ ان کے بعد جو قرآن اترے ، جو احکام بیان ہوں ، انہیں سیکھیں ۔ جب یہ آ جائیں تو انہیں سکھائیں پڑھائیں ۔ اس وقت اور لوگ جائیں ۔ یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیئے ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ آیت ان صحابیوں رضی اللہ عنہم کے بارے میں اتری ہے جو بادیہ نشینوں میں گئے وہاں انہیں فوائد بھی پہنچے اور نفع کی چیزیں بھی ملیں ۔ اور لوگوں کو انہوں نے ہدایات بھی کیں ۔ لیکن بعض لوگوں نے انہیں طعنہ دیا کہ تم لوگ اپنے ساتھیوں کے پیچھے رہ جانے والے ہو ۔ وہ میدان جہاد میں گئے اور تم آرام سے یہاں ہم میں ہو ۔ ان کے بھی دل میں یہ بات بیٹھ گئی وہاں سے واپس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلے آئے ۔ پس یہ آیت اتری اور انہیں معذور سمجھا گیا ۔ سیدنا قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لشکروں کو بھیجیں تو کچھ لوگوں کو آپ کی خدمت میں ہی رہنا چاہیئے کہ وہ دین سیکھیں اور کچھ لوگ جائیں اپنی قوم کو دعوت حق دیں اور انہیں اگلے واقعات سے عبرت دلائیں ۔ ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم بنفس نفیس جہاد کے لیے نکلیں ، اس وقت سوائے معذوروں ، اندھوں وغیرہ کے کسی کو حلال نہیں کہ آپ کے ساتھ نہ جائے اور جب آپ لشکروں کو روانہ فرمائیں تو کسی کو حلال نہیں کہ آپ کی اجازت کے بغیر جائے ۔ یہ لوگ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رہتے تھے ، اپنے ساتھیوں کو جب کہ وہ واپس لوٹتے ان کے بعد کا اترا ہوا قرآن اور بیان شدہ احکام سنا دیتے پس آپ کی موجودگی میں سب کو نہ جانا چاہیئے ۔ مروی ہے کہ یہ آیت جہاد کے بارے میں نہیں بلکہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلے مضر پر قحط سالی کی بد دعا کی اور ان کے ہاں قحط پڑا تو ان کے پورے قبیلے کے قبیلے مدینے شریف میں چلے آئے ۔ یہاں جھوٹ موٹ اسلام ظاہر کر کے صحابہ پر اپنا بار ڈال دیا ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو متنبہ کیا کہ دراصل یہ مومن نہیں ۔ آپ نے انہیں ان کی جماعتوں کی طرف واپس کیا اور ان کی قوم کو ایسا کرنے سے ڈرایا ۔ کہتے ہیں کہ ہر قبیلے میں سے کچھ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آتے ، دین اسلام دیکھتے ، واپس جا کر اپنی قوم کو اللہ ، رسول کی اطاعت کا حکم کرتے ، نماز ، زکوٰۃ کے مسائل سمجھاتے ، ان سے صاف فرما دیتے کہ جو اسلام قبول کر لے گا وہ ہمارا ہے ورنہ نہیں ۔ یہاں تک کہ ماں باپ کو بھی چھوڑ دیتے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں مسئلے مسائل سے آگاہ کر دیتے ، حکم احکام سکھا پڑھا دیتے وہ اسلام کے مبلغ بن کر جاتے ماننے والوں کو خوش خبریاں دیتے ، نہ ماننے والوں کو ڈراتے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:17489:ضعیف) عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں جب «إِلَّا تَنفِرُوا» ۱؎ (9-التوبۃ:39) الخ اور آیت «مَا کَانَ لِأَہْلِ الْمَدِینَۃِ» ۱؎ (9-التوبۃ:120) اتریں تو منافقوں نے کہا : ” پھر تو بادیہ نشین لوگ ہلاک ہو گئے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہیں جاتے “ ۔ بعض صحابہ بھی ان میں تعلیم و تبلیغ کے لیے گئے ہوئے تھے پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور« وَالَّذِینَ یُحَاجٰونَ فِی اللہِ » ۱؎ (42-الشوری:16) الخ ۔ حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گئے ہیں وہ مشرکوں پر غلبہ و نصرت دیکھ کر واپس آ کر اپنی قوم کو ڈرائیں ۔ التوبہ
123 اسلامی مرکز کا استحکام اولین اصول ہے اسلامی مرکز کے متصل جو کفار ہیں ، پہلے تو مسلمانوں کو ان سے نمٹنا چاہیئے ۔ اسی حکم کے بموجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے جزیرۃ العرب کو صاف کیا ، یہاں غلبہ پاکر مکہ ، مدینہ ، طائف ، یمن ، یمامہ ، ہجر خیبر ، حضر موت وغیرہ کل علاقہ فتح کر کے یہاں کے لوگوں کو اسلامی جھنڈے تلے کھڑا کر کے غزوہ روم کی تیاری کی ۔ جو اول تو جزیرہ عرب سے ملحق تھا دوسرے وہاں کے رہنے والے اہل کتاب تھے ۔ تبوک تک پہنچ کر حالات کی ناساز گاری کی وجہ سے آگے کا عزم ترک کیا ۔ یہ واقعہ ٩ھ کا ہے ۔ دسویں سال حجۃ الوداع میں مشغول رہے ۔ اور حج کے صرف اکاسی دن بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کو پیارے ہوئے ۔ آپ کے بعد آپ کے نائب ، دوست اور خلیفہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ آئے ۔ اس وقت دین اسلام کی بنیادیں متزلزل ہو رہی تھیں کہ آپ نے انہیں مضبوط کر دیا اور مسلمانوں کی ابتری کو برتری سے بدل دیا ۔ دین سے بھاگنے والوں کو واپس اسلام میں لے آئے ۔ مرتدوں سے دنیا خالی کی ۔ ان سرکشوں نے جو زکوٰۃ روک لی تھی ان سے وصول کی ، جاہلوں پر حق واضح کیا ۔ امانت رسول ادا کی ۔ اور ان ابتدائی ضروری کاموں سے فارغ ہوتے ہی اسلامی لشکروں کو سر زمین روم کی طرف دوڑا دیا کہ صلیب پرستوں کو ہدایت کریں ۔ اور ایسے ہی جرار لشکر فارس کی طرف بھیجے کہ وہاں کے آتش کدے ٹھنڈے کریں ۔ پس آپ کی سفارت کی برکت سے رب العالمین نے ہر طرف فتح عطا فرمائی ۔ کسری اور قیصر خاک میں مل گئے ۔ ان کے پرستار بھی غارت و برباد ہوئے ان کے خزانے راہ اللہ میں کام آئے ۔ اور جو خبر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم دے گئے تھے وہ پوری ہوئی ۔ جو کسر رہ گئی تھی آپ کے وصی اور ولی شہید محراب سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں پوری ہوئی ۔ کافروں اور منافقوں کی رگ ہمیشہ کے لیے کچل دی گئی ۔ ان کے زور ڈھا دیئے گئے ۔ اور مشرق و مغرب تک فاروقی سلطنت پھیل گئی ۔ قریب و بعید سے بھرپور خزانے دربار فاروق میں آئے ۔ اور شرعی طور پر حکم الٰہی کے ماتحت مسلمانوں میں مجاہدین میں تقسیم ہونے لگے ۔ اس پاک نفس ، پاک روح شہید کی شہادت کے بعد مہاجرین و انصار کے اجماع سے امر خلافت امیر المؤمنین شہید الدار سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے سپرد ہوا ۔ اس وقت اسلام اپنی اصلی شان سے ظہور پذیر تھا ۔ اسلام کے لمبے اور زور آور ہاتھوں نے روئے زمین پر قبضہ جما لیا تھا ۔ بندوں کی گردنیں اللہ کے سامنے خم ہو چکیں تھیں ۔ حجت ربانی ظاہر تھی ، کلمہ الٰہی غالب تھا ۔ شان عثمان اپنا کام کرتی جاتی تھی ۔ آج اس کو حلقہ بگوش کیا تو کل اس کو یکے بعد دیگرے کئی ممالک مسلمانوں کے ہاتھوں زیر نگیں خلافت ہوئے ۔ یہی تھا اس آیت کے پہلے جملے پر عمل کہ نزدیک کے کافروں سے جہاد کرو ۔ پھر فرماتا ہے کہ لڑائی میں انہیں تمہارا زور بازو معلوم ہو جائے ۔ کامل مومن وہ ہے جو اپنے مومن بھائی سے تو نرمی برتے لیکن اپنے دشمن کافر پر سخت ہو ۔ جیسے فرمان ہے «فَسَوْفَ یَاْتِی اللّٰہُ بِقَوْمٍ یٰحِبٰہُمْ وَیُحِبٰوْنَہٗٓ» ۱؎ (5-المآئدہ:54) الخ ، یعنی اللہ ایسے لوگوں کو لائے گا جو اس کے محبوب ہوں اور وہ بھی اس سے محبت رکھتے ہوں ۔ مومنوں کے سامنے تو نرم ہوں اور کافروں پر ذی عزت ہوں ۔ اس طرح اور آیت میں ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھ والے آپس میں نرم دل ہیں ۔ کافروں پر سخت ہیں ۔ ۱؎ (48-الفتح:29) ارشاد ہے «یٰٓاَیٰھَا النَّبِیٰ جَاہِدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنٰفِقِیْنَ وَاغْلُظْ عَلَیْہِمْ» ۱؎ (9-التوبہ:73) یعنی اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ! کافروں اور منافقوں سے جہاد کرو اور ان پر سختی کرو ۔ حدیث میں ہے کہ میں «الضحوک» ہوں یعنی اپنوں میں نرمی کرنے والا اور «قتال» ہوں یعنی دشمنان رب سے جہاد کرنے والا ۔ پھر فرماتا ہے کہ جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ پرہیز گاوروں کے ساتھ ہے ۔ یعنی کافروں سے لڑو ، بھروسہ اللہ پر رکھ ، اور یقین مانو کہ جب تم اس سے ڈرتے رہو گے ، اس کی فرماں برداری کرتے رہو گے ، تو اس کی مدد و نصرت بھی تمہارے ساتھ رہے گی ۔ دیکھ لو ! خیر کے تینوں زمانوں تک ملسمانوں کی یہی حالت رہی ۔ دشمن تباہ حال اور مغلوب رہے ۔ لیکن جب ان میں تقویٰ اور اطاعت کم ہو گئی ۔ فتنے فساد پڑ گئے ، اختلاف اور خواہش پسندی شروع ہو گئی ۔ تو وہ بات نہ رہی ، دشمنوں کی للچائی ہوئی نظریں ان پر اُٹھیں ۔ وہ اپنی اپنی کمین گاہوں سے نکل کھڑے ہوئے ، ادھر کا رخ کیا لیکن پھر بھی مسلمان سلاطین آپس میں اُلجھے رہے ، وہ ادھرادھر سے نوالے لینے لگے ۔ آخر دشمن اور بڑھے ، سلطنتیں کچلنی شروع کیں ، ملک فتح کرنے شروع کئے آہ ! اکثر حصہ اسلامی مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گیا ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا یہی حکم اس سے پہلے تھا اور اس کے بعد بھی ہے ۔ تاہم جو بادشاہ جس قدر اللہ سے ڈرنے والا ہو اسی قدر اللہ کی مدد نے اس کا ساتھ دیا ۔ اب بھی اللہ سے امید اور دعا ہے کہ وہ پھر سے مسلمانوں کو غلبہ دے اور کافروں کی چوٹیاں ان کے ہاتھ میں دے دے ۔ دنیا جہاں میں ان کا بول بالا ہو ۔ اور پھر سے مشرق سے لے کر مغرب تک پرچم اسلام لہرانے لگے ۔ وہ اللہ کریم وجواد ہے ۔ التوبہ
124 فرمان الہٰی میں شک و شبہ کفر کا مرض ہے قرآن کی کوئی سورت اتری اور منافقوں نے آپس میں کانا پھوسی شروع کی کہ بتاؤ اس سورت نے کس کا ایمان زیادہ کر دیا ؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایمانداروں کے ایمان تو اللہ کی آیتیں بڑھا دیتی ہیں ۔ یہ آیت بہت بڑی دلیل ہے اس پر کہ ایمان گھٹتا بڑھتا رہتا ہے ۔ اکثر ائمہ اور علماء کا یہی مذہب ہے ، سلف کا بھی اور خلف کا بھی ۔ بلکہ بہت سے بزرگوں نے اس پر اجماع نقل کیا ہے ۔ ہم اس مسئلے کو خوب تفصیل سے شرح بخاری کے شروع میں بیان کر آئے ہیں ۔ ہاں جن کے دل پہلے ہی سے شک و شبہ کی بیماری میں ہیں ان کی خرابی اور بھی بڑھ جاتی ہے ۔ قرآن مومنوں کے لیے شفاء اور رحمت ہے لیکن کافر تو اس سے اور بھی اپنا نقصان کر لیا کرتے ہیں ۔ ۱؎ (17-الإسراء:82) یہ ایمانداروں کے لیے ہدایت و شفاء ہے اور بے ایمانوں کے تو کانوں میں بوجھ ہے ۔ ان کی آنکھوں پر اندھاپا ہے وہ تو بہت ہی فاصلے سے پکارے جا رہے ہیں ۔ ۱؎ (41-فصلت:44) یہ بھی کتنی بڑی بدبختی ہے کہ دلوں کی ہدایت کی چیز بھی ان کی ضلالت و ہلاکت کا باعث بنتی ہے ۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے عمدہ غذا بھی بدمزاج کو موافق نہیں آتی ۔ التوبہ
125 التوبہ
126 عذاب سے دوچار ہونے کے بعد بھی منافق باز نہیں آتا یہ منافق اتنا بھی نہیں سوچتے کہ ہر سال دو ایک دفعہ ضرور وہ کسی نہ کسی عذاب میں مبتلا کئے جاتے ہیں ۔ لیکن پھر بھی انہیں اپنے گزشتہ گناہوں سے توبہ نصیب ہوتی ہے نہ آئندہ کے لیے عبرت ہوتی ہے ۔ کبھی قحط سالی ہے ، کبھی جنگ ہے ، کبھی جھوٹی گپیں ہیں جن سے لوگ بیچین ہو رہے ہیں ۔ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کاموں میں سختی بڑھ رہی ہے ۔ بخیلی عام ہو رہی ہے ہر سال اپنے سے پہلے کے سال سے بد آ رہا ہے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:7068) جب کوئی سورت اترتی ہے ایک دوسرے کی طرف دیکھتا ہے کہ کوئی دیکھ تو نہیں رہا ؟ پھر حق سے پلٹ جاتے ہیں نہ حق کو سمجھیں نہ مانیں ۔ وعظ سے منہ پھیرلیں اور ایسے بھاگیں جیسے گدھا شیر سے ۔ حق کو سنا اور دائیں بائیں کھسک گئے ۔ ان کی اس بےایمانی کا بدلہ یہی ہے کہ اللہ نے ان کے دل بھی حق سے پھیر دیئے ۔ ان کی کجی نے ان کے دل بھی ٹیرھے کر دیئے ۔ یہ بدلہ ہے اللہ کے خطاب کو بےپرواہی کر کے نہ سمجھنے کا اس سے بھاگنے اور منہ موڑ لینے کا ۔ التوبہ
127 التوبہ
128 رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالٰی کا احسان عظیم ہیں مسلمانوں کو اللہ تبارک و تعالیٰ اپنا احسان عظیم یاد دلا رہا ہے کہ اس نے اپنے فضل و کرم سے خود انہی میں سے ان کی ہی زبان میں اپنا رسول بھیجا ۔ سیدنا خلیل اللہ علیہ السلام نے یہی دعا کی تھی ۔ ۱؎ (2-البقرۃ:129) اسی کا بیان آیت «لَقَدْ مَنَّ اللہُ» ۱؎ (3-آل عمران:164) الخ میں ہے ۔ یہی سیدنا جعفر بن ابوطالب رضی اللہ عنہ نے دربار نجاشی میں اور یہی سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے دربار کسریٰ میں بیان فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہم میں ہم میں سے ایک رسول بھیجا ۔ جس کا نسب ہمیں معلوم ، جس کی عادت سے ہم واقف ، جس کے آنے جانے کی ہمیں خبر ، جس کی صداقت و امانت کے ہم خود شاہد ہیں ۔ جاہلیت کی برائیوں میں سے کوئی برائی اللہ نے آپ کی ذات میں پیدا نہیں ہونے دی ۔ نسب نامہ بالکل کھرا تھا ۔ خود آپ کا فرمان ہے کہ سیدنا آدم سے لے کر مجھ تک بفضلہ کوئی برائی جاہلیت کی زناکاری وغیرہ نہیں پہنچی ، ۱؎ (طبرانی اوسط:3483:حسن) میں صحیح النسب ہوں ۔ پھر اتنے نرم دل کہ امت کی تکلیفوں سے خود کانپ اٹھیں ۔ آسان نرمی اور سادگی والا دین لے کر آئے ہیں ۔ ۱؎ (مسند احمد:116/6:حسن) جو بہت آسان ہے ، سہل ہے ، ۱؎ (صحیح بخاری:39) کامل ہے اور اعلیٰ اور عمدہ ہے ۔ وہ تمہاری ہدایت کے متمنی ہیں ، وہ دنیاوی ، اخروی نفع تمہیں پہنچانا چاہتے ہیں ۔ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” ہمیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حال میں چھوڑا کہ جو پرند اڑ کر نکلتا اس کا علم بھی آپ ہمیں کر دیتے “ ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ” جنت سے قریب کرنے والی اور جہنم سے دور کرنے والی تمام چیزیں میں تم سے بیان کر چکا ہوں “ ۔ ۱؎ (مسند احمد:153،162/5:صحیح) آپ کا فرمان ہے کہ ” اللہ تعالیٰ نے تم پر جو کچھ حرام کیا ہے وہ عنقریب تم پر ظاہر کر دینے والا ہے اور اس کی بازپرس قطعاً ہونے والی ہے ۔ جس طرح پتنگے اور پروانے آگ پر گرتے ہوں اس طرح تم بھی گر رہے ہو اور میں تمہاری کولیاں بھربھر کر تمہیں اس سے روک رہا ہوں “ ۔ ۱؎ (مسند احمد:390،424/1:حسن) نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سوئے ہوئے ہیں جو دو فرشتے آتے ہیں ۔ ایک پاؤں کی طرف بیٹھتا ہے دوسرا سرہانے ۔ پھر پاؤں والا سرہانے والے سے کہتا ہے ۔ اس کی اور اس کی امت کی مثال بیان کرو اس نے فرمایا : ” یہ مثال سمجھو کہ ایک قوم سفر میں ہے ایک چٹیل میدان میں پہنچتی ہے جہاں ان کا سامان خوراک ختم ہو جاتا ہے اب نہ تو آگے بڑھنے کی قوت ، نہ پیچھے ہٹنے کی سکت ۔ ایسے وقت ایک بھلا آدمی اچھے لباس والا ان کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ میں تمہیں اس بیابان سے چھٹکارا دلا کر ایسی جگہ پہنچا سکتا ہوں ۔ جہاں تمہیں نتھرے ہوئے پانی کے لبالب حوض اور میووں کے لدے ہوئے درخت اور ہری بھری لہلہاتی کھیتیاں ملیں بشرطیکہ تم میرے پیچھے ہو لو ۔ انہوں نے اس کی بات کو مان لیا اور وہ انہیں ایسی ہی جگہ لے گیا وہاں انہوں نے کھایا پیا اور خوب پھلے پھولے ۔ اب اس نے کہا ۔ دیکھو میں نے تمہیں اس بھوک پیاس سے نجات دلائی اور یہاں امن چین میں لایا ۔ اب ایک اور بات تم سے کہتا ہوں وہ بھی مانو ۔ اس سے آگے اس سے بھی بہتر جگہ ہے وہاں کے حوض ، وہاں کے میوے ، وہاں کے کھیت ، اس سے بہت ہی اعلیٰ ہیں ۔ ایک جماعت نے تو اسے سچا مانا اور ہاں کر لی ۔ لیکن دوسرے گروہ نے اسی پر بس کر لیا اور اس کی تابعداری سے ہٹ گئے “ ۔ ۱؎ (مسند احمد:268/1:ضعیف) اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجے ۔ آؤ ایک واقعہ آپ کی کمال شفقت کا سنو ! ایک اعرابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور خون بہا ادا کرنے کے لیے آپ سے امداد طلب کی ۔ آپ نے اسے بہت کچھ دیا پھر پوچھا : ” کیوں صاحب میں نے تم سے سلوک کیا “ ؟ اس نے کہا : ” کچھ بھی نہیں اس سے کیا ہو گا “ ؟ صحابہ رضی اللہ عنہم بہت بگڑے ۔ قریب تھا کہ اسے لپٹ جائیں کہ اتنا لینے پر بھی یہ ناشکری کرتا ہے ؟ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوال کا ایسا غلط اور گستاخانہ جواب دیتا ہے ۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں روک دیا گھر پر تشریف لے گئے ۔ وہیں اسے بلوا لیا ۔ سارا واقعہ کہہ سنایا ۔ پھر اسے اور بھی بہت کچھ دیا ۔ پھر پوچھا : ” کہو اب تو خوش ہو “ ؟ اس نے کہا ” “ ہاں اب دل سے راضی ہوں ۔ اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کے اہل و عیال میں ہم سب کی طرف سے نیک بدلہ دے “ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” سنو ! تم آئے ۔ تم نے مجھ سے مانگا ، میں نے دیا ، پھر میں نے تم سے پوچھا کہ خوش ہو ؟ تو تم نے الٹا پلٹا جواب دیا جس سے میرے صحابی رضی اللہ عنہم تم سے نالاں ہیں ۔ اب میں نے پھر دے دلا کر تمہیں راضی کر لیا ۔ اب تم ان کے سامنے بھی اسی طرح اپنی رضا مندی ظاہر کرنا جیسے اب تم نے میرے سامنے کی ہے تاکہ ان کا رنج بھی دور ہو جائے “ ۔ اس نے کہا : ” بہت اچھا “ ۔ چنانچہ جب وہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے مجمع میں آپ کے پاس آیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” دیکھو یہ شخص آیا تھا اس نے مجھ سے مانگا تھا ، میں نے ایسے دیا تھا ۔ پھر میں نے اس سے پوچھا تھا ، تو اس نے ایسا جواب دیا تھا جو تمہیں ناگوار گزرا ۔ میں نے اسے پھر اپنے گھر بلوایا اور زیادہ دیا ۔ تو یہ خوش ہو گیا ۔ کیوں بھئی اعرابی یہی بات ہے “ ؟ اس نے کہا : ” ہاں یا رسول اللہ ، اللہ تعالیٰ آپ کو ہمارے اہل و عیال اور قبیلے کی طرف سے بہترین بدلہ عنایت فرمائے ۔ آپ نے مجھ سے بہت اچھا سلوک کیا ۔ جزاک اللہ “ اس وقت آپ نے فرمایا : ” میری اور اس اعرابی کی مثال سنو ! جیسے وہ شخص جس کی اونٹنی بھاگ گئی لوگ اس کے پکڑنے کو دوڑے ، وہ ان سے بدک کر اور بھاگنے لگی ۔ آخر اوٹنی والے نے کہا : ” لوگو ! تم ایک طرف ہٹ جاؤ مجھے اور میری اوٹنی کو چھوڑ دو ، اس کی خو خصلت سے میں واقف ہوں اور یہ میری ہی ہے “ ۔ چنانچہ اس نے نرمی سے اسے بلانا شروع کیا ۔ زمین سے گھانس پھونس توڑ کر اپنی مٹھی میں لے کر اسے دکھایا اور اپنی طرف بلایا ، وہ آ گئی ۔ اس نے اس کی نکیل تھام لی اور پالان و کجاوہ ڈال دیا ۔ سنو ! اس کے پہلی دفعہ کے بگڑنے پر اگر میں بھی تمہارا ساتھ دیتا تو یہ جہنمی بن جاتا ۔ ۱؎ 0مجمع الزوائد:16،12/9:ضعیف) ابراہیم بن حکم بن ابان کے ضعف کی وجہ سے اس کی سند ضعیف ہے ۔ جیسے فرمان ہے کہ اے نبی ! مومنوں کے سامنے اپنا بازو پست رکھو ۔ لوگ میری نافرمانی کریں تو کہہ دو کہ میں تمہارے اعمال سے بری ہوں ۔ تو ہمیشہ اپنا بھروسہ رب عزیز و رحیم پر رکھ ۔ ۱؎ (26-الشعراء:215-217) شریعت سے منہ موڑنے والون سے بے نیازی اختیار کیجئے ؛ یہاں بھی فرماتا ہے اگر یہ لوگ تیری شریعت سے منہ پھیر لیں تو تو کہہ دے کہ مجھے اللہ کافی ہے ۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، میرا توکل اسی کی پاک ذات پر ہے ۔ جیسے فرمان ہے مشرق و مغرب کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے اس کے سوا کوئی بھی لائق عبادت نہیں تو اسی کو اپنا کار ساز ٹھہرا ۔ ۱؎ (73۔المزمل:9) وہ رب عرش عظیم ہے ۔ یعنی ہرچیز کا مالک و خالق وہی ہے ۔ عرش عظیم تمام مخلوقات کی چھت ہے ۔ آسمان و زمین اور کل کائنات بقدرت رب عرش تلے ہے ۔ اس اللہ کا علم ہرچیز پر شامل ہے اور ہرچیز کو اپنے احاطے میں کئے ہوئے ہے ۔ اس کی قدرت ہرچیز پر حاوی ہے وہ ہر ایک کا کارساز ہے ۔ ابی بن کعب فرماتے ہیں سب سے آخری آیت قرآن کی یہی ہے ۔ التوبہ
129 منحرفینِ شریعت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیزار ہو جائیں سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں سب سے آخری آیت قرآن کی یہی ہے ۔ ۱؎ (مسند احمد:117/5:ضعیف) مروی ہے کہ جب خلافت صدیقی میں قرآن کو جمع کیا گیا تو کاتبوں کو سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ لکھواتے تھے ، جب اس سے پہلے کی آیت «…لاَّ یَفْقَہُون» تک پہنچے تو کہنے لگے کہ یہی آخری آیت ہے ۔ آپ نے فرمایا نہیں اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دو آیتیں اور پڑھوائی ہیں پھر آپ نے ان دونوں آیتوں کی تلاوت فرمائی اور فرمایا کہ قرآن کی آخری آیتیں یہ ہیں ۔ پس ختم بھی اسی پر ہوا جس پر شروع ہوا تھا یعنی «لا الہٰ الا اللہ» پر ۔ یہی وحی تمام نبیوں ہر آتی اہی ہے کہ میرے سوا کوئی پوجا کے لائق نہیں ۔ تم سب میری عبادت کرو ۔ ۱؎ (مسند احمد:134/5:ضعیف) یہ روایت بھی غریب ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ سیدنا حارث بن خزیمہ رضی اللہ عنہ ان دو آیتوں کو لے کر آئے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ان سے گواہ طلب کیا ۔ انہوں نے کہا گواہ کی تو مجھے خبر نہیں ، ہاں سورۃ برأت کی یہ دو آخری آیتیں مجھے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھائی ہیں ۔ اور مجھے خوب اچھی طرح حفظ ہیں ۔ اس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے گواہی دی کہ میں نے بھی انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ۔ یہ گواہی سن کر آپ نے فرمایا : ” اگر ان کے ساتھ تیسری آیت بھی ہوتی تو میں اسے علیحدہ سورت بنا لیتا تم انہیں قرآن کی کسی سورت کے ساتھ لکھ لو ۔ چنانچہ سورۃ براۃ کے آخر میں یہ لکھ لی گئیں ۔ ۱؎ (مسند احمد:1715:ضعیف) پہلے یہ بات بھی بیان ہو چکی ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ہی قرآن کے جمع کرنے کا مشورہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو دیا تھا اور بحکم خلیفہ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے اسے جمع کرنا شروع کیا تھا اس جماعت میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بھی آمد و رفت رکھتے تھے ۔ صحیح حدیث میں ہے سیدنا زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔ سورۃ برات کا آخری حصہ میں نے خزیمہ بن ثابت یا ابوخزیمہ کے پاس پایا ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4679) یہ بھی ہم لکھ آئے ہیں کہ ایک جماعت صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس کا مذاکرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو کیا جیسے کہ سیدنا خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا تھا جب کہ ان کے سامنے اس کی ابتدائی بات کہی تھی ۔ واللہ اعلم ۔ سیدنا ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جو شخص صبح شام «حَسْبِیَ اللہُ لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ ۖ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ ۖ وَہُوَ رَبٰ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ» کو سات سات مرتبہ پڑھ لے اللہ تعالیٰ اسے اس کی تمام پریشانیوں سے نجات دے گا ۔ ایک روایت میں ہے کہ خواہ صداقت سے پڑھا ہو یا نہ پڑھا ہو ۱؎ (سنن ابوداود:5081،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) لیکن یہ زیادتی غریب ہے ۔ ایک مرفوع روایت بھی اسی قسم کی ہے لیکن وہ بہت منکر ہے واللہ اعلم ۔ التوبہ
0 یونس
1 عقل زدہ کافر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کافروں کو اس پر بڑا تعجب ہوتا تھا کہ ایک انسان اللہ کا رسول بن جائے ، کہتے تھے کہ «فَقَالُوا أَبَشَرٌ یَہْدُونَنَا» ۱؎ (64-التغابن:6) ’ کیا بشر ہمارا ہادی ہوگا ؟ ‘ حضرت ہود علیہ السلام اور حضرت صالح علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا کہ «‏‏‏‏أَوَعَجِبْتُمْ أَن جَاءَکُمْ ذِکْرٌ مِّن رَّبِّکُمْ عَلَیٰ رَجُلٍ مِّنکُمْ لِیُنذِرَکُمْ وَلِتَتَّقُوا وَلَعَلَّکُمْ تُرْحَمُونَ» ۱؎ (7-الأعراف:63-69) ’ کیا تمہیں یہ کوئی انوکھی بات لگتی ہے کہ تم میں سے ہی ایک شخص پر تمہارے رب کی وحی نازل ہوئی تاکہ وہ تم کو ڈرائے اور تاکہ تم پرہیزگار بنو اور تاکہ تم پر رحم کیا جائے ‘ ۔ کفار قریش نے بھی کہا تھا کہ « أَجَعَلَ الْآلِہَۃَ إِلٰہًا وَاحِدًا إِنَّ ہٰذَا لَشَیْءٌ عُجَابٌ» ۱؎ (38-ص:5) ’ کیا اس نے اتنے سارے معبودوں کے بجائے ایک ہی اللہ مقرر کر دیا ؟ یہ تو بڑے ہی تعجب کی بات ہے ‘ ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت سے بھی انہوں نے صاف انکار کر دیا اور انکار کی وجہ یہی پیش کی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسے ایک انسان پر اللہ کی وحی کا آنا ہی نہیں مان سکتے ۔ اس کا ذکر اس آیت میں ہے ۔ سچے پائے سے مراد سعادت اور نیکی کا ذکر ہے ۔ بھلائیوں کا اجر ہے ۔ ان کے نیک کام ہیں ۔ مثلاً نماز روزہ صدقہ تسبیح ۔ اور ان کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت الغرض ان کی سچائی کا ثبوت اللہ کو پہنچ چکا ہے ۔ ان کے نیک اعمال وہاں جمع ہیں ۔ یہ سابق لوگ ہیں ۔ عرب کے شعروں میں بھی قدیم کا لفظ ان معنوں میں بولا گیا ہے ۔ جو رسول ان میں ہے وہ بشیر بھی ہے ، نذیر بھی ہے ، لیکن کافروں نے اسے جادوگر کہہ کر اپنے جھوٹ پر مہر لگا دی ۔ یونس
2 یونس
3 تخلیق کائنات کی قرآنی روداد تمام عالم کا رب وہی ہے ۔ آسمان و زمین کو صرف چھ دن میں پیدا کر دیا ہے ۔ یا تو ایسے ہی معمولی دن یا ہر دن یہاں کی گنتی سے ایک ہزار دن کے برابر کا ، پھر عرش پر وہ مستوی ہوگیا ، جو سب سے بڑی مخلوق ہے اور ساری مخلوق کی چھت ہے ، جو سرخ یاقوت کا ہے ، جو نور سے پیدا شدہ ہے ۔ یہ قول غریب ہے ۔ وہی تمام مخلوق کا انتظام کرتا ہے «لَا یَعْزُبُ عَنْہُ مِثْقَالُ ذَرَّ‌ۃٍ فِی السَّمَاوَاتِ وَلَا فِی الْأَرْ‌ضِ» (34-السبأ:3) ’ اس سے کوئی زمین و آسمان کا کوئی ذرہ پوشیدہ نہیں ‘ ، اسے کوئی کام مشغول نہیں کر لیتا ، وہ سوالات سے اکتا نہیں سکتا ۔ مانگنے والوں کی پکار اسے حیران نہیں کر سکتی ۔ «وَمَا مِن دَابَّۃٍ فِی الْأَرْضِ إِلَّا عَلَی اللہِ رِزْقُہَا وَیَعْلَمُ مُسْتَقَرَّہَا وَمُسْتَوْدَعَہَا کُلٌّ فِی کِتَابٍ مٰبِینٍ» ۱؎ (11-ھود:6) ’ ہر چھوٹے بڑے کا ، ہر کھلے چھپے کا ، ہر ظاہر باہر کا ، پہاڑوں میں سمندروں میں ، آبادیوں میں ، ویرانوں میں وہی بندوبست کر رہا ہے ہر جاندار کا روزی رساں وہی ہے ‘ ۔ «وَمَا تَسْقُطُ مِن وَرَقَۃٍ إِلاَّ یَعْلَمُہَا وَلاَ حَبَّۃٍ فِی ظُلُمَـتِ الاٌّرْضِ وَلاَ رَطْبٍ وَلاَ یَابِسٍ إِلاَّ فِی کِتَـبٍ مٰبِینٍ» ‏‏‏‏ ۱؎ (6-الأنعام:59) ’ ہر پتے کے جھڑنے کا اسے علم ہے ۔ ، زمین کے اندھیروں کے دانوں کی اس کو خبر ہے ، ہر تر و خشک چیز کھلی کتاب میں موجود ہے ‘ ۔ کہتے ہیں کہ اس آیت کے نزول کے وقت لشکر کا لشکر مثل عربوں کے جاتا دیکھا گیا ، ان سے پوچھا گیا کہ تم کون ہو ؟ انہوں نے کہا ہم جنات ہیں ۔ ہمیں مدینے سے ان آیتوں نے نکالا ہے ، کوئی نہیں جو اس کی اجازت بغیر سفارش کر سکے ، «مَن ذَا الَّذِی یَشْفَعُ عِندَہُ إِلاَّ بِإِذْنِہِ» ‏‏‏‏ ۱؎ (2-البقرہ:255) ’ کون جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے سامنے شفاعت کرسکے ‘ ۔ «وَکَمْ مِّن مَّلَکٍ فِی السَّمَـوَتِ لاَ تُغْنِی شَفَـعَتُہُمْ شَیْئاً إِلاَّ مِن بَعْدِ أَن یَأْذَنَ اللہُ لِمَن یَشَآءُ وَیَرْضَی» ۱؎ (53-النجم:26) ’ آسمان کے فرشتے بھی اس کی اجازت کے بغیر زبان نہیں کھولتے ۔ اسی کو شفاعت نفع دیتی ہے جس کے لیے اجازت ہو ‘ ۔ یہی اللہ تم سب مخلوق کا پالنہار ہے ۔ تم اسی کی عبادت میں لگے رہو ۔ اسے واحد اور لاشریک مانو ۔ مشرکو ! اتنی موٹی بات بھی تم نہیں سمجھ سکتے ؟ جو اس کے ساتھ دوسروں کو پوجتے ہو حالانکہ جانتے ہو کہ خالق مالک وہی اکیلا ہے ۔ اس کے وہ خود قائل تھے ۔ زمین آسمان اور عرش عظیم کا رب اسی کو مانتے تھے ۔ یونس
4 قیامت کا عمل اسی تخلیق کا اعادہ ہے قیامت کے دن ایک بھی نہ بچے گا سب اپنے اللہ کے پاس حاضر کئے جائیں گے «وَہُوَ الَّذِی یَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیدُہُ وَہُوَ أَہْوَنُ عَلَیْہِ» (30-الروم:27) ’ جیسے اس نے شروع میں پیدا کیا تھا ۔ ایسے ہی دوبارہ اعادہ کرے گا اور یہ اس پر بہت ہی آسان ہو گا ‘ ۔ اس کے وعدے اٹل ہیں ۔ عدل کے ساتھ وہ اپنے نیک بندوں کو اجر دے گا اور پورا پورا بدلہ عنایت فرمائے گا ۔ کافروں کو بھی ان کے کفر کا بدلہ ملے گا ۔ طرح طرح کی سزائیں ہوں گی ۔ «فِی سَمُومٍ وَحَمِیمٍ وَظِلٍّ مِّن یَحْمُومٍ» (56-الواقعۃ:42،43) ’ گرم پانی ، گرمی ، گرم لو ان کے حصے میں آئیں گے اور بھی قسم قسم کے عذاب ہوتے رہیں گے ‘ ۔ «ہَـذَا فَلْیَذُوقُوہُ حَمِیمٌ وَغَسَّاقٌ وَءَاخَرُ مِن شَکْلِہِ أَزْوَجٌ» ۱؎ (38-ص:57،58) ’ یہ ہے ، پس اسے چکھیں ، گرم پانی اور پیپ اس کے علاوہ اور طرح طرح کے عذاب ۔ ‏ وہ جہنم جسے یہ جھٹلا رہے تھے ان کا اوڑھنا بچھونا ہوگی ۔ اس کے اور گرم پگھلے ہوئے تانبے جیسے پانی کے درمیان یہ حیران و پریشان ہوں گے ‘ ۔ «ہَـذِہِ جَہَنَّمُ الَّتِی یُکَذِّبُ بِہَا الْمُجْرِمُونَ ـ یَطُوفُونَ بَیْنَہَا وَبَیْنَ حَمِیمٍ ءَانٍ» ۱؎ (55-الرحمن:43،44) ’ یہ ہے وہ جہنم جسے مجرم جھوٹا جانتے تھے ۔ ‏ اس کے اور کھولتے ہوئے گرم پانی کے درمیان چکر کھائیں گے ‘ ۔ یونس
5 اللہ عزوجل کی عظمت و قدرت کے ثبوت مظاہر کائنات اس کی کمال قدرت ، اس کی عظیم سلطنت کی نشانی یہ چمکیلا آفتاب ہے اور یہ روشن ماہتاب ہے ۔ یہ اور ہی فن ہے اور وہ اور ہی کمال ہے ۔ اس میں بڑا ہی فرق ہے ۔ اس کی شعاعیں جگمگا دیں اور اس کی شعاعیں خود منور رہیں ۔ دن کو آفتاب کی سلطنت رہتی ہے ، رات کو ماہتاب کی جگمگاہٹ رہتی ہے ، ان کی منزلیں اس نے مقرر کر رکھی ہیں ۔ چاند شروع میں چھوٹا ہوتا ہے ۔ چمک کم ہوتی ہے ۔ رفتہ رفتہ بڑھتا ہے اور روشن بھی ہوتا ہے پھر اپنے کمال کو پہنچ کر گھٹنا شروع ہوتا ہے واپسی اگلی حالت پر آ جاتا ہے ۔ ہر مہینے میں اس کا یہ ایک دور ختم ہوتا ہے نہ سورج چاند کو پکڑ لے ، نہ چاند سورج کی راہ روکے ، نہ دن رات پر سبقت کرے نہ رات دن سے آگے بڑھے ۔ ہر ایک اپنی اپنی جگہ پابندی سے چل پھر رہا رہے ۔ دور ختم کر رہا ہے ۔ «وَالْقَمَرَ قَدَّرْنَـہُ مَنَازِلَ حَتَّی عَادَ کَالعُرجُونِ الْقَدِیمِ ـ لاَ الشَّمْسُ یَنبَغِی لَہَآ أَن تدْرِکَ القَمَرَ وَلاَ الَّیْلُ سَابِقُ النَّہَارِ وَکُلٌّ فِی فَلَکٍ یَسْبَحُونَ» ۱؎ (36-یس:39،40) ’ اور چاند کی منزلیں مقرر کر رکھی ہیں کہ وہ لوٹ کر پرانی ٹہنی کی طرح ہو جاتا ہے نہ آفتاب کی یہ مجال ہے کہ چاند کو پکڑے اور نہ رات دن پر آگے بڑھ جانے والی ہے اور سب کے سب آسمان میں تیرتے پھرتے ہیں ‘ ۔ دونوں کی گنتی سورج کی چال پر اور مہینوں کی گنتی چاند پر ہے ۔ «وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْبَاناً» ۱؎ (6-الأنعام:96) ’ اور سورج اور چاند کو حساب سے رکھا ہے ‘ ۔ یہ مخلوق عبث نہیں بلکہ بحکمت ہے ۔ زمین و آسمان اور ان کے درمیان کی چیزیں باطل پیدا شدہ نہیں ، یہ خیال تو کافروں کا ہے ، جن کا ٹھکانا دوزخ ہے ۔ «وَمَا خَلَقْنَا السَّمَآءَ وَالاٌّرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا بَـطِلاً ذَلِکَ ظَنٰ الَّذِینَ کَفَرُواْ فَوَیْلٌ لِّلَّذِینَ کَفَرُواْ مِنَ النَّارِ» ۱؎ (38-ص:27) ’ اور ہم نے آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی چیزوں کو ناحق پیدا نہیں کیا یہ گمان تو کافروں کا ہے سو کافروں کے لیے خرابی ہے آگ کی ‘ ۔ ‏ ’ تم یہ نہ سمجھنا کہ ہم نے تمہیں یونہی پیدا کر دیا ہے اور اب تم ہمارے قبضے سے باہر ہو ، یاد رکھو میں اللہ ہوں ، میں مالک ہوں ، میں حق ہوں ، میرے سوا کسی کی کچھ چلتی نہیں ، عرش کریم بھی منجملہ مخلوق کے میری ادنیٰ مخلوق ہے ‘ ۔ «أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَـکُمْ عَبَثاً وَأَنَّکُمْ إِلَیْنَا لاَ تُرْجَعُونَ ـ فَتَعَـلَی اللہُ الْمَلِکُ الْحَقٰ لاَ إِلَـہَ إِلاَّ ہُوَ رَبٰ الْعَرْشِ الْکَرِیمِ» ۱؎ (23-المؤمنون:115،116) ’ کیا تم یہ گمان کئے ہوئے ہو کہ ہم نے تمہیں یونہی بے کار پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف لوٹائے ہی نہ جاؤ گے ۔ ‏ اللہ تعالیٰ سچا بادشاہ ہے وہ بڑی بلندی والا ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہی بزرگ عرش کا مالک ہے ‘ ۔ ’ حجتیں اور دلیلیں ہم کھول کھول کر بیان فرما رہے ہیں کہ اہل علم لوگ سمجھ لیں ‘ ۔ رات دن کے رد و بدل میں ، ان کے برابر جانے آنے میں رات پر دن کا آنا ، دن پر رات کا چھا جانا ، ایک دوسرے کے پیچھے برابر لگاتار آنا جانا اور زمین و آسمان کا پیدا ہونا اور ان کی مخلوق کا رچایا جانا یہ سب عظمت رب کی بولتی ہوئی نشانیاں ہیں ۔ «یُغْشِی الَّیْلَ النَّہَارَ یَطْلُبُہُ حَثِیثًا» ۱؎ (7-الأعراف:54) ’ وہ رات سے دن ایسے طور پر چھپا دیتا ہے کہ کہ وہ رات اس دن کو جلدی سے آ لیتی ہے ‘ ۔ «لاَ الشَّمْسُ یَنبَغِی لَہَآ أَن تدْرِکَ القَمَرَ» ۱؎ (36-یس:40) ’ نہ آفتاب کی یہ مجال ہے کہ چاند کو پکڑے ‘ ۔ «فَالِقُ الإِصْبَاحِ وَجَعَلَ الَّیْلَ سَکَناً» ۱؎ (6-الأنعام:96) ’ وہ صبح کا نکالنے والا اس نے رات کو راحت کی چیز بنایا ہے اور سورج اور چاند کو حساب سے رکھا ہے ان سے منہ پھیر لینا کوئی عقلمندی کی دلیل نہیں یہ نشانات بھی جنہیں فائدہ نہ دیں انہیں ایمان کیسے نصیب ہو گا ؟ تم اپنے آگے پیچھے اوپر نیچے بہت سی چیزیں دیکھ سکتے ہو ‘ ۔ «وَکَأَیِّن مِّن ءَایَۃٍ فِی السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ» ۱؎ (12-یوسف:105) ’ آسمانوں اور زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں ‘ ۔ «قُلِ انظُرُواْ مَاذَا فِی السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ وَمَا تُغْنِی الآیَـتُ وَالنٰذُرُ عَن قَوْمٍ لاَّ یُؤْمِنُونَ» ۱؎ (10-یونس:101) ’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیجئیے کہ تم غور کرو کہ کیا کیا چیزیں آسمانوں میں اور زمین میں ہیں اور جو لوگ ایمان نہیں لاتے ان کو نشانیاں اور دھمکیاں کچھ فائدہ نہیں پہنچاتیں ‘ ۔ «أَفَلَمْ یَرَوْاْ إِلَی مَا بَیْنَ أَیْدِیہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ مِّنَ السَّمَآءِ وَالاٌّرْضِ» ۱؎ (34-سبأ:9) ’ کیا پس وہ اپنے آگے پیچھے آسمان و زمین کو دیکھ نہیں رہے ہیں ؟ ‘ ، «إِنَّ فِی خَلْقِ السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ وَاخْتِلَـفِ الَّیْلِ وَالنَّہَارِ لاّیَـتٍ لاٌّوْلِی الاٌّلْبَـبِ» ۱؎ (3-آل عمران:190) ’ آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات دن کے ہیر پھیر میں عقلمندوں کے لیے یہ بڑی بڑی نشانیاں ہیں ، کہ وہ سوچ سمجھ کر اللہ کے عذابوں سے بچ سکیں اور اس کی رحمت حاصل کر سکیں ‘ ۔ یونس
6 یونس
7 نادان و محروم لوگ جو لوگ قیامت کے منکر ہیں ، جو اللہ کی ملاقات کے امیدوار نہیں ، جو اس دنیا پر خوش ہو گئے ہیں ، اسی پر دل لگا لیا ہے ، نہ اس زندگی سے فائدہ اٹھاتے ہیں ، نہ اس زندگی کو سود مند بناتے ہیں اور اس پر مطمئن ہیں ۔ اللہ کی پیدا کردہ نشانیوں سے غافل ہیں ، اللہ کی نازل کردہ آیتوں میں غور فکر نہیں کرتے ، ان کی آخری جگہ جہنم ہے ، جو ان کی خطاؤں اور گناہوں کا بدلہ ہے جو ان کے کفر و شرک کی جزا ہے ۔ یونس
8 یونس
9 خوش انجام خوش نصیب لوگ نیک بختوں کا حال بیان ہو رہا ہے جو اللہ پر ایمان لائے رسولوں کو مانا ، فرمانبرداری کی نیکیوں پر چلتے رہے ، انہیں ان کے ایمان کی وجہ سے راہ مل جائے گی ۔ پل صراط سے پار ہو جائیں گے ۔ جنت میں پہنچ جائیں گے ، نور مل جائے گا ، جس کی روشنی میں چلیں پھریں گے ۔ پس ممکن ہے کہ «بِإِیمَانِہِمْ» میں [ ب ] سبب کی ہو ، اور ممکن ہے کہ استعانت کی ہو ۔ ان کے اعمال اچھی بھلی صورت اور عطر و خوشبو بن کر ان کے پاس ان کی قبر میں آئیں گے اور انہیں خوشخبری دیں گے یہ پوچھیں گے کہ تم کون ہو ؟ وہ جواب دیں گے تمہارے نیک اعمال ۔ پس یہ اپنے ان نورانی عمل کی روشنی میں جنت میں پہنچ جائیں گے اور کافروں کا عمل نہایت بدصورت ، بدبو دار ہو کر اس پر چمٹ جائے گا اور اسے دھکے دے کر جہنم میں لے جائے گا ۔ یہ جو چیز کھانا چاہیں گے اسی وقت فرشتے اس تیار کر کے لائیں گے ۔ انہیں سلام کہیں گے جو جواب دیں گے اور کھائیں گے ۔ کھا کر اپنے رب کی حمد بیان کریں گے ۔ ان کے صرف «سبْحانَک اللَّہُمّ» کہتے ہی دس ہزار خادم اپنے ہاتھوں میں سونے کے کٹوروں میں کھانا لے کر حاضر ہو جائیں گے اور یہ سب میں سے کھائے گا ۔ ان کا آپس میں بھی تحفہ سلام ہو گا ۔ «تَحِیَّتُہُمْ یَوْمَ یَلْقَوْنَہُ سَلَـمٌ» ۱؎ (33-الأحزاب:44) ’ جس دن یہ اللہ سے ملاقات کریں گے ان کا تحفہ سلام ہوگا ‘ ، «لاَ یَسْمَعُونَ فِیہَا لَغْواً وَلاَ تَأْثِیماً» (56-الواقعۃ:25،26) ’ نہ وہاں بکواس سنیں گے اور نہ گناہ کی بات ، ‏ صرف سلام ہی سلام کی آواز ہو گی وہاں کوئی لغو بات کانوں میں نہ پڑے گی ‘ ۔ در و دیوار سے سلامتی کی آوازیں آتی رہیں گے ۔ رب رحیم کی طرف سے بھی سلامتی کا قول ہوگا ۔ «سَلاَمٌ قَوْلاً مِّن رَّبٍّ رَّحِیمٍ» ۱؎ (36-یس:58) ’ مہربان پروردگار کی طرف سے انہیں سلام کہا جائے گا ‘ ۔ ‏ فرشتے بھی ہر ایک دروازے سے آ کر سلام کریں گے ، «وَالمَلَـئِکَۃُ یَدْخُلُونَ عَلَیْہِمْ مِّن کُلِّ بَابٍسَلَـمٌ عَلَیْکُمُ» ۱؎ (13-الرعد:23 ، 24) ’ ان کے پاس فرشتے ہر دروازے سے آئیں گے ، کہیں گے کہ تم پر سلامتی ہو ‘ ، آخری قول ان کا اللہ کی ثناء ہوگا ۔ وہ معبود برحق ہے اول آخر حمد و تعریف کے سزاوار ہے ۔ اسی لیے اس نے اپنی حمد بیان فرمائی مخلوق کی پیدائش کے شروع میں ، اس کی بقاء میں ، اپنی کتاب کے شروع میں ، اور اس کے نازل فرمانے کے شروع میں ۔ اس قسم کی آیتیں قرآن کریم میں ایک نہیں کئی ایک ہیں جیسے «الْحَمْدُ لِلہِ الَّذِی أَنْزَلَ عَلَی عَبْدِہِ الْکِتَـبَ» ۱؎ (18-الکہف:1) ’ تمام تعریفیں اسی اللہ کے لیے سزاوار ہیں جس نے اپنے بندے پر یہ قرآن اتارا ‘ ۔ «الْحَمْدُ للَّہِ الَّذِی خَلَقَ السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْض» ۱؎ (6-الأنعام:1) ’ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لائق ہیں جس نے آسمانوں کو اور زمین کو پیدا کیا ‘ ، وغیرہ ۔ وہی اول آخر دنیا عقبیٰ میں لائق حمد و ثناء ہے ہر حال میں اس کی حمد ہے ۔ حدیث شریف میں ہے کہ { اہل جنت سے تسبیح و حمد اس طرح ادا ہوگی جیسے سانس چلتا رہتا ہے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2835) یہ اس لیے کہ ہر وقت نعمتیں راحتیں آرام اور آسائش بڑھتا ہوا دیکھیں گے پس لامحالہ حمد ادا ہوگی ۔ سچ ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، نہ اس کے سوا کوئی پالنہار ہے ۔ یونس
10 یونس
11 اللہ تعالٰی اپنے احسانات کا تذکرہ فرماتے ہیں فرمان ہے کہ ’ میرے الطاف اور میری مہربانیوں کو دیکھو ، کہ بندے کبھی کبھی تنگ آ کر ، گھبرا کر اپنے لیے ، اپنے بال بچوں کے لیے اپنے مالک کے لیے ، بد دعائیں کربیٹھتے ہیں لیکن میں انہیں قبول کرنے میں جلدی نہیں کرتا ، ورنہ وہ کسی گھر کے نہ رہیں جیسے کہ میں انہی چیزوں کی برکت کی دعائیں قبول فرما لیا کرتا ہوں ، ورنہ یہ تباہ ہو جاتے ‘ ۔ پس بندوں کو ایسی بدعاؤں سے پرہیز کرنا چاہیئے ۔ چنانچہ مسند بزار کی حدیث میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ، { اپنی جان و مال پر بد دعا نہ کرو ۔ ایسا نہ ہو کہ کسی قبولیت کی ساعت موافقت کر جائے اور وہ بد دعا قبول ہو جائے } } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:1532،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اسی مضمون کا بیان «وَیَدْعُ الإِنْسَـنُ بِالشَّرِّ دُعَآءَہُ بِالْخَیْرِ» ۱؎ (17-الإسراء:11) میں ہے ، غرض یہ ہے کہ انسان کا کسی وقت اپنی اولاد مال وغیرہ کے لیے بد دعا کرنا کہ اللہ اسے غارت کرے وغیرہ ۔ ایک نیک دعاؤں کی طرح قبولیت میں ہی آ جایا کرے تو لوگ برباد ہوجائیں ۔ یونس
12 مومن ہر حال میں اللہ کا شکر بجا لاتے ہیں اسی آیت جیسی یہ آیت ہے : «وَإِذَا مَسَّہُ الشَّرٰ فَذُو دُعَآءٍ عَرِیضٍ» ۱؎ (41-فصلت:51) یعنی ’ جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو بڑی لمبی لمبی دعائیں کرنے لگتا ہے ‘ ۔ ہر وقت اٹھتے بیٹھے لیٹتے اللہ سے اپنی تکلیف کے دور ہونے کی التجائیں کرتا ہے ۔ لیکن جہاں دعا قبول ہوئی تکلیف دور ہوئی اور ایسا ہو گیا جیسے کہ نہ اسے کبھی تکلیف پہنچی تھی نہ اس نے کبھی دعا کی تھی ۔ ایسے لوگ حد سے گزر جانے والے ہیں اور انہیں اپنے ایسے ہی گناہ اچھے معلوم ہوتے ہیں ۔ ہاں ایماندار ، نیک اعمال ، ہدایت و رشد والے ایسے نہیں ہوتے ۔ حدیث شریف میں ہے { مومن کی حالت پر تعجب ہے ، اس کے لیے ہر الٰہی فیصلہ اچھا ہی ہوتا ہے ۔ اسے تکلیف پہنچی اس نے صبر و استقامت اختیار کی اور اسے نیکیاں ملیں ۔ اسے راحت پہنچی ، اس نے شکر کیا ، اس پر بھی نیکیاں ملیں ، یہ بات مومن کے سوا کسی کو حاصل نہیں } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2999) یونس
13 . اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ ’ سابقہ اقوام پر تکذیب رسول کی وجہ سے عذاب آئے تہس نہس ہوگئے ۔ اب تم ان کے قائم مقام ہو اور تمہارے پاس بھی افضل الرسل صلی اللہ علیہ وسلم آچکے ہیں ، اللہ دیکھ رہا ہے کہ تمہارے اعمال کی کیا کیفیت رہتی ہے ؟ ‘ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں دنیا میٹھی ، مزے کی ، سبز رنگ والی ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس میں تمہیں خلیفہ بنا کر دیکھ رہا ہے کہ تم کیسے اعمال کرتے ہو ؟ دنیا سے ہوشیار رہو ، اور عورتوں سے ہوشیار رہو ، بنی اسرائیل میں سب سے پہلا فتنہ عورتوں کا ہی آیا تھا } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2742) سیدنا عوف بن مالک رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ گویا آسمان سے ایک رسی لٹکائی گئی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اسے مکمل تھام لیا ، پھر لٹکائی گئی تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی اسی طرح اسے مضبوطی سے تھام لیا ۔ پھر منبر کے اردگرد لوگوں نے ماپنا شروع کیا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ تین ذراع بڑھ گئے ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ خواب سن کر فرمایا بس ہٹاؤ بھی ، ہمیں خوابوں کیا حاجت ؟ پھر اپنی خلافت کے زمانے میں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا ” عوف تمہارا خواب کیا تھا ؟ “ سیدنا عوف رضی اللہ عنہ نے کہا جانے دیجئیے ۔ جب آپ رضی اللہ عنہ کو اس کی ضرورت ہی نہیں ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے جب مجھے ڈانٹ دیا پھر اب کیوں پوچھتے ہیں ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” اس وقت تو تم خلیفۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی موت کی خبر دے رہے تھے ۔ اب بیان کرو انہوں نے بیان کیا ۔ تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” لوگوں کا منبر کی طرف تین ذراع پانا یہ تھا کہ ایک تو خلیفہ برحق تھا ، دوسرے خلیفہ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے بالکل بے پرواہ تھا ۔ تیسرا خلیفہ شہید ہے “ ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’ پھر ہم نے تمہیں خلیفہ بنایا کہ ہم تمہارے اعمال دیکھیں ‘ ۔ اے عمر رضی اللہ عنہ کی ماں کے لڑکے تو خلیفہ بنا ہوا ہے ،خوب دیکھ بھال لے کہ کیا کیا عمل کر رہا ہے ؟ آپ کا فرمان کہ ” میں اللہ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی پرواہ نہیں کرتا “ سے مراد ان چیزوں میں ہے جو اللہ چاہے ۔ شہید ہونے سے مراد یہ ہے کہ جب عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی اس وقت مسلمان آپ رضی اللہ عنہ کے مطیع و فرمانبردار تھے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:17090:ضعیف) یونس
14 یونس
15 کفار کی بدترین حجتیں مکے کے کفار کا بغض دیکھئیے قرآن سن کر کہنے لگے ، اسے تو بدل لا ، بلکہ کوئی اور ہی لا ۔ تو جواب دے کہ یہ میرے بس کی بات نہیں میں تو اللہ کا غلام ہوں اس کا رسول ہوں اس کا کہا کہتا ہوں ۔ اگر میں ایسا کروں تو قیامت کے عذاب کا مجھے ڈر ہے ۔ دیکھو اس بات کی دلیل یہ کیا کم ہے ؟ کہ میں ایک بے پڑھا لکھا شخص ہوں تم لوگ استاد کلام ہو لیکن پھر بھی اس کا معروضہ اور مقابلہ نہیں کرسکتے ۔ میری صداقت و امانت کے تم خود قائل ہو ۔ میری دشمنی کے باوجود تم آج تک مجھ پر انگلی ٹکا نہیں سکتے ۔ اس سے پہلے میں تم میں اپنی عمر کا بڑا حصہ گزار چکا ہوں ۔ کیا پھر بھی عقل سے کام نہیں لیتے ؟ شاہ روم ہرقل نے ابوسفیان اور ان کے ساتھیوں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفتیں دریافت کرتے ہوئے پوچھا کہ کیا دعویٰ نبوت سے پہلے کبھی تم نے اسے جھوٹ کی تہمت لگائی ہے ؟ تو اسے باوجود دشمن اور کافر ہونے کے کہنا پڑا کہ نہیں ، یہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت جو دشمنوں کی زبان سے بھی بے ساختہ ظاہر ہوتی تھی ۔ ہرقل نے نتیجہ بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں کیسے مان لوں کہ لوگوں کے معاملات میں تو جھوٹ نہ بولے اور اللہ پر جھوٹ بہتان باندھ لے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:7) جعفر بن ابوطالب نے دربار نجاشی میں شاہ حبش سے فرمایا تھا ” ہم میں اللہ نے جس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا ہے ہم اس کی صدقت امانت نسب وغیرہ سب کچھ جانتے ہیں وہ نبوت سے پہلے ہم میں چالیس سال گزار چکے ہیں “ ۔ سعید بن مسیب سے تنتالیس سال مروی ہیں لیکن مشہور قول پہلا ہی ہے ۔ یونس
16 یونس
17 مجرم اور ظالموں کا سرغنہ اس سے زیادہ ظالم ، اس سے زیادہ مجرم ، اسے زیادہ سرکش اور کون ہو گا ؟ جو اللہ پر جھوٹ باندھے اور اس کی طرف نسبت کر کے وہ کہے جو اس نے نہ فرمایا ہو ۔ رسالت کا دعویٰ کردے حالانکہ اللہ نے اسے نہ بھیجا ہو ۔ ایسے جھوٹے لوگ تو عامیوں کے سامنے بھی چھپ نہیں سکتے چہ جائیکہ عاقلوں کے سامنے اس گناہ کا کبیرہ ترین ہونا تو کسی سے مخفی نہیں ۔ پھر کیسے ہو سکتا ہے کہ نبی علیہ السلام اس سے غافل رہیں ؟ یاد رکھو جو بھی منصب نبوت کا دعویٰ کرتا ہے اور اس کی صداقت یا جھوٹ پر ایسے دلائل قائم کر دیتی ہے کہ اس کا معاملہ بالکل ہی کھل جاتا ہے ۔ ایک طرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لیجئے اور دوسری جانب مسلیمہ کذاب کو رکھئے تو اتنا ہی فرق معلوم ہوگا ، جتنا آدھی رات اور دوپہر کے وقت میں دونوں کے اخلاق عادات ، حالات کا معائنہ کرنے والا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی اور اس کی غلط گوئی میں کوئی شک نہیں کرسکتا ۔ اسی طرح سجاح اور اسود عنسی کا دعویٰ ہے کہ نظر ڈالنے کے بعد کسی کو ان کے جھوٹ میں شک نہیں رہتا ۔ سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں { جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینے میں آئے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دیکھنے کے لیے گئے ۔ میں بھی گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر نظریں پڑتے ہی میں نے سمجھ لیا کہ یہ چہرہ کسی جھوٹے آدمی کا نہیں ۔ پاس گیا تو سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ کلام سنا کہ { لوگو سلام پھیلاؤ ، کھانا کھلاتے رہا کرو صلہ رحمی قائم رکھو ، راتوں کو لوگوں کی نیند کے وقت تہجد کی نماز پڑھا کرو تو سلامتی کے ساتھ جنت میں جاؤ گے } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2485قال الشیخ الألبانی:صحیح) { اسی طرح جب سعد بن بکر کے قبیلے کے وفد میں سیدنا ضمام بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو پوچھا کہ اس آسمان کا بلند کرنے والا کون ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اللہ تعالیٰ ہے } ۔ اس نے پوچھا ان پہاڑوں کا گاڑنے ولا کون ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اللہ } ۔ اس نے پوچھا اس زمین کا پھیلانے والا کون ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اللہ } ، تو اس نے کہا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی اللہ کی قسم دیتا ہوں ، جس نے ان آسمانوں کو بلند کیا ، ان پہاڑوں کو گاڑ دیا اس زمین کو پھیلا دیا کہ کیا واقعی اللہ تعالیٰ ہی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا رسول بنا کر ہماری طرف بھیجا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ہاں اسی اللہ کی قسم ہاں } ۔ اسی طرح نماز ، زکوٰۃ ، حج اور روزے کی بابت بھی اس نے ایسی ہی تاکیدی قسم دلا کر سوال کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی قسم کھا کر جواب دیا ۔ تب اس نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہیں ۔ اس کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا ہے کہ نہ میں اس پر بڑھاؤں گا اور نہ کم کروں گا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:63) پس اس شخص نے صرف اسی پر قناعت کرلی ۔ اور جو دلائل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے اس کے سامنے تھے ان پر اسے اعتبار آگیا ۔ سیدنا حسان رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں کتنا اچھا شعر کہا ہے «لَوْ لَمْ تَکُنْ فِیہِ آیَاتٌ مُبَیِّنَۃٌ» «کَانَتْ بَدِیہَتُہُ تَأْتِیکَ بِالْخَبَرِ» یعنی حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں اگر اور ظاہر اور کھلی نشانیاں نہ بھی ہوتیں تو صرف یہی ایک بات کافی تھی کہ چہرہ دیکھتے ہی بھلائی اور خوبی تیری طرف لپکتی ہے ۔ «فَصَلَوَاتُ اللہِ وَسَلَامُہُ عَلَیْہِ» ۔ برخلاف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کذاب مسیلمہ کے جس نے اسے بیک نگاہ دیکھ لیا اس کا جھوٹ اس پر کھل گیا ، خصوصاً جس نے اس کے فضول اقوال اور بدترین افعال دیکھ لیے ، اسے اس کے جھوٹ میں ذرا سا شائبہ بھی نہ رہا ۔ جسے وہ اللہ کا کلام کہہ رہا تھا اس کلام کی بدمزگی ، اس کی بے کاری ، تو اتنی ظاہر ہے کہ کلام کے سامنے پیش کئے جانے کے بھی قابل نہیں ۔ لو اب تم ہی انصاف کرو ، آیت الکرسی (البقرۃ:255) کے مقابلے میں اس ملعون نے یہ آیت بنائی تھی ۔ «[ یَا ضُفْدَعُ بِنْتَ الضٰفْدَعَیْنِ ، نَقِّی کَمَا تُنَقِّینَ لَا الْمَاءُ تُکَدِّرِینَ ، وَلَا الشَّارِبُ تَمْنَعِینَ] » یعنی اے مینڈکوں کے بچے مینڈک تو ٹراتا رہ ۔ نہ تو پانی خراب کر سکے نہ پینے والوں کو روک سکے ۔ اس طرح اس کے ناپاک کلام کے نمونے میں اس کی بنائی ایک اور آیت ہے کہ «[ لَقَدْ أَنْعَمَ اللہُ عَلَی الْحُبْلَی ، إِذْ أَخْرَجَ مِنْہَا نَسَمَۃً تَسْعَی ، مِنْ بَیْنِ صِفَاقٍ وَحَشَی] » اللہ نے حاملہ پر بڑی مہربانی فرمائی کہ اس کے پیٹ سے چلتی پھرتی جان برآمد کی ، جھلی اور آنتوں کے درمیان سے ۔ سورۃ الفیل کے مقابلے میں وہ پاجی کہتا ہے «[ الْفِیلُ وَمَا أَدْرَاکَ مَا الْفِیلُ ؟ لَہُ زُلْقُومٌ طَوِیلٌ] » یعنی ہاتھی اور کیا جانے تو کیا ہے ہاتھی ؟ اس کی بڑی لمبی سونڈھ ہوتی ہے ۔ والنازعات کا معارضہ کرتے ہوئے یہ کمینہ کہتا ہے «[ وَالْعَاجِنَاتِ عَجْنًا ، وَالْخَابِزَاتِ خَبْزًا ، وَاللَّاقِمَاتِ لَقْمًا ، إِہَالَۃً وَسَمْنًا ، إِنَّ قُرَیْشًا قَوْمٌ یَعْتَدُونَ]» یعنی آٹا گوندھنے والا اور روٹی پکانے والیاں ، اور لقمے بنانے والیاں ، سالن اور گھی سے ، قریشی لوگ بہت آگے نکل گئے ۔ اب آپ ہی انصاف کیجئے کہ یہ بچوں کا کھیل ہے یا نہیں ؟ شریف انسان تو سوائے مذاق کے ایسی بات منہ سے بھی نہیں نکال سکتا پھر اس کا انجام دیکھئیے لڑائی میں مارا گیا ، اس کا گروہ مٹ گیا ۔ اس کے ساتھیوں پر لعنت برسی ۔ سیدنا صدیق اکبررضی اللہ عنہ کے پاس خائب و خاسر ہو کر منہ پر مٹی مل کر پیش ہوئے اور رو دھو کر توبہ کر کے جوں جوں کر کے جان بچائی ۔ پھر تو اللہ کے سچے دین کی چاشنی سے ہونٹ چوسنے لگے ۔ ایک روز ان سے خلیفۃ المسلمین امیر المؤمنین ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مسیلمہ کا قرآن تو سناؤ تو بہت سٹ پٹائے بے حد شرمائے اور کہنے لگے ہمیں اس ناپاک کلام کے زبان سے نکالنے پر مجبور نہ کیجئے ہمیں تو اس سے شرم معلوم ہوتی ہے ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا نہیں تو ضرور سناؤ تاکہ ہمارے مسلمان بھائیوں کو بھی اس کی رکاکت اور بے ہودگی معلوم ہو جائے ۔ آخر مجبور ہو کر انہوں نہایت ہی شرماتے ہوئے کچھ پڑھا جس کا نمونہ اوپر گزرا کہ کہیں میں مینڈک کا ذکر کہیں ہاتھی کا کہیں روٹی کا کہیں حمل کا ۔ اور وہ سارے ہی ذکر بےسود بے مزہ اور بے کار ۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آخر میں فرمایا یہ تو بتاؤ تمہاری عقلیں کہاں ماری گئیں تھیں ؟ واللہ اسے تو کوئی بے وقوف بھی ایک لمحہ کے لیے کلام اللہ نہیں کہہ سکتا ۔ مذکور ہے کہ عمرو بن العاص اپنے کفر کے زمانے میں مسیلمہ کے پاس پہنچا ، یہ دونوں بچپن کے دوست تھے اس سے پوچھا کہو عمرو تمہارے ہاں کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر آج کل جو وحی اتری ہو اس میں سے کچھ سنا سکتے ہو ؟ اس نے کہا ہاں ان کے اصحاب رضی اللہ عنہم ایک مختصر سورت پڑھتے تھے جو میری زبان پر بھی چڑھ گئی لیکن بھائی اپنی مضمون کے لحاظ سے وہ سورت بہت بڑی اور بہت ہی اعلیٰ ہے اور لفظوں کے اعتبار سے بہت ہی مختصر اور بڑی جامع ہے ۔ پھر اس نے سورۃ والعصر پڑھ سنائی ۔ مسیلمہ چپکا ہوگیا بہت دیر کے بعد کہنے لگا مجھ پر اسی جیسی سورت اتری ہے ۔ اس نے کہا ہاں تو بھی سنا دے تو اس نے پڑھا «[ یَا وَبْرُ إِنَّمَا أَنْتِ أُذُنَانِ وَصَدْرٌ ، وَسَائِرُکِ حَقْرٌ نَقْرٌ] » یعنی اے وبر جانور تیرے تو بس دو کان ہیں اور سینہ ہے ، اور باقی جسم تو تیرا بالکل حقیر اور عیب دار ہے ۔ یہ سنا کر عمرو سے پوچھتا ہے کہو دوست کیسی کہی ؟ اس نے کہا دوست اپنے جھوٹ پر مہر لگا دی اور کیسی کہی ؟ پس جب کہ ایک مشرک پر بھی سچے جھوٹے کی تمیز مشکل نہ ہوئی تو ایک صاحب عقل تمیز دار اور بایمان پر کیسے یہ بات چھپ سکتی ہے ؟ اس کا بیان «وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوْ قَالَ اُوْحِیَ اِلَیَّ وَلَمْ یُوْحَ اِلَیْہِ شَیْءٌ» ۱؎ (6-الأنعام:93) میں ہے یعنی ’ اللہ پر جھوٹ افترا کرنے والے یا اس کے طرف وحی نہ آنے کے باوجود وحی آنے کا دعویٰ کرنے والے سے بڑھ کر ظالم کوئی نہیں ‘ ۔ اسی طرح جو کہے کہ میں بھی اللہ کی طرح کا کلام اتار سکتا ہوں ، مندرجہ بالا آیت میں بھی یہی فرمان ہے ۔ پس وہ بڑا ہی ظالم ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھے ، وہ بڑا ہی ظالم ہے جو اللہ کی آیتوں کو جھٹلائے ۔ حجت ظاہر ہو جانے پر بھی نہ مانے ۔ حدیث میں ہے { سب سے بڑا سرکش اور بدنصیب وہ ہے جو کسی نبی کو قتل کرے یا نبی اسے قتل کرے } ۔ (مسند احمد32/4(قال الشیخ الألبانی:حسن) یونس
18 شرک کے آغاز کی روداد مشرکوں کا خیال تھا کہ جن کو ہم پوجتے ہیں یہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہوں گے اس غلط عقیدے کی قرآن کریم تردید فرماتا ہے کہ ’ وہ کسی نفع نقصان کا اختیار نہیں رکھتے ان کی شفاعت تمہارے کچھ کام نہ آئے گی ۔ تم تو اللہ کو بھی سکھانا چاہتے ہو گویا جو چیز زمین آسمان میں وہ نہیں جانتا تم اس کی خبر اسے دینا چاہتے ہو ۔ یعنی یہ خیال غلط ہے ۔ اللہ تعالیٰ شرک و کفر سے پاک ہے وہ برتر و بری ہے ‘ ۔ سنو پہلے سب کے سب لوگ اسلام پر تھے ۔ آدم علیہ السلام سے لے کر نوح علیہ السلام تک دس صدیاں وہ سب لوگ مسلمان تھے ۔ پھر اختلاف رونما ہوا اور لوگوں نے تیری میری پرستش شروع کر دی ۔ اللہ تعالیٰ نے رسولوں کے سلسلوں کو جاری کیا تاکہ «لِّیَہْلِکَ مَنْ ہَلَکَ عَن بَیِّنَۃٍ وَیَحْیَیٰ مَنْ حَیَّ عَن بَیِّنَۃٍ» ۱؎ (8-الأنفال:42) ’ ثبوت و دلیل کے بعد جس کا جی چاہے زندہ رہے جس کا جی چاہے مر جائے ‘ ۔ چونکہ اللہ کی طرف سے فیصلے کا دن مقرر ہے ۔ حجت تمام کرنے سے پہلے عذاب نہیں ہوتا اس لیے موت مؤخر ہے ۔ ورنہ ابھی ہی حساب چکا دیا جاتا ۔ مومن کامیاب رہتے اور کافر ناکام ۔ یونس
19 یونس
20 ثبوت صداقت مانگنے والے کہتے ہیں کہ اگر یہ سچا نبی ہے تو جیسے آل ثمود کو اونٹنی ملی تھی انہیں ایسی کوئی نشانی کیوں نہیں ملی ؟ چاہیئے تھا کہ یہ صفا پہاڑ کوسونا بنا دیتا یا مکے کے پہاڑوں کو ہٹا کر یہاں کھیتیاں باغ اور نہریں بنا دیتا ۔ گو اللہ کی قدرت اس سے عاجز نہیں لیکن اس کی حکمت کا تقاضا وہی جانتا ہے ۔ آیت میں ہے «تَبَارَکَ الَّذِی إِن شَاءَ جَعَلَ لَکَ خَیْرًا مِّن ذٰلِکَ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِن تَحْتِہَا الْأَنْہَارُ وَیَجْعَل لَّکَ قُصُورًا بَلْ کَذَّبُوا بِالسَّاعَۃِ وَأَعْتَدْنَا لِمَن کَذَّبَ بِالسَّاعَۃِ سَعِیرًا» ۱؎ (25-الفرقان:10) ’ اگر وہ چاہے تو اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے باغات اور نہریں بنا دے لیکن یہ پھر بھی قیامت کے منکر ہی رہیں گے اور آخر جہنم میں جائیں گے ‘ ۔ آیت میں ہے «وَمَا مَنَعَنَا أَن نٰرْسِلَ بِالْآیَاتِ إِلَّا أَن کَذَّبَ بِہَا الْأَوَّلُونَ وَآتَیْنَا ثَمُودَ النَّاقَۃَ مُبْصِرَۃً فَظَلَمُوا بِہَا وَمَا نُرْسِلُ بِالْآیَاتِ إِلَّا تَخْوِیفًا» ۱؎ (17-الإسراء:59) ’ اگلوں نے بھی ایسے معجزے طلب کئے دکھائے گئے پھر بھی جھٹلایا تو عذاب اللہ آگئے ‘ ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی یہی فرمایا گیا تھا کہ ’ اگر تم چاہو تو میں ان کے منہ مانگے معجزے دکھا دوں لیکن پھر بھی یہ کافر رہے تو غارت کر دیئے جائیں گے اور اگر چاہو تو مہلت دوں ‘ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حلم و کرم سے دوسری بات ہی اختیار کی ۔ یہاں حکم ہوتا ہے کہ ’ غیب کا علم اللہ ہی کو ہے تمام کاموں کا انجام وہی جانتا ہے ۔ تم ایمان نہیں لاتے تو نتیجے کے منتظر رہو ۔ دیکھو میرا کیا ہوتا ہے اور تمہارا کیا ہوتا ہے ؟ ‘ آہ ! کیسے بدنصیب تھے جو مانگتے تھے اس سے بدرجہا بڑھ کر دیکھ چکے تھے اور سب معجزوں کو جانے دو چاند کو ایک اشارے سے دو ٹکڑے کر دینا ایک ٹکڑے کا پہاڑ کے اس طرف اور دوسرے کا اس طرف چلے آنا کیا یہ معجزہ کس طرح اور کس معجزے سے کم تھا ؟ لیکن چونکہ ان کا یہ سوال محض کفر کی بنا پر تھا ورنہ یہ بھی اللہ دکھا دیتا جن پر عذاب عملاً آ جاتا ہے وہ چاہے دنیا بھر کے معجزے دیکھ لیں انہیں ایمان نصیب نہیں ہوتا ۔ آیت میں ہے «إِنَّ الَّذِینَ حَقَّتْ عَلَیْہِمْ کَلِمَتُ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُونَ وَلَوْ جَاءَتْہُمْ کُلٰ آیَۃٍ حَتَّیٰ یَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِیمَ» ۱؎ (10-یونس:96،97) یعنی ’ جن لوگوں کے بارے میں خدا کا حکم [ عذاب ] قرار پاچکا ہے وہ ایمان نہیں لانے کے ، جب تک کہ عذاب الیم نہ دیکھ لیں خواہ ان کے پاس ہر [ طرح کی ] نشانی آ جائے ۔ اگر ان پر فرشتے اترتے اگر ان سے مردے باتیں کرتے اگر ہر ایک چیز ان کے سامنے کر دی جاتی پھر بھی انہیں تو ایمان نصیب نہ ہوتا اسی کا بیان آیت «وَلَوْ فَتَحْنَا عَلَیْہِم بَابًا مِّنَ السَّمَاءِ فَظَلٰوا فِیہِ یَعْرُجُونَ لَقَالُوا إِنَّمَا سُکِّرَتْ أَبْصَارُنَا بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَّسْحُورُونَ» ۱؎ (14-الحجر:14،15) ، اور آیت «وَإِن یَرَوْا کِسْفًا مِّنَ السَّمَاءِ سَاقِطًا یَقُولُوا سَحَابٌ مَّرْکُومٌ» ۱؎ (52-الطور:44) ، اور آیت «وَلَوْ نَزَّلْنَا عَلَیْکَ کِتٰبًا فِیْ قِرْطَاسٍ فَلَمَسُوْہُ بِاَیْدِیْہِمْ لَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِنْ ہٰذَآ اِلَّا سِحْـرٌ مٰبِیْنٌ» ۱؎ (6-الأنعام:7) میں بھی ہوا ہے ۔ پس ایسے لوگوں کو ان کے منہ مانگے معجزے دکھانے بھی بے سود ہیں ۔ اس لیے کہ انہوں نے تو کفر پر گرہ لگا لی ہے ۔ اس لیے فرما دیا کہ ’ آگے چل کر دیکھ لینا کہ کیا ہوتا ہے ‘ ۔ یونس
21 احسان فراموش انسان انسان کی ناشکری کا بیان ہو رہا ہے کہ ’ اسے سختی کے بعد کی آسانی ، خشک سالی کے بعد کی ترسالی ، قحط کے بعد کی بارش اور بھی ناشکرا کر دیتی ہے یہ ہماری آیتوں سے مذاق اڑانے لگتا ہے ۔ کیا تو اس وقت ہماری طرف ان کا جھکنا اور کیا اس وقت ان کا اکڑنا نہیں دیکھتا ‘ ۔ { رات کو بارش ہوئی ، صبح کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی ، پھر پوچھا { جانتے بھی ہو رات کو باری تعالیٰ نے کیا فرمایا ہے ؟ } صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا ہمیں کیا خبر ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اللہ کا ارشاد ہوا ہے کہ صبح کو میرے بہت سے بندے ایماندار ہو جائیں گے اور بہت سے کافر ۔ کچھ کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کے لطف و رحم سے بارش ہوئی وہ مجھ پر ایمان رکھنے والے بن جائیں گے اور ستاروں کی ایسی تاثیروں کے منکر ہو جائیں گے اور کچھ کہیں گے کہ فلاں فلاں نچھتر کی وجہ سے بارش برسائی گئی وہ مجھ سے کافر ہو جائیں گے اور ستاروں پر ایمان رکھنے والے بن جائیں گے } } ۔ (صحیح بخاری:846) یہاں فرماتا ہے کہ ’ جیسے یہ چالبازی ان کی طرف سے ہے ۔ میں بھی اس کے جواب سے غافل نہیں انہیں ڈھیل دیتا ہوں ۔ یہ اسے غفلت سمجھتے ہیں پھر جب پکڑ آ جاتی ہے تو حیران و ششدر رہ جاتے ہیں ۔ میں غافل نہیں ۔ میں نے تو اپنے امین فرشتے چھوڑ رکھے ہیں جو ان کے کرتوت برابر لکھتے جا رہے ہیں ۔ پھر میرے سامنے پیش کریں گے میں خود دانا بینا ہوں لیکن تاہم وہ سب تحریر میرے سامنے ہو گی ۔ جس میں ان کے چھوٹے بڑے بڑے بھلے سب اعمال ہوں گے ۔ اسی اللہ کی حفاظت میں تمہارے خشکی اور تری کے سفر ہوتے ہیں ۔ تم کشتیوں میں سوار ہو ، موافق ہوائیں چل رہی ہیں ۔ کشتیاں تیر کی طرح منزل مقصود کو جا رہی ہیں تم خوشیاں منا رہے ہو کہ یکایک باد مخالف چلی اور چاروں طرف سے پہاڑوں کی طرح موجیں اٹھ کھڑی ہوئیں ‘ ۔ «وَإِذَا مَسَّکُمُ الضٰرٰ فِی الْبَحْرِ ضَلَّ مَن تَدْعُونَ إِلَّا إِیَّاہُ فَلَمَّا نَجَّاکُمْ إِلَی الْبَرِّ أَعْرَضْتُمْ وَکَانَ الْإِنسَانُ کَفُورًا» ‏‏‏‏ ۱؎ (17-الإسراء:67) سمندر میں تلاطم شروع ہو گیا ، کشتی تنکے کی طرح جھکولے کھانے لگی اور تمہارے کلیجے الٹنے لگے ، ہر طرف سے موت نظر آنے لگی ، اس وقت سارے بنے بنائے معبود اپنی جگہ دھرے رہ گئے اور نہایت خشوع وخضوع سے صرف مجھ سے دعائیں مانگیں جانے لگیں وعدے کئے جانے لگے کہ اب کے اس مصیبت سے نجات مل جانے کے بعد شکر گزاری میں باقی عمر گزار دیں گے ، توحید میں لگے رہیں گے کسی کو اللہ کا شریک نہیں بنائیں گے ، آج سے خالص توبہ ہے ۔ لیکن ادھر نجات ملی ، کنارے پر اترے ، خشکی میں چلے پھرے کہ اس مصیبت کے وقت کو اس خالص دعا کو پھر اقرار شکرو توحید کو یکسر بھول گئے اور ایسے ہو گئے گویا ہمیں کبھی پکارا ہی نہ تھا ۔ ہم سے کبھی معاملہ ہی نہ پڑا تھا ۔ ناحق اکڑفوں کرنے لگے ، مستی میں آ گئے ۔ لوگو ! تمہاری اس سرکشی کا وبال تم پر ہی ہے ۔ تم اس سے دوسروں کا نہیں بلکہ اپنا ہی نقصان کر رہے ہو ۔ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { وہ گناہ جس پر یہاں بھی اللہ کی پکڑ نازل ہو اور آخر میں بھی بدترین عذاب ہو فساد و سرکشی اور قطع رحمی سے بڑھ کر کوئی نہیں } } ۔ (سنن ابوداود4902،قال الشیخ الألبانی:صحیح) تم اس دنیائے فانی کے تھوڑے سے برائے نام فائدے کو چاہے اٹھالو لیکن آخر انجام تو میری طرف ہی ہے ۔ میرے سامنے آؤ گے میرے قبضے میں ہو گے ۔ اس وقت ہم خود تمہیں تمہاری بد اعمالیوں پر متنبہ کریں گے ہر ایک کو اس کے اعمال کا بدلہ دیں گے لہٰذا اچھائی پاکر ہمارا شکر کرو اور برائی دیکھ کر اپنے سوا کسی اور کو ملامت اور الزام نہ دو ۔ یونس
22 یونس
23 یونس
24 دنیا اور اس کی حقیقت دنیا کی ٹیپ ٹاپ اور اس کی دو گھڑی کی سہانی رونق پھر اس کی بربادی اور بے رونقی کی مثال زمین کے سبزے سے دی جا رہی ہے کہ بادل سے پانی برسا زمین لہلہا اُٹھی ، طرح طرح کی سبزیاں ، چارے ، پھل پھول ، کھیت باغات ، پیدا ہو گئے ۔ انسانوں کے کھانے کی چیزں ، جانوروں کے چرنے چگنے کی چیزیں ، چاروں طرف پھیل پڑیں ، زمین سرسبز ہو گئی ، ہر چہار طرف ہریالی ہی ہریالی نظر آنے لگی ، کھیتی والے خوش ہوگئے ، باغات والے پھولے نہیں سماتے کہ اب کے پھل اور انجاج بکثرت ہے ۔ ناگہاں آندھیوں کے جھکڑ چلنے لگلے ، برف باری ہوئی ، اولے گرے ، پالہ پڑا ، پھل چھوڑ پتے بھی جل گئے ۔ درخت جڑوں سے اکھڑ گئے ، تازگی خشکی سے بدل گئی ، پھل ٹھٹھر گئے ۔ ، جل گئے ، کھیت و باغات ایسے ہو گئے گویا تھے ہی نہیں اور جو چیز کل تھی بھی آج نہیں تو گویا کل بھی نہ تھی ۔ حدیث میں ہے { بڑے دنیادار کروڑ پتی کو جو ہمیشہ ناز و نعمت میں ہی رہا تھا ، لا کر جہنم میں ایک غوطہٰ دے کر پھر اس سے پوچھا جائے گا کہ کہو تمہاری زندگی کیسی گزری ؟ وہ جواب دے گا کہ میں نے تو کبھی کوئی راحت نہیں دیکھی ۔ کبھی آرام کا نام بھی نہیں سنا ۔ اسی طرح دنیا کی زندگی میں ایک گھڑی بھی جس پر آرام کی نہیں گزری تھی اسے لایا جائے گا ۔ جنت میں ایک غوطہٰ کھلا کر پوچھا جائے گا کہ کہو دنیا میں کیسے رہے ؟ جواب دے گا کہ پوری عمر کبھی رنج و غم کا نام بھی نہیں سنا کبھی تکلیف اور دکھ دیکھا بھی نہیں } } ۔ (صحیح مسلم:2807) اللہ تعالیٰ اسی طرح عقلمندوں کے لیے واقعات واضح کرتا ہے تاکہ وہ عبرت حاصل کر لیں ۔ ایسا نہ ہو اس فانی چند روزہ دنیا کے ظاہری چکر میں پھنس جائیں اور اس ڈھل جانے والے سائے کو اصلی اور پائیدار سمجھ لیں ۔ اس کی رونق دو روزہ ہے ۔ یہ وہ چیز ہے جو اپنے چاہنے والوں سے بھاگتی ہے اور نفرت کرنے والوں سے لپٹتی ہے ۔ دنیا کی زندگی کی مثال اسی طرح ہے اور بھی بہت سی آیتوں میں بیان ہوئی ہے ۔ مثلاً سورۃ الکہف کی آیت «وَاضْرِبْ لَہُمْ مَّثَلَ الْحَیٰوۃِ الدٰنْیَا کَمَاءٍ اَنْزَلْنٰہُ مِنَ السَّمَاءِ فَاخْتَلَطَ بِہٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ فَاَصْبَحَ ہَشِیْمًا تَذْرُوْہُ الرِّیٰحُ وَکَان اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ مٰقْتَدِرًا» ۱؎ (18-الکہف:45) میں اور سورۃ الزمر اور سورۃ الحدید میں ۔ خلیفہ مروان بن حکم نے منبر پر آیت «وَازَّیَّنَتْ وَظَنَّ أَہْلُہَا أَنَّہُمْ قَادِرُونَ عَلَیْہَا وَمَا کَانَ اللہُ لِیُہْلِکَہَا إِلا بِذُنُوبِ أَہْلِہَا» پڑھ کر فرمایا میں نے تو اسی طرح پڑھی ہے لیکن قرآن میں یہ لکھی ہوئی نہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے نے فرمایا ” میرے والد بھی اسی طرح پڑھتے تھے “ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس جب آدمی بھیجا گیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی قرآت بھی یونہی ہے ، لیکن یہ قرأت غریبہ ہے “ ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:17616:سخت ضعیف) اس کی سند اور گویا یہ جملہ تفسیر یہ ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اللہ تعالیٰ سلامتی کے گھر کی طرف اپنے بندوں کو بلاتا ہے جو دنیا کی طرف فانی نہیں بلکہ باقی ہے دنیا کی طرف دو دن کے لیے زینت دار نہیں بلکہ ہمیشہ کی نعمتوں اور ابدی راحتوں والی ہے ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { مجھ سے کہا گیا تیری آنکھیں سو جائیں ، تیرا دل جاگتا رہے اور تیرے کان سنتے رہیں چنانچہ ایسا ہی ہوا } ۔ پھر فرمایا گیا { ایک سردار نے ایک گھر بنایا ۔ وہاں دعوت کا انتظام کیا ۔ ایک بلانے والے کو بھیجا ۔ پس جس نے اس کی دعوت قبول کی ۔ گھر میں داخل ہوا اور دستر خوان سے کھانا کھایا جس نے نہ قبول کی نہ اسے اپنے گھر میں آٹا ملا نہ دعوت کا کھانا میسر ہوا نہ سردار اس سے خوش ہوا ۔ پس اللہ سردار ہے اور گھر اسلام ہے اور دستر خوان جنت ہے اور بلانے والے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں } } یہ روایت مرسل ہے ۔ دوسری متصل بھی ہے ، اس میں ہے کہ{ ایک دن ہمارے مجمع میں آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا { خواب میں میرے پاس جبرائیل و میکائیل علیہم السلام آئے جبرائیل سرہانے اور میکائیل پیروں کی طرف کھڑے ہوگئے ۔ ایک نے دوسرے سے کہا اس کی مثال بیان کرو ۔ پھر یہ مثال بیان کی ۔ پس جس نے تیری دعوت قبول کی وہ اسلام میں داخل ہوا اور جو اسلام لایا وہ جنت میں پہنچا اور و وہاں کھایا پیا } } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2860،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ایک حدیث میں ہے { ہر دن سورج کے طلوع ہونے کے وقت اس کے دونوں جانب دو فرشتے ہوتے ہیں جو باآواز بلند انسانوں اور جنوں کے سوا سب کو سنا کر کہتے ہیں کہ لوگو ! اپنے رب کی طرف آؤ ۔ جو کم ہو یا کافی ہو وہ بہتر ہے اس سے جو زیادہ ہو اور غافل کر دے ۔ قرآن فرماتا ہے لوگو ! اللہ تعالیٰ تمہیں دارالسلام کی طرف بلاتا ہے } ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:17623:صحیح) یونس
25 یونس
26 عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی یہاں جس نے نیک اعمال کئے اور با ایمان رہا وہاں اسے بھلائیاں اور نیک بدلے ملیں گے ۔ «ہَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ» ۱؎ (55-الرحمن:60) ’ احسان کا بدلہ احسان ہے ‘ ۔ ایک ایک نیکی بڑھا چڑھا کر زیادہ ملے گی ایک کے بدلے سات سات سو تک ۔ جنت حور قصور وغیرہ وغیرہ آنکھوں کی طرح طرح کی ٹھنڈک ، دل کی لذت اور ساتھ ہی اللہ عزوجل کے چہرے کی زیارت یہ سب اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم اور اس کا لطف و رحم ہے ۔ بہت سے سلف خلف صحابہ وغیرہ سے مروی ہے کہ زیادہ سے مراد اللہ عزوجل کا دیدار ہے ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا : { جب جنتی جنت میں اور جہنمی جہنم میں چلے جائیں گے اور اس وقت ایک منادی کرنے والا ندا کرے گا کہ اے جنتیو ! تم سے اللہ کا ایک وعدہ ہوا تھا ، اب وہ بھی پورا ہونے کو ہے ۔ یہ کہیں گے «اَلْحَمْدُ لِلہِ» ہمارے میزان بھاری ہوگئے ، ہمارے چہرے نورانی ہوگئے ، ہم جنت میں پہنچ گئے ، ہم جہنم سے دور ہوئے ، اب کیا چیز باقی ہے ؟ اس وقت حجاب ہٹ جائے گا اور یہ اپنے پاک پرودگار کا دیدار کریں گے ۔ واللہ کسی چیز میں انہیں وہ لذت و سرور نہ حاصل ہوا ہو گا جو دیدار الٰہی میں ہوگا } } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:181) اور حدیث میں کہ { منادی کہے گا حسنیٰ سے مراد جنت تھی اور زیارت سے مراد دیدار الٰہی تھا } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:17633:سخت ضعیف) ایک حدیث میں یہ فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی مروی ہے ۔ میدان محشر میں ان کے چہروں پر سیاہی نہ ہوگی نہ ذلت ہوگی ۔ جیسے کہ کافروں کے چہروں پر یہ دونوں چیزیں ہوں گی ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:17633:ضیعف) غرض ظاہر اور باطنی اہانت سے وہ دور ہوں گے ۔ چہرے پر نور دل راحتوں سے مسرور ۔ اللہ ہمیں بھی انہیں میں کرے آمین ۔ یونس
27 ایک تقابلی جائزہ نیکوں کا حال بیان فرما کر اب بدوں کا حال بیان ہو رہا ہے ۔ ان کی نیکیاں بڑھا کر ان کی برائیاں برابر ہی رکھی جائیں گی ۔ نیکی کم مگر بدکاریاں ان کے چہروں پر سیاہیاں بن کر چڑھ جائیں گی ذلت و پستی سے ان کے منہ کالے پڑ جائیں گے ۔ یہ اپنے مظالم سے اللہ کو بیخبر سمجھتے رہے حالانکہ انہیں اس دن تک کی ڈھیل ملی تھی ۔ آج آنکھیں چڑھ جائیں گی شکلیں بگڑ جائیں گی ، کوئی نہ ہو گا جو کام آئے اور عذاب سے بچائے ، کوئی بھاگنے کی جگہ نہ نظر آئے گی ۔ اللہ کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔ کافروں کے چہرے ان کے کفر کی وجہ سے سیاہ ہوں گے ، اب کفر کا مزہ اٹھاؤ ۔ مومنوں کے منہ نورانی اور چمکیلے ، گورے اور صاف ہوں گے ، کافروں کے چہرے ذلیل اور پست ہوں گے ۔ یونس
28 میدان حشر میں سبھی موجود ہوں گے { مومن ، کافر ، نیک ، بد ، جن انسان ، سب میدان قیامت میں اللہ کے سامنے جمع ہونگے ۔ «وَحَشَرْنَاہُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْہُمْ أَحَدًا» ۱؎ (18-الکہف:47) ’ سب کا حشر ہو گا ، ایک بھی باقی نہ رہے گا ‘ ۔ «وَامْتَازُوا الْیَوْمَ أَیٰہَا الْمُجْرِمُونَ» (36-یس:59) ’ پھر مشرکوں اور ان کے شریکوں کو الگ کھڑا کر دیا جائے گا ‘ ۔ «وَیَوْمَ تَقُومُ السَّاعَۃُ یَوْمَئِذٍ یَتَفَرَّقُونَ» ۱؎ (30-الروم:14) ’ ان مجرموں کی جماعت مومنوں سے الگ ہو جائے گی ، سب جدا جدا گروہ میں بٹ جائیں گے ایک سے ایک الگ ہو جائے گا ‘ ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ خود فیصلوں کے لیے تشریف لائے گا ۔ مومن سفارش کر کے اللہ کو لائیں گے کہ وہ فیصلے فرما دے } ۔ (صحیح بخاری:7516) { یہ امت ایک اونچے ٹیلے پر ہوگی } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:191) «سَیَکْفُرُونَ بِعِبَادَتِہِمْ وَیَکُونُونَ عَلَیْہِمْ ضِدًّا» ‏‏‏‏ ۱؎ (19-مریم:82) ’ مشرکین کے شرکا اپنے عابدوں سے بیزاری ظاہر کریں گے ‘ ، اور آیت میں ہے کہ «إِذْ تَبَرَّأَ الَّذِینَ اتٰبِعُوا مِنَ الَّذِینَ اتَّبَعُوا» ۱؎ (2-البقرہ:166) ’ اس دن [ کفر کے ] پیشوا اپنے پیرووں سے بیزاری ظاہر کریں گے ، اسی طرح خود مشرکین بھی ان سے انجان ہو جائیں گے ۔ سب ایک دوسرے انجان بن جائیں گے ‘ ۔ «‏‏‏‏وَمَنْ أَضَلٰ مِمَّن یَدْعُو مِن دُونِ اللہِ مَن لَّا یَسْتَجِیبُ لَہُ إِلَیٰ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ وَہُمْ عَن دُعَائِہِمْ غَافِلُونَ وَإِذَا حُشِرَ النَّاسُ کَانُوا لَہُمْ أَعْدَاءً وَکَانُوا بِعِبَادَتِہِمْ کَافِرِینَ» ۱؎ (46-الأحقاف:5-6) ’ اب بتلاؤ ان مشرکوں سے بھی زیادہ کوئی بہکا ہوا ہے کہ انہیں پکارتے رہے جو آج تک ان کی پکار سے بھی غافل رہے اور آج ان کے دشمن بن کر مقابلے پر آگئے ۔ صاف کہا کہ تم نے ہماری عبادت نہیں کی ۔ ہمیں کچھ خبر نہیں ہماری تمہاری عبادتوں سے بالکل غافل رہے ۔ اسے اللہ خوب جانتا ہے ، نہ ہم نے اپنی عبادت کو تم سے کہا تھا نہ ہم اس سے کبھی خوش رہے ۔ تم اندھی ، نہ سنتی ، بے کار چیزوں کو پوجتے رہے جو خود ہی بے خبر تھے نہ وہ اس سے خوش نہ ان کا یہ حکم ‘ ۔ بلکہ تمہاری پوری حاجت مندی کے وقت تمہارے شرک کے منکر ، تمہاری عبادتوں کے منکر بلکہ تمہارے دشمن تھے ۔ اس حی و قیوم ، سمیع و بصیر ، قادر و مالک ، وحدہ لاشریک کو تم نے چھوڑ دیا جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہ تھا ۔ «وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِی کُلِّ أُمَّۃٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللہَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ فَمِنْہُم مَّنْ ہَدَی اللہُ وَمِنْہُم مَّنْ حَقَّتْ عَلَیْہِ الضَّلَالَۃُ» ۱؎ (16-النحل:36) ’ جس نے رسول بھیج کر تمہیں توحید سکھائی اور سنائی تھی سب رسولوں کی زبانی کہلوایا تھا کہ میں ہی معبود ہوں میری ہی عبادت و اطاعت کرو ۔ سوائے میرے کوئی عبادت کے لائق نہیں ۔ ہر قسم کے شرک سے بچو ۔ کبھی کسی طرح بھی مشرک نہ بنو ‘ ۔ وہاں ہر شخص اپنے اعمال دیکھ لے گا ۔ اپنی بھلائی برائی معلوم کرلے گا ۔ نیک و بد سامنے آ جائے گا ۔ اسرار بے نقاب ہوں گے ، کھل پڑیں گے ، اگلے پچھلے چھوٹے بڑے کام سامنے ہوں گے ۔ نامہ اعمال کھلے ہوئے ہوں گے ، ترازو چڑھی ہوئی ہوگی ۔ آپ اپنا حساب کرلے گا ۔ «تَبْلُوا» کی دوسری قرآت «تَتْلُوْا» بھی ہے ۔ اپنے اپنے کرتوت کے پیچھے ہر شخص ہوگا ۔ حدیث میں ہے { ہر امت کو حکم ہو گا کہ اپنے اپنے معبودوں کے پیچھے چل کھڑی ہو جائے ۔ سورج پرست سب سورج کے پیچھے ہوں گے ، چاند پرست چاند کے پیچھے ، بت پرست بتوں کے پیچھے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:7438) سارے کے سارے حق تعالیٰ مولائے برحق کی طرف لوٹائے جائیں گے تمام کاموں کے فیصلے اس کے ہاتھ ہوں گے ۔ اپنے فضل سے نیکوں کو جنت میں اور اپنے عدل سے بدوں کو جہنم میں لے جائے گا ۔ مشرکوں کی ساری افرا پردازیاں رکھی کی رکھی رہ جائیں گی ، بھرم کھل جائیں گے ، پردے اُٹھ جائیں گے ۔ یونس
29 یونس
30 یونس
31 اللہ کی الوہیت کے منکر اللہ کی ربوبیت کو مانتے ہوئے اس کی الوہیت کا انکار کرنے والے قریشیوں پر اللہ کی حجت پوری ہو رہی ہے کہ «فَأَنبَتْنَا فِیہَا حَبًّا وَعِنَبًا وَقَضْبًا وَزَیْتُونًا وَنَخْلًا وَحَدَائِقَ غُلْبًا وَفَاکِہَۃً وَأَبًّا» ۱؎ (80-عبس:27-31) ’ ان سے پوچھو کہ آسمانوں سے بارش کون برساتا ہے ؟ پھر اپنی قدرت سے زمین کو پھاڑ کر کھیتی و باغ کون اُگاتا ہے ؟ دانے اور پھل کون پیدا کرتا ہے ؟ اس کے جواب میں یہ سب کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ ہی ‘ ۔ «أَمَّنْ ہٰذَا الَّذِی یَرْزُقُکُمْ إِنْ أَمْسَکَ رِزْقَہُ» ۱؎ (67-الملک:21) ’ اس کے ہاتھ میں ہے چاہے روزی دے چاہے روک لے ‘ ۔ «قُلْ أَرَأَیْتُمْ إِنْ أَخَذَ اللہُ سَمْعَکُمْ وَأَبْصَارَکُمْ وَخَتَمَ عَلَیٰ قُلُوبِکُم مَّنْ إِلٰہٌ غَیْرُ اللہِ یَأْتِیکُم بِہِ» ۱؎ (6-الأنعام:46) ’ کان آنکھیں بھی اس کے قبضے میں ہیں ۔ دیکھنے کی سننے کی حالت بھی اسی کی دی ہوئی ہے اگر وہ چاہے اندھا بہرا بنا دے ۔ پیدا کرنے والا وہی ، اعضاء کا دینے والا وہی ہے ۔ وہ اسی قوت کو چھین لے تو کوئی نہیں دے سکتا ‘ ۔ اس کی قدرت و عظمت کو دیکھو کہ مردے سے زندے کو پیدا کر دے ، زندے سے مردے کو نکالے ۔ وہی تمام کاموں کی تدبیر کرتا ہے ۔ ہر چیز کی بادشاہت اسی کے ہاتھ ہے ۔ سب کو وہی پناہ دیتا ہے اس کے مجرم کو کوئی پناہ نہیں دے سکتا ۔ وہی متصرف و حاکم ہے کوئی اس سے بازپرس نہیں کر سکتا وہ سب پر حاکم ہے ۔ «یَسْأَلُہُ مَن فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ کُلَّ یَوْمٍ ہُوَ فِی شَأْنٍ» ۱؎ (55-الرحمن:29) ’ آسمان و زمین اس کے قبضے میں ہر تر و خشک کا مالک وہی ہے عالم بالا اور سفلی اسی کا ہے ‘ ۔ کل انس و جن فرشتے اور مخلوق اس کے سامنے عاجز و بے کس ہیں ۔ ہر ایک پست و لاچار ہے ۔ ان سب باتوں کا ان مشرکین کو بھی اقرار ہے ۔ پھر کیا بات ہے جو یہ تقویٰ اور پرہیزگاری اختیار نہیں کرتے ۔ جہالت وغبادت سے دوسروں کی عبادت کرتے ہیں ۔ فاعل خود مختار اللہ کو جانتے ہوئے رب و مالک مانتے ہوئے معبود سمجھتے ہوئے پھر بھی دوسروں کی پوجا کرتے ہیں ۔ وہی ہے تم سب کا سچا معبود اللہ تعالیٰ وکیل ہے اس کے سوا تمام معبود باطل ہیں وہ اکیلا ہے بے شریک ہے ۔ مستحق عبادت صرف وہی ہے ۔ حق ایک ہی ہے ۔ اس کے سوا سب کچھ باطل ہے ۔ پس تمہیں اس کی عبادت سے ہٹ کر دوسروں کی عبادت کی طرف نہ جانا چاہیئے یاد رکھو وہی رب العلمین ہے وہی ہرچیز میں متصرف ہے ۔ کافروں پر اللہ کی بات ثابت ہو چکی ہے ، ان کی عقل ماری گئی ہے ۔ خالق رازق متصرف مالک صرف اللہ کو مانتے ہوئے اس کے رسولوں کا خلاف کر کے اس کی توحید کو نہیں مانتے ۔ اپنی بدبختی سے جہنم کی طرف بڑھتے جا رہے ہیں ۔ انہیں ایمان نصیب نہیں ہو گا ۔ یونس
32 یونس
33 یونس
34 مصنوعی معبودوں کی حقیقت مشرکوں کے شرک کی تردید ہو رہی ہے کہ ’ بتلاؤ تمہارے معبودوں میں سے ایک بھی ایسا ہے جو آسمانوں و زمین کو اور مخلوق کو پیدا کرسکے یا بگاڑ کر بنا سکے نہ ابتداء پر کوئی قادر نہ اعادہ پر کوئی قادر ۔ بلکہ اللہ ہی ابتداء کرے وہی اعادہ کرے ۔ وہ اپنے تمام کاموں میں یکتا ہے ۔ پس تم طریق حق سے گھوم کر راہ ضلالت کی طرف کیوں جا رہے ہو ؟ کہو تو تمہارے معبود کسی بھٹکے ہوئے کی رہبری کر سکتے ہیں ؟ یہ بھی ان کے بس کی بات نہیں بلکہ یہ بھی اللہ کے ہاتھ ہے ۔ ہادی برحق وہی ہے ، وہی گمراہوں کو راہ راست دکھاتا ہے ، اس کے سوا کوئی ساتھی نہیں ‘ ۔ پس جو رہبری تو کیا کرے خود ہی اندھا بہرا ہو اس کی تابعداری ٹھیک یا اس کی اطاعت اچھی جو سچا ہادی مالک کل قادر کل ہو ؟ یہ ابراہیم خلیل اللہ نے اپنے باپ سے کہا تھا کہ «إِذْ قَالَ لِأَبِیہِ یَا أَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا یَسْمَعُ وَلَا یُبْصِرُ وَلَا یُغْنِی عَنکَ شَیْئًا» ۱؎ (19-مریم:42) ’ ان کی پوجا کیوں کرتا ہے ؟ جو نہ سنیں نہ دیکھیں نہ کوئی فائدہ دے سکیں ‘ ۔ اپنی قوم سے فرماتے ہیں کہ «قَالَ أَتَعْبُدُونَ مَا تَنْحِتُونَ وَ اللہُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ» ۱؎ (37-الصافات:95۔96) ’ تم ان کی پوجا کرتے ہو جنہیں خود اپنے ہاتھوں بناتے ہو ، حالانکہ تمہارا اور تمہارے کام کی تمام چیزوں کا پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے ‘ ۔ یہاں فرماتا ہے ’ تمہاری عقلیں کیا اوندھی ہو گئیں کہ خالق مخلوق کو ایک کر دیا نیکی سے ہٹ کر بدی میں جا گرے توحید کوچھوڑ کر شرک میں پھنس گئے ۔ اس کو اور اس کو پوجنے لگے ۔ رب جل جلالہ مالک و حاکم و ہادی و رب سے بھٹک گئے ۔ اس کی طرف خلوص دلی توجہ چھوڑ دی ‘ ۔ دلیل و برہان سے ہٹ گئے مغالطوں اور تقلید میں پھنس گئے ۔ گمان اور اٹکل کے پیچھے پڑگئے ۔ وہم و خیال کے بھنور میں آگئے ، حالانکہ ظن و گمان فضول چیز ہے ۔ حق کے سامنے وہ محض بے کار ہے تمہیں اس سے کوئی فائدہ پہنچ نہیں سکتا ۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے اعمال سے باخبر ہے وہ انہیں پوری سزا دے گا ۔ یونس
35 یونس
36 یونس
37 اعجاز قرآن حکیم قرآن کریم کے اعجاز کا اور قرآن کریم کے کلام اللہ ہونے کا بیان ہو رہا ہے کہ کوئی اس کا بدل اور مقابلہ نہیں کرسکتا ۔ اس جیسا قرآن بلکہ اس جیسی دس سورتیں بلکہ ایک سورت بھی کسی کے بس کی نہیں ۔ یہ بے مثل قرآن بے مثل اللہ کی طرف سے ہے ۔ اس کی فصاحت و بلاغت ، اس کی وجاہت و حلاوت ، اس کے معنوں کی بلندی ، اس کے مضامین کی عمدگی بالکل بے نظیر چیز ہے ۔ اور یہی دلیل ہے اس کی کہ یہ قرآن اس اللہ کی طرف سے ہے جس کی ذات بے مثل صفتیں بے مثل ، جس کے اقوال بے مثل ، جس کے افعال بے مثل ، جس کا کلام اس چیز سے عالی اور بلند کہ مخلوق کا کلام اس کے مشابہ ہوسکے ۔ یہ کلام تو رب العالمین کا ہی کلام ہے ، نہ کوئی اور اسے بنا سکے ، نہ یہ کسی اور کا بنایا ہوا ۔ یہ تو سابقہ کتابوں کی تصدیق کرتا ہے ، ان پر نگہبانی کرتا ہے ، ان کا اظہار کرتا ہے ، ان میں جو تحریف تبدیل تاویل ہوئی ہے اسے بے حجاب کرتا ہے ، حلال و حرام جائز و ناجائز غرض کل امور شرع کا شافی اور پورا بیان فرماتا ہے ۔ پس اس کے کلام اللہ ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اس میں اگلی خبریں ہیں اس میں آنے والی پیش گوئیاں ہیں اور آنے والی خبریں ہیں ، سب جھگڑوں کے فیصلے ہیں سب احکام کے حکم ہیں ۔ (سنن ترمذی2906 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) اگر تمہیں اس کے کلام اللہ ہونے میں شک ہے ۔ تو اسے گھڑا ہوا سمجھتے ہو اور کہتے ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے کہہ لیا ہے «قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنسُ وَالْجِنٰ عَلَیٰ أَن یَأْتُوا بِمِثْلِ ہٰذَا الْقُرْآنِ لَا یَأْتُونَ بِمِثْلِہِ وَلَوْ کَانَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ ظَہِیرًا» ‏‏‏‏ ۱؎ (17-الاسراء:88) ’ تو جاؤ تم سب مل کر ایک ہی سورۃ اس جیسی بنا لاؤ اور کل انسان اور جنوں سے مدد بھی لے لو ‘ ۔ یہ تیسرا مقام ہے جہاں کفار کو مقابلے پر بلا کر عاجر کیا گیا ہے کہ اگر وہ اپنے دعوے میں سچے ہوں تو اس کے مقابلے میں اسی جیسا کلام پیش کریں ۔ لیکن یہ ہے ناممکن یہ خبر بھی ساتھ ہی دے دی تھی کہ انسان و جنات سب جمع ہو جائیں ایک دوسرے کا ساتھ دیں لیکن اس قرآن جیسا بنا کر پیش نہیں کرسکتے ۔ اس پورے قرآن کے مقابلہ سے جب وہ عاجز و لاچار ثابت ہوچکے تو ان سے مطالبہ ہوا کہ اس جیسی صرف دس سورتیں ہی بنا کر لاؤ ۔ سورۃ ھود کے شروع کی آیت «قُلْ فَاْتُوْا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِہٖ مُفْتَرَیٰتٍ وَّادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ» ۱؎ (11-ھود:13) میں یہ فرمان ہے ۔ جب یہ بھی ان سے نہ ہو سکا تو اور آسانی کر دی گئی اور سورۃ البقرہ میں جو مدنی ہے فرمایا کہ «فَأْتُوا بِسُورَ‌ۃٍ مِّن مِّثْلِہِ وَادْعُوا شُہَدَاءَکُم مِّن دُونِ اللہِ إِن کُنتُمْ صَادِقِینَ» ۱؎ (2-البقرۃ:23) ’ اچھا ایک ہی سورت اس جیسی بنا کر پیش کرو ‘ ۔ وہاں بھی ساتھ ہی فرمایا کہ «فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا وَلَن تَفْعَلُوا» ۱؎ (2-البقرۃ:24) ’ نہ یہ تمہارے بس کی بات ہے نہ ساری مخلوق کے بس کی بات ‘ ۔ پس اس الہامی کتاب کو جھٹلا کر عذاب الٰہی مول نہ لو ۔ اس وقت کلام کی فصاحت و بلاغت پر پورا زور تھا ۔ عرب اپنے مقابلے میں سارے جہاں کو عجم یعنی گونگا کہا کرتے تھے ۔ اپنی زبان پر بڑا گھمنڈ تھا ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے وہ قرآن اتارا کہ سب سے پہلے انہیں شاعروں اور زبان دانوں اور عالموں کی گردنیں اس کے سامنے خم ہوئیں جیسے سب سے پہلے موسیٰ علیہ السلام کے اس معجزے نے کہ مردوں کو بحکم الٰہی جِلا دینا ۔ مادر زاد اندھوں اور کوڑھیوں کو بحکم رب شفاء دے دینا ، دنیا کے سب سے پہلے معالجوں اور اطباء کو اللہ کی راہ پر لا کھڑا کر دیا ۔ کیونکہ انہوں نے دیکھ لیا کہ یہ کام دوا کا نہیں اللہ کا ہے ۔ جادوگروں نے سانپ کو جو موسیٰ علیہ السلام کی لکڑی تھی دیکھتے ہی آپ علیہ السلام کی نبوت کا یقین کر لیا اور عاجز و درماندہ ہو گئے ۔ اسی طرح اس قرآن نے فصیح و بلیغ لوگوں کی زبانیں بند کر دیں ۔ ان کے دلوں میں یقین آ گیا کہ بیشک یہ کلام انسان کا کلام نہیں ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { نبیوں کو ایسے معجزے دئیے گئے کہ ان کی وجہ سے لوگ ان پر ایمان لائے ۔ میرا ایسا معجزہ قرآن ہے پس مجھے اُمید ہے کہ میرے تابعدار بہ نسبت ان کے بہت ہی زیادہ ہوں گے } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4981) یہ [ کافر ] لوگ بغیر سوچے سمجھے ، بغیر علم حاصل کئے اسے جھٹلانے لگے ۔ اب تک تو اس کے مصداق اور حقیقت تک بھی یہ نہیں پہنچے ۔ اپنی جہالت و سفاہت کی وجہ سے اس کی ہدایت اس کے علم سے محروم رہ گئے اور چلانا شروع کر دیا کہ ہم اسے نہیں مانتے ۔ ان سے پہلے کی امتوں نے بھی اللہ کے کلام کو اسی طرح جھٹلا دیا تھا جس بنا پر وہ ہلاک کر دیئے گئے ۔ تو آپ نے دیکھ لیا کہ ان کا کیسا برا انجام ہوا ۔ کسی طرح ان کے پرخچے اڑے ؟ ہمارے رسولوں کو ستانے ان کے نہ ماننے کا کبھی انجام اچھا نہیں ہوا ۔ تمہیں ڈرنا چاہیئے کہیں انہیں آفتوں کا نشانہ تم بھی نہ بنو ۔ تیری اُمت کے بھی بعض لوگ تو اس پر ایمان لائے تجھے رسول برحق مانا ہے ۔ تیری باتوں سے نفع اٹھا رہے ہیں ۔ اور بعض ایمان سے رہ گئے ہیں خیر سے خالی ہو گئے ہیں تیرا رب مفسدوں کو بخوبی جانتا ہے گمراہ اور نیک اس پر ظاہر ہیں ہدایت اور ضلالت کے مستحق اس کے سامنے ہیں ۔ وہ عادل ہے ظالم نہیں ۔ ہر ایک کو اس کا حصہ دیتا ہے ۔ وہ برکت اور بلندی والا پاک اور انتہائی حسن والا ہے ۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ یونس
38 یونس
39 یونس
40 یونس
41 مشرکین سے اجتناب فرما لیجئے فرمان ہوتا ہے کہ ’ اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اگر یہ مشرکین تجھے جھوٹا ہی بتلاتے رہیں تو تو ان سے اور ان کے کاموں سے اپنی بیزاری کا اعلان کر دے ۔ اور کہہ دے کہ «فَقُلْ لِی عَمَلِی وَلَکُمْ عَمَلُکُمْ» تمہارے اعمال تمہارے ساتھ میرے اعمال میرے ساتھ ‘ ۔ جیسے کہ وہ سورۃ «قُلْ یَا أَیٰہَا الْکَافِرُونَ» ۱؎ (109-الکافرون) میں بیان ہوا ہے ، اور جیسے کہ خلیل اللہ علیہ السلام اور آپ علیہ السلام کے ساتھیوں نے اپنی قوم سے فرمایا تھا کہ «إِنَّا بُرَآءُ مِنکُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللہِ کَفَرْنَا بِکُمْ وَبَدَا بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃُ وَالْبَغْضَاءُ أَبَدًا حَتَّیٰ تُؤْمِنُوا بِ اللہِ وَحْدَہُ» ۱؎ (60-الممتحنۃ:4) ’ ہم تم سے اور تمہارے معبودوں سے بیزار ہیں ، جنہیں تم نے اللہ کے سوا اپنا معبود بنا رکھا ہے ‘ ۔ ان میں سے بعض تیرا پاکیزہ کلام بھی سنتے ہیں اور خود اللہ تعالیٰ کا بلند و بالا کلام بھی ان کے کانوں میں پڑ رہا ہے ۔ لیکن ہدایت نہ تیرے ہاتھ نہ ان کے ہاتھ گو یہ فصیح و صحیح کلام دلوں میں گھر کرنے والا ، انسانوں کو پورا نفع دینے والا ہے ۔ یہ کافی اور وافی ہے لیکن بہروں کو کون سنا سکے ؟ یہ دل کے کان نہیں رکھتے ۔ اللہ ہی کے ہاتھ ہدایت ہے ۔ یہ تجھے دیکھتے ہیں ، تیرے پاکیزہ اخلاق ، تیری ستھری تعلیم تیری نبوت کی روشن دلیلیں ہر وقت ان کے سامنے ہیں لیکن ان سے بھی انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچتا ۔ مومن تو انہیں دیکھ کر ایمان بڑھاتے ہیں ۔ لیکن ان کے دل اندھے ہیں عقل و بصیرت ان میں نہیں ہے ۔ مومن وقار کی نظر ڈالتے ہیں اور یہ حقارت کی ۔ ہر وقت ہنسی مذاق اڑاتے رہتے ہیں ۔ پس اپنے اندھے پن کی وجہ سے راہ ہدایت دیکھ نہیں سکتے ۔ اس میں بھی اللہ کی حکمت کار ہے کہ ایک تو دیکھے اور سنے اور نفع پائے دوسرا دیکھے سنے اور نفع سے محروم رہے ۔ اسے اللہ کا ظلم نہ سمجھو وہ تو سراسر عدل کرنے والا ہے ، کسی پر کبھی کوئی ظلم وہ روا نہیں رکھتا ۔ لوگ خود اپنا برا آپ ہی کر لیتے ہیں ۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ «‏‏‏‏وَإِذَا رَأَوْکَ إِن یَتَّخِذُونَکَ إِلَّا ہُزُوًا أَہٰذَا الَّذِی بَعَثَ اللہُ رَسُولًا إِن کَادَ لَیُضِلٰنَا عَنْ آلِہَتِنَا لَوْلَا أَن صَبَرْنَا عَلَیْہَا وَسَوْفَ یَعْلَمُونَ حِینَ یَرَوْنَ الْعَذَابَ مَنْ أَضَلٰ سَبِیلًا» ‏‏‏‏ ۱؎ (25-الفرقان:41 ، 42) { اللہ عزوجل اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی فرماتا ہے کہ «یا عِبَادِی إنی حَرَّمْتُ الظٰلْمَ علی نَفْسِی وَجَعَلْتُہُ بَیْنَکُمْ مُحَرَّمًا فلا تَظَالَمُوا ، یا عِبَادِی ، إنما ہِیَ أَعْمَالُکُمْ أُحْصِیہَا لَکُمْ ، ثُمَّ أُوَفِّیکُمْ إِیَّاہَا ، فَمَنْ وَجَدَ خَیْرًا فَلْیَحْمَدْ اللہَ ، وَمَنْ وَجَدَ غیر ذلک فلا یَلُومَنَّ إلا نَفْسَہُ» اے میرے بندو ! میں نے اپنے اوپر ظلم کو حرام کر لیا ہے اور تم پر بھی اسے حرام کر دیا ہے ۔ خبردار ایک دوسرے پر ظلم ہرگز نہ کرنا ۔ اس کے آخر میں ہے اے میرے بندو ! یہ تو تمہارے اپنے اعمال ہیں جنہیں میں جمع کر رہا ہوں پھر تمہیں ان کا بدلہ دونگا ۔ پس جو شخص بھلائی پائے وہ اللہ کا شکر بجا لائے اور جو اس کے سوا کچھ اور پائے وہ صرف اپنے نفس کو ہی ملامت کرے } ۔ (صحیح مسلم:2577) یونس
42 یونس
43 یونس
44 یونس
45 جب سب اپنی قبر سے اٹھیں گے بیان ہو رہا ہے کہ ’ وہ وقت بھی آ رہا ہے جب قیامت قائم ہوگی اور لوگوں کو اللہ تعالیٰ ان کی قبروں سے اٹھا کر میدان قیامت میں جمع کرے گا ‘ ۔ «کَأَنَّہُمْ یَوْمَ یَرَوْنَہَا لَمْ یَلْبَثُوا إِلَّا عَشِیَّۃً أَوْ ضُحَاہَا» ۱؎ (79-النازعات:46) ’ اس وقت انہیں ایسا معلوم ہو گا کہ گویا گھڑی بھر دن ہم رہے تھے ۔ صبح یا شام ہی تک ہمارا رہنا ہوا تھا ‘ ۔ «یَوْمَ یُنفَخُ فِی الصٰورِ وَنَحْشُرُ الْمُجْرِمِینَ یَوْمَئِذٍ زُرْقًا یَتَخَافَتُونَ بَیْنَہُمْ إِن لَّبِثْتُمْ إِلَّا عَشْرًا نَّحْنُ أَعْلَمُ بِمَا یَقُولُونَ إِذْ یَقُولُ أَمْثَلُہُمْ طَرِیقَۃً إِن لَّبِثْتُمْ إِلَّا یَوْمًا» ۱؎ (20-طہ:102-104) ’ کہیں گے کہ دس روز دنیا میں گزارے ہوں گے ، تو بڑے بڑے حافظے والے کہیں گے کہاں کے دس دن تم تو ایک ہی دن رہے ‘ ۔ «وَیَوْمَ تَقُومُ السَّاعَۃُ یُقْسِمُ الْمُجْرِمُونَ مَا لَبِثُوا غَیْرَ سَاعَۃٍ کَذٰلِکَ کَانُوا یُؤْفَکُونَ وَقَالَ الَّذِینَ أُوتُوا الْعِلْمَ وَالْإِیمَانَ لَقَدْ لَبِثْتُمْ فِی کِتَابِ اللہِ إِلَیٰ یَوْمِ الْبَعْثِ فَہٰذَا یَوْمُ الْبَعْثِ وَلٰکِنَّکُمْ کُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ» ۱؎ (30-الروم:55-56) ’ قیامت کے دن یہ قسمیں کھا کھا کر کہیں گے کہ ایک ساعت ہی رہے ‘ وغیرہ ۔ ایسی آیتیں قرآن کریم میں بہت سی ہیں ۔ مقصود یہ ہے کہ دنیا کی زندگی آج بہت تھوڑی معلوم ہوگی ۔ سوال ہوگا کہ «قَالَ کَمْ لَبِثْتُمْ فِی الْأَرْضِ عَدَدَ سِنِینَ قَالُوا لَبِثْنَا یَوْمًا أَوْ بَعْضَ یَوْمٍ فَاسْأَلِ الْعَادِّینَ» ۱؎ (23-المؤمنون:112-114) کتنے سال دنیا میں گزارے ، جواب دیں گے کہ ایک دن بلکہ اسے بھی کم شمار والوں سے پوچھ لو ۔ جواب ملے گا کہ واقعہ میں دار دنیادار آخرت کے مقابلے میں بہت ہی کم ہے اور فی الحقیقت وہاں کی زندگی بہت ہی تھوڑی تھی لیکن تم نے اس کا خیال زندگی بھر نہ کیا ۔ اس وقت بھی ہر ایک دوسرے کو پہچانتا ہو گا جیسے دنیا میں تھے ویسے ہی وہاں بھی ہوں گے رشتے کنبے کو ، باپ بیٹوں الگ الگ پہنچان لیں گے ۔ لیکن ہر ایک نفسا نفسی میں مشغول ہوگا ۔ جیسے فرمان الٰہی ہے کہ «فَإِذَا نُفِخَ فِی الصٰورِ فَلَا أَنسَابَ بَیْنَہُمْ یَوْمَئِذٍ وَلَا یَتَسَاءَلُونَ» ۱؎ (23-المؤمنون:101) ’ صور کے پھونکتے ہی حسب و نسب فنا ہو جائیں گے ، کوئی دوست اپنے کسی دوست سے کچھ سوال تک نہ کرے گا ‘ ۔ «وَیْلٌ یَوْمَئِذٍ لِّلْمُکَذِّبِینَ» ۱؎ (77-المرسلات:15) ’ جو اس دن کو جھٹلاتے رہے وہ آج گھاٹے میں رہیں گے ان کے لیے ہلاکت ہو گی انہوں نے اپنا ہی برا کیا اور اپنے والوں کو بھی برباد کیا ‘ ۔ اس سے بڑھ کر خسارہ اور کیا ہوگا کہ ایک دوسرے سے دور ہے دوستوں کے درمیان تفریق ہے ، حسرت و ندامت کا دن ہے ۔ یونس
46 اللہ تعالی مقتدر اعلی ہے فرمان ہے کہ ’ اگر تیری زندگی میں ہم ان کفار پر کوئی عذاب اتاریں یا تجھے ان عذابوں کے اتارنے سے پہلے ہی اپنے پاس بلا لیں ، بہر صورت ہے تو یہ سب ہمارے قبضے میں ہی اور ٹھکانا ان کا ہمارے ہاں ہی ہے ، اور ہم پر ان کا کوئی عمل پوشیدہ نہیں ‘ ۔ طبرانی کی حدیث میں ہے کہ { ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { گزشتہ رات اسی حجرے کے پاس میرے سامنے میری ساری امت پیش کی گئی } کسی نے پوچھا کہ اچھا موجود لوگ تو خیر لیکن جو ابھی تک پیدا نہیں ہوئے وہ کیسے پیش کئے گئے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ان کی مٹی کے جسم پیش کئے گئے جیسے تم اپنے کسی ساتھی کو پہچانتے ہو ایسے ہی میں نے انہیں پہچان لیا } } ۔ (طبرانی کبیر3055:ضعیف ) ہر امت کے رسول ہیں ۔ جب کسی کے پاس رسول پہنچ گیا پھر حجت پوری ہوگئی ۔ اب قیامت کے دن ان کے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ بغیر کسی ظلم کے حساب چکا دیا جائے گا ۔ جیسے «وَاَشْرَقَتِ الْاَرْضُ بِنُوْرِ رَبِّہَا وَوُضِعَ الْکِتٰبُ وَجِایْءَ بالنَّـبِیّٖنَ وَالشٰہَدَاءِ وَقُضِیَ بَیْنَہُمْ بالْحَــقِّ وَہُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ» ۱؎ (39-الزمر:69) والی آیت میں ہے ۔ ہر امت اللہ کے سامنے ہو گی ، رسول موجود ہو گا ، نامہ اعمال ساتھ ہو گا ، گواہ فرشتے حاضر ہوں گے ، ایک کے بعد دوسری امت آئے گی اس شریف امت کا فیصلہ سب سے پہلے ہو گا ۔ گو دنیا میں یہ سب سے آخر میں آئی ہے ۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { ہم سب سے آخر میں آئے ہیں لیکن قیامت کے دن سب سے پہلے ہوں گے ۔ ہماری فیصلے سب سے اول ہوں گے } } (صحیح بخاری:6624) ۔ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت و شرف کی وجہ سے یہ امت بھی اللہ کے ہاں شریف و افضل ہے ۔ یونس
47 یونس
48 بے معنی سوال کرنے والوں کو جواب ان کا بے فائدہ سوال دیکھو ، وعدہ کا دن کب آئے گا ؟ «یَسْتَعْجِلُ بِہَا الَّذِینَ لَا یُؤْمِنُونَ بِہَا وَالَّذِینَ آمَنُوا مُشْفِقُونَ مِنْہَا وَیَعْلَمُونَ أَنَّہَا الْحَقٰ» ۱؎ (42-الشوری:18) ’ یہ پوچھتے ہیں اور پھر وہ بھی نہ ماننے اور انکار کے بعد بطور یہ جلدی مچا رہے ہیں اور مومن خوف زدہ ہو رہے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں ‘ ۔ وقت نہ معلوم ہو نہ سہی جانتے ہیں کہ بات سچی ہے ایک دن آئے گا ضروری ۔ ہدایات دی جاتی ہیں کہ انہیں جواب دے کہ ’ میرے اختیار میں تو کوئی بات نہیں ۔ جو بات مجھے بتلا دی جائے میں تو وہی جانتا ہوں ۔ کسی چیز کی مجھ میں قدرت نہیں یہاں تک کہ خود اپنے نفع نقصان کا بھی میں مالک نہیں ۔ میں تو اللہ کا غلام ہوں اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہوں ۔ اس نے مجھ سے فرمایا میں نے تم سے کہا کہ قیامت آئے گی ضرور ۔ نہ اس نے مجھے اس کا خاص وقت بتایا نہ میں تمہیں بتا سکوں ہاں ہر زمانے کی ایک معیاد معین ہے ‘ ۔ «وَلَن یُؤَخِّرَ اللہُ نَفْسًا إِذَا جَاءَ أَجَلُہَا» ۱؎ (63-المنافقون:11) ’ جہاں اجل آئی پھر نہ ایک ساعت پیچھے نہ آگے اجل آنے کے بعد نہیں رکتی ‘ ۔ پھر فرمایا کہ ’ وہ تو اچانک آنے والی ہے ‘ ممکن ہے رات کو آ جائے دن کو آ جائے اس کے عذاب میں دیر کیا ہے ؟ پھر اس شور مچانے سے اور وقت کا تعین پوچھنے سے کیا حاصل ؟ کیا جب قیامت آ جائے عذاب دیکھ لو تب ایمان لاؤ گے ؟ وہ محض بے سود ہے ۔ «رَبَّنَا أَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا إِنَّا مُوقِنُونَ» ۱؎ (32-السجدہ:12) ’ اس وقت تو یہ سب کہیں گے کہ ہم نے دیکھ سن لیا ۔ کہیں گے ہم اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور دوسرے سے کفر کرتے ہیں ‘ ۔ «فَلَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا قَالُوا آمَنَّا بِ اللہِ وَحْدَہُ وَکَفَرْنَا بِمَا کُنَّا بِہِ مُشْرِکِینَ فَلَمْ یَکُ یَنفَعُہُمْ إِیمَانُہُمْ لَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا سُنَّتَ اللہِ الَّتِی قَدْ خَلَتْ فِی عِبَادِہِ وَخَسِرَ ہُنَالِکَ الْکَافِرُونَ» ۱؎ (40-غافر:84-85) ’ لیکن ہمارے عذاب کو دیکھنے کے بعد ایمان بے نفع ہے ۔ اللہ کا طریقہ اپنے بندوں میں یہی رہا ہے وہاں تو کافروں کو نقصان ہی رہے گا ۔ اس دن تو ان سے صاف کہہ دیا جائے گا اور بہت ڈانٹ ڈپٹ کے ساتھ کہ اب تو دائمی عذاب چکھو ، ہمیشہ کی مصیبت اٹھاؤ ‘ ۔ انہیں دھکے دیدے کر جہنم میں جھونک دیا جائے گا کہ یہ ہے جسے تم نہیں مانتے تھے ۔ اب بتاؤ کہ یہ جادو ہے یا تم اندھے ہو ؟ جاؤ اب اس میں چلے جاؤ اب تو صبر کرنا نہ کرنا برابر ہے اپنے اعمال کا بدلہ ضرور پاؤ گے ۔ یونس
49 یونس
50 یونس
51 یونس
52 یونس
53 مٹی ہو نے کے بعد جینا کیسا ہے؟ ’ پوچھتے ہیں کہ کیا مٹی ہو جانے اور سڑ گل جانے کے بعد جی اُٹھنا اور قیامت کا قائم ہونا حق ہی ہے ؟ تو ان کا شبہ مٹا دے اور قسم کھا کر کہہ دے کہ یہ سراسر حق ہی ہے ۔ جس اللہ نے تمہیں اس وقت پیدا کیا جب کہ تم کچھ نہ تھے ۔ وہ تمہیں دوبارہ جب کہ تم مٹی ہو جاؤ گے پیدا کرنے پر یقیناً قادر ہے وہ تو جو چاہتا ہے فرما دیتا ہے کہ «إِنَّمَا أَمْرُہُ إِذَا أَرَادَ شَیْئًا أَن یَقُولَ لَہُ کُن فَیَکُونُ» ۱؎ (36-یس:82) ’ یوں ہو جا اسی وقت ہو جاتا ہے ‘ ‘ ۔ اسی مضمون کی اور دو آیتیں قرآن کریم میں ہیں ۔ سورۃ سبا میں ہے «قُلْ بَلٰی وَرَبِّیْ لَتَاْتِیَنَّکُم» ۱؎ (34-سبأ:3) ، سورۃ التغابن میں ہے «قُلْ بَلٰی وَرَبِّیْ لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُـنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُم» ۱؎ (64-التغابن:7) ان دونوں میں بھی قیامت کے ہونے پر قسم کھا کر یقین دلایا گیا ہے ۔ اس دن تو کفار زمین بھر کر سونا اپنے بدلے میں دے کر بھی چھٹکارا پانا پسند کریں گے ۔ دلوں میں ندامت ہوگی ، عذاب سامنے ہوں گے ، حق کے ساتھ فیصلے ہو رہے ہوں گے ، کسی پر ظلم ہرگز نہ ہوگا ۔ «یَوْمَ یُدَعٰونَ إِلَیٰ نَارِ جَہَنَّمَ دَعًّا ہٰذِہِ النَّارُ الَّتِی کُنتُم بِہَا تُکَذِّبُونَ أَفَسِحْرٌ ہٰذَا أَمْ أَنتُمْ لَا تُبْصِرُونَ اصْلَوْہَا فَاصْبِرُوا أَوْ لَا تَصْبِرُوا سَوَاءٌ عَلَیْکُمْ إِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ» ۱؎ (52-الطور:13-16) ’ جس دن وہ دھکے دیدے کر آتش جہنم کی طرف لائیں جائیں گے ، یہی وہ آتش دوزخ ہے جسے تم جھوٹ بتلاتے تھے ، [ اب بتاؤ ] کیا یہ جادو ہے ؟ یا تم دیکھتے ہی نہیں ہو ، جاؤ دوزخ میں اب تمہارا صبر کرنا اور نہ کرنا تمہارے لیے یکساں ہے تمہیں فقط تمہارے کیے کا بدلہ دیا جائے گا ‘ ۔ یونس
54 یونس
55 خالق کل عالم کل ہے مالک آسمان و زمین مختار کل کائنات اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ اللہ کے وعدے سچے ہیں وہ پورے ہو کر ہی رہیں گے ۔ یہ اور بات ہے کہ اکثر لوگ علم نہیں رکھتے ۔ جلانے مارنے والا وہی ہے ، سب باتوں پر وہ قادر ہے ۔ جسم سے علیحدہ ہونے والی چیز کو ، اس کے بکھر کر بگڑ کر ٹکڑے ہونے کو وہ جانتا ہے اس کے حصے کن جنگلوں میں کن دریاؤں میں کہاں ہیں وہ خوب جانتا ہے ۔ یونس
56 یونس
57 رسول صلی اللہ علیہ وسلم کریم کے منصب عظیم کا تذکرہ اپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن عظیم نازل فرمانے کے احسان کو اللہ رب العزت بیان فرما رہے ہیں کہ ’ اللہ کا وعظ تمہارے پاس آچکا جو تمہیں بدیوں سے روک رہا ہے ، جو دلوں کے شک شکوک دور کرنے والا ہے ، جس سے ہدایت حاصل ہوتی ہے ، جس سے اللہ کی رحمت ملتی ہے ۔ جو اس سچائی کی تصدیق کریں اسے مانیں ، اس پر یقین رکھیں ، اس پر ایمان لائیں وہ اس سے نفع حاصل کرتے ہیں ‘ ۔ «وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا ہُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِینَ وَلَا یَزِیدُ الظَّالِمِینَ إِلَّا خَسَارًا» ۱؎ (17-الاسراء:82) ’ یہ ہمارا نازل کردہ قرآن مومنوں کے لیے شفاء اور رحمت ہے ، ظالم تو اپنے نقصان میں ہی بڑھتے رہتے ہیں ‘ ۔ اور آیت میں ہے کہ «قُلْ ہُوَ لِلَّذِینَ آمَنُوا ہُدًی وَشِفَاءٌ وَالَّذِینَ لَا یُؤْمِنُونَ فِی آذَانِہِمْ وَقْرٌ وَہُوَ عَلَیْہِمْ عَمًی أُولٰئِکَ یُنَادَوْنَ مِن مَّکَانٍ بَعِیدٍ» ۱؎ (41-فصلت:44) ’ کہہ دے کہ یہ تو ایمانداروں کے لیے ہدایت اور شفاء ہے ۔ اللہ کے فضل و رحمت یعنی اس قرآن کے ساتھ خوش ہونا چاہیئے ۔ دنیائے فانی کے دھن دولت پر ریجھ جانے اور اس پر شادماں و فرحاں ہو جانے سے تو اس دولت کو حاصل کرنے اور اس ابدی خوشی اور دائمی مسرت کو پالینے سے بہت خوش ہونا چاہیئے ‘ ۔ ابن ابی حاتم اور طبرانی میں ہے کہ جب عراق فتح ہو گیا اور وہاں سے خراج دربار فاروق رضی اللہ عنہ میں پہنچا تو آپ رضی اللہ عنہ رضی اللہ عنہ نے اونٹوں کی گنتی کرنا چاہی لیکن وہ بے شمار تھے ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرکے اسی آیت کی تلاوت کی ۔ تو آپ رضی اللہ عنہ کے مولیٰ عمرو نے کہا ، یہ بھی تو اللہ کا فضل و رحمت ہی ہے ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” تم نے غلط کہا یہ تمہارے ہمارے حاصل کردہ ہیں جس فضل و رحمت کا بیان اس آیت میں ہے وہ یہ نہیں “ ۔ یونس
58 یونس
59 بغیر شرعی دلیل کے حلال و حرام کی مذمت مشرکوں نے بعض جانور مخصوص نام رکھ کر اپنے لیے حرام قرار دے رکھے تھے اس عمل کی تردید میں یہ آیتیں ہیں ۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ «وَجَعَلُوا لِلہِ مِمَّا ذَرَأَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْأَنْعَامِ نَصِیبًا فَقَالُوا ہٰذَا لِلہِ بِزَعْمِہِمْ وَہٰذَا لِشُرَکَائِنَا» ۱؎ (6-الأنعام:136) ’ اللہ کی پیدا کی ہوئی کھیتیوں اور چوپایوں میں یہ کچھ نہ کچھ حصہ تو اس کا کرتے ہیں ‘ ۔ مسند احمد میں ہے { عوف بن مالک بن فضلہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ اس وقت میری حالت یہ تھی کہ میلا کچیلا جسم بال بکھرے ہوئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا ، { تمہارے پاس کچھ مال بھی ہے ؟ } میں نے کہا جی ہاں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ { کس قسم کا مال ؟} میں نے کہا اونٹ ، غلام ، گھوڑے ، بکریاں وغیرہ غرض ہر قسم کا مال ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { جب اللہ تعالیٰ نے تجھے سب کچھ دے رکھا ہے تو اس کا اثر بھی تیرے جسم پر ظاہر ہونا چاہیئے } ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ { تیرے ہاں اونٹنیاں بچے بھی دیتی ہیں ؟ میں نے کہا ہاں ۔ فرمایا : { وہ بالکل ٹھیک ٹھاک ہوتے ہیں پھر تو اپنے ہاتھ میں چھری لے کر کسی کا کان کاٹ کے اس کا نام بحیرہ رکھ لیتا ہے ۔ کسی کی کھال کاٹ کر حرام نام رکھ لیتا ہے ۔ پھر اسے اپنے اوپر اور اپنے والوں پر حرام سمجھ لیتا ہے ؟ } میں نے کہا ہاں یہ بھی ٹھیک ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { سن اللہ نے تجھے جو دیا ہے وہ حلال ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا بازو تیرے بازو سے قوی ہے اور اللہ تعالیٰ کی چھری تیری چھری سے بہت زیادہ تیز ہے } } } ۔ (سنن ابوداود:4063:صحیح) اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں لوگوں کے فعل کی پوری مذمت بیان فرمائی ہے جو اپنی طرف سے بغیر شرعی دلیل کے کسی حرام کو حلال یا کسی حلال کو حرام ٹھہرا لیتے ہیں ۔ انہیں اللہ نے قیامت کے عذاب کے سے دھمکایا ہے اور فرمایا ہے کہ ’ ان کا کیا خیال ہے ؟ یہ کس ہوا میں ہیں ۔ کیا یہ نہیں جانتے کہ یہ بے بس ہو کر قیامت کے دن ہمارے سامنے حاضر کئے جائیں گے ‘ ۔ اللہ تعالیٰ تو لوگوں پر اپنا فضل و کرم ہی کرتا ہے ، وہ دنیا میں سزا دینے میں جلدی نہیں کرتا ۔ اسی کا فضل ہے کہ اس نے دنیا میں بہت سی نفع کی چیزیں لوگوں کے لیے حلال کر دی ہیں ، صرف انہیں چیزوں کو حرام فرمایا ہے ، جو بندوں کو نقصان پہنچانے والی اور ان کے حق میں مضر ہیں ۔ دنیوی طور پر یا اُخروی طور پر ۔ لیکن اکثر لوگ ناشکری کر کے اللہ کی نعمتوں سے محروم ہو جاتے ہیں ۔ اپنی جانوں کو خود تنگی میں ڈالتے ہیں ۔ مشرک لوگ اسی طرح از خود احکام گھڑ لیا کرتے تھے اور انہیں شریعت سمجھ بیٹھتے تھے ۔ اہل کتاب نے بھی اپنے دین میں ایسی ہی بدعتیں ایجاد کرلی تھیں ۔ تفسیر ابن ابی حاتم میں ہے قیامت کے دن اولیاء اللہ کی تین قسمیں کر کے انہیں جناب باری کے سامنے لایا جائے گا ۔ پہلے قسم والوں میں سے ایک سے سوال ہو گا کہ تم لوگوں نے یہ نیکیاں کیوں کیں ؟ وہ جواب دیں گے کہ پروردگار تو نے جنت بنائی اس میں درخت لگائے ، ان درختوں میں پھل پیدا کئے ، وہاں نہریں جاری کیں ، حوریں پیدا کیں اور نعمتیں تیار کیں ، پس اسی جنت کے شوق میں ہم راتوں کو بیدار رہے اور دنوں کو بھوک پیاس اٹھائی ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا اچھا تو تمہارے اعمال جنت کے حاصل کرنے کے لیے تھے ۔ میں تمہیں جنت میں جانے کی اجازت دیتا ہوں اور یہ میرا خاص فضل ہے کہ جہنم سے تمہیں نجات دیتا ہوں ۔ گو یہ بھی میرا فضل ہی ہے کہ میں تمہیں جنت میں پہنچاتا ہوں پس یہ اور اس کے سب ساتھی بہشت بریں میں داخل ہو جائیں گے ۔ پھر دوسری قسم کے لوگوں میں سے ایک سے پوچھا جائے گا کہ تم نے یہ نیکیاں کیسے کیں ؟ وہ کہے گا پروردگار تو نے جہنم کو پیدا کیا ۔ اپنے دشمنوں اور نافرمانوں کے لیے وہاں طوق و زنجیر ، حرارت ، آگ ، گرم پانی اور گرم ہوا کا عذاب رکھا وہاں طرح طرح کے روح فرسا دکھ دینے والے عذاب تیار کئے ۔ پس میں راتوں کو جاگتا رہا ، دنوں کو بھوکا پیاسا رہا ، صرف اس جہنم سے ڈر کر تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا ۔ میں نے تجھے اس جہنم سے آزاد کیا اور تجھ پر میرا یہ خاص فضل ہے کہ تجھے اپنی جنت میں لے جاتا ہوں پس یہ اور اس کے ساتھی سب جنت میں چلے جائیں گے پھر تیسری قسم کے لوگوں میں سے ایک کو لایا جائے گا اللہ تعالیٰ اس سے دریافت فرمائے گا کہ تم نے نیکیاں کیوں کیں ؟ وہ جواب دے گا کہ صرف تیری محبت میں اور تیرے شوق میں ۔ تیری عزت کی قسم میں راتوں کو عبادت میں جاگتا رہا اور دنوں کو روزے رکھ کر بھوک پیاس سہتا رہا ، یہ سب صرف تیرے شوق اور تیری محبت کے لیے تھا ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو نے یہ اعمال صرف میری محبت اور میرے اشتیاق میں ہی کئے ۔ لے اب میرا دیدار کر لے ۔ اسوقت اللہ تعالیٰ جل جلالہ اسے اور اس کے ساتھیوں کو اپنا دیدار کرائے گا ، فرمائے گا دیکھ لے ، یہ ہوں میں ، پھر فرمائے گا یہ میرا خاص فضل ہے کہ میں تجھے جہنم سے بچاتا ہوں اور جنت میں پہنچاتا ہوں میرے فرشتے تیرے پاس پہنچتے رہیں گے اور میں خود بھی تجھ پر سلام کہا کروں گا ، پس وہ مع اپنے ساتھیوں کے جنت میں چلا جائے گا ۔ یونس
60 یونس
61 اللہ تعالٰی سب کچھ جانتا ہے اور دیکھتا ہے اللہ تعالیٰ عزوجل اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دیتا ہے کہ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام امت کے تمام احوال ہر وقت اللہ تعالیٰ جانتا ہے ، ساری مخلوق کے کل کام اس کے علم میں ہیں ، اس کے علم سے اور اس کی نگاہ سے آسمان و زمین کا کوئی ذرہ بھی پوشیدہ نہیں ۔ سب چھوٹی بڑی چیزیں ظاہر کتاب میں لکھی ہوئی ہیں ۔ جیسے فرمان ہے «وَعِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُہَآ اِلَّا ہُوَ وَیَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَۃٍ اِلَّا یَعْلَمُہَا وَلَا حَبَّۃٍ فِیْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَّلَا یَابِسٍ اِلَّا فِیْ کِتٰبٍ مٰبِیْنٍ» ۱؎ (6-الأنعام:59) ’ غیب کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں ۔ جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ وہ خشکی و تری کی ہر چیز کا علم رکھتا ہے ہر پتے کے جھڑنے کی اسے خبر ہے ۔ زمین کے اندھیروں میں جو دانہ ہو ، جو تر و خشک چیز ہو ، سب کتاب مبین میں موجود ہے ‘ ۔ الغرض درختوں کا ہلنا ، جمادات کا ادھر ادھر ہونا ، جانداروں کا حرکت کرنا ، کوئی چیز روئے زمین کی اور تمام آسمانوں کی ایسی نہیں ، جس سے علیم و خبیر اللہ بے خبر ہو ۔ فرمان ہے «وَمَا مِن دَابَّۃٍ فِی الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ یَطِیرُ بِجَنَاحَیْہِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُکُم مَّا فَرَّطْنَا فِی الْکِتَابِ مِن شَیْءٍ ثُمَّ إِلَیٰ رَبِّہِمْ یُحْشَرُونَ» ۱؎ (6-الانعام:38) ایک اور آیت میں ہے کہ «وَمَا مِن دَابَّۃٍ فِی الْأَرْضِ إِلَّا عَلَی اللہِ رِزْقُہَا وَیَعْلَمُ مُسْتَقَرَّہَا وَمُسْتَوْدَعَہَا کُلٌّ فِی کِتَابٍ مٰبِینٍ» ۱؎ (11-ھود:6) زمین کے ہر جاندار کا روزی رساں اللہ تعالیٰ ہے ۔ جب کہ درختوں ، ذروں جانوروں اور تمام تر و خشک چیزوں کے حال سے اللہ عزوجل واقف ہے بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ بندوں کے اعمال سے وہ بے خبر ہو ۔ جنہیں عبادت رب کی بجا آوری کا حکم دیا گیا ہے ۔ چنانچہ فرمان ہے «وَتَوَکَّلْ عَلَی الْعَزِیزِ الرَّحِیمِ الَّذِی یَرَاکَ حِینَ تَقُومُ وَتَقَلٰبَکَ فِی السَّاجِدِینَ» ۱؎ (26-الشعراء:217-219) ’ اس ذی عزت بڑے رحم و کرم والے اللہ پر تو بھروسہ رکھ جو تیرے قیام کی حالت میں تجھے دیکھتا رہتا ہے سجدہ کرنے والوں میں تیرا آنا جانا بھی دیکھ رہا ہے ‘ ۔ یہی بیان یہاں ہے کہ ’ تم سب ہماری آنکھوں اور کانوں کے سامنے ہو ‘ ۔ { جبرائیل علیہ السلام نے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے احسان کی بابت سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا کہ { اللہ کی عبادت اس طرح کر کہ گویا تو اسے دیکھ رہا ہے ، اگر تو اسے نہیں دیکھ رہا تو وہ تو تجھے یقیناً دیکھ ہی رہا ہے } } ۔ (صحیح بخاری:50) یونس
62 اولیاء اللہ کا تعارف اولیا اللہ وہ ہیں جن کے دلوں میں ایمان و یقین ہو ، جن کا ظاہر تقویٰ اور پرہیزگاری میں ڈوبا ہوا ہو ، جتنا تقویٰ ہوگا ، اتنی ہی ولایت ہوگی ۔ ایسے لوگ محض نڈر اور بے خوف ہیں قیامت کے دن کی وحشت ان سے دور ہے ، نہ وہ کبھی غم و رنج سے آشنا ہوں گے ۔ دنیا میں جو چھوٹ جائے اس پر انہیں حسرت و افسوس نہیں ہوتا ۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم اور بہت سے سلف صالحین فرماتے ہیں کہ ” اولیاء اللہ وہ ہیں جن کے چہرہ دیکھنے سے اللہ یاد آ جائے “ ۔ بزار کی مرفوع حدیث میں بھی یہ آیا ہے ۔ وہ حدیث مرسلاً بھی مروی ہے ۔ (طبرانی کبیر:12325) ابن جریر میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { اللہ کے بعض بندے ایسے بھی ہیں جن پر انبیاء اور شہدا بھی رشک کریں گے } لوگوں نے پوچھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہ کون ہیں ؟ ہمیں بتائیے تاکہ ہم بھی ان سے محبت و الفت رکھیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { یہ لوگ ہیں جو صرف اللہ کی وجہ سے آپس میں محبت رکھتے ہیں ۔ مالی فائدے کی وجہ سے انہیں رشتے داری اور نسب کی بناء پر نہیں ، صرف اللہ کے دین کی وجہ سے ان کے چہرے نورانی ہوں گے یہ نور کے منبروں پر ہوں گے ۔ سب کو ڈر خوف ہو گا لیکن یہ بالکل بے خوف اور محض نڈر ہوں گے جب لوگ غمزدہ ہوں گے یہ بے غم ہوں گے } ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی آیت تلاوت فرمائی } ۔ یہی روایت منقطع سند سے ابوداؤد میں بھی ہے ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:3527،قال الشیخ الألبانی:صحیح) «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ مسند احمد کی ایک مطول حدیث میں ہے کہ { دور دراز کے رہنے والے خاندانوں اور برادریوں سے الگ شدہ لوگ جن میں کوئی رشتہ کنبہ قوم برادری نہیں وہ محض توحید و سنت کی وجہ سے اللہ کی رضا مندی کے حاصل کرنے کے لیے آپس میں ایک ہو گئے ہوں گے اور آپس میں میل ملاپ ، محبت ، مودت ، دوستی اور بھائی چارہ رکھتے ہونگے ، دین میں سب ایک ہوں گے ، ان کے لیے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نورانی منبر بچھا دے گا جن پر وہ عزت سے تشریف رکھیں گے ۔ لوگ پریشان ہوں گے لیکن یہ با اطمینان ہوں گے ۔ یہ ہیں وہ اللہ کے اولیا جن پر کوئی خوف غم نہیں } ۔ ۱؎ (مسند احمد343/5:ضعیف) خوابوں کے بارے میں خوابوں کے بارے میں مسند احمد میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بشارتوں کی تفسیر بیان فرماتے ہوئے فرمایا کہ { یہ نیک خواب ہیں جنہیں مسلمان دیکھے یا اس کے لیے دکھائے جائیں } } ۔ (مسند احمد445/6 ، صحیح) سیدنا ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے جب اس کا سوال ہوا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم نے آج مجھ سے وہ باپ پوچھی جو تم سے پہلے کسی نے نہیں پوچھی سوائے اس شخص کے جس نے یہی سوال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جواب کے دینے سے پہلے نہیں فرمایا تھا کہ ’ تجھ سے پہلے میرے کسی امتی نے مجھ سے یہ سوال نہیں کیا ‘ ۔ خود انہی صحابی رضی اللہ عنہ سے جب سائل نے اس آیت کی تفسیر پوچھی تو آپ رضی اللہ عنہ نے بھی یہ فرما کر پھر تفسیر مرفوع حدیث سے بیان فرمائی ۔ اور روایت میں ہے { سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے سوال کیا کہ آخرت کی بشارت تو جنت ہے دنیا کی بشارت کیا ہے ؟ فرمایا : { نیک خواب جسے بندہ دیکھے یا اس کے لیے اوروں کو دکھائے جائیں ، یہ نبوت کا چوالیسواں یا سترواں جز ہے } } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:17735:ضعیف) ۔ { سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ انسان نیکیاں کرتا ہے پھر لوگوں میں اس کی تعریف ہوتی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { یہی دنیوی بشارت ہے } } ۔ (صحیح مسلم2642) فرماتے ہیں کہ { دنیا کی بشارت نیک خواب ہیں جن سے مومن کو خوشخبری سنائی جاتی ہے ۔ یہ نبوت کا انچاسواں حصہ ہے اس کے دیکھنے والے کو اسے بیان کرنا چاہیئے اور جو اس کے سوا دیکھے وہ شیطانی خواب ہیں تاکہ اسے غم زدہ کر دے ۔ چاہیئے کہ ایسے موقعہ پر تین دفعہ بائیں جانب تھتکار دے ۔ اللہ کی بڑائی بیان کرے اور کسی سے اس خواب کو بیان نہ کرے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:219/2:صحیح لغیرہ) اور روایت میں ہے کہ { نیک خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:17769:صحیح بالشواہد) اور حدیث میں ہے { دنیوی بشارت نیک خواب ، اور اُخروی بشارت جنت } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:17743:ضیعف) ۔ ابن جریر میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { نبوت جاتی رہی خوشخبریاں رہ گئیں } } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:17743 ، ضعیف) ۔ «بُشْرَیٰ» کی یہی تفسیر سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ ، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ، ابن عباس رضی اللہ عنہ ، مجاہد رحمہ اللہ ، عروہ رحمہ اللہ ، ابن زبیر ، یحییٰ بن ابی کثیر ، ابراہیم نخعی ، عطا بن ابی رباح رحمہ اللہ علیہم وغیرہ سلف صالحین سے مروی ہے ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ مراد اس سے وہ خوشخبری ہے جو مومن کو اس کی موت کے وقت فرشتے دیتے ہیں جس کا ذکر «‏‏‏‏إِنَّ الَّذِینَ قَالُوا رَبٰنَا اللہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَیْہِمُ الْمَلَائِکَۃُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّۃِ الَّتِی کُنتُمْ تُوعَدُونَ نَحْنُ أَوْلِیَاؤُکُمْ فِی الْحَیَاۃِ الدٰنْیَا وَفِی الْآخِرَۃِ ۖ وَلَکُمْ فِیہَا مَا تَشْتَہِی أَنفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیہَا مَا تَدَّعُونَ نُزُلًا مِّنْ غَفُورٍ رَّحِیمٍ» ۱؎ (41-فصلت:30-32) میں ہے کہ ’ سچے پکے مومنوں کے پاس فرشتے آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم خوف نہ کرو ، تم غم نہ کرو ، تمہیں ہم اس جنت کی خوشخبری سناتے ہیں جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا رہا ہے ۔ ہم دنیا و آخرت میں تمہارے کار ساز ولی ہیں ۔ سنو تم جو چاہو گے جنت میں پاؤ گے ، جو مانگو گے ملے گا ۔ تم غفور و رحیم اللہ کے خاص مہمان بنو گے ‘ ۔ سیدنا براء رضی اللہ عنہ کی مطول حدیث میں ہے مومن کی موت کے وقت نورانی سفید چہرے والے پاک صاف اجلے سفید کپڑوں والے فرشتے اس کے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں اے پاک روح چل کشادگی راحت تروتازگی اور خوشبو اور بھلائی کی طرف چل ۔ تیرے اس پالنہار کی طرف جو تجھ سے کبھی خفا نہیں ہونے کا ۔ پس اس کی روح اس بشارت کو سن کر اس کے منہ سے اتنی آسانی اور شوق سے نکلتی ہے جیسے مشک کے منہ سے پانی کا کوئی قطرہ چھو جائے ۔ اور آخرت کی بشارت کا ذکر «لَا یَحْزُنُہُمُ الْفَزَعُ الْاَکْبَرُ وَتَتَلَقّٰیہُمُ الْمَلٰیِٕکَۃُ ھٰذَا یَوْمُکُمُ الَّذِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ» ۱؎ (21-الأنبیاء:103) میں ہے یعنی ’ انہیں اس دن کی زبردست پریشانی بالکل ہی نہ گھبرائے گی ادھر ادھر سے ان کے پاس فرشتے آئے ہوں گے اور کہتے ہوں گے کہ اس دن کا تم سے وعدہ کیا جاتا رہا تھا ‘ ۔ ایک آیت میں ہے «‏‏‏‏یَوْمَ تَرَی الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ یَسْعٰی نُوْرُہُمْ بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَبِاَیْمَانِہِمْ بُشْرٰیکُمُ الْیَوْمَ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا ذٰلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ» ۱؎ (57-الحدید:12) ’ جس دن تو مومن مردوں عورتوں کو دیکھے گا کہ ان کا نور ان کے آگے آگے اور دائیں طرف چل رہا ہوگا ، لو تم خوشخبری سن لو کہ آج تمہیں وہ جنتیں ملیں گی ، جن کے نیچے نہریں لہریں لے رہی ہیں ، جہاں کی رہائش ہمیشہ کی ہوگی ، یہی زبردست کامیابی ہے ، اللہ کا وعدہ غلط نہیں ہوتا ‘ ۔ وہ وعدہ خلافی نہیں کرتا ، اس نے جو فرما دیا سچ ہے ، ثابت ہے ، اٹل ہے یقینی اور ضروری ہے ۔ یہ ہے پوری مقصد آوری ، یہ ہے زبردست کامیابی ، یہ ہے مراد کا ملنا اور یہ ہے گود کا بھرنا ۔ یونس
63 یونس
64 یونس
65 عزت صرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہے ان مشرکوں کی باتوں کا کوئی رنج و غم نہ کر ۔ اللہ تعالیٰ سے ان پر مدد طلب کر اس پر بھروسہ رکھ ، ساری عزتیں اسی کے ہاتھ میں ، وہ اپنے رسول کو اور مومنوں کو عزت دے گا ۔ وہ بندوں کی باتوں کو خوب سنتا ہے وہ ان کی حالتوں سے پورا خبردار ہے ۔ آسمان و زمین کا وہی مالک ہے ۔ اس کے سوا جن جن کو تم پوجتے ہو ان میں سے کوئی کسی چیز کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا کوئی نفع نقصان ان کے بس کا نہیں ۔ پھر ان کے عبادت بھی محض بے دلیل ہے ۔ صرف گمان ، اٹکل ، جھوٹ اور افترا ہے ۔ حرکت ، رنج و تعب ، تکلیف اور کام کاج سے راحت و آرام سکون و اطمینان حاصل کرنے کے لیے اللہ نے رات بنا دی ہے ۔ دن کو اس سے روشن اور اجالے والا بنا دیا ہے تاکہ تم اس میں کام کاج کرو ۔ معاش اور روزی کی فکر ، سفر تجارت ، کاروبار کر سکو ، ان دلیلوں میں بہت کچھ عبرت ہے لیکن اس سے فائدہ وہی اٹھاتے ہیں جو ان آیتوں کو دیکھ کر ان خالق کی عظمت و جبروت کا تصور باندھتے اور اس خالق و مالک کی قدر عزت کرتے ہیں ۔ یونس
66 یونس
67 یونس
68 ساری مخلوق صرف اس کی ملکیت ہے جو لوگ اللہ کی اولاد مانتے تھے ، ان کے عقیدے کا بطلان بیان ہو رہا ہے کہ ’ اللہ اس سے پاک ہے ، وہ سب سے بے نیاز ہے ، سب اس کے محتاج ہیں ، زمین و آسمان کی ساری مخلوق اس کی ملکیت ہے ، اس کی غلام ہے ، پھر ان میں سے کوئی اس کی اولاد کیسے ہو جائے تمہارے اس جھوٹ اور بہتان کی خود تمہارے پاس بھی کوئی دلیل نہیں ۔ تم تو اللہ پر بھی اپنی جہالت سے باتیں بنانے لگے ۔ تمہارے اس کلمے سے تو ممکن ہے کہ آسمان پھٹ جائیں ، زمین شق ہو جائے ، پہاڑ ٹوٹ جائیں کہ «وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا لَّقَدْ جِئْتُمْ شَیْئًا إِدًّا تَکَادُ السَّمَاوَاتُ یَتَفَطَّرْنَ مِنْہُ وَتَنشَقٰ الْأَرْضُ وَتَخِرٰ الْجِبَالُ ہَدًّا أَن دَعَوْا لِلرَّحْمٰنِ وَلَدًا وَمَا یَنبَغِی لِلرَّحْمٰنِ أَن یَتَّخِذَ وَلَدًا إِن کُلٰ مَن فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِی الرَّحْمٰنِ عَبْدًا لَّقَدْ أَحْصَاہُمْ وَعَدَّہُمْ عَدًّا وَکُلٰہُمْ آتِیہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَرْدًا» ۱؎ (19-مریم:88-95) تم اللہ رحمن کی اولاد ثابت کرنے بیٹھے ہو ؟ بھلا اس کی اولاد کیسے ہو گی ؟ اسے تو یہ لائق نہیں زمین و آسمان کی ہر چیز اس کی غلامی میں حاضر ہونے والی ہے ۔ سب اس کے شمار میں ہیں ۔ سب کی گنتی اس کے پاس ہے ۔ ہر ایک تنہا تنہا اس کے سامنے پیش ہونے والا ہے ۔ یہ افترا پرداز گروہ ہر کامیابی سے محروم ہے ۔ دنیا میں انہیں کچھ مل جائے تو وہ عذاب کا پیش خیمہ اور سزاؤں کی زیادت کا باعث ہے ۔ آخر ایک وقت آئے گا جب عذاب میں گرفتار ہو جائیں گے ۔ سب کا لوٹنا اور سب کا اصلی ٹھکانا تو ہمارے ہاں ہے ۔ یہ کہتے تھے اللہ کا بیٹا ہے ان کے اس کفر کا ہم اس وقت ان کو بدلہ چکھائیں گے جو نہایت سخت اور بہت بدترین ہوگا ‘ ۔ یونس
69 یونس
70 یونس
71 نوح علیہ السلام کی قوم کا کردار ’ اے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم تو انہیں نوح علیہ السلام کے واقعہ کی خبر دے کہ ان کا اور ان کی قوم کا کیا حشر ہوا جس طرح کفار مکہ تجھے جھٹلاتے اور ستاتے ہیں ، قوم نوح علیہ السلام نے بھی یہی وطیرہ اختیار کر رکھا تھا ۔ بالآخر سب کے سب غرق کر دیئے گئے ، سارے کافر دریا برد ہوگئے ۔ پس انہیں بھی خبردار رہنا چاہیئے اور میری پکڑ سے بے خوف نہ ہونا چاہیئے ۔ اس کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں ‘ ۔ نوح علیہ السلام نے ایک مرتبہ ان سے صاف فرما دیا کہ ” اگر تم پر یہ گراں گزرتا ہے کہ میں تم میں رہتا ہوں اور تمہیں اللہ کی باتیں سنا رہا ہوں ، تم اس سے چڑتے ہو اور مجھے نقصان پہنچانے درپے ہو تو سنو میں صاف کہتا ہوں کہ میں تم سے نڈر ہوں ۔ مجھے تمہاری کوئی پرواہ نہیں ۔ میں تمہیں کوئی چیز نہیں سمجھتا ۔ میں تم سے مطلقاً نہیں ڈرتا ۔ تم سے جو ہو سکے کر لو ۔ میرا جو بگاڑ سکو بگاڑ لو ۔ تم اپنے ساتھ اپنے شریکوں اور اپنے جھوٹے معبودوں کو بھی بلا لو اور مل جل کر مشورے کر کے بات کھول کر پوری قوت کے ساتھ مجھ پر حملہ کرو ، تمہیں قسم ہے جو میرا بگاڑ سکتے ہو اس میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھو ، مجھے بالکل مہلت نہ دو ، اچانک گھیر لو ، میں بالکل بے خوف ہوں ، اس لیے کہ تمہاری روش کو میں باطل جانتا ہوں ۔ میں حق پر ہوں ، حق کا ساتھی اللہ ہوتا ہے ، میرا بھروسہ اسی کی عظیم الشان ذات پر ہے ، مجھے اس کی قدرت کے بڑائی معلوم ہے “ ۔ یہی ہود علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ «إِنِّی أُشْہِدُ اللہَ وَاشْہَدُوا أَنِّی بَرِیءٌ مِّمَّا تُشْرِکُونَ مِن دُونِہِ فَکِیدُونِی جَمِیعًا ثُمَّ لَا تُنظِرُونِ إِنِّی تَوَکَّلْتُ عَلَی اللہِ رَبِّی وَرَبِّکُم مَّا مِن دَابَّۃٍ إِلَّا ہُوَ آخِذٌ بِنَاصِیَتِہَا إِنَّ رَبِّی عَلَیٰ صِرَاطٍ مٰسْتَقِیمٍ» ‏‏‏‏ ۱؎ (11-ہود:54-56) ’ اللہ کے سوا جس جس کی بھی تم پوجا کر رہے ہو ۔ میں تم سے اور ان سے بالکل بری ہوں ، خوب کان کھول کر سن لو ، اللہ بھی سن رہا ہے تم سب مل کر میرے خلاف کوشش کرو ، میں تو تم سے مہلت بھی نہیں مانگتا ۔ میرا بھروسہ اپنے اور تمہارے حقیقی مربی پر ہے ‘ ۔ حضرت نوح علیہ السلام فرماتے ہیں ” اگر تم اب بھی مجھے جھٹلاؤ میری اطاعت سے منہ پھیر لو تو میرا اجر ضائع نہیں جائے گا ، کیونکہ میرا اجر دینے والا میرا مربی ہے ، مجھے تم سے کچھ نہیں لینا ۔ میری خیر خواہی ، میری تبلیغ کسی معاوضے کی بنا پر نہیں ، مجھے تو جو اللہ کا حکم ہے میں اس کی بجا آوری میں لگا ہوا ہوں ، مجھے اس کی طرف سے مسلمان ہونے کا حکم دیا گیا ہے ۔ سو «اَلْحَمْدُ لِلہِ» میں مسلمان ہوں ، اللہ کا پورا فرمان بردار ہوں “ ۔ تمام نبیوں کا دین اول سے آخر تک صرف اسلام ہی رہا ہے ، گو احکامات میں قدرے اختلاف رہا ہو ، جیسے فرمان ہے «لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنکُمْ شِرْعَۃً وَمِنْہَاجًا» ۱؎ (5-المائدہ:48) ’ ہر ایک کے لیے راہ اور طریقہ ہے ‘ ۔ «وَأُمِرْتُ أَنْ أَکُونَ مِنَ الْمُسْلِمِینَ» ۱؎ (27-النمل:91) ’ دیکھئیے یہ نوح علیہ السلام جو اپنے آپ کو مسلم بتاتے ہیں ‘ ، «إِذْ قَالَ لَہُ رَبٰہُ أَسْلِمْ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِینَ» ۱؎ (2-البقرۃ:131،132) ’ یہ ہیں ابراہیم علیہ السلام جو اپنے آپ کو مسلم بتاتے ہیں ۔ اللہ ان سے فرماتا ہے اسلام لا ۔ وہ جواب دیتے ہیں رب العلمین کے لیے میں اسلام لایا ‘ ۔ اسی کی وصیت آپ علیہ السلام اور یعقوب علیہ السلام اپنی اولاد کو کرتے ہیں کہ «وَوَصَّیٰ بِہَا إِبْرَاہِیمُ بَنِیہِ وَیَعْقُوبُ یَا بَنِیَّ إِنَّ اللہَ اصْطَفَیٰ لَکُمُ الدِّینَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مٰسْلِمُونَ» ۱؎ (2-البقرۃ:132) ’ اے میرے بیٹو ! اللہ نے تمہارے لیے اسی دین کو پسند فرما لیا ہے ۔ خبردار یاد رکھنا مسلم ہونے کی حالت میں ہی موت آئے ‘ ۔ یوسف علیہ السلام اپنی دعا میں فرماتے ہیں «تَوَفَّنِی مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِی بِالصَّالِحِینَ» ۱؎ (12-یوسف:101) ’ اللہ مجھے اسلام کی حالت میں موت دینا ‘ ۔ موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم سے فرماتے ہیں کہ «یَا قَوْمِ إِن کُنتُمْ آمَنتُم بِ اللہِ فَعَلَیْہِ تَوَکَّلُوا إِن کُنتُم مٰسْلِمِینَ» ۱؎ (10-یونس:84) ’ اگر تم مسلمان ہو تو اللہ پر توکل کرو ‘ ۔ آپ علیہ السلام کے ہاتھ پر ایمان قبول کرنے والے جادوگر اللہ سے دعا کرتے ہوئے کہتے ہیں ” تو ہمیں مسلمان اٹھانا “ ۔ بلقیس کہتی ہیں «رَبِّ إِنِّی ظَلَمْتُ نَفْسِی وَأَسْلَمْتُ مَعَ سُلَیْمَانَ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ» ۱؎ (27-النمل:44) ’ میں سلیمان علیہ السلام کے ہاتھ پر مسلمان ہوتی ہوں ‘ ۔ قرآن فرماتا ہے ہے کہ «إِنَّا أَنزَلْنَا التَّوْرَاۃَ فِیہَا ہُدًی وَنُورٌ یَحْکُمُ بِہَا النَّبِیٰونَ الَّذِینَ أَسْلَمُوا» ۱؎ (5-المائدہ:44) ’ تورات کے مطابق وہ انبیاء حکم فرماتے ہیں جو مسلمان ہیں ‘ ۔ «وَإِذْ أَوْحَیْتُ إِلَی الْحَوَارِیِّینَ أَنْ آمِنُوا بِی وَبِرَسُولِی قَالُوا آمَنَّا وَاشْہَدْ بِأَنَّنَا مُسْلِمُونَ» ۱؎ (5-المائدہ:111) ’ حواری عیسیٰ علیہ السلام سے کہتے ہیں آپ علیہ السلام گواہ رہیے ہم مسلمان ہیں ‘ ۔ خاتم الرسل سید البشر صل اللہ علیہ وسلم نماز کے شروع کی دعا کے آخر میں فرماتے ہیں «قُلْ إِنَّ صَلَاتِی وَنُسُکِی وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِی لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ لَا شَرِیکَ لَہُ وَبِذٰلِکَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِینَ» ۱؎ (6-الأنعام:162 ، 163) ’ میں اول مسلمان ہوں یعنی اس امت میں ‘ ۔ ایک حدیث میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { «نَحْنُ مَعَاشِر الْأَنْبِیَاء أَوْلَاد عَلَّات دِیننَا وَاحِد» ہم انبیاء ایسے ہیں جیسے ایک باپ کی اولاد دین ایک اور بعض بعض احکام جدا گانہ } ۔ پس توحید میں سب یکساں ہیں گو فروعی احکام میں علیحدگی ہو ۔ جیسے وہ بھائی جن کا باپ ایک ہو مائیں جدا جدا ہوں ۔ پھر فرماتا ہے ’ قوم نوح نے نوح نبی کریم علیہ السلام کو نہ مانا بلکہ انہیں جھوٹا کہا آخر ہم نے انہیں غرق کر دیا ۔ نوح نبی علیہ السلام کو مع ایمانداروں کے اس بدترین عذاب سے ہم نے صاف بچا لیا ۔ کشتی میں سوار کر کے انہیں طوفان سے محفوظ رکھ لیا ۔ وہی وہ زمین پر باقی رہے پس ہماری اس قدرت کو دیکھ لے کہ کس طرح ظالموں کا نام و نشان مٹا دیا اور کس طرح مومنوں کو بچا لیا ‘ ۔ یونس
72 یونس
73 یونس
74 سلسلہ رسالت کا تذکرہ حضرت نوح علیہ السلام کے بعد بھی رسولوں کا سلسلہ جاری رہا ہر رسول اپنی قوم کی طرف اللہ کا پیغام اور اپنی سچائی کی دلیلیں لے کر آتا رہا ۔ لیکن عموماً ان سب کے ساتھ بھی لوگوں کی وہی پرانی روش رہی ۔ یعنی ان کی سچائی تسلیم کو نہ کیا جیسے آیت «وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَہُمْ وَأَبْصَارَہُمْ کَمَا لَمْ یُؤْمِنُوا بِہِ أَوَّلَ مَرَّۃٍ وَنَذَرُہُمْ فِی طُغْیَانِہِمْ یَعْمَہُونَ» ۱؎ (6-الأنعام:110) میں ہے ۔ پس ان کے حد سے بڑھ جانے کی وجہ سے جس طرح ان کے دلوں پر مہر لگ گئی ۔ اسی طرح ان جیسے تمام لوگوں کے دل مہر زدہ ہو جاتے ہیں اور عذاب دیکھ لینے سے پہلے انہیں ایمان نصیب نہیں ہوتا یعنی نبیوں اور ان کے تابعداروں کو بچا لینا اور مخالفین کو ہلاک کرنا ۔ نوح نبی علیہ السلام کے بعد سے برابر یہی ہوتا رہا ہے ۔ آدم علیہ السلام کے زمانے میں بھی انسان زمین پر آباد تھے ۔ جب ان میں بت پرستی شروع ہو گئی تو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر نوح علیہ السلام کو ان میں بھیجا ۔ یہی وجہ ہے کہ جب قیامت کے دن لوگ نوح علیہ السلام کے پاس سفارش کی درخواست لے کر جائیں گے تو کہیں گے کہ آپ پہلے رسول ہیں ۔ جنہیں اللہ تعالیٰ نے زمین والوں کی طرف مبعوث فرمایا ۔ (صحیح بخاری:3340) ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آدم علیہ السلام اور نوح علیہ السلام کے درمیان دس زمانے گزرے اور وہ سب اسلام میں ہی گزرے ہیں ۔ اسی لیے فرمان اللہ ہے کہ «وَکَمْ أَہْلَکْنَا مِنَ الْقُرُونِ مِن بَعْدِ نُوحٍ» ‏‏‏‏ ۱؎ (17-الإسراء:17) ’ نوح علیہ السلام کے بعد کے آنے والی قوموں کو ہم نے ان کی بد کرداریوں کے باعث ہلاک کر دیا ‘ ۔ مقصود یہ کہ ان باتوں کو سن کر مشرکین عرب ہوشیار ہو جائیں کیونکہ وہ سب سے افضل و اعلیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلا رہے ہیں ۔ پس جب کہ ان کے کم مرتبہ نبیوں اور رسولوں کے جھٹلانے پر ایسے دہشت افزاء عذاب سابقہ لوگوں پر نازل ہو چکے ہیں تو اس سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے جھٹلانے پر ان سے بھی بدترین عذاب ان پر نازل ہوں گے ۔ یونس
75 . ان نبیوں کے بعد ہم نے موسیٰ اور ہارون کو فرعون اور اس کی قوم کے پاس بھیجا ۔ اپنی دلیلیں اور حجتیں عطا فرما کر بھیجا ۔ لیکن آل فرعون نے بھی اتباع حق سے تکبر کیا اور تھے بھی پکے مجرم اور قسمیں کھا کر کہا کہ یہ تو صریح جادو ہے ۔ «وَجَحَدُوا بِہَا وَاسْتَیْقَنَتْہَا أَنفُسُہُمْ ظُلْمًا وَعُلُوًّا فَانظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُفْسِدِینَ» ۱؎ (27-النمل:14) حالانکہ دل قائل تھے کہ یہ حق ہے لیکن صرف اپنی بڑھی چڑھی خود داری اور ظلم کی عادت سے مجبور تھے ۔ اس پر موسیٰ علیہ السلام نے سمجھایا کہ اللہ کے سچے دین کو جادو کہہ کر کیوں اپنی ہلاکت کو بلا رہے ہو ؟ کہیں جادوگر بھی کامیاب ہوتے ہیں ؟ ان پر اس نصیحت نے بھی اُلٹا اثر کیا اور دو اعتراض اور جڑ دئیے کہ تم تو ہمیں اپنے باپ دادا کی روش سے ہٹا رہے ہو ۔ اور اس سے نیت تمہاری یہی ہے کہ اس ملک کے مالک بن جاؤ ۔ سو بکتے رہو ہم تو تمہاری ماننے کے نہیں ۔ اس قصے کو قرآن کریم میں باربار دہرایا گیا ہے ، اس لیے کہ یہ عجیب و غریب قصہ ہے ۔ فرعون موسیٰ علیہ السلام سے بہت ڈرتا بچتا رہا ۔ لیکن قدرت نے موسیٰ علیہ السلام کو اسی کے ہاں پلوایا اور شاہزادوں کی طرح عزت کے گہوارے میں جھلایا ۔ جب جوانی کی عمر کو پہنچے تو ایک ایسا سبب کھڑا کر دیا کہ یہاں سے آپ چلے گئے ۔ پھر جناب باری نے ان سے خود کلام کیا ۔ نبوت و رسالت دی اور اسی کے ہاں پھر بھیجا ۔ فقط ایک ہارون علیہ السلام کو ساتھ دے کر آپ علیہ السلام نے یہاں آکے اس عظیم الشان سلطان کے رعب و دبدبے کی کوئی پرواہ نہ کر کے اسے دین حق کی دعوت دی ۔ اس سرکش نے اس پر بہت برا منایا اور کمینہ پن پر اتر آیا ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے دونوں رسولوں کی خود ہی حفاظت کی وہ وہ معجزات اپنے نبی کے ہاتھوں میں ظاہر کئے کہ ان کے دل ان کی نبوت مان گئے ۔ لیکن تاہم ان کا نفس ایمان پر آمادہ نہ ہوا اور یہ اپنے کفر سے ذرا بھی ادھر ادھر نہ ہوئے ۔ «فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِینَ ظَلَمُوا وَالْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ» (6-الأنعام:45) ’ آخر اللہ کا عذاب آہی گیا اور ان کی جڑیں کاٹ دی گئیں ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» ‘ ۔ یونس
76 یونس
77 یونس
78 یونس
79 موسیٰ علیہ السلام بمقابلہ فرعونی ساحرین سورۃ الاعراف ، سورۃ طہٰ ، سورۃ الشعراء اور اس سورت میں بھی فرعونی جادو گروں اور موسیٰ علیہ السلام کا مقابلہ بیان فرمایا گیا ہے ۔ ہم نے اس پورے واقعہ کی تفصیل سورۃ الاعراف کی تفسیر میں لکھ دی ہے ۔ فرعون نے جادو گروں اور شعبدہ بازوں سے موسیٰ علیہ السلام کے معجزے کا مقابلہ کرنے کی ٹھان لی ۔ اس کے لیے انتظام کئے ۔ قدرت نے بھرے میدان میں اے شکست فاش دی اور خود جادوگر حق کو مان گئے وہ سجدے میں گر کر اللہ اور اس کے دونوں نبیوں پر وہیں ایمان لائے اور اپنے ایمان کا غیر مشتبہ الفاظ میں سب کے سامنے فرعون کی موجودگی میں اعلان کر دیا «‏‏‏‏فَأُلْقِیَ السَّحَرَۃُ سَاجِدِینَ قَالُوا آمَنَّا بِرَبِّ الْعَالَمِینَ رَبِّ مُوسَیٰ وَہَارُونَ» ‏‏‏‏۱؎ (26-الشعراء:46-48) [ یہ دیکھتے ہی دیکھتے جادوگر بے اختیار سجدے میں گر گئے اورانہوں نے صاف کہہ دیا کہ ہم تو اللہ رب العالمین پر ایمان ﻻئے یعنی موسیٰ [ علیہ السلام ] اور ہارون کے رب پر ] ۔ اس وقت فرعون کا منہ کالا ہو گیا اور اللہ کے دین کا بول بالا ہوا ۔ اس نے اپنی سپاہ اور جادوگروں کے جمع کرنے کا حکم دیا ۔ یہ آئے ، صفیں باندھ کر کھڑے ہوئے ، فرعون نے ان کی کمر ٹھونکی انعام کے وعدے دیئے ۔ «قَالُوا یَا مُوسَیٰ إِمَّا أَن تُلْقِیَ وَإِمَّا أَن نَّکُونَ أَوَّلَ مَنْ أَلْقَیٰ قَالَ بَلْ أَلْقُوا ۖ فَإِذَا حِبَالُہُمْ وَعِصِیٰہُمْ یُخَیَّلُ إِلَیْہِ مِن سِحْرِہِمْ أَنَّہَا تَسْعَیٰ» ۱؎ (20-طہ:65، 66) ’ انہوں نے موسیٰ [ علیہ السلام ] سے کہا کہ بولو اب ہم پہلے اپنا کرتب دکھائیں یا تم پہل کرتے ہو ؟ ‘ ۔ آپ علیہ السلام نے اسی بات کو بہتر سمجھا کہ ان کے دل کی بھڑاس پہلے نکل جائے ۔ لوگ ان کے تماشے اور باطل کے ہتھکنڈے پہلے دیکھ لیں ۔ پھر حق آئے اور باطل کا صفایا کر جائے ۔ یہ اچھا اثر ڈالے گا ، اس لیے آپ علیہ السلام نے انہیں فرمایا کہ ” تمہیں جو کچھ کرنا ہے شروع کردو “ ۔ «‏‏‏‏أَلْقَوْا سَحَرُوا أَعْیُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْہَبُوہُمْ وَجَاءُوا بِسِحْرٍ عَظِیمٍ» ۱؎ (7-الأعراف:116) ’ انہوں نے لوگوں کی آنکھوں پر جادو کرکے انہیں ہیبت زدہ کرنے کا زبردست مظاہرہ کیا ‘ ۔ جس سے موسیٰ علیہ السلام کے دل میں بھی خطرہ پیدا ہو گیا فوراً اللہ کی طرف سے وحی اتری کہ «فَأَوْجَسَ فِی نَفْسِہِ خِیفَۃً مٰوسَیٰ قُلْنَا لَا تَخَفْ إِنَّکَ أَنتَ الْأَعْلَیٰ وَأَلْقِ مَا فِی یَمِینِکَ تَلْقَفْ مَا صَنَعُوا إِنَّمَا صَنَعُوا کَیْدُ سَاحِرٍ وَلَا یُفْلِحُ السَّاحِرُ حَیْثُ أَتَیٰ» ‏‏‏‏۱؎ (20-طہ:67،69) ’ خبردار ڈرنا مت ۔ اپنے دائیں ہاتھ کی لکڑی زمین پر ڈال دے ۔ وہ ان کے سو ڈھکوسلے صاف کر دے گی ۔ یہ جادو کے مکر کی صفت ہے ۔ اس میں اصلیت کہاں انہیں اوج و فلاح کیسے نصیب ہو ؟ ‘ اب موسیٰ علیہ السلام سنبھل گئے اور زور دے کر پیشگوئی کی کہ ” تم تو یہ سب جادو کے کھلونے بنا لائے ہو دیکھنا اللہ تعالیٰ انہیں بھی درہم برہم کر دے گا ۔ تم فسادیوں کے اعمال دیر پا ہو ہی نہیں سکتے “ ۔ لیث بن ابی سلیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ ان آیتوں میں اللہ کے حکم سے جادو کی شفاء ہے ۔ ایک برتن میں پانی لے کر اس پر یہ آیتیں پڑھ کر دم کر دیں جائیں اور جس پر جادو کر دیا گیا ہو اس کے سر پر وہ پانی بہا دیا جائے «فَلَمَّا أَلْقَوْا قَالَ مُوسَیٰ مَا جِئْتُم بِہِ السِّحْرُ إِنَّ اللہَ سَیُبْطِلُہُ إِنَّ اللہَ لَا یُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِینَ وَیُحِقٰ اللہُ الْحَقَّ بِکَلِمَاتِہِ وَلَوْ کَرِہَ الْمُجْرِمُونَ» ۱؎ (10-یونس:81،82) تک یہ آیتیں اور «فَوَقَعَ الْحَقٰ وَبَطَلَ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ فَغُلِبُوا ہُنَالِکَ وَانقَلَبُوا صَاغِرِینَ وَأُلْقِیَ السَّحَرَۃُ سَاجِدِینَ قَالُوا آمَنَّا بِرَبِّ الْعَالَمِینَ رَبِّ مُوسَیٰ وَہَارُونَ قَالَ فِرْعَوْنُ آمَنتُم بِہِ قَبْلَ أَنْ آذَنَ لَکُمْ إِنَّ ہٰذَا لَمَکْرٌ مَّکَرْتُمُوہُ فِی الْمَدِینَۃِ لِتُخْرِجُوا مِنْہَا أَہْلَہَا فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ» ۱؎ (7-الأعراف:118-122) سے چار آیتوں تک اور «إِنَّمَا صَنَعُوا کَیْدُ سَاحِرٍ وَلَا یُفْلِحُ السَّاحِرُ حَیْثُ أَتَیٰ» ۱؎ (20-طہ:69) (ابن ابی حاتم) یونس
80 یونس
81 یونس
82 یونس
83 بزدلی ایمان کے درمیان دیوار بن گئی ان زبردست روشن دلیلوں کے اور معجزوں کے باوجود موسیٰ علیہ السلام پر بہت کم فرعونی ایمان لا سکے ۔ کیونکہ ان کے دل میں فرعون کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی ۔ یہ خبیث رعب دبدبے والا بھی تھا اور ترقی پر بھی تھا ۔ حق ظاہر ہو گیا تھا لیکن کسی کو اس کی مخالفت کی جرأت نہ تھی ہر ایک کا خوف تھا کہ اگر آج میں ایمان لے آیا تو کل اس کی سخت سزاؤں سے مجبور ہو کر دین حق چھوڑنا پڑے گا ۔ پس بہت سے ایسے جانباز موحد جنہوں نے اس کی سلطنت اور سزا کی کوئی پرواہ نہ کی اور حق کے سامنے سر جھکا دیا ۔ ان میں خصوصیت سے قابل ذکر فرعون کی بیوی تھی اس کی آل کا ایک اور شخص تھا ایک جو فرعون کا خزانچی تھا ۔ اس کی بیوہ تھی وغیرہ رضی اللہ عنہم اجمعین ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد اس سے موسیٰ پر بنی اسرائیل کی تھوڑی سی تعداد کا ایمان لانا ہے ۔ یہ بھی مروی ہے کہ ذریت سے مراد قلیل ہے یعنی بہت کم لوگ ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اولاد بھی مراد ہے ۔ یعنی جب موسیٰ نبی بن کر آئے اس وقت جو لوگ ہیں ان کی موت کے بعد ان کی اولاد میں سے کچھ لوگ ایمان لائے ۔ امام ابن جریر تو قول مجاہد رحمہ اللہ کو پسند فرماتے ہیں کہ «قَوْمِہِ» میں ضمیر کا مرجع موسیٰ علیہ السلام ہیں کیونکہ یہی نام اس سے قریب ہے ۔ لیکن یہ محل نظر ہے کیونکہ ذریت کے لفظ کا تقاضا جوان اور کم عمر لوگ ہیں اور بنو اسرائیل تو سب کے سب مومن تھے جیسا کہ مشہور ہے یہ تو موسیٰ علیہ السلام کے آنے کی خوشیاں منا رہے تھے ان کی کتابوں میں موجود تھا کہ اس طرح نبی اللہ علیہ السلام آئیں گے اور ان کے ہاتھوں انہیں فرعون کی غلامی کی ذلت سے نجات ملے گی ان کی کتابوں کی یہی بات تو فرعون کے ہوش و حواس گم کئے ہوئی تھی جس کی وجہ سے اس نے موسیٰ علیہ السلام کی دشمنی پر کمر کس لی تھی اور آپ علیہ السلام کی نبوت کے ظاہر ہونے سے پہلے اور آپ علیہ السلام کے آنے سے پہلے اور آپ علیہ السلام کے آجانے کے بعد ہم تو اس کے ہاتھوں بہت ہی تنگ کئے گئے ہیں ۔ آپ علیہ السلام نے انہیں تسلی دی کہ «قَالُوا أُوذِینَا مِن قَبْلِ أَن تَأْتِیَنَا وَمِن بَعْدِ مَا جِئْتَنَا ۚ قَالَ عَسَیٰ رَبٰکُمْ أَن یُہْلِکَ عَدُوَّکُمْ وَیَسْتَخْلِفَکُمْ فِی الْأَرْضِ فَیَنظُرَ کَیْفَ تَعْمَلُونَ» ۱؎ (7-الأعراف:129) ’ جلدی نہ کرو ۔ اللہ تمہارے دشمن کا ناس کرے گا ، تمہیں ملک کا مالک بنائے گا پھر دیکھے گا کہ تم کیا کرتے ہو ؟ ‘ پس یہ تو سمجھ میں نہیں آتا کہ اس آیت سے مراد قوم موسیٰ کی نئی نسل ہو ، اور یہ کہ بنو اسرائیل میں سے سوائے قارون کے اور کوئی دین کا چھوڑنے والا ایسا نہ تھا جس کے فتنے میں پڑ جانے کا خوف ہو ۔ قارون گو قوم موسیٰ میں سے تھا لیکن وہ باغی تھا فرعون کا دوست تھا ۔ اس کے حاشیہ نشینوں میں تھا ، اس سے گہرے تعلق رکھتا تھا ۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ «مَلَا۠ئِہِمۡ» میں ضمیر فرعون کی طرف عائد ہے اور بطور اس کے تابعداری کرنے والوں کی زیادتی کے ضمیر جمع کی لائی گئی ہے ۔ یا یہ کہ فرعون سے پہلے لفظ ال جو مضاف تھا محذوف کر دیا گیا ہے ۔ اور مضاف الیہ اس کے قائم مقام رکھ دیا ہے ۔ ان کا قول بھی بہت دور کا ہے ۔ گو امام ابن جریر نے بعض نحویوں سے بھی ان دونوں اقوال کی حکایت کی ہے اور اس سے اگلی آیت جو آ رہی ہے وہ بھی دلالت کرتی ہے کہ بنی اسرائیل سب مومن تھے ۔ یونس
84 اللہ پر مکمل بھروسہ ایمان کی روح حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم بنی اسرائیل سے فرماتے ہیں کہ «أَلَیْسَ اللہُ بِکَافٍ عَبْدَہُ» ۱؎ (39-الزمر:36) ’ اگر تم مومن مسلمان ہو تو اللہ پر بھروسہ رکھو ‘ ، «وَمَن یَتَوَکَّلْ عَلَی اللہِ فَہُوَ حَسْبُہُ» ۱؎ (65-الطلاق:3) ’ جو اس پر بھروسہ کرے وہ اسے کافی ہے ‘ ، عبادت و توکل دونوں ہم پلہ چیزیں ہیں ۔ فرمان رب العالمین ہے «فَاعْبُدْہُ وَتَوَکَّلْ عَلَیْہِ» ۱؎ (11-ھود:123) ’ اسی کی عبادت کر اور اسی پر بھروسہ رکھ ‘ ۔ ایک اور آیت میں اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتا ہے کہ «قُلْ ہُوَ الرَّحْمٰنُ آمَنَّا بِہِ وَعَلَیْہِ تَوَکَّلْنَا» ۱؎ (67-الملک:29) ’ کہہ دے کہ رب رحمن پر ہم ایمان لائے اور اسی کی ذات پاک پر ہم نے توکل کیا ‘ ۔ فرماتا ہے «رَّبٰ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ فَاتَّخِذْہُ وَکِیلًا» ۱؎ (73-المزمل:9) ’ مشرق و مغرب کا رب جو عبادت کے لائق معبود ہے ، جس کے سوا پرستش کے لائق اور کوئی نہیں ۔ تو اسی کو اپنا وکیل و کارساز بنا لے ‘ ۔ تمام ایمانداروں کو جو سورت پانچوں نمازوں میں تلاوت کرنے کا حکم ہوا اس میں بھی ان کی زبانی اقرار کرایا گیا ہے کہ «إِیَّاکَ نَعْبُدُ وَإِیَّاکَ نَسْتَعِینُ» ۱؎ (1-الفاتحۃ:5) ’ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد طلب کرتے ہیں ‘ ۔ بنو اسرائیل نے اپنے نبی علیہ السلام کا یہ حکم سن کر اطاعت کی اور جواباً عرض کیا کہ ” ہمارا بھروسہ اپنے رب پر ہی ہے ۔ پروردگار تو ہمیں ظالموں کے لیے فتنہ نہ بنا کہ وہ ہم پر غالب رہ کر یہ سمجھنے لگیں کہ اگر یہ حق پر ہوتے اور ہم باطل پر ہوتے تو ہم ان پر غالب کیسے رہ سکتے “ ۔ یہ مطلب بھی اس دعا کا بیان کیا گیا ہے کہ ” اللہ ہم پر ان کے ہاتھوں عذاب مسلط نہ کرانا ، نہ اپنے پاس سے کوئی عذاب ہم پر نازل فرما کہ یہ لوگ کہنے لگیں کہ اگر بنی اسرائیل حق پر ہوتے تو ہماری سزائیں کیوں بھگتتے یا اللہ کے عذاب ان پر کیوں اترتے ؟ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر یہ ہم پر غالب رہے تو ایسا نہ ہو کہ یہ کہیں ہمارے سچے دین سے ہمیں ہٹانے کے لیے کوششیں کریں ۔ اور اے پروردگار ان کافروں سے جنہوں نے حق سے انکار کر دیا ہے حق کو چھپایا لیا تو ہمیں نجات دے ، ہم تجھ پر ایمان لائے ہیں اور ہمارا بھروسہ صرف تیری ذات پر ہے ۔ یونس
85 یونس
86 یونس
87 قوم فرعون سے بنی اسرائی کی نجات بنی اسرائیل کی فرعون اور فرعون کی قوم سے نجات پانا ، اس کی کیفیت بیان ہو رہی ہے دونوں نبیوں کو اللہ کی وحی ہوئی کہ ’ اپنی قوم کے لیے مصر میں گھر بنا لو ۔ اور اپنے گھروں کو مسجدیں مقرر کر لو ۔ اور خوف کے وقت گھروں میں نماز ادا کر لیا کرو ‘ ۔ چنانچہ فرعون کی سختی بہت بڑھ گئی تھی ۔ اس لیے انہیں کثرت سے نماز ادا کرنے کا حکم ہوا ۔ یہی حکم اس امت کو ہے کہ «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آمَنُوا اسْتَعِینُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاۃِ» ۱؎ (2-البقرۃ:153) ’ ایمان دارو صبر اور نماز سے مدد چاہو ‘ ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک بھی یہی تھی کہ جب کوئی گھبراہٹ ہوتی فوراً نماز کے لیے کھڑے ہو جاتے } ۔ (سنن ابوداود1319،قال الشیخ الألبانی:حسن) ۔ یہاں بھی حکم ہوتا ہے کہ ’ اپنے گھروں کو قبلہ بنا لو ، اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان مومنوں کو تم بشارت دو انہیں دار آخرت میں ثواب ملے گا اور دنیا میں ان کی تائید و نصرت ہوگی ‘ ۔ اسرائیلیوں نے اپنے نبی سے کہا تھا کہ فرعونیوں کے سامنے ہم اپنی نماز اعلان سے نہیں پڑھ سکتے تو اللہ نے انہیں حکم دیا کہ ’ اپنے گھر قبلہ رو ہو کر وہیں نماز ادا کرسکتے ہو ‘ اپنے گھر آمنے سامنے بنانے کا حکم ہوگیا ۔ یونس
88 فرعون کا تکبر اور موسیٰ علیہ السلام کی بددعا جب فرعون اور فرعونیوں کا تکبر ، تحیر ، تعصب بڑھتا ہی گیا ۔ ظلم و ستم بے رحمی اور جفا کاری انتہا کو پہنچ گئی تو اللہ کے صابر نبیوں نے ان کے لیے بد دعا کی کہ ” یا اللہ تو نے انہیں دنیا کی زینت و مال خوب خوب دیا اور تو بخوبی جانتا ہے کہ وہ تیرے حکم کے مطابق مال خرچ نہیں کرتے ۔ یہ صرف تیری طرف سے انہیں ڈھیل اور مہلت ہے “ ۔ یہ مطلب تو ہے جب «لِیَضِلٰوْا» پڑھا جائے جو ایک قرأت ہے اور جب «لِیُضِلٰوْا» پڑھیں تو مطلب یہ ہے کہ یہ اس لیے کہ وہ اوروں کو گمراہ کریں جن کی گمراہی تیری چاہت میں ہے ان کے دل میں یہ خیال پیدا ہو گا کہ یہی لوگ اللہ کے محبوب ہیں ورنہ اتنی دولت مندی اور اس قدر عیش و عشرت انہیں کیوں نصیب ہوتا ہے ؟ اب ہمای دعا ہے کہ ان کے یہ مال تو غارت اور تباہ کر دے ۔ چنانچہ ان کے تمام مال اسی طرح پتھر بن گئے ۔ سونا چاندی ہی نہیں بلکہ کھیتیاں تک پتھر کی ہو گئیں ۔ محمد بن کعب رحمہ اللہ اس سورۃ یونس کی تلاوت امیر المؤمنین عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ کے سامنے کر رہے تھے جب اس آیت تک پہنچے تو خلیفۃالمسلمین نے سوال کیا کہ یہ «طْمِسْ» کیا چیز ہے ؟ آپ رحمہ اللہ نے فرمایا ” ان کے مال پتھر بنا دیئے گئے تھے ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنا صندوقچہ منگوا کر اس میں سے سفید چنا نکال کر دکھایا جو پتھر بن گیا تھا ۔ (الدر المنشور للسیوطی:566/3:ضعیف)۔ اور دعا کی کہ ” پروردگار ان کے دل سخت کر دے ان پر مہر لگا دے کہ انہیں عذاب دیکھنے تک ایمان لانا نصیب نہ ہو “ ۔ یہ بد دعا صرف دینی حمیت اور دینی دل سوزی کی وجہ سے تھی یہ غصہ اللہ اور اس کے دین کی خاطر تھا ۔ جب دیکھ لیا اور مایوسی کی حد آ گئی ۔ نوح علیہ السلام کی دعا ہے کہ «وَقَالَ نُوحٌ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْأَرْضِ مِنَ الْکَافِرِینَ دَیَّارًا إِنَّکَ إِن تَذَرْہُمْ یُضِلٰوا عِبَادَکَ وَلَا یَلِدُوا إِلَّا فَاجِرًا کَفَّارًا» ۱؎ (71-نوح:26،27) ’ الٰہی زمین پر کسی کافر کو زندہ نہ چھوڑ ورنہ اوروں کو بھی بہکائیں گے اور جو نسل ان کی ہو گی وہ بھی انہیں جیسی بے ایمان بدکار ہوگی ‘ ۔ جناب باری نے موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام دونوں بھائیوں کی یہ دعا قبول فرمائی ۔ موسیٰ علیہ السلام دعا کرتے جاتے تھے اور ہارون علیہ السلام آمین کہتے جاتے تھے ۔ اسی وقت وحی آئی کہ ” ہماری یہ دعا مقبول ہوگئی “ سے دلیل پکڑی گئی ہے کہ آمین کا کہنا بمنزلہ دعا کرنے کے ہے کیونکہ دعا کرنے والے صرف موسیٰ علیہ السلام تھے آمین کہنے والے ہارون علیہ السلام تھے لیکن اللہ نے دعا کی نسبت دونوں کی طرف کی ۔ پس مقتدی کے آمین کہہ لینے سے گویا فاتحہ کا پڑھ لینے والا ہے ۔ ’ پس اب تم دونوں بھائی میرے حکم پر مضبوطی سے جم جاؤ ۔ جو میں کہوں بجا لاؤ ‘ ۔ اسی دعا کے بعد فرعون چالیس ماہ زندہ رہا کوئی کہتا ہے چالیس دن ۔ یونس
89 یونس
90 دریائے نیل، فرعون اور قوم بنی اسرائیل فرعون اور اس کے لشکریوں کے غرق ہونے کا واقعہ بیان ہو رہا ہے ۔ بنی اسرائل جب اپنے نبی کے ساتھ چھ لاکھ کی تعداد میں جو بال بچوں کے علاوہ تھی ، مصر سے نکل کھڑے ہوئے اور فرعون کو یہ خبر پہنچی تو اس نے بڑا ہی تاؤ کھایا اور زبردست لشکر جمع کرکے اپنے تمام لوگوں کو لے کر ان کے پیچھے لگا ۔ اس نے تمام لاؤ لشکر کو تمام سرداروں ، فوجوں ، رشتے کنبے کے تمام لوگوں اور کل ارکان سلطنت کو اپنے ساتھ لے لیا تھا ۔ اپنے پورے ملک میں کسی صاحب حیثیت شخص کو باقی نہیں چھوڑا تھا ۔ بنی اسرائیل جس راہ گئے تھے اسی راہ یہ بھی بہت تیزی سے جا رہا تھا ۔ ٹھیک سورج چڑھے ، اس نے انہیں اور انہوں نے اسے دیکھ لیا ۔ بنی اسرائیل گھبرا گئے اور موسیٰ علیہ السلام سے کہنے لگے «فَلَمَّا تَرَاءَی الْجَمْعَانِ قَالَ أَصْحَابُ مُوسَیٰ إِنَّا لَمُدْرَکُونَ» ۱؎ (26-الشعراء:61) ’ لو اب پکڑ لیے گئے ‘ کیونکہ سامنے دریا تھا اور پیچھے لشکر فرعون نہ آگے بڑھ سکتے تھے نہ پیچھے ہٹ سکتے تھے ۔ آگے بڑھتے تو ڈوب جاتے پیچھے ہٹے تو قتل ہوتے ۔ موسیٰ علیہ السلام نے انہیں تسکین دی اور فرمایا «‏‏‏‏کَلَّا إِنَّ مَعِیَ رَبِّی سَیَہْدِینِ» ۱؎ (26-الشعراء:62) ’ میں اللہ کے بتائے ہوئے راستے سے تمہیں لے جا رہا ہوں ‘ ۔ میرا رب میرے ساتھ ہے ، وہ مجھے کوئی نہ کوئی نجات کی راہ بتلا دے گا ، تم بے فکر رہو ، وہ سختی کو آسانی سے تنگی کو فراخی سے بدلنے پر قادر ہے ۔ اسی وقت وحی ربانی آئی کہ ’ اپنی لکڑی دریا پر مار دے ‘ ۔ آپ علیہ السلام نے یہی کیا ۔ «فَکَانَ کُلٰ فِرْقٍ کَالطَّوْدِ الْعَظِیمِ» ‏‏‏‏ ۱؎ (26-الشعراء:63) اس وقت پانی پھٹ گیا ، راستے دے دئیے اور پہاڑوں کی طرح پانی کھڑا ہوگیا ۔ ان کے بارہ قبیلے تھے بارہ راستے دریا میں بن گئے ۔ «فَاضْرِبْ لَہُمْ طَرِیقًا فِی الْبَحْرِ یَبَسًا لَّا تَخَافُ دَرَکًا وَلَا تَخْشَیٰ» ‏‏‏‏۱؎ (20-طہ:77) تیز اور سوکھی ہوائیں چل پڑیں جس نے راستے خشک کر دیئے اب نہ تو فرعونیوں کے ہاتھوں میں گرفتار ہونے کا کھٹکا رہا نہ پانی میں ڈوب جانے کا ۔ ساتھ ہی قدرت نے پانی کی دیواروں میں طاق اور سوراخ بنا دیئے کہ ہر قبیلہ دوسرے قبیلہ کو بھی دیکھ سکے ۔ تاکہ دل میں یہ خدشہ بھی نہ رہے کہ کہیں وہ ڈوب نہ گیا ہو ۔ بنو اسرائیل ان راستوں سے جانے لگے اور دریا پار اتر گئے ۔ انہیں پار ہوتے ہوئے فرعونی دیکھ رہے تھے ۔ جب یہ سب کے سب اس کنارے پہنچ گئے اب لشکر فرعون بڑھا اور سب کے سب دریا میں اتر گئے ان کی تعداد کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ ان کے پاس ایک لاکھ گھوڑے تو صرف سیاہ رنگ کے تھے جو باقی رنگ کے تھے ان کی تعداد کا خیال کر لیجئے ۔ فرعون بڑا کائیاں تھا ۔ دل سے موسیٰ علیہ السلام کی صداقت جانتا تھا ۔ اسے یہ رنگ دیکھ کر یقین ہو چکا تھا کہ یہ بھی بنی اسرائیل کی غیبی تائید ہوئی ہے وہ چاہتا تھا کہ یہاں سے واپس لوٹ جائے لیکن موسیٰ علیہ السلام کی دعا قبول ہو چکی تھی ۔ قدرت کا قلم چل چکا تھا ۔ اسی وقت جبرائیل علیہ السلام گھوڑے پر سوار آ گئے ۔ ان کے جانور کے پیچھے فرعون کا گھوڑا لگ گیا ۔ آپ نے اپنا گھوڑا دریا میں ڈال دیا ۔ فرعون کا گھوڑا اسے گھسیٹتا ہوا دریا میں اتر گیا ۔ اس نے اپنے ساتھیوں کو آواز لگائی کہ بنی اسرائیل گزر گئے اور تم یہاں ٹھیر گئے ۔ چلو ان کے پیچھے اپنے گھوڑے بھی میری طرح دریا میں ڈال دو ۔ اسی وقت ساتھیوں نے بھی اپنے گھوڑوں کو مہمیز کیا ۔ میکائیل علیہ السلام ان کے پیچھے تھا کیونکہ ان کے جانوروں کو ہنکائیں غرض بغیر ایک کے بھی باقی رہے سب دریا میں اتر گئے ۔ جب یہ سب اندر پہنچ گئے اور ان کا سب سے آگے کا حصہ دوسرے کنارے کے قریب پہنچ چکا ، اسی وقت جناب باری قادر و قیوم کا دریا کو حکم ہوا اب مل جا اور ان کو ڈبو دے ۔ پانی کے پتھر بنے ہوئے پہاڑ فوراً پانی ہو گئے اور اسی وقت یہ سب غوطے کھانے لگے اور فوراً ڈوب گئے ان میں سے ایک بھی باقی نہ بچا ۔ پانی کی موجوں نے انہیں اوپر تلے کر کر کے ان کے جوڑ جوڑ الگ الگ کر دئیے ۔ فرعون جب موجوں میں پھنس گیا اور سکرات موت کا اسے مزہ آنے لگا تو کہنے لگا کہ میں لاشریک رب واحد پر ایمان لاتا ہوں ۔ جس پر بنو اسرائیل ایمان لائے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ عذاب کے دیکھ چکنے کے بعد عذاب کے آجانے کے بعد ایمان سود مند نہیں ہوتا ۔ اللہ تعالیٰ اس بات کو فرما چکا ہے اور یہ قاعدہ جاری کر چکا ہے ۔ اسی لیے فرعون کو جواب ملا کہ «فَلَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا قَالُوا آمَنَّا بِ اللہِ وَحْدَہُ وَکَفَرْنَا بِمَا کُنَّا بِہِ مُشْرِکِینَ فَلَمْ یَکُ یَنفَعُہُمْ إِیمَانُہُمْ لَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا سُنَّتَ اللہِ الَّتِی قَدْ خَلَتْ فِی عِبَادِہِ وَخَسِرَ ہُنَالِکَ الْکَافِرُونَ» ‏‏‏‏ ۱؎ (40-غافر:84-85) ’ اس وقت یہ کہتا ہے حالانکہ اب تک شر وفساد پر تلا رہا ۔ پوری عمر اللہ کی نافرمانیاں کرتا رہا ، ملک میں فساد مچاتا رہا ، خود گمراہ ہو کر اوروں کو بھی راہ حق سے روکتا رہا ، لوگوں کو جہنم کی طرف بلانے کا امام تھا ، قیامت کے دن بے یارومددگار رہے گا ‘ ۔ فرعون کا اس وقت کا قول اللہ تعالیٰ علام الغیوب نے اپنے علم غیب سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان فرمایا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ { اس واقعے کی خبر دیتے وقت جبرائیل علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا کہ کاش آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ہوتے اور دیکھتے کہ میں اس کے منہ میں کیچڑ ٹھونس رہا تھا اس خیال سے کہ کہیں اس کی بات پوری ہونے پر اللہ کی رحمت اس کی دست گیری نہ کرلے } ۔ (سنن ترمذی:3107 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح لغیرہ) ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” ڈوبتے وقت فرعون نے شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھا کر اپنے ایمان کا اقرار کرنا شروع کیا جس پر جبرائیل علیہ السلام نے اس کے منہ میں مٹی بھرنی شروع کی ۔ اس فرعون کثیر بن زاذان ملعون کا منہ جبرائیل علیہ السلام اس وقت بند کر رہے تھے اور اس کے منہ کیچڑ ٹھونس رہے تھے “ ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ کہتے ہیں کہ بعض بنی اسرائیل کو فرعون کی موت میں شک پیدا ہوگیا تھا ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے دریا کو حکم دیا کہ اس کی لاش بلند ٹیلے پر خشکی میں ڈال دے تاکہ یہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں اور ان کا معائنہ کرلیں ۔ چنانچہ اس کا جسم معہ اس کے لباس کے خشکی پر ڈال دیا گیا تاکہ بنی اسرائیل کو معلوم ہو جائے اور ان کے لیے نشانی اور عبرت بن جائے اور وہ جان لیں کہ غضب الٰہی کو کوئی چیز دفع نہیں کر سکتی ۔ باوجود ان کھلے واقعات کے بھی اکثر لوگ ہماری آیتوں سے غفلت برتتے ہیں ۔ کچھ نصیحت حاصل نہیں کرتے ۔ ان فرعونیوں کا غرق ہونا اور موسیٰ علیہ السلام کا مع مسلمانوں کے نجات پانا عاشورے کے دن ہوا تھا ۔ چنانچہ بخاری شریف میں ہے کہ { جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینے میں آئے تو یہودیوں کو اس دن کا روزہ رکھتے ہوئے دیکھا ۔ وہ کہتے تھے کہ اسی دن موسیٰ علیہ السلام فرعون پر غالب آئے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم سے فرمایا کہ تم تو موسیٰ علیہ السلام کے بہ نسبت ان کے زیادہ حقدار ہو تم بھی اس عاشورے کے دن کا روزہ رکھو } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1130) یونس
91 یونس
92 یونس
93 بنی اسرائیل پر اللہ کے انعامات اللہ نے جو نعمتیں بنی اسرائیل پر انعام فرمائیں ان کا ذکر ہو رہا ہے کہ شام اور ملک مصر میں بیت المقدس کے آپس پاس انہیں جگہ دی ۔ تمام و کمال ملک مصر پر ان کی حکومت ہوگئ ۔ فرعون کی ہلاکت کے بعد دولت موسویہ قائم ہوگئی ۔ جیسے قرآن میں بیان ہے کہ ہم نے ان کمزور بنی اسرائیلیوں کے مشرق مغرب کے ملک کا مالک کر دیا ۔ برکت والی زمین ان کے قبضے میں دے دی اور ان پر اپنی سچی بات کی سچائی کھول دی ان کے صبر کا پھل انہیں مل گیا ۔ فرعون ، فرعونی اور ان کے کاریگریاں سب نیست و نابود ہوئیں اور آیتوں میں ہے کہ ہم نے فرعونیوں کو باغوں سے دشمنوں سے ، خزانوں سے بہترین مقامات اور مکانات سے نکال باہر کیا ۔ «کَمْ تَرَکُوا مِن جَنَّاتٍ وَعُیُونٍ» ‏‏‏‏۱؎ (44-الدخان:25) ’ وہ بہت سے باغات اور چشمے چھوڑ گئے ، اور بنی اسرائیل کے قبضے میں یہ سب کچھ کر دیا ‘ ۔ اور آیتوں میں ہے ، باوجود اس کے خلیل الرحمن علیہ السلام کے شہر بیت المقدس کی محبت ان کے دل میں چٹکیاں لیتی رہی ۔ وہاں عمالقہ کی قوم کا قبلہ تھا انہوں نے اپنے پیغمبر علیہ السلام سے درخواست کی ، انہیں جہاد کا حکم ہوا یہ نامردی کرگئے جس کے بدلے انہیں چالیس سال تک میدان تیہ میں سرگرداں پھرنا پڑا ۔ وہیں ہارون علیہ السلام کا انتقال ہوا پھر موسیٰ علیہ السلام کا ۔ ان کے بعد یہ یوشع بن نون علیہ السلام کے ساتھ نکلے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں پر بیت المقدس کو فتح کیا ۔ یہاں بخت نصر کے زمانے تک انہیں کا قبضہ رہا پھر کچھ مدت کے بعد دوبارہ انہوں نے اسے لے لیا پھر یونانی بادشاہوں نے وہاں قبضہ کیا ۔ عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے تک وہاں یونانیوں کا ہی قبضہ رہا ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ضد میں ان ملعون یہودیوں نے شاہ یونان سے ساز باز کی اور عیسیٰ علیہ السلام کی گرفتاری کے احکام انہیں باغی قرار دے کر نکلوا دیئے ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے نبی علیہ السلام کو تو اپنی طرف چڑھا لیا اور آپ علیہ السلام کے کسی حواری پر آپ علیہ السلام کی شباہت ڈال دی انہوں نے آپ علیہ السلام کے دھوکے میں اسے قتل کر دیا اور سولی پر لٹکا دیا ۔ یقیناً جناب روح اللہ علیہ الصلوۃ والسلام ان کے ہاتھوں قتل نہیں ہوئے ۔ «وَمَا قَتَلُوہُ یَقِینًا بَل رَّفَعَہُ اللہُ إِلَیْہِ وَکَانَ اللہُ عَزِیزًا حَکِیمًا» ‏‏‏‏ (4-النساء:158) ’ انہیں تو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف بلند کر لیا ۔ اللہ عزیز و حکیم ہے ‘ ۔ عیسٰی علیہ السلام کے تقریباً تین سو سال بعد قسطنطیس نامی یونانی بادشاہ عیسائی بن گیا ۔ وہ بڑا پاجی اور مکار تھا ۔ دین عیسوی میں یہ بادشاہ صرف سیاسی منصوبوں کے پورا کرنے اور اپنی سلطنت کو مضبوط کرنے اور دین نصاری کو بدل ڈالنے کے لیے گھسا تھا ۔ حیلہ اور مکر و فریب اور چال کے طور پر یہ مسیحی بنا تھا کہ مسیحیت کی جڑیں کھوکھلی کر دے ۔ نصرانی علماء اور درویشوں کو جمع کر کے ان سے قوانین شریعت کے مجموعے کے نام سے نئی نئی تراشی ہوئی باتیں لکھوا کر ان بدعتوں کو نصرانیوں میں پھیلا دیا اور اصل کتاب و سنت سے انہیں ہٹا دیا ۔ اس نے کلیسا ، گرجے ، خانقاہیں ، ہیکلیں وغیرہ بنائیں اور بیسیوں قسم کے مجاہدے اور نفس کشی کے طریقے اور طرح طرح کی عبادتیں ریاضتیں نکال کر لوگوں میں اس نئے دین کی خوب اشاعت کی اور حکومت کے زور اور زر کے لالچ سے اسے دور تک پہنچا دیا ۔ جو بیچارے موحد ، متبع انجیل اور سچے تابعدار عیسیٰ علیہ السلام کے اصلی دین پر قائم رہے انہیں ان ظالموں نے شہر بدر کردیا ۔ لوگ جنگلوں میں رہنے سہنے لگے اور یہ نئے دین والے جن کے ہاتھوں میں تبدیلی اور مسخ والا دین رہ گیا تھا اُٹھ کھڑے ہوئے اور تمام جزیرہ روم پر چھاگئے ۔ قسطنطنیہ کی بنیادیں اس نے رکھیں ۔ بیت لحم اور بیت المقدس کے کلیسا اور حواریوں کے شہر سب اسی کے بسائے ہوئے ہیں ۔ بڑی بڑی شاندار ، دیرپا اور مضبوط عمارتیں اس نے بنائیں ۔ صلیب کی پرستش ، مشرق کا قبلہ ، کنیسوں کی تصویریں ، سور کا کھانا وغیرہ یہ سب چیزیں نصرانیت میں اسی نے داخل کیں ۔ فروع اصول سب بدل کر دین مسیح کو الٹ پلٹ کر دیا ۔ امانت کبیرہ اسی کی ایجاد ہے اور دراصل ذلیل ترین خیانت ہے ۔ لمبے چوڑے فقہی مسائل کی کتابیں اسی نے لکھوائیں ۔ اب بیت المقدس انہیں کے ہاتھوں میں تھا یہاں تک کہ صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فتح کیا ۔ امیر المؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی خلافت میں یہ مقدس شہر اس مقدس جماعت کے قبضے میں آیا ۔ الغرض یہ پاک جگہ انہیں ملی تھی اور پاک روزی اللہ نے دے رکھی تھی جو شرعا بھی حلال اور طبعا بھی طیب ۔ افسوس باوجود اللہ کی کتاب ہاتھ میں ہونے کے انہوں نے خلاف بازی اور فرقہ بندی شروع کر دی ۔ ایک دو نہیں بہتر [ ۷۲ ] فرقے قائم ہو گئے ۔ اللہ اپنے رسول علیہ السلام پر درود سلام نازل فرمائے { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اس پھوٹ کا ذکر فرما کر فرمایا کہ { میری امت میں بھی یہی بیماری پھیلے گی اور ان کے تہتر فرقے ہو جائیں گے جس میں سے ایک جنتی باقی سب دوزخی ہوں گے } ۔ پوچھا گیا کہ جنتی کون ہیں ؟ فرمایا : { وہ جو اس پر ہوں جس پر میں اور میرے صحابہ رضی اللہ عنہم ہیں } } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2641،قال الشیخ الألبانی:حسن) اللہ فرماتا ہے ’ ان کے اختلاف کا فیصلہ قیامت کے دن میں آپ ہی کروں گا ‘ ۔ یونس
94 ٹھوس دلائل کے باوجود انکار قابل مذمت ہے { جب یہ آیت اتری تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { نہ مجھے کچھ شک نہ مجھے کسی سے پوچھنے کی ضرورت } } ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:17907:مرسل) ۔ پس اس آیت سے مطلب صرف اتنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے ایمان کی مضبوطی کی جائے اور ان سے بیان کیا جائے کہ اگلی الٰہامی کتابوں میں بھی ان کے نبی کی صفتیں موجود ہیں ، خود اہل کتاب بھی بخوبی واقف ہیں ۔ جیسے «الَّذِینَ یَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِیَّ الْأُمِّیَّ الَّذِی یَجِدُونَہُ مَکْتُوبًا عِندَہُمْ فِی التَّوْرَاۃِ وَالْإِنجِیلِ» ۱؎ (7-الأعراف:157) الخ میں ہے ۔ ان لوگوں پر تعجب اور افسوس ہے ان کی کتابوں میں اس نبی آخر الزمان کی تعریف و توصیف اور جان پہچان ہونے کے باوجود بھی ان کتابوں کے احکام کا خلط ملط کرتے ہیں اور تحریف و تبدیل کر کے بات بدل دیتے ہیں اور دلیل سامنے ہونے کے باوجود انکاری رہتے ہیں ۔ شک و شبہ کی ممانعت کے بعد آیات رب کی تکذیب کی ممانعت ہوئی ۔ پھر بدقسمت لوگوں کے ایمان سے ناامیدی دلائی گئی ۔ جب تک کہ وہ عذاب نہ دیکھ لیں ایمان نہیں لائیں گے ۔ یہ تو اس وقت ایمان لائیں گے جس وقت ایمان لانا بے سود ہوگا ۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کے لیے اور فرعونیوں کے لیے یہی بد دعا کی تھی «رَبَّنَا اطْمِسْ عَلَیٰ أَمْوَالِہِمْ وَاشْدُدْ عَلَیٰ قُلُوبِہِمْ فَلَا یُؤْمِنُوا حَتَّیٰ یَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِیمَ» ۱؎ (10-یونس:88) ’ اے ہمارے رب! ان کے مالوں کو نیست و نابود کر دے اور ان کے دلوں کو سخت کر دے سو یہ ایمان نہ لانے پائیں یہاں تک کہ درد ناک عذاب کو دیکھ لیں‘ ۔ «وَلَوْ أَنَّنَا نَزَّلْنَا إِلَیْہِمُ الْمَلَائِکَۃَ وَکَلَّمَہُمُ الْمَوْتَیٰ وَحَشَرْنَا عَلَیْہِمْ کُلَّ شَیْءٍ قُبُلًا مَّا کَانُوا لِیُؤْمِنُوا إِلَّا أَن یَشَاءَ اللہُ وَلٰکِنَّ أَکْثَرَہُمْ یَجْہَلُونَ» ۱؎ (6-الأنعام:111) ’ ان کی جہالت اس درجے پر پہنچ چکی ہے کہ بالفرض ہم اپنے فرشتوں کو ان پر اتاریں ، مردے ان سے بولیں ہر پوشیدہ چیز سامنے آ جائے جب بھی انہیں ایمان نصیب نہیں ہو گا ہاں مرضی مولیٰ اور چیز ہے ‘ ۔ یونس
95 یونس
96 یونس
97 یونس
98 افسوس انسان نے اکثر حق کی مخالفت کی کسی بستی کے تمام باشندے کسی نبی علیہ السلام پر کبھی ایمان نہیں لائے ، یا تو سب نے ہی کفر کیا یا اکثر نے ۔ سورۃ یٰسین میں فرمایا «یَا حَسْرَۃً عَلَی الْعِبَادِ مَا یَأْتِیہِم مِّن رَّسُولٍ إِلَّا کَانُوا بِہِ یَسْتَہْزِئُونَ» ۱؎ (36-یس:30) ’ بندوں پر افسوس ہے ان کے پاس جو رسول آئے انہوں نے ان کا مذاق اڑایا ‘ ۔ ایک آیت میں ہے «کَذٰلِکَ مَا أَتَی الَّذِینَ مِن قَبْلِہِم مِّن رَّسُولٍ إِلَّا قَالُوا سَاحِرٌ أَوْ مَجْنُونٌ» ۱؎ (51-الذاریات:52) ’ ان سے پہلے رسول آئے ، انہیں لوگوں نے جادوگر یا مجنون کا ہی خطاب دیا ‘ ۔ «وَکَذٰلِکَ مَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِکَ فِی قَرْیَۃٍ مِّن نَّذِیرٍ إِلَّا قَالَ مُتْرَفُوہَا إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَیٰ أُمَّۃٍ وَإِنَّا عَلَیٰ آثَارِہِم مٰقْتَدُونَ» ۱؎ (43-الزخرف:23) ’ تجھ سے پہلے جتنے رسول آئے سب کو ان کی قوم کے سرکش ساہو کاروں نے یہی کہا کہ ہم نے تو اپنے بڑوں کو جس لکیر پر پایا اسی کے فقیر بنے رہیں گے ‘ ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { مجھ پر انبیاء علیہم السلام پیش کئے گئے کسی نبی علیہ السلام کے ساتھ تو لوگوں کا ایک گروہ تھا ۔ کسی کے ساتھ صرف ایک آدمی کوئی محض تنہا } ۔ پھر آپ نے موسیٰ علیہ السلام کی امت کی کثرت کا بیان کیا ۔ پھر اپنی امت کا ، اس سے بھی زیادہ ہونا ۔ زمین کے مشرق مغرب کی سمت کو ڈھانپ لینا بیان فرمایا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6541) الغرض تمام انبیاء علیہم السلام میں سے کسی کی ساری امت نے انہیں نبی نہیں مانا ۔ سوائے اہل نینویٰ کے جو یونس علیہ السلام کی امت کے لوگ تھے ۔ یہ بھی اس وقت جب نبی علیہ السلام کی زبان سے عذاب کی خبر معلوم ہوگئی ، پھر اس کے ابتدائی آثار بھی دیکھ لیے ۔ ان کے نبی علیہ السلام انہیں چھوڑ کر چلے بھی گئے ۔ اس وقت یہ سارے کے سارے اللہ کے سامنے جھک گئے اس سے فریاد شروع کی ، اس کی جناب میں عاجزی اور گریہ و زاری کرنے لگے ، اپنی مسکینی ظاہر کرنے لگے ۔ اور دامن رحمت سے لپٹ گئے ۔ سارے کے سارے میدان میں نکل کھڑے ہوئے اپنی بیویوں ، بچوں اور جانوروں کو بھی ساتھ اٹھا کر لے گئے ۔ اور آنسوؤں کی جھڑیاں لگا کر اللہ تعالیٰ سے فریاد کرنے دعائیں مانگنے لگے کہ یا رب عذاب ہٹا لے ۔ رحمت رب جوش میں آئی ، پروردگار نے ان سے عذاب ہٹا لیا اور دنیا کی رسوائی کے عذاب سے انہیں بچا لیا ۔ اور ان کی عمر تک کی انہیں مہلت دے دی اور اس دنیا کا فائدہ انہیں پہنچایا ۔ یہاں جو فرمایا کہ ’ دنیا کا عذاب ان سے ہٹا لیا ‘ ۔ اس سے بعض نے کہا ہے کہ اُخروی عذاب دور نہیں ۔ لیکن یہ ٹھیک نہیں اس لیے کے دوسری آیت میں ہے «وَأَرْسَلْنَاہُ إِلَیٰ مِائَۃِ أَلْفٍ أَوْ یَزِیدُونَ فَآمَنُوا فَمَتَّعْنَاہُمْ إِلَیٰ حِینٍ» ۱؎ (37-الصافات:147،148) ’ وہ ایمان لائے اور ہم نے انہیں زندگی کا فائدہ دیا ‘ ۔ اس سے ثابت ہوا کہ وہ ایمان لائے ۔ اور یہ ظاہر ہے کہ ایمان آخرت کے عذاب سے نجات دینے والا ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں آیت کا مطلب یہ ہے کہ کس بستی اہل کفر کا عذاب دیکھ لینے کے بعد ایمان لانا ان کے لیے نفع بخش ثابت نہیں ہوا ۔ سوائے قوم یونس علیہ السلام کی قوم کے کہ جب انہوں نے دیکھا کہ ان کے نبی علیہ السلام ان میں سے نکل گئے اور انہوں نے خیال کر لیا کہ اب اللہ کا عذاب آیا چاہتا ہے ، اس وقت توبہ استغفار کرنے لگے ٹاٹ پہن کر خشوع و خضوع سے میلے کچیلے میدان میں آکھڑے ہوئے بچوں کو ماؤں سے دور کردیا ۔ جانوروں کے تھنوں سے ان کے بچوں کو الگ کر دیا ۔ اب جو رونا دھونا اور فریاد شروع کی تو چالیس دن رات اسی طرح گزار دیئے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دل کی سچائی دیکھ لی ۔ ان کی توبہ و ندامت قبول فرمائی اور ان سے عذاب دور کر دیا ، یہ لوگ موصل کے شہر نینویٰ کے رہنے والے تھے ۔ «فَلَوْلَا» کی «فَھَلَّا» قرأت بھی ہے ان کے سروں پر عذاب رات کی سیاہی کے ٹکڑوں کی طرح گھوم رہا تھا ان کے علماء نے انہیں مشورہ دیا تھا کہ جنگل میں نکل کھڑے ہو اور اللہ سے دعا کرو کہ وہ ہم سے اپنے عذاب کو دور کر دے اور یہ کہو «یَا حَیٰ مُحْییْ الْـمَـوْتٰی یَا حَیٰ لَاۤ إِلَہَ إِلَّا أَنْتَ» قوم یونس کا پورہ قصہ سورۃ الصافات کی تفسیر میں ان شاءاللہ العزیز ہم بیان کریں گے ۔ یونس
99 اللہ کی حکمت سے کوئی آگاہ نہیں اللہ کی حکمت ہے کہ کوئی ایمان لائے اور کسی کو ایمان نصیب ہی نہ ہو ۔ «وَلَوْ شَاءَ رَبٰکَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّۃً وَاحِدَۃً وَلَا یَزَالُونَ مُخْتَلِفِینَ إِلَّا مَن رَّحِمَ رَبٰکَ وَلِذٰلِکَ خَلَقَہُمْ وَتَمَّتْ کَلِمَۃُ رَبِّکَ لَأَمْلَأَنَّ جَہَنَّمَ مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِینَ» ۱؎ (11-ہود:118-119) ’ ورنہ اگر اللہ کی مشیت ہوتی تو تمام انسان ایماندار ہو جاتے ۔ اگر وہ چاہتا تو سب کو اسی دین پر کار بند کر دیتا ۔ لوگوں میں اختلاف تو باقی ہی نہ رہے ۔ سوائے ان کے جن پر رب کا رحم ہو ، انہیں اسی لیے پیدا کیا ہے ، تیرے رب کا فرمان حق ہے کہ جہنم انسانوں اور جنوں سے پر ہوگی ‘ ۔ ’ کیا ایماندار ناامید نہیں ہوگئے ؟ یہ کہ اللہ اگر چاہتا تو تمام لوگوں کو ہدایت کرسکتا تھا ۔ یہ تو ناممکن ہے کہ تو ایمان ان کے دلوں کے ساتھ چپکا دے ، یہ تیرے اختیار سے باہر ہے ‘ ۔ «أَفَلَمْ یَیْأَسِ الَّذِینَ آمَنُوا أَن لَّوْ یَشَاءُ اللہُ لَہَدَی النَّاسَ جَمِیعًا» ۱؎ (13-الرعد:31) ’ ہدایت و ضلالت اللہ کے ہاتھ ہے ، تو ان پر افسوس اور رنج و غم نہ کر اگر یہ ایمان نہ لائیں تو تو اپنے آپ کو ان کے پیچھے ہلاک کر دے گا ؟ ‘ «لَّیْسَ عَلَیْکَ ہُدَاہُمْ وَلٰکِنَّ اللہَ یَہْدِی مَن یَشَاءُ» ۱؎ (2-البقرۃ:272) ’ تو جسے چاہے راہ راست پر لا نہیں سکتا ۔ یہ تو اللہ کے قبضے میں ہے ‘ ، «فَإِنَّمَا عَلَیْکَ الْبَلَاغُ وَعَلَیْنَا الْحِسَابُ» ۱؎ (13-الرعد:40) ’ تجھ پر تو صرف پہنچا دینا ہے حساب ہم خود لے لیں گے ‘ ، «فَذَکِّرْ إِنَّمَا أَنتَ مُذَکِّرٌ لَّسْتَ عَلَیْہِم بِمُصَیْطِرٍ» ۱؎ (88-الغاشیۃ:21 ، 22) ’ تو تو نصیحت کر دینے والا ہے ، ان پر داروغہ نہیں ‘ ۔ «مَن یَشَاءُ وَیَہْدِی مَن یَشَاءُ فَلَا تَذْہَبْ نَفْسُکَ عَلَیْہِمْ حَسَرَاتٍ» ۱؎ (35-فاطر:8) ’ جسے چاہے راہ راست دکھائے جسے چاہے گمراہ کر دے ۔ اس کا علم اس کی حکمت اس کا عدل اسی کے ساتھ ہے ‘ ۔ «إِنَّکَ لَا تَہْدِی مَنْ أَحْبَبْتَ وَلٰکِنَّ اللہَ یَہْدِی مَن یَشَاءُ» ۱؎ (28-القص:56) ’ آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں کرسکتے بلکہ اللہ تعالیٰ ہی جسے چاہے ہدایت کرتا ہے ‘ ۔ اس کی مشیت کے بغیر کوئی بھی مومن نہیں ہوسکتا ۔ وہ ان کو ایمان سے خالی ، ان کے دلوں کو نجس اور گندہ کر دیتا ہے جو اللہ کی قدرت ، اللہ کی برھان ، اللہ کے احکام کی آیتوں میں غور فکر نہیں کرتے ۔ عقل و سمجھ سے کام نہیں لیتے ، وہ عادل ہے ، حکیم ہے ، اس کا کوئی کام الحکمت سے خالی نہیں ۔ یونس
100 یونس
101 دعوت غور و فکر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں اس کی قدرتوں میں اس کی پیدا کردہ نشانیوں میں غور و فکر کرو ۔ آسمان و زمین اور ان کے اندر کی نشانیاں بے شمار ہیں ۔ ستارے سورج ، چاند رات دن اور ان کا اختلاف کبھی دن کی کمی ، کبھی راتوں کاچھوٹا ہو جانا ، آسمانوں کی بلندی ان کی چوڑائی ان کا حسن و زینت اس سے بارش برسانا اس بارش سے زمین کا ہرا بھرا ہو جانا اس میں طرح طرح کے پھل پھول کا پیدا ہونا ، اناج اور کھیتی کا اگنا ، مختلف قسم کے جانوروں کا اس میں پھیلا ہوا ہونا ، جن کی شکلیں جدا گانہ ، جن کے نفع الگ الگ جن کے رنگ الگ الگ ، دریاؤں میں عجائبات کا پایا جانا ، ان میں طرح طرح کی ہزارہا قسم کی مخلوق کا ہونا ، ان میں چھوٹی بڑی کشتیوں کا چلنا ، یہ اس رب قدیر کی قدرتوں کے نشان کیا تمہاری رہبری ، اس کی توحید اس کی جلالت اس کی عظمت اس کی یگانگت اس کی وحدت اس کی عبادت ، اس کی اطاعت ، اس کی ملکیت کی طرف نہیں کرتی ؟ یقین مانو نہ اس کے سوا کوئی پروردگار ، نہ اس کے سوا کوئی لائق عبادت ہے درحقیقت بے ایمانوں کے لیے اس سے زیادہ نشانیاں بھی بےسود ہیں ۔ آسمان ان کے سر پر اور زمین ان کے قدموں میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کے سامنے ، دلیل و سند ان کے آگے ، لیکن یہ ہیں کہ ٹس سے مس نہیں ہوتے ۔ ان پر کلمہ عذاب صادق آ چکا ہے ۔ یہ تو عذاب کے آجانے سے پہلے مومن نہیں ہوں گے ۔ ظاہر ہے کہ یہ لوگ اس عذاب کے اور انہی کٹھن دنوں کے منتظر ہیں جو ان سے پہلے کے لوگوں پر ان کی بد اعمالیوں کی وجہ سے گزر چکے ہیں ۔ اچھا انہیں انتظار کرنے دے اور تو بھی انہیں اعلان کر کے منتظر رہ ۔ انہیں ابھی معلوم ہو جائے گا ۔ یہ دیکھ لیں گے کہ ہم اپنے رسولوں اور سچے غلاموں کو نجات دیں گے ۔ یہ ہم نے خود اپنے نفس کریم پر واجب کر لیا ہے ۔ جیسے آیت میں ہے کہ «کَتَبَ عَلَیٰ نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ» ۱؎ (6-الأنعام:35) ’ تمہارے پروردگار نے اپنے نفس پر رحمت لکھ لی ہے ‘ ۔ بخاری مسلم کی حدیث میں ہے کہ { اللہ تعالیٰ نے ایک کتاب لکھی ہے جو اس کے پاس عرش کے اوپر ہے کہ میری رحمت میرے غضب پر غالب آچکی ہے } ۔ (صحیح بخاری:7404) یونس
102 یونس
103 یونس
104 دین حنیف کی وضاحت یکسوئی والا سچا دین جو میں اپنے اللہ کی طرف سے لے کر آیا ہوں اس میں اے لوگوں اگر تمہیں کوئی شک شبہ ہے تو ہو ، یہ تو ناممکن ہے کہ تمہاری طرح میں بھی مشرک ہو جاؤں اور اللہ کے سوا دوسروں کی پرستش کرنے لگوں ۔ میں تو صرف اسی اللہ کا بندہ ہوں اور اسی کی بندگی میں لگا رہوں گا جو تمہاری موت پر بھی ویسا ہی قادر ہے جیسا تمہاری پیدائش پر قادر ہے تم سب اسی کی طرف لوٹنے والے اور اسی کے سامنے جمع ہونے والے ہو ۔ اچھا اگر تمہارے یہ معبود کچھ طاقت و قدرت رکھتے ہیں تو ان سے کہو کہ جو ان کے بس میں ہو مجھے سزا دیں ۔ حق تو یہ ہے کہ نہ کوئی سزا ان کے قبضے میں نہ جزا ۔ یہ محض بے بس ہیں ، بے نفع و نقصان ہیں ، بھلائی برائی سب میرے اللہ کے قبضے میں ہے ۔ وہ واحد اور لاشریک ہے ، مجھے اس کا حکم ہے کہ میں مومن رہوں ۔ یہ بھی مجھے حکم مل چکا ہے کہ میں صرف اسی کی عبادت کرو ۔ شرک سے یکسو اور بالکل علیحدہ رہوں اور مشرکوں میں ہرگز شمولیت نہ کروں ۔ خیر و شر نفع ضرر ، اللہ ہی کے ہاتھ میں ۔ کسی اور کو کسی امر میں کچھ بھی اختیار نہیں ۔ پس کسی اور کی کسی طرح کی عبادت بھی لائق نہیں ۔ ایک حدیث میں ہے کہ { اپنی پوری عمر اللہ تعالیٰ سے بھلائی طلب کرتے رہو ۔ رب کی رحمتوں کے موقع کی تلاش میں رہو ۔ ان کے موقعوں پر اللہ پاک جسے چاہے اپنی بھرپور رحمتیں عطا فرما دیتا ہے ۔ اس سے پہلے عیبوں کی پردہ پوشی اپنے خوف ڈر کا امن طلب کیا کرو } ۔ ۱؎ (تاریخ دمشق لا بن عساکر:328/8:ضعیف و منقطع) پھر فرماتا ہے کہ ’ جس گناہ سے جو شخص جب بھی توبہ کرے ، اللہ اسے بخشنے والا اور اس پر مہربانی کرنے والا ہے ‘ ۔ یونس
105 یونس
106 یونس
107 یونس
108 نافرمان کا اپنا نقصان ہے اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے حبیب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ ’ لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خبردار کریں کہ جو میں لایا ہوں ، وہ اللہ کی طرف سے ہے ۔ بلا شک و شبہ وہ نرا حق ہے جو اس کی اتباع کرے گا وہ اپنے نفع کو جمع کرے گا ۔ اور جو اس سے بھٹک جائے گا وہ اپنا ہی نقصان کرے گا ۔ میں تم پر وکیل نہیں ہوں کہ تمہیں ایمان پر مجبور کروں ۔ میں تو کہنے سننے والا ہوں ۔ ہادی صرف اللہ تعالیٰ ہے ‘ ۔ ’ اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو خود بھی میرے احکام اور وحی کا تابعدار رہ اور اسی پر مضبوطی سے جما رہ ۔ لوگوں کی مخالفت کی کوئی پرواہ نہ کر ۔ ان کی ایذاؤں پر صبر و تحمل سے کام لے یہاں تک کہ خود اللہ تجھ میں اور ان میں فیصلہ کر دے ۔ وہ بہترین فیصلے کرنے والا ہے جس کا کوئی فیصلہ عدل سے حکمت سے خالی نہیں ہوتا ‘ ۔ ابو یعلیٰ میں ہے کہ { سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بوڑھے کیسے ہو گئے ؟ فرمایا : { مجھے سورۃ ھود ، سورۃ الواقعہ ، سورۃ عم ، اور سورۃ کورت نے بوڑھا کر دیا } }۔ (مسند ابویعلیٰ107/1:سند منقطع:حدیث صحیح) ۔ ترمذی کی اس حدیث میں سورۃ ھود ، سورۃ الواقعہ ، سورۂ والمرسلات ، سورۃ النباء اور سورۃ الشمس کورت کا ذکر ہے (سنن ترمذی3297،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ۔ ایک روایت میں ہے ، { سورۃ ھود اور اس جیسی اور سورتوں نے مجھے بوڑھا کر دیا } ۔ طبرانی میں ہے ، { مجھے سورۃ ھود نے اور اس جیسی سورتوں مثلاً سورۃ الواقعہ ، الحاقہ ، اذالشمس کورت نے بوڑھا کر دیا ہے } (طبرانی کبیر:5804:سخت ضعیف) ۔ ایک روایت میں سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کے اس سوال کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا صرف دو سورتوں کا ذکر کرنا مروی ہے ۔ سورۂ ھود اور سورۂ واقعہ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:10091:سخت ضعیف) یونس
109 یونس
0 ھود
1 تعارف قرآن حکیم اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جو حروف سورتوں کے شروع میں آتے ہیں ان کی پوری تفصیل اس تفسیر کے شروع میں سورۃ البقرہ کے ان حروف کے بیان میں گزر چکی ہے جسے دوبارہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں ۔ یہاں فرمان ہے کہ ’ یہ قرآن لفظوں میں محکم اور معنی میں مفصل ہے ‘ ۔ پس مضمون اور معنی ہر طرح سے کامل ہے ۔ یہ اس للہ کا کلام ہے جو اپنے اقوال و احکام میں حکیم ہے ۔ جو کاموں کے انجام سے خبردار ہے ۔ یہ قرآن اللہ کی عبادت کرانے اور دوسروں کی عبادت سے روکنے کے لیے اترا ہے ۔ سب رسولوں پر پہلی وحی توحید کی آتی رہی ہے ، سب سے یہی فرمایا گیا ہے کہ لوگ اللہ کی عبادت کریں ۔ اس کے سوا اور کسی کی پرستش نہ کریں ۔ پھر فرمایا کہ ’ اللہ کی مخالفت کی وجہ سے جو عذاب آ جاتے ہیں ان سے میں ڈرا رہا ہوں اور اس کی اطاعت کی بنا پر جو ثواب ملتے ہیں ، ان کی میں بشارت سناتا ہوں ‘ ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صفا پہاڑی پر چڑھ کر قریش کے خاندانوں کو آواز دیتے ہیں ۔ زیادہ قریب والے پہلے ، پھر ترتیب وار جب سب جمع ہو جاتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے دریافت فرماتے ہیں کہ { اگر میں تم سے کہوں کہ کوئی لشکر صبح کو تم پر دھاوا کرنے والا ہے تو کیا تم مجھے سچا سمجھو گے ؟ } انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے آج تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے کوئی جھوٹ سنا ہی نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا { سنو میں تم سے کہتا ہوں کہ قیامت کے دن تمہاری ان بد اعمالیوں کی وجہ سے سخت تر عذاب ہو گا ، پس تم ان سے ہوشیار ہو جاؤ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4770) پھر ارشاد ہے کہ ’ اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ بھی کہہ دو کہ میں تمہیں اپنے گزشتہ گناہوں سے توبہ کرنے اور آئندہ کے لیے اللہ کی طرف رجوع کرنے کی ہدایت کرتا ہوں اگر تم بھی ایسا ہی کرتے رہے تو دنیا میں بھی اچھی زندگی بسر کرو گے اور نیک عمل کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ آخرت میں بھی بڑے بلند درجے عنایت فرمائے گا ‘ ۔ قرآن کریم نے «مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً وَلَـنَجْزِیَنَّہُمْ اَجْرَہُمْ بِاَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ» ۱؎ (16-النحل:97) میں فرمایا ہے کہ ’ جو مرد و عورت ایماندار ہو کر نیک عمل بھی کرتا رہے ، اسے ہم پاکیزہ زندگی سے زندہ رکھیں گے ‘ ۔ صحیح حدیث میں بھی ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ { اللہ کی رضا مندی کی تلاش میں تو جو کچھ بھی خرچ کرے گا اس کا اجر اللہ تعالیٰ سے پائے گا ، یہاں تک کہ جو لقمہ تو اپنی بیوی کے منہ میں دے اس کا بھی ۔ فضل والوں کو اللہ تعالیٰ فضل دے گا } } ۔ (صحیح بخاری:2742) یعنی گناہ تو برابر لکھا جاتا ہے اور نیکی دس گناہ لکھی جاتی ہے پھر اگر گناہ کی سزا دنیا میں ہی ہوگئی تو نیکیاں جوں کی توں باقی رہیں ۔ اور اگر یہاں اس کی سزا نہ ملی تو زیادہ سے زیادہ ایک نیکی اس کے مقابل جا کر بھی نو نیکیاں بچ رہیں ۔ پھر جس کی اکائیاں دھائیوں پر غالب آ جائیں وہ تو واقعی خود ہی بد اور برا ہے ۔ پھر انہیں دھمکایا جاتا ہے جو اللہ کے احکام کی روگردانی کر لیں اور رسولوں کی نہ مانیں کہ ایسے لوگوں کو ضرور ضرور قیامت کے دن سخت عذاب ہوگا ۔ تم سب کو لوٹ کر مالک ہی کے پاس جانا ہے ، اسی کے سامنے جمع ہونا ہے ۔ وہ ہرچیز پر قادر ہے ، اپنے دوستوں سے احسان اپنے دشمنوں سے انتقام ، مخلوق کی نئی پیدائش ، سب اس کے قبضے میں ہے ۔ پس پہلے رغبت دلائی اور اب ڈرایا ۔ ھود
2 ھود
3 ھود
4 ھود
5 اندھیروں کی چادروں میں موجود ہر چیز کو دیکھتا ہے ابن عباس رضی اللہ عنہما کی قرآت میں «تَـثْـنُـوْنـِیْ» ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ” کچھ لوگ اس میں حیاء کرتے تھے کہ کھلی ہوئی جگہ میں حاجت کے لیے بیٹھنے میں ، آسمان کی طرف ستر کھولنے میں ، اس طرح صحبت کرتے وقت آسمان کی طرف کھولنے میں پروردگار سے شرماتے “ ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4681) وہ اپنے سروں کو ڈھاپ لیتے اور یہ بھی مراد ہے کہ وہ اللہ کے بارے میں شک کرتے تھے اور کام برائی کے کرتے تھے ۔ کہتے ہیں کہ ” برے کام یا برے عمل کے وقت وہ جھک جھک کر اپنے سینے دوہرے کر ڈالتے گویا کہ وہ اللہ سے شرما رہے ہیں ، اور اس سے چھپ رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’ راتوں کو کپڑے اوڑھے ہوئے بھی جو تم کرتے ہو اس سے بھی اللہ تو خبردار ہے ۔ جو چھپاؤ جو کھولو ، جو دلوں اور سینوں میں رکھو ، وہ سب کو جانتا ہے ، دل کے بھید سینے کے راز اور ہر ایک پوشیدگی اس پر ظاہر ہے ‘ ۔ زہیر بن ابوسلمہ اپنے مشہور معلقہ میں کہتا ہے کہ ” تمہارے دلوں کی کوئی بات اللہ تعالیٰ پر چھپی ہوئی نہیں ، تم گو کسی خیال میں ہو لیکن یاد رکھو کہ اللہ سب کچھ جانتا ہے ۔ ممکن ہے کہ تمہارے بد خیالات پر وہ تمہیں یہیں سزا کرے اور ہو سکتا ہے کہ وہ نامہ اعمال میں لکھ لیے جائیں اور قیامت کے دن پیش کئے جائیں “ یہ جاہلیت کا شاعر ہے ۔ اسے اللہ کا ، اس کے کامل علم کا ، قیامت کا اور اس دن کی جزا سزا کا ، اعمال نامے کا اور قیامت کے دن اس کے پیش ہونے کا اقرار ہے ۔ اس آیت کا ایک مطلب یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ ’ یہ لوگ جب رسول مقبول صلی اللہ علیہ وعلیہ وسلم کے پاس سے گزرتے تو سینہ موڑ لیتے اور سر ڈھانپ لیتے ‘ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:17953:مرسل) آیت میں «لِیَسْتَخْفُوا مِنْہُ» ہے ، اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ سے چھپنا چاہتے ہیں یہی اولیٰ ہے کیونکہ اسی کے بعد ہے کہ جب یہ لوگ سوتے وقت کپڑے اوڑھ لیتے ہیں اس وقت بھی اللہ تعالیٰ کو ان کے تمام افعال کا جو وہ چھپ کر کریں اور جو ظاہر کریں علم ہوتا ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی قرأت میں «أَلَا إِنِّہُمْ تَثْنُونِی صُدُورُہُمْ» ہے ۔ اس قرأت پر بھی معنی تقریباً یکساں ہیں ۔ ھود
6 ہر مخلوق کا روزی رساں ہر ایک چھوٹی بڑی ، خشکی ، تری کی مخلوق کا روزی رساں ایک اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ وہی ان کے چلنے پھرنے آنے جانے ، رہنے سہنے ، مرنے جینے اور ماں کے رحم میں قرار پکڑنے اور باپ کی پیٹھ کی جگہ کو جانتا ہے ۔ امام بن ابی حاتم نے اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کرام کے بہت سے اقوال ذکر کئے ہیں «فَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ یہ تمام باتیں اللہ کے پاس کی واضح کتاب میں لکھی ہوئی ہیں جسے فرمان ہے «وَمَا مِنْ دَابَّۃٍ فِی الْاَرْضِ وَلَا طٰیِٕرٍ یَّطِیْرُ بِجَنَاحَیْہِ اِلَّآ اُمَمٌ اَمْثَالُکُمْ مَا فَرَّطْنَا فِی الْکِتٰبِ مِنْ شَیْءٍ ثُمَّ اِلٰی رَبِّہِمْ یُحْشَرُوْنَ» ۱؎ (6-الأنعام:38) یعنی ’ زمین پر چلنے والے جانور اور اپنے پروں پر اڑنے والے پرند سب کے سب تم جیسی ہی امتیں ہیں ، ہم نے کتاب میں کوئی چیز نہیں چھوڑی ، پھر سب کے سب اپنے پروردگار کی طرف جمع کئے جائیں گے ‘ ۔ اور فرمان ہے «وَعِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُہَآ اِلَّا ہُوَ وَیَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَۃٍ اِلَّا یَعْلَمُہَا وَلَا حَبَّۃٍ فِیْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَّلَا یَابِسٍ اِلَّا فِیْ کِتٰبٍ مٰبِیْنٍ» ۱؎ (6-الأنعام:59) یعنی ’ غیب کی کنجیاں اسی اللہ کے پاس ہیں ۔ انہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ خشکی تری کی تمام چیزوں کا اسے علم ہے جو پتہ جھڑتا ہے اس کے علم میں ہے کوئی دانہ زمین کے اندھیروں میں اور کوئی تر و خشک چیز ایسی نہیں جو واضح کتاب میں نہ ہو ‘ ۔ ھود
7 تخلیق کائنات کا تذکرہ اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ ’ اسے ہر چیز پر قدرت ہے ۔ آسمان و زمین کو اس نے صرف چھ دن میں پیدا کیا ہے ۔ اس سے پہلے اس کا عرش کریم پانی کے اوپر تھا ‘ ۔ مسند احمد میں { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اے بنو تمیم ! تم خوشخبری قبول کرو “ ۔ انہوں نے کہا خوشخبریاں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا دیں اب کچھ دلوائیے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اے اہل یمن تم قبول کرو “ ۔ انہوں نے کہا ہاں ہمیں قبول ہے ۔ مخلوق کی ابتداء تو ہمیں سنائیے کہ کس طرح ہوئی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” سب سے پہلے اللہ تھا ۔ اس کا عرش پانی کے اوپر تھا “ ۔ اس نے لوح محفوظ میں ہر چیز کا تذکرہ لکھا راوی حدیث سیدنا عمران رضی اللہ عنہ کہتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنا ہی فرمایا تھا جو کسی نے آن کر مجھے خبر دی کہ تیری اونٹنی زانو کھلوا کر بھاگ گئی ، میں اسے ڈھونڈنے چلا گیا ۔ پھر مجھے نہیں معلوم کہ کیا بات ہوئی ؟ } یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی ہے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3191) ایک روایت میں ہے { اللہ تھا اور اس سے پہلے کچھ نہ تھا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3191) ایک روایت میں ہے { اس کے ساتھ کچھ نہ تھا ۔ اس کا عرش پانی پر تھا ۔ اس نے ہرچیز کا تذکرہ لکھا ۔ پھر آسمان و زمین کو پیدا کیا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3191) مسلم کی حدیث میں ہے { زمین و آسمان کی پیدائش سے پچاس ہزار سال پہلے اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کی تقدیر لکھی اس کا عرش پانی پر تھا } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2653) صحیح بخاری میں اس آیت کی تفسیر کے موقع پر ایک قدسی حدیث لائے ہیں کہ { اے انسان ! تو میری راہ میں خرچ کر میں تجھے دوں گا اور فرمایا ’ اللہ کا ہاتھ اوپر ہے ‘ ۔ دن رات کا خرچ اس میں کوئی کمی نہیں لاتا ۔ خیال تو کرو کہ آسمان و زمین کی پیدائش سے اب تک کتنا کچھ خرچ کیا ہو گا لیکن اس کے داہنے ہاتھ میں جو تھا وہ کم نہیں ہوتا اس کا عرش پانی پر تھا ۔ اس کے ہاتھ میں میزان ہے جھکاتا ہے اور اونچا کرتا ہے } ۱؎ (صحیح بخاری:4684) مسند میں ہے { ابورزین لقیط بن عامر بن متفق عقیلی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ مخلوق پیدائش کرنے سے پہلے ہمارا پروردگار کہاں تھا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” عما میں نیچے بھی ہوا اور اوپر بھی ہوا پھر عرش کو اس کے بعد پیدا کیا “ } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3109،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) یہ روایت ترمذی کتاب التفسیر میں بھی ہے ۔ سنن ابن ماجہ میں بھی ہے ۔ امام ترمذی اسے حسن کہتے ہیں ۔ مجاہد رحمہ اللہ کا قول ہے کہ ” کسی چیز کو پیدا کرنے سے پہلے عرش الٰہی پانی پر تھا “ ۔ وہب ، ضمرہ ، قتادہ ، ابن جریر رحمہ اللہ علیہم وغیرہ بھی یہی کہتے ہیں ۔ قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں ” اللہ تعالیٰ بتاتا ہے کہ آسمان و زمین کی پیدائش سے پہلے ابتداء مخلوق کس طرح ہوئی “ ۔ ربیع بن انس کہتے ہیں کہ اس کا عرش پانی پر تھا ۔ جب آسمان و زمین کو پیدا کیا تو اس پانی کے دوحصے کر دیئے ۔ نصف عرش کے نیچے یہی بحر مسجود ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ” بوجہ بلندی کے عرش کو عرش کہا جاتا ہے “ ۔ سعد طائی فرماتے ہیں کہ ” عرش سرخ یاقوت کا ہے “ ۔ محمد بن اسحاق فرماتے ہیں اللہ اسی طرح تھا جس طرح اس نے اپنے نفس کریم کا وصف کیا ۔ اس لیے کہ کچھ نہ تھا ، پانی تھا ، اس پر عرش تھا ، عرش پر «ذُو الْجَلَالِ وَالْإِکْرَامِ ، وَالْعِزَّۃِ وَالسٰلْطَانِ ، وَالْمُلْکِ وَالْقُدْرَۃِ ، وَالْحِلْمِ وَالْعِلْمِ ، وَالرَّحْمَۃِ وَالنِّعْمَۃِ ، الْفَعَّالُ لِمَا یُرِیدُ» تھا جو جو چاہے کر گزرنے والا ہے “ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس آیت کے بارے میں سوال ہوا کہ ” پانی کس چیز پر تھا ؟ “ آپ نے فرمایا ” ہوا کی پیٹھ پر “ ۔ پھر فرماتا ہے ، ’ آسمان و زمین کی پیدائش تمہارے نفع کے لیے ہے اور تم اس لیے ہو کہ اسی ایک خالق کی عبادت کرو ، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو ۔ یاد رکھو تم بے کار پیدا نہیں کئے گئے ۔ آسمان و زمین اور ان کے درمیان چیزیں باطل پیدا نہیں کیں یہ گمان تو کافروں کا ہے اور کافروں کے لیے آگ کا عذاب ‘ ۔ اور آیت میں ہے «اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰکُمْ عَبَثًا وَّاَنَّکُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ فَتَعَالَی اللہُ الْمَلِکُ الْحَقٰ لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ رَبٰ الْعَرْشِ الْکَرِیمِ» ۱؎ (23-المؤمنون:116 ، 115) ’ کیا تم یہ سمجھ بیٹھے ہو کہ ہم نے تمہیں عبث پیدا کیا ہے اور تم ہماری طرف لوٹائے نہ جاؤ گے ؟ اللہ جو سچا مالک ہے وہی حق ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ عرش کریم کا رب ہے ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِیَعْبُدُونِ» ۱؎ (51-الذاریات:56) ’ انسانوں اور جنوں کو میں نے صرف اپنی عبادت کے لیے ہی پیدا کیا ہے وہ تمہیں آزما رہے ہیں کہ تم میں سے اچھے عمل والے کون ہیں ؟ ‘ یہ نہیں فرمایا کہ زیادہ عمل والے کون ہیں ؟ اس لیے کہ عمل حسن وہ ہوتا ہے جس میں خلوص ہو اور شریعت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری ہو ۔ ان دونوں باتوں میں سے اگر ایک بھی نہ ہو تو وہ عمل بے کار اور غارت ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ اے نبی ! اگر آپ انہیں کہیں کہ تم مرنے کے بعد زندہ کئے جاؤ گے جس اللہ نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا ہے وہ دوبارہ بھی پیدا کرے گا تو صاف کہہ دیں گے کہ ہم اسے نہیں مانتے حالانکہ قائل بھی ہیں کہ زمین آسمان کا پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے ‘ ۔ ظاہر ہے کہ شروع جس پر گراں نہ گزرا ۔ اس پر دوبارہ کی پیدائش کیسے گراں گزرے گی ؟ یہ توبہ نسبت اول مرتبہ کے بہت ہی آسان ہے ۔ فرمان الٰہی ہے «وَہُوَ الَّذِیْ یَبْدَؤُا الْخَــلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہٗ وَہُوَ اَہْوَنُ عَلَیْہِ وَلَہُ الْمَثَلُ الْاَعْلٰی فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ» ۱؎ (30-الروم:27) ’ اسی نے پہلی پیدائش شروع میں کی وہی دوبارہ پیدائش کرے گا اور یہ تو اس پر نہایت ہی آسان ہے ‘ ۔ اور آیت میں ہے کہ «مَا خَلْقُکُمْ وَلَا بَعْثُکُمْ إِلَّا کَنَفْسٍ وَاحِدَۃٍ» ۱؎ (31-لقمان:28) ’ تم سب کا بنانا اور مار کر زندہ کرنا مجھ پر ایسا ہی ہے جیسا ایک کا ‘ ۔ لیکن یہ لوگ اسے نہیں مانتے تھے اور اسے کھلے جادو سے تعبیر کرتے تھے ۔ کفر و عناد سے اس قول کو جادو کا اثر خیال کرتے ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ اگر ہم عذاب و پکڑ کو ان سے کچھ مقرر مدت تک کے لیے مؤخر کر دیں تو یہ اس کو نہ آنے والا جان کر جلدی کا مطالبہ کرنے لگتے ہیں کہ عذاب ہم سے مؤخر کیوں ہو گئے ؟ ان کے دل میں کفر و شرک اس طرح بیٹھ گیا ہے کہ اس سے چھٹکارا ہی نہیں ملتا ‘ ۔ امت کا لفظ قرآن و حدیث میں کئی ایک معنی میں مستعمل ہے ۔ اس سے مراد مدت بھی ہے اس آیت اور «وَقَالَ الَّذِیْ نَجَا مِنْہُمَا وَادَّکَرَ بَعْدَ اُمَّۃٍ اَنَا اُنَبِّئُکُمْ بِتَاْوِیْـلِہٖ فَاَرْسِلُوْنِ» ۱؎ (12-یوسف:45) جو سورۃ یوسف میں ہے یہی معنی ہیں ۔ امام و مقتدی کے معنی میں بھی یہ لفظ آیا ہے ۔ جیسے ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں «اِنَّ اِبْرٰہِیْمَ کَانَ اُمَّۃً قَانِتًا لِّلّٰہِ حَنِیْفًا وَلَمْ یَکُ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ» رضی اللہ عنہ (16-النحل:120) آیا ہے ۔ ملت اور دین کے بارے میں بھی یہی لفظ آتا ہے جیسے «إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَی أُمَّۃٍ وَإِنَّا عَلَی آثَارِہِمْ مُقْتَدُونَ» ۱؎ (43-الزخرف:23) ہے جماعت کے معنی میں بھی آتا ہے «وَجَدَ عَلَیْہِ اُمَّۃً مِّنَ النَّاسِ یَسْقُوْنَ وَوَجَدَ مِنْ دُوْنِہِمُ امْرَاَتَیْنِ» ۱؎ (28-القص:23) والی آیت میں اور آیت «وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَاجْتَنِبُوا» (16-النحل:36) میں اور آیت «وَلِکُلِّ أُمَّۃٍ رَسُولٌ فَإِذَا جَاءَ رَسُولُہُمْ قُضِیَ بَیْنَہُمْ بِالْقِسْطِ وَہُمْ لَا یُظْلَمُونَ» ۱؎ (10-یونس:47) ان آیتوں میں امت سے مراد کافر مومن سب امتی ہیں ۔ جیسے مسلم کی حدیث ہے { اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس امت کا جو یہودی نصرانی میرا نام سنے اور مجھ پر ایمان نہ لائے وہ جہنمی ہے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:153) ہاں تابعدار امت وہ ہے جو رسولوں کو مانے ۔ جیسے «کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ للنَّاسِ» ۱؎ (3-آل عمران:110) والی آیت میں ۔ صحیح حدیث میں ہے { میں کہوں گا «أُمَّتِی أُمَّتِی» } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:7510) اسی طرح امت کا لفظ فرقے اور گروہ کے لیے بھی مستعمل ہوتا ہے جیسے «وَمِنْ قَوْمِ مُوْسٰٓی اُمَّۃٌ یَّہْدُوْنَ بالْحَقِّ وَبِہٖ یَعْدِلُوْنَ» ۱؎ (7-الأعراف:159) اور جیسے «مِنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ اُمَّۃٌ قَایِٕمَۃٌ یَّتْلُوْنَ اٰیٰتِ اللّٰہِ اٰنَاءَ الَّیْلِ وَھُمْ یَسْجُدُوْنَ» ۱؎ (3-آل عمران:113) میں ۔ ھود
8 ھود
9 انسان کا نفسیاتی تجزیہ سوائے کامل ایمان والوں کے عموماً لوگوں میں جو برائیاں ہیں ان کا بیان ہو رہا ہے کہ ’ راحت کے بعد کی سختی پر مایوس اور محض نا اُمید ہو جاتے ہیں اللہ سے بدگمانی کر کے آئندہ کے لیے بھلائی کو بھول بیٹھتے ہیں گویا کہ نہ کبھی اس سے پہلے کوئی آرام اٹھایا تھا نہ اس کے بعد کسی راحت کی توقع ہے ۔ یہی حال اس کے برخلاف بھی ہے اگر سختی کے بعد آسانی ہو گئی تو کہنے لگتے ہیں کہ بس اب برا وقت ٹل گیا ۔ اپنی راحت اپنی تن آسانیوں پر مست و بےفکر ہو جاتے ہیں ۔ دوسروں کا استہزاء کرنے لگتے ہیں ۔ اکڑ میں پڑ جاتے ہیں اور آئندہ کی سختی کو بالکل فراموش کر دیتے ہیں ۔ ہاں ایماندار اس بری خصلت سے محفوظ رہتے ہیں ، وہ دکھ درد میں صبر و استقامت سے کام لیتے ہیں راحت و آرام میں اللہ کی فرمان برداری کرتے ہیں ۔ یہ صبر پر مغفرت اور نیکی پر ثواب پاتے ہیں ‘ ۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے { اس کی قسم جس کے ہاتھ میری جان ہے کہ مومن کو کوئی سختی کوئی مصیبت کوئی دکھ ، کوئی غم ایسا نہیں پہنچتا جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کی خطائیں معاف نہ فرماتا ہو ، یہاں تک کہ کانٹا لگنے پر بھی } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6541) بخاری و مسلم کی ایک اور حدیث میں ہے { مومن کے لیے اللہ تعالیٰ کا ہر فیصلہ سراسر بہتر ہے ۔ یہ راحت پاکر شکر کرتا ہے اور بھلائی سمیٹتا ہے ۔ تکلیف اٹھا کر صبر کرتا ہے ، نیکی پاتا ہے اور ایسا حال مومن کے سوا اور کسی کا نہیں ہو } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2999) اسی کا بیان سورۃ والعصر میں ہے ، «وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِی خُسْرٍ إِلَّا الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ» ( 103-سورۃ العصر : 1-3 ) یعنی ’ عصر کے وقت کی قسم تمام انسان نقصان میں ہیں سوائے ان کے جو ایمان لائیں اور ساتھ ہی نیکیاں بھی کریں اور ایک دوسرے کو دین حق کی اور صبر کی ہدایت کرتے رہیں ‘ یہی بیان آیت «إِنَّ الْإِنْسَانَ خُلِقَ ہَلُوعًا إِذَا مَسَّہُ الشَّرٰ جَزُوعًا وَإِذَا مَسَّہُ الْخَیْرُ مَنُوعًا إِلَّا الْمُصَلِّینَ» ۱؎ (70-المعارج:19-22) میں ہے ۔ ھود
10 ھود
11 ھود
12 کافروں کی تنقید کی پراہ نہ کریں کافروں کی زبان پر جو آتا وہی طعنہ بازی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کرتے ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ اپنے سچے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو دلاسا اور تسلی دیتا ہے کہ ’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ اس سے کام میں سستی کریں ، نہ تنگ دل ہوں یہ تو ان کا شیوہ ہے ‘ ۔ اور آیت میں ہے کہ « وَقَالُوا مَالِ ہٰذَا الرَّسُولِ یَأْکُلُ الطَّعَامَ وَیَمْشِی فِی الْأَسْوَاقِ لَوْلَا أُنزِلَ إِلَیْہِ مَلَکٌ فَیَکُونَ مَعَہُ نَذِیرًا أَوْ یُلْقَیٰ إِلَیْہِ کَنزٌ أَوْ تَکُونُ لَہُ جَنَّۃٌ یَأْکُلُ مِنْہَا وَقَالَ الظَّالِمُونَ إِن تَتَّبِعُونَ إِلَّا رَجُلًا مَّسْحُورًا» ۱؎ (25-الفرقان:7،8) ’ کبھی وہ کہتے ہیں اگر یہ رسول ہے تو کھانے پینے کا محتاج کیوں ہے ؟ بازاوں میں کیوں آتا جاتا ہے ؟ اس کی ہم نوائی میں کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتر ؟ اسے کوئی خزانہ کیوں نہیں دیا گیا ؟ اس کے کھانے کو کوئی خاص باغ کیوں نہیں بنایا گیا ؟ مسلمانوں کو طعنہ دیتے ہیں کہ تم تو اس کے پیچھے چل رہے ہو ۔ جس پر جادو کر دیا گیا ہے ‘ ۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ «وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّکَ یَضِیقُ صَدْرُکَ بِمَا یَقُولُونَ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَکُن مِّنَ السَّاجِدِینَ وَاعْبُدْ رَبَّکَ حَتَّیٰ یَأْتِیَکَ الْیَقِینُ » ۱؎ (15-الحجر:97-99) ’ اے پیغمبر ! آپ ملول خاطر نہ ہوں ، آزردہ دل نہ ہوں ، اپنے کام سے نہ رکئے ، انہیں حق کی پکار سنانے میں کوتاہی نہ کیجئے ، دن رات اللہ کی طرف بلاتے رہیئے ۔ ہمیں معلوم ہے کہ ان کی تکلیف دہ باتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بری لگتی ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم توجہ بھی نہ کیجئے ۔ ایسا نہ ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مایوس ہو جائیں یا تنگ دل ہو کر بیٹھ جائیں کہ یہ آوازے کستے ، پھبتیاں اڑاتے ہیں ۔ اپنے سے پہلے کے رسولوں کو دیکھئیے سب جھٹلائے گئے ستائے گئے اور صابر و ثابت قدم رہے یہاں تک اللہ کی مدد آپہنچی ‘ ۔ پھر قرآن کا معجزہ بیان فرمایا کہ ’ اس جیسا قرآن لانا تو کہاں ؟ اس جیسی دس سورتیں بلکہ ایک سورت بھی ساری دنیا مل کر بنا کر نہیں لا سکتی اس لیے کہ یہ اللہ کا کلام ہے ‘ ۔ جیسی اس کی ذات مثال سے پاک ، ویسے ہی اس کی صفتیں بھی بے مثال ۔ اس کے کلام جیسا مخلوق کا کلام ہو یہ ناممکن ہے ۔ اللہ کی ذات اس سے بلند بالا پاک اور منفرد ہے معبود اور رب صرف وہی ہے ۔ جب تم سے یہی نہیں ہو سکتا اور اب تک نہیں ہو سکا تو یقین کر لو کہ تم اس کے بنانے سے عاجز ہو اور دراصل یہ اللہ کا کلام ہے اور اسی کی طرف سے نازل ہوا ہے ۔ اس کا علم ، اس کے حکم احکام اور اس کی روک ٹوک اسی کلام میں ہیں اور ساتھ ہی مان لو کہ معبود برحق صرف وہی ہے بس آؤ اسلام کے جھنڈے تلے کھڑے ہو جاؤ ۔ ھود
13 ھود
14 ھود
15 ریا ہر نیکی کے لیے زہر ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” ریاکاروں کی نیکیوں کا بدلہ سب کچھ اسی دنیا میں مل جاتا ہے ۔ ذرا سی بھی کمی نہیں ہوتی “ ۔ پس جو شخص دنیا میں دکھاوے کے لئے نماز پڑھے ، روزے رکھے یا تہجد گزاری کرے ، اس کا اجر اسے دنیا میں ہی مل جاتا ہے ۔ آخرت میں وہ خالی ہاتھ اور محض بےعمل اُٹھتا ہے ۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ وغیرہ کا بیان ہے ” یہ آیت یہود و نصاری کے حق میں اتری “ ، اور مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں ” ریاکاروں کے بارے میں اتری ہے “ ۔ الغرض کس کا جو قصد ہو اسی کے مطابق اس سے معاملہ ہوتا ہے دنیا طلبی کے لیے جو اعمال ہوں وہ آخرت میں کار آمد نہیں ہو سکتے ۔ مومن کی نیت اور مقصد چونکہ آخرت طلبی ہی ہوتا ہے اللہ اسے آخرت میں اس کے اعمال کا بہترین بدلہ عطا فرماتا ہے اور دنیا میں بھی اس کی نیکیاں کام آتی ہیں ۔ ایک مرفوع حدیث میں بھی یہی مضمون آیا ہے ۔ قرآن کریم کی آیات «مَّن کَانَ یُرِیدُ الْعَاجِلَۃَ عَجَّلْنَا لَہُ فِیہَا مَا نَشَاءُ لِمَن نٰرِیدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَہُ جَہَنَّمَ یَصْلَاہَا مَذْمُومًا مَّدْحُورًا وَمَنْ أَرَادَ الْآخِرَۃَ وَسَعَیٰ لَہَا سَعْیَہَا وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولٰئِکَ کَانَ سَعْیُہُم مَّشْکُورًا کُلًّا نٰمِدٰ ہٰؤُلَاءِ وَہٰؤُلَاءِ مِنْ عَطَاءِ رَبِّکَ وَمَا کَانَ عَطَاءُ رَبِّکَ مَحْظُورًا انظُرْ کَیْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَہُمْ عَلَیٰ بَعْضٍ وَلَلْآخِرَۃُ أَکْبَرُ دَرَجَاتٍ وَأَکْبَرُ تَفْضِیلًا» (17-الإسراء:18-21) میں بھی اسی کا تفصیلی بیان ہے کہ ’ دنیا طلب لوگوں میں سے جسے ہم جس قدر چاہیں دے دیتے ہیں ۔ پھر اس کا ٹھکانا جہنم ہوتا ہے جہاں وہ ذلیل و خوار ہو کر داخل ہوتا ہے ۔ ہاں جس کی طلب آخرت ہو اور بالکل اسی کے مطابق اس کا عمل بھی ہو اور وہ ایماندار بھی تو ایسے لوگوں کی کوشش کی قدر دانی کی جاتی ہے ۔ انہیں ہر ایک کو ہم تیرے رب کی عطا سے بڑھاتے رہتے ہیں تیرے پروردگار کا انعام کسی سے رکا ہوا نہیں ۔ تو خود دیکھ لے کہ کس طرح ہم نے ایک کو ایک پر فضیلت بخشی ہے ۔ آخرت کیا باعتبار درجوں کے اور کیا باعتبار فضیلت کے بہت ہی بڑی اور زبردست چیز ہے ‘ ۔ اور آیت میں ارشاد ہے «مَنْ کَانَ یُرِیْدُ حَرْثَ الْاٰخِرَۃِ نَزِدْ لَہٗ فِیْ حَرْثِہٖ وَمَنْ کَانَ یُرِیْدُ حَرْثَ الدٰنْیَا نُؤْتِہٖ مِنْہَا وَمَا لَہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنْ نَّصِیْبٍ» (42-الشوری:20) ’ جس کا ارادہ آخرت کی کھیتی کا ہو ہم خود اس میں اس کے لیے برکت عطا فرماتے ہیں اور جس کا ارادہ دنیا کی کھیتی کا ہو ہم گو اسے اس میں سے کچھ دے دیں لیکن آخرت میں وہ بے نصیب رہ جاتا ہے ‘ ۔ ھود
16 ھود
17 مومن کون ہیں؟ ان مومنوں کا وصف بیان ہو رہا ہے جو فطرت پر قائم ہیں جو اللہ کی وحدانیت کو دل سے مانتے ہیں ۔ جیسے حکم الٰہی ہے کہ «فَأَقِمْ وَجْہَکَ لِلدِّینِ حَنِیفًا فِطْرَتَ اللہِ الَّتِی فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْہَا لَا تَبْدِیلَ لِخَلْقِ اللہِ ذٰلِکَ الدِّینُ الْقَیِّمُ» (30-الروم:30) ’ اپنا منہ دین حنیف پر قائم کر دے اللہ کی فطرت جس پر اس نے انسانی فطرت پیدا کی ہے ‘ ۔ بخاری و مسلم میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا لیتے ہیں جیسے کہ جانوروں کے بچے صحیح سالم پیدا ہوتے ہیں پھر لوگ ان کے کان کاٹ ڈالتے ہیں } } ۔ (صحیح بخاری:1381) مسلم شریف کی حدیث قدسی میں ہے { میں نے اپنے تمام بندوں کو موحد پیدا کیا ہے لیکن پھر شیطان آ کر انہیں ان کے دین سے بہکا دیتا ہے اور میری حلال کردہ چیزیں ان پر حرام کر دیتا ہے اور انہیں کہتا ہے کہ میرے ساتھ انہیں شریک کریں جن کی کوئی دلیل میں نے نہیں اتاری } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2865) مسند اور سنن میں ہے کہ { ہر بچہ اسی ملت پر پیدا ہوتا ہے یہاں تک کہ اس کی زبان کھلے } ۔ ۱؎ (سلسلۃ احادیث صحیحہ البانی:402/1:صحیح) پس مومن فطرت رب پر ہی باقی رہا ہے ۔ پس ایک تو فطرت اس کی صحیح سالم ہوتی ہے پھر اس کے پاس اللہ کا شاہد آتا ہے یعنی اللہ کی شریعت پیغمبر کے ذریعے پہنچتی ہے جو شریعت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے ساتھ ختم ہوئی ۔ پس شاہد سے مراد جبرائیل علیہ السلام ہیں ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ { اللہ کی رسالت اولاً جبرائیل علیہ السلام لائے اور آپ کے واسطے سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم } ۔ ایک قول میں کہا گیا ہے کہ وہ علی رضی اللہ عنہ ہیں لیکن وہ قول ضعیف ہے ۔ اس کا کوئی قائل ثابت ہی نہیں ۔ حق بات پہلی ہی ہے ۔ پس مومن کی فطرت اللہ کی وحی سے مل جاتی ہے ۔ اجمالی طور پر اسے پہلے سے ہی یقین ہوتا ہے ، پھر شریعت کی تفصیلات کو مان لیتا ہے ۔ اس کی فطرت ایک ایک مسئلے کی تصدیق کرتی جاتی ہے ۔ پس فطرت سلیم ، اس کے ساتھ قرآن کی تعلیم ، جسے جبرائیل علیہ السلام نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو ۔ پھر اس سے پہلے کی ایک اور تائید بھی موجود ہے ، وہ کتاب موسیٰ علیہ السلام یعنی تورات جسے اللہ نے اس زمانے کی امت کے لیے پیشوائی کے قابل بنا کر بھیجی تھی اور جو اللہ کی طرف سے رحمت تھی اس پر جن کا پورا ایمان ہے وہ لامحالہ اس نبی علیہ السلام اور اس کتاب پر بھی ایمان لاتے ہیں کیونکہ اس کتاب نے اس کتاب پر ایمان لانے کی رہنمائی کی ہے ۔ پس یہ لوگ اس کتاب پر بھی ایمان لاتے ہیں ۔ پھر پورے قرآن کو یا اس کے کسی حصے کو نہ ماننے والوں کی سزا کا بیان فرمایا کہ ’ دنیا والوں میں سے جو گروہ جو فرقہ اسے نہ مانے خواہ یہودی ہو ، خواہ نصرانی کہیں کا ہو ، کوئی ہو ، کسی رنگت اور شکل و صورت کا ہو ، قرآن پہنچا اور نہ مانا وہ جہنمی ہے ‘ ۔ جیسے رب العالمین نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی اسی قرآن کریم میں فرمایا ہے ، «لِأُنذِرَکُم بِہِ وَمَن بَلَغَ» ۱؎ (6-الأنعام:19) کہ ’ میں اس سے تمہیں بھی آگاہ کر رہا ہوں اور انہیں بھی جنہیں یہ پہنچ جائے ‘ ۔ اور آیت میں ہے «قُلْ یَا أَیٰہَا النَّاسُ إِنِّی رَسُولُ اللہِ إِلَیْکُمْ جَمِیعًا» ۱؎ (7-الأعراف:158) ’ لوگوں میں اعلان کر دو کہ اے انسانو ! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں ‘ ۔ صحیح مسلم میں ہے { رسول اللہ «صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَسْلِیْماً» فرماتے ہیں ” اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اس امت میں سے جو بھی مجھے سن لے اور پھر مجھ پر ایمان نہ لائے وہ جہنمی ہے “ } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:153) سیدنا سعید بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” میں جو صحیح حدیث سنتا ہوں اس کی تصدیق کتاب اللہ میں ضرور پاتا ہوں ۔ مندرجہ بالا حدیث سن کر میں اس تلاش میں لگا کہ اس کی تصدیق قرآن کی کسی آیت سے ہوتی ہے تو مجھے یہ آیت ملی پس تمام دین والے اس سے مراد ہیں “ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:18087:صحیح) پھر جناب باری ارشاد فرماتا ہے کہ ’ اس قرآن کے اللہ کی طرف سے سراسر حق ہونے میں تجھے کوئی شک و شبہ نہ کرنا چاہیئے ‘ ۔ جیسے ارشاد ہے کہ «الم تَنزِیلُ الْکِتَابِ لَا رَیْبَ فِیہِ مِن رَّبِّ الْعَالَمِینَ» ’ اس کتاب کے رب العالمین کی طرف سے نازل شدہ ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ‘ ۱؎ (32-السجدۃ:1-2) اور جگہ ہے «الم ذٰلِکَ الْکِتَابُ لَا رَیْبَ ۛ فِیہِ» ۱؎ (2-البقرۃ:2-1) ’ اس کتاب میں کوئی شک نہیں ‘ ۔ پھر ارشاد ہے کہ ’ اکثر لوگ ایمان سے کورے ہوتے ہیں ‘ ، جیسے فرمان ہے «وَمَا أَکْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِینَ» ۱؎ (12-یوسف:103) یعنی ’ گو تیری چاہت ہو لیکن یقین کر لے کہ اکثر لوگ مومن نہیں ہونگے ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَاِنْ تُطِعْ اَکْثَرَ مَنْ فِی الْاَرْضِ یُضِلٰوْکَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ۭ اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنْ ہُمْ اِلَّا یَخْرُصُوْنَ» ۱؎ (6-الأنعام:116) ’ اگر تو دنیا والوں کی اکثریت کی پیروی کرے گا تو وہ تو تجھے راہ حق سے بھٹکا دیں گے ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَلَقَدْ صَدَّقَ عَلَیْہِمْ اِبْلِیْسُ ظَنَّہٗ فَاتَّبَعُوْہُ اِلَّا فَرِیْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ» (34-سبأ:20) یعنی ’ ان پر ابلیس نے اپنا گمان سچ کر دکھایا اور سوائے مومنوں کی ایک مختصر سی جماعت کے باقی سب اسی کے پیچھے لگ گئے ‘ ۔ ھود
18 اللہ جل شانہ پہ بہتان باندھنے والے جو لوگ اللہ کے ذمے بہتان باندھ لیں ، ان کا انجام اور قیامت کے دن کی ساری مخلوق کے سامنے ان کی رسوائی کا بیان ہو رہا ہے ۔ مسند احمد میں صفوان بن محزر کہتے ہیں کہ { میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا ہاتھ تھامے ہوئے تھا کہ ایک شخص آپ کے پاس آیا پھر پوچھنے لگا کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قیامت کے دن کی سرگوشی کی بارے میں کیا سنا ہے ؟ آپ نے فرمایا میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ اللہ عزجل مومن کو اپنے سے قریب کرے گا یہاں تک کہ اپنا بازو اس پر رکھ دے گا اور اسے لوگوں کی نگاہوں سے چھپا لے گا اور اسے اس کے گناہوں کا اقرار کرائے گا کہ کیا تجھے اپنا فلاں گناہ یاد ہے ؟ اور فلاں بھی اور فلاں بھی ؟ یہ اقرار کرتا جائے گا یہاں تک کہ سمجھ لے گا کہ بس اب ہلاک ہوا ۔ اس وقت ارحم الراحمین فرمائے گا کہ ’ میرے بندے دنیا میں ان پر پردہ ڈالتا رہا سن آج بھی میں انہیں بخشتا ہوں ‘ ۔ پھر اس کی نیکیوں کا اعمال نامہ اسے دے دیا جائے گا ۔ اور کفار اور منافقین پر نو گواہ پیش ہوں گے جو کہیں گے کہ یہی وہ ہیں جو اللہ پر جھوٹ بولتے تھے یاد رہے کہ ان ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2441) یہ حدیث بخاری و مسلم میں بھی ہے ۔ یہ لوگ اتباع حق ، ہدایت اور جنت سے اوروں کو روکتے رہے اور اپنا طریقہ ٹیڑھا ترچھا ہی تلاش کرتے رہے ساتھ ہی قیامت اور آخرت کے دن کے بھی منکر ہی رہے اور اسے مانا ہی نہیں ۔ یاد رہے کہ یہ اللہ کے ماتحت ہیں وہ ان سے ہر وقت انتقام لینے پر قادر ہے ، اگر چاہے تو آخرت سے پہلے دنیا میں ہی پکڑ لے لیکن اس کی طرف سے تھوڑی سی ڈھیل انہیں مل گئی ہے ۔ اور آیت میں ہے «یُؤَخِّرُہُمْ لِیَوْمٍ تَشْخَصُ فِیہِ الْأَبْصَارُ» ۱؎ (14-ابراھیم:42) ’ وہ تو انہیں اس دن تک مہلت دیے ہوئے ہے جس دن آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی ‘ ۔ بخاری و مسلم میں ہے { اللہ تعالیٰ ظالموں کو مہلت دے دیتا ہے بالآخر جب پکڑتا ہے تب چھوڑتا ہی نہیں } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2583) ان کی سزائیں بڑھتی ہی چلی جائیں گی ۔ اس لیے کہ اللہ کی دی ہوئی قوتوں سے انہوں نے کام نہ لیا ۔ سننے سے کانوں کو بہرہ رکھا ۔ حق کی تابعداری سے آنکھوں کو اندھا رکھا جہنم میں جاتے وقت خود ہی کہیں گے کہ «وَقَالُوا لَوْ کُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا کُنَّا فِی أَصْحَابِ السَّعِیرِ» ۱؎ (67-الملک:10) یعنی ’ اگر سنتے ہوتے عقل رکھتے ہوتے تو آج دوزخی نہ بنتے ‘ ۔ یہی فرمان «الَّذِینَ کَفَرُوا وَصَدٰوا عَن سَبِیلِ اللہِ زِدْنَاہُمْ عَذَابًا فَوْقَ الْعَذَابِ بِمَا کَانُوا یُفْسِدُونَ» ۱؎ (16-النحل:88) میں ہے کہ ’ کافروں کے لیے اللہ کی راہ سے روکنے والوں کے لیے عذاب پر عذاب بڑھتا چلا جائے گا ۔ ہر ایک حکم عدولی پر ، ہر ایک برائی کے کام پر سزا بھگتیں گے ‘ ۔ پس صحیح قول یہی ہے کہ آخرت کی نسبت کے اعتبار سے کفار بھی فروع شرع کے مکلف ہیں ۔ یہی ہیں وہ جنہوں نے اپنے آپ کو نقصان پہنچایا اور خود اپنے تئیں جہنمی بنایا ۔ جہاں کا عذاب ذرا سی دیر بھی ہلکا نہیں ہوگا ۔ «مَا خَبَتْ زِدْنَاہُمْ سَعِیرًا» ۱؎ (17-الاسراء:97) ’ آگ کے شعلے کم ہونے تو کہاں اور تیز تیز ہوتے جائیں گے ‘ جنہیں انہوں نے گھڑ لیا تھا یعنی بت اور اللہ کے شریک وغیرہ آج وہ ان کے کسی کام نہ آئیں گے بلکہ نظر بھی نہ پڑیں گے بلکہ اور نقصان پہنچائیں گے ۔ وہ تو ان کے دشمن ہو جائیں گے اور ان کے شرک سے صاف مکر جائیں گے ۔ «وَاتَّخَذُوا مِن دُونِ اللہِ آلِہَۃً لِّیَکُونُوا لَہُمْ عِزًّا کَلَّا سَیَکْفُرُونَ بِعِبَادَتِہِمْ وَیَکُونُونَ عَلَیْہِمْ ضِدًّا» ۱؎ (19-مریم:81 ، 82) ’ گو یہ انہیں باعث عزت سمجھتے ہیں لیکن درحقیقت وہ ان کے لیے باعث ذلت ہیں ۔ کھلے طور پر اس بات کا قیامت کے دن انکار کر دیں گے کہ ان مشرکوں نے انہیں پوجا ۔ ‘ یہ ارشاد خلیل الرحمن علیہ السلام کا اپنی قوم سے تھا کہ «وَقَالَ إِنَّمَا اتَّخَذْتُم مِّن دُونِ اللہِ أَوْثَانًا مَّوَدَّۃَ بَیْنِکُمْ فِی الْحَیَاۃِ الدٰنْیَا ثُمَّ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ یَکْفُرُ بَعْضُکُم بِبَعْضٍ وَیَلْعَنُ بَعْضُکُم بَعْضًا وَمَأْوَاکُمُ النَّارُ وَمَا لَکُم مِّن نَّاصِرِینَ» ۱؎ (29-العنکبوت:25) ’ ان بتوں سے گو تم دنیوی تعلقات وابستہ رکھو لیکن قیامت کے دن ایک دوسرے کا انکار کر دیں گے اور ایک دوسرے پر لعنت کرنے لگیں گے ۔ اور تم سب کا ٹھکانا جہنم ہو گا اور کوئی کسی کو کوئی مدد نہ پہنچائے گا ‘ ۔ یہی مضمون آیت «اِذْ تَبَرَّاَ الَّذِیْنَ اتٰبِعُوْا مِنَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْا وَرَاَوُا الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِہِمُ الْاَسْـبَابُ» ۱؎ (2-البقرۃ:166) میں ہے یعنی ’ اس وقت پیشوا لوگ اپنے مریدوں سے دست بردار ہو جائیں گے عذاب الٰہی آنکھوں دیکھ لیں گے اور باہمی تعلقات سب منقطع ہو جائیں گے ‘ ۔ اسی قسم کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں وہ بھی ان کی ہلاکت اور نقصان کی خبر دیتی ہیں ۔ یقیناً یہی لوگ قیامت کے دن سب سے زیادہ نقصان اٹھائیں گے ۔ جنت کے درجوں کے بدلے انہوں نے جہنم کے گڑھے لیے ۔ اللہ کی نعمتوں کے بدلے جہنم کی آگ قبول کی ۔ میٹھے ٹھنڈے خوشگوار جنتی پانی کے بدلے جہنم کا آگ جیسا کھولتا ہوا گرم پانی انہیں حورعین کے بدلے لہو پیپ اور بلند و بالا محلات کے بدلے دوزخ کے تنگ مقامات انہوں نے لیے ، رب رحمن کی نزدیکی اور دیدار کے بدلے اس کا غضب اور سزا انہیں ملی ۔ بیشک یہاں یہ سخت گھاٹے میں رہے ۔ ھود
19 ھود
20 ھود
21 ھود
22 ھود
23 عقل و ہوش اور ایمان والے لوگ بروں کے ذکر کے بعد اچھے لوگوں کا بیان ہو رہا ہے جن کے دل ایمان والے ، جن کے جسمانی اعضاء فرماں برداری کرنے والے تھے ، قول و فعل سے فرمان رب بجا لانے والے اور رب کی نافرمانی سے بچنے والے تھے یہ لوگ جنت کے وارث ہوں گے ۔ بلند و بالا بالاخانے ، بچھے بچھائے تخت ، جھکے ہوئے خوشوں اور میوؤں کے درخت ابھرے ابھرے فرش ، خوبصورت بیویاں ، قسم قسم کے خوش ذائقہ پھل ، چاہت کے لذیذ کھانے پینے اور سب سے بڑھ کر دیدار الٰہی یہ نعمتیں ہوں گی جو ان کے لیے ہمیشگی کے لیے ہوں گی ۔ نہ انہیں موت آئے گی نہ بڑھاپا ، نہ بیماری ، نہ غفلت ، نہ رفع حاجت ہو گی ، نہ تھوک ، نہ ناک مشک ، نہ بو والا پسینہ آیا اور غذا ہضم ۔ پہلے بیان کردہ کافر شقی لوگ اور یہ مومن متقی لوگ بالکل وہی نسبت رکھتے ہیں جو اندھے بہرے اور بینا اور سنتے میں ہے ۔ اور آیت میں ہے کہ «وَلَوْ عَلِمَ اللہُ فِیہِمْ خَیْرًا لَّأَسْمَعَہُمْ وَلَوْ أَسْمَعَہُمْ لَتَوَلَّوا وَّہُم مٰعْرِضُونَ» ۱؎ (8-الأنفال:23) ’ کافر دنیا میں حق کو دیکھنے میں اندھے تھے اور آخرت کے دن بھی بھلائی کی راہ نہیں پائیں گے نہ اسے دیکھیں گے ‘ ۔ وہ حقانیت کی دلیلوں کی سننے سے بہرے تھے ، نفع دینے والی بات سنتے ہی نہ تھے ، اگر ان میں کوئی بھلائی ہوتی تو اللہ تعالیٰ انہیں ضرور سناتا ۔ اس کے برخلاف مومن سمجھ دار ، ذکی ، عاقل ، عالم ، دیکھتا ، بھالتا ، سوچتا ، سمجھتا حق و باطل میں تمیز کرتا ۔ بھلائی لے لیتا ، برائی چھوڑ دیتا ، دلیل اور شبہ میں فرق کر لیتا اور باطل سے بچتا ، حق کو مانتا ۔ بتلائیے یہ دونوں کیسے برابر ہو سکتے ہیں ؟ تعجب ہے کہ پھر بھی تم ایسے دو مختلف شخصوں میں فرق نہیں سمجھتے ۔ ارشاد ہے «لَا یَسْتَوِیْٓ اَصْحٰبُ النَّارِ وَاَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ ہُمُ الْفَایِٕزُوْنَ» ۱؎ (59-الحشر:20) ’ دوزخی اور جنتی ایک نہیں ہوتے جنتی تو بالکل کامیاب ہیں ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَمَا یَسْتَوِی الْأَعْمَیٰ وَالْبَصِیرُ وَلَا الظٰلُمَاتُ وَلَا النٰورُ وَلَا الظِّلٰ وَلَا الْحَرُورُ وَمَا یَسْتَوِی الْأَحْیَاءُ وَلَا الْأَمْوَاتُ إِنَّ اللہَ یُسْمِعُ مَن یَشَاءُ وَمَا أَنتَ بِمُسْمِعٍ مَّن فِی الْقُبُورِ إِنْ أَنتَ إِلَّا نَذِیرٌ إِنَّا أَرْسَلْنَاکَ بِالْحَقِّ بَشِیرًا وَنَذِیرًا وَإِن مِّنْ أُمَّۃٍ إِلَّا خَلَا فِیہَا نَذِیرٌ» ۱؎ (35-فاطر:19-24) ’ اندھا اور دیکھنے والا برابر نہیں ، اندھیرا اور اُجالا برابر نہیں ، سایہ اور دھوپ برابر نہیں ، زندہ اور مردہ برابر نہیں ۔ اللہ تو جسے چاہے سنا سکتا ہے تو قبر والوں کو سنا نہیں سکتا ۔ تو تو صرف آ گاہ کر دینے والا ہے ۔ ہم نے تجھے حق کے ساتھ خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے ، ہر ہر امت میں ڈرانے والا ہو چکا ہے ‘ ۔ ھود
24 ھود
25 آدم علیہ السلام کے بعد سب سے پہلا نبی؟ سب سے پہلے کافروں کی طرف رسول بنا کر بت پرستی سے روکنے کے لیے زمین پر نوح علیہ السلام ہی بھیجے گئے تھے ۔ آپ علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا کہ ” میں تمہیں اللہ کے عذاب سے ڈرانے آیا ہوں اگر تم غیر اللہ کی عبادت نہ چھوڑو گے تو عذاب میں پھنسو گے ۔ دیکھو تم صرف ایک اللہ ہی کی عبادت کرتے رہو ۔ اگر تم نے خلاف ورزی کی تو قیامت کے دن کے درد ناک سخت عذابوں میں مجھے تمہارے لینے کا خوف ہے “ ۔ اس پر قومی کافروں کے رؤسا اور امراء بول اُٹھے کہ آپ علیہ السلام کوئی فرشتہ تو ہیں نہیں ہم جیسے ہی انسان ہیں ۔ پھر کیسے ممکن ہے کہ ہم سب کو چھوڑ کر تم ایک ہی کے پاس وحی آئے ۔ اور ہم اپنی آنکھوں دیکھ رہے ہیں کہ ایسے رذیل لوگ آپ علیہ السلام کے حلقے میں شامل ہو گئے ہیں کوئی شریف اور رئیس آپ علیہ السلام کا فرماں بردار نہیں ہوا اور یہ لوگ بے سوچے سمجھے بغیر غور و فکر کے آپ علیہ السلام کی مجلس میں آن بیٹھے ہیں اور ہاں میں ہاں ملائے جاتے ہیں ۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ اس نئے دین نے تمہیں کوئی فائدہ بھی نہیں پہنچایا کہ تم خوش حال ہو گئے ہو تمہاری روزیاں بڑھ گئی ہوں یا خلق و خلق میں تمہیں کوئی برتری ہم پر حاصل ہو گئی ہو ۔ بلکہ ہمارے خیال سے تم سب سے جھوٹے ہو ۔ نیکی اور صلاحیت اور عبادت پر جو وعدے تم ہمیں آخرت ملک کے دے رہے ہو ہمارے نزدیک تو یہ سب بھی جھوٹی باتیں ہیں ۔ ان کفار کی بےعقلی تو دیکھئیے اگر حق کے قبول کرنے والے نچلے طبقہ کے لوگ ہوئے تو کیا اس سے حق کی شان گھٹ گئی ؟ حق حق ہی ہے خواہ اس کے ماننے والے بڑے لوگ ہوں خواہ چھوٹے لوگ ہوں ۔ بلکہ حق بات یہ ہے کہ حق کی پیروی کرنے والے ہی شریف لوگ ہیں ۔ چاہے وہ مسکین مفلس ہی ہوں اور حق سے روگردانی کرنے والے ہیں ذلیل اور رذیل ہیں گو وہ غنی مالدار اور امیر امراء ہوں ۔ ہاں یہ واقع ہے کہ سچائی کی آواز کو پہلے پہل غریب مسکین لوگ ہی قبول کرتے ہیں اور امیر کبیر لوگ ناک بھوں چڑھانے لگتے ہیں ۔ فرمان قرآن ہے کہ «وَکَذٰلِکَ مَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِکَ فِی قَرْیَۃٍ مِّن نَّذِیرٍ إِلَّا قَالَ مُتْرَفُوہَا إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَیٰ أُمَّۃٍ وَإِنَّا عَلَیٰ آثَارِہِم مٰقْتَدُونَ» ۱؎ (43-الزخرف:23) ’ تجھ سے پہلے جس جس بستی میں ہمارے انبیاء آئے وہاں کے بڑے لوگوں نے یہی کہا کہ ہم نے آپ باپ دادوں کو جس دین پر یایا ہے ہم تو انہیں کی خوشہ چینی کرتے رہیں گے ‘ ۔ شاہ روم ہرقل نے جو ابوسفیان سے پوچھا تھا کہ شریف لوگوں نے اس کی تابعداری کی ہے یا ضعیف لوگوں نے ؟ تو اس نے یہی جواب دیا تھا کہ ضعیفوں نے جس پر ہرقل نے کہا تھا کہ ” رسولوں کے تابعدار یہی لوگ ہوتے ہیں “ ۔ (صحیح بخاری:7) حق کی فوری قبولیت بھی کوئی عیب کی بات نہیں ، حق کی وضاحت کے بعد رائے فکر کی ضرورت ہی کیا ؟ بلکہ ہر عقلمند کا کام یہی ہے کہ حق کو ماننے میں سبقت اور جلدی کرے ۔ اس میں تامل کرنا جہالت اور کند ذہنی ہے ۔ اللہ کے تمام پیغمبر علیہم السلام بہت واضح اور صاف اور کھلی ہوئی دلیلیں لے کر آتے ہیں ۔ حدیث شریف میں ہے کہ { میں نے جسے بھی اسلام کی طرف بلایا اس میں کچھ نہ کچھ جھجک ضرور پائی سوائے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے کہ انہوں نے کوئی تردد و تامل نہ کیا واضح چیز کو دیکھتے ہی فوراً بے جھجک قبول کر لیا } ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:13383:) ان کا تیسرا اعتراض ہم کوئی برتری تم میں نہیں دیکھتے یہ بھی ان کے اندھے پن کی وجہ سے ہے اپنی ان کی آنکھیں اور کان نہ ہوں اور ایک موجود چیز کا انکار کریں تو فی الواقع اس کا نہ ہونا ثابت نہیں ہو سکتا ۔ یہ تو نہ حق کو دیکھیں نہ حق کو سنیں بلکہ اپنے شک میں غوطے لگاتے رہتے ہیں ۔ اپنی جہالت میں ڈبکیاں مارتے رہتے ہیں ۔ جھوٹے مفتری خالی ہاتھ رذیل اور نقصانوں والے ہیں ۔ ھود
26 ھود
27 ھود
28 بلااجرت خیر خواہ سے ناروا سلوک نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو جواب دیا کہ ” سچی نبوت یقین اور واضح چیز میرے پاس تو میرے رب کی طرف سے آ چکی ہے ۔ بہت بڑی رحمت و نعمت اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا فرمائی اور وہ تم سے پوشیدہ رہی تم اسے نہ دیکھ سکے نہ تم نے اس کی قدر دانی کی نہ اسے پہنچانا بلکہ بےسوچے سمجھے تم نے اسے دھکے دے دئیے اسے جھٹلانے لگ گئے اب بتاؤ کہ تمہاری اس ناپسندیدگی کی حالت میں میں کسیے یہ کر سکتا ہوں کہ تمہیں اس کا ماتحت بنا دوں ؟ “ ھود
29 دعوت حق سب کے لیے یکساں ہے آپ اپنی قوم سے فرماتے ہیں کہ ” میں جو کچھ نصیحت تمہیں کر رہا ہوں جنتی خیر خواہی تمہاری کرتا ہوں اس کی کوئی اجرت تو تم سے نہیں مانگتا ، میری اجرت تو اللہ کے ذمے ہے ۔ تم جو مجھ سے کہتے ہو کہ ان غریب مسکین ایمان والوں کو میں دھکے دے دوں مجھ سے تو یہ کبھی نہیں ہونے کا “ ۔ یہی طلب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کی گئی تھی جس کے جواب میں یہ آیت اتری «وَلَا تَطْرُدِ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ بالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْہَہٗ» ۱؎ (6-الأنعام:52) یعنی ’ صبح شام اپنے رب کے پکارنے والوں کو اپنی مجلس سے نہ نکال ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَکَذٰلِکَ فَتَنَّا بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ لِّیَقُوْلُوْٓا اَہٰٓؤُلَاءِ مَنَّ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِّنْ بَیْنِنَا اَلَیْسَ اللّٰہُ بِاَعْلَمَ بالشّٰکِرِیْنَ» ۱؎ (6-الأنعام:53) ’ اسی طرح ہم نے ایک کو دوسرے سے آزما لیا اور وہ کہنے لگے کہ کیا یہی وہ لوگ ہیں جن پر ہم سب کو چھوڑ کر اللہ کا فضل نازل ہوا ؟ کیا اللہ تعالیٰ شکر گزاروں کو نہیں جانتا ؟ ‘ ھود
30 ھود
31 میرا پیغام اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت ہے آپ علیہ السلام فرماتے ہیں ” میں صرف رسول اللہ ہوں ، اللہ «وَحدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ» کی عبادت اور توحید کی طرف اس کے فرمان کے مطابق تم سب کو بلاتا ہوں ۔ اس سے میری مراد تم سے مال سمیٹنا نہیں ۔ ہر بڑے چھوٹے کے لیے میری دعوت عام ہے جو قبول کرے گا نجات پائے گا ۔ اللہ کے خزانوں کے ہیر پھیر کی مجھ میں قدرت نہیں ۔ میں غیب نہیں جانتا ہاں جو بات اللہ مجھے معلوم کرا دے معلوم ہو جاتی ہے ۔ میں فرشتہ ہونے کا دعویدار نہیں ہوں ۔ بلکہ ایک انسان ہوں جس کی تائید اللہ کی طرف سے معجزوں سے ہو رہی ہے ۔ جنہیں تم رذیل اور ذلیل سمجھ رہے ہو ۔ میں تو اس کا قائل نہیں کہ انہیں اللہ کے ہاں ان کی نیکیوں کا بدلہ نہیں ملے گا ۔ ان کے باطن کا حال بھی مجھے معلوم نہیں اللہ ہی کو اس کا علم ہے ۔ اگر ظاہر کی طرح باطن میں بھی ایماندار ہیں تو انہیں اللہ کے ہاں ضرور نیکیاں ملیں گی جو ان کے انجام کی برائی کو کہے اس نے ظلم کیا اور جہالت کی بات کہی “ ۔ ھود
32 قوم نوح کی عجلت پسندی کی حماقت قوم نوح کی عجلت بیان ہو رہی ہے کہ ’ عذاب مانگ بیٹھے ۔ کہنے لگے بس حجتیں تو ہم نے بہت سی سن لیں ۔ آخری فیصلہ ہمارا یہ ہے کہ ہم تو تیری تابعداری نہیں کرنے کے اب اگر تو سچا ہے تو دعا کر کے ہم پر عذاب لے آؤ ‘ ۔ آپ علیہ السلام نے جواب دیا کہ ” یہ بھی میرے بس کی بات نہیں اللہ کے ہاتھ ہے ۔ اسے کوئی عاجز کرنے والا نہیں اگر اللہ کا ارادہ ہی تمہاری گمراہی اور بربادی کا ہے تو پھر واقعی میری نصیحت بے سود ہے ۔ سب کا مالک اللہ ہی ہے تمام کاموں کی تکمیل اسی کے ہاتھ ہے ۔ متصرف ، حاکم ، عادل ، غیر ظالم ، فیصلوں کے امر کا مالک ، ابتداء پیدا کرنے والا ، پھر لوٹانے والا ، دنیا و آخرت کا تنہا مالک وہی ہے ۔ ساری مخلوق کو اسی کی طرف لوٹنا ہے “ ۔ ھود
33 ھود
34 ھود
35 کفار کا الزام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا جواب یہ درمیانی کلام اس قصے کے بیچ میں اس کی تائید اور تقریر کے لئے ہے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ ’ یہ کفار تجھ پر اس قرآن کے از خود گھڑ لینے کا الزام لگا رہے ہیں تو جواب دے کہ اگر ایسا ہے تو میرا گناہ مجھ پر ہے میں جانتا ہوں کہ اللہ کے عذاب کیسے کچھ ہیں ؟ پھر کیسے ممکن ہے کہ میں اللہ پر جھوٹ افتراء گھڑ لوں ؟ ہاں اپنے گناہوں کے ذمے دار تم آپ ہو ‘ ۔ ھود
36 قوم نوح کا مانگا ہوا عذاب اسے ملا قوم نوح نے جب عذابوں کی مانگ جلدی مچائی تو آپ نے اللہ سے دعا کی «وَقَالَ نُوحٌ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْأَرْضِ مِنَ الْکَافِرِینَ دَیَّارًا» ۱؎ (71-نوح:26) ’ الٰہی زمین پر کسی کافر کو رہتا بستا نہ چھوڑ ‘ ۔ «فَدَعَا رَبَّہُ أَنِّی مَغْلُوبٌ فَانْتَصِرْ» ۱؎ (54-القمر:10) ’ پرودرگار میں عاجز آ گیا ہوں ، تو میری مدد کر ‘ ۔ اسی وقت وحی آئی کہ ’ جو ایمان لا چکے ہیں ان کے سوا اور کوئی اب ایمان نہ لائے گا تو ان پر افسوس نہ کر نہ ان کا کوئی ایسا خاص خیال کر ۔ ہمارے دیکھتے ہی ہماری تعلیم کے مطابق ایک کشتی تیار کر اور اب ظالموں کے بارے میں ہم سے کوئی بات چیت نہ کر ، ہم ان کا ڈبو دینا مقرر کر چکے ہیں ‘ ۔ بعض سلف کہتے ہیں حکم ہوا کہ لکڑیاں کاٹ کر سکھا کر تختے بنا لو ۔ اس میں ایک سو سال گزر گئے پھر مکمل تیاری میں سو سال اور نکل گئے ایک قول ہے چالیس سال لگے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ امام محمد بن اسحٰق رحمہ اللہ توراۃ سے نقل کرتے ہیں کہ ساگ کی لکڑی کی یہ کشتی تیار ہوئی اس کا طول اسی [ ۸۰ ] ہاتھ تھا اور عرض پچاس [ ۵۰ ] ہاتھ کا تھا ۔ اندر باہر سے روغن کیا گیا تھا پانی کاٹنے کے پر پرزے بھی تھے ۔ قتادہ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ لمبائی تین سو ہاتھ کی تھی ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے کہ ” طول بارہ سو ہاتھ کا تھا اور چوڑائی چھ سو ہاتھ کی تھی “ ۔ کہا گیا ہے کہ طول دوہزار ہاتھ اور چوڑائی ایک سو ہاتھ کی تھی ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» اس کی اندرونی اونچائی تیس ہاتھ کی تھی اس میں تین درجے تھے ہر درجہ دس ہاتھ اونچا تھا ۔ سب سے نیچے کے حصے میں چوپائے اور جنگلی جانور تھے ۔ درمیان کے حصے میں انسان تھے اور اوپر کے حصے میں پرندے تھے ۔ ان میں چھوٹا دروازہ تھا ، اوپر سے بالکل بند تھی ۔ ابن جریر رحمہ اللہ نے ایک غریب اثر سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ذکر کیا ہے کہ ” حواریوں نے عیسیٰ بن مریم سے درخواست کی کہ اگر آپ بحکم الٰہی کسی ایسے مردہ کو جلاتے جس نے کشتی نوح علیہ السلام دیکھی ہو تو ہمیں اسے معلومات ہوتیں آپ علیہ السلام انہیں لے کر ایک ٹیلے پر پہنچ کر وہاں کی مٹی اٹھائی اور فرمایا ” جانتے ہو یہ کون ہے ؟ “ انہوں نے کہا کہ ” اللہ اور اس کے رسول علیہ السلام کو ہی علم ہے “ ۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا ” یہ پنڈلی ہے حام بن نوح علیہ السلام کی “ ، پھر آپ علیہ السلام نے ایک لکڑی اس ٹیلے پر مار کر فرمایا ” اللہ کے حکم سے اٹھ کھڑا ہو “ ۔ اسی وقت ایک بوڑھا سا آدمی اپنے سر سے مٹی جھاڑتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا ۔ آپ علیہ السلام نے اس سے پوچھا ” کیا تو بڑھاپے میں مرا تھا ؟ “ اس نے کہا نہیں مرا تو تھا جوانی میں لیکن اب دل پر دہشت بیٹھی کہ قیامت قائم ہوگئی اس دہشت نے بوڑھا کر دیا ۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا ” اچھا نوح علیہ السلام کی کشتی کی بابت اپنی معلومات بیان کرو ۔ اس نے کہا وہ بارہ سو ہاتھ لمبی اور چھ سو ہاتھ چوڑی تھی تین درجوں کی تھی ۔ ایک میں جانور اور چوپائے تھے ، دوسرے میں انسان ، تیسرے میں پرند ، جب جانوروں کا گوبر پھیل گیا تو اللہ تعالیٰ نے نوح کی طرف وحی بھیجی کہ ہاتھی کی دم ہلاؤ ۔ آپ کے ہلاتے ہی اس سے خنزیر نر مادہ نکل آئے اور وہ میل کھانے لگے ۔ چوہوں نے جب اس کے تختے کترنے شروع کئے تو حکم ہوا کہ شیر کی پیشانی پر انگلی لگا ۔ اس سے بلی کا جوڑا نکلا اور چوہوں کی طرف لپکا ۔ عیسیٰ علیہ السلام نے سوال کیا کہ ” نوح علیہ السلام کو شہروں کے غرقاب ہونے کا علم کیسے ہوگیا ؟ “ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ ” انہوں نے کوے کو خبر لینے کے لیے بھیجا لیکن وہ ایک لاش پر بیٹھ گیا ، دیر تک وہ واپس نہ آیا تو آپ علیہ السلام نے اس کے لیے ہمیشہ ڈرتے رہنے کی بد دعا کی ۔ اسی لیے وہ گھروں سے مانوس نہیں ہوتا ۔ پھر آپ علیہ السلام نے کبوتر کو بھیجا وہ اپنی چونچ میں زیتون کے درخت کا پتہ لے کر آیا اور اپنے پنجوں میں خشک مٹی لایا اس سے معلوم ہو گیا کہ شہر ڈوب چکے ہیں ۔ آپ علیہ السلام نے اس کی گردن میں خصرہ کا طوق ڈال دیا اور اس کے لیے امن و انس کی دعا کی پس وہ گھروں میں رہتا سہتا ہے ۔ حواریوں نے کہا ” اے رسول علیہ السلام ! واللہ ! آپ انہیں ہمارے ہاں لے چلئے کہ ہم میں بیٹھ کر اور بھی باتیں ہمیں سنائیں ۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا ” یہ تمہارے ساتھ کیسے آسکتا ہے جب کہ اس کی روزی نہیں “ ۔ پھر فرمایا ” اللہ کے حکم سے جیسا تھا ویسا ہی ہو جا “ ، وہ اسی وقت مٹی ہو گیا ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:18151:ضعیف) نوح علیہ السلام تو کشتی بنانے میں لگے اور کافروں کو ایک مذاق ہاتھ لگ گیا وہ چلتے پھرتے انہیں چھیڑتے اور باتیں بناتے اور طعنہ دیتے کیونکہ انہیں جھوٹا جانتے تھے اور عذاب کے وعدے پر انہیں یقین نہ تھا ۔ اس کے جواب میں نوح علیہ السلام فرماتے ” اچھا دل خوش کر لو وقت آ رہا ہے کہ اس کا پورا بدلہ لے لیا جائے ۔ ابھی جان لو گے کہ کون اللہ کے عذاب سے دنیا میں رسوا ہوتا ہے اور کس پر اخروی عذاب آچمٹتا ہے جو کبھی ٹالے نہ ٹلے “ ۔ ھود
37 ھود
38 ھود
39 ھود
40 قوم نوح پر عذاب الٰہی کا نزول حسب فرمان ربی «فَفَتَحْنَا أَبْوَابَ السَّمَاءِ بِمَاءٍ مٰنْہَمِرٍ وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُیُونًا فَالْتَقَی الْمَاءُ عَلَیٰ أَمْرٍ قَدْ قُدِرَ وَحَمَلْنَاہُ عَلَیٰ ذَاتِ أَلْوَاحٍ وَدُسُرٍ تَجْرِی بِأَعْیُنِنَا جَزَاءً لِّمَن کَانَ کُفِرَ» ۱؎ (54-القمر:14-11) ’ آسمان سے موسلا دھار لگاتار بارش برسنے لگی اور زمین سے بھی پانی ابلنے لگا اور ساری زمین پانی سے بھر گئی اور جہاں تک منظور رب تھا پانی بھر گیا اور نوح علیہ السلام کو رب العالمین نے اپنی نگاہوں کے سامنے چلنے والی کشتی پر سوار کر دیا ۔ اور کافروں کو ان کے کیفر کردار کو پہنچا دیا ‘ ۔ تنور کے ابلنے سے بقول سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ یہ مطلب ہے کہ ” روئے زمین سے چشمے پھوٹ پڑے یہاں تک کہ آگ کی جگہ تنور میں سے بھی پانی ابل پڑا “ ۔ یہی قول جمہور سلف و خلف ہے کا ہے ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ” تنور صبح کا نکلنا اور فجر کا روشن ہونا ہے “ ، یعنی صبح کی روشنی اور فجر کی چمک لیکن زیادہ غالب پہلا قول ہے ۔ مجاہد اور شعبی رحمہ اللہ علیہما کہتے ہیں یہ تنور کوفے میں تھا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ” ہند میں ایک نہر ہے “ ۔ قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں ” جزیرہ میں ایک نہر ہے جسے «عین الوردہ» کہتے ہیں “ ۔ لیکن یہ سب اقوال غریب ہیں ۔ الغرض ان علامتوں کے ظاہر ہوتے ہی نوح علیہ السلام کو اللہ کا حکم ہوا کہ اپنے ساتھ کشتی میں جاندار مخلوق میں سے ہر قسم کا ایک ایک جوڑا نر مادہ سوار کر لو ۔ کہا گیا ہے کہ غیر جاندار کے لیے بھی یہی حکم تھا ۔ جیسا نباتات ۔ کہا گیا ہے کہ پرندوں میں سب سے پہلے درہ کشتی میں آیا اور سب سے آخر میں گدھا سوار ہونے لگا ۔ ابلیس اس کی دم میں لٹک گیا جب اس کے دو اگلے پاؤں کشتی میں آ گئے اس کا اپنا دھڑ اٹھانا چاہا تو نہ اٹھا سکا کیونکہ دم پر اس ملعون کا بوجھ تھا ۔ نوح علیہ السلام جلدی کر رہے تھے یہ بہتیرا چاہتا تھا مگر پچھلے پاؤں چڑھ نہیں سکتے تھے ۔ آخر آپ علیہ السلام نے فرمایا ” آج تیرے ساتھ ابلیس بھی ہو آیا “ تب وہ چڑھ گیا اور ابلیس بھی اس کے ساتھ ہی آیا ۔ بعض سلف کہتے ہیں کہ شیر کو اپنے ساتھ لے جانا مشکل ہو گیا ، آخر اسے بخار چڑھ آیا تب اسے سوار کر لیا ۔ ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ وعلیہ وسلم فرماتے ہیں کہ { نوح علیہ السلام نے جب تمام مویشی اپنی کشتی میں سوار کر لیے تو لوگوں نے کہا شیر کی موجودگی میں یہ مویشی کیسے آرام سے رہ سکیں گے ؟ پس اللہ تعالیٰ نے اسے بخار ڈال دیا ۔ اس سے پہلے زمین پر یہ بیماری نہ تھی ۔ پھر لوگوں نے چوہے کی شکایت کی یہ ہمارا کھانا اور دیگر چیزیں خراب کر رہے ہیں تو اللہ کے حکم سے شیر کی چھینک میں سے ایک بلی نکلی جس سے چوہے دبک کر کونے کھدرے میں بیٹھ رہے } } ۔۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:18154:مرسل) نوح علیہ السلام کو حکم ہوا کہ ’ اپنے گھر والوں کو بھی اپنے ساتھ کشتی میں بٹھالو مگر ان میں سے جو ایمان نہیں لائے انہیں ساتھ نہ لینا ‘ ۔ آپ علیہ السلام کا لڑکا حام بھی انہیں کافروں میں تھا وہ الگ ہو گیا ۔ یا آپ علیہ السلام کی بیوی کہ وہ بھی اللہ کے رسول علیہ السلام کی منکر تھی اور ’ اپنی قوم کے تمام مسلمانوں کو بھی اپنے ساتھ بٹھالے ‘ ، لیکن ان مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی ۔ ساڑھے نو سو سال کے قیام کی طویل مدت میں آپ علیہ السلام پر بہت ہم کم لوگ ایمان لائے تھے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ” کل اسی [ 80 ] آدمی تھے جن میں عورتیں بھی تھیں “ ۔ کعب رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” سب بہتر [ 72 ] اشخاص تھے “ ۔ ایک قول ہے ” صرف دس [ 10 ] آدمی تھے “ ۔ ایک قول ہے نوح علیہ السلام تھے اور ان کے تین لڑکے تھے سام ، حام ، یافث اور چار عورتیں تھیں ۔ تین تو ان تینوں کی بیویاں اور چوتھی حام کی بیوی اور کہا گیا ہے کہ خود نوح علیہ السلام کی بیوی “ ۔ لیکن اس میں نظر ہے ظاہر یہ ہے نوح علیہ السلام کی بیوی ہلاک ہونے والوں میں ہلاک ہوئی ۔ اس لیے کہ وہ اپنی قوم کے دین پر ہی تھی تو جس طرح لوط علیہ السلام کی بیوی قوم کے ساتھ ہلاک ہوئی اسی طرح یہ بھی ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ وَأَحْکَمُ» ھود
41 کشتی نوح پر کون کون سوار ہوا؟ نوح علیہ السلام جنہیں اپنے ساتھ لے جانا چاہتے تھے ان سے فرمایا کہ ” آؤ اس میں سوار ہو جاؤ اس کا پانی پر چلنا اللہ کے نام کی برکت سے ہے اور اسی طرح اس کا آخری ٹھہراؤ بھی اسی پاک نام سے ہے “ ۔ أبو رجاء العطاردی کی قرآت میں «بِسْمِ اللہِ مُجْرِیہَا وَمُرْسِیہَا» بھی ہے ۔ یہی اللہ کا آپ علیہ السلام کو حکم تھا کہ ’ جب تم اور تمہارے ساتھی ٹھیک طرح بیٹھ جاؤ تو کہنا «الْـحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ نَجّٰینَا مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ» ۱؎ (23-المؤمنون:28) اور یہ بھی دعا کرنا کہ «اَنْزِلْنِیْ مُنْزَلًا مٰبٰرَکًا وَّاَنْتَ خَیْرُ الْمُنْزِلِیْنَ» ‘ ۱؎ (23-المؤمنون:29) اس لیے مستحب ہے کہ تمام کاموں کے شروع میں «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» پڑھ لی جائے خواہ کشتی پر سوار ہونا ہو ، خواہ جانور پر سوار ہونا ہو ۔ جیسے فرمان باری ہے کہ «وَالَّذِی خَلَقَ الْأَزْوَاجَ کُلَّہَا وَجَعَلَ لَکُم مِّنَ الْفُلْکِ وَالْأَنْعَامِ مَا تَرْکَبُونَ لِتَسْتَوُوا عَلَیٰ ظُہُورِہِ ثُمَّ تَذْکُرُوا نِعْمَۃَ رَبِّکُمْ إِذَا اسْتَوَیْتُمْ عَلَیْہِ وَتَقُولُوا سُبْحَانَ الَّذِی سَخَّرَ لَنَا ہٰذَا وَمَا کُنَّا لَہُ مُقْرِنِینَ وَإِنَّا إِلَیٰ رَبِّنَا لَمُنقَلِبُونَ» ۱؎ (43-الزخرف:12-14) ’ اسی اللہ نے تمہارے لیے تمام جوڑے پیدا کئے ہیں اور کشتیاں اور چوپائے تمہاری سواری کے لیے پیدا کئے ہیں کہ تم ان کی پیٹھ پر سواری کرو ‘ ، الخ ۔ حدیث میں بھی اس کی تاکید اور رغبت آئی ہے ، سورۃ الزخرف میں اس کا پورا بیان ہو گا ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ طبرانی میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { میری امت کے لیے ڈوبنے سے بچاؤ ان کے اس قول میں ہے سوار ہوتے ہوئے کہہ لیں «بِسْمِ اللہِ الْمُلْکُ» ، «وَمَا قَدَرُوا اللہَ حَقَّ قَدْرِہِ وَالْأَرْضُ جَمِیعًا قَبْضَتُہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَالسَّماوَاتُ مَطْوِیَّاتٌ بِیَمِینِہِ سُبْحَانَہُ وَتَعَالَی عَمَّا یُشْرِکُونَ» (الزٰمَرِ : 67) «بِسْمِ اللہِ مَجْرَاہَا وَمُرْسَاہَا إِنَّ رَبِّی لَغَفُورٌ رَّحِیمٌ» ۱؎ (11-ھود:41) } } اس دعا کے آخر میں اللہ کا وصف غفور و رحیم اس لیے لائے کہ کافروں کی سزا کے مقابلے میں مومنون پر رحمت و شفقت کا اظہار ہو ۔ جیسے فرمان ہے «إِنَّ رَبَّکَ لَسَرِیعُ الْعِقَابِ وَإِنَّہُ لَغَفُورٌ رَحِیمٌ» ۱؎ (7-الأعراف:167) ’ تیرا رب جلد سزا کرنے والا اور ساتھ ہی غفور و رحیم بھی ہے ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَإِنَّ رَبَّکَ لَذُو مَغْفِرَۃٍ لِّلنَّاسِ عَلَیٰ ظُلْمِہِمْ وَإِنَّ رَبَّکَ لَشَدِیدُ الْعِقَابِ» ۱؎ (13-الرعد:6) یعنی ’ تیرا پروردگار لوگوں کے گناہوں کو بخشنے والا بھی ہے اور سخت سزا دینے والا بھی ہے ‘ ۔ اور آیت میں ہے «إِنَّ رَبَّکَ لَسَرِیعُ الْعِقَابِ وَإِنَّہُ لَغَفُورٌ رَّحِیمٌ» ۱؎ (7-الاعراف:167) ’ بیشک تمہارا پروردگار جلد عذاب کرنے والا ہے اور وہ بخشنے والا مہربان بھی ہے ‘ ، اور بھی بہت سی آیتیں ہیں جن میں رحمت و انتقام کا بیان ملا جلا ہے ۔ پانی روئے زمین پر پھر گیا ہے ، کسی اونچے سے اونچے پہاڑ کی بلندی سے بلند چوٹی بھی دکھائی نہیں دیتی بلکہ پہاڑوں سے اوپر پندرہ ہاتھ اور بقول اسی میل اوپر کو ہو گیا ہے باوجود اس کے کشتی نوح علیہ السلام بحکم الٰہی برابر صحیح طور پر جا رہی ہے ۔ خود اللہ اس کا محافظ ہے اور وہ خاص اس کی عنایت و مہر ہے ۔ جیسے فرمان ہے «إِنَّا لَمَّا طَغَی الْمَاءُ حَمَلْنَاکُمْ فِی الْجَارِیَۃِ لِنَجْعَلَہَا لَکُمْ تَذْکِرَۃً وَتَعِیَہَا أُذُنٌ وَاعِیَۃٌ» (69-الحاقۃ:11 ، 12) یعنی ’ پانی میں طغیانی کے وقت ہم نے آپ تمہیں کشتی میں چڑھا لیا کہ ہم اسے تمہارے لیے نصیحت بنائیں اور یاد رکھنے والے کان اسے یاد رکھ لیں ‘ ۔ اور آیت میں ہے کہ «وَحَمَلْنَاہُ عَلَیٰ ذَاتِ أَلْوَاحٍ وَدُسُرٍ تَجْرِی بِأَعْیُنِنَا جَزَاءً لِّمَن کَانَ کُفِرَ وَلَقَد تَّرَکْنَاہَا آیَۃً فَہَلْ مِن مٰدَّکِرٍ» ۱؎ (54-القمر:13-15) ’ ہم نے تمہیں اس تختوں والی کشتی پر سوار کرایا اور اپنی حفاظت میں پار اتارا اور کافروں کو ان کے کفر کا انجام دکھا دیا اور اسے ایک نشان بنا دیا کیا اب بھی کوئی ہے جو عبرت حاصل کرے ؟ ‘ اس وقت نوح علیہ السلام نے اپنے صاحبزادے کو بلایا یہ آپ علیہ السلام کے چوتھے لڑکے تھے اس کا نام حام تھا یہ کافر تھا اسے آپ علیہ السلام نے کشتی میں سوار ہونے کے وقت ایمان کی اور اپنے ساتھ بیٹھ جانے کی ہدایت کی تاکہ ڈوبنے سے اور کافروں کے عذاب سے بچ جائے ۔ مگر اس بد نیت نے جواب دیا کہ نہیں مجھے اس کی ضرورت نہیں میں پہاڑ پر چڑھ کر طوفان باراں سے بچ جاؤں گا ۔ ایک اسرائیلی روایت میں ہے کہ اس نے شیشے کی کشتی بنائی تھی «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ قرآن میں تو یہ ہے کہ ’ اس نے یہ سمجھا کہ یہ طوفان پہاڑوں کی چوٹیوں تک نہیں پہنچنے کا میں جب جا پہنچوں گا تو یہ پانی میرا کیا بگاڑے گا ؟ ‘ اس پر نوح علیہ السلام نے جواب دیا کہ ” آج عذاب الٰہی سے کہیں پناہ نہیں وہی بچے گا جس پر اللہ کا رحم ہو “ ۔ یہاں «عَاصِمَ» «مَعْصُومٍ» کے معنی میں ہے جیسے «طَاعِمٌ» «مَطْعُومٍ» کے معنی میں اور «وَکَاسٍ» «مَکْسُوٍ» کے معنی میں آیا ہے ۔ یہ باتیں ہو ہی رہی ہیں جو ایک موج آئی اور پسر نوح علیہ السلام کو لے ڈوبی ۔ ھود
42 ھود
43 ھود
44 طوفان نوح علیہ السلام کی روداد روئے زمین کے سب لوگ اس طوفان میں جو درحقیقت غضب الٰہی اور مظلوم پیغمبر علیہ السلام کی بد دعا کا عذاب تھا غرق ہوگئے ۔ اس وقت اللہ تعالیٰ عزوجل نے زمین کو اس پانی کے نگل لینے کا حکم دیا جو اس کا اگلا ہوا اور آسمان کا برسایا ہوا تھا ۔ ساتھ ہی آسمان کو بھی پانی برسانے سے رک جانے کا حکم ہو گیا ۔ پانی گھٹنے لگا اور کام پورا ہو گیا یعنی تمام کافر نابود ہوگئے ، صرف کشتی والے مومن ہی بچے ۔ کشتی بحکم ربی جودی پر رکی ۔ مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں ” یہ جزیرہ میں ایک پہاڑ ہے سب پہاڑ ڈبو دیئے گئے تھے اور یہ پہاڑ بوجہ اپنی عاجزی اور تواضع کے غرق ہونے سے بچ رہا تھا یہیں کشتی نوح علیہ السلام لنگر انداز ہوئی “ ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” مہینے بھر تک یہیں لگی رہی اور سب اتر گئے اور کشتی لوگوں کی عبرت کے لیے یہیں ثابت و سالم رکھی رہی یہاں تک کہ اس امت کے اول لوگوں نے بھی اسے دیکھ لیا ۔ حالانکہ اس کے بعد کی بہترین اور مضبوط سینکڑوں کشتیاں بنیں بگڑیں بلکہ راکھ اور خاک ہو گئیں “ ۔ ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں جودی نام کا پہاڑ موصل میں ہے “ ۔ بعض کہتے ہیں طور پہاڑ کو ہی جودی بھی کہتے ہیں ۔ زربن حبیش کو ابواب کندہ سے داخل ہو کر دائیں طرف کے زاویہ میں نماز بکثرت پڑھتے ہوئے دیکھ کر نوبہ بن سالم نے پوچھا کہ ” آپ جو جمعہ کے دن برابر یہاں اکثر نماز پڑھا کرتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے ؟ “ تو آپ نے جواب دیا کہ ” کشتی نوح علیہ السلام یہیں لگی تھی “ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ { ” نوح علیہ السلام کے ساتھ کشتی میں بال بچوں سمیت کل اسی [ 80 ] آدمی تھے ۔ ایک سو پچاس دن تک وہ سب کشتی میں ہی رہے ۔ اللہ تعالیٰ نے کشتی کا منہ مکہ شریف کی طرف کر دیا ۔ یہاں وہ چالیس دن تک بیت اللہ شریف کا طواف کرتی رہی ۔ پھر اسے اللہ تعالیٰ نے جودی کی طرف روانہ کر دیا ، وہاں وہ ٹھہر گئی ۔ نوح علیہ السلام نے کوے کو بھیجا کہ وہ خشکی کی خبر لائے ۔ وہ ایک مردار کے کھانے میں لگ گیا اور دیر لگا دی ۔ آپ علیہ السلام نے ایک کبوتر کو بھیجا وہ اپنی چونچ میں زیتوں کے درخت کا پتہ اور پنجوں میں مٹی لے کر واپس آیا ۔ اس سے نوح علیہ السلام نے سمجھ لیا کہ پانی سوکھ گیا ہے اور زمین ظاہر ہو گئی ہے ۔ پس آپ علیہ السلام جودی کے نیچے اترے اور وہیں ایک بستی کی بناء ڈال دی جسے «ثمانین» کہتے ہیں ۔ ایک دن صبح کو جب لوگ جاتے تو ہر ایک کی زبان بدلی ہوئی تھی ۔ ایسی زبانیں بولنے لگے جن میں سب سے اعلیٰ اور بہترین عربی زبان تھی ۔ ایک کو دوسرے کا کلام سمجھنا محال ہو گیا ۔ نوح علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے سب زبانیں معلوم کرا دیں ، آپ علیہ السلام ان سب کے درمیان مترجم تھے ۔ ایک کا مطلب دوسرے کو سمجھا دیتے تھے “ ۔ کعب احبار فرماتے ہیں کہ ” کشتی نوح علیہ السلام مشرق مغرب کے درمیان چل پھر رہی تھی پھر جودی پر ٹھہر گئی “ ۔ قتادہ رحمہ اللہ وغیرہ فرماتے ہیں ” رجب کی دسویں تاریخ مسلمان اس میں سوار ہوئے تھے پانچ ماہ تک اسی میں رہے انہیں لے کر کشتی جودی پر مہینے بھر تک ٹھہری رہی ۔ آخر محرم کے عاشورے کے دن وہ سب اس میں سے اترے “ ۔ اسی قسم کی ایک مرفوع حدیث بھی ابن جریر میں ہے ، انہوں نے اس دن روزہ بھی رکھا } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:18202:مرسل و ضعیف) «وَاللہُ اَعْلَمُ» مسند احمد میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ و علیہ وسلم نے چند یہودیوں کو عاشورہ کے دن روزہ رکھتے ہوئے دیکھ کر ان سے اس کا سبب دریافت فرمایا تو انہوں نے کہا اسی دن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو دریا سے پار اتارا تھا اور فرعون اور اس کی قوم کو ڈبو دیا تھا ۔ اور اسی دن کشتی نوح علیہ السلام جودی پر لگی تھی ۔ پس ان دونوں پیغمبروں علیہما السلام نے شکر الٰہی کا روزہ اس دن رکھا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا : ” پھر موسیٰ علیہ السلام کا سب سے زیادہ حقدار میں ہوں اور اس دن کے روزے کا میں زیادہ مستحق ہوں “ ۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن کا روزہ رکھا اور اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم سے فرمایا کہ تم میں سے جو آج روزے سے ہو وہ تو اپنا روزہ پورا کرے اور جو ناشتہ کر چکا ہو وہ بھی باقی دن کچھ نہ کھائے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:359/2:صحیح لغیرہ) یہ روایت اس سند سے تو غریب ہے لیکن اس کے بعض حصے کے شاہد صحیح حدیث میں بھی موجود ہیں ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ’ ظالموں کو خسارہ ، ہلاکت اور رحمت حق سے دوری ہوئی ‘ ۔ وہ سب ہلاک ہوئے ان میں سے ایک بھی باقی نہ بچا ۔ تفسیر ابن جریر اور تفسیر ابن ابی حاتم میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اگر اللہ تعالیٰ قوم نوح علیہ السلام میں سے کسی پر بھی رحم کرنے والا ہوتا تو اس بچے کی ماں پر رحم کرتا “ ۔ نوح علیہ السلام اپنی قوم میں ساڑھے نو سو سال تک ٹھہرے آپ علیہ السلام نے ایک درخت بویا تھا جو سو سال تک بڑھتا اور بڑا ہوتا رہا پھر اسے کاٹ کر تختے بنا کر کشتی بنانی شروع کی ۔ کافر لوگ مذاق اڑاتے کہ یہ اس خشکی میں کشتی کیسے چلائیں گے ؟ آپ علیہ السلام جواب دیتے تھے کہ ” عنقریب اپنی آنکھوں سے دیکھ لو گے “ ۔ جب آپ علیہ السلام بنا چکے اور پانی زمین سے ابلنے اور آسمان سے برسنے لگا اور گلیاں اور راستے پانی سے ڈوبنے لگے تو اس بچے کی ماں جسے اپنے اس بچے سے غایت درجے کی محبت کی تھی وہ اسے لے کر پہاڑ کی طرف چلی گئی اور جلدی جلدی اس پر چڑھنا شروع کیا ، تہائی حصے پر چڑھ گئی لیکن جب اس نے دیکھا کہ پانی وہاں بھی پہنچا تو اور اوپر کو چڑھی ۔ دو تہائی کو پہنچی جب پانی وہاں بھی پہنچا تو اس نے چوٹی پر جا کر دم لیا لیکن پانی وہاں بھی پہنچ گیا جب گردن گردن پانی چڑھ گیا تو اس نے اپنے بچے کو اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر اونچا اٹھا لیا لیکن پانی وہاں بھی پہنچا اور ماں بچہ دنوں غرق ہو گئے ۔ پس اگر اس دن کوئی کافر بھی بچنے والا ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس بچے کی ماں پر رحم کرتا ۔ } ۱؎ (سلسلۃ احادیث ضعیفہ البانی:5985:منکر) یہ حدیث اس سند سے غریب ہے کہ کعب احبار ، مجاہد اور ابن جبیر سے بھی اس بچے اور اس کی ماں کا یہی قصہ مروی ہے ۔ ھود
45 نوح علیہ السلام کی اپنے بیٹے کے لیے نجات کی دعا اور جواب یاد رہے کہ یہ دعا نوح علیہ السلام کی محض اس غرض سے تھی کہ آپ علیہ السلام کو صحیح طور پر اپنے ڈوبے ہوئے لڑکے کا حال معلوم ہو جائے ۔ کہتے ہیں کہ ” پروردگار یہ بھی ظاہر ہے کہ میرا لڑکا میرے اہل میں سے تھا ۔ اور میرے اہل کو بچانے کا تیرا وعدہ تھا اور یہ بھی ناممکن ہے کہ تیرا وعدہ غلط ہو ۔ پھر یہ میرا بچہ کفار کے ساتھ کیسے غرق کر دیا گیا ؟ “ جواب ملا کہ ’ تیری جس اہل کو نجات دینے کا میرا وعدہ تھا ان میں تیرا یہ بچہ داخل نہ تھا ، میرا یہ وعدہ ایمانداروں کی نجات کا تھا ۔ میں کہہ چکا تھا کہ «وَأَہْلَکَ إِلَّا مَن سَبَقَ عَلَیْہِ الْقَوْلُ» ۱؎ (11-ھود:40) یعنی ’ تیرے اہل کو بھی تو کشتی میں چڑھا لے مگر جس پر میری بات بڑھ چکی ہے ، وہ بوجہ اپنے کفر کے انہیں میں سے تھا جو میرے سابق علم میں کفر والے اور ڈوبنے والے مقرر ہو چکے تھے ‘ ‘ ۔ یہ بھی یاد رہے کہ جن بعض لوگوں نے کہا ہے یہ دراصل نوح علیہ السلام کا لڑکا تھا ہی نہیں کیونکہ آپ علیہ السلام کے بطن سے نہ تھا ۔ بلکہ بدکاری سے تھا اور بعض نے کہا ہے کہ یہ آپ علیہ السلام کی بیوی کا اگلے گھر کا لڑکا تھا ۔ یہ دونوں قول غلط ہیں بہت سے بزرگوں نے صاف لفظوں میں اسے غلط کہا ہے بلکہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور بہت سے سلف سے منقول ہے کہ کسی نبی علیہ السلام کی بیوی نے کبھی زناکاری نہیں کی ۔ پس یہاں اس فرمان سے کہ وہ تیرے اہل میں سے نہیں یہی مطلب ہے کہ ’ تیرے جس اہل کی نجات کا میرا وعدہ ہے یہ ان میں سے نہیں ‘ ۔ یہی بات سچ ہے اور یہی قول اصلی ہے ۔ اس کے سوا اور طرف جانا محض غلطی ہے اور ظاہر خطا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی غیرت اس بات کو قبول نہیں کر سکتی کہ اپنے کسی نبی علیہ السلام کے گھر میں زانیہ عورت دے ۔ خیال فرمائیے کہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی نسبت جنہوں نے بہتان بازی کی تھی ان پر اللہ تعالیٰ کس قدر غضبناک ہوا اس لڑکے کے اہل میں سے نکل جانے کی وجہ خود قرآن نے بیان فرما دی ہے کہ ’ اس کے عمل نیک نہ تھے ‘ ۔ عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ایک قرأت «إِنَّہُ عَمَلٌ غَیْرُ صَالِحٍ» ہے مسند کی حدیث میں ہے اسماء بنت یزید فرماتی ہیں { میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو «إِنَّہُ عَمِلَ غَیْرَ صَالِحٍ» پڑھتے سنا ہے اور آیت «یَاعِبَادِیَ الَّذِینَ أَسْرَفُوا عَلَی أَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَۃِ اللہِ إِنَّ اللہَ یَغْفِرُ الذٰنُوبَ جَمِیعًا» ۱؎ ۱؎ (39-الزمر:53) پڑھتے سنا ہے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:359/6:صحیح بالشواہد) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سوال ہوا کہ «فَخَانَتَاہُمَا» ۱؎ (66-التحریم:10) کا کیا مطلب ہے ؟ آپ نے فرمایا ” اس سے مراد زنا نہیں بلکہ نوح علیہ السلام کی بیوی کی خیانت تو یہ تھی کہ لوگوں سے کہتی تھی یہ مجنون ہے ۔ اور لوط علیہ السلام کی بیوی کی خیانت یہ تھی کہ جو مہمان آپ علیہ السلام کے ہاں آتے اپنی قوم کو خبر کر دیتی “ ۔ پھر آپ نے یہ آیت «إِنَّہُ عَمَلٌ غَیْرُ صَالِحٍ» پڑھی ۔ سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے جب نوح علیہ السلام کے لڑکے کے بارے میں سوال ہوا تو آپ رحمہ اللہ نے فرمایا ” اللہ سچا ہے اس نے اسے نوح علیہ السلام کا لڑکا فرما دیا ہے ۔ پس وہ یقیناً نوح علیہ السلام کا ثابت النسب لڑکا ہی تھا “ ۔ دیکھو اللہ فرماتا ہے کسی نبی کی بیوی نے کبھی زناکاری نہیں کی ، اور یہ بھی یاد رہے کہ بعض علماء کا قول ہے کہ کسی نبی کی بیوی نے کبھی زناکاری نہیں کی ایسا ہی مجاہدرحمہ اللہ سے مروی ہے ۔ اور یہی ابن جریررحمہ اللہ کا پسندیدہ ہے ۔ اور فی الواقع ٹھیک اور صحیح بات بھی یہی ہے ۔ ھود
46 ھود
47 ھود
48 طوفان نوح کا آخری منظر کشتی ٹھہری اور اللہ کا سلام آپ علیہ السلام پر اور آپ علیہ السلام کے تمام مومن ساتھیوں پر اور ان کی اولاد میں سے قیامت تک جو ایماندار آنے والے ہیں سب پر نازل ہوا ۔ ساتھ ہی کافروں کے دنیوی فائدے سے مستفید ہونے اور پھر عذاب میں گرفتار ہونے کا بھی اعلان ہوا ۔ پس یہ آیت قیامت تک کے مومنوں کی سلامتی اور برکت اور کافروں کی سزا پر مبنی ہے ۔ امام ابن اسحاق کا بیان ہے کہ ” جب جناب باری جل شانہ نے طوفان بند کرنے کا ارادہ فرما لیا تو روئے زمین پر ایک ہوا بھیج دی جس نے پانی کو ساکن کر دیا اور اس کا اُبلنا بند ہو گیا ساتھ ہی آسمان کے دروازے بھی جو اب تک پانی برسا رہے تھے بند کر دئیے گئے ۔ زمین کو پانی کے جذب کر لینے کا حکم ہو گیا اسی وقت پانی کم ہونا شروع ہو گیا اور بقول اہل توراۃ کے ساتویں مہینے کی سترہویں تاریخ کشتی نوح ” جودی “ پر لگی ۔ دسویں مہینے کی پہلی تاریخ کو پہاڑوں کی چوٹیاں کھل گئیں ۔ اس کے چالیس دن کے بعد کشتی کے روزن پانی کے اوپر دکھائی دینے لگے ۔ پھر آپ علیہ السلام نے کوے کو پانی کی تحقیق کے لیے بھیجا لیکن وہ پلٹ کر نہ آیا ، آپ علیہ السلام نے کبوتر کو بھیجا جو واپس آیا ۔ اپنے پاؤں رکھنے کو اسے جگہ نہ ملی ، آپ علیہ السلام نے اپنے ہاتھ پر لے کر اسے اندر لے لیا ، پھر ساتھ دن کے بعد اسے دوبارہ بھیجا ۔ شام کو وہ واپس آیا ، اپنی چونچ میں زیتون کا پتہ لیے ہوئے تھا اس سے اللہ کے نبی علیہ السلام نے معلوم کر لیا کہ پانی زمین سے کچھ ہی اونچا رہ گیا ہے ۔ پھر سات دن کے بعد بھیجا اب کی مرتبہ وہ نہ لوٹا تو آپ علیہ السلام نے سمجھ لیا کہ زمین بالکل خشک ہو چکی ہے ۔ الغرض پورے ایک سال کے بعد نوح علیہ السلام نے کشتی کا سرپوش اٹھایا اور آواز آئی کہ اے نوح ہماری نازل کردہ سلامتی کے ساتھ اب اتر آؤ الخ ۔ ھود
49 یہ تاریخ ماضی وحی کے ذریعے بیان کی گئی ہے ’ قصہ نوح اور اسی قسم کے گزشتہ واقعات وہ ہیں جو تیرے سامنے نہیں ہوئے لیکن بذریعہ وحی کے ہم تجھے ان کی خبر کر ہے ہیں اور تو لوگوں کے سامنے ان کی حقیقت اس طرح کھول رہا ہے کہ گویا ان کے ہونے کے وقت تو وہیں موجود تھا ۔ اس سے پہلے نہ تو تجھے ہی ان کی کوئی خبر تھی نہ تیری قوم میں سے کوئی اور ان کا علم رکھتا تھا ، کہ کسی کو بھی گمان ہو کہ شاید تو نے اس سے سیکھ لیے ہوں پاس صاف بات ہے کہ یہ اللہ کی وحی سے تجھے معلوم ہوئے اور ٹھیک اسی طرح جس طرح اگلی کتابوں میں موجود ہیں ۔ پس اب تجھے ان کے ستانے جھٹلانے پر صبر و برداشت کرنا چاہیئے ‘ ۔ «وَلَقَدْ سَبَقَتْ کَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِینَ إِنَّہُمْ لَہُمُ الْمَنصُورُونَ وَإِنَّ جُندَنَا لَہُمُ الْغَالِبُونَ» ۱؎ (37-الصافات:171-173) ’ ہم تیری مدد پر ہیں تجھے اور تیرے تابعداروں کو ان پر غلبہ دیں گے ، انجام کے لحاظ سے تم ہی غالب رہو گے ، یہی طریقہ اور پیغمبروں کا بھی رہا ‘ ۔ ھود
50 قوم ہود کی تاریخ اللہ تعالیٰ نے ہود علیہ السلام کو ان کی قوم کی طرف اپنا رسول علیہ السلام بنا کر بھیجا ، انہوں نے قوم کو اللہ کی توحید کی دعوت دی ، اور اس کے سوا اوروں کی پوجا پاٹ سے روکا ، اور بتلایا کہ جن کو تم پوجتے ہو ان کی پوجا خود تم نے گھڑ لی ہے ۔ بلکہ ان کے نام اور وجود تمہارے خیالی ڈھکوسلے ہیں ۔ ان سے کہا کہ میں اپنی نصیحت کا کوئی بدلہ اور معاوضہ تم سے نہیں چاہتا ۔ میرا ثواب میرا رب مجھے دے گا ۔ جس نے مجھے پیدا کیا ہے ۔ کیا تم یہ موٹی سی بات بھی عقل میں نہیں لاتے کہ یہ دنیا آخرت کی بھلائی کی تمہیں راہ دکھانے والا ہے اور تم سے کوئی اجرت طلب کرنے والا نہیں ۔ تم استغفار میں لگ جاؤ ، گذشہ گناہوں کی معافی اللہ تعالیٰ سے طلب کرو ۔ اور توبہ کرو ، آئندہ کے لیے گناہوں سے رک جاؤ ۔ یہ دونوں باتیں جس میں ہوں اللہ تعالیٰ اس کی روزی اس پر آسان کرتا ہے ۔ اس کا کام اس پر سہل کرتا ہے ۔ اس کی نشانی کی حفاظت کرتا ہے ۔ سنو ایسا کرنے سے«یُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَیْکُم مِّدْرَارًا» (71-نوح:11) تم پر بارشیں برابر عمدہ اور زیادہ برسیں گی اور تمہاری قوت وطاقت میں دن دونی رات چوگنی برکتیں ہوں گی ۔ حدیث شریف میں ہے { جو شخص استغفار کو لازم پکڑ لے اللہ تعالیٰ اسے ہر مشکل سے نجات دیتا ہے ، ہر تنگی سے کشادگی عطا فرماتا ہے اور روزی تو اسی جگہ سے پہنچاتا ہے جو خود اس کے خواب و خیال میں بھی نہ ہو ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:1508،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ھود
51 ھود
52 ھود
53 قوم ہود کے مطالبات قوم ہود نے اپنے نبی علیہ السلام کی نصیحت سن کر جواب دیا کہ آپ علیہ السلام جس چیز کی طرف ہمیں بلا رہے ہیں اس کی کوئی دلیل و حجت تو ہمارے پاس آپ علیہ السلام لائے نہیں ۔ اور یہ ہم کرنے سے رہے کہ آپ علیہ السلام کہیں اپنے معبودوں کو چھوڑ دو اور ہم چھوڑ ہی دیں ۔ نہ وہ آپ علیہ السلام کو سچا ماننے والے ہیں نہ آپ علیہ السلام پر ایمان لانے والے ۔ بلکہ ہمارا خیال تو یہ ہے کہ چونکہ تو ہمیں ہمارے ان معبودوں کی عبادت سے روک رہا ہے اور انہیں عیب لگاتا ہے ۔ اس لیے جھنجھلا کر ان میں سے کسی کی مار تجھ پر پڑی ہے تیری عقل چل گئی ہے ۔ یہ سن کر اللہ کے نبی کریم علیہ السلام نے فرمایا ” اگر یہی ہے تو سنو میں نہ صرف تمہیں ہی بلکہ اللہ کو بھی گواہ کر کے اعلان کرتا ہوں کہ میں اللہ کے سوا جس جس کی عبات ہو رہی ہے سب سے بری اور بیزار ہوں اب تم ہی نہیں بلکہ اپنے ساتھ اوروں کو بھی بلا لو اور اپنے ان سب جھوٹے معبودوں کو بھی ملا لو اور تم سے جو ہو سکے مجھے نقصان پہنچا دو ۔ مجھے کوئی مہلت نہ لینے دو “ ۔ ” نہ مجھ پر کوئی ترس کھاؤ ۔ جو نقصان تمہارے بس میں ہو مجھے پہنچانے میں کمی نہ کرو ۔ میرا توکل ذات رب پر ہے وہ میرا اور تمہارا سب کا مالک ہے ناممکن کہ اس کی منشاء بغیر میرا بگاڑ کوئی بھی کر سکے ۔ دنیا بھر کے جاندار اس کے قبضے میں اور اس کی ملکیت میں ہیں ۔ کوئی نہیں جو اس کے حکم سے باہر اس کی باشاہی سے الگ ہو ۔ وہ ظالم نہیں جو تمہارے منصوبے پورے ہونے دے وہ صحیح راستے پر ہے ۔ بندوں کی چوٹیاں اس کے ہاتھ میں ہیں ، مومن پر وہ اس سے بھی زیادہ مہربان ہے جو مہربانی ماں باپ کو اولاد پر ہوتی ہے وہ کریم ہے اس کے کرم کی کوئی حد نہیں ۔ اسی وجہ سے بعض لوگ بہک جاتے ہیں اور غافل ہو جاتے ہیں “ ۔ ہود علیہ السلام کے اس فرمان پر دوبارہ غور کیجئے کہ آپ علیہ السلام نے عادیوں کے لیے اپنے اس قول میں توحید ربانی کی بہت سے دلیلیں بیان کر دیں ۔ بتا دیا کہ جب اللہ کے سوا کوئی نفع نقصان نہیں پہنچا سکتا جب اس کے سوا کسی چیز پر کسی کا قبضہ نہیں تو پھر وہی ایک مستحق عبادت ٹھہرا ۔ اور جن کی عبادت تم اس کے سوا کر رہے ہو وہ سب باطل ٹھہرے ۔ اللہ ان سے پاک ہے ملک تصرف قبضہ اختیار اسی کا ہے سب اسی کی ماتحتی میں ہیں ۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ ھود
54 ھود
55 ھود
56 ھود
57 ہود علیہ السلام کا قوم کو جواب حضرت ہود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ” اپنا کام تو میں پورا کر چکا ، اللہ کی رسالت تمہیں پہنچا چکا ، اب اگر تم منہ موڑ لو اور نہ مانو تو تمہارا وبال تم پر ہی ہے نہ کہ مجھ پر ۔ اللہ کو قدرت ہے کہ وہ تمہاری جگہ انہیں دے جو اس کی توحید کو مانیں اور صرف اسی کی عبادت کریں ۔ اسے تمہاری کوئی پرواہ نہیں ، تمہارا کفر اسے کوئی نقصان نہیں دینے کا بلکہ اس کا وبال تم پر ہی ہے ۔ میرا رب بندوں پر شاہد ہے ۔ ان کے اقوال افعال اس کی نگاہ میں ہیں “ ۔ آخر ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آ گیا ۔ خیر و برکت سے خالی ، عذاب و سزا سے بھری ہوئی آندھیاں چلنے لگیں ۔ اس وقت ہود علیہ السلام اور آپ علیہ السلام کی جماعت مسلمین اللہ کے فضل و کرم اور اس کے لطف و رحم سے نجات پاگئے ۔ سزاؤں سے بچ گئے ، سخت عذاب ان پر سے ہٹا لیے گئے ۔ یہ تھے عادی جنہوں نے اللہ کے ساتھ کفر کیا ، اللہ کے پیغمبروں کی مان کر نہ دی ۔ یہ یاد رہے کہ ایک نبی علیہ السلام کا نافرمان کل نبیوں علیہم السلام کا نافرمان ہے ۔ یہ انہیں کی مانتے رہے جو ان میں ضدی اور سرکش تھے ۔ اللہ کی اور اس کے مومن بندوں کی لعنت ان پر برس پڑی ۔ اس دنیا میں بھی ان کا ذکر لعنت سے ہونے لگا اور قیامت کے دن بھی میدان محشر میں سب کے سامنے ان پر اللہ کی لعنت ہو گی ۔ اور پکار دیا جائے گا کہ عادی اللہ کے منکر ہیں ۔ سدی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ ” ان کے بعد جتنے نبی علیہم السلام سب ان پر لعنت ہی کرتے آئے ان کی زبانی اللہ کی لعنتیں بھی ان پر ہوتی رہیں “ ۔ ھود
58 ھود
59 ھود
60 ھود
61 صالح علیہ السلام اور ان کی قوم میں مکالمات صالح علیہ السلام ثمودیوں کی طرف اللہ کے رسول بنا کر بھیجے گئے تھے ۔ قوم کو آپ علیہ السلام نے اللہ کی عبادت کرنے کی اور اس کے سوا دوسروں کی عبادت سے باز آنے کی نصحیت کی ، بتلایا کہ ” انسان کی ابتدائی پیدائش اللہ تعالیٰ نے مٹی سے شروع کی ہے ۔ تم سب کے باپ بابا آدم علیہ السلام اسی مٹی سے پیدا ہوئے تھے ۔ اسی نے اپنے فضل سے تمہیں زمین پر بسایا ہے کہ تم اس میں گزران کر رہے ہو ۔ تمہیں اللہ سے استغفار کرنا چاہیئے “ ۔ «وَإِذَا سَأَلَکَ عِبَادِی عَنِّی فَإِنِّی قَرِیبٌ أُجِیبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ» (2-البقرۃ:186) ’ اور [ اے پیغمبر ] جب تم سے میرے بندے میرے بارے میں دریافت کریں تو [ کہہ دو کہ ] میں تو [ تمہارے ] پاس ہوں جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں ۔ اس کی طرف جھکے رہنا چاہیئے ۔ وہ بہت ہی قریب ہے اور قبول فرمانے والا ہے ‘ ۔ ھود
62 باپ دادا کے معبود ہی ہم کو پیارے ہیں صالح علیہ السلام اور آپ علیہ السلام کی قوم کے درمیان جو بات چیت ہوئی اس کا بیان ہو رہا ہے وہ کہتے ہیں کہ تو یہ بات زبان سے نکال ۔ اس سے پہلے تو ہماری بہت کچھ امیدیں تجھ سے وابستہ تھیں ، لیکن تو نے ان سے سب پر پانی پھیر دیا ۔ ہمیں پرانی روش اور باپ دادا کے طریقے اور پوجا پاٹ سے ہٹانے لگا ۔ ہمیں تو تیری اس نئی رہبری میں بہت بڑا شک شبہ ہے ۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا ” سنو میں اعلیٰ دلیل پر ہوں ۔ میرے پاس رب کی نشانی ہے ، مجھے اپنی سچائی پر دلی اطمینان ہے میرے پاس اللہ کی رسالت کی رحمت ہے ۔ اب اگر میں تمہیں اس کی دعوت نہ دوں اور اللہ کی نافرمانی کروں اور اس کی عبادت کی طرف تمہیں نہ بلاؤں تو کون ہے جو میری مدد کر سکے اور اللہ کے عذاب سے مجھے بچا سکے ؟ میرا ایمان ہے کہ مخلوق میرے کام نہیں آ سکتی تم میرے لیے محض بےسود ہو ۔ سوائے میرے نقصان کے تم مجھے اور کیا دے سکتے ہو “ ۔ ھود
63 ھود
64 . ان تمام آیتوں کی پوری تفسیر اور ثمودیوں کی ہلاکت کے اور اونٹنی کے مفصل واقعات سورۃ الأعراف ۱؎ (7-الأعراف:) میں بیان ہو چکے ہیں یہاں دوہرانے کی ضرورت نہیں ۔ ھود
65 ھود
66 ھود
67 ھود
68 ھود
69 ابراہیم علیہ السلام کی بشارت اولاد اور فرشتوں سے گفتگو ابراہیم علیہ السلام کے پاس دو فرشتے بطور مہمان بشکل انسان آتے ہیں جو قوم لوط کی ہلاکت کی خوشخبری اور ابراہیم علیہ السلام کے ہاں فرزند ہونے کی بشارت لے کر اللہ کی طرف سے آئے ہیں ۔ وہ آ کر سلام کرتے ہیں ۔ آپ علیہ السلام ان کے جواب میں سلام کہتے ہیں ۔ اس لفظ کو پیش سے کہنے میں علم بیان کے مطابق ثبوت و دوام پایا جاتا ہے ۔ سلام کے بعد ہی ابراہیم علیہ السلام ان کے سامنے مہمان داری پیش کرتے ہیں ۔ بچھڑے کا گوشت جسے گرم پتھروں پر سینک لیا گیا تھا ، لاتے ہیں ۔ جب دیکھا کہ ان نو وارد مہمانوں کے ہاتھ کھانے کی طرف بڑھتے ہی نہیں ، اس وقت ان سے کچھ بدگمان سے ہو گئے اور کچھ دل میں خوف کھانے لگے ۔ سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہلاکت قوم لوط کے لیے جو فرشتے بھیجے گئے وہ بصورت نوجوان انسان زمین پر آئے ۔ ابراہیم علیہ السلام کے گھر پر اترے آپ نے انہیں دیکھ کر بڑی تکریم کی ، «فَرَاغَ إِلَیٰ أَہْلِہِ فَجَاءَ بِعِجْلٍ سَمِینٍ فَقَرَّبَہُ إِلَیْہِمْ قَالَ أَلَا تَأْکُلُونَ» ۱؎ (51-الذاریات:26،27) ’ جلدی جلدی اپنا بچھڑا لے کر اس کو گرم پتھوں پر سینک کر لا حاضر کیا اور خود بھی ان کے ساتھ دستر خوان پر بیٹھ گئے ‘ ، آپ علیہ السلام کی بیوی صاحبہ سارہ کھلانے پلانے کے کام کاج میں لگ گئیں ۔ ظاہر ہے کہ فرشتے کھانا نہیں کھاتے ۔ وہ کھانے سے رکے اور کہنے لگے ابراہیم علیہ السلام ہم جب تلک کسی کھانے کی قیمت نہ دے دیں کھایا نہیں کرتے ۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا ہاں قیمت دے دیجئیے انہوں نے پوچھا کیا قیمت ہے ، آپ علیہ السلام نے فرمایا ” «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» پڑھ کر کھانا شروع کرنا اور کھانا کھا کر «اَلْحَمْدُ لِلہِ» کہنا یہی اس کی قیمت ہے “ ۔ اس وقت جبرائیل علیہ السلام نے میکائیل علیہ السلام کی طرف دیکھا اور دل میں کہا کہ ” فی الواقع یہ اس قابل ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنا خلیل بنائے “ ۔ اب بھی جو انہوں نے کھانا شروع نہ کیا تو آپ علیہ السلام کے دل میں طرح طرح کے خیالات گزرنے لگے ۔ سارہ رضی اللہ عنہا نے دیکھا کہ خود ابراہیم علیہ السلام ان کے اکرام میں یعنی ان کے کھانے کی خدمت میں ہیں ، تاہم وہ کھانا نہیں کھاتے تو ان مہمانوں کی عجیب حالت پر انہیں بے ساختہ ہنسی آگئی ۔ ابراہیم علیہ السلام کو خوف زدہ دیکھ کر فرشتوں نے کہا ” آپ علیہ السلام خوف نہ کیجئے “ ۔ اب دہشت دور کرنے کے لیے اصلی واقعہ کھول دیا کہ ” ہم کوئی انسان نہیں فرشتے ہیں ۔ قوم لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں کہ انہیں ہلاک کریں “ ۔ سارہ رضی اللہ عنہا کو قوم لوط کی ہلاکت کی خبر نے خوش کر دیا ۔ اسی وقت انہیں ایک دوسری خوشخبری بھی ملی کہ اس ناامیدی کی عمر میں تمہارے ہاں بچہ ہوگا ۔ انہیں عجب تھا کہ جس قوم پر اللہ کا عذاب اتر رہا ہے ، وہ پوری غفلت میں ہے ۔ الغرض فرشتوں نے آپ علیہ السلام کو اسحاق نامی بچہ پیدا ہونے کی بشارت دی ۔ اور پھر اسحاق علیہ السلام کے ہاں یعقوب علیہ السلام کے ہونے کی بھی ساتھ ہی خوشخبری سنائی ۔ اس آیت سے اس بات پر استدلال کیا گیا ہے کہ ذبیح اللہ اسماعیل علیہ السلام تھے ۔ کیونکہ اسحاق علیہ السلام کی تو بشارت دی گئی تھی اور ساتھ ہی ان کے ہاں بھی اولاد ہونے کی بشارت دی گئی تھی ۔ یہ سن کر سارہ علیہ السلام نے عورتوں کی عام عادت کے مطابق اس پر تعجب ظاہر کیا کہ میاں بیوی دونوں کے اس بڑھے ہوئے بڑھاپے میں اولاد کیسی ؟ یہ تو سخت حیرت کی بات ہے ۔ فرشتوں نے کہا ” امر اللہ میں کیا حیرت ؟ تم دونوں کو اس عمر میں ہی اللہ بیٹا دے گا گو تم سے آج تک کوئی اولاد نہیں ہوئی اور تمہارے میاں کی عمر بھی ڈھل چکی ہے ۔ لیکن اللہ کی قدرت میں کمی نہیں وہ جو چاہے ہو کر رہتا ہے ، اے نبی علیہ السلام کے گھر والو تم پر اللہ کی رحمتیں اور اس کی برکتیں ہیں ، تمہیں اس کی قدرت میں تعجب نہ کرنا چاہے ۔ اللہ تعالیٰ تعریفوں والا اور بزرگ ہے “ ۔ ھود
70 ھود
71 ھود
72 ھود
73 ھود
74 ابراہیم علیہ السلام کی بردباری اور سفارش مہمانوں کے کھانا نہ کھانے کی وجہ سے ابراہیم علیہ السلام کے دل میں جو دہشت سمائی تھی ، ان کا حل کھل جانے پر وہ دور ہو گئی ۔ پھر آپ علیہ السلام نے اپنے ہاں لڑکا ہونے کی خوشخبری بھی سن لی ۔ «وَلَمَّا جَاءَتْ رُسُلُنَا إِبْرَاہِیمَ بِالْبُشْرَیٰ قَالُوا إِنَّا مُہْلِکُو أَہْلِ ہٰذِہِ الْقَرْیَۃِ إِنَّ أَہْلَہَا کَانُوا ظَالِمِینَ» ۱؎ (29-العنکبوت:31) اور یہ بھی معلوم ہو گیا کہ یہ فرشتے قوم لوط کی ہلاکت کے لیے بھیجے گئے ہیں تو آپ علیہ السلام فرمانے لگے کہ اگر کسی بستی میں تین سو مومن ہوں کیا پھر بھی وہ بستی ہلاک کی جائے گی ؟ جبرائیل علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں نے جواب دیا کہ نہیں ۔ پھر پوچھا کہ اگر چالیس ہوں ؟ جواب ملا پھر بھی نہیں ۔ دریافت کیا اگر تیس ہوں ۔ کہا گیا پھر بھی نہیں ۔ یہاں تک کے تعداد گھٹاتے گھٹاتے پانچ کی بابت پوچھا تو فرشتوں نے یہی جواب دیا ۔ پھر ایک ہی کی نسبت سوال کیا اور یہی جواب ملا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا «قَالَ إِنَّ فِیہَا لُوطًا قَالُوا نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَن فِیہَا لَنُنَجِّیَنَّہُ وَأَہْلَہُ إِلَّا امْرَأَتَہُ کَانَتْ مِنَ الْغَابِرِینَ» ۱؎ (29-العنکبوت:32) ’ پھر اس بستی کو لوط علیہ السلام کی موجودگی میں تم کیسے ہلاک کرو گے ؟ فرشتوں نے کہا ہمیں وہاں لوط کی موجودگی کا علم ہے اسے اور اس کے اہل خانہ کو سوائے اس کی بیوی کے ہم بچالیں گے ‘ ۔ اب آپ علیہ السلام کو اطمینان ہو اور خاموش ہوگئے ۔ ابراہیم علیہ السلام بردبار ، نرم دل اور رجوع رہنے والے تھے اس آیت کی تفسیر پہلے سورۃ التوبہ میں گزر چکی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر علیہ السلام کی بہترین صفتیں بیان فرمائیں ہیں ۔ ابراہیم علیہ السلام کی اس گفتگو اور سفارش کے جواب میں فرمان باری ہوا کہ ’ اب آپ علیہ السلام اس سے چشم پوشی کیجئے ۔ قضاء حق نافذ و جاری ہوگئی اب عذاب آئے گا اور وہ لوٹایا نہ جائے گا ۔ ھود
75 ھود
76 ھود
77 لوط علیہ السلام کے گھر فرشتوں کا نزول ابراہیم علیہ السلام کو یہ فرشتے اپنا بھید بتا کر وہاں سے چل دیئے اور لوط علیہ السلام کے پاس ان کے زمین میں یا ان کے مکان میں پہنچے ۔ مرد خوبصورت لڑکوں کی شکل میں تھے تاکہ قوم لوط کی پوری آزمائش ہو جائے ، لوط علیہ السلام ان مہمانوں کو دیکھ کر قوم کی حالت سامنے رکھ کر سٹ پٹا گئے ، دل ہی دل میں پیچ و تاب کھانے لگے کہ اگر انہیں مہمان بناتا ہوں تو ممکن ہے خبر پاکر لوگ چڑھ دوڑیں اور اگر مہمان نہیں رکھتا تو یہ انہی کے ہاتھ پڑ جائیں گے ۔ زبان سے بھی نکل گیا کہ آج کا دن بڑا ہیبت ناک دن ہے ۔ قوم والے اپنی شرارت سے باز نہیں آئیں گے ۔ مجھ میں ان کے مقابلہ کی طاقت نہیں ۔ کیا ہوگا ؟ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” لوط علیہ السلام اپنی زمین پر تھے کہ یہ فرشتے بصورت انسان آئے اور ان کے مہمان بنے ۔ شرما شرمی انکار تو نہ سکے اور انہیں لے کر گھر چلے ، راستے میں صرف اس نیت سے کہ یہ اب بھی واپس چلے جائیں ان سے کہا کہ واللہ یہاں کے لوگوں سے زیادہ برے اور خبیث لوگ اور کہیں نہیں ہیں ۔ کچھ دور جا کر پھر یہی کہا غرض گھر پہچنے تک چار بار یہی کہا ۔ فرشتوں کو اللہ کا حکم بھی یہی تھا کہ ’ جب تک ان کا نبی ، ان کی برائی نہ بیان کرے انہیں ہلاک نہ کرنا ‘ “ ۔ سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” ابراہیم علیہ السلام کے پاس سے چل کر دوپہر کو یہ فرشتے نہر سدوم پہنچے وہاں لوط علیہ السلام کی صاحبزادی جو پانی لینے گئی تھیں ، مل گئیں ۔ ان سے انہوں نے پوچھا کہ یہاں ہم کہیں ٹھہر سکتے ہیں ۔ اس نے کہا آپ یہیں رکیئے میں واپس آ کر جواب دوں گی ۔ انہیں ڈر لگا کہ اگر قوم والوں کے ہاتھ یہ لگ گئے تو ان کی بڑی بےعزتی ہوگی ۔ یہاں آ کر والد صاحب سے ذکر کیا کہ شہر کے دروازے پر چند پردیسی نوعمر لوگ ہیں ، میں نے تو آج تک نہیں دیکھے ، جاؤ اور انہیں ٹھہراؤ ورنہ قوم والے انہیں ستائیں گے ۔ اس بستی کے لوگوں نے لوط علیہ السلام سے کہہ رکھا تھا کہ دیکھو کسی باہر والے کو تم اپنے ہاں ٹھہرایا نہ کرو ۔ ہم آپ سب کچھ کر لیا کریں گے ۔ آپ علیہ السلام نے جب یہ حالت سنی تو جا کر چپکے سے انہیں اپنے گھر لے آئے ۔ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی ۔ مگر آپ علیہ السلام کی بیوی جو قوم سے ملی ہوئی تھی ، اسی کے ذریعہ بات پھوٹ نکلی ۔ اب کیا تھا ۔ دوڑے بھاگے آ گئے ، جسے دیکھو خوشیاں مناتا جلدی جلدی لپکتا چلا آتا ہے ان کی تو یہ خو خصلت ہو گئی تھی اس سیاہ کاری کو تو گویا انہوں نے عادت بنا لیا تھا ۔ اس وقت اللہ کے نبی کریم علیہ السلام انہیں نصیحت کرنے لگے کہ ” تم اس بد خصلت کو چھوڑو اپنی خواہشیں عورتوں سے پوری کرو “ ۔ «بَنَاتِی» یعنی میری لڑکیاں ۔ اس لیے فرمایا کہ ’ ہر نبی اپنی امت کا گویا باپ ہوتا ہے ‘ ۔ قرآن کریم کی ایک اور آیت میں ہے کہ «قَالُوا أَوَلَمْ نَنْہَکَ عَنِ الْعَالَمِینَ» ۱؎ (15-الحجر:70) ’ اس وقت انہوں نے کہا تھا کہ ہم تو پہلے ہی آپ علیہ السلام کو منع کر چکے تھے کہ کسی کو اپنے ہاں نہ ٹھہرایا کرو ‘ ۔ لوط علیہ السلام نے انہیں سمجھایا اور دنیا آخرت کی بھلائی انہیں سجھائی اور کہا کہ «قَالَ ہٰؤُلَاءِ بَنَاتِی إِن کُنتُمْ فَاعِلِینَ لَعَمْرُکَ إِنَّہُمْ لَفِی سَکْرَتِہِمْ یَعْمَہُونَ» ۱؎ (15-الحجر:72-71) ’ عورتیں ہی اس بات کے لیے موزوں ہیں ، ان سے نکاح کر کے اپنی خواہش پوری کرنا ہی پاک کام ہے ‘ ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” یہ سمجھا جائے کہ آپ علیہ السلام نے اپنی لڑکیوں کی نسبت یہ فرمایا تھا نہیں بلکہ نبی علیہ السلام اپنی پوری امت کا گویا باپ ہوتا ہے “ ۔ قتادہ رحمہ اللہ وغیرہ سے بھی یہی مروی ہے ۔ امام ابن جریج فرماتے ہیں ” یہ بھی نہ سمجھنا چاہیئے کہ لوط علیہ السلام نے عورتوں سے بے نکاح ملاپ کرنے کو فرمایا ہو ۔ نہیں مطلب آپ کا ان سے نکاح کر لینے کے حکم کا تھا “ ۔ فرماتے ہیں اللہ سے ڈرو میرا کہا مانو ، عورتوں کی طرف رغبت کرو ، ان سے نکاح کر کے حاجت روائی کرو ۔ مردوں کی طرف اس رغبت سے نہ آؤ اور خصوصاً یہ تو میرے مہمان ہیں ، میری عزت کا خیال کرو کیا تم میں ایک بھی سمجھدار ، نیک راہ یافتہ بھلا آدمی نہیں ۔ اس کے جواب میں ان سرکشوں نے کہا کہ ہمیں عورتوں سے کوئی سروکار ہی نہیں یہاں بھی «بَنَاتِکَ» یعنی تیری لڑکیاں کے لفظ سے مراد قوم کی عورتیں ہیں ۔ اور تجھے معلوم ہے کہ ہمارا ارادہ کیا ہے یعنی ہمارا ارادہ ان لڑکوں سے ملنے کا ہے ۔ پھر جھگڑا اور نصیحت بے سود ہے ۔ ھود
78 ھود
79 ھود
80 لوط علیہ السلام کی قوم پر عذاب نازل ہوتا ہے لوط علیہ السلام نے جب دیکھا کہ میری نصیحت ان پر اثر نہیں کرتی تو انہیں دھمکایا کہ ” اگر مجھ میں قوت ، طاقت ہوتی یا میرا کنبہ ، قبیلہ زور دار ہوتا تو میں تمہیں تمہاری اس شرارت کا مزہ چکھا دیتا “ ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں فرمایا ہے کہ { اللہ کی رحمت ہو لوط علیہ السلام پر کہ وہ زور آور قوم کی پناہ لینا چاہتے تھے ۔ مراد اس سے ذات اللہ تعالیٰ عزوجل ہے ۔ آپ علیہ السلام کے بعد پھر جو پیغمبر بھیجا گیا وہ اپنے آبائی وطن میں ہی بھیجا گیا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3372) ان کی اس افسردگی ، کامل ملال اور سخت تنگ دلی کے وقت فرشتوں نے آپ علیہ السلام کو ظاہر کر دیا کہ ہم اللہ کے بھیجے ہوئے ہیں یہ لوگ ہم تک یا آپ علیہ السلام تک پہنچ ہی نہیں سکتے ۔ آپ علیہ السلام رات کے آخری حصے میں اپنے اہل و عیال کو لے کر یہاں سے نکل جائیے خود ان سب کے پیچھے رہیے ۔ اور سیدھے اپنی راہ چلے جائیں قوم والوں کی آہ و بکا پر ان کے چیخنے چلانے پر تمہیں مڑ کر بھی نہ دیکھا چاہیئے ۔ پھر اس اثبات سے لوط کی بیوی کا استثنا کر لیا کہ وہ اس حکم کی پابندی نہ کر سکے گی ۔ وہ عذاب کے وقت قوم کی ہائے وائے سن کر مڑ کر دیکھے گی ۔ اس لیے کہ رحمانی قضاء میں اس کا بھی ان کے ساتھ ہلاک ہونا طے ہو چکا ہے ۔ ایک قرأت میں «إِلَّا امْرَأَتَکَ» ” ت “ کے پیش سے بھی ہے ۔ جن لوگوں کے نزدیک پیش اور زبر دونوں جائز ہیں ، ان کا بیان ہے کہ آپ علیہ السلام کی بیوی بھی یہاں سے نکلنے میں آپ علیہ السلام کے ساتھ تھی لیکن عذاب کے نازل ہونے پر قوم کا شور سن کر صبر نہ کر سکی اور مڑ کر ان کی طرف دیکھا اور زبان سے نکل گیا کہ ہائے میری قوم ۔ اسی وقت آسمان سے ایک پتھر اس پر بھی آیا اور وہ ڈھیر ہو گئی ۔ لوط علیہ السلام کی مزید تشفی کے لیے فرشتوں نے اس خبیث قوم کی ہلاکت کا وقت بھی بیان کر دیا کہ یہ صبح ہوتے ہی تباہ ہو جائے گی ۔ اور صبح اب بالکل قریب ہے ۔ یہ کور باطن آپ علیہ السلام کا گھر گھیرے ہوئے تھے اور ہر طرف سے لپکتے ہوئے آ پہنچے تھے ۔ آیت میں ہے «وَلَقَدْ رَاوَدُوہُ عَن ضَیْفِہِ فَطَمَسْنَا أَعْیُنَہُمْ فَذُوقُوا عَذَابِی وَنُذُرِ وَلَقَدْ صَبَّحَہُم بُکْرَۃً عَذَابٌ مٰسْتَقِرٌّ فَذُوقُوا عَذَابِی وَنُذُرِ» ۱؎ (54-القمر:37-39) یعنی ’ اور ان سے ان کے مہمانوں کو لے لینا چاہا تو ہم نے ان کی آنکھیں مٹا دیں سو [ اب ] میرے عذاب اور ڈرانے کے مزے چکھو ، اور ان پر صبح سویرے ہی اٹل عذاب آ نازل ہوا ، تو اب میرے عذاب اور ڈرانے کے مزے چکھو ‘ ۔ لوط علیہ السلام دروازے پر کھڑے ہوئے ان لوطیوں کو روک رہے تھے ، جب کسی طرح وہ نہ مانے اور جب لوط علیہ السلام آزردہ خاطر ہو کر تنگ آ گئے اس وقت جبرائیل علیہ السلام گھر میں سے نکلے اور ان کے منہ پر اپنا پر مارا جس سے ان کی آنکھیں اندھی ہو گئیں ۔ سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ خود ابراہیم علیہ السلام بھی ان لوگوں کے پاس آتے ، انہیں سمجھاتے کہ دیکھو اللہ کا عذاب نہ خریدو مگر انہوں نے خلیل الرحمن علیہ السلام کی بھی نہ مانی ۔ یہاں تک کہ عذاب کے آنے کا قدرتی وقت آ پہنچا ۔ فرشتے لوط علیہ السلام کے پاس آئے ۔ آپ علیہ السلام اس وقت اپنے کھیت میں کام کر رہے تھے انہوں نے کہا کہ آج کی رات ہم آپ علیہ السلام کے مہمان ہیں ۔ جبرائیل علیہ السلام کو فرمان رب ہو چکا تھا کہ جب تک لوط علیہ السلام تین مرتبہ ان کی بدچلنی کی شہادت نہ دے لیں ۔ ان پر عذاب نہ کیا جائے ۔ آپ علیہ السلام جب انہیں لے کر چلے تو چلنے کی خبر دی کہ یہاں کے لوگ بڑے بد ہیں یہ برائی ان میں گھسی ہوئی ہے ۔ کچھ دور اور جانے کے بعد دوبارہ کہا کہ کیا تمہیں اس بستی کے لوگوں کی برائی کی خبر نہیں ؟ میرے علم میں تو روئے زمین پر ان سے زیادہ برے لوگ نہیں ، آہ میں تمہیں کہاں لے جاؤں ؟ میری قوم تو تمام مخلوق سے بدتر ہے ۔ اس وقت جبرائیل علیہ السلام نے فرشتوں سے کہا دیکھو دو مرتبہ یہ کہہ چکے ۔ جب انہیں لے کر آپ علیہ السلام اپنے گھر کے دروازے پر پہنچے تو رنج افسوس سے رو دئیے اور کہنے لگے میری قوم تمام مخلوق سے بدتر ہے ۔ تمہیں کیا معلوم نہیں کہ یہ کس بدی میں مبتلا ہیں ؟ روئے زمین پر کوئی بستی اس بستی سے بری نہیں ۔ اس وقت جبرائیل علیہ السلام نے پھر فرشتوں سے فرمایا دیکھو تین مرتبہ یہ اپنی قوم کی بدچلنی کی شہادت دے چکے ہیں ۔ یاد رکھنا اب عذاب ثابت ہو چکا ہے ۔ گھر میں گئے اور یہاں سے آپ علیہ السلام کی بڑھیا بیوی اونچی جگہ پر چڑھ کر کپڑا ہلانے لگی جسے دیکھتے ہی بستی کے بدکار دوڑے پڑے ۔ پوچھا کیا بات ہے اس نے کہا لوط کے ہاں مہمان آئے ہیں میں نے تو ان سے زیادہ خوبصورت اور ان سے زیادہ خوشبو والے لوگ کبھی دیکھے ہی نہیں ۔ اب کیا تھا یہ خوشی خوشی مٹھیاں بند کئے دوڑتے بھاگتے لوط کے گھر گئے ۔ چاروں طرف سے آپ کے گھر کو گھیر لیا ۔ آپ نے انہیں قسمیں دیں ، پند و نصائح کئے ، فرمایا کہ ” عورتیں بہت ہیں “ ۔ لیکن وہ اپنی شرارت اور اپنے بد ارادے سے باز نہ آئے ۔ اس وقت جبرائیل علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے ان کے عذاب کی اجازت چاہی اللہ کی جانب سے اجازت مل گئی ۔ آپ اپنی اصلی صورت میں ظاہر ہو گئے ۔ آپ کے دو پر ہیں ۔ جن پر موتیوں کا جڑاؤ ہے ۔ آپ کے دانت صاف چمکتے ہوئے ہیں ۔ آپ کی پیشانی اونچی اور بڑی ہے ۔ مرجان کی طرح کے دانت ہیں لؤلؤ ہیں اور آپ کے پاؤں سبزی کی طرح ہیں ۔ لوط علیہ السلام سے آپ نے فرما دیا کہ ” ہم تو تیرے پروردگار کی طرف سے بھیجے ہوئے ہیں ، یہ لوگ تجھ تک پہنچ نہیں سکتے ۔ آپ اس دروازے سے نکل جایئے “ ۔ یہ کہہ کر ان کے منہ پر اپنا پر مارا جس سے وہ اندھے ہو گئے ۔ راستوں تک کو نہیں پہچان سکتے تھے ۔ لوط علیہ السلام اپنی اہل کے لے کر راتوں رات چل دیئے یہ اللہ کا حکم بھی تھا ۔ محمد بن کعب ، قتادہ ، سدی رحمہ اللہ علیہم وغیر کا یہی بیان ہے ۔ ھود
81 ھود
82 آج کے ایٹم بم اس وقت کے پتھروں کی بارش سورج کے نکلنے کے وقت اللہ کا عذاب ان پر آ گیا ۔ ان کی بستی سدوم نامی تہ و بالا ہو گئی ۔ «وَالْمُؤْتَفِکَۃَ أَہْوَیٰ فَغَشَّاہَا مَا غَشَّیٰ» ۱؎ (53-النجم:53-54) ’ عذاب نے اوپر تلے سے ڈھانک لیا ‘ ۔ آسمان سے پکی مٹی کے پتھر ان پر برسنے لگے ۔ جو سخت ، وزنی اور بہت بڑے بڑے تھے ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے { «سِجِّینٍ سِجِّیلٍ» دونوں ایک ہی ہیں } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4684) «مَّنضُودٍ» سے مراد پے در پے تہ بہ تہ ایک کے بعد ایک کے ہیں ۔ ان پتھروں پر قدرتی طور پر ان لوگوں کے نام لکھے ہوئے تھے ۔ جس کے نام کا پتھر تھا اسی پر گرتا تھا ۔ وہ مثل طوق کے تھے جو سرخی میں ڈوبے ہوئے تھے ۔ یہ ان شہریوں پر بھی برسے اور یہاں کے جو لوگ اور گاؤں گوٹھ میں تھے ان پر بھی وہیں گرے ۔ ان میں سے جو جہاں تھا وہیں پتھر سے ہلاک کیا گیا ۔ کوئی کھڑا ہوا ، کسی جگہ کسی سے باتیں کر رہا ہے وہیں پتھر آسمان سے آیا اور اسے ہلاک کر گیا ۔ غرض ان میں سے ایک بھی نہ بچا ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں جبرائیل علیہ السلام نے ان سب کو جمع کر کے ان کے مکانات اور مویشیوں سمیت اونچا اٹھا لیا یہاں تک کہ ان کے کتوں کے بھونکنے کی آوازیں آسمان کے فرشتوں نے سن لیں ۔ آپ علیہ السلام اپنے داہنے پر کے کنارے پر ان کی بستی کو اٹھائے ہوئے تھے ۔ پھر انہیں زمین پر الٹ دیا ۔ ایک کو دوسرے سے ٹکرا دیا اور سب ایک ساتھ غارت ہو گئے اکے دکے جو رہ گئے تھے ان کے بھیجے آسمانی پتھروں نے پھوڑ دئیے اور محض بے نام و نشان کر دیئے گئے ۔ مذکور ہے کہ ان کی چار بستیاں تھیں ۔ ہربستی میں ایک لاکھ آدمیوں کی آبادی تھی ۔ ایک روایت میں ہے تین بستیاں تھیں ۔ بڑی بستی کا نام سدوم تھا ۔ یہاں کبھی کبھی خلیل اللہ ابراہیم علیہ السلام بھی آ کر وعظ نصیحت فرما جایا کرتے تھے ۔ پھر فرماتا ہے ’ یہ چیزیں کچھ ان سے دور نہ تھیں ‘ ۔ سنن کی حدیث میں ہے { کسی اگر تم لواطت کرتا ہوا پاؤ تو اوپر والے نیچے والے دونوں کو قتل کر دو } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4462،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ھود
83 ھود
84 اہل مدین کی جانب شعیب علیہ السلام کی آمد عرب کا قبیلہ جو حجاز و شام کے درمیان معان کے قریب رہتا تھا ان کے شہروں کا نام اور خود ان کا نام بھی مدین تھا ۔ ان کی جانب اللہ تعالیٰ کے نبی شعیب علیہ السلام بھیجے گئے ۔ آپ علیہ السلام ان میں شریف النسب اور اعلی خاندان کے تھے اور انہیں میں سے تھے ۔ اسی لیے «أَخَاہُمْ شُعَیْبًا» کے لفظ سے بیان کیا یعنی ان کے بھائی ۔ آپ علیہ السلام نے بھی انبیاء علیہم السلام کی عادت اور سنت اور اللہ کے پہلے اور تاکیدی حکم کے مطابق اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ «وَحدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ» کی عبادت کرنے کا حکم دیا ، ساتھ ہی ناپ تول کی کمی سے روکا کہ کسی کا حق نہ مارو ، اور اللہ کا یہ احسان یاد لایا کہ اس نے تمہیں فارغ البال اور آسودہ حال کر رکھا ہے ۔ اور اپنا ڈر ظاہر کیا کہ اپنی مشرکانہ روش اور ظالمانہ حرکت سے اگر باز نہ آؤ گے تو تمہاری یہ اچھی حالت بد حالی سے بدل جائے گی ۔ ھود
85 ناپ تول میں انصاف کرو پہلے تو اپنی قوم کو ناپ تول کی کمی سے روکا ۔ اب لین دین کے دونوں وقت عدل و انصاف کے ساتھ پورے پورے ناپ تول کا حکم دیتے ہیں ۔ اور زمین میں فساد اور تباہ کاری کرنے کو منع کرتے ہیں ۔ ان میں رہزنی اور ڈاکے مارنے کی بد خصلت بھی تھی ۔ لوگوں کے حق مار کر نفع اٹھانے سے اللہ کا دیا ہوا نفع بہت بہتر ہے ۔ اللہ کی یہ وصیت تمہارے لیے خیریت لیے ہوئے ہے ۔ عذاب سے جیسے ہلاکت ہوتی ہے اس کے مقابلے میں رحمت سے برکت ہوتی ہے ۔ ٹھیک تول کر پورے ناپ کر حلال سے جو نفع ملے اسی میں برکت ہوتی ہے ۔ «قُل لَّا یَسْتَوِی الْخَبِیثُ وَالطَّیِّبُ وَلَوْ أَعْجَبَکَ کَثْرَۃُ الْخَبِیثِ» ۱؎ (5-المائدہ:100) ’ خبیث و طیب میں کیا مساوات ؟ دیکھو میں تمہیں ہر وقت دیکھ نہیں رہا ۔ تمہیں برائیوں کا ترک اور نیکیوں کا فعل اللہ ہی کے لیے کرنا چاہیئے نہ کہ دنیا دکھاوے کے لیے ‘ ۔ ھود
86 ھود
87 پرانے معبودوں سے دستبرداری سے انکار اعمش فرماتے ہیں صلواۃ سے مراد یہاں قرأت ہے ۔ وہ لوگ ازراہ مذاق کہتے ہیں کہ واہ آپ اچھے رہے کہ آپ کو آپ کی قرآت نے حکم دیا کہ ہم باپ دادوں کی روش کو چھوڑ کر اپنے پرانے معبودوں کی عبادت سے دست بردار ہو جائیں ۔ یہ اور بھی لطف ہے کہ ہم اپنے مال کے بھی مالک نہ رہیں کہ جس طرح جو چاہیں اس میں تصرف کریں کسی کو ناپ تول میں کم نہ دیں ۔ حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” واللہ واقعہ یہی ہے کہ شعیب علیہ السلام کی نماز کا حکم یہی تھا کہ آپ علیہ السلام انہیں غیر اللہ کی عبادت اور مخلوق کے حقوق کے غصب سے روکیں “ ۔ ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” ان کے اس قول کا مطلب کہ جو ہم چاہیں ، اپنے مالوں میں کریں یہ ہے کہ زکوٰۃ کیوں دیں ؟ نبی اللہ علیہ السلام کو ان کا حلیم و رشید کہنا ازراہ مذاق و حقارت تھا “ ۔ ھود
88 قوم کو تبلیغ آپ علیہ السلام اپنی قوم سے فرماتے ہیں کہ ” دیکھو میں اپنے رب کی طرف سے کسی دلیل و حجت اور بصیرت پر قائم ہوں اور اسی کی طرف تمہیں بلا رہا ہوں ۔ اس نے اپنی مہربانی سے مجھے بہترین روزی دے رکھی ہے ۔ یعنی نبوت یا رزق حلال یا دونوں ، میری روش تم یہ نہ پاؤ گے کہ تمہیں تو بھلی بات کا حکم کروں اور خود تم سے چھپ کر اس کے برعکس کروں ۔ میری مراد تو اپنی طاقت کے مطابق اصلاح کرنی ہے ۔ ہاں میرے ارادہ کی کامیابی اللہ کے ہاتھ ہے ۔ اسی پر میرا بھروسہ اور توکل ہے اور اسی کی جانب رجوع توجہ اور جھکنا ہے “ ۔ مسند امام احمد میں ہے { حکیم بن معاویہ اپنے باپ سے راویت کرتے ہیں کہ اس کے بھائی مالک نے کہا کہ ” اے معاویہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے پڑوسیوں کو گرفتار کر رکھا ہے ، تم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تمہاری بات چیت بھی ہو چکی ہے اور تمہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہچانتے بھی ہیں ۔ پس میں اس کے ساتھ چلا ۔ اس نے کہا کہ میرے پڑوسیوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم رہا کر دیجئیے وہ مسلمان ہو چکے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منہ پھر لیا ۔ وہ غضب ناک ہو کر اُٹھ کھڑا ہوا اور کہنے لگا واللہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا جواب دیا تو لوگ کہیں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں تو پڑوسیوں کے بارہ میں اور حکم دیتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود اس کے خلاف کرتے ہیں ۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { کیا لوگوں نے ایسی بات زبان سے نکالی ہے ؟ اگر میں ایسا کروں تو اس کا وبال مجھ پر ہی ہے ان پر تو نہیں ، جاؤ اس کے پڑوسیوں کو چھوڑ دو } ۔ ۱؎ (مسند احمد:447/4:حسن) اور روایت میں ہے کہ { اس کی قوم کے چند لوگ کسی شبہ میں گرفتار تھے ۔ اس پر قوم کا ایک آدمی خاص حاضر ہوا ۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ فرما رہے تھے ۔ اس نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی چیز سے اوروں کو روکتے ہیں اور خود اسے کرتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سمجھا نہیں ۔ اس لیے پوچھا کہ { لوگ کیا کہتے ہیں ؟ } بہز بن حکیم کے دادا کہتے ہیں میں نے بیچ میں بولنا شروع کر دیا کہ اچھا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کان میں یہ الفاظ نہ پڑیں کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے میری قوم کے لیے کوئی بد دعا نکل جائے کہ پھر انہیں فلاح نہ ملے ۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم برابر اسی کوشش میں رہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بات سمجھ لی اور فرمانے لگے { کیا انہوں نے ایسی بات زبان سے نکالی ؟ یا ان میں سے کوئی اس کا قائل ہے ؟ واللہ اگر میں ایسا کروں تو اس کا بوجھ بار میرے ذمے ہے ان پر کچھ نہیں ۔ اس کے پڑوسیوں کو چھوڑ دو } } ۔ (سنن ترمذی:1417:حسن) اسی قبیل سے وہ حدیث بھی ہے جسے امام احمد رحمہ اللہ لائے ہیں کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا { جب تم میری جانب سے کوئی ایسی حدیث سنو کہ تمہارے دل اس کا انکار کریں اور تمہارے بدن اور بال اس سے علیحدگی کریں یعنی متاثر نہ ہوں اور تم سمجھ لو کہ وہ تم سے بہت دور ہے تو میں اس سے اس سے بھی زیادہ دور ہوں } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:497/3:قال الشیخ الألبانی:صحیح) اس کی اسناد صحیح ہے ۔ مسروق رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ” ایک عورت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آئی اور کہنے لگی کیا آپ رضی اللہ عنہ بالوں میں جوڑ لگانے کو منع کرتے ہیں ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” ہاں “ ۔ اس نے کہا آپ رضی اللہ عنہ کے گھر کی بعض عورتیں تو ایسا کرتی ہیں ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” اگر ایسا ہو تو میں نے اللہ کے نیک بندے کی وصیت کی حفاظت نہیں کی ۔ میرا ارادہ نہیں کہ جس چیز سے تمہیں روکوں اس کے برعکس خود کروں “ ۔ ابو سلیمان ضبی کہتے ہیں کہ ” ہمارے پاس امیر المؤمنین عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے رسالے آتے تھے جن میں «الْأَمْرُ وَالنَّہْیُ» لکھے ہوئے ہوتے تھے اور آخر میں یہ لکھا ہوتا تھا کہ میں بھی اس میں ہی ہوں جو اللہ کے نیک بندے نے فرمایا کہ ’ میری توفیق اللہ ہی کے فضل سے ہے ۔ اسی پر میرا توکل ہے اور اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں ‘ ۔ ھود
89 میری عداوت میں اپنی بربادی مت مول لو فرماتے ہیں کہ ” میری عداوت اور بعض میں آ کر تم اپنے کفر اور اپنے گناہوں پر جم نہ جاؤ ورنہ تمہیں وہ عذاب پہنچے گا جو تم سے پہلے ایسے کاموں کا ارتکاب کرنے والوں کو پہنچا ہے ۔ خصوصاً قوم لوط علیہ السلام جو تم سے قریب زمانے میں ہی گزری ہے اور قریب جگہ میں ہے تم اپنے گذشتہ گناہوں کی معافی مانگو ۔ آئندہ کے لیے گناہوں سے توبہ کرو ۔ ایسا کرنے والوں پر میرا رب بہت ہی مہربان ہو جاتا ہے اور ان کو اپنا پیارا بنا لیتا ہے “ ۔ ابو لیلی کندی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ” میں اپنے مالک کا جانور تھامے کھڑا تھا ۔ لوگ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر کو گھیرے ہوئے تھے آپ رضی اللہ عنہ نے اوپر سے سر بلند کیا اور یہی آیت تلاوت فرمائی ، اور فرمایا ” میری قوم کے لوگو مجھے قتل نہ کرو ، تم اسی طرح تھے “ ۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسری میں ڈال کر دکھائیں ۔ ھود
90 ھود
91 قوم مدین کا جواب اور اللہ کا عتاب قوم مدین نے کہا کہ ” اے شعیب ! آپ کی اکثر باتیں ہماری سمجھ میں تو آتی نہیں ۔ اور خود آپ بھی ہم میں بے انتہا کمزور ہیں “ ۔ سعید رحمہ اللہ وغیرہ کا قول ہے کہ ” آپ علیہ السلام کی نگاہ کم تھی ۔ مگر آپ علیہ السلام بہت ہی صاف گو تھے ، یہاں تک کہ آپ علیہ السلام کو خطیب الانبیاء کا لقب حاصل تھا “ ۔ سدی رحمہ اللہ کہتے ہیں ” اس وجہ سے کمزور کہا گیا ہے کہ آپ علیہ السلام اکیلے تھے ۔ مراد اس سے آپ علیہ السلام کی حقارت تھی ۔ اس لیے کہ آپ علیہ السلام کے کنبے والے بھی آپ علیہ السلام کے دین پر نہ تھے “ ۔ کہتے ہیں کہ ” اگر تیری برادری کا لحاظ نہ ہوتا تو ہم تو پتھر مار مار کر تیرا قصہ ہی ختم کر دیتے ۔ یا یہ کہ تجھے دل کھول کر برا کہتے ۔ ہم میں تیری کوئی قدر و منزلت ، رفعت وعزت نہیں “ ۔ یہ سن کر آپ علیہ السلام نے فرمایا ” بھائیو ! تم مجھے میری قرابت داری کی وجہ سے چھوڑتے ہو ۔ اللہ کی وجہ سے نہیں چھوڑتے تو کیا تمہارے نزدیک قبیلے والے اللہ سے بھی بڑھ کر ہیں اللہ کے نبی کو برائی پہنچاتے ہوئے اللہ کا خوف نہیں کرتے افسوس تم نے کتاب اللہ کو پیٹھ پیچھے ڈال دیا ۔ اس کی کوئی عظمت و اطاعت تم میں نہ رہی ۔ خیر اللہ تعالیٰ تمہارے تمام حال احوال جانتا ہے وہ تمہیں پورا بدلہ دے گا “ ۔ ھود
92 ھود
93 مدین والوں پر عذاب الٰہی جب اللہ کے نبی علیہ السلام اپنی قوم کے ایمان لانے سے مایوس ہو گئے تو تھک کر فرمایا ” اچھا تم اپنے طریقے پر چلے جاؤ میں اپنے طریقے پر قائم ہوں ۔ تمہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ رسوا کرنے والے عذاب کن پر نازل ہوتے ہیں اور اللہ کے نزدیک جھوٹا کون ہے ؟ تم منتظر رہو میں بھی انتظار میں ہوں “ ۔ آخر ان پر بھی عذاب الٰہی اترا اس وقت نبی اللہ اور مومن بچا دیئے گئے ان پر رحمت رب ہوئی اور ظالموں کو تہس نہس کر دیا گیا ۔ وہ جل بجھے ۔ بے حس و حرکت رہ گئے ۔ ایسے کہ گویا کبھی اپنے گھروں میں آباد ہی نہ تھے ۔ اور جیسے کہ ان سے پہلے کے ثمودی تھے اللہ کی لعنت کا باعث بنے ویسے ہی یہ بھی ہو گئے ۔ ثمودی ان کے پڑوسی تھے اور گناہ اور بدامنی میں انہیں جیسے تھے اور یہ دونوں قومیں عرب ہی سے تعلق رکھتی تھیں ۔ ھود
94 ھود
95 ھود
96 قبطی قوم کا سردار فرعون اور موسیٰ علیہ السلام فرعون اور اس کی جماعت کی طرف اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول موسیٰ علیہ السلام کو اپنی آیتوں اور ظاہر دلیلوں کے ساتھ بھیجا «فَعَصَیٰ فِرْعَوْنُ الرَّسُولَ فَأَخَذْنَاہُ أَخْذًا وَبِیلًا» ۱؎ (73-المزمل:16) ’ لیکن انہوں نے فرعون کی اطاعت نہ چھوڑی ۔ اسی کی گمراہ روش پر اس کے پیچھے لگے رہے ‘ ۔ «فَکَذَّبَ وَعَصَیٰ ثُمَّ أَدْبَرَ یَسْعَیٰ فَحَشَرَ فَنَادَیٰ فَقَالَ أَنَا رَبٰکُمُ الْأَعْلَیٰ فَأَخَذَہُ اللہُ نَکَالَ الْآخِرَۃِ وَالْأُولَیٰ إِنَّ فِی ذٰلِکَ لَعِبْرَۃً لِّمَن یَخْشَیٰ» ۱؎ (79-النازعات:21-26) ’ جس طرح یہاں انہوں نے اس کی فرمان برداری ترک نہ کی اور اسے اپنا سردار مانتے رہے ‘ ۔ «وَقَالُوا رَبَّنَا إِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَکُبَرَاءَنَا فَأَضَلٰونَا السَّبِیلَا رَبَّنَا آتِہِمْ ضِعْفَیْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنْہُمْ لَعْنًا کَبِیرًا» ۱؎ (33-الأحزاب:67 ، 68) ’ اسی طرح قیامت کے دن اسی کے پیچھے یہ ہوں گے اور وہ اپنی پیشوائی میں انہیں سب کو اپنے ساتھ ہی جہنم میں لے جائے گا اور خود دگنا عذاب برداشت کرے گا ۔ یہی حال بروں کی تابعداری کرنے والوں کا ہوتا ہے وہ کہیں گے بھی کہ اللہ انہیں لوگوں نے ہمیں بہکایا تو انہوں دوگنا عذاب دے ‘ ۔ مسند میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ { قیامت کے دن جاہلیت کے شاعروں کا جھنڈا امرؤ القیس کے ہاتھ میں ہو گا اور وہ انہیں لے کر جہنم کی طرف جائے گا } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:228/2:ضعیف جدا) اس آگ کے عذاب پر یہ اور زیادتی ہے کہ یہاں اور وہاں دونوں جگہ یہ لوگ ابدی لعنت میں پڑے ۔ قیامت کے دن کی لعنت مل کر ان پر دو دو لعنتیں پڑ گئیں ۔ یہ اور لوگوں کو جہنم کی دعوت دینے والے امام تھے ۔ اس لیے ان پر دوہری لعنت پڑی ۔ ھود
97 ھود
98 ھود
99 ھود
100 عبرت کدے کچھ آباد ہیں کچھ ویران نبیوں اور ان کی امتوں کے واقعات بیان فرما کر ارشاد باری ہوتا ہے کہ ’ یہ ان بستیوں والوں کے واقعات ہیں ، جنہیں ہم تیرے سامنے بیان فرما رہے ہیں ۔ ان میں سے بعض بستیاں تو اب تک آباد ہیں اور بعض مٹ چکی ہیں ۔ ہم نے انہیں ظلم سے ہلاک نہیں کیا ۔ بلکہ خود انہوں نے ہی اپنے کفر و تکذیب کی وجہ سے اپنے اوپر اپنے ہاتھوں ہلاکت مسلط کر لی ۔ اور جن معبودان باطل کے انہیں سہارے تھے وہ بروقت انہیں کچھ کام نہ آ سکے ۔ بلکہ ان کی پوجا پاٹ نے انہیں اور غارت کر دیا ۔ دونوں جہاں کا وبال ان پر آپڑا ‘ ۔ ھود
101 ھود
102 . جس طرح ان ظالموں کی ہلاکت ہوئی ان جیسا جو بھی ہوگا اسی نتیجے کو وہ بھی دیکھے گا ۔ اللہ تعالیٰ کی پکڑ المناک اور بہت سختی والی ہوتی ہے ۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے { اللہ تعالیٰ ظالموں کو ڈھیل دے کر پھر پکڑیں گے ۔ وقت ناگہاں دبا لیتا ہے ۔ پھر مہلت نہیں ملتی ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت «وَکَذٰلِکَ أَخْذُ رَبِّکَ إِذَا أَخَذَ الْقُرَیٰ وَہِیَ ظَالِمَۃٌ إِنَّ أَخْذَہُ أَلِیمٌ شَدِیدٌ» کی تلاوت کی } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4686) ھود
103 ہلاکت اور نجات، ٹھوس دلائل ’ کافروں کی اس ہلاکت اور مومنوں کی نجات میں صاف دلیل ہے ہمارے ان وعدوں کی سچائی پر جو ہم نے قیامت کے بارے میں کئے ہیں جس دن تمام اول و آخر کے لوگ جمع کئے جائیں گے ۔ ایک بھی باقی نہ چھوٹے گا اور وہ بڑا بھاری دن ہو گا تمام فرشتے ، تمام رسول ، تمام مخلوق حاضر ہو گی ۔ حاکم حقیقی عادل کافی انصاف کرے گا ۔ قیامت کے قائم ہونے میں دیر کی وجہ یہ ہے کہ رب یہ بات پہلے ہی مقرر کر چکا ہے کہ اتنی مدت تک دنیا بنی آدم سے آباد رہے گی ۔ اتنی مدت خاموشی پر گزرے گی پھر فلاں وقت قیامت قائم ہو گی ۔ جس دن قیامت آ جائے گی ۔ کوئی نہ ہو گا جو اللہ کی اجازت کے بغیر لب بھی کھول سکے ۔ مگر رحمن جسے اجازت دے اور وہ بات بھی ٹھیک بولے ۔ تمام آوازیں رب رحمن کے سامنے پست ہوں گی ‘ ۔ بخاری و مسلم کی حدیث شفاعت میں ہے { اس دن صرف رسول علیہم السلام ہی بولیں گے اور ان کا کلام بھی صرف یہی ہو گا کہ یا اللہ سلامت رکھ ، یا اللہ سلامتی دے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:806) مجمع محشر میں بہت سے تو برے ہوں گے اور بہت سے نیک ۔ { اس آیت کے اترنے پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پوچھتے ہیں کہ پھر یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے اعمال اس بنا پر ہیں جس سے پہلے ہی فراغت کر لی گئی ہے یا کسی نئی بناء پر ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { نہیں بلکہ اس حساب پر جو پہلے سے ختم ہو چکا ہے جو قلم چل چکا ہے لیکن ہر ایک کے لیے وہی آسان ہو گا ۔ جس کے لیے اس کی پیدائش کی گئی ہے } } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3111،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ھود
104 ھود
105 ھود
106 عذاب یافتہ لوگوں کی چیخیں گدھے کے چیخنے میں جیسے زیر و بم ہوتا ہے ایسے ہی ان کی چیخیں ہوں گی ۔ یہ یاد رہے کہ عرب کے محاوروں کے مطاق قرآن کریم نازل ہوا ہے ۔ وہ ہمیشگی کے محاورے کو اسی طرح بولا کرتے ہیں کہ یہ ہمیشگی والا ہے جب تک آسمان و زمین کو قیام ہے ۔ یہ بھی ان کے محاورے میں ہے کہ یہ باقی رہے گا جب تک دن رات کا چکر بندھا ہوا ہے ۔ پس ان الفاظ سے ہمیشگی مراد ہے نہ کہ قید ۔ اس کے علاوہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس زمین و آسمان کے بعد دار آخرت میں ان کے سوا اور آسمان و زمین ہو پس یہاں مراد جنس ہے ۔ چنانچہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ” ہر جنت کا آسمان و زمین ہے “ ۔ اس کے بعد اللہ کی منشاء کا ذکر ہے جیسے «النَّارُ مَثْوَاکُمْ خَالِدِینَ فِیہَا إِلَّا مَا شَاءَ اللہُ إِنَّ رَبَّکَ حَکِیمٌ عَلِیمٌ» ۱؎ (6-الأنعام:128) میں ہے ۔ اس استثناء کے بارے میں بہت سے قول ہیں جنہیں جوزی نے زاد المیسر میں نقل کیا ہے ۔ ابن جریر نے خالد بن معدان ، ضحاک ، قتادہ اور ابن سنان رحمہ اللہ علیہم کے اس قول کو پسند فرمایا ہے کہ ” موحد گنہگاروں کی طرف استثناء عائد ہے بعض سلف سے اس کی تفسیر میں بڑے ہی غریب اقوال وارد ہوئے ہیں ۔ ۱؎ (الدر المنشور للسیوطی:635/3:) قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” اللہ ہی کو اس کا پورا علم ہے “ ۔ ھود
107 ھود
108 انبیاء کے فرماں بردار اور جنت رسولوں کے تابعدار جنت میں رہیں گے ۔ جہاں سے کبھی نکلنا نہ ہو گا ۔ زمین و آسمان کی بقا تک ان کی بھی جنت میں بقا رہے گی «إِنَّ رَبَّکَ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیدُ» ۱؎ (11-ہود:107) یعنی ’ مگر جو اللہ چاہے ‘ یعنی یہ بات بذاتہ واجب نہیں بلکہ اللہ کی مشیت اور اس کے ارادے پر ہے ۔ بقول ضحاک رحمہ اللہ و حسن رحمہ اللہ ” یہ بھی موحد گنہگاروں کے حق میں ہے وہ کچھ مدت جہنم میں گزار کر اس کے بعد وہاں سے نکالے جائیں گے یہ عطیہ ربانی ہے جو ختم نہ ہوگا ، نہ گھٹے گا ۔ یہ اس لیے فرمایا کہ کہیں ذکر مشیت سے یہ کھٹکا نہ گزرے کہ ہمیشگی نہیں “ ۔ جیسے کہ دوزخیوں کے دوام کے بعد بھی اپنی مشیت اور ارادے کی طرف رجوع کیا ہے ۔ سب اس کی حکمت و عدل ہے وہ ہر اس کام کو کر گزرتا ہے جس کا ارادہ کرے ۔ بخاری و مسلم میں ہے { موت کو چتکبرے مینڈھے کی صورت میں لایا جائے گا اور اسے ذبح کر دیا جائے گا ۔ پھر فرما دیا جائے گا کہ اہل جنت تم ہمیشہ رہو گے اور موت نہیں اور جہنم والوں تمہارے لیے ہمیشگی ہے موت نہیں } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4830) ھود
109 مشرکوں کا حشر مشرکوں کے شرک کے باطل ہونے میں ہرگز شبہ تک نہ کرنا ۔ ان کے پاس سوائے باپ دادا کی بھونڈی تقلید کے اور دلیل ہی کیا ہے ؟ ان کی نیکیاں انہیں دنیا میں ہی مل جائیں گی آخرت میں عذاب ہی عذاب ہوگا ۔ جو خیر و شکر کے وعدے ہیں سب پورے ہونے والے ہیں ۔ ان کے عذاب کا مقررہ حصہ انہیں ضرور پہنچے گا ۔ موسیٰ علیہ السلام کو ہم نے کتاب دی لیکن لوگوں نے تفرقہ ڈالا ۔ کسی نے اقرار کیا تو کسی نے انکار کر دیا ۔ پس انہی نبیوں جیسا حال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی ہے کوئی مانے گا کوئی ٹالے گا ۔ اور آیت میں ہے «وَلَوْلَا کَلِمَۃٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّکَ لَکَانَ لِزَامًا وَأَجَلٌ مٰسَمًّی فَاصْبِرْ عَلَیٰ مَا یَقُولُونَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ» ۱؎ (20-طہ:129-130) ’ چونکہ ہم وقت مقرر کر چکے ہیں چونکہ ہم بغیر حجت پوری کئے عذاب نہیں کیا کرتے اس لیے یہ تاخیر ہے ورنہ ابھی انہیں ان کے گناہوں کا مزہ یاد آ جاتا ہے پس ان کی باتوں پر صبر کر اور اپنے پروردگار کی تسبیح اور تعریف بیان کرتا رہ ‘ ۔ کافروں کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں غلط ہی معلوم ہوتی ہیں ۔ ان کا شک و شبہ زائل نہیں ہوتا ۔ سب کو اللہ جمع کرے گا اور ان کے کئے ہوئے اعمال کا بدلہ دے گا ۔ اس قرأت کا بھی معنی اس ہمارے ذکر کردہ معنی کی طرف ہی لوٹنا ہے ۔ ھود
110 ھود
111 ھود
112 استقامت کی ہدایت استقامت اور سیدھی راہ پر دوام ، ہمیشگی اور ثابت قدمی کی ہدایت اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام مسلمانوں کو کر رہا ہے ۔ یہی سب سے بڑی چیز ہے ۔ ساتھ ہی سرکشی سے روکا ہے کیونکہ یہی توبہ کرنے والی چیز ہے گو کسی مشرک ہی پر کی گئی ہو ۔ پرودگار بندوں کے ہر عمل سے آگاہ ہے مداہنت اور دین کے کاموں میں سستی نہ کرو ۔ شرک کی طرف نہ جھکو ۔ مشرکین کے اعمال پر رضا مندی کا اظہار نہ کرو ۔ ظالموں کی طرف نہ جھکو ۔ ورنہ آگ تمہیں پکڑ لے گی ۔ ظالموں کی طرف داری ان کے ظلم پر مدد ہے یہ ہرگز نہ کرو ۔ اگر ایسا کیا تو کون ہے جو تم سے عذاب اللہ ہٹائے ؟ اور کون ہے جو تمہیں اس سے بچائے ۔ ھود
113 ھود
114 اوقات نماز کی نشاندہی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ کہتے ہیں ” دن کے دونوں سرے سے مراد صبح کی اور مغرب کی نماز ہے “ ۔ قتادہ ، ضحاک رحمہ اللہ علیہم وغیرہ کا قول ہے کہ ” پہلے سرے سے مراد صبح کی نماز اور دوسرے سے مراد ظہر اور عصر کی نماز رات کی گھڑیوں سے مراد عشاء کی نماز ۔ “ بقول مجاہد رحمہ اللہ وغیرہ ” مغرب و عشاء کی “ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:18648:مرسل) نیکیوں کو کرنا گناہوں کا کفارہ ہو جاتا ہے ۔ سنن میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ” جس مسلمان سے کوئی گناہ ہو جائے پھر وہ وضو کر کے دو رکعت نماز پڑھ لے ، تو اللہ اس کے گناہ معاف فرما دیتا ہے “ } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:1521 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) { ایک مرتبہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے وضو کیا پھر فرمایا اسی طرح میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو کرتے دیکھا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ” جو میرے اس وضو جیسا وضو کرے پھر دو رکعت نماز ادا کرے ، جس میں اپنے دل سے باتیں نہ کرے تو اس کے تمام اگلے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں “ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:159) مسند میں ہے کہ { آپ رضی اللہ عنہ نے پانی منگوایا ، وضو کیا ، پھر فرمایا ” میرے اس وضو کی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وضو کیا کرتے تھے ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جو میرے اس وضو جیسا وضو کرے اور کھڑا ہو کر ظہر کی نماز ادا کرے ، اس کے صبح سے لے کر اب تک کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں ، پھر عصر کی نماز پڑھے ، تو ظہر سے عصر تک کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں ، پھر مغرب کی نماز ادا کرے ، تو عصر سے لے کر مغرب تک کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں ۔ پھر عشاء کی نماز سے مغرب سے عشاء تک کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔ پھر یہ سوتا ہے لوٹ پوٹ ہوتا ہے پھر صبح اُٹھ کر نماز فجر پڑھ لینے سے عشاء سے لے کر صبح کی نماز تک کے سب گناہ بخش دئیے جاتے ہیں ۔ یہی ہیں وہ بھلائیاں جو برائیوں کو دور کر دیتی ہیں “ } ۔ ۱؎ (مسند احمد:71/1:صحیح) صحیح حدیث میں { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ” بتلاؤ تو اگر تم میں سے کسی کے مکان کے دروازے پر ہی نہر جاری ہو اور وہ اس میں ہر دن پانچ مرتبہ غسل کرتا ہو تو کیا اس کے جسم پر ذرا سی بھی میل باقی رہ جائے گا ؟ “ ، لوگوں کے نے کہا ہرگز نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” بس یہی مثال ہے ۔ پانچ نمازوں کی کہ ان کی وجہ سے اللہ تعالیٰ خطائیں اور گناہ معاف فرما دیتا ہے “ } ۔ (صحیح بخاری:528) صحیح مسلم شریف میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ” پانچوں نمازیں اور جمعہ جمعہ تک اور رمضان رمضان تک کا کفارہ ہے جب تک کہ کبیرہ گناہوں سے پرہیز کیا جائے “ } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:233) مسند احمد میں ہے { ہر نماز اپنے سے پہلے کی خطاؤں کو مٹا دیتی ہے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:413/5:حسن) بخاری میں ہے کہ { کسی شخص نے ایک عورت کا بوسہ لے لیا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے اس گناہ کی ندامت ظاہر کی ۔ اس پر یہ آیت اتری اس نے کہا کیا میرے لیے ہی یہ مخصوص ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا ” نہیں بلکہ میری ساری امت کے لیے یہی حکم ہے “ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:526) ایک اور روایت میں ہے کہ { اس نے کہا ” میں نے باغ میں اس عورت سے سب کچھ کیا ، ہاں جماع نہیں کیا اب میں حاضر ہوں جو سزا میرے لیے آپ تجویز فرمائیں میں برداشت کر لوں گا “ ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کوئی جواب نہ دیا ۔ وہ چلا گیا ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اللہ نے اس کی پردہ پوشی کی تھی اگر یہ بھی اپنے نفس کی پردہ پوشی کرتا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم برابر اسی شخص کی طرف دیکھتے رہے پھر فرمایا : ” اسے واپس بلا لاؤ “ ۔ جب وہ آ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی ۔ اس پر سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا کہ کیا یہ اسی کے لیے ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” نہیں بلکہ سب لوگوں کے لیے ہے “ } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2763) مسند احمد میں ہے ، { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { اللہ تعالیٰ نے جس طرح تم میں روزیاں تقسیم فرمائیں ہیں ، اخلاق بھی تقسیم فرمائے ہیں اللہ تعالیٰ دنیا تو اسے بھی دیتا ہے جس سے خوش ہو اور اسے بھی جس سے غضبناک ہو ۔ لیکن دین صرف انہیں کو دیتا ہے جن سے اسے محبت ہو ۔ پس جسے دین مل جائے یقیناً اللہ تعالیٰ اس سے محبت رکھتا ہے اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ۔ بندہ مسلمان نہیں ہوتا جب تک کہ اس کا دل اور اس کی زبان مسلمان نہ ہو جائے ۔ اور بندہ ایماندار نہیں ہوتا جب تک کہ اس کے پڑوسی اس کی ایذاؤں سے بے فکر نہ ہو جائیں } ۔ لوگوں نے پوچھا ایذائیں کیا کیا ؟ فرمایا : { دھوکہ اور ظلم ۔ سنو جو شخص مال حرام کمائے پھر اس میں سے خرچ کرے اللہ اسے برکت سے محروم رکھتا ہے ۔ اگر وہ اس میں سے صدقہ کرے تو قبول نہیں ہوتا ۔ اور جتنا کچھ اپنے بعد باقی چھوڑ مرے وہ سب اس کے لیے آگ دوزخ کا توشہ بنتا ہے ۔ یاد رکھو اللہ تعالیٰ برائی کو برائی سے نہیں مٹاتا بلکہ برائی کو بھلائی سے مٹاتا ہے } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:387/1:صحیح موقوفا ضعیف مرفوعا) مسند احمد میں ہے کہ { ایک شخص سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا کہ ” ایک عورت سودا لینے کے لیے آتی تھی افسوس کہ میں اسے کوٹھڑی میں لے جا کر اس سے بجز جماع کے اور ہر طرح لطف اندوز ہوا ۔ اب جو اللہ کا حکم ہو وہ مجھ پر جاری کیا جائے “ ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” شاید اس کا خاوند غیر حاضر ہوگا “ ۔ اس نے کہا جی ہاں یہ بات تھی ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” تم جاؤ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے یہ مسئلہ پوچھو “ ۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی یہی سوال کیا پس آپ رضی اللہ عنہ نے بھی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی طرح فرمایا ۔ پھر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی حالت بیان کی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { شاید اس کا خاوند اللہ کی راہ میں گیا ہوا ہوگا ؟ } پس قرآن کریم کی یہ آیت اتری تو کہنے لگا ” کیا یہ خاص میرے لیے ہی ہے “ ؟ تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا ” نہیں اس طرح صرف تیری ہی آنکھیں ٹھنڈی نہیں ہو سکتیں بلکہ یہ سب لوگوں کے لیے عام ہے “ ۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { عمر سچے ہیں } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:245/1:ضعیف) ابن جریر میں ہے کہ { وہ عورت مجھ سے ایک درہم کی کھجوریں خریدنے آئی تھی تو میں نے اسے کہا کے اندر کوٹھڑی میں اس سے بہت اچھی کھجوریں ہیں وہ اندر گئی میں نے بھی اندر جا کر اسے چوم لیا ۔ پھر وہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” اللہ سے ڈر اور اپنے نفس پر پردہ ڈالے رہ “ ۔ لیکن ابو الیسر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں مجھ سے صبر نہ ہو سکا ۔ میں نے جا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے واقعہ بیان کیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” افسوس تو نے ایک غازی مرد کی اس غیر حاضری میں ایسی خیانت کی ۔ میں نے تو یہ سن کر اپنے آپ کو جہنمی سمجھ لیا اور میرے دل میں خیال آنے لگا کہ کاش کہ میرا اسلام اس کے بعد کا ہوتا ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ذرا سی دیر اپنی گردن جھکا لی اسی وقت جبرائیل یہ آیت لے کر اترے “ } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3115،قال الشیخ الألبانی:حسن) ابن جریر میں ہے کہ { ایک شخص نے آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی اللہ کی مقرر کردہ حد مجھ پر جاری کیجئے ۔ ایک دو دفعہ اس نے یہ کہا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف سے منہ موڑ لیا ۔ پھر جب نماز کھڑی ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو دریافت فرمایا کہ وہ شخص کہاں ہے ؟ اس نے کہا یا رسول اللہ ! میں حاضر ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تو نے اچھی طرح وضو کیا ؟ اور ہمارے ساتھ نماز پڑھی “ ۔ اس نے کہا جی ہاں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”بس تو تو ایسا ہی ہے جیسے اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا تھا ۔ خبردار اب کوئی ایسی حرکت نہ کرنا “ ۔ اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:18694:) ابوعثمان رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ میں سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا ۔ انہوں نے ایک درخت کی خشک شاخ پکڑ کے اسے جھنجھوڑا تو تمام خشک پتے جھڑ گئے پھر فرمایا ” ابوعثمان تم پوچھتے نہیں ہو کہ میں نے یہ کیوں کیا ؟ “ میں نے کہا ہاں جناب ارشاد ہو ، فرمایا ” اسی طرح میرے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ، پھر فرمایا : جب بندہ مسلمان اچھی طرح وضو کر کے پانچوں نمازیں ادا کرتا ہے تو اس کے گناہ ایسے ہی چھڑ جاتے ہیں جیسے اس خشک شاخ کے پتے جھڑ گئے ۔ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی ۔ ۱؎ (مسند احمد:437/5:حسن) مسند میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ” برائی اگر کوئی ہو جائے تو اس کے پیچھے ہی نیکی کر لو کہ اسے مٹا دے ۔ اور لوگوں سے خوش اخلاقی سے ملا کرو “ } ۔ ۱؎ (مسند احمد:228/5:حسن) اور حدیث میں ہے { جب تجھ سے کوئی گناہ ہو جائے تو اس کے پیچھے ہی نیکی کر لیا کر تاکہ یہ اسے مٹا دے میں نے کہا : یا رسول اللہ ! کیا «لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ» پڑھنا بھی نیکی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” وہ تو بہترین اور افضل نیکی ہے “ } ۔ ۱؎ (سلسلۃ احادیث صحیحہ البانی:361/3:حسن) ابو یعلیٰ میں ہے { دن رات کے جس وقت میں کوئی «لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ» پڑھے اس کے نامہ اعمال میں سے برائیاں مٹ جاتی ہیں یہاں تک کہ ان کی جگہ ویسی ہی نیکیاں ہو جاتی ہیں } ۔ ۱؎ (مسند ابویعلیٰ:3611:ضعیف) اس کے راوی عثمان میں ضعف ہے ۔ مسند بزار میں ہے { ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ ! میں نے کوئی خواہش ایسی نہیں چھوڑی جسے پوری نہ کی ہو ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” کیا تو اللہ کے ایک ہونے کی اور میری رسالت کی گواہی دیتا ہے ؟ “ اس نے کہا ہاں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { بس یہ ان سب پر غالب رہے گی } ۔ ۱؎ (مسند ابویعلیٰ:3433/6:صحیح) ھود
115 ھود
116 نیکی کی دعوت دینے والے چند لوگ یعنی سوائے چند لوگوں کے ہم گزشتہ زمانے کے لوگوں میں ایسے کیوں نہیں پاتے جو شریروں اور منکروں کو برائیوں سے روکتے رہیں ، یہی وہ ہیں جنہیں ہم اپنے عذاب سے بچا لیا کرتے ہیں ۔ اسی لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس امت میں ایسی جماعت کی موجودگی کا قطعی اور فرضی حکم دیا ۔ فرمایا «وَلْتَکُن مِّنکُمْ أُمَّۃٌ یَدْعُونَ إِلَی الْخَیْرِ وَیَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَأُولٰئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ» ۱؎ (3-آل عمران:104) ’ بھلائی اور نیکی کی دعوت دینے والی ایک جماعت تم میں ہر وقت موجود رہنی چاہیئے ‘ ، الخ ۔ ظالموں کا شیوہ یہی ہے کہ وہ اپنی بدعادتوں سے باز نہیں آتے ۔ نیک علماء کے فرمان کی طرف توجہ بھی نہیں کریتے یہاں تک کہ اللہ کے عذاب ان کی بے خبری میں ان پر مسلط ہو جاتے ہیں ۔ بھلی بستیوں پر اللہ کی طرف سے از راہ ظلم عذاب کبھی آتے ہی نہیں ۔ آیت میں ہے «وَمَا ظَلَمْنَاہُمْ وَلٰکِن ظَلَمُوا أَنفُسَہُمْ» ۱؎ (11-ھود:101) ’ ہم ظلم سے پاک ہیں لیکن خود ہی وہ اپنی جانوں پر مظالم کرنے لگتے ہیں ‘ ۔ اور جگہ ہے «وَمَا رَبٰکَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیدِ» ۱؎ (41-فصلت:46) ’ تمہارا پروردگار بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ‘ ۔ ھود
117 ھود
118 جس پر اللہ تعالٰی کا کرم ہو اللہ کی قدر کسی کام سے عاجز نہیں ۔ «وَلَوْ شَاءَ رَبٰکَ لَآمَنَ مَن فِی الْأَرْضِ کُلٰہُمْ جَمِیعًا» ۱؎ (10-یونس:99) ’ وہ چاہے تو سب کو ہی اسلام یا کفر پر جمع کر دے ‘ لیکن اس کی حکمت ہے جو انسانی رائے ان کے دین و مذاہب جدا جدا برابر جاری و ساری ہیں ۔ طریقے مختلف ، مالی حالات جداگانہ ایک ایک کے ماتحت یہاں مراد دین و مذہب کا اختلاف ہے ۔ جن پر اللہ کا رحم ہو جائے وہ رسولوں کی تابعداری رب تعالیٰ کی حکم برداری میں برابر لگے رہتے ہیں ۔ اب وہ نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے مطیع ہیں ۔ اور یہی نجات پانے والے ہیں ۔ چنانچہ مسند و سنن میں حدیث ہے جس کی ہر سند دوسری سند کو تقویت پہنچا رہی ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” یہودیوں کے اکہتر گروہ ہوئے ۔ نصاریٰ بہتر فرقوں میں تقسیم ہو گئے ، اس امت کے تہتر فرقے ہو جائیں گے ، سب جہنمی ہیں سوائے ایک جماعت کے “ ، صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا : ” یا رسول اللہ ! وہ کون لوگ ہیں ؟ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا ” وہ جو اس پر ہوں جس پر میں ہو اور میرے اصحاب “ } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2641 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) بقول عطا رحمہ اللہ «مُخْتَلِفِینَ» سے مراد یہودی ، نصرانی ، مجوسی ہیں اور اللہ کے رحم والی جماعت سے مراد یک طرفہ دین اسلام کے مطیع لوگ ہیں ۔ قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ جماعت ہے گو ان کے وطن اور بدن جدا ہوں اور اہل معصیت فرقت و اختلاف والے ہیں گو ان کے وطن اور بدن ایک ہی جا جمع ہوں ۔ «فَمِنْہُمْ شَقِیٌّ وَسَعِیدٌ» ۱؎ (11-ھود:105) قدرتی طور پر ان کی پیدائش ہی اسی لیے ہے شقی و سعید کی ازلی تقسیم ہے ۔ یہ بھی مطلب ہے کہ رحمت حاصل کرنے والی یہ جماعت بالخصوص اسی لیے ہے ۔ طاؤس رحمہ اللہ کے پاس دو شخص اپنا جھگڑا لے کر آئے اور آپس کے اختلاف میں بہت بڑھ گئے تو آپ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ” تم نے جھگڑا اور اختلاف کیا “ اس پر ایک شخص نے کہا ” اسی لیے ہم پیدا کئے گئے ہیں “ ۔ آپ رحمہ اللہ نے فرمایا ، ” غلط ہے “ اس نے اپنے ثبوت میں اسی آیت کی تلاوت کی تو آپ رحمہ اللہ نے فرمایا ” اس لیے نہیں پیدا کیا کہ آپس میں اختلاف کریں ، بلکہ پیدائش تو جمع کے لیے اور رحمت حاصل کرنے کے لیے ہوئی ہے “ ۔ جیسے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ” رحمت کے لیے پیدا کیا ہے نہ کہ عذاب کے لیے ۔ اور آیت میں ہے «وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِیَعْبُدُونِ» ۱؎ (51-الذاریات:56) ’ میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے ہی پیدا کیا ہے ‘ ۔ تیسرا قول ہے کہ ” رحمت اور اختلاف کے لیے پیدا کیا ہے “ ۔ چنانچہ مالک رحمہ اللہ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ” ایک فرقہ جنتی اور ایک جہنمی ۔ انہیں رحمت حاصل کرنے اور انہیں اختلاف میں مصروف رہنے کے لیے پیدا کیا ہے تیرے رب کا یہ فیصلہ ناطق ہے کہ اس کی مخلوق میں ان دونوں اقسام کے لوگ ہوں گے اور ان دونوں سے جنت دوزخ پر کئے جائیں گے ۔ اس کی کامل حکمتوں کو وہی جانتا ہے “ ۔ بخاری و مسلم میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ { جنت دوزخ دونوں میں آپس میں گفتگو ہوئی ۔ جنت نے کہا مجھ میں تو صرف ضعیف اور کمزور لوگ ہی داخل ہوتے ہیں اور جہنم نے کہا میں تکبر اور ظلم کرنے والوں کے ساتھ مخصوص کی گئی ہوں ۔ اس پر اللہ تعالیٰ عزوجل نے جنت سے فرمایا ’ تو میری رحمت ہے ، جسے میں چاہوں اسے تجھ سے نواز دوں گا ‘ ۔ اور جہنم سے فرمایا ’ تو میرا عذاب ہے جس سے میں چاہوں تیرے عذاب کے ذریعہ اس سے انتقام لوں گا ۔ تم دونوں پر ہو جاؤ گی ‘ ۔ جنت میں تو برابر زیادتی رہے گی یہاں تک کہ اس کے لیے اللہ تعالیٰ ایک نئی مخلوق پیدا کرے گا اور اسے اس میں بسائے گا اور جہنم بھی برابر زیادتی طلب کرتی رہے گی یہاں تک کہ اس پر اللہ رب العزت اپنا قدم رکھ دے گا تب وہ کہے گی تیری عزت کی قسم اب بس ہے بس ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4849) ھود
119 ھود
120 ذکر ماضی تمہارے لیے سامان سکون پہلی امتوں کا اپنے نبیوں کو جھٹلانا ، نبیوں کا ان کی ایذاؤں پر صبر کرنا ۔ آخر اللہ کے عذاب کا آنا ، کافروں کا برباد ہونا ، نبیوں رسولوں اور مومنوں کا نجات پانا ، یہ سب واقعات ہم تجھے سنا رہے ہیں ۔ تاکہ تیرے دل کو ہم اور مضبوط کر دیں اور تجھے کامل سکون حاصل ہو جائے ۔ اس سورت میں بھی حق تجھ پر واضح ہو چکا ہے کہ اس دنیا میں بھی تیرے سامنے سچے واقعات بیان ہو چکے ہیں ۔ یہ عبرت ہے کفار کے لیے اور نصیحت ہے مومنوں کے لیے کہ وہ اس سے نفع حاصل کریں ۔ ھود
121 . بطور دھمکانے ڈرانے اور ہوشیار کرنے کے ان کافروں سے کہہ دو کہ اچھا تم اپنے طریقے سے نہیں ہٹتے تو نہ ہٹو ہم بھی اپنے طریقے پر کار بند ہیں ۔ تم منظر رہو کہ آخر انجام کیا ہوتا ہے ہم بھی اسی انجام کی راہ دیکھتے ہیں «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» دنیا نے ان کافروں کا انجام دیکھ لیا ان مسلمانوں کا بھی جو اللہ کے فضل و کرم سے دنیا پر چھا گئے ۔ مخالفین پر کامیابی کے ساتھ غلبہ حاصل کر لیا دنیا کو مٹھی میں لے لیا «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» ۔ ھود
122 ھود
123 علم غیب اور حاکمیت اعلیٰ صرف اللہ ہی کو سزاوار ہے آسمان و زمین کے ہر غیب کو جاننے والا صرف اللہ تعالیٰ عزوجل ہی ہے ۔ اسی کی سب کو عبادت کرنی چاہیئے اور اسی پر بھروسہ کرنا چاہیئے ۔ جو بھی اس پر بھروسہ رکھے وہ اس کے لیے کافی ہے ۔ کعب رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تورات کا خاتمہ بھی انہیں آیتوں پر ہے اللہ تعالیٰ مخلوق میں سے کسی کے کسی عمل سے بے خبر نہیں ۔ ھود
0 یوسف
1 تعارف قرآن بزبان اللہ الرحمن سورۃ البقرہ کی تفسیر کے شروع میں حروف مقطعات کی بحث گزر چکی ہے ۔ اس کتاب یعنی قرآن شریف کی یہ آیتیں بہت واضح کھلی ہوئی اور خوب صاف ہیں ۔ مبہم چیزوں کی حقیقت کھول دیتی ہیں یہاں پر تلک معنی میں ھذہ کے ہے ۔ چونکہ عربی زبان نہایت کامل اور مقصد کو پوری طرح واضح کر دینے والی اور وسعت و کثرت والی ہے ، اسلیئے یہ پاکیزہ تر کتاب اس بہترین زبان میں افضل تر رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، رسول کے سردار فرشتے کی سفارت میں ، تمام روئے زمین کے بہتر مقام میں ، وقتوں میں بہترین وقت میں نازل ہو کر ہر ایک طرح کے کمال کو پہنچی تاکہ تم ہر طرح سوچ سمجھ سکو اور اسے جان لو ہم بہترین قصہ بیان فرماتے ہیں ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! صلی اللہ علیہ وسلم اگر کوئی واقعہ بیان فرماتے ؟ اس پر یہ آیت اتری ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:18786:ضعیف و منقطع) اور روایت میں ہے کہ ایک زمانے تک قرآن کریم نازل ہوتا گیا اور آپ صحابہ رضی اللہ عنہم کے سامنے تلاوت فرماتے رہے پھر انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم کوئی واقعہ بھی بیان ہو جاتا تو ؟ اس پر یہ آیتیں اتریں پھر کچھ وقت کے بعد کہا کاش کہ آپ کوئی بات بیان فرماتے اس پر یہ آیت « اللہُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِیثِ» ( 39-الزمر : 23 ) اتری ۔ اور بات بیان ہوئی ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:150/12:حسن) روش کلام کا ایک ہی انداز دیکھ کر صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا یا رسول اللہ بات سے اوپر کی اور قرآن سے نیچے کی کوئی چیز ہوتی یعنی واقعہ ، اس پر یہ آیتیں اتریں ، پھر انہوں نے حدیث کی خواہش کی اس پر « اللہُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِیثِ» اتری ۔ پس قصے کے ارادے پر بہترین قصہ اور بات کے ارادے پر بہترین بات نازل ہوئی ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:18788:مرسل) اس جگہ جہاں کہ قرآن کریم کی تعریف ہو رہی ہے ۔ اور یہ بیان ہے کہ یہ قرآن اور سب کتابوں سے بے نیاز کر دینے والا ہے ۔ مناسب ہے کہ ہم مسند احمد کی اس حدیث کو بھی بیان کر دیں جس میں ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب کو کسی اہل کتاب سے ایک کتاب ہاتھ لگ گئی تھی اسے لے کر آپ حاضر خدمت رسالت صلی اللہ علیہ وسلم ہوئے اور آپ کے سامنے سنانے لگے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سخت غضب ناک ہو گئے اور فرمانے لگے اے خطاب کے لڑکے کیا تم اس میں مشغول ہو کر بہک جانا چاہتے ہو اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میں اس کو نہایت روشن اور واضح طور پر لے کر آیا ہوں ۔ تم ان اہل کتاب سے کوئی بات نہ پوچھو ممکن ہے کہ وہ صحیح جواب دیں اور تم سے جھٹلا دو ۔ اور ہو سکتا ہے کہ وہ غلط جواب دیں اور تم اسے سچا سمجھ لو ۔ سنو اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر آج خود موسیٰ علیہ السلام بھی زندہ ہوتے تو انہیں بھی سوائے میری تابعداری کے کوئی چارہ نہ تھا ۔ (مسند احمد:338/3:ضعیف) ایک اور روایت میں ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ بنو قریِضہ قبیلہ کے میرے ایک دوست نے تورات میں سے چند جامع باتیں مجھے لکھ دی ہیں ۔ تو کیا میں انہیں آپ کو سناؤ ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ متغیر ہو گیا ۔ سیدنا عبداللہ بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے عمر رضی اللہ عنہ کیا تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کو نہیں دیکھ رہے ؟ اب عمر رضی اللہ عنہما کی نگاہ پڑی تو آپ رضی اللہ عنہما کہنے لگے ہم اللہ کے رب ہونے پر ، اسلام کے دین ہونے پر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہونے پر دل سے رضامند ہیں ۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ سے غصہ دور ہوا اور فرمایا اس ذات پاک کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے کہ اگر تم میں خود موسیٰ علیہ السلام ہوتے پھر تم مجھے چھوڑ کر ان کی اتباع میں لگ جاتے تو تم سب گمراہ ہو جاتے امتوں میں سے میرا حصہ تم ہو اور نبیوں میں سے تمہارا حصہ میں ہوں ۔ (مسند احمد:266/4:ضعیف) ابو یعلیٰ میں ہے کہ سوس کا رہنے والا قبیلہ عبدالقیس کا ایک شخص جناب فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے پاس آیا آپ رضی اللہ عنہما نے اس سے پوچھا کہ تیرا نام فلاں فلاں ہے ؟ اس نے کہا ہاں پوچھا تو سوس میں مقیم ہے ؟ اس نے کہا ہاں تو آپ کے ہاتھ میں جو خوشہ تھا اسے مارا ۔ اس نے کہا امیر المؤمنین میرا کیا قصور ہے ؟ آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا بیٹھ جا ۔ میں بتاتا ہوں پھر «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» پڑھ کر اسی سورت کی «الر تِلْکَ آیَاتُ الْکِتَابِ الْمُبِینِ إِنَّا أَنزَلْنَاہُ قُرْآنًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّکُمْ تَعْقِلُونَ نَحْنُ نَقُصٰ عَلَیْکَ أَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَا أَوْحَیْنَا إِلَیْکَ ہٰذَا الْقُرْآنَ وَإِن کُنتَ مِن قَبْلِہِ لَمِنَ الْغَافِلِینَ» ( 12-یوسف : 1-3 ) تک پڑھیں تین مرتبہ ان آیتوں کی تلاوت کی اور تین مرتبہ اسے مارا ۔ اس نے پھر پوچھا کہ امیر المؤمنین میرا قصور کیا ہے آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا تو نے دانیال کی ایک کتاب لکھی ہے ۔ اس نے کہا پھر جو آپ فرمائیں ۔ میں کرنے کو تیار ہوں ، آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا جا اور گرم پانی اور سفید روئی سے اسے بالکل مٹا دے ۔ خبردار آج کے بعد سے اسے خود پڑھنا نہ کسی اور کو پڑھانا ۔ اب اگر میں اس کے خلاف سنا کہ تو نے خود اسے پڑھا یا کسی کو پڑھایا تو ایسی سخت سزا کروں گا کہ عبرت بنے ۔ پھر فرمایا بیٹھ جا ، ایک بات سنتا جا ۔ میں نے جا کر اہل کتاب کی ایک کتاب لکھی پھر اسے چمڑے میں لیے ہوئے حضور علیہ السلام کے پاس آیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا تیرے ہاتھ میں یہ کیا ہے ؟ میں نے کہا ایک کتاب ہے کہ ہم علم میں بڑھ جائیں ۔ اس پر آپ اس قدر ناراض ہوئے کہ غصے کی وجہ سے آپ کے رخسار پر سرخی نمودار ہو گئی پھر منادی کی گئی کہ نماز جمع کرنے والی ہے ۔ اسی وقت انصار نے ہتھیار نکال لیے کہ کسی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ناراض کر دیا ہے اور منبرنبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے چاروں طرف وہ لوگ ہتھیار بند بیٹھ گئے ۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگو ! میں جامع کلمات دیا گیا ہوں اور کلمات کے خاتم دیا گیا ہوں اور پھر میرے لیے بہت ہی اختصار کیا گیا ہے میں اللہ کے دین کی باتیں بہت سفید اور نمایاں لایا ہوں ۔ خبردار تم بہک نہ جانا ۔ گہرائی میں اترنے والے کہیں تمہیں بہکا نہ دیں ۔ یہ سن کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے میں تو یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رب ہونے پر ، اسلام کے دین ہونے پر آپ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہونے پر دل سے راضی ہوں ۔ اب جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے اترے ۔(الضیاء المقدسی فی المختارۃ:24/1:ضعیف) اس کے ایک روای عبدالرحمٰن بن اسحاق کو محدثین ضعیف کہتے ہیں ۔ امام بخاری ان کی حدیث کو صحیح نہیں لکھتے ۔ میں کہتا ہوں اس کا ایک شاہد اور سند حافظ ابوبکر احمد بن ابراہیم اسماعیلی لائے ہیں کہ خلافت فاروقی کے زمانے میں آپ نے محصن کے چند آدمی بلائے ان میں دو شخص وہ تھے جنہوں نے یہودیوں سے چند باتیں منتخب کر کے لکھ لی تھیں ۔ وہ اس مجموعے کو بھی اپنے ساتھ لائے تاکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہما سے دریافت کر لیں اگر آپ نے اجازت دی تو ہم اس میں اسی جیسی اور باتیں بھی بڑھا لیں گے ورنہ اسے بھی پھینک دیں گے ۔ یہاں آ کر انہوں نے کہا کہ امیر المؤمنین یہودیوں سے ہم بعض ایسی باتیں سنتے ہیں کہ جن سے ہمارے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں تو کیا وہ باتیں ان سے لے لیں یا بالکل ہی نہ لیں ؟ آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا شاید تم نے ان کی کچھ باتیں لکھ رکھیں ہیں ؟ سنو میں اس میں فیصلہ کن واقعہ سناؤ ۔ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں خیبر گیا ۔ وہاں کے ایک یہودی کی باتیں مجھے بہت پسند آئیں ۔ میں نے اس سے درخواست کی اور اس نے وہ باتیں مجھے لکھ دیں ۔ میں نے واپس آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جاؤ وہ لے کر آؤ میں خوشی خوشی چلا گیا شاید نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو میرا یہ کام پسند آ گیا ۔ لا کر میں نے اس کو پڑھنا شروع کیا ۔ اب جو ذرا سی دیر کے بعد میں نے نظر اٹھائی تو دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو سخت ناراض ہیں ۔ میری زبان سے تو ایک حرف بھی نہ نکلا اور مارے خوف کے میر رُوّاں رُوّاں کھڑا ہو گیا ۔ میری یہ حالت دیکھ کر اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تحریروں کو اٹھا لیا اور ان کا ایک ایک حرف مٹانا شروع کیا اور زبان مبارک سے ارشاد فرماتے جاتے تھے کہ دیکھو خبردار ان کی نہ ماننا ۔ یہ تو گمراہی کے گڑھے میں جا پڑے ہیں اور یہ تو دوسروں کو بھی بہکا رہے ہیں ۔ چنانچہ آپ نے اس ساری تحریر کا ایک حرف بھی باقی نہ رکھا ۔ یہ سنا کر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر تم نے بھی ان کی باتیں لکھی ہوئی ہوتیں تو میں تمہیں ایسی سزا کرتا جو اوروں کے لیے عبرت ہو جائے ۔ انہوں نے کہا واللہ ہم ہرگز ایک حرف بھی نہ لکھیں گے ۔ باہر آتے ہی جنگل میں جا کر انہوں نے اپنی وہ تختیاں گڑھا کھود کر دفن کر دیں ۔ (مراسیل ابی داؤد:455:ضعیف) مراسیل ابی داؤد میں بھی عمر رضی اللہ عنہ سے ایسی ہی روایت ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ یوسف
2 یوسف
3 یوسف
4 بہترین قصہ یوسف علیہ السلام حضرت یوسف علیہ السلام کے والد یعقوب بن اسحٰق بن ابراہیم علیہ ہم السلام ہیں ۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ “ کریم بن کریم بن کریم بن کریم یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم علیہ السلام ہیں ۔ (صحیح بخاری:3390) نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے سوال ہوا کہ سب لوگوں میں زیادہ بزرگ کون ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کے دل میں اللہ کا ڈر سب سے زیادہ ہو ۔ انہوں نے کہا ہمارا مقصود ایسا عام جواب نہیں ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر سب لوگوں میں زیادہ بزرگ یوسف علیہ السلام ہیں جو خود نبی تھے ، جن کے والد نبی تھے جن کے دادا نبی تھے ، جن کے پردادا نبی اور خلیل تھے ۔ انہوں نے کہا ہم یہ بھی نہیں پوچھتے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر کیا تم عرب کے قبیلوں کی نسبت یہ سوال کرتے ہو ؟ انہوں نے کہا جی ہاں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سنو جاہلیت کے زمانے میں جو ممتاز اور شریف تھے ۔ وہ اسلام لانے کے بعد بھی ویسے ہی شریف ہیں ، جب کہ انہوں نے دینی سمجھ حاصل کر لی ہو (صحیح بخاری:3374) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں نبیوں کے خواب اللہ کی وحی ہوتے ہیں ۔ مفسرین نے کہا ہے کہ یہاں گیارہ ستاروں سے مراد یوسف علیہ السلام کے گیارہ بھائی ہیں اور سورج چاند سے مراد آپ کے والد اور والدہ ہیں ۔ اس خواب کی تعبیر خواب دیکھنے کے چالیس سال بعد ظاہر ہوئی ۔ بعض کہتے ہیں اسی برس کے بعد ظاہر ہوئی ۔ آیت میں ہے «وَرَفَعَ أَبَوَیْہِ عَلَی الْعَرْشِ وَخَرٰوا لَہُ سُجَّدًا وَقَالَ یَا أَبَتِ ہٰذَا تَأْوِیلُ رُؤْیَایَ مِن قَبْلُ قَدْ جَعَلَہَا رَبِّی حَقًّا» ( 12-یوسف : 100 ) جب کہ آپ نے اپنے ماں باپ کو تخت شاہی پر بٹھایا ۔ اور گیارہ بھائی آپ کے سامنے سجدے میں گر پڑے ۔ اس وقت آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ میرے مہربان باپ یہ دیکھئیے آج اللہ تعالیٰ نے میرے خواب کو سچا کر دکھایا ۔ ایک روایت میں ہے کہ بستانہ نامی یہودیوں کا ایک زبردست عالم تھا ۔ اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان گیارہ ستاروں کے نام دریافت کئے ۔ آپ خاموش رہے ۔ جبرائیل علیہ السلام نے آسمان سے نازل ہو کر آپ کو نام بتائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلوایا اور فرمایا اگر میں تجھے ان کے نام بتا دوں تو تو مسلمان ہو جائے گا اس نے اقرار کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سن ان کے نام یہ ہیں ۔ جریان ، طارق ۔ ذیال ، ذوالکتفین ۔ قابل ۔ وثاب ۔ عمودان ۔ فلیق ۔ مصبح ۔ فروح ۔ فرغ ۔ یہودی نے کہا ہاں ہاں اللہ کی قسم ان ستاروں کے یہی نام ہیں ( مسند بزار،2220:ضعیف جدا ) یہ روایت دلائل بیہقی میں اور ابو یعلیٰ بزار اور ابن ابی حاتم میں بھی ہے ۔ ابو یعلیٰ میں یہ بھی ہے کہ یوسف علیہ السلام نے جب یہ خواب اپنے والد صاحب سے بیان کیا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا” یہ سچا خواب ہے یہ پورا ہو کر رہے گا “ ۔ آپ فرماتے ہیں سورج سے مراد باپ ہیں اور چاند سے مراد ماں ہیں ۔ لیکن اس روایت کی سند میں حکم بن ظہیر فزاری منفرد ہیں جنہیں بعض اماموں نے ضعیف کہا ہے اور اکثر نے انہیں متروک کر رکھا ہے یہی حسن یوسف کی روایت کے راوی ہیں ۔ انہیں چاروں ہی ضعیف کہتے ہیں ۔ یوسف
5 یعقوب علیہ السلام کی تعبیر اور ہدایات حضرت یوسف کا یہ خواب سن کر اس کی تعبیر کو سامنے رکھ کر یعقوب علیہ السلام نے تاکید کر دی کہ اسے بھائیوں کے سامنے نہ دہرانا کیونکہ اس خواب کی تعبیر یہ ہے کہ اور بھائی آپ کے سامنے پست ہونگے یہاں تک کہ وہ آپ کی عزت و تعظیم کے لیے آپ کے سامنے اپنی بہت ہی لاچاری اور عاجزی ظاہر کریں اس لیے بہت ہی ممکن ہے کہ اس خواب کو سن کر اس کی تعبیر کو سامنے رکھ کر شیطان کے بہکاوے میں آ کر ابھی سے وہ تمہاری دشمنی میں لگ جائیں ۔ اور حسد کی وجہ سے کوئی نامعقول طریق کار کرنے لگ جائیں اور کسی حیلے سے تجھے پست کرنے کی فکر میں لگ جائیں ۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تعلیم بھی یہی ہے ۔ فرماتے ہیں تم لوگ کوئی اچھا خواب دیکھو تو خیر اسے بیان کر دو اور جو شخص کوئی برا خواب دیکھے تو جس کروٹ پر ہو وہ کروٹ بدل دے اور بائیں طرف تین مرتبہ تھتکار دے اور اس کی برائی سے اللہ کی پناہ طلب کرے اور کسی سے اس کا ذکر نہ کرے ۔ اس صورت میں اسے وہ خواب کوئی نقصان نہ دے گا ۔ (صحیح بخاری:6995) مسند احمد وغیرہ کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں خواب کی تعبیر جب تک نہ لی جائے وہ گویا پرند کے پاؤں پر ہے ۔ ہاں جب اس کی تعبیر بیان ہو گئی پھر وہ ہو جاتا ہے ۔ (سنن ابوداود:5020،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اسی سے یہ حکم بھی لیا جا سکتا ہے ۔ کہ نعمت کو چھپانا چاہیئے ۔ جب تک کہ وہ ازخود اچھی طرح حاصل نہ ہو جائے اور ظاہر نہ ہو جائے ، جیسے کہ ایک حدیث میں ہے ۔ ضرورتوں کے پورا کرنے پر ان کی چھپانے سے بھی مدد لیا کرو کیونکہ ہر وہ شخص جسے کوئی نعمت ملے لوگ اس کے حسد کے درپے ہو جاتے ہیں ۔ (بیہقی فی شعب الایمان:6655:صحیح) یوسف
6 بشارت اور نصیحت حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے لخت جگر یوسف علیہ السلام کو انہیں ملنے والے مرتبوں کی خبر دیتے ہیں کہ جس طرح خواب میں اس نے تمہیں یہ فضیلت دکھائی اسی طرح وہ تمہیں نبوت کا بلند مرتبہ عطا فرمائے گا ۔ اور تمہیں خواب کی تعبیر سکھا دے گا ۔ اور تمہیں اپنی بھرپور نعمت دے گا یعنی نبوت ۔ جیسے کہ اس سے پہلے وہ ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کو اور اسحاق علیہ السلام کو بھی عطا فرما چکا ہے جو تمہارے دادا اور پردادا تھے ۔ اللہ تعالیٰ اس سے خوب واقف ہے کہ نبوت کے لائق کون ہے ؟ یوسف
7 یوسف علیہ السلام کے خاندان کا تعارف فی الواقع یوسف اور ان کے بھائیوں کے واقعات اس قابل ہیں کہ ان کا دریافت کرنے والا ان سے بہت سی عبرتیں حاصل کر سکے اور نصیحتیں لے سکے ۔ یوسف علیہ السلام کے ایک ہی ماں سے دوسرے بھائی بنیامین علیہ السلام تھے باقی سب بھائی دوسری ماں سے تھے ۔ یہ سب آپس میں کہتے ہیں ہے کہ واللہ ابا جان ہم سے زیادہ ان دونوں کو چاہتے ہیں ۔ تعجب ہے کہ ہم پر جو جماعت ہیں ان کو ترجیح دیتے ہیں جو صرف دو ہیں ۔ یقیناً یہ تو والد صاحب کی صریح غلطی ہے ۔ یہ یاد رہے کہ یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کی نبوت پر در اصل کوئی دلیل نہیں اور آیت کا طرز بیان تو بالکل اس کے خلاف پر ہے ۔ بعض لوگوں کا بیان ہے کہ اس واقعہ کے بعد انہیں نبوت ملی لیکن یہ چیز بھی محتاج دلیل ہے اور دلیل میں آیت قرآنی «قُولُوا آمَنَّا بِ اللہِ وَمَا أُنزِلَ إِلَیْنَا وَمَا أُنزِلَ إِلَیٰ إِبْرَاہِیمَ وَإِسْمَاعِیلَ وَإِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ» ( 2-البقرہ : 136 ) میں سے لفظ «أَسْبَاطِ» پیش کرنا بھی احتمال سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا ۔ اس لیے کہ بطون بنی اسرائیل کو اسباط کہا جاتا ہے جیسے کہ عرب کو قبائل کہا جاتا ہے اور عجم کو شعوب کہا جاتا ہے ۔ پس آیت میں صرف اتنا ہی ہے کہ بنی اسرائیل کے اسباط پر وحی الٰہی نازل ہو گئی انہیں اس لیے اجمالاً ذکر کیا گیا کہ یہ بہت تھے لیکن ہر سبط برادران یوسف علیہ السلام میں سے ایک کی نسل تھی ۔ پس اس کی کوئی دلیل نہیں کہ خاص ان بھائیوں کو اللہ تعالیٰ نے خلعت نبوت سے نوازا تھا «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ پھر آپس میں کہتے ہیں ایک کام کرو نہ رہے بانس نہ بجے بانسری ۔ یوسف «علیہ السلام» کا پاپ ہی کاٹو ۔ نہ یہ ہو نہ ہماری راہ کا کانٹا بنے ۔ ہم ہی ہم نظر آئیں ۔ اور ابا کی محبت صرف ہمارے ہی ساتھ رہے ۔ اب اسے باپ سے ہٹانے کی دو صورتیں ہیں یا تو اسے مار ہی ڈالو ۔ کہیں ایسی دور دوراز جگہ پھینک آؤ کہ ایک کی دوسرے کو خبر ہی نہ ہو ۔ اور یہ واردات کر کے پھر نیک بن جانا توبہ کر لینا اللہ معاف کرنے والا ہے یہ سن کر ایک نے مشورہ دیا جو سب سے بڑا تھا اس کا نام روبیل تھا ۔ کوئی کہتا ہے یہودا تھا کوئی کہتا ہے شمعون تھا ۔ اس نے کہا بھئی یہ تو ناانصافی ہے ۔ بے وجہ ، بے قصور صرف عداوت میں آ کر خون ناحق گردن پر لینا تو ٹھیک نہیں ۔ یہ بھی کچھ اللہ کی حکمت تھی رب کو منظور ہی نہ تھا ان میں قتل یوسف علیہ السلام کی قوت ہی نہ تھی ۔ منظور رب تو یہ تھا کہ یوسف علیہ السلام کو نبی بنائے ، بادشاہ بنائے اور انہیں عاجزی کے ساتھ اس کے سامنے کھڑا کرے ۔ پس ان کے دل روبیل کی رائے سے نرم ہو گئے اور طے ہوا کہ اسے کسی غیر آباد کنویں کی تہ میں پھینک دیں ۔ حضرت قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں یہ بیت المقدس کا کنواں تھا انہیں یہ خیال ہوا کہ ممکن ہے مسافر وہاں سے گزریں اور وہ اسے اپنے قافلے میں لے جائیں پھر کہاں یہ اور کہاں ہم ؟ جب گڑ دیئے کام نکلتا ہو تو زہر کیوں دو ؟ بغیر قتل کئے مقصود حاصل ہوتا ہے تو کیوں ہاتھ خون سے آلود کرو ۔ ان کے گناہ کا تصور تو کرو ۔ یہ رشتے داری کے توڑنے ، باپ کی نافرمانی کرنے ، چھوٹے پر ظلم کرنے ، بےگناہ کو نقصان پہنچانے بڑے بوڑھے کو ستانے اور حقدار کا حق کاٹنے حرمت و فضیلت کا خلاف کرنے بزرگی کو ٹالنے اور اپنے باپ کو دکھ پہنچانے اور اسے اس کے کلیجے کی ٹھنڈک اور آنکھوں کے سکھ سے ہمیشہ کے لیے دور کرنے اور بوڑھے باپ ، اللہ کے لاڈلے پیغمبر کو اس بڑھاپے میں ناقابل برداشت صدمہ پہنچانے اور اس بےسمجھ بچے کو اپنے مہربان باپ کی پیار بھری نگاہوں سے ہمیشہ اوجھل کرنے کے درپے ہیں ۔ اللہ کے دو نبیوں کو دکھ دینا چاہتے ہیں ۔ محبوب اور محب میں تفرقہ ڈالنا چاہتے ہیں ، سکھ کی جانوں کو دکھ میں ڈالنا چاہتے ہیں ۔ پھول سے نازک بے زبان بچے کو اس کے مشفق مہربان بوڑھے باپ کی نرم و گرم گودی سے الگ کرتے ہیں ۔ اللہ انہیں بخشے آہ شیطان نے کیسی الٹی پڑھائی ہے ۔ اور انہوں نے بھی کیسی بدی پر کمر باندھی ہے ۔ یوسف
8 یوسف
9 یوسف
10 یوسف
11 بڑے بھائی کی رائے پر اتفاق بڑے بھائی روبیل کے سمجھانے پر سب بھائیوں نے اس رائے پر اتفاق کر لیا کہ یوسف کو لے جائیں اور کسی غیر آباد کنویں میں ڈال آئیں ۔ یہ طے کرنے کے بعد باپ کو دھوکہ دینے اور بھائی کو پھسلا کر لے جانے اور اس پر آفت ڈھانے کے لیے سب مل کر باپ کے پاس آئے ۔ باوجودیکہ تھے یہ بد اندیش بد خواہ برا چاہنے والے لیکن باپ کو اپنی باتوں میں پھنسانے کے لیے اور اپنی گہری سازش میں انہیں الجھانے کے لیے پہلے ہی جال بچھاتے ہیں کہ ابا جی آخر کیا بات ہے جو آپ ہمیں یوسف کے بارے میں امین نہیں جانتے ؟ ہم تو اس کے بھائی ہیں اس کی خیر خواہیاں ہم سے زیادہ کون کر سکتا ہے ۔ ؟ «یَرْتَعْ وَیَلْعَبْ» کی دوسری قرآت «ترتع و نلعب» بھی ہے ۔ باپ سے کہتے ہیں کہ بھائی یوسف کو کل ہمارے ساتھ سیر کے لیے بھیجئے ۔ ان کا جی خوش ہو گا ، دو گھڑی کھیل کود لیں گے ، ہنس بول لیں گے ، آزادی سے چل پھر لیں گے ۔ آپ بے فکر رہیے ہم سب اس کی پوری حفاظت کریں گے ۔ ہر وقت دیکھ بھال رکھیں گے ۔ آپ ہم پر اعتماد کیجئے ہم اس کے نگہبان ہیں ۔ یوسف
12 یوسف
13 انجانے خطرے کا اظہار نبی اللہ یعقوب علیہ السلام اپنے بیٹوں کی اس طلب کا کہ بھائی یوسف کو ہمارے ساتھ سیر کے لیے بھیجئے جواب دیتے ہیں کہ تمہیں معلوم ہے مجھے اس سے بہت محبت ہے ۔ تم اسے لے جاؤ گے مجھ پر اس کی اتنی دیر کی جدائی بھی شاق گزرے گی ۔ یعقوب علیہ السلام کی اس بڑھی ہوئی محبت کی وجہ یہ تھی کہ آپ یوسف علیہ السلام کے چہرے پر خیر کے نشان دیکھ رہے تھے ۔ نبوت کا نور پیشانی سے ظاہر تھا ۔ اخلاق کی پاکیزگی ایک ایک بات سے عیاں تھی ۔ صورت کی خوبی ، سیرت کی اچھائی کا بیان تھی ، اللہ کی طرف سے دونوں باپ بیٹوں پر صلوۃ و سلام ہو ۔ دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ ممکن ہے تم اپنی بکریوں کے چرانے چگانے اور دوسرے کاموں میں مشغول رہو اور اللہ نہ کرے کوئی بھیڑیا آ کر اس کا کام تمام کر جائے اور تمہیں پتہ بھی نہ چلے ۔ آہ یعقوب علیہ السلام کی اسی بات کو انہوں نے لے لیا اور دماغ میں بسا لیا کہ یہی ٹھیک عذر ہے ، یوسف علیہ السلام کو الگ کر کے ابا کے سامنے یہی من گھڑت گھڑ دیں گے ۔ اسی وقت بات بنائی اور جواب دیا کہ ابا آپ نے کیا خوب سوچا ۔ ہماری جماعت کی جماعت قوی اور طاقتور موجود ہو اور ہمارے بھائی کو بھیڑیا کھا جائے ؟ بالکل نا ممکن ہے ۔ اگر ایسا ہو جائے تو پھر تو ہم سب بے کار نکمے عاجز نقصان والے ہی ہوئے ۔ یوسف
14 یوسف
15 بھائی اپنے منصوبہ میں کامیاب ہو گئے سمجھا بجھا کر بھائیوں نے باپ کو راضی کر ہی لیا ۔ اور یوسف علیہ السلام کو لے کر چلے جنگل میں جا کر سب نے اس بات پر اتفاق کیا کہ یوسف علیہ السلام کو کسی غیر آباد کنویں کی تہ میں ڈال دیں ۔ حالانکہ باپ سے یہ کہہ کر لے گئے تھے کہ اس کا جی بہلے گا ، ہم اسے عزت کے ساتھ لے جائیں گے ۔ ہر طرح خوش رکھیں گے ۔ اس کا جی بہل جائے گا اور یہ راضی خوشی رہے گا ۔ یہاں آتے ہی غداری شروع کر دی اور لطف یہ ہے کہ سب نے ایک ساتھ دل سخت کر لیا ۔ باپ نے ان کی باتوں میں آ کر اپنے لخت جگر کو ان کے سپرد کر دیا ۔ جاتے ہوئے سینے سے لگا کر پیار پچکار کر دعائیں دے کر رخصت کیا ۔ باپ کی آنکھوں سے ہٹتے ہی ان سب نے بھائی کو ایذائیں دینی شروع کر دیں برا بھلا کہنے لگے اور چانٹا چٹول سے بھی باز نہ رہے ۔ مارتے پیٹتے برا بھلا کہتے ، اس کنویں کے پاس پہنچے اور ہاتھ پاؤں رسی سے جکڑ کر کنویں میں گرانا چاہا ۔ آپ ایک ایک کے دامن سے چمٹتے ہیں اور ایک ایک سے رحم کی درخواست کرتے ہیں لیکن ہر ایک جھڑک دیتا ہے اور دھکا دے کر مار پیٹ کر ہٹا دیتا ہے مایوس ہو گئے سب نے مل کر مضبوط باندھا اور کنویں میں لٹکا دیا آپ علیہ السلام نے کنویں کا کنارا ہاتھ سے تھام لیا لیکن بھائیوں نے انگلیوں پر مار مار کر اسے بھی ہاتھ سے چھڑا لیا ۔ آدھی دور آپ پہنچے ہوں گے کہ انہوں نے رسی کاٹ دی ۔ آپ علیہ السلام تہ میں جا گرے ، کنویں کے درمیان ایک پتھر تھا جس پر آ کر کھڑے ہو گئے ۔ عین اس مصیبت کے وقت عین اس سختی اور تنگی کے وقت اللہ تعالیٰ نے آپ کی جانب وحی کی کہ آپ کا دل مطمئن ہو جائے آپ علیہ السلام صبر و برداشت سے کام لیں اور انجام کا آپ کو علم ہو جائے ۔ وحی میں فرمایا گیا کہ غمگین نہ ہو یہ نہ سمجھ کہ یہ مصیبت دور نہ ہو گی ۔ سن اللہ تعالیٰ تجھے اس سختی کے بعد آسانی دے گا ۔ اس تکلیف کے بعد راحت ملے گی ۔ ان بھائیوں پر اللہ تجھے غلبہ دے گا یہ گو تجھے پست کرنا چاہتے ہیں لیکن اللہ کی چاہت ہے کہ وہ تجھے بلند کرے ۔ یہ جو کچھ آج تیرے ساتھ کر رہے ہیں وقت آئے گا کہ تو انہیں ان کے اس کرتوت کو یاد دلائے گا اور یہ ندامت سے سر جھکائے ہوئے ہوں گے اپنے قصور سن رہے ہوں گے ۔ اور انہیں یہ بھی معلوم نہ ہو گا کہ تو وہ ہے ۔ چنانچہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب برادران یوسف ، یوسف علیہ السلام کے پاس پہنچے تو آپ علیہ السلام نے تو انہیں پہچان لیا لیکن یہ نہ پہچان سکے ۔ اس وقت آپ علیہ السلام نے ایک پیالہ منگوایا اور اپنے ہاتھ پر رکھ کر اسے انگلی سے ٹھونکا ۔ آواز نکلی ہی تھی اس وقت آپ نے فرمایا لو یہ جام تو کچھ کہہ رہا ہے اور تمہارے متعلق ہی کچھ خبر دے رہا ہے ۔ یہ کہہ رہا ہے تمھارا ایک یوسف نامی سوتیلا بھائی تھا ۔ تم اسے باپ کے پاس سے لے گئے اور اسے کنویں میں پھینک دیا ۔ پھر اسے انگلی ماری اور ذرا سی دیر کان لگا کر فرمایا لو یہ کہہ رہا ہے کہ پھر تم اس کے کرتے پر جھوٹا خون لگا کر باپ کے پاس گئے اور وہاں جا کر ان سے کہہ دیا کہ تیرے لڑکے کو بھیڑیئے نے کھا لیا ۔ اب تو یہ حیران ہو گئے آپس میں کہنے لگے ہائے برا ہوا بھانڈا پھوٹ گیا اس جام نے تو تمام سچی سچی باتیں بادشاہ سے کہہ دیں ۔ پس یہی ہے جو آپ کو کنویں میں وحی ہوئی کہ ان کے اس کے کرتوت کو تو انہیں ان کے بے شعوری میں جتائے گا ۔ یوسف
16 بھائیوں کی واپسی اور معذرت چپ چاپ ننھے بھیا پر ، اللہ کے معصوم نبی پر ، باپ کی آنکھ کے تارے پر ظلم وستم کے کے پہاڑ توڑ کر رات ہوئے باپ کے پاس سرخ رو ہونے اور اپنی ہمدردی ظاہر کرنے کے لیے غمزدہ ہو کر روتے ہوئے پہنچے اور اپنے ملال کا یوسف علیہ السلام کے نہ ہونے کا سبب یہ بیان کیا کہ ہم نے تیر اندازی اور ڈور شروع کی ۔ چھوٹے بھائی کو اسباب کے پاس چھوڑا ۔ اتفاق کی بات ہے اسی وقت بھیڑیا آ گیا اور بھائی کا لقمہ بنا لیا ۔ چیڑ پھاڑ کر کھا گیا ۔ پھر باپ کو اپنی بات صحیح طور پر جچانے اور ٹھیک باور کرانے کے لیے پانی سے پہلے بند باندھتے ہیں کہ ہم اگر آپ کے نزدیک سچے ہی ہوتے تب بھی یہ واقعہ ایسا ہے کہ آپ ہمیں سچا ماننے میں تامل کرتے ۔ پھر جب کہ پہلے ہی سے آپ نے اپنا ایک کھٹکا ظاہر کیا ہو اور خلاف ظاہر واقع میں ہی اتفاقاً ایسا ہی ہو بھی جائے تو ظاہر ہے کہ آپ اس وقت تو وہ ہمیں سچا مان ہی نہیں سکتے ۔ ہیں تو ہم سچے ہی لیکن آپ بھی ہم پر اعتبار نہ کرنے میں ایک حد تک حق بجانب ہیں ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہی ایسا انوکھا ہے ہم خود حیران ہیں کہ ہو کیا گیا یہ تو تھا زبانی کھیل ایک کام بھی اسی کے ساتھ کر لائے تھے یعنی بکری کے ایک بچے کو ذبح کر کے اس کے خون سے یوسف کا پیراہن داغدار کر دیا کہ بطور شہادت کے ابا کے سامنے پیش کریں گے کہ دیکھو یہ ہیں یوسف بھائی کے خون کے دھبے ان کے کرتے پر ۔ لیکن اللہ کی شان چور کے پاؤں کہاں ؟ سب کچھ تو کیا لیکن کرتا پھاڑنا بھول گئے ۔ اس کے لیے باپ پر سب مکر کھل گیا ۔ لیکن اللہ کے نبی علیہ السلام نے ضبط کیا اور صاف لفظوں میں گو نہ کہا تاہم بیٹوں کو بھی پتہ چل گیا کہ ابا جی کو ہماری بات جچی نہیں فرمایا کہ تمہارے دل نے یہ تو ایک بات بنادی ہے ۔ خیر میں تو تمہاری اس مذبوحی حرکت پر صبر ہی کروں گا ۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے رحم و کرم سے اس دکھ کو ٹال دے ۔ تم جو ایک جھوٹی بات مجھ سے بیان کر رہے ہو اور ایک محال چیز پر مجھے یقین دلا رہے ہو اور اس پر میں اللہ سے مدد طلب کرتا ہوں اور اس کی مدد شامل حال رہے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ ہو جائے گا ۔ سیدنا ابن عباس کا قول ہے کہ کرتا دیکھ کر آپ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ تعجب ہے بھیڑیا یوسف علیہ السلام کو کھا گیا اس کا پیراہن خون آلود ہو گیا مگر کہیں سے ذرا بھی نہ پھٹا ۔ خیر میں صبر کروں گا ۔ جس میں کوئی شکایت نہ ہو نہ کوئی گھبراہٹ ہو ۔ کہتے ہیں کہ تین چیزوں کا نام صبر ہے اپنی مصیبت کا کسی سے ذکر نہ کرنا ۔ اپنے دل کا دکھڑا کسی کے سامنے نہ رونا اور ساتھ ہی اپنے نفس کا پاک نہ سمجھا ۔ امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ اس موقعہ پر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس واقعہ کی پوری حدیث کو بیان کیا ہے جس میں آپ پر تہمت لگائے جانے کا ذکر ہے ۔ اس میں آپ نے فرمایا ہے واللہ میری اور تمہاری مثال یوسف علیہ السلام کے باپ کی سی ہے کہ انہوں نے فرمایا تھا اب صبر ہی بہتر ہے اور تمہاری ان باتوں پر اللہ ہی سے مدد چاہی گئی ہے ۔(صحیح بخاری:2661) یوسف
17 یوسف
18 یوسف
19 کنویں سے بازار مصر تک بھائی تو یوسف علیہ السلام کو کنویں میں ڈال کر چل دیئے ۔ یہاں تین دن آپ کو اسی اندھیرے کنویں میں اکیلے گزر گئے ۔ محمد بن اسحاق رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ اس کنویں میں گرا کر بھائی تماشا دیکھنے کے لیے اس کے آس پاس ہی دن بھر پھرتے رہے کہ دیکھیں وہ کیا کرتا ہے اور اس کے ساتھ کیا کیا جاتا ہے ؟ قدرت اللہ کی کہ ایک قافلہ وہیں سے گزرا ۔ انہوں نے اپنے سقے کو پانی کے لئے بھیجا ۔ اس نے اسی کونے میں ڈول ڈالا ، یوسف علیہ السلام نے اس کی رسی کو مضبوط تھام لیا اور بجائے پانی کے آپ باہر نکلے ۔ وہ آپ کو دیکھ کر باغ باغ ہو گیا رہ نہ سکا با آواز بلند کہہ اٹھا کہ لو سبحان اللہ یہ تو نوجوان بچہ آ گیا ۔ دوسری قرأت اس کی «یابشرای» بھی ہے ۔ سدی رحمہ اللہ کہتے ہیں «بُشْرَیٰ» سقے کے بھیجنے والے کا نام بھی تھا اس نے اس کا نام لے کر پکار کر خبر دی کہ میرے ڈول میں تو ایک بچہ آیا ہے ۔ لیکن سدی رحمہ اللہ کا یہ قول غریب ہے ۔ اس طرح کی قرآت پر بھی وہی معنی ہو سکتے ہیں اس کی اضافت اپنے نفس کی طرف ہے اور یا یہ اضافت ساقط ہے ۔ اسی کی تائید قرآت «یا بشرای» سے ہوتی ہے جیسے عرب کہتے «یانفس اصبری» اور «یا غلام اقبل» اضافت کے حرف کو ساقط کر کے ۔ اس وقت کسرہ دینا بھی جائز ہے اور رفع دینا بھی ۔ پس وہ اسی قبیل سے ہے اور دوسری قرآت اس کی تفسیر ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ ان لوگوں نے آپ کو بحیثیت پونجی کے چھپا لیا قافلے کے اور لوگوں پر اس راز کا ظاہر نہ کیا بلکہ کہہ دیا کہ ہم نے کنویں کے پاس کے لوگوں سے اسے خریدا ہے ، انہوں نے ہمیں اسے دے دیا ہے تاکہ وہ بھی اپنا حصہ نہ ملائیں ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مراد یہ بھی ہے کہ برادران یوسف نے شناخت چھپائی اور یوسف نے بھی اپنے آپ کو ظاہر نہ کیا کہ ایسا نہ ہو یہ لوگ کہیں مجھے قتل ہی نہ کر دیں ۔ اس لیے چپ چاپ بھائیوں کے ہاتھوں آپ بک گئے ۔ سقے سے انہوں نے کہا اس نے آواز دے کر بلا لیا انہوں نے اونے پونے یوسف علیہ السلام کو ان کے ہاتھ بیچ ڈالا ۔ اللہ کچھ ان کی اس حرکت سے بے خبر نہ تھا وہ خوب دیکھ بھال رہا تھا وہ قادر تھا کہ اس وقت اس بھید کو ظاہر کر دے لیکن اس کی حکمتیں اسی کے ساتھ ہیں اس کی تقدیر یونہی یعنی جاری ہوئی تھی ۔ خلق و امرا اسی کا ہے وہ رب العالمین برکتوں والا ہے اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ایک طرح تسکین دی گئی ہے کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ قوم آپ کو دکھ دے رہی ہے میں قادر ہوں کہ آپ کو ان سے چھڑا دوں انہیں غارت کر دوں لیکن میرے کام الحکمت کے ساتھ ہیں دیر ہے اندھیر نہیں بے فکر رہو ، عنقریب غالب کروں گا اور رفتہ رفتہ ان کو پست کر دوں گا ۔ جیسے کہ یوسف علیہ السلام اور ان کے بھائیوں کے درمیان میری حکمت کا ہاتھ کام کرتا رہا ۔ یہاں تک کا آخر انجام یوسف علیہ السلام کے سامنے انہیں جھکنا پڑا اور ان کے مرتبے کا اقرار کرنا پڑا ۔ بہت تھوڑے مول پر بھائیوں نے انہیں بیچ دیا ۔ ناقص چیز کے بدلے بھائی جیسا بھائی دے دیا ۔ اور اس کی بھی انہیں کوئی پرواہ نہ تھی بلکہ اگر ان سے بالکل بلا قیمت مانگا جاتا تو بھی دے دیتے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ مطلب یہ ہے کہ قافلے والوں نے اسے بہت کم قیمت پر خریدا ۔ لیکن یہ کچھ زیادہ درست نہیں اس لیے کہ انہوں نے تو اسے دیکھ کر خوشیاں منائی تھی اور بطور پونجی اسے پوشیدہ کر دیا تھا ۔ پس اگر انہیں اس کی بے رغبتی ہوتی تو وہ ایسا کیوں کرتے ؟ پس ترجیح اسی بات کو ہے کہ یہاں مراد بھائیوں کا یوسف علیہ السلام کو گرے ہوئے نرخ پر بیچ ڈالنا ہے ۔ نجس سے مراد حرام اور ظلم بھی ہے ۔ لیکن یہاں وہ مراد نہیں لی گئی ۔ کیونکہ اس قیمت کی حرمت کا علم تو ہر ایک کو ہے ۔ یوسف علیہ السلام نبی بن نبی بن نبی خلیل الرحمن علیہ السلام تھا ۔ پس آپ علیہ السلام تو کریم بن کریم بن کریم بن کریم تھے ۔ پس یہاں مراد نقص کم تھوڑی اور کھوٹی بلکہ برائے نام قیمت پر بیچ ڈالنا ہے باوجود اس کے وہ ظلم و حرام بھی تھا ۔ بھائی کو بیچ رہے ہیں اور وہ بھی کوڑیوں کے مول ۔ چند درہموں کے بدلے بیس یا بائیس یا چالیس درہم کے بدلے ۔ یہ دام لے کر آپس میں بانٹ لیے ۔ اور اس کی انہیں کوئی پرواہ نہ تھی انہیں نہیں معلوم تھا کہ اللہ کے ہاں ان کی کیا قدر ہے ؟ وہ کیا جانتے تھے کہ یہ اللہ کے نبی بننے والے ہں ۔ حضرت مجاہد رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ اتنا سب کچھ کرنے پر بھی صبر نہ ہوا قافلے کے پیچھے ہو لیے اور ان سے کہنے لگے دیکھو اس غلام میں بھاگ نکلنے کی عادت ہے ، اسے مضبوط باندھ دو ، کہیں تمہارے ہاتھوں سے بھی بھاگ نہ جائے ۔ اسی طرح باندھے باندھے مصر تک پہنچے اور وہاں آپ کوعلیہ السلام بازار میں لیجا کر بیچنے لگے ۔ اس وقت یوسف علیہ السلام نے فرمایا مجھے جو لے گا وہ خوش ہو جائے گا ۔ پس شاہ مصر نے آپ کو خرید لیا وہ تھا بھی مسلمان ۔ یوسف
20 یوسف
21 بازار مصر سے شاہی محل تک رب کا لطف بیان ہو رہا ہے کہ جس نے آپ علیہ السلام کو مصر میں خریدا ، اللہ نے اس کے دل میں آپ علیہ السلام کی عزت و وقعت ڈال دی ۔ اس نے آپ علیہ السلام کے نورانی چہرے کو دیکھتے ہی سمجھ لیا کہ اس میں خیر و صلاح ہے ۔ یہ مصر کا وزیر تھا ۔ اس کا نام قطفیر تھا ۔ کوئی کہتا ہے اطفیر تھا ۔ اس کے باپ کا نام دوحیب تھا ۔ یہ مصر کے خزانوں کا داروغہ تھا ۔ مصر کی سلطنت اس وقت ریان بن ولید کے ہاتھ تھی ۔ یہ عمالیق میں سے ایک شخص تھا ۔ ۔ عزیز مصر کی بیوی صاحبہ کا نام راعیل تھا ۔ کوئی کہتا ہے زلیخا تھا ۔ یہ رعابیل کی بیٹی تھیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ مصر میں جس نے آپ کو خریدا اس کا نام مالک بن ذعربن قریب بن عنق بن مدیان بن ابراہیم تھا ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں سب سے زیادہ دوربین اور دور رس اور انجام پر نظریں رکھنے والے اور عقلمندی سے تاڑنے والے تین شخص گزرے ہیں ۔ ایک تو یہی عزیز مصر کہ بیک نگاہ یوسف کو تاڑ لیا گیا اور جاتے ہی بیوی سے کہا کہ اسے اچھی طرح آرام سے رکھو ۔ دوسری وہ بچی جس نے موسیٰ علیہ السلام کو بیک نگاہ جان لیا اور جا کر باپ سے کا کہ «قَالَتْ إِحْدَاہُمَا یَا أَبَتِ اسْتَأْجِرْہُ ۖ إِنَّ خَیْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِیٰ الْأَمِینُ» ( 28-القص : 26 ) اگر آپ کو آدمی کی ضرورت ہے تو ان سے معاملہ کر لیجئے یہ قوی اور باامانت شخص ہے ۔ تیسرے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کہ آپ نے دنیا سے رخت ہوتے ہوئے خلافت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جیسے شخص کو سونپی ۔ یہاں اللہ تعالیٰ اپنا ایک اور احسان بیان فرما رہا ہے کہ بھائیوں کے پھندے سے ہم نے چھڑایا پھر ہم نے مصر میں لا کر یہاں کی سر زمین پر ان کا قدم جما دیا ۔ کیونکہ اب ہمارا یہ ارادہ پورا ہونا تھا کہ ہم اسے تعبیر خواب کا کچھ علم عطا فرمائیں ۔ اللہ کے ارادہ کو کون ٹال سکتا ہے ۔ کون روک سکتا ہے ؟ کون خلاف کر سکتا ہے ؟ وہ سب پر غالب ہے ۔ سب اس کے سامنے عاجز ہیں جو وہ چاہتا ہے ہو کر ہی رہتا ہے جو ارادہ کرتا ہے کر چکتا ہے ۔ لیکن اکثر لوگ علم سے خالی ہوتے ہیں ۔ اس کی حکمت کو مانتے ہیں نہ اس کی حکمت کو جانتے ہیں نہ اس کی باریکیوں پر ان کی نگاہ ہوتی ہے ۔ نہ وہ اس کی حکمتوں کو سمجھ سکتے ہیں ۔ جب آپ کی عقل کامل ہوئی جب جسم اپنی نشو و نما تمام کر چکا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبوت عطا فرمائی اور اس سے آپ کو مخصوص کیا ۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہم نیک کاروں کو اسی طرح بھلا بدلہ دیتے ہیں ۔ کہتے ہیں اس سے مراد تینتیس برس کی عمر ہے ۔ یا تیس سے کچھ اوپر کی یا بیس کی یا چالیس کی یا پچیس کی یا تیس کی یا اٹھارہ کی ۔ یا مراد جوانی کو پہنچنا ہے اور اس کے سوا اور اقوال بھی ہیں «وَاللہُ اَعْلَمُ» یوسف
22 یوسف
23 زلیخا کی بدنیتی سے الزام تک عزیز مصر جس نے آپ علیہ السلام کو خریدا تھا اور بہت اچھی طرح اولاد کے مثل رکھا تھا اپنی گھر والی سے بھی تاکیداً کہا تھا کہ انہیں کسی طرح تکلیف نہ ہو عزت و اکرام سے انہیں رکھو ۔ اس عورت کی نیت میں کھوٹ آ جاتی ہے ۔ جمال یوسف علیہ السلام پر فریفتہ ہو جاتی ہے ۔ دروازے بھیڑ کر بن سنور کر برے کام کی طرف یوسف علیہ السلام کو بلاتی ہے لیکن یوسف علیہ السلام بڑی سختی سے انکار کر کے اسے مایوس کر دیتے ہیں ۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ تیرا خاوند میرا سردار ہے ۔ اس وقت اہل مصر کے محاورے میں بڑوں کے لیے یہی لفظ بولا جاتا تھا ۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں تمہارے خاوند کی مجھ پر مہربانی ہے وہ میرے ساتھ سلوک و احسان سے پیش آتے ہیں ۔ پھر کیسے ممکن ہے کہ میں ان کی خیانت کروں ۔ یاد رکھو چیز کو غیر جگہ رکھنے والے بھلائی سے محروم ہو جاتے ہیں ۔ «ھَیْتَ لَکَ» کو بعض لوگ سریانی زبان کا لفظ کہتے ہیں بعض قطبی زبان کا بعض اسے غریب لفظ بتلاتے ہیں ۔ کسائی اسی قرأت کو پسند کرتے تھے اور کہتے تھے اہل حوران کا یہ لغت ہے جو حجاز میں آ گیا ہے ۔ اہل حوران کے ایک عالم نے کہا ہے کہ یہ ہمارا لغت ہے ۔ امام ابن جریر نے اس کی شہادت میں شعر بھی پیش کیا ہے ۔ اس کے دوسری قرأت «ھئت» بھی ہے پہلی قرأت کے معنی تو آؤ کے تھے ، اس کے معنی میں تیرے لیے تیار ہوں بعض لوگ اس قرأت کا انکار ہی کرتے ہیں ۔ ایک قرأت ھئت بھی ہے ۔ یہ قرأت غریب ہے ۔ عام مدنی لوگوں کی یہی قرأت ہے ۔ اس پر بھی شہادت میں شعر پیش کیا جاتا ہے ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں قاریوں کی قرأتیں قریب قریب ہیں پس جس طرح تم سکھائے گئے ہو پڑھتے رہو ۔ گہرائی سے اور اختلاف سے اور لعن طعن سے اور اعتراض سے بچو اس لفظ کے یہی معنی ہیں کہ آ اور سامنے ہو وغیرہ ۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے اس لفظ کو پڑھا کسی نے کہا اسے دوسری طرح بھی پڑھتے ہیں آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا درست ہے مگر میں نے تو جس طرح سیکھا ہے اسی طرح پڑھوں گا ۔ یعنی «ھَیتَ» نہ کہ «ھِیتُ» یہ لفظ تذکیر تانیث واحد تثنیہ جمع سب کے لیے یکساں ہوتا ہے ۔ جیسے «ھَیْتَ لَکَ ھَیْتَ لَکُمْ ھَیْتَ لَکُمَا ھَیْتَ لَکُنَّ ھَیْتَ لَھُنَّ» ۔ یوسف
24 یوسف علیہ السلام کے تقدس کا سبب سلف کی ایک جماعت سے تو اس آیت کے بارے میں وہ مروی ہے جو ابن جریر وغیرہ لائے ہیں اور کہا گیا ہے کہ یوسف علیہ السلام کا قصد اس عورت کے ساتھ صرف نفس کا کھٹکا تھا ۔ بغوی کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ عزوجل کا فرمان ہے کہ جب میرا کوئی بندہ نیکی کا ارادہ کرے تو تم اس کی نیکی لکھ لو ۔ اور جب اس نیکی کو کر گزرے تو اس جیسی دس گنی نیکی لکھ لو ۔ اور اگر کسی برائی کا ارادہ کرے اور پھر اسے نہ کرے تو اس کے لیے نیکی لکھ لو ۔ کیونکہ اس نے میری وجہ سے اس برائی کو چھوڑا ہے ۔ اور اگر اس برائی کو ہی کر گزرے تو اس کے برابر اسے لکھ لو ۔ اس حدیث کے الفاظ اور بھی کئی ایک ہیں اصل بخاری ، مسلم میں بھی ہے ۔ (صحیح بخاری:7051) ایک قول ہے کہ یوسف علیہ السلام نے اسے مارنے کا قصد کیا تھا ۔ ایک قول ہے کہ اسے بیوی بنانے کی تمنا کی تھی ۔ ایک قول ہے کہ آپ قصد کرتے اگر اگر دلیل نہ دیکھتے لیکن چونکہ دلیل دیکھ لی قصد نہیں فرمایا ۔ لیکن اس قول میں عربی زبان کی حیثیت سے کلام ہے جسے امام ابن جریر وغیرہ نے بیان فرمایا ہے ۔ یہ تو تھے اقوال قصد یوسف کے متعلق ۔ وہ دلیل جو آپ نے دیکھی اس کے متعلق بھی اقوال ملاحظہ فرمائیے ۔ کہتے ہیں اپنے والد یعقوب علیہ السلام کو دیکھا کہ گویا وہ اپنی انگلی منہ میں ڈالے کھڑے ہیں ۔ اور یوسف علیہ السلام کے سینے پر آپ نے ہاتھ مارا ۔ کہتے ہیں اپنے سردار کی خیالی تصویر سامنے آ گئی ۔ کہتے ہیں آپ کی نظر چھت کی طرف اُٹھ گئی دیکھتے ہیں کہ اس پر یہ آیت لکھی ہوئی ہے «وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَیٰ ۖ إِنَّہُ کَانَ فَاحِشَۃً وَسَاءَ سَبِیلًا» ( 17-الاسراء : 32 ) خبردار زنا کے قریب بھی نہ بھٹکنا وہ بڑی بے حیائی کا اور اللہ کے غضب کا کام ہے اور وہ بڑا ہی برا راستہ ہے ۔ کہتے ہیں تین آیتیں لکھی ہوئی تھیں ایک تو آیت «وَإِنَّ عَلَیْکُمْ لَحَافِظِینَ» ( 82-الانفطار : 10 ) تم پر نگہبان مقرر ہیں ۔ دوسری آیت «وَمَا تَکُونُ فِی شَأْنٍ» ( 10-یونس : 61 ) تم جس حال میں ہو اللہ تمہارے ساتھ ہے ۔ تیسری آیت «أَفَمَنْ ہُوَ قَائِمٌ عَلَیٰ کُلِّ نَفْسٍ بِمَا کَسَبَتْ» ( 13-الرعد : 33 ) اللہ ہر شخص کے ہر عمل پر حاضر ناظر ہے ۔ کہتے ہیں کہ چار آیتیں لکھی پائی تین وہی جو اوپر ہیں اور ایک حرمت زنا کی «وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَیٰ ۖ إِنَّہُ کَانَ فَاحِشَۃً وَسَاءَ سَبِیلًا» ( 17-الاسراء : 32 ) جو اس سے پہلے ہے ۔ کہتے ہیں کہ کوئی آیت دیوار پر ممانعت زنا کے بارے میں لکھی ہوئی پائی ۔ کہتے ہیں ایک نشان تھا جو آپ کے ارادے سے آپ کو روک رہا تھا ۔ ممکن ہے وہ صورت یعقوب علیہ السلام ہو ۔ اور ممکن ہے اپنے خریدنے والے کی صورت ہو ۔ اور ممکن ہے آیت قرآنی ہو کوئی ایسی صاف دلیل نہیں کہ کسی خاص ایک چیز کے فیصلے پر ہم پہنچ سکیں ۔ پس بہت ٹھیک راہ ہمارے لیے یہی ہے کہ اسے یونہی مطلق چھوڑ دیا جائے جیسے کہ اللہ کے فرمان میں بھی اطلاق ہے ( اسی طرح قصد کو بھی ) پھر فرماتا ہے ہم نے جس طرح اس وقت اسے ایک دلیل دکھا کر برائی سے بچا لیا ، اسی طرح اس کے اور کاموں میں بھی ہم اس کی مدد کرتے رہے اور اسے برائیوں اور بے حیائیوں سے محفوظ رکھتے رہے ۔ وہ تھا بھی ہمارا برگزیدہ پسندیدہ بہترین اور مخلص بندہ ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ پر درود و سلام نازل ہوں ۔ یوسف
25 الزام کی مدافعت اور بچے کی گواہی حضرت یوسف علیہ السلام اپنے آپ کو بچانے کے لیے وہاں سے دروازے کی طرف دوڑے اور یہ عورت آپ کو پکڑنے کے ارادے سے آپ علیہ السلام کے پیچھے بھاگی ۔ پیچھے سے کرتا اس کے ہاتھ میں آ گیا ۔ زور سے اپنی طرف گھسیٹا ۔ جس سے یوسف علیہ السلام پیچھے کی طرف گر جانے کی قریب ہو گئے لیکن آپ علیہ السلام نے آگے کو زور لگا کر دوڑ جاری رکھی اس میں کرتا پیچھے سے بالکل بےطرح پھٹ گیا اور دونوں دروازے پر پہنچ گئے دیکھتے ہیں کہ عورت کا خاوند موجود ہے ۔ اسے دیکھتے ہی اس نے چال چلی اور فوراً ہی سارا الزام یوسف کے سر تھوپ دیا اور اپنی پاک دامنی بلکہ عصمت اور مظلومیت جتانے لگی ۔ سوکھا سامنہ بنا کر اپنے خاوند سے اپنی بپتا اور پھر پاکیزگی بیان کرتے ہوئے کہتی ہے فرمائیے حضور آپ کی بیوی سے جو بدکاری کا ارادہ رکھے اس کی کیا سزا ہونی چاہیئے ؟ قید سخت یا بری مار سے کم تو ہرگز کوئی سزا اس جرم کی نہیں ہو سکتی ۔ اب جب کہ یوسف علیہ السلام نے اپنی آبرو کو خطرے میں دیکھا اور خیانت کی بدترین تہمت لگتی دیکھی تو اپنے اوپر سے الزام ہٹانے اور صاف اور سچی حقیقت کے ظاہر کر دینے کے لیے فرمایا کہ حقیقت یہ ہے کہ یہی میرے پیچھے پڑی تھی ، میرے بھاگنے پر مجھے پکڑ رہی تھی ، یہاں تک کہ میرا کرتا بھی پھاڑ دیا ۔ اس عورت کے قبیلے سے ایک گواہ نے گواہی دی ۔ اور مع ثبوت و دلیل ان سے کہا کہ پھٹے ہوئے پیرہن کو دکھ لو اگر وہ سامنے کے رخ سے پھٹا ہوا ہے تو ظاہر ہے کہ عورت سچی ہے اور یہ جھوٹا ہے اس نے اسے اپنی طرف لانا چاہا اس نے اسے دھکے دیئے ۔ روکا منع کیا ہٹایا اس میں سامنے سے کرتا پھٹ گیا تو واقع قصوروار مرد ہے اور عورت جو اپنی بےگناہی بیان کرتی ہے وہ سچی ہے فی الواقع اس صورت میں وہ سچی ہے ۔ اور اگر اس کا کرتا پیچھے سے پھٹا ہوا پاؤ تو عورت کے جھوٹ اور مرد کے سچ ہونے میں شبہ نہیں ۔ ظاہر ہے کہ عورت اس پر مائل تھی یہ اس سے بھاگا وہ دوڑی ، پکڑا ، کرتا ہاتھ میں آ گیا اس نے اپنی طرف گھسیٹا اس نے اپنی جانب کھینچا وہ پیچھے کی طرف سے پھٹ گیا ۔ کہتے ہیں یہ گواہ بڑا آدمی تھا جس کے منہ پر داڑھی تھی یہ عزیز مصر کا خاص آدمی تھا اور پوری عمر کا مرد تھا ۔ اور زلیخا کے چچا کا لڑکا تھا زلیخا بادشاہ وقت ریان بن ولید کی بھانجی تھی پس ایک قول تو اس گواہ کے متعلق یہ ہے ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ یہ ایک چھوٹا سا دودھ پیتا گہوارے میں جھولتا بچہ تھا ۔ ابن جریر میں ہے کہ چار چھوٹے بچوں بچپن میں ہی کلام کیا ہے اس پوری حدیث میں ہے اس بچے کا بھی ذکر ہے اس نے یوسف صدیق علیہ السلام کی پاک دامنی کی شہادت دی تھی ۔(تفسیر ابن جریر الطبری:19118:صحیح مرفوعاً صحیح موقوفاً) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں چار بچوں نے کلام کیا ہے ۔ فرعون کی لڑکی کی مشاطہٰ کے لڑکے نے ۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے گواہ نے ۔ حضرت جریج کے صاحب نے اور عیسٰی بن مریم علیہ السلام نے ۔ حضرت مجاہد رحمہ اللہ نے تو ایک بالکل ہی غریب بات کہی ہے ۔ وہ کہتے ہیں وہ صرف اللہ کا حکم تھا کوئی انسان تھا ہی نہیں ۔ اسی تجویز کے مطابق جب زلیخا کے شوہر نے دیکھا تو یوسف علیہ السلام کے پیراہن کو پیچھے کی جانب سے پھٹا ہوا دیکھا ۔ اس کے نزدیک ثابت ہو گیا کہ یوسف علیہ السلام سچا ہے اور اس کی بیوی جھوٹی ہے وہ یوسف صدیق علیہ السلام پر تہمت لگا رہی ہے تو بےساختہ اس کے منہ سے نکل گیا کہ یہ تو تم عورتوں کا فریب ہے ۔ اس نوجوان پر تم تہمت باندھ رہی ہو اور جھوٹا الزام رکھ رہی ہو ۔ تمہارے چلتر تو ہیں ہی چکر میں ڈال دینے والے ۔ پھر یوسف علیہ السلام سے کہتا ہے کہ آپ اس واقعہ کو بھول جائیے ، جانے دیجئیے ۔ اس نامراد واقعہ کا پھر سے ذکر ہی نہ کیجئے ۔ پھر اپنی بیوی سے کہتا ہے کہ تم اپنے گناہ سے استغفار کرو نرم آدمی تھا نرم اخلاق تھے ۔ یوں سمجھ لیجئے کہ وہ جان رہا تھا کہ عورت معذور سمجھے جانے کے لائق ہے اس نے وہ دیکھا جس پر صبر کرنا بہت مشکل ہے ۔ اس لیے اسے ہدایت کر دی کہ اپنے برے ارادے سے توبہ کر ۔ سراسر تو ہی خطا وار ہے ۔ کیا خود اور الزام دوسروں کے سر رکھا ۔ یوسف
26 یوسف
27 یوسف
28 یوسف
29 یوسف
30 داستان عشق اور حسینان مصر اس داستان کی خبر شہر میں ہوئی ، چرچے ہونے لگے ، چند شریف زادیوں نے نہایت تعجب و حقارت سے اس قصے کو دوہرایا کہ دیکھو عزیر کی بیوی ہے اور ایک غلام پر جان دے رہی ہے ، اس کی محبت کو اپنے دل میں جمائے ہوئے ہے ۔ شغف کہتے ہیں حد سے گزری ہوئی قاتل محبت کو اور شغف اس سے کم درجے کی ہوتی ہے ۔ دل کے پردوں کو عورتیں شغاف کہتی ہیں ۔ کہتے ہیں کہ عزیز کی بیوی صریح غلطی میں پڑی ہوئی ہے ۔ ان غیبتوں کا پتہ عزیز کی بیوی کو بھی چل گیا ۔ یہاں لفظ مکر اس لیے بولا گیا ہے کہ بقول بعض خود ان عورتوں کا یہ فی الواقع ایک کھلا مکر تھا ۔ انہیں تو دراصل حسن یوسف علیہ السلام کے دیدار کی تمنا تھی یہ تو صرف ایک حیلہ بنایا تھا ۔ عزیز کی بیوی بھی ان کی چال سمجھ گئی اور پھر اس میں اس نے اپنی معزوری کی مصلحت بھی دیکھی تو ان کے پاس اسی وقت بلاوا بھیج دیا کہ فلاں وقت آپ کی میرے ہاں دعوت ہے ۔ اور ایک مجلس ، محفل ، اور بیٹھک درست کر لی جس میں پھل اور میوہ بہت تھا ۔ اس نے تراش تراش کر چھیل چھیل کر کھانے کے لیے ایک ایک تیز چاقو سب کے ہاتھ میں دیدیا یہ تھا ان عورتوں کے دھوکہ کا جواب انہوں نے اعتراض کر کے جمال یوسف علیہ السلام دیکھنا چاہا اس نے آپ کو معذور ظاہر کرنے اور ان کے مکر کو ظاہر کرنے کے لیے انہیں خود زخمی کر دیا اور خود ان ہی کے ہاتھ سے یوسف علیہ السلام سے کہا کہ آپ آئے ۔ انہیں اپنی مالکہ کا حکم ماننے سے کیسے انکار ہو سکتا تھا ؟ اسی وقت جس کمرے میں تھے وہاں سے آ گئے ۔ عورتوں کی نگاہ جو آپ علیہ السلام کے چہرے پر پڑی تو سب کی سب دہشت زدہ رہ گئیں ۔ ہیبت و جلال اور رعب حسن سے بے خود ہو گئیں اور بجائے اس کے کہ ان تیز چلنے والی چھریوں سے پھل کٹتے ان کے ہاتھ اور انگلیاں کٹنے لگیں ۔ زیدبن اسلم کہتے ہیں کہ ضیافت باقاعدہ پہلے ہو چکی تھی اب تو صرف میوے سے تواضع ہو رہی تھی ۔ میٹھے ہاتھوں میں تھے ، چاقو چل رہے تھے جو اس نے کہا یوسف علیہ السلام کو دیکھنا چاہتی ہو ؟ سب یک زبان ہو کر بول اُٹھیں ہاں ہاں ضرور ۔ اسی وقت یوسف علیہ السلام سے کہلوا بھیجا کہ تشریف لائیے ۔ آپ علیہ السلام آئے پھر اس نے کہا جائیے آپ علیہ السلام چلے گئے ۔ آتے جاتے سامنے سے پیچھے سے ان سب عورتوں نے پوری طرح آپ علیہ السلام کو دیکھا دیکھتے ہی سب سکتے میں آ گئیں ہوش حواس جاتے رہے بجائے لیموں کاٹنے کے اپنے ہاتھ کاٹ لیے ۔ اور کوئی احساس تک نہ ہوا ہاں جب یوسف علیہ السلام چلے گئے تب ہوش آیا اور تکلیف محسوس ہوئی ۔ تب پتہ چلا کہ بجائے پھل کے ہاٹھ کاٹ لیا ہے ۔ اس پر عزیز کی بیوی نے کہا دیکھا ایک ہی مرتبہ کے جمال نے تو تمہیں ایسا از خود رفتہ کر دیا پھر بتاؤ میرا کیا حال ہو گا عورتوں نے کہا واللہ ! یہ انسان نہیں ۔ یہ تو فرشتہ ہے اور فرشتہ بھی بڑے مرتبے والا ۔ آج کے بعد ہم کبھی تمہیں ملامت نہ کریں گی ۔ ان عورتوں نے یوسف علیہ السلام جیسا تو کہاں ان کے قریب ان کے مشابہ بھی کوئی شخص نہیں دیکھا تھا ۔ آپ علیہ السلام کو آدھا حسن قدرت نے عطا فرما رکھا تھا ۔ چنانچہ معراج کی حدیث میں ہے کہ تیسرے آسمان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات یوسف علیہ السلام سے ہوئی جنہیں آدھا حسن دیا گیا تھا ۔ (صحیح مسلم:162) اور روایت میں ہے کہ یوسف علیہ السلام اور آپ کی والدہ صاحبہ کو آدھا حسن قدرت کی فیاضیوں نے عنایت فرمایا تھا ۔ اور روایت میں تہائی حسن یوسف علیہ السلام کو اور آپ کی والدہ کو دیا گیا تھا ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:19237:منکر و باطل) آپ کا چہرہ بجلی کی طرح روشن تھا ۔ جب کبھی کوئی عورت آپ کے پاس کسی کام کے لیے آتی تو آپ اپنا منہ ڈھک کر اس سے بات کرتے کہ کہیں وہ فتنے میں نہ پڑ جائے اور روایت میں ہے کہ کہ حسن کے تین حصے کئے گئے تمام لوگوں میں دو حصے تقسیم کئے گئے اور ایک حصہ صرف آپ کو اور آپ کی ماں کو دیا گیا ۔ یا جن کی دو تہائیاں ان ماں بیٹے کو ملیں اور ایک تہائی میں دنیا کے تمام لوگ اور روایت میں ہے کہ حسن کے دو حصے کئے گئے ایک حصے میں یوسف علیہ السلام اور آپ علیہ السلام کی والدہ سارہ اور ایک حصے میں دنیا کے اور سب لوگ ۔ سہیلی میں ہے کہ آپ کو آدم علیہ السلام کا آدھا حسن دیا گیا تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو اپنے ہاتھ سے کمال صورت کا نمونہ بنایا تھا اور بہت ہی حسین پیدا کیا تھا ۔ آپ علیہ السلام کی اولاد میں آپ علیہ السلام کا ہم پلہ کوئی نہ تھا اور یوسف علیہ السلام کو ان کا آدھا حسن دیا گیا تھا ۔ پس ان عورتوں نے آپ علیہ السلام کو دیکھ کر ہی کہا کہ معاذ للہ یہ انسان نہیں ذی عزت فرشتہ ہے ۔ اب عزیز کی بیوی نے کہا بتلاؤ اب تو تم مجھے عذر والی سمجھو گی ؟ اس کا جمال و کمال کیا ایسا نہیں کہ صبر و برداشت چھین لے ؟ میں نے اسے ہر چند اپنی طرف مائل کرنا چاہا لیکن یہ میرے قبضے میں نہیں آیا اب سمجھ لو کہ جہاں اس میں یہ بہترین ظاہری خوبی ہے وہاں عصمت و عفت کی یہ باطنی خوبی بھی بے نظیر ہے ۔ پھر دھمکانے لگی کہ اگر میری بات یہ نہ مانے گا تو اسے قید خانہ بھگتنا پڑے گا ۔ اور میں اس کو بہت ذلیل کروں گی ۔ اس وقت یوسف علیہ السلام نے ان کے اس ڈھونگ سے اللہ کی پناہ طلب کی اور دعا کی کہ یا اللہ مجھے جیل خانے جانا پسند ہے مگر تو مجھے ان کے بد ارادوں سے محفوظ رکھ ایسا نہ ہو کہ میں کسی برائی میں پھنس جاؤ ۔ اے اللہ تو اگر مجھے بچا لے تب تو میں بچ سکتا ہوں ورنہ مجھ میں اتنی قوت نہیں ۔ مجھے اپنے کسی نفع نقصان کا کوئی اختیار نہیں ۔ تیری مدد اور تیرے رحم و کرم کے بغیر نہ میں کسی گناہ سے رک سکوں نہ کسی نیکی کو کر سکوں ۔ اے باری تعالیٰ میں تجھ سے مدد طلب کرتا ہوں ، تجھی پر بھروسہ رکھتا ہوں ۔ تو مجھے میرے نفس کے حوالے نہ کر دے کہ میں ان عورتوں کی طرف جھک جاؤں اور جاہلوں میں سے ہو جاؤں ۔ اللہ تعالیٰ کریم و قادر نے آپ علیہ السلام کی دعا قبول فرما لی اور آپ کوعلیہ السلام بال بال بچا لیا ، عصمت عفت عطا فرمائی ، اپنی حفاظت میں رکھا اور برائی سے آپ بچے ہی رہے ۔ باوجود بھرپور جوانی کے باوجود بے انداز حسن و خوبی کے ، باوجود ہر طرح کے کمال کے ، جو آپ علیہ السلام میں تھا ، آپ علیہ السلام اپنی خواہش نفس کی بے جا تکمیل سے بچتے رہے ۔ اور اس عورت کی طرف رخ بھی نہ کیا جو رئیس زادی ہے ۔ رئیس کی بیوی ہے ، ان کی مالک ہے ، پھر بہت ہی خوبصورت ہے ، جمال کے ساتھ ہی مال بھی ہے ، ریاست بھی ہے ، وہ اپنی بات کے ماننے پر انعام و اکرام کا اور نہ ماننے پر جیل کا اور سخت سزا کا حکم سنا رہی ہے ۔ لیکن آپ کے دل میں اللہ کے خوف کا سمندر موجزن ہے ، آپ اپنے اس دنیوی آرام کو اور اس عیش اور لذت کو نام رب پر قربان کرتے ہیں اور قید و بند کو اس پر ترجیح دیتے ہیں کہ اللہ کے عذابوں سے بچ جائیں اور آخرت میں ثواب کے مستحق بن جائیں ۔ بخاری مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سات قسم کے لوگ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ عزوجل اپنے سائے تلے سایہ دے گا جس دن کوئی سایہ سوا اس کے سائے کے نہ ہو گا ۔ ( ١ ) مسلمان عادل بادشاہ ( ٢ ) وہ جوان مرد و عورت جس نے اپنی جوانی اللہ کی عبادت میں گزاری ( ٣ ) وہ شخص جس کا دل مسجد میں اٹکا ہوا ہو جب مسجد سے نکلے مسجد کی دھن میں رہے یہاں تک کہ پھر وہاں جائے ( ٤ ) وہ دو شخص جو آپس میں محض اللہ کے لیے محبت رکھتے ہیں اسی پر جمع ہوتے ہیں اور اسی پر جدا ہوتے ہیں ( ٥ ) وہ شخص جو صدقہ دیتا ہے لیکن اس پوشیدگی سے کہ دائیں ہاتھ کے خرچ کی خبر بائیں ہات کو نہیں ہوتی ( ٦ ) وہ شخص جسے کوئی جاہ و منصب والی جمال و صورت والی عورت اپنی طرف بلائے اور وہ کہہ دے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں ( ٧ ) وہ شخص جس نے تنہائی میں اللہ تعالیٰ کو یاد کیا پھر اس کی دونوں آنکھیں بہ نکلی ۔ (صحیح بخاری:660) یوسف
31 یوسف
32 یوسف
33 یوسف
34 یوسف
35 جیل خانہ اور یوسف علیہ السلام حضرت یوسف علیہ السلام کی پاک دامنی کا راز سب پر کھل گیا ۔ لیکن تاہم ان لوگوں نے مصلحت اسی میں دیکھی کہ کچھ مدت تک یوسف علیہ السلام کو جیل خانہ میں رکھیں ۔ بہت ممکن ہے کہ اس میں ان سب نے یہ مصلحت سوچی ہو کہ لوگوں میں یہ بات پھیل گئی ہے کہ عزیز کی بیوی اس کی چاہت میں مبتلا ہے ۔ جب ہم یوسف علیہ السلام کو قید کر دیں گے وہ لوگ سمجھ لیں گے کہ قصور اسی کا تھا اسی نے کوئی ایسی نگاہ کی ہو گی ۔ یہی وجہ تھی کہ جب شاہ مصر نے آپ کو قید خانے سے آزاد کرنے کے لیے اپنے پاس بلوایا تو آپ نے وہیں سے فرمایا کہ میں نہ نکلوں گا جب تک میری براءت اور میری پاکدامنی صاف طور پر ظاہر نہ ہو جائے اور آپ حضرات اس کی پوری تحقیق نہ کر لیں جب تک بادشاہ نے ہر طرح کے گواہ سے بلکہ خود عزیز کی بیوی سے پوری تحقیق نہ کر لی اور آپ کا بے قصور ہونا ، ساری دنیا پر کھل نہ گیا آپ جیل خانے سے باہر نہ نکلے ۔ پھر آپ باہر آئے جب کہ ایک دل بھی ایسا نہ تھا جس میں صدیق اکبر ، نبی اللہ ، پاکدامن اور معصوم اللہ کے رسول یوسف علیہ الصلواۃ والسلام کی طرف سے ذرا بھی بدگمانی ہو ۔ قید کرنے کی بڑی وجہ یہی تھی کہ عزیز کی بیوی کی رسوائی نہ ہو ۔ یوسف
36 جیل خانہ میں بادشاہ کے باورچی اور ساقی سے ملاقات اتفاق سے جس روز یوسف علیہ السلام کو جیل خانہ جانا پڑا اسی دن باشاہ کا ساقی اور نان بائی بھی کسی جرم میں جیل خانے بھیج دیئے گئے ۔ ساقی کا نام بندار تھا اور باورچی کا نام مجلث تھا ۔ ان پر الزام یہ تھا کہ انہوں نے کھانے پینے میں بادشاہ کو زہر دینے کی سازش کی تھی ۔ قید خانے میں بھی نبی اللہ یوسف علیہ السلام کی نیکیوں کی کافی شہرت تھی ۔ سچائی ، امانت داری ، سخاوت ، خوش خلقی ، کثرت عبادت ، اللہ ترسی ، علم و عمل ، تعبیر خواب ، احسان و سلوک وغیرہ میں آپ علیہ السلام مشہور ہو گئے تھے ۔ جیل خانے کے قیدیوں کی بھلائی ان کی خیر خواہی ان سے مروت و سلوک ان کے ساتھ بھلائی اور احسان ان کی دلجوئی اور دلداری ان کے بیماروں کی تیمارداری خدمت اور دوا دارو بھی آپ علیہ السلام کا تشخص تھا ۔ یہ دونوں ہی ملازم یوسف علیہ السلام سے بہت ہی محبت کرنے لگے ۔ ایک دن کہنے لگے کہ ہمیں آپ علیہ السلام سے بہت ہی محبت ہو گئی ہے ۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا اللہ تمہیں برکت دے ۔ بات یہ ہے کہ مجھے تو جس نے چاہا کوئی نہ کوئی آفت ہی مجھ پر لایا ۔ پھوپھی کی محبت ، باپ کا پیار ، عزیز کی بیوی کی چاہت ، سب مجھے یاد ہے ۔ اور اس کا نتیجہ میری ہی نہیں بلکہ تمہاری آنکھوں کے سامنے ہے ۔ اب دونوں نے ایک مرتبہ خواب دیکھا ساقی نے دیکھا کہ وہ انگور کا شیرہ نچوڑ رہا ہے ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما کی قرأت میں (خَمرًا) کے بدلے لفظ (عِنَباً) ہے ، اہل عمان انگور کو خمر کہتے ہیں ۔ اس نے دیکھا تھا کہ گویا اس نے انگور کی بیل بوئی ہے اس میں خوشے لگے ہیں ، اس نے توڑے ہیں ۔ پھر ان کا شیرہ نچوڑ رہا ہے کہ بادشاہ کو پلائے ۔ یہ خواب بیان کر کے آرزو کی کہ آپ ہمیں اس کی تعبیر بتلائیے ۔ اللہ کے پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا اس کی تعبیر یہ ہے کہ تمہیں تین دن کے بعد جیل خانے سے آزاد کر دیا جائے گا اور تم اپنے کام پر یعنی بادشاہ کی ساقی گری میں لگ جاؤ گے ۔ دوسرے نے کہا جناب میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں سر پر روٹی اٹھائے ہوئے ہوں اور پرندے آ آ کر اس میں سے کھا رہے ہیں ۔ اکثر مفسرین کے نزدیک مشہور بات تو یہی ہے کہ واقعہ ان دونوں نے یہی خواب دیکھے تھے اور ان کی صحیح تعبیر یوسف علیہ السلام سے دریافت کی تھی ۔ لیکن سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ درحقیقت انہوں نے کوئی خواب تو نہیں دیکھا تھا ۔ لیکن یوسف علیہ السلام کی آزمائش کے لیے جھوٹے خواب بیان کر کے تعبیر طلب کی تھی ۔ یوسف
37 جیل خانہ میں خوابوں کی تعبیر کا سلسلہ اور تبلیغ توحید حضرت یوسف علیہ السلام اپنے دونوں قیدی ساتھیوں کو تسکین دیتے ہیں کہ میں تمہارے دونوں خوابوں کی صحیح تعبیر جانتا ہوں اور اس کے بتانے میں مجھے کوئی بخل نہیں ۔ اس کی تعبیر کے واقعہ ہونے سے پہلے ہی میں تمہیں وہ بتا دوں گا ۔ یوسف علیہ السلام کے اس فرمان اور اس وعدے سے تو یہ ظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یوسف علیہ السلام ، تنہائی کی قید میں تھے کھانے کے وقت کھول دیا جاتا تھا اور ایک دوسرے سے مل سکتے تھے اس لیے آپ علیہ السلام نے ان سے یہ وعدہ کیا اور ممکن ہے کہ اللہ کی طرف سے تھوڑی تھوڑی کر کے دونوں خوابوں کی پوری تعبیر بتلائی گی ہو ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ اثر مروی ہے گو بہت غریب ہے ۔ پھر فرماتے ہیں مجھے یہ علم اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا فرما گیا ہے ۔ وہ یہ ہے کہ میں نے ان کافروں کا مذہب چھوڑ رکھا ہے جو نہ اللہ کو مانیں نہ آخرت کو برحق جانیں میں نے اللہ کے پیغمبروں کے سچے دین کو مان رکھا ہے اور اسی کی تابعداری کرتا ہوں ۔ خود میرے باپ دادا اللہ کے رسول تھے ۔ ابراہیم ، اسحاق ، یعقوب علیہ الصلواۃ والسلام ۔ فی الواقع جو بھی راہ راست پر استقامت سے چلے ہدایت کا پیرو رہے ۔ اللہ کے رسولوں کی اتباع کو لازم پکڑ لے ، گمراہوں کی راہ سے منہ پھیر لے ۔ اللہ تبارک تعالیٰ اس کے دل کو پرنور اور اس کے سینے کو معمور کر دیتا ہے ۔ اسے علم و عرفان کی دولت سے مالا مال کر دیتا ہے ۔ اسے بھلائی میں لوگوں کا پیشوا کر دیتا ہے کہ اور دنیا کو وہ نیکی کی طرف بلاتا رہتا ہے ۔ ہم جب کہ راہ راست دکھا دئیے گئے توحید کی سمجھ دے دئیے گئے شرک کی برائی بتا دئیے گئے ۔ پھر ہمیں کیسے یہ بات زیب دیتی ہے ؟ کہ ہم اللہ کے ساتھ اور کسی کو بھی شریک کر لیں ۔ یہ توحید اور سچا دین اور یہ اللہ کی وحدانیت کی گواہی یہ خاص اللہ کا فضل ہے جس میں ہم تنہا نہیں بلکہ اللہ کی اور مخلوق بھی شامل ہے ۔ ہاں ہمیں یہ برتری ہے کہ ہماری جانب یہ براہ راست اللہ کی وحی آئی ہے ۔ اور لوگوں کو ہم نے یہ وحی پہنچائی ۔ لیکن اکثر لوگ ناشکری کرتے ہیں ۔ اللہ کی اس زبردست نعمت کی جو اللہ نے ان پر رسول بھیج کر انعام فرمائی ہے ناقدری کرتے ہیں «بَدَّلُوا نِعْمَتَ اللہِ کُفْرًا وَأَحَلٰوا قَوْمَہُمْ دَارَ الْبَوَارِ» ( 14-ابراھیم : 28 ) اور اسے مان کر نہیں رہتے بلکہ رب کی نعمت کے بدلے کفر کرتے ہیں ۔ اور خود مع اپنے ساتھیوں کے ہلاکت کے گھر میں اپنی جگہ بنا لیتے ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ دادا کو بھی باپ کے مساوی میں رکھتے ہیں اور فرماتے جو چاہے حطیم میں اس سے مباہلہ کرنے کو تیار ہوں ۔ اللہ تعالیٰ نے دادا دادی کا ذکر نہیں کیا دیکھو یوسف علیہ السلام کے بارے میں فرمایا میں نے اپنے باپ ابراہیم اسحاق اور یعقوب علیہ الصلاۃ و السلام کے دین کی پیروی کی ۔ یوسف
38 یوسف
39 شاہی باورچی اور ساقی کے خواب کی تعبیر اور پیغام توحید یوسف علیہ السلام سے وہ اپنے خواب کی تعبیر پوچھنے آئے ہیں ۔ آپ علیہ السلام نے انہیں تعبیر خواب بتا دینے کا اقرار کر لیا ہے ۔ لیکن اس سے پہلے انہیں توحید کا وعظ سنا رہے ہیں اور شرک سے اور مخلوق پرستی سے نفرت دلا رہے ہیں ۔ فرما رہے ہیں کہ وہ اللہ واحد جس نے ہرچیز پر قبضہ ہے جس کے سامنے تمام مخلوق پست و عاجز لاچار بے بس ہے ۔ جس کا ثانی شریک اور ساجھی کوئی نہیں ۔ جس کی عظمت و سلطنت چپے چپے اور ذرّے ذرّے پر ہے وہی ایک بہتر ؟ یا تمہارے یہ خیالی کمزور اور ناکارے بہت سے معبود بہتر ؟ پھر فرمایا کہ تم جن جن کی پوجا پاٹ کر رہے ہو بےسند ہیں ۔ یہ نام اور ان کے لیے عبادت یہ تمہاری اپنی گھڑت ہے ۔ زیادہ سے زیادہ تم یہ کہہ سکتے ہو کہ تمہارے باپ دادے بھی اس مرض کے مریض تھے ۔ لیکن کوئی دلیل اس کی تم لا نہیں سکتے بلکہ اس کی کوئی عقلی دلیل دنیا میں اللہ نے بنائی نہیں ۔ حکم تصرف قبضہ ، قدرت ، کل کی کل اللہ تعالیٰ ہی کی ہے ۔ اس نے اپنے بندوں کو اپنی عبادت کا اور اپنے سوا کسی اور کی عبادت کرنے سے باز آنے کا قطعی اور حتمی حکم دے رکھا ہے ۔ دین مستقیم یہی ہے کہ اللہ کی توحید ہو اس کے لیے ہی عمل و عبادت ہو ۔ اسی اللہ کا حکم اس پر بےشمار دلیلیں موجود ۔ لیکن اکثر لوگ ان باتوں سے ناواقف ہیں ۔ نادان ہیں توحید و شرک کا فرق نہیں جانتے ۔ اس لیے اکثر شک کے دلدل میں دھنسے رہتے ہیں ۔ باوجود نبیوں کی چاہت کے انہیں یہ امن نصیب نہیں ہوتا ۔ خواب کی تعبیر سے پہلے اس بحث کے چھیڑنے کی ایک خاص مصلحت یہ بھی کہ ان میں سے ایک کے لیے تعبیر نہایت بری تھی تو آپ علیہ السلام نے چاہا کہ یہ اسے نہ پوچھیں تو بہتر ہے ۔ لیکن اس تکلف کی کیا ضرورت ہے ؟ خصوصا ایسے موقعہ پر جب کہ اللہ کے پیغمبر ان سے تعبیر دینے کا وعدہ کر چکے ہیں ۔ یہاں تو صرف یہ بات ہے کہ انہوں نے آپ کی بزرگی و عزت دیکھ کر آپ سے ایک بات پوچھی ۔ آپ علیہ السلام نے اس کے جواب سے پہلے انہیں اس سے زیادہ بہتر کی طرف توجہ دلائی ۔ اور دین اسلام ان کے سامنے مع دلائل پیش فرمایا ۔ کیونکہ آپ علیہ السلام نے دیکھا تھا کہ ان میں بھلائی کے قبول کرنے کا مادہ ہے ۔ بات کو سوچیں گے ۔ جب آپ اپنا فرض ادا کر چکے ۔ احکام اللہ کی تبلیغ کر چکے ۔ تو اب بغیر اس کے کہ وہ دوبارہ پوچھیں آپ نے ان کا جواب شروع کیا ۔ یوسف
40 یوسف
41 خواب اور اس کی تعبیر اب اللہ کے برگزیدہ پیغمبر ان کے خواب کی تعبیر بتلا رہے ہیں لیکن یہ نہیں فرماتے کہ تیری خواب کی یہ تعبیر ہے اور تیرے خواب کی یہ تعبیر ہے تاکہ ایک رنجیدہ نہ ہو جائے اور موت سے پہلے اس پر موت کا بوجھ نہ پڑ جائے ۔ بلکہ مبہم کر کے فرماتے ہیں تم دو میں سے ایک تو اپنے بادشاہ کا ساقی بن جائے گا یہ دراصل یہ اس کے خواب کی تعبیر ہے جس نے شیرہ انگور تیار کرتے اپنے تئیں دیکھا تھا ۔ اور دوسرے جس نے اپنے سر پر روٹیاں دیکھی تھیں ۔ اس کے خواب کی تعبیر یہ دی کہ اسے سولی دی جائے گی اور پرندے اس کا مغز کھائیں گے ۔ پھر ساتھ ہی فرمایا کہ یہ اب ہو کر ہی رہے گا ۔ اس لیے کہ جب تک خواب کی تعبیر بیان نہ کی جائے وہ معلق رہتا ہے اور جب تعبیر ہو چکی وہ ظاہر ہو جاتا ہے ۔ کہتے ہیں کہ تعبیر سننے کے بعد ان دونوں نے کہا کہ ہم نے تو دراصل کوئی خواب دیکھا ہی نہیں ۔ آپ نے فرمایا اب تو تمہارے سوال کے مطابق ظاہر ہو کر ہی رہے گا ۔ اس سے ظاہر ہے کہ جو شخص خواہ مخواہ کا خواب گھڑ لے اور پھر اس کی تعبیر بھی دی دے دی جائے تو وہ لازم ہو جاتی ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں خواب گویا پرندے کے پاؤں پر ہے جب تک اس کی تعبیر نہ دے دی جائے جب تعبیر دے دی گئی پھر وہ واقع ہو جاتا ہے ۔ (مسند احمد:10/4:صحیح) مسند ابو یعلیٰ میں مرفوعاً مروی ہے کہ خواب کی تعبیر سب سے پہلے جس نے دی اس کے لیے ہے ۔ (ابن ابی شیبۃ،11/7:ضعیف) یوسف
42 تعبیر بتا کر بادشاہ وقت کو اپنی یاد دہانی کی تاکید جسے یوسف علیہ السلام نے اس کے خواب کی تعبیر کے مطابق اپنے خیال میں جیل خانہ سے آزاد ہونے والا سمجھا تھا اس سے در پردہ علیحدگی میں کہ وہ دوسرا یعنی باورچی نہ سنے فرمایا کہ بادشاہ کے سامنے ذرا میرا ذکر بھی کر دینا ۔ لیکن یہ اس بات کو بالکل ہی بھول گیا ۔ یہ بھی ایک شیطانی چال ہی تھی جس سے نبی اللہ علیہ السلام کئی سال تک قید خانے میں ہی رہے ۔ پس ٹھیک قول یہی ہے کہ «فَاَنسٰہُ» میں ہ کی ضمیر کا مرجع نجات پانے والا شخص ہی ہے ۔ گویا یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ ضمیر یوسف علیہ السلام کی طرف پھرتی ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً مروی ہے کہ نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر یوسف علیہ السلام یہ کلمہ نہ کہتے تو جیل خانے میں اتنی لمبی مدت نہ گزارتے ۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے سوا اور سے کشادگی چاہی ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:19322:ضعیف جدا) یہ روایت بہت ہی ضعیف ہے ۔ اس لیے کہ سفیان بن وکیع اور ابراہیم بن یزید دونوں راوی ضعیف ہیں ۔ حضرت حسن اور قتادہ رحمہ اللہ علیہما سے مرسلاً مروی ہے ۔ گو مرسل حدیثیں کسی موقع پر قابل قبول بھی ہوں لیکن ایسے اہم مقامات پر ایسی مرسل روایتیں ہرگز احتجاج کے قابل نہیں ہو سکتیں «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ «بِضْعَ» لفظ تین سے نو تک کے لیے آتا ہے ۔ وہب بن منبہ کا بیان ہے کہ ایوب علیہ السلام بیماری میں سات سال تک مبتلا رہے اور یوسف علیہ السلام قید خانے میں سات سال تک رہے اور بخت نصر کا عذاب بھی سات سال تک رہا سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں مدت قید بارہ سال تھی ۔ ضحاک رحمہ اللہ کہتے ہیں چودہ برس آپ علیہ السلام نے قید خانے میں گزارے ۔ یوسف
43 شاہ مصر کا خواب اور تلاش تعبیر میں یوسف علیہ السلام تک رسائی قدرت الٰہی نے یہ مقرر رکھا تھا کہ یوسف علیہ السلام قید خانے سے بعزت و اکرام پاکیزگی براءت اور عصمت کے ساتھ نکلیں ۔ اس کے لیے قدرت نے یہ سبب بنایا کہ شاہ مصر نے ایک خواب دیکھا جس سے بھونچکا سا ہو گیا ۔ دربار منعقد کیا اور تمام امراء ، رؤسا ، کاہن ، منجم اور علماء کو خواب کی تعبیر بیان کرنے والوں کو جمع کیا ۔ اور اپنا خواب بیان کر کے ان سب سے تعبیر دریافت کی ۔ لیکن کسی کی سمجھ میں کچھ نہ آیا ۔ اور سب نے لاچار ہو کر یہ کہہ کر ٹال دیا کہ یہ کوئی باقاعدہ لائق تعبیر سچا خواب نہیں جس کی تعبیر ہو سکے ۔ یہ تو یونہی پریشان خواب مخلوط خیالات اور فضول توہمات کا خاکہ ہے ۔ اس کی تعبیر ہم نہیں جانتے ۔ اس وقت شاہی ساقی کو یوسف علیہ السلام یاد آ گئے کہ وہ تعبیر خواب کے پورے ماہر ہیں ۔ اس علم میں ان کو کافی مہارت ہے ۔ یہ وہی شخص ہے جو یوسف علیہ السلام کے ساتھ جیل خانہ بھگت رہا تھا یہ بھی اور اس کا ایک اور ساتھی بھی ۔ اسی سے یوسف علیہ السلام نے کہا تھا کہ بادشاہ کے پاس میرا ذکر بھی کرنا ۔ لیکن اسے شیطان نے بھلا دیا تھا ۔ آج مدت مدید کے بعد اسے یاد آ گیا اور اس نے سب کے سامنے کہا کہ اگر آپ کو اس کی تعبیر سننے کا شوق ہے اور وہ بھی صحیح تعبیر تو مجھے اجازت دو ۔ یوسف صدیق علیہ السلام جو قید خانے میں ہیں ان کے پاس جاؤں اور ان سے دریافت کر آؤں ۔ آپ نے اسے منظور کیا اور اسے اللہ کے محترم نبی علیہ السلام کے پاس بھیجا ۔ امتہ کی دوسری قرأت امتہ بھی ہے ۔ اس کے معنی بھول کے ہیں ۔ یعنی بھول جانے کے بعد اسے یوسف علیہ السلام کا فرمان یاد آیا ۔ دربار سے اجازت لے کر یہ چلا ۔ قید خانے پہنچ کر اللہ کے نبی ابن نبی ابن نبی ابن نبی علیہ السلام سے کہا کہ اے نرے سچے یوسف علیہ السلام بادشاہ نے اس طرح کا ایک خواب دیکھا ہے ۔ اسے تعبیر کا اشتیاق ہے ۔ تمام دربار بھرا ہوا ہے ۔ سب کی نگاہیں لگیں ہوئی ہیں ۔ آپ علیہ السلام مجھے تعبیر بتلا دیں تو میں جا کر انہیں سناؤں اور سب معلوم کر لیں ۔ آپ علیہ السلام نے نہ تو اسے کوئی ملامت کی کہ تو اب تک مجھے بھولے رہا ۔ باوجود میرے کہنے کے تو نے آج تک بادشاہ سے میرا ذکر بھی نہ کیا ۔ نہ اس امر کی درخواست کی کہ مجھے جیل خانے سے آزاد کیا جائے بلکہ بغیر کسی تمنا کے اظہار کے بغیر کسی الزام دینے کے خواب کی پوری تعبیر سنا دی اور ساتھ ہی تدبیر بھی بتا دی ۔ فرمایا کہ سات فربہ گایوں سے مراد یہ ہے کہ سات سال تک برابر حاجت کے مطابق بارش برستی رہے گی ۔ خوب ترسالی ہو گی ۔ غلہ کھیت باغات خوب پھلیں گے ۔ یہی مراد سات ہری بالیوں سے ہے ۔ گائیں بیل ہی ہلوں میں جتتے ہیں ان سے زمین پر کھیتی کی جاتی ہے ۔ اب ترکیب بھی بتلا دی کہ ان سات برسوں میں جو اناج غلہ نکلے ۔ اسے بطور ذخیرے کے جمع کر لینا اور رکھنا بھی بالوں اور خوشوں سمیت تاکہ سڑے گلے نہیں خراب نہ ہو ۔ ہاں اپنی کھانے کی ضرورت کے مطابق اس میں سے لے لینا ۔ لیکن خیال رہے کہ ذرا سا بھی زیادہ نہ لیا جائے صرف حاجت کے مطابق ہی نکالا جائے ۔ ان سات برسوں کے گزرتے ہی اب جو قحط سالیاں شروع ہوں گی وہ برابر سات سال تک متواتر رہیں گی ۔ نہ بارش برسے گی نہ پیداوار ہو گی ۔ یہی مراد سات دبلی گایوں اور سات خشک خوشوں سے ہے کہ ان سات برسوں میں وہ جمع شدہ ذخیرہ تم کھاتے پیتے رہو گے ۔ یاد رکھنا ان میں کوئی غلہ کھیتی نہ ہو گی ۔ وہ جمع کردہ ذخیرہ ہی کام آئے گا ۔ تم دانے بوؤ گے لیکن پیداوار کچھ بھی نہ ہو گی ۔ آپ نے خواب کی پوری تعبیر دے کر ساتھ ہی یہ خوشخبری بھی سنا دی کہ ان سات خشک سالوں کے بعد جو سال آئے گا وہ بڑی برکتوں والا ہو گا ۔ خوب بارشیں برسیں گی خوب غلے اور کھیتیاں ہوں گی ۔ ریل پیل ہو جائے گی اور تنگی دور ہو جائے گی اور لوگ حسب عادت زیتون وغیرہ کا تیل نکالیں گے اور حسب عادت انگور کا شیرہ نچوڑیں گے ۔ اور جانوروں کے تھن دودھ سے لبریز ہو جائیں گے کہ خوب دودھ نکالیں پئیں ۔ یوسف
44 یوسف
45 یوسف
46 یوسف
47 یوسف
48 یوسف
49 یوسف
50 تعبیر کی صداقت اور شاہ مصر کا یوسف علیہ السلام کو وزارت سونپنا خواب کی تعبیر معلوم کر کے جب قاصد پلٹا اور اس نے بادشاہ کو تمام حقیقت سے مطلع کیا ۔ تو بادشاہ کو اپنے خواب کی تعبیر پر یقین آ گیا ۔ ساتھ ہی اسے بھی معلوم ہو گیا کہ یوسف علیہ السلام بڑے ہی عالم فاضل شخص ہیں ۔ خواب کی تعبیر میں تو آپ علیہ السلام کو کمال حاصل ہے ۔ ساتھ ہی اعلیٰ اخلاق والے حسن تدبیر والے اور خلق اللہ کا نفع چاہنے والے اور محض بےطمع شخص ہیں ۔ اب اسے شوق ہوا کہ خود آپ علیہ السلام سے ملاقات کرے ۔ اسی وقت حکم دیا کہ جاؤ یوسف علیہ السلام کو جیل خانے سے آزاد کر کے میرے پاس لے آؤ ۔ دوبارہ قاصد آپ کے پاس آیا اور بادشاہ کا پیغام پہنچایا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا میں یہاں سے نہ نکلوں گا جب تک کہ شاہ مصر اور اس کے درباری اور اہل مصر یہ نہ معلوم کر لیں کہ میرا قصور کیا تھا ؟ عزیز کی بیوی کی نسبت جو بات مجھ سے منسوب کی گئی ہے اس میں سچ کہاں تک ہے اب تک میرا قید خانہ بھگتنا واقعہ کسی حقیقت کی بنا پر تھا ؟ یا صرف ظلم و زیادتی کی بناء پر ؟ تم اپنے بادشاہ کے پاس واپس جا کر میرا یہ پیغام پہنچاؤ کہ وہ اس واقعہ کی پوری تحقیق کریں ۔ حدیث شریف میں بھی یوسف علیہ السلام کے اس صبر کی اور آپ کی اس شرافت و فضیلت کی تعریف آئی ہے ۔ بخاری و مسلم وغیرہ میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ شک کے حقدار ہم بہ نسبت ابراہیم علیہ السلام کے بابت زیادہ ہیں جب کہ انہوں نے فرمایا تھا «وَإِذْ قَالَ إِبْرَاہِیمُ رَبِّ أَرِنِی کَیْفَ تُحْیِی الْمَوْتَیٰ قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِن قَالَ بَلَیٰ وَلٰکِن لِّیَطْمَئِنَّ قَلْبِی» ( 2-البقرہ : 260 ) میرے رب مجھے اپنا مردوں کا زندہ کرنا مع کیفیت دکھا اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا کیا تم نے ( اس بات کو ) باور نہیں کیا ۔ انہوں نے کہا کیوں نہیں ۔ لیکن ( میں دیکھنا ) اس لیے ( چاہتا ہوں ) کہ میرا دل اطمینان کامل حاصل کر لے ۔ ( یعنی جب ہم اللہ کی اس قدرت میں شک نہیں کرتے تو ابراہیم علیہ السلام جلیل القدر پیغمبر کیسے شک کر سکتے تھے ؟ پس آپ کی یہ طلب از روئے مزید اطمینان کے تھی نہ کہ ازرو ئے شک ) ۔ چنانچہ خود قرآن میں ہے کہ آپ نے فرمایا «قَالَ بَلَیٰ وَلٰکِن لِّیَطْمَئِنَّ قَلْبِ» یہ میرے اطمینان دل کے لیے ہے ۔ ۔ اللہ لوط علیہ السلام پر رحم کرے وہ کسی زور آور جماعت یا مضبوط قلعہ کی پناہ میں آنا چاہنے لگے ۔ اور سنو اگر میں یوسف علیہ السلام کے برابر جیل خانہ بھگتے ہوئے ہوتا اور پھر قاصد میری رہائی کا پیغام لاتا تو میں تو اسی وقت جیل خانے سے آزادی منظور کر لیتا ۔ (صحیح بخاری:3372) مسند احمد میں اسی آیت فاضلہ کی تفسیر میں منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر میں ہوتا تو اسی وقت قاصد کی بات مان لیتا اور کوئی عذر تلاش نہ کرتا ۔ (مسند احمد:389/2:حسن) مسند عبدالرزاق میں ہے آپ فرماتے ہیں واللہ مجھے یوسف علیہ السلام کے صبر و کرم پر رہ رہ کر تعجب آتا ہے اللہ اسے بخشے دیکھو تو سہی بادشاہ نے خواب دیکھا ہے وہ تعبیر کے لیے مضطرب ہے قاصد آ کر آپ علیہ السلام سے تعبیر پوچھتا ہے آپ علیہ السلام فوراً بغیر کسی شرط کے بتا دیتے ہیں ۔ اگر میں ہوتا تو جب تک جیل خانے سے اپنی رہائی نہ کرا لیتا ہرگز نہ بتلاتا ۔ مجھے یوسف علیہ السلام کے صبر و کرم پر تعجب معلوم ہو رہا ہے ۔ اللہ انہیں بخشے کہ جب ان کے پاس قاصد ان کی رہائی کا پیغام لے کر پہنچتا ہے تو آپ علیہ السلام فرماتے ہیں ابھی نہیں جب تک کہ میری پاکیزگی ، پاک دامنی اور بے قصوری سب پر تحقیق سے کھل نہ جائے ۔ اگر میں ان کی جگہ ہوتا تو میں تو دوڑ کر دروازے پر پہنچتا یہ روایت مرسل ہے ۔ اب بادشاہ نے تحقیق کرنی شروع کی ان عورتوں کو جنہیں عزیز کی بیوی نے اپنے ہاں دعوت پر جمع کیا تھا اور خود اسے بھی دربار میں بلوایا ۔ پھر ان تمام عورتوں سے پوچھا کہ ضیافت والے دن کیا گزری تھی ؟ سب بیان کرو ۔ انہوں نے جواب دیا کہ ماشا اللہ یوسف علیہ السلام پر کوئی الزام نہیں اس پر بے سرو پا تہمت ہے ۔ واللہ ہم خوب جانتی ہیں کہ یوسف علیہ السلام میں کوئی بدی نہیں اس وقت عزیز کی بیوی خود بھی بول اُٹھی کہ اب حق ظاہر ہو گیا واقعہ کھل گیا ۔ حقیقت نکھر آئی مجھے خود اس امر کا اقرار ہے ۔ کہ واقعی میں نے ہی اسے پھنسانا چاہا تھا ۔ اس نے جو بروقت کہا تھا کہ یہ عورت مجھے پھسلا رہی تھی اس میں وہ بالکل سچا ہے ۔ میں اس کا اقرار کرتی ہوں اور اپنا قصور آپ بیان کرتی ہوں تاکہ میرے خاوند یہ بات بھی جان لیں کہ میں نے اس کی کوئی خیانت دراصل نہیں کی ۔ یوسف علیہ السلام کی پاکدامنی کی وجہ سے کوئی شر اور برائی مجھ سے ظہور میں نہیں آئی ۔ بدکاری سے اللہ تعالیٰ نے مجھے بچائے رکھا ۔ میری اس اقرار سے اور واقعہ کے کھل جانے سے صاف ظاہر ہے اور میرے خاوند جان سکتے ہیں کہ میں برائی میں مبتلا نہیں ہوئی ۔ یہ بالکل سچ ہے کہ خیانت کرنے والوں کی مکاریوں کو اللہ تعالیٰ فروغ نہیں دیا ۔ ان کی دغا بازی کوئی پھل نہیں لاتی ۔ الحمداللہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کے لطف و رحم سے بارہویں پارے کی تفسیر ختم ہوئی اللہ تعالیٰ قبول فرمائے ۔ آمین ۔ یوسف
51 یوسف
52 یوسف
53 . عزیز مصر کی بیوی کہہ رہی ہے کہ میں اپنی پاکیزگی بیان نہیں کر رہی اپنے آپ کو نہیں سراہتی ۔ نفس انسانی تمناؤں اور بری باتوں کا مخزن ہے ۔ اس میں ایسے جذبات اور شوق اچھلتے رہتے ہیں ۔ وہ برائیوں پر ابھارتا رہتا ہے ۔ اسی کے پھندے میں پھنس کر میں نے یوسف علیہ السلام کو اپنی طرف مائل کرنا چاہا ۔ مگر جسے اللہ چاہے نفس کی برائی سے محفوظ رکھ لیتا ہے ۔ اس لیے کہ اللہ بڑا غفور و رحیم ہے ۔ بخشش کرنا معافی دینا اس کی ابدی اور لازمی صفت ہے ۔ یہ قول عزیز مصر کی عورت کا ہی ہے ۔ یہی بات مشہور ہے اور زیادہ لائق ہے اور واقعہ کے بیان سے بھی زیادہ مناسب ہے ۔ اور کلام کے معنی کے ساتھ بھی زیادہ موافق ہے ۔ امام ماوردی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر میں اسے وارد کیا ہے ۔ اور علامہ ابوالعباس امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے تو اسے ایک مستقل تصنیف میں بیان فرمایا ہے اور اس کی پوری تائید کی ہے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ قول یوسف علیہ السلام کا ہے ۔ (َؐلِیَعْلَمَ) سے اس دوسری آیت کے ختم تک انہی کا فرمان ہے ۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے تو صرف یہی ایک قول نقل کیا ہے ۔ چنانچہ ابن جریر میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ بادشاہ نے عورتوں کو جمع کر کے جب ان سے پوچھا کہ کیا تم نے یوسف علیہ السلام کو بہلایا پھسلایا تھا ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ حاشاللہ ہم نے اس میں کوئی برائی نہیں دیکھی ۔ اس وقت عزیز مصر کی بیوی نے اقرار کیا کہ واقعی حق تو یہی ہے ۔ تو یوسف علیہ السلام نے فرمایا یہ سب اس لیے تھا کہ میری امانت درای کا یقین ہو جائے ۔ جبرائیل علیہ السلام نے آپ علیہ السلام سے فرمایا وہ دن بھی یاد ہے ؟ کہ آپ علیہ السلام نے کچھ ارادہ کر لیا تھا ؟ تب آپ نے فرمایا میں اپنے نفس کی براءت تو نہیں کر رہا ؟ بیشک نفس برائیوں کا حکم دیتا ہے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:237/7) الغرض ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ کلام یوسف علیہ السلام کا ہے ۔ لیکن پہلا قول یعنی اس کلام کا عزیز کی موت کا کلام ہونا ہی زیادہ قوی اور زیادہ ظاہر ہے ۔ اس لیے کہ اوپر سے انہی کا کلام چلا آ رہا ہے جو بادشاہ کے سامنے سب کی موجودگی میں ہو رہا تھا ۔ اس وقت تو یوسف علیہ السلام وہاں موجود ہی نہ تھے ۔ اس تمام قصے کے کھل جانے کے بعد بادشاہ نے آپ علیہ السلام کو بلوایا ۔ یوسف
54 . جب بادشاہ کے سامنے یوسف علیہ السلام کی بےگناہی کھل گئی تو خوش ہو کر کہا کہ انہیں میرے پاس بلا لاؤ کہ میں انہیں اپنے خاص مشیروں میں کر لوں ۔ چانچہ آپ تشریف لائے ۔ جب وہ آپ سے ملا ، آپ علیہ السلام کی صورت دیکھی ۔ آپ علیہ السلام کی باتیں سنیں ، آپ علیہ السلام کے اخلاق دیکھے تو دل سے گرویدہ ہو گیا اور بےساختہ اس کی زبان سے نکل گیا کہ آج سے آپ ہمارے ہاں معزز اور معتبر ہیں ۔ اس وقت آپ علیہ السلام نے ایک خدمت اپنے لیے پسند فرمائی اور اس کی اہلیت ظاہر کی ۔ انسان کو یہ جائز بھی ہے کہ جب وہ انجان لوگوں میں ہو تو اپنی قابلیت بوقت ضرورت بیان کر دے ۔ اس خواب کی بنا پر جس کی تعبیر آپ نے دی تھی ۔ آپ نے یہی آرزو کی کہ زمین کی پیداوار غلہ وغیرہ جو جمع کیا جاتا ہے اس پر مجھے مقرر کیا جائے تاکہ میں محافظت کروں نیز اپنے علم کے مطابق عمل کر سکوں تاکہ رعایا کو قحط سالی کی مصیبت کے وقت قدرے عافیت مل سکے ۔ بادشاہ کے دل پر تو آپ کی امانت داری ، سچائی ، سلیقہ مندی اور کامل علم کا سکہ بیٹھ چکا تھا اسی وقت اس نے اس درخواست کو منظور کر لیا ۔ یوسف
55 یوسف
56 . زمین مصر میں یوں یوسف علیہ السلام کی ترقی ہوئی ۔ اب ان کے اختیار میں تھا کہ جس طرح چاہیں تصرف کریں ۔ جہاں چاہیں مکانات تعمیر کریں ۔ یا اس تنہائی اور قید کو دیکھئیے یا اب اس اختیار اور آزادی کو دیکھئیے ۔ سچ ہے رب جسے چاہے اپنی رحمت کا جتنا حصہ چاہے دے ۔ صابروں کا پھل لا کر ہی رہتا ہے ۔ بھائیوں کا دکھ سہا ، اللہ کی نافرمانی سے بچنے کے لیے عزیز مصر کی عورت سے بگاڑ لی اور قید خانے کی مصیبتیں برداشت کیں ۔ پس رحمت الٰہی کا ہاتھ بڑھا اور صبر کا اجر ملا ۔ نیک کاروں کی نیکیاں کبھی ضائع نہیں جاتیں ۔ پھر ایسے باایمان تقویٰ والے آخرت میں بڑے درجے اور اعلیٰ ثواب پاتے ہیں ۔ یہاں یہ ملا ، وہاں کے ملنے کی تو کچھ نہ پوچھئے ۔ سلیمان علیہ السلام کے بارے میں بھی قرآن میں آیا ہے کہ «ہٰذَا عَطَاؤُنَا فَامْنُنْ أَوْ أَمْسِکْ بِغَیْرِ حِسَابٍ وَإِنَّ لَہُ عِندَنَا لَزُلْفَیٰ وَحُسْنَ مَآبٍ» ( 38-ص : 39 ، 40 ) یہ دنیا کی دولت وسلطنت ہم نے تجھے اپنے احسان سے دی ہے اور قیامت کے دن بھی تیرے لیے ہمارے ہاں اچھی مہمانی ہے ۔ الغرض شاہ مصر ریان بن ولید نے سلطنت مصر کی وزارت آپ علیہ السلام کو دی ، پہلے اسی عہدے پر اس عورت کا خاوند تھا ۔ جس نے آپ کو اپنی طرف مائل کرنا چاہا تھا ، اسی نے آپ کو خرید لیا تھا ۔ آخر شاہ مصر آپ کے ہاتھ پر ایمان لایا ۔ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ آپ کے خریدنے والے کا نام اطفیر تھا ۔ یہ انہی دنوں میں انتقال کر گیا ۔ اس کے بعد باشاہ نے اس کی زوجہ راعیل سے یوسف علیہ السلام کا نکاح کر دیا ۔ جب آپ ان سے ملے تو فرمایا کہو کیا یہ تمہارے اس ارادے سے بہتر نہیں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ اے صدیق مجھے ملامت نہ کیجیئے آپ علیہ السلام کو معلوم ہے کہ میں حسن وخوبصورتی والی دھن دولت والی عورت تھی میرے خاوند مردمی سے محروم تھے وہ مجھ سے مل ہی نہیں سکتے تھے ۔ ادھر آپ کو قدرت نے جس فیاضی سے دولت حسن کے ساتھ مالا مال کیا ہے وہ بھی ظاہر ہے ۔ پس مجھے اب ملامت نہ کیجئے ۔ کہتے ہیں کہ واقعی یوسف علیہ السلام نے انہیں کنواری پایا ۔ پھر ان کے بطن سے آپ کو دو لڑکے ہوئے افراثیم اور میضا ۔ افراثیم کے ہاں نون پیدا ہوئے جو یوشع کے والد ہیں اور رحمت نامی صاحبزادی ہوئی جو ایوب علیہ السلام کی بیوی ہیں ۔ فضیل بن عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عزیز کی بیوی راستے میں کھڑی تھیں جو یوسف علیہ السلام کی بیوی ہیں ۔ فضیل بن عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عزیز کی بیوی راستے میں کھڑی تھیں جب یوسف علیہ السلام کی سواری نکلی تو بےساختہ ان کے منہ سے نکل گیا کہ الحمداللہ اللہ کی شان کے قربان جس نے اپنی فرمانبرداری کی وجہ سے غلاموں کو بادشاہی پر پہنچایا اور اپنی نافرمانی کی وجہ سے بادشاہوں کو غلامی پر لا اتارا ۔ یوسف
57 یوسف
58 . کہتے ہیں کہ یوسف علیہ السلام نے وزیر مصر بن کر سات سال تک غلے اور اناج کو بہترین طور پر جمع کیا ۔ اس کے بعد جب عام قحط سالی شروع ہوئی اور لوگ ایک ایک دانے کو ترسنے لگے تو آپ نے محتاجوں کو دینا شروع کیا ، یہ قحط علاقہ مصر سے نکل کر کنعان وغیرہ شہروں میں بھی پھیل گیا تھا ۔ آپ ہر بیرونی شخص کو اونٹ بھر کر غلہ عطا فرمایا کرتے تھے ۔ اور خود آپ کا لشکر بلکہ خود بادشاہ بھی دن بھر میں صرف ایک ہی مرتبہ دوپہر کے وقت ایک آدھ نوالہ کھا لیتے تھے اور اہل مصر کو پیٹ بھر کر کھلاتے تھے پس اس زمانے میں یہ بات ایک رحمت رب تھی ۔ یہ بھی مروی ہے کہ آپ علیہ السلام نے پہلے سال مال کے بدلے غلہ بیچا ۔ دوسرے سال سامان اسباب کے بدلے ، تیسرے سال بھی اور چوتھے سال بھی ۔ پھر خود لوگوں کی جان اور ان کی اولاد کے بدلے ۔ پس خود لوگ ان کے بچے اور ان کی کل ملیکت اور مال کے آپ علیہ السلام مالک بن گئے ۔ لیکن اس کے بعد آپ علیہ السلام نے سب کو آزاد کر دیا اور ان کے مال بھی ان کے حوالے کر دئے ۔ یہ روایت بنو اسرائیل کی ہے جسے ہم سچ جھوٹ نہیں کہہ سکتے ۔ یہاں یہ بیان ہو رہا ہے کہ ان آنے والوں میں برادران یوسف بھی تھے ۔ جو باپ کے حکم سے آئے تھے ۔ انہیں معلوم ہوا تھا کہ عزیز مصر مال متاع کے بدلے غلہ دیتے ہیں تو آپ نے اپنے دس بیٹوں کو یہاں بھیجا اور یوسف علیہ السلام کے سگے بھائی بنیامین کو جو آپ علیہ السلام کے بعد یعقوب علیہ السلام کے نزدیک بہت ہی پیارے تھے اپنے پاس روک لیا ۔ جب یہ قافلہ اللہ کے نبی علیہ السلام کے پاس پہنچا تو آپ نے توبہ یک نگاہ سب کو پہچان لیا لیکن ان میں سے ایک بھی آپ کو نہ پہچان سکا ۔ اس لیے کہ آپ ان سے بچپن میں ہی جدا ہو گئے تھے ۔ بھائیوں نے آپ کو سوداگروں کے ہاتھ بیچ ڈالا تھا انہیں کیا خبر تھی کہ پھر کیا ہوا ۔ اور یہ تو ذہن میں بھی نہ آ سکتا تھا کہ وہ بچہ جسے بحیثیت غلام بیچا تھا ۔ آج وہی عزیز مصر بن کر بیٹھا ہے ۔ ادھر یوسف علیہ السلام نے طرز گفتگو بھی ایسا اختیار کیا کہ انہیں وہم بھی نہ ہو ۔ ان سے پوچھا کہ تم لوگ میرے ملک میں کیسے آ گئے ؟ انہوں نے کہا یہ سن کر کہ آپ غلہ عطا فرماتے ہیں ۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا مجھے تو شک ہوتا ہے کہ کہیں تم جاسوس نہ ہو ؟ انہوں نے کہا معاذاللہ ہم جاسوس نہیں ۔ فرمایا تم رہنے والے کہاں کے ہو ؟ کہا کنعان کے اور ہمارے والد صاحب کا نام یعقوب نبی اللہ ہے ۔ آپ نے پوچھا تمہارے سوا ان کے اور لڑکے بھی ہیں ؟ انہوں نے کہا ہاں ہم بارہ بھائی تھے ۔ ہم میں جو سب سے چھوٹا تھا اور ہمارے باپ کی آنکھوں کا تارا تھا وہ تو ہلاک ہو گیا ۔ اسی کا ایک بھائی اور ہے ۔ اسے باپ نے ہمارے ساتھ نہیں بھیجا بلکہ اپنے پاس ہی روک لیا ہے کہ اس سے ذرا آپ کو اطمینان اور تسلی رہے ۔ ان باتوں کے بعد آپ علیہ السلام نے حکم دیا کہ انہیں سرکاری مہمان سمجھا جائے اور ہر طرح حاظر مدارات کی جائے اور اچھی جگہ ٹھہرایا جائے ۔ اب جب انہیں غلہ دیا جانے لگا اور ان تھلیے بھر دئے گئے اور جتنے جانور ان کے ساتھ تھے وہ جتنا غلہ اٹھا سکتے تھے بھر دیا تو فرمایا دیکھو اپنی صداقت کے اظہار کے لیے اپنے اس بھائی کو جسے تم اس مرتبہ اپنے ساتھ نہ لائے اب اگر آؤ تو لیتے آنا دیکھو میں نے تم سے اچھا سلوک کیا ہے اور تمہاری بڑی خاطر تواضع کی ہے اس طرح رغبت دلا کر پھر دھمکا بھی دیا کہ اگر دوبارہ کے آنے میں اسے ساتھ نہ لائے تو میں تمہیں ایک دانہ اناج کا نہ دوں گا بلکہ تمہیں اپنے نزدیک بھی نہ آنے دوں گا ۔ انہوں نے وعدے کئے کہ ہم انہیں کہہ سن کر لالچ دکھا کر ہر طرح پوری کوشش کریں گے کہ اپنے اس بھائی کو بھی لائیں تاکہ بادشاہ کے سامنے ہم جھوٹے نہ پڑیں ۔ سدی رحمہ اللہ تو کہتے ہیں کہ آپ نے تو ان سے رہن رکھ لیا کہ جب لاؤ گے تو یہ پاؤ گے ۔ لیکن یہ بات کچھ جی کو لگتی نہیں اس لیے کہ آپ علیہ السلام نے تو انہیں واپسی کی بڑی رغبت دلائی اور بہت کچھ تمنا ظاہر کی ۔ جب بھائی کوچ کی تیاریاں کرنے لگے تو یوسف علیہ السلام نے اپنے چالاک چاکروں سے اشارہ کیا کہ جو اسباب یہ لائے تھے اور جس کے عوض انہوں نے ہم سے غلہ لیا ہے وہ انہیں واپس کر دو لیکن اس خوبصورتی سے کہ انہیں معلوم تک نہ ہو ۔ ان کے کجاؤں اور بوروں میں ان کی تمام چیزیں رکھ دو ۔ ممکن ہے اس کی وجہ یہ ہو کہ آپ کو خیال ہوا ہو کہ اب گھر میں کیا ہو گا جسے لے کر یہ غلہ لینے کے لیے آئیں ۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ نے اپنے باپ اور بھائی سے اناج کا کچھ معاوضہ لینا مناسب نہ سمجھا ہو اور یہ بھی قرین قیاس ہے کہ آپ نے یہ خیال فرمایا ہو کہ جب یہ اپنا اسباب کھولیں گے اور یہ چیزیں اس میں پائیں گے تو ضروری ہے کہ ہماری یہ چیزیں ہمیں واپس دینے کو آئیں تو اس بہانے ہی بھائی سے ملاقات ہو جائے گی ۔ یوسف
59 یوسف
60 یوسف
61 یوسف
62 یوسف
63 . بیان ہو رہا ہے کہ باپ کے پاس پہنچ کر انہوں کہا کہ اب ہمیں تو غلہ مل نہیں سکتا تاوقتیکہ آپ ہمارے ساتھ ہمارے بھائی کو نہ بھیجیں اگر انہیں ساتھ کر دیں تو البتہ مل سکتا ہے آپ بے فکر رہیے ہم اس کی نگہبانی کر لیں گے « نَکْتَلْ »کی دوسری قرأت« یُکْتَلْ» بھی ہے ۔ یعقوب علیہ السلام نے فرمایا کہ بس وہی تم ان کے ساتھ کرو گے جو اس سے پہلے ان کے بھائی یوسف علیہ السلام کے ساتھ کر چکے ہو کہ یہاں سے لے گئے اور یہاں پہنچ کر کوئی بات بنا دی ۔ «حَافِظًا »کی دوسری قرأت «حِفْظاً» بھی ہے آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی بہترین حافظ اور نگہبان ہے اور ہے بھی وہ «أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ» میرے بڑھاپے پر میری کمزوری پر رحم فرمائے گا اور جو غم و رنج مجھے اپنے بچے کا ہے وہ دور کر دے گا ۔ مجھے اس کی پاک ذات سے امید ہے کہ وہ میرے یوسف علیہ السلام کو مجھ سے پھر ملا دے گا اور میری پراگندگی کو دور کر دے گا ۔ اس پر کوئی کام مشکل نہیں وہ اپنے بندوں سے اپنے رحم و کرم کو نہیں روکتا ۔ یوسف
64 یوسف
65 . یہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ بھائیوں کی واپسی کے وقت اللہ کے نبی علیہ السلام نے ان کا مال ومتاع ان کے اسباب کے ساتھ پوشیدہ طور پر واپس کر دیا تھا ۔ یہاں گھر پہنچ کر جب انہوں نے کجاوے کھولے اور اسباب علیحدہ علیحدہ کیا تو اپنی چیزیں جوں کی توں واپس شدہ پائیں تو اپنے والد سے کہنے لگے لیجئے اب آپ کو اور کیا چاہیئے ۔ اصل تک تو عزیز مصر نے ہمیں واپس کر دی ہے اور بدلے کا غلہ پورا پورا دے دیا ہے ۔ اب تو آپ بھائی صاحب کو ضرور ہمارے ساتھ کر دیجئیے تو ہم خاندان کے لیے غلہ بھی لائیں گے اور بھائی کی وجہ سے ایک اونٹ کا بوجھ اور بھی مل جائے گا کیونکہ عزیز مصر ہر شخص کو ایک اونٹ کا بوجھ ہی دیتے ہیں ۔ اور آپ کو انہیں ہمارے ساتھ کرنے میں تامل کیوں ہے ؟ ہم اس کی دیکھ بھال اور نگہداشت پوری طرح کریں گے ۔ یہ ناپ بہت ہی آسان ہے یہ تھا اللہ کا کلام کا تتمّہ اور کلام کو اچھا کرنا ۔ یعقوب علیہ السلام ان تمام باتوں کے جواب میں فرماتے ہیں کہ جب تک تم حلفیہ اقرار نہ کرو کہ اپنے اس بھائی کو اپنے ہمراہ مجھ تک واپس پہنچاؤ گے میں اسے تمہارے ساتھ بھیجنے کا نہیں ۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ اللہ نہ کرے تم سب ہی گیر لیے جاؤ اور چھوٹ نہ سکو ۔ چنانچہ بیٹوں نے اللہ کو بیچ میں رکھ کر مضبوط عہدو پیمان کیا ۔ اب یعقوب علیہ السلام نے یہ فرما کر کہ ہماری اس گفتگو کا اللہ وکیل ہے ۔ اپنے پیارے بچے کو ان کے ساتھ کر دیا ۔ اس لیے کہ قحط کے مارے غلے کی ضرورت تھی اور بغیر بھیجے چارہ نہ تھا ۔ یوسف
66 یوسف
67 . چونکہ اللہ کے نبی نے یعقوب علیہ السلام کو اپنے بچوں پر نظر لگ جانے کا کھٹکا تھا کیونکہ وہ سب اچھے ، خوبصورت ، تنو مند ، طاقتور ، مضبوط دیدہ رو نوجوان تھے اس لیے بوقت رخصت ان سے فرماتے ہیں کہ پیارے بچو تم سب شہر کے ایک دروازے سے شہر میں نہ جانا بلکہ مختلف دروازوں سے ایک ایک دو دو کر کے جانا ۔ نظر کا لگ جانا حق ہے ۔ گھوڑ سوار کو یہ گرا دیتی ہے ۔ پھر ساتھ ہی فرماتے ہیں کہ یہ میں جانتا ہوں اور میرا ایمان ہے کہ یہ تدبیر تقدیر میں ہیر پھیر نہیں کر سکتی ۔ اللہ کی قضاء کو کوئی شخص کسی تدبیر سے بدل نہیں سکتا ۔ اللہ کا چاہا پورا ہو کر ہی رہتا ہے ۔ حکم اسی کا چلتا ہے ۔ کون ہے جو اس کے ارادے کو بدل سکے ؟ اس کے فرمان کو ٹال سکے ؟ اس کی قضاء کو لوٹا سکے ؟ میرا بھروسہ اسی پر ہے اور مجھ پر ہی کیا موقوف ہے ۔ ہر ایک توکل کرنے والے کو اسی پر توکل کرنا چاہیئے ۔ چنانچہ بیٹوں نے باپ کی فرماں برداری کی اور اسی طرح کئی ایک دروازوں میں بٹ گئے اور شہر میں پہنچے ۔ اس طرح وہ اللہ کی قضاء کو لوٹا نہیں سکتے تھے ہاں یعقوب علیہ السلام نے ایک ظاہری تدبیر پوری کی کہ اس سے وہ نظر بد سے بچ جائیں ۔ وہ ذی علم تھے ، الہامی علم ان کے پاس تھا ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:250/7) ہاں اکثر لوگ ان باتوں کو نہیں جانتے ۔ یوسف
68 یوسف
69 . بنیامین علیہ السلام جو یوسف علیہ السلام کے سگے بھائی تھے انہیں لے کر آپ کے اور بھائی جب مصر پہنچے آپ نے اپنے سرکاری مہمان خانے میں ٹھہرایا ، بڑی عزت تکریم کی اور صلہ اور انعام و اکرام دیا ، اپنے بھائی سے تنہائی میں فرمایا کہ میں تیرا بھائی یوسف ہوں ، اللہ نے مجھ پر یہ انعام و اکرام فرمایا ہے ، اب تمہیں چاہیئے کہ بھائیوں نے جو سلوک میرے ساتھ کیا ہے ، اس کا رنج نہ کرو اور اس حقیقت کو بھی ان پر نہ کھولو میں کوشش میں ہوں کہ کسی نہ کسی طرح تمہیں اپنے پاس روک لوں ۔ یوسف
70 . جب آپ اپنے بھائیوں کو حسب عادت ایک ایک اونٹ غلے کا دینے لگے اور ان کا اسباب لدنے لگا تو اپنے چالاک ملازموں سے چپکے سے اشارہ کر دیا کہ چاندی کا شاہی کٹورا بنیامین کے اسباب میں چپکے سے رکھ دیں ۔ بعض نے کہا ہے یہ کٹورا سونے کا تھا ۔ اسی میں پانی پیا جاتا تھا اور اسی سے غلہ بھر کے دیا جاتا تھا بلکہ ویسا ہی پیالہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس بھی تھا ۔ پس آپ کے ملازمین نے ہوشیاری سے وہ پیالہ آپ علیہ السلام کے بھائی بنیامین کی خورجی میں رکھ دیا ۔ جب یہ چلنے لگے تو سنا کہ پیچھے سے منادی ندا کرتا آ رہا ہے کہ اے قافلے والو تم چور ہو ۔ ان کے کان کھڑے ، رک گئے ، ادھر متوجہ ہوئے اور پوچھا کہ آپ کی کیا چیز کھو گئی ہے ؟ جواب ملا کہ شاہی پیمانہ جس سے اناج ناپا جاتا تھا ، سنو شاہی اعلان ہے کہ اس کے ڈھونڈ لانے والے کو ایک بوجھ غلہ ملے گا اور میں خود ضامن ہوں ۔ یوسف
71 یوسف
72 یوسف
73 . اپنے اوپر چوری کی تہمت سن کر برادران یوسف کے کان کھڑے ہوئے اور کہنے لگے تم ہمیں جان چکے ہو ہمارے عادات وخصائل سے واقف ہو چکے ہو ہم ایسے نہیں کہ کوئی فساد اٹھائیں ہم ایسے نہیں ہیں کہ چوریاں کرتے پھریں ۔ شاہی ملازموں نے کہا اچھا اگر جام و پیمانے کا چور تم میں سے ہی کوئی ہو اور تم جھوٹے پڑو تو اس کی سزا کیا ہونی چاہیئے ؟ جواب دیا کہ دین ابراہیمی کے مطابق اس کی سزا یہ ہے کہ وہ اس شخص کے سپرد کر دیا جائے ، جس کا مال اس نے چرایا ہے ، ہماری شریعت کا یہی فیصلہ ہے ۔ اب یوسف علیہ السلام کا مطلب پورا ہو گیا ۔ آپ نے حکم دیا کہ ان کی تلاشی لی جائے ۔ یوسف
74 یوسف
75 یوسف
76 1 چنانچہ پہلے بھائیوں کے اسباب کی تلاشی لی ، حالانکہ معلوم تھا کہ ان کی خورجیاں خالی ہیں لیکن صرف اس لیے کہ انہیں اور دوسرے لوگوں کو کوئی شبہ نہ آپ نے یہ کام کیا ۔ جب بھائیوں کی تلاشی ہو چکی اور جام نہ ملا تو اب بنیامین کے اسباب کی تلاشی شروع ہوئی چونکہ ان کے اسباب میں رکھوایا تھا اس لیے اس میں سے نکلنا ہی تھا ، نکلتے ہی حکم دیا کہ انہیں روک لیا جائے ۔ یہ تھی وہ ترکیب جو جناب باری نے اپنی حکمت اور یوسف کی اور بنیامین وغیرہ کی مصلحت کے لیے یوسف صدیق علیہ السلام کو سکھائی تھی ۔ کیونکہ شاہ مصر کے قانون کے مطابق تو باوجود چور ہونے کے بنیامین کو یوسف علیہ السلام اپنے پاس نہیں رکھ سکتے تھے لیکن چونکہ بھائی خود یہی فیصلہ کر چکے تھے ، اس لیے یہی فیصلہ یوسف علیہ السلام نے جاری کر دیا ۔ آپ کو معلوم تھا کہ شرع ابراہیمی کا فیصلہ چور کی بابت کیا ہے ۔ اس لیے بھائیوں سے پہلے ہی منوا لیا تھا ۔ جس کے درجے اللہ بڑھانا چاہے ، بڑھا دیتا ہے ۔ جیسے فرمان ہے «یَرْفَعِ اللہُ الَّذِینَ آمَنُوا مِنکُمْ وَالَّذِینَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ» ( 58-المجادلۃ : 11 ) تم میں سے ایمانداروں کے درجے ہم بلند کریں گے ۔ ہر عالم سے بالا کوئی اور عالم بھی ہے یہاں تک کہ اللہ سب سے بڑا عالم ہے ۔ اسی سے علم کی ابتداء ہے اور اسی کی طرف علم کی انتہا ہے عبداللہ رضی اللہ عنہما کی قرأت میں «فَوْقَ کُلِّ عَالِـمٍ عَـلِـیْمٌ» ہے ۔ یوسف
77 . بھائی کے تھیلے میں سے جام کا نکلنا دیکھ کر بات بنا دی کہ دیکھو اس نے چوری کی تھی اور یہی کیا اس کے بھائی یوسف نے ایک مرتبہ اس سے پہلے چوری کر لی تھی ۔ وہ واقعہ یہ تھا کہ اپنے نانا کا بت چپکے سے اٹھا لائے تھے اور اسے توڑ دیا تھا ۔ یہ بھی مروی ہے کہ یعقوب علیہ السلام کی ایک بڑی بہن تھیں ، جن کے پاس اپنے والد اسحاق علیہ السلام کا ایک کمر پٹہ تھا جو خاندان کے بڑے آدمی کے پاس رہا کرتا تھا ۔ یوسف علیہ السلام پیدا ہوتے ہی اپنی ان پھوپھی صاحبہ کی پرورش میں تھے ۔ انہیں یوسف علیہ السلام سے کمال درجے کی محبت تھی ۔ جب آپ کچھ بڑے ہو گئے تو یعقوب علیہ السلام نے آپ کو لے جانا چاہا ۔ بہن صاحبہ سے درخواست کی ۔ لیکن بہن نے جدائی و ناقابل برداشت بیان کر کے انکار کر دیا ۔ ادھر آپ کے والد صاحب یعقوب علیہ السلام کے شوق کی بھی انتہا نہ تھی ، سر ہو گئے ۔ آخر بہن صاحبہ نے فرمایا اچھا کچھ دنوں رہنے دو پھر لے جانا ۔ اسی اثنا میں ایک دن انہوں نے وہی کمر پٹہ یوسف علیہ السلام کے کپڑوں کے نیچے چھپا دیا ، پھر تلاش شروع کی ۔ گھر بھر چھان مارا ، نہ ملا ، شور مچا ، آخر یہ ٹھہری کہ گھر میں جو ہیں ، ان کی تلاشیاں لی جائیں ۔ تلاشیاں لی گئیں ۔ کسی کے پاس ہو تو نکلے آخر یوسف علیہ السلام کی تلاشی لی گئی ، ان کے پاس سے برآمد ہوا ۔ یعقوب علیہ السلام کو خبر دی گئی ۔ اور ملت ابراہیمی کے قانون کے مطابق آپ اپنی پھوپھی کی تحویل میں کر دئیے گئے ۔ اور پھوپھی نے اس طرح اپنے شوق کو پورا کیا ۔ انتقال کے وقت تک یوسف علیہ السلام کو نہ چھوڑا ۔ اسی بات کا طعنہ آج بھائی دے رہے ہیں ۔ جس کے جواب میں یوسف علیہ السلام نے چپکے سے اپنے دل میں کہا کہ تم بڑے خانہ خراب لوگ ہو اس کے بھائی کی چوری کا حال اللہ خوب جانتا ہے ۔ یوسف
78 . جب بنیامین کے پاس سے شاہی مال برآمد ہوا اور ان کے اپنے اقرار کے مطابق وہ شاہی قیدی ٹھہر چکے تو اب انہیں رنج ہونے لگا ۔ عزیز مصر کو پرچانے لگے اور اسے رحم دلانے کے لیے کہا کہ ان کے والد ان کے بڑے ہی دلدادہ ہیں ۔ ضعیف اور بوڑھے شخض ہیں ۔ ان کا ایک سگا بھائی پہلے ہی گم ہو چکا ہے ۔ جس کے صدمے سے وہ پہلے ہی سے چور ہیں اب جو یہ سنیں گے تو ڈر ہے کہ زندہ نہ بچ سکیں ۔ آپ ہم میں سے کسی کو ان کے قائم مقام اپنے پاس رکھ لیں اور اسے چھوڑ دیں آپ بڑے محسن ہیں ، اتنی عرض ہماری قبول فرما لیں ۔ یوسف علیہ السلام نے جواب دیا کہ بھلا یہ سنگدلی اور ظلم کیسے ہو سکتا ہے کہ کرے کوئی بھرے کوئی ۔ چور کو روکا جائے گا نہ کہ شاہ کو نا کردہ گناہ کو سزا دینا اور گنہگار کو چھوڑ دینا یہ تو صریح ناانصافی اور بدسلوکی ہے ۔ یوسف
79 یوسف
80 . جب برادران یوسف اپنے بھائی کے چھٹکار سے مایوس ہو گئے ، انہیں اس بات نے شش وپنچ میں ڈال دیا کہ ہم والد سے سخت عہد پیمان کر کے آئے ہیں کہ بنیامین کو آپ کے حضور میں پہنچا دیں گے ۔ اب یہاں سے یہ کسی طرح چھوٹ نہیں سکتے ۔ الزام ثابت ہو چکا ہماری اپنی قراد داد کے مطابق وہ شاہی قیدی ٹھہر چکے اب بتاؤ کیا کیا جائے اس آپس کے مشورے میں بڑے بھائی نے اپنا خیال ان لفظوں میں ظاہر کیا کہ تمہیں معلوم ہے کہ اس زبردست ٹھوس وعدے کے بعد جو ہم ابا جان سے کر کے آئے ہیں ، اب انہیں منہ دکھانے کے قابل تو نہیں رہے نہ یہ ہمارے بس کی بات ہے کہ کسی طرح بنیامین کو شاہی قید سے آزاد کر لیں پھر اس وقت ہمیں اپنا پہلا قصور اور نادم کر رہا ہے جو یوسف علیہ السلام کے بارے میں ہم سے اس سے پہلے سرزد ہو چکا ہے پس اب میں تو یہیں رک جاتا ہوں ۔ یہاں تک کہ یا تو والد صاحب میرا قصور معاف فرما کر مجھے اپنے پاس حاضر ہونے کی اجازت دیں یا اللہ تعالیٰ مجھے کوئی فیصلہ بجھا دے کہ میں یا تو لڑ بھڑ کر اپنے بھائی کو لے کر جاؤں یا اللہ تعالیٰ کوئی اور صورت بنا دے ۔ کہا گیا ہے کہ ان کا نام روبیل تھا یا یہودا تھا یہی تھے کہ یوسف علیہ السلام کو جب اور بھائیوں نے قتل کرنا چاہا تھا انہوں نے روکا تھا ۔ یوسف
81 1 اب یہ اپنے اور بھائیوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ تم ابا جی کے پاس جاؤ ۔ انہیں حقیقت حال سے مطلع کرو ۔ ان سے کہو کہ ہمیں کیا خبر تھی کہ یہ چوری کر لیں گے اور چوری کا مال ان کے پاس موجود ہے ہم سے تو مسئلے کی صورت پوچھی گئی ہم نے بیان کر دی ۔ آپ کو ہماری بات کا یقین نہ ہو تو اہل مصر سے دریافت فرما لیجئے جس قافلے کے ساتھ ہم آئے ہیں اس سے پوچھ لیجئے ۔ کہ ہم نے صداقت ، امانت ، حفاظت میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ۔ اور ہم جو کچھ عرض کر رہے ہیں ، وہ بالکل راستی پر مبنی ہے ۔ یوسف
82 یوسف
83 . بھائیوں کی زبانی یہ خبر سن کر یعقوب علیہ السلام نے وہی فرمایا جو اس سے پہلے اس وقت فرمایا تھا جب انہوں نے پیراہن یوسف خون آلود پیش کر کے اپنی گھڑی ہوئی کہانی سنائی تھی کہ صبر ہی بہتر ہے ۔ آپ سمجھے کہ اسی کی طرح یہ بات بھی ان کی اپنی بنائی ہوئی ہے بیٹوں سے یہ فرما کر اب اپنی امید ظاہر کی جو اللہ سے تھی کہ بہت ممکن ہے کہ بہت جلد اللہ تعالیٰ میرے تینوں بچوں کو مجھ سے ملا دے یعنی یوسف علیہ السلام کو بنیامین کو اور آپ کے بڑے صاحبزادے روبیل کو جو مصر میں ٹھر گئے تھے اس امید پر کہ اگر موقعہ لگ جائے تو بنیامین کو خفیہ طور نکال لے جائیں یا ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ خود حکم دے اور یہ اس کی رضا مندی کے ساتھ واپس لوٹیں ۔ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ علیم ہے میری حالت کو خوب جان رہا ہے ۔ حکیم ہے اس کی قضاء وقدر اور اس کا کوئی کام الحکمت سے خالی نہیں ہوتا ۔ اب آپ کے اس نئے رنج نے پرانا رنج بھی تازہ کر دیا اور یوسف علیہ السلام کی یاد دل میں چٹکیاں لینے لگی ۔ سعید بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں «إِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ» ( 2-البقرہ : 156 ) الخ ، پڑھنے کی ہدایات صرف اسی امت کو کی گئی ہے اس نعمت سے اگلی امتیں مع اپنے نبیوں کے محروم تھیں ۔ دیکھئیے یعقوب علیہ السلام بھی ایسے موقعہ پر «یَا أَسَفَیٰ عَلَیٰ یُوسُفَ» کہتے ہیں ۔ آپ کی آنکھیں جاتی رہی تھیں ۔ غم نے آپ علیہ السلام کو نابینا کر دیا تھا اور زبان خاموش تھی ۔ مخلوق میں سے کسی شکایت وشکوہ نہیں کرتے تھے ۔ غمگین اور اندوہ گین رہا کرتے تھے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ داؤد علیہ السلام نے جناب باری میں عرض کی کہ لوگ تجھ سے یہ کہہ کر دعا مانگتے ہیں کہ اے ابراہیمعلیہ السلام اور اسحاق علیہ السلام اور یعقوب علیہ السلام کے رب ، تو تو ایسا کر کہ ان تین ناموں میں چوتھا نام میرا بھی شامل ہو جائے ۔ جواب ملا کہ اے داؤد ابراہیم علیہ السلام آگ میں ڈالے گئے اور صبر کیا ۔ تیری آزائش ابھی ایسی نہیں ہوئی ۔ اسحاق علیہ السلام نے خود اپنی قربانی منظور کر لی اور اپنا گلا کٹوانے بیٹھ گئے ۔ تجھ پر یہ بات بھی نہیں آئی ۔ یعقوب علیہ السلام سے میں نے ان کے لخت جگر کو الگ کر دیا اس نے بھی صبر کیا تیرے ساتھ یہ واقعہ بھی نہیں ہوا ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:11882/7:ضعیف جدا) یہ روایت مرسل ہے اور اس میں نکارت بھی ہے اس میں بیان ہوا ہے کہ ذبیح اللہ اسحاق علیہ السلام تھے لیکن صحیح بات یہ ہے کہ اسماعیل علیہ السلام تھے ۔ اس روایت کے راوی علی بن زید بن جدعان اکثر منکر اور غریب روایتیں بیان کر دیا کرتے ہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ بہت ممکن ہے کہ احنف بن قیس رحمہ اللہ نے یہ روایت بنی اسرائیل سے لی ہو ، جیسے کعب وہب وغیرہ ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ بنی اسرائیل کی ورایتوں میں یہ بھی ہے کہ یعقوب علیہ السلام نے یوسف کو اس موقعہ پر جب کہ بنیامین قید میں تھے ۔ ایک خط لکھا تھا جس میں انہیں رحم دلانے کے لیے لکھا تھا کہ ہم مصیبت زدہ لوگ ہیں ۔ میرے دادا ابراہیم علیہ السلام علیہ السلام آگ میں ڈالے گئے ۔ میرے والد اسحاق علیہ السلام ذبح کے ساتھ آزمائے گئے ۔ میں خود فراق یوسف علیہ السلام میں مبتلا ہوں ۔ لیکن یہ روایت بھی سندا ثابت نہیں ۔ یوسف
84 یوسف
85 1 بچوں نے باپ کا یہ حال دیکھ کر انہیں سمجھانا شروع کیا کہ ابا جی آپ تو اسی کی یاد میں اپنے آپ کو گھلا دیں گے بلکہ ہمیں تو ڈر ہے کہ اگر آپ کا یہی حال کچھ دنوں اور رہا تو کہیں زندگی سے ہاتھ نہ دھو بیٹھیں ۔ یعقوب علیہ السلام نے انہیں جواب دیا کہ میں تم سے تو کچھ نہیں کہہ رہا میں تو اپنے رب کے پاس اپنا دکھ رو رہا ہوں ۔ اور اس کی ذات سے بہت امید رکھتا ہوں وہ بھلائیوں والا ہے ۔ مجھے یوسف کا خواب یاد ہے ، جس کی تعبیر ظاہر ہو کر رہے گی ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ یعقوب علیہ السلام کے ایک مخلص دوست نے ایک مرتبہ آپ علیہ السلام سے پوچھا کہ آپ کی بینائی کیسے جاتی رہی ؟ اور آپ کی کمر کیسے کبڑی ہو گئی ؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا یوسف علیہ السلام کو رو رو کر آنکھیں کھو بیٹھا اور بنیامین کے صدمے نے کمر توڑ دی ۔ اسی وقت جبرائیل علیہ السلام آئے اور فرمایا اللہ تعالیٰ آپ کو سلام کے بعد کہتا ہے کہ میری شکایتیں دوسروں کے سامنے کرنے سے آپ شرماتے نہیں ؟ یعقوب علیہ السلام نے اسی وقت فرمایا کہ میری پریشانی اور غم کی شکایت اللہ ہی کے سامنے ہے ۔ جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا آپ کی شکایت کا اللہ کو خوب علم ہے ۔ (بیہقی فی شعب الایمان:3403/3:ضعیف) یہ حدیث بھی غریب ہے اور اس میں بھی نکارت ہے ۔ یوسف
86 یوسف
87 . حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے بیٹوں کو حکم فرما رہے ہیں کہ تم ادھر ادھر جاؤ اور یوسف علیہ السلام اور بنیامین کی تلاش کرو ۔ عربی میں« تَحَسٰ» کا لفظ بھلائی کی جستجو کے لیے بولا جاتا ہے اور برائی کی ٹٹول کے لئے« تَجَسّسُ» کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ ساتھ میں فرماتے ہیں کہ اللہ کی ذات سے مایوس نہ ہونا چاہیئے اس کی رحمت سے مایوس وہی ہوتے ہیں جن کے دلوں میں کفر ہوتا ہے ۔ تم تلاش بند نہ کرو ، اللہ سے نیک امید رکھو اور اپنی کوشش جاری رکھو ۔ چنانچہ یہ لوگ چلے ، پھر مصر پہنچے ، یوسف علیہ السلام کے دربار میں حاضر ہوئے ، وہاں اپنی خستہ حالی ظاہر کی کہ قحط سالی نے ہمارے خاندان کو ستا رکھا ہے ، ہمارے پاس کچھ نہیں رہا ، جس سے غلہ خریدتے اب ردی ، واہی ، ناقص ، بیکار ، کھوٹی اور قیمت نہ بننے والی کچھ یونہی سی رکھی رکھائی چیزیں لے کر آپ کے پاس آئے ہیں گویہ بدلہ نہیں کہا جا سکتا نہ قیمت بنتی ہے لیکن تاہم ہماری خواہش ہے کہ آپ ہمیں وہی دیجئیے جو سچی صحیح اور پوری قیمت پر دیا کرتے ہیں ۔ ہمارے بوجھ بھر دیجئیے ، ہماری خورجیاں پر کر دیجئیے ، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما کی قرأت میں «فَأَوْفِ لَنَا الْکَیْلَ» کے بدلے« فَأَوْقِرْ رِکَابنَا وَتَصَدَّقْ عَلَیْنَا» ہے یعنی ہمارے اونٹ غلے سے لاد دیجئیے ۔ اور ہم پر صدقہ کیجئے ہمارے بھائی کو رہائی دیجئیے ، یا یہ مطلب ہے کہ یہ غلہ ہمیں ہمارے اس مال کے بدلے نہیں بلکہ بطور خیرات دیجئیے ۔ حضرت سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ سے سوال ہوتا ہے کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی کسی نبی پر صدقہ حرام ہوا ہے ؟ تو آپ رحمہ اللہ نے یہی آیت پڑھ کر استدلال کیا کہ نہیں ہوا ۔ مجاہد رحمہ اللہ سے سوال ہوا کہ کیا کسی شخص کا اپنی دعا میں یہ کہنا مکروہ ہے کہ یا اللہ مجھ پر صدقہ کر ۔ فرمایا ہاں اس لیے کہ صدقہ وہ کرتا ہے جو طالب ثواب ہو ۔ یوسف
88 یوسف
89 . جب بھائی یوسف علیہ السلام کے پاس اس عاجزی اور بے بسی کی حالت میں پہنچے اپنے تمام دکھ رونے لگے اپنے والد کی اور اپنے گھر والوں کی مصیبتیں بیان کیں تو یوسف علیہ السلام کا دل بھر آیا نہ رہا گیا ۔ اپنے سر سے تاج اتار دیا اور بھائیوں سے کہا کچھ اپنے کرتوت یاد بھی ہیں کہ تم نے یوسف علیہ السلام کے ساتھ کیا کیا ؟ اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا کیا ؟ وہ نری جہالت کا کرشمہ تھا اسی لیے بعض سلف فرماتے ہیں کہ اللہ کا ہر گنہگار جاہل ہے ۔ قرآن فرماتا ہے «ثُمَّ إِنَّ رَبَّکَ لِلَّذِینَ عَمِلُوا السٰوءَ بِجَہَالَۃٍ» (16-النحل:119) بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ پہلی دو دفعہ کی ملاقات میں یوسف علیہ السلام کو اپنے آپ کو ظاہر کرنے کا حکم اللہ نہ تھا ۔ اب کی مرتبہ حکم ہو گیا ۔ آپ علیہ السلام نے معاملہ صاف کر دیا ۔ جب تکلیف بڑھ گئی سختی زیادہ ہو گئی تو اللہ تعالیٰ نے راحت دے دی اور کشادگی عطا فرما دی ۔ جیسے ارشاد ہے : «فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْراً ـ إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْراً» (94-الشرح:5 ۔ 6)سختی کے ساتھ آسانی ہے یقیناً سختی کے ساتھ آسانی ہے ۔ اب بھائی چونک پڑے کچھ اس وجہ سے کہ تاج اتار نے کے بعد پیشانی کی نشانی دیکھ لی اور کچھ اس قسم کے سوالات کچھ حالات کچھ اگلے واقعات سب سامنے آ گئے ۔ تاہم اپنا شک دور کرنے کے لیے پوچھا کہ کیا آپ ہی یوسف علیہ السلام ہیں ؟ آپ علیہ السلام نے اس سوال کے جواب میں صاف کہہ دیا کہ ہاں میں خود یوسف علیہ السلام ہوں اور یہ میرا سگا بھائی ہے اللہ تعالیٰ نے ہم پر فضل و کرم کیا بچھڑنے کے بعد ملا دیا تفرقہ کے بعد اجتماع کر دیا ۔ تقویٰ اور صبر رائیگاں نہیں جاتے ۔ نیک کاری بےپھل لائے نہیں رہتی ۔ اب تو بھائیوں نے یوسف علیہ السلام کی فضیلت اور بزرگی کا اقرار کر لیا کہ واقعی صورت سیرت دونوں اعتبار سے آپ علیہ السلام ہم پر فوقیت رکھتے ہیں ۔ ملک و مال کے اعتبار سے بھی اللہ نے آپ کو ہم پر فضیلت دے رکھی ہے ۔ اسی طرح بعض کے نزدیک نبوت کے اعتبار سے بھی کیونکہ یوسف علیہ السلام نبی تھے اور یہ بھائی نبی نہ تھے ۔ اس اقرار کے بعد اپنی خطا کاری کا بھی اقرار کیا ۔ اسی وقت یوسف علیہ السلام نے فرمایا میں آج کے دن کے بعد سے تمہیں تمہاری یہ خطا یاد بھی نہ دلاؤں گا میں تمہیں کوئی ڈانٹ ڈپٹ کرنا نہیں چاہتا نہ تم پر الزام رکھتا ہوں نہ تم پر اظہار خفگی کرتا ہوں بلکہ میری دعا ہے کہ اللہ بھی تمہیں معاف فرمائے وہ «أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ» ہے ۔ بھائیوں نے عذر پیش کیا آپ علیہ السلام نے قبول فرما لیا اللہ تمہاری پردہ پوشی کرے اور تم نے جو کیا ہے اسے بخش دے ۔ یوسف
90 یوسف
91 یوسف
92 یوسف
93 . چونکہ اللہ کے رسول یعقوب علیہ السلام اپنے رنج و غم میں روتے روتے نابینا ہو گئے تھے ، اس لیے یوسف علیہ السلام اپنے بھائیوں سے کہتے ہیں کہ میرا یہ کرتہ لے کر تم ابا کے پاس جاؤ ، اسے ان کے منہ پر ڈالتے ہی ان شاءاللہ ان کی نگاہ روشن ہو جائے گی ۔ پھر انہیں اور اپنے گھرانے کے تمام اور لوگوں کو یہیں میرے پاس لے آؤ ۔ ادھر یہ قافلہ مصر سے نکلا ، ادھر اللہ تعالیٰ نے یعقوب علیہ السلام کو یوسف کی خوشبو پہنچا دی تو آپ علیہ السلام نے اپنے ان بچوں سے جو آپ کے پاس تھے فرمایا کہ مجھے تو میرے پیارے فرزند یوسف علیہ السلام کی خوشبو آ رہی ہے لیکن تم تو مجھے سترا بہترا کم عقل بڈھا کہہ کر میری اس بات کو باور نہیں کرنے کے ۔ ابھی قافلہ کنعان سے آٹھ دن کے فاصلے پر تھا ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:294/7:) جو بحکم الٰہی ہوا نے یعقوب کو یوسف کے پیراہن کی خوشبو پہنچا دی ۔ اس وقت یوسف علیہ السلام کی گمشدگی کی مدت اسی سال کی گزر چکی تھی اور قافلہ اسی فرسخ آپ سے دور تھا ۔ لیکن بھائیوں نے کہا آپ تو یوسف علیہ السلام کی محبت میں غلطی میں پڑے ہوئے ہیں نہ غم آپ کے دل سے دور ہو نہ آپ کو تسلی ہو ۔ ان کا یہ کلمہ بڑا سخت تھا کسی لائق اولاد کو لائق نہیں کہ اپنے باپ سے یہ کہے نہ کسی امتی کو لائق ہے کہ اپنی نبی علیہ السلام سے یہ کہے. یوسف
94 یوسف
95 یوسف
96 . کہتے ہیں کہ پیراہن یوسف علیہ السلام یعقوب علیہ السلام کے بڑے صاحبزادے یہودا لائے تھے ۔ اس لیے کہ انہوں نے ہی پہلے جھوٹ موٹ وہ کرتا پیش کیا تھا ۔ جسے خون آلود کر کے لائے تھے اور باپ کو یہ سمجھایا تھا کہ یوسف علیہ السلام کا خون ہے ، اب بدلے کے لیے یہ کرتہ بھی یہی لائے کہ برائی کے بدلے بھلائی ہو جائے بری خبر کے بدلے خوشخبری ہو جائے ۔ آتے ہی باپ کے منہ پر ڈالا ۔ اسی وقت یعقوب علیہ السلام کی آنکھیں کھل گئیں اور بچوں سے کہنے لگے دیکھو میں تو ہمیشہ تم سے کہا کرتا تھا کہ اللہ کی بعض وہ باتیں میں جانتا ہوں جن سے تم محض بے خبر ہو ۔ میں تم سے کہا کرتا تھا کہ اللہ تعالیٰ میرے یوسف علیہ السلام کو ضرور مجھ سے ملائے گا ، ابھی تھوڑے دنوں کا ذکر ہے کہ میں نے تم سے کہا تھا کہ مجھے آج میرے یوسف کی خوشبو آ رہی ہے ۔ باپ جواب میں فرماتے ہیں کہ مجھے اس سے انکار نہیں اور مجھے اپنے رب سے یہ بھی امید ہے کہ وہ تمہاری خطائیں معاف فرما دے گا اس لیے کہ وہ بخششوں اور مہربانیوں والا ہے توبہ کرنے والوں کی توبہ قبول فرما لیا کرتا ہے میں صبح سحری کے وقت تمہارے لیے استغفار کروں گا ۔ ابن جریر میں ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ مسجد میں آتے تو سنتے کہ کوئی کہہ رہا ہے کہ اللہ تو نے پکارا ، میں نے مان لیا تو نے حکم دیا میں بجا لایا ، یہ سحر کا وقت ہے ، پس تو مجھے بخش دے ، آپ نے کان لگا کر غور کیا تو معلوم ہوا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے گھر سے یہ آواز آ رہی ہے ۔ آپ نے ان سے پوچھا انہوں نے کہا یہی وہ وقت ہے جس کے لیے یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں سے کہا تھا کہ میں تمہارے لیے تھوڑی دیر بعد استغفار کروں گا ۔ حدیث میں ہے کہ یہ رات جمعہ کی رات تھی ۔ ابن جریر میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مراد اس سے یہ ہے کہ جب جمعہ کی رات آ جائے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:1981:ضعیف) لیکن یہ حدیث غریب ہے ۔ بلکہ اس کے مرفوع ہونے میں بھی کلام ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ یوسف
97 یوسف
98 یوسف
99 . بھائیوں پر یوسف علیہ السلام نے اپنے آپ کو ظاہر کر کے فرمایا تھا کہ ابا جی کو اور گھر کے سب لوگوں کو یہیں لے آؤ ۔ بھائیوں نے یہی کیا ، اس بزرگ قافلے نے کنعان سے کوچ کیا جب مصر کے قریب پہنچے تو نبی اللہ یوسف علیہ السلام بھی آپ کے ساتھ تھے ۔ یہ بھی مروی ہے کہ خود شاہ مصر بھی استقبال کے لیے چلے اور حکم شاہی سے شہر کے تمام امیر امرا اور ارکان دولت بھی آپ کے ساتھ تھے ۔ یہ مروی ہے کہ خود شاہ مصر بھی استقبال کے لیے شہر سے باہر آیا تھا ۔ اس کے بعد جو جگہ دینے وغیرہ کا ذکر ہے اس کی بابت بعض مفسرین کا قول ہے کہ اس کی عبارت میں تقدیم و تاخیر ہے یعنی آپ نے ان سے فرمایا تم مصر میں چلو ، ان شاءاللہ پر امن اور بے خطر رہو گے اب شہر میں داخلے کے بعد آپ نے اپنے والدین کو اپنے پاس جگہ دی اور انہیں اونچے تخت پر بٹھایا ۔ لیکن امام ابن جریر رحمہ اللہ نے اس کی تردید کی ہے اور فرمایا ہے کہ اس میں سدی رحمہ اللہ کا قول بالکل ٹھیک ہے جب پہلے ہی ملاقات ہوئی تو آپ نے انہیں اپنے پاس کر لیا اور جب شہر کا دروازہ آیا تو فرمایا اب اطمینان کے ساتھ یہاں چلئے ۔ لیکن اس میں بھی ایک بات رہ گئی ہے ۔ «آوَیٰ» اصل میں منزل میں جگہ دینے کو کہتے ہیں جیسے «اوؤ الیہ احاہ» میں ہے ۔ اور حدیث میں بھی ہے «من اوی محدثا» (صحیح بخاری:3179) پس کوئی وجہ نہیں کہ ہم اس کا مطلب یہ بیان نہ کریں کہ ان کے آ جانے کے بعد انہیں جگہ دینے کے بعد آپ نے ان سے فرمایا کہ تم امن کے ساتھ مصر میں داخل ہو یعنی یہاں قحط وغیرہ کی مصیبتوں سے محفوظ ہو کر با آرام رہو سہو ، مشہور ہے کہ اور جو قحط سالی کے سال باقی تھے ۔ ، وہ یعقوب علیہ السلام کی تشریف آوری کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے دور کر دئے ۔ جیسے کہ اہل مکہ کی قحط سالی سے تنگ آ کر ابوسفیان نے آپ سے شکایت کی اور بہت روئے پیٹے اور سفارش چاہی ۔(صحیح بخاری:2798) عبدالرحمٰن کہتے ہیں یوسف علیہ السلام کی والدہ کا تو پہلے ہی انتقال ہو چکا تھا ۔ اس وقت آپ کے والد صاحب کے ہمراہ آپ کی خالہ صاحبہ آئی تھیں ۔ لیکن امام ابن جریر اور امام محمد بن اسحاق رحمہ اللہ کا قول ہے کہ آپ کی والدہ خود ہی زندہ موجود تھیں ، ان کی موت پر کوئی صحیح دلیل نہیں اور قرآن کریم کے ظاہری الفاظ اس بات کو چاہتے ہیں کہ آپ کی والدہ ماجدہ زندہ موجود تھیں ، یہی بات ٹھیک بھی ہے ۔ آپ علیہ السلام نے اپنے والدین کو اپنے ساتھ تخت شاہی پر بٹھا لیا ۔ اس وقت ماں باپ بھی اور گیارہ بھائی کل کے کل آپ کے سامنے سجدے میں گر پڑے ۔ آپ نے فرمایا «اذْ قَالَ یُوسُفُ لِأَبِیہِ یَا أَبَتِ إِنِّی رَأَیْتُ أَحَدَ عَشَرَ کَوْکَبًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَأَیْتُہُمْ لِی سَاجِدِینَ» ( 12-یوسف : 4 ) ابا جی لیجئے میرے خواب کی تعبیر ظاہر ہو گئی یہ ہیں گیارہ ستارے اور یہ ہیں سورج چاند جو میرے سامنے سجدے میں ہیں ۔ ان کی شرع میں یہ جائز تھی کہ بڑوں کو سلام کے ساتھ سجدہ کرتے تھے بلکہ آدم علیہ السلام سے عیسیٰ علیہ السلام تک یہ بات جائز ہی رہی لیکن اس ملت محمدیہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے کسی اور کے لیے سوائے اپنی ذات پاک کے سجدے کو مطلقاً حرام کر دیا ۔ اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اسے اپنے لیے ہی مخصوص کر لیا ۔ حضرت قتادہ رحمہ اللہ وغیرہ کے قول کا ماحصل مضمون یہی ہے حدیث شریف میں ہے کہ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہما ملک شام گئے ، وہاں انہوں نے دیکھا کہ شامی لوگ اپنے بڑوں کو سجدے کرتے ہیں یہ جب لوٹے تو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ، معاذ یہ کیا بات ہے ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ میں نے اہل شام کو دیکھا کہ وہ اپنے بڑوں اور بزرگوں کو سجدہ کرتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو اس کے سب سے زیادہ مستحق ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر میں کسی کے لیے سجدے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کے سامنے سجدہ کرے ۔ بہ سبب اس کے بہت بڑے حق کے جو اس پر ہے ۔ (سنن ابن ماجہ:1853 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) اور حدیث میں ہے کہ سلمان رضی اللہ عنہ نے اپنے اسلام کے ابتدائی زمانے میں راستے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر آپ کے سامنے سجدہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سلمان مجھے سجدہ نہ کرو ۔ سجدہ اس اللہ کو کرو جو ہمیشہ کی زندگی والا ہے جو کبھی نہ مرے گا ۔ (جمع الجوامع للسیوطی:877) الغرض چونکہ اس شریعت میں جائز تھا اس لیے انہوں نے سجدہ کیا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا لیجئے ابا جی میرے خواب کا ظہور ہو گیا ۔ میرے رب نے اسے سچا کر دکھایا ۔ اس کا انجام ظاہر ہو گیا ۔ چنانچہ اور آیت میں قیامت کے دن کے لیے بھی یہی لفظ بولا گیا ہے «ہَلْ یَنظُرُونَ إِلاَّ تَأْوِیلَہُ یَوْمَ یَأْتِی تَأْوِیلُہُ» ( 7-الأعراف : 53 ) پس یہ بھی اللہ کا مجھ پر ایک احسان عظیم ہے کہ اس نے میرے خواب کو سچا کر دکھایا اور جو میں نے سوتے سوتے دیکھا تھا ، الحمد للہ مجھے جاگنے میں بھی اس نے دکھا دیا ۔ اور احسان اس کا یہ بھی ہے کہ اس نے مجھے قید خانے سے نجات دی اور تم سب کو صحرا سے یہاں لا کر مجھ سے ملا دیا ۔ آپ چونکہ جانوروں کے پالنے والے تھے ، اس لیے عموماً بادیہ میں ہی قیام رہتا تھا ، فلسطین بھی شام کے جنگلوں میں ہے اکثر اوقات پڑاؤ رہا کرتا تھا ۔ کہتے ہیں کہ یہ اولاج میں حسمی کے نیچے رہا کرتے تھے اور مویشی پالتے تھے ، اونٹ بکریاں وغیرہ ساتھ رہتی تھیں ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:307/7) پھر فرماتے ہیں اس کے بعد کہ شیطان نے ہم میں پھوٹ ڈلوا دی تھی ، اللہ تعالیٰ جس کام کا ارادہ کرتا ہے ، اس کے ویسے ہی اسباب مہیا کر دیتا ہے اور اسے آسان اور سہل کر دیتا ہے ۔ وہ اپنے بندوں کی مصلحتوں کو خوب جانتا ہے اپنے افعال اقوال قضاء و قدر مختار و مراد میں وہ باحکمت ہے ۔ سلیمان کا قول ہے کہ خواب کے دیکھنے اور اس کی تاویل کے ظاہر ہونے میں چالیس سال کا وقفہ تھا ۔ عبداللہ بن شداد فرماتے ہیں خواب کی تعبیر کے واقع ہونے میں اس سے زیادہ زمانہ لگتا بھی نہیں یہ آخری مدت ہے ۔(تفسیر ابن جریر الطبری:308/7:) حضرت حسن رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ باپ بیٹے اسی برس کے بعد ملے تم خیال تو کرو کہ زمین پر یعقوب علیہ السلام سے زیادہ اللہ کا کوئی محبوب بندہ نہ تھا ۔ پھر بھی اتنی مدت انہیں فراق یوسف علیہ السلام میں گزری ، ہر وقت آنکھوں سے آنسو جاری رہتے اور دل میں غم کی موجیں اٹھتیں اور روایت میں ہے کہ یہ مدت تراسی سال کی تھی ۔ فرماتے ہیں جب یوسف علیہ السلام کنویں میں ڈالے گئے اس وقت آپ کی عمر سترہ سال کی تھی ۔ اسی برس تک آپ علیہ السلام باپ کی نظروں سے اوجھل رہے ۔ پھر ملاقات کے بعد تیئس برس زندہ رہے اور ایک سو بیس برس کی عمر میں انتقال کیا ۔ بقول حضرت قتادہ رحمہ اللہ ترپن برس کے بعد باپ بیٹا ملے ۔ ایک قول ہے کہ اٹھارہ سال ایک دوسرے سے دور رہے اور ایک قول ہے کہ چالیس سال کی جدائی رہی اور پھر مصر میں باپ سے ملنے کے بعد سترہ سال زندہ رہے ۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بنو اسرائیل جب مصر پہنچے ہیں ان کی تعداد صرف تریسٹھ کی تھی اور جب یہاں سے نکلے ہیں اس وقت ان کی تعداد ایک لاکھ ستر ہزار کی تھی ۔ مسروق کہتے ہیں آنے کے وقت یہ مع مرد و عورت تین سو نوے تھے ، عبداللہ بن شداد کا قول ہے کہ جب یہ لوگ آئے کل چھیاسی تھے یعنی مرد عورت بوڑھے بچے سب ملا کر اور جب نکلے ہیں اس وقت ان کی گنتی چھ لاکھ سے اوپر اوپر تھی ۔ یوسف
100 یوسف
101 . نبوت مل چکی ، بادشاہت عطا ہو گئی ، دکھ کٹ گئے ، ماں باپ اور بھائی سب سے ملاقات ہو گئی تو اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہے کہ جیسے یہ دنیوں نعمتیں تو نے مجھ پر پوری کی ہیں ، ان نعمتوں کو آخرت میں پوری فرما ، جب بھی موت آئے تو اسلام پر اور تیری فرمانبرداری پر آئے اور میں نیک لوگوں میں ملا دیا جاؤں اور نبیوں اور رسولوں میں «صلوات اللہ وسلامہ علیہم اجمعین» بہت ممکن ہے کہ یوسف علیہ السلام کی یہ دعا بوقت وفات ہو ۔ جیسے کہ بخاری و مسلم میں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ثابت ہے کہ انتقال کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی اٹھائی اور یہ دعا کی کہ اے اللہ رفیق اعلی میں ملا دے ۔ تین مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی دعا کی ۔ (صحیح بخاری:4438) ہاں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یوسف علیہ السلام کی اس دعا کا مقصود یہ ہے کہ جب بھی وفات آئے اسلام پر آئے اور نیکوں میں مل جاؤں ۔ یہ نہیں کہ اسی وقت آپ نے یہ دعا اپنی موت کے لیے کی ہو ۔ اس کی بالکل وہی مثال ہے جو کوئی کسی کو دعا دیتے ہوئے کہتا ہے کہ اللہ تجھے اسلام پر موت دے ۔ اس سے یہ مراد نہیں ہوتی کہ ابھی ہی تجھے موت آ جائے ۔ یا جیسے ہم مانگتے ہیں کہ اللہ ہمیں تیرے دین پر ہی موت آئے یا ہماری یہی دعا کہ اللہ مجھے اسلام پر مار اور نیک کاروں میں ملا ۔ اور اگر یہی مراد ہو کہ واقعی آپ نے اسی وقت موت مانگی تو ممکن ہے کہ یہ بات اس شریعت میں جائز ہو ۔ چنانچہ قتادہ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ جب آپ علیہ السلام کے تمام کام بن گئے ، آنکھیں ٹھنڈی ہو گئیں ، ملک ، مال ، عزت ، آبرو ، خاندان ، برادری ، بادشاہت سب مل گئے تو آپ کو صالحین کی جماعت میں پہنچنے کا اشتیاق پیدا ہوا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یہی سب سے پہلے اس دعا کے مانگنے والے ہیں ، ممکن ہے اس سے مراد سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی یہ ہو کہ اس دعا کو سب سے پہلے کرنے والے یعنی خاتمہ اسلام پر ہونے کی دعا کے سب سے پہلے مانگنے والے آپ علیہ السلام ہی تھے ۔ جیسے کہ یہ دعا کو سب سے پہلے کرنے والے یعنی خاتمہ اسلام پر ہونے کی دعا کے سب سے پہلے مانگنے والے آپ ہی تھے ۔ جیسے کہ یہ دعا «رَّبِّ اغْفِرْ لِی وَلِوَالِدَیَّ وَلِمَن دَخَلَ بَیْتِیَ مُؤْمِنًا» ( 71-نوح : 28 ) سب سے پہلے نوح علیہ السلام نے مانگی تھی ۔ باوجود اس کے بھی اگر یہی کہا جائے کہ یوسف علیہ السلام نے موت کی ہی دعا کی تھی تو ہم کہتے ہیں ہو سکتا ہے کہ ان کے دین میں جائز ہو ۔ ہمارے ہاں تو سخت ممنوع ہے ۔ مسند میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تم میں سے کوئی کسی سختی اور ضرر سے گھبرا کر موت کی آرزو نہ کرے اگر اسے ایسی ہی تمنا کرنی ضروری ہے تو یوں کہے اے اللہ جب تک میری حیات تیرے علم میں میرے لیے بہتر ہے ، مجھے زندہ رکھ اور جب تیرے علم میں میری موت میرے لیے بہتر ہو ، مجھے موت دیدے ۔ (مسند احمد:103/3:صحیح) بخاری مسلم کی اسی حدیث میں ہے کہ تم میں سے کوئی کسی سختی کے نازل ہونے کی وجہ سے موت کی تمنا ہرگز نہ کرے اگر وہ نیک ہے تو اس کی زندگی اس کی نیکیاں بڑھائے گی اور اگر وہ بد ہے تو بہت ممکن ہے کہ زندگی میں کسی وقت توبہ کی توفیق ہو جائے بلکہ یوں کہے اے اللہ جب تک میرے لیے حیات بہتر ہے تو مجھے زندہ رکھ ۔ (صحیح بخاری:6351) مسند احمد میں ہے ہم ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں وعظ و نصیحت کی اور ہمارے دل گرما دئے ۔ اس وقت ہم میں سب سے زیادہ رونے والے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ تھے ، روتے ہی روتے ان کی زبان سے نکل گیا کہ کاش کہ میں مر جاتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سعد رضی اللہ عنہ میرے سامنے موت کی تمنا کرتے ہو ؟ تین مرتبہ یہی الفاظ دہرائے ۔ پھر فرمایا اے سعد اگر تو جنت کے لیے پیدا کیا گیا ہے تو جس قدر عمر بڑھے گی اور نیکیاں زیادہ ہوں گی ، تیرے حق میں بہتر ہے ۔ (مسند احمد:267/5:ضعیف) مسند میں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تم میں سے کوئی ہرگز ہرگز موت کی تمنا نہ کرے نہ اس کی دعا کرے اس سے پہلے کہ وہ آئے ۔ ہاں اگر کوئی ایسا ہو کہ اسے اپنے اعمال کا وثوق اور ان پر یقین ہو ۔ سنو تم میں سے جو مرتا ہے ، اس کے اعمال منقطع ہو جاتے ہیں ۔ مومن کے اعمال اس کی نیکیاں ہی بڑھاتے ہیں ۔ (مسند احمد:350/2:صحیح بالشواھد) یہ یاد رہے کہ یہ حکم اس مصیبت میں ہے جو دنیوی ہو اور اسی کی ذات کے متعلق ہو ۔ لیکن اگر فتنہ مذہبی ہو ، مصیبت دینی ہو ، تو موت کا سوال جائز ہے ۔ جیسے کہ فرعون کے جادو گروں نے اس وقت دعا کی تھی جب کہ فرعون انہیں قتل کی دھمکیاں دے رہا تھا ۔ کہا تھا کہ «رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَتَوَفَّنَا مُسْلِمِینَ» ( 7-الاعراف : 126 ) اللہ ہم کو صبر عطا کر اور ہمیں اسلام کی حالت میں موت دے ۔ اسی طرح مریم علیہا السلام جب درد زہ سے گھبرا کر کھجور کے تنے تلے گئیں تو بےساختہ منہ سے نکل گیا کہ «یَا لَیْتَنِی مِتٰ قَبْلَ ہٰذَا وَکُنتُ نَسْیًا مَّنسِیًّا» ( 19-مریم : 23 ) کاش کہ میں اس سے پہلے ہی مر گئی ہوتی اور آج تو لوگوں کی زبان و دل سے بھلا دی گئی ہوتی ۔ یہ آپ نے اس وقت فرمایا جب معلوم ہوا کہ لوگ انہیں زنا کی تہمت لگا رہے ہیں ، اس لیے کہ آپ خاوند والی نہ تھیں اور حمل ٹھہر گیا تھا ۔ پھر بچہ پیدا ہوا تھا اور دنیا نے شور مچایا تھا کہ «فَأَتَتْ بِہِ قَوْمَہَا تَحْمِلُہُ قَالُوا یَا مَرْیَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَیْئًا فَرِیًّا یَا أُخْتَ ہَارُونَ مَا کَانَ أَبُوکِ امْرَأَ سَوْءٍ وَمَا کَانَتْ أُمٰکِ بَغِیًّا» ( 19-مریم : 27 ، 28 ) مریم بڑی بدعورت ہے ، اے ہارون کی بہن نہ تو تیرا باپ ہی بد اطوار آدمی تھا اور نہ تیری ماں ہی بدکار تھی ۔ پس اللہ تعالیٰ نے آپ کی مخلصی کر دی اور اپنے بندے عیسیٰ علیہ السلام کو گہوارے میں زبان دی اور مخلوق کو زبردست معجزہ اور ظاہر نشان دکھا دیا (صلوات اللہ وسلامہ علیہا) ایک حدیث میں ایک لمبی دعا کا ذکر ہے جس میں یہ جملہ بھی ہے کہ اللہ جب تو کسی قوم کے ساتھ فتنہ کا ارادہ کرے تو مجھے اس فتنے میں مبتلا کرنے سے پہلے ہی دنیا سے اٹھا لے ۔ (سنن ترمذی:3235 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں دو چیزوں کو انسان اپنے حق میں بری جانتا ہے ؛ موت کو بری جانتا ہے اور موت مومن کے لیے فتنے سے بہتر ہے ۔ مال کی کمی کو انسان اپنے لیے برائی خیال کرتا ہے حالانکہ مال کی کمی حساب کی کمی ہے ۔ (مسند احمد:427/5:صحیح) الغرض دینی فتنوں کے وقت طلب موت جائز ہے ۔ چنانچہ علی رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کے آخری زمانے میں جب دیکھا کہ لوگوں کی شرارتیں کسی طرح ختم نہیں ہوتیں اور کسی طرح اتفاق نصیب نہیں ہوتا تو دعا کی کہ الہٰ العالمین مجھے اب تو اپنی طرف قبض کر لے ۔ یہ لوگ مجھ سے اور میں ان سے تنگ آ چکا ہوں ۔ امام بخاری رحمہ اللہ پر بھی جب فتنوں کی زیادتی ہوئی اور دین کا سنبھالنا مشکل ہو پڑا اور امیر خراسان کے ساتھ بڑے معرکے پیش آئے تو آپ رحمہ اللہ نے جناب باری سے دعا کی کہ اللہ اب مجھے اپنے پاس بلا لے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ فتنوں کے زمانوں میں انسان قبر کو دیکھ کر کہے گا کاش کہ میں اس جگہ ہوتا ۔ (صحیح بخاری:7115) کیونکہ فتنوں بلاؤں زلزلوں اور سختیوں نے ہر ایک مفتون کو فتنے میں ڈال رکھا ہو گا ۔ ابن جریر میں ہے کہ جب یعقوب علیہ السلام نے اپنے ان بیٹوں کے لیے جن سے بہت سے قصور سرزد ہو چکے تھے ۔ استغفار کیا تو اللہ نے ان کا استغفار قبول کیا اور انہیں بخش دیا ۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب سارا خاندان مصر میں جمع ہو گیا تو برادران یوسف علیہ السلام نے ایک روز آپس میں کہا کہ ہم نے ابا جان کو جتنا ستایا ہے ظاہر ہے ہم نے بھائی یوسف علیہ السلام پر جو ظلم توڑے ہیں ، ظاہر ہیں ۔ اب گویہ دونوں بزرگ ہمیں کچھ نہ کہیں اور ہماری خطا سے درگزر فرما جائیں ۔ لیکن کچھ خیال بھی ہے کہ اللہ کے ہاں ہماری کیسی درگت بنے گی ؟ آخر یہ ٹھہری کہ آؤ ابا جی کے پاس چلیں اور ان سے التجائیں کریں ۔ چنانچہ سب مل کر آپ کے پاس آئے ۔ اس وقت یوسف علیہ السلام بھی باپ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ، آتے ہی انہوں نے بیک زبان کہا کہ حضور ہم آپ کے پاس ایک ایسے اہم امر کے لیے آج آئے ہیں کہ اس سے پہلے کبھی ایسے اہم کام کے لیے آپ علیہ السلام کے پاس نہیں آئے تھے ، ابا جی اور اے بھائی صاحب ہم اس وقت ایسی مصیبت میں مبتلا ہیں اور ہمارے دل اس قدر کپکپا رہے ہیں کہ آج سے پہلے ہماری ایسی حالت کبھی نہیں ہوئی ۔ الغرض کچھ اس طرح نرمی اور لجاجت کی کہ دونوں بزرگوں کا دل بھر آیا ظاہر ہے کہ انبیاء کے دلوں میں تمام مخلوق سے زیادہ رحم اور نرمی ہوتی ہے ۔ پوچھا کہ آخر تم کیا کہتے ہو اور ایسی تم پر کیا بپتا پڑی ہے ؟ سب نے کہا آپ کو خوب معلوم ہے کہ ہم نے آپ کو کس قدر ستایا ، ہم نے بھائی پر کیسے ظلم وستم ڈھائے ؟ دونوں نے کہا ہاں معلوم ہے پھر ؟ کہا کیا یہ درست ہے کہ آپ دونوں نے ہماری تقصیر معاف فرما دی ؟ ہاں بالکل درست ہے ۔ ہم دل سے معاف کر چکے ۔ تب لڑکوں نے کہا ، آپ کا معاف کر دینا بھی بےسود ہے جب تک کہ اللہ تعالیٰ ہمیں معاف نہ کر دے ۔ پوچھا اچھا پھر مجھ سے کیا چاہتے ہو ؟ جواب دیا یہی کہ آپ ہمارے لیے اللہ سے بخشش طلب فرمائیں ، یہاں تک کہ بذریعہ وحی آپ کو معلوم ہو جائے کہ اللہ نے ہمیں بخش دیا تو البتہ ہماری آنکھوں میں نور اور دل میں سرور آ سکتا ہے ورنہ ہم تو دونوں جہاں سے گئے گزرے ۔ اس وقت آپ کھڑے ہو گئے ، قبلہ کی طرف متوجہ ہوئے یوسف علیہ السلام آپ کے پیچھے کھڑے ہوئے ، بڑے ہی خشوع خضوع سے جناب باری میں گڑگڑا گڑا گڑا کر دعائیں شروع کیں ۔ یعقوب علیہ السلام دعا کرتے تھے اور یوسف علیہ السلام آمین کہتے تھے ، کہتے ہیں کہ بیس سال تک دعا مقبول نہ ہوئی ۔ آخر بیس سال تک جب کہ بھائیوں کا خون اللہ کے خوف سے خشک ہونے لگا ، تب وحی آئی اور قبولیت دعا اور بخشش فرزندان کی بشارت سنائی گئی بلکہ یہ بھی فرمایا گیا کہ اللہ کا وعدہ ہے کہ تیرے بعد نبوت بھی انہیں ملے گی ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:309/7) یہ قول سیدنا انس رضی اللہ عنہما کا ہے اور اس میں دو راوی ضعیف ہیں یزید رقاشی ۔ صالح مری ۔ سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یعقوب علیہ السلام نے اپنی موت کے وقت یوسف علیہ السلام کو وصیت کی کہ مجھے ابراہیم واسحاق علیہم السلام کی جگہ میں دفن کرنا ۔ چنانچہ بعد از انتقال آپ علیہ السلام نے یہ وصیت پوری کی اور ملک شام کی زمین میں آپ کے باپ دادا کے پاس دفن کیا ۔ علیہم الصلوات والسلام یوسف
102 . حضرت یوسف علیہ السلام کا تمام وکمال قصہ بیان فرما کر کس طرح بھائیوں نے ان کے ساتھ برائی کی اور کس طرح ان کی جان تلف کرنی چاہی اور اللہ نے انہیں کس طرح بچایا اور کس طرح اوج وترقی پر پہنچایا ، اب اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ یہ اور اس جیسی اور چیزیں سب ہماری طرف سے تمہیں دی جاتی ہیں تاکہ لوگ ان سے نصیحت حاصل کریں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفین کی بھی آنکھیں کھلیں اور ان پر ہماری حجت قائم ہو جائے تو اس وقت کچھ ان کے پاس تھوڑے ہی تھا ۔ جب وہ یوسف علیہ السلام کے ساتھ کھلا داؤ فریب کر رہے تھے ۔ کنویں میں ڈالنے کے لیے سب مستعد ہو گئے تھے ۔ صرف ہمارے بتانے سکھانے سے تجھے یہ واقعات معلوم ہوئے ۔ جیسے مریم علیہ السلام کے قصے کو بیان فرماتے ہوئے ارشاد ہوا ہے کہ «وَمَا کُنتَ لَدَیْہِمْ إِذْ یُلْقُونَ أَقْلَامَہُمْ أَیٰہُمْ یَکْفُلُ مَرْیَمَ وَمَا کُنتَ لَدَیْہِمْ إِذْ یَخْتَصِمُونَ» ( 3-آل عمران : 44 ) جب وہ قلمیں ڈال رہے تھے کہ مریم کو کون پالے ، تو اس وقت ان کے پاس نہ تھا ۔ الخ ۔ «وَمَا کُنتَ بِجَانِبِ الْغَرْبِیِّ إِذْ قَضَیْنَا إِلَیٰ مُوسَی الْأَمْرَ وَمَا کُنتَ مِنَ الشَّاہِدِینَ» ( 28-القصص : 44 )حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قصے میں بھی اس قسم کا ارشاد فرمایا ہے کہ بجانب مغرب جب موسیٰ علیہ السلام کو اپنی باتیں سمجھا رہے تھے تو وہاں نہ تھا ۔ «وَمَا کُنتَ ثَاوِیًا فِی أَہْلِ مَدْیَنَ تَتْلُو عَلَیْہِمْ آیَاتِنَا وَلٰکِنَّا کُنَّا مُرْسِلِینَ» ( 28-القصص : 45 ) اسی طرح اہل مدین کا معاملہ بھی تجھ سے پوشیدہ ہی تھا ۔ اور نہ تم مدین والوں میں رہنے والے تھے کہ ان کو ہماری آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتے تھے ۔ ہاں ہم ہی تو پیغمبر بھیجنے والے تھے «مَا کَانَ لِیَ مِنْ عِلْمٍ بِالْمَلَإِ الْأَعْلَیٰ إِذْ یَخْتَصِمُونَ إِن یُوحَیٰ إِلَیَّ إِلَّا أَنَّمَا أَنَا نَذِیرٌ مٰبِینٌ» ( 38-ص : 69 ، 70 ) ملاء اعلٰی کی آپس کی گفتگو میں تو موجود نہ تھا ۔ یہ سب ہماری طرف سے بذریعہ وحی تجھے بتایا گیا یہ کھلی دلیل ہے تیری رسالت ونبوت کی کہ گزشتہ واقعات تو اس طرح کھول کھول کر لوگوں کے سامنے بیان کرتا ہے کہ گویا تو نے آپ بچشم خود دیکھے ہیں اور تیرے سامنے ہی گزرے ہیں ۔ پھر یہ واقعات نصیحت وعبرت حکمت وموعظت سے پر ہیں ، جن سے انسانوں کی دین و دنیا سنور سکتی ہے ۔ باوجود اس کے بھی اکثر لوگ ایمان سے کورے رہے جاتے ہیں گو تو لاکھ چاہے کہ یہ مومن بن جائیں اور آیت میں ہے «وَإِن تُطِعْ أَکْثَرَ مَن فِی الْأَرْضِ یُضِلٰوکَ عَن سَبِیلِ اللہِ » ( 6-الانعام : 116 ) اگر تو انسانوں کی اکثریت کی اطاعت کرے گا تو وہ تجھے اللہ کی راہ سے بہکا اور بھٹکا دیں گے ۔ بہت سے واقعات کے بیان کے بعد ہر ایک واقعہ کے ساتھ قرآن نے فرمایا ہے کہ گو اس میں بڑا زبردست نشان ہے لیکن پھر بھی اکثر لوگ ماننے والے نہیں ۔ آپ جو کچھ بھی جفاکشی کر رہے ہیں اور اللہ کی مخلوق کو راہ حق دکھا رہے ہیں ، اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا دنیوی نفع ہرگز مقصود نہیں ، آپ ان سے کوئی اجرت اور کوئی بدلہ نہیں چاہتے بلکہ یہ صرف اللہ کی رضا جوئی کے لیے مخلوق کے نفع کے لیے ہے ۔ یہ تو تمام جہان کے لیے سراسر ذکر ہے کہ وہ راہ راست پائیں نصیحت حاصل کریں عبرت پکڑیں ہدایت ونجات پائیں ۔ یوسف
103 یوسف
104 یوسف
105 . بیان ہو رہا ہے قدرت کی بہت سی نشانیاں ، وحدانیت کی بہت سے گواہیاں ، دن رات ان کے سامنے ہیں ، پھر بھی اکثر لوگ نہایت بے پرواہی اور سبک سری سے ان میں کبھی غور وفکر نہیں کرتے ۔ کیا یہ اتنا وسیع آسمان ، کیا یہ اس قدر پھیلی ہوئی ، زمین ، کیا یہ روشن ستارے یہ گردش والا سورج ، چاند ، یہ درخت اور یہ پہاڑ ، یہ کھیتیاں اور سبزیاں ، یہ تلاطم برپا کرنے والے سمندر ، یہ بزور چلنے والی ہوائیں ، یہ مختلف قسم کے رنگا رنگ میوے ، یہ الگ الگ غلے اور قدرت کی بےشمار نشانیاں ایک عقلمند کو اس قدر بھی کام نہیں آ سکتیں ؟ کہ وہ ان سے اپنے اللہ کی جو احد ہے ، صمد ہے ، فرد ہے ، واحد ہے ، لا شریک ہے ، قادر و قیوم ہے ، باقی اور کافی ہے اس ذات کو پہچان لیں اور اس کے ناموں اور صفتوں کے قائل ہو جائیں ؟ بلکہ ان میں سے اکثریت کی ذہنیت تو یہاں تک بگڑ چکی ہے کہ اللہ پر ایمان ہے پھر شرک سے دست برداری نہیں ۔ آسمان و زمین پہاڑ اور درخت کا انسان اور دن کا خالق اللہ مانتے ہیں ۔ لیکن پھر بھی اس کے سوا دوسروں کو اس کے ساتھ اس کا شریک ٹھہراتے ہیں ۔ یہ مشرکین حج کو آتے ہیں ، احرام باندھ کر لبیک پکارتے ہوئے کہتے ہیں کہ اللہ تیرا کوئی شریک ہیں ، جو بھی شریک ہیں ، ان کا خود کا مالک بھی تو ہے اور ان کی ملکیت کا مالک بھی تو ہی ہے ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے کہ جب وہ اتنا کہتے ہیں کہ ہم حاضر ہیں الٰہی تیرا کوئی شریک نہیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے بس بس ، یعنی اب آگے کچھ نہ کہو ۔ (صحیح مسلم:1185) «إِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیمٌ» ( 31-لقمان : 13 ) فی الواقع شرک ظلم عظیم ہے کہ اللہ کے ساتھ دوسرے کی بھی عبادت ۔ بخاری و مسلم میں ہے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما نے رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ سب سے بڑا گناہ کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ تیرا اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا حالانکہ اسی اکیلے نے تجھے پیدا کیا ہے ۔ (صحیح بخاری:4477) اسی طرح اسی آیت کے تحت میں منافقین بھی داخل ہیں ۔ ان کے عمل اخلاص والے نہیں ہوتے بلکہ وہ ریا کار ہوتے ہیں اور ریا کاری بھی شرک ہے ۔ قرآن کا فرمان ہے «إِنَّ الْمُنَافِقِینَ یُخَادِعُونَ اللہَ وَہُوَ خَادِعُہُمْ وَإِذَا قَامُوا إِلَی الصَّلَاۃِ قَامُوا کُسَالَیٰ یُرَاءُونَ النَّاسَ وَلَا یَذْکُرُونَ اللہَ إِلَّا قَلِیلًا» ( 4-النساء : 142 ) ، منافق اللہ کو دھوکا دینا چاہتے ہیں حالانکہ اللہ کی طرف سے خود دھوکے میں ہیں ۔ یہ نماز کو بڑے ہی سست ہو کر کھڑے ہوتے ہیں ، صرف لوگوں کو دکھانا مقصود ہوتا ہے ذکر اللہ تو برائے نام ہوتا ہے ۔ یہ بھی یاد رہے کہ بعض شرک بہت ہلکے اور پوشیدہ ہوتے ہیں خود کرنے والے کو بھی پتہ نہیں چلتا ۔ چنانچہ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ ایک بیمار کے پاس گئے ، اس کے بازو پر ایک دھاگا بندھا ہوا دیکھ کر آپ نے اسے توڑ دیا اور یہی آیت پڑھی کہ ایماندار ہوتے ہوئے بھی مشرک بنتے ہو ؟ حدیث شریف میں ہے اللہ کے سوا دوسرے کے نام کی جس نے قسم کھائی وہ مشرک ہو گیا ۔ ملاحظہ ہو ترمذی شریف ۔ (سنن ترمذی:1535 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جھاڑ پھونک ڈورے دھاگے اور جھوٹے تعویذ شرک ہیں ۔ (سنن ابن ماجہ:3530 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کی بیوی صاحبہ فرماتی ہیں کہ عبداللہ کی عادت تھی ، جب کبھی باہر سے آتے زور سے کھنکھارتے ، تھوکتے کہ گھر والے سمجھ جائیں اور آپ انہیں کسی ایسی حالت میں نہ دیکھ پائیں کہ برا لگے ۔ ایک دن اسی طرح آپ آئے اس وقت میرے پاس ایک بڑھیا تھی جو بوجہ بیماری کے مجھ پر دم جھاڑ کرنے کو آئی تھی میں نے آپ کی کھنکھار کی آواز سنتے ہی اسے چارپائی تلے چھپا دیا آپ رضی اللہ عنہما آئے میرے پاس میری چارپائی پر بیٹھ گئے اور میرے گلے میں دھاگا دیکھ کر پوچھا کہ یہ کیا ہے ؟ میں نے کہا اس میں دم کرا کے میں نے باندھ لیا ہے . آپ رضی اللہ عنہما نے اسے پکڑ کر توڑ دیا اور فرمایا عبداللہ کا گھر شرک سے بے نیاز ہے ۔ خود میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جھاڑ پھونک تعویذات اور ڈورے دھاگے شرک ہیں ۔ میں نے کہا یہ آپ رضی اللہ عنہما کیسے فرماتے ہیں میری آنکھ دکھ رہی تھی ، میں فلاں یہودی کے پاس جایا کرتی تھی ، وہ دم جھاڑا کر دیتا تھا تو سکون ہو جاتا تھا ، آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا تیری آنکھ میں شیطان چوکا مارا کرتا تھا اور اس کی پھونک سے وہ رک جاتا تھا تجھے یہ کافی تھا کہ تو کہتی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھایا ہے(مسند احمد:310/4:حسن بالشواھد) «أَذْہِبْ الْبَأْس رَبّ النَّاس اِشْفِ وَأَنْتَ الشَّافِی لَا شِفَاء إِلَّا شِفَاؤُک شِفَاء لَا یُغَادِر سَقَمًا» مسند احمد کی اور حدیث میں عیسیٰ بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے : عبداللہ بن حکیم بیمار پڑے ۔ ہم ان کی عیادت کے لیے گئے ، ان سے کہا گیا کہ آپ کوئی ڈورا دھاگا لٹکا لیں تو اچھا ہو آپ نے فرمایا میں ڈورا دھاگا لٹکاؤں ؟ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے جو شخص جو چیز لٹکائے وہ اسی کے حوالہ کر دیا جاتا ہے ۔ (سنن ترمذی:2072 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) مسند میں ہے : جو شخص کوئی ڈورا دھاگا لٹکائے اس نے شرک کیا ۔ ایک روایت میں ہے جو شخص ایسی کوئی چیز لٹکائے ، اللہ اس کا کام پورا نہ کرے اور جو شخص اسے لٹکائے اللہ اسے لٹکا ہوا ہی رکھے .(مسند احمد:154/4:حسن بالشواھد) ایک حدیث قدسی میں ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میں تمام شریکوں سے زیادہ بے نیاز اور بےپرواہ ہوں جو شخص اپنے کسی کام میں میرا کوئی شریک ٹھہرائے میں اسے اور اس کے شریک کو چھوڑ دیتا ہوں ۔ (صحیح مسلم:2985) مسند میں ہے : قیامت کے دن جب کہ اول آخر سب جمع ہوں گے ، اللہ کی طرف سے ایک منادی ندا کرے گا کہ جس نے اپنے عمل میں شرک کیا ہے ، وہ اس کا ثواب اپنے شریک سے طلب کر لے ، اللہ تعالیٰ تمام شرکاء سے بڑھ کر شرک سے بے نیاز ہے ۔ (مسند احمد:466/3:حسن بالشواھد) مسند میں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : مجھے تم پر سب سے زیادہ ڈر چھوٹے شرک کا ہے ، لوگوں نے پوچھا وہ کیا ہے ؟ فرمایا ریا کاری ، قیامت کے دن لوگوں کو جزائے اعمال دی جائے گی ۔ اس وقت اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے ریا کارو تم جاؤ اور جن کے دکھانے سنانے کے لیے تم نے عمل کئے تھے ، اُنہیں سے اپنا اجر طلب کرو اور دیکھو کہ وہ دیتے ہیں یا نہیں ؟ (مسند احمد:428/5:حسن بالشواھد) مسند میں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : جو شخص کوئی بدشگونی لے کر اپنے کام سے لوٹ جائے وہ مشرک ہو گیا ۔ صحابہ علیہ السلام نے دریافت کیا یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم پھر اس کا کفارہ کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کہنا : « اللہُمَّ لَا خَیْر إِلَّا خَیْرک وَلَا طَیْر إِلَّا طَیْرک وَلَا إِلَہ غَیْرک» اے اللہ سب بھلائیاں سب نیک شگون تیرے ہی ہاتھ میں ہیں ، تیرے سوا کوئی بھلائیوں اور نیک شگونیوں والا نہیں ۔ (مسند احمد:220/2:حسن بالشواھد) مسند احمد میں ہے کہ سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک خطبہ میں فرمایا کہ : لوگو شرک سے بچو وہ تو چیونٹی کی چال سے زیادہ پوشیدہ چیز ہے ، اس پر سیدنا عبداللہ بن حزن اور قیس بن مضارب رضی اللہ عنہما کھڑے ہو گئے اور کہا یا تو آپ رضی اللہ عنہ اس کی دلیل پیش کیجئے یا ہم جائیں اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے آپ کی شکایت کریں ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا لو دلیل لو ۔ ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن خطبہ سنایا اور فرمایا : لوگو ! شرک سے بچو وہ تو چیونٹی کی چال سے بھی زیادہ پوشیدہ ہے پس کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ پھر اس سے بچاؤ کیسے ہو سکتا ہے ؟ فرمایا یہ دعا پڑھا کرو « اللہُمَّ إِنَّا نَعُوذ بِک مِنْ أَنْ نُشْرِک بِک شَیْئًا نَعْلَمہُ وَنَسْتَغْفِرک لِمَا لَا نَعْلَمہُ» (مسند احمد:403/4:حسن لغیرہ) ایک اور روایت ( مسند ابو یعلیٰ ) میں ہے کہ یہ سوال کرنے والے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے ۔ آپ نے پوچھا تھا کہ یا رسول اللہ شرک تو یہی ہے کہ اللہ کے ساتھ دوسرے کو پکارا جائے ۔ اس حدیث میں دعا کے الفاظ یہ ہیں : « اللہُمَّ إِنِّی أَعُوذ بِک أَنْ أُشْرِک بِک وَأَنَا أَعْلَم وَأَسْتَغْفِرک مِمَّا لَا أَعْلَم» (مسند ابویعلیٰ:60 ، ضعیف) ابوداؤد وغیرہ میں ہے کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ مجھے کوئی ایسی دعا سکھائیے جسے میں صبح شام اور سوتے وقت پڑھا کروں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ دعا پڑھ « اللہُمَّ فَاطِر السَّمَوَات وَالْأَرْض عَالِم الْغَیْب وَالشَّہَادَۃ رَبّ کُلّ شَیْء وَمَلِیکہ أَشْہَد أَنْ لَا إِلَہ إِلَّا أَنْتَ أَعُوذ بِک مِنْ شَرّ نَفْسِی وَمِنْ شَرّ الشَّیْطَان وَشِرْکہ» (مسند احمد:9/1:صحیح) ایک روایت میں ہے کہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا پڑھنی سکھائی اس کے آخر میں یہ الفاظ بھی ہیں : «وَأَنْ أَقْتَرِف عَلَی نَفْسِی سُوءًا أَوْ أَجُرّہُ إِلَی مُسْلِم» (مسند احمد:14/1:حسن بالشواھد) فرمان ہے کہ کیا ان مشرکوں کو اس بات کا خوف نہیں ہے کہ اگر اللہ کو منظور ہو تو چاروں طرف سے عذاب الٰہی انہیں اس طرح آ گھیرے کہ انہیں پتہ بھی نہ چلے ۔ جیسے ارشاد ہے : «أَفَأَمِنَ الَّذِینَ مَکَرُواْ السَّیِّئَاتِ أَن یَخْسِفَ اللہُ بِہِمُ الاٌّرْضَ أَوْ یَأْتِیَہُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَیْثُ لاَ یَشْعُرُونَ ـ أَوْ یَأْخُذَہُمْ فِی تَقَلٰبِہِمْ فَمَا ہُم بِمُعْجِزِینَ ـ أَوْ یَأْخُذَہُمْ عَلَی تَخَوٰفٍ فَإِنَّ رَبَّکُمْ لَرَؤُوفٌ رَّحِیمٌ» ( 16- النحل : 45 - 47 ) مکاریاں اور برائیاں کرنے والے کیا اس بات سے نڈر ہو گئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں زمین میں دھنسا دے یا ایسی جگہ سے عذاب لا دے کہ انہیں شعور بھی نہ ہو یا انہیں لیٹتے بیٹھتے ہی پکڑ لے یا ہوشیار کر کے تھام لے ۔ اللہ کسی بات میں عاجز نہیں ، یہ تو صرف اس کی رحمت و رافت ہے کہ گناہ کریں اور پھلیں پھولیں ۔ فرمان اللہ ہے : «أَفَأَمِنَ أَہْلُ الْقُرَی أَن یَأْتِیَہُم بَأْسُنَا بَیَـتاً وَہُمْ نَآئِمُونَ ـ أَوَ أَمِنَ أَہْلُ الْقُرَی أَن یَأْتِیَہُمْ بَأْسُنَا ضُحًی وَہُمْ یَلْعَبُونَ ـ أَفَأَمِنُواْ مَکْرَ اللہِ فَلاَ یَأْمَنُ مَکْرَ اللہِ إِلاَّ الْقَوْمُ الْخَـسِرُونَ» ( 7-الأعراف : 97 - 99 ) بستیوں کے گنہگار اس بات سے بے خطر ہو گئے ہیں کہ ان کے پاس راتوں کو ان کے سوتے ہوئے ہی عذاب آ جائیں یا دن دھاڑے بلکہ ہنستے کھیلتے ہوئے عذاب آ دھمکیں اللہ کے مکر سے بے خوف نہ ہونا چاہیئے ایسے لوگ سخت نقصان اٹھاتے ہیں ۔ یوسف
106 یوسف
107 یوسف
108 دعوت وحدانیت اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو جنہیں تمام جن و انس کی طرف بھیجا ہے ، حکم دیتا ہے کہ لوگوں کو خبر کر دوں کہ میرا مسلک ، میرا طریق ، میری سنت یہ ہے کہ اللہ کی وحدانیت کی دعوت عام کر دوں ۔ پورے یقین دلیل اور بصیرت کے ساتھ ۔ میں اس طرف سب کو بلا رہا ہوں میرے جتنے پیرو ہیں ، وہ بھی اسی طرف سب کو بلا رہے ہیں ، شرعی ، نقلی اور عقلی دلیلوں کے ساتھ اس طرف دعوت دیتے ہیں ہم اللہ کی پاکیزگی بیان کرتے ہیں ، اس کی تعظیم تقدیس ، تسبیح و تہلیل بیان کرتے ہیں ، اسے شریک سے ، نظیر سے ، عدیل سے ، وزیر سے ، مشیر سے اور ہر طرح کی کمی اور کمزوری سے پاک مانتے ہیں ، نہ اس کی اولاد مانیں ، نہ بیوی ، نہ ساتھی ، نہ ہم جنس ۔ وہ ان تمام بری باتوں سے پاک اور بلند و بالا ہے ۔ «تُسَبِّحُ لَہُ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَالْأَرْضُ وَمَن فِیہِنَّ وَإِن مِّن شَیْءٍ إِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِہِ وَلٰکِن لَّا تَفْقَہُونَ تَسْبِیحَہُمْ إِنَّہُ کَانَ حَلِیمًا غَفُورًا» ( 17-الاسراء : 44 ) آسمان و زمین اور ان کی ساری مخلوق اس کی حمد و تسبیح کر رہی ہے لیکن لوگ ان کی تسبیح سمجھتے نہیں ، اللہ بڑا ہی حلیم اور غفور ہے ۔ یوسف
109 رسول اور نبی صرف مرد ہی ہوئے ہیں بیان فرماتا ہے کہ رسول اور نبی مرد ہی بنتے رہے نہ کہ عورتیں ۔ جمہور اہل اسلام کا یہی قول ہے کہ نبوت عورتوں کو کبھی نہیں ملی ۔ اس آیت کریمہ کا سیاق بھی اسی پر دلالت کرتا ہے ۔ لیکن بعض کا قول ہے کہ خلیل اللہ علیہ السلام کی بیوی سارہ ، عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ مریم بھی نبیہ تھیں ۔ ملائکہ نے سارہ کو ان کے لڑکے اسحاق اور پوتے یعقوب کی بشارت دی ۔ «وَأَوْحَیْنَا إِلَیٰ أُمِّ مُوسَیٰ أَنْ أَرْضِعِیہِ» ( 28-القصص : 8 ) موسیٰ علیہ السلام کی ماں کی طرف انہیں دودھ پلانے کی وحی ہوئی ۔ مریم کو عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت فرشتے نے دی ۔ «وَإِذْ قَالَتِ الْمَلَائِکَۃُ یَا مَرْیَمُ إِنَّ اللہَ اصْطَفَاکِ وَطَہَّرَکِ وَاصْطَفَاکِ عَلَیٰ نِسَاءِ الْعَالَمِینَ یَا مَرْیَمُ اقْنُتِی لِرَبِّکِ وَاسْجُدِی وَارْکَعِی مَعَ الرَّاکِعِینَ» ( 3-آل عمران : 42 ، 43 ) فرشتوں نے مریم علیہ السلام سے کہا کہ اللہ نے تجھے پسندیدہ پاک اور برگزیدہ کر لیا ہے تمام جہان کی عورتوں پر ۔ اے مریم اپنے رب کی فرماں برداری کرتی رہو ، اس کے لیے سجدے کر اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کر ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اتنا تو ہم مانتے ہیں ، جتنا قرآن نے بیان فرمایا ۔ لیکن اس سے ان کی نبوت ثابت نہیں ہوتی ۔ صرف اتنا فرمان یا اتنی بشارت یا اتنے حکم کسی کی نبوت کے لیے دلیل نہیں ۔ اہل سنت والجماعت کا اور سب کا مذہب یہ کہ عورتوں میں سے کوئی نبوت والی نہیں ۔ ہاں ان میں صدیقات ہیں جیسے کہ سب سے اشرف و افضل عورت مریم کی نسبت قرآن نے فرمایا ہے «مَّا الْمَسِیحُ ابْنُ مَرْیَمَ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِہِ الرٰسُلُ وَأُمٰہُ صِدِّیقَۃٌ» ( 5-المائدہ : 75 ) پس اگر وہ نبی ہوتیں تو اس مقام میں وہی مرتبہ بیان کیا جاتا ۔ آیت میں ہے «وَمَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَکَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّآ اِنَّہُمْ لَیَاْکُلُوْنَ الطَّعَامَ وَیَمْشُوْنَ فِی الْاَسْوَاقِ وَجَعَلْنَا بَعْضَکُمْ لِبَعْضٍ فِتْنَۃً اَتَصْبِرُوْنَ وَکَانَ رَبٰکَ بَصِیْرًا» ( 25- الفرقان : 20 ) یعنی تجھ سے بھلے جتنے رسول ہم نے بھیجے وہ سب کھانا بھی کھاتے تھے اور بازاروں میں آمد و رفت بھی رکھتے تھے ۔ اور آیت میں ہے «وَمَا جَعَلْنَاہُمْ جَسَدًا لَّا یَأْکُلُونَ الطَّعَامَ وَمَا کَانُوا خَالِدِینَ ثُمَّ صَدَقْنَاہُمُ الْوَعْدَ فَأَنجَیْنَاہُمْ وَمَن نَّشَاءُ وَأَہْلَکْنَا الْمُسْرِفِینَ» ( 21-الأنبیاء : 8 ، 9 ) وہ ایسے نہ تھے کہ کھانا کھانے سے پاک ہوں ، نہ ایسے تھے کہ کبھی مرنے والے ہی نہ ہوں ، ہم نے ان سے اپنے وعدے پورے کئے ، انہیں اور ان کے ساتھ جنہیں ہم نے چاہا ، نجات دی اور مسرف لوگوں کو ہلاک کر دیا ۔ اسی طرح اور آیت میں ہے «مَا کُنْتُ بِدْعًا مِّنَ الرٰسُلِ وَمَآ اَدْرِیْ مَا یُفْعَلُ بِیْ وَلَا بِکُمْ اِنْ اَتَّبِــعُ اِلَّا مَا یُوْحٰٓی اِلَیَّ وَمَآ اَنَا اِلَّا نَذِیْرٌ مٰبِیْنٌ» ( 46- الأحقاف : 9 ) یعنی میں کوئی پہلا رسول تو نہیں ؟ الخ ، یاد رہے کہ اہل قری سے مراد اہل شہر ہیں نہ کہ بادیہ نشین وہ تو بڑے کج طبع اور بداخلاق ہوتے ہیں ۔ مشہور و معروف ہے کہ شہری نرم طبع اور خوض خلق ہوتے ہیں اسی طرح بستیوں سے دور والے ، پرے کنارے رہنے والے بھی عموماً ایسے ہی ٹیڑھے ترچھے ہوتے ہیں ۔ قرآن فرماتا ہے «اَلْاَعْرَابُ اَشَدٰ کُفْرًا وَّنِفَاقًا وَّاَجْدَرُ اَلَّا یَعْلَمُوْا حُدُوْدَ مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ» ( 9- التوبہ : 97 ) جنگلوں کے رہنے والے بدو کفر ونفاق میں بہت سخت ہیں ۔ حضرت قتادہ رحمہ اللہ بھی یہی مطلب بیان فرماتے ہیں کیونکہ شہریوں میں علم وحلم زیادہ ہوتا ہے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ بادیہ نشین اعراب میں سے کسی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ہدیہ پیش کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بدلہ دیا لیکن اسے اس نے بہت کم سمجھا ، آپ نے اور دیا اور دیا یہاں تک کہ اسے خوش کر دیا ۔ پھر فرمایا میرا تو جی چاہتا ہے کہ سوائے قریش اور انصاری اور ثقفی اور دوسی لوگوں کے اوروں کا تحفہ قبول ہی نہ کروں ۔ (سنن ترمذی:3945 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ وہ مومن جو لوگوں سے ملے جلے اور ان کی ایذاؤں پر صبر کرے ، (سنن ابن ماجہ:4032 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) وہ اس سے بہتر ہے جو نہ ان سے ملے جلے ہو نہ ان کی ایذاؤں پر صبر کرے ۔ یہ جھٹلانے والے کیا ملک میں چلتے پھرتے نہیں ؟ کہ اپنے سے پہلے کے جھٹلانے والوں کی حالتوں کو دیکھیں اور ان کے انجام پر غور کریں ؟ جیسے فرمان ہے «اَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَتَکُوْنَ لَہُمْ قُلُوْبٌ یَّعْقِلُوْنَ بِہَآ اَوْ اٰذَانٌ یَّسْمَعُوْنَ بِہَا فَاِنَّہَا لَا تَعْمَی الْاَبْصَارُ وَلٰکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصٰدُوْرِ» ( 22- الحج : 46 ) یعنی کیا انہوں نے زمین کی سیر نہیں کی کہ ان کے دل سجھدار ہوتے ، الخ ۔ ان کے کان سن لیتے ، ان کی آنکھیں دیکھ لیتیں کہ ان جیسے گنہگاروں کا کیا حشر ہوتا رہا ہے ؟ وہ نجات سے محروم رہتے ہیں ، عتاب الٰہی انہیں غارت کر دیتا ہے ، عالم آخرت ان کے لیے بہت ہی بہتر ہے جو احتیاط سے زندگی گزار دیتے ہیں ۔ یہاں بھی نجات پاتے ہیں اور وہاں بھی اور وہاں کی نجات یہاں کی نجات سے بہت ہی بہتر ہے ۔ وعدہ الٰہی ہے «اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوۃِ الدٰنْیَا وَیَوْمَ یَقُوْمُ الْاَشْہَادُ» ( 40- غافر : 51 ) ہم اپنے رسولوں کی اور ان پر ایمان لانے والوں کی اس دینا میں بھی مدد فرماتے ہیں اور قیامت کے دن بھی ان کی امداد کریں گے ، اس دن گواہ کھڑے ہوں گے ، ظالموں کے عذر بےسود رہیں گے ، ان پر لعنت برسے گی اور ان کے لیے برا گھر ہو گا ۔ گھر کی اضافت آخرت کی طرف کی ۔ جیسے صلوۃ اولیٰ اور مسجد جامع اور عام اول اور بارحۃ الاولیٰ اور یوم الخمیس میں ایسے ہی اضافت ہے ، عربی شعروں میں بھی یہ اضافت بکثرت آئی ہے ۔ یوسف
110 جب مخالفت عروج پر ہو اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اس کی مدد اس کے رسولوں پر بروقت اترتی ہے ۔ دنیا کے جھٹکے جب زوروں پر ہوتے ہیں ، مخالفت جب تن جاتی ہے ، اختلاف جب بڑھ جاتا ہے ، دشمنی جب پوری ہو جاتی ہے ، انبیاء اللہ کو جب چاروں طرف سے گھیر لیا جاتا ہے ، معاً اللہ کی مدد آ پہنچتی ہے ۔ «کُذِبُوا» اور «کُذِّبُوْا» دونوں قرأتیں ہیں ، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی قرأت ذال کی تشدید سے ہے ، چنانچہ بخاری شریف میں ہے کہ عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے عائشہ سے پوچھا کہ یہ لفظ «کُذِبُوا» ہے یا «کُذِّبُوْا» ہے ؟ عائشہ نے فرمایا «کُذِّبُوْا» ہے ذال کی تشدید کے ساتھ ۔ انہوں نے کہا پھر تو یہ معنی ہوئے کہ رسولوں نے گمان کیا کہ وہ جھٹلائے گئے تو یہ گمان کی کون سی بات تھی یہ تو یقینی بات تھی کہ وہ جھٹلائے جاتے تھے ۔ آپ نے فرمایا بیشک یہ یقینی بات تھی کہ وہ کفار کی طرف سے جھٹلائے جاتے تھے لیکن وہ وقت بھی آئے کہ ایماندار امتی بھی ایسے زلزلے میں ڈالے گئے اور اس طرح ان کی مدد میں تاخیر ہوئی کہ رسولوں کے دل میں آئی کہ غالباً اب تو ہماری جماعت بھی ہمیں جھٹلانے لگی ہو گی ۔ اب مدد رب آئی ۔ اور انہیں غلبہ ہوا ۔ تم اتنا تو خیال کرو کہ (کُذِبوُا) کیسے ٹھیک ہو سکتا ہے ؟ معاذاللہ کیا انبیاء علیہم السلام اللہ کی نسبت یہ بدگمانی کر سکتے ہیں کہ انہیں رب کی طرف سے جھٹلایا گیا ؟ (صحیح بخاری:4695) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی قرأت میں (کُُذِبوُا) ہے ۔ آپ اس کی دلیل میں آیت «حَتّٰی یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِ اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ» ( 2- البقرۃ : 214 ) پڑھ دیتے تھے یعنی یہاں تک کہ انبیاء اور ایماندار کہنے لگے کہ اللہ کی مدد کہاں ہے ۔ یاد رکھو مدد رب بالکل قریب ہے ۔ سیدہ عائشہ ( رضی اللہ عنہا ) اس کا سختی سے انکار کرتی تھیں اور فرمایا کرتی تھیں کہ جناب رسول اللہ نبی کریم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ نے جتنے وعدے کئے ، آپ کو کامل یقین تھا کہ وہ سب یقینی اور حتمی ہیں اور سب پورے ہو کر ہی رہیں گے آخر دم تک کبھی نعوذ باللہ آب کے دل میں یہ وہم ہی پیدا نہیں ہوا کہ کوئی وعدہ ربانی غلط ثابت ہو گا ۔ یا ممکن ہے کہ غلظ ہو جائے یا پورا نہ ہو ۔ ہاں انبیاء علیہم السلام پر برابر بلائیں اور آزمائشیں آتی رہیں ، یہاں تک کہ ان کے دل میں یہ خطرہ پیدا ہونے لگا کہ کہیں میرے ماننے والے بھی مجھ سے بدگمان ہو کر مجھے جھٹلا نہ رہے ہوں ۔ ایک شخص قاسم بن محمد کے پاس آ کر کہتا ہے کہ محمد بن کعب قرظی «کُذِبُوْا» پڑھتے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ ان سے کہہ دو ۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ صدیقہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا ہے وہ «کُذِّبُوْا» پڑھتی تھیں یعنی ان کے ماننے والوں نے انہیں جھٹلایا ۔ پس ایک قرأت تو تشدید کے ساتھ ہے دوسری تخفیف کے ساتھ ہے ، پھر اس کی تفسیر میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے تو وہ مری ہے جو اوپر گزر چکا ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے یہ آیت اسی طرح پڑھ کر فرمایا یہی وہ ہے جو تو برا جانتا ہے ۔ یہ روایت اس روایت کے خلاف ہے ، جسے ان دونوں بزرگوں سے اوروں نے روایت کیا ہے ، اس میں ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا جب رسول ناامید ہو گئے کہ ان کی قوم ان کی مانے گی اور قوم نے یہ سمجھ لیا کہ نبیوں نے ان سے جھوٹ کہا ، اسی وقت اللہ کی مدد آ پہنچی اور جسے اللہ نے چاہا نجات بخشی ۔ اسی طرح کی تفسیر اوروں سے بھی مروی ہے ۔ ایک نوجوان قریشی نے حضرت سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے کہا کہ ہمیں بتائیے ، اس لفظ کو کیا پڑھیں ، مجھ سے تو اس لفظ کی قرأت کی وجہ سے ممکن ہے کہ اس سورت کا پڑھنا ہی چھوٹ جائے ۔ آپ نے فرمایا سنو اس کا مطلب یہ کہ انبیاء اس سے مایوس ہو گئے کہ ان کی قوم ان کی بات مانے گی اور قوم والے سمجھ بیٹھے کہ نبیوں نے غلط کہا ہے یہ سن کر ضحاک بن مزاحم بہت ہی خوش ہوئے اور فرمایا کہ اس جیسا جواب کسی ذی علم کا میں نے نہیں سنا اگر میں یہاں سے یمن پہنچ کر بھی ایسے جواب کو سنتا تو میں اسے بھی بہت آسان جانتا ۔ مسلم بن یسار رحمہ اللہ نے بھی آپ کا یہ جواب سن کر اٹھ کر آپ سے معانقہ کیا اور کہا اللہ تعالیٰ آپ کی پریشانیوں کو بھی اسی طرح دور کر دے ، جس طرح آپ نے ہماری پریشانی دور فرمائی ۔ بہت سے اور مفسرین نے بھی یہی مطلب بیان کیا ہے بلکہ مجاہد رحمہ اللہ کی تو قرأت ذال کے زبر سے ہے یعنی «کُذِبُوا» ہاں بعض مفسرین «وَظَنٰوا» کا فاعل مومنوں کو بتاتے ہیں اور بعض کافرویں کو یعنی کافروں نے یا یہ کہ بعض مومنوں نے یہ گمان کیا کہ رسولوں سے جو وعدہ مدد کا تھا اس میں وہ جھوٹے ثابت ہوئے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تو فرماتے ہیں رسول ناامید ہو گئے یعنی اپنی قوم کے ایمان سے اور نصرت ربانی میں دیر دیکھ کر ان کو قوم گمان کرنے لگی کہ وہ جھوٹا وعدہ دئے گئے تھے ۔ پس یہ دونوں روایتیں تو ان دونوں بزرگ صحابیوں سے مروی ہیں ۔ اور سیدہ عائشہ ( رضی اللہ عنہا ) اس کا صاف انکار کرتی ہیں ۔ ابن جریر رحمہ اللہ بھی قول صدیقہ کی طرفداری کرتے اور دوسرے قول کی تردید کرتے ہیں اور اسے ناپسند کر کے رد کر دیتے ہیں ، «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ یوسف
111 عبرت ونصیحت نبیوں کے واقعات ، مسلمانوں کی نجات ، کافروں کی ہلاکت کے قصے ، عقلمندوں کے لیے بڑی عبرت و نصیحت والے ہیں ۔ یہ قرآن بناوٹی نہیں بلکہ اگلی آسمانی کتابوں کی سچائی کی دلیل ہے ۔ ان میں جو حقیقی باتیں اللہ کی ہیں ان کی تصدیق کرتا ہے ۔ اور جو تحریف و تبدیلی ہوئی ہے اسے چھانٹ دیتا ہے ان کی دو باتیں باقی رکھنے کی ہیں انہیں باقی رکھتا ہے ۔ اور جو احکام منسوخ ہو گئے انہیں بیان کرتا ہے ۔ ہر ایک حلال و حرام ، محبوب و مکروہ کو کھول کھول کر بیان کرتا ہے ۔ طاعات واجبات ، مستحبات ، محرمات ، مکروہات وغیرہ کو بیان فرماتا ہے اجمالی اور تفصیلی خبریں دیتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ جل و علا کی صفات بیان فرماتا ہے اور بندوں نے جو غلطیاں اپنے خالق کے بارے میں کی ہیں ان کی اصلاح کرتا ہے ۔ مخلوق کو اس سے روکتا ہے کہ وہ اللہ کی کوئی صفت اس کی مخلوق میں ثابت کریں ۔ پس یہ قرآن مومنوں کے لیے ہدایت و رحمت ہے ، ان کے دل ضلالت سے ہدایت اور جھوٹ سے سچ اور برائی سے بھلائی کی راہ پاتے ہیں اور رب العباد سے دنیا اور آخرت کی بھلائی حاصل کر لیتے ہیں ۔ ہماری بھی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی دنیا آخرت میں ایسے ہی مومنوں کا ساتھ دے اور قیامت کے دن جب کہ بہت سے چہرے سفید ہوں گے اور بہت سے منہ کالے ہو جائیں گے ، ہمیں مومنوں کے ساتھ نورانی چہروں میں شامل رکھے آمین ۔ الحمدللہ سورۃ یوسف کی تفسیر ختم ہو گئی ۔ اللہ کا شکر ہے وہی تعریفوں کے لائق ہے اور اسی سے ہم مدد چاہتے ہیں ۔ یوسف
0 الرعد
1 1 سورتوں کے شروع میں جو حروف مقطعات آتے ہیں ان کی پوری تشریح سورۃ البقرہ کی تفسیر کے شروع میں لکھ آئے ہیں ، اور یہ بھی ہم کہہ آئے ہیں کہ جس سورت کے اول میں یہ حروف آئے ہیں وہاں عموماً یہی بیان ہوتا ہے کہ قرآن کلام اللہ ہے اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ۔ چنانچہ یہاں بھی ان حروف کے بعد فرمایا ’ یہ کتاب کی یعنی قرآن کی آیتیں ہیں ‘ ۔ بعض نے کہا مراد کتاب سے توراۃ انجیل ہے لیکن یہ ٹھیک نہیں ۔ پھر اسی پر عطف ڈال کر اور صفتیں اس پاک کتاب کی بیان فرمائیں کہ یہ سراسر حق ہے اور اللہ کی طرف سے تجھ پر اتارا گیا ہے ۔ «الْحَقٰ» خبر ہے اس کا مبتدا پہلے بیان ہوا ہے یعنی «الَّذِی أُنزِلَ إِلَیْکَ» لیکن ابن جریر رحمہ اللہ کا پسندیدہ قول یہ ہے کہ واؤ زائد ہے یہ عاطفہ ہے اور صفت کا صفت پر عطف ہے جیسے ہم نے پہلے کہا ہے پھر اسکی شہادت میں شاعر کا قول لائے ہیں ۔ پھر فرمایا کہ ’ باوجود حق ہونے کے پھر بھی اکثر لوگ ایمان سے محروم ہیں‘ ۔ اس سے پہلے گزرا ہے کہ ’ گو تو حرص کرے لیکن اکثر لوگ ایمان قبول کرنے والے نہیں ‘ ۔ ۱؎ (12-یوسف:103) یعنی اس کی حقانیت واضح ہے لیکن ان کی ضد ، ہٹ دھری اور سرکشی انہیں ایمان کی طرف متوجہ نہ ہونے دے گی ۔ الرعد
2 1 کمال قدرت اور عظمت سلطنت ربانی دیکھو کہ بغیر ستونوں کے آسمان کو اس نے بلند بالا اور قائم کر رکھا ہے ۔ زمین سے آسمان کو اللہ نے کیسا اونچا کیا اور صرف اپنے حکم سے اسے ٹھرایا ۔ جس کی انتہا کوئی نہیں پاتا ۔ آسمان دنیا ساری زمین کو اور جو اس کے اردگرد ہے پانی ہوا وغیرہ سب کو احاطہٰ کئے ہوئے ہے اور ہر طرف سے برابر اونچا ہے ، زمین سے پانچ سو سال کی راہ پر ہے ، ہر جگہ سے اتنا ہی اونچا ہے ۔ پھر اس کی اپنی موٹائی اور دل بھی پانچ سو سال کے فاصلے کا ہے ، پھر دوسرا آسمان اس آسمان کو بھی گھیرے ہوئے ہے اور پہلے سے دوسرے تک کا فاصلہ وہی پانچ سو سال کا ہے ۔ اسی طرح تیسرا پھر چوتھا پھر پانچواں پھر چھٹا پھر ساتواں جیسے فرمان الٰہی ہے آیت « اَللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَہُنَّ » ( 65- الطلاق : 12 ) یعنی اللہ نے سات آسمان بیدا کئے ہیں اور اسی کے مثل زمین ۔ حدیث شریف میں ہے ساتوں آسمان اور ان میں اور ان کے درمیان میں جو کچھ ہے وہ کرسی کے مقابلے میں ایسا ہے جیسے کہ چٹیل میدان میں کوئی حلقہ ہو اور کرسی عرش کے مقابلے پر بھی ایسی ہی ہے ۔ عرش کی قدر اللہ عزوجل کے سوا کسی کو معلوم نہیں ۔ بعض سلف کا بیان ہے کہ عرش سے زمین تک کا فاصلہ پچاس ہزار سال کا ہے ۔ عرش سرخ یاقوت کا ہے ۔ بعض مفسر کہتے ہیں آسمان کے ستون تو ہیں لیکن دیکھے نہیں جاتے ۔ لیکن ایاس بن معاویہ فرماتے ہیں آسمان زمین پر مثل قصبے کے ہے یعنی بغیر ستون کے ہے ۔ قرآن کے طرز عبارت کے لائق بھی یہی بات ہے اور آیت «وَیُمْسِکُ السَّمَاءَ أَن تَقَعَ عَلَی الْأَرْضِ إِلَّا بِإِذْنِہِ» ۱؎ (22-الحج:65) سے بھی ظاہر ہے پس «تَرَوْنَہَا» اس نفی کی تاکید ہوگی یعنی آسمان بلا ستون اس قد بلند ہے اور تم آپ دیکھ رہے ہو ، یہ ہے کمال قدرت ۔ امیہ بن ابو الصلت کے اشعار میں ہے ، جس کے اشعار کی بابت حدیث میں ہے کہ اس کے اشعار ایمان لائے ہیں اور اس کا دل کفر کرتا ہے اور یہ بھی روایت ہے کہ یہ اشعار زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہ کے ہیں جن میں ہے «وَأَنْتَ الَّذِی مِنْ فَضْلِ مَنٍّ وَرَحْمَۃٍ بَعَثْتَ إِلَی مُوسَی رَسُولًا مُنَادِیَا فَقُلْتَ لَہُ : فَاذْہَبْ وَہَارُونَ فَادْعُوَا إِلَی اللہِ فَرْعَونَ الَّذِی کَانَ طَاغِیًا وَقُولَا لَہُ : ہَلْ أَنْتَ سَوَّیْتَ ہَذِہِ بِلَا وَتِدٍ حَتَّی اطْمَأَنَّتْ کَمَا ہِیَا وَقُولَا لَہُ : أَأَنْتَ رَفَعْتَ ہَذِہِ بِلَا عَمَدٍ أَرْفِقْ إِذًا بِکَ بَانِیَا ؟ وَقُولَا لَہُ : ہَلْ أَنْتَ سَوَّیْتَ وَسْطَہَا مُنِیرًا إِذَا مَا جَنَّکَ اللَّیلُ ہَادِیًا وَقُولَا لَہُ : مَنْ یُرْسِلُ الشَّمْسَ غُدْوَۃً فیُصْبِحَ مَا مَسَّتْ مِنَ الْأَرْضِ ضَاحِیَا ؟ وَقُولَا لَہُ : مَنْ یُنْبِتُ الْحَبَّ فِی الثَّرَی فیُصْبِحَ مِنْہُ العُشْبُ یَہْتَزٰ رَابِیَا ؟ وَیُخْرِجُ مِنْہُ حَبَّہُ فِی رُءُوسِہِ فَفِی ذَاکَ آیَاتٌ لِمَنْ کَانَ وَاعِیَا» تو اللہ وہ ہے جس نے اپنے فضل و کرم سے اپنے نبی موسیٰ علیہ السلام کو مع ہارون علیہ السلام کے فرعون کی طرف رسول بنا کر بھیجا اور ان سے فرما دیا کہ اس سرکش کو قائل کرنے کے لیے اس سے کہیں کہ اس بلند و بالا بےستون آسمان کو کیا تو نے بنایا ہے ؟ اور اس میں سورج چاند ستارے تو نے پیدا کئے ہیں ؟ اور مٹی سے دانوں کو اگانے والا پھر ان درختوں میں بالیں پیدا کر کے ان میں دانے پکانے والا کیا تو ہے ؟ کیا قدرت کی یہ زبردست نشانیاں ایک گہرے انسان کے لیے اللہ کی ہستی کی دلیل نہیں ہے ۔ پھر اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہوا ۔ اس کی تفسیر سورۃ الاعراف میں گزر چکی ہے ۔ اور یہ بیان کر دیا گیا ہے کہ جس طرح ہے اسی طرح چھوڑ دی جائے ۔ کیفیت ، تشبیہ ، تعطیل ، تمثلیل سے اللہ کی ذات پاک ہے اور برتر و بالا ہے ۔ سورج چاند اس کے حکم کے مطابق گردش میں ہیں اور وقت موزوں یعنی قیامت تک برابر اسی طرح لگے رہیں گے ۔ جیسے فرمان ہے کہ «وَالشَّمْسُ تَجْرِی لِمُسْتَقَرٍّ لَّہَا ذٰلِکَ تَقْدِیرُ الْعَزِیزِ الْعَلِیمِ» ۱؎ (36-یس:38) ’ سورج اپنی جگہ برابر چل رہا ہے ‘ ۔ اس کی جگہ سے مراد عرش کے نیچے ہے جو زمین کے تلے سے دوسری طرف سے ملحق ہے یہ اور تمام ستارے یہاں تک پہنچ کر عرش سے اور دور ہو جاتے ہیں کیونکہ صحیح بات جس پر بہت سی دلیلیں ہیں یہی ہے کہ وہ قبہ ہے متصل عالم باقی آسمانوں کی طرح وہ محیط نہیں اس لیے کہ اس کے پائے ہیں اور اس کے اٹھانے والے ہیں اور یہ بات آسمان مستدیر گھومے ہوئے آسمان میں تصور میں نہیں آ سکتی جو بھی غور کرے گا اسے سچ مانے گا ۔ آیات و احادیث کا جانچنے والا اسی نتیجے پر پہنچے گا ۔ «وَلِلہِ الْحَمْد وَالْمِنَّۃ» صرف سورج چاند کا ہی ذکر یہاں اس لیے ہے کہ ساتوں سیاروں میں بڑے اور روشن یہی دو ہیں پس جب کہ یہ دونوں مسخر ہیں تو اور تو بطور اولیٰ مسخر ہوئے ۔ جیسے کہ «لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلہِ الَّذِی خَلَقَہُنَّ إِن کُنتُمْ إِیَّاہُ تَعْبُدُونَ» ۱؎ (41-الفصلت:37) سورج چاند کو سجدہ نہ کرو سے مراد اور ستاروں کو بھی سجدہ نہ کرنا ہے ۔ پھر اور آیت میں تصریح بھی موجود ہے فرمان ہے «الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنٰجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍ بِاَمْرِہٖ اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ تَبٰرَکَ اللّٰہُ رَبٰ الْعٰلَمِیْنَ» ۱؎ (7-الأعراف:54) یعنی ’ سورج چاند اور ستارے اس کے حکم سے مسخر ہیں ، وہی خلق و امر والا ہے ، وہی برکتوں والا ہے وہی رب العالمین ہے ‘ ۔ وہ اپنی آیتوں کو اپنی وحدانیت کی دلیلوں کو بالتفصیل بیان فرما رہا ہے کہ تم اس کی توحید کے قائل ہو جاؤ اور اسے مان لو کہ وہ تمہیں فنا کر کے پھر زندہ کر دے گا ۔ الرعد
3 عالم سفلی کے انواع و اقسام اوپر کی آیت میں عالم علوی کا بیان تھا ، یہاں علم سفلی کا ذکر ہو رہا ہے ، زمین کو طول عرض میں پھیلا کر اللہ ہی نے بچھایا ہے ۔ اس میں مضبوط پہاڑ بھی اسی کے گاڑے ہوئے ہیں ، اس میں دریاؤں اور چشموں کو بھی اسی نے جاری کیا ہے ۔ تاکہ مختلف شکل و صورت ، مختلف رنگ ، مختلف ذائقوں کے پھل پھول کے درخت اس سے سیراب ہوں ۔ جوڑا جوڑا میوے اس نے پیدا کئے ، کھٹے میٹھے وغیرہ ۔ رات دن ایک دوسرے کے پے در پے برابر آتے جاتے رہتے ہیں ، ایک کا آنا دوسرے کا جانا ہے پس مکان سکان اور زمان سب میں تصرف اسی قادر مطلق کا ہے ۔ اللہ کی ان نشانیوں ، حکمتوں ، اور دلائل کو جو غور سے دیکھے وہ ہدایت یافتہ ہو سکتا ہے ۔ زمین کے ٹکڑے ملے جلے ہوئے ہیں ، پھر قدرت کو دیکھے کہ ایک ٹکڑے سے تو پیداوار ہو اور دوسرے سے کچھ نہ ہو ۔ ایک کی مٹی سرخ ، دوسرے کی سفید ، زرد ، وہ سیاہ ، یہ پتھریلی ، وہ نرم ، یہ میٹھی ، وہ شور ۔ ایک ریتلی ، ایک صاف ، غرض یہ بھی خالق کی قدرت کی نشانی ہے اور بتاتی ہے کہ فاعل ، خود مختار ، مالک الملک ، لا شریک ایک وہی اللہ خالق کل ہے ۔ نہ اس کے سوا کوئی معبود ، نہ پالنے والا ۔ «وَزَرْعٌ وَنَخِیلٌ» کو اگر «جَنَّاتٌ» پر عطف ڈالیں تو پیش سے مرفوع پڑھنا چاہیئے اور «أَعْنَابٍ» پر عطف ڈالیں تو زیر سے مضاف الیہ مان کر مجرور پڑھنا چاہیئے ۔ ائمہ کی جماعت کی دونوں قرأتیں ہیں ۔ «صِنْوَانٍ» کہتے ہیں ایک درخت جو کئی تنوں اور شاخوں والا ہو جیسے انار اور انجیر اور بعض کھجوریاں ۔ «وَغَیْرُ صِنْوَانٍ» جو اس طرح نہ ہو ایک ہی تنا ہو جیسے اور درخت ہوتے ہیں ۔ اسی سے انسان کے چچا کو «صُنوُالْاَبْ» کہتے ہیں ۔ حدیث میں بھی یہ آیا ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا : { کیا تمہیں معلوم نہیں کہ انسان کا چچا مثل باپ کے ہوتا ہے } } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:983) سیدنا براء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” ایک جڑ یعنی ایک تنے میں کئی ایک شاخدار درخت کھجور ہوتے ہیں اور ایک تنے پر ایک ہی ہوتا ہے یہی صنوان اور غیر صنوان ہے “ ۔ یہی قول اور بزرگوں کا بھی ہے ۔ سب کے لیے پانی ایک ہی ہے یعنی بارش کا لیکن ہر مزے اور پھل میں کمی بیشی میں بے انتہا فرق ہے ، کوئی میٹھا ہے ، کوئی کھٹا ہے ۔ حدیث میں بھی یہ تفسیر ہے ملاحظہ ہو ترمذی شریف ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3118،قال الشیخ الألبانی:حسن) الغرض قسموں اور جنسوں کا اختلاف ، شکل صورت کا اختلاف ، رنگ کا اختلاف ، بو کا اختلاف ، مزے کا اختلاف ، پتوں کا اختلاف ، تروتازگی کا اختلاف ، ایک بہت ہی میٹھا ، ایک سخت کڑوا ، ایک نہایت خوش ذائقہ ، ایک بے حد بد مزا ، رنگ کسی کا زرد ، کسی کا سرخ ، کسی کا سفید ، کسی کا سیاہ ۔ اسی طرح تازگی اور پھل میں بھی اختلاف ، حالانکہ غذا کے اعتبار سے سب یکساں ہیں ۔ یہ قدرت کی نیرنگیاں ایک ہوشیار شخص کے لیے عبرت ہیں ۔ اور فاعل مختار اللہ کی قدرت کا بڑا زبردست پتہ دیتی ہیں کہ جو وہ چاہتا ہے ہوتا ہے ۔ عقل مندوں کے لیے یہ آیتیں اور یہ نشانیاں کافی وافی ہیں ۔ الرعد
4 الرعد
5 عقل کے اندھے ضدی لوگ اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ ’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جھٹلانے کا کوئی تعجب نہ کریں یہ ہیں ہی ایسے اس قدر نشانیاں دیکھتے ہوئے ، اللہ کی قدرت کا ہمیشہ مطالعہ کرتے ہوئے ، اسے مانتے ہوئے کہ سب کا خالق اللہ ہی ہے پھر بھی قیامت کے منکر ہوتے ہیں حالانکہ اس سے بڑھ کر روز مرہ مشاہدہ کرتے رہتے ہیں کہ کچھ نہیں ہوتا اور اللہ تعالیٰ سب کچھ کر دیتا ہے ‘ ۔ ہر عاقل جان سکتا ہے کہ زمین و آسمان کی پیدائش انسان کی پیدائش سے بہت بڑی ہے ۔ اور دوبارہ پیدا کرنا بہ نسبت اول بار پیدا کرنے کے بہت آسان ہے ۔ جیسے فرمان ربانی ہے «اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّ اللّٰہَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَلَمْ یَعْیَ بِخَلْقِہِنَّ بِقٰدِرٍ عَلٰٓی اَنْ یٰحْیِۦ الْمَوْتٰی بَلٰٓی اِنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ» ۱؎ (46-الأحقاف:33) یعنی ’ جس نے آسمان و زمین بغیر تھکے پیدا کر دیا ، کیا وہ مردوں کو جلانے پر قادر نہیں ؟ بیشک ہے بلکہ ہر چیز اس کی قدرت میں ہے ‘ ۔ پس یہاں فرماتا ہے کہ ’ اصل یہ کفار ہیں ، ان کی گردنوں میں قیامت کے دن طوق ہوں گے اور یہ جہنمی ہیں جو ہمیشہ جہنم میں رہیں گے ‘ ۔ الرعد
6 منکرین قیامت یہ منکرین قیامت کہتے ہیں کہ ” اگر سچے ہو تو ہم پر اللہ کا عذاب جلد ہی کیوں نہیں لاتے ؟ “ کہتے تھے کہ ” اے اپنے آپ پر اللہ کی وحی نازل ہونے کا دعویٰ کرنے والے ، ہمارے نزدیک تو تو پاگل ہے ۔ اگر بالفرض سچا ہے تو عذاب کے فرشتوں کو کیوں نہیں لاتا ؟ “ اس کے جواب میں ان سے کہا گیا کہ ’ فرشتے حق کے اور فیصلے کے ساتھ ہی آیا کرتے ہیں ، جب وہ وقت آئے گا اس وقت ایمان لانے یا توبہ کرنے یا نیک عمل کرنے کی فرصت و مہلت نہیں ملے گی ‘ ۔ اسی طرح اور آیت میں ہے «وَیَسْتَعْجِلُونَکَ بِالْعَذَابِ وَلَوْلَا أَجَلٌ مٰسَمًّی لَّجَاءَہُمُ الْعَذَابُ وَلَیَأْتِیَنَّہُم بَغْتَۃً وَہُمْ لَا یَشْعُرُونَ یَسْتَعْجِلُونَکَ بِالْعَذَابِ وَإِنَّ جَہَنَّمَ لَمُحِیطَۃٌ بِالْکَافِرِینَ» ۱؎ (29-العنکبوت:53،54) ۔ اور جگہ ہے «سَأَلَ سَائِلٌ بِعَذَابٍ وَاقِعٍ» ۱؎ (70-المعارج:1) اور آیت میں ہے کہ «یَسْتَعْجِلُ بِہَا الَّذِینَ لَا یُؤْمِنُونَ بِہَا وَالَّذِینَ آمَنُوا مُشْفِقُونَ مِنْہَا وَیَعْلَمُونَ أَنَّہَا الْحَقٰ» ۱؎ (42-الشوری:18) ’ بے ایمان اس کی جلدی مچا رہے ہیں اور ایماندار اس سے خوف کھا رہے ہیں اور اسے بر حق جان رہے ہیں ‘ ۔ اسی طرح اور آیت میں فرمان ہے کہ «وَإِذْ قَالُوا اللہُمَّ إِن کَانَ ہٰذَا ہُوَ الْحَقَّ مِنْ عِندِکَ فَأَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَۃً مِّنَ السَّمَاءِ أَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِیمٍ» ۱؎ (8-الأنفال:32) ’ وہ کہتے تھے کہ اے اللہ ! اگر یہ تیری طرف سے حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا یا کوئی اور المناک عذاب نازل فرما ‘ ۔ مطلب یہ ہے کہ اپنے کفر وانکار کی وجہ سے اللہ کے عذاب کا آنا محال جان کر اس قدر نڈر اور بے خوف ہو گئے تھے کہ عذاب کے اترنے کی آرزو اور طلب کیا کرتے تھے ۔ یہاں فرمایا کہ ’ ان سے پہلے کے ایسے لوگوں کی مثالیں ان کے سامنے ہیں کہ کس طرح وہ عذاب کی پکڑ میں آگئے ۔ کہہ دو کہ یہ تو اللہ تعالیٰ کا حلم و کرم ہے کہ گناہ دیکھتا ہے اور فوراً نہیں پکڑتا ورنہ روئے زمین پر کسی کو چلتا پھرتا نہ چھوڑے ، دن رات خطائیں دیکھتا ہے اور درگزر فرماتا ہے لیکن اس سے یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ وہ عذاب پر قدرت نہیں رکھتا ۔ اس کے عذاب بھی بڑے خطرناک نہایت سخت اور بہت درد دکھ دینے والے ہیں ‘ ۔ چنانچہ فرمان ہے «نْ کَذَّبُوْکَ فَقُلْ رَّبٰکُمْ ذُوْ رَحْمَۃٍ وَّاسِعَۃٍ وَلَا یُرَدٰ بَاْسُہٗ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِیْنَ» ۱؎ (6-الأنعام:147) ’ اگر یہ تجھے جھٹلائیں تو تو کہہ دے کہ تمہارا رب وسیع رحمتوں والا ہے لیکن اس کے آئے ہوئے عذاب گنہگاروں پر سے نہیں ہٹائے جا سکتے ‘ ۔ اور فرمان ہے کہ «إِنَّ رَبَّکَ لَسَرِیعُ الْعِقَابِ وَإِنَّہُ لَغَفُورٌ رَّحِیمٌ» ۱؎ (7-الأعراف:167) ’ تیرا پروردگار جلد عذاب کرنے والا ، بخشنے والا اور مہربانی کرنے والا ہے ‘ ۔ اور آیت میں ہے «نَبِّئْ عِبَادِیْٓ اَنِّیْٓ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ وَأَنَّ عَذَابِی ہُوَ الْعَذَابُ الْأَلِیمُ» ۱؎ (15-الحجر:50،49) ’ میرے بندوں کو خبر کر دے کہ میں غفور رحیم ہوں اور میرے عذاب بھی بڑے درد ناک ہیں ‘ ۔ اسی قسم کی اور بھی بہت سے آیتیں ہیں جن میں امید و بیم ، خوف و لالچ ایک ساتھ بیان ہوا ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے { اس آیت کے اترنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اگر اللہ تعالیٰ کا معاف فرمانا اور درگزر فرمانا نہ ہوتا تو کسی کی زندگی کا لطف باقی نہ رہتا اور اگر اس کا دھمکانا ڈرانا اور سما کرنا نہ ہوتا تو ہر شخص بے پرواہی سے ظلم و زیادتی میں مشغول ہو جاتا “ } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:12145/7:ضعیف) ابن عساکر میں ہے کہ ” حسن بن عثمان ابو حسان راوی رحمہ اللہ نے خواب میں اللہ تعالیٰ عزوجل کا دیدار کیا دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سامنے کھڑے اپنے ایک امتی کی شفاعت کر رہے ہیں جس پر فرمان باری ہوا کہ کیا تجھے اتنا کافی نہیں کہ میں نے سورۃ الرعد میں تجھ پر «وَاِنَّ رَبَّکَ لَذُوْ مَغْفِرَۃٍ لِّلنَّاسِ عَلٰی ظُلْمِہِمْ وَاِنَّ رَبَّکَ لَشَدِیْدُ الْعِقَابِ» ۱؎ (13-الرعد:6) نازل فرمائی ہے “ ۔ ابوحسان رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی “ ۔ الرعد
7 اعتراض برائے اعتراض کافر لوگ ازروئے اعتراض کہا کرتے تھے کہ جس طرح اگلے پیغمبر معجزے لے کر آئے ، یہ پیغمبر کیوں نہیں لائے ؟ مثلاً صفا پہاڑ سونے کا بنا دیتے یا مثلاً عرب کے پہاڑ یہاں سے ہٹ جاتے اور یہاں سبزہ اور نہریں ہو جاتیں ۔ پس ان کے جواب میں اور جگہ ہے کہ «وَمَا مَنَعَنَا أَن نٰرْسِلَ بِالْآیَاتِ إِلَّا أَن کَذَّبَ بِہَا الْأَوَّلُونَ وَآتَیْنَا ثَمُودَ النَّاقَۃَ مُبْصِرَۃً فَظَلَمُوا بِہَا وَمَا نُرْسِلُ بِالْآیَاتِ إِلَّا تَخْوِیفًا» ۱؎ (17-الاسراء:59) ’ ہم یہ معجزے بھی دکھا دیتے مگر اگلوں کی طرح ان کی جھٹلانے پر پھر اگلوں جیسے ہی عذاب ان پر آ جاتے ۔ تو ان کی باتوں سے مغموم ومتفکر نہ ہو جایا کر ، تیرے ذمے تو صرف تبلیغ ہی ہے تو ہادی نہیں ، ان کے نہ ماننے سے تیری پکڑ نہ ہو گی ‘ ۔ «لَّیْسَ عَلَیْکَ ہُدَاہُمْ وَلٰکِنَّ اللہَ یَہْدِی مَن یَشَاءُ» ۱؎ (2-البقرہ:272) ’ ہدایت اللہ کے ہاتھ ہے ، یہ تیرے بس کی بات نہیں ہر قوم کے لیے رہبر اور داعی ہے ‘ ۔ یا یہ مطلب ہے کہ ’ ہادی میں ہوں تو تو ڈرانے والا ہے ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَاِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیْہَا نَذِیْرٌ» ۱؎ (35-فاطر:24) ’ ہر امت میں ڈرانے والا گزرا ہے ‘ اور مراد یہاں ہادی سے پیغمبر ہے ۔ پس پیشوا رہبر ہر گروہ میں ہوتا ہے ، جس کے علم وعمل سے دوسرے راہ پا سکیں ، اس امت کے پیشوا نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ ایک نہایت ہی منکر واہی روایت میں ہے کہ { اس آیت کے اترنے کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سینہ پر ہاتھ رکھ کے فرمایا : { منذر تو میں ہوں } اور علی رضی اللہ عنہ کے کندھے کی طرف اشارہ کر کے فرمایا : { اے علی ! تو ہادی ہے ، میرے بعد ہدایات پانے والے تجھ سے ہدایت پائیں گے } } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:20161:قال الشیخ الألبانی:موضوع) سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ ” اس جگہ ہادی سے مراد قریش کا ایک شخص ہے “ ۔ جنید کہتے ہیں وہ علی رضی اللہ عنہ خود ہیں ۔ ابن جریر رحمہ اللہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ہادی ہونے کی روایت کی ہے لیکن اس میں سخت نکارت ہے ۔ الرعد
8 علم الہٰی اللہ کے علم سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ، تمام جاندار مادہ حیوان ہوں یا انسان ، ان کے پیٹ کے بچوں کا ، ان کے حمل کا ، اللہ کو علم ہے کہ «وَیَعْلَمُ مَا فِی الْأَرْحَامِ» ۱؎ (31-لقمان:34) ’ پیٹ میں کیا ہے ؟ اسے اللہ بخوبی جانتا ہے ‘ یعنی مرد ہے یا عورت ؟ اچھا ہے یا برا ؟ نیک ہے یا بد ؟ عمر والا ہے یا بےعمر کا ؟ چنانچہ ارشاد ہے «ہُوَ أَعْلَمُ بِکُمْ إِذْ أَنشَأَکُم مِّنَ الْأَرْضِ وَإِذْ أَنتُمْ أَجِنَّۃٌ فِی بُطُونِ أُمَّہَاتِکُمْ فَلَا تُزَکٰوا أَنفُسَکُمْ ہُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَیٰ» ۱؎ (53-النجم:32) ’ وہ بخوبی جانتا ہے جب کہ تمہیں زمین سے پیدا کرتا ہے اور جب کہ تم ماں کے پیٹ میں چھپے ہوئے ہوتے ہو ‘ ، الخ ۔ اور فرمان ہے «یَخْلُقُکُمْ فِیْ بُطُوْنِ اُمَّہٰتِکُمْ خَلْقًا مِّنْ بَعْدِ خَلْقٍ فِیْ ظُلُمٰتٍ ثَلٰث» ۱؎ (39-الزمر:6) ’ وہ تمہیں تمہاری ماں کے پیٹ میں پیدا کرتا ہے ایک کے بعد دوسری پیدائش میں تین تین اندھیروں میں ‘ ۔ ارشاد ہے «وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن سُلَالَۃٍ مِّن طِینٍ ثُمَّ جَعَلْنَاہُ نُطْفَۃً فِی قَرَارٍ مَّکِینٍ ثُمَّ خَلَقْنَا النٰطْفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظَامًا فَکَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ أَنشَأْنَاہُ خَلْقًا آخَرَ فَتَبَارَکَ اللہُ أَحْسَنُ الْخَالِقِینَ» ۱؎ (23-المؤمنون:12-14) ’ ہم نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا ، پھر نطفے سے نطفے کو خون بستہ کیا ، خون بستہ کو لوتھڑا گوشت کا کیا ۔ لوتھڑے کو ہڈی کی شکل میں کر دیا ۔ پھر ہڈی کو گوشت چڑھایا ، پھر آخری اور پیدائش میں پیدا کیا پس بہترین خالق با برکت ہے ‘ ۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ { تم میں سے ہر ایک کی پیدائش چالیس دن تک اس کی ماں کے پیٹ میں جمع ہوتی رہتی ہے ، پھر اتنے ہی دنوں تک وہ بصورت خون بستہ رہتا ہے پھر اتنے ہی دنوں تک وہ بصورت خون بستہ رہتا ہے پھر اتنے ہی دنوں تک وہ گوشت کا لوتھڑا رہتا ہے ، پھر اللہ تبارک وتعالیٰ خالق کا ایک فرشے کو بھیجتا ہے ، جسے چار باتوں کے لکھ لینے کا حکم ہوتا ہے ، اس کا رزق عمر عمل اور نیک بد ہونا لکھ لیتا ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6594) اور حدیث میں ہے { وہ پوچھتا ہے کہ اے اللہ مرد ہو گا یا عورت ؟ شقیق ہو گا یا سعید ؟ روزی کیا ہے ؟ عمر کتنی ہے ؟ اللہ تعالیٰ بتلاتا ہے اور وہ لکھ لیتا ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3333) { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { غیب کی کنجیاں پانچ ہیں جنہیں بجز اللہ تعالیٰ علیم وخبیر کے اور کوئی نہیں جانتا کل کی بات اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا ۔ پیٹ میں کیا بڑھتا ہے اور کیا گھٹتا ہے کوئی نہیں جانتا ۔ بارش کب برسے گی اس کا علم بہی کسی کو نہیں کون شخص کہاں مرے گا اسے بھی اس کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ قیامت کب قائم ہوگی اس کا علم بھی اللہ ہی کو ہے } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4697) پیٹ میں کیا گھٹتا ہے اس سے مراد حمل کا ساقط ہو جانا ہے اور رحم میں کیا بڑھ رہا ہے کیسے پورا ہو رہا ہے ، یہ بھی اللہ کو بخوبی علم رہتا ہے ۔ دیکھ لو کوئی عورت دس مہینے لیتی ہے کوئی نو ۔ کسی کا حمل گھٹتا ہے ، کسی کا بڑھتا ہے ۔ نو ماہ سے گھٹنا ، نو سے بڑھ جانا اللہ کے علم میں ہے ۔ ضحاک رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ ” میں دو سال ماں کے پیٹ میں رہا جب پیدا ہوا تو میرے اگلے دو دانت نکل آئے تھے “ ۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا فرمان ہے کہ ” حمل کی انتہائی مدت دو سال کی ہوتی ہے “ ۔ کمی سے مراد بعض کے نزدیک ایام حمل میں خون کا آنا اور زیادتی سے مراد نو ماہ سے زیادہ حمل کا ٹھہرا رہنا ہے ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں نو سے پہلے جب عورت خون کو دیکھے تو نو سے زیادہ ہو جاتے ہیں مثل ایام حیض کے ۔ خون کے گرنے سے بچہ اچھا ہو جاتا ہے اور نہ گرے تو بچہ پورا پاٹھا اور بڑا ہوتا ہے ۔ مکحول رحمہ اللہ فرماتے ہیں بچہ اپنی ماں کے پیٹ میں بالکل بے غم ، بے کھٹکے اور باآرام ہوتا ہے ۔ اس کی ماں کے حیض کا خون اس کی غذا ہوتا ہے ، جو بے طلب آرام اسے پہنچتا رہتا ہے یہی وجہ ہے کہ ماں کو ان دنوں حیض نہیں آتا ۔ پھر جب بچہ پیدا ہوتا ہے زمین پر آتے ہی روتا چلاتا ہے ، اس انجان جگہ سے اسے وحشت ہوتی ہے ، جب اس کی نال کٹ جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی روزی ماں کے سینے میں پہنچا دیتا ہے اور اب بھی بے طلب ، بے جستجو ، بے رنج و غم ، بے فکری کے ساتھ اسے روزی ملتی رہتی ہے ۔ پھر ذرا بڑا ہوتا ہے اپنے ہاتھوں کھانے پینے لگتا ہے ۔ لیکن بالغ ہوتے ہی روزی کے لیے ہائے ہائے کرنے لگتا ہے ۔ موت اور قتل تک سے روزی حاصل ہونے کا امکان ہو تو پس وپیش نہیں کرتا ۔ افسوس اے ابن آدم تجھ پر حیرت ہے جس نے تجھے تیری ماں کے پیٹ میں روزی دی ، جس نے تجھے تیری ماں کی گود میں روزی دی جس نے تجھے بچے سے بالغ بنانے تک روزی دی ۔ اب تو بالغ اور عقلمند ہو کر یہ کہنے لگا کہ ہائے کہاں سے کھاؤں گا ؟ موت ہو یا قتل ہو ؟ پھر آپ رحمہ اللہ نے یہی آیت پڑھی ۔ ہر چیز اس کے پاس اندازے کے ساتھ موجود ہے رزق اجل سب مقرر شدہ ہے ۔ { حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صاحبزادی صاحبہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آدمی بھیجا کہ میرا بچہ آخری حالت میں ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تشریف لانا میرے لیے خوشی کا باعث ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { جاؤ ان سے کہہ دو کہ جو اللہ لے لے وہ اسی کا ہے ، جو دے رکھے وہ بھی اسی کا ہے ، ہر چیز کیا صحیح اندازہ اسی کے پاس ہے ، ان سے کہہ دو کو صبر کریں اور اللہ سے ثواب کی امید رکھیں } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1284) اللہ تعالیٰ ہر اس چیز کو بھی جانتا ہے جو بندوں سے پوشیدہ ہے اور اسے بھی جو بندوں پر ظاہر ہے ، اس سے کچھ بھی مخفی نہیں ۔ وہ سب سے بڑا ،وہ ہر ایک سے بلند ہے ہر چیز اس کے علم میں ہے ساری مخلوق اس کے سامنے عاجز ہے ، تمام سر اس کے سامنے جھکے ہوئے ہیں تمام بندے اس کے سامنے عاجز لاچار اور محض بے بس ہیں ۔ الرعد
9 الرعد
10 سب پہ محیط علم اللہ کا علم تمام مخلوق کو گھیرے ہوئے ہے ۔ «وَإِن تَجْہَرْ بِالْقَوْلِ فَإِنَّہُ یَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفَی» ۱؎ (20-طہ:7) ’ کوئی چیز اس کے علم سے باہر نہیں ، پست اور بلند ہر آواز وہ سنتا ہے چھپا کھلا سب جانتا ہے ‘ ۔ «وَیَعْلَمُ مَا تُخْفُونَ وَمَا تُعْلِنُونَ» ۱؎ (27-النمل:25) ’ تم چھپاؤ یا کھولو اس سے مخفی نہیں ‘ ۔ { صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں { وہ اللہ پاک ہے جس کے سننے نے تمام آوازوں کو گھیرا ہوا ہے ، قسم اللہ کی اپنے خاوند کی شکایت لے کر آنے والی عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طرح کانا پھوسی کی کہ میں پاس ہی گھر میں بیٹھی ہوئی تھی لیکن میں پوری طرح نہ سن سکی لیکن اللہ تعالیٰ نے آیتیں «قَدْ سَمِعَ اللہُ قَوْلَ الَّتِی تُجَادِلُکَ فِی زَوْجِہَا وَتَشْتَکِی إِلَی اللہِ وَ اللہُ یَسْمَعُ تَحَاوُرَکُمَا إِنَّ اللہَ سَمِیعٌ بَصِیرٌ» ۱؎ (58-المجادلہ:1) اتاریں یعنی ’ اس عورت کی یہ تمام سرگوشی اللہ تعالیٰ سن رہا تھا ‘ } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:7386قبل الحدیث) وہ سمیع وبصیر ہے ، جو اپنے گھر کے تہ خانے میں راتوں کے اندھیرے میں چھپا ہوا ہو وہ اور جو دن کے وقت کھلم کھلا آباد راستوں میں چلا جا رہا ہو وہ علم اللہ میں برابر ہیں ۔ جیسے آیت «اَلَآ اِنَّھُمْ یَثْنُوْنَ صُدُوْرَھُمْ لِیَسْتَخْفُوْا مِنْہُ اَلَا حِیْنَ یَسْتَغْشُوْنَ ثِیَابَھُمْ یَعْلَمُ مَا یُسِرٰوْنَ وَمَا یُعْلِنُوْنَ اِنَّہٗ عَلِیْمٌ بِذَات الصٰدُوْرِ» ۱؎ (11-ھود:5) میں فرمایا ہے ۔ اور آیت «وَمَا تَکُوْنُ فِیْ شَاْنٍ وَّمَا تَتْلُوْا مِنْہُ مِنْ قُرْاٰنٍ وَّلَا تَعْمَلُوْنَ مِنْ عَمَلٍ اِلَّا کُنَّا عَلَیْکُمْ شُہُوْدًا اِذْ تُفِیْضُوْنَ فِیْہِ» ۱؎ (10-یونس:61) میں ارشاد ہوا ہے کہ ’ تمہارے کسی کام کے وقت ہم ادھر ادھر نہیں ہوتے ، کوئی ذرہ ہماری معلومات سے خارج نہیں ‘ ۔ اللہ کے فرشتے بطور نگہبان اور چوکیدار کے بندوں کے اردگرد مقرر ہیں ، جو انہیں آفتوں سے اور تکلیفوں سے بچاتے رہتے ہیں جیسے کہ اعمال پر نگہبان فرشتوں کی اور جماعت ہے ، جو باری باری پے در پے آتے جاتے رہتے ہیں ، رات کے الگ دن کے الگ ۔ اور جیسے کہ دو فرشتے انسان کے دائیں بائیں اعمال لکھنے پر مقرر ہیں ، داہنے والا نیکیاں لکھتا ہے بائیں جانب والا بدیاں لکھتا ہے ۔ اسی طرح دو فرشتے اس کے آگے پیچھے ہیں جو اس کی حفاظت وحراست کرتے رہتے ہیں ۔ پس ہر انسان ہر وقت چار فرشتوں میں رہتا ہے ، دو کاتب اعمال دائیں بائیں دو نگہبانی کرنے والے آگے پیچھے ، پھر رات کے الگ دن کے الگ ۔ چنانچہ حدیث میں ہے { تم میں فرشتے پے در پے آتے جاتے رہتے ہیں ، رات کے اور دن کے ان کا میل صبح اور عصر کی نماز میں ہوتا ہے رات گزارنے والے آسمان پر چڑھ جاتے ہیں ۔ باوجود علم کے اللہ تبارک وتعالیٰ ان سے پوچھتا ہے کہ تم نے میرے بندوں کو کس حالت میں چھوڑا ؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم گئے تو انہیں نماز میں پایا اور آئے تو نماز میں چھوڑ آئے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:555) اور حدیث میں ہے { تمہارے ساتھ وہ ہیں جو سوا پاخانے اور جماع کے وقت کے تم سے علیحدہ نہیں ہوتے ۔ پس تمہیں ان کا لحاظ ، ان کی شرم ، ان کا اکرام اور ان کی عزت کرنی چاہیئے } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2800،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) پس جب اللہ کو کوئی نقصان بندے کو پہنچانا منظور ہوتا ہے ، بقول سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما محافظ فرشتے اس کام کو ہو جانے دیتے ہیں ۔ مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں ہر بندے کے ساتھ اللہ کی طرف سے موکل ہے جو اسے سوتے جاگتے جنات سے انسان سے زہریلے جانوروں اور تمام آفتوں سے بچاتا رہتا ہے ہر چیز کو روک دیتا ہے مگر وہ جسے اللہ پہنچانا چاہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ” یہ دنیا کے بادشاہوں امیروں وغیرہ کا ذکر ہے جو پہرے چوکی میں رہتے ہیں “ ۔ ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” سلطان اللہ کی نگہبانی میں ہوتا ہے «اَمْرِ اللہ» سے یعنی مشرکین اور ظاہرین سے “ ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ممکن ہے غرض اس قول سے یہ ہو کہ جیسے بادشاہوں امیروں کی چوکیداری سپاہی کرتے ہیں اسی طرح بندے کے چوکیدار اللہ کی طرف سے مقرر شدہ فرشتے ہوتے ہیں ۔ ایک غریب روایت میں تفسیر ابن جریر میں وارد ہوا ہے کہ { سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ ” فرمائیے بندے کے ساتھ کتنے فرشتے ہوتے ہیں “ ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ایک تو دائیں جانب نیکیوں کا لکھنے والا جو بائیں جانب والے پر امیر ہے جب تو کوئی نیکی کرتا ہے وہ ایک کی بجائے دس لکھ لی جاتی ہیں جب تو کوئی برائی کرے تو بائیں جانب والا دائیں والے سے اس کے لکھنے کی اجازت طلب کرتا ہے وہ کہتا ہے ذرا ٹھر جاؤ شاید یہ توبہ واستغفار کر لے تین مرتبہ وہ اجازت مانگتا ہے تب تک بھی اگر اس نے توبہ نہ کی تو یہ نیکی کا فرشتہ اس سے کہتا ہے اب لکھ لے اللہ ہمیں اس سے بچائے یہ تو بڑا برا ساتھی ہے ۔ اسے اللہ کا لحاظ نہیں یہ اس سے نہیں شرماتا } } ۔ { اللہ کا فرمان ہے کہ «مَّا یَلْفِظُ مِن قَوْلٍ إِلَّا لَدَیْہِ رَقِیبٌ عَتِیدٌ» (50-ق:18) ’ انسان جو بات زبان پر لاتا ہے اس پر نگہبان متعین اور مہیا ہیں ‘ ، اور دو فرشتے تیرے آگے پیچھے ہیں فرمان الٰہی ہے «لَہُ مُعَقِّبَاتٌ مِّن بَیْنِ یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہِ یَحْفَظُونَہُ مِنْ أَمْرِ اللہِ » (13-الرعد:11) الخ ، ’ اور ایک فرشتہ تیرے ماتھے کا بال تھامے ہوئے ہے جب تو اللہ کے لیے تواضع اور فروتنی کرتا ہے وہ تجھے پست اور عاجز کر دیتا ہے اور دو فرشتے تیرے ہونٹوں پر ہیں ، جو درود تو مجھ پر پڑھتا ہے اس کی وہ حفاظت کرتے ہیں ۔ ایک فرشتہ تیرے منہ پر کھڑا ہے کہ کوئی سانپ وعیر جیسی چیز تیرے حلق میں نہ چلی جائے اور دو فرشتے تیری آنکھوں پر ہیں ‘ } ۔ { پس یہ دس فرشتے ہر بنی آدم کے ساتھ ہیں پھر دن کے الگ ہیں ۔ اور رات کے الگ ہیں یوں ہر شخص کے ساتھ بیس فرشتے منجانب اللہ موکل ہیں ۔ ادھر بہکانے کے لیے دن بھر تو ابلیس کی ڈیوٹی رہتی ہے اور رات کو اس کی اولاد کی } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:30211/16:ضعیف) مسند احمد میں ہے { تم میں سے ہر ایک کے ساتھ جن ساتھی ہے اور فرشتہ ساتھی ہے لوگوں نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی ؟ فرمایا : { ہاں لیکن اللہ نے اس پر میری مدد کی ہے ، وہ مجھے بھلائی کے سوا کچھ نہیں کہتا } } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2814) یہ فرشتے بحکم رب اس کی نگہبانی رکھتے ہیں ۔ بعض قرأتوں میں «مِنْ أَمْرِ اللہِ » کے بدلے «بِاَمْرِ اللہِ » ہے ۔ کعب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اگر ابن آدم کے لیے ہر نرم وسخت کھل جائے تو البتہ ہر چیز اسے خود نظر آنے لگے ۔ اور اگر اللہ کی طرف سے یہ محافظ فرشتے مقرر نہ ہوں جو کھانے پینے اور شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں تو واللہ تم تو اچک لیے جاؤ ۔ ابوامامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ہر آدمی کے ساتھ محافظ فرشتہ ہے ، جو تقدیری امور کے سوا اور تمام بلاؤں کو اس سے دفعہ کرتا رہتا ہے ۔ ایک شخص قبیلہ مراد کا سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس آیا انہیں نماز میں مشغول دیکھا تو کہا کہ قبیلہ مراد کے آدمی آپ رضی اللہ عنہ کے قتل کا ارادہ کر چکے ہیں ، آپ رضی اللہ عنہ پہرہ چوکی مقرر کر لیجئے ۔ آپ نے فرمایا ” ہر شخص کے ساتھ دو فرشتے اس کے محافظ مقرر ہیں بغیر تقدیر کے لکھے کے کسی برائی کو انسان تک پہنچنے نہیں دیتے سنو اجل ایک مضبوط قلعہ ہے اور عمدہ ڈھال ہے ۔ اور کہا گیا ہے کہ اللہ کے حکم سے اس کی حفاظت کرتے رہتے ہیں “ ۔ جیسے حدیث شریف میں ہے { لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یہ جھاڑ پھونک جو ہم کرتے ہیں کیا اس سے اللہ کی مقرر کی ہوئی تقدیر ٹل جاتی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” وہ خود اللہ کی مقرر کردہ ہے “ } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2065،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ابن ابی حاتم میں ہے کہ { بنی اسرائیل کے نبیوں میں سے ایک کی طرف وحی الٰہی ہوئی کہ اپنی قوم سے کہہ دے کہ جس بستی والے اور جس گھر والے اللہ کی اطاعت گزاری کرتے کرتے اللہ کی معصیت کرنے لگتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کی راحت کی چیزوں کو ان سے دور کر کے انہیں وہ چیزیں پہنچاتا ہے جو انہیں تکلیف دینے والی ہوں } ۔ اس کی تصدیق قرآن کی آیت «اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِہِمْ وَاِذَآ اَرَاد اللّٰہُ بِقَوْمٍ سُوْءًا فَلَا مَرَدَّ لَہٗ وَمَا لَہُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ مِنْ وَّالٍ» ۱؎ (13-الرعد:11) سے بھی ہوتی ہے ۔ امام ابن ابی شیبہ کی کتاب صفۃ العرش میں یہ روایت مرفوعاً بھی آئی ہے ۔ عمیر بن عبدالملک کہتے ہیں کہ کوفے کے منبر پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ہمیں خطبہ سنایا جس میں فرمایا کہ ” اگر میں چپ رہتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بات شروع کرتے اور جب میں پوچھتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے جواب دیتے ۔ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا : { اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’ مجھے قسم ہے اپنی عزت وجلال کی اپنی بلندی کی جو عرش پر ہے کہ جس بستی کے جس گھر کے لوگ میری نافرمانیوں میں مبتلا ہوں پھر انہیں چھوڑ کر میرے فرمانبرداری میں لگ جائیں تو میں بھی اپنے عذاب اور دکھ ان سے ہٹا کر اپنی رحمت اور سکھ انہیں عطا فرماتا ہوں ‘ } ۔ یہ حدیث غریب ہے اور اس کی سند میں ایک راوی غیر معروف ہے ۔ الرعد
11 الرعد
12 بجلی کر گرج بجلی بھی اس کے حکم میں ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ایک سائل کے جواب میں کہا تھا کہ برق پانی ہے ۔ مسافر اسے دیکھ کر اپنی ایذاء اور مشقت کے خوف سے گھبراتا ہے اور مقیم برکت ونفع کی امید پر رزق کی زیادتی کا لالچ کرتا ہے ، وہی بوجھل بادلوں کو پیدا کرتا ہے جو بوجہ پانی کے بوجھ کے زمین کے قریب آ جاتے ہیں ۔ پس ان میں بوجھ پانی کا ہوتا ہے ۔ پھر فرمایا کہ کڑک بھی اس کی تسبیح و تعریف کرتی ہے ۔ ایک اور جگہ ہے کہ «وَإِن مِّن شَیْءٍ إِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِہِ» ۱؎ (17-الإسراء:44) ’ ہر چیز اللہ کی تسبیح وحمد کرتی ہے ‘ ۔ ایک حدیث میں ہے کہ { اللہ تعالیٰ بادل پیدا کرتا ہے جو اچھی طرح بولتے ہیں اور ہنستے ہیں } ۔ ۱؎ (سلسلۃ احادیث صحیحہ البانی:1665:صحیح) ممکن ہے بولنے سے مراد گرجنا اور ہنسنے سے مراد بجلی کا ظاہر ہونا ہے ۔ سعد بن ابراہیم کہتے ہیں اللہ تعالیٰ بارش بھیجتا ہے اس سے اچھی بولی اور اس سے اچھی ہنسی والا کوئی اور نہیں ۔ اس کی ہنسی بجلی ہے اور اس کی گفتگو گرج ہے ۔ محمد بن مسلم کہتے ہیں کہ ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ برق ایک فرشتہ ہے جس کے چار منہ ہیں ایک انسان جیسا ایک بیل جیسا ایک گدھے جیسا ، ایک شیر جیسا ، وہ جب دم ہلاتا ہے تو بجلی ظاہر ہوتی ہے ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گرج کڑک کو سن کر یہ دعا پڑھتے « اللہُمَّ لَا تَقْتُلنَا بِغَضَبِک وَلَا تُہْلِکنَا بِعَذَابِک وَعَافِنَا قَبْل ذَلِکَ» } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3450،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) اور روایت میں یہ دعا ہے «سُبْحَان مَنْ یُسَبِّح الرَّعْد بِحَمْدِہِ» ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ گرج سن کر پڑھتے «سُبْحَان مَنْ سَبَّحْت لَہُ» ابن ابی زکریا فرماتے ہیں جو شخص گرج کڑک سن کر کہے دعا «سُبْحَان اللَّہ وَبِحَمْدِہِ» اس پر بجلی نہیں گرے گی ۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ گرج کڑک کی آواز سن کر باتیں چھوڑ دیتے اور فرماتے «سُبْحَان الَّذِی یُسَبِّح الرَّعْد بِحَمْدِہِ وَالْمَلَائِکَۃ مِنْ خِیفَتہ» اور فرماتے کہ اس آیت میں اور اس آواز میں زمین والوں کے لیے بہت تنزیر و عبرت ہے ۔ مسند احمد میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ { تمہارا رب العزت فرماتا ہے ’ اگر میرے بندے میری پوری اطاعت کرتے تو راتوں کو بارشیں برساتا اور دن کو سورج چڑھاتا اور انہیں گرج کی آواز تک نہ سناتا ‘ } ۔ ۱؎ (مسند احمد:359/2:ضعیف) طبرانی میں ہے { آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { گرج سن کر اللہ کا ذکر کرو ۔ کیونکہ ذکر کرنے والوں پر کڑا کا نہیں گرتا } } ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:11371:ضعیف) وہ بجلی بھیجتا ہے جس پر چاہے اس پر گراتا ہے ۔ اسی لیے آخر زمانے میں بکثرت بجلیاں گریں گی ۔ مسند کی حدیث میں ہے کہ { قیامت کے قریب بجلی بکثرت گرے گی یہاں تک کہ ایک شخص اپنی قوم سے آ کر پوچھے گا کہ صبح کس پر بجلی گری ؟ وہ کہیں گے فلاں فلاں پر } ۔ ۱؎ (مسند احمد:64/3:ضعیف) ابو یعلیٰ راوی ہیں { نبی کریم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو ایک مغرور سردار کے بلانے کو بھیجا اس نے کہا کون رسول اللہ [ صلی اللہ علیہ وسلم ] ؟ اللہ سونے کا ہے یا چاندی کا ؟ یا پیتل کا ؟ قاصد واپس آیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ذکر کیا کہ دیکھئیے میں نے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے ہی کہا تھا کہ وہ متکبر ، مغرور شخص ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے نہ بلوائیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { دوبارہ جاؤ اور اس سے یہی کہو } ، اس نے جا کر پھر بلایا لیکن اس ملعون نے یہی جواب اس مرتبہ بھی دیا ۔ قاصد نے واپس آ کر پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری مرتبہ بھیجا اب کی مرتبہ بھی اس نے پیغام سن کر وہی جواب دینا شروع کیا کہ ایک بادل اس کے سر پر آگیا کڑکا اور اس میں سے بجلی گری اور اس کے سر سے کھوپڑی اڑا لی گئی ۔ اس کے بعد یہ آیت اتری } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:125/13:حسن) ایک روایت میں ہے کہ { ایک یہودی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اللہ تعالیٰ تانبے کا ہے یا موتی کا یا یاقوت کا ابھی اس کا سوال پورا نہ ہوا تھا جو بجلی گری اور وہ تباہ ہو گیا اور یہ آیت اتری } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:20266/16:مرسل) قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں مذکور ہے کہ { ایک شخص نے قرآن کو جھٹلایا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے انکار کیا اسی وقت آسمان سے بجلی گری اور وہ ہلاک ہو گیا اور یہ آیت اتری } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:20271:حسن) اس آیت کے شان نزول میں عامر بن طفیل اور ازبد بن ربیعہ کا قصہ بھی بیان ہوتا ہے ، یہ دونوں سرداران عرب مدینے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مان لیں گے لیکن اس شرط پر کہ ہمیں آدھوں آدھ کا شریک کرلیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس سے مایوس کر دیا تو عامر ملعون نے کہا واللہ میں سارے عرب کے میدان کو لشکروں سے بھر دوں گا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { تو جھوٹا ہے ، اللہ تجھے یہ وقت ہی نہیں دے گا } ۔ پھر یہ دونوں مدینے میں ٹھہرے رہے کہ موقعہ پا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو غفلت میں قتل کر دیں چنانچہ ایک دن انہیں موقع مل گیا ایک نے تو آپ کو سامنے سے باتوں میں لگا لیا دوسرا تلوار تو لے پیچھے سے آ گیا لیکن اس حافظ حقیقی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی شرارت سے بچا لیا ۔ اب یہاں سے نامراد ہو کر چلے اور اپنے جلے دل کے پھپھولے پھوڑنے کے لیے عرب کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ابھارنے لگے اسی حال میں اربد پر آسمان سے بجلی گری اور اس کا کام تو تمام ہو گیا عامر طاعون کی گلٹی سے پکڑا گیا اور اسی میں بلک بلک کر جان دی اور اسی جیسوں کے بارے میں یہ آیت اتری کہ اللہ تعالیٰ جس پر چاہے بجلی گراتا ہے ۔ اربد کے بھائی لیبد نے اپنے بھائی کے اس واقعہ کو اشعار میں خوب بیان کیا ہے ۔ اور روایت میں ہے کہ عامر نے کہا کہ اگر میں مسلمان ہو جاؤں تو مجھے کیا ملے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { جو سب مسلمانوں کا حال وہی تیرا حال } ۔ اس نے کہا پھر تو میں مسلمان نہیں ہوتا ۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس امر کا والی میں بنوں تو میں دین قبول کرتا ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { یہ امر خلافت نہ تیرے لیے ہے نہ تیری قوم کے لیے ہاں ہمارا لشکر تیری مدد پر ہوگا } ۔ اس نے کہا اس کی مجھے ضرورت نہیں اب بھی نجدی لشکر میری پشت پناہی پر ہے مجھے تو کچے پکے کا مالک کر دیں تو میں دین اسلام قبول کرلوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { نہیں } ۔ یہ دونوں آپ کے پاس سے چلے گئے ۔ عامر کہنے لگا واللہ میں مدینے کو چاروں طرف لشکروں سے محصور کرلوں گا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اللہ تیرا یہ ارادہ پورا نہیں ہونے دے گا } ۔ اب ان دونوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ ایک تو صلی اللہ علیہ وسلم کو باتوں میں لگائے دوسرا تلوار سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کام تمام کردے ۔ پھر ان میں سے لڑے گا کون ؟ زیادہ سے زیادہ دیت دے کر پیچھا چھٹ جائے گا ۔ اب یہ دونوں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ۔ عامر نے کہا ذرا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کر یہاں آئیے ۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے ، اس کے ساتھ چلے ، ایک دیوار تلے وہ باتیں کرنے لگا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر پشت کی جانب پڑی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حالت دیکھی اور وہاں سے لوٹ کر چلے آئے ۔ اب یہ دونوں مدینے سے چلے حرہ راقم میں آ کر ٹھرے لیکن سعد بن معاذ اور اسید بن حضیر رضی اللہ عنہم وہاں پہنچے اور انہیں وہاں سے نکالا ۔ راقم میں پہنچے ہی تھے جو اربد پر بجلی گری اس کا تو وہیں ڈھیر ہو گیا ۔ عامر یہاں سے بھاگ چلا لیکن دریح میں پہنچا تھا جو اسے طاعون کی گلٹی نکلی ۔ بنو سلول قبیلے کی ایک عورت کے ہاں یہ ٹھہرا ۔ وہ کبھی کبھی اپنی گردن کی گلٹی کو دباتا اور تعجب سے کہتا یہ تو ایسی ہے جیسے اونٹ کی گلٹی ہوتی ہے ، افسوس میں سلولیہ عورت کے گھر پر مروں گا ۔ کیا اچھا ہوتا کہ میں اپنے گھر ہوتا ۔ آخر اس سے نہ رہا گیا ، گھوڑا منگوایا ، سوار ہوا اور چل دیا لیکن راستے ہی میں ہلاک ہو گیا ۔ پس ان کے بارے میں یہ آیتیں « اللہُ یَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ کُلٰ أُنثَیٰ وَمَا تَغِیضُ الْأَرْحَامُ وَمَا تَزْدَادُ وَکُلٰ شَیْءٍ عِندَہُ بِمِقْدَارٍ عَالِمُ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ الْکَبِیرُ الْمُتَعَالِ سَوَاءٌ مِّنکُم مَّنْ أَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَن جَہَرَ بِہِ وَمَنْ ہُوَ مُسْتَخْفٍ بِاللَّیْلِ وَسَارِبٌ بِالنَّہَارِ لَہُ مُعَقِّبَاتٌ مِّن بَیْنِ یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہِ یَحْفَظُونَہُ مِنْ أَمْرِ اللہِ إِنَّ اللہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّیٰ یُغَیِّرُوا مَا بِأَنفُسِہِمْ وَإِذَا أَرَادَ اللہُ بِقَوْمٍ سُوءًا فَلَا مَرَدَّ لَہُ وَمَا لَہُم مِّن دُونِہِ مِن وَالٍ» ۱؎ (13-الرعد:8-11) نازل ہوئیں ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کا ذکر بھی ہے پھر اربد پر بجلی گرنے کا ذکر ہے ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:10760:ضعیف) اور فرمایا ہے کہ ’ یہ اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں ۔ اس کی عظمت وتوحید کو نہیں مانتے ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ اپنے مخالفوں اور منکروں کو سخت سزا اور ناقابل برداشت عذاب کرنے والا ہے ‘ ۔ پس یہ آیت مثل آیت «وَمَکَرُوا مَکْرًا وَمَکَرْنَا مَکْرًا وَہُمْ لَا یَشْعُرُونَ فَانظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ مَکْرِہِمْ أَنَّا دَمَّرْنَاہُمْ وَقَوْمَہُمْ أَجْمَعِینَ» ۱؎ (27-النمل:51،50) کے ہے یعنی ’ انہوں نے مکر کیا اور ہم نے بھی اس طرح کہ انہیں معلوم نہ ہو سکا ۔ اب تو خود دیکھ لے کہ ان کے مکر کا انجام کیا ہوا ؟ ہم نے انہیں اور ان کی قوم کو غارت کر دیا ۔ اللہ سخت پکڑ کرنے والا ہے ۔ بہت قوی ہے ، پوری قوت وطاقت والا ہے ‘ ۔ الرعد
13 الرعد
14 دعوت حق سیدنا علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” اللہ کے لیے دعوت حق ہے ، اس سے مراد توحید ہے “ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:364/7:) محمد بن منکدر کہتے ہیں مراد «لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ» ہے ۔ پھر مشرکوں کافروں کی مثال بیان ہوئی کہ ’ جیسے کوئی شخص پانی کی طرف ہاتھ پھیلائے ہوئے ہو کہ اس کے منہ میں خودبخود پہنچ جائے تو ایسا نہیں ہونے کا ۔ اسی طرح یہ کفار جنہیں پکارتے ہیں اور جن سے امیدیں رکھتے ہیں ، وہ ان کی امیدیں پوری نہیں کرنے کے ‘ ۔ اور یہ مطلب بھی ہے کہ ’ جیسے کوئی اپنی مٹھیوں میں پانی بند کرلے تو وہ رہنے کا نہیں ‘ ۔ پس باسط قابض کے معنی میں ہے ۔ عربی شعر میں «فَإِنِّی وَإیَّاکُمْ وَشَوْقًا إِلَیْکُمُ کَقَابِضِ مَاءٍ لَمْ تَسْقِہِ أَنَامِلُہُ» «فَأَصْبَحْتُ ممَّا کَانَ بَیْنِی وَبَیْنَہَا» «مِنَ الوُدِّ مِثْلَ الْقَابِضِ الْمَاءَ بِالْیَدِ» بھی «قَابِضِ الْمَاءَ» آیا ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:364/7:) پس جیسے پانی مٹھی میں روکنے والا اور جیسے پانی کی طرف ہاتھ پھیلانے والا پانی سے محروم ہے ، ایسے ہی یہ مشرک اللہ کے سوا دوسروں کو گو پکاریں لیکن رہیں گے محروم ہی دین دنیا کا کوئی فائدہ انہیں نہ پہنچے گا ۔ ان کی پکار بےسود ہے ۔ الرعد
15 عظمت وسطوت الہٰی اللہ تعالیٰ اپنی عظمت وسلطنت کو بیان فرما رہا ہے کہ ’ ہر چیز اس کے سامنے پست ہے اور ہر ایک اس کی سرکار میں اپنی عاجزی کا اظہار کرتی ہے ۔ مومن خوشی سے اور کافر بزور اس کے سامنے سجدہ میں ہے ۔ ان کی پرچھائیں صبح شام اس کے سامنے جھکتی رہتی ہے ‘ ۔ «اصال» جمع ہے «اصیل» کی ۔ اور آیت میں بھی اس کا بیان ہوا ہے ۔ فرمان ہے آیت «اَوَلَمْ یَرَوْا اِلٰی مَا خَلَقَ اللّٰہُ مِنْ شَیْءٍ یَّتَفَیَّؤُا ظِلٰلُہٗ عَنِ الْیَمِیْنِ وَالشَّمَایِٕلِ سُجَّدًا لِّلّٰہِ وَہُمْ دٰخِرُوْنَ» ۱؎ (16-النحل:48) یعنی ’ کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ تمام مخلوق اللہ کے سامنے دائیں بائیں جھک کر اللہ کو سجدہ کرتے ہیں اور اپنی عاجزی کا اظہار کرتے ہیں ‘ ۔ الرعد
16 اندھیرا اور روشنی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں ۔ یہ مشرکین بھی اس کے قائل ہیں کہ زمین و آسمان کا رب اور مدبر اللہ ہی ہے ۔ اس کے باوجود دوسرے اولیاء کی عبادت کرتے ہیں حالانکہ وہ سب عاجز بندے ہیں ۔ ان کے تو کیا ، خود اپنے بھی نفع نقصان کا انہیں کوئی اختیار نہیں ۔ پس یہ اور اللہ کے عابد یکساں نہیں ہو سکتے ۔ یہ تو اندھیروں میں ہیں اور بندہ رب نور میں ہے ۔ جتنا فرق اندھے میں اور دیکھنے والے میں ہے ، جتنا فرق اندھیروں اور روشنی میں ہے اتنا ہی فرق ان دونوں میں ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ کیا ان مشرکین کے مقرر کردہ شریک اللہ ان کے نزدیک کسی چیز کے خالق ہیں ؟ کہ ان پر تمیز مشکل ہوگئی کہ کس چیز کا خالق اللہ ہے ؟ اور کس چیز کے خالق ان کے معبود ہیں ؟ حالانکہ ایسا نہیں اللہ کے مشابہ اس جیسا اس کے برابر کا اور اس کی مثل کا کوئی نہیں ‘ ۔ وہ وزیر سے ، شریک سے ، اولاد سے ، بیوی سے ، پاک ہے اور ان سب سے اس کی ذات بلند و بالا ہے ۔ یہ تو مشرکین کی پوری بیوقوفی ہے کہ اپنے چھوٹے معبودوں کو اللہ کا پیدا کیا ہوا ، اس کی مملوک سمجھتے ہوئے پھر بھی ان کی پوجا پاٹ میں لگے ہوئے ہیں ۔ لبیک پکارتے ہوئے کہتے ہیں کہ ” یا اللہ ہم حاضر ہوئے تیرا کوئی شریک نہیں مگر وہ شریک کہ وہ خود تیری ملکیت میں ہے اور جس چیز کا وہ مالک ہے ، وہ بھی دراصل تیری ہی ملکیت ہے “ ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1185) قرآن نے اور جگہ ان کا مقولہ بیان فرمایا ہے کہ «مَا نَعْبُدُہُمْ اِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَآ اِلَی اللّٰہِ زُلْفٰی» ۱؎ (39-الزمر:3) یعنی ’ ہم تو ان کی عبادت صرف اس لالچ میں کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ سے قریب کر دیں ‘ ۔ ان کے اس اعتقاد کی رگ گردن توڑتے ہوئے ارشاد ربانی ہوا کہ «وَلَا تَنفَعُ الشَّفَاعَۃُ عِندَہُ إِلَّا لِمَنْ أَذِنَ لَہُ» ۱؎ (34-سبأ:23) ’ اس کے پاس کوئی بھی اس کی اجازت بغیر لب نہیں ہلا سکتا ۔ آسمانوں کے فرشتے بھی شفاعت اس کی اجازت بغیر کر نہیں سکتے ‘ ۔ سورۃ مریم میں فرمایا «إِن کُلٰ مَن فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِی الرَّحْمٰنِ عَبْدًا لَّقَدْ أَحْصَاہُمْ وَعَدَّہُمْ عَدًّا وَکُلٰہُمْ آتِیہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَرْدًا» ۱؎ (19-مریم:93-95) ’ زمین و آسمان کی تمام مخلوق اللہ کے سامنے غلام بن کر آنے والی ہے ، سب اس کی نگاہ میں اور اس کی گنتی میں ہیں اور ہر ایک تنہا تنہا اس کے سامنے قیامت کے دن حاضری دینے والا ہے ‘ ۔ پس جبکہ سب کے سب بندے اور غلام ہونے کی حیثیت میں یکساں ہیں پھر ایک کا دوسرے کی عبادت کرنا بڑی حماقت اور کھلی بے انصافی نہیں تو اور کیا ہے ؟ پھر اس نے رسولوں کا سلسلہ شروع دنیا سے جاری رکھا ۔ ہر ایک نے لوگوں کو سبق یہ دیا کہ اللہ ایک ہی عبادت کے لائق ہے ۔ اس کے سوا کوئی اور عبادت کے لائق نہیں لیکن انہوں نے نہ اپنے اقرار کا پاس کیا نہ رسولوں کی متفقہ تعلیم کا لحاظ کیا ، بلکہ مخالفت کی ، رسولوں کو جھٹلایا تو کلمہ عذاب ان پر صادق آ گیا ۔ «وَلَا یَظْلِمُ رَبٰکَ أَحَدًا» ۱؎ (18-الکہف:49) ’ یہ رب کا ظلم نہیں ‘ ۔ الرعد
17 باطل بےثبات ہے حق وباطل کے فرق ، حق کی پائیداری اور باطل کی بے ثباتی کی یہ دو مثالیں بیان فرمائیں ۔ ارشاد ہوا کہ ’ اللہ تعالیٰ بادلوں سے مینہ برساتا ہے ، چشموں دریاؤں نالیوں وغیرہ کے ذریعے برسات کا پانی بہنے لگتا ہے ۔ کسی میں کم ، کسی میں زیادہ ، کوئی چھوٹی ، کوئی بڑی ۔ یہ دلوں کی مثال ہے اور ان کے تفاوت کی ۔ کوئی آسمانی علم بہت زیادہ حاصل کرتا ہے کوئی کم ۔ پھر پانی کی اس رو پر جھاگ تیرنے لگتا ہے ‘ ۔ ایک مثال تو یہ ہوئی ۔ دوسری مثال سونے چاندی لوہے تانبے کی ہے کہ ’ اسے آگ میں تپایا جاتا ہے سونے چاندی زیور کے لیے لوہا تانبا برتن بھانڈے وغیرہ کے لیے ان میں بھی جھاگ ہوتے ہیں تو جیسے ان دونوں چیزوں کے جھاگ مٹ جاتے ہیں ، اسی طرح باطل جو کبھی حق پر چھا جاتا ہے ، آخر چھٹ جاتا ہے اور حق نتھر آتا ہے ‘ ۔ جیسے پانی نتھر کر صاف ہو کر رہ جاتا ہے اور جیسے چاندی سونا وغیرہ تپا کر کھوٹ سے الگ کر لیے جاتے ہیں ۔ اب سونے چاندی پانی وغیرہ سے تو دنیا نفع اٹھاتی رہتی ہے اور ان پر جو کھوٹ اور جھاگ آ گیا تھا ، اس کا نام و نشان بھی نہیں رہتا ۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے سمجھانے کے لیے کتنی صاف صاف مثالیں بیان فرما رہا ہے کہ سوچیں سمجھیں ۔ جیسے فرمایا ہے کہ «وَتِلْکَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُہَا لِلنَّاسِ وَمَا یَعْقِلُہَا إِلَّا الْعَالِمُونَ» ۱؎ (29-العنکبوت:43) ’ ہم یہ مثالیں لوگوں کے سامنے بیان فرماتے ہیں لیکن اسے علماء خوب سمجھتے ہیں ‘ ۔ بعض سلف کی سمجھ میں جو کوئی مثال نہیں آتی تھی تو وہ رونے لگتے تھے کیونکہ انہیں نہ سمجھنا علم سے خالی لوگوں کا وصف ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ” پہلی مثال میں بیان ہے ان لوگوں کا جن کے دل یقین کے ساتھ علم الٰہی کے حامل ہوتے ہیں اور بعض دل وہ بھی ہیں ، جن میں رشک باقی رہ جاتا ہے پس شک کے ساتھ کا علم بےسود ہوتا ہے ۔ یقین پورا فائدہ دیتا ہے “ ۔ ابد سے مراد شک ہے جو کمتر چیز ہے ، یقین کار آمد چیز ہے ، جو باقی رہنے والی ہے ۔ جیسے زیور جو آگ میں تپایا جاتا ہے تو کھوٹ جل جاتا ہے اور کھری چیز رہ جاتی ہے ، اسی طرح اللہ کے ہاں یقین مقبول ہے شک مردود ہے ۔ پس جس طرح پانی رہ گیا اور پینے وغیرہ کے کام آیا اور جس طرح سونا چاندی اصلی رہ گیا اور اس کے سازو سامان بنے ، اسی طرح نیک اور خالص اعمال عامل کو نفع دیتے ہیں اور باقی رہتے ہیں ۔ ہدایت وحق پر جو عامل رہے ، وہ نفع پاتا ہے ۔ جیسے لوہے کی چھری تلوار بغیر تپائے بن نہیں سکتی ۔ اسی طرح باطل ، شک اور ریاکاری والے اعمال اللہ کے ہاں کار آمد نہیں ہو سکتے ۔ قیامت کے دن باطل ضائع ہو جائے گا ۔ اور اہل حق کو حق نفع دے گا ۔ سورۃ البقرہ کے شروع میں منافقوں کی دو مثالیں اللہ رب العزت نے بیان فرمائیں «مَثَلُہُمْ کَمَثَلِ الَّذِی اسْتَوْقَدَ نَارًا فَلَمَّا أَضَاءَتْ مَا حَوْلَہُ» ‏‏‏‏ ۱؎ (2-البقرۃ:17) ’ ان کی مثال اس شخص کی سی ہے کہ جس نے [شبِ تاریک میں] آگ جلائی ‘ ۔ «‏‏‏‏أَوْ کَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَاءِ فِیہِ ظُلُمَاتٌ وَرَعْدٌ وَبَرْقٌ» ۱؎ (2-البقرۃ:19) ’ یا ان کی مثال مینہ کی سی ہے کہ آسمان سے [ برس رہا ہو ] ‘ ۔ ایک پانی کی ایک آگ کی ۔ سورۃ النور میں کافروں کی دو مثالیں بیان فرمائیں ۔ «وَالَّذِینَ کَفَرُوا أَعْمَالُہُمْ کَسَرَابٍ بِقِیعَۃٍ یَحْسَبُہُ الظَّمْآنُ مَاءً» ۱؎ (24-النور:39) ایک سراب یعنی ریت کی ، دوسری «أَوْ کَظُلُمَاتٍ فِی بَحْرٍ لٰجِّیٍّ یَغْشَاہُ مَوْجٌ مِّن فَوْقِہِ مَوْجٌ مِّن فَوْقِہِ سَحَابٌ» ۱؎ (24-النور:40) ’ سمندر کی تہہ کے اندھیروں کی ‘ ۔ ریت کا میدان موسم گرما میں دور سے بالکل لہریں لیتا ہوا دریا کا پانی معلوم ہوتا ہے ۔ چنانچہ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ { قیامت کے دن یہودیوں سے پوچھا جائے گا کہ تم کیا مانگتے ہو ؟ کہیں گے پیاسے ہو رہے ہیں ، پانی چاہیئے تو ان سے کہا جائے گا کہ پھر جاتے کیوں نہیں ہو ؟ چنانچہ جہنم انہیں ایسی نظر آئے گی جیسے دنیا میں ریتیلے میدان } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:183) دوسری آیت میں فرمایا «أَوْ کَظُلُمَاتٍ فِی بَحْرٍ لٰجِّیٍّ یَغْشَاہُ مَوْجٌ مِّن فَوْقِہِ مَوْجٌ مِّن فَوْقِہِ سَحَابٌ» ۱؎ (24-النور:40) بخاری و مسلم میں فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ { جس ہدایت وعلم کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے مجھے مبعوث فرمایا ہے اس کی مثال اس بارش کی طرح ہے جو زمین پر برسی ۔ زمین کے ایک حصہ نے تو پانی کو قبول کیا ، گھاس چارہ بکثرت آ گیا ۔ بعض زمین جاذب تھی ، اس نے پانی کو روک لیا پس اللہ نے اس سے بھی لوگوں کو نفع پہنچایا ۔ پانی ان کے پینے کے ، پلانے کے ، کھیت کے کام آیا اور جو ٹکڑا زمین کا سنگلاخ اور سخت تھا نہ اس میں پانی ٹھہرا نہ وہاں کچھ پیداوار ہوئی ۔ پس یہ اس کی مثال ہے جس نے دین میں سمجھ حاصل کی اور میری بعثت سے اللہ نے اسے فائدہ پہنچایا اس نے خود علم سیکھا دوسروں کو سکھایا اور مثال ہے اس کی جس نے اس کے لیے سر بھی نہ اٹھایا اور نہ اللہ کی وہ ہدایت قبول کی جس کے ساتھ میں بھیجا گیا ہوں ۔ پس وہ سنگلاخ زمین کی مثل ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:79) ایک اور حدیث میں ہے { میری اور تمہاری مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے آگ جلائی جب آگ نے اپنے آس پاس کی چیزیں روشن کر دیں تو پتنگے اور پروانے وغیرہ کیڑے اس میں گر گر کر جان دینے لگے وہ انہیں ہر چند روکتا ہے لیکن بس پھر بھی وہ برابر گر رہے ہیں بالکل یہی مثال میری اور تمہاری ہے کہ میں تمہاری کمر پکڑ پکڑ کر تمہیں روکتا ہوں اور کہہ رہا ہوں کہ آگ سے پرے ہٹو لیکن تم میری نہیں سنتے ، نہیں مانتے ، مجھ سے چھوٹ چھوٹ کر آگ میں گرے چلے جاتے ہو } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3426) پس حدیث میں بھی پانی اور آگ کی دونوں مثالیں آ چکی ہیں ۔ الرعد
18 ذوالقرنین نیکوں بدوں کا انجام بیان ہو رہا ہے ، ’ اللہ رسول کو ماننے والے ، احکام کے پابند ، خبروں پر یقین رکھنے والے تو نیک بدلہ پائیں گے ‘ ۔ ذوالقرنین رحمہ اللہ نے فرمایا تھا کہ «قَالَ أَمَّا مَن ظَلَمَ فَسَوْفَ نُعَذِّبُہُ ثُمَّ یُرَدٰ إِلَیٰ رَبِّہِ فَیُعَذِّبُہُ عَذَابًا نٰکْرًا وَأَمَّا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَہُ جَزَاءً الْحُسْنَیٰ وَسَنَقُولُ لَہُ مِنْ أَمْرِنَا یُسْرًا» ۱؎ (18-الکہف:87،88) ’ ظلم کرنے والے کو ہم بھی سزا دیں گے اور اللہ کے ہاں بھی سخت عذاب دیا جائے گا اور ایماندار اور نیک اعمال لوگ بہترین بدلہ پائیں گے اور ہم بھی ان سے نرمی کی باتیں کریں گے ‘ ۔ اور آیت میں فرمان ربی ہے «لِّلَّذِینَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَیٰ وَزِیَادَۃٌ» ۱؎ (10-یونس:26) ’ نیکوں کے لیے نیک بدلہ ہے اور زیادتی بھی ‘ ۔ پھر فرماتا ہے ’ جو لوگ اللہ کی باتیں نہیں مانتے یہ قیامت کے دن ایسے عذابوں کو دیکھیں گے کہ اگر ان کے پاس ساری زمین بھر کر سونا ہو تو وہ اپنے فدیے میں دینے کے لیے تیار ہو جائیں بلکہ اس جتنا اور بھی ‘ ۔ مگر قیامت کے روز نہ فدیہ ہوگا ، نہ بدلہ ، نہ عوض ، نہ معاوضہ ۔ ان سے سخت بازپرس ہو گی ایک ایک چھلکے اور ایک ایک دانے کا حساب لیا جائے گا حساب میں پورے نہ اتریں گے تو عذاب ہو گا ۔ جہنم ان کا ٹھکانا ہو گا جو بدترین جگہ ہو گی ۔ الرعد
19 ایک موازنہ ارشاد ہوتا ہے کہ ’ ایک وہ شخص جو اللہ کے کلام کو جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب اترا سراسر حق مانا ہو ، سب پر ایمان رکھتا ہو ، ایک کو دوسرے کی تصدیق کرنے والا اور موافقت کرنے والا جانا ہو ، سب خبروں کو سچ جانتا ہو ، سب حکموں کو مانتا ہو ، سب برائیوں کو جانتا ہو ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کا قائل ہو ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَتَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ صِدْقًا وَعَدْلًا» ۱؎ (6-الأنعام:115) ’ اور تمہارے پروردگار کی باتیں سچائی اور انصاف میں پوری ہیں ‘ ۔ ’ اور دوسرا وہ شخص جو نابینا ہو ، بھلائی کو سمجھتا ہی نہیں اور اگر سمجھ بھی لے تو مانتا نہ ہو ، نہ سچا جانتا ہو ، یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے ‘ ۔ جیسے فرمان ہے کہ «لَا یَسْتَوِی أَصْحَابُ النَّارِ وَأَصْحَابُ الْجَنَّۃِ أَصْحَابُ الْجَنَّۃِ ہُمُ الْفَائِزُونَ» ۱؎ (59-الحشر:20) ’ دوزخی اور جنتی برابر نہیں ، جنتی خوش نصیب ہیں ‘ ، یہی فرمان یہاں ہے کہ ’ یہ دونوں برابر نہیں ‘ ۔ بات یہ ہے کہ بھلی سمجھ سمجھداروں کی ہی ہوتی ہے ۔ الرعد
20 منافق کا نفسیاتی تجزیہ ان بزرگوں کی نیک صفتیں بیان ہو رہی ہیں اور ان کے بھلے انجام کی خبر دی جا رہی ہے جو آخرت میں جنت کے مالک بنیں گے اور یہاں بھی جو نیک انجام ہیں ۔ وہ منافقوں کی طرح نہیں ہوتے کہ عہد شکنی ، غداری اور بے وفائی کریں ۔ یہ منافق کی خصلت ہے کہ وعدہ کر کے توڑ دیں ۔ جھگڑوں میں گالیاں بکیں ، باتوں میں جھوٹ بولیں ، امانت میں خیانت کریں ۔ صلہ رحمی کا ، رشتہ داروں سے سلوک کرنے کا ، فقیر محتاج کو دینے کا ، بھلی باتوں کے نباہ نے کا ، جو حکم الٰہی ہے یہ اس کے عامل ہیں ۔ رب کا خوف دل میں رکھتے ہوئے فرمان الٰہی سمجھ کر نیکیاں کرتے ہیں ، بدیاں چھوڑتے ہیں ۔ آخرت کے حساب سے ڈرتے ہیں ، اسی لیے برائیوں سے بچتے ہیں ، نیکیوں کی رغبت کرتے ہیں ۔ اعتدال کا راستہ نہیں چھوڑتے ۔ ہر حال میں فرمان الٰہی کا لحاظ رکھتے ہیں ۔ گو نفس حرام کاموں اور اللہ کی نافرمانیوں کی طرف جانا چاہے لیکن یہ اسے روک لیتے ہیں اور ثواب آخرت یاد دلا کر مرضی مولا رضائے رب کے طالب ہو کر نافرمانیوں سے باز رہتے ہیں ۔ نماز کی پوری حفاظت کرتے ہیں ۔ رکوع ، سجدہ ، قعدہ ، خشوع خضوع شرعی طور بجا لاتے ہیں ۔ جنہیں دینا اللہ نے فرمایا ہے ، انہیں اللہ کی دی ہوئی چیزیں دیتے رہتے ہیں ۔ فقراء ، محتاج ، مساکین اپنے ہوں یا غیر ہوں ۔ ان کی برکتوں سے محروم نہیں رہتے ۔ چھپے کھلے ، دن رات ، وقت بے وقت ، برابر راہ للہ خرچ کرتے رہتے ہیں ۔ قباحت کو احسان سے ، برائی کو بھلائی سے ، دشمنی کو دوستی سے ٹال دیتے ہیں ۔ دوسرا سرکشی کرے یہ نرمی کرتے ہیں ۔ دوسرا سر چڑھے یہ سر جھکا دیتے ہے ۔ دوسروں کے ظلم سہ لیتے ہیں اور خود نیک سلوک کرتے ہیں ۔ تعلیم قرآن ہے آیت «ادْفَعْ بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِی بَیْنَکَ وَبَیْنَہُ عَدَاوَۃٌ کَأَنَّہُ وَلِیٌّ حَمِیمٌ وَمَا یُلَقَّاہَا إِلَّا الَّذِینَ صَبَرُوا وَمَا یُلَقَّاہَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِیمٍ» ۱؎ (41-فصلت:34،35) ’ بہت اچھے طریقے سے ٹال دو تو دشمن بھی گاڑھا دوست بن جائے گا ۔ صبر کرنے والے ، صاحب نصیب ہی اس مرتبے کو پاتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کے لیے اچھا انجام ہے ‘ ۔ الرعد
21 الرعد
22 الرعد
23 بروج و بالا خانے وہ اچھا انجام اور بہترین گھر جنت ہے جو ہمیشگی والی اور پائیدار ہے ۔ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں جنت کے ایک محل کا نام عدن ہے جس میں بروج اور بالاخانے ہیں جس کے پانچ ہزار دروازے ہیں ، ہر دروازے پر پانچ ہزار فرشتے ہیں ۔ وہ محل مخصوص ہے نبیوں اور صدیقوں اور شہیدوں کے لیے ۔ ضحاک رحمہ اللہ کہتے ہیں یہ جنت کا شہر ہے جس میں انبیاء ہوں گے شہداء ہوں گے اور ہدایت کے ائمہ ہوں گے ۔ ان کے آس پاس اور لوگ ہوں گے اور ان کے اردگرد اور جنتیں ہیں وہاں یہ اپنے اور چہیتوں کو بھی اپنے ساتھ دیکھیں گے ۔ ان کے بڑے باپ دادے ، ان کے چھوٹے بیٹے پوتے ، ان کے جوڑے جو بھی ایماندار اور نیکو کار تھے ان کے پاس ہوں گے اور راحتوں سے مسرور ہوں گے جس سے ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں گی ۔ یہاں تک کہ اگر کسی کے عمل اس درجہ بلند تک پہنچنے کے قابل نہ بھی ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے درجے بڑھا دے گا جیسے «وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَاتَّبَعَتْہُمْ ذُرِّیَّــتُہُمْ بِاِیْمَانٍ اَلْحَـقْنَا بِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ وَمَآ اَلَتْنٰہُمْ مِّنْ عَمَلِہِمْ مِّنْ شَیْءٍ کُلٰ امْرِی بِمَا کَسَبَ رَہِیْنٌ» ۱؎ (52-الطور:21) ’ جن ایمانداروں کی اولاد ان کی پیروی ایمان میں کرتی ہے ہم انہیں بھی ان کے ساتھ ملا دیتے ہیں ان کے پاس مبارک باد اور سلام کے لیے ہر ہر دروازے سے ہر وقت فرشتے آتے رہتے ہیں یہ بھی اللہ کا انعام ہے تاکہ یہ ہر وقت خوش رہیں اور بشارتیں سنتے رہیں ‘ ۔ نبیوں ، صدیقوں ، شہیدوں کا پڑوس ، فرشتوں کا سلام اور جنت الفردوس مقام ۔ مسند کی حدیث میں ہے { جانتے بھی ہو کہ سب سے پہلے جنت میں کون جائیں گے ؟ لوگوں نے کہا اللہ کو علم ہے اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ۔ فرمایا : سب سے پہلے جنتی مساکین مہاجرین ہیں جو دنیا کی لذتوں سے دور تھے جو تکلیفوں میں مبتلا تھے جن کی امنگیں دلوں میں ہی رہ گئیں اور قضاء آگئی ۔ رحمت کے فرشتوں کو حکم الٰہی ہوگا کہ ’ جاؤ انہیں مبارک باد دو ‘ فرشتے کہیں گے ” اللہ ہم تیرے آسمانوں کے رہنے والے تیری بہترین مخلوق ہیں کیا تو ہمیں حکم دیتا ہے کہ ہم جا کر انہیں سلام کریں اور انہیں مبارک باد پیش کریں “ جناب باری جواب دے گا ’ یہ میرے وہ بندے ہیں جنہوں نے صرف میری عبادت کی میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا دنیوی راحتوں سے محروم رہے مصیبتوں میں مبتلا رہے کوئی مراد پوری ہونے نہ پائی اور یہ صابر و شاکر رہے ‘ ،اب تو فرشتے جلدی جلدی بصد شوق ان کی طرف دوڑیں گے ادھر ادھر کے ہر ایک دروازے سے گھسیں گے اور سلام کر کے مبارک پیش کریں گے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:168/2:صحیح) طبرانی میں ہے کہ { سب سے پہلے جنت میں جانے والے تین قسم کے لوگ ہیں فقراء مہاجرین جو مصیبتوں میں مبتلا رہے ، جب انہیں حکم ملا بجا لاتے رہے ، انہیں ضرورتیں بادشاہوں سے ہوتی تھیں لیکن مرتے دم تک پوری نہ ہوئیں ۔ جنت کو بروز قیامت اللہ تعالیٰ اپنے سامنے بلائے گا وہ بنی سنوری اپنی تمام نعمتوں اور تازگیوں کے ساتھ حاضر ہوگی اس وقت ندا ہوگی کہ ’ میرے وہ بندے جو میری راہ میں جہاد کرتے تھے، میری راہ میں ستائے جاتے تھے ، میری راہ میں لڑتے بھڑتے تھے وہ کہاں ہیں؟ آؤ بغیر حساب اور عذاب کے جنت میں چلے جاؤ ‘ ۔ اس وقت فرشتے اللہ کے سامنے سجدے میں گر پڑیں گے اور عرض کریں گے کہ پروردگار ہم تو صبح شام تیری تسبیح وتقدیس میں لگے رہے یہ کون ہیں جنہیں ہم پر بھی تو نے فضیلت عطا فرمائی ؟ اللہ رب العزت فرمائے گا ’ یہ میرے وہ بندے ہیں جنہوں نے میری راہ میں جہاد کیا میری راہ میں تکلیفیں برداشت کیں ‘ ۔ اب تو فرشتے جلدی کر کے ان کے پاس ہر ایک دروازے سے جا پہنچیں گے سلام کریں گے اور مبارک بادیاں پیش کریں گے کہ تمہیں تمہارے صبر کا بدلہ کتنا اچھا ملا } ۔ ۱؎ (مسند احمد:168/2:صحیح) ابوامامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ” مومن جنت میں اپنے تخت پر با آرام نہایت شان سے تکیہ لگائے بیٹھا ہوا ہوگا خادموں کی قطاریں ادھر ادھر کھڑی ہوں گی جو دروازے والے خادم سے فرشتہ اجازت مانگے گا وہ یکے بعد دیگرے پوچھے گا یہاں تک کہ مومن سے پوچھا جائے گا ۔ مومن اجازت دے گا کہ اسے آنے دو یونہی ایک دوسرے کو پیغام پہنچائے گا اور آخری خادم فرشتے کو اجازت دے گا اور دروازہ کھول دے گا ۔ وہ آئے گا اور سلام کرے گا اور چلا جائے گا “ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:377/7:) ایک روایت میں ہے کہ { نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال کے آخر پر شہداء کی قبروں پر آتے اور کہتے «سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ» ۱؎ (13-الرعد:24) اور اسی طرح ابوبکر عمر عثمان بھی رضی اللہ عنہم بھی } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:20344:مرسل و ضعیف) [اس کی سند ٹھیک نہیں] ۔ الرعد
24 الرعد
25 مومنین کی صفات مومنوں کی صفتیں اوپر بیان ہوئیں کہ ’ وہ وعدے کے پورے ، رشتوں ناتوں کے ملانے والے ہوتے ہیں ‘ ۔ پھر ان کا اجر بیان ہوا کہ ’ وہ جنتوں کے مالک بینں گے ‘ ۔ اب یہاں ان بدنصیبوں کا ذکر ہو رہا ہے جو ان کے خلاف خصائل رکھتے تھے نہ اللہ کے وعدوں کا لحاظ کرتے تھے نہ صلہ رحمی اور احکام الٰہی کی پابندی کا خیال رکھتے تھے یہ لعنتی گروہ ہے اور برے انجام والا ہے ۔ حدیث میں ہے { منافق کی تین نشانیاں ہیں باتوں میں جھوٹ بولنا ، وعدوں کا خلاف کرنا ، امانت میں خیانت کرنا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:33) ایک حدیث میں ہے { جھگڑوں میں گالیاں بکنا } ۱؎ (صحیح بخاری:34) اس قسم کے لوگ رحمت الٰہی سے دور ہیں ان کا انجام برا ہے یہ جہنمی گروہ ہے ۔ یہ چھ خصلتیں ہوئیں جو منافقین سے اپنے غلبہ کے وقت ظاہر ہوتی ہیں باتوں میں جھوٹ ، وعدہ خلافی ، امانت میں خیانت ، اللہ کے عہد کو توڑ دینا اللہ کے ملانے کے حکم کی چیزوں کو نہ ملانا ۔ ملک میں فساد پھیلانا ، اور یہ دبے ہوئے ہوتے ہیں تب بھی جھوٹ وعدہ خلافی اور خیانت کرتے ہیں ۔ الرعد
26 مسئلہ رزق اللہ جس کی روزی میں کشادگی دینا چاہے قادر ہے ، جسے تنگ روزی دینا چاہے قادر ہے ، یہ سب کچھ حکمت وعدل سے ہو رہا ہے ۔ کافروں کو دنیا پر ہی سہارا ہوگیا ۔ یہ آخرت سے غافل ہو گئے سمجھنے لگے کہ یہاں رزق کی فراوانی حقیقی اور بھلی چیز ہے حالانکہ دراصل یہ مہلت ہے اور آہستہ پکڑ کی شروع ہے لیکن انہیں کوئی تمیز نہیں ۔ «قُلْ مَتَاعُ الدٰنْیَا قَلِیلٌ وَالْآخِرَۃُ خَیْرٌ لِّمَنِ اتَّقَیٰ وَلَا تُظْلَمُونَ فَتِیلًا» ۱؎ (4-النساء:77) ’ مومنوں کو جو آخرت ملنے والی ہے اس کے مقابل تو یہ کوئی قابل ذکر چیز نہیں یہ نہایت ناپائیدار اور حقیر چیز ہے آخرت بہت بڑی اور بہتر چیز ۔ لیکن عموماً لوگ دینا کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں ‘ ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کلمہ کی انگلی سے اشارہ کر کے فرمایا کہ اسے کوئی سمندر میں ڈبو لے اور دیکھے کہ اس میں کتنا پانی آتا ہے ؟ جتنا یہ پانی سمندر کے مقابلے پر ہے اتنی ہی دنیا آخرت کے مقابلے میں ہے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2858) { ایک چھوٹے چھوٹے کانوں والی بکری کے مرے ہوئے بچے کو راستے میں پڑا ہوا دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جیسا یہ ان لوگوں کے نزدیک ہے جن کا یہ تھا اس سے بھی زیادہ بے کار اور ناچیز اللہ کے سامنے ساری دنیا ہے “ } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:29570) الرعد
27 مشرکین کے اعتراض مشرکین کا ایک اعتراض بیان ہو رہا ہے کہ ’ اگلے نبیوں کی طرح یہ ہمیں ہمارا کہا ہوا کوئی معجزہ کیوں نہیں دکھاتا ؟ ‘ اس کی پوری بحث کئی بار گزر چکی کہ اللہ کو قدرت تو ہے لیکن اگر پھر بھی یہ ٹس سے مس نہ ہوئے تو انہیں نیست و نابود کر دیا جائے گا ۔ حدیث میں ہے کہ { اللہ کی طرف سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی آئی کہ ’ ان کی چاہت کے مطابق میں صفا پہاڑ کو سونے کا کر دیتا ہوں ، زمین عرب میں میٹھے دریاؤں کی ریل پیل کر دیتا ہوں ، پہاڑی زمین کو زراعتی زمین سے بدل دیتا ہوں لیکن پھر بھی اگر یہ ایمان نہ لائے تو انہیں وہ سزا دوں گا جو کسی کو نہ ہوتی ہو ۔ اگر چاہوں تو یہ کر دوں اور اگر چاہوں تو ان کے لیے توبہ اور رحمت کا دروازہ کھلا رہنے دوں ‘ ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری صورت پسند فرمائی } ۔ ۱؎ (مسند احمد:242/1:صحیح) سچ ہے ہدایت ضلالت اللہ کے ہاتھ ہے وہ کسی معجزے کے دیکھنے پر موقوف نہیں ، «وَمَا تُغْنِی الْآیَاتُ وَالنٰذُرُ عَن قَوْمٍ لَّا یُؤْمِنُونَ» ۱؎ (10-یونس:101) ’ بے ایمانوں کے لیے نشانات اور ڈراوے سب بےسود ہیں ‘ ۔ «إِنَّ الَّذِینَ حَقَّتْ عَلَیْہِمْ کَلِمَتُ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُونَ وَلَوْ جَاءَتْہُمْ کُلٰ آیَۃٍ حَتَّیٰ یَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِیمَ» ۱؎ (10-یونس:96-97) ’ جن پر کلمہ عذاب صادق ہو چکا ہے وہ تمام تر نشانات دیکھ کر بھی مان کر نہ دیں گے ہاں عذابوں کو دیکھ تو پورے ایماندار بن جائیں گے لیکن وہ محض بے کار چیز ہے ‘ ۔ فرماتا ہے «وَلَوْ أَنَّنَا نَزَّلْنَا إِلَیْہِمُ الْمَلَائِکَۃَ وَکَلَّمَہُمُ الْمَوْتَیٰ وَحَشَرْنَا عَلَیْہِمْ کُلَّ شَیْءٍ قُبُلًا مَّا کَانُوا لِیُؤْمِنُوا إِلَّا أَن یَشَاءَ اللہُ وَلٰکِنَّ أَکْثَرَہُمْ یَجْہَلُونَ» ۱؎ ( 6-الأنعام : 111 ) ، یعنی ’ اگر ہم ان پر فرشتے اتارتے اور ان سے مردے باتیں کرتے اور ہر چھپی چیز ان کے سامنے ظاہر کر دیتے تب بھی انہیں ایمان نصیب نہ ہوتا ۔ ہاں اگر اللہ چاہے تو اور بات ہے لیکن ان میں اکثر جاہل ہیں ‘ ۔ جو اللہ کی طرف جھکے اس سے مدد چاہے اس کی طرف عاجزی کرے وہ راہ یافتہ ہو جاتا ہے ۔ جن کے دلوں میں ایمان جم گیا ہے جن کے دل اللہ کی طرف جھکتے ہیں ، اس کے ذکر سے اطمینان حاصل کرتے ہیں ، راضی خوشی ہو جاتے ہیں اور فی الواقع ذکر اللہ اطمینان دل کی چیز بھی ہے ۔ ایمانداروں اور نیک کاروں کے لیے خوشی ، نیک فالی اور آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ۔ ان کا انجام اچھا ہے ، یہ مستحق مبارک باد ہیں یہ بھلائی کو سمیٹنے والے ہیں ان کا لوٹنا بہتر ہے ، ان کا مال نیک ہے ۔ مروی ہے کہ طوبٰی سے مراد ملک حبش ہے اور نام ہے جنت کا اور اس سے مراد جنت ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ” جنت کی جب پیدائش ہو چکی اس وقت جناب باری نے یہی فرمایا تھا “ ۔ کہتے ہیں کہ ” جنت میں ایک درخت کا نام بھی طوبی ہے کہ ساری جنت میں اس کی شاخیں پھیلی ہوئی ہیں ، ہر گھر میں اس کی شاخ موجود ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے ہاتھ سے بویا ہے ، لولو کے دانے سے پیدا کیا ہے اور بحکم الٰہی یہ بڑھا اور پھیلا ہے ۔ اس کی جڑوں سے جنتی شہد ، شراب ، پانی اور دودھ کی نہریں جاری ہوتی ہیں “ ۔ ایک مرفوع حدیث میں ہے { طوبی نامی جنت کا ایک درخت ہے سو سال کے راستے کا ۔ اسی کے خوشوں سے جنتیوں کے لباس نکلتے ہیں } ۔ ۱؎ (سلسلۃ احادیث صحیحہ البانی:1241،) مسند احمد میں ہے کہ { ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا اسے مبارک ہو ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ہاں اسے بھی مبارک ہو ۔ اور اسے دوگنا مبارک ہو جس نے مجھے نہ دیکھا اور مجھ پر ایمان لایا } ۔ ایک شخص نے پوچھا طوبیٰ کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { جنتی درخت ہے جو سو سال کی راہ تک پھیلا ہوا ہے جنتیوں کے لباس اس کی شاخوں سے نکلتے ہیں } } ۔ ۱؎ (سلسلۃ احادیث صحیحہ البانی:1241،) بخاری مسلم میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { جنت میں ایک درخت ہے کہ سوار ایک سو سال تک اس کے سائے میں چلتا رہے گا لیکن وہ ختم نہ ہو گا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6552) اور روایت میں ہے کہ چال بھی تیز اور سواری بھی تیز چلنے والی } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6553) صحیح بخاری شریف میں آیت «وَظِلٍّ مَّمْدُودٍ» ۱؎ (56-الواقعۃ:30) کی تفسیر میں بھی یہی ہے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4881) اور حدیث میں ہے { ستر یا سو سال اس کا نام شجرۃ الخلد ہے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:455/2:صحیح دون الجملۃ) { سدرۃ المنتہیٰ کے ذکر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے { اس کی شاخ کے سائے تلے ایک سو سال تک سوار چلتا رہے گا اور سو سو سوار اس کی ایک ایک شاخ تلے ٹھہر سکتے ہیں ۔ اس میں سونے کی ٹڈیاں ہیں ، اس کے پھل بڑے بڑے مٹکوں کے برابر ہیں } } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:4541،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) { آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { ہر جنتی کو طوبیٰ کے پاس لے جائیں گے اور اسے اختیار دیا جائے گا کہ جس شاخ کو چاہے پسند کرے ۔ سفید ، سرخ ، زرد سیاہ جو نہایت خوبصورت نرم اور اچھی ہوں گی } } ۔ ۱؎ (الدر المنشور للسیوطی:112/4:ضعیف) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” طوبٰی کو حکم ہوگا کہ ’ میرے بندوں کے لیے بہترین چیزیں ٹپکا ‘ ۔ تو اس میں سے گھوڑے اور اونٹ برسنے لگیں گے ، سجے سجائے اور زین لگام وغیرہ کسے کسائے عمدہ بہترین لباس وغیرہ “ ۔ ابن جریر رحمہ اللہ نے اس جگہ ایک عجیب وغریب اثر وارد کیا ہے ۔ رہب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ” جنت میں ایک درخت ہے جس کا نام طوبیٰ ہے جس کے سائے تلے سوار سو سال تک چلتا رہے گا لیکن راستہ ختم نہ ہوگا ۔ اس کی تروتازگی کھلے ہوئے چمن کی طرح ہے اس کے پتے بہترین اور عمدہ ہیں اس کے خوشے عنبریں ہیں اس کے کنکر یاقوت ہیں اس کی مٹی کافور ہے اس کا گارا مشک ہے اس کی جڑ سے شراب ، دودھ ، اور شہد کی نہریں بہتی ہیں ۔ اس کے نیچے جنتیوں کی مجلسیں ہوں گی ، یہ بیٹھے ہوئے ہوں گے جو ان کے پاس فرشتے اونٹنیاں لے کر آیئں گے ۔ جن کی زنجریں سونے کی ہوں گی ، جن پر یاقوت کے پالان ہوں گے جن پر سونا جڑاؤ ہو رہا ہو گا جن پر ریشمی جھولیں ہوں گی ۔ وہ اونٹنیاں ان کے سامنے پیش کریں گے اور کہیں گے کہ یہ سواریاں تمہیں بھجوائی گئی ہیں اور دربار الٰہی میں تمہارا بلاوا ہے ، یہ ان پر سوار ہوں گے ، وہ پرندوں کی پرواز سے بھی تیز رفتار ہوں گی ۔ جنتی ایک دوسرے سے مل کر چلیں گے وہ خودبخود ہٹ جائیں گے کہ کسی کو اپنے ساتھی سے الگ نہ ہونا پڑے یونہی رحمن و رحیم رب کے پاس پہنچیں گے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے چہرے سے پردے ہٹا دے گا یہ اپنے رب کے چہرہ کو دیکھیں گے اور کہیں گے « اللہُمَّ أَنْتَ السَّلَام وَمِنْک السَّلَام وَحُقَّ لَک الْجَلَال وَالْإِکْرَام» ان کے جواب میں اللہ تعالیٰ رب العزت فرمائے گا ’ «أَنَا السَّلَام وَمِنِّی السَّلَام وَعَلَیْکُمْ» تم پر میری رحمت ثابت ہو چکی اور محبت بھی ‘ ۔ میرے ان بندوں کو مرحبا ہو جو بن دیکھے مجھ سے ڈرتے رہے میری فرماں برداری کرتے رہے جنتی کہیں گے باری تعالیٰ نہ تو ہم سے تیری عبادت کا حق ادا ہوا نہ تیری پوری قدر ہوئی ہمیں اجازت دے کہ تیرے سامنے سجدہ کریں اللہ فرمائے گا ’ یہ محنت کی جگہ نہیں نہ عبادت کی یہ تو نعمتوں راحتوں اور مالا مال ہونے کی جگہ ہے ۔ عبادتوں کی تکلیف جاتی رہی مزے لوٹنے کے دن آ گئے جو چاہو مانگو ، پاؤ گے ۔ تم میں سے جو شخص جو مانگے میں اسے دوں گا ‘ ۔ پس یہ مانگیں گے کم سے کم سوال والا کہے گا کہ اللہ تو نے دنیا میں جو پیدا کیا تھا جس میں تیرے بندے ہائے وائے کر رہے تھے ۔ میں چاہتا ہوں کہ شروع دنیا سے ختم دنیا تک دنیا میں جتنا کچھ تھا مجھے عطا فرما ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’ تو نے تو کچھ نہ مانگا اپنے مرتبے سے بہت کم چیز مانگی ، اچھا ہم نے دی ۔ میری بخشش اور دین میں کیا کمی ہے ؟ ‘ پھر فرمائے گا ’ جن چیزوں تک میرے ان بندوں کے خیالات کی رسائی بھی نہیں وہ انہیں دو ‘ چنانچہ دی جائیں گی یہاں تک کہ ان کی خواہشیں پوری ہو جائیں گی ۔ ان چیزوں میں جو انہیں یہاں ملیں گی تیز رو گھوڑے ہوں گے ہر چار پر یاقوتی تخت ہو گا ہر تخت پر سونے کا ایک ڈیرا ہو گا ہر ڈیرے میں جنتی فرش ہو گا جن پر بڑی بڑی آنکھوں والی دو دو حوریں ہوں گی جو دو دو حلے پہنے ہوئے ہوں گی جن میں جنت کے تمام رنگ ہوں گے اور تمام خوشبوئیں ۔ ان خیموں کے باہر سے ان کے چہرے ایسے چمکتے ہوں گے گویا وہ باہر بیٹھی ہیں ان کی پنڈلی کے اندر کا گودا باہر سے نظر آ رہا ہو گا جیسے سرخ یاقوت میں ڈورا پرویا ہوا ہو اور وہ اوپر سے نظر آ رہا ہو “ ۔ ” ہر ایک دوسری پر اپنی فضیلت ایسی جانتی ہوگی جیسی فضیلت سورج کی پتھر پر اس طرح جنتی کی نگاہ میں بھی دونوں ایسی ہی ہوں گی ۔ یہ ان کے پاس جائے گا اور ان سے بوس وکنار میں مشغول ہو جائے گا ۔ وہ دونوں اسے دیکھ کر کہیں گی واللہ ہمارے تو خیال میں بھی نہ تھا کہ اللہ تم جیسا خاوند ہمیں دے گا ۔ اب بحکم الٰہی اسی طرح صف بندی کے ساتھ سواریوں پر یہ واپس ہوں گے اور اپنی منزلوں میں پہنچیں گے ۔ دیکھو تو سہی کہ رب وہاب نے انہیں کیا کیا نعمتیں عطا فرما رکھی ہیں ؟ وہاں بلند درجہ لوگوں میں اونچے اونچے بالا خانوں میں جو نرے موتی کے بنے ہوئے ہوں گے جن کے دروازے سونے کے ہوں گے ، جن کے منبر نور کے ہوں گے جن کی چمک سورج سے بالا تر ہو گی ۔ اعلیٰ علیین میں ان کے محل ہوں گے ۔ یاقوت کے بنے ہوئے ۔ نورانی ۔ جن کے نور سے آنکھوں کی روشنی جاتی رہے لیکن اللہ تعالیٰ ان کی آنکھیں ایسی نہ کر دے گا ۔ جو محلات یاقوت سرخ کے ہوں گے ان میں سبز ریشمی فرش ہوں گے اور جو زمرد و یاقوت کے ہوں گے ان کے فرش سرخ مخمل کے ہوں گے ۔ جو زمرد اور سونے کے جڑاؤ کے ہوں گے ان تختوں کے پائے جواہر کے ہوں گے ، ان پر چھتیں لولو کی ہوں گی ، ان کے برج مرجان کے ہوں گے ۔ ان کے پہنچنے سے پہلے ہی رحمانی تحفے وہاں پہنچ چکے ہوں گے ۔ سفید یاقوتی گھوڑے غلمان لیے کھڑے ہوں گے جن کا سامان چاندی کا جڑاؤ ہوگا ۔ ان کے تخت پر اعلیٰ ریشمی نرم و دبیز فرش بچھے ہوئے ہوں گے یہ ان سواریوں پر سوار ہو کر بے تک لف جنت میں جائیں گے دیکھیں گے کہ ان کے گھروں کے پاس نورانی ممبروں پر فرشتے ان کے استقبال کے لیے بیٹھے ہوئے ہیں وہ ان کا شاندار استقبال کریں گے ۔ ، مبارک باد دیں گے ، مصافحہ کریں گے ، پھر یہ اپنے گھروں میں داخل ہوں گے ۔ انعامات الٰہی وہاں موجود پائیں گے ، اپنے محلات کے پاس وہ جنتیں ہری بھری پائیں گے اور جو پھلی پھولی جن میں دو چشمے پوری روانی سے جاری ہوں گے اور ہر قسم کے جوڑ دار میوے ہوں گے اور خیموں میں پاک دامن بھولی بھالی پردہ نشین حوریں ہوں گی ۔ جب یہ یہاں پہنچ کر راحت و آرام میں ہوں گے اس وقت اللہ رب العزت فرمائے گا ’ میرے پیارے بندو تم نے میرے وعدے سچے پائے ؟ کیا تم میرے ثوابوں سے خوش ہو گئے ؟ ‘ وہ کہیں گے ” اللہ ہم خوب خوش ہو گئے ؟ بہت ہی راضی رضامند ہیں دل سے راضی ہیں کلی کلی کھلی ہوئی ہے تو بھی ہم سے خوش رہ “ ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’ اگر میری رضا مندی نہ ہوتی تو میں اپنے اس مہمان خانے میں تمہیں کیسے داخل ہونے دیتا ؟ اپنا دیدار کیسے کراتا ؟ میرے فرشتے تم سے مصافحہ کیوں کرتے ؟ تم خوش رہو باآرام رہو تمہیں مبارک ہو تم پھلو پھولو اور سکھ چین اٹھاؤ میرے یہ انعامات گھٹنے اور ختم ہونے والے نہیں ‘ ۔ ” اس وقت وہ کہیں گے اللہ ہی کی ذات سزاوار تعریف ہے جس نے ہم سے غم و رنج کو دور کر دیا اور ایسے مقام پر پہنچایا کہ جہاں ہمیں کوئی تکلیف کوئی مشقت نہیں یہ اسی کا فضل ہے وہ بڑا ہی بخشنے والا اور قدر دان ہے “ ۔ یہ سیاق غریب ہے اور یہ اثر عجیب ہے ہاں اس کے بعض شواہد بھی موجود ہیں ۔ چنانچہ صحیحین میں ہے کہ { اللہ تعالیٰ اس بندے سے جو سب سے اخیر میں جنت میں جائے گا فرمائے گا مانگ جو مانگتا جائے گا اور اللہ کریم دیتا جائے گا یہاں تک کہ اس کا سوال پوار ہو جائے گا اور پائے گا ۔ اب اس کے سامنے کوئی خواہش باقی نہیں رہے گی تو اب اللہ تعالیٰ خود اسے یاد دلائے گا کہ یہ مانگ یہ مانگ یہ مانگے گا اور پائے گا ۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا یہ سب میں نے تجھے دیا اور اتنا ہی اور بھی دس مرتبہ عطا فرمایا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:7437) صحیح مسلم شریف کی قدسی حدیث میں ہے کہ { اے میرے بندو تمہارے اگلے پچھلے انسان جنات سب ایک میدان میں کھڑے ہو جائیں اور مجھ سے دعائیں کریں اور مانگیں میں ہر ایک کے تمام سوالات پورے کروں گا لیکن میرے ملک میں اتنی بھی کمی نہ آئے گی جتنی کسی سوئی کو سمندر میں ڈبونے سے سمندر کے پانی میں آئے } ، الخ ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2577) خالد بن معدان کہتے ہیں جنت کے ایک درخت کا نام طوبیٰ ہے اس میں تھن ہیں جن سے جنتیوں کے بچے دودھ پیتے ہیں کچے گرے ہوئے بچے جنت کی نہروں میں ہیں قیامت کے قائم ہونے تک پھر چالیس سال کے بن کر اپنے ماں باپ کے ساتھ جنت میں رہیں گے ۔ الرعد
28 الرعد
29 الرعد
30 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حوصلہ افزائی ارشاد ہوتا ہے کہ ’ جیسے اس امت کی طرف ہم نے تجھے بھیجا کہ تو انہیں کلام الٰہی پڑھ کر سنائے ، اسی طرح تجھ سے پہلے اور رسولوں کو ان اگلی امتوں کی طرف بھیجا تھا انہوں نے بھی پیغام الٰہی اپنی اپنی امتوں کو پہنچایا مگر انہوں نے جھٹلایا اسی طرح تو بھی جھٹلایا گیا تو تجھے تنگ دل نہ ہونا چاہیئے ۔ ہاں ان جھٹلانے والوں کو ان کا انجام دیکھنا چاہیئے جو ان سے پہلے تھے کہ عذاب الٰہی نے انہیں ٹکڑے ٹکڑے کر دیا پس تیری تکذیب تو ان کی تکذیب سے بھی ہمارے نزدیک زیادہ ناپسند ہے ۔ اب یہ دیکھ لیں کہ ان پر کیسے عذاب برستے ہیں ؟ ‘ یہی فرمان آیت «تَاللّٰہِ لَقَدْ اَرْسَلْنَآ اِلٰٓی اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِکَ فَزَیَّنَ لَہُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَہُمْ فَہُوَ وَلِیٰہُمُ الْیَوْمَ وَلَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ» ۱؎ (16-النحل:63) میں اور آیت «وَلَقَدْ کُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِکَ فَصَبَرُوْا عَلٰی مَا کُذِّبُوْا وَاُوْذُوْا حَتّٰی اَتٰیہُمْ نَصْرُنَا وَلَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِ اللّٰہِ وَلَقَدْ جَاءَکَ مِنْ نَّبَاِی الْمُرْسَلِیْنَ» ۱؎ (6-الأنعام:34) میں ہے کہ ’ دیکھ لے ہم نے اپنے والوں کی کس طرح امداد فرمائی ؟ اور انہیں کیسے غالب کیا ؟ تیری قوم کو دیکھ کر رحمن سے کفر کر رہی ہے ۔ وہ اللہ کے وصف اور نام کو مانتی ہی نہیں ‘ ۔ حدیبیہ کا صلح نامہ لکھتے وقت اس پر بضد ہو گئے کہ ہم آیت «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» نہیں لکھنے دیں گے ۔ ہم نہیں جانتے کہ رحمن اور رحیم کیا ہے ؟ پوری حدیث بخاری میں موجود ہے ۔ قرآن میں ہے «قُلِ ادْعُوا اللّٰہَ اَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ اَیًّا مَّا تَدْعُوْا فَلَہُ الْاَسْمَاءُ الْحُسْنٰی وَلَا تَجْـہَرْ بِصَلَاتِکَ وَلَا تُخَافِتْ بِہَا وَابْتَغِ بَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیْلًا» ۱؎ (17-الإسراء:110) ، ’ اللہ کہہ کر اسے پکارو یا رحمن کہہ کر جس نام سے پکارو وہ تمام بہترین ناموں والا ہے ‘ ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { اللہ کے نزدیک عبداللہ اور عبدالرحمٰن نہایت پیارے نام ہیں } } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2132) فرمایا ’ جس سے تم کفر کر رہے ہو میں تو اسے مانتا ہوں وہی میرا پروردگار ہے میرے بھروسے اسی کے ساتھ ہیں اسی کی جانب میری تمام تر توجہ اور رجوع اور دل کا میل اس کے سوا کوئی ان باتوں کا مستحق نہیں ‘ ۔ الرعد
31 قرآن حکیم کی صفات جلیلہ اللہ تعالیٰ اس پاک کتاب قرآن کریم کی تعریفیں بیان فرما رہا ہے اگر ’ سابقہ کتابوں میں کسی کتاب کے ساتھ پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل جانے والے اور زمین پھٹ جانے والی اور مردے جی اٹھنے والے ہوتے تو یہ قرآن جو تمام سابقہ کتابوں سے بڑھ چڑھ کر ہے ان سب سے زیادہ اس بات کا اہل تھا اس میں تو وہ معجز بیانی ہے کہ سارے جنات وانسان مل کر بھی اس جیسی ایک سورت نہ بنا کر لا سکے ۔ یہ مشرکین اس کے بھی منکر ہیں تو معاملہ سپرد رب کرو ۔ وہ مالک کل کہ ، تمام کاموں کا مرجع وہی ہے ، وہ جو چاہتا ہے ہو جاتا ہے ، جو نہیں چاہتا ہرگز نہیں ہوتا ۔ اس کے بھٹکائے ہوئے کی رہبری اور اس کے راہ دکھائے ہوئے کی گمراہی کسی کے بس میں نہیں ‘ ۔ یہ یاد رہے کہ قرآن کا اطلاق اگلی الہامی کتابوں پر بھی ہوتا ہے اس لیے کہ وہ سب سے مشتق ہے ۔ مسند میں ہے { داؤد علیہ السلام پر قرآن اس قدر آسان کردیا گیا تھا کہ ان کے حکم سے سواری کسی جاتی اس کے تیار ہونے سے پہلے ہی وہ قرآن کو ختم کر لیتے ، سوا اپنے ہاتھ کی کمائی کے وہ اور کچھ نہ کھاتے تھے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3417) پس مراد یہاں قرآن سے زبور ہے ۔ ’ کیا ایماندار اب تک اس سے مایوس نہیں ہوئے کہ تمام مخلوق ایمان نہیں لائے گی ۔ کیا وہ مشیت الٰہی کے خلاف کچھ کر سکتے ہیں ۔ رب کی یہ منشا ہی نہیں اگر ہوتی تو روئے زمین کے لوگ مسلمان ہو جاتے ۔ بھلا اس قرآن کے بعد کس معجزے کی ضرورت دنیا کو رہ گئی ؟ اس سے بہتر واضح ، اس سے صاف ، اس سے زیادہ دلوں میں گھر کرنے والا اور کون سا کلام ہوگا ؟ اسے تو اگر بڑے سے بڑے پہاڑ پر اتارا جاتا تو وہ بھی خشیت الٰہی سے چکنا چور ہو جاتا ‘ ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { ہر نبی کو ایسی چیز ملی کہ لوگ اس پر ایمان لائیں ۔ میری ایسی چیز اللہ کی یہ وحی ہے پس مجھے امید ہے کہ سب نبیوں سے زیادہ تابعداروں والا میں ہو جاؤں گا } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4981) مطلب یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے معجزے ان کے ساتھ ہی چلے گئے اور میرا یہ معجزہ جیتا جاگتا رہتی دنیا تک رہے گا ، نہ اس کے عجائبات ختم ہوں نہ یہ کثرت تلاوت سے پرانا ہو نہ اس سے علماء کا پیٹ بھر جائے ۔ یہ فضل ہے دل لگی نہیں ۔ جو سرکش اسے چھوڑ دے گا اللہ اسے توڑ دے گا جو اس کے سوا اور میں ہدایت تلاش کرے گا اسے اللہ گمراہ کردے گا ۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ { کافروں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہاں کے پہاڑ یہاں سے ہٹوا دیں اور یہاں کی زمین زراعت کے قابل ہو جائے اور جس طرح سیلمان علیہ السلام زمین کی کھدائی ہوا سے کراتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی کرا دیجئیے یا جس طرح عیسیٰ علیہ السلام مردوں کو زندہ کر دیتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی کر دیجئیے اس پر یہ آیت اتری } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:20398:ضعیف) قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ ” اگر کسی قرآن کے ساتھ یہ امور ظاہر ہوتے تو اس تمہارے قرآن کے ساتھ بھی ہوتے سب کچھ اللہ کے اختیار میں ہے لیکن وہ ایسا نہیں کرتا تاکہ تم سب کو آزما لے اپنے اختیار سے ایمان لاؤ یا نہ لاؤ ۔ کیا ایمان والے نہیں جانتے ؟ «یَیْأَسِ» کے بدلے دوسری جگہ «یَتَبَیَّنِ» بھی ہے ، ایماندار ان کی ہدایت سے مایوس ہو چکے تھے ۔ ہاں اللہ کے اختیار میں کسی کا بس نہیں وہ اگر چاہے تمام مخلوق کو ہدایت پر کھڑا کر دے ۔ یہ کفار برابر دیکھ رہے ہیں کہ ان کے جھٹلانے کی وجہ سے اللہ کے عذاب برابر ان پر برستے رہتے ہیں یا ان کے آس پاس آ جاتے ہیں پھر بھی یہ نصیحت حاصل نہیں کرتے ؟ جیسے فرمان ہے «وَلَقَدْ اَہْلَکْنَا مَا حَوْلَکُمْ مِّنَ الْقُرٰی وَصَرَّفْنَا الْاٰیٰتِ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ» ۱؎ (46 ۔ الأحقاف:27) یعنی ’ ہم نے تمہارے آس پاس کی بہت سی بستیوں کو ان کی بد کرداریوں کی وجہ سے غارت و برباد کر دیا اور طرح طرح سے اپنی نشانیاں ظاہر فرمائیں کہ لوگ برائیوں سے باز رہیں ‘ ۔ اور آیت میں ہے «أَفَلَا یَرَوْنَ أَنَّا نَأْتِی الْأَرْضَ نَنقُصُہَا مِنْ أَطْرَافِہَا أَفَہُمُ الْغَالِبُونَبِ» ۱؎ (21-الأنبیاء:44) ’ کیا وہ نہیں دیکھ رہے کہ ہم زمین کو گھٹاتے چلے آ رہے ہیں کیا اب بھی اپنا ہی غلبہ مانتے چلے جائیں گے ؟ ‘ «تَحُلٰ» کا فاعل «قَارِعَۃٌ» ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:391/7:) یہی ظاہر اور مطابق روانی عبارت ہے لیکن ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ «قَارِعَۃٌ» پہنچے یعنی چھوٹا سا لشکر اسلامی یا تو خود ان کے شہر کے قریب اتر پڑے یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہاں تک کہ وعدہ ربانی آ پہنچے اس سے مراد فتح مکہ ہے ۔ آپ رضی اللہ عنہما سے ہی مروی ہے کہ «قَارِعَۃٌ» سے مراد آسمانی عذاب ہے اور آس پاس اترنے سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے لشکروں سمیت ان کی حدود میں پہنچ جانا ہے اور ان سے جہاد کرنا ہے ۔ ان سب کا قول ہے کہ یہاں وعدہ الٰہی سے مراد فتح مکہ ہے ۔ لیکن حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے مراد قیامت کا دن ہے ۔ اللہ کا وعدہ اپنے رسولوں کی نصرت وامداد کا ہے وہ کبھی ٹلنے والا نہیں انہیں اور ان کے تابعداروں کو ضرور بلندی نصیب ہو گی ۔ جیسے فرمان ہے «فَلَا تَحْسَبَنَّ اللہَ مُخْلِفَ وَعْدِہِ رُسُلَہُ إِنَّ اللہَ عَزِیزٌ ذُو انتِقَامٍ» ۱؎ (14-ابراھیم:47) ’ یہ غلط گمان ہرگز نہ کرو کہ اللہ اپنے رسولوں سے وعدہ خلافی کرے ۔ اللہ غالب ہے اور بدلہ لینے والا ‘ ۔ الرعد
32 سچائی کا مذاق اڑانا آج بھی جاری ہے اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتا ہے کہ ’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم کے غلط رویہ سے رنج وفکر نہ کریں آپ سے پہلے کے پیغمبروں کا بھی یونہی مذاق اڑایا گیا تھا میں نے ان کافروں کو بھی کچھ دیر تو ڈھیل دی تھی آخر بری طرح پکڑ لیا تھا اور نام و نشان تک مٹا دیا تھا ۔ تجھے معلوم ہے کہ کس کیفیت سے میرے عذاب ان پر آئے ؟ اور ان کا انجام کیسا کچھ ہوا ؟ ‘ جیسے فرمان ہے «وَکَأَیِّن مِّن قَرْیَۃٍ أَمْلَیْتُ لَہَا وَہِیَ ظَالِمَۃٌ ثُمَّ أَخَذْتُہَا وَإِلَیَّ الْمَصِیرُ» ۱؎ (22-الحج:48) ’ بہت سی بستیاں ہیں جو ظلم کے باوجود ایک عرصہ سے دنیا میں مہلت لیے رہیں لیکن آخرش اپنی بداعمالیوں کی پاداش میں عذابوں کا شکار ہوئیں ‘ ۔ بخاری و مسلم میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ” اللہ تعالیٰ ظالم کو ڈھیل دیتا ہے پھر جب پکڑتا ہے تو وہ حیران رہ جاتا ہے “ ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت «وَکَذٰلِکَ اَخْذُ رَبِّکَ اِذَآ اَخَذَ الْقُرٰی وَہِیَ ظَالِمَۃٌ اِنَّ اَخْذَہٗٓ اَلِیْمٌ شَدِیْدٌ» ۱؎ (11 ۔ ھود:102) ، کی تلاوت کی } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4686) الرعد
33 عالم خیر و شر اللہ تعالیٰ ہر انسان کے اعمال کا محافظ ہے ہر ایک کے اعمال کو جانتا ہے ، ہر نفس پر نگہبان ہے ، ہر عامل کے خیر و شر کے علم سے باخبر ہے ۔ کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں ، کوئی کام اس کی بے خبری میں نہیں ہوتا ۔ ہر حالت کا اسے علم ہے ہر عمل پر وہ موجود ہے «وَمَا تَسْقُطُ مِن وَرَقَۃٍ إِلَّا یَعْلَمُہَا» ۱؎ (6-الأنعام:59) ’ ہر پتے کے جھڑنے کا اسے علم ہے ‘ ۔ «وَمَا مِن دَابَّۃٍ فِی الْأَرْضِ إِلَّا عَلَی اللہِ رِزْقُہَا وَیَعْلَمُ مُسْتَقَرَّہَا وَمُسْتَوْدَعَہَا کُلٌّ فِی کِتَابٍ مٰبِینٍ» ۱؎ (11-ھود:6) ’ ہر جاندار کی روزی اللہ کے ذمے ہے ہر ایک کے ٹھکانے کا اسے علم ہے ہر بات اس کی کتاب میں لکھی ہوئی ہے ‘ ، «یَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفَی» ۱؎ (20-طہ:7) ’ ظاہر وباطن ہر بات کو وہ جانتا ہے ‘ «وَمَا تَکُونُ فِی شَأْنٍ وَمَا تَتْلُو مِنْہُ مِن قُرْآنٍ وَلَا تَعْمَلُونَ مِنْ عَمَلٍ إِلَّا کُنَّا عَلَیْکُمْ شُہُودًا إِذْ تُفِیضُونَ فِیہِ» ۱؎ (10-یونس:61) ’ تم جہاں ہو وہاں اللہ تمہارے ساتھ ہے تمہارے اعمال دیکھ رہا ہے ان صفتوں والا اللہ کیا تمہارے ان جھوٹے معبودوں جیسا ہے ؟ جو نہ سنیں ، نہ دیکھیں ، نہ اپنے لیے کسی چیز کے مالک ، نہ کسی اور کے نفع نقصان کا انہیں اختیار ‘ ۔ اس جواب کو حذف کر دیا کیونکہ دلالت کلام موجود ہے ۔ اور وہ فرمان الٰہی «وَجَعَلُوا لِلہِ شُرَکَاءَ قُلْ سَمٰوہُمْ أَمْ تُنَبِّئُونَہُ بِمَا لَا یَعْلَمُ فِی الْأَرْضِ أَمْ بِظَاہِرٍ مِنَ الْقَوْلِ بَلْ زُیِّنَ لِلَّذِینَ کَفَرُوا مَکْرُہُمْ وَصُدٰوا عَنِ السَّبِیلِ وَمَنْ یُضْلِلِ اللہُ فَمَا لَہُ مِنْ ہَادٍ» ۱؎ (13-الرعد:33) ہے ، ’ انہوں نے اللہ کے ساتھ اوروں کو شریک ٹھہرایا اور ان کی عبادت کرنے لگے تم ذرا ان کے نام تو بتاؤ ان کے حالات تو بیان کرو تاکہ دنیا جان لے کہ وہ محض بے حقیقت ہیں کیا تم زمین کی جن چیزوں کی خبر اللہ کو دے رہے ہو جنہیں وہ نہیں جانتا یعنی جن کا وجود ہی نہیں ‘ ۔ اس لیے کہ اگر وجود ہوتا تو علم الٰہی سے باہر نہ ہوتا کیونکہ اس پر کوئی مخفی سے مخفی چیز بھی حقیقتاً مخفی نہیں یا صرف اٹکل پچو باتیں بنا رہے ہو ؟ «إِنْ ہِیَ إِلَّا أَسْمَاءٌ سَمَّیْتُمُوہَا أَنتُمْ وَآبَاؤُکُم مَّا أَنزَلَ اللہُ بِہَا مِن سُلْطَانٍ إِن یَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَہْوَی الْأَنفُسُ وَلَقَدْ جَاءَہُم مِّن رَّبِّہِمُ الْہُدَیٰ» ۱؎ (53-النجم:23) ’ فضول گپ مار رہے ہو تم نے آپ ان کے نام گھڑ لیے ، تم نے ہی انہیں نفع نقصان کا مالک قرار دیا اور تم نے ہی ان کی پوجا پاٹ شروع کر دی ۔ یہی تمہارے بڑے کرتے رہے ‘ ۔ نہ تو تمہارے ہاتھ میں کوئی ربانی دلیل ہے نہ اور کوئی ٹھوس دلیل یہ تو صرف وہم پرستی اور خواہش پروری ہے ۔ ہدایت اللہ کی طرف سے نازل ہو چکی ہے ۔ کفار کا مکر انہیں بھلے رنگ میں دکھائی دے رہا ہے وہ اپنے کفر پر اور اپنے شرک پر ہی ناز کر رہے ہیں دن رات اسی میں مشغول ہیں اور اسی کی طرف اوروں کو بلا رہے ہیں ۔ جیسے فرمایا «وَقَیَّضْنَا لَہُمْ قُرَنَاءَ فَزَیَّنُوْا لَہُمْ مَّا بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ وَحَقَّ عَلَیْہِمُ الْقَوْلُ فِیْٓ اُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِمْ مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اِنَّہُمْ کَانُوْا خٰسِرِیْنَ» ۱؎ (41 ۔ فصلت:25) ، ’ ان کے شیطانوں نے ان کی بےڈھنگیاں ان کے سامنے دلکش بنا دی ہیں یہ راہ اللہ سے طریقہ ہدی سے روک دیئے گئے ہیں ‘ ۔ «وَصُدٰوا» ایک قرأت اس کی «وَصَدٰوْا» بھی ہے یعنی انہوں نے اسے اچھا جان کر پھر اوروں کو اس میں پھانسنا شروع کر دیا اور راہ رسول سے لوگوں کو روکنے لگے رب کے گمراہ کئے ہوئے لوگوں کو کون راہ دکھا سکے ؟ جیسے فرمایا «وَمَن یُرِدِ اللہُ فِتْنَتَہُ فَلَن تَمْلِکَ لَہُ مِنَ اللہِ شَیْئًا» ۱؎ (5-المائدہ:41) ’ جسے اللہ فتنے میں ڈالنا چاہے تو اس کے لیے اللہ کے ہاں کچھ بھی تو اختیار نہیں ‘ ۔ اور آیت میں ہے «إِن تَحْرِصْ عَلَیٰ ہُدَاہُمْ فَإِنَّ اللہَ لَا یَہْدِی مَن یُضِلٰ وَمَا لَہُم مِّن نَّاصِرِینَ» ۱؎ (16-النحل:37) ’ گو تو ان کی ہدایت کا لالچی ہو لیکن اللہ ان گمراہوں کو راہ دکھانا نہیں چاہتا پھر کون ہے جو ان کی مدد کرے ‘ ۔ الرعد
34 کافر موت مانگیں گے کفار کی سزا اور نیک کاروں کی جزا کا ذکر ہو رہا ہے کافروں کا کفر و شرک بیان فرما کر ان کی سزا بیان فرمائی کہ ’ وہ مومنوں کے ہاتھوں قتل و غارت ہوں گے ، اس کے ساتھ ہی آخرت کے سخت تر عذابوں میں گرفتار ہوں گے جو اس دنیا کی سزا سے درجہا بدتر ہیں ‘ ۔ { ملا عنہ کرنے والے میاں بیوی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ { دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے بہت ہی ہلکا ہے } } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1493) یہاں کا عذاب فانی وہاں کا باقی اور اس آگ کا عذاب جو یہاں کی آگ سے ستر حصے زیادہ تیز ہے پھر قید وہ جو تصور میں بھی نہ آ سکے ۔ جیسے فرمان ہے «فَیَوْمَئِذٍ لَّا یُعَذِّبُ عَذَابَہُ أَحَدٌ وَلَا یُوثِقُ وَثَاقَہُ أَحَدٌ» ۱؎ (89۔الفجر:26،25) ، ’ آج اس عذاب جیسے نہ کسی کے عذاب نہ اس جیسی کسی کی قید و بند ‘ ۔ فرمان ہے «بَلْ کَذَّبُوا بِالسَّاعَۃِ وَأَعْتَدْنَا لِمَن کَذَّبَ بِالسَّاعَۃِ سَعِیرًا إِذَا رَأَتْہُم مِّن مَّکَانٍ بَعِیدٍ سَمِعُوا لَہَا تَغَیٰظًا وَزَفِیرًا وَإِذَا أُلْقُوا مِنْہَا مَکَانًا ضَیِّقًا مٰقَرَّنِینَ دَعَوْا ہُنَالِکَ ثُبُورًا لَّا تَدْعُوا الْیَوْمَ ثُبُورًا وَاحِدًا وَادْعُوا ثُبُورًا کَثِیرًا قُلْ أَذٰلِکَ خَیْرٌ أَمْ جَنَّۃُ الْخُلْدِ الَّتِی وُعِدَ الْمُتَّقُونَ کَانَتْ لَہُمْ جَزَاءً وَمَصِیرًا» » ۱؎ (25-الفرقان:11-15) ، ’ قیامت کے منکروں کے لیے ہم نے آگ کا عذاب تیار کر رکھا ہے دور سے ہی انہیں دیکھتے ہی شور و غل شروع کر دے گی وہاں کے تنگ و تاریک مکانات میں جب یہ جکڑے ہوئے ڈالے جائیں گے تو ہائے وائے کرتے ہوئے موت مانگنے لگیں گے ۔ ایک ہی موت کیا مانگتے ہو بہت سے موتیں مانگو ۔ اب بتاؤ کہ یہ ٹھیک ہے یا جنت خلد ٹھیک ہے جس کا وعدہ پرہیزگاروں سے کیا گیا ہے کہ وہ ان کا بدلہ ہے اور ان کا ہمیشہ رہنے کا ٹھکانا ‘ ۔ پھر نیکوں کا انجام بیان فرماتا ہے کہ «مَّثَلُ الْجَنَّۃِ الَّتِی وُعِدَ الْمُتَّقُونَ فِیہَا أَنْہَارٌ مِّن مَّاءٍ غَیْرِ آسِنٍ وَأَنْہَارٌ مِّن لَّبَنٍ لَّمْ یَتَغَیَّرْ طَعْمُہُ وَأَنْہَارٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّۃٍ لِّلشَّارِبِینَ وَأَنْہَارٌ مِّنْ عَسَلٍ مٰصَفًّی وَلَہُمْ فِیہَا مِن کُلِّ الثَّمَرَاتِ وَمَغْفِرَۃٌ مِّن رَّبِّہِمْ کَمَنْ ہُوَ خَالِدٌ فِی النَّارِ وَسُقُوا مَاءً حَمِیمًا فَقَطَّعَ أَمْعَاءَہُمْ» ۱؎ (47-محمد:15) ’ ان سے جن جنتوں کا وعدہ ہے اس کی ایک صفت تو یہ ہے کہ اس کے چاروں طرف نہریں جاری ہیں جہاں چاہیں پانی لے جائیں پانی نہ بگڑنے والا پھر دودھ کی نہریں ہیں اور دودھ بہی ایسا جس کا مزہ کبھی نہ بگڑے اور شراب کی نہریں ہیں جس میں صرف لذت ہے ۔ نہ بدمزگی ، نہ بے ہودہ نشہ ، اور صاف شہد کی نہریں ہیں اور ہر قسم کے پھل ہیں اور ساتھ ہی رب کی رحمت مالک معرفت اس کے پھل ہمیشگی والے اس کی کھانے پینے کی چیزیں کبھی فنا ہونے والی نہیں ۔ [ کیا یہ پرہیزگار ] ان کی طرح [ ہو سکتے ] ہیں جو ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے اور جن کو کھولتا ہوا پانی پلایا جائے گا تو ان کی انتڑیوں کو کاٹ ڈالے گا ‘ ۔ { جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسوف کی نماز پڑھی تھی تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا کہ ” نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پچھلے پاؤں پیچھے کو ہٹنے لگے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ہاں میں نے جنت کو دیکھا تھا اور چاہا تھا کہ ایک خوشہ توڑ لوں اگر لے لیتا تو رہتی دنیا تک وہ رہتا اور تم کھاتے رہتے } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1052) ابو یعلیٰ میں ہے کہ { ایک دن ظہر کی نماز میں ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ناگاہ آگے بڑھے اور ہم بھی بڑھے پھر ہم نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گویا کوئی چیز لینے کا ارادہ کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیچھے ہٹ آئے ۔ نماز کے خاتمہ کے بعد ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ! آج تو ہم نے آپ کو ایسا کام کرتے ہوئے دیکھا کہ آج سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ہاں میرے سامنے جنت پیش کی گئی جو تروتازگی سے مہک رہی تھی میں نے چاہا کہ اس میں سے ایک خوشہ انگور کا توڑ لاؤں لیکن میرے اور اس کے درمیان آڑ کر دی گئی اگر میں اسے توڑ لاتا تو تمام دنیا پوری دنیا تک اسے کھاتی رہتی اور پھر بھی ذار سا بھی کم نہ ہوتا “ } ۔ ۱؎ (مسند احمد:352/3:ضعیف) { ایک دیہاتی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا جنت میں انگور ہوں گے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ہاں “ ، اس نے کہا کتنے بڑے خوشے ہوں گئے ؟ فرمایا : ” اتنے بڑے کہ اگر کوئی کالا کوا مہینہ بھر اڑتا رہے تو بھی اس خوشے سے آگے نہ نکل سکے “ } ۔ ۱؎ (مسند احمد:183/4:اسنادہ قابل التحسین) اور حدیث میں ہے کہ { جنتی جب کوئی پھل توڑیں گے اسی وقت اس کی جگہ دوسرا لگ جائے گا } ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:1449:قال الشیخ الألبانی:ضعیف) { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ” جنتی خوب کھائیں پئیں گے لیکن نہ تھوک آئے گی نہ ناک آئے گی نہ پیشاب نہ پاخانہ مشک جیسی خوشبو والا پسینہ آئے گا اور اسی سے کھانا ہضم ہو جائے گا ۔ جیسے سانس بے تکلف چلتا ہے اس طرح تسبیح و تقدیس الہام کی جائے گی “ } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2835) { ایک اہل کتاب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جنتی کھائیں پئیں گے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ہاں ہاں اس کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے کہ ہر شخص کو کھانے پینے ، جماع اور شہوت کی اتنی قوت دی جائے گی جتنی یہاں سو آدمیوں کو مل کر ہو “ ۔ اس نے کہا اچھا تو جو کھائے گا پئے گا اسے پیشاب پاخانے کی بھی حاجت لگے گی پھر جنت میں گندگی کیسی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” نہیں بلکہ پسینے کے راستے سب ہضم ہو جائے گا اور وہ پسینہ مشک بو ہوگا “ } ۔ ۱؎ (نسائی فی السنن الکبری:11478:صحیح) فرماتے ہیں کہ { جس پرندے کی طرف کھانے کے ارادے سے جنتی نظر ڈالے گا وہ اسی وقت بھنا بھنایا اس کے سامنے گر پڑے گا } ۱؎ (مسند بزار:3532:ضعیف) بعض روایتوں میں ہے کہ پھر وہ اسی طرح بحکم الٰہی زندہ ہو کر اڑ جائے گا ۔ قرآن میں ہے «وَدَانِیَۃً عَلَیْہِمْ ظِلَالُہَا وَذُلِّلَتْ قُطُوفُہَا تَذْلِیلًا» ۱؎ (76-الإنسان:14) ’ وہاں بکثرت میوے ہوں گے کہ نہ کٹیں نہ ، ٹوٹیں نہ ختم ہوں نہ گھٹیں سایے جھکے ہوئے شاخین نیچی ۔ سائے بھی دائمی ہوں گے ‘ ۔ جیسے فرمان ہے «وَالَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَنُدْخِلُہُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِن تَحْتِہَا الْأَنْہَارُ خَالِدِینَ فِیہَا أَبَدًا لَّہُمْ فِیہَا أَزْوَاجٌ مٰطَہَّرَۃٌ وَنُدْخِلُہُمْ ظِلًّا ظَلِیلًا» ۱؎ (4-النساء:57) ’ ایماندار نیک کر دار بہتی نہروں والی جنتوں میں جائیں گے وہاں ان کے لیے پاک بیویاں ہوں گی اور بہترین لمبے چوڑے سائے ‘ ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ” جنت کے ایک درخت کے سائے تلے تیز سواری والا سوار سو سال تک تیز دوڑتا ہوا جائے لیکن پھر بھی اس کا سایہ ختم نہ ہوگا “ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6553) قرآن میں ہے «وَظِلٍّ مَّمْدُودٍ» ۱؎ (56-الواقعہ:30) ’ سائے ہیں پھیلے اور بڑھے ہوئے ‘ ۔ عموماً قرآن کریم میں جنت اور دوزخ کا ذکر ایک ساتھ آتا ہے تاکہ لوگوں کو جنت کا شوق ہو اور دوزخ سے ڈر لگے یہاں بھی جنت کا اور وہاں کی چند نعمتوں کا ذکر فرما کر فرمایا کہ ’ یہ ہے انجام پرہیزگار اور تقویٰ شعار لوگوں کا اور کافروں کا انجام جہنم ہے ‘ ۔ جیسے فرمان ہے کہ «لَا یَسْتَوِی أَصْحَابُ النَّارِ وَأَصْحَابُ الْجَنَّۃِ ۚ أَصْحَابُ الْجَنَّۃِ ہُمُ الْفَائِزُونَ» ۱؎ (59-الحشر:20) ’ جہنمی اور جنتی برابر نہیں جنتی با مراد ہیں ‘ ۔ خطیب دمشق بلال بن سعد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” اے بندگان رب کیا تمہارے کسی عمل کی قبولیت کا یا کسی گناہ کی معافی کا کوئی پروانہ تم میں سے کسی کو ملا ؟ کیا تم سے کسی کو ملا ؟ «أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاکُمْ عَبَثًا وَأَنَّکُمْ إِلَیْنَا لَا تُرْجَعُونَ» ۱؎ (23-المؤمنون:115) ’ کیا تم نے یہ گمان کر لیا ہے کہ تم بے کار پیدا کئے گئے ہو ؟ ‘ اور تم اللہ کے بس میں آنے والے نہیں ہو ؟ واللہ اگر اطاعت ربانی کا بدلہ دنیا میں ہی ملتا تو تم تمام نیکیوں پر جم جاتے ۔ کیا تم دنیا پر ہی فریفتہ ہو گئے ہو ؟ کیا اسی کے پیچھے مر مٹو گے ؟ کیا تمہیں جنت کی رغبت نہیں جس کے پھل اور جس کے سائے ہمیشہ رہنے والے ہیں “ ۔ (ابن ابی حاتم) الرعد
35 الرعد
36 شاداں و فرحاں لوگ ’ جو لوگ اس سے پہلے کتاب دئیے گئے ہیں اور وہ اس کے عامل ہیں وہ تو تجھ پر اس قرآن کے اترنے سے شاداں و فرحاں ہو رہے ہیں کیونکہ خود ان کی کتابوں میں اس کی بشارت اور اس کی صداقت موجود ہے ‘ ۔ جیسے آیت «اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰھُمُ الْکِتٰبَ یَتْلُوْنَہٗ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ» ۱؎ (2-البقرۃ:211) میں ہے کہ ’ اگلی کتابوں کو اچھی طور سے پڑھنے اس آخری کتاب پر بھی ایمان لاتے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی خبر ہے اور وہ اس وعدے کو پوار دیکھ کر خوشی سے مان لیتے ہیں ‘ ۔ «قُلْ آمِنُوا بِہِ أَوْ لَا تُؤْمِنُوا إِنَّ الَّذِینَ أُوتُوا الْعِلْمَ مِن قَبْلِہِ إِذَا یُتْلَیٰ عَلَیْہِمْ یَخِرٰونَ لِلْأَذْقَانِ سُجَّدًا وَیَقُولُونَ سُبْحَانَ رَبِّنَا إِن کَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُولًا» ۱؎ (17-الإسراء:107،108) ’ اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے کہ اس کے وعدے غلط نکلیں اس کے فرمان صحیح ثابت نہ ہوں پس وہ شادماں ہوتے ہوئے اللہ کے سامنے سجدے میں گر پڑتے ہیں ‘ ۔ ’ ہاں ان جماعتوں میں ایسے بھی ہیں جو اس کی بعض باتوں کو نہیں مانتے ‘ ، غرض بعض اہل کتاب مسلمان ہیں بعض نہیں ، ’ تو اے نبی [ صلی اللہ علیہ وسلم ] اعلان کر دے کہ مجھے صرف اللہ واحد کی عبادت کا حکم ملا ہوا ہے کہ دوسرے کی شرکت کے بغیر صرف اسی کی عبادت اس کی ہی توحید کے ساتھ کروں یہی حکم مجھ سے پہلے کے تمام نبیوں اور رسولوں کو ملا تھا ، اسی راہ کی طرف اسی الٰہی عبادت کی طرف میں تمام دنیا کو دعوت دیتا ہوں ۔ اسی اللہ کی طرف سب کو بلاتا ہوں اور اسی اللہ کی طرف میرا لوٹنا ہے ‘ ۔ ’ جس طرح ہم نے تم سے پہلے نبی بھیجے ان پر اپنی کتابیں نازل فرمائیں اسی طرح یہ قرآن جو محکم اور مضبوط ہے عربی زبان میں جو تیری اور تیری قوم کی زبان ہے اس قرآن کو ہم نے تجھ پر نازل فرمایا ۔ یہ بھی تجھ پر خاص احسان ہے کہ اس واضح اظہار مفصل اور محکم کتاب کے ساتھ تجھے ہم نے نوازا کہ نہ اس کے آگے سے باطل آ سکے نہ اس کے پیچھے سے آ کر اس میں مل سکے یہ حکیم و حمید اللہ کی طرف سے اتری ہے ‘ ۔ ’ اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تیرے پاس الہامی علم آسمانی وحی آ چکی ہے اب بھی اگر تو نے ان کی خواہش کی ماتحتی کی تو یاد رکھ کہ اللہ کے عذابوں سے تجھے کوئی بھی نہ بچا سکے گا ۔ نہ کوئی تیری حمایت پر کھڑا ہوگا ‘ ۔ سنت نبویہ اور طریقہ محمدیہ کے علم کے بعد جو گمراہی والوں کے راستوں کو اختیار کریں ان علماء کے لیے اس آیت میں زبردست وعید ہے ۔ الرعد
37 الرعد
38 ہر کام کا وقت مقرر ہے ارشاد ہے کہ ’ جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم باوجود انسان ہونے کے رسول اللہ ہیں ۔ ایسے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کے تمام رسول بھی انسان ہی تھے ، کھانا کھاتے تھے ، بازاروں میں چلتے پھرتے تھے بیوی ، بچوں والے تھے ‘ ۔ اور آیت میں ہے کہ اے اشرف الرسل آپ لوگوں سے کہہ دیجئیے کہ «قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوحَیٰ» ۱؎ (18-الکہف:110) ’ میں بھی تم جیسا ہی ایک انسان ہوں میری طرف وحی الٰہی کی جاتی ہے ‘ ۔ بخاری مسلم کی حدیث میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں نفلی روزے رکھتا بھی ہوں اور نہیں بھی رکھتا راتوں کو تہجد بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں گوشت بھی کھاتا ہوں اور عورتوں سے بھی ملتا ہوں جو شخص میرے طریقے سے منہ موڑ لے وہ میرا نہیں } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5063) مسند احمد میں { آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ چار چیزیں تمام انبیاء علیہم السلام کا طریقہ رہیں خوشبو لگانا ، نکاح کرنا ، مسواک کرنا اور مہندی } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:1080،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) پھر فرماتا ہے کہ ’ معجزے ظاہر کرنا کسی نبی علیہ السلام کے بس کی بات نہیں ۔ یہ اللہ عزوجل کے قبضے کی چیز ہے وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے ، جو ارادہ کرتا ہے حکم دیتا ہے ہر ایک بات مقررہ وقت اور معلوم مدت کتاب میں لکھی ہوئی ہے ، ہر شے کی ایک مقدار معین ہے ‘ ۔ «أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللہَ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ إِنَّ ذٰلِکَ فِی کِتَابٍ إِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللہِ یَسِیرٌ» ۱؎ (22-الحج:70) ’ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ زمین و آسمان کی تمام چیزوں کا اللہ کو علم ہے سب کچھ کتاب میں لکھا موجود ہے یہ تو اللہ پر بہت ہی آسان ہے ‘ ۔ ہر کتاب کی جو آسمان سے اتری ہے اس کی ایک اجل ہے اور ایک مدت مقرر ہے ان میں سے جسے چاہتا ہے منسوخ کر دیتا ہے جسے چاہتا ہے باقی رکھتا ہے ۔ پس اس قرآن سے جو اس نے اپنے رسول صلوات اللہ وسلامہ علیہ پر نازل فرمایا ہے تمام اگلی کتابیں منسوخ ہو گئیں ۔ اللہ تعالیٰ جو چاہے مٹائے جو چاہے باقی رکھے سال بھر کے امور مقرر کر دئے لیکن اختیار سے باہر نہیں جو چاہا باقی رکھا جو چاہا بدل دیا ۔ سوائے شقاوت ، سعادت ، حیات و ممات کے ، کہ ان سے فراغت حاصل کر لی گئی ہے ان میں تغیر نہیں ہونا ۔ منصور کہتے ہیں ” میں نے مجاہد رحمہ اللہ سے پوچھا کہ ہم میں سے کسی کا یہ دعا کرنا کیسا ہے کہ الٰہی اگر میرا نام نیکوں میں ہے تو باقی رکھ اور اگر بدوں میں ہے تو اسے ہٹا دے اور نیکوں میں کر دے “ ۔ آپ رحمہ اللہ نے فرمایا ” یہ تو اچھی دعا ہے “ ، سال بھر کے بعد پھر ملاقات ہوئی یا کچھ زیادہ عرصہ گزر گیا تھا تو میں نے ان سے یہی بات دریافت کی آپ رحمہ اللہ نے «إِنَّا أَنزَلْنَاہُ فِی لَیْلَۃٍ مٰبَارَکَۃٍ إِنَّا کُنَّا مُنذِرِینَ فِیہَا یُفْرَقُ کُلٰ أَمْرٍ حَکِیمٍ» ۱؎ (44-الدخان:3،4) سے دو آیتوں کی تلاوت کی اور فرمایا ” لیلۃ القدر میں سال بھر کی روزیاں ، تکلیفیں مقرر ہو جاتی ہیں ۔ پھر جو اللہ چاہے مقدم مؤخر کرتا ہے ، ہاں سعادت شقاوت کی کتاب نہیں بدلتی “ ۔ شفیق بن سلمہ اکثر یہ دعا کیا کرتے تھے ” اے اللہ ! اگر تو نے ہمیں بدبختوں میں لکھا ہے تو اسے مٹا دے اور ہماری گنتی نیکوں میں لکھ لے اور اگر تو نے ہمیں نیک لوگوں میں لکھا ہے تو اسے باقی رکھ تو جو چاہے مٹا دے اور جو چاہے باقی رکھے اصل کتاب تیرے ہی پاس ہے “ ۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیت اللہ شریف کا طواف کرتے ہوئے روتے روتے یہ دعا پڑھا کرتے تھے « اللہُمَّ إِنْ کُنْت کَتَبْت عَلَیَّ شِقْوَۃ أَوْ ذَنْبًا فَامْحُہُ فَإِنَّک تَمْحُو مَا تَشَاء وَتُثْبِت وَعِنْدک أُمّ الْکِتَاب فَاجْعَلْہُ سَعَادَۃ وَمَغْفِرَۃ» ” اے اللہ اگر تو نے مجھ پر برائی اور گناہ لکھ رکھے ہیں تو انہیں مٹا دے تو جسے چاہے مٹاتا ہے اور باقی رکھتا ہے ام الکتاب تیرے پاس ہی ہے تو اسے سعادت اور رحمت کر دے “ ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ بھی یہی دعا کیا کرتے تھے ۔ کعب رحمہ اللہ نے امیر المؤمنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ” اگر ایک آیت کتاب اللہ میں نہ ہوتی تو میں قیامت تک جو امور ہونے والے ہیں سب آپ رضی اللہ عنہ کو بتا دیتا ۔ پوچھا کہ وہ کون سی آیت ہے آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی “ ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:401/7:ضعیف و کذب) ان تمام اقوال کا مطلب یہ ہے کہ تقدیر کی الٹ پلٹ اللہ کے اختیار کی چیز ہے ۔ چنانچہ مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے کہ { بعض گناہوں کی وجہ سے انسان اپنی روزی سے محروم کر دیا جاتا ہے اور تقدیر کو دعا کے سوا کوئی چیز بدل نہیں سکتی اور عمر کی زیادتی کرنے والی بجز نیکی کے کوئی چیز نہیں } ۔ نسائی اور ابن ماجہ میں بھی یہ حدیث ہے ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:4022:قال الشیخ الألبانی:حسن دون الجملۃ) اور صحیح حدیث میں ہے کہ { صلہ رحمی عمر بڑھاتی ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5986) اور حدیث میں ہے کہ { دعا اور قضاء دونوں کی مڈبھیڑ آسمان و زمین کے درمیان ہوتی ہے } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:486) ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ” اللہ عزوجل کے پاس لوح محفوظ ہے جو پانچ سو سال کے راستے کی چیز ہے سفید موتی کی ہے یاقوت کے دو پٹھوں کے درمیان ۔ تریسٹھ بار اللہ تعالیٰ اس پر توجہ فرماتا ہے ۔ جو چاہتا ہے مٹاتا ہے جو چاہتا ہے برقرار رکھتا ہے ام الکتاب اسی کے پاس ہے “ ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ { رات کی تین ساعتیں باقی رہنے پر دفتر کھولا جاتا ہے پہلی ساعت میں اس دفتر پر نظر ڈالی جاتی ہے جسے اس کے سوا کوئی اور نہیں دیکھتا پس جو چاہتا ہے مٹاتا ہے جو چاہتا ہے برقرار رکھتا ہے } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:2502:ضعیف) کلبی فرماتے ہیں ” روزی کو بڑھانا گھٹانا عمر کو بڑھانا گھٹانا اس سے مراد ہے “ ، ان سے پوچھا گیا کہ آپ سے یہ بات کس نے بیان کی ؟ فرمایا ” ابوصالح نے ان سے جابر بن عبداللہ بن رباب نے ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ۔ پھر ان سے اس آیت کی بابت سوال ہوا تو جواب دیا کہ ” جمعرات کے دن سب باتیں لکھی جاتی ہیں ان میں سے جو باتیں جزا سزا سے خالی ہوں نکال دی جاتی ہیں جیسے تیرا یہ قول کہ میں نے کھایا ، میں نے پیا ، میں آیا ، میں گیا وغیرہ جو سچی باتیں ہیں اور ثواب عذاب کی چیزیں نہیں اور باقی جو ثواب عذاب کی چیزیں ہیں وہ رکھ لی جاتی ہیں “ ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ ” جو کتابیں ہیں ایک میں کمی زیادتی ہوتی ہے اور اللہ کے پاس ہے اصل کتاب وہی ہے “ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:20487:ضعیف) فرماتے ہیں ” مراد اس سے وہ شخص ہے جو ایک زمانے تک تو اللہ کی اطاعت میں لگا رہتا ہے پھر معصیت میں لگ جاتا ہے اور اسی پر مرتا ہے پس اس کی نیکی محو ہو جاتی ہے اور جس کے لیے ثابت رہتی ہے “ ۔ یہ وہ ہے جو اس وقت تو نافرمانیوں میں مشغول ہے لیکن اللہ کی طرف سے ، اس کے لیے فرمانبرداری پہلے سے مقرر ہو چکی ہے ۔ پس آخری وقت وہ خیر پر لگ جاتا ہے اور طاعت الٰہی میں مرتا ہے ۔ یہ ہے جس کے لیے فرمانبرداری پہلے سے مقرر ہو چکی ہے ۔ پس آخری وقت وہ خیر پر لگ جاتا ہے اور طاعت الٰہی میں مرتا ہے ۔ یہ ہے جس کے لیے ثابت رہتی ہے ۔ سعید بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ ” جسے چاہے بخشے جسے چاہے نہ بخشے “ ، اور آیت میں ہے «فَیَغْفِرُ لِمَن یَشَاءُ وَیُعَذِّبُ مَن یَشَاءُ وَ اللہُ عَلَیٰ کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ» ۱؎ (2-البقرۃ:284) ’ وہ جسے چاہے مغفرت کرے اور جسے چاہے عذاب دے ، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے ‘ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے ” جو چاہتا ہے منسوخ کرتا ہے جو چاہتا ہے تبدیل نہیں کرتا ناسخ کا اختیار اسی کے پاس ہے اور اول بدل بھی “ ۔ بقول قتادہ رحمہ اللہ یہ آیت مثل آیت «مَا نَنسَخْ مِنْ آیَۃٍ أَوْ نُنسِہَا نَأْتِ بِخَیْرٍ مِّنْہَا أَوْ مِثْلِہَا أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللہَ عَلَیٰ کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ» ۱؎ (2-البقرۃ:106) ، کے ہے یعنی ’ جو چاہے منسوخ کر دے جو چاہے باقی اور جاری رکھے ‘ ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” جب اس سے پہلے کی آیت اتری کہ ’ کوئی رسول بغیر اللہ کے فرمان کے کوئی معجزہ نہیں دکھا سکتا ‘ تو قریش کے کافروں نے کہا پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم بالکل بے بس ہیں کام سے تو فراغت حاصل ہو چکی ہے پس انہیں ڈرانے کے لیے یہ آیت اتری کہ ’ ہم جو چاہیں تجدید کر دیں ‘ ہر رمضان میں تجدید ہوتی ہے پھر اللہ جو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے جو چاہتا ہے ثابت رکھتا ہے روزی بھی تکلیف بھی دیتا ہے اور تقسیم بھی ۔ حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” جس کی اجل آ جائے چل بستا ہے نہ آئی ہو رہ جاتا ہے یہاں تک کہ اپنے دن پورے کر لے “ ۔ ابن جریر رحمہ اللہ اسی قول کو پسند فرماتے ہیں ۔ حلال حرام اس کے پاس ہے کتاب کا خلاصہ اور جڑ اسی کے ہاتھ ہے کتاب خود رب العٰلمین کے پاس ہی ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کعب رضی اللہ عنہ سے ام الکتاب کی بابت دریافت کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ ” اللہ نے مخلوق کو اور مخلوق کے اعمال کو جان لیا “ ۔ پھر کہا کہ ” کتاب کی صورت میں ہو جائے ہو گیا “ ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” ام الکتاب سے مراد ذکر ہے “ ۔ الرعد
39 الرعد
40 آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد ’ تیرے دشمنوں پر جو ہمارے عذاب آنے والے ہیں وہ ہم تیری زندگی میں لائیں تو اور تیرے انتقال کے بعد لائے تو تجھے کیا ؟ ‘ «فَذَکِّرْ إِنَّمَا أَنتَ مُذَکِّرٌ لَّسْتَ عَلَیْہِم بِمُصَیْطِرٍ إِلَّا مَن تَوَلَّیٰ وَکَفَرَ فَیُعَذِّبُہُ اللہُ الْعَذَابَ الْأَکْبَرَ إِنَّ إِلَیْنَا إِیَابَہُمْ ثُمَّ إِنَّ عَلَیْنَا حِسَابَہُم» ۱؎ (88-الغاشیۃ:21-26) ’ تیرا کام تو صرف ہمارے پیغام پہنچا دینا ہے وہ تو کر چکا ۔ ان کا حساب ان کا بدلہ ہمارے ہاتھ ہے ۔ تو صرف انہیں نصیحت کر دے تو ان پر کوئی داروغہ اور نگہبان نہیں ۔ جو منہ پھیرے گا اور کفر کرے گا اسے اللہ ہی بڑی سزاؤں میں داخل کر دے گا ان کا لوٹنا تو ہماری طرف ہی ہے اور ان کا حساب بھی ہمارے ذمے ہے ‘ ۔ کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ہم زمین کو تیرے قبضے میں دیتے آ رہے ہیں ؟ کیا وہ نہیں دیکھتے کہ آباد اور عالی شان محل کھنڈر اور ویرانے بنتے جا رہے ہیں ؟ کیا وہ نہیں دیکھتے کہ مسلمان کافروں کو دباتے چلے آ رہے کیا وہ نہیں دیکھتے کہ برکتیں اٹھتی جا رہی ہیں خرابیاں آتی جا رہی ہیں ؟ لوگ مرتے جا رہے ہیں زمین اجڑتی جا رہی ہے ؟ خود زمین ہی اگر تنگ ہوتی جاتی تو تو انسان کو چھپڑ ڈالنا بھی محال ہو جاتا مقصد انسان کا اور درختوں کا کم ہوتے رہنا ہے ۔ مراد اس سے زمین کی تنگی نہیں بلکہ لوگوں کی موت ہے علماء فقہاء اور بھلے لوگوں کی موت بھی زمین کی بربادی ہے ۔ عرب شاعر کہتا ہے «الْأَرْضُ تَحْیَا إِذَا مَا عَاشَ عَالِمُہَا مَتَی یَمُتْ عَالِمٌ مِنْہَا یَمُتْ طَرَف» «کَالْأَرْضِ تَحْیَا إِذَا مَا الْغَیْثُ حَلَّ بِہَا وَإِنْ أَبَی عَادَ فِی أَکْنَافِہَا التَّلَفُ» یعنی جہاں کہیں جو عالم دین ہے وہاں کی زمین کی زندگی اسی سے ہے ۔ اس کی موت اس زمین کی ویرانی اور خرابی ہے ۔ جیسے کہ بارش جس زمین پر برسے لہلہانے لگتی ہے اور اگر نہ برسے تو سوکھنے اور بنجر ہونے لگتی ہے ۔ پس آیت میں مراد اسلام کا شرک پر غالب آنا ہے ، ایک کے بعد ایک بستی کو تابع کرنا ہے ۔ جیسے فرمایا آیت «وَلَقَدْ أَہْلَکْنَا مَا حَوْلَکُم مِّنَ الْقُرَیٰ» ۱؎ (46-الأحقاف:27) الخ ، یہی قول امام ابن جریر رحمہ اللہ کا بھی پسندیدہ ہے ۔ الرعد
41 الرعد
42 کافروں کے شرمناک کارنامے اگلے کافروں نے بھی اپنے نبیوں کے ساتھ مکر کیا ، انہیں نکالنا چاہا ، اللہ نے ان کے مکر کا بدلہ لیا ۔ انجام کار پرہیزگاروں کا ہی بھلا ہوا ۔ اس سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے کافروں کی کارستانی بیان ہو چکی ہے کہ «وَإِذْ یَمْکُرُ بِکَ الَّذِینَ کَفَرُوا لِیُثْبِتُوکَ أَوْ یَقْتُلُوکَ أَوْ یُخْرِجُوکَ وَیَمْکُرُونَ وَیَمْکُرُ اللہُ وَ اللہُ خَیْرُ الْمَاکِرِینَ» ۱؎ (8-الانفال:30) ’ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قید کرنے یا قتل کرنے یا دیس سے نکال دینے کا مشورہ کر رہے تھے وہ گھات میں تھے اور اللہ ان کی گھات میں تھا ۔ بھلا اللہ سے زیادہ اچھی پوشیدہ تدبیر کس کی ہو سکتی ہے ؟ ‘ «وَمَکَرُوا مَکْرًا وَمَکَرْنَا مَکْرًا وَہُمْ لَا یَشْعُرُونَ فَانظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ مَکْرِہِمْ أَنَّا دَمَّرْنَاہُمْ وَقَوْمَہُمْ أَجْمَعِینَ فَتِلْکَ بُیُوتُہُمْ خَاوِیَۃً بِمَا ظَلَمُوا إِنَّ فِی ذٰلِکَ لَآیَۃً لِّقَوْمٍ یَعْلَمُونَ» ۱؎ (27-النمل:52-50) ’ ان کے مکر پر ہم نے بھی یہی کیا اور یہ بے خبر رہے ۔ دیکھ لے کہ ان کے مکر کا انجام کیا ہوا ؟ یہی کہ ہم نے انہیں غارت کر دیا اور ان کی ساری قوم کو برباد کر دیا ان کے ظلم کی شہادت دینے والے ان کی غیر آباد بستیوں کے کھنڈرات ابھی موجود ہیں ‘ ۔ ہر ایک کے ہر ایک عمل سے اللہ تعالیٰ باخبر ہے ، پوشیدہ عمل دل کے خوف اس پر ظاہر ہیں ہر عامل کو اس کے اعمال کا بدلہ دے گا ۔ «الْکُفَّارُ» کی دوسری قرأت «الْکَافِرِ» بھی ہے ۔ ان کافروں کو ابھی معلوم ہو جائے گا کہ انجام کار کس کا اچھا رہتا ہے ، ان کا یا مسلمانوں کا ؟ «اَلْحَمْدُ لِلہِ» اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ حق والوں کو ہی غالب رکھا ہے انجام کے اعتبار سے یہی اچھے رہتے ہیں دنیا آخرت انہی کی سنورتی ہے ۔ الرعد
43 رسالت کے منکر ’ کافر تجھے جھٹلا رہے ہیں ۔ تیری رسالت کے منکر ہیں ۔ تو غم نہ کر کہہ دیا کر کہ اللہ کی شہادت کافی ہے ۔ تیری نبوت کا وہ خود گواہ ہے ، میری تبلیغ پر ، تمہاری تکذیب پر ، وہ شاہد ہے ۔ میری سچائی ، تمہاری تکذیب کو وہ دیکھ رہا ہے ‘ ۔ علم کتاب جس کے پاس ہے اس سے مراد عبداللہ بن سلام ہیں رضی اللہ عنہ ۔ یہ قول مجاہد رحمہ اللہ وغیرہ کا ہے لیکن بہت غریب قول ہے اس لیے کہ یہ آیت مکہ شریف میں اتری ہے اور عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ تو ہجرت کے بعد مدینے میں مسلمان ہوئے ہیں ۔ اس سے زیادہ ظاہر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ ” یہود و نصاری کے حق گو عالم مراد ہیں ہاں ان میں عبداللہ بن سلام بھی ہیں ، سلمان اور تمیم داری وغیرہ رضی اللہ عنہم بھی “ ۔ مجاہد رحمہ اللہ سے ایک روایت میں مروی ہے کہ اس سے مراد بھی خود اللہ تعالیٰ ہے ۔ سعید رحمہ اللہ اس سے انکاری تھے کہ اس سے مراد عبداللہ بن سلام لیے جائیں کیونکہ یہ آیت مکیہ ہے اور آیت کو «مِنْ عِنْدِ اللہِ » پڑھتے تھے ۔ یہی قرأت مجاہد اور حسن بصری رحمہ اللہ علیہم سے بھی مروی ہے ۔ ایک مرفوع حدیث میں بھی قرأت ہے لیکن وہ حدیث ثابت نہیں ۔ ۱؎ (مسند ابویعلیٰ:5574:ضعیف) صحیح بات یہی ہے کہ یہ اسم جنس ہے ہر وہ عالم جو اگلی کتاب کا علم ہے اس میں داخل ہے ان کی کتابوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت موجود تھی ۔ ان کے نبیوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت پیش گوئی کر دی تھی ۔ جیسے فرمان رب ذی شان ہے «وَرَحْمَتِی وَسِعَتْ کُلَّ شَیْءٍ فَسَأَکْتُبُہَا لِلَّذِینَ یَتَّقُونَ وَیُؤْتُونَ الزَّکَاۃَ وَالَّذِینَ ہُم بِآیَاتِنَا یُؤْمِنُونَ الَّذِینَ یَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِیَّ الْأُمِّیَّ الَّذِی یَجِدُونَہُ مَکْتُوبًا عِندَہُمْ فِی التَّوْرَاۃِ وَالْإِنجِیلِ» ۱؎ (7-الأعراف:156-157) یعنی ’ میری رحمت نے تمام چیزوں کو گھیر رکھا ہے میں اسے ان لوگوں کے نام لکھ دوں گا جو متقی ہیں ، زکوٰۃ کے ادا کرنے والے ہیں ، ہماری آیتوں پر ایمان رکھنے والے ہیں ، رسول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے والے ہیں ، جس کا ذکر اپنی کتاب تورات وانجیل میں موجود پاتے ہیں ‘ ۔ اور آیت میں ہے کہ «أَوَلَمْ یَکُن لَّہُمْ آیَۃً أَن یَعْلَمَہُ عُلَمَاءُ بَنِی إِسْرَائِیلَ» ۱؎ (26-الشعراء:197) ’ کیا یہ بات بھی ان کے لیے کافی نہیں کہ اس کے حق ہونے کا علم علماء بنی اسرائیل کو بھی ہے ‘ ۔ ایک بہت ہی غریب حدیث میں ہے کہ { عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے علمائے یہود سے کہا کہ میرا ارادہ ہے کہ اپنے باپ ابراہیم و اسماعیل علیہم السلام کی مسجد میں جا کر عید منائیں ، مکے پہنچے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہیں تھے ، یہ لوگ جب حج سے لوٹے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوئی اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مجلس میں تشریف فرما تھے اور لوگ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے ۔ یہ بھی مع اپنے ساتھیوں کے کھڑے ہو گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف دیکھ کر پوچھا کہ آپ ہی عبداللہ بن سلام ہیں ، کہا ہاں فرمایا : { قریب آؤ } جب قریب گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” کیا تم میرا ذکر تورات میں نہیں پاتے ؟ “ ، انہوں نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے اوصاف میرے سامنے بیان فرمائیے ۔ اسی وقت جبرائیل علیہ السلام آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑے ہو گئے اور حکم دیا کہ کہو آیت «قُلْ ہُوَ اللہُ أَحَدٌ اللہُ الصَّمَدُ لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُولَدْ وَلَمْ یَکُن لَّہُ کُفُوًا أَحَدٌ» ۱؎ (112-الإخلاص:4-1) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری سورت پڑھ سنائی ۔ ابن سلام نے اسی وقت کلمہ پڑھ لیا ، مسلمان ہو گئے ، مدینے واپس چلے آئے لیکن اپنے اسلام کو چھپائے رہے ۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینے پہنچے اس وقت آپ کھجور کے ایک درخت پر چڑھے ہوئے کھجوریں اتار رہے تھے جو آپ کو خبر پہنچی اسی وقت درخت سے کود پڑے ۔ ماں کہنے لگیں کہ اگر موسیٰ علیہ السلام بھی آ جاتے تو تم درخت سے نہ کودتے ۔ کیا بات ہے ؟ جواب دیا کہ اماں جی موسیٰ علیہ السلام کی نبوت سے بھی زیادہ خوشی مجھے ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی یہاں تشریف آوری سے ہوئی ہے } ۔ ۱؎ (ابو نعیم فی الدلائل:246:ضعیف و باطل) اس میں انقطاع ہے ۔ «اَلْحَمْدُ لِلہِ» سورۂ رعد کی تفسیر ختم ہوئی ۔ الرعد
0 ابراھیم
1 تفسیر سورۂ ابراھیم حروف مقطعہ جو سورتوں کے شروع میں آتے ہیں انکا بیان پہلے گزر چکا ہے ۔ اے نبی! یہ عظیم الشان کتاب ہم نے تیری طرف اتاری ہے ۔ یہ کتاب تمام کتابوں سے اعلیٰ ، رسول تمام رسولوں سے افضل و بالا ۔ جہاں اتری وہ جگہ دنیا کی تمام جگہوں سے بہترین اور عمدہ ۔ اس کتاب کا پہلا وصف یہ ہے کہ اس کے ذریعہ سے تو لوگوں کو اندھیروں سے اجالے میں لا سکتا ہے ۔ تیرا پہلا کام یہ ہے کہ گمراہیوں کو ہدایت سے برائیوں کو بھلائیوں سے بدل دے ایمانداروں کا حمایتی خود اللہ ہے وہ انہیں اندھیروں سے اجالے میں لاتا ہے اور کافروں کے کے ساتھی اللہ کے سوا اور ہیں جو انہیں نور سے ہٹا کر تاریکیوں میں پھانس دیتے ہیں ۔ « اللہُ وَلِیٰ الَّذِینَ آمَنُوا یُخْرِجُہُم مِّنَ الظٰلُمَاتِ إِلَی النٰورِ وَالَّذِینَ کَفَرُوا أَوْلِیَاؤُہُمُ الطَّاغُوتُ یُخْرِجُونَہُم مِّنَ النٰورِ إِلَی الظٰلُمَاتِ أُولٰئِکَ أَصْحَابُ النَّارِ ہُمْ فِیہَا خَالِدُونَ» ۱؎ (2-البقرۃ:257) ’ اللہ اپنے غلام پر اپنی روشن اور واضح نشانیاں اتارتا ہے کہ وہ تمہیں تاریکیوں سے ہٹا کر نور کی طرف پہنچا دے ‘ ۔ «الَّذِی یُنَزِّلُ عَلَیٰ عَبْدِہِ آیَاتٍ بَیِّنَاتٍ لِّیُخْرِجَکُم مِّنَ الظٰلُمَاتِ إِلَی النٰورِ وَإِنَّ اللہَ بِکُمْ لَرَءُوفٌ رَّحِیمٌ» ۱؎ (57-الحدید:9) اصل ہادی اللہ ہی ہے رسولوں کے ہاتھوں جن کی ہدایت اسے منظور ہوتی ہے وہ راہ پا لیتے ہیں اور غیر مغلوب پر غالب زبردست اور ہر چیز پر بادشاہ بن جاتے ہیں اور ہر حال میں تعریفوں والے اللہ کی راہ کی طرف ان کی رہبری ہو جاتی ہے ۔ «اللہِ ِ» کی دوسری قرأت «اللہُ» بھی ہے پہلی قرأت بطور صفت کے ہے اور دوسری بطور نئے جملے کے جیسے آیت « قُلْ یَاأَیٰہَا النَّاسُ إِنِّی رَسُولُ اللہِ إِلَیْکُمْ جَمِیعًا الَّذِی لَہُ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ» ۱؎ (7-الأعراف:158) ، میں ۔ جو کافر تیرے مخالف ہیں تجھے نہیں مانتے انہیں قیامت کے دن سخت عذاب ہوں گے ۔ یہ لوگ دنیا کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں دنیا کے لیے پوری کوشش کرتے ہیں اور آخرت کو بھولے بیٹھے ہیں رسولوں کی تابعداری سے دوسروں کو بھی روکتے ہیں راہ حق جو سیدھی اور صاف ہے اسے ٹیڑھی ترچھی کرنا چاہتے ہیں یہ اسی جہالت ضلالت میں رہیں گے لیکن اللہ کی راہ نہ ٹیڑھی ہوئی نہ ہو گی ۔ پھر ایسی حالت میں ان کی صلاحیت کی کیا امید ؟ ابراھیم
2 ابراھیم
3 ابراھیم
4 ہر قوم کی اپنی زبان میں رسول یہ اللہ تعالیٰ جل شانہ کی انتہائی درجے کی مہربانی ہے کہ ہر نبی کو اس کی قومی زبان میں ہی بھیجا تاکہ سمجھنے سمجھانے کی آسانی رہے ۔ مسند میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { ہر نبی رسول کو اللہ تعالیٰ نے اس کی امت کی زبان میں ہی بھیجا ہے } } ۔ (مسند احمد:158/5:ضعیف و منقطع) حق ان پر کھل تو جاتا ہی ہے پھر ہدایت ضلالت اللہ کی طرف سے ہے ، اس کے چاہنے کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا ۔ وہ غالب ہے ، اس کا ہر کام الحکمت سے ہے ، گمراہ وہی ہوتے ہیں جو اس کے مستحق ہوں اور ہدایت پر وہی آتے ہیں جو اس کے مستحق ہوں ۔ چونکہ ہر نبی صرف اپنی اپنی قوم ہی کی طرف بھیجا جاتا رہا اس لیے اسے اس کی قومی زبان میں ہی کتاب اللہ ملتی تھی اور اس کی اپنی زبان بھی وہی ہوتی تھی ۔ آنحضرت محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت عام تھی ساری دنیا کی سب قوموں کی طرف آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے جیسے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ { مجھے پانچ چیزیں خصوصیت سے دی گئی ہیں جو کسی نبی کو عطا نہیں ہوئیں مہینے بھر کی راہ کی دوری پر صرف رعب کے ساتھ میری مدد کی گئی ہے ، میرے لیے ساری زمین مسجد اور پاکیزہ قرار دی گئی ہے ، مجھ پر مال غنیمت حلال کئے گئے ہیں جو مجھ سے پہلے کسی پر حلال نہیں تھے ، مجھے شفاعت سونپی گئی ہے ہر نبی علیہ السلام صرف اپنی قوم ہی کی طرف آتا تھا اور میں تمام عام لوگوں کی طرف رسول اللہ بنایا گیا ہوں } ۔ (صحیح بخاری:335) قرآن یہی فرماتا ہے کہ «قُلْ یَا أَیٰہَا النَّاسُ إِنِّی رَسُولُ اللہِ إِلَیْکُمْ جَمِیعًا» ( 7-الاعراف : 158 ) ’ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اعلان کر دو کہ میں تم سب کی جانب اللہ کا رسول ہوں صلی اللہ علیہ وسلم ‘ ۔ ابراھیم
5 نو نشانیاں ’ جیسے ہم نے تجھے اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے اور تجھ پر اپنی کتاب نازل فرمائی ہے کہ تو لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لے آئے ، اسی طرح ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو بنی اسرائیل کی طرف بھیجا تھا بہت سی نشانیاں بھی دی تھیں ‘ ، جن کا بیان آیت «وَلَقَدْ آتَیْنَا مُوسَیٰ تِسْعَ آیَاتٍ بَیِّنَاتٍ فَاسْأَلْ بَنِی إِسْرَائِیلَ إِذْ جَاءَہُمْ فَقَالَ لَہُ فِرْعَوْنُ إِنِّی لَأَظُنٰکَ یَا مُوسَیٰ مَسْحُورًا» ۱؎ (17-الإسراء:101) میں ہے ۔ انہیں بھی یہی حکم تھا کہ ’ لوگوں کو نیکیوں کی دعوت دے انہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی میں اور جہالت و ضلالت سے ہٹا کر علم و ہدایت کی طرف لے آ ۔ انہیں اللہ کے احسانات یاد دلا ، کہ اللہ نے انہیں فرعون جیسے ظالم و جابر بادشاہ کی غلامی سے آزاد کیا ان کے لیے دریا کو کھڑا کر دیا ان پر ابر کا سایہ کر دیا ان پر من و سلوی اتارا اور بھی بہت سی نعمتیں عطا فرمائیں ‘ ۔ مسند کی مرفوع حدیث میں «بِأَیَّامِ اللہِ » کی تفسیر اللہ کی نعمتوں سے مروی ہے ۔ (مسند احمد:122/5:حدیث صحیح و اسنادہ ضیعف) لیکن ابن جریر رحمہ اللہ میں یہ روایت سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ہی سے موقوفاً بھی آئی ہے اور یہی زیادہ ٹھیک ہے ۔ ہم نے اپنے بندوں بنی اسرائیل کے ساتھ جو احسان کئے فرعون سے نجات دلوانا ، اس کے ذلیل عذابوں سے چھڑوانا ، اس میں ہر صابر و شاکر کے لیے عبرت ہے ۔ جو مصیبت میں صبر کرے اور راحت میں شکر کرے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:418/7) صحیح حدیث میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { مومن کا تمام کام عجیب ہے اسے مصیبت پہنچے تو صبر کرتا ہے وہی اس کے حق میں بہتر ہوتا ہے اور اگر اسے راحت و آرام ملے شکر کرتا ہے اس کا انجام بھی اس کے لیے بہتر ہوتا ہے } } ۔ (صحیح مسلم:2999) ابراھیم
6 اولاد کا قاتل فرمان الٰہی کے مطابق موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کو اللہ کی نعمتیں یاد دلا رہے ہیں ، مثلاً قوم فرعون سے انہیں نجات دلوانا جو انہیں بے وقعت کر کے ان پر طرح طرح کے مظالم ڈھا رہے تھے یہاں تک کہ تمام نرینہ اولاد قتل کر ڈالتے تھے صرف لڑکیوں کو زندہ چھوڑتے تھے ۔ یہ نعمت اتنی بڑی ہے کہ تم اس کی شکر گزاری کی طاقت نہیں رکھتے ۔ یہ مطلب بھی اس جملے کا ہو سکتا ہے کہ فرعونی ایذاء دراصل تمہاری ایک بہت بڑی آزمائش تھی اور یہ بھی احتمال ہے کہ دونوں معنی مراد ہوں ، «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ جیسے فرمان ہے «وَبَلَوْنٰہُمْ بالْحَسَنٰتِ وَالسَّیِّاٰتِ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ» ۱؎ (7-الأعراف:168) یعنی ’ ہم نے انہیں بھلائی برائی سے آزما لیا کہ وہ لوٹ آئیں ، جب اللہ تعالیٰ نے تمہیں آگاہ کر دیا ‘ ۔ اور یہ معنی بھی ممکن ہیں کہ ’ جب اللہ تعالیٰ نے قسم کھائی اپنی عزت و جلالت اور کبریائی کی ‘ ۔ جیسے «وَاِذْ تَاَذَّنَ رَبٰکَ لَیَبْعَثَنَّ عَلَیْہِمْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ مَنْ یَّسُوْمُہُمْ سُوْءَ الْعَذَابِ» ۱؎ (7-الأعراف:167) ، میں ۔ پس اللہ کا حتمی وعدہ ہوا اور اس کا اعلان بھی کہ شکر گزاروں کی نعمتیں اور بڑھ جائیں گی اور ناشکروں کی نعمتوں کے منکروں اور ان کے چھپانے والوں کی نعمتیں اور چھن جائیں گی اور انہیں سخت سزا ہو گی ۔ حدیث میں ہے { بندہ بوجہ گناہ کے اللہ کی روزی سے محروم ہو جاتا ہے } ۔(سنن ابن ماجہ:4022،قال الشیخ الألبانی:حسن دون الجملۃ) مسند احمد میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک سائل گزرا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک کھجور دی ۔ وہ بڑا بگڑا اور کھجور نہ لی ۔ پھر دوسرا سائل گزرا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بھی وہی کھجور دی اس نے اسے بخوشی لے لیا اور کہنے لگا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا عطیہ ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بیس درہم دینے کا حکم فرمایا } ۔ اور روایت میں ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لونڈی سے فرمایا : { اسے لے جاؤ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس چالیس درہم ہیں وہ اسے دلوا دو } } ۔ (مسند احمد:155/3:ضعیف) موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل سے فرمایا کہ ” تم سب اور روئے زمین کی تمام مخلوق بھی ناشکری کرنے لگے تو اللہ کا کیا بگاڑے گا ؟ وہ بندوں سے اور ان کی شکر گزاری سے بے نیاز اور بےپرواہ ہے ۔ تعریفوں کا مالک اور قابل وہی ہے ۔ چنانچہ فرمان ہے «اِنْ تَکْفُرُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنْکُمْ وَلَا یَرْضٰی لِعِبَادِہِ الْکُفْرَ وَاِنْ تَشْکُرُوْا یَرْضَہُ لَکُمْ وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی ثُمَّ اِلٰی رَبِّکُمْ مَّرْجِعُکُمْ فَیُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ اِنَّہٗ عَلِـیْمٌ بِذَات الصٰدُوْرِ» ۱؎ (39-الزمر:7) ’ تم اگر کفر کرو تو اللہ تم سے غنی ہے ‘ ۔ اور آیت میں ہے «کَفَرُوْا وَتَوَلَّوْا وَّاسْتَغْنَی اللّٰہُ وَاللّٰہُ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ» ۱؎ (64-التغابن:6) ’ انہوں نے کفر کیا منہ موڑ لیا تو اللہ نے ان سے مطلقاً بے نیازی برتی ‘ ۔ صحیح مسلم شریف میں حدیثِ قدسی ہے کہ { اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’ اے میرے بندو اگر تمہارے اول آخر انسان جن سب مل کر بہترین تقوے والے دل کے شخص جیسے بن جائیں تو اس سے میرا ملک ذرا سا بھی بڑھ نہ جائے گا اور اگر تمہارے سب اگلے پچھلے انسان جنات بدترین دل کے بن جائیں تو اس وجہ سے میرے ملک میں سے ایک ذرہ بھی نہ گھٹے گا ‘ ۔ ’ اے میرے بندو ! اگر تمہارے اگلے پچھلے انسان جن سب ایک میدان میں کھڑے ہو جائیں اور مجھ سے مانگیں اور میں ہر ایک کا سوال پورا کر دوں تو بھی میرے پاس کے خزانوں میں اتنی ہی کمی آئے گی جتنی کمی سمندر میں سوئی ڈالنے سے ہو ‘ } ۔ (صحیح مسلم:2577) پس ہمارا رب پاک ہے بلند ہے غنی ہے اور حمید ہے ۔ ابراھیم
7 ابراھیم
8 ابراھیم
9 موسیٰ علیہ السلام کا باقی وعظ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا باقی وعظ بیان ہو رہا ہے کہ آپ علیہ السلام نے اپنی قوم کو اللہ کی وہ نعمتیں یاد دلاتے ہوئے فرمایا کہ ” دیکھو تم سے پہلے کے لوگوں پر رسولوں کے جھٹلانے کی وجہ سے کیسے سخت عذاب آئے ؟ اور کس طرح وہ غارت کئے گئے ؟ “ یہ قول تو ہے امام ابن جریر رحمہ اللہ کا لیکن ذرا غور طلب ہے ۔ بظاہر تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ وعظ تو ختم ہو چکا اب یہ نیا بیان قرآن ہے ، کہا گیا ہے کہ ” عادیوں اور ثمودیوں کے واقعات تورات شریف میں تھے اور یہ دونوں واقعات بھی تورات میں تھے “ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ فی الجملہ ان لوگوں کے اور ان جیسے اور بھی بہت سے لوگوں کے واقعات قرآن کریم میں ہمارے سامنے بیان ہو چکے ہیں کہ ان کے پاس اللہ کے پیغمبر اللہ کی آیتیں اور اللہ کے دیئے ہوئے معجزے لے کر پہنچے ان کی گنتی کا علم صرف اللہ ہی کو ہے ۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” نسب کے بیان کرنے والے غلط گو ہیں بہت سے لوگوں کے واقعات قرآن کریم میں ہمارے سامنے بیان ہو چکے ہیں کہ ان کے پاس اللہ کے پیغمبر اللہ کی آیتیں اور اللہ کے دیئے ہوئے معجزے لے کر پہنچے ان کی گنتی کا علم صرف اللہ ہی کو ہے “ ۔ سیدنا عبداللہ فرماتے ہیں ” نسب کے بیان کرنے والے غلط گو ہیں بہت سی امتیں ایسی بھی گزری ہیں جن کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں “ ۔ سیدنا عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ ” معد بن عدنان کے بعد کا نسب نامہ صحیح طور پر کوئی نہیں جانتا “ ۔ وہ اپنے ہاتھ ان کے منہ تک لوٹا لیے گئے کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ رسولوں کے منہ بند کرنے لگے ۔ ایک معنی یہ بھی ہیں کہ وہ اپنے ہاتھ اپنے منہ پر رکھنے لگے کہ محض جھوٹ ہے جو رسول کہتے ہیں ۔ ایک معنی یہ بھی ہیں کہ جواب سے لاچار ہو کر انگلیاں منہ پر رکھ لیں ۔ ایک معنی یہ بھی ہیں کہ اپنے منہ سے انہیں جھٹلانے لگے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہاں پر «فِی» معنی میں ”بے“ کے ہو جیسے بعض عرب کہتے ہیں « أَدْخَلَکَ اللہُ بِالْجَنَّۃِ» یعنی «فِی الْجَنَّۃِ» شعر میں بھی یہ محاورہ مستعمل ہے ، اور بقول مجاہد رحمہ اللہ اس کے بعد کا جملہ اسی کی تفسیر ہے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ انہوں نے مارے غصے کے اپنی انگلیاں اپنے منہ میں ڈال لیں ۔ چنانچہ اور آیت میں منافقین کے بارے میں ہے کہ «وَاِذَا خَلَوْا عَضٰوْا عَلَیْکُمُ الْاَنَامِلَ مِنَ الْغَیْظِ قُلْ مُوْتُوْا بِغَیْظِکُمْ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ بِذَات الصٰدُوْرِ» ۱؎ (3-آل عمران:119) ’ یہ لوگ خلوت میں تمہاری جلن سے اپنی انگلیاں چباتے رہتے ہیں ‘ ۔ یہ بھی ہے کہ ’ کلام اللہ سن کر تعجب سے اپنے ہاتھ اپنے منہ پر رکھ دیتے ہیں اور کہہ گزرتے ہیں کہ ہم تو تمہاری رسالت کے منکر ہیں ہم تمہیں سچا نہیں جانتے بلکہ سخت شبہ میں ہیں ‘ ۔ ابراھیم
10 کفار اور انبیاء میں مکالمات رسولوں کی اور ان کی قوم کے کافروں کی بات چیت بیان ہو رہی ہے ۔ قوم نے اللہ کی عبادت میں شک و شبہ کا اظہار کیا اس پر رسولوں نے کہا اللہ کے بارے میں شک ؟ یعنی اس کے وجود میں شک کیسا ؟ فطرت اس کی شاہد عدل ہے انسان کی بنیاد میں اس کا اقرار موجود ہے ۔ عقل سلیم اس کے ماننے پر مجبور ہے ۔ اچھا اگر دلیل کے بغیر اطمینان نہیں تو دیکھ لو کہ یہ آسمان و زمین کیسے پیدا ہو گئے ؟ موجود کے لیے موجد کا ہونا ضروری ہے ۔ انہیں بغیر نمونہ پیدا کرنے والا وہی «وَحدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ» ہے اس عالم کی تخلیق تو مطیع و مخلوق ہونا بالکل ظاہر ہے اس سے کیا اتنی موٹی بات بھی سمجھ نہیں آتی ؟ کہ اس کا صانع اس کا خالق ہے اور وہی اللہ تعالیٰ ہے جو ہر چیز کا خالق مالک اور معبود بر حق ہے ۔ یا کیا تمہیں اس کی الوہیت اور اس کی وحدانیت میں شک ہے ؟ جب تمام موجودات کا خالق اور موجود وہی ہے تو پھر عبادت میں تنہا وہی کیوں نہ ہو ؟ چونکہ اکثر امتیں خالق کے وجود کے قائل تھیں پھر اوروں کی عبادت انہیں واسطہ اور وسیلہ جان کر اللہ سے نزدیک کرنے والے اور نفع دینے والے سمجھ کر کرتی تھیں اس لیے رسول اللہ علیہم السلام انہیں ان کی عبادتوں سے یہ سمجھا کر روکتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی طرف بلا رہا ہے کہ آخرت میں تمہارے گناہ معاف فرما دے اور جو وقت مقرر ہے اس تک تمہیں اچھائی سے پہنچا دے ہر ایک فضیلت والے کو وہ اس کی فضیلت عنایت فرمائے گا ۔ اب امتوں نے پہلے مقام کو تسلیم کرنے کے بعد جواب دیا کہ تمہاری رسالت ہم کیسے مان لیں تم میں انسانیت تو ہم جیسی ہی ہے اچھا اگر سچے ہو تو زبردست معجزہ پیش کرو جو انسانی طاقت سے باہر ہو ؟ اس کے جواب میں پیغمبران رب علیہم السلام نے فرمایا کہ یہ تو بالکل مسلم ہے کہ ہم تم جیسے ہی انسان ہیں ۔ لیکن رسالت و نبوت اللہ کا عطیہ ہے وہ جسے چاہے دے ۔ انسانیت رسالت کے منافی نہیں ۔ اور جو چیز تم ہمارے ہاتھوں سے دیکھنا چاہتے ہو اس کی نسبت بھی سن لو کہ وہ ہمارے بس کی بات نہیں ہاں ہم اللہ سے طلب کریں گے اگر ہماری دعا مقبول ہوئی تو بیشک ہم دکھا دیں گے مومنوں کو تو ہر کام میں اللہ ہی پر توکل ہے ۔ اور خصوصیت کے ساتھ ہمیں اس پر زیادہ توکل اور بھروسہ ہے اس لیے بھی کہ اس نے تمام راہوں میں سے بہترین راہ دکھائی ۔ تم جتنا چاہو دکھ دو لیکن ان شاءاللہ دامن توکل ہمارے ہاتھ سے چھوٹنے کا نہیں ۔ متوکلین کے گروہ کے لیے اللہ کا توکل کافی وافی ہے ۔ ابراھیم
11 ابراھیم
12 ابراھیم
13 آل لوط کافر جب تنگ ہوئے ، کوئی حجت باقی نہ رہی تو نبیوں کو دھمکانے لگے اور دیس نکالنے سے ڈرانے لگے ۔ قوم شعیب نے بھی اپنے نبی اور مومنوں سے یہی کہا تھا کہ «لَنُخْرِجَنَّکَ یَا شُعَیْبُ وَالَّذِینَ آمَنُوا مَعَکَ مِن قَرْیَتِنَا أَوْ لَتَعُودُنَّ فِی مِلَّتِنَا» ۱؎ (7-الأعراف:88) ’ ہم تمہیں اپنی بستی سے نکال دیں گے ‘ ۔ لوطیوں نے بھی یہی کہا تھا کہ «أَخْرِجُوا آلَ لُوطٍ مِّن قَرْیَتِکُمْ إِنَّہُمْ أُنَاسٌ یَتَطَہَّرُونَ» ۱؎ (27-النمل:55) ’ آل لوط کو اپنے شہر سے نکال دو ، وہ اگرچہ مکر کرتے تھے لیکن اللہ بھی ان کے داؤ میں تھا ‘ ۔ اور آیت میں ہے کہ «وَإِن کَادُوا لَیَسْتَفِزٰونَکَ مِنَ الْأَرْضِ لِیُخْرِجُوکَ مِنْہَا وَإِذًا لَّا یَلْبَثُونَ خِلَافَکَ إِلَّا قَلِیلًا» ۱؎ (17-الاسراء:76) ’ یہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم اس سر زمین سے اکھاڑنے ہی لگے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے نکال دیں ۔ پھر یہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بہت ہی کم ٹھہر پاتے ‘ ۔ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلامتی کے ساتھ مکے سے لے گیا مدینے والوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انصار و مددگار بنا دیا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لشکر میں شامل ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے کافروں سے لڑے اور بتدریج اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ترقیاں دیں یہاں تک کہ بالآخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ بھی فتح کر لیا ۔ اور آیت میں ہے «وَإِذْ یَمْکُرُ بِکَ الَّذِینَ کَفَرُوا لِیُثْبِتُوکَ أَوْ یَقْتُلُوکَ أَوْ یُخْرِجُوکَ وَیَمْکُرُونَ وَیَمْکُرُ اللہُ وَ اللہُ خَیْرُ الْمَاکِرِینَ» ۱؎ (8-الأنفال:30) ’ اور اس واقعہ کا بھی ذکر کیجئے ! جب کہ کافر لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت تدبیر سوچ رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قید کر لیں ، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر ڈالیں یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خارج وطن کر دیں اور وہ تو اپنی تدبیریں کر رہے تھے اور اللہ اپنی تدبیر کر رہا تھا اور سب سے زیادہ مستحکم تدبیر والا اللہ ہے ‘ ۔ اب تو دشمنان دین کے منصوبے خاک میں مل گئے ان کی امیدوں پر اوس پڑ گئی ان کی آرزویں پامال ہو گئیں ۔ اللہ کا دین لوگوں کے دلوں میں مضبوط ہو گیا ، جماعتوں کی جماعتیں دین میں داخل ہونے لگیں ، تمام روئے زمین کے ادیان پر دین اسلام چھا گیا ، کلمہ حق بلند و بالا ہو گیا اور تھوڑے سے زمانے میں مشرق سے مغرب تک اشاعت اسلام ہو گئی «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» ۔ یہاں فرمان ہے کہ ’ ادھر کفار نے نبیوں کو دھمکایا ادھر اللہ نے ان سے سچا وعدہ فرمایا کہ یہی ہلاک ہوں گے اور زمین کے مالک تم بنو گے ‘ ۔ ابراھیم
14 1 جیسے فرمان ہے «وَلَقَدْ سَبَقَتْ کَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِینَ إِنَّہُمْ لَہُمُ الْمَنصُورُونَ وَإِنَّ جُندَنَا لَہُمُ الْغَالِبُونَ» ۱؎ (37-الصافات:171-173) کہ ’ ہمارا کلمہ ہمارے رسولوں کے بارے میں سبقت کر چکا ہے کہ وہی کامیاب ہوں گے اور ہمارا لشکر ہی غالب رہے گا ‘ ۔ اور آیت میں ہے «کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ اِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ» ۱؎ (58-المجادلۃ:21) ’ اللہ لکھ چکا ہے کہ میں اور میرے پیغمبر ہی غالب آئیں گے ، اللہ قوت والا اور عزت والا ہے ‘ ۔ اور آیت میں ارشاد ہے کہ «وَلَقَدْ کَتَبْنَا فِی الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّکْرِ أَنَّ الْأَرْضَ یَرِثُہَا عِبَادِیَ الصَّالِحُونَ» ۱؎ (21-الأنبیاء:105) ’ ذکر کے بعد زبور میں بھی یہی لکھ چکے ہیں کہ زمین کے وارث میرے نیک بندے [ ہی ] ہوں گے ‘ ۔ موسیٰ علیہ السلام نے بھی اپنی قوم سے یہی فرمایا تھا کہ «قَالَ مُوسَیٰ لِقَوْمِہِ اسْتَعِینُوا بِ اللہِ وَاصْبِرُوا إِنَّ الْأَرْضَ لِلہِ یُورِثُہَا مَن یَشَاءُ مِنْ عِبَادِہِ وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِینَ» ۱؎ (7-الأعراف:128) ’ تم اللہ سے مدد طلب کرو ، صبر و برداشت کرو ، زمین اللہ ہی کی ہے ۔ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے وارث بنائے انجام کار پرہیزگاروں کا ہی ہے ‘ ۔ اور جگہ ارشاد ہے «وَاَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِیْنَ کَانُوْا یُسْتَضْعَفُوْنَ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَمَغَارِبَہَا الَّتِیْ بٰرَکْنَا فِیْہَا» ۱؎ (7-الأعراف:137) ’ ضعیف اور کمزور لوگوں کو ہم نے زمین کی مشرق و مغرب کا وارث بنا دیا جہاں ہماری برکتیں تھیں بنی اسرائیل کے صبر کی وجہ سے ہمارا ان سے جو بہترین وعدہ تھا وہ پورا ہو گیا ان کے دشمن فرعون اور فرعونی اور ان کی تمام تیاریاں سب یک مشت خاک میں مل گئیں ‘ ۔ نبیوں سے فرما دیا گیا کہ ’ یہ زمین تمہارے قبضے میں آئے گی یہ وعدے ان کے لیے ہیں جو قیامت کے دن میرے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتے رہیں اور میرے ڈراوے اور عذاب سے خوف کھاتے رہیں ‘ ۔ جیسے فرمان باری ہے «فَأَمَّا مَن طَغَیٰ وَآثَرَ الْحَیَاۃَ الدٰنْیَا فَإِنَّ الْجَحِیمَ ہِیَ الْمَأْوَیٰ وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہِ وَنَہَی النَّفْسَ عَنِ الْہَوَیٰ فَإِنَّ الْجَنَّۃَ ہِیَ الْمَأْوَیٰ» ۱؎ (79-النازعات:41-37) ، یعنی ’ جس نے سرکشی اور دنیوی زندگی کو ترجیح دی اس کا ٹھکانا جہنم ہے ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہِ جَنَّتَانِ» ۱؎ (55-الرحمن:46) ’ اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف جس نے کیا اسے دوہری جنتیں ہیں ‘ ۔ رسولوں نے اپنے رب سے مدد و فتح اور فیصلہ طلب کیا یا یہ کہ ان کی قوم نے اسے طلب کیا جیسے قریش مکہ نے کہا تھا کہ «وَإِذْ قَالُوا اللہُمَّ إِن کَانَ ہٰذَا ہُوَ الْحَقَّ مِنْ عِندِکَ فَأَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَۃً مِّنَ السَّمَاءِ أَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِیمٍ» ۱؎ (8-الأنفال:32) ’ الٰہی اگر یہ حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا یا اور کوئی درد ناک عذاب ہمیں کر ‘ ۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ادھر سے کفار کا مطالبہ ہوا ادھر سے رسولوں نے بھی اللہ سے دعا کی جیسے بدر والے دن ہوا تھا کہ ایک طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعا مانگ رہے تھے دوسری جانب سرداران کفر بھی کہہ رہے تھے کہ الٰہی آج سچے کو غالب کر یہی ہوا بھی ۔ مشرکین سے کلام اللہ میں اور جگہ فرمایا گیا ہے کہ «إِن تَسْتَفْتِحُوا فَقَدْ جَاءَکُمُ الْفَتْحُ وَإِن تَنتَہُوا فَہُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ» ۱؎ (8-الأنفال:19) ’ تم فتح طلب کیا کرتے تھے لو اب وہ آ گئی اب بھی اگر باز آ جاؤ تو تمہارے حق میں بہتر ہے ‘ الخ ۔ نقصان یافتہ وہ ہیں جو متکبر ہوں اپنے تئیں کچھ گنتے ہوں حق سے عناد رکھتے ہوں قیامت کے روز فرمان ہو گا کہ «أَلْقِیَا فِی جَہَنَّمَ کُلَّ کَفَّارٍ عَنِیدٍ مَّنَّاعٍ لِّلْخَیْرِ مُعْتَدٍ مٰرِیبٍ الَّذِی جَعَلَ مَعَ اللہِ إِلٰہًا آخَرَ فَأَلْقِیَاہُ فِی الْعَذَابِ الشَّدِیدِ» ۱؎ (50-ق:26-24) ’ ہر ایک کافر سر کش اور بھلائی سے روکنے والے کو جہنم میں داخل کرو جو اللہ کے ساتھ دوسروں کی پوجا کرتا تھا اسے سخت عذاب میں لے جاؤ ‘ ۔ حدیث شریف میں ہے کہ { «إِنَّہُ یُؤْتَی بِجَہَنَّمَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، فَتُنَادِی الْخَلَائِقَ فَتَقُولُ : إِنِّی وُکِّلْتُ بِکُلِّ جَبَّارٍ عَنِیدٍ» قیامت کے دن جہنم کو لایا جائے گا وہ تمام مخلوق کو ندا کر کے کہے گی کہ میں ہر ایک سر کش ضدی کے لیے مقرر کی گئی ہوں } ۔ (سنن ترمذی:2574 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) الخ ۔ اس وقت ان بد لوگوں کا کیا ہی برا حال ہو گا جب کہ انبیاء علیہم السلام تک اللہ کے سامنے گڑگڑا رہے ہوں گے ۔ «وَرَاء» یہاں پر معنی «أَمَامُ» سامنے کے ہیں جیسے آیت «وَکَانَ وَرَاءَہُم مَّلِکٌ یَأْخُذُ کُلَّ سَفِینَۃٍ غَصْبًا» ۱؎ (18-الکھف:79) میں ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی قرأت ہی «وَکَانَ أَمَامَہُمْ مَلِکٌ» ہے ۔ غرض سامنے سے جہنم اس کی تاک میں ہو گی جس میں جا کر پھر نکلنا ناممکن ہو گا قیامت کے دن تک تو صبح شام وہ پیش ہوتی رہی اب وہی ٹھکانا بن گئی پھر وہاں اس کے لیے پانی کے بدلے آگ جیسا پیپ ہے اور حد سے زیادہ ٹھنڈا اور بدبودار وہ پانی ہے جو جہنمیوں کے زخموں سے رستا ہے ۔ جیسے فرما «ہٰذَا فَلْیَذُوقُوہُ حَمِیمٌ وَغَسَّاقٌ وَآخَرُ مِن شَکْلِہِ أَزْوَاجٌ» ۱؎ (38-ص:58،57) پس ایک گرمی میں حد سے گزرا ہوا ایک سردی میں حد سے گزرا ہوا ۔ «صَدِیدٍ» کہتے ہیں پیپ اور خون کو جو دوزخیوں کے گوشت سے اور ان کی کھالوں سے بہا ہوا ہوگا ۔ اسی کو «طِینَۃُ الْخَبَالِ» بھی کہا جاتا ہے ۔ (مسند احمد:460/6:ضعیف) مسند احمد میں ہے کہ { جب اس کے پاس لایا جائے گا تو اسے سخت تکلیف ہو گی منہ کے پاس پہنچتے ہی سارے چہرے کی کھال جھلس کر اس میں گر پڑے گی ۔ ایک گھونٹ لیتے ہی پیٹ کی آنتیں پاخانے کے راستے باہر نکل پڑیں گی } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2583،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) اللہ کا فرمان ہے کہ «وَسُقُوا مَاءً حَمِیمًا فَقَطَّعَ أَمْعَاءَہُمْ» ۱؎ (47-محمد:15) ’ جنہیں گرم کھولتا ہوا پانی پلایا جائے گا جو ان کی آنتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَإِن یَسْتَغِیثُوا یُغَاثُوا بِمَاءٍ کَالْمُہْلِ یَشْوِی الْوُجُوہَ بِئْسَ الشَّرَابُ» ۱؎ (18-الکھف:29) ’ ان کی تواضع اس پانی سے کی جائے گی جو تیل کی تلچھٹ جیسا ہو گا جو چہرے بھون دے گا بڑا ہی برا پانی ہے ‘ ۔ جبراً گھونٹ گھونٹ کر کے اتارے گا ، فرشتے لوہے کے گرز مار مار کر پلائیں گے ، بدمزگی ، بدبو ، حرارت ، گرمی کی تیزی یا سردی کی تیزی کی وجہ سے گلے سے اترنا محال ہو گا ۔ بدن میں ، اعضاء میں ، جوڑ جوڑ میں وہ درد اور تکلیف ہو گی کہ موت کا مزہ آئے لیکن موت آنے کی نہیں ۔ رگ رگ پر عذاب ہے لیکن جان نہیں نکلتی ۔ ایک ایک رواں ناقابل برداشت مصیبت میں جکڑا ہوا ہے لیکن روح بدن سے جدا نہیں ہو سکتی ۔ آگے پیچھے دائیں بائیں سے موت آ رہی ہے لیکن آتی نہیں ۔ طرح طرح کے عذاب دوزخ کی آگ گھیرے ہوئے ہے مگر موت بلائے سے بھی نہیں آتی ۔ نہ موت آئے نہ عذاب جائے ۔ ہر سزا ایسی ہے کہ موت کے لیے کافی سے زیادہ ہے لیکن وہاں تو موت کو موت آ گئی ہے تاکہ سزا دوام والی ہوتی رہے ۔ ان تمام باتوں کے ساتھ پھر سخت تر مصیبت ناک الم افزا عذاب اور ہیں ۔ جیسے زقوم کے درخت کے بارے میں فرمایا کہ « إِنَّہَا شَجَرَۃٌ تَخْرُجُ فِی أَصْلِ الْجَحِیمِ طَلْعُہَا کَأَنَّہُ رُءُوسُ الشَّیَاطِینِ فَإِنَّہُمْ لَآکِلُونَ مِنْہَا فَمَالِئُونَ مِنْہَا الْبُطُونَ ثُمَّ إِنَّ لَہُمْ عَلَیْہَا لَشَوْبًا مِنْ حَمِیمٍ ثُمَّ إِنَّ مَرْجِعَہُمْ لَإِلَی الْجَحِیمِ» ۱؎ (37-الصافات:68-64) ’ وہ جہنم کی جڑ سے نکلتا ہے جس کے شگوفے شیطانوں کے سروں جیسے ہیں وہ اسے کھائیں گے اور پیٹ بھر کے کھائیں گے پھر کھولتا ہوا تیز گرم پانی پیٹ میں جا کر اس سے ملے گا پھر ان کا لوٹنا جہنم کی جانب ہے ‘ ۔ الغرض کبھی زقوم کھانے کا کبھی آگ میں جلنے کا کبھی صدید پینے کا عذاب انہیں ہوتا رہے گا ۔ اللہ کی پناہ ۔ فرمان رب عالیشان ہے آیت «ہٰذِہٖ جَہَنَّمُ الَّتِیْ یُکَذِّبُ بِہَا الْمُجْرِمُوْنَ» ۱؎ (55-الرحمن:43) ’ یہی وہ جہنم ہے جسے کافر جھٹلاتے رہے ‘ ۔ آج جہنم کے اور ابلتے ہوئے تیز گرم پانی کے درمیان وہ چکر کھاتے پھریں گے ۔ اور آیت میں ہے کہ «إِنَّ شَجَرَۃَ الزَّقٰومِ طَعَامُ الْأَثِیمِ کَالْمُہْلِ یَغْلِی فِی الْبُطُونِ کَغَلْیِ الْحَمِیمِ خُذُوہُ فَاعْتِلُوہُ إِلَی سَوَاءِ الْجَحِیمِ ثُمَّ صُبٰوا فَوْقَ رَأْسِہِ مِنْ عَذَابِ الْحَمِیمِ ذُقْ إِنَّکَ أَنْتَ الْعَزِیزُ الْکَرِیمُ إِنَّ ہَذَا مَا کُنْتُمْ بِہِ تَمْتَرُونَ» ۱؎ (44-الدخان:43-50) ’ زقوم کا درخت گنہگاروں کی غذا ہے جو پگھلتے ہوئے تانبے جیسا ہوگا ، پیٹ میں جا کر ابلے گا اور ایسے جوش مارے گا جیسے گرم پانی کھول رہا ہو ۔ اسے پکڑو اور اسے بیچ جہنم میں ڈال دو پھر اس کے سر پر گرم پانی کے تریڑے کا عذاب بہاؤ مزہ چکھ تو اپنے خیال میں بڑا عزیز تھا اور اکرام والا تھا یہی جس سے تم ہمیشہ شک شبہ کرتے رہے ‘ ۔ سورۃ الواقعہ میں فرمایا کہ «وَأَصْحَابُ الشِّمَالِ مَا أَصْحَابُ الشِّمَالِ فِی سَمُومٍ وَحَمِیمٍ وَظِلٍّ مِّن یَحْمُومٍ لَّا بَارِدٍ وَلَا کَرِیمٍ» (56-الواقعۃ:41-44) ’ وہ لوگ جن کے بائیں ہاتھ میں نامہ اعمال دئے جائیں گے یہ بائیں ہاتھ والے کیسے بد لوگ ہیں گرم ہوا اور گرم پانی میں پڑے ہوئے ہوں گے اور دھوئیں کے سائے میں جو نہ ٹھنڈا نہ باعزت ‘ ۔ دوسری آیت میں ہے «ہَذَا وَإِنَّ لِلطَّاغِینَ لَشَرَّ مَآبٍ جَہَنَّمَ یَصْلَوْنَہَا فَبِئْسَ الْمِہَادُ ہَذَا فَلْیَذُوقُوہُ حَمِیمٌ وَغَسَّاقٌ وَآخَرُ مِنْ شَکْلِہِ أَزْوَاجٌ» ۱؎ (38-ص:58-55) ’سرکشوں کے لیے جہنم کا برا ٹھکانا ہے جس میں داخل ہوں گے اور وہ رہائش کی بدترین جگہ ہے اس مصیبت کے ساتھ تیز گرم پانی اور پیپ لہو اور اسی کے ہم شکل اور بھی قسم قسم کے عذاب ہوں گے جو دوزخیوں کو بھگتنے پڑیں گے جنہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ‘ ۔ «وَمَا رَبٰکَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِیدِ» ۱؎ (41-فصلت:46) ’ یہ ان کے اعمال کا بدلہ ہو گا نہ کہ اللہ کا ظلم ‘ ۔ ابراھیم
15 ابراھیم
16 ابراھیم
17 ابراھیم
18 بے سود اعمال کافر جو اللہ کے ساتھ دوسروں کی عبادتوں کے خوگر تھے پیغمبروں کی نہیں مانتے تھے جن کے اعمال ایسے تھے جیسے بنیاد کے بغیر عمارت ہو جن کا نتیجہ یہ ہوا کہ سخت ضرورت کے وقت خالی ہاتھ کھڑے رہ گئے ۔ پس فرمان ہے کہ ’ ان کافروں کی یعنی ان کے اعمال کی مثال ۔ قیامت کے دن جب کہ یہ پورے محتاج ہوں گے سمجھ رہے ہوں گے کہ اب ابھی ہماری بھلائیوں کا بدلہ ہمیں ملے گا لیکن کچھ نہ پائیں گے ، مایوس رہ جائیں گے ، حسرت سے منہ تکنے لگیں گے ‘ ۔ «وَقَدِمْنَا إِلَیٰ مَا عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاہُ ہَبَاءً مَّنثُورًا» ۱؎ (25-الفرقان:23) جیسے تیز آندھی والے دن ہوا راکھ کو اڑا کر ذرہ ذرہ ادھر ادھر بکھیر دے اسی طرح ان کے اعمال محض اکارت ہو گئے جیسے اس بکھری ہوئی اور اڑی ہوئی راکھ کا جمع کرنا محال ایسے ہی ان کے بےسود اعمال کا بدلہ محال ۔ وہ تو وہاں ہوں گے ہی نہیں ان کے آنے سے پہلے ہی «ھَبَاۤءً مَّنْشُوْراً» ہو گئے ۔ «مَثَلُ مَا یُنْفِقُونَ فِی ہَذِہِ الْحَیَاۃِ الدٰنْیَا کَمَثَلِ رِیحٍ فِیہَا صِرٌّ أَصَابَتْ حَرْثَ قَوْمٍ ظَلَمُوا أَنْفُسَہُمْ فَأَہْلَکَتْہُ» ۱؎ (3-آل عمران:117) ’ یہ کفار جو کچھ اس حیات دنیا میں خرچ کرتے ہیں اس کی مثال اس آگ کے گولے جیسی ہے جو ظالموں کی کھیتی جھلسا دے ۔ اللہ ظالم نہیں لیکن وہ اپنے اوپر خود ظلم کرتے ہیں ‘ ۔ اور آیت میں ہے کہ «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِکُم بِالْمَنِّ وَالْأَذَیٰ کَالَّذِی یُنفِقُ مَالَہُ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا یُؤْمِنُ بِ اللہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَمَثَلُہُ کَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَیْہِ تُرَابٌ فَأَصَابَہُ وَابِلٌ فَتَرَکَہُ صَلْدًا لَّا یَقْدِرُونَ عَلَیٰ شَیْءٍ مِّمَّا کَسَبُوا وَ اللہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْکَافِرِینَ» ۱؎ (2-البقرہ:264) ’ ایمان والو ! اپنے صدقے خیرات احسان رکھ کر اور ایذاء دے کر برباد نہ کرو جیسے وہ جو ریا کاری کے لیے خرچ کرتا ہو اور اللہ پر اور قیامت پر ایمان نہ رکھتا ہو اس کی مثال اس چٹان کی طرح ہے جس پر مٹی تھی لیکن بارش کے پانی نے اسے دھو دیا اب وہ بالکل صاف ہو گیا یہ لوگ اپنی کمائی میں سے کسی چیز پر قادر نہیں اللہ تعالیٰ کافروں کی رہبری نہیں فرماتا ‘ ۔ اس آیت میں ارشاد ہوا کہ ’ یہ دور کی گمراہی ہے ان کی کوشش ان کے کام بے پایہ اور بے ثبات ہیں سخت حاجت مندی کے وقت ثواب گم پائیں گے یہی انتہائی بد قسمتی ہے ‘ ۔ ابراھیم
19 حیات ثانیہ اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ «أَوَلَمْ یَرَوْا أَنَّ اللہَ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَلَمْ یَعْیَ بِخَلْقِہِنَّ بِقَادِرٍ عَلَیٰ أَن یُحْیِیَ الْمَوْتَیٰ بَلَیٰ إِنَّہُ عَلَیٰ کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ» ۱؎ (46-الأحقاف:33) ’ قیامت کے دن کی دوبارہ پیدائش پر میں قادر ہوں ۔ جب میں نے آسمان زمین کی پیدائش کر دی تو انسان کی پیدائش مجھ پر کیا مشکل ہے ۔ آسمان کی اونچائی کشادگی بڑائی پھر اس میں ٹھہرے ہوئے اور چلتے پھرتے ستارے ۔ اور یہ زمین پہاڑوں اور جنگلوں درختوں اور حیوانوں والی سب اللہ ہی کی بنائی ہوئی ہے جو ان کی پیدائش سے عاجز نہ آیا وہ کیا مردوں کے دوبارہ زندہ کرنے پر قادر نہیں ؟ بیشک قادر ہے ‘ ۔ سورۃ یاسین میں فرمایا کہ «أَوَلَمْ یَرَ الْإِنسَانُ أَنَّا خَلَقْنَاہُ مِن نٰطْفَۃٍ فَإِذَا ہُوَ خَصِیمٌ مٰبِینٌ وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَنَسِیَ خَلْقَہُ قَالَ مَن یُحْیِی الْعِظَامَ وَہِیَ رَمِیمٌ قُلْ یُحْیِیہَا الَّذِی أَنشَأَہَا أَوَّلَ مَرَّۃٍ وَہُوَ بِکُلِّ خَلْقٍ عَلِیمٌ الَّذِی جَعَلَ لَکُم مِّنَ الشَّجَرِ الْأَخْضَرِ نَارًا فَإِذَا أَنتُم مِّنْہُ تُوقِدُونَ أَوَلَیْسَ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِقَادِرٍ عَلَیٰ أَن یَخْلُقَ مِثْلَہُم بَلَیٰ وَہُوَ الْخَلَّاقُ الْعَلِیمُ إِنَّمَا أَمْرُہُ إِذَا أَرَادَ شَیْئًا أَن یَقُولَ لَہُ کُن فَیَکُونُ فَسُبْحَانَ الَّذِی بِیَدِہِ مَلَکُوتُ کُلِّ شَیْءٍ وَإِلَیْہِ تُرْجَعُونَ» ۱؎ (36-یس:77-83) ’ کیا انسان نے نہیں دیکھا کہ ہم نے اسے نطفے سے پیدا کیا پھر وہ جھگڑا لو بن بیٹھا ۔ ہمارے سامنے مثالیں بیان کرنے لگا اپنی پیدائش بھول گیا اور کہنے لگا ان بوسیدہ ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا ؟ کہہ دے کہ وہی اللہ جس نے انہیں اول بار پیدا کیا وہ ہر چیز کی پیدائش کو بخوبی جانتا ہے اسی نے سبز درخت سے تمہارے لیے آگ بنائی ہے کہ تم اسے جلاتے ہو ۔ کیا آسمان و زمین کا خالق ان جیسوں کی پیدائش پر قادر نہیں ؟ بیشک ہے ، وہی بڑا خالق اور بہت بڑا عالم ہے اس کے ارادے کے بعد اس کا صرف اتنا حکم بس ہے کہ ہو جا اسی وقت وہ ہو جاتا ہے وہ اللہ پاک ہے جس کے ہاتھ میں ہر چیز کی بادشاہت ہے اور جس کی طرف تمہارا سب کا لوٹنا ہے ‘ ۔ «یَا أَیٰہَا النَّاسُ أَنتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَی اللہِ وَ اللہُ ہُوَ الْغَنِیٰ الْحَمِیدُ إِن یَشَأْ یُذْہِبْکُمْ وَیَأْتِ بِخَلْقٍ جَدِیدٍ وَمَا ذٰلِکَ عَلَی اللہِ بِعَزِیزٍ» ۱؎ (35-فاطر:15-17) ’ اس کے قبضے میں ہے کہ اگر چاہے تو تم سب کو فنا کر دے اور نئی مخلوق تمہارے قائم مقام یہاں آباد کر دے اس پر یہ کام بھی بھاری نہیں تم اس کے امر کا خلاف کرو گے تو یہی ہو گا ‘ ۔ جیسے فرمایا «وَإِن تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ ثُمَّ لَا یَکُونُوا أَمْثَالَکُم» ۱؎ (47-محمد:38) ’ اگر تم منہ موڑ لو گے تو وہ تمہارے بدلے اور قوم لائے گا جو تمہاری طرح کی نہ ہوگی ‘ ۔ اور آیت میں ہے «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آمَنُوا مَن یَرْتَدَّ مِنکُمْ عَن دِینِہِ فَسَوْفَ یَأْتِی اللہُ بِقَوْمٍ یُحِبٰہُمْ وَیُحِبٰونَہُ» ۱؎ (5-المائدہ:54) ’ اے ایمان والو تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے تو اللہ تعالیٰ ایک ایسی قوم کو لائے گا جو اس کی پسندیدہ ہوگی اور اس سے محبت رکھنے والی ہو گی ‘ ۔ اور جگہ ہے «إِن یَشَأْ یُذْہِبْکُمْ أَیٰہَا النَّاسُ وَیَأْتِ بِآخَرِینَ وَکَانَ اللہُ عَلَیٰ ذٰلِکَ قَدِیرًا» ۱؎ (4-النساء:133) ’ اگر وہ چاہے تمہیں برباد کر دے اور دوسرے لائے اللہ اس پر قادر ہے ‘ ۔ ابراھیم
20 ابراھیم
21 چٹیل میدان اور مخلوقات صاف چٹیل میدان میں ساری مخلوق نیک و بد اللہ کے سامنے موجود ہو گی ۔ اس وقت جو لوگ ماتحت تھے ان سے کہیں گے جو سردار اور بڑے تھے ۔ اور جو انہیں اللہ کی عبادت اور رسول علیہم السلام کی اطاعت سے روکتے تھے ، کہ ہم تمہارے تابع فرمان تھے جو حکم تم دیتے تھے ہم بجا لاتے تھے ۔ جو تم فرماتے تھے ہم مانتے تھے ۔ پس جیسے کہ تم ہم سے وعدے کرتے تھے اور ہمیں تمنائیں دلاتے تھے کیا آج اللہ کے عذابوں کو ہم سے ہٹاؤ گے ؟ اس وقت یہ پیشوا اور سردار کہیں گے کہ ہم تو خود راہ راست پر نہ تھے تمہاری رہبری کیسے کرتے ؟ ہم پر اللہ کا کلمہ سبقت کرگیا ، عذاب کے مستحق ہم سب ہو گئے اب نہ ہائے وائے اور نہ بے قراری نفع دے اور نہ صبر و برداشت ۔ عذاب کے بچاؤ کی تمام صورتیں ناپید ہیں ۔ حضرت عبدالرحمٰن بن زید فرماتے ہیں کہ دوزخی لوگ کہیں گے کہ دیکھو یہ مسلمان اللہ کے سامنے روتے دھوتے تھے اس وجہ سے وہ جنت میں پہنچے ، آؤ ہم بھی اللہ کے سامنے روئیں گڑگڑائیں ۔ خوب روئیں پیٹیں گے ، چیخیں چلائیں گے لیکن بےسود رہے گا تو کہیں گے جنتیوں کے جنت میں جانے کی ایک وجہ صبر کرنا تھی ۔ آؤ ہم بھی خاموش اور صبر اختیار کریں اب ایسا صبر کریں گے کہ ایسا صبر کبھی دیکھا نہیں گیا لیکن یہ بھی لا حاصل رہے گا اس وقت کہیں گے ہائے صبر بھی بےسود اور بے قراری بھی بے نفع ۔ ظاہر تو یہ ہے کہ پیشواؤں اور تابعداروں کی یہ بات چیت جہنم میں جانے کے بعد ہو گی ۔ جیسے آیت «وَإِذْ یَتَحَاجٰونَ فِی النَّارِ فَیَقُولُ الضٰعَفَاءُ لِلَّذِینَ اسْتَکْبَرُوا إِنَّا کُنَّا لَکُمْ تَبَعًا فَہَلْ أَنتُم مٰغْنُونَ عَنَّا نَصِیبًا مِّنَ النَّارِقَالَ الَّذِینَ اسْتَکْبَرُوا إِنَّا کُلٌّ فِیہَا إِنَّ اللہَ قَدْ حَکَمَ بَیْنَ الْعِبَادِ» ۱؎ (40-غافر:48 ، 47) ، ’ جب کہ وہ جہنم میں جھگڑیں گے اس وقت ضعیف لوگ تکبر والوں سے کہیں گے کہ ہم تمہارے ماتحت تھے تو کیا آگ کے کسی حصہ سے تم ہمیں نجات دلا سکو گے ؟ وہ متکبر لوگ کہیں گے ہم تو سب جہنم میں موجود ہیں اللہ کے فیصلے بندوں میں ہو چکے ہیں ‘ ۔ اور آیت میں ہے «قَالَ ادْخُلُوا فِی أُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِکُم مِّنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ فِی النَّارِ کُلَّمَا دَخَلَتْ أُمَّۃٌ لَّعَنَتْ أُخْتَہَا حَتَّیٰ إِذَا ادَّارَکُوا فِیہَا جَمِیعًا قَالَتْ أُخْرَاہُمْ لِأُولَاہُمْ رَبَّنَا ہٰؤُلَاءِ أَضَلٰونَا فَآتِہِمْ عَذَابًا ضِعْفًا مِّنَ النَّارِ قَالَ لِکُلٍّ ضِعْفٌ وَلٰکِن لَّا تَعْلَمُونَ وَقَالَتْ أُولَاہُمْ لِأُخْرَاہُمْ فَمَا کَانَ لَکُمْ عَلَیْنَا مِن فَضْلٍ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا کُنتُمْ تَکْسِبُونَ» ۱؎ (7-الأعراف:39 ، 38) ’ فرمائے گا کہ جاؤ ان لوگوں میں شامل ہو جاؤ جو انسان جنات تم سے پہلے جہنم میں پہنچ چکے ہیں جو گروہ جائے گا وہ دوسرے کو لعنت کرتا جائے گا ۔ جب سب کے سب جمع ہو جائیں گے تو پچھلے پہلوں کی نسبت جناب باری میں عرض کریں گے کہ پروردگار ان لوگوں نے ہمیں تو بہکا دیا ۔ انہیں دوہرا عذاب کر ۔ جواب ملے گا کہ ہر ایک کو دوہرا ہے لیکن تم نہیں جانتے ۔ اور اگلے پچھلوں سے کہیں گے کہ تمہیں ہم پر فضیلت نہیں تھی اپنے کئے ہوئے کاموں کے بدلے کا عذاب چکھو ‘ ۔ اور آیت میں ہے کہ وہ کہیں گے «وَقَالُوا رَبَّنَا إِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَکُبَرَاءَنَا فَأَضَلٰونَا السَّبِیلَا رَبَّنَا آتِہِمْ ضِعْفَیْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنْہُمْ لَعْنًا کَبِیرًا» ۱؎ (33-الأحزاب:68،67) الخ ، ’ اے ہمارے پروردگار ہم نے اپنے پیشواؤں اور بڑوں کی اطاعت کی جنہوں نے ہمیں راستے سے بھٹکا دیا اے ہمارے پالنہار تو انہیں دوہرا عذاب کر اور بڑی لعنت کر ‘ ۔ یہ لوگ محشر میں بھی جھگڑیں گے فرمان ہے «وَقَالَ الَّذِینَ کَفَرُوا لَن نٰؤْمِنَ بِہٰذَا الْقُرْآنِ وَلَا بِالَّذِی بَیْنَ یَدَیْہِ وَلَوْ تَرَیٰ إِذِ الظَّالِمُونَ مَوْقُوفُونَ عِندَ رَبِّہِمْ یَرْجِعُ بَعْضُہُمْ إِلَیٰ بَعْضٍ الْقَوْلَ یَقُولُ الَّذِینَ اسْتُضْعِفُوا لِلَّذِینَ اسْتَکْبَرُوا لَوْلَا أَنتُمْ لَکُنَّا مُؤْمِنِینَ قَالَ الَّذِینَ اسْتَکْبَرُوا لِلَّذِینَ اسْتُضْعِفُوا أَنَحْنُ صَدَدْنَاکُمْ عَنِ الْہُدَیٰ بَعْدَ إِذْ جَاءَکُم بَلْ کُنتُم مٰجْرِمِینَ وَقَالَ الَّذِینَ اسْتُضْعِفُوا لِلَّذِینَ اسْتَکْبَرُوا بَلْ مَکْرُ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ إِذْ تَأْمُرُونَنَا أَن نَّکْفُرَ بِ اللہِ وَنَجْعَلَ لَہُ أَندَادًا وَأَسَرٰوا النَّدَامَۃَ لَمَّا رَأَوُا الْعَذَابَ وَجَعَلْنَا الْأَغْلَالَ فِی أَعْنَاقِ الَّذِینَ کَفَرُوا ہَلْ یُجْزَوْنَ إِلَّا مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ» ۱؎ (34-سبأ:33-31) ’ کاش کہ تو دیکھتا جب کہ ظالم لوگ اللہ کے سامنے کھڑے ہوئے ایک دوسرے سے لڑ جھگڑ رہے ہوں گے تابعدار لوگ اپنے بڑوں سے کہتے ہوں گے کہ کیا ہدایت آ جانے کے بعد ہم نے تمہیں اس سے روک دیا ؟ نہیں بلکہ تم تو آپ گنہگار بدکار تھے ۔ یہ کمزور لوگ پھر ان زور اوروں سے کہیں گے کہ تمہارے رات دن کے داؤ گھات اور ہمیں یہ حکم دینا کہ ہم اللہ سے کفر کریں اس کے شریک ٹھرائیں اب سب لوگ پوشیدہ طور پر اپنی اپنی جگہ نادم ہو جائیں گے جب کہ عذابوں کو سامنے دیکھ لیں گے ہم کافروں کی گردنوں میں طوق ڈال دیں گے انہیں ان کے اعمال کا بدلہ ضرور ملے گا ‘ ۔ ابراھیم
22 طوطا چشم دشمن شیطان اللہ تعالیٰ جب بندوں کی قضاء سے فارغ ہوگا ، مومن جنت میں کافر دوزخ میں پہنچ جائیں گے ، اس وقت ابلیس ملعون جہنم میں کھڑا ہو کر ان سے کہے گا کہ ” اللہ کے وعدے سچے اور بر حق تھے ، رسولوں کی تابعداری میں ہی نجات اور سلامتی تھی ، میرے وعدے تو دھوکے تھے میں تو تمہیں غلط راہ پر ڈالنے کے لیے سبز باغ دکھایا کرتا تھا ۔ میری باتیں بے دلیل تھیں میرا کلام بے حجت تھا ۔ میرا کوئی زور غلبہ تم پر نہ تھا تم تو خواہ مخواہ میری ایک آواز پر دوڑ پڑے ۔ میں نے کہا تم نے مان لیا رسولوں کی سچے وعدے ان کی با دلیل آواز ان کی کامل حجت والی دلیلیں تم نے ترک کر دیں ۔ ان کی مخالفت اور میری موافقت کی ۔ جس کا نتیجہ آج اپنی آنکھوں سے تم نے دیکھ لیا یہ تمہارے اپنے کرتوتوں کا بدلہ ہے مجھے ملامت نہ کرنا بلکہ اپنے نفس کو ہی الزام دینا ، گناہ تمہارا اپنا ہے خود تم نے دلیلیں چھوڑیں تم نے میری بات مانی آج میں تمہارے کچھ کام نہ آؤں گا نہ تمہیں بچا سکوں نہ نفع پہنچا سکوں ۔ میں تو تمہارے شرک کے باعث تمہارا منکر ہوں میں صاف کہتا ہوں کہ میں شریک اللہ نہیں “ ۔ جیسے فرمان الٰہی ہے «مَنْ أَضَلٰ مِمَّن یَدْعُو مِن دُونِ اللہِ مَن لَّا یَسْتَجِیبُ لَہُ إِلَیٰ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ وَہُمْ عَن دُعَائِہِمْ غَافِلُونَ وَإِذَا حُشِرَ النَّاسُ کَانُوا لَہُمْ أَعْدَاءً وَکَانُوا بِعِبَادَتِہِمْ کَافِرِینَ» ۱؎ (46-الأحقاف5 ، 6) ، ’ اس سے بڑھ کر گمراہ کون ہے ؟ جو اللہ کے سوا اوروں کو پکارے جو قیامت تک اس کی پکار کو قبول نہ کر سکیں بلکہ اس کے پکارنے سے محض غافل ہوں اور محشر کے دن ان کے دشمن اور ان کی عبادت کے منکر بن جائیں ‘ ۔ اور آیت میں ہے «کَلَّا سَیَکْفُرُونَ بِعِبَادَتِہِمْ وَیَکُونُونَ عَلَیْہِمْ ضِدًّا» ۱؎ (19-مریم:82) ، ’ یقیناً وہ لوگ ان کی عبادتوں سے منکر ہو جائیں گے اور ان کے دشمن بن جائیں گے ‘ ۔ یہ ظالم لوگ ہیں اس لیے کہ حق سے منہ پھیر لیا باطل کے پیرو کار بن گئے ایسے ظالموں کے لیے المناک عذاب ہیں ۔ پس ظاہر ہے کہ ابلیس کا یہ کلام دوزخیوں سے دوزخ میں داخل ہونے کے بعد ہوگا ۔ تاکہ وہ حسرت و افسوس میں اور بڑھ جائیں ۔ لیکن ابن ابی حاتم کی ایک حدیث میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { جب اگلوں پچھلوں کو اللہ تعالیٰ جمع کرے گا اور ان میں فیصلے کر دے گا فیصلوں کے وقت عام گھبراہٹ ہوگی ۔ مومن کہیں گے ہم میں فیصلے ہو رہے ہیں ، اب ہماری سفارش کے لیے کون کھڑا ہوگا ؟ پس آدم ، نوح ، ابراہیم ، موسیٰ ، عیسیٰ علیہم السلام کے پاس جائیں گے ۔ عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچو چنانچہ وہ میرے پاس آئیں گے ۔ مجھے کھڑا ہونے کی اللہ تبارک و تعالیٰ اجازت دے گا اسی وقت میری مجلس سے پاکیزہ تیز اور عمد خوشبو پھیلے گی کہ اس سے بہتر اور عمدہ خوشبو کھبی کسی نے نہ سونگھی ہو گی میں چل کر رب العالمین کے پاس آؤں گا میرے سر کے بالوں سے لے کر میرے پیر کے انگوٹھے تک نورانی ہو جائے گا ۔ اب میں سفارش کروں گا اور جناب حق تبارک و تعالیٰ قبول فرمائے گا یہ دیکھ کر کافر لوگ کہیں گے کہ چلو بھئی ہم بھی کسی کو سفارشی بنا کر لے چلیں اور اس کے لیے ہمارے پاس سوائے ابلیس کے اور کون ہے ؟ اسی نے ہم کو بہکایا تھا ۔ چلو اسی سے عرض کریں ۔ آئیں گے ابلیس سے کہیں گے کہ مومنوں نے تو شفیع پا لیا اب تو ہماری طرف سے شفیع بن جا ۔ اس لیے کہ ہمیں گمراہ بھی تو نے ہی کیا ہے یہ سن کر یہ ملعون کھڑا ہو گا ۔ اس کی مجلس سے ایسی گندی بدبو پھیلے گی کہ اس سے پہلے کسی ناک میں ایسی بدبو نہ پہنچی ہو ۔ پھر وہ کہے گا جس کا بیان اس آیت میں ہے } ۔ محمد بن کعب قرظی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” جب جہنمی اپنا صبر اور بے صبری یکساں بتلائیں گے اس وقت ابلیس ان سے یہ کہے کا اس وقت وہ اپنی جانوں سے بھی بیزار ہو جائیں گے ندا آئے گی کہ «لَمَقْتُ اللہِ أَکْبَرُ مِن مَّقْتِکُمْ أَنفُسَکُمْ إِذْ تُدْعَوْنَ إِلَی الْإِیمَانِ فَتَکْفُرُونَ» ۱؎ (40-غافر:10) ’ تمہاری اس وقت کی اس بیزاری سے بھی زیادہ بیزاری اللہ کی تم سے اس وقت تھی جب کہ تمہیں ایمان کی طرف بلایا جاتا تھا اور تم کفر کرتے تھے ‘ ۔ عامر شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” تمام لوگوں کے سامنے اس دن دو شخص خطبہ دینے کیلئے کھڑے ہوں گے ۔ عیسیٰ بن مریم علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ ’ کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ تم اللہ کے سوا مجھے اور میری ماں کو معبود بنا لینا ‘ یہ آیتیں «قَالَ اللہُ ہٰذَا یَوْمُ یَنفَعُ الصَّادِقِینَ صِدْقُہُمْ» ۱؎ (5-المائدہ:116-119) الخ ، تک اسی بیان میں ہیں اور ابلیس کھڑا ہو کر کہے گا «وَمَا کَانَ لِیَ عَلَیْکُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍ اِلَّآ اَنْ دَعَوْتُکُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ» ۱؎ (14-ابراھیم:22) “ ۔ برے لوگوں کے انجام کا اور ان کے درد و غم اور ابلیس کے جواب کا ذکر فرما کر اب نیک لوگوں کا انجام بیان ہو رہا ہے کہ ’ ایماندار نیک اعمال لوگ جنتوں میں جائیں گے جہاں چاہیں جائیں آئیں چلیں پھریں کھائیں پیئیں ہمیشہ ہمیش کے لیے وہیں رہیں ۔ یہاں نہ آزردہ ہوں نہ دل بھرے نہ طبیعت بھرے نہ مارے جائیں نہ نکالے جائیں نہ نعمتیں کم ہوں ۔ وہاں ان کا تحفہ سلام ہی سلام ہو گا ‘ ۔ جیسے فرمان ہے «حَتَّیٰ إِذَا جَاءُوہَا وَفُتِحَتْ أَبْوَابُہَا وَقَالَ لَہُمْ خَزَنَتُہَا سَلَامٌ عَلَیْکُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوہَا خَالِدِینَ» ۱؎ (39-الزمر:73) ، یعنی ’ جب جنتی جنت میں جائیں گے اور اس کے دروازے ان کے لیے کھولے جائیں گے اور وہاں کے داروغہ انہیں سلام علیک کہیں گے ‘ ، الخ ۔ اور آیت میں ہے «وَالْمَلَائِکَۃُ یَدْخُلُونَ عَلَیْہِم مِّن کُلِّ بَابٍ سَلَامٌ عَلَیْکُم» ۱؎ (13-الرعد:23 ، 24) ’ ہر دروازے سے ان کے پاس فرشتے آئیں گے اور سلام علیکم کہیں گے ‘ ۔ اور آیت میں ہے کہ «أُولٰئِکَ یُجْزَوْنَ الْغُرْفَۃَ بِمَا صَبَرُوا وَیُلَقَّوْنَ فِیہَا تَحِیَّۃً وَسَلَامًا» ۱؎ (25-الفرقان:75) ’ وہاں تحیۃ اور سلام ہی سنائے جائیں گے ‘ ۔ اور آیت میں ہے «دَعْوَاہُمْ فِیہَا سُبْحَانَکَ اللہُمَّ وَتَحِیَّتُہُمْ فِیہَا سَلَامٌ وَآخِرُ‌ دَعْوَاہُمْ أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَ‌بِّ الْعَالَمِینَ» ۱؎ (10-یونس:10) ’ ان کی پکار وہاں اللہ کی پاکیزگی کا بیان ہو گا اور ان کا تحفہ وہاں سلام ہو گا ۔ اور ان کی آخر آواز اللہ رب العالمین کی حمد ہوگی ‘ ۔ ابراھیم
23 ابراھیم
24 لا الہ الا اللہ کی شہادت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ، کلمہ طیبہ سے مراد «لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ» کی شہادت ہے ۔ پاکیزہ درخت کی طرح کا مومن ہے اس کی جڑ مضبوط ہے ۔ یعنی مومن کے دل میں «لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ» جما ہوا ہے اس کی شاخ آسمان میں ہے ۔ یعنی اس توحید کے کلمہ کی وجہ سے اس کے اعمال آسمان کی طرف اٹھائے جاتے ہیں اور بھی بہت سے مفسرین سے یہی مروی ہیں ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:439/7) کہ مراد اس سے مومن کے اعمال ہیں اور اس کے پاک اقوال اور نیک کام ۔ مومن مثل کھجور کے درخت کے ہے ۔ ہر وقت ہر صبح ہر شام اس کے اعمال آسمان پر چڑھتے رہتے ہیں ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:439/7) { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھجور کا ایک خوشہ لایا گیا ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی آیت کا پہلا حصہ تلاوت فرمایا اور فرمایا کہ { پاک درخت سے مراد کھجور کا درخت ہے } } ۔ (سنن ترمذی:3119،قال الشیخ الألبانی:مرفوعاً ضعیف) صحیح بخاری شریف میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ { ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ۔ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { مجھے بتلاؤ وہ کون سا درخت ہے جو مسلمان کے مشابہ ہے ؟ جس کے پتے نہیں جھڑتے نہ جاڑوں میں نہ گرمیوں میں جو اپنا پھل ہر موسم میں لاتا رہتا ہے ؟ } سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں میرے دل میں آیا کہ کہہ دوں وہ درخت کھجور کا ہے ۔ لیکن میں نے دیکھا کہ مجلس میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہما ہیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہما ہیں اور وہ خاموش ہیں تو میں بھی چپ سا ہو رہا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { وہ درخت کھجور کا ہے } ۔ جب یہاں سے اٹھ کر چلے تو میں نے اپنے والد عمر رضی اللہ عنہ سے یہ ذکر کیا ۔ تو آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا ” پیارے بچے اگر تم یہ جواب دے دیتے تو مجھے تو تمام چیزوں کے مل جانے سے بھی زیادہ محبوب تھا “ } ۔ (صحیح بخاری:4698) حضرت مجاہد رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ میں مدینہ شریف تک سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ رہا لیکن سوائے ایک حدیث کے اور کوئی روایت انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کرتے ہوئے نہیں سنا اس میں ہے کہ { یہ سوال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت کیا ۔ جب آپ کے سامنے کھجور کے درخت کے بیچ کا گودا لایا گیا تھا ۔ میں اس لیے خاموش رہا کہ میں اس مجلس میں سب سے کم عمر تھا } ۔ (صحیح بخاری:2209) اور روایت میں ہے کہ { جواب دینے والوں کا خیال اس وقت جنگلی درختوں کی طرف چلا گیا } ۔ (صحیح بخاری:131) ابن ابی حاتم میں ہے کہ { کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مالدار لوگ درجات میں بہت بڑھ گئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ { یاد رکھو اگر تمام دنیا کی چیزیں لگ کر انبار لگا دو تو بھی وہ آسمان تک نہیں پہنچ سکتے ہیں ۔ تجھے ایسا عمل بتلاؤں جس کی جڑ مضبوط اور جس کی شاخیں آسمان میں ہیں } ۔ اس نے پوچھا وہ کیا ؟ فرمایا : دعا «لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ ، وَ اللہُ أَکْبَرُ ، وَسُبْحَانَ اللہِ ، وَالْحَمْدُ لِلہِ» ہر فرض نماز کے بعد دس بار کہہ لیا کرو جس کی اصل مضبوط اور جس کی فرع آسمان میں ہے } ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:مرسل) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ” وہ پاکیزہ درخت جنت میں ہے ، ہر وقت اپنا پھل لائے یعنی صبح شام یا ہر ماہ میں یا ہر دو ماہ میں یا ہر ششماہی میں یا ہر ساتویں مہینے یا ہر سال “ ۔ لیکن الفاظ کا ظاہری مطلب تو یہ ہے کہ مومن کی مثال اس درخت جیسی ہے جس کے پھل ہر وقت جاڑے گرمی میں دن رات میں اترتے رہتے ہیں اسی طرح مومن کے نیک اعمال دن رات کے ہر وقت چڑھتے رہتے ہیں اس کے رب کے حکم سے یعنی کامل ، اچھے ، بہت اور عمدہ ۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کی عبرت ان کی سوچ سمجھ اور ان کی نصیحت کے لیے مثالیں واضح فرماتا ہے ۔ پھر برے کلمہ کی یعنی کافر کی مثال بیان فرمائی ۔ جس کی کوئی اصل نہیں ، جو مضبوط نہیں ، اس کی مثال اندرائن کے درخت سے دی ۔ جسے حنظل اور شریان کہتے ہیں ۔ ایک موقوف روایت میں انس رضی اللہ عنہ سے بھی آیا ہے اور یہی روایت مرفوعاً بھی آئی ہے ۔ (سنن ترمذی:3119،قال الشیخ الألبانی:ضعیف مرفوع) اس درخت کی جڑ زمین کی تہ میں نہیں ہوتی جھٹکا مارا اور اکھڑ آیا ۔ اسی طرح سے کفر بے جڑ اور بے شاخ ہے ، کافر کا نہ کوئی نیک عمل چڑھے نہ مقبول ہو ۔ ابراھیم
25 ابراھیم
26 ابراھیم
27 1 صحیح بخاری شریف میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ { مسلمان سے جب اس کی قبر میں سوال ہوتا ہے تو وہ گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم رسول اللہ ہیں یہی مراد اس آیت کی ہے } } ۔ (صحیح بخاری:1369) مسند میں ہے (مسند احمد:287/4:صحیح) کہ { ایک انصاری کے جنازے میں ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے قبرستان پہنچے ابھی تک قبر تیار نہ تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے اور ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آس پاس ایسے بیٹھ گئے گویا ہمارے سروں پر پرند ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں جو تنکا تھا اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم زمین پر لکیریں نکال رہے تھے جو سر اٹھا کر دو تین مرتبہ فرمایا کہ { عذاب قبر سے اللہ کی پناہ چاہو بندہ جب دنیا کی آخرت اور آخرت کی پہلی گھڑی میں ہوتا ہے تو اس کے پاس آسمان سے نورانی چہرے والے فرشتے آتے ہیں ۔ گویا کہ ان کے چہرے والے فرشتے آتے ہیں ۔ گویا کہ ان کے چہرے سورج جیسے ہیں ان کے ساتھ جنتی کفن اور جنتی خوشبو ہوتی ہے اس کے پاس جہاں تک اس کی نگاہ کام کرے وہاں تک بیٹھ جاتے ہیں پھر ملک الموت آ کر اس کے سرھانے بیٹھ جاتے ہیں اور فرماتے ہیں اے پاک روح اللہ تعالیٰ کی مغفرت اس کی رضا مندی کی طرف چل وہ اس آسانی سے نکل آتی ہے جیسے کسی مشک سے پانی کا قطرہ ٹپ آیا ہو ایک آنکھ جھپکے کے برابر کی دیر ہی میں وہ فرشتے اسے ان کے ہاتھ میں نہیں رہنے دیتے فوراً لے لیتے ہیں اور جنتی کفن اور جنتی خوشبو میں رکھ لیتے ہیں ۔ خود اس روح میں سے بھی مشک سے بھی عمدہ خوشبو نکلتی ہے کہ روئے زمین پر ایسی عمدہ خوشبو نہ سونگھی گئی ہو ۔ وہ اسے لے کر آسمانوں کی طرف چڑھتے ہیں ۔ فرشتوں کی جس جماعت کے پاس سے گزرتے ہیں وہ پوچھتے ہیں کہ یہ پاک روح کس کی ہے ؟ یہ اس کا جو بہترین نام دنیا میں مشہور تھا ۔ وہ بتلاتے ہیں اور اس کے باپ کا نام بھی ۔ آسمان دنیا تک پہنچ کر دروازے کھلواتے ہیں آسمان کا دروازہ کھل جاتا ہے ۔ اور وہاں کے فرشتے اسے دوسرے آسمان تک اور دوسرے آسمان کے تیسرے آسمان تک } ۔ { اسی طرح ساتویں آسمان پر وہ پہنچتا ہے ۔ اللہ عزوجل فرماتا ہے ’ میرے بندے کو کتاب علیین میں لکھ لو اور اسے زمین کی طرف لوٹا دو ۔ میں نے اسی سے اسے پیدا کیا ہے اور اسی سے دوبارہ نکالوں گا ‘ ۔ پس اس کی روح اسی کے جسم میں لوٹا دی جاتی ہے اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اسے اٹھا بٹھاتے ہیں اور سوال کرتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے ؟ وہ جواب دیتا ہے اللہ تعالیٰ ۔ پھر پوچھتے ہیں کہ تیرا دین کیا ہے ؟ وہ جواب دیتا ہے کہ اسلام ۔ پھر سوال ہوتا ہے کہ وہ شخص کون ہے جو تم میں بھیجا گیا تھا ؟ یہ کہتا ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے ۔ فرشتے پوچھتے ہیں تجھے کیسے معلوم ہوا ؟ وہ کہتا ہے میں نے کتاب اللہ پڑھی اس پر ایمان لایا اسے سچا مانا ۔ اسی وقت آسمان سے ایک منادی ندا دیتا ہے ، کہ ’ میرا بندہ سچا ہے ‘ ۔ اس کے لیے جنتی فرش بچھا دو اور جنتی لباس پہنا دو اور جنت کی طرف کا دروازہ کھول دو پس جنت کی روح پرور خوشبودار ہواؤں کی لپٹیں اسے آنے لگتی ہیں اس کی قبر بقدر درازگی نظر کے وسیع کر دی جاتی ہے ۔ اس کے پاس ایک شخص خوبصورت نورانی چہرے والا عمدہ کپڑوں والا اچھی خوشبو والا آتا ہے اور اس سے کہتا ہے ۔ آپ خوش ہو جائیں اسی دن کا وعدہ آپ دئے جاتے تھے ۔ یہ اس سے پوچھتا ہے کہ آپ کون ہیں ؟ آپ کے چہرے سے بھلائی ہی بھلائی نظر آتی ہے ۔ وہ جواب دیتا ہے ۔ کہ تیرا نیک عمل ہوں ۔ اس وقت مسلمان آرزو کرتا ہے کہ یا اللہ قیامت جلد قائم ہو جائے تو میں اپنے اہل و عیال اور ملک و مال کی طرف لوٹ جاؤں ۔ { اور کافر بندہ جب دنیا کی آخری ساعت اور آخرت کی اول ساعت میں ہوتا ہے اس کے پاس سیاہ چہرے کے آسمانی فرشتے آتے ہیں اور ان کے ساتھ جہنمی ٹاٹ ہوتا ہے جہاں تک نگاہ پہنچے وہاں تک وہ بیٹھ جاتے ہیں پھر ملک الموت علیہ السلام آ کر اس کے سرہانے بیٹھ کر فرماتے ہیں اے خبیث روح اللہ تعالیٰ کے غضب و قہر کی طرف چل ۔ اس کی روح جسم میں چھپتی پھرتی ہے جسے بہت سختی کے ساتھ نکالا جاتا ہے ۔ اسی وقت ایک آنکھ جھپکنے جتنی دیر میں اسے فرشتے ان کے ہاتھوں سے لے لیتے ہیں اور اس جہنمی بورے میں لپیٹ لیتے ہیں اس میں سے ایسی بدبو نکلتی ہے کہ روئے زمین پر اس سے زیادہ بدبو نہیں پائی گئی اب یہ اسے لے کر اوپر کو چڑھتے ہیں ۔ فرشتوں کی جس جماعت کے پاس سے گزرتے ہیں وہ پوچھتے ہیں یہ خبیث روح کس کی ہے ؟ وہ اس کا بدترین نام جو دنیا میں تھا بتلاتے ہیں اور اس کے باپ کا نام بھی ۔ آسمان دنیا تک پہنچ کر دروازہ کھلوانا چاہتے ہیں لیکن کھولا نہیں جاتا ۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے «لَا تُفَتَّحُ لَہُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا یَدْخُلُونَ الْجَنَّۃَ حَتَّیٰ یَلِجَ الْجَمَلُ فِی سَمِّ الْخِیَاطِ وَکَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُجْرِمِینَ» ۱؎ (7-الأعراف:40) کی تلاوت فرمائی کہ ’ نہ ان کے لیے آسمان کے دروازے کھلیں نہ وہ جنت میں جا سکیں یہاں تک کہ سوئی کے ناکے میں سے اونٹ گزر جائے ‘ ۔ اللہ تعالیٰ حکم فرماتا ہے کہ ’ اس کو کتاب سجین میں لکھ لو جو سب سے نیچے کی زمین میں ہے پس اس کو روح وہیں پھینک دی جاتی ہے ‘ ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے «وَمَن یُشْرِکْ بِ اللہِ فَکَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُہُ الطَّیْرُ أَوْ تَہْوِی بِہِ الرِّیحُ فِی مَکَانٍ سَحِیقٍ» ۱؎ (22-الج:31) ، کی تلاوت فرمائی یعنی ’ اللہ کے ساتھ جو شرک کرے گویا کہ وہ آسمان سے گر پڑا ۔ یا تو اسے پرند اچک لے جائیں گے یا آندھی اسے کسی دور کے گڑھے میں پھینک مارے گی ‘ ۔ پھر اس کی روح اسی جسم میں لوٹائی جاتی ہے اس کے پاس دو فرشتے پہنچتے ہیں جو اسے اٹھا بٹھاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے ؟ وہ جواب دیتا ہے کہ ہائے ہائے مجھے نہیں معلوم ۔ پھر پوچھتے ہیں تیرا دین کیا ہے ؟ وہ کہتا ہے ہائے ہائے مجھے اس کا بھی علم نہیں ۔ پھر پوچھتے ہیں وہ کون تھا جو تم میں بھیجا گیا تھا ؟ وہ کہتا ہے ہائے ہائے مجھے معلوم نہیں اسی وقت آسمان سے ایک منادی کی ندا آتی ہے کہ میرا بندہ جھوٹا ہے اس کے لیے جہنم کی آگ کا فرش کر دو اور دوزخ کی جانب کا دروازہ کھول دو وہیں سے اسے دوزخی ہوا اور دوزخ کا جھونکا پہنچتا رہتا ہے اور اس کی قبر اس پر اتنی تنگ ہو جاتی ہے کہ اس کی پسلیاں ایک دوسرے میں گھس جاتی ہیں } ۔ { بڑی بری اور ڈراؤنی صورت والا برے میلے کچیلے خراب کپڑوں والا بڑی بدبو والا ایک شخص اس کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے اب غمناک ہو جاؤ ۔ اسی دن کا تجھ سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ یہ پوچھتا ہے تو کون ہے ؟ تیرے چہرے سے برائی برستی ہے ۔ وہ کہتا ہے میں تیرے بد اعمال کا مجسمہ ہوں تو یہ دعا کرتا ہے کہ یا اللہ قیامت قائم نہ ہو } ۔ (سنن ابوداود:4793 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) مسند میں ہے کہ { نیک بندے کی روح نکلنے کے وقت آسمان و زمین کے درمیان کے فرشتے اور آسمانوں کے فرشتے سب اس پر رحمت بھیجتے ہیں اور آسمانوں کے دروازے اس کے لیے کھل جاتے ہیں ہر دروازے کے فرشتوں کی دعا ہوتی ہے کی اس کی پاک اور نیک روح ان کے دروازے سے چڑھائی جائے الخ اور برے شخص کے بارے میں اس میں ہے کہ اس کی قبر میں ایک اندھا بہرا گونگا فرشتہ مقرر ہوتا ہے جس کے ہاتھ میں ایک گرز ہوتا ہے کہ اگر وہ کسی بڑے پہاڑ پر مار دیا جائے تو وہ مٹی بن جائے ۔ اس سے وہ اسے مارتا ہے یہ مٹی ہو جاتا ہے اسے اللہ عزوجل پھر لوٹاتا ہے ۔ جیسا تھا ویسا ہی ہو جاتا ہے وہ اسے پھر وہی گرز ماتا ہے یہ ایسا چیختا ہے کہ اس کی چیخ کو سوائے انسانوں اور جن کے ہر کوئی سنتا ہے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:295/4:الشیخ الألبانی:صحیح) قبر کا عذاب سیدنا براء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” اسی آیت سے قبر کے عذاب کا ثبوت ملتا ہے ۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ اسی آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں ” مراد اس سے قبر کے سوالوں کے جواب میں مومن کو استقامت کا ملنا ہے “ ۔ مسند عبد بن حمید میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { جب بندہ قبر میں رکھا جاتا ہے لوگ منہ پھیرتے ہیں ابھی ان کی واپسی کی چال کی جوتیوں کی آہٹ اس کے کانوں ہی میں ہے جو دو فرشتے اس کے پاس پہنچ کر اسے بٹھا کر پوچھتے ہیں کہ اس شخص کے بارے میں تو کیا کہتا ہے مومن جواب دیتا ہے کہ میری گواہی ہے کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں تو اسے کہا جاتا ہے کہ دیکھ جہنم میں تیرا یہ ٹھکانا تھا ۔ لیکن اب اسے بدل کر اللہ نے جنت کی یہ جگہ تجھے عنایت فرمائی ہے } ۔ فرماتے ہیں کہ { اسے دونوں جگہ نظر آتی ہیں } } ۔ حضرت قتادہ رحمہ اللہ کا فرمان ہے کہ ” اس کی قبر ستر گز چوڑی کر دی جاتی ہے اور قیامت تک سر سبزی سے بھری رہتی ہے “ ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1338) مسند احمد میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ { اس امت کی آزمائش ان کی قبروں میں سے ہوتی ہے ۔ اس میں یہ بھی ہے کہ مومن اس وقت آرزو کرتا ہے کہ مجھے چھوڑ دو میں اپنے لوگوں کو یہ خوشخبری سنا دوں وہ کہتے ہیں ٹھہر جاؤ } اس میں یہ بھی ہے کہ { منافق کو بھی اس کی دونوں جگہیں دکھا دی جاتی ہیں } ۔ فرماتے ہیں کہ { ہر شخص جس پر مرا ہے اسی پر اٹھایا جاتا ہے ۔ مومن اپنے ایمان پر منافق اپنے نفاق پر } } ۔ (مسند احمد:346/3:ضعیف) مسند احمد کی روایت میں ہے کہ { فرشتہ جو آتا ہے اس کے ہاتھ میں لوہے کا ہتھوڑا ہوتا ہے مومن اللہ کی معبودیت اور توحید کی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبدیت اور رسالت کی گواہی دیتا ہے اس میں یہ بھی ہے کہ اپنا جنت کا مکان دیکھ کر اس میں جانا چاہتا ہے ۔ لیکن اسے کہا جاتا ہے ابھی یہیں آرام کرو } ۔ اس کے آخر میں ہے کہ { صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ایک فرشتے کو ہاتھ میں گرز لیے دیکھیں گے تو حواس کیسے قائم رہیں گے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی آیت پڑھی } ۔ (مسند احمد:3/3:حسن) یعنی اللہ کی طرف سے انہیں ثابت قدمی ملتی ہے ۔ اور حدیث میں ہے کہ { روح نکلنے کے وقت مومن سے کہا جاتا ہے کہ اے اطمینان والی روح جو پاک جسم میں تھی ۔ نکل تعریفوں والی ہو کر اور خوش ہو جا ۔ راحت و آرام اور پھل پھول اور رحیم و کریم اللہ کی رحمت کے ساتھ ۔ اس میں ہے کہ آسمان کے فرشتے اس روح کو مرحبا کہتے ہیں اور یہی خوشخبری سناتے ہیں ۔ اس میں ہے کہ برے انسان کی روح کو کہا جاتا ہے کہ اے خبیث روح جو خبیث جسم میں تھی نکل بری بن کر اور تیار ہو جا آگ جیسا پانی پینے کے لیے اور لہو پیپ کھانے کے لیے اور اسی جیسے اور بےشمار عذابوں کے لیے اس میں ہے کہ آسمان کے فرشتے اس کے لیے دروازہ نہیں کھولتے اور کہتے ہیں بری ہو کر مذمت کے ساتھ لوٹ جا تیرے لیے دروازے نہیں کھلیں گے } ۔ (سنن ابن ماجہ:4262،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اور روایت میں ہے کہ { آسمانی فرشتے نیک روح کے لیے کہتے ہیں اللہ تجھ پر رحمت کرے اور اس جسم پر بھی جس میں تو تھی ۔ یہاں تک کہ اسے اللہ عزوجل کے پاس پہنچاتے ہیں وہاں سے ارشاد ہوتا ہے کہ ’ اسے آخری مدت تک کے لیے لے جاؤ ‘ ۔ اس میں ہے کہ کافر کی روح کی بدبو کا بیان کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر مبارک اپنی ناک پر رکھ لی } اور روایت میں ہے کہ { رحمت کے فرشتے مومن کی روح کے لیے جنتی سفید ریشم لے کر اترتے ہیں ۔ ایک ایک کے ہاتھ سے اس روح کو لینا چاہتا ہے ۔ جب یہ پہلے کے مومنوں کی ارواح سے ملتی ہے ۔ تو جیسے کوئی نیا آدمی سفر سے آئے اور اس کے گھر والے خوش ہوتے ہیں اس سے زیادہ یہ روحیں اس روح سے مل کر راضی ہوتی ہیں پھر پوچھتی ہیں کہ فلاں کا کیا حال ہے ؟ لیکن ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ ابھی سوال جواب نہ کرو ذرا آرام تو کر لینے دو ۔ یہ تو غم سے ابھی ہی چھوٹی ہے ۔ لیکن وہ جواب دیتی ہے کہ وہ تو مر گیا کیا تمھارے پاس نہیں پہنچا وہ کہتے ہیں چھوڑو اس کے ذکر کو وہ اپنی اماں ہاویہ میں گیا } ۔ (مستدرک حاکم353/1:صحیح) اور روایت میں ہے کہ { کافر کی روح کو جب زمین کے دروازے کے پاس لاتے ہیں تو وہاں داروغہ فرشتے اس کی بدبو سے گھبراتے ہیں آخر اسے سب سے نیچے کی زمین میں پہنچاتے ہیں } ۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ” مومنوں کی روحیں جابیہ میں اور کافروں کی روحیں برھوت نامی حضر موت کے قید خانے میں جمع رہتی ہیں ، اس کی قبر بہت تنگ ہو جاتی ہے “ ۔ ترمذی میں ہے کہ { میت کے قبر میں رکھے جانے کے بعد اس کے پاس دو سیاہ فام کیری آنکھوں والے فرشتے آتے ہیں ایک منکر دوسرا نکیر ۔ اس کے جواب کو سن کر وہ کہتے ہیں کہ ہمیں علم تھا کہ تم ایسے ہی جواب دو گے پھر اس کی قبر کشادہ کر دی جاتی ہے اور نورانی بنا دی جاتی ہے ۔ اور کہا جاتا ہے سوجا ۔ یہ کہتا ہے کہ میں تو اپنے گھر والوں سے کہوں گا ۔ لیکن وہ دونوں کہتے ہیں کہ دلہن کی سی بے فکری کی نیند سو جا ۔ جسے اس کے اہل میں سے وہی جگاتا ہے جو اسے سب سے زیادہ پیارا ہو ۔ یہاں تک کہ اللہ خود اسے اس خواب گاہ سے جگائے ۔ منافق جواب میں کہتا ہے کہ لوگ جو کچھ کہتے تھے میں بھی کہتا رہا لیکن جانتا نہیں ۔ وہ کہتے ہیں ہم تو جانتے ہی تھے کہ تیرا یہ جواب ہوگا ۔ اسی وقت زمین کو حکم دیا جاتا ہے کہ سمٹ جا ۔ وہ سمٹتی ہے یہاں تک کہ اس پسلیاں ادھر ادھر گھس جاتی ہیں پھر اسے عذاب ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ قیامت قائم کرے اور اسے اس کی قبر سے اٹھائے } ۔ (سنن ترمذی:1071،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اور حدیث میں ہے کہ { مومن کے جواب پر کہا جاتا ہے کہ اسی پر تو جیا اسی پر تیری موت ہوئی اور اسی پر تو اٹھایا جائے گا } ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:20760) ابن جریر میں فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے { اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میت تمہاری جوتیوں کی آہٹ سنتی ہے جب کہ تم اسے دفنا کر واپس لوٹتے ہو اگر وہ ایمان پر مرا ہے تو نماز اس کے سرہانے ہوتی ہے زکوٰۃ دائیں جانب ہوتی ہے روزہ بائیں طرف ہوتا ہے ۔ نیکیاں مثلاً صدقہ خیرات صلہ رحمی بھلائی لوگوں سے احسان وغیرہ اس کے پیروں کی طرف ہوتے ہیں جب اس کے سر کی طرف سے کوئی آتا ہے تو نماز کہتی ہے یہاں سے جانے کی جگہ نہیں ۔ دائیں طرف سے زکوٰۃ روکتی ہے ۔ بائیں طرف سے روزہ ۔ پیروں کی طرف سے اور نیکیاں ۔ پس اس سے کہا جاتا ہے بیٹھ جاؤ ۔ وہ بیٹھ جاتا ہے اور اسے ایسا معلوم دیتا ہے کہ گویا سورج ڈوبنے کے قریب ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ دیکھو جو ہم پوچھیں اس کا جواب دو ۔ وہ کہتا ہے تم چھوڑو پہلے میں نماز ادا کر لوں ۔ وہ کہتے ہیں وہ تو تو کرے گا ہی ۔ ابھی تو ہمیں ہمارے سوالوں کا جواب دے ۔ وہ کہتا ہے اچھا تم کیا پوچھتے ہو ؟ وہ کہتے ہیں اس شخص کے بارے میں تو کیا کہتا ہے اور کیا شہادت دیتا ہے ۔ وہ پوچھتا ہے کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ؟ جواب ملتا ہے کہ ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے بارے میں یہ کہتا ہے کہ میری گواہی ہے کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے پاس سے ہمارے پاس دلیلیں لے کر آئے ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا مانا ۔ پھر اس سے کہا جاتا ہے کہ تو اسی پر زندہ رکھا گیا اور اسی پر مرا اور ان شاءاللہ اسی پر دوبارہ اٹھایا جائے گا ۔ پھر اس کی قبر ستر ہاتھ پھیلا دی جاتی ہے اور نورانی کر دی جاتی ہے اور جنت کی طرف ایک دروازہ کھول دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے دیکھ یہ ہے تیرا اصلی ٹھکانا ۔ اب تو اسے خوشی اور راحت ہی راحت ہوتی ہے ۔ پھر اس کی روح پاک روحوں میں سبز پرندوں کے قالب میں جنتی درختوں میں رہتی ہے ۔ اور اس کا جسم جس سے اس کی ابتداء کی گئی تھی اسی طرف لوٹا دیا جاتا ہے ۔ یعنی مٹی کی طرف یہی اس آیت کا مطلب ہے ۔ (عبدالرزاق،6703:حسن) اور روایت میں ہے کہ { موت کے وقت کی راحت و نور کو دیکھ کر مومن اپنی روح کے نکل جانے کی تمنا کرتا ہے اور اللہ کو بھی اسی کی ملاقات محبوب ہوتی ہے ۔ جب اس کی روح آسمان پر چڑھ جاتی ہے تو اس کے پاس مومنوں کی اور روحیں آتی ہیں اور اپنی جان پہچان کے لوگوں کی بابت اس سے سوالات کرتے ہیں ۔ اگر یہ کہتا ہے کہ فلاں تو زندہ ہے تو خیر ۔ اور اگر یہ کہتا ہے کہ فلاں تو مر چکا ہے تو یہ ناراض ہو کر کہتے ہیں یہاں نہیں لایا گیا ۔ مومن کو اس کی قبر میں بیٹھا دیا جاتا ہے ۔ پھر اس سے پوچھا جاتا ہے ۔ تیرا نبی کون ہے ؟ یہ کہتا ہے میرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ فرشتہ کہتا ہے کہ تیرا دین کیا ہے ؟ یہ جواب دیتا ہے میرا دین اسلام ہے ۔ اسی میں ہے کہ اللہ کے دشمن کو جب موت آنے لگتی ہے اور یہ اللہ کی ناراضگی کے اسباب دیکھ لیتا ہے تو نہیں چاہتا کہ اس کی روح نکلے ۔ اللہ بھی اس کی ملاقات سے ناخوش ہوتا ہے ۔ اس میں ہے کہ اسے سوال جواب اور مارپیٹ کے بعد کہا جاتا ہے ایسا سو جیسے سانپ کٹا ہوا } ۔ ۱؎ (مسندبزار:874:صحیح بالشواھد) اور روایت میں ہے کہ { جب یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دیتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے کہ تجھے کیسے معلوم ہو گیا کیا تو نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کو پایا ہے ؟ اس میں ہے کہ کافر کی قبر میں ایسا بہرا فرشتہ عذاب کرنے والا ہوتا ہے کہ جو نہ کبھی سنے نہ رحم کرے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:352/6:) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” موت کے وقت مومن کے پاس فرشتے آ کر سلام کرتے ہیں جنت کی بشارت دیتے ہیں اس کے جنازے کے ساتھ چلتے ہیں لوگوں کے ساتھ اس کے جنازے کی نماز میں شرکت کرتے ہیں ۔ اس میں ہے کہ کافروں کے پاس فرشتے آتے ہیں ۔ ان کے چہروں پر ان کی کمر پر مار مارتے ہیں ۔ اسے اس کی قبر میں جواب بھلا دیا جاتا ہے ۔ اسی طرح ظالموں کو اللہ گمراہ کر دیتا ہے “ ۔ حضرت ابوقتادہ انصاری رحمہ اللہ سے بھی ایسا ہی قول مروی ہے ۔ اس میں ہے کہ ” مومن کہتا ہے کہ میرے نبی محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں کئی دفعہ اس سے سوال ہوتا ہے اور یہ یہی جواب دیتا ہے اسے جہنم کا ٹھکانا دکھا کر کہا جاتا ہے کہ اگر ٹیڑھا چلتا تو تیری یہ جگہ تھی ۔ اور جنت کا ٹھکانا دکھا کر کہا جاتا ہے کہ توبہ کی وجہ سے یہ ٹھکانہ ہے “ ۔ طاؤس رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” دنیا میں ثابت قدمی کلمہ توحید پر استقامت ہے اور آخرت میں ثابت قدمی منکر نکیر کے جواب کی ہے “ ۔ حضرت قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” خیر اور عمل صالح کے ساتھ دنیا میں رکھے جاتے ہیں اور قبر میں بھی “ ۔ ابوعبداللہ حکیم ترمذی اپنی کتاب نوادر الاصول میں لائے ہیں کہ { صحابہ رضی اللہ عنہم کی جماعت کے پاس آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی مسجد میں فرمایا کہ { گزشتہ رات میں نے عجیب باتیں دیکھیں ، دیکھا کہ میرے ایک امتی کو عذاب قبر نے گھیر رکھا ہے آخر اس کے وضو نے آ کر اسے چھڑا لیا ، میرے ایک امتی کو دیکھا کہ شیطان اسے وحشی بنائے ہوئے ہیں لیکن ذکر اللہ نے آ کر اسے خلاصی دلوائی ۔ ایک امتی کو دیکھا کہ عذاب کے فرشتوں نے اسے گھیر رکھا ہے ۔ اس کی نماز نے آ کر اسے بچا لیا ۔ ایک امتی کو دیکھا کہ پیاس کے مارے ہلاک ہو رہا ہے جب حوض پر جاتا ہے دھکے لگتے ہیں ۔ اس کا روزہ آیا اور اس نے اسے پانی پلا دیا ۔ اور آسودہ کر دیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور امتی کو دیکھا کہ انبیاء علیہم السلام حلقے باندھ باندھ کر بیٹھے ہیں یہ جس حلقے میں بیٹھنا چاہتا ہے وہاں والے اسے اٹھا دیتے ہیں ۔ اسی وقت اس کی جنابت کا غسل آیا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر میرے پاس بٹھا دیا ۔ ایک امتی کو دیکھا کہ چاروں طرف سے اسے اندھیرا گھیرے ہوئے ہے اور اوپر نیچے سے بھی وہ اسی میں گھرا ہوا ہے جو اس کا حج اور عمرہ آیا اور اسے اس اندھیرے میں سے نکال کر نور میں پہنچا دیا ۔ ایک امتی کو دیکھا کہ وہ مومنوں سے کلام کرنا چاہتا ہے لیکن وہ اس سے بولتے نہیں اسی وقت صلہ رحمی آئی اور اعلان کیا کہ اس سے بات چیت کرو چنانچہ وہ بولنے چالنے لگے ۔ ایک امتی کو دیکھا کہ وہ اپنے منہ پر سے آگ کے شعلے ہٹانے کو ہاتھ بڑھا رہا ہے اتنے میں اس کی خیرات آئی اور اس کے منہ پر پردہ اور اوٹ ہوگئی اور اس کے سر پر سایہ بن گئی اپنے ایک امتی کو دیکھا کہ عذاب کے فرشتوں نے اسے ہر طرف سے قید کر لیا ہے ۔ لیکن اس کا نیکی کا حکم اور برائی سے منع کرنا آیا اور ان کے ہاتھوں سے چھڑا کر رحمت کے فرشتوں سے ملا دیا ۔ اپنے ایک ایک امتی کو دیکھا کہ گھٹنوں کے بل گرا ہوا ہے ۔ اور اللہ میں اور اس میں حجاب ہے اس کے اچھے اخلاق آئے اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اللہ کے پاس پہنچا آئے ۔ اپنے ایک امتی کو دیکھا کہ اس کا نامہ اعمال اس کی بائیں طرف سے آ رہا ہے لیکن اس کے خوف الٰہی نے آ کر اسے اس کے سامنے کر دیا ۔ اپنے ایک امتی کو میں نے جہنم کے کنارے کھڑا دیکھا اسی وقت اس کا اللہ سے کپکپانا آیا اور اسے جہنم سے بچا لے گیا ۔ میں نے ایک امتی کو دیکھا کہ پل صراط پر لڑھکنیاں کھا رہا ہے کہ اس کا مجھ پر درود پڑھانا آیا اور ہاتھ تھام کر سیدھا کر دیا ۔ اور وہ پار اتر گیا ایک کو دیکھا کہ جنت کے دروازے پر پہنچا لیکن دروازہ بند ہو گیا ۔ اسی وقت «لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ» کی شہادت پہنچی دروازے کھلوا دیے اور اسے جنت میں پہنچا دیا } } ۔ قرطبی اس حدیث کو وارد کر کے فرماتے ہیں یہ حدیث بہت بڑی ہے اس میں ان مخصوص اعمال کا ذکر ہے جو مخصوص مصیبتوں سے نجات دلوانے والے ہیں ۔ [ تذکرہ ] اسی بارے میں حافظ ابو یعلیٰ موصلی رحمہ اللہ نے بھی ایک غریب مطول حدیث روایت کی ہے جس میں ہے کہ { اللہ تبارک وتعالیٰ ملک الموت سے فرماتا ہے ’ تو میرے دوست کے پاس جا ۔ میں نے اسے آسانی اور سختی دونوں طرح سے آزما لیا ہر ایک حالت میں اسے اپنی خوشی میں خوش پایا تو جا اور اسے میرے پاس لے آ ۔ کہ میں اسے ہر طرح کا آرام و عیش دوں ‘ ۔ ملک الموت علیہ السلام اپنے ساتھ پانچ سو فرشتوں کو لے کر چلتے ہیں ان کے پاس جنتی کفن وہاں کی خوشبو اور ریحان کے خوشے ہوتے ہیں جس کے سرے پر بیس رنگ ہوتے ہیں ہر رنگ کی خوشبو الگ الگ ہوتی ہے سفید ریشمی کپڑے میں اعلیٰ مشک بہ تکلف لپٹی ہوئی ہوتی ہے یہ سب آتے ہیں ملک الموت علیہ السلام تو اس کے سرہانے بیٹھ جاتے ہیں اور فرشتے اس کے چاروں طرف بیٹھ جاتے ہیں ہر ایک کے ساتھ جو کچھ جنتی تحفہ ہے وہ اس کے اعضاء پر رکھ دیا جاتا ہے اور سفید ریشم اور مشک اذفر اس کی ٹھوڑی تلے رکھ دیا جاتا ہے اس کے لیے جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور اس کی روح کبھی جنتی پھولوں سے کبھی جنتی لباسوں سے کبھی جنتی پھلوں سے اس طرح بہلائی جاتی ہے جیسے روتے ہوئے بچہ کو لوگ بہلاتے ہیں ۔ اس وقت اس کی حوریں ہنس ہنس کر اس کی چاہت کرتی ہیں روح ان مناظر کو دیکھ کر بہت جلد جسمانی قید سے نکل جانے کا قصد کرتی ہے ملک الموت فرماتے ہیں ہاں اے پاک روح بغیر کانٹے کی بیریوں کی طرف اور لدے ہوئے کیلوں کی طرف اور لمبی لمبی چھاؤں کی طرف اور پانی کے جھرنوں کی طرف چل ۔ واللہ ماں جس قدر بچے پر مہربان ہوتی ہے اس سے بھی زیادہ ملک الموت اس پر شفقت و رحمت کرتا ہے ۔ اس لیے کہ اسے علم ہے کہ یہ محبوب الٰہی ہے اگر اسے ذرا سی بھی تکلیف پہنچی تو میرے رب کی ناراضگی مجھ پر ہوگی ۔ بس اس طرح اس روح کو اس جسم سے الگ کر لیتا ہے جیسے گوندھے ہوئے آٹے میں سے بال ۔ انہیں کے بارے میں فرمان الٰہی ہے کہ ان کی روح کو پاک فرشتے فوت کرتے ہیں ۔ اور جگہ فرمان ہے کہ ’ اگر وہ مقربین میں سے ہے تو اس کے لیے آرام و آسائش ہے ‘ ۔ یعنی موت آرام کی اور آسائش کی ملنے والی اور دنیا کے بدلے کی جنت ہے ۔ ملک الموت کے روح کو قبض کرتے ہی روح جسم سے کہتی ہے کہ اللہ تعالیٰ عزوجل تجھے جزا خیر دے تو اللہ کی اطاعت کی طرف جلدی کرنے والا اور اللہ کی معصیت سے دیر کرنے والا تھا ۔ تو نے آپ بھی نجات پائی اور مجھے بھی نجات دلوائی جسم بھی روح کو ایسا ہی جواب دیتا ہے ۔ زمین کے وہ تمام حصے جن پر یہ عبادت الٰہی کرتا تھا اس کے مرنے سے چالیس دن تک روتے ہیں اسی طرح آسمان کے وہ کل دروازے جن سے اس کے نیک اعمال چڑھتے تھے اور جن سے اس کی روزیاں اترتی تھیں اس پر روتے ہیں ۔ اس وقت وہ پانچ سو فرشتے اس جسم کے اردگرد کھڑے ہو جاتے ہیں اور اس کے نہلانے میں شامل رہتے ہیں انسان اس کی کروٹ بدلے اس سے پہلے خود فرشتے بدلے اس سے پہلے خود فرشتے بدل دیتے ہیں اور اسے نہلا کر انسانی کفن سے پہلے اپنا ساتھ لایا ہوا کفن پہنا دیتے ہیں ان کی خوشبو سے پہلے اپنی خوشبو لگا دیتے ہیں اور اس کے گھر کے دروازے سے لے کر اس کی قبر تک دو طرفہ صفیں باندھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور اس کے لیے استغفار کرنے لگتے ہیں اس وقت شیطان اس زور سے رنج کے ساتھ چیختا ہے کہ اس کے جسم کی ہڈیاں ٹوٹ جائیں اور کہتا ہے میرے لشکریو تم برباد ہو جاؤ ہائے یہ تمہارے ہاتھوں سے کیسے بچ گیا ؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ یہ تو معصوم تھا ۔ جب اس کی روح کو لے کر ملک الموت چڑھتے ہیں تو جبرائیل علیہ السلام ستر ہزار فرشتوں کو لے کر اس کا استقبال کرتے ہیں ہر ایک اسے جدگانہ بشارت الٰہی سناتا ہے یہاں تک کہ اس کی روح عرش الٰہی کے پاس پہنچتی ہے وہاں جاتے ہی سجدے میں گر پڑتی ہے ۔ اسی وقت جناب باری کا ارشاد ہوتا ہے کہ ’ میرے بندے کی روح کو بغیر کانٹوں کی بیروں میں اور تہ بہ تہ کیلوں کے درختوں میں اور لمبے لمبے سایوں میں اور بہتے پانیوں میں جگہ دو ‘ ۔ پھر جب اسے قبر میں رکھا جاتا ہے تو دائیں طرف نماز کھڑی ہو جاتی ہے بائیں جانب روزہ کھڑا ہو جاتا ہے سر کی طرف قرآن آجاتا ہے نمازوں کو چل کر جانا پیروں کی طرف ہوتا ہے ایک کنارے صبر کھڑا ہو جاتا ہے ، عذاب کی ایک گردن لپکتی آتی ہے لیکن دائیں جانب سے نماز اسے روک دیتی ہے کہ یہ ہمیشہ چوکنا رہا اب اس قبر میں آ کر ذرا راحت پائی ہے وہ بائیں طرف سے آتی ہے یہاں سے روزہ یہی کہہ کر اسے آنے نہیں دیتا سرہانے سے آتی ہے یہاں سے قرآن اور ذکر یہی کہہ کر آڑے آتے ہیں وہ پائنتیوں سے آتی ہے یہاں اسے اس کا نمازوں کے لیے چل کر جانا اسے روک دیتا ہے غرض چاروں طرف سے اللہ کے محبوب کے لیے روک ہو جاتی ہے اور عذاب کو کہیں سے راہ نہیں ملتی وہ واپس چلا جاتا ہے اس وقت صبر کہتا ہے کہ میں دیکھ رہا تھا کہ اگر تم سے ہی یہ عذاب دفع ہو جائے تو مجھے بولنے کی کیا ضرورت ؟ ورنہ میں بھی اس کی حمایت کرتا اب میں پل صراط پر اور میزان کے وقت اس کے کام آؤں گا ۔ اب دو فرشتے بھیجے جاتے ہیں ایک کو نکیر کہا جاتا ہے دوسرے کو منکر ۔ یہ اچک لے جانے والی بجلی جیسے ہوتے ہیں ان کے دانت سیہ جیسے ہوتے ہیں ان کے سانس سے شعلے نکلتے ہیں ان کے بال پیروں تلے لٹکتے ہوتے ہیں ان کے دو کندھوں کے درمیان اتنی اتنی مسافت ہوتی ہے ۔ ان کے دل نرمی اور رحمت سے بالکل خالی ہوتے ہیں ان میں سے ہر ایک کے ہاتھ میں ہتھوڑے ہوتے ہیں کہ اگر قبیلہ ربیعہ اور قبیلہ مضرم جمع ہو کر اسے اٹھانا چاہیں تو ناممکن ۔ وہ آتے ہی اسے کہتے ہیں اٹھ بیٹھ ۔ یہ اٹھ کر سیدھے طرح بیٹھ جاتا ہے اس کا کفن اس کے پہلو پر آ جاتا ہے وہ اس سے پوچھتے ہیں تیرا رب کون ہے ؟ تیرا دین کیا ہے تیرا نبی کون ہے ؟ صحابہ رضی اللہ عنہم سے نہ رہا گیا انہوں نے کہا رسول اللہ ایسے ڈراؤنے فرشتوں کو کون جواب دے سکے گا ؟ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی آیت «یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیٰوۃِ الدٰنْیَا وَفِی» ۱؎ (14-ابراھیم:27) کی تلاوت فرمائی اور فرمایا : { وہ بے جھجک جواب دیتا ہے کہ میرا رب «اللہ وَحدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ» ہے اور میرا دین اسلام ہے جو فرشتوں کا بھی دین ہے اور میرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو خاتم الانبیاء تھے صلی اللہ علیہ وسلم وہ کہتے ہیں آپ نے صحیح جواب دیا ۔ اب تو وہ اس کے لیے اس کی قبر کو اس کے آگے سے اس کے دائیں سے اس کے بائیں سے اس کے پیچھے سے اس کے سر کی طرف سے اس کے پاؤں کی طرف سے چالیس چالیس ہاتھ کشادہ کر دیتے ہیں دو سو ہاتھ کی وسعت کر دیتے ہیں اور چالیس ہاتھ کا احاطہٰ کر دیتے ہیں اور اس سے فرماتے ہیں اپنے اوپر نظریں اٹھا یہ دیکھتا ہے کہ جنت کا دروازہ کھلا ہوا ہے وہ کہتے ہیں اے اللہ کے دوست چونکہ تو نے اللہ کی بات مان لی تیری منزل یہ ہے } ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے اس وقت جو سرور و راحت اس کے دل کو ہوتی ہے وہ لازوال ہوتی ہے ۔ پھر اس سے کہا جاتا ہے اب اپنے نیچے کی طرف دیکھ ۔ یہ دیکھتا ہے کہ جہنم کا دروازہ کھلا ہوا ہے فرشتے کہتے ہیں کہ دیکھ اس سے اللہ نے تجھے ہمیشہ کے لیے نجات بخشی پھر تو اس کا دل اتنا خوش ہوتا ہے کہ یہ خوشی ابد الا باد تک ہٹتی نہیں } ۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس کے لیے ستر دروازے جنت کے کھل جاتے ہیں جہاں سے بادصبا کی لپٹیں خوشبو اور ٹھنڈک کے ساتھ آتی رہتی ہیں یہاں تک کہ اسے اللہ عزوجل اس کی اس خواب گاہ سے قیامت کے قائم ہو جانے پر اٹھائے ۔ اسی اسناد سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ برے بندے کے لیے ملک الموت سے فرماتا ہے ’ جا اور اس میرے دشمن کو لے آ ۔ اسے میں نے تیری زندگی میں برکت دے رکھی تھی اپنی نعمیتں عطا فرما رکھی تھیں لیکن پھر بھی یہ میری نافرمانیوں سے نہ بچا اسے لے آ تاکہ میں اس سے انتقام لوں ‘ ، اسی وقت ملک الموت علیہ السلام اس کے سامنے انتہائی بد اور ڈراؤنی صورت میں آتے ہیں ایسی کہ کسی نے اتنی بھیانک اور گھناؤنی صورت نہ دیکھی ہو بارہ آنکھیں ہوتی ہیں جہنم کا خار دار لباس ساتھ ہوتا ہے پانچ سو فرشتے جو جہنمی آگ کے انگارے اور آگ کے کوڑے اپنے ساتھ لیے ہوئے ہوتے ہیں ان کے ساتھ ہوتے ہیں ۔ ملک الموت وہ خار دار کھال جو جہنم کی آگ کی ہے اس کے جسم پر مارتے ہیں روئیں روئیں میں آگ کے کانٹے گھس جاتے ہیں پھر اس طرح گہماتے ہیں کہ اس کا جوڑ جوڑ ڈھیلا پڑ جاتا ہے پھر اس کی روح اس کے پاؤں کے انگوٹھوں سے کھینچتے ہیں اور اس کے گھٹنوں پر ڈال دیتے ہیں اس وقت اللہ کا دشمن بیہوش ہو جاتا ہے پس ملک الموت اسے اٹھا لیتے ہیں فرشتے اپنے جہنمی کوڑے اس کے چہرے پر اور پیٹھ پر مارتے ہیں پھر اس کے تہ بند باندھنے کی جگہ پر ڈال دیتے ہیں یہ دشمن رب اس وقت پھر بے تاب ہو جاتا ہے فرشتہ موت پھر اس بیہوشی کو اٹھا لیتا ہے اور فرشتے پھر اس کے چہرے پر اور کمر پر کوڑے برسانے لگتے ہیں آخر یہاں تک کہ روح سینے پر چڑھ جاتی ہے پھر حلق تک پہنچتی ہے پھر فرشتے جہنمی تانبے اور جہنمی انگاروں کو اس کو ٹھوڑی کے نیچے رکھ دیتے ہیں اور ملک الموت علیہ السلام فرماتے ہیں ” اے لعین و ملعون روح چل سینک میں اور جھلستے پانی اور کالے سیاہ دھویں کے غبار میں جس میں نہ تو خنکی ہے نہ اچھی جگہ “ ۔ جب یہ روح قبض ہو جاتی ہے تو اپنے جسم سے کہتی ہے اللہ تجھ سے سمجھے تو مجھے اللہ کی نافرمانیوں کی طرف بھگائے لیے جا رہا تھا ۔ خود بھی ہلاک ہوا اور مجھے بھی برباد کیا ۔ جسم بھی روح سے یہی کہتا ہے ۔ زمین کے وہ تمام حصے جہاں یہ اللہ کی معصیت کرتا تھا اس پر لعنت کرنے لگتے ہیں ۔ شیطانی لشکر دوڑتا ہوا شیطان کے پاس پہنچتا ہے اور کہتا ہے کہ ہم نے آج ایک کو جہنم میں پہنچا دیا ۔ اس کی قبر اس قدر تنگ ہو جاتی ہے کہ اس کی دائیں پسلیاں بائیں میں اور بائیں دائیں میں گھس جاتی ہے کالے ناگ بختی اونٹوں کے برابر اس کی قبر میں بھیجے جاتے ہیں جو اس کے کانوں اور اس کے پاؤں کے انگوٹھوں سے اسے ڈسنا شروع کرتے ہیں اور اوپر چڑھتے آتے ہیں یہاں تک کہ وسط جسم میں مل جاتے ہیں ۔ دو فرشتے بھیجے جاتے ہیں جن کی آنکھیں تیز بجلی جیسی جن کی آواز گرج جیسی جن کے دانت درندے جیسے جن کے سانس آگ کے شعلے جیسے جن کے بال پیروں کے نیچے تک جن کے دو مونڈھوں کے درمیان اتنی اتنی مسافت ہے جن کے دل میں رحمت و رحم کا نام نشان بھی نہیں جن کا نام ہی منکر نکیر ہے جن کے ہاتھ میں لوہے کے اتنے بڑے ہتھوڑے ہیں جنہیں ربیعہ اور مضرم مل کر بھی نہیں اٹھا سکتے وہ اسے کہتے ہیں اٹھ بیٹھ یہ سیدھا بیٹھ جاتا ہے اور تہ بند باندھنے کی جگہ اس کا کفن آ پڑتا ہے وہ اس سے پوچھتے ہیں تیرا رب کون ہے ؟ تیرا دین کیا ہے ؟ تیرا نبی کون ہے ؟ یہ کہتا ہے مجھے تو کچھ خبر نہیں وہ کہتے ہیں ہاں نہ تو نے معلوم کیا نہ تو نے پڑھا پھر اس زور سے اسے ہتھوڑا مارتے ہیں کہ اس کے شرارے اس کی قبر کو پر کر دیتے ہیں پھر لوٹ کر اس سے کہتے ہیں اپنے اوپر کو دیکھ یہ ایک کھلا ہوا دروازہ دیکھتا ہے وہ کہتے ہیں واللہ اگر تو اللہ کا فرمانبردار رہتا تو تیری یہ جگہ تھی ۔ { حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { اب تو اسے وہ حسرت ہوتی ہے جو کبھی اس کے دل سے جدا نہیں ہونے کی ۔ پھر وہ کہتے ہیں اب اپنے نیچے دیکھ وہ دیکھتا ہے کہ ایک دروازہ جہنم کا کھلا ہوا ہے فرشتے کہتے ہیں اے دشمن رب چونکہ تو نے اللہ کی مرضی کے خلاف کام کئے ہیں اب تیری جگہ یہ ہے واللہ اس وقت اس کا دل رنج و افسوس سے بیٹھ جاتا ہے جو صدمہ اسے کبھی بھولنے کا نہیں اس کے لیے ستر دروازے جہنم کے کھل جاتے ہیں جہاں سے گرم ہوا اور بھاپ اسے ہمیشہ ہی آیا کرتی ہے یہاں تک کہ اسے اللہ تعالیٰ اٹھا بٹھائے } } ۔ (الدر المنثور للسیوطی ، 528/3:ضعیف) یہ حدیث بہت غریب ہے اور یہ سیاق بہت عجیب ہے اور اس کا راوی یزید رقاضی جو سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے نیچے کا راوی ہے اس کی غرائب و منکرات بہت ہیں اور ائمہ کے نزدیک وہ ضعیف الروایت ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ ابوداؤد میں ہے { سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی شخص کے دفن سے فارغ ہوتے تو وہاں ٹھہر جاتے اور فرماتے { اپنے بھائی کے لیے استغفار کرو اور اس کے لیے ثابت قدمی طلب کرو اس وقت اس سے سوال ہو رہا ہے } ۔ (سنن ابوداود:3221،قال الشیخ الألبانی:صحیح) حافظ ابن مردویہ نے فرمان باری «وَلَوْ تَرٰٓی اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِیْ غَمَرٰتِ الْمَوْتِ» ۱؎ (6-الأنعام:93) کی تفسیر میں ایک بہت لمبی حدیث وارد کی ہے وہ بھی غرائب سے پر ہے ۔ ابراھیم
28 منافقین قریش صحیح بخاری میں ہے(صحیح بخاری:کتاب التفسیر:سورۃ ابراھیم باب :3) «أَلَمْ تَرَ» معنی میں «أَلَمْ تَعْلَمْ» کے ہے یعنی کیا تو نہیں جانتا «بَوَارِ» کے معنی ہلاکت کے ہیں «بَارَ یَبُورُ بَوْرًا » سے «بُورًا » کے معنی «ہَالِکِینَ» کے ہیں ۔ مراد ان لوگوں سے بقول سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما ” کفار اہل مکہ ہیں “ اور قول ہے کہ ” مراد اس سے جبلہ بن ابہم اور اس کی اطاعت کرنے والے وہ عرب ہیں جو رومیوں سے مل گئے تھے “ ۔ (تفسیر قرطبی:451/7) لیکن مشہور اور صحیح قول سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا اول ہی ہے ۔ گو الفاظ اپنے عموم کے اعتبار سے تمام کفار مشتمل ہوں ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام عالم کے لیے رحمت بنا کر اور کل لوگوں کے لیے نعمت بنا کر بھیجا ہے جس نے اس رحمت و نعمت کی قدر دانی کی وہ جنتی ہے اور جس نے ناقدری کی وہ جہنمی ہے ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بھی ایک قول سیدنا ابن عباس کے پہلے قول کی موافقت میں مروی ہے ابن کواء کے جواب میں آپ رضی اللہ عنہ نے یہی فرمایا تھا کہ ” یہ بدر کے دن کے کفار قریش ہیں “ ۔ اور روایت میں ہے کہ ایک شخص کے سوال پر آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” مراد اس سے منافقین قریش ہیں “ ۔ اور روایت میں ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہما نے ایک مرتبہ فرمایا کہ ” کیا مجھ سے قرآن کی بابت کوئی کچھ بات دریافت نہیں کرتا ؟ واللہ ! میرے علم میں اگر آج کوئی مجھ سے زیادہ قرآن کا عالم ہوتا تو چاہے وہ سمندروں پار ہوتا لیکن میں ضرور اس کے پاس پہنچتا ۔ یہ سن کر عبداللہ بن کواء کھڑا ہوگیا اور کہا یہ کون لوگ ہیں جن کے بارے میں فرمان الٰہی ہے کہ انہوں نے اللہ کی نعمت کو کفر سے بدلا اور اپنی قوم کو ہلاکت کے گڑھے میں ڈال دیا ؟ آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا ” یہ مشریکن قریش ہیں ان کے پاس اللہ کی نعمت ایمان پہنچی لیکن اس نعمت کو انہوں نے کفر سے بدل دیا “ ۔ اور روایت میں آپ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ” اس سے مراد قریش کے دو فاجر ہیں بنو امیہ اور بنو مغیرہ “ ۔ بنو مغیرہ نے اپنی قوم کو بدر میں لا کھڑا کیا اور انہیں ہلاکت میں ڈالا اور بنو امیہ نے احد والے دن اپنے والوں کو غارت کیا ۔ بدر میں ابوجہل تھا اور احد میں ابوسفیان اور ہلاکت کے گھر سے مراد جہنم ہے ۔ اور روایت میں ہے کہ بنو مغیرہ تو بدر میں ہلاک ہوئے اور بنو امیہ کو کچھ دنوں کا فائدہ مل گیا ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے بھی اس آیت کی تفسیر میں یہی مروی ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جب آپ رضی اللہ عنہ سے سوال کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” یہ دونوں قریش کے بدکار ہیں ۔ میرے ماموں اور تیرے چچا ، میری ممیاں والے تو بدر کے دن ناپید ہوگئے اور تیرے چچا والوں کو اللہ نے مہلت دے رکھی ہے ۔ یہ جہنم میں جائیں گے جو بری جگہ ہے ۔ انہوں نے خود شرک کیا دوسروں کو شرک کی طرف بلایا “ ۔ ’ اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تم ان سے کہہ دو کہ دنیا میں کچھ کھا پی لو پہن اوڑھ لو آخر ٹھکانا تو تمہارا جہنم ہے ‘ ۔ جیسے فرمان ہے «نُمَتِّعُہُمْ قَلِیلًا ثُمَّ نَضْطَرٰہُمْ إِلَیٰ عَذَابٍ غَلِیظٍ» ۱؎ (31-لقمان:24) ’ ہم انہیں یونہی سا آرام دے دیں گے پھر سخت عذابوں کی طرف بے بس کر دیں گے ‘ ۔ «مَتَاعٌ فِی الدٰنْیَا ثُمَّ إِلَیْنَا مَرْجِعُہُمْ ثُمَّ نُذِیقُہُمُ الْعَذَابَ الشَّدِیدَ بِمَا کَانُوا یَکْفُرُونَ» ۱؎ (10-یونس:70) ’ دنیاوی نفع اگرچہ ہو گا لیکن لوٹیں گے تو ہماری ہی طرف اس وقت ہم انہیں ان کے کفر کی وجہ سے سخت عذاب کریں گے ‘ ۔ ابراھیم
29 ابراھیم
30 ابراھیم
31 احسان اور احسن سلوک اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اپنی اطاعت کا اور اپنے حق ماننے کا اور مخلوق رب سے احسان وسلوک کرنے کا حکم دے رہا ہے فرماتا ہے کہ ’ نماز برابر پڑھتے رہیں جو اللہ «وَحدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ» کی عبادت ہے اور زکوٰۃ ضرور دیتے رہیں قرابت داروں کو بھی اور انجان لوگوں کو بھی ‘ ۔ اقامت سے مراد وقت کی ، حد کی ، رکوع کی ، خشوع کی ، سجدے کی حفاظت کرنا ہے ۔ اللہ کی دی ہوئی روزی اس کی راہ میں پوشیدہ اور کھلے طور پر اس کی خوشنودی کے لیے اوروں کو بھی دینی چاہیئے تاکہ اس دن نجات ملے جس دن کوئی خرید و فروخت نہ ہو گی نہ کوئی دوستی آشنائی ہو گی ۔ کوئی اپنے آپ کو بطور فدیے کے بیچنا بھی چاہے تو بھی ناممکن ۔ جیسے فرمان ہے «فَالْیَوْمَ لَا یُؤْخَذُ مِنْکُمْ فِدْیَۃٌ وَّلَا مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مَاْوٰیکُمُ النَّارُ ہِیَ مَوْلٰیکُمْ وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ» ۱؎ (57-الحدید:15) یعنی ’ آج تم سے اور کافروں سے کوئی فدیہ اور بدلہ نہ لیا جائے گا ۔ وہاں کسی کی دوستی کی وجہ سے کوئی چھوٹے گا نہیں بلکہ وہاں عدل و انصاف ہی ہوگا ‘ ۔ «خِلَالٌ» مصدر ہے ، امراء لقیس کے شعر میں بھی یہ لفظ ہے ؎ «صَرَفْتُ الْہَوَی عَنْہُنَّ مِنْ خَشْیَۃِ الرَّدَی وَلَسْتُ بِمُقْلِیِّ الْخِلَالِ وَلَا قَالٍ» ۔ دنیا میں لین دین ، محبت دوستی کام آ جاتی ہے لیکن وہاں یہ چیز اگر اللہ کے لیے نہ ہو تو محض بےسود رہے گی ۔ کوئی سودا گری ، کوئی شناسا وہاں کام نہ آئے گا ۔ زمین بھر کر سونا فدیے میں دینا چاہے لیکن رد ہے کسی کی دوستی کسی کی سفارش کافر کو کام نہ دے گی ۔ فرمان الٰہی ہے آیت «وَاتَّقُوْا یَوْمًا لَّا تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَـیْــــًٔـا وَّلَا یُقْبَلُ مِنْہَا شَفَاعَۃٌ وَّلَا یُؤْخَذُ مِنْہَا عَدْلٌ وَّلَا ھُمْ یُنْصَرُوْنَ» ۱؎ (2-البقرۃ:48) ’ اس دن کے عذاب سے بچنے کی کوشش کرو ، جس دن کوئی کسی کو کچھ کام نہ آئے گا ، نہ کسی سے فدیہ قبول کیا جائے گا ، نہ کسی کو کسی کی شفاعت نفع دے گی نہ کوئی کسی کی مدد کر سکے گا ‘ ۔ فرمان ہے «یٰٓاَیٰہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰکُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ یَوْمٌ لَّا بَیْعٌ فِیْہِ وَلَا خُلَّۃٌ وَّلَا شَفَاعَۃٌ وَالْکٰفِرُوْنَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ» ۱؎ (2-البقرۃ:254) ’ ایمان دارو جو ہم نے تمہیں دے رکھا ہے ، تم اس میں سے ہماری راہ میں خرچ کرو اس سے پہلے کہ وہ دن آئے جس میں نہ بیوپار ہے نہ دوستی نہ شفاعت ۔ کافر ہی دراصل ظالم ہیں ‘ ۔ ابراھیم
32 سب کچھ تمہارا مطیع ہے اللہ کی طرح طرح کی بےشمار نعمتوں کو دیکھو ، آسمان کو اس نے ایک محفوظ چھت بنا رکھا ہے زمین کو بہترین فرش بنا رکھا ہے آسمان سے بارش برسا کر زمین سے مزے مزے کے پھل کھیتیاں باغات تیار کر دیتا ہے ۔ اسی کے حکم سے کشتیاں پانی کے اوپر تیرتی پھرتی ہیں کہ تمہیں ایک کنارے سے دوسرے کنارے اور ایک ملک سے دوسرے ملک پہنچائیں تم وہاں کا مال یہاں ، یہاں کا وہاں لے جاؤ ، لے آؤ ، نفع حاصل کرو ، تجربہ بڑھاؤ ۔ نہریں بھی اسی نے تمہارے کام میں لگا رکھی ہیں ، تم ان کا پانی پیو ، پلاؤ ، اس سے کھیتیاں کرو ، نہاؤ دھوؤ اور طرح طرح کے فائدے حاصل کرو ۔ «لَا الشَّمْسُ یَنبَغِی لَہَا أَن تُدْرِکَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّیْلُ سَابِقُ النَّہَارِ وَکُلٌّ فِی فَلَکٍ یَسْبَحُونَ» ۱؎ (36-یس:40) ’ ہمیشہ چلتے پھرتے اور کبھی نہ تھکتے سورج چاند بھی تمہارے فائدے کے کاموں میں مشغول ہیں مقرر چال پر مقرر جگہ پر گردش میں لگے ہوئے ہیں ۔ نہ ان میں تکرار ہو نہ آگا پیچھا ‘ ۔ «یُغْشِی اللَّیْلَ النَّہَارَ یَطْلُبُہُ حَثِیثًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنٰجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِأَمْرِہِ أَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ تَبَارَکَ اللہُ رَبٰ الْعَالَمِینَ» ۱؎ (7-الأعراف:54) ’ دن رات انہی کے آنے جانے سے پے در پے آتے جاتے رہتے ہیں ستارے اسی کے حکم کے ماتحت ہیں اور رب العالمین بابرکت ہے ‘ ۔ «یُولِجُ اللَّیْلَ فِی النَّہَارِ وَیُولِجُ النَّہَارَ فِی اللَّیْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ کُلٌّ یَجْرِی إِلَیٰ أَجَلٍ مٰسَمًّی وَأَنَّ اللہَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیرٌ» ۱؎ (31-لقمان:29) ’ کبھی دنوں کو بڑے کر دیتا ہے کبھی راتوں کو بڑھا دیتا ہے ، ہر چیز اپنے کام میں سر جھکائے مشغول ہے ، وہ اللہ عزیز و غفار ہے ۔ تمہاری ضرورت کی تمام چیزیں اس نے تمہارے لیے مہیا کر دی ہیں تم اپنے حال و قال سے جن جن چیزوں کے محتاج تھے ، اس نے سب کچھ تمہیں دے دی ہیں ، مانگنے پر بھی وہ دیتا ہے اور بغیر مانگے بھی اس کا ہاتھ نہیں رکھتا ۔ تم بھلا رب کی تمام نعمتوں کا شکریہ تو ادا کرو گے ؟ تم سے تو ان کی پوری گنتی بھی محال ہے ‘ ۔ طلق بن حبیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” اللہ کا حق اس سے بہت بھاری ہے کہ بندے اسے ادا کرسکیں اور اللہ کی نعمتیں اس سے بہت زیادہ ہیں کہ بندے ان کی گنتی کرسکیں لوگو صبح شام توبہ استغفار کرتے رہو “ ۔ صحیح بخاری میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ { اے اللہ تیرے ہی لیے سب حمد و ثنا سزاوار ہے ، ہماری ثنائیں ناکافی ہیں ، پوری اور بے پرواہ کرنے والی نہیں اے اللہ تو معاف فرما } } ۔ (صحیح بخاری:5459) بزار میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ { قیامت کے دن انسان کے تین دیوان نکلیں گے ایک میں نیکیاں لکھی ہوئی ہوں گی اور دوسرے میں گناہ ہوں گے ، تیسرے میں اللہ کی نعمتیں ہوں گی ۔ اللہ تعالیٰ اپنی نعمتوں میں سے سب سے چھوٹی نعمت سے فرمائے گا کہ ’ اٹھ اور اپنا معاوضہ اس کے نیک اعمال سے لے لے ‘ ، اس سے اس کے سارے ہی عمل ختم ہو جائیں گے پھر بھی وہ یکسو ہو کر کہے گی کہ باری تعالیٰ میری پوری قیمت وصول نہیں ہوئی خیال کیجئے ابھی گناہوں کا دیوان یونہی الگ تھلگ رکھا ہوا ہے ۔ اگر بندے پر اللہ کا ارادہ رحم و کرم کا ہوا تو اب وہ اس کی نیکیاں بڑھا دے گا اور اس کے گناہوں سے تجاوز کر لے گا اور اس سے فرما دے گا کہ میں نے اپنی نعمتیں تجھے بغیر بدلے کے بخش دیں } } ۔ (مسند بزار ، 3444:ضعیف) اس کی سند ضعیف ہے ۔ مروی ہے کہ داؤد علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ جل و علا سے دریافت کیا کہ میں تیرا شکر کیسے ادا کروں ؟ شکر کرنا خود بھی تو تیری ایک نعمت ہے ۔ جواب ملا کہ ’ داؤد ! اب تو شکر ادا کر چکا جب کہ تونے یہ جان لیا اور اس کا اقرار کر لیا کہ تو میری نعمتوں کی شکر کی ادائیگی سے قاصر ہے ‘ ۔ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” اللہ ہی کیلئے تو حمد ہے ، جس کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک نعمت کا شکر بھی بغیر ایک نئی نعمت کے ہم ادا نہیں کرسکتے کہ اس نئی نعمت پر پھر ایک شکر واجب ہو جاتا ہے پھر اس نعمت کی شکر گزاری کی ادائیگی کی توفیق پر بھی پھر نعمت ملی ، جس کا شکریہ واجب ہوا “ ۔ ایک شاعر نے یہی مضمون اپنے شعروں میں باندھا ہے «لَوْ کُلٰ جَارِحَۃٍ مِنِّی لَہَا لُغَۃٌ تُثْنِی» «عَلَیکَ بِمَا أَوْلَیتَ مِنْ حَسَنِ» «لَکَانَ مَا زَادَ شُکْرِی إِذْ شَکَرْتُ بِہِ» «إِلَیْکَ أَبْلُغَ فِی الْإِحْسَانِ وَالْمِنَنِ» کہ رونگٹے رونگٹے پر زبان ہو تو بھی تیری ایک نعمت کا شکر بھی پورا ادا نہیں ہو سکتا تیرے احسانات اور انعامات بےشمار ہیں ۔ ابراھیم
33 ابراھیم
34 ابراھیم
35 حرمت وعظمت کا مالک شہر اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ ’ حرمت والا شہر مکہ ابتداء میں اللہ کی توحید پر ہی بنایا گیا تھا ۔ اس کے اول بانی خلیل اللہ علیہ السلام اللہ کے سوا اوروں کی عبادت کرنے والوں سے بری تھے ۔ انہی نے اس شہر کے با امن ہونے کی دعا کی تھی ۔ جو اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی ‘ ۔ «أَوَلَمْ یَرَوْا أَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا آمِنًا وَیُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِہِمْ» ۱؎ (29-العنکبوت:67) ۔ «إِنَّ أَوَّلَ بَیْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِی بِبَکَّۃَ مُبَارَکًا وَہُدًی لِّلْعَالَمِینَ» «فِیہِ آیَاتٌ بَیِّنَاتٌ مَّقَامُ إِبْرَاہِیمَ وَمَن دَخَلَہُ کَانَ آمِنًا» ۱؎ (3-آل عمران:96-97) ’ سب سے پہلا با برکت اور با ہدایت اللہ کا گھر مکے شریف کا ہی ہے ، جس میں بہت سی واضح نشانیوں کے علاوہ مقام ابراہیم بھی ہے ۔ اس شہر میں جو پہنچ گیا ، امن و امان میں آ گیا ‘ ۔ اس شہر کو بنانے کے بعد خلیل اللہ نے دعا کی کہ ” اے اللہ اس شہر کو پر امن بنا “ ۔ اسی لیے فرمایا کہ «الْحَمْدُ لِلہِ الَّذِی وَہَبَ لِی عَلَی الْکِبَرِ إِسْمَاعِیلَ وَإِسْحَاقَ» ۱؎ (14-ابراھیم:39) ’ اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے بڑھاپے میں اسماعیل و اسحاق جیسے بچے عطا فرمائے ‘ ۔ اسماعیل علیہ السلام کو دودھ پیتا اس کی والدہ کے ساتھ لے کر یہاں آئے تھے تب بھی آپ علیہ السلام نے اس شہر کے با امن ہونے کی دعا کی تھی لیکن اس وقت کے الفاظ یہ تھے «رَبِّ اجْعَلْ ہٰذَا الْبَلَدَ اٰمِنًا» (2-البقرۃ:126) ۔ پس اس دعا میں «بَلَدَ» پر لام نہیں ہے ، اس لیے کہ یہ دعا شہر کی آبادی سے پہلے کی ہے اور اب چونکہ شہر بس چکا تھا ۔ «بلد» کو معرف بلام لائے ۔ سورۃ البقرہ میں ہم ان چیزوں کو وضاحت و تفصیل کے ساتھ ذکر کر آئے ہیں ۔ پھر دوسری دعا میں اپنی اولاد کو بھی شریک کیا ۔ انسان کو لازم ہے کہ اپنی دعاؤں میں اپنے ماں باپ کو اور اولاد کو بھی شامل رکھے ۔ پھر آپ علیہ السلام نے بتوں کی گمراہی ان کا فتنہ اکثر لوگوں کا بہکا جانا بیان فرما کر ان سے اپنی بیزاری کا اظہار کیا اور انہیں اللہ کے حوالے کیا کہ وہ چاہے بخشے ، چاہے سزا دے ۔ جیسے روح اللہ علیہ السلام بروز قیامت کہیں گے کیا اگر تو انہیں عذاب کرے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر بخش دے تو تو عزیز و حکیم ہے ۔ یہ یاد رہے کہ اس میں صرف اللہ کی مشیت اور اس کے ارادے کی طرف لوٹنا ہے نہ کہ اس کے واقع ہونے کو جائز سمجھنا ہے ۔ { حضور علیہ السلام نے خلیل اللہ کا یہ قول اور روح اللہ کا قول آیت «اِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَاِنَّہُمْ عِبَادُکَ وَاِنْ تَغْفِرْ لَہُمْ فَاِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ» (5-المائدۃ:118) ، تلاوت کر کے رو رو کر اپنی امت کو یاد کیا تو اللہ تعالیٰ نے جبرائیل علیہ السلام کو حکم فرمایا کہ جا کر دریافت کرو کہ کیوں رو رہے ہو ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سبب بیان کیا حکم ہوا کہ جاؤ اور کہہ دو کہ ’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے بارے میں خوش کر دیں گے ناراض نہ کریں گے ۔ (صحیح مسلم:202) ابراھیم
36 ابراھیم
37 دوسری دعا یہ دوسری دعا ہے پہلی دعا اس شہر کے آباد ہونے سے پہلے جب آپ اسماعیل علیہ السلام کو مع ان کی والدہ صاحبہ کے یہاں چھوڑ کرگئے تھے ۔ تب کی تھی اور یہ دعا اس شہر کے آباد ہو جانے کے بعد کی اسی لیے یہاں «بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ» کا لفظ لائے اور نماز کے قائم کرنے کا بھی ذکر فرمایا ۔ ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ” یہ متعلق ہے لفظ المحرم ساتھ یعنی اسے باحرمت اس لیے بنایا ہے کہ یہاں والے بااطمینان یہاں نمازیں ادا کر سکیں “ ۔ یہ نکتہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا ” کچھ لوگوں کے دل ان کی طرف جھکا دے “ ، اگر سب لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف جھکانے کی دعا ہوتی تو فارس و روم یہود و نصاری غرض تمام دنیا کے لوگ یہاں الٹ پڑتے ۔ آپ علیہ السلام نے صرف مسلمانوں کے لیے یہ دعا کی ۔ اور دعا کرتے ہیں کہ ” انہیں پھل بھی عنایت فرما “ ۔ یہ زمین زراعت کے قابل بھی نہیں اور دعا ہو رہی ہے پھلوں کی زوزی کی اللہ تعالیٰ نے یہ دعا بھی قبول فرمائی جیسے ارشاد ہے «اَوَلَمْ نُمَکِّنْ لَّہُمْ حَرَمًا اٰمِنًا یٰجْــبٰٓی اِلَیْہِ ثَمَرٰتُ کُلِّ شَیْءٍ رِّزْقًا مِّنْ لَّدُنَّا وَلٰکِنَّ اَکْثَرَہُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ» (28-القصص:57) یعنی ’ کیا ہم نے انہیں حرمت و امن والی ایسی جگہ عنایت نہیں فرمائی ؟ جہاں ہر چیز کے پھل ان کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں جو خاص ہمارے پاس کی روزی ہے ‘ ۔ پس یہ بھی اللہ کا خاص لطف و کرم عنایت و رحم ہے کہ شہر کی پیداوار کچھ بھی نہیں اور پھل ہر قسم کے وہاں موجود ، چاروں طرف سے وہاں چلے آئیں ۔ یہ ہے ابراہیم خلیل الرحمن صلوات اللہ وسلامہ علیہ کی دعا کی قبولیت ۔ ابراھیم
38 مناجات خلیل الرحمن علیہ السلام اپنی مناجات میں فرماتے ہیں کہ ” اے اللہ تو میرے ارادے اور میرے مقصود کو مجھ سے زیادہ جانتا ہے میری چاہت ہے کہ یہاں کے رہنے والے تیری رضا کے طالب اور فقط تیری طرف راغب رہیں ۔ ظاہر و باطن تجھ پر روشن ہے زمین و آسمان کی ہر چیز کا حل تجھ پر کھلا ہے ۔ تیرا احسان ہے کہ اس پورے بڑھاپے میں تو نے میرے ہاں اولاد عطا فرمائی اور ایک پر ایک بچہ دیا ۔ اسماعیل بھی ، اسحاق بھی ۔ تو دعاؤں کا سننے والا اور قبول کرنے والا ہے میں نے مانگا تو نے دیا پس تیرا شکر ہے ۔ اے اللہ مجھے نمازوں کا پابند بنا اور میری اولاد میں بھی یہ سلسلہ قائم رکھ ۔ میری تمام دعائیں قبول فرما “ ۔ «وَلِوَالِدَیَّ» کی قرأت بعض نے «وَالِوَالِدِیْ» بھی کی ہے یہ بھی یاد رہے کہ یہ دعا اس سے پہلے کی ہے کہ آپ علیہ السلام کو اللہ کی طرف سے معلوم ہو جائے کہ آپ علیہ السلام کا والد اللہ کی دشمنی پر ہی مرا ہے ۔ جب یہ ظاہر ہوگیا تو آپ علیہ السلام اپنے والد سے بیزار ہوگئے ۔ پس یہاں آپ علیہ السلام اپنے ماں باپ کی اور تمام مومنوں کی خطاؤں کی معافی اللہ سے چاہتے ہیں کہ اعمال کے حساب اور بدلے کے دن قصور معاف ہوں۔ ابراھیم
39 ابراھیم
40 ابراھیم
41 ابراھیم
42 ہولناک منظر ہو گا کوئی یہ نہ سمجھے کہ برائی کرنے والوں کی برائی کا اللہ کو علم ہی نہیں اس لیے یہ دنیا میں پھل پھول رہے ہیں ، نہیں اللہ ایک ایک کے ایک ایک گھڑی کے برے بھلے اعمال سے بخوبی واقف ہے یہ ڈھیل خود اس کی دی ہوئی ہے کہ یا تو اس میں واپس ہو جائے یا پھر گناہوں میں بڑھ جائے یہاں تک کہ قیامت کا دن آ جائے ۔ جس دن کی ہولناکیاں آنکھیں پتھرا دیں گی ، دیدے چڑھا دیں گی ، سر اٹھائے پکارنے والے کی آواز کی طرف دوڑے چلے جائیں گے ، کہیں ادھر ادھر نہ ہوں گے ۔ سب کے سب پورے اطاعت گزار بن جائیں گے ، دوڑے بھاگے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حاضری کیلئے بیتابانہ آئیں گے ، آنکھیں نیچے کو نہ جھکیں گی ، گھبراہٹ اور فکر کے مارے پلک سے پلک نہ جھپکے گی ۔ دلوں کا یہ حال ہو گا کہ گویا اڑے جاتے ہیں ۔ خالی پڑے ہیں ۔ خوف کے سوا کوئی چیز نہیں ۔ وہ حلقوم تک پہنچے ہوئے ہیں ، اپنی جگہ سے ہٹے ہوئے ہیں ، دہشت سے خراب ہو رہے ہیں ۔ ابراھیم
43 ابراھیم
44 عذاب دیکھنے کے بعد ظالم اور ناانصاف لوگ اللہ کا عذاب دیکھ کر تمنائیں کرتے ہیں اور دعائیں مانگتے ہیں کہ ہمیں ذرا سی مہلت مل جائے کہ ہم فرمانبرداری کرلیں اور پیغمبروں کی اطاعت بھی کر لیں ۔ اور آیت میں ہے موت کو دیکھ کر کہتے ہیں «حَتَّیٰ إِذَا جَاءَ أَحَدَہُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ لَعَلِّی أَعْمَلُ صَالِحًا فِیمَا تَرَکْتُ کَلَّا إِنَّہَا کَلِمَۃٌ ہُوَ قَائِلُہَا وَمِن وَرَائِہِم بَرْزَخٌ إِلَیٰ یَوْمِ یُبْعَثُونَ» ۱؎ (23-المؤمنون:99-100) ’ اے اللہ اب واپس لوٹا دے ‘ الخ ۔ یہی مضمون «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تُلْہِکُمْ أَمْوَالُکُمْ وَلَا أَوْلَادُکُمْ عَن ذِکْرِ اللہِ وَمَن یَفْعَلْ ذٰلِکَ فَأُولٰئِکَ ہُمُ الْخَاسِرُونَ» «وَأَنفِقُوا مِن مَّا رَزَقْنَاکُم مِّن قَبْلِ أَن یَأْتِیَ أَحَدَکُمُ الْمَوْتُ فَیَقُولَ رَبِّ لَوْلَا أَخَّرْتَنِی إِلَیٰ أَجَلٍ قَرِیبٍ فَأَصَّدَّقَ وَأَکُن مِّنَ الصَّالِحِینَ» ۱؎ (63-المنافقون:10-9) میں ہے یعنی ’ اے مسلمانوں تمہیں تمہارے مال اولاد یاد الٰہی سے غافل نہ کر دیں ۔ ایسا کرنے والے لوگ ظاہری خسارے میں ہیں ۔ ہمارا دیا ہوا ہماری راہ میں دیتے رہو ایسا نہ ہو کہ موت کے وقت آرزو کرنے لگو کہ مجھے ذرا سی مہلت نہیں مل جائے تو میں خیرات ہی کر لوں اور نیک لوگوں میں مل جاؤں ۔ یاد رکھو اجل آنے کے بعد کسی کو مہلت نہیں ملتی اور اللہ تمہارے تمام اعمال سے باخبر ہے ۔ محشر میں بھی ان کا یہی حال ہوگا ‘ ۔ چنانچہ سورۃ السجدہ کی «وَلَوْ تَرٰٓی اِذِ الْمُجْرِمُوْنَ نَاکِسُوْا رُءُوْسِہِمْ عِنْدَ رَبِّہِم» ۱؎ (32-السجدۃ:12) میں ہے کہ ’ کاش کے تم گنہگاروں کو دیکھتے کہ وہ اپنے پروردگار کے روبرو سر جھکائے کہہ رہے ہوں گے کہ اے ہمارے رب ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا تو ہمیں ایک بار دنیا میں پھر بھیج دے کہ ہم یقین والے ہو کر نیک اعمال کرلیں ‘ ۔ یہی بیان «وَلَوْ تَرٰٓی اِذْ وُقِفُوْا عَلَی النَّارِ فَقَالُوْا یٰلَیْتَنَا نُرَدٰ وَلَا نُکَذِّبَ بِاٰیٰتِ رَبِّنَا وَنَکُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ» ۱؎ (6-الأنعام:27) اور «وَہُمْ یَصْطَرِخُونَ فِیہَا رَبَّنَا أَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَیْرَ الَّذِی کُنَّا نَعْمَلُ أَوَلَمْ نُعَمِّرْکُم مَّا یَتَذَکَّرُ فِیہِ مَن تَذَکَّرَ وَجَاءَکُمُ النَّذِیرُ فَذُوقُوا فَمَا لِلظَّالِمِینَ مِن نَّصِیرٍ» ۱؎ (35-فاطر:37) وغیرہ میں بھی ہے ۔ یہاں انہیں جواب ملتا ہے کہ ’ تم تو اس سے پہلے قسمیں کھا کھا کر کہتے تھے کہ تمہاری نعمتوں کو زوال ہی نہیں قیامت کوئی چیز ہی نہیں مر کر اٹھنا ہی نہیں اب اس کا مزہ چکھو ‘ ۔ یہ کہا کرتے تھے اور خوب مضبوط قسمیں کھا کھا کر دوسروں کو بھی یقین دلاتے تھے کہ مردوں کو اللہ زندہ نہ کرے گا ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ تم دیکھ چکے کہ تم سے پہلے کے تم جیسوں کے ساتھ ہم نے کیا کیا ؟ ان کی مثالیں ہم تم سے بیان بھی کر چکے کہ ہمارے عذابوں نے کیسے انہیں غارت کر دیا ؟ باوجود اس کے تم ان سے عبرت حاصل نہیں کرتے اور چوکنا نہیں ہوتے ۔ یہ گو کتنے ہی چالاک ہوں لیکن ظاہر ہے کہ اللہ کے سامنے کسی کی چالاکی نہیں چلتی ‘ ۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے جس نے جھگڑا کیا تھا اس نے دو بچے گدھ کے پالے جب وہ بڑے ہوگئے ۔ جوانی کو پہنچے قوت والے ہوگئے تو ایک چھوٹی سی چوکی کے ایک پائے سے ایک کو باندھ دیا دوسرے سے دوسرے کو باندھ دیا انہیں کھانے کو کچھ نہ دیا خود اپنے ایک ساتھی سمیت اس چوکی پر بیٹھ گیا اور ایک لکڑی کے سرے پر گوشت باندھ کر اسے اوپر کو اٹھایا بھوکے گدھ وہ کھانے کے لیے اوپر کو اڑے اور اپنے زور سے چوکی کو بھی لے اڑے اب جب کہ یہ اتنی بلندی پر پہنچ گئے کہ ہر چیز انہیں مکھی کی طرح کی نظر آنے لگی تو اس نے لکڑی جھکا دی اب گوشت نیچے دکھائی دینے لگا اس لیے جانوروں نے پر سمیٹ کر گوشت لینے کے لیے نیچے اترنا شروع کیا اور تخت بھی نیچا ہونے لگا یہاں تک کہ زمین تک پہنچ گیا پس یہ ہیں وہ مکاریاں جن سے پہاڑوں کا زوال بھی ممکن سا ہو جائے ۔ سیدنا عبداللہ کی قرأت میں «کَادَ مَکْرُھُم» ہے ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ ، سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی قرأت بھی یہی ہے ۔ یہ قصہ نمرود کا ہے جو کنعان کا بادشاہ تھا اس نے اس حیلے سے آسمان کا قبض چاہا تھا اس کے بعد قبطیوں کے بادشاہ فرعون کو بھی یہی خبط سمایا تھا بڑا بلند منارہ تعمیر کرایا تھا لیکن دونوں کی ناتوانی ضعیفی اور عاجزی ظاہر ہوگئی ۔ اور ذلت و خواری پستی و تنزل کے ساتھ حقیر و ذلیل ہوئے ۔ کہتے ہیں کہ جب بخت نصر اس حیلہ سے اپنے تخت کو بہت اونچا لے گیا یہاں تک کہ زمین اور زمین والے اس کی نظروں سے غائب ہو گئے تو اسے ایک قدرتی آواز آئی کہ اے سرکش طاغی کیا ارادہ ہے ؟ یہ ڈر گیا ذرا سی دیر بعد پھر اسے یہی غیب ندا سنائی دی اب تو اس کا پِتّہ پانی ہو گیا اور جلدی سے نیزہ جھکا کر اترنا شروع کر دیا ۔ حضرت مجاہد رحمہ اللہ کی قرأت میں «لِتَزُوْلُ» ہے بدلے میں «لِتَزُولَ» کے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما «اِنۡ» کو نافیہ مانتے ہیں یعنی ان کے مکر پہاڑوں کو زائل نہیں کرسکتے ۔ حسن بصری رحمہ اللہ بھی یہی کہتے ہیں ۔ ابن جریر رحمہ اللہ اس کی توجیہ یہ بیان فرماتے ہیں کہ ” ان کا شرک و کفر پہاڑوں وغیرہ کو ہٹا نہیں سکتا کوئی ضرر دے نہیں سکتا صرف اس کا وبال انہی کی جانوں پر ہے “ ۔ میں کہتا ہوں اسی کے مشابہ یہ فرمان الٰہی بھی ہے «لَا تَمْشِ فِی الْأَرْضِ مَرَحًا إِنَّکَ لَن تَخْرِقَ الْأَرْضَ وَلَن تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُولًا» ۱؎ (17-الإسراء:37) ’ زمین پر اکڑفوں سے نہ چل نہ تو تو زمین کو چیر سکتا ہے نہ پہاڑوں کی بلندی کو پہنچ سکتا ہے ‘ ۔ دوسرا قول سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ ہے کہ ” ان کا شرک پہاڑوں کو زائل کر دینے والا ہے “ ۔ جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے «تَکَاد السَّمٰوٰتُ یَــتَفَطَّرْنَ مِنْہُ وَتَنْشَقٰ الْاَرْضُ وَتَخِرٰ الْجِبَالُ ہَدًّا» ۱؎ (19-مریم:90) ’ اس سے تو آسمانوں کا پھٹ جانا ممکن ہے ‘ ۔ ضحاک و قتادہ رحمہ اللہ علیہم کا بھی یہی قول ہے ۔ ابراھیم
45 ابراھیم
46 ابراھیم
47 انبیاء کی مدد اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کو مقرر اور موکد کر رہا ہے کہ ’ دنیا آخرت میں جو اس نے اپنے رسولوں کی مدد کا وعدہ کیا ہے وہ کبھی اس کے خلاف کرنے والا نہیں ۔ اس پر کوئی اور غالب نہیں وہ سب پر غالب ہے اس کے ارادے سے مراد جدا نہیں اس کا چاہا ہو کر رہتا ہے ۔ وہ کافروں سے ان کے کفر کا بدلہ ضرور لے گا قیامت کے دن ان پر حسرت و مایوسی طاری ہوگی ۔ اس دن زمین ہوگی لیکن اس کے سوا اور ہو گی اسی طرح آسمان بھی بدل دئے جائیں گے ‘ ۔ بخاری و مسلم میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { ایسی سفید صاف زمین پر حشر کئے جائیں گے جیسے میدے کی سفید ٹکیا ہو جس پر کوئی نشان اور اونچ نہ ہو گی } ۔ (صحیح بخاری:6521) مسند احمد میں ہے { ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ” سب سے پہلے میں نے ہی اس آیت کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تھا کہ اس وقت لوگ کہاں ہوں گے ؟ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { پل صراط پر } } ۔ (مسند احمد:35/6:صحیح) اور روایت میں ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ { تم نے وہ بات پوچھی کہ میری امت میں سے کسی اور نے یہ بات مجھ سے نہیں پوچھی } } ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:20972:ضعیف و منقطع) اور روایت میں ہے کہ { یہی سوال مائی صاحبہ رضی اللہ عنہا کا «وَمَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِ وَالْاَرْضُ جَمِیْعًا قَبْضَتُہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَالسَّمٰوٰتُ مَطْوِیّٰتٌ بِیَمِیْنِہٖ سُبْحٰنَہٗ وَتَعٰلٰی عَمَّا یُشْرِکُوْنَ» ۱؎ (39-الزمر:67) کے متعلق تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی جواب دیا تھا } ۔ (مسند احمد:116/6:صحیح) سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں { میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا ایک یہودی عالم آیا اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لے کر سلام علیک کہا میں نے اسے ایسے زور سے دھکا دیا کہ قریب تھا کہ گر پڑے اس نے مجھ سے کہا تو نے مجھے دھکا دیا ؟ میں نے کہا بے ادب یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں کہتا ؟ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لیتا ہے اس نے کہا ہم تو جو نام ان کا ان کے گھرانے کے لوگوں نے رکھا ہے اسی نام سے پکاریں گے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { میرے خاندان نے میرا نام محمد [ صلی اللہ علیہ وسلم ] ہی رکھا ہے } ۔ یہودی نے کہا سنیے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک بات دریافت کرنے آیا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { پھر میرا جواب تجھے کوئی نفع بھی دے گا ؟ } اس نے کہا سن تو لوں گا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں جو تنکا تھا اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین پر پھراتے ہوئے فرمایا کہ { اچھا دریافت کرلو } ۔ اس نے کہا سب سے پہلے پل صراط سے پار کون لوگ ہوں گے ؟ فرمایا : { مہاجرین فقراء } ۔ اس نے پوچھا انہیں سب سے پہلے تحفہ کیا ملے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { مچھلی کی کلیجی کی زیادتی } ۔ اس نے پوچھا اس کے بعد انہیں کیا غذا ملے گی ؟ فرمایا : { جنتی بیل ذبح کیا جائے گا جو جنت کے اطراف میں چرتا چگتا رہا تھا } ۔ اس نے پوچھا پھر پینے کو کیا ملے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { جنتی نہر سلسبیل کا پانی } ۔ یہودی نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب جواب برحق ہیں ۔ اچھا اب میں ایک بات اور پوچھتا ہوں جسے یا تو نبی جانتا ہے یا دنیا کے اور دو ایک آدمی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا { کیا میرا جواب تجھے کچھ فائدہ دے گا ؟ } اس نے کہا سن تو لوں گا ۔ بچے کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا فرماتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { مرد کا خاص پانی سفید رنگ کا ہوتا ہے اور جب عورت کا خاص پانی زرد رنگ کا ۔ جب یہ دونوں جمع ہوتے ہیں تو اگر مرد کا پانی غالب آجائے تو بحکم الٰہی لڑکا ہوتا ہے اور اگر عورت کا پانی مرد کے پانی پر غالب آجائے تو اللہ کے حکم سے لڑکی ہوتی ہے } ۔ یہودی نے کہا بیشک آپ صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہیں اور یقیناً آپ اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ پھر وہ وآپس چلا گیا ۔ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جواب سکھا دیا } ۔ (صحیح مسلم:315) ابن جریر طبری میں ہے کہ { یہودی عالم کے پہلے سوال کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اس وقت مخلوق اللہ کی مہمانی میں ہوگی پس اس کے پاس کی چیز ان سے عاجز نہ ہوگی } } ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:20976:ضعیف) حضرت عمرو بن میمون رحمہ اللہ کہتے ہیں ” یہ زمین بدل دی جائے گی اور زمین سفید میدے کی ٹکیا جیسی ہوگی جس میں نہ کوئی خون بہا ہوگا جس پر نہ کوئی خطا ہوئی ہوگی آنکھیں تیز ہوں گی داعی کی آواز کانوں میں ہوگی سب ننگے پاؤں ننگے بدن کھڑے ہوئے ہوں گے یہاں تک کہ پسینہ مثل لگام کے ہو جائے گا “ ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح مروی ہے ۔ ایک مرفوع روایت میں ہے کہ { سفید رنگ کی وہ زمین ہوگی جس پر نہ خون کا قطرہ گرا ہوگا نہ اس پر کسی گناہ کا عمل ہوا ہوگا } ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:249/13:صحیح موقوفاً) اسے مرفوع کرنے والا ایک ہی راوی ہے یعنی جریر بن ایوب اور وہ قوی نہیں ۔ ابن جریر میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کے پاس اپنا آدمی بھیجا پھر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے پوچھا { جانتے ہو میں نے آدمی کیوں بھیجا ہے ؟ } انہوں نے کہا اللہ ہی کو علم ہے اور اس کے رسول کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : «یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَیْرَ الْاَرْضِ وَالسَّمٰوٰتُ وَبَرَزُوْا لِلہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِ» ۱؎ (14-ابراھیم:48) کے بارے میں یاد رکھو وہ اس دن چاندی کی طرح سفید ہوگی } ۔ جب وہ لوگ آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا ؟ انہوں نے کہا کہ سفید ہو گی جیسے میدہ ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:20947:ضعیف) اور بھی سلف سے مروی ہے کہ چاندی کی زمین ہو گی ۔ سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ” آسمان سونے کا ہوگا “ ۔ ابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” وہ باغات بنا ہوا ہوگا “ ۔ محمد بن قیس رحمہ اللہ کہتے ہیں ” زمین روٹی بن جائے گی کہ مومن اپنے قدموں تلے سے ہی کھالیں “ ۔ حضرت سعید بن جبیر رحمہ اللہ بھی یہی فرماتے ہیں کہ ” زمین بدل کر روٹی بن جائے گی “ ۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” قیامت کے دن ساری زمین آگ بن جائے گی اس کے پیچھے جنت ہوگی جس کی نعمتیں باہر سے ہی نظر آ رہی ہوں گی لوگ اپنے پسینوں میں ڈوبے ہوئے ہوں گے ابھی حساب کتاب شروع نہ ہوا ہو گا ۔ انسان کا پسینہ پہلے قدموں میں ہی ہو گا پھر بڑھ کر ناک تک پہنچ جائے گا بوجہ اس سختی اور گھبراہٹ اور خوفناک منظر کے جو اس کی نگاہوں کے سامنے ہے “ ۔ حضرت کعب رحمہ اللہ کہتے ہیں ” آسمان باغات بن جائیں گے سمندر آگ ہو جائیں گے زمین بدل دی جائے گی “ ۔ ابوداؤد کی حدیث میں ہے { سمندر کا سفر صرف غازی یا حاجی یا عمرہ کرنے والے ہی کریں ۔ کیونکہ سمندر کے نیچے آگ ہے یا آگ کے نیچے سمندر ہے } ۔ (سنن ابوداود:2489،قال الشیخ الألبانی:ضعیف جداً) صور کی مشہور حدیث میں ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ { اللہ تعالیٰ زمین کو بسیط کرکے عکاظی چمڑے کی طرح کھینچے گا اس میں کوئی اونچ نِیچ نظر نہ آئے گی پھر ایک ہی آواز کے ساتھ تمام مخلوق اس نئی زمین پر پھیل جائے گی } ۔ پھر ارشاد ہے کہ { تمام ہے کہ تمام مخلوق اپنی قبروں سے نکل کر اللہ تعالیٰ واحد و قہار کے سامنے روبرو ہو جائے گی وہ اللہ جو اکیلا ہے اور جو ہر چیز پر غالب ہے سب کی گردنیں اس کے سامنے خم ہیں اور سب اس کے تابع فرمان ہیں } ۔ ابراھیم
48 ابراھیم
49 جکڑے ہوئے مفسد انسان ’ زمین و آسمان بدلے ہوئے ہیں ۔ مخلوق اللہ کے سامنے کھڑی ہے ، اس دن اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تم دیکھو گے کہ کفر و فساد کرنے والے گنہگار آپس میں جکڑے بندھے ہوئے ہوں گے ہر ہر قسم کے گنہگار دوسروں سے ملے جلے ہوئے ہوں گے ‘ ۔ جیسے فرمان ہے «اُحْشُرُوا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا وَاَزْوَاجَہُمْ وَمَا کَانُوْا یَعْبُدُوْنَ» ۱؎ (37-الصافات:22) ’ ظالموں کو اور ان کی جوڑ کے لوگوں کو اکٹھا کرو ‘ اور آیت میں ہے «وَاِذَا النٰفُوْسُ زُوِّجَتْ» ۱؎ (81-التکویر:7) ’ جب کہ نفس کے جوڑے ملا دیے جائیں ‘ ۔ اور جگہ ارشاد ہے «وَاِذَآ اُلْقُوْا مِنْہَا مَکَانًا ضَیِّقًا مٰقَرَّنِیْنَ دَعَوْا ہُنَالِکَ ثُبُوْرًا» ۱؎ (25-الفرقان:13) یعنی ’ جب کہ جہنم کے تنگ مکان میں وہ ملے جلے ڈالے جائیں گے تو ہاں وہ موت موت پکاریں گے ‘ ۔ سلیمان علیہ السلام کے جنات کی بابت بھی «وَالشَّیَاطِینَ کُلَّ بَنَّاءٍ وَغَوَّاصٍ وَآخَرِینَ مُقَرَّنِینَ فِی الْأَصْفَادِ» (38-ص:38 ، 37) «أَصْفَادِ» کا لفظ ہے ۔ «أَصْفَادِ» کہتے ہیں قید کی زنجیروں کو عمرو بن کلثوم کے شعر میں «فَآبُوا بِالثِّیَابِ وَبِالسَّبَایَا وأُبْنَا بِالْمُلُوکِ مُصَفَّدِینَا» ، «مُصَفَّدِ» زنجیروں میں جکڑے ہوئے قیدی کے معنی میں آیا ہے ۔ جو کپڑے انہیں پہنائے جائیں گے وہ گندھک کے ہوں گے جو اونٹوں کو لگایا جاتا ہے اسے آگ تیزی اور سرعت سے پکڑتی ہے یہ لفظ «قَطِرَان» بھی ہے «قَطّرَانِ» بھی ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ، ” پگھلے ہوئے تانبے کو «قَطِرَانٍ» کہتے ہیں اس سخت گرم آگ جیسے تانبے کے ان دوزخیوں کے لباس ہوں گے “ ۔ «تَلْفَحُ وُجُوہَہُمُ النَّارُ وَہُمْ فِیہَا کَالِحُونَ» ۱؎ (23-المؤمنون:104) ’ ان کے منہ بھی آگ میں ڈھکے ہوئے ہوں گے چہروں تک آگ چڑھی ہوئی ہوگی ، سر سے شعلے بلند ہو رہے ہوں گے ، منہ بگڑ گئے ہوں گے ‘ ۔ مسند احمد میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { میری امت میں چار کام جاہلیت کے ہیں جو ان سے نہ چھوٹیں گے حسب پر فخر ، نسب میں طعنہ زنی ، ستاروں سے بارش کی طلبی ، میت پر نوحہ کرنے والی نے اگر اپنی موت سے پہلے توبہ نہ کرلی تو اسے قیامت کے دن گندھک کا کرتا اور کھجلی کا دوپٹا پہنایا جائے گا } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:342/5:صحیح) مسلم میں بھی یہ حدیث ہے (صحیح مسلم:934) اور روایت میں ہے کہ { وہ جنت دوزخ کے درمیان کھڑی کی جائے گی گندھک کا کرتا ہو گا اور منہ پر آگ کھیل رہی ہو گی } ۔ (طبرانی کبیر:18/8-78:ضعیف) «لِیَجْزِیَ الَّذِینَ أَسَاءُوا بِمَا عَمِلُوا وَیَجْزِیَ الَّذِینَ أَحْسَنُوا بِالْحُسْنَی» ۱؎ (53-النجم:31) ’ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اس کے کاموں کا بدلہ دے گا ۔ بروں کی برائیاں سامنے آ جائیں گی نیک کام کرنے والوں کو اچھا بدلہ عنایت فرمائے گا ‘ ۔ اللہ تعالیٰ بہت ہی جلد ساری مخلوق کے حساب سے فارغ ہو جائے گا ۔ ممکن ہے یہ آیت بھی مثل «اِقْتَرَبَ للنَّاسِ حِسَابُہُمْ وَہُمْ فِیْ غَفْلَۃٍ مٰعْرِضُوْنَ» ۱؎ (21-الأنبیاء:1) کے ہو یعنی ’ لوگوں کے حساب کا وقت قریب آگیا لیکن پھر بھی وہ غفلت کے ساتھ منہ پھیرے ہوئے ہی ہیں ‘ ۔ اور ممکن ہے کہ بندے کے حساب کے وقت کا بیان ہو ۔ یعنی بہت جلد حساب سے فارغ ہو جائے گا ۔ کیونکہ وہ تمام باتوں کا جاننے والا ہے اس پر ایک بات بھی پوشیدہ نہیں ۔ جیسے ایک ویسے ہی ساری مخلوق ۔ جیسے فرمان ہے «مَا خَلْقُکُمْ وَلَا بَعْثُکُمْ اِلَّا کَنَفْسٍ وَّاحِدَۃٍ اِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ بَصِیْرٌ» ۱؎ (31-لقمان:28) ’ تم سب کی پیدائش اور مرنے کے بعد کا زندہ کر دینا مجھ پر ایسا ہی ہے جیسے ایک کو مارنا اور جلانا ‘ ۔ یہی معنی حضرت مجاہد رحمہ اللہ کے قول کے ہیں کہ ” حساب کے احاطے میں اللہ تعالیٰ بہت جلدی کرنے والا ہے “ ۔ ہاں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دونوں معنی مراد ہوں یعنی وقت حساب بھی قریب اور اللہ کو حساب میں دیر بھی نہیں ۔ ادھر شروع ہوا ادھر ختم ہوا «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ ابراھیم
50 ابراھیم
51 ابراھیم
52 تمام انسان اور جن پابند اطاعت ہیں ارشاد ہے کہ ’ یہ قرآن دنیا کی طرف اللہ کا کھلا پیغام ہے ‘ ۔ جیسے اور آیت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی کہلوایا گیا ہے کہ «لِأُنذِرَکُم بِہِ وَمَن بَلَغَ» ۱؎ (6-الأنعام:19) یعنی ’ تاکہ میں اس قرآن سے تمہیں بھی ہوشیار کر دوں اور جسے جسے یہ پہنچے ‘ ، یعنی کل انسان اور تمام جنات ۔ جیسے اس سورت کے شروع میں فرمایا کہ «الر کِتَابٌ أَنزَلْنَاہُ إِلَیْکَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظٰلُمَاتِ إِلَی النٰورِ» الخ ، ’ اس کتاب کو ہم نے ہی تیری طرف نازل فرمایا ہے کہ تو لوگوں کو اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لائے ‘ الخ ۔ اس قرآن کریم کی غرض یہ ہے کہ لوگ ہوشیار کر دئے جائیں ڈرا دئے جائیں ۔ اور اس کی دلیلیں حجتیں دیکھ سن کر پڑھ پڑھا کر تحقیق سے معلوم کر لیں کہ اللہ تعالیٰ اکیلا ہی ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور عقلمند لوگ نصیحت و عبرت وعظ و پند حاصل کر لیں ۔ ابراھیم
0 الحجر
1 تفسیر سورۃ الحجر سورتوں کے اول جو حروف مقطعہ آئے ہیں ان کا بیان پہلے گزر چکا ہے ۔ آیت میں قرآن کی آیتوں کے واضح اور ہر شخص کی سمجھ میں آنے کے قابل ہونے کا بیان فرمایا ہے ۔ الحجر
2 بعد ازمرگ پشیمانی کافر اپنے کفر پر عنقریب نادم و پشیمان ہوں گے اور مسلمان بن کر زندگی گزارنے کی تمنا کریں گے ۔ یہ بھی مروی ہے کہ کفار بدر جب جہنم کے سامنے پیش کئے جائیں گے آرزو کریں گے کہ کاش کہ وہ دنیا میں مومن ہوتے ۔ یہ بھی ہے کہ ہر کافر اپنی موت کو دیکھ کر اپنے مسلمان ہونے کی تمنا کرتا ہے ۔ اسی طرح قیامت کے دن بھی ہر کافر کی یہی تمنا ہو گی ۔ اور آیت میں ہے کہ «وَلَوْ تَرَیٰ إِذْ وُقِفُوا عَلَی النَّارِ فَقَالُوا یَا لَیْتَنَا نُرَدٰ وَلَا نُکَذِّبَ بِآیَاتِ رَبِّنَا وَنَکُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ» ۱؎ (6-الأنعام:27) ’ جہنم کے پاس کھڑے ہو کر کہیں گے کہ کاش کہ اب ہم واپس دنیا میں بھیج دیئے جائیں تو نہ تو اللہ کی آیتوں کو جھٹلائیں گے نہ ترک ایمان کریں ‘ ۔ جہنمی لوگ اوروں کو جہنم سے نکلتے دیکھ کر بھی اپنے مسلمان ہونے کی تمنا کریں گے ۔ سیدنا ابن عباس اور انس بن مالک رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں کہ گنہگار مسلمانوں کو جہنم میں مشرکوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ روک لے گا تو مشرک ان مسلمانوں سے کہیں گے کہ جس اللہ کی تم دنیا میں عبادت کرتے رہے اس نے تمہیں آج کیا فائدہ دیا ؟ اس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جوش آئے گا اور ان مسلمانوں کو جہنم سے نکال لے گا ۔ اس وقت کافر تمنا کریں گے کا کاش وہ بھی دنیا میں مسلمان ہوتے ۔ ایک روایت میں ہے کہ مشرکوں کے اس طعنے پر اللہ تعالیٰ حکم دے گا کہ ’ جس کے دل میں ایک ذرے کے برابر بھی ایمان ہو اسے جہنم سے آزاد کر دو ‘ ، الخ ۔ طبرانی میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں «لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ» کے کہنے والوں میں بعض لوگ بہ سبب اپنے گناہوں کے جہنم میں جائیں گے پس لات و عزیٰ کے پجاری ان سے کہیں گے کہ تمہارے «لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ» کہنے نے تمہیں کیا نفع دیا ؟ تم تو ہمارے ساتھ ہی جہنم میں جل رہے ہو اس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جوش آئے گا اللہ ان سب کو وہاں سے نکال لے گا ۔ اور نہر حیات میں غوطہٰ دے کر انہیں ایسا کر دے گا جیسے چاند گہن سے نکلا ہو ۔ پھر یہ سب جنت میں جائیں گے وہاں انہیں جہنمی کہا جائے گا } ۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث سن کر کسی نے کہا کیا آپ رضی اللہ عنہ نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی سنا ہے ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” سنو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ مجھ پر قصداً جھوٹ بولنے والا اپنی جگہ جہنم میں بنا لے ۔ باوجود اس کے میں کہتا ہوں کہ میں نے یہ حدیث خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی سنی ہے “ ۔ ۱؎ (طبرانی:7289:ضعیف) اور روایت میں ہے کہ { مشرک لوگ اہل قبلہ سے کہیں گے کہ تم تو مسلمان تھے پھر تمہیں اسلام نے کیا نفع دیا ؟ تم تو ہمارے ساتھ جہنم میں جل رہے ہو ۔ وہ جواب دیں گے کہ ہمارے گناہ تھے جن کی پاداش میں ہم پکڑے گئے الخ ، اس میں یہ بھی ہے کہ ان کے چھٹکارے کے وقت کفار کہیں گے کہ کاش ہم مسلمان ہوتے اور ان کی طرح جہنم سے چھٹکارا پاتے ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے «اعُوذُ بِاللّہِ مِن الشِّیطانِ الرَّجِیمِِ» ‏‏‏‏پڑھ کر شروع سورت سے مسلمین تک تلاوت فرمائی ۔ یہی روایت اور سند سے ہے اس میں اعوذ کے بدلے «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» کا پڑھنا ہے } ۔۱؎ (طبرانی کبیر:48/7:صحیح الاسناد) اور روایت میں ہے کہ { ان مسلمان گنہگاروں سے مشرکین کہیں گے کہ تم تو دینا میں یہ خیال کرتے تھے کہ تم اولیاء اللہ ہو پھر ہمارے ساتھ یہاں کیسے ؟ یہ سن کر اللہ تعالیٰ ان کی شفاعت کی اجازت دے گا ۔ پس فرشتے اور نبی اور مومن شفاعت کریں گے اور اللہ انہیں جہنم سے چھوڑا جائے گا ، اس وقت مشرک لوگ کہیں گے کہ کاش وہ بھی مسلمان ہوتے تو شفاعت سے محروم نہ رہتے اور ان کے ساتھ جہنم سے چھوٹ جاتے } ۔ ۱؎ (طبرانی اوسط:8106:ضعیف) یہی معنی اس آیت کے ہیں یہ لوگ جب جنت میں جائیں گے تو ان کے چہروں پر قدرے سیاہی ہو گی اس وجہ سے انہیں جہنمی کہا جاتا ہو گا ۔ پھر یہ دعا کریں گے کہ اے اللہ یہ لقب بھی ہم سے ہٹا دے پس انہیں جنت کی ایک نہر میں غسل کرنے کا حکم ہو گا اور وہ نام بھی ان سے دور کر دیا جائے گا ۔ ابن ابی حاتم میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں بعض لوگوں کو آگ ان کے گھٹنوں تک پکڑ لے گی اور بعض کو زانوں تک اور بعض کو گردن تک جیسے جن کے گناہ اور جیسے جن کے اعمال ہوں گے ۔ بعض ایک مہینے کی سزا بھگت کر نکل آئیں گے سب سے لمبی سزا والا وہ ہوگا جو جہنم میں اتنی مدت رہے گا جتنی مدت دنیا کی ہے یعنی دنیا کے پہلے دن سے دنیا کے آخری دن تک ۔ جب ان کے نکالنے کا ارادہ اللہ تعالیٰ کر لے گا اس وقت یہود و نضاری اور دوسرے دین والے جہنمی ان اہل توحید سے کہیں گے کہ تم اللہ پر اس کی کتابوں پر اس کے رسولوں پر ایمان لائے تھے پھر بھی آج ہم اور تم جہنم میں یکساں ہیں ۔ پس اللہ تعالیٰ کو سخت غصہ آئے گا کہ ان کی اور کسی بات پر اتنا غصہ نہ آیا تھا پھر ان موحدوں کو جہنم سے نکال کر جنت کی نہر کے پاس لایا جائے گا ۔ یہ ہے فرمان آیت «رٰبَمَا یَوَدٰ الَّذِینَ کَفَرُوا لَوْ کَانُوا مُسْلِمِینَ» ۱؎ (15-الحجر:2) میں ہے } ۔ ۱؎ (ابن الجوزی فی العلل المتناہییۃ:1568/2:ضعیف) پھر بطور ڈانٹ کے فرماتا ہے کہ «قُلْ تَمَتَّعُوا فَإِنَّ مَصِیرَکُمْ إِلَی النَّارِ» ۱؎ (14-ابراھیم:30) ’ انہیں کھاتے پیتے اور مزے کرتے چھوڑ دے آخر تو ان کا ٹھکانا جہنم ہے ‘ ۔ تم کھا پی لو ، تمہارا مجرم ہونا ثابت ہو چکا ہے ۔ انہیں ان کی دور دراز کی خواہشیں توبہ کرنے سے ، اللہ کی طرف جھکنے سے غافل رکھیں گی ۔ عنقریب حقیقت کھل جائے گی ۔ اتمام حجت کے بعد ’ ہم کسی بستی کو دلیلیں پہنچانے اور ان کا مقرر وقت ختم ہونے سے پہلے ہلاک نہیں کرتے ۔ ہاں جب وقت مقررہ آ جاتا ہے پھر تقدیم تاخیر ناممکن ہے ‘ ۔ اس میں اہل مکہ کی تنبیہ ہے کہ وہ شرک سے الحاد سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت سے باز آ جائیں ورنہ مستحق ہلاکت ہو جائیں گے اور اپنے وقت پر تباہ ہو جائیں گے ۔ الحجر
3 الحجر
4 الحجر
5 الحجر
6 سرکش و متکبر ہلاک ہوں گے کافروں کا کفر ، ان کی سرکشی تکبر اور ضد کا بیان ہو رہا ہے کہ وہ بطور مذاق اور ہنسی کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے تھے کہ اے وہ شخص جو اس بات کا مدعی ہے کہ تجھ پر قرآن اللہ کا کلام اتر رہا ہے ہم تو دیکھتے ہیں کہ تو سراسر پاگل ہے کہ اپنی تابعداری کی طرف ہمیں بلا رہا ہے اور ہم سے کہہ رہا ہے کہ ہم اپنے باپ دادوں کے دین کو چھوڑ دیں ۔ اگر سچا ہے تو تو ہمارے پاس فرشتوں کو کیوں نہیں لاتا جو تیری سچائی ہم سے بیان کریں ۔ فرعون نے بھی ہی کہا تھا کہ آیت «فَلَوْلَا أُلْقِیَ عَلَیْہِ أَسْوِرَۃٌ مِّن ذَہَبٍ أَوْ جَاءَ مَعَہُ الْمَلَائِکَۃُ مُقْتَرِنِینَ» ۱؎ (43-الزخرف:53) ’ اس پر سونے کے کنگن کیوں نہیں ڈالے گئے ؟ اس کے ساتھ مل کر فرشتے کیوں نہیں آئے ؟ ‘ رب کی ملاقات کے منکروں نے آواز اٹھائی کہ «وَقَالَ الَّذِینَ لَا یَرْجُونَ لِقَاءَنَا لَوْلَا أُنزِلَ عَلَیْنَا الْمَلَائِکَۃُ أَوْ نَرَیٰ رَبَّنَا لَقَدِ اسْتَکْبَرُوا فِی أَنفُسِہِمْ وَعَتَوْا عُتُوًّا کَبِیرًا یَوْمَ یَرَوْنَ الْمَلَائِکَۃَ لَا بُشْرَیٰ یَوْمَئِذٍ لِّلْمُجْرِمِینَ وَیَقُولُونَ حِجْرًا مَّحْجُورًا» ۱؎ (25-الفرقان:21،22) ’ ہم پر فرشتے کیوں نازل نہیں کئے جاتے ؟ یا یہی ہوتا کہ ہم خود اپنے پروردگار کو دیکھ لیتے دراصل یہ گھمنڈ میں آ گئے اور بہت ہی سرکش ہو گئے ۔ فرشتوں کو دیکھ لینے کا دن جب آ جائے گا اس دن ان گنہگاروں کو کوئی خوشی نہ ہوگی ‘ ۔ یہاں بھی فرمان ہے کہ ’ ہم فرشتوں کو حق کے ساتھ ہی اتارتے ہیں یعنی رسالت یا عذاب کے ساتھ اس وقت پھر کافروں کو مہلت نہیں ملے گی ‘ ۔ ’ اس ذکر یعنی قرآن کو ہم نے ہی اتارا ہے اور اس کی حفاظت کے ذمے دار بھی ہم ہی ہیں ، ہمیشہ تغیر و تبدل سے بچا رہے گا ‘ ۔ بعض کہتے ہیں کہ «لَہُ» کی ضمیر کا مرجع نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں یعنی قرآن اللہ ہی کا نازل کیا ہوا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حافظ وہی ہے ۔ جیسے فرمان ہے آیت «وَ اللہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ» ۱؎ (5-المائدہ:67) ’ تجھے لوگوں کی ایذاء رسانی سے اللہ محفوظ رکھے گا ‘ ۔ لیکن پہلا معنی اولیٰ ہے اور عبارت کی ظاہر روانی بھی اسی کو ترجیح دیتی ہے ۔ الحجر
7 الحجر
8 الحجر
9 الحجر
10 . اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تسکین دیتا ہے کہ ’ جس طرح لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلا رہے ہیں اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کے نبیوں کو بھی وہ جھٹلا چکے ہیں ۔ ہر امت کے رسول علیہ السلام کی تکذیب ہوئی ہے اور اسے مذاق میں اڑایا گیا ہے ‘ ۔ ضدی اور متکبر گروہ کے دلوں میں بہ سبب ان کے حد سے بڑھے ہوئے گناہوں کے تکذیب رسول سمو دی جاتی ہے یہاں مجرموں سے مراد مشرکین ہیں ۔ وہ حق کو قبول کرتے ہی نہیں ، نہ کریں ۔ اگلوں کی عادت ان کے سامنے ہے جس طرح وہ ہلاک اور برباد ہوئے اور ان کے انبیاء علیہم السلام نجات پاگئے اور ایماندار عافیت حاصل کرگئے ۔ وہی نتیجہ یہ بھی یاد رکھیں ۔ دنیا آخرت کی بھلائی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت میں اور دونوں جہان کی رسوائی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت میں ہے ۔ الحجر
11 الحجر
12 الحجر
13 الحجر
14 . ان کی سرکشی ، ضد ، ہٹ ، خود بینی اور باطل پرستی کی تو یہ کیفیت ہے کہ بالفرض اگر ان کے لیے آسمان کا دروازہ کھول دیا جائے اور انہیں وہاں چڑھا دیا جائے تو بھی یہ حق کو حق کہہ کر نہ دیں گے بلکہ اس وقت بھی ہانک لگائیں گے کہ ہماری نظر بندی کر دی گئی ہے ، آنکھیں بہکا دی گئی ہیں ، جادو کر دیا گیا ہے ، نگاہ چھین لی گئی ہے ، دھوکہ ہو رہا ہے ، بیوقوف بنایا جا رہا ہے ۔ الحجر
15 الحجر
16 ستارے اور شیطان اس بلند آسمان کا جو ٹھہرے رہنے والے اور چلنے پھرنے والے ستاروں سے زینت دار ہے ، پیدا کرنے والا اللہ ہی ہے ۔ جو بھی اسے غور و فکر سے دیکھے وہ عجائبات قدرت اور نشانات عبرت اپنے لیے بہت سے پاسکتا ہے ۔ بروج سے مراد یہاں پر ستارے ہیں ۔ جیسے اور آیت میں ہے آیت «تَبَارَکَ الَّذِی جَعَلَ فِی السَّمَاءِ بُرُوجًا وَجَعَلَ فِیہَا سِرَاجًا وَقَمَرًا مٰنِیرًا» ۱؎ (25-الفرقان:61) بعض کا قول ہے کہ مراد سورج چاند کی منزلیں ہیں ۔ عطیہ کہتے ہیں وہ جگہیں جہاں چوکی پہرے ہیں ، اور جہاں سے سرکش شیطانوں پر مار پڑتی ہے کہ وہ بلند و بالا فرشتوں کی گفتگو نہ سن سکیں ۔ جو آگے پرھتا ہے ، شعلہ اس کے جلانے کو لپکتا ہے ۔ کبھی تو نیچے والے کے کان میں بات ڈالنے سے پہلے ہی اس کا کام ختم ہو جاتا ہے ، کبھی اس کے برخلاف بھی ہوتا ہے ۔ جیسے کہ صحیح بخاری شریف کی حدیث میں صراحتاً مروی ہے کہ { جب اللہ تعالیٰ آسمان میں کسی امر کی بابت فیصلہ کرتا ہے تو فرشتے عاجزی کے ساتھ اپنے پر جھکا لیتے ہیں جیسے زنجیر پتھر پر ۔ پھر جب ان کے دل مطمئن ہو جاتے ہیں تو دریافت کرتے ہیں کہ تمہارے رب کا کیا ارشاد ہوا ؟ وہ کہتے ہیں جو بھی فرمایا حق ہے اور وہی بلند و بالا اور بہت بڑا ہے ۔ فرشتوں کی باتوں کو چوری چوری سننے کے لیے جنات اوپر کی طرف چڑھتے ہیں اور اس طرح ایک پر ایک ہوتا ہے ۔ راوی حدیث صفوان نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے اس طرح بتایا کہ داہنے ہاتھ کی انگلیاں کشادہ کر کے ایک کو ایک پر رکھ لی ۔ شعلہ اس سننے والے کا کام کبھی تو اس سے پہلے ہی ختم کر دیتا ہے کہ وہ اپنے ساتھی کے کان میں کہہ دے ۔ اسی وقت وہ جل جاتا ہے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ اس سے اور وہ اپنے سے نیچے والے کو اور اسی طرح مسلسل پہنچا دے اور وہ بات زمین تک آ جائے اور جادوگر یا کاہن کے کان اس سے آشنا ہو جائیں پھر تو وہ اس کے ساتھ سو جھوٹ ملا کر لوگوں میں پھیلا دیتا ہے ۔ جب اس کی وہ ایک بات جو آسمان سے اسے اتفاقاً پہنچ گئی تھی صحیح نکلتی ہے تو لوگوں میں اس کی دانشمندی کے چرچے ہونے لگتے ہیں کہ دیکھو فلاں نے فلاں دن یہ کہا تھا بالکل سچ نکلا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4800) پھر اللہ تعالیٰ زمین کا ذکر فرماتا ہے کہ ’ اسی نے اسے پیدا کیا ، پھیلایا ، اس میں پہاڑ بنائے ، جنگل اور میدان قائم کئے ، کھیت اور باغات اور تمام چیزیں اندازے ، مناسبت اور موزونیت کے ساتھ ہر ایک موسم ، ہر ایک زمین ، ہر ایک ملک کے لحاظ سے بالکل ٹھیک پیدا کیں جو بازار کی زینت اور لوگوں کے لیے خوشگوار ہیں ۔ زمین میں قسم قسم کی معیشت اس نے پیدا کر دیں اور انہیں بھی پیدا کیا جن کے روزی رساں تم نہیں ہو ‘ ۔ یعنی چوپائے اور جانور لونڈی غلام وغیرہ ۔ پس قسم قسم کی چیزیں ، قسم قسم کے اسباب ، قسم قسم کی راحت ، ہر طرح کے آرام ، اس نے تمہارے لیے مہیا کر دئیے ۔ کمائی کے طریقے تمہیں سکھائے جانوروں کو تمہارے زیر دست کر دیا تاکہ کھاؤ بھی ، سواریاں بھی کرو ، لونڈی غلام دیئے کہ راحت و آرام حاصل کرو ۔ ان کی روزیاں بھی کچھ تمہارے ذمہ نہیں بلکہ ان کا رزاق بھی اللہ ہے ۔ نفع تم اٹھاؤ روزی وہ پہنچائے «فسبحانہ اعظم شانہ» ۔ الحجر
17 الحجر
18 الحجر
19 الحجر
20 الحجر
21 اللہ تعالٰی کے خزانے تمام چیزوں کا تنہا مالک اللہ تعالیٰ ہے ۔ ہر کام اس پر آسان ہے ۔ ہر قسم کی چیزوں کے خزانے اس کے پاس موجود ہیں ۔ جتنا ، جب اور جہاں چاہتا ہے ، نازل فرماتا ہے ۔ اپنی حکمتوں کا عالم وہی ہے ۔ بندوں کی مصلحتوں سے بھی واقف ہے ۔ یہ محض اس کی مہربانی ہے ورنہ کون ہے جو اس پر جبر کر سکے ۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہر سال بارش برابر ہی برستی ہے ، ہاں تقسم اللہ کے ہاتھ ہے ، پھر آپ رضی اللہ عنہ نے یہی آیت تلاوت فرمائی ۔ حکم بن عیینہ سے بھی یہی قول مروی ہے ، کہتے ہیں کہ بارش کے ساتھ اس قدر فرشتے اترتے ہیں ، جن کی گنتی کل انسانوں اور جنات سے زیادہ ہوتی ہے ، ایک ایک قطرے کا خیال رکھتے ہیں کہ وہ کہاں برسا اور اس سے کیا اگا ۔ مسند بزار میں ہے کہ { اللہ کے پاس کے خزانے کیا ہیں ؟ صرف کلام ہے جب کہا ہو جا ہو گیا } ۔ ۱؎ (المیزان:1021:ضعیف جدا) اس کا ایک روای قوی نہیں ۔ ’ ہوا چلا کر ہم بادلوں کو پانی سے بوجھل کر دیتے ہیں ، اس میں پانی برسنے لگتا ہے ۔ یہی ہوائیں چل کر درختوں کو بار دار کر دیتی ہیں کہ پتے اور کونپلیں پھوٹنے لگتی ہیں ‘ ، اس وصف کو بھی خیال میں رکھئے کہ یہاں جمع کا صیغہ لائے ہیں اور «الرِّیَاحَ لَوَاقِحَ» میں وصف وحدت کے ساتھ کیا ہے تاکہ کثرت سے نتیجہ بر آمد ہو ۔ بارداری کم از کم دو چیزوں کے بغیر ناممکن ہے ۔ ہوا چلتی ہے وہ آسمان سے پانی اٹھاتی ہے اور بادلوں کو پر کر دیتی ہے ۔ ایک ہوا ہوتی ہے جو زمین میں پیداوار کی قوت پیدا کرتی ہے ، ایک ہوا ہوتی ہے جو بادلوں کو ادھر ادھر سے اٹھاتی ہے ، ایک ہوا ہوتی ہے جو انہیں جمع کر کے تہ بہ تہ کر دیتی ہے ، ایک ہوا ہوتی ہے جو انہیں پانی سے بوجھل کر دیتی ہے ، ایک ہوا ہوتی ہے جو درختوں کو پھل دار ہونے کے قابل کردیتی ہے ۔ ابن جریر میں بہ سند ضعیف ایک حدیث مروی ہے کہ { جنوبی ہوا جنتی ہے اس میں لوگوں کے منافع ہیں اور اسی کا ذکر کتاب اللہ میں ہے } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:21109:ضعیف) مسند حمیدی کی حدیث میں ہے کہ { ہواؤں کے سات سال بعد اللہ تعالیٰ نے جنت میں ایک ہوا پیدا کی ہے جو ایک دروازے سے رکی ہوئی ہے ۔ اسی بند دروازے سے تمہیں ہوا پہنچتی رہتی ہے ، اگر وہ کھل جائے تو زمین و آسمان کی تمام چیزیں ہوا سے الٹ پلٹ ہو جائیں ۔ اللہ کے ہاں اس کا نام اذیب ہے ، تم اسے جنوبی ہوا کہتے ہو } ۔ ۱؎ (مسند بزار:2088:ضعیف) پھر فرماتا ہے کہ ’ اس کے بعد ہم تم پر میٹھا پانی برساتے ہیں کہ تم پیو اور کام میں لاؤ ۔ اگر ہم چاہیں تو اسے کڑوا اور کھاری کر دیں ‘ ۔ جیسے سورۃ الواقعہ میں فرمان ہے کہ «أَفَرَأَیْتُمُ الْمَاءَ الَّذِی تَشْرَبُونَ أَأَنتُمْ أَنزَلْتُمُوہُ مِنَ الْمُزْنِ أَمْ نَحْنُ الْمُنزِلُونَ لَوْ نَشَاءُ جَعَلْنَاہُ أُجَاجًا فَلَوْلَا تَشْکُرُونَ» ۱؎ (56-الواقعۃ:68-70) ’ جس میٹھے پانی کو تم پیا کرتے ہو اسے بادل سے برسانے والے بھی کیا تم ہی ہو ؟ یا ہم ہیں ؟ اگر ہم چاہیں تو اسے کڑوا کر دیں تعجب ہے کہ تم ہماری شکر گزاری نہیں کرتے ؟ ‘ اور آیت میں ہے «ہُوَ الَّذِی أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً لَّکُم مِّنْہُ شَرَابٌ وَمِنْہُ شَجَرٌ فِیہِ تُسِیمُونَ» ۱؎ (16-النحل:10) ’ اسی اللہ نے تمہارے لیے آسمان سے پانی اتارا ہے جسے تم پیتے بھی ہو اور اسی سے اگے ہوئے درختوں کو تم اپنے جانوروں کو چراتے ہو ‘ ۔ ’ تم اس کے خازن یعنی مانع اور حافظ نہیں ہو ۔ ہم ہی برساتے ہیں ہم ہی جہاں چاہتے ہیں ، پہنچاتے ہیں ، جہاں چاہتے ہیں ، محفوظ کردیتے ہیں ۔ اگر ہم چاہیں زمین میں دھنسا دیں ‘ ۔ ’ یہ صرف ہماری رحمت ہے کہ اسے برسایا ، بچایا ، میٹھا کیا ، ستھرا کیا تاکہ تم پیو ، اپنے جانوروں کو پلاؤ ۔ اپنی کھیتیاں اور باغات بساؤ ، ؟ اپنی ضرورتیں پوری کرو ۔ ہم مخلوق کی ابتداء اور پھر اس کے اعادہ پر قادر ہیں ۔ سب کو عدم سے وجود میں لائے ۔ سب کو پھر معدوم ہم کریں گے ۔ پھر قیامت کے دن سب کو اٹھا بٹھائیں گے ‘ ۔ ’ زمین کے اور زمین والوں کے وارث ہم ہی ہیں ۔ سب کے سب ہماری طرف لوٹائے جائیں گے ۔ ہمارے علم کی کوئی انتہا نہیں ۔ اول آخر سب ہمارے علم میں ہے ‘ ۔ پس آگے والوں سے مراد تو اس زمانے سے پہلے کے لوگ ہیں آدم علیہ السلام تک کے ۔ اور پچھلوں سے مراد اس زمانے کے اور آئندہ زمانے کے لوگ ہیں ۔ مروان بن حکم سے مروی ہے کہ بعض لوگ بوجہ عورتوں کے پچھلی صفوں میں رہا کرتے تھے پس یہ آیت اتری ۔ اس بارے میں ایک بہت ہی غریب حدیث بھی وارد ہوئی ہے ۔ ابن جریر میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ { ایک بہت ہی خوش شکل عورت نماز میں آیا کرتی تھی تو بعض مسلمان اس خیال سے کہ اس پر نگاہ نہ پڑے ۔ آگے بڑھ جاتے تھے اور بعض ان کے خلاف اور پیچھے ہٹ آتے تھے اور سجدے کی حالت میں اپنے ہاتھوں تلے سے دیکھتے تھے پس یہ آیت اتری } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:1046،قال الشیخ الألبانی:صحیح) لیکن اس روایت میں سخت نکارت ہے ۔ عبدالرزاق میں ابو الجواز کا قول اس آیت کے بارے میں مروی ہے کہ ” نماز کی صفوں میں آگے بڑھنے والے اور پیچھے ہٹنے والے “ ۔ یہ صرف ان کا قول ہے ابن عباس رضی اللہ عنہ کا اس میں ذکر نہیں ۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں ” یہی مشابہ ہے “ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ محمد بن کعب کے سامنے عون بن عبداللہ جب یہ کہتے ہیں تو آپ فرماتے ہیں ” یہ مطلب نہیں بلکہ اگلوں سے مراد وہ ہیں جو مر چکے اور پچھلوں سے مراد اب پیدا شدہ اور پیدا ہونے والے ہیں ۔ تیرا رب سب کو جمع کرے گا وہ حکمت و علم والا ہے “ ۔ یہ سن کر عون رحمہ اللہ نے فرمایا ” اللہ آپ کو توفیق اور جزائے خیر دے “ ۔ الحجر
22 الحجر
23 الحجر
24 الحجر
25 الحجر
26 خشک مٹی «صَلْصَالٍ» سے مراد خشک مٹی ہے ۔ اسی جیسی آیت «خَلَقَ الْإِنسَانَ مِن صَلْصَالٍ کَالْفَخَّارِ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِن مَّارِجٍ مِّن نَّارٍ» ۱؎ (55-الرحمن:14-15) ہے ۔ یہ بھی مروی ہے کہ بو دار مٹی کو «حَمَا» کہتے ہیں ۔ چکنی مٹی کو «مَسْنُوْن» کہتے ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں تر مٹی ۔ اوروں سے مروی ہے بو دار مٹی اور گندھی ہوئی مٹی ۔ انسان سے پہلے ہم نے جنات کو جلا دینے والی آگ سے بنایا ہے ۔ «سَّمُوْم» کہتے ہیں آگ کی گرمی کو اور «حُرُور» کہتے ہیں دن کی گرمی کو ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس گرمی کی لوئیں اس گرمی کا سترہواں حصہ ہیں ۔ جس سے جن پیدا کئے گئے ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جن آگ کے شعلے سے بنائے گئے ہیں یعنی آگ سے بہت بہتر ۔ عمرو کہتے ہیں سورج کی آگ سے ۔ صحیح میں وارد ہے کہ { فرشتے نور سے پیدا کئے گئے اور جن شعلے والی آگ سے اور آدم علیہ السلام اس سے جو تمہارے سامنے بیان کر دیا گیا ہے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2996) اس آیت سے مراد آدم علیہ السلام کی فضیلت و شرافت اور ان کے عنصر کی پاکیزگی اور طہارت کا بیان ہے ۔ الحجر
27 الحجر
28 ابلیس لعین کا انکار اللہ تعالیٰ بیان فرما رہا ہے کہ ’ آدم علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے ان کی پیدائش کا ذکر اس نے فرشتوں میں کیا اور پیدائش کے بعد سجدہ کرایا ۔ اس حکم کو سب نے تو مان لیا لیکن ابلیس لعین نے انکار کر دیا اور کفر و حسد انکار و تکبر فخر و غرور کیا ‘ ۔ «أَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ خَلَقْتَنِی مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَہُ مِن طِینٍ» (7-الأعراف:12) ’ صاف کہا کہ میں آگ کا بنایا ہوا یہ خاک کا بنایا ہوا ۔ میں اس سے بہتر ہوں اس کے سامنے کیوں جھکوں ؟ ‘ «أَرَأَیْتَکَ ہٰذَا الَّذِی کَرَّمْتَ عَلَیَّ لَئِنْ أَخَّرْتَنِ إِلَیٰ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ لَأَحْتَنِکَنَّ ذُرِّیَّتَہُ إِلَّا قَلِیلًا» ۱؎ (17-الاسراء:62) ’ تو نے اسے مجھ پر بزرگی دی لیکن میں انہیں گمراہ کر کے چھوڑوں گا ‘ ۔ ابن جریر رحمہ اللہ نے یہاں پر ایک عجیب و غریب اثر وارد کیا ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ” جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو پیدا کیا ان سے فرمایا کہ ’ میں مٹی سے انسان بنانے والا ہوں ، تم اسے سجدہ کرنا ‘ ۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے سنا اور تسلیم کیا ۔ مگر ابلیس جو پہلے کے منکروں میں سے تھا ۔ اپنے پر جما رہا “ ۔ لیکن اس کا ثبوت ان سے نہیں ۔ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یہ اسرائیلی روایت ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ الحجر
29 الحجر
30 الحجر
31 الحجر
32 الحجر
33 الحجر
34 ابدی لعنت پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے حکم کا ارادہ کیا جو نہ ٹلے ، نہ ٹالا جا سکے کہ ’ تو اس بہترین اور اعلی جماعت سے دور ہو جا تو پھٹکارا ہوا ہے ۔ قیامت تک تجھ پر ابدی اور دوامی لعنت برسا کرے گی ‘ ۔ کہتے ہیں کہ اسی وقت اس کی صورت بد گئی اور اس نے نوحہ خوانی شروع کی ، دنیا میں تمام نوحے اسی ابتداء سے ہیں ۔ مردود و مطرود ہو کر پھر آتش حسد سے جلتا ہوا آرزو کرتا ہے کہ قیامت تک کی اسے ڈھیل دی جائے اسی کو یوم البعث کہا گیا ہے ۔ پس اس کی یہ درخواست منظور کی گئی اور مہلت مل گئی ۔ الحجر
35 الحجر
36 الحجر
37 الحجر
38 الحجر
39 ابلیس کے سیاہ کارنامے ابلیس کی سرکشی بیان ہو رہی ہے کہ اس نے اللہ کے گمراہ کرنے کی قسم کھا کر کہا ، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس نے کہا کہ چونکہ تو نے مجھے گمراہ کیا میں بھی اولاد آدم کے لیے زمین میں تیری نافرمانیوں کو خوب زینت دار کر کے دکھاؤں گا ۔ اور انہیں رغبت دلا دلا کر نافرمانیوں میں مبتلا کروں گا ، جہاں تک ہو سکے گا کوشش کروں گا کہ سب کو ہی بہکا دوں ۔ لیکن ہاں تیرے خالص بندے میرے ہاتھ نہیں آ سکتے ۔ ایک اور آیت میں بھی ہے کہ «أَرَأَیْتَکَ ہٰذَا الَّذِی کَرَّمْتَ عَلَیَّ لَئِنْ أَخَّرْتَنِ إِلَیٰ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ لَأَحْتَنِکَنَّ ذُرِّیَّتَہُ إِلَّا قَلِیلًا» ۱؎ (17-الاسراء:62) ’ گو تو نے اسے مجھ پر برتری دی ہے لیکن اب میں بھی اس کی اولاد کے پیچھے پڑ جاؤں گا ، چاہے کچھ تھوڑے سے چھوٹ جائیں باقی سب کو ہی لے ڈوبوں گا ‘ ۔ اس پر جواب ملا کہ ’ تم سب کا لوٹنا تو میری ہی طرف ہے ۔ اعمال کا بدلہ میں ضرور دوں گا نیک کو نیک بد کو بد ‘ ۔ جیسے فرمان ہے کہ «إِنَّ رَبَّکَ لَبِالْمِرْصَادِ» ۱؎ (89-الفجر:14) ’ تیرا رب تاک میں ہے ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَعَلَی اللہِ قَصْدُ السَّبِیلِ» ۱؎ (16-النحل:9) ’ اور اللہ پر سیدھی راہ کا بتا دینا ہے ‘ ، غرض لوٹنا اور اور لوٹنے کا راستہ اللہ ہی کی طرف ہے ۔ «عَلَیَّ» کی ایک قرأت «عَلِیٌّ» بھی ہے ۔ جیسے آیت «وَإِنَّہُ فِی أُمِّ الْکِتَابِ لَدَیْنَا لَعَلِیٌّ حَکِیمٌ» ۱؎ (43-الزخرف:4) میں ہے یعنی بلند لیکن پہلی قرأت مشہور ہے ۔ ’ جن بندوں کو میں نے ہدایت پر لگا دیا ہے ان پر تیرا کوئی زور نہیں ہاں تیرا زور تیرے تابعداروں پر ہے ‘ ۔ یہ استثناء منقطع ہے ۔ ابن جریر میں ہے کہ بستیوں سے باہر نبیوں کی مسجدیں ہوتی تھیں ۔ جب وہ اپنے رب سے کوئی خاص بات معلوم کرنا چاہتے تو وہاں جا کر جو نماز مقدر میں ہوتی ادا کرکے سوال کرتے ۔ ایک دن ایک نبی علیہ السلام کے اور اس کے قبلہ کے درمیان شیطان بیٹھ گیا ۔ اس نبی علیہ السلام نے تین بار کہا «اعُوذُ بِاللّہِ مِن الشِّیطانِ الرَّجِیمِِ» ۔ شیطان نے کہا اے اللہ کے نبی آخر آپ میرے داؤ سے کیسے بچ جاتے ہیں ؟ نبی علیہ السلام نے کہا تو بتا کہ تو بنی آدم پر کس داؤ سے غالب آ جاتا ہے ؟ آخر معاہدہ ہوا کہ ہر ایک صحیح چیز دوسرے کو بتا دے ، تو نبی اللہ نے کہا سن ” اللہ کا فرمان ہے کہ میرے خاص بندوں پر تیرا کوئی اثر نہیں ۔ صرف ان پر جو خود گمراہ ہوں اور تیری ماتحتی کریں “ ۔ اس اللہ کے دشمن نے کہا یہ آپ نے کیا فرمایا اسے تو میں آپ کی پیدائش سے بھی پہلے سے جانا ہوں ، نبی نے کہا ” اور سن اللہ کا فرمان ہے کہ «وَإِمَّا یَنزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِ اللہِ إِنَّہُ سَمِیعٌ عَلِیمٌ» ۱؎ (7-الأعراف:200) ’ جب شیطانی حرکت ہو تو اللہ سے پناہ طلب کر ، وہ سننے جاننے والا ہے ‘ ۔ واللہ تیری آہٹ پاتے ہی میں اللہ سے پناہ چاہ لیتا ہوں “ ۔ اس نے کہا سچ ہے اسی سے آپ میرے پھندے میں نہیں پھنستے ۔ نبی اللہ علیہ السلام نے فرمایا ” اب تو بتا کہ تو ابن آدم پر کسے غالب آ جاتا ہے ؟ “ اس نے کہا کہ ” میں اسے غصے اور خواہش کے وقت دبوچ لیتا ہوں “ ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ جو کوئی بھی ابلیس کی پیروی کرے ، وہ جہنمی ہے ‘ ۔ یہی فرمان قرآن سے کفر کرنے والوں کی نسبت ہے ۔ الحجر
40 الحجر
41 الحجر
42 الحجر
43 . پھر ارشاد ہوا کہ ’ جہنم کے کئی ایک دروازے ہیں ہر دروازے سے جانے والا ابلیسی گروہ مقرر ہے ۔ اپنے اپنے اعمال کے مطابق ان کے لیے دروازے تقسیم شدہ ہیں ‘ ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک خطبے میں فرمایا ” جہنم کے دروازے اس طرح ہیں یعنی ایک پر ایک ۔ اور وہ سات ہیں ایک کے بعد ایک کر کے ساتوں دروازے پر ہو جائیں گے “ ۔ عکرمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں سات طبقے ہیں ۔ ابن جریر رحمہ اللہ سات دروازوں کے یہ نام بتلاتے ہیں ۔ جہنم ۔ نطی ۔ حطمہ ۔ سعیر ۔ سقر ۔ حجیم ۔ ھاویہ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح مروی ہے ۔ قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں یہ باعتبار اعمال ان کی منزلیں ہیں ۔ ضحاک رحمہ اللہ کہتے ہیں مثلا ایک دروازہ یہود کا ، ایک نصاری کا ، ایک صابیوں کا ، ایک مجوسیوں کا ، ایک مشرکوں کافروں کا ، ایک منافقوں کا ، ایک اہل توحید کا ، لیکن توحید والوں کو چھٹکارے کی امید ہے باقی سب ناامید ہو گئے ہیں ۔ ترمذی میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { جہنم کے سات دروازے ہیں ۔ جن میں سے ایک ان کے لئے ہے جو میری امت پر تلوار اٹھائے } } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3123،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ابن ابی حاتم میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ { بعض دوزخیوں کے ٹخنوں تک آگ ہو گی ، بعض کی کمر تک ، بعض کی گردنوں تک ، غرض گناہوں کی مقدار کے حساب سے } } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2845) الحجر
44 الحجر
45 جنت میں کوئی بغض و کینہ نہ رہے گا دوزخیوں کا ذکر کر کے اب جنتیوں کا ذکر ہو رہا ہے کہ ’ وہ باغات ، نہروں اور چشموں میں ہوں گے ‘ ۔ ان کو بشارت سنائی جائے گی کہ اب تم ہر آفت سے بچ گئے ہر ڈر اور گھبراہٹ سے مطمئن ہو گئے نہ نعمتوں کے زوال کا ڈر ، نہ یہاں سے نکالے جانے کا خطرہ نہ فنا نہ کمی ۔ اہل جنت کے دلوں میں گو دنیوں رنجشیں باقی رہ گئی ہوں مگر جنت میں جاتے ہی ایک دوسرے سے مل کر تمام گلے شکوے ختم ہو جائیں گے ۔ الحجر
46 الحجر
47 . حضرت ابوامامہ فرماتے ہیں جنت میں داخل ہونے سے پہلے ہی سینے بے کینہ ہو جائیں گے ۔ چنانچہ مرفوع حدیث میں بھی ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ { مومن جہنم سے نجات پا کر جنت دوزخ کے درمیان کے پل پر روک لیے جائیں گے جو ناچاقیاں اور ظلم آپس میں تھے ، ان کا ادلہ بدلہ ہو جائے گا اور پاک دل صاف سینہ ہو کر جنت میں جائیں گے } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6535) اشتر نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس آنے کی اجازت مانگی ، اس وقت آپ رضی اللہ عنہ کے پاس سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے بیٹھے تھے تو آپ رضی اللہ عنہ نے کچھ دیر کے بعد اسے اندر بلایا اس نے کہا کہ شاید ان کی وجہ سے مجھے آپ رضی اللہ عنہ نے دیر سے اجازت دی ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا سچ ہے ۔ کہا پھر تو اگر آپ رضی اللہ عنہ کے پاس سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے ہوں تو بھی آپ مجھے اسی طرح روک دیں گے ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” بیشک مجھے تو اللہ سے امید ہے کہ میں اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ ان لوگوں میں سے ہوں گے ، جن کی شان میں یہ ہے کہ ان کے دلوں میں جو کچھ خفگی تھی ہم نے دور کر دی ، بھائی بھائی ہو کر آمنے سامنے تخت شاہی پر جلوہ فرما ہیں “ ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ عمران بن طلحہ اصحاب جمل سے فارغ ہو کر علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے آپ رضی اللہ عنہ نے انہیں مرحبا کہا اور فرمایا کہ ” میں امید رکھتا ہوں کہ میں اور تمہارے والد ان میں سے ہیں جن کے دلوں کے غصے اللہ دور کر کے بھائی بھائی بنا کر جنت کے تختوں پر آمنے سامنے بٹھائے گا “ ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ یہ سن کر فرش کے کونے پر بیٹھے ہوئے دو شخصوں نے کہا ، اللہ کا عہد اس سے بہت بڑھا ہوا ہے کہ جنہیں آپ قتل کریں ان کے بھائی بن جائیں ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے غصے سے فرمایا ” اگر اس آیت سے مراد میرے اور طلحہ جیسے لوگ نہیں تو اور کون ہوں گے ؟ “ اور روایت میں ہے کہ قبیلہ ہمدان کے ایک شخص نے یہ کہا تھا اور علی رضی اللہ عنہ نے اس دھمکی اور بلند آواز سے یہ جواب دیا تھا کہ محل ہل گیا ۔ اور روایت میں ہے کہ کہنے والے کا نام حارث اعور تھا اور اس کی اس بات پر آپ رضی اللہ عنہ نے غصے ہو کر جو چیز آپ رضی اللہ عنہ کی ہاتھ میں تھی وہ اس کے سر پر مار کر یہ فرمایا تھا ۔ این جرموز جو زبیر رضی اللہ عنہ کا قاتل تھا جب دربار علی رضی اللہ عنہ میں آیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے بڑی دیر بعد اسے داخلے کی اجازت دی ، اس نے آ کر زبیر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کو بلوائی کہہ کر برائی سے یاد کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” تیرے منہ میں مٹی ۔ میں اور طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہ تو ان شاءاللہ ان لوگوں میں ہیں جن کی بابت اللہ کا یہ فرمان ہے “ ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ قسم کہا کر فرماتے ہیں کہ ” ہم بدریوں کی بابت یہ آیت نازل ہوئی ہے “ ۔ کثیر کہتے ہیں ” میں ابو جعفر محمد بن علی کے پاس گیا اور کہا کہ میرے دوست آپ کے دوست ہیں اور مجھ سے مصالحت رکھنے والے آپ سے مصالحت رکھے والے ہیں ، میرے دشمن آپ کے دشمن ہیں اور مجھ سے لڑائی رکھنے والے آپ سے لڑائی رکھنے والے ہیں ۔ واللہ میں ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہم سے بری ہوں “ ۔ اس وقت ابو جعفر نے فرمایا ” اگر میں ایسا کروں تو یقیناً مجھ سے بڑھ کر گمراہ کوئی نہیں ۔ ناممکن کہ میں اس وقت ہدایت پر قائم رہ سکوں ۔ ان دونوں بزرگوں یعنی سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے تو اے کثیر محبت رکھ ، اگر اس میں تجھے گناہ ہو تو میری گردن پر “ ۔ پھر آپ نے اسی آیت کے آخری حصہ کی تلاوت فرمائی ، اور فرمایا کہ ” یہ ان دس شخصوں کے بارے میں ہے ابوبکر ، عمر ، عثمان ، علی ، طلحہ ، زبیر ، عبدالرحمٰن بن عوف ، سعد بن ابی وقاص ، سعید بن زید اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم اجمعین ، یہ آمنے سامنے ہوں گے تاکہ کسی کی طرف کسی کی پیٹھ نہ رہے “ ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ایک مجمع میں آ کر اسے تلاوت فرما کر فرمایا { یہ ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہوں گے ۔ وہاں انہیں کوئی مشقت ، تکلیف اور ایذاء نہ ہو گی } } ۔ ۱؎ (ضعیف) بخاری و مسلم میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مجھے اللہ کا حکم ہوا ہے کہ میں خدیجہ رضی اللہ عنہا کو جنت کے سونے کے محل کی خوشخبری سنا دوں جس میں نہ شور و غل ہے نہ تکلیف و مصیبت ۔ یہ جنتی جنت سے کبھی نکالے نہ جائیں گے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3820) حدیث میں ہے { ان سے فرمایا جائے گا کہ اے جنتیو تم ہمیشہ تندرست رہو گے کبھی بیمار نہ پڑو گے اور ہمیشہ زندہ رہو گے کبھی نہ مروگے اور ہمیشہ جوان رہو گے کبھی بوڑھے نہ بنو گے اور ہمیشہ یہیں رہو گے کبھی نکالے نہ جاؤ گے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2837) اور آیت میں ہے «خَالِدِینَ فِیہَا لَا یَبْغُونَ عَنْہَا حِوَلًا» ۱؎ (18-الکہف:108) ’ وہ تبدیلی مکان کی خواہش ہی نہ کریں گے نہ ان کی جگہ ان سے چھنے گی ‘ ۔ اور آیت میں ہے کہ «وَقُل رَّبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَأَنتَ خَیْرُ الرَّاحِمِینَ» ۱؎ (23-المؤمنون:118) ’ اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے بندوں سے کہہ دیجئیے کہ میں «أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ» ہوں ۔ اور میرے عذاب بھی نہایت سخت ہیں ‘ ۔ اسی جیسی آیت اور بھی گزر چکی ہے ، اس سے مراد یہ ہے کہ ’ مومن کو امید کے ساتھ ڈر بھی رکھنا چاہیئے ‘ ۔ { حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے پاس آتے ہیں اور انہیں ہنستا ہوا دیکھ کر فرماتے ہیں { جنت دوزخ کی یاد کرو } ، اس وقت یہ آیتیں اتریں } ۔ ۱؎ (مجمع الزوائد:11107:ضعیف) یہ مرسل حدیث ابن ابی حاتم میں ہے { آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنو شیبہ کے دروازے سے صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس آ کر کہتے ہیں { میں تو تمہیں ہنستے ہوئے دیکھ رہا ہوں } یہ کہہ کر واپس مڑ گئے اور حطیم کے پاس سے ہی الٹے پاؤں پھرے ہمارے پاس آئے اور فرمایا کہ { ابھی میں جا ہی رہا تھا ، جو جبرائیل علیہ السلام آئے اور فرمایا کہ ” جناب باری ارشاد فرماتا ہے کہ ’ تو میرے بندوں کو نامید کر رہا ہے ؟ انہیں مرے غفور و رحیم ہونے کی اور میرے عذابوں کے المناک ہونے کی خبر دیدے ‘ } } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:21214:ضعیف) اور حدیث میں ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر بندے اللہ تعالیٰ کی معافی کو معلوم کرلیں تو حرام سے بچنا چھوڑ دیں اور اگر اللہ کے عذاب کو معلوم کر لیں تو اپنے آپ کو ہلاک کر ڈالیں } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:21213:مرسل) الحجر
48 الحجر
49 الحجر
50 الحجر
51 فرشتے بصورت انسان لفظ «ضَیْف» واحد اور جمع دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ جیسے «زور» اور «سفر» ۔ یہ فرشتے تھے جو بصورت انسان سلام کر کے خلیل اللہ علیہ السلام کے پاس آئے تھے ۔ آپ نے بچھڑا کاٹ کر اس کا گوشت بھون کر ان مہمانوں کے سامنے لا رکھا ۔ جب دیکھا کہ وہ ہاتھ نہیں ڈالتے تو ڈر گئے اور کہا کہ ہمیں تو آپ سے ڈر لگنے لگا ۔ فرشتوں نے اطمینان دلایا کہ ڈرو نہیں ، پھر اسحاق علیہ السلام کے پیدا ہونے کی بشارت سنائی ۔ جیسے کہ سورۃ ھود میں ہے ۔ تو آپ علیہ السلام نے اپنے اور اپنی بیوی صاحبہ کے بڑھاپے کو سامنے رکھ کر اپنا تعجب دور کرنے اور وعدے کو ثابت کرنے کے لیے پوچھا کہ کیا اس حالت میں ہمارے ہاں بچہ ہو گا ؟ فرشتوں نے دوبارہ زور دار الفاظ میں وعدے کو دہرایا اور ناامیدی سے دور رہنے کی تعلیم کی ۔ تو آپ علیہ السلام نے اپنے عقیدے کا اظہار کر دیا کہ ” میں مایوس نہیں ہوں ۔ ایمان رکھتا ہوں کہ میرا رب اس سے بھی بڑی باتوں پر قدرت کاملہ رکھتا ہے “ ۔ الحجر
52 الحجر
53 الحجر
54 الحجر
55 الحجر
56 الحجر
57 1 حضرت ابراھیم علیہ السلام کا جب ڈر خوف جاتا رہا بلکہ بشارت بھی مل گئی تو اب فرشتوں سے ان کے آنے کی وجہ دریافت کی ۔ انہوں نے بتلایا کہ لوطیوں کی بستیاں الٹنے کے لیے ہم آئے ہیں مگر لوط علیہ السلام کی آل نجات پالے گی ۔ ہاں اس آل میں سے ان کی بیوی نہیں بچ سکتی ۔ وہ قوم کے ساتھ رہ جائے گی اور ہلاکت میں ان کے ساتھ ہی ہلاک ہوگی ۔ الحجر
58 الحجر
59 الحجر
60 الحجر
61 دو حسین لڑکے یہ فرشتے نو جوان حسین لڑکوں کی شکل میں حضور لوط علیہ السلام کے پاس گئے ۔ تو لوط علیہ السلام نے کہا تم بالکل نا شناس اور انجان لوگ ہو ۔ تو فرشتوں نے راز کھول دیا کہ ہم اللہ کا عذاب لے کر آئے ہیں جسے آپ علیہ السلام کی قوم نہیں مانتی اور جس کے آنے میں شک شبہ کر رہی تھی ۔ ہم حق بات اور قطعی حکم لے کر آئے ہیں اور «مَا نُنَزِّلُ الْمَلَائِکَۃَ إِلَّا بِالْحَقِّ» ’ فرشتے حقانیت کے ساتھ ہی نازل ہوا کرتے ہیں ‘ ۱؎ (15-الحجر:8) اور ہم ہیں بھی سچے ۔ جو خبر آپ کو دے رہے ہیں وہ ہو کر رہے گی کہ آپ نجات پائیں اور آپ علیہ السلام کی یہ کافر قوم ہلاک ہوگی ۔ الحجر
62 الحجر
63 الحجر
64 الحجر
65 لوط علیہ السلام کو ہدایات حضرت لوط علیہ السلام سے فرشتے کہہ رہے ہیں کہ ’ رات کا کچھ حصہ گزر تے ہی آپ اپنے والوں کو کر یہاں سے چلے جائیں ۔ خود آپ علیہ السلام ان سب کے پیچھے رہیں تاکہ ان کی اچھی طرح نگرانی کر چکیں ‘ ۔ یہی سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لشکر کے آخر میں چلا کرتے تھے تاکہ کمزور اور گرے پڑے لوگوں کا خیال رہے ۔ پھر فرما دیا کہ ’ جب قوم پر عذاب آئے اور ان کا شور و غل سنائی دے تو ہرگز ان کی طرف نظریں نہ اٹھانا ‘ ، انہیں اسی عذاب و سزا میں چھوڑ کر تمہیں جانے کا حکم ہے ، چلے جاؤ گویا ان کے ساتھ کوئی تھا جو انہیں راستہ دکھاتا جائے ۔ ’ ہم نے پہلے ہی سے لوط [ علیہ السلام ] سے فرما دیا تھا کہ صبح کے وقت یہ لوگ مٹا دئیے جائیں گے ‘ ۔ جیسے دوسری آیت میں ہے کہ «نَّ مَوْعِدَہُمُ الصٰبْحُ أَلَیْسَ الصٰبْحُ بِقَرِیبٍ» ۱؎ (11-ھود:81) ’ ان کے عذاب کا وقت صبح ہے جو بہت ہی قریب ہے ‘ ۔ الحجر
66 الحجر
67 قوم لوط کی خرمستیاں قوم لوط کو جب معلوم ہوا کہ لوط علیہ السلام کے گھر نوجوان خوبصورت مہمان آئے ہیں تو وہ اپنے بد ارادے سے خوشیاں مناتے ہوئے چڑھ دوڑے ۔ لوط علیہ السلام نے انہیں سمجھانا شروع کیا کہ اللہ سے ڈرو ، میرے مہمانوں میں مجھے رسوا نہ کرو ۔ اس وقت خود لوط علیہ السلام کو یہ معلوم نہ تھا کہ یہ فرشتے ہیں ۔ جیسے کہ سورۃ ہود میں ہے ۔ یہاں گو اس کا ذکر بعد میں ہے اور فرشتوں کا ظاہر ہوجانا پہلے ذکر ہوا ہے لیکن اس سے ترتیب مقصود نہیں ۔ واؤ ترتیب کے لیے ہوتا بھی نہیں اور خصوصاً ایسی جگہ جہاں اس کے خلاف دلیل موجود ہو ۔ آپ علیہ السلام ان سے کہتے ہیں کہ میری آبرو ریزی کے درپے ہو جاؤ ۔ لیکن وہ جواب دیتے ہیں کہ جب آپ علیہ السلام کو یہ خیال تھا تو انہیں آپ علیہ السلام نے اپنا مہمان کیوں بنایا ؟ ہم تو آپ علیہ السلام کو اس سے منع کر چکے ہیں ۔ تب آپ علیہ السلام نے انہیں مزید سمجھاتے ہوئے فرمایا کہ ” تمہاری عورتیں جو میری لڑکیاں ہیں ، وہ خواہش پوری کرنے کی چیزیں ہیں نہ کہ یہ “ ۔ اس کا پورا بیان نہایت وضاحت کے ساتھ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں اس لیے دہرانے کی ضرورت نہیں ۔ چونکہ یہ بد لوگ اپنی خرمستی میں تھے اور جو قضاء اور عذاب ان کے سروں پر جھوم رہا تھا اس سے غافل تھے ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم کھا کر ان کی یہ حالت بیان فرما رہا ہے اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت تکریم اور تعظیم ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ” اللہ تعالیٰ نے اپنی جتنی مخلوق پیدا کی ہے ان میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ بزرگ کوئی نہیں ۔ اللہ نے آپ کی حیات کے سوا کسی کی حیات کی قسم نہیں کھائی “ ۔ «سَکْرَۃ» سے مراد ضلالت و گمراہی ہے ، اسی میں وہ کھیل رہے تھے اور تردد میں تھے ۔ الحجر
68 الحجر
69 الحجر
70 الحجر
71 الحجر
72 الحجر
73 آل ہود کا عبرتناک انجام سورج نکلنے کے وقت آسمان سے ایک دل دہلانے والی اور جگر پاش پاش کر دینے والی چنگھاڑ کی آواز آئی ۔ اور ساتھ ہی ان کی بستیاں اوپر کو اٹھیں اور آسمان کے قریب پہنچ گئیں اور وہاں سے الٹ دی گئیں اوپر کا حصہ نیچے اور نیچے کا حصہ اوپر ہو گیا ساتھ ہی ان پر آسمان سے پتھر برسے ایسے جیسے پکی مٹی کے کنکر آلود پتھر ہوں ۔ سورۃ ھود میں اس کا مفصل بیان ہوچکا ہے ۔ جو بھی بصیرت و بصارت سے کام لے ، دیکھے ، سنے ، سوچے ، سمجھے اس کے لیے ان بستیوں کی بربادی میں بڑی بڑی نشانیاں موجود ہیں ۔ ایسے پاکباز لوگ ذرا ذرا سی چیزوں سے بھی عبرت و نصیحت حاصل کرتے ہیں پند پکڑتے ہیں اور غور سے ان واقعات کو دیکھتے ہیں اور مقصد تک پہنچ جاتے ہیں ۔ تامل اور غور و خوض کر کے اپنی حالت سنوار لیتے ہیں ۔ ترمذی وغیرہ میں حدیث ہے { رسول اللہ صلی علیہ وسلم فرماتے ہیں { مومن کی عقلمندی اور دور بینی کا لحاظ رکھو وہ اللہ کے نور کے ساتھ دیکھتا ہے } ۔ پھر آپ نے یہی آیات تلاوت فرمائی } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3127،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) اور حدیث میں ہے کہ { وہ اللہ کے نور اور اللہ کی توفیق سے دیکھتا ہے } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:21255:ضعیف) اور حدیث میں ہے کہ { اللہ کے بندے لوگوں کو ان نشانات سے پہچان لیتے ہیں } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:21252:حسن) یہ بستی شارع عام پر موجود ہے جس پر ظاہری اور باطنی عذاب آیا ، الٹ گئی ، پتھر کھائے ، عذاب کا نشانہ بنی ۔ اب ایک گندے اور بد مزہ کھائی کی جھیل سے بنی ہوئی ہے ۔ «وَإِنَّکُمْ لَتَمُرٰونَ عَلَیْہِم مٰصْبِحِینَ وَبِاللَّیْلِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ» ۱؎ (37-الصفات:137،138) ’ تم رات دن وہاں سے آتے جاتے ہو تعجب ہے کہ پھر بھی عقلمندی سے کام نہیں لیتے ‘ ۔ غرض صاف واضح اور آمد و رفت کے راستے پر یہ الٹی ہو بستی موجود ہے ۔ یہ بھی معنی کئے ہیں کہ «وَکُلَّ شَیْءٍ أَحْصَیْنَاہُ فِی إِمَامٍ مٰبِینٍ» ۱؎ (36-یس:12) ’ کتاب مبین میں ہے ‘ لیکن یہ معنی کچھ زیادہ بند نہیں بیٹھتے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے والوں کے لیے یہ ایک کھلی دلیل اور جاری نشانی ہے کہ کس طرح اللہ اپنے والوں کو نجات دیتا ہے اور اپنے دشمنوں کو غارت کرتا ہے ۔ الحجر
74 الحجر
75 الحجر
76 الحجر
77 الحجر
78 اصحاب ایکہ کا المناک انجام اصحاب ایکہ سے مراد قوم شعیب ہے ۔ ایکہ کہتے ہیں درختوں کے جھنڈ کو ۔ ان کا ظلم علاوہ شرک و کفر کے غارت گری اور ناپ تول کی کمی بھی تھی ۔ ان کی بستی لوطیوں کے قریب تھی اور ان کا زمانہ بھی ان سے بہت قریب تھا ۔ ان پر بھی ان کی پہیم شراتوں کی وجہ سے عذاب الٰہی آیا ۔ یہ دونوں بستیاں بر سر شارع عام تھیں ۔ شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کو ڈراتے ہوئے فرمایا تھا کہ «وَمَا قَوْمُ لُوطٍ مِّنکُم بِبَعِیدٍ» ۱؎ (11-ہود:89) ’ لوط کی قوم تم سے کچھ دور نہیں ‘ ۔ الحجر
79 الحجر
80 آل ثمود کی تباہیاں حجر والوں سے مراد ثمودی ہیں جنہوں نے اپنے نبی صالح علیہ السلام کو جھٹلایا تھا اور ظاہر ہے کہ ایک نبی علیہ السلام کا جھٹلانے والا گویا سب نبیوں کا انکار کرنے والا ہے ۔ اسی لیے فرمایا گیا کہ ’ انہوں نے نبیوں کو جھٹلایا ‘ ۔ ان کے پاس ایسے معجزے پہنچے جن سے صالح علیہ السلام کی سچائی ان پر کھل گئی ۔ جیسے کہ ایک سخت پتھر کی چٹان سے اونٹنی کا نکلنا جو ان کے شہروں میں چرتی چگتی تھی اور ایک دن وہ پانی پیتی تھی ایک دن شہروں کے جانور ۔ مگر پھر بھی یہ لوگ گردن کش ہی رہے بلکہ اس اونٹنی کو مار ڈالا ۔ اس وقت صالح علیہ السلام نے فرمایا «تَمَتَّعُوا فِی دَارِکُمْ ثَلَاثَۃَ أَیَّامٍ ذٰلِکَ وَعْدٌ غَیْرُ مَکْذُوبٍ» ۱؎ (11-ھود:65) ’ بس اب تین دن کے اندر اندر قہرِ الٰہی نازل ہو گا ۔ یہ بالکل سچا وعدہ ہے اور اٹل عذاب ہے ‘ ۔ ان لوگوں نے اللہ کی بتلائی ہوئی راہ پر بھی اپنے اندھاپے کو ترجیح دی ۔ یہ لوگ صرف اپنی قوت جتانے اور ریاکاری ظاہر کرنے کے واسطے تکبر و تجبر کے طور پر پہاڑوں میں مکان تراشتے تھے ۔ کسی خوف کے باعث یا ضرورتاً یہ چیز نہ تھی ۔ { جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تبوک جاتے ہوئے ان کے مکانوں سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر پر کپڑا ڈال لیا اور سواری کو تیز چلایا اور اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ { جن پر عذاب الٰہی اترا ہے ان کی بستیوں سے روتے ہوئے گزرو ۔ اگر رونا نہ آئے تو رونے جیسی شکل بنا کر چلو کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ انہیں عذابوں کا شکار تم بھی بن جاؤ } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4419) آخر ان پر ٹھیک چوتھے دن کی صبح عذاب الٰہی بصورت چنگھاڑ آیا ۔ اس وقت ان کی کمائیاں کچھ کام نہ آئیں ۔ جن کھیتوں اور پھولوں کی حفاظت کے لیے اور انہیں بڑھانے کے لیے ان لوگوں نے اونٹنی کا پانی پینا نہ پسند کر کے اسے قتل کر دیا وہ آج بے سود ثابت ہوئے اور امر رب اپنا کام کر گیا ۔ الحجر
81 الحجر
82 الحجر
83 الحجر
84 الحجر
85 نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلیاں اللہ نے تمام مخلوق عدل کے ساتھ بنائی ہے ، قیامت آنے والی ہے ، «لِیَجْزِیَ الَّذِینَ أَسَاءُوا بِمَا عَمِلُوا وَیَجْزِیَ الَّذِینَ أَحْسَنُوا بِالْحُسْنَی» ۱؎ (53-النجم:31) ’ بروں کو برے بدلے نیکوں کو نیک بدلے ملنے والے ہیں ‘ ۔ «وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا بَاطِلًا ذَلِکَ ظَنٰ الَّذِینَ کَفَرُوا فَوَیْلٌ لِلَّذِینَ کَفَرُوا مِنَ النَّارِ» ۱؎ (38-ص:27) ’ مخلوق باطل سے پیدا نہیں کی گئی ۔ ایسا گمان کافروں کا ہوتا ہے اور کافروں کے لیے ویل دوزخ ہے ‘ ۔ اور آیت میں ہے «أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاکُمْ عَبَثًا وَأَنَّکُمْ إِلَیْنَا لَا تُرْجَعُونَ فَتَعَالَی اللہُ الْمَلِکُ الْحَقٰ لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ رَبٰ الْعَرْشِ الْکَرِیمِ» ۱؎ (23-المؤمنون:115،116) ’ کیا تم سمجھتے ہو کہ ہم نے تمہیں بے کار پیدا کیا ہے اور تم ہماری طرف لوٹ کر نہیں آؤ گے ؟ بلندی والا ہے اللہ مالک حق جس کے سوا کوئی قابل پرستش نہیں عرش کریم کا مالک وہی ہے ‘ ۔ پھر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ ’ مشرکوں سے چشم پوشی کیجئے ، ان کی ایذأ اور جھٹلانا اور برا کہنا برداشت کر لیجئے ‘ ۔ جیسے اور آیت میں ہے «فَاصْفَحْ عَنْہُمْ وَقُلْ سَلَامٌ فَسَوْفَ یَعْلَمُونَ» ۱؎ (43-الزخرف:89) ’ ان سے چشم پوشی کیجئے اور سلام کہہ دیجئیے انہیں ابھی معلوم ہو جائے گا ‘ ۔ یہ حکم جہاد کے حکم سے پہلے تھا یہ آیت مکیہ ہے اور جہاد بعد از ہجرت مقرر اور شروع ہوا ہے ۔ ’ تیرا رب خالق ہے اور خالق مار ڈالنے کے بعد بھی پیدائش پر قادر ہے ، اسے کسی چیز کی باربار کی پیدائش عاجز نہیں کرسکتی ۔ ریزوں کو جب بکھر جائیں وہ جمع کر کے جان ڈال سکتا ہے ‘ ۔ جیسے فرمان ہے آیت «أَوَلَیْسَ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِقَادِرٍ عَلَیٰ أَن یَخْلُقَ مِثْلَہُم بَلَیٰ وَہُوَ الْخَلَّاقُ الْعَلِیمُ إِنَّمَا أَمْرُہُ إِذَا أَرَادَ شَیْئًا أَن یَقُولَ لَہُ کُن فَیَکُونُ فَسُبْحَانَ الَّذِی بِیَدِہِ مَلَکُوتُ کُلِّ شَیْءٍ وَإِلَیْہِ تُرْجَعُونَ» ۱؎ (36-یس:81-83) ، ’ آسمان و زمین کا خالق کیا ان جیسوں کی پیدائش کی قدرت نہیں رکھتا ؟ بیشک وہ پیدا کرنے والا علم والا ہے وہ جب کسی بات کا ارادہ کرتا ہے تو اسے ہو جانے کو فرما دیتا ہے بس وہ ہو جاتی ہے ۔ پاک ذات ہے اس اللہ کی جس کے ہاتھ میں ہر چیز کی ملکیت ہے اور اسی کی طرف تم سب لوٹائے جاؤ گے ‘ ۔ الحجر
86 الحجر
87 قرآن عظیم سبع مثانی اور ایک لازوال دولت ’ اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے جب قرآن عظیم جیسی لازوال دولت تجھے عنایت فرما رکھی ہے تو تجھے نہ چاہیئے کہ کافروں کے دنیوی مال و متاع اور ٹھاٹھ باٹھ للچائی ہوئی نظروں سے دیکھے ۔ یہ تو سب فانی ہے اور صرف ان کی آزمائش کے لیے چند روزہ انہیں عطا ہوا ہے ۔ ساتھ ہی تجھے ان کے ایمان نہ لانے پر صدمے اور افسوس کی بھی چنداں ضرورت نہیں ‘ ۔ «وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ» ۱؎ (26-الشعراء:215) ’ ہاں تجھے چاہیئے کہ نرمی ، خوش خلقی ، تواضع اور ملنساری کے ساتھ مومنوں سے پیش آتا رہے ‘ ۔ جیسے ارشاد ہے آیت «لَقَدْ جَاءَکُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِکُمْ عَزِیزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتٰمْ حَرِیصٌ عَلَیْکُم بِالْمُؤْمِنِینَ رَءُوفٌ رَّحِیمٌ» ۱؎ (9-التوبۃ:128) ، ’ لوگو تمہارے پاس تم میں سے ہی ایک رسول آ گئے ہیں جن پر تمہاری تکلیف شاق گزرتی ہے جو تمہاری بہبودی کے دل سے خواہاں ہیں جو مسلمانوں پر پرلے درجے کا شفیق و مہربان ہے ‘ ۔ سبع مثانی کی نسبت ایک قول تو یہ ہے کہ اس سے مراد قرآن کریم کی ابتداء کی سات لمبی سورتیں ہیں سورۃ البقرہ ، آل عمران ، نساء ، مائدہ ، انعام ، اعراف اور یونس ۔ اس لیے کہ ان سورتوں میں فرائض کا ، حدود کا ، قصوں کا اور احکام کا خاص طریق پر بیان ہے اسی طرح مثالیں ، خبریں اور عبرتیں بھی زیادہ ہیں ۔ بعض نے سورۃ الاعراف تک کی چھ سورتیں گنوا کر ساتویں سورت انفال اور براۃ کو بتلایا ہے ان کے نزدیک یہ دونوں سورتیں مل کر ایک ہی سورت ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ صرف موسیٰ علیہ السلام کو چھ ملی تھیں لیکن جب آپ علیہ السلام نے تختیاں گرا دیں تو دو اٹھ گئیں اور چار رہ گئیں ۔ ایک قول ہے قرآن عظیم سے مراد بھی یہی ہیں ۔ زیادہ کہتے ہیں میں نے تجھے سات جز دیئے ہیں ۔ حکم ، منع ، بشارت ، ڈر اور مثالیں ، نعمتوں کا شمار اور قرآنی خبریں ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ مراد سبع مثانی سے سورۃ فاتحہ ہے جس کی سات آیتیں ہیں ۔ یہ سات آیتیں «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» سمیت ہیں ۔ ان کے ساتھ اللہ نے تمہیں مخصوص کیا ہے یہ کتاب کا شروع ہیں ۔ اور ہر رکعت میں دہرائی جاتی ہیں ۔ خواہ فرض نماز ہو خواہ نفل نماز ہو ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ اسی قول کو پسند فرماتے ہیں اور اس بارے میں جو حدیثیں مروی ہیں ان سے اس پر استدلال کرتے ہیں ہم نے وہ تمام احادیث فضائل سورۃ فاتحہ کے بیان میں اپنی اس تفسیر کے اول میں لکھ دی ہیں «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» ۔ امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے اس جگہ دو حدیثیں وارد فرمائی ہیں ۔ ایک میں ہے { ابوسعید بن معلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نماز پڑھ رہا تھا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آئے مجھے بلایا لیکن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہ آیا نماز ختم کرکے پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ { اسی وقت کیوں نہ آئے ؟ } میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نماز میں تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { کیا اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں آیت «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آمَنُوا اسْتَجِیبُوا لِلہِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاکُمْ» ۱؎ (8-الانفال:24) یعنی ’ ایمان والو اللہ اور اس کے رسول کی بات مان لو جب بھی وہ تمہیں پکاریں ‘ ۔ سن اب میں تجھے مسجد میں سے نکلنے سے پہلے ہی قرآن کریم کی بہت بڑی سورت بتلاؤں گا ۔ تھوڑی دیر میں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے جانے لگے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وعدہ یاد دلایا آپ نے فرمایا وہ سورۃ «الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ» کی ہے یہی سبع مثانی ہے اور یہی بڑا قرآن ہے جو میں دیا گیا ہوں } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4803) دوسری حدیث میں { آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ { ام القرآن یعنی سورۃ فاتحہ سبع مثانی اور قرآن عظیم ہے } } ۔ (صحیح بخاری:4804) پس صاف ثابت ہے کہ سبع مثانی اور قرآن عظیم سے مراد سورۃ فاتحہ لیکن یہ بھی خیال رہے کہ اس کے سوا اور بھی یہی ہے اس کے خلاف یہ حدیثیں نہیں ۔ جب کہ ان میں بھی یہ حقیقت پائی جائے جیسے کہ پورے قرآن کریم کا وصف بھی اس کے مخالف نہیں ۔ جیسے فرمان الٰہی ہے آیت « اللہُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِیثِ کِتَابًا مٰتَشَابِہًا مَّثَانِیَ» ۱؎ (39-الزمر:23) پس اس آیت میں سارے قرآن کو مثانی کہا گیا ہے ، اور متشابہ بھی ۔ پس وہ ایک طرح سے مثانی ہے اور دوسری وجہ سے متشابہ ۔ اور قرآن عظیم بھی یہی ہے جیسے کہ اس روایت سے ثابت ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ تقویٰ پر جس مسجد کی بنا ہے وہ کون ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مسجد کی طرف اشارہ کیا } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1398) حالانکہ یہ بھی ثابت ہے کہ آیت مسجد قباء کے بارے میں اتری ہے ۔ پس قاعدہ یہی ہے کہ کسی چیز کا ذکر دوسری چیز سے انکار نہیں ہوتا ۔ جب کہ وہ بھی وہی صفت رکھتی ہو ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» پس تجھے ان کی ظاہری ٹیپ ٹاپ سے بے نیاز رہنا چاہیئے اسی فرمان کی بنا پر امام ابن عیینہ رحمتہ اللہ علیہ نے ایک صحیح حدیث جس میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ہم میں سے وہ نہیں جو قرآن کے ساتھ تغنی نہ کرے } } ۱؎ (صحیح بخاری:7527) کی تفسیر یہ لکھی ہے کہ قرآن کو لے کر اس کے ماسوا سے دست بردار اور بے پرواہ نہ ہو جائے وہ مسلمان نہیں ۔ گو یہ تفسیر بالکل صحیح ہے لیکن اس حدیث سے یہ مقصود نہیں حدیث کا صحیح مقصد اس ہماری تفسیر کے شروع میں ہم نے بیان کر دیا ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں ایک مرتبہ مہمان آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں کچھ نہ تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی سے رجب کے وعدے پر آٹا ادھار منگوایا لیکن اس نے کہا بغیر کسی چیز کو رھن رکھے میں نہیں دوں گا اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { واللہ میں امین ہوں اور زمین والوں میں بھی اگر یہ مجھے ادھار دیتا یا میرے ہاتھ فروخت کر دیتا تو میں اسے ضرور ادا کرتا } پس آیت «لَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْکَ» الخ نازل ہوئی اور گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دلجوئی کی گئی } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:235/16:ضعیف) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ” انسان کا ممنوع ہے کہ کسی کے مال و متاع کو للچائی ہوئی نگاہوں سے تاکے ۔ یہ جو فرمایا کہ ان کی جماعتوں کو جو فائدہ ہم نے دے رکھا ہے اس سے مراد کفار کے مالدار لوگ ہیں “ ۔ الحجر
88 الحجر
89 انبیاء کی تکذیب عذاب الٰہی کا سبب ہے حکم ہوتا ہے کہ ’ اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم آپ اعلان کر دیجئیے کہ میں تمام لوگوں کو عذاب الٰہی سے صاف صاف ڈرا دینے والا ہوں ۔ یاد رکھو میرے جھٹلانے والے بھی اگلے نبیوں کے جھٹلانے والوں کی طرح عذاب الٰہی کے شکار ہوں گے ‘ ۔ «الْمُقْتَسِمِینَ» سے مراد قسمیں کھانے والے ہیں جو انبیاء علیہ السلام کی تکذیب اور ان کی مخالفت اور ایذاء دہی پر آپس میں قسما قسمی کر لیتے تھے جیسے کہ قوم صالح کا بیان قرآن حکیم میں ہے کہ «قَالُوا تَقَاسَمُوا بِ اللہِ لَنُبَیِّتَنَّہُ» ۱؎ (27-النمل:49) ’ ان لوگوں نے اللہ کی قسمیں کھا کر عہد کیا کہ راتوں رات صالح علیہ السلام اور ان کے گھرانے کو ہم موت کے گھاٹ اتار دیں گے ‘ ۔ اسی طرح قرآن میں ہے کہ «وَأَقْسَمُوا بِ اللہِ جَہْدَ أَیْمَانِہِمْ لَا یَبْعَثُ اللہُ مَنْ یَمُوتُ» ۱؎ (16-النحل:38) ’ وہ قسمیں کھا کھا کر کہتے تھے کہ مردے پھر جینے کے نہیں‘ الخ ۔ اور جگہ ان کا اس بات پر قسمیں کھانے کا ذکر ہے کہ «أَہٰؤُلَاءِ الَّذِینَ أَقْسَمْتُمْ لَا یَنَالُہُمُ اللہُ بِرَحْمَۃٍ» ۱؎ (7-الأعراف:49) ’ مسلمانوں کو کبھی کوئی رحمت نہیں مل سکتی ‘ ۔ الغرض جس چیز کو نہ ما نتے اس پر قسمیں کھانے کی انہیں عادت تھی اس لیے انہیں کہا گیا ہے ۔ بخاری و مسلم میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ { میری اور ان ہدایات کی مثال جسے دے کر اللہ نے مجھے بھیجا ہے اس شخص کی سی ہے جو اپنی قوم کے پاس آ کر کہے کہ لوگو میں نے دشمن کا لشکر اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے دیکھو ہوشیار ہو جاؤ بچنے اور ہلاک نہ ہونے کے سامان کر لو ۔ اب کچھ لوگ اس کی بات مان لیتے ہیں اور اسی عرصہ میں چل پڑتے ہیں اور دشمن کے پنجے سے بچ جاتے ہیں لیکن بعض لوگ اسے جھوٹا سمجھتے ہیں اور وہیں بے فکری سے پڑے رہتے ہیں کہ ناگاہ دشمن کا لشکر آ پہنچتا ہے اور گھیر گھار کر انہیں قتل کر دیتا ہے پس یہ ہے مثال میرے ماننے والوں کی اور نا ماننے والوں کی } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:7283) ان لوگوں نے اللہ کی ان کتابوں کو جو ان پر اتری تھیں پارہ پارہ کر دیا جس مسئلے کو جی چاہا مانا جس سے دل گھبرایا چھوڑ دیا ۔ بخاری شریف میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ { اس سے مراد اہل کتاب ہیں کہ کتاب کے بعض حصے کو مانتے تھے اور بعض کو نہیں مانتے تھے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4805) یہ بھی مروی ہے کہ مراد اس سے کفار کا کتاب اللہ کی نسبت یہ کہنا ہے کہ یہ جادو ہے ، یہ کہانت ہے ، یہ اگلوں کی کہانی ہے ، اس کا کہنے والا جادوگر ہے ، مجنوں ہے ، کاہن ہے وغیرہ ۔ سیرت ابن اسحاق میں ہے کہ ولید بن مغیرہ کے پاس سرداران قریش جمع ہوئے حج کا موسم قریب تھا اور یہ شخص ان میں بڑا شریف اور ذی رائے سمجھا جاتا تھا اس نے ان سب سے کہا کہ دیکھو حج کے موقع پر دور دراز سے تمام عرب یہاں جمع ہوں گے ۔ تم دیکھ رہے ہو کہ تمہارے اس ساتھی نے ایک اودھم مچا رکھا ہے لہٰذا اس کی نسبت ان بیرونی لوگوں سے کیا کہا جائے یہ بتاؤ اور کسی ایک بات پر اجماع کرلو کہ سب وہی کہیں ۔ ایسا نہ ہو کوئی کچھ کہے کوئی کچھ کہے اس سے تو تمہارا اعتبار اٹھ جائے گا اور وہ پردیسی تمہیں جھوٹا خیال کریں گے ۔ انہوں نے کہا ابو عبد شمس آپ ہی کوئی ایسی بات تجویز کر دیجئیے اس نے کہا پہلے تم اپنی تو کہو تاکہ مجھے بھی غور و خوض کا موقعہ ملے انہوں نے کہا پھر ہماری رائے میں تو ہر شخص اسے کاہن بتلائے ۔ اس نے کہا یہ تو واقعہ کے خلاف ہے لوگوں نے کہا پھر مجنوں بالکل درست ہے ۔ اس نے کہا یہ بھی غلط ہے کہا اچھا تو شاعر کہیں ؟ اس نے جواب دیا کہ وہ شعر جانتا ہی نہیں کہا اچھا پھر جادوگر کہیں ؟ کہا اسے جادو سے مس بھی نہیں اس نے کہا سنو واللہ اس کے قول میں عجب مٹھاس ہے ان باتوں میں سے تم جو کہو گے دنیا سمجھ لے گی کہ محض غلط اور سفید جھوٹ ہے ۔ گو کوئی بات نہیں بنتی لیکن کچھ کہنا ضرور ہے اچھا بھائی سب اسے جادوگر بتلائیں ۔ اس امر پر یہ مجمع برخاست ہوا ۔ اور اسی کا ذکر ان آیتوں میں ہے ۔ روزہ قیامت ایک ایک چیز کا سوال ہو گا ان کے اعمال کا سوال ان سے ان کا رب ضرور کرے گا یعنی کلمہ «لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ» سے ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3126،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں کہ تم میں سے ہر ایک شخص قیامت کے دن تنہا تنہا اللہ کے سامنے پیش ہوگا جیسے ہر ایک شخص چودہویں رات کے چاند کو اکیلا اکیلا دیکھتا ہے ۔ اللہ فرمائے گا ’ اے انسان تو مجھ سے مغرور کیوں ہو گیا ؟ تو نے اپنے علم پر کہاں تک عمل کیا ؟ تو نے میرے رسولوں کو کیا جواب دیا ؟ ‘ “ ۔ ابوالعالیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں دو چیزوں کا سوال ہر ایک سے ہوگا معبود کسے بنا رکھا تھا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مانی یا نہیں ؟ ابن عیینہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں عمل اور مال کا سوال ہوگا ۔ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ سے حضور علیہ السلام نے فرمایا { اے معاذ ! انسان سے قیامت کے دن ہر ایک عمل کا سوال ہوگا ۔ یہاں تک کہ اس کے آنکھ کے سرمے اور اس کے ہاتھ کی گندہی ہوئی مٹی کے بارے میں بھی اس سے سوال ہو گا ، دیکھ معاذ ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن اللہ کی نعمتوں کے بارے میں تو کمی والا رہ جائے } ۔ ۱؎ (الدیلمی فی الزھر الفردوس:339/4:ضعیف) اس آیت میں تو ہے کہ ’ ہر ایک سے اس کے عمل کی بابت سوال ہوگا ‘ ۔ اور سورۃ رحمان کی آیت میں ہے کہ آیت «فَیَوْمَئِذٍ لَّا یُسْأَلُ عَن ذَنبِہِ إِنسٌ وَلَا جَانٌّ» ۱؎ (55-الرحمن:39) کہ ’ اس دن کسی انسان یا جن سے اس کے گناہوں کا سوال نہ ہوگا ‘ ۔ ان دونوں آیتوں میں بقول ابن عباس رضی اللہ عنہما تطبیق یہ ہے کہ ” یہ سوال نہ ہوگا کہ تونے یہ عمل کیا ؟ بلکہ یہ سوال ہوگا کہ کیوں کیا ؟“ الحجر
90 الحجر
91 الحجر
92 الحجر
93 الحجر
94 رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے مخالفین کا عبرتناک انجام حکم ہو رہا ہے کہ ’ اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ اللہ کی باتیں لوگوں کو صاف صاف بے جھجک پہنچا دیں نہ کسی کی رو رعایت کیجئے نہ کسی کا ڈر خوف کیجئے ۔ مشرکوں کے سامنے توحید کھلم کھلا بیان کردیجئے ۔ خود عمل کرکے دوسروں تک پہنچایئے ۔ نماز میں قرآن با آواز بلند تلاوت کیجئے ‘ ۔ اس آیت کے اترنے سے پہلے تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پوشیدہ تبلیغ فرماتے تھے لیکن اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم نے کھلے طور پر اشاعت دین شروع کر دی ۔ «وَدٰوا لَوْ تُدْہِنُ فَیُدْہِنُونَ» ۱؎ (68-القلم:9) ’ ان مذاق اڑانے والوں کو ہم پر چھوڑ دے ہم خود ان سے نمٹ لیں گے تو اپنی تبلیغ کے فریضے میں کوتاہی نہ کر یہ تو چاہتے ہیں کہ ذرا سی سستی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دیکھیں تو خود بھی دست بردار ہو جائیں ‘ ۔ ’ تو ان سے مطلقاً خوف نہ کر اللہ تعالیٰ تیرا حافظ و ناصر ہے وہ تجھے ان کے شر سے بچا لے گا ‘ ۔ اور آیت میں ہے «یَا أَیٰہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَیْکَ مِن رَّبِّکَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ وَ اللہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ» ۱؎ (5-المائدہ:67) ’ اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ! جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ لوگوں تک پہنچا دو اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اس کی پیغمبری کا حق ادا نہ کیا ، اللہ تم کو لوگوں کے شر سے بچانے والا ہے ‘ ۔ چنانچہ { ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم راستے سے جا رہے تھے کہ بعض مشرکوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھیڑا اسی وقت جبرائیل علیہ السلام آئے اور انہیں نشتر مارا جس سے ان کے جسموں میں ایسا ہو گیا جیسے نیزے کے زخم ہوں اسی میں وہ مر گئے } ۔ ۱؎ (مسند بزار:2222:ضعیف) اور یہ لوگ مشرکین کے بڑے بڑے رؤسا تھے ۔ بڑی عمر کے تھے اور نہایت شریف گنے جاتے تھے ۔ بنو اسد کے قبیلے میں سے تو اسود بن عبدالمطلب ابو زمعہ ، یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بڑا ہی دشمن تھا ، ایذائیں دیا کرتا تھا اور مذاق اڑایا کرتا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تنگ آ کر اس کے لیے بد دعا بھی کی تھی کہ { اے اللہ اسے اندھا کر دے بے اولاد کر دے } ۔ بنی زہر میں سے اسود تھا اور بنی مخزوم میں سے ولید تھا اور بنی سہم میں سے عاص بن وائل تھا ۔ اور خزاعہ میں سے حارث تھا ۔ یہ لوگ برابر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذاء رسائی کے درپے لگے رہتے تھے اور لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ابھارا کرتے تھے اور جو تکلیف ان کے بس میں ہوتی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچایا کرتے جب یہ اپنے مظالم میں حد سے گزر گئے اور بات بات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑانے لگے تو اللہ تعالیٰ نے آیت «فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِکِینَ إِنَّا کَفَیْنَاکَ الْمُسْتَہْزِئِینَلَّذِینَ یَجْعَلُونَ مَعَ اللہِ إِلٰہًا آخَرَ فَسَوْفَ یَعْلَمُونَ» (15-الحجر:94-96) تک کی آیتیں نازل فرمائیں ۔ کہتے ہیں کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم طواف کر رہے تھے کہ جبرائیل علیہ السلام آئے بیت اللہ شریف میں آپ کے پاس کھڑے ہو گئے اتنے میں اسود بن عبد یغوث آپ کے پاس سے گزرا تو جبرائیل علیہ السلام نے اس کے پیٹ کی طرف اشارہ کیا اسے پیٹ کی بیماری ہو گئی اور اسی میں وہ مرا ۔ اتنے میں ولید بن مغیرہ گزرا اس کی ایڑی ایک خزاعی شخص کے تیر کے پھل سے کچھ یونہی سی چھل گئی تھی اور اسے بھی دو سال گزر چکے تھے جبرائیل علیہ السلام نے اسی کی طرف اشارہ کیا وہ پھول گئی ، پکی اور اسی میں وہ مرا ۔ پھر عاص بن وائل گزرا ۔ اس کے تلوے کی طرف اشارہ کیا کچھ دنوں بعد یہ طائف جانے کے لیے اپنے گدھے پر سوار چلا ۔ راستے میں گر پڑا اور تلوے میں کیل گھس گئی جس نے اس کی جان لی ۔ حارث کے سر کی طرف اشارہ کیا اسے خون آنے لگا اور اسی میں مرا } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:550/7:اسنادہ فیہ جہالتہ) ان سب موذیوں کا سردار ولید بن مغیرہ تھا اسی نے انہیں جمع کیا تھا پس یہ پانچ یا سات شخص تھے جو جڑ تھے اور ان کے اشاروں سے اور ذلیل لوگ بھی کمینہ پن کی حرکتیں کرتے رہتے تھے ۔ یہ لوگ اس لغو حرکت کے ساتھ ہی یہ بھی کرتے تھے کہ اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک کرتے تھے ۔ ’ انہیں اپنے کرتوت کا مزہ ابھی ابھی آ جائے گا ۔ اور بھی جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مخالف ہو اللہ کے ساتھ شرک کرے اس کا یہی حال ہے ۔ ہمیں خوب معلوم ہے کہ ان کی بکواس سے اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں تکلیف ہوتی ہے دل تنگ ہوتا ہے لیکن تم ان کا خیال بھی نہ کرو ۔ اللہ تمہارا مدد گار ہے ۔ تم اپنے رب کے ذکر اور اس کی تسبیح اور حمد میں لگے رہو ۔ اس کی عبادت جی بھر کر کرو نماز کا خیال رکھو سجدہ کرنے والوں کا ساتھ دو ‘ ۔ مسند احمد میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’ اے ابن آدم شروع دن کی چار رکعت سے عاجز نہ ہو میں تجھے آخر دن تک کفایت کروں گا ‘ } } ۔ (سنن ابوداود:1289،قال الشیخ الألبانی:صحیح) { حضور علیہ السلام کی عادت مبارک تھی کہ جب کوئی گھبراہٹ کا معاملہ آ پڑتا تو آپ نماز شروع کر دیتے } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:1319،قال الشیخ الألبانی:حسن) یقین کا مفہوم یقین سے مراد اس آخری آیت میں موت ہے اس کی دلیل سورۃ المدثر کی وہ آیتیں ہیں جن میں بیان ہے کہ «قَالُوا لَمْ نَکُ مِنَ الْمُصَلِّینَ وَلَمْ نَکُ نُطْعِمُ الْمِسْکِینَ وَکُنَّا نَخُوضُ مَعَ الْخَائِضِینَ وَکُنَّا نُکَذِّبُ بِیَوْمِ الدِّینِ حَتَّیٰ أَتَانَا الْیَقِینُ» ۱؎ (74-المدثر:43-47) ’ جہنمی اپنی برائیاں کرتے ہوئے کہیں گے کہ ہم نمازی نہ تھے مسکینوں کو کھانا کھلاتے نہیں تھے باتیں بنایا کرتے تھے اور قیامت کو جھٹلاتے تھے یہاں تک کہ موت آ گئی ‘ ، یہاں بھی موت کی جگہ لفظ یقین ہے ۔ ایک صحیح حدیث میں بھی ہے کہ { عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کے انتقال کے بعد جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس گئے تو انصار کی ایک عورت ام العلاء نے کہا کہ اے ابو السائب اللہ کی تجھ پر رحمتیں ہوں بیشک اللہ تعالیٰ نے تیری تکریم و عزت کی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا : { تجھے کیسے یقین ہو گیا کہ اللہ نے اس کا اکرام کیا ؟ } انہوں نے جواب دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر میرے ماں باپ قربان ہوں پھر کون ہوگا جس کا اکرام ہو ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { «أَمَّا ہُوَ فَقَدْ جَاءَہُ الْیَقِینُ ، وَإِنِّی لَأَرْجُو لَہُ الْخَیْرَ» سنو اسے موت آ چکی اور مجھے اس کے لئے بھلائی کی امید ہے } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1243) اس حدیث میں بھی موت کی جگہ یقین کا لفظ ہے ۔ اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ نماز وغیرہ عبادات انسان پر فرض ہیں جب تک کہ اس کی عقل باقی رہے اور ہوش حواس ثابت ہوں جیسی اس کی حالت ہو اسی کے مطابق نماز ادا کرلے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ { کھڑے ہو کر نماز ادا کر ، نہ ہو سکے تو بیٹھ کر ، نہ ہو سکے تو کروٹ پر لیٹ کر } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1117) بد مذہبوں نے اس سے اپنے مطلب کی ایک بات گھڑلی ہے کہ جب تک انسان درجہ کمال تک نہ پہنچے اس پر عبادات فرض رہتی ہیں لیکن جب معرفت کی منزلیں طے کر چکا تو عبادت کی تکلیف ساقط ہو جاتی ہے یہ سراسر کفر ضلالت اور جہالت ہے ۔ یہ لوگ اتنا نہیں سمجھتے کہ انبیاء اور حضور سرور انبیاء علیہم السلام اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم معرفت کے تمام درجے طے کر چکے تھے اور دین کے علم و عرفان میں سب دنیا سے کامل تھے رب کی صفات اور ذات کا سب سے زیادہ علم رکھتے تھے باوجود اس کے سب سے زیادہ اللہ کی عبادت کرتے تھے اور رب کی اطاعت میں تمام دنیا سے زیادہ مشغول رہتے تھے اور دنیا کے آخری دم تک اسی میں لگے رہے ۔ پس ثابت ہے کہ یہاں مراد یقین سے موت ہے تمام مفسرین صحابہ تابعین و غیرہ کا یہی مذہب ہے ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» اللہ تعالیٰ کا شکرو احسان ہے اس نے جو ہمیں ہدایت عطا فرمائی ہے اس پر ہم اس کی تعریفیں کرتے ہیں اسی سے نیک کاموں میں مدد پاتے ہیں اسی کی پاک ذات پر ہمارا بھروسہ ہے ہم اس مالک حاکم سے دعا کرتے ہیں کہ وہ بہترین اور کامل اسلام ایمان اور نیکی پر موت دے وہ جواد ہے اور کریم ہے ۔ «اَلْحَمْدُ لِلہِ» سورۃ الحجر کی تفسیر ختم ہوئی اللہ تعالیٰ قبول فرمائے «وَالْحَمْدُ لِلہِ عَلَی الْہِدَایَۃِ» ۔ الحجر
95 الحجر
96 الحجر
97 الحجر
98 الحجر
99 الحجر
0 النحل
1 عذاب کا شوق جلد پورا ہو گا اللہ تعالیٰ قیامت کی نزدیکی کی خبر دے رہا ہے اور گویا کہ وہ قائم ہو چکی ۔ اس لیے ماضی کے لفظ سے بیان فرماتا ہے جیسے فرمان ہے «اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُہُمْ وَہُمْ فِی غَفْلَۃٍ مٰعْرِضُونَ» (21-الأنبیاء:1) ’ لوگوں کا حساب قریب آ چکا پھر بھی وہ غفلت کے ساتھ منہ موڑے ہوئے ہیں ‘ ۔ اور آیت میں ہے «اقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَانشَقَّ الْقَمَرُ» ۱؎ (54-القمر:1) ’ قیامت آ چکی ، چاند پھٹ گیا ‘ ۔ پھر فرمایا ’ اس قریب والی چیز کے اور قریب ہونے کی تمنائیں نہ کرو ‘ ۔ «ہ» کی ضمیر کا مرجع یا تو لفظ اللہ ہے یعنی اللہ سے جلدی نہ چاہو یا عذاب ہیں یعنی عذابوں کی جلدی نہ مچاؤ ۔ دونوں معنی ایک دوسرے کے لازم ملزوم ہیں ۔ جیسے اور آیت میں ہے «وَیَسْتَعْجِلُونَکَ بِالْعَذَابِ وَلَوْلَا أَجَلٌ مٰسَمًّی لَّجَاءَہُمُ الْعَذَابُ وَلَیَأْتِیَنَّہُم بَغْتَۃً وَہُمْ لَا یَشْعُرُونَ یَسْتَعْجِلُونَکَ بِالْعَذَابِ وَإِنَّ جَہَنَّمَ لَمُحِیطَۃٌ بِالْکَافِرِینَ» ۱؎ (29-العنکبوت:54-53) ’ یہ لوگ عذاب کی جلدی مچا رہے ہیں مگر ہماری طرف سے اس کا وقت مقرر نہ ہوتا تو بیشک ان پر عذاب آ جاتے لیکن عذاب ان پر آئے گا ضرور اور وہ بھی ناگہاں ان کی غفلت میں ۔ یہ عذابوں کی جلدی کرتے ہیں اور جہنم ان سب کافروں کو گھیرے ہوئے ہے ‘ ۔ ضحاک رحمتہ اللہ علیہ نے اس آیت کا ایک عجیب مطلب بیان کیا ہے یعنی وہ کہتے ہیں کہ مراد ہے کہ ” اللہ فرائض اور حدود نازل ہوچکے “ ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ نے اسے خوب رد کیا ہے اور فرمایا ہے ” ایک شخص بھی تو ہمارے علم میں ایسا نہیں جس نے شریعت کے وجود سے پہلے اسے مانگنے میں عجلت کی ہو ۔ مراد اس سے عذابوں کی جلدی ہے جو کافروں کی عادت تھی کیونکہ وہ انہیں مانتے ہی نہ تھے “ ۔ جیسے قرآن پاک نے فرمایا ہے آیت «یَسْتَعْجِلُ بِہَا الَّذِینَ لَا یُؤْمِنُونَ بِہَا وَالَّذِینَ آمَنُوا مُشْفِقُونَ مِنْہَا وَیَعْلَمُونَ أَنَّہَا الْحَقٰ أَلَا إِنَّ الَّذِینَ یُمَارُونَ فِی السَّاعَۃِ لَفِی ضَلَالٍ بَعِیدٍ» ۱؎ (42-الشوری:18) ’ بے ایمان تو اس کی جلدی مچا رہے ہیں اور ایماندار ان سے لرزاں و ترساں ہیں کیونکہ وہ انہیں برحق مانتے ہیں ۔ بات یہ ہے کہ عذاب الٰہی میں شک کرنے والے دور کی گمراہی میں جا پڑتے ہیں ‘ ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { قیامت کے قریب مغرب کی جانب سے ڈھال کی طرح کا سیاہ ابر نمودار ہوگا اور وہ بہت جلد آسمان پر چڑھے گا پھر اس میں سے ایک منادی کرے گا لوگ تعجب سے ایک دوسرے سے کہیں گے میاں کچھ سنا بھی ؟ بعض ہاں کہیں گے اور بعض بات کو اڑا دیں گے وہ پھر دوبارہ ندا کرے گا اور کہے گا اے لوگو ! اب تو سب کہیں گے کہ ہاں صاحب آواز تو آئی ۔ پھر وہ تیسری دفعہ منادی کرے گا اور کہے گا اے لوگو امر الٰہی آ پہنچا اب جلدی نہ کرو ۔ اللہ کی قسم دو شخص جو کسی کپڑے کو پھیلائے ہوئے ہوں گے سمیٹنے بھی نہ پائیں گے جو قیامت قائم ہو جائے گی کوئی اپنے حوض کو ٹھیک کر رہا ہوگا ابھی پانی بھی پلا نہ پایا ہو گا جو قیامت آئے گی دودھ دوہنے والے پی بھی نہ سکیں گے کہ قیامت آ جائے گی ، ہر ایک نفسا نفسی میں لگ جائے گا } } ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:325/17:صحیح) پھر اللہ تعالیٰ اپنے نفس کریم سے شرک اور عبادت غیر پاکیزگی بیان فرماتا ہے فی الواقع وہ ان تمام باتوں سے پاک بہت دور اور بہت بلند ہے یہی مشرک ہیں جو منکر قیامت بھی ہیں اللہ سجانہ و تعالیٰ ان کے شرک سے پاک ہے ۔ النحل
2 وحی کیا ہے؟ روح سے مراد یہاں وحی ہے جیسے آیت «وَکَذٰلِکَ أَوْحَیْنَا إِلَیْکَ رُوحًا مِّنْ أَمْرِنَا مَا کُنتَ تَدْرِی مَا الْکِتَابُ وَلَا الْإِیمَانُ وَلٰکِن جَعَلْنَاہُ نُورًا نَّہْدِی بِہِ مَن نَّشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا» ۱؎ (42-الشوریٰ:52) الخ ’ ہم نے اسی طرح تیری طرف اپنے حکم سے وحی نازل فرمائی حالانکہ تجھے تو یہ بھی پتہ نہ تھا کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کی ماہیت کیا ہے ؟ ہاں ہم نے اسے نور بنا کر جسے چاہا اپنے بندوں میں سے راستہ دکھا دیا ‘ ۔ یہاں فرمان ہے کہ « اللہُ أَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہُ» ۱؎ (6-الأنعام:124) ’ ہم جن بندوں کو چاہیں پیغبری عطا فرماتے ہیں ہمیں ہی اس کا پورا علم ہے کہ اس کے لائق کون ؟ ‘ « اللہُ یَصْطَفِی مِنَ الْمَلَائِکَۃِ رُسُلًا وَمِنَ النَّاسِ» ۱؎ (22-الحج:75) ’ ہم ہی فرشتوں میں سے بھی اس اعلیٰ منصب کے فرشتے چھانٹ لیتے ہیں اور انسانوں میں سے بھی ‘ ۔ «یُلْقِی الرٰوحَ مِنْ أَمْرِہِ عَلَیٰ مَن یَشَاءُ مِنْ عِبَادِہِ لِیُنذِرَ یَوْمَ التَّلَاقِ یَوْمَ ہُم بَارِزُونَ لَا یَخْفَیٰ عَلَی اللہِ مِنْہُمْ شَیْءٌ لِّمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ لِلہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِ» ۱؎ (40-غافر:15-16) ’ اللہ اپنی وحی اپنے حکم سے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا اتارتا ہے تاکہ ملاقات کے دن سے ہوشیار کر دیں جس دن سب کے سب اللہ کے سامنے ہوں گے کوئی چیز اس سے مخفی نہ ہو گی ۔ اس دن ملک کس کا ہو گا ؟ صرف اللہ واحد و قہار کا ‘ ۔ «وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِکَ مِن رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِی إِلَیْہِ أَنَّہُ لَا إِلٰہَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ» ۱؎ (21-الأنبیاء:25) ’ ہم نے تُم سے پہلے جو رسُول بھی بھیجا ہے ، یہ اس لیے کہ وہ لوگوں میں وحدانیت رب کا اعلان کر دیں اور پارسائی سے دور مشرکوں کو ڈرائیں اور لوگوں کو سمجھائیں کہ وہ مجھ سے ڈرتے رہا کریں ‘ ۔ النحل
3 . عالم علوی اور سفلی کا خالق اللہ کریم ہی ہے -بلند آسمان اور پھیلی ہوئی زمین مع تمام مخلوق کے اسی کی پیدا کی ہوئی ہے اور یہ سب بطور حق ہے نہ بطور عبث ۔ نیکوں کو جزا اور بدوں کو سزا ہو گی ۔ وہ تمام دوسرے معبودوں اور مشرکوں سے بری اور بیزار ہے ۔ واحد ہے ، لا شریک ہے ، اکیلا ہی خالق کل ہے ۔ اسی لیے اکیلا ہی سزاوار عبادت ہے ۔ انسان حقیر و ذلیل لیکن خالق کا انتہائی نافرمان ہے ۔ اس نے انسان کا سلسلہ نطفے سے جاری رکھا ہے جو ایک پانی ہے ۔ حقیر و ذلیل یہ جب ٹھیک ٹھاک بنا دیا جاتا ہے تو اکڑفوں میں آجاتا ہے رب سے جھگڑنے لگتا ہے رسولوں کی مخالفت پر تل جاتا ہے ۔ بندہ تھا چاہیئے تو تھا کہ بندگی میں لگا رہتا لیکن یہ تو زندگی کرنے لگا ۔ اور آیت میں ہے «وَہُوَ الَّذِی خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرًا فَجَعَلَہُ نَسَبًا وَصِہْرًا وَکَانَ رَبٰکَ قَدِیرًا وَیَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللہِ مَا لَا یَنْفَعُہُمْ وَلَا یَضُرٰہُمْ وَکَانَ الْکَافِرُ عَلَی رَبِّہِ ظَہِیرًا» (25-الفرقان:54-55) ’ اللہ نے انسان کو پانی سے بنایا اس کا نسب اور سسرال قائم کیا ۔ اللہ قادر ہے رب کے سوا یہ ان کی پوجا کرنے لگے ہیں جو بے نفع اور بے ضرر ہیں کافر کچھ اللہ سے پوشیدہ نہیں ‘ ۔ سورۃ یاسین میں فرمایا «أَوَلَمْ یَرَ الْإِنسَانُ أَنَّا خَلَقْنَاہُ مِن نٰطْفَۃٍ فَإِذَا ہُوَ خَصِیمٌ مٰبِینٌ وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَنَسِیَ خَلْقَہُ قَالَ مَن یُحْیِی الْعِظَامَ وَہِیَ رَمِیمٌ قُلْ یُحْیِیہَا الَّذِی أَنشَأَہَا أَوَّلَ مَرَّۃٍ وَہُوَ بِکُلِّ خَلْقٍ عَلِیمٌ» ۱؎ (36-یس:77-79) ’ کیا انسان نہیں دیکھتا کہ ہم نے اسے نطفے سے پیدا کیا پھر وہ تو بڑا ہی جھگڑالو نکلا ۔ ہم پر بھی باتیں بنانے لگا اور اپنی پیدائش بھول گیا کہنے لگا کہ ان گلی سڑی ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا ؟ اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تم ان سے کہہ دو کہ انہیں وہ خالق اکبر پیدا کرے گا جس نے انہیں پہلی بار پیدا کیا وہ تو ہر طرح کی مخلوق کی پیدائش کا پورا عالم ہے ‘ ۔ مسند احمد اور ابن ماجہ میں کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ہتھیلی پر تھوک کر فرمایا کہ جناب باری فرماتا ہے کہ ’ اے انسان تو مجھے کیا عاجز کر سکتا ہے میں نے تو تجھے اس تھوک جیسی چیز سے پیدا کیا ہے جب تو زندگی پا گیا تنومند ہو گیا لباس مکان مل گیا تو لگا سمیٹنے اور میری راہ سے روکنے ؟ اور جب دم گلے میں اٹکا تو تو کہنے لگا کہ اب میں صدقہ کرتا ہو ، اللہ کی راہ میں دیتا ہوں ۔ بس اب صدقہ خیرات کا وقت نکل گیا ‘ } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:2707،قال الشیخ الألبانی:حسن) النحل
4 النحل
5 چوپائے اور انسان جو چوپائے اللہ تعالیٰ نے پیدا کئے ہیں اور انسان ان سے مختلف فائدے اٹھا رہا ہے اس نعمت کو رب العالمین فرما رہا ہے جیسے اونٹ گائے بکری ، جس کا مفصل بیان سورۃ الأنعام کی آیت میں آٹھ قسموں سے کیا ہے ۔ ان کے بال اون صوف وغیرہ کا گرم لباس اور جڑاول بنتی ہے دودھ پیتے ہیں گوشت کھاتے ہیں ۔ شام کو جب وہ چر چگ کر واپس آتے ہیں ، بھری ہوئی کوکھوں والے ، بھرے ہوئے تھنوں والے ، اونچی کوہانوں والے ، کتنے بھلے معلوم ہوتے ہیں اور جب چراگاہ کی طرف جاتے ہیں کیسے پیارے معلوم ہوتے ہیں پھر تمہارے بھاری بھاری بوجھ ایک شہر سے دوسرے شہر تک اپنی کمر پر لاد کر لے جاتے ہیں کہ تمہارا وہاں پہنچنا بغیر آدھی جان کئے مشکل تھا ۔ حج و عمرہ کے ، جہاد کے ، تجارت کے اور ایسے ہی اور سفر انہیں پر ہوتے ہیں تمہیں لے جاتے ہیں تمہارے بوجھ ڈھوتے ہیں ۔ جیسے آیت «وَإِنَّ لَکُمْ فِی الْأَنْعَامِ لَعِبْرَۃً نٰسْقِیکُم مِّمَّا فِی بُطُونِہَا وَلَکُمْ فِیہَا مَنَافِعُ کَثِیرَۃٌ وَمِنْہَا تَأْکُلُونَ وَعَلَیْہَا وَعَلَی الْفُلْکِ تُحْمَلُونَ» ۱؎ (23-المؤمنون:21-22) میں ہے کہ ’ یہ چوپائے جانور بھی تمہاری عبرت کا باعث ہیں ان کے پیٹ ہم تمہیں دودھ پلاتے ہیں اور ان سے بہت سے فائدے پہنچاتے ہیں ان کا گوشت بھی تم کھاتے ہو ان پر سواریاں بھی کرتے ہو ‘ ۔ سمندر کی سواری کے لیے کشتیاں ہم نے بنا دی ہیں ۔ اور آیت میں ہے « اللہُ الَّذِی جَعَلَ لَکُمُ الْأَنْعَامَ لِتَرْکَبُوا مِنْہَا وَمِنْہَا تَأْکُلُونَ وَلَکُمْ فِیہَا مَنَافِعُ وَلِتَبْلُغُوا عَلَیْہَا حَاجَۃً فِی صُدُورِکُمْ وَعَلَیْہَا وَعَلَی الْفُلْکِ تُحْمَلُونَ وَیُرِیکُمْ آیَاتِہِ فَأَیَّ آیَاتِ اللہِ تُنکِرُونَ» ۱؎ (40-غافر:79-81) ’ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے چوپائے پیدا کئے ہیں کہ تم ان پر سواری کرو انہیں کھاؤ نفع اٹھاؤ دلی حاجتیں پوری کرو اور تمہیں کشتیوں پر بھی سوار کرایا اور بہت سی نشانیاں دکھائیں پس تم ہمارے کس کس نشان کا انکار کرو گے ؟ ‘ یہاں بھی اپنی یہ نعمتیں جتا کر فرمایا کہ ’ تمہارا وہ رب جس کا مطیع بنا دیا ہے وہ تم پر بہت ہی شفقت و رحمت والا ہے ‘ ۔ جیسے سورۃ یاسین میں فرمایا «أَوَلَمْ یَرَوْا أَنَّا خَلَقْنَا لَہُمْ مِمَّا عَمِلَتْ أَیْدِینَا أَنْعَامًا فَہُمْ لَہَا مَالِکُونَ وَذَلَّلْنَاہَا لَہُمْ فَمِنْہَا رَکُوبُہُمْ وَمِنْہَا یَأْکُلُونَ» ۱؎ (36-یس:71-72) ’ کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے ان کیلئے اپنے ہاتھوں چوپائے بنائے اور انہیں انکا مالک بنا دیا اور انیں انکا مطیع بنا دیا کہ بعض کو کھائیں بعض پر سوار ہوں ‘ ۔ اور آیت میں ہے کہ «وَالَّذِی خَلَقَ الْأَزْوَاجَ کُلَّہَا وَجَعَلَ لَکُم مِّنَ الْفُلْکِ وَالْأَنْعَامِ مَا تَرْکَبُونَ لِتَسْتَوُوا عَلَیٰ ظُہُورِہِ ثُمَّ تَذْکُرُوا نِعْمَۃَ رَبِّکُمْ إِذَا اسْتَوَیْتُمْ عَلَیْہِ وَتَقُولُوا سُبْحَانَ الَّذِی سَخَّرَ لَنَا ہٰذَا وَمَا کُنَّا لَہُ مُقْرِنِینَ وَإِنَّا إِلَیٰ رَبِّنَا لَمُنقَلِبُونَ» ۱؎ (43-الزخرف:12-14) ، ’ اس اللہ نے تمہارے لیے کشتیاں بنا دیں اور چوپائے پیدا کر دیئے کہ تم ان پر سوار ہو کر اپنے رب کا فضل و شکر کرو اور کہو وہ پاک ہے جس نے انہیں ہمارا ماتحت کر دیا حلانکہ ہم میں یہ طاقت نہ تھی ہم مانتے ہیں کہ ہم اسی کی جانب لوٹیں گے ‘ ۔ «دِفْءٌ» کے معنی کپڑا اور «مَنَافِعُ» سے مراد کھانا پینا ، نسل حاصل کرنا ، سواری کرنا ، گوشت کھانا ، دودھ پینا ہے ۔ النحل
6 النحل
7 النحل
8 سواری کے جانوروں کی حرمت اپنی ایک اور نعمت بیان فرما رہا ہے کہ ’ زینت کے لیے اور سواری کے لیے اس نے گھوڑے خچر اور گدھے پیدا کئے ہیں بڑا مقصد ان جانوروں کی پیدائش سے انسان کا ہی فائدہ ہے ‘ ۔ انہیں اور چوپایوں پر فضیلت دی اور علیحدہ ذکر کیا اس وجہ سے بعض علماء نے گھوڑے کے گوشت کی حرمت کی دلیل اس آیت سے لی ہے ۔ جیسے امام ابوحنیفہ اور ان کی موافقت کرنے والے فقہاء کہتے ہیں کہ خچر اور گدھے کے ساتھ گھوڑے کا ذکر ہے اور پہلے کے دونوں جانور حرام ہیں اس لیے یہ بھی حرام ہوا ۔ چنانچہ خچر اور گدھے کی حرمت احادیث میں آئی ہے اور اکثر علماء کا مذہب بھی ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ان تینوں کی حرمت آئی ہے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ ” اس آیت سے پہلے کی آیت میں چوپایوں کا ذکر کر کے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ’ انہیں تو کھاتے ہو ‘ پس یہ تو ہوئے کھانے کے جانور اور ان تینوں کا بیان کرکے فرمایا کہ ’ ان پر تم سواری کرتے ہو ‘ ، پس یہ ہوئے سواری کے جانور “ ۔ مسند کی حدیث میں کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑوں کے خچروں کے اور گدھوں کے گوشت کو منع فرمایا ہے } ۱؎ (سنن ابوداود:3790،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) لیکن اس کے راویوں میں ایک راوی صالح ابن یحییٰ بن مقدام ہیں جن میں کلام ہے ۔ مسند کی اور حدیث میں مقدام بن معدی کرب سے منقول ہے کہ { ہم سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے ساتھ صائقہ کی جنگ میں تھے ، میرے پاس میرے ساتھی گوشت لائے ، مجھ سے ایک پتھر مانگا میں نے دیا ۔ انہوں نے فرمایا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ خیبر میں تھے لوگوں نے یہودیوں کے کھیتوں پر جلدی کر دی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ { لوگوں میں ندا کر دوں کہ نماز کے لیے آ جائیں اور مسلمانوں کے سوا کوئی نہ آئے } ۔ پھر فرمایا کہ { اے لوگو ! تم نے یہودیوں کے باغات میں گھسنے کی جلدی کی ، سنو معاہدہ کا مال بغیر حق کے حلال نہیں اور پالتو گدھوں کے اور گھوڑوں کے اور خچروں کے گوشت اور ہر ایک کچلیوں والا درندہ اور ہر ایک پنجے سے شکار کھلینے والا پرندہ حرام ہے } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:89/4:ضعیف) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ممانعت یہود کے باغات سے شاید اس وقت تھی جب ان سے معاہدہ ہو گیا ۔ پس اگر یہ حدیث صحیح ہوتی تو بیشک گھوڑے کی حرمت کے بارے میں تو نص تھی لیکن اس میں بخاری و مسلم کی حدیث کے مقابلے کی قوت نہیں جس میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پالتو گدھوں کے گوشت کو منع فرما دیا اور گھوڑوں کے گوشت کی اجازت دی } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4219) اور حدیث میں ہے کہ { ہم نے خیبر والے دن گھوڑے اور خچر اور گدھے ذبح کئے تو ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خچر اور گدھے کے گوشت سے تو منع کردیا لیکن گھوڑے کے گوشت سے نہیں روکا } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:3789،قال الشیخ الألبانی:صحیح) صحیح مسلم شریف میں اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ { ہم نے مدینے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں گھوڑا ذبح کیا اور اس کا گوشت کھایا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5510) پس یہ سب سے بڑی سب سے قوی اور سب سے زیادہ ثبوت والی حدیث ہے اور یہی مذہب جمہور علماء کا ہے ۔ مالک ، شافعی ، احمد ، رحمہ اللہ علیہم ان کے سب ساتھی اور اکثر سلف و کلف یہی کہتے ہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ” پہلے گھوڑوں میں وحشت اور جنگلی پن تھا اللہ تعالیٰ نے اسماعیل علیہ السلام کے لیے اسے مطیع کردیا “ ۔ وہب نے اسرائیلی روایتوں میں بیان کیا ہے کہ جنوبی ہوا سے گھوڑے پیدا ہوتے ہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ ان تینوں جانوروں پر سواری لینے کا جواز تو قرآن کے لفظوں سے ثابت ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک خچر ہدیے میں دیا گیا تھا جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سواری کرتے تھے } ۱؎ (صحیح بخاری:1481) ہاں یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ گھوڑوں کو گدھیوں سے ملایا جائے ۔ یہ ممانعت اس لیے ہے کہ نسل منقطع نہ ہو جائے ۔ { دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اجازت دیں تو ہم گھوڑے اور گدھی کے ملاپ سے خچر لیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر سوار ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { یہ کام وہ کرتے ہیں جو علم سے کورے ہیں } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:311/4:صحیح لغیرہ) النحل
9 تقویٰ بہترین زاد راہ ہے دنیوی راہیں طے کرنے کے اسباب بیان فرما کر اب دینی راہ چلنے کے اسباب بیان فرماتا ہے ۔ محسوسات سے معنویات کی طرف رجوع کرتا ہے قرآن میں اکثر بیانات اس قسم کے موجود ہیں سفر حج کے توشہ کا ذکر کر کے تقوے کے توشے کا جو آخرت میں کام دے بیان ہوا ہے ظاہری لباس کا ذکر فرما کر لباس تقویٰ کی اچھائی بیان کی ہے اسی طرح یہاں حیوانات سے دنیا کے کٹھن راستے اور دراز سفر طے ہونے کا بیان فرما کر آخرت کے راستے دینی راہیں بیان فرمائیں کہ سچا راستہ اللہ سے ملانے والا ہے رب کی سیدھی راہ وہی ہے اسی پر چلو دوسرے راستوں پر نہ چلو ورنہ بہک جاؤ گے اور سیدھی راہ سے الگ ہو جاؤ گے ۔ فرمایا ’ میری طرف پہنچنے کی سیدھی راہ یہی ہے جو میں نے بتائی ہے ‘ ۔ طریق جو اللہ سے ملانے والا ہے اللہ نے ظاہر کر دیا ہے اور وہ دین اسلام ہے جسے اللہ نے واضح کر دیا ہے اور ساتھ ہی دوسرے راستوں کی گمراہی بھی بیان فرما دی ہے ۔ پس سچا راستہ ایک ہی ہے جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے باقی اور راہیں غلط راہیں ہیں ، حق سے الگ تھلگ ہیں ، لوگوں کی اپنی ایجاد ہیں جیسے یہودیت نصرانیت مجوسیت وغیرہ ۔ پھر فرماتا ہے کہ « وَلَوْ شَاءَ رَبٰکَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّۃً وَاحِدَۃً وَلَا یَزَالُونَ مُخْتَلِفِینَ إِلَّا مَنْ رَحِمَ رَبٰکَ وَلِذَلِکَ خَلَقَہُمْ وَتَمَّتْ کَلِمَۃُ رَبِّکَ لَأَمْلَأَنَّ جَہَنَّمَ مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِینَ» (11-ہود:118-119) ’ ہدایت رب کے قبضے کی چیز ہے اگر چاہے تو روئے زمین کے لوگوں کو نیک راہ پر لگا دے زمین کے تمام باشندے مومن بن جائیں سب لوگ ایک ہی دین کے عامل ہو جائیں لیکن یہ اختلاف باقی ہی رہے گا مگر جس پر اللہ رحم فرمائے ۔ اسی کے لیے انہیں پیدا کیا ہے تیرے رب کی بات پوری ہو کر ہی رہے گی کہ جنت دوزخ انسان سے بھر جائے ‘ ۔ النحل
10 تمہارے فائدوں کے سامان چوپائے اور دوسرے جانوروں کی پیدائش کا احسان بیان فرما کر مزید احسانوں کا ذکر فرماتا ہے کہ ’ اوپر سے پانی وہی برساتا ہے جس سے تم فائدہ اٹھاتے ہو اور تمہارے فائدے کے جانور بھی اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں میٹھا صاف شفاف خوش گوار اچھے ذائقے کا پانی تمہارے پینے کے کام آتا ہے اس کا احسان نہ ہو تو وہ کھاری اور کڑوا بنادے اسی آب باراں سے درخت اگتے ہیں اور وہ درخت تمہارے جانوروں کا چارہ بنتے ہیں ‘ ۔ «سَّوْمُ» کے معنی چرنے کے ہیں ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:566/7:) ۔ اسی وجہ سے اہل سائمہ چرنے والے اونٹوں کو کہتے ہیں ۔ ابن ماجہ کی حدیث میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج نکلنے سے پہلے چرانے کو منع فرمایا } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:2606،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) پھر اس کی قدرت دیکھو کہ ایک ہی پانی سے مختلف مزے کے ، مختلف شکل و صورت کے ، مختلف خوشبو کے طرح طرح کے پھل پھول وہ تمہارے لیے پیدا کرتا ہے ۔ پس یہ سب نشانیاں ایک شخص کو اللہ کی وحدانیت جاننے کے لیے کافی ہیں اسی کا بیان اور آیتوں میں اس طرح ہوا ہے کہ «أَمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَأَنْزَلَ لَکُمْ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَنْبَتْنَا بِہِ حَدَائِقَ ذَاتَ بَہْجَۃٍ مَا کَانَ لَکُمْ أَنْ تُنْبِتُوا شَجَرَہَا أَإِلَہٌ مَعَ اللہِ بَلْ ہُمْ قَوْمٌ یَعْدِلُونَ» (27-النمل:60) ’ آسمان و زمین کا خالق ، بادلوں سے پانی برسانے والا ، ان سے ہرے بھرے باغات پیدا کرنے والا ، جن کے پیدا کرنے سے تم عاجز تھے اللہ ہی ہے اس کے ساتھ اور کوئی معبود نہیں پھر بھی لوگ حق سے ادھر ادھر ہورہے ہیں ‘ ۔ النحل
11 النحل
12 سورج چاند کی گردش میں پوشیدہ فوائد اللہ تعالیٰ اپنی اور نعمتیں یاد دلاتا ہے کہ ’ دن رات برابر تمہارے فائدے کے لیے آتے جاتے ہیں ۔ سورج چاند گردش میں ہیں ، ستارے چمک چمک کر تمہیں روشنی پہنچا رہے ہیں ، ہر ایک ایسا صحیح اندازہ اللہ نے مقرر کر رکھا ہے جس سے وہ نہ ادھر ادھر ہوں نہ تمہیں کوئی نقصان ہو ۔ ہر ایک رب کی قدرت میں اور اس کے غلبے تلے ہے ‘ ۔ «إِنَّ رَبَّکُمُ اللہُ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِی سِتَّۃِ أَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَیٰ عَلَی الْعَرْشِ یُغْشِی اللَّیْلَ النَّہَارَ یَطْلُبُہُ حَثِیثًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنٰجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِأَمْرِہِ أَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ تَبَارَکَ اللہُ رَبٰ الْعَالَمِینَ» ۱؎ (7-الأعراف:54) ’ اس نے چھ دن میں آسمان زمین پیدا کیا پھر عرش پر مستوی ہوا دن رات برابر پے در پے آتے رہتے ہیں سورج چاند ستارے اس کے حکم سے کام میں لگے ہوئے ہیں خلق و امر کا مالک وہی ہے وہ رب العالمین بڑی برکتوں والا ہے ‘ ۔ جو سوچ سمجھ رکھتا ہو اس کے لیے تو اس میں اللہ کی قدرت و سلطنت کی بڑی نشانیاں ہیں ۔ ان آسمانی چیزوں کے بعد اب تم زمینی چیزیں دیکھو کہ حیوان ، نباتات ، جمادات ، وغیرہ مختلف رنگ روپ کی چیزیں بےشمار فوائد کی چیزیں اسی نے تمہارے لیے زمین پر پیدا کر رکھی ہیں ۔ جو لوگ اللہ کی نعمتوں کو سوچیں اور قدر کریں ان کے لیے تو یہ زبردست نشان ہے ۔ النحل
13 النحل
14 اللہ کے انعامات اللہ تعالیٰ اپنی اور مہربانی جتاتا ہے کہ ’ سمندر پر دریا پر بھی اس نے تمہیں قابض کردیا باوجود اپنی گہرائی کے اور اپنی موجوں کے وہ تمہارا تابع ہے ، تمہاری کشتیاں اس میں چلتی ہیں ۔ اسی طرح اس میں سے مچھلیاں نکال کر ان کے تر و تازہ گوشت تم کھاتے ہو ۔ مچھلی حلت کی حالت میں ، احرام کی حالت میں ، زندہ ہو یا مردہ اللہ کی طرف سے حلال ہے ۔ لولو اور جواہر اس نے تمہارے لیے اس میں پیدا کئے ہیں جنہیں تم سہولت سے نکال لیتے ہو اور بطور زیور کے اپنے کام میں لیتے ہو پھر اس کشتیاں ہواؤں کو ہٹاتی پانی کو چیرتی اپنے سینوں کے بل تیرتی چلی جاتی ہیں ‘ ۔ سب سے پہلے نوح علیہ السلام کشی میں سوار ہوئے انہیں کو کشتی بنانا اللہ عالم نے سکھایا پھر لوگ برابر بناتے چلے آئے اور ان پر دریا کے لمبے لمبے سفر طے ہونے لگے اس پار کی چیزیں اس پار اور اس پار کی اس پار آنے جانے لگیں ۔ اسی کا بیان اس میں ہے کہ تم اللہ کا فضل یعنی اپنی روزی تجارت کے ذریعہ ڈھونڈو اور اس کی نعمت و احسان کا شکر مانو اور قدر دانی کرو ۔ مسند بزار میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ { اللہ تعالیٰ نے مغربی دریا سے کہا کہ ’ میں اپنے بندوں کو تجھ میں سوار کرنے والا ہوں تو ان کے ساتھ کیا کرے گا ؟ ‘ اس نے کہا ڈبو دونگا فرمایا ’ تیری تیزی تیرے کناروں پر ہے اور انہیں میں اپنے ہاتھ پر انہیں اٹھاؤں گا اور جس طرح ماں اپنے بچے کی خبرگیری کرتی ہے میں ان کی کرتا رہوں گا ‘ پس اسے اللہ تعالیٰ نے زیور بھی دئیے اور شکار بھی } ۔ ۱؎ (مجمع الزوائد ومنبع الفوائد:9451:ضعیف) اس حدیث کا راوی صرف عبدالرحمٰن بن عبداللہ ہے اور وہ منکر الحدیث ہے ۔ سیدنا عبداللہ بن ابی عمرو رضی اللہ عنہ سے بھی یہ روایت موقوف مروی ہے ۔ اس کے بعد زمین کا ذکر ہو رہا ہے کہ ’ اس کے ٹھہرانے اور ہلنے جلنے سے بچانے کے لیے اس پر مضبوط اور وزنی پہاڑ جما دیئے کہ اس کے ہلنے کی وجہ سے اس پر رہنے والوں کی زندگی دشوار نہ ہو جائے ‘ ۔ جیسے فرمان ہے آیت «وَالْجِبَالَ اَرْسٰیہَا» ۱؎ (79-النازعات:32) ۔ حسن رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ ” جب اللہ تعالیٰ نے زمین بنائی تو وہ ہل رہی تھی یہاں تک کہ فرشتوں نے کہا اس پر تو کوئی ٹھہر ہی نہیں سکتا ۔ صبح دیکھتے ہیں کہ پہاڑ اس پر گاڑ دئیے گئے ہیں اور اس کا ہلنا موقوف ہوگیا پس فرشتوں کو یہ بھی نہ معلوم ہوسکا کہ پہاڑ کس چیز سے پیدا کئے گئے “ ۔ قیس بن عبادہ سے بھی یہی مروی ہے ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ” زمین نے کہا تو مجھ پر بنی آدم کو بساتا ہے جو میری پیٹھ پر گناہ کریں گے اور خباثت پھیلائیں گے وہ کانپنے لگی پس اللہ تعالیٰ نے پہاڑ کو اس پر جما دیا جنہیں تم دیکھ رہے ہو اور بعض کو دیکھتے ہی نہیں ہو “ ۔ یہ بھی اس کا کرم ہے کہ اس نے نہریں چشمے اور دریا چاروں طرف بہا دئیے -کوئی تیز ہے کوئی سست ، کوئی لمبا ہے کوئی مختصر ، کبھی کم پانی ہے کبھی زیادہ ، کبھی بالکل سوکھا پڑا ہے ۔ پہاڑوں پر ، جنگلوں میں ، ریت میں ، پتھروں میں برابر یہ چشمے بہتے رہتے ہیں اور ریل پیل کر دیتے ہیں یہ سب اس کا فضل و کرم ، لطف و رحم ہے ۔ نہ اس کے سوا کوئی پروردگار نہ اس کے سوا کوئی لائق عبادت ، وہی رب ہے ، وہی معبود ہے ۔ «وَجَعَلْنَا فِی الْأَرْضِ رَوَاسِیَ أَن تَمِیدَ بِہِمْ وَجَعَلْنَا فِیہَا فِجَاجًا سُبُلًا» ۱؎ (21-الانبیأ:31) ’ اور ہم نے زمین میں پہاڑ جما دیے تاکہ وہ انہیں لے کر ڈھلک نہ جائے اور اس میں کشادہ راہیں بنا دیں تاکہ وہ راستہ حاصل کریں ‘ ۔ اسی نے راستے بنا دیئے ہیں خشکی میں ، تری میں ، پہاڑ میں ، بستی میں ، اجاڑ میں ہر جگہ اس کے فضل و کرم سے راستے موجود ہیں کہ ادھر سے ادھر لوگ جا آسکیں کوئی تنگ راستہ ہے کوئی وسیع کوئی آسان کوئی سخت ۔ اور بھی علامتیں اس نے مقرر کر دیں جیسے پہاڑ ہیں ٹیلے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ جن سے تری خشکی کے رہرو و مسافر راہ معلوم کر لیتے ہیں ۔ اور بھٹکے ہوئے سیدھے رستے لگ جاتے ہیں ۔ ستارے بھی رہنمائی کے لیے ہیں رات کے اندھیرے میں انہی سے راستہ اور سمت معلوم ہوتی ہے ۔ مالک سے مروی ہے کہ نجوم سے مراد پہاڑ ہیں ۔ پھر اپنی عظمت و کبریائی کا بیان کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ لائق عبادت اس کے سوا اور کوئی نہیں ۔ اللہ کے سوا جن جن کی لوگ عبادت کرتے ہیں وہ محض بے بس ہیں ، کسی چیز کے پیدا کرنے کی انہیں طاقت نہیں اور اللہ تعالیٰ سب کا خالق ہے ، ظاہر ہے کہ خالق اور غیر خالق یکساں نہیں ، پھر دونوں کی عبادت کرنا کس قدر ستم ہے ؟ اتنا بھی بے ہوش ہو جانا شایان انسانیت نہیں ۔ پھر اپنی نعمتوں کی فراوانی اور کثرت بیان فرماتا ہے کہ ’ تمہاری گنتی میں بھی نہیں آسکتیں ، اتنی نعمتیں میں نے تمہیں دے رکھی ہیں یہ بھی تمہاری طاقت سے باہر ہے کہ میری نعمتوں کی گنتی کر سکو ، اللہ تعالیٰ تمہاری خطاؤں سے درگزر فرماتا رہتا ہے اگر اپنی تمام تر نعمتوں کا شکر بھی تم سب طلب کرے تو تمہارے بس کا نہیں ۔ اگر ان نعمتوں کے بدلے تم سے چاہے تو تمہاری طاقت سے خارج ہے سنو اگر وہ تم سب کو عذاب کرے تو بھی وہ ظالم نہیں لیکن وہ غفور و رحیم اللہ تمہاری برائیوں کو معاف فرما دیتا ہے ، تمہاری تقصیروں سے تجاوز کر لیتا ہے ۔ توبہ ، رجوع ، اطاعت اور طلب رضا مندی کے ساتھ جو گناہ ہو جائیں ان سے چشم پوشی کر لیتا ہے ۔ بڑا ہی رحیم ہے ، توبہ کے بعد عذاب نہیں کرتا ‘ ۔ النحل
15 النحل
16 النحل
17 النحل
18 النحل
19 اللہ خالق کل چھپا کھلا سب کچھ اللہ جانتا ہے ، دونوں اس پر یکساں ہر عامل کو اس کے عمل کا بدلہ قیامت کے دن دے گا نیکوں کو جزا بدوں کو سزا ۔ جن معبودان باطل سے لوگ اپنی حاجتیں طلب کرتے ہیں وہ کسی چیز کے خالق نہیں بلکہ وہ خود مخلوق ہیں ۔ جیسے کہ خلیل الرحمن ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا کہ «قَالَ أَتَعْبُدُونَ مَا تَنْحِتُونَ وَ اللہُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ» ۱؎ (37-الصافات:96-95) ’ تم انہیں پوجتے ہو جنہیں خود بناتے ہو ۔ درحقیقت تمہارا اور تمہارے کاموں کا خالق صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہے ‘ ۔ بلکہ تمہارے معبود جو اللہ کے سوا جمادات ، بے روح چیزیں ، سنتے سیکھتے اور شعور نہیں رکھتے انہیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ قیامت کب ہوگی ؟ تو ان سے نفع کی امید اور ثواب کی توقع کیسے رکھتے ہو ؟ یہ امید تو اس اللہ سے ہونی چاہیئے جو ہر چیز کا عالم اور تمام کائنات کا خالق ہے ۔ النحل
20 النحل
21 النحل
22 . اللہ ہی معبود برحق ہے ، اس کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں ، وہ واحد ہے ، احد ہے ، فرد ہے ، صمد ہے -کافروں کے دل بھلی بات سے انکار کرتے ہیں وہ اس حق کلمے کو سن کر سخت حیرت زدہ ہو جاتے ہیں ۔ «وَإِذَا ذُکِرَ اللہُ وَحْدَہُ اشْمَأَزَّتْ قُلُوبُ الَّذِینَ لَا یُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَۃِ وَإِذَا ذُکِرَ الَّذِینَ مِن دُونِہِ إِذَا ہُمْ یَسْتَبْشِرُونَ» ۱؎ (39-الزمر:45) ’ اللہ واحد کا ذکر سن کر ان کے دل مرجھا جاتے ہیں ۔ ہاں اوروں کا ذکر ہو تو کھل جاتے ہیں ‘ ۔ «إِنَّ الَّذِینَ یَسْتَکْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِی سَیَدْخُلُونَ جَہَنَّمَ دَاخِرِینَ» ۱؎ (40-غافر:60) ’ یہ اللہ کی عبادت سے مغرور ہیں ۔ نہ ان کے دل میں ایمان نہ عبادت کے عادی ۔ ایسے لوگ ذلت کے ساتھ جہنم میں داخل ہوں گے ‘ ۔ یقیناً اللہ تعالیٰ ہر چھپے کھلے کا عالم ہے ہر عمل پر جزا اور سزا دے گا وہ مغرور لوگوں سے بیزار ہے ۔ النحل
23 النحل
24 قرآن حکیم کے ارشادات کو دیرینہ کہنا کفر کی علامت ہے ان منکرین قرآن سے جب سوال کیا جائے کہ کلام اللہ میں کیا نازل ہوا تو اصل جواب سے ہٹ کر بک دیتے ہیں کہ «وَقَالُوا أَسَاطِیرُ الْأَوَّلِینَ اکْتَتَبَہَا فَہِیَ تُمْلَیٰ عَلَیْہِ بُکْرَۃً وَأَصِیلًا» ۱؎ (25-الفرقان:5) ’ سوائے گزرے ہوئے افسانوں کے کیا رکھا ہے ؟ وہی لکھ لیے ہیں اور صبح شام دوہرا رہے ہیں ‘ ۔ پس رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر افترا باندھتے ہیں کبھی کچھ کہتے ہیں کبھی اس کے خلاف اور کچھ کہنے لگتے ہیں -دراصل کسی بات پر جم ہی نہیں سکتے اور یہ بہت بری دلیل ہے ان کے تمام اقوال کے باطل ہونے کی ۔ ہر ایک جو حق سے ہٹ جائے وہ یونہی مارا مارا بہکا بہکا پھرتا ہے کبھی حضور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جادوگر کہتے ، کبھی شاعر ، کبھی کاھن ، کبھی مجنون ۔ پھر ان کے بڈھے گرو ولید بن مغیرہ مخزومی نے انہیں بڑے غور و خوض کے بعد کہا کہ سب مل کر اس کلام کو مؤثر جادو کہا کرو ۔ ان کے اس قول کا نتیجہ بد ہوگا اور ہم نے انہیں اس راہ پر اس لیے لگا دیا ہے کہ یہ اپنے پورے گناہوں کے ساتھ ان کے بھی کچھ گناہ اپنے اوپر لادیں جو ان کے مقلد ہیں اور ان کے پیچھے پیچھے چل رہے ہیں ۔ حدیث شریف میں ہے { ہدایت کی دعوت دینے والے کو اپنے اجر کے ساتھ اپنے متبع لوگوں کا اجر بھی ملتا ہے لیکن ان کے اجر کم نہیں ہوتے اور برائی کی طرف بلانے والوں کو ان کی ماننے والوں کے گناہ بھی ملتے ہیں لیکن ماننے والوں کے گناہ کم ہو کر نہیں } ۔ (صحیح مسلم:2676) قرآن کریم کی اور آیت میں ہے «وَلَیَحْمِلُنَّ اَثْــقَالَہُمْ وَاَثْــقَالًا مَّعَ اَثْقَالِہِمْ ۡ وَلَیُسْـَٔــلُنَّ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ عَمَّا کَانُوْا یَفْتَرُوْنَ» ۱؎ (29-العنکبوت:13) ’ یہ اپنے گناہوں کے بوجھ کے ساتھ ہی ساتھ اور بوجھ بھی اٹھائیں گے اور ان کے افترا کا سوال ان سے قیامت کے دن ہونا ضروری ہے ‘ ۔ پس ماننے والوں کے بوجھ گو ان کی گردنوں پر ہیں لیکن وہ بھی ہلکے نہیں ہوں گے ۔ النحل
25 النحل
26 نمرود کا تذکرہ بعض تو کہتے ہیں اس مکار سے مراد نمرود ہے جس نے بالاخانہ تیار کیا تھا ۔ سب سے پہلے سب سے بڑی سرکشی اسی نے زمین میں کی ۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ہلاک کرنے کو ایک مچھر بھیجا جو اس کے نتھنے میں گھس گیا اور چار سو سال تک اس کا بھیجا چاٹتا رہا ، اس مدت میں اسے اس وقت قدرے سکون معلوم ہوتا تھا جب اس کے سر پر ہتھوڑے مارے جائیں ، خوب فساد پھیلایا تھا ۔ بعض کہتے ہیں اس کے سر پر ہتھوڑے پڑتے رہتے تھے ۔ اس نے چار سو سال تک سلطنت بھی کی تھی اور خوب فساد پھیلایا تھا ۔ بعض کہتے ہیں اس سے مراد بخت نصر ہے یہ بھی بڑا مکار تھا لیکن اللہ کو کوئی کیا نقصان پہنچا سکتا ہے ؟ «وَإِن کَانَ مَکْرُہُمْ لِتَزُولَ مِنْہُ الْجِبَالُ» ۱؎ (14-إبراھیم:46) ’ گو اس کا مکر پہاڑوں کو بھی اپنی جگہ سے سرکا دینے والا ہو ‘ ۔ بعض کہتے ہیں یہ تو کافروں اور مشرکوں نے اللہ کے ساتھ جو غیروں کی عبادت کی ان کے عمل کی بربادی کی مثال ہے جیسے نوح علیہ السلام نے فرمایا تھا آیت «وَمَکَرُوا مَکْرًا کُبَّارًا» (71-نوح:22) ان ’ کافروں نے بڑا ہی مکر کیا ، ہر حیلے سے لوگوں کو گمراہ کیا ، ہر وسیلے سے انہیں شرک پر آمادہ کیا ‘ ۔ چنانچہ ان کے چیلے قیامت کے دن ان سے کہیں گے «بَلْ مَکْرُ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ إِذْ تَأْمُرُونَنَا أَن نَّکْفُرَ بِ اللہِ وَنَجْعَلَ لَہُ أَندَادًا» ۱؎ (34-سبأ:33) کہ ’ تمہارا رات دن کا مکر کہ ہم سے کفر و شرک کے لیے کہنا ‘ ، الخ ۔ ان کی عمارت کی جڑ اور بنیاد سے عذاب الٰہی آیا یعنی بالکل ہی کھودیا اصل سے کاٹ دیا جیسے فرمان ہے «کُلَّمَا أَوْقَدُوا نَارًا لِّلْحَرْبِ أَطْفَأَہَا اللہُ» ۱؎ (5-المائدہ:64) ’ جب لڑائی کی آگ بھڑکانا چاہتے ہیں اللہ تعالیٰ اسے بجھا دیتا ہے ‘ ۔ اور فرمان ہے کہ «فَأَتَاہُمُ اللہُ مِنْ حَیْثُ لَمْ یَحْتَسِبُوا وَقَذَفَ فِی قُلُوبِہِمُ الرٰعْبَ یُخْرِبُونَ بُیُوتَہُم بِأَیْدِیہِمْ وَأَیْدِی الْمُؤْمِنِینَ فَاعْتَبِرُوا یَا أُولِی الْأَبْصَارِ» ۱؎ (59-الحشر:2) ’ ان کے پاس اللہ ایسی جگہ سے آیا جہاں کا انہیں خیال بھی نہ تھا ، ان کے دلوں میں ایسا رعب ڈال دیا کہ یہ اپنے ہاتھوں اپنے مکانات تباہ کرنے لگے اور دوسری جانب سے مومنوں کے ہاتھوں مٹے ، عقل مندو ! عبرت حاصل کرو ‘ ۔ یہاں فرمایا کہ ’ اللہ کا عذاب ان کی عمارت کی بنیاد سے آگیا اور ان پر اوپر سے چھت آ پڑی اور نا دانستہ جگہ سے ان پر عذاب اتر آیا ۔ قیامت کے دن کی رسوائی اور فضیحت ابھی باقی ہے ‘ ۔ «یَوْمَ تُبْلَی السَّرَائِرُ» ۱؎ (86-الطارق:9) ’ اس وقت چھپا ہوا سب کھل جائے گا ، اندر کا سب باہر آ جائے گا ۔ سارا معاملہ طشت ازبام ہو جائے گا ‘ ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { ہر غدار کے لیے اس کے پاس ہی جھنڈا گاڑ دیا جائے گا جو اس کے غدر کے مطابق ہوگا اور مشہور کردیا جائے گا کہ فلاں کا یہ غدر ہے جو فلاں کا لڑکا تھا } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3186) اسی طرح ان لوگوں کو بھی میدان محشر میں سب کے سامنے رسوا کیا جائے گا ۔ ان سے ان کا پروردگار ڈانٹ ڈپٹ کر دریافت فرمائے گا کہ «مِن دُونِ اللہِ ہَلْ یَنصُرُونَکُمْ أَوْ یَنتَصِرُونَ» ۱؎ (26-الشعراء:93) ’ جن کی حمایت میں تم میرے بندوں سے الجھتے رہتے تھے وہ آج کہاں ہیں ؟ تمہاری مدد کیوں نہیں کرتے ؟ آج بے یار و مددگار کیوں ہو ؟ ‘ یہ چپ ہو جائیں گے ، کیا جواب دیں ؟ لاچار ہو جائیں گے ، کون سی جھوٹی دلیل پیش کریں ؟ اور آیت میں ہے «فَمَا لَہُ مِن قُوَّۃٍ وَلَا نَاصِرٍ» ۱؎ (86-الطارق:10) ’ اُس وقت انسان کے پاس نہ خود اپنا کوئی زور ہو گا اور نہ کوئی اس کی مدد کرنے والا ہوگا ‘ ۔ اس وقت علماء کرام جو دنیا اور آخرت میں اللہ کے اور مخلوق کے پاس عزت رکھتے ہیں جواب دیں گے کہ رسوائی اور عذاب آج کافروں کو گھیرے ہوئے ہیں اور ان کے معبودان باطل ان سے منہ پھیرے ہوئے ہیں ۔ النحل
27 النحل
28 مشرکین کی جان کنی کا عالم مشرکین کی جان کنی کے وقت کا حال بیان ہو رہا ہے کہ ’ جب فرشتے ان کی جان لینے کے لیے آتے ہیں ، تو یہ اس وقت سننے عمل کرنے اور مان لینے کا اقرار کرتے ہیں ۔ ساتھ ہی اپنے کرتوت چھپاتے ہوئے اپنی بے گناہی بیان کرتے ہیں ‘ ۔ «وَ اللہِ رَبِّنَا مَا کُنَّا مُشْرِکِینَ» ۱؎ (6-الأنعام:23) ’ قیامت کے دن اللہ کے سامنے بھی قسمیں کھا کر اپنا مشرک نہ ہونا بیان کریں گے ‘ ۔ «یَوْمَ یَبْعَثُہُمُ اللہُ جَمِیعًا فَیَحْلِفُونَ لَہُ کَمَا یَحْلِفُونَ لَکُمْ» ۱؎ (58-المجادلہ:18) ’ جس طرح دنیا میں اپنی بے گناہی پر لوگوں کے سامنے جھوٹی قسمیں کھاتے تھے ۔ انہیں جواب ملے گا کہ جھوٹے ہو ، بد اعمالیاں جی کھول کر کہ چکے ہو ، اللہ غافل نہیں جو باتوں میں آ جائے ہر ایک عمل اس پر روشن ہے ۔ اب اپنے کرتوتوں کا خمیا زہ بھگتو اور جہنم کے دروازوں سے جا کر ہمیشہ اسی بری جگہ میں پڑے رہو ‘ ۔ مقام برا ، مکان برا ، ذلت اور رسوائی والا ، اللہ کی آیتوں سے تکبر کرنے کا اور اس کے رسولوں کی اتباع سے جی چرانے کا یہی بدلہ ہے ۔ مرتے ہی ان کی روحیں جہنم رسید ہو جائیں اور جسموں پر قبروں میں جہنم کی گرمی اور اس کی لپک آنے لگی ۔ «لَا یُقْضَیٰ عَلَیْہِمْ فَیَمُوتُوا وَلَا یُخَفَّفُ عَنْہُم مِّنْ عَذَابِہَا» (35-فاطر:36) ’ قیامت کے دن روحیں جسموں سے مل کر نار جہنم میں گئیں اب نہ موت نہ تخفیف ‘ ۔ جیسے فرمان باری ہے آیت «النَّارُ یُعْرَضُونَ عَلَیْہَا غُدُوًّا وَعَشِیًّا» ۱؎ (40-غافر:46) ’ یہ دوزخ کی آگ کے سامنے ہر صبح شام لائے جاتے ہیں ۔ قیامت کے قائم ہوتے ہی اے آل فرعون تم سخت تر عذاب میں چلے جاؤ ‘ ۔ النحل
29 النحل
30 متقیوں کے لیے بہترین جزا بروں کے حالات بیان فرما کر نیکوں کے حالات جو ان کے بالکل برعکس ہیں ، بیان فرما رہا ہے برے لوگوں کا جواب تو یہ تھا کہ اللہ کی اتاری ہوئی کتاب صرف گزرے لوگوں کے فسانے کی نقل ہے لیکن یہ نیک لوگ جواب دیتے ہیں کہ وہ سراسر برکت اور رحمت ہے جو بھی اسے مانے اور اس پر عمل کرے وہ برکت و رحمت سے مالا مال ہو جائے - پھر خبر دیتا ہے کہ ’ میں اپنے رسولوں سے وعدہ کر چکا ہوں کہ نیکوں کو دونوں جہان کی خوشی حاصل ہو گی ‘ ۔ جیسے فرمان ہے کہ «مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَکَرٍ أَوْ أُنثَیٰ وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہُ حَیَاۃً طَیِّبَۃً وَلَنَجْزِیَنَّہُمْ أَجْرَہُم بِأَحْسَنِ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ» ۱؎ (16-النحل:97) ’ جو شخص نیک عمل کرے ، خواہ مرد ہو خواہ عورت ۔ ہاں یہ ضروری ہے کہ وہ مومن ہو تو ہم اسے بڑی پاک زندگی عطا فرمائیں گے اور اس کے بہترین اعمال کا بدلہ بھی ضرور دیں گے ، دونوں جہان میں وہ جزا پائے گا ‘ ۔ یاد رہے کہ دار آخرت ، دار دنیا سے بہت ہی افضل و احسن ہے ۔ وہاں کی جزا نہایت اعلیٰ اور دائمی ہے جیسے قارون کے مال کی تمنا کرنے والوں سے علماء کرام نے فرمایا تھا کہ «وَقَالَ الَّذِینَ أُوتُوا الْعِلْمَ وَیْلَکُمْ ثَوَابُ اللہِ خَیْرٌ» ۱؎ (28-القصص:80) ’ ثواب الٰہی بہتر ہے ‘ ، الخ ۔ قرآن فرماتا ہے آیت «وَمَا عِندَ اللہِ خَیْرٌ لِّلْأَبْرَارِ» ۱؎ (3-آل عمران:198) ’ اللہ کے پاس کی چیزیں نیک کاروں کے لیے بہت اعلیٰ ہیں ‘ ۔ پھر فرماتا ہے «وَالْآخِرَۃُ خَیْرٌ وَأَبْقَیٰ» ۱؎ (87-الأعلی:17) ’ دار آخرت متقیوں کے لیے بہت ہی اچھا ہے ‘ ۔ «جَنَّاتُ عَدْنٍ» بدل ہے «دَارُ الْمُتَّقِینَ» کا یعنی ان کے لیے آخرت میں جنت عدن ہے جہاں وہ رہیں گے جس کے درختوں اور محلوں کے نیچے سے برابر چشمے ہر وقت جاری ہیں ، جو چاہیں گے پائیں گے ۔ «وَفِیہَا مَا تَشْتَہِیہِ الْأَنْفُسُ وَتَلَذٰ الْأَعْیُنُ وَأَنْتُمْ فِیہَا خَالِدُونَ» (43-الزخرف:71) ’ آنکھوں کی ہر ٹھنڈک موجود ہو گی اور وہ بھی ہمیشگی والی ‘ ۔ حدیث میں ہے { اہل جنت بیٹھے ہوں گے ، سر پر ابر اٹھے گا اور جو خواہش یہ کریں گے وہ ان کو عطا کرے گا یہاں تک کہ کوئی کہے گا اس کو ہم عمر کنواریاں ملیں تو یہ بھی ہوگا ۔ پرہیزگار تقویٰ شعار لوگوں کے بدلے اللہ ایسے ہی دیتا ہے جو ایماندار ہوں ، ڈرنے والے ہوں اور نیک عمل ہوں ۔ ان کے انتقال کے وقت یہ شرک کی گندگی سے پاک ہوتے ہی فرشتے آتے ہیں ، سلام کرتے ہیں ، جنت کی خوشخبری سناتے ہیں } ۔ جیسے فرمان عالی شان ہے آیت «إِنَّ الَّذِینَ قَالُوا رَبٰنَا اللہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَیْہِمُ الْمَلَائِکَۃُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّۃِ الَّتِی کُنْتُمْ تُوعَدُونَ نَحْنُ أَوْلِیَاؤُکُمْ فِی الْحَیَاۃِ الدٰنْیَا وَفِی الْآخِرَۃِ وَلَکُمْ فِیہَا مَا تَشْتَہِی أَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیہَا مَا تَدَّعُونَ نُزُلًا مِنْ غَفُورٍ رَحِیمٍ» ۱؎ (41-فصلت:30-32) ’ جن لوگوں نے اللہ کو رب مانا ، پھر اس پر جمے رہے ، ان کے پاس فرشتے آتے ہیں اور کہتے ہیں تم کوئی غم نہ کرو ، جنت کی خوشخبری سنو ، جس کا تم سے وعدہ تھا ، ہم دنیا آخرت میں تمہارے والی ہیں ، جو تم چاہو گے پاؤ گے جو مانگو گے ملے گا ۔ تم تو اللہ غفور و رحیم کے مہمان ہو ‘ ۔ اس مضمون کی حدیثیں ہم آیت «یُثَبِّتُ اللہُ الَّذِینَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیَاۃِ الدٰنْیَا وَفِی الْآخِرَۃِ» ۱؎ (14-ابراھیم:27) کی تفسیر میں بیان کر چکے ہیں ۔ النحل
31 النحل
32 النحل
33 فرشتوں کا انتظار اللہ تبارک و تعالیٰ مشرکوں کو ڈانٹتے ہوئے فرماتا ہے کہ ’ انہیں تو ان فرشتوں کا انتظار ہے جو ان کی روح قبض کرنے کے لیے آئیں گے تا قیامت کا انتظار ہے اور اس کے افعال و احوال کا -ان جیسے ان سے پہلے کے مشرکین کا بھی یہی وطیرہ رہا یہاں تک کہ ان پر عذاب الٰہی آ پڑے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی حجت پوری کر کے ، ان کے عذر ختم کر کے ، کتابیں اتار کر ، وبال میں گھر گئے ۔ اللہ نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ خود انہوں نے اپنا بگاڑ لیا ‘ ۔ اسی لیے ان سے قیامت کے دن کہا جائے گا کہ «ہٰذِہِ النَّارُ الَّتِی کُنتُم بِہَا تُکَذِّبُونَ» ۱؎ (52-الطور:14) ’ یہ ہے وہ آگ جسے تم جھٹلاتے رہے ‘ ۔ النحل
34 النحل
35 الٹی سوچ مشرکوں کی الٹی سوچ دیکھئیے گناہ کریں ، شرک پر اڑیں ، حلال کو حرام کریں ، جیسے جانوروں کو اپنے معبودوں کے نام سے منسوب کرنا اور تقدیر کو حجت بنائیں اور کہیں کہ اگر اللہ کو ہمارے اور ہمارے بڑوں کے یہ کام برے لگتے تو ہمیں اسی وقت سزا ملتی - انہیں جواب دیا جاتا ہے کہ ’ یہ ہمارا دستور نہیں ، ہمیں تمہارے یہ کام سخت ناپسند ہیں اور ان کی ناپسندیدگی کا اظہار ہم اپنے سچے پیغمبروں علیہم السلام کی زبانی کر چکے ۔ سخت تاکیدی طور پر تمہیں ان سے روک چکے ، ہر بستی ، ہر جماعت ، ہر شہر میں اپنے پیغام بھیجے ، سب نے اپنا فرض ادا کیا ۔ بندگان رب میں اس کے احکام کی تبلیغ صاف کر دی ۔ سب سے کہہ دیا کہ ایک اللہ کی عبادت کرو ، اس کے سوا دوسرے کو نہ پوجو ، سب سے پہلے جب شرک کا ظہور زمین پر ہوا اللہ تعالیٰ نے نوح علیہ السلام کو خلعت نبوت دے کر بھیجا اور سب سے آخر ختم المرسلین کا لقب دے کر رحمتہ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا نبی بنایا ، جن کی دعوت تمام جن و انس کے لیے زمین کے اس کونے سے اس کونے تک تھی ‘ ۔ جیسے فرمان ہے آیت «وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِیْٓ اِلَیْہِ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ» ۱؎ (21-الانبیآء:25) یعنی ’ تجھ سے پہلے جتنے رسول بھیجے ، سب کی طرف وحی نازل فرمائی کہ میرے سوا کوئی اور معبود نہیں پس تم صرف ہی عبادت کرو ‘ ۔ ایک اور آیت میں ہے «وَاسْأَلْ مَنْ أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رُسُلِنَا أَجَعَلْنَا مِنْ دُونِ الرَّحْمَنِ آلِہَۃً یُعْبَدُونَ» (43-الزخرف:45) ’ تو اپنے سے پہلے کے رسولوں سے پوچھ لے کہ کیا ہم نے ان کے لیے سوائے اپنے اور معبود مقرر کئے تھے ، جن کی وہ عبادت کرتے ہوں ؟ ‘ یہاں بھی فرمایا ’ ہر امت کے رسولوں کی دعوت توحید کی تعلیم اور شرک سے بیزاری ہی رہی ‘ ۔ پس مشرکین کو اپنے شرک پر ، اللہ کی چاہت ، اس کی شریعت سے معلوم ہوتی ہے اور وہ ابتداء ہی سے شرک کی بیخ کنی اور توحید کی مضبوطی کی ہے ۔ تمام رسولوں کی زبانی اس نے یہی پیغام بھیجا ۔ ہاں انہیں شرک کرتے ہوئے چھوڑ دینا یہ اور بات ہے جو قابل حجت نہیں ۔ اللہ نے جہنم اور جہنمی بھی تو بنائے ہیں ۔ شیطان کافر سب اسی کے پیدا کئے ہوئے ہیں اور اپنے بندوں سے ان کے کفر پر راضی نہیں ۔ اس میں بھی اس کی حکمت تامہ اور حجت بالغہ ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ رسولوں کے آگاہ کر دینے کے بعد دنیاوی سزائیں بھی کافروں اور مشرکوں پر آئیں ۔ بعض کو ہدایت بھی ہوئی ، بعض اپنی گمراہی میں ہی بہکتے رہے ۔ تم رسولوں کے مخالفین کا ، اللہ کے ساتھ شرک کرنے والوں کا انجام زمین میں چل پھر کر خود دیکھ لو گزشتہ واقعات کا جنہیں علم ہے ان سے دریافت کر لو کہ کس طرح عذاب الٰہی نے مشرکوں کو غارت کیا ۔ اس وقت کے کافروں کے لیے ان کافروں میں مثالیں اور عبرت موجود ہے ۔ دیکھ لو اللہ کے انکار کا نتیجہ کتنا مہلک ہوا ؟ ‘ پھر اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ ’ گو آپ ان کی ہدایت کے کیسے ہی حریص ہوں لیکن بے فائدہ ہے ۔ رب ان کی گمراہیوں کی وجہ سے انہیں در رحمت سے دور ڈال چکا ہے ‘ ۔ جیسے فرمان ہے آیت «وَمَنْ یٰرِدِ اللّٰہُ فِتْنَتَہٗ فَلَنْ تَمْلِکَ لَہٗ مِنَ اللّٰہِ شَـیْـــــًٔـا» (5-المائدہ:41) ’ جسے اللہ ہی فتنے میں ڈالنا چاہے تو اسے کچھ بھی تو نفع نہیں پہنچا سکتا ‘ ۔ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا «وَلَا یَنفَعُکُمْ نُصْحِی إِنْ أَرَدتٰ أَنْ أَنصَحَ لَکُمْ إِن کَانَ اللہُ یُرِیدُ أَن یُغْوِیَکُمْ» ۱؎ (11-ھود:34) ’ اگر اللہ کا ارادہ تمہیں بہکانے کا ہے تو میری نصیحت اور خیر خواہی تمہارے لیے محض بےسود ہے ‘ ۔ اس آیت میں بھی فرماتا ہے کہ ’ جسے اللہ تعالیٰ بہکادے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا ‘ ۔ جیسے کہ اور آیت میں ہے «مَن یُضْلِلِ اللہُ فَلَا ہَادِیَ لَہُ وَیَذَرُہُمْ فِی طُغْیَانِہِمْ یَعْمَہُونَ» ۱؎ (7-الأعراف:186) ’ جس کو اللہ رہنمائی سے محروم کر دے اُس کے لیے پھر کوئی رہنما نہیں ہے ، اور اللہ اِنہیں اِن کی سرکشی ہی میں بھٹکتا ہوا چھوڑے دیتا ہے ۔ وہ دن بدن اپنی سرکشی اور بہکاوے میں بڑھتے رہتے ہیں ‘ ۔ فرمان ہے آیت «إِنَّ الَّذِینَ حَقَّتْ عَلَیْہِمْ کَلِمَتُ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُونَ وَلَوْ جَاءَتْہُمْ کُلٰ آیَۃٍ حَتَّیٰ یَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِیمَ» ۱؎ (10-یونس:96-97) ’ جن پر تیرے رب کی بات ثابت ہو چکی ہے انہیں ایمان نصیب نہیں ہونے کا ۔ گو تمام نشانیاں ان کے پاس آ جائیں یہاں تک کہ عذاب الیم کا منہ دیکھ لیں ‘ ۔ پس اللہ یعنی اس کی شان ، کا امر ، اس لیے کہ جو وہ چاہتا ہے ہوتا ہے جو نہیں چاہتا نہیں ہوتا ۔ پس فرماتا ہے کہ ’ وہ اپنے گمراہ کئے ہوئے کو راہ نہیں دکھاتا ۔ نہ کوئی اور اس کی رہبری کر سکتا ہے نہ کوئی اس کی مدد کے لیے اٹھ سکتا ہے کہ عذاب الٰہی سے بچا سکے ‘ ۔ «أَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ تَبَارَکَ اللہُ رَبٰ الْعَالَمِینَ» ۱؎ (7-الأعراف:54) ’ خلق و امر اللہ ہی کا ہے وہ رب العالمین ہے ، اس کی ذات با برکت ہے ، وہی سچا معبود ہے ‘ ۔ النحل
36 النحل
37 النحل
38 قیامت یقینا قائم ہو گی کیونکہ کافر قیامت کے قائل نہیں اس لیے دوسروں کو بھی اس عقیدے ہٹانے کے لیے وہ پوری کوشش کرتے ہیں ایمان فروشی کر کے اللہ کی تاکیدی قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ مردوں کو زندہ نہ کرے گا - اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’ قیامت ضرور آئے گی اللہ کا یہ وعدہ بر حق ہے لیکن اکثر لوگ بوجہ اپنی جہالت اور لاعلمی کے رسولوں کے خلاف کرتے ہیں ، اللہ کی باتوں کو نہیں مانتے اور کفر کے گڑھے میں گرتے ہیں ‘ ۔ پھر قیامت کے آنے اور جسموں کے دوبارہ زندہ ہونے کی بعض حکمتیں ظاہر فرماتا ہے جن میں سے ایک یہ ہے کہ دنیوی اختلافات میں حق کیا تھا وہ ظاہر ہو جائے ، «لِیَجْزِیَ الَّذِینَ أَسَاءُوا بِمَا عَمِلُوا وَیَجْزِیَ الَّذِینَ أَحْسَنُوا بِالْحُسْنَی» ۱؎ (53-النجم:31) ’ بروں کو سزا اور نیکوں کو جزا ملے ۔ کافروں کا اپنے عقیدے ، اپنے قول ، اپنی قسم میں جھوٹا ہونا کھل جائے ‘ ۔ اس وقت سب دیکھ لیں گے کہ انہیں دھکے دے کر جہنم میں جھونکا جائے گا اور کہا جائے گا کہ «ہٰذِہِ النَّارُ الَّتِی کُنتُم بِہَا تُکَذِّبُونَ أَفَسِحْرٌ ہٰذَا أَمْ أَنتُمْ لَا تُبْصِرُونَ اصْلَوْہَا فَاصْبِرُوا أَوْ لَا تَصْبِرُوا سَوَاءٌ عَلَیْکُمْ إِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ» ۱؎ (52-الطور:14-16) ’ یہی ہے وہ جہنم جس کا تم انکار کرتے رہے اب بتاؤ یہ جادو ہے یا تم اندھے ہو ؟ اس میں اب پڑے رہو ۔ صبر سے رہو یا ہائے وائے کرو ، سب برابر ہے ، اعمال کا بدلہ بھگتنا ضروری ہے ‘ ۔ النحل
39 النحل
40 اللہ ہر چیز پر قادر ہے پھر اپنی بے اندازہ قدرت کا بیان فرماتا ہے کہ ’ جو وہ چاہے اس پر قادر ہے کوئی بات اسے عاجز نہیں کرسکتی ، کوئی چیز اس کے اختیار سے خارج نہیں ، وہ جو کرنا چاہے فرما دیتا ہے کہ ہو جا اسی وقت وہ کام ہو جاتا ہے ۔ قیامت بھی اس کے فرمان کا عمل ہے ‘ ۔ جیسے فرمایا «وَمَا أَمْرُنَا إِلَّا وَاحِدَۃٌ کَلَمْحٍ بِالْبَصَرِ» (54-القمر:50) ’ ایک آنکھ جھپکنے میں اس کا کہا ہو جائے گا ‘ ۔ «مَّا خَلْقُکُمْ وَلَا بَعْثُکُمْ إِلَّا کَنَفْسٍ وَاحِدَۃٍ» ۱؎ (31-لقمان:28) ’ تم سب کا پیدا کرنا اور مرنے کے بعد زندہ کر دینا اس پر ایسا ہی ہے جیسے ایک کو ادھر کہا ہو جا ادھر ہوگیا ‘ ۔ اس کو دوبارہ کہنے یا تاکید کرنے کی بھی ضرورت نہیں اس کے ارادہ سے مراد جدا نہیں ۔ کوئی نہیں جو اس کے خلاف کر سکے ، اس کے حکم کے خلاف زبان ہلا سکے ۔ وہ واحد و قہار ہے ، وہ عظمتوں اور عزتوں والا ہے ، سلطنت اور جبروت والا ہے ۔ اس کے سوا نہ کوئی معبود نہ حاکم نہ رب نہ قادر ۔ { سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’ ابن آ دم مجھے گالیاں دیتا ہے اسے ایسا نہیں چاہیئے تھا ۔ وہ مجھے جھٹلا رہا ہے حلانکہ یہ بھی اسے لائق نہ تھا ۔ اس کا جھٹلانا تو یہ ہے کہ سخت قسمیں کھا کر کہتا ہے کہ اللہ مردوں کو پھر زندہ نہ کرے گا میں کہتا ہوں یقیناً زندہ ہوں گے ۔ یہ برحق وعدہ ہے لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں اور اس کا مجھے گالیاں دینا یہ ہے کہ کہتا ہے «قَالُوا إِنَّ اللہَ ثَالِثُ ثَلَاثَۃٍ» ( 5-المائدہ : 73 ) اللہ تین میں کا تیسرا ہے ، حالانکہ «قُلْ ہُوَ اللہُ أَحَدٌ اللہُ الصَّمَدُ لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُولَدْ وَلَمْ یَکُن لَّہُ کُفُوًا أَحَدٌ» (سورۃ الإخلاص) میں احد ہوں ، میں اللہ ہوں ، میں صمد ہوں ، جس کا ہم جنس کوئی اور نہیں ‘ ۔ ابن ابی حاتم میں تو حدیث موقوفاً مروی ہے ۔ بخاری و مسلم میں دو سرے لفظوں کے ساتھ مرفوعاً روایت بھی آئی ہے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4974) النحل
41 دین کی پاسبانی میں ہجرت جو لوگ اللہ کی راہ میں ترک وطن کرکے ، دوست ، احباب ، رشتے دار ، کنبے تجارت کو اللہ کے نام پر ترک کر کے دین ربانی کی پاسبانی میں ہجرت کر جاتے ہیں ان کے اجر بیان ہو رہے ہیں کہ ’ دونوں جہان میں یہ اللہ کے ہاں معزز و محترم ہیں ‘ ۔ بہت ممکن ہے کہ سبب نزول اس کا مہاجرین حبش ہوں جو مکے میں مشرکین کی سخت ایذائیں سہنے کے بعد ہجرت کرکے حبش چلے گئے کہ آزادی سے دین حق پر عامل رہیں ۔ ان کے بہترین لوگ یہ تھے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ آپ رضی اللہ عنہ کے ساتھ آپ رضی اللہ عنہ کی بیوی صاحبہ سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی تھیں اور جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی تھے اور ابوسلمہ بن عبد الاسد رضی اللہ عنہ وغیرہ ۔ قریب قریب اسی [80] آدمی تھے مرد بھی عورتیں بھی جو سب صدیق اور صدیقہ تھے اللہ ان سب سے خوش ہو اور انہیں بھی خوش رکھے ۔ پس اللہ تعالیٰ ایسے سچے لوگوں سے وعدہ فرماتا ہے کہ ’ انہیں وہ اچھی جگہ عنایت فرمائے گا ‘ ۔ جیسے مدینہ اور پاک روزی ، مال کا بھی بدلہ ملا اور وطن کا بھی ۔ حقیقت یہ ہے کہ جو شخص اللہ کے خوف سے جیسی چیز کو چھوڑے اللہ تعالیٰ اسی جیسی بلکہ اس سے کہیں بہتر ، پاک اور حلال چیز اسے عطا فرماتا ہے ۔ ان غریب الوطن مہاجرین کو دیکھئیے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں حاکم و بادشاہ کر دیا اور دنیا پر ان کو سلطنت عطا کی ۔ ابھی آخرت کا اجر و ثواب باقی ہے ۔ پس ہجرت سے جان چرانے والے مہاجرین کے ثواب سے واقف ہوتے تو ہجرت میں سبقت کرتے ۔ اللہ تعالیٰ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے خوش ہو کہ آپ رضی اللہ عنہ جب کبھی کسی مہاجر کو اس کا حصہ غنیمت و غیرہ دیتے تو فرماتے ” لو اللہ تمہیں برکت دے یہ تو دنیا کا اللہ کا وعدہ ہے اور ابھی اجر آخرت جو بہت عظیم الشان ہے ، باقی ہے “ ۔ پھر اسی آیت مبارک کی تلاوت کرتے ۔ ان پاکباز لوگوں کا اور وصف بیان فرماتا ہے کہ ’ جو تکلیفیں اللہ کی راہ میں انہیں پہنچتی ہیں یہ انہیں جھیل لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ پر جو انہیں توکل ہے ، اس میں کبھی فرق نہیں آتا ، اسی لیے دونوں جہان کی بھلائیاں یہ لوگ اپنے دونوں ہاتھوں سے سمیٹ لیتے ہیں ‘ ۔ النحل
42 النحل
43 انسان اور منصب رسالت پر اختلاف سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ” جب اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول بنا کر بھیجا تو عرب نے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ اللہ کی شان اس سے بہت اعلیٰ اور بالا ہے کہ وہ کسی انسان کو اپنا رسول بنائے جس کا ذکر قرآن میں بھی ہے “ ۔ فرماتا ہے آیت «أَکَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا أَنْ أَوْحَیْنَا إِلَیٰ رَجُلٍ مِّنْہُمْ» ۱؎ (10-یونس:2) الخ ، ’ کیا لوگوں کو اس بات پر تعجب معلوم ہوا کہ ہم نے کسی انسان کی طرف اپنی وحی نازل فرمائی کہ وہ لوگوں کو آ گاہ کر دے ‘ ۔ اور فرمایا ’ ہم نے تجھ سے پہلے بھی جتنے رسول بھیجے سبھی انسان تھے جن پر ہماری وحی آتی تھی ۔ تم پہلی آسمانی کتاب والوں سے پوچھ لو کہ وہ انسان تھے یا فرشتے ؟ اگر وہ بھی انسان ہوں تو پھر اپنے اس قول سے باز آؤ ہاں اگر ثابت ہو کہ سلسلہ نبوت فرشتوں میں ہی رہا تو بیشک اس نبی کا انکار کرتے ہوئے تم اچھے لگو گے ‘ ۔ اور آیت میں «مِنْ أَہْلِ الْقُرَیٰ» ۱؎ (12-یوسف:109) کا لفظ بھی فرمایا یعنی ’ وہ رسول بھی زمین کے باشندے تھے ، آ سمان کی مخلوق نہ تھے ‘ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ” مراد اہل ذکر سے اہل کتاب ہیں “ ۔ مجاہد رحمتہ اللہ علیہ اور اعمش رحمتہ اللہ علیہ کا قول بھی یہی ہے ۔ عبدالرحمٰن رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ” ذکر سے مراد قرآن ہے “ ۔ جیسے آیت «اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ» ۱؎ (15-الحجر:9) میں ہے یہ قول بجائے خود ٹھیک ہے لیکن اس آیت میں ذکر سے مراد قرآن لینا درست نہیں کیونکہ قرآن کے تو وہ لوگ منکر تھے ۔ پھر قرآن والوں سے پوچھ کر ان کی تشفی کیسے ہو سکتی تھی ؟ اسی طرح ابو جعفر باقر رحمۃ اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ” ہم اہل ذکر ہیں “ یعنی یہ امت یہ قول بھی اپنی جگہ ہے ۔ درست ہے فی الواقع یہ امت تمام اگلی امتوں سے زیادہ علم والی ہے اور اہل بیت کے علماء اور علماء سے بدر جہا بڑھ کر ہیں ۔ جب کہ وہ سنت مستقیمہ پر ثابت قدم ہوں ۔ جیسے علی ، ابن عباس ، حسن ، حسین ، رضی اللہ عنہم محمد بن حنفیہ ، علی بن حسین ، زین العابدین ، علی بن عبداللہ بن عباس ، ابو جعفر باقر ، محمد بن علی بن حسین اور ان کے صاحبزادے جعفر رحمہ اللہ اور ان جیسے اور بزرگ حضرات رحمہ اللہ علیہم ۔ اللہ کی رحمت و رضا انہیں حاصل ہو ۔ جو کہ اللہ کی رسی کو مضبوط تھامے ہوئے اور صراط مستقیم پر قدم جمائے ہوئے اور ہر حقدار کے حق بجا لانے والے اور ہر ایک کو اس کی سچی جگہ اتارنے والے ، ہر ایک کی قدر و عزت کرنے والے تھے اور خود وہ اللہ کے تمام نیک بندوں کے دلوں میں اپنی مقبولیت رکھتے ہیں ۔ یہ بیشک صحیح تو ہے لیکن اس آیت میں یہ مراد نہیں ۔ یہاں بیان ہو رہا ہے کہ ’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی انسان ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی انبیاء بنی آدم میں سے ہوتے رہے ‘ ۔ جیسے فرمان ہے آیت «أَوْ یَکُونَ لَکَ بَیْتٌ مِّن زُخْرُفٍ أَوْ تَرْقَیٰ فِی السَّمَاءِ وَلَن نٰؤْمِنَ لِرُقِیِّکَ حَتَّیٰ تُنَزِّلَ عَلَیْنَا کِتَابًا نَّقْرَؤُہُ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّی ہَلْ کُنتُ إِلَّا بَشَرًا رَّسُولًا وَمَا مَنَعَ النَّاسَ أَن یُؤْمِنُوا إِذْ جَاءَہُمُ الْہُدَیٰ إِلَّا أَن قَالُوا أَبَعَثَ اللہُ بَشَرًا رَّسُولًا» (17-الإسراء:94-93) الخ ’ کہہ دے کہ میرا رب پاک ہے میں صرف ایک انسان ہوں جو اللہ کا رسول ہوں ۔ لوگ محض یہ بہانہ کر کے رسولوں کا انکار کر بیٹھے کہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی انسان کو اپنی رسالت دے ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَکَ مِنَ الْمُرْسَلِینَ إِلَّا إِنَّہُمْ لَیَأْکُلُونَ الطَّعَامَ وَیَمْشُونَ فِی الْأَسْوَاقِ» ۱؎ (25-الفرقان:20) ’ تجھ سے پہلے جتنے رسول ہم نے بھیجے سبھی کھانے پینے اور بازاروں میں چلنے پھرنے والے تھے ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَمَا جَعَلْنَاہُمْ جَسَدًا لَّا یَأْکُلُونَ الطَّعَامَ وَمَا کَانُوا خَالِدِینَ» ۱؎ (21-الأنبیاء:8) ’ ہم نے ان کے جسم ایسے نہیں بنائے تھے کہ وہ کھانے پینے سے بے نیاز ہوں یا یہ کہ مرنے والے ہی نہ ہوں ‘ ۔ اور جگہ ارشاد ہے آیت «قُلْ مَا کُنْتُ بِدْعًا مِّنَ الرٰسُلِ وَمَآ اَدْرِیْ مَا یُفْعَلُ بِیْ وَلَا بِکُمْ» ۱؎ (46-الأحقاف:9) ’ میں کوئی شروع کا اور پہلا اور نیا رسول تو نہیں ؟ ‘ ایک اور آیت میں ہے «قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوحَیٰ إِلَیَّ أَنَّمَا إِلٰہُکُمْ إِلٰہٌ وَاحِدٌ» ۱؎ (18-الکھف:110) ’ میں تم جیسا انسان ہوں میری جانب وحی اتاری جاتی ہے ‘ الخ ۔ پس یہاں بھی ارشاد ہوا کہ ’ پہلی کتابوں والوں سے پوچھ لو کہ نبی انسان ہوتے تھے یا غیر انسان ؟ ‘ پھر یہاں فرماتا ہے کہ ’ رسول کو وہ دلیلیں دے کر حجتیں عطا فرما کر بھیجتا ہے کتابیں ان پر نازل فرماتا ہے صحیفے انہیں عطا فرماتا ہے ‘ ۔ «زٰبُرِ» سے مراد کتابیں ہیں ۔ جیسے قرآن میں اور جگہ ہے «وَکُلٰ شَیْءٍ فَعَلُوہُ فِی الزٰبُرِ» ۱؎ (54-القمر:52) ’ جو کچھ انہوں نے کیا کتابوں میں ہے ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَلَقَدْ کَتَبْنَا فِی الزَّبُورِ» ۱؎ (21-الأنبیاء:105) ’ ہم نے زبور میں لکھ دیا ‘ الخ ۔ پھر فرماتا ہے ’ ہم نے تیری طرف ذکر نازل فرمایا ‘ یعنی قرآن اس لیے کہ چونکہ تو اس کے معنی مطلب سے اچھی طرح واقف ہے اسے لوگوں کو سمجھا بجھا دے ۔ حقیقتاً اے نبی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی اس پر سب سے زیادہ حریص ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی اس کے سب سے بڑے عالم ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی اس کے سب سے زیادہ عامل ہیں ۔ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم افضل الخلائق ہیں ، اولاد آدم کے سردار ہیں ۔ جو اجمال اس کتاب میں ہے اس کی تفصیل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمے ہے ، لوگوں پر جو مشکل ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے سمجھا دیں تاکہ وہ سوچیں سمجھیں راہ پائیں اور پھر نجات اور دونوں جہاں کی بھلائی حاصل کریں ۔ النحل
44 النحل
45 اللہ عزوجل کا غضب اللہ تعالیٰ خالق کائنات اور مالک ارض و سماوات اپنے حلم کا باوجود علم کے باوجود اور اپنی مہربانی کا باوجود غصے کے بیان فرماتا ہے کہ ’ وہ اگر چاہے اپنے گنہگار بدکردار بندوں کو زمین میں دھنسا سکتا ہے ۔ بے خبری میں ان پر عذاب لا سکتا ہے لیکن اپنی غایت مہربانی سے درگزر کئے ہوئے ہے ‘ ۔ جیسے سورۃ تبارک میں فرمایا «أَأَمِنتُم مَّن فِی السَّمَاءِ أَن یَخْسِفَ بِکُمُ الْأَرْضَ فَإِذَا ہِیَ تَمُورُ أَمْ أَمِنتُم مَّن فِی السَّمَاءِ أَن یُرْسِلَ عَلَیْکُمْ حَاصِبًا فَسَتَعْلَمُونَ کَیْفَ نَذِیرِ» (67-الملک:16-17) ’ اللہ جو آسمان میں ہے کیا تم اس کے غضب سے نہیں ڈرتے ؟ کہ کہیں زمین کو دلدل بنا کر تمہیں اس میں دھنسا نہ دے کہ وہ تمہیں ہچکو لے ہی لگاتی رہا کرے کیا تمہیں آسمانوں والے اللہ سے ڈر نہیں لگتا کہ کہیں وہ تم پر آسمان سے پتھر نہ برسا دے ۔ اس وقت تمہیں معلوم ہو جائے کہ میرا ڈرانا کیسا تھا ‘ ۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے مکار ، بد کردار لوگوں کو ان کے چلتے پھرتے ، آتے ، کھاتے ، کماتے ہی پکڑ لے ۔ سفر ، حضر ، رات ، دن جس وقت چاہے ، پکڑ لے ۔ جیسے فرمان ہے آیت «أَفَأَمِنَ أَہْلُ الْقُرَیٰ أَن یَأْتِیَہُم بَأْسُنَا بَیَاتًا وَہُمْ نَائِمُونَ» ۱؎ (7-الأعراف:97) ، ’ کیا بستی والے اس سے نڈر ہو گئے ہیں کہ ان کے پاس ہمارا عذاب رات میں ان کے سوتے سلاتے ہی آ جائے ‘ ، یا دن چڑھے ان کے کھیل کود کے وقت ہی آ جائے ۔ اللہ کو کوئی شخص اور کوئی کام عاجز نہیں کر سکتا وہ ہارنے والا ، تھکنے والا اور ناکام ہونے والا نہیں ۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ باوجود ڈر خوف کے انہیں پکڑ لے تو دونوں عتاب ایک ساتھ ہو جائیں ڈر اور پھر پکڑ ۔ ایک کو اچانک موت آ جائے دوسرا ڈرے اور پھر مرے ۔ لیکن رب العلی ، رب کائنات بڑا ہی رؤف و رحیم ہے اس لیے جلدی نہیں پکڑتا ۔ بخاری و مسلم میں ہے { خلاف طبع باتیں سن کر صبر کرنے میں اللہ سے بڑھ کر کوئی نہیں ۔ لوگ اس کی اولاد ٹھہراتے ہیں اور وہ انہیں رزق و عافیت عنایت فرماتا ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6099) بخاری مسلم میں ہے { اللہ تعالیٰ ظالم کو مہلت دیتا ہے لیکن جب پکڑ نازل فرماتا ہے پھر اچانک تباہ ہو جاتا ہے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت «وَکَذٰلِکَ اَخْذُ رَبِّکَ اِذَآ اَخَذَ الْقُرٰی وَہِیَ ظَالِمَۃٌ اِنَّ اَخْذَہٗٓ اَلِیْمٌ شَدِیْدٌ» ۱؎ (11-ھود:102) ، پڑھی } ۔ (صحیح بخاری:4686) اور آیت میں ہے «وَکَاَیِّنْ مِّنْ قَرْیَۃٍ اَمْلَیْتُ لَہَا وَہِیَ ظَالِمَۃٌ ثُمَّ اَخَذْتُہَا وَاِلَیَّ الْمَصِیْرُ» ۱؎ (22-الحج:48) ’ بہت سی بستیاں ہیں جنہیں میں نے کچھ مہلت دی لیکن آخر ان کے ظلم کی بنا پر انہیں گرفتار کر لیا ۔ لوٹنا تو میری ہی جانب ہے ‘ ۔ النحل
46 النحل
47 النحل
48 عرش سے فرش تک اللہ تعالیٰ ذو الجلال و الاکرام کی عظمت و جلالت کبریائی اور بیہیمتائی کا خیال کیجئے کہ ساری مخلوق عرش سے فرش تک اس کے سامنے مطیع اور غلام ۔ جمادات و حیوانات ، انسان اور جنات ، فرشتے اور کل کائنات ، اس کی فرماں بردار ، ہر چیز صبح شام اس کے سامنے ہر طرح سے اپنی عاجزی اور بے کسی کا ثبوت پیش کرنے والی ، جھک جھک کر اس کے سامنے سجدے کرنے والی ۔ مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں سورج ڈھلتے ہی تمام چیزیں اللہ کے سامنے سجدے میں گر پڑتی ہیں ہر ایک رب العالمین کے سامنے ذلیل و پست ہے ، عاجز و بے بس ہے ۔ پہاڑ وغیرہ کا سجدہ ان کا سایہ ہے ، سمندر کی موجیں اس کی نماز ہے ۔ انہیں گویا ذوی العقول سمجھ کر سجدے کی نسبت ان کی طرف کی ۔ اور فرمایا زمین و آسمان کے کل جاندار اس کے سامنے سجدے میں ہیں ۔ جیسے فرمان ہے آیت «وَلِلہِ یَسْجُدُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعًا وَّکَرْہًا وَّظِلٰلُہُمْ بالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ» {السجدہ} ۱؎ (13-الرعد:15) ، ’ خوشی ناخوشی ہر چیز رب العالمین کے سامنے سر بسجود ہے ، ان کے سائے صبح و شام سجدہ کرتے ہیں ‘ ۔ فرشتے بھی باوجود اپنی قدر و منزلت کے اللہ کے سامنے پست ہیں ، اس کی عبادت سے تنگ نہیں آ سکتے اللہ تعالیٰ جل و علا سے کانپتے اور لرزتے رہتے ہیں اور جو حکم ہے اس کی بجا آوری میں مشغول ہیں نہ نافرمانی کرتے ہیں نہ سستی کرتے ہیں ۔ النحل
49 النحل
50 النحل
51 ہر چیز کا واحد مالک وہی ہے اللہ واحد کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں ، وہ لا شریک ہے ، وہ ہر چیز کا خالق ہے ، مالک ہے ، پالنہار ہے ۔ اسی کی خالص عبادت دائمی اور واجب ہے ۔ «أَفَغَیْرَ دِینِ اللہِ یَبْغُونَ وَلَہُ أَسْلَمَ مَن فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ طَوْعًا وَکَرْہًا» ۱؎ (3-آل عمران:83) ’ اس کے سو دوسروں کی عبادت کے طر یقے نہ اختیار کرنے چاہئیں ۔ آسمان و زمین کی تمام مخلوق خوشی یا ناخوشی اس کی ماتحت ہے ‘ ۔ سب کو لوٹایا جانا اسی کی طرف ہے ، خلوص کے ساتھ اسی کی عبادت کرو ۔ اس کے ساتھ دوسروں کو شریک کرنے سے بچو ۔ «أَلَا لِلہِ الدِّینُ الْخَالِصُ» ۱؎ (39-الزمر:3) ’ دین خالص صرف اللہ ہی کا ہے ‘ ۔ آسمان و زمین کی ہر چیز کا مالک وہی تنہا ہے ۔ نفع نقصان اسی کے اختیار میں ہے ، جو کچھ نعمتیں بندوں کے ہاتھ میں ہیں سب اسی کی طرف سے ہیں ، رزق نعمتیں عافیت تصرف اسی کی طرف سے ہے ، اسی کے فضل و احسان بدن پر ہیں ۔ اور اب بھی ان نعمتوں کے پالنے کے بعد بھی تم اس کے ویسے ہی محتاج ہو مصیبتیں اب بھی سر پر منڈلا رہی ہیں ۔ سختی کے وقت وہی یاد آتا ہے اور گڑ گڑا کر پوری عاجزی کے ساتھ کٹھن وقت میں اسی کی طرف جھکتے ہو ۔ خود مشرکین مکہ کا بھی یہی حال تھا کہ «وَإِذَا مَسَّکُمُ الضٰرٰ فِی الْبَحْرِ ضَلَّ مَن تَدْعُونَ إِلَّا إِیَّاہُ فَلَمَّا نَجَّاکُمْ إِلَی الْبَرِّ أَعْرَضْتُمْ وَکَانَ الْإِنسَانُ کَفُورًا» ۱؎ (17-الاسراء:67) ’ جب سمندر میں گھر جاتے باد مخالف کے جھونکے کشتی کو پتے کی طرح ہچکو لے دینے لگتے تو اپنے ٹھاکروں ، دیوتاؤں ، بتوں ، فقیروں ، ولیوں ، نبیوں سب کو بھول جاتے اور خالص اللہ سے لو لگا کر خلوص دل سے اس سے بچاؤ اور نجات طلب کرتے ۔ لیکن کنارے پر کشتی کے پار لگتے ہی اپنے پرانے اللہ سب یاد آ جاتے اور معبود حقیقی کے ساتھ پھر ان کی پوجا پاٹ ہونے لگتی ‘ ۔ اس سے بڑھ کر بھی ناشکری کفر اور نعمتوں کی فراموشی اور کیا ہو سکتی ہے ؟ یہاں بھی فرمایا کہ ’ مطلب نکل جاتے ہی بہت سے لوگ آنکھیں پھیر لیتے ہیں ‘ ۔ «لِیَکْفُرُوا» کا لام لام عاقبت ہے اور لام تعلیل بھی کہا گیا ہے یعنی ہم نے یہ خصلت ان کی اس لیے کر دی ہے کہ وہ اللہ کی نعمت پر پردے ڈالیں اور اس کا انکار کریں حالانکہ دراصل نعمتوں کا دینے والا ، مصیبتوں کا دفع کرنے والا اس کے سوا کوئی نہیں ۔ پھر انہیں ڈراتا ہے کہ ’ اچھا دنیا میں تو اپنا کام چلا لو ، معمولی سا فائدہ یہاں کا اٹھا لو لیکن اس کا انجام ابھی ابھی معلوم ہو جائے گا ‘ ۔ النحل
52 النحل
53 النحل
54 النحل
55 النحل
56 بازپرس لازمی ہو گی مشرکوں کی بے عقلی اور بے ڈھنگی بیان ہو رہی ہے کہ «ہَذَا لِلہِ بِزَعْمِہِمْ وَہَذَا لِشُرَکَائِنَا فَمَا کَانَ لِشُرَکَائِہِمْ فَلَا یَصِلُ إِلَی اللہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَمَا کَانَ لِلہِ فَہُوَ یَصِلُ إِلَی شُرَکَائِہِمْ» ۱؎ (6-الأنعام:136) ’ دینے والا اللہ ہے سب کچھ اسی کا دیا ہوا اور یہ اس میں سے اپنے جھوٹے معبودوں کے نام ہو جائے جن کا صحیح علم بھی انہیں نہیں پھر اس میں سختی ایسی کریں کہ اللہ کے نام کا تو چاہے ان کے معبودوں کے ہو جائے لیکن ان کے معبودوں کے نام کیا گیا اللہ کے نام نہ ہو سکے ‘ ۔ ایسے لوگوں سے ضرور بازپرس ہوگی اور اس افترا کا بدلہ انہیں پورا پورا ملے گا ۔ جہنم کی آگ ہوگی اور یہ ہوں گے ۔ پھر ان کی دوسری بے انصافی اور حماقت بیان ہو رہی ہے کہ ’ اللہ کے مقرب غلام فرشتے ان کے نزدیک اللہ کی بیٹیاں ہیں یہ خطا کرکے پھر ان کی عبادت کرتے ہیں جو خطا پر خطا ہے ‘ ۔ یہاں تین جرم ان سے سرزد ہوئے اول تو اللہ کے لیے اولاد ٹھہرانا جو اس سے یکسر پاک ہے ، «أَلَکُمُ الذَّکَرُ وَلَہُ الْأُنْثَی تِلْکَ إِذًا قِسْمَۃٌ ضِیزَی» ۱؎ (53-النجم:21-22) پھر اولاد میں سے بھی وہ قسم اسے دینا جسے خود اپنے لیے بھی پسند نہیں کرتے یعنی لڑکیاں ۔ کیا ہی الٹی بات ہے کہ اپنے لیے اولاد ہو ؟ پھر اولاد بھی وہ جو ان کے نزدیک نہایت ردی اور ذلیل چیز ہے ۔ کیا حماقت ہے کہ انہیں تو اللہ لڑکے دے اور اپنے لیے لڑکیاں رکھے ؟ اللہ اس سے بلکہ اولاد سے پاک ہے ۔ انہیں جب خبر ملے کہ ان کے ہاں لڑکی ہوئی تو مارے ندامت و شرم کے منہ کالا پڑ جائے ، زبان بند ہو جائے ، غم سے کمر جھک جائے ۔ زہر کے گھونٹ پی کر خاموش ہوجائے ۔ لوگوں سے منہ چھپاتا پھرے ۔ اسی سوچ میں رہے کہ اب کیا کروں اگر لڑکی کو زندہ چھوڑتا ہوں تو بڑی رسوائی ہے نہ وہ وارث بنے نہ کوئی چیز سمجھی جائے لڑکے کو اس پر ترجیح دی جائے غرض زندہ رکھے تو نہایت ذلت سے ۔ ورنہ صاف بات ہے کہ جیتے جی گڑھا کھودا اور دبا دی ۔ یہ حالت تو اپنی ہے پھر اللہ کے لیے یہی چیز ثابت کرتے ہیں ۔ کیسے برے فیصلے کرتے ہیں ؟ کتنی بے حیائی کی تقسیم کرتے ہیں اللہ کے لیے جو بیٹی ثابت کریں اسے اپنے لیے سخت تر باعث توہین و تذلیل سمجھیں ۔ اصل یہ ہے کہ بری مثال اور نقصان انہی کافروں کے لیے ہے اللہ کے لیے کمال ہے ۔ وہ عزیز و حکیم ہے اور ذوالجلال والاکرام ہے ۔ النحل
57 النحل
58 النحل
59 النحل
60 النحل
61 وہ بندوں کو مہلت دیتا ہے اللہ تعالیٰ کے حلم و کرم لطف و رحم کا بیان ہو رہا ہے کہ ’ بندوں کے گناہ دیکھتا ہے اور پھر بھی انہیں مہلت دیتا ہے اگر فوراً ہی پکڑے تو آج زمین پر کوئی چلتا پھرتا نظر نہ آئے ‘ ۔ انسانوں کی خطاؤں میں جانور بھی ہلاک ہو جائیں ۔ گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس جائے ۔ بروں کے ساتھ بھلے بھی پکڑ میں آ جائیں ۔ لیکن اللہ سبحانہ وتعالیٰ اپنے حلم و کرم لطف و رحم سے پردہ پوشی کر رہا ہے ، درگزر فرما رہا ہے ، معافی دے رہا ہے ۔ ایک خاص وقت تک کی مہلت دئیے ہوئے ہے ، ورنہ کیڑے اور بھنگے بھی نہ بچتے ۔ بنی آدم کے گناہوں کی کثرت کی وجہ سے عذاب الٰہی ایسے آتے کہ سب کو غارت کر جاتے ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے سنا کہ کوئی صاحب فرما رہے ہیں ، ظالم اپنا ہی نقصان کرتا ہے تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” نہیں نہیں بلکہ پرند اپنے گھونسلوں میں بوجہ اس کے ظلم کے ہلاک ہو جاتے ہیں “ ۔ ابودرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ { ہم ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کچھ ذکر کر رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اللہ کسی نفس کو ڈھیل نہیں دیتا عمر کی زیادتی نیک اولاد سے ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو عنایت فرماتا ہے پھر ان بچوں کی دعائیں ان کی قبر میں انہیں پہنچتی رہتی ہیں ، یہی ان کی عمر کی زیادتی ہے } } ۔ ۱؎ (المعجم الأوسط للطبرانی:3373:ضعیف) اپنے لیے یہ ظالم لڑکیاں ناپسند کریں ، شرکت نہ چاہیں اور اللہ کے لیے یہ سب روا رکھیں ۔ پھر یہ خیال کریں کہ یہ دنیا میں بھی اچھائیاں سمیٹنے والے ہیں اور اگر قیامت قائم ہوئی تو وہاں بھی بھلائی ان کے لیے ہے ۔ یہ کہا کرتے تھے کہ نفع کے مستحق اس دنیا میں تو ہم ہیں ہی اور صحیح بات تو یہ ہے کہ قیامت نے آنا نہیں ۔ بالفرض آئی بھی تو وہاں کی بہتری بھی ہمارے لیے ہی ہے ان کفار کو عنقریب سخت عذاب چکھنے پڑیں گے ، ہماری آیتوں سے کفر پھر آرزو یہ کہ مال و اولاد ہمیں وہاں بھی ملے گا ۔ سورۃ الکہف میں دو ساتھیوں کا ذکر کرتے ہوئے قرآن نے فرمایا ہے کہ «وَدَخَلَ جَنَّتَہُ وَہُوَ ظَالِمٌ لِّنَفْسِہِ قَالَ مَا أَظُنٰ أَن تَبِیدَ ہٰذِہِ أَبَدًا وَمَا أَظُنٰ السَّاعَۃَ قَائِمَۃً وَلَئِن رٰدِدتٰ إِلَیٰ رَبِّی لَأَجِدَنَّ خَیْرًا مِّنْہَا مُنقَلَبًا» ۱؎ (18-الکہف:35-36) ’ وہ ظالم اپنے باغ میں جاتے ہوئے اپنے نیک ساتھی سے کہتا ہے میں تو اسے ہلاک ہونے والا جانتا ہی نہیں نہ قیامت کا قائل ہوں اور اگر بالفرض میں دوبارہ زندہ کیا گیا تو وہاں اس سے بھی بہتر چیز دیا جاؤں گا ‘ ۔ کام برے کریں آرزو نیکی کی رکھیں ۔ کانٹے بوئیں اور پھل چاہیں ۔ کہتے ہیں کعبتہ اللہ شریف کی عمارت کو نئے سرے سے بنانے کے لیے جب ڈھایا تو بنیادوں میں سے ایک پتھر نکلا ، جس پر ایک کتبہ لکھا ہوا تھا ، جس میں یہ بھی لکھا تھا کہ تم برائیاں کرتے ہو اور نیکیوں کی امید رکھتے ہو یہ ایسا ہی ہے جیسے کانٹے بو کر انگور کی امید رکھنا ۔ پس ان کی امیدیں تھیں کہ دنیا میں بھی انہیں جاہ و حشمت اور لونڈی غلام ملیں گے اور آخرت میں بھی ۔ اللہ فرماتا ہے ’ دراصل ان کے لیے آتش دوزخ تیار ہے ۔ وہاں یہ رحمت رب سے بھلا دئیے جائیں گے اور ضائع اور برباد ہو جائیں گے آج یہ ہمارے احکام بھلائے بیٹھے ہیں ، کل انہیں ہم اپنی نعمتوں سے بھلا دیں گے ، یہ جلدی ہی جہنم نشین ہونے والے ہیں ‘ ۔ النحل
62 النحل
63 شیطان کے دوست ’ اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم تسلی رکھیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم کا جھٹلانا کوئی انوکھی بات نہیں کون سا نبی علیہ السلام آیا جو جھٹلایا نہ گیا ؟ باقی رہے جھٹلانے والے وہ شیطان کے مرید ہیں ۔ برائیاں انہیں شیطانی وسواس سے بھلائیاں دکھائی دیتی ہیں ۔ ان کا ولی شیطان ہے وہ انہیں کوئی نفع پہنچانے والا نہیں ۔ ہمیشہ کے لیے مصیبت افزا عذابوں میں چھوڑ کر ان سے الگ ہو جائے گا ‘ ۔ قرآن حق و باطل میں سچ جھوٹ میں تمیز کرانے والی کتاب ہے ، ہر جھگڑا اور ہر اختلاف کا فیصلہ اس میں موجود ہے ۔ یہ دلوں کے لیے ہدایت ہے اور ایماندار جو اس پر عامل ہیں ، ان کے لیے رحمت ہے ۔ اس قرآن سے کس طرح مردہ دل جی اٹھتے ہیں ، اس کی مثال مردہ زمین اور بارش کی ہے جو لوگ بات کو سنیں ، سمجھیں وہ تو اس سے بہت کچھ عبرت حاصل کر سکتے ہیں ۔ النحل
64 النحل
65 النحل
66 خوشگوار دودھ اللہ تعالٰی کی عظمت کا گواہ ہے اونٹ گائے بکری وغیرہ بھی اپنے خالق کی قدرت و حکمت کی نشانیاں ہیں ۔ «بُطُونِہِ» میں ضمیر کو یا تو نعمت کے معنی پر لوٹایا ہے یا حیوان پر چوپائے بھی حیوان ہی ہیں ۔ ان حیوانوں کے پیٹ میں جو الا بلا بھری ہوئی ہوتی ہے ۔ اسی میں سے پروردگار عالم تمہیں نہایت خوش ذائقہ لطیف اور خوشگوار دودھ پلاتا ہے ۔ دوسری آیت میں «مِّمَّا فِی بُطُونِہَا» ۱؎ (23-المؤمنون:21) ہے دونوں باتیں جائز ہیں ۔ جیسے آیت «کَلَّا إِنَّہُ تَذْکِرَۃٌ فَمَن شَاءَ ذَکَرَہُ» ۱؎ (74-المدثر:54-55) میں ہے اور جیسے آیت «وَإِنِّی مُرْسِلَۃٌ إِلَیْہِم بِہَدِیَّۃٍ فَنَاظِرَۃٌ بِمَ یَرْجِعُ الْمُرْسَلُونَ فَلَمَّا جَاءَ سُلَیْمَانَ» ۱؎ (27-النمل:35-36) میں ہے ۔ پس «جَاءَ» میں مذکر لائے ۔ مراد اس سے مال ہے جانور کے باطن میں جو گوبر خون وغیرہ ہے ، معدے میں غذا پہنچی وہاں سے خون رگوں کی طرف دوڑ گیا ، دودھ تھن کی طرف پہنچا ، پیشاب نے مثانے کا راستہ پکڑا ، گوبر اپنے مخرج کی طرف جمع ہوا نہ ایک دوسرے سے ملے نہ ایک دوسرے کو بدلے ۔ یہ خالص دودھ جو پینے والے کے حلق میں با آرام اتر جائے اس کی خاص نعمت ہے ۔ اس نعمت کے بیان کے ساتھ ہی دوسری نعمت بیان فرمائی کہ کھجور اور انگور کے شیرے سے تم شراب بنا لیتے ہو ۔ یہ شراب کی حرمت سے پہلے ہے ۔ اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں چیزوں کی شراب ایک ہی حکم میں ہے جیسے مالک رحمتہ اللہ علیہ شافعی رحمتہ اللہ علیہ احمد اور جمہور علماء کا مذہب ہے اور یہی حکم ہے اور شرابوں کا جو گہیوں جو ، جوار اور شہد سے بنائی جائیں جیسے کہ احادیث میں مفصل آچکا ہے ۔ یہ جگہ اس کی تفصیل کی نہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ” شراب بناتے ہو جو حرام ہے اور اور طرح کھاتے پیتے ہو جو حلال ہے مثلاً خشک کھجوریں ، کشمش وغیرہ اور نبیند شربت بنا کر ، سرکہ بنا کر اور کئی اور طریقوں سے ۔ پس جن لوگوں کو عقل کا حصہ دیا گیا ہے ، وہ اللہ کی قدرت و عظمت کو ان چیزوں اور ان نعمتوں سے بھی پہچان سکتے ہیں “ ۔ دراصل جو ہر انسانیت عقل ہی ہے ، اسی کی نگہبانی کے لیے شریعت مطہرہ نے نشے والی شرابیں اس امت پر حرام کر دیں ۔ اسی نعمت کا بیان سورۃ یٰسین کی آیت «وَجَعَلْنَا فِیہَا جَنَّاتٍ مِّن نَّخِیلٍ وَأَعْنَابٍ وَفَجَّرْنَا فِیہَا مِنَ الْعُیُونِ لِیَأْکُلُوا مِن ثَمَرِہِ وَمَا عَمِلَتْہُ أَیْدِیہِمْ أَفَلَا یَشْکُرُونَ سُبْحَانَ الَّذِی خَلَقَ الْأَزْوَاجَ کُلَّہَا مِمَّا تُنبِتُ الْأَرْضُ وَمِنْ أَنفُسِہِمْ وَمِمَّا لَا یَعْلَمُونَ» ۱؎ (36-یس:34-36) میں ہے یعنی ’ زمین میں ہم نے کھجوروں اور انگوروں کے باغ لگا دئیے اور ان میں پانی کے چشمے بہا دئیے تاکہ لوگ اس کا پھل کھائیں ، یہ ان کے اپنے بنائے ہوئے نہیں ۔ کیا پھر بھی یہ شکر گزاری نہیں کریں گے ؟ وہ ذات پاک ہے جس نے زمین کی پیداوار میں اور خود انسانوں میں اور اس مخلوق میں جسے یہ جانتے ہی نہیں ہر طرح کی جوڑ جوڑ چیزیں پیدا کر دی ہیں ‘ ۔ النحل
67 النحل
68 وحی سے کیا مراد ہے؟ وحی سے مراد یہاں پر الہام ، ہدایت اور ارشاد ہے ۔ شہد کی مکھیوں کو اللہ کی جانب سے یہ بات سمجھائی گئی کہ وہ پہاڑوں میں ، درختوں میں اور چھتوں میں شہد کے چھتے بنائے ۔ اس ضعیف مخلوق کے اس گھر کو دیکھئیے کتنا مضبوط کیسا خوبصورت اور کیسی کاری گری کا ہوتا ہے ۔ پھر اسے ہدایت کی اور اس کے لیے مقدر کر دیا کہ یہ پھلوں ، پھولوں اور گھاس پات کے رس چوستی پھرے اور جہاں چاہے جائے ، آئے لیکن واپس لوٹتے وقت سیدھی اپنے چھتے کو پہنچ جائے ۔ چاہے بلند پہاڑ کی چوٹی ہو ، چاہے بیابان کے درخت ہوں ، چاہے آبادی کے بلند مکانات اور ویرانے کے سنسان کھنڈر ہوں ، یہ نہ راستہ بھولے ، نہ بھٹکتی پھرے ، خواہ کتنی ہی دور نکل جائے ۔ لوٹ کر اپنے چھتے میں اپنے بچوں ، انڈوں اور شہد میں پہنچ جائے ۔ اپنے پروں سے موم بنائے ۔ اپنے منہ سے شہد جمع کرے اور دوسری جگہ سے بچے ۔ «ذُلُلًا» کی تفسیر اطاعت گزر اور مسخر سے بھی کی گئی ہے پس یہ حال ہو گا «سالکۃ» کا ، جیسے قرآن میں آیت «وَذَلَّــلْنٰہَا لَہُمْ فَمِنْہَا رَکُوْبُہُمْ وَمِنْہَا یَاْکُلُوْنَ» ۱؎ (36-یس:72) میں بھی یہی معنی مراد ہے ۔ اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ لوگ شہد کے چھتے کو ایک شہر سے دوسرے شہر تک لے جاتے ہیں ۔ لیکن پہلا قول بہت زیادہ ظاہر ہے یعنی یہ اس کے طریق کا حال ہے ۔ ابن اجریر رحمہ اللہ دونوں قول صحیح بتلاتے ہیں ۔ ابو یعلیٰ موصلی میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { مکھی کی عمر چالیس دن کی ہوتی ہے سوائے شہد کی مکھی کے ۔ کئی مکھیاں آگ میں بھی ہوتی ہیں } } ۔ ۱؎ (مسند ابو یعلی:4231:) شہد کے رنگ مختلف ہوتے ہیں سفید زرد سرخ وغیرہ جیسے پھل پھول اور جیسی زمین ۔ اس ظاہری خوبی اور رنگ کی چمک کے ساتھ اس میں شفاء بھی ہے ، بہت سی بیماریوں کو اللہ تعالیٰ اس سے دور کر دیتا ہے یہاں «فِیہِ شِفَاءٌ لِلنَّاسِ» نہیں فرمایا ورنہ ہر بیماری کی دوا یہی ٹھہرتی بلکہ فرمایا ’ اس میں شفاء ہے لوگوں کے لیے ‘ ۔ پس یہ سرد بیماریوں کی دوا ہے ۔ علاج ہمیشہ بیماریوں کے خلاف ہوتا ہے پس شہد گرم ہے سردی کی بیماری میں مفید ہے ۔ مجاہد اور ابن جریر رحمہ اللہ علیہم سے منقول ہے کہ ” اس سے مراد قرآن ہے یعنی قرآن میں شفاء ہے “ ۔ یہ قول گو اپنے طور پر صحیح ہے اور واقعی قرآن شفاء ہے لیکن اس آیت میں یہ مراد لینا سیاق کے مطابق نہیں ۔ اس میں تو شہد کا ذکر ہے ، اسی لیے مجاہد رحمہ اللہ کے اس قول کی اقتداء نہیں کی گئی ۔ ہاں قرآن کے شفاء ہونے کا ذکر آیت «وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا ہُوَ شِفَا» ۱؎ (17-الإسراء:82) ، میں ہے اور آیت «وَشِفَاءٌ لِّمَا فِی الصٰدُوْرِ ڏ وَہُدًی وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ» ۱؎ (10-یونس:57) میں ہے اس آیت میں تو مراد شہد ہے ۔ چنانچہ بخاری مسلم کی حدیث میں ہے کہ { کسی نے آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ میرے بھائی کو دست آ رہے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اسے شہد پلاؤ } ، وہ گیا ، شہد دیا ، پھر آیا اور کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے تو بیماری اور بڑھ گئی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { جاؤ اور شہد پلاؤ } ۔ اس نے جا کر پھر پلایا ، پھر حاضر ہو کر یہی عرض کیا کہ دست اور بڑھ گئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اللہ سچا ہے اور تیرے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے ، جا پھر شہد دے } ۔ تیسری مرتبہ شہد سے بفضل الٰہی شفاء حاصل ہوگئی } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5684) بعض اطباء نے کہا ہے ممکن ہے اس کے پیٹ میں فضلے کی زیادتی ہو ، شہد نے اپنی گرمی کی وجہ سے اس کی تحلیل کر دی ۔ فضلہ خارج ہونا شروع ہوا ۔ دست بڑھ گئے ۔ اعرابی نے اسے مرض کا بڑھ جانا سمجھا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور شہد دینے کو فرمایا اس سے زور سے فضلہ خارج ہونا شروع ہوا پھر شہد دیا ، پیٹ صاف ہوگیا ، بلا نکل گئی اور کامل شفاء بفضل الٰہی حاصل ہو گئی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات جو بہ اشارہ الٰہی پوری ہوگئی ۔ بخاری اور مسلم کی ایک اور حدیث میں ہے کہ { سرور رسل صلی اللہ علیہ وسلم کو مٹھاس اور شہد سے بہت الفت تھی } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5431) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ { تین چیزوں میں شفاء ہے ، پچھنے لگانے میں ، شہد کے پینے میں اور داغ لگوانے میں لیکن میں اپنی امت کو داغ لگوانے سے روکتا ہوں } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5681) بخاری شریف کی حدیث میں ہے کہ { تمہاری دواؤں میں سے کسی میں اگر شفاء ہے تو پچھنے لگانے میں ، شہد کے پینے میں اور آگ سے دغوا نے میں جو بیماری کے مناسب ہو لیکن میں اسے پسند نہیں کرتا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5683) مسلم کی حدیث میں ہے { میں اسے پسند نہیں کرتا بلکہ ناپسند رکھتا ہوں } ۔ ۱؎ (مسند احمد:146/4:صحیح) ابن ماجہ میں ہے { تم ان دونوں شفاؤں کی قدر کرتے رہو شہد اور قرآن } ۔ (سنن ابن ماجہ:3452،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ابن جریر میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ ” جب تم میں سے کوئی شفاء چاہے تو قرآن کریم کی کسی آیت کو کسی صحیفے پر لکھ لے اور اسے بارش کے پانی سے دھو لے اور اپنی بیوی کے مال سے اس کی اپنی رضا مندی سے پیسے لے کر شہد خرید لے اور اسے پی لے پس اس میں کئی وجہ سے شفاء آ جائے گی “ ۔ اللہ تعالیٰ عز و جل کا فرمان ہے آیت «وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا ہُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِینَ» ۱؎ (17-الإسراء:82) یعنی ’ ہم نے قرآن میں وہ نازل فرمایا ہے جو مومنین کے لیے شفاء ہے اور رحمت ہے ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَنَزَّلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً مٰبٰرَکًا فَاَنْبَتْنَا بِہٖ جَنّٰتٍ وَّحَبَّ الْحَصِیْدِ» ۱؎ (50-ق:9) ’ ہم آسمان سے با برکت پانی برساتے ہیں ‘ ۔ اور فرمان ہے «وَاٰتُوا النِّسَاءَ صَدُقٰتِہِنَّ نِحْلَۃٍ فَاِنْ طِبْنَ لَکُمْ عَنْ شَیْءٍ مِّنْہُ نَفْسًا فَکُلُوْہُ ہَنِیْــــــًٔـا مَّرِیْـــــــًٔـا» ۱؎ (4-النساء:4) یعنی ’ اگر عورتیں اپنے مال مہر میں سے اپنی خوشی سے تمہیں کچھ دے دیں تو بیشک تم اسے کھاؤ پیو مزے سے ‘ ۔ شہد کے بارے میں فرمان الٰہی ہے «فِیہِ شِفَاءٌ لِّلنَّاسِ» ’ شہد میں لوگوں کے لیے شفاء ہے ‘ ۔ ابن ماجہ میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { جو شخص ہر مہینے میں تین دن صبح کو شہد چاٹ لے اسے کوئی بڑی بلا نہیں پہنچے گی } } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:3450،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) اس کا ایک راوی زبیر بن سعید متروک ہے ۔ ابن ماجہ کی اور حدیث میں { آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ { «عَلَیْکُمْ بِالسَّنَا وَالسَّنُوتِ فَإِنَّ فِیہِمَا شِفَاءٌ مِنْ کُلِّ دَاءٍ إِلا السَّامَ» تم سنا اور سنوت کا استعمال کیا کرو ان میں ہر بیماری کی شفاء ہے سوائے سام کے } ۔ لوگوں نے پوچھا سام کیا ؟ فرمایا : { موت } } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:3457،قال الشیخ الألبانی:صحیح) «سَّنُوتِ» کے معنی ثبت کے ہیں اور لوگوں نے کہا ہے سنوت شہد ہے جو گھی کی مشک میں رکھا ہوا ہو ۔ شاعر کے شعر میں «ہُمُ السَّمْنُ بِالسَّنٰوتِ لَا أَلْسَ فِیہِمْ وَہُمْ یَمْنَعُونَ الْجَارَ أَنْ یُقَرَّدَا» یہ لفظ اس معنی میں آیا ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ مکھی جیسی بے طاقت چیز کا تمہارے لیے شہد اور موم بنانا اس کا اس طرح آ زادی سے پھرنا اپنے گھر کو نہ بھولنا وغیرہ یہ سب چیزیں غور و فکر کرنے والوں کے لیے میری عظمت ، خالقیت اور مالکیت کی بڑی نشانیاں ہیں ‘ ۔ اسی سے لوگ اپنے اللہ کے قادر حکیم علیم کریم رحیم ہونے پر دلیل حاصل کر سکتے ہیں ۔ النحل
69 النحل
70 بہترین دعا تمام بندوں پر قبضہ اللہ تعالیٰ کا ہے ، وہی انہیں عدم وجود میں لایا ہے ، وہی انہیں پھر فوت کرے گا بعض لوگوں کو بہت بڑی عمر تک پہنچاتا ہے کہ وہ پھر سے بچوں جیسے ناتواں بن جاتے ہیں ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ” پچھتر سال کی عمر میں عموماً انسان ایسا ہی ہو جاتا ہے طاقت ختم ہو جاتی ہے حافظہ جاتا رہتا ہے ۔ علم کی کمی ہو جاتی ہے عالم ہونے کے بعد بےعلم ہو جاتا ہے “ ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعا میں فرماتے تھے « اللہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَأَعُوذ بِک مِنْ الْبُخْل وَالْکَسَل وَالْہَرَم وَأَرْذَل الْعُمُر وَعَذَاب الْقَبْر وَفِتْنَۃ الدَّجَّال وَفِتْنَۃ الْمَحْیَا وَالْمَمَات» یعنی اے اللہ میں بخیلی سے ، عاجزی سے ، بڑھاپے سے ، ذلیل عمر سے ، قبر کے عذاب سے ، دجال کے فتنے سے ، زندگی اور موت کے فتنے سے تیری پناہ طلب کرتا ہوں } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4707) زہیر بن ابوسلمہ نے بھی اپنے مشہور قصیدہ معلقہ میں اس عمر کو رنج و غم کا مخزن و منبع بتایا ہے ۔ النحل
71 مشرکین کی جہالت کا ایک انداز مشرکین کی جہالت اور ان کے کفر کا بیان ہو رہا ہے کہ اپنے معبودوں کو اللہ کے غلام جاننے کے باوجود ان کی عبادت میں لگے ہوئے ہیں ۔ چنانچہ حج کے موقع پر وہ کہا کرتے تھے «[ لَبَّیْکَ لَا شَرِیکَ لَکَ ، إِلَّا شَرِیکًا ہُوَ لَکَ ، تَمْلِکُہُ وَمَا مَلَکَ]» یعنی اے اللہ میں تیرے پاس حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں مگر وہ جو خود تیرے غلام ہیں ان کا اور ان کی ماتحت چیزوں کا اصلی مالک تو ہی ہے ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1185) پس اللہ تعالیٰ انہیں الزام دیتا ہے کہ ’ جب تم اپنے غلاموں کی اپنی برابری اور اپنے مال میں شرکت پسند نہیں کرتے تو پھر میرے غلاموں کو میری الوہیت میں کیسے شریک ٹھہرا رہے ہو ؟ ‘ یہی مضمون آیت «ضَرَبَ لَکُمْ مَّثَلًا مِّنْ اَنْفُسِکُمْ» (30-الروم:28) ، میں بیان ہوا ہے ، کہ ’ جب تم اپنے غلاموں کو اپنے مال میں اپنی بیویوں میں اپنا شریک بنانے سے نفرت کرتے ہو تو پھر میرے غلاموں کو میری الوہیت میں کیسے شریک سمجھ رہے ہو ؟ ‘ یہی اللہ کی نعمتوں سے انکار ہے کہ اللہ کے لیے وہ پسند کرنا ، جو اپنے لیے بھی پسند نہ ہو ۔ یہ ہے مثال معبودان باطل کی ۔ جب تم خود اس سے الگ ہو پھر اللہ تو اس سے بہت زیادہ بیزار ہے ۔ رب کی نعمتوں کا کفر اور کیا ہوگا کہ کھیتیاں چوپائے ایک اللہ کے پیدا کئے ہوئے اور تم انہیں اس کے سوا اوروں کے نام سے منسوب کرو ۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو ایک رسالہ لکھا کہ اپنی روزی پر قناعت اختیار کرو اللہ تعالیٰ نے ایک سے زیادہ امیر کر رکھا ہے یہ بھی اس کی طرف سے ایک آزمائش ہے کہ وہ دیکھے کہ امیر امراء کس طرح شکر الٰہی ادا کرتے ہیں اور جو حقوق دوسروں کے ان پر جناب باری نے مقرر کئے ہیں کہاں تک انہیں ادا کرتے ہیں ۔ النحل
72 بندوں پر اللہ تعالٰی کا احسان اپنے بندوں پر اپنا ایک اور احسان جتاتا ہے کہ ’ انہی کی جنس سے انہی کی ہم شکل ، ہم وضع عورتیں ہم نے ان کے لیے پیدا کیں ‘ ۔ اگر جنس اور ہوتی تو دلی میل جول ، محبت و موعدت قائم نہ رہتی لیکن اپنی رحمت سے اس نے مرد عورت ہم جنس بنائے ۔ پھر اس جوڑے سے نسل بڑھائی ، اولاد پھیلائی ، لڑکے ہوئے ، لڑکوں کے لڑکے ہوئے ۔ «حَفَدَۃً» کے ایک معنی تو یہی پوتوں کے ہیں ، دوسرے معنی خادم اور مددگار کے ہیں پس لڑکے اور پوتے بھی ایک طرح خدمت گزار ہوتے ہیں اور عرب میں یہی دستور بھی تھا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں ” انسان کی بیوی کی سابقہ گھر کی اولاد اس کی نہیں ہوتی “ ۔ «حَفَدَۃً» اس شخص کو بھی کہتے ہیں جو کسی کے سامنے اس کے لیے کام کاج کرے ۔ یہ معنی بھی کئے گئے ہیں کہ اس سے مراد دامادی رشتہ ہے اس کے معنی کے تحت میں یہ سب داخل ہیں ۔ چنانچہ قنوت میں جملہ آتا ہے «وَإِلَیْک نَسْعَی وَنَحْفِدُ» ہماری سعی کوشش اور خدمت تیرے لیے ہی ہے اور یہ ظاہر ہے کہ اولاد سے ، غلام سے ، سسرال والوں سے ، خدمت حاصل ہوتی ہے ان سب کے پاس سے نعمت الٰہی ہمیں ملتی ہے ۔ ہاں جن کے نزدیک «حَفَدَۃً» کا تعلق «أَزْوَاجًا» سے ہے ان کے نزدیک تو مراد اولاد اور اولاد کی اولاد اور داماد اور بیوی کی اولاد ہیں ۔ پس یہ سب بسا اوقات اسی شخص کی حفاظت میں ، اس کی گود میں اور اس کی خدمت میں ہوتے ہیں اور ممکن ہے کہ یہی مطلب سامنے رکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہو کہ { اولاد تیری غلام ہے } ۔ جیسے کہ ابوداؤد میں ہے ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2131 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) اور جنہوں نے «حَفَدَۃً» سے مراد خادم لیا ہے ، ان کے نزدیک یہ معطوف ہے اللہ کے فرمان آیت «وَ اللہُ جَعَلَ لَکُم مِّنْ أَنفُسِکُمْ أَزْوَاجًا» ۱؎ (16-النحل:72) پر یعنی ’ اللہ تعالیٰ نے تمہاری بیویوں اور اولاد کو خادم بنا دیا ہے اور تمہیں کھانے پینے کی بہترین ذائقے دار چیزیں عنایت فرمائی ہیں ‘ ۔ پس باطل پر یقین رکھ اللہ کی نعمتوں کی ناشکری نہ کرنی چاہیئے ۔ رب کی نعمتوں پر پردہ ڈال دیا اور ان کی دوسروں کی طرف نسبت کر دی ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ { قیامت کے دن اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے بندوں کو اپنے احسان جتاتے ہوئے فرمائے گا ’ کیا میں نے تجھے بیوی نہیں دی تھی ؟ میں نے تجھے ذی عزت نہیں بنایا تھا ؟ میں نے گھوڑوں اور اونٹوں کو تیرے تابع نہیں کیا تھا اور میں نے تجھے سرداری میں اور آرام میں نہیں چھوڑا تھا ؟ ‘ } ۱؎ (صحیح مسلم:2968) النحل
73 توحید کی تاکید نعمتیں دینے والا ، پیدا کرنے والا ، روزی پہنچانے والا ، صرف اللہ تعالیٰ اکیلا «وَحدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ» ہے ۔ اور یہ مشرکین اس کے ساتھ اوروں کو پوجتے ہیں جو نہ آسمان سے بارش برسا سکیں ، نہ زمین سے کھیت اور درخت اگا سکیں ۔ وہ اگر سب مل کر بھی چاہیں تو بھی نہ ایک بوند بارش برسانے پر قادر ، نہ ایک پتے کے پیدا کرنے ان میں سکت پس تم اللہ کے لیے مثالیں نہ بیان کرو ۔ اس کے شریک و سہیم اور اس جیسا دوسروں کو نہ سمجھو ۔ اللہ عالم ہے اور وہ اپنے علم کی بنا پر اپنی توحید پر گواہی دیتا ہے ۔ تم جاہل ہو ، اپنی جہالت سے دوسروں کو اللہ کے شریک ٹھہرا رہے ہو ۔ النحل
74 النحل
75 مومن اور کافر میں فرق سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ فرماتے ہیں ” یہ کافر اور مومن کی مثال ہے “ ۔ پس ملکیت کے غلام سے مراد کافر اور اچھی روزی والے اور خرچ کرنے والے سے مراد مومن ہے ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” اس مثال سے بت کی اور اللہ تعالیٰ کی جدائی سمجھانا مقصود ہے کہ یہ اور وہ برابر کے نہیں ۔ اس مثال کا فرق اس قدر واضح ہے جس کے بتانے کی ضرورت نہیں ، اسی لیے فرماتا کہ تعریفوں کے لائق اللہ ہی ہے ۔ اکثر مشرک بےعلمی پر تلے ہوئے ہیں “ ۔ النحل
76 گونگے بت مشرکین کے معبود ہو سکتا ہے کہ یہ مثال بھی اس فرق کے دکھانے کی ہو جو اللہ تعالیٰ میں اور مشرکین کے بتوں میں ہے ۔ یہ بت گونگے ہیں نہ کلام کر سکیں نہ کوئی بھلی بات کہہ سکیں ، نہ کسی چیز پر قدرت رکھیں ۔ قول و فعل دونوں سے خالی ۔ پھر محض بوجھ ، اپنے مالک پر بار ، کہیں بھی جائے کوئی بھلائی نہ لائے ۔ پس یہ دونوں کیسے برابر ہو جائیں گے ؟ ایک قول ہے کہ ایک گونگا سیدنا عثمان رضی اللہ عنہا کا غلام تھا ، اور ہو سکتا ہے کہ یہ مثال بھی کافر و مومن کی ہو جیسے اس سے پہلے کی آیت میں تھی ۔ کہتے ہیں کہ قریش کے ایک شخص کے غلام کا ذکر پہلے ہے اور دوسرے شخص سے مراد سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ہیں ۔ اور غلام گونگے سے مراد عثمان رضی اللہ عنہ کا وہ غلام ہے جس پر آپ رضی اللہ عنہ خرچ کرتے تھے جو آپ رضی اللہ عنہ کو تکلیف پہنچاتا رہتا تھا اور آپ رضی اللہ عنہ نے اسے کام کاج سے آزاد کر رکھا تھا لیکن پھر بھی یہ اسلام سے چڑتا تھا ، منکر تھا اور آپ رضی اللہ عنہ کو صدقہ کرنے اور نیکیاں کرنے سے روکتا تھا ، ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے ۔ النحل
77 نیکیوں کی دیوار لوگ اللہ تعالیٰ اپنے کمال علم اور کمال قدرت کو بیان فرما رہا ہے کہ ’ زمین آسمان کا غیب وہی جانتا ہے ، کوئی نہیں جو غیب دان ہو اللہ جسے چاہے ، جس چیز پر چاہے ، اطلاع دیدے ۔ ہر چیز اس کی قدرت میں ہے نہ کوئی اس کا خلاف کر سکے ۔ نہ کوئی اسے روک سکے جس کام کا جب ارادہ کرے ، قادر ہے پورا ہو کر ہی رہتا ہے ‘ ۔ «وَمَا أَمْرُنَا إِلَّا وَاحِدَۃٌ کَلَمْحٍ بِالْبَصَرِ» ۱؎ (54-القمر:50) ’ آنکھ بند کر کے کھولنے میں تو تمہیں کچھ دیر لگتی ہو گی لیکن حکم الٰہی کے پورا ہونے میں اتنی دیر بھی نہیں لگتی ‘ ۔ قیامت کا آنا بھی اس پر ایسا ہی آسان ہے ، وہ بھی حکم ہوتے ہی آ جائے گی ۔ «مَّا خَلْقُکُمْ وَلَا بَعْثُکُمْ إِلَّا کَنَفْسٍ وَاحِدَۃٍ» ۱؎ (31-لقمان:28) ’ ایک کا پیدا کرنا اور سب کا پیدا کرنا اس پر یکساں ہے ‘ ۔ اللہ کا احسان دیکھو کہ اس نے لوگوں کو ماؤں کے پیٹوں سے نکالا یہ محض نادان تھے پھر انہیں کان دئیے جس سے وہ سنیں ، آنکھیں دیں جس سے دیکھیں ، دل دئیے جس سے سوچیں اور سمجھیں ۔ عقل کی جگہ دل ہے اور دماغ بھی کہا گیا ہے ۔ عقل سے ہی نفع نقصان معلوم ہوتا ہے یہ قویٰ اور حواس انسان کو بتدریج تھوڑے تھوڑے ہو کر ملتے ہیں عمر کے ساتھ ساتھ اس کی بڑھوتری بھی ہوتی رہتی ہے ۔ یہاں تک کہ کمال کو پہنچ جائیں ۔ یہ سب اس لیے ہے کہ انسان اپنی ان طاقتوں کو اللہ کی معرفت اور عبادت میں لگائے رہے ۔ صحیح بخاری میں حدیث قدسی ہے کہ { جو میرے دوستوں سے دشمنی کرتا ہے وہ مجھ سے لڑائی کا اعلان کرتا ہے ۔ میرے فرائض کی بجا آوری سے جس قدر بندہ میری قربت حاصل کر سکتا ہے اتنی کسی اور چیز سے نہیں کر سکتا ۔ نوافل بکثرت پڑھتے پڑھتے بندہ میرے نزدیک اور میرا محبوب ہو جاتا ہے ۔ جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو میں ہی اس کے کان بن جاتا ہوں ، جن سے وہ سنتا ہے اور اس کی نگاہ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جن سے وہ تھامتا ہے اور اس کے پیر بن جاتا ہوں جن سے وہ چلتا ہے ۔ وہ اگر مجھ سے مانگے میں دیتا ہوں ، اگر دعا کرے میں قبول کرتا ہوں ، اگر پناہ چاہے میں پناہ دیتا ہوں اور مجھے کسی کام کے کرنے میں اتنا تردد نہیں ہوتا جتنا مومن کی روح کے قبض کرنے میں موت کو ناپسند کرتا ہے ۔ میں اسے ناراض کرنا نہیں چاہتا اور موت ایسی چیز ہی نہیں جس سے کسی ذی روح کو نجات مل سکے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6502) اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب مومن اخلاص اور اطاعت میں کامل ہو جاتا ہے تو اس کے تمام افعال محض اللہ کے لیے ہو جاتے ہیں وہ سنتا ہے اللہ کے لیے ، دیکھتا ہے اللہ کے لیے ، یعنی شریعت کی باتیں سنتا ہے ، شریعت نے جن چیزوں کا دیکھنا جائز کیا ہے ، انہی کو دیکھتا ہے ، اسی طرح اس کا ہاتھ بڑھانا ، پاؤں چلانا بھی اللہ کی رضا مندی کے کاموں کے لیے ہی ہوتا ہے ۔ اللہ پر اس کا بھروسہ رہتا ہے اسی سے مدد چاہتا ہے ، تمام کام اس کے اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے ہی ہوتے ہیں ۔ اس لیے بعض غیر صحیح احادیث میں اس کے بعد یہ بھی آیا ہے کہ { پھر وہ میرے ہی لیے سنتا ہے اور میرے ہی لیے دیکھتا ہے اور میرے لیے پکڑتا ہے اور میرے لیے ہی چلتا پھرتا ہے } ۔ آیت میں بیان ہے کہ ’ ماں کے پیٹ سے وہ نکالتا ہے ، کان ، آنکھ ، دل ، دماغ وہ دیتا ہے تاکہ تم شکر ادا کرو ‘ اور آیت میں فرمان ہے «قُلْ ہُوَ الَّذِی أَنشَأَکُمْ وَجَعَلَ لَکُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَۃَ قَلِیلًا مَّا تَشْکُرُونَ قُلْ ہُوَ الَّذِی ذَرَأَکُمْ فِی الْأَرْضِ وَإِلَیْہِ تُحْشَرُونَ» ۱؎ (67-الملک:23) ، یعنی ’ اللہ ہی نے تمہیں پیدا کیا ہے اور تمہارے لیے کان اور آنکھیں اور دل بنائے ہیں لیکن تم بہت ہی کم شکر گزاری کرتے ہو ، اسی نے تمہیں زمین میں پھیلا دیا ہے اور اسی کی طرف تمہارا حشر کیا جانے والا ہے ‘ ۔ پھر اللہ پاک رب العالمین اپنے بندوں سے فرماتا ہے کہ ’ ان پرندوں کی طرف دیکھو جو آسمان و زمین کے درمیان کی فضا میں پرواز کرتے پھرتے ہیں ، انہیں پروردگار ہی اپنی قدرت کاملہ سے تھامے ہوئے ہے ۔ یہ قوت پرواز اسی نے انہیں دے رکھی ہے اور ہواؤں کو ان کا مطیع بنا رکھا ہے ۔ سورۃ الملک میں بھی یہی فرمان ہے کہ «أَوَلَمْ یَرَوْا إِلَی الطَّیْرِ فَوْقَہُمْ صَافَّاتٍ وَیَقْبِضْنَ مَا یُمْسِکُہُنَّ إِلَّا الرَّحْمٰنُ إِنَّہُ بِکُلِّ شَیْءٍ بَصِیرٌ» ۱؎ (67-الملک:19) ’ کیا وہ اپنے سروں پر اڑتے ہوئے پرندوں کو نہیں دیکھتے ؟ جو پر کھولے ہوئے ہیں اور پر سمیٹے ہوئے بھی ہیں انہیں بجز اللہ رحمان و رحیم کے کون تھامتا ہے ؟ وہ اللہ تمام مخلوق کو بخوبی دیکھ رہا ہے ‘ ۔ یہاں بھی خاتمے پر فرمایا کہ ’ اس میں ایمانداروں کے لیے بہت سے نشان ہیں ‘ ۔ النحل
78 النحل
79 النحل
80 احسانات الٰہی کی ایک جھلک قدیم اور بہت بڑے ان گنت احسانات و انعامات والا اللہ اپنی اور نعمتیں ظاہر فرما رہا ہے ۔ اسی نے بنی آدم کے رہنے سہنے آرام اور راحت حاصل کرنے کے لیے انہیں مکانات دے رکھے ہیں ۔ اسی طرح چوپائے ، جانوروں کی کھالوں کے خیمے ، ڈیرے ، تمبو اس نے عطا فرما رکھے ہیں کہ سفر میں کام آئیں ، نہ لے جانا دو بھر نہ لگانا مشکل ، نہ اکھیڑنے میں کوئی تکلیف ۔ پھر بکریوں کے بال ، اونٹوں کے بال ، بھیڑوں اور دنبوں کی اون ، تجارت کے لیے مال کے طور پر اسے تمہارے لیے بنایا ہے ۔ وہ گھر کے برتنے کی چیز بھی ہے اس سے کپڑے بھی بنتے ہیں ، فرش بھی تیار ہوتے ہیں ، تجارت کے طور پر مال تجارت ہے ۔ فائدے کی چیز ہے جس سے لوگ مقررہ وقت تک سود مند ہوتے ہیں ۔ درختوں کے سائے اس نے تمہارے فائدے اور راحت کے لیے بنائے ہیں ۔ پہاڑوں پر غار قلعے وغیرہ اس نے تمہیں دے رکھے ہیں کہ ان میں پناہ حاصل کرو ۔ چھپنے اور رہنے سہنے کی جگہ بنالو ۔ سوتی ، اونی اور بالوں کے کپڑے اس نے تمہیں دے رکھے ہیں کہ پہن کر سردی گرمی کے بچاؤ کے ساتھ ہی اپنا ستر چھپاؤ اور زیب و زینت حاصل کرو اور اس نے تمہیں زرہیں ، خود بکتر عطا فرمائے ہیں جو دشمنوں کے حملے اور لڑائی کے وقت تمہیں کام دیں ۔ اسی طرح وہ تمہیں تمہاری ضرورت کی پوری پوری نعمتیں دئیے جاتا ہے کہ تم راحت وآ رام پاؤ اور اطمینان سے اپنے منعم حقیقی کی عبادت میں لگے رہو ۔ «تُسْلِمُونَ» کی دوسری قرأت «تَسْلَمُوْنَ» بھی ہے ، یعنی تم سلامت رہو ۔ اور پہلی قرأت کے معنی تاکہ تم فرمانبردار بن جاؤ ۔ اس سورۃ کا نام سورۃ النعم بھی ہے ۔ لام کے زبر والی قرأت سے یہ بھی مراد ہے کہ تم کو اس نے لڑائی میں کام آنے والی چیزیں دیں کہ تم سلامت رہو ، دشمن کے وار سے بچو ۔ بیشک جنگل اور بیابان بھی اللہ کی بڑی نعمت ہیں لیکن یہاں پہاڑوں کی نعمت اس لیے بیان کی کہ جب سے کلام ہے وہ پہاڑوں کے رہنے والے تھے تو ان کی معلومات کے مطابق ان سے کلام ہو رہا ہے اسی طرح چونکہ وہ بھیڑ بکریوں اور اونٹوں والے تھے انہیں یہی نعمتیں یاد دلائیں حالانکہ ان سے بڑھ کر اللہ کی نعمتیں مخلوق کے ہاتھوں میں اور بھی بےشمار ہیں اور یہی وجہ ہے کہ سردی کے اتارنے کا احسان بیان فرمایا حلانکہ اس سے اور بڑے احسانات موجود ہیں ۔ لیکن یہ ان کے سامنے اور ان کی جانی پہچانی چیز تھی ۔ اسی طرح چونکہ یہ لڑنے بھڑنے والے جنگجو لوگ تھے ، لڑائی کے بچاؤ کی چیز بطور نعمت ان کے سامنے رکھی حالانکہ اس سے صدہا درجے بڑی اور نعمتیں بھی مخلوق کے ہاتھ میں موجود ہیں ۔ اسی طرح چونکہ ان کا ملک گرم تھا فرمایا کہ لباس سے تم گرمی کی تکلیف زائل کرتے ہو ورنہ کیا اس سے بہتر اس منعم حقیقی کی اور نعمتیں بندوں کے پاس نہیں ؟ النحل
81 النحل
82 . اسی لیے ان نعمتوں اور رحمتوں کے اظہار کے بعد ہی فرماتا ہے کہ ’ اگر اب بھی یہ لوگ میری عبادت اور توحید کے اور میرے بے پایاں احسانوں کے قائل نہ ہوں تو تجھے ان کی ایسی پڑی ہے ؟ چھوڑ دے اپنے کام میں لگ جا تجھ پر تو صرف تبلیغ ہی ہے وہ کئے جا ۔ یہ خود جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی نعمتوں کا دینے والا ہے اور اس کی بے شمار نعمتیں ان کے ہاتھوں میں ہیں لیکن باوجود علم کے منکر ہو رہے ہیں اور اس کے ساتھ دوسروں کی عبادت کرتے ہیں بلکہ اس کی نعمتوں کو دوسروں کی طرف منسوب کرتے ہیں سمجھتے ہیں کہ مددگار فلاں ہے رزق دینے والا فلاں ہے ، یہ اکثر لوگ کافر ہیں ، اللہ کے ناشکرے ہیں ‘ ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ { ایک اعرابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت ’ اس نے تمہیں چوپایوں کی کھالوں کے خیمے دئیے ‘ ، اس نے کہا یہ بھی سچ ہے ، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان آیتوں کو پڑھتے گئے اور وہ ہر ایک نعمت کا اقرار کرتا رہا آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھا ’ اس لیے کہ تم مسلمان اور مطیع ہو جاؤ ‘ اس وقت وہ پیٹھ پھیر کر چل دیا } ۔ تو اللہ تعالیٰ نے آخری آیت اتاری کہ اقرار کے بعد انکار کر کے کافر ہو جاتے ہیں ۔ النحل
83 النحل
84 ہر امت کا گواہ اس کا نبی قیامت کے دن مشرکوں کی جو بری حالت بنے گی اس کا ذکر ہو رہا ہے کہ ’ اس دن ہر امت پر اس کا نبی علیہ السلام گواہی دے گا کہ اس نے اللہ کا پیغام انہیں پہنچا دیا تھا کافروں کو کسی عذر کی بھی اجازت نہ ملے گی کیونکہ ان کا بطلان اور جھوٹ بالکل ظاہر ہے ‘ ۔ سورۃ والمرسلات میں بھی یہی فرمان ہے کہ «ہَذَا یَوْمٌ لَا یَنْطِقُونَ وَلَا یُؤْذَنُ لَہُمْ فَیَعْتَذِرُونَ» ۱؎ (77-المرسلات:36-35) ’ اس دن نہ وہ بولیں گے ، نہ انہیں کسی عذر کی اجازت ملے گی ‘ ۔ مشرکین عذاب دیکھیں گے لیکن پھر کوئی کمی نہ ہوگی ایک ساعت بھی عذاب ہلکا نہ ہوگا نہ انہیں کوئی مہلت ملے گی اچانک پکڑ لیے جائیں گے ۔ جہنم آ موجود ہوگی جو ستر ہزار لگاموں والی ہوگی ۔ جس کی ایک لگام پر ستر ہزار فرشتے ہوں گے ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2842) اس میں سے ایک گردن نکلے گی جو اس طرح پھن پھیلائے گی کہ تمام اہل محشر خوف زدہ ہو کر بل گر پڑیں گے ۔ اس وقت جہنم اپنی زبان سے باآواز بلند اعلان کرے گی کہ میں اس ہر ایک سرکش ضدی کے لیے مقرر کی گئی ہوں ۔ جس نے اللہ کے ساتھ کسی اور کو شریک کیا ہو اور ایسے ایسے کام کئے ہوں چنانچہ وہ کئی قسم کے گنہگاروں کا ذکر کرے گی ۔ جیسے کہ حدیث میں ہے { پھر وہ ان تمام لوگوں کو لپٹ جائے گی اور میدان محشر میں سے انہیں لپک لے گی جیسے کہ پرند دانہ چگتا ہے } ۔ جیسے کہ فرمان باری ہے آیت «إِذَا رَأَتْہُم مِّن مَّکَانٍ بَعِیدٍ سَمِعُوا لَہَا تَغَیٰظًا وَزَفِیرًا وَإِذَا أُلْقُوا مِنْہَا مَکَانًا ضَیِّقًا مٰقَرَّنِینَ دَعَوْا ہُنَالِکَ ثُبُورًا لَّا تَدْعُوا الْیَوْمَ ثُبُورًا وَاحِدًا وَادْعُوا ثُبُورًا کَثِیرًا» ۱؎ (25-الفرقان:12-14) ’ جب کہ وہ دور سے دکھائی دے گی تو اس کا شور و غل ، کڑکنا ، بھڑکنا یہ سننے لگیں گے اور جب اس کے تنگ و تاریک مکانوں میں جھونک دئیے جائیں تو موت کو پکاریں گے ۔ آج ایک چھوڑ کئی ایک موتوں کو بھی پکاریں تو کیا ہو سکتا ہے ؟ ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَرَاَ الْمُجْرِمُوْنَ النَّارَ فَظَنٰوْٓا اَنَّہُمْ مٰوَاقِعُوْہَا وَلَمْ یَجِدُوْا عَنْہَا مَصْرِفًا» ۱؎ (18-الکہف:53) ’ گنہگار جہنم کو دیکھ کر سمجھ لیں گے کہ وہ اس میں جھونک دئے جائیں گے لیکن کوئی بچاؤ نہ پائیں گے ‘ ۔ اور آیت میں ہے «لَوْ یَعْلَمُ الَّذِینَ کَفَرُوا حِینَ لَا یَکُفٰونَ عَن وُجُوہِہِمُ النَّارَ وَلَا عَن ظُہُورِہِمْ وَلَا ہُمْ یُنصَرُونَ بَلْ تَأْتِیہِم بَغْتَۃً فَتَبْہَتُہُمْ فَلَا یَسْتَطِیعُونَ رَدَّہَا وَلَا ہُمْ یُنظَرُونَ» ۱؎ (21-الأنبیاء:39-40) ’ کاش کہ کافر اس وقت کو جان لیتے جب کہ وہ اپنے چہروں پر سے اور اپنی کمروں پر سے جہنم کی آگ کو دور نہ کر سکیں گے نہ کسی کو مددگار پائیں گے اچانک عذاب الٰہی انہیں ہکا بکا کر دیں گے نہ انہیں ان کے دفع کرنے کی طاقت ہو گی نہ ایک منٹ کی مہلت ملے گی ‘ ۔ اس وقت ان کے معبودان باطل جن کی عمر بھر عبادتیں اور نذریں نیازیں کرتے رہے ان سے بالکل بے نیاز ہو جائیں گے اور ان کی احتیاج کے وقت انہیں مطلقا کام نہ آئیں گے ۔ انہیں دیکھ کر یہ کہیں گے کہ اے اللہ یہ ہیں جنہیں ہم دنیا میں پوجتے رہے تو وہ کہیں گے جھوٹے ہو ہم نے کب تم سے کہا تھا کہ اللہ چھوڑ کر ہماری پرستش کرو ؟ اسی کو جناب باری نے فرمایا آیت «وَمَنْ أَضَلٰ مِمَّن یَدْعُو مِن دُونِ اللہِ مَن لَّا یَسْتَجِیبُ لَہُ إِلَیٰ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ وَہُمْ عَن دُعَائِہِمْ غَافِلُونَ وَإِذَا حُشِرَ النَّاسُ کَانُوا لَہُمْ أَعْدَاءً وَکَانُوا بِعِبَادَتِہِمْ کَافِرِینَ» ۱؎ (46-الأحقاف:6-5) یعنی ’ اس سے زیادہ کوئی گمراہ نہیں جو اللہ کے سوا انہیں پکارتا ہے جو اسے قیامت تک جواب نہ دیں بلکہ وہ ان کے پکار نے سے بھی بے خبر ہوں اور حشر کے دن ان کے دشمن ہو جانے والے ہوں اور ان کی عبادت کا انکار کر جانے والے ہوں ‘ ۔ اور آیتوں میں ہے کہ «وَاتَّخَذُوا مِن دُونِ اللہِ آلِہَۃً لِّیَکُونُوا لَہُمْ عِزًّا کَلَّا سَیَکْفُرُونَ بِعِبَادَتِہِمْ وَیَکُونُونَ عَلَیْہِمْ ضِدًّا» ۱؎ (19-مریم:81-82) ’ اپنا حمایتی اور باعث عزت جان کر جنہیں یہ پکارتے رہے وہ تو ان کی عبادتوں کے منکر ہو جائیں گے ۔ اور ان کے مخالف بن جائیں گے ‘ ۔ خلیل اللہ علیہ والسلام نے بھی یہی فرمایا کہ آیت «ثُمَّ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یَکْفُرُ بَعْضُکُمْ بِبَعْضٍ وَّیَلْعَنُ بَعْضُکُمْ بَعْضًا ۡ وَّمَاْوٰیکُمُ النَّارُ وَمَا لَکُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَ» ۱؎ (29-العنکبوت:25) یعنی ’ قیامت کے دن ایک دوسروں کے منکر ہو جائیں گے ‘ ۔ اور آیت میں ہے کہ «وَیَوْمَ یَقُولُ نَادُوا شُرَکَائِیَ الَّذِینَ زَعَمْتُمْ فَدَعَوْہُمْ فَلَمْ یَسْتَجِیبُوا لَہُمْ وَجَعَلْنَا بَیْنَہُم مَّوْبِقًا» (18-الکھف:52) ’ انہیں قیامت کے دن حکم ہوگا کہ اپنے شریکوں کو پکارو ‘ ۔ النحل
85 النحل
86 النحل
87 . اور بھی اس مضمون کی بہت سی آیتیں کلام اللہ میں موجود ہیں ۔ اس دن سب کے سب مسلمان تابع فرمان ہو جائیں گے جیسے فرمان ہے آیت «اَسْمِعْ بِہِمْ وَاَبْصِرْ یَوْمَ یَاْتُوْنَنَا لٰکِنِ الظّٰلِمُوْنَ الْیَوْمَ فِیْ ضَلٰلٍ مٰبِیْنٍ» ۱؎ (19-مریم:38) یعنی ’ جس دن یہ ہمارے پاس آئیں گے ، اس دن خوب ہی سننے والے ، دیکھنے والے ہو جائیں گے ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَلَوْ تَرٰٓی اِذِ الْمُجْرِمُوْنَ نَاکِسُوْا رُءُوْسِہِمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ رَبَّنَآ اَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا اِنَّا مُوْقِنُوْنَ» ۱؎ (32-السجدۃ:12) ’ تو دیکھے گا کہ اس دن گنہگار لوگ اپنے سر جھکائے کہہ رہے ہوں گے کہ اے اللہ ہم نے دیکھ سن لیا ‘ ، الخ ۔ اور آیت میں ہے کہ «وَعَنَتِ الْوُجُوہُ لِلْحَیِّ الْقَیٰومِ» ۱؎ (20-طہ:111) ’ سب چہرے اس دن اللہ حی و قیوم کے سامنے جھکے ہوئے ہوں گے ، تابع اور مطیع ہوں گے ، زیر فرمان ہوں گے ‘ ۔ ان کے سارے بہتان و افترا جاتے رہیں گے ۔ ساری چالاکیاں ختم ہو جائیں گی کوئی ناصر و مددگار کھڑا نہ ہو گا ۔ جنہوں نے کفر کیا ، انہیں ان کے کفر کی سزا ملے گی ، «وَہُمْ یَنْہَوْنَ عَنْہُ وَیَنْأَوْنَ عَنْہُ» ۱؎ (6-الأنعام:26) ’ اور دوسروں کو بھی حق سے دور بھگاتے رہتے تھے ‘ «وَإِن یُہْلِکُونَ إِلَّا أَنفُسَہُمْ وَمَا یَشْعُرُونَ» ۱؎ (6-الأنعام:26) ’ دراصل وہ خود ہی ہلاکت کے دلدل میں پھنس رہے تھے لیکن بیوقوف تھے ‘ ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کافروں کے عذاب کے بھی درجے ہوں گے ، جس طرح مومنوں کے جزا کے درجے ہوں گے ۔ جیسے فرمان الٰہی ہے آیت «قَالَ لِکُلٍّ ضِعْفٌ وَّلٰکِنْ لَّا تَعْلَمُوْنَ» ۱؎ (7-الأعراف:38) ’ ہر ایک کے لیے دوہرا اجر ہے لیکن تمہیں علم نہیں ‘ ۔ ابو یعلیٰ میں سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ” عذاب جہنم کے ساتھ ہی زہریلے سانپوں کا ڈسنا بڑھ جائے گا جو اتنے بڑے بڑے ہوں گے جتنے بڑے کھجور کے درخت ہوتے ہیں “ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ” عرش تلے سے پانچ نہریں آتی ہیں جن سے دوزخیوں کو دن رات عذاب ہوگا “ ۔ النحل
88 النحل
89 کتاب مبین اللہ تعالیٰ اپنے محترم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب کرکے فرما رہے ہیں کہ ’ اس دن کو یاد کر اور اس دن جو تیری شرافت وکرامت ہونے والی ہے اس کا بھی ذکر کر ‘ ۔ یہ آیت بھی ویسی ہی ہے جیسی سورۃ نساء کے شروع کی «فَکَیْفَ إِذَا جِئْنَا مِن کُلِّ أُمَّۃٍ بِشَہِیدٍ وَجِئْنَا بِکَ عَلَیٰ ہٰؤُلَاءِ شَہِیدًا» ۱؎ (4-النساء:41) یعنی ’ کیونکر گزرے گی جب کہ ہم ہر امت میں سے گواہ لائیں گے اور ان سب پر گواہ بنا کر کھڑا کریں گے ‘ ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سورۃ نساء پڑھوائی جب وہ اس آیت تک پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { بس کر کافی ہے } ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہا نے دیکھا کہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں اشکبار تھیں } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5049) پھر فرماتا ہے ’ اپنی اس اتاری ہوئی کتاب میں تیرے سامنے سب کچھ بیان فرما دیا ہے ہر علم اور ہر شے اس قرآن میں ہے ۔ ہر حلال حرام ، ہر ایک نافع علم ، ہر بھلائی گزشتہ کی خبریں ، آ ئندہ کے واقعات ، دین دنیا ، معاش معاد ، سب کے ضروری احکام واحوال اس میں موجود ہیں ۔ یہ دلوں کی ہدایت ہے ، یہ رحمت ہے ، یہ بشارت ہے ‘ ۔ امام اوزاعی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ” یہ کتاب سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ملا کر ہرچیز کا بیان ہے “ ۔ اس آیت کو اوپر والی آیت سے غالباً یہ تعلق ہے کہ ’ جس نے تجھ پر اس کتاب کی تبلیغ فرض کی ہے اور اسے نازل فرمایا ہے وہ قیامت کے دن تجھ سے اس کی بابت سوال کرنے والا ہے ‘ ۔ جیسے فرمان ہے کہ «فَلَنَسْأَلَنَّ الَّذِینَ أُرْسِلَ إِلَیْہِمْ وَلَنَسْأَلَنَّ الْمُرْسَلِینَ» ۱؎ (7-الأعراف:6) ’ امتوں اور رسولوں سے سب سے سوال ہوگا ۔ واللہ ہم سب سے ان کے اعمال کی بازپرس کریں گے ‘ ۔ «یَوْمَ یَجْمَعُ اللہُ الرٰسُلَ فَیَقُولُ مَاذَا أُجِبْتُمْ قَالُوا لَا عِلْمَ لَنَا إِنَّکَ أَنتَ عَلَّامُ الْغُیُوبِ» ۱؎ (5-المائدۃ:109) ’ رسولوں کو جمع کر کے ان سے سوال ہوگا کہ تمہیں کیا جواب ملا ؟ وہ کہیں گے ، ہمیں کوئی علم نہیں ، تو علام الغیوب ہے ‘ ۔ اور آیت میں ہے «نَّ الَّذِی فَرَضَ عَلَیْکَ الْقُرْآنَ لَرَادٰکَ إِلَیٰ مَعَادٍ» ۱؎ (28-القصص:85) یعنی ’ جس نے تجھ پر تبلیغ قرآن فرض کی ہے ، وہ تجھے قیامت کے دن اپنے پاس لوٹا کر اپنے سونپے ہوئے فریضے کی بابت تجھ سے پر سش کرنے والا ہے ‘ ۔ یہ ایک قول بھی اس آیت کی تفسیر میں ہے اور ہے بھی معقول اور عمدہ ۔ النحل
90 برابر کا بدلہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ اپنے بندوں کو عدل و انصاف کا حکم دیتا ہے اور سلوک و احسان کی رہنمائی کرتا ہے گو بدلہ لینا بھی جائز ہے جیسے آیت «وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِہٖ وَلَیِٕنْ صَبَرْتُمْ لَہُوَ خَیْرٌ لِّلصّٰبِرِیْنَ» ۱؎ (16-النحل:126) میں فرمایا کہ ’ اگر بدلہ لے سکو تو برابر برابر کا بدلہ لو لیکن اگر صبر و برداشت کر لو تو کیا ہی کہنا یہ بڑی مردانگی کی بات ہے ‘ ۔ اور آیت میں فرمایا «وَجَزَاءُ سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثْلُہَا فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُہُ عَلَی اللہِ » ۱؎ (42-اشوریٰ:40) ’ اس کا اجر خدا کے ہاں ملے گا ‘ ۔ ایک اور آیت میں ہے «وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ فَمَن تَصَدَّقَ بِہِ فَہُوَ کَفَّارَۃٌ لَّہُ» ۱؎ (5-المائدہ:45) ’ زخموں کا قصاص ہے لیکن جو درگزر کر جائے اس کے گناہوں کی معافی ہے ‘ ۔ پس عدل تو فرض ، احسان نفل اور کلمہ تو حید کی شہادت بھی عدل ہے ۔ ظاہر باطن کی پاکیزگی بھی عدل ہے اور احسان یہ ہے کہ پاکی صفائی ظاہر سے بھی زیادہ ہو ۔ اور فحشاء اور منکر یہ ہے کہ باطن میں کھوٹ ہو اور ظاہر میں بناوٹ ہو ۔ وہ صلہ رحمی کا بھی حکم دیتا ہے ۔ جیسے صاف لفظوں میں ارشاد آیت «وَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰی حَقَّہٗ وَالْمِسْکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا» ۱؎ (17-الإسراء:26) ، ’ رشتے داروں ، مسکینوں ، مسافروں کو ان کا حق دو اور بے جا خرچ نہ کرو ‘ ۔ محرمات سے وہ تمہیں روکتا ہے ، برائیوں سے منع کرتا ہے ظاہری باطنی تمام برائیاں حرام ہیں ، لوگوں پر ظلم و زیادتی حرام ہے ۔ حدیث میں ہے کہ { کوئی گناہ ظلم و زیادتی اور قطع رحمی سے بڑھ کر ایسا نہیں کہ دنیا میں بھی جلدی ہی اس کا بدلہ ملے اور اخرت میں بھی سخت پکڑ ہو } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4902 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) اللہ کے یہ احکام اور یہ نواہی تمہاری نصیحت کے لیے ہیں جو اچھی عادتیں ہیں ، ان کا حکم قرآن نے دیا ہے «قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ» ۱؎ (7-الأعراف:33) اور جو بری خصلتیں لوگوں میں ہیں ان سے اللہ تعالیٰ نے روک دیا ہے ، بد خلقی اور برائی سے اس نے ممانعت کر دی ہے ۔ حدیث شریف میں ہے { بہترین اخلاق اللہ کو پسند ہیں اور بد خلقی کو وہ مکروہ رکھتا ہے } ۔ ۱؎ (سلسلۃ احادیث صحیحہ البانی:1378) اکثم بن صیفی کو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت اطلاع ہوئی تو اس نے خدمت نبوی میں حاضر ہونے کی ٹھان لی لیکن اس کی قوم اس کے سر ہوگئی اور اسے روک لیا اس نے کہا اچھا مجھے نہیں جانے دیتے تو قاصد لاؤ جنہیں میں وہاں بھیجوں ۔ دو شخص اس خدمت کی انجام دہی کے لیے تیار ہوئے یہاں آکر انہوں نے کہا کہ ہم اکثم بن صیفی کے قاصد ہیں وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کون ہیں اور کیا ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { پہلے سوال کا جواب تو یہ ہے کہ میں محمد بن عبداللہ ہوں صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اور اس کا رسول } ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی آیت انہیں پڑھ کر سنائی انہوں نے کہا دوبارہ پڑھئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر پڑھی ، یہاں تک کہ انہوں نے یاد کرلی ۔ پھر واپس جا کر اکثم کو خبر دی اور کہا اپنے نسب پر اس نے کوئی فخر نہیں کیا ۔ صرف اپنا اور اپنے والد کا نام بتا دیا لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہیں وہ بڑے نسب والے ، مضر میں اعلی خاندان کے ہیں اور پھر یہ کلمات ہمیں تعلیم فرمائے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی ہم نے سنے ۔ یہ سن کر اکثم نے کہا وہ تو بڑی اچھی اور اعلی باتیں سکھاتے ہیں اور بری اور سفلی باتوں سے روکتے ہیں ۔ میرے قبیلے کے لوگو تم اسلام کی طرف سبقت کرو تاکہ تم دوسروں پر سرداری کرو اور دوسروں کے ہاتھوں میں دمیں بن کر نہ رہ جاؤ ۔ اس آیت کے شان نزول میں ایک حسن حدیث مسند امام احمد میں وارد ہوئی ہے { سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی انگنائی میں بیٹھے ہوئے تھے کہ عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { بیٹھتے نہیں ہو ؟ } وہ بیٹھ گیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف متوجہ ہوکر باتیں کر رہے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دفعتہً اپنی نظریں آسمان کی جانب اٹھائیں کچھ دیر اوپر ہی کو دیکھتے رہے ، پھر نگاہیں آہستہ آہستہ نیچی کیں اور اپنی دائیں جانب زمین کی طرف دیکھنے لگے اور اسی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رخ بھی کرلیا اور اس طرح سر ہلانے لگے گویا کسی سے کچھ سمجھ رہے ہیں اور کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ کہہ رہا ہے تھوڑی دیر تک یہی حالت طاری رہی ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نگاہیں اونچی کرنی شروع کیں ، یہاں تک کہ آسمان تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہیں پہنچیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹھیک ٹھاک ہوگئے اور اسی پہلی بیٹھک پر عثمان کی طرف متوجہ ہو کر بیٹھ گئے ۔ وہ یہ سب دیکھ رہا تھا ، اس سے صبر نہ ہو سکا ، پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کئی بار بیٹھنے کا اتفاق ہوا لیکن آج جیسا منظر تو کبھی نہیں دیکھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا { تم نے کیا دیکھا ؟ } اس نے کہا یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نگاہ آسمان کی طرف اٹھائی پھر نیچیں کرلی اور اپنے دائیں طرف دیکھنے لگے اور اسی طرف گھوم کر بیٹھ گئے ، مجھے چھوڑ دیا ، پھر اس طرح سر ہلانے لگے جیسے کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ کہہ رہا ہو ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے اچھی طرح سن سمجھ رہے ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اچھا تم نے یہ سب کچھ دیکھا ؟ } اس نے کہا برابر دیکھتا ہی رہا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { میرے پاس اللہ کا نازل کردہ فرشتہ وحی لے کر آیا تھا } ، اس نے کہا اللہ کا بھیجا ہوا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ہاں ، ہاں اللہ کا بھیجا ہوا } ۔ پوچھا پھر اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا کہا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی آیت پڑھ سنائی ۔ عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اسی وقت میرے دل میں ایمان بیٹھ گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت نے میرے دل میں گھر کرلیا } ۔ ۱؎ (مسند احمد:318/1:ضعیف) ایک اور روایت میں عثمان بن ابوالعاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ { میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نگاہیں اوپر کو اٹھائیں اور فرمایا : { جبرائیل علیہ السلام میرے پاس آئے اور مجھے حکم دیا کہ میں اس آیت کو اس سورت کی اس جگہ رکھوں } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:218/4:ضعیف) یہ روایت بھی صحیح ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ النحل
91 عہد و پیمان کی حفاظت اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ عہد و پیمان کی حفاظت کریں قسموں کو پورا کریں ۔ توڑیں نہیں ۔ قسموں کو نہ توڑنے کی تاکید کی اور آیت میں فرمایا کہ «وَلَا تَجْعَلُوا اللہَ عُرْضَۃً لِّأَیْمَانِکُمْ أَن تَبَرٰوا وَتَتَّقُوا» ۱؎ (2-البقرۃ:224) ’ اپنی قسموں کا نشانہ اللہ کو نہ بناؤ ‘ ۔ اس سے بھی قسموں کی حفاظت کرنے کی تاکید مقصود ہے اور آیت میں ہے کہ «ذٰلِکَ کَفَّارَۃُ أَیْمَانِکُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُوا أَیْمَانَکُمْ» ۱؎ (5-المائدہ:89) ’ قسم توڑنے کا کفارہ ہے قسموں کی پوری حفاظت کرو ‘ ۔ پس ان آیتوں میں یہ حکم ہے ، اور بخاری و مسلم کی حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { واللہ میں جس چیز پر قسم کھالوں اور پھر اس کے خلاف میں بہتری دیکھوں تو ان شاءاللہ تعالیٰ ضرور اس نیک کام کو کروں گا اور اپنی قسم کا کفارہ دے دوں گا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6623) تو مندرجہ بالا آیتوں اور احادیث میں کچھ فرق نہ سمجھا جائے وہ قسمیں اور عہد و پیمان جو آپس کے معاہدے اور وعدے کے طور پر ہوں ان کا پورا کرنا تو بیشک بے حد ضروری ہے اور جو قسمیں رغبت دلانے یا روکنے کے لیے زبان سے نکل جائیں ، وہ بیشک کفارہ دے کر ٹوٹ سکتی ہیں ۔ پس اس آیت میں مراد جاہلیت کے زمانے جیسی قسمیں ہیں ۔ چنانچہ مسند احمد میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { اسلام میں دو جماعتوں کی آپس میں ایک رہنے کی قسم کوئی چیز نہیں ہاں جاہلیت میں ایسی امداد و اعانت کی جو قسمیں آپس میں ہوچکی ہیں اسلام ان کو اور مضبوط کرتا ہے } } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2530) اس حدیث کے پہلے جملے کے یہ معنی ہیں کہ اسلام قبول کرنے کے بعد اب اس کی ضرورت نہیں کہ ایک برادری والے دوسری برادری والوں سے عہد و پیمان کریں کہ ہم تم ایک ہیں ، راحت و رنج میں شریک ہیں وغیرہ ۔ کیونکہ رشتہ اسلام تمام مسلمانوں کو ایک برادری کا حکم دیتا دیتا ہے ۔ مشرق مغرب کے مسلمان ایک دوسرے کے ہمدرد و غم خوار ہیں ۔ بخاری مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ { سیدنا انس رضی اللہ عنہا کے گھر میں رسول اللہ علیہ افضل التسلیم نے انصار و مہاجرین میں باہم قسمیں اٹھوائیں } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6083) اس سے یہ ممنوع بھائی بندی مراد نہیں یہ تو بھائی چارہ تھا جس کی بنا پر آپس میں ایک دوسرے کے وارث ہوتے تھے ۔ آخر میں یہ حکم منسوخ ہوگیا اور ورثہ قریبی رشتے داروں سے مخصوص ہو گیا ۔ کہتے ہیں اس فرمان الٰہی سے مطلب ان مسلمانوں کو اسلام پر جمع رہنے کا حکم دینا ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کر کے اسلام کی پابندی کا اقرار کرتے تھے ۔ تو انہیں فرماتا ہے کہ ایسی تاکیدی قسم اور پورے عہد کے بعد کہیں ایسا نہ ہو کہ مسلمانوں کی جماعت کی کمی اور مشرکوں کی جماعت کی کثرت دیکھ کر تم اسے توڑ دو ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:21871:) مسند احمد میں ہے کہ ” جب یزید بن معاویہ کی بیعت لوگ توڑنے لگے تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے تمام گھرانے کے لوگوں کو جمع کیا اور اللہ کی تعریف کر کے امابعد کہہ کر فرمایا ” ہم نے یزید کی بیعت اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت پر کی ہے اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ { ہر غدار کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا گاڑا جائے گا اور اعلان کیا جائے گا کہ یہ غدار ہے فلاں بن فلاں کا } ۔ اللہ کے ساتھ شریک کرنے کے بعد سب سے بڑا اور سب سے برا غدر یہ ہے کہ اللہ اور رسول کی بیعت کسی کے ہاتھ پر کر کے پھر توڑ دینا یاد رکھو تم میں سے کوئی یہ برا کام نہ کرے اور اس بارے میں حد سے نہ بڑھے ورنہ مجھ میں اور اس میں جدائی ہے “ ۔ ۱؎ (مسند احمد:48/2:صحیح) مسند احمد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { جو شخص کسی مسلمان بھائی سے کوئی شرط کرے اور اسے پورا کرنے کا ارادہ نہ رکھتا ہو تو وہ مثل اس شخص کے ہے جو اپنے پڑوسی کو امن دینے کے بعد بے پناہ چھوڑ دے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:404/5:ضعیف) پھر انہیں دھمکاتا ہے جو عہد و پیمان کی حفاظت نہ کریں کہ ان کے اس فعل سے اللہ تعالیٰ علیم و خبیر ہے ۔ مکہ میں ایک عورت تھی جس کی عقل میں فتور تھا سوت کاتنے کے بعد ، ٹھیک ٹھاک اور مضبوط ہو جانے کے بعد بیوجہ توڑ تاڑ کر پھر ٹکڑے کر دیتی ۔ یہ تو اس کی مثال ہے جو عہد کو مضبوط کر کے پھر توڑ دے ۔ یہی بات ٹھیک ہے اب اسے جانے دیجئیے کہ واقعہ میں کوئی ایسی عورت تھی بھی یا نہیں جو یہ کرتی ہو نہ کرتی ہو یہاں تو صرف مثال مقصود ہے ۔ «أَنکَاثًا» کے معنی ٹکڑے ٹکڑے ہے ۔ ممکن ہے کہ یہ «نَقَضَتْ غَزْلَہَا» کا اسم مصدر ہو ۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بدل ہو «کَانَ» کی خبر کا یعنی «أَنْکَاثً» نہ ہو جمع «نَکْثٍ» کی «نَاکِثٍ» سے ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ قسموں کو مکر و فریب کا ذریعہ نہ بناؤ کہ اپنے سے بڑوں کو اپنی قسموں سے اطمینان دلاؤ اور اپنی ایمانداری اور نیک نیتی کا سکہ بٹھا کر پھر غداری اور بےایمانی کر جاؤ ان کی کثرت دیکھ کر جھوٹے وعدے کر کے صلح کر لو اور پھر موقع پا کر لڑائی شروع کر دو ایسا نہ کرو ‘ ۔ پس جب کہ اس حالت میں بھی عہد شکنی حرام کر دی تو اپنے جمعیت اور کثرت کے وقت تو بطور اولیٰ حرام ہوئی ۔ بحمد اللہ ہم سورۃ الانفال میں معاویہ رضی اللہ عنہا کا قصہ لکھ آئے ہیں کہ ان میں اور شاہ روم میں ایک مدت تک کے لیے صلح نامہ ہو گیا تھا اس مدت کے خاتمے کے قریب آپ رضی اللہ عنہ نے مجاہدین کو سرحد روم کی طرف روانہ کیا کہ وہ سرحد پر پڑاؤ ڈالیں اور مدت کے ختم ہوتے ہی دھاوا بول دیں تاکہ رومیوں کو تیاری کا موقعہ نہ ملے ۔ جب عمرو بن عتبہ رضی اللہ عنہ کو یہ خبر ہوئی تو آپ امیر المؤمنین معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہنے لگے اللہ اکبر ! اے معاویہ عہد پورا کر غدر اور بدعہدی سے بچ ۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ { جس قوم سے عہد معاہدہ ہو جائے تو جب تک کہ مدت صلح ختم نہ ہو جائے کوئی گرہ کھولنے کی بھی اجازت نہیں } ۔ یہ سنتے ہی معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے لشکروں کو واپس بلوا لیا ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:1850،قال الشیخ الألبانی:صحیح) «أَرْبَی» سے مراد اکثر ہے ۔ اس جملے کا یہ بھی مطلب ہے کہ دیکھا کہ دشمن قوی اور زیادہ ہے صلح کر لی اور اس صلح کو ذریعہ فریب بنا کر انہیں غافل کر کے چڑھ دوڑے اور یہ بھی مطلب ہے کہ ایک قوم سے معاہدہ کر لیا پھر دیکھا کہ دوسری قوم ان سے زیادہ قوی ہے ، اس سے معاملہ کرلیا اور اگلے معاہدے کو توڑ دیا یہ سب منع ہے ۔ اس کثرت سے اللہ تمہیں آزماتا ہے ، یا یہ کہ اپنے حکم سے یعنی پابندی وعدہ کے حکم سے اللہ تمہاری آزمائش کرتا ہے اور تم میں صحیح فیصلے قیامت کے دن وہ خود کر دے گا ۔ ہر ایک کو اس کے اعمال کا بدلہ دے گا نیکوں کو نیک ، بدوں کو بد ۔ النحل
92 النحل
93 ایک مذہب و مسلک اگر اللہ چاہتا تو دنیا بھر کا ایک ہی مذہب و مسلک ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا «وَلَوْ شَاءَ رَبٰکَ لَآمَنَ مَن فِی الْأَرْضِ کُلٰہُمْ جَمِیعًا» ۱؎ (10-یونس:99) یعنی ’ اللہ کی چاہت ہوتی تو اے لوگو تم سب کو وہ ایک ہی گروہ کر دیتا ‘ ۔ ایک اور آیت میں ہے کہ «وَلَوْ شَاءَ رَبٰکَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّۃً وَاحِدَۃً وَلَا یَزَالُونَ مُخْتَلِفِینَ إِلَّا مَن رَّحِمَ رَبٰکَ وَلِذٰلِکَ خَلَقَہُمْ وَتَمَّتْ کَلِمَۃُ رَبِّکَ لَأَمْلَأَنَّ جَہَنَّمَ مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِینَ» ۱؎ (11-ھود:118-119) ’ اگر تیرا رب چاہتا تو روئے زمین کے سب لوگ با ایمان ہی ہوتے ‘ ۔ یعنی ان میں موافقت یگانگت ہوتی ۔ اختلاف و بغض بالکل نہ ہوتا ۔ ’ تیرا رب قادر ہے اگر چاہے تو سب لوگوں کو ایک ہی امت کر دے لیکن یہ تو متفرق ہی رہیں گے مگر جن پر تیرے رب کا رحم ہو ، اسی لیے انہیں پیدا کیا ہے ۔ ہدایت و ضلالت اسی کے ہاتھ ہے ۔ قیامت کے دن وہ حساب لے گا ، پوچھ گچھ کرے گا اور چھوٹے بڑے ، نیک بد ، کل اعمال کا بدلہ دے گا ‘ ۔ پھر مسلمانوں کو ہدایت کرتا ہے کہ ’ قسموں کو ، عہد و پیمان کو ، مکاری کا ذریعہ نہ بناؤ ورنہ ثابت قدمی کے بعد پھسل جاؤ گے ۔ جیسے کوئی سیدھی راہ سے بھٹک جائے اور تمہارا یہ کام اوروں کے بھی راہ حق سے ہٹ جانے کا سبب بن جائے گا جس کا بدترین وبال تم پر پڑے گا ۔ کیونکہ کفار جب دیکھیں گے کہ مسلمانوں نے عہد کر کے توڑ دیا ، وعدے کا خلاف کیا تو انہیں دین پر وثوق و اعتماد نہ رہے گا پس وہ اسلام کو قبول کرنے سے رک جائیں گے اور چونکہ ان کے اس رکنے کا باعث چونکہ تم بنو گے اس لیے تمہیں بڑا عذاب ہوگا اور سخت سزا دی جائے گی ‘ ۔ ’ اللہ کو بیچ میں رکھ کر جو وعدے کرو اس کی قسمیں کھا کر جو عہد و پیمان ہوں انہیں دنیوی لالچ سے توڑ دینا یا بدل دینا تم پر حرام ہے گو ساری دنیا اصل ہو جائے تاہم اس حرمت کے مرتکب نہ بنو ۔ کیونکہ دنیا ہیچ ہے ، اللہ کے پاس جو ہے ، وہی بہتر ہے اس جزا اور اس ثواب کی امید رکھو جو اللہ کی اس بات پر یقین رکھے ، اسی کا طالب رہے اور حکم الٰہی کی پابندی کے ماتحت اپنے وعدوں کی نگہبانی کرے ، اس کے لیے جو اجر و ثواب اللہ کے پاس ہے وہ ساری دنیا سے بہت زیاد اور بہتر ہے ۔ اسے اچھی طرح جان لو ، نادانی سے ایسا نہ کرو کہ ثواب آخرت ضائع ہو جائے بلکہ لینے کے دینے پڑ جائیں ۔ سنو دنیا کی نعمتیں زائل ہونے والی ہیں اور آخرت کی نعمتیں لا زوال اور ابدی ہیں ۔ مجھے قسم ہے جن لوگوں نے دنیا میں صبر کیا ، میں انہیں قیامت کے دن ان کے بہترین اعمال کا نہایت اعلیٰ صلہ عطا فرماؤں گا اور انہیں بخش دوں گا ‘ ۔ النحل
94 النحل
95 النحل
96 النحل
97 کتاب و سنت کے فرماں بردار اللہ تبارک و تعالیٰ جل شانہ اپنے ان بندوں سے جو اپنے دل میں اللہ پر اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کامل رکھیں اور کتاب و سنت کی تابعداری کے ماتحت نیک اعمال کریں ، وعدہ کرتا ہے کہ وہ انہیں دنیا میں بھی بہترین اور پاکیزہ زندگی عطا فرمائے گا ۔ عمدگی سے ان کی عمر بسر ہوگی ، خواہ وہ مرد ہوں ، خواہ عورتیں ہوں ، ساتھ ہی انہیں اپنے پاس دار آخرت میں بھی ان کی نیک اعمالیوں کا بہترین بدلہ عطا فرمائے گا ۔ دنیا میں پاک اور حلال روزی ، قناعت ، خوش نفسی ، سعادت ، پاکیزگی ، عبادت کا لطف ، اطاعت کا مزہ ، دل کی ٹھنڈک ، سینے کی کشادگی ، سب ہی کچھ اللہ کی طرف سے ایماندار نیک عامل کو عطا ہوتی ہے ۔ چنانچہ مسند احمد میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { اس نے فلاح حاصل کرلی جو مسلمان ہوگیا اور برابر سرابر روزی دیا گیا اور جو ملا اس پر قناعت نصیب ہوئی }} ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1054) اور حدیث میں ہے { جسے اسلام کی راہ دکھا دی گئی اور جسے پیٹ پالنے کا ٹکڑا میسر ہوگیا اور اللہ نے اس کے دل کو قناعت سے بھر دیا ، اس نے نجات پا لی } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2349 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) صحیح مسلم شریف میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ { اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے مومن بندوں پر ظلم نہیں کرتا بلکہ ان کی نیکی کا بدلہ دنیا میں عطا فرماتا ہے اور آخرت کی نیکیاں بھی انہیں دیتا ہے ، ہاں کافر اپنی نیکیاں دنیا میں ہی کھا لیتا ہے آخرت کے لیے اس کے ہاتھ میں کوئی نیکی باقی نہیں رہتی } } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2808) النحل
98 آعوذ کا مقصد اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی اپنے مومن بندوں کو حکم فرماتا ہے کہ ’ قرآن کریم کی تلاوت سے پہلے وہ اعوذ پڑھ لیا کریں ‘ ۔ یہ حکم فرضیت کے طور پر نہیں ۔ ابن جریر وغیرہ نے اس پر اجماع نقل کیا ہے ۔ آعوذ کی پوری بحث مع معنی وغیرہ کے ہم اپنی اس تفسیر کے شروع میں لکھ آئے ہیں فالحمداللہ ۔ اس حکم کی مصلحت یہ ہے کہ قاری قرآن میں الجھنے ، غور و فکر سے رک جانے اور شیطانی وسوسوں میں آنے سے بچ جائے ۔ اسی لیے جمہور کہتے ہیں کہ قرأت شروع کرنے سے پہلے آعوذ پڑھ لیا کر ۔ کسی کا قول یہ بھی ہے کہ ختم قرأت کے بعد پڑھے ۔ ان کی دلیل یہی آیت ہے لیکن صحیح قول پہلا ہی ہے اور احادیث کی دلالت بھی اس پر ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ ایماندار متوکلین کو وہ ایسے گناہوں میں پھانس نہیں سکتا ، جن سے وہ توبہ ہی نہ کریں ۔ اس کی کوئی حجت ان کے سامنے چل نہیں سکتی ، یہ مخلص بندے اس کے گہرے مکر سے محفوظ رہتے ہیں ۔ ہاں جو اس کی اطاعت کریں ، اس کے کہے میں آ جائیں ، اسے اپنا دوست اور حمایتی ٹھہرا لیں ۔ اسے اللہ کی عبادتوں میں شریک کرنے لگیں ۔ ان پر تو یہ چھا جاتا ہے ‘ ۔ یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ “ ب “ کو «سبـبـیہ» بتلائیں یعنی وہ اس کی فرمانبرداری کے باعث اللہ کے ساتھ شرکت کرنے لگ جائیں ، یہ معنی بھی ہیں کہ وہ اسے اپنے مال میں ، اپنی اولاد میں شریک الہ ٹھہرا لیں ۔ النحل
99 النحل
100 النحل
101 ازلی بدنصیب لوگ مشرکوں کی عقلی ، بے ثباتی اور بے یقینی کا بیان ہو رہا ہے کہ ’ انہیں ایمان کیسے نصیب ہو ؟ ‘ یہ تو ازلی بد نصیب ہیں ، ناسخ منسوخ سے احکام کی تبدیلی دیکھ کر بکنے لگتے ہیں کہ لو صاحب ان کا بہتان کھل گیا ، اتنا نہیں جانتے کہ قادر مطلق اللہ جو چاہے کرے جو ارادہ کرے ، حکم دے ، ایک حکم کو اٹھا دے دوسرے کو اس کی جگہ رکھ دے ۔ جیسے آیت «مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰیَۃٍ اَوْ نُنْسِہَا نَاْتِ بِخَیْرٍ مِّنْہَآ اَوْ مِثْلِہَا اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ» ۱؎ (2-البقرۃ:106) ، میں فرمایا ہے ۔ ’ پاک روح [ یعنی جبرائیل علیہ السلام ] اسے اللہ کی طرف سے حقانیت و صداقت کے عدل و انصاف کے ساتھ لے کر تیری جانب آتے ہیں تاکہ ایماندار ثابت قدم ہو جائیں ، اب اترا ، مانا ، پھر اترا ، پھر مانا ، ان کے دل رب کی طرف جھکتے رہیں ، تازہ تازہ کلام الٰہی سنتے رہیں ، مسلمانوں کے لیے ہدایت و بشارت ہو جائے ، اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والے راہ یافتہ ہو کر خوش ہو جائیں ‘ ۔ النحل
102 النحل
103 سب سے زیادہ منزلت و رفعت والا کلام کافروں کی ایک بہتان بازی بیان ہو رہی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ اسے یہ قرآن ایک انسان سکھاتا ہے ۔ قریش کے کسی قبیلے کا ایک عجمی غلام تھا ، صفا پہاڑی کے پاس خرید و فروخت کیا کرتا تھا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھی اس کے پاس بیٹھ جایا کرتے تھے اور کچھ باتیں کر لیا کرتے تھے ، یہ شخص صحیح عربی زبان بولنے پر بھی قادر نہ تھا ۔ ٹوٹی پھوٹی زبان میں بمشکل اپنا مطلب ادا کر لیا کرتا تھا ۔ اس افترا کا جواب جناب باری دیتا ہے کہ ’ وہ کیا سکھائے گا جو خود بولنا نہیں جانتا ‘ ، عجمی زبان کا آدمی ہے اور یہ قرآن تو عربی زبان میں ہے ، پھر فصاحت و بلاغت والا ، کمال و سلاست والا ، عمدہ اور اعلیٰ پاکیزہ اور بالا ۔ معنی ، مطلب ، الفاظ ، واقعات ہیں ۔ سب سے نرالا بنی اسرائیل کی آسمانی کتابوں سے بھی زیادہ منزلت اور رفعت والا ۔ وقعت اور عزت والا ۔ تم میں اگر ذرا سی عقل ہوتی تو یوں ہتھیلی پر چراغ رکھ کر چوری کرنے کو نہ نکلتے ، ایسا جھوٹ نہ بکتے ، جو بیوقوفوں کے ہاں بھی نہ چل سکے ۔ سیرت ابن اسحاق میں ہے کہ ایک نصرانی غلام جسے جبر کہا جاتا تھا جو بنو حضرمی قبیلے کے کسی شخص کا غلام تھا ، اس کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مروہ کے پاس بیٹھ جایا کرتے تھے ، اس پر مشرکین نے یہ بے پر کی اڑائی کہ یہ قرآن اسی کا سکھایا ہوا ہے اس کے جواب میں یہ آیت اتری ۔ کہتے ہیں کہ اس کا نام یعیش تھا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں ” مکہ شریف میں ایک لوہار تھا جس کا نام بلعام تھا ۔ یہ عجمی شخص تھا ، اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تعلیم دیتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس کے پاس آنا جانا دیکھ کر قریش مشہور کرنے لگے کہ یہی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ سکھاتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے کلام اللہ کے نام سے اپنے حلقے میں سکھاتے ہیں ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:21933:ضعیف) کسی نے کہا ہے مراد اس سے سلمان فارسی ہیں رضی اللہ عنہ ۔ لیکن یہ قول تو نہایت بودا ہے کیونکہ سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ تو مدینے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے اور یہ آیت مکے میں اتری ہے ۔ عبیداللہ بن مسلم کہتے ہیں ہمارے دو مقامی آدمی روم کے رہنے والے تھے جو اپنی زبان میں اپنی کتاب پڑھتے تھے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی جاتے آتے کبھی ان کے پاس کھڑے ہو کر سن لیا کرتے ، اس پر مشرکین نے اڑایا کہ انہی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن سیکھتے ہیں ۔ اس پر یہ آیت اتری ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:21940:) سعید بن مسیب رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں مشرکین میں سے ایک شخص تھا جو وحی لکھا کرتا تھا ، اس کے بعد وہ اسلام سے مرتد ہو گیا اور یہ بات گھڑلی ۔ اللہ کی لعنت ہو اس پر ۔ النحل
104 ارادہ نہ ہو تو بات نہیں بنتی جو اللہ کے ذکر سے منہ موڑے ، اللہ کی کتاب سے غفلت کرے ، اللہ کی باتوں پر ایمان لانے کا قصد ہی نہ رکھے ایسے لوگوں کو اللہ بھی دور ڈال دیتا ہے انہیں دین حق کی توفیق ہی نہیں ہوتی آخرت میں سخت درد ناک عذابوں میں پھنستے ہیں ۔ پھر بیان فرمایا کہ یہ رسول سلام علیہ اللہ پر جھوٹ و افترا باندھنے والے نہیں ، یہ کام تو بدترین مخلوق کا ہے جو ملحد و کافر ہوں ان کا جھوٹ لوگوں میں مشہور ہوتا ہے اور نبی کریم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تو تمام مخلوق سے بہتر و افضل دیندار ، اللہ شناس ، سچوں کے سچے ہیں ۔ سب سے زیادہ کمال علم و ایمان ، عمل و نیکی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے ۔ سچائی میں ، بھلائی میں ، یقین میں ، معرفت میں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ثانی کوئی نہیں ۔ ان کافروں سے ہی پوچھ لو یہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے قائل ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امانت کے مداح ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان میں محمد امین کے ممتاز لقب سے مشہور معروف ہیں ۔ شاہ روم ہرقل نے جب ابوسفیان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت بہت سے سوالات کئے ان میں ایک یہ بھی تھا کہ دعویٰ نبوت سے پہلے تم نے اسے کبھی جھوٹ کی طرف نسبت کی ہے ؟ ابوسفیان نے جواب دیا کبھی نہیں اس پر شاہ نے کہا کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک وہ شخص جس نے دنیوی معاملات میں لوگوں کے بارے میں کبھی بھی جھوٹ کی گندگی سے اپنی زبان خراب نہ کی ہو وہ اللہ پر جھوٹ باندھنے لگے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1773) النحل
105 النحل
106 ایمان کے بعد کفر پسند لوگ اللہ سبحانہ و تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ ’ جو لوگ ایمان کے بعد کفر کریں دیکھ کر اندھے ہو جائیں پھر کفر پر ان کا سینہ کھل جائے ، اس پر اطمینان کر لیں ۔ یہ اللہ کی غضب میں گرفتار ہوتے ہیں کہ ایمان کا علم حاصل کر کے پھر اس سے پھر گئے اور انہیں آخرت میں بڑا سخت عذاب ہو گا ‘ ۔ کیونکہ انہوں نے آخرت بگاڑ کر دنیا کی محبت کی اور صرف دنیا طلبی کی وجہ سے اسلام پر مرتد ہونے کو ترجیح دی چونکہ ان کے دل ہدایت حق سے خالی تھے ، اللہ کی طرف سے ثابت قدمی انہیں نہ ملی ۔ دلوں پر مہریں لگ گئیں ، نفع کی کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی ۔ کان اور آنکھیں بھی بے کار ہو گئیں نہ حق سن سکیں نہ دیکھ سکیں ۔ پس کسی چیز نے انہیں کوئی فائدہ نہ پہنچایا اور اپنے انجام سے غافل ہوگئے ۔ یقیناً ایسے لوگ قیامت کے دن اپنا اور اپنے ہم خیال لوگوں کا نقصان کرنے والے ہیں ۔ پہلی آیت کے درمیان جن لوگوں کا استثناء کیا ہے یعنی وہ جن پر جبر کیا جائے اور ان کے دل ایمان پر جمے ہوئے ہوں ، اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو بہ سبب مار پیٹ اور ایذاؤں کے مجبور ہو کر زبان سے مشرکوں کی موافقت کریں لیکن ان کا دل وہ نہ کہتا ہو بلکہ دل میں اللہ پر اور اس کے رسول پر کامل اطمینان کے ساتھ پورا ایمان ہو ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ” یہ آیت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے بارے میں اتری ہے جب کہ آپ رضی اللہ عنہ کو مشرکین نے عذاب کرنا شروع کیا جب تک کہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کفر نہ کریں ۔ پس بادل ناخواستہ مجبوراً اور کرھاً آپ رضی اللہ عنہ نے ان کی موافقت کی ، پھر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عذر بیان کرنے لگے ۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری “ ۔ شعبی ، قتاوہ اور ابومالک رحمہ اللہ علیہم بھی یہی کہتے ہیں ۔ ابن جریر میں ہے کہ مشرکوں نے آپ رضی اللہ عنہ کو پکڑا اور عذاب دینے شروع کئے ، یہاں تک کہ آپ رضی اللہ عنہ ان کے ارادوں کے قریب ہوگئے ۔ پھر حضور علیہ السلام کے پاس آ کر اس کی شکایت کرنے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا { تم اپنے دل کا حال کیسا پاتے ہو ؟ } جواب دیا کہ وہ تو ایمان پر مطمئن ہے ، جما ہوا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اگر وہ پھر لوٹیں تو تم بھی لوٹنا } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:21946:) بیہقی میں اس سے بھی زیادہ تفصیل سے ہے اس میں ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا کہا اور ان کے معبودوں کا ذکر خیر سے کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر اپنا یہ دکھ بیان کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہوں نے اذیت دینا ختم نہیں کیا جب تک کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا نہ کہہ لیا اور ان کے معبودوں کا ذکر خیر سے نہ کیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { تم اپنا دل کیسا پاتے ہو ؟ } جواب دیا کہ ایمان پر مطمئن ۔ فرمایا : { اگر وہ پھر کریں تو تم بھی پھر کر لینا } ۔ اسی پر یہ آیت اتری ۔ ۱؎ (بیہقی:208/8) پس علماء کرام کا اتفاق ہے کہ جس پر جبر و کراہ کیا جائے ، اسے جائز ہے کہ اپنی جان بچانے کے لیے ان کی موافقت کر لے اور یہ بھی جائز ہے کہ ایسے موقعہ پر بھی ان کی نہ مانے جیسے کہ بلال رضی اللہ عنہ نے کرکے دکھایا کہ مشرکوں کی ایک نہ مانی حالانکہ وہ انہیں بدترین تکلیفیں دیتے تھے یہاں تک کہ سخت گرمیوں میں پوری تیز دھوپ میں آپ رضی اللہ عنہ کو لٹا کر آپ رضی اللہ عنہ کے سینے پر بھاری وزنی پتھر رکھ دیا کہ اب بھی شرک کرو تو نجات پاؤ ۔ لیکن آپ رضی اللہ عنہ نے پھر بھی ان کی نہ مانی صاف انکار کر دیا اور اللہ کی توحید ” احد ، احد “ کے لفظ سے بیان فرماتے رہے بلکہ فرمایا کرتے تھے کہ ” واللہ اگر اس سے بھی زیادہ تمہیں چبھنے والا کوئی لفظ میرے علم میں ہوتا تو میں وہی کہتا “ ۔ اللہ ان سے راضی رہے اور انہیں بھی ہمیشہ راضی رکھے ۔ اسی طرح خیب بن زیاد انصاری رضی اللہ عنہما کا واقعہ ہے کہ جب ان سے مسیلمہ کذاب نے کہا کہ کیا تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دیتا ہے ؟ تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہاں ۔ پھر اس نے آپ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا میرے رسول اللہ ہونے کی بھی گواہی دیتا ہے ؟ تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں نہیں سنتا ۔ اس پر اس جھوٹے مدعی نبوت نے ان کے جسم کے ایک عضو کے کاٹ ڈالنے کا حکم دیا پھر یہی سوال جواب ہوا ۔ دوسرا عضو جسم کٹ گیا یونہی ہوتا رہا لیکن آپ رضی اللہ عنہ آخر دم تک اسی پر قائم رہے ، اللہ آپ سے خوش ہو اور آپ کو بھی خوش رکھے ۔ مسند میں ہے کہ سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے پاس یمن میں معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ تشریف لے گئے ۔ دیکھا کہ ایک شخص ان کے پاس ہے ۔ پوچھا یہ کیا ؟ جواب ملا کہ یہ ایک یہودی تھا ، پھر مسلمان ہو گیا اب پھر یہودی ہو گیا ہے ۔ ہم تقریباً دو ماہ سے اسے اسلام پر لانے کی کوشش میں ہیں ، تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” واللہ میں بیٹھوں گا بھی نہیں جب تک کہ تم اس کی گردن نہ اڑا دو ۔ یہی فیصلہ ہے اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کہ { جو اپنے دین سے لوٹ جائے اسے قتل کر دو } یا فرمایا { جو اپنے دین کو بدل دے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:231/5:صحیح) یہ واقعہ بخاری و مسلم میں بھی ہے لیکن الفاظ اور ہیں ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6923) پس افضل و اولیٰ یہ ہے کہ مسلمان اپنے دین پر قائم اور ثابت قدم رہے گو اسے قتل بھی کر دیا جائے ۔ چنانچہ حافظ ابن عساکر رحمتہ اللہ علیہ عبداللہ بن حذافہ سہمی صحابی رضی اللہ عنہما کے ترجمہ میں لائے ہیں کہ ” آپ رضی اللہ عنہ کو رومی کفار نے قید کر لیا اور اپنے بادشاہ کے پاس پہنچا دیا ، اس نے آپ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تم نصرانی بن جاؤ میں تمہیں اپنے راج پاٹ میں شریک کر لیتا ہوں اور اپنی شہزادی تمہاری نکاح میں دیتا ہوں ۔ صحابی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ ” یہ تو کیا اگر تو اپنی تمام بادشاہت مجھے دیدے اور تمام عرب کا راج بھی مجھے سونپ دے اور یہ چاہے کہ میں ایک آنکھ جھپکنے کے برابر بھی دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پھر جاؤں تہ یہ بھی ناممکن ہے ۔ بادشاہ نے کہا پھر میں تجھے قتل کر دوں گا ۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ ہاں یہ تجھے اختیار ہے چنانچہ اسی وقت بادشاہ نے حکم دیا اور انہیں صلیب پر چڑھا دیا گیا اور تیر اندازوں نے قریب سے بحکم بادشاہ ان کے ہاتھ پاؤں اور جسم چھیدنا شروع کیا باربار کہا جاتا تھا کہ اب بھی نصراینت قبول کر لو اور آپ رضی اللہ عنہ پورے استقلال اور صبر سے فرماتے جاتے تھے کہ ہرگز نہیں آخر بادشاہ نے کہا اسے سولی سے اتار لو ، پھر حکم دیا کہ پیتل کی دیگ یا پیتل کی کی بنی ہوئی گائے خوب تپا کر آگ بنا کر لائی جائے ۔ چنانچہ وہ پیش ہوئی بادشاہ نے ایک اور مسلمان قیدی کی بابت حکم دیا کہ اسے اس میں ڈال دو ۔ اسی وقت عبداللہ رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں آپ رضی اللہ عنہ کے دیکھتے ہی دیکھتے اس مسلمان قیدی کو اس میں ڈال دیا گیا وہ مسکین اسی وقت چر مر ہو کر رہ گئے ۔ گوشت پوست جل گیا ہڈیاں چمکنے لگیں ، رضی اللہ عنہ ۔ پھر بادشاہ نے عبداللہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ دیکھو اب بھی ہماری مان لو اور ہمارا مذہب قبول کرلو ، ورنہ اسی آگ کی دیگ میں اسی طرح تمہیں بھی ڈال کر جلا دیا جائے گا ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے پھر بھی اپنے ایمانی جوش سے کام لے کر فرمایا کہ ” ناممکن کہ میں اللہ کے دین کو چھوڑ دوں “ ۔ اسی وقت بادشاہ نے حکم دیا کہ انہیں چرخی پر چڑھا کر اس میں ڈال دو ، جب یہ اس آگ کی دیگ میں ڈالے جانے کے لیے چرخی پر اٹھائے گئے تو بادشاہ نے دیکھا کہ ان کی آنکھوں سے آنسو نکل رہے ہیں ، اسی وقت اس نے حکم دیا کہ رک جاؤ انہیں اپنے پاس بلا لیا ، اس لیے کہ اسے امید بندھ گئی تھی کہ شاید اس عذاب کو دیکھ کر اب اس کے خیالات پلٹ گئے ہیں میری مان لے گا اور میرا مذہب قبول کر کے میرا داماد بن کر میری سلطنت کا ساجھی بن جائے گا لیکن بادشاہ کی یہ تمنا اور یہ خیال محض بےسود نکلا ۔ عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ” میں صرف اس وجہ سے رویا تھا کہ آج ایک ہی جان ہے جسے راہ حق میں اس عذاب کے ساتھ میں قربان کر رہا ہوں ، کاش کہ میرے روئیں روئیں میں ایک ایک جان ہوتی کہ آج میں سب جانیں راہ اللہ اسی طرح ایک ایک کر کے فدا کرتا “ ۔ بعض روایتوں میں ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کو قید خانہ میں رکھا کھانا پینا بند کر دیا ، کئی دن کے بعد شراب اور خنزیر کا گوشت بھیجا لیکن آپ رضی اللہ عنہ نے اس بھوک پر بھی اس کی طرف توجہ تک نہ فرمائی ۔ بادشاہ نے بلوا بھیجا اور اسے نہ کھانے کا سبب دریافت کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ اس حالت میں یہ میرے لیے حلال تو ہوگیا ہے لیکن میں تجھ جیسے دشمن کو اپنے بارے میں خوش ہونے کا موقعہ دینا چاہتا ہی نہیں ہوں ۔ اب بادشاہ نے کہا اچھا تو میرے سر کا بوسہ لے تو میں تجھے اور تیرے ساتھ کے اور تمام مسلمان قیدیوں کو رہا کر دیتا ہوں آپ رضی اللہ عنہ نے اسے قبول فرما لیا اس کے سر کا بوسہ لے لیا اور بادشاہ نے بھی اپنا وعدہ پورا کیا اور آپ رضی اللہ عنہ کو اور آپ رضی اللہ عنہ کے تمام ساتھیوں کو چھوڑ دیا جب عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ یہاں سے آزاد ہو کر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچے تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہر مسلمان پر حق ہے کہ عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہما کا ماتھا چومے اور میں ابتداء کرتا ہوں یہ فرما کر پہلے آپ رضی اللہ عنہ نے ان کے سر پر بوسہ دیا ۔ مسند احمد میں ہے کہ جو چند لوگ مرتد ہو گئے تھے ، انہیں سیدنا علی رضی اللہ عنہما نے آگ میں جلوا دیا ، جب سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کو یہ واقعہ معلوم ہوا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” میں تو انہیں آگ میں نہ جلاتا اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ { اللہ کے عذاب سے تم عذاب نہ کرو } ۔ ہاں بیشک میں انہیں قتل کرا دیتا ۔ اس لیے کہ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ { جو اپنے دین کو بدل دے اسے قتل کر دو } ۔ جب یہ خبر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو ہوئی تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی ماں پر افسوس “ ۔ اسے امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے بھی وارد کیا ہے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3017) النحل
107 النحل
108 النحل
109 النحل
110 صبر و استقامت یہ دوسری قسم کے لوگ ہیں جو بوجہ اپنی کمزوری اور مسکینی کے مشرکین کے ظلم کے شکار تھے اور ہر وقت ستائے جاتے تھے آخر انہوں نے ہجرت کی ۔ مال ، اولاد ، ملک ، وطن چھوڑ کر اللہ کی راہ میں چل کھڑے ہوئے اور مسلمانوں کی جماعت میں مل کر پھر جہاد کے لیے نکل پڑے اور صبر و استقامت سے اللہ کے کلمے کی بلندی میں مشغول ہوگئے ، انہیں اللہ تعالیٰ ان کاموں یعنی قبولیت فتنہ کے بعد بھی بخشنے والا اور ان پر مہربانیاں کرنے والا ہے ۔ روز قیامت ہر شخص اپنی نجات کی فکر میں لگا ہوگا ، کوئی نہ ہو گا جو اپنی ماں یا باپ یا بھائی یا بیوی کی طرف سے کچھ کہہ سن سکے اس دن ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ ملے گا ۔ کسی پر کوئی ظلم نہ ہوگا ۔ نہ ثواب گھٹے نہ گناہ بڑھے ۔ اللہ ظلم سے پاک ہے ۔ النحل
111 النحل
112 اللہ کی عظیم نعمت بعثت نبوی ہے اس سے مراد اہل مکہ میں یہ امن و اطمینان میں تھے ۔ آس پاس لڑائیاں ہوتیں ، یہاں کوئی آنکھ بھر کر بھی نہ دیکھتا جو یہاں آ جاتا ، امن میں سمجھا جاتا ۔ جیسے قرآن نے فرمایا ہے کہ «وَقَالُوا إِنْ نَتَّبِعِ الْہُدَی مَعَکَ نُتَخَطَّفْ مِنْ أَرْضِنَا أَوَلَمْ نُمَکِّنْ لَہُمْ حَرَمًا آمِنًا یُجْبَی إِلَیْہِ ثَمَرَاتُ کُلِّ شَیْءٍ رِزْقًا مِنْ لَدُنَّا» ۱؎ (28-القصص:57) ’ یہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر ہم ہدایت کی پیروی کریں تو اپنی زمین سے اچک لیے جائیں کیا ہم نے انہیں امن و امان کا حرم نہیں دے رکھا ؟ جہاں ہماری روزیاں قسم قسم کے پھولوں کی شکل میں ان کے پاس چاروں طرف سے کھینچی چلی آتی ہیں ‘ ۔ یہاں بھی ارشاد ہوتا ہے کہ ’ عمدہ اور گزارے لائق روزی اس شہر کے لوگوں کے پاس ہر طرف سے آرہی تھی لیکن پھر بھی یہ اللہ کی نعمتوں کے منکر رہے جن میں سب سے اعلیٰ نعمت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت تھی ‘ ۔ جیسے ارشاد باری ہے آیت « أَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِینَ بَدَّلُوا نِعْمَۃَ اللہِ کُفْرًا وَأَحَلٰوا قَوْمَہُمْ دَارَ الْبَوَارِ جَہَنَّمَ یَصْلَوْنَہَا وَبِئْسَ الْقَرَارُ» ۔ (14-ابراھیم:28-29) ’ کیا تونے انہیں دیکھا جنہوں نے اللہ کی نعمت کو کفر سے بدل دیا اور اپنی قوم کو ہلاکت کی طرف پہنچا دیا جو جہنم ہے جہاں یہ داخل ہوں گے اور جو بری قرار گاہ ہے ‘ ۔ ان کی اس سرکشی کی سزا میں دونوں نعمتیں دو زحمتوں سے بدل دی گئیں امن خوف سے، اطمینان بھوک اور گھبراہٹ سے ۔ النحل
113 . انہوں نے اللہ کے رسول کی نہ مانی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کمر کس لی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے سات قحط سالیوں کی بد دعا دی ۔ جیسی یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں تھی ۔ اس قحط سالی میں انہوں نے اونٹ کے خون میں لتھڑے ہوئے بال تک کھائے ۔ امن کے بعد خوف آیا ۔ ہر وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لشکر سے خوف زدہ رہنے لگے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دن دگنی ترقی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لشکروں کی کثرت کا سنتے اور سہمے جاتے تھے یہاں تک کہ بالآخر اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے شہر مکہ پر چڑھائی کی اور اسے فتح کر کے وہاں قبضہ کر لیا ۔ یہ ان کی بد اعمالیوں کا ثمرہ تھا کیونکہ یہ ظلم و زیادتی پر اڑے ہوئے تھے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کرتے رہے تھے ۔ جسے اللہ تعالیٰ نے ان میں خود ان میں سے ہی بھیجا تھا جس احسان کا بیان آیت «لَقَدْ مَنَّ اللہُ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ إِذْ بَعَثَ فِیہِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِہِمْ» (3-آل عمران:164) الخ ، میں فرمایا ہے اور اسی کا بیان آیت «فَاتَّقُوا اللّٰہَ یٰٓاُولِی الْاَلْبَابِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ٽ قَدْ اَنْزَلَ اللّٰہُ اِلَیْکُمْ ذِکْرًا» ۱؎ (65-الطلاق:10) الخ ، میں ہے اور اسی معنی کی آیت «کَمَا أَرْسَلْنَا فِیکُمْ رَسُولًا مِّنکُمْ یَتْلُو عَلَیْکُمْ آیَاتِنَا وَیُزَکِّیکُمْ وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُعَلِّمُکُم مَّا لَمْ تَکُونُوا تَعْلَمُونَ فَاذْکُرُونِی أَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوا لِی وَلَا تَکْفُرُونِ» ۱؎ (2-البقرۃ:151-152) میں ہے ۔ اس لطیفے کو بھی نہ بھولئے کہ جیسے کفر کی وجہ سے امن کے بعد خوف آیا اور فراخی کے بعد بھوک آئی ایمان کی وجہ سے خوف کے بعد امن ملا اور بھوک کے بعد حکومت ، سرداری امارت اور امامت ملی ۔ «فسبحانہ ما اعظم شانہ» ۔ سلیم بن عتر کہتے ہیں ہم ام المؤمنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا زوجہ محترمہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج سے لوٹتے ہوئے آرہے تھے اس وقت مدینہ شریف میں خلیفتہ المؤمنین عثمان رضی اللہ عنہا گھرے ہوئے تھے ۔ مائی صاحبہ رضی اللہ عنہا اکثر راہ چلتوں سے ان کی بابت دریافت فرمایا کرتی تھیں ۔ دو سواروں کو جاتے ہوئے دیکھ کر آدمی بھیجا کہ ان سے خلیفتہ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حال پوچھو ۔ انہوں نے خبر دی کہ افسوس آپ رضی اللہ عنہ شہید کر دیئے گئے ۔ اسی وقت آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ” اللہ کی قسم یہی وہ شہید ہے جس کی بات اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے آیت «وَضَرَبَ اللہُ مَثَلًا قَرْیَۃً کَانَتْ آمِنَۃً مٰطْمَئِنَّۃً یَأْتِیہَا رِزْقُہَا رَغَدًا مِّن کُلِّ مَکَانٍ فَکَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللہِ فَأَذَاقَہَا اللہُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا کَانُوا یَصْنَعُونَ» “ ۱؎ (16-النحل:112) ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:655/7:) عبیداللہ بن مغیرہ کے استاد کا بھی یہی قول ہے ۔ النحل
114 حلال و حرام صرف اللہ کی طرف سے ہیں اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو اپنی دی ہوئی پاک روزی حلال کرتا ہے اور شکر کرنے کی ہدایت کرتا ہے ۔ اس لیے کہ نعمتوں کا داتا وہی ہے ، اسی لیے عبادت کے لائق بھی صرف وہی ایک ہے ، اس کا کوئی شریک اور ساجھی نہیں ۔ پھر ان چیزوں کا بیان فرما رہا ہے جو اس نے مسلمانوں پر حرام کر دی ہیں جس میں ان کے دین کا نقصان بھی ہے اور ان کی دنیا کا نقصان بھی ہے جیسے از خود مرا ہوا جانور اور بوقت ذبح کیا جائے ۔ لیکن جو شخص ان کے کھانے کی طرف بے بس ، لاچار ، عاجز ، محتاج ، بے قرار ہو جائے اور انہیں کھالے تو اللہ بخشش و رحمت سے کام لینے والا ہے ۔ سورۃ البقرہ میں اسی جیسی آیت گزر چکی ہے اور وہیں اس کی کامل تفسیر بھی بیان کردی اب دوبارہ دہرانے کی حاجت نہیں ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» پھر کافروں کے رویہ سے مسلمانوں کو روک رہا ہے کہ جس طرح انہوں نے از خود اپنی سمجھ سے حلت حرمت قائم کرلی ہے تم نہ کرو آپس میں طے کر لیا کہ فلاں کے نام سے منسوب جانور حرمت و عزت والا ہے ۔ بحیرہ ، سائبہ ، وصیلہ ، حام وغیرہ تو فرمان ہے کہ ’ اپنی زبانوں سے جھوٹ موٹ اللہ کے ذمے الزام رکھ کر آپ حلال حرام نہ ٹھہرا لو ‘ ۔ اس میں یہ بھی داخل ہے کہ کوئی اپنی طرف سے کسی بدعت کو نکالے جس کی کوئی شرعی دلیل نہ ہو ۔ یا اللہ کے حرام کو حلال کرے یا مباح کو حرام قرار دے اور اپنی رائے اور تشبیہ سے احکام ایجاد کرے ۔ «لِمَا تَصِفُ» میں «ما» مصدریہ ہے یعنی تم اپنی زبان سے حلال حرام کا جھوٹ وصف نہ گھڑلو ۔ ایسے لوگ دنیا کی فلاح سے آخرت کی نجات سے محروم ہو جاتے ہیں دنیا میں گو تھوڑا سا فائدہ اٹھا لیں لیکن مرتے ہی المناک عذابوں کا لقمہ بنیں گے ۔ «نُمَتِّعُہُمْ قَلِیلًا ثُمَّ نَضْطَرٰہُمْ إِلَی عَذَابٍ غَلِیظٍ» ۱؎ (31-لقمان:24) ’ یہاں کچھ عیش و عشرت کرلیں وہاں بے بسی کے ساتھ سخت عذاب برداشت کرنے پڑیں گے ‘ ۔ جیسے فرمان الٰہی ہے «إِنَّ الَّذِینَ یَفْتَرُونَ عَلَی اللہِ الْکَذِبَ لَا یُفْلِحُونَ مَتَاعٌ فِی الدٰنْیَا ثُمَّ إِلَیْنَا مَرْجِعُہُمْ ثُمَّ نُذِیقُہُمُ الْعَذَابَ الشَّدِیدَ بِمَا کَانُوا یَکْفُرُونَ» ۱؎ (10-یونس:79-80) ’ اللہ پر جھوٹ افترا کرنے والے نجات سے محروم ہیں ۔ دنیا میں چاہے تھوڑا سا فائدہ اٹھا لیں پھر ہم ان کے کفر کی وجہ سے انہیں سخت عذاب چکھائیں گے ‘ ۔ النحل
115 النحل
116 النحل
117 النحل
118 دوسروں سے منسوب ہر چیز حرام ہے اوپر بیان گزرا کہ اس امت پر مردار ، خون ، لحم ، خنزیر اور اللہ کے سوا دوسروں کے نام سے منسوب کردہ چیزیں حرام ہیں ۔ پھر جو رخصت اس بارے میں تھی اسے ظاہر فرما کر جو آسانی اس امت پر کی گئی ہے اسے بیان فرمایا ۔ یہودیوں پر ان کی شریعت میں جو حرام تھا اور جو تنگ اور حرج ان پر تھا اسے بیان فرما رہا ہے کہ ’ ہم نے ان کی حرمت کی چیزوں کو پہلے ہی سے تجھے بتا دیا ہے ‘ ۔ سورۃ الانعام کی آیت «عَلَی الَّذِینَ ہَادُوا حَرَّمْنَا کُلَّ ذِی ظُفُرٍ وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنَا عَلَیْہِمْ شُحُومَہُمَا إِلَّا مَا حَمَلَتْ ظُہُورُہُمَا» ۱؎ (6-الأنعام:146) میں ان حرام چیزوں کا ذکر ہو چکا ہے ۔ یعنی ’ یہودیوں پر ہم نے تمام ناخن والے جانوروں کو حرام کر دیا تھا اور گائے اور بکری کی چربی کو سوائے اس چربی کے جو ان کی پیٹھ پر لگی ہو یا انتڑیوں پر یا ہڈیوں سے ملی ہوئی ہو ، یہ بدلہ تھا ان کی سرکشی کا ہم اپنے فرمان میں بالکل سچے ہیں ۔ ہم نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا تھا ہاں وہ خود نا انصاف تھے ‘ ۔ «فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِینَ ہَادُوا حَرَّمْنَا عَلَیْہِمْ طَیِّبَاتٍ أُحِلَّتْ لَہُمْ وَبِصَدِّہِمْ عَن سَبِیلِ اللہِ کَثِیرًا» ۱؎ ( 4-النساء : 160 ) ’ ان کے ظلم کی وجہ سے ہم نے وہ پاکیزہ چیزیں جو ان پر حلال تھیں ، حرام کر دیں دوسری وجہ ان کا راہ حق سے اوروں کو روکنا بھی تھا ‘ ۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے اس رحم و کرم کی خبر دیتا ہے جو وہ گنہگار مومنوں کے ساتھ کرتا ہے کہ ادھر اس نے توبہ کی ، ادھر رحمت کی گود اس کے لیے پھیل گئی ۔ بعض سلف کا قول ہے کہ جو اللہ کی نافرمانی کرتا ہے وہ جاہل ہی ہوتا ہے ۔ توبہ کہتے ہیں گناہ سے ہٹ جانے کو اور اصلاح کہتے ہیں اطاعت پر کمر کس لینے کو پس جو ایسا کرے اس کے گناہ اور اس کی لغزش کے بعد بھی اللہ اسے بخش دیتا ہے اور اس پر رحم فرماتا ہے ۔ النحل
119 النحل
120 جد از انبیاء ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام ہدیات کے امام امام حنفا ، والد انبیاء ، خلیل الرحمان ، رسول جل وعلا ، ابراہیم علیہ الصلوۃ و التسلیم کی تعریف بیان ہو رہی ہے اور مشرکوں یہودیوں اور نصرانیوں سے انہیں علیحدہ کیا جا رہا ہے ۔ «أُمَّۃُ» کے معنی امام کے ہیں جن کی اقتداء کی جائے قانت کہتے ہیں اطاعت گزار فرماں بردار کو ، حنیف کے معنی ہیں شرک سے ہٹ کر توحید کی طرف آ جانے والا ۔ اسی لئیے فرمایا کہ ’ وہ مشرکوں سے بیزار تھا ‘ ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما سے جب «أُمَّۃً قَانِتًا» کے معنی دریافت کئے گئے تو فرمایا ” لوگوں کو بھلائی سکھانے والا اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ماتحتی کرنے والا “ ۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ” امت کے معنی ہیں لوگوں کے دین کا معلم “ ۔ ایک مرتبہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ” معاذ امت قانت اور حنیف تھے “ اس پر کسی نے اپنے دل میں سوچا کہ عبداللہ رضی اللہ عنہ غلطی کرگئے ایسے تو قرآن کے مطابق خلیل الرحمن علیہ السلام تھے ۔ پھر زبانی کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کو امت فرمایا ہے ۔ تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” جانتے بھی ہو امت کے کیا معنی ؟ اور قانت کے کیا معنی ؟ امت کہتے ہیں اسے جو لوگوں کو بھلائی سکھائے اور قانت کہتے ہیں اسے جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں لگا رہے ۔ بیشک معاذ ایسے ہی تھے “ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:660/7:) حضرت مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” وہ تنہا امت تھے اور تابع فرمان تھے ۔ وہ اپنے زمانہ میں تنہا موحد ومومن تھے ۔ باقی تمام لوگ اس وقت کافر تھے “ ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” وہ ہدایت کے امام تھے اور اللہ کے غلام تھے ۔ اللہ کی نعمتوں کے قدرداں اور شکر گزار تھے اور رب کے تمام احکام کے عامل تھے جیسے خود اللہ نے فرمایا «وَإِبْرَاہِیمَ الَّذِی وَفَّیٰ» ۱؎ (53-النجم:37) ’ وہ ابراہیم علیہ السلام جس نے پورا کیا ‘ یعنی اللہ کے تمام احکام کو تسلیم کیا ، اور ان پر علم بجا لایا ۔ اسے اللہ نے مختار اور مصطفی بنا لیا ۔ جیسے فرمان ہے «وَلَـقَدْ اٰتَیْنَآ اِبْرٰہِیْمَ رُشْدَہٗ مِنْ قَبْلُ وَکُنَّا بِہٖ عٰلِمِیْنَ» ۱؎ (21-الأنبیاء:51) الخ ، ’ ہم نے پہلے ہی سے ابراہیم [ علیہ السلام ] کو رشد و ہدایت دے رکھی تھی اور ہم اسے خوب جانتے تھے ‘ ۔ اسے ہم نے راہ مستقیم کی رہبری کی تھی صرف ایک اللہ «وَحدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ» کی وہ عبادت واطاعت کرتے تھے اور اللہ کی پسندیدہ شریعت پر قائم تھے ۔ ہم نے انہیں دین دنیا کی خبر کا جامع بنایا تھا اپنی پاکیزہ زندگی کے تمام ضروری اوصاف حمیدہ ان میں تھے ۔ ساتھ ہی آخرت میں بھی نیکوں کے ساتھی اور صلاحیت والے تھے ۔ ان کا پاک ذکر دنیا میں بھی باقی رہا اور آخرت میں بڑے عظیم الشان درجے ملے ۔ ان کے کمال ، ان کی عظمت ، ان کی محبت ، توحید اور ان کے پاک طریق پر اس سے بھی روشنی پڑتی ہے کہ ’ اے خاتم رسل اے سیدالانبیاءت جھے بھی ہمارا حکم ہو رہا ہے کہ ملت ابراہیم حنیف کی پیروی کر جو مشرکوں سے بری الذمہ تھا ‘ ۔ سورۃ الانعام میں ارشاد ہے «قُلْ اِنَّنِیْ ہَدٰینِیْ رَبِّیْٓ اِلٰی صِرَاطٍ مٰسْتَقِیْمٍ دِیْنًا قِــیَمًا مِّلَّۃَ اِبْرٰہِیْمَ حَنِیْفًا وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ» ۱؎ (6-الأنعام:161) الخ ، ’ کہہ دے کہ مجھے میرے رب نے صراط مستقیم کی رہبری کی ہے ۔ مضبوط اور قائم دین ابراہیم حنیف کی جو مشرکوں میں نہ تھا ‘ ۔ النحل
121 النحل
122 النحل
123 النحل
124 جمعہ کا دن ہر امت کے لیے ہفتے میں ایک دن اللہ تعالیٰ نے ایسا مقرر کیا ہے جس میں وہ جمع ہو کر اللہ کی عبادت کی خوشی منائیں ۔ اس امت کے لیے وہ دن جمعہ کا دن ہے ، اس لیے کہ وہ چھٹا دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کا کمال کیا ۔ اور ساری مخلوق پیدا ہو چکی اور اپنے بندوں کو ان کی ضرورت کی اپنی پوری نعمت عطا فرما دی ۔ مروی ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کی زبانی یہی دن بنی اسرائیل کے لیے مقرر فرمایا گیا تھا لیکن وہ اس سے ہٹ کر ہفتے کے دن کو لے بیٹھے ، یہ سمجھے کہ جمعہ کو مخلوق پوری ہوگئی ، ہفتہ کے دن اللہ نے کوئی چیز پیدا نہیں کی ۔ پس تورات جب اتری ان پر وہی ہفتے کا دن مقرر ہوا اور انہیں حکم ملا کہ اسے مضبوطی سے تھامے رہیں ، ہاں یہ ضرور فرما دیا گیا تھا کہ نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی آئیں تو وہ سب کے سب کو چھوڑ کر صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی اتباع کریں ۔ اس بات پر ان سے وعدہ بھی لے لیا تھا ۔ پس ہفتے کا دن انہوں نے خود ہی اپنے لیے چھانٹا تھا ۔ اور آپ ہی جمعہ کو چھوڑا تھا ۔ حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے زمانہ تک یہ اسی پر رہے ۔ کہا جاتا ہے کہ پھر آپ علیہ السلام نے انہیں اتوار کے دن کی طرف دعوت دی ۔ ایک قول ہے کہ آپ علیہ السلام نے توراۃ کی شریعت چھوڑی نہ تھی سوائے بعض منسوخ احکام کے اور ہفتے کے دن کی محافظت آپ علیہ السلام نے بھی برابر جاری رکھی ۔ جب آپ علیہ السلام آسمان پر چڑھا لیے گئے تو آپ علیہ السلام کے بعد قسطنطین بادشاہ کے زمانے میں صرف یہودیوں کی ضد میں آکر صخرہ سے مشرق جانب کو اپنا قبلہ انہوں نے مقرر کرلیا اور ہفتے کی بجائے اتوار کا دن مقرر کر لیا ۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ عیہ وسلم فرماتے ہیں { ہم سب سے آخر والے ہیں اور قیامت کے دن سب سے آگے والے ہیں ۔ ہاں انہیں کتاب اللہ ہم سے پہلے دی گئی ۔ یہ دن بھی اللہ نے ان پر فرض کیا لیکن ان کے اختلاف نے انہیں کھودیا اور اللہ رب العزت نے ہمیں اس کی ہدایت دی پس یہ سب لوگ ہمارے پیچھے پیچھے ہیں ۔ یہودی ایک دن پیچھے نصارنی دو دن } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:876) آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { ہم سے پہلے کی امتوں کو اللہ نے اس دن سے محروم کر دیا یہود نے ہفتے کا دن رکھا نصاریٰ نے اتوار کا اور جمعہ ہمارا ہوا ۔ پس جس طرح دنوں کے اس اعتبار سے وہ ہمارے پیچھے ہیں ۔ اسی طرح قیامت کے دن بھی ہمارے پیچھے ہی رہیں گے ۔ ہم دنیا کے اعتبار سے پچھلے ہیں اور قیامت کے اعتبار سے پہلے ہیں یعنی تمام مخلوق میں سب سے پہلے فیصلے ہمارے ہوں گے } } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:856) النحل
125 حکمت سے مراد کتاب اللہ اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے اللہ تعالیٰ رب العالمین اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرماتا ہے کہ ’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی مخلوق کو اس کی طرف بلائیں ‘ ۔ حکمت سے مراد بقول امام ابن جریر رحمہ اللہ ” کلام اللہ اور حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے ، اور اچھے وعظ سے مراد جس میں ڈر اور دھمکی بھی ہو کہ لوگ اس سے نصیحت حاصل کریں ، اور اللہ کے عذابوں سے بچاؤ طلب کریں “ ۔ ہاں یہ بھی خیال رہے کہ اگر کسی سے مناظرے کی ضرورت پڑ جائے تو وہ نرمی اور خوش لفظی سے ہو ۔ جیسے فرمان ہے آیت «وَلَا تُجَادِلُوا أَہْلَ الْکِتَابِ إِلَّا بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ إِلَّا الَّذِینَ ظَلَمُوا مِنْہُمْ» ۱؎ (29-العنکبوت:46) الخ ، ’ اہل کتاب سے مناظرے مجادلے کا بہترین طریقہ ہی برتا کرو ‘ ، الخ ۔ اسی طرح موسیٰ علیہ السلام کو بھی نرمی کا حکم ہوا تھا ۔ دونوں بھائیوں کو یہ کہہ کر فرعون کی طرف بھیجا گیا تھا کہ «فَقُولَا لَہُ قَوْلًا لَیِّنًا لَعَلَّہُ یَتَذَکَّرُ أَوْ یَخْشَی» ۱؎ (20-طہ:44) ’ اسے نرم بات کہنا تاکہ عبرت حاصل کرے اور ہوشیار ہو جائے ‘ ۔ گمراہ اور ہدایت یاب سب اللہ کے علم میں ہیں ۔ شقی و سعید سب اس پر واضح ہیں ۔ وہاں لکھے جا چکے ہیں اور تمام کاموں کے انجام سے فراغت ہو چکی ہے ۔ ’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو اللہ کی راہ کی دعوت دیتے رہیں لیکن نہ ماننے والوں کے پیچھے اپنی جان ہلاکت میں نہ ڈالئے ۔ آپ ہدایت کے ذمے دار نہیں آپ صرف آگاہ کرنے والے ہیں ، آپ پر پیغام کا پہنچا دینا فرض ہے ۔ حساب ہم آپ لیں گے ۔ «إِنَّکَ لَا تَہْدِی مَنْ أَحْبَبْتَ» ۱؎ (28-القصص:56) ہدایت آپ کے بس کی چیز نہیں کہ جسے محبوب سمجھیں ، ہدایت عطا کر دیں لوگوں کی ہدایت کے ذمے دار آپ نہیں یہ اللہ کے قبضے اور اس کے ہاتھ کی چیز ہے ‘ ۔ النحل
126 قصاص اور حصول قصاص قصاص میں اور حق کے حاصل کرنے میں برابری اور انصاف کا حکم ہو رہا ہے ۔ امام ابن سیرین رحمہ اللہ وغیرہ فرماتے ہیں ” اگر کوئی تم سے کوئی چیز لے لے تو تم بھی اس سے اسی جیسی لے لو “ ۔ ابن زید رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” پہلے تو مشرکوں سے درگزر کرنے کا حکم تھا ۔ جب ذرا حیثیت دار لوگ مسلمان ہوئے تو انہوں نے کہا کہ اگر اللہ کی طرف سے بدلے کی رخصت ہو جائے تو ہم بھی ان کتوں سے نبڑ لیا کریں اس پر یہ آیت اتری آخر یہ بھی جہاد سے منسوخ ہو گئی “ ۔ عطا بن یسار رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” سورۃ النحل پوری مکے شریف میں اتری ہے مگر اس کی تین آخری آیتیں مدینے شریف میں اتری ہیں ۔ جب کہ جنگ احد میں سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ شہید کر دئے گئے اور آپ رضی اللہ عنہ کے اعضائے جسم بھی شہادت کے بعد کاٹ لیے گئے جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے بے ساختہ نکل گیا کہ { اب جب مجھے اللہ تعالیٰ ان مشرکوں پر غلبہ دے تو میں ان میں سے تیس شخصوں کے ہاتھ پاؤں اسی طرح کاٹوں گا } ۔ مسلمانوں کے کان میں جب اپ نبی محترم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ پڑے تو ان کے جوش بہت بڑھ گئے اور کہنے لگے کہ واللہ ہم ان پر غالب آکر ان کی لاشوں کے وہ ٹکڑے ٹکڑے کریں گے کہ عربوں نے کبھی ایسا دیکھا ہی نہ ہوگا اس پر یہ آیتیں اتریں } ۔ ۱؎ (دلائل النبوۃ للبیہقی:286/3:مرسل) ۔ لیکن یہ روایت مرسل ہے اور اس میں ایک راوی ایسا بھی ہے جن کا نام ہی نہیں لیا گیا ، مبہم چھوڑا گیا ۔ ہاں دوسری سند سے یہ متصل بھی مروی ہے ۔ بزار میں ہے کہ { جب سیدنا حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ شہید کر دئے گئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پاس کھڑے ہو کر دیکھنے لگے آہ ! اس سے زیادہ دل دکھانے والا منظر اور کیا ہو گا کہ محترم چچا کی لاش کے ٹکڑے آنکھوں کے سامنے بکھرے پڑے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلا کہ { آپ پر اللہ کی رحمت ہو ، جہاں تک میرا علم ہے ، میں جانتا ہوں کہ آپ رضی اللہ عنہ رشتے ناتے کے جوڑنے والے نیکیوں کو لپک کر کرنے والے تھے ۔ واللہ دوسرے لوگوں کے درد و غم کا خیال نہ ہوتا تو میں تو آپ رضی اللہ عنہ کے اس جسم کو یونہی چھوڑ دیتا یہاں تک کہ آپ رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالیٰ درندوں کے پیٹوں میں سے نکالتا } یا اور کوئی ایسا ہی کلمہ فرمایا : { جب ان مشرکوں نے یہ حرکت کی ہے تو واللہ میں بھی ان میں کے ستر شخصوں کی یہی بری حالت بناؤں گا } ۔ اسی وقت جبرائیل علیہ السلام وحی لے کر آئے اور یہ آیتیں آتری تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قسم کے پورا کرنے سے رک گئے اور قسم کا کفارہ ادا کر دیا } } ۔ ۱؎ (مسند بزار:1795:ضعیف) لیکن سند اس کی بھی کمزور ہے ۔ اس کے راوی صالح بشیر مری ہیں جو ائمہ اہل حدیث کے نزدیک ضعیف ہیں بلکہ امام بخاری رحمہ اللہ تو انہیں منکر الحدیث کہتے ہیں ۔ شعبی اور ابن جریج رحمہ اللہ علیہم کہتے ہیں کہ ” مسلمانوں کی زبان سے نکلا تھا کہ ان لوگوں نے جو ہمارے شہیدوں کی بے حرمتی کی ہے اور ان کے اعضاء بدن کاٹ دئیے ہیں واللہ ہم بھی ان سے اس کا بدلہ لے کر ہی چھوڑیں گے ۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں یہ آیتیں اتاریں ۔ مسند احمد میں ہے کہ جنگ احد میں ساٹھ انصاری شہید ہوئے اور چھ مہاجر رضی اللہ عنہم اجمعین تو اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے نکل گیا کہ { جب ہم ان مشرکوں پر غلبہ پائیں تو ہم بھی ان کے ٹکڑے کئے بغیر نہ رہیں گے } ۔ چنانچہ فتح مکہ والے دن ایک شخص نے کہا کہ آج کے دن کے بعد قریش پہچانے بھی نہ جائیں گے ۔ اسی وقت ندا ہوئی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں کو پناہ دیتے ہیں سوائے فلاں فلاں کے [ جن کے نام لیے گئے ہیں ] اس پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت فرمایا کہ { ہم صبر کرتے ہیں اور بدلہ نہیں لیتے } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3129،قال الشیخ الألبانی:حسن) اس آیت کریمہ کی مثالیں قرآن کریم میں اور بھی بہت سی ہیں ۔ اس میں عدل کی مشروعیت بیان ہوئی ہے اور افضل طریقے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ جیسے آیت «وَجَزَاءُ سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِثْلُہَا فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُہُ عَلَی اللہِ » ۱؎ (42-الشوری:40) میں برائی کا بدلہ لینے کی رخصت عطا فرما کر پھر فرمایا ہے کہ جو در گزر کرلے اور اصلاح کر لے اس کا اجر اللہ تعالیٰ پر ہے ‘ ۔ اسی طرح آیت «وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ فَمَن تَصَدَّقَ بِہِ فَہُوَ کَفَّارَۃٌ لَّہُ» ۱؎ (5-المائدہ:45) میں بھی زخموں کا بدلہ لینے کی اجازت دے کر فرمایا ہے کہ ’ جو بطور صدقہ معاف کر دے یہ معافی اس کے گناہوں کا کفارہ ہو جائے گی ‘ ۔ اسی طرح اس آیت میں بھی برابر بدلہ لینے کے جواز کا ذکر فرما کر پھر ارشاد ہوا ہے کہ ’ اگر صبر کر لو تو یہ بہت ہی بہتر ہے ‘ ۔ پھر صبر کی مزید تاکید کی اور ارشاد فرمایا کہ ’ یہ ہر ایک کے بس کا کام نہیں یہ ان ہی سے ہو سکتا ہے جن کی مدد پر اللہ ہو اور جنہیں اس کی جانب سے توفیق نصیب ہوئی ہو ‘ ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ’ اپنے مخالفین کا غم نہ کھا ، ان کی قسمت میں ہی مخالفت لکھ دی گئی ہے نہ ان کے فن فریب سے آزردہ خاطر ہو ۔ اللہ تجھے کافی ہے ، وہی تیرا مددگار ہے ، وہی تجھے ان سب پر غالب کرنے والا ہے اور ان کی مکاریوں اور چلاکیوں سے بچانے والا ہے ۔ ان کی عداوت اور ان کے برے ارادے تیرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ‘ ۔ ملائیکہ اور مجاہدین اللہ تعالیٰ کی مدد اور اس کی تائید ہدایات اور اس کی توفیق ان کے ساتھ ہے ، جن کے دل اللہ کے ڈر سے اور جن کے اعمال احسان کے جوہر سے مال مال ہوں ۔ چنانچہ جہاد کے موقعہ پر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی طرف وحی اتاری تھے کہ آیت «اَنِّیْ مَعَکُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا سَاُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ کَفَرُوا الرٰعْبَ فَاضْرِبُوْا فَوْقَ الْاَعْنَاقِ وَاضْرِبُوْا مِنْہُمْ کُلَّ بَنَانٍ» ۱؎ (8-الأنفال:12) ’ میں تمہارے ساتھ ہوں پس تم ایمانداروں کو ثابت قدم رکھو ‘ ۔ اسی طرح موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہما السلام سے فرمایا تھا آیت «لَا تَخَافَآ اِنَّنِیْ مَعَکُمَآ اَسْمَعُ وَاَرٰی» ۱؎ (20-طہ:46) ’ تم خوف نہ کھاؤ میں تمہارے ساتھ ہوں ، دیکھتا سنتا ہوں ‘ ۔ غار میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا آیت «لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا» ۱؎ (9-التوبہ:40) ’ غم نہ کرو اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے ‘ ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3652) پس یہ ساتھ تو خاص تھا ۔ اور مراد اس سے تائید و نصرت الٰہی کا ساتھ ہونا ہے ۔ اور عام ساتھ کا بیان آیت «وَہُوَ مَعَکُمْ أَیْنَ مَا کُنتُمْ وَ اللہُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیرٌ» ۱؎ (57-الحدید:4) اور آیت «أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللہَ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ مَا یَکُونُ مِن نَّجْوَیٰ ثَلَاثَۃٍ إِلَّا ہُوَ رَابِعُہُمْ وَلَا خَمْسَۃٍ إِلَّا ہُوَ سَادِسُہُمْ وَلَا أَدْنَیٰ مِن ذٰلِکَ وَلَا أَکْثَرَ إِلَّا ہُوَ مَعَہُمْ أَیْنَ مَا کَانُوا» ۱؎ (58-المجادلۃ:7) الخ اور آیت «وَمَا تَکُونُ فِی شَأْنٍ وَمَا تَتْلُو مِنْہُ مِن قُرْآنٍ وَلَا تَعْمَلُونَ مِنْ عَمَلٍ إِلَّا کُنَّا عَلَیْکُمْ شُہُودًا» ۱؎ (10-یونس:61) الخ میں ہے یعنی ’ اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہے ، جہاں بھی تم ہو اور وہ تمہارے اعمال دیکھنے والا ہے اور جو تین شخص کوئی سرگوشی کرنے لگیں ان میں چوتھا اللہ تعالیٰ ہوتا ہے اور پانچ میں چھٹا وہ ہوتا ہے اور اس سے کم و بیش میں بھی جہاں وہ ہوں ، اللہ ان کے ساتھ ہوتا ہے اور تم کسی حال میں ہو یا تلاوت قرآن میں ہو یا تم اور کوئی کام میں لگے ہوئے ہو ہم تم پر شاہد ہوتے ہیں ‘ ۔ پس ان آیتوں میں ساتھ سے مراد سننے دیکھنے کا ساتھ ہے تقویٰ کے معنی ہیں حرام کاموں اور گناہ کے کاموں کو اللہ کے فرمان پر ترک کر دینے کے ۔ اور احسان کے معنی ہیں پروردگار کی اطاعت و عبادت کو بجا لانا ۔ جن لوگوں میں یہ دونوں صفتیں ہوں وہ اللہ تعالیٰ کی حفظ و امان میں رہتے ہیں ، جناب باری ان کی تائید اور مدد فرماتا رہتا ہے ۔ ان کے مخالفین اور دشمن ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے بلکہ اللہ تعالیٰ انہیں ان سب پر کامیابی عطا فرماتا ہے ۔ ابن ابی حاتم میں محمد بن حاطب رحمہ اللہ سے مروی ہے ” سیدنا عثمان رضی اللہ عنہا ان لوگوں میں سے تھے جو باایمان پرہیزگار اور نیک کار ہیں “ ۔ النحل
127 النحل
128 النحل
0 الإسراء
1 سرگزشت معراج کا تسلسل اللہ تعالیٰ اپنی ذات کی عزت و عظمت اور اپنی پاکیزگی و قدرت بیان فرماتا ہے کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ اس جیسی قدرت کسی میں نہیں ۔ وہی عبادت کے لائق اور صرف وہی ساری مخلوق کی پرورش کرنے والا ہے ۔ وہ اپنے بندے یعنی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ہی رات کے ایک حصے میں مکہ مکرمہ کی مسجد سے بیت المقدس کی مسجد تک لے گیا ۔ جو ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے زمانے سے انبیاء کرام علیہم السلام کا مرکز رہا ۔ اسی لیے تمام انبیاء علیہم السلام وہیں آپ کے پاس جمع کئے گئے اور آپ نے وہیں ان سب کی امامت کی ۔ جو اس امر کی دلیل ہے کہ امام اعظم اور رئیس مقدم آپ ہی ہیں ۔ صلوات اللہ وسلامہ علیہ و علیہم اجمعین ۔ اس مسجد کے اردگرد ہم نے برکت دے رکھی ہے ۔ پھل ، پھول ، کھیت باغات وغیرہ سے ۔ یہ اس لیے کہ ہمارا ارادہ اپنے اس محترم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی زبردست نشانیاں دکھانے کا تھا ۔ جو آپ نے اس رات ملاحظہ فرمائیں ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں ، مومنوں ، کافروں ، یقین رکھنے والوں اور انکار کرنے والوں سب کی باتیں سننے والا ہے اور سب کو دیکھ رہا ہے ۔ ہر ایک کو وہی دے گا ، جس کا وہ مستحق ہے ۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ۔ معراج کی بابت بہت سی حدیثیں ہیں جو اب بیان ہو رہی ہیں ۔ صحیح بخاری شریف میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ معراج والی رات جب کہ کعبۃ اللہ شریف سے آپ کو بلوایا گیا ، آپ کے پاس تین فرشتے آئے ، اس سے پہلے کہ آپ کی طرف وحی کی جائے ۔ اس وقت آپ بیت اللہ شریف میں سوئے ہوئے تھے ۔ ان میں سے ایک جو سب سے آگے تھا اس نے پوچھا کہ یہ ان سب میں سے کون ہیں ؟ درمیان والے نے جواب دیا کہ یہ ان سب میں بہترین ہیں ۔ تو سب سے اخیر والے نے کہا ۔ پھر ان کو لے چلو ۔ بس اس رات تو اتنا ہی ہوا ۔ پھر آب نے انہیں نہ دیکھا ۔ دوسری رات پھر یہ تینوں آئے ۔ اس وقت بھی آپ سو رہے تھے ۔ لیکن آپ کا سونا اس طرح کا تھا کہ آنکھیں سوتی تھیں اور دل جاگ رہا ہوتا ۔ تمام انبیاء کی نیند اسی طرح کی ہوتی ہے ۔ اس رات انہوں نے آپ سے کوئی بات نہ کی ۔ آپ کو اٹھا کر چاہِ زمزم کے پاس لٹا دیا اور آپ کا سینہ گردن تک خود جبرائیل علیہ السلام نے اپنے ہاتھ سے چاک کیا ۔ اور سینے اور پیٹ کی تمام چیزیں نکال کر اپنے ہاتھ سے دھوئیں ۔ جب خوب پاک صاف کر چکے تو آپ کے پاس سونے کا ایک طشت لایا گیا جس میں سونے کا ایک بڑا پیالہ تھا جو حکمت وایمان سے پر تھا ۔ اس سے آپ کے سینے کو اور گلے کی رگوں کو پر کر دیا گیا ۔ پھر سینے کو سی دیا گیا ۔ پھر آپ کو آسمان دنیا کی طرف لے چڑھے ۔ وہاں کے دروازوں میں سے ایک دروازے کو کھٹکھٹایا ۔ فرشتوں نے پوچھا کہ کون ہے ؟ آپ نے فرمایا جبرائیل ۔ پوچھا آپ کے ساتھ کون ہیں ؟ فرمایا میرے ساتھ محمد ہیں صلی اللہ علیہ وسلم پوچھا ۔ کیا آپ کو بلوایا گیا ہے جواب دیا کہ ” ہاں “ ، سب بہت خوش ہوئے اور مرحبا کہتے ہوئے آپ کو لے گئے ۔ آسمانی فرشتے بھی کچھ نہیں جانتے کہ زمین پر اللہ تعالیٰ کیا کچھ کرنا چاہتا ہے ۔ جب تک کہ انہیں معلوم نہ کرایا جائے ۔ آپ نے آسمان دنیا پر آدم علیہ السلام کو پایا ۔ جبرائیل علیہ السلام نے تعارف کرایا کہ ” یہ آپ کے والد آدم علیہ السلام ہیں انہیں سلام کیجئے “ ۔ آپ نے سلام کیا ۔ آدم علیہ السلام نے جواب دیا ، مرحبا کہا اور فرمایا ” آپ میرے بہت ہی اچھے بیٹے ہیں “ ۔ وہاں دو نہریں جاری دیکھ کر آپ نے جبرائیل علیہ السلام سے دریافت کیا کہ ” یہ نہریں کیا ہیں “ ؟ آپ نے جواب دیا کہ ” نیل اور فرات کا عنصر “ ۔ پھر آپ کو آسمان میں لے چلے ۔ آپ نے ایک اور نہر دیکھی ، جس پر لؤلؤ اور موتیوں کے بالاخانے تھے ، جس کی مٹی خالص مشک تھے ۔ پوچھا یہ کون سی نہر ہے ؟ جواب ملا کہ یہ نہر کوثر ہے ۔ جسے آپ کے پروردگار نے آپ کے لیے خاص طور پر مقرر کر رکھی ہے ۔ پھر آپ کو تیسرے آسمان پر لے گئے ۔ وہاں کے فرشتوں سے بھی وہی سوال جواب وغیرہ ہوئے ، جو آسمان اول پر اور دوسرے آسمان پر ہوئے تھے ۔ پھر آپ کو چوتھے آسمان پر چڑھایا گیا ۔ ان فرشتوں نے بھی اسی طرح پوچھا اور جواب پایا وغیرہ ۔ پھر پانچویں آسمان پر چڑھائے گئے ۔ وہاں بھی وہی کہا سنا گیا ، پھر چھٹے پر پھر ساتویں آسمان پر گئے ، وہاں بھی بات چیت ہوئی ۔ ہر آسمان پر وہاں کے نبیوں سے ملاقاتیں ہوئیں جن کے نام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائے جن میں سے مجھے یہ یاد ہیں کہ دوسرے آسمان میں ادریس علیہ السلام ، چوتھے آسمان میں ہارون علیہ السلام، پانچویں والے کا نام مجھے یاد نہیں ، چھٹے میں ابراہیم علیہ السلام اور ساتویں میں موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام ۔ جب آپ یہاں سے بھی اونچے چلے تو موسیٰ علیہ السلام نے کہا ” اے اللہ میرا خیال تھا کہ مجھ سے بلند تو کسی کو نہ کرے گا “ اب آپ اس بلندی پر پہنچے جس کا علم اللہ ہی کو ہے یہاں تک کہ سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچے اور اللہ تعالیٰ آپ سے بہت نزدیک ہوا ۔ بقدر دو کمان کے بلکہ اس سے کم فاصلے پر ۔ پھر اللہ کی طرف سے آپ کی جانب وحی کی گئی ۔ جس میں آپ کی امت پر ہر دن رات میں پچاس نمازیں فرض ہوئیں ۔ جب آپ وہاں سے اترے تو موسیٰ علیہ السلام نے آپ کو روکا اور پوچھا کیا حکم ملا ؟ فرمایا ” دن رات میں پچاس نمازوں کا “ ۔ کلیم اللہ علیہ السلام نے فرمایا ” یہ آپ کی امت کی طاقت سے باہر ہے ۔ آپ واپس جائیں اور کمی کی طلب کیجئے “ ۔ آپ نے جبرائیل علیہ السلام کی طرف دیکھا کہ گویا آپ ان سے مشورہ لے رہے ہیں ۔ ان کا بھی اشارہ پایا کہ ” اگر آپ کی مرضی ہو تو کیا حرج ہے “ ؟ آپ پھر اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف گئے اور اپنی جگہ ٹھہر کر دعا کی کہ ” اے اللہ ہمیں تخفیف عطا ہو ۔ میری امت اس کی طاقت نہیں رکھتی “ ۔ پس اللہ تعالیٰ نے دس نمازیں کم کر دیں ۔ پھر آپ واپس لوٹے ۔ موسیٰ علیہ السلام نے آپ کو پھر روکا اور یہ سن کر فرمایا ۔ جاؤ اور کم کراؤ ۔ آپ پھر گئے ، پھر کم ہوئیں ، یہاں تک کہ آخر میں پانچ رہ گئیں ۔ موسیٰ علیہ السلام نے پھر بھی فرمایا کہ ” دیکھو میں بنی اسرائیل میں اپنی عمر گزار کر آیا ہوں ۔ انہیں اس سے بھی کم حکم تھا لیکن پھر بھی وہ بے طاقت ثابت ہوئے اور اسے چھوڑ بیٹھے ۔ آپ کی امت تو ان سے بھی ضعیف ہے ، جسم کے اعتبار سے بھی اور دل ، بدن ، آنکھ کان کے اعتبار سے بھی ۔ آپ پھر جائیے اور اللہ تعالیٰ سے تخفیف کی طلب کیجئے ۔ آپ نے پھر حسب عادت جبرائیل علیہ السلام کی طرف دیکھا ۔ جبرائیل علیہ السلام آپ کو پھر اوپر لے گئے ، آپ نے اللہ تعالیٰ سے عرض کی کہ اے اللہ میری امت کے جسم ، دل ، کان آنکھیں اور بدن کمزور ہیں ۔ ہم سے اور بھی تخفیف کر ۔ اسی وقت اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اے محمد [ صلی اللہ علیہ وسلم ] آپ نے جواب دیا «لبیک وسعدیک» ، فرمایا : سن میری باتیں بدلتی نہیں جو میں نے اب مقرر کیا ہے یہی میں ام الکتاب میں لکھ چکا ہوں ۔ یہ پانچ ہیں پڑھنے کے اعتبار سے اور پچاس ہیں ثواب کے اعتبار سے ۔ جب آپ والپس آئے موسیٰ علیہ السلام نے کہا ، کہو سوال منظور ہوا ؟ آپ نے فرمایا ۔ ہاں کمی ہو گئی یعنی پانچ کا ثواب پچاس کا مل گیا ہر نیکی کا ثواب دس گنا عطا فرمایا جانے کا وعدہ ہو گیا ۔ موسیٰ علیہ السلام نے پھر فرمایا کہ میں بنی اسرائیل کا تجربہ کر چکا ہوں ، انہوں نے اس سے بھی ہلکے احکام کو ترک کر دیا تھا ، آپ پھر جائیے اور کمی طلب کیجئے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ اے کلیم اللہ میں گیا ، آیا ، اب تو مجھے کچھ شرم سی محسوس ہوتی ہے ۔ آپ نے فرمایا اچھا پھر تشریف لے جائیے ۔ بسم اللہ کیجئے ۔ اب جب آپ جاگے تو آپ مسجد الحرام میں ہی تھے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:7517) صحیح بخاری شریف میں یہ حدیث کتاب التوحید میں بھی ہے اور صفۃ النبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی ہے ۔ یہی روایت شریک بن عبداللہ بن ابو نمر سے مروی ہے لیکن انہوں نے اضطراب کر دیا ہے بوجہ اپنی کمزوری حافظہ کم بالکل ٹھیک ضبط نہیں رکھا ۔ ان احادیث کے آخر میں اس کا بیان آئے گا ۔ ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ بعض اسے واقعہ خواب بیان کرتے ہیں شاید اس جملے کی بنا پر جو اس کے آخر میں وارد ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» حافظ ابوبکر بیہقی رحمہ اللہ اس حدیث کے اس جملے کو جس میں ہے کہ پھر اللہ تبارک وتعالیٰ قریب ہوا اور اتر آیا بس بقدر دو کمان کے ہو گیا ۔ بلکہ اور نزدیک ۔ شریک نامی راوی کی وہ زیادتی بتاتے ہیں جس میں وہ منفرد ہیں ۔ اسی لیے بعض حضرات نے کہا کہ آپ نے اس رات اللہ عزوجل کو دیکھا ۔ لیکن سیدہ عائشہ ، سیدنا ابن مسعود ، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہم ان آیتوں کو اس پر محمول کرتے ہیں کہ آپ نے جرئیل علیہ السلام کو دیکھا ۔ یہی زیادہ صحیح ہے اور امام بیہقی رحمہ اللہ کا فرمان بالکل حق ہے اور روایت میں ہے کہ { جب آپ سے سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے سوال کیا کہ کیا آپ نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا ۔ وہ نور ہے ، میں اسے کیسے دیکھ سکتا ہوں ؟ اور روایت میں ہے کہ میں نے نور کو دیکھا ہے ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:178) یہ جو سورۃ النجم میں ہے «ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّیٰ» ’ یعنی پھر وہ نزدیک ہوا اور اتر آیا ۔ ‘ ۱؎ (53-النجم:8) اس سے مراد جبرائیل ہیں جیسے کہ ان تینوں بزرگ صحابیوں رضوان اللہ علیہم اجمعین کا بیان ہے ۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے تو کوئی اس آیت کی اس تفسیر میں ان کا مخالف نظر نہیں آتا ۔ مسند احمد میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میرے پاس براق لایا گیا ۔ جو گدھے سے اونچا اور خچر سے نیچا تھا ، جو ایک ایک قدم اتنی اتنی دور رکھتا تھا ، جتنی دور اس کی نگاہ پہنچے ۔ میں اس پر سوار ہوا وہ مجھے لے چلا ، میں بیت المقدس پہنچا اور اسی کنڈے میں اسے باندھ دیا ، جہاں انبیاء علیہ السلام باندھاہ کرتے تھے ، پھر میں نے مسجد میں جا کر دو رکعت نماز ادا کی ۔ جب وہاں سے نکلا تو جبرائیل علیہ السلام میرے پاس ایک برتن میں شراب لائے اور ایک میں دودھ ۔ میں نے دودھ کو پسند کر لیا ، جبرائیل نے فرمایا تم فطرت تک پہنچ گئے ۔ } پھر اوپر اولیٰ حدیث کی طرح آسمان اول پر پہنچنا ، اس کا کھلوانا ، فرشتوں کا دریافت کرنا ، جواب پانا ، ہر آسمان پر اسی طرح ہونا ، بیان ہے ۔ پہلے آسمان پر آدم علیہ السلام سے ملاقات ہوئی ، جہنوں نے مرحبا کہا اور دعائے خیر کی ۔ دوسرے آسمان پر یحییٰ اور عیسیٰ علیہما السلام سے ملاقات ہونے کا ذکر ہے ، جو دونوں آپس میں خالہ زاد بھائی بھائی تھے ۔ ان دونوں نے بھی آپ کو مرحبا کہا اور دعائے خیر دی ، پھر تیسرے آسمان پر یوسف علیہ السلام سے ملاقات ہوئی ، جنہیں آدھا حسن دیا گیا ہے ، آب نے بھی مرحبا کہا ، نیک دعا کی ، پھر چوتھے آسمان پر ادریس علیہ السلام سے ملاقات ہوئی ، جن کی بابت فرمان الٰہی ہے «وَرَفَعْنَاہُ مَکَانًا عَلِیًّا» ۱؎ (19-مریم:57) ’ ہم نے اسے اونچی جگہ اٹھا لیا ہے ۔ ‘ پانچویں آسمان پر ہارون علیہ السلام سے ملاقات ہوئی ، چھٹے آسمان پر موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی ، ساتویں آسمان پر ابراہیم علیہ السلام کو بیت المعمور سے تکیہ لگائے بیٹھے ہوئے دیکھا ۔ بیت المعمور میں ہر روز ستر ہزار فرشتے جاتے ہیں ، مگر جو آج گئے ان کی باری پھر قیامت تک نہیں آنے کی ۔ پھر سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچے ، جس کے پتے ہاتھی کے کانوں کے برابر تھے اور جس کے پھل مٹکے جیسے ۔ اسے امر رب نے ڈھک رکھا تھا ، اس خوبی کا کوئی بیان نہیں کر سکتا ۔ پھر وحی ہونے کا اور پچاس نمازوں کے فرض ہونے کا اور موسیٰ علیہ السلام کے مشورہ سے واپس جا جا کر کمی کرا کرا کر پانچ تک پہنچنے کا بیان ہے ۔ اس میں ہر بار کے سوال پر پانچ کی کمی کا ذکر ہے ۔ اس میں یہ بھی ہے کہ { آخر میں آپ سے فرمایا کیا جو نیکی کا ارادہ کرے گو وہ عمل میں نہ آئے تاہم اسے ایک نیکی کا ثواب مل جاتا ہے اور اگر کرلے تو دس نیکیوں کا ثواب ملتا ہے اور گناہ کے صرف ارادے سے گناہ نہیں لکھا جاتا اور کر لینے سے ایک ہی گناہ لکھا جاتا ہے- } ۱؎ (صحیح مسلم:162) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس رات آپ کو اسراء بیت اللہ سے بیت المقدس تک ہوا اسی رات معراج بھی ہوئی اور یہی حق ہے جس میں کوئی شک و شبہ نہیں ۔ مسند احمد میں ہے کہ { براق کی لگام بھی تھی اور زین بھی تھی ۔ جب وہ سواری کے وقت کسمسایا تو جبرائیل علیہ السلام نے کہا کیا کر رہا ہے ؟ واللہ تجھ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے ، آپ سے زیادہ بزرگ شخص کوئی سوار نہیں ہوا ۔ پس براق پسینہ پسینہ ہو گیا ۔ } ۱؎ (سنن ترمذی:3131،قال الشیخ الألبانی:صحیح) سرگزشت معراج { آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب مجھے میرے رب عزوجل کی طرف چڑھایا گیا تو میرا گزر ایسے لوگوں پر ہوا جن کے تانبے کے ناخن تھے ، جن سے وہ اپنے جہروں اور سینوں کو نوچ اور چھیل رہے تھے ۔ میں نے دریافت کیا کہ یہ کون لوگ ہیں ؟ تو جواب دیا گیا کہ وہ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے تھے اور ان کی عزت وآبرو کے درپے رہتے تھے ۔ } ۱؎ (سنن ابوداود:4878،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابوداؤد میں ہے کہ { معراج والی رات جب میں موسیٰ علیہ السلام کی قبر سے گزرا تو میں نے انہیں وہاں نماز میں کھڑا پایا ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:2375) { سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ سے مسجد اقصٰی کے نشانات پوچھے آپ نے بتانے شروع کئے ہی تھے کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کہنے لگے ، آپ بجا ارشاد فرما رہے ہیں اور سچے ہیں ۔ میری گواہی ہے کہ آپ رسول اللہ ہیں ۔ } ۱؎ (مسند ابویعلیٰ:1329:صحیح) سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسے دیکھ رکھا تھا ۔ مسند بزار میں ہے { آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں سویا ہوا تھا کہ جبرائیل علیہ السلام آئے اور میرے دونوں شانوں کے درمیان ہاتھ رکھ دیا ۔ پس میں کھڑا ہو کر ایک درخت میں بیٹھ گیا جس میں پرندوں کے مکان جیسے تھے ایک میں جبرائیل علیہ السلام بیٹھ گئے وہ درخت پھول گیا اور اونچا ہونا شروع ہوا یہاں تک کہ اگر میں چاہتا تو آسمان کو چھو لیتا ۔ میں تو اپنی چادر ٹھیک کر رہا تھا ، لیکن میں نے دیکھا کہ جبرائیل علیہ السلام سخت تواضع اور فروتنی کے عالم میں ہیں ، تو میں جان گیا کہ اللہ کی معرفت کے علم میں یہ مجھ سے افضل ہیں ، آسمان کا ایک دروازہ میرے لیے کھولا گیا ۔ میں نے ایک زبردست عظیم الشان نور دیکھا ، جو حجاب میں تھا اور اس کے اس طرف یاقوت اور موتی تھے ، پھر میری جانب بہت کچھ وحی کی گئی ۔ } ۱؎ (بزار کشف الاستار:47/1) دلائل بیہقی میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کی جماعت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ جبرائیل علیہ السلام آئے اور آپ کی پیٹھ کو انگلی سے اشارہ کیا ، آپ ان کے ساتھ ایک درخت کی جانب چلے جس میں پرندوں کے گھونسلے جیسے تھے الخ اس میں یہ بھی ہے کہ جب ہماری طرف نور اترا تو جبرائیل علیہ السلام تو بیہوش ہو کر گر پڑے الخ پھر میری جانب وحی کی گئی کہ نبی اور بادشاہ بننا چاہتے ہو ؟ یا نبی اور بندہ بننا چاہتے ہو اور جنتی ؟ جبرائیل علیہ السلام نے اسی طرح تواضع سے گرے ہوئے ، مجھے اشارے سے فرمایا کہ تواضع اختیار کرو ، تو میں نے جواب دیا کہ اے اللہ میں نبی اور بندہ بننا منظور کرتا ہوں ۔ } ۱؎ (مجمع الزوائد:18252:ضعیف و مرسل) اگر یہ روایت صحیح ہو جائے تو ممکن ہے کہ یہ واقعہ معراج کے سوا اور ہو کیونکہ اس میں نہ بیت المقدس کا ذکر ہے نہ آسمان پر چڑھنے کا ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» بزار کی ایک روایت میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب عزوجل کو دیکھا لیکن یہ روایت غریب ہے } ۔ ۱؎ (ضعیف) ابن جریر میں ہے کہ { براق نے جب جبرائیل کی بات سنی اور پھر وہ آپ کو سوار کرا کر کے لے چلا تو آپ نے راستے کے ایک کنارے پر ایک بڑھیا کو دیکھا پوچھا یہ کون ہے ؟ جواب ملا کہ چلے چلئے ۔ پھر آپ نے چلتے چلتے دیکھا کہ کوئی راستے سے یکسو ہے اور آپ کو بلا رہی ہے پھر آپ آگے بڑھے تو دیکھ کہ اللہ کی ایک مخلوق ہے اور باآواز بلند کہہ رہی ہے «السلام علیک یا اول السلام علیک یا اخر السلام علیک یا حاشر» ، جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا جواب دیجئیے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سلام کا جواب دیا ۔ پھر دوبارہ ایسا ہی ہوا ، پھر تیسری مرتبہ بھی یہی ہوا ، یہاں تک کہ آپ بیت المقدس پہنچے ۔ وہاں آپ کے سامنے پانی ، شراب اور دودھ پیش کیا گیا ، آپ نے دودھ لے لیا جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا آپ نے راز فطرت پالیا ۔ اگر آپ پانی کے برتن لے کر پی لیتے تو آب کی امت غرق ہو جاتی اور اگر آپ شراب پی لیتے تو آپ کی امت بہک جاتی ۔ پھر آپ کے لیے آدم علیہ السلام سے لے کر آپ کے زمانے تک کے تمام انبیاء بھیجے گئے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی امامت کرائی اور اس رات نماز سب نے آپ کی اقتداء میں پڑھی ۔ پھر جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا راستے کے کنارے جس بڑھیا کو آپ نے دیکھا تو وہ گویا یہ دکھایا گیا کہ دنیا کی عمر اب صرف اتنی ہی باقی ہے جیسے اس بڑھیا کی عمر اور جس کی آواز پر آپ تو جہ کرنے والے تھے وہ دشمن اللہ ابلیس تھا اور جن کی سلام کی آوازیں آب نے سنیں وہ ابراہیم علیہ السلام ، موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام تھے ۔ } ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:22020:ضعیف) اس میں بھی بعض الفاظ میں غرابت ونکارت ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اور روایت میں ہے کہ { جب میں براق پر جبرائیل علیہ السلام کی معیت میں چلا تو ایک جگہ انہوں نے مجھ سے فرمایا یہیں اتر کے نماز ادا کیجئے جب میں نماز پڑھ چکا تو فرمایا ۔ جانتے ہو کہ یہ کون سی جگہ ہے ؟ یہ طیبہ [ یعنی مدینہ ] ہے یہی ہجرت گاہ ہے ۔ پھر ایک اور جگہ مجھ سے نماز پڑھوائی اور فرمایا ” یہ طور سینا ہے ، جہاں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے کلام کیا ۔ پھر ایک اور جگہ نماز پڑھوا کر فرمایا ۔ یہ بیت لحم ہے جہاں عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے پھر میں بیت المقدس پہنچا ۔ وہاں تمام انبیاء علیہم السلام جمع ہوئے ، جبرائیل علیہ السلام نے مجھے امام بنایا ۔ میں نے امامت کی ، پھر مجھے آسمان کی طرف چڑھالے گئے پھر آپ کا ایک ایک آسمان پر پہنچنا ، وہاں پیغمبروں سے ملنا مذکور ہے ۔ فرماتے ہیں جب میں سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچا تو مجھے ایک نوارنی ابر نے ڈھک لیا میں اسی وقت سجدے میں گر پڑا ، پھر آپ پر پچاس نمازوں کا فرض ہونا اور کم ہونا وغیرہ کا بیان ہے ۔ آخر میں موسیٰ علیہ السلام کے بیان میں ہے کہ میری امت پر تو صرف دو نمازیں مقرر ہوئی تھیں لیکن وہ انہیں بھی نہ بجا لائے ۔ آپ پھر پانچ سے بھی کمی چاہنے کے لیے گئے تو فرمایا گیا کہ میں نے تو آسمان و زمین کی پیدائش والے دن ہی تجھ پر اور تیری امت پر یہ پانچ نمازیں مقرر کر دی تھیں ۔ یہ پڑھنے میں پانچ ہیں اور ثواب میں پچاس ہیں ۔ پس تو اور تیری امت اس کی حفاظت کرنا آپ فرماتے ہیں اب مجھے یقین ہو گیا کہ اللہ کا یہی حکم ہے ۔ پھر جب میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس پہنچا تو آپ نے مجھے پھر واپس لوٹنے کا مشورہ دیا لیکن چونکہ میں معلوم کر چکا تھا کہ اللہ تعالیٰ کا یہ حتمی حکم ہے ، اس لیے میں پھر اللہ کے پاس نہ گیا } ۔ ۱؎ (سنن نسائی:451،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابن ابی حاتم میں بھی معراج کے واقعہ کی مطول حدیث ہے ۔ اس میں یہ بھی ہے کہ { جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیت المقدس کی مسجد کے پاس اس دروازے پر پہنچے جسے باب محمد [ صلی اللہ علیہ وسلم ] کہا جاتا ہے وہیں ایک پتھر تھا جسے جبرائیل علیہ السلام نے اپنی انگلی لگائی تو اس میں سوراخ ہو گیا ، وہیں آپ نے براق کو باندھا اور مسجد پر چڑھ گئے ۔ بیچوں بیچ پہنچ جانے کے بعد جبرائیل علیہ السلام نے کہا آپ نے اللہ تعالیٰ سے یہ آرزو کی ہے کہ وہ آپ کو حوریں دکھائے ؟ آپ نے فرمایا ہاں ، کہا آئیے ، وہ یہ ہیں ” سلام کیجئے “ وہ صخرہ کے بائیں جانب بیٹھی ہوئی تھیں ، میں نے وہاں پہنچ کر انہیں سلام کیا ، سب نے میرے سلام کا جواب دیا ، میں نے پوچھا ، تم سب کون ہو ؟ انہوں نے کہ ہم نیک سیرت ، خوبصورت ، حوریں ہیں ہم بیویاں ہیں اللہ کے پرہیز گار بندوں کی جو نیک کار ہیں ، جو گناہوں کے میل کچیل سے دور ہیں ، جو پاک کرکے ہمارے پاس لائے جائیں گے پھر نہ نکالے جائیں گے ہمارے پاس ہی رہیں گے ، کبھی جدا نہ ہوں گے ہمیشہ زندہ رہیں گے کبھی نہ مریں گے ۔ میں ان کے پاس سے چلا آیا ۔ وہیں لوگ جمع ہونے شروع ہو گئے اور ذرا سی دیر میں بہت سے آدمی جمع ہو گئے ۔ مؤذن نے اذان کہی تکبیر ہوئی اور ہم سب کھڑے ہو گئے ۔ منتظر تھے کہ امامت کون کرائے گا ؟ جو جبرائیل علیہ السلام نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے آگے کردیا ۔ میں نے انہیں نماز پڑھائی جب فارغ ہوا تو جبرائیل علیہ السلام نے کہا جانتے بھی ہو کن کو آپ نے نماز پڑھائی ؟ میں نے کہا نہیں فرمایا آپ کے پیچھے آپ کے یہ سب مقتدی اللہ کے پیغمبر تھے ۔ جنہیں اللہ تعالیٰ مبعوث فرما چکا ہے ۔ پھر میرا ہاتھ تھام کر آسمان کی طرف لے چلے ۔ پھر بیان ہے کہ آسمانوں کے دروازے کھلوائے ۔ فرشتوں نے سوال کیا ۔ جواب پاکر دروازے کھولے وغیرہ ۔ پہلے آسمان پر آدم علیہ السلام سے ملاقات ہوئی انہوں نے فرمایا : ” میرے بیٹے اور نیک نبی کو مرحبا ہو “ ۔ اس میں چوتھے آسمان پر ادریس علیہ السلام سے ملاقات کرنے کا ذکر بھی ہے ۔ ساتویں آسمان پر ابراہیم علیہ السلام سے ملنے اور ان کے بھی وہی فرمانے کا ذکر ہے جو آدم علیہ السلام نے فرمایا تھا ۔ { پھر مجھے وہاں سے بھی اونچا لے گئے ۔ میں نے ایک نہر دیکھی ، جس میں لؤلؤ یاقوت اور زبرجد کے جام تھے اور بہترین ، خوش رنگ ، سبز پرند تھے ۔ میں نے کہا یہ تو نہایت ہی نفیس پرند ہیں ۔ جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا ہاں ” ان کے کھانے والے ان سے بھی اچھے ہیں “ پھر فرمایا معلوم بھی ہے ؟ میں نے کہا نہیں فرمایا ” وہ نہر کوثر ہے جو اللہ نے آپ کو عطا فرما رکھی ہے “ اس میں سونے چاندی کے آبخورے تھے جو یاقوت و زمرد سے جڑاؤ تھے ۔ اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید تھا ۔ میں نے ایک سونے کا پیالہ لے کر پانی بھر کر پیا تو وہ شہد سے بھی زیادہ میٹھا تھا اور مشک سے بھی زیادہ خوشبودار تھا ۔ جب میں اس سے بھی اوپر پہنچا تو ایک نہایت خوش رنگ بادل نے مجھے آگھیرا جس میں مختلف رنگ تھے ، جبرائیل علیہ السلام نے تو مجھے چھوڑ دیا اور میں اللہ کے سامنے سجدے میں گر پڑا ۔ پھر پچاس نمازوں کے فرض ہونے کا بیان ہے ۔ پھر آپ واپس ہوئے ، ابراہیم علیہ السلام نے تو کچھ نہ فرمایا لیکن موسیٰ علیہ السلام نے آپ کو سمجھا بجھا کر واپس طلب تخفیف کے لیے بھیجا ، الغرض اسی طرح آپ کا باربار آنا ، بادل میں ڈھک جانا دعا کرنا ، تخفیفی ہونا ، ابراہیم علیہ السلام سے ملتے ہوئے آنا اور موسیٰ علیہ السلام سے بیان کرنا ہاں تک کہ پانچ نمازوں کا رہ جانا وغیرہ بیان ہے ۔ } { آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں پھر مجھے جبرائیل علیہ السلام لے کر نیچے اترے میں نے ان سے پوچھا کہ جس آسمان پر میں پہنچا وہاں کے فرشتوں نے خوشی ظاہر کی ہنس ہنس کر مسکراتے ہوئے مجھ سے ملے بجز ایک فرشتے کے کہ اس نے میرے سلام کا جواب تو دیا مجھے مرحبا بھی کہا لیکن مسکرائے نہیں یہ کون ہیں اس کی وجہ کیا ہے ؟ جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا ۔ وہ مالک ہیں ۔ جہنم کے داروغہ ہیں ، اپنے پیدا ہونے سے لے کر آج تک وہ ہنسے ہی نہیں اور قیامت تک ہنسیں گے بھی نہیں کیونکہ ان کی خوشی کا یہی ایک بڑا موقعہ تھا ۔ واپسی میں قریشیوں کے ایک قافلے کو دیکھا جو غلہ لا دے جا رہا تھا ، اس میں ایک اونٹ تھا جس پر ایک سفید اور ایک سیاہ بورا تھا ، جب آپ اس کے قریب سے گزرے تو وہ چمک گیا اور مڑ گیا اور گر پڑا اور لنگڑا ہو گیا اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جگہ پہنچا دئے گئے ۔ صبح ہوتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اس معراج کا ذکر لوگوں سے کیا ۔ مشرکوں نے جب یہ سنا تو وہ سیدھے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے اور کہنے لگے لو تمہارے پیغمبر صاحب تو کہتے ہیں کہ وہ آج کی ایک ہی رات میں مہینہ بھر کے فاصلے کے مقام تک ہو آئے ۔ آپ نے جواب دیا کہ اگر فی الواقع آپ نے یہ فرمایا ہو تو آپ سچے ہیں ، ہم تو اس سے بھی بڑی بات میں آپ کو سچا جانتے ہیں ۔ ہم مانتے ہیں کہ آپ کو آن کی آن میں آسمان سے خبریں پہنچتی ہیں ۔ مشرکوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپ کی سچائی کی کوئی علامت بھی آپ پیش کر سکتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا ہاں میں نے راستے میں فلاں فلاں جگہ قریش کا قافلہ دیکھا ۔ ان کا ایک اونٹ جس پر سفید و سیاہ رنگ کے دو بورے ہیں ، وہ ہمیں دیکھ کر بھڑ کا ، گھوما اور چکر کھا کر گر پڑا اور ٹانگ ٹوٹ گئی جب وہ قافلہ آیا لوگوں نے ان سے جا کر پوچھا کہ راستے میں کوئی نئی بات تو نہیں ہوئی ؟ انہوں نے کہا ہاں ہوئی ۔ فلاں اونٹ فلاں جگہ اس طرح گرا وغیرہ ۔ کہتے ہیں سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ کی اسی تصدیق کی وجہ سے انہیں صدیق کہا گیا ہے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے لوگوں نے سوال کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں موسیٰ علیہ السلام تو گندم گوں رنگ کے ہیں ، جیسے ازدعمان کے آدمی ہوتے ہیں اور عیسیٰ علیہ السلام درمیانہ قد کے کچھ سرخی مائل رنگ کے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا ان کے لبوں سے پانی کے قطرے ٹپک رہے ہیں ۔ } ۱؎ (ضعیف) اس سیاق میں بھی عجائب وغرائب ہیں ۔ مسند احمد میں ہے ، { میں [ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ] حطیم میں سویا ہوا تھا ، اور روایت میں صخر میں سویا ہوا تھا کہ آنے والا آیا ۔ ایک نے درمیان والے سے کہا اور وہ میرے پاس آیا اور یہاں سے یہاں تک چاک کر ڈالا یعنی گلے کے پاس سے ناف تک ۔ پھر مندرجہ بالا احادیث کے مطابق بیان ہے اس میں ہے کہ چھٹے آسمان پر موسیٰ علیہ السلام سے میں نے سلام کیا ۔ آپنے جواب دیا اور فرمایا نیک بھائی اور نیک نبی کو مرحبا ہو ۔ جب میں وہاں سے آگے پڑھ گیا تو آپ رو دئے ۔ پوچھا گیا کیسے روئے ؟ جواب دیا کہ اس لیے کو جو بچہ میرے بعد نبی بنا بھیجا گیا ، اس کی امت بہ نسبت میری امت کے جنت میں زیادہ تعداد میں جائے گی ۔ اس میں ہے کہ سدرۃ المنتہیٰ کے پاس چار نہریں دیکھیں دو ظاہر اور دو باطن میں ۔ میں نے جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا ، آپ نے مجھے بتلایا کہ باطنی تو جنت کی نہریں ہیں اور ظاہری نیل و فرات ہیں ۔ پھر میری جانب بیت المعمور بلند کیا گیا ۔ پھر میرے پاس شراب کا ، دودھ کا اور شہد کا برتن آیا ۔ میں نے دودھ کا برتن لے لیا ۔ فرمایا : ” یہ فطرت ہے جس پر تو ہے اور تیری امت “ ۔ اس میں ہے کہ جب پانچ نمازیں ہی رہ گئیں اور پھر بھی کلیم اللہ علیہ السلام نے واپسی کا مشورہ دیا تو آپ نے فرمایا میں تو اپنے رب سے سوال کرتے کرتے شرما گیا ۔ اب میں راضی ہوں اور تسلیم کر لیتا ہوں ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:3207) اور روایت میں ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میرے گھر کی چھت کھول دی گئی میں اس وقت مکہ میں تھا الخ ۔ اس میں ہے کہ جب میں جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ آسمان دنیا پر چڑھا تو میں نے دیکھا کہ ایک صاحب بیٹھے ہوئے ہیں ، جن کے دائیں بائیں بری بڑی جماعت ہے وہ داہنی جانب دیکھ کر مسکرا دیتے ہیں اور ہنسنے لگتے ہیں اور جب بائیں جانب نگاہ اٹھتی ہے تو رو دیتے ہیں ۔ میں نے جبرائیل علیہ السلام سے دریافت کیا کہ یہ کون ہیں ؟ اور ان کے دائیں بائیں کون ہیں ؟ فرمایا یہ آدم علیہ السلام ہیں اور یہ ان کی اولاد ہے ، دائیں جانب والے جنتی ہیں اور بائیں جانب والے جہنمی ہیں ، انہیں دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور انہیں دیکھ کر رنجیدہ ۔ } اس روایت میں ہے کہ { ابراہیم علیہ السلام سے چھٹے آسمان پر ملاقات ہوئی ۔ اس میں ہے کہ ساتویں آسمان سے میں اور اونچا پہنچایا گیا مستوی میں پہنچ کر میں نے قلموں کے لکھنے کی آوازیں سنیں ۔ اس میں ہے کہ جب موسیٰ علیہ السلام کے مشورے سے میں طلب تخفیف کے لیے گیا تو اللہ نے آدھی معاف فرما دیں ۔ پھر گیا ، پھر آدھی معاف ہوئی ، پھر گیا تو پانچ مقرر ہوئیں ۔ اس میں ہے کہ سدرۃ المنتہیٰ سے ہو کر میں جنت میں پہنچایا گیا ۔ جہاں سچے موتیوں کے خیمے تھے اور جہاں کی مٹی مشک خالص تھی ۔} ۱؎ (صحیح بخاری:349) یہ پوری حدیث صحیح بخاری شریف کی کتاب الصلوۃ میں ہے اور ذکر بنی اسرائیل میں بھی ہے اور بیان حج میں اور احادیث انبیاء میں بھی ہے ۔ امام مسلم نے صحیح مسلم کتاب الایمان میں بھی وارد فرمائی ہے ۔ مسند احمد میں { عبداللہ بن ثیقق رحمہ اللہ نے سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتا تو کم از کم ایک بات تو ضرور پوچھ لیتا آپ نے دریافت فرمایا کیا بات ؟ کہا یہی کہ کیا آپ نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے ؟ تو سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ تو میں نے آپ سے پوچھا تھا آپ نے جواب دیا کہ میں نے اسے نور دیکھا ۔ میں اسے کیسے دیکھ سکتا ہوں ؟ } ۱؎ (صحیح مسلم:291،292) اور روایت میں ہے کہ { وہ نور ہے ، میں اسے کہاں سے دیکھ سکتا ہوں } ؟ ۱؎ (صحیح مسلم:178) ایک اور روایت میں ہے کہ { میں نے نور دیکھا ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:178) بخاری و مسلم میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب میں نے معراج کے واقعہ کا لوگوں سے ذکر کیا اور قریش نے جھٹلایا ، میں اس وقت حطیم میں کھڑا ہوا تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس میری نگاہوں کے سامنے لا دیا اور اسے بالکل ظاہر کر دیا ۔ اب جو نشانیاں وہ مجھ سے پوچھتے تھے میں دیکھتا جاتا تھا اور بتاتا جاتا تھا ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:3886) بیہقی میں ہے کہ { بیت المقدس میں آپ نے ابراہیم علیہ السلام ، موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام سے ملاقات کی ۔ اس میں ہے کہ جب واپس آکر لوگوں میں یہ قصہ بیان فرمایا تو بہت سے لوگ فتنے میں پڑ گئے ، جنہوں نے آپ کے ساتھ نماز پڑھی تھی ۔ کفار قریش کی جماعت اسی وقت دوڑی بھاگی ، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچی اور کہنے لگے لو اور سنو آج تو تمہارے ساتھی ایک عجیب خبر سنا رہیں ، کہتے ہیں ایک ہی رات میں وہ بیت المقدس سے ہو کر بھی آ گئے ۔ آپ نے فرمایا اگر وہ فرماتے ہیں تو سچ ہے ۔ واقعی ہو آئے ہیں انہوں نے نے کہا یعنی تم اسے بھی مانتے ہو کہ رات کو جائے اور صبح سے پہلے ملک شام سے واپس مکہ پہنچ جائے ؟ آپ نے فرمایا اس بھی زیادہ بڑی بات کو میں اس سے بہت پہلے سے مانتا چلا آیا ہوں ۔ یعنی میں مانتا ہو کہ ان کے پاس آسمان سے خبریں آتی ہیں اور وہ ان تمام میں سچے ہیں ۔ اسی وقت سے آپ کا لقب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہوا ۔ ۱؎ (دلائل النبوہ للبیہقی:359/2:ضعیف) مسند احمد میں ہے زربی حبیش رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کے پاس آیا ، اس وقت آپ معراج کا واقعہ بیان فرا رہے تھے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہم چلے یہاں تک کہ بیت المقدس پہنچے ، دونوں صاحب اندر نہیں گئے ، میں نے یہ سنتے ہی کہا ، غلط ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اندر گئے بلکہ اس رات آپ نے وہاں نماز بھی پڑھی ، آپ نے فرمایا تیرا کیا نام ہے ، میں تجھے جانتا ہوں لیکن نام یاد نہیں پڑتا ۔ میں نے کہا میرا نام زر بن جیش [ رضی اللہ عنہ ] ہے فرمایا تم نے یہ بات کیسے معلوم کر لی ؟ میں نے کہا یہ تو قرآن کی خبر ہے ۔ آپ نے فرمایا جس نے قرآن سے بات کہی اس نے نجات پائی ۔ پڑھئے وہ کون سی آیت ہے تو میں نے «سُبْحَانَ الَّذِی» کی یہ آیت «سُبْحَانَ الَّذِی أَسْرَیٰ بِعَبْدِہِ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَی الْمَسْجِدِ الْأَقْصَی الَّذِی بَارَکْنَا حَوْلَہُ لِنُرِیَہُ مِنْ آیَاتِنَا ۚ إِنَّہُ ہُوَ السَّمِیعُ الْبَصِیرُ» ۱؎ پڑھی ۔ (17-الإسراء:1) آپ نے فرمایا اس میں کس لفظ کے معنی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں نماز ادا کی ؟ ورنہ آپ نے اس رات وہاں نماز نہیں پڑھی اور اگر پڑھ لتیے تو تم پر اسی طرح وہاں کی نماز لکھ دی جاتی ۔ جس طرح بیت اللہ کی ہے ۔ واللہ وہ دونوں براق پر ہی رہے یہاں تک کہ آسمان کے دروازے ان کے لیے کھل گئے ، پس جنت دوزخ دیکھ لی اور آخرت کے وعدے کی اور تمام چیزین بھی ۔ پھر ویسے کے ویسے ہی لوٹ آئے ۔ پھر آپ خوب ہنسے اور فرمانے لگے مزہ تو یہ ہے کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ وہاں آپ نے براق باندھا کہ کہیں بھاگ نہ جائے ۔ حالانکہ عالم الغیب و الشہادۃ اللہ عالم نے اسے آپ کے لیے مسخر کیا تھا ۔ میں نے پوچھا کیوں جناب یہ براق کیا ہے ؟ کہا ایک جانور ہے سفید رنگ لانبے قد کا جو ایک ایک قدم اتنی اتنی دور رکھتا ہے ، جتنی دور نگاہ کام کرے ۔ } ۱؎ (سنن ترمذی:3147،قال الشیخ الألبانی:حسن) لیکن یہ یاد رہے کہ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کے محض انکار سے وہ روایتیں جن میں بیت المقدس کی نماز کا ثبوت ہے وہ مقدم ہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» حافظ ابوبکر بیہقی رحمہ اللہ کی کتاب دلائل النبوۃ میں ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے معراج کے واقعہ کے ذکر کی درخواست کی تو { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے تو یہی آیت «سُبْحَانَ الَّذِی أَسْرَیٰ بِعَبْدِہِ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَی الْمَسْجِدِ الْأَقْصَی الَّذِی بَارَکْنَا حَوْلَہُ لِنُرِیَہُ مِنْ آیَاتِنَا ۚ إِنَّہُ ہُوَ السَّمِیعُ الْبَصِیرُ» ۱؎ (17-الإسراء:1) کی تلاوت فرمائی اور فرمایا کہ میں عشاء کے بعد مسجد میں سویا ہوا تھا ، جو ایک آنے والے نے آ کر مجھے جگایا میں اٹھ بیٹھا لیکن کوئی نظر نہ پڑا ، ہاں کچھ جانور سا نظر آیا ، میں نے غور سے اسے دیکھا اور برابر دیکھتا ہوا مسجد کے باہر چلا گیا تو مجھے ایک عجیب جانور نظر پڑا ہمارے جانوروں میں سے تو اس کے کچھ مشابہ خچر ہے ۔ ہلتے ہوئے اور اوپر کو اٹھے ہوئے کانوں والا تھا ۔ } { اس کا نام براق ہے مجھ سے پہلے کے انبیاء بھی اسی پر سوار ہوتے رہے ، میں اس پر سوار ہو کر چلا ہی تھا کہ میری دائیں جانب سے کسی نے آواز دی کہ محمد [ صلی اللہ علیہ وسلم ] میری طرف دیکھ میں تجھ سے کچھ پوچھوں گا ۔ لیکن نہ میں نے جواب دیا نہ ٹھیرا ۔ پھر کچھ آگے گیا کہ ایک عورت دنیا بھر کی زینت کئے ہوئے باہیں کھولے کھڑی ہوئی ہے ، اس نے مجھے اسی طرح آواز دی کہ میں کچھ دریافت کرنا چاہتی ہوں لیکن میں نے نہ اس کی طرف التفات کیا ، نہ ٹھیرا ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بیت المقدس پہنچنا ، دودھ کا برتن لینا اور جبرائیل علیہ السلام کے فرمان سے خوش ہو کر دد دفعہ تکبیر کہنا ہے ۔ پھر جبرائیل علیہ السلام نے پوچھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر فکر کیسے ہے ؟ میں نے وہ دونوں واقعے راستے کے بیان کئے تو آپ نے فرمایا کہ پہلا شخص تو یہود تھا اگر آپ اسے جواب دیتے یا وہاں ٹھہرتے تو آپ کی امت یہود ہو جاتی ۔ دوسرا نصرانیوں کا دعوت دینے والا تھا وہاں ٹھہرتے تو آپ کی امت دنیا کو آخرت پر ترجیح دے کر گمراہ ہو جاتی ۔ پھر میں اور جبرائیل علیہ السلام بیت المقدس میں گئے ہم دونوں نے دو دو رکعتیں ادا کیں پھر ہمارے سامنے معراج لائی گئی جس سے بنی آدم کی روحیں چڑھتی ہیں دنیا نے ایسی اچھی چیز کبھی نہیں دیکھی تم نہیں دیکھتے کہ مرنے والے کی آنکھیں آسمان کی طرف چڑھ جاتی ہیں یہ اسی سیڑھی کو دیکھتے ہوئے تعجب کے ساتھ ۔ ہم دونوں اوپر چڑھ گئے میں نے اسماعیل نامی فرشتے سے ملاقات کی جو آسمان دنیا کا سردار ہے جس کے ہاتھ تلے ستر ہزار فرشتے ہیں ، جن میں سے ہر ایک فرشتے کے ساتھ اس کے لشکری فرشتوں کی تعداد ایک لاکھ ہے ۔ فرمان الٰہی ہے تیرے رب کے لشکروں کو صرف وہی جانتا ہے ۔ جبرائیل علیہ السلام نے اس آسمان کا دروازہ کھلوانا چاہا ، پوچھا گیا کون ہے ؟ کہا جبرائیل [ علیہ السلام ] ، پوچھا گیا آپ کے ساتھ اور کون ہیں ؟ بتلایا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہا گیا کہ کیا ان کی طرف بھیجا گیا تھا ؟ جواب دیا کہ ہاں ، وہاں میں نے آدم علیہ السلام کو دیکھا ، اسی ہیئت میں ، جس میں وہ اس دن تھے جس دن اللہ تعالیٰ نے انہیں پیدا کیا تھا ۔ ان کی اصلی صورت پر ۔ ان کے سامنے ان کی اولاد کی روحیں پیش کی جاتی ہیں ۔ نیک لوگوں کی روحوں کو دیکھ کر فرماتے ہیں پاک روح ہے اور جسم بھی پاک ہے ۔ اسے علیین میں لے جاؤ اور بدکاروں کی روحوں کو دیکھ کر فرماتے ہیں ۔ خبیث روح جسم بھی خبیث ہے ۔ اسے سجین میں لے جاؤ ۔ کچھ ہی چلا ہوں گا جو میں نے دیکھا کہ خوان لگے ہوئے ہیں جن پر نہایت نفیس گوشت بھنا ہوا ہے اور دوسری جانب اور خوان لگے ہوئے ہیں جن پر بدبودار سڑا بسا گوشت رکھا ہوا کچھ لوگ ہیں جو عمدہ گوشت کے تو پاس بھی نہیں آتے اور اس سڑے ہوئے گوشت کو کھا رہے ہیں ۔ میں نے پوچھا جرئیل علیہ السلام یہ کون لوگ ہیں ؟ جواب دیا کہ آپ کی امت کے وہ لوگ ہیں جو حلال کو چھوڑ کر حرام کی رغبت کرتے تھے ۔ } { پھر میں کچھ اور چلا تو کچھ اور لوگوں کو دیکھا کہ ان کے ہونٹ اونٹ کی طرح کے ہیں ، ان کے منہ پھاڑ پھاڑ کر فرشتے انہیں اس گوشت کم لقمے دے رہے ہیں جو ان کے دوسرے راستے سے واپس نکل جاتا ہے وہ چیخ چلا رہے ہیں اور اللہ کے سامنے عاجزی کر رہے ہیں ۔ میں نے پوچھا جبرائیل علیہ السلام یہ کون لوگ ہیں ؟ فرمایا یہ آپ کی امت کے لوگ ہیں جو یتیموں کا مال کھا جایا کرتے تھے جو لوگ یتیموں کا مال ناحق کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں اور وہ ضرور بھڑ کتی ہوئی جہنم کی آگ میں جائیں گے ۔ میں کچھ دور اور چلا جو دیکھا کہ کچھ عورتیں اپنے سینوں کے بل ادھر لٹکی ہوئی ہیں اور ہائے وائے کر رہی ہیں ۔ میرے پوچھنے پر جواب ملا کہ یہ آپ کی امت کی زنا کار عورتیں ہیں ۔ میں کچھ دور اور گیا تو دیکھا کہ کچھ لوگوں کے پیٹ بڑے بڑے گھروں جیسے ہیں جب وہ اٹھنا چاہتے ہیں گر پڑتے ہیں اور باربار کہہ رہے ہیں کہ اے اللہ قیامت قائم نہ ہو فرعونی جانوروں سے وہ روندے جاتے ہیں اور اللہ کے سامنے آہ وزاری کر رہے ہیں ۔ میں نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں ؟ تو جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا یہ آپ کی امت کے وہ لوگ ہیں جو سود کھاتے تھے ، سود خور ان لوگوں کی طرح ہی کھڑے ہوں گے ، جنہیں شیطان نے باؤلا بنا رکھا ہو ۔ میں کچھ دور اور چلا تو دیکھا کہ کچھ لوگ ہیں ، جن کے پہلو سے گوشت کاٹ کاٹ کر فرشتے انہی کو کھلا رہے ہیں اور کہتے جاتے ہیں کہ جس طرح اپنے بھائی کا گوشت اپنی زندگی میں کھاتا رہا اب بھی کھا ۔ میں نے پوچھا جبرائیل یہ کون لوگ ہیں ؟ آپ نے فرمایا یہ آپ کی امت کے عیب جو اور آوازہ کش لوگ ہیں ۔ { پھر ہم دوسرے آسمان پر چڑھے تو میں نے وہاں ایک نہایت ہی حسین شخص کو دیکھا جو اور حسین لوگوں پر وہی فضیلت رکھتا ہے جو فضیلت چاند کو ستاروں پر ہے ، میں نے پوچھا کہ جبرائیل یہ کون ہیں ؟ انہوں نے فرمایا یہ آپ کے بھائی یوسف علیہ السلام ہیں اور ان کے ساتھ ان کی قوم کے کچھ لوگ ہیں ۔ میں نے انہیں سلام کیا جس کا جواب انہوں نے دیا ۔ پھر ہم تیسرے آسمان کی طرف چڑھے ۔ اسے کھلوایا وہاں یحییٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام کو دیکھا ۔ ان کے ساتھ ان کی قوم کے کچھ آدمی تھے ، میں نے انہیں سلام کیا اور انہوں نے مجھے جواب دیا ، پھر میں چوتھے آسمان کی طرف چڑھا ۔ وہاں ادریس علیہ السلام کو پایا جنہیں اللہ تعالیٰ نے بلند مکان پر اٹھا لیا ہے ، میں نے سلام کیا انہوں نے جواب دیا ، پھر پانچویں آسمان کی طرف چڑھا ، وہاں ہارون علیہ السلام تھے ، جنکی آدھی داڑھی سفید تھی اور آدھی سیاہ اور بہت لمبی داڑھی تھی ، قریب قریب ناف تک ۔ میں نے جبرائیل علیہ السلام سے سوال کیا انہوں نے بتایا کہ یہ اپنی قوم کے ہر دلعزیز ہارون بن عمران علیہ السلام ہیں ان کے ساتھ ان کی قوم کی جماعت ہے ، انہوں نے بھی میرے سلام کا جواب دیا ، پھر میں چھٹے آسمان کی طرف چڑھا ، وہاں موسیٰ بن عمران علیہ السلام سے ملاقات ہوئی ، آپ کا گندم گوں رنگ تھا بال بہت تھے ، اگر دو کرتے بھی پہن لیں تو بال ان سے گزر جائیں آپ فرمانے لگے لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ میں اللہ تعالیٰ کے پاس ان سے بڑے مرتبے کا ہوں ، حالانکہ یہ مجھ سے بڑے مرتبے کے ہیں جبرائیل علیہ السلام سے دریافت کرنے سے مجھے معلوم ہوا کہ آپ موسیٰ بن عمران علیہ السلام ہیں ، آپ کے پاس بھی آپ کی قوم کے لوگ تھے ۔ آپ نے بھی میرے سلام کا جواب دیا ۔ پھر میں ساتویں آسمان کی طرف چڑھا ۔ وہاں میں نے اپنے والد ابراہیم خلیل الرحمن علیہ السلام کو اپنی پیٹھ بیت المعمور سے ٹکائے ہوئے بیٹھا دیکھا ۔ آپ بہت ہی بہتر آدمی تھے ۔ دریافت کرنے پر مجھے آپ کا نام بھی معلوم ہوا ۔ میں نے سلام کیا آپ نے جواب دیا ۔ میں نے اپنی امت کو نصفا نصف دیکھا ۔ نصف کے تو سفید بگلے جیسے کپڑے تھے اور نصف کے سخت سیاہ کپڑے تھے ۔ میں بیت المعمور میں گیا ۔ میرے ساتھ ہی سفیدکپڑے والے سب گئے اور دوسرے جن کے خاکی کپڑے تھے وہ سب روک دئیے گئے ہیں وہ بھی خیر پر ۔ پھر ہم سب نے وہاں نماز ادا کی اور وہاں سے سب باہر آئے ۔ اس بیت المعمور میں ہر دن ستر ہزار فرشتے نماز پڑھتے ہیں لیکن جو ایک دن پڑھ گئے ان کی باری پھر قیامت تک نہیں آتی ۔ } { پھر میں سدرۃ المنتہیٰ کی جانت بلند کیا گیا ، جس کا ہر ایک پتہ اتنا بڑا تھا کہ میری ساری امت کو ڈھانک لے ۔ اس میں سے ایک نہر جاری تھی جس کا نام «سلسلبیل» ہے ۔ پھر اس میں سے دو چشمے پھوٹے ہیں ۔ ایک نہر کوثر دوسرا نہر رحمت ۔ میں نے اس میں غسل کیا ۔ میرے اگلے پچھلے سب گناہ معاف ہو گئے ۔ پھر میں جنت کی طرف چڑھایا گیا وہاں میں نے ایک حور دیکھی اس سے پوچھا تو کس کی ہے ؟ اس نے کہا ، زید بن حارثہ [ رضی اللہ عنہ ] کی ۔ وہاں میں نے نہ بگڑنے والے پانی کی اور مزہ متغیر نہ ہونے والے دودھ کی اور بے نشہ لذیذ شراب اور صاف ستھری شہد کی نہریں دیکھیں ۔ اس کے انار بڑے بڑے ڈولوں کے برابر تھے ۔ اس کے پرند تمہارے ان بختی اونٹوں جیسے تھے بیشک اللہ تعالیٰ نے اپنی نیک بندوں کے لیے وہ نعمتیں تیار کی ہیں جو نہ کسی آنکھ نے دیکھیں نہ کسی کان نے سنیں نہ کسی انسان کے دل پر ان کا خیال تک گزرا ۔ پھر میرے سامنے جہنم پیش کی گئی ، جہاں غضب الٰہی ، عذاب الٰہی ، ناراضگی الٰہی تھی ، اس میں اگر پتھر اور لوہا ڈالا جائے تو وہ بھی کھا جائے پھر میرے سامنے سے وہ بند کر دی گئی ۔ میں پھر سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچا دیا گیا اور اور مجھے ڈھانپ لیا پس میرے اور اس کے درمیان صرف بقدر دو کمانوں کے فاصلہ رہ گیا بلکہ اور قریب اور سدرۃ المنتہیٰ کے ہر ایک پتے پر فرشتہ آ گیا اور مجھ پر پچاس نمازیں فرض کی گئی اور فرمایا کہ تیرے لیے ہر نیکی کے عوض دس ہیں تو جب کسی نیکی کا ارادہ کرے گا گو بجا نہ لائے تا ہم نیکی لکھ لی جائے گی اور جب بجا بھی لائے تو دس نیکیاں لکھی جائیں گی اور برائی کے محض ارادے پر تغیر کئے ہوئے کچھ بھی نہ لکھا جائے گا اور اگر کرلی تو صرف ایک ہی برائی شمار ہو گی ۔ پھر موسیٰ علیہ السلام کے پاس آنے اور آپ کے مشورے سے جانے اور کمی ہونے کا ذکر ہے جیسے کہ بیان گزر چکا آخر جب پانچ رہ گئیں تو فرشتے نے ندا کی کہ میرا فریضہ پورا ہو گیا ۔ میں نے اپنے بندوں پر تخفیف کر دی اور انہیں ہر نیکی کے بدلے اسی جیسی دس نیکیاں دیں ۔ } { موسیٰ علیہ السلام نے واپسی پر اب کی مرتبہ بھی مجھے واپس جانے کا مشورہ دیا لیکن میں نے کہا کہ اب تو جاتے ہوئے مجھے کچھ شرم سی محسوس ہوتی ہے ۔ پھر آپ نے صبح کو مکے میں ان عجائبات کا ذکر کیا کہ میں اس شب بیت المقدس پہنچا ، آسمانوں پر چڑھایا گیا اور یہ یہ دیکھا ۔ اس پر ابوجہل بن ہشام کہنے لگا لو تعجب کی بات سنو ۔ اونٹوں کو مارتے پیٹتے ہم تو بیت المقدس مہینہ بھر میں پہنچیں اور مہینہ بھر ہی واپسی میں لگ جائے ۔ یہ کہتے ہیں دو ماہ مسافت ایک ہی رات میں طے کر آئے ۔ آپ نے فرمایا سنو جاتے وقت میں نے تمہارے قافلے کو فلاں جگہ دیکھا تھا اور آتے وقت مجھے وہ عقبہ میں ملا ۔ سنو اس میں فلاں فلاں شخص ہے ، فلاں اس رنگ کے اونٹ پر ہے اور اس کے پاس یہ یہ اسباب ہے ۔ ابوجہل نے کہا خبریں تو دے رہا ہے دیکھئیے کیسی نکلیں ؟ اس پر ان میں سے ایک شخص نے کہا میں بیت المقدس کا حال تم سب سے زیادہ جانتا ہوں ۔ اس کی عمارت کا حال اس کی شکل و صورت پہاڑ سے اس کی نزدیکی وغیرہ ۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حجاب دور کر دئے گئے اور جیسے ہم گھر میں بیٹھے گھر کی چیزوں کو دیکھتے ہیں اسی طرح آپ کے سامنے بیت المقدس کر دیا گیا ۔ آپ فرمانے لگے اس کی بناوٹ اس طرح کی ہے ۔ اس کی ہیئت اس طرح کی ہے ، وہ پہاڑ سے اس قدر نزدیک ہے وغیرہ ۔ اس نے کہا بیشک آپ فرماتے ہیں ۔ پھر اس نے کفار کے مجمع کی طرف دیکھ کر کہا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بات میں سچے ہیں یا کچھ ایسے ہی الفاظ کہے ۔ } ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:22023:ضعیف جداً) یہ روایت اور بھی بہت سے کتابوں میں ہے ہم نے باوجود اس کی غربت اور نکارت اور ضعف کے اسے اس لیے بیان کیا ہے کہ اس میں اور احادیث کے بہت سے شواہد ہیں اور اس لیے بھی کہ بیہقی میں ہے ۔ یزید بن ابی حکیم کہتے ہیں { میں نے خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی امت میں سے ایک شخص ہیں جنہیں سفیان ثوری کہا جاتا ہے اس میں کوئی حرج تو نہیں ہے ؟ آپ نے فرمایا کوئی حرج نہیں میں نے پھر اور راویوں کے نام بیان کر کے پوچھا کہ وہ آپ کی حدیث بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا ہے کہ آپ کو ایک رات معراج ہوئی آپ نے آسمان میں دیکھا ، الخ ۔ آپ نے فرمایا ہاں ٹھیک ہے ۔ میں نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی امت کے لوگ آپ کی طرف سے معراج والے واقعے میں بہت سے عجیب وغریب باتیں بیان کرتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا ہاں وہ باتیں قصہ کہنے والوں کی ہیں ۔ } ۱؎ (دلائل النبوۃ للبیہقی:405/2:باطل و لاصل لہ) ترمذی شریف میں ہے سیدنا شداد بن اوس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ { یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے معراج کی کیفیت تو بیان فرمائیے ۔ آپ نے فرمایا سنو میں نے اپنے اصحاب کو مکہ میں عشاء کی نماز دیر سے پڑھائی پھر جبرائیل علیہ والسلام میرے پاس سفید رنگ کا ایک جانور لائے گدھے سے اونچا اور خچر سے نیچا اور مجھ سے فرمایا کہ اس پر سوار ہو جائیے اس نے کچھ سختی کی تو آپ نے اس کا کان مروڑا اور مجھے اس پرسوار کر دیا ۔ اس میں مدینے میں نماز پڑھنے کا پھر مدین میں اس درخت کے پاس نماز پڑھنے کا ذکر ہے جہاں موسیٰ علیہ السلام ٹھیرے تھے ۔ پھر بیت لحم میں نماز پڑھنے کا ذکر ہے جہاں عیسیٰ علیہ السلام تولد ہوئے تھے پھر بیت المقدس میں نماز پڑھنے کا ، وہاں سخت پیاس لگنے کا اور دودھ اور شہد کے برتن آنے کا اور پیٹ بھر کر دودھ پینے کا ذکر ہے فرماتے ہیں ۔ وہیں ایک شیخ تکیہ لگائے بیٹھے تھے جنہوں نے کہا یہ فطرت تک پہنچ گئے اور راہ یافتہ ہوئے ۔ پھر ہم ایک وادی پر آئے جہنم کو میں نے دیکھا جو سخت دہکتے ہوئے انگارے کی طرح تھی پھر لوٹتے ہوئے فلاں جگہ قریش کا قافلہ ہمیں ملا جو اپنے کسی گمشدہ اونٹ کی تلاش میں تھا ۔ میں نے انہیں سلام کیا بعض لوگوں نے میری آواز بھی پہچان لی اور آپس میں کہنے لگے یہ آواز تو بالکل محمد [ صلی اللہ علیہ وسلم ] کی ہے پھر صبح سے پہلے میں اپنے اصحاب کے پاس مکہ شریف پہنچ گیا ۔ } { میرے پاس ابوبکر آئے رضی اللہ عنہ اور کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ رات کو کہاں تھے ؟ جہاں جہاں خیال پہنچا ۔ میں نے سب جگہ تلاش کیا لیکن آپ نہ ملے ۔ میں نے کہا میں تو رات بیت المقدس ہو آیا کہا ، وہ تو یہاں سے مہینہ بھر کے فاصلے پر ہے اچھا وہاں کے کچھ نشانات بیان فرمائیے اسی وقت وہ میرے سامنے کر دیا گیا گویا کہ میں اسے دیکھ رہا ہوں ۔ اب جو بھی مجھ سے سوال ہوتا میں دیکھ کر جواب دے دیتا ۔ پس ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا میری گواہی ہے کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں ۔ لیکن کفار قریش باتیں بنانے لگے کہ ابن ابی کبشہ کو دیکھو کہتا پھرتا ہے کہ ایک ہی رات میں بیت المقدس ہو آیا ۔ آپ نے فرمایا سنو میں تمہیں ایک نشان بتاؤں ، تمہارے قافلے کو میں نے فلاں مقام پر دیکھا ان کا ایک اونٹ گم ہو گیا تھا جسے فلاں شخص لے آیا ۔ اب وہ اتنے فاصلے پر ہیں ایک منزل ان کی فلاں جگہ ہو گی ، دوسری فلاں اور وہ فلاں دن یہاں پہنچیں گے ۔ ان کے قافلے میں سب سے پہلے گندمی رنگ کا اونٹ ہے ، جس پر سیاہ جھول پڑی ہوئی ہے اور دو سیاہ بوریاں اسباب کی دونوں طرف لدی ہوئی ہیں ۔ جب وہ دن آیا جو دن اس کے قافلے کے واپس پہنچنے کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا تھا ۔ دوپہر کو لوگ دوڑے بھاگے شہر کے باہر گئے کہ دیکھیں یہ سب باتیں سچ ہیں ؟ تو دیکھا کہ قافلہ آ رہا ہے اور واقعی وہی اونٹ آگے ہے ۔ } ۱؎ (دلائل النبوۃ للبیہقی:355/2:حسن) یہی روایت اور کتابوں میں بہت مطول بھی مروی ہے اور اس میں بہت باتیں منکر بھی ہیں ۔ مثلا بیت اللحم میں آپ کا نماز ادا کرنا اور سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا بیت المقدس کی نشانیاں دریافت کرنا وغیرہ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے کہ { جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم معراج والی رات جنت میں تشریف لے گئے تو ایک طرف سے پیروں کی چاپ کی آواز آئی آپ نے پوچھا جبرائیل [ علیہ السلام ] یہ کون ہیں ؟ جواب ملا کہ بلال رضی اللہ عنہ مؤذن ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واپس آ کر فرمایا بلال تو نجات پاچکے ۔ میں نے اس اس طرح دیکھا ۔ اس میں ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے بوقت ملاقات فرمایا ۔ نبی امی کو مرحبا ہو ۔ موسیٰ علیہ السلام گندمی رنگ کے لانبے قد کے کانوں تک یا کانوں سے قدرے اونچے بال والے تھے ۔ اس میں ہے کہ ہر نبی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے سلام کیا ۔ جہنم کے ملاحظہ کے وقت آپ نے دیکھا کہ چھ لوگ مردار کھا رہے ہیں ۔ پوچھا یہ کون لوگ ہیں ؟ جواب ملا جو لوگوں کا گوشت کھایا کرتے تھے [ یعنی غیبت گو تھے ] وہیں آپ نے ایک شحص کو دیکھا جو خود آگ جیسا سرخ ہو رہا تھا ۔ آنکھیں ٹیڑھی ترچھیں تھیں پوچھا یہ کون ہے ؟ جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا یہی ہے جس نے صالح علیہ السلام کی اونٹنی کو مار ڈالا تھا ۔ ۱؎ (مسند احمد:257/1:ضعیف) مسند احمد میں ہے کہ { جب آپ کو بیت المقدس پہنچا کر وہاں سے واپس لاکر ایک ہی رات میں مکہ شریف پہنچا دیا گیا اور آپ نے یہ خبر لوگوں کو سنائی ۔ بیت المقدس کے نشان بتائے ان کے قافلے کی خبر دی تو بعض لوگ یہ کہہ کر کہ ہم ایسی باتوں میں انہیں سچا نہیں مان سکتے ، اسلام سے پھر گئے ۔ پھر یہ سب ابوجہل کے ہمراہ قتل کئے گئے ۔ ابوجہل کہنے لگا کہ یہ ہمیں شجرۃ الزقوم سے ڈرا رہا ہے ، لاؤ کھجور اور مکھن لاؤ اور تمرق کرلو یعنی ملاکر کھالو ۔ آپ نے اس رات دجال کو اس کی اصلی صورت میں دیکھا اور آنکھوں کا دیکھنا نہ کہ خواب میں دیکھنا ۔ عیسیٰ علیہ السلام ، موسیٰ علیہ السلام ، ابراہیم علیہ السلام کو بھی دیکھا ۔ دجال کی شبیہ آپ نے بیان فرمائی وہ بھدا ، خبیث ، چندھا ہے اور اس کی ایک آنکھ ایسی قائم ہے جیسے تارا اور بال ایسے ہیں جیسے کسی درخت کی گھنی شاخیں ۔ عیسیٰ علیہ السلام کا وصف آپ نے اس طرح بیان فرمایا ک وہ سفید رنگ ، گھنگریالے بالوں والے درمیان قد کے ہیں اور موسیٰ علیہ السلام گندمی رنگ کے مضبوط اور قوی آدمی ہیں اور ابراہیم علیہ السلام تو بالکل ہوبہو مجھ جیسے تھے ۔ } ۱؎ (مسند احمد:374/1:صحیح) الخ ۔ ایک روایت میں ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مالک کو بھی جو جہنم کے داروغہ ہیں دیکھا ۔ ان نشانیوں میں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو دکھائیں ۔ پھر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما آپ کے چچا زاد بھائی نے آیت قرآن « فَلَا تَکُن فِی مِرْیَۃٍ مِّن لِّقَائِہِ» ۱؎ (32-السجدۃ:23) پڑھی جس کی تفسیر قتادہ رحمہ اللہ اس طرح کرتے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام کی ملاقات کے ہونے میں تو شک نہ کر ۔ ہم نے اسے یعنی موسیٰ علیہ السلام کو بنی اسرائیل کی ہدایت کے لیے بھیجا تھا ۔ } یہ روایت صحیح مسلم شریف میں بھی ہے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3396) اور سند سے مروی ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں شب معراج ایک مقام سے مجھے نہایت ہی اعلیٰ اور مست خوشبو کی مہک آنے لگی ۔ میں نے پوچھا کہ یہ خوشبوی کیسی ہے ؟ جواب ملا کہ فرعون کی لڑکی کی مشاطہٰ اور اس کی اولاد کے محل کی ۔ فرعون کی شہزادی کو کنگھی کرتے ہوئے اس کے ہاتھ سے اتفاقاً کنگھی گر پڑی تو اس کی زبان سے بےساختہ «بسم اللہ» نکل گیا اس پر شہزادی نے اس سے کہا اللہ تو میرے ہی باپ ہیں ؟ اس نے جواب دیا نہیں بلکہ اللہ وہ ہے جو مجھے اور تجھے اور خود فرعون کو روزیاں دیتا ہے ۔ اس نے کہا اچھا تو کیا تو میرے باپ کے سوا کسی اور کو اپنا رب مانتی ہے ۔ اس نے جواب دیا کہ ہاں ہاں میرا تیرا اور تیرے باپ سب کا رب اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ اس نے اپنے باپ سے کہلوایا وہ سخت غضبناک ہوا اور اسی وقت اسے برسر دربار بلوا بھیجا اور کہا کیا تو میرے سوا کسی اور کو اپنا رب مانتی ہے ؟ اس نے کہا ہاں میرا اور تیرا رب اللہ تعالیٰ ہی ہے جو بلندیوں اور بزرگیوں والا ہے ۔ } { فرعون نے اسی وقت حکم دیا کہ تانبے کی جو گائے بنی ہوئی ہے ، اسے خوب تپایا جائے اور جب وہ بالکل آگ جیسی ہو جائے تو اس کے بچوں کو ایک ایک کر کے اس میں ڈال دیا جائے آخر میں خود اسے بھی اسی طرح ڈال دیا جائے ۔ چنانچہ وہ گرم کی گئی جب آگ جیسی ہو گئی تو حکم دیا کہ اس کے بچوں کو ایک ایک کرکے اسے میں ڈالنا شروع کرو ۔ اس نے کہا بادشاہ ایک درخواست میری منظور کر وہ یہ کہ میری اور میرے بچوں کی ہڈیاں ایک ہی جگہ ڈال دینا ۔ اس نے کہا کہ اچھا تیرے کچھ حقوق ہمارے ذمہ ہیں ۔ اس لیے یہ منظور ہے ۔ جب وہ اور سب بچے اس میں ڈال دئیے گئے اور سب جل کر راکھ ہو گئے تو سب سے چھوٹے کی باری آئی جو ماں کی چھاتی سے لگا ہوا دودھ پی رہا تھا ۔ فرعون کے سپاہوں نے اسے جب گھسیٹا تو اس نیک بندی کے آنکھوں تلے اندھیرا چھا گیا ۔ اللہ تعالیٰ نے اس بچے کو اسی وقت زبان دے دی اور اس نے باآواز بلند ہوکر کہا اماں جان ! افسوس نہ کرو اماں جان ذرا بھی پس و پیش نہ کرو ۔ حق پر جان دینا ہی سب سے بڑی نیکی ہے چنانچہ انہیں صبر آگیا اسے بھی اس میں ڈال دیا اور آخر میں ان بچوں کی ماں کو بھی رضی اللہ عنہم اجمعین ۔ یہ خوشبو کی مہکیں اسی کے جنتی محل سے آرہی ہیں ۔ آپ نے اس واقعہ کے ساتھ ہی بیان فرمایا کہ چار چھوٹے بچوں نے گہوارے ہی میں بات چیت کی ایک تو یہی بچہ ۔ اور ایک وہ بچہ جس نے یوسف علیہ السلام کی پاک دامنی کی شہادت دی تھی ۔ اور ایک وہ بچہ جس نے جریج ولی اللہ کی پاک دامنی کی شہادت دی تھی اور عیسیٰ بن مریم علیہ السلام ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:3436) اس روایت کی سند بےعیب ہے ۔ اور روایت میں ہے کہ { معراج والی رات کو صبح مجھے یقین تھا کہ جب میں یہ ذکر لوگوں سے کروں گا ، تو وہ مجھے جھٹلائیں گے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک طرف غمگین ہو کر بیٹھ گئے ۔ اسی وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے دشمن رب ابوجہل گزرا اور پاس بیٹھ کر بطور مذاق کہنے لگا کہیے کوئی نئی بات ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ہے ۔ اس نے کہا کیا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رات کو مجھے سیر کرائی گئی ، اس نے پوچھا کہاں تک پہنچے ؟ فرمایا بیت المقدس تک ، کہا اور صبح کو پھر آپ [ صلی اللہ علیہ وسلم ] یہاں موجود بھی ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ۔ اب اس موذی کے دل میں خیال آیا کہ اس وقت انہیں جھٹلانا اچھا نہیں ایسا نہ ہو کہ لوگوں کے مجمع میں پھر یہ بات نہ کہیں ۔ اس لیے اس نے کہا کیوں صاحب اگر میں ان سب لوگوں کو جمع کرلوں تو سب کے سامنے بھی آپ [ صلی اللہ علیہ وسلم ] یہی کہیں گے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیوں نہیں ؟ سچی باتیں چھپانے کو نہیں ہوتیں ۔ اسی وقت اس نے ہانک لگائی کہ اے بنی کعب بن لوی کی اولاد والو آؤ ۔ سب لوگ اٹھ کھڑے ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر بیٹھ گئے تو اس ملعون نے کہا اب اپنی قوم کے ان لوگوں کے سامنے وہ بات بیان کرو ۔ جو مجھ سے کر رہے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں سنو مجھے اس رات سیر کرائی گئی ۔ سب نے پوچھا کہاں تک گئے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیت المقدس تک ۔ لوگوں نے کہا اچھا اور پھر صبح کو ہم میں موجود ہو ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ۔ اب تو کسی نے تالیاں پیٹنی شروع کردیں کوئی تعجب کے ساتھ اپنا ہاتھ اپنے ماتھے پر رکھ کر بیٹھ رہا اور سخت حیرت کے ساتھ انہوں نے بالاتفاق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھوٹا سمجھا پھر کچھ دیر کے بعد کہنے لگے اچھا تم وہاں کی کیفیت اور جو نشانات ہم پوچھیں بتاسکتے ہو ؟ ان میں وہ لوگ بھی تھے جو بیت المقدس ہو آئے تھے اور وہاں کے چپے چپے سے واقف تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پوچھو کیا پوچھتے ہو ؟ وہ پوچھنے لگے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بتلانے لگے ۔ فرماتے ہیں بعض ایسے باریک سوال انہوں نے کئے کہ ذرا مجھے گھبراہٹ سی ہونے لگی اسی وقت مسجد میرے سامنے کر دی گئی اب میں دیکھتا جاتا تھا اور بتاتا جاتا تھا ۔ بس یوں سمجھو کہ عقیل کے گھر کے پاس ہی مسجد تھی یا عقال کے گھر کے پاس ۔ یہ اس لیے کہ بعض اوصاف مجھے مسجد کے یاد نہیں رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان نشانات کے بتلانے کے بعد سب کہنے لگے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اوصاف تو صاف صاف اور ٹھیک ٹھیک بتائے ۔ اللہ کی قسم ایک بات میں بھی غلطی نہیں کی ۔ یہ حدیث نسائی وغیرہ میں بھی موجود ہے ۔ ۱؎ (سنن نسائی:11285:حسن) بیہقی میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت سے ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کرائی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچے جو ساتویں آسمان پر ہے جو چیز چڑھے وہ یہیں تک پہنچتی ہے پھر یہاں سے اٹھالی جاتی ہے اور جو اترے وہ یہیں تک اترتی ہے پھر یہاں سے لے لی جاتی ہے ۔ اس درخت پر سونے کی ٹڈیاں چھا رہی تھیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پانچ وقت کی نمازیں سورۃ البقرہ کے آخر کی آیتیں دی گئیں اور یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے جو شرک نہ کرے گا اس کے کبیرہ گناہ بھی بخش دئے جائیں گے ۔ مسلم وغیرہ میں بھی یہ روایت ہے ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:173) سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے معراج کی مطول حدیث بھی مروی ہے جس میں غرابت ہے ۔ حسن بن عرفہ نے اپنے مشہور جزء میں اسے وارد کیا ہے ۔ ابو ظبیان کہتے ہیں ہم عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے ابوعبیدہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ۔ آپ کے پاس سیدنا محمد بن سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بھی تھے تو سیدنا محمد بن سعد رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ سے کہا تم نے معراج کی بابت جو کچھ اپنے والد سے سنا ہو سناؤ انہوں نے کہا نہیں ، آپ ہی سنائیے جو آپ نے والد صاحب [ رضی اللہ عنہ ] سے سنا ہو ۔ پس آپ نے روایت بیان کرنی شروع کی ۔ اس میں یہ بھی ہے کہ { جب براق اونچائی پر چڑھتا اس کے ہاتھ پاؤں برابر کے ہو جاتے ۔ اس طرح جب نیچے کی طرف اتراتا تب بھی برابر ہی رہتے جس سے سوار کو تکلیف نہ ہو ۔ ہم ایک صاحب کے پاس سے گزرے طویل قامت سیدھے سیدھے بالوں والے گندمی رنگ کے تھے ایسے ہی جیسے ازدشنوہ قبیلے کے آدمی ہوتے ہیں ۔ وہ باآواز بلند کہہ رہے تھے کہ تم نے اس کا اکرام کیا اور اسے فضیلت عطا فرمائی ۔ ہم نے انہیں سلام کیا ، انہوں نے جواب دیا ، پوچھا کہ جبرائیل [ علیہ السلام ] یہ تمہارے ساتھ کون ہیں ؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا یہ احمد ہیں [ صلی اللہ علیہ وسلم ] انہوں نے فرمایا ، نبی امی عربی کو مرحبا ہو ، جس نے اپنے رب کی رسالت پہنچائی اور اپنی امت کی خیر خواہی کی ۔ پھر ہم لوٹے میں نے پوچھا جبرائیل [ علیہ السلام ] یہ کون ہیں ؟ آپ نے فرمایا یہ موسیٰ بن عمران ہیں علیہ الصلوۃ والسلام ۔ میں نے کہا اور یہ ایسے لفظوں سے باتیں کس سے کر رہے تھے ؟ فرمایا اللہ تعالیٰ سے آپ کے بارے میں ۔ میں نے کہا اللہ سے اور اس آواز سے ؟ فرمایا ہاں اللہ کو ان کی تیزی معلوم ہے ۔ پھر ہم ایک درخت کے پاس سے نکلے ، جس کے پھل چراغوں جیسے تھے ۔ اس کے نیچے ایک بزرگ شیخ بیٹھے ہوئے تھے ، جن کے پاس بہت سے چھوٹے بچے تھے ۔ جبرائیل علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا چلو اپنے والد ابراہیم علیہ السلام کو سلام کرو ۔ ہم نے وہاں پہنچ کر انہیں سلام کیا جواب پایا ۔ جبرائیل علیہ السلام سے آپ نے میری نسبت پوچھا ، انہوں نے جواب دیا کہ یہ آپ کے لڑکے احمد علیہ السلام ہیں ، تو آپ نے فرمایا مرحبا ہو نبی امی کو جس نے اپنے رب کی پیغمبری پوری کی اور اپنی امت کی خیر خواہی کی ۔ میرے خوش نصیب بیٹے آج رات آپ کی ملاقات اپنے پروردگار سے ہونے والی ہے ۔ آپ کی امت سب سے آخری امت ہے اور سب سے کمزور بھی ہے ۔ خیال رکھنا ایسے ہی کام ہوں جو ان پر آسان رہیں ۔ } { پھر ہم مسجد اقصٰی پہنچے میں نے اتر کر براق کو اسی حلقے میں باندھا جس میں اور انبیاء باندھا کرتے تھے پھر مسجد میں گیا وہاں میں نے نبیوں کو پہچانا کوئی نماز میں کھڑا ہے کوئی رکوع میں ہے کوئی سجدے میں ۔ پھر میرے پاس شہد کا اور دودھ کا برتن لایا گیا میں نے دودھ کا برتن لے کر پی لیا ۔ جبرائیل علیہ السلام نے میرے کندھے پر ہاتھ کر فرمایا رب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم تو فطرت کو پہنچ گیا پھر نماز کی تککبیر ہوئی اور میں نے ان سب کو نماز پڑھائی پھر ہم واپس لوٹ آئے ۔ اس کی اسناد غریب ہے ۔ اس میں بھی غرائب ہیں مثلا انباء کا آپ کی شناخت کا سوال پھر آپ کا ان کے پاس جانے کے بعد ان کی معرفت کا سوال وغیرہ ۔ حالانکہ صحیح احادیث میں ہے کہ جبرائیل علیہ السلام پہلے ہی آپ کو بتلادیا کرتے تھے کہ یہ فلاں نبی ہیں تاکہ سلام پہچان کے بعد ہو ۔ پھر اس میں ہے کہ انبیاء سے ملاقات بیت المقدس کی مسجد میں داخل ہونے سے پہلے ہی ہوئی ۔ حالانکہ صحیح روایتیوں میں ہے کہ ان سے ملاقات آسمانوں پر ہوئی ۔ پھر آپ دوبارہ اترتے ہوئے واپس میں بیت المقدس کی مسجد میں آئے ۔ وہ سب بھی آپ کے ساتھ تھے اور یہاں آپ نے انہیں نماز پڑھائی ۔ پھر براق پر سوار ہو کر مکہ شریف واپس آئے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ } مسند احمد میں { سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی راویت سے ہے کہ میں [ صلی اللہ علیہ وسلم ] شب معراج ابراہیم علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام سے ملا ۔ وہاں قیامت کے قائم ہونے کے خاص وقت کی بابت مذاکرہ ہوا ۔ ابراہیم علیہ السلام نے لاعلمی ظاہر کی تو کہا موسیٰ علیہ السلام سے پوچھا ۔ انہوں نے بھی بے خبری ظاہر کی پھر طے ہوا کہ عیسیٰ علیہ السلام پر رکھو ۔ آپ نے فرمایا اس کے صحیح وقت کا علم تو بجز اللہ کے کسی کو نہیں ، ہاں یہ تو مجھ سے فرمایا گیا ہے کہ دجال نکلنے والا ہے ، اس وقت میرے ساتھ دو چھڑیاں ہوں گے ، وہ مجھے دیکھتے ہی سیسے کی طرح گھلنے لگے گا ، آخر میری وجہ سے اللہ اسے ہلاک کرے گا ۔ پھر تو درخت پتھر بھی بول اٹھیں گے کہ اے مسلمان دیکھ یہاں میرے نیچے ایک کافر چھپا ہوا ہے آ اور اسے قتل کر ۔ پس اللہ تعالیٰ ان سب کو ہلاک کرے گا ۔ لوگ ٹھنڈے دلوں اپنے شہروں اور وطنوں میں لوٹ جائیں گے اسی زمانے میں یاجوج ماجوج نکلیں گے جو ہر اونچائی سے کودتے پھاندتے آئیں گے ۔ جو چیز پائیں گے غارت کر دیں گے ، جو پانی دیکھیں گے پی جائیں گے ، آخر لوگ تنگ آکر مجھ سے شکایت کریں گے میں اللہ تعالیٰ سے دعا کروں گا ۔ اللہ ان سب کو ایک ساتھ ہی ہلاک کر دے گا لیکن زمین پر ان لاشوں کی تعفن کی وجہ سے چلنا پھرنا مشکل ہو جائے گا اس وقت اللہ تعالیٰ بارش برسائے گا ، جو ان کی لاشوں کو بہا کر سمندر میں ڈال دے گی ۔ مجھے یہ خوب معلوم ہے کہ اس کے بعد ہی فوراً قیامت آ جائے گی جیسے پورے دن کی حمل والی ہو کہ نہ جانے صبح فارغ ہو جائے یا رات ہی کو ۔ } ۱؎ (مسند احمد:375/1:ضعیف) اور ایک حدیث میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جس رات مسجد الحرام سے بیت المقدس کی مسجد تک پہنچایا گیا اس رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم زمزم اور مقام ابراہیم کے درمیان تھے جو جبرائیل علیہ السلام دائیں اور میکائیل علیہ السلام بائیں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اڑا لے گئے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آسمان کی بلندیوں تک پہنچے لوٹتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تسبیحیں بھی مع اور تسبیحوں کے سنیں ۔ } یہ روایت اسی سورت کی آیت«تُسَبِّحُ لَہُ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَالْأَرْضُ وَمَن فِیہِنَّ» (17-الإسراء:44) الخ ، کی تفسیر میں آئے گی ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ مسند احمد میں ہے کہ امیر المؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جابیہ میں تھے بیت المقدس کی فتح کا ذکر ہوا آپ نے کعب سے پوچھا کہ تمہارے خیال میں مجھے وہاں کس جگہ نماز پڑھنی چاہیئے ۔ انہوں نے فرمایا مجھ سے پوچھتے ہو تو میں تو کہوں گا کہ صخرہ کے پیچھے نماز پڑھئے تاکہ بیت المقدس آپ کے سامنے رہے آپ نے فرمایا تم نے وہی یہودیت کی مشابہت کی ۔ میں تو اس جگہ نماز پڑھوں گا جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھی ہے پس آپ نے آگے بڑھ کر قبلہ کی طرف نماز ادا کی ۔ بعد از ادائے نماز آپ نے صخرہ کے آس پاس سے تمام کوڑا سمیٹا اور اپنی چادر میں باندھ کر باہر پھینکنا شروع کیا اور اوروں نے بھی آپ کا ہاتھ بٹایا ۔ ۱؎ (مسند احمد:38/1:ضعیف) پس آپ نے نہ تو صخرہ کی ایسی تعظیم کی جیسے یہود کرتے تھے کہ نماز بھی اسی کے پیچھے پڑھتے تھے بلکہ اسی کو قبلہ بنا رکھا تھا ۔ چونکہ سیدنا کعب رضی اللہ عنہ بھی اسلام سے پہلے یہودی تھے ، اسی لیے آپ نے ایسی رائے پیش کی تھی جسے خلیفتہ المسلمین نے ٹھکرادیا ، اور نہ آپ نے نصرانیوں کی طرح صخرہ کی اہانت کی کہ انہوں نے تو اسے کوڑا کرکٹ ڈالنے کی جگہ بنا رکھا تھا ۔ بلکہ آپ نے خود اس کے آس پاس سے کوڑا اٹھا کر پھینکا ۔ یہ بالکل اس حدیث کے مشابہ ہے جس میں ہے کہ { نہ تو قبروں پر بیٹھو نہ ان کی طرف نماز ادا کرو ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:972) ایک طویل روایت معراج کی بابت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے غرب والی بھی مروی ہے ، اس میں ہے کہ { جبرائیل اور میکائیل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ۔ جبرائیل علیہ السلام نے میکائیل علیہ السلام سے کہا کہ میرے پاس زمزم کے پانی کا طشت بھر لاؤ کہ ان میں ان کے دل کو پاک کروں اور ان کے سینے کو کھول دوں ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیٹ چاک کیا اور اسے تین بار دھویا اور تینوں مرتبہ میکائیل علیہ السلام کے لائے ہوئے پانی کے طشت سے اسے دھویا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سینے کو کھول دیا ۔ سب غل و غش دور کر دیا اور علم و حلم ، ایمان و یقین سے اسے پر کیا ، اسلام اس میں بھر دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں کندھوں کے درمیان مہر نبوت لگا دی ۔ اور ایک گھوڑے پر بٹھا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جبرائیل علیہ السلام لے چلے ۔ دیکھا کہ ایک قوم ہے ادھر کھیتی کاٹتی ہے ، ادھر بڑھ جاتی ہے ۔ جبرائیل علیہ السلام سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں ؟ فرمایا یہ اللہ کی راہ کے مجاہد ہیں جن کی نیکیاں سات سات سو تک بڑھتی ہیں ، جو خرچ کریں اس کا بدلہ پاتے ہیں ، اللہ تعالیٰ بہترین رازق ہے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر اس قوم پر ہوا جن کے سر پتھروں سے کچلے جار ہے تھے ، ہر بار ٹھیک ہو جاتے اور پھر کچلے جاتے ۔ دم بھر کی انہیں مہلت نہ ملتی تھی ۔ میں نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں ؟ جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا یہ وہ لوگ ہیں کہ فرض نمازوں کے وقت ان کے سر بھاری ہو جایا کرتے تھے ۔ پھر کچھ لوگوں کو میں نے دیکھا کہ ان کے آگے پیچھے دھجیاں لٹک رہی ہیں اور اونٹ اور جانوروں کی طرح کانٹوں دار جہنمی درخت چر چگ رہے اور جہنم کے پتھر اور انگارے کھا رہے ہیں ۔ میں نے کہا یہ کیسے لوگ ہیں ؟ فرمایا اپنے مال کی زکوٰۃ نہ دینے والے ۔ اللہ نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا بلکہ یہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے ۔ پھر میں نے ایسے لوگوں کو دیکھا کہ ان کے سامنے ایک ہنڈیا میں تو صاف ستھرا گوشت ہے دوسری میں خبیث سڑا بھسا گندہ گوشت ہے ، یہ اس اچھے گوشت سے تو روک دئے گئے ہیں اور اس بدبودار بد مزہ سڑے ہوئے گوشت کو کھا رہے ہیں ۔ میں نے سوال کیا یہ کس گناہ کے مرتکب ہیں ؟ جواب ملا کہ یہ وہ مرد ہیں جو اپنی حلال بیویوں کو چھوڑ کر حرام عورتوں کے پاس رات گزارتے تھے ۔ اور وہ عورتیں ہیں جو اپنے حلال خاوند کو چھوڑ کر اوروں کے ہاں رات گزارتی تھیں ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ راستے میں ایک لکڑی ہے کہ ہر کپڑے کو پھاڑ دیتی ہے اور ہر چیز کو زخمی کر دیتی ہے ۔ پوچھا یہ کیا ؟ فرمایا ، یہ آپ کے ان امتیوں کی مثال ہے جو راستے روک کر بیٹھ جاتے ہیں ۔ پھر اس آیت کو پڑھا «وَلَا تَقْعُدُوا بِکُلِّ صِرَاطٍ تُوعِدُونَ وَتَصُدٰونَ عَن سَبِیلِ اللہِ مَنْ آمَنَ بِہِ وَتَبْغُونَہَا عِوَجًا» ۱؎ (7-الأعراف:86) الخ ، ’ یعنی ہر ہر راستے پر لوگوں کو خوفزدہ کرنے اور راہ حق سے روکنے کے لیے نہ بیٹھا کرو ‘ الخ ۔ پھر دیکھا کہ ایک شخص بہت بڑا ڈھیر جمع کئے ہوئے ہے جسے اٹھا نہیں سکتا ، پھر بھی وہ اور بڑھا رہا ہے ۔ پوچھا جبرائیل علیہ السلام یہ کیا ہے ؟ فرمایا یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کا وہ شخص ہے جس کے اوپر لوگوں کے حقوق اس قدر ہیں کہ وہ ہرگز ادا نہیں کر سکتا تاہم وہ اور حقوق چڑھا رہا ہے اور امانتیں لیے جا رہا ہے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جماعت کو دیکھا جن کی زبان اور ہونٹ لوہے کی قینچیوں سے کاٹے جا رہے ہیں ۔ ادھر کٹے ، ادھر درست ہو گئے ، پھر کٹ گئے ، یہی حال برابر جاری ہے ۔ پوچھا یہ کون لوگ ہیں ؟ فرمایا یہ فتنے کے واعظ اور خطیب ہیں ۔ پھر دیکھا کہ ایک چھوٹے سے پتھر کے سوراخ میں سے ایک بڑا بھاری بیل نکل رہا ہے ، پھر وہ لوٹنا چاہتا ہے لیکن نہیں جا سکتا ۔ پوچھا یہ کیا ہے ؟ فرمایا یہ وہ شخص ہے جو کوئ بڑا بول بولتا تھا ، اس پر نادم تو ہوتا تھا مگر لوٹا نہیں سکتا تھا ۔ پھر آپ ایک وادی میں پہنچے ۔ وہاں نہایت نفیس ، خوش گوار ٹھنڈی ہوا اور دل خوش کن ، معطر ، خوشبودار ، راحت و سکون کی مبارک صدائیں سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا یہ جنت کی آواز ہے ، وہ کہہ رہی ہے کہ یا اللہ مجھ سے اپنا وعدہ پورا کر ۔ میرے بالاخانے ، ریشم ، موتی ، مونگے ، سونا ، چاندی ، جام ، کٹورے اور پانی ، دودھ ، شراب وغیرہ وغیرہ نعمتیں بہت زیادہ ہو گئیں ۔ اسے اللہ کی طرف سے جواب ملا کہ ہر ایک مسلمان مومن مرد و عورت جو مجھے اور میرے رسولوں کو مانتا ہو ، نیک عمل کرتا ہو ، میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا ہو ، میرے برابر کسی کو نہ سمجھتا ہو ، وہ سب تجھ میں داخل ہوں گے ۔ سن ! جس کے دل میں میرا ڈر ہے ، وہ ہر خوف سے محفوظ ہے ۔ جو مجھ سے سوال کرتا ہے ، وہ محروم نہیں رہتا ۔ جو مجھے قرض دیتا ہے ، میں اسے بدلہ دیتا ہوں ۔ جو مجھ پر توکل کرتا ہے ، میں اسے کفایت کرتا ہوں ۔ میں سچا معبود ہوں ، میرے سوا اور کوئی معبود نہیں ۔ میرے وعدے خلاف نہیں ہوتے ، مومن نجات یافتہ ہیں ۔ اللہ تعالیٰ بابرکت ہے جو سب سے بہتر خالق ہے ۔ یہ سن کر جنت نے کہا ، بس میں خوش ہو گئی ۔ پھر آپ ایک دوسری وادی میں پہنچے جہاں نہایت بری اور بھیانک مکروہ آوازیں آ رہی تھیں اور سخت بدبو تھی ۔ آپ نے اس کی بابت بھی جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا ، انہوں نے بتلایا کہ یہ جہنم کی آواز ہے ۔ وہ کہہ رہی ہے کہ اے اللہ مجھ سے اپنا وعدہ پورا کر ۔ میرے طوق و زنجیر ، میرے شعلے اور گرمائی ، میرا تھور اور لہو پیپ ، میرے عذاب اور سزا کے سامان بہت وافر ہو گئے ہیں ، میرا گہراؤ بہت زیادہ ہے ، میری آگ بہت تیز ہے ۔ مجھے وہ دے جس کا وعدہ مجھ سے ہوا ہے ۔ اسے اللہ کی طرف سے جواب ملا کہ ہر مشرک و کافر ، خبیث ، منکر ، بے ایمان مرد و عورت تیرے لیے ہے ۔ یہ سن کر جہنم نے اپنی رضا مندی ظاہر کی ۔ آپ پھر چلے ۔ یہاں تک کہ بیت المقدس پہنچے ، اتر کر صخرہ میں اپنے گھوڑے کو باندھا ، اندر جاکر فرشتوں کے ساتھ نماز ادا کی ۔ فراغت کے بعد انہوں نے پوچھا کہ جبرائیل یہ آپ کے ساتھ کون ہیں ؟ آپ نے فرمایا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ انہوں نے کہا آپ کی طرف بھیجا گیا ؟ فرمایا ہاں ، سب نے مرحبا کہا کہ بہترین بھائی اور بہت ہی اچھے خلیفہ ہیں اور بہت اچھائی اور عزت سے آئے ہیں ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات نبیوں کی روحوں سے ہوئی ۔ سب نے اپنے پروردگار کی ثنا بیان کی ۔ ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا ، اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے اپنا خلیل بنایا اور مجھے بہت بڑا ملک دیا اور میرے امت کو ایسی فرمانبردار بنایا کہ ان کی اقتداء کی جاتی ہے ، اسی نے مجھے آگ سے بچالیا اور اسے میرے لیے ٹھنڈک اور سلامتی بنا دی ۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا ، اللہ ہی کی مہربانی ہے کہ اس نے مجھ سے کلام کیا ، میرے دشمنوں کو آل فرعون کو ہلاک کیا ، بنی اسرائیل کو میرے ہاتھوں نجات دی ، میری امت میں ایسی جماعت رکھی جو حق کی ہادی اور حق کے ساتھ عدل کرنے والی تھی ۔ پھر داؤد علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی ثنا بیان کرنی شروع کی کہ الحمدللہ ! اللہ نے مجھے عظیم الشان ملک دیا ، مجھے زبور کا علم دیا ، میرے لیے لوہا نرم کر دیا ، پہاڑوں کو مسخر کر دیا اور پرندوں کو بھی جو میرے ساتھ اللہ کی تسبیح کرتے تھے ، مجھے حکمت اور پر زور کلام عطا فرمایا ۔ پھر سلیمان علیہ السلام نے ثنا خوانی شروع کی کہ الحمدللہ ! اللہ نے ہواؤں کو میرے تابع کر دیا اور شیاطین کو بھی کہ وہ میری فرمان کے ماتحت بڑے بڑے محلات اور نقشے اور برتن وغیرہ بناتے تھے ۔ اس نے مجھے جانوروں کی گفتگو کے سمجھنے کا علم فرمایا ۔ ہر چیز میں مجھے فضیلت دی ، انسانوں کے ، جنوں کے ، پرندوں کے لشکر میرے ماتحت کر دئے اور اپنے بہت سے مومن بندوں پر مجھے فضیلت دی اور مجھے وہ سلطنت دی جو میرے بعد کسی کے لائق نہیں اور وہ بھی ایسی جس میں پاکیزگی ہی پاکیزگی تھی اور کوئی حساب نہ تھا ۔ پھر عیسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی تعریف بیان کرنی شروع کی کہ اس نے مجھے اپنا کلمہ بنایا اور میری مثال آدم علیہ السلام کی سی کی ۔ جسے مٹی سے پیداکر کے کہہ دیا تھا کہ ہوجا اور وہ ہو گئے تھے ۔ اس نے مجھے کتاب و حکمت ، تورات و انجیل سکھائی ، میں مٹی کا پرند بناتا پھر اس میں پھونک مارتا تو وہ بحکم الٰہی زندہ پرند بن کر اڑ جاتا ۔ میں بچپن کے اندھوں کو اور جذامیوں کو بحکم الٰہی اچھا کر دیتا تھا ، مردے اللہ کی اجازت سے زندہ ہو جاتے تھے ۔ مجھے اس نے اٹھا لیا ، مجھے پاک صاف کر دیا ، مجھے اور میری والدہ کو شیطان سے بچا لیا ، ہم پر شیطان کا کچھ دخل نہ تھا ۔ } { اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، تم سب نے تو اللہ کی تعریفیں بیان کرلیں ، اب میں کرتا ہوں ۔ اللہ ہی کے لیے حمد و ثنا ہے جس نے مجھے رحمت للعالمین بناکر اپنی تمام مخلوق کے لیے ڈرانے اور خوشخبری دینے والا بنا کر بھیجا ، مجھ پر قرآن کریم نازل فرمایا جس میں ہر چیز کا بیان ہے ۔ میری امت کو تمام اور امتوں سے افضل بنایا جو کہ اوروں کی بھلائی کے لیے بنائی گئی ہے ۔ اسے بہترین امت بنایا ، انہی کو اول کی اور آخر کی امت بنایا ۔ میرا سینہ کھول دیا ، میرے بوجھ دور کر دئے ، میرا ذکر بلند کر دیا اور مجھے شروع کرنے والا اور ختم کرنے والا بنایا ۔ ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا ، انہی وجوہ سے نبی کریم [ صلی اللہ علیہ وسلم ] تم سب سے افضل ہیں ۔ } امام ابو جعفر رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں شروع کرنے والے آپ ہیں یعنی بروز قیامت شفاعت آپ ہی سے شروع ہو گی ۔ { پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تین ڈھکے ہوئے برتن پیش کئے گئے ، پانی کے برتن میں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تھوڑا سا پی کر واپس کر دیا ۔ پھر دودھ کا برتن لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیٹ بھر کر دودھ پیا ۔ پھر شراب کا برتن لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے پینے سے انکار کر دیا کہ میں شکم سیر ہو چکا ہوں ۔ جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر حرام کر دی جانے والی ہے اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے پی لیتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تابعدار بہت ہی کم ہوتے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آسمان کی طرف چڑھایا گیا ، دروازہ کھلوانا چاہا تو پوچھا گیا یہ کون ہیں ؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا محمد [ صلی اللہ علیہ وسلم ] ہیں ۔ پوچھا گیا کیا آپ کی طرف بھیج دیا گیا ؟ فرمایا ہاں ، انہوں نے کہا اللہ تعالیٰ اس بھائی اور خلیفہ کو خوش رکھے یہ بڑے اچھے بھائی اور نہایت عمدہ خلیفہ ہیں ۔ اسی وقت دروازہ کھول دیا گیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ ایک شخص ہیں پوری پیدائش کے ، عام لوگوں کی طرح ان کی پیدائش میں کوئی نقصان نہیں ، ان کے دائیں ایک دروازہ ہے جہاں سے خوشبو کی لپٹیں آرہی ہیں اور بائیں جانب ایک دروازہ ہے جہاں سے خبیث ہوا آ رہی ہے ۔ داہنی طرف کے دروازے کو دیکھ کر ہنس دیتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں اور بائیں طرف کے دروازے کو دیکھ کر رو دیتے ہیں اور غمگین ہو جاتے ہیں ۔ میں نے کہا جبرائیل علیہ السلام یہ شیخ پوری پیدائش والے کون ہیں ؟ جن کی خلقت میں کچھ بھی نہیں گھٹا ۔ اور یہ دونوں دروازے کیسے ہیں ؟ جواب ملا کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد آدم علیہ السلام ہیں ۔ دائیں جانب جنت کا دروازہ ہے ۔ اپنی جنتی اولاد کو دیکھ کر خوش ہو کر ہنس دیتے ہیں اور بائیں جانب جہنم کا دروازہ ہے ۔ آپ اپنی دوزخی اولاد کو دیکھ کر رو دیتے ہیں اور غمگین ہو جاتے ہیں ۔ پھر دوسرے آسمان کی طرف چڑھے ۔ اسی طرح کے سوال جواب کے بعد دروازہ کھلا ۔ وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو جوانوں کو دیکھا ۔ دریافت پر معلوم ہوا کہ یہ عیسیٰ بن مریم اور یحییٰ بن زکریا علیہما السلام ہیں ۔ یہ دونوں آپس میں خالہ زاد بھائی ہوتے ہیں ۔ پھر اسی طرح تیسرے آسمان پر پہنچے ۔ وہاں یوسف علیہ السلام کو پایا جنہیں حسن میں اور لوگوں پر وہی فضیلت تھی جو چاند کو باقی ستاروں پر ۔ پھر چوتھے آسمان پر اسی طرح پہنچے ۔ وہاں ادریس علیہ السلام کو پایا جنہیں اللہ تعالیٰ نے بلند مکان پر چڑھا لیا ہے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پانچویں آسمان پر بھی انہی سوالات و جوابات کے بعد پہنچے ۔ دیکھا کہ ایک صاحب بیٹھے ہوئے ہیں ، ان کے آس پاس کچھ لوگ ہیں جو ان سے باتیں کر رہے ہیں ۔ پوچھا یہ کون ہیں ؟ جواب ملا کہ ہارون علیہ السلام ہیں جو اپنی قوم میں ہر دلعزیز تھے اور یہ لوگ بنی اسرائیل ہیں ۔ پھر اسی طرح چھٹے آسمان پر پہنچے ۔ موسیٰ علیہ السلام کو دیکھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان سے بھی آگے نکل جانے پر وہ رو دئیے ۔ دریافت کرنے پر سبب یہ معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل میری نسبت یہ سمجھتے تھے کہ تمام اولاد آدم میں اللہ کے پاس سب سے زیادہ بزرگ میں ہوں لیکن یہ ہیں میرے خلیفہ جو دنیا میں ہیں اور میں آخرت میں ہوں ۔ خیر صرف یہی ہوتے تو بھی چنداں مضائقہ نہ تھا لیکن ہر نبی کے ساتھ اس کی امت ہے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح ساتویں آسمان پر پہنچے ۔ وہاں ایک صاحب کو دیکھا جن کی داڑھی میں کچھ سفید بال تھے ۔ وہ جنت کے دروازے پر ایک کرسی لگائے بیٹھے ہوئے ہیں ۔ ان کے پاس کچھ اور لوگ بھی ہیں ۔ بعض کے چہرے تو روشن ہیں اور بعض کے چہروں پر کچھ کم چمک ہے بلکہ رنگ میں کچھ اور بھی ہے ۔ یہ لوگ اٹھے اور نہر میں ایک غوطہٰ لگایا جس سے رنگ قدرے نکھر گیا ، پھر دوسری نہر میں نہائے کچھ اور نکھر گئے ، پھر تیسری میں غسل کیا بالکل روشن سفید چہرے ہو گئے ۔ آکر دوسروں کے ساتھ ملکر بیٹھ گئے اور انہی جیسے ہو گئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوال پر جبرائیل علیہ السلام نے بتلایا کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد ابراہیم علیہ السلام ہیں ۔ روئے زمین پر سفید بال سب سے پہلے ان ہی کے نکلے ۔ یہ سفید منہ والے وہ ایماندار لوگ ہیں جو برائیوں سے بالکل بچے رہے اور جن کے چہروں کے رنگ میں کچھ کدورت تھی ، یہ وہ لوگ ہیں جن سے نیکیوں کے ساتھ کچھ بدیاں بھی سرزد ہو گئی تھیں ۔ ان کی توبہ پر اللہ تعالیٰ مہربان ہو گیا ۔ اول نہر اللہ کی رحمت ہے ، دوسری نعمت ہے ، تیسری شراب طہور کی نہر ہے جو جنتیوں کی خاص شراب ہے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی سنتوں پر جو پابندی کرے وہ یہاں تک پہنچایا جاتا ہے ۔ اس کی جڑ سے پاکیزہ پانی کی ، صاف ستھرے دودھ کی ، لذیذ بے نشہ شراب کی اور صاف شہد کی نہریں جاری تھیں ۔ اس درخت کے سائے میں کوئی سوار اگر ستر سال بھی چلا جائے تاہم اس کا سایہ ختم نہیں ہوتا ۔ اس کا ایک ایک پتہ اتنا بڑا ہے کہ ایک ایک امت کو ڈھانپ لے ۔ اللہ تعالیٰ عز و جل کے نور نے اسے چاروں طرف سے ڈھک رکھا تھا اور پرند کی شکل کے فرشتوں نے اسے چھپا لیا تھا جو اللہ تبارک و تعالیٰ کی محبت میں وہاں تھے ۔ اس وقت اللہ تعالیٰ جل شانہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے باتیں کیں ، فرمایا کہ مانگو کیا مانگتے ہو ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گزارش کی کہ اے اللہ تو نے ابراہیم علیہ السلام کو اپنا خلیل بنایا اور انہیں بڑا ملک دیا ، موسیٰ علیہ السلام سے تو نے باتیں کیں ، داؤد علیہ السلام کو تو نےعظیم الشان سلطنت دی اور ان کے لیے لوہا نرم کر دیا ۔ سلیمان علیہ السلام کو تو نے بادشاہت دی ، جنات ، انسان ، شیاطین ، ہوائیں ان کے تابع فرمان کیں اور وہ بادشاہت دی جو کسی کے لائق ان کے سوا نہیں ۔ عیسیٰ علیہ السلام کو تو نے تورات و انجیل سکھائی ، اپنے حکم سے اندھوں اور کوڑھیوں کو اچھا کرنے والا اور مردوں کو جلانے والا بنایا ، انہیں اور ان کی والدہ کو شیطان رجیم سے بچایا کہ اسے ان پر کوئی دخل نہ تھا ، میری نسبت فرمان ہو ۔ رب العالمین عز و جل نے فرمایا ، تو میرا خلیل ہے ، توراۃ میں میں نے تجھے خلیل الرحمن کا لقب دیا ہے ۔ تجھے تمام لوگوں کی طرف بشیر و نذیر بنا کر بھیجا ہے ، تیرا سینہ کھول دیا ہے ، تیرا بوجھ اتار دیا ہے ۔ تیرا ذکر بلند کر دیا ہے ، جہاں میرا ذکر آئے وہاں تیرا ذکر بھی ہوتا ہے اور تیری امت کو میں نے سب امتوں سے بہتر بنایا ہے جو لوگوں کے لیے ظہور میں لائی گئی ہے ۔ تیری امت کو بہترین امت بنایا ہے ، تیری ہی امت کو اولین اور آخرین بنایا ہے ۔ ان کا خطبہ جائز نہیں جب تک وہ تیرے بندے اور رسول ہونے کی شہادت نہ دے لیں ۔ میں نے تیری امت میں ایسے لوگ بنائے ہیں جن کے دل میں الکتاب ہے ۔ تجھے از روئے پیدائش سب سے اول کیا اور از روئے بعثت کے سب سے آخر کیا اور از روئے فیصلہ کے بھی سب سے اول کیا ۔ تجھے میں نے سات ایسی آیتیں دیں جو باربار دہرائی جاتی ہیں جو تجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں ملیں ، تجھے میں نے اپنے عرش تلے سے سورۃ البقرہ کے خاتمے کی آیتیں دیں جو تجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں ۔ میں نے تجھے کوثر عطا فرمائی اور میں نے تجھے اسلام کے آٹھ حصے دئے ۔ اسلام ، ہجرت ، جہاد ، نماز ، صدقہ ، رمضان کے روزے ، نیکی کا حکم ، برائی سے روک اور میں نے تجھے شروع کرنے والا اور ختم کرنے والا بنایا ۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے مجھے میرے رب نے چھ باتوں کی فضیلت مرحمت فرمائی ۔ کلام کی ابتداء اور اس کی انتہا دی ۔ جامع باتیں دیں ۔ تمام لوگوں کی طرف خوشخبری دینے والا اور آگاہ کرنے والا بنا کر بھیجا ۔ میرے دشمن مجھ سے مہینہ بھر کی راہ پر ہوں ، وہیں سے اس کے دل میں میرا رعب ڈال دیا گیا ۔ میرے لیے غنیمتیں حلال کی گئیں جو مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال نہیں ہوئیں ۔ میرے لیے ساری زمین مسجد اور وضو بنائی گئی ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پچاس نمازوں کے فرض ہونے کا اور بہ مشورہ موسیٰ علیہ السلام تخفیف طلب کرنے کا اور آخر میں پانچ رہ جانے کا ذکر ہے ۔ جیسے کہ اس سے پہلے گزر چکا ہے ۔ پس پانچ رہیں اور ثواب پچاس کا جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت ہی خوش ہوئے ۔ جاتے وقت موسیٰ علیہ السلام سخت تھے اور آتے وقت نہایت نرم اور سب سے بہتر ۔ } ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:22021:ضعیف) اور کتاب کی اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ اسی آیت «سُبْحَانَ الَّذِی أَسْرَیٰ بِعَبْدِہِ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَی الْمَسْجِدِ الْأَقْصَی» الخ ۱؎ (17-الإسراء:1) کی تفسیر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ واقعہ بیان فرمایا ۔ یہ بھی واضح رہے کہ اس لمبی حدیث کا ایک راوی ابو جعفر رازی بظاہر حافظہ کے کچھ ایسے اچھے نہیں معلوم ہوتے ۔ اس کے بعض الفاظ میں سخت غرابت اور بہت زیادہ نکارت ہے ۔ انہیں ضعیف بھی کہا گیا ہے اور صرف انہی کی روایت والی حدیث قابل توجہ ہے ۔ ایک اور بات یہ ہے کہ خواب والی حدیث کا کچھ حصہ بھی اس میں آ گیا ہے ۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ بہت سی اجادیث کا مجموعہ ہو یا خواب یا معراج کے سوا کے واقعہ کی اس میں روایت ہو ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ بخاری و مسلم کی ایک روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے موسیٰ علیہ السلام ، عیسیٰ علیہ السلام ، ابراہیم علیہ السلام کا حلیہ بیان کرنا وغیرہ بھی مروی ہے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3437) صحیح مسلم کی حدیث میں { حطیم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیت المقدس کے سوالات کئے جانے اور پھر اس کے ظاہر ہو جانے کا واقعہ بھی ہے ۔ اس میں بھی ان تینوں نبیوں سے ملاقات کرنے کا اور ان کے حلیہ کا بیان ہے اور یہ بھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نماز میں کھڑا پایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مالک خازن جہنم کو بھی دیکھا اور انہوں نے ہی ابتداءاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سلام کیا ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:172) بیہقی وغیرہ میں کئی ایک صحابہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام ہانی کے مکان پر سوئے ہوئے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز سے فارغ ہو گئے تھے ۔ وہیں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج ہوئی ۔ } ۱؎ (بیہقی:404/2:ضعیف) پھر امام حاکم نے بہت لمبی حدیث بیان فرمائی ہے جس میں درجوں کا اور فرشتوں وغیرہ کا ذکر ہے ۔ اللہ کی قدرت سے تو کوئی چیز بعید نہیں بشرطیکہ وہ روایت صحیح ثابت ہو جائے ۔ امام بیہقی رحمہ اللہ اس روایت کو بیان کر کے فرماتے ہیں کہ مکہ شریف سے بیت المقدس تک جانے اور معراج کے بارے میں اس حدیث میں پوری کفایت ہے لیکن اس راویت کو بہت ائمہ حدیث نے مرسل بیان کیا ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت سنئے ۔ بیہقی میں ہے کہ { جب صبح کے وقت لوگوں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کا ذکر کیا تو بہت سے لوگ مرتد ہو گئے جو اس سے پہلے با ایمان اور تصدیق کرنے والے تھے ۔ پھر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس ان کا جانا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سچا ماننا اور صدیق لقب پانا مروی ہے ۔ } ۱؎ (مستدرک حاکم:62/3:ضعیف) خود ام ہانی سے روایت ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج میرے ہی مکان سے کرائی گئ ہے ۔ اس رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز عشاء کے بعد میرے مکان پر ہی آرام فرما تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی سو گئے اور ہم سب بھی ۔ صبح سے کچھ ہی پہلے ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جگایا ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی ہم نے صبح کی نماز ادا کی تو آپ نے فرمایا ، اے ام ہانی میں نے تمہارے ساتھ ہی عشاء کی نماز ادا کی اور اب صبح کی نماز میں بھی تمہارے ساتھ ہی ہوں ۔ اس درمیان میں اللہ تعالیٰ نے مجھے بیت المقدس پہنچایا اور میں نے وہاں نماز بھی پڑھی ۔ } ۱؎ (المطالب العالیہ:4287:ضعیف) ایک راوی کلبی متروک ہے اور بالکل ساقط ہے لیکن اسے ابویعلیٰ میں اور سند سے خوب تفصیل سے روایت کیا ہے ۔ طبرانی میں ام ہانی رضی اللہ عنہا سے منقول ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شب معراج میرے ہاں سوئے ہوئے تھے ۔ میں نے رات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر چند تلاش کی لیکن نہ پایا ، ڈر تھا کہ کہیں قریشیوں نے کوئی دھوکا نہ کیا ہو ۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جبرائیل علیہ السلام میرے پاس آئے اور میرا ہاتھ تھام کر مجھے لے چلے ۔ دروازے پر ایک جانور تھا جو خچر سے چھوٹا اور گدھے سے اونچا تھا ، مجھے اس پر سوار کیا ۔ پھر مجھے بیت المقدس پہنچایا ۔ ابراہیم علیہ السلام کو دکھایا ، وہ اخلاق میں اور صورت شکل میں بالکل میرے مشابہ تھے ۔ موسیٰ علیہ السلام کو دکھایا ، لانبے قد کے سیدھے بالوں کے ایسے تھے جیسے ازدشنوہ کے قبیلے کے لوگ ہوا کرتے ہیں ۔ اسی طرح مجھے عیسٰی علیہ السلام کو بھی دکھایا ، درمیانہ قد سفید سرخی مائل رنگ بالکل ایسے جیسے عروہ بن مسعود ثقفی ہیں ۔ دجال کو دکھایا ، ایک آنکھ اس کی بالکل مٹی ہوئی تھی ، ایسا تھا جیسے قطن بن عبد العزی ۔ یہ فرما کرفرمایا ، اچھا اب میں جاتا ہوں ، جو کچھ دیکھا ہے وہ قریش سے بیان کرتا ہوں ۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن تھام لیا اور عرض کیا ، للہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم میں اس خواب کو بیان نہ کریں ۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلائیں گے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ہرگز نہ مانیں گے اور اگر بس چلا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بےادبی کریں گے ۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھٹکا مار کر اپنا دامن میرے ہاتھ سے چھڑا لیا اور سیدھے قریش کے مجمع میں پہنچ کر ساری باتیں بیان فرما دیں ۔ جبیر من مطعم کہنے لگا ، بس آج ہمیں معلوم ہو گیا ، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہوتے تو ایسی بات ہم میں بیٹھ کر نہ کہتے ۔ ایک شخص نے کہا کیوں ؟ راستے میں ہمارا فلاں قافلہ بھی ملا تھا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں اور ان کا ایک اونٹ کھو گیا تھا جس کی تلاش کر رہے تھے ۔ کسی نے کہا اور فلاں قبیلے والوں کے اونٹ بھی راستے میں ملے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، وہ بھی ملے تھے ، فلاں جگہ تھے ۔ ان میں ایک سرخ رنگ اونٹنی تھی جس کا پاؤں ٹوٹ گیا تھا ۔ ان کے پاس ایک بڑے پیالے میں پانی تھا ۔ جسے میں نے بھی پیا ۔ انہوں نے کہا ، اچھا ان کے اونٹوں کی گنتی بتاؤ ۔ ان میں چرواہے کون کون تھے یہ بھی بتاؤ ؟ اسی وقت اللہ تعالیٰ نے قافلہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کر دیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری گنتی بھی بتادی اور چرواہوں کے نام بھی بتا دئے ۔ ایک چرواہا ان میں ابن ابی قحافہ تھا اور یہ بھی فرما دیا کہ کل صبح کو وہ ثنیہ پہنچ جائیں گے ۔ چنانچہ اس وقت اکثر لوگ بطور آزمائش ثنیہ جا پہنچے ۔ دیکھا کہ واقعی قافلہ آ گیا ۔ ان سے پوچھا کہ تمہارا اونٹ گم ہو گیا تھا ؟ انہوں نے کہا درست ہے گم ہو گیا تھا ۔ دوسرے قافلے والوں سے پوچھا ، تمہاری کسی سرخ رنگ اونٹنی کا پاؤں ٹوٹ گیا ہے ؟ انہوں نے کہا ہاں یہ بھی صحیح ہے ۔ پوچھا ، کیا تمہارے پاس بڑا پیالہ پانی کا بھی تھا ۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہما نے کہا ، ہاں اللہ کی قسم اسے تو میں نے خود رکھا تھا اور ان میں سے نہ کسی نے اسے پیا ، نہ وہ پانی گرایا گیا ۔ بیشک محمد صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہیں ۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اور اس دن سے ان کا نام صدیق رکھا گیا ۔ } ۱؎ (طبرانی کبیر:432/24:ضعیف) ’ فصل ‘ ان تمام احادیث کی واقفیت کے بعد جن میں صحیح بھی ہیں ، حسن بھی ہیں ، ضعیف بھی ہیں ، کم از کم اتنا تو ضرور معلوم ہو گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مکہ شریف سے بیت المقدس تک لے جانا ہوا ۔ اور یہ بھی معلوم ہو گیا کہ یہ صرف ایک ہی مرتبہ ہوا ہے ۔ گو راویوں کی عبارتیں اس باب میں مختلف الفاظ سے ہیں ۔ گو ان میں کمی بیشی بھی ہے ، یہ کوئی بات نہیں اور سوائے انبیاء علیہم السلام کے خطا سے پاک ہے کون ؟ بعض لوگوں نے ہر ایسی روایت کو ایک الگ واقعہ کہا جاتا ہے اور اس کے قائل ہوئے ہیں کہ یہ واقعہ کئی بار ہوا لیکن یہ لوگ بہت دور نکل گئے اور بالکل انوکھی بات کہی اور نہ جانے کی جگہ چلے گئے اور پھر بھی مطلب حاصل نہ ہوا ۔ متاخرین میں سے بعض نے ایک اور ہی توجیہہ پیش کی ہے اور اس پر انہیں بڑا ناز ہے ۔ وہ یہ کہ ایک مرتبہ تو آپ کو مکہ سے صرف بیت المقدس تک کی سیر ہوئی ۔ ایک مرتبہ مکہ سے آسمانوں پر چڑھائے گئے اور ایک مرتبہ مکہ سے بیت المقدس اور بیت المقدس سے آسمانوں تک ۔ لیکن یہ قول بھی بعید از قیاس اور بالکل غریب ہے ۔ سلف میں سے تو اس کا کوئی قائل نہیں ۔ اگر ایسا ہوتا تو خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود ہی اسے کھول کر بیان فرما دیتے اور راوی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے باربار ہونے کی روایت بیان کرتے ۔ بقول زہری رحمہ اللہ معراج کا یہ واقعہ ہجرت سے ایک سال پہلے کا ہے ۔ عروہ رحمہ اللہ بھی یہی کہتے ہیں ۔ سدی رحمہ اللہ کہتے ہیں چھ ماہ پہلے کا ہے ۔ لہٰذا حق بات یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جاگتے میں نہ کہ خواب میں مکہ شریف سے بیت المقدس تک کی اسرا کرائی گئی ۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم براق پر سوار تھے ۔ مسجد قدس کے دروازے پر آپ نے براق کو باندھا ، وہاں جاکر اس کے قبلہ رخ تحیۃ المسجد کے طور پر دو رکعت نماز ادا کی ۔ پھر معراج لائے گئے جو درجوں والی ہے اور بطور سیڑھی کے ہے ۔ اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم آسمان دنیا پر چڑھائے گئے ۔ پھر ساتوں آسمانوں پر پہنچائے گئے ۔ ہر آسمان کے مقربین الٰہی سے ملاقاتیں ہوئیں ، انبیاء علیہم السلام سے ان کے منازل و درجات کے مطابق سلام علیک ہوئی ۔ چھٹے آسمان میں کلیم اللہ علیہ السلام سے اور ساتویں میں خلیل اللہ علیہ السلام سے ملے ۔ پھر ان سے بھی آگے بڑھ گئے ۔ [ صلی اللہ علیہ وسلم و علی سائر الانبیاء علیہم الصلوۃ و السلام ] ۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مستوی میں پہنچے جہاں قضاء و قدر کی قلموں کی آوازیں آپ نے سنیں ۔ سدرۃ المنتہیٰ کو دیکھا جس پر عظمت ربی چھا رہی تھی ۔ سونے کی ٹڈیاں اور طرح طرح کے رنگ وہاں پر نظر آ رہے تھے ۔ فرشتے چاروں طرف سے اسے گھیرے ہوئے تھے ۔ وہیں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام کو ان کی اصلی صورت میں دیکھا جن کے چھ سو پر تھے ۔ وہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رف رف سبز رنگ کا دیکھا ۔ جس نے آسمان کے کناروں کو ڈھک رکھا تھا ۔ بیت المعمور کی زیارت کی جو خلیل اللہ علیہ صلوات اللہ کے زمینی کعبے کے ٹھیک اوپر آسمانوں پر ہے ، یہی آسمانی کعبہ ہے ۔ خلیل اللہ علیہ السلام اس سے ٹیک لگائے بیٹھے ہوئے تھے ۔ اس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے عبادت ربانی کے لیے جاتے ہیں مگر جو آج گئے ، پھر ان کی باری قیامت تک نہیں آتی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت دوزخ دیکھی ۔ یہیں اللہ تعالیٰ رحمن و رحیم نے پچاس نمازیں فرض کرکے پھر تخفیف کر دی اور پانچ رکھیں جو خاص اس کی رحمت تھی ۔ اس سے نماز کی بزرگی اور فضیلت بھی صاف طور پر ظاہر ہے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس بیت المقدس کی طرف اترے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی تمام انبیاء علیہم السلام بھی اترے ۔ وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب کو نماز پڑھائی جب کہ نماز کا وقت ہو گیا ۔ ممکن ہے وہ اس دن کی صبح کی نماز ہو ۔ ہاں بعض حضرات کا قول ہے کہ امامت انبیاء آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمانوں میں کی ۔ لیکن صحیح روایات سے بظاہر یہ واقعہ بیت المقدس کا معلوم ہوتا ہے ۔ گو بعض روایتوں میں یہ بھی آیا ہے کہ جاتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نماز پڑھائی لیکن ظاہر یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واپسی میں امامت کرائی ۔ اس کی ایک دلیل تو یہ ہے کہ جب آسمانوں پر انبیاء علیہم السلام سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات ہوتی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر ایک کی بابت جبرائیل علیہ السلام سے پوچھتے ہیں کہ یہ کون ہیں ؟ اگر بیت المقدس میں ہی ان کی امامت آپ نے کرائی ہوئی ہوتی تو اب چنداں اس سوال کی ضرورت نہیں رہتی ۔ دوسرے یہ کہ سب سے پہلے اور سب سے بڑی غرض تو بلندی پر جناب باری تعالیٰ کے حضور میں حاضر ہونا تھا تو بظاہر یہی بات سب پر مقدم تھی ۔ جب یہ ہو چکا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر اس رات میں جو فریضہ نماز مقرر ہونا تھا ، وہ بھی ہو چکا ، اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے بھائیوں کے ساتھ جمع ہونے کا موقعہ ملا اور ان سب کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بزرگی اور فضیلت ظاہر کرنے کے لیے جبرائیل علیہ السلام کے اشارے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امام بن کر انہیں نماز پڑھائی ۔ پھر بیت المقدس سے بذریعہ براق آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس رات کو اندھیرے اور صبح کے کچھ ہی اجالے کے وقت مکہ شریف پہنچ گئے ۔ «واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم» ۔ اب یہ جو مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دودھ اور شہد یا دودھ اور شراب یا دودھ اور پانی پیش کیا گیا یا چاروں ہی چیزیں ، اس کی بابت روایتوں میں یہ بھی ہے کہ یہ واقعہ بیت المقدس کا ہے اور یہ بھی کہ یہ واقعہ آسمانوں کا ہو ، لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دونوں ہی جگہ یہ چیز آپ کے سامنے پیش ہوئی ہو اس لیے کہ جیسے کسی آنے والے کے سامنے بطور مہمانی کے کچھ چیز رکھی جاتی ہے ، اسی طرح یہ تھا ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ معراج جسمانی تھی یا روحانی ؟ پھر اس میں بھی لوگوں نے اختلاف کیا ہے کہ معراج آپ کو جسم و روح سمیت کرائی گئی تھی ؟ یا صرف روحانی طور پر ؟ اکثر علماء کرام تو یہی فرماتے ہیں کہ جسم و روح سمیت آپ کو معراج ہوئی اور ہوئی بھی جاگتے میں نہ کہ بطور خواب کے ۔ ہاں اس کا انکار نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے خواب میں یہی چیزیں دکھائی گئی ہوں ۔ آپ خواب میں جو کچھ ملاحظہ فرماتے ، اسے اسی طرح پھر واقعہ میں جاگتے ہوئے بھی ملاحظہ فرما لیتے ۔ اس کی بڑی دلیل ایک تو یہ ہے کہ اس واقعہ کے بیان فرمانے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنی پاکیزگی بیان فرمائی ہے ۔ اس اسلوب بیان کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے بعد کی بات کوئی بڑی اہم ہے ۔ اگر یہ واقعہ خواب کا مانا جائے تو خواب میں ایسی باتیں دیکھ لینا اتنا اہم نہیں کہ اس کو بیان فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ پہلے سے بطور احسان اور بطور اظہار قدرت اپنی تسبیح بیان کرے ۔ پھر اگر یہ واقعہ خواب کا ہی تھا تو کفار اس طرح جلدی سے آپ کی تکذیب نہ کرتے ، ایک شخص اپنا خواب اور خواب میں دیکھی ہوئی عجیب چیزیں بیان کر رہا ہے یا کرے تو کوئی وجہ نہ تھی کہ بھڑ بھڑا کر آ جائیں اور سنتے ہی سختی سے انکار کرنے لگیں ۔ پھر جو لوگ کہ اس سے پہلے آپ پر ایمان لا چکے تھے اور آپ کی رسالت کو قبول کر چکے تھے ، کیا وجہ ہے کہ وہ واقعہ معراج کو سن کر اسلام سے پھر جاتے ہیں ؟ اس سے بھی ظاہر ہے کہ آپ نے خواب کا قصہ بیان نہیں فرمایا تھا ۔ پھر قرآن کے لفظ «بِعَبْدِہِ» پر غور کیجئے ۔ عبد کا اطلاق روح اور جسم دونوں کے مجموعے پر آتا ہے ۔ پھر « أَسْرَیٰ بِعَبْدِہِ لَیْلًا» کا فرمانا اس چیز کو اور صاف کر دیتا ہے کہ وہ اپنے بندے کو رات کے تھوڑے سے حصے میں لے گیا ۔ اس دیکھنے کو لوگوں کی آزمائش کا سبب آیت «وَمَا جَعَلْنَا الرٰؤْیَا الَّتِی أَرَیْنَاکَ إِلَّا فِتْنَۃً لِّلنَّاسِ» ۱؎ (17-الإسراء:60) میں فرمایا گیا ہے ۔ ’ اگر یہ خواب ہی تھا تو اس میں لوگوں کی ایسی بڑی کون سی آزمائش تھی جسے مستقل طور پر بیان فرمایا جاتا ؟ ‘ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ یہ آنکھوں کا دیکھنا تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھایا گیا ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4716) ۔ خود قرآن فرماتا ہے آیت «مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَیٰ » ۱؎ (53-النجم:17) ’ نہ تو نگاہ بہکی نہ بھٹکی ۔ ‘ ظاہر ہے کہ بصر یعنی نگاہ انسان کی ذات کا ایک وصف ہے ، نہ کہ صرف روح کا ۔ پھر براق کی سواری کا لایا جانا اور اس سفید چمکیلے جانور پر سوار کراکر آپ کو لے جانا بھی اسی کی دلیل ہے کہ یہ واقعہ جاگنے کا اور جسمانی ہے ورنہ صرف روح کے لیے سواری کی ضرورت نہیں «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ معراج صرف روحانی تھی نہ کہ جسمانی ۔ چنانچہ محمد بن اسحاق لکھتے ہیں کہ سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کا یہ قول مروی ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:22032:ضعیف و منقطع) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جسم غائب نہیں ہوا تھا بلکہ روحانی معراج تھی ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:22033:ضعیف و باطل) اس قول کا انکار نہیں کیا گیا کیونکہ حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں آیت «وَمَا جَعَلْنَا الرٰؤْیَا الَّتِی أَرَیْنَاکَ إِلَّا فِتْنَۃً لِّلنَّاسِ» (17-الإسراء:60) الخ ، آیت اتری ہے ۔ اور ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی نسبت خبر دی ہے کہ انہوں نے فرمایا ، میں نے خواب میں تیرا ذبح کرنا دیکھا ہے ۔ اب تو سوچ لے کیا دیکھتا ہے ؟ پھر یہی حال رہا ۔ پس ظاہر ہے کہ انبیاء علیہم السلام پر وحی جاگتے میں بھی آتی ہے اور خواب میں بھی ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ میری آنکھیں سو جاتی ہیں اور دل جاگتا رہتا ہے ۔ } «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اس میں سے کون سی سچی بات تھی ؟ آپ گئے اور آپ نے بہت سی باتیں دیکھیں ۔ جس حال میں بھی آپ تھے سوتے یا جاگتے سب حق اور سچ ہے ۔ یہ تو تھا محمد بن اسحاق رحمہ اللہ کا قول ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ نے اس کی بہت کچھ تردید کی ہے اور ہر طرح اسے رد کیا ہے اور اسے خلاف ظاہر قرار دیا ہے کہ الفاظ قرآنی کے سراسر خلاف یہ قول ہے ۔ پھر اس کے خلاف بہت سی دلیلیں پیش کی ہیں جن میں سے چند ہم نے بھی اوپر بیان کر دی ہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ فائدہ ایک نہایت عمدہ اور بہت زبردست فائدہ اس بیان میں اس روایت سے ہوتا ہے جو حافظ ابو نعیم اصبہانی رحمہ اللہ کتاب دلائل النبوۃ میں لائے ہیں کہ جب وحیہ بن خلیفہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیصر روم کے پاس بطور قاصد کے اپنے نامہ مبارک کے ساتھ بھیجا ۔ یہ گئے ، پہنچے اور عرب تاجروں کو جو ملک شام میں تھے ، ہرقل نے جمع کیا ۔ ان میں ابوسفیان صخر بن حرب تھا اور اس کے ساتھی مکے کے دوسرے کافر بھی تھے ۔ پھر اس نے ان سے بہت سے سوالات کئے جو بخاری و مسلم وغیرہ میں مذکور ہیں ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:7) ابوسفیان کی اول سے آخر تک یہی کوشش رہی کہ کسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی برائی اور حقارت اس کے سامنے کرے تاکہ بادشاہ کے دل کا میلان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نہ ہو ۔ وہ خود کہتا ہے کہ میں صرف اس خوف سے غلط باتیں کرنے اور تہمتیں دھرنے سے باز رہا کہ کہیں میرا کوئی جھوٹ اس پر کھل نہ جائے ۔ پھر تو یہ میری بات کو جھٹلا دے گا اور بڑی ندامت ہو گی ۔ اسی وقت دل میں خیال آ گیا اور میں نے کہا ، بادشاہ سلامت سنئے ، میں ایک واقعہ بیان کروں جس سے آپ پر یہ بات کھل جائے گی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم بڑے جھوٹے آدمی ہیں ۔ سنئے ایک دن وہ کہنے لگا کہ اس رات وہ مکہ سے چلا اور آپ کی اس مسجد میں یعنی بیت المقدس کی مسجد قدس میں آیا اور پھر واپس صبح سے پہلے مکہ پہنچ گیا ۔ میری یہ بات سنتے ہی بیت المقدس کا لاٹ پادری جو شاہ روم کی اس مجلس میں اس کے پاس بڑی عزت سے بیٹھا تھا ، فوراً ہی بول اٹھا کہ یہ بالکل سچ ہے ۔ مجھے اس رات کا علم ہے ۔ قیصر نے تعجب خیز نظر سے اس کی طرف دیکھا اور ادب سے پوچھا ، جناب کو کیسے معلوم ہوا ؟ اس نے کہا ، سنئے میری عادت تھی اور یہ کام میں نے اپنے متعلق کر رکھا تھا کہ جب تک مسجد شریف کے تمام دروازے اپنے ہاتھ سے بند نہ کر لوں ، سوتا نہ تھا ۔ اس رات میں دروازے بند کرنے کو کھڑا ہوا ۔ سب دروازے اچھی طرح بند کر دئے لیکن ایک دروازہ مجھ سے بند نہ ہو سکا ۔ میں نے ہر چند زور لگایا لیکن کواڑ اپنی جگہ سے سرکا بھی نہیں ، میں نے اسی وقت اپنے آدمیوں کو آواز دی ۔ وہ آئے ہم سب نے مل کر طاقت لگائی لیکن سب کے سب ناکام رہے ۔ بس یہ معلوم ہو رہا تھا کہ گویا ہم کسی پہاڑ کو اس کی جگہ سے سرکانا چاہتے ہیں لیکن اس کا پہیہ تک بھی تو نہیں ہلا ۔ میں نے بڑھئی بلوائے ۔ انہوں نے بہت ترکیبیں کیں ، کوششیں کیں لیکن وہ بھی ہار گئے اور کہنے لگے ، صبح پر رکھئے ۔ چنانچہ وہ دروازہ اس شب یونہی رہا ، دونوں کواڑ بالکل کھلے رہے ۔ صبح ہی جب میں اسی دروازے کے پاس گیا تو دیکھا کہ اس کے پاس کونے میں جو چٹان پتھر کی تھی اس میں ایک سوراخ ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس میں رات کو کسی نے کوئی جانور باندھا ہے ۔ اس کے اثر اور نشان موجود تھے ۔ میں سمجھ گیا اور میں نے اسی وقت اپنی جماعت سے کہا کہ آج کی رات ہماری یہ مسجد کسی نبی کے لیے کھلی رکھی گئی اور اس نے یہاں ضرور نماز ادا کی ہے ۔ ۱؎ (ضعیف) یہ حدیث بہت لمبی ہے ۔ ابو الخطاب عمر بن وحیہ رحمہ اللہ اپنی کتاب التنویر فی مولد السراج المنیر میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی روایت سے معراج کی حدیث وارد کرکے اس کے متعلق نہایت عمدہ کلام کرکے پھر فرماتے ہیں ، معراج کی حدیث متواتر ہے ۔ سیدنا عمر بن خطاب ، سیدنا علی ، سیدنا ابن مسعود ، سیدنا ابوذر ، سیدنا مالک بن صعصعہ ، سیدنا ابوہریرہ ، سیدنا ابوسعید ، سیدنا ابن عباس ، سیدنا شداد بن اوس، سیدنا ابی بن کعب ، سیدنا عبدالرحمٰن بن قرظ ، سیدنا ابو حبہ ، سیدنا ابو لیل ، سیدنا عبداللہ بن عمرو ، سیدنا جابر ، سیدنا حذیفہ ، سیدنا بریدہ ، سیدنا ابو ایوب ، سیدنا ابو امامہ ، سیدنا سمرہ بن جندب ، سیدنا ابو الحمراء ، سیدنا صہیب رومی ، سیدہ ام ہانی ، سیدہ عائشہ اور سیدہ اسماء وغیرہ سے مروی ہے رضی اللہ عنہم اجمعین ۔ ان میں سے بعض نے تو اسے مطول بیان کیا ہے اور بعض نے مختصر ۔ گو ان میں سے بعض روایتیں سنداً صحیح نہیں لیکن بالجملہ صحت کے ساتھ واقعہ معراج ثابت ہے اور مسلمان اجماعی طور پر اس کے قائل ہیں ۔ ہاں بیشک زندیق اور ملحد لوگ اس کے منکر ہیں ۔ «یُرِیدُونَ لِیُطْفِئُوا نُورَ اللہِ بِأَفْوَاہِہِمْ وَ اللہُ مُتِمٰ نُورِہِ وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُونَ» ۱؎ (61-الصف:8) ’ وہ اللہ تعالیٰ کے نورانی چراغ کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھانا چاہتے ہیں ۔ لیکن وہ پوری روشنی کے ساتھ چمکتا ہوا ہی رہے گا ، گو کافروں کو برا لگے ۔ ‘ الإسراء
2 طوفان نوح کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معراج کے واقعہ کے بیان کے بعد اپنے پیغمبر کلیم اللہ موسیٰ علیہ السلام کا ذکر بیان فرماتا ہے قرآن کریم میں عموماً یہ دونوں بیان ایک ساتھ آئے ہیں اسی طرح تورات اور قرآن کا بیان بھی ملا جلا ہوتا ہے موسیٰ علیہ السلام کی کتاب کا نام تورات ہے ۔ وہ کتاب بنی اسرائیل کیلئے ہادی تھی انہیں حکم ہوا تھا کہ اللہ کے سوا کسی اور کو ولی اور مددگار اور معبود نہ سمجھیں ہر ایک نبی اللہ کی توحید لے کر آتا رہا ہے ۔ پھر انہیں کہا جاتا ہے کہ اے ان بزرگوں کی اولادو جنہیں ہم نے اپنے اس احسان سے نوازا تھا کہ طوفان نوح کی عالمگیر ہلاکت سے انہیں بچا لیا اور اپنے پیارے نبی نوح علیہ السلام کے ساتھ کشتی پر چڑھا لیا تھا ۔ تمہیں اپنے بڑوں کی طرح ہماری شکر گزاری کرنی چاہیئے دیکھو میں نے تمہاری طرف اپنے آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا ہے ۔ مروی ہے کہ نوح علیہ السلام چونکہ کھاتے پیتے اور پہنتے غرض ہر وقت اللہ کی حمد و ثنا بیان فرماتے تھے اس لیے آپ کو شکر گزار بندہ کہا گیا ۔ مسند احمد وغیرہ میں { فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے اس بندے سے بہت خوش ہوتا ہے جو نوالہ کھائے تو اللہ کا شکر بجا لائے اور پانی کا گھونٹ پئے تو اللہ کا شکر ادا کرے ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:2734) یہ بھی مروی ہے کہ آپ ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرتے رہتے ۔ شفاعت والی لمبی حدیث جو بخاری وغیرہ میں ہے اس میں ہے کہ { جب لوگ طلب شفاعت کے لیے نوح نبی علیہ السلام کے پاس آئیں گے تو ان سے کہیں گے کہ زمین والوں کی طرف آپ ہی پہلے رسول ہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کا نام شکر گزار بندہ رکھا ہے ۔ آپ اپنے رب سے ہماری سفارش کیجئے } الخ ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3340) الإسراء
3 الإسراء
4 پیشین گوئی جو کتاب بنی اسرائیل پر اتری تھی اس میں ہی اللہ تعالیٰ نے انہیں پہلے ہی سے خبر دے دی تھی کہ وہ زمین پر دو مرتبہ سرکشی کریں گے اور سخت فساد برپا کریں گے پس یہاں پر «قضینا» کے معنی مقرر کر دینا اور پہلے ہی سے خبر دے دینا کے ہیں ۔ جیسے آیت «وَقَضَیْنَا إِلَیْہِ ذٰلِکَ الْأَمْرَ أَنَّ دَابِرَ ہٰؤُلَاءِ مَقْطُوعٌ مٰصْبِحِینَ» ۱؎ (15-الحجر:66) میں یہی معنی ہیں ۔ بس ان کے پہلے فساد کے وقت ہم نے اپنی مخلوق میں سے ان لوگوں کو ان کے اوپر مسلط کیا جو بڑے ہی لڑنے والے سخت جان اور سازو سامان سے پورے لیس تھے وہ ان پر چھا گئے ان کے شہر چھین لیے لوٹ مار کر کے ان کے گھروں تک کو خالی کر کے بے خوف و خطر واپس چلے گئے ، اللہ کا وعدہ پورا ہونا ہی تھا کہتے ہیں کہ یہ جالوت کا لشکر تھا ۔ پھر اللہ نے بنی اسرائیل کی مدد کی اور یہ طالوت کی بادشاہت میں پھر لڑے اور داؤد علیہ السلام نے جالوت کو قتل کیا ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ موصل کے بادشاہ سنجاریب اور اس کے لشکر نے ان پر فوج کشی کی تھے ۔ بعض کہتے ہیں بابل کا بادشاہ بخت نصر چڑھ آیا تھا ۔ ابن ابی حاتم نے یہاں پر ایک عجیب و غریب قصہ نقل کیا ہے کہ کس طرح اس شخص نے بتدریج ترقی کی تھی ۔ اولاً یہ ایک فقیر تھا پڑا رہتا تھا اور بھیک مانگ کر گزارہ کرتا تھا ۔ پھر تو بیت المقدس تک اس نے فتح کر لیا اور وہاں پر بنی اسرائیل کو بیدریج قتل کیا ۔ این جریر نے اس آیت کی تفسیر میں ایک مطول مرفوع حدیث بیان کی ہے جو محض موضوع ہے اور اس کے موضوع ہونے میں کسی کو ذرا سا بھی شک نہیں ہو سکتا ۔ تعجب ہے کہ باوجود اس قدر وافر علم کے امام صاحب نے یہ حدیث وارد کردی ہمارے استاد شیخ حافظ علامہ ابو الحجاج مزی رحمہ اللہ نے اس کے موضوع ہونے کی تصریح کی ہے ۔ اور کتاب کے حاشیہ پر لکھ بھی دیا ہے ۔ اس باب میں بنی اسرائیلی روایتیں بھی بہت سی ہیں لیکن ہم انہیں وارد کر کے بے فائدہ اپنی کتاب کو طول دینا نہیں چاہتے کیونکہ ان میں سے بعض تو موضوع ہیں اور بعض گو ایسی نہ ہوں لیکن بحمد للہ ہمیں ان روایتوں کی کوئی ضرورت نہیں ۔ کتاب اللہ ہمیں اور تمام کتابوں سے بے نیاز کر دینے والی ہے ۔ اللہ کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثوں نے ہمیں ان چیزوں کا محتاج نہیں رکھا ۔ مطلب صرف اس قدر ہے کہ بنی اسرائیل کی سرکشی کے وقت اللہ نے ان کے دشمن ان پر مسلط کر دئے جنہوں نے انہیں خوب مزہ چکھایا بری طرح درگت بنائی ان کے بال بچوں کو تہ تیغ کیا انہیں اس قدر ذلیل کیا کہ ان کے گھروں تک میں گھس کر ان کا ستیاناس کیا اور ان کی سرکشی کی پوری سزا دی ۔ انہوں نے بھی ظلم و زیادتی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی عوام تو عوام انہوں نے تو نبیوں کے گلے کاٹے تھے ، علماء کو سر بازار قتل کیا تھا ۔ بخت نصر ملک شام پر غالب آیا بیت المقدس کو ویران کردیا وہاں کے باشندوں کو قتل کیا ۔ پھر دمشق پہنچا یہاں دیکھا کہ ایک سخت پتھر پر خون جوش مار رہا ہے پوچھا یہ کیا ہے ؟ لوگوں نے کہا ہم نے تو اسے باپ دادوں سے اسی طرح دیکھا ہے یہ خون برابر ابلتا رہتا ہے ٹھیرتا نہیں اس نے وہیں پر قتل عام شروع کر دیا ستر ہزار مسلمان وغیرہ اس کے ہاتھوں یہاں پہ قتل ہوئے پس وہ خون ٹہر گیا ۔ اس نے علماء اور حفاظ کو اور تمام شریف اور ذی عزت لوگوں کو بے دردی سے قتل کیا ان میں کوئی بھی حافظ تورات نہ بچا ۔ پھر قید کرنا شروع کیا ان قیدیوں میں نبی زادے بھی تھے ۔ غرض ایک لرزہ خیز ہنگامہ ہوا لیکن چونکہ صحیح روایتوں سے بلکہ صحت کے قریب والی روایتوں سے بھی تفصیلات نہیں ملتی اس لیے ہم نے انہیں چھوڑ دیا ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ پھر فرماتا ہے نیکی کرنے والا دراصل اپنے لیے ہی بھلا کرتا ہے اور برائی کرنے والا حقیقت میں اپنا ہی برا کرتا ہے جیسے ارشاد ہے ۔ آیت « مَنْ عَمِلَ صَالِحًــا فَلِنَفْسِہٖ وَمَنْ اَسَاۗءَ فَعَلَیْہَا ۭ وَمَا رَبٰکَ بِظَلَّامٍ لِّـلْعَبِیْدِ» ۱؎ (41-فصلت:46) ’ جو شخص نیک کام کرے وہ اس کے اپنے لیے ہے اور جو برائی کرے اس کا بوجھ اسی پر ہے ۔ ‘ پھر جب دوسرا وعدہ آیا اور پھر بنی اسرائیل نے اللہ کی نافرمانیوں پر کھلے عام کمر کس لی اور بے باکی اور بے حیائی کے ساتھ ظلم کرنے شروع کر دئے تو پھر ان کے دشمن چڑھ دوڑے کہ وہ ان کی شکلیں بگاڑ دیں اور بیت المقدس کی مسجد جس طرح پہلے انہوں نے اپنے قبضے میں کرلی تھی اب پھر دوبارہ کرلیں اور جہاں تک بن پڑے ہر چیز کا ستیاناس کر دیں چنانچہ یہ بھی ہو کر رہا ۔ تمہارا رب تو ہے ہی رحم و کرم کرنے والا اور اس سے ناامیدی نازیبا ہے ، یہ ممکن ہے کہ پھر سے دشمنوں کو پست کر دے ہاں یہ یاد رہے کہ ادھر تم نے سر اٹھایا ادھر ہم نے تمہارا سر کچلا ۔ ادھر تم نے فساد مچایا ادھر ہم نے برباد کیا ۔ یہ تو ہوئی دنیوی سزا ۔ ابھی آخرت کی زبردست اور غیر فانی سزا باقی ہے ۔ جہنم کافروں کا قید خانہ ہے جہاں سے نہ وہ نکل سکیں نہ چھوٹ سکیں نہ بھاگ سکیں ۔ ہمیشہ کے لیے ان کا اوڑھنا بچھونا یہی ہے ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں پھر بھی انہوں نے سر اٹھایا اور بالکل فرمان الٰہی کو چھوڑا اور مسلمانوں سے ٹکرا گئے تو اللہ تعالیٰ نے امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ان پر غالب کیا اور انہیں جزیہ دینا پڑا ۔ الإسراء
5 الإسراء
6 الإسراء
7 الإسراء
8 الإسراء
9 بہترین راہنما قرآن حکیم ہے اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی کتاب کی تعریف میں فرماتا ہے کہ یہ قرآن بہترین راہ کی طرف رہبری کرتا ہے ۔ ایماندار جو ایمان کے مطابق فرمان نبوی پر عمل بھی کریں انہیں یہ بشارتیں سناتا ہے کہ ان کے لیے اللہ کے پاس بہت بڑا اجر ہے انہیں بےشمار ثواب ملے گا ۔ اور جو ایمان سے خالی ہیں انہیں یہ قرآن قیامت کے دن کے درد ناک عذابوں کی خبر دیتا ہے جیسے فرمان ہے آیت « فَبَشِّرْہُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ » ۱؎ (84-الانشقاق:24) ’ ’ انہیں المناک عذابوں کی خبر پہنچا دے ۔ ‘ الإسراء
10 الإسراء
11 بددعا اور انسان یعنی انسان کبھی کبھی دلگیر اور ناامید ہو کر اپنی سخت غلطی سے خود اپنے لیے برائی کی دعا مانگنے لگتا ہے ۔ کبھی اپنے مال و اولاد کے لیے بد دعا کرنے لگتا ہے کبھی موت کی ، کبھی ہلاکت کی ، کبھی بربادی اور لعنت کی ۔ «وَلَوْ یُعَجِّلُ اللہُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ اسْتِعْجَالَہُم بِالْخَیْرِ لَقُضِیَ إِلَیْہِمْ أَجَلُہُمْ» ۱؎ (10-یونس:11) لیکن اس کا اللہ اس پر خود اس سے بھی زیادہ مہربان ہے ادھر وہ دعا کرے ادھر وہ قبول فرما لے تو ابھی ہلاک ہو جائے ۔ حدیث میں بھی ہے کہ «لا تَدْعُوا علی أنْفُسِکُمْ ، ولا علی أمْوَالِکُمْ ، تُوافِقُوا مِنَ اللَّہِ ساعَۃً إجابۃ فَیَسْجِیبُ فیہا » { اپنی جان و مال کے لیے بد دعا نہ کرو ایسا نہ ہو کہ کسی قبولیت کی ساعت میں کوئی ایسا بد کلمہ زبان سے نکل جائے ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:3009) اس کی وجہ صرف انسان کی اضطرابی حالت اور اس کی جلد بازی ہے ۔ یہ ہے ہی جلد باز ۔ سیدنا سلمان فارسی اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہم نے اس موقعہ پر آدم علیہ السلام کا واقعہ ذکر کیا ہے کہ ابھی پیروں تلے روح نہیں پہنچی تھی کہ آپ نے کھڑے ہونے کا ارادہ کیا روح سر کی طرف سے آرہی تھی ناک تک پہنچی تو چھینک آئی آپ نے کہا «الحمدللہ» ۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا « یَرْحَمُکَ اللَّہُ یَا آدَمُ» اے آدم تجھ پر تیرا رب رحم کرے ۔ جب آنکھوں تک پہنچی تو آنکھیں کھول کر دیکھنے لگے ۔ جب اور نیچے کے اعضاء میں پہنچی تو خوشی سے اپنے آپ کو دیکھنے لگے ۔ ابھی پیروں تک نہیں پہنچی تو چلنے کا ارادہ کیا لیکن نہ چل سکے تو دعا کرنے لگے کہ اے اللہ رات سے پہلے روح آجائے ۔ الإسراء
12 دن اور رات کے فوائد اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کی بڑی بڑی نشانیوں میں سے دو کا یہاں بیان فرماتا ہے کہ دن رات اس نے الگ الگ طرح کے بنائے ۔ رات آرام کے لیے دن تلاش معاش کیلئے ۔ کہ اس میں کام کاج کرو صنعت و حرفت کرو سیر و سفر کرو ۔ رات دن کے اختلاف سے دنوں کی ، مہینوں کی ، برسوں کی گنتی معلوم کر سکو تاکہ لین دین میں ، معاملات میں ، قرض میں ، مدت میں ، عبادت کے کاموں میں سہولت اور پہچان ہو جائے ۔ اگر ایک وقت رہتا تو بڑی مشکل ہو جاتی سچ ہے «قُلْ أَرَأَیْتُمْ إِن جَعَلَ اللہُ عَلَیْکُمُ اللَّیْلَ سَرْمَدًا إِلَیٰ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ مَنْ إِلٰہٌ غَیْرُ اللہِ یَأْتِیکُم بِضِیَاءٍ» ۱؎ (28-القصص:71) ’ اگر اللہ چاہتا تو ہمیشہ رات ہی رات رکھتا کوئی اتنی قدرت نہیں رکھتا کہ دن کر دے ۔ ‘ «قُلْ أَرَأَیْتُمْ إِن جَعَلَ اللہُ عَلَیْکُمُ النَّہَارَ سَرْمَدًا إِلَیٰ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ مَنْ إِلٰہٌ غَیْرُ اللہِ یَأْتِیکُم بِلَیْلٍ تَسْکُنُونَ فِیہِ » ۱؎ (28-القصص:72) ’ اور اگر وہ ہمیشہ دن ہی دن رکھتا تو کس کی مجال تھی کہ رات لا دے ؟ ‘ یہ نشانات قدرت سننے دیکھنے کے قابل ہیں ۔ «وَمِن رَّحْمَتِہِ جَعَلَ لَکُمُ اللَّیْلَ وَالنَّہَارَ لِتَسْکُنُوا فِیہِ وَلِتَبْتَغُوا مِن فَضْلِہِ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ» ۱؎ (28-القصص:73) ’ یہ اسی کی رحمت ہے کہ رات سکون کے لیے بنائی اور دن تلاش معاش کے لیے ۔ ‘ «تَبَارَکَ الَّذِی جَعَلَ فِی السَّمَاءِ بُرُوجًا وَجَعَلَ فِیہَا سِرَاجًا وَقَمَرًا مٰنِیرًا * وَہُوَ الَّذِی جَعَلَ اللَّیْلَ وَالنَّہَارَ خِلْفَۃً لِّمَنْ أَرَادَ أَن یَذَّکَّرَ أَوْ أَرَادَ شُکُورًا» ۱؎ (25-الفرقان:61-62) ’ ان دونوں کو ایک دوسرے کے پیچھے لگاتار آنے والے بنایا تاکہ شکرو نصیحت کا ارادہ رکھنے والے کامیاب ہو سکیں ۔ ‘ اسی کے ہاتھ رات دن کا اختلاف ہے وہ رات کا پردہ دن پر اور دن کا نقاب رات پر چڑھا دیتا ہے ۔ «یُکَوِّرُ اللَّیْلَ عَلَی النَّہَارِ وَیُکَوِّرُ النَّہَارَ عَلَی اللَّیْلِ ۖ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۖ کُلٌّ یَجْرِی لِأَجَلٍ مٰسَمًّی ۗ أَلَا ہُوَ الْعَزِیزُ الْغَفَّارُ » ۱؎ (39-الزمر:1) ’ سورج چاند اسی کی ماتحتی میں ہے ہر ایک اپنے مقررہ وقت پر چل پھر رہا ہے وہ اللہ غالب اور غفار ہے ۔ ‘ «وَآیَۃٌ لَّہُمُ اللَّیْلُ نَسْلَخُ مِنْہُ النَّہَارَ فَإِذَا ہُم مٰظْلِمُونَ * وَالشَّمْسُ تَجْرِی لِمُسْتَقَرٍّ لَّہَا ۚ ذٰلِکَ تَقْدِیرُ الْعَزِیزِ الْعَلِیمِ » ۱؎ ۱؎(36-یس:37-38) ’ صبح کا چاک کرنے والا ہے اسی نے رات کو سکون والی بنایا ہے اور سورج چاند کو مقرر کیا ہے یہ اللہ عزیز و حلیم کا مقرر کیا ہوا اندازہ ہے ۔ ‘ رات اپنے اندھیرے سے چاند کے ظاہر ہونے سے پہچانی جاتی ہے اور دن روشنی سے اور سورج کے چڑھنے سے معلوم ہو جاتا ہے ۔ سورج چاند دونوں ہی روشن اور منور ہیں لیکن ان میں بھی پورا تفاوت رکھا کہ ہر ایک پہچان لیا جا سکے ۔ «ہُوَ الَّذِی جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَاءً وَالْقَمَرَ نُورًا وَقَدَّرَہُ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِینَ وَالْحِسَابَ ۚ مَا خَلَقَ اللہُ ذٰلِکَ إِلَّا بِالْحَقِّ » ۱؎ (10-یونس:5) ’ سورج کو بہت روشن اور چاند کو نورانی اسی نے بنایا ہے منزلیں اسی نے مقرر کی ہیں تاکہ حساب اور سال معلوم رہیں ۔ ‘ اللہ کی یہ پیدائش حق ہے ۔ الخ قرآن میں ہے«یَسْأَلُونَکَ عَنِ الْأَہِلَّۃِ ۖ قُلْ ہِیَ مَوَاقِیتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ» ۱؎ (2-البقرۃ:189) ’ لوگ تجھ سے چاند کے بارے میں پوچھتے ہیں کہہ دے کہ وہ لوگوں کے لیے اوقات ہیں اور حج کے لیے بھی ۔ ‘ الخ رات کا اندھیرا ہٹ جاتا ہے دن کا اجالا آ جاتا ہے ۔ سورج دن کی علامت ہے چاند رات کا نشان ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے چاند کو کچھ سیاہی والا پیدا کیا ہے پس رات کی نشانی چاند کو بہ نسبت سورج کے ماند کر دیا ہے اس میں ایک طرح کا دھبہ رکھ دیا ہے ۔ ابن الکواء نے امیر المؤمنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ چاند میں یہ جھائیں کیسی ہے ؟ آپ نے فرمایا اسی کا بیان اس آیت میں ہے کہ ہم نے رات کے نشان یعنی چاند میں سیاہ دھندلکا ڈال دیا اور دن کا نشان خوب روشن ہے یہ چاند سے زیادہ منور اور چاند سے بہت بڑا ہے دن رات کو دو نشانیاں مقرر کر دی ہیں پیدائش ہی ان کی اسی طرح کی ہے ۔ الإسراء
13 انسان کے اعمال اوپر کی آیتوں میں زمانے کا ذکر کیا جس میں انسان کے اعمال ہوتے ہیں اب یہاں فرمایا ہے کہ اس کا جو عمل ہوتا ہے بھلا ہو یا برا وہ اس پر چپک جاتا ہے بدلہ ملے گا ۔ نیکی کا نیک ۔ بدی کا بد ۔ خواہ وہ کتنی ہی کم مقدار میں کیوں نہ ہو ؟ جیسے فرمان ہے«فَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَرَہُ وَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَرَہُ » ۱؎ (99-الزلزلۃ:7-8) ’ ذرہ برابر کی خیر اور اتنی ہی شر ہر شخص قیامت کے دن دیکھ لے گا ۔ ‘ اور جیسے فرمان ہے« إِذْ یَتَلَقَّی الْمُتَلَقِّیَانِ عَنِ الْیَمِینِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِیدٌ مَّا یَلْفِظُ مِن قَوْلٍ إِلَّا لَدَیْہِ رَقِیبٌ عَتِیدٌ » ۱؎ (50-ق:17-18) ’ دائیں اور بائیں جانب وہ بیٹھے ہوئے ہیں جو بات منہ سے نکلے وہ اسی وقت لکھ لیتے ہیں ۔ ‘ اور جگہ ہے آیت «وَإِنَّ عَلَیْکُمْ لَحَافِظِینَ * کِرَامًا کَاتِبِینَ * یَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ * إِنَّ الْأَبْرَارَ لَفِی نَعِیمٍ * وَإِنَّ الْفُجَّارَ لَفِی جَحِیمٍ » ۱؎ (82-الإنفطار:10) ’ تم پر نگہبان ہیں جو بزرگ ہیں اور لکھنے والے ہیں ۔ تمہارے ہر ہر فعل سے باخبر ہیں ۔ ‘ اور آیت میں ہے«إِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ» ۱؎ (52-الطور:16) ’ تمہیں صرف تمہارے کئے ہوئے اعمال کا بدلہ ملے گا ۔ ‘ اور جگہ ہے «مَن یَعْمَلْ سُوءًا یُجْزَ» ۱؎ (4-النساء:123) ’ ہر برائی کرنے والے کو سزا دی جائے گی ۔ ‘ مقصود یہ کہ ابن آدم کے چھوٹے بڑے ظاہر و باطن نیک و بد اعمال صبح شام دن رات برابر لکھے جا رہے ہیں ۔ مسند احمد میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں البتہ ہر انسان کی شامت عمل اس کی گردن میں ہے ۔ } ابن لہیعہ فرماتے ہیں یہاں تک کہ شگون لینا بھی ۔ ۱؎ (مسند احمد:360/3،قال الشیخ الألبانی:صحیح) لیکن اس حدیث کی یہ تفسیر غریب ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اس کے اعمال کے مجموعے کی کتاب قیامت کے دن یا تو اس کے دائیں ہاتھ میں دی جائے گی یا بائیں میں ۔ نیکوں کے دائیں ہاتھ میں اور بروں کے بائیں ہاتھ میں کھلی ہوئی ہو گی کہ وہ بھی پڑھ لے اور دوسرے بھی دیکھ لیں اس کی تمام عمر کے کل عمل اس میں لکھے ہوئے ہوں گے ۔ جیسے فرمان ہے آیت «یُنَبَّأُ الْإِنسَانُ یَوْمَئِذٍ بِمَا قَدَّمَ وَأَخَّرَ بَلِ الْإِنسَانُ عَلَیٰ نَفْسِہِ بَصِیرَۃٌ وَلَوْ أَلْقَیٰ مَعَاذِیرَہُ » ۱؎ (75-القیامۃ:13-15) ’ اس دن انسان اپنے تمام اگلے پچھلے اعمال سے خبردار کر دیا جائے گا انسان تو اپنے معاملے میں خود ہی حجت ہے گو اپنی بےگناہی کے کتنے ہی بہانے پیش کر دے ۔ ‘ اس وقت اس سے فرمایا جائے گا کہ تو خوب جانتا ہے کہ تجھ پر ظلم نہ کیا جائے گا ۔ اس میں وہی لکھا گیا ہے جو تو نے کیا ہے اس وقت چونکہ بھولی بسری چیزیں بھی یاد آ جائیں گی ۔ اس لیے درحقیقت کوئی عذر پیش کرنے کی گنجائش نہ رہے گی ۔ پھر سامنے کتاب ہے جو پڑھ رہا ہے خواہ وہ دنیا میں ان پڑھ ہی تھا لیکن آج ہر شخص اسے پڑھ لے گا ۔ گردن کا ذکر خاص طریقے پر اس لیے کیا کہ وہ ایک مخصوص حصہ ہے اس میں جو چیز لٹکا دی گئی ہو چپک گئی ضروری ہو گئی شاعروں نے بھی اس خیال کو ظاہر کیا ہے ۔ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے بیماری کا متعدی ہونا کوئی چیز نہیں ، فال کوئی چیز نہیں ، ہر انسان کا عمل اس کے گلے کا ہار ہے ۔ } ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:22131) اور روایت میں ہے کہ { ہر انسان کا شگون اس کے گلے کا ہار ہے ۔ } ۱؎ (مسند احمد:343/3:ضعیف) آپ کا فرمان ہے کہ { ہر دن کے عمل پر مہر لگ جاتی ہے جب مومن بیمار پڑتا ہے تو فرشتے کہتے ہیں اے اللہ تو نے فلاں کو تو روک لیا ہے اللہ تعالیٰ جل جلالہ فرماتا ہے اس کے جو عمل تھے وہ برابر لکھتے جاؤ یہاں تک کہ میں اسے تندرست کر دوں یا فوت کر دوں ۔ } ۱؎ (مسند احمد:146/4:صحیح) قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس آیت میں «طَائِرَہُ» سے مراد عمل ہیں ۔ حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں اے ابن آدم تیرے دائیں بائیں فرشتے بیٹھے ہیں صحیفے کھلے رکھے ہیں داہنی جانب والا نیکیاں اور بائیں طرف والا بدیاں لکھ رہا ہے اب تجھے اختیار ہے نیکی کر یا بدی کر کم کر یا زیادہ تیری موت پر یہ دفتر لپیٹ دئے جائیں گے اور تیری قبر میں تیری گردن میں لٹکا دیئے جائیں گے قیامت کے دن کھلے ہوئے تیرے سامنے پیش کر دئے جائیں گے اور تجھ سے کہا جائے گا لے اپنا نامہ اعمال خود پڑھ لے اور تو ہی حساب اور انصاف کر لے ۔ اللہ کی قسم وہ بڑا ہی عادل ہے جو تیرا معاملہ تیرے ہی سپرد کر رہا ہے ۔ الإسراء
14 الإسراء
15 اچھے یا برے اعمال انسان کے اپنے لئے ہیں جس نے راہ راست اختیار کی ، حق کی اتباع کی ، نبوت کی مانی اس کے اپنے حق میں اچھائی ہے اور جو حق سے ہٹا صحیح راہ سے پھرا اس کا وبال اسی پر ہے کوئی کسی کے گناہ میں پکڑا نہ جائے گا ہر ایک کا عمل اسی کے ساتھ ہے ۔ «وَإِن تَدْعُ مُثْقَلَۃٌ إِلَیٰ حِمْلِہَا لَا یُحْمَلْ مِنْہُ شَیْءٌ» (35-فاطر:18) ’ کوئی نہ ہو گا جو دوسرے کا بوجھ بٹائے ‘ اور جگہ قرآن میں ہے آیت «وَلَیَحْمِلُنَّ اَثْــقَالَہُمْ وَاَثْــقَالًا مَّعَ اَثْقَالِہِمْ» ۱؎ (29-العنکبوت:13) ’ البتہ یہ اپنے بوجھ ڈھولیں گے اور اپنے بوجھوں کے ساتھ ہی اور بوجھ بھی ۔ ‘ اور آیت میں ہے«وَمِنْ اَوْزَارِ الَّذِیْنَ یُضِلٰوْنَہُمْ بِغَیْرِ عِلْمٍ» ۱؎ (16-النحل:25) ’ ان کے بوجھ کے بھی حصے دار ہوں گے جنہیں بے علمی سے گمراہ کرتے رہے۔ ‘ یعنی اپنے بوجھ کے ساتھ یہ ان کے بوجھ بھی اٹھائیں گے جنہیں انہوں نے بہکا رکھا تھا ۔ لہٰذا ان دونوں مضمونوں میں کوئی نفی کا پہلو نہ سمجھا جائے اس لیے کہ گمراہ کرنے والوں پر ان کے گمراہ کرنے کا بوجھ ہے نہ کہ ان کے بوجھ ہلکے کئے جائیں گے اور ان پر لادے جائیں گے ہمارا عادل اللہ ایسا نہیں کرتا ۔ پھر اپنی ایک اور رحمت بیان فرماتا ہے کہ وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پہنچنے سے پہلے کسی امت کو عذاب نہیں کرتا ۔ چنانچہ سورۃ تبارک میں ہے کہ «تَکَادُ تَمَیَّزُ مِنَ الْغَیْظِ ۖ کُلَّمَا أُلْقِیَ فِیہَا فَوْجٌ سَأَلَہُمْ خَزَنَتُہَا أَلَمْ یَأْتِکُمْ نَذِیرٌ * قَالُوا بَلَیٰ قَدْ جَاءَنَا نَذِیرٌ فَکَذَّبْنَا وَقُلْنَا مَا نَزَّلَ اللہُ مِن شَیْءٍ إِنْ أَنتُمْ إِلَّا فِی ضَلَالٍ کَبِیرٍ» ۱؎ (67-الملک:8-9) ’ دوزخیوں سے داروغے پوچھیں گے کہ کیا تمہارے پاس ڈرانے والے نہیں آئے تھے ؟ وہ جواب دیں گے بیشک آئے تھے لیکن ہم نے انہیں سچا نہ جانا انہیں جھٹلا دیا اور صاف کہہ دیا کہ تم تو یونہی بہک رہے ہو ، سرے سے یہ بات ہی ان ہونی ہے کہ اللہ کسی پر کچھ اتارے ۔ ‘ «وَسِیقَ الَّذِینَ کَفَرُوا إِلَیٰ جَہَنَّمَ زُمَرًا ۖ حَتَّیٰ إِذَا جَاءُوہَا فُتِحَتْ أَبْوَابُہَا وَقَالَ لَہُمْ خَزَنَتُہَا أَلَمْ یَأْتِکُمْ رُسُلٌ مِّنکُمْ یَتْلُونَ عَلَیْکُمْ آیَاتِ رَبِّکُمْ وَیُنذِرُونَکُمْ لِقَاءَ یَوْمِکُمْ ہٰذَا ۚ قَالُوا بَلَیٰ وَلٰکِنْ حَقَّتْ کَلِمَۃُ الْعَذَابِ عَلَی الْکَافِرِینَ » ۱؎ (39-الزمر:71) ’ اسی طرح جب یہ لوگ جہنم کی طرف کشاں کشاں پہنچائے جا رہے ہوں گے ، اس وقت بھی داروغے ان سے پوچھیں گے کہ کیا تم میں سے ہی رسول نہیں آئے تھے ؟ جو تمہارے رب کی آیتیں تمہارے سامنے پڑھتے ہوں اور تمہیں اس دن کی ملاقات سے ڈراتے ہوں ؟ یہ جواب دیں گے کہ ہاں یقیناً آئے لیکن کلمہ عذاب کافروں پر ٹھیک اترا ۔ ‘ اور آیت میں ہے کہ«وَہُمْ یَصْطَرِخُونَ فِیہَا رَبَّنَا أَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَیْرَ الَّذِی کُنَّا نَعْمَلُ ۚ أَوَلَمْ نُعَمِّرْکُم مَّا یَتَذَکَّرُ فِیہِ مَن تَذَکَّرَ وَجَاءَکُمُ النَّذِیرُ ۖ فَذُوقُوا فَمَا لِلظَّالِمِینَ مِن نَّصِیرٍ» ۱؎ (35-فاطر:37) ’ کفار جہنم میں پڑے چیخ رہے ہوں گے کہ اے اللہ ہمیں اس سے نکال تو ہم اپنے قدیم کرتوت چھوڑ کر اب نیک اعمال کریں گے تو ان سے کہا جائے گا کہ کیا میں نے تمہیں اتنی لمبی عمر نہیں دی تھی تم اگر نصیحت حاصل کرنا چاہتے تو کر سکتے تھے اور میں نے تم میں اپنے رسول بھی بھیجے تھے جنہوں نے خوب اگاہ کر دیا تھا اب تو عذاب برداشت کرو ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ۔ ‘ الغرض اور بھی بہت سی آیتوں سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ بغیر رسول بھیجے کسی کو جہنم میں نہیں بھیجتا ۔ صحیح بخاری میں آیت «إِنَّ رَحْمَتَ اللہِ قَرِیبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِینَ» ۱؎ (7-الأعراف:56) ’ بے شک اللہ تعالیٰ کی رحمت نیک کام کرنے والوں کے نزدیک ہے ۔ ‘ کی تفسیر میں ایک لمبی حدیث مروی ہے جس میں جنت دوزخ کا کلام ہے ۔ پھر ہے کہ { جنت کے بارے میں اللہ اپنی مخلوق میں سے کسی پر ظلم نہ کرے گا اور وہ جہنم کے لیے ایک نئی مخلوق پیدا کرے گا جو اس میں ڈال دی جائے گی جہنم کہتی رہے گی کہ کیا ابھی اور زیادہ ہے ؟ } ۱؎ (صحیح بخاری:7449) اس کے بابت علما کی ایک جماعت نے بہت کچھ کلام کیا ہے دراصل یہ جنت کے بارے میں ہے اس لیے کہ وہ دار فضل ہے اور جہنم دار عدل ہے اس میں بغیر عذر توڑے بغیر حجت ظاہر کئے کوئی داخل نہ کیا جائے گا ۔ اس لیے حفاظ حدیث کی ایک جماعت کا خیال ہے کہ راوی کو اس میں الٹا یاد رہ گیا اور اس کی دلیل بخاری مسلم کی وہ روایت ہے جس میں اسی حدیث کے آخر میں ہے کہ { دوزخ پرُ نہ ہو گی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس میں اپنا قدم رکھ دے گا اس وقت وہ کہے گی بس بس اور اس وقت بھر جائے گی اور چاورں طرف سے سمٹ جائے گی ۔ } اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہ کرے گا ۔ ہاں جنت کے لیے ایک نئی مخلوق پیدا کرے گا ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4850) باقی رہا یہ مسئلہ کہ کافروں کے جو نابالغ چھوٹے بچے بچپن میں مر جاتے ہیں اور جو دیوانے لوگ ہیں اور نیم بہرے اور جو ایسے زمانے میں گزرے ہیں جس وقت زمین پر کوئی رسول یا دین کی صحیح تعلیم نہیں ہوتی اور انہیں دعوت اسلام نہیں پہنچتی اور جو بالکل بڈھے حواس باختہ ہوں ان کے لیے کیا حکم ہے ؟ اس بارے میں شروع سے اختلاف چلا آ رہا ہے ۔ ان کے بارے میں جو حدیثیں ہیں وہ میں آپ کے سامنے بیان کرتا ہوں پھر ائمہ کا کلام بھی مختصرا ذکر کروں گا ، اللہ تعالیٰ مدد کرے ۔ پہلی حدیث مسند احمد میں ہے { چار قسم کے لوگ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے گفتگو کریں گے ایک تو بالکل بہرا آدمی جو کچھ بھی نہیں سنتا اور دوسرا بالکل احمق پاگل آدمی جو کچھ بھی نہیں جانتا ، تیسرا بالکل بڈھا پھوس آدمی جس کے حواس درست نہیں ، چوتھے وہ لوگ جو ایسے زمانوں میں گزرے ہیں جن میں کوئی پیغمبر یا اس کی تعلیم موجود نہ تھی ۔ بہرا تو کہے گا اسلام آیا لیکن میرے کان میں کوئی آواز نہیں پہنچی ، دیوانہ کہے گا کہ اسلام آیا لیکن میری حالت تو یہ تھی کہ بچے مجھ پر مینگنیاں پھینک رہے تھے اور بالکل بڈھے بے حواس آدمی کہیں گے کہ اسلام آیا لیکن میرے ہوش حواس ہی درست نہ تھے جو میں سمجھ کر سکتا رسولوں کے زمانوں کا اور ان کی تعلیم کو موجود نہ پانے والوں کا قول ہو گا کہ نہ رسول آئے نہ میں نے حق پایا پھر میں کیسے عمل کرتا ؟ اللہ تعالیٰ ان کی طرف پیغام بھیجے گا کہ اچھا جاؤ جہنم میں کود جاؤ اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر وہ فرماں برداری کر لیں اور جہنم میں کود پڑیں تو جہنم کی آگ ان پر ٹھنڈک اور سلامتی ہو جائے گی ۔ } ۱؎ (مسند احمد:24/4،قال الشیخ الألبانی:حسن) اور روایت میں ہے کہ { جو کود پڑیں گے ان پر تو سلامتی اور ٹھنڈک ہو جائے گی اور جو رکیں گے انہیں حکم عدولی کے باعث گھسیٹ کی جہنم میں ڈال دیا جائے گا ۔ } ۱؎ (طبرانی کبیر:841،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابن جریر میں اس حدیث کے بیان کے بعد ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان بھی ہے کہ اگر تم چاہو تو اس کی تصدیق میں کلام اللہ کی آیت «وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلًا» (17-الإسراء:15) الخ پڑھ لو ۔ دوسری حدیث ابوداؤد طیالسی میں ہے کہ ہم نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ ابو حمزہ مشرکوں کے بچوں کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا { میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ وہ گنہگار نہیں جو دوزخ میں عذاب کئے جائیں اور نیکوکار بھی نہیں جو جنت میں بدلہ دئے جائیں ۔ } ۱؎ (مسند ابویعلیٰ:4090) تیسری حدیث ابو یعلیٰ میں ہے کہ { ان چاورں کے عذر سن کر جناب باری فرمائے گا کہ اوروں کے پاس تو میں اپنے رسول بھیجتا تھا لیکن تم سے میں آپ کہتا ہوں کہ جاؤ اس جہنم میں چلے جاؤ جہنم میں سے بھی فرمان باری سے ایک گردن اونچی ہو گی اس فرمان کو سنتے ہی وہ لوگ جو نیک طبع ہیں فوراً دوڑ کر اس میں کود پڑیں گے اور جو بد باطن ہیں وہ کہیں گے اللہ پاک ہم اسی سے بچنے کے لیے تو یہ عذر معذرت کر رہے تھے اللہ فرمائے گا جب تم خود میری نہیں مانتے تو میرے رسولوں کی کیا مانتے اب تمہارے لیے فیصلہ یہی ہے کہ تم جہنمی ہو اور ان فرمانبرداروں سے کہا جائے گا کہ تم بیشک جنتی ہو تم نے اطاعت کر لی ۔ ۱؎ (مسند ابویعلیٰ:4224:ضعیف) چوتھی حدیث مسند حافظ ابو یعلیٰ موصلی میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسلمانوں کی اولاد کے بارے میں سوال ہوا تو آپ نے فرمایا وہ اپنے باپوں کے ساتھ ہے ۔ پھر مشرکین کی اولاد کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا وہ اپنے باپوں کے ساتھ ، تو کہا گیا یا رسول اللہ انہوں نے کوئی عمل تو نہیں کیا آپ نے فرمایا ہاں لیکن اللہ انہیں بخوبی جانتا ہے ۔ ۱؎ (مسند ابویعلیٰ:10290:ضعیف) پانچویں حدیث ۔ حافظ ابوبکر احمد بن عمر بن عبدالخالق بزار رحمہ اللہ اپنی مسند میں روایت کرتے ہیں کہ { قیامت کے دن اہل جاہلیت اپنے بوجھ اپنی کمروں پر لادے ہوئے آئیں گے اور اللہ کے سامنے عذر کریں گے کہ نہ ہمارے پاس تیرے رسول پہنچے نہ ہمیں تیرا کوئی حکم پہنچا اگر ایسا ہوتا تو ہم جی کھول کر مان لیتے اللہ تعالیٰ فرمائے گا اچھا اب اگر حکم کروں تو مان لو گے ؟ وہ کہیں گے ہاں ہاں بیشک بلا چون و چرا ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرمائے گا اچھا جاؤ جہنم کے پاس جا کر اس میں داخل ہو جاؤ یہ چلیں گے یہاں تک کہ اس کے پاس پہنچ جائیں گے اب جو اس کا جوش اور اس کی آواز اور اس کے عذاب دیکھیں گے تو واپس آ جائیں گے اور کہیں گے اے اللہ ہمیں اس سے تو بچا لے ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا دیکھو تم اقرار کر چکے ہو کہ میری فرمانبرداری کرو گے پھر یہ نافرمانی کیوں ؟ وہ کہیں گے اچھا اب اسے مان لیں گے اور کر گزریں گے ۔ چنانچہ ان سے مضبوط عہد و پیمان لیے جائیں گے ، پھر یہی حکم ہو گا یہ جائیں گے اور پھر خوفزدہ ہو کر واپس لوٹیں گے اور کہیں گے اے اللہ ہم تو ڈر گئے ہم سے تو اس فرمان پر کار بند نہیں ہوا جاتا ۔ اب جناب باری فرمائے گا تم نافرمانی کر چکے اب جاؤ ذلت کے ساتھ جہنمی بن جاؤ ۔ آپ فرماتے ہیں کہ اگر پہلی مرتبہ ہی یہ بحکم الٰہی اس میں کود جاتے تو آتش دوزخ ان پر سرد پڑ جاتی اور ان کا ایک رواں بھی نہ جلاتی ۔ } ۱؎ (مسند بزار:3433:ضعیف) امام بزار رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس حدیث کا متن معروف نہیں ایوب سے صرف عباد ہی روایت کرتے ہیں اور عباد سے صرف ریحان بن سعید روایت کرتے ہیں ۔ میں کہتا ہوں اسے ابن حبان رحمہ اللہ نے ثقہ بتلایا ہے ۔ یحییٰ بن معین اور نسائی رحمہ اللہ علیہم کہتے ہیں ان میں کوئی ڈر خوف کی بات نہیں ۔ ابوداؤد رحمہ اللہ نے ان سے روایت نہیں کی ۔ ابوحاتم رحمہ اللہ کہتے ہیں یہ شیخ ہیں ان میں کوئی حرج نہیں ۔ ان کی حدیثیں لکھائی جاتی ہیں اور ان سے دلیل نہیں لی جاتی ۔ چھٹی حدیث ۔ امام محمد بن یحییٰ ذہلی رحمہ اللہ روایت لائے ہیں کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے خالی زمانے والے اور مجنون اور بچے اللہ کے سامنے آئیں گے ایک کہے گا میرے پاس تیری کتاب پہنچی ہی نہیں ، مجنوں کہے گا میں بھلائی برائی کی تمیز ہی نہیں رکھتا ۔ بچہ کہے گا میں نے سمجھ بوجھ کا بلوغت کا زمانہ پایا ہی نہیں ۔ اسی وقت ان کے سامنے آگ شعلے مارنے لگے گی ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا اسے ہٹا دو تو جو لوگ آئندہ نیکی کرنے والے تھے وہ تو اطاعت گزار ہو جائیں گے اور جو اس عذر کے ہٹ جانے کے بعد بھی نافرمانی کرنے والے تھے وہ رک جائیں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا جب تم میری ہی براہ راست نہیں مانتے تو میرے پیغمبروں کی کیا مانتے ؟ ۱؎ (مسند بزار:2176:ضعیف) ساتویں حدیث ۔ انہی تین شخصوں کے بارے میں اوپر والی احادیث کی طرح ہے ۔ { اس میں یہ بھی ہے کہ جب یہ جہنم کے پاس پہنچیں گے تو اس میں سے ایسے شعلے بلند ہوں گے کہ یہ سمجھ لیں گے کہ یہ تو ساری دنیا کو جلا کر بھسم کر دیں گے دوڑتے ہوئے واپس لوٹ آئیں گے پھر دوبارہ یہی ہو گا اللہ عز و جل فرمائے گا ۔ تمہاری پیدائش سے پہلے ہی تمہارے اعمال کی خبر تھی میں نے علم ہوتے ہوئے تمہیں پیدا کیا تھا اسی علم کے مطابق تم ہو ۔ اے جہنم انہیں دبوچ لے چنانچہ اسی وقت آگ انہیں لقمہ بنا لے گی ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:83/20:ضعیف جداً) آٹھویں حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہا کی روایت ان کے اپنے قول سمیت پہلے بیان ہو چکی ہے ۔ بخاری و مسلم میں آپ ہی سے مروی ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” ہر بچہ دین اسلام پر پیدا ہوتا ہے ۔ پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی ، نصرانی یا مجوسی بنا لیتے ہیں “ ۔ جیسے کہ بکری کے صحیح سالم بچے کے کان کاٹ دیا کرتے ہیں ۔ لوگوں نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اگر وہ بچپن میں ہی مر جائے تو ؟ آپ نے فرمایا اللہ کو ان کے اعمال کی صحیح اور پوری خبر تھی ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:6599) مسند کی حدیث میں ہے کہ { مسلمان بچوں کی کفالت جنت میں ابراہیم علیہ السلام کے سپرد ہے ۔ } ۱؎ (مسند احمد:326/2:قال الشیخ الألبانی:حسن) صحیح مسلم میں حدیث قدسی ہے کہ { میں نے اپنے بندوں کو موحد یکسو مخلص بنایا ہے ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:2865) ایک روایت میں اس کے ساتھ ہی مسلمان کا لفظ بھی ہے ۔ نویں حدیث حافظ ابوبکر برقانی اپنی کتاب المستخرج علی البخاری میں روایت لائے ہیں کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر بچہ فطرت پر پیدا کیا جاتا ہے لوگوں نے باآواز بلند دریافت کیا کہ مشرکوں کے بچے بھی ؟ آپ نے فرمایا ہاں مشرکوں کے بچے بھی ۔ طبرانی کی حدیث میں ہے کہ مشرکوں کے بچے اہل جنت کے خادم بنائے جائیں گے ۔ } ۱؎ (مسند بزار:2172:ضعیف) دسویں حدیث مسند احمد میں ہے کہ { ایک صحابی نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنت میں کون کون جائیں گے ۔ آپ نے فرمایا نبی اور شہید بچے اور زندہ درگور کئے ہوئے بچے ۔ } ۱؎ (مسند احمد:409/5:صحیح) علماء میں سے بعض کا مسلک تو یہ ہے کہ ان کے بارے میں ہم توقف کرتے ہیں ، خاموش ہیں ان کی بھی گزر چکی ۔ بعض کہتے ہیں یہ جنتی ہیں ان کی دلیل معراج والی وہ حدیث ہے جو صحیح بخاری شریف میں سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے اپنے اس خواب میں ایک شیخ کو ایک جنتی درخت تلے دیکھا ، جن کے پاس بہت سے بچے تھے ۔ سوال پر جبرائیل علیہ السلام نے بتایا کہ یہ ابراہیم علیہ السلام ہیں اور ان کے پاس یہ بچے مسلمانوں کی اور مشرکوں کی اولاد ہیں ، لوگوں نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین کی اولاد بھی ؟ آپ نے فرمایا ہاں مشرکین کی اولاد بھی ۔ بعض علماء فرماتے ہیں یہ دوزخی ہیں کیونکہ ایک حدیث میں ہے کہ وہ اپنے باپوں کے ساتھ ہیں ۔ بعض علماء کہتے ہیں ان کا امتحان قیامت کے میدانوں میں ہو جائے گا ۔ اطاعت گزار جنت میں جائیں گے ، اللہ اپنے سابق علم کا اظہار کر کے پھر انہیں جنت میں پہنچائے گا اور بعض بوجہ اپنی نافرمانی کے جو اس امتحان کے وقت ان سے سرزد ہو گی اور اللہ تعالیٰ اپنا پہلا علم آشکارا کر دے گا ۔ اس وقت انہیں جہنم کا حکم ہو گا ۔ اس مذہب سے تمام حدیثیں اور مختلف دلیلیں جمع ہو جاتی ہیں اور پہلے کی حدیثیں جو ایک دوسری کو تقویت پہنچاتی ہیں اس معنی کی کئی ایک ہیں ۔ شیخ ابوالحسن علی بن اسماعیل اشعری رحمہ اللہ نے یہی مذہب اہل سنت و الجماعت کا نقل فرمایا ہے ۔ اور اسی کی تائید امام بہیقی رحمہ اللہ نے کتاب الاعتقاد میں کی ہے ۔ اور بھی بہت سے محققین علماء اور پرکھ والے حافظوں نے یہی فرمایا ہے ۔ شیخ ابو عمر بن عبد البر رحمہ اللہ عزی نے امتحان کی بعض روایتیں بیان کر کے لکھا ہے اس بارے کی حدیثیں قوی نہیں ہیں اور ان سے جحت ثابت نہیں ہوتی اور اہل علم ان کا انکار کرتے ہیں اس لیے کہ آخرت دار جزا ہے ، دار عمل نہیں ہے اور نہ دار امتحان ہے ۔ اور جہنم میں جانے کا حکم بھی تو انسانی طاقت سے باہر کا حکم ہے اور اللہ کی یہ عادت نہیں ۔ امام صاحب رحمہ اللہ کے اس قول کا جواب بھی سن لیجئے ، اس بارے جو حدیثیں ہیں ، ان میں سے بعض تو بالکل صحیح ہیں ۔ جیسے کہ ائمہ علماء نے تصریح کی ہے ۔ بعض حسن ہیں اور بعض ضعیف بھی ہیں لیکن وہ بوجہ صحیح اور حسن احادیث کے قوی ہو جاتی ہیں ۔ اور جب یہ ہے تو ظاہر ہے کہ یہ حدیثیں حجت و دلیل کے قابل ہو گئیں ۔ اب رہا امام صاحب کا یہ فرمان کہ آخرت دار عمل اور دار امتحان نہیں وہ دار جزا ہے ۔ یہ بیشک صحیح ہے لیکن اس سے اس کی نفی کیسے ہو گئی کہ قیامت کے مختلف میدانوں کی پیشیوں میں جنت دوزخ میں داخلے سے پہلے کوئی حکم احکام نہ دئے جائیں گے ۔ شیخ ابوالحسن اشعری رحمہ اللہ نے تو مذہب اہلسنت والجماعت کے عقائد میں بچوں کے امتحان کو داخل کیا ہے ۔ مزید براں آیت قرآن آیت «یَوْمَ یُکْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَّیُدْعَوْنَ اِلَی السٰجُوْدِ» ۱؎ (68-القلم:42) اس کی کھلی دلیل ہے کہ منافق و مومن کی تمیز کے لیے پنڈلی کھول دی جائے گی اور سجدے کا حکم ہو گا ۔ صحاح کی احادیث میں ہے کہ { مومن تو سجدہ کر لیں گے اور منافق الٹے منہ پیٹھ کے بل گر پڑیں گے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:4919) بخاری و مسلم میں اس شخص کا قصہ بھی ہے { جو سب سے آخر میں جہنم سے نکلے گا کہ وہ اللہ سے وعدے وعید کرے گا سوا اس سوال کے اور کوئی سوال نہ کرے گا اس کے پورا ہونے کے بعد وہ اپنے قول قرار سے پھر جائے گا اور ایک اور سوال کر بیٹھے گا وغیرہ ۔ آخر میں اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ ابن آدم تو بڑا ہی عہد شکن ہے اچھا جا ، جنت میں چلا جا ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:806) پھر امام صاحب کا یہ فرمانا کہ انہیں ان کی طاقت سے خارج بات کا یعنی جہنم میں کود پڑنے کا حکم کیسے ہو گا ؟ اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ۔ یہ بھی صحت حدیث میں کوئی روک پیدا نہیں کر سکتا ۔ خود امام صاحب اور تمام مسلمان مانتے ہیں کہ پل صراط پر سے گزرنے کا حکم سب کو ہو گا جو جہنم کی پیٹھ پر ہو گا اور تلوار سے زیادہ تیز اور بال سے زیادہ باریک ہو گا ۔ مومن اس پر سے اپنی نیکیوں کے اندازے سے گزر جائیں گے ۔ بعض مثل بجلی کے ، بعض مثل ہوا کے ، بعض مثل گھوڑوں کے ، بعض مثل اونٹوں کے ، بعض مثل بھاگنے والوں کے ، بعض مثل پیدل جانے والوں کے ، بعض گھٹنوں کے بل سرک سرک کر ، بعض کٹ کٹ کر جہنم میں پڑیں گے ۔ پس جب یہ چیز وہاں ہے تو انہیں جہنم میں کود پڑنے کا حکم تو اس سے کوئی بڑا نہیں بلکہ یہ اس سے بڑا اور بہت بھاری ہے ۔ اور سنئے حدیث میں ہے کہ { دجال کے ساتھ آگ اور باغ ہو گا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مومنوں کو حکم دیا ہے کہ وہ جسے آگ دیکھ رہے ہیں اس میں سے پی لیں وہ ان کے لیے ٹھنڈک اور سلامتی کی چیز ہے ۔ } پس یہ اس واقعہ کی صاف نظیر ہے ۔ اور لیجئے بنو اسرائیل نے جب گو سالہ پرستی کی اس کی سزا میں اللہ نے حکم دیا کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کو قتل کریں ایک ابر نے آکر انہیں ڈھانپ لیا اب جو تلوار چلی تو صبح ہی صبح ابر پھٹنے سے پہلے ان میں سے ستر ہزار آدمی قتل ہو چکے تھے ۔ بیٹے نے باپ کو اور باپ نے بیٹے کو قتل کیا ، کیا یہ حکم اس حکم سے کم تھا ؟ کیا اس کا عمل نفس پر گراں نہیں ؟ پھر تو اس کی نسبت بھی کہہ دینا چاہیئے تھے کہ اللہ کسی نفس کو اس کی برداشت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ۔ ان تمام بحثوں کے صاف ہونے کے بعد اب سنئے ۔ مشرکین کے بچپن میں مرے ہوئے بچوں کی بابت بھی بہت سے اقوال ہیں ۔ ایک یہ کہ یہ سب جنتی ہیں ، ان کی دلیل وہی معراج میں ابراہیم علیہ السلام کے پاس مشرکوں اور مسلمانوں کے بچوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دیکھنا ہے اور دلیل ان کی مسند کی وہ روایت ہے جو پہلے گزر چکی کہ آپ نے فرمایا بچے جنت میں ہیں ۔ ہاں امتحان ہونے کی جو حدیثیں گزریں وہ ان میں سے مخصوص ہیں ۔ پس جن کی نسبت رب العالمین کو معلوم ہے کہ وہ مطیع اور فرمانبردار ہیں ان کی روحیں عالم برزخ میں ابراہیم علیہ السلام کے پاس ہیں اور مسلمانوں کے بچوں کی روحیں بھی ۔ اور جن کی نسبت اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ وہ قبول کرنے والی نہیں ، ان کا امر اللہ کے سپرد ہے ، وہ قیامت کے دن جہنمی ہوں گے ۔ جیسے کہ احادیث امتحان سے ظاہر ہے ۔ امام اشعری رحمہ اللہ نے اسے اہل سنت سے نقل کیا ہے اب کوئی تو کہتا ہے کہ یہ مستقل طور پر جنتی ہیں کوئی کہتا ہے یہ اہل جنت کے خادم ہیں ۔ گو ایسی حدیث داؤد طیالسی میں ہے لیکن اس کی سند ضعیف ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ مشرکوں کے بچے بھی اپنے باپ دادوں کے ساتھ جہنم میں جائیں گے جیسے کہ مسند وغیرہ کی حدیث میں ہے کہ { وہ اپنے باپ دادوں کے تابعدار ہیں ۔ یہ سن کر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا بھی کہ باوجود بےعمل ہونے کے ؟ آپ نے فرمایا وہ کیا عمل کرنے والے تھے ، اسے اللہ تعالیٰ بخوبی جانتا ہے ۔ } ۱؎ (مسند احمد:84/6:صحیح) ابوداؤد میں ہے { سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ۔ “ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسلمانوں کی اولاد کی بابت سوال کیا تو آپ نے فرمایا وہ اپنے باپ دادوں کے ساتھ ہیں ۔ میں نے کہا مشرکوں کی اولاد ؟ آپ نے فرمایا وہ اپنے باپ دادوں کے ساتھ ہیں ۔ میں نے کہا بغیر اس کے کہ انہوں نے کوئی عمل کیا ہو ؟ آپ نے فرمایا وہ کیا کرتے یہ اللہ کے علم میں ہے ۔ } (سنن ابوداود:4712،قال الشیخ الألبانی:صحیح) مسند کی حدیث میں ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تو چاہے تو میں ان کا رونا پیٹنا اور چیخنا چلانا بھی تجھے سنا دوں ۔ } ۱؎ (مسند احمد:208/6:ضعیف) امام احمد رحمہ اللہ کے صاحبزادے روایت لائے ہیں کہ { سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے ان دو بچوں کی نسبت سوال کیا جو جاہلیت کے زمانے میں فوت ہوئے تھے آپ نے فرمایا وہ دونوں دوزخ میں ہیں جب آپ نے دیکھا کہ بات انہیں بھاری پڑی ہے تو آپ نے فرمایا اگر تم ان کی جگہ دیکھ لیتیں تو تم خود ان سے بیزار ہو جاتیں ۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا اچھا جو بچہ آپ سے ہوا تھا ؟ آپ نے فرمایا سنو مومن اور ان کی اولاد جنتی ہے اور مشرک اور ان کی اولاد جہنمی ہے ۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی «وَالَّذِینَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْہُمْ ذُرِّیَّتُہُم بِإِیمَانٍ أَلْحَقْنَا بِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ» ۱؎ (52-الطور:21) ’ جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے ان کی اتباع ایمان کے ساتھ کی ۔ ہم ان کی اولاد انہی کے ساتھ ملا دیں گے ۔ ‘ } ۱؎ (مسند عبد بن حمید:135/1:ضعیف) یہ حدیث غریب ہے اس کی اسناد میں محمد بن عثمان راوی مجہول الحال ہیں اور ان کے شیخ زاذان نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو نہیں پایا «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ ابو داؤد میں حدیث ہے کہ { زندہ درگور کرنے والی اور زندہ درگور کردہ شدہ دوزخی ہیں ۔ } ابوداؤد میں یہ سند حسن مروی ہے { سیدنا سلمہ بن قیس اشجعی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں اپنے بھائی کو لیے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہماری ماں جاہلیت کے زمانے میں مر گئی ہیں ، وہ صلہ رحمی کرنے والی اور مہمان نواز تھیں ، ہماری ایک نابالغ بہن انہوں نے زندہ دفن کر دی تھی ۔ آپ نے فرمایا ایسا کرنے والی اور جس کے ساتھ ایسا کیا گیا ہے دونوں دوزخی ہیں یہ اور بات ہے کہ وہ اسلام کو پالے اور اسے قبول کر لے ۔} تیسرا قول یہ ہے کہ ان کے بارے میں توقف کرنا چاہیئے کوئی فیصلہ کن بات یکطرفہ نہ کہنی چاہیئے ۔ ان کا اعتماد آپ کے اس فرمان پر ہے کہ ان کے اعمال کا صحیح اور پورا علم اللہ تعالیٰ کو ہے ۔ بخاری میں ہے کہ مشرکوں کی اولاد کے بارے میں جب آپ سے سوال ہوا تو آپ نے انہی لفظوں میں جواب دیا تھا ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1383) بعض بزرگ کہتے ہیں کہ یہ اعراف میں رکھے جائیں گے ۔ اس قول کا نتیجہ یہی ہے کہ یہ جنتی ہیں اس لیے کہ اعراف کوئی رہنے سہنے کی جگہ نہیں یہاں والے بالآخر جنت میں ہی جائیں گے ۔ جیسے کہ سورۃ الاعراف کی تفسیر میں ہم اس کی تفسیر کر آئے ہیں ، «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ یہ تو تھا اختلاف مشرکوں کی اولاد کے بارے میں لیکن مومنوں کی نابالغ اولاد کے بارے میں تو علما کا بلا اختلاف یہی قول ہے کہ وہ جنتی ہیں ۔ جیسے کہ امام احمد رحمہ اللہ کا قول ہے اور یہی لوگوں میں مشہور بھی ہے اور انشاءاللہ عز و جل ہمیں بھی یہی امید ہے ۔ لیکن بعض علماء سے منقول ہے کہ وہ ان کے بارے میں توقف کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سب بچے اللہ کی مرضی اور اس کی چاہت کے ماتحت ہیں ۔ اہل فقہ اور اہل حدیث کی ایک جماعت اس طرف بھی گئی ہے ۔ موطا امام مالک کی ابواب القدر کی احادیث میں بھی کچھ اسی جیسا ہے گو امام مالک رحمہ اللہ کا کوئی فیصلہ اس میں نہیں ۔ لیکن بعض متاخرین کا قول ہے کہ مسلمان بچے تو جنتی ہیں اور مشرکوں کے بچے مشیت الٰہی کے ماتحت ہیں ۔ ابن عبد البر نے اس بات کو اسی وضاحت سے بیان کیا ہے لیکن یہ قول غریب ہے ۔ کتاب التذکرہ میں امام قرطبی رحمہ اللہ نے بھی یہی فرمایا ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اس بارے میں ان بزرگوں نے ایک حدیث یہ بھی وارد کی ہے کہ { انصاریوں کے ایک بچے کے جنازے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بلایا گیا تو ماں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا اس بچے کو مرحبا ہو یہ تو جنت کی چڑیا ہے نہ برائی کا کوئی کام کیا نہ اس زمانے کو پہنچا تو آپ نے فرمایا اس کے سوا کچھ اور بھی اے عائشہ [ رضی اللہ عنہا ] ؟ سنو اللہ تبارک و تعالیٰ نے جنت والے پیدا کئے ہیں حالانکہ وہ اپنے باپ کی پیٹھ میں تھے ۔ اسی طرح اس نے جہنم کو پیدا کیا ہے اور اس میں جلنے والے پیدا کئے ہیں حالانکہ وہ ابھی اپنے باپ کی پیٹھ میں ہیں ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:2662) مسلم اور سنن کی یہ حدیث ہے ۔ چونکہ یہ مسئلہ صحیح دلیل بغیر ثابت نہیں ہو سکتا اور لوگ اپنی بے علمی کے باعث بغیر ثبوت شارع کے اس میں کلام کرنے لگے ہیں ۔ اس لیے علماء کی ایک جماعت نے اس میں کلام کرنا ہی ناپسند رکھا ہے ۔ سیدنا ابن عباس ، سیدنا قاسم بن محمد بن ابی بکر صدیق اور محمد بن حنفیہ رضی اللہ عنہم وغیرہ کا مذہب یہی ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے تو منبر پر خطبے میں فرمایا تھا کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اس امت کا کام ٹھیک ٹھاک رہے گا جب تک کہ یہ بچوں کے بارے میں اور تقدیر کے بارے میں کچھ کلام نہ کریں گے ۔ } ۱؎ (صحیح ابن حبان:6724) امام ابن حبان کہتے ہیں مراد اس سے مشرکوں کے بچوں کے بارے میں کلام نہ کرنا ہے ۔ اور کتابوں میں یہ روایت سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کے اپنے قول سے موقوفاً مروی ہے ۔ الإسراء
16 تقدیر اور ہمارے اعمال مشہور قرأت تو «أَمَرْنَا» ہے اس امر سے مراد تقدیری امر ہے جیسے اور آیت میں ہے : «أَتَاہَآ أَمْرُنَا لَیْلاً أَوْ نَہَارًا » ۱؎ (10-یونس:24) ’ یعنی وہاں ہمارہ مقرر کردہ امر آجاتا ہے ، رات کو یا دن کو ۔ ‘ یاد رہے کہ اللہ برائیوں کا حکم نہیں کرتا ۔ مطلب یہ ہے کہ وہ فحش کاریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور اس وجہ سے مستحق عذاب ہو جاتے ہیں کہ ہم انہیں اپنی اطاعت کے احکام کرتے ہیں اور برائیوں میں لگ جاتے ہیں پھر ہمارا سزا کا قول ان پر راست آ جاتا ہے جن کی قرأت «أَمُرْنَا »ہے وہ کہتے ہیں مطلب یہ ہے کہ وہاں کے سردار ہم بدکاروں کو بنا دیتے ہیں وہ وہاں اللہ تعالیٰ کی نافرمانیاں کرنے لگتے ہیں یہاں تک کہ عذاب الٰہی انہیں اس بستی سمیت تہس نہس کر دیتا ۔ جیسے فرمان ہے : «وَکَذلِکَ جَعَلْنَا فِی کُلِّ قَرْیَۃٍ أَکَـبِرَ مُجْرِمِیہَا» ۱؎ (6-الأنعام:123) ’ اور اسی طرح ہم نے ہر بستی میں وہاں کے رئیسوں ہی کو جرائم کا مرتکب بنایا ۔ ‘ سیدنا ابن عباسؓ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یعنی ہم ان کے دشمن بڑھا دیتے ہیں وہاں سرکشوں کی زیادتی کر دیتے ہیں ۔ مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے { بہترین مال جانور ہے جو زیادہ بچے دینے والا ہو یا راستہ ہے جو کھجور کے درختوں سے گھرا ہوا ہو ۔ } ۱؎ (مسند احمد:468/3:ضعیف) جیسے آپ کا قول ہے { گناہ والیاں نہ کہ اجر پانے والیاں ۔ ۱؎ } (سنن ابن ماجہ:1578،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) الإسراء
17 آل قریش سے خطاب اے قریشیو ! ہوش سنبھالو میرے اس بزرگ رسول کی تکذیب کر کے بے خوف نہ ہو جاؤ تم اپنے سے پہلے نوح علیہ السلام کے بعد کے لوگوں کو دیکھو کہ رسولوں کی تکذیب نے ان کا نام و نشان مٹا دیا ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نوح علیہ السلام سے پہلے کے آدم علیہ السلام تک کے لوگ دین اسلام پر تھے ۔ پس تم اے قریشیو کچھ ان سے زیادہ ساز و سامان اور گنتی اور طاقت والے نہیں ہو ۔ اس کے باوجود تم اشرف الرسل خاتم الانبیاء کو جھٹلا رہے ہو پس تم عذاب اور سزا کے زیادہ لائق ہو ۔ اللہ تعالیٰ پر اپنے کسی بندے کا کوئی عمل پوشیدہ نہیں خیر و شر سب اس پر ظاہر ہے ، کھلا چھپا سب وہ جانتا ہے ہر عمل کو خود دیکھ رہا ہے ۔ الإسراء
18 طالب دنیا کی چاہت کچھ ضروری نہیں کہ طالب دنیا کی ہر ایک چاہت پوری ہو ، جس کا جو ارادہ اللہ پورا کرنا چاہے کر دے لیکن ہاں ایسے لوگ آخرت میں خالی ہاتھ رہ جائیں گے ۔ یہ تو وہاں جہنم کے گڑھے میں گھرے ہوئے ہوں گے نہایت برے حال میں ذلت و خواری میں ہوں گے ۔ کیونکہ یہاں انہوں نے یہی کیا تھا ، فانی کو باقی پر دنیا کو آخرت پر ترجیح دی تھی اس لیے وہاں رحمت الٰہی سے دور ہیں ۔ مسند احمد میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں دنیا اس کا گھر ہے جس کا آخرت میں گھر نہ ہو ، یہ اس کا مال ہے جس کا آخرت میں مال نہ ہو ، اسے وہی جمع کرتا رہتا ہے جس کے پاس اپنی گرہ کی عقل بالکل نہ ہو ۔ } ۱؎ (مسند احمد:71/6:قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ہاں جو صحیح طریقے سے طالب دار آخرت ہو جائے اور آخرت میں کام آنے والی نیکیاں سنت کے مطابق کرتا رہے اور اس کے دل میں بھی ایمان تصدیق اور یقین ہو عذاب و ثواب کے وعدے صحیح جانتا ہو ، اللہ و رسول کو مانتا ہو ، ان کی کوشش قدر دانی سے دیکھی جائے گی نیک بدلہ ملے گا ۔ الإسراء
19 الإسراء
20 حق دار کو حق دیا جاتا ہے یعنی ان دونوں قسم کے لوگوں کو ایک وہ جن کا مطلب صرف دنیا ہے دوسرے وہ جو طالب آخرت ہیں دونوں قسم کے لوگوں کو ہم بڑھاتے رہتے ہیں جس میں بھی وہ ہیں ، یہ تیرے رب کی عطا ہے ، وہ ایسا متصرف اور حاکم ہے جو کبھی ظلم نہیں کرتا ۔ مستحق سعادت کو سعادت اور مستحق شقاوت کو شقاوت دے دیتا ہے ۔ اس کے احکام کوئی رد نہیں کر سکتا ، اس کے روکے ہوئے کو کوئی دے نہیں سکتا اس کے ارادوں کو کوئی ٹال نہیں سکتا ۔ تیرے رب کی نعمتیں عام ہیں ، نہ کسی کے روکے رکیں ، نہ کسی کے ہٹائے ہٹیں وہ نہ کم ہوتی ہیں نہ گھٹتی ہیں ۔ دیکھ لو کہ دنیا میں ہم نے انسانوں کے کیسے مختلف درجے رکھے ہیں ان میں امیر بھی ہیں ، فقیر بھی ہیں درمیانہ حالت میں بھی ہیں ، اچھے بھی ہیں ، برے بھی ہیں اور درمیانہ درجے کے بھی ۔ کوئی بچپن میں مرتا ہے ، کوئی بوڑھا بڑا ہوکر ، کوئی اس کے درمیان ۔ آخرت درجوں کے اعتبار سے دنیا سے بھی بڑھی ہوئی ہے کچھ تو طوق و زنجیر پہنے ہوئے جہنم کے گڑھوں میں ہوں گے ، کچھ جنت کے درجوں میں ہوں گے ، بلند و بالا بالا خانوں میں نعمت و راحت سرور و خوشی میں ، پھر خود جنتیوں میں بھی درجوں کا تفاوت ہو گا ایک ایک درجے میں زمین و آسمان کا سا تفاوت ہوگا ۔ جنت میں ایسے ایک سو درجے ہیں ۔ { بلند درجوں والے اہل علین کو اس طرح دیکھیں گے جیسے تم کسی چمکتے ستارے کو آسمان کی اونچائی پر دیکھتے ہو ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:3256) پس آخرت درجوں اور فضیلتوں کے اعتبار سے بہت بڑی ہے ، طبرانی میں ہے { جو بندہ دنیا میں جو درجہ چڑھنا چاہے گا اور اپنی خواہش میں کامیاب ہو جائے گا وہ آخرت کا درجہ گھٹا دے گا جو اس سے بہت بڑا ہے پھر آپ نے یہی آیت پڑھی ۔ } ۱؎ (طبرانی کبیر:6101:ضعیف) الإسراء
21 الإسراء
22 فاقہ اور انسان یہ خطاب ہر ایک مکلف سے ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام امت کو حق تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرو ۔ اگر ایسا کرو گے تو ذلیل ہو جاؤ گے اللہ کی مدد ہٹ جائے گی ۔ جس کی عبادت کرو گے اسی کے سپرد کر دئے جاؤ گے اور یہ ظاہر ہے کہ اللہ کے سوا کوئی نفع نقصان کا مالک نہیں وہ واحد لا شریک ہے ۔ مسند احمد میں { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جسے فاقہ پہنچے اور وہ لوگوں سے اسے بند کروانا چاہے اس کا فاقہ بند نہ ہو گا اور جو اللہ سے اس کی بابت دعا کرے اللہ اس کے پاس تونگری بھیج دے گا یا تو جلدی یا دیر سے ۔ } ۱؎ (سنن ابوداود:1645:قال الشیخ الألبانی:صحیح) یہ حدیث ابوداؤد و طیالسی میں ہے ۔ ترمذی رحمہ اللہ اسے حسن صحیح غریب بتلاتے ہیں ۔ الإسراء
23 اٹل فیصلے محکم حکم یہاں «قَضَیٰ» معنی میں حکم فرمانے کے ہے تاکیدی حکم الٰہی جو کبھی ٹلنے والا نہیں یہی ہے کہ عبادت اللہ ہی کی ہو اور والدین کی اطاعت میں ہمیشہ فرق نہ آئے ۔ سیدنا ابی ابن کعب ، } ابن مسعود اور سیدنا ضحاک بن مزاحم رضی اللہ عنہم کی قرأت میں «قَضَیٰ» کے بدلے «وصی» ہے ۔ یہ دونوں حکم ایک ساتھ جیسے یہاں ہیں ایسے ہی اور بھی بہت سی آیتوں میں ہیں ۔ جیسے فرمان ہے آیت «أَنِ اشْکُرْ لِی وَلِوَالِدَیْکَ إِلَیَّ الْمَصِیرُ» ۱؎ (31-لقمان:14) ’ میرا شکر کر اور اپنے ماں باپ کا بھی احسان مند رہ ۔‘ خصوصا ان کے بڑھاپے کے زمانے میں ان کا پورا ادب کرنا ، کوئی بری بات زبان سے نہ نکالنا یہاں تک کہ ان کے سامنے ہوں بھی نہ کرنا ، نہ کوئی ایسا کام کرنا جو انہیں برا معلوم ہو ، اپنا ہاتھ ان کی طرف بےادبی سے نہ بڑھانا ، بلکہ ادب ، عزت اور احترام کے ساتھ ان سے بات چیت کرنا ، نرمی اور تہذیب سے گفتگو کرنا ، ان کی رضا مندی کے کام کرنا ، دکھ نہ دینا ، ستانا نہیں ، ان کے سامنے تواضع ، عاجزی ، فروتنی اور خاکساری سے رہنا ۔ ان کے لیے ان کے بڑھاپے میں ان کے انتقال کے بعد دعائیں کرتے رہنا ۔ خصوصا یہ دعا کہ اے اللہ ان پر رحم کر جیسے رحم سے انہوں نے میرے بچپن کے زمانے میں میری پرورش کی ۔ ہاں ایمانداروں کو کافروں کے لیے دعا کرنا منع ہو گئی ہے گو وہ ماں باپ ہی کیوں نہ ہوں ؟ ماں باپ سے سلوک و احسان کے احکام کی حدیثیں بہت سی ہیں ۔ ایک روایت میں ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر چڑھتے ہوئے تین دفعہ آمین کہی ، جب آپ سے وجہ دریافت کی گئی تو آپ نے فرمایا میرے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے اور کہا اے نبی [ صلی اللہ علیہ وسلم ] اس شخص کی ناک خاک آلود ہو ، جس کے پاس تیرا ذکر ہو اور اس نے تجھ پر درود بھی نہ پڑھا ہو ۔ کہئے آمین چنانچہ میں نے آمین کہی ۔ پھر فرمایا اس شخص کی ناک بھی اللہ تعالیٰ خاک آلود کرے جس کی زندگی میں ماہ رمضان آیا اور چلا بھی گیا اور اس کی بخشش نہ ہوئی ۔ آمین کہئے چنانچہ میں نے اس پر بھی آمین کہی ۔ پھر فرمایا اللہ اسے بھی برباد کرے ۔ جس نے اپنے ماں باپ کو یا ان میں سے ایک کو پا لیا اور پھر بھی ان کی خدمت کر کے جنت میں نہ پہنچ سکا کہئے آمین میں نے کہا آمین ۔ } ۱؎ (سنن ترمذی:3545،قال الشیخ الألبانی:صحیح) مسند احمد کی حدیث میں ہے { جس نے کسی مسلمان ماں باپ کے یتیم بچہ کو پالا اور کھلایا پلایا یہاں تک کہ وہ بے نیاز ہو گیا اس کے لیے یقیناً جنت واجب ہے اور جس نے کسی مسلمان غلام کو آزاد کیا اللہ اسے جہنم سے آزاد کرے گا اس کے ایک ایک عضو کے بدلے اس کا ایک ایک عضو جہنم سے آزاد ہو گا ۔ } ۱؎ (مسند احمد:29/5:صحیح باشواھد) اس حدیث کی ایک سند میں ہے { جس نے اپنے ماں باپ کو یا دونوں میں سے کسی ایک کو پا لیا پھر بھی دوزخ میں گیا اللہ اسے اپنی رحمت سے دور کرے ۔ } ۱؎ (مسند احمد:29/5:صحیح باشواھد) مسند احمد کی ایک روایت میں { یہ تینوں چیزیں ایک ساتھ بیان ہوئی ہیں یعنی گردن آزاد کرنا خدمت والدین اور پرورش یتیم ۔ } ۱؎ (مسند احمد:344/4:صحیح لغیرہ) ایک روایت میں { ماں باپ کی نسبت یہ بھی ہے کہ اللہ اسے دور کرے اور اسے برباد کرے } الخ ۔ ۱؎ (مسند احمد:344/4:صحیح لغیرہ) ایک روایت میں { تین مرتبہ اس کے لیے یہ بدعا ہے ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:2551) ایک روایت میں { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام سن کر درود نہ پڑھنے والے اور ماہ رمضان میں بخشش الٰہی سے محروم رہ جانے والے اور ماں باپ کی خدمت اور رضا مندی سے جنت میں نہ پہنچنے والے کے لیے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بدعا کرنا منقول ہے ۔ } ۱؎ (سنن ترمذی:3545،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ایک انصاری نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ { میرے ماں باپ کے انتقال کے بعد بھی ان کے ساتھ میں کوئی سلوک کر سکتا ہوں ؟ آپ نے فرمایا ہاں چار سلوک [١ ] ان کے جنازے کی نماز [٢] ان کے لیے دعا و استغفار [٣] ان کے وعدوں کو پورا کرنا [٤ ] ان کے دوستوں کی عزت کرنا اور وہ صلہ رحمی جو صرف ان کی وجہ سے ہو ۔ یہ ہے وہ سلوک جو ان کی موت کے بعد بھی تو ان کے ساتھ کر سکتا ہے } ۱؎ (سنن ابوداود:5142،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ایک شخص نے آکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا { یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں جہاد کے ارادے سے آپ کی خدمت میں خوشخبری لے کر آیا ہوں ۔ آپ نے فرمایا تیری ماں ہے ؟ اس نے کہا ہاں فرمایا جا اسی کی خدمت میں لگا رہ ۔ جنت اسی کے پیروں کے پاس ہے ۔ دو بارہ سہ بارہ اس نے مختلف مواقع پر اپنی یہی بات دہرائی اور یہی جواب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دہرایا ۔ } ۱؎ (سنن نسائی:3106،قال الشیخ الألبانی:صحیح) { آپ کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تمہیں تمہارے باپوں کی نسبت وصیت فرماتا ہے اللہ تمہیں تمہاری ماؤں کی نسبت وصیت فرماتا ہے ۔ پچھلے جملے کو تین بار بیان فرماکر فرمایا اللہ تمہیں تمہارے قرابت داروں کی بابت وصیت کرتا ہے ، سب سے زیادہ نزدیک والا پھر اس کے پاس والا ۔ } ۱؎ (سنن ابن ماجہ:3661،قال الشیخ الألبانی:حسن) { آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں دینے والے کا ہاتھ اونچا ہے اپنی ماں سے سلوک کر اور اپنے باپ سے اور اپنی بہن سے اور اپنے بھائی سے پھر جو اس کے بعد ہو اسی طرح درجہ بدرجہ ۔ } ۱؎ (مسند احمد:64/4:صحیح) بزار کی مسند میں ضعیف سند سے مروی ہے کہ { ایک صاحب اپنی ماں کو اٹھائے ہوئے طواف کرا رہے تھے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرنے لگے کہ اب تو میں نے اپنی والدہ کا حق ادا کر دیا ہے ؟ آپ نے فرمایا ایک شمہ بھی نہیں ۔ } ۱؎ (طبرانی صغیر:255:ضعیف) «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ الإسراء
24 الإسراء
25 گناہ اور استغفار اس سے مراد وہ لوگ ہیں ، جن سے جلدی میں اپنے ماں باپ کے ساتھ کوئی ایسی بات ہو جاتی ہے جسے وہ اپنے نزدیک عیب کی اور گناہ کی بات نہیں سمجھتے ہیں ، چونکہ ان کی نیت بخیر ہوتی ہے اس لیے اللہ ان پر رحمت کرتا ہے ، جو ماں باپ کا فرمانبردار نمازی ہو اس کی خطائیں اللہ کے ہاں معاف ہیں ۔ کہتے ہیں کہ اوابین وہ لوگ ہیں جو مغرب و عشاء کے درمیان نوافل پڑھیں ۔ بعض کہتے ہیں جو صبح کی نماز ادا کرتے رہیں ، جو ہر گناہ کے بعد توبہ کر لیا کریں ۔ جو جلدی سے بھلائی کی طرف لوٹ آیا کریں ۔ تنہائی میں اپنے گناہوں کو یاد کر کے خلوص دل سے استغفار کر لیا کریں ۔ عبید کہتے ہیں جو برابر ہر مجلس سے اٹھتے ہوئے یہ دعا پڑھ لیا کریں ۔ ( دعا ) « اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِی مَا أَصَبْتُ فِی مَجْلِسِی ہَذَا » ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں اولیٰ قول یہ ہے کہ جو گناہ سے توبہ کر لیا کریں ۔ معصیت سے اطاعت کی طرف آجایا کریں ۔ اللہ کی ناپسندیدگی کے کاموں کو ترک کرکے اس کی رضا مندی اور پسندیدگی کے کام کرنے لگیں ۔ یہی قول بہت ٹھیک ہے کیونکہ لفظ اواب مشتق ہے اوب سے اور اس کے معنی رجوع کرنے کے ہیں جیسے عرب کہتے ہیں ” اب فلان “ اور جیسے قرآن میں ہے آیت «إِنَّ إِلَیْنَا إِیَابَہُمْ » (88-الغاشیۃ:25) ’ ان کا لوٹنا ہماری ہی طرف ہے ۔ ‘ صحیح حدیث میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر سے لوٹتے تو فرماتے [دعا] « آیِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ» لوٹنے والے توبہ کرنے والے عبادتیں کرنے والے اپنے رب کی ہی تعریفیں کرنے والے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:1797) الإسراء
26 ماں باپ اور قرابت داروں سے حسن سلوک کی تاکید ماں باپ کے ساتھ سلوک و احسان کا حکم دے کر اب قرابت داروں کے ساتھ صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے ۔ حدیث میں ہے { اپنی ماں سے سلوک کر اور اپنے باپ سے پھر جو زیادہ قریب ہو اور جو زیادہ قریب ہو ۔} ۱؎ (مسند احمد:64/4:صحیح) اور حدیث میں ہے { جو اپنے رزق کی اور اپنی عمر کی ترقی چاہتا ہو اسے صلہ رحمی کرنی چاہیئے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:5986) بزار میں ہے { اس آیت کے اترتے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بلا کر فدک عطا فرمایا ۔ } ۱؎ (مسند ابویعلیٰ:1075:ضعیف) اس حدیث کی سند صحیح نہیں ۔ اور واقعہ بھی کچھ ٹھیک نہیں معلوم ہوتا اس لیے کہ یہ آیت مکیہ ہے اور اس وقت تک باغ فدک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قبضے میں نہ تھا ۔ ٧ ھ میں خیبر فتح ہوا تب باغ آپ کے قبضے میں آیا پس یہ قصہ اس پر پورا نہیں اترتا ۔ مساکین اور مسافرین کی پوری تفسیر سورۃ برات میں گزر چکی ہے یہاں دہرانے کی چنداں ضرورت نہیں ۔ خرچ کا حکم کر کے پھر اسراف سے منع فرماتا ہے ۔ نہ تو انسان کو بخیل ہونا چاہیے نہ مسرف بلکہ درمیانہ درجہ رکھے ۔ جیسے اور آیت میں ہے «وَالَّذِینَ إِذَا أَنفَقُوا لَمْ یُسْرِفُوا وَلَمْ یَقْتُرُوا وَکَانَ بَیْنَ ذٰلِکَ قَوَامًا» ۱؎ (25-الفرقان:67) ’ یعنی ایماندار اپنے خرچ میں نہ تو حد سے گزرتے ہیں نہ بالکل ہاتھ روک لیتے ہیں ۔ ‘ پھر اسراف کی برائی بیان فرماتا ہے کہ ایسے لوگ شیطان جیسے ہیں ۔ «تبذیر» کہتے ہیں غیر حق میں خرچ کرنے کو ۔ اپنا کل مال بھی اگر راہ للہ دیدے تو یہ تبذیر و اسراف نہیں اور غیر حق میں تھوڑا سا بھی دے تو مبذر ہے ۔ { بنو تمیم کے ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں مالدار آدمی ہوں اور اہل و عیال کنبے قبیلے والا ہوں تو مجھے بتائیے کہ میں کیا روش اختیار کروں ؟ آپ نے فرمایا اپنے مال کی زکوٰۃ الگ کر ، اس سے تو پاک صاف ہو جائے گا ۔ اپنے رشتے داروں سے سلوک کر سائل کا حق پہنچاتا رہ اور پڑوسی اور مسکین کا بھی ۔ اس نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور تھوڑے الفاظ میں پوری بات سمجھا دیجئیے ۔ آپ نے فرمایا قرابت داروں مسکینوں اور مسافروں کا حق ادا کر اور بیجا خرچ نہ کر ۔ اس نے کہا حسبی اللہ اچھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب میں آپ کے قاصد کو زکوٰۃ ادا کر دوں تو اللہ و رسول کے نزدیک میں بری ہو گیا ؟ آپ نے فرمایا ہاں جب تو نے میرے قاصد کو دے دیا تو تو بری ہو گیا اور تیرے لیے اجر ثابت ہو گیا ۔ اب جو اسے بدل ڈالے اس کا گناہ اس کے ذمے ہے ۔ } ۱؎ (مسند احمد:136/3:صحیح) یہاں فرمان ہے کہ اسراف اور بیوقوفی اور اللہ کی اطاعت کے ترک اور نافرمانی کے ارتکاب کی وجہ سے مسرف لوگ شیطان کے بھائی بن جاتے ہیں ۔ شیطان میں یہی بد خصلت ہے کہ وہ رب کی نعمتوں کا ناشکرا ، اس کی اطاعت کا تارک ، اس کی نافرمانی اور مخالفت کا عامل ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ ان قرابت داروں ، مسکینوں ، مسافروں میں سے کوئی کبھی تجھ سے کچھ سوال کر بیٹھے اور اس وقت تیرے ہاتھ تلے کچھ نہ ہو اور اس وجہ سے تجھے ان سے منہ پھیر لینا پڑے تو بھی جواب نرم دے کہ بھائی جب اللہ ہمیں دے گا ان شاءاللہ ہم آپ کا حق نہ بھولیں گے وغیرہ ۔ الإسراء
27 الإسراء
28 الإسراء
29 میانہ روی کی تعلیم حکم ہو رہا ہے کہ اپنی زندگی میں میانہ روش رکھو نہ بخیل بنو نہ مسرف ۔ ہاتھ گردن سے نہ باندھ لو یعنی بخیل نہ بنو کہ کسی کو نہ دو ۔ یہودیوں نے بھی اسی محاورے کو استعمال کیا ہے اور کہا ہے کہ «وَقَالَتِ الْیَہُودُ یَدُ اللہِ مَغْلُولَۃٌ» ’ اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ۔ ‘ ۱؎ (5-المائدۃ:64) ان پر اللہ کی لعنتیں نازل ہوں کہ یہ اللہ کو بخیلی کی طرف منسوب کرتے تھے ۔ جس سے اللہ تعالیٰ کریم و وہاب پاک اور بہت دور ہے ۔ پس بخل سے منع کر کے پھر اسراف سے روکتا ہے کہ اتنا کھل نہ کھولو کہ اپنی طاقت سے زیادہ دے ڈالو ۔ پھر ان دونوں حکموں کا سبب بیان فرماتا ہے کہ بخیلی سے تو ملامتی بن جاؤ گے ہر ایک کی انگلی اٹھے گی کہ یہ بڑا بخیل ہے ہر ایک دور ہو جائے گا کہ یہ محض بے فیض آدمی ہے ۔ جیسے زہیر نے اپنے معلقہ میں کہا ہے « وَمَنْ کَانَ ذَا مَالِ وَّیـَبْخَلُ بِمَالِہِ * عَلٰی قُومِہِ یُسَتغَن عَنْہُمْ وَ یُذَمَمَّ » ” یعنی جو مالدار ہو کر بخیلی کرے لوگ اس سے بے نیاز ہو کر اس کی برائی کرتے ہیں ۔ “ پس بخیلی کی وجہ سے انسان برابن جاتا ہے اور لوگوں کی نظروں سے گر جاتا ہے ہر ایک اسے ملامت کرنے لگتا ہے اور جو حد سے زیادہ خرچ کر گزرتا ہے وہ تھک کر بیٹھ جاتا ہے اس کے ہاتھ میں کچھ نہیں رہتا ۔ ضعیف اور عاجز ہو جاتا ہے جیسے کوئی جانور جو چلتے چلتے تھک جائے اور راستے میں اڑ جائے ۔ لفظ «حسیر» سورۃ تبارک میں بھی آیا ہے ۔ ۱؎ (67-الملک:4) پس یہ بطور لف و نشر کے ہے ۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے { بخیل اور سخی کی مثال ان دو شخصوں جیسی ہے جن پر دو لوہے کے جبے ہوں ، سینے سے گلے تک ، سخی تو جوں جوں خرچ کرتا ہے اس کی کڑیاں ڈھیلی ہوتی جاتی ہیں اور اس کے ہاتھ کھلتے جاتے ہیں اور وہ جبہ بڑھ جاتا ہے یہاں تک کہ اس کی پوریوں تک پہنچ جاتا ہے اور اس کے اثر کو مٹاتا ہے اور بخیل جب کبھی خرچ کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے جبے کی کڑیاں اور سمٹ جاتی ہیں وہ ہر چند اسے وسیع کرنا چاہتا ہے لیکن اس میں گنجائش نہیں نکلتی ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:1443) بخاری و مسلم میں ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ اسما بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے فرمایا اللہ کی راہ میں خرچ کرتی رہ جمع نہ رکھا کر ، ورنہ اللہ بھی روک لے گا ، بند باندھ کر روک نہ لیا کر ورنہ پھر اللہ بھی رزق کا منہ بند کر لے گا ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:1433) ایک اور روایت میں ہے { شمار کر کے نہ رکھا کر ورنہ اللہ تعالیٰ بھی گنتی کر کے روک لے گا ۔} ۱؎ (صحیح بخاری:2591) صحیح مسلم شریف میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تو اللہ کی راہ میں خرچ کیا کر ، اللہ تعالیٰ تجھے دیتا رہے گا ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:993) بخاری و مسلم میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہر صبح دو فرشتے آسمان سے اترتے ہیں ایک دعا کرتا ہے کہ اے اللہ سخی کو بدلہ دے اور دوسرا دعا کرتا ہے کہ بخیل کا مال تلف کر ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:1442) مسلم شریف میں ہے { صدقے خیرات سے کسی کا مال نہیں گھٹتا اور ہر سخاوت کرنے والے کو اللہ ذی عزت کر دیتا ہے اور جو شخص اللہ کے حکم کی وجہ سے دوسروں سے عاجزانہ برتاؤ کرے اللہ اسے بلند درجے کا کر دیتا ہے ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:2588) ایک اور حدیث میں ہے { طمع سے بچو اسی نے تم سے اگلے لوگوں کو ہلاک کیا ہے ۔ طمع کا پہلا حکم یہ ہوتا ہے کہ بخیلی کرو انہوں نے بخیلی کی پھر اس نے انہیں صلہ رحمی توڑنے کو کہا انہوں نے یہ بھی کیا پھر فسق و فجور کا حکم دیا یہ اس پر بھی کار بند ہوئے ۔ } ۱؎ (سنن ابوداود:1698،قال الشیخ الألبانی:صحیح) بیہقی میں ہے { جب انسان خیرات کرتا ہے ستر شیطانوں کے جبڑے ٹوٹ جاتے ہیں ۔ } ۱؎ (مسند احمد:350/5:صحیح) مسند کی حدیث میں ہے { درمیانہ خرچ رکھنے والا کبھی فقیر نہیں ہوتا ۔ } (مسند احمد:447/1:ضعیف) پھر فرماتا ہے کہ رزق دینے والا ، کشادگی کرنے والا ، تنگی میں ڈالنے والا ، اپنی مخلوق میں اپنی حسب منشا ہیر پھیر کرنے والا ، جسے چاہے غنی اور جسے چاہے فقیر کرنے والا اللہ ہی ہے ۔ ہر بات میں اس کی حکمت ہے ، وہی اپنی حکمتوں کا علیم ہے ، وہ خوب جانتا ہے اور دیکھتا ہے کہ مستحق امارت کون ہے اور مستحق فقیری کون ہے ؟ حدیث قدسی میں ہے { میرے بعض بندے وہ ہیں کہ فقیری ہی کے قابل ہیں اگر میں انہیں امیر بنا دوں تو ان کا دین تباہ ہو جائے اور میرے بعض بندے ایسے بھی ہیں جو امیری کے لائق ہیں اگر میں انہیں فقیر بنا دوں تو ان کا دین بگڑ جائے ۔ } ۱؎ (تفسیر بغوی:1877:ضعیف) ہاں یہ یاد رہے کہ بعض لوگوں کے حق میں امیری اللہ کی طرف سے ڈھیل کے طور پر ہوتی ہے اور بعض کے لیے فقیری بطور عذاب ہوتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان دونوں سے بچائے ۔ [آمین] الإسراء
30 الإسراء
31 قتل اولاد کی مذمت دیکھو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بہ نسبت ان کے ماں باپ کے بھی زیادہ مہربان ہے ۔ ایک طرف ماں باپ کو حکم دیتا ہے کہ اپنا مال اپنے بچوں کو بطور ورثے کے دو اور دوسری جانب فرماتا ہے کہ انہیں مار نہ ڈالا کرو ۔ جاہلیت کے لوگ نہ تو لڑکیوں کو ورثہ دیتے تھے نہ ان کا زندہ رکھنا پسند کرتے تھے بلکہ دختر کشی ان کی قوم کا ایک عام رواج تھا ۔ قرآن اس بد انجام رواج کی تردید کرتا ہے کہ یہ خیال کس قدر بودا ہے کہ انہیں کھلائیں گے کہاں سے ؟ کسی کی روزی کسی کے ذمہ نہیں سب کا روزی رساں اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ سورۃ الانعام میں فرمایا آیت « وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَکُم مِّنْ إِمْلَاقٍ » ۱؎ (6-الأنعام:151) فقیری اور تنگ دستی کے خوف سے اپنی اولاد کی جان نہ لیا کرو ۔ تمہیں اور انہیں روزیاں دینے والے ہم ہیں ۔ ان کا قتل جرم عظیم اور گناہ کبیرہ ہے ۔ خطا کی دوسری قرأت خطا ہے دونوں کے معنی ایک ہی ہیں ۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ { سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا یہ کہ تو کسی کو اللہ کا شریک ٹھیرائے حالانکہ اسی اکیلے نے تجھے پیدا کیا ہے ۔ میں نے پوچھا اس کے بعد ؟ فرمایا یہ کہ تو اپنی اولاد کو اس خوف سے مار ڈالے کہ وہ تیرے ساتھ کھائیں گے ۔ میں نے کہا اس کے بعد ؟ فرمایا یہ کہ تو اپنی پڑوسن سے زناکاری کرے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:7520) الإسراء
32 کبیرہ گناہوں سے ممانعت زناکاری اور اس کے اردگرد کی تمام سیاہ کاریوں سے قرآن روک رہا ہے ۔ زنا کو شریعت نے کبیرہ اور بہت سخت گناہ بتایا ہے وہ بدترین طریقہ اور نہایت بری راہ ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ { ایک نوجوان نے زناکاری کی اجازت آپ سے چاہی لوگ اس پر جھک پڑے کہ چپ رہ کیا کر رہا ہے ، کیا کہہ رہا ہے ۔ آپ نے اسے اپنے قریب بلا کر فرمایا بیٹھ جا جب وہ بیٹھ گیا تو آپ نے فرمایا کیا تو اس کام کو اپنی ماں کے لیے پسند کرتا ہے ؟ اس نے کہا نہیں اللہ کی قسم نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے آپ پر اللہ فدا کرے ہرگز نہیں ۔ آپ نے فرمایا پھر سوچ لے کہ کوئی اور کیسے پسند کرے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا تو اسے اپنی بیٹی کے لیے پسند کرتا ہے ؟ اس نے اسی طرح تاکید سے انکار کیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ٹھیک اسی طرح کوئی بھی اسے اپنی بیٹیوں کے لیے پسند نہیں کرتا اچھا اپنی بہن کے لیے اسے تو پسند کرے گا ؟ اس نے اسی طرح سے انکار کیا آپ نے فرمایا اسی طرح دوسرے بھی اپنی بہنوں کے لیے اسے مکروہ سمجھتے ہیں ۔ بتا کیا تو چاہے گا کہ کوئی تیری پھوپھی سے ایسا کرے ؟ اس نے اسی سختی سے انکار کیا ۔ آپ نے فرمایا اسی طرح اور سب لوگ بھی ۔ پھر آپ نے اپنا ہاتھ اس کے سر پر رکھ کر دعا کی کہ الٰہی اس کے گناہ بخش ، اس کے دل کو پاک کر ، اسے عصمت والا بنا ۔ پھر تو یہ حالت تھی کہ یہ نوجوان کسی کی طرف نظر بھی نہ اٹھاتا ۔ } ۱؎ (مسند احمد:257/5:صحیح) ابن ابی الدنیا میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے شرک کے بعد کوئی گناہ زناکاری سے بڑھ کر نہیں کہ آدمی اپنا نطفہ کسی ایسے رحم میں ڈالے جو اس کے لیے حلال نہیں ۔ } ۱؎ (الدر المنشور للسیوطی:325/4:اسنادہ مرسل ضعیف) الإسراء
33 ناحق قتل بغیر حق شرعی کے کسی کو قتل کرنا حرام ہے ۔ بخاری مسلم میں ہے { جو مسلمان اللہ کے واحد ہونے کی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے کی شہادت دیتا ہو اس کا قتل تین باتوں کے سوا حلال نہیں ۔ یا تو اس نے کسی کو قتل کیا ہو یا شادی شدہ ہو اور پھر زنا کیا ہو یا دین کو چھوڑ کر جماعت کو چھوڑ دیا ہو ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:6878) سنن میں ہے { ساری دنیا کا فنا ہو جانا اللہ کے نزدیک ایک مومن کے قتل سے زیادہ آسان ہے ۔ } ۱؎ (سنن ترمذی:1395،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اگر کوئی شخص ناحق دوسرے کے ہاتھوں قتل کیا گیا ہے تو اس کے وارثوں کو اللہ تعالیٰ نے قتل پر غالب کر دیا ہے ۔ اسے قصاص لینے اور دیت لینے اور بالکل معاف کر دینے میں سے ایک کا اختیار ہے ۔ ایک عجیب بات یہ ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس آیت کریمہ کے عموم سے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی سلطنت پر استدلال کیا ہے کہ وہ بادشاہ بن جائیں گے اس لیے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ انتہائی مظلومی کے ساتھ شہید کئے گئے تھے ۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ قاتلان سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے طلب کرتے تھے کہ ان سے قصاص لیں اس لیے کہ یہ بھی اموی تھے اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ بھی اموی تھے ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اس میں ذرا ڈھیل کر رہے تھے ۔ ادھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا مطالبہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے یہ تھا کہ ملک شام ان کے سپرد کر دیں ۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں تاوقتیکہ آپ قاتلان سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو نہ دیں میں ملک شام کو آپ کی زیر حکومت نہ کروں گا چنانچہ آپ نے مع کل اہل شام کے بیعت سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے انکار کر دیا ۔ اس جھگڑے نے طول پکڑا اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ شام کے حکمران بن گئے ۔ معجم طبرانی میں یہ روایت ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے رات کی گفتگو میں ایک دفعہ فرمایا کہ آج میں تمہیں ایک بات سناتا ہوں نہ تو وہ ایسی پوشیدہ ہے نہ ایسی اعلانیہ ، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ جو کچھ کیا گیا ، اس وقت میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو مشورہ دیا کہ آپ یکسوئی اختیار کر لیں ، واللہ اگر آپ کسی پتھر میں چھپے ہوئے ہوں گے تو نکال لیے جائیں گے لیکن انہوں نے میری نہ مانی ۔ اب ایک اور سنو اللہ کی قسم [سیدنا] معاویہ [رضی اللہ عنہ] تم پر بادشاہ ہو جائیں گے ، اس لیے کہ اللہ کا فرمان ہے ، جو مظلوم مار ڈالا جائے ، ہم اس کے وارثوں کو غلبہ اور طاقت دیتے ہیں ۔ پھر انہیں قتل کے بدلے میں قتل میں حد سے نہ گزرنا چاہیئے الخ ۔ سنو یہ قریشی تو تمہیں فارس و روم کے طریقوں پر آمادہ کر دیں گے اور سنو تم پر نصاری اور یہود اور مجوسی کھڑے ہو جائیں گے اس وقت جس نے معروف کو تھام لیا اس نے نجات پالی اور جس نے چھوڑ دیا اور افسوس کہ تم چھوڑنے والوں میں سے ہی ہو تو مثل ایک زمانے والوں کے ہوؤگے کہ وہ بھی ہلاک ہونے والوں میں ہلاک ہو گئے ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:320/10:) اب فرمایا ولی کو قتل کے بدلے میں حد سے نہ گزر جانا چاہیئے کہ وہ قتل کے ساتھ مثلہ کرے ۔ کان ، ناک ، کاٹے یا قاتل کے سوا اور سے بدلہ لے ۔ ولی مقتول شریعت ، غلبے اور مقدرت کے لحاظ سے ہر طرح مدد کیا گیا ہے ۔ الإسراء
34 یتیم کا مال یتیم کے مال میں بد نیتی سے ہیر پھیر نہ کرو ، «وَلَا تَأْکُلُوا أَمْوَالَہُمْ إِلَیٰ أَمْوَالِکُمْ ۚ إِنَّہُ کَانَ حُوبًا کَبِیرًا » ۱؎ (4-النساء:2) ان کے مال ان کی بلوغت سے پہلے صاف کر ڈالنے کے ناپاک ارادوں سے بچو ۔ «وَلَا تَأْکُلُوہَا إِسْرَافًا وَبِدَارًا أَن یَکْبَرُوا ۚ وَمَن کَانَ غَنِیًّا فَلْیَسْتَعْفِفْ ۖ وَمَن کَانَ فَقِیرًا فَلْیَأْکُلْ بِالْمَعْرُوفِ» ۱؎ (4-النساء:6) جس کی پرورش میں یہ یتیم بچے ہوں اگر وہ خود مالدار ہے تب تو اسے ان یتیموں کے مال سے بالکل الگ رہنا چاہیئے اور اگر وہ فقیر محتاج ہے تو خیر بقدر معروف کھالے ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے فرمایا میں تو تجھے بہت کمزور دیکھ رہا ہوں اور تیرے لیے وہی پسند فرماتا ہوں ، جو خود اپنے لیے چاہتا ہوں ۔ خبردار کبھی دو شخصوں کا والی نہ بننا اور نہ کبھی یتیم کے مال کا متولی بننا ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:1826) پھر فرماتا ہے وعدہ وفائی کیا کرو جو وعدے وعید جو لین دین ہو جائے اس کی پاسبانی کرو اس کی بابت قیامت کے دن جواب دہی ہو گی ۔ ناپ پیمانہ پورا پورا بھر کر دیا کرو لوگوں کو ان کی چیز گھٹا کر کم نہ دو ۔ «قِسْطَاسِ» کی دوسری قرأت «قَسْطَاسْ» بھی ہے پھر حکم ہوتا ہے بغیر پاسنگ کی صحیح وزن بتانے والی سیدھی ترازو سے بغیر ڈنڈی مارے تولا کرو ، دونوں جہان میں تم سب کے لیے یہی بہتری ہے ۔ دنیا میں بھی یہ تمہارے لین دین کی رونق ہے اور آخرت میں بھی یہ تمہارے چھٹکارے کی دلیل ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اے تاجرو تمہیں ان دو چیزوں کو سونپا گیا ہے جن کی وجہ سے تم سے پہلے کے لوگ برباد ہو گئے یعنی ناپ تول ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو شخص کسی حرام پر قدرت رکھتے ہوئے صرف خوف اللہ سے اسے چھوڑ دے تو اللہ تعالیٰ اسی دنیا میں اسے اس سے بہتر چیز عطا فرمائے گا ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:22306:مرسل) الإسراء
35 الإسراء
36 بلا تحقیق فیصلہ نہ کرو یعنی جس بات کا علم نہ ہو اس میں زبان نہ ہلاؤ ۔ بغیر علم کے کسی کی عیب جوئی اور بہتان بازی نہ کرو ۔ جھوٹی شہادتیں نہ دیتے پھرو ۔ بن دیکھے نہ کہہ دیا کرو کہ میں نے دیکھا ، نہ بےسنے سننا بیان کرو ، نہ بےعلمی پر اپنا جاننا بیان کرو ۔ کیونکہ ان تمام باتوں کی جواب دہی اللہ کے ہاں ہو گی ۔ غرض وہم خیال اور گمان کے طور پر کچھ کہنا منع ہو رہا ہے ۔ جیسے فرمان قرآن ہے آیت «یٰٓاَیٰہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ» ۱؎ (49-الحجرات:12) ’ زیادہ گمان سے بچو ، بعض گمان گناہ ہیں ۔ ‘ حدیث میں ہے { گمان سے بچو ، گمان بدترین جھوٹی بات ہے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:6066) ابوداؤد کی حدیث میں ہے { انسان کا یہ تکیہ کلام بہت ہی برا ہے کہ لوگ خیال کرتے ہیں ۔ } ۱؎ (سنن ابوداود:4972،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اور حدیث میں ہے { بدترین بہتان یہ ہے کہ انسان جھوٹ موٹ کوئی خواب گھڑلے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:7043) اور صحیح حدیث میں ہے { جو شخص ایسا خواب از خود گھڑلے قیامت کے دن اسے یہ تکلیف دی جائے گی کہ وہ دو جو کے درمیان گرہ لگائے اور یہ اس سے ہرگز نہیں ہونا ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:7042) قیامت کے دن آنکھ کان دل سب سے بازپرس ہو گی سب کو جواب دہی کرنی ہو گی ۔ یہاں «تِلْکَ» کی جگہ «أُولٰئِکَ» کا استعمال ہے ، عرب میں یہ استعمال برابر جاری ہے یہاں تک کہ شاعروں کے شعروں میں بھی ۔ مثلاً «ذم المنازل بعد منزلۃ اللوی والعیش بعد أولئک الأیام» ۔ الإسراء
37 تکبر کے ساتھ چلنے کی ممانعت اکڑ کر ، اترا کر ، تکبر کے ساتھ چلنے سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو منع فرماتا ہے ۔ یہ عادت سرکش اور مغرور لوگوں کی ہے ۔ پھر اسے نیچا دکھانے کے لیے فرماتا ہے کہ گو کتنے ہی بلند سر ہو کر چلو لیکن پہاڑ کی بلندی سے پست ہی رہو گے اور گو کیسے ہی کھٹ پٹ کرتے ہوئے پاؤں مار مار کر چلو لیکن زمین کو پھاڑنے سے رہے ۔ بلکہ ایسے لوگوں کا حال برعکس ہوتا ہے ۔ جیسے کہ حدیث میں ہے کہ { ایک شخص چادر جوڑے میں اتراتا ہوا چلا جارہا تھا جو وہیں زمین میں دھنسا دیا گیا جو آج تک دھنستا ہوا چلا جارہا ہے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:5789) قرآن میں قارون کا قصہ موجود ہے کہ وہ مع اپنے محلات کے زمین دوز کر دیا گیا ۔ ہاں تواضع ، نرمی ، فروتنی اور عاجزی کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ بلند کرتا ہے وہ اپنے آپ کو حقیر سمجھتا ہے اور لوگ اسے جلیل القدر سمجھتے ہیں اور تکبر کرنے والا اپنے تئیں بڑا آدمی سمجھتا ہے اور لوگوں کی نگاہوں میں وہ ذلیل و خوار ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ اسے کتوں اور سوروں سے بھی زیادہ حقیر جانتے ہیں ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2659) امام ابوبکر بن ابی الدنیا رحمہ اللہ اپنی کتاب المحمول والتواضع میں لائے ہیں کہ ابن الاہیم دربار منصور میں جا رہا تھا ریشمی جبہ پہنے ہوئے تھا اور پنڈلیوں کے اوپر سے اسے دوہرا سلوایا تھا کہ نیچے سے قباء بھی دکھائی دیتی رہے اور اکڑتا اینڈتا جا رہا تھا ۔ حسن رحمہ اللہ نے اسے اس حالت میں دیکھ کر فرمایا افوہ نک چڑھا ، بل کھایا ، رخساروں پھولا ، اپنے ڈنڈ بازو دیکھتا ، اپنے تیئں تولتا ، سمتوں کے ذکر و شکر کو بھولا ، رب کے احکام کو چھوڑے ہوئے ، اللہ کے حق کو توڑا ، دیوانوں کی چال چلتا ، عضو عضو میں کسی کی دی ہوئی نعمت رکھتا ، شیطان کی لعنت کا مارا ہوا دیکھو جا رہا ہے ۔ ابن الاہیم نے سن لیا اور اسی وقت لوٹ آیا اور عذر بہانہ کرنے لگا ۔ آپ نے فرمایا مجھ سے کیا معذرت کرتا ہے اللہ تعالیٰ سے توبہ کر اور اسے ترک کر ۔ کیا تو نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں سنا آیت «وَلَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا ۚ اِنَّکَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا » ۱؎ (17-الإسراء:37) ۱؎ (ابن ابی دنیا:237) عابد بختری رحمہ اللہ نے آل علی میں سے ایک شخص کو اکڑتے ہوئے چلتا دیکھ کر فرمایا اے شخص جس نے تجھے یہ اکرام دیا ہے اس کی روش ایسی نہ تھی ۔ اس نے اسی وقت توبہ کر لی ۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک ایسے شخص کو دیکھ کر فرمایا جو اکڑ اکڑ کر چل رہا تھا کہ شیطان کے یہی بھائی ہوتے ہیں ۔ خالد بن معدان رحمہ اللہ فرماتے ہیں لوگو اکڑ اکڑ کر چلنا چھوڑو اس لیے کہ انسان کے ہاتھ بھی اس کے باقی جسم میں سے ہیں ۔ ابن ابی الدنیا میں حدیث ہے کہ { جب میری امت غرور اور تکبر کی چال چلنے لگے گی اور فارسیوں اور رومیوں کو اپنی خدمت میں لگائے گی تو اللہ تعالیٰ ایک کو ایک پر مسلط کر دے گا ۔ } ۱؎ (سنن ترمذی:2261،قال الشیخ الألبانی:صحیح) «سَیِّئُہُ» کی دوسری قرأت «سیئہ» ہے تو معنی یہ ہوئے کہ جن جن کاموں سے ہم نے تمہیں روکا ہے یہ سب کام نہایت برے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ناپسندیدہ ہیں ۔ یعنی اپنی اولاد کو قتل نہ کرو سے لے کر اکڑ کر نہ چلو تک کے تمام کام ۔ اور «سیئہ »کی قرأت پر مطلب یہ ہے کہ آیت «وَقَضَیٰ رَبٰکَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِیَّاہُ» (17-الإسراء:23) سے یہاں تک جو حکم احکام اور جو ممانعت اور روک بیان ہوئی اس میں جن برے کاموں کا ذکر ہے وہ سب اللہ کے نزدیک مکروہ کام ہیں ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ نے یہی توجیہ بیان فرمائی ہے ۔ الإسراء
38 الإسراء
39 ذلیل کن عادتیں یہ احکام ہم نے دئیے ہیں ۔ سب بہترین اوصاف ہیں اور جن باتوں سے ہم نے روکا ہے وہ بڑی ذلیل خصلتیں ہیں ۔ ہم یہ سب باتیں تیری طرف بذریعہ وحی کے نازل فرما رہے ہیں کہ تو لوگوں کو حکم دے اور منع کرے ۔ دیکھ میرے ساتھ کسی کو معبود نہ ٹھیرانا ورنہ وہ وقت آئے گا کہ خود اپنے آپ کو ملامت کرنے لگے گا اور اللہ کی طرف سے بھی ملامت ہو گی بلکہ تمام اور مخلوق کی طرف سے بھی ۔ اور تو ہر بھلائی سے دور کر دیا جائے گا ۔ اس آیت میں بواسطہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی امت سے خطاب ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو معصوم ہیں ۔ الإسراء
40 مجرمانہ سوچ پر تبصرہ ملعون مشرکوں کی تردید ہو رہی ہے کہ یہ تم نے خوب تقسیم کی ہے کہ بیٹے تمہارے اور بیٹیاں اللہ کی ۔ جو تمہیں ناپسند جن سے تم جلو کڑھو بلکہ زندہ درگور کر دو انہیں اللہ کے لیے ثابت کرو ۔ اور آیتوں میں بھی ان کا یہ کمینہ پن بیان ہوا ہے کہ «وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا * لَّقَدْ جِئْتُمْ شَیْئًا إِدًّا * تَکَادُ السَّمَاوَاتُ یَتَفَطَّرْنَ مِنْہُ وَتَنشَقٰ الْأَرْضُ وَتَخِرٰ الْجِبَالُ ہَدًّا * أَن دَعَوْا لِلرَّحْمٰنِ وَلَدًا * وَمَا یَنبَغِی لِلرَّحْمٰنِ أَن یَتَّخِذَ وَلَدًا * إِن کُلٰ مَن فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِی الرَّحْمٰنِ عَبْدًا * لَّقَدْ أَحْصَاہُمْ وَعَدَّہُمْ عَدًّا * وَکُلٰہُمْ آتِیہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَرْدًا » (19-مریم:88-95) یہ کہتے ہیں رب رحمان کی اولاد ہے حقیقتاً انکا یہ قول نہایت ہی برا ہے بہت ممکن ہے کہ اس سے آسمان پھٹ جائے ، زمین شق ہو جائے ، پہاڑ چورا چورا ہو جائیں کہ یہ اللہ رحمان کی اولاد ٹھہرا رہے ہیں حالانکہ اللہ کو یہ کسی طرح لائق ہی نہیں ۔ زمین و آسمان کی کل مخلوق اس کی غلام ہے ۔ سب اس کے شمار میں ہیں اور گنتی میں اور ایک ایک اس کے سامنے قیامت کے دن تنہا پیش ہونے والا ہے ۔ الإسراء
41 دلائل کے ساتھ ہدایت اس پاک کتاب میں ہم نے تمام مثالیں کھول کھول کر بیان فرما دی ہیں ۔ وعدے وعید صاف طور پر مذکور ہیں تاکہ لوگ برائیوں سے اور اللہ کی نافرمانیوں سے بچیں ۔ لیکن تاہم ظالم لوگ تو حق سے نفرت رکھنے اور اس سے دور بھاگنے میں ہی بڑھ رہے ہیں ۔ الإسراء
42 لوگو عقل کے ناخن لو جو مشرک اللہ کے ساتھ اوروں کی بھی عبادت کرتے ہیں اور انہیں شریک الٰہی مانتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انہی کی وجہ سے ہم قرب الٰہی حاصل کرسکتے ہیں ان سے کہو کہ اگر تمہارا یہ گمان فاسد کچھ بھی جان رکھتا ہوتا اور اللہ کے ساتھ واقعی کوئی ایسے معبود ہوتے کہ وہ جسے چاہیں قرب الٰہی دلوادیں اور جس کی جو چاہیں سفارش کردیں تو خود وہ معبود ہی اس کی عبادت کرتے اس کا قرب ڈھونڈتے ہیں ۔ پس تمہیں صرف اسی کی عبادت کرنی چاہیئے ، نہ اس کے سوا دوسرے کی عبادت ، نہ دوسرے معبود کی کوئی ضرورت کہ اللہ میں اور تم میں وہ واسطہ بنے ۔ اللہ کو یہ واسطے سخت ناپسند اور مکروہ معلوم ہوتے ہیں اور ان سے وہ انکار کرتا ہے اپنے تمام نبیوں رسولوں کی زبان سے اس سے منع فرماتا ہے ۔ اس کی ذات ظالموں کے بیان کردہ اس وصف سے بالکل پاک ہے اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ ان آلودگیوں سے ہمارا مولا پاک ہے ، وہ واحمد اور صمد ہے ، وہ ماں باپ اور اولاد سے پاک ہے ، اس کی جنس کا کوئی نہیں ۔ الإسراء
43 الإسراء
44 سبحان العلی الاعلی ساتوں آسمان و زمین اور ان میں بسنے والی کل مخلوق اس کی قدوسیت ، تسبیح ، تنزیہ ، تعظیم ، جلالت ، بزرگی ، بڑائی ، پاکیزگی اور تعریف بیان کرتی ہے اور مشرکین جو نکمے اور باطل اوصاف ذات حق کے لیے مانتے ہیں ، ان سے یہ تمام مخلوق برات کا اظہار کرتی ہے اور اس کی الوہیت اور ربوبیت میں اسے واحد اور لا شریک مانتی ہے ۔ ہر ہستی اللہ کی توحید کی زندہ شہادت ہے ۔ ان نالائق لوگوں کے اقوال سے مخلوق تکلیف میں ہے ۔ قریب ہے کہ آسمان پھٹ جائے ، زمین دھنس جائے ، پہاڑ ٹوٹ جائیں ۔ طبرانی میں مروی ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مقام ابراہیم اور زمزم کے درمیان سے جبرائیل و میکائیل مسجد اقصی تک شب معراج میں لے گئے ، جبرائیل آپ کے دائیں تھے اور میکائیل بائیں ۔ آپ کو ساتوں آسمان تک اڑا لے گئے وہاں سے آپ لوٹے ۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں نے بلند آسمانوں میں بہت سی تسبیحات کے ساتھ یہ تسبیح سنی کہ «سَبَّحَتْ السَّمَاوَات الْعُلَی مِنْ ذِی الْمَہَابَۃ مُشْفِقَات لِذِی الْعُلُوّ بِمَا عَلَا سُبْحَان الْعَلِیّ الْأَعْلَی سُبْحَانہ وَتَعَالَی » } ۱؎ (طبرانی:243:اسنادہ ضعیف) مخلوق میں سے ہر ایک چیز اس کی پاکیزگی اور تعریف بیان کرتی ہے ۔ لیکن اے لوگو تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے اس لیے کہ وہ تمہاری زبان میں نہیں ۔ حیوانات ، نباتات ، جمادات سب اس کے تسبیح خواں ہیں ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے صحیح بخاری میں ثابت ہے کہ { کھانا کھاتے میں کھانے کی تسبیح ہم سنتے رہتے تھے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:3579) سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ والی حدیث میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مٹھی میں چند کنکریاں لیں ، میں نے خود سنا کہ وہ شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی طرح تسبیح باری کر رہی تھیں ۔ اسی طرح سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں بھی ۔ } ۱؎ (مسند بزار:2413) یہ حدیث صحیح میں اور مسندوں میں مشہور ہے ۔ { کچھ لوگوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اونٹنیوں اور جانوروں پر سوار کھڑے ہوئے دیکھ کر فرمایا کہ سواری سلامتی کے ساتھ لو اور پھر اچھائی سے چھوڑ دیا کرو ، راستوں اور بازاروں میں اپنی سواریوں کو لوگوں سے باتیں کرنے کی کرسیاں نہ بنا لیا کرو ۔ سنو بہت سی سواریاں اپنے سواروں سے بھی زیادہ ذکر اللہ کرنے والی اور ان سے بھی بہتر و افضل ہوتی ہیں ۔ } ۱؎ (مسند احمد:440/3:ضعیف) سنن نسائی میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مینڈک کے مار ڈالنے کو منع فرمایا اور فرمایا اس کا بولنا تسبیح الٰہی ہے ۔ } ۱؎ (طبرانی اوسط:3728:ضعیف) اور حدیث میں ہے کہ { «لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ »کا کلمہ اخلاص کہنے کے بعد ہی کسی کی نیکی قابل قبول ہوتی ہے ۔ «الْحَمْدُ لِلہِ» کلمہ شکر ہے اس کا نہ کہنے والا اللہ کا ناشکرا ہے ۔ «اﷲُ اَکْبَرُ» زمین و آسمان کی فضا بھر دیتا ہے ، «سُبْحَانَ اﷲِ» کا کلمہ مخلوق کی تسبیح ہے ۔ اللہ نے کسی مخلوق کو تسبیح اور نماز کے اقرار سے باقی نہیں چھوڑا ۔ جب کوئی«لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاﷲِ» پڑھتا ہے تو اللہ فرماتا ہے میرا بندہ مطیع ہوا اور مجھے سونپا ۔ } مسند احمد میں ہے کہ { ایک اعرابی طیالسی جبہ پہنے ہوئے جس میں ریشمی کف اور ریشمی گھنڈیاں تھیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اس شخص کا ارادہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ چرواہوں کے لڑکوں کو اونچا کرے اور سرداروں کے لڑکوں کو ذلیل کرے ۔ آپ کو غصہ آگیا اور اس کا دامن گھسیٹتے ہوئے فرمایا کہ تجھے میں جانورں کا لباس پہنے ہوئے تو نہیں دیکھتا ؟ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم واپس چلے آئے اور بیٹھ کر فرمانے لگے کہ نوح علیہ السلام نے اپنی وفات کے وقت اپنے بچوں کو بلا کر فرمایا کہ میں تمہیں بطور وصیت کے دو حکم دیتا ہوں اور دو ممانعت ۔ ایک تو میں تمہیں اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنے سے منع کرتا ہوں دوسرے تکبر سے روکتا ہوں ۔ پہلا حکم تو تمہیں یہ کرتا ہوں کہ «لا الہ الا اللہ» کہتے رہو اس لیے کہ اگر آسمان اور زمین اور ان کی تمام چیزیں ترازو کے پلڑے میں رکھ دی جائیں اور دوسرے میں صرف یہی کلمہ ہو تو بھی یہی کلمہ وزنی رہے گا ۔ سو اگر تمام آسمان و زمین ایک حلقہ بنا دئے جائیں اور ان پر اس کو رکھ دیا جائے تو وہ انہیں پاش پاش کر دے ، دوسرا حکم میرا « سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہِ » پڑھنے کا ہے کہ یہ ہر چیز کی نماز ہے اور اسی کی وجہ سے ہر ایک کو رزق دیا جاتا ہے ۔ } ۱؎ (مسند احمد:169/2-225:صحیح) ابن جریر میں ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آؤ میں تمہیں بتلاؤں کہ نوح علیہ السلام نے اپنے لڑکے کو کیا حکم دیا فرمایا کہ پیارے بچے میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ سبحان اللہ کہا کرو ، یہ کل مخلوق کی تسبیح ہے اور اسی سے مخلوق کو روزی دی جاتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہر چیز اس کی تسبیح و حمد بیان کرتی ہے } اس کی اسناد بوجہ ربذی راوی کے ضعیف ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:22325::ضعیف) عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ستون ، درخت ، دروازوں کی چولیں ، ان کے کھلنے اور بند ہونے کی آواز ، پانی کی کھڑکھڑاہٹ یہ سب تسبیح الٰہی ہے ۔ اللہ فرماتا ہے کہ ہر چیز حمد و ثنا کے بیان میں مشغول ہے ۔ ابراہیم کہتے ہیں طعام بھی تسبیح خوانی کرتا ہے سورۃ الحج کی آیت بھی اس کی شہادت دیتی ہے ۔ اور مفسرین کہتے ہیں کہ ہر ذی روح چیز تسبیح خواں ہے ۔ جیسے حیوانات اور نباتات ۔ ایک مرتبہ حسن رحمہ اللہ کے پاس خوان آیا تو ابویزید قاشی نے کہا کہ اے ابوسعید کیا یہ خوان بھی تسبیح گو ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں تھا ۔ مطلب یہ ہے کہ جب تک تر لکڑی کی صورت میں تھا تسبیح گو تھا جب کٹ کر سوکھ گیا تسبیح جاتی رہی ۔ اس قول کی تائید میں اس حدیث سے بھی مدد لی جا سکتی ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گزرتے ہیں فرماتے ہیں انہیں عذاب کیا جا رہا ہے اور کسی بڑی چیز میں نہیں ایک تو پیشاب کے وقت پردے کا خیال نہیں کرتا تھا اور دوسرا چغل خور تھا ، پھر آپ نے ایک تر ٹہنی لے کر اس کے دو ٹکڑے کرکے دونوں قبروں پر گاڑ دئے اور فرمایا کہ شاید جب تک یہ خشک نہ ہوں ، ان کے عذاب میں تخفیف رہے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:218) اس سے بعض علماء نے کہا ہے کہ جب تک یہ تر رہیں گی تسبیح پڑھتی رہیں گی جب خشک ہو جائیں گی تسبیح بند ہو جائے گی «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اللہ تعالیٰ حلیم و غفور ہے اپنے گنہگاروں کو سزا کرنے میں جلدی نہیں کرتا ، تاخیر کرتا ہے ، ڈھیل دیتا ہے ، پھر بھی اگر کفر و فسق پر اڑا رہے تو اچانک عذاب مسلط کر دیتا ہے ۔ بخاری و مسلم میں ہے { اللہ تعالیٰ ظالم کو مہلت دیتا ہے ، پھر جب مواخذہ کرتا ہے تو نہیں چھوڑتا ۔ } دیکھو قرآن میں ہے کہ «وَکَذٰلِکَ أَخْذُ رَبِّکَ إِذَا أَخَذَ الْقُرَیٰ وَہِیَ ظَالِمَۃٌ ۚ إِنَّ أَخْذَہُ أَلِیمٌ شَدِیدٌ » (11-ہود:102) ’ جب تیرا رب کسی بستی کے لوگوں کو ان کے مظالم پر پکڑتا ہے تو پھر ایسی ہی پکڑ ہوتی ہے ‘ ۱؎ (صحیح بخاری:4686) الخ اور آیت میں ہے کہ«وَکَأَیِّن مِّن قَرْیَۃٍ أَمْلَیْتُ لَہَا وَہِیَ ظَالِمَۃٌ ثُمَّ أَخَذْتُہَا وَإِلَیَّ الْمَصِیرُ» ۱؎ (22-الحج:48) ’ بہت سی ظالم بستیوں کو ہم نے مہلت دی پھر آخر پکڑلیا ۔ ‘ اور آیت میں ہے ’ ہاں جو گناہوں سے رک جائے ، ان سے ہٹ جائے ، توبہ کرے تو اللہ بھی اس پر رحم اور مہربانی کرتا ہے ۔ ‘ جیسے آیت قرآن میں ہے«وَمَن یَعْمَلْ سُوءًا أَوْ یَظْلِمْ نَفْسَہُ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللہَ یَجِدِ اللہَ غَفُورًا رَّحِیمًا » ۱؎ (4-النساء:110) ’ جو شخص برائی کرے یا اپنی جان پر ظلم کرے ؟ پھر استغفار کرے تو اللہ کو بخشنے والا اور مہربان پائے گا ۔ ‘ سورۃ فاطر کے آخر کی آیتوں «إِنَّ اللہَ یُمْسِکُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ أَن تَزُولَا ۚ وَلَئِن زَالَتَا إِنْ أَمْسَکَہُمَا مِنْ أَحَدٍ مِّن بَعْدِہِ ۚ إِنَّہُ کَانَ حَلِیمًا غَفُورًا * وَأَقْسَمُوا بِ اللہِ جَہْدَ أَیْمَانِہِمْ لَئِن جَاءَہُمْ نَذِیرٌ لَّیَکُونُنَّ أَہْدَیٰ مِنْ إِحْدَی الْأُمَمِ ۖ فَلَمَّا جَاءَہُمْ نَذِیرٌ مَّا زَادَہُمْ إِلَّا نُفُورًا * اسْتِکْبَارًا فِی الْأَرْضِ وَمَکْرَ السَّیِّئِ ۚ وَلَا یَحِیقُ الْمَکْرُ السَّیِّئُ إِلَّا بِأَہْلِہِ ۚ فَہَلْ یَنظُرُونَ إِلَّا سُنَّتَ الْأَوَّلِینَ ۚ فَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللہِ تَبْدِیلًا ۖ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللہِ تَحْوِیلًا * أَوَلَمْ یَسِیرُوا فِی الْأَرْضِ فَیَنظُرُوا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الَّذِینَ مِن قَبْلِہِمْ وَکَانُوا أَشَدَّ مِنْہُمْ قُوَّۃً ۚ وَمَا کَانَ اللہُ لِیُعْجِزَہُ مِن شَیْءٍ فِی السَّمَاوَاتِ وَلَا فِی الْأَرْضِ ۚ إِنَّہُ کَانَ عَلِیمًا قَدِیرًا» ۱؎ (35-فاطر:41-44) میں یہی بیان ہے ۔ الإسراء
45 کفار کا ایک نفسیاتی تجزیہ فرماتا ہے کہ قرآن کی تلاوت کے وقت ان کے دلوں پر پردے پڑجاتے ہیں ، کوئی اثر ان کے دلوں تک نہیں پہنچتا ۔ وہ حجاب انہیں چھپا لیتا ہے ۔ یہاں «مَّسْتُورً» ، «ساتِر» کے معنی میں ہے جیسے «میمون» اور «مشئوم» معنی میں یا «من» اور «شائم» کے ہیں ۔ وہ پردے گو بظاہر نظر نہ آئیں لیکن ہدایت میں اور ان میں وہ حد فاصل ہو جاتے ہیں ۔ مسند ابو یعلیٰ موصلی میں ہے کہ { سورۃ «تَبَّتْ یَدَا» کے اترنے پر عورت ام جمیل شور مچاتی دھاری دار پتھر ہاتھ میں لیے یہ کہتی ہوئی آئی کہ اس مذموم کو ہم ماننے والے نہیں ہمیں اس کا دین ناپسند ہے ، ہم اس کے فرمان کے مخالف ہیں ۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے ، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کے پاس تھے ، کہنے لگے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ آ رہی ہے اور آپ کو دیکھ لے گی ۔ آپ نے فرمایا بیفکر رہو یہ مجھے نہیں دیکھ سکتی اور آپ نے اس سے بچنے کے لیے تلاوت قرآن شروع کر دی ۔ یہی آیت تلاوت فرمائی وہ آئی اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہا سے پوچھنے لگی کہ میں نے سنا ہے ۔ تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میری ہجو کی ہے ، آپ نے فرمایا ، نہیں ، رب کعبہ کی قسم تیری ہجو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کی ، وہ یہ کہتی ہوئی لوٹی کہ تمام قریش جانتے ہیں کہ میں ان کے سردار کی لڑکی ہوں ۔ } ۱؎ (مسند ابویعلیٰ:25:حسن) «أَکِنَّۃً» ، «کنان» کی جمع ہے اس پردے نے ان کے دلوں کو ڈھک رکھا ہے جس سے یہ قرآن سمجھ نہیں سکتے ان کے کانوں میں بوجھ ہے ، جس سے وہ قرآن اس طرح سن نہیں سکتے کہ انہیں فائدہ پہنچے اور جب تو قرآن میں اللہ کی وحدانیت کا ذکر پڑھتا ہے تو یہ بے طرح بھاگ کھڑے ہوتے ہیں ۔ «نُفُورً» جمع ہے نافر کی جیسے قاعد کی جمع عقود آتی ہے اور ہو سکتا ہے کہ یہ مصدر بغیر فعل ہو «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ «وَإِذَا ذُکِرَ اللہُ وَحْدَہُ اشْمَأَزَّتْ قُلُوبُ الَّذِینَ لَا یُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَۃِ ۖ وَإِذَا ذُکِرَ الَّذِینَ مِن دُونِہِ إِذَا ہُمْ یَسْتَبْشِرُونَ » ۱؎ (39-الزمر:45) ’ اللہ واحد کے ذکر سے بے ایمانوں کے دل اچاٹ ہو جاتے ہیں ۔ ‘ مسلمانوں کا « لا الہ الا اللہ» کہنا مشرکوں پر بہت گراں گزرتا تھا ابلیس اور اس کا لشکر اس سے بہت چڑتا تھا ۔ اس کے دبانے کی پوری کوشش کرتا تھا لیکن اللہ کا ارادہ ان کے برخلاف اسے بلند کرنے اور عزت دینے اور پھیلانے کا تھا ۔ یہی وہ کلمہ ہے کہ اس کا قائل فلاح پاتا ہے اس کا عامل مدد دیا جاتا ہے ۔ دیکھ لو اس جزیرے کے حالات تمہارے سامنے ہیں کہ یہاں سے وہاں تک یہ پاک کلمہ پھیل گیا ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد شیطانوں کا بھاگنا ہے گو بات یہ ٹھیک ہے ۔ اللہ کے ذکر سے ، اذان سے ، تلاوت قرآن سے ، شیطان بھاگتا ہے لیکن اس آیت کی یہ تفسیر کرنا غرابت سے خالی نہیں ۔ الإسراء
46 الإسراء
47 سرداران کفر کا المیہ سراداران کفر جو آپس میں باتیں بناتے تھے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچائی جا رہی ہیں کہ آپ تو تلاوت میں مشغول ہوتے ہیں یہ چپکے چپکے کہا کرتے ہیں کہ اس پر کسی نے جادو کر دیا ہے اور ہو سکتا ہے کہ یہ مطلب ہو کہ یہ تو ایک انسان ہے جو کھانے پینے کا محتاج ہے ۔ گو یہ لفظ اسی معنی میں شعر میں بھی ہے اور امام ابن جریر نے اسی کو ٹھیک بھی بتلایا ہے لیکن یہ غور طلب ہے ۔ ان کا ارادہ اس موقع پر اس کہنے سے یہ تھا کہ خود یہ جادو میں مبتلا ہے کوئی ہے جو اسے اس موقع پر کچھ پڑھا جاتا ہے ۔ کافر لوگ طرح طرح کے وہم آپ کی نسبت ظاہر کرتے تھے کوئی کہتا آپ شاعر ہیں ، کوئی کہتا کاہن ہیں ، کوئی مجنوں بتلاتا ، کوئی جادوگر وغیرہ ۔ اس لیے فرماتا ہے کہ دیکھو یہ کیسے بہک رہے ہیں کہ حق کی جانب آ ہی نہیں سکتے ۔ سیرۃ محمد بن اسحاق میں ہے کہ { ابوسفیان بن حرب ، ابوجہل بن ہشام ، اخنس بن شریق رات کے وقت اپنے اپنے گھروں سے کلام اللہ شریف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی سننے کے لیے نکلے ، آپ اپنے گھر میں رات کو نماز پڑھ رہے تھے ۔ یہ لوگ آ کر چپ چاپ چھپ کر ادھر ادھر بیٹھ گئے ایک کو دوسرے کی خبر نہ تھی ، رات کو سنتے رہے فجر ہوتے وقت یہاں سے چلے ، اتفاقاً راستے میں سب کی آپس میں ملاقات ہو گئی ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے اور کہنے لگے اب سے یہ حرکت نہ کرنا ورنہ اور لوگ تو بالکل اسی کے ہو جائیں گے ۔ لیکن رات کو پھر یہ تینوں آ گئے اور اپنی اپنی جگہ بیٹھ کر قرآن سننے میں رات گزاری ۔ صبح واپس چلے راستے میں مل گئے ، پھر سے کل کی باتیں دہرائیں اور آج پختہ ارادہ کیا کہ اب سے ایسا کام ہرگز کوئی نہ کرے گا ۔ تیسری رات پھر یہی ہوا اب کے انہوں نے کہا آؤ عہد کرلیں کہ اب نہیں آئیں گے چنانچہ قول قرار کر کے جدا ہوئے ۔ } { صبح کو اخنس اپنی لاٹھی سنبھالے ابوسفیان کے گھر پہنچا اور کہنے لگا ابوحنظلہ مجھے بتاؤ تمہاری اپنی رائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت کیا ہے ؟ اس نے کہا ابو ثعلبہ جو آیتیں قرآن کی میں نے سنی ہیں ، ان میں سے بہت سی آیتوں کا تو مطلب میں جان گیا ، لیکن بہت سی آتیوں کی مراد مجھے معلوم نہیں ہوئی ۔ اخنس نے کہا واللہ میرا بھی یہی حال ہے ۔ یہاں سے ہو کر اخنس ابوجہل کے پاس پہنچا ۔ اس سے بھی یہی سوال کیا اس نے کہا سنئے ۔ شرافت و سرداری کے بارے میں ہمارا بنو عبد مناف سے مدت کا جھگڑا چلا آتا ہے انہوں نے کھلایا تو ہم نے بھی کھلانا شروع کر دیا ، انہوں نے سواریاں دیں تو ہم نے بھی انہیں سواریوں کے جانور دئے ۔ انہوں نے لوگوں کے ساتھ سلوک کئے اور ان انعامات میں ہم نے بھی ان سے پیچھے رہنا پسند نہ کیا ۔ اب جب کہ تمام باتوں میں وہ اور ہم برابر رہے ، اس دوڑ میں جب وہ بازی لے جا نہ سکے تو جھٹ سے انہوں نے کہہ دیا کہ ہم میں نبوت ہے ، ہم میں ایک شخص ہے ، جس کے پاس آسمانی وحی آتی ہے ، اب بتاؤ اس کو ہم کیسے مان لیں ؟ واللہ نہ اس پر ہم ایمان لائیں گے نہ کبھی اسے سچا کہیں گے ، اسی وقت اخنس اسے چھوڑ کر چل دیا ۔ } ۱؎ (سیرۃ ابن ہشام:328/1) الإسراء
48 الإسراء
49 سب دوبارہ پیدا ہوں گے کافر جو قیامت کے قائل نہ تھے اور مرنے کے بعد کے جینے کو محال جانتے تھے وہ بطور انکار پوچھا کرتے تھے کہ کیا ہم جب ہڈی اور مٹی ہو جائیں گے ، غبار بن جائیں گے ، کچھ نہ رہیں گے بالکل مٹ جائیں گے ۔ پھر بھی نئی پیدائش سے پیدا ہوں گے ؟ سورۃ النازعات میں ان منکروں کا قول بیان ہوا ہے کہ«یَقُولُونَ أَإِنَّا لَمَرْدُودُونَ فِی الْحَافِرَۃِ * أَإِذَا کُنَّا عِظَامًا نَّخِرَۃً * قَالُوا تِلْکَ إِذًا کَرَّۃٌ خَاسِرَۃٌ» ۱؎ (79-النازعات:10-12) ’ کیا ہم مرنے کے بعد الٹے پاؤں زندگی میں لوٹائے جائیں گے ؟ اور وہ بھی ایسی حالت میں کہ ہماری ہڈیاں بھی گل سڑ گئی ہوں ؟ بھئی یہ تو بڑے ہی خسارے کی بات ہے ۔ ‘ سورۃ یاسین میں ہے کہ «وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَنَسِیَ خَلْقَہُ ۖ قَالَ مَن یُحْیِی الْعِظَامَ وَہِیَ رَمِیمٌ * قُلْ یُحْیِیہَا الَّذِی أَنشَأَہَا أَوَّلَ مَرَّۃٍ ۖ وَہُوَ بِکُلِّ خَلْقٍ عَلِیمٌ»‏‏‏‏ (36-یس:78-79) ’ یہ ہمارے سامنے مثالیں بیان کرنے بیٹھ گیا اور اپنی پیدائش کو فراموش کر گیا ۔ ‘ الخ ۔ پس انہیں جواب دیا جاتا ہے کہ ہڈیاں تو کیا تم خواہ پتھر بن جاؤ خواہ لوہابن جاؤ ۔ خواہ اس سے بھی زیادہ سخت چیز بن جاؤ مثلا پہاڑ یا زمین یا آسمان بلکہ تم خود موت ہی کیوں نہ بن جاؤ اللہ پر تمہارا جلانا مشکل نہیں ، جو چاہو ہو جاؤ دوبارہ اٹھو گے ضرور ۔ حدیث میں ہے کہ { بھیڑیئے کی صورت میں موت کو قیامت کے دن جنت دوزخ کے درمیان لایا جاتا ہے اور دونوں سے کہا جائے گا کہ اسے پہچانتے ہو ؟ سب کہیں گے ہاں ، پھر اسے وہیں ذبح کر دیا جائے گا اور منادی ہو جائے گی کہ اے جنتیو اب دوام ہے موت نہیں اور اے جہنمیو اب ہمیشہ قیام ہے موت نہیں ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4730) یہاں فرمان ہے کہ یہ پوچھتے ہیں کہ اچھا جب ہم ہڈیاں اور چورا ہو جائیں یا پتھر اور لوہا ہو جائیں گے یا جو ہم چاہیں اور جو بڑی سے بڑی سخت چیز ہو وہ ہم ہو جائیں تو یہ تو بتلاؤ کہ کس کے اختیار میں ہے کہ اب ہمیں پھر سے اس زندگی کی طرف لوٹا دے ؟ ان کے اس سوال اور بیجا اعتراض کے جواب میں تو انہیں سمجھا کہ«وَہُوَ الَّذِی یَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیدُہُ وَہُوَ أَہْوَنُ عَلَیْہِ» ۱؎ (30-الروم:27) ’ تمہیں لوٹانے والا تمہارا سچا خالق اللہ تعالیٰ ہے ۔ جس نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا ہے جب کہ تم کچھ نہ تھے ۔ ‘ پھر اس پر دوسری بار کی پیدائش کیا گراں ہے ؟ بلکہ بہت آسان ہے تم خواہ کچھ بھی بن جاؤ ۔ یہ جواب چونکہ لا جواب ہے حیران تو ہو جائیں گے لیکن پھر بھی اپنی شرارت سے باز نہ آئیں گے ، بد عقیدگی نہ چھوڑیں گے اور بطور مذاق سر ہلاتے ہوئے کہیں گے کہ «وَیَقُولُونَ مَتَیٰ ہٰذَا الْوَعْدُ إِن کُنتُمْ صَادِقِینَ» ۱؎ (67-الملک:25) ’ اچھا یہ ہو گا کب ؟ سچے ہو تو وقت کا تعین کر دو ۔ ‘ «یَسْتَعْجِلُ بِہَا الَّذِینَ لَا یُؤْمِنُونَ بِہَا» (42-الشوری:18) ’ بے ایمانوں کا یہ شیوہ ہے کہ وہ جلدی مچاتے رہتے ہیں ۔ ‘ ہاں ہے تو وہ وقت قریب ہی ، تم اس کے لیے انتظار کر لو ، غلفت نہ برتو ۔ اس کے آنے میں کوئی شک نہیں ۔ آنے والی چیز کو آئی ہوئی سمجھا کرو ۔ اللہ کی ایک آواز کے ساتھ ہی تم زمین سے نکل کھڑے ہو گے ایک آنکھ جھپکانے کی دیر بھی تو نہ لگے گی ۔ اللہ کے فرمان کے ساتھ ہی تم سے میدان محشر پر ہو جائے گا ۔ قبروں سے اٹھ کر اللہ کی تعریفیں کرتے ہوئے اس کے احکام کی بجا آوری میں کھڑے ہو جاؤ گے ۔ حمد کے لائق وہی ہے تم اس کے حکم سے اور ارادے سے باہر نہیں ہو ۔ حدیث میں ہے کہ { «لا الہ الا اللہ» کہنے والوں پر ان کی قبر میں کوئی وحشت نہیں ہو گی ۔ گویا کہ میں انہیں دیکھ رہا ہوں کہ وہ قبروں سے اٹھ رہے ہیں ، اپنے سر سے مٹی جھاڑتے ہوئے۔ « لا الہ الا اللہ» کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوں گے ۔ کہیں گے کہ اللہ کی حمد ہے جس نے ہم سے غم دور کر دیا ۔ } } سورۃ فاطر کی تفسیر میں یہ بیان آ رہا ہے ان شاءاللہ ۔ اس وقت تمہارا یقین ہو گا کہ تم بہت ہی کم مدت دنیا میں رہے گویا صبح یا شام ، کوئی کہے گا دس دن ، کوئی کہے گا ایک دن ، کوئی سمجھے گا ایک ساعت ہی ۔ سوال پر یہی کہیں گے کہ ایک دن یا دن کا کچھ حصہ ہی ۔ اور اس پر قسمیں کھائیں گے ۔ اسی طرح دنیا میں بھی اپنے جھوٹ پر قسمیں کھاتے رہے تھے ۔ الإسراء
50 الإسراء
51 الإسراء
52 الإسراء
53 مسلمانو ایک دوسرے کا احترام کرو اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ آپ مومن بندوں سے فرما دیں کہ وہ اچھے الفاظ ، بہتر فقروں اور تہذیب سے کلام کرتے رہیں ، ورنہ شیطان ان کے آپس میں سر پھٹول اور برائی ڈلوا دے گا ، لڑائی جھگڑے شروع ہو جائیں گے ۔ وہ انسان کا دشمن ہے گھات میں لگا رہتا ہے ، اسی لیے حدیث میں ہے کہ { مسلمان بھائی کی طرف کسی ہتھیار سے اشارہ کرنا بھی حرام ہے کہ کہیں شیطان اسے لگا نہ دے اور یہ جہنمی نہ بن جائے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:7072) ملاحظہ ہو مسند احمد ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے ایک مجمع میں فرمایا کہ سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں کوئی کسی پر ظلم و ستم نہ کرے کوئی کسی کو بے عزت نہ کرے ، پھر آپ نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کر کے فرمایا تقویٰ یہاں ہے جو دو شخص آپس میں دینی دوست ہوں پھر ان میں جدائی ہو جائے اسے ان میں سے جو بیان کرے وہ بیان کرنے والا برا ہے وہ بدتر ہے وہ نہایت شریر ہے ۔ } ۱؎(مسند احمد:71/5:قال الشیخ الألبانی:حسن) الإسراء
54 افضل الانبیاء علیہ الصلوۃ والسلام تمہارا رب تم سے بخوبی واقف ہے وہ ہدایت کے مستحق لوگوں کو بخوبی جانتا ہے ۔ وہ جس پر چاہتا ہے رحم کرتا ہے ، اپنی اطاعت کی توفیق دیتا ہے اور اپنی جانب جھکا لیتا ہے ۔ اسی طرح جسے چاہے بداعمالی پر پکڑ لیتا ہے اور سزا دیتا ہے ۔ ہم نے تجھے ان کا ذمہ دار نہیں بنایا تیرا کام ہوشیار کر دینا ہے تیری ماننے والے جنتی ہوں گے اور نہ ماننے والے دوزخی بنیں گے ۔ زمین و آسمان کے تمام انسان جنات فرشتوں کا اسے علم ہے ، ہر ایک کے مراتب کا اسے علم ہے ، «تِلْکَ الرٰسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَہُمْ عَلَیٰ بَعْضٍ ۘ مِّنْہُم مَّن کَلَّمَ اللہُ ۖ» ۱؎ (2-البقرۃ:253) ’ ایک کو ایک پر فضیلت ہے ، نبیوں میں بھی درجے ہیں ، کوئی کلیم اللہ ہے ، کوئی بلند درجہ ہے ۔ ‘ ایک حدیث میں ہے کہ { نبیوں میں فضیلتیں قائم نہ کیا کرو ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:3414) اس سے مطلب صرف تعصب اور نفس پرستی سے اپنے طور پر فضیلت قائم کرنا ہے نہ یہ کہ قرآن و حدیث سے ثابت شدہ فضیلت سے بھی انکار ۔ جو فضیلت جس نبی کی از روئے دلیل ثابت ہو جائے گی اس کا ماننا واجب ہے ۔ مانی ہوئی بات ہے کہ تمام انبیاء سے رسول افضل ہیں اور رسولوں میں پانچ اولو العزم رسول سب سے افضل ہیں جن کا نام سورۃ الاحزاب کی آیت میں ہے «وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِیِّینَ مِیثَاقَہُمْ وَمِنکَ وَمِن نٰوحٍ وَإِبْرَاہِیمَ وَمُوسَیٰ وَعِیسَی ابْنِ مَرْیَمَ» (33-الأحزاب:7) ’ یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، نوح علیہ السلام ، ابراہیم علیہ السلام ، موسیٰ علیہ السلام ، عیسیٰ علیہ السلام ۔ ‘ سورۃ شوریٰ کی آیت «شَرَعَ لَکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہٖٓ اِبْرٰہِیْمَ وَمُوْسٰی وَعِیْسٰٓی اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ ۭ کَبُرَ عَلَی الْمُشْرِکِیْنَ مَا تَدْعُوْہُمْ اِلَیْہِ ۭ اَللّٰہُ یَجْتَبِیْٓ اِلَیْہِ مَنْ یَّشَاۗءُ وَیَہْدِیْٓ اِلَیْہِ مَنْ یٰنِیْبُ» ۱؎ (42-الشوری:13) میں بھی ان پانچوں کے نام موجود ہیں ۔ جس طرح یہ سب چیزیں ساری امت مانتی ہے ، اسی طرح بغیر اختلاف کے یہ بھی ثابت ہے کہ ان میں بھی سب سے افضل محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ پھر ابراہیم علیہ السلام ، پھر موسیٰ علیہ السلام جیسا کہ مشہور ہے ، ہم نے اس کے دلائل دوسری جگہ تفصیل سے بیان کئے ہیں «واللہ الموفق» ۔ پھر فرماتا ہے ہم نے داؤد پیغمبر علیہ السلام کو زبور دی ۔ یہ بھی ان کی فضیلت اور شرف کی دلیل ہے ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں داؤد علیہ السلام پر قرآن اتنا آسان کر دیا گیا تھا کہ جانور پر زین کسی جائے اتنی سی دیر میں آپ قرآن پڑھ لیا کرتے تھے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:3417) الإسراء
55 الإسراء
56 وسیلہ یا قرب الہٰی اللہ کے سوا اوروں کی عبادت کرنے والوں سے کہیئے کہ تم انہیں خوب پکار کر دیکھ لو کہ آیا وہ تمہارے کچھ کام آ سکتے ہیں ؟ نہ ان کے بس کی یہ بات ہے کہ مشکل کشائی کریں نہ یہ بات کہ اسے کسی اور پر ٹال دیں ، وہ محض بے بس ہیں ، قادر اور طاقت والا صرف اللہ واحد ہی ہے ۔ مخلوق کا خالق اور سب کا حکمران وہی ہے ۔ یہ مشرک کہا کرتے تھے کہ ہم فرشتوں ، مسیح اور عزیر کی عبادت کرتے ہیں ۔ ان کے معبود تو خود اللہ کی نزدیکی کی جستجو میں ہیں ۔ صحیح بخاری میں ہے کہ { جن جنات کی یہ مشرکین پرستش کرتے تھے وہ خود مسلمان ہو گئے تھے لیکن یہ اب تک اپنے کفر پر جمے ہوئے ہیں ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:4714) اس لیے انہیں خبردار کیا گیا کہ تمہارے معبود خود اللہ کی طرف جھک گئے ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں یہ جن فرشتوں کی ایک قسم سے تھے ۔ عیسیٰ علیہ السلام ، مریم علیہا السلام ، عزیر علیہ السلام ، سورج چاند ، فرشتے سب قرب الٰہی کی تلاش میں ہیں ۔ ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں ٹھیک مطلب یہ ہے کہ جن جنوں کو یہ پوجتے تھے آیت میں وہی مراد ہیں کیونکہ مسیح علیہ السلام وغیرہ کا زمانہ تو گزر چکا تھا اور فرشتے پہلے ہی سے عابد الٰہی تھے تو مراد یہاں بھی جنات ہیں ۔ وسیلہ کے معنی قربت و نزدیکی کے ہیں جیسے کہ قتادہ رحمہ اللہ کا قول ہے ۔ یہ سب بزرگ اسی دھن میں ہیں کہ کون اللہ سے زیادہ نزدیکی حاصل کر لے ؟ وہ اللہ کی رحمت کے خواہاں اور اس کے عذاب سے ترساں ہیں ۔ حقیقت میں بغیر ان دونوں باتوں کے عبادت نا مکمل ہے ۔ خوف گناہوں سے روکتا ہے اور امید اطاعت پر آمادہ کرتی ہے ۔ درحقیقت اس کے عذاب ڈرنے کے لائق ہیں ۔ اللہ ہمیں بچائے ۔ الإسراء
57 الإسراء
58 . وہ نوشتہ جو لوح محفوظ میں لکھ دیا گیا ہے وہ حکم جو جاری کر دیا گیا ہے ، اس کا بیان اس آیت میں ہے کہ گنہگاروں کی بستیاں یقیناً ویران کر دی جائیں گی یا ان کے گناہوں کی وجہ سے تباہی کے قریب ہو جائیں گی ، اس میں ہماری جانب سے کوئی ظلم نہ ہو گا بلکہ ان کے اپنے کرتوت کا خمیازہ ہو گا ، ان کے اپنے اعمال کا وبال ہو گا ، رب کی آیتوں اور اس کے رسولوں سے سرکشی کرنے کا پھل ہو گا ۔ الإسراء
59 عجیب و غریب مانگ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے کافروں نے آپ سے کہا کہ آپ کے پہلے کے انبیاء میں سے بعض کے تابع ہوا تھی ، بعض مردوں کو زندہ کر دیا کرتے تھے ، وغیرہ ۔ اب اگر آپ چاہتے ہیں کہ ہم بھی آپ پر ایمان لائیں تو آپ اس صفا پہاڑ کو سونے کا کر دیئجے ، ہم آپ کی سچائی کے قائل ہو جائیں گے ۔ آپ پر وحی آئی کہ اگر آپ کی بھی یہی خواہش ہو تو میں اس پہاڑ کو ابھی سونے کا بنا دیتا ہوں ۔ لیکن یہ خیال رہے کہ اگر پھر بھی یہ ایمان نہ لائے تو اب انہیں مہلت نہ ملے گی ، فی الفور عذاب آجائے گا اور تباہ کر دئے جائیں گے ۔ اور اگر آپ کو انہیں تاخیر دینے اور سوچنے کا موقع دینا منظور ہے تو میں ایسا کروں ۔ آپ نے فرمایا اے اللہ میں انہیں باقی رکھنے میں ہی خوش ہوں ۔ } ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:22400:مرسل) مسند میں اتنا اور بھی ہے کہ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ { باقی کی اور پہاڑیاں یہاں سے کھسک جائیں تاکہ ہم یہاں کھیتی باڑی کر سکیں ۔ } الخ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ ۱؎ (مسند احمد:258/1:صحیح) اور روایت میں ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا مانگی ، جبرائیل علیہ السلام آئے اور کہا آپ کا پروردگار آپ کو سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ اگر آپ چاہیں تو صبح کو ہی یہ پہاڑ سونے کا ہو جائے لیکن اگر پھر بھی ان میں سے کوئی ایمان نہ لایا تو اسے وہ سزا ہو گی جو اس سے پہلے کسی کو نہ ہوئی ہو اور اگر آپ کا ارادہ ہو تو میں ان پر توبہ اور رحمت کے دروازے کھلے چھوڑوں ۔ آپ نے دوسری شق اختیار کی ۔ } ۱؎ (مسند احمد:242/1:صحیح) مسند ابو یعلیٰ میں ہے کہ { آیت «وَأَنذِرْ عَشِیرَتَکَ الْأَقْرَبِینَ » ۱؎ (26-الشعراء:214) جب اتری تو تعمیل ارشاد کے لیے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جبل ابی قبیس پر چڑھ گئے اور فرمانے لگے اے بنی عبد مناف میں تمہیں ڈرانے والا ہوں ۔ قریش یہ آواز سنتے ہی جمع ہو گئے پھر کہنے لگے سنئے آپ نبوت کے مدعی ہیں ۔ سلیمان نبی علیہ السلام کے تابع ہوا تھی ، موسیٰ نبی علیہ السلام کے تابع دریا ہو گیا تھا ، عیسیٰ نبی علیہ السلام مردوں کو زندہ کر دیا کرتے تھے ۔ تو بھی نبی ہے اللہ سے کہہ کہ یہ پہاڑ یہاں سے ہٹوا کر زمین قابل زراعت بنا دے تاکہ ہم کھیتی باڑی کریں ۔ یہ نہیں تو ہمارے مردوں کی زندگی کی دعا اللہ سے کر کہ ہم اور وہ مل کر بیٹھیں اور ان سے باتیں کریں ۔ یہ بھی نہیں تو اس پہاڑ کو سونے کا بنوا دے کہ ہم جاڑے اور گرمیوں کے سفر سے نجات پائیں ، اسی وقت آپ پر وحی اترنی شروع ہو گئی ، اس کے خاتمے پر آپ نے فرمایا اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم نے جو کچھ مجھ سے طلب کیا تھا مجھے اس کے ہو جانے میں اور اس بات میں کہ دروازہ رحمت میں چلے جاؤ ، اختیار دیا گیا کہ ایمان اسلام کے بعد تم رحمت الٰہی سمیٹ لو یا تم یہ نشانات دیکھ لو لیکن پھر نہ مانو تو گمراہ ہو جاؤ اور رحمت کے دروازے تم پر بند ہو جائیں تو میں تو ڈر گیا اور میں نے در رحمت کا کھلا ہونا ہی پسند کیا ۔ } { کیونکہ دوسری صورت میں تمہارے ایمان نہ لانے پر تم پر وہ عذاب اترتے جو تم سے پہلے کسی پر نہ اترے ہوں اس پر یہ آیتیں اتریں ۔ اور آیت «وَلَوْ أَنَّ قُرْآنًا سُیِّرَتْ بِہِ الْجِبَالُ أَوْ قُطِّعَتْ بِہِ الْأَرْضُ أَوْ کُلِّمَ بِہِ الْمَوْتَیٰ » ۱؎ (13-الرعد:31) الخ ، نازل ہوئی ۔ } ۱؎ (مسند ابو یعلی:679:ضعیف) یعنی آیتوں کے بھیجنے اور منہ مانگے معجزوں کے دکھانے سے ہم عاجز تو نہیں بلکہ یہ ہم پر بہت آسان ہے ، جو تیری قوم چاہتی ہے ، ہم انہیں دکھا دیتے لیکن اس صورت میں ان کے نہ ماننے پر پھر ہمارے عذاب نہ رکتے ۔ اگلوں کو دیکھ لو کہ اسی میں برباد ہوئے ۔ چنانچہ سورۃ المائدہ میں ہے کہ«قَالَ اللہُ إِنِّی مُنَزِّلُہَا عَلَیْکُمْ ۖ فَمَن یَکْفُرْ بَعْدُ مِنکُمْ فَإِنِّی أُعَذِّبُہُ عَذَابًا لَّا أُعَذِّبُہُ أَحَدًا مِّنَ الْعَالَمِینَ » (5-المائدۃ:115) میں تم پر دستر خوان اتار رہا ہوں لیکن اس کے بعد جو کفر کرے گا اسے ایسی سزا دی جائے گی جو اس سے پہلے کسی کو نہ ہوئی ہو ۔ ثمودیوں کو دیکھو کہ انہوں نے ایک خاص پتھر میں سے اونٹنی کا نکلنا طلب کیا ۔ صالح علیہ السلام کی دعا پر وہ نکلی لیکن وہ نہ مانے « فَعَقَرُوہَا فَقَالَ تَمَتَّعُوا فِی دَارِکُمْ ثَلَاثَۃَ أَیَّامٍ ۖ ذٰلِکَ وَعْدٌ غَیْرُ مَکْذُوبٍ» (11-ہود:65) بلکہ اس اونٹنی کی کوچیں کاٹ دیں ، رسول کو جھٹلاتے رہے ، جس پر انہیں تین دن کی مہلت ملی اور آخر غارت کر دئے گئے ۔ ان کی یہ اونٹنی بھی اللہ کی وحدانیت کی ایک نشانی تھی اور اس کے رسول کی صداقت کی علامت تھی ۔ لیکن ان لوگوں نے پھر بھی کفر کیا ، اس کا پانی بند کیا بالاخر اسے قتل کر دیا ، جس کی پاداش میں اول سے لے کر آخر تک سب مار ڈالے گئے اور اللہ غالب کی پکڑ میں آ گئے ، آیتیں صرف دھمکانے کے لیے ہوتی ہیں کہ وہ عبرت و نصیحت حاصل کر لیں ۔ مروی ہے کہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے زمانے میں کوفے میں زلزلہ آیا تو آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم اس کی جانب جھکو ، تمہیں فوراً اس کی طرف متوجہ ہو جانا چاہیئے ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں مدینہ شریف میں کئی بار جھٹکے محسوس ہوئے تو آپ نے فرمایا واللہ تم نے ضرور کوئی نئی بات کی ہے ، دیکھو اگر اب ایسا ہوا تو میں تمہیں سخت سزائیں کروں گا ۔ متفق علیہ حدیث میں ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سورج چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں ، ان میں کسی انسان کی موت و حیات سے گرہن نہیں لگتا بلکہ اللہ تعالیٰ ان سے اپنے بندوں کو خوفزدہ کر دیتا ہے ، جب تم یہ دیکھو تو ذکر اللہ ، دعا اور استغفار کی طرف جھک پڑو ۔ اے امت محمد [ صلی اللہ علیہ وسلم ] واللہ اللہ سے زیادہ غیرت والا کوئی نہیں کہ اس کے لونڈی غلام زناکاری کریں ۔ اے امت محمد [ صلی اللہ علیہ وسلم ] واللہ جو میں جانتا ہوں ، اگر تم جانتے تو بہت کم ہنستے بہت زیادہ روتے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:1044) الإسراء
60 مقصد معراج اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تبلیغ دین کی رغبت دلا رہا ہے اور آپ کے بچاؤ کی ذمہ داری لے رہا ہے کہ سب لوگ اسی کی قدرت تلے ہیں ، وہ سب پر غالب ہے ، سب اس کے ماتحت ہیں ، وہ ان سب سے تجھے بچاتا رہے گا ۔ جو ہم نے تجھے دکھایا وہ لوگوں کے لیے ایک صریح آزمائش ہے ۔ یہ دکھانا معراج والی رات تھا ، جو آپ کی آنکھوں نے دیکھا ۔ ملعون نفرتی درخت سے مراد زقوم کا درخت ہے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4716) بہت سے تابعین اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ یہ دکھانا آنکھ کا دکھانا ، مشاہدہ تھا جو شب معراج میں کرایا گیا تھا ۔ معراج کی حدیثیں پوری تفصیل کے ساتھ اس سورت کے شروع میں بیان ہو چکی ہیں ۔ یہ بھی گزر چکا ہے کہ معراج کے واقعہ کو سن کے بہت سے مسلمان مرتد ہو گئے اور حق سے پھر گئے کیونکہ ان کی عقل میں یہ نہ آیا تو اپنی جہالت سے اسے جھوٹا جانا اور دین کو چھوڑ بیٹھے ۔ ان کے برخلاف کامل ایمان والے اپنے یقین میں اور بڑھ گئے اور ان کے ایمان اور مضبوط ہو گئے ۔ ثابت قدمی اور استقلال میں زیادہ ہو گئے ۔ پس اس واقعہ کو لوگوں کی آزمائش اور ان کے امتحان کا ذریعہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے کر دیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب خبر دی اور قرآن میں آیت اتری کہ دزخیوں کو زقوم کا درخت کھلایا جائے گا اور آپ نے اسے دیکھا بھی تو کافروں نے اسے سچ نہ مانا اور ابوجہل ملعون مذاق اڑاتے ہوئے کہنے لگا لاؤ کھجور اور مکھن لاؤ اور اس کا زقوم کرو یعنی دونوں کو ملا دو اور خوب شوق سے کھاؤ بس یہی زقوم ہے ، پھر اس خوراک سے گھبرانے کے کیا معنی ؟ ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مراد بنو امیہ ہیں لیکن یہ قول بالکل ضعیف اور غریب ہے ۔ پہلے قول کے قائل وہ تمام مفسر ہیں جو اس آیت کو معراج کے بارے میں مانتے ہیں ۔ جیسے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما ، مسروق ، ابو مالک ، حسن بصری رحمہ اللہ علیہم وغیرہ ۔ { سیدنا سہل بن سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فلاں قبیلے والوں کو اپنے منبر پر بندروں کی طرح ناچتے ہوئے دیکھا اور آپ کو اس سے بہت رنج ہوا پھر انتقال تک آپ پوری ہنسی سے ہنستے ہوئے نہیں دکھائی دئے اسی کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے ۔ } ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:22433) لیکن یہ سند بالکل ضعیف ہے ۔ محمد بن حسن بن زبالہ متروک ہے اور ان کے استاد بھی بالکل ضعیف ہیں ۔ خود امام ابن جریر رحمہ اللہ کا پسندیدہ قول بھی یہی ہے کہ مراد اس سے شب معراج ہے اور شجرۃ الزقوم ہے کیونکہ مفسرین کا اس پر اتفاق ہے ۔ ہم کافروں کو اپنے عذابوں وغیرہ سے ڈرا رہے ہیں لیکن وہ اپنی ضد ، تکبر ، ہٹ دھرمی اور بے ایمانی میں اور بڑھ رہے ہیں ۔ الإسراء
61 ابلیس کی قدیمی دشمنی ابلیس کی قدیمی عداوت سے انسان کو آگاہ کیا جا رہا ہے کہ وہ تمہارے باپ آدم علیہ السلام کا کھلا دشمن تھا ، اس کی اولاد برابر اسی طرح تمہاری دشمن ہے ، سجدے کا حکم سن کر سب فرشتوں نے تو سر جھکا دیا لیکن اس نے تکبر جتایا ، اسے حقیر سمجھا اور صاف انکار کر دیا کہ ناممکن ہے کہ میرا سر کسی مٹی سے بنے ہوئے کے سامنے جھکے ، «أَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ خَلَقْتَنِی مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَہُ مِن طِینٍ» ۱؎ (7-الأعراف:12) ’ میں اس سے کہیں افضل ہوں ، میں آگ ہوں یہ خاک ہے ۔ ‘ پھر اس کی ڈھٹائی دیکھیئے کہ اللہ جل و علی کے دربار میں گستاخانہ لہجے سے کہتا ہے کہ اچھا اسے اگر تو نے مجھ پر فضیلت دی تو کیا ہوا میں بھی اس کی اولاد کو برباد کر کے ہی چھوڑوں گا ، سب کو اپنا تابعدار بنا لوں گا اور بہکا دوں گا ، بس تھوڑے سے میرے پھندے سے چھوٹ جائیں گے ، باقی سب کو غارت کر دوں گا ۔ الإسراء
62 الإسراء
63 شیطانی آواز کا بہکاوا ابلیس نے اللہ سے مہلت چاہی ، اللہ تعالیٰ نے منظور فرمالی اور ارشاد ہوا کہ«قَالَ فَإِنَّکَ مِنَ الْمُنظَرِینَ * إِلَیٰ یَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُومِ » ۱؎ (15-الحجر:37-38) ’ وقت معلوم تک مہلت ہے ‘ تیری اور تیرے تابعداروں کی برائیوں کے بدلہ جہنم ہے ، جو پوری سزا ہے ۔ اپنی آواز سے جسے تو بہکا سکے بہکا لے یعنی گانے اور تماشوں سے انہیں بہکاتا پھر ۔ جو بھی اللہ کی نافرمانی کی طرف بلانے والی صدا ہو وہ شیطانی آواز ہے ۔ اسی طرح تو اپنے پیادے اور سوار لے کر جس پر تجھ سے حملہ ہوسکے حملہ کرلے ۔ «رَجِلِ» جمع ہے «راجل» کی جیسے رکب جمع ہے راکب کی اور صحب جمع ہے صاحب کی ۔ مطلب یہ ہے کہ جس قدر تجھ سے ہو سکے ان پر اپنا تسلط اور اقتدار جما ۔ یہ امر قدری ہے نہ کہ حکم ۔ شیطانوں کی یہی خصلت ہے کہ وہ بندگان رب کو بھڑکاتے اور بہکاتے رہتے ہیں ۔ انہیں گناہوں پر آمادہ کرتے رہتے ہیں ۔ اللہ کی معصیت میں جو سواری پر ہو اور پیدل ہو ، وہ شیطانی لشکر میں ہے ۔ ایسے جن بھی ہیں اور انسان بھی ہیں جو اس کے مطیع ہیں ۔ جب کسی پر آوازیں اٹھائی جائیں تو عرب کہتے ہیں ” اجلب فلان علی فلان “ ۔ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ گھوڑ دوڑ میں جلب نہیں ، } ۱؎ (سنن ابوداود:2581،قال الشیخ الألبانی:صحیح) وہ بھی اسی سے ماخوذ ہے ۔ جلبہ کا اشتقاق بھی اسی سے ہے یعنی آوازوں کا بلند ہونا ۔ ان کے مال اور اولاد میں بھی تو شریک رہ ۔ یعنی اللہ کی نافرمانیوں میں ان کا مال خرچ کرا ، سود خوری ان سے کرا ، برائی سے مال جمع کریں اور حرام کاریوں میں خرچ کریں ۔ حلال جانوروں کو اپنی خواہش سے حرام قرار دیں وغیرہ ۔ اولاد میں شرکت یہ ہے مثلا زناکاری جس سے اولاد ہو ۔ جو اولاد بچپن میں بوجہ بیوقوفی ان کے ماں باپ نے زندہ درگور کر دی ہو یا مار ڈالی ہو یا اسے یہودی نصرانی مجوسی وغیرہ بنا دیا ہو ۔ اولادوں کے نام عبد الحارث ، عبد الشمس اور عبد فلاں رکھا ہو ۔ غرض کسی صورت میں بھی شیطان کو اس میں داخل کیا ہو ، یا اس کو ساتھ کیا ہو ، یہی شیطان کی شرکت ہے ۔ صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ { اللہ عز و جل فرماتا ہے میں نے اپنے بندوں کو ایک طرف موحد پیدا کیا پھر شیطان نے آکر انہیں بہکا دیا اور حلال چیزیں حرام کر دیں ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2865) بخاری و مسلم میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ تم میں سے جو اپنی بیوی کے پاس جانے کا ارادہ کرے یہ پڑھ لے « اللَّہُمَّ جَنِّبْنَا الشَّیْطَانَ ، وَجَنِّبْ الشَّیْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا » ” یعنی یا اللہ تو ہمیں شیطان سے بچا اور اسے بھی جو تو ہمیں عطا فرمائے ۔ “ تو اگر اس میں کوئی بچہ اللہ کی طرف سے ٹھیر جائے گا تو اسے ہرگز ہرگز کبھی بھی شیطان کوئی ضرر نہ پہنچا سکے گا ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:141) پھر فرماتا ہے کہ جا تو انہیں دھوکے کے جھوٹے وعدے دیا کر ، چنانچہ قیامت کے دن یہ خود کہے گا کہ اللہ کے وعدے تو سب سچے تھے اور میرے وعدے سب غلط تھے ۔ پھر فرماتا ہے کہ میرے مومن بندے میری حفاظت میں ہیں ، میں انہیں شیطان رجیم سے بچاتا رہوں گا ۔ اللہ کی وکالت اس کی حفاظت اس کی نصرت اس کی تائید بندوں کو کافی ہے ۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ { مومن اپنے شیطان پر اس طرح قابو پالیتا ہے جیسے وہ شخص جو کسی جانور کو لگام چڑھائے ہوئے ہو ۔ } ۱؎ (مسند احمد:380/2:ضعیف) الإسراء
64 الإسراء
65 الإسراء
66 آسانیاں ہی آسانیاں اللہ تعالیٰ اپنا احسان بتاتا ہے کہ اس نے اپنے بندوں کی آسانی اور سہولت کے لیے اور ان کی تجارت و سفر کے لیے دریاؤں میں کشتیاں چلا دی ہیں ، اس کے فضل و کرم لطف و رحم کا ایک نشان یہ بھی ہے کہ تم دور دراز ملکوں میں جا آ سکتے ہو اور خاص فضل یعنی اپنی روزیاں حاصل کر سکتے ہو ۔ الإسراء
67 مصیبت ختم ہوتے ہی شرک اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہو رہا ہے کہ بندے مصیبت کے وقت تو خلوص کے ساتھ اپنے پروردگار کی طرف جھکتے ہیں اور اس سے دلی دعائیں کرنے لگتے ہیں اور جہاں وہ مصیبت اللہ تعالیٰ نے ٹال دی تو یہ آنکھیں پھیر لیتے ہیں ۔ فتح مکہ کے وقت جب کہ ابوجہل کے لڑکے سیدنا عکرمہ رضی اللہ عنہ حبشہ جانے کے ارادے سے بھاگے اور کشتی میں بیٹھ کر چلے ، اتفاقاً کشتی طوفان میں پھنس گئی ، باد مخالف کے جھونکے اسے پتے کی طرح ہلانے لگے ۔ اس وقت کشتی میں جتنے کفار تھے ، سب ایک دوسرے سے کہنے لگے اس وقت سواۓ اللہ تعالیٰ کے اور کوئی کچھ کام نہیں آنے گا ۔ اسی کو پکارو ۔ سیدنا عکرمہ رضی اللہ عنہ کے دل میں اسی وقت خیال آیا کہ جب تری میں صرف وہی کام کر سکتا ہے تو ظاہر ہے کہ خشکی میں بھی وہی کام آ سکتا ہے ۔ اے اللہ میں نذر مانتا ہوں کہ اگر تو نے مجھے اس آفت سے بچا لیا تو میں سیدھا جا کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ہاتھ دے دوں گا اور یقیناً وہ مجھ پر مہربانی اور رحم و کرم فرمائیں گے ۔ چنانچہ سمندر سے پار ہوتے ہی وہ سیدھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کیا ، پھر تو اسلام کے پہلوان ثابت ہوئے ۔ پس فرماتا ہے کہ سمندر کی اس مصیبت کے وقت تو اللہ کے سوا سب کو بھول جاتے ہو لیکن پھر اس کے ہٹتے ہی اللہ کی توحید ہٹا دیتے ہو اور دوسروں سے التجائیں کرنے لگتے ہو ۔ انسان ہے ہی ایسا ناشکرا کہ نعمتوں کو بھلا بیٹھتا ہے بلکہ منکر ہو جاتا ہے ہاں جسے اللہ بچا لے اور توفیق خیر دے ۔ الإسراء
68 اظہار قدرت و اختیار رب العالمین لوگوں کو ڈرا رہا ہے کہ جو تری میں تمہیں ڈبو سکتا تھا ، وہ خشکی میں دھنسانے کی قدرت بھی رکھتا ہے ۔ پھر وہاں تو صرف اسی کو پکارنا اور یہاں اس کے ساتھ اوروں کو شریک کرنا یہ کس قدر ناانصافی ہے ؟ «وَأَمْطَرْنَا عَلَیْہَا حِجَارَۃً مِّن سِجِّیلٍ» ۱؎ (11-ہود:82) ’ وہ تو تم پر پتھروں کی بارش بھی برسا کر ہلاک کر سکتا ہے ‘ جیسے لوطیوں پر ہوئی تھی ، جس کا بیان خود قرآن میں کئی جگہ ہے ۔ سورۂ تبارک میں فرمایا کہ « أَأَمِنتُم مَّن فِی السَّمَاءِ أَن یَخْسِفَ بِکُمُ الْأَرْضَ فَإِذَا ہِیَ تَمُورُ * أَمْ أَمِنتُم مَّن فِی السَّمَاءِ أَن یُرْسِلَ عَلَیْکُمْ حَاصِبًا ۖ فَسَتَعْلَمُونَ کَیْفَ نَذِیرِ» ۱؎ (67-الملک:16-17) ’ کیا تمہیں اس اللہ کا ڈر نہیں جو آسمانوں میں ہے کہ کہیں وہ تمہیں زمین میں نہ دھنسا دے کہ یکایک زمین جنبش کرنے لگے ۔ ‘ کیا تمہیں آسمانوں والے اللہ کا خوف نہیں کہ کہیں وہ تم پر پتھر نہ برسا دے ؟ پھر جان لو کہ ڈرانے کا انجام کیا ہوتا ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ اس وقت تم نہ اپنا مددگار پاؤ گے ، نہ دستگیر ، نہ وکیل ، نہ کار ساز ، نہ نگہبان ، نہ پاسبان ۔ الإسراء
69 سمندر ہو یا صحرا ہر جگہ اسی کا اقتدار ہے ارشاد ہو رہا ہے کہ اے منکرو ! سمندر میں تم میری توحید کے قائل ہوئے باہر آکر پھر انکار کر گئے ، تو کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ پھر تم دوبارہ دریائی سفر کرو اور باد تند کے تھپیڑے تمہاری کشتی کو ڈگمگا دیں اور آخر ڈبو دیں اور تمہیں تمہارے کفر کا مزہ آ جائے ، پھر تو کوئی مددگار کھڑا نہ ہو ، نہ کوئی ایسا مل سکے کہ ہم سے تمہارا بدلہ لے ۔ ہمارا پیچھا کوئی نہیں کر سکتا ، کس کی مجال کہ ہمارے فعل پر انگلی اٹھائے ۔ الإسراء
70 انسان پر اللہ کے انعامات سب سے اچھی پیدائش انسان کی ہے جیسے فرمان ہے «لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِی أَحْسَنِ تَقْوِیمٍ » ۱؎ (95-التین:4) ’ ہم نے انسان کو بہترین صفت پر پیدا کیا ہے ۔ ‘ وہ اپنے پیروں پر سیدھا کھڑا ہوکر صحیح چال چلتا ہے ، اپنے ہاتھوں سے تمیز کے ساتھ اپنی غذا کھاتا ہے اور حیوانات ہاتھ پاؤں سے چلتے ہیں منہ سے چارہ چگتے ہیں ۔ پھر اسے سمجھ بوجھ دی ہے جس سے نفع نقصان بھلائی برائی سوچتا ہے ، دینی دنیاوی فائدہ معلوم کر لیتا ہے ۔ اس کی سواری کے لیے خشکی میں جانور چوپائے گھوڑے خچر اونٹ وغیرہ اور تری کے سفر کے لیے اسے کشتیاں بنانی سکھا دیں ۔ اسے بہترین ، خوشگوار اور خوش ذائقہ کھانے پینے کی چیزیں دیں ۔ کھیتیاں ہیں ، پھل ہیں ، گوشت ہیں ، دودھ ہے اور بہترین بہت سی ذائقے دار لذیذ مزیدار چیزیں ۔ پھر عمدہ مکانات رہنے کو ، اچھے خوشنما لباس پہننے کو ، قسم قسم کے ، رنگ برنگ کے ، یہاں کی چیزیں وہاں اور وہاں کی چیزیں یہاں لے جانے لے آنے کے اسباب اس کے لیے مہیا کر دیئے اور مخلوق میں سے عموماً ہر ایک پر اسے برتری بخشی ۔ ُاس آیت کریمہ سے امر پر استدلال کیا گیا ہے کہ انسان فرشتوں سے افضل ہے ۔ زید بن اسلم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ فرشتوں نے کہا اے اللہ تو نے اولاد آدم کو دنیا دے رکھی ہے کہ وہ کھاتے پیتے ہیں اور موج مزے کر رہے ہیں تو تو اس کے بدلے ہمیں آخرت میں ہی عطا فرما کیونکہ ہم اس دنیا سے محروم ہیں ۔ اس کے جواب میں اللہ جل شانہ نے ارشاد فرمایا کہ مجھے اپنی عزت اور جلال کی قسم اس کی نیک اولاد کو جسے میں نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اس کے برابر میں ہرگز نہ کروں گا جسے میں نے کلمہ کن سے پیدا کیا ہے ۔ یہ روایت مرسل ہے لیکن اور سند سے متصل بھی مروی ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:126/15) ابن عساکر میں ہے کہ فرشتوں نے کہا اے ہمارے پروردگار ہمیں بھی تو نے پیدا کیا اور بنو آدم کا خالق بھی تو ہی ہے ، انہیں تو کھانا پینا دے رہا ہے ، کپڑے لتے وہ پہنتے ہیں ، نکاح شادیاں وہ کرتے ہیں ، سواریاں ان کے لیے ہیں ، راحت و آرام انہیں حاصل ہے ، ان میں سے کسی چیز کے حصے دار ہم نہیں ۔ خیر یہ اگر دنیا میں ان کے لیے ہے تو یہ چیزیں آخرت میں تو ہمارے لیے کر دے ۔ اس کے جواب میں جناب باری تعالیٰ نے فرمایا جسے میں نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا ہے اور اپنی روح جس میں میں نے پھونکی ہے اسے میں اس جیسا نہ کروں گا جسے میں نے کہہ دیا کہ ہو جا وہ ہو گیا ۔ ۱؎ (طبرانی اوسط:6173:ضعیف) طبرانی میں ہے قیامت کے دن ابن آدم سے زیادہ بزرگ اللہ کے ہاں کوئی نہ ہو گا ۔ پوچھا گیا کہ فرشتے بھی نہیں ؟ فرمایا فرشتے بھی نہیں وہ تو مجبور ہیں جیسے سورج چاند ۔ ۱؎ (بیہقی فی شعب الایمان:153:ضعیف) یہ روایت بہت ہی غریب ہے ۔ الإسراء
71 الکتاب ہی ہدایت و امام ہے امام سے مراد یہاں نبی علیہم السلام ہیں ہر امت قیامت کے دن اپنے نبی علیہ السلام کے ساتھ بلائی جائے گی جیسے اس آیت میں ہے « وَلِکُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلٌ ۚ فَاِذَا جَاۗءَ رَسُوْلُھُمْ قُضِیَ بَیْنَھُمْ بالْقِسْطِ وَھُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ» (10-یونس:47) ’ ہر امت کا رسول ہے ، پھر جب ان کے رسول آئیں گے تو ان کے درمیان عدل کے ساتھ حساب کیا جائے گا ۔ ‘ بعض سلف کا قول ہے کہ اس میں اہل حدیث کی بہت بڑی بزرگی ہے ، اس لیے کہ ان کے امام نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ ابن زید رحمہ اللہ کہتے ہیں مراد یہاں امام سے کتاب اللہ ہے جو ان کی شریعت کے بارے میں اتری تھی ۔ ابن جریر رحمہ اللہ اس تفسیر کو بہت پسند فرماتے ہیں اور اسی کو مختار کہتے ہیں ۔ مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں مراد اس سے ان کی کتابیں ہیں ۔ ممکن ہے کتاب سے مراد یا تو احکام کی کتاب اللہ ہو یا نامہ اعمال ۔ چنانچہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اس سے مراد اعمال نامہ لیتے ہیں ۔ ابوالعالیہ ، حسن ، ضحاک رحمہ اللہ علیہم بھی یہی کہتے ہیں اور یہی زیادہ ترجیح والا قول ہے جیسے فرمان الٰہی ہے «وَکُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰہُ فِیْٓ اِمَامٍ مٰبِیْنٍ » ۱؎ (36-یس:12) ’ ہر چیز کا ہم نے ظاہر کتاب میں احاطہٰ کر لیا ہے ۔ ‘ اور آیت میں ہے « وَوُضِعَ الْکِتَابُ فَتَرَی الْمُجْرِمِینَ مُشْفِقِینَ مِمَّا فِیہِ وَیَقُولُونَ یَا وَیْلَتَنَا مَالِ * ہٰذَا الْکِتَابِ لَا یُغَادِرُ صَغِیرَۃً وَلَا کَبِیرَۃً إِلَّا أَحْصَاہَا ۚ وَوَجَدُوا مَا عَمِلُوا حَاضِرًا ۗ وَلَا یَظْلِمُ رَبٰکَ أَحَدًا » ۱؎ (18-الکہف:49) ’ کتاب یعنی نامہ اعمال درمیان میں رکھ دیا جائے گا ، اس وقت تو دیکھے گا کہ گنہگار لوگ اس کی تحریر سے خوفزدہ ہو رہے ہوں گے ۔ ‘ الخ اور آیت میں ہے «وَتَرَیٰ کُلَّ أُمَّۃٍ جَاثِیَۃً ۚ کُلٰ أُمَّۃٍ تُدْعَیٰ إِلَیٰ کِتَابِہَا الْیَوْمَ تُجْزَوْنَ مَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ * ہٰذَا کِتَابُنَا یَنطِقُ عَلَیْکُم بِالْحَقِّ ۚ إِنَّا کُنَّا نَسْتَنسِخُ مَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ » (45-الجاثیۃ:28-29) ’ ہر امت کو تو گھٹنوں کے بل گری ہوئی دیکھے گا ۔ ہر امت اپنے نامہ اعمال کی جانب بلائی جا رہی ہو گی ، آج تمہیں تمہارے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا ۔ یہ ہے ہماری کتاب جو تم پر حق و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرے گی جو کچھ تم کرتے رہے ہم برابر لکھتے رہتے تھے ۔ ‘ یہ یاد رہے کہ یہ تفسیر پہلی تفسیر کے خلاف نہیں ایک طرف نامہ اعمال ہاتھ میں ہوگا دوسری جانب خود نبی علیہ السلام سامنے موجود ہوگا ۔ جیسے فرمان ہے « وَاَشْرَقَتِ الْاَرْضُ بِنُوْرِ رَبِّہَا وَوُضِعَ الْکِتٰبُ وَجِایْۗءَ بالنَّـبِیّٖنَ وَالشٰہَدَاۗءِ وَقُضِیَ بَیْنَہُمْ بالْحَــقِّ وَہُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ » (39-الزمر:69) ’ زمین اپنے رب کے نور سے چمکنے لگے گی نامہ اعمال رکھ دیا جائے گا اور نبیوں اور گواہوں کو موجود کر دیا جائے گا ‘ اور آیت میں ہے « فَکَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍۢ بِشَہِیْدٍ وَّجِئْنَا بِکَ عَلٰی ہٰٓؤُلَاۗءِ شَہِیْدًا » (4-النساء:41) ’ یعنی کیا کیفیت ہو گی اس وقت جب کہ ہر امت کا ہم گواہ لائیں گے اور تجھے ان تمام پر گواہ کر کے لائیں گے ۔ ‘ لیکن مراد یہاں امام سے نامہ اعمال ہے اسی لیے اس کے بعد ہی فرمایا کہ جن کے دائیں ہاتھ میں دے دیا گیا وہ تو اپنی نیکیاں فرحت و سرور ، خوشی اور راحت سے پڑھنے لگیں گے بلکہ دوسروں کو دکھاتے اور پڑھواتے پھریں گے ۔ اسی کا مزید بیان سورۃ الحاقہ میں ہے «فَأَمَّا مَنْ أُوتِیَ کِتَابَہُ بِیَمِینِہِ فَیَقُولُ ہَاؤُمُ اقْرَءُوا کِتَابِیَہْ * إِنِّی ظَنَنتُ أَنِّی مُلَاقٍ حِسَابِیَہْ * فَہُوَ فِی عِیشَۃٍ رَّاضِیَۃٍ * فِی جَنَّۃٍ عَالِیَۃٍ * قُطُوفُہَا دَانِیَۃٌ * کُلُوا وَاشْرَبُوا ہَنِیئًا بِمَا أَسْلَفْتُمْ فِی الْأَیَّامِ الْخَالِیَۃِ * وَأَمَّا مَنْ أُوتِیَ کِتَابَہُ * بِشِمَالِہِ فَیَقُولُ یَا لَیْتَنِی لَمْ أُوتَ کِتَابِیَہْ * وَلَمْ أَدْرِ مَا حِسَابِیَہْ» ۱؎ (69-الحاقۃ:19-26)۔ « فَتِیلً» سے مراد لمبا دھاگہ ہے جو کھجور کی گٹھلی کے بیچ میں ہوتا ہے ۔ بزار میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ایک شخص کو بلوا کر اس کا اعمال نامہ اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا ۔ اس کا جسم بڑھ جائے گا ، چہرہ چمکنے لگے گا ، سر پر چمکتے ہوئے ہیروں کا تاج رکھ دیا جائے گا ، یہ اپنے گروہ کی طرف بڑھے گا ، اسے اس حال میں آتا دیکھ کر وہ سب آرزو کرنے لگیں گے کہ اے اللہ ہمیں بھی یہ عطا فرما اور ہمیں اس میں برکت دے ۔ وہ آتے ہی کہے گا کہ خوش ہو جاؤ تم میں سے ہر ایک کو یہی ملنا ہے ۔ لیکن کافر کا چہرہ سیاہ ہو جائے گا ، اس کا جسم بڑھ جائے گا ، اسے دیکھ کر اس کے ساتھی کہنے لگیں گے اللہ اسے رسوا کر ، یہ جواب دے گا ، اللہ تمہیں غارت کرے ، تم میں سے ہر شخص کے لیے یہی اللہ کی مار ہے ۔ } ۱؎ (سنن ترمذی:3136،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) اس دنیا میں جس نے اللہ کی آیتوں سے اس کی کتاب سے اس کی راہ ہدایت سے چشم پوشی کی ، وہ آخرت میں سچ مچ رسوا ہو گا اور دنیا سے بھی زیادہ راہ بھولا ہوا ہو گا ۔ الإسراء
72 الإسراء
73 . مکار و فجار کی چالاکیوں سے اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنے رسول کو بچاتا رہا ، آپ کو معصوم اور ثابت قدم ہی رکھا ، خود ہی آپ کا ولی و ناصر رہا ، اپنی ہی حفاظت اور صیانت میں ہمیشہ آپ کو رکھا ، آپ کی تائید اور نصرت برابر کرتا رہا ، آپ کے دین کو دنیا کے تمام دینوں پر غالب کر دیا ، آپ کے مخالفین کے بلند بانگ ارادوں کو پست کر دیا ، مشرق سے مغرب تک آپ کا کلمہ پھیلا دیا ، اسی کا بیان ان دونوں آیتوں میں ہے ۔ اللہ تعالیٰ آپ پر قیامت تک بےشمار درود و سلام بھیجتا رہے ۔ آمین ۔ الإسراء
74 الإسراء
75 الإسراء
76 وطنی عصبیت اور یہودی کہتے ہیں کہ یہودیوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا کہ آپ کو ملک شام چلا جانا چاہیئے وہی نبیوں کا وطن ہے اس شہر مدینہ کو چھوڑ دینا چاہیئے اس پر یہ آیت اتری ۔ لیکن یہ قول ضعیف ہے اس لیے کہ یہ آیت مکی ہے اور مدینے میں آپ کی رہائش اس کے بعد ہوئی ہے ۔ کہتے ہیں کہ تبوک کے بارے میں یہ آیت اتری ہے ، یہودیوں کے کہنے سے کہ شام جو نبیوں کی اور محشر کی زمین ہے آپ کو وہیں رہنا چاہیئے ، اگر آپ سچے پیغمبر ہیں تو وہاں چلے جائیں ، آپ نے انہیں ایک حد تک سچا سمجھا ۔ غزوہ تبوک سے آپ کی نیت یہی تھی لیکن تبوک پہنچتے ہی سورۃ بنی اسرائیل کی آیتیں اتریں ، اس کے بعد کہ سورت ختم کر دی گئی تھی آیت «وَإِن کَادُوا لَیَسْتَفِزٰونَکَ مِنَ الْأَرْضِ لِیُخْرِجُوکَ مِنْہَا ۖ وَإِذًا لَّا یَلْبَثُونَ خِلَافَکَ إِلَّا قَلِیلًا * سُنَّۃَ مَن قَدْ أَرْسَلْنَا قَبْلَکَ مِن رٰسُلِنَا ۖ وَلَا تَجِدُ لِسُنَّتِنَا تَحْوِیلًا» ۱؎ (17-الإسراء:77) تک اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو مدینے کی واپسی کا حکم دیا اور فرمایا وہیں آپ کی موت و زیست اور وہیں سے دوبارہ اٹھ کر کھڑا ہونا ہے ۔ ۱؎ (الدر المنشور للسیوطی:353/4) لیکن اس کی سند بھی غور طلب ہے اور صاف ظاہر ہے کہ یہ واقعہ بھی ٹھیک نہیں ، تبوک کا غزوہ یہود کے کہنے سے نہ تھا بلکہ اللہ کا فرمان موجود ہے آیت «ا أَیٰہَا الَّذِینَ آمَنُوا قَاتِلُوا الَّذِینَ یَلُونَکُم مِّنَ الْکُفَّارِ » ۱؎ (9-التوبۃ:123) ’ جو کفار تمہارے اردگرد ہیں ان سے جہاد کرو ۔ ‘ اور آیت میں ہے کہ «قَاتِلُوا الَّذِینَ لَا یُؤْمِنُونَ بِ اللہِ وَلَا بِالْیَوْمِ الْآخِرِ وَلَا یُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللہُ وَرَسُولُہُ وَلَا یَدِینُونَ دِینَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِینَ أُوتُوا الْکِتَابَ حَتَّیٰ یُعْطُوا الْجِزْیَۃَ عَن یَدٍ وَہُمْ صَاغِرُونَ» ۱؎ (9-التوبۃ:29) ’ جو اللہ پر اور قیامت پر ایمان نہیں رکھتے اللہ رسول کے حرام کردہ کو حرام نہیں سمجھتے اور حق کو قبول نہیں کرتے ایسے اہل کتاب سے اللہ کی راہ میں جہاد کرو یہاں تک کہ وہ ذلت کے ساتھ جزیہ دینا منظور کر لیں ۔ ‘ اور اس غزوے کی وجہ یہ تھی کہ آپ کے جو اصحاب جنگ موتہ میں شہید کر دئے گئے تھے ان کا بدلہ لیا جائے ، «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اور اگر مندرجہ بالا واقعہ صحیح ہو جائے تو اسی پر وہ حدیث محمول کی جائے گی ، جس میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں «أنزل القرآن فی ثلاثۃ أمکنۃ : مکۃ ، والمدینۃ ، والشام » مکہ ، مدینہ اور شام میں قرآن نازل ہوا ہے ۔ } ولید تو اس کی شرح میں لکھتے ہیں کہ شام سے مراد بیت المقدس ہے ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:7718:ضعیف) لیکن شام سے مراد تبوک کیوں نہ لیا جائے جو بالکل صاف اور بہت درست ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد کافروں کا وہ ارادہ ہے جو انہوں نے مکے سے جلا وطن کرنے کے بارے میں کیا تھا چنانچہ یہی ہوا بھی کہ جب انہوں نے آپ کو نکالا ۔ پھر یہ بھی وہاں زیادہ مدت نہ گزار سکے ، اللہ تعالیٰ نے فوراً ہی آپ کو غالب کیا ۔ ڈیڑھ سال ہی گزرا تھا کہ بدر کی لڑائی بغیر کسی تیاری اور اطلاع کے اچانک ہو گئی اور وہیں کافروں کا اور کفر کا دھڑ ٹوٹ گیا ، ان کے شریف و رئیس تہ تیغ ہوئے ، ان کی شان و شوکت خاک میں مل گئی ، ان کے سردار قید میں آ گئے ۔ پس فرمایا کہ یہی عادت پہلے سے جاری ہے ۔ سابقہ رسولوں کے ساتھ بھی یہی ہوا کہ کفار نے جب انہیں تنگ کیا اور دیس سے نکال دیا پھر وہ بچ نہ سکے ، عذاب اللہ نے انہیں غارت اور بے نشان کردیا ۔ ہاں چونکہ ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم رسول رحمت تھے ، اس لیے کوئی آسمانی عام عذاب ان کافروں پر نہ آیا ۔ جیسے فرمان ہے آیت « وَمَا کَانَ اللہُ لِیُعَذِّبَہُمْ وَأَنتَ فِیہِمْ ۚ وَمَا کَانَ اللہُ مُعَذِّبَہُمْ وَہُمْ یَسْتَغْفِرُونَ » ۱؎ (8-الأنفال:33 ) ’ یعنی تیری موجودگی میں اللہ انہیں عذاب نہ کرے گا ۔ ‘ الإسراء
77 الإسراء
78 اوقات صلوۃ کی نشاندہی نمازوں کو وقتوں کی پابندی کے ساتھ ادا کرنے کا حکم ہو رہا ہے ، «دُلُوکِ» سے مراد غروب ہے یا زوال ہے ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ زوال کے قول کو پسند فرماتے ہیں اور اکثر مفسرین کا قول بھی یہی ہے ۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اور آپ کے ساتھ ان صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جنہیں آپ نے چاہا دعوت کی ، کھانا کھاکر سورج ڈھل جانے کے بعد آپ میرے ہاں سے چلے ، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا ، چلو یہی وقت «دُلُوکِ» شمس کا ہے } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:22583:ضعیف) پس پانچوں نمازوں کا وقت اس آیت میں بیان ہو گیا ۔ « غَسَقِ »سے مراد اندھیرا ہے ۔ جو کہتے ہیں کہ «دُلُوکِ» سے مراد غروب ہے ، ان کے نزدیک ظہر عصر مغرب عشاء کا بیان تو اس میں ہے اور فجر کا بیان «وَقُرْآنَ الْفَجْرِ» میں ہے ۔ حدیث سے بہ تواتر اقوال و افعال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پانچوں نمازوں کے اوقات ثابت ہیں اور مسلمان بحمد للہ اب تک اس پر ہیں ، ہر پچھلے زمانے کے لوگ اگلے زمانے والوں سے برابر لیتے چلے آتے ہیں ۔ جیسے کہ ان مسائل کے بیان کی جگہ اس کی تفصیل موجود ہے «والْحَمْدُ لِلّٰہ» ۔ { صبح کی تلاوت قرآن پر دن اور رات کے فرشتے آتے ہیں ۔ } ۱؎ (سنن ترمذی:3135،قال الشیخ الألبانی:صحیح) صحیح بخاری شریف میں ہے { تنہا شخص کی نماز پر جماعت کی نماز پچیس درجے زیادہ فضیلت رکھتی ہے ۔ صبح کی نماز کے وقت دن اور رات کے فرشتے اکٹھے ہوتے ہیں ۔ اسے بیان فرما کر راوی حدیث سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم قرآن کی آیت کو پڑھ لو وقران الفجر الخ ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:648) بخاری و مسلم میں ہے کہ { رات کے اور دن کے فرشتے تم میں برابر پے در پے آتے رہتے ہیں ، صبح کی اور عصر کی نماز کے وقت ان کا اجتماع ہو جاتا ہے ۔ تم میں جن فرشتوں نے رات گزاری وہ جب چڑھ جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے دریافت فرماتا ہے ، باوجود یہ کہ وہ ان سے زیادہ جاننے والا ہے کہ تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا ؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم ان کے پاس پہنچے تو انہیں نماز میں پایا اور واپس آئے تو نماز میں چھوڑ کر آئے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:555) سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ چوکیدار فرشتے صبح کی نماز میں جمع ہوتے ہیں پھر یہ چڑھ جاتے ہیں اور وہ ٹھیر جاتے ہیں ۔ ابن جریر کی ایک حدیث میں { اللہ تعالیٰ کے نزول فرمانے اور اس ارشاد فرمانے کا ذکر کیا ہے کہ کوئی ہے ؟ جو مجھ سے استغفار کرے اور میں اسے بخشوں ۔ کوئی ہے ؟ کہ مجھ سے سوال کرے اور میں اسے دوں ۔ کوئی ہے ؟ جو مجھ سے دعا کرے اور میں اس کی دعا کو قبول کروں ۔ یہاں تک کہ صبح طلوع ہو جاتی ہے پس اس وقت پر اللہ تعالیٰ موجود ہوتا ہے اور رات کے فرشتے اور دن کے فرشتے جمع ہوتے ہیں ۔ } ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:22595:ضعیف) پھر اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو تہجد کی نماز کا حکم فرماتا ہے ، فرضوں کا تو حکم ہے ہی ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ فرض نماز کے بعد کون سی نماز افضل ہے ؟ آپ نے فرمایا رات کی نماز ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:1163) تہجد کہتے ہیں نیند کے بعد کی نماز کو ، لغت میں مفسرین کی تفسیروں میں اور حدیث میں یہ موجود ہے ، آپ کی عادت بھی یہی تھی کہ سو کر اٹھتے پھر تہجد پڑھتے ۔ جیسے کہ اپنی جگہ بیان موجود ہے ۔ ہاں حسن بصری رحمہ اللہ کا قول ہے کہ جو نماز عشاء کے بعد ہو ممکن ہے کہ اس سے بھی مراد سو جانے کے بعد ہو ۔ پھر فرمایا یہ زیادتی تیرے لیے ہے ۔ بعض تو کہتے ہیں ، تہجد کی نماز اوروں کے برخلاف صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر فرض تھی ۔ بعض کہتے ہیں یہ خصوصیت اس وجہ سے ہے کہ آپ کے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف تھے اور امتیوں کی اس نماز کے وجہ سے ان کے گناہ دور ہو جاتے ہیں ۔ ہمارے اس حکم کی بجا آوری پر ہم تجھے اس جگہ کھڑا کریں گے کہ جہاں کھڑا ہونے پر تمام مخلوق آپ کی تعریفیں کرے گی اور خود خالق اکبر بھی ۔ کہتے ہیں کہ مقام محمود پر قیامت کے دن آپ اپنی امت کی شفاعت کے لیے جائیں گے تاکہ اس دن کی گھبراہٹ سے آپ انہیں راحت دیں ۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ، لوگ ایک ہی میدان میں جمع کئے جائیں گے ، پکارنے والا اپنی آواز انہیں سنائے گا ، آنکھیں کھل جائیں گی ، ننگے پاؤں ننگے بدن ہوں گے ، جیسے کہ پیدا کئے گئے تھے ، سب کھڑے ہوں گے ، کوئی بھی بغیر اجازت الٰہی بات نہ کر سکے گا ، آواز آئے گی ، اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کہیں گے « لبیک وسعدیک » ۔ اے اللہ تمام بھلائی تیرے ہی ہاتھ ہے ۔ برائی تیری جانب سے نہیں ۔ راہ یافتہ وہی ہے جسے تو ہدایت بخشے ، تیرا غلام تیرے سامنے موجود ہے ، وہ تیری ہی مدد سے قائم ہے ، وہ تیری ہی جانب جھکنے والا ہے ۔ تیری پکڑ سے سوائے تیرے دربار کے اور کوئی پناہ نہیں ، تو برکتوں اور بلندیوں والا ہے ، اے رب البیت تو پاک ہے ۔ الإسراء
79 مقام محمود کا تعارف یہ مقام محمود ہے جس کا ذکر اللہ عز و جل نے اس آیت میں کیا ہے ۔ پس یہ مقام مقام شفاعت ہے ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں قیامت کے دن سب سے پہلے زمین سے آپ باہر آئیں گے ۔ اور سب سے پہلے شفاعت آپ ہی کریں گے ۔ اہل علم کہتے ہیں کہ یہی مقام محمود ہے جس کا وعدہ اللہ کریم نے اپنے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا ہے ۔ بیشک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت سی بزرگیاں ایسی ملیں گی جن میں کوئی آپ کی برابری کا نہیں ۔ سب سے پہلے آپ ہی کی قبر کی زمین شق ہو گی اور آپ سواری پر سوار محشر کی طرف جائیں گے ۔ آپ کا ایک جھنڈا ہو گا کہ آدم علیہ السلام سے لے کر سب کے سب اس کے نیچے ہوں گے ۔ آپ کو حوض کوثر ملے گا جس پر سب سے زیادہ لوگ وارد ہوں گے ۔ بہت بڑی شفاعت آپ کی ہو گی کہ اللہ عز و جل مخلوق کے فیصلوں کے لیے آئے ۔ اور یہ اس کے بعد ہو گی کہ لوگ آدم علیہ السلام ، نوح علیہ السلام ، ابراہیم علیہ السلام ، موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام کے پاس ہو آئیں اور سب انکار کر دیں ۔ پھر آپ کے پاس آئیں گے اور آپ اس کے لیے تیار ہوں گے جیسے کہ اس کی حدیثیں مفصل آ رہی ہیں ، ان شاءاللہ ۔ آپ ان لوگوں کی شفاعت کریں گے جن کی بابت حکم ہو چکا ہو گا کہ انہیں جہنم کی طرف لے جائیں ۔ پھر وہ آپ کی شفاعت سے واپس لوٹا دیئے جائیں گے ، سب سے پہلے آپ ہی کی امت کے فیصلے کیے جائیں گے ، آپ ہی اپنی امت سمیت سب سے پہلے پل صراط سے پار ہوں گے ، آپ ہی جنت میں لے جانے کے پہلے سفارشی ہوں گے ۔ جیسے کہ صحیح مسلم کی حدیث سے ثابت ہے ۔ صور کی حدیث میں ہے کہ { تمام مومن آپ ہی کی شفاعت سے جنت میں جائیں گے ۔ سب سے پہلے آپ جنت میں جائیں گے اور آپ کی امت اور امتوں سے پہلے جائے گی ۔ آپ کی شفاعت سے کم درجے کے جنتی اعلی اور بلند درجے پائیں گے ۔ آپ ہی صاحب وسیلہ ہیں جو جنت کی سب سے اعلی منزل ہے جو آپ کے سوا کسی اور کو نہیں ملنے کی ۔ } یہ صحیح ہے کہ بحکم الٰہی گنہگاروں کی شفاعت فرشتے بھی کریں گے ، نبی بھی کریں گے ، مومن بھی کریں گے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت جس قدر لوگوں کے بارے میں ہوگی ان کی گنتی کا سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی کو علم نہیں ، اس میں کوئی آپ کی مثل اور برابر نہیں ۔ کتاب السیرت کے آخر میں باب الخصائص میں میں نے اسے خوب تفصیل سے بیان کیا ہے ، «والْحَمْدُ لِلّٰہ» ۔ اب مقام محمود کے بارے کی حدیثیں سنئے ۔ اللہ ہماری مدد کرے ۔ بخاری میں ہے { سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں لوگ قیامت کے دن گھٹنوں کے بل گرے ہوئے ہوں گے ، ہر امت اپنے نبی کے پیچھے ہو گی کہ اے فلاں ہماری شفاعت کیجئے ، اے فلاں ہماری شفاعت کیجئے یہاں تک کہ شفاعت کی انتہا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہوگی ۔ پس یہی وہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو مقام محمود پر کھڑا کرے گا ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:4718) ابن جریر میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سورج بہت نزدیک ہوگا یہاں تک کہ پسینہ آدھے کانوں تک پہنچ جائے گا ، اسی حالت میں لوگ آدم علیہ السلام سے فریاد کریں گے ، وہ صاف انکار کر دیں گے ، پھر موسیٰ علیہ السلام سے کہیں گے آپ یہی جواب دیں گے کہ میں اس قابل نہیں ، پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کہیں گے آپ مخلوق کی شفاعت کے لیے چلیں گے یہاں تک کہ جنت کے دروازے کا کنڈا تھام لیں گے ، پس اس دن اللہ تعالیٰ آپ کو مقام محمود پر پہنچائے گا ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:22637) بخاری کی اس روایت کے آخر میں یہ بھی ہے کہ { اہل محشر سب کے سب اس وقت آپ کی تعریفیں کریں گے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:1475) بخاری میں ہے » جو شخص اذان سن کر دعا « اَللّٰہُمَّ رَبَّ ہٰذِہِ الدَّعْوَۃِ التَّآمَّۃِ وَالصَّلَاۃِ الْقَآئِمَۃِ اٰتِ سَیِدَنَا مُحَمَّدَ نِ الْوَسِیْلَۃَ وَالْفَضِیْلَۃَ وَالدَّرَجَۃَ الرَّفِیْعَۃَ وَابْعَثْہُ مَقَامًا مَّحْمُوْدَ نِ الَّذِیْ وَعَدْتَّہُ وَارْزُقْنَا شَفَاعَتَہُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ط اِنَّکَ لَا تُخْلِفُ الْمِیعَادَ »پڑھ لے اس کے لیے قیامت کے دن میری شفاعت حلال ہے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:614) مسند احمد میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں قیامت کے دن میں نبیوں کا امام اور ان کا خطیب اور ان کا سفارشی ہوں گا ، میں یہ کچھ بطور فخر کے نہیں کہتا ۔ } ۱؎ (سنن ترمذی:3613،قال الشیخ الألبانی:حسن) اسے ترمذی بھی لائے ہیں اور حسن صحیح کہا ہے ۔ ابن ماجہ میں بھی یہ ہے ۔ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے وہ حدیث گزر چکی ہے جس میں قرآن کو سات قرأتوں پر پڑھنے کا بیان ہے ، اس کے آخر میں ہے کہ { میں [ صلی اللہ علیہ وسلم ] نے کہا اے اللہ میری امت کو بخش ، الٰہی میری امت کو بخش ، تیسری دعا میں نے اس دن کے لیے اٹھا رکھی ہے ، جس دن تمام مخلوق میری طرف رغبت کرے گی ، یہاں تک کہ ابراہیم علیہ السلام بھی ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:820) مسند احمد میں ہے کہ { مومن قیامت کے دن جمع ہوں گے ، پھر ان کے دل میں خیال ڈالا جائے گا کہ ہم کسی سے کہیں کہ وہ ہماری سفارش کرکے ہمیں اس جگہ سے آرام دے ، پس سب کے سب آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور کہیں گے کہ اے آدم آپ تمام انسانوں کے باپ ہیں ، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا ، آپ کے لیے اپنے فرشتوں سے سجدہ کرایا ، آپ کو تمام چیزوں کے نام بتائے ، آپ اپنے رب کے پاس ہماری سفارش لے جائیے تاکہ ہمیں اس جگہ سے راحت ملے ، آدم علیہ السلام جواب دیں گے کہ میں اس قابل نہیں ہوں ، آپ کو اپنا گناہ یاد آ جائے گا اور اللہ تعالیٰ سے شرمانے لگیں گے ۔ فرمائیں گے تم نوح علیہ السلام کے پاس جاؤ ، وہ اللہ کے پہلے رسول ہیں جنہیں زمین والوں کی طرف اللہ پاک نے بھیجا ، یہ آئیں گے یہاں سے بھی جواب پائیں گے کہ میں اس کے لائق نہیں ہوں ، آپ کو بھی اپنی خطا یاد آئے گی کہ اللہ سے وہ سوال کیا تھا جس کا آپ کو علم نہ تھا ۔ پس اپنے پروردگار سے شرمائیں گے اور فرمائیں گے تم ابراہیم خلیل الرحمن علیہ السلام کے پاس جاؤ ، وہ آپ کے پاس آئیں گے آپ فرمائیں گے ، میں اس قابل نہیں تم موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ ، ان سے اللہ نے کلام کیا ہے اور انہیں تورات دی ہے ۔ لوگ موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں گے لیکن وہ کہیں گے مجھ میں اتنی قابلیت کہاں ؟ پھر آپ اس قتل کا ذکر کریں گے جو بغیر کسی مقتول کے معاوضے کے آپ نے کر دیا تھا پس بوجہ اس کے شرمانے لگیں گے اور کہیں گے تم عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ جو اللہ کے بندے ، اس کا کلمہ اور اس کی روح ہے ۔ وہ یہاں آئیں گے لیکن آپ فرمائیں گے میں اس جگہ کے قابل نہیں ہوں ۔ تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ جن کے اول آخر تمام گناہ بخش دئے گئے ہیں ۔ } { پس وہ سب میرے پاس آئیں گے ۔ میں کھڑا ہوں گا ، اپنے رب سے اجازت چاہوں گا ، جب اسے دیکھوں گا تو سجدے میں گر پڑوں گا ، جب تک اللہ کو منظور ہوگا میں سجدے میں ہی رہوں گا ۔ پھر فرمایا جائے گا ، اے محمد [ صلی اللہ علیہ وسلم ] سر اٹھائیے ، کہئے سنا جائے گا ، شفاعت کیجئے قبول کی جائے گی ، مانگئے دیا جائے گا ، پس میں سر اٹھاؤں گا اور اللہ کی وہ تعریفیں کروں گا جو وہ مجھے سکھائے گا ۔ پھر میں سفارش پیش کروں گا ، میرے لیے ایک حد مقرر کر دی جائے گی ، میں انہیں جنت میں پہنچا آؤں گا ۔ پھر دوبارہ جناب باری میں حاضر ہو کر اپنے رب کو دیکھ کر سجدے میں گر پڑوں گا ، جب تک وہ چاہے مجھے سجدے میں ہی رہنے دے گا ۔ پھر فرمایا جائے گا کہ اے محمد [ صلی اللہ علیہ وسلم ] سر اٹھاؤ ، کہو سنا جائے گا ، سوال کرو دیا جائے گا ، شفاعت کرو قبول ہو گی ۔ پس میں سر اٹھا کر اپنے رب کی وہ حمد بیان کروں گا جو وہ مجھے سکھائے گا ، پھر میں شفاعت کروں گا تو میرے لیے ایک حد مقرر کر دی جائے گی میں انہیں بھی جنت میں پہنچا آؤں گا ۔ پھر تیسری مرتبہ لوٹوں گا اپنے رب کو دیکھتے ہی سجدے میں گر پڑوں گا ، جب تک وہ چاہے اسی حالت میں پڑا رہوں گا ، پھر فرمایا جائے گا کہ محمد [ صلی اللہ علیہ وسلم ] سر اٹھا ، بات کر سنی جائے گی ۔ سوال کر عطا فرمایا جائے گا ۔ سفارش کر قبول کی جائے گی ۔ چنانچہ میں سر اٹھا کر وہ حمد بیان کرکے جو مجھے وہی سکھائے گا سفارش کروں گا ۔ پھر چوتھی بار واپس آؤں گا اور کہوں گا باری تعالیٰ اب تو صرف وہی باقی رہ گئے ہیں جنہیں قرآن نے روک لیا ہے ۔ فرماتے ہیں ، جہنم میں سے وہ شخص بھی نکل آئے گا جس نے «لا الہ الا اللہ» کہا اور اس کے دل میں ایک ذرے جتنا ایمان ہو ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:4476) یہ حدیث مسلم میں بھی ہے ۔ مسند احمد میں ہے { آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میری امت پل صراط سے گزر رہی ہو گی ، میں وہیں کھڑا دیکھ رہا ہوں گا کہ میرے پاس عیسیٰ علیہ السلام آئیں گے اور فرمائیں گے اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم انبیاء کی جماعت آپ سے کچھ مانگتی ہے ، وہ سب آپ کے لیے جمع ہیں اور اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ تمام امتوں کو جہاں بھی چاہے ، الگ الگ کر دے ، اس وقت وہ سخت غم میں ہیں ، تمام مخلوق پسینوں میں گویا لگام چڑھا دی گئی ہے ۔ مومن پر تو وہ مثل زکام کے ہے لیکن کافر پر تو موت کا ڈھانپ لینا ہے ۔ آپ فرمائیں گے کہ ٹھیرو میں آتا ہوں ، پس آپ جائیں گے عرش تلے کھڑے رہیں گے اور وہ عزت و آبرو ملے گی کہ کسی برگزیدہ فرشتے اور کسی بھیجے ہوئے نبی رسول علیہم السلام کو نہ ملی ہو ، پھر اللہ تعالیٰ جبرائیل علیہ السلام کی طرف وحی کرے گا کہ محمد [ صلی اللہ علیہ وسلم ] کے پاس جاؤ اور کہو کہ آپ سر اٹھائیے ، مانگئے ، ملے گا ، سفارش کیجئے ، قبول ہوگی ، پس مجھے اپنی امت کی شفاعت ملے گی کہ ہر ننانوے میں سے ایک نکال لاؤں ، میں باربار اپنے رب عز و جل کی طرف آتا جاتا رہوں گا اور ہر بار سفاش کروں گا ، یہاں تک کہ جناب باری مجھ سے ارشاد فرمائے گا کہ اے محمد [ صلی اللہ علیہ وسلم ] جاؤ مخلوق الٰہی میں سے جس نے ایک دن بھی خلوص کے ساتھ «لا الہ الا اللہ» کی گواہی دی ہو اور اسی پر مرا ہو ، اسے بھی جنت میں پہنچا آؤ ۔ ۱؎ (مسند احمد:178/3:صحیح) مسند احمد میں ہے { سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے ، اس وقت ایک شخص کچھ کہہ رہا تھا ، انہوں نے بھی کچھ کہنے کی اجازت مانگی ، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے اجازت دی ۔ آپ کا خیال یہ تھا کہ جو کچھ یہ پہلا شخص کہہ رہا ہے وہی سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ بھی کہیں گے ۔ سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ، مجھے اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ زمین پر جتنے درخت اور کنکر ہیں ، ان کی گنتی کے برابر لوگوں کی شفاعت میں کروں گا ، پس اے معاویہ [ رضی اللہ عنہ ] آپ کو تو اس کی امید ہو اور علی [ رضی اللہ عنہ ] اس سے ناامید ہوں ؟ ۱؎ (مسند احمد:437/5:ضعیف) مسند احمد میں ہے کہ { ملیکہ کے دونوں لڑکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے ہماری ماں ہمارے والد کی بڑی ہی عزت کرتی تھیں ، بچوں پر بڑی مہربانی اور شفقت کرتی تھیں ، مہمانداری میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھتی تھیں ۔ ہاں انہوں نے جاہلیت کے زمانے میں اپنی زندہ لڑکیاں درگور کر دی تھیں ، آپ نے فرمایا پھر وہ جہنم میں پہنچی ۔ وہ دونوں ملول خاطر ہو کر لوٹے تو آپ نے حکم دیا کہ انہیں واپس بلا لاؤ وہ لوٹے اور ان کے چہروں پر خوشی تھی کہ اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوئی اچھی بات سنائیں گے ۔ آپ نے فرمایا سنو میری ماں اور تمہاری ماں دونوں ایک ساتھ ہی ہیں ، ایک منافق یہ سن کر کہنے لگا کہ اس سے اس کی ماں کو کیا فائدہ ؟ ہم اس کے پیچھے جاتے ہیں ۔ ایک انصاری جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ سوالات کرنے کا عادی تھا ، کہنے لگایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا اس کے یا ان دونوں کے بارے میں آپ سے اللہ تعالیٰ نے کوئی وعدہ کیا ہے ؟ آپ سمجھ گئے کہ اس نے کچھ سنا ہے ، فرمانے لگے نہ میرے رب نے چاہا نہ مجھے اس بارے میں کوئی طمع دی ۔ } { سنو میں قیامت کے دن مقام محمود پر پہنچایا جاؤں گا ۔ انصاری نے کہا وہ کیا مقام ہے ؟ آپ نے فرمایا یہ اس وقت جب کہ تمہیں ننگے بدن بے ختنہ لایا جائے گا ۔ سب سے پہلے ابراہیم علیہ السلام کو کپڑے پہنائے جائیں گے ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا میرے خلیل کو کپڑے پہناؤ ۔ پس دو چادریں سفید رنگ کی پہنائی جائیں گی اور آپ عرش کی طرف منہ کئے بیٹھ جائیں گے ۔ پھر میرا لباس لایا جائے گا ، میں ان کی دائیں طرف اس جگہ کھڑا ہوں گا کہ تمام اگلے پچھلے لوگ رشک کریں گے اور کوثر سے لے کر حوض تک ان کے لیے کھول دیا جائے گا ، منافق کہنے لگے پانی کے جاری ہونے کے لیے تو مٹی اور کنکر لازمی ہیں ، آپ نے فرمایا اس کی مٹی مشک ہے اور کنکر موتی ہیں ۔ اس نے کہا ، ہم نے تو کبھی ایسا نہیں سنا ۔ اچھا پانی کے کنارے درخت بھی ہونے چاہیئں ۔ انصاری نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا وہاں درخت بھی ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا ہاں سونے کی شاخوں والے ۔ منافق نے کہا آج جیسی بات تو ہم نے کبھی نہیں سنی ۔ اچھا درختوں میں پتے اور پھل بھی ہونے چاہئیں ۔ انصاری نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا ان درختوں میں پھل بھی ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا ہاں رنگا رنگ کے جواہر ، اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید ہوگا اور شہد سے زیادہ میٹھا ہوگا ۔ ایک گھونٹ بھی جس نے اس میں سے پی لیا ، وہ کبھی بھی پیاسا نہ ہوگا اور جو اس سے محروم رہ گیا ، وہ پھر کبھی آسودہ نہ ہو گا ۔ } ۱؎ (مسند احمد:398/1:ضعیف) ابوداؤد طیالسی میں ہے کہ { پھر اللہ تعالیٰ عز و جل شفاعت کی اجازت دے گا ، پس روح القدس جبرائیل علیہ السلام کھڑے ہوں گے ، پھر ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کھڑے ہوں گے ، پھر عیسیٰ یا موسیٰ علیہم السلام کھڑے ہوں گے ، پھر چوتھے تمہارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوں گے ، آپ سے زیادہ کسی کی شفاعت نہ ہوگی ، یہی مقام محمود ہے جس کا ذکر اس آیت میں ہے ۔ } ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:144/15:ضعیف) مسند احمد میں ہے کہ { لوگ قیامت کے دن اٹھائے جائیں گے ، میں [ صلی اللہ علیہ وسلم ] اپنی امت سمیت ایک ٹیلے پر کھڑا ہوں گا ، مجھے اللہ تعالیٰ سبز رنگ کا حلہ پہنائے گا ، پھر مجھے اجازت دی جائے گی اور جو کچھ کہنا چاہوں گا ، کہوں گا یہی مقام محمود ہے جس کا ذکر اس آیت میں ہے ۔ } ۱؎ (مسند احمد:456/13:صحیح) مسند احمد میں ہے کہ { قیامت کے دن سب سے پہلے مجھے سجدہ کرنے کی اجازت دی جائے گی اور مجھے ہی سب سے پہلے سر اٹھانے کی اجازت ملے گی ، میں اپنے آگے پیچھے دائیں بائیں دیکھ کر اپنی امت کو اور امتوں میں پہچان لوں گا ، کسی نے پوچھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ساری امتیں جو نوح کے وقت تک کی ہوں گی ان سب میں سے آپ خاص اپنی امت کیسے پہچان لیں گے ؟ آپ نے فرمایا وضو کے اثر سے ، ان کے ہاتھ پاؤں منہ چمک رہے ہوں گے ان کے سوا اور کوئی ایسا نہ ہو گا اور میں انہیں یوں پہچان لوں گا کہ ان کے نامہ اعمال ان کے دائیں ہاتھ میں ملیں گے اور نشان یہ ہے کہ ان کی اولادیں ان کے آگے آگے چل پھر رہی ہوں گی ۔ } ۱؎ (مسند احمد:199/5:صحیح لغیرہ) مسند احمد میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گوشت لایا گیا اور شانے کا گوشت چونکہ آپ کو زیادہ مرغوب تھا ، وہی آپ کو دیا گیا ، آپ اس میں سے گوشت توڑ توڑ کر کھانے لگے اور فرمایا قیامت کے دن تمام لوگوں کا سردار میں ہوں ۔ اللہ تعالیٰ تمام اگلوں پچھلوں کو ایک ہی میدان میں جمع کرے گا ، آواز دینے والا انہیں سنائے گا ۔ نگاہیں اوپر کو چڑھ جائیں گی ، سورج بالکل نزدیک ہو جائے گا اور لوگ ایسی سختی اور رنج و غم میں مبتلا ہو جائیں گے جو ناقابل برداشت ہے ۔ اس وقت وہ آپس میں کہیں گے کہ دیکھو تو سہی ہم سب کس مصیبت میں مبتلا ہیں ، چلو کسی سے کہہ کر اسے سفارشی بنا کر اللہ تعالیٰ کے پاس بھیجیں ۔ } { چنانچہ مشورہ سے طے ہو گا اور لوگ آدم علیہ السلام کے پاس جائیں گے اور کہیں گے آپ تمام انسانوں کے باپ ہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا ہے ، آپ میں اپنی روح پھونکی ہے ، اپنے فرشتوں کو آپ کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دے کر ان سے سجدہ کرایا ہے ۔ آپ کیا ہماری خستہ حالی ملاحظہ نہیں فرما رہے ؟ آپ پروردگار سے شفاعت کی دعا کیجئے ۔ آدم علیہ السلام جواب دیں گے کہ میرا رب آج اس قدر غضبناک ہو رہا ہے کہ کبھی اس سے پہلے ایسا غضبناک نہیں ہوا اور نہ اس کے بعد کبھی ہو گا ۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک درخت سے روکا تھا ، لیکن مجھ سے نافرمانی ہو گئی ۔ آج تو مجھے خود اپنا خیال لگا ہوا ہے ۔ نفسا نفسی لگی ہوئی ہے ۔ تم کسی اور کے پاس جاؤ ، نوح علیہ السلام کے پاس جاؤ ۔ لوگ وہاں سے نوح علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور کہیں گے کہ اے نوح علیہ السلام آپ کو زمین والوں کی طرف سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے رسول بناکر بھیجا ۔ آپ کا نام اس نے شکر گزار بندہ رکھا ۔ آپ ہمارے لیے اپنے رب کے پاس شفاعت کیجئے ، دیکھئیے تو ہم کس مصیبت میں مبتلا ہیں ؟ نوح علیہ السلام جواب دیں گے کہ آج تو میرا پروردگار اس قدر غضبناک ہے کہ اس سے پہلے کبھی ایسا غصے ہوا نہ اس کے بعد کبھی ایسا غصے ہوگا ۔ میرے لیے ایک دعا تھی جو میں نے اپنے قوم کے خلاف مانگ لی ، مجھے تو آج اپنی پڑی ہے نفسا نفسی لگ رہی ہے تم کسی اور کے پاس جاؤ ۔ ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ ۔ } { لوگ ابراہیم علیہ السلام کے پاس جائیں گے اور کہیں گے ، آپ نبی اللہ ہیں ، آپ خلیل اللہ ہیں ، کیا آپ ہماری یہ بپتا نہیں دیکھتے ؟ ابراہیم علیہ السلام فرمائیں گے کہ میرا رب آج اس قدر غضبناک ہے کہ کبھی اس سے پہلے ایسا ناراض ہوا اور نہ اس کے بعد کبھی اس سے زیادہ غصے میں آئے گا ، پھر آپ اپنے جھوٹ یاد کرکے نفسی نفسی کرنے لگیں گے اور فرمائیں گے میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ ۔ موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ ۔ لوگ موسیٰ علیہ السلام کے پاس جائیں گے اور کہیں گے اے موسیٰ علیہ السلام ہماری شفاعت لے جائیے ، دیکھئیے تو کیسی سخت آفت میں ہیں ؟ آپ فرمائیں گے آج تو میرا رب اس قدر ناراض ہے ایسا کہ اس سے پہلے کبھی ایسا ناراض نہیں ہوا اور نہ کبھی اس کے بعد ایسا ناراض ہو گا ، میں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر ایک انسان کو مار ڈالا تھا ۔ نفسی نفسی نفسی تم مجھے چھوڑو کسی اور سے کہو تم عیسیٰ علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ ۔ لوگ عیسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور کہیں گے اے عیسیٰ علیہ السلام آپ رسول اللہ ، کلمۃ اللہ اور روح اللہ ہیں جو مریم علیہ السلام کی طرف بھیجی گئی ، بچپن میں گہوارے میں ہی آپ نے بولنا شروع کر دیا تھا ، جائیے ہمارے رب سے ہماری شفاعت کیجئے خیال تو فرمائیے کہ ہم کس قدر بے چین ہیں ؟ عیسیٰ علیہ السلام جواب دیں گے کہ آج جیسا غصہ تو نہ پہلے تھا ، نہ بعد میں ہو گا ، نفسی نفسی نفسی ، آپ اپنے کسی گناہ کا ذکر نہ کریں گے ۔ فرمائیں گے تم کسی اور ہی کے پاس جاؤ ۔ دیکھو میں بتاؤں تم سب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ ۔ } { چنانچہ وہ سب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں گے اور کہیں گے اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ رسول اللہ ہیں ، آپ خاتم الانبیاء ہیں ، اللہ تعالیٰ نے آپ کے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف فرما دئے ہیں ۔ آپ ہماری شفاعت کیجئے ، دیکھئیے تو ہم کیسی سخت بلاؤں میں گھرے ہوئے ہیں ، پھر میں کھڑا ہوں گا اور عرش تلے آکر اپنے رب عز و جل کے سامنے سجدے میں گر پڑوں گا ۔ پھر اللہ تعالیٰ مجھ پر اپنی حمد و ثنا کے وہ الفاظ کھولے گا جو مجھ سے پہلے کسی اور پر نہیں کھلے تھے ۔ پھر مجھ سے فرمایا جائے گا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنا سر اٹھاؤ ، مانگو ، تمہیں ملے گا ، شفاعت کرو ، منظور ہو گی ۔ میں اپنا سر سجدے سے اٹھاؤں گا اور کہوں گا میرے پروردگار میری امت ، میرے رب میری امت ، اے اللہ میری امت ، پس مجھ سے فرمایا جائے گا ، جاؤ اپنی امت میں سے ان لوگوں کو جن پر حساب نہیں جنت میں لے جاؤ ، انہیں جنت کے داہنی طرف کے دروازے سے پہنچاؤ لیکن اور تمام دروازوں سے بھی روک نہیں ۔ اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد [ صلی اللہ علیہ وسلم ] کی جان ہے ، جنت کی دو چوکھٹوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا مکہ اور حمیر میں یا مکہ اور بصریٰ میں ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:3340) یہ حدیث بخاری و مسلم میں بھی ہے ۔ مسلم شریف میں ہے { قیامت کے دن اولاد آدم کا سردار میں ہوں گا ، اس دن سب سے پہلے میری قبر کی زمین شق ہوگی ، میں ہی پہلا شفیع ہوں اور پہلا شفاعت قبول کیا گیا ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:2278) ابن جریر میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کا مطلب پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ شفاعت ہے ۔ } ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:22634:ضعیف) مسند احمد میں ہے { مقام محمود وہ مقام ہے ، جس میں میں اپنی امت کی شفاعت کروں گا ۔ } ۱؎ (مسند احمد:441/2:حسن لغیرہ) عبدالرزاق میں ہے کہ { قیامت کے دن کھال کی طرح اللہ تعالیٰ زمین کو کھینچ لے گا ، یہاں تک کہ ہر شخص کے لیے صرف اپنے دونوں قدم ٹکانے کی جگہ ہی رہے گی ، سب سے پہلے مجھے طلب کیا جائے گا ۔ جبرائیل علیہ السلام اللہ رحمن تبارک و تعالیٰ کے دائیں طرف ہوں گے ۔ اللہ کی قسم اس سے پہلے اسے اس نے نہیں دیکھا ۔ میں کہوں گا کہ باری تعالیٰ اس فرشتے نے مجھ سے کہا تھا کہ اسے تو میری طرف بھیج رہا تھا ، اللہ تعالیٰ عز و جل فرمائے گا اس نے سچ کہا اب میں یہ کہہ کر شفاعت کروں گا کہ اے اللہ تیرے بندوں نے زمین کے مختلف حصوں میں تیری عبادت کی ہے ، آپ فرماتے ہیں یہی مقام محمود ہے ۔ } ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:22639:مرسل) یہ حدیث مرسل ہے ۔ الإسراء
80 حکم ہجرت مسند احمد میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ شریف میں تھے پھر آپ کو ہجرت کا حکم ہوا اور یہ آیت اتری ۔ } ۱؎ (مسند احمد:223/1) امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3139،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ کفار مکہ نے مشورہ کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر دیں یا نکال دیں یا قید کر لیں پس اللہ کا یہی ارادہ ہوا کہ اہل مکہ کو ان کی بداعمالیوں کا مزہ چکھا دے ۔ اس نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینے جانے کا حکم فرمایا ۔ یہی اس آیت میں بیان ہو رہا ہے ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں مدینہ میں داخل ہونا اور مکہ سے نکلنا یہی قول سب سے زیادہ مشہور ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ سچائی کے داخلے سے مراد موت ہے اور سچائی سے نکلنے سے مراد موت کے بعد کی زندگی ہے اور اقوال بھی ہیں لیکن زیادہ صحیح پہلا قول ہی ہے ۔ امام ابن جریر بھی اسی کو اختیار کرتے ہیں ۔ پھر حکم ہوا کہ غلبے اور مدد کی دعا ہم سے کرو ۔ اس دعا پر اللہ تعالیٰ نے فارس اور روم کا ملک اور عزت دینے کا وعدہ فرما لیا ۔ اتنا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم معلوم کر چکے تھے کہ بغیر غلبے کے دین کی اشاعت اور زور ناممکن ہے ، اس لیے اللہ تعالیٰ سے مدد و غلبہ طلب کیا تاکہ کتاب اللہ اور حدود اللہ ، فرائض شرع اور قیام دین آپ کر سکیں ۔ یہ غلبہ بھی اللہ کی ایک زبردست رحمت ہے ۔ اگر یہ نہ ہوتا تو ایک دوسرے کو کھا جاتا ۔ ہر زور آور کمزور کا شکار کر لیتا ۔ «سُلْطَانًا نَّصِیرًا» سے مراد کھلی دلیل بھی ہے لیکن پہلا قول پہلا ہی ہے اس لیے کہ حق کے ساتھ غلبہ اور طاقت بھی ضروری چیز ہے تاکہ مخالفین حق دبے رہیں ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے لوہے کے اتارنے کے احسان کو قرآن میں خاص طور پر ذکر کیا ہے «لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَہُمُ الْکِتَابَ وَالْمِیزَانَ لِیَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ۖ وَأَنزَلْنَا الْحَدِیدَ فِیہِ بَأْسٌ شَدِیدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَلِیَعْلَمَ اللہُ مَن یَنصُرُہُ وَرُسُلَہُ بِالْغَیْبِ» ۱؎ (57-الحدید:25) ’ یقیناً ہم نے اپنے پیغمبروں کو کھلی دلیلیں دے کر بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان [ ترازو ] نازل فرمایا تاکہ لوگ عدل پر قائم رہیں ۔ اور ہم نے لوہے کو اتارا جس میں سخت ہیبت وقوت ہے اور لوگوں کے لیے اور بھی [ بہت سے ] فائدے ہیں اور اس لیے بھی کہ اللہ جان لے کہ اس کی اور اس کے رسولوں کی مدد بے دیکھے کون کرتا ہے ۔ ‘ ایک حدیث میں ہے کہ سلطنت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ بہت سی برائیوں کو روک دیتا ہے جو صرف قرآن سے نہیں رک سکتی تھیں ۔ یہ بالکل واقعہ ہے بہت سے لوگ ہیں کہ قرآن کی نصیحتیں اس کے وعدے وعید ان کو بدکاریوں سے نہیں ہٹا سکتے ۔ لیکن اسلامی طاقت سے مرعوب ہو کر وہ برائیوں سے رک جاتے ہیں ۔ پھر کافروں کی گوشمالی کی جاتی ہے کہ اللہ کی جانب سے حق آچکا ۔ سچائی اتر آئی ، جس میں کوئی شک شبہ نہیں ، قرآن ایمان نفع دینے والا سچا علم منجانب اللہ آگیا ، کفر برباد و غارت اور بے نام و نشان ہو گیا ، وہ حق کے مقابلہ میں بے دست و پا ثابت ہوا ، حق نے باطل کا دماغ پاش پاش کر دیا اور وہ نابود اور بے وجود ہوگیا ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکے میں آئے بیت اللہ کے آس پاس تین سو ساٹھ بت تھے ، آپ اپنے ہاتھ کی لکڑی سے انہیں کچوکے دے رہے تھے اور یہی آیت«وَقُلْ جَاءَ الْحَقٰ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ ۚ إِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَہُوقًا» (17-الإسراء:81) پڑھتے تھے اور فرماتے جاتے تھے حق آ چکا باطل نہ دوبارہ آ سکتا ہے نہ لوٹ سکتا ہے ۔ } (صحیح بخاری:2478) ابو یعلیٰ میں ہے کہ { ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکے میں آئے ، بیت اللہ کے اردگرد تین سو ساٹھ بت تھے ، جن کی پوجا پاٹ کی جاتی تھی ، آپ نے فوراً حکم دیا کہ ان سب کو اوندھے منہ گرا دو پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی ۔ } ۱؎ (ابن ابی شیبۃ فی المصنف:534/8:حسن) الإسراء
81 الإسراء
82 قرآن حکیم شفا ہے اللہ تعالیٰ اپنی کتاب کی بابت ، جس میں باطل کا شائبہ بھی نہیں ، فرماتا ہے کہ وہ ایمانداروں کے دلوں کی تمام بیماریوں کے لیے شفاء ہے ۔ شک ، نفاق ، شرک ، ٹیڑھ پن اور باطل کی لگاوٹ سب اس سے دور ہو جاتی ہے ۔ ایمان ، حکمت ، بھلائی ، رحمت ، نیکیوں کی رغبت اس سے حاصل ہوتی ہے ۔ جو بھی اس پر ایمان و یقین لائے ، اسے سچ سمجھ کر اس کی تابعداری کرے ، یہ اسے اللہ کی رحمت کے نیچے لا کھڑا کرتا ہے ۔ ہاں جو ظالم جابر ہو ، جو اس سے انکار کرے وہ اللہ سے اور دور ہو جاتا ہے ۔ قرآن سن کر اس کا کفر اور بڑھ جاتا ہے ، پس یہ آفت خود کافر کی طرف سے اس کے کفر کی وجہ سے ہوتی ہے نہ کہ قرآن کی طرف سے ، وہ تو سراسر رحمت و شفاء ہے ۔ چنانچہ اور آیت قرآن میں ہے «قُلْ ہُوَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ہُدًی وَّشِفَاۗءٌ ۭ وَالَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ فِیْٓ اٰذَانِہِمْ وَقْرٌ وَّہُوَ عَلَیْہِمْ عَمًی ۭ اُولٰۗیِٕکَ یُنَادَوْنَ مِنْ مَّکَانٍۢ بَعِیْدٍ » ۱؎ (41-فصلت:44) ’ کہہ دے کہ یہ ایمانداروں کے لیے ہدایت اور شفاء ہے اور بے ایمانوں کے کانوں میں پردے ہیں اور ان کی نگاہوں پر پردہ ہے یہ تو دور دراز سے آوازیں دئیے جاتے ہیں ۔ ‘ اور آیت میں ہے « وَإِذَا مَا أُنزِلَتْ سُورَۃٌ فَمِنْہُم مَّن یَقُولُ أَیٰکُمْ زَادَتْہُ ہٰذِہِ إِیمَانًا ۚ فَأَمَّا الَّذِینَ آمَنُوا فَزَادَتْہُمْ إِیمَانًا وَہُمْ یَسْتَبْشِرُونَ * وَأَمَّا الَّذِینَ فِی قُلُوبِہِم مَّرَضٌ فَزَادَتْہُمْ رِجْسًا إِلَیٰ رِجْسِہِمْ وَمَاتُوا وَہُمْ کَافِرُونَ » ۱؎ (9-التوبۃ:124-125) ’ جہاں کوئی سورت اتری کہ ایک گروہ نے پوچھنا شروع کیا کہ تم میں سے کس کو اس نے ایمان میں بڑھایا ؟ سنو ایمان والوں کے تو ایمان بڑھ جاتے ہیں اور وہ ہشاش بشاش ہو جاتے ہیں ، ہاں جن کے دلوں میں بیماری ہے ان کی گندگی پر گندگی بڑھ جاتی ہے اور مرتے دم تک کفر پر قائم رہتے ہیں ۔ ‘ اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں ۔ الغرض مومن اس پاک کتاب کو سن کر نفع اٹھاتا ہے ، اسے حفظ کرتا ہے ، اسے یاد کرتا ہے ، اس کا خیال رکھتا ہے ۔ بے انصاف لوگ نہ اس سے نفع حاصل کرتے ہیں ، نہ اسے حفظ کرتے ہیں ، نہ اس کی نگہبانی کرتے ہیں ۔ اللہ نے اسے شفاء و رحمت صرف مومنوں کے لیے بنایا ہے ۔ الإسراء
83 انسانی فطرت میں خیر و شر موجود ہے خیر و شر برائی بھلائی جو انسان کی فطرت میں ہیں ، قرآن کریم ان کو بیان فرما رہا ہے ۔ مال ، عافیت ، فتح ، رزق ، نصرت ، تائید ، کشادگی ، آرام پاتے ہی نظریں پھیر لیتا ہے ۔ اللہ سے دور ہو جاتا ہے گویا اسے کبھی برائی پہنچنے کی ہی نہیں ۔ اللہ سے کروٹ بدل لیتا ہے گویا کبھی کی جان پہچان ہی نہیں اور جہاں مصیبت ، تکلیف ، دکھ ، درد ، آفت ، حادثہ پہنچا اور یہ ناامید ہوا ، سمجھ لیتا ہے کہ اب بھلائی ، عافیت ، راحت ، آرام ملنے ہی کا نہیں ۔ قرآن کریم اور جگہ ارشاد فرماتا ہے آیت « وَلَئِنْ أَذَقْنَا الْإِنسَانَ مِنَّا رَحْمَۃً ثُمَّ نَزَعْنَاہَا مِنْہُ إِنَّہُ لَیَئُوسٌ کَفُورٌ * وَلَئِنْ أَذَقْنَاہُ نَعْمَاءَ بَعْدَ ضَرَّاءَ مَسَّتْہُ لَیَقُولَنَّ ذَہَبَ السَّیِّئَاتُ عَنِّی ۚ إِنَّہُ لَفَرِحٌ فَخُورٌ * إِلَّا الَّذِینَ صَبَرُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولٰئِکَ لَہُم مَّغْفِرَۃٌ وَأَجْرٌ کَبِیرٌ» (11-ہود:9-11) ’ انسان کو راحتیں دے کر جہاں ہم نے واپس لے لیں کہ یہ محض مایوس اور ناشکرا بن گیا اور جہاں مصیبتوں کے بعد ہم نے عافیتیں دیں یہ پھول گیا ، گھمنڈ میں آ گیا اور ہانک لگانے لگا کہ بس اب برائیاں مجھ سے دور ہو گئیں ۔‘ فرماتا ہے کہ ہر شخص اپنی اپنی طرز پر ، اپنی طبیعت پر ، اپنی نیت پر ، اپنے دین اور طریقے پر عامل ہے تو لگے رہیں ۔ اس کا علم کہ فی الواقع راہ راست پر کون ہے ، صرف اللہ ہی کو ہے ۔ اس میں مشرکین کو تنبیہ ہے کہ وہ اپنے مسلک پر گو کار بند ہوں اور اچھا سمجھ رہے ہوں لیکن اللہ کے پاس جا کر کھلے گا کہ جس راہ پر وہ تھے وہ کیسی خطرناک تھی ۔ جیسے فرمان ہے کہ «وَقُل لِّلَّذِینَ لَا یُؤْمِنُونَ اعْمَلُوا عَلَیٰ مَکَانَتِکُمْ إِنَّا عَامِلُونَ * وَانتَظِرُوا إِنَّا مُنتَظِرُونَ» ۱؎ (11-ہود:121-122) ’ بے ایمانوں سے کہہ دو کہ اچھا ہے اپنی جگہ اپنے کام کرتے جاؤ ‘ الخ ، بدلے کا وقت یہ نہیں ، قیامت کا دن ہے ، نیکی بدی کی تمیز اس دن ہو گی ، سب کو بدلے ملیں گے ، اللہ پر کوئی امر پوشیدہ نہیں ۔ الإسراء
84 الإسراء
85 روح کے بارے میں بخاری وغیرہ میں سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینے کے کھیتوں میں جا رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں لکڑی تھی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھا ۔ یہودیوں کے ایک گروہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر آپس میں کانا پھوسی شروع کی کہ آؤ ان سے روح کی بابت سوال کریں ۔ کوئی کہنے لگا اچھا ، کسی نے کہا مت پوچھو ، کوئی کہنے لگا تمہیں اس سے کیا نتیجہ ، کوئی کہنے لگا شاید کوئی جواب ایسا دیں جو تمہارے خلاف ہو ۔ جانے دو نہ پوچھو ۔ آخر وہ آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی لکڑی پر ٹیک لگا کر ٹھہر گئے ، میں سمجھ گیا کہ وحی اتر رہی ہے خاموش کھڑا رہ گیا ۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی آیت کی تلاوت کی ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:125) اس سے تو بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت مدنی ہے حالانکہ پوری سورت مکی ہے لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مکے کی اتری ہوئی آیت سے ہی اس موقعہ پر مدینے کے یہودیوں کو جواب دینے کی وحی ہوئی ہو یا یہ کہ دوبارہ یہی آیت نازل ہوئی ہو ۔ مسند احمد کی روایت سے بھی اس آیت کا مکے میں اترنا ہی معلوم ہوتا ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ قریشیوں نے یہودیوں سے درخواست کی کوئی مشکل سوال بتاؤ کہ ہم ان سے پوچھیں انہوں نے سوال سجھایا ۔ اس کے جواب میں یہ آیت اتری تو یہ سرکش کہنے لگے ہمیں بڑا علم ہے تورات ہمیں ملی ہے اور جس کے پاس تورات ہو اسے بہت سی بھلائی مل گئی ۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ۔ آیت «قُلْ لَّوْ کَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّکَلِمٰتِ رَبِّیْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ کَلِمٰتُ رَبِّیْ وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِہٖ مَدَدًا » ۱؎ (18-الکہف:109) ’ یعنی اگر تمام سمندروں کی سیاہی بن جائے اور اس سے کلمات الٰہی لکھنے شروع کئے جائیں تو یہ روشنائی سب خشک ہو جائے گی اور اللہ کے کلمات باقی رہ جائیں گے تو پھر تم اس کی مدد میں ایسے ہی اور بھی لاؤ ۔ ‘ ۱؎ (سنن ترمذی:3140،قال الشیخ الألبانی:صحیح) سیدنا عکرمہ رضی اللہ عنہ نے یہودیوں کے سوال پر اس آیت کا اترنا اور ان کے اس مکروہ قول پر دوسری آیت « وَلَوْ اَنَّمَا فِی الْاَرْضِ مِنْ شَجَـرَۃٍ اَقْلَامٌ وَّالْبَحْرُ یَمُدٰہٗ مِنْۢ بَعْدِہٖ سَبْعَۃُ اَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ کَلِمٰتُ اللّٰہِ ۭ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ » ۱؎ (31-لقمان:27) کا اترنا بیان فرمایا ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:155/15) ’ یعنی روئے زمین کے درختوں کی قلمیں اور روئے زمین کے سمندروں کی روشنائی اور ان کے ساتھ ہی ساتھ ایسے ہی اور سمندر بھی ہوں تب بھی اللہ کے کلمات پورے نہیں ہو سکتے ۔ ‘ اس میں شک نہیں ‎‎‎کہ توراۃ کا علم جو جہنم سے بچانے والا ہے بڑی چیز ہے لیکن اللہ کے علم کے مقابلہ میں بہت تھوڑی چیز ہے ۔ امام محمد بن اسحاق رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ مکہ میں یہ آیت اتری کہ تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے ۔ { جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ پہنچے تو مدینے کے علماء یہود آپ کے پاس آئے اور کہنے لگے ہم نے سنا ہے آپ یوں کہتے ہیں کہ تمہیں تو بہت ہی کم علم عطا فرمایا گیا ہے اس سے مراد آپ کی قوم ہے یا ہم ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم بھی اور وہ بھی ۔ انہوں نے کہا سنو خود قرآن میں پڑھتے ہو کہ ہم کو توراۃ ملی ہے اور یہ بھی قرآن میں ہے کہ اس میں ہر چیز کا بیان ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا علم الٰہی کے مقابلے میں یہ بھی بہت کم ہے ۔ ہاں بیشک تمہیں اللہ نے اتنا علم دے رکھا ہے کہ اگر تم اس پر عمل کرو تو تمہیں بہت کچھ نفع ملے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:157/15) اور یہ آیت اتری «وَلَوْ اَنَّمَا فِی الْاَرْضِ مِنْ شَجَـرَۃٍ اَقْلَامٌ وَّالْبَحْرُ یَمُدٰہٗ مِنْۢ بَعْدِہٖ سَبْعَۃُ اَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ کَلِمٰتُ اللّٰہِ ۭ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ » } ۔ ۱؎ (31-لقمان:27) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ { یہودیوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روح کی بابت سوال کیا کہ اسے جسم کے ساتھ عذاب کیوں ہوتا ہے ؟ وہ تو اللہ کی طرف سے ہے چونکہ اس بارے میں کوئی آیت وحی آپ پر نہیں اتری تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کچھ نہ فرمایا ، اسی وقت آپ کے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے اور یہ آیت اتری ۔ یہ سن کر یہودیوں نے کہا آپ کو اس کی خبر کس نے دی ؟ آپ نے فرمایا جبرائیل اللہ کی طرف سے یہ فرمان لائے ۔ وہ کہنے لگے وہ تو ہمارا دشمن ہے اس پر آیت « قُلْ مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِیْلَ فَاِنَّہٗ نَزَّلَہٗ عَلٰی قَلْبِکَ بِاِذْنِ اللّٰہِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ وَھُدًی وَّبُشْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَ » ۱؎ (2-البقرۃ:97) نازل ہوئی ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:156/15) ’ یعنی جبرائیل کے دشمن کا دشمن اللہ ہے اور ایسا شخص کافر ہے ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ یہاں روح سے مراد جبرائیل علیہ السلام ہیں ۔ ‘ ایک قول یہ بھی ہے کہ مراد ایک ایسا عظیم الشان فرشتہ ہے جو تمام مخلوق کے برابر ہے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ { اللہ کا ایک فرشتہ ایسا بھی ہے کہ اگر اس سے ساتوں زمینوں اور ساتوں آسمانوں کو ایک لقمہ بنانے کو کہا جائے تو وہ بنا لے ۔ اس کی تسبیح یہ ہے « سُبْحَانَکَ حَیْثُ کُنْتَ » اے اللہ تو پاک ہے جہاں بھی ہے ۔ } ۱؎ (طبرانی کبیر:11476:ضعیف) یہ حدیث غریب ہے بلکہ منکر ہے ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ { یہ ایک فرشتہ ہے جس کے ستر ہزار منہ ہیں اور ہر منہ میں ستر ہزار زبانیں ہیں اور ہر زبان پر ستر ہزار لغت ہیں وہ ان تمام زبانوں سے ہر بولی میں اللہ کی تسبیح کرتا ہے ۔ اس کی ہر ایک تسبیح سے اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ پیدا کرتا ہے جو اور فرشتوں کے ساتھ اللہ کی عبادت میں قیامت تک اڑتا رہتا ہے ۔ } ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:156/15) یہ اثر بھی عجیب و غریب ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ سہیلی کی روایت میں تو ہے کہ اس کے ایک لاکھ سر ہیں ۔ اور ہر سر میں ایک لاکھ منہ ہیں اور ہر منہ میں ایک لاکھ زبانیں ہیں جن سے مختلف بولیوں میں وہ اللہ کی پاکی بیان کرتا رہتا ہے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد اس سے فرشتوں کی وہ جماعت ہے جو انسانی صورت پر ہے ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ وہ فرشتے ہیں کہ اور فرشتوں کو تو وہ دیکھتے ہیں لیکن اور فرشتے انہیں نہیں دیکھتے ، پس وہ فرشتوں کے لیے ایسے ہی ہیں جیسے ہمارے لیے یہ فرشتے ۔ پھر فرماتا ہے کہ انہیں جواب دے کہ روح امر ربی ہے یعنی اس کی شان سے ہے اس کا علم صرف اسی کو ہے تم میں سے کسی کو نہیں ۔ تمہیں جو علم ہے وہ اللہ ہی کا دیا ہوا ہے پس وہ بہت ہی کم ہے ۔ مخلوق کو صرف وہی معلوم ہے جو اس نے انہیں معلوم کرایا ہے ۔ خضر علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام کے قصے میں آ رہا ہے کہ جب یہ دونوں بزرگ کشتی پر سوار ہو رہے تھے اس وقت ایک چڑیا کشتی کے تختے پر بیٹھ کر اپنی چونچ پانی میں ڈبو کر اڑ گئی تو خضر علیہ السلام نے فرمایا اے موسیٰ [ علیہ السلام ] میرا اور تیرا اور تمام مخلوق کا علم اللہ کے علم کے سامنے ایسا اور اتنا ہی ہے جتنا یہ چڑیا اس سمندر سے لے اڑی «او کما قال» ۔ بقول سہیلی بعض لوگ کہتے ہیں کہ انہیں ان کے سوال کا جواب نہیں دیا کیونکہ ان کا سوال ضد کرنے اور نہ ماننے کے طور پر تھا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ جواب ہو گیا ۔ مراد یہ ہے کہ روح شریعت الٰہی میں سے ہے تمہیں اس میں نہ جانا چاہیئے ، تم جان رہے ہو کہ اس کے پہچاننے کی کوئی طبعی اور علمی راہ نہیں بلکہ وہ شریعت کی جہت سے ہے پس تم شریعت کو قبول کر لو لیکن ہمیں تو یہ طریقہ خطرے سے خالی نظر نہیں آتا «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ پھر سہیلی نے اختلاف علماء بیان کیا ہے کہ روح نفس ہی ہے یا اس کے سوا ۔ اور اس بات کو ثابت کیا ہے کہ روح جسم میں مثل ہوا کے جاری ہے اور نہایت لطیف چیز ہے جیسے کہ درختوں کی رگوں میں پانی چڑھتا ہے اور فرشتہ جو روح ماں کے پیٹ میں بچے میں پھونکتا ہے وہ جسم کے ساتھ ملتے ہی نفس بن جاتی ہے ۔ اور جسم کی مدد سے وہ اچھی بری صفتیں اپنے اندر حاصل کر لیتی ہے یا تو ذکر اللہ کے ساتھ مطمئن ہونے والی ہو جاتی ہے یا برائیوں کا حکم کرنے والی بن جاتی ہے مثلا پانی درخت کی حیات ہے اس کے درخت سے ملنے کے باعث وہ ایک خاص بات اپنے اندر پیدا کر لیتا ہے مثلا انگور پیدا ہوئے پھر ان کا پانی نکالا گیا یا شراب بنائی گئی ، پس وہ اصلی پانی اب جس صورت میں آیا اب اسے اصلی پانی نہیں کہا جا سکتا ۔ اسی طرح اب جسم کے اتصال کے بعد روح کو اعلیٰ روح نہیں کہا جا سکتا اسی طرح اسے نفس بھی نہیں کہا جا سکتا ، یہ کہنا بھی بطور انجام کو پہچاننے کے ہے ۔ حاصل کلام یہ ہوا کہ روح نفس اور مادہ کی اصل ہے اور نفس اس سے اور اس کے بدن کے ساتھ کے اتصال سے مرکب ہے ۔ پس روح نفس ہے لیکن ایک وجہ سے نہ کہ تمام وجوہ سے ۔ بات تو یہ دل کو لگتی ہے لیکن حقیقت کا علم اللہ ہی کو ہے ۔ لوگوں نے اس بارے میں بہت کچھ کہا ہے اور بڑی بڑی مستقل کتابیں اس پر لکھی ہیں ۔ اس مضمون پر بہترین کتاب حافظ ابن مندہ کی کتاب ” الروح“ ہے ۔ الإسراء
86 قرآن اللہ تعالٰی کا احسان عظیم اللہ تعالیٰ اپنے زبردست احسان اور عظیم الشان نعمت کو بیان فرما رہا ہے جو اس نے اپنے حبیب محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر انعام کی ہے یعنی آپ پر وہ کتاب نازل فرمائی جس میں کہیں سے بھی کسی وقت باطل کی آمیزش ناممکن ہے ۔ اگر وہ چاہے تو اس وحی کو سلب بھی کرسکتا ہے ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں آخر زمانے میں ایک سرخ ہوا چلے گی شام کی طرف سے یہ اٹھے گی اس وقت قرآن کے ورقوں میں سے اور حافظوں کے دلوں میں سے قرآن سلب ہو جائے گا ، ایک حرف بھی باقی نہیں رہے گا ، پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی ۔ پھر اپنا فضل و کرم اور احسان بیان کرکے فرماتا ہے کہ اس قرآن کریم کی بزرگی ایک یہ بھی ہے کہ تمام مخلوق اس کے مقابلے سے عاجز ہے ۔ کسی کے بس میں اس جیسا کلام نہیں ، جس طرح اللہ تعالیٰ بے مثل بے نظیر بے شریک ہے اسی طرح اس کا کلام مثال سے نظیر سے اپنے جیسے سے پاک ہے ۔ ابن اسحاق رحمہ اللہ نے وارد کیا ہے کہ یہودی آئے تھے اور انہوں نے کہا تھا کہ ہم بھی اسی جیسا کلام بنا لاتے ہیں پس یہ آیت اتری لیکن ہمیں اس کے ماننے میں تامل ہے ، اس لیے کہ یہ سورت مکی ہے اور اس کا کل بیان قریشیوں سے ہے وہی مخاطب ہیں اور یہود کے ساتھ مکے میں آپ کا اجتماع نہیں ہوا مدینے میں ان سے میل ہوا «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ ہم نے اس پاک کتاب میں ہر قسم کی دلیلیں بیان فرما کر حق کو واضح کر دیا ہے اور ہر بات کو شرح و بسط سے بیان فرما دیا ہے ، باوجود اس کے بھی اکثر لوگ حق کی مخالفت کر رہے ہیں اور حق کو دھکے دے رہے ہیں اور اللہ کی ناشکری میں لگے ہوئے ہیں ۔ الإسراء
87 الإسراء
88 الإسراء
89 الإسراء
90 قریش کے امراء کی آخری کوشش { سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ربیعہ کے دونوں بیٹے عتبہ اور شیبہ اور ابوسفیان بن حرب اور بنی عبدالدار قبیلے کے دو شخص اور ابوالبختری بنی اسد کا اور اسود بن مطلب بن اسد اور زمعہ بن اسود اور ولید بن مغیرہ اور ابوجہل بن ہشام اور عبداللہ بن ابی امیہ اور امیہ بن خلف اور عاص بن وائل اور نبیہ اور منبہ سہمی حجاج کے لڑکے ، یہ سب یا ان میں سے کچھ سورج کے غروب ہو جانے کے بعد کعبۃ اللہ کے پیچھے جمع ہوئے اور کہنے لگے ، بھئی کسی کو بھیج کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بلوالو اور اس سے کہہ سن کر آج فیصلہ کرلو تاکہ کوئی عذر باقی نہ رہے ۔ چنانچہ قاصد گیا اور خبر دی کہ آپ کی قوم کے اشراف لوگ جمع ہوئے ہیں اور آپ کو یاد کیا ہے ۔ } { چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان لوگوں کا ہر وقت خیال رہتا تھا آپ کے جی میں آئی کہ بہت ممکن ہے اللہ نے انہیں صحیح سمجھ دے دی ہو اور یہ راہ راست پر آ جائیں ، اس لیے آپ فوراً ہی تشریف لائے ۔ قریشیوں نے آپ کو دیکھتے ہی کہا ، سنئے آج ہم آپ پر حجت پوری کر دیتے ہیں تاکہ پھر ہم پر کسی قسم کا الزام نہ آئے اسی لیے ہم نے آپ کو بلوایا ہے ۔ واللہ کسی نے اپنی قوم کو اس مصیبت میں نہیں ڈالا ہوگا جو مصیبت تم نے ہم پر کھڑی کر رکھی ہے ، تم ہمارے باپ دادوں کو گالیاں دیتے ہو ہمارے دین کو برا کہتے ہو ہمارے بزرگوں کو بیوقوف بتاتے ہو ہمارے مبعودوں کو برا کہتے ہو ، تم نے ہم میں تفریق ڈال دی لڑائیاں کھڑی کر دیں ، واللہ آپ نے ہمیں کسی برائی کے پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ۔ اب صاف صاف سن لیجئے اور سوچ سمجھ کر جواب دیئجے ، اگر آپ کا ارادہ ان تمام باتوں سے مال جمع کرنے کا ہے تو ہم موجود ہیں ہم خود آپ کو اس قدر مال جمع کر دیتے ہیں کہ آپ کے برابر ہم میں سے کوئی مالدار نہ ہو اور اگر آپ کا ارادہ اس سے یہ ہے کہ آپ ہم پر سرداری کریں تو لو ہم اس کے لیے بھی تیار ہیں ہم آپ کی سرداری کو تسلیم کرتے ہیں اور آپ کی تابعداری منظور کرتے ہیں ۔ اگر آپ بادشاہت کے طالب ہیں تو واللہ ہم آپ کی بادشاہت کا اعلان کر دیتے ہیں اور اگر واقعی آپ کے دماغ میں کوئی فتور ہے ، کوئی جن آپ کو ستا رہا ہے تو ہم موجود ہیں دل کھول کر رقمیں خرچ کر کے تمہارا علاج معالجہ کریں گے یہاں تک کہ آپ کو شفاء ہو جائے یا ہم معذور سمجھ لیے جائیں ۔ } { یہ سب سن کر سردار رسولاں شفیع پیغمبراں صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ سنو بحمد اللہ مجھے کوئی دماغی عارضہ یا خلل یا آسیب نہیں نہ میں اپنی اس رسالت کی وجہ سے مالدار بننا چاہتا ہوں نہ کسی سرداری کی طمع ہے نہ بادشاہ بننا چاہتا ہوں ، بلکہ مجھے اللہ تعالیٰ نے تم سب کی طرف اپنا رسول برحق بناکر بھیجا ہے اور مجھ پر اپنی کتاب نازل فرمائی ہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں خوشخبریاں سنادوں اور ڈرا دھمکا دوں ۔ میں نے اپنے رب کے پیغامات تمہیں پہنچا دئیے ، تمہاری سچی خیر خواہی کی ۔ تم اگر قبول کر لو گے تو دونوں جہان میں نصیب دار بن جاؤ گے اور اگر نامنظور کر دو گے تو میں صبر کروں گا یہاں تک کہ جناب باری تعالیٰ شانہ مجھ میں اور تم میں سچا فیصلہ فرما دے « او کماقال » ۔ } { اب سرداران قوم نے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اگر آپ کو ہماری ان باتوں میں سے ایک بھی منظور نہیں تو اب اور سنو یہ تو خود تمہیں بھی معلوم ہے کہ ہم سے زیادہ تنگ شہر کسی اور کا نہیں ، ہم سے زیادہ کم مال کوئی قوم نہیں ، ہم سے زیادہ پیٹ پیٹ کر بہت کم روزی حاصل کرنے والی بھی کوئی قوم نہیں ۔ تو آپ اپنے رب سے جس نے آپ کو اپنی رسالت دے کر بھیجا ہے دعا کیجئے کہ یہ پہاڑ یہاں سے ہٹا لے تاکہ ہمارا علاقہ کشادہ ہو جائے ، ہمارے شہروں کو وسعت ہو جائے ، اس میں نہریں چشمے اور دریا جاری ہو جائیں جیسے کہ شام اور عراق میں ہیں اور یہ بھی دعا کیجئے کہ ہمارے باپ دادا زندہ ہو جائیں اور ان میں قصی بن کلاب ضرور ہو ، وہ ہم میں ایک بزرگ اور سچا شخص تھا ، ہم اس سے پوچھ لیں گے وہ آپ کی بابت جو کہہ دے گا ہمیں اطمینان ہو جائے گا ۔ اگر آپ نے یہ کر دیا تو ہمیں آپ کی رسالت پر ایمان آ جائے گا اور ہم آپ کی دل سے تصدیق کرنے لگیں گے اور آپ کی بزرگی کے قائل ہو جائیں گے ۔ آپ نے فرمایا میں ان چیزوں کے ساتھ نہیں بھیجا گیا ۔ ان میں سے کوئی کام میرے بس کا نہیں ، میں تو اللہ کی باتیں تمہیں پہنچانے کے لیے آیا ہوں ۔ تم قبول کر لو ، دونوں جہان میں خوش رہو گے ۔ نہ قبول کرو گے تو میں صبر کروں گا ۔ اللہ کے حکم پر منتظر رہوں گا ، یہاں تک کہ پروردگار عالم مجھ میں اور تم میں فیصلہ فرما دے ۔ انہوں نے کہا ، اچھا یہ بھی نہ سہی ، لیجئے ہم خود آپ کے لیے ہی تجویز کرتے ہیں ، آپ اللہ سے دعا کیجئے کہ وہ کوئی فرشتہ آپ کے پاس بھیجے جو آپ کی باتوں کی سچائی اور تصدیق کر دے ، آپ کی طرف سے ہمیں جواب دے اور اس سے کہہ کر آپ اپنے لیے باغات اور خزانے اور سونے چاندی کے محل بنوا لیجئے تاکہ خود آپ کی حالت تو سنور جائے ، بازاروں میں چلنا پھرنا ہماری طرح تلاش معاش میں نکلنا یہ تو چھوٹ جائے ۔ یہ اگر ہو جائے تو ہم مان لیں گے کہ واقعی اللہ تعالیٰ کے ہاں آپ کی عزت ہے اور آپ واقعی اللہ کے رسول ہیں ۔ } { اس کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، نہ میں یہ کروں نہ اپنے رب سے یہ طلب کروں نہ اس کے ساتھ میں بھیجا گیا ، مجھے تو اللہ تعالیٰ نے بشیر و نذیر بنایا ہے بس اور کچھ نہیں ۔ تم مان لو تو دونوں جہان میں اپنا بھلا کرو گے اور نہ مانو نہ سہی ۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ میرا پرودگار میرے اور تمہارے درمیان کیا فیصلہ کرتا ہے ۔ انہوں نے کہا اچھا پھر ہم کہتے ہیں کہ جا‍ؤ اپنے رب سے کہہ کر ہم پر آسمان گرا دو ، تم تو کہتے ہی ہو کہ اگر اللہ چاہے تو ایسا کر دے تو پھر ہم کہتے ہیں بس کر دو ڈھیل نہ کرو ۔ آپ نے فرمایا یہ اللہ کے اختیار کی بات ہے جو وہ چاہے کرے جو نہ چاہے نہ کرے ۔ مشرکین نے کہا سنئے کیا اللہ تعالیٰ کو یہ معلوم نہ تھا کہ ہم تیرے پاس اس وقت بیٹھیں گے اور تجھ سے یہ چیزیں طلب کریں گے اور اس قسم کے سوالات کریں گے تو چاہیئے تھا کہ وہ تجھے پہلے سے مطلع کر دیتا اور یہ بھی بتا دیتا کہ تجھے کیا جواب دینا چاہیئے اور جب ہم تیری نہ مانیں تو وہ ہمارے ساتھ کیا کرے گا ۔ سنئے ہم نے تو سنا ہے کہ آپ کو یہ سب کچھ یمامہ کا ایک شخص رحمان نامی ہے وہ سکھا جاتا ہے ، اللہ کی قسم ہم تو رحمان پر ایمان لانے کے نہیں ، ناممکن ہے کہ ہم اسے مانیں ۔ ہم نے آپ سے سبکدوشی حاصل کرلی جو کچھ کہنا سننا تھا کہہ سن چکے اور آپ نے ہماری واجبی اور انصاف کی بات بھی نہیں مانی ۔ اب کان کھول کر ہوشیار ہو کر سن لیجئے کہ ہم آپ کو اس حالت میں آزاد نہیں رکھ سکتے ، اب یا تو ہم آپ کو ہلاک کر دیں گے یا آپ ہمیں تباہ کر دیں ۔ کوئی کہنے لگا ہم تو فرشتوں کو پوجتے ہیں جو اللہ کی بیٹیاں ہیں ۔ کسی نے کہا جب تک تو اللہ تعالیٰ کو اور اس کے فرشتوں کو کھلم کھلا ہمارے پاس نہ لائے ہم ایمان نہ لائیں گے ۔ } { پھر مجلس برخاست ہوئی ۔ عبداللہ بن ابی ، امیہ بن مغیرہ بن عبداللہ بن مخزوم جو آپ کی پھوپھی عاتکہ بنت عبدالمطلب کا لڑکا تھا آپ کے ساتھ ہولیا اور کہنے لگا کہ یہ تو بڑی نامنصفی کی بات ہے کہ قوم نے جو کہا وہ بھی آپ نے منظور نہ کیا ، پھر جو طلب کیا وہ بھی آپ نے پورا نہ کیا ، پھر جس چیز سے آپ انہیں ڈراتے تھے وہ مانگا وہ بھی آپ نے نہ کیا ، اب تو اللہ کی قسم میں آپ پر ایمان لاؤں گا ہی نہیں جب تک کہ آپ سیڑھی لگا کر آسمان پر چڑھ کر کوئی کتاب نہ لائیں اور چار فرشتے اپنے ساتھ اپنے گواہ بنا کر نہ لائیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان تمام باتوں سے سخت رنجیدہ ہوئے ۔ گئے تو آپ بڑے شوق سے تھے کہ شاید قوم کے سردار میری کچھ مان لیں لیکن جب ان کی سرکشی اور ایمان سے دوری آپ نے دیکھی بڑے ہی مغموم ہو کر واپس اپنے گھر آئے ، صلی اللہ علیہ وسلم ۔ } ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:22719) بات یہ ہے کہ ان کی یہ تمام باتیں بطور کفر و عناد اور بطور نیچا دکھانے اور لاجواب کرنے کے تھیں ورنہ اگر ایمان لانے کے لیے نیک نیتی سے یہ سوالات ہوتے تو بہت ممکن تھا کہ اللہ تعالیٰ انہیں یہ معجزے دکھا دیتا ۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا گیا کہ اگر آپ کی چاہت ہو تو جو یہ مانگتے ہیں میں دکھا دوں ۔ لیکن یہ یاد رہے کہ اگر پھر بھی ایمان نہ لائے تو انہیں وہ عبرتناک سزائیں دوں گا جو کسی کو نہ دی ہوں اور اگر آپ چاہیں تو میں ان پر توبہ کی قبولیت کا اور رحمت کا دروازہ کھلا رکھوں ، آپ نے دوسری بات پسند فرمائی ۔ ۱؎ (مسند احمد:242/1:صحیح) اللہ اپنے نبی رحمت اور نبی توبہ پر درود و سلام بہت بہت نازل فرمائے ۔ اسی بات اور اسی حکمت کا ذکر آیت «وَمَا مَنَعَنَا أَن نٰرْسِلَ بِالْآیَاتِ إِلَّا أَن کَذَّبَ بِہَا الْأَوَّلُونَ » ۱؎ (17-الإسراء:59) میں ہے۔ اور آیت « وَقَالُوْا مَالِ ھٰذَا الرَّسُوْلِ یَاْکُلُ الطَّعَامَ وَیَمْشِیْ فِی الْاَسْوَاقِ ۭ لَوْلَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِ مَلَکٌ فَیَکُوْنَ مَعَہٗ نَذِیْرًا» ۱؎ (25-الفرقان:7-11) الخ ، میں بھی ہے کہ یہ سب چیزیں ہمارے بس میں ہیں اور یہ سب ممکن ہے ۔ لیکن اسی وجہ سے کہ ان کے ظاہر ہو جانے کے بعد ایمان نہ لانے والوں کو پھر ہم چھوڑا نہیں کرتے ، ہم ان نشانات کو روک رکھتے ہیں اور ان کفار کو ڈھیل دے رکھی ہے اور ان کا آخر ٹھکانا جہنم بنا رکھا ہے ۔ پس ان کا سوال تھا کہ ریگستان عرب میں نہریں چل پڑیں دریا ابل پڑیں وغیرہ ، ظاہر ہے کہ ان میں کوئی کام بھی اس قادر و قیوم اللہ پر بھاری نہیں سب کچھ اس کی قدرت تلے اور اس کے فرمان تلے ہے ۔ لیکن وہ بخوبی جانتا ہے کہ یہ ازلی کافر ان معجزوں کو دیکھ کر بھی ایمان نہیں لانے کے ۔ جیسے فرمان ہے «إِنَّ الَّذِینَ حَقَّتْ عَلَیْہِمْ کَلِمَتُ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُونَ * وَلَوْ جَاءَتْہُمْ کُلٰ آیَۃٍ حَتَّیٰ یَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِیمَ » ۱؎ (10-یونس:96) ’ یعنی جن پر تیرے رب کی بات ثابت ہو چکی ہے انہیں باوجود تمام تر معجزات دیکھ لینے کے بھی ایمان نصیب نہ ہو گا یہاں تک کہ وہ المناک عذابوں کا معائنہ نہ کر لیں ۔ ‘ «وَلَوْ أَنَّنَا نَزَّلْنَا إِلَیْہِمُ الْمَلَائِکَۃَ وَکَلَّمَہُمُ الْمَوْتَیٰ وَحَشَرْنَا عَلَیْہِمْ کُلَّ شَیْءٍ قُبُلًا مَّا کَانُوا لِیُؤْمِنُوا إِلَّا أَن یَشَاءَ اللہُ وَلٰکِنَّ أَکْثَرَہُمْ یَجْہَلُونَ» (6-الأنعام:111) میں فرمایا ’ اے نبی ان کی خواہش کے مطابق اگر ہم ان پر فرشتے بھی نازل فرمائیں اور مردے بھی ان سے باتیں کر لیں اور اتنا ہی نہیں بلکہ غیب کی تمام چیز کھلم کھلا ان کے سامنے ظاہر کر دیں تو بھی یہ کافر بغیر مشیت الٰہی ایمان لانے کے نہیں ، ان میں سے اکثر جہالت کے پتلے ہیں ۔ ‘ اپنے لئے دریا طلب کرنے کے بعد انہوں نے کہا ، اچھا آپ ہی کے لیے باغات اور نہریں ہو جائیں ۔ پھر کہا کہ اچھا یہ بھی نہ سہی تو آپ کہتے ہی ہیں کہ قیامت کے دن آسمان پھٹ جائے گا ، ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا تو اب آج ہی ہم پر اس کے ٹکڑے گرا دیئجے ۔ چنانچہ انہوں نے خود بھی اللہ تعالیٰ سے یہی دعا کی کہ « وَإِذْ قَالُوا اللہُمَّ إِن کَانَ ہٰذَا ہُوَ الْحَقَّ مِنْ عِندِکَ فَأَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَۃً مِّنَ السَّمَاءِ أَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِیمٍ » (8-الأنفال:32) ’ یعنی اے اللہ اگر یہ سب کچھ تیری جانب سے ہی برحق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا ۔ ‘ الخ ۔ شعیب علیہ السلام کی قوم نے بھی یہی خواہش کی تھی جس بنا پر ان پر سائبان کے دن کا عذاب اترا ۔ لیکن چونکہ ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ للعالمین اور نبی التوبہ تھے ، آپ نے اللہ سے دعا کی کہ وہ انہیں ہلاکت سے بچا لے ۔ ممکن ہے یہ نہیں تو ان کی اولادیں ہی ایمان قبول کر لیں ، توحید اختیار کر لیں اور شرک چھوڑ دیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ آرزو پوری ہوئی ، عذاب نہ اترا ۔ خود ان میں سے بھی بہت سوں کو ایمان کی دولت نصیب ہوئی ، یہاں تک کہ عبداللہ بن امیہ جس نے آخر میں کے ساتھ جاکر آپ کو باتیں سنائی تھیں اور ایمان نہ لانے کی قسمیں کھائیں تھیں وہ بھی اسلام کے جھنڈے تلے آئے رضی اللہ عنہ ۔ «زُخْرُفٍ »سے مراد سونا ہے بلکہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی قرأت میں لفظ «مِنٰ ذَہَبَ» ہے ۔ کفار کا اور مطالبہ یہ تھا کہ تیرے لیے سونے کا گھر ہو جائے یا ہمارے دیکھتے ہوئے تو سیڑھی لگاکر آسمان پر پہنچ جائے اور وہاں سے کوئی کتاب لائے جو ہر ایک کے نام کی الگ الگ ہو ، راتوں رات ان کے سرہانے وہ پرچے پہنچ جائیں ان پر ان کے نام لکھے ہوئے ہوں ۔ اس کے جواب میں حکم ہوا کہ ان سے کہہ دو کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے آگے کسی کی کچھ نہیں چلتی ، وہ اپنی سلطنت اور مملکت کا تنہا مالک ہے ، جو چاہے کرے جو نہ چاہے نہ کرے ، تمہاری منہ مانگی چیز ظاہر کرے نہ کرے یہ اس کے اختیار کی بات ہے ۔ میں تو صرف پیغام رب پہنچانے والا ہوں ، میں نے اپنا فرض ادا کر دیا ، احکام الٰہی تمہیں پہنچا دئیے ، اب جو تم نے مانگا وہ اللہ کے بس کی بات ہے نہ کہ میرے بس کی ۔ مسند احمد میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں بطحاء مکہ کی بابت مجھ سے فرمایا گیا کہ اگر تم چاہو تو میں اسے سونے کا بنا دوں ، میں نے گزارش کی کہ نہیں اے اللہ میری تو یہ چاہت ہے کہ ایک روز پیٹ بھرا رہوں اور دوسرے روز بھوکا رہوں ، بھوک میں تیری طرف جھکوں ، تضرع اور زاری کروں اور بکثرت تیری یاد کروں ۔ بھرے پیٹ ہو جاؤں تو تیری حمد کروں ، تیرا شکر بجا لاؤں ۔ } ۱؎ (سنن ترمذی:2347،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ترمذی میں بھی یہ حدیث ہے اور امام ترمذی رحمہ اللہ نے اسے ضعیف کہا ہے ۔ الإسراء
91 الإسراء
92 الإسراء
93 الإسراء
94 فکری مغالطے اور کفار اکثر لوگ ایمان سے اور رسولوں کی تابعداری سے اسی بنا پر رک گئے کہ انہیں یہ سمجھ نہ آیا کہ کوئی انسان بھی رسول بن سکتا ہے ۔ «أَکَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا أَنْ أَوْحَیْنَا إِلَیٰ رَجُلٍ مِّنْہُمْ أَنْ أَنذِرِ النَّاسَ وَبَشِّرِ الَّذِینَ آمَنُوا » ۱؎ (10-یونس:2) ’ یعنی وہ اس پر سخت تر متعجب ہوئے اور آخر انکار کر بیٹھے اور صاف کہہ گئے کہ کیا ایک انسان ہماری رہبری کرے گا ؟ ‘ فرعون اور اس کی قوم نے بھی یہی کہا تھا کہ «فَقَالُوا أَنُؤْمِنُ لِبَشَرَیْنِ مِثْلِنَا وَقَوْمُہُمَا لَنَا عَابِدُونَ» ۱؎ (23-المؤمنون:47) ’ یعنی ہم اپنے جیسے دو انسانوں پر ایمان کیسے لائیں خصوصا اس صورت میں کہ ان کی ساری قوم ہماری ماتحتی میں ہے ۔ ‘ یہی اور امتوں نے اپنے زمانے کے نبیوں سے کہا تھا کہ «إِنْ أَنتُمْ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا تُرِیدُونَ أَن تَصُدٰونَا عَمَّا کَانَ یَعْبُدُ آبَاؤُنَا فَأْتُونَا بِسُلْطَانٍ مٰبِینٍ» (14-إبراہیم:10) ’ یعنی تم تو ہم جیسے ہی انسان ہو ، سوا اس کے کچھ نہیں کہ تم ہمیں اپنے بڑوں کے معبودوں سے بہکا رہے ہو ، اچھا لاؤ کوئی زبردست ثبوت پیش کرو ۔ ‘ اور بھی اس مضمون کی بہت سی آیتیں ہیں ۔ اس کے بعد اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے لطف و کرم اور انسانوں میں سے رسولوں کے بھیجنے کی وجہ کو بیان فرماتا ہے اور اس حکمت کو ظاہر فرماتا ہے کہ اگر فرشتے رسالت کا کام انجام دیتے تو نہ ان کے پاس تم بیٹھ اٹھ سکتے نہ ان کی باتیں پوری طرح سے سمجھ سکتے ۔ انسانی رسول چونکہ تمہارے ہی ہم جنس ہوتے ہیں تم ان سے خلا ملا رکھ سکتے ہو ، ان کی عادات و اطوار دیکھ سکتے ہو اور مل جل کر ان سے اپنی زبان میں تعلیم حاصل کر سکتے ہو ، ان کا عمل دیکھ کر خود سیکھ سکتے ہو ۔ جیسے فرمان ہے آیت « لَقَدْ مَنَّ اللہُ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ إِذْ بَعَثَ فِیہِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِہِمْ » ۱؎ (3-آل عمران:164) الخ ۔ اور آیت میں ہے «لَقَدْ جَاءَکُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِکُمْ » ۱؎ (9-التوبۃ:128) الخ ۔ اور آیت میں ہے « کَمَا أَرْسَلْنَا فِیکُمْ رَسُولًا مِّنکُمْ یَتْلُو عَلَیْکُمْ آیَاتِنَا وَیُزَکِّیکُمْ وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُعَلِّمُکُم مَّا لَمْ تَکُونُوا تَعْلَمُونَ فَاذْکُرُونِی أَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوا لِی وَلَا تَکْفُرُونِ » ۱؎ (2-البقرۃ:151-152) ۔ مطلب سب کا یہی ہے کہ یہ تو اللہ کا زبردست احسان ہے کہ اس نے تم میں سے ہی اپنے رسول بھیجے کہ وہ آیات الٰہی تمہیں پڑھ کر سنائیں ، تمہارے اخلاق پاکیزہ کریں اور تمہیں کتاب و حکمت سکھائیں اور جن چیزوں سے تم بےعلم تھے وہ تمہیں عالم بنا دیں ۔ پس تمہیں میری یاد کی کثرت کرنی چاہیئے تاکہ میں بھی تمہیں یاد کروں ۔ تمہیں میری شکر گزاری کرنی چاہیئے اور ناشکری سے بچنا چاہیئے ۔ یہاں فرماتا ہے کہ اگر زمین کی آبادی فرشتوں کی ہوتی تو بیشک ہم کسی آسمانی فرشتے کو ان میں رسول بنا کر بھیجتے چونکہ تم خود انسان ہو ہم نے اسی مصلحت سے انسانوں میں سے ہی اپنے رسول بنا کر تم میں بھیجے ۔ الإسراء
95 الإسراء
96 صداقت رسالت پر اللہ کی گواہی اپنی سچائی پر میں اور گواہ کیوں ڈھونڈوں ؟ اللہ تعالیٰ کی گواہی کافی ہے ۔ میں اگر اس کی پاک ذات پر تہمت باندھتا ہوں تو وہ خود مجھ سے انتقام لے گا ۔ چنانچہ قرآن کی سورۃ الحاقہ میں بیان ہے کہ« وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِیلِ * لَأَخَذْنَا مِنْہُ بِالْیَمِینِ * ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِینَ» (69-الحاقۃ:44-46) ’ یعنی اگر یہ پیغمبر زبردستی کوئی بات ہمارے سر چپکا دیتا تو ہم اس کا داہنا ہاتھ تھام کر اس کی گردن اڑا دیتے اور ہمیں اس سے کوئی نہ روک سکتا ۔ ‘ پھر فرمایا کہ کسی بندے کا حال اللہ سے مخفی نہیں ، وہ انعام و احسان ، ہدایت و لطف کے قابل لوگوں کو اور گمراہی اور بدبختی کے قابل لوگوں کو بخوبی جانتا ہے ۔ الإسراء
97 میدان حشر کا ایک ہولناک منظر اللہ تعالیٰ اس بات کو بیان فرماتا ہے کہ تمام مخلوق میں تصرف صرف اسی کا ہے ، اس کا کوئی حکم ٹل نہیں سکتا ، «مَن یَہْدِ اللہُ فَہُوَ الْمُہْتَدِ ۖ وَمَن یُضْلِلْ فَلَن تَجِدَ لَہُ وَلِیًّا مٰرْشِدًا» ۱؎ (18-الکہف:17) ’ اس کے راہ دکھائے ہوئے کو کوئی بہکا نہیں سکتا ، نہ اس کے بہکائے ہوئے کی کوئی راہنمائی کر سکتا ہے ‘ ۔ اس کا ولی اور مرشد کوئی نہیں بن سکتا ۔ ہم انہیں اوندھے منہ میدان قیامت [ محشر کے مجمع ] میں لائیں گے ۔ مسند احمد میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا ، یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا ، جس نے پیروں پر چلایا ہے ، وہ سر کے بل بھی چلا سکتا ہے ۔ } یہ حدیث بخاری و مسلم میں بھی ہے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4760) مسند میں ہے سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر فرمایا کہ اے بنی غفار قبیلے کے لوگو سچ کہو اور قسمیں نہ کھاؤ ، صادق مصدوق پیغمبر نے مجھے یہ حدیث سنائی ہے کہ { لوگ تین قسم کے بنا کر حشر میں لائے جائیں گے ۔ ایک فوج تو کھانے پینے اوڑھنے والی ، ایک چلنے اور دوڑنے والی ، ایک وہ جنہیں فرشتے اوندھے منہ گھیسٹ کر جہنم کے سامنے جمع کریں گے ۔ لوگوں نے کہا دو قسمیں تو سمجھ میں آ گئیں لیکن یہ چلنے اور دوڑنے والے سمجھ میں نہیں آئے ۔ آپ نے فرمایا سواریوں پر آفت آ جائے گی یہاں تک کہ ایک انسان اپنا ہرا بھرا باغ دے کر پالان والی اونٹنی خریدنا چاہے گا لیکن نہ مل سکے گی ۔ } ۱؎ (مسند احمد:164/5:اسنادہ قوی) یہ اس وقت نابینا ہوں گے ، بے زبان ہوں گے ، کچھ بھی نہ سن سکیں گے ، غرض مختلف حال ہوں گے اور گناہوں کی شامت میں گناہوں کے مطابق گرفتار کئے جائیں گے ۔ دنیا میں حق سے اندھے بہرے اور گونگے بنے رہے ، آج سخت احتیاج والے دن سچ مچ اندھے بہرے گونگے بنا دئیے گئے ۔ ان کا اصلی ٹھکانا ، گھوم پھر کر آنے اور رہنے سہنے بسنے ٹھہرنے کی جگہ جہنم قرار دی گئی ۔ وہاں کی آگ جہاں مدھم پڑنے کو آئی اور بھڑکا دی گئی سخت تیز کر دی گئی ۔ جیسے فرمایا آیت « فَذُوْقُوْا فَلَنْ نَّزِیْدَکُمْ اِلَّا عَذَابًا » ۱؎ (78-النبأ:30) ’ یعنی اب سزا برداشت کرو ۔ سوائے عذاب کے کوئی چیز تمہیں زیادہ نہ دی جائے گی ۔ ‘ الإسراء
98 بوسیدہ ہڈیاں پھر توانا ہوں گی فرمان ہے کہ اوپر جن منکروں کو جس سزا کا ذکر ہوا ہے وہ اسی کے قابل تھے ، وہ ہماری دلیلوں کو جھوٹ سمجھتے تھے اور قیامت کے قائل ہی نہ تھے اور صاف کہتے تھے کہ بوسیدہ ہڈیاں ہو جانے کے بعد ، مٹی کے ریزوں سے مل جانے کے بعد ، ہلاک اور برباد ہو چکنے کے بعد کا دوبارہ جی اٹھنا تو عقل کے باہر ہے ۔ پس ان کے جواب میں قرآن نے اس کی ایک دلیل پیش کی کہ«لَخَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَکْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلٰکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُونَ» ۱؎ (40-غافر:57) ’ اس زبردست قدرت کے مالک نے آسمان و زمین کو بغیر کسی چیز کے اول بار بلا نمونہ پیدا کیا ، جس کی قدرت ان بلند و بالا ، وسیع اور سخت مخلوق کی ابتدائی پیدائش سے عاجز نہیں ۔ کیا وہ تمہیں دوبارہ پیدا کرنے سے عاجز ہو جائے گا ؟ ‘ «أَوَلَمْ یَرَوْا أَنَّ اللہَ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَلَمْ یَعْیَ بِخَلْقِہِنَّ بِقَادِرٍ عَلَیٰ أَن یُحْیِیَ الْمَوْتَیٰ ۚ بَلَیٰ إِنَّہُ عَلَیٰ کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ» ۱؎ (46-الأحقاف:33) ’ آسمان و زمین کی پیدائش تو تمہاری پیدائش سے بہت بڑی ہے ، وہ ان کے پیدا کرنے میں نہیں تھکا ، کیا وہ مردوں کو زندہ کرنے سے بے اختیار ہو جائے گا ؟ ‘ « أَوَلَیْسَ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِقَادِرٍ عَلَیٰ أَن یَخْلُقَ مِثْلَہُم ۚ بَلَیٰ وَہُوَ الْخَلَّاقُ الْعَلِیمُ * إِنَّمَا أَمْرُہُ إِذَا أَرَادَ شَیْئًا أَن یَقُولَ لَہُ کُن فَیَکُونُ * فَسُبْحَانَ الَّذِی بِیَدِہِ مَلَکُوتُ کُلِّ شَیْءٍ وَإِلَیْہِ تُرْجَعُونَ » ۱؎ (36-یس:81-83) ’ کیا آسمان و زمین کا خالق انسانوں جیسے اور پیدا نہیں کر سکتا ؟ بیشک کر سکتا ہے ۔ اس کا حکم ہی چیز کے وجود کیلئے کافی وافی ہے ۔ ‘ وہ انہیں قیامت کے دن دوبارہ کی نئی پیدائش میں ضرور اور قطعا پیدا کرے گا ۔ اس نے ان کے اعادہ کی ، ان کے قبروں سے نکل کھڑے ہونے کی مدت مقرر کر رکھی ہے ۔ اس وقت یہ سب کچھ ہو کر رہے گا ۔ یہاں کی قدرے تاخیر صرف معینہ وقت کو پورا کرنے کیلئے ہے ۔ افسوس کس قدر واضح دلائل کے بعد بھی لوگ کفر و ضلالت کو نہیں چھوڑتے ۔ الإسراء
99 الإسراء
100 انسانی فطرت کا نفسیاتی تجزیہ انسانی طبیعت کا خاصہ بیان ہو رہا ہے کہ رحمت الٰہی جیسی نہ کم ہونے والی چیزوں پر بھی اگر یہ قابض ہو جائے تو وہاں بھی اپنی بخیلی اور تنگ دلی نہ چھوڑے ۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ«أَمْ لَہُمْ نَصِیبٌ مِّنَ الْمُلْکِ فَإِذًا لَّا یُؤْتُونَ النَّاسَ نَقِیرًا » ۱؎ (4-النساء:53) ’ اگر ملک کے کسی حصے کے یہ مالک ہو جائیں تو کسی کو ایک کوڑی پرکھنے کو نہ دیں ۔ ‘ پس یہ انسانی طبیعت ہے ۔ ہاں جو اللہ کی طرف سے ہدایت کئے جائیں اور توفیق خیر دئیے جائیں ، وہ اس بدخصلت سے نفرت کرتے ہیں ، وہ سخی اور دوسروں کا بھلا کرنے والے ہوتے ہیں ۔ « إِنَّ الْإِنسَانَ خُلِقَ ہَلُوعًا * إِذَا مَسَّہُ الشَّرٰ جَزُوعًا * وَإِذَا مَسَّہُ الْخَیْرُ مَنُوعًا * إِلَّا الْمُصَلِّینَ » ۱؎ (70-المعارج:19-22) ’ انسان بڑا ہی جلد باز ہے ، تکلیف کے وقت لڑکھڑا جاتا ہے اور راحت کے وقت پھول جاتا ہے ‘ اور دوسروں کے فائدہ سے اپنے ہاتھ روکنے لگتا ہے ، ہاں نمازی لوگ اس سے بری ہیں الخ ۔ ایسی آیتیں قرآن میں اور بھی بہت سی ہیں ۔ اس سے اللہ کے فضل و کرم ، اس کی بخشش و رحم کا پتہ چلتا ہے ۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ { دن رات کا خرچ اللہ کے ہاتھ میں ہے ، اس میں کوئی کمی نہیں لاتا ۔ ابتداء سے اب تک کے خرچ نے بھی اس کے خزانے میں کوئی کمی نہیں کی ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:4684) الإسراء
101 نو معجزے موسیٰ علیہ السلام کو نو ایسے معجزے ملے جو آپ کی نبوت کی صداقت اور نبوت پر کھلی دلیل تھی ۔ لکڑی ، ہاتھ ، قحط ، دریا ، طوفان ، ٹڈیاں ، جوئیں ، مینڈک اور خون ۔ یہ تھیں تفصیل وار آیتیں ۔ محمد بن کعب کا قول ہے کہ یہ معجزے یہ ہیں : ہاتھ کا چمکیلا بن جانا ، لکڑی کا سانپ ہو جانا اور پانچ وہ جن کا بیان سورۃ الاعراف میں ہے اور مالوں کا مٹ جانا اور پتھر ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ سے مروی ہے کہ یہ معجزے آپ کا ہاتھ ، آپ کی لکڑی ، قحط سالیاں ، پھلوں کی کمی ، طوفان ، ٹڈیاں ، جوئیں ، مینڈک اور خون ہیں ۔ یہ قول زیادہ ظاہر ، بہت صاف ، بہتر اور قوی ہے ۔ حسن بصری رحمہ اللہ نے ان میں سے قحط سالی اور پھلوں کی کمی کو ایک گن کر نواں معجزہ آپ کی لکڑی کا جادو گروں کے سانپوں کو کھا جانا بیان کیا ہے ۔ لیکن ان تمام معجزوں کے باوجود فرعونیوں نے تکبر کیا اور اپنی گنہگاری پر اڑے رہے باوجودیکہ دل یقین لا چکا تھا مگر ظلم و زیادتی کر کے کفر انکار پر جم گئے ۔ اگلی آیتوں سے ان آیتوں کا ربط یہ ہے کہ جیسے آپ کی قوم آپ سے معجزے طلب کرتی ہے ، ایسے ہی فرعونیوں نے بھی موسیٰ علیہ السلام سے معجزے طلب کئے جو ظاہر ہوئے لیکن انہیں ایمان نصیب نہ ہوا آخر ہلاک کر دئے گئے ۔ اسی طرح اگر آپ کی قوم بھی معجزوں کے آجانے کے بعد کافر رہی تو پھر مہلت نہ ملے گی اور معا تباہ و برباد کر دی جائے گی ۔ خود فرعون نے معجزے دیکھنے کے بعد موسیٰ علیہ السلام کو جادوگر کہہ کر اپنا پیچھا چھڑا لیا ۔ پس یہاں جن نو نشانیوں کا بیان ہے یہ وہی ہیں اور ان کا بیان «وَأَلْقِ عَصَاکَ ۚ فَلَمَّا رَآہَا تَہْتَزٰ کَأَنَّہَا جَانٌّ وَلَّیٰ مُدْبِرًا وَلَمْ یُعَقِّبْ ۚ یَا مُوسَیٰ لَا تَخَفْ إِنِّی لَا یَخَافُ لَدَیَّ الْمُرْسَلُونَ * إِلَّا مَن ظَلَمَ ثُمَّ بَدَّلَ حُسْنًا بَعْدَ سُوءٍ فَإِنِّی غَفُورٌ رَّحِیمٌ * وَأَدْخِلْ یَدَکَ فِی جَیْبِکَ تَخْرُجْ بَیْضَاءَ مِنْ غَیْرِ سُوءٍ ۖ فِی تِسْعِ آیَاتٍ إِلَیٰ فِرْعَوْنَ وَقَوْمِہِ ۚ إِنَّہُمْ کَانُوا قَوْمًا فَاسِقِینَ » (27-النمل:10-12) تک میں ہے ۔ ان آیتوں میں لکڑی کا اور ہاتھ کا ذکر موجود ہے اور باقی آیتوں کا بیان سورۃ الاعراف میں ہے ۔ ان کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو بہت سے معجزے دئیے تھے مثلا آپ کی لکڑی کے لگنے سے ایک پتھر میں سے بارہ چشموں کا جاری ہو جانا ، بادل کا سایہ کرنا ، من وسلوی کا اترنا وغیرہ وغیرہ ۔ یہ سب نعمتیں بنی اسرائیل کو مصر کے شہر چھوڑنے کے بعد ملیں ، پس ان معجزوں کو یہاں اس لیے بیان نہیں فرمایا کہ وہ فرعونیوں نے نہیں دیکھے تھے ، یہاں صرف ان نومعجزوں کا ذکر کیا جو فرعونیوں نے دیکھے تھے اور انہیں جھٹلایا تھا ۔ مسند احمد میں ہے کہ { ایک یہودی نے اپنے ساتھی سے کہا ، چل تو ذرا ، اس نبی [ صلی اللہ علیہ وسلم ] سے ان کے قران کی اس آیت کے بارے میں پوچھ لیں کہ موسیٰ علیہ السلام کو وہ نو آیات کیا ملی تھیں ؟ دوسرے نے کہا ، نبی نہ کہہ ، سن لیا تو اس کی چار آنکھیں ہو جائیں گی ۔ اب دونوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، یہ کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو ، چوری نہ کرو ، زنا نہ کرو ، کسی جان کو ناحق قتل نہ کرو ، جادو نہ کرو ، سود نہ کھاؤ ، بےگناہ لوگوں کو پکڑ کر بادشاہ کے دربار میں نہ لے جاؤ کہ اسے قتل کرا دو اور پاک دامن عورتوں پر بہتان نہ باندھو یا فرمایا جہاد سے نہ بھاگو ۔ اور اے یہودیو ! تم پر خاص کر یہ حکم بھی تھا کہ ہفتے کے دن زیادتی نہ کرو ۔ اب تو وہ بےساختہ آپ کے ہاتھ پاؤں چومنے لگے اور کہنے لگے ، ہماری گواہی ہے کہ آپ اللہ کی نبی ہیں ۔ آپ نے فرمایا ، پھر تم میری تابعداری کیوں نہیں کرتے ؟ کہنے لگے داؤد علیہ السلام نے دعا کی تھی کہ میری نسل میں نبی ضرور رہیں اور ہمیں خوف ہے کہ آپ کی تابعداری کے بعد یہود ہمیں زندہ نہ چھوڑیں گے ۔ } ۱؎ (مسند احمد:239/4:ضعیف) ترمذی ، نسائی اور ابن ماجہ میں بھی یہ حدیث ہے ۔ امام ترمذی رحمہ اللہ اسے حسن صحیح بتلاتے ہیں لیکن ہے ذرا مشکل کام اس لیے کہ اس کے راوی عبداللہ بن سلمہ کے حافظ میں قدرے قصور ہے اور ان پر جرح بھی ہے ، ممکن ہے نو کلمات کا شبہ نو آیات سے انہیں ہو گیا ہو ، اس لیے کہ یہ توراۃ کے احکام ہیں فرعون پر حجت قائم کرنے والی یہ چیزیں نہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اسی لیے فرعون سے موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ اے فرعون یہ تو تجھے بھی معلوم ہے کہ یہ سب معجزے سچے ہیں اور ان میں سے ایک ایک میری سچائی کی جیتی جاگتی دلیل ہے ، میرا خیال ہے کہ تو ہلاک ہونا چاہتا ہے ، اللہ کی لعنت تجھ پر اترا ہی چاہتی ہے ، تو مغلوب ہو گا اور تباہی کو پہنچے گا ۔ «مثبور» کے معنی ہلاک ہونے کے اس شعر میں بھی ہیں : « اذا جار الشیطان فی سنن الغی»« ومن مال میلہ مثبور » یعنی شیطان کے دوست ہلاک شدہ ہیں ۔ «عَلِمْتَ» کی دوسری قرأت «عَلِمْتُ» تا کے زبر کے بدلے تا کے پیش سے بھی ہے لیکن جمہور کی قرأت تا کے زبر سے ہی ہے ۔ اور اسی معنی کو وضاحت سے اس آیت میں بیان فرماتا ہے «فَلَمَّا جَاءَتْہُمْ آیَاتُنَا مُبْصِرَۃً قَالُوا ہٰذَا سِحْرٌ مٰبِینٌ * وَجَحَدُوا بِہَا وَاسْتَیْقَنَتْہَا أَنفُسُہُمْ ظُلْمًا وَعُلُوًّا ۚ فَانظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُفْسِدِینَ» ۱؎ (27-النمل:13-14) ’ یعنی جب ان کے پاس ہماری ظاہر اور بصیرت افروز نشانیاں پہنچ چکیں تو وہ بولے کہ یہ تو کھلا ہوا جادو ہے ۔ یہ کہہ کر منکرین انکار کر بیٹھے حالانکہ ان کے دلوں میں یقین آ چکا تھا لیکن صرف ظلم و زیادتی کی راہ سے نہ مانے الخ ۔ ‘ الغرض یہ صاف بات ہے کہ جن نو نشانیوں کا ذکر ہوا ہے یہ عصا ، ہاتھ ، قحط سالی ، پھلوں کی کم پیداواری ، ٹڈیاں ، جوئیں ، مینڈک اور دم [ خون ] تھیں ، جو فرعون اور اس کی قوم کے لیے اللہ کی طرف سے دلیل برہان تھیں اور آپ کے معجزے تھے جو آپ کی سچائی اور اللہ کے وجود پر دلائل تھے ۔ ان نو نشانیوں سے مراد احکام نہیں جو اوپر کی حدیث میں بیان ہوئے کیونکہ وہ فرعون اور فرعونیوں پر حجت نہ تھے بلکہ ان پر حجت ہونے اور ان احکام کے بیان ہونے کے درمیان کوئی مناسبت ہی نہیں ۔ یہ وہم صرف عبداللہ بن سلمہ راوی حدیث کی وجہ سے لوگوں کو پیدا ہوا ، اس کی بعض باتیں واقعی قابل انکار ہیں ، «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ بہت ممکن ہے کہ ان دونوں یہودیوں نے دس کلمات کا سوال کیا ہو اور راوی کو نو آیتوں کا وہم رہ گیا ہو ۔ فرعون نے ارادہ کیا کہ انہیں جلا وطن کر دیا جائے ۔ پس ہم نے خود اسے مچھلیوں کا لقمہ بنایا اور اس کے تمام ساتھیوں کو بھی ۔ اس کے بعد ہم نے بنی اسرائیل سے فرما دیا کہ اب زمین تمہاری ہے رہو سہو ، کھاؤ پیو ۔ اس آیت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی زبردست بشارت ہے کہ مکہ آپ کے ہاتھوں فتح ہو گا ۔ حالانکہ سورت مکی ہے ، ہجرت سے پہلے نازل ہوئی ۔ واقع میں ہوا بھی اسی طرح کہ اہل مکہ نے آپ کو مکہ شریف سے نکال دینا چاہا جیسے قرآن نے آیت «وَإِن کَادُوا لَیَسْتَفِزٰونَکَ مِنَ الْأَرْضِ لِیُخْرِجُوکَ مِنْہَا ۖ وَإِذًا لَّا یَلْبَثُونَ خِلَافَکَ إِلَّا قَلِیلًا * سُنَّۃَ مَن قَدْ أَرْسَلْنَا قَبْلَکَ مِن رٰسُلِنَا ۖ وَلَا تَجِدُ لِسُنَّتِنَا تَحْوِیلًا » ۱؎ (17-الإسراء:76-77) میں بیان فرمایا ہے ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو غالب کیا اور مکے کا مالک بنا دیا اور فاتحانہ حیثیت سے آپ بعد از جنگ مکہ میں آئے اور یہاں اپنا قبضہ کیا اور پھر اپنے حلم و کرم سے کام لے کر مکہ کے مجرموں کو اور اپنے جانی دشمنوں کو عام طور پر معافی عطا فرما دی ، صلی اللہ علیہ وسلم ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے بنی اسرائیل جیسی ضعیف قوم کو مشرق و مغرب کا وارث بنا دیا تھا اور فرعون جیسے سخت اور متکبر بادشاہ کے مال ، زمین ، پھل ، کھیتی اور خزانوں کا مالک کر دیا جیسے آیت « کَذٰلِکَ وَأَوْرَثْنَاہَا بَنِی إِسْرَائِیلَ » ۱؎ (26-الشعراء:59) میں بیان ہوا ہے ۔ یہاں بھی فرماتا ہے کہ فرعون کی ہلاکت کے بعد ہم نے بنی اسرائیل سے فرمایا کہ اب تم یہاں رہو سہو ، قیامت کے وعدے کے دن تم اور تمہارے دشمن سب ہمارے سامنے اکٹھے لائے جاؤ گے ، ہم تم سب کو جمع کر لائیں گے ۔ الإسراء
102 الإسراء
103 الإسراء
104 الإسراء
105 قرآن کریم کی صفات عالیہ ارشاد ہے کہ «لّٰکِنِ اللہُ یَشْہَدُ بِمَا أَنزَلَ إِلَیْکَ ۖ أَنزَلَہُ بِعِلْمِہِ وَالْمَلَائِکَۃُ یَشْہَدُونَ ۚ وَکَفَیٰ بِ اللہِ شَہِیدًا » ۱؎ (4-النساء:166) ’ قرآن حق کے ساتھ نازل ہوا ، یہ سراسر حق ہی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کے ساتھ اسے نازل فرمایا ہے ۔ اس کی حقانیت پر وہ خود شاہد ہے اور فرشتے بھی گواہ ہیں ۔ ‘ اس میں وہی ہے جو اس نے خود اپنی دانست کے ساتھ اتارا ہے ، اس کے تمام حکم احکام اور نہی و ممانعت اسی کی طرف سے ہے ۔ حق والے نے حق کے ساتھ اسے اتارا اور یہ حق کے ساتھ ہی تجھ تک پہنچا ، نہ راستے میں کوئی باطل اس میں ملا نہ باطل کی یہ شان کہ اس سے مخلوط ہو سکے ۔ یہ بالکل محفوظ ہے ، کمی زیادتی سے یکسر پاک ہے ۔ پوری طاقت والے امانتدار فرشتے کی معرفت نازل ہوا ہے جو آسمانوں میں ذی عزت اور وہاں کا سردار ہے ۔ تیرا کام مومنوں کو خوشی سنانا اور کافروں کو ڈرانا ہے ۔ اس قرآن کو ہم نے لوح محفوظ سے بیت العزۃ پر نازل فرمایا جو آسمان اول میں ہے ۔ وہاں سے متفرق تھوڑا تھوڑا کر کے واقعات کے مطابق تیئس برس میں دنیا پر نازل ہوا ۔ «فَرَقْنَاہُ» کی دوسری قرأت «فَرَّقْنَاہُ» ہے یعنی ایک ایک آیت کر کے تفسیر اور تفصیل اور تبیین کے ساتھ اتارا ہے کہ تو اسے لوگوں کو بہ سہولت پہنچا دے اور آہستہ آہستہ انہیں سنا دے ، ہم نے اسے تھوڑا تھوڑا کر کے نازل فرمایا ہے ۔ الإسراء
106 الإسراء
107 سماعت قرآن عظیم کے بعد فرمان ہے کہ تمہارے ایمان پر صداقت قرآن موقوف نہیں ، تم مانو یا نہ مانو ، قرآن فی نفسہ کلام اللہ اور بیشک بر حق ہے ۔ اس کا ذکر تو ہمیشہ سے قدیم کتابوں میں چلا آرہا ہے ۔ جو اہل کتاب صالح اور عامل کتاب اللہ ہیں ، جنہوں نے اگلی کتابوں میں کوئی تحریف و تبدیلی نہیں کی ، وہ تو اس قرآن کو سنتے ہی بے چین ہو کر شکریہ کا سجدہ کرتے ہیں کہ اللہ تیرا شکر ہے کہ تو نے ہماری موجودگی میں اس رسول کو بھیجا اور اس کلام کو نازل فرمایا ۔ اپنے رب کی قدرت کاملہ پر اس کی تعظیم و توقیر کرتے ہیں ۔ جانتے تھے کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے ، غلط نہیں ہوتا ۔ آج وہ وعدہ پورا دیکھ کر خوش ہوتے ہیں ، اپنے رب کی تسبیح بیان کرتے ہیں اور اس کے وعدے کی سچائی کا اقرار کرتے ہیں ۔ خشوع و خضوع ، فروتنی اور عاجزی کے ساتھ روتے گڑ گڑاتے اللہ کے سامنے اپنی ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں گر پڑتے ہیں ۔ ایمان و تصدیق اور کلام الٰہی اور رسول اللہ کی وجہ سے وہ ایمان و اسلام میں ، ہدایت و تقویٰ میں ، ڈر اور خوف میں اور بڑھ جاتے ہیں ۔ یہ عطف صفت کا صفت پر ہے ، سجدے کا سجدے پر نہیں ۔ الإسراء
108 الإسراء
109 الإسراء
110 رحمن یا رحیم ؟ کفار اللہ کی رحمت کی صفت کے منکر تھے ، اس کا نام رحمن نہیں سمجھتے تھے تو جناب باری تعالیٰ اپنے نفس کے لیے اس نام کو ثابت کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ یہی نہیں کہ اللہ کا نام اللہ ہو رحمن ہو یا رحیم اور بس ، ان کے سوا بھی بہت سے بہترین اور احسن نام اس کے ہیں ۔ جس پاک نام سے چاہو اس سے دعائیں کرو ۔ سورۃ الحشر کے آخر میں بھی اپنے بہت سے نام اس نے بیان فرمائے ہیں ۔ «ہُوَ اللہُ الَّذِی لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ ۖ عَالِمُ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ ۖ ہُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیمُ * ہُوَ اللہُ الَّذِی لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ الْمَلِکُ الْقُدٰوسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُہَیْمِنُ الْعَزِیزُ الْجَبَّارُ الْمُتَکَبِّرُ ۚ سُبْحَانَ اللہِ عَمَّا یُشْرِکُونَ * ہُوَ اللہُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ ۖ لَہُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَیٰ ۚ یُسَبِّحُ لَہُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ وَہُوَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ » ۱؎ (59-الحشر:22-24) { ایک مشرک نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سجدے کی حالت میں «یا رحمن یا رحیم» سن کر کہا کہ لیجئے یہ موحد ہیں ، دو معبودوں کو پکارتے ہیں ، اس پر یہ آیت اتری ۔ } ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:22802:مرسل) پھر فرماتا ہے اپنی نماز کو بہت اونچی آواز سے نہ پڑھو ۔ اس آیت کے نزول کے وقت { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکے میں پوشیدہ تھے ، جب صحابہ کو نماز پڑھاتے اور بلند آواز سے اس میں قرأت پڑھتے تو مشرکین قرآن کو ، اللہ کو ، رسول کو گالیاں دیتے ۔ اس لیے حکم ہوا کہ اس قدر بلند آواز سے پڑھنے کی ضرورت نہیں کہ مشرکین سنیں اور گالیاں بکیں ۔ ہاں ایسا آہستہ بھی نہ پڑھنا کہ آپ کے ساتھی بھی نہ سن سکیں بلکہ درمیانی آواز سے قرأت کیا کرو ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:4722) پھر جب آپ ہجرت کر کے مدینے پہنچے تو یہ تکلیف جاتی رہی ، اب جس طرح چاہیں پڑھیں ۔ { مشرکین جہاں قرآن کی تلاوت شروع ہوتی تو بھاگ کھڑے ہوتے ۔ اگر کوئی سننا چاہتا تو ان کے خوف کے مارے چھپ چھپ کر بچ بچا کر کچھ سن لیتا ۔ لیکن جہاں مشرکوں کو معلوم ہوا تو انہوں نے انہیں سخت ایذاء دہی شروع کی ۔ اب اگر بہت بلند آواز کریں تو ان کی چڑ اور ان کی گالیوں کا خیال اور اگر بہت پست کر لیں تو وہ جو چھپے کے کان لگائے بیٹھے ہیں وہ محروم ، اس لیے درمیانہ آواز سے قرآت کرنے کا حکم ہوا ۔ } ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:22830) الغرض نماز کی قرأت کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے ۔ مروی ہے کہ { سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنی نماز میں پست آواز سے قرأت پڑھتے تھے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ باآواز بلند قرأت پڑھا کرتے تھے ۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ آپ آہستہ کیوں پڑھتے ہیں ؟ آپ نے جواب دیا کہ اپنے رب سے سرگوشی ہے وہ میری حاجات کا علم رکھتا ہے تو فرمایا کہ یہ بہت اچھا ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ بلند آواز سے کیوں پڑھتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا شیطان کو بھگاتا ہوں اور سوتوں کو جگاتا ہوں تو آپ سے بھی فرمایا گیا ، بہت اچھا ہے لیکن جب یہ آیت اتری تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے قدرے بلند آواز کرنے کو اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے قدرے پست آواز کرنے کو فرمایا گیا ۔ } ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:22835:مرسل) { سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یہ آیت دعا کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ اسی طرح ثوری اور مالک ہشام بن عروہ سے وہ اپنے باپ سے وہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں ، آپ فرماتی ہیں کہ یہ آیت دعا کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:4323) یہی قول مجاہد ، سعید بن جبیر ، ابو عیاض ، مکحول ، عروہ بن زبیر رحمہ اللہ علیہم کا بھی ہے ۔ مروی ہے کہ بنو تمیم قبیلے کا ایک اعرابی جب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے سلام پھیرتے یہ دعا کرتا کہ اے اللہ مجھے اونٹ عطا فرما مجھے اولاد دے پس یہ آیت اتری ۔ ایک دوسرا قول یہ بھی ہے کہ یہ آیت تشہد کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد اس سے یہ ہے کہ نہ تو ریا کاری کرو نہ عمل چھوڑو ۔ یہ بھی نہ کرو کہ علانیہ تو عمدہ کرکے پڑھو اور خفیہ برا کرکے پڑھو ۔ اہل کتاب پوشیدہ پڑھتے اور اسی درمیان کوئی فقرہ بہت بلند آواز سے چیخ کر زبان سے نکالتے اس پر سب ساتھ مل کر شور مچا دیتے تو ان کی موافقت سے ممانعت ہوئی اور جس طرح اور لوگ چھپاتے تھے اس سے بھی روکا گیا ، پھر اس کے درمیان کا راستہ جبرائیل علیہ السلام نے بتلایا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسنون فرمایا ہے ۔ اللہ کی حمد کرو جس میں تمام تر کمالات اور پاکیزگی کی صفتیں ہیں ۔ جس کے تمام تر بہترین نام ہیں جو تمام تر نقصانات سے پاک ہے ۔ اس کی اولاد نہیں ، اس کا شریک نہیں ، وہ واحد ہے ، احد ہے ، صمد ہے ، نہ اس کے ماں باپ ، نہ اولاد ، نہ اس کی جنس کا کوئی اور ، نہ وہ ایسا حقیر کہ کسی کی حمایت کا محتاج ہو یا وزیر و مشیر کی اسے حاجت ہو ۔ بلکہ تمام چیزوں کا خالق مالک صرف وہی ہے ، سب کا مدبر مقدر وہی ہے ، اسی کی مشیت تمام مخلوق میں چلتی ہے ، وہ وحدہ لا شریک لہ ہے ، نہ اس کی کسی سے بھائی بندی ہے نہ وہ کسی کی مدد کا طالب ہے ۔ تو ہر وقت اس کی عظمت ، جلالت ، کبریائی ، بڑائی اور بزرگی بیان کرتا رہ اور مشرکین جو تہمتیں اس پر باندھتے ہیں ، تو ان سے اس کی ذات کی بزرگی بڑائی اور پاکیزگی بیان کرتا رہ ۔ یہود و نصاریٰ تو کہتے تھے کہ اللہ کی اولاد ہے ۔ مشرکین کہتے تھے «لَبَّیْکَ لَا شَرِیک لَک إِلَّا شَرِیکًا ہُوَ لَک تَمْلِکہُ وَمَا مَلَکَ» یعنی ہم حاضر باش غلام ہیں ، اے اللہ تیرا کوئی شریک نہیں لیکن جو خود تیری ملکیت میں ہیں ، تو ہی ان کا اور ان کی ملکیت کا مالک ہے ۔ صابی اور مجوسی کہتے ہیں کہ اگر اولیاء اللہ نہ ہوں تو اللہ سارے انتظام آپ نہیں کر سکتا ۔ اس پر یہ آیت «وَقُلِ الْحَمْدُ لِلہِ الَّذِی لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ یَکُن لَّہُ شَرِیکٌ فِی الْمُلْکِ وَلَمْ یَکُن لَّہُ وَلِیٌّ مِّنَ الذٰلِّ ۖ وَکَبِّرْہُ تَکْبِیرًا» ۱؎ (17-الإسراء:111) اتری اور ان سب باطل پرستوں کی تردید کر دی گئی ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر کے تمام چھوٹے بڑے لوگوں کو یہ آیت سکھایا کرتے تھے ۔ } ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:22852:مرسل و ضعیف) { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کا نام آیت «العز» یعنی عزت والی آیت رکھا ہے ۔ } ۱؎ (مسند احمد439/3-440:ضعیف) بعض آثار میں ہے کہ جس گھر میں رات کو یہ آیت پڑھی جائے ، اس گھر میں کوئی آفت یا چوری نہیں ہو سکتی «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ { میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلا میرا ہاتھ آپ کے ہاتھ میں تھا یا آپ کا ہاتھ میرے ہاتھ میں تھا ۔ راہ چلتے ایک شخص کو آپ نے دیکھا نہایت ردی حالت میں ہے ، اس سے پوچھا کہ کیا بات ہے ؟ اس نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیماریوں اور نقصانات نے میری یہ درگت کر رکھی ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں کچھ وظیفہ بتا دوں کہ یہ دکھ بیماری سب کچھ جاتی رہے ؟ اس نے کہا ہاں ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور بتلائیے احد اور بدر میں آپ کے ساتھ نہ ہونے کا افسوس میرا جاتا رہے گا ۔ اس پر آپ ہنس پڑے اور فرمایا تو بدری اور احدی صحابہ کے مرتبے کو کہاں سے پا سکتا ہے تو ان کے مقابلے میں محض خالی ہاتھ اور بےسرمایہ ہے ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا ، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں جانے دیجئیے آپ مجھے بتلا دیئجے ۔ آپ نے فرمایا ، [ سیدنا ] ابوہریرہ [ رضی اللہ عنہا ] یوں کہو «تَوَکَّلْت عَلَی الْحَیّ الَّذِی لَا یَمُوت الْحَمْد لِلہِ الَّذِی لَمْ یَتَّخِذ وَلَدًا وَلَمْ یَکُنْ لَہُ شَرِیک فِی الْمُلْک وَلَمْ یَکُنْ لَہُ وَلِیّ مِنْ الذٰلّ وَکَبِّرْہُ تَکْبِیرًا» میں نے یہ وظیفہ پڑھنا شروع کر دیا ، چند دن گزرے تھے کہ میری حالت بہت ہی سنور گئی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا اور پوچھا [ سیدنا ] ابوہریرہ [ رضی اللہ عنہا ] یہ کیا ہے ؟ میں نے کہا ان کلمات کی وجہ سے اللہ کی طرف سے برکت ہے جو آپ نے مجھے سکھائے تھے ۔ } ۱؎ (مسند ابویعلیٰ:6671:ضعیف) اس کی سند ضعیف ہے اور اس کے متن میں بھی نکارت ہے ۔ اسے حافظ ابو یعلیٰ اپنی کتاب میں لائے ہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ الإسراء
111 الإسراء
0 الكهف
1 مستحق تعریف قرآن مجید ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ اللہ ہر امر کے شروع اور اس کے خاتمے پر اپنی تعریف و حمد کرتا ہے ۔ ہر حال میں وہ قابل حمد اور لائق ثنا اور سزاوار تعریف ہے ، اول آخر مستحق حمد فقط اسی کی ذات والا صفات ہے ۔ اس نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کریم نازل فرمایا جو اس کی بہت بڑی نعمت ہے ، جس سے اللہ کے تمام بندے اندھیروں سے نکل کر نور کی طرف آ سکتے ہیں ۔ اس نے اس کتاب کو ٹھیک ٹھاک اور سیدھا اور راست رکھا ہے جس میں کوئی کجی ، کوئی کسر ، کوئی کمی نہیں ، صراط مستقیم کی رہبر ، واضح جلی ، صاف اور واضح ہے ۔ بدکاروں کو ڈرانے والی ، نیک کاروں کو خوشخبریاں سنانے والی ، معتدل ، سیدھی ، مخالفوں منکروں کو خوفناک عذابوں کی خبر دینے والی یہ کتاب ہے ، جو عذاب اللہ کی طرف سے ہیں دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ، ایسے عذاب کہ نہ اس کے سے عذاب کسی کے نہ اس کی سی پکڑ کسی کی ۔ ہاں جو اس پر یقین کرے ، ایمان لائے ، نیک عمل کرے ، اسے یہ کتاب اجر عظیم کی خوشی سناتی ہے ۔ جس ثواب کو پائندگی اور دوام ہے ، وہ جنت انہیں ملے گی جس میں کبھی فنا نہیں جس کی نعمتیں غیر فانی ہیں ۔ اور انہیں بھی یہ عذابوں سے آگاہ کرتا ہے جو اللہ کی اولاد ٹھیراتے ہیں جیسے مشرکین مکہ کہ وہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں بتاتے تھے ۔ الكهف
2 الكهف
3 الكهف
4 مشرکین کے سوالات بے علمی اور جہالت کے ساتھ منہ سے بول پڑتے ہیں ۔ یہ تو یہ ، ان کے بڑے بھی ایسی باتیں بےعلمی سے کہتے رہے ۔ «کَلِمَۃً» کا نصب تمیز کی بنا پر ہے ، تقدیر عبارت اس طرح ہے «کَبُرَتْ کَلِمَۃ ھٰذِہِ کَلِمَۃً» اور کہا گیا ہے کہ یہ تعجب کے طور پر ہے ۔ تقدیر عبارت یہ ہے «اَعْظِمْ بِکَلِمتِہِمُ کَلِمَۃً» جیسے کہا جاتا ہے «اَکْرِمُ بِذَیْدٍ رَجُلًا» بعض بصریوں کا یہی قول ہے ۔ مکہ کے بعض قاریوں نے اسے کلمتہ پڑھا ہے جیسے کہا جاتا ہے «عَظُمَ قَوْلُکَ وَکَبُرَ شَانُکَ» جمہور کی قرأت پر تو معنی بالکل ظاہر ہیں کہ ان کے اس کلمے کی برائی اور اس کا نہایت ہی برا ہونا بیان ہو رہا ہے جو محض بے دل یل ہے ، صرف کذب و افترا ہے ۔ اسی لیے فرمایا کہ محض جھوٹ بکتے ہیں ۔ اس سورت کا شان نزول یہ بیان کیا گیا ہے کہ قریشیوں نے نضر بن حارث اور عقبہ بن ابو محیط کو مدینے کے یہودی علماء کے پاس بھیجا کہ تم جا کر محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بابت کل حالات ان سے بیان کرو ۔ ان کے پاس اگلے انبیاء کا علم ہے ، ان سے پوچھو ان کی آپ کی بابت کیا رائے ہے ؟ یہ دونوں مدینے گئے احبار مدینہ سے ملے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات و اوصاف بیان کئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کا ذکر کیا اور کہا کہ تم ذی علم ہو بتاؤ ان کی نسبت کیا خیال ہے ؟ انہوں نے کہا دیکھو ہم تمہیں ایک فیصلہ کن بات بتاتے ہیں تم جا کر ان سے تین سوالات کرو ، اگر جواب دے دیں تو ان کے سچے ہونے میں کچھ شک نہیں ، بیشک وہ اللہ کے نبی اور رسول ہیں اور اگر جواب نہ دیں سکیں تو آپ کے جھوٹا ہونے میں بھی کوئی شک نہیں پھر جو تم چاہو کرو ۔ ان سے پوچھو اگلے زمانے میں جو نوجوان چلے گئے تھے ان کا واقعہ بیان کرو ۔ وہ ایک عجیب واقعہ ہے ۔ اور اس شخص کے حالات دریافت کرو جس نے تمام زمین کا گشت لگایا تھا ، مشرق مغرب ہو آیا تھا ۔ اور روح کی ماہیت دریافت کرو ۔ اگر بتا دے تو اسے نبی مان کر اس کی اتباع کرو اور اگر نہ بتا سکے تو وہ شخص جھوٹا ہے جو چاہو کرو ۔ یہ دونوں وہاں سے واپس آئے اور قریشیوں سے کہا ، لو بھئی آخری اور انتہائی فیصلے کی بات انہوں نے بتا دی ہے ۔ اب چلو صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات کریں چنانچہ یہ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور تینوں سوالات کئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم کل آؤ میں تمہیں جواب دوں گا لیکن ان شاءاللہ کہنا بھول گئے ، پندرہ دن گزر گئے نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی آئی نہ اللہ کی طرف سے ان باتوں کا جواب معلوم کرایا گیا ۔ اہل مکہ جوش میں آ گئے اور کہنے لگے کہ لیجئے صاحب کل کا وعدہ تھا ، آج پندرھواں دن ہے لیکن وہ بتا نہیں سکے ۔ ادھر آپ کو دوہرا غم ستانے لگا ، قریشیوں کو جواب نہ ملنے پر ان کی باتیں سننے کا اور وحی کے بند ہو جانے کا ۔ پھر جبرائیل علیہ السلام آئے سورۃ الکہف نازل ہوئی ۔ اسی میں ان شاءاللہ نہ کہنے پر آپ کو ڈانٹا گیا ، ان نوجوانوں کا قصہ بیان کیا گیا اور اس سیاح کا ذکر کیا گیا اور «وَیَسْأَلُونَکَ عَنِ الرٰوحِ قُلِ الرٰوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّی وَمَا أُوتِیتُم مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِیلًا» ( 17- الإسراء : 85 ) میں روح کی بابت جواب دیا گیا ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:22861) الكهف
5 الكهف
6 مشرکین کی گمراہی پر افسوس نہ کرو مشرکین جو آپ سے دور بھاگتے تھے ، ایمان نہ لاتے تھے ، اس پر جو رنج و افسوس آپ کو ہوتا تھا ، اس پر اللہ تعالیٰ آپ کی تسلی کر رہا ہے جیسے اور آیت میں ہے کہ «فَلَا تَذْہَبْ نَفْسُکَ عَلَیْہِمْ حَسَرَاتٍ» ( 35-فاطر : 8 ) ان پر اتنا رنج نہ کرو ، اور جگہ ہے «وَلَا تَحْزَنْ عَلَیْہِمْ» ( 16-النحل : 127 ) ان پر اتنے غمگین نہ ہو ، اور جگہ ہے «لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ أَلَّا یَکُونُوا مُؤْمِنِینَ» ( 26-الشعراء : 3 ) ان کے ایمان نہ لانے سے اپنے آپ کو ہلاک نہ کر ۔ یہاں بھی یہی فرمایا ہے کہ یہ اس قرآن پر ایمان نہ لائیں تو تو اپنی جان کو روگ نہ لگا لے ، اس قدر غم و غصہ ، رنج و افسوس نہ کر ، نہ گھبرا نہ دل تنگ کر اپنا کام کئے جا ۔ تبلیغ میں کوتاہی نہ کر ۔ راہ یافتہ اپنا بھلا کریں گے ۔ گمراہ اپنا برا کریں گے ۔ ہر ایک کا عمل اس کے ساتھ ہے ۔ پھر فرماتا ہے دنیا فانی ہے ، اس کی زینت زوال والی ہے ، آخرت باقی ہے ، اس کی نعمت دوامی ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں دنیا میٹھی اور سبز رنگ ہے ، اللہ تعالیٰ اس میں تمہیں خلیفہ بنا کر دیکھنا چاہتا ہے کہ تم کیسے اعمال کرتے ہو ؟ پس دنیا سے اور عورتوں سے بچو ، بنو اسرائیل میں سب سے پہلا فتنہ عورتوں کا ہی تھا ۔ (صحیح مسلم:2742) یہ دنیا ختم ہونے والی اور خراب ہونے والی ہے ، اجڑنے والی اور غارت ہونے والی ہے ، زمین ہموار صاف رہ جائے گی جس پر کسی قسم کی روئیدگی بھی نہ ہو گی ۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ «أَوَلَمْ یَرَوْا أَنَّا نَسُوقُ الْمَاءَ إِلَی الْأَرْضِ الْجُرُزِ فَنُخْرِجُ بِہِ زَرْعًا تَأْکُلُ مِنْہُ أَنْعَامُہُمْ وَأَنفُسُہُمْ أَفَلَا یُبْصِرُونَ» ( 32-السجدۃ : 27 ) کیا لوگ دیکھتے نہیں کہ ہم غیر آباد بنجر زمین کی طرف پانی کو لے چلتے ہیں اور اس میں سے کھیتی پیدا کرتے ہیں جسے وہ خود کھاتے ہیں اور ان کے چوپائے بھی ۔ کیا پھر بھی ان کی آنکھیں نہیں کھلتیں ۔ زمین اور زمین پر جو ہیں سب فنا ہونے والے اور اپنے مالک حقیقی کے سامنے پیش ہونے والے ہیں ۔ پس تو کچھ بھی ان سے سنے ، انہیں کیسے ہی حال میں دیکھے ، مطلق افسوس اور رنج نہ کر ۔ الكهف
7 الكهف
8 الكهف
9 اصحاف کہف اصحاف کہف کا قصہ اجمال کے ساتھ بیان ہو رہا ہے پھر تفصیل کے ساتھ بیان ہو گا ۔ فرماتا ہے کہ وہ واقعہ ہماری قدرت کے بےشمار واقعات میں سے ایک نہایت معمولی واقعہ ہے ۔ اس سے بڑے بڑے نشان روز مرہ تمہارے سامنے ہیں ۔ آسمان و زمین کی پیدائش ، رات دن کا آنا جانا ، سورج چاند کی اطاعت گزاری وغیرہ قدرت کی ان گنت نشانیاں ہیں جو بتلا رہی ہیں کہ اللہ کی قدرت بے انداز ہے ، وہ ہر چیز پر قادر ہے ، اس پر کوئی کام مشکل نہیں ۔ اصحاب کہف سے تو کہیں زیادہ تعجب خیز اور اہم نشان قدرت تمہارے سامنے دن رات موجود ہیں ، کتاب و سنت کا جو علم میں نے تجھے عطا فرمایا ہے ، وہ اصحاب کہف کی شان سے کہیں زیادہ ہے ۔ بہت سی حجتیں میں نے اپنے بندوں پر اصحاب کہف سے زیادہ واضح کر دی ہیں ۔ کہف کہتے ہیں پہاڑی غار کو ، وہیں یہ نوجوان چھپ گئے تھے ۔ رقیم یا توایلہ کے پاس کی وادی کا نام ہے یا ان کی اس جگہ کی عمارت کا نام ہے یا کسی آبادی کا نام ہے یا اس پہاڑ کا نام ہے ، اس پہاڑ کا نام نجلوس بھی آیا ہے ، غار کا نام حیزوم کہا گیا ہے اور ان کے کتے کا نام حمران بتایا گیا ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں سارے قرآن کو میں جانتا ہوں لیکن لفظ «حنان» اور لفظ «اواہ» اور لفظ «رَّقِیمِ» کو ۔ مجھے نہیں معلوم کہ «رَّقِیمِ» کسی کتاب کا نام ہے یا کسی بنا کا ۔ اور روایت میں آپ سے مروی ہے کہ وہ کتاب ہے ۔ حضرت سعید بن جبیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ پتھر کی ایک لوح تھی جس پر اصحاب کہف کا قصہ لکھ کر غار کے دروازے پر اسے لگا دیا گیا تھا ۔ حضرت عبدالرحمٰن کہتے ہیں قرآن میں ہے «کِتَابٌ مَّرْقُومٌ» ( 83-المطففین : 9 ) پس آیت کے ظاہری الفاظ تو اس کی تائید کرتے ہیں اور یہی امام ابن جریر کا مختار قول ہے کہ «رَّقِیمِ» فعیل کے وزن پر مرقوم کے معنی میں ہے جیسے مقتول قتیل اور مجروح جریح ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ یہ نوجوان اپنے دین کے بچاؤ کیلئے اپنی قوم سے بھاگ کھڑے ہوئے تھے کہ کہیں وہ انہیں دین سے بہکا نہ دیں ، ایک پہاڑ کے غار میں گھس گئے اور اللہ سے دعا کی کہ اے اللہ ہمیں اپنی جانب سے رحمت عطا فرما ، ہمیں اپنی قوم سے چھپائے رکھ ، ہمارے اس کام میں اچھائی کا انجام کر ۔ حدیث کی ایک دعا میں ہے کہ اے اللہ جو فیصلہ تو ہمارے حق میں کرے ، اسے انجام کے لحاظ سے بھلا کر ۔ مسند میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعا میں عرض کرتے کہ اے اللہ ہمارے تمام کاموں کا انجام اچھا کر اور ہمیں دنیا کی رسوائی اور آخرت کے عذابوں سے بچا لے ۔ (مسند احمد:181/4:ضعیف) یہ غار میں جا کر جو پڑ کر سوئے تو برسوں گزر گئے ، پھر ہم نے انہیں بیدار کیا ، ایک صاحب درہم لے کر بازار سے سودا خریدنے چلے ، جیسے کہ آگے آ رہا ہے ۔ یہ اس لیے کہ انہیں وہاں کتنی مدت گزری ، اسے دونوں گروہوں میں سے کون زیادہ یاد رکھنے والا ہے ؟ اسے ہم بھی معلوم کریں ۔ «أَمَدً» کے معنی عدد یعنی گنتی کے ہیں اور کہا گیا ہے کہ غایت کے معنی میں بھی یہ لفظ آیا ہے جیسے کہ عرب کے شاعروں نے اپنے شعروں میں اسے غایت کے معنی میں باندھا ہے ۔ الكهف
10 الكهف
11 الكهف
12 الكهف
13 اصحاب کہف کا قصہ یہاں سے تفصیل کے ساتھ اصحاب کہف کا قصہ شروع ہوتا ہے کہ یہ چند نوجوان تھے جو دین حق کی طرف مائل ہوئے اور ہدایت پر آ گئے ۔ قریش میں بھی یہی ہوا تھا کہ جوانوں نے تو حق کی آواز پر لبیک کہی تھی لیکن بجز چند کے اور بوڑھے لوگ اسلام کی طرف جرات سے مائل نہ ہوئے ۔ کہتے ہیں کہ ان میں سے بعض کے کانوں میں بالے تھے ۔ یہ متقی مومن اور راہ یافتہ نوجوانوں کی جماعت تھی ، اپنے رب کی وحدانیت کو مانتے تھے ، اس کی توحید کے قائل ہو گئے تھے اور روز بروز ایمان و ہدایت میں بڑھ رہے تھے ۔ یہ اور اس جیسی اور آیتوں اور احادیث سے استدلال کر کے امام بخاری رحمہ اللہ وغیرہ محدثین کرام کا مذہب ہے کہ ایمان میں زیادتی ہوتی ہے ۔ اس میں مرتبے ہیں ، یہ کم و بیش ہوتا رہتا ہے ۔ یہاں ہے ہم نے انہیں ہدایت میں اور بڑھا دیا اور جگہ ہے آیت «وَالَّذِیْنَ اہْتَدَوْا زَادَہُمْ ہُدًی وَّاٰتٰیہُمْ تَقْوٰیہُمْ» ( 47- محمد : 17 ) ہدایت والوں کی ہدایت بڑھ جاتی ہے الخ اور آیت میں ہے «فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَزَادَتْھُمْ اِیْمَانًا وَّھُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ» ( 9- التوبہ : 124 ) الخ ایمان والوں کے ایمان کو بڑھاتی ہے الخ ۔ اور جگہ ارشاد ہے آیت «لِیَزْدَادُوْٓا اِیْمَانًا مَّعَ اِیْمَانِہِمْ» ( 48- الفتح : 4 ) تاکہ وہ اپنے ایمان کے ساتھ ہی ایمان میں اور بڑھ جائیں ۔ اسی مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں ۔ مذکور ہے کہ یہ لوگ مسیح عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے دین پر تھے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ لیکن بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسیح علیہ السلام کے زمانے سے پہلے کا واقعہ ہے ۔ اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اگر یہ لوگ نصرانی ہوتے تو یہود اس قدر توجہ سے نہ ان کے حالات معلوم کرتے نہ معلوم کرنے کی ہدایت کرتے ۔ حالانکہ یہ بیان گزر چکا ہے قریشیوں نے اپنا وفد مدینے کے یہود کے علماء کے پاس بھیجا تھا کہ تم ہمیں کچھ ایسی باتیں بتلاؤ کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آزمائش کر لیں تو انہوں نے کہا کہ تم اصحاب کہف کا اور ذوالقرنین کا واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرو اور روح کے متعلق سوال کرو ، پس معلوم ہوتا ہے کہ یہود کی کتاب میں ان کا ذکر تھا اور انہیں اس واقعہ کا علم تھا ، جب یہ ثابت ہوا تو یہ ظاہر ہے کہ یہود کی کتاب نصرانیت سے پہلے کی ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ پھر فرماتا ہے کہ ہم نے انہیں قوم کی مخالفت پر صبر عطا فرمایا اور انہوں نے قوم کی کچھ پرواہ نہ کی بلکہ وطن اور راحت و آرام کو بھی چھوڑ دیا ۔ بعض سلف کا بیان ہے کہ یہ لوگ رومی بادشاہ کی اولاد اور روم کے سردار تھے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ یہ نوجوان ایک مرتبہ قوم کے ساتھ عید منانے گئے تھے ۔ اس زمانے کے بادشاہ کا نام دقیانوس تھا ، بڑا سخت اور سرکش شخص تھا ، سب کو شرک کی تعلیم کرتا اور سب سے بت پرستی کراتا تھا ۔ یہ نوجوان جو اپنے باپ دادوں کے ساتھ اس میلے میں گئے تھے ، انہوں نے جب وہاں یہ تماشا دیکھا تو ان کے دل میں خیال آیا کہ بت پرستی محض لغو اور باطل چیز ہے ، عبادتیں اور ذبیحے صرف اللہ کے نام پر ہونے چاہئیں جو آسمان و زمین کا خالق مالک ہے ۔ پس یہ لوگ ایک ایک کر کے یہاں سے سرکنے لگے ، ایک درخت تلے جا کر ان میں سے ایک صاحب بیٹھ گئے دوسرے بھی یہیں آ گئے اور بیٹھ گئے تیسرے بھی آئے چوتھے بھی آئے غرض ایک ایک کر کے سب یہیں جمع ہو گئے حالانکہ ایک دوسرے میں تعارف نہ تھا لیکن ایمان کی روشنی نے ایک دوسرے کو ملا دیا ۔ حدیث شریف میں ہے کہ روحیں بھی ایک جمع شدہ لشکر ہیں جو روز ازل میں تعارف والی ہیں وہ یہاں مل جل کر رہتی ہیں اور جو وہیں انجان رہیں ان کا یہاں بھی ان میں اختلاف رہتا ہے ۔ (صحیح مسلم:2638) عرب کہا کرتے ہیں کہ جنسیت ہی میل جول کی علت ہے ۔ اب سب خاموش تھے ایک کو ایک سے ڈر تھا کہ اگر میں اپنے ما فی الضمیر کو بتا دوں گا تو یہ دشمن ہو جائیں گے ، کسی کو دوسرے کی نسبت اطلاع نہ تھی کہ وہ بھی اس کی طرح قوم کی اس احمقانہ اور مشرکانہ رسم سے بیزار ہے ۔ آخر ایک دانا اور جری نوجوان نے کہا کہ دوستو ! کوئی نہ کوئی بات تو ضرور ہے کہ لوگوں کے اس عام شغل کو چھوڑ کر تم ان سے یکسو ہو کر یہاں آ بیٹھے ہو میرا تو جی چاہتا ہے کہ ہر شخص اس بات کو ظاہر کر دے جس کی وجہ سے اس نے قوم کو چھوڑا ہے ۔ اس پر ایک نے کہا ، بھائی بات یہ ہے کہ مجھے تو اپنی قوم کی یہ رسم ایک آنکھ نہیں بھاتی جب کہ آسمان و زمین کا اور ہمارا تمہارا خالق صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے تو پھر ہم اس کے سوا دوسرے کی عبادت کیوں کریں ؟ یہ سن کر دوسرے نے کہا اللہ کی قسم یہی نفرت مجھے یہاں لائی ہے تیسرے نے بھی یہی کہا ۔ جب ہر ایک نے یہی وجہ بیان کی تو سب کے دل میں محبت کی ایک لہر دوڑ گئی اور یہ سب روشن خیال موحد آپس میں سچے دوست اور ماں جائے بھائیوں سے بھی زیادہ ایک دوسرے کے خیرخواہ بن گئے ۔ آپس میں اتحاد و اتفاق ہو گیا ۔ اب انہوں نے ایک جگہ مقرر کر لی وہیں اللہ واحد کی عبادت کرنے لگے ۔ رفتہ رفتہ قوم کو بھی پتہ چل گیا وہ ان سب کو پکڑ کر اس ظالم مشرک بادشاہ کے پاس لے گئے اور شکایت پیش کی ۔ بادشاہ نے ان سے پوچھا ، انہوں نے نہایت دلیری سے اپنی توحید اور اپنا مسلک بیان کیا بلکہ بادشاہ اور اہل دربار اور کل دنیا کو اس کی دعوت دی ، دل مضبوط کر لیا اور صاف کہہ دیا کہ ہمارا رب وہی ہے جو آسمان و زمین کا مالک و خالق ہے ۔ ناممکن ہے کہ ہم اس کے سوا کسی اور کو معبود بنائیں ، ہم سے یہ کبھی نہ ہو سکے گا کہ اس کے سوا کسی اور کو پکاریں ۔ اس لیے کہ شرک نہایت باطل چیز ہے ہم اس کام کو کبھی نہیں کرنے کے ۔ یہ نہایت ہی بیجا بات اور لغو حرکت اور جھوٹی راہ ہے ۔ یہ ہماری قوم مشرک ہے اللہ کے سوا دوسروں کی پکار اور ان کی عبادت میں مشغول ہے جس کی کوئی دلیل یہ پیش نہیں کر سکتے ، پس یہ ظالم اور کاذب ہیں ۔ کہتے ہیں کہ ان کی اس صاف گوئی اور حق گوئی سے بادشاہ بہت بگڑا انہیں دھمکایا ڈرایا اور حکم دیا کہ ان کے لباس اتار لو اور اگر یہ باز نہ آئیں گے تو میں انہیں سخت سزا دوں گا ۔ اب ان لوگوں کے دل اور مضبوط ہو گئے لیکن یہ انہیں معلوم ہو گیا کہ یہاں رہ کر ہم دینداری پر قائم نہیں رہ سکتے ، اس لیے انہوں نے قوم ، وطن ، دیس اور رشتے کنبے کو چھوڑنے کا ارادہ پختہ کر لیا ۔ یہی حکم بھی ہے کہ جب انسان دین کا خطرہ محسوس کرے اس وقت ہجرت کر جائے ۔ حدیث میں ہے کہ انسان کا بہترین مال ممکن ہے کہ بکریاں ہوں جنہیں لے کر دامن کوہ میں اور مرغزاوں میں رہے سہے اور اپنے دین کے بچاؤ کی خاطر بھاگتا پھرے ۔ (صحیح بخاری:19) پس ایسے حال میں لوگوں سے الگ تھلگ ہو جانا امر مشروع ہے ۔ ہاں اگر ایسی حالت نہ ہو ، دین کی بربادی کا خوف نہ ہو تو پھر جنگلوں میں نکل جانا مشروع نہیں کیونکہ جمعہ جماعت کی فضیلت ہاتھ سے جاتی رہتی ہے ۔ جب یہ لوگ دین کے بچاؤ کے لیے اتنی اہم قربانی پر آمادہ ہو گئے تو ان پر رب رحمت نازل ہوئی ۔ فرما دیا گیا کہ ٹھیک ہے جب تم ان کے دین سے الگ ہو گئے تو بہتر ہے کہ جسموں سے بھی ان سے جدا ہو جاؤ ۔ جاؤ تم کسی غار میں پناہ حاصل کرو تم پر تمہارے رب کی رحمت کی چھاؤں ہو گی ، وہ تمہیں تمہارے دشمن کی نگاہوں سے چھپا لے گا اور تمہارے کام میں آسانی اور راحت مہیا فرمائے گا ۔ پس یہ لوگ موقعہ پا کر یہاں سے بھاگ نکلے اور پہاڑ کے غار میں چھپ رہے ۔ بادشاہ اور قوم نے ہر چندان کی تلاش کی لیکن کوئی پتہ نہ چلا ، اللہ نے ان کے غار کو اندھیرے میں چھپا دیا ۔ دیکھئیے یہی بلکہ اس سے بہت زیادہ تعجب خیز واقعہ ہمارے نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پیش آیا ۔ آپ مع اپنے رفیق خاص یار غار ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہما کے غار ثور میں جا چھپے ، مشرکین نے بہت کچھ دوڑ دھوپ کی ، تگ و دو میں کوئی کمی نہ کی ، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں پوری تلاش اور سخت کوشش کے باوجود نہ ملے ، اللہ نے ان کی بینائی چھین لی ۔ آس پاس سے گزرتے تھے ، آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتے تھے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہیں اور انہیں دکھائی نہیں دیتے ۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہما پریشان حال ہو کر عرض کرتے ہیں کہ یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم اگر کسی نے اپنے پیر کی طرف بھی نظر ڈال لی تو ہم دیکھ لیے جائیں گے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اطمینان سے جواب دیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ ان دو کے ساتھ تیرا کیا خیال ہے جن کا تیسرا خود اللہ تعالیٰ ہے ۔ (صحیح بخاری:3922) قرآن فرماتا ہے کہ «إِلَّا تَنصُرُوہُ فَقَدْ نَصَرَہُ اللہُ إِذْ أَخْرَجَہُ الَّذِینَ کَفَرُوا ثَانِیَ اثْنَیْنِ إِذْ ہُمَا فِی الْغَارِ إِذْ یَقُولُ لِصَاحِبِہِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللہَ مَعَنَا فَأَنزَلَ اللہُ سَکِینَتَہُ عَلَیْہِ وَأَیَّدَہُ بِجُنُودٍ لَّمْ تَرَوْہَا وَجَعَلَ کَلِمَۃَ الَّذِینَ کَفَرُوا السٰفْلَیٰ وَکَلِمَۃُ اللہِ ہِیَ الْعُلْیَا وَ اللہُ عَزِیزٌ حَکِیمٌ» ( 9-التوبہ : 40 ) اگر تم میرے نبی کی امداد نہ کرو تو کیا ہوا ؟ جب کافروں نے اسے نکال دیا ، میں نے خود اس امداد کی جب کہ وہ دو میں دوسرا تھا ، جب وہ دونوں غار میں تھے ، جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا کہ غمگین نہ ہو اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف سے سکون اس پر نازل فرمایا اور ایسے لشکر سے اس کی مدد کی جسے تم نہ دیکھ سکتے تھے آخر اس نے کافروں کی بات پست کر دی اور اپنا کلمہ بلند فرمایا ۔ اللہ عزت و حکمت والا ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ واقعہ اصحاب کہف کے واقعہ سے بھی عجیب تر اور انوکھا ہے ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ ان نوجوانوں کو قوم اور بادشاہ نے پا لیا ، جب غار میں انہیں دیکھ لیا تو کہا بس ہم تو خود ہی یہی چاہتے تھے ، چنانچہ انہوں نے اس کا منہ ایک دیوار سے بند کر دیا کہ یہیں مر جائیں لیکن یہ قول تامل طلب ہے ۔ قرآن کا فرمان ہے کہ صبح شام ان پر دھوپ آتی جاتی ہے وغیرہ ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ الكهف
14 الكهف
15 الكهف
16 الكهف
17 غار اور سورج کی شعائیں یہ دلیل ہے اس امر کی کہ اس غار کا منہ شمال رخ ہے ۔ سورج کے طلوع کے وقت ان کے دائیں جانب دھوپ کی چھاؤں جھک جاتی ہے پس دوپہر کے وقت وہاں بالکل دھوپ نہیں رہتی ۔ سورج کی بلندی کے ساتھ ہی ایسی جگہ سے شعاعیں دھوپ کی کم ہوتی جاتی ہیں اور سورج کے ڈوبنے کے وقت دھوپ ان کے غار کی طرف اس کے دروازے کے شمال رخ سے جاتی ہے مشرق کی جانب سے ۔ علم ہیئت کے جاننے والے اسے خوب سمجھ سکتے ہیں ، جنہیں سورج چاند اور ستاروں کی چال کا علم ہے ۔ اگر غار کا دروازہ مشرق رخ ہوتا تو سورج کے غروب کے وقت وہاں دھوپ بالکل نہ جاتی اور اگر قبلہ رخ ہوتا تو سورج کے طلوع کے وقت دھوپ نہ پہنچتی اور نہ غروب کے وقت پہنچتی اور نہ سایہ دائیں بائیں جھکتا اور اگر دروازہ مغرب رخ ہوتا تو بھی سورج نکلنے کے وقت اندر دھوپ نہ جا سکتی بلکہ زوال کے بعد اندر پہنچتی اور پھر برابر مغرب تک رہتی ۔ پس ٹھیک بات وہی ہے جو ہم بیان نے کی «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» ۔ «تَّقْرِضُہُمْ» کے معنی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ترک کرنے اور چھوڑ دینے کے کئے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ تو بتا دیا تاکہ ہم اسے سوچیں سمجھیں اور یہ نہیں بتایا کہ وہ غار کس شہر کے کس پہاڑ میں ہے اس لیے کہ ہمیں اس سے کوئی فائدہ نہیں ، نہ اس سے کسی شرعی مقصد کا حصول ہوتا ہے ۔ پھر بھی بعض مفسرین نے اس میں تکلیف اٹھائی ہے ، کوئی کہتا ہے وہ ایلہ کے قریب ہے ، کوئی کہتا ہے نینویٰ کے پاس ہے ، کوئی کہتا ہے روم میں ہے ، کوئی کہتا ہے بلقا میں ہے ۔ اصل علم اللہ ہی کو ہے کہ وہ کہاں ہے ۔ اگر اس میں کوئی دینی مصلحت یا ہمارا کوئی مذہبی فائدہ ہوتا تو یقیناً اللہ تعالیٰ ہمیں بتا دیتا اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی بیان کرا دیتا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ تمہیں جو جو کام اور چیزیں جنت سے قریب اور جہنم سے دور کرنے والی تھیں ان میں سے ایک بھی ترک کئے بغیر میں نے بتا دی ہیں ۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس کی صفت بیان فرما دی اور اس کی جگہ نہیں بتائی ۔ فرما دیا کہ سورج کے طلوع کے وقت ان کے غار سے وہ دائیں جانب جھک جاتا ہے اور غروب کے وقت انہیں بائیں طرف چھوڑ دیتا ہے ۔ وہ اس سے فراخی میں ہیں ، انہیں دھوپ کی تپش نہیں پہنچتی ورنہ ان کے بدن اور کپڑے جل جاتے ۔ یہ اللہ کی ایک نشانی ہے کہ رب نے انہیں اس غار میں پہنچایا جہاں انہیں زندہ رکھا ، دھوپ بھی پہنچے ، ہوا بھی جائے ، چاندنی بھی رہے تاکہ نہ نیند میں خلل آئے نہ نقصان پہنچے ۔ فی الواقع اللہ کر طرف سے یہ بھی کامل نشان قدرت ہے ۔ ان نوجوانوں موحدوں کی ہدایت خود اللہ نے کی تھی ، یہ راہ راست پا چکے تھے ، کسی کے بس میں نہ تھا کہ انہیں گمراہ کر سکے اور اس کے برعکس جسے وہ راہ نہ دکھائے اس کا ہادی کوئی نہیں ۔ الكهف
18 ایک آنکھ بند ایک کھلی یہ سو رہے ہیں لیکن دیکھنے والا انہیں بیدار سمجھتا ہے کیونکہ ان کی آنکھیں کھلی ہوئی ہیں ۔ مذکور ہے کہ بھیڑیا جب سوتا ہے تو ایک آنکھ بند رکھتا ہے ، ایک کھلی ہوتی ہے ۔ پھر اسے بند کر کے اسے کھول دیتا ہے ، چنانچہ کسی شاعر نے کہا ہے ۔ «ینام باحدی مقلتیہ ویتقی» «باخری الرزایا فہو یقطان نائم» جانوروں اور کیڑوں مکوڑوں اور دشمنوں سے بچانے کے لیے تو اللہ نے نیند میں بھی ان کی آنکھیں کھلی رکھی ہیں اور زمین نہ کھا جائے ، کروٹیں گل نہ جائیں اس لیے اللہ تعالیٰ انہیں کروٹیں بدلوا دیتا ہے ، کہتے ہیں سال بھر میں دو مرتبہ کروٹ بدلتے ہیں ۔ ان کا کتا بھی انگنائی میں دروازے کے پاس مٹی میں چوکھٹ کے قریب بطور پہریدار کے بازو زمین پر ٹکائے ہوئے بیٹھا ہوا ہے ، دروازے کے باہر اس لیے ہے کہ جس گھر میں کتا ، تصویر ، جنبی اور کافر شخص ہو اس گھر میں فرشتے نہیں جاتے ۔ جیسے کہ ایک حسن حدیث میں وارد ہوا ہے ۔ (سنن ابوداود:227،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) اس کتے کو بھی اسی حالت میں نیند آ گئی ہے ۔ سچ ہے بھلے لوگوں کی صحبت بھی بھلائی پیدا کرتی ہے دیکھئیے نا اس کتے کی کتنی شان ہو گئی کہ کلام اللہ میں اس کا ذکر آیا ۔ کہتے ہیں کہ ان میں سے کسی کا یہ شکاری کتا پلا ہوا تھا ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ بادشاہ کے باورچی کا یہ کتا تھا ۔ چونکہ وہ بھی ان کے ہم مسلک تھے ، ان کے ساتھ ہجرت میں تھے ، ان کا کتا ان کے پیچھے لگ گیا تھا ۔ واللہ اعلم ۔ کہتے ہیں کہ ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھوں ذبیح اللہ علیہ السلام کے بدلے جو مینڈھا ذبح ہوا اس کا نام جریر تھا ۔ سلیمان علیہ السلام کو جس ہدہد نے ملکہ سبا کی خبر دی تھی اس کا نام عنز تھا اور اصحاب کہف کے اس کتے کا نام قطمیر تھا اور بنی اسرائیل نے جس بچھڑے کی پوجا شروع کی تھی اس کا نام بہموت تھا ۔ آدم علیہ السلام بہشت بریں سے ہند میں اترے تھے ، حواء جدہ میں ، ابلیس دشت بیسان میں اور سانپ اصفہان میں ۔ ایک قول ہے کہ اس کتے کا نام حمران تھا ۔ نیز اس کتے کے رنگ میں بھی بہت سے اقوال ہیں ، لیکن ہمیں حیرت ہے کہ اس سے کیا نتیجہ ؟ کیا فائدہ ؟ کیا ضرورت ؟ بلکہ عجب نہیں کہ ایسی بحثیں ممنوع ہوں ۔ اس لیے کہ یہ تو آنکھیں بند کر کے پتھر پھینکنا ہے ، بے دلیل زبان کھولنا ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ ہم نے انہیں وہ رعب دیا ہے کہ کوئی انہیں دیکھ ہی نہیں سکتا ۔ یہ اس لیے کہ لوگ ان کا تماشہ نہ بنا لیں ، کوئی جرات کر کے ان کے پاس نہ چلا جائے ، کوئی انہیں ہاتھ نہ لگا سکے ۔ وہ آرام اور چین سے جب تک حکمت الٰہی مقتضی ہے ، باآرام سوتے رہیں ۔ جو انہیں دیکھتا ہے ، مارے رعب کے کلیجہ تھر تھرا جاتا ہے ۔ اسی وقت الٹے پیروں واپس لوٹتا ہے ، انہیں نظر بھر کر دیکھنا بھی ہر ایک کے لیے محال ہے ۔ الكهف
19 موت کے بعد زندگی ارشاد ہوتا ہے کہ جیسے ہم نے اپنی قدرت کاملہ سے انہیں سلا دیا تھا ، اسی طرح اپنی قدت سے انہیں جگا دیا ۔ تین سو نو سال تک سوتے رہے لیکن جب جاگے بالکل ویسے ہی تھے جیسے سوتے وقت تھے ، بدن بال کھال سب اصلی حالت میں تھے ۔ بس جیسے سوتے وقت تھے ویسے ہی اب بھی تھے ، کسی قسم کا کوئی تغیر نہ تھا ۔ آپس میں کہنے لگے کہ کیوں جی ہم کتنی مدت سوتے رہے ؟ تو جواب ملا کہ ایک دن بلکہ اس سے بھی کم کیونکہ صبح کے وقت یہ سو گئے تھے اور اس وقت شام کا وقت تھا اس لیے انہیں یہی خیال ہوا ۔ لیکن پھر خود انہیں خیال ہوا کہ ایسا تو نہیں اس لیے انہوں نے ذہن لڑانا چھوڑ دیا اور فیصلہ کن بات کہہ دی کہ اس کا صحیح علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہی ہے ۔ اب چونکہ بھوک پیاس معلوم ہو رہی تھی اس لیے انہوں نے بازار سے سودا منگوانے کی تجویز کی ۔ دام ان کے پاس تھے ۔ جن میں سے کچھ راہ اللہ خرچ کئے تھے ، کچھ موجود تھے ۔ کہنے لگے کہ اسی شہر میں کسی کو دام دے کر بھیج دو ، وہ وہاں سے کوئی پاکیزہ چیز کھانے پینے کی لائے یعنی عمدہ اور بہتر چیز جیسے آیت «وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہٗ مَا زَکٰی مِنْکُمْ مِّنْ اَحَدٍ اَبَدًا وَّلٰکِنَّ اللّٰہَ یُزَکِّیْ مَنْ یَّشَاءُ وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ» ( 24- النور : 21 ) یعنی اگر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم تم پر نہ ہوتا تو تم میں سے کوئی پاک نہ ہوتا اور آیت میں ہے «قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی» ( 87- الأعلی : 14 ) وہ فلاح پا گیا جس نے پاکیزگی کی ۔ زکوٰۃ کو بھی زکوٰۃ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ وہ مال کو طیب و طاہر کر دیتی ہے ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ مراد بہت سارا کھانا لانے سے ہے جیسے کھیتی کے بڑھ جانے کے وقت عرب کہتے ہیں «زکا الزرع» اور جیسے شاعر کا قول ہے «قبائلنا سبع وانتم ثلاثۃ» «واسبع ازکی من ثلاث واطیب» پس یہاں بھی یہ لفظ زیادتی اور کثرت کے معنی میں ہے ۔ لیکن پہلا قول ہی صحیح ہے اس لیے کہ اصحاب کہف کا مقصد اس قول سے حلال چیز کا لانا تھا ۔ خواہ وہ زیادہ ہو یا کم ۔ کہتے ہیں کہ جانے والے کو بہت احتیاط برتنی چاہیئے ، آنے جانے اور سودا خریدنے میں ہوشیاری سے کام لے ۔ جہاں تک ہو سکے لوگوں کی نگاہوں میں نہ چڑھے دیکھو ایسا نہ ہو کوئی معلوم کر لے ۔ اگر انہیں علم ہو گیا تو پھر خیر نہیں ۔ دقیانوس کے آدمی اگر تمہاری جگہ کی خبر پا گئے تو وہ طرح طرح کی سخت سزائیں تمہیں دیں گے کہ یا تو تم ان سے گھبرا کر دین حق چھوڑ کر پھر سے کافر بن جاؤ یا یہ کہ وہ انہی سزاؤں میں تمہارا کام ہی ختم کر دیں ۔ اگر تم ان کے دین میں جا ملے تو سمجھ لو کہ تم نجات سے دست بردار ہو گئے پھر تو اللہ کے ہاں کا چھٹکارا تمہارے لیے محال ہو جائے گا ۔ الكهف
20 الكهف
21 دوبارہ جینے کی حجت ارشاد ہے کہ اسی طرح ہم نے اپنی قدرت سے لوگوں کو ان کے حال پر آگاہ کر دیا تاکہ اللہ کے وعدے اور قیامت کے آنے کی سچائی کا انہیں علم ہو جائے ۔ کہتے ہیں کہ اس زمانے کے وہاں موجود لوگوں کو قیامت کے آنے میں کچھ شکوک پیدا ہو چلے تھے ۔ ایک جماعت تو کہتی تھی کہ فقط روحیں دوبارہ جی اٹھیں گی ، جسم کا اعادہ نہ ہو گا ۔ پس اللہ تعالیٰ نے صدیوں بعد اصحاب کہف کو جگا کر قیامت کے ہونے اور جسموں کے دوبارہ جینے کی حجت واضح کر دی اور عینی دلیل دے دی ۔ مذکور ہے کہ جب ان میں سے ایک صاحب دام لے کر سودا خریدنے کو غار سے باہر نکلے تو دیکھا کہ ان کی دیکھی ہوئی ایک چیز نہیں ، سارا نقشہ بدلا ہوا ہے ۔ اس شہر کا نام افسوس تھا ۔ زمانے گزر چکے تھے ، بستیاں بدل چکی تھیں ، صدیاں بیت گئی تھیں اور یہ تو اپنے نزدیک یہی سمجھے ہوئے تھے کہ ہمیں یہاں پہنچے ایک آدھ دن گزرا ہے ۔ یہاں انقلاب زمانہ اور کا اور ہو چکا تھا ، جیسے کسی نے کہا ہے ۔ «اما الدیار فانہا کدیارہم» «واری رجال الحی غیر رجالہ» گھر گو انہی جیسے ہیں لیکن قبیلے کے لوگ تو سب اور ہی ہیں ۔ اس نے دیکھا کہ نہ تو شہر کی کوئی چیز اپنے حال پر ہے ، نہ شہر کا کوئی بھی رہنے والا جان پہچان کا ہے ، نہ یہ کسی کو جانیں نہ انہیں اور کوئی پہچانے ۔ تمام عام خاص اور ہی ہیں ۔ یہ اپنے دل میں حیران تھا ۔ دماغ چکرا رہا تھا کہ کل شام ہم اس شہر کو چھوڑ کر گئے ہیں ، یہ دفعتا ہو کیا گیا ؟ ہر چند سوچتا تھا کوئی بات سمجھ میں نہ آتی تھی ۔ آخر خیال کرنے لگا کہ شاید میں مجنوں ہو گیا ہوں یا میرے حواس ٹھکانے نہیں رہے یا مجھے کوئی مرض لگ گیا ہے یا میں خواب میں ہوں ۔ لیکن فوراً ہی یہ خیالات ہٹ گئے مگر کسی بات پر تسلی نہ ہو سکی اس لیے ارادہ کر لیا کہ مجھے سودا لے کر اس شہر کو جلد چھوڑ دینا چاہیئے ۔ ایک دکان پر جا کر اسے دام دئیے اور سودا کھانے پینے کا طلب کیا ۔ اس نے اس سکے کو دیکھ کر سخت تر تعجب کا اظہار کیا اپنے پڑوسی کو دیا کہ دیکھنا یہ سکہ کیا ہے ؟ کب کا ہے ؟ کسی زمانے کا ہے ؟ اس نے دوسرے کو دیا اس سے کسی اور نے دیکھنے کو مانگ لیا ۔ الغرض وہ تو ایک تماشہ بن گیا ، ہر زبان سے یہی نکلنے لگا کہ اس نے کسی پرانے زمانے کا خزانہ پایا ہے ، اس میں سے یہ لایا ہے اس سے پوچھو یہ کہاں کا ہے ؟ کون ہے ؟ یہ سکہ کہاں سے پایا ؟ چنانچہ لوگوں نے اسے گھیر لیا مجمع لگا کر کھڑے ہو گئے اور اوپر تلے ٹیڑھے ترچھے سوالات شروع کر دئے ۔ اس نے کہا میں تو اسی شہر کا رہنے والا ہوں ، کل شام کو میں یہاں سے گیا ہوں ، یہاں کا بادشاہ دقیانوس ہے ۔ اب تو سب نے قہقہہ لگا کر کہا ، بھئی یہ تو کوئی پاگل آدمی ہے ۔ آخر اسے بادشاہ کے سامنے پیش کیا اس سے سوالات ہوئے اس نے تمام حال کہہ سنایا ، اب ایک طرف بادشاہ اور دوسرے سب لوگ متحیر ایک طرف سے خود ششدر و حیران ۔ آخر سب لوگ ان کے ساتھ ہوئے ۔ اچھا ہمیں اپنے اور ساتھی دکھاؤ اور اپنا غار بھی دکھا دو ۔ یہ انہیں لے کر چلے غار کے پاس پہنچ کر کہا تم ذرا ٹھیرو میں پہلے انہیں جا کر خبر کر دوں ۔ ان کے الگ ہٹتے ہی اللہ تعالیٰ نے ان پر بے خبری کے پردے ڈال دئے ۔ انہیں نہ معلوم ہو سکا کہ وہ کہاں گیا ؟ اللہ نے پھر اس راز کو مخفی کر لیا ۔ ایک روایت یہ بھی آئی ہے کہ یہ لوگ مع بادشاہ کے گئے ، ان سے ملے ، سلام علیک ہوئی ، بغلگیر ہوئے ۔ یہ بادشاہ خود مسلمان تھا ، اس کا نام تندوسیس تھا ۔ اصحاب کہف ان سے مل کر بہت خوش ہوئے اور محبت و انسیت سے ملے جلے ، باتیں کیں ، پھر واپس جا کر اپنی اپنی جگہ لیٹے ، پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں فوت کر لیا ، رحمہم اللہ اجمعین ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ کہتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سیدنا حبیب بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک غزوے میں تھے ، وہاں انہوں نے روم کے شہروں میں ایک غار دیکھا ، جس میں ہڈیاں تھیں ، لوگوں نے کہا یہ ہڈیاں اصحاب کہف کی ہیں ، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا تین سو سال گزر چکے کہ ان کی ہڈیاں کھوکھلی ہو کر مٹی ہو گئیں ( ابن جریر ) پس فرماتا ہے کہ جیسے ہم نے انہیں انوکھی طرز پر سلایا اور بالکل انوکھے طور پر جگایا ، اسی طرح بالکل نرالے طرز پر اہل شہر کو ان کے حالات سے مطلع فرمایا تاکہ انہیں اللہ کے وعدوں کی حقانیت کا علم ہو جائے اور قیامت کے ہونے میں اور اس کے برحق ہونے میں انہیں کوئی شک نہ رہے ۔ اس وقت وہ آپس میں سخت مختلف تھے ، لڑ جھگڑ رہے تھے ، بعض قیامت کے قائل تھے ، بعض منکر تھے ۔ پس اصحاب کہف کا ظہور منکروں پر حجت اور ماننے والوں کے لیے دلیل بن گیا ۔ اب اس بستی والوں کا ارادہ ہوا کہ ان کے غار کا منہ بند کر دیا جائے اور انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے ۔ جنہیں سرداری حاصل تھی ، انہوں نے ارادہ کیا کہ ہم تو ان کے اردگرد مسجد بنا لیں گے ۔ امام ابن جریر ان لوگوں کے بارے میں دو قول نقل کرتے ہیں ایک یہ کہ ان میں سے مسلمانوں نے یہ کہا تھا دوسرے یہ کہ یہ قول کفار کا تھا ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ لیکن بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ اس کے قائل کلمہ گو تھے ، ہاں یہ اور بات ہے کہ ان کا یہ کہنا اچھا تھا یا برا ؟ تو اس بارے میں صاف حدیث موجود ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( حدیث ) «لَعَنَ اللَّہ الْیَہُود وَالنَّصَارَی اِتَّخَذُوا قُبُور أَنْبِیَائِہِمْ وَصَالِحِیہِمْ مَسَاجِد» اللہ تعالیٰ یہود و نصاری پر لعنت فرمائے کہ انہوں نے اپنے انبیاء اور اولیا کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا ۔ (صحیح بخاری:435) جو انہوں نے کیا ، اس سے آپ اپنی امت کو بچانا چاہتے تھے ۔ اسی لیے امیر المؤمنین عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی خلافت کے زمانے میں جب دانیال کی قبر عراق میں پائی تو حکم فرمایا کہ اسے پوشیدہ کر دیا جائے اور جو رقعہ ملا ہے جس میں بعض لڑائیوں وغیرہ کا ذکر ہے اسے دفن کر دیا جائے ۔ الكهف
22 اصحاف کہف کی تعداد لوگ اصحاف کہف کی گنتی میں کچھ کا کچھ کہا کرتے تھے ۔ تین قسم کے لوگ تھے ۔ چوتھی گنتی بیان نہیں فرمائی ۔ پہلے دو کے اقوال کو تو ضعیف کر دیا کہ یہ اٹکل کے تکے ہیں ، بے نشانے کے پتھر ہیں کہ اگر کہیں لگ جائیں تو کمال نہیں ، نہ لگیں تو زوال نہیں ۔ ہاں تیسرا قول بیان فرما کر سکوت اختیار فرمایا تردید نہیں کی ۔ یعنی سات وہ آٹھواں ان کا کتا ۔ اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہی بات صحیح اور واقع میں یونہی ہے ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ایسے موقع پر بہتر یہی ہے کہ علم اللہ کی طرف اسے لوٹا دیا جائے ۔ ایسی باتوں میں کوئی صحیح علم نہ ہونے کی وجہ سے غور و خوض کرنا عبث ہے ۔ جس بات کا علم ہو جائے ، منہ سے نکالے ورنہ خاموش رہے ۔ اس گنتی کا صحیح علم بہت کم لوگوں کو ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں میں انہیں میں سے ہوں ، میں جانتا ہوں وہ سات تھے ۔ حضرت عطا خراسانی رحمہ اللہ کا قول بھی یہی ہے اور یہی ہم نے پہلے لکھا تھا ۔ ان میں سے بعض تو بہت ہی کم عمر تھے ۔ عنفوان شباب میں تھے ۔ یہ لوگ دن رات اللہ کی عبادت میں مشغول رہتے تھے ، روتے رہتے تھے اور اللہ تعالیٰ سے فریاد کرتے رہتے تھے ۔ مروی ہے کہ یہ نو تھے ۔ ان میں سے جو سب سے بڑے تھے ان کا نام مکسلمین تھا ۔ اسی نے بادشاہ سے باتیں کی تھیں اور اسے اللہ واحد کی عبادت کی دعوت دی تھی ۔ باقی کے نام یہ ہیں فحستلمین ، تملیخ ، مطونس ، کشطونس ، بیرونس ، دنیموس ، بطونس اور قابوس ۔ ہاں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی صحیح روایت یہی ہے کہ یہ سات شخص تھے آیت کے ظاہری الفاظ سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے ۔ شعیب جبائی کہتے ہیں ان کے کتے کا نام حمران تھا لیکن ان ناموں کی صحت میں نظر ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ ان میں کی بہت سی چیزیں اہل کتاب سے لی ہوئی ہیں ۔ پھر اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرمایا کہ آپ ان کے بارے میں زیادہ بحث مباحثہ نہ کریں ۔ یہ ایک نہایت ہی ہلکا کام ہے جس میں کوئی بڑا فائدہ نہیں اور نہ ان کے بارے میں کسی سے دریافت کیجئے ، کیونکہ عموماً وہ اپنے دل سے جوڑ کر کہتے ہیں ، کوئی صحیح اور سچی دلیل ان کے ہاتھوں میں نہیں ۔ اور اللہ تعالیٰ نے جو کچھ آپ کے سامنے بیان فرمایا ہے ، یہ جھوٹ سے پاک ہے ، شک شبہ سے دور ہے ، قابل ایمان و یقین ہے ، بس یہی حق ہے اور سب سے مقدم ہے ۔ الكهف
23 الكهف
24 ان شاء اللہ کہنے کا حکم اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے ختم المرسلین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتا ہے کہ جس کام کو کل کرنا چاہو تو یوں نہ کہہ دیا کرو کہ کل کروں گا بلکہ اس کے ساتھ ہی ان شاءاللہ کہہ لیا کرو کیونکہ کل کیا ہو گا ؟ اس کا علم صرف اللہ ہی کو ہے ۔ علام الغیوب اور تمام چیزوں پر قادر صرف وہی ہے ۔ اس کی مدد طلب کر لیا کرو ۔ بخاری و مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سلیمان بن داؤد علیہ السلام کی نوے بیویاں تھیں ۔ ایک روایت میں ہے سو تھیں ۔ ایک میں ہے بہتر ( ٧٢ ) تھیں ۔ تو آپ علیہ السلام نے ایک بار کہا کہ آج رات میں ان سب کے پاس جاؤں گا ہر عورت کو بچہ ہو گا تو سب اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے ۔ اس وقت فرشتے نے کہا ان شاءاللہ کہہ مگر سلیمان علیہ السلام نے نہ کہا ۔ اپنے ارادے کے مطابق وہ سب بیویوں کے پاس گئے ، مگر سوائے ایک بیوی کے کسی کے ہاں بچہ نہ ہوا اور جس ایک کے ہاں ہوا بھی ، وہ بھی آدھے جسم کا تھا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ، اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، اگر وہ ان شاءاللہ کہہ لیتے تو یہ ارادہ ان کا پورا ہوتا اور ان کی حاجت روائی ہو جاتی ۔ اور یہ سب بچے جوان ہو کر راہ حق کے مجاہد بنتے ۔(صحیح بخاری:5242) اسی سورت کی تفسیر کے شروع میں اس آیت کا شان نزول بیان ہو چکا ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اصحاب کہف کا قصہ دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں کل تمہیں جواب دوں گا ۔ ان شاءاللہ نہ کہا اس بنا پر پندرہ دن تک وحی نازل نہ ہوئی ۔ اس حدیث کو پوری طرح ہم نے اس سورت کی تفسیر کے شروع میں بیان کر دیا ہے یہاں دوبارہ بیان کرنے کی حاجت نہیں ۔ پھر بیان فرماتا ہے کہ جب بھول جائے تب اپنے رب کو یاد کر ، یعنی ان شاءاللہ کہنا اگر موقعہ پر یاد نہ آیا تو جب یاد آئے کہہ لیا کر ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اس شخص کے بارے میں فرماتے ہیں جو حلف کھائے کہ اسے پھر بھی ان شاءاللہ کہنے کا حق ہے گو سال بھر گزر چکا ہو ۔ مطلب یہ ہے کہ اپنے کلام میں یا قسم میں ان شاءاللہ کہنا بھول گیا تو جب بھی یاد آئے کہہ لے ، گو کتنی مدت گزر چکی ہو اور گو اس کا خلاف بھی ہو چکا ہو ۔ اس سے یہ مطلب نہیں کہ اب اس پر قسم کا کفارہ نہیں رہے گا اور اسے قسم توڑنے کا اختیار ہے ۔ یہی مطلب اس قول کا امام ابن جریر رحمہ اللہ نے بیان فرمایا ہے اور یہی بالکل ٹھیک ہے ۔ اسی پر سیدنا عباس رضی اللہ عنہما کا کلام محمول کیا جا سکتا ہے ، ان سے اور حضرت مجاہد رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ مراد ان شاءاللہ کہنا بھول جانا ہے ۔ اور روایت میں اس کے بعد یہ بھی ہے کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مخصوص ہے ، دوسرا کوئی تو اپنی قسم کے ساتھ ہی متصل طور پر ان شاءاللہ کہے تو معتبر ہے ۔ یہ بھی ایک مطلب ہے کہ جب کوئی بات بھول جاؤ تو اللہ کا ذکر کرو کیونکہ بھول شیطانی حرکت ہے اور ذکر الٰہی یاد کا ذریعہ ہے ۔ پھر فرمایا کہ تجھ سے کسی ایسی بات کا سوال کیا جائے کہ تجھے اس کا علم نہ ہو تو تو اللہ تعالیٰ سے دریافت کر لیا کر اور اس کی طرف توجہ کر تاکہ وہ تجھے ٹھیک بات اور ہدایت والی راہ بتا اور دکھا دے ۔ اور بھی اقوال اس بارے میں مروی ہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ الكهف
25 اصحاب کہف کتنا سوئے ؟ اللہ تعالیٰ اپنے نبی علیہ السلام کو اس مدت کی خبر دیتا ہے ، جو اصحاب کہف نے اپنے سونے کے زمانے میں گزاری کہ وہ مدت سورج کے حساب سے تین سو سال کی تھی اور چاند کے حساب سے تین سو نو سال کی تھی ۔ فی الواقع شمسی اور قمری سال میں سو سال پر تین سال کا فرق پڑتا ہے ، اسی لیے تین سو الگ بیان کر کے پھر نو الگ بیان کئے ۔ پھر فرماتا ہے کہ جب تجھ سے ان کے سونے کی مدت دریافت کی جائے اور تیرے پاس اس کا کچھ علم نہ ہو اور نہ اللہ نے تجھے واقف کیا ہو تو تو آگے نہ بڑھ اور ایسے امور میں یہ جواب دیا کر کہ اللہ ہی کوصحیح علم ہے ، آسمان اور زمین کا غیب وہی جانتا ہے ، ہاں جسے وہ جو بات بتا دے وہ جان لیتا ہے ۔ حضرت قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہ تین سو سال ٹھہرے تھے اور اللہ تعالیٰ نے اس کی تردید کی ہے اور فرمایا ہے اللہ ہی کو اس کا پورا علم ہے ۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے بھی اسی معنی کی قرأت مروی ہے ۔ لیکن حضرت قتادہ رحمہ اللہ کا یہ قول تامل طلب ہے اس لیے کہ اہل کتاب کے ہاں شمسی سال کا رواج ہے اور وہ تین سو سال مانتے ہیں ۔ تین سو نو کا ان کا قول نہیں ، اگر ان ہی کا قول نقل ہوتا تو پھر اللہ تعالیٰ یہ نہ فرماتا کہ اور نو سال زیادہ کئے ۔ بظاہر تو یہی ٹھیک معلوم ہوتا ہے کہ خود اللہ تبارک و تعالیٰ اس بات کی خبر دے رہا ہے نہ کہ کسی کا قول بیان فرماتا ہے ، یہی اختیار امام ابن جریر رحمہ اللہ کا ہے ۔ حضرت قتادہ رحمہ اللہ کی روایت اور سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما کی قرأت دونوں منقطع ہیں ۔ پھر شاذ بھی ہیں ، جمہور کی قرأت وہی ہے جو قرآن میں ہے ۔ پس وہ شاذ دلیل کے قابل نہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو خوب دیکھ رہا ہے اور ان کی آواز کو خوب سن رہا ہے ۔ ان الفاظ میں تعریف کا مبالغہ ہے ، ان دونوں لفظوں میں مدح کا مبالغہ ہے یعنی وہ خوب دیکھنے سننے والا ہے ۔ ہر موجود چیز کو دیکھ رہا ہے اور ہر آواز کو سن رہا ہے ۔ کوئی کام کوئی کلام اس سے مخفی نہیں ، کوئی اس سے زیادہ سننے دیکھنے والا نہیں ۔ سب کے عمل دیکھ رہا ہے ، سب کی باتیں سن رہا ہے ، خلق کا خالق ، امر کا مالک وہی ہے ۔ کوئی اس کے فرمان کو رد نہیں کر سکتا ۔ اس کا کوئی وزیر اور مددگار نہیں ، نہ کوئی شریک اور مشیر ہے ۔ وہ ان تمام کمیوں سے پاک ہے ، تمام نقائص سے دور ہے ۔ الكهف
26 الكهف
27 تلاوت و تبلیغ اللہ کریم اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے کلام کی تلاوت اور اس کی تبلیغ کی ہدایت کرتا ہے ، اس کے کلمات کو نہ کوئی بدل سکے نہ ٹال سکے ، نہ ادھر ادھر کر سکے ، سمجھ لے کہ اس کے سوائے جائے پناہ نہیں ، اگر تلاوت و تبلیغ چھوڑ دی تو پھر بچاؤ کی کوئی صورت نہیں ۔ جیسے اور جگہ ہے کہ «یَا أَیٰہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَیْکَ مِن رَّبِّکَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ وَ اللہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ» ( 5-المائدۃ : 67 ) اے رسول جو کچھ تیری طرف تیرے رب کی جانب سے اترا ہے اس کی تبلیغ کرتا رہ اگر نہ کی تو تو نے حق رسالت ادا نہیں کیا لوگوں کے شر سے اللہ تجھے بچائے رکھے گا ۔ اور آیت میں ہے «اِنَّ الَّذِیْ فَرَضَ عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ لَرَادٰکَ اِلٰی مَعَادٍ قُلْ رَّبِّیْٓ اَعْلَمُ مَنْ جَاءَ بالْہُدٰی وَمَنْ ہُوَ فِیْ ضَلٰلٍ مٰبِیْنٍ» ( 28- القص : 85 ) یعنی اللہ تعالیٰ تجھ سے تیرے منصب کی بابت قیامت کے دن ضرور سوال کرے گا ۔ اللہ کا ذکر ، اس کی تسبیح ، حمد ، بڑائ اور بزرگی بیان کرنے والوں کے پاس بیٹھا رہا کر جو صبح شام یاد الٰہی میں لگے رہتے ہیں ، خواہ وہ فقیر ہوں خواہ امیر ، ‎خواہ رزیل ہوں خواہ شریف ، خواہ قوی ہوں خواہ ضعیف ۔ قریش نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی تھی کہ آپ چھوٹے لوگوں کی مجلس میں نہ بیٹھا کریں جیسے بلال ، عمار ، صہیب ، خباب ، ابن مسعود رضی اللہ عنہم وغیرہ ۔ اور ہماری مجلسوں میں بیٹھا کریں ۔ پس اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی درخواست رد کرنے کا حکم فرمایا جیسے اور آیت میں ہے «وَلَا تَطْرُدِ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ بالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْہَہٗ» ( 6- الانعام : 52 ) یعنی صبح شام یاد الٰہی کرنے والوں کو اپنی مجلس سے نہ ہٹا ۔ صحیح مسلم میں ہے کہ ہم چھ شخص غریب غرباء نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے ، سعد بن ابی وقاص ، ابن مسعود ، قبیلہ ہذیل کا ایک شخص ، بلال اور دو آدمی اور رضی اللہ عنہم اتنے میں معزز مشرکین آئے اور کہنے لگے انہیں اپنی مجلس میں اس جرات کے ساتھ نہ بیٹھنے دو ۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جی میں کیا آیا ؟ جو اس وقت آیت «وَلَا تَطْرُدِ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ بالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْہَہٗ» اتری ۔ (صحیح مسلم:2413) مسند احمد میں ہے کہ ایک واعظ قصہ گوئی کر رہا تھا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ، وہ خاموش ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم بیان کئے چلے جاؤ ۔ میں تو صبح کی نماز سے لے کر آفتاب کے نکلنے تک اسی مجلس میں بیٹھا رہوں ، تو اپنے لئے چار غلام آزاد کرنے سے بہتر سمجھتا ہوں ۔ (مسند احمد:261/5:ضعیف) اور حدیث میں ہے آپ فرماتے ہیں کہ میں ایسی مجلس میں بیٹھ جاؤں ، یہ مجھے چار غلام آزاد کرنے سے زیادہ محبوب ہے ۔ (مسند احمد:474/3:ضعیف) ۔ ابوداؤد طیالسی میں ہے کہ ذکر اللہ کرنے والوں کے ساتھ صبح کی نماز سے سورج نکلنے تک بیٹھ جانا مجھے تو تمام دنیا سے زیادہ پیارا ہے ، اور نماز عصر کے بعد سے سورج کے غروب ہونے تک اللہ کا ذکر کرنا مجھے آٹھ غلاموں کے آزاد کرنے سے زیادہ پیارا ہے ، گو وہ غلام اولاد اسماعیل سے گراں قدر اور قیمتی کیوں نہ ہوں ، گو ان میں سے ایک ایک کی دیت بارہ بارہ ہزار کی ہو تو مجموعی قیمت چھیانوے ہزار کی ہوئی ۔ بعض لوگ چار غلام بتاتے ہیں لیکن انس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ، واللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ غلام فرمائے ہیں ۔ (مسند طیالسی،2104:ضعیف) بزار میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آئے ایک صاحب سورۃ الکہف کی قرأت کر رہے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر خاموش ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہی ان لوگوں کی مجلس ہے جہاں اپنے نفس کو روک کر رکھنے کا مجھے حکم الٰہی ہوا ہے ۔ (مجمع الزوائد،167/7:ضعیف) اور روایت میں ہے کہ یا تو سورۃ الحج کی وہ تلاوت کر رہے تھے یا سورۃ الکہف کی ۔ (مسند بزار،2636:ضعیف) مسند احمد میں ہے فرماتے ہیں ذکر اللہ کے لیے جو مجلس جمع ہو ، نیت بھی ان کی بخیر ہو تو آسمان سے منادی ندا کرتا ہے کہ اٹھو اللہ نے تمہیں بخش دیا ، تمہاری برائیاں بھلائیوں سے بدل گئیں ۔ (مسند احمد:142/3:صحیح لغیرہ) طبرانی میں ہے کہ جب یہ آیت اتری تو آپ اپنے کسی گھر میں تھے ، اسی وقت ایسے لوگوں کی تلاش میں نکلے ۔ کچھ لوگوں کو ذکر اللہ میں پایا ، جن کے بال بکھرے ہوئے تھے ، کھالیں خشک تھیں ، بمشکل ایک ایک کپڑا انہیں حاصل تھا ، فوراً ان کی مجلس میں بیٹھ گئے اور کہنے لگے ، اللہ کا شکر ہے کہ اس نے میری امت میں ایسے لوگ رکھے ہیں ، جن کے ساتھ بیٹھنے کا مجھے حکم ہوا ہے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:23017:ضعیف) پھر فرماتا ہے ان سے تیری آنکھیں تجاوز نہ کریں ، ان یاد اللہ کرنے والوں کو چھوڑ کر مالداروں کی تلاش میں نہ لگ جانا جو دین سے برگشتہ ہیں ، جو عبادت سے دور ہیں ، جن کی برائیاں بڑھ گئی ہیں ، جن کے اعمال حماقت کے ہیں ، تو ان کی پیروی نہ کرنا ، ان کے طریقے کو پسند نہ کرنا ، ان پر رشک بھری نگاہیں نہ ڈالنا ، ان کی نعمتیں للچائی ہوئی نظروں سے نہ دیکھنا ۔ جیسے فرمان ہے «وَلَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْکَ إِلَیٰ مَا مَتَّعْنَا بِہِ أَزْوَاجًا مِّنْہُمْ زَہْرَۃَ الْحَیَاۃِ الدٰنْیَا لِنَفْتِنَہُمْ فِیہِ وَرِزْقُ رَبِّکَ خَیْرٌ وَأَبْقَیٰ» ( 20- طہ : 131 ) ، ہم نے انہیں جو دنیوی عیش و عشرت دے رکھی ہے یہ صرف ان کی آزمائش کے لیے ہے ۔ تو للچائی ہوئی نگاہوں سے انہیں نہ دیکھنا ، دراصل تیرے رب کے پاس کی روزی بہتر اور بہت باقی ہے ۔ الكهف
28 الكهف
29 جہنم کی دیواریں جو کچھ میں اپنے رب کے پاس سے لایا ہوں وہی حق صدق اور سچائی ہے شک و شبہ سے بالکل خالی ۔ اب جس کا جی چاہے مانے نہ چاہے نہ مانے ۔ نہ ماننے والوں کے لیے آگ جہنم تیار ہے ، جس کی چار دیواری کے جیل خانے میں یہ بے بس ہوں گے ۔ حدیث میں ہے کہ جہنم کی چار دیواری کی وسعت چالیس چالیس سال کی راہ کی ہے (سنن ترمذی:2584،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) اور خود وہ دیواریں بھی آگ کی ہیں ۔ اور روایت میں ہے ، سمندر بھی جہنم ہے ۔ پھر اس آیت کی تلاوت فرمائی اور فرمایا ، واللہ نہ اس میں جاؤں جب تک بھی زندہ رہوں اور نہ اس کا کوئی قطرہ مجھے پہنچے ۔ (مسند احمد:223/4:ضعیف) «مُہْلِ» کہتے ہیں غلیظ پانی کو جیسے زیتون کے تیل کی تلچھٹ اور جیسے خون اور پیپ جو بے حد گرم ہو ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما نے ایک مرتبہ سونا پگھلایا جب وہ پانی جیسا ہو گیا اور جوش مارنے لگا فرمایا مھل کی مشابہت اس میں ہے ۔ جہنم کا پانی بھی سیاہ ہے ، وہ خود بھی سیاہ ہے ، جہنمی بھی سیاہ ہیں ۔ مھل سیاہ رنگ ، بدبودار ، غلیظ ، گندگی ، سخت گرم چیز ہے ، چہرے کے پاس جاتے ہی کھال جھلسا دیتی ہے ، منہ جلا دیتی ہے ۔ مسند احمد میں ہے کافر کے منہ کے پاس جاتے ہی اس کے چہرے کی کھال جھلس کر اس میں آ پڑے گی ۔ (مسند احمد:70/3:ضعیف) قرآن میں ہے وہ پیپ پلائے جائیں گے بمشکل ان کے حلق سے اترے گی ۔ چہرے کے پاس آتے ہی کھال جل کر گر پڑے گی ، پیتے ہی آنتیں کٹ جائیں گی ، ان کی ہائے وائے شور و غل پر یہ پانی انکو پینے کو دیا جائے گا ۔ بھوک کی شکایت پر زقوم کا درخت دیا جائے گا جس سے ان کی کھالیں اس طرح جسم چھوڑ کر اتر جائیں گی کہ ان کے پہچاننے والا ان کھالوں کو دیکھ کر بھی پہچان لے ، پھر پیاس کی شکایت پر سخت گرم کھولتا ہوا پانی ملے گا جو منہ کے پس پہنچتے ہی تمام گوشت کو بھون ڈالے گا ۔ ہائے کیا برا پانی ہے ۔ یہ وہ گرم پانی پلایا جائے گا ، انکا ٹھکانہ ، ان کی منزل ، انکا گھر ، ان کی آرام گاہ بھی نہایت بری ہے ۔ جیسے اور آیت میں «اِنَّہَا سَاءَتْ مُسْتَــقَرًّا وَّمُقَامًا» ( 25- الفرقان : 66 ) وہ بڑی بری جگہ اور بے حد کٹھن منزل ہے ۔ الكهف
30 سونے کے کنگن اور ریشمی لباس اوپر برے لوگوں کا حال اور انجام بیان فرمایا ، اب نیکوں کا آغاز و انجام بیان ہو رہا ہے ۔ یہ اللہ ، رسول اور کتاب کے ماننے والے نیک عمل کرنے والے ہوتے ہیں ۔ ان کے لیے ہمیشگی والی دائمی جنتیں ہیں ، ان کے بالاخانوں کے اور باغات کے نیچے نہریں لہریں لے رہی ہیں ۔ انہیں زیورات خصوصا سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے ۔ ان کا لباس وہاں خالص ریشم کا ہو گا ، نرم باریک اور نرم موٹے ریشم کا لباس ہو گا ۔ یہ باآرام شاہانہ شان سے مسندوں پر جو تختوں پر ہوں گے ، تکیہ لگائے بیٹھے ہوئے ہوں گے ۔ کہا گیا ہے کہ لیٹنے اور چار زانوں بیٹھنے کا نام بھی اتکا ہے ، ممکن ہے یہی مراد یہاں بھی ہو ، چنانچہ حدیث میں ہے میں اتکا کر کے کھانا نہیں کھاتا ۔ (صحیح بخاری:5398) اس میں بھی یہی دو قول ہیں ، «أَرَائِکِ» جمع ہے «اَرِیْکَۃ» کی ، تخت چھپر کھٹ وغیرہ کو کہتے ہیں ۔ کیا ہی اچھا بدلہ ہے اور کتنی ہی اچھی اور آرام دہ جگہ ہے برخلاف دوزخیوں کے کہ ان کے لیے بری سزا اور بری جگہ ہے ۔ سورۃ الفرقان میں بھی انہیں دونوں گروہ کا اسی طرح مقابلہ کا بیان ہے «أُولٰئِکَ یُجْزَوْنَ الْغُرْفَۃَ بِمَا صَبَرُوا وَیُلَقَّوْنَ فِیہَا تَحِیَّۃً وَسَلَامًا خَالِدِینَ فِیہَا حَسُنَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقَامًا» ( 25-الفرقان : 75 ، 76 ) ۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہیں ان کے صبر کے بدلے جنت کے بلند و باﻻخانے دیئے جائیں گے جہاں انہیں دعا سلام پہنچایا جائے گا ، اس میں یہ ہمیشہ رہیں گے ، وہ بہت ہی اچھی جگہ اور عمدہ مقام ہے ۔ الكهف
31 الكهف
32 فخر و غرور (41-فصلت:50)چونکہ اوپر مسکین مسلمانوں اور مالدار کافروں کا ذکر ہوا تھا ، یہاں ان کی ایک مثال بیان کی جاتی ہے کہ دو شخص تھے جن میں سے ایک مالدار تھا ، انگوروں کے باغ ، اردگرد کھجوروں کے درخت ، درمیان میں کھیتی ، درخت پھلدار ، بیلیں ہری ، کھیتی سرسبز ، پھل پھول بھرپور ، کسی قسم کا نقصان نہیں ، ادھر ادھر نہریں جاری تھیں ۔ اس کے پاس ہر وقت طرح طرح کی پیداوار موجود ، مالدار شخص ۔ اس کی دوسری قرأت «ثُمْر» بھی ہے یہ جمع ہے «ثَمْرَۃ» کی جیسے «خَشْبَۃ» کی جمع «خُشْبٌ» ۔ الغرض اس نے ایک دن اپنے ایک دوست سے فخر و غرور کرتے ہوئے کہ میں مال میں ، عزت و اولاد میں ، جاہ و حشم میں ، نوکر چاکر میں تجھ سے زیادہ حیثیت والا ہوں ۔ ایک فاجر شخص کی تمنا یہی ہوتی ہے کہ دنیا کی یہ چیزیں اس کے پاس بکثرت ہوں ۔ یہ اپنے باغ میں گیا اپنی جان پر ظلم کرتا ہوا یعنی تکبر ، اکڑ ، انکار قیامت اور کفر کرتا ہوا ۔ اس قدر مست تھا کہ اس کی زبان سے نکلا کہ ناممکن ہے میری یہ لہلہاتی کھیتیاں ، یہ پھلدار درخت ، یہ جاری نہریں ، یہ سرسبز بیلیں کبھی فنا ہو جائیں ۔ حقیقت میں یہ اس کی کم عقلی ، بےایمانی اور دنیا کی خر مستی اور اللہ کے ساتھ کفر کی وجہ تھی ۔ اسی لیے کہہ رہا ہے کہ میرے خیال سے تو قیامت آنے والی نہیں ۔ اور اگر بالفرض آئی بھی تو ظاہر ہے کہ اللہ کا میں پیارا ہوں ورنہ وہ مجھے اس قدر مال و متاع کیسے دے دیتا ؟ تو وہاں بھی وہ مجھے اس سے بھی بہتر عطا فرمائے گا ۔ جیسے اور آیت میں ہے «وَلَئِن رٰجِعْتُ إِلَیٰ رَبِّی إِنَّ لِی عِندَہُ لَلْحُسْنَیٰ» ( 41- فصلت : 50 ) اگر میں لوٹایا گیا تو وہاں میرے لیے اور اچھائی ہو گئی ۔ اور آیت میں ارشاد ہے «اَفَرَءَیْتَ الَّذِیْ کَفَرَ بِاٰیٰتِنَا وَقَالَ لَاُوْتَیَنَّ مَالًا وَّوَلَدًا» ( 19- مریم : 77 ) یعنی تو نے اسے بھی دیکھا جو ہماری آیتوں سے کفر کر رہا ہے ، اور باوجود اس کے اس کی تمنا یہ ہے کہ مجھے قیامت کے دن بھی بکثرت مال و اولاد ملے گی ، یہ اللہ کے سامنے دلیری کرتا ہے اور اللہ پر باتیں بناتا ہے ۔ اس آیت کا شان نزول عاص بن وائل ہے جیسے کہ اپنے موقعہ پر آئے گا ان شاءاللہ ۔ الكهف
33 الكهف
34 الكهف
35 الكهف
36 الكهف
37 احسان فراموشی مترادف کفر ہے اس کافر مالدار کو جو جواب اس مومن مفلس نے دیا اس کا بیان ہو رہا ہے کہ کس طرح اس نے وعظ و پند کی ، ایمان و یقین کی ہدایت کی اور گمراہی اور غرور سے ہٹانا چاہا ، فرمایا کہ تو اللہ کے ساتھ کفر کرتا ہے جس نے انسانی پیدائش مٹی سے شروع کی ، پھر اس کی نسل ملے جلے پانی سے جاری رکھی جیسے آیت «کَیْفَ تَکْفُرُونَ بِ اللہِ وَکُنتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْیَاکُمْ ثُمَّ یُمِیتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیکُمْ ثُمَّ إِلَیْہِ تُرْجَعُونَ» ( 2- البقرۃ : 28 ) میں ہے کہ تم اللہ کے ساتھ کیسے کفر کرتے ہو ؟ تم تو مردہ تھے اس نے تمہیں زندہ کیا ۔ تم اس کی ذات کا ، اس کی نعمتوں کا انکار کیسے کر سکتے ہو ؟ اس کی نعمتوں کے ، اس کی قدرتوں کے بےشمار نمونے خود تم میں اور تم پر موجود ہیں ۔ کون نادان ایسا ہے جو نہ جانتا ہو کہ وہ پہلے کچھ نہ تھا اللہ نے اسے موجود کر دیا ۔ وہ خودبخود اپنے ہونے پر قادر نہ تھا اللہ نے اس کا وجود پیدا کیا ۔ پھر وہ انکار کے لائق کیسے ہو گیا ؟ اس کی توحید الوہیت سے کون انکار کر سکتا ہے ۔ میں تو تیرے مقابلے میں کھلے الفاظ میں کہہ رہا ہوں کہ میرا رب وہی اللہ وحدہ لا شریک لہ ہے میں اپنے رب کے ساتھ مشرک بننا ناپسند کرتا ہوں ۔ پھر اپنے ساتھی کو نیک رغبت دلانے کے لیے کہتا ہے کہ اپنی لہلہاتی ہوئی کھیتی اور ہرے بھرے میووں سے لدے باغ کو دیکھ کر تو اللہ کا شکر کیوں نہیں کرتا ؟ کیوں «مَا شَاءَ اللَّہ لَا قُوَّۃ إِلَّا بِاَللَّہِ» نہیں کہتا ؟ اسی آیت کو سامنے رکھ کر بعض سلف کا مقولہ ہے کہ جسے اپنی اولاد یا مال یا حال پسند آئے اسے یہ کلمہ پڑھ لینا چاہیئے ۔ ابو یعلیٰ موصلی میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں «مَا أَنْعَمَ اللَّہ عَلَی عَبْد نِعْمَۃ مِنْ أَہْل أَوْ مَال أَوْ وَلَد فَیَقُول مَا شَاءَ اللَّہ لَا قُوَّۃ إِلَّا بِاَللَّہِ فَیُرَی فِیہِ آفَۃ دُون الْمَوْت» جس بندے پر اللہ اپنی کوئی نعمت انعام فرمائے ، اہل و عیال ہوں ، دولتمندی ہو ، فرزند ہوں ، پھر وہ اس کلمہ کو کہہ لے تو اس میں کوئی آنچ نہ آئے گی سوائے موت کے ، پھر آپ اس آیت «وَلَوْلَا إِذْ دَخَلْتَ جَنَّتَکَ قُلْتَ مَا شَاءَ اللہُ لَا قُوَّۃَ إِلَّا بِ اللہِ إِن تَرَنِ أَنَا أَقَلَّ مِنکَ مَالًا وَوَلَدًا» ( 39 : الکہف ) کی تلاوت کرتے ۔ (البدایۃ و النھایۃ141/2:ضعیف) حافظ ابو الفتح کہتے ہیں یہ حدیث صحیح نہیں ۔ مسند احمد، صحیح البخاری، صحیح مسلم میں ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، کیا میں تمہیں جنت کا ایک خزانہ بتا دوں ؟ وہ خزانہ «لَا حَوْل وَلَا قُوَّۃ إِلَّا بِاَللَّہِ» کہنا ہے ۔ (صحیح بخاری:6384) اور روایت میں ہے کہ اللہ فرماتا ہے میرے اس بندے نے مان لیا اور اپنا معاملہ میرے سپرد کر دیا ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پھر پوچھا گیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ، صرف لاحول نہیں بلکہ وہ جو سورۃ الکہف میں ہے یعنی «مَا شَاءَ اللَّہ لَا قُوَّۃ إِلَّا بِاَللَّہِ» ۔(مسند احمد:335/2:صحیح) پھر فرمایا کہ اس نیک شخص نے کہا کہ مجھے اللہ سے امید ہے کہ وہ مجھے آخرت کے دن اس سے بہتر نعمتیں عطا فرمائے اور تیرے اس باغ کو جسے تو ہمیشگی والا سمجھے بیٹھا ہے ، تباہ کر دے ۔ آسمان سے اس پر عذاب بھیج دے ۔ زور کی بارش آندھی کے ساتھ آئے ۔ تمام کھیت اور باغ اجڑ جائیں ۔ سوکھی صاف زمین رہ جائے گویا کہ کبھی یہاں کوئی چیز اگی ہی نہ تھی ۔ یا اس کی نہروں کا پانی دھنسا دے ۔ «غَوْرً» مصدر ہے معنی میں «غائر» کے بطور مبالغے کے لایا گیا ہے ۔ الكهف
38 الكهف
39 الكهف
40 الكهف
41 الكهف
42 کف افسوس اس کا کل مال کل پھل غارت ہو گیا ۔ وہ مومن اسے جس بات سے ڈرا رہا تھا ، وہی ہو کر رہی ۔ اب تو وہ اپنے مال کی بربادی پر کف افسوس ملنے لگا اور آرزو کرنے لگا کہ اے کاش کہ میں اللہ کے ساتھ مشرک نہ بنتا ۔ جن پر فخر کرتا تھا ، ان میں سے کوئی اس وقت کام نہ آیا ، فرزند قبیلہ سب رہ گیا ۔ فخر و غرور سب مٹ گیا ، نہ اور کوئی کھڑا ہوا نہ خود میں ہی کوئی ہمت ہوئی ۔ بعض لوگ «ہُنَالِکَ» پر وقف کرتے ہیں اور اسے پہلے جملے کے ساتھ ملا لیتے ہیں یعنی وہاں وہ اپنا انتقام نہ لے سکا ۔ اور بعض «مُنتَصِرًا» پر آیت کر کے آگے سے نئے جملے کی ابتداء کرتے ہیں ، «وَلَایَۃُ» کی دوسری قرأت «وِلَایَۃُ» بھی ہے ۔ پہلی قرأت پر مطلب یہ ہوا کہ ہر مومن و کافر اللہ ہی کی طرف رجوع کرنے والا ہے ، اس کے سوا کوئی جائے پناہ نہیں ۔ عذاب کے وقت کوئی بھی سوائے اس کے کام نہیں آ سکتا جیسے فرمان ہے «فَلَمَّا رَاَوْا بَاْسَنَا قَالُوْٓا اٰمَنَّا باللّٰہِ وَحْدَہٗ وَکَفَرْنَا بِمَا کُنَّا بِہٖ مُشْرِکِیْنَ» ( 40- غافر : 84 ) یعنی ہمارے عذاب دیکھ کر کہنے لگے کہ ہم اللہ واحد پر ایمان لاتے ہیں اور اس سے پہلے جنہیں ہم شریک الٰہی ٹھہرایا کرتے تھے ، ان سے انکار کرتے ہیں ۔ اور جیسے کہ فرعون نے ڈوبتے وقت کہا تھا کہ «حَتَّیٰ إِذَا أَدْرَکَہُ الْغَرَقُ قَالَ آمَنتُ أَنَّہُ لَا إِلٰہَ إِلَّا الَّذِی آمَنَتْ بِہِ بَنُو إِسْرَائِیلَ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِینَ آلْآنَ وَقَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ وَکُنتَ مِنَ الْمُفْسِدِینَ» ( 10-یونس : 91 ، 90 ) میں اس اللہ پر ایمان لاتا ہوں جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں مسلمانوں میں شامل ہوتا ہوں ، اس وقت جواب ملا کہ اب ایمان قبول کرتا ہے ؟ اس سے پہلے تو نافرمان رہا اور مفسدوں میں شامل رہا ۔ واؤ کے کسر کی قرأت پر یہ معنی ہوئے کہ وہاں حکم صحیح طور پر اللہ ہی کے لیے ہے ۔ «لِلہِ الْحَقِّ» کی دوسری قرأت قاف کے پیش سے بھی ہے کیونکہ یہ «الْوَلَایَۃُ» کی صفت ہے جیسے فرمان ہے «اَلْمُلْکُ یَوْمَیِٕذِ الْحَقٰ للرَّحْمٰنِ وَکَانَ یَوْمًا عَلَی الْکٰفِرِیْنَ عَسِیْرًا» ( 25- الفرقان : 26 ) میں ہے ۔ بعض لوگ قاف کا زیر پڑھتے ہیں ان کے نزدیک یہ صفت ہے حق تعالیٰ کی ۔ جیسے اور آیت میں ہے «ثُمَّ رُدٰوْٓا اِلَی اللّٰہِ مَوْلٰیہُمُ الْحَقِّ اَلَا لَہُ الْحُکْمُ وَہُوَ اَسْرَعُ الْحٰسِبِیْنَ» ( 6- الانعام : 62 ) ۔ اسی لیے پھر فرماتا ہے کہ جو اعمال صرف اللہ ہی کے لیے ہوں ، ان کا ثواب بہت ہوتا ہے اور انجام کے لحاظ سے بھی وہ بہت بہتر ہیں ۔ الكهف
43 الكهف
44 الكهف
45 حیات و موت کا نقشہ دنیا اپنے زوال ، فنا ، خاتمے اور بردباری کے لحاظ سے مثل آسمانی بارش کے ہے جو زمین کے دانوں وغیرہ سے ملتی ہے اور ہزار ہا پودے لہلہانے لگتے ہیں ۔ تروتازگی اور زندگی کے آثار ہر چیز سے ظاہر ہونے لگتے ہیں لیکن کچھ دنوں کے گزرتے ہی وہ سوکھ ساکھ کر چورا چورا ہو جاتے ہیں اور ہوائیں انہیں دائیں بائیں اڑائے پھرتی ہیں ۔ اس حالت پر جو اللہ قادر تھا ، وہ اس حالت پر بھی قادر ہے ۔ عموماً دنیا کی مثال بارش سے بیان فرمائی جاتی ہے جیسے سورۃ یونس کی آیت «اِنَّمَا مَثَلُ الْحَیٰوۃِ الدٰنْیَا کَمَاءٍ اَنْزَلْنٰہُ مِنَ السَّمَاءِ فَاخْتَلَطَ بِہٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ مِمَّا یَاْکُلُ النَّاسُ وَالْاَنْعَامُ» ( 10- یونس : 24 ) الخ میں اور جیسے سورۃ الزمر کی آیت «أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللہَ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَلَکَہُ یَنَابِیعَ فِی الْأَرْضِ ثُمَّ یُخْرِجُ بِہِ زَرْعًا مٰخْتَلِفًا أَلْوَانُہُ ثُمَّ یَہِیجُ فَتَرَاہُ مُصْفَرًّا ثُمَّ یَجْعَلُہُ حُطَامًا إِنَّ فِی ذٰلِکَ لَذِکْرَیٰ لِأُولِی الْأَلْبَابِ» (39-الزمر:21) الخ میں ۔ اور جیسے سورۃ الحدید کی آیت «اِعْلَمُوْٓا اَنَّمَا الْحَیٰوۃُ الدٰنْیَا لَعِبٌ وَّلَہْوٌ وَّزِیْنَۃٌ وَّتَفَاخُرٌ بَیْنَکُمْ وَتَکَاثُرٌ فِی الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ کَمَثَلِ غَیْثٍ اَعْجَبَ الْکُفَّارَ نَبَاتُہٗ ثُمَّ یَہِیْجُ فَتَرٰیہُ مُصْفَرًّا ثُمَّ یَکُوْنُ حُطَامًا وَفِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ شَدِیْدٌ وَّمَغْفِرَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانٌ وَمَا الْحَیٰوۃُ الدٰنْیَآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ» ( 57- الحدید : 20 ) میں ۔ صحیح حدیث میں بھی ہے «الدٰنْیَا خَضِرَۃ حُلْوَۃ» دنیا سبز رنگ میٹھی ہے ، الخ ۔ (صحیح مسلم:2742) پھر فرماتا ہے کہ مال اور بیٹے دنیا کی زندگی کی زینت ہیں ۔ جیسے فرمایا ہے «زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبٰ الشَّہَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِینَ وَالْقَنَاطِیرِ الْمُقَنطَرَۃِ مِنَ الذَّہَبِ وَالْفِضَّۃِ وَالْخَیْلِ الْمُسَوَّمَۃِ وَالْأَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ذٰلِکَ مَتَاعُ الْحَیَاۃِ الدٰنْیَا وَ اللہُ عِندَہُ حُسْنُ الْمَآبِ» ( 6-الانعام : 14 ) انسان کے لیے خواہشوں کی محبت مثلا عورتیں ، بیٹے ، خزانے وغیرہ مزین کر دی گئی ہے ۔ اور آیت میں ہے «اِنَّمَآ اَمْوَالُکُمْ وَاَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌ وَاللّٰہُ عِنْدَہٗٓ اَجْرٌ عَظِیْمٌ» ( 64- التغابن : 15 ) الخ ، تمہارے مال ، تمہاری اولادیں فتنہ ہیں اور اللہ کے پاس اجر عظیم ہے ۔ یعنی اس کی طرف جھکنا اس کی عبادت میں مشغول رہنا دنیا طلبی سے بہتر ہے ۔ اسی لیے یہاں بھی ارشاد ہوتا ہے کہ باقیات صالحات ہر لحاظ سے عمدہ چیز ہے ۔ مثلا پانچوں وقت کی نمازیں اور ( دعا ) «سُبْحَان اللَّہ وَالْحَمْد لِلہِ وَلَا إِلَہ إِلَّا اللَّہ وَاَللَّہ أَکْبَر» ، اور ( دعا ) «لَا إِلَہ إِلَّا اللَّہ وَسُبْحَان اللَّہ وَالْحَمْد لِلہِ وَاَللَّہ أَکْبَر وَلَا حَوْل وَلَا قُوَّۃ إِلَّا بِاَللَّہِ الْعَلِیّ الْعَظِیم» ۔ مسند احمد میں ہے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہما کے غلام فرماتے ہیں کہ عثمان رضی اللہ عنہما ایک مرتبہ اپنے ساتھیوں میں بیٹھے ہوئے تھے جو مؤذن پہنچا ۔ آپ رضی اللہ عنہما نے پانی منگوایا ، ایک برتن میں قریب تین پاؤ کے پانی آیا ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے وضو کر کے فرمایا ، حضور علیہ السلام نے اسی طرح وضو کر کے فرمایا جو میرے اس وضو جیسا وضو کر کے ظہر کی نماز ادا کرے تو صبح سے لے کر ظہر تک کے سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔ پھر عصر میں بھی اسی طرح نماز پڑھ لی تو ظہر سے عصر تک کے تمام گناہ معاف ، پھر مغرب کی نماز پڑھی تو عصر سے مغرب تک کے گناہ معاف ۔ پھر عشاء کی نماز پڑھی تو مغرب سے عشاء تک کے گناہ معاف پھر رات کو وہ سو رہا ، صبح اٹھ کر نماز فجر ادا کی تو عشاء سے لے کے صبح تک کے گناہ معاف ۔ یہی وہ نیکیاں ہیں جو برائیوں کو دور کر دیتی ہیں ۔ لوگوں نے پوچھا یہ تو ہوئیں نیکیاں ، اب اے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہما آپ بتلائیے کہ باقیات صالحات کیا ہیں ؟ آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا دعا «سُبْحَان اللَّہ وَالْحَمْد لِلہِ وَاَللَّہ أَکْبَر وَلَا حَوْل وَلَا قُوَّۃ إِلَّا بِاَللَّہِ الْعَلِیّ الْعَظِیم» ۔ (مسند احمد:71/1:صحیح) حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں ، باقیات صالحات یہ ہیں دعا «سُبْحَان اللَّہ وَالْحَمْد لِلہِ وَاَللَّہ أَکْبَر وَلَا حَوْل وَلَا قُوَّۃ إِلَّا بِاَللَّہِ الْعَلِیّ الْعَظِیم» ۔ حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ نے اپنے شاگرد عمارہ رحمہ اللہ سے پوچھا کہ بتاؤ باقیات صالحات کیا ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ نماز اور روزہ ۔ آپ رحمہ اللہ نے فرمایا تم نے صحیح جواب نہیں دیا ، انہوں نے کہا زکوٰۃ اور حج ، فرمایا ابھی جواب ٹھیک نہیں ہوا ۔ سنو وہ پانچ کلمے ہیں دعا «لَا إِلَہ إِلَّا اللَّہ وَسُبْحَان اللَّہ وَالْحَمْد لِلہِ وَاَللَّہ أَکْبَر وَلَا حَوْل وَلَا قُوَّۃ إِلَّا بِاَللَّہِ» ۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سوال ہوا تو آپ نے بجز «الحمدللہ» کے اور چار کلمات بتلائے ۔ حضرت مجاہد رحمہ اللہ بجز «لا حول» کے اور چاروں کلمات بتلاتے ہیں ۔ حضرت حسن رحمہ اللہ اور قتادۃ رحمہ اللہ بھی ان ہی چاروں کلمات کو باقیات صالحات بتلاتے ہیں ۔ ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا «سُبْحَان اللَّہ وَالْحَمْد لِلہِ وَلَا إِلَہ إِلَّا اللَّہ وَاَللَّہ أَکْبَر» یہ ہیں باقیات صالحات ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:23100) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ، باقیات صالحات کی کثرت کرو ، پوچھا گیا وہ کیا ہیں ؟ فرمایا ملت ، پوچھا گیا وہ کیا ہے یا رسول اللہ ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تکبیر تہلیل ، تسبیح اور «الحمد للہ» اور «لَا حَوْل وَلَا قُوَّۃ إِلَّا بِاَللَّہِ» (تفسیر ابن جریر الطبری:32102:ضعیف) ۔ حضرت سالم بن عبداللہ رحمہ اللہ کے مولی عبداللہ بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ مجھے سالم رحمہ اللہ نے محمد بن کعب قرظی رحمہ اللہ کے پاس کسی کام کے لیے بھیجا تو انہوں نے کہا سالم رحمہ اللہ سے کہہ دینا کہ فلاں قبر کے پاس کے کونے میں مجھ سے ملاقات کریں ، مجھے ان سے کچھ کام ہے ۔ چنانچہ دونوں کی وہاں ملاقات ہوئی سلام علیک ہوا تو سالم رحمہ اللہ نے پوچھا ، کچھ کے نزدیک باقیات صالحات کیا ہیں ؟ انہوں نے فرمایا دعا «لَا إِلَہ إِلَّا اللَّہ وَاَللَّہ أَکْبَر» اور «سبحان اللہ» اور «لَا حَوْل وَلَا قُوَّۃ إِلَّا بِاَللَّہِ» ۔ سالم نے کہا یہ آخری کلمہ آپ رحمہ اللہ نے اس میں کب سے بڑھایا ؟ قرظی نے کہا میں تو ہمیشہ سے اس کلمے کو شمار کرتا ہوں ، دو تین بار یہی سوال جواب ہوا تو محمد بن کعب نے فرمایا ، کیا تمہیں اس کلمے سے انکار ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں انکار ہے ۔ کہا ، سنو میں نے سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے سنا ہے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے ، جب مجھے معراج کرائی گئی میں نے آسمان پر ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا ، آپ علیہ السلام نے جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا کہ یہ آپ کے ساتھ کون ہیں ؟ جبرائیل علیہ السلام نے جواب دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ انہوں نے مجھے مرحبا اور خوش آمدید کہا اور فرمایا آپ اپنی امت سے فرما دیجئیے کہ وہ جنت میں اپنے لیے بہت کچھ باغات لگا لیں ، اس کی مٹی پاک ہے ، اس کی زمین کشادہ ہے ۔ میں نے پوچھا ، وہاں باغات لگانے کی کیا صورت ہے ؟ فرمایا «لَا حَوْل وَلَا قُوَّۃ إِلَّا بِاَللَّہِ» بکثرت پڑھیں ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:23099:ضعیف) مسند احمد میں نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک رات عشاء کی نماز کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے آسمان کی طرف دیکھ کر نظریں نیچی کر لیں ، ہمیں خیال ہوا کہ شاید آسمان میں کوئی نئی بات ہوئی ہے ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، میرے بعد جھوٹ بولنے اور ظلم کرنے والے بادشاہ ہوں گے جو ان کے جھوٹ کو تسلیم کرے اور ان کے ظلم میں ان کی طرفداری کرے ، وہ مجھ سے نہیں اور نہ میں اس کا ہوں ۔ اور جو ان کے جھوٹ کو نہ بچائے اور ان کے ظلم میں ان کی طرفداری کرے ، وہ مجھ سے نہیں اور نہ میں اس کا ہوں ۔ اور جو ان کے جھوٹ کو نہ بچائے اور ان کے ظلم میں ان کی طرفداری نہ کرے وہ میرا ہے اور میں اس کا ہوں ۔ لوگو سن رکھو «سُبْحَان اللَّہ وَالْحَمْد لِلہِ وَلَا إِلَہ إِلَّا اللَّہ وَاَللَّہ أَکْبَر» یہ باقیات صالحات یعنی باقی رہنے والی نیکیاں ہیں ۔ (مسند احمد:267/4:ضعیف) مسند میں ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا واہ واہ پانچ کلمات ہیں اور نیکی کی ترازو میں بے حد وزنی ہیں «لَا إِلَہ إِلَّا اللَّہ وَاَللَّہ أَکْبَر سُبْحَان اللَّہ وَالْحَمْد لِلہِ» اور وہ بچہ جس کے انتقال پر اس کا باپ طلب اجر کے لیے صبر کرے ۔ واہ واہ پانچ چیزیں ہیں ، جو ان کا یقین رکھتا ہو اللہ سے ملاقات کرے ، وہ قطعا جنتی ہے ۔ اللہ پر ، قیامت کے دن پر ، جنت دوزخ پر ، مرنے کے بعد کے جی اٹھنے پر اور حساب پر ایمان رکھے ۔ (مسند احمد:443/3:حسن) مسند احمد میں ہے کہ سیدنا شداد بن اوس رضی اللہ عنہا ایک سفر میں تھے کسی جگہ اترے اور اپنے غلام سے فرمایا کہ چھری لاؤ کھیلیں ۔ حضرت حسان بن عطیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں ، میں نے اس وقت کہا کہ یہ آپ رضی اللہ عنہ نے کیا کہا ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ، واقعی میں نے غلطی کی ۔ سنو اسلام لانے کے بعد سے لے کر آج تک میں نے کوئی کلمہ اپنی زبان سے ایسا نہیں نکالا جو میرے لیے لگام بن جائے ، بجز اس ایک کلمے کے ، پس تم لوگ اسے یاد سے بھلا دو اور اب جو میں کہہ رہا ہوں اسے یاد رکھو ۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جب لوگ سونے چاندی کے جمع کرنے میں لگ جائیں ، تم اس وقت ان کلمات کو بکثرت پڑھا کرو ۔ دعا « اللہُمَّ إِنِّی أَسْأَلک الثَّبَات فِی الْأَمْر وَالْعَزِیمَۃ عَلَی الرٰشْد وَأَسْأَلک شُکْر نِعْمَتک وَأَسْأَلک حُسْن عِبَادَتک وَأَسْأَلک قَلْبًا سَلِیمًا وَأَسْأَلک لِسَانًا صَادِقًا وَأَسْأَلک مِنْ خَیْر مَا تَعْلَم وَأَعُوذ بِک مِنْ شَرّ مَا تَعْلَم وَأَسْتَغْفِرک لِمَا تَعْلَم إِنَّک أَنْتَ عَلَّام الْغُیُوب» یعنی اے اللہ میں تجھ سے اپنے کام کی ثابت قدمی اور نیکی کے کام کا پورا قصد اور تیری نعمتوں کی شکر گزاری کی توفیق طلب کرتا ہوں اور تجھ سے دعا ہے کہ تو مجھے سلامتی والا دل اور سچی زبان عطا فرما ، تیرے علم میں جو بھلائی ہے میں اس کا خواستگار ہوں اور تیرے علم میں جو برائی ہے ، میں اس سے تیری پناہ چاہتا ہوں ، پروردگار ہر اس برائی سے میری توبہ ہے جو تیرے علم میں ہو ، بیشک غیب داں صرف تو ہی ہے ۔ سیدنا سعید بن جنادہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اہل طائف میں سے سب سے پہلے میں نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ، میں اپنے گھر سے صبح ہی صبح چل کھڑا ہوا اور عصر کے وقت منی میں پہنچ گیا ، پہاڑ پر چڑھا ، پھر اترا ، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا ، اسلام قبول کیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سورۃ «قُلْ ہُوَ اللَّہ أَحَد» اور سورۃ «إِذَا زُلْزِلَتْ» سکھائی اور یہ کلمات تعلیم فرمائے ۔ ( دعا ) «سُبْحَان اللَّہ وَالْحَمْد لِلہِ وَلَا إِلَہ إِلَّا اللَّہ وَاَللَّہ أَکْبَر» ۔ فرمایا یہ ہیں باقی رہنے والی نیکیاں ۔ (طبرانی کبیر:5482:ضعیف) اس سند سے مروی ہے کہ جو شخص رات کو اٹھے ، وضو کرے ، کلی کرے پھر سو سو بار «سُبْحَان اللَّہ وَالْحَمْد لِلہِ وَلَا إِلَہ إِلَّا اللَّہ وَاَللَّہ أَکْبَر» پڑھے اس کے سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں ، بجز قتل و خون کے کہ وہ معاف نہیں ہوتا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں ، باقیات صالحات ذکر اللہ ہے اور «لَا إِلَہ إِلَّا اللَّہ وَاَللَّہ أَکْبَر وَسُبْحَان اللَّہ وَالْحَمْد لِلہِ وَتَبَارَکَ اللَّہ وَلَا حَوْل وَلَا قُوَّۃ إِلَّا بِاَللَّہِ وَأَسْتَغْفِر اللَّہ وَصَلَّی اللَّہ عَلَی رَسُول اللَّہ» ہے اور روزہ ، نماز ، حج ، صدقہ ، غلاموں کی آزادی ، جہاد ، صلہ رحمی اور کل نیکیاں یہ سب باقیات صالحات ہیں جن کا ثواب جنت والوں کو جب تک آسمان و زمین ہیں ، ملتا رہتا ہے ۔ فرماتے ہیں پاکیزہ کلام بھی اسی میں داخل ہے ۔ عبدالرحمٰن رحمہ اللہ فرماتے ہیں کل اعمال صالحہ اسی میں داخل ہیں ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ بھی اسے مختار بتلاتے ہیں ۔ الكهف
46 الكهف
47 سب کے سب میدان حشر میں اللہ تعالیٰ قیامت کی ہولناکیوں کا ذکر فرما رہا ہے اور جب تعجب خیز بڑے بڑے کام اس دن ہوں گے ، ان کا ذکر کر رہا ہے کہ «یَوْمَ تَمُورُ السَّمَاءُ مَوْرًا وَتَسِیرُ الْجِبَالُ سَیْرًا» ( 52-الطور : 9 ، 10 ) آسمان پھٹ جائے گا ، «وَتَرَی الْجِبَالَ تَحْسَبُہَا جَامِدَۃً وَہِیَ تَمُرٰ مَرَّ السَّحَابِ» ( 27-النمل : 88 ) پہاڑ اڑ جائیں گے گو تمہیں جمے ہوئے دکھائی دیتے ہیں لیکن اس دن تو بادلوں کی طرح تیزی سے چل رہے ہوں گے ۔ «وَتَکُونُ الْجِبَالُ کَالْعِہْنِ الْمَنفُوشِ» ( 101-القارعۃ : 5 ) آخر روئی کے گالوں کی طرح ہو جائیں گے ، «وَیَسْأَلُونَکَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ یَنسِفُہَا رَبِّی نَسْفًا فَیَذَرُہَا قَاعًا صَفْصَفًا لَّا تَرَیٰ فِیہَا عِوَجًا وَلَا أَمْتًا» ( 20-طٰہ : 105-107 ) زمین صاف چٹیل میدان ہو جائے گی جس میں کوئی اونچ نیچ تک باقی نہ رہے گی ، نہ اس میں کوئی مکان ہو گا نہ چھپر ۔ ساری مخلوق بغیر کسی آڑ کے اللہ کے بالکل سامنے ہو گی ۔ کوئی بھی مالک سے کسی جگہ چھپ نہ سکے گا ، کوئی جائے پناہ یا سر چھپانے کی جگہ نہ ہو گی ۔ کوئی درخت ، پتھر ، گھاس پھوس دکھائی نہ دے گا ۔ «قُلْ إِنَّ الْأَوَّلِینَ وَالْآخِرِینَ لَمَجْمُوعُونَ إِلَیٰ مِیقَاتِ یَوْمٍ مَّعْلُومٍ» ( 56-الواقعۃ : 50 ، 49 ) تمام اول و آخر کے لوگ جمع ہوں گے ، کوئی چھوٹا بڑا غیر حاضر نہ ہو گا ۔ تمام اگلے پچھلے اس مقرر دن جمع کئے جائیں گے ، «ذٰلِکَ یَوْمٌ مَّجْمُوعٌ لَّہُ النَّاسُ وَذٰلِکَ یَوْمٌ مَّشْہُودٌ» ( 11-ھود : 103 ) اس دن سب لوگ حاضر شدہ ہوں گے اور سب موجود ہوں گے ۔ «یَوْمَ یَقُومُ الرٰوحُ وَالْمَلَائِکَۃُ صَفًّا لَّا یَتَکَلَّمُونَ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَہُ الرَّحْمٰنُ وَقَالَ صَوَابًا» ( 78-النبإ : 38 ) تمام لوگ اللہ کے سامنے صف بستہ پیش ہوں گے ، روح اور فرشتے صفیں باندھے ہوئے کھڑے ہوں گے ، کسی کو بات کرنے کی بھی تاب نہ ہو گی بجز ان کے جنہیں اللہ رحمان اجازت دے اور وہ بات بھی معقول کہیں ۔ پس یا تو سب کی ایک ہی صف ہو گی یا کئی صفوں میں ہوں گے ۔ جیسے ارشاد قرآن ہے «وَجَاءَ رَبٰکَ وَالْمَلَکُ صَفًّا صَفًّا» ( 89-الفجر : 22 ) تیرا رب آئے گا اور فرشتے صف بہ صف ۔ وہاں منکرین قیامت کو سب کے سامنے ڈانٹ ڈپٹ ہو گی کہ دیکھو جس طرح ہم نے تمہیں اول بار پیدا کیا تھا ، اسی طرح دوسری بار پیدا کر کے اپنے سامنے کھڑا کر لیا ، اس سے پہلے تو تم اس کے قائل نہ تھے ۔ نامہ اعمال سامنے کر دیئے جائیں گے جس میں ہر چھوٹا بڑا ، کھلا چھپا عمل لکھا ہوا ہو گا ۔ اپنی بد اعمالیوں کو دیکھ دیکھ کر گناہ گار خوف و حیرت زدہ ہو جائیں گے اور افسوس و رنج سے کہیں گے کہ ہائے ہم نے اپنی عمر کیسی غفلت میں بسر کی ، افسوس بد کرداریوں میں لگے رہے اور دیکھو تو اس کتاب نے ایک معاملہ بھی ایسا نہیں چھوڑا جسے لکھا نہ ہو ، چھوٹے بڑے تمام گناہ اس میں لکھے ہوئے ہیں ۔ طبرانی میں ہے کہ غزوہ حنین سے فارغ ہو کر ہم چلے ، ایک میدان میں منزل کی ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا جاؤ جسے کوئی لکڑی ، کوئی کوڑا ، کوئی گھاس پھوس مل جائے لے آؤ ۔ ہم سب ادھر ادھر ہو گئے چپٹیاں ، چھال ، لکڑی ، پتے ، کانٹے ، درخت ، جھاڑ ، جھنکار جو ملا لے آئے ۔ ڈھیر لگ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دیکھ رہے ہو ؟ اسی طرح گناہ جمع ہو کر ڈھیر لگ جاتا ہے ، اللہ سے ڈرتے رہو ، چھوٹے بڑے گناہوں سے بچو کیونکہ سب لکھے جا رہے ہیں اور شمار کئے جا رہے ہیں ۔ (طبرانی کبیر:5485:ضعیف) جو خیر و شر ، بھلائی برائی جس کسی نے کی ہو گی ، اسے موجود پائے گا جیسے آیت «یَوْمَ تَجِدُ کُلٰ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ مِنْ خَیْرٍ مٰحْضَرًا» ( 3- آل عمران : 30 ) اور آیت «یُنَبَّؤُا الْاِنْسَانُ یَوْمَیِٕذٍ بِمَا قَدَّمَ وَاَخَّرَ» ( 75- القیامۃ : 13 ) اور آیت «یَوْمَ تُبْلَی السَّرَایِٕرُ» ( 86- الطارق : 9 ) الخ میں ہے ، تمام چھپی ہوئی باتیں ظاہر ہو جائیں گی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ، ہر بدعہد کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا ہو گا اس کی بدعہدی کے مطابق جس سے اس کی پہچان ہو جائے ۔ (صحیح بخاری:3187) اور حدیث میں ہے کہ یہ جھنڈا اس کی رانوں کے پاس ہو گا اور اعلان ہو گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی بدعہدی ہے ۔ (صحیح بخاری:3186) تیرا رب ایسا نہیں کہ مخلوق میں سے کسی پر بھی ظلم کرے ، ہاں البتہ درگزر کرنا ، معاف فرما دینا ، عفو کرنا ، یہ اس کی صفت ہے ۔ ہاں بدکاروں کو اپنی قدرت و حکمت اور عدل و انصاف سے وہ سزا بھی دیتا ہے ۔ جہنم گنہگاروں اور نافرمانوں سے بھر جائے پھر کافروں اور مشرکوں کے سوا اور مومن گنہگار چھوٹ جائیں گے ۔ اللہ تعالیٰ ایک ذرے کے برابر بھی ناانصافی نہیں کرتا ، نیکیوں کو بڑھاتا ہے ، گناہوں کو برابر ہی رکھتا ہے ۔ عدل کا ترازو اس دن سامنے ہو گا کسی کے ساتھ کوئی بدسلوکی نہ ہو گی ، الخ ۔ مسند احمد میں ہے ، سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ، مجھے روایت پہنچی کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث سنی ہے جو وہ بیان کرتے ہیں ۔ میں نے اس حدیث کو خاص ان سے سننے کے لیے ایک اونٹ خریدا ، سامان کس کر سفر کیا ، مہینہ بھر کے بعد شام میں ان کے پاس پہنچا تو معلوم ہوا کہ وہ عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہما ہیں ۔ میں نے دربان سے کہا جاؤ خبر کرو کہ جابر رضی اللہ عنہ دروازے پر ہے ، انہوں نے پوچھا کیا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما ؟ میں نے کہا جی ہاں ۔ یہ سنتے ہی جلدی کے مارے چادر سنبھالتے ہوئے جھٹ سے باہر آ گئے اور مجھے لپٹ گئے ۔ معانقہ سے فارغ ہو کر میں نے کہا ، مجھے یہ روایت پہنچی کہ آپ نے قصاص کے بارے میں کوئی حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے تو میں نے چاہا کہ خود آپ سے میں وہ حدیث سن لوں ، اس لیے یہاں آیا اور سنتے ہی سفر شروع کر دیا ، اس خوف سے کہ کہیں اس حدیث کے سننے سے پہلے مر نہ جاؤں یا آپ کو موت نہ آ جائے ۔ اب آپ سنائیے وہ حدیث کیا ہے ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ اللہ عز و جل قیامت کے دن اپنے تمام بندوں کا اپنے سامنے حشر کرے گا ، ننگے بدن ، بے ختنہ ، بےسر و سامان ۔ پھر انہیں ندا کرے گا جسے دور نزدیک والے سب یکساں سنیں گے ، فرمائے گا کہ میں مالک ہوں ، میں بدلے دلوانے والا ہوں ۔ کوئی جہنمی اس وقت تک جہنم میں نہ جائے گا جب تک اس کا جو حق کسی جنتی کے ذمہ ہو میں نہ دلوا دوں اور نہ کوئی جنتی جنت میں داخل ہو سکتا ہے جب تک اس کا حق جو جہنمی پر ہے میں نہ دلوا دوں گو ایک تھپڑ ہی ہو ۔ ہم نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ حق کیسے دلوائے جائیں گے حالانکہ ہم سب تو وہاں ننگے پاؤں ، ننگے بدن ، بے مال و اسباب ہوں گے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں اس دن حق نیکیوں اور برائیوں سے ادا کئے جائیں گے ۔ (مسند احمد:495/3:حسن) اور حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ بےسینگ والی بکری کو اگر سینگ دار بکری نے مارا ہے تو اس سے بھی اس کو بدلہ دلوایا جائے گا ۔ (صحیح مسلم:2582(21-الأنبیاء:47)) اس کے اور بھی بہت سے شواہد ہیں جنہیں ہم نے بالتفصیل آیت «وَنَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَۃِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَـیْــــــًٔا» ( 21- الأنبیاء : 47 ) الخ کی تفسیر میں اور آیت «اِلَّآ اُمَمٌ اَمْثَالُکُمْ مَا فَرَّطْنَا فِی الْکِتٰبِ مِنْ شَیْءٍ ثُمَّ اِلٰی رَبِّہِمْ یُحْشَرُوْنَ» ( 6- الانعام : 38 ) الخ کی تفسیر میں بیان کئے ہیں ۔ الكهف
48 الكهف
49 الكهف
50 محسن کو چھوڑ کر دشمن سے دوستی بیان ہو رہا ہے کہ ابلیس تمہارا بلکہ تمہارے اصلی باپ آدم علیہ السلام کا بھی قدیمی دشمن رہا ہے , اپنے خالق و مالک کو چھوڑ کر تمہیں اس کی بات نہ ماننی چاہیئے ۔ اللہ کے احسان و اکرام ، اس کے لطف و کرم کو دیکھو کہ اسی نے تمہیں پیدا کیا ، تمہیں پالا پوسا ، پھر اسے چھوڑ کر اس کے بلکہ اپنے بھی دشمن کو دوست بنانا کس قدر خطرناک غلطی ہے ؟ اس کی پوری تفسیر سورۃ البقرہ کے شروع میں گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا کر کے تمام فرشتوں کو بطور ان کی تعظیم اور تکریم کے ان کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیا ۔ سب نے حکم برداری کی لیکن چونکہ ابلیس بد اصل تھا ، آگ سے پیدا شدہ تھا ، اس نے انکار کر دیا اور فاسق بن گیا ۔ فرشتوں کی پیدائش نورانی تھی ۔ صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ فرشتے نور سے پیدا کئے گئے ہیں ، ابلیس شعلے مارنے والی آگ سے اور آدم علیہ السلام اس سے جس کا بیان تمہارے سامنے کر دیا گیا ہے ۔ (صحیح مسلم:2996) ظاہر ہے کہ ہر چیز اپنی اصلیت پر آ جاتی ہے اور وقت پر برتن میں جو ہو ، وہی ٹپکتا ہے ۔ گو ابلیس فرشتوں کے سے اعمال کر رہا تھا ، انہی کی مشابہت کرتا تھا اور اللہ کی رضا مندی میں دن رات مشغول تھا ، اسی لیے ان کے خطاب میں یہ بھی آ گیا ، لیکن یہ سنتے ہی وہ اپنی اصلیت پر آ گیا ، تکبر اس کی طبیعت میں سما گیا اور صاف انکار کر بیٹھا ۔ اس کی پیدائش ہی آگ سے تھی جیسے اس نے خود کہا کہ تو نے مجھے آگ سے بنایا ہے اور اسے مٹی سے ۔ ابلیس کبھی بھی فرشتوں میں سے نہ تھا ، وہ جنات کی اصل ہے جیسے کہ آدم علیہ السلام انسان کی اصل ہیں ۔ یہ بھی منقول ہے کہ یہ جنات ایک قسم تھی فرشتوں کی ، جو تیز آگ سے پیدا کیے گئے تھے ۔ اس کا نام حارث تھا ، جنت کا دارو‏‏غہ تھا ۔ اس جماعت کے سوا اور فرشتے نوری تھے ۔ جنات کی پیدائش آگ کے شعلے سے تھی ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ابلیس شریف فرشتوں میں سے تھا اور بزرگ قبیلے کا تھا ، جنتوں کا داروغہ تھا ، آسمان دنیا کا بادشاہ تھا ، زمین کا بھی سلطان تھا ۔ اس سے کچھ اس کے دل میں گھمنڈ آ گیا تھا کہ وہ تمام اہل آسمان سے شریف ہے ، وہ گھمنڈ بڑھتا جا رہا تھا ، اس کا صحیح اندازہ اللہ ہی کو تھا ۔ پس اس کے اظہار کے لیے آدم کو سجدے کرنے کا حکم ہوا تو اس کا گھمنڈ ظاہر ہو گیا ، از روئے تکبر کے صاف انکار کر دیا اور کافروں میں جا ملا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں وہ جن تھا یعنی جنت کا خازن تھا جیسے لوگوں کو شہروں کی طرف نسبت کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں مکی ، مدنی ، بصریٰ ، کوفی ۔ یہ جنت کا خازن آسمان دنیا کے کاموں کا مدبر تھا ، یہاں کے فرشتوں کا رئیس تھا ۔ اس معصیت سے پہلے وہ ملائکہ میں داخل تھا ، لیکن زمین پر رہتا تھا ۔ سب فرشتوں سے زیادہ کوشش سے عبادت کرنے والا اور سب سے زیادہ علم والا تھا ، اسی وجہ سے پھول گیا تھا ۔ اس کے قبیلے کا نام جن تھا ، آسمان و زمین کے درمیان آمد و رفت رکھتا تھا ۔ رب کی نافرمانی سے غضب میں آ گیا اور شیطان رجیم بن گیا اور ملعون ہو گیا ۔ پس متکبر شخص سے توبہ کی امید نہیں ہو سکتی ۔ ہاں تکبر نہ ہو اور کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو اس سے ناامید نہ ہونا چاہیئے ۔ کہتے ہیں کہ یہ تو جنت کے اندر کام کاج کرنے والوں میں تھا ۔ سلف کے اور بھی اس بارے میں بہت سے آثار مروی ہیں ، لیکن یہ اکثر و بیشتر بنی اسرائیلی ہیں ، صرف اس لیے نقل کئے گئے ہیں کہ نگاہ سے گزر جائیں ۔ اللہ ہی کو ان کے اکثر کا صحیح حال معلوم ہے ۔ ہاں بنی اسرائیل کی وہ روایتیں تو قطعا قابل تردید ہیں جو ہمارے ہاں کے دلائل کے خلاف ہوں ۔ بات یہ ہے کہ ہمیں تو قرآن کافی وافی ہے ، ہمیں اگلی کتابوں کی باتوں کی کوئی ضرورت نہیں ، ہم ان سے محض بے نیاز ہیں ۔ اس لیے کہ وہ تبدیلی ، ترمیم ، کمی بیشی سے خالی نہیں ۔ بہت سی بناوٹی چیزیں ان میں داخل ہو گئی ہیں اور ایسے لوگ ان میں نہیں پائے جاتے جو اعلیٰ درجہ کے حافظ ہوں کہ میل کچیل دور کر دیں ، کھرا کھوٹا پرکھ لیں ، زیادتی اور باطل کے ملانے والوں کی دال نہ گلنے دیں جیسے کہ اللہ رحمن نے اس امت میں اپنے فضل و کرم سے ایسے امام اور علماء اور سادات اور بزرگ اور متقی اور پاکباز اور حفاظ پیدا کئے ہیں جنہوں نے احادیث کو جمع کیا ، تحریر کیا ۔ صحیح ، حسن ، ضعیف ، منکر ، متروک ، موضوع سب کو الگ الگ کر دکھایا ۔ گھڑنے والوں ، بنانے والوں ، جھوٹ بولنے والوں کو چھانٹ کر الگ کھڑا کر دیا تاکہ ختم المرسلین سید العالمین صلی اللہ علیہ وسلم کا پاک اور متبرک کلام محفوظ رہ سکے اور باطل سے بچ سکے اور کسی کا بس نہ چلے کہ آپ کے نام سے جھوٹ کو رواج دے لے اور باطل کو حق میں ملا دے ۔ پس ہماری دعا ہے کہ اس کل طبقہ پر اللہ تعالیٰ اپنی رحمت و رضا مندی نازل فرمائے اور ان سب سے خوش رہے ! آمین ! اللہ رحمن انہیں جنت الفردوس نصیب فرمائے اور یقیناً ان کا منصب اسی لائق ہے رضی اللہ عنہم و ارضاہم ۔ الغ‏‏رض ابلیس اطاعت الٰہی سے نکل گیا ۔ پس تمہیں چاہیئے کہ اپنے دشمن سے دوستی نہ کرو اور مجھے چھوڑ کر اس سے تعلق نہ جوڑو ۔ ظالموں کو بڑا برا بدلہ ملے گا ۔ یہ مقام بھی بالکل ایسا ہی ہے جیسے سورۃ یاسین میں قیامت کا ، اس کی ہولناکیوں کا اور نیک و بد لوگوں کے نتیجوں کا ذکر کر کے فرمایا کہ اے مجرمو ! تم آج کے دن الگ ہو جاؤ ۔ الخ ۔ الكهف
51 اللہ کے سوا سب ہی بے اختیار ہیں جنہیں تم اللہ کے سوا الہ بنائے ہوئے ہو وہ سب تم جیسے ہی میرے غلام ہیں ۔ کسی چیز کی ملکیت انہیں حاصل نہیں ۔ زمین و آسمان کی پیدائش میں میں نے انہیں شامل نہیں رکھا تھا بلکہ اس وقت وہ موجود بھی نہ تھے ۔ تمام چیزوں کو صرف میں نے ہی پیدا کیا ہے ۔ سب کی تدبیر صرف میرے ہی ہاتھ ہے ۔ میرا کوئی شریک ، وزیر ، مشیر ، نظیر نہیں ۔ جیسے اور آیت میں فرمایا «قُلِ ادْعُوا الَّذِینَ زَعَمْتُم مِّن دُونِ اللہِ لَا یَمْلِکُونَ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ فِی السَّمَاوَاتِ وَلَا فِی الْأَرْضِ وَمَا لَہُمْ فِیہِمَا مِن شِرْکٍ وَمَا لَہُ مِنْہُم مِّن ظَہِیرٍ» ( 34-سبإ : 23 ، 22 ) الخ ، جن جن کو تم اپنے گمان میں کچھ سمجھ رہے ہو ، سب کو ہی سوا اللہ کے پکار کر دیکھ لو ۔ یاد رکھو انہیں آسمان و زمین میں کسی ایک ذرے کے برابر بھی اختیارات حاصل نہیں ، نہ ان کا ان میں کوئی ساجھا ہے ، نہ ان میں سے کوئی اللہ کا مددگار ہے ۔ نہ ان میں سے کوئی شفاعت کر سکتا ہے ، جب تک اللہ کی اجازت نہ ہو جائے الخ ۔ مجھے یہ لائق نہیں نہ اس کی ضرورت کہ کسی کو خصوصا گمراہ کرنے والوں کو اپنا دست و بازو اور مددگار بناؤں ۔ الكهف
52 مشرک قیامت کو شرمندہ ہوں گے تمام مشرکوں کو قیامت کے دن شرمندہ کرنے کے لیے سب کے سامنے کہا جائے گا کہ اپنے شریکوں کو پکارو جنہیں تم دنیا میں پکارتے رہے تاکہ وہ تمہیں آج کے دن کی مصیبت سے بچا لیں ، وہ پکاریں گے لیکن کہیں سے کوئی جواب نہ پائیں گے ۔ جیسے اور آیت میں ہے «وَلَقَدْ جِئْتُمُوْنَا فُرَادٰی کَمَا خَلَقْنٰکُمْ اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّتَرَکْتُمْ مَّا خَوَّلْنٰکُمْ وَرَاءَ ظُہُوْرِکُمْ» ( 6- الانعام : 94 ) ‏‏‏‏ الخ ، ہم تمہیں اسی طرح تنہا تنہا لائے جیسے کہ ہم نے تمہیں اول بار پیدا کیا تھا اور جو کچھ ہم نے تمہیں دنیا میں دے رکھا تھا ، تم وہ سب اپنے پیچھے چھوڑ آئے ۔ آج تو ہم تمہارے ساتھ تمہارے ان شریکوں میں سے کسی ایک کو بھی نہیں دیکھتے جنہیں تم شریک الٰہی ٹھہرائے ہوئے تھے اور جن کی شفاعت کا یقین کئے ہوئے تھے ۔ تمہارے اور ان کے درمیان میں تعلقات ٹوٹ گئے اور تمہارے گمان باطل ثابت ہو چکے ۔ اور آیت میں ہے «وَقِیْلَ ادْعُوْا شُرَکَاءَکُمْ فَدَعَوْہُمْ فَلَمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَہُمْ وَرَاَوُا الْعَذَابَ لَوْ اَنَّہُمْ کَانُوْا یَہْتَدُوْنَ» ( 28- القص : 64 ) ‏‏‏‏ کہا جائے گا کہ اپنے شریکوں کو پکارو ، یہ پکاریں گے لیکن وہ جواب نہ دیں گے الخ ۔ اسی مضمون کو آیت «وَمَنْ أَضَلٰ مِمَّن یَدْعُو مِن دُونِ اللہِ مَن لَّا یَسْتَجِیبُ لَہُ إِلَیٰ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ وَہُمْ عَن دُعَائِہِمْ غَافِلُونَ وَإِذَا حُشِرَ النَّاسُ کَانُوا لَہُمْ أَعْدَاءً وَکَانُوا بِعِبَادَتِہِمْ کَافِرِینَ» ( 46-الأحقاف : 5 ، 6 ) ‏‏‏‏ تک بیان فرمایا ہے ۔ سورۃ مریم میں ارشاد ہے کہ «وَاتَّخَذُوا مِن دُونِ اللہِ آلِہَۃً لِّیَکُونُوا لَہُمْ عِزًّا کَلَّا سَیَکْفُرُونَ بِعِبَادَتِہِمْ وَیَکُونُونَ عَلَیْہِمْ ضِدًّا» ( 19-مریم : 81 ، 82 ) انہوں نے اپنی عزت کے لیے اللہ کے سوا اور بہت معبود بنا رکھے ہیں لیکن ایسا ہرگز نہیں ہو گا ، وہ تو سب ان کی عبادت کے منکر ہو جائیں گے اور الٹے ان کے دشمن بن جائیں گے ۔ ان میں اور ان کے معبودان باطل میں ہم آڑ ، حجاب اور ہلاکت کا گڑھا بنا دیں گے تاکہ یہ ان سے اور وہ ان سے نہ مل سکیں ۔ نیک راہ اور گمراہ الگ الگ رہیں ، جہنم کی یہ وادی انہیں آپس میں ملنے نہ دے گی ۔ کہتے ہیں یہ وادی لہو اور پیپ کی ہو گی ، ان میں آپس میں اس دن دشمنی ہو جائے گی ۔ بہ ظاہر معلوم ہوتا ہے کہ مراد اس سے ہلاکت ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جہنم کی کوئی وادی بھی ہو یا اور کوئی فاصلے کی وادی ہو ۔ مقصود یہ ہے کہ ان عابدوں کو وہ معبود جواب تک نہ دیں گے ، نہ یہ آپس میں ایک دوسرے سے مل سکیں گے ۔ کیونکہ ان کے درمیان ہلاکت ہو گی اور ہولناک امور ہوں گے ۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے کہا ہے ، مراد یہ ہے کہ مشرکوں اور مسلمانوں میں ہم آڑ کر دیں گے جیسے آیت «وَیَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ یَوْمَیِٕذٍ یَّتَفَرَّقُوْنَ» ( 30- الروم : 14 ) ‏‏‏‏ اور آیت «فَاَقِمْ وَجْہَکَ للدِّیْنِ الْقَیِّمِ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ یَوْمٌ لَّا مَرَدَّ لَہٗ مِنَ اللّٰہِ یَوْمَیِٕذٍ یَّصَّدَّعُوْنَ» ‏‏‏‏ ( 30- الروم : 43 ) اور آیت «وَامْتَازُوا الْیَوْمَ اَیٰہَا الْمُجْرِمُوْنَ» ( 36- یس : 59 ) ‏‏‏‏ الخ اور آیت «وَیَوْمَ نَحْشُرُہُمْ جَمِیعًا ثُمَّ نَقُولُ لِلَّذِینَ أَشْرَکُوا مَکَانَکُمْ أَنتُمْ وَشُرَکَاؤُکُمْ» ( 10-یونس : 28 ) ‏‏‏‏ الخ وغیرہ میں ہے ۔ یہ گنہگار جہنم دیکھ لیں گے ۔ ستر ہزار لگاموں میں وہ جکڑی ہوئی ہو گی ، ہر ایک لگام پر ستر ستر ہزار فرشتے ہوں گے ، دیکھتے ہی سمجھ لیں گے کہ ہمارا قیدخانہ یہی ہے ۔ داخلے کے بغیر داخلے سے بھی زیادہ رنج و غم اور مصیبت والم شروع ہو جائے گا ۔ عذاب کا یقین عذاب سے پہلے کا عذاب ہے لیکن کوئی چھٹکارے کی راہ نہ پائیں گے ، کوئی نجات کی صورت نظر نہ آئے گی ۔ حدیث میں ہے کہ پانچ ہزار سال تک کافر اسی تھر تھری میں رہے گا کہ جہنم اس کے سامنے اور اس کا کلیجہ قابو سے باہر ہے ۔(مسند احمد:75/3:حسن لغیرہ) الكهف
53 الكهف
54 ہر بات صاف صاف کہہ دی گئی انسانوں کے لیے ہم نے اس اپنی کتاب میں ہر بات کا بیان خوب کھول کھول کر بیان کر دیا ہے تاکہ لوگ راہ حق سے نہ بہکیں ، ہدایت کی راہ سے نہ بھٹکیں لیکن باوجود اس بیان ، اس فرقان کے پھر بھی بجز راہ یافتہ لوگوں کے اور تمام کے تمام راہ نجات سے ہٹے ہوئے ہیں ۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، فاطمہ رضی اللہ عنہا اور علی رضی اللہ عنہما کے پاس ان کے مکان میں آئے اور فرمایا تم سوئے ہوئے ہو نماز میں نہیں ہو ؟ اس پر علی رضی اللہ عنہما نے جواب دیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری جانیں اللہ کے ہاتھ ہیں ، وہ جب ہمیں اٹھانا چاہتا ہے ، اٹھا بٹھاتا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر بغیر کچھ فرمائے لوٹ گئے لیکن اپنی زانوں پر ہاتھ مارتے ہوئے یہ فرماتے ہوئے جا رہے تھے کہ انسان تمام چیزوں سے زیادہ جھگڑالو ہے ۔ (صحیح بخاری:4724) الكهف
55 عذاب الہٰی کے منتظر کفار اگلے زمانے کے اور اس وقت کے کافروں کی سرکشی بیان ہو رہی ہے کہ حق واضح ہو چکنے کے بعد بھی اس کی تابعداری سے رکے رہتے ہیں ۔ چاہتے ہیں کہ اللہ کے عذابوں کو اپنے آنکھوں دیکھ لیں ۔ کسی نے تمنا کی کہ آسمان ہم پر گر پڑے ، کسی نے کہا کہ لا جو عذاب لا سکتا ہے لے آ ۔ قریش نے بھی کہا اے اللہ اگر یہ حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسایا کوئی اور درد ناک عذاب ہمیں کر ۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اے نبی ہم تو تجھے مجنوں جانتے ہیں اور اگر فی الواقع تو سچا نبی ہے تو ہمارے سامنے فرشتے کیوں نہیں لاتا ؟ وغیرہ وغیرہ ۔ پس عذاب الٰہی کے انتظار میں رہتے ہیں اور اس کے معائنہ کے درپے رہتے ہیں ۔ رسولوں کا کام تو صرف مومنوں کو بشارتیں دینا اور کافروں کو ڈرا دینا ہے ۔ کافر لوگ ناحق کی حجتیں کر کے حق کو اپنی جگہ سے پھسلا دینا چاہتے ہیں لیکن ان کی یہ چاہت کبھی پوری نہیں ہو گی ، حق ان کی باطل باتوں سے دبنے والا نہیں ۔ یہ میری آیتوں اور ڈراوے کی باتوں کو خالی مذاق ہی سمجھ رہے ہیں اور اپنی بےایمانی میں بڑھ رہے ہیں ۔ الكهف
56 الكهف
57 بدترین شخص کون ہے ؟ فی الحقیقت اس سے بڑھ کر پاپی کون ہے ؟ جس کے سامنے اس کے پالنے پوسنے والے کا کلام پڑھا جائے اور وہ اس کی طرف التفات تک نہ کرے ، اس سے مانوس نہ ہو بلکہ منہ پھیر کر انکار کر جائے اور بدعملیاں اور سیاہ کاریاں اس سے پہلے کی ہیں ، انہیں بھی فراموش کر جائے ۔ اس ڈھٹائی کی سزا یہ ہوتی ہے کہ دلوں پر پردے پڑ جاتے ہیں ، پھر قرآن و بیان کا سمجھنا نصیب نہیں ہوتا ، کانوں میں گرانی ہو جاتی ہے ، بھلی بات کی طرف توجہ نہیں رہتی ۔ اب لاکھ دعوت ہدایت دو لیکن راہ یابی مشکل و محال ہے ۔ اے نبی تیرا رب بڑا ہی مہربان بہت اعلیٰ رحمت والا ہے ، اگر وہ گنہگاروں کی سزا جلدی ہی کر ڈالا کرتا ، تو زمین پر کوئی جاندار باقی نہ بچتا ، وہ لوگوں کے ظلم سے درگزر کر رہا ہے لیکن اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ پکڑے گا ہی نہیں ۔ یاد رکھو وہ سخت عذابوں والا ہے ، یہ تو اس کا حلم ہے ، پردہ پوشی ہے ، معافی ہے تاکہ گمراہی والے راہ راست پر آ جائیں ، گناہوں والے توبہ کر لیں اور اس کے دامن رحمت کو تھام لیں ۔ لیکن جس نے اس حلم سے فائدہ نہ اٹھایا اور اپنی سرکشی پر جما رہا تو اس کی پکڑ کا دن قریب ہے ، جو اتنا سخت دن ہو گا کہ بچے بوڑھے ہو جائیں گے ، حمل گر جائیں گے ، اس دن کوئی جائے پناہ نہ ہو گی ، کوئی چھٹکارے کی صورت نہ ہو گی ۔ یہ ہیں تم سے پہلے کی امتیں کہ وہ بھی تمہاری طرح کفر و انکار میں پڑ گئیں اور آخر مٹا دی گئیں ۔ ان کی ہلاکت کا مقررہ وقت آ پہنچا اور وہ تباہ برباد ہو گئیں ۔ پس اے منکرو ! تم بھی ڈرتے رہو ، تم اشرف الرسل اعظم ہی کو ستا رہے ہو اور انہیں جھٹلا رہے ہو حالانکہ اگلے کفار سے تم قوت و طاقت میں ، سامان و اسباب میں بہت کم ہو ۔ میرے عذابوں سے ڈرو ، میری باتوں سے نصیحت پکڑو ۔ الكهف
58 الكهف
59 الكهف
60 موسیٰ علیہ السلام اور اللہ کا ایک بندہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ذکر کیا گیا کہ اللہ کا ایک بندہ دو دریا ملنے کی جگہ ہے ، اس کے پاس وہ علم ہے جو تمہیں حاصل نہیں ، آپ علیہ السلام نے اسی وقت ان سے ملاقات کرنے کی ٹھان لی ۔ اب اپنے ساتھی سے فرماتے ہیں کہ میں تو پہنچے بغیر دم نہ لوں گا ۔ کہتے ہیں ، یہ دو سمندر ایک تو بحیرہ فارس مشرقی اور دوسرا بحیرہ روم مغربی ہے ۔ یہ جگہ طنجہ کے پاس مغرب کے شہروں کے آخر میں ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ تو فرماتے ہیں کہ گو مجھے قرنوں تک چلنا پڑے کوئی حرج نہیں ۔ کہتے ہیں کہ قیس کے لغت میں برس کو حقب کہتے ہیں ۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ، حقب سے مراد اسی برس ہیں ۔ حضرت مجاہد رحمہ اللہ ستر برس کہتے ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما زمانہ بتلاتے ہیں ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم ملا تھا کہ اپنے ساتھ نمک چڑھی ہوئی ایک مچھلی لیں ، جہاں وہ گم ہو جائے وہیں ہمارا بندہ ملے گا ۔ یہ دونوں مچھلی کو ساتھ لیے چلے مجمع البحرین میں پہنچ گئے ، وہاں نہر حیات تھی وہیں دونوں لیٹ گئے ۔ اس نہر کے پانی کے چھینٹے مچھلی پر پڑے ، مچھلی ہلنے جلنے لگ گئی ۔ آپ علیہ السلام کے ساتھی یوشع علیہ السلام کی زنبیل میں یہ مچھلی رکھی ہوئی تھی اور وہ سمندر کے کنارے تھا ۔ مچھلی نے سمندر کے اندر کود جانے کے لیے جست لگائی اور یوشع کی آنکھ کھل گئی ۔ مچھلی ان کے دیکھتے ہوئی پانی میں گئی اور پانی میں سیدھا سوراخ ہوتا چلا گیا ۔ پس جس طرح زمین میں سوراخ اور سرنگ بن جاتی ہے ، اسی طرح پانی میں جہاں سے وہ گئی سوراخ ہو گیا ، ادھر ادھر پانی کھڑا ہو گیا اور وہ سوراخ بالکل کھلا ہوا رہا ۔ پتھر کی طرح پانی میں چھید ہو گیا ، جہاں جس پانی کو لگتی ہوئی وہ مچھلی گئی ، وہاں کا وہ پانی پتھر جیسا ہو گیا اور وہ سوراخ بنتا چلا گیا ۔ حضرت محمد بن اسحاق رحمہ اللہ مرفوعاً لائے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کا بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ پانی اس طرح ابتداء دنیا سے نہیں جما ، سوائے اس مچھلی کے چلے جانے کی جگہ کے اردگرد کے پانی کے ۔ یہ نشان مثل سوراخ زمین کے برابر موسیٰ علیہ السلام کے واپس پہنچنے تک باقی ہی رہے ۔ اس نشان کو دیکھتے ہی موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا ، اسی کی تلاش میں تو ہم تھے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:23185:ضعیف) جب مچھلی کو بھول کر یہ دونوں آگے بڑھے ۔ یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ایک کا کام دونوں ساتھیوں کی طرف منسوب ہوا ہے ۔ بھولنے والے صرف یوشع علیہ السلام تھے ۔ جیسے فرمان ہے «یَخْرُجُ مِنْہُمَا اللٰؤْلُؤُ وَالْمَرْجَانُ» ( 55-الرحمن : 22 ) یعنی ان دونوں سمندروں میں سے موتی اور مونگے نکلتے ہیں ۔ حالانکہ دو قولوں میں سے ایک یہ ہے کہ لولو اور مرجان صرف کھاری پانی میں سے نکلتے ہیں ۔ جب وہاں سے ایک مرحلہ اور طے کر گئے تو موسیٰ علیہ السلام نے اپنے ساتھی سے ناشتہ طلب کیا اور سفر کی تکلیف بھی بیان کی ، یہ تکلیف مقصود سے آگے نکل آنے کے بعد ہوئی ۔ اس پر آپ کے ساتھی کو مچھلی کا چلا جانا یاد آیا اور کہا جس چٹان کے پاس ہم ٹھہرے تھے ، اس وقت میں مچھلی بھول گیا اور آپ سے ذکر کرنا بھی شیطان نے یاد سے ہٹا دیا ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما کی قرأت «اَنْ اَذْکُرَ لَہُ» ہے ۔ فرماتے ہیں کہ اس مچھلی نے تو عجیب و غریب طور پر پانی میں اپنی راہ پکڑی ۔ اسی وقت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا لو اور سنو اسی جگہ کی تلاش میں ہم تھے ۔ تو وہ دونوں اپنے اسی راستے پر اپنے نشانات قدم کے کھوج پر واپس لوٹے ۔ وہاں ہمارے بندوں میں سے ایک بندے کو پایا جسے ہم نے اپنے پاس کی رحمت اور اپنے پاس کا علم عطا فرما رکھا تھا ۔ یہ خضر علیہ السلام ہیں ۔ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت سعید بن جبیر رحمہ اللہ نے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا کہ نوف کا خیال ہے کہ خضر علیہ السلام سے ملنے والے موسیٰ بنی اسرائیل کے موسیٰ نہ تھے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا ، وہ دشمن رب جھوٹا ہے ، ہم سے سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہما نے فرمایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے انہوں نے سنا کہ موسیٰ علیہ السلام کھڑے ہو کر بنی اسرائیل میں خطبہ کر رہے تھے جو آپ سے سوال ہوا کہ سب سے بڑا عالم کون ہے ؟ آپ علیہ السلام نے جواب دیا کہ میں ، تو چونکہ آپ علیہ السلام نے اس کے جواب میں یہ نہ فرمایا کہ اللہ جانے ، اس لیے رب کو یہ کلمہ ناپسند آیا ۔ اسی وقت وحی آئی کہ ہاں مجمع البحرین میں ہمارا ایک بندہ ہے جو تجھ سے بھی زیادہ عالم ہے ۔ اس پر موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا پھر پروردگار میں اس تک کیسے پہنچ سکتا ہوں ؟ حکم ہوا کہ اپنے ساتھ ایک مچھلی رکھ لو ، اسے توشے دان میں ڈال لو ، جہاں وہ مچھلی گم ہو جائے وہیں وہ مل جائیں گے ۔ تو آپعلیہ السلام اپنے ساتھ اپنے ساتھی یوشع بن نون علیہ السلام کو لے کر چلے ، پتھر کے پاس پہنچ کر اپنے سر اس پر رکھ کر دو گھڑی سو رہے ۔ مچھلی اس توشے دان میں تڑپی اور کود کر اس سے نکل گئی ، سمندر میں ایسی گئی جیسے کوئی سرنگ لگا کر زمین میں اتر گیا ہو ۔ پانی کا چلنا بہنا اللہ تعالیٰ نے موقوف کر دیا اور طاق کی طرح وہ سوراخ باقی رہ گیا ۔ موسیٰ علیہ السلام جب جا گے تو آپ کے ساتھی یہ ذکر آپ سے بھول گئے ، اسی وقت وہاں سے چل پڑے ۔ دن پورا ہونے کے بعد رات بھر چلتے رہے ، صبح موسیٰ علیہ السلام کو تھکان اور بھوک محسوس ہوئی ۔ اللہ نے جہاں جانے کا حکم دیا تھا جب تک وہاں سے آگے نہ نکل گئے ، تھکان کا نام تک نہ تھا ۔ اب اپنے ساتھی سے کھانا مانگا اور تکلیف بیان کی ۔ اس وقت آپ کے ساتھی نے فرمایا کہ پتھر کے پاس جب ہم نے آرام لیا تھا ، وہیں اسی وقت مچھلی تو میں بھول گیا اور اس کے ذکر کو بھی شیطان نے بھلا دیا اور اس مچھلی نے تو سمندر میں عجیب طور پر اپنی راہ نکال لی ۔ مچھلی کے لیے سرنگ بن گئی اور ان کے لیے حیرت کا باعث بن گیا ۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا اسی کی تو تلاش تھی ۔ چنانچہ اپنے نشان قدم دیکھتے ہوئے دونوں واپس ہوئے ، اسی پتھر کے پاس پہنچے دیکھا کہ ایک صاحب کپڑوں میں لپٹے ہوئے بیٹھے ہیں ۔ آپ علیہ السلام نے سلام کیا ، اس نے کہا تعجب ہے آپ کی سر زمین میں یہ سلام کہاں ؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا میں موسیٰ ہوں ۔ انہوں نے پوچھا کیا بنی اسرائیل کے موسیٰ ؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا ہاں اور میں اس لیے آیا ہوں کہ آپ مجھے وہ سکھائیں جو بھلائی آپ کو اللہ کی طرف سے سکھائی گئی ہے ۔ آپ نے فرمایا موسیٰ علیہ السلام آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے ۔ اس لیے کہ مجھے جو علم ہے وہ آپ علیہ السلام کو نہیں اور آپ کو جو علم ہے وہ مجھے نہیں ، اللہ تعالیٰ نے دونوں کو جداگانہ علم عطا فرما رکھا ہے ۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا ان شاءاللہ آپ دیکھیں گے کہ میں صبر کروں گا اور آپ کے کسی فرمان کی نافرمانی نہ کروں گا ۔ خضر علیہ السلام نے فرمایا اچھا اگر تم میرا ساتھ چاہتے ہو تو مجھ سے خود کسی بات کا سوال نہ کرنا یہاں تک کہ میں آپ تمہیں اس کی بابت خبردار کروں ۔ اتنی باتیں طے کر کے دونوں ساتھ چلے ، دریا کے کنارے ایک کشتی تھی ، ان سے اپنے ساتھ لے جانے کی بات چیت کرنے لگے ۔ انہوں نے خضر علیہ السلام کو پہچان لیا اور بغیر کرایہ لیے دونوں کو سوار کر لیا ۔ کچھ ہی دور چلے ہوں گے جو موسیٰ علیہ السلام نے دیکھا کہ خضر علیہ السلام چپ چاپ کشتی کے تختے کلہاڑے سے توڑ رہے ہیں ۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا یہ کیا ؟ ان لوگوں نے تو ہمارے ساتھ احسان کیا بغیر کرایہ لیے کشتی میں سوار کیا اور آپ نے اس کے تختے توڑنے شروع کر دئیے جس سے تمام اہل کشتی ڈوب جائیں ، یہ تو بڑا ہی ناخوش گوار کام کرنے لگے ۔ اسی وقت خضر علیہ السلام نے فرمایا ، دیکھو میں نے تو تم سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے ۔ موسیٰ علیہ السلام معذرت کرنے لگے کہ خطا ہو گئی ، بھولے سے پوچھ بیٹھا ، معاف فرمائیے اور سختی نہ کیجیے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں واقعی یہ پہلی غلطی بھول سے ہی تھی ۔ فرماتے ہیں کشتی کے ایک تختے پر ایک چڑیا آ بیٹھی اور سمندر میں چونچ ڈال کر پانی لے کر اڑ گئی ، اس وقت خضر علیہ السلام نے موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا ، میرے اور تیرے علم نے اللہ کے علم میں سے اتنا ہی کم کیا ہے جتنا پانی سے سمندر میں سے اس چڑیا کی چونچ نے کم کیا ہے ۔ اب کشتی کنارے لگی اور ساحل پر دونوں چلنے لگے جو خضر علیہ السلام کی نگاہ چند کھیلتے ہوئے بچوں پر پڑی ان میں سے ایک بچے کا سر پکڑ کر خضر علیہ السلام نے اس طرح مروڑ دیا کہ اسی وقت اس کا دم نکل گیا ۔ موسیٰ علیہ السلام گھبرا گئے اور فرمانے لگے ، بغیر کسی قتل کے اس بچے کو آپ نے ناحق مار ڈالا ؟ آپ نے بڑا ہی منکر کام کیا ۔ خضر علیہ السلام نے فرمایا دیکھو اسی کو میں نے پہلے ہی سے کہہ دیا تھا کہ تمہاری ہماری نبھ نہیں سکتی ، اس وقت خضر علیہ السلام نے پہلے سے زیادہ سختی کی ۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا اچھا اب اگر میں کوئی سوال کر بیٹھوں تو بیشک آپ مجھے اپنے ساتھ نہ رکھنا ، یقیناً اب آپ معذور ہو گئے ۔ چنانچہ پھر دونوں ہمراہ چلے ایک بستی والوں کے پاس پہنچے ان سے کھانا مانگا لیکن انہوں نے ان کی مہمانداری سے صاف انکار کر دیا ۔ وہیں ایک دیوار دیکھی جو جھک گئی تھی اور گرنے کے قریب تھی ، اسی وقت خضر نے ہاتھ لگا کر اسے ٹھیک اور درست کر دیا ۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا خیال تو فرمائیے ، ہم یہاں آئے ، ان لوگوں سے کھانا طلب کیا ، انہوں نے نہ دیا ، مہمان نوازی کے خلاف کیا ، ان کا یہ کام تھا ، آپ ان سے اجرت لے سکتے تھے ۔ خضر علیہ السلام نے فرمایا ، یہ ہے مجھ میں اور تم میں جدائی ۔ اب میں تمہیں ان کاموں کی اصلیت بتلا دوں گا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کاش کہ موسیٰ علیہ السلام صبر سے کام لیتے تو ان دونوں کی اور بھی بہت سی باتیں ہمارے سامنے اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی قرأت میں «وَکَانُ وَرَاۤئَہُمْ» کے بدلے «وَکَانُ اَمَامَہُمْ» ہے اور «سَّفِینَۃِ» کے بعد «صَالِحَۃٍ» کا لفظ بھی ہے اور «وَاَمَّا الْغُلَامُ» کے بعد «فَکَانُ کَافِرَا» کے لفظ بھی ہیں ۔ (صحیح بخاری:4725) اور سند سے بھی یہ حدیث مروی ہے ، اس میں ہے کہ اس پتھر کے پاس موسیٰ علیہ السلام رک گئے ، وہیں ایک چشمہ تھا جس کا نام نہر حیات تھا ، اس کا پانی جس چیز کو لگ جاتا وہ زندہ ہو جاتی تھی ۔ اس میں چڑیا کے پانی لینے کے بعد خضر علیہ السلام کا یہ قول منقول ہے کہ میرا اور تیرا اور تمام مخلوق کا علم اللہ کے علم میں اتنا ہی ہے جتنا اس چڑیا کی چونچ کا پانی اس سمندر کے مقابلے میں ، الخ ۔ (صحیح بخاری:4727) صحیح بخاری شریف کی ایک اور حدیث میں ہے حضرت سعید بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے گھر میں ان کے پاس تھا ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جس کو جو سوال کرنا ہو کر لے ، میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ مجھے آپ رضی اللہ عنہما پر فدا کرے ، کوفے میں ایک واعظ ہیں جن کا نام نوف ہے پھر پوری حدیث بیان کی جیسا کہ اوپر گزری ۔ اس میں ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کے اس خطبہ سے آنکھوں سے آنسو بہ نکلے اور دل نرم پڑ گئے تھے ، جب آپ جانے لگے تو ایک شخص آپ کے پاس پہنچا اور اس نے سوال کیا کہ روئے زمین پر آپ سے زیادہ علم والا بھی کوئی ہے ؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا نہیں ، اس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو عتاب کیا کیونکہ انہوں نے اللہ کی طرف علم کو نہ لوٹایا ۔ اس میں ہے کہ جب موسیٰ علیہ السلام نے نشان طلب کیا تو ارشاد ہوا کہ ایک مری ہوئی مچھلی اپنے ساتھ رکھ لو ، جس جگہ اس میں روح پڑ جائے ، وہیں پر آپ کی اس شخص سے ملاقات ہو گئی ۔ چنانچہ آپ نے مچھلی لی زنبیل میں رکھ لی اور اپنے ساتھی سے کہا ، آپ کا صرف اتنا ہی کام ہے کہ جہاں یہ مچھلی آپ کے پاس سے چلی جائے ، وہاں آپ مجھے خبر کر دینا ۔ انہوں نے کہا یہ تو بالکل آسان سی بات ہے ۔ ان کا نام یوشع بن نون تھا ۔ لفتہ سے یہی مراد ہے ۔ یہ دونوں بزرگ تر جگہ میں ایک درخت تلے تھے موسیٰ علیہ السلام کو نیند آ گئی تھی اور یوشع علیہ السلام جاگ رہے تھے جو مچھلی کود گئی ۔ انہوں نے خیال کیا کہ جگانا تو ٹھیک نہیں ، جب آنکھ کھلے گی ذکر کر دوں گا ۔ اس میں یہ بھی ہے کہ پانی میں جانے کے وقت جو سوراخ ہو گیا تھا ، اسے روای حدیث عمرو نے اپنے انگوٹھے اور اس کے پاس کی دونوں انگلیوں کا حلقہ کر کے دکھایا کہ اس طرح کا تھا جیسے پتھر میں ہوتا ہے ۔ واپسی پر خضر سمندر کے کنارے سبز گدی بچھائے ملے ، ایک چادر میں لپٹے ہوئے تھے ، اس کا ایک سرا تو دونوں پیروں کے نیچے رکھا ہوا تھا اور دوسرا کنارہ سر تلے تھا ۔ موسیٰ علیہ السلام کے سلام پر آپعلیہ السلام نے منہ کھولا ۔ اس میں یہ بھی ہے کہ خضر علیہ السلام نے فرمایا کہ آپ علیہ السلام کے ہاتھ میں توراۃ موجود ہے ، وحی آسمان سے آ رہی ہے ، کیا یہ بس نہیں ؟ اور میرا علم آپ کے لائق بھی نہیں اور نہ میں آپ کے علم کے قابل ہوں ۔ اس میں ہے کہ کشتی کا تختہ توڑ کر آپ نے ایک تانت سے باندھ دیا تھا ۔ پہلی دفعہ کا آپ کا سوال تو بھولے سے ہی تھا ، دوسری مربتہ کا بطور شرط کے تھا ، ہاں تیسری بار کا سوال قصداً علیحدگی کی وجہ سے تھا ۔ اس میں ہے کہ لڑکوں میں ایک لڑکا تھا کافر ہوشیار ، اسے خضر نے لٹا کر چھری سے ذبح کر دیا ۔ ایک قرأت میں زاکیتہ مسلمۃ بھی ہے ۔ ورائہم کی قرأت امامہم بھی ہے ۔ اس ظالم بادشاہ کا نام اس میں ہدد بن بدر ہے اور جس بچے کو قتل کیا گیا تھا اس کا نام جیسور تھا ۔ کہتے ہیں کہ اس لڑکے کے بدلے ان کے ہاں ایک لڑکی ہوئی ۔ ایک روایت میں ہے کہ موسیٰ علیہ السلام خطبہ کر رہے تھے اور فرمایا کہ اللہ کو اور اس کے امر کو مجھ سے زیادہ کوئی نہیں جانتا ۔ الخ ۔ یہ نوف کعب رضی اللہ عنہ کی بیوی کے لڑکے تھے اور ان کا قول تھا کہ جس موسیٰ کا ان آیتوں میں ذکر ہے یہ موسیٰ بن میشا تھے ۔ اور روایت میں ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے جناب باری تعالیٰ سے سوال کیا کہ اے اللہ اگر تیرے بندوں میں مجھ سے بڑا عالم کوئی ہو تو مجھے آگاہ فرما ، اس میں ہے کہ نمک چڑھی ہوئی مچھلی آپ نے اپنے ساتھ رکھی تھی ۔ اس میں یہ بھی ہے کہ خضر علیہ السلام نے فرمایا تم یہاں کیوں آئے ؟ آپ علیہ السلام کو تو ابھی بنی اسرائیل میں ہی مشغول کار رہنا ہے ۔ اس میں ہے کہ چھپی ہوئی باتیں خضر علیہ السلام کو معلوم کرائی جاتی تھیں تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ تم میرے ساتھ ٹھہر نہیں سکتے کیونکہ آپ تو ظاہر کو دیکھ کر فیصلہ کریں گے اور مجھے راز پر اطلاع ہوتی ہے ۔ چنانچہ شرط ہو گئی کہ گو آپ کیسا ہی خلاف دیکھیں لیکن لب نہ ہلائیں جب تک کہ خضر خود نہ بتلائیں ۔ کہتے ہیں کہ یہ کشتی تمام کشتیوں سے مضبوط عمدہ اور اچھی تھی ، وہ بچہ ایک بے مثل بچہ تھا بڑا حسین بڑا ہوشیار بڑا ہی طرار ، خضر نے اسے پکڑ کر پتھر سے اس کا سر کچل کر اسے مار ڈالا ۔ موسیٰ خوف الٰہی سے کانپ اٹھے کہ ننھا سا پیارا بےگناہ بچہ اس بیدردی سے بغیر کسی سبب کے خضر نے جان سے مار ڈالا ۔ دیوار گرتی ہوئی دیکھ کر ٹھہر گئے ، پہلے تو اسے باقاعدہ گرایا اور پھر بہ آرام چننے بیٹھے ۔ موسیٰ علیہ السلام اکتا گئے کہ بیٹھے بٹھائے اچھا دھندا لے بیٹھے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اس دیوار کے نیچے کا خزانہ صرف علم تھا ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:23209:ضعیف) اور روایت میں ہے کہ جب موسیٰ علیہ السلام اور آپ کی قوم مصر پر غالب آ گئی اور یہاں آ کر وہ با آرام رہنے سہنے لگے تو حکم الٰہی ہوا کہ انہیں اللہ کے احسانات یاد دلاؤ ۔ آپ خطبے کے لیے کھڑے ہوئے اور اللہ کے احسانات بیان کرنے لگے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں یہ یہ نعمتیں عطا فرمائیں ، آل فرعون سے اس نے تمہیں نجات دی ، تمہارے دشمنوں کو غارت اور غرق کر دیا ، پھر تمہیں ان کی زمین کا مالک کر دیا ، تمہارے نبی سے باتیں کیں ، اسے اپنے لیے پسند فرما لیا ، اس پر اپنی محبت ڈال دی ، تمہاری تمام حاجتیں پوری کیں ، تمہارے نبی تمام زمین والوں سے افضل ہیں ، اس نے تمہیں تورات عطا فرمائی ۔ الغرض پورے زوروں سے اللہ کی بےشمار اور ان گنت نعمتیں انہیں یاد دلائیں ۔ اس پر ایک بنی اسرائیلی نے کہا ، فی الواقع بات یہی ہے اے نبی اللہ کیا زمین پر آپ سے زیادہ علم والا بھی کوئی ہے ؟ آپ نے بےساختہ فرمایا کہ نہیں ہے ۔ اسی وقت جناب باری تعالیٰ نے جبرائیل علیہ السلام کو بھیجا کہ ان سے کہو کہ تمہیں کیا معلوم کہ میں اپنا علم کہاں کہاں رکھتا ہوں ؟ بیشک سمندر کے کنارے پر ایک شخص ہے جو تجھ سے بھی زیادہ عالم ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ، اس سے مراد خضر علیہ السلام ہیں ۔ پس موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا کہ ان کو میں دیکھ لوں ۔ وحی ہوئی کہ اچھا سمندر کے کنارے جاؤ ، وہاں تمہیں ایک مچھلی ملے گی ، اسے لے لو اور اسے اپنے ساتھی کو سونپ دو ۔ پھر سمندر کے کنارے چل دو جہاں تو مچھلی کو بھول جائے اور وہ تجھ سے گم ہو جائے ، وہیں تو میرے اس نیک بندے کو پائے گا ۔ موسیٰ علیہ السلام جب چلتے چلتے تھک گئے تو اپنے ساتھی سے جو ان کا غلام تھا ، مچھلی کے بارے میں سوال کیا ، اس نے جواب دیا کہ جس پتھر کے پاس ہم ٹھہرے تھے ، وہیں میں مچھلی کو بھول گیا اور آپ سے ذکر کرنا شیطان نے بالکل بھلا دیا ، میں نے دیکھا کہ مچھلی تو گویا سرنگ بناتی ہوئی دریا میں جا رہی ہے ۔ موسیٰ علیہ السلام کو یہ سن کر بڑا ہی تعجب ہوا ، جب لوٹ کر وہاں آئے تو دیکھا کہ مچھلی نے پانی میں جانا شروع کیا ہے ۔ موسیٰ علیہ السلام بھی اپنی لکڑی سے پانی کو چیرتے ہوئے اس کے پیچھے ہو لیے ۔ مچھلی جہاں سے گزرتی تھی ، اس کے دونوں طرف کا پانی پتھر بن جاتا تھا ، اس سے بھی اللہ کے نبی سخت متعجب ہوئے ۔ اب مچھلی ایک جزیرے میں آپ کو لے گئی الخ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور حر بن قیس میں اختلاف تھا کہ موسیٰ علیہ السلام کے یہ صاحب کون تھے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا فرمان تھا کہ یہ خضر تھے ۔ اسی وقت ان کے پاس سے سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہما گزرے ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے انہیں بلا کر اپنا اختلاف بیان کیا ۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی وہ حدیث بیان کی جو تقریباً اوپر گزر چکی ہے ۔ اس میں سائل کے سوال کے الفاظ یہ ہیں کہ کیا آپ اس شخص کا ہونا بھی جانتے ہیں جو آپ سے زیادہ علم والا ہو ؟(صحیح مسلم:2380) الكهف
61 الكهف
62 الكهف
63 الكهف
64 الكهف
65 الكهف
66 شوق تعلیم و تعلم یہاں اس گفتگو کا ذکر ہو رہا ہے جو موسیٰ علیہ السلام اور خضر علیہ السلام کے درمیان ہوئی تھی ۔ خضر اس علم کے ساتھ مخصوص کئے گئے تھے جو موسیٰ علیہ السلام کو نہ تھا ۔ اور موسیٰ علیہ السلام کے پاس وہ علم تھا جس سے خضر بے خبر تھے ۔ پس موسیٰ علیہ السلام ادب سے اور اس لیے کہ خضر کو مہربان کر لیں ، ان سے سوال کرتے ہیں ۔ شاگرد کو اسی طرح ادب کے ساتھ اپنے استاد سے دریافت کرنا چاہیئے ، پوچھتے ہیں کہ اگر اجازت ہو تو میں آپ کے ساتھ رہوں ، آپ کی خدمت کرتا رہوں اور آپ سے علم حاصل کروں جس سے مجھے نفع پہنچے اور میرے عمل نیک ہو جائیں ۔ خضر علیہ السلام اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ تم میرا ساتھ نہیں نبھا سکتے ، میرے کام آپ کو اپنے علم کے خلاف نظر آئیں گے ۔ میرا علم آپ کو نہیں اور آپ کو جو علم ہے ، وہ اللہ نے مجھے نہیں سکھایا ، پس میں اپنی ایک الگ خدمت پر مقرر ہوں اور آپ الگ خدمت پر ۔ ناممکن ہے کہ آپ اپنی معلومات کے خلاف میرے افعال دیکھیں اور پھر صبر کر سکیں ۔ اور واقعہ میں آپ اس حال میں معذور بھی ہیں ۔ کیونکہ باطنی حکمت اور مصلحت آپ کو معلوم نہیں اور مجھے اللہ تعالیٰ ان پر مطلع فرما دیا کرتا ہے ۔ اس پر موسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا کہ آپ جو کچھ کریں گے ، میں اسے صبر سے برداشت کرتا رہوں گا ، کسی بات میں آپ کے خلاف نہ کروں گا ۔ پھر خضر نے ایک شرط پیش کی کہ اچھا کسی چیز کے بارے میں تم مجھ سے سوال نہ کرنا ، میں جو کہوں وہ سن لینا ، تم اپنی طرف سے کسی سوال کی ابتداء نہ کرنا ۔ ابن جریر رحمہ اللہ میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ رب العالمین عز و جل سے سوال کیا کہ تجھے اپنے بندوں میں سے زیادہ پیارا کون ہے ؟ جواب ملا کہ جو ہر وقت میری یاد میں رہے اور مجھے نہ بھلائے ۔ پوچھا کہ تمام بندوں میں سے سب سے اچھا فیصلہ کرنے ولا کون ہے ؟ فرمایا جو حق کے ساتھ فیصلے کرے اور خواہش کے پیچھے نہ پڑے ۔ دریافت کیا کہ سب سے بڑا عالم کون ہے ؟ فرمایا وہ عالم جو زیادہ علم کی جستجو میں رہے ، ہر ایک سے سیکھتا رہے کہ ممکن ہے کوئی ہدایت کا کلمہ مل جائے اور ممکن ہے کوئی بات گمراہی سے نکلنے کی ہاتھ لگ جائے ۔ موسیٰ علیہ السلام نے پھر دریافت کیا کہ کیا زمین میں تیرا کوئی بندہ مجھ سے بھی زیادہ عالم ہے ؟ فرمایا ہاں ، پوچھا وہ کون ہے ؟ فرمایا خضر علیہ السلام ۔ فرمایا میں اسے کہاں تلاش کروں ؟ فرمایا دریا کے کنارے پتھر کے پاس جہاں سے مچھلی بھاگ کھڑی ہو ۔ پس موسیٰ علیہ السلام ان کی جستجو میں چلے ۔ پھر وہ ہوا جس کا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے ۔ اسی پتھر کے پاس دونوں کی ملاقات ہوئی ۔ اس روایت میں یہ بھی ہے کہ سمندروں کے ملاپ کی جگہ جہاں سے زیادہ پانی کہیں بھی نہیں ، چڑیا نے چونچ میں پانی لیا تھا ۔ الكهف
67 الكهف
68 الكهف
69 الكهف
70 الكهف
71 شرائط طے ہو گئیں دونوں میں جب شرط طے ہو گئی کہ تو سوال نہ کرنا جب تک میں خود ہی اس کی حکمت تجھ پر ظاہر نہ کروں تو دونوں ایک ساتھ چلے ۔ پہلے مفصل روایتیں گزر چکی ہیں کہ کشتی والوں نے انہیں پہچان کر بغیر کرایہ لیے سوار کر لیا تھا ۔ جب کشتی چلی اور بیچ سمندر میں پہنچی تو خضر علیہ السلام نے ایک تختہ اکھیڑ ڈالا پھر اسے اوپر سے ہی جوڑ دیا ۔ یہ دیکھ کر موسیٰ علیہ السلام سے صبر نہ ہو سکا ، شرط کو بھول گئے اور جھٹ سے کہنے لگے کہ یہ کیا واہیات ہے ؟ (لِتُغْرِقَ) کا لام لام عاقبت ہے ، لام تعلیل نہیں ہے ، جیسے شاعر کے اس قول میں (لدوا للموت وبنوا للحزاب) یعنی ہر پیدا شدہ جان دار کا انجام موت ہے اور ہر بنائی ہوئی عمارت کا انجام اجڑنا ہے ۔ امرا کے معنی منکر اور عجیب کے ہیں ۔ یہ سن کر خضر علیہ السلام نے انہیں ان کا وعدہ یاد دلایا کہ تم نے اپنی شرط کا خلاف کیا ۔ میں تو تم سے پہلے ہی کہہ چکا تھا کہ تمہیں ان باتوں کا علم نہیں ، تم خاموش رہنا ، مجھ سے نہ کچھ کہنا نہ سوال کرنا ۔ ان کاموں کی مصلحت و حکمت اللہ مجھے معلوم کراتا ہے اور تم سے یہ چیزیں مخفی ہیں ۔ موسیٰ علیہ السلام نے معذرت کی کہ اس بھول کو معاف کرو اور مجھ پر سختی نہ کرو ، پہلے جو لمبی حدیث مفصل واقعہ کی بیان ہوئی ہے ، اس میں ہے کہ یہ پہلا سوال فی الواقع بھول چوک سے ہی تھا ۔ الكهف
72 الكهف
73 الكهف
74 حکمت الہی کے مظاہر فرمان ہے کہ اس واقعہ کے بعد دونوں صاحب ایک ساتھ چلے ، ایک بستی میں چند بچے کھیلتے ہوئے ملے ۔ ان میں سے ایک بہت ہی تیز طرار ، نہایت خوبصورت ، چالاک اور بھلا لڑکا تھا ۔ اس کو پکڑ کر خضر علیہ السلام نے اس کا سر توڑ دیا یا تو پتھر سے یا ہاتھ سے ہی گردن مروڑ دی بچہ اسی وقت مر گیا ۔ موسیٰ علیہ السلام کانپ اٹھے اور بڑے سخت لہجے میں کہا ، یہ کیا واہیات ہے ؟ چھوٹے بےگناہ بچے کو بغیر کسی شرعی سبب کے مار ڈالنا یہ کون سی بھلائی ہے ؟ بیشک تم نہایت منکر کام کرتے ہو ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» تفسیر محمدی کا پندرھواں پارہ ختم ہوا ۔ اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے ۔ آمین ۔ ثم آمین ۔ الكهف
75 موسیٰ علیہ السلام کی بےصبری حضرت خضر علیہ السلام نے اس دوسری مرتبہ اور زیادہ تاکید سے موسیٰ علیہ السلام کو ان کی منظور کی ہوئی شرط کے خلاف کرنے پر تنبیہ فرمائی ۔ اسی لیے موسیٰ علیہ السلام نے بھی اس بار اور ہی راہ اختیار کی اور فرمانے لگے ، اچھا اب کی دفعہ اور جانے دو اب اگر میں آپ پر اعتراض کروں تو مجھے آپ اپنے ساتھ نہ رہنے دینا ، یقیناً آپ بار بار مجھے متنبہ فرماتے رہے اور اپنی طرف سے آپ نے کوئی کمی نہیں کی ۔ اب اگر قصور کروں تو سزا پاؤں ۔ ابن جریر میں ہے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک تھی کہ جب کوئی یاد آ جاتا اور اس کے لیے آپ دعا کرتے تو پہلے اپنے لیے کرتے ۔ ایک روز فرمانے لگے ہم پر اللہ کی رحمت ہو اور موسیٰ علیہ السلام پر کاش کہ وہ اپنے ساتھی کے ساتھ اور بھی ٹھہرتے اور صبر کرتے تو اور یعنی بہت سی تعجب خیز باتیں معلوم ہوتیں ۔ لیکن انہوں نے تو یہ کہہ کر چھٹی لے لی کہ اب اگر پوچھوں تو ساتھ چھوٹ جائے ۔ میں اب زیادہ تکلیف میں آپ کو ڈالنا نہیں چاہتا ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:23232:صحیح) الكهف
76 الكهف
77 ایک اور انوکھی بات دو دفعہ کے اس واقعہ کے بعد پھر دونوں صاحب مل کر چلے اور ایک بستی میں پہنچے ۔ مروی ہے وہ بستی ایک تھی یہاں کے لوگ بڑے ہی بخیل تھے ۔ (صحیح مسلم:2380) انتہا یہ کہ دو بھوکے مسافروں کے طلب کرنے پر انہوں نے روٹی کھلانے سے بھی صاف انکار کر دیا ۔ وہاں دیکھتے ہیں کہ ایک دیوار گرنا ہی چاہتی ہے ، جگہ چھوڑ چکی ہے ، جھک پڑی ہے ۔ دیوار کی طرف ارادے کی اسناد بطور استعارہ کے ہے ۔ اسے دیکھتے ہی یہ کمر کس کر لگ گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے اسے مضبوط کر دیا اور بالکل درست کر دیا ۔ پہلے حدیث بیان ہو چکی ہے کہ آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اسے لوٹا دیا ۔ خم ٹھیک ہو گیا اور دیوار درست بن گئی ۔ اس وقت پھر کلیم اللہ علیہ السلام بول اٹھے کہ سبحان اللہ ان لوگوں نے تو ہمیں کھانے تک کو نہ پوچھا بلکہ مانگنے پر بھاگ گئے ۔ اب جو تم نے ان کی یہ مزدوری کر دی ، اس پر کچھ اجرت کیوں نہ لے لی جو بالکل ہمارا حق تھا ؟ اس وقت وہ بندہ الٰہی بول اٹھے ! لو صاحب اب مجھ میں اور آپ میں حسب معاہدہ خود جدائی ہو گئی ۔ کیونکہ بچے کے قتل پر آپ نے سوال کیا تھا اس وقت جب میں نے آپ کو اس غلطی پر متنبہ کیا تھا تو آپ نے خود ہی کہا تھا کہ اب اگر کسی بات کو پوچھوں تو مجھے اپنے ساتھ سے الگ کر دینا ۔ اب سنو ! جن باتوں پر آپ نے تعجب سے سوال کیا اور برداشت نہ کر سکے ، ان کی اصلی حکمت آپ پر ظاہر کئے دیتا ہوں ۔ الكهف
78 الكهف
79 اللہ کی مصلحتوں کی وضاحت بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان باتوں کے انجام سے خضر علیہ السلام کو مطلع کر دیا تھا اور انہیں جو حکم ملا تھا ، وہ انہوں نے کیا تھا ۔ موسیٰ علیہ السلام کو اس راز کا علم نہ تھا اس لیے بظاہر اسے خلاف سمجھ کر اس پر انکار کرتے تھے لہٰذا خضر علیہ السلام نے اب اصل معاملہ سمجھا دیا ۔ فرمایا کہ کشتی کو عیب دار کرنے میں تو یہ مصلحت تھی کہ اگر صحیح سالم ہوتی تو آگے چل کر ایک ظالم بادشاہ تھا جو ہر ایک اچھی کشتی کو ظلما چھین لیتا تھا ۔ جب اسے وہ ٹوٹی پھوٹی دیکھے گا تو چھوڑ دے گا ۔ اگر یہ ٹھیک ٹھاک اور ثابت ہوتی تو ساری کشتی ہی ان مسکینوں کے ہاتھ سے چھن جاتی اور ان کی روزی کمانے کا یہی ایک ذریعہ تھا جو بالکل جاتا رہتا ۔ مروی ہے کہ اس کشتی کے مالک چند یتیم بچے تھے ۔ ابن جریج کہتے ہیں اس بادشاہ کا نام حدوبن بدو تھا ۔ بخاری شریف کے حوالے سے یہ راویت پہلے گزر چکی ہے ۔ تورات میں ہے کہ یہ عیص بن اسحاق کی نسل سے تھا ، توراۃ میں جن بادشاہوں کا صریح ذکر ہے ان میں ایک یہ بھی ہے ، «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ الكهف
80 اللہ کی رضا اور انسان پہلے بیان ہو چکا ہے کہ اس نوجوان کا نام جیسور تھا ۔ حدیث میں ہے کہ اس کی جبلت میں ہی کفر تھا ۔ (صحیح مسلم:2661) خضر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ بہت ممکن تھا کہ اس بچے کی محبت اس کے ماں باپ کو بھی کفر کی طرف مائل کر دے ۔ حضرت قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ، اس کی پیدائش سے اس کے ماں باپ بہت خوش ہوئے تھے اور اس کی ہلاکت سے وہ بہت غمگین ہوئے ، حالانکہ اس کی زندگی ان کے لیے ہلاکت تھی ۔ پس انسان کو چاہیئے کہ اللہ کی قضاء پر راضی رہے ۔ رب انجام کو جانتا ہے اور ہم اس سے غافل ہیں ۔ مومن جو کام اپنے لیے پسند کرتا ہے ، اس کی اپنی پسند سے وہ اچھا ہے جو اللہ اس کے لیے پسند فرماتا ہے ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ مومن کے لیے جو اللہ کے فیصلے ہوتے ہیں ، وہ سراسر بہتری اور عمدگی والے ہی ہوتے ہیں ۔ (مسند احمد:117/3:صحیح) قرآن کریم میں ہے «وَعَسَیٰ أَن تَکْرَہُوا شَیْئًا وَہُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ» ( 2-البقرہ : 216 ) یعنی بہت ممکن ہے کہ ایک کام تم اپنے لیے برا اور ضرر والا سمجھتے ہو اور وہی دراصل تمہارے لیے بھلا اور مفید ہو ۔ خضر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ہم نے چاہا کہ اللہ انہیں ایسا بچہ دے جو بہت پرہیزگار ہو اور جس پر ماں باپ کو زیادہ پیار ہو ۔ یا یہ کہ جو ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرتا ہو ۔ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ اس لڑکے کے بدلے اللہ نے ان کے ہاں ایک لڑکی دی ۔ مروی ہے کہ اس بچے کے قتل کے وقت اس کی والدہ کے حمل سے ایک مسلمان لڑکا تھا اور وہ حاملہ تھیں ۔ الكهف
81 الكهف
82 اللہ کی حفاظت کا ایک انداز اس آیت سے ثابت ہوا کہ بڑے شہر پر بھی قریہ کا اطلاق ہو سکتا ہے کیونکہ پہلے «فَانطَلَقَا حَتَّیٰ إِذَا أَتَیَا أَہْلَ قَرْیَۃٍ» ( الکھف : 77 ) فرمایا تھا اور یہاں« فِی الْمَدِینَۃِ »فرمایا ۔ اسی طرح مکہ شریف کو بھی قریہ کہا گیا ہے ۔ فرمان ہے «وَکَأَیِّن مِّن قَرْیَۃٍ ہِیَ أَشَدٰ قُوَّۃً مِّن قَرْیَتِکَ الَّتِی أَخْرَجَتْکَ» ( 47-محمد : 13 ) الخ ۔ اور آیت میں مکہ اور طائف دونوں شہروں کو قریہ فرمایا گیا ہے چنانچہ ارشاد ہے « وَقَالُوْا لَوْلَا نُزِّلَ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰی رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْیَـتَیْنِ عَظِیْمٍ» ( 43- الزخرف : 31 ) ۔ آیت میں بیان ہو رہا ہے کہ اس دیوار کو درست کر دینے میں مصلحت الٰہی یہ تھی کہ یہ اس شہر کے دو یتیموں کی تھی اس کے نیچے انکا مال دفن تھا ۔ ٹھیک تفسیر تو یہی ہے گو یہ بھی مروی ہے کہ وہ علمی خزانہ تھا ۔ بلکہ ایک مرفوع حدیث میں بھی ہے کہ جس خزانے کا ذکر کتاب اللہ میں ہے ، یہ خالص سونے کی تختیاں تھیں جن پر لکھا ہوا تھا کہ تعجب ہے اس شخص پر جو تقدیر کا قائل ہوتے ہوئے اپنی جان کو محنت و مشقت میں ڈال رہا ہے اور رنج و غم برداشت کر رہا ہے ۔ تعجب ہے کہ جو جہنم کے عذابوں کا ماننے والا ہے ، پھر بھی ہنسی کھیل میں مشغول ہے ۔ تعجب ہے کہ موت کا یقین رکھتے ہوئے غفلت میں پڑا ہوا ہے ۔ «لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ » ۔ یہ عبارت ان تختیوں پر لکھی ہوئی تھی ۔(مسند بزار:2229:ضعیف) لیکن اس میں ایک راوی بشر بن منذر ہیں ۔ کہا گیا ہے کہ یہ مصیصہ کے قاضی تھے ان کی حدیث میں وہم ہے ۔ سلف سے بھی اس بارے میں بعض آثار مروی ہیں ۔ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں ، یہ سونے کی تختی تھی جس میں «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» کے بعد قریب قریب مندرجہ بالا نصحیتں اور آخر میں کلمہ طیبہ تھا ۔ عمر مولیٰ غفرہ سے بھی تقریباً یہی مروی ہے ۔ امام جعفر بن محمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس میں ڈھائی سطریں تھیں پوری تین نہ تھیں ، الخ ۔ مذکور ہے کہ یہ دونوں یتیم بوجہ اپنے ساتویں دادا کی نیکیوں کے محفوظ رکھے گئے تھے ۔ جن بزرگوں نے یہ تفسیر کی ہے ، وہ بھی پہلی تفسیر کے خلاف نہیں کیونکہ اس میں بھی ہے کہ یہ علمی باتیں سونے کی تختی پر لکھی ہوئی تھیں اور ظاہر ہے کہ سونے کی تختی خود مال ہے اور بہت بڑی رقم کی چیز ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ والدین کے سبب اولاد پر رحم اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ انسان کی نیکیوں کی وجہ سے اس کے بال بچے بھی دنیا اور آخرت میں اللہ کی مہربانی حاصل کر لیتے ہیں ۔ جیسے قرآن و حدیث میں صراحتا مذکور ہے دیکھئیے آیت میں ان کی کوئی صلاحیت بیان نہیں ہوئی ہاں ان کے والد کی نیک بختی اور نیک عملی بیان ہوئی ہے ۔ اور پہلے گزر چکا ہے یہ باپ جس کی نیکی کی وجہ سے ان کی حفاظت ہوئی یہ ان بچوں کا ساتواں دادا تھا «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ آیت میں ہے تیرے رب نے چاہا ، یہ اسناد اللہ کی طرف اس لیے کی گئی ہے کہ جوانی تک پہنچانے پر بجز اس کے اور کوئی قادر نہیں ۔ دیکھئیے بچے کی بارے میں اور کشتی کے بارے میں ارادے کی نسبت اپنی طرف کی گئی ہے «فَأَرَدْنَا» اور «فَأَرَدتٰ» کے لفظ ہیں «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ پھر فرماتے ہیں کہ دراصل یہ تینوں باتیں جنہیں تم نے خطرناک سمجھا سراسر رحمت تھیں ۔ کشتی والوں کو گو قدرے نقصان ہوا لیکن اس سے پوری کشتی بچ گئی ۔ بچے کے مرنے کی وجہ سے گو ماں باپ کو رنج ہوا لیکن ہمیشہ کے رنج اور عذاب الٰہی سے بچ گئے اور پھر نیک بدلہ ہاتھوں ہاتھ مل گیا ۔ اور یہاں اس نیک شخص کی اولاد کا بھلا ہوا ۔ یہ کام میں نے اپنی خوشی سے نہیں کئے بلکہ احکام الٰہی بجا لایا ۔ اس سے بعض لوگوں نے خضر علیہ السلام کی نبوت پر استدلال کیا ہے اور پوری بحث پہلے گزر چکی ہے اور کچھ لوگ کہتے ہیں یہ رسول تھے ۔ ایک قول ہے کہ یہ فرشتے تھے لیکن اکثر بزرگوں کا فرمان ہے کہ یہ ایک ولی اللہ تھے ۔ امام ابن قتیبہ رحمہ اللہ نے معارف میں لکھا ہے کہ ان کا نام بلیابن ملکان بن خالغ بن عاجر بن شانح بن ارفحشد بن سام بن نوح علیہ السلام تھا ۔ ان کی کنیت ابو العباس ہے ، لقب خضر ہے ۔ امام نووی رحمہ اللہ نے تہذیب الاسماء میں لکھا ہے کہ یہ شہزادے تھے ۔ یہ اور ابن صلاح تو قائل ہیں کہ وہ اب تک زندہ ہیں اور قیامت تک زندہ رہیں گے ۔ گو بعض احادیث میں بھی یہ ذکر آیا ہے لیکن ان میں سے ایک بھی صحیح نہیں ۔ سب سے زیادہ مشہور حدیث اس بارے میں وہ ہے جس میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعزیت کے لیے آپ تشریف لائے تھے (تفسیر قرطبی،4189:ضعیف و باطل) ۔ لیکن اس کی سند بھی ضعیف ہے ۔ اکثر محدثین وغیرہ اس کے برخلاف ہیں اور وہ حیات خضر کے قائل نہیں ۔ ان کی ایک دلیل آیت قرآنی «وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِکَ الْخُلْدَ اَفَا۟یِٕنْ مِّتَّ فَہُمُ الْخٰلِدُوْنَ» ( 21- الأنبیاء : 34 ) ہے یعنی تجھ سے پہلے بھی ہم نے کسی کو ہمیشہ کی زندگی نہیں دی ۔ اور دلیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا غزوہ بدر میں یہ فرمانا ہے کہ الٰہی اگر میری یہ جماعت ہلاک ہو گئی تو زمین میں تیری عبادت پھر نہ کی جائے گی ۔ (صحیح مسلم:1763) ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اگر خضر رحمۃ اللہ علیہ زندہ ہوتے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ضرور حاضر ہوتے اور اسلام قبول کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں ملتے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام جن و انس کی طرف اللہ کے رسول بنا کر بھیجے گئے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ اگر موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام زندہ ( زمین پر ) ہوتے تو انہیں بھی بجز میری تابعداری کے چارہ نہ تھا ۔(حاشیۃ العقیدہ الطحاویۃ، ارواء الغلیل:1589،منکر) آپ اپنی وفات سے کچھ دن پہلے فرماتے ہیں کہ آج جو زمین پر ہیں ، ان میں سے ایک بھی آج سے لے کر سو سال تک باقی نہیں رہے گا ۔ (صحیح بخاری:116) ان کے علاوہ اور بھی بہت سے دلائل ہیں ۔ صحیح البخاری میں ہے کہ خضر کو خضر اس لیے کہا گیا کہ وہ سفید رنگ سوکھی گھاس پر بیٹھ گئے تھے یہاں تک کہ اس کے نیچے سے سبزہ اگ آیا ۔ (صحیح بخاری:3402) اور ممکن ہے کہ اس سے مراد یہ ہو کہ آپ خشک زمین پر بیٹھ گئے تھے اور پھر وہ لہلہانے لگی ۔ الغرض خضر علیہ السلام نے موسیٰ علیہ السلام کے سامنے جب یہ گتھی سلجھا دی اور ان کاموں کی اصل حکمت بیان کر دی تو فرمایا کہ یہ تھے وہ راز جن کے آشکارا کرنے کے لیے آپ جلدی کر رہے تھے ۔ چونکہ پہلے شوق و مشقت زیادہ تھی ، اس لیے لفظ «لَمْ تَسْطِع» کہا اور اب بیان کر دینے کے بعد وہ بات نہ رہی اس لیے لفظ «لَمْ تَسْطِع» کہا ۔ یہی صفت آیت «فَمَا اسْطَاعُوْٓا اَنْ یَّظْہَرُوْہُ وَمَا اسْتَطَاعُوْا لَہٗ نَقْبًا» ( 18- الکہف : 97 ) میں ہے یعنی یاجوج ماجوج نہ اس دیوار پر چڑھ سکے اور نہ اس میں کوئی سوراخ کر سکے ۔ پس چڑھنے میں تکلیف بہ نسبت سوراخ کرنے کے کم ہے اس لیے ثقیل کا مقابلہ ثقیل سے اور خفیف کا مقابلہ خفیف سے کیا گیا اور لفظی اور معنوی مناسبت قائم کر دی ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی کا ذکر ابتداء قصہ میں تو تھا لیکن پھر نہیں ، اس لیے کہ مقصود صرف موسیٰ علیہ السلام اور خضر علیہ السلام کا واقعہ بیان کرنا تھا ۔ حدیثوں میں ہے کہ آپ کے یہ ساتھی یو‎ شع بن نون علیہ السلام تھے ۔ یہی موسیٰ علیہ السلام کے بعد بنی اسرائیل کے والی بنائے گئے تھے ۔ ایک روایت میں ہے کہ انہوں نے آب حیات پی لیا تھا اس لیے انہیں کشتی میں بٹھا کر بیچ سمندر کے چھوڑ دیا ، وہ کشتی یونہی ہمیشہ تک موجوں کے تلاطم میں رہے گی ۔ یہ بالکل ضعیف ہے کیونکہ اس واقعہ کے راویوں میں ایک میں تو حسن ہے جو متروک ہے ، دوسرا اس کا باپ ہے جو غیر معروف ہے ۔ یہ واقعہ سندا ٹھیک نہیں ۔ الكهف
83 کفار کے سوالات کے جوابات پہلے گزر چکا ہے کہ کفار مکہ نے اہل کتاب سے کہلوایا تھا کہ ہمیں کچھ ایسی باتیں بتلاؤ جو ہم محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے دریافت کریں اور ان کے جواب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ بن پڑیں ۔ تو انہوں نے سکھایا تھا کہ ایک تو ان سے اس شخص کا واقعہ پوچھو جس نے روئے زمین کی سیاحت کی تھی ۔ دوسرا سوال ان سے ان نوجوانوں کی نسبت کرو جو بالکل لا پتہ ہو گئے ہیں اور تیسرا سوال ان سے روح کی بابت کرو ۔ ان کے ان سوالوں کے جواب میں یہ سورت نازل ہوئی ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:22861) یہ بھی روایت ہے کہ یہودیوں کی ایک جماعت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ذوالقرنین کا قصہ دریافت کرنے کو آئی تھی ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھتے ہی فرمایا کہ تم اس لیے آئے ہو ۔ پھر آپ نے وہ واقعہ بیان فرمایا ۔ اس میں ہے کہ وہ ایک رومی نوجوان تھا اسی نے اسکندریہ بنایا ۔ اسے ایک فرشتہ آسمان تک چڑھا لے گیا تھا اور دیوار تک لے گیا تھا اس نے کچھ لوگوں کو دیکھا جن کے منہ کتوں جیسے تھے وغیرہ ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:23275:ضعیف) لیکن اس میں بہت طول ہے اور بے کار ہے اور ضعف ہے اس کا مرفوع ہونا ثابت نہیں ۔ دراصل یہ بنی اسرائیل کی روایات ہیں ۔ تعجب ہے کہ امام ابوزرعہ رازی جیسے علامہ زماں نے اسے اپنی کتاب دلائل نبوت میں مکمل وارد کیا ہے ۔ فی الواقع یہ ان جیسے بزرگ سے تو تعجب خیز چیز ہی ہے ۔ اس میں جو ہے کہ یہ رومی تھا ، یہ بھی ٹھیک نہیں ۔ اسکندر ثانی البتہ رومی تھا وہ فیلبس مقدونی کا لڑکا ہے جس سے روم کی تاریخ شروع ہوتی ہے اور سکندر اول تو بقول ازرقی وغیرہ ابراہیم علیہ السلام کے زمانے میں تھا ۔ اس نے آپ کے ساتھ بیت اللہ شریف کی بنا کے بعد طواف بیت اللہ کیا ہے ۔ آپ پر ایمان لایا تھا ، آپ کا تابعدار بنا تھا ، انہی کے وزیر خضر علیہ السلام تھے ۔ اور سکندر ثانی کا وزیر ارسطا طالیس مشہور فلسفی تھا «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اسی نے مملکت روم کی تاریخ لکھی یہ میسح علیہ السلام سے تقریباً تین سو سال پہلے تھا ۔ اور سکندر اول جس کا ذکر قرآن کریم میں ہے یہ ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے زمانے میں تھا جیسے کہ ازرقی وغیرہ نے ذکر کیا ہے ۔ جب ابراہیم علیہ السلام نے بیت اللہ بنایا تو اس نے آپ علیہ السلام کے ساتھ طواف کیا تھا اور اللہ کے نام بہت سی قربانیاں کی تھیں ۔ ہم نے اللہ کے فضل سے ان کے بہت سے واقعات اپنی کتاب البدایہ والنہایہ میں ذکر کر دیے ہیں ۔ وہب بن منبہ رحمہ اللہ کہتے ہیں ، یہ بادشاہ تھے چونکہ ان کے سر کے دونوں طرف تانبا رہتا تھا ، اس لیے انہیں ذوالقرنین کہا گیا ۔ یہ وجہ بھی بتلائی گئی ہے کہ یہ روم اور فارس دونوں کا بادشاہ تھا ۔ بعض کا قول ہے کہ فی الواقع اس کے سر کے دونوں طرف کچھ سینگ سے تھے ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ، اس نام کی وجہ یہ ہے کہ یہ اللہ کے نیک بندے تھے اپنی قوم کو اللہ کی طرف بلایا ۔ یہ لوگ مخالف ہو گئے اور ان کے سر کے ایک جانب اس قدر مارا کہ یہ شہید ہو گئے ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں دوبارہ زندہ کر دیا ، قوم نے پھر سر کے دوسری طرف اسی قدر مارا جس سے یہ پھر مر گئے اس لیے انہیں ذوالقرنین کہا جاتا ہے ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ چونکہ یہ مشرق سے مغرب تک سیاحت کر آئے تھے اس لیے انہیں ذوالقرنین کہا گیا ہے ۔ ہم نے اسے بڑی سلطنت دے رکھی تھی ۔ ساتھ ہی قوت لشکر ، آلات حرب سب کچھ ہی دے رکھا تھا ۔ مشرق سے مغرب تک اس کی سلطنت تھی ، عرب و عجم سب اس کے ماتحت تھے ۔ ہرچیز کا اسے علم دے رکھا تھا ۔ زمین کے ادنٰی و اعلیٰ نشانات بتلا دیے تھے ۔ تمام زبانیں جانتے تھے ۔ جس قوم سے لڑائی ہوتی ، اس کی زبان بول لیتے تھے ۔ ایک مرتبہ سیدنا کعب احبار رضی اللہ عنہما سے امیر معاویہ رضی اللہ عنہما نے فرمایا تھا ، کیا تم کہتے ہو کہ ذوالقرنین نے اپنے گھوڑے ثریا سے باندھے تھے ۔ انہوں نے جواب دیا کہ اگر آپ یہ فرماتے ہیں تو سنیے ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ، ہم نے اسے ہرچیز کا سامان دیا تھا ۔ حقیقت میں اس بات میں حق سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہما کے ساتھ ہے اس لیے بھی کہ حضرت کعب رحمہ اللہ کو جو کچھ کہیں لکھا ملتا تھا ، روایت کر دیا کرتے تھے گو وہ جھوٹ ہی ہو ۔ اسی لیے آپ نے فرمایا ہے کہ کعب کا کذب تو بار ہا سامنے آ چکا ہے یعنی خود تو جھوٹ نہیں گھڑتے تھے لیکن جو روایت ملتی گو بے سند ہو ، بیان کرنے سے نہ چوکتے ۔ اور یہ ظاہر ہے کہ بنی اسرائیل کی روایات جھوٹ ، خرافات ، تحریف ، تبدیلی سے محفوظ نہ تھیں ۔ بات یہ ہے کہ ہمیں ان اسرائیلی روایات کی طرف التفات کرنے کی بھی کیا ضرورت ؟ جب کہ ہمارے ہاتھوں میں اللہ کی کتاب اور اس کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی اور صحیح احادیث موجود ہیں ۔ افسوس ! انہی بنی اسرائیلی روایات نے بہت سی برائی مسلمانوں میں ڈال دی اور بڑا فساد پھیل گیا ۔ کعب رحمہ اللہ نے اس بنی اسرائیل کی روایت کے ثبوت میں قرآن کی اس آیت کا آخری حصہ جو پیش کیا ہے ، یہ بھی کچھ ٹھیک نہیں کیونکہ یہ تو بالکل ظاہر بات ہے کہ کسی انسان کو اللہ تعالیٰ نے آسمانوں پر اور ثریا پر پہنچنے کی طاقت نہیں دی ۔ دیکھئیے بلقیس کے حق میں بھی قرآن نے یہی الفاظ کہے ہیں «وَاُوْتِیَتْ مِنْ کُلِّ شَیْءٍ» ( 27- النمل : 23 ) اسے ہرچیز دی گئی تھی ۔ اس سے بھی مراد صرف اسی قدر ہے کہ بادشاہوں کے ہاں عموماً جو ہوتا ہے ، وہ سب اس کے پاس بھی تھا ۔ اسی طرح ذوالقرنین کو اللہ تعالیٰ نے تمام راستے اور ذرائع مہیا کر دیے تھے کہ وہ اپنی فتوحات کو وسعت دیتے جائیں اور زمین سرکشوں اور کافروں سے خالی کراتے جائیں اور اس کی توحید کے ساتھ موحدین کی بادشاہت دنیا پر پھیلائیں اور اللہ والوں کی حکومت جمائیں ۔ ان کاموں میں جن اسباب کی ضرورت پڑتی ہے ، وہ سب رب عزوجل نے ذوالقرنین کو دے رکھے تھے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہما سے پوچھا جاتا ہے کہ یہ مشرق و مغرب تک کیسے پہنچ گئے ؟ آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا سبحان اللہ ۔ اللہ تعالیٰ نے بادلوں کو ان کے لیے مسخر کر دیا تھا اور تمام اسباب انہیں مہیا کر دیے تھے اور پوری قوت وطاقت دے دی تھی ۔ الكهف
84 الكهف
85 ذوالقرنین کا تعارف ذوالقرنین ایک راہ لگ گئے ، زمین کی ایک سمت یعنی مغربی جانب کوچ کر دیا ۔ جو نشانات زمین پر تھے ان کے سہارے چل کھڑے ہوئے ۔ جہاں تک مغربی رخ چل سکتے تھے چلتے رہے ، یہاں تک کہ اب سورج کے غروب ہونے کی جگہ تک پہنچ گئے ۔ یہ یاد رہے کہ اس سے مراد آسمان کا وہ حصہ نہیں ، جہاں سورج غروب ہوتا ہے کیونکہ وہاں تک تو کسی کا جانا ناممکن ہے ۔ ہاں اس رخ جہاں تک زمین پر جانا ممکن ہے ، ذوالقرنین پہنچ گئے ۔ اور یہ جو بعض قصے مشہور ہیں کہ سورج کے غروب ہونے کی جگہ سے بھی آپ تجاوز کر گئے اور سورج مدتوں ان کی پشت پر غروب ہوتا رہا ، یہ بے بنیاد باتیں ہیں اور عموماً اہل کتاب کی خرافات ہیں اور ان میں سے بھی بددینوں کی گھڑنت ہیں اور محض دروغ بے مروغ ہیں ۔ الغرض جب انتہائے مغرب کی سمت پہنچ گئے تو یہ معلوم ہوا کہ گویا بحر محیط میں سورج غروب ہو رہا ہے ۔ جو بھی کسی سمندر کے کنارے کھڑا ہو کر سورج کو غروب ہوتے ہوئے دیکھے گا تو بظاہر یہی منظر اس کے سامنے ہو گا کہ گویا سورج پانی میں ڈوب رہا ہے ۔ حالانکہ سورج چوتھے آسمان پر ہے اور اس سے الگ کبھی نہیں ہوتا «حَمِئَۃٍ» یا تو مشتق ہے «حماۃ» سے یعنی چکنی مٹی ۔ آیت قرآنی «وَاِذْ قَالَ رَبٰکَ لِلْمَلٰیِٕکَۃِ اِنِّیْ خَالِقٌ بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ» ( 15- الحجر : 28 ) میں اس کا بیان گزر چکا ہے ۔ یہی مطلب سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سن کر نافع نے سنا کہ حضرت کعب رحمہ اللہ فرماتے تھے تم ہم سے زیادہ قرآن کے عالم ہو لیکن میں تو کتاب میں دیکھتا ہوں کہ وہ سیاہ رنگ مٹی میں غائب ہو جاتا تھا ۔ ایک قرأت میں «فِیْ عَیْنٍ حَامِیَۃِ» ہے یعنی گرم چشمے میں غروب ہونا پایا ۔ یہ دونوں قرأتیں مشہور ہیں اور دونوں درست ہیں خواہ کوئی سی قرأت پڑھے اور ان کے معنی میں بھی کوئی تفاوت نہیں کیونکہ سورج کی نزدیکی کی وجہ سے پانی ، گرم ہوا اور وہاں کی مٹی کے سیاہ رنگ کی وجہ سے اس کا پانی کیچڑ جیسا ہی ہو ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ سورج کو غروب ہوتے دیکھ کر فرمایا ، اللہ کی بھڑکی آگ میں اگر اللہ کے حکم سے اس کی سوزش کم نہ ہو جاتی تو یہ تو زمین کی تمام چیزوں کو جھلسا ڈالتا ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:236307:ضعیف) اس کی صحت میں نظر ہے بلکہ مرفوع ہونے میں بھی ۔ بہت ممکن ہے کہ یہ سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کا اپنا کلام ہو اور ان دو تھیلوں کی کتابوں سے لیا گیا ہو جو انہیں یرموک سے ملے تھے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما نے سورۃ الکہف کی یہی آیت تلاوت فرمائی تو آپ نے «عَیْنٍ حَامِیَۃِ» پڑھا ۔ اس پر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ہم تو «حَمِئَۃٍ» پڑھتے ہیں ۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہما نے سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے پوچھا ، آپ کس طرح پڑھتے ہیں ، انہوں نے جواب دیا جس طرح آپ نے پڑھا ۔ اس پر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا ، میرے گھر میں قرآن کریم نازل ہوا ہے ۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہما نے کعب رحمہ اللہ کے پاس آدمی بھیجا کہ بتلاؤ سورج کہاں غروب ہوتا ہے ؟ تورات میں اس کے متعلق کچھ ہے ؟ کعب رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ اسے عربیت والوں سے پوچھنا چاہیئے ، وہی اس کے پورے عالم ہیں ۔ ہاں تورات میں تو میں یہ پاتا ہوں کہ وہ پانی اور مٹی میں یعنی کیچڑ میں چھپ جاتا ہے اور مغرب کی طرف اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا ۔ یہ سب قصہ سن کر ابن حاضر نے کہا اگر میں اس وقت ہوتا تو آپ کی تائید میں تبع کے وہ دو شعر پڑھ دیتا جس میں اس نے ذو القرنین کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ مشرق و مغرب تک پہنچا کیونکہ اللہ نے اسے ہر قسم کے سامان مہیا فرمائے تھے اس نے دیکھا کہ سورج سیاہ مٹی جیسے کیچڑ میں غروب ہوتا نظر آتا ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے پوچھا اس شعر میں تین لفظ ہیں خلب ، ثاط اور حرمد ۔ ان کے کیا معنی ہیں ؟ مٹی ، کیچڑ اور سیاہ ۔ اسی وقت سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہما نے اپنے غلام سے یا کسی اور شخص سے فرمایا ، یہ جو کہتے ہیں لکھ لو ۔ ایک مرتبہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سورۃ الکہف کی تلاوت حضرت کعب رحمہ اللہ نے سنی اور جب آپ نے «حَمِئَۃٍ» پڑھا تو کہا کہ واللہ جس طرح تورات میں ہے ، اسی طرح پڑھتے ہوئے میں نے آپ ہی کو سنا ۔ تورات میں بھی یہی ہے کہ وہ سیاہ رنگ کیچڑ میں ڈوبتا ہے ۔ وہیں ایک شہر تھا جو بہت بڑا تھا اس کے بارہ ہزار دروازے تھے ۔ اگر وہاں شور غل نہ ہو تو کیا عجب کہ ان لوگوں کو سورج کے غروب ہونے کی آواز تک آئے ۔ وہاں ایک بہت بڑی امت کو آپ نے بستا ہوا پایا ۔ اللہ تعالیٰ نے اس بستی والوں پر بھی انہیں غلبہ دیا ، اب ان کے اختیار میں تھا کہ یہ ان پر جبر وظلم کریں یا ان میں عدل وانصاف کریں ۔ اس پر ذوالقرنین نے اپنے عدل و ایمان کا ثبوت دیا اور عرض کیا کہ جو اپنے کفر و شرک پر اڑا رہے گا ، اسے تو ہم سزا دیں گے قتل وغارت سے یا یہ کہ تانبے کے برتن کو گرم آگ کر کے اس میں ڈال دیں گے کہ وہیں اس کا مرنڈا ہو جائے یا یہ کہ سپاہیوں کے ہاتھوں انہیں بدترین سزائیں کرائیں گے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اور پھر جب وہ اپنے رب کی طرف لوٹایا جائے گا تو وہ اسے سخت تر اور درد ناک عذاب کرے گا ۔ اس سے قیامت کے دن کا بھی ثبوت ہوتا ہے ۔ اور جو ایمان لائے ، ہماری توحید کی دعوت قبول کر لے ، اللہ کے سوا دوسروں کی عبادت سے دست برداری کر لے ، اسے اللہ اپنے ہاں بہترین بدلہ دے گا اور خود ہم بھی اس کی عزت افزائی کریں گے اور بھلی بات کہیں گے ۔ الكهف
86 الكهف
87 الكهف
88 الكهف
89 ایک وحشی بستی ذوالقرنین مغرب سے واپس مشرق کی طرف چلے ۔ راستے میں جو قومیں ملتیں ، اللہ کی عبادت اور اس کی توحید کی انہیں دعوت دیتے ۔ اگر وہ قبول کر لیتے تو بہت اچھا ، ورنہ ان سے لڑائی ہوتی اور اللہ کے فضل سے وہ ہارتے ۔ آپ انہیں اپنا ماتحت کر کے وہاں کے مال ومویشی اور خادم وغیرہ لے کر آگے کو چلتے ۔ بنی اسرائیلی خبروں میں ہے کہ یہ ایک ہزار چھ سو سال تک زندہ رہے ۔ اور برابر زمین پر دین الٰہی کی تبلیغ میں رہے ، ساتھ ہی بادشاہت بھی پھیلتی رہی ۔ جب آپ سورج نکلنے کی جگہ پہنچے وہاں دیکھا کہ ایک بستی آباد ہے لیکن وہاں کے لوگ بالکل نیم وحشی جیسے ہیں ۔ نہ وہ مکانات بناتے ہیں نہ وہاں کوئی درخت ہے ، سورج کی دھوپ سے پناہ دینے والی کوئی چیز وہاں انہیں نظر نہ آئی ۔ ان کے رنگ سرخ تھے ان کے قد پست تھے عام خوراک ان کی مچھلی تھی ۔ حضرت حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں ، سورج کے نکلنے کے وقت وہ پانی میں چلے جایا کرتے تھے اور غروب ہونے کے بعد جانوروں کی طرح ادھر ادھر ہو جایا کرتے تھے ۔ ( ابو شیخ فی العظمۃ989-978) حضرت قتادہ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ وہاں تو کچھ اگتا نہ تھا ، سورج کے نکلنے کے وقت وہ پانی میں چلے جاتے اور زوال کے بعد دوردراز اپنی کھیتیوں وغیرہ میں مشغول ہو جاتے ۔ سلمہ کا قول ہے کہ ان کے کان بڑے بڑے تھے ایک اوڑھ لیتے ، ایک بچھا لیتے ۔ حضرت قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں یہ وحشی حبشی تھے ۔ ابن جریر فرماتے ہیں کہ وہاں کبھی کوئی مکان یا دیوار یا احاطہٰ نہیں بنا ، سورج کے نکلنے کے وقت یہ لوگ پانی میں گھس جاتے ۔ وہاں کوئی پہاڑ بھی نہیں ۔ پہلے کسی وقت ان کے پاس ایک لشکر پہنچا تو انہوں نے ان سے کہا کہ دیکھو سورج نکلتے وقت باہر نہ ٹھہرنا ۔ انہوں نے کہا نہیں ہم تو رات ہی رات یہاں سے چلے جائیں گے لیکن یہ تو بتاؤ کہ یہ ہڈیوں کے چمکیلے ڈھیر کیسے ہیں ؟ انہوں نے کہا یہاں پہلے ایک لشکر آیا تھا ۔ سورج کے نکلنے کے وقت وہ یہیں ٹھہرا رہا ، سب مر گئے ، یہ ان کی ہڈیاں ہیں ۔ یہ سنتے ہی وہ وہاں سے واپس ہو گئے ۔ پھر فرماتا ہے کہ ذوالقرنین کی ، اس کے ساتھیوں کی کوئی حرکت کوئی گفتار اور رفتار ہم پر پوشیدہ نہ تھی ۔ گو اس کا لاؤ لشکر بہت تھا زمین کے ہر حصے پر پھیلا ہوا تھا ۔ «إِنَّ اللہَ لَا یَخْفَیٰ عَلَیْہِ شَیْءٌ فِی الْأَرْضِ وَلَا فِی السَّمَاءِ» ( 3-آل عمران : 5 ) لیکن ہمارا علم زمین و آسمان پر حاوی ہے ۔ ہم سے کوئی چیز مخفی نہیں ۔ الكهف
90 الكهف
91 الكهف
92 یاجوج ماجوج اپنے شرقی سفر کو ختم کر کے پھر ذوالقرنین وہیں مشرق کی طرف ایک راہ چلے ۔ دیکھا کہ دو پہاڑ ہیں جو ملے ہوئے ہیں لیکن ان کے درمیان ایک گھاٹی ہے ، جہاں سے یاجوج ماجوج نکل کر ترکوں پر تباہی ڈالا کرتے ہیں ، انہیں قتل کرتے ہیں ، کھیت باغات تباہ کرتے ہیں ، بال بچوں کو بھی ہلاک کرتے ہیں اور سخت فساد برپا کرتے رہتے ہیں ۔ یاجوج ماجوج بھی انسان ہیں جیسے کہ بخاری و مسلم کی حدیث سے ثابت ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ، اللہ عزوجل آدم علیہ السلام سے فرمائے گا کہ اے آدم ! آپ لبیک وسعدیک کے ساتھ جواب دیں گے ، حکم ہو گا آگ کا حصہ الگ کر ، پوچھیں گے کتنا حصہ ؟ حکم ہو گا ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے دوزخ میں اور ایک جنت میں ۔ یہی وہ وقت ہو گا کہ بچے بوڑھے ہو جائیں گے اور ہر حاملہ کا حمل گر جائے گا ۔ پھر حضور علیہ السلام نے فرمایا تم میں دو امتیں ہیں کہ وہ جن میں ہوں انہیں کثرت کو پہنچا دیتی ہیں یعنی یاجوج ماجوج ۔ (صحیح بخاری:6530) امام نووی رحمہ اللہ نے شرح صحیح مسلم میں ایک عجیب بات لکھی ہے وہ لکھتے ہیں کہ آدم علیہ السلام کے خاص پانی کے چند قطرے جو مٹی میں گرے تھے ، انہی سے یاجوج ماجوج پیدا کئے گئے ہیں ۔ گویا وہ حواء اور آدم علیہ السلام کی نسل سے نہیں بلکہ صرف نسل آدم علیہ السلام سے ہیں ۔ لیکن یہ یاد رہے کہ یہ قول بالکل ہی غریب ہے نہ اس پر عقلی دلیل ہے نہ نقلی اور ایسی باتیں جو اہل کتاب سے پہنچتی ہیں ، وہ ماننے کے قابل نہیں ہوتیں ۔ بلکہ ان کے ہاں کے ایسے قصے ملاوٹی اور بناوٹی ہوتے ہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ مسند احمد میں حدیث ہے کہ نوح علیہ السلام کے تین لڑکے تھے سام ، حام اور یافث ۔ سام کی نسل سے کل عرب ہیں اور حام کی نسل سے کل حبشی ہیں اور یافث کی نسل سے کل ترک ہیں ۔ بعض علماء کا قول ہے کہ یاجوج ماجوج ترکوں کے اس جد اعلیٰ یافث کی ہی اولاد ہیں ، انہیں ترک اس لیے کہا گیا ہے کہ انہیں بوجہ ان کے فساد اور شرارت کے انسانوں کی دیگر آبادی کے پس پشت پہاڑوں کی آڑ میں چھوڑ دیا گیا تھا ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ نے ذوالقرنین کے سفر کے متعلق اور اس دیوار کے بنانے کے متعلق اور یاجوج ماجوج کے جسموں ، ان کی شکلوں اور ان کے کانوں وغیرہ کے متعلق وہب بن منبہ سے ایک بہت لمبا چوڑا واقعہ اپنی تفسیر میں بیان کیا ہے جو علاوہ عجیب و غریب ہونے کے صحت سے دور ہے ۔ ابن ابی حاتم میں بھی ایسے بہت سے واقعات درج ہیں لیکن سب غریب اور غیر صحیح ہیں ۔ ان پہاڑوں کے درے میں ذوالقرنین نے انسانوں کی ایک آبادی پائی جو بوجہ دنیا کے دیگر لوگوں سے دوری کے اور ان کی اپنی مخصوص زبان کے اوروں کی بات بھی تقریبا نہیں سمجھ سکتے تھے ۔ ان لوگوں نے ذوالقرنین کی قوت وطاقت ، عقل و ہنر کو دیکھ کر درخواست کی کہ اگر آپ رضا مند ہوں تو ہم آپ کے لیے بہت سا مال جمع کر دیں اور آپ ان پہاڑوں کے درمیان کی گھاٹی کو کسی مضبوط دیوار سے بند کر دیں تاکہ ہم ان فسادیوں کی روزمرہ کی ان تکالیف سے بچ جائیں ۔ اس کے جواب میں ذوالقرنین نے فرمایا ، مجھے تمہارے مال کی ضرورت نہیں اللہ کا دیا سب کچھ میرے پاس موجود ہے اور وہ تمہارے مال سے بہت بہتر ہے ۔ یہی جواب سلیمان علیہ السلام کی طرف سے ملکہ سبا کے قاصدوں کو دیا گیا تھا «أَتُمِدٰونَنِ بِمَالٍ فَمَا آتَانِیَ اللہُ خَیْرٌ مِّمَّا آتَاکُم بَلْ أَنتُم بِہَدِیَّتِکُمْ تَفْرَحُونَ» ( 27-النمل : 36 ) ۔ ذوالقرنین نے اپنے اس جواب کے بعد فرمایا کہ ہاں تم اپنی قوت وطاقت اور کام کاج سے میرا ساتھ دو تو میں تم میں اور ان میں ایک مضبوط دیوار کھڑی کر دیتا ہوں ۔ زبر جمع ہے زبرۃ کی ۔ ذوالقرنین فرماتے ہیں کہ لوہے کے ٹکڑے اینٹوں کی طرح کے میرے پاس لاؤ ۔ جب یہ ٹکڑے جمع ہو گئے تو آپ نے دیوار بنانی شروع کرا دی اور وہ لمبائی چوڑائی میں اتنی ہو گئی کہ تمام جگہ گھر گئی اور پہاڑ کی چوٹی کے برابر پہنچ گئی ۔ اس کے طول و عرض اور موٹائی کی ناپ میں بہت سے مختلف اقوال ہیں ۔ جب یہ دیوار بالکل بن گئی تو حکم دیا کہ اب اس کے چاروں طرف آگ بھڑکاؤ ۔ جب وہ لوہے کی دیوار بالکل انگارے جیسی سرخ ہو گئی تو حکم دیا کہ اب پگھلا ہوا تانبا لاؤ اور ہر طرف سے اس کے اوپر بہا دو چنانچہ یہ بھی کیا گیا ۔ پس ٹھنڈی ہو کر یہ دیوار بہت ہی مضبوط اور پختہ ہو گئی اور دیکھنے میں ایسی معلوم ہونے لگی جیسے کوئی دھاری دار چادر ہو ۔ ابن جریر میں ہے کہ ایک صحابی رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ میں نے وہ دیوار دیکھی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیسی ہے ؟ اس نے کہا دھاری دار چادر جیسی ، جس میں سرخ و سیاہ دھاریاں ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ٹھیک ہے (تفسیر ابن جریر الطبری:23340:مرسل) لیکن یہ روایت مرسل ہے ۔ خلیفہ واثق نے اپنے زمانے میں اپنے امیروں کو ایک وافر لشکر اور بہت سا سامان دے کر روانہ کیا تھا کہ وہ اس دیوار کی خبر لائیں ۔ یہ لشکر دو سال سے زیادہ سفر میں رہا اور ملک در ملک پھرتا ہوا آخر اس دیوار تک پہنچا ، دیکھا کہ لوہے اور تانبے کی دیوار ہے ۔ اس میں ایک بہت بڑا نہایت پختہ عظیم الشان دروازہ بھی اسی کا ہے جس پر منوں کے وزنی قفل لگے ہوئے ہیں اور جو مال مسالہ دیوار کا بچا ہوا ہے ، وہ وہیں پر ایک برج میں رکھا ہوا ہے جہاں پہرہ چوکی مقرر ہے ۔ دیوار بے حد بلند ہے کتنی ہی کوشش کی جائے لیکن اس پر چڑھنا ناممکن ہے ۔ اس سے ملا ہوا پہاڑیوں کا سلسلہ دونوں طرف برابر چلا گیا ہے اور بھی بہت سے عجائب وغرائب امور دیکھے جو انہوں نے واپس آ کر خلیفہ کی خدمت میں عرض کئے ۔ الكهف
93 الكهف
94 الكهف
95 الكهف
96 الكهف
97 دیوار بنا دی گئی اس دیوار پر نہ تو چڑھنے کی طاقت یاجوج ماجوج کو ہے ، نہ وہ اس میں کوئی سوراخ کر سکتے ہیں کہ وہاں سے نکل آئیں ۔ چونکہ چڑھنا بہ نسبت توڑنے کے زیادہ آسان ہے ، اسی لیے چڑھنے میں «مَااسْطَاعُوْا» کا لفظ لائے اور توڑنے میں «مَااسْـتَـطَاعُوْا» کا لفظ لائے ۔ غرض نہ تو وہ چڑھ کر آ سکتے ہیں نہ سوراخ کر کے ۔ مسند احمد میں حدیث ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، ہر روز یاجوج ماجوج اس دیوار کو کھودتے ہیں یہاں تک کہ قریب ہوتا ہے کہ سورج کی شعاعیں ان کو نظر آ جائیں ، چونکہ دن گزر جاتا ہے اس لیے ان کے سردار کا حکم ہوتا ہے کہ اب بس کرو کل آ کر توڑ دیں گے لیکن جب وہ دوسرے دن آتے ہیں تو اسے پہلے دن سے زیادہ مضبوط پاتے ہیں ۔ قیامت کے قریب جب ان کا نکلنا اللہ کو منظور ہو گا تو یہ کھودتے ہوئے جب دیوار کو چھلکے جیسی کر دیں گے تو ان کا سردار کہے گا ، اب چھوڑ دو کل ان شاءاللہ اسے توڑ ڈالیں گے ، پس ان شاءاللہ کہہ لینے کی برکت سے دوسرے دن جب وہ آئیں گے تو جیسی چھوڑ گئے تھے ویسی ہی پائیں گے ۔ فوراً گرا دیں گے اور باہر نکل پڑیں گے ۔ تمام پانی چاٹ جائیں گے ، لوگ تنگ آ کر قلعوں میں پناہ گزیں ہو جائیں گے ۔ یہ اپنے تیر آسمان کی طرف چلائیں گے اور مثل خون آلود تیروں کے ان کی طرف لوٹائے جائیں گے تو یہ کہیں گے ، زمین والے سب دب گئے آسمان والوں پر بھی ہم غالب آ گئے ۔ اب ان کی گردنوں میں گلٹیاں نکلیں گی اور سب کے سب بحکم الٰہی اسی وبا سے ہلاک کر دئے جائیں گے ۔ اس کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے کہ زمین کے جانوروں کی خوراک ان کے جسم و خون ہوں گے جس سے وہ خوب موٹے تازے ہو جائیں گے ۔ (مسند احمد:510/2:صحیح) ابن ماجہ میں بھی یہ روایت ہے ۔ امام ترمذی رحمہ اللہ بھی اسے لائے ہیں اور فرمایا ہے یہ روایت غریب ہے سوائے اس سند کے مشہور نہیں ۔ اس کی سند بہت قوی ہے لیکن اس کا متن نکارت سے خالی نہیں ۔ اس لیے کہ آیت کے ظاہری الفاظ صاف ہیں کہ نہ وہ چڑھ سکتے ہیں نہ سوراخ کر سکتے ہیں کیونکہ دیوار نہایت مضبوط ، بہت پختہ اور سخت ہے ۔ کعب احبار رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ یاجوج ماجوج روزانہ اسے چاٹتے ہیں اور بالکل چھلکے جیسی کر دیتے ہیں ، پھر کہتے ہیں چلو کل توڑ دیں گے ۔ دوسرے دن جو آتے ہیں تو جیسی اصل میں تھی ویسی ہی پاتے ہیں ۔ آخری دن وہ بہ الہام الٰہی جاتے وقت ان شاءاللہ کہیں گے ، دوسرے دن جو آئیں گے تو جیسی چھوڑ گئے تھے ، ویسی ہی پائیں گے اور توڑ ڈالیں گے ۔ بہت ممکن ہے کہ انہی کعب سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ بات سنی ہو پھر بیان کی ہو اور کسی راوی کو وہم ہو گیا ہو اور اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان سمجھ کر اسے مرفوعاً بیان کر دیا ہو ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» یہ جو ہم کہہ رہے ہیں اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے ۔ جو مسند احمد میں ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نیند سے بیدار ہوئے ، چہرہ مبارک سرخ ہو رہا تھا اور فرماتے جاتے تھے ۔ «لا الہ الا اللہ» عرب کی خرابی کا وقت قریب آ گیا ، آج یاجوج ماجوج کی دیوار میں اتنا سوراخ ہو گیا پھر آپ نے اپنی انگلیوں سے حلقہ بنا کر دکھایا ۔ اس پر ام المؤمنین زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہم بھلے لوگوں کی موجودگی میں بھی ہلاک کر دئیے جائیں گے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں جب خبیث لوگوں کی کثرت ہو جائے ۔ (صحیح بخاری:3346) یہ حدیث بالکل صحیح ہے بخاری مسلم دونوں میں ہے ۔ ہاں بخاری شریف میں راویوں کے ذکر میں ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کا ذکر نہیں ۔ مسلم میں ہے اور بھی اس کی سند میں بہت سی ایسی باتیں ہیں جو بہت ہی کم پائی گئی ہیں ۔ مثلا زہری کی روایت عروہ سے حالانکہ یہ دونوں بزرگ تابعی ہیں اور چار عورتوں کا آپس میں ایک دوسرے سے روایت کرنا پھر چاروں عورتیں صحابیہ رضی اللہ عنہن ۔ پھر ان میں بھی دو حضور علیہ السلام کی بیویوں کی لڑکیاں اور دو آپ کی بیویاں رضی اللہ عنہن ۔ بزار میں یہی روایت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے بھی مروی ہے ۔ ( مترجم کہتا ہے اس تکلف کی اور ان مرفوع احادیث کے متعلق اس قول کی ضرورت ہی کیا ہے ؟ ہم آیت قرآنی اور ان صحیح مرفوع احادیث کے درمیان بہت آسانی سے یہ تطبیق دے سکتے ہیں کہ کوئی ایسا سوراخ نہیں کر سکتے جس میں سے نکل آئیں ۔ پتلی کر دینا یا حلقے کے برابر سوراخ کر دینا اور بات ہے ، جو مقصود ذوالقرنین کا اس دیوار کے بنانے سے تھا ، وہ بفضلہ حاصل ہے کہ نہ وہ اوپر سے اتر سکیں نہ توڑ کر یا سوراخ کر کے نکل سکیں اور اسی کی خبر آیت میں ہے اور اس کے خلاف کوئی حدیث نہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ مترجم ) اس دیوار کو بنا کر ذوالقرنین اطمینان کا سانس لیتے ہیں اور اللہ کا شکر کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ لوگو یہ بھی رب کی رحمت ہے کہ اس نے ان شریروں کی شرارت سے مخلوق کو اب امن دے دیا ، ہاں جب اللہ کا وعدہ آ جائے گا تو اس کا ڈھیر ہو جائے گا ۔ یہ زمین دوز ہو جائے گی ۔ مضبوطی کچھ کام نہ آئے گی ۔ اونٹنی کا کوہان جب اس کی پیٹھ سے ملا ہوا ہو تو عرب میں اسے «ناقتہ دکاء» کہتے ہیں ۔ قرآن میں اور جگہ ہے کہ جب موسیٰ علیہ السلام کے سامنے پہاڑ پر رب نے تجلی کی تو وہ پہاڑ زمین دوز ہو گیا وہاں بھی لفظ «جعلہ دکاء» ہے ۔ پس قریب بہ قیامت یہ دیوار پاش پاش ہو جائے گی اور ان کے نکلنے کا راستہ بن جائے گا ۔ اللہ کے وعدے اٹل ہیں ، قیامت کا آنا یقینی ہے ۔ اس دیوار کے ٹوٹتے ہی یہ لوگ نکل پڑیں گے اور لوگوں میں گھس جائیں گے ، اپنوں بیگانوں کی تمیز اٹھ جائے گی ۔ یہ واقعہ دجال کے آجانے کے بعد قیامت کے قیام سے پہلے ہو گا ۔ اس کا پورا بیان آیت «اِذَا فُتِحَتْ یَاْجُوْجُ وَمَاْجُوْجُ وَہُمْ مِّنْ کُلِّ حَدَبٍ یَّنْسِلُوْنَ» ( 21- الأنبیاء : 96 ) کی تفسیر میں آئے گا ان شاءاللہ ۔ جب صور پھونکا جاے گا اس کے بعد صور پھونکا جائے گا اور سب جمع ہو جائیں گے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد یہ ہے کہ قیامت کے دن انسان جن سب خلط ملط ہو جائیں گے ۔ بنی خزارہ کے ایک شیخ کا بیان ابن جریر میں ہے کہ جب جن انسان آپس میں گتھم گتھا ہو جائیں گے ، اس وقت ابلیس کہے گا کہ میں جاتا ہوں ، معلوم کرتا ہوں کہ یہ کیا بات ہے ؟ مشرق کی طرف بھاگے گا لیکن وہاں فرشتوں کی جماعتوں کو دیکھ کر رک جائے گا اور لوٹ کر مغرب کو پہنچے گا ، وہاں بھی یہی رنگ دیکھ کر دائیں بائیں بھاگے گا لیکن چاروں طرف سے فرشتوں کا محاصرہ دیکھ کر ناامید ہو کر چیخ پکار شروع کر دے گا ۔ اچانک اسے ایک چھوٹا سا راستہ دکھائی دے گا ، اپنی ساری ذریات کو لے کر اس میں چل پڑے گا آگے جا کر دیکھے گا کہ دوزخ بھڑک رہی ہے ۔ ایک دروغہ جہنم اس سے کہے گا کہ اے موذی خبیث ! کیا اللہ نے تیرا مرتبہ نہیں بڑھایا تھا ؟ کیا تو جنتیوں میں نہ تھا ؟ یہ کہے گا آج ڈانٹ ڈپٹ کیوں کرتے ہو ؟ آج تو چھٹکارے کا راستہ بتاؤ ، میں عبادت الٰہی کے لیے تیار ہوں ، اگر حکم ہو تو اتنی اور ایسی عبادت کروں کہ روئے زمین پر کسی نے نہ کی ہو ۔ داروغہ فرمائے گا اللہ تعالیٰ تیرے لیے ایک فریِضہ مقرر کرتا ہے ، وہ خوش ہو کر کہے گا میں اس کے حکم کی بجا آوری کے لیے پوری مستعدی سے موجود ہوں ۔ حکم ہو گا کہ یہی کہ تم سب جہنم میں چلے جاؤ ۔ اب یہ خبیث ہکا بکا رہ جائے گا ۔ وہیں فرشتہ اپنے پر سے اسے اور اس کی تمام ذریت کو گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دے گا ۔ جہنم انہیں لے کر آ دبوچے گی اور ایک مرتبہ تو وہ جلائے گی کہ تمام مقرب فرشتے اور تمام نبی رسول گھٹنوں کے بل اللہ کے سامنے عاجزی میں گر پڑیں گے ۔ طبرانی میں ہے کہ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ، یاجوج ماجوج آدم علیہ السلام کی نسل سے ہیں ، اگر وہ چھوڑ دئے جائیں تو دنیا کی معاش میں فساد ڈال دیں ، ایک ایک اپنے پیچھے ہزار ہزار بلکہ زیادہ چھوڑ کر مرتا ہے ، پھر ان کے سوا تین امتیں اور ہیں تاویل ، مارس اور منسک ۔ (طبرانی اوسط:8598:ضعیف) یہ حدیث غریب ہے بلکہ منکر اور ضعیف ہے ۔ نسائی میں ہے کہ ان کی بیویاں بچے ہیں ، ایک ایک اپنے پیچھے ہزار ہزار بلکہ زیادہ چھوڑ کر مرتا ہے ۔ پھر فرمایا صور پھونک دیا جائے گا جیسے حدیث میں ہے کہ وہ ایک قرن ہے جس میں صور پھونک دیا جائے گا ، (سنن ابوداود:4732،قال الشیخ الألبانی:صحیح) پھونکنے والے اسرافیل علیہ السلام ہوں گے ۔ جیسے کہ لمبی حدیث بیان ہو چکی ہے ۔ اور بھی بہت سی احادیث سے اس کا ثبوت ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں کیسے چین اور آرام سے بیٹھوں ؟ صور والا فرشتہ صور کو منہ سے لگائے ہوئے پیشانی جھکائے ہوئے کان لگائے ہوئے منتظر بیٹھا ہے کہ کب حکم ہو اور میں پھونک دوں ۔ لوگوں نے پوچھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پھر ہم کیا کہیں ؟ فرمایا «حَسْبُنَا اللَّہُ وَنِعْمَ الوَکِیلُ ، عَلَی اللہِ تَوَکَّلْنَا» ۔ (سنن ترمذی:2431،قال الشیخ الألبانی:صحیح) پھر فرماتا ہے ، ہم سب کو حساب کے لیے جمع کریں گے ۔ سب کا حشر ہمارے سامنے ہو گا جیسے سورۃ الواقعہ میں ہے کہ «قُلْ إِنَّ الْأَوَّلِینَ وَالْآخِرِینَ لَمَجْمُوعُونَ إِلَیٰ مِیقَاتِ یَوْمٍ مَّعْلُومٍ» ( 56-الواقعہ : 49 ، 50 ) اگلے پچھلے سب کے سب مقررہ دن کے وقت اکٹھے کئے جائیں گے اور آیت میں ہے «وَّحَشَرْنٰہُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْہُمْ اَحَدًا» ( 18- الکہف : 47 ) ہم سب کو جمع کریں گے ۔ ایک بھی تو باقی نہ بچے گا ۔ الكهف
98 الكهف
99 الكهف
100 جہنم کو دیکھ کر کافر جہنم میں جانے سے پہلے جہنم کو اور اس کے عذاب کو دیکھ لیں گے اور یہ یقین کر کے کہ وہ اسی میں داخل ہونے والے ہیں ، داخل ہونے سے پہلے ہی جلنے کڑھنے لگیں گے ۔ غم و رنج ، ڈر خوف کے مارے گھلنے لگیں گے ۔ صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ جہنم کو قیامت کے دن گھسیٹ کر لایا جائے گا جس کی ستر ہزار لگامیں ہونگی ۔ ہر ایک لگام پر ستر ستر ہزار فرشتے ہوں گے ۔ (صحیح مسلم:2842) یہ کافر دنیا کی ساری زندگی میں اپنی آنکھوں اور کانوں کو بے کار کئے بیٹھے رہے ، «وَمَن یَعْشُ عَن ذِکْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَیِّضْ لَہُ شَیْطَانًا فَہُوَ لَہُ قَرِینٌ» ( 43-الزخرف : 36 ) نہ حق دیکھا نہ حق سنا ، نہ مانا نہ عمل کیا ۔ شیطان کا ساتھ دیا اور رحمان کے ذکر سے غفلت برتی ۔ اللہ کے احکام اور ممانعت کو پس پشت ڈالے رہے ۔ یہی سمجھتے رہے کہ ان کے جھوٹے معبود ہی انہیں سارا نفع پہنچائیں گے اور کل سختیاں دور کریں گے ۔ محض غلط خیال ہے بلکہ وہ تو ان کی عبادت کے بھی منکر ہو جائیں گے اور ان کے دشمن بن کر کھڑے ہوں گے ۔ ان کافروں کی منزل تو جہنم ہی ہے جو ابھی سے تیار ہے ۔ الكهف
101 الكهف
102 الكهف
103 عبادت واطاعت کا طریقہ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہما سے ان کے صاحبزادے مصعب رحمہ اللہ نے سوال کیا کہ کیا اس آیت سے مراد خارجی ہیں ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا نہیں بلکہ مراد اس سے یہود و نصاری ہیں ۔ یہودیوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلایا اور نصرانیوں نے جنت کو سچا نہ جانا اور کہا کہ وہاں کھانا پینا کچھ نہیں ۔ خارجیوں نے اللہ کے وعدے کو اس کی مضبوطی کے بعد توڑ دیا ۔ پس سعد رضی اللہ عنہما خارجیوں کو فاسق کہتے تھے ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ وغیرہ فرماتے ہیں ، اس سے مراد خارجی ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ جیسے یہ آیت یہود ونصاری وغیرہ کفار کو شامل ہے ، اسی طرح خارجیوں کا حکم بھی اس میں ہے کیونکہ آیت عام ہے ۔ جو بھی اللہ کی عبادت و اطاعت اس طریقے سے بجا لائے جو طریقہ اللہ کو پسند نہیں تو گو وہ اپنے اعمال سے خوش ہو اور سمجھ رہا ہو کہ میں نے آخرت کا توشہ بہت کچھ جمع کر لیا ہے ، میرے نیک اعمال اللہ کے پسندیدہ ہیں اور مجھے ان پر اجرو ثواب ضرور ملے گا لیکن اس کا یہ گمان غلط ہے ۔ اس کے اعمال مقبول نہیں بلکہ مردود ہیں اور وہ غلط گمان شخص ہے ۔ آیت مکی ہے اور ظاہر ہے کہ مکے میں یہود ونصاری مخاطب نہ تھے ۔ اور خارجیوں کا تو اس وقت تک وجود بھی نہ تھا ۔ پس ان بزرگوں کا یہی مطلب ہے کہ آیت کے عام الفاظ ان سب کو اور ان جیسے اور سب کو شامل ہیں ۔ جیسے سورۃ الغاشیہ میں ہے کہ «وُجُوہٌ یَوْمَئِذٍ خَاشِعَۃٌ عَامِلَۃٌ نَّاصِبَۃٌ تَصْلَیٰ نَارًا حَامِیَۃً» ( 88-الغاشیہ : 2-4 ) قیامت کے دن بہت سے چہرے ذلیل وخوار ہوں گے جو دنیا میں بہت محنت کرنے والے بلکہ اعمال سے تھکے ہوئے تھے اور سخت تکلیفیں اٹھائے ہوتے تھے ، آج وہ باوجود ریاضت وعبادت کے جہنم واصل ہوں گے اور بھڑکتی ہوئی آگ میں ڈال دیے جائیں گے ۔ اور آیت میں ہے «وَقَدِمْنَآ اِلٰی مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَـعَلْنٰہُ ہَبَاءً مَّنْثُوْرًا» ( 25- الفرقان : 23 ) ان کے تمام کئے کرائے اعمال کو ہم نے آگے بڑھ کر ردی اور بے کار کر دیا ۔ اور آیت میں ہے «وَالَّذِینَ کَفَرُوا أَعْمَالُہُمْ کَسَرَابٍ بِقِیعَۃٍ یَحْسَبُہُ الظَّمْآنُ مَاءً حَتَّیٰ إِذَا جَاءَہُ لَمْ یَجِدْہُ شَیْئًا» ( 24-النور : 39 ) ، کافروں کے اعمال کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی پیاسا ریت کے تودے کو پانی کا دریا سمجھ رہا ہو لیکن جب پاس آتا ہے تو ایک بوند بھی پانی کی نہیں پاتا ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے طور پر عبادت ریاضت تو کرتے رہے اور دل میں بھی سمجھتے رہے کہ ہم بہت کچھ نیکیاں کر رہے ہیں اور وہ مقبول اور اللہ کی پسندیدہ ہیں لیکن چونکہ وہ اللہ کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق نہ تھیں ، نبیوں کے فرمان کے مطابق نہ تھیں ، اس لیے بجائے مقبول ہونے کے مردود ہو گئیں اور بجائے محبوب ہونے کے مغضوب ہو گئے ۔ اس لیے کہ وہ اللہ کی آیتوں کو جھٹلاتے رہے ۔ اللہ کی وحدانیت اور اس کے رسول کی رسالت کے تمام تر ثبوت ان کے سامنے تھے لیکن انہوں نے آنکھیں بند کر لیں اور مانے ہی نہیں ۔ ان کا نیکی کا پلڑا بالکل خالی رہے گا ۔ بخاری شریف کی حدیث میں ہے قیامت کے دن ایک موٹا تازہ بڑا بھاری آدمی آئے گا لیکن اللہ کے نزدیک اس کا وزن ایک مچھر کے پر کے برابر بھی نہ ہو گا ۔ پھر آپ نے فرمایا اگر تم چاہو اس آیت کی تلاوت کر لو «فَلَا نُقِیْمُ لَہُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَزْنًا» ( 18- الکہف : 105 ) ۔ (صحیح بخاری:4729) ابن ابی حاتم کی روایت میں ہے ، بہت زیادہ کھانے پینے والے موٹے تازے انسان کو قیامت کے دن اللہ کے سامنے لایا جائے گا لیکن اس کا وزن اناج کے ایک دانے کے برابر بھی نہ ہو گا ۔ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:23399) بزار میں ہے ایک قریشی کافر اپنے حلے میں اتراتا ہوا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے گزرا تو آپ نے بریدہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا یہ ان میں سے ہے جن کا کوئی وزن قیامت کے دن اللہ کے پاس نہ ہو گا ۔ (مسند بزار،2956:ضعیف) مرفوع حدیث کی طرح کعب کا قول بھی مروی ہے ۔ یہ بدلہ ہے ان کے کفر کا ، اللہ کی آیتوں اور اس کے رسولوں کو ہنسی مذاق میں اڑانے کا ۔ اور ان کے نہ ماننے بلکہ انہیں جھٹلانے کا ۔ الكهف
104 الكهف
105 الكهف
106 الكهف
107 جنت الفردوس کا تعارف اللہ پر ایمان رکھنے والے ، اس کے رسولوں کو سچا ماننے والے ، ان کی باتوں پر عمل کرنے والے بہترین جنتوں میں ہوں گے ۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ جب تم اللہ سے جنت مانگو تو جنت الفردوس کا سوال کرو ۔ یہ سب سے اعلی سب سے عمدہ جنت ہے ، اسی سے اور جنتوں کی نہریں بہتی ہیں ۔ (صحیح بخاری:2790) یہی ان کا مہمان خانہ ہو گی ۔ یہ یہاں ہمیشہ کے لیے رہیں گے ۔ نہ نکالے جائیں ، نہ نکلنے کا خیال آئے ، نہ اس سے بہتر کوئی اور جگہ ، نہ وہ وہاں کے رہنے سے گھبرائیں کیونکہ ہر طرح کے اعلی عیش مہیا ہیں ۔ ایک پر ایک رحمت مل رہی ہے ۔ روز بروز رغبت ومحبت ، انس والفت بڑھتی جا رہی ہے اس لیے نہ طبیعت اکتاتی ہے نہ دل بھرتا ہے بلکہ روز شوق بڑھتا ہے اور نئی نعمت ملتی ہے ۔ الكهف
108 الكهف
109 اللہ تعالٰی کی عظمتوں کا شمار ناممکن حکم ہوتا ہے کہ اللہ کی عظمت سمجھانے کے لیے دنیا میں اعلان کر دیجئیے کہ اگر روئے زمین کے سمندروں کی سیاہی بن جائے اور پھر اللہ کے کلمات ، اللہ کی قدرتوں کے اظہار ، اللہ کی باتیں ، اللہ کی حکمتیں لکھنی شروع کی جائیں تو یہ تمام سیاہی ختم ہو جائے گی لیکن اللہ کی تعریفیں ختم نہ ہوں گی ۔ گو پھر ایسے ہی دریا لائے جائیں اور پھر لائے جائیں اور پھر لائے جائیں لیکن ناممکن کہ اللہ کی قدرتیں ، اس کی حکمتیں ، اس کی دلیلیں ختم ہو جائیں ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ جل شانہ کا فرمان ہے «وَلَوْ اَنَّ مَا فِی الْاَرْضِ مِنْ شَجَـرَۃٍ اَقْلَامٌ وَّالْبَحْرُ یَمُدٰہٗ مِنْ بَعْدِہٖ سَبْعَۃُ اَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ کَلِمٰتُ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ» ( 31- لقمان : 27 ) یعنی روئے زمین کے درختوں کی قلمیں بن جائیں اور تمام سمندروں کی سیاہیاں بن جائیں پھر ان کے بعد سات سمندر اور بھی لائے جائیں لیکن ناممکن ہے کہ کلمات الٰہی پورے لکھ لیے جائیں ۔ اللہ کی عزت اور حکمت ، اس کا غلبہ اور قدرت وہی جانتا ہے ۔ تمام انسانوں کا علم اللہ کے علم کے مقابلہ میں اتنا بھی نہیں جتنا سمندر کے مقابلے میں قطرہ ۔ تمام درختوں کی قلمیں گھس گھس کر ختم ہو جائیں ، تمام سمندروں کی سیاہیاں ختم ہو جائیں لیکن کلمات الٰہی ویسے ہی رہ جائیں گے جیسے تھے ، وہ ان گنت ہیں ، بےشمار ہیں ۔ کون ہے جو اللہ کی صحیح اور پوری قدر و عزت جان سکے ؟ کون ہے جو اس کی پوری ثنا و صفت بجا لا سکے ؟ بیشک ہمارا رب ویسا ہی ہے جیسا وہ خود فرما رہا ہے ۔ بیشک ہم جو تعریفیں اس کی کریں ، وہ ان سب سے سوا ہے اور ان سب سے بڑھ چڑھ کر ہے ۔ یاد رکھو جس طرح ساری زمین کے مقابلے پر ایک رائی کا دانہ ہے اسی طرح جنت کی اور آخرت کی نعمتوں کے مقابل تمام دنیا کی نعمتیں ہیں ۔ الكهف
110 سید البشر صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے کہ یہ سب سے آخری آیت ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اتری ۔ حکم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں سے فرمائیں کہ میں تم جیسا ہی ایک انسان ہوں ، تم بھی انسان ہو ، اگر مجھے جھوٹا جانتے ہو تو لاؤ اس قرآن جیسا ایک قرآن تم بھی بنا کر پیش کر دو ۔ دیکھو میں کوئی غیب داں تو نہیں ، تم نے مجھ سے ذوالقرنین کا واقعہ دریافت کیا ، اصحاب کہف کا قصہ پوچھا تو میں نے ان کے صحیح واقعات تمہارے سامنے بیان کر دئیے جو نفس الامر کے مطابق ہیں ۔ اگر میرے پاس اللہ کی وحی نہ آتی تو میں ان گزشتہ واقعات کو جس طرح وہ ہوئے ہیں ، تمہارے سامنے کس طرح بیان کر سکتا ؟ سنو تمام تر وحی کا خلاصہ یہ ہے کہ تم موحد بن جاؤ ۔ شرک کو چھوڑ دو ۔ میری دعوت یہی ہے جو بھی تم میں سے اللہ سے مل کر اجر و ثواب لینا چاہتا ہو ، اسے شریعت کے مطابق عمل کرنے چاہئیں اور شرک سے بالکل بچنا چاہیئے ۔ ان دونوں ارکان کے بغیر کوئی عمل اللہ کے ہاں قابل قبول نہیں ، خلوص ہو اور مطابقت سنت ہو ۔ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تھا کہ بہت سے نیک کاموں میں باوجود مرضی الٰہی کی تلاش کے میرا ارادہ یہ بھی ہوتا ہے کہ لوگ میری نیکی دیکھیں تو میرے لیے کیا حکم ہے ، آپ خاموش رہے اور یہ آیت اتری ، یہ حدیث مرسل ہے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:23427:مرسل) سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے سوال کیا کہ ایک شخص نماز ، روزہ ، صدقہ ، خیرات ، حج زکوٰۃ کرتا ہے ، اللہ کی رضا مندی بھی ڈھونڈتا ہے اور لوگوں میں نیک نامی اور بڑائی بھی ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس کی کل عبادت اکارت ہے ، اللہ تعالیٰ شرک سے بیزار ہے ، جو اس کی عبادت میں اور نیت بھی کرے تو اللہ تعالیٰ فرما دیتا ہے کہ یہ سب اسی دوسرے کو دے دو مجھے اس کی کسی چیز کی ضرورت نہیں ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:40/16:ضعیف) حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس باری باری آتے ، رات گزارتے ، کبھی آپ کو کوئی کام ہوتا تو فرما دیتے ۔ ایسے لوگ بہت زیادہ تھے ۔ ایک شب ہم آپس میں کچھ باتیں کر رہے تھے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا یہ کیا کھسر پھسر کر رہے ہو ؟ ہم نے جواب دیا ، یا رسول اللہ ہماری توبہ ہے ہم مسیح دجال کا ذکر کر رہے تھے اور دل ہمارے خوفزدہ تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (سنن ابن ماجہ:4204،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) نے فرمایا ، میں تمہیں اس سے بھی زیادہ دہشت ناک بات بتاؤں ؟ وہ پوشیدہ شرک ہے کہ انسان دوسرے انسان کو دکھانے کے لیے نماز پڑھے ۔ مسند احمد میں ہے ، ابن غنم کہتے ہیں ، میں اور ابودرداء جابیہ کی مسجد میں گئے ، وہاں ہمیں سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ ملے ، بائیں ہاتھ سے تو انہوں نے میرا داہنا ہاتھ تھام لیا اور اپنے داہنے ہاتھ سے ابودرداء رضی اللہ عنہ کا بایاں ہاتھ تھام لیا اور اسی طرح ہم تینوں وہاں سے باتیں کرتے ہوئے نکلے ۔ آپ رضی اللہ عنہ فرمانے لگے ، دیکھو اگر تم دونوں یا تم میں سے جو بھی زندہ رہا تو ممکن ہے اس وقت کو بھی وہ دیکھ لے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے قرآن سیکھا ہوا بھلا آدمی حلال کو حلال اور حرام کو حرام سمجھنے والا اور ہر حکم کو مناسب جگہ رکھنے والا آئے اور اس کی قدرو منزلت لوگوں میں ایسی ہو جیسی مردہ گدھے کی سر کی ۔ ابھی یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ سیدنا شداد بن اوس رضی اللہ عنہما اور سیدنا عوف بن مالک رضی اللہ عنہما آ گئے اور بیٹھتے ہی شداد رضی اللہ عنہا نے فرمایا ، لوگو مجھے تو تم پر سب سے زیادہ اس کا ڈر ہے جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے یعنی پوشیدہ خواہش اور شرک کا ۔ اس پر عبادہ رضی اللہ عنہما اور ابودرداء رضی اللہ عنہما نے فرمایا ، اللہ معاف فرمائے ، ہم سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اس بات سے شیطان مایوس ہو گیا ہے کہ اس جزیرہ عرب میں اس کی عبادت کی جائے ۔ ہاں پوشیدہ شہوات تو یہی خواہش کی چیزیں عورتیں وغیرہ ہیں لیکن یہ شرک ہماری سمجھ میں تو نہیں آیا جس سے آپ ہمیں ڈرا رہے ہیں ۔ حضرت شداد رضی اللہ عنہما فرمانے لگے ، اچھا بتاؤ تو ایک آدمی دوسروں کے دکھانے کے لیے نماز ، روزہ ، صدقہ ، خیرات کرتا ہے ۔ اس کا حکم تمہارے نزدیک کیا ہے ؟ کیا اس نے شرک کیا ؟ سب نے جواب دیا ، بیشک ایسا شخص مشرک ہے ۔ آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا ، میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جو شخص دکھاوے کے لیے نماز پڑھے وہ مشرک ہے ، جو دنیا کو دکھانے کے لیے روزے رکھے وہ مشرک ہے ، جو لوگوں میں اپنی سخاوت جتانے کے لیے صدقہ خیرات کرے وہ بھی مشرک ہے ۔ اس پر عوف بن مالک رضی اللہ عنہما نے کہا ، کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ ایسے اعمال میں جو اللہ کے لیے ہو ، اللہ اسے قبول فرمالے اور جو دوسرے کے لیے ہو ، اسے رد کر دے ؟ شداد رضی اللہ عنہما نے جواب دیا ، یہ ہرگز نہیں ہونے کا ۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جناب باری عزوجل کا ارشاد ہے کہ میں سب سے بہتر حصے والا ہوں ، جو بھی میرے ساتھ کسی عمل میں دوسرے کو شریک کرے ، میں اپنا حصہ بھی اسی دوسرے کے سپرد کر دیتا ہوں ۔ اور نہایت بےپرواہی سے جز کل سب کو چھوڑ دیتا ہوں ۔ (مسند احمد:125/4:ضعیف) اور روایت میں ہے کہ شداد بن اوس رضی اللہ عنہما ایک دن رونے لگے ، ہم نے پوچھا ، آپ کیسے رو رہے ہیں ؟ فرمانے لگے ایک حدیث یاد آ گئی اور اس نے رلا دیا ۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ، مجھے اپنی امت پر سب سے زیادہ ڈر شرک اور پوشیدہ شہوت کا ہے ۔ میں نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ کی امت آپ کے بعد شرک کرے گی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، ہاں سنو وہ سورج چاند ، پتھر ، بت کو نہ پوجے گی بلکہ اپنے اعمال میں ریا کاری کرے گی ۔ پوشیدہ شہوت یہ ہے کہ صبح روزے سے ہے اور کوئی خواہش سامنے آئی ، روزہ چھوڑ دیا (مسند احمد:124/4:ضعیف) ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے میں تمام شریکوں سے بہتر ہوں ۔ میرے ساتھ جو بھی کسی کو شریک کرے ، میں اپنا حصہ بھی اسی کو دے دیتا ہوں ۔ (سلسلۃ احادیث صحیحہ البانی:2764،صحیح) اور روایت میں ہے کہ جو شخص کسی عمل میں میرے ساتھ دوسرے کو ملا لے ، میں اس سے بری ہوں اور اس کا وہ پورا عمل اس غیر کے لیے ہی ہے ۔ (مسند احمد:301/2:صحیح) ایک اور حدیث میں ہے ، مجھے تمہاری نسبت سب سے زیادہ ڈر چھوٹے شرک کا ہے ، لوگوں نے پوچھا ، وہ چھوٹا شرک کیا ہے ؟ فرمایا ریاکاری ۔ قیامت کے دن ریاکاروں کو جواب ملے گا کہ جاؤ جن کے لیے عمل کئے تھے ، انہی کے پاس جزا مانگو ۔ دیکھو پاتے بھی ہو ؟(مسند احمد:428/5:صحیح) ابوسعید بن ابو فضالہ انصاری صحابی رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ، فرماتے ہیں ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ جب اللہ تعالیٰ تمام اگلوں پچھلوں کو جمع کرے گا ، جس دن کے آنے میں کوئی شک شبہ نہیں ، اس دن ایک پکارنے والا پکارے گا کہ جس نے اپنے جس عمل میں اللہ کے ساتھ دوسرے کو ملایا ہو ، اسے چاہیئے کہ اپنے اس عمل کا بدلہ اس دوسرے سے مانگ لے کیونکہ اللہ تعالیٰ ساجھے سے بہت ہی بے نیاز ہے ۔ (مسند احمد:466/3:حسن) سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ، ریاکار کو عذاب بھی سب کو دکھا کر ہو گا اور نیک اعمال لوگوں کو سنانے والے کو عذاب بھی سب کو سنا کر ہو گا ( مسند احمد 45/5:صحیح لغیرہ) ابو سعید خدری رضی اللہ عنہما سے بھی یہ روایت مروی ہے ۔ (مسند احمد:40/3:صحیح) سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ، اپنے نیک اعمال اچھالنے والے کو اللہ تعالیٰ ضرور رسوا کرے گا ، اس کے اخلاق بگڑ جائیں گے اور وہ لوگوں کی نگاہوں میں حقیر و ذلیل ہو گا ۔ یہ بیان فرما کر سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہما رونے لگے ۔(مسند احمد:162/2:صحیح) انس رضی اللہ عنہما راوی ہیں کہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ، قیامت کے دن انسان کے نیک اعمال کے مہر شدہ صحیفے اللہ کے سامنے پیش ہوں گے ۔ جناب باری عزوجل فرمائے گا ، اسے پھینک دو ، اسے قبول کرو ، اسے قبول کرو ، اسے پھینک دو ۔ اس وقت فرشتے عرض کریں گے کہ اے اللہ تبارک وتعالیٰ جہاں تک ہمارا علم ہے ہم تو اس شخص کے اعمال نیک ہی جانتے ہیں ، جواب ملے گا کہ جن کو میں پھینکوا رہا ہوں یہ وہ اعمال ہیں جن میں صرف میری ہی رضا مندی مطلوب نہ تھی بلکہ ان میں ریاکاری تھی ۔ آج میں تو صرف ان اعمال کو قبول کروں گا جو صرف میرے لیے ہی کئے گئے ہوں ۔(الدر المنثور للسیوطی:460/4:ضعیف) ارشاد ہے کہ جو دکھاوے سناوے کے لیے کھڑا ہوا ہو ، وہ جب تک نہ بیٹھے اللہ کے غصے اور غضب میں ہی رہتا ہے ۔ (مجمع الزوائد:223/10:ضعیف) ابو یعلیٰ کی حدیث میں ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ، جو شخص لوگوں کے دیکھتے ہوئے تو ٹھہر ٹھہر کر اچھی کر کے نماز پڑھے اور تنہائی میں بری طرح جلدی جلدی بے دلی سے ادا کرے ، اس نے اپنے پروردگار عزوجل کی توہین کی ۔ (مسند ابویعلیٰ:5117:ضعیف) پہلے بیان ہو چکا ہے کہ اس آیت کو امیر معاویہ رضی اللہ عنہما قرآن کی آخری آیت بتاتے ہیں ۔ (ضعیف) لیکن یہ قول اشکال سے خالی نہیں کیونکہ سورۃ الکہف پوری کی پوری مکے شریف میں نازل ہوئی ہے اور ظاہر ہے کہ اس کے بعد مدینے میں برابر دس سال تک قرآن کریم اترتا رہا تو بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کا مطلب یہ ہو کہ یہ آیت آخری ہے یعنی کسی دوسری آیت سے منسوخ نہیں ہوئی ۔ اس میں جو حکم ہے وہ آخر تک بدلا نہیں گیا ۔ اس کے بعد کوئی ایسی آیت نہیں اتری جو اس میں تبدیلی وتغیر کرے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ ایک بہت ہی غریب حدیث حافظ ابوبکر بزار رحمہ اللہ اپنی کتاب میں لائے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص آیت «فَمَن کَانَ یَرْجُو لِقَاءَ رَبِّہِ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہِ أَحَدًا» ( الکھف : 110 ) ، کو رات کے وقت پڑھے گا ، اللہ تعالیٰ اسے اتنا بڑا نور عطا فرمائے گا جو عدن سے مکے شریف تک پہنچے ۔ (مستدرک حاکم371/2:ضعیف) الكهف
0 مريم
1 دعا اور قبولیت اس سورۃ کے شروع میں جو پانچ حروف ہیں ، انہیں حروف مقطعہ کہا جاتا ہے ۔ ان کا تفصیلی بیان ہم سورۃ البقرہ کی تفسیر کے شروع میں کر چکے ہیں ۔ اب اللہ کے بندے زکریا نبی علیہ السلام پر جو لطف الٰہی نازل ہوا ، اس کا واقعہ بیان ہو رہا ہے ۔ ایک قرأت میں «زَکَرِیَّاء» ہے ۔ یہ لفظ مد سے بھی ہے اور قصر سے بھی ۔ دونوں قرأتیں مشہور ہیں ۔ آپ بنو اسرائیل کے زبردست رسول علیہ السلام تھے ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے ، { آپ علیہ السلام بڑھئی کا پیشہ کر کے اپنا پیٹ پالتے تھے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2379) رب سے خفیہ دعا کرتے ہیں لیکن اس وجہ سے کہ لوگوں کے نزدیک یہ انوکھی دعا تھی ، کوئی سنتا تو خیال کرتا کہ لو ! بڑھاپے میں اولاد کی چاہت ہوئی ہے ۔ اور یہ وجہ بھی تھی کہ پوشیدہ دعا اللہ کو زیادہ پیاری ہوتی ہے اور قبولیت سے زیادہ قریب ہوتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ متقی دل کو بخوبی جانتا ہے اور آہستگی کی آواز کو پوری طرح سنتا ہے ۔ بعض سلف کا قول ہے کہ جو شخص اپنے والوں کی پوری نیند کے وقت اٹھے اور پوشیدگی سے اللہ کو پکارے کہ ” اے میرے پروردگار ، اے میرے پالنہار ، اے میرے رب ! “ اللہ تعالیٰ اسی وقت جواب دیتا ہے کہ ’ لبیک میں موجود ہوں ، میں تیرے پاس ہوں ‘ ۔ دعا میں کہتے ہیں کہ ” اے اللہ ! میرے قوی کمزور ہو گئے ہیں ، میری ہڈیاں کھوکھلی ہو چکی ہیں ، میرے سر کے بالوں کی سیاہی اب تو سفیدی سے بدل گئی ہے یعنی ظاہری اور پوشیدگی کی تمام طاقتیں زائل ہو گئی ہیں ، اندرونی اور بیرونی ضعف نے گھیر لیا ہے ۔ میں تیرے دروازے سے کبھی خالی ہاتھ نہیں گیا ، تجھ کریم سے جو مانگا ، تو نے عطا فرمایا “ ۔ «الْمَوَالِیَ» کو کسائی نے «الْمَوَالِی» پڑھا ہے ۔ مراد اس سے عصبہ ہیں ۔ امیرا لمومنین عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے «خِفْتُ» کو «خَفَّتِ» پڑھنا مروی ہے یعنی ’ میرے بعد میرے والے بہت کم ہیں ‘ ۔ پہلی قرأت پر مطلب یہ ہے کہ ’ چونکہ میری اولاد نہیں اور جو میرے رشتے دار ہیں ، ان سے خوف ہے کہ مبادا یہ کہیں میرے بعد کوئی برا تصرف نہ کر دیں تو تو مجھے اولاد عنایت فرما جو میرے بعد میری نبوت سنبھالے ‘ ۔ یہ ہرگز نہ سمجھا جائے کہ آپ علیہ السلام کو اپنے مال املاک کے ادھر ادھر ہو جانے کا خوف تھا ۔ انبیاء علیہم السلام اس سے بہت پاک ہیں ۔ ان کا مرتبہ اس سے بہت سوا ہے کہ وہ اس لیے اولاد مانگیں کہ اگر اولاد نہ ہوئی تو میرا ورثہ دور کے رشتے داروں میں چلا جائے گا ۔ دوسرے بہ ظاہر یہ بھی ہے کہ زکریا علیہ السلام جو عمر بھر اپنی ہڈیاں پیل کر بڑھئی کا کام کر کے اپنا پیٹ اپنے ہاتھ کے کام سے پالتے رہے ، ان کے پاس ایسی کون سی بڑی رقم تھی کہ جس کے ورثے کے لیے اس قدر پس وپیش ہوتا کہ کہیں یہ دولت ہاتھ سے نکل نہ جائے ۔ انبیاء علیہم السلام تو یوں بھی ساری دنیا سے زیادہ مال سے بے رغبت اور دنیا کے زاہد ہوتے ہیں ۔ تیسری وجہ یہ بھی ہے کہ بخاری و مسلم میں کئی سندوں سے حدیث ہے ، { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ { ہمارا ورثہ تقسیم نہیں ہوتا ، جو کچھ ہم چھوڑیں سب صدقہ ہے } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3094) ترمذی میں صحیح سند سے مروی ہے کہ { ہم جماعت انبیاء ہیں ، ہمارا ورثہ نہیں بٹا کرتا } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:1610،قال الشیخ الألبانی:صحیح) پس ثابت ہوا کہ زکریا علیہ السلام کی یہ دعا کہ ” مجھے بیٹا دے جو میرا وارث ہو “ ، اس سے مطلب ورثہ نبوت ہے نہ کہ مالی ورثہ ۔ اسی لیے آپ علیہ السلام نے یہ بھی فرمایا کہ ” وہ میرا اور آل یعقوب کا وارث ہو “ ۔ جیسے فرمان ہے کہ «وَوَرِثَ سُلَیْمَانُ دَاوُودَ» (27-النمل:16) ’ سلیمان علیہ السلام داؤد علیہ السلام کے وارث ہوئے ‘ ۔ یعنی نبوت کے وراث ہوئے نہ کہ مال کے ۔ ورنہ مال میں اور اولاد بھی شریک ہوتی ہے ۔ تخصیص نہیں ہوتی ۔ چوتھی وجہ یہ بھی ہے اور یہ بھی معقول وجہ ہے کہ اولاد کا وارث ہونا تو عام ہے ، سب میں ہے ، تمام مذہبوں میں ہے ، پھر کوئی ضرورت نہ تھی کہ زکریا علیہ السلام اپنی دعا میں یہ وجہ بیان فرماتے ۔ اس سے صاف ثابت ہے کہ وہ ورثہ کوئی خاص ورثہ تھا اور وہ نبوت کا وارث بننا تھا ۔ پس ان تمام وجوہ سے ثابت ہے کہ اس سے مراد ورثہ نبوت ہے ۔ جیسے کہ حدیث میں ہے ، { ہم جماعت انبیاء کا ورثہ نہیں بٹتا ، ہم جو چھوڑ جائیں صدقہ ہے } ۔ مجاہد رحمۃ اللہ فرماتے ہیں ، مراد ورثہ علم ہے ۔ زکریا علیہ السلام اولاد یعقوب میں تھے ۔ ابوصالح رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مراد یہ ہے کہ وہ بھی اپنے بڑوں کی طرح نبی بنے ۔ حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں ، نبوت اور علم کا وارث بنے ۔ سدی رحمہ اللہ کا قول ہے ، میری اور آل یعقوب علیہ السلام کی نبوت کا وہ وراث ہو ۔ زید بن اسلم بھی یہی فرماتے ہیں ۔ ابوصالح کا قول یہ بھی ہے کہ میرے مال کا اور خاندان یعقوب علیہ السلام کی نبوت کا وہ وارث ہو ۔ عبدالرزاق میں حدیث ہے کہ { اللہ تعالیٰ زکریا علیہ السلام پر رحم کرے ، بھلا انہیں وراثت مال سے کیا غرض تھی ؟ اللہ تعالیٰ لوط علیہ السلام پر رحم کرے ، وہ کسی مضبوط قلعے کی تمنا کرنے لگے } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:23500:مرسل) ابن جریر میں ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { میرے بھائی زکریا علیہ السلام پر اللہ کا رحم ہو ، کہنے لگے اے اللہ مجھے اپنے پاس سے والی عطا فرما جو میرا اور آل یقوب کا وارث بنے } } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:23499:مرسل و ضعیف) لیکن یہ سب حدیثیں مرسل ہیں جو صحیح احادیث کا معارضہ نہیں کر سکتیں «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اور ” اے اللہ ! اسے اپنا پسندیدہ غلام بنا لے اور ایسا دیندار ، دیانتدار بنا کہ تیری محبت کے علاوہ تمام مخلوق بھی اس سے محبت کرے ، اس کا دین اور اخلاق ہر ایک پسندیدگی اور پیار کی نظر سے دیکھے “ ۔ مريم
2 مريم
3 مريم
4 مريم
5 مريم
6 مريم
7 دعا قبول ہوئی حضرت زکریا علیہ السلام کی دعا قبول ہوتی ہے اور فرمایا جاتا ہے کہ ’ آپ علیہ السلام ایک بچے کی خوشخبری سن لیں جس کا نام یحییٰ ہے ‘ ۔ جیسے اور آیت میں ہے «ہُنَالِکَ دَعَا زَکَرِیَّا رَبَّہُ قَالَ رَبِّ ہَبْ لِی مِن لَّدُنکَ ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃً إِنَّکَ سَمِیعُ الدٰعَاءِ فَنَادَتْہُ الْمَلَائِکَۃُ وَہُوَ قَائِمٌ یُصَلِّی فِی الْمِحْرَابِ أَنَّ اللہَ یُبَشِّرُکَ بِیَحْیَیٰ مُصَدِّقًا بِکَلِمَۃٍ مِّنَ اللہِ وَسَیِّدًا وَحَصُورًا وَنَبِیًّا مِّنَ الصَّالِحِینَ» (3-آل عمران:38-39) ’ زکریا علیہ السلام نے اپنے رب سے دعا کی کہ ” اے اللہ ! مجھے اپنے پاس سے بہترین اولاد عطا فرما ، بیشک تو دعاؤں کا سننے والا ہے “ ۔ فرشتوں نے انہیں آواز دی اور وہ اس وقت کی نماز کی جگہ میں نماز میں کھڑے تھے کہ اللہ تعالیٰ آپ علیہ السلام کو اپنے ایک کلمے کی بشارت دیتا ہے جو سردار ہو گا اور پاکباز ہو گا اور نبی ہوگا اور پورے نیک کار اعلیٰ درجے کے بھلے لوگوں میں سے ہو گا ‘ ۔ یہاں فرمایا کہ ان سے پہلے اس نام کا کوئی اور انسان نہیں ہوا ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مشابہ کوئی اور نہ ہو گا ، یہی معنی «سَمِیًّا» کے آیت «ہَلْ تَعْلَمُ لَہٗ سَمِیًّا» ۱؎ (19-مریم:65) میں ہیں ۔ یہ معنی بھی بیان کئے گئے ہیں کہ اس سے پہلے کسی بانجھ عورت سے ایسی اولاد نہیں ہوئی ۔ زکریا کے ہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی تھی ۔ آپ علیہ السلام کی بیوی صاحبہ بھی شروع عمر سے بے اولاد تھیں ۔ ابراہیم علیہ السلام اور سارہ علیہما السلام نے بھی بچے کے ہونے کی بشارت سن کر بے حد تعجب کیا تھا لیکن ان کے تعجب کی وجہ ان کا بے اولاد ہونا اور بانجھ ہونا نہ تھی ۔ بلکہ بہت زیادہ بڑھاپے میں اولاد کا ہونا ، یہ تعجب کی وجہ تھی اور زکریا علیہ السلام کے ہاں تو اس پورے بڑھاپے تک کوئی اولاد ہوئی ہی نہ تھی ۔ اس لیے خلیل اللہ علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ «قَالَ أَبَشَّرْتُمُونِی عَلَیٰ أَن مَّسَّنِیَ الْکِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ» (15-الحجر:54) ’ مجھے اس انتہائی بڑھاپے میں تم اولاد کی خبر کیسے دے رہے ہو ؟ ‘ ورنہ اس سے تیرہ سال پہلے آپ کے ہاں اسماعیل علیہ السلام ہوئے تھے ۔ آپ علیہ السلام کی بیوی صاحبہ نے بھی اس خوشخبری کو سن کر تعجب سے کہا تھا کہ کیا «قَالَتْ یَا وَیْلَتَیٰ أَأَلِدُ وَأَنَا عَجُوزٌ وَہٰذَا بَعْلِی شَیْخًا إِنَّ ہٰذَا لَشَیْءٌ عَجِیبٌ قَالُوا أَتَعْجَبِینَ مِنْ أَمْرِ اللہِ رَحْمَتُ اللہِ وَبَرَکَاتُہُ عَلَیْکُمْ أَہْلَ الْبَیْتِ إِنَّہُ حَمِیدٌ مَّجِیدٌ» (11-ہود:72،73) ’ اس بڑھے ہوئے بڑھاپے میں میرے ہاں اولاد ہو گی ؟ ساتھ ہی میرے میاں بھی غایت درجے کے بوڑھے ہیں ۔ یہ تو سخت تر تعجب خیز چیز ہے ۔ یہ سن کر فرشتوں نے کہا تھا کہ کیا تمہیں امر الٰہی سے تعجب ہے ؟ اے ابراہیم علیہ السلام کے گھرانے والو ! تم پر اللہ کی رحمتیں اور اس کی برکتیں ہیں ۔ اللہ تعریفوں اور بزرگیوں والا ہے ‘ ۔ مريم
8 بشارت قبولیت سن کر حضرت زکریا علیہ السلام اپنی دعا کی قبولیت اور اپنے ہاں لڑکا ہونے کی بشارت سن کر خوشی اور تعجب سے کیفیت دریافت کرنے لگے کہ بظاہر اسباب تو یہ امر مستبعد اور ناممکن معلوم ہوتا ہے ۔ دونوں جانب سے حالت محض ناامیدی کی ہے ۔ بیوی بانجھ جس سے اب تک اولاد نہیں ہوئی ، میں بوڑھا اور بے حد بوڑھا جس کی ہڈیوں میں اب تو گودا بھی نہیں رہا ، خشک ٹہنی جیسا ہو گیا ہوں ، گھر والی بھی بڑھیا پھوس ہو گئی ہے ، پھر ہمارے ہاں اولاد کیسے ہو گی ؟ غرض رب العالمین سے کیفیت بوجہ تعجب و خوشی دریافت کی ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ { میں تمام سنتوں کو جانتا ہوں لیکن مجھے یہ معلوم نہیں ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر عصر میں پڑھتے تھے یا نہیں ؟ اور نہ یہ معلوم ہے کہ اس لفظ کو «عَتِیاً» پڑھتے تھے یا «عَسِیاً» } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:809،قال الشیخ الألبانی:صحیح) فرشتے نے جواب دیا کہ ” یہ تو وعدہ ہو چکا ، اسی حالت میں اسی بیوی سے تمہارے ہاں لڑکا ہو گا ۔ اللہ کے ذمے یہ کام مشکل نہیں ۔ اس سے زیادہ تعجب والا اور اس سے بڑی قدرت والا کام تو تم خود دیکھ چکے ہو اور وہ خود تمہارا وجود ہے ، جو کچھ نہ تھا اور اللہ تعالیٰ نے بنا دیا ۔ پس جو تمہاری پیدائش پر قادر تھا ، وہ تمہارے ہاں اولاد دینے پر بھی قادر ہے “ ۔ جیسے فرمان ہے «ہَلْ اَتٰی عَلَی الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّہْرِ لَمْ یَکُنْ شَیْـــًٔا مَّذْکُوْرًا» ۱؎ (76-الإنسان:1) یعنی ’ یقیناً انسان پر اس کے زمانے کا ایسا وقت بھی گزرا ہے ، جس میں وہ کوئی قابل ذکر چیز ہی نہ تھا ‘ ۔ مريم
9 مريم
10 تشفی قلب کے لیے ایک اور مانگ حضرت زکریا علیہ السلام اپنے مزیداطمینان اور تشفی قلب کے لیے اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ ” اس بات پر کوئی نشان ظاہر فرما “ ۔ جیسے کہ خلیل اللہ علیہ السلام نے مردوں کے جی اٹھنے کے دیکھنے کی تمنا اسی لیے ظاہر فرمائی تھی «رَبِّ أَرِنِی کَیْفَ تُحْیِی الْمَوْتَیٰ قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِن قَالَ بَلَیٰ وَلٰکِن لِّیَطْمَئِنَّ قَلْبِی» ۱؎ (2-البقرہ:260) تو ارشاد ہوا کہ ’ تو گونگا نہ ہوگا بیمار نہ ہوگا لیکن تیری زبان لوگوں سے باتیں نہ کرسکے گی تین دن رات تک یہی حالت رہے گی ‘ ۔ یہی ہوا بھی کہ تسبیح ، استغفار ، حمد و ثنا وغیرہ پر تو زبان چلتی تھی لیکن لوگوں سے بات نہ کر سکتے تھے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ «سَوِیًّا» کے معنی پے در پے کے ہیں یعنی مسلسل برابر تین شبانہ روز تمہاری زبان دنیوی باتوں سے رکی رہے گی ۔ پہلا قول بھی آپ رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے اور جمہور کی تفسیر بھی یہی ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے ۔ چنانچہ سورۃ آل عمران میں اس کا بیان بھی گزر چکا ہے کہ «قَالَ رَبِّ اجْعَل لِّی آیَۃً قَالَ آیَتُکَ أَلَّا تُکَلِّمَ النَّاسَ ثَلَاثَۃَ أَیَّامٍ إِلَّا رَمْزًا وَاذْکُر رَّبَّکَ کَثِیرًا وَسَبِّحْ بِالْعَشِیِّ وَالْإِبْکَارِ» ۱؎ (3-آل عمران:41) علامت طلب کرنے پر فرمان ہوا کہ ’ تین دن تک تم صرف اشاروں کنایوں سے لوگوں سے باتیں کر سکتے ہو ۔ ہاں اپنے رب کی یاد بکثرت کرو اور صبح شام اس کی پاکیزگی بیان کرو ‘ ۔ پس ان تین دن رات میں آپ علیہ السلام کسی انسان سے کوئی بات نہیں کر سکتے تھے ہاں اشاروں سے اپنا مطلب سمجھا دیا کرتے تھے لیکن یہ نہیں کہ آپ علیہ السلام گونگے ہوگئے ہوں ۔ اب آپ علیہ السلام اپنے حجرے سے ، جہاں جا کر تنہائی میں اپنے ہاں اولاد ہونے کی دعا کی تھی ، باہر آئے اور جو نعمت اللہ نے آپ علیہ السلام پر انعام کی تھی اور جس تسبیح و ذکر کا آپ علیہ السلام کو حکم ہوا تھا ، وہی قوم کو بھی حکم دیا لیکن چونکہ بول نہ سکتے تھے ، اس لیے انہیں اشاروں سے سمجھایا یا زمین پر لکھ کر انہیں سمجھا دیا ۔ مريم
11 مريم
12 پیدائش یحییٰ علیہ السلام بمطابق بشارت الٰہی زکریا علیہ السلام کے ہاں یحییٰ علیہ السلام پیدا ہوئے ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں تورات سکھا دی جو ان میں پڑھی جاتی تھی اور جس کے احکام نیک لوگ اور انبیاء علیہم السلام دوسروں کو بتلاتے تھے ۔ اس وقت ان کی عمر بچپن کی ہی تھی ، اسی لیے اپنی اس انوکھی نعمت کا بھی ذکر کیا کہ ’ بچہ بھی دیا اور اسے آسمانی کتاب کا عالم بھی بچپن سے ہی کر دیا اور حکم دے دیا کہ حرص ، اجتہاد ، کوشش اور قوت کے ساتھ کتاب اللہ سیکھ لے ۔ ساتھ ہی ہم نے اسے اسی کم عمری میں فہم وعلم ، قوت وعزم ، دانائی اور حلم عطا فرمایا ‘ ۔ نیکیوں کی طرف بچپن سے ہی جھک گئے اور کوشش وخلوص کے ساتھ اللہ کی عبادت اور مخلوق کی خدمت میں لگ گئے ۔ بچے آپ سے کھیلنے کو کہتے تھے مگر یہ جواب پاتے تھے کہ ہم کھیل کے لیے پیدا نہیں کئے گئے ۔ ’ یحییٰ علیہ السلام کا وجود زکریا علیہ السلام کے لیے ہماری رحمت کا کرشمہ تھا جس پر بجز ہمارے اور کوئی قادر نہیں ‘ ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ ” واللہ میں نہیں جانتا کہ حنان کا مطلب کیا ہے ؟ “ لغت میں محبت ، شقفت ، رحمت وغیرہ کے معنی میں یہ آتا ہے ۔ بہ ظاہر یہ مطلب معلوم ہوتا ہے کہ ہم نے اسے بچپن سے ہی حکم دیا اور اسے شفقت ومحبت اور پاکیزگی عطا فرمائی ۔ مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے کہ { ایک شخص جہنم میں ایک ہزار سال تک یا حنان یا منان پکارتا رہے گا } ۔ ۱؎ (مسند احمد:230/3:ضعیف جدا) پس ہر میل کچیل سے ، ہر گناہ اور معصیت سے آپ علیہ السلام بچے ہوئے تھے ۔ صرف نیک اعمال آپ علیہ السلام کی عمر کا خلاصہ تھا ۔ آپ علیہ السلام گناہوں سے اور اللہ کی نافرمانیوں سے یکسو تھے ۔ ساتھ ہی ماں باپ کے فرماں بردار ، اطاعت گزار اور ان کے ساتھ نیک سلوک تھے ، کبھی کسی بات میں ماں باپ کی مخالفت نہیں کی ، کبھی ان کے فرمان سے باہر نہیں ہوئے ، کبھی ان کی روک کے بعد کسی کام کو نہیں کیا ، کوئی سرکشی کوئی نافرمانی کی خو آپ علیہ السلام میں نہ تھی ۔ ان اوصاف جمیلہ اور خصائل حمیدہ کے بدلے تینوں حالتوں میں آپ علیہ السلام کو اللہ کی طرف سے امن و امان اور سلامتی ملی ۔ یعنی پیدائش والے دن ، موت والے دن اورحشر والے دن ۔ یہی تینوں جگہیں گھبراہٹ کی اور انجان ہوتی ہیں ۔ انسان ماں کے پیٹ سے نکلتے ہی ایک نئی دنیا دیکھتا ہے ، جو اس کی آج تک کی دنیا سے عظیم الشان اور بالکل مختلف ہوتی ہے ۔ موت والے دن اس مخلوق سے واسطہ پڑتا ہے جس سے حیات میں کبھی بھی واسطہ نہیں پڑا ، نہ انہیں کبھی دیکھا ۔ محشر والے دن بھی علی ہذا القیاس اپنے تئیں ایک بہت بڑے مجمع میں جو بالکل نئی چیز ہے ، دیکھ کر حیرت زدہ ہو جاتا ہے ۔ پس ان تینوں وقتوں میں اللہ کی طرف سے یحییٰ علیہ السلام کو سلامتی ملی ۔ ایک مرسل حدیث میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { تمام لوگ قیامت کے دن کچھ نہ کچھ گناہ لے کر جائیں گے سوائے یحییٰ علیہ السلام کے } } ۔ قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ” آپ علیہ السلام نے گناہ تو کیا ، قصداً گناہ بھی کبھی نہیں کیا “ ۔ ۱؎ (مسند احمد:254/1:ضعیف) یہ حدیث مرفوعاً اور دو سندوں سے بھی مروی ہے لیکن وہ دونوں سندیں بھی ضغیف ہیں «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں ، عیسیٰ ٰعلیہ السلام یحییٰ علیہ السلام سے فرمانے لگے ” آپ علیہ السلام میرے لیے استغفار کیجئے آپ علیہ السلام مجھ سے بہتر ہیں “ ۔ یحییٰ علیہ السلام نے جواب دیا ” آپ علیہ السلام مجھ سے بہتر ہیں “ ۔ عیسیٰ ٰعلیہ السلام نے فرمایا ” میں نے تو آپ علیہ السلام ہی اپنے اوپر سلام کہا اور آپ علیہ السلام پر خود اللہ نے سلام کہا “ ۔ اب ان دونوں نے ہی اللہ کی فضیلت ظاہر کی ۔ مريم
13 مريم
14 مريم
15 مريم
16 ناممکن کو ممکن بنانے پہ قادر اللہ تعالٰی اوپر زکریا علیہ السلام کا ذکر ہوا تھا اور یہ بیان فرمایا گیا تھا کہ وہ اپنے پورے بڑھاپے تک بے اولاد رہے ، ان کی بیوی کو کچھ ہوا ہی نہ تھا بلکہ اولاد کی صلاحیت ہی نہ تھی ۔ اس پر اللہ نے اس عمر میں ان کے ہاں اپنی قدرت سے اولاد عطا فرمائی ، یحییٰ علیہ السلام پیدا ہوئے جو نیک کار اور وفا شعار تھے ۔ اس کے بعد اس سے بھی بڑھ کر اپنی قدرت کا نظارہ پیش کرتا ہے ۔ مریم علیہ السلام کا واقعہ بیان کرتا ہے کہ وہ کنواری تھیں ۔ کسی مرد کا ہاتھ تک انہیں نہ لگا تھا اور بے مرد کے اللہ تعالیٰ نے محض اپنی قدرت کاملہ سے انہیں اولاد عطا فرمائی ، عیسیٰ علیہ السلام جیسا فرزند انہیں دیا جو اللہ کے برگزیدہ پیغمبر اور روح اللہ اور کلمۃ اللہ علیہ السلام تھے ۔ پس چونکہ ان دو قصوں میں پوری مناسبت ہے ، اسی لیے یہاں بھی اور سورۃ آل عمران میں بھی اور سورۃ انبیاء میں بھی ان دونوں کو متصل بیان فرمایا ۔ تاکہ بندے اللہ تعالیٰ کی بے مثال قدرت اور عظیم الشان سلطنت کا معائنہ کرلیں ۔ حضرت مریم علیہا السلام عمران کی صاحبزادی تھیں ، داؤد علیہ السلام کی نسل میں سے تھیں ۔ بنو اسرائیل میں یہ گھرانہ طیب و طاہر تھا ۔ سورۃ آل عمران میں آپ علیہ السلام کی پیدائش وغیرہ کا مفصل بیان گزر چکا ہے ۔ اس زمانے کے دستور کے مطابق آپ علیہ السلام کی والدہ صاحبہ نے آپ علیہ السلام کو بیت المقدس کی مسجد قدس کی خدمت کے لیے دنیوی کاموں سے آزاد کر دیا تھا ۔ اللہ نے یہ نذر قبول فرما لی اور مریم کی نشو و نما بہترین طور پر کی اور آپ اللہ کی عبادت میں ، ریاضت میں اور نیکیوں میں مشغول ہو گئیں ۔ آپ کی عبادت وریاضت ، زہد وتقویٰ زبان زد عوام ہو گیا ۔ آپ اپنے خالو زکریا علیہ السلام کی پرورش و تربیت میں تھیں ۔ جو اس وقت کے بنی اسرائیلی نبی تھے ۔ تمام بنی اسرائیل دینی امور میں انہی کے تابع فرمان تھے ۔ زکریا علیہ السلام پر مریم علیہا السلام کی بہت سی کرامتیں ظاہر ہوئیں خصوصاً یہ کہ جب کبھی آپ علیہ السلام ان کے عبادت خانے میں جاتے ، نئی قسم کے بے موسم پھل وہاں موجود پاتے ۔ دریافت کیا کہ مریم یہ کہاں سے آئے ؟ جواب ملا کہ اللہ تعالیٰ کے پاس سے ، وہ ایسا قادر ہے کہ جسے چاہے بے حساب روزیاں عطا فرمائے ۔ اب اللہ تعالیٰ کا ارادہ ہوا کہ مریم کے بطن سے عیسیٰ علیہ السلام کو پیدا کرے جو منجملہ پانچ اولوالعزم پیغمبروں کے ایک ہیں ۔ آپ مسجد قدس کے شرقی جانب گئیں یا تو بوجہ کپڑے آنے کے یا کسی اور سبب سے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اہل کتاب پر بیت اللہ شریف کی طرف متوجہ ہونا اور حج کرنا فرض کیا گیا تھا لیکن چونکہ مریم صدیقہ رضی اللہ عنہا بیت المقدس سے مشرق کی طرف گئی تھیں جیسے فرمان الٰہی ہے ، اس وجہ سے ان لوگوں نے مشرق رخ نمازیں شروع کر دیں ۔ عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت گاہ کو انہوں نے از خود قبلہ بنا لیا ۔ مروی ہے کہ جس جگہ آپ گئی تھیں ، وہ جگہ یہاں سے دور اور بےآباد تھی ۔ کہتے ہیں کہ وہاں آپ کا کھیت تھا ، جسے پانی پلانے کے لیے آپ گئی تھیں ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہیں حجرہ بنا لیا تھا کہ لوگوں سے الگ تھلگ عبادت الٰہی میں فراغت کے ساتھ مشغول رہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش جب یہ لوگوں سے دور گئیں اور ان میں اور آپ میں حجاب ہو گیا ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے پاس اپنے امین فرشتے جبرائیل علیہ السلام کو بھیجا ، وہ پوری انسانی شکل میں آپ پر ظاہر ہوئے ۔ یہاں روح سے مراد یہی بزرگ فرشتے ہیں ۔ جیسے آیت قرآن «نَزَلَ بِہِ الرٰوحُ الْأَمِینُ عَلَیٰ قَلْبِکَ لِتَکُونَ مِنَ الْمُنذِرِینَ» ۱؎ (26-الشعراء:193،194) میں ہے ۔ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ روز ازل میں جب کہ ابن آدم کی تمام روحوں سے اللہ کی الوہیت کا اقرار لیا گیا تھا ، ان روحوں میں عیسیٰ علیہ السلام کی روح بھی تھی ۔ اسی روح کو بصورت انسان اللہ کی طرف سے بھیجا گیا تھا ۔ اسی روح نے آپ سے باتیں کیں اور آپ کے جسم میں حلول کرگئی ۔ لیکن یہ قول علاوہ غریب ہونے کے بالکل ہی منکر ہے ، بہت ممکن ہے کہ یہ بنی اسرئیلی قول ہو ۔ آپ نے جب اس تنہائی کے مکان میں ایک غیر شخص کو دیکھا تو یہ سمجھ کر کہ کہیں یہ کوئی برا آدمی نہ ہو ، اسے اللہ کا خوف دلایا کہ اگر تو پرہیزگار ہے تو اللہ کا خوف کر ۔ میں اللہ کی پناہ چاہتی ہوں ۔ اتنا پتہ تو آپ کو ان کے بشرے سے چل گیا تھا کہ یہ کوئی بھلا انسان ہے ۔ اور یہ جانتی تھیں کہ نیک شخص کو اللہ کا ڈر اور خوف کافی ہے ۔ فرشتے نے آپ کا خوف و ہراس ، ڈر اور گھبراہٹ دور کرنے کے لیے صاف کہہ دیا کہ اور کوئی گمان نہ کرو ، میں تو اللہ کا بھیجا ہوا فرشتہ ہوں ۔ کہتے ہیں کہ اللہ کا نام سن کر جبرائیل علیہ السلام کانپ اٹھے اور اپنی صورت پر آگئے اور کہہ دیا کہ میں اللہ کا قاصد ہوں ۔ اس لیے اللہ نے مجھے بھیجا ہے کہ وہ تجھے ایک پاک نفس فرزند عطا کرنا چاہتا ہے ۔ «لِاَھَبَ» کی دوسری قرأت «لِیَہَبَ» ہے ۔ ابو عمرو بن علا جو ایک مشہور و معروف قاری ہیں ، ان کی یہی قرأت ہے ۔ دونوں قرأتوں کی توجیہ اور مطلب بالکل صاف ہے اور دونوں میں استلزام بھی ہے ۔ یہ سن کر مریم صدیقہ علیہا السلام کو اور تعجب ہوا کہ سبحان اللہ مجھے بچہ کیسے ہوگا ؟ میرا تو نکاح ہی نہیں ہوا اور برائی کا مجھے تصور تک نہیں ہوا ۔ میرے جسم پر کسی انسان کا کبھی ہاتھ ہی نہیں لگا ۔ میں بدکار نہیں پھر میرے ہاں اولاد کیسی ؟ «بَغِیًّا» سے مراد زنا کار ہے ، جیسے حدیث میں بھی یہ لفظ اسی معنی میں ہے کہ { «مَہْرُ الْبَغِیِّ» زانیہ کی خرچی حرام ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2337) فرشتے نے آپ کے تعجب کو یہ فرما کر دور کرنا چاہا کہ ” یہ سب سچ ہے لیکن اللہ اس پر قادر ہے کہ بغیر خاوند کے اور بغیر کسی اور بات کے بھی اولاد دیدے ۔ وہ جو چاہے ہو جاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس بچے کو اور اس واقعہ کو اپنے بندوں کی تذکیر کا سبب بنا دے گا ۔ یہ قدرت الٰہی کی ایک نشانی ہو گی تاکہ لوگ جان لیں کہ وہ خالق ہر طرح کی پیدائش پر قادر ہے “ ۔ آدم علیہ السلام کو بغیر عورت مرد کے پیدا کیا ، حواء کو صرف مرد سے بغیر عورت کے پیدا کیا ۔ باقی تمام انسانوں کو مرد و عورت سے پیدا کیا سوائے عیسیٰ علیہ السلام کے کہ وہ بغیر مرد کے صرف عورت سے ہی پیدا ہوئے ۔ پس تقسیم کی یہ چار ہی صورتیں ہو سکتی تھیں جو سب پوری کر دی گئیں اور اپنی کمال قدرت اور عظیم سلطنت کی مثال قائم کر دی ۔ فی الواقع نہ اس کے سوا کوئی معبود نہ پروردگار ۔ اور یہ بچہ اللہ کی رحمت بنے گا ، رب کا پیغمبر بنے گا ، اللہ کی عبادت کی دعوت اس کی مخلوق کو دے گا ۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ «إِذْ قَالَتِ الْمَلَائِکَۃُ یَا مَرْیَمُ إِنَّ اللہَ یُبَشِّرُکِ بِکَلِمَۃٍ مِّنْہُ اسْمُہُ الْمَسِیحُ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ وَجِیہًا فِی الدٰنْیَا وَالْآخِرَۃِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِینَ وَیُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَہْدِ وَکَہْلًا وَمِنَ الصَّالِحِینَ» ۱؎ (3-آل عمران:45،46) ’ فرشتوں نے کہا اے مریم ! اللہ تعالیٰ تجھے اپنے ایک کلمے کی خوشخبری سناتا ہے جس کا نام مسیح عیسیٰ بن مریم ہوگا جو دنیا اور آخرت میں آبرو دار ہوگا اور ہوگا بھی اللہ کا مقرب ، وہ گہوارے میں ہی بولنے لگے گا اور ادھیڑ عمر میں بھی ۔ اور صالح لوگوں میں سے ہو گا یعنی بچپن اور بڑھاپے میں اللہ کے دین کی دعوت دے گا ‘ ۔ مروی ہے کہ مریم رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ خلوت اور تنہائی کے موقعہ پر مجھ سے عیسیٰ علیہ السلام بولتے تھے اور مجمع میں اللہ کی تسبیح بیان کرتے تھے ۔ یہ حال اس وقت کا ہے جب کہ آپ علیہ السلام میرے پیٹ میں تھے ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ یہ کام علم اللہ میں مقدر اور مقرر ہو چکا ہے ۔ وہ اپنی قدرت سے یہ کام پورا کر کے ہی رہے گا ‘ ۔ بہت ممکن ہے کہ یہ قول بھی جبرائیل علیہ السلام کا ہو ۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ فرمان الٰہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہو ۔ اور مراد اس سے روح کا پھونک دینا ہو ۔ جیسے فرمان ہے کہ «وَمَرْیَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِی أَحْصَنَتْ فَرْجَہَا فَنَفَخْنَا فِیہِ مِن رٰوحِنَا» ۱؎ (66-التحریم:12) ’ عمران کی بیٹی مریم باعصمت بیوی تھیں ۔ ہم نے اس میں روح پھونکی تھی ‘ ۔ اور آیت میں ہے «الَّتِی أَحْصَنَتْ فَرْجَہَا فَنَفَخْنَا فِیہَا مِن رٰوحِنَا» ۱؎ (21-الأنبیاء:91) ’ وہ باعصمت عورت جس میں ہم نے اپنی روح پھونک دی ‘ ۔ پس اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ یہ تو ہو کر ہی رہے گا ۔ اللہ تعالیٰ اس کا ارادہ کر چکا ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ مريم
17 مريم
18 مريم
19 مريم
20 مريم
21 مريم
22 مریم علیہا السلام اور جبرائیل علیہ السلام مروی ہے کہ جب آپ فرمان الٰہی تسلیم کر چکیں اور اس کے آگے گردن جھکا دی تو جبرائیل علیہ السلام نے ان کے کرتے کے گریبان میں پھونک ماری ۔ جس سے انہیں بحکم رب حمل ٹھہر گیا ۔ اب تو سخت گھبرائیں اور یہ خیال کلیجہ مسوسنے لگا کہ میں لوگوں کو کیا منہ دکھاؤں گی ؟ لاکھ اپنی برأت پیش کروں لیکن اس انوکھی بات کو کون مانے گا ؟ اسی گھبراہٹ میں آپ تھیں ، کسی سے یہ واقعہ بیان نہیں کیا تھا ۔ ہاں جب آپ اپنی خالہ زکریا علیہ السلام کی بیوی کے پاس گئیں تو وہ آپ سے معانقہ کر کے کہنے لگیں ، بچی اللہ کی قدرت سے اور تمہارے خالو کی دعا سے میں اس عمر میں حاملہ ہو گئی ہوں ۔ آپ نے فرمایا ، خالہ جان میرے ساتھ یہ واقعہ گزرا اور میں بھی اپنے آپ کو اسی حالت میں پاتی ہوں ۔ چونکہ یہ گھرانہ نبی کا گھرانہ تھا ، وہ قدرت الٰہی پر اور صداقت مریم پر ایمان لائیں ۔ اب یہ حالت تھی کہ جب کبھی یہ دونوں پاک عورتیں ملاقات کرتیں تو خالہ صاحبہ یہ محسوس فرماتیں کہ گویا ان کا بچہ بھانجی کے بچے کے سامنے جھکتا ہے اور اس کی عزت کرتا ہے ۔ ان کے مذہب میں یہ جائز بھی تھا ، اسی وجہ سے یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے اور آپ علیہ السلام کے والد نے آپ علیہ السلام کو سجدہ کیا تھا ۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو آدم علیہ السلام کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیا تھا ۔ لیکن ہماری شریعت میں یہ تعظیم اللہ تعالیٰ کے لیے مخصوص ہو گئی اور کسی دوسرے کو سجدہ کرنا حرام ہو گیا کیونکہ یہ تعظیم الٰہی کے خلاف ہے ۔ اس کی جلالت کے شایان شان نہیں ۔ امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں ، عیسیٰ علیہ السلام اور یحییٰ علیہ السلام خالہ زاد بھائی تھے ۔ دونوں ایک ہی وقت حمل میں تھے ۔ یحییٰ علیہ السلام کی والدہ اکثر مریم رضی اللہ عنہا سے فرماتی تھیں کہ مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میرا بچہ تیرے بچے کے سامنے سجدہ کرتا ہے ۔ امام مالک رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں ، اس سے عیسیٰ علیہ السلام کی فضیلت ثابت ہوتی ہے ۔ کیونکہ اللہ نے آپ علیہ السلام کے ہاتھوں اپنے حکم سے مردوں کو زندہ کر دیا اور مادر زاد اندھوں اور کوڑھیوں کو بھلا چنگا کردیا ۔ جمہور کا قول تو یہ ہے کہ آپ نو مہینے تک حمل میں رہے ۔ عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں آٹھ ماہ تک ۔ اسی لیے آٹھ ماہ کے حمل کا بچہ عموماً زندہ نہیں رہتا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ، حمل کے ساتھ ہی بچہ ہو گیا ۔ یہ قول غریب ہے ۔ ممکن ہے آپ رضی اللہ عنہ نے آیت کے ظاہری الفاظ سے یہ سمجھا ہو کیونکہ حمل کا الگ ہونے کا اور درد زہ کا ذکر ان آیتوں میں ”ف“ کے ساتھ ہے اور ”ف“ تعقیب کے لیے آتی ہے ۔ لیکن تعقیب ہرچیز کی اس کے اعتبار سے ہوتی ہے جیسے عام انسانوں کی پیدائش کا حال آیت قرآن «وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن سُلَالَۃٍ مِّن طِینٍ ثُمَّ جَعَلْنَاہُ نُطْفَۃً فِی قَرَارٍ مَّکِینٍ» ۱؎ (23-المؤمنون:13،12) میں ہوا ہے ۔ کہ ’ ہم نے انسان کو بجتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا ، پھر اسے بصورت نطفہ رحم میں ٹھہرایا ، پھر نطفے کو پھٹکی بنایا ، پھر اس پھٹکی کو لوتھڑا بنایا ، پھر اس لوتھڑے میں ہڈیاں پیدا کیں ‘ ۔ یہاں بھی دو جگہ ”ف“ ہے اور ہے بھی تعقیب کے لیے ۔ لیکن حدیث سے ثابت ہے کہ { ان دو حالتوں میں چالیس دن کافاصلہ ہوتا ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3208) قرآن کریم کی اور آیت میں ہے «اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً ۡ فَتُصْبِحُ الْاَرْضُ مُخْضَرَّۃً اِنَّ اللّٰہَ لَطِیْفٌ خَبِیْرٌ» ۱؎ (22-الحج:63) ’ کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ آسمان سے بارش برساتا ہے ۔ پس زمین سرسبز ہو جاتی ہے ‘ ۔ ظاہر ہے کہ پانی برسنے کے بہت بعد سبزہ اگتا ہے ۔ حالانکہ ”ف“ یہاں بھی ہے ۔ پس تعقیب ہرچیز کی اس چیز کے اعتبار سے ہوتی ہے ۔ سیدھی سی بات تو یہ ہے کہ مثل عادت عورتوں کے آپ رضی اللہ عنہا نے حمل کا زمانہ پورا گزارا ۔ مسجد میں ہی ، مسجد کے خادم ایک صاحب اور تھے جن کا نام یوسف نجار تھا ۔ انہوں نے جب مریم علیہا السلام کا یہ حال دیکھا تو دل میں کچھ شک سا پیدا ہوا لیکن مریم کے زہد وتقویٰ ، عبادت و ریاضت ، خشیت الٰہی اور حق بینی کو خیال کرتے ہوئے انہوں نے یہ برائی دل سے دور کرنی چاہی ۔ لیکن جوں جوں دن گزرتے گئے ، حمل کا اظہار ہوتا گیا ۔ اب تو خاموش نہ رہ سکے ، ایک دن با ادب کہنے لگے کہ مریم میں تم سے ایک بات پوچھتا ہوں ناراض نہ ہونا ۔ بھلا بغیر بیج کے کسی درخت کا ہونا ، بغیر دانے کے کھیت کا ہونا ، بغیر باپ کے بچے کا ہونا ممکن بھی ہے ؟ آپ ان کے مطلب کو سمجھ گئیں اور جواب دیا کہ یہ سب ممکن ہے ، سب سے پہلے جو درخت اللہ تعالیٰ نے اگایا وہ بغیر بیج کے تھا ۔ سب سے پہلے جو کھیتی اللہ نے اگائی وہ بغیر دانے کی تھی ۔ سب سے پہلے اللہ نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا ، وہ بے باپ کے تھے بلکہ بے ماں کے بھی ۔ ان کی تو سمجھ میں آگیا اور مریم علیہا السلام کو اور اللہ کی قدرت کو نہ جھٹلا سکے ۔ اب صدیقہ نے جب دیکھا کہ قوم کے لوگ ان پر تہمت لگا رہے ہیں تو آپ ان سب کو چھوڑ چھاڑ کر دور دراز چلی گئیں ۔ امام محمد بن اسحاق رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں ، جب حمل کے حالات ظاہر ہوگئے ، قوم نے پھبتیاں پھینکنی ، آوازے کسنے اور باتیں بنانی شروع کر دیں اور یوسف نجار جیسے صالح شخص پر یہ تہمت اٹھائی تو آپ ان سب سے کنارہ کش ہوگئیں ۔ نہ کوئی انہیں دیکھے نہ آپ کسی کو دیکھیں ۔ جب درد زہ اٹھا تو آپ ایک کھجور کے درخت کی جڑ میں آبیٹھیں ۔ کہتے ہیں کہ یہ خلوت خانہ بیت المقدس کے مشرقی جانب کا حجرہ تھا ۔ یہ بھی قول ہے کہ شام اور مصر کے درمیان آپ پہنچ چکی تھیں ، اس وقت بچہ ہونے کا درد شروع ہوا ۔ اور قول ہے کہ بیت المقدس سے آپ آٹھ میل چلی گئی تھیں اس بستی کا نام بیت اللحم تھا ۔ معراج کے واقعہ کے بیان میں پہلے ایک حدیث گزری ہے جس میں ہے کہ { عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کی جگہ بھی بیت اللحم تھا } ۔ ۱؎ (سنن نسائی:451،قال الشیخ الألبانی:منکر) «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ مشہور بات بھی یہی ہے اور نصرانیوں کا تو اس پر اتفاق ہے اور اس حدیث میں بھی ہے اگر یہ صحیح ہو ۔ اس وقت آپ موت کی تمنا کرنے لگیں کیونکہ دین کے فتنے کے وقت یہ تمنا بھی جائز ہے ۔ جانتی تھیں کہ کوئی انہیں سچا نہ کہے گا ۔ ان کے بیان کردہ واقعہ کو ہر شخص گھڑنت سمجھے گا ۔ دنیا آپ کو پریشان کر دے گی اور عبادت و اطمینان میں خلل پڑے گا ۔ ہر شخص برائی سے یاد کرے گا اور لوگوں پر برا اثر پڑے گا ۔ تو فرمانے لگیں کاش کہ میں اس حالت سے پہلے ہی اٹھالی جاتی بلکہ کاش کہ میں پیدا ہی نہ کی جاتی ۔ اس قدر شرم و حیاء دامن گیر ہوئی کہ آپ نے اس تکلیف پر موت کو ترجیح دی اور تمنا کی کہ کاش میں کھوئی ہوئی اور یاد سے اتری ہوئی چیز ہو جاتی کہ نہ کوئی یاد کرے نہ ڈھونڈے نہ ذکر کرے ۔ احادیث میں موت مانگنے کی ممانعت وارد ہے ۔ ہم نے ان روایتوں کو آیت «تَوَفَّنِیْ مُسْلِمًا وَّاَلْحِقْنِیْ بالصّٰلِحِیْنَ» ۱؎ (12-یوسف:101) ، کی تفسیر میں بیان کر دیا ہے ۔ مريم
23 مريم
24 مریم علیہا السلام اور معجزات «مِنْ تَحْتِہَا» کی دوسری قرأت «مِنْ تَحْتَہَا» بھی ہے ۔ یہ خطاب کرنے والے جبرائیل علیہ السلام تھے ۔ عیسیٰ علیہ السلام کا تو پہلا کلام وہی تھا جو آپ نے اپنی والدہ کی برأت و پاکدامنی میں لوگوں کے سامنے کیا تھا ۔ اس وادی کے نیچے کے کنارے سے اس گھبراہٹ اور پریشانی کے عالم میں جبرائیل علیہ السلام نے یہ تشفی دی تھی ۔ یہ قول بھی کہا گیا ہے کہ یہ { بات عیسیٰ علیہ السلام نے ہی کہی تھی ۔ آواز آئی کہ غمگین نہ ہو تیرے قدموں تلے تیرے رب نے صاف شفاف شیریں پانی کا چشمہ جاری کر دیا ہے یہ پانی تم پی لو } ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:13303:ضعیف) ایک قول یہ ہے کہ اس چشمے سے مراد خود عیسیٰ علیہ السلام ہیں ۔ لیکن پہلا قول زیادہ ظاہر ہے ۔ چنانچہ اس پانی کے ذکر کے بعد ہی کھانے کا ذکر ہے کہ کھجور کے اس درخت کو ہلاؤ اس میں سے تروتازہ کھجوریں جھڑیں گی وہ کھاؤ ۔ کہتے ہیں یہ درخت سوکھا پڑا ہوا تھا اور یہ قول بھی ہے کہ پھل دار تھا ۔ بہ ظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت وہ درخت کھجوروں سے خالی تھا لیکن آپ کے ہلاتے ہی اس میں سے قدرت الٰہی سے کھجوریں جھڑنے لگیں ، کھانا پینا سب کچھ موجود ہو گیا اور اجازت بھی دے دی ۔ فرمایا کھا پی اور دل کو مسرور رکھ ۔ حضرت عمرو بن میمون رحمہ اللہ کا فرمان ہے کہ نفاس والی عورتوں کے لیے تر کھجوروں سے اور خشک کھجوروں سے بہتر اور کوئی چیز نہیں ۔ ایک حدیث میں ہے ، { کھجور کے درخت کا اکرام کرو ۔ یہ اسی مٹی سے پیدا ہوا ہے جس سے آدم علیہ السلام پیدا ہوئے تھے اس کے سوا اور کوئی درخت نر مادہ مل کر نہیں پھلتا ۔ عورتوں کو ولادت کے وقت تر کھجوریں کھلاؤ ، نہ ملیں تو خشک ہی سہی ۔ کوئی درخت اس سے بڑھ کر اللہ کے پاس مرتبے والا نہیں ۔ اسی لیے اس کے نیچے مریم علیہ السلام کو اتارا } ۔ ۱؎ (سلسلۃ احادیث ضعیفہ البانی:263،) یہ حدیث بالکل منکر ہے ۔ «تُسَاقِطْ» کی دوسری قرأت «تَسَّاقَطْ» اور «تُسْقِطْ» بھی ہے ۔ مطلب تمام قرأتوں کا ایک ہی ہے ۔ پھر ارشاد ہوا کہ ’ کسی سے بات نہ کرنا اشارے سے سمجھا دینا کہ میں آج روزے سے ہوں ‘ ۔ یا تو مراد یہ ہے کہ ان کے روزے میں کلام ممنوع تھا یا یہ کہ میں نے بولنے سے ہی روزہ رکھا ہے ۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہا کے پاس دو شخص آئے ، ایک نے تو سلام کیا ، دوسرے نے نہ کیا ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے پوچھا اس کی کیا وجہ ؟ لوگوں نے کہا اس نے قسم کھائی ہے کہ آج یہ کسی سے بات نہ کرے گا ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اسے توڑ دے ، سلام کلام شروع کر ، یہ تو صرف مریم علیہا السلام کے لیے ہی تھا کیونکہ اللہ کو آپ کی صداقت وکرامت ثابت کرنا منظور تھی اس لیے اسے عذر بنا دیا تھا ۔ عبدالرحمٰن بن زید کہتے ہیں ، جب عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی والدہ سے کہا کہ ” آپ گھبرائیں نہیں “ ، تو آپ رضی اللہ عنہا نے کہا میں کیسے نہ گھبراؤں ، خاوند والی میں نہیں ، کسی کی ملکیت کی لونڈی باندی میں نہیں ، مجھے دنیا نہ کہے گی کہ یہ بچہ کیسے ہوا ؟ میں لوگوں کے سامنے کیا جواب دے سکوں گی ؟ کون سا عذر پیش کر سکوں گی ؟ ہاے کاش کہ میں اس سے پہلے ہی مرگئی ہوتی ، کاش کہ میں ”نسیا منسیا “ ہو گئی ہوتی ۔ اس وقت عیسیٰ علیہ السلام نے کہا ، ” اماں آپ کو کسی سے بولنے کی ضرورت نہیں ۔ میں آپ ان سب سے نمٹ لوں گا ۔ آپ تو انہیں صرف یہ سمجھا دینا کہ آج سے آپ نے چپ رہنے کی نذر مان لی ہے “ ۔ مريم
25 مريم
26 مريم
27 تقدس مریم اور عوام حضرت مریم علیہا السلام نے اللہ کے اس حکم کو بھی تسلیم کر لیا اور اپنے بچے کو گود میں لیے ہوئے لوگوں کے پاس آئیں ۔ دیکھتے ہی ہر ایک انگشت بدنداں رہ گیا اور ہر منہ سے نکل گیا کہ ” مریم تو نے تو بڑا ہی برا کام کیا “ ۔ نوف بکالی کہتے ہیں کہ لوگ مریم کی جستجو میں نکلے تھے لیکن اللہ کی شان کہیں انہیں کھوج ہی نہ ملا ۔ راستے میں ایک چرواہا ملا اس سے پوچھا کہ ایسی ایسی عورت کو تو نے کہیں اس جنگل میں دیکھا ہے ؟ اس نے کہا ” نہیں ! لیکن میں نے رات کو ایک عجیب بات یہ دیکھی ہے کہ میری یہ تمام گائیں اس وادی کی طرف سجدے میں گرگئیں ۔ میں نے تو اس سے پہلے کبھی ایسا واقعہ نہیں دیکھا ۔ اور میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ اس طرف ایک نور نظر آ رہا تھا “ ۔ وہ اس کی نشان دہی پر جا رہے تھے جو سامنے سے عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ بچے کو لیے ہوئے آتی دکھائی دے گئیں ، انہیں دیکھ کر آپ وہیں اپنے بچے کو گود میں لیے ہوئے بیٹھ گئیں ۔ ان سب نے آپ کو گھیر لیا اور باتیں بنانے لگے ۔ ان کا یہ کہنا کہ ” اے ہارون کی بہن ! “ ، اس سے مراد یہ ہے کہ آپ ہارون کی نسل سے تھیں ۔ یا آپ کے گھرانے میں ہارون نامی ایک صالح شخص تھا اور اسی کی سی عبادت وریاضت مریم صدیقہ کی تھی ۔ اس لیے انہیں ہاورن کی بہن کہا گیا ۔ کوئی کہتا ہے ، ہارون نامی ایک بدکار شخص تھا ، اس لیے لوگوں نے طعن کی راہ سے انہیں اس کی بہن کہا ۔ ان سب اقوال سے بڑھ کر غریب قول ایک یہ بھی ہے کہ آپ ہارون وموسیٰ کی وہی سگی بہن ہیں جنہیں موسیٰ علیہ السلام کی والدہ نے جب موسیٰ علیہ السلام کو پیٹی میں ڈال کر دریا میں چھوڑا تھا تو ان سے کہا تھا کہ ” تم اس طرح اس کے پیچھے پیچھے کنارے کنارے جاؤ کہ کسی کو خیال بھی نہ گزرے “ ۔ یہ قول تو بالکل غلط معلوم ہوتا ہے اس لیے کہ قرآن سے ثابت ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کے آخری نبی تھے ، آپ علیہ السلام کے بعد صرف خاتم الانبیاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی نبی ہوئے ہیں ۔ چنانچہ صحیح بخاری شریف میں ہے { آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ { عیسیٰ بن مریم علیہ السلام سے سب سے زیادہ قریب میں ہوں اس لیے کہ مجھ میں اور ان کے درمیان میں اور کوئی نبی نہیں گزرا } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2442) پس اگر محمد بن کعب قرظی کا یہ قول کہ آپ ہارون علیہ السلام کی سگی بہن تھیں ، ٹھیک ہو تو یہ ماننا پڑے گا کہ آپ سلیمان علیہ السلام اور داؤد علیہ السلام سے بھی پہلے تھے کیونکہ قرآن کریم میں موجود ہے کہ داؤد علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام کے بعد ہوئے ہیں ۔ ملاحظہ ہوآیت «أَلَمْ تَرَ إِلَی الْمَلَإِ مِن بَنِی إِسْرَائِیلَ مِن بَعْدِ مُوسَیٰ» الخ ۱؎ (2-البقرہ:251-246) ، ان آیتوں میں داؤد علیہ السلام کا واقعہ اور آپ علیہ السلام کا جالوت کو قتل کرنا بیان ہوا ہے «وَقَتَلَ دَاوُودُ جَالُوتَ» ۱؎ (2-البقرہ:251) اور لفظ موجود ہیں کہ ’ یہ موسیٰ کے بعد کا واقعہ ہے ‘ ۔ انہیں جو غلطی لگی ہے ، اس کی وجہ تورات کی یہ عبارت ہے جس میں ہے کہ جب موسیٰ علیہ السلام مع بنی اسرائیل کے دریا سے پار ہوگئے اور فرعون مع اپنی قوم کے ڈوب مرا ، اس وقت مریم بنت عمران نے جو موسیٰ اور ہارون علیہم السلام کی بہن تھیں ، دف پر اللہ کے شکر کے ترانے بلند کئے ، آپ کے ساتھ اور عورتیں بھی تھیں ۔ اس عبارت سے قرظی رحمہ اللہ نے یہ سمجھ لیا کہ یہی عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ ہیں حالانکہ یہ محض غلط ہے ۔ ممکن ہے موسیٰ علیہ السلام کی بہن کا نام بھی مریم ہو لیکن یہ کہ یہی مریم عیسیٰ علیہ السلام کی ماں تھیں ، اس کا کوئی ثبوت نہیں بلکہ یہ محض ناممکن ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ نام دونوں کا ایک ہو ، ایک نام پر دوسرے نام رکھے جاتے ہیں ۔ بنی اسرائیل میں تو عادت تھی کہ وہ اپنے نبیوں ولیوں کے نام پر اپنے نام رکھتے تھے ۔ مسند احمد میں مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ { مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران بھیجا ۔ وہاں مجھ سے بعض نصرانیوں نے پوچھا کہ تم یا اخت ہارون پڑھتے ہو حالانکہ موسیٰ علیہ السلام تو عیسیٰ علیہ السلام سے بہت پہلے گزرے ہیں ، مجھ سے کوئی جواب بن نہ پڑا ۔ جب میں مدینے واپس آیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { تم نے انہیں اسی وقت کیوں نہ جواب دے دیا کہ وہ لوگ اپنے اگلے نبیوں اور نیک لوگوں کے نام پر اپنے اور اپنی اولادوں کے نام برابر رکھا کرتے تھے } } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2135) صحیح مسلم شریف میں بھی یہ حدیث ہے ۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ اسے حسن صحیح غریب بتلاتے ہیں ۔ ایک مرتبہ کعب رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ { یہ ہارون ، موسیٰ علیہ السلام کے بھائی ہارون علیہ السلام نہیں ، اس پر ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے انکار کیا ، تو آپ نے کہا کہ اگر آپ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ سنا ہو تب تو ہمیں منظور ہے ورنہ تاریخی طور پر تو ان کے درمیان چھ سو سال کا فاصلہ ہے ۔ یہ سن کر ام المؤمنین رضی اللہ عنہا خاموش ہوگئیں } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:23689:) اس تاریخ میں ہمیں قدرے تامل ہے ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ، مریم علیہا السلام کا گھرانہ اوپر سے ہی نیک صالح اور دیندار تھا اور یہ دینداری برابر گویا وراثتاً چلی آ رہی تھی ۔ بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں اور بعض گھرانے اس کے خلاف بھی ہوتے ہیں کہ اوپر سے نیچے تک سب بد ہی بد ۔ یہ ہارون بڑے بزرگ آدمی تھے ، اس وجہ سے بنی اسرائیل میں ہارون نام رکھنے کا عام طور پر عام شوق ہو گیا تھا ۔ یہاں تک مذکور ہے کہ جس دن ہارون کا جنازہ نکلا ہے تو آپ کے جنازے میں اسی ہارون نام کے چالیس ہزار آدمی تھے ۔ الغرض وہ لوگ ملامت کرنے لگے کہ تم سے یہ برائی کیسے سرزد ہو گئی تم تو نیک کوکھ کی بچی ہو ، ماں باپ دونوں صالح ، سارا گھرانہ پاک ، پھر تم نے یہ کیا حرکت کی ؟ قوم کی یہ کڑوی کسیلی باتیں سن کر حسب فرمان آپ رضی اللہ عنہا نے اپنے بچے کی طرف اشارہ کر دیا کہ اس سے پوچھ لو ۔ ان لوگوں کو تاؤ پر تاؤ آیا کہ دیکھو کیا ڈھٹائی کا جواب دیتی ہے گویا ہمیں پاگل بنا رہی ہے ۔ بھلا گود کے بچے سے ہم کیا پوچھیں گے اور وہ ہمیں کیا بتائے گا ؟ مريم
28 مريم
29 مريم
30 . اتنے میں بن بلائے آپ علیہ السلام بول اٹھے کہ ” لوگو ! میں اللہ کا ایک غلام ہوں “ ۔ سب سے پہلا کلام عیسیٰ علیہ السلام کا یہی ہے ۔ اللہ کی تنزیہہ اور تعظیم بیان کی اور اپنی غلامی اور بندگی کا اعلان کیا اللہ کی ذات کو اولاد سے پاک بتایا بلکہ ثابت کر دیا کیونکہ اولاد غلام نہیں ہوتی ، پھر اپنی نبوت کا اظہار کیا کہ مجھے اس نے کتاب دی ہے اور مجھے اپنا نبی بنایا ہے ۔ اس میں اپنی والدہ کی برأت بیان کی بلکہ دلیل بھی دے دی کہ میں تو اللہ کا پیغمبر ہوں ، رب نے مجھے اپنی کتاب بھی عنایت فرما دی ہے ۔ کہتے ہیں کہ جب لوگ آپ کی والدہ ماجدہ سے باتیں بنا رہے تھے آپ اس وقت دودھ پی رہے تھے جسے چھوڑ کر بائیں کروٹ سے ہو کر ان کی طرف توجہ فرما کر یہ جواب دیا ۔ کہتے ہیں اس قول کے وقت آ پکی انگلی اٹھی ہوئی تھی اور ہاتھ مونڈھے تک اونچا تھا ۔ عکرمہ رحمہ اللہ تو فرماتے ہیں ” مجھے کتاب دی “ اس کا مطلب یہ ہے کہ دینے کا ارادہ ہو چکا ہے یہ پورا ہوکر رہے گا ۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ، اسی وقت آپ علیہ السلام کو کتاب یاد تھی ، سب سیکھے ہوئے ہی پیدا ہوئے تھے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:487/4:) لیکن اس قول کی سند ٹھیک نہیں ۔ میں جہاں بھی ہوں ، لوگوں کو بھلائی سکھانے والا ، انہیں نفع پہنچانے والا ہوں ۔ ایک عالم اپنے سے بڑے عالم سے ملے اور دریافت کیا کہ مجھے اپنے کس عمل کے اعلان کی اجازت ہے ، فرمایا بھلی بات کہنے اور بری بات کے روکنے کی اس لیے کہ یہی اصل دین ہے اور یہی انبیاء اللہ کا ورثہ ہے یہی کام ان کے سپرد ہوتا رہا ۔ پس جماعتی مسئلہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کی اس عام برکت سے مراد بھلائی کا حکم اور برائی سے روکنا ہے ۔ جہاں بیٹھتے اٹھتے ، آتے جاتے یہ شغل برابر جاری رہتا ۔ کبھی اللہ کی باتیں پہنچانے سے نہ رکتے ۔ فرماتے ہیں ، مجھے حکم ملا ہے کہ زندگی بھر تک نماز و زکوٰۃ کا پابند رہوں ۔ یہی حکم ہمارے نبی علیہ الصلوۃ والسلام کو ملا ۔ ارشاد ہے «وَاعْبُدْ رَبَّکَ حَتَّیٰ یَأْتِیَکَ الْیَقِینُ» ۱؎ (15-الحجر:99) ’ مرتے دم تک اپنے رب کی عبادت میں لگا رہ ‘ ۔ پس عیسیٰ علیہ السلام نے بھی فرمایا کہ ” اس نے مجھ پر یہ دونوں کام میری زندگی کے آخری لمحے تک لکھ دیے ہیں “ ۔ اس سے تقدیر کا ثبوت اور منکرین تقدیر کی تردید بھی ہو جاتی ہے ۔ رب کی اطاعت کے اس حکم کے ساتھ ہی مجھے اپنی والدہ کی خدمت گزاری کا بھی حکم ملا ہے ۔ عموماً قرآن میں یہ دونوں چیزیں ایک ساتھ بیان ہوتی ہیں جیسے آیت «وَقَضٰی رَبٰکَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا» ۱؎ (17-الإسراء:23) اور آیت «اَنِ اشْکُرْ لِیْ وَلِوَالِدَیْکَ اِلَیَّ الْمَصِیْرُ» ۱؎ (31-لقمان:14) میں ۔ اس نے مجھے گردن کش نہیں بنایا کہ میں اس کی عبادت سے یا والدہ کی اطاعت سے سرکشی اور تکبر کروں اور بدبخت بن جاؤں ۔ کہتے ہیں جبار وشقی وہ ہے جو غصے میں آ کر خونریزی کر دے ۔ فرماتے ہیں ، ” ماں باپ کا نافرمان وہی ہوتا ہے جو بدبخت اور گردن کش ہو ۔ بدخلق وہی ہوتا ہے جو اکڑنے والا اور منافق ہو “ ۔ مذکور ہے کہ ایک مرتبہ آپ علیہ السلام کے معجزوں کو دیکھ کر ایک عورت تعجب سے کہنے لگی ، مبارک ہے وہ پیٹ جس میں تو نے پرورش پائی اور مبارک ہے وہ سینہ جس نے تجھے دودھ پلایا ۔ آپ علیہ السلام نے جواب دیا ، ” مبارک ہے وہ جس نے کتاب اللہ کی تلاوت کی ، پھر تابعداری کی اور سرکش اور بدبخت نہ بنا “ ۔ پھر فرماتے ہیں ، ” میری پیدائش کے دن ، موت کے بعد دوبارہ جی اٹھنے کے دن میں مجھ پرسلامتی ہے “ ۔ اس سے بھی آپ علیہ السلام کی عبودیت اور منجملہ مخلوق کے ایک مخلوق الٰہی ہونا ثابت ہو رہا ہے کہ آپ علیہ السلام مثل انسانوں کے عدم سے وجود میں آئے ۔ پھر موت کا مزہ بھی چکھیں گے ۔ پھر قیامت کے دن دوبارہ اٹھیں گے بھی ۔ لیکن ہاں یہ تینوں موقعے خوب سخت اور کٹھن ہیں ۔ آپ علیہ السلام پر آسان اور سہل ہوں گے ۔ نہ کوئی گھبراہٹ ہوگی نہ پریشانی بلکہ امن چین اور سراسر سلامتی ہی سلامتی ۔ «صَلَوَاتُ اللہِ وَسَلَامُہُ عَلَیْہِ» ۔ مريم
31 مريم
32 مريم
33 مريم
34 عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں مختلف اقوال (2-البقرۃ:147)اللہ تعالیٰ اپنے رسول محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کے واقعہ میں جن جن لوگوں کا اختلاف تھا ، ان میں جو بات صحیح تھی ، وہ اتنی ہی تھی جتنی ہم نے بیان فرما دی ۔ «قَوْلَ» کی دوسری قرأت «قَوْلُ» بھی ہے ۔ ابن مسعود کی قرأت میں «قَالَ الْحَقَّ» ہے ۔ «قَوْلَ» کا رفع زیادہ ظاہر ہے جیسے «اَلْحَقٰ مِنْ رَّبِّکَ فَلَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ» ۱؎ (2-البقرۃ:147) ، میں ۔ یہ بیان فرما کر کہ جناب عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے نبی تھے اور اس کے بندے ، پھر اپنے نفس کی پاکیزگی بیان فرماتا ہے کہ ’ اللہ کی شان سے گری ہوئی بات ہے کہ اس کی اولاد ہو ۔ یہ جاہل عالم جو افواہیں اڑا رہے ہیں ، ان سے اللہ تعالیٰ پاک اور دور ہے ۔ وہ جس کام کو کرنا چاہتا ہے اسے سامان اسباب کی ضرورت نہیں پڑتی ، فرما دیتا ہے کہ ہو جا اسی وقت وہ کام اسی طرح ہو جاتا ہے ‘ ۔ ادھر حکم ہوا ، ادھر چیز تیار موجود ۔ جیسے فرمان ہے «إِنَّ مَثَلَ عِیسَی عِنْدَ اللہِ کَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَہُ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہُ کُنْ فَیَکُونُ الْحَقٰ مِنْ رَبِّکَ فَلَا تَکُنْ مِنَ الْمُمْتَرِینَ» ۱؎ (3-آل عمران:59-60) یعنی ’ عیسیٰ علیہ السلام کی مثال اللہ کے نزدیک مثل آدم علیہ السلام کے ہے کہ اسے مٹی سے بنا کر فرمایا ہو جا ، اسی وقت وہ ہو گیا ۔ یہ بالکل سچ ہے اور اللہ کا فرمان تجھے اس میں کسی قسم کا شک نہ کرنا چاہیئے ‘ ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے یہ بھی فرمایا کہ ” میرا اور تم سب کا رب اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ تم سب اسی کی عبادت کرتے رہو ۔ سیدھی راہ جسے میں اللہ کی جانب سے لے کر آیا ہوں یہی ہے ۔ اس کی تابعداری کرنے والا ہدایت پر ہے اور اس کا خلاف کرنے والا گمراہی پر ہے “ ۔ یہ فرمان بھی آپ کا ماں کی گود سے ہی تھا ۔ عیسیٰ علیہ السلام کے اپنے بیان اور حکم کے خلاف بعد والوں نے لب کشائی کی اور ان کے بارے میں مختلف گروہوں کی شکل میں یہ لوگ بٹ گئے ۔ چنانچہ یہود نے کہا کہ عیسیٰ علیہ السلام نعوذ باللہ ولد الزنا ہیں ، اللہ کی لعنتیں ان پر ہوں کہ انہوں نے اللہ کے ایک بہترین رسول پر بدترین تہمت لگائی ، اور کہا کہ ان کا یہ کلام وغیرہ سب جادو کے کرشمے تھے ۔ اسی طرح نصاریٰ بہک گئے کہنے لگے کہ یہ تو خود اللہ ہے یہ کلام اللہ کا ہی ہے ۔ کسی نے کہا یہ اللہ کا لڑکا ہے ، کسی نے کہا تین معبودوں میں سے ایک ہے ۔ ہاں ایک جماعت نے واقعہ کے مطابق کہا کہ آپ علیہ السلام اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں یہی قول صحیح ہے ۔ اہل اسلام کا عقیدہ عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت یہی ہے اور یہی تعلیم الٰہی ہے ۔ کہتے ہیں کہ بنواسرائیل کا مجمع جمع ہوا اور اپنے میں سے انہوں نے چار آدمی چھانٹے ، ہر قوم نے اپنا اپنا ایک عالم پیش کیا ۔ یہ واقعہ عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر اٹھ جانے کے بعد کا ہے ۔ یہ لوگ آپس میں متنازع ہوئے ایک تو کہنے لگا ، یہ خود اللہ تھا جب تک اس نے چاہا ، زمین پر رہا ، جسے چاہا جلایا ، جسے چاہا مارا ، پھر آسمان پر چلا گیا ، اس گروہ کو یعقوبیہ کہتے ہیں لیکن اور تینوں نے اسے جھٹلایا اور کہا ، تو نے جھوٹ کہا ۔ اب دو نے تیسرے سے کہا ، اچھا تو کہہ تیرا کیا خیال ہے ؟ اس نے کہا وہ اللہ کے بیٹے تھے اس جماعت کا نام نسطوریہ پڑا ۔ دو جو رہ گئے ، انہوں نے کہا تو نے بھی غلط کہا ہے ۔ پھر ان دو میں سے ایک نے کہا ، تم کہو ، اس نے کہا میں تو یہ عقیدہ رکھتا ہوں کہ وہ تین میں سے ایک ہیں ۔ ایک تو اللہ جو معبود ہے ۔ دوسرے یہی جو معبود ہیں ۔ تیسرے ان کی والدہ جو معبود ہیں ۔ یہ اسرائیلیہ گروہ ہوا اور یہی نصرانیوں کے بادشاہ تھے ان پر اللہ کی لعنتیں ۔ چوتھے نے کہا تم سب جھوٹے ہو ۔ عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بندے اور رسول تھے ، اللہ ہی کا کلمہ تھے اور اس کے پاس کی بھیجی ہوئی روح ۔ یہ لوگ مسلمان کہلائے اور یہی سچے تھے ۔ ان میں سے جس کے تابع جو تھے ، وہ اسی کے قول پر ہو گئے اور آپس میں خوب اچھلے ۔ چونکہ سچے اسلام والے ہر زمانے میں تعداد میں کم ہوتے ہیں ، ان پر یہ ملعون چھاگئے ، انہیں دبا لیا ، انہیں مارنا پیٹنا اور قتل کرنا شروع کر دیا ۔ اکثر مورخین کا بیان ہے کہ قسطنطین بادشاہ نے تین بار عیسائیوں کو جمع کیا ، آخری مرتبہ کے اجتماع میں ان کے دو ہزار ایک سو ستر علماء جمع ہوئے تھے لیکن یہ سب آپس میں عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں مختلف آراء رکھتے تھے ۔ سو کچھ کہتے تو ستر اور ہی کچھ کہتے ، پچاس کچھ اور ہی کہہ رہے تھے ، ساٹھ کا عقیدہ کچھ اور ہی تھا ، ہر ایک کا خیال دوسرے سے ٹکرا رہا تھا ۔ سب سے بڑی جماعت تین سو آٹھ کی تھی ۔ بادشاہ نے اس طرف کثرت دیکھ کر کثرت کا ساتھ دیا ۔ مصلحت ملکی اسی میں تھی کہ اس کثیر گروہ کی طرفداری کی جائے لہٰذا اس کی پالیسی نے اسے اسی طرف متوجہ کر دیا ۔ اور اس نے باقی کے سب لوگوں کو نکلوا دیا اور ان کے لیے امانت کبریٰ کی رسم ایجاد کی جو دراصل سب سے زیادہ بدترین خیانت ہے ۔ اب مسائل شرعیہ کی کتابیں ان علماء سے لکھوائیں اور بہت سی رسومات ملکی اور ضروریات شہری کو شرعی صورت میں داخل کر لیا ۔ بہت سی نئی نئی باتیں ایجاد کیں اور اصلی دین مسیحی کی صورت کو مسخ کر کے ایک مجموعہ مرتب کرایا اور اسے لوگوں میں قانوناً رائج کردیا اور اس وقت سے دین مسیحی یہی سمجھا جانے لگا ۔ جب اس پر ان سب کو رضامند کر لیا تو اب چاروں طرف کلیسا ، گرجے اور عبادت خانے بنوانے اور وہاں ان علماء کو بٹھانے اور ان کے ذریعے سے اس اپنی نومولود مسیحیت کو پھیلانے کی کوشش میں لگ گیا ۔ شام میں ، جزیرہ میں ، روم میں تقریباً بارہ ہزار ایسے مکانات اس کے زمانے میں تعمیر کرائے گئے ۔ اس کی ماں ہیلانہ نے جس جگہ سولی گڑھی ہوئی تھی ، وہاں ایک قبہ بنوا دیا اور اس کی باقاعدہ پرستش شروع ہو گئی ۔ اور سب نے یقین کر لیا کہ عیسیٰ علیہ السلام سولی پر چڑھ گئے حالانکہ ان کا یہ قول غلط ہے ، اللہ نے اپنے اس معزز بندے کو اپنی جانب آسمان پر چڑھا لیا ہے ۔ یہ ہے عیسائی مذہب کے اختلاف کی ہلکی سی مثال ۔ ایسے لوگ جو اللہ پر جھوٹ افترا باندھیں ، اس کی اولادیں اور شریک و حصہ دار ثابت کریں گو وہ دنیا میں مہلت پا لیں لیکن اس عظیم الشان دن ان کی ہلاکت انہیں چاروں طرف سے گھیر لے گی اور برباد ہو جائیں گے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے نافرمانوں کو گو جلدی عذاب نہ کرے لیکن بالکل چھوڑتا بھی نہیں ۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے ، { اللہ تعالیٰ ظالم کو ڈھیل دیتا ہے لیکن جب اس کی پکڑ نازل ہوتی ہے تو پھر کوئی جائے پناہ باقی نہیں رہتی ۔ یہ فرما کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت قرآن «وَکَذٰلِکَ اَخْذُ رَبِّکَ اِذَآ اَخَذَ الْقُرٰی وَہِیَ ظَالِمَۃٌ اِنَّ اَخْذَہٗٓ اَلِیْمٌ شَدِیْدٌ» ۱؎ (11-ھود:102) تلاوت فرمائی } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4686) یعنی ’ تیرے رب کی پکڑ کا طریقہ ایسا ہی ہے جب وہ کسی ظلم سے آلودہ بستی کو پکڑتا ہے ۔ یقین مانو کہ اس کی پکڑ نہایت المناک اور بہت سخت ہے ‘ ۔ بخاری و مسلم کی اور حدیث میں ہے کہ { ناپسند باتوں کو سن کر صبر کرنے والا اللہ سے زیادہ کوئی نہیں ۔ لوگ اس کی اولاد بتلاتے ہیں اور وہ انہیں روزیاں دے رہا ہے اور عافیت بھی } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6099) خود قرآن فرماتا ہے ۔ «وَکَاَیِّنْ مِّنْ قَرْیَۃٍ اَمْلَیْتُ لَہَا وَہِیَ ظَالِمَۃٌ ثُمَّ اَخَذْتُہَا وَاِلَیَّ الْمَصِیْرُ» ۱؎ (22-الحج:48) ’ بہت سی بستیوں والے وہ ہیں جن کے ظالم ہونے کے باوجود میں نے انہیں ڈھیل دی پھر پکڑ لیا آخر لوٹنا تو میری ہی جانب ہے ‘ ۔ اور آیت میں ہے کہ «وَلَا تَحْسَبَنَّ اللہَ غَافِلًا عَمَّا یَعْمَلُ الظَّالِمُونَ إِنَّمَا یُؤَخِّرُہُمْ لِیَوْمٍ تَشْخَصُ فِیہِ الْأَبْصَارُ» ۱؎ (14-ابراھیم:42) ’ ظالم لوگ اپنے اعمال سے اللہ کو غافل نہ سمجھیں ، انہیں جو مہلت ہے ، وہ اس دن تک ہے جس دن آنکھیں اوپر چڑھ جائیں گی ‘ ۔ یہی فرمان یہاں بھی ہے کہ ’ ان پر اس بہت بڑے دن کی حاضری نہایت سخت دشوار ہوگی ‘ ۔ صحیح حدیث میں ہے ، { جو شخص اس بات کی گواہی دے کہ اللہ ایک ہے ، وہی معبود برحق ہے ، اس کے سوا لائق عبادت اور کوئی نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں اور یہ کہ عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بندے اور اس کے پیغمبر ہیں اور اس کا کلمہ ہیں جسے مریم علیہا السلام کی طرف ڈالا تھا اور اس کے پاس کی بھیجی ہوئی روح ہیں اور یہ کہ جنت حق ہے اور دوزخ حق ہے ۔ اس کے خواہ کیسے ہی اعمال ہوں ، اللہ اسے ضرور جنت میں پہنچائے گا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3435) مريم
35 مريم
36 مريم
37 مريم
38 قیامت کا دن دوزخیوں کے لئے یوم حسرت ارشاد ہے کہ گو آج دنیا میں یہ کفار آنکھیں بند کئے ہوئے اور کانوں میں روئی ٹھونسے ہوئے ہیں ، لیکن قیامت کے دن ان کی آنکھیں خوب روشن ہو جائیں گی اور کان بھی خوب کھل جائیں گے ۔ جیسے فرمان الٰہی ہے «وَلَوْ تَرٰٓی اِذِ الْمُجْرِمُوْنَ نَاکِسُوْا رُءُوْسِہِمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ رَبَّنَآ اَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا اِنَّا مُوْقِنُوْنَ» ۱؎ (32-السجدۃ:12) الخ ، ’ کاش کہ تو دیکھتا جب یہ گنہگار لوگ اپنے رب کے سامنے شرمسار سرنگوں کھڑے ہوئے کہہ رہے ہوں گے کہ اے اللہ ہم نے دیکھا سنا ‘ الخ ۔ پس اس دن نہ دیکھنا کام آئے نہ سننا نہ حسرت وافسوس کرنا نہ واویلا کرنا ۔ اگر یہ لوگ اپنی آنکھوں اور اپنے کانوں سے دنیا میں کام لے کر اللہ کے دین کو مان لیتے تو آج انہیں حسرت و افسوس نہ کرنا پڑتا ۔ اس دن آنکھیں کھولیں گے اور آج اندھے بہرے بنے پھرتے ہیں ، نہ ہدایت کو طلب کرتے ہیں نہ دیکھتے ہیں ، نہ بھلی باتیں سنتے ہیں نہ مانتے ہیں ۔ مخلوق کو اس حسرت والے دن سے خبردار کر دیجئیے جب کہ تمام کام فیصل کر دیے جائیں گے ، جنتی جنت میں اور دوزخی دوزخ میں بھیج دیے جائیں گے ۔ اس حسرت و ندامت کے دن سے یہ آج غافل ہو رہے ہیں بلکہ ایمان و یقین بھی نہیں رکھتے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { جنتیوں کے جنت میں اور دوزخیوں کے دوزخ میں چلے جانے کے بعد موت کو ایک بھیڑیئے کی شکل میں لایا جائے گا اور جنت دوزخ کے درمیان کھڑا کیا جائے گا ، پھر اہل جنت سے پوچھا جائے گا کہ اسے جانتے ہو ؟ وہ دیکھ کر کہیں گے کہ ہاں یہ موت ہے ۔ دوزخیوں سے بھی یہی سوال ہو گا اور وہ بھی یہی جواب دیں گے ۔ اب حکم ہو گا اور موت کو ذبح کر دیا جائے گا اور ندا کر دی جائے گی کہ اہل جنت تمہارے لیے ہمیشہ موت نہیں اور اہل جہنم تمہارے لیے بھی اب ہمیشہ کے لیے موت نہیں ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی آیت «وَأَنذِرْہُمْ یَوْمَ الْحَسْرَۃِ إِذْ قُضِیَ الْأَمْرُ وَہُمْ فِی غَفْلَۃٍ وَہُمْ لَا یُؤْمِنُونَ» ۱؎ (19-مریم:39) ، تلاوت فرمائی ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کیا اور فرمایا اہل دنیا غفلت دنیا میں ہیں } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4830) سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایک واقعہ مطول بیان فرماتے ہوئے فرمایا کہ ” ہر شخص اپنے دوزخ اور جنت کے گھر کو دیکھ رہا ہو گا وہ دن ہی حسرت و افسوس کا ہے ۔ جہنمی اپنے جنتی گھر کو دیکھ رہا ہوگا اور اس سے کہا جاتا ہوگا کہ اگر تم عمل کرتے تو تمہیں یہ جگہ ملتی وہ حسرت وافسوس کرنے لگیں گے ، ادھر جنتیوں کو ان کا جہنم کا گھر دکھا کر فرمایا جائے گا کہ اگر اللہ کا احسان تم پر نہ ہوتا تو تم یہاں ہوتے “ ۔ اور روایت میں ہے کہ ” موت کو ذبح کر کے جب ہمیشہ کے لیے کی آواز لگا دی جائے گی ، اس وقت جنتی تو اس قدر خوش ہوں گے کہ اگر اللہ نہ بچائے تو مارے خوشی کے مر جائیں اور جہنمی اس قدر رنجیدہ ہو کر چیخیں گے کہ اگر موت ہوتی تو ہلاک ہو جائیں “ ۔ پس اس آیت کا یہی مطلب ہے یہ وقت حسرت کا بھی ہو گا اور کام کے خاتمے کا وقت بھی یہی ہوگا ۔ پس یوم الحسرت بھی قیامت کے ناموں میں سے ایک نام ہے ۔ چنانچہ اور آیت میں ہے «اَنْ تَـقُوْلَ نَفْسٌ یّٰحَسْرَتٰی عَلٰی مَا فَرَّطْتٰ فِیْ جَنْۢبِ اللّٰہِ وَاِنْ کُنْتُ لَمِنَ السّٰخِرِیْنَ» ۱؎ (39-الزمر:56) ، پھر بتایا کہ خالق و مالک متصرف اللہ ہی ہے ۔ سب اسی کی ملکیت ہے اور سب کو فنا ہے باقی صرف اللہ تبارک وتعالیٰ جل شانہ ہی ہے ، ملکیت اور تصرف کا سچا دعویدار بجز اس کے کوئی نہیں ، تمام خلق کا وارث حاکم وہی ہے ، اس کی ذات ظلم سے پاک ہے ۔ خلیفہ اسلام امیر المؤمنین عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے عبدالحمید بن عبدالرحمٰن کو کوفے میں خط لکھا ، جس میں حمد و صلوۃ کے بعد لکھا ، ” اللہ نے روز اول سے ہی ساری مخلوق پر فنا لکھ دی ہے ۔ سب کو اس کی طرف پہنچنا ہے ، اس نے اپنی نازل کردہ اس سچی کتاب میں جسے اپنے علم سے محفوظ کئے ہوئے ہے اور جس کی نگہبانی اپنے فرشتوں سے کرا رہا ہے ، لکھ دیا ہے کہ زمین کا اور اس کے اوپر جو ہیں ، ان کا وارث وہی ہے اور اسی کی طرف سب لوٹائے جائیں گے “ ۔ مريم
39 مريم
40 مريم
41 بتوں کی پوجا مشرکین مکہ جو بت پرست ہیں اور اپنے آپ کو خلیل اللہ کا متبع خیال کرتے ہیں ، ان کے سامنے اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ بیان کیجئے ۔ اس سچے نبی علیہ السلام نے اپنے باپ کی بھی پرواہ نہ کی اور اس کے سامنے بھی حق کو واضح کر دیا اور اسے بت پرستی سے روکا ۔ صاف کہا کہ کیوں ان بتوں کی پوجا پاٹ کر رہے ہوں جو نہ نفع پہنچا سکیں نہ ضرر ۔ فرمایا کہ میں بیشک آپ کا بچہ ہوں لیکن اللہ کا علم جو میرے پاس ہے آپ کے پاس نہیں ، آپ میری اتباع کیجئے میں آپ کو راہ راست دکھاؤں گا ، برائیوں سے بچا کر بھلائیوں میں پہنچا دوں گا ۔ ابا جی یہ بت پرستی تو شیطان کی تابعداری ہے وہی اس کی راہ سمجھاتا ہے اور وہی اس سے خوش ہوتا ہے ۔ جیسے سورۃ یاسین میں ہے «اَلَمْ اَعْہَدْ اِلَیْکُمْ یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ اَنْ لَّا تَعْبُدُوا الشَّیْطٰنَ اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مٰبِیْنٌ» ۱؎ (36-یس:60) ، اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ ’ اے انسانو ! کیا میں نے تم سے عہد نہیں لیا تھا کہ شیطان کی عبادت نہ کرنا وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ‘ ۔ اور آیت میں ہے «اِنْ یَّدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلَّآ اِنَاثًا وَاِنْ یَّدْعُوْنَ اِلَّا شَیْطٰنًا مَّرِیْدًا» ۱؎ (4-النساء:117) ، ’ یہ لوگ تو عورتوں کو پکارتے ہیں اور اللہ کو چھوڑتے ہیں دراصل یہ سرکش شیطان کے پکارنے والے ہیں ‘ ۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا ” شیطان اللہ کا نافرمان ہے ، مخالف ہے ، اس کی فرمانبرداری سے تکبر کرنے والا ہے ، اسی وجہ سے راندہ درگاہ ہوا ہے اگر تو نے بھی اس کی اطاعت کی تو وہ اپنی حالت پر تجھے بھی پہنچا دے گا “ ۔ ” ابا جان آپ کے اس شرک و عصیان کی وجہ سے مجھے تو خوف ہے کہ کہیں آپ پر اللہ کا کوئی عذاب نہ آ جائے اور آپ شیطان کے دوست اور اس کے ساتھی نہ بن جائیں اور اللہ کی مدد اور اس کا ساتھ آپ سے چھوٹ نہ جائے ۔ دیکھو شیطان خود بے کس و بے بس ہے اس کی تابعداری آپ کو بری جگہ پہنچا دے گی “ ۔ جیسے فرمان باری ہے «تَ اللہِ لَقَدْ أَرْ‌سَلْنَا إِلَیٰ أُمَمٍ مِّن قَبْلِکَ فَزَیَّنَ لَہُمُ الشَّیْطَانُ أَعْمَالَہُمْ فَہُوَ وَلِیٰہُمُ الْیَوْمَ وَلَہُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ» ۱؎ (16-النحل:63) یعنی ’ یہ یقینی اور قسمیہ بات ہے کہ تجھ سے پہلے کی امتوں کی طرف بھی ہم نے رسول بھیجے لیکن شیطان نے ان کی بداعمالیاں انہیں مزین کر کے دکھلائیں اور وہی ان کا ساتھی بن گیا لیکن کام کچھ نہ آیا اور قیامت کے دن عذاب الیم میں پھنس گئے ‘ ۔ مريم
42 مريم
43 مريم
44 مريم
45 مريم
46 باپ کی ابراہیم علیہ السلام کو دھمکی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس طرح سمجھانے پر ان کے باپ نے جو جہالت کا جواب دیا ، وہ بیان ہو رہا ہے کہ ” اس نے کہا ابراہیم [ علیہ السلام ] تو میرے معبودوں سے بیزار ہے ، ان کی عبادت سے تجھے انکار ہے ، اچھا سن رکھ ، اگر تو اپنی اس حرکت سے باز نہ آیا اور انہیں برا کہتا رہا اور ان کی عیب جوئی اور انہیں گالیاں دینے سے نہ رکا تو میں تجھے سنگسار کر دونگا ۔ مجھے تو تکلیف نہ دے ، نہ مجھ سے کچھ کہہ ۔ یہی بہتر ہے کہ تو سلامتی کے ساتھ مجھ سے الگ ہو جائے ورنہ میں تجھے سزا دوں گا ۔ مجھ سے تو تو اب ہمیشہ کے لیے گیا گزرا “ ۔ ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا ، ” اچھا خوش رہو ، میری طرف سے آپ کو کوئی تکلیف نہ پہنچے گی کیونکہ آپ میرے والد ہیں بلکہ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کروں گا کہ وہ آپ کو نیک توفیق دے اور آپ کے گناہ بخشے “ ۔ مومنوں کا یہی شیوہ ہوتا ہے کہ وہ جاہلوں سے بھڑتے نہیں ، جیسے کہ قرآن میں ہے «وَّاِذَا خَاطَبَہُمُ الْجٰہِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا» ۱؎ (25-الفرقان:63) ’ جاہلوں سے جب ان کا خطاب ہوتا ہے تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ سلام ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَإِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ أَعْرَ‌ضُوا عَنْہُ وَقَالُوا لَنَا أَعْمَالُنَا وَلَکُمْ أَعْمَالُکُمْ سَلَامٌ عَلَیْکُمْ لَا نَبْتَغِی الْجَاہِلِینَ» ۱؎ (28-القصص:55) ’ لغو باتوں سے وہ منہ پھیر لیتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے اعمال ہمارے ساتھ ، تمہارے اعمال تمہارے ساتھ ، تم پر سلام ہو ۔ ہم جاہلوں کے درپے نہیں ہوتے ‘ ۔ پھر فرمایا کہ ” میرا رب میرے ساتھ بہت مہربان ہے ، اسی کی مہربانی ہے کہ مجھے ایمان و اخلاص کی ہدایت کی ۔ مجھے اس سے اپنی دعا کی قبولیت کی امید ہے “ ۔ اسی وعدے کے مطابق آپ ان کے لیے بخشش طلب کرتے رہے ۔ شام کی ہجرت کے بعد بھی ، مسجد الحرام بنانے کے بعد بھی ، آپ کے ہاں اولاد ہو جانے کے بعد بھی آپ کہتے رہے کہ ” اے اللہ مجھے ، میرے ماں باپ کو اور تمام ایمان والوں کو حساب کے قائم ہونے کے دن بخش دے “ ۔ آخر اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آئی کہ مشرکوں کے لیے استغفار نہ کرو ۔ آپ علیہ السلام ہی کی اقتداء میں پہلے پہل مسلمان بھی ابتداء اسلام کے زمانے میں اپنے قرابت دار مشرکوں کے لیے طلب بخشش کی دعائیں کرتے رہے ۔ آخر آیت نازل ہوئی کہ بیشک ابراہیم علیہ السلام قابل اتباع ہیں لیکن اس بات میں ان کا فعل اس قابل نہیں ۔ اور آیت میں فرمایا « مَا کَانَ لِلنَّبِیِّ وَالَّذِینَ آمَنُوا أَن یَسْتَغْفِرُ‌وا لِلْمُشْرِ‌کِینَ وَلَوْ کَانُوا أُولِی قُرْ‌بَیٰ مِن بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّہُمْ أَصْحَابُ الْجَحِیمِ» الخ ۱؎ (9-التوبۃ:114،113) ، یعنی ’ نبی کو اور ایمانداروں کو مشرکوں کے لیے استغفار نہ کرنا چاہیئے ‘ الخ ۔ ’ اور فرمایا کہ ابراہیم علیہ السلام کا یہ استغفار صرف اس بناء پر تھا کہ آپ علیہ السلام اپنے والد سے اس کا وعدہ کر چکے تھے لیکن جب آپ علیہ السلام پر واضح ہو گیا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو آپ علیہ السلام اس سے بری ہو گئے ۔ ابراہیم علیہ السلام تو بڑے ہی اللہ دوست اور علم والے تھے ‘ ۔ پھر فرماتے ہیں کہ ” میں تم سب سے اور تمہارے ان تمام معبودوں سے الگ ہوں ۔ میں صرف اللہ واحد کا عابد ہوں ، اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہیں کرتا ، میں فقط اسی سے دعائیں اور التجائیں کرتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ میں اپنی دعاؤں میں محروم نہ رہوں گا “ ۔ واقعہ بھی یہی ہے اور یہاں پر لفظ «عَسٰی» یقین کے معنوں میں ہے اس لیے کہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سید الانبیاء ہیں [ علیہ السلام ] ۔ مريم
47 مريم
48 مريم
49 لاتعلق ہونے کا اعلان خلیل اللہ علیہ السلام ماں باپ کو ، رشتے کنبے کو ، قوم و ملک کو اللہ کے دین پر قربان کر چکے ، سب سے یک طرف ہو گئے ، اپنی برأت اور علیحدگی کا اعلان کر دیا تو اللہ نے ان کی نسل جاری کر دی ۔ آپ علیہ السلام کے ہاں اسحاق علیہ السلام پیدا ہوئے اور اسحاق علیہ السلام کے ہاں یعقوب علیہ السلام ہوئے ۔ جیسے فرمان ہے «وَیَعْقُوْبَ نَافِلَۃً وَکُلًّا جَعَلْنَا صٰلِحِیْنَ» ۱؎ (21-الأنبیاء:72) اور آیت میں ہے «وَمِنْ وَّرَاءِ اِسْحٰقَ یَعْقُوْبَ» ۱؎ (11-ھود:71) یعنی ’ اسحاق کے پیچھے یعقوب ‘ ۔ پس اسحاق علیہ السلام یعقوب علیہ السلام کے والد تھے جیسے سورۃ البقرہ کی آیت «أَمْ کُنتُمْ شُہَدَاءَ إِذْ حَضَرَ یَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِیہِ مَا تَعْبُدُونَ مِن بَعْدِی قَالُوا نَعْبُدُ إِلٰہَکَ وَإِلٰہَ آبَائِکَ إِبْرَاہِیمَ وَإِسْمَاعِیلَ وَإِسْحَاقَ إِلٰہًا وَاحِدًا وَنَحْنُ لَہُ مُسْلِمُونَ» ۱؎ (2-البقرۃ:133) الخ ، میں صاف لفظ ہیں کہ ’ یعقوب علیہ السلام نے اپنے انتقال کے وقت اپنے بچوں سے پوچھا کہ تم سب میرے بعد کس کی عبادت کرو گے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ اسی اللہ کی جس کی عبادت آپ کرتے ہیں اور آپ کے والد ابراہیم ، اسماعیل اور اسحاق علیہم السلام ‘ ۔ پس یہاں مطلب یہ ہے کہ ’ ہم نے اس کی نسل جاری رکھی ، بیٹا دیا ، بیٹے کے ہاں بیٹا دیا اور دونوں نبی بنا کر آپ علیہ السلام کی آنکھیں ٹھنڈی کیں ‘ ۔ یہ ظاہر ہے کہ یعقوب علیہ السلام کے بعد آپ علیہ السلام کے فرزند یوسف علیہ السلام بھی نبی بنائے گئے تھے ان کا ذکر یہاں نہیں کیا اس لیے کہ یوسف علیہ السلام کی نبوت کے وقت خلیل اللہ علیہ السلام زندہ نہ تھے ۔ یہ دونوں نبوتیں یعنی اسحاق علیہ السلام ویعقوب علیہ السلام کی نبوت آپ علیہ السلام کی زندگی میں آپ کے سامنے تھی اس لیے اس احسان کا ذکر بیان فرمایا ۔ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب سوال ہوا کہ سب سے بہتر شخص کون ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { یوسف نبی اللہ بن یعقوب نبی اللہ بن اسحاق نبی اللہ بن ابراہیم نبی اللہ وخلیل اللہ } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3383) اور حدیث میں ہے { کریم بن کریم بن کریم بن کریم ، یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم ہیں علیہم الصلوۃ والسلام } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3382) ’ ہم نے انہیں اپنی بہت ساری رحمتیں دیں اور ان کا ذکر خیر اور ثنا جمیل کو دنیا میں ان کے بعد بلندی کے ساتھ باقی رکھا یہاں تک کہ ہر مذہب والے ان کے گن گاتے ہیں ‘ ۔ «فَصَلَواۃُ الّلہِ وَسَلَامُہ عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْنَ» ۔ مريم
50 مريم
51 خلوص ابراہیم علیہ السلام اپنے خلیل علیہ السلام کا بیان فرما کر اب اپنے کلیم علیہ السلام کا بیان فرماتا ہے ۔ «مُخلَصاً» کی دوسری قرأت «مُخلِصاً» بھی ہے ۔ یعنی ’ وہ بااخلاص عبادت کرنے والے تھے ‘ ۔ مروی ہے کہ حواریوں نے عیسیٰ علیہ السلام سے دریافت کیا کہ ” اے روح اللہ ! ہمیں بتائیے مخلص شخص کون ہے ؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا ” جو محض اللہ کے لیے عمل کرے ، اسے اس بات کی چاہت نہ ہو کہ لوگ میری تعریفیں کریں “ ۔ دوسری قرأت میں «مُخْلَصاً» ہے یعنی اللہ کے چیدہ اور برگزیدہ بندے موسیٰ علیہ السلام جیسے فرمان باری ہے «اِنِّی اصْطَفَیْتُکَ عَلَی النَّاسِ» ۱؎ (7-الأعراف:144) آپ اللہ کے نبی اور رسول تھے ۔ پانچ بڑے بڑے جلیل القدر اولو العزم رسولوں میں سے ایک آپ علیہ السلام ہیں یعنی نوح ، ابراہیم ، موسیٰ ، عیسیٰ اور محمد صلوات اللہ و سلامہ علیہم وعلی سائر الانبیاء اجمعین ۔ ’ ہم نے انہیں مبارک پہاڑ طور کی دائیں جانب سے آواز دی اور سرگوشی کرتے ہوئے اپنے قریب کر لیا ‘ ۔ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب آپ آگ کی تلاش میں طور کی طرف یہاں آگ دیکھ کر بڑھے تھے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ وغیرہ فرماتے ہیں ، ” اس قدر قریب ہو گئے کہ قلم کی آواز سننے لگے “ ۔ مراد اس سے توراۃ لکھنے کی قلم ہے ۔ سدی رحمہ اللہ کہتے ہیں ، آسمان میں گئے اور کلام باری سے مشرف ہوئے ۔ کہتے ہیں ، انہی باتوں میں یہ فرمان بھی ہے کہ ’ اے موسیٰ ! جب کہ میں تیرے دل کو شکر گزار اور تیری زبان کو اپنا ذکر کرنے والی بنا دوں اور تجھے ایسی بیوی دوں جو نیکی کے کاموں میں تیری معاون ہو تو سمجھ لے کہ میں نے تجھ سے کوئی بھلائی اٹھا نہیں رکھی اور جسے میں یہ چیزیں نہ دوں ، سمجھ لے کہ اسے کوئی بھلائی نہیں ملی ‘ ۔ ’ ان پر ایک مہربانی ہم نے یہ بھی کی کہ ان کے بھائی ہارون کو نبی بنا کر ان کی امداد کے لیے ان کے ساتھ کر دیا جیسے کہ آپ علیہ السلام کی چاہت اور دعا تھی ‘ ۔ فرمایا تھا «وَاَخِیْ ہٰرُوْنُ ہُوَ اَفْصَحُ مِنِّیْ لِسَانًا فَاَرْسِلْہُ مَعِیَ رِدْاً یٰصَدِّقُنِیْٓ ۡ اِنِّیْٓ اَخَافُ اَنْ یٰکَذِّبُوْنِ» ۱؎ (28-القص:34) ، اور آیت میں ہے «قَدْ اُوْتِیْتَ سُؤْلَکَ یٰمُوْسٰی» ۱؎ (20-طہ:36) ’ موسیٰ تیرا سوال ہم نے پورا کر دیا ‘ ۔ آپ علیہ السلام کی دعا کے لفظ یہ بھی وارد ہیں «فَاَرْسِلْ اِلٰی ہٰرُوْنَ» ۱؎ (26-الشعراء:13) الخ ، ’ ہارون کو بھی رسول بنا ‘ الخ ۔ کہتے ہیں کہ اس سے زیادہ بہتر دعا اور اس سے بڑھ کر شفاعت کسی نے کسی کی دنیا میں نہیں کی ۔ ہارون موسیٰ علیہ السلام سے بڑے تھے ۔ «صَلَواۃُ الّلہِ وَسَلَامُہ عَلَیْہِمْا» ۔ مريم
52 مريم
53 مريم
54 ابوالحجاز علیہ السلام حضرت اسماعیل بن ابراہیم علیہم السلام کا ذکر خیر بیان ہو رہا ہے ۔ آپ علیہ السلام سارے حجاز کے باپ ہیں ۔ جو نذر اللہ کے نام کی مانتے تھے ، جو عبادت کرنے کا ارادہ کرتے تھے ، پوری ہی کرتے تھے ۔ ہر حق ادا کرتے تھے ہر وعدے کی وفا کرتے تھے ۔ ایک شخص سے وعدہ کیا کہ میں فلاں جگہ آپ کو ملوں گا وہاں آپ آ جانا ۔ حسب وعدہ اسماعیل علیہ السلام وہاں گئے لیکن وہ شخص نہیں آیا تھا ۔ آپ اس کے انتظار میں وہیں ٹھہرے رہے ، یہاں تک کہ ایک دن رات پورا گزر گیا ۔ اب اس شخص کو یاد آیا ، اس نے آ کر دیکھا کہ آپ علیہ السلام وہیں انتظار میں ہیں ۔ پوچھا کہ کیا آپ علیہ السلام کل سے یہیں ہیں ؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا ” جب وعدہ ہو چکا تھا تو پھر میں آپ کے آئے بغیر کیسے ہٹ سکتا تھا “ ۔ اس نے معذرت کی کہ میں بالکل بھول گیا تھا ۔ سفیان ثوری رحمۃاللہ علیہ تو کہتے ہیں ، یہیں انتظار میں ہی آپ علیہ السلام کو ایک سال کامل گزر چکا تھا ۔ ابن شوزب کہتے ہیں ، وہیں مکان کر لیا تھا ۔ عبداللہ بن ابو الحما کہتے ہیں کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے پہلے میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ تجارتی لین دین کیا تھا ، میں چلا گیا اور یہ کہہ گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہیں ٹھہریے ۔ میں ابھی واپس آتا ہوں پھر مجھے خیال ہی نہ رہا ، وہ دن گزرا وہ رات گزری دوسرا دن گزر گیا ، تیسرے دن مجھے خیال آیا تو دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہیں تشریف فرما ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { تم نے مجھ کو مشقت میں ڈال دیا ، میں آج تین دن سے یہیں تمہارا انتظار کرتا رہا } } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4996،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ اس وعدے کا ذکر ہے جو آپ علیہ السلام نے بوقت ذبح کیا تھا کہ ” اباجی آپ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے “ ۔ چنانچہ فی الواقع آپ علیہ السلام نے وعدے کی وفا کی اور صبر و برداشت سے کام لیا ۔ وعدے کی وفا نیک کام ہے اور وعدہ خلافی بہت بری چیز ہے ۔ قرآن کریم فرماتا ہے «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللہِ أَنْ تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ» ۱؎ (61-الصف:2-3) ’ ایمان والو ! وہ باتیں زبان سے کیوں نکالتے ہو جن پر خود عمل نہیں کرتے اللہ کے نزدیک یہ بات نہایت ہی غضبناکی کی ہے کہ تم وہ کہو جو نہ کرو ‘ ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { منافق کی تین نشانیاں ہیں باتوں میں جھوٹ ، وعدہ خلافی اور امانت میں خیانت } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:33) ان آفتوں سے مومن الگ تھلگ ہوتے ہیں ۔ یہی وعدے کی سچائی اسماعیل علیہ السلام میں تھی اور یہی پاک صفت جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی تھی ۔ کبھی کسی سے کسی وعدے کے خلاف آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا ۔ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ابوالعاص بن ربیع کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ { اس نے مجھ سے جو بات کی ، سچی کی اور جو وعدہ اس نے مجھ سے کیا ، پورا کیا } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3729) سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے تخت خلافت نبوی پر قدم رکھتے ہی اعلان کر دیا کہ { جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو وعدہ کیا ہو ، میں اسے پورا کرنے کے لیے تیار ہوں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جس کاقرض ہو ، میں اس کی ادائیگی کے لیے موجود ہوں ۔ چنانچہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور عرض کیا کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وعدہ فرمایا تھا کہ اگر بحرین کا مال آیا تو میں تجھے تین لپیں بھر کر دونگا ۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے پاس جب بحرین کا مال آیا تو آپ نے جابر رضی اللہ عنہ کو بلوا کر فرمایا ، لو لپ بھر لو ۔ آپ کی لپ میں پانچ سو درہم آئے حکم دیا کہ تین لپوں کے پندرہ سو درہم لے لو } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4383) پھر اسماعیل علیہ السلام کا رسول نبی ہونا بیان فرمایا ۔ حالانکہ اسحاق علیہ السلام کا صرف نبی ہونا بیان فرمایا گیا ہے ۔ اس سے آپ کی فضیلت اپنے بھائی پر ثابت ہوتی ہے ۔ چنانچہ مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ { اولاد ابراہیم علیہ السلام میں سے اللہ تعالیٰ نے اسماعیل علیہ السلام کو پسند فرمایا } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2276) ۔ پھر آپ علیہ السلام کی مزید تعریف بیان ہو رہی ہے کہ ’ آپ علیہ السلام اللہ کی اطاعت پر صابر تھے اور اپنے گھرانے کو بھی یہی حکم فرماتے رہتے تھے ‘ ۔ یہی فرمان اللہ تعالیٰ کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے «وَاْمُرْ اَہْلَکَ بالصَّلٰوۃِ وَاصْطَبِرْ عَلَیْہَا لَا نَسْــَٔــلُکَ رِزْقًا نَحْنُ نَرْزُقُکَ وَالْعَاقِبَۃُ للتَّقْوٰی» ۱؎ (20-طہ:132) ، ’ اپنے اہل و عیال کو نماز کا حکم کرتا رہ اور خود بھی اس پر مضبوطی سے عامل رہ ‘ ۔ اور آیت میں ہے «یٰٓاَیٰہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَہْلِیْکُمْ نَارًا وَّقُوْدُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ عَلَیْہَا مَلٰیِٕکَۃٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَآ اَمَرَہُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ» ۱؎ (66-التحریم:6) ، ’ اے ایمان والو ! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچا لو جس کا ایندھن انسان ہیں اور پتھر ۔ جہاں عذاب کرنے والے فرشتے رحم سے خالی ، زور آور اور بڑے سخت ہیں ۔ ناممکن ہے کہ اللہ کے حکم کا وہ خلاف کریں بلکہ جو ان سے کہا گیا ہے ، اسی کی تابعداری میں مشغول ہیں ‘ ۔ پس مسلمانوں کو حکم الٰہی ہو رہا ہے کہ اپنے گھر بار کو اللہ کی باتوں کی ہدایت کرتے رہیں ، گناہوں سے روکتے رہیں ، یونہی بے تعلیم نہ چھوڑیں کہ وہ جہنم کا لقمہ بن جائیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { اس مرد پر اللہ کا رحم ہو جو رات کو تہجد پڑھنے کے لیے اپنے بستر سے اٹھتا ہے پھر اپنی بیوی کو اٹھاتا ہے اور اگر وہ نہیں اٹھتی تو اس کے منہ پر پانی چھڑک کر اسے نیند سے بیدار کرتا ہے ۔ اس عورت پر بھی اللہ کی رحمت ہو جو رات کو تہجد پڑھنے کے لیے اٹھتی ہے ۔ پھر اپنے میاں کو جگاتی ہے اور وہ نہ جاگے تو اس کے منہ پر پانی کا چھینٹا ڈالتی ہے } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:1308،قال الشیخ الألبانی:حسن صحیح) ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ { جب انسان رات کو جاگے اور اپنی بیوی کو بھی جگائے اور دونوں دو رکعت بھی نماز کی ادا کر لیں تو اللہ کے ہاں اللہ کا ذکر کرنے والے مردوں عورتوں میں دونوں کے نام لکھ لیے جاتے ہیں } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:1309،قال الشیخ الألبانی:صحیح) مريم
55 مريم
56 ادریس علیہ السلام کا تعارف حضرت ادریس علیہ السلام کا بیان ہو رہا ہے کہ ’ آپ علیہ السلام سچے نبی تھے ، اللہ کے خاص بندے تھے ۔ آپ علیہ السلام کو ہم نے بلند مکان پر اٹھا لیا ‘ ۔ صحیح حدیث کے حوالے سے پہلے گزر چکا ہے کہ { چوتھے آسمان پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ادریس علیہ السلام سے ملاقات کی } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:7517) اس آیت کی تفسیر میں امام ابن جریر رحمہ اللہ نے ایک عجیب وغریب اثر وارد کیا ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کعب رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ ” اس آیت کا مطلب کیا ہے ؟“ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ” ادریس علیہ السلام کے پاس وحی آئی کہ کل اولاد آدم کے نیک اعمال کے برابر صرف تیرے نیک اعمال میں اپنی طرف ہر روز چڑھاتا ہوں ۔ اس پر آپ علیہ السلام کو خیال آیا کہ آپ عمل میں اور سبقت کریں ۔ جب آپ علیہ السلام کے پاس آپ کا دوست فرشتہ آیا تو آپ علیہ السلام نے اس سے ذکر کیا میرے پاس یوں وحی آئی ہے ، اب تم ملک الموت سے کہو کہ وہ میری موت میں تاخیر کریں تو میں نیک اعمال میں اور اور بڑھ جاؤں ۔ اس فرشتے نے آپ علیہ السلام کو اپنے پروں میں بٹھا کر آسمان پر چڑھا دیا ۔ جب چوتھے آسمان پر آپ علیہ السلام پہنچے تو ملک الموت کو دیکھا ، فرشتے نے آپ سے ادریس علیہ السلام کی بابت سفارش کی تو ملک الموت نے فرمایا ، وہ کہاں ہیں ؟ اس نے کہا ، یہ ہیں میرے بازو پر بیٹھے ہوئے ۔ آپ نے فرمایا سبحان اللہ مجھے یہاں اس آسمان پر ان کی روح کے قبض کرنے کا حکم ہو رہا ہے چنانچہ اسی وقت ان کی روح قبض کرلی گئی ۔ یہ ہیں اس آیت کے معنی “ ۔ لیکن یہ یاد رہے کہ کعب رحمہ اللہ کا یہ بیان اسرائیلیات میں سے ہے اور اس کے بعض میں نکارت ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ یہی روایت اور سند سے بھی ہے ، اس میں یہ بھی ہے کہ آپ علیہ السلام نے بذریعہ اس فرشتے کو پچھوایا تھا کہ میری عمر کتنی باقی ہے ؟ اور روایت میں ہے کہ فرشتے کے اس سوال پر ملک الموت نے جواب دیا کہ میں دیکھ لوں ، دیکھ کر فرمایا ، صرف ایک آنکھ کی پلک کے برابر اب جو فرشتہ اپنے پر تلے دیکھتا ہے تو ادریس علیہ السلام کی روح پرواز ہو چکی تھی ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ علیہ السلام درزی تھے ، سوئی کے ایک ایک ٹانکے پر «سُبْحَانَ اللہِ » کہتے ۔ شام کو ان سے زیادہ نیک عمل آسمان پر کسی کے نہ چڑھتے ۔ مجاہد رحمہ اللہ تو کہتے ہیں ادریس علیہ السلام آسمانوں پر چڑھالئے گئے ۔ آپ علیہ السلام مرے نہیں بلکہ عیسیٰ علیہ السلام کی طرح بے موت اٹھا لیے گئے اور وہیں انتقال فرماگئے ۔ حسن رحمہ اللہ وغیرہ کہتے ہیں بلند مکان سے مراد جنت ہے ۔ مريم
57 مريم
58 انبیاء کی جماعت کا ذکر فرمان الٰہی ہے کہ ’ یہ ہے جماعت انبیاء ‘ یعنی جن کا ذکر اس سورۃ میں ہے یا پہلے گزرا ہے یا بعد میں آئے گا ۔ یہ لوگ اللہ کے انعام یافتہ ہیں ۔ پس یہاں شخصیت سے جنس کی طرف استطراد ہے ۔ یہ ہیں اولاد آدم سے یعنی ادریس «صَلَوَاتُ اللہِ وَسَلَامُہُ عَلَیْہِ» ، اور اولاد سے ان کی جو نوح علیہ السلام کے ساتھ کشتی میں سوار کرا دئے گئے تھے ، اس سے مراد ابراہیم خلیل اللہ علیہ صلوات اللہ ہیں ۔ اور ذریت ابراہیم علیہ السلام سے مراد اسحاق ، یعقوب ، اسماعیل ہیں اور ذریت اسرائیل سے مراد موسیٰ ، ہارون ، زکریا ، یحییٰ اور عیسیٰ ہیں «فَصَلَواۃُ الّلہِ وَسَلَامُہ عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْنَ» ۔ یہی قول ہے سدی رحمۃاللہ علیہ اور ابن جریر رحمہ اللہ کا ، اسی لیے ان کے نسب جداگانہ بیان فرمائے گئے کہ گو اولاد آدم میں سب ہیں مگر ان میں بعض وہ بھی ہیں جو ان بزرگوں کی نسل سے نہیں جو نوح علیہ السلام کے ساتھ تھے کیونکہ ادریس تو نوح علیہ السلام کے دادا تھے ۔ میں کہتا ہوں ، بظاہر یہی ٹھیک ہے کہ نوح علیہ السلام کے اوپر کے نسب میں اللہ کے پیغمبر ادریس علیہ السلام ہیں ۔ ہاں بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ادریس علیہ السلام بنی اسرائیلی نبی ہیں ۔ یہ کہتے ہیں کہ معراج والی حدیث میں ادریس علیہ السلام کا بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہنا مروی ہے کہ مرحبا ہو نبی صالح اور بھائی صالح کو مرحبا ہو ۔ تو بھائی صالح کہا ، نہ کہ صالح ولد ، جیسے کہ ابراہیم اور آدم علیہم السلام نے کہا تھا ۔ مروی ہے کہ ادریس علیہ السلام نوح علیہ السلام سے پہلے کے ہیں ۔ آپ علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا کہ «لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ» کے قائل اور معتقد بن جاؤ پھر جو چاہو کرو لیکن انہوں نے اس کا انکار کیا اللہ عزوجل نے ان سب کو ہلاک کر دیا ۔ ہم نے اس آیت کو جنس انبیاء کے لیے قرار دیا ہے ۔ اس کی دلیل سورۃ الانعام کی وہ آیتیں ہیں جن میں ابراہیم علیہ السلام ، اسحاق علیہ السلام ، یعقوب علیہ السلام ، نوح علیہ السلام ، داؤد علیہ السلام ، سلیمان علیہ السلام ، ایوب علیہ السلام ، یوسف علیہ السلام ، موسیٰ علیہ السلام ، ہارون علیہ السلام ، زکریا علیہ السلام ، یحییٰ علیہ السلام ، عیسیٰ علیہ السلام ، الیاس علیہ السلام ، اسماعیل علیہ السلام ، یونس علیہ السلام وغیرہ کا ذکر اور تعریف کرنے کے بعد فرمایا «اُولٰیِٕکَ الَّذِیْنَ ہَدَی اللّٰہُ فَبِہُدٰیہُمُ اقْتَدِہْ قُلْ لَّآ اَسْــــَٔـلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِنْ ہُوَ اِلَّا ذِکْرٰی لِلْعٰلَمِیْنَ» ۱؎ (6-الأنعام:90) ’ یہی وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت دی ۔ تو ابھی ان کی ہدایت کی اقتداء کر ‘ ۔ اور یہ بھی فرمایا ہے کہ نبیوں میں سے بعض کے واقعات ہم نے بیان کر دیے ہیں اور بعض کے واقعات تم تک پہنچے ہی نہیں ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ { مجاہد رحمۃاللہ علیہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ کیا سورۃ ص میں سجدہ ہے ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہاں ، پھر اسی آیت کی تلاوت کر کے فرمایا ، تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی اقتداء کا حکم کیا گیا ہے اور داؤد علیہ السلام بھی مقتدا نبیوں میں سے ہیں } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4807) فرمان ہے کہ ’ ان پیغمبروں کے سامنے جب کلام اللہ شریف کی آیتیں تلاوت کی جاتی تھیں تو اس کے دلائل و براہین کو سن کر خشوع و خضوع کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا شکرو احسان مانتے ہوئے روتے گڑگڑاتے سجدے میں گر پڑتے تھے ‘ ۔ اسی لیے اس آیت پر سجدہ کرنے کا حکم علماء کا متفق علیہ مسئلہ ہے تاکہ ان پیغمبروں کی اتباع اور اقتداء ہو جائے ۔ امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہا نے سورۃ مریم کی تلاوت کی اور جب اس آیت پر پہنچے تو سجدہ کیا پھر فرمایا ” سجدہ تو کیا لیکن وہ رونا کہاں سے لائیں “ ؟ (ابن ابی حاتم اور ابن جریر) مريم
59 حدود الہٰی کے محافظ نیک لوگوں کا خصوصاً انبیاء کرام علیہم السلام کا ذکر کیا جو حدود الٰہی کے محافظ ، نیک اعمال کے نمونے ، بدیوں سے بچتے تھے ۔ اب برے لوگوں کا ذکر ہو رہا ہے کہ ان کے بعد کے زمانے والے ایسے ہوئے کہ وہ نمازوں تک سے بے پرواہ بن گئے اور جب نماز جیسے فریضے کی اہمیت کو بھلا بیٹھے تو ظاہر ہے کہ اور واہیات کی وہ کیا پرواہ کریں گے ؟ کیونکہ نماز تو دین کی بنیاد ہے اور تمام اعمال سے افضل و بہتر ہے ۔ یہ لوگ نفسانی خواہشوں کے پیچھے پڑ گئے ، دنیا کی زندگی پر اطمینان سے ریجھ گئے ، انہیں قیامت کے دن سخت خسارہ ہوگا ، بڑے گھاٹے میں رہیں گے ۔ نماز کے ضائع کرنے سے مراد یا تو اسے بالکل ہی چھوڑ بیٹھنا ہے ۔ اسی لیے امام احمد رحمہ اللہ اور بہت سے سلف خلف کا مذہب ہے کہ نماز کا تارک کافر ہے ۔ یہی ایک قول امام شافعی رحمہ اللہ کا بھی ہے کیونکہ حدیث میں ہے کہ { بندے کے اور شرک کے درمیان نماز کا چھوڑنا ہے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:82) دوسری حدیث میں ہے کہ { ہم میں اور ان میں فرق نماز کا ہے ، جس نے نماز چھوڑ دی وہ کافر ہوگیا } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2621،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اس مسئلہ کو تفصیل سے بیان کرنے کا یہ مقام نہیں ۔ یا نماز کے ترک سے مراد نماز کے وقتوں کی صحیح طور پر پابندی کا نہ کرنا ہے کیونکہ ترک نماز تو کفر ہے ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا گیا کہ قرآن کریم میں نماز کا ذکر بہت زیادہ ہے ، کہیں نمازوں میں سستی کرنے والوں کے عذاب کا بیان ہے ، کہیں نماز کی مداوت کا فرمان ہے ، کہیں محافظت کا ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ، ” ان سے مراد وقتوں میں سستی نہ کرنا اور وقتوں کی پابندی کرنا ہے “ ۔ لوگوں نے کہا ہم تو سمجھتے تھے کہ اس سے مراد نمازوں کا چھوڑ دینا اور نہ چھوڑنا ہے ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ، ” یہ تو کفر ہے “ ۔ مسروق رحمہ اللہ فرماتے ہیں ، پانچوں نمازوں کی حفاظت کرنے والا غافلوں میں نہیں لکھا جاتا ، ان کا ضائع کرنا اپنے آپ کو ہلاک کرنا ہے اور ان کا ضائع کرنا ، ان کے وقتوں کی پابندی نہ کرنا ہے ۔ خلیفۃ المسلمین امیر المؤمنین عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اس آیت کی تلاوت کر کے فرمایا کہ ” اس سے مراد سرے سے نماز چھوڑ دینا نہیں بلکہ نماز کے وقت کو ضائع کر دینا ہے “ ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ، ” یہ بدترین لوگ قریب بہ قیامت آئیں گے جب کہ اس امت کے صالح لوگ باقی نہ رہے ہوں گے اس وقت یہ لوگ جانوروں کی طرح کودتے پھاندتے پھریں گے “ ۔ عطابن ابو رباح رحمہ اللہ بھی یہی فرماتے ہیں کہ ” یہ لوگ آخری زمانے میں ہوں گے “ ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ، یہ اس امت کے لوگ ہوں گے جو چوپایوں اور گدھوں کی مانند راستوں میں اچھل کود کریں گے اور اللہ تعالیٰ سے جو آسمان میں ہے ، بالکل نہ ڈریں گے اور نہ لوگوں سے شرمائیں گے ۔ ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے ، { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، { یہ ناخلف لوگ ساٹھ سال کے بعد ہوں گے جو نمازوں کو ضائع کر دیں گے اور شہوت رانیوں میں لگ جائیں گے اور قیامت کے دن خمیازہ بھگتیں گے ۔ پھر ان کے بعد وہ نالائق لوگ آئیں گے جو قرآن کی تلاوت تو کریں گے لیکن ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گا ۔ یاد رکھو ، قاری تین قسم کے ہوتے ہیں ۔ مومن ، منافق اور فاجر } } ۔ راوی حدیث ولید سے جب ان کے شاگرد نے اس کی تفصیل پوچھی تو آپ نے فرمایا ، ” ایماندار تو اس کی تصدیق کریں گے ۔ نفاق والے اس پر عقیدہ نہ رکھیں گے اور فاجر اس سے اپنی شکم پری کرے گا “ ۔ ۱؎ (سلسلۃ احادیث صحیحہ البانی:258:حسن) ابن ابی حاتم کی ایک غریب حدیث میں ہے کہ { سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اصحاب صفہ کے لیے جب کچھ خیرات بھجواتیں تو کہہ دیتیں کہ بربری مرد و عورت کو نہ دینا کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ یہی وہ ناخلف ہیں جن کا ذکر اس آیت میں ہے } ۔ ۱؎ (مستدرک حاکم:244/2:منقطع) محمد بن کعب قرظی کا فرمان ہے کہ ” مراد اس سے مغرب کے بادشاہ ہیں جو بدترین بادشاہ ہیں “ ۔ حضرت کعب احبار رحمہ اللہ فرماتے ہیں ، اللہ کی قسم میں منافقوں کے وصف قرآن کریم میں پاتا ہوں ۔ یہ نشے پینے والے ، نمازیں چھوڑنے والے ، شطرنج چوسر وغیرہ کھیلنے والے ، عشاء کی نمازوں کے وقت سو جانے والے ، کھانے پینے میں مبالغہ اور تکلف کر کے پیٹو بن کرکھانے والے ، جماعتوں کو چھوڑنے والے ۔ حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں ، مسجدیں ان لوگوں سے خالی نظر آتی ہیں اور بیٹھکیں بارونق بنی ہوئی ہیں ۔ ابو اشہب عطا رومی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ، داؤد علیہ السلام پر وحی آئی کہ ” اپنے ساتھیوں کو ہوشیار کر دے کہ وہ اپنی نفسانی خواہشوں سے باز رہیں ، جن کے دل خواہشوں کے پھیر میں رہتے ہیں ، میں ان کی عقلوں پر پردہ ڈال دیتا ہوں ۔ جب کوئی بندہ شہوت میں اندھا ہو جاتا ہے تو سب سے ہلکی سزا میں اسے یہ دیتا ہوں کہ اپنی اطاعت سے اسے محروم کر دیتا ہوں “ ۔ مسند احمد میں ہے ، { مجھے اپنی امت پر دو چیزوں کا بہت ہی خوف ہے ایک تو یہ کہ لوگ جھوٹ کے اور بناؤ کے اور شہوت کے پیچھے پڑ جائیں گے اور نمازوں کو چھوڑ بیٹھیں گے ، دوسرے یہ کہ منافق لوگ دنیا دکھاوے کو قرآن کے عامل بن کر سچے مومنوں سے لڑیں جھگڑیں گے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:156/4:حسن) «غَیّاً» کے معنی خسران اور نقصان اور برائی کے ہیں ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ” «غی» جہنم کی ایک وادی کا نام ہے جو بہت گہری ہے اور نہایت سخت عذابوں والی ۔ اس میں خون پیپ بھرا ہوا ہے “ ۔ ابن جریر میں ہے ، لقمان بن عامر فرماتے ہیں ، میں ابوامامہ صدی بن عجلان باہلی رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور ان سے التماس کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی حدیث مجھے سنائیں ۔ آپ نے فرمایا ، سنو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ { اگر دس اوقیہ کے وزن کا کوئی پتھر جہنم کے کنارے سے جہنم میں پھینکا جائے تو وہ پچاس سال تک تو جہنم کی تہ میں نہیں پہنچ سکتا ۔ پھر وہ غی اور اثام میں پہنچے گا ۔ غی اور اثام جہنم کے نیچے کے دو کنویں ہیں جہاں دوزخیوں کا لہو پیپ جمع ہوتا ہے } ۔ غی کا ذکر آیت «فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّا» ۱؎ (19-مریم:59) میں ہے اور اثام کا ذکر آیت «وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ یَلْقَ اَثَامًا» ۱؎ (25-الفرقان:68) میں ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:23790:) اس حدیث کو فرمان رسول سے روایت کرنا منکر ہے اور یہ حدیث سند کی رو سے بھی غریب ہے ۔ پھر فرماتا ہے ’ ہاں جو ان کاموں سے توبہ کر لے یعنی نمازوں کی سستی اور خواہش نفسانی کی پیروی چھوڑ دے ، اللہ تعالیٰ اس کی توبہ کو قبول فرمالے گا ، اس کی عاقبت سنوار دے گا ، اسے جہنم سے بچا کر جنت میں پہنچائے گا ، توبہ اپنے سے پہلے کے تمام گناہوں کو معاف کرا دیتی ہے ‘ ۔ اور حدیث میں ہے کہ { توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے بےگناہ } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:4250،قال الشیخ الألبانی:حسن) یہ لوگ جو نیکیاں کریں ، ان کے اجر انہیں ملیں گے کسی ایک نیکی کا ثواب کم نہ ہو گا ۔ توبہ سے پہلے کے گناہوں پر کوئی پکڑ نہ ہو گی ۔ یہ ہے کرم اس کریم کا اور یہ ہے حلم اس حلیم کا کہ توبہ کے بعد اس گناہ کو بالکل مٹا دیتا ہے ناپید کر دیتا ہے ۔ سورۃ الفرقان میں «وَالَّذِینَ لَا یَدْعُونَ مَعَ اللہِ إِلٰہًا آخَرَ وَلَا یَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِی حَرَّمَ اللہُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا یَزْنُونَ وَمَن یَفْعَلْ ذٰلِکَ یَلْقَ أَثَامًا یُضَاعَفْ لَہُ الْعَذَابُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَیَخْلُدْ فِیہِ مُہَانًا إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولٰئِکَ یُبَدِّلُ اللہُ سَیِّئَاتِہِمْ حَسَنَاتٍ وَکَانَ اللہُ غَفُورًا رَّحِیمًا» ۱؎ (25-الفرقان:68-70) گناہوں کا ذکر فرما کر ان کی سزاؤں کا بیان کر کے پھر استثنأ کیا اور فرمایا کہ اللہ غفور و رحیم ہے ۔ مريم
60 مريم
61 اللہ تعالٰی کے وعدے برحق ہیں جن جنتوں میں گناہوں سے توبہ کرنے والے داخل ہوں گے ، یہ جنتیں ہمیشہ والی ہوں گی جن کا غائبانہ وعدہ ان سے ان کا رب کر چکا ہے ۔ ان جنتوں کو انہوں نے دیکھا نہیں لیکن تاہم دیکھنے سے بھی زیادہ انہیں ان پر یقین و ایمان ہے ۔ بات بھی یہی ہے کہ اللہ کے وعدے اٹل ہوتے ہیں «وَعْدُہُ مَفْعُولًا» ۱؎ (73-المزمل:18) ’ وہ حقائق ہیں جو سامنے آ کر ہی رہیں گے ‘ ۔ نہ اللہ وعدہ خلافی کرے نہ وعدے کو بدلے ، یہ لوگ وہاں ضرور پہنچائے جائیں گے اور اسے ضرور پائیں گے ۔ «مَأْتِیًّا» کے معنی «اَتِیًا» کے بھی آتے ہیں اور یہ بھی ہے کہ جہاں ہم جائیں ، وہ ہمارے پاس آ ہی گیا ۔ جیسے کہتے ہیں ، مجھ پر پچاس سال آئے یا میں پچاس سال کو پہنچا ۔ مطلب دونوں جملوں کا ایک ہی ہوتا ہے ۔ ناممکن ہے کہ ان جنتوں میں کوئی لغو اور ناپسندیدہ کلام ان کے کانوں میں پڑے ۔ صرف مبارک سلامت کی دھوم ہو گی ۔ چاروں طرف سے اور خصوصاً فرشتوں کی پاک زبانی یہی مبارک صدائیں کان میں گونجتی رہیں گی ۔ جیسے سورۃ الواقعہ میں ہے «لَا یَسْمَعُوْنَ فِیْہَا لَغْوًا وَّلَا تَاْثِیْمًا إِلَّا قِیلًا سَلَامًا سَلَامًا» ۱؎ (56-الواقعۃ:26،25) ’ وہاں کوئی بے ہودہ اور خلاف طبع سخن نہ سنیں گے بجز سلام اور سلامتی کے ‘ ۔ یہ استثنا منقطع ہے ۔ صبح شام پاک ، طیب ، عمدہ ، خوش ذائقہ روزیاں بلا تکلف و تکلیف بے مشقت و زحمت چلی آئیں گی ۔ لیکن یہ نہ سمجھا جائے کہ جنت میں بھی دن رات ہونگے ، نہیں ، بلکہ ان انوار سے ان وقتوں کو جنتی پہچان لیں گے جو اللہ کی طرف سے مقرر ہیں ۔ چنانچہ مسند احمد میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { پہلی جماعت جو جنت میں جائے گی ان کے چہرے چودھویں رات کے چاند جیسے روشن اور نورانی ہوں گے ۔ نہ وہاں انہیں تھوک آئے گا نہ ناک آئے گی نہ پیشاب پاخانہ ۔ ان کے برتن اور فرنیچر سونے کے ہوں گے ، ان کا بخور خوشبودار اگر ہو گا ، ان کے پسینے مشک بو ہوں گے ۔ ہر ایک جنتی مرد کی دو بیویاں تو ایسی ہوں گی کہ ان کے پنڈے کی صفائی سے ان کی پنڈلیوں کی نلی کا گودا تک باہر سے نظر آئے ۔ ان سب جنتوں میں نہ تو کسی کو کسی سے عداوت ہو گی نہ بغض ، سب ایک دل ہوں گے ۔ کوئی اختلاف باہم دیگر نہ ہو گا ۔ صبح شام اللہ کی تسبیح میں گزریں گے } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3245) { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ، شہید لوگ اس وقت جنت کی ایک نہر کے کنارے جنت کے دروازے کے پاس سرخ رنگ قبوں میں ہیں ۔ صبح شام روزی پہنچائے جاتے ہیں } (مسند احمد:266/1:حسن) پس صبح و شام بااعتبار دنیا کے ہے ، وہاں رات نہیں بلکہ ہروقت نور کا سماں ہے ، پردے گر جانے اور دروازے بند ہو جانے سے اہل جنت وقت شام کو اور اسی طرح پردوں کے ہٹ جانے اور دروازوں کے کھل جانے سے صبح کے وقت کو جان لیں گے ۔ ان دروازوں کا کھلنا بند ہونا بھی جنتیوں کے اشاروں اور حکموں پر ہوگا ۔ یہ دروازے بھی اس قدر صاف شفاف آئینہ نما ہیں کہ باہر کی چیزیں اندر سے نظر آئیں ۔ چونکہ دنیا میں دن رات کی عادت تھی ، اس لیے جو وقت جب چاہیں گے پائیں گے ۔ چونکہ عرب صبح شام ہی کھانا کھانے کے عادی تھے ، اس لیے جنتی رزق کا وقت بھی وہی بتایا گیا ہے ورنہ جنتی جو چاہیں جب چاہیں موجود پائیں گے ۔ چنانچہ ایک غریب منکر حدیث میں ہے کہ { صبح شام کا کیا ٹھیکہ ہے ، رزق تو بے شمار ہر وقت موجود ہے لیکن اللہ کے دوستوں کے پاس ان اوقات میں حوریں آئیں گی جن میں ادنی درجے کی وہ ہوں گی جو صرف زعفران سے پیدا کی گئی ہیں } ۔ ۱؎ (الکامل لا بن عدی:239/6:ضعیف) یہ نعمتوں والی جنتیں انہیں ملیں گی جو ظاہر باطن اللہ کے فرمانبردار تھے ، جو غصہ پی جانے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے تھے ، جن کی صفتیں «قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ» سے «ہُمْ فِیہَا خَالِدُونَ» تک (23-المؤمنون:11-1) کے شروع میں بیان ہوئی ہیں اور فرمایا گیا ہے کہ ’ یہی وارث فردوس بریں ہیں جن کے لیے دوامی طور پر جنت الفردوس اللہ نے لکھ دی ہے ‘ ۔ [ اے اللہ ! اے اللہ ! اے اللہ ہمیں بھی تو اپنی رحمت کاملہ سے فردوس بریں میں پہنچا ، آمین ] مريم
62 مريم
63 مريم
64 جبرائیل علیہ السلام کی آمد میں تاخیر کیوں؟ صحیح بخاری شریف میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ جبرائیل علیہ السلام سے فرمایا : { آپ جتنا آتے ہیں ، اس سے زیادہ کیوں نہیں آتے ؟ } } اس کے جواب میں یہ آیت اتری ہے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3218) یہ بھی مروی ہے کہ { ایک مرتبہ جبرائیل علیہ السلام کے آنے میں بہت تاخیر ہو گئی جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غمگین ہوئے ۔ پھر آپ علیہ السلام یہ آیت لے کر نازل ہوئے } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:23807:ضعیف) روایت ہے کہ { بارہ دن یا اس سے کچھ کم تک نہیں آئے تھے ۔ جب آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ، { اتنی تاخیر کیوں ہوئی ؟ } مشرکین تو کچھ اور ہی اڑانے لگے تھے اس پر یہ آیت اتری } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:23811:ضعیف) پس گویا یہ آیت سورۃ والضحی کی آیت جیسی ہے ۔ کہتے ہیں کہ { چالیس دن تک ملاقات نہ ہوئی تھی جب ملاقات ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { میرا شوق تو بہت ہی بے چین کئے ہوئے تھا } ۔ جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا ، ” اس سے کسی قدر زیادہ شوق خود مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات کا تھا لیکن میں اللہ کے حکم کا مامور اور پابند ہوں وہاں سے جب بھیجا جاؤں تب ہی آسکتا ہوں ورنہ نہیں ، اسی وقت یہ وحی نازل ہوئی } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:103/16:ضعیف) لیکن یہ روایت غریب ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ { جبرائیل علیہ السلام نے آنے میں دیر لگائی پھر جب آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رک جانے کی وجہ دریافت کی ، آپ علیہ السلام نے جواب دیا کہ جب لوگ ناخن نہ کتروائیں ، انگلیاں اور پوریاں صاف نہ رکھیں ، مونچھیں پست نہ کرائیں ، مسواک نہ کریں تو ہم کیسے آسکتے ہیں ؟ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی } ۔ ۱؎ (الواحدی:607:ضعیف) مسند امام احمد میں ہے کہ { ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا { مجلس درست اور ٹھیک ٹھاک کر لو آج وہ فرشتہ آ رہا ہے جو آج سے پہلے زمین پر کبھی نہیں آیا } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:296/6:ضعیف) ہمارے آگے پیچھے کی تمام چیزیں اسی اللہ کی ہیں یعنی دنیا اور آخرت اور اس کے درمیان کی یعنی دونوں نفخوں کے درمیان کی چیزیں بھی اسی کی تملیک کی ہیں ۔ آنے والے امور آخرت اور گزر چکے ہوئے امور دنیا اور دنیا آخرت کے درمیان کے امور سب اسی کے قبضے میں ہیں ۔ تیرا رب بھولنے والا نہیں اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی یاد سے فراموش نہیں کیا ۔ نہ اس کی یہ صفت ۔ جیسے فرمان «وَالضٰحَیٰ وَاللَّیْلِ إِذَا سَجَیٰ مَا وَدَّعَکَ رَبٰکَ وَمَا قَلَیٰ» ‏‏‏‏ ۱؎ (93-الضحی:3-1) ’ قسم ہے چاشت کے وقت کی اور رات کی جب وہ ڈھانپ لے نہ تو تیرا رب تجھ سے دستبردار ہے نہ ناخوش ‘ ۔ ابن ابی حاتم میں ہے { آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { جو کچھ اللہ نے اپنی کتاب میں حلال کر دیا وہ حلال ہے اور جو حرام کر دیا حرام ہے اور جس سے خاموش رہا وہ عافیت ہے تم اللہ کی عافیت کو قبول کر لو ، اللہ کسی چیز کا بھولنے والا نہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی جملہ تلاوت فرمایا } } ۔ ۱؎ (فتح الباری:266/13:قال الشیخ الألبانی:حسن) آسمان و زمین اور ساری مخلوق کا خالق ، مالک ، مدبر ، متصرف وہی ہے ۔ کوئی نہیں جو اس کے کسی حکم کو ٹال سکے ۔ تو اسی کی عبادتیں کئے چلا جا اور اسی پر جما رہ ۔ اس کے مثیل ، شبیہ ، ہم نام ، ہم پلہ کوئی نہیں ۔ وہ با برکت ہے وہ بلندیوں والا ہے اس کے نام میں تمام خوبیاں ہیں جل جلالہ ۔ مريم
65 مريم
66 منکرین قیامت کی سوچ بعض منکرین قیامت ، قیامت کا آنا اپنے نزدیک محال سمجھتے تھے اور موت کے بعد کا جینا ان کے خیال میں ناممکن تھا ۔ وہ قیامت کا اور اس دن کی دوسری اور نئے سرے کی زندگی کا حال سن کر سخت تعجب کرتے تھے ۔ جیسے قرآن کا فرمان ہے «وَاِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُہُمْ ءَاِذَا کُنَّا تُرٰبًا ءَاِنَّا لَفِیْ خَلْقٍ جَدِیْدٍ» ۱؎ (13-الرعد:5) یعنی ’ اگر تجھے تعجب ہے تو ان کا یہ قول بھی تعجب سے خالی نہیں کہ یہ کیا ، ہم جب مر کر مٹی ہو جائیں گے ، پھر ہم نئی پیدائش میں پیدا کئے جائیں گے ؟ ‘ سورۃ یاسین میں فرمایا «أَوَلَمْ یَرَ الْإِنسَانُ أَنَّا خَلَقْنَاہُ مِن نٰطْفَۃٍ فَإِذَا ہُوَ خَصِیمٌ مٰبِینٌ وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَنَسِیَ خَلْقَہُ قَالَ مَن یُحْیِی الْعِظَامَ وَہِیَ رَمِیمٌ قُلْ یُحْیِیہَا الَّذِی أَنشَأَہَا أَوَّلَ مَرَّۃٍ وَہُوَ بِکُلِّ خَلْقٍ عَلِیمٌ» ۱؎ (36-یس:77-79) ، ’ کیا انسان اسے نہیں دیکھتا کہ ہم نے اسے نطفے سے پیدا کیا ، پھر وہ ہم سے صاف صاف جھگڑا کرنے لگا اور ہم پر ہی باتیں بنانے لگا اور اپنی پیدائش کو بھلا کر کہنے لگا کہ ان ہڈیوں کو جو گل سڑ گئی ہیں ، کون زندہ کر دے گا ؟ تو جواب دے کہ انہیں وہ خالق حقیقی زندہ کرے گا جس نے انہیں اول بار پیدا کیا تھا وہ ہر ایک اور ہر طرح کی پیدائش سے پورا باخبر ہے ‘ ۔ یہاں بھی کافروں کے اسی اعتراض کا ذکر ہے کہ ہم مر کر پھر زندہ ہو کر کیسے کھڑے ہو سکتے ہیں ؟ جواباً فرمایا جا رہا ہے کہ ’ کیا اسے یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ کچھ نہ تھا اور ہم نے اسے پیدا کر دیا ۔ شروع پیدائش کا قائل اور دوسری پیدائش کامنکر ؟ جب کچھ نہ تھا تب تو اللہ اسے کچھ کر دینے پر قادر تھا اور اب جب کہ کچھ نہ کچھ ضرور ہو گیا ، کیا اللہ قادر نہیں کہ اسے پھر سے پیدا کر دے ؟ ‘ پس ابتدائے آفرینش دلیل ہے دوبارہ کی پیدائش پر ۔ «وَہُوَ الَّذِی یَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیدُہُ وَہُوَ أَہْوَنُ عَلَیْہِ» ۱؎ (30-الروم:27) ’ جس نے ابتداء کی ہے وہی اعادہ کرے گا اور اعادہ بہ نسبت ابتداء کے ہمیشہ آسان ہوا کرتا ہے ‘ ۔ صحیح حدیث میں ہے ، { اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’ مجھے ابن آدم جھٹلا رہا ہے اور اسے یہ لائق نہ تھا ، مجھے ابن آدم ایذاء دے رہا ہے اور اسے یہ بھی لائق نہیں ، اس کا مجھے جھٹلانا تو یہ ہے کہ کہتا ہے جس طرح اللہ نے میری ابتداء کی ، اعادہ نہ کرے گا حالانکہ ظاہر ہے کہ ابتداء بہ نسبت اعادہ کے مشکل ہوتی ہے اور اس کا مجھے ایذاء دینا یہ ہے کہ کہتا ہے میری اولاد ہے حالانکہ میں احد ہوں ، صمد ہوں ، نہ میرے ماں باپ نہ اولاد ، نہ میری جنس کا کوئی اور ۔ مجھے اپنی ہی قسم ہے کہ میں ان سب کو جمع کروں گا اور جن جن شیطانوں کی یہ لوگ میرے سوا عبادت کرتے تھے ، انہیں بھی میں جمع کروں گا ۔ پھر انہیں جہنم کے سامنے لاؤں گا جہاں گھٹنوں کے بل گر پڑیں گے ‘ ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4974) جیسے فرمان ہے «وَتَرٰی کُلَّ اُمَّۃٍ جَاثِیَۃً» ۱؎ (45-الجاثیۃ:28) ’ ہر امت کو تو دیکھے گا کہ گھٹنوں کے بل گری ہوئی ہوگی ‘ ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ قیام کی حالت میں ان کا حشر ہوگا ۔ جب تمام اول و آخر جمع ہو جائیں گے تو ہم ان میں سے بڑے بڑے مجرموں اور سرکشوں کو الگ کر لیں گے ۔ ان کے رئیس و امیر اور بدیوں و برائیوں کے پھیلانے والے ان کے یہ پیشوا ، انہیں شرک و کفر کی تعلیم دینے والے ، انہیں اللہ کے گناہوں کی طرف مائل کرنے والے علیحدہ کر لیے جائیں گے ۔ جیسے فرمان ہے «حَتّٰی اِذَا ادَّارَکُوْا فِیْہَا جَمِیْعًا قَالَتْ اُخْرٰیہُمْ لِاُوْلٰیہُمْ رَبَّنَا ہٰٓؤُلَاءِ اَضَلٰوْنَا فَاٰتِہِمْ عَذَابًا ضِعْفًا مِّنَ النَّارِ قَالَ لِکُلٍّ ضِعْفٌ وَّلٰکِنْ لَّا تَعْلَمُوْنَ» ۱؎ (7-الأعراف:38) الخ ، ’ جب وہاں سب جمع ہو جائیں گے تو پچھلے اگلوں کی بابت کہیں گے کہ اے اللہ انہی لوگوں نے ہمیں بہکا رکھا تھا تو انہیں دگنا عذاب کر ‘ الخ ۔ پھر خبر کا خبر پر عطف ڈال کر فرماتا ہے کہ ’ اللہ خوب جانتا ہے کہ سب سے زیادہ عذابوں کا اور دائمی عذابوں کا اور جہنم کی آگ کا سزاوار کون کون ہے ؟ ‘ جیسے دوسری آیت میں ہے کہ فرمائے گا «لِکُلٍّ ضِعْفٌ وَّلٰکِنْ لَّا تَعْلَمُوْنَ» ۱؎ (7-الأعراف:38) ’ ہر ایک کیلئے دوہرا عذاب ہے لیکن تم علم سے کورے ہو ‘ ۔ مريم
67 مريم
68 مريم
69 مريم
70 مريم
71 جہنم میں دخول یا ورود ؟ مسند امام احمد بن حنبل کی ایک غریب حدیث میں ہے { ابو سمیہ فرماتے ہیں جس ورود کا اس آیت میں ذکر ہے ، اس بارے میں ہم میں اختلاف ہوا ، کوئی کہتا تھا مومن اس میں داخل نہ ہوں گے ، کوئی کہتا تھا داخل تو ہوں گے لیکن پھر بہ سبب اپنے تقویٰ کے نجات پا جائیں گے ۔ میں نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مل کر اس بات کو دریافت کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ، وارد تو سب ہوں گے } ۔ اور روایت میں ہے کہ { داخل تو سب ہوں گے ہر ایک نیک بھی اور ہر ایک بد بھی ، لیکن مومنوں پر وہ آگ ٹھنڈی اور سلامتی بن جائے گی جیسے ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام پر تھی یہاں تک کہ اس ٹھنڈک کی شکایت خود آگ کرنے لگے گی ، پھر ان متقی لوگوں کا وہاں سے چھٹکارا ہو جائے گا } ۔ ۱؎ (مسند احمد:329/3:ضعیف) خالد بن معدان رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” جب جنتی جنت میں پہنچ جائیں گے ، کہیں گے کہ اللہ نے تو فرمایا تھا کہ ہر ایک جہنم پر وارد ہونے والا ہے اور ہمارا ورود تو ہوا ہی نہیں تو ان سے فرمایا جائے گا کہ تم وہیں سے گزر کر تو آ رہے ہو لیکن اللہ تعالیٰ نے اس وقت آگ ٹھنڈی کر دی تھی “ ۔ حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ ایک بار اپنی بیوی صاحبہ کے گھٹنے پر سر رکھ کر لیٹے ہوئے تھے کہ رونے لگے ۔ آپ رضی اللہ عنہ کی اہلیہ صاحبہ بھی رونے لگیں تو آپ رضی اللہ عنہ نے ان سے دریافت فرمایا کہ تم کیوں روئیں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ آپ رضی اللہ عنہ کو روتا دیکھ کر ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا مجھے تو آیت «وَإِن مِّنکُمْ إِلَّا وَارِدُہَا کَانَ عَلَیٰ رَبِّکَ حَتْمًا مَّقْضِیًّا» ۱؎ (19-مریم:71) ، یاد آگئی اور رونا آگیا ۔ مجھے کیا معلوم کہ میں نجات پاؤں گا نہیں ؟ اس وقت آپ بیمار تھے ۔ ابومیسرہ رحمہ اللہ جب رات کو اپنے بستر پر سونے کیلئے جاتے تو رونے لگتے اور زبان سے بےساختہ نکل جاتا کہ کاش کہ میں پیدا ہی نہ ہوتا ۔ ایک مرتبہ آپ سے پوچھا گیا کہ آخر اس رونے دھونے کی وجہ کیا ہے ؟ تو فرمایا یہی آیت ہے ۔ یہ تو ثابت ہے کہ وہاں جانا ہوگا اور یہ نہیں معلوم کہ نجات بھی ہوگی یا نہیں ؟ ایک بزرگ شخص نے اپنے بھائی سے فرمایا کہ آپ کو یہ تو معلوم ہے کہ ہمیں جہنم پر سے گزرنا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا ہاں یقیناً معلوم ہے ۔ پھر پوچھا کیا یہ بھی جانتے ہو کہ وہاں سے پار ہو جاؤ گے ؟ انہوں نے فرمایا اس کا کوئی علم نہیں ، پھر فرمایا ہمارے لیے ہنسی خوشی کیسی ؟ یہ سن کر اس وقت سے لے کر موت کی گھڑی تک ان کے ہونٹوں پر ہنسی نہیں آئی ۔ نافع بن ارزق اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا اس بارے میں اختلاف تھا کہ یہاں ورود سے مراد داخل ہونا ہے تو آپ نے دلیل میں آیت قرآن «اِنَّکُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ حَصَبُ جَہَنَّمَ اَنْتُمْ لَہَا وٰرِدُوْنَ» ۱؎ (21-الأنبیاء:98) پیش کر کے فرمایا ، دیکھو یہاں ورود سے مراد داخل ہونا ہے یا نہیں ؟ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے دوسری آیت تلاوت فرمائی «یَـقْدُمُ قَوْمَہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فَاَوْرَدَہُمُ النَّارَ وَبِئْسَ الْوِرْدُ الْمَوْرُوْدُ» ۱؎ (11-ھود:98) اور فرمایا بتاؤ فرعون اپنی قوم کو جہنم میں لے جائے گا یا نہیں ؟ پس اب غور کرو کہ ہم اس میں داخل تو ضرور ہوں گے اب نکلیں گے بھی یا نہیں ؟ غالباً تجھے تو اللہ نہ نکالے گا اس لیے کہ تو اس کا منکر ہے ۔ یہ سن کر نافع کھسیانا ہو کر ہنس دیا ۔ یہ نافع خارجی تھا اس کی کنیت ابو راشد تھی ۔ دوسری روایت میں ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اسے سمجھاتے ہوئے آیت «وَّنَسُوْقُ الْمُجْرِمِیْنَ اِلٰی جَہَنَّمَ وِرْدًا» ۱؎ (19-مریم:86) بھی پڑھی تھی ۔ اور یہ بھی فرمایا تھا کہ پہلے بزرگ لوگوں کی ایک دعا یہ بھی تھی کہ « اللہُمَّ أَخْرِجْنِی مِنْ النَّار سَالِمًا وَأَدْخِلْنِی الْجَنَّۃ غَانِمًا» اے اللہ مجھے جہنم سے صحیح سالم نکال لے اور جنت میں ہنسی خوشی پہنچا دے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ابوداؤد طیالسی میں یہ بھی مروی ہے کہ اس کے مخاطب کفار ہیں ۔ عکرمہ رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں ، یہ ظالم لوگ ہیں ، اسی طرح ہم اس آیت کو پڑھتے تھے ۔ یہ بھی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نیک بد سب وارد ہوں گے ۔ دیکھو فرعون اور اس کی قوم کے لیے اور گہنگاروں کے لیے بھی «ورود» کا لفظ دخول کے معنی میں خود قرآن کریم کی دو آیتوں میں وارد ہے ۔ ترمذی وغیرہ میں ہے ، { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { وارد تو سب ہوں گے ، پھر گزر اپنے اپنے اعمال کے مطابق ہوگا } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3159،قال الشیخ الألبانی:صحیح) سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ” پل صراط سے سب کو گزرنا ہوگا ۔ یہی آگ کے پاس کھڑا ہونا ہے ۔ اب بعض تو بجلی کی طرح گزر جائیں گے ، بعض ہوا کی طرح ، بعض پرندوں کی طرح ، بعض تیز رفتار گھوڑوں کی طرح ، بعض تیز رفتار اونٹوں کی طرح ، بعض تیز چال والے پیدل انسان کی طرح ۔ یہاں تک کہ سب سے آخر جو مسلمان اس سے پار ہوگا ، یہ وہ ہوگا جس کے صرف پیر کے انگوٹھے پر نور ہوگا ، گرتا پڑتا نجات پائے گا ۔ پل صراط پھسلنی چیز ہے جس پر ببول جیسے اور گو گھرو جیسے کانٹے ہیں ، دونوں طرف فرشتوں کی صفیں ہوں گی جن کے ہاتھوں میں جہنم کے اٹکس ہوں گے جن سے پکڑ پکڑ کر لوگوں کو جہنم میں دھکیل دیں گے الخ ۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں یہ تلوار کی دھار سے زیادہ تیز ہوگا ۔ پہلا گروہ تو بجلی کی طرح آن کی آن میں پار ہو جائے گا ، دوسرا گروہ ہوا کی طرح جائے گا ، تیسرا تیز رفتار گھوڑوں کی طرح ، چوتھا تیز رفتار جانور کی طرح ۔ فرشتے ہر طرف سے دعائیں کر رہے ہونگے کہ اے اللہ سلامت رکھ الٰہی بچا لے ۔ بخاری و مسلم کی بہت سی مرفوع احادیث میں بھی یہ مضمون وارد ہوا ہے ۔ کعب رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ جہنم اپنی پیٹھ پر تمام لوگوں کو جما لے گی ۔ جب سب نیک و بد جمع ہو جائیں گے تو حکم باری ہو گا کہ اپنے والوں کو تو پکڑ لے اور جنتیوں کو چھوڑ دے ۔ اب جہنم سب برے لوگوں کا نوالہ کر جائے گی ۔ وہ برے لوگوں کو اس طرح جانتی پہچانتی ہے جس طرح تم اپنی اولاد کو بلکہ اس سے بھی زیادہ ۔ مومن صاف بچ جائیں گے ۔ سنو جہنم کے داروغوں کے قد ایک سو سال کی راہ کے ہیں ۔ ان میں سے ہر ایک کے پاس گرز ہیں ایک مارتے ہیں تو سات لاکھ آدمیوں کا چورا ہو جاتا ہے ۔ مسند میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { مجھے اپنے رب کی ذات پاک سے امید ہے کہ بدر اور حدیبیہ کے جہاد میں جو ایماندار شریک تھے ان میں سے ایک بھی دوزخ میں نہ جائے گا } ۔ یہ سن کر سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے کہا ، یہ کیسے ؟ قرآن تو کہتا ہے کہ تم میں سے ہر ایک اس پر وارد ہونے والا ہے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد کی دوسری آیت پڑھ دی کہ ’ متقی لوگ اس سے نجات پا جائیں گے اور ظالم لوگ اسی میں رہ جائیں گے ‘ } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2496) بخاری و مسلم میں ہے کہ { جس کے تین بچے فوت ہو گئے ہوں ، اسے آگ نہ چھوئے گی مگر صرف قسم پوری ہونے کے طور پر } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6656) اس سے مراد یہی آیت ہے ۔ ابن جریر میں ہے کہ { ایک صحابی رضی اللہ عنہ کو بخار چڑھا ہوا تھا جس کی عیادت کے لیے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ساتھ تشریف لے چلے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ { جناب باری عزوجل کا فرمان ہے کہ یہ بخار بھی ایک آگ ہے ۔ میں اپنے مومن بندوں کو اس میں اس لیے مبتلا کرتا ہوں کہ یہ جہنم کی آگ کا بدلہ ہو جائے } } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:23851:ضعیف) یہ حدیث غریب ہے ۔ حضرت مجاہد رحمہ اللہ نے بھی یہی فرما کر پھر اس آیت کی تلاوت فرمائی ہے ۔ مسند احمد میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا { جو شخص سورۃ «قُلْ ہُوَ اللہُ أَحَدٌ» ۱؎ (112-الإخلاص:1-4) دس مرتبہ پڑھ لے ، اس کے لیے جنت میں ایک محل تعمیر ہوتا ہے } ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا پھر تو ہم بہت سے محل بنا لیں گے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا { اللہ کے پاس کوئی کمی نہیں وہ بہتر سے بہتر اور بہت سے بہت دینے والا ہے ۔ اور جو شخص اللہ کی راہ میں ایک ہزار آیتیں پڑھ لے ، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے نبیوں ، صدیقوں ، شہیدوں اور صالحوں میں لکھ لیں گے ۔ فی الواقع ان کا ساتھ بہترین ساتھیوں کا ساتھ ہے } } ۔ ۱؎ (سلسلۃ احادیث صحیحہ البانی:859:حسن) { اور جو شخص کسی تنخواہ کی وجہ سے نہیں بلکہ اللہ کی خوشی کے لیے مسلمان لشکروں کی ان کی پشت کی طرف سے حفاظت کرنے کے لیے پہرہ دے ، وہ اپنی آنکھ سے بھی جہنم کی آگ کو نہ دیکھے گا مگر صرف قسم پوری کرنے کے لیے ، کیونکہ اللہ کا فرمان ہے تم میں سے ہر ایک اس پر وارد ہونے والا ہے ۔ اللہ کی راہ میں اس کا ذکر کرنا ، خرچ کرنے سے بھی سات سو گنا زیادہ اجر رکھتا ہے اور روایت میں ہے سات ہزار گنا } ۔ ۱؎ (مسند احمد:437/3:ضعیف) ابوداؤد میں ہے کہ { نماز ، روزہ اور ذکر اللہ ، اللہ کی راہ کے خرچ پر سات سو گنا درجہ رکھتے ہیں } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2498،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں مراد اس آیت سے گزرنا ہے ۔ عبدالرحمٰن رحمہ اللہ کہتے ہیں مسلمان تو پل صراط سے گزر جائیں گے اور مشرک جہنم میں جائیں گے ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اس دن بہت سے مرد و عورت اس پر سے پھسل جائیں گے ۔ اس کے دونوں کنارے فرشتوں کی صف بندی ہوگی جو اللہ سے سلامتی کی دعائیں کر رہے ہونگے } } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:23849:) یہ تو اللہ کی قسم ہے جو پوری ہو کر رہے گی ۔ اس کا فیصلہ ہو چکا ہے اور اللہ اسے اپنے ذمے لازم کر چکا ہے ۔ پل صراط پر جانے کے بعد پرہیزگار تو پار ہو جائیں گے ، ہاں گنہگار اپنے اپنے اعمال کے مطابق نجات پائیں گے ۔ جیسے عمل ہوں گے اتنی دیر وہاں لگ جائے گی ۔ پھر نجات یافتہ اپنے دوسرے مسلمان بھائیوں کی سفارش کریں گے ۔ ملائکہ شفاعت کریں گے اور انبیاء علیہم السلام بھی ۔ پھر بہت سے لوگ تو جہنم میں سے اس حالت میں نکلیں گے کہ آگ انہیں کھا چکی ہو گی مگر چہرے کی سجدہ کی جگہ بچی ہوئی ہوگی ۔ پھر اپنے اپنے باقی ایمان کے حساب سے دوزخ سے نکالے جائیں گے ۔ جن کے دلوں میں بقدر دینار کے ایمان ہو گا ، وہ اول نکلیں گے ، پھر اس سے کم والے ، پھر اس سے کم والے یہاں تک کہ رائی کے دانے کے برابر ایمان والے ، پھر اس سے کم والے ، پھر اس سے بھی کمی والے ، پھر وہ جس نے اپنی پوری عمر میں «لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ» کہہ دیا ہو گو کچھ بھی نیکی نہ کی ہو ۔ پھر تو جہنم میں وہی رہ جائیں گے جن پر ہمیشہ اور دوام لکھا جا چکا ہے ۔ یہ تمام خلاصہ ہے ان احادیث کا جو صحت کے ساتھ آ چکی ہیں ۔ پس پل صراط پر جانے کے بعد نیک لوگ پار ہو جائیں گے اور بد لوگ کٹ کٹ کر جہنم میں گر پڑیں گے ۔ مريم
72 مريم
73 کثرت مال فریب زندگی اللہ کی صاف صریح آیتوں سے پروردگار کے دلیل و برہان والے کلام سے کفار کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا ، وہ ان سے منہ موڑ لیتے ہیں ، دیدے پھیر لیتے ہیں اور اپنی ظاہری شان و شوکت سے انہیں مرعوب کرنا چاہتے ہیں ۔ کہتے ہیں بتاؤ کس کے مکانات پرتکلف ہیں اور کس کی بیٹھکیں سجی ہوئی ہیں اور آباد اور بارونق ہیں ؟ پس ہم جو کہ مال و دولت ، شان و شوکت ، عزت و آبرو میں ان سے بڑھے ہوئے ہیں ، ہم اللہ کے پیارے ہیں ؟ یا یہ جو کہ چھپے پھرتے ہیں ؟ کھانے پینے کو نہیں پاتے ۔ کہیں ارقم بن ابو ارقم کے گھر چھپتے ہیں ، کہیں اور ، ادھر ادھر بھاگتے پھرتے ہیں ۔ جیسے اور آیت میں ہے ، کافروں نے کہا «لَوْ کَانَ خَیْرًا مَّا سَبَقُوْنَآ اِلَیْہِ وَاِذْ لَمْ یَہْتَدُوْا بِہٖ فَسَیَقُوْلُوْنَ ھٰذَآ اِفْکٌ قَدِیْمٌ» ۱؎ (46-الأحقاف:11) ’ اگر یہ دین بہتر ہوتا تو اسے پہلے ہم مانتے یا یہ ؟ ‘ نوح علیہ السلام کی قوم نے بھی یہی کہا تھا کہ «قَالُوا أَنُؤْمِنُ لَکَ وَاتَّبَعَکَ الْأَرْذَلُونَ» ۱؎ (26-الشعراء:111) ’ تیرے ماننے والے تو سب غریب محتاج لوگ ہیں ہم تیرے تابعدارنہیں بن سکتے ‘ ۔ اور آیت میں ہے کہ «وَکَذٰلِکَ فَتَنَّا بَعْضَہُم بِبَعْضٍ لِّیَقُولُوا أَہٰؤُلَاءِ مَنَّ اللہُ عَلَیْہِم مِّن بَیْنِنَا أَلَیْسَ اللہُ بِأَعْلَمَ بِالشَّاکِرِینَ» ۱؎ (6-الأنعام:53) ’ اسی طرح انہیں دھوکہ لگ رہا ہے اور کہہ اٹھتے ہیں کہ کیا یہی وہ اللہ کے پیارے بندے ہیں جنہیں اللہ نے ہم پر فضیلت دی ہے ؟ ‘ پھر ان کے اس مغالطے کا جواب دیا کہ ’ ان سے پہلے ان سے بھی ظاہر داری میں بڑھے ہوئے اور مالداری میں آگے نکلے ہوئے لوگ تھے لیکن ان کی بداعمالیوں کی وجہ سے ہم نے انہیں تہس نہس کر دیا ‘ ۔ ان کی مجلسیں ، ان کے مکانات ، ان کی قوتیں ، ان کی مالداریاں ان سے سوا تھیں ۔ شان و شوکت میں ، ٹیپ ٹاپ میں ، تکلفات میں ، امارت اور شرافت میں ان سے کہیں زیادہ تھے ۔ ’ ان کے تکبر اور عناد کی وجہ سے ہم نے ان کا بھس اڑا دیا ۔ غارت اور برباد کر دیا ۔ فرعونیوں کو دیکھ لو ، ان کے باغات ، ان کی نہریں ، ان کی کھیتیاں ، ان کے شاندار مکانات اور عالیشان محلات اب تک موجود ہیں اور وہ غارت کر دیے گئے مچھلیوں کا لقمہ بن گئے ‘ ۔ ”مقام“ سے مراد مسکن اور نعمتیں ہیں ۔ ”ندی“ سے مراد مجلسیں اور بیٹھکیں ہیں ۔ عرب میں بیٹھکوں اور لوگوں کے جمع ہونے کی جگہوں کو نادی اور ندی کہتے ہیں ۔ جیسے آیت «وَتَأْتُونَ فِی نَادِیکُمُ الْمُنکَرَ» ۱؎ (29-العنکبوت:29) میں ہے ۔ یہی ان مشرکین کا قول تھا کہ ہم بہ اعتبار دنیا تم سے بہت بڑھے ہوئے ہیں ، لباس میں ، مال میں ، متاع میں ، صورت شکل میں ہم تم سے افضل ہیں ۔ مريم
74 مريم
75 مشرکوں سے مباہلہ ’ ان کافروں کو جو تمہیں ناحق پر اور اپنے آپ کو حق پر سمجھ رہے ہیں اور اپنی خوش حالی اور فارغ البالی پر اطمینان کئے بیٹھے ہوئے ہیں ، ان سے کہہ دیجئیے کہ گمراہوں کی رسی دراز ہوتی ہے ، انہیں اللہ کی طرف سے ڈھیل دی جاتی ہے جب تک کہ قیامت نہ آ جائے یا ان کی موت نہ آ جائے ۔ اس وقت انہیں پورا پتہ چل جائے گا کہ فی الواقع برا شخص کون تھا اور کس کے ساتھی کمزور تھے ۔ دنیا تو ڈھلتی چڑھتی چھاؤں ہے نہ خود اس کا اعتبار نہ اس کے سامان اسباب کا ۔ یہ تو اپنی سرکشی میں بڑھتے ہی رہیں گے ‘ ۔ گویا اس آیت میں مشرکوں سے مباہلہ ہے ۔ جیسے یہودیوں سے سورۃ الجمعہ میں مباہلہ کی آیت ہے کہ «قُلْ یَا أَیٰہَا الَّذِینَ ہَادُوا إِن زَعَمْتُمْ أَنَّکُمْ أَوْلِیَاءُ لِلہِ مِن دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إِن کُنتُمْ صَادِقِینَ» ۱؎ (62-الجمعۃ:6) ’ آؤ ہمارے مقابلہ میں موت کی تمنا کرو ‘ ۔ اسی طرح سورۃ آل عمران میں مباہلے کا ذکر ہے کہ «فَمَنْ حَاجَّکَ فِیہِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَکَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَکُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَکُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَہِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللہِ عَلَی الْکَاذِبِینَ» ۱؎ (3-آل عمران:61) ’ جب تم اپنے خلاف دلیلیں سن کر بھی عیسیٰ علیہ السلام کے ابن اللہ ہونے کے مدعی ہو تو آؤ بال بچوں سمیت میدان میں جا کر جھوٹے پر اللہ کی لعنت پڑنے کی دعا کریں ‘ ۔ پس نہ تو مشرکین مقابلے پر آئے ، نہ یہود کی ہمت پڑی ، نہ نصرانی مرد میدان بنے ۔ مريم
76 گمراہوں کی گمراہی میں ترقی جس طرح گمراہوں کی گمراہی بڑھتی رہتی ہے ، اسی طرح ہدایت والوں کی ہدایت بڑھتی رہتی ہے ۔ جیسے فرمان ہے کہ «وَإِذَا مَا أُنزِلَتْ سُورَ‌ۃٌ فَمِنْہُم مَّن یَقُولُ أَیٰکُمْ زَادَتْہُ ہٰذِہِ إِیمَانًا فَأَمَّا الَّذِینَ آمَنُوا فَزَادَتْہُمْ إِیمَانًا وَہُمْ یَسْتَبْشِرُ‌ونَ» الخ ۱؎ (9-التوبۃ:124) ’ جہاں کوئی سورت اترتی ہے تو بعض لوگ کہنے لگتے ہیں ، تم میں سے کس کو اس نے ایمان میں زیادہ کر دیا ؟ ‘ الخ ۔ باقیات صالحات کی پوری تفسیر ان ہی لفظوں کی تشریح میں سورۃ الکہف میں گزر چکی ہے ۔ یہاں فرماتا ہے کہ ’ یہی پائیدار نیکیاں جزا اور ثواب کے لحاظ سے اور انجام اور بدلے کے لحاظ سے نیکوں کے لیے بہتر ہیں ‘ ۔ عبدالرزاق میں ہے کہ { ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک خشک درخت تلے بیٹھے ہوئے تھے اس کی شاخ پکڑ کر ہلائی تو سوکھے پتے جھڑنے لگے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { دیکھو اسی طرح انسان کے گناہ «لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ وَاﷲُ اَکْبَرُ سُبْحَانَ اﷲِ وَالْحَمْدُِ ﷲِ» کہنے سے جھڑتے ہیں ۔ اے ابودرداء ان کا ورد رکھ اس سے پہلے کہ وہ وقت آئے کہ تو انہیں نہ کہہ سکے ، یہی باقیات صالحات ہیں ، یہی جنت کے خزانے ہیں } ۔ اس کو سن کر ابودرداء کا یہ حال تھا کہ اس حدیث کو بیان فرما کر فرماتے کہ واللہ میں تو ان کلمات کو پڑھتا ہی رہوں گا ، کبھی ان سے زبان نہ روکوں گا گو لوگ مجھے مجنون کہنے لگیں } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:3813،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ابن ماجہ میں بھی یہ حدیث دوسری سند سے ہے ۔ مريم
77 عیار مقروض اور حضرت خباب سیدنا خباب بن ارت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں { میں لوہار تھا اور میرا کچھ قرض عاص بن وائل کے ذمے تھا ۔ میں اس سے تقاضا کرنے کو گیا تو اس نے کہا میں تو تیرا قرض اس وقت تک ادا نہ کروں گا جب تک کہ تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری سے نہ نکل جائے ۔ میں نے کہا ، میں تو یہ کفر اس وقت تک بھی نہیں کر سکتا کہ تو مر کر دوبارہ زندہ ہو ۔ اس کافر نے کہا ، بس تو پھر یہی رہی ، جب میں مرنے کے بعد زندہ ہوں گا تو ضرور مجھے میرا مال اور میری اولاد بھی ملے گی ، وہیں تیرا قرض بھی ادا کر دوں گا ، تو آ جانا ۔ اس پر یہ آیت اتری } ۔ (صحیح بخاری:2091) دوسری روایت میں ہے کہ { میں نے مکے میں اس کی تلوار بنائی تھی ، اس کی اجرت میری ادھار تھی ۔ اللہ فرماتا ہے کہ ’ کیا اسے غیب کی خبر مل گئی ؟ یا اس نے اللہ رحمان سے کوئی قول و قرار لے لیا ؟ ‘ } اور روایت میں ہے کہ { اس پر میرے بہت سے درہم بطور قرض کے چڑھ گئے تھے ، اس لیے مجھے جو جواب دیا ، میں نے اس کا تذکرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا ، اس پر یہ آیتیں آتریں } ۔ اور روایت میں ہے کہ { کئی ایک مسلمانوں کا قرض اس کے ذمے تھا ، ان کے تقاضوں پر اس نے کہا کہ کیا تمہارے دین میں یہ نہیں کہ جنت میں سونا ، چاندی ، ریشم ، پھل پھول وغیرہ ہوں گے ؟ ہم نے کہا ہاں ہے ، تو کہا بس تو یہ چیزیں مجھے ضرور ملیں گی میں وہیں تم سب کو دے دوں گا ۔ پس یہ آیتیں «وَنَرِثُہُ مَا یَقُولُ وَیَأْتِینَا فَرْدًا» (19-مریم:80) تک اتریں } ۔ «وَلَدًا» کی دوسری قرأت واؤ کے پیش سے بھی ہے معنی دونوں کے ایک ہی ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ زبر سے تو مفرد کے معنی میں ہے اور پیش سے جمع کے معنی میں ہے ۔ قیس قبیلے کی یہی لغت ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اس مغرور کو جواب ملتا ہے کہ ’ کیا اسے غیب پر اطلاع ہے ؟ اسے آخرت کے اپنے انجام کی خبر ہے ؟ جو یہ قسمیں کھا کر کہہ رہا ہے ؟ یا اس نے اللہ سے کوئی قول و قرار ، عہد و پیمان لیا ہے یا اس نے اللہ کی توحید مان لی ہے کہ اس کی وجہ سے اسے دخول جنت کا یقین ہو ؟ ‘ چنانچہ آیت «أَطَّلَعَ الْغَیْبَ أَمِ اتَّخَذَ عِندَ الرَّحْمٰنِ عَہْدًا» ۱؎ (19-مریم:78) میں اللہ کی وحدانیت کے کلمے کا قائل ہو جانا ہی مراد لیا گیا ہے ۔ پھر اس کے کلام کی تاکید کے ساتھ نفی کی جاتی ہے ۔ اور اس کے خلاف موکد بیان ہو رہا ہے کہ اس کا یہ غرور کا کلمہ بھی ہمارے ہاں لکھا جا چکا ہے ، اس کا کفر بھی ہم پر روشن ہے ۔ دار آخرت میں تو اس کے لیے عذاب ہی عذاب ہے ، جو ہر وقت بڑھتا رہے گا ۔ اسے مال و اولاد وہاں بھی ملنا تو کجا ، اس کے برعکس دنیا کا مال و متاع اور اولاد و کنبہ بھی اس سے چھین لیا جائے گا اور وہ تن تنہا ہمارے حضور میں پیش ہو گا ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی قرأت میں «وَنَرِثُہُ مَا عِنْدَہُ» ہے ۔ ’ اس کی جمع جتھا اور اس کے عمل ہمارے قبضے میں ہیں ۔ یہ تو خالی ہاتھ سب کچھ چھوڑ چھاڑ ہمارے سامنے پیش ہوگا ‘ ۔ مريم
78 مريم
79 مريم
80 مريم
81 اللہ تعالٰی کے سوا معبود کافروں کا خیال ہے کہ ان کے اللہ کے سوا اور معبود ان کے حامی و مددگار ہوں گے ۔ غلط خیال ہے بلکہ محال ہے بلکہ معاملہ اس کے برعکس اور بالکل برعکس ہے ۔ ان کی پوری محتاجی کے دن یعنی قیامت میں یہ صاف منکر ہو جائیں گے اور اپنے عابدوں کے دشمن بن کر کھڑے ہوں گے ۔ جیسے فرمایا ، «وَمَنْ أَضَلٰ مِمَّن یَدْعُو مِن دُونِ اللہِ مَن لَّا یَسْتَجِیبُ لَہُ إِلَیٰ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ وَہُمْ عَن دُعَائِہِمْ غَافِلُونَ وَإِذَا حُشِرَ النَّاسُ کَانُوا لَہُمْ أَعْدَاءً وَکَانُوا بِعِبَادَتِہِمْ کَافِرِینَ» ۱؎ (46-الأحقاف:5،6) ’ ان سے بڑھ کر بد راہ اور گم کردہ راہ کون ہے جو اللہ کو چھوڑ کر انہیں پکار رہا ہے جو قیامت تک جواب نہ دے سکیں ، ان کی دعا سے بالکل غافل ہوں اور روز محشر ان کے دشمن بن جائیں اور ان کی عبادت کا بالکل انکار کر جائیں ‘ ۔ «کَلَّا» کی دوسری قرأت «کُلٌ» بھی ہے ۔ خود یہ کفار بھی اس دن اللہ کے سوا اوروں کی پوجا پاٹ کا انکار کرجائیں گے ۔ یہ سب عابد و معبود جہنمی ہوں گے ، ایک دوسرے کے ساتھی ہوں گے ۔ وہ اس پر ، یہ اس پر لعنت و پھٹکار کرے گا ، ہر ایک دوسرے پر ڈالے گا ، ایک دوسرے کو برا کہے گا ، سخت تر جھگڑے پڑیں گے ، سارے تعلقات کٹ جائیں گے ، ایک دوسرے کے کھلے دشمن ہو جائیں گے ۔ مدد تو کہاں مروت تک نہ ہو گی ۔ معبود عابدوں کے لیے اور عابد معبودوں کے لیے بلائے بیدرماں حسرت بے پایاں ہو جائیں گے ۔ کیا تجھے نہیں معلوم کہ ان کافروں کو ہر وقت شیاطین نافرمانیوں پر آمادہ کرتے رہتے ہیں ، مسلمانوں کے خلاف اکساتے رہتے ہیں ، آرزو میں بڑھاتے رہتے ہیں ، طغیان اور سرکشی میں آگے کرتے رہتے ہیں ۔ جیسے فرمان ہے کہ «وَمَن یَعْشُ عَن ذِکْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَیِّضْ لَہُ شَیْطَانًا فَہُوَ لَہُ قَرِینٌ» ۱؎ (43-الزخرف:36) ’ ذکر رحمان سے منہ موڑنے والے شیطان کے حوالے ہو جاتے ہیں ‘ ۔ ’ تو جلدی نہ کر ، ان کے لیے کوئی بد دعا نہ کر ، ہم نے خود عمداً انہیں ڈھیل دے رکھی ہے انہیں بڑھتا رہنے دے آخر وقت مقررہ پر دبوچ لیے جائیں گے ‘ ۔ «وَلَا تَحْسَبَنَّ اللہَ غَافِلًا عَمَّا یَعْمَلُ الظَّالِمُونَ إِنَّمَا یُؤَخِّرُہُمْ لِیَوْمٍ تَشْخَصُ فِیہِ الْأَبْصَارُ» ۱؎ (14-ابراھیم:42) ’ اللہ تعالیٰ ان ظالموں کے کرتوتوں سے بے خبر نہیں ہے ، انہیں تو کچھ یونہی سی ڈھیل ہے جس میں یہ اپنے گناہوں میں بڑھے چلے جار ہے ہیں ، آخر سخت عذابوں کی طرف بے بس ی کے ساتھ جا پڑیں گے ۔ تم فائدہ حاصل کر لو لیکن یاد رکھو کہ تمہارا اصلی ٹھکانا دوزخ ہی ہے ۔ ہم ان کے سال ، مہینے ، دن اور وقت شمار کر رہے ہیں ان کے سانس بھی ہمارے گنے ہوئے ہیں ۔ مقررہ وقت پورا ہوتے ہی عذابوں میں پھنس جائیں گے ‘ ۔ مريم
82 مريم
83 مريم
84 مريم
85 اللہ تعالٰی کے معزز مہمان جو لوگ اللہ کی باتوں پر ایمان لائے ، پیغمبروں کی تصدیق کی ، اللہ کی فرمانبرداری کی ، گناہوں سے بچے رہے ، پروردگار کا ڈر دل میں رکھا ، وہ اللہ کے ہاں بطور معزز مہمانوں کے جمع ہوں گے ۔ نورانی سانڈنیوں کی سواری پر آئیں گے اور خدائی مہمان خانے میں بہ عزت داخل کئے جائیں گے ۔ ان کے برخلاف بے ترس ، گنہگار ، رسولوں کے دشمن ، دھکے کھا کھا کر اوندھے منہ گھسٹتے ہوئے پیاس کے مارے زبان نکالے ہوئے جبراً قہراً جہنم کے پاس جمع کئے جائیں گے ۔ اب بتلاؤ کہ کون مرتبے والا اور کون اچھے ساتھیوں والا ہے ؟ مومن اپنی قبر سے منہ اٹھا کر دیکھے گا کہ اس کے سامنے ایک حسین خوبصورت شخص پاکیزہ پوشاک پہنے خوشبو سے مہکتا چمکتا دمکتا چہرہ لیے کھڑا ہے ، پوچھے گا تم کون ہو ؟ وہ کہے گا آپ نے پہچانا نہیں میں تو آپ کے نیک اعمال کا مجسمہ ہوں ۔ آپ کے عمل نورانی حسین اور مہکتے ہوئے تھے ، آئیے اب آپ کو میں اپنے کندھوں پر چڑھا کر بہ عزت و اکرام محشر میں لے چلوں گا کیونکہ دنیا کی زندگی میں میں آپ پر سوار رہا ہوں ۔ پس مومن اللہ کے پاس سواری پر سوار جائے گا ۔ ان کی سواری کے لیے نورانی اونٹ بھی مہیا ہوں گے ۔ یہ سب ہنسی خوشی آبرو عزت کے ساتھ جنت میں جائیں گے ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں { وفد کا یہ دستور ہی نہیں کہ وہ پیدل آئے ۔ یہ متقی حضرات ایسی نورانی اونٹنیوں پر سوار ہوں گے کہ مخلوق کی نگاہوں میں ان سے بہتر کوئی سواری کبھی نہیں آئی ۔ ان کے پالان سونے کے ہوں گے ۔ یہ جنت کے دروازوں تک ان ہی سواریوں پر جائیں گے ۔ ان کی نکیلیں زبر جد کی ہونگی } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4733) ایک مرفوع روایت میں ہے لیکن حدیث بہت ہی غریب ہے ۔ ابن ابی حاتم کی روایت ہے { سیدنا علی رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں ، ایک دن ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ، میں نے اس آیت کی تلاوت کی اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفد تو سواری پر سوار آیا کرتا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { قسم اس اللہ کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ یہ پارسا لوگ قبروں سے اٹھائے جائیں گے اور اسی وقت سفید رنگ نورانی پردار اونٹنیاں اپنی سواری کے لیے موجود پائیں گے ، جن پر سونے کے پالان ہوں گے ، جن کے پیروں سے نور بلند ہو رہا ہو گا ، جو ایک ایک قدم اتنی دور رکھیں گی جہاں تک نگاہ کام کرے ۔ یہ ان پر سوار ہو کر ایک جنتی درخت کے پاس پہنچیں گے جہاں سے دو نہریں جاری دیکھیں گے ، ایک کا پانی پئیں گے جس سے ان کے دلوں کے میل دور ہو جائیں گے ۔ دوسری میں غسل کریں گے جس سے ان کے جسم نورانی ہو جائیں گے اور بال جم جائیں گے ۔ اس کے بعد نہ کبھی ان کے بال الجھیں نہ جسم میلے ہوں ، ان کے چہرے چمک اٹھیں گے اور یہ جنت کے دروازے پر پہنچیں گے ۔ سرخ یاقوت کا حلقہ سونے کے دروازے پر ہو گا جسے یہ کھٹکھٹائیں گے ، نہایت سریلی آواز اس سے نکلے گی اور حوروں کو معلوم ہو جائے گا کہ ان کے خاوند آ گئے ۔ خازن جنت آئیں گے اور دروازے کھولیں گے ، جنتی ان کے نورانی جسموں اور شگفتہ چہروں کو دیکھ کر سجدے میں گر پڑنا چاہیں گے لیکن وہ فوراً کہہ اٹھے گا کہ میں تو آپ کا تابع ہوں ، آپ کا حکم بردار ہوں ، اب ان کے ساتھ یہ چلیں گے ۔ ان کی حوریں تاب نہ لا سکیں گی اور خیموں سے نکل کر ان سے چمٹ جائیں گی اور کہیں گی کہ آپ ہمارے سرتاج ہیں ، ہمارے محبوب ہیں ، میں ہمیشہ آپ کی والی ہوں جو موت سے دور ہوں ، میں نعمتوں والی ہوں کہ کبھی میری نعمتیں ختم نہ ہوں گی ، میں خوش رہنے والی ہوں کہ کبھی نہ روٹھوں گی ، میں یہیں رہنے والی ہوں کہ کبھی آپ سے دور نہ ہوؤں گی } ۔ { یہ اندر داخل ہوں گے ، دیکھیں گے کہ سو سو گز بلند بالاخانے ہیں ، لولو اور موتیوں پر زرد سرخ سبز رنگ کی دیواریں سونے کی ہیں ۔ ہر دیوار ایک دوسرے کی ہم شکل ہے ۔ ہر مکان میں ستر تخت ہیں ، ہر تخت پر ستر حوریں ہیں ، ہر حور پر ستر جوڑے ہیں تاہم ان کی کمر جھلک رہی ہے ۔ ان کے جماع کی مقدار دنیا کی پوری ایک رات کے برابر ہو گی ۔ صاف شفاف پانی کی ، خالص دودھ کی جو جانوروں کے تھن سے نہیں نکلا ، بہترین خوش ذائقہ بےضرر شراب طہور کی جسے کسی انسان نے نہیں نچوڑا ، عمدہ خالص شہد کی جو مکھیوں کے پیٹ سے نہیں نکلا ، نہریں بہہ رہی ہوں گی ۔ پھلدار درخت میووں سے لدے ہوئے جھوم رہے ہوں گے ، چاہے کھڑے کھڑے میوے توڑ لیں چاہے بیٹھے بیٹھے چاہے لیٹے لیٹے ۔ سبز و سفید پرند اڑ رہے ہیں جس کا گوشت کھانے کو جی چاہا ، وہ خودبخود حاضر ہو گیا ، جہاں کا گوشت کھانا چاہا کھا لیا اور پھر وہ قدرت الٰہی سے زندہ چلا گیا ۔ چاروں طرف سے فرشتے آ رہے ہیں اور سلام کہہ رہے ہیں اور بشارتیں سنا رہے ہیں کہ تم پر سلامتی ہو ۔ یہی وہ جنت ہے جس کی تم خوشخبریاں دئیے جاتے رہے اور آج اس کے مالک بنا دئیے گئے ہو ۔ یہ ہے بدلہ تمہارے نیک اعمال کا جو تم دنیا میں کرتے رہے ۔ ان کی حوروں میں سے اگر کسی کا ایک بال بھی زمین پر ظاہر کر دیا جائے تو سورج کی روشنی ماند پڑ جائے } ۔ ۱؎ (سلسلۃ احادیث ضعیفہ البانی:6724:باطل و موضوع) یہ حدیث تو مرفوع بیان ہوئی ہے لیکن تعجب نہیں کہ یہ موقوف ہی ہو جیسے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے اپنے قول سے بھی مروی ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ ٹھیک اس کے برعکس گنہگار لوگ اوندھے منہ زنجیروں میں جکڑے ہوئے جانوروں کی طرح دھکے دے کر جہنم کی طرف جمع کئے جائیں گے ، اس وقت پیاس کے مارے ان کی حالت بری ہو رہی ہوگی ۔ کوئی ان کی شفاعت کرنے والا ، ان کے حق میں ایک بھلا لفظ نکالنے والا نہ ہوگا ۔ مومن تو ایک دوسرے کی شفاعت کریں گے لیکن یہ بدنصیب اس سے محروم ہیں ۔ یہ خود کہیں گے کہ «فَمَا لَنَا مِنْ شَافِعِیْنَ وَلَا صَدِیقٍ حَمِیمٍ» ۱؎ (26-الشعراء:101،100) ’ ہمارا کوئی سفارشی نہیں ، نہ سچا دوست ہے ‘ ۔ ہاں جنہوں نے اللہ سے عہد لے لیا ہے ، یہ استثنا منقطع ہے ۔ مراد اس عہد سے اللہ کی توحید کی گواہی اور اس پر استقامت ہے یعنی صرف اللہ کی عبادت ، دوسروں کی پوجا سے بیزاری اور لاتعلقی ، صرف اسی سے مدد کی امید ، تمام آرزوؤں کے پورا ہونے کی اسی سے آس ۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ، ان موحدین نے اللہ کا وعدہ حاصل کر لیا ہے ۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ ’ جس سے میرا عہد ہے ، وہ کھڑا ہو جائے ‘ ۔ لوگوں نے کہا ہمیں بھی وہ بتا دیجئیے ، آپ نے فرمایا یوں کہو « اللہُمَّ فَاطِرَ‌ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ عَالِمَ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ فَإِنِّی أَعْہَد إِلَیْک فِی ہَذِہِ الْحَیَاۃ الدٰنْیَا أَنْ لَا تَکِلنِی إِلَی عَمَل یُقَرِّبنِی مِنْ الشَّرّ وَیُبَاعِدنِی مِنْ الْخَیْر وَإِنِّی لَا أَثِق إِلَّا بِرَحْمَتِک فَاجْعَلْ لِی عِنْدک عَہْدًا تُؤَدِّیہ إِلَیَّ یَوْم الْقِیَامَۃ إِنَّک لَا تُخْلِف الْمِیعَاد» اور روایت میں اس کے ساتھ یہ بھی ہے «خَائِفًا مُسْتَجِیرًا مُسْتَغْفِرًا رَاہِبًا رَاغِبًا إِلَیْک» (ابن ابی حاتم) ۔ مريم
86 مريم
87 مريم
88 عیسیٰ علیہ السلام کا تعارف اس مبارک سورت کے شروع میں اس بات کا ثبوت گزر چکا کہ عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بندے ہیں ۔ انہیں اللہ تعالیٰ نے باپ کے بغیر اپنے حکم سے مریم صدیقہ کے بطن سے پیدا کیا ہے ۔ اس لیے یہاں ان لوگوں کی نادانی بیان ہو رہی ہے جو آپ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا قرار دیتے ہیں ۔ جس سے ذات الٰہی پاک ہے ۔ ان کے قول کو بیان فرمایا ، پھر فرمایا یہ بڑی بھاری بات ہے ۔ «اِدّاً» اور «اَدّاً» اور «اٰدّاً» تینوں لغت ہیں لیکن مشہور «اِدّاً» ہے ۔ ان کی یہ بات اتنی بری ہے کہ آسمان کپکپا کر ٹوٹ پڑے اور زمین جھٹکے لے لے کر پھٹ جائے ۔ اس لیے کہ زمین و آسمان اللہ تعالیٰ کی عزت و عظمت جانتے ہیں ، ان میں رب کی توحید سمائی ہوئی ہے ۔ انہیں معلوم ہے کہ ان بدکار بےسمجھ انسانوں نے اللہ کی ذات پر تہمت باندھی ہے ، نہ اس کی جنس کا کوئی ، نہ اس کے ماں باپ ، نہ اولاد ، نہ اس کا کوئی شریک ، نہ اس جیسا کوئی ۔ تمام مخلوق اس کی وحدانیت کی شاہد ہے ۔ کائنات کا ایک ایک ذرہ اس کی توحید پر دلالت کرنے والا ہے ۔ اللہ کے ساتھ شرک کرنے والوں کے شرک سے ساری مخلوق کانپ اٹھتی ہے ۔ قریب ہوتا ہے کہ انتظام کائنات درہم برہم ہو جائے ۔ شرک کے ساتھ کوئی نیکی کار آمد نہیں ہوتی ۔ کیا عجب کہ اس کے برعکس توحید کے ساتھ کے گناہ کل کے کل اللہ تعالیٰ معاف فرما دے ۔ جیسے کہ حدیث میں ہے { { اپنے مرنے والوں کو «لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ» کی شہادت کی تلقین کرو ۔ موت کے وقت جس نے اسے کہہ لیا اس کے لیے جنت واجب ہوگئی } ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس نے زندگی میں کہہ لیا ؟ فرمایا : { اس کے لیے اور زیادہ واجب ہو گئی ۔ قسم اللہ کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ زمین و آسمان اور ان کی اور ان کے درمیان کی اور ان کے نیچے کی تمام چیزیں ترازو کے ایک پلڑے میں رکھ دی جائیں اور «لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ» کی شہادت دوسرے پلڑے میں رکھی جائے تو وہ ان سب سے وزن میں بڑھ جائے } } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:23953:) اسی کی مزید دلیل وہ حدیث ہے جس میں توحید کے ایک چھوٹے سے پرچے کا گناہوں کے بڑے بڑے دفتروں سے وزنی ہو جانا آیا ہے ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2639،قال الشیخ الألبانی:صحیح) «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ پس ان کا یہ مقولہ اتنا بد ہے جسے سن کر آسمان بوجہ اللہ کی عظمت کے کانپ اٹھے اور زمین بوجہ غضب کے پھٹ جائے اور پہاڑ پاش پاش ہو جائیں ۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ، ” ایک پہاڑ دوسرے پہاڑ سے دریافت کرتا ہے کہ کیا آج کوئی ایسا شخص بھی تجھ پر چڑھا جس نے اللہ کا ذکر کیا ہو ؟ وہ خوشی سے جواب دیتا ہے کہ ہاں ۔ پس پہاڑ بھی باطل اور جھوٹ بات کو اور بھلی بات کو سنتے ہیں دیگر کلام نہیں کرتے ۔ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی “ ۔ مروی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے جب زمین کو اور اس کے درختوں کو پیدا کیا تو ہر درخت ابن آدم کو پھل پھول اور نفع دیتا تھا مگر جب زمین پر رہنے والے لوگوں نے اللہ کے لیے اولاد کا لفظ بولا تو زمین ہل گئی اور درختوں میں کانٹے پڑگئے ۔ کعب رحمہ اللہ کہتے ہیں ، ملائکہ غضبناک ہو گئے اور جہنم زور شور سے بھڑک اٹھی ۔ مسند احمد میں { فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ { لوگوں کی ایذاء دہندہ باتوں پر اللہ سے زیادہ صابر کوئی نہیں ۔ لوگ اس کے ساتھ شریک کرتے ہیں ، اس کی اولادیں مقرر کرتے ہیں اور وہ انہیں عافیت دے رہا ہے ، روزیاں پہنچا رہا ہے ، برائیاں ان سے ٹالتا رہتا ہے } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6099) پس ان کی اس بات سے کہ اللہ کی اولاد ہے ، زمین و آسمان اور پہاڑ تک تنگ ہیں ۔ اللہ کی عظمت و شان کے لائق نہیں کہ اس کے ہاں اولاد ہو ، اس کے لڑکے لڑکیاں ہوں ۔ اس لیے کہ تمام مخلوق اس کی غلامی میں ہے ، اس کی جوڑ کا یا اس جیسا کوئی اور نہیں ۔ زمین و آسمان میں جو ہیں سب اس کے زیر فرمان اور حاضر باش غلام ہیں ۔ وہ سب کا آقا سب کا پالنہار سب کا خبر لینے والا ہے ۔ سب کی گنتی اس کے پاس ہے سب کو اس کے علم نے گھیر رکھا ہے سب اس کی قدرت کے احاطے میں ہیں ۔ ہر مرد و عورت چھوٹے بڑے کی اسے اطلاع ہے ، شروع پیدائش سے ختم دنیا تک کا اسے علم ہے ۔ اس کا کوئی مددگار نہیں نہ اس کا شریک وساجھی ۔ ہر ایک بے یار و مددگار اس کے سامنے قیامت کے روز پیش ہونے والا ہے ۔ ساری مخلوق کے فیصلے اس کے ہاتھ میں ہیں ۔ وہی «وَحدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ» ، سب کے حساب کتاب چکائے گا جو چاہے گا کرے گا ۔ عادل ہے ظالم نہیں ، کسی کی حق تلفی اس کی شان سے بعید ہے ۔ مريم
89 مريم
90 مريم
91 مريم
92 مريم
93 مريم
94 مريم
95 مريم
96 اللہ تعالٰی کا امین فرشتہ فرمان ہے کہ ’ جن کے دلوں میں توحید رچی ہوئی ہے اور جن کے اعمال میں سنت کا نور ہے ، ضروری بات ہے کہ ہم اپنے بندوں کے دلوں میں ان کی محبت پیدا کر دیں گے ‘ ۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ { جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرنے لگتا ہے تو جبرائیل علیہ السلام کو بلا کر فرماتا ہے کہ ’ میں فلاں سے محبت رکھتا ہوں تو بھی فلاں انسان سے محبت رکھ ‘ ۔ اللہ تعالیٰ کا یہ امین فرشتہ بھی اس سے محبت کرنے لگتا ہے ۔ پھر آسمانوں میں ندا کی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ فلاں انسان سے محبت رکھتا ہے ، اے فرشتو ! تم بھی اس سے محبت رکھو چنانچہ کل آسمانوں کے فرشتے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں پھر اس کی مقبولیت زمین پر اتاری جاتی ہے ۔ اور جب کسی بندے سے اللہ تعالیٰ ناراض ہو جاتا ہے تو جبرائیل علیہ السلام سے فرماتا ہے کہ ’ اس سے میں ناخوش ہوں تو بھی اس سے عداوت رکھ ‘ ، جبرائیل علیہ السلام بھی اس کے دشمن بن جاتے ہیں ۔ پھر آسمانوں میں ندا کر دیتے ہیں کہ فلاں دشمن رب ہے ، تم سب اس سے بیزار رہنا چنانچہ آسمان والے اس سے بگڑ بیٹھتے ہیں ۔ پھر وہی غضب اور ناراضگی زمین پر نازل ہوتی ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3209) مسند احمد میں ہے کہ { جو بندہ اپنے مولا کی مرضی کا طالب ہو جاتا ہے اور اس کی خوشی کے کاموں میں مشغول ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ عزوجل جبرائیل علیہ السلام سے فرماتا ہے کہ ’ میرا فلاں بندہ مجھے خوش کرنا چاہتا ہے ۔ سنو میں اس سے خوش ہو گیا میں نے اپنی رحمتیں اس پر نازل کرنی شروع کر دیں ‘ ۔ پس جبرائیل علیہ السلام ندا کرتے ہیں کہ فلاں پر رحمت الٰہی ہو گئی ۔ پھر حاملان عرش بھی یہی منادی کرتے ہیں ۔ پھر ان کے پاس والے غرض ساتوں آسمانوں میں یہ آواز گونج جاتی ہے ، پھر زمین پر اس کی مقبولیت اترتی ہے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:279/5:حسن) یہ حدیث غریب ہے ۔ ایسی ہی ایک اور حدیث بھی مسند احمد میں غرابت والی ہے جس میں یہ بھی ہے کہ { محبت اور شہرت کسی کی برائی یا بھلائی کے ساتھ آسمانوں سے اللہ کی جانب سے اترتی ہے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:263/5:صحیح لغیرہ) ابن ابی حاتم میں اسی قسم کی حدیث کے بعد { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس آیت قرآنی کو پڑھنا بھی مروی ہے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2637) پس مطلب آیت کا یہ ہوا کہ نیک عمل کرنے والے ایمانداروں سے اللہ خود محبت کرتا ہے اور زمین پر بھی ان کی محبت اور مقبولیت اتاری جاتی ہے ۔ مومن ان سے محبت کرنے لگتے ہیں ۔ ان کا ذکر خیر ہوتا ہے اور ان کی موت کے بعد بھی ان کی بہترین شہرت باقی رہتی ہے ۔ مصرم بن حبان کہتے ہیں کہ جو بندہ سچے اور مخلص دل سے اللہ کی طرف جھکتا ہے ، اللہ تعالیٰ مومنوں کے دلوں کو اس کی طرف جھکا دیتا ہے وہ اس سے محبت اور پیار کرنے لگتے ہیں ۔ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے بندہ جو بھلائی برائی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اسی کی چادر اوڑھا دیتا ہے ۔ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” ایک شخص نے ارادہ کیا کہ میں اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کروں گا کہ تمام لوگوں میں میری نیکی کی شہرت ہو جائے اب وہ عبادت الٰہی کی طرف جھک پڑا ۔ جب دیکھو نماز میں مسجد میں سب سے اول آئے اور سب کے بعد جائے اسی طرح سات ماہ اسے گزر گئے لیکن اس نے جب بھی سنا یہی سنا کہ لوگ اسے ریا کار کہتے ہیں ۔ اس نے یہ حالت دیکھ کر اب اپنے جی میں عہد کر لیا کہ میں صرف اللہ کی خوشنودی کے لیے عمل کروں گا ، کسی عمل میں تو نہ بڑھا لیکن خلوص کے ساتھ اعمال شروع کر دئے ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ تھوڑے ہی دنوں میں ہر شخص کی زبان سے نکلنے لگا کہ اللہ تعالیٰ فلاں شخص پر رحم فرمائے اب تو وہ واقعی اللہ والا بن گیا ہے ۔ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی “ ۔ ابن جریر میں ہے کہ یہ آیت سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کی ہجرت کے بارے میں نازل ہوئی ہے لیکن یہ قول درست نہیں ، اس لیے کہ یہ پوری سورت مکے میں نازل ہوئی ہے ، ہجرت کے بعد اس سورت کی کسی آیت کا نازل ہونا ثابت نہیں ۔ اور جو اثر امام صاحب نے وارد کیا ہے وہ سنداً بھی صحیح نہیں «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ ’ ہم نے اس قرآن کو اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تیری زبان میں یعنی عربی زبان میں بالکل آسان کر کے نازل فرمایا ہے جو فصاحت و بلاغت والی بہترین زبان ہے تاکہ تو انہیں جو اللہ کا خوف رکھتے ہیں ، دلوں میں ایمان اور ظاہر میں نیک اعمال رکھتے ہیں ، اللہ کی بشارتیں سنا دے اور جو حق سے ہٹے ہوئے ، باطل پر مٹے ہوئے ، استقامت سے دور ، خود بینی میں مخمور ، جھگڑالو ، جھوٹے ، اندھے ، بہرے ، فاسق ، فاجر ، ظالم ، گنہگار ، بد کردار ہیں انہیں اللہ کی پکڑ سے اور اس کے عذابوں سے متنبہ کر دے ‘ ، جیسے قریش کے کفار وغیرہ ۔ ’ بہت سی امتوں کو جنہوں نے اللہ کے ساتھ کفر کیا تھا ، نبیوں کا انکار کیا تھا ، ہم نے ہلاک کر دیا ۔ جن میں سے ایک بھی باقی نہیں بچا ۔ ایک کی آواز بھی دنیا میں نہیں رہی ‘ ۔ «رِکْزًا» کے لفظی معنی ہلکی اور دھیمی آواز کے ہیں ۔ مريم
97 مريم
98 مريم
0 طه
1 علم قرآن سب سے بڑی دولت ہے سورۃ البقرہ کی تفسیر کے شروع میں سورتوں کے اول حروف مقطعات کی تفسیر پوری طرح بیان ہو چکی ہے جسے دوبارہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں ۔ گو یہ بھی مروی ہے کہ مراد طہٰ سے اے شخص ہے ، کہتے ہیں کہ یہ نبطی کلمہ ہے ۔ کوئی کہتا ہے معرب ہے ۔ یہ بھی مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں ایک پاؤں زمین پر ٹکاتے اور دوسرا اٹھا لیتے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری ۔ ۱؎ (ضعیف:اس کی سند میں ابو جعفر راوی ضعیف ہے) یعنی طہٰ یعنی زمین پر دونوں پاؤں ٹکا دیا کر ۔ ہم نے یہ قرآن تجھ پر اس لیے نہیں اتارا کہ تجھے مشقت و تکلیف میں ڈال دیں ۔ کہتے ہیں کہ جب قرآن پر عمل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے شروع کر دیا تو مشرکین کہنے لگے کہ یہ لوگ تو اچھی خاصی مصیبت میں پڑ گئے ، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ یہ پاک قرآن تمہیں مشقت میں ڈالنے کو نہیں اترا بلکہ یہ نیکوں کے لیے عبرت ہے ، یہ الہامی علم ہے ۔ جسے یہ ملا اسے بہت بڑی دولت مل گئی ۔ چنانچہ بخاری و مسلم میں ہے کہ { جس کے ساتھ اللہ کا ارادہ بھلائی کا ہو جاتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:71) حافظ ابوالقاسم طبرانی رحمتہ اللہ علیہ ایک مرفوع صحیح حدیث لائے ہیں کہ { قیامت کے دن جب کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے فیصلے فرمانے کے لیے اپنی کرسی پر اجلاس فرمائے گا تو علماء سے فرمائے گا کہ میں نے اپنا علم اور اپنی حکمت تمہیں اسی لیے عطا فرمائی تھی کہ تمہارے تمام گناہوں کو بخش دوں اور کچھ پرواہ نہ کروں کہ تم نے کیا کیا ہے ؟ } ۱؎ (طبرانی کبیر:1381:ضعیف) پہلے لوگ اللہ کی عبادت کے وقت اپنے آپ کو رسیوں میں لٹکا لیا کرتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے یہ مشقت اپنے اس کلام پاک کے ذریعہ آسان کر دی اور فرما دیا کہ یہ قرآن تمہیں مشقت میں ڈالنا نہیں چاہتا جیسے فرمان ہے ، «فَاقْرَءُوا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ» ۱؎ (73-المزمل:20) ’ جس قدر آسانی سے پڑھا جائے پڑھ لیا کرو ‘ یہ قرآن شقاوت اور بدبختی کی چیز نہیں بلکہ رحمت و نور اور دلیل جنت ہے ۔ یہ قرآن نیک لوگوں کے لیے جن کے دلوں میں خوف الٰہی ہے ، تذکرہ وعظ و ہدایت و رحمت ہے ۔ اسے سن کر اللہ کے نیک انجام بندے حلال حرام سے واقف ہو جاتے ہیں اور اپنے دونوں جہان سنوار لیتے ہیں ۔ یہ قرآن تیرے رب کا کلام ہے اسی کی طرف سے نازل شدہ ہے جو ہرچیز کا خالق مالک رازق قادر ہے ۔ جس نے زمین کو نیچی اور کثیف بنایا ہے اور جس نے آسمان کو اونچا اور لطیف بنایا ہے ۔ ترمذی وغیرہ کی صحیح حدیث میں ہے کہ { ہر آسمان کی موٹائی پانچ سو سال کی راہ ہے اور ہر آسمان سے دوسرے آسمان تک کا فاصلہ بھی پانچ سو سال کا ہے ۔ } ۱؎ (سنن ترمذی:3298،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) حضرت عباس رضی اللہ عنہ والی حدیث امام ابن ابی حاتم نے اسی آیت کی تفسیر میں وارد کی ہے ۔ وہ رحمان اپنے عرش پر مستوی ہے اس کی پوری تفسیر سورۃ الاعراف میں گزر چکی ہے یہاں وارد کرنے کی ضرورت نہیں ۔ سلامتی والا طریقہ یہی ہے کہ آیات و احادیث صفات کو بطریق سلف صالحین ان کے ظاہری الفاظ کے مطابق ہی مانا جائے بغیر کیفیت طلبی کے اور بغیر تحریف و تشبیہ اور تعطیل و تمثیل کے ۔ تمام چیزیں اللہ کی ہی ملک ہیں ۔ اسی کے قبضے اور ارادے اور چاہت تلے ہیں ۔ وہی سب کا خالق ، مالک ، الٰہ اور رب ہے کسی کو اس کے ساتھ کسی طرح کی شرکت نہیں ۔ ساتویں زمین کے نیچے بھی جو کچھ ہے سب اسی کا ہے ۔ کعب رحمہ اللہ کہتے ہیں اس زمین کے نیچے پانی ہے پانی کے نیچے پھر زمین ہے پھر اس کے نیچے پانی ہے اسی طرح مسلسل ، پھر اس کے نیچے ایک پتھر ہے اس کے نیچے ایک فرشتہ ہے اس کے نیچے ایک مچھلی ہے ، جس کے دونوں بازو عرش تک ہیں ۔ اس کے نیچے ہوا ، خلا اور ظلمت ہے یہیں تک انسان کا علم ہے باقی اللہ جانے ۔ حدیث میں ہے { ہر دو زمینوں کے درمیان پانچ سو سال کا فاصلہ ہے ۔ سب سے اوپر کی زمین مچھلی کی پشت پر ہے جس کے دونوں بازوں آسمان سے ملے ہوئے ہیں ، یہ مچھلی ایک پتھر پر ہے ، وہ پتھر فرشتے کے ہاتھ میں ہے ۔ دوسری زمین ہواؤں کا خزانہ ہے ۔ تیسری میں جہنم کے پتھر ہیں ، چوتھی میں جہنم کی گندھک ہے ، پانچویں میں جہنم کے سانپ ہیں ، چھٹی میں جہنمی بچھو ہیں ۔ ساتویں میں دوزخ ہے وہیں ابلیس جکڑا ہوا ہے ایک ہاتھ آگے ہے ایک پیچھے ہے ، جب اللہ چاہتا ہے اسے چھوڑ دیتا ہے ۔ } یہ حدیث بہت ہی غریب ہے اور اس کا فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہونا بھی غور طلب ہے ۔ ۱؎ (مستدرک حاکم:594/4:ضعیف) مسند ابویعلیٰ میں ہے ، جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں ، ہم غزوہ تبوک سے لوٹ رہے تھے گرمی سخت تڑاخے کی پڑ رہی تھی دو دو چار چار آدمی منتشر ہو کر چل رہے تھے ، میں لشکر کے شروع میں تھا ، اچانک ایک شخص آیا اور سلام کر کے پوچھنے لگا ، تم میں سے محمد [صلی اللہ علیہ وسلم] کون ہیں ؟ ۔ میں اس کے ساتھ ہو گیا میرے ساتھی آگے بڑھ گئے ۔ جب لشکر کے درمیان کا حصہ آیا تو اسی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھے ، میں نے اسے بتلایا کہ یہ ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سرخ رنگ کی اونٹنی پر سوار ہیں سر پر بوجہ دھوپ کے کپڑا ڈالے ہوئے ہیں ، { وہ آپ کی سواری کے پاس گیا اور نکیل تھام کر عرض کرنے لگا کہ آپ ہی محمد ہیں صلی اللہ علیہ وسلم ؟ آپ نے جواب دیا کہ ہاں ، اس نے کہا ، میں چند باتیں آپ سے دریافت کرنا چاہتا ہوں جنہیں زمین والوں میں سے بجز ایک دو آدمیوں کے اور کوئی نہیں جانتا ۔ } { آپ نے فرمایا تمہیں جو کچھ پوچھنا ہو پوچھ لو ۔ اس نے کہا بتائیے انبیاء اللہ سوتے بھی ہیں ؟ آپ نے فرمایا ان کی آنکھیں سو جاتی ہیں لیکن دل جاگتا رہتا ہے ۔ اس نے کہا بجا ارشاد ہوا ۔ اب یہ فرمائیے کہ کیا وجہ ہے کہ بچہ کبھی تو باپ کی شباہت پر ہوتا ہے کبھی ماں کی ؟ آپ نے فرمایا سنو مرد کا پانی سفید اور غلیظ ہے اور عورت کا پانی پتلا ہے جو پانی غالب آگیا اسی پر شبیہ جاتی ہے ۔ اس نے کہا یہ بھی بجا ارشاد فرمایا ۔ اچھا یہ بھی فرمائیے کہ بچے کے کون سے اعضاء مرد کے پانی سے بنتے ہیں اور کون سے عورت کے پانی سے ؟ فرمایا مرد کے پانی سے ہڈیاں ، رگ اور پٹھے اور عورت کے پانی سے گوشت ، خون اور بال ۔ اس نے کہا یہ بھی صحیح جواب ملا ۔ اچھا یہ بتلائیے کہ اس زمین کے نیچے کیا ہے ؟ فرمایا ایک مخلوق ہے ۔ کہا ان کے نیچے کیا ہے ؟ فرمایا زمین ۔ کہا اس کے نیچے کیا ہے ؟ فرمایا پانی ۔ کہا پانی کے نیچے کیا ہے ؟ فرمایا اندھیرا ۔ کہا اس کے نیچے ؟ فرمایا ہوا ۔ کہا ہوا کے نیچے ؟ فرمایا تر مٹی ۔ کہا اس کے نیچے ؟ آپ کے آنسو نکل آئے اور ارشاد فرمایا کہ مخلوق کا علم تو یہیں تک پہنچ کر ختم ہو گیا ۔ اب خالق کو ہی اس کے آگے کا علم ہے ۔ اے سوال کرنے والے اس کی بابت تو جس سے سوال کر رہا ہے وہ تجھ سے زیادہ جاننے والا نہیں ۔ اس نے آپ کی صداقت کی گواہی دی ۔ آپ نے فرمایا اسے پہچانا بھی ؟ لوگوں نے کہا اللہ اور اس کے رسول کو ہی پورا علم ہے آپ نے فرمایا یہ جبرائیل علیہ السلام تھے ۔ } ۱؎ (مسند ابویعلیٰ:ضعیف جداً) یہ حدیث بھی بہت ہی غریب ہے اور اس میں جو واقعہ ہے ، بڑا ہی عجیب ہے اس کے راویوں میں قاسم بن عبدالرحمٰن کا تفرد ہے جنہیں امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ کسی چیز کے برابر نہیں ۔ امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ بھی انہیں ضعیف کہتے ہیں ۔ امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ معروف شخص نہیں اور اس حدیث میں خلط ملط کر دیا ہے ۔ اللہ ہی جانتا ہے کہ جان بوجھ کر ایسا کیا ہے یا ایسی ہی کسی سے لی ہے ۔ اللہ وہ ہے جو ظاہر و باطن ، اونچی نیچی ، چھوٹی بڑی سب کچھ جانتا ہے ۔ جیسے فرمان ہے «قُلْ أَنزَلَہُ الَّذِی یَعْلَمُ السِّرَّ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ إِنَّہُ کَانَ غَفُورًا رَّحِیمًا» ۱؎ (25-الفرقان:6) ’ اعلان کر دے کہ اس قرآن کو اس نے نازل فرمایا ہے جو آسمان و زمین کے اسرار سے واقف ہے جو غفور و رحیم ہے ۔ ‘ ابن آدم خود جو چھپائے اور جو اس پر خود پر بھی چھپا ہوا ہو اللہ تعالیٰ کے پاس کھلا ہوا ہے ۔ اس کے عمل کو اس کے علم سے بھی پہلے اللہ تعالیٰ جانتا ہے ۔ تمام گزشتہ موجودہ اور آئندہ مخلوق کا علم اس کے پاس ایسا ہی ہے جیسا ایک شخص کا علم ۔ سب کی پیدائش اور مار کر جلانا بھی اس کے نزدیک ایک شخص کی پیدائش اور اس کی موت کے بعد کی دوسری بار کی زندگی کے مثل ہے ۔ تیرے دل کے خیالات کو اور جو خیالات نہیں آتے ان کو بھی وہ جانتا ہے ۔ تجھے زیادہ سے زیادہ آج کے پوشیدہ اعمال کی خبر ہے اور اسے تو تم کل کیا چھپاؤ گے ان کا بھی علم ہے ۔ ارادے ہی نہیں بلکہ وسوسے بھی اس پر ظاہر ہیں ۔ کئے ہوئے عمل اور جو کرے گا وہ عمل بھی اس پر ظاہر ہیں ۔ وہی معبود برحق ہے اعلیٰ صفتیں اور بہترین نام اسی کے ہیں ۔ سورۃ الاعراف کی تفسیر کے آخر میں اسماء حسنی کے متعلق حدیثیں گزر چکی ہیں ۔ طه
2 طه
3 طه
4 طه
5 طه
6 طه
7 طه
8 طه
9 آگ کی تلاش یہاں سے موسیٰ علیہ السلام کا قصہ شروع ہوتا ہے ۔ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب کہ آپ اس مدت کو پوری کر چکے تھے جو آپ کے اور آپ کے خسر صاحب کے درمیان طے ہوئی تھی اور آپ اپنے اہل و عیال کو لے کر دس سال سے زیادہ عرصے کے بعد اپنے وطن مصر کی طرف جا رہے تھے ۔ سردی کی رات تھی راستہ بھول گئے تھے ۔ پہاڑوں کی گھاٹیوں کے درمیان اندھیرا تھا ، ابر چھایا ہوا تھا ۔ ہر چند چقماق سے آگ نکالنا چاہی لیکن اس سے بالکل آگ نہ نکلی ۔ ادھر ادھر نظریں دوڑائیں تو دائیں جانب کے پہاڑ پر کچھ آگ دکھائی دی تو بیوی صاحبہ سے فرمایا ، اس طرف آگ سی نظر آ رہی ہے ، میں جاتا ہوں کہ وہاں سے کچھ انگارے لے آؤں تاکہ تم سینک تاپ کرلو اور کچھ روشنی بھی ہو جائے اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہاں کوئی آدمی مل جائے جو راستہ بھی بتا دے ۔ بہر صورت راستے کا پتہ یا آگ مل ہی جائے گی ۔ طه
10 طه
11 اللہ تعالٰی سے ہمکلامی جب موسیٰ علیہ السلام آگ کے پاس پہنچے تو اس مبارک میدان کے دائیں جانب کے درختوں کی طرف سے آواز آئی کہ«فَلَمَّا أَتَاہَا نُودِیَ مِن شَاطِئِ الْوَادِ الْأَیْمَنِ فِی الْبُقْعَۃِ الْمُبَارَکَۃِ مِنَ الشَّجَرَۃِ أَن یَا مُوسَیٰ إِنِّی أَنَا اللہُ رَبٰ الْعَالَمِینَ» ۱؎ (28-القصص:30) ’ اے موسیٰ ! میں تیرا رب ہوں ، تو جوتیاں اتار دے ۔ ‘ یا تو اس لیے یہ حکم ہوا کہ آپ کی جوتیاں گدھے کے چمڑے کی تھیں یا اس لیے کہ تعظیم کرانی مقصود تھی ۔ جیسا کہ کعبہ جانے کے وقت لوگ جوتیاں اتار کر جاتے ہیں ۔ یا اس لیے کہ اس بابرکت جگہ پر پاؤں پڑیں ، اور بھی وجوہ بیان کئے گئے ہیں ۔ طویٰ اس وادی کا نام تھا ۔ یا یہ مطلب کہ اپنے قدم اس زمین سے ملا دو ۔ یا یہ مطلب کہ یہ زمین کئی کئی بار پاک کی گئی ہے اور اس میں برکتیں بھر دی گئی ہیں اور باربار دہرائی گئی ہیں ۔ لیکن زیادہ صحیح پہلا قول ہی ہے ۔ جیسے اور آیت میں ہے «اِذْ نَادٰیہُ رَبٰہٗ بالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًی » ۱؎ (79-النازعات:16) میں نے تجھے اپنا برگزیدہ کر لیا ہے ، دنیا میں سے تجھے منتخب کر لیا ہے ، اپنی رسالت اور اپنے کلام سے تجھے ممتاز فرما رہا ہوں ، اس وقت کے روئے زمین کے تمام لوگوں سے تیرا مرتبہ بڑھا رہا ہوں ۔ کہا گیا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام سے پوچھا گیا ، جانتے بھی ہو کہ میں نے تجھے دوسرے تمام لوگوں میں سے مختار اور پسندیدہ کر کے شرف ہم کلامی کیوں بخشا ؟ آپ نے جواب دیا اے اللہ مجھے اس کی وجہ معلوم نہیں ، فرمایا گیا اس لیے کہ تیری طرح اور کوئی میری طرف نہیں جھکا ۔ اب تو میری وحی کو کان لگا کر دھیان دے کر سن ۔ میں ہی معبود ہوں کوئی اور نہیں ۔ یہی پہلا فریضہ ہے تو صرف میری ہی عبادت کئے چلے جانا ، کسی اور کی کسی قسم کی عبادت نہ کرنا ۔ میری یاد کے لیے نمازیں قائم کرنا ، میری یاد کا یہ بہترین اور افضل ترین طریقہ ہے یا یہ مطلب کہ جب میں یاد آؤں نماز پڑھو ۔ جیسے حدیث میں ہے کہ { تم میں سے اگر کسی کو نیند آ جائے یا غفلت ہو جائے تو جب یاد آ جائے نماز پڑھ لے کیونکہ فرمان الٰہی ہے میری یاد کے وقت نماز قائم کرو ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:597) بخاری و مسلم میں ہے { جو شخص سوتے میں یا بھول میں نماز کا وقت گزار دے ، اس کا کفارہ یہی ہے کہ یاد آتے ہی نماز پڑھ لے ، اس کے سوا اور کفارہ نہیں ۔} طه
12 طه
13 طه
14 طه
15 . قیامت یقیناً آنے والی ہے ۔ ممکن ہے میں اس کے وقت کے صحیح علم کو ظاہر نہ کروں ۔ ایک قرأت میں «أُخْفِیہَا» کے بعد «مِنْ نَّفْسِیْ »کے لفظ بھی ہیں کیونکہ اللہ کی ذات سے کوئی چیز مخفی نہیں ۔ یعنی اس کا علم بجز اپنے کسی کو نہیں دوں گا ۔ پس روئے زمین پر کوئی ایسا نہیں ہوا جسے قیامت کے قائم ہونے کا مقررہ وقت معلوم ہو ۔ یہ وہ چیز ہے کہ اگر ہو سکے تو خود میں اپنے سے بھی اسے چھپا دوں لیکن رب سے کوئی چیز مخفی نہیں ہے ۔ چنانچہ یہ ملائکہ سے پوشیدہ ہے انبیاء اس سے بےعلم ہیں ۔ جیسے فرمان ہے « قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللّٰہُ ۭ وَمَا یَشْعُرُوْنَ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ» (27-النمل:65) ’ زمین و آسمان والوں میں سے سوائے اللہ واحد کے کوئی اور غیب دان نہیں ۔ ‘ اور آیت میں ہے«ثَقُلَتْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ لَا تَأْتِیکُمْ إِلَّا بَغْتَۃً» ۱؎ (7-الأعراف:187) قیامت زمین و آسمان پر بھاری پڑ رہی ہے ، وہ اچانک آ جائے گی یعنی اس کا علم کسی کو نہیں ۔ ایک قرأت میں «أُخْفِیہَا»ہے ۔ ورقہ فرماتے ہیں مجھے سعید بن جبیر رحمہ اللہ نے اسی طرح پڑھایا ہے ، اس کے معنی ہیں «اَظْھَرَھَا» ، اس دن ہر عامل کو اپنے عمل کا بدلہ دیا جائے گا خواہ ذرہ برابر نیکی ہو ، خواہ بدی ہو ، اپنے کرتوت کا بدلہ اس دن ضرور ملنا ہے ۔ پس کسی کو بھی بے ایمان لوگ بہکا نہ دیں ۔ قیامت کے منکر ، دنیا کے مفتوں ، مولا کے نافرمان ، خواہش کے غلام ، کسی اللہ کے بندے کے اس پاک عقیدے میں اسے تزلزل پیدا نہ کرنے پائیں ۔ اگر وہ اپنی چاہت میں کامیاب ہو گئے تو یہ غارت ہوا اور نقصان میں پڑا ۔ طه
16 طه
17 موسیٰ علیہ السلام کو معجزات ملے موسیٰ علیہ السلام کے ایک بہت بڑے اور صاف کھلے معجزے کا ذکر ہو رہا ہے جو بغیر اللہ کی قدرت کے ناممکن اور جو غیر نبی کے ہاتھ پر بھی ناممکن ۔ طور پہاڑ پر دریافت ہو رہا ہے کہ تیرے دائیں ہاتھ میں کیا ہے ؟ یہ سوال اس لیے تھا کہ موسیٰ علیہ السلام کی گھبراہٹ دور ہو جائے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ سوال بطور تقریر کے ہے یعنی تیرے ہاتھ میں لکڑی ہی ہے ، یہ جیسی کچھ ہے ، تجھے معلوم ہے ، اب یہ جو ہو جائے گی ، وہ دیکھ لینا ۔ اس سوال کے جواب میں کلیم اللہ علیہ السلام عرض کرتے ہیں ، یہ میری اپنی لکڑی ہے جس پر میں ٹیک لگاتا ہوں یعنی چلنے میں مجھے یہ سہارا دیتی ہے ، اس سے میں اپنی بکریوں کا چارہ درخت سے جھاڑ لیتا ہوں ۔ ایسی لکڑیوں میں ذرا مڑا ہوا لوہا لگا لیا کرتے ہیں تاکہ پتے پھل آسانی سے اتر آئیں اور لکڑی ٹوٹے بھی نہیں ۔ اور بھی بہت سے فوائد اس میں ہیں ۔ ان فوائد کے بیان میں بعض لوگوں نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ یہی لکڑی رات کے وقت روشن چراغ بن جاتی تھی ۔ دن کو جب آپ سو جاتے تو یہی لکڑی آپ کی بکریوں کی رکھوالی کرتی ، جہاں کہیں سایہ دار جگہ نہ ہوتی آپ اسے گاڑ دیتے یہ خیمے کی طرح آپ پر سایہ کرتی وغیرہ وغیرہ ۔ لیکن بظاہر یہ قول بنی اسرائیل کا افسانہ معلوم ہوتا ہے ورنہ پھر آج اسے بصورت سانپ دیکھ کر موسیٰ علیہ السلام اس قدر کیوں گھبراتے ؟ وہ تو اس لکڑی کے عجائبات دیکھتے چلے آتے تھے ۔ پھر بعض کا قول ہے کہ دراصل یہ لکڑی آدم علیہ السلام کی تھی ۔ کوئی کہتا ہے یہی لکڑی قیامت کے قریب دابتہ الارض کی صورت میں ظاہر ہو گی ۔ کہتے ہیں اس کا نام ماشا تھا ۔ اللہ ہی جانے ان اقوال میں کہاں تک جان ہے ؟ لاٹھی اژدھا بن گئی طه
18 طه
19 طه
20 . ’ پہلا معجزہ ‘ موسیٰ علیہ السلام کو لکڑی کا لکڑی ہونا جتا کر انہیں بخوبی بیدار اور ہوشیار کر کے حکم ملا کہ اسے زمین پر ڈال دو ۔ زمین پر پڑتے ہی وہ ایک زبردست اژدھے کی صورت میں پھنپھناتی ہوئی ادھر ادھر چلنے پھرنے بلکہ دوڑنے بھاگنے لگی ۔ ایسا خوفناک اژدھا اس سے پہلے کسی نے دیکھا ہی نہ تھا ۔ اس کی تو یہ حالت تھی کہ ایک درخت سامنے آ گیا تو یہ اسے ہضم کر گیا ۔ ایک پتھر کی چٹان راستے میں آ گئی تو اس کا لقمہ بنا گیا ۔ یہ حال دیکھتے ہی موسیٰ علیہ السلام الٹے پاؤں بھاگے ۔ آواز دی گئی کہ موسیٰ [ علیہ السلام ] پکڑ لے لیکن ہمت نہ پڑی ، پھر فرمایا موسیٰ [ علیہ السلام ] ڈر نہیں پکڑ لے پھر بھی جھجک باقی رہی ۔ تیسری مرتبہ فرمایا تو ہمارے امن میں ہے ، اب ہاتھ بڑھا کر پکڑ لیا ۔ کہتے ہیں فرمان الٰہی کے ساتھ ہی آپ نے لکڑی زمین پر ڈال دی ، پھر ادھر ادھر آپ کی نگاہ ہو گئی ، اب جو نظر ڈالی بجائے لکڑی کے ایک خوفناک اژدھا دکھائی دیا جو اس طرح چل پھر رہا ہے جیسے کسی کی جستجو میں ہو ۔ گابھن اونٹنی جیسے بڑے بڑے پتھروں کو ، آسمان سے باتیں کرتے ہوئے اونچے اونچے درختوں کو ایک لقمے میں ہی پیٹ میں پہنچا رہا ہے ، آنکھیں انگاروں کی طرح چمک رہی ہیں ۔ اس ہیبت ناک خونخوار اژدھے کو دیکھ کر موسیٰ علیہ السلام سہم گئے اور پیٹھ موڑ کر زور سے بھاگے ۔ پھر اللہ تعالیٰ کی ہمکلامی یاد آ گئی تو شرما کر ٹھہر گئے ، وہیں آواز آئی کہ موسیٰ [ علیہ السلام ] لوٹ کر وہیں آ جاؤ جہاں تھے ، آپ لوٹے لیکن نہایت خوفزدہ تھے ۔ تو حکم ہوا کہ اپنے داہنے ہاتھ سے اسے تھام لو ، کچھ بھی خوف نہ کرو ، ہم اسے اس کی اسی اگلی حالت میں لوٹا دیں گے ۔ اس وقت موسیٰ علیہ السلام صوف کا کمبل اوڑھے ہوئے تھے جسے ایک کانٹے سے اٹکا رکھا تھا ۔ آپ نے اسی کمبل کو اپنے ہاتھ پر لپیٹ کر اس ہیبت ناک اژدھے کو پکڑنا چاہا تو فرشتے نے کہا موسیٰ علیہ السلام اگر اللہ تعالیٰ اسے کاٹنے کا حکم دیدے تو کیا تیرا یہ کمبل بچا سکتا ہے ؟ آپ نے جواب دیا ہرگز نہیں ، لیکن یہ حرکت مجھ سے بہ سبب میرے ضعف کے سرزد ہو گئی ، میں ضعیف اور کمزور ہی پیدا کیا گیا ہوں ۔ اب دلیری کے ساتھ کمبل ہٹا کر ہاتھ بڑھا کر اس کے سر کو تھام لیا اسی وقت وہ اژدھا پھر لکڑی بن گیا جیسے پہلے تھا ۔ اس وقت جب کہ آپ اس گھاٹی پر چڑھ رہے تھے اور آپ کے ہاتھ میں یہ لکڑی تھی جس پر ٹیک لگائے ہوئے تھے ، اسی حال میں آپ نے پہلے دیکھا تھا اسی حالت پر اب ہاتھ میں بصورت عصا موجود تھا ۔ طه
21 طه
22 طه
23 معجزات کی نوعیت ’ دوسرا معجزہ ‘ موسیٰ علیہ السلام کو دوسرا معجزہ دیا جاتا ہے ۔ حکم ہوتا ہے کہ اپنا ہاتھ اپنی بغل میں ڈال کر پھر اسے نکال لو تو وہ چاند کی طرح چمکتا ہوا روشن بن کر نکلے گا ۔ یہ نہیں کہ برص کی سفیدی ہو یا کوئی بیماری اور عیب ہو ۔ چنانچہ موسیٰ علیہ السلام نے جب ہاتھ ڈال کر نکالا تو وہ چراغ کی طرح روشن نکلا جس سے آپ کا یہ یقین کہ آپ اللہ تعالیٰ سے کلام کر رہے ہیں ، اور بڑھ گیا ۔ یہ دونوں معجزے یہیں اسی لیے ملے تھے کہ آپ اللہ کی ان زبردست نشانیوں کو دیکھ کر یقین کر لیں ۔ طه
24 فرعون کے سامنے کلمہ حق پھر حکم ہوا کہ فرعون نے ہماری بغاوت پر کمر کس لی ہے ، اس کے پاس جا کر اسے سمجھاؤ ۔ وہب رحمہ اللہ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو قریب ہونے کا حکم دیا یہاں تک کہ آپ اس درخت کے تنے سے لگ کر کھڑے ہو گئے ، دل ٹھہر گیا ، خوف و خطر دور ہو گیا ۔ دونوں ہاتھ اپنی لکڑی پر ٹکا کر سرجھکا کر گردن خم کر کے با ادب ارشاد الٰہی سننے لگے تو فرمایا گیا کہ ملک مصر کے بادشاہ فرعون کی طرف ہمارا پیغام لے کر جاؤ ، یہیں سے تم بھاگ کر آئے ہو ۔ اس سے کہو کہ وہ ہماری عبادت کرے ، کسی کو شریک نہ بنائے ، بنو اسرائیل کے ساتھ سلوک و احسان کرے ، انہیں تکلیف اور ایذاء نہ دے ۔ فرعون بڑا باغی ہو گیا ہے ، دنیا کا مفتون بن کر آخرت کو فراموش کر بیٹھا ہے اور اپنے پیدا کرنے والے کو بھول گیا ہے ، تو میری رسالت لے کر اس کے پاس جا ۔ میرے کان اور میری آنکھیں تیرے ساتھ ہیں ، میں تجھے دیکھتا بھالتا اور تیری باتیں سنتا سناتا رہوں گا ۔ میری مدد تیرے پاس ہو گی ، میں نے اپنی طرف سے تجھے حجتیں عطا فرما دی ہیں اور تجھے قوی اور مضبوط کر دیا ہے ، تو اکیلا ہی میرا پورا لشکر ہے ۔ اپنے ایک ضعیف بندے کی طرف تجھے بھیج رہا ہوں جو میری نعمتیں پا کر پھول گیا ہے اور میری پکڑ کو بھول گیا ہے ، دنیا میں پھنس گیا اور غرور و تکبر میں دھنس گیا ہے ۔ میری ربوبیت سے بیزار ، میری الوہیت سے برسر پیکار ہے ۔ مجھ سے آنکھیں پھیر لی ہیں ، دیدے بدل لیے ہیں ۔ میری پکڑ سے غافل ہو گیا ہے ۔ میرے عذابوں سے بیخوف ہو گیا ہے ۔ مجھے اپنی عزت کی قسم اگر میں اسے ڈھیل دینا نہ چاہتا تو آسمان اس پر ٹوٹ پڑتے زمین اسے نگل جاتی دریا اسے ڈبو دیتے لیکن چونکہ وہ میرے مقابلے کا نہیں ، ہر وقت میرے بس میں ہے ، میں اسے ڈھیل دیے ہوئے ہوں اور اس سے بےپرواہی برت رہا ہوں ۔ میں ہوں بھی ساری مخلوق سے بےپرواہ ۔ حق تو یہ ہے کہ بےپروائی صرف میری ہی صفت ہے ۔ تو میری رسالت ادا کر ، اسے میری عبادت کی ہدایت کر ، اسے توحید و اخلاص کی دعوت دے ، میری نعمتیں یاد دلا ۔ میرے عذابوں سے دھمکا ، میرے غضب سے ہوشیار کر دے ۔ جب میں غصہ کر بیٹھتا ہوں تو امن نہیں ملتا ۔ اسے نرمی سے سمجھا تاکہ نہ ماننے کا عذر ٹوٹ جائے ۔ میری بخشش کی ، میرے کرم و رحم کی اسے خبر دے ۔ کہہ دے کہ اب بھی اگر میری طرف جھکے گا تو میں تمام بد اعمالیوں سے قطع نظر کر لوں گا ۔ میری رحمت میرے غضب سے بہت زیادہ وسیع ہے ۔ خبردار اس کا دنیوی ٹھاٹھ دیکھ کر رعب میں نہ آ جانا ، اس کی چوٹی میرے ہاتھ میں ہے ۔ اس کی زبان چل نہیں سکتی اس کے ہاتھ اٹھ نہیں سکتے اس کی آنکھ پھڑک نہیں سکتی اس کا سانس چل نہیں سکتا جب تک میری اجازت نہ ہو ۔ اسے سمجھا کہ میری مان لے تو میں بھی مغفرت سے پیش آؤں گا ۔ چار سو سال اسے سرکشی کرتے ، میرے بندوں پر ظلم ڈھاتے ، میری عبادت سے لوگوں کو روکتے گزر چکے ہیں ۔ تاہم نہ میں نے اس پر بارش بند کی نہ پیداوار روکی نہ بیمار ڈالا نہ بوڑھا کیا نہ مغلوب کیا ۔ اگر چاہتا ظلم کے ساتھ ہی پکڑ لیتا لیکن میرا حلم بہت بڑھا ہوا ہے ۔ تو اپنے بھائی کے ساتھ مل کر اس سے پوری طرح جہاد کر اور میری مدد پر بھروسہ رکھ ، میں اگر چاہوں تو اپنے لشکروں کو بھیج کر اس کا بھیجا نکال دوں ۔ لیکن اس بے بنیاد بندے کو دکھانا چاہتا ہوں کہ میری جماعت کا ایک بھی روئے زمین کی طاقتوں پر غالب آ سکتا ہے ۔ مدد میرے اختیار میں ہے ۔ دنیاوی جاہ و جلال کی تو پرواہ نہ کرنا بلکہ آنکھ بھر کر دیکھنا بھی نہیں ۔ میں اگر چاہوں تو تمہیں اتنا دے دوں کہ فرعون کی دولت اس کے پاسنگ میں بھی نہ آ سکے لیکن میں اپنے بندوں کو عموماً غریب ہی رکھتا ہوں تاکہ ان کی آخرت سنوری رہے ۔ یہ اس لیے نہیں ہوتا کہ وہ میرے نزدیک قابل اکرام نہیں بلکہ صرف اس لیے ہوتا ہے کہ دونوں جہان کی نعمتیں آنے والے جہان میں جمع مل جائیں ۔ میرے نزدیک بندے کا کوئی عمل اتنا وقعت والا نہیں جتنا زہد اور دنیا سے دوری ۔ میں اپنے خاص بندوں کو سکینت اور خشوع خضوع کا لباس پہنا دیتا ہوں ، ان کے چہرے سجدوں کی چمک سے روشن ہو جاتے ہیں ۔ یہی سچے اولیا اللہ ہوتے ہیں ۔ ان کے سامنے ہر ایک کو با ادب رہنا چاہیئے ۔ اپنی زبان اور دل کو ان کا تابع رکھنا چاہیئے ۔ سن لے ! میرے دوستوں سے دشمنی رکھنے والا گویا مجھے لڑائی کا اعلان دیتا ہے ۔ تو کیا مجھ سے لڑنے کا ارادہ رکھنے والا کبھی سرسبز ہو سکتا ہے ؟ میں نے قہر کی نظر سے اسے دیکھا اور وہ تہس نہس ہوا ۔ میرے دشمن مجھ پر غالب نہیں آ سکتے ، میرے مخالف میرا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتے ۔ میں اپنے دوستوں کی خود مدد کرتا ہوں ، انہیں دشمنوں کا شکار نہیں ہونے دیتا ۔ دنیا و آخرت میں انہیں سرخرو رکھتا ہوں اور ان کی مدد کرتا ہوں ۔ موسیٰ علیہ السلام نے اپنا بچپن کا زمانہ فرعون کے گھر میں بلکہ اس کی گود میں گزارا تھا ، جوانی تک ملک مصر میں اسی کی بادشاہت میں ٹھہرے رہے تھے ۔ پھر ایک قبطی بے ارادہ آپ کے ہاتھ سے مر گیا تھا جس سے آپ یہاں سے بھاگ نکلے تھے تب سے لے کر آج تک مصر کی صورت نہیں دیکھی تھی ۔ فرعون ایک سخت دل ، بدخلق ، اکھڑ مزاج ، آوارہ انسان تھا ۔ غرور اور تکبر اتنا بڑھ گیا تھا کہ کہتا تھا کہ میں اللہ کو جانتا ہی نہیں ۔ اپنی رعایا سے کہتا تھا کہ تمہارا رب میں ہی ہوں ۔ ملک و مال میں ، دولت و متاع میں ، لاؤ لشکر اور کروفر میں کوئی روئے زمین پر اس کے مقابلے کا نہ تھا ۔ طه
25 موسیٰ علیہ السلام کی دعائیں جب موسیٰ علیہ السلام کو اسے ہدایت کرنے کا حکم ہوا تو آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ میرا سینہ کھول دے اور میرے کام میں آسانی پیدا کر دے ۔ اگر تو خود میرا مددگار نہ بنا تو یہ سخت بار میرے کمزور کندھے نہیں اٹھا سکتے ۔ اور میری زبان کی گرہ کھول دے ۔ چونکہ آپ کے بچپن کے زمانے میں آپ کے سامنے کھجور اور انگارے رکھے گئے تھے ، آپ نے انگارہ لے کر منہ میں رکھ لیا تھا ، اس لیے زبان میں لکنت ہو گئی تھی ، تو دعا کی کہ میرے زبان کی گرہ کھل جائے ۔ موسیٰ علیہ السلام کے اس ادب کو دیکھئے کہ بقدر حاجت سوال کرتے ہیں یہ نہیں عرض کرتے کہ میری زبان بالکل صاف ہو جائے بلکہ دعا یہ کرتے ہیں کہ گرہ کھل جائے تاکہ لوگ میری بات سمجھ لیں ۔ انبیاء علیہم السلام اللہ سے صرف حاجت روائی کے مطابق ہی عرض کرتے ہیں ، آگے نہیں بڑھتے ۔ چنانچہ آپ کی زبان میں پھر بھی کچھ کسر رہ گئی تھی جیسے کہ فرعون نے کہا تھا کہ کیا میں بہتر ہوں یا یہ ؟ جو فرد مایہ ہے اور صاف بول بھی نہیں سکتا ۔ حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں ، ایک گرہ کھلنے کی دعا کی تھی جو پوری ہوئی ۔ اگر پوری دعا کی ہوتی تو وہ بھی پوری ہوتی ۔ آپ نے صرف اسی قدر دعا کی تھی کہ آپ کی زبان ایسی کر دی جائے کہ لوگ آپ کی بات سمجھ لیا کریں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں ، ڈر تھا کہ کہیں وہ الزام قتل رکھ کر قتل نہ کر دیں اس کی دعا کی جو قبول ہوئی ۔ زبان میں اٹکاؤ تھا اس کی بابت دعا کی کہ اتنی صاف ہو جائے کہ لوگ بات سمجھ لیں یہ دعا بھی پوری ہوئی ۔ دعا کی کہ ہارون کو بھی نبی بنا دیا جائے یہ بھی پوری ہوئی ۔ محمد بن کعب رحمہ اللہ کے پاس ان کے ایک رشتے دار آئے اور کہنے لگے ، یہ تو بڑی کمی ہے کہ تم بولنے میں غلط بول جاتے ہو ۔ آپ نے فرمایا بھتیجے کیا میری بات تمہاری سمجھ میں نہیں آتی ؟ کہا ہاں سمجھ میں تو آ جاتی ہے ، کہا بس یہی کافی ہے ۔ موسیٰ علیہ السلام نے بھی اللہ سے یہی اور اتنی ہی دعا کی تھی ۔ پھر اور دعا کی کہ میری خارجی اور ظاہری امداد کے لیے میرا وزیر بنا دے اور ہو بھی وہ میرے کنبے میں سے ۔ یعنی میرے بھائی ہارون کو نبوت عطا فرما ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں اسی وقت ہارون علیہ السلام کو موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہی نبوت عطا فرمائی گئی ۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا عمرے کے لیے جاتے ہوئے کسی اعرابی کے ہاں مقیم تھیں کہ سنا ایک شخص پوچھتا ہے کہ دنیا میں کس بھائی نے اپنے بھائی کو سب سے زیادہ نفع پہنچایا ہے ؟ اس سوال پر سب خاموش ہو گئے اور کہہ دیا کہ ہمیں اس کا علم نہیں ۔ اس نے کہا اللہ کی قسم مجھے اس کا علم ہے ۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں نے اپنے دل میں کہا ، دیکھو یہ شخص کتنی بیجا جسارت کرتا ہے ، بغیر انشاءاللہ کے قسم کھا رہا ہے ۔ لوگوں نے اس سے پوچھا کہ بتاؤ ، اس نے جواب دیا موسیٰ علیہ السلام کہ اپنے بھائی کو اپنی دعا سے نبوت دلوائی ۔ میں بھی یہ سن کر دنگ رہ گئی اور دل میں کہنے لگی ، بات تو سچ کہی ، فی الواقع اس سے زیادہ کوئی بھائی اپنے بھائی کو نفع نہیں پہنچا سکتا ۔ اللہ نے سچ فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام اللہ کے پاس بڑے آبرو دار تھے ۔ اس دعا کی وجہ بیان کرتے ہیں کہ میری کمر مضبوط ہو جائے ۔ تاکہ ہم تیری تسبیح اچھی طرح بیان کریں ۔ ہر وقت تیری پاکیزگی بیان کرتے رہیں اور تیری یاد بکثرت کریں ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ، بندہ اللہ تعالیٰ کا زیادہ ذکر کرنے والا اسی وقت ہوتا ہے جب کہ وہ بیٹھتے اٹھتے اور لیٹتے ذکر اللہ میں مشغول رہے ۔ تو ہمیں دیکھتا ہے ، یہ تیرا رحم و کرم ہے کہ تو نے ہمیں برگزیدہ کیا ، ہمیں نبوت عطا فرمائی اور ہمیں اپنے دشمن فرعون کی طرف اپنا نبی بنا کر اس کی ہدایت کے لیے مبعوث فرمایا ۔ تیرا شکر ہے اور تیرے ہی لیے تمام تعریفیں سزاوار ہیں ۔ تیری ان نعمتوں پر ہم تیرے شکر گزار ہیں ۔ طه
26 طه
27 طه
28 طه
29 طه
30 طه
31 طه
32 طه
33 طه
34 طه
35 طه
36 موسیٰ علیہ السلام کا بچپن حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تمام دعائیں قبول ہوئیں اور فرما دیا گیا کہ تمہاری درخواست منظور ہے ۔ اس احسان کے ساتھ ہی اور احسان کا بھی ذکر کر دیا گیا کہ ہم نے تجھ پر ایک مرتبہ اور بھی بڑا احسان کیا ہے ۔ پھر اس واقعہ کو مختصر طور پر یاد دلایا کہ ہم نے تیرے بچپن کے وقت تیری ماں کی طرف وحی بھیجی جس کا ذکر اب تم سے ہو رہا ہے ۔ تم اس وقت دودھ پیتے بچے تھے ، تمہاری والدہ کو فرعون اور فرعونیوں کا کھٹکا تھا کیونکہ اس سال وہ بنو اسرائیل کے لڑکوں کو قتل کر رہا تھا ۔ اس خوف کے مارے وہ ہر وقت کانپتی رہتی تھیں تو ہم نے وحی کی کہ ایک صندوق بنا لو ، دودھ پلا کر بچے کو اس میں لٹا کر دریائے نیل میں اس صندوق کو چھوڑ دو چنانچہ وہ یہی کرتی رہیں ۔ ایک رسی اس میں باندھ رکھی تھی جس کا ایک سرا اپنے مکان سے باندھ لیتی تھیں ۔ ایک مرتبہ باندھ رہی تھیں جو رسی ہاتھ سے چھوٹ گئی اور صندوق کو پانی کی موجیں بہا لے چلیں ۔ اب تو کلیجہ تھام کر رہ گئیں اس قدر غمزدہ ہوئیں کہ صبر ناممکن تھا ، شاید راز فاش کر دیتیں لیکن ہم نے دل مضبوط کر دیا ۔ صندوق بہتا ہوا فرعون کے محل کے پاس سے گزرا آل فرعون نے اسے اٹھا لیا کہ جس غم سے وہ بچنا چاہتے تھے ، جس صدمے سے وہ محفوظ رہنا چاہتے تھے ، وہ ان کے سامنے آ جائے ۔ جسکی شمع حیات کو بجھانے کے لیے وہ بےگناہ معصوموں کا قتل عام کر رہے تھے ، وہ انہی کے تیل سے انہی کے ہاں روشن ہوا اور اللہ کے ارادے بیروک پورے ہو جائیں ۔ ان کا دشمن انہی کے ہاتھوں پلے انہی کا کھائے ان کے ہاں تربیت پائے ۔ خود فرعون اور اس کی اہلیہ محترمہ نے جب بچے کو دیکھا ، رگ رگ میں محبت سما گئی ، لے کر پرورش کرنے لگے ۔ آنکھوں کا تارا سمجھنے لگے شاہزادوں کی طرح ناز و نعمت سے پلنے لگے شاہی دربار میں رہنے لگے ۔ اللہ نے اپنی محبت تجھ پر ڈال دی گو فرعون تیرا دشمن تھا لیکن رب کی بات کون بدلے ؟ اللہ کے ارادے کو کون ٹالے ؟ فرعون پر ہی کیا منحصر ہے ، جو دیکھتا آپ کا والہ و شیدا بن جاتا ۔ یہ اس لیے تھا کہ تیری پرورش میری نگاہ کے سامنے ہو ، شاہی خوراکیں کھا عزت و وقعت کے ساتھ رہ ۔ فرعون والوں نے صندوقچہ اٹھا لیا کھولا بچے کو دیکھا ، پالنے کا ارادہ کیا لیکن آپ کسی دایہ کا دودھ دباتے ہی نہیں بلکہ منہ میں ہی نہیں لیتے ۔ بہن جو صندوق کو دیکھتی بھالتی کنارے کنارے آ رہی تھی وہ بھی موقعہ پر پہنچ گئیں ، کہنے لگیں کہ آپ اگر اس کی پرورش کی تمنا کرتے ہیں اور معقول اجرت بھی دیتے ہیں تو میں ایک گھرانہ بتاؤں جو اسے محبت سے پالے اور خیر خواہانہ برتاؤ کرے ۔ سب نے کہا ہم تیار ہیں ۔ آپ انہیں لیے ہوئے اپنی والدہ کے پاس پہنچیں ، جب بچہ ان کی گود میں ڈال دیا گیا ، آپ نے جھٹ سے منہ لگا دودھ پینا شروع کیا ۔ جس سے فرعون کے ہاں بڑی خوشیاں منائی گئیں اور بہت کچھ انعام و اکرام دیا گیا ۔ تنخواہ مقرر ہو گئی ، اپنے ہی بچے کو دودھ پلاتیں اور تنخواہ اور انعام بھی اور عزت و اکرام بھی پاتیں ۔ دنیا بھی ملے دین بھی بڑھے ۔ اسی لیے حدیث میں آیا ہے کہ { جو شخص اپنے کام کو کرے اور نیک نیتی سے کرے ، اس کی مثال ام موسیٰ علیہ السلام کی مثال ہے کہ اپنے ہی بچے کو دودھ پلائے اور اجرت بھی لے ۔ } پس یہ بھی ہماری کرم فرمائی ہے کہ ہم نے تجھے تیری ماں کی گود میں واپس کیا کہ اس کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور غم و رنج جاتا رہے ۔ پھر تمہارے ہاتھ سے ایک فرعونی قبطی مار ڈالا گیا تو بھی ہم نے تمہیں بچا لیا ، فرعونیوں نے تمہارے قتل کا ارادہ کر لیا تھا ، راز فاش ہو چکا تھا ۔ تمہیں یہاں سے نجات دی تم بھاگ کھڑے ہوئے ۔ مدین کے کنوئیں پر جا کر تم نے دم لیا ۔ وہیں ہمارے ایک نیک بندے نے تمہیں بشارت سنائی کہ اب کوئی خوف نہیں ان ظالموں سے تم نے نجات پا لی ۔ تجھے ہم نے بطور آزمائش اور بھی بہت سے فتنوں میں ڈالا ۔ سعید بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے اس کی بابت سوال کیا تو آپ نے فرمایا اب تو دن ڈوبنے کو ہے واقعات زیادہ ہیں پھر سہی ۔ چنانچہ میں نے دوسری صبح پھر سوال کیا تو آپ نے فرمایا سنو ! فرعون کے دربار میں ایک دن اس بات کا ذکر چھڑا کہ اللہ کا وعدہ ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام سے یہ تھا کہ ان کی اولاد میں انبیاء اور بادشاہ ہوں گے ۔ چنانچہ بنو اسرائیل اس کے آج تک منتظر ہیں اور انہیں یقین ہے کہ مصر کی سلطنت پھر ان میں جائے گی ۔ پہلے تو ان کا خیال تھا کہ یہ وعدہ یوسف علیہ السلام کی بابت تھا لیکن ان کی وفات تک جب کہ یہ وعدہ پورا نہیں ہوا تو وہ اب عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ ان میں اپنے ایک پیغمبر کو بھیجے گا جن کے ہاتھوں انہیں سلطنت بھی ملے گی اور ان کی قومی و مذہبی ترقی ہو گی ۔ ً یہ باتیں کر کے انہوں نے مجلس مشاورت قائم کی کہ اب کیا کیا جائے جس سے آئندہ کے اس خطرے سے محفوظ رہ سکیں ۔ آخر اس جلسے میں قرار داد منظور ہوئی کہ پولیس کا ایک محکمہ قائم کیا جائے جو شہر کا گشت لگاتا رہے اور بنی اسرائیل میں جو نرینہ اولاد ہو ، اسے اسی وقت سرکار میں پیش کیا جائے اور ذبح کر دیا جائے ۔ لیکن جب ایک مدت گزر گئی تو انہیں خیال پیدا ہوا کہ اس طرح تو بنی اسرائیل بالکل فنا ہو جائیں گے اور جو ذلیل خدمتیں ان سے لی جاتی ہیں ، جو بیگاریں ان سے وصول ہو رہی ہیں ، سب موقوف ہو جائیں گی ، اس لیے اب تجویز ہوا کہ ایک سال ان کے بچوں کو چھوڑ دیا جائے اور ایک سال ان کے لڑکے قتل کر دیئے جائیں ۔ اس طرح موجودہ بنی اسرائیلیوں کی تعداد بھی نہ بڑھے گی اور نہ اتنی کم ہو جائے گی کہ ہمیں اپنی خدمت گزاری کے لیے بھی نہ مل سکیں ۔ جتنے بڈھے دو سال میں مریں گے ، اتنے بچے ایک سال میں پیدا ہو جائیں گے ۔ جس سال قتل موقوف تھا ، اس سال تو ہارون علیہ السلام پیدا ہوئے اور جس سال قتل عام بچوں کا جاری تھا ، اس برس موسیٰ علیہ السلام تولد ہوئے ۔ آپ کی والدہ کی اس وقت کی گھبراہٹ اور پریشانی کا کیا پوچھنا ؟ بے اندازہ تھی ۔ ایک فتنہ تو یہ تھا ۔ چنانچہ یہ خطرہ اس وقت دفع ہو گیا جب کہ اللہ کی وحی ان کے پاس آئی کہ ڈر خوف نہ کر ہم اسے تیری طرف پھر لوٹائیں گے اور اسے اپنا رسول بنائیں گے ۔ چنانچہ بحکم الٰہی آپ نے اپنے بچے کو صندوق میں بند کر کے دریا میں بہا دیا ، جب صندوق نظروں سے اوجھل ہو گیا تو شیطان نے دل میں وسوسے ڈالنے شروع کئے کہ افسوس اس سے تو یہی بہتر تھا کہ میرے سامنے ہی اسے ذبح کر دیا جاتا تو میں اسے خود ہی کفناتی دفناتی تو سہی لیکن اب تو میں نے خود اسے مچھلیوں کا شکار بنایا ۔ یہ صندوق یونہی بہتا ہوا خاص فرعونی گھاٹ سے جا لگا ، وہاں اس وقت محل کی لونڈیاں موجود تھیں ، انہوں نے اس صندوق کو اٹھا لیا اور ارادہ کیا کہ کھول کر دیکھیں لیکن پھر ڈر گئیں کہ ایسا نہ ہو کہ چوری کا الزام لگے یونہی مقفل صندوق ملکہ فرعون کے پاس پہنچا دیا ۔ یہ صندوق بادشاہ ملکہ کے سامنے کھولا گیا تو اس میں سے چاند جیسی صورت کا ایک چھوٹا سا معصوم بچہ نکلا جسے دیکھتے ہی فرعون کی بیوی صاحبہ کا دل محبت کے جوش سے اچھلنے لگا ۔ ادھر ام موسیٰ کی حالت غیر ہو گئی ، سوائے اپنے اس پیارے بچے کے خیال کے دل میں اور کوئی تصور ہی نہ تھا ۔ ادھر ان قصائیوں کو جو حکومت کی طرف سے بچوں کے قتل کے محکمے کے ملازم تھے ، معلوم ہوا تو وہ اپنی چھریاں تیز کئے ہوئے بڑھے اور ملکہ سے تقاضا کیا کہ بچہ انہیں سونپ دیں تاکہ وہ اسے ذبح کر ڈالیں ۔ یہ دوسرا فتنہ تھا ، آخر ملکہ نے جواب دیا کہ ٹھہرو میں خود بادشاہ سے ملتی ہوں اور اس بچے کو طلب کرتی ہوں ، اگر وہ مجھے دے دیں تو خیر ورنہ تمہیں اختیار ہے ۔ چنانچہ آپ آئیں اور بادشاہ سے کہا کہ یہ بچہ تو میری اور آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک ثابت ہو گا ۔ اس خبیث نے کہا بس تم ہی اس سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی رکھو ، میری ٹھنڈک وہ کیوں ہونے لگا ؟ مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں ۔ اللہ تعالٰی کی تدابیر اعلیٰ اور محروم ہدایت فرعون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہ حلف بیان فرماتے ہیں کہ { اگر وہ بھی کہہ دیتا کہ ہاں بیشک وہ میری آنکھوں کی بھی ٹھنڈک ہے تو اللہ تعالیٰ اسے بھی ضرور راہ راست دکھا دیتا جیسا کہ اس کی بیوی صاحبہ مشرف بہ ہدایت ہوئی لیکن اس نے خود اس سے محروم رہنا چاہا اللہ نے بھی اسے محروم کر دیا ۔ } الغرض فرعون کو جوں توں راضی رضامند کر کے اس بچے کے پالنے کی اجازت لے کر آپ آئیں ، اب محل کی جتنی دایہ تھیں سب کو جمع کیا ایک ایک کی گود میں بچہ دیا گیا لیکن اللہ تعالیٰ نے سب کا دودھ آپ پر حرام کر دیا ، آپ نے کسی کا دودھ منہ میں لیا ہی نہیں ۔ اس سے ملکہ گھبرائیں کہ یہ تو بہت ہی برا ہوا ، یہ پیارا بچہ یونہی ہلاک ہو جائے گا ۔ آخر سوچ کر حکم دیا کہ انہیں باہر لے جاؤ ، ادھر ادھر تلاش کرو اور اگر کسی کا دودھ یہ معصوم قبول کرے تو اسے بہ منت سونپ دو ۔ باہر بازار میں میلہ سا لگ گیا ہر شخص اس سعادت سے مالا مال ہونا چاہتا تھا لیکن موسیٰ علیہ السلام نے کسی کا دودھ نہ پیا ۔ آپ کی والدہ نے اپنی بڑی صاحبزادی آپ کی بہن کو باہر بھیج رکھا تھا کہ وہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ؟ وہ اس مجمع میں موجود تھیں اور تمام واقعات دیکھ سن رہی تھیں ۔ جب یہ لوگ عاجز آ گئے تو آپ نے فرمایا ، اگر تم کہو تو میں ایک گھرانہ ایسا بتلاؤں جو اس کی نگہبانی کرے اور ہو بھی اس کا خیرخواہ ۔ یہ کہنا تھا کہ لوگوں کو شک ہوا کہ ضرور یہ لڑکی اس بچے کو جانتی ہے اور اس کے گھر کو بھی پہچانتی ہے ۔ اے ابن جبیر یہ تھا تیسرا فتنہ ۔ لیکن اللہ نے لڑکی کو سمجھ دے دی اور اس نے جھٹ سے کہا کہ بھلا تم اتنا نہیں سمجھے کون بدنصیب ایسا ہو گا جو اس بچے کی خیر خواہی یا پرورش میں کمی کرے جو بچہ ہماری ملکہ کا پیارا ہے ۔ کون نہ چاہے گا کہ یہ ہمارے ہاں پلے تاکہ انعام و اکرام سے اس کا گھر بھر جائے ۔ یہ سن کر سب کی سمجھ میں آ گیا اسے چھوڑ دیا اور کہا بتا تو کون سی دایہ اس کے لیے تجویز کرتی ہے ؟ اس نے کہا میں ابھی لائی ، دوڑی ہوئی گئیں اور والدہ کو یہ خوشخبری سنائی ۔ والدہ صاحبہ شوق و امید سے آئیں اپنے پیارے بچے کو گود میں لیا ، اپنا دودھ منہ میں دیا بچے نے پیٹ بھر کر پیا ۔ اسی وقت شاہی محلات میں یہ خوشخبری پہنچائی گئی ملکہ کا حکم ہوا کہ فوراً اس دایہ کو اور بچے کو میرے پاس لاؤ ، جب ماں بیٹا پہنچے تو اپنے سامنے دودھ پلوایا اور یہ دیکھ کر کہ بچہ اچھی طرح دودھ پیتا ہے ، بہت ہی خوش ہوئیں اور فرمانے لگیں کہ دائی اماں مجھے اس بچے سے وہ محبت ہے جو دنیا کی کسی اور چیز سے نہیں ، تم یہیں محل میں رہو اور اس بچے کی پرورش کرو ۔ لیکن موسیٰ علیہ السلام کی والدہ صاحبہ کے سامنے اللہ کا وعدہ تھا انہیں یقین کامل تھا اس لیے آپ ذرا رکیں اور فرمایا کہ یہ تو ناممکن ہے کہ میں اپنے گھر کو اور اپنے بچوں کو چھوڑ کر یہاں رہوں ۔ اگر آپ چاہتی ہیں تو یہ بچہ میرے سپرد کر دیں میں اسے اپنے گھر لے جاتی ہوں ان کی پرورش میں کوئی کوتاہی نہ کروں گی ۔ ملکہ صاحبہ نے مجبوراً اس بات کو بھی مان لیا اور آپ اسی دن خوشی خوشی اپنے بچے کو لیے ہوئے گھر آ گئیں ۔ اس بچے کی وجہ سے اس محلے کے بنو اسرائیل بھی فرعونی مظالم سے رہائی پا گئے ۔ جب کچھ زمانہ گزر گیا تو بادشاہ بیگم نے حکم بھیجا کہ کسی دن میرے بچے کو میرے پاس لاؤ ، ایک دن مقرر ہو گیا ، تمام ارکان سلطنت اور درباریوں کو حکم ہوا کہ آج میرا بچہ میرے پاس آئے گا ۔ تم سب قدم قدم پر اس کا استقبال کرو اور دھوم دھام سے نذریں دیتے ہوئے اسے میرے محل سرائے تک لاؤ ۔ چنانچہ جب سواری روانہ ہوئی ، وہاں سے لے کر محل سرائے سلطانی تک برابر تحفے تحائف نذریں اور ہدیے پیشکش ہوتے رہے اور بڑے ہی عزت و اکرام کے ساتھ آپ یہاں پہنچے تو خود بیگم نے بھی خوشی خوشی بہت بڑی رقم پیش کی اور بڑی خوشی منائی گئی ۔ پھر کہنے لگی کہ میں تو اسے بادشاہ کے پاس لے جاؤں گی ، وہ بھی اسے انعام و اکرام دیں گے ، لے گئیں اور بادشاہ کی گود میں لٹا دیا ۔ موسیٰ علیہ السلام نے اس کی داڑھی پکڑ کر زور سے گھسیٹی ۔ فرعون کھٹک گیا اور اس کے درباریوں نے کہنا شروع کیا کہ کیا عجب یہی وہ لڑکا ہو آپ اسے فوراً قتل کرا دیجئیے ۔ اے ابن جبیر یہ تھا چوتھا فتنہ ۔ ملکہ بیتاب ہو کر بول اٹھیں ، اے بادشاہ کیا ارادہ کر رہے ہو ؟ آپ اسے مجھے دے چکے ہیں میں اسے اپنا بیٹا بنا چکی ہوں ۔ بادشاہ نے کہا یہ سب ٹھیک ہے لیکن دیکھو تو اس نے تو آتے ہی داڑھی پکڑ کر مجھے نیچا کر دیا گویا یہی میرا گرانے والا اور مجھے تاخت و تاراج کرنے والا ہے ۔ بیگم صاحبہ نے فرمایا ، بادشاہ بچوں کو ان چیزوں کی کیا تمیز ؟ سنو میں ایک فیصلہ کن بات بتاؤں ، اس کے سامنے دو انگارے آگ کے سرخ رکھ دو اور دو موتی آبدار چمکتے ہوئے رکھ دو پھر دیکھو یہ کیا اٹھاتا ہے ؟ اگر موتی اٹھا لے تو سمجھنا کہ اس میں عقل ہے اور اگر آگ کے انگارے تھام لے تو سمجھ لینا کہ عقل نہیں ۔ جب عقل و تمیز نہیں تو اس کی داڑھی پکڑ لینے پر اتنے لمبے خیالات کر کے اس کی جان کا دشمن بن جانا کون سی دانائی کی بات ہے ؟ چنانچہ یہی کیا گیا دونوں چیزیں آپ کے سامنے رکھی گئیں ۔ آپ نے دہکتے ہوئے انگارے اٹھا لیے اسی وقت وہ چھین لیے کہ ایسا نہ ہو ہاتھ جل جائیں ۔ اب فرعون کا غصہ ٹھنڈا ہوا اور اس کا بدلا ہوا رخ ٹھیک ہو گیا ۔ حق تو یہ ہے کہ اللہ کو جو کام کرنا مقصود ہوتا ہے ، اس کے قدرتی اسباب مہیا ہو ہی جاتے ہیں ۔ موسیٰ علیہ السلام کی دربار فرعون میں فرعون کے خاص محل میں فرعون کی بیوی کی گود میں ہی پرورش ہوتی رہی ۔ یہاں تک کہ آپ اچھی عمر کو پہنچ گئے اور بالغ ہو گئے ۔ اب تو فرعونیوں کے جو مظالم اسرائیلیوں پر ہو رہے تھے ، ان میں بھی کمی ہو گئی تھی سب امن و امان سے تھے ۔ ایک دن موسیٰ علیہ السلام کہیں جا رہے تھے کہ راستے میں ایک فرعونی اور ایک اسرائیلی کی لڑائی ہو رہی تھی ۔ اسرائیلی نے موسیٰ علیہ السلام سے فریاد کی آپ کو سخت غصہ آیا اسلئے کہ اس وقت وہ فرعونی اس بنی اسرائیلی کو دبوچے ہوئے تھا ، آپ نے اسے ایک مکا مارا ، اللہ کی شان مکا لگتے ہی وہ مر گیا ۔ یہ تو لوگوں کو عموماً معلوم تھا کہ موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیلیوں کی طرف داری کرتے ہیں لیکن لوگ اس کی وجہ اب تک یہی سمجھتے تھے کہ چونکہ آپ نے انہی میں دودھ پیا ہے ، اس لیے ان کے طرفدار ہیں ۔ اصلی راز کا علم تو صرف آپ کی والدہ کو تھا اور ممکن ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے کلیم کو بھی معلوم کرا دیا ہو ۔ اسے مردہ دیکھتے ہی موسیٰ علیہ السلام کانپ اٹھے کہ یہ تو شیطانی حرکت ہے وہ بہکانے والا اور کھلا دشمن ہے ۔ پھر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنے لگے کہ باری تعالیٰ میں نے اپنی جان پر ظلم کیا تو معاف فرما ۔ پروردگار نے بھی آپ کی اس خطا سے درگزر فرما لیا وہ تو غفور و رحیم ہے ہی ۔ چونکہ قتل کا معاملہ تھا ، آپ پھر بھی خوفزدہ ہی رہے ، تاک جھانک میں رہے کہ کہیں معاملہ کھل تو نہیں گیا ۔ ادھر فرعون کے پاس شکایت ہوئی کہ ایک قبطی کو کسی بنی اسرائیلی نے مار ڈالا ہے ، فرعون نے حکم جاری کر دیا کہ واقعہ کی پوری تحقیق کرو قاتل کو تلاش کر کے پکڑ لاؤ اور گواہ بھی پیش کرو اور جرم ثابت ہو جانے کی صورت میں اسے بھی قتل کر دو ۔ پولیس نے ہر چند تفتیش کی لیکن قاتل کا کوئی سراغ نہ ملا ۔ اتفاق کی بات کہ دوسرے ہی دن موسیٰ علیہ السلام پھر کہیں جا رہے تھے کہ دیکھا وہی بنی اسرائیلی شخص ایک دوسرے فرعونی سے جھگڑ رہا ہے ۔ موسیٰ علیہ السلام کو دیکھتے ہی وہ دہائی دینے لگا لیکن اس نے یہ محسوس کیا کہ شاید موسیٰ علیہ السلام اپنے کل کے فعل سے نادم ہیں ۔ موسیٰ علیہ السلام کو بھی اس کا یہ باربار کا جھگڑنا اور فریاد کرنا برا معلوم ہوا اور کہا تم تو بڑے لڑاکا ہو ، یہ فرما کر اس فرعونی کو پکڑنا چاہا لیکن اس بنی اسرائیلی بزدل نے سمجھا کہ شاید آپ چونکہ مجھ پر ناراض ہیں مجھے ہی پکڑنا چاہتے ہیں ۔ حالانکہ اس کا یہ صرف بزدلانہ خیال تھا آپ تو اسی فرعونی کو پکڑنا چاہتے تھے اور اسے بچانا چاہتے تھے لیکن خوف و ہراس کی حالت میں بےساختہ اس کے منہ سے نکل گیا کہ موسیٰ [ علیہ السلام ] جیسے کہ کل تو نے ایک آدمی کو مار ڈالا تھا ، کیا آج مجھے مار ڈالنا چاہتا ہے ؟ یہ سن کر وہ فرعونی اسے چھوڑ بھاگا ، دوڑا گیا اور سرکاری سپاہ کو اس واقعہ کی خبر کر دی ۔ فرعون کو بھی قصہ معلوم ہوا ۔ اسی وقت جلادوں کو حکم دیا کہ موسیٰ } [ علیہ السلام ] کو پکڑ کر قتل کر دو ۔ یہ لوگ شارع عام سے آپ کی جستجو میں چلے ۔ ادھر ایک بنی اسرائیلی نے راستہ کاٹ کر نزدیک کے راستے سے آ کر موسیٰ علیہ السلام کو خبر کر دی ۔ اے ابن جبیر رحمہ اللہ یہ ہے پانچواں فتنہ ۔ موسیٰ علیہ السلام یہ سنتے ہی مٹھیاں بند کرکے مصر سے بھاگ کھڑے ہوئے ، نہ کبھی پیدل چلے تھے نہ کبھی کسی مصیبت میں پھنسے تھے ، شہزادوں کی طرح لاڈ چاؤ میں پلے تھے ، نہ راستے کی خبر تھی نہ کبھی سفر کا اتفاق پڑا تھا ۔ رب پر بھروسہ کر کے یہ دعا کر کے کہ اے اللہ مجھے سیدھی راہ لے چلنا ، چل کھڑے ہوئے یہاں تک کہ مدین کی حدود میں پہنچے ۔ یہاں دیکھا کہ لوگ اپنے جانوروں کو پانی پلا رہے ہیں وہیں دو لڑکیوں کو دیکھا کہ اپنے جانوروں کو روکے کھڑی ہیں ۔ پوچھا کہ تم ان کے ساتھ اپنے جانوروں کو پانی کیوں نہیں پلا لیتیں ؟ الگ کھڑی ہوئی انہیں کیوں روک رہی ہو ؟ انہوں نے جواب دیا کہ اس بھیڑ میں ہمارے بس کی بات نہیں کہ اپنے جانوروں کو پانی پلائیں ، ہم تو جب یہ لوگ پانی پلا چکتے ہیں ان کا بقیہ اپنے جانوروں کو پلا دیا کرتی ہیں ۔ آپ فوراً آگے بڑھے اور ان کے جانوروں کو پانی پلا دیا ۔ چونکہ بہت جلد پانی کھینچا ، آپ بہت قوی آدمی تھے ، سب سے پہلے ان کے جانوروں کو سیر کر دیا ۔ یہ اپنی بکریاں لے کر اپنے گھر روانہ ہوئیں اور آپ ایک درخت کے سائے تلے بیٹھ گئے اور اللہ سے دعا کرنے لگے کہ پروردگار میں تیری تمام تر مہربانیوں کا محتاج ہوں ۔ یہ دونوں لڑکیاں جب اپنے والد کے پاس پہنچیں تو انہوں نے کہا ، آج کیا بات ہے کہ تم وقت سے پہلے ہی آ گئیں ؟ اور بکریاں بھی خوب آسودہ اور شکم سیر معلوم ہوتی ہیں ۔ تو ان بچیوں نے سارا واقعہ کہہ سنایا آپ نے حکم دیا کہ تم میں سے ایک ابھی چلی جائے اور انہیں میرے پاس بلا لائے ۔ وہ آئیں اور موسیٰ علیہ السلام کو اپنے والد صاحب کے پاس لے گئیں ۔ انہوں نے سرسری ملاقات کے بعد واقعہ پوچھا تو آپ نے سارا قصہ کہہ سنایا ، اس پر وہ فرمانے لگے اب کوئی ڈر کی بات نہیں آپ ان ظالموں سے چھوٹ گئے ۔ ہم لوگ فرعون کی رعایا نہیں نہ ہم پر اس کا کوئی دباؤ ہے ۔ اسی وقت ایک لڑکی نے اپنے باپ سے کہا کہ ابا جی انہوں نے ہمارا کام کر دیا ہے اور یہ ہیں بھی قوت والے امانت دار شخص ، کیا اچھا ہو کہ آپ انہیں اپنے ہاں مقرر کر لیجئے کہ یہ اجرت پر ہماری بکریاں چرا لایا کریں ۔ باپ کو غیرت اور غصہ آ گیا اور پوچھا بیٹی تمہیں یہ کیسے معلوم ہو گیا کہ یہ قوی اور امین ہیں ؟ بچی نے جواب دیا کہ قوت تو اس وقت معلوم ہوئی جب انہوں نے ہماری بکریوں کے لیے پانی نکالا اتنے بڑے ڈول کو اکیلے ہی کھینچتے تھے اور بڑی پھرتی اور ہرپن سے ۔ امانت داری یوں معلوم ہوئی کہ میری آواز سن کر انہوں نے نظر اونچی کی اور جب یہ معلوم ہو گیا کہ میں عورت ہوں ، پھر نیچی گردن کر کے میری باتیں سنتے رہے ، واللہ ! آپ کا پورا پیغام پہنچانے تک انہوں نے نگاہ اونچی نہیں کی ۔ پھر مجھ سے فرمایا کہ تم میرے پیچھے رہو مجھے دور سے راستہ بتا دیا کرنا ۔ یہ بھی دلیل ہے ان کی اللہ خوفی اور امانت داری کی ۔ باپ کی غیرت و حمیت بھی رہ گئی ، بچی کی طرف سے بھی دل صاف ہو گیا اور موسیٰ علیہ السلام کی محبت دل میں سما گئی ۔ اب موسیٰ علیہ السلام سے فرمانے لگے ، میرا ارادہ ہے کہ اپنی ان دونوں لڑکیوں میں سے ایک کا نکاح آپ کے ساتھ کر دوں اس شرط پر کہ آپ آٹھ سال تک میرے ہاں کام کاج کرتے رہیں ، ہاں اگر دس سال تک کریں تو اور بھی اچھا ہے ، ان شاءاللہ آپ دیکھ لیں گے کہ میں بھلا آدمی ہوں ۔ چنانچہ یہ معاملہ طے ہو گیا اور اللہ کے پیغمبر علیہ السلام نے بجائے آٹھ سال کے دس سال پورے کئے ۔ سیدنا سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں پہلے مجھے یہ معلوم نہ تھا اور ایک نصرانی عالم مجھ سے یہ پوچھ بیٹھا تھا تو میں اسے کوئی جواب نہ دے سکا ، پھر جب میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا اور آپ نے جواب دیا تو میں نے اس سے ذکر کیا ، اس نے کہا تمہارے استاد بڑے عالم ہیں ۔ میں نے کہا ، ہاں ہیں ہی ۔ اب موسیٰ علیہ السلام اس مدت کو پوری کر کے اپنی اہلیہ صاحبہ کو لیے ہوئے یہاں سے چلے ۔ پھر وہ واقعات ہوئے جن کا ذکر ان آیتوں میں ہے ۔ آگ دیکھی ، گئے ، اللہ سے کلام کیا ، لکڑی کا اژدھا بننا ، ہاتھ کا نورانی بننا ملاحظہ کیا ، نبوت پائی ، فرعون کی طرف بھیجے گئے تو قتل کے واقعہ کے بدلے کا اندیشہ ظاہر فرمایا ۔ اس سے اطمینان حاصل کر کے زبان کی گرہ کشائی کی طلب کی ۔ اس کو حاصل کر کے اپنے بھائی ہارون کی ہمدردی اور شرکت کار چاہی ۔ یہ بھی حاصل کر کے لکڑی لیے ہوئے شاہ مصر کی طرف چلے ۔ ادھر ہارون علیہ السلام کے پاس وحی پہنچی کہ اپنے بھائی کی موافقت کریں اور ان کا ساتھ دیں ۔ دونوں بھائی ملے اور فرعون کے دربار میں پہنچے ۔ اطلاع کرائی بڑی دیر میں اجازت ملی ، اندر گئے ، فرعون پر ظاہر کیا کہ ہم اللہ کے رسول بن کر تیرے پاس آئے ہیں ۔ اب جو سوال جواب ہوئے وہ قرآن میں موجود ہیں ۔ فرعون نے کہا اچھا تم چاہتے کیا ہو ؟ اور واقعہ قتل یاد دلایا جس کا عذر موسیٰ علیہ السلام نے بیان کیا جو قرآن میں موجود ہے اور کہا ، ہمارا ارادہ یہ ہے کہ تو ایمان لا اور ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو اپنی غلامی سے رہائی دے ۔ اس نے انکار کیا اور کہا کہ اگر سچے ہو تو کوئی معجزہ دکھاؤ ، آپ نے اسی وقت اپنی لکڑی زمین پر ڈال دی وہ زمین پر پڑتے ہی ایک زبردست خوفناک اژدھے کی صورت میں منہ پھاڑے کچلیاں نکالے فرعون کی طرف لپکا ۔ مارے خوف کے فرعون تخت سے کود گیا اور بھاگتا ہوا عاجزی سے فریاد کرنے لگا کہ موسیٰ [ علیہ السلام ] اللہ کے واسطے اسے پکڑ لو ۔ آپ نے ہاتھ لگایا اسی وقت لاٹھی اپنی اصلی حالت میں آ گئی ۔ پھر آپ نے اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈال کر نکالا تو وہ بغیر کسی مرض کے داغ کے چمکتا ہوا نکلا جسے دیکھ کر وہ حیران ہو گیا ، آپ نے پھر ہاتھ ڈال کر نکالا تو وہ اپنی اصلی حالت میں تھا ۔ اب فرعون نے اپنے درباریوں کی طرف دیکھ کر کہا کہ تم نے دیکھا ، یہ دونوں جادوگر ہیں چاہتے ہیں کہ اپنے جادو کے زور سے تمہیں تمہارے ملک سے نکال باہر کریں اور تمہارے ملک پر قابض ہو کر تمہارے طریقے مٹا دیں ۔ پھر موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ ہمیں آپ کی نبوت ماننے سے بھی انکار ہے اور آپ کا کوئی مطالبہ بھی ہم پورا نہیں کر سکتے بلکہ ہم اپنے جادوگروں کو تمہارے مقابلہ کے لیے بلا رہے ہیں جو تمہارے اس جادو پر غالب آ جائیں گے ۔ چنانچہ یہ لوگ اپنی کوششوں میں مشغول ہو گئے ۔ تمام ملک سے جادوگروں کو بڑی عزت سے بلوایا جب سب جمع ہو گئے تو انہوں نے پوچھا کہ اس کا جادو کس قسم کا ہے ؟ فرعون والوں نے کہا لکڑی کا سانپ بنا دیتا ہے ۔ انہوں نے کہا ، اس میں کیا ہے ؟ ہم لکڑیوں کی رسیوں کے وہ سانپ بنائیں گے کہ روئے زمین پر ان کا کوئی مقابلہ نہ کر سکے ۔ لیکن ہمارے لیے انعام مقرر ہو جانا چاہیئے ۔ فرعون نے ان سے قول و قرار کیا کہ انعام کیسا ؟ میں تو تمہیں اپنا مقرب خاص اور درباری بنا لوں گا اور تمہیں نہال نہال کر دونگا جو مانگو گے پاؤ گے ۔ چنانچہ انہوں نے اعلان کر دیا کہ عید کے روز دن چڑھے فلاں میدان میں مقابلہ ہو گا ۔ مروی ہے کہ ان کی یہ عید عاشورا کے دن تھی ۔ اس دن تمام لوگ صبح ہی صبح اس میدان میں پہنچ گئے کہ آج چل کر دیکھیں گے کہ کون غالب آتا ہے ؟ ہم تو جادوگروں کے کمالات کے قائل ہیں وہی غالب آئیں گے اور ہم انہی کی مانیں گے ۔ مذاق سے اس بات کو بدل کر کہتے تھے کہ چلو انہی دونوں جادوگروں کے مطیع بن جائیں گے اگر وہ غالب رہیں ۔ میدان میں آ کر جادوگروں نے انبیاء اللہ علیہم السلام سے کہا کہ لو اب بتاؤ ، تم پہلے اپنا جادو ظاہر کرتے ہو یا ہم ہی شروع کریں ؟ آپ نے فرمایا تم ہی ابتداء کرو تاکہ تمہارے ارمان پورے ہوں ۔ اب انہوں نے اپنی لکڑیاں اور رسیاں میدان میں ڈالیں تو ایسا لگا کہ وہ سب سانپ اور بلائیں بن کر اللہ کے نبیوں کی طرف دوڑیں جس سے خوفزدہ ہو کر آپ پیچھے ہٹنے لگے ۔ اس وقت اللہ کی وحی آئی کہ آپ اپنی لکڑی زمین پر ڈال دیجئیے ، آپ نے ڈالدی ، وہ ایک خوفناک بھیانک عظیم الشان اژدھابن کر ان کی طرف دوڑا یہ لکڑیاں رسیاں سب گڈ مڈ ہو گئیں اور وہ ان سب کو نگل گیا ۔ جادوگر سمجھ گئے کہ یہ جادو نہیں یہ تو سچ مچ اللہ کیطرف کا نشان ہے ، جادو میں یہ بات کہاں ؟ چنانچہ سب نے اپنے ایمان کا اعلان کر دیا کہ ہم موسیٰ کے رب پر ایمان لائے اور ان دونوں بھائیوں کی نبوت ہمیں تسلیم ہے ۔ ہم اپنے گزشتہ گناہوں سے توبہ کرتے ہیں ۔ فرعون اور فرعونیوں کی کمر ٹوٹ گئی ، رسوا ہوئے ، منہ کالے پڑ گئے ، ذلت کے ساتھ خاموش ہو گئے ۔ خون کے گھونٹ پی کر چپ ہو گئے ۔ ادھر یہ ہو رہا تھا ۔ ادھر فرعون کی بیوی صاحبہ رضی اللہ عنہا جنہوں نے موسیٰ علیہ السلام کو اپنے سگے بچے کی طرح پالا تھا ، بیقرار بیٹھی تھیں اور اللہ سے دعائیں مانگ رہی تھیں کہ اللہ ذولجلال اپنے نبی کو غالب کرے ۔ فرعونیوں نے بھی اس حال کو دیکھا تھا لیکن انہوں نے خیال کیا کہ اپنے خاوند کی طرفداری میں ان کا یہ حال ہے ۔ یہاں سے ناکام واپس جانے پر فرعون نے بےایمانی پر کمر باندھ لی ۔ اللہ کی طرف سے موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں بہت سے نشانات ظاہر ہوئے ۔ جب کبھی کوئی پکڑ آ جاتی ، یہ گھبرا کر بلکہ گڑ گڑا کر وعدہ کرتا کہ اچھا اس مصیبت کے ہٹ جانے پر میں بنی اسرائیل کو تیرے ساتھ کر دونگا لیکن جب عذاب ہٹ جاتا پھر منکر بن کر سرکشی پر آ جاتا اور کہتا تیرا رب اس کے سوا کچھ اور بھی کر سکتا ہے ؟ چنانچہ ان پر طوفان آیا ، ٹڈیاں آئیں ، جوئیں آئیں ، مینڈک آئے ، خون آیا اور بھی بہت سی صاف صاف نشانیاں دیکھیں ۔ جہاں آفت آئی ، ڈرا وعدہ کیا ، جہاں وہ ٹل گئی ، مکر گیا اور اکڑ گیا ۔ اب اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا کہ بنی اسرائیل کو لے کر یہاں سے نکل جاؤ آپ راتوں رات انہیں لے کر روانہ ہو گئے ۔ صبح فرعونیوں نے دیکھا کہ رات کو سارے بنی اسرائیل چلے گئے ہیں ۔ انہوں نے فرعون سے کہا ۔ اس نے سارے ملک میں احکام بھیج کر ہر طرف سے فوجیں جمع کیں اور بہت بڑی جمعیت کے ساتھ ان کا پیچھا کیا ۔ راستے میں جو دریا پڑتا تھا اس کی طرف اللہ کی وحی پہنچی کہ تجھ پر جب میرے بندے موسیٰ علیہ السلام کی لکڑی پڑے تو تو انہیں راستہ دے دینا ۔ تجھ میں بارہ راستے ہو جائیں کہ بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے الگ الگ اپنی راہ لگ جائیں ۔ پھر جب یہ پار ہو جائیں اور فرعونی آ جائیں تو تو مل جانا اور ان میں سے ایک کو بھی بے ڈبوئے نہ چھوڑنا ۔ موسیٰ علیہ السلام جب دریا پر پہنچے دیکھا کہ وہ موجیں مار رہا ہے پانی چڑھا ہوا ہے شور اٹھ رہا ہے ، گھبرا گئے اور لکڑی مارنا بھول گئے ۔ دریا بیقرار یوں تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو اس کے کسی حصے پر موسیٰ علیہ السلام لکڑی مار دیں اور اسے خبر نہ ہو تو عذاب الٰہی میں بہ سبب اللہ کی نافرمانی کے پھنس جائے ۔ اتنے میں فرعون کا لشکر بنی اسرائیل کے سر پر جا پہنچا ، یہ گھبرا گئے اور کہنے لگے لو موسیٰ ہم تو پکڑ لیے گئے ۔ اب آپ وہ کیجئے جو اللہ کا آپ کو حکم ہے یقیناً نہ تو اللہ جھوٹا ہے نہ آپ ۔ آپ نے فرمایا مجھے سے تو یہ فرمایا گیا ہے کہ جب تو دریا پر پہنچے گا ، وہ تجھے بارہ راستے دیدے گا ، تو گزر جانا ۔ اسی وقت یاد آیا کہ لکڑی مارنے کا حکم ہوا ہے ، چنانچہ لکڑی ماری ۔ ادھر فرعونی لشکر کا اول حصہ بنی اسرائیل کے آخری حصے کے پاس آ چکا تھا کہ دریا خشک ہو گیا اور اس میں راستے نمایاں ہو گئے اور آپ اپنی قوم کو لیے ہوئے اس میں بیخطر اتر گئے اور با آرام جانے لگے ۔ جب یہ نکل چکے ، فرعونی سپاہ ان کے تعاقب میں دریا میں اتری ۔ جب یہ سارا لشکر اس میں اتر گیا تو فرمان الٰہی کے مطابق دریا رواں ہو گیا اور سب کو بیک وقت غرق کر دیا ۔ بنو اسرایئل اس واقعہ کو اپنی آنکھوں دیکھ رہے تھے تاہم انہوں نے کہا کہ اے رسول اللہ ! [ علیہ السلام ] ہمیں کیا خبر کہ فرعون بھی مرا یا نہیں ؟ آپ نے دعا کی اور دریا نے فرعون کی بے جان لاش کو کنارے پر پھینک دیا ۔ جسے دیکھ کر انہیں یقین کامل ہو گیا کہ ان کا دشمن مع اپنے لاؤ و لشکر کے تباہ ہو گیا ۔ فرعون سے نجات کے بعد بنی اسرائیل کی نافرمانیاں اب یہاں سے آگے چلے تو دیکھا کہ ایک قوم اپنے بتوں کی مجاور بن کر بیٹھی ہے تو کہنے لگے اے اللہ کے رسول ہمارے لئے بھی کوئی معبود ایسا ہی مقرر کر دیجئیے ۔ موسیٰ علیہ السلام نے ناراض ہو کر کہا کہ تم بڑے ہی جاہل لوگ ہو ، تم نے اتنی بڑی عبرتناک نشانیاں دیکھیں ۔ ایسے اہم واقعات سنے لیکن اب تک نہ عبرت ہے نہ غیرت ۔ یہاں سے آگے بڑھ کر ایک منزل پر آپ نے قیام کیا اور یہاں اپنے خلیفہ اپنے بھائی ہارون علیہ السلام کو بنا کر قوم سے فرمایا کہ میری واپسی تک ان کی فرمانبرداری کرتے رہنا میں اپنے رب کے پاس جا رہا ہوں ۔ تیس دن کا اس کا وعدہ ہے ۔ چنانچہ قوم سے الگ ہو کر وعدے کی جگہ پہنچ کر تیس دن رات کے روزے پورے کر کے اللہ سے باتیں کرنے کا دھیان پیدا ہوا لیکن یہ سمجھ کر کہ روزوں کی وجہ سے منہ سے بھبکا نکل رہا ہو گا ، تھوڑی سی گھاس لے کر آپ نے چبا لی ۔ اللہ تعالیٰ نے باوجود علم کے دریافت فرمایا کہ ایسا کیوں کیا ؟ آپ نے جواب دیا ، صرف اس لیے کہ تجھ سے باتیں کرتے وقت میرا منہ خوشبودار ہو ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ، کیا تجھے معلوم نہیں کہ روزہ دار کے منہ کی بو مجھے مشک و عنبر کی خوشبو سے زیادہ اچھی لگتی ہے ؟ اب تو دس روزے اور رکھ پھر مجھ سے کلام کرنا ۔ آپ نے روزے رکھنا شروع کر دیئے ۔ قوم پر تیس دن جب گزر گئے اور حسب وعدہ موسیٰ علیہ السلام نہ لوٹے تو وہ غمگین رہنے لگے ۔ ہارون علیہ السلام نے ان میں خطبہ کیا اور فرمایا کہ جب تم مصر سے چلے تھے تو قبطیوں کی رقمیں تم میں سے بعض پر ادھار تھیں اسی طرح ان کی امانتیں بھی تمہارے پاس رہ گئی ہیں ، یہ ہم انہیں واپس تو کرنے کے نہیں لیکن میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ وہ ہماری ملکیت میں رہیں ۔ اس لیے تم ایک گہرا گڑھا کھودو اور جو اسباب برتن بھانڈا زیور سونا چاندی وغیرہ ان کا تمہارے پاس ہے ، سب اس میں ڈالو پھر آگ لگا دو ۔ چنانچہ یہی کیا گیا ۔ ان کے ساتھ سامری نامی ایک شخص تھا ، یہ گائے بچھڑے پوجنے والوں میں سے تھا ، بنی اسرائیل میں سے نہ تھا لیکن بوجہ پڑوسی ہونے کے اور فرعون کی قوم میں سے نہ ہونے کے یہ بھی ان کے ساتھ وہاں سے نکل آیا تھا ، اس نے کسی نشان سے کچھ مٹھی میں اٹھا لیا تھا ۔ ہارون علیہ السلام نے فرمایا تو بھی اسے ڈال دے ، اس نے جواب دیا کہ یہ تو اس کے اثر سے ہے جو تمہیں دریا سے پار کرا لے گیا ۔ خیر میں اسے ڈال دیتا ہوں لیکن اس شرط پر کہ آپ اللہ سے دعا کریں کہ اس سے وہ بن جائے جو میں چاہتا ہوں ۔ آپ نے دعا کی اور اس نے اپنی مٹھی میں جو تھا اسے ڈال دیا اور کہا میں چاہتا ہوں اس کا ایک بچھڑا بن جائے ۔ قدرت الٰہی سے اس گڑھے میں جو تھا ، وہ ایک بچھڑے کی صورت میں ہو گیا جو اندر سے کھوکھلا تھا اس میں روح نہ تھی لیکن ہوا اس کے پیچھے کے سوراخ سے جا کر منہ سے نکلتی تھی اس سے ایک آواز پیدا ہوتی تھی ۔ بنو اسرائیل نے پوچھا سامری یہ کیا ہے ؟ اس بے ایمان نے کہا ، یہی تمہارا سب کا رب ہے لیکن موسیٰ علیہ السلام راستہ بھول گئے اور دوسری جگہ رب کی تلاش میں چلے گئے ۔ اس بات نے بنی اسرائیل کے کئی فرقے کر دیئے ۔ ایک فرقے نے تو کہا کہ موسیٰ علیہ السلام کے آنے تک ہم اس کی بابت کوئی بات طے نہیں کر سکتے ، ممکن ہے یہی اللہ ہو تو ہم اس کی بے ادبی کیوں کریں ؟ اور اگر یہ رب نہیں ہے تو موسیٰ علیہ السلام کے آتے ہی حقیقت کھل جائے گی ۔ دوسری جماعت نے کہا ، محض واہیات ہے یہ شیطانی حرکت ہے ہم اس لغویت پر مطلقاً ایمان نہیں رکھتے ، نہ یہ ہمارا رب نہ ہمارا اس پر ایمان ۔ ایک پاجی فرقے نے دل سے اسے مان لیا اور سامری کی بات پر ایمان لائے مگر بہ ظاہر اس کی بات کو جھٹلایا ۔ ہارون علیہ السلام نے اسی وقت سب کو جمع کر کے فرمایا کہ لوگو ! یہ اللہ کی طرف سے تمہاری آزمائش ہے تم اس جھگڑے میں کہاں پھنس گئے ؟ تمہارا رب تو رحمان ہے تم میری اتباع کرو اور میرا کہنا مانو ۔ انہوں نے کہا آخر اس کی کیا وجہ کہ تیس دن کا وعدہ کر کے موسیٰ علیہ السلام گئے ہیں اور آج چالیس دن ہونے کو آئے لیکن اب تک لوٹے نہیں ۔ بعض بیوقوفوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ ان سے ان کا رب خطا کر گیا اب یہ اس کی تلاش میں ہوں گے ۔ ادھر دس روزے اور پورے ہونے کے بعد موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ سے ہمکلامی کا شرف حاصل ہوا ۔ آپ کو بتایا گیا کہ آپ کے بعد آپ کی قوم کا اس وقت کیا حال ہے ؟ آپ اسی وقت رنج و افسوس اور غم و غصے کے ساتھ واپس لوٹے اور یہاں آ کر قوم سے بہت کچھ کہا سنا ، اپنے بھائی کے سر کے بال پکڑ کر گھسیٹنے لگے ۔ غصے کی زیادتی کی وجہ سے تختیاں بھی ہاتھ سے پھینک دیں ۔ پھر اصل حقیقت معلوم ہو جانے پر آپ نے اپنے بھائی سے معذرت کی ، ان کے لیے استغفار کیا ۔ اور سامری کی طرف متوجہ ہو کر فرمانے لگے کہ تو نے ایسا کیوں کیا ؟ اس نے جواب دیا کہ اللہ کے بھیجے ہوئے کے پاؤں تلے سے میں نے ایک مٹھی اٹھالی یہ لوگ اسے نہ پہچان سکے اور میں نے جان لیا تھا ۔ میں نے وہی مٹھی اس آگ میں ڈال دی تھی میری رائے میں یہی بات آئی ۔ آپ نے فرمایا ، جا اس کی سزا دنیا میں تو یہ ہے کہ تو یہی کہتا رہے کہ “ہاتھ لگانا نہیں “ پھر ایک وعدے کا وقت ہے جس کا ٹلنا ناممکن ہے اور تیرے دیکھتے دیکھتے ہم تیرے اس معبود کو جلا کر اس کی خاک بھی دریا میں بہا دیں گے ۔ چنانچہ آپ نے یہی کیا ۔ اس وقت بنی اسرائیل کو یقین آ گیا کہ واقعی وہ اللہ نہ تھا ۔ اب وہ بڑے نادم ہوئے اور سوائے ان مسلمانوں کے جو ہارون علیہ السلام کے ہم عقیدہ رہے تھے ، باقی کے لوگوں نے عذر معذرت کی اور کہا کہ اے اللہ کے نبی ! اللہ سے دعا کیجئے کہ وہ ہمارے لیے توبہ کا دروازہ کھول دے ، جو وہ فرمائے گا ہم بجا لائیں گے تاکہ ہماری یہ زبردست خطا معاف ہو جائے ۔ آپ نے بنی اسرائیل کے اس گروہ میں سے ستر لوگوں کو چھانٹ کر علیحدہ کیا اور توبہ کے لیے چلے ، وہاں زمین پھٹ گئی اور آپ کے سب ساتھی اس میں اتار دیئے گئے ۔ موسیٰ علیہ السلام کو فکر لاحق ہوا کہ میں بنی اسرائیل کو کیا منہ دکھاؤں گا ؟ گریہ و زاری شروع کی اور دعا کی کہ اے اللہ ! اگر تو چاہتا تو اس سے پہلے ہی مجھے اور ان سب کو ہلاک کر دیتا ، ہمارے بیوقوفوں کے گناہ کے بدلے تو ہمیں ہلاک نہ کر ۔ آپ تو ان کے ظاہر کو دیکھ رہے تھے اور اللہ کی نظریں ان کے باطن پر تھیں ۔ ان میں ایسے بھی تھے جو بہ ظاہر مسلمان بنے ہوئے تھے لیکن دراصل دلی عقیدہ ان کا اس بچھڑے کے رب ہونے پر تھا ۔ ان ہی منافقین کی وجہ سے سب کو تہ زمین کر دیا گیا تھا ۔ نبی اللہ علیہ السلام کی اس آہ و زاری پر رحمت الٰہی جوش میں آئی اور جواب ملا کہ یوں تو میری رحمت سب پر چھائے ہوئے ہے لیکن میں اسے ان کے نام ہبہ کروں گا جو متقی پرہیزگار ہوں ، زکوٰۃ کے ادا کرنے والے ہوں ، میری باتوں پر ایمان لائیں اور میرے اس رسول و نبی کی اتباع کریں جس کے اوصاف وہ اپنی کتابوں میں لکھے پاتے ہیں یعنی توراۃ و انجیل میں ۔ کلیم اللہ علیہ السلام نے عرض کی کہ یا الٰہی میں نے اپنی قوم کے لیے توبہ طلب کی ، تو نے جواب دیا کہ تو اپنی رحمت کو ان کے ساتھ کر دے گا جو آگے آنے والے ہیں ، پھر اللہ مجھے بھی تو اپنے اسی رحمت والے نبی کی امت میں پیدا کرتا ۔ رب العالمین نے فرمایا ، سنو ان کی توبہ اس وقت قبول ہو گی کہ یہ لوگ آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرنا شروع کر دیں ، نہ باپ بیٹے کو دیکھے نہ بیٹا باپ کو چھوڑے ، آپس میں گتھ جائیں اور ایک دوسرے کو قتل کرنا شروع کر دیں ۔ چنانچہ بنو اسرائیل نے یہی کیا اور جو منافق لوگ تھے ، انہوں نے بھی سچے دل سے توبہ کی ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی ، جو بچ گئے تھے وہ بھی بخشے گئے ، جو قتل ہوئے وہ بھی بخش دیئے گئے ۔ موسیٰ علیہ السلام اب یہاں سے بیت المقدس کی طرف چلے ۔ توراۃ کی تختیاں اپنے ساتھ لیں اور انہیں احکام الٰہی سنائے جو ان پر بہت بھاری پڑے اور انہوں نے صاف انکار کر دیا ۔ چنانچہ ایک پہاڑ ان کے سروں پر معلق کھڑا کر دیا گیا ، وہ مثل سائبان کے سروں پر تھا اور ہر دم ڈر تھا کہ اب گرا ، انہوں نے اب اقرار کیا اور تورات قبول کر لی پہاڑ ہٹ گیا ۔ اس پاک زمین پر پہنچے جہاں کلیم اللہ علیہ السلام انہیں لے جانا چاہتے تھے ، دیکھا کہ وہاں ایک بڑی طاقتور زبردست قوم کا قبضہ ہے ۔ تو موسیٰ علیہ السلام کے سامنے نہایت نامردی سے کہا کہ یہاں تو بڑی زور آور قوم ہے ، ہم میں ان کے مقابلہ کی طاقت نہیں ، یہ نکل جائیں تو ہم شہر میں داخل ہو سکتے ہیں ۔ یہ تو یونہی نامردی اور بزدلی ظاہر کرتے رہے ۔ ادھر اللہ تعالیٰ نے ان سرکشوں میں سے دو شخصوں کو ہدایت دے دی ، وہ شہر سے نکل کر موسیٰ علیہ السلام کی قوم میں آ ملے اور انہیں سمجھانے لگے کہ تم ان کے جسموں اور تعداد سے مرعوب نہ ہو جاؤ ، یہ لوگ بہادر نہیں ان کے دل گردے کمزور ہیں ، تم آگے تو بڑھو ۔ ان کے شہر کے دروازے میں گئے اور ان کے ہاتھ پاؤں ڈھیلے ہوئے ، یقیناً تم ان پر غالب آ جاؤ گے ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ دونوں شخص جنہوں نے بنی اسرائیل کو سمجھایا اور انہیں دلیر بنایا ، خود بنی اسرایئل میں سے ہی تھے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ لیکن ان کے سمجھانے بجھانے ، اللہ کے حکم ہو جانے اور موسیٰ علیہ السلام کے وعدے نے بھی ان پر کوئی اثر نہ کیا بلکہ انہوں نے صاف کورا جواب دے دیا کہ جب تک یہ لوگ شہر میں ہیں ، ہم تو یہاں سے اٹھنے کے بھی نہیں ، موسیٰ علیہ السلام تو آپ اپنے رب کو اپنے ساتھ لے کر چلا جا اور ان سے لڑ بھڑ لے ، ہم یہاں بیٹھے ہوئے ہیں ۔ اب تو موسیٰ علیہ السلام سے صبر نہ ہو سکا ، آپ کے منہ سے ان بزدلوں اور ناقدروں کے حق میں بد دعا نکل گئی اور آپ نے ان کا نام فاسق رکھ دیا ۔ اللہ کی طرف سے بھی ان کا یہی نام مقرر ہو گیا اور انہیں اسی میدان میں قدرتی طور پر قید کر دیا گیا ۔ چالیس سال انہیں یہیں گزر گئے کہیں قرار نہ تھا ، اسی بیاباں میں پریشانی کے ساتھ بھٹکتے پھرتے تھے ۔ اسی میدان قید میں ان پر ابر کا سایہ کر دیا گیا اور من و سلویٰ اتار دیا گیا ، کپڑے نہ پھٹتے تھے نہ میلے ہوتے تھے ۔ ایک چوکونہ پتھر رکھا ہوا تھا جس پر موسیٰ علیہ السلام نے لکڑی ماری تو اس میں سے بارہ نہریں جاری ہو گئیں ، ہر طرف سے تین تین لوگ چلتے چلتے آگے بڑھ جاتے ، تھک کر قیام کر دیتے ، صبح اٹھتے تو دیکھتے کہ وہ پتھر وہیں ہے جہاں کل تھا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس حدیث کو مرفوع بیان کیا ہے ۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے جب یہ روایت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنی تو فرمایا کہ اس فرعونی نے موسیٰ علیہ السلام کے اگلے دن کے قتل کی خبر رسانی کی تھی یہ بات سمجھ میں نہیں آتی ۔ کیونکہ قبطی کے قتل کے وقت سوائے اس بنی اسرایئلی ایک شخص کے جو قبطی سے لڑ رہا تھا ، وہاں کوئی اور نہ تھا ۔ اس پر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بہت بگڑے اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا ہاتھ تھام کر سیدنا سعد بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس لے گئے اور ان سے کہا ، آپ کو یاد ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے اس شخص کا حال بیان فرمایا تھا جس نے موسیٰ کے قتل کے راز کو کھولا تھا ، بتاؤ وہ بنی اسرائیلی شخص تھا یا فرعونی ؟ سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا ، بنی اسرائیلی سے اس فرعونی نے سنا ، پھر اس نے جا کر حکومت سے کہا اور خود اس کا شاہد بنا ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:24131:ضعیف) یہی روایت اور کتابوں میں بھی ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے اپنے کلام سے بہت تھوڑا سا حصہ مرفوع بیان کیا گیا ہے ۔ بہت ممکن ہے کہ آپ نے بنو اسرائیل میں سے کسی سے یہ روایت لی ہو کیونکہ ان سے روایتیں لینا مباح ہیں ۔ یا تو آپ نے سیدنا کعب احبار رضی اللہ عنہ سے ہی یہ روایت سنی ہو گی اور ممکن ہے کسی اور سے سنی ہو ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ میں نے اپنے استاد شیخ حافظ ابو الحجاج مزی علیہ السلام سے بھی یہی سنا ہے ۔ طه
37 طه
38 طه
39 طه
40 طه
41 موسیٰ علیہ السلام فرار کے بعد موسیٰ علیہ السلام سے جناب باری عزوجل فرما رہا ہے کہ تم فرعون سے بھاگ کر مدین پہنچے ، یہاں سسرال مل گئے اور شرط کے مطابق ان کی بکریاں برسوں تک چراتے رہے ۔ پھر اللہ تعالیٰ کے اندازے اور اس کے مقررہ وقت پر تم اس کے پاس پہنچے ۔ اس رب کی کوئی چاہت ناکام نہیں رہتی ، کوئی فرمان نہیں ٹوٹتا ، اس کے وعدے کے مطابق اس کے مقررہ وقت پر تمہارا اس کے پاس پہنچنا لازمی امر تھا ۔ یہ بھی مطلب ہے کہ تم اپنی قدر و عزت کو پہنچے یعنی رسالت و نبوت ملی ۔ میں نے تمہیں اپنا برگزیدہ پیغمبر بنا لیا ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے ، { آدم علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام کی ملاقات ہوئی تو موسیٰ علیہ السلام نے کہا ، آپ نے تو لوگوں کو مشقت میں ڈال دیا انہیں جنت سے نکال دیا ۔ آدم علیہ السلام نے فرمایا ، آپ کو اللہ نے اپنی رسالت سے ممتاز فرمایا اور اپنے لیے پسند فرمایا اور تورات عطافرمائی ، کیا اس میں آپ نے یہ نہیں پڑھا کہ میری پیدائش سے پہلے یہ سب مقدر ہو چکا تھا ؟ کہاں ہاں ۔ الغرض آدم علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام پر دلیل میں غلبہ پا گئے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:4736) میری دی ہوئی دلیل اور معجزے لے کر تو اور تیرا بھائی دونوں فرعون کے پاس جاؤ ۔ میری یاد میں غفلت نہ کرنا تھک کر بیٹھ نہ رہنا ۔ چنانچہ فرعون کے سامنے دونوں ذکر اللہ میں لگے رہتے تاکہ اللہ کی مدد ان کا ساتھ دے ، انہیں قوی اور مضبوط بنا دے اور فرعون کی شان و شوکت ٹال دے ۔ چنانچہ حدیث شریف میں بھی ہے کہ { میرا پورا اور سچا بندہ وہ ہے جو پوری عمر میری یاد کرتا رہے ۔ } ۱؎ (سنن ترمذی:3580،قال الشیخ الألبانی:ضیف) فرعون کے پاس تم میرا پیغام لے کر پہنچو ۔ اس نے بہت سر اٹھا رکھا ہے ، اللہ کی نافرمانیوں پر دلیر ہو گیا ہے ، بہت پھول گیا ہے اور اپنے خالق و مالک کو بھول گیا ہے ۔ اس سے گفتگو نرم کرنا ۔ دیکھو فرعون کس قدر برا ہے ۔ موسیٰ کس قدر بھلے ہیں لیکن حکم یہ ہو رہا ہے کہ نرمی سے سمجھانا ۔ یزید قاشی رحمہ اللہ اس آیت کو پڑھ کر فرماتے «یَاَمَنْ یتَّجَبَّبُ اِلٰی مِنْ یٰعَادِیْہِ -فَکَیفَ مَن یَّتَوَلاَہُ وَیُنَادِیْہِ» یعنی اے وہ اللہ ! جو دشمنوں سے بھی محبت اور نرمی کرتا ہے ۔ تیرا کیسا کچھ پاکیزہ برتاؤ ہو گا ، اس کے ساتھ جو تجھ سے محبت کرتا ہو اور تجھے پکارا کرتا ہو ۔ وہب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نرم گفتگو کرنے سے مراد یہ ہے کہ اسے کہنا کہ میرے غضب و غصے سے میری مغفرت و رحمت بہت بڑھی ہوئی ہے ۔ عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں نرم بات کہنے سے مراد اللہ کی وحدانیت کی طرف دعوت دینا ہے کہ وہ«لَا إِلَہ إِلَّا اللَّہ» کا قائل ہو جائے ۔ حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں ، اس سے کہنا کہ تیرا رب ہے ، تجھے مر کر اللہ کے وعدے پر پہنچنا ہے جہاں جنت دوزخ دونوں ہیں ۔ سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں اسے میرے دروازے پر لا کھڑا کرو ۔ الغرض تم اس سے نرمی اور آرام سے گفتگو کرنا تاکہ اس کے دل میں تمہاری باتیں بیٹھ جائیں ۔ جیسے فرمان الٰہی ہے « ادْعُ إِلَیٰ سَبِیلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ ۖ وَجَادِلْہُم بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ ۚ إِنَّ رَبَّکَ ہُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِیلِہِ ۖ وَہُوَ أَعْلَمُ بِالْمُہْتَدِینَ» ۱؎ (16-النحل:125) یعنی اپنے رب کی راہ کی دعوت انہیں حکمت اور اچھے وعظ سے دے اور انہیں بہترین طریقے سے سمجھا بجھا دے تاکہ وہ سمجھ لے اور اپنی ضلالت و ہلاکت سے ہٹ جائے یا اپنے اللہ سے ڈرنے لگے اور اس کی اطاعت و عبادت کی طرف متوجہ ہو جائے ۔ جیسے فرمان ہے ، «مَنْ أَرَادَ أَن یَذَّکَّرَ أَوْ أَرَادَ شُکُورًا» ۱؎ (25-الفرقان:62) ’ یہ نصیحت اس کے لیے ہے جو عبرت حاصل کر لے یا شکر گزار بن جائے ۔ ‘ پس عبرت حاصل کرنے سے مراد برائیوں سے اور خوف کی چیز سے ہٹ جانا اور ڈر سے مراد اطاعت کی طرف مائل ہو جانا ہے ۔ حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں ، اس کی ہلاکت کی دعا نہ کرنا جب تک کہ اس کے تمام عذر ختم نہ ہو جائیں ۔ زید بن عمرو بن نفیل کے یا امیہ بن ابی صلت کے شعروں میں ہے کہ اے اللہ ! تو وہ ہے جس نے اپنے فضل و کرم سے موسیٰ علیہ السلام کو یہ کہہ کر باغی فرعون کی طرف بھیجا کہ اس سے پوچھو تو کہ کیا اس آسمان کو بےستون کے تو نے تھام رکھا ہے اور تو نے ہی اسے بنایا ہے ؟ اور کیا تو نے ہی اس کے درمیان روشن سورج کو چڑھایا ہے جو اندھیرے کو اجالے سے بدل دیتا ہے ، ادھر صبح کے وقت وہ نکلا ادھر دنیا سے ظلمت دور ہوئی ۔ بھلا بتلا تو کہ مٹی میں سے دانے نکالنے والا کون ہے ؟ اور اس میں بالیاں پیدا کرنے والا کون ہے ؟ کیا ان تمام نشانیوں سے بھی تو اللہ کو نہیں پہچان سکتا ؟ طه
42 طه
43 طه
44 طه
45 اللہ کے سامنے اظہار بےبسی اللہ کے ان دونوں رسولوں علیہم السلام نے اللہ کی پناہ طلب کرتے ہوئے اپنی کمزوری کی شکایت رب کے سامنے کی کہ ہمیں خوف ہے کہ فرعون کہیں ہم پر کوئی ظلم نہ کرے اور بدسلوکی سے پیش نہ آئے ۔ ہماری آواز کو دبانے کے لیے جلدی سے ہمیں کسی مصیبت میں مبتلا نہ کر دے اور ہمارے ساتھ ناانصافی سے پیش نہ آئے ۔ رب العالمین کی طرف سے ان کی تشفی کر دی گئی ۔ ارشاد ہوا کہ اس کا کچھ خوف نہ کھاؤ ، میں خود تمہارے ساتھ ہوں اور تمہاری اور اس کی بات چیت سنتا رہوں گا اور تمہارا حال دیکھتا رہوں گا ۔ کوئی بات مجھ پر مخفی نہیں رہ سکتی ۔ اس کی چوٹی میرے ہاتھ میں ہے ، وہ بغیر میری اجازت کے سانس بھی تو نہیں لے سکتا ۔ میرے قبضے سے کبھی باہر نہیں نکل سکتا ۔ میری حفاظت و نصرت ، تائید و مدد تمہارے ساتھ ہے ۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ، موسیٰ علیہ السلام نے جناب باری میں دعا کی کہ مجھے وہ دعا تعلیم فرمائی جائے جو میں فرعون کے پاس جاتے ہوئے پڑھ لیا کروں تو اللہ تعالیٰ نے یہ دعا تعلیم فرمائی ۔ « ہَیَّا شراہیا» جس کے معنی عربی میں « أَنَا الْحَیّ قَبْل کُلّ شَیْء وَالْحَیّ بَعْد کُلّ شَیْء » ’ یعنی میں ہی ہوں سب سے پہلے زندہ اور سب سے بعد بھی زندہ ۔ ‘ ۱؎ (الدر المنثور للسیوطی:537/4:ضعیف) پھر انہیں بتلایا گیا کہ یہ فرعون کو کیا کہیں ؟ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ، یہ گئے دروازے پر ٹھہرے ، اجازت مانگی ، بڑی دیر کے بعد اجازت ملی ۔ محمد بن اسحاق رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ دونوں پیغمبر دو سال تک روزانہ صبح شام فرعون کے ہاں جاتے رہے ، دربانوں سے کہتے رہے کہ ہم دونوں پیغمبروں کی آمد کی خبر بادشاہ سے کرو ۔ لیکن فرعون کے ڈر کے مارے کسی نے خبر نہ کی ۔ دو سال کے بعد ایک روز اس کے ایک بے تکلف دوست نے جو بادشاہ سے ہنسی دل لگی بھی کر لیا کرتا تھا ، کہا کہ آپ کے دروازے پر ایک شخص کھڑا ہے اور ایک عجیب مزے کی بات کہہ رہا ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ آپ کے سوا اس کا کوئی اور رب ہے اور اس کے رب نے اسے آپ کی طرف اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے ۔ اس نے کہا ، کیا میرے دروازے پر وہ ہے ؟ اس نے کہا ہاں ۔ حکم دیا کہ اندر بلا لو ۔ چنانچہ آدمی گیا اور دونوں پیغمبر دربار میں آئے ۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا ، میں رب العالمین کا رسول ہوں ، فرعون نے آپ کو پہچان لیا کہ یہ تو موسیٰ [ علیہ السلام ] ہے ۔ سدی رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ آپ مصر میں اپنے ہی گھر ٹھہرے تھے ۔ ماں نے اور بھائی نے پہلے تو آپ کو پہچانا نہیں ، گھر میں جو پکا تھا وہ مہمان سمجھ کر ان کے پاس لا رکھا ۔ اس کے بعد پہچانا سلام کیا ۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا اللہ کا مجھے حکم ہوا ہے کہ میں اس بادشاہ کو اللہ کی طرف بلاؤں اور تمہاری نسبت فرمان ہوا ہے کہ تم میری تائید کرو ۔ ہارون علیہ السلام نے فرمایا پھر بسم اللہ کیجئے ۔ رات کو دونوں صاحب بادشاہ کے ہاں گئے ، موسیٰ علیہ السلام نے اپنی لکڑی سے کواڑ کھٹکھٹائے ۔ فرعون آگ بگولا ہو گیا کہ اتنا بڑا دلیر آدمی کون آ گیا ؟ جو یوں بےساختہ دربار کے آداب کے خلاف اپنی لکڑی سے مجھے ہوشیار کر رہا ہے ؟ درباریوں نے کہا ، کچھ نہیں ، یونہی ایک مجنوں آدمی ہے ، کہتا پھرتا ہے کہ میں رسول ہوں ۔ فرعون نے حکم دیا کہ اسے میرے سامنے پیش کرو ۔ چنانچہ ہارون علیہ السلام کو لیے ہوئے آپ اس کے پاس گئے ۔ اور اس سے فرمایا کہ ہم اللہ کے رسول ہیں تو ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو بھیج دے انہیں سزائیں نہ کر ۔ ہم رب العالمین کیطرف سے اپنی رسالت کی دلیلیں اور معجزے لے کر آئے ہیں ، اگر توہماری بات مان لے تو تجھ پر اللہ کی طرف سے سلامتی نازل ہو گی ۔ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی جو خط شاہ روم ہرقل کے نام لکھا تھا ، اس میں «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» کے بعد یہ مضمون تھا کہ یہ خط محمد رسول اللہ کی طرف سے شاہ روم ہرقل کے نام ہے ، جو ہدایت کی پیروی کرے اس پر سلام ہو ۔ اس کے بعد یہ کہ تم اسلام قبول کر لو تو سلامت رہو گے اللہ تعالیٰ دوہرا اجر عنایت فرمائے گا ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:7) مسیلمہ کذاب نے صادق و مصدوق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک خط لکھا تھا جس میں تحریر تھا کہ یہ خط اللہ کے رسول مسیلمہ کی جانب سے اللہ کے رسول محمد [ صلی اللہ علیہ وسلم ] کے نام ، آپ پر سلام ہو ، میں نے آپ کو شریک کار کر لیا ہے شہری آپ کے لیے اور دیہاتی میرے لیے ۔ یہ قریشی تو بڑے ہی ظالم لوگ ہیں ۔ اس کے جواب میں { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے لکھا کہ یہ محمد رسول اللہ [ صلی اللہ علیہ وسلم ] کی طرف سے مسیلمہ کذاب کے نام ہے ۔ سلام ہو ان پر جو ہدایت کی تابعداری کریں ۔ سن لے ، زمین اللہ کی ملکیت ہے وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے اس کا وارث بناتا ہے ، انجام کے لحاظ سے بھلے لوگ وہ ہیں جن کے دل خوف الٰہی سے پر ہوں ۔ } ۱؎ (سیرۃ ابن ھشام:600/2:ضعیف) الغرض رسول اللہ کلیم اللہ موسیٰ علیہ السلام نے بھی فرعون سے یہی کہا کہ سلام ان پر ہے جو ہدایت کے پیرو ہوں ۔ پھر فرماتا ہے کہ ہمیں بذریعہ وحی الٰہی یہ بات معلوم کرائی گئی ہے کہ عذاب کے لائق صرف وہی لوگ ہیں جو اللہ کے کلام کو جھٹلائیں اور اللہ کی باتوں کے ماننے سے انکار کر جائیں ۔ جیسے ارشاد ہے «فَأَمَّا مَن طَغَیٰ وَآثَرَ الْحَیَاۃَ الدٰنْیَا فَإِنَّ الْجَحِیمَ ہِیَ الْمَأْوَیٰ» ۱؎ (79-النازعات:37-39) ’ جو شخص سرکشی کرے اور دنیا کی زندگانی پر مر مٹ کر اسی کو پسند کر لے ، اس کا آخری ٹھکانا جہنم ہی ہے ۔ ‘ اور آیتوں میں ہے کہ«فَأَنذَرْتُکُمْ نَارًا تَلَظَّیٰ لَا یَصْلَاہَا إِلَّا الْأَشْقَی الَّذِی کَذَّبَ وَتَوَلَّیٰ » ۱؎ (92-اللیل:14-16) ’ میں تمہیں شعلے مارنے والی آگ جہنم سے ڈرا رہا ہوں جس میں صرف وہ بدبخت داخل ہوں گے جو جھٹلائیں اور منہ موڑ لیں ۔ ‘ اور آیتوں میں ہے کہ«فَلَا صَدَّقَ وَلَا صَلَّیٰ وَلٰکِن کَذَّبَ وَتَوَلَّیٰ » ۱؎ (75-القیامۃ:31-32) ’ اس نے نہ تو مانا نہ نماز ادا کی بلکہ دل سے منکر رہا اور کام فرمان کے خلاف کئے ۔ ‘ طه
46 طه
47 طه
48 طه
49 مکالمات موسیٰ علیہ السلام اور فرعون چونکہ یہ ناہنجار یعنی فرعون مصر وجود باری تعالیٰ کا منکر تھا ، پیغام الٰہی کلیم اللہ علیہ السلام کی زبانی سن کر وجود خالق کے انکار کے طور پر سوال کرنے لگا کہ تمہارا بھیجنے والا اور تمہارا رب کون ہے ؟ میں تو اسے نہیں جانتا نہ اسے مانتا ہوں ۔ بلکہ میری دانست میں تو تم سب کا رب میرے سوا اور کوئی نہیں ۔ اللہ کے سچے رسول علیہ السلام نے جواب دیا کہ ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر شخص کو اس کا جوڑا عطا فرمایا ہے ۔ انسان کو بصورت انسان ، گدھے کو اس کی صورت پر ، بکری کو ایک علیحدہ صورت پر پیدا فرمایا ہے ۔ ہر ایک کو اس کی مخصوص صورت میں بنایا ہے ۔ ہر ایک کی پیدائش نرالی شان سے درست کر دی ہے ۔ انسانی پیدائش کا طریقہ الگ ہے ، چوپائے الگ صورت میں ہیں ، درندے الگ وضع میں ہیں ۔ ہر ایک کے جوڑے کی ہئیت ترکیبی علیحدہ ہے ۔ کھانا پینا ، کھانے پینے کی چیزیں ، جوڑے سب الگ الگ اور ممتاز و مخصوص ہیں ۔ ہر ایک کا انداز مقرر کر کے پھر اس کی ترکیب اسے بتلا دی ہے ۔ عمل اجل ، رزق مقدر اور مقرر کر کے اسی پر لگا دیا ہے ۔ نظام کے ساتھ ساری مخلوق کا کارخانہ چل رہا ہے ۔ کوئی اس سے ادھر ادھر نہیں ہو سکتا ۔ خلق کا خالق ، تقدیروں کا مقرر کرنے والا ، اپنے ارادے پر مخلوق کی پیدائش کرنے والا ہی ہمارا رب ہے ۔ یہ سب سن کر اس بےسمجھ نے پوچھا کہ اچھا تو پھر ان کا کیا حال ہے جو ہم سے پہلے تھے اور اللہ کی عبادت کے منکر تھے ؟ اس سوال کو اس نے اہمیت کے ساتھ کیا ۔ لیکن اللہ کے پیغمبر علیہ السلام نے ایسا جواب دیا کہ عاجز ہو گیا ۔ فرمایا ان سب کا علم میرے رب کو ہے ۔ لوح محفوظ میں ان کے اعمال لکھے ہوئے ہیں ، جزا سزا کا دن مقرر ہے ۔ نہ وہ غلط کرے کہ کوئی چھوٹا بڑا اس کی پکڑ سے چھوٹ جائے ، نہ وہ بھولے کہ مجرم اس کی گرفت سے رہ جائیں ۔ اس کا علم تمام چیزوں کو اپنے میں گھیرے ہوئے ہے ۔ اس کی ذات بھول چوک سے پاک ہے ۔ نہ اس کے علم سے کوئی چیز باہر ، نہ علم کے بعد بھول جانے کا اس کا وصف ، وہ کمی علم کے نقصان سے ، وہ بھول کے نقصان سے پاک ہے ۔ طه
50 طه
51 طه
52 طه
53 اللہ رب العزت کا تعارف موسیٰ علیہ السلام فرعون کے سوال کے جواب میں اوصاف الٰہی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اسی اللہ نے زمین کو لوگوں کے لیے فرش بنایا ہے ۔ «مَہْدًا» کی دوسری قرأت «مھَادًا» ہے ۔ زمین کو اللہ تعالیٰ نے بطور فرش کے بنا دیا ہے کہ تم اس پر قرار کئے ہوئے ہو ، اسی پر سوتے بیٹھتے رہتے سہتے ہو ۔ «وَجَعَلْنَا فِیہَا فِجَاجًا سُبُلًا لَّعَلَّہُمْ یَہْتَدُونَ» ۱؎ (21-الأنبیاء:31) ’ اس نے زمین میں تمہارے چلنے پھرنے اور سفر کرنے کے لیے راہیں بنا دی ہیں تاکہ تم راستہ نہ بھولو ۔ ‘ اور منزل مقصود تک بہ آسانی پہنچ سکو ۔ وہی آسمان سے بارش برساتا ہے اور اس کی وجہ سے زمین سے ہر قسم کی پیداوار اگاتا ہے ۔ کھیتیاں ، باغات ، میوے ، قسم قسم کے ذائقے دار کہ تم خود کھا لو اور اپنے جانوروں کو چارہ بھی دو ۔ تمہارا کھانا اور میوے ، تمہارے جانوروں کا چارا ، خشک اور تر سب اسی سے اللہ تعالیٰ پیدا کرتا ہے ۔ جن کی عقلیں صحیح سالم ہیں ، ان کے لیے تو قدرت کی یہ تمام نشانیاں دلیل ہیں اللہ کی الوہیت ، اس کی وحدانیت اور اس کے وجود پر ۔ اسی زمین سے ہم نے تمہیں پیدا فرمایا ہے ، تمہاری ابتداء اسی سے ہے ۔ اس لیے کہ تمہارے باپ آدم علیہ السلام کی پیدائش اسی سے ہوئی ہے ۔ اسی میں تمہیں پھر لوٹنا ہے ، مر کر اسی میں دفن ہونا ہے ، اسی سے پھر قیامت کے دن کھڑے کئے جاؤ گے ۔ «یَوْمَ یَدْعُوکُمْ فَتَسْتَجِیبُونَ بِحَمْدِہِ وَتَظُنٰونَ إِن لَّبِثْتُمْ إِلَّا قَلِیلًا » ۱؎ (17-الإسراء:52) ’ ہماری پکار پر ہماری تعریفیں کرتے ہوئے اٹھو گے اور یقین کر لو گے کہ تم بہت ہی تھوڑی دیر رہے ۔ ‘ جیسے اور آیت میں ہے کہ «قَالَ فِیہَا تَحْیَوْنَ وَفِیہَا تَمُوتُونَ وَمِنْہَا تُخْرَجُونَ » ۱؎ (7-الأعراف:25) ’ اسی زمین پر تمہاری زندگی گزرے گی ، مر کر بھی اسی میں جاؤ گے ، پھر اسی میں سے نکالے جاؤ گے ۔‘ سنن کی حدیث میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک میت کے دفن کے بعد اس کی قبر پر مٹی ڈالتے ہوئے پہلی بار فرمایا « مِنْہَا خَلَقْنَاکُمْ » دوسری لپ ڈالتے ہوئے فرمایا « وَفِیہَا نُعِیدکُمْ» تیسری بار فرمایا « وَمِنْہَا نُخْرِجکُمْ تَارَۃ أُخْرَی» ۔ } الغرض فرعون کے سامنے دلیلیں آ چکیں ، اس نے معجزے اور نشان دیکھ لیے لیکن سب کا انکار اور تکذیب کرتا رہا ، کفر ، سرکشی ، ضد اور تکبر سے باز نہ آیا ۔ جیسے فرمان ہے«وَجَحَدُوا بِہَا وَاسْتَیْقَنَتْہَا أَنفُسُہُمْ ظُلْمًا وَعُلُوًّا ۚ فَانظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُفْسِدِینَ» ۱؎ (27-النمل:14) ’ یعنی باوجود یہ کہ ان کے دلوں میں یقین ہو چکا تھا لیکن تاہم ازراہ ظلم و زیادتی انکار سے باز نہ آئے ۔ ‘ طه
54 طه
55 طه
56 طه
57 فرعون کے ساحر اور موسیٰ علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام کا معجزہ لکڑی کا سانپ بن جانا ، ہاتھ کا روشن ہو جانا وغیرہ دیکھ کر فرعون نے کہا کہ یہ تو جادو ہے اور تو جادو کے زور سے ہمارا ملک چھیننا چاہتا ہے ۔ تو مغرور نہ ہو ۔ جا ہم بھی اس جادو میں تیرا مقابلہ کر سکتے ہیں ۔ دن اور جگہ مقرر ہو جائے اور مقابلہ ہو جائے ۔ ہم بھی اس دن اس جگہ آ جائیں اور تو بھی ، ایسا نہ ہو کہ کوئی نہ آئے ۔ کھلے میدان میں سب کے سامنے ہار جیت کھل جائے ۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا ، مجھے منظور ہے اور میرے خیال سے تو اس کے لیے تمہاری عید کا دن مناسب ہے ۔ کیونکہ وہ فرصت کا دن ہوتا ہے سب آ جائیں گے اور دیکھ کر حق و باطل میں تمیز کر لیں گے ۔ معجزے اور جادو کا فرق سب پر ظاہر ہو جائے گا ۔ وقت دن چڑھے کا رکھنا چاہیئے تاکہ جو کچھ میدان میں آئے سب دیکھ سکیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ان کی زینت اور عید کا دن عاشورے کا دن تھا ۔ یہ یاد رہے کہ انبیاء علیہ السلام ایسے موقعوں پر کبھی پیچھے نہیں رہتے ۔ ایسا کام کرتے ہیں جس سے حق صاف واضح ہو جائے اور ہر ایک پرکھ لے ۔ اسی لیے آپ نے ان کی عید کا دن مقرر کیا اور وقت دن چڑھے کا بتایا اور صاف ہموار میدان مقرر کیا کہ جہاں سے ہر ایک دیکھ سکے اور جو باتیں ہوں وہ بھی سن سکے وہب بن منبہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ فرعون نے مہلت چاہی ۔ موسیٰ علیہ السلام نے انکار کیا ، اس پر وحی اتری کہ مدت مقرر کر لو ۔ فرعون نے چالیس دن کی مہلت مانگی جو منظور کی گئی ۔ طه
58 طه
59 طه
60 مقابلہ اور نتیجہ جب کہ مقابلہ کی تاریخ مقرر ہو گئی ۔ دن وقت اور جگہ بھی مقرر ہو گئی تو فرعون نے ادھر ادھر سے جادوگروں کو جمع کرنا شروع کیا ۔ اس زمانے میں جادو کا بہت زور تھا اور بڑے بڑے جادوگر موجود تھے ۔ فرعون نے عام طور سے حکم جاری کر دیا تھا کہ تمام ہوشیار جادوگروں کو میرے پاس بھیج دو ۔ مقررہ وقت تک تمام جادوگر جمع ہو گئے ۔ فرعون نے اسی میدان میں اپنا تخت نکلوایا اس پر بیٹھا ۔ تمام امراء وزراء اپنی اپنی جگہ بیٹھ گئے ، رعایا سب جمع ہو گئی ، جادوگروں کی جماعت صفیں باندھے تخت کے آگے کھڑی ہو گئیں ۔ فرعون نے ان کی کمر ٹھونکنی شروع کی اور کہا ، دیکھو آج اپنا وہ ہنر دکھاؤ کہ دنیا میں یادگار رہ جائے ۔ جادوگروں نے کہا کہ اگر ہم بازی لے جائیں تو ہمیں کچھ انعام بھی ملے گا ؟ کہا کیوں نہیں ؟ میں تو تمہیں اپنا خاص درباری بنا لوں گا ۔ ادھر سے کلیم اللہ موسیٰ علیہ السلام نے انہیں تبلیغ شروع کی کہ دیکھو اللہ پر جھوٹ نہ باندھو ورنہ شامت اعمال برباد کر دے گی ۔ لوگوں کی آنکھوں میں خاک نہ جھونکو کہ درحقیقت کچھ نہ ہو اور تم اپنے جادو سے بہت کچھ دکھا دو ۔ اللہ کے سوا کوئی خالق نہیں جو فی الواقع کسی چیز کو پیدا کر سکے ۔ یاد رکھو ایسے جھوٹے بہتانی لوگ فلاح نہیں پاتے ۔ یہ سن کر ان میں آپس میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں ۔ بعض تو سمجھ گئے اور کہنے لگے یہ کلام جادوگروں کا نہیں یہ تو سچ مچ اللہ کے رسول ہیں ۔ بعض نے کہا نہیں بلکہ یہ جادوگر ہیں مقابلہ کرو ۔ یہ باتیں بہت ہی احتیاط اور راز سے کی گئیں ۔ «‏‏‏‏إِنْ ہٰذَانِ» کی دوسری قرأت «اِنَّ ھٰذَیْنِ» بھی ہے ، مطلب اور معنی دونوں قرأتوں کا ایک ہی ہے ۔ اب با آواز بلند کہنے لگے کہ یہ دونوں بھائی سیانے اور پہنچے ہوئے جادوگر ہیں ۔ اس وقت تک تو تمہاری ہوا بندھی ہوئی ہے ، بادشاہ کا قرب نصیب ہے ، مال و دولت قدموں تلے لوٹ رہا ہے لیکن آج اگر یہ بازی لے گئے تو ظاہر ہے کہ ریاست ان ہی کی ہو جائے گی ۔ تمہیں ملک سے نکال دیں گے ، عوام ان کے ماتحت ہو جائیں گے ، ان کا زور بند بندھ جائے گا ، یہ بادشاہت چھین لیں گے اور ساتھ ہی تمہارے مذہب کو ملیا میٹ کر دیں گے ۔ بادشاہت ، عیش و آرام سب چیزیں تم سے چھن جائیں گی ۔ شرافت ، عقلمندی ، ریاست سب ان کے قبضے میں آ جائے گی ، تم یونہی بھٹے بھونتے رہ جاؤ گے ۔ تمہارے اشراف ذلیل ہو جائیں گے ، امیر فقیر بن جائیں گے ، ساری رونق اور بہار جاتی رہے گی ۔ بنی اسرائیل جو تمہارے لونڈی غلام بنے ہوئے ہیں ، یہ سب ان کے ساتھ ہو جائیں گے اور تمہاری حکومت پاش پاش ہو جائے گی ۔ تم سب اتفاق کر لو ۔ ان کے مقابلے میں صف بندی کر کے اپنا کوئی فن باقی نہ رکھو ، جی کھول کر ہوشیاری اور دانائی سے اپنے جادو کے زور سے اسے دبا لو ۔ ایک ہی دفعہ ہر استاد اپنی کاری گری دکھا دے تاکہ میدان ہمارے جادو سے پر ہو جائے ۔ دیکھو اگر وہ جیت گیا تو یہ ریاست اسی کی ہو جائے گی اور اگر ہم غالب آ گئے تو تم سن چکے ہو کہ بادشاہ ہمیں اپنا مقرب اور دربار خاص کے اراکین بنا دے گا ۔ طه
61 طه
62 طه
63 طه
64 طه
65 مقابلہ شروع ہوا جادوگروں نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ اب بتاؤ ، تم اپنا وار پہلے کرتے ہو یا ہم پہل کریں ؟ اس کے جواب میں اللہ کے پیغمبر نے فرمایا ، تم ہی پہلے اپنے دل کی بھڑاس نکال لو تاکہ دنیا دیکھ لے کہ تم نے کیا کیا ؟ اور پھر اللہ نے تمہارے کئے کو کس طرح مٹا دیا ؟ « فَأَلْقَوْا حِبَالَہُمْ وَعِصِیَّہُمْ وَقَالُوا بِعِزَّۃِ فِرْعَوْنَ إِنَّا لَنَحْنُ الْغَالِبُونَ» ۱؎ (26-الشعراء:44) اسی وقت انہوں نے اپنی لکڑیاں اور رسیاں میدان میں ڈال دیں ۔ کچھ ایسا معلوم ہونے لگا کہ گویا وہ سانپ بن کر چل پھر رہی ہیں اور میدان میں دوڑ بھاگ رہی ہیں ۔ کہنے لگے فرعون کے اقبال سے غالب ہم ہی رہیں گے ، «سَحَرُوا أَعْیُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْہَبُوہُمْ وَجَاءُوا بِسِحْرٍ عَظِیمٍ» ۱؎ (7-الأعراف:116) لوگوں کی آنکھوں پر جادو کر کے انہیں خوفزدہ کر دیا اور جادو کے زبردست کرتب دکھا دیئے ۔ یہ لوگ بہت زیادہ تھے ۔ ان کی پھینکی ہوئی رسیوں اور لاٹھیوں سے اب سارے کا سارا میدان سانپوں سے پر ہو گیا ، وہ آپس میں گڈ مڈ ہو کر اوپر تلے ہونے لگے ۔ اس منظر نے موسیٰ علیہ السلام کو خوفزدہ کر دیا کہ کہیں ایسا نہ ہو لوگ ان کے کرتب کے قائل ہو جائیں اور اس باطل میں پھنس جائیں ۔ اسی وقت جناب باری نے وحی نازل فرمائی کہ اپنے داہنے ہاتھ کی لکڑی کو میدان میں ڈال دو ، ہراساں نہ ہو ۔ آپ نے حکم کی تعمیل کی ۔ اللہ کے حکم سے یہ لکڑی ایک زبردست بیمثال اژدھا بن گئی ، جس کے پیر بھی تھے اور سر بھی تھا ۔ کچلیاں اور دانت بھی تھے ۔ اس نے سب کے دیکھتے سارے میدان کو صاف کر دیا ۔ اس نے جادوگروں کے جتنے کرتب تھے ، سب کو ہڑپ کر لیا ۔ اب سب پر حق واضح ہو گیا ، معجزے اور جادو میں تمیز ہو گئی ۔ حق و باطل میں پہچان ہو گئی ۔ سب نے جان لیا کہ جادوگروں کی بناوٹ میں اصلیت کچھ بھی نہ تھی ۔ فی الواقع جادوگر کوئی چال چلیں لیکن اس میں غالب نہیں آ سکتے ۔ ابن ابی حاتم میں حدیث ہے ، ترمذی میں بھی موقوفاً اور مرفوعاً مروی ہے کہ{ جادوگر کو جہاں پکڑو ، مار ڈالو ۔ } ۱؎ (سنن ترمذی:1460،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) پھر آپ نے یہی جملہ تلاوت فرمایا ۔ یعنی جہاں پایا جائے امن نہ دیا جائے ۔ جادوگروں نے جب یہ دیکھا ، انہیں یقین ہو گیا کہ یہ کام انسانی طاقت سے خارج ہے ۔ وہ جادو کے فن میں ماہر تھے ، بہ یک نگاہ پہچان گئے کہ واقعی یہ اس اللہ کا کام ہے جسکے فرمان اٹل ہیں ، جو کچھ وہ چاہے اس کے حکم سے ہو جاتا ہے ۔ اس کے ارادے سے مراد جدا نہیں ۔ اس کا اتنا کامل یقین انہیں ہو گیا کہ اسی وقت اسی میدان میں سب کے سامنے بادشاہ کی موجودگی میں وہ اللہ کے سامنے سر بہ سجود ہو گئے اور پکار اٹھے کہ«قَالُوا آمَنَّا بِرَبِّ الْعَالَمِینَ رَبِّ مُوسَیٰ وَہَارُونَ » ۱؎ (26-الشعراء:47-48) ’ ہم رب العالمین پر یعنی ہارون اور موسیٰ علیہما السلام کے پروردگار پر ایمان لائے ۔ ‘ سبحان اللہ ! صبح کے وقت کافر اور جادوگر تھے اور شام کو پاکباز مومن اور اللہ کی راہ کے شہید تھے ۔ کہتے ہیں کہ ان کی تعداد اسی ہزار تھی یا ستر ہزار یا کچھ اوپر تیس ہزار یا انیس ہزار یا پندرہ ہزار یا بارہ ہزار ۔ یہ بھی مروی ہے کہ یہ ستر تھے ۔ صبح جادوگر ، شام کو شہید ۔ مروی ہے کہ جب یہ سجدے میں گرے ، اللہ تعالیٰ نے انہیں جنت دکھا دی اور انہوں نے اپنی منزلیں اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں ۔ طه
66 طه
67 طه
68 طه
69 طه
70 طه
71 نتیجہ موسیٰ علیہ السلام کی صداقت کا گواہ بنا اللہ کی شان دیکھئے ! چاہیئے تو یہ تھا کہ فرعون اب راہ راست پر آ جاتا ۔ جن کو اس نے مقابلے کیلئے بلوایا تھا وہ عام مجمع میں ہارے ۔ انہوں نے اپنی ہار مان لی ، اپنے کرتوت کو جادو اور موسیٰ علیہ السلام کے معجزے کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطاء کردہ معجزہ تسلیم کر لیا ۔ خود وہ ایمان لے آئے جو مقابلے کے لیے بلوائے گئے تھے ۔ مجمع عام میں سب کے سامنے بے جھجک انہوں نے دین حق کو قبول کر لیا ۔ لیکن یہ اپنی شیطنیت میں اور بڑھ گیا اور اپنی قوت وطاقت دکھانے لگا لیکن بھلا حق والے مادی طاقتوں کو سمجھتے ہی کیا ہیں ؟ «قَالَ فِرْعَوْنُ آمَنتُم بِہِ قَبْلَ أَنْ آذَنَ لَکُمْ ۖ إِنَّ ہٰذَا لَمَکْرٌ مَّکَرْتُمُوہُ فِی الْمَدِینَۃِ لِتُخْرِجُوا مِنْہَا أَہْلَہَا ۖ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ » ۱؎ (7-الأعراف:123) پہلے تو جادوگروں کے اس مسلم گروہ سے کہنے لگا کہ میری اجازت کے بغیر تم اس پر ایمان کیوں لائے ؟ پھر ایسا بہتان باندھا جس کا جھوٹ ہونا بالکل واضح ہے کہ موسیٰ علیہ السلام تو تمہارے استاد ہیں انہی سے تم نے جادو سیکھا ہے ۔ تم سب آپس میں ایک ہی ہو ، مشورہ کر کے ہمیں تاراج کرنے کے لیے تم نے پہلے انہیں بھیجا پھر اس کے مقابلے میں خود آئے اور اپنے اندرونی سمجھوتے کے مطابق سامنے ہار گئے ۔ اور اسے جتا دیا اور پھر اس کا دین قبول کر لیا تاکہ تمہاری دیکھا دیکھی میری رعایا بھی اس چکر میں پھنس جائے مگر تمہیں اپنی اس ساز باز کا انجام بھی معلوم ہو جائے گا ۔ میں الٹی سیدھی طرف سے تمہارے ہاتھ پاؤں کاٹ کر تم کو کھجور کے تنوں پر سولی دوں گا اور اس بری طرح تمہاری جان لوں گا کہ دوسروں کے لیے عبرت ہو ۔ اسی بادشاہ نے سب سے پہلے یہ سزا دی ہے ۔ تم جو اپنے آپکو ہدایت پر اور مجھے اور میری قوم کو گمراہی پرسمجھتے ہو ، اس کا حال بھی تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ دائمی عذاب کس پر آتا ہے ؟ اس دھمکی کا ان کے دلوں پر الٹا اثر ہوا ۔ وہ اپنے ایمان میں کامل بن گئے اور نہایت بےپرواہی سے جواب دیا کہ اس ہدایت و یقین کے مقابلے میں جو ہمیں اب اللہ کی طرف سے حاصل ہوا ہے ، ہم تیرا مذہب کسی طرح قبول کرنے کے نہیں ۔ نہ تجھے ہم اپنے سچے خالق مالک کے سامنے کوئی چیزسمجھیں ۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ جملہ قسم ہو یعنی اس اللہ کی قسم جس نے ہمیں اولاً پیدا کیا ہے ، ہم ان واضح دلیلوں پر تیری گمراہی کو ترجیح دے ہی نہیں سکتے خواہ تو ہمارے ساتھ کچھ ہی کر لے ۔ مستحق عبادت وہ ہے جس نے ہمیں بنایا نہ کہ تو ، جو خود اسی کا بنایا ہوا ہے ۔ تجھے جو کرنا ہو اس میں کمی نہ کر ، تو تو ہمیں اسی وقت تک سزا دے سکتا ہے جب تک ہم اس دنیا کی حیات کی قید میں ہیں ۔ ہمیں یقین ہے کہ اس کے بعد ابدی راحت اور غیر فانی خوشی ومسرت نصیب ہو گی ۔ ہم اپنے رب پر ایمان لائے ہیں ہمیں امید ہے کہ وہ ہمارے اگلے قصوروں سے درگزر فرمالے گا بالخصوص یہ قصور جو ہم سے اللہ کے سچے نبی کے مقابلے پر جادو بازی کرنے کا سرزد ہوا ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ، فرعون نے بنی اسرائیل کے چالیس بچے لے کر انہیں جادوگروں کے سپرد کیا تھا کہ انہیں جادو کی پوری تعلیم دو ۔ اب یہ لڑکے یہ مقولہ کہہ رہے ہیں کہ تو نے ہم سے جبراً جادوگری کی خدمت لی ۔ عبدالرحمٰن بن زید رحمہ اللہ کا قول بھی یہی ہے ۔ پھر فرمایا ہمارے لیے بہ نسبت تیرے ، اللہ بہت بہتر ہے اور دائمی ثواب دینے والا ہے ۔ نہ ہمیں تیری سزاؤں سے ڈر نہ تیرے انعام کی لالچ ۔ اللہ تعالیٰ کی ذات ہی اس لائق ہے کہ اس کی عبادت و اطاعت کی جائے ۔ اسی کے عذاب دائمی ہیں اور سخت خطرناک ہیں ، اگر اس کی نافرمانی کی جائے ۔ پس فرعون نے بھی ان کے ساتھ یہ کیا ۔ سب کے ہاتھ پاؤں الٹی سیدھی طرف سے کاٹ کرسولی پر چڑھا دیا ۔ وہ جماعت جو سورج کے نکلنے کے وقت کافر تھی ، وہی جماعت سورج ڈوبنے سے پہلے مومن اور شہید تھی رحمتہ اللہ علیہم اجمعین ۔ طه
72 طه
73 طه
74 ایمان یافتہ جادوگروں پر فرعون کا عتاب بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ جادوگروں نے ایمان قبول فرما کر فرعون کو جو نصیحتیں کیں ، انہیں میں یہ آیتیں بھی ہیں ۔ اسے اللہ کے عذابوں سے ڈرا رہے ہیں اور اللہ کی نعمتوں کا لالچ دلا رہے ہیں کہ گنہگاروں کا ٹھکانا جہنم ہے جہاں موت تو کبھی آنے ہی کی نہیں لیکن زندگی بھی بڑی ہی مشقت والی موت سے بدتر ہو گی ۔ جیسے فرمان ہے «لَا یُقْضٰی عَلَیْہِمْ فَیَمُوْتُوْا وَلَا یُخَـفَّفُ عَنْہُمْ مِّنْ عَذَابِہَا ۭ کَذٰلِکَ نَجْزِیْ کُلَّ کَفُوْرٍ » ۱؎ (35-فاطر:36) ’ یعنی نہ تو موت ہی آئے گی نہ عذاب ہلکے ہوں گے ، کافروں کو ہم اسی طرح سزا دیتے ہیں ۔ ‘ اور آیتوں میں ہے «وَیَتَجَنَّبُہَا الْأَشْقَی * الَّذِی یَصْلَی النَّارَ الْکُبْرَیٰ * ثُمَّ لَا یَمُوتُ فِیہَا وَلَا یَحْیَیٰ » ۱؎ (87-الأعلی:11-13) ’ یعنی اللہ کی نصیحتوں سے بے فیض وہی رہے گا جو ازلی بدبخت ہو جو آخرکار بڑی سخت آگ میں گرے گا جہاں نہ تو موت آئے نہ چین کی زندگی نصیب ہو ۔ ‘ اور آیت میں ہے کہ«وَنَادَوْا یَا مَالِکُ لِیَقْضِ عَلَیْنَا رَبٰکَ ۖ قَالَ إِنَّکُم مَّاکِثُونَ » ۱؎ (43-الزخرف:77) ’ جہنم میں جھلستے ہوئے کہیں گے کہ اے داروغہ دوزخ ! تم دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ہمیں موت ہی دیدے ‘ لیکن وہ جواب دے گا کہ نہ تم مرنے والے ہو نہ نکلنے والے ۔ طه
75 . مسند احمد میں ہے ، { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اصلی جہنمی تو جہنم میں ہی پڑے رہیں گے نہ وہاں انہیں موت آئے نہ آرام کی زندگی ملے ۔ ہاں ایسے لوگ بھی ہوں گے جنہیں ان کے گناہوں کی پاداش میں دوزخ میں ڈال دیا جائے گا جہاں وہ جل کر کوئلہ ہو جائیں گے جان نکل جائے گی ۔ پھر شفاعت کی اجازت کے بعد ان کا چورا نکالاجائے گا اور جنت کی نہروں کے کناروں پر بکھیردیا جائے گا اور جنتیوں سے فرمایا جائے گا کہ ان پر پانی ڈالو تو جس طرح تم نے نہر کے کنارے کے کھیت کے دانوں کو اگتے ہوئے دیکھا ہے ، اسی طرح وہ اگیں گے ۔ یہ سن کر ایک شخص کہنے لگا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مثال تو ایسی دی ہے گویا آپ کچھ زمانہ جنگل میں گزار چکے ہیں ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:185) اور حدیث میں ہے کہ { خطبے میں اس آیت کی تلاوت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا ۔ اور جو اللہ سے قیامت کے دن ایمان اور عمل صالح کے ساتھ جا ملا ، اسے اونچے بالا خانوں والی جنت ملے گی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ، جنت کے سو درجوں میں اتنا ہی فاصلہ ہے جتنا زمین و آسمان میں ۔ سب سے اوپر جنت الفردوس ہے اسی سے چاروں نہریں جاری ہوتی ہیں ، اس کی چھت رحمان کا عرش ہے ۔ اللہ سے جب جنت مانگو تو جنت الفردوس کی دعا کیا کرو ۔ } ۱؎ (سنن ترمذی:2531،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابن ابی حاتم میں ہے کہ کہا جاتا تھا کہ جنت کے سو درجے ہیں ، ہر درجے کے پھر سو درجے ہیں ، دو درجوں میں اتنی دوری ہے جتنی آسمان و زمین میں ۔ ان میں یاقوت اور موتی ہیں اور زیور بھی ۔ ہر جنت میں امیر ہے جس کی فضیلت اور سرداری کے دوسرے قائل ہیں ۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ { اعلی علیین والے ایسے دکھائی دیتے ہیں جیسے تم لوگ آسمان کے ستاروں کو دیکھتے ہو ۔ لوگوں نے کہا پھر یہ بلند درجے تو نبیوں کے لیے ہی مخصوص ہونگے ؟ فرمایا سنو اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ پر ایمان لائے اور نبیوں کو سچا جانا ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:3256) سنن کی حدیث میں یہ بھی ہے کہ { سیدنا ابوبکر و سیدنا عمر رضی اللہ عنہما انہی میں سے ہیں ۔ اور کتنے ہی اچھے مرتبے والے ہیں ۔ } ۱؎ (سنن ابوداود:3987،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) یہ جنتیں ہمیشگی کی اقامت ہیں جہاں یہ ہمیشہ ابد الاباد رہیں گے ۔ جو لوگ اپنے نفس پاک رکھیں ، گناہوں سے ، خباثت سے ، گندگی سے ، شرک و کفر سے دور رہیں ، اللہ واحد کی عبادت کرتے رہیں ، رسولوں کی اطاعت میں عمرگزاردیں ، ان کے لیے یہی قابل رشک مقامات اور قابل صد مبارکباد انعام ہیں « رَزَقَّنَا الّلہُ اِیَّاھَا » ۔ طه
76 طه
77 بنی اسرائیل کی ہجرت اور فرعون کا تعاقب چونکہ موسیٰ علیہ السلام کے اس فرمان کو بھی فرعون نے ٹال دیا تھا کہ وہ بنی اسرائیل کو اپنی غلامی سے آزاد کر کے انہیں موسیٰ علیہ السلام کے سپرد کر دے ، اس لیے جناب باری نے آپ کو حکم فرمایا کہ آپ راتوں رات ان کی بے خبری میں تمام بنی اسرائیل کو چپ چاپ لے کر یہاں سے چلے جائیں جیسے کہ اس کا تفصیلی بیان قرآن کریم میں اور بہت سی جگہ پر ہوا ہے ۔ چنانچہ حسب ارشاد آپ نے بنی اسرائیل کو اپنے ساتھ لے کر یہاں سے ہجرت کی ۔ صبح جب فرعونی جاگے اور سارے شہر میں ایک بنی اسرائیلی نہ دیکھا ۔ فرعون کو اطلاع دی ، وہ مارے غصے کے چکر کھا گیا اور ہر طرف منادی دوڑا دئیے کہ لشکر جمع ہو جائیں اور دانت پیس پیس کر کہنے لگا کہ اس مٹھی بھر جماعت نے ہمارا ناک میں دم کر رکھا ہے آج ان سب کو تہ تیغ کر دوں گا ۔ سورج نکلتے ہی لشکر آ موجود ہوا ، اسی وقت خود سارے لشکرکو لے کر ان کے تعاقب میں روانہ ہو گیا ۔ بنی اسرائیل دریا کے کنارے پہنچے ہی تھے کہ فرعونی لشکر انہیں دکھائی دے گیا ، گھبرا کر اپنے نبی علیہ السلام سے کہنے لگے ، لو اب کیا ہو گا سامنے دریا ہے پیچھے فرعونی ہیں ۔ آپ نے جواب دیا ، گھبرانے کی کوئی بات نہیں ، میری مدد پر خود میرا رب ہے ، وہ ابھی مجھے راہ دکھا دے گا ۔ اسی وقت وحی الٰہی آئی کہ موسیٰ دریا پر اپنی لکڑی مارو ، وہ ہٹ کر تمہیں راستہ دیدے گا ۔ چنانچہ آپ نے یہ کہہ کر لکڑی ماری کہ اے دریا ! بحکم الٰہی تو ہٹ جا ۔ اسی وقت اس کا پانی پتھر کی طرح ادھر اْدھر جم گیا اور بیچ میں راستے نمایاں ہو گئے ۔ ادھر ادھر پانی مثل پہاڑوں کے کھڑا ہو گیا اور تیز اور خشک ہواؤں کے جھونکوں نے راستوں کو بالکل سوکھی زمین کے راستوں کی طرح کر دیا ۔ نہ تو فرعون کی پکڑ کا خوف رہا نہ دریا میں ڈوب جانے کا خطرہ رہا ۔ فرعون اور اس کے لشکری یہ حال دیکھ رہے تھے ۔ فرعون نے حکم دیا کہ انہی راستوں سے تم بھی پار ہو جاؤ ۔ چیختا کودتا مع تمام لشکر کے ان ہی راہوں میں اتر پڑا ، ان کے اترتے ہی پانی کو بہنے کا حکم ہو گیا اور چشم زدن میں تمام فرعونی ڈبو دیئے گئے ۔ دریا کی موجوں نے انہیں چھپا لیا ۔ یہاں جو فرمایا کہ انہیں اس چیز نے ڈھانپ لیا ۔ یہ اس لیے کہ یہ مشہور ومعروف ہے نام لینے کی ضرورت نہیں یعنی دریا کی موجوں نے ۔ اسی جیسی آیت « وَالْمُؤْتَفِکَۃَ اَہْوٰی * فَغَشّٰـیہَا مَا غَشّٰی» (53-النجم:53-54) ہے ’ یعنی قوم لوط کی بستیوں کو بھی اسی نے دے پٹکا تھا ۔ پھر ان پر جو تباہی آئی ، سو آئی ۔ ‘ عرب کے اشعار میں بھی ایسی مثالیں موجود ہیں ۔ الغرض فرعون نے اپنی قوم کو بہکا دیا اور راہ راست انہیں نہ دکھائی ۔ جس طرح دنیا میں انہیں اس نے آگے بڑھ کر دریا برد کیا ، «یَقْدُمُ قَوْمَہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَأَوْرَدَہُمُ النَّارَ ۖ وَبِئْسَ الْوِرْدُ الْمَوْرُودُ » ۱؎ (11-ہود:98) ’ اسی طرح آگے ہو کر قیامت کے دن انہیں جہنم میں جا جھونکے گا جو بدترین جگہ ہے ۔ ‘ طه
78 طه
79 طه
80 احسانات کی یاد دہانی اللہ تبارک و تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر جو بڑے بڑے احسان کئے تھے ، انہیں یاد دلا رہا ہے ۔ ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ انہیں ان کے دشمن سے نجات دی ۔ اور اتنا ہی نہیں بلکہ ان کے دشمنوں کو ان کے دیکھتے ہوئے دریا میں ڈبو دیا ۔ ایک بھی ان میں سے باقی نہ بچا ۔ جیسے فرمان ہے « وَأَغْرَقْنَا آلَ فِرْعَوْنَ وَأَنتُمْ تَنظُرُونَ » (2-البقرۃ:50) ۔ ’ یعنی ہم نے تمہارے دیکھتے ہوئے فرعونیوں کو ڈبو دیا ۔ ‘ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ { مدینے کے یہودیوں کو عاشورے کے دن کا روزہ رکھتے ہوئے دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اس کا سبب دریافت فرمایا تو انہوں نے جواب دیا کہ اسی دن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو فرعون پر کامیاب کیا تھا ۔ آپ نے فرمایا ، پھر تو ہمیں بہ نسبت تمہارے ان سے زیادہ قرب ہے چنانچہ آپ نے مسلمانوں کو اس دن کے روزے کا حکم دیا ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:4680) پھر اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو کوہ طور کی دائیں جانب کا وعدہ دیا ۔ آپ وہاں گئے اور پیچھے سے بنو اسرائیل نے گئوسالہ پرستی شروع کر دی ۔ جس کا بیان ابھی آگے آئے گا ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ اسی طرح ایک احسان ان پر یہ کیا کہ من وسلوی کھانے کو دیا ۔ اس کا پورا بیان سورۃ البقرہ وغیرہ کی تفسیر میں گزر چکا ہے ۔ من ایک میٹھی چیز تھی جو ان کے لیے آسمان سے اترتی تھی اور سلوی ایک قسم کے پرند تھے جو بہ حکم خداوندی ان کے سامنے آ جاتے تھے ، یہ بقدر ایک دن کی خوراک کے انہیں لے لیتے تھے ۔ ہماری یہ دی ہوئی روزی کھاؤ ، اس میں حد سے نہ گزر جاؤ ، حرام چیز یا حرام ذریعہ سے اسے نہ طلب کرو ۔ ورنہ میرا غضب نازل ہو گا اور جس پر میرا غضب اترے یقین مانو کہ وہ بدبخت ہو گیا ۔ شغی بن مانع رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جہنم میں ایک اونچی جگہ بنی ہوئی ہے جہاں سے کافر کو جہنم میں گرایا جاتا ہے تو زنجیروں کی جگہ تک چالیس سال میں پہنچتا ہے ۔ یہی مطلب اس آیت کا ہے کہ وہ گڑھے میں گر پڑا ۔ ہاں جو بھی اپنے گناہوں سے میرے سامنے توبہ کرے ، میں اس کی توبہ قبول فرماتا ہوں ۔ دیکھو بنی اسرائیل میں سے جنہوں نے بچھڑے کی پوجا کی تھی ، ان کی توبہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کو بھی بخش دیا ۔ غرض جس کفر و شرک ، گناہ و معصیت پر کوئی ہو ، پھر وہ اسے بخوف الٰہی چھوڑ دے ، اللہ تعالیٰ اسے معاف فرما دیتا ہے ۔ ہاں دل میں ایمان ہو اور اعمال صالحہ بھی کرتا ہو اور ہو بھی راہ راست پر ، شکی نہ ہو ، سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور جماعت صحابہ رضی اللہ عنہم کی روش پر ہو ۔ اس میں ثواب جانتا ہو ، یہاں پر «ثم» کا لفظ خبر کی خبر پر ترتیب کرنے کے لیے آیا ہے ۔ جیسے فرمان ہے « ثُمَّ کَانَ مِنَ الَّذِیْنَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصّالِحاتِ » ۔ ۱؎ (90-البلد:17) طه
81 طه
82 طه
83 بنی اسرائیل کا دریا پار جانا موسیٰ علیہ السلام جب دریا پار کر کے نکل گئے تو ایک جگہ پہنچے جہاں کے لوگ اپنے بتوں کے مجاور بن کر بیٹھے ہوئے تھے تو بنی اسرائیل کہنے لگے ، موسیٰ [ علیہ السلام ] ہمارے لیے بھی ان کی طرح کوئی معبود مقرر کر دیجئیے ۔ آپ نے فرمایا تم بڑے جاہل لوگ ہو ، یہ تو برباد شدہ لوگ ہیں اور ان کی عبادت بھی باطل ہے ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو تیس روزوں کا حکم دیا ۔ پھر دس بڑھا دئیے گئے ۔ پورے چالیس ہو گئے ، دن رات روزے سے رہتے تھے ۔ اب آپ جلدی سے طور کی طرف چلے ۔ بنی اسرائیل پر اپنے بھائی ہارون علیہ السلام کو خلیفہ مقرر کیا ۔ وہاں جب پہنچے تو جناب باری تعالیٰ نے اس جلدی کی وجہ دریافت فرمائی ۔ آپ نے جواب دیا کہ وہ بھی طور کے قریب ہی ہیں ، آ رہے ہیں ، میں نے جلدی کی ہے کہ تیری رضا مندی حاصل کر لوں اور اس میں بڑھ جاؤں ۔ موسی علیہ السلام کے بعد پھر شرک اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تیرے چلے آنے کے بعد تیری قوم میں نیا فتنہ برپا ہوا اور انہوں نے گئوسالہ پرستی شروع کر دی ہے ۔ اس بچھڑے کو سامری نے بنایا اور انہیں اس کی عبادت میں لگا دیا ہے ۔ اسرائیلی کتابوں میں ہے کہ سامری کا نام بھی ہارون تھا ۔ موسیٰ علیہ السلام کو عطا فرمانے کے لیے تورات کی تختیاں لکھ لی گئی تھیں ، جیسے فرمان ہے «وَکَتَبْنَا لَہٗ فِی الْاَلْوَاحِ مِنْ کُلِّ شَیْءٍ مَّوْعِظَۃً وَّتَفْصِیْلًا لِّکُلِّ شَیْءٍ ۚ فَخُذْہَا بِقُوَّۃٍ وَّاْمُرْ قَوْمَکَ یَاْخُذُوْا بِاَحْسَنِہَا ۭ سَاُورِیْکُمْ دَارَ الْفٰسِقِیْنَ » (7-الأعراف:145)۔ ’ یعنی ہم نے اس کے لیے تختیوں میں ہر شے کا تذکرہ اور ہرچیز کی تفصیل لکھ دی تھی اور کہہ دیا کہ اسے مضبوطی سے تھام لو اور اپنی قوم سے بھی کہو کہ اس پر عمدگی سے عمل کریں ۔ میں تمہیں عنقریب فاسقوں کا انجام دکھا دوں گا ۔ ‘ موسیٰ علیہ السلام کو جب اپنی قوم کے مشرکانہ فعل کا علم ہوا تو سخت رنج ہوا اور غم و غصے میں بھرے ہوئے وہاں سے واپس قوم کی طرف چلے کہ دیکھو ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے انعامات کے باوجود ایسے سخت احمقانہ اور مشرکانہ فعل کا ارتکاب کیا ۔ غم و اندوہ ، رنج و غصہ آپ کو بہت آیا ۔ واپس آتے ہی کہنے لگے کہ دیکھو اللہ تعالیٰ نے تم سے تمام نیک وعدے کئے تھے ، تمہارے ساتھ بڑے بڑے سلوک و انعام کئے لیکن ذرا سے وقفے میں تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو بھلا بیٹھے بلکہ تم نے وہ حرکت کی جس سے اللہ کا غضب تم پر اتر پڑا ۔ تم نے مجھ سے جو وعدہ کیا تھا اس کا مطلق لحاظ نہ رکھا ۔ اب بنی اسرائیل معذرت کرنے لگے کہ ہم نے یہ کام اپنے اختیار سے نہیں کیا ، بات یہ ہے کہ جو زیور فرعونیوں کے ہمارے پاس مستعار لیے ہوئے تھے ، ہم نے بہتر یہی سمجھا کہ انہیں پھینک دیں چنانچہ ہم نے سب کے سب بطور پرہیزگاری کے پھینک دئیے ۔ ایک روایت میں ہے کہ خود ہارون علیہ السلام نے ایک گڑھا کھود کر اس میں آگ جلا کر ان سے فرمایا کہ وہ زیور سب اس میں ڈال دو ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ ہارون علیہ السلام کا ارادہ یہ تھا کہ سب زیور ایکجا ہو جائیں اور پگھل کر ایک ڈلا بن جائے ۔ پھر جب موسیٰ علیہ السلام آ جائیں جیسا وہ فرمائیں ویسا کیا جائے ۔ سامری نے اس میں وہ مٹی ڈال دی جو اس نے اللہ کے قاصد کے نشان سے لی تھی اور ہارون علیہ السلام سے کہا ، آئیے اللہ تعالیٰ سے دعا کیجیئے کہ وہ میری خواہش قبول فرما لے ، آپ کو کیا خبر تھی ، آپ نے دعا کی ۔ اس نے خواہش یہ کی کہ اس کا ایک بچھڑا بن جائے جس میں سے بچھڑے کی سی آوازبھی نکلے چنانچہ وہ بن گیا اور بنی اسرائیل کے فتنے کا باعث ہو گیا ۔ پس فرمان ہے کہ اسی طرح سامری نے بھی ڈال دیا ۔ ہارون علیہ السلام ایک مرتبہ سامری کے پاس سے گزرے ، تو وہ اس بچھڑے کو ٹھیک ٹھاک کر رہا تھا ۔ آپ نے پوچھا کیا کر رہے ہو ؟ اس نے کہا وہ چیز بنا رہا ہوں جو نقصان دے اور نفع نہ دے ۔ آپ نے دعا کی اے اللہ ! خود اسے ایسا ہی کر دے اور آپ وہاں سے تشریف لے گئے ۔ سامری کی دعا سے یہ بچھڑا بنا اور آواز نکالنے لگا ۔ بنی اسرائیل بہکاوے میں آ گئے اور اس کی پرستش شروع کر دی ۔ اس کی آواز پر یہ اس کے سامنے سجدے میں گر پڑتے اور دوسری آواز پر سجدے سے سر اٹھاتے ۔ یہ گروہ دوسرے مسلمانوں کو بھی بہکانے لگا کہ دراصل اللہ یہی ہے ۔ موسیٰ بھول کر کہیں اور اس کی جستجو میں چل دئیے ہیں ، وہ یہ کہنا بھول گئے کہ تمہارا رب یہی ہے ۔ یہ لوگ مجاور بن کر اس کے اردگرد بیٹھ گئے ۔ ان کے دلوں میں اس کی محبت رچ گئی ۔ یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ سامری اپنے سچے اللہ کو اور اپنے پاک دین اسلام کو بھول بیٹھا ۔ ان کی بیوقوفی دیکھئے کہ یہ اتنا نہیں دیکھتے کہ وہ بچھڑا تو محض بے جان چیز ہے ۔ ان کی کسی بات کا نہ تو جواب دے نہ سنے ، نہ دنیا و آخرت کی کسی بات کا اسے اختیار نہ کوئی نفع نقصان اس کے ہاتھ میں ۔ آواز جو نکلتی تھی ، اس کی وجہ بھی صرف یہ تھی کہ پیچھے کے سوراخ میں سے ہوا گزر کر منہ کے راستے نکلتی تھی ، اسی کی آواز آتی تھی ۔ اس بچھڑے کا نام انہوں نے بہموت رکھ چھوڑا تھا ۔ ان کی دوسری حماقت دیکھئے کہ چھوٹے گناہ سے بچنے کے لیے بڑا گناہ کر لیا ۔ فرعونیوں کی امانتوں سے آزاد ہونے کے لیے شرک شروع کر دیا ۔ یہ تو وہی مثال ہوئی کہ کسی عراقی نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ کپڑے پر اگر مچھر کا خون لگ جائے تو نماز ہو جائے گی یا نہیں ؟ آپ نے فرمایا ، ان عراقیوں کو دیکھو ، بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لخت جگر کو تو قتل کر دیں اور مچھر کے خون کے مسئلے پوچھتے پھریں ؟ ۱؎ (صحیح بخاری:5994) طه
84 طه
85 طه
86 طه
87 طه
88 طه
89 طه
90 بنی اسرائیل اور ہارون علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام کے آنے سے پہلے ہارون علیہ السلام نے انہیں ہر چند سمجھایا بجھایا کہ دیکھو فتنے میں نہ پڑو ۔ اللہ رحمان کے سوا اور کسی کے سامنے نہ جھکو ۔ وہ ہرچیز کا خالق و مالک ہے ، سب کا اندازہ مقرر کرنے والا وہی ہے ، وہی عرش مجید کا مالک ہے ، وہی جو چاہے کر گزرنے والا ہے ۔ تم میری تابعداری اور حکم برداری کرتے رہو ۔ جو میں کہوں وہ بجا لاؤ ، جس سے روکوں رک جاؤ ۔ لیکن ان سرکشوں نے جواب دیا کہ موسیٰ علیہ السلام کی سن کر تو خیر ہم مان لیں گے ۔ تب تک تو ہم اس کی پرستش نہیں چھوڑیں گے ۔ چنانچہ لڑنے اور مرنے مارنے کے واسطے تیار ہو گئے ۔ طه
91 طه
92 کوہ طور سے واپسی اور بنی اسرائیل کی حرکت پہ غصہ موسیٰ علیہ السلام سخت غصے اور پورے غم میں لوٹے تھے ۔ تختیاں زمین پردے ماریں اور اپنے بھائی ہارون علیہ السلام کی طرف غصے سے بڑھ گئے اور ان کے سر کے بال تھام کر اپنی طرف گھسیٹنے لگے ۔ اس کا تفصیلی بیان سورۃ الاعراف کی تفسیر میں گزر چکا ہے اور وہیں وہ حدیث بھی بیان ہو چکی ہے کہ سننا دیکھنے کے مطابق نہیں ۔ آپ نے اپنے بھائی اور اپنے جانشین کو ملامت کرنی شروع کی کہ اس بت پرستی کے شروع ہوتے ہی تو نے مجھے خبر کیوں نہ کی ؟ کیا جو کچھ میں تجھے کہہ گیا تھا ، تو بھی اس کا مخالف بن بیٹھا ؟ میں تو صاف کہہ گیا تھا کہ میری قوم میں میری جانشینی کر ۔ اصلاح کے درپے رہ اور مفسدوں کی نہ مان ۔ ہارون علیہ السلام نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اے میرے ماں جائے بھائی ! یہ صرف اس لیے [ کہا ] کہ موسیٰ علیہ السلام کو زیادہ رحم اور محبت آئے ورنہ باپ الگ الگ نہ تھے ، باپ بھی ایک ہی تھے ، دونوں سگے بھائی تھے ۔ آپ عذر پیش کرتے ہیں کہ جی میں تو میرے بھی آئی تھی کہ آپ کے پاس آ کر آپ کو اس کی خبر کروں لیکن پھر خیال آیا کہ انہیں تنہا چھوڑنا مناسب نہیں ۔ کہیں آپ مجھ پر نہ بگڑ بیٹھیں کہ انہیں تنہا کیوں چھوڑ دیا ؟ اور اولاد یعقوب میں یہ جدائی کیوں ڈال دی ؟ اور جو میں کہہ گیا تھا ، اس کی نگہبانی کیوں نہ کی ؟ بات یہ ہے کہ ہارون علیہ السلام میں جہاں اطاعت کا پورا مادہ تھا ، وہاں موسیٰ علیہ السلام کی عزت بھی بہت کرتے تھے اور ان کا بہت ہی لحاظ رکھتے تھے ۔ طه
93 طه
94 طه
95 گائے پرست سامری اور بچھڑا موسیٰ علیہ السلام نے سامری سے پوچھا کہ تو نے یہ فتنہ کیوں اٹھایا ؟ یہ شخص باجرو کا رہنے والا تھا ، اس کی قوم گائے پرست تھی ۔ اس کے دل میں گائے کی محبت گھر کئے ہوئے تھی ۔ اس نے بنی اسرائیل کے ساتھ اپنے ایمان کا اظہار کیا تھا ۔ اس کا نام موسیٰ بن ظفر تھا ۔ ایک روایت میں ہے ، یہ کرمانی تھا ۔ ایک روایت میں ہے ، اس کی بستی کا نام سامرا تھا ۔ اس نے جواب دیا کہ جب فرعون کی ہلاکت کے لیے جبرائیل علیہ السلام آئے تو میں نے ان کے گھوڑے کے ٹاپ تلے کی تھوڑی سی مٹی اٹھا لی ۔ اکثر مفسرین کے نزدیک مشہور بات یہی ہے ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب جبرائیل علیہ السلام آئے اور موسیٰ علیہ السلام کو لے کر چڑھنے لگے تو سامری نے دیکھ لیا ۔ اس نے جلدی سے ان کے گھوڑے کے سم تلے کی مٹی اٹھا لی ۔ موسیٰ علیہ السلام کو جبرائیل علیہ السلام آسمان تک لے گئے ، اللہ تعالیٰ نے تورات لکھی ، موسیٰ علیہ السلام قلم کی تحریر کی آواز سن رہے تھے لیکن جب آپ کو اپنی قوم کی مصیبت معلوم ہوئی تو نیچے اتر آئے اور اس بچھڑے کو جلا دیا ۔ لیکن اس اثر کی سند غریب ہے ۔ اسی خاک کی چٹکی یا مٹھی کو اس نے بنی اسرائیل کے جمع کردہ زیوروں کے جلنے کے وقت ان میں ڈال دی ۔ جو بصورت بچھڑا بن گئے اور چونکہ بیچ میں خلا تھا ، وہاں سے ہوا گھستی تھی اور اس سے آواز نکلتی تھی ۔ جبرائیل علیہ السلام کو دیکھتے ہی اس کے دل میں خیال گزرا تھا کہ میں ان کے گھوڑے کے ٹاپوں تلے کی مٹی اٹھا لوں ، میں جو چاہوں گا ، وہ اس مٹی کے ڈالنے سے بن جائے گا ۔ اس کی انگلیاں اسی وقت سوکھ گئی تھیں ۔ جب بنی اسرائیل نے دیکھا کہ ان کے پاس فرعونیوں کے زیورات رہ گئے اور فرعونی ہلاک ہو گئے اور یہ اب ان کو واپس نہیں ہو سکتے تو غمزدہ ہونے لگے ۔ سامری نے کہا ، دیکھو اس کی وجہ سے تم پر مصیبت نازل ہوئی ہے ، اسے جمع کر کے آگ لگا دو ۔ جب وہ جمع ہو گئے اور آگ سے پگھل گئے تو اس کے جی میں آئی کہ وہ خاک اس پر ڈال دے اور اسے بچھڑے کی شکل میں بنا لے چنانچہ یہی ہوا ۔ اور اس نے کہہ دیا کہ تمہارا اور موسیٰ علیہ السلام کا رب یہی ہے ۔ یہی وہ جواب دے رہا ہے کہ میں نے اسے ڈال دیا اور میرے دل نے یہی ترکیب مجھے اچھی طرح سمجھا دی ۔ کلیم اللہ علیہ السلام نے فرمایا ، تو نے نہ لینے کی چیز کو ہاتھ لگایا ، تیری سزا دنیا میں یہی ہے کہ اب نہ تو تو کسی کو ہاتھ لگا سکے نہ کوئی اور تجھے ہاتھ لگا سکے ۔ باقی سزا تیری قیامت کو ہو گی جس سے چھٹکارا محال ہے ۔ ان کے بقایا اب تک یہی کہتے ہیں کہ نہ چھونا ۔ اب تو اپنے معبود کا حشر بھی دیکھ لے جس کی عبادت پر اوندھا پڑا ہوا تھا کہ ہم اسے جلا کر راکھ کر دیتے ہیں چنانچہ وہ سونے کا بچھڑا اس طرح جل گیا جیسے خون اور گوشت والا بچھڑا جلے ۔ پھر اس کی راکھ کو تیز ہوا میں دریا میں ذرہ ذرہ کر کے اڑا دیا ۔ مروی ہے کہ اس نے بنی اسرائیل کی عورتوں کے زیور جہاں تک اس کے بس میں تھے لیے ان کا بچھڑا بنایا جسے موسیٰ علیہ السلام نے جلا دیا اور دریا میں اس کی خاک بہا دی ۔ جس نے بھی اس کا پانی پیا ، اس کا چہرہ زرد پڑ گیا ، اس سے سارے گئوسالہ پرست معلوم ہو گئے ۔ اب انہوں نے توبہ کی اور موسیٰ علیہ السلام سے دریافت کیا کہ ہماری توبہ کیسے قبول ہو گی ؟ حکم ہوا کہ ایک دوسرے کو قتل کرو ۔ اس کا پورا بیان پہلے گزر چکا ہے ۔ پھر آپ نے فرمایا کہ تمہارا معبود یہ نہیں ۔ مستحق عبادت تو صرف اللہ تعالیٰ ہے ۔ باقی تمام جہان اس کا محتاج ہے اور اس کے ماتحت ہے ۔ وہ ہرچیز کا عالم ہے ، اس کے علم نے تمام مخلوق کا احاطہٰ کر رکھا ہے ، ہرچیز کی گنتی اسے معلوم ہے ۔ ایک ذرہ بھی اس کے علم سے باہر نہیں ، ہر پتے کا اور ہر دانے کا اسے علم ہے بلکہ اس کے پاس کی کتاب میں وہ لکھا ہوا موجود ہے ۔ زمین کے تمام جانداروں کو روزیاں وہی پہنچاتا ہے ، سب کی جگہ اسے معلوم ہے ، سب کچھ کھلی اور واضح کتاب میں لکھا ہوا ہے ۔ علم الٰہی محیط کل اور سب کو حاوی ہے ۔ اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں ۔ طه
96 طه
97 طه
98 طه
99 سب سے اعلی کتاب فرمان ہے کہ جیسے موسیٰ علیہ السلام کا قصہ اصلی رنگ میں آپ کے سامنے بیان ہوا ، ایسے ہی اور بھی حالات گزشتہ آپ کے سامنے ہم ہو بہو بیان فرما رہے ہیں ۔ ہم نے تو آپ کو قرآن عظیم دے رکھا ہے ، جس کے پاس باطل پھٹک بھی نہیں سکتا کیونکہ آپ حکمت و حمد والے ہیں ۔ کسی نبی کو کوئی کتاب اس سے زیادہ کمال والی اور اس سے زیادہ جامع اور اس سے زیادہ بابرکت نہیں ملی ۔ ہرطرح سب سے اعلیٰ کتاب یہی کلام اللہ شریف ہے جس میں گذشتہ کی خبریں ، آئندہ کے امور اور ہر کام کے طریقے مذکور ہیں ۔ اسے نہ ماننے والا ، اس سے منہ پھیرنے والا ، اس کے احکام سے بھاگنے والا ، اس کے سوا کسی اور میں ہدایت کو تلاش کرنے والا گمراہ ہے اور جہنم کی طرف جانے والا ہے ۔ قیامت کو وہ اپنا بوجھ آپ اٹھائے گا اور اس میں دب جائے گا ۔ اس کے ساتھ جو بھی کفر کرے ، وہ جہنمی ہے ، کتابی ہو یا غیر کتابی ، عجمی ہو یا عربی ، اس کا منکر جہنمی ہے ۔ جیسے فرمان ہے کہ میں تمہیں بھی ہوشیار کرنے والا ہوں اور جسے بھی یہ پہنچے ۔ پس اس کا متبع ہدایت والا اور اس کا مخالف ضلالت و شقاوت والا ۔ جو یہاں برباد ہوا ، وہ وہاں دوزخی بنا ۔ اس عذاب سے اسے نہ تو کبھی چھٹکارا حاصل ہو ، نہ بچ سکے ، برا بوجھ ہے جو اس پر اس دن ہو گا ۔ طه
100 طه
101 طه
102 صور کیا ہے ؟ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوتا ہے کہ صور کیا چیز ہے ؟ آپ نے فرمایا وہ ایک قرن ہے جو پھونکا جائے گا ۔ } ۱؎ (سنن ترمذی:3244،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اور حدیث میں ہے کہ { اس کا دائرہ بقدر آسمانوں اور زمینوں کے ہے ۔ اسرافیل علیہ السلام اسے پھونکیں گے ۔} اور روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا ، { میں کیسے آرام حاصل کروں حالانکہ صور پھونکنے والے فرشتے نے صور کا لقمہ بنا لیا ہے ، پیشانی جھکا دی ہے اور انتظار میں ہے کہ کب حکم دیا جائے ۔ لوگوں نے کہا ، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہم کیا پڑھیں ؟ فرمایا کہو « حَسبُنَا اللہُ وَنِعمَ الوَکِیلُ عَلَی اللہِ تَوَکَّلنَا » ۔ } ۱؎ (سنن ترمذی:3243،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اس وقت تمام لوگوں کا حشر ہو گا کہ مارے ڈر اور گھبراہٹ کے گنہگاروں کی آنکھیں ٹیڑھی ہو رہی ہوں گی ۔ ایک دوسرے سے پوشیدہ پوشیدہ کہہ رہے ہوں گے کہ دنیا میں تو ہم بہت ہی کم رہے ، زیادہ سے زیادہ شاید دس دن وہاں گزرے ہونگے ۔ ہم ان کی اس رازداری کی گفتگو کو بھی بخوبی جانتے ہیں جب کہ ان میں سے بڑا عاقل اور کامل انسان کہے گا کہ میاں دس دن بھی کہاں رکے ؟ ہم تو صرف ایک دن ہی دنیا میں رہے ۔ غرض کفار کو دنیا کی زندگی ایک سپنے کی طرح معلوم ہو گی ۔ اس وقت وہ قسمیں کھا کھا کر کہیں گے کہ صرف ایک ساعت ہی دنیا میں ہم تو ٹھہرے ہوں گے ۔ چنانچہ اور آیت میں ہے « اَوَلَمْ نُعَمِّرْکُمْ مَّا یَتَذَکَّرُ فِیْہِ » ۱؎ (35-فاطر:37) الخ ۔ ہم نے تمہیں عبرت حاصل کرنے کے قابل عمر بھی دی تھی ۔ پھر ہوشیار کرنے والے بھی تمہارے پاس آچکے تھے ۔ اور آیتوں میں ہے کہ«قَالَ کَمْ لَبِثْتُمْ فِی الْأَرْضِ عَدَدَ سِنِینَ قَالُوا لَبِثْنَا یَوْمًا أَوْ بَعْضَ یَوْمٍ فَاسْأَلِ الْعَادِّینَ قَالَ إِن لَّبِثْتُمْ إِلَّا قَلِیلًا ۖ لَّوْ أَنَّکُمْ کُنتُمْ تَعْلَمُونَ» ۱؎ (23-المؤمنون:112) اس سوال پر کہ تم کتنا عرصہ زمین پر گزار آئے ؟ ان کا جواب ہے ایک دن بلکہ اس سے بھی کم ۔ فی الواقع دنیا ہے بھی آخرت کے مقابلے میں ایسی ہی ۔ لیکن اگر اس بات کو پہلے سے باور کر لیتے تو اس فانی کو اس باقی پر ، اس تھوڑی کو اس بہت پر پسند نہ کرتے بلکہ آخرت کا سامان اس دنیا میں کرتے ۔ طه
103 طه
104 طه
105 پہاڑوں کا کیا ہو گا؟ لوگوں نے پوچھا کہ قیامت کے دن یہ پہاڑ باقی رہیں گے یا نہیں ؟ ان کا سوال نقل کر کے جواب دیا جاتا ہے کہ یہ ہٹ جائیں گے ، چلتے پھرتے نظر آئیں گے اور آخر ریزہ ریزہ ہو جائیں گے ۔ زمین صاف چٹیل ہموار میدان کی صورت میں ہو جائے گی ۔ «قاع» کے معنی ہموار صاف میدان ہے ۔ «صفصفا» اسی کی تاکید ہے اور «صفصف» کے معنی بغیر روئیدگی کی زمین کے بھی ہیں لیکن پہلے معنی زیادہ اچھے ہیں اور دوسرے مرادی اور لازمی ہیں ۔ نہ اس میں کوئی وادی رہے گی نہ ٹیلہ ، نہ اونچان رہے گی نہ نیچائی ۔ ان دہشت ناک امور کے ساتھ ہی ایک آواز دینے والا آواز دے گا جس کی آواز پر ساری مخلوق لگ جائے گی ، دوڑتی ہوئی حسب فرمان ایک طرف چلی جا رہی ہو گی ، نہ ادھر ادھر ہو گی نہ ٹیڑھی بان کی چلے گی ۔ کاش کہ یہی روش دنیا میں رکھتے اور اللہ کے احکام کی بجا آوری میں مشغول رہتے ۔ لیکن آج کی یہ روش بالکل بےسود ہے ۔ «أَسْمِعْ بِہِمْ وَأَبْصِرْ یَوْمَ یَأْتُونَنَا» ۱؎ (19-مریم:38) اس دن تو خوب دیکھتے سنتے بن جائیں گے اور آواز کے ساتھ فرماں برداری کریں گے ۔ اندھیری جگہ حشر ہو گا ۔ آسمان لپیٹ لیا جائے گا ، ستارے جھڑ پڑیں گے ، سورج چاند مٹ جائے گا ۔ «مٰہْطِعِینَ إِلَی الدَّاعِ ۖ یَقُولُ الْکَافِرُونَ ہٰذَا یَوْمٌ عَسِرٌ » ۱؎ (54-القمر:8) آواز دینے والے کی آواز پر سب چل کھڑے ہوں گے ۔ اس ایک میدان میں ساری مخلوق جمع ہو گی مگر اس غضب کا سناٹا ہو گا کہ آداب بارگاہ الٰہی کی وجہ سے ایک آواز نہ اٹھے گی ۔ بالکل سکون وسکوت ہو گا ، صرف پیروں کی چاپ ہو گی اور کانا پھوسی ۔ چل کر جا رہے ہوں گے تو پیروں کی چاپ تو لامحالہ ہونی ہی ہے اور بااجازت الٰہی کبھی کبھی کسی کسی حال میں بولیں گے بھی ۔ لیکن چلنا بھی باادب اور بولنا بھی باادب ۔ جیسے ارشاد ہے ، « یَوْمَ یَاْتِ لَا تَکَلَّمُ نَفْسٌ اِلَّا بِاِذْنِہٖ ۚ فَمِنْہُمْ شَقِیٌّ وَّسَعِیْدٌ » ۔ (11-ہود:105) ’ یعنی جس دن وہ میرے سامنے حاضر ہوں گے ، کسی کی مجال نہ ہو گی کہ بغیرمیری اجازت کے زبان کھول لے ۔ بعض نیک ہوں گے اور بعض بد ہوں گے ۔‘ طه
106 طه
107 طه
108 طه
109 نوعیت شفاعت اور روز قیامت قیامت کے دن کسی کی مجال نہ ہو گی کہ«مَن ذَا الَّذِی یَشْفَعُ عِندَہُ إِلَّا بِإِذْنِہِ» ۱؎ (2-البقرۃ:255) ’ دوسرے کے لیے شفاعت کرے ہاں جسے اللہ اجازت دے ۔ ‘ «وَکَم مِّن مَّلَکٍ فِی السَّمَاوَاتِ لَا تُغْنِی شَفَاعَتُہُمْ شَیْئًا إِلَّا مِن بَعْدِ أَن یَأْذَنَ اللہُ لِمَن یَشَاءُ وَیَرْضَیٰ » ۱؎ (53-النجم:26) ’ نہ آسمان کے فرشتے بے اجازت کسی کی سفارش کر سکیں نہ اور کوئی بزرگ بندہ ۔ سب کو خود خوف لگا ہو گا ، بے اجازت کسی کی سفارش نہ ہو گی ۔ ‘ «یَوْمَ یَقُومُ الرٰوحُ وَالْمَلَائِکَۃُ صَفًّا ۖ لَّا یَتَکَلَّمُونَ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَہُ الرَّحْمٰنُ وَقَالَ صَوَابًا » ۱؎ (78-النبأ:38) ’ فرشتے اور روح صف بستہ کھڑے ہوں گے ، بے اجازت الٰہی کوئی لب نہ کھول سکے گا ۔ ‘ { خود سید الناس اکرم الناس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی عرش تلے اللہ کے سامنے سجدے میں گر پڑیں گے ، اللہ کی خوب حمد و ثنا کریں گے ، دیر تک سجدے میں پڑے رہیں گے ۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا ، اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنا سر اٹھاؤ ، کہو تمہاری بات سنی جائے گی ، شفاعت کرو تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی ۔ پھر حد مقرر ہو گی آپ ان کی شفاعت کر کے جنت میں لے جائیں گے ، پھر لوٹیں گے پھر یہی حکم ہو گا ۔ } «صلوات اللہ وسلامہ علیہ وعلی سائر الانبیاء» ۔ اور حدیث میں ہے کہ { حکم ہو گا کہ جہنم سے ان لوگوں کو بھی نکال لاؤ جن کے دل میں ایک مثقال ایمان ہو ، پس بہت سے لوگوں کو نکال لائیں گے ۔ پھر فرمائے گا جس کے دل میں آدھا مثقال ایمان ہو اسے بھی نکال لاؤ ۔ جس کے دل میں بقدر ایک ذرے کے ایمان ہو اسے بھی نکال لاؤ ۔ جس کے دل میں اس سے بھی کم اس سے بھی کم ، اس سے بھی کم ایمان ہو ، اسے بھی جہنم سے آزاد کرو ، الخ ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:183) اس نے تمام مخلوق کا اپنے علم سے احاطہٰ کر رکھا ہے ، مخلوق اس کے علم کا احاطہٰ کر ہی نہیں سکتی ۔ جیسے فرمان ہے «وَلَا یُحِیطُونَ بِشَیْءٍ مِّنْ عِلْمِہِ إِلَّا بِمَا شَاءَ» (2-البقرۃ:265) ’ اس کے علم میں سے صرف وہی معلوم کر سکتے ہیں جو وہ چاہے ۔ ‘ تمام مخلوق کے چہرے عاجزی پستی ذلت و نرمی کے ساتھ اس کے سامنے پست ہیں ، اس لیے کہ وہ موت و فوت سے پاک ہے ، ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ ہی رہنے والا ہے ، وہ نہ سوئے نہ اونگھے ۔ خود اپنے آپ قائم رہنے والا اور ہرچیز کو اپنی تدبیر سے قائم رکھنے والا ہے ۔ سب کی دیکھ بھال حفاظت اور سنبھال وہی کرتا ہے ، وہ تمام کمالات رکھتا ہے اور ساری مخلوق اس کی محتاج ہے ، بغیر رب کی مرضی کے نہ پیدا ہو سکے نہ باقی رہ سکے ۔ جس نے یہاں ظلم کئے ہوں گے وہ وہاں برباد ہو گا ۔ کیونکہ ہر حقدار کو اللہ تعالیٰ اس دن اس کے حق دلوائے گا یہاں تک کہ بے سینگ کی بکری کو سینگ والی بکری سے بدلہ دلوایا جائے گا ۔ حدیث قدسی میں ہے کہ { اللہ تعالیٰ عزوجل فرمائے گا ، مجھے اپنی عزت وجلال کی قسم ، کسی ظالم کے ظلم کو میں اپنے سامنے سے نہ گزرنے دوں گا ۔ } صحیح حدیث میں ہے { لوگو ! ظلم سے بچو ۔ ظلم قیامت کے دن اندھیرا بن کر آئے گا } ۱؎ (صحیح مسلم:2578) اور سب سے بڑھ کرنقصان یافتہ وہ ہے جو اللہ سے شرک کرتا ہوا مرا ، وہ تباہ و برباد ہوا ، اس لیے کہ «إِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیمٌ» ۱؎ (31-لقمان:13) ’ شرک ظلم عظیم ہے ۔ ‘ ظالموں کا بدلہ بیان فرما کر متقیوں کا ثواب بیان ہو رہا ہے کہ نہ ان کی برائیاں بڑھائی جائیں نہ ان کی نیکیاں گھٹائی جائیں ۔ گناہ کی زیادتی اور نیکی کی کمی سے وہ بے کھٹکے ہیں ۔ طه
110 طه
111 طه
112 طه
113 وعدہ حق وعید حق چونکہ قیامت کا دن آنا ہی ہے اور اس دن نیک و بد اعمال کا بدلہ ملنا ہی ہے ، لوگوں کو ہوشیار کرنے کے لیے ہم نے بشارت والا اور دھمکانے والا اپنا پاک کلام عربی صاف زبان میں اتارا تاکہ ہر شخص سمجھ سکے اور اس میں گو ناگوں طور پر لوگوں کو ڈرایا ، طرح طرح سے ڈراوے سنائے ۔ تاکہ لوگ برائیوں سے بچیں ، بھلائیوں کے حاصل کرنے میں لگ جائیں یا ان کے دلوں میں غور و فکر نصیحت و پند پیدا ہو ، اطاعت کی طرف جھک جائیں ، نیک کاموں کی کوشش میں لگ جائیں ۔ پس پاک اور برتر ہے وہ اللہ جو حقیقی شہنشاہ ہے ، دونوں جہاں کا تنہا مالک ہے ، وہ خود حق ہے ، اس کا وعدہ حق ہے ، اس کی وعید حق ہے ، اس کے رسول علیہم السلام حق ہیں ، جنت دوزخ حق ہے ، اس کے سب فرمان اور اس کی طرف سے جو ہو سراسر عدل و حق ہے ۔ اس کی ذات اس سے پاک ہے کہ آگاہ کئے بغیر کسی کوسزا دے ، وہ سب کے عذر کاٹ دیتا ہے کسی کے شبہ کو باقی نہیں رکھتا ، حق کو کھول دیتا ہے پھر سرکشوں کو عدل کے ساتھ سزا دیتا ہے ۔ جب ہماری وحی اتر رہی ہو ، اس وقت تم ہمارے کلام کو پڑھنے میں جلدی نہ کرو ، پہلے پوری طرح سن لیا کرو ۔ جیسے سورۃ القیامہ میں فرمایا «لَا تُحَرِّکْ بِہِ * لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہِ إِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہُ وَقُرْآنَہُ * فَإِذَا قَرَأْنَاہُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَہُ * ثُمَّ إِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہُ » ۱؎ (75-القیامۃ:16-19) ’ یعنی جلدی کر کے بھول جانے کے خوف سے وحی اترتے ہوئے ساتھ ہی ساتھ اسے نہ پڑھنے لگو ۔ اس کا آپ کے سینے میں جمع کرنا اور آپ کی زبان سے تلاوت کرانا ہمارے ذمے ہے ۔ جب ہم اسے پڑھیں تو آپ اس پڑھنے کے تابع ہو جائیں پھر اس کا سمجھا دینا بھی ہمارے ذمہ ہے ۔ ‘ حدیث میں ہے کہ { پہلے آپ جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ ساتھ پڑھتے تھے جس میں آپ کودقت ہوتی تھی ، جب یہ آیت اتری تو آپ اس مشقت سے چھوٹ گئے } ۱؎ (صحیح بخاری:5) اور اطمینان ہو گیا کہ وحی الٰہی جتنی نازل ہو گی ، مجھے یاد ہو جایا کرے گی ۔ ایک حرف بھی نہ بھولوں گا کیونکہ اللہ کا وعدہ ہو چکا ۔ یہی فرمان یہاں ہے کہ فرشتے کی قرأت چپکے سے سنو ۔ جب وہ پڑھ چکے پھر تم پڑھو اور مجھ سے اپنے علم کی زیادتی کی دعا کیا کرو ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی ، اللہ نے قبول کی اور انتقال تک علم میں بڑھتے ہی رہے ۔ حدیث میں ہے کہ { وحی برابر پے در پے آتی رہی یہاں تک کہ جس دن آپ فوت ہونے کو تھے ، اس دن بھی بکثرت وحی اتری ۔} ۱؎ (صحیح بخاری:4982) ابن ماجہ کی حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا منقول ہے « اللہُمَّ اِنْفَعْنِی بِمَا عَلَّمْتنِی وَعَلِّمْنِی مَا یَنْفَعنِی وَزِدْنِی عِلْمًا وَالْحَمْد لِلہِ عَلَی کُلّ حَال » ترمذی میں بھی یہ حدیث ہے اور آخر میں یہ الفاظ زیادہ ہیں « وَأَعُوذ بِاَللَّہِ مِنْ حَال أَہْل النَّار » ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3599،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) طه
114 طه
115 انسان کو انسان کیوں کہا جاتا ہے ؟ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں انسان کو انسان اس لیے کہا جاتا ہے کہ اسے جو حکم سب سے پہلے فرمایا گیا یہ اسے بھول گیا ۔ مجاہد اور حسن رحمہ اللہ علیہم فرماتے ہیں اس حکم کو آدم علیہ السلام نے چھوڑ دیا ۔ پھر آدم علیہ السلام کی شرافت و بزرگی کا بیان ہو رہا ہے ۔ «سورۃ البقرہ» ، «سورۃ الاعراف» ، «سورۃ الحجر» اور «سورۃ الکہف» میں شیطان کے سجدہ نہ کرنے والے واقعہ کی پوری تفسیر بیان کی جا چکی ہے اور سورۃ ص میں بھی اس کا بیان آئے گا ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ ان تمام سورتوں میں آدم علیہ السلام کی پیدائش کا ، پھر ان کی بزرگی کے اظہار کے لیے فرشتوں کو انہیں سجدہ کرنے کے حکم کا اور ابلیس کی مخفی عداوت کے اظہار کا بیان ہوا ہے ، اس نے تکبر کیا اور حکم الٰہی کا انکار کر دیا ۔ اس وقت آدم علیہ السلام کو سمجھا دیا گیا کہ دیکھ یہ تیرا اور تیری بیوی حواء علیہا السلام کا دشمن ہے ، اس کے بہکاوے میں نہ آ جانا ورنہ محروم ہو کر جنت سے نکال دیے جاؤ گے اور سخت مشقت میں پڑ جاؤ گے ۔ روزی کی تلاش کی محنت سر پڑ جائے گی ۔ یہاں تو بے محنت و مشقت روزی پہنچ رہی ہے ۔ یہاں تو ناممکن ہے کہ بھوکے رہو ، ناممکن ہے کہ ننگے رہو ۔ اس اندورنی اور بیرونی تکلیف سے بچے ہوئے ہو ۔ پھر یہاں نہ پیاس کی گرمی اندرونی طور سے ستائے ، نہ دھوپ کی تیزی کی گرمی بیرونی طور پر پریشان کرے ۔ اگر شیطان کے بہکاوے میں آ گئے تو یہ راحتیں چھین لی جائیں گی اور ان کے مقابل کی تکلیفیں سامنے آ جائیں گی ۔ لیکن شیطان نے اپنے جال میں انہیں پھانس لیا اور مکاری سے انہیں اپنی باتوں میں لے لیا قسمیں کھا کھا کر انہیں اپنی خیر خواہی کا یقین دلا دیا ۔ طه
116 طه
117 طه
118 طه
119 . پہلے ہی سے اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان سے فرما دیا تھا کہ جنت کے تمام میوے کھانا لیکن اس درخت کے نزدیک بھی نہ جانا ۔ مگر شیطان نے انہیں اس قدر پھسلایا کہ آخرکار یہ اس درخت میں سے کھا بیٹھے ۔ اس نے دھوکہ کرتے ہوئے ان سے کہا کہ جو اس درخت کو کھا لیتا ہے ، وہ ہمیشہ یہیں رہتا ہے ۔ صادق و مصدوق { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جنت میں ایک درخت ہے جس کے سائے تلے سوار سو سال تک چلا جائے گا لیکن تاہم وہ ختم نہ ہو گا ، اس کا نام شجرۃ الخلد ہے ۔ } ۱؎ (مسند احمد:455/2:صحیح دون الجملہ) دونوں نے درخت میں سے کچھ کھایا ہی تھا کہ لباس اتر گیا اور اعضاء ظاہر ہو گئے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ، { اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو گندمی رنگ کا لمبے قد و قامت والا زیادہ بالوں والا بنایا تھا ۔ کھجور کے درخت جتنا قد تھا ۔ ممنوع درخت کو کھاتے ہی لباس چھن گیا ۔ اپنے ستر کو دیکھتے ہی مارے شرم کے ادھر ادھر چھپنے لگے ، ایک درخت میں بال الجھ گئے ، جلدی سے چھڑانے کی کوشش کر رہے تھے ۔ جب اللہ تعالیٰ نے آواز دی کہ آدم [ علیہ السلام ] کیا مجھ سے بھاگ رہا ہے ؟ کلام رحمان سن کر ادب سے عرض کیا کہ اے اللہ ! مارے شرمندگی کے سر چھپانا چاہتا ہوں ۔ اچھا اب یہ تو فرما دے کہ توبہ اور رجوع کے بعد بھی جنت میں پہنچ سکتا ہوں ؟ جواب ملا کہ ہاں ۔ } یہی معنی ہیں اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے ۔ آدم علیہ السلام نے اپنے رب سے چند کلمات لے لیے جس کی بنا پر اللہ نے اسے پھر سے اپنی مہربانی میں لے لیا ۔ یہ روایت منقطع ہے اور اس کے مرفوع ہونے میں بھی کلام ہے ۔ جب آدم علیہ السلام وحضرت حواء علیہا السلام سے لباس چھن گیا تو اب جنت کے درختوں کے پتے اپنے جسم پر چپکانے لگے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ، انجیر کے پتوں سے اپنا آپ چھپانے لگے ۔ اللہ کی نافرمانی کی وجہ سے راہ راست سے ہٹ گئے ۔ لیکن آخرکار اللہ تعالیٰ نے پھر ان کی رہنمائی کی ۔ توبہ قبول فرمائی اور اپنے خاص بندوں میں شامل کر لیا ۔ صحیح بخاری شریف وغیرہ میں ہے ، { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام اور آدم علیہ السلام میں گفتگو ہوئی ۔ موسیٰ علیہ السلام فرمانے لگے آپ نے اپنے گناہ کی وجہ سے تمام انسانوں کو جنت سے نکلوا دیا اور انہیں مشقت میں ڈال دیا ۔ آدم علیہ السلام نے جواب دیا ، اے موسیٰ آپ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی رسالت سے اور اپنے کلام سے ممتاز فرمایا آپ مجھے اس بات پر الزام دیتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے میری پیدائش سے پہلے ہی مقدر اور مقرر کر لیا تھا ۔ پس آدم علیہ السلام نے اس گفتگو میں موسیٰ علیہ السلام کو لاجواب کر دیا ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:6614) اور روایت میں موسیٰ علیہ السلام کا یہ فرمان بھی ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا تھا اور آپ میں آپ کی روح اس نے پھونکی تھی اور آپ کے سامنے اپنے فرشتوں کو سجدہ کرایا تھا اور آپ کو اپنی جنت میں بسایا تھا ۔ آدم علیہ السلام کے اس جواب میں یہ بھی مروی ہے کہ اللہ نے آپ کو وہ تختیاں دیں جن میں ہر چیز کا بیان تھا اور سرگوشی کرتے ہوئے آپ کو قریب کر لیا ۔ بتلاؤ اللہ نے تورات کب لکھی تھی ؟ جواب دیا آپ سے چالیس سال پہلے ۔ پوچھا کیا اس میں یہ لکھا ہوا تھا کہ آدم علیہ السلام نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور راہ بھول گیا کہا ہاں ۔ فرمایا پھر تم مجھے اس امر کا الزام کیوں دیتے ہو ؟ جو میری تقدیر میں اللہ تعالیٰ نے میری پیدائش سے بھی چالیس سال پہلے لکھ دیا تھا ۔ طه
120 طه
121 طه
122 طه
123 ایک دوسرے کے دشمن آدم علیہ السلام و حواء علیہا السلام اور ابلیس لعین سے اسی وقت فرما دیا گیا کہ تم سب جنت سے نکل جاؤ ۔ سورۃ البقرہ میں اس کی پوری تفسیر گزر چکی ہے ۔ تم آپس میں ایک دوسرے کے دشمن ہو یعنی اولاد آدم اور اولاد ابلیس ۔ تمہارے پاس میرے رسول اور میری کتابیں آئیں گی ۔ میری بتائی ہوئی راہ کی پیروی کرنے والے نہ تو دنیا میں رسوا ہوں گے نہ آخرت میں ذلیل ہوں گے ۔ ہاں حکموں کے مخالف ، میرے رسول کی راہ کے تارک ، دوسری راہوں پہ چلنے والے دنیا میں بھی تنگ رہیں گے ، اطمینان اور کشادہ دلی میسر نہ ہو گی ۔ اپنی گمراہی کی وجہ سے تنگیوں میں ہی رہیں گے گو بظاہر کھانے پینے پہننے اوڑھنے رہنے سہنے کی فراخی ہو لیکن دل میں یقین و ہدایت نہ ہونے کی وجہ سے ہمیشہ شک و شبہے اور تنگی اور قلت میں مبتلا رہیں گے ۔ بدنصیب ، رحمت الٰہی سے محروم ، خیر سے خالی ۔ کیونکہ اللہ پر ایمان نہیں ، اس کے وعدوں کا یقین نہیں ، مرنے کے بعد کی نعمتوں میں کوئی حصہ نہیں ۔ اللہ کے ساتھ بدگمان ہیں ، گئی ہوئی چیز کو آنے والی نہیں سمجھتے ۔ خبیث روزیاں ہیں ، گندے عمل ہیں ، قبر تنگ و تاریک ہے ۔ وہاں اس طرح دبوچا جائے گا کہ دائیں پسلیاں بائیں میں اور بائیں طرف کی دائیں طرف میں گھس جائیں گی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ، { مومن کی قبر ہرا بھرا سرسبز باغیچہ ہے ، ستر [ 70 ] ہاتھ کی کشادہ ہے ، ایسا معلوم ہوتا ہے گویا چاند اس میں ہے ، خوب نور اور روشنی پھیل رہی ہے جیسے چودھویں رات کا چاند چڑھا ہوا ہو ۔ اس آیت کا شان نزول معلوم ہے کہ میرے ذکر سے منہ پھیرنے والوں کی معیشت تنگ ہے ۔ اس سے مراد کافر کی قبر میں اس پر عذاب ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:227/16:ضعیف) اللہ کی قسم اس پر ننانوے اژدھے مقرر کئے جاتے ہیں ہر ایک کے سات سات سر ہوتے ہیں جو اسے قیامت تک ڈستے رہتے ہیں ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:24426:ضعیف) اس حدیث کا مرفوع ہونا بالکل منکر ہے ۔ } ایک عمدہ سند سے بھی مروی ہے کہ { اس سے مراد عذاب قبر ہے ۔} ۱؎ (مستدرک حاکم:381/2:حسن) یہ قیامت کے دن اندھا بنا کر اٹھایا جائے گا سوائے جہنم کے کوئی چیز اسے نظر نہ آئے گی ۔ نابینا ہو گا اور میدان حشر کی طرف چلایا جائے گا اور جہنم کے سامنے کھڑا کر دیا جائے گا ۔ جیسے فرمان ہے « وَنَحْشُرُہُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ عَلٰی وُجُوْہِہِمْ عُمْیًا وَّبُکْمًا وَّصُمًّا ۭ مَاْوٰیہُمْ جَہَنَّمُ ۭ کُلَّمَا خَبَتْ زِدْنٰہُمْ سَعِیْرًا»۱؎ (17-الإسراء:97) ۔ ’ یعنی ہم انہیں قیامت کے دن اوندھے منہ اندھے گونگے بہرے بنا کر حشر میں لے جائیں گے ان کا اصلی ٹھکانہ دوزخ ہے ۔ ‘ یہ کہیں گے کہ میں تو دنیا میں آنکھوں والا خوب دیکھتا بھالتا تھا ، پھر مجھے اندھا کیوں کر دیا گیا ؟ جواب ملے گا کہ یہ بدلہ ہے اللہ کی آیتوں سے منہ موڑ لینے کا اور ایسا ہو جانے کا گویا خبر ہی نہیں ۔ پس آج ہم بھی تیرے ساتھ ایسا معاملہ کریں گے کہ جیسے تو ہماری یاد سے اتر گیا ۔ جیسے فرمان ہے «فَالْیَوْمَ نَنْسٰیہُمْ کَمَا نَسُوْا لِقَاۗءَ یَوْمِہِمْ ھٰذَا ۙ وَمَا کَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَجْحَدُوْنَ» ۱؎ (7-الأعراف:51) ۔ ’ آج ہم انہیں ٹھیک اسی طرح بھلا دیں گے جیسے انہوں نے آج کے دن کی ملاقات کو بھلا دیا تھا ۔ ‘ پس یہ برابر کا اور عمل کی طرح کا بدلہ ہے ۔ قرآن پر ایمان رکھتے ہوئے اس کے احکام کا عامل ہوتے ہوئے کسی شخص سے اگر اس کے الفاظ حفظ سے نکل جائیں تو وہ اس وعید میں داخل نہیں ۔ اس کے لیے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے جذامی ہونے کی حالت میں ملاقات کرے گا ۔} ۱؎ (سنن ابوداود:1474:ضعیف) طه
124 طه
125 طه
126 طه
127 دنیا کی سزائیں جو حدود الٰہی کی پرواہ نہ کریں ، اللہ کی آیتوں کو جھٹلائیں ، انہیں ہم اسی طرح دنیا و آخرت کے عذابوں میں مبتلاکرتے ہیں ۔ خصوصا آخرت کا عذاب تو بہت ہی بھاری ہے اور وہاں کوئی نہ ہو گا جو بچا سکے ۔ دنیا کے عذاب نہ تو سختی میں اس کے مقابلے کے ہیں نہ مدت میں دائمی اور نہایت المناک ہیں ۔ { ملاعنہ کرنے والوں کو سمجھاتے ہوئے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا تھا کہ دنیا کی سزا آخرت کے عذابوں کے مقابلے میں بہت ہی ہلکی اور ناچیز ہے ۔ } (صحیح مسلم:1493) طه
128 ویرانوں سے عبرت حاصل کرو جو لوگ تجھے نہیں مان رہے اور تیری شریعت کا انکار کر رہے ہیں ، کیا وہ اس بات سے بھی عبرت حاصل نہیں کرتے کہ ان سے پہلے جنہوں نے یہ ڈھنگ نکالے تھے ، ہم نے انہیں تباہ و برباد کر دیا ؟ آج ان کی ایک آنکھ جھپکتی ہوئی اور ایک سانس چلتا ہوا اور ایک زبان بولتی ہوئی باقی نہیں بچی ۔ ان کے بلند و بالا ، پختہ اور خوبصورت ، کشادہ اور زینت دار محل ویران کھنڈر پڑے ہوئے ہیں جہاں سے ان کی آمد ورفت رہتی ہے ۔ اگر یہ عقلمند ہوتے تو یہ سامان عبرت ان کے لیے بہت کچھ تھا ۔ کیا یہ زمین میں چل پھر کر قدرت کی ان نشانیوں پر دل سے غور فکر نہیں کرتے ؟ کیا کانوں سے ان کے درد ناک فسانے سن کرعبرت حاصل نہیں کرتے ؟ کیا ان کی اجڑی ہوئی بستیاں دیکھ کر بھی آنکھیں نہیں کھولتے ؟ یہ آنکھوں کے ہی اندھے نہیں بلکہ دل کے بھی اندھے ہیں ۔ سورۃ «الم السجدہ» میں بھی مندرجہ بالا آیت جیسی آیت ہے ۔ اللہ تعالیٰ یہ بات مقرر کر چکا ہے کہ جب تک بندوں پر اپنی حجت ختم نہ کر دے انہیں عذاب نہیں کرتا ۔ ان کے لیے اس نے ایک وقت مقرر کر دیا ہے ، اسی وقت ان کو ان کے اعمال کی سزا ملے گی ۔ اگریہ بات نہ ہوتی تو ادھر گناہ کرتے ادھر پکڑ لیے جاتے ۔ تو ان کی تکذیب پر صبر کر ، ان کی بے ہودہ باتوں پر برداشت کر ۔ تسلی رکھ یہ میرے قبضے سے باہر نہیں ۔ سورج نکلنے سے پہلے سے مراد تو نماز فجر ہے اور سورج ڈوبنے سے پہلے سے مراد نماز عصر ہے ۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ { ہم ایک مرتبہ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ، آپ نے چودھویں رات کے چاند کو دیکھ کر فرمایا کہ تم عنقریب اپنے رب کو اسی طرح دیکھو گے جس طرح اس چاند کو بغیر مزاحمت اور تکلیف کے دیکھ رہے ہو ، پس اگر تم سے ہو سکے تو سورج نکلنے سے پہلے کی اور سورج غروب ہونے سے پہلے کی نماز کی پوری طرح حفاظت کرو ۔ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:554) مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، ان دونوں وقتوں کی نماز پڑھنے والا آگ میں نہ جائے گا ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:634) مسند اور سنن میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، { سب سے ادنی درجے کا جنتی وہ ہے جو دو ہزار برس کی راہ تک اپنی ہی اپنی ملکیت دیکھے گا سب سے دور کی چیز بھی اس کے لیے ایسی ہی ہو گی جیسے سب سے نزدیک کی اور سب سے اعلیٰ منزل والے تو دن میں دو دو دفعہ دیدار الٰہی کریں گے ۔ } ۱؎ (سنن ترمذی:3330،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) پھر فرماتا ہے رات کے وقتوں میں بھی تہجد پڑھا کر ۔ بعض کہتے ہیں اس سے مراد مغرب اور عشاء کی نماز ہے ۔ اور دن کے وقتوں میں بھی اللہ کی پاکیزگی بیان کیا کر ۔ تاکہ اللہ کے اجر و ثواب سے تو خوش ہو جائے ۔ جیسے فرمان ہے «وَلَسَوْفَ یُعْطِیکَ رَبٰکَ فَتَرْضَیٰ» ۱؎ (93-الضحی:5) عنقریب تیرا اللہ تجھے وہ دے گا کہ تو خوش ہو جائے گا ۔ ‘ صحیح حدیث میں ہے ، اللہ تعالیٰ فرمائے گا اے جنتیو ! وہ کہیں گے «لبیک ربنا و سعدیک» ۔ { اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا تم خوش ہو گئے ؟ وہ کہیں گے اے اللہ ہم بہت ہی خوش ہیں تو نے ہمیں وہ نعمتیں عطا فرما رکھی ہیں جو مخلوق میں سے کسی کو نہیں دیں ۔ پھر کیا وجہ کہ ہم راضی نہ ہوں ۔ جناب باری ارحم الراحمین فرمائے گا ، لو میں تمہیں ان سب سے افضل چیز دیتا ہوں ۔ پوچھیں گے اے اللہ ! اس سے افضل چیز کیا ہے ؟ فرمائے گا میں تمہیں اپنی رضا مندی دیتا ہوں کہ اب کسی وقت بھی میں تم سے ناخوش نہ ہوں گا ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:6549) اور حدیث میں ہے کہ { جنتیوں سے فرمایا جائے گا کہ اللہ نے تم سے جو وعدہ کیا تھا ، وہ اسے پورا کرنے والا ہے ، کہیں گے اللہ کے سب وعدے پورے ہوئے ۔ ہمارے چہرے روشن ہیں ، ہماری نیکیوں کا پلہ گراں رہا ، ہمیں دوزخ سے ہٹا دیا گیا ، جنت میں داخل کر دیا گیا ۔ اب کون سی چیز باقی ہے ؟ اسی وقت حجاب اٹھ جائیں گے اور دیدار الٰہی ہو گا ۔ اللہ کی قسم اس سے بہتر اور کوئی نعمت نہ ہو گی ۔ یہی زیادتی ہے ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:181) طه
129 طه
130 طه
131 شکر یا تکبر؟ ان کفار کی دنیاوی زینت اور ان کی ٹیپ ٹاپ کو تو حسرت بھری نگاہوں سے نہ دیکھ ، یہ تو ذرا سی دیر کی چیزیں ہیں ۔ یہ صرف ان کی آزمائش کے لیے انہیں یہاں ملی ہیں کہ دیکھیں شکر و تواضع کرتے ہیں یا ناشکری اور تکبر کرتے ہیں ؟ حقیقتاً شکر گزاروں کی کمی ہے ۔ ان کے مالداروں کو جو کچھ ملا ہے اس سے تجھے تو بہت ہی بہتر نعمت ملی ہے ۔ ہم نے تجھے سات آیتیں دی ہیں جو دوہرائی جاتی ہیں اور قرآن عظیم عطا فرما رکھا ہے ، پس اپنی نظریں ان کے دنیاوی ساز و سامان کی طرف نہ ڈال ۔ اسی طرح اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے لیے اللہ کے پاس جو مہمانداری ہے ، اس کی نہ تو کوئی انتہا ہے اور نہ اس وقت کوئی اس کے بیان کی طاقت رکھتا ہے ۔ تجھے تیرا پروردگار اس قدر دے گا کہ تو راضی رضامند ہو جائے گا ۔ اللہ کی دین بہتر اور باقی ہے ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات سے ایلا کیا تھا اور ایک بالاخانے میں مقیم تھے ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جب وہاں پہنچے تو دیکھا کہ آپ ایک کھردرے بوریے پر لیٹے ہوئے ہیں ۔ چمڑے کا ایک ٹکڑا ایک طرف رکھا تھا اور کچھ مشکیں لٹک رہی تھیں ۔ یہ بے سر و سامانی کی حالت دیکھ کر آپ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کیوں رو دیے ؟ جواب دیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قیصر و کسریٰ کس قدر عیش وعشرت میں ہیں اور آپ باوجود ساری مخلوق میں سے اللہ کے برگزیدہ ہونے کے کس حالت میں ہیں ؟ آپ نے فرمایا ! اے خطاب کے بیٹے کیا اب تک تم شک میں ہی ہو ؟ ان لوگوں کی اچھائیوں نے دنیا میں ہی جلدی کر لی ہے ۔} ۱؎ (صحیح بخاری:2468) پس رسول صلی اللہ علیہ وسلم باوجود قدرت اور دسترس کے دنیا سے نہایت ہی بے رغبت تھے ۔ جو ہاتھ لگتا ، اسے راہ للہ دے دیتے اور اپنے لیے ایک پیسہ بھی نہ بچا رکھتے ۔ ابن ابی حاتم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مروی ہے کہ { آپ نے فرمایا مجھے تو تم پر سب سے زیادہ خوف اس وقت کا ہے کہ دنیا تمہارے قدموں میں اپنا تمام ساز و سامان ڈال دے گی ۔ اپنی برکتیں تم پر الٹ دے گی ۔ } الغرض کفار کو زینت کی زندگی اور دنیا صرف ان کی آزمائش کے لیے دی جاتی ہے ۔ اپنے گھرانے کے لوگوں کو نماز کی تاکید کرو تاکہ وہ عذاب الٰہی سے بچ جائیں ، خود بھی پابندی کے ساتھ اس کی ادائیگی کرو ۔ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو جہنم سے بچالو ۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی عادت مبارکہ تھی کہ رات کو جب تہجد کے لیے اٹھتے تو اپنے گھر والوں کو بھی جگاتے اور اسی آیت کی تلاوت فرماتے ۔ ہم تجھ سے رزق کے طالب نہیں ۔ نماز کی پابندی کر لو ، اللہ ایسی جگہ سے روزی پہنچائے گا جو خواب و خیال میں بھی نہ ہو ۔ اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں کے لیے چھٹکارا کر دیتا ہے اور بے شان و گمان جگہ سے روزی پہنچاتا ہے ۔ تمام جنات اور انسان صرف عبادت الٰہی کے لیے پیدا کئے گئے ہیں ۔ رزاق اور زبردست قوتوں کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ فرماتا ہے ہم خود تمام مخلوق کے روزی رساں ہیں ۔ ہم تمیں طلب کی تکلیف نہیں دیتے ۔ ہشام رحمہ اللہ کے والد صاحب جب امیر امراء کے مکانوں پر جاتے اور ان کا ٹھاٹھ دیکھتے تو واپس اپنے مکان پر آ کر اسی آیت کی تلاوت فرماتے ۔ اور کہتے میرے کنبے والو ! نماز کی حفاظت کرو نماز کی پابندی کرو ۔ اللہ تم پر رحم فرمائے گا ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ { جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی تنگی ہوتی تو اپنے گھر کے سب لوگوں کو فرماتے ، اے میرے گھر والو ، نمازیں پڑھو نمازیں قائم رکھو ۔ تمام انبیاء علیہم السلام کا یہی طریقہ رہا ہے کہ اپنی ہر گھبراہٹ اور ہر کام کے وقت نماز شروع کر دیتے ۔ } ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:561/4:مرسل) ترمذی ابن ماجہ وغیرہ کی قدسی حدیث میں ہے کہ { اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے ابن آدم ! میری عبادت کے لیے فارغ ہو جا ، میں تیرا سینہ امیری اور بےپرواہی سے پر کر دوں گا ۔ تیری فقیری اور حاجت کو دور کر دوں گا اور اگر تو نے یہ نہ کیا تو میں تیرا دل اشغال سے بھر دونگا اور تیری فقیری بند ہی نہ کروں گا ۔ } ۱؎ (سنن ترمذی:2466،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابن ماجہ شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { جس نے اپنی تمام غور و فکر اور قصد و خیال کو اکٹھا کر کے آخرت کا خیال باندھ لیا اور اسی میں مشغول ہو گیا ، اللہ تعالیٰ اسے دنیا کی تمام پریشانیوں سے محفوظ کر لے گا ۔ اور جس نے دنیا کی فکریں پال لیں ، یہاں کے غم مول لے لیے ، اللہ کو اس کی مطلقا پرواہ نہ رہے گی خواہ کسی حیرانی میں ہلاک ہو جائے ۔ } ۱؎ (سنن ابن ماجہ:4105:قال الشیخ الألبانی:صحیح) اور روایت میں ہے کہ { دنیا کے غموں میں ہی ، اسی کی فکروں میں ہی مصروف ہو جانے والے کے تمام کاموں میں اللہ تعالیٰ پریشانیاں ڈال دے گا اور اس کی فقیری اس کی آنکھوں کے سامنے کر دے گا اور دنیا اتنی ہی ملے گی جتنی مقدر میں ہے ۔ اور جو اپنے دل کا مرکز آخرت کو بنا لے گا ، اپنی نیت وہی رکھے گا ، اللہ تعالیٰ اسے ہرکام کا اطمینان نصیب فرما دے گا ۔ اس کے دل کو سیراور شیر بنا دے گا اور دنیا اس کے قدموں کی ٹھوکروں میں آیا کرے گی ۔ } ۱؎ (سنن ابن ماجہ:،قال4106 الشیخ الألبانی:حسن) پھر فرمایا دنیا و آخرت میں نیک انجام پرہیزگار لوگ ہی ہیں ۔ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ، میں نے آج رات خواب میں دیکھا کہ گویا ہم عقبہ بن رافع کے گھر میں ہیں ۔ وہاں ہمارے سامنے ابن طالب کے باغ کی تر کھجوریں پیش کی گئی ہیں ۔ میں نے اس کی تعبیر یہ کی ہے کہ دنیا میں بھی انجام کے لحاظ سے ہمارا ہی پلہ گراں رہے گا اور بلندی اور اونچائی ہم کو ہی ملے گی اور ہمارا دین پاک صاف ، طیب و طاہر ، کامل و مکمل ہے ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:2270) طه
132 طه
133 قرآن حکیم سب سے بڑا معجزہ کفار یہ بھی کہا کرتے تھے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ یہ نبی اپنی سچائی کا کوئی معجزہ ہمیں نہیں دکھاتے ؟ جواب ملتا ہے کہ یہ ہے قرآن کریم جو اگلی کتابوں کی خبر کے مطابق اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم پر اتارا ہے ، جو نہ لکھنا جانیں نہ پڑھنا ۔ دیکھ لو اس میں اگلے لوگوں کے حالات ہیں اور بالکل ان کتابوں کے مطابق جو اللہ کی طرف سے اس سے پہلے نازل شدہ ہیں ۔ قرآن ان سب کا نگہبان ہے ۔ چونکہ اگلی کتابیں کمی بیشی سے پاک نہیں رہیں ، اس لیے قرآن اترا ہے کہ ان کی صحت و غیر صحت کو ممتاز کر دے ۔ سورۃ العنکبوت میں کافروں کے اس اعتراض کے جواب میں فرمایا «وَقَالُوا لَوْلَا أُنزِلَ عَلَیْہِ آیَاتٌ مِّن رَّبِّہِ ۖ قُلْ إِنَّمَا الْآیَاتُ عِندَ اللہِ وَإِنَّمَا أَنَا نَذِیرٌ مٰبِینٌ * أَوَلَمْ یَکْفِہِمْ أَنَّا أَنزَلْنَا عَلَیْکَ الْکِتَابَ یُتْلَیٰ عَلَیْہِمْ ۚ إِنَّ فِی ذٰلِکَ لَرَحْمَۃً وَذِکْرَیٰ لِقَوْمٍ یُؤْمِنُونَ» ۱؎ (29-العنکبوت:50-51) ’ یعنی کہہ دے کہ اللہ تعالیٰ رب العالمین ہر قسم کے معجزات ظاہر کرنے پر قادر ہے ، میں تو صرف تنبیہہ کرنے والا رسول ہوں ۔ میرے قبضے میں کوئی معجزہ نہیں لیکن کیا انہیں یہ معجزہ کافی نہیں کہ ہم نے تجھ پر کتاب نازل فرمائی ہے جو ان کے سامنے برابر تلاوت کی جا رہی ہے جس میں ہر یقین والے کے لیے رحمت و عبرت ہے ۔ ‘ صحیح بخاری و مسلم میں { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ، ہرنبی کو ایسے معجزے ملے کہ انہیں دیکھ کر لوگ ان کی نبوت پر ایمان لے آئے ۔ لیکن مجھے جیتا جاگتا زندہ اور ہمیشہ رہنے والا معجزہ دیا گیا ہے یعنی اللہ کی یہ کتاب قرآن مجید جو بذریعہ وحی مجھ پر اتری ہے ۔ پس مجھے امید ہے کہ قیامت کے دن تمام نبیوں کے تابعداروں سے میرے تابعدار زیادہ ہوں گے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:4981) یہ یاد رہے کہ یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا معجزہ بیان ہوا ہے اس سے یہ مطلب نہیں کہ آپ کے معجزے اور تھے ہی نہیں ۔ علاوہ اس پاک اور معجز قرآن کے آپ کے ہاتھوں اس قدر معجزات سرزد ہوئے ہیں جو گنتی میں نہیں آ سکتے ۔ لیکن ان تمام بےشمار معجزوں سے بڑھ چڑھ کر آپ کا سب سے اعلیٰ معجزہ یہ قرآن کریم ہے ۔ اگر اس محترم ختم المرسلین آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجنے سے پہلے ہی ہم ان نہ ماننے والوں کو اپنے عذاب سے ہلاک کر دیتے تو ان کا یہ عذر باقی رہ جاتا کہ اگرہمارے سامنے کوئی پیغمبر آتا ، کوئی وحی الٰہی نازل ہوتی تو ہم ضرور اس پر ایمان لاتے اور اس کی تابعداری اور فرماں برداری میں لگ جاتے اور اس ذلت و رسوائی سے بچ جاتے ۔ اس لیے ہم نے ان کا یہ عذر بھی کاٹ دیا ۔ رسول بھیج دیا ، کتاب نازل فرما دی ، انہیں ایمان نصیب نہ ہوا ، عذابوں کے مستحق بن گئے اور عذر بھی دور ہو گئے ۔ «وَلَوْ جَاءَتْہُمْ کُلٰ آیَۃٍ حَتَّیٰ یَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِیمَ » ۱؎ (10-یونس:97) ’ ہم خوب جانتے ہیں کہ ایک کیا ہزاروں آیتیں اور نشانات دیکھ کر بھی انہیں ایمان نہیں آنے کا ۔ ہاں جب عذابوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے ، اس وقت ایمان لائیں گے لیکن وہ محض بےسود ہے ۔ ‘ ّجیسے فرمایا ، «وَہٰذَا کِتَابٌ أَنزَلْنَاہُ مُبَارَکٌ فَاتَّبِعُوہُ وَاتَّقُوا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُونَ» ۱؎ (6-الأنعام:155) ’ ہم نے یہ پاک اور بہتر کتاب نازل فرما دی ہے جو بابرکت ہے ، تم اسے مان لو اور اس کی فرماں برداری کرو تو تم پر رحم کیا جائے گا ۔ ‘ یہی مضمون آیت «وَأَقْسَمُوا بِ اللہِ جَہْدَ أَیْمَانِہِمْ لَئِن جَاءَتْہُمْ آیَۃٌ لَّیُؤْمِنُنَّ بِہَا ۚ قُلْ إِنَّمَا الْآیَاتُ عِندَ اللہِ ۖ وَمَا یُشْعِرُکُمْ أَنَّہَا إِذَا جَاءَتْ لَا یُؤْمِنُونَ وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَہُمْ وَأَبْصَارَہُمْ کَمَا لَمْ یُؤْمِنُوا بِہِ أَوَّلَ مَرَّۃٍ وَنَذَرُہُمْ فِی طُغْیَانِہِمْ یَعْمَہُونَ » ۱؎ (6-الأنعام:109) میں ہے کہ کہتے ہیں کہ رسول کی آمد پر ہم مومن بن جائیں گے ، معجزہ دیکھ کر ایمان قبول کر لیں گے لیکن ہم ان کی سرشت سے واقف ہیں ، یہ تمام آیتیں دیکھ کر بھی ایمان نہ لائیں گے ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ! ان کافروں سے کہہ دیجئیے کہ ادھر ہم ادھر تم منتظر ہیں ۔ «وَسَوْفَ یَعْلَمُونَ حِینَ یَرَوْنَ الْعَذَابَ مَنْ أَضَلٰ سَبِیلًا» (25-الفرقان:42) ’ ابھی حال کھل جائے گا کہ راہ مستقیم پر کون ہے ؟ ‘ حق کی طرف کون چل رہا ہے ؟ عذابوں کو دیکھتے ہی آنکھیں کھل جائیں گی ۔ اس وقت معلوم ہو جائے گا کون گمراہی میں مبتلا تھا ۔ گھبراؤ نہیں ۔ ابھی ابھی جان لو گے کہ «سَیَعْلَمُونَ غَدًا مَّنِ الْکَذَّابُ الْأَشِرُ » ۱؎ (54-القمر:26) کذاب و شریر کون تھا ؟ یقیناً مسلمان راہ راست پر ہیں اور غیرمسلم اس سے ہٹے ہوئے ہیں ۔ سورۃ طہ کی تفسیر ختم ہوئی ۔ اور اسی کے ساتھ تفسیر محمدی کا سولہواں پارہ بھی ختم ہوا ، «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» طه
134 طه
135 طه
0 الأنبياء
1 قیامت سے غافل انسان اللہ تعالیٰ عزوجل لوگوں کو متنبہ فرما رہا ہے کہ ’ قیامت قریب آ گئی ہے ۔ پھر بھی لوگوں کی غفلت میں کمی نہیں آئی نہ وہ اس کے لیے کوئی تیاری کر رہے ہیں جو انہیں کام آئے ۔ بلکہ دنیا میں پھنسے ہوئے ہیں اور ایسے مشغول اور منہمک ہو رہے ہیں کہ قیامت سے بالکل غافل ہو گئے ہیں ‘ ۔ جیسے اور آیت میں ہے «أَتَیٰ أَمْرُ اللہِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوہُ» ۱؎ (16-النحل:1) ’ امر ربی آ گیا اب کیوں جلدی مچا رہے ہو ؟ ‘ دوسری آیت میں فرمایا گیا ہے «اِقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ» ۱؎ (54-القمر:2-1) ’ قیامت قریب آ گئی اور چاند پھٹ گیا ‘ الخ ۔ ابو نواس شاعر کا ایک شعر ٹھیک اسی معنی کا یہ ہے «[النَّاسُ فِی غَفَلَاتِہِمْ]» «[وَرَحَا الْمَنِیَّۃِ تَطْحَنُ]» ” موت کی چکی زور زور سے چل رہی ہے اور لوگ غفلتوں میں پڑے ہوئے ہیں “ ۔ حضرت عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہما کے ہاں ایک صاحب مہمان بن کر آئے ، انہوں نے بڑے اکرام اور احترام سے انہیں اپنے ہاں اتارا اور ان کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی سفارش کی ۔ ایک دن یہ بزرگ مہمان ان کے پاس آئے اور کہنے لگے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فلاں وادی عطا فرما دی ہے ۔ میں چاہتا ہوں کہ اس بہترین زمین کا ایک ٹکڑا میں آپ کے نام کردوں کہ آپ کو بھی فارغ البالی رہے اور آپ کے بعد آپ کے بال بچے بھی آسودگی سے گزر کریں ۔ عامر رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ بھائی مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں ۔ آج ایک ایسی سورت نازل ہوئی ہے کہ ہمیں تو دنیا کڑوی معلوم ہونے لگی ہے ۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے یہی «اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُہُمْ وَہُمْ فِی غَفْلَۃٍ مٰعْرِضُونَ» کی تلاوت فرمائی ۔ ۱؎ (میزان الاعتدال:256/2:ضعیف) اس کے بعد کفار قریش اور انہی جیسے اور کافروں کی بابت فرماتا ہے کہ ’ یہ لوگ کلام اللہ اور وحی الٰہی کی طرف کان ہی نہیں لگاتے ۔ یہ تازہ اور نیا آیا ہوا ذکر دل لگا کر سنتے ہی نہیں ۔ اس کان سنتے ہیں اس کان اڑا دیتے ہیں ۔ دل ہنسی کھیل میں مشغول ہیں ‘ ۔ بخاری شریف میں ہے ، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں تمہیں اہل کتاب کی کتابوں کی باتوں کے پوچھنے کی کیا ضرورت ہے ؟ انہوں نے تو کتاب اللہ میں بہت کچھ ردوبدل کر لیا ، تحریف اور تبدیلی کرلی ، کمی زیادتی کرلی اور تمہارے پاس تو اللہ کی اتاری ہوئی خالص کتاب موجود ہے جس میں کوئی ملاوٹ نہیں ہونے پائی ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:7523) یہ لوگ کتاب اللہ سے بے پرواہی کررہے ہیں اپنے دلوں کو اس کے اثر سے خالی رکھنا چاہتے ہیں ۔ بلکہ یہ ظالم اوروں کو بھی بہکاتے ہیں کہتے ہیں کہ اپنے جیسے ایک انسان کی ماتحتی تو ہم نہیں کر سکتے ۔ تم کیسے لوگ ہو کہ دیکھتے بھالتے جادو کو مان رہے ہو ؟ یہ ناممکن ہے کہ ہم جیسے آدمی کو اللہ تعالیٰ رسالت اور وحی کے ساتھ مختص کر دے ، پھر تعجب ہے کہ لوگ باوجود علم کے اس کے جادو میں آجاتے ہیں ؟ الأنبياء
2 الأنبياء
3 الأنبياء
4 . ان بدکرداروں کے جواب میں جناب باری ارشاد فرماتا ہے کہ ’ یہ جو بہتان باندھتے ہیں ان سے کہئے کہ جو اللہ آسمان و زمین کی تمام باتیں جانتا ہے جس پر کوئی بات پوشیدہ نہیں ، اس نے اس پاک کلام قرآن کریم کو نازل فرمایا ۔ اس میں اگلی پچھلی تمام خبروں کا موجود ہونا ہی دلیل ہے اس بات کی کہ اس کا اتارنے والا عالم الغیب ہے ۔ وہ تمہاری سب باتوں کا سننے والا اور تمہارے تمام حالات کا علم رکھنے والا ہے ۔ پس تمہیں اس کا ڈر رکھنا چاہیئے ‘ ۔ پھر کفار کی ضد ، ناسمجھی اور کٹ حجتی بیان فرما رہا ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ خود حیران ہیں ۔ کسی بات پر جم نہیں سکتے ۔ کبھی کلام اللہ کو جادو کہتے ہیں تو کبھی شاعری کہتے ہیں ۔ کبھی پراگندہ اور بے معنی باتیں کہتے ہیں اور کبھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ازخود گھڑلیا ہوا بتاتے ہیں ۔ اور آیت میں ہے «انظُرْ کَیْفَ ضَرَبُوا لَکَ الْأَمْثَالَ فَضَلٰوا فَلَا یَسْتَطِیعُونَ سَبِیلًا» ۱؎ (17-الإسراء:48 و 25-الفرقان:9) ’ دیکھیں تو سہی ، آپ کے لیے کیا کیا مثالیں بیان کرتے ہیں ، پس وہ بہک رہے ہیں ۔ اب تو راہ پانا ان کے بس میں نہیں رہا ‘ ۔ خیال کرو کہ اپنے کسی قول پر بھروسہ نہ رکھنے والا ، جو زبان پر چڑھے بک دینے و الا بھی مستقل مزاج کہلانے کامستحق ہے ؟ کبھی کہتے تھے ، اچھا اگر یہ سچا نبی ہے تو صالح علیہ السلام کی طرح کوئی اونٹنی لے آتا یا موسیٰ علیہ السلام کی طرح کا کوئی معجزہ دکھاتا یا عیسیٰ علیہ السلام کا کوئی معجزہ ظاہر کرتا ۔ «وَمَا مَنَعَنَا أَن نٰرْسِلَ بِالْآیَاتِ إِلَّا أَن کَذَّبَ بِہَا الْأَوَّلُونَ وَآتَیْنَا ثَمُودَ النَّاقَۃَ مُبْصِرَۃً فَظَلَمُوا بِہَا» (17-الاسراء:59) ’ بیشک اللہ ان چیزوں پر قادر تو ضرور ہے لیکن اگر ظاہر ہوئیں اور پھر بھی یہ اپنے کفر سے نہ ہٹے تو عادت الٰہی کے تحت عذاب الٰہی میں پکڑ لیے جائیں گے اور پیس دئیے جائیں گے ۔ عموماً اگلے لوگوں نے یہی کہا اور ایمان نصیب نہ ہوا اور غارت کر دئیے گئے ۔ اسی طرح یہ بھی ایسے معجزے طلب کر رہے ہیں ۔ اگر ظاہر ہوئے تو ایمان نہ لائیں گے اور تباہ ہوجائینگے ‘ ۔ جیسے فرمان ہے آیت «اِنَّ الَّذِیْنَ حَقَّتْ عَلَیْہِمْ کَلِمَتُ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ وَلَوْ جَاءَتْہُمْ کُلٰ آیَۃٍ حَتَّیٰ یَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِیمَ» ۱؎ (10-یونس:97-96) ’ جن پر تیرے رب کی بات ثابت ہو چکی ہے وہ گو تمام تر معجزے دیکھ لیں ، ایمان قبول نہ کریں گے ۔ ہاں عذاب الیم کے معائنہ کے بعد تو فوراً تسلیم کر لیں گے لیکن وہ محض بے سود ہے ‘ ۔ بات بھی یہی ہے کہ انہیں ایمان لانا ہی نہ تھا ورنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بےشمار معجزات روز مرہ ان کی نگاہوں کے سامنے تھے ۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ معجزے دیگر انبیاء علیہم السلام سے بہت زیادہ ظاہر اور کھلے ہوئے تھے ۔ ابن ابی حاتم کی ایک بہت ہی غریب روایت میں ہے کہ { صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ایک مجمع مسجد میں تھا ۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ تلاوت قرآن کر رہے تھے ۔ اتنے میں عبداللہ بن سلول منافق آیا ۔ اپنی گدی بچھا کر اپنا تکیہ لگا کر وجاہت سے بیٹھ گیا ۔ تھا بھی گورا چٹا ، بڑھ بڑھ کر فصاحت کے ساتھ باتیں بنانے والا ، کہنے لگا ابوبکر [ رضی اللہ عنہ ] تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی نشان ہمیں دکھائیں جیسے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کے انبیاء نشانات لائے تھے مثلا موسیٰ علیہ السلام تختیاں لائے ، داؤد علیہ السلام زبور لائے ، صالح علیہ السلام اونٹنی لائے ، عیسیٰ علیہ السلام انجیل لائے اور آسمانی دستر خوان ۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہا یہ سن کر رونے لگے ۔ اتنے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے نکلے تو آپ رضی اللہ عنہ نے دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا کہ ” نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کے لیے کھڑے ہو جاؤ ، اور اس منافق کی فریاد دربار رسالت میں پہنچاؤ “ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : { سنو میرے لیے کھڑے نہ ہوا کرو ۔ صرف اللہ ہی کے لیے کھڑے ہوا کرو } ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اس منافق سے بڑی ایذاء پہنچی ہے ۔ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ابھی ابھی جبرائیل علیہ السلام میرے پاس آئے تھے اور مجھ سے فرمایا کہ باہر جاؤ اور لوگوں کے سامنے اپنے ان فضائل کو ظاہر کرو اور ان نعمتوں کا بیان کرو جو اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمائی ہیں ۔ میں ساری دنیا کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں ، مجھے حکم ہوا ہے کہ میں جنات کو بھی پیغام الٰہی پہنچا دوں ۔ مجھے میرے رب نے اپنی پاک کتاب عنایت فرمائی ہے حالانکہ محض بے پڑھا ہوں ۔ میرے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف فرما دئیے ہیں ۔ میرا نام اذان میں رکھا ہے ۔ میری مدد فرشتوں سے کرائی ہے ۔ مجھے اپنی امداد و نصرت عطا فرمائی ہے ۔ رعب میرا میرے آگے آگے کر دیا ہے ۔ مجھے حوض کوثر عطا فرمایا ہے جو قیامت کے دن تمام اور حوضوں سے بڑا ہوگا ۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے مقام محمود کا وعدہ دیا ہے ۔ اس وقت جب کہ سب لوگ حیران و پریشان سر جھکائے ہوئے ہوں گے ، مجھے اللہ نے اس پہلے گروہ میں چنا ہے جو لوگوں سے نکلے گا ۔ میری شفاعت سے میری امت کے ستر ہزار شخص بغیر حساب کتاب کے جنت میں جائیں گے ۔ مجھے غلبہ اور سلطنت عطا فرمائی ہے ۔ مجھے جنت نعیم کا وہ بلند و بالا اعلیٰ بالاخانہ ملے گا کہ اس سے اعلیٰ منزل کسی کی نہ ہوگی ۔ میرے اوپر صرف وہ فرشتے ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کے عرش کو اٹھائے ہوئے ہوں گے ۔ میرے اور میری امت کے لیے غنیمتوں کے مال حلال کئے گئے حالانکہ مجھ سے پہلے وہ کسی کے لیے حلال نہ تھے } ۔ ۱؎ (ابن ابی حاتم:ضعیف) الأنبياء
5 الأنبياء
6 الأنبياء
7 مشرکین مکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت کے منکر تھے چونکہ مشرکین اس کے منکر تھے کہ انسانوں میں سے کوئی انسان اللہ کا رسول ہو ، اس لیے اللہ تعالیٰ ان کے اس عقیدے کی تردید کرتا ہے ۔ فرماتا ہے ، ’ تجھ سے پہلے جتنے رسول آئے سب انسان ہی تھے ، ان میں ایک بھی فرشتہ نہ تھا ‘ ۔ جیسے دوسری آیت میں ہے «وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِکَ إِلَّا رِجَالًا نٰوحِی إِلَیْہِم مِّنْ أَہْلِ الْقُرَیٰ» ۱؎ (12-یوسف:109) یعنی ’ تجھ سے پہلے ہم نے جتنے رسول بھیجے اور ان کی طرف وحی نازل فرمائی ، سب شہروں کے رہنے والے انسان ہی تھے ‘ ۔ اور آیت میں ہے «قُلْ مَا کُنْتُ بِدْعًا مِّنَ الرٰسُلِ» ۱؎ (46-الأحقاف:9) یعنی ’ کہہ دے کہ میں کوئی نیا اور انوکھا اور سب سے پہلا رسول تو ہوں ہی نہیں ‘ ۔ ان کافروں سے پہلے کے کفار نے بھی نبیوں کے نہ ماننے کا یہی حیلہ اٹھایا تھا جسے قرآن نے بیان فرمایا کہ انہوں نے کہا تھا آیت «أَبَشَرٌ یَہْدُونَنَا» ۱؎ (64-التغابن:6) ’ کیا ایک انسان ہمارا رہبر ہو گا ؟ ‘ اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ ’ اچھا تم اہل علم سے [ یعنی یہودیوں اور نصرانیوں سے ] اور دوسرے گروہ سے پوچھ لو کہ ان کے پاس انسان ہی رسول بنا کر بھیجے گئے تھے یا فرشتے ؟ ‘ یہ بھی اللہ کا احسان ہے کہ انسانوں کے پاس انہی جیسے انسانوں کو رسول بنا کر بھیجتا ہے تاکہ لوگ ان کے پاس بیٹھ اٹھ سکیں ، ان کی تعلیم حاصل کرسکیں اور ان کی باتیں سن سمجھ سکیں ۔ کیا وہ اگلے پیغمبر سب کے سب ایسے جسم کے نہ تھے جو کھانے پینے کی حاجت نہ رکھتے ہوں ۔ بلکہ وہ کھانے پینے کے محتاج تھے ۔ جیسے فرمان ہے آیت «وَمَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَکَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّآ اِنَّہُمْ لَیَاْکُلُوْنَ الطَّعَامَ وَیَمْشُوْنَ فِی الْاَسْوَاقِ» ۱؎ (25-الفرقان:20) یعنی ’ تجھ سے پہلے جتنے رسول ہم نے بھیجے ، وہ سب کھانا کھایا کرتے تھے اور بازاروں میں آمد و رفت بھی کرتے تھے ‘ یعنی وہ سب انسان تھے ، انسانوں کی طرح کھاتے پیتے تھے اور کام کاج ، بیوپار ، تجارت کے لیے بازاروں میں بھی آنا جانا رکھتے تھے ۔ پس یہ بات ان کی پیغمبری کے منافی نہیں ۔ جیسے مشرکین کا قول تھا آیت «وَقَالُوا مَالِ ہٰذَا الرَّسُولِ یَأْکُلُ الطَّعَامَ وَیَمْشِی فِی الْأَسْوَاقِ لَوْلَا أُنزِلَ إِلَیْہِ مَلَکٌ فَیَکُونَ مَعَہُ نَذِیرًا أَوْ یُلْقَیٰ إِلَیْہِ کَنزٌ أَوْ تَکُونُ لَہُ جَنَّۃٌ یَأْکُلُ مِنْہَا وَقَالَ الظَّالِمُونَ إِن تَتَّبِعُونَ إِلَّا رَجُلًا مَّسْحُورًا» ۱؎ (25-الفرقان:7 ، 8) ، یعنی ’ یہ رسول کیسا ہے ؟ جو کھاتا پیتا ہے اور بازاروں میں آتا جاتا ہے ۔ اس کے پاس کوئی فرشتہ کیوں نہیں اترتا کہ وہ بھی اس کے ساتھ اس کے دین کی تبلیغ کرتا ۔ اچھا یہ نہیں تو اسے کسی خزانے کا مالک کیوں نہیں کر دیا جاتا یا اسے کوئی باغ ہی دے دیا جاتا جس سے یہ با فراغت کھا پی تو لیتا ‘ ، الخ ۔ اسی طرح اگلے پیغمبر بھی دنیا میں نہ رہے ، آئے اور گئے جیسے فرمان ہے آیت «وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِکَ الْخُلْدَ» ۱؎ (21-الأنبیاء:34) یعنی ’ تجھ سے پہلے بھی ہم نے کسی انسان کو دوام نہیں بخشا ۔ ان کے پاس البتہ وحی الٰہی آتی رہی ۔ فرشتہ اللہ کے حکم احکام پہنچا دیا کرتا تھا ۔ پھر رب کا جو وعدہ ان سے تھا ، وہ سچا ہو کر رہا ‘ یعنی ان کے مخالفین بوجہ اپنے ظلم کے تباہ ہو گئے ۔ اور پیغمبر علیہم السلام نجات پاگئے ان کے تابعدار بھی کامیاب ہوئے ۔ اور حد سے گزر جانے والوں کو یعنی نبیوں کے جھٹلانے والوں کو اللہ نے ہلاک کر دیا ۔ الأنبياء
8 الأنبياء
9 الأنبياء
10 قدر ناشناس لوگ اللہ تعالیٰ اپنے کلام پاک کی فضیلت بیان کرتے ہوئے اس کی قدر و منزلت پر رغبت دلانے کے لیے فرماتا ہے کہ ’ ہم نے یہ کتاب تمہاری طرف اتاری ہے جس میں تمہاری بزرگی ہے ، تمہارا دین ، تمہاری شریعت اور تمہاری باتیں ہیں ۔ پھر تعجب ہے کہ تم اس اہم نعمت کی قدر نہیں کرتے ؟ اور اس اتنی بڑی شرافت والی کتاب سے غفلت برت رہے ہو ؟ ‘ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:611/21:) جیسے اور آیت میں ہے «وَاِنَّہٗ لَذِکْرٌ لَّکَ وَلِقَوْمِکَ وَسَوْفَ تُسْـَٔــلُوْنَ» ۱؎ (43-الزخرف:44) ’ تیرے لیے اور تیری قوم کے لیے یہ نصیحت ہے اور تم اس کے بارے میں ابھی بھی سوال کئے جاؤ گے ‘ ۔ پھر فرماتا ہے ’ ہم نے بہت سی بستیوں کے ظالموں کو پیس کر رکھ دیا ہے ‘ ۔ اور آیت میں ہے ، «وَکَمْ أَہْلَکْنَا مِنَ الْقُرُونِ مِن بَعْدِ نُوحٍ» ۱؎ (17-الإسراء:17) ’ ہم نے نوح علیہ السلام کے بعد بھی بہت سی بستیاں ہلاک کر دیں ‘ ۔ اور آیت میں ہے «فَکَأَیِّن مِّن قَرْیَۃٍ أَہْلَکْنَاہَا وَہِیَ ظَالِمَۃٌ فَہِیَ خَاوِیَۃٌ عَلَیٰ عُرُوشِہَا وَبِئْرٍ مٰعَطَّلَۃٍ وَقَصْرٍ مَّشِیدٍ» ۱؎ (22-الحج:45) ’ کتنی ایک بستیاں ہیں جو پہلے بہت عروج پر اور انتہائی رونق پر تھیں لیکن پھر وہاں کے لوگوں کے ظلم کی بنا پر ہم نے ان کا چورا کر دیا ، بھس اڑا دیا ، آبادی ویرانی سے اور رونق سنسان سناٹے میں بدل گئی ‘ ۔ ان کی ہلاکت کے بعد اور لوگوں کو ان کا جانشین بنا دیا ، ایک قوم کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری یونہی آتی رہیں ۔ جب ان لوگوں نے عذابوں کو آتا دیکھ لیا ، یقین ہو گیا کہ اللہ کے نبی علیہ السلام کے فرمان کے مطابق اللہ کے عذاب آگئے تو اس وقت گھبرا کر راہ فرار ڈھونڈنے لگے ، ادھر ادھر دوڑ دھوپ کرنے لگے ۔ ’ اب بھاگو دوڑو نہیں بلکہ اپنے محلات میں اور عیش وعشرت کے سامانوں میں پھر آ جاؤ تاکہ تم سے سوال جواب تو ہو جائے کہ تم نے اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا بھی کیا یا نہیں ؟ ‘ یہ فرمان بطور ڈانٹ ڈپٹ کے اور انہیں ذلیل وحقیر کرنے کے ہوگا ۔ اس وقت یہ اپنے گناہوں کا اقرار کریں گے ، صاف کہیں گے کہ بے شک ہم ظالم تھے لیکن اس وقت کا اقرار بالکل بے نفع ہے ۔ پھر تو یہ اقراری ہی رہیں گے یہاں تک کہ ان کا ناس ہو جائے اور ان کی آواز دبا دی جائے اور یہ مسل دیئے جائیں ۔ ان کا چلنا پھرنا ، آنا جانا ، بولنا چالنا سب یک قلم بند ہو جائے ۔ الأنبياء
11 الأنبياء
12 الأنبياء
13 الأنبياء
14 الأنبياء
15 الأنبياء
16 آسمان و زمین کوئی کھیل تماشہ نہیں «وَلِلہِ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْأَرْ‌ضِ لِیَجْزِیَ الَّذِینَ أَسَاءُوا بِمَا عَمِلُوا وَیَجْزِیَ الَّذِینَ أَحْسَنُوا بِالْحُسْنَی» ۱؎ (53-النجم:31) ’ آسمان و زمین کو اللہ تعالیٰ نے عدل سے پیدا کیا ہے تاکہ بروں کو سزا اور نیکوں کو جزا دے ‘ ۔ اس نے انہیں بے کار اور کھیل تماشے کے طور پر پیدا نہیں کیا ۔ اور آیت میں اس مضمون کے ساتھ ہی بیان ہے کہ «وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا بَاطِلًا ذَلِکَ ظَنٰ الَّذِینَ کَفَرُوا فَوَیْلٌ لِلَّذِینَ کَفَرُوا مِنَ النَّارِ» ۱؎ (38-ص:27) ’ یہ گمان تو کفار کا ہے جن کے لیے جہنم کی آگ تیار ہے ‘ ۔ دوسری آیت ۱؎ (21-الأنبیاء:17) کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ ’ اگر ہم کھیل تماشا ہی چاہتے تو اسے بنا لیتے ‘ ۔ ایک معنی یہ ہیں کہ ’ اگر ہم عورت کرنا چاہتے ‘ ۔ «اللَّہْوُ» کے معنی اہل یمن کے نزدیک بیوی کے بھی آتے ہیں ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:420/18:) یعنی یہ دونوں معنی ہیں ، ’ ہم اگر بیوی بنانا چاہتے تو حورعین میں سے جو ہمارے پاس ہے ، کسی کو بنا لیتے ‘ ۔ ایک معنی یہ بھی ہیں کہ ’ اگر ہم اولاد چاہتے ‘ ۔ لیکن یہ دونوں معنی آپس میں لازم و ملزوم ہیں ۔ بیوی کے ساتھ ہی اولاد ہے ۔ جیسے فرمان ہے آیت «لَوْ اَرَاد اللّٰہُ اَنْ یَّتَّخِذَ وَلَدًا لَّاصْطَفٰی مِمَّا یَخْلُقُ مَا یَشَاءُ سُبْحٰنَہٗ ہُوَ اللّٰہُ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ» ۱؎ (39-الزمر:4) ، یعنی ’ اگر اللہ کو یہی منظور ہوتا کہ اس کی اولاد ہو تو اپنی مخلوق میں سے کسی اعلیٰ درجے کی مخلوق کو یہ منصب عطا فرماتا لیکن وہ اس بات سے پاک اور بہت دور ہے ‘ ۔ اس کی توحید اور غلبہ کے خلاف ہے کہ اس کی اولاد ہو ۔ پس وہ مطلق اولاد سے پاک ہے نہ عیسیٰ اس کا بیٹا ہے نہ عزیر علیہم السلام ۔ نہ فرشتے اس کی لڑکیاں ہیں ۔ «سُبْحَانَہُ وَتَعَالَیٰ عَمَّا یَقُولُونَ عُلُوًّا کَبِیرًا» ۱؎ (17-الاسراء:43) ان عیسائیوں ، یہودیوں اور کفار مکہ کی ان لغویات اور تہمت سے اللہ واحد قہار پاک ہے اور بلند ہے ۔ آیت «إِن کُنَّا فَاعِلِینَ» میں «إِن» کو نافیہ کہا گیا ہے یعنی ’ ہم یہ کرنے والے ہی نہ تھے ‘ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:421/18:) بلکہ مجاہد رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ ” قرآن مجید میں ہر جگہ ان نفی کے لیے ہی ہے “ ۔ ۱؎ (الدر المنشور للسیوطی:620/5:) فرشتوں کا تذکرہ ’ ہم حق کو واضح کرتے ہیں ، اسے کھول کر بیان کرتے ہیں جس سے باطل دب جاتا ہے ، ٹوٹ کر چورا ہو جاتا ہے اور فوراً ہٹ جاتا ہے ۔ وہ ہے بھی اسی لائق ، وہ ٹھہر نہیں سکتا نہ جم سکتا ہے نہ دیر تک قائم رہ سکتا ہے ۔ اللہ کے لیے جو لوگ اولادیں ٹھہرا رہے ہیں ، ان کے اس واہی قول کی وجہ سے ان کے لیے ویل ہے انہیں پوری خرابی ہے ‘ ۔ پھر ارشاد فرماتا ہے کہ ’ جن فرشتوں کو تم اللہ کی لڑکیاں کہتے ہو ، ان کا حال سنو اور اللہ کی الوہیت کی عظمت دیکھو ۔ آسمان و زمین کی ہرچیز اسی کی ملکیت میں ہے ۔ فرشتے اس کی عبادت میں مشغول ہیں ۔ ناممکن ہے کہ کسی وقت سرکشی کریں ‘ ۔ «لَّن یَسْتَنکِفَ الْمَسِیحُ أَن یَکُونَ عَبْدًا لِّلَّـہِ وَلَا الْمَلَائِکَۃُ الْمُقَرَّبُونَ وَمَن یَسْتَنکِفْ عَنْ عِبَادَتِہِ وَیَسْتَکْبِرْ فَسَیَحْشُرُہُمْ إِلَیْہِ جَمِیعًا» ۱؎ (4-النساء:172) ’ نہ مسیح کو بندہ رب ہونے سے شرم ، نہ فرشتوں کو اللہ کی عبادت سے عار ، نہ ان میں سے کوئی تکبر کرے یا عبادت سے جی چرائے اور جو کوئی ایسا کرے تو ایک وقت آ رہا ہے کہ وہ اللہ کے سامنے میدان محشر میں سب کے ساتھ ہو گا اور اپنا کیا بھرے گا ‘ ۔ یہ بزرگ فرشتے اس کی عبادت سے تھکتے بھی نہیں ، گھبراتے بھی نہیں ، سستی اور کاہلی ان کے پاس بھی نہیں پھٹکتی ۔ دن رات اللہ کی فرماں برداری میں ، اس کی عبادت میں ، اس کی تسبیح و اطاعت میں لگے ہوئے ہیں ۔ نیت اور عمل دونوں موجود ہیں ۔ «لَّا یَعْصُونَ اللہَ مَا أَمَرَہُمْ وَیَفْعَلُونَ مَا یُؤْمَرُونَ» ۱؎ (66-التحریم:6) ’ اللہ کی کوئی نافرمانی نہیں کرتے نہ کسی فرمان کی تعمیل سے رکتے ہیں ‘ ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ { ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ رضی اللہ عنہم کے مجمع میں تھے کہ فرمایا : { لوگو ! جو میں سنتا ہوں کیا تم بھی سنتے ہو ؟ } سب نے جواب دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم تو کچھ بھی نہیں سن رہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { میں آسمانوں کی چرچراہٹ سن رہا ہوں اور حق تو یہ ہے کہ اسے چرچرانا ہی چاہیئے ، اس لیے کہ اس میں ایک بالشت بھر جگہ ایسی نہیں جہاں کسی نہ کسی فرشتے کا سر سجدے میں نہ ہو } } ۔ ۱؎ (سلسلۃ احادیث صحیحہ البانی:1060،) عبداللہ بن حارث بن نوفل فرماتے ہیں ، میں کعب احبار رحمتہ اللہ علیہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا ، اس وقت میں چھوٹی عمر کا تھا ، میں نے ان سے اس آیت کا مطلب پوچھا کہ بولنا چالنا ، اللہ کا پیغام لے کر جانا ، عمل کرنا یہ بھی انہیں تسبیح سے نہیں روکتا ؟ میرے اس سوال پر چوکنے ہوکر آپ رحمہ اللہ نے فرمایا ، یہ بچہ کون ہے ؟ لوگوں نے کہا بنو عبدالمطلب میں سے ہے ۔ آپ رحمہ اللہ نے میری پیشانی چوم لی اور فرمایا ، ” پیارے بچے تسبیح ان فرشتوں کے لیے ایسی ہی ہے جیسے ہمارے لیے سانس لینا ۔ دیکھو چلتے پھرتے ، بولتے چالتے تمہارا سانس برابر آتا جاتا رہتا ہے ۔ اسی طرح فرشتوں کی تسبیح ہر وقت جاری رہتی ہے “ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:12/17:) الأنبياء
17 الأنبياء
18 الأنبياء
19 الأنبياء
20 الأنبياء
21 سب تہمتوں سے بلند اللہ جل شانہ شرک کی تردید ہو رہی ہے کہ ’ جن جن کو تم اللہ کے سوا پوج رہے ہو ، ان میں ایک بھی ایسا نہیں جو مردوں کو جلا سکے ۔ کسی میں یا سب میں مل کر بھی یہ قدرت نہیں ، پھر انہیں اس قدرت والے کے برابر ماننا یا ان کی بھی عبادت کرنا کس قدر ناانصافی ہے ؟ ‘ پھر فرماتا ہے ’ سنو ! اگر یہ مان لیا جائے کہ فی الواقع بہت سے الہٰ ہیں تو لازم آئے گا کہ زمین و آسمان تباہ و برباد ہو جائیں ‘ ۔ جیسے فرمان ہے آیت «مَا اتَّخَذَ اللہُ مِن وَلَدٍ وَمَا کَانَ مَعَہُ مِنْ إِلٰہٍ إِذًا لَّذَہَبَ کُلٰ إِلٰہٍ بِمَا خَلَقَ وَلَعَلَا بَعْضُہُمْ عَلَیٰ بَعْضٍ سُبْحَانَ اللہِ عَمَّا یَصِفُونَ» ۱؎ (23-المؤمنون:91) ، ’ اللہ کی اولاد نہیں ، نہ اس کے ساتھ اور کوئی معبود ہے ۔ اگر ایسا ہوتا تو ہر معبود اپنی اپنی مخلوقات کو لیے پھرتا اور ایک دوسرے پر غالب آنے کی کوشش کرتا ، اللہ تعالیٰ ان کے بیان کردہ اوصاف سے مبرا اور منزہ ہے ‘ ۔ یہاں فرمایا ، ’ اللہ تعالیٰ مالک عرش ان کے کہے ہوئے ردی اوصاف سے [ یعنی لڑکے لڑکیوں سے ] پاک ہے ‘ ۔ اسی طرح شریک اور ساجھی سے ، مثل اور ساتھی سے بھی بلند و بالا ہے ۔ ان کی یہ سب تہمتیں ہیں جن سے اللہ کی ذات برتر ہے ۔ اس کی شان تو یہ ہے کہ وہ علی الاطلاق شہنشاہ حقیقی ہے ، اس پر کوئی حاکم نہیں ۔ سب اس کے غلبے اور قہر تلے ہیں ۔ نہ تو اس کے حکم کا کوئی تعاقب کرسکے ، نہ اس کے فرمان کو کوئی ٹال سکے ۔ اس کی کبریائی اور عظمت و جلال اور حکومت ، علم اور حکمت ، لطف اور رحمت بے پایاں ہے ۔ کسی کو اس کے آگے دم مارنے کی مجال نہیں ۔ سب پست اور عاجز ہیں لاچار اور بے بس ہیں ۔ کوئی نہیں جو چوں کرے ، کوئی نہیں جو اس کے سامنے بول سکے ، کوئی نہیں جسے چوں چرا کا اختیار ہو جو اس سے پوچھ سکے کہ یہ کام کیوں کیا ؟ ایسا کیوں ہوا ؟ وہ چونکہ تمام مخلوق کا خالق ہے ، سب کا مالک ہے ، اسے اختیار ہے جس سے جو چاہے سوال کرے ، ہر ایک کے اعمال کی وہ بازپرس کرے گا ۔ جیسے فرمان ہے آیت «فَوَرَبِّکَ لَنَسْأَلَنَّہُمْ أَجْمَعِینَ عَمَّا کَانُوا یَعْمَلُونَ» ۱؎ (15-الحجر:92-93) ، ’ تیرے رب کی قسم ہم ان سب سے سوال کریں گے ہر اس فعل سے جو انہوں نے کیا ‘ ۔ «وَہُوَ یُجِیرُ وَلَا یُجَارُ عَلَیْہِ» ۱؎ (23-المؤمنون:88) ’ وہی ہے کہ جو اس کی پناہ میں آگیا ، سب شر سے بچ گیا اور کوئی نہیں جو اس کے مجرم کو پناہ دے سکے ‘ ۔ الأنبياء
22 الأنبياء
23 الأنبياء
24 حق سے غافل مشرک ان لوگوں نے اللہ کے سوا جن جن کو معبود بنا رکھا ہے ، ان کی عبادت پر ان کے پاس کوئی دلیل نہیں اور ہم جس اللہ کی عبادت کر رہے ہیں ، اس میں سچے ہیں ۔ ہمارے ہاتھوں میں اعلیٰ تر دلیل کلام اللہ موجود ہے اور اس سے پہلے کی تمام الہامی کتابیں اسی کی دلیل میں باآواز بلند شہادت دیتی ہیں جو توحید کی موافقت میں اور کافروں کی خود پرستی کے خلاف میں ہیں ۔ جو کتاب جس پیغمبر علیہ السلام پر اتری ، اس میں یہ بیان موجود رہا کہ اللہ کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں لیکن اکثر مشرک حق سے غافل ہیں اور اللہ کی باتوں سے منکر ہیں ۔ تمام رسولوں کو توحید الٰہی کی ہی تلقین ہوتی رہی ۔ فرمان ہے آیت «وَسْـَٔــلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رٰسُلِنَآ اَجَعَلْنَا مِنْ دُوْنِ الرَّحْمٰنِ اٰلِہَۃً یٰعْبَدُوْنَ» ۱؎ (43-الزخرف:45) ’ تجھ سے پہلے جو انبیاء گزرے ہیں ، تو خود پوچھ لے کہ ہم نے ان کے لیے اپنے سوا اور کوئی معبود مقرر کیا تھا کہ وہ اس کی عبادت کرتے ہوں ؟ ‘ اور آیت میں ہے «وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ» ۱؎ (16-النحل:36) ’ ہم نے ہر امت میں اپنا پیغمبر بھیجا جس نے لوگوں میں اعلان کیا کہ تم سب ایک اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے سوا ہر ایک کی عبادت سے الگ رہو ‘ ۔ پس انبیاء کی شہادت بھی یہی ہے اور خود فطرت اللہ بھی اسی کی شاہد ہے ۔ اور مشرکین کی کوئی دلیل نہیں ۔ ان کی ساری حجتیں بے کار ہیں اور ان پر اللہ کا غضب ہے اور ان کے لیے سخت عذاب ہے ۔ الأنبياء
25 الأنبياء
26 خشیت الٰہی کفار مکہ کا خیال تھا کہ فرشتے اللہ کی لڑکیاں ہیں ۔ ان کے اس خیال کی تردید کرتے ہوئے اللہ پاک فرماتا ہے کہ ’ یہ بالکل غلط ہے ۔ فرشتے اللہ تعالیٰ کے بزرگ بندے ہیں ، بڑی بڑائیوں والے ہیں اور ذی عزت ہیں ۔ قولاً اور فعلاً ہروقت اطاعت الٰہی میں مشغول ہیں ۔ نہ تو کسی امر میں اس سے آگے بڑھیں ، نہ کسی بات میں اس کے فرمان کا خلاف کریں بلکہ جو وہ فرمائے ، دوڑ کر اس کی بجا آوری کرتے ہیں ۔ اللہ کے علم میں گھرے ہوئے ہیں اس پر ان کی کوئی بات پوشیدہ نہیں ۔ آگے پیچھے دائیں بائیں کا اسے علم ہے ، ذرے ذرے کا وہ دانا ہے ۔ یہ پاک فرشتے بھی اتنی مجال نہیں رکھتے کہ اللہ کے کسی مجرم کی اللہ کے سامنے اس کی مرضی کے خلاف سفارش کے لیے لب ہلا سکیں ‘ ۔ جیسے فرمان ہے آیت «مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗٓ اِلَّا بِاِذْنِہٖ» ۱؎ (2-البقرۃ:255) ’ وہ کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر کسی کی سفارش اس کے پاس لے جا سکے ؟ ‘ اور آیت میں ہے «وَلَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَۃُ عِنْدَہٗٓ اِلَّا لِمَنْ اَذِنَ لَہٗ» ۱؎ (34-سبأ:23) یعنی ’ اس کے پاس کسی کی شفاعت اس کی اپنی اجازت کے بغیر چل نہیں سکتی ‘ ۔ اسی مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں قرآن کریم میں موجود ہیں ۔ فرشتے اور اللہ کے مقرب بندے کل کے کل خشیت الٰہی سے ، ہیبت رب سے لرزاں و ترساں رہا کرتے ہیں ۔ ’ ان میں سے جو بھی خدائی کا دعویٰ کرے ، ہم اسے جہنم واصل کردیں ۔ ظالموں سے ہم ضرور انتقام لے لیا کرتے ہیں ‘ ۔ یہ بات بطور شرط ہے اور شرط کے لیے یہ ضروری نہیں کہ اس کا وقوع بھی ہو ۔ یعنی یہ ضروری نہیں کہ خاص بندگان اللہ میں سے کوئی ایسا ناپاک دعویٰ کرے اور ایسی سخت سزا بھگتے ۔ اسی طرح کی آیت «قُلْ إِن کَانَ لِلرَّحْمٰنِ وَلَدٌ فَأَنَا أَوَّلُ الْعَابِدِینَ» ۱؎ (43-الزخرف:81) اور «لَیِٕنْ اَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ وَلَتَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ» ۱؎ (39-الزمر:65) ، ہے ۔ پس نہ تو رحمن کی اولاد ہے نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شرک ممکن ۔ الأنبياء
27 الأنبياء
28 الأنبياء
29 الأنبياء
30 زبردست غالب اللہ تعالیٰ اس بات کو بیان فرماتا ہے کہ اس کی قدرت پوری ہے اور اس کا غلبہ زبردست ہے ۔ فرماتا ہے کہ’ جو کافر اللہ کے سوا اوروں کی پوجا پاٹ کرتے ہیں ، کیا انہیں اتنا بھی علم نہیں کہ تمام مخلوق کا پیدا کرنے والا اللہ ہی ہے اور سب چیز کا نگہبان بھی وہی ہے ، پھر اس کے ساتھ دوسروں کی عبادت تم کیوں کرتے ہو ؟ ‘ ابتداء میں زمین و آسمان ملے جلے ایک دوسرے سے پیوست تہ بہ تہ تھے ، اللہ تعالیٰ نے انہیں الگ الگ کیا ۔ زمینوں کو نیچے ، آسمانوں کو اوپر فاصلے سے اور حکمت سے قائم کیا ۔ سات زمینیں پیدا کیں اور سات ہی آسمان بنائے ۔ زمین اور پہلے آسمان کے درمیان جوف اور خلأ رکھا ۔ آسمان سے پانی برسایا اور زمین سے پیداوار اگائی ۔ ہر زندہ چیز پانی سے پیدا کی ۔ کیا یہ تمام چیزیں جن میں سے ہر ایک صانع کی خود مختاری ، قدرت اور وحدت پر دلالت کرتی ہے ، اپنے سامنے موجود پاتے ہوئے بھی یہ لوگ اللہ کی عظمت کے قائل ہو کر شرک کو نہیں چھوڑتے ؟ ؎ «‏‏‏‏فَفِیْ کُلِّ شَیٰئ لَّہُ ایَۃٌ» «‏‏‏‏تَدُلٰ عَلٰی اَنَّہُ وَاحِدٌ» ‏‏‏‏یعنی ہرچیز میں اللہ کی الوہیت اور اس کی وحدانیت کا نشان موجود ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سوال ہوا کہ پہلے رات تھی یا دن ؟ تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ” پہلے زمین و آسمان ملے جلے تہ بہ تہ تھے تو ظاہر ہے کہ ان میں اندھیرا ہوگا اور اندھیرے کا نام ہی رات ہے تو ثابت ہوا کہ رات پہلے تھی “ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:433/18:) سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے جب اس آیت کی تفسیر پوچھی گئی تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ، ” تم سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سوال کرو اور جو وہ جواب دیں ، مجھ سے بھی کہو “ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا ، ” زمین و آسمان سب ایک ساتھ تھے ، نہ بارش برستی تھی نہ پیداوار اگتی تھی ۔ جب اللہ تعالیٰ نے ذی روح مخلوق پیدا کی تو آسمان کو پھاڑ کر اس میں سے پانی برسایا اور زمین کو چیر کر اس میں پیداوار اگائی “ ۔ جب سائل نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے یہ جواب بیان کیا تو آپ رضی اللہ عنہ بہت خوش ہوئے اور فرمانے لگے ، ” آج مجھے اور بھی یقین ہو گیا کہ قرآن کے علم میں عبداللہ رضی اللہ عنہ بہت ہی بڑھے ہوئے ہیں ۔ میرے جی میں کبھی خیال آتا تھا کہ ایسا تو نہیں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی جرأت بڑھ گئی ہو ؟ لیکن آج وہ وسوسہ دل سے جاتا رہا “ ۔ آسمان کو پھاڑ کر سات آسمان بنائے ۔ زمین کے مجموعے کو چیر کر سات زمینیں بنائیں ۔ مجاہد رحمتہ اللہ علیہ کی تفسیر میں یہ بھی ہے کہ یہ ملے ہوئے تھے یعنی پہلے ساتوں آسمان ایک ساتھ تھے اور اسی طرح ساتوں زمینیں بھی ملی ہوئی تھیں پھر جدا جدا کر دی گئیں ۔ سعید رحمتہ اللہ علیہ کی تفسیر ہے کہ یہ دونوں پہلے ایک ہی تھے پھر الگ الگ کر دیئے گئے ۔ زمین و آسمان کے درمیان خلا رکھ دی گئی ۔ پانی کو تمام جانداروں کی اصل بنا دیا ۔ { سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رضی اللہ عنہا نے ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتا ہوں میرا جی خوش ہو جاتا ہے اور میری آنکھیں ٹھنڈی ہوتی ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں تمام چیزوں کی اصلیت سے خبردار کر دیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ابوہریرہ تمام چیزیں پانی سے پیدا کی گئی ہیں } } ۔ (مسند احمد:295/2:صحیح) اور روایت میں ہے کہ { پھر میں نے کہا ، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کوئی ایسا عمل بتا دیجئیے جس سے میں جنت میں داخل ہو جاؤں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { لوگوں کو سلام کیا کرو اور کھانا کھلایا کرو اور صلہ رحمی کرتے رہو اور رات کو جب لوگ سوئے ہوئے ہوں تو تم تہجد کی نماز پڑھا کرو تاکہ سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:493/2:صحیح) زمین کو جناب باری عزوجل نے پہاڑوں کی میخوں سے مضبوط کر دیا تاکہ وہ ہل جل کر لوگوں کو پریشان نہ کرے اور مخلوق کو زلزلے میں نہ ڈالے ۔ زمین کی تین چوتھائیاں تو پانی میں ہیں اور صرف چوتھائی حصہ سورج اور ہوا کے لیے کھلا ہوا ہے ۔ تاکہ لوگ آسمان کو اور اس کے عجائبات کو بچشم خود ملاحظہ کر سکیں ۔ پھر زمین میں اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کاملہ سے راہیں بنا دیں کہ لوگ باآسانی اپنے سفر طے کر سکیں اور دور دراز ملکوں میں بھی پہنچ سکیں ۔ شان الٰہی دیکھئیے اس حصے اور اس ٹکڑے کے درمیان بلند پہاڑی حائل ہے ۔ یہاں سے وہاں پہنچنا بظاہر سخت دشوار معلوم ہوتا ہے لیکن قدرت الٰہی خود اس پہاڑ میں راستہ بنا دیتی ہے کہ یہاں کے لوگ وہاں اور وہاں کے یہاں پہنچ جائیں اور اپنے کام کاج پورے کر لیں ۔ آسمان کو زمین پر مثل قبے کے بنا دیا ۔ جیسے فرمان ہے کہ «وَالسَّمَاءَ بَنَیْنَاہَا بِأَیْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ» ۱؎ (51-الذاریات:47) ’ ہم نے آسمان کو اپنے ہاتھوں سے بنایا اور ہم وسعت اور کشادگی والے ہیں ‘ ۔ فرماتا ہے «وَالسَّمَاءِ وَمَا بَنَاہَا» ۱؎ (91-الشمس:5) ’ قسم آسمان کی اور اس کی بناوٹ کی ‘ ۔ ارشاد ہے ، «أَفَلَمْ یَنظُرُوا إِلَی السَّمَاءِ فَوْقَہُمْ کَیْفَ بَنَیْنَاہَا وَزَیَّنَّاہَا وَمَا لَہَا مِن فُرُوجٍ» ۱؎ (50-ق:6) ’ کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے ان کے سروں پر آسمان کو کس کیفیت کا بنایا ہے اور کس طرح زینت دے رکھی ہے اور لطف یہ ہے کہ اتنے بڑے آسمان میں کوئی سوراخ تک نہیں ‘ ۔ «بنا» کہتے ہیں ، قبے یا خیمے کے کھڑا کرنے کو جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ { «بُنِیَ الإِسْلاَمُ عَلَی خَمْسٍ» اسلام کی بنائیں پانچ ہیں جیسے پانچ ستون پر کوئی قبہ یا خیمہ کھڑا ہوا ہو } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:8) پھر آسمان جو مثل چھت کے ہے ، یہ ہے بھی محفوظ اور بلند پہرے چوکی والا کہ کہیں سے اسے کوئی نقصان نہیں پہنچتا ۔ بلندو بالا ، اونچا اور صاف ہے ۔ جیسے حدیث میں ہے کہ { کسی شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ یہ آسمان کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { رکی ہوئی موج ہے } } ۔ ۱؎ (ابو الشیخ فی العظمۃ:541) یہ روایت سنداً غریب ہے ۔ لیکن لوگ اللہ پاک کی ان زبردست نشانیوں سے بھی بے پرواہ ہیں ۔ جیسے فرمان ہے «وَکَأَیِّن مِّنْ آیَۃٍ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ یَمُرٰونَ عَلَیْہَا وَہُمْ عَنْہَا مُعْرِضُونَ» ۱؎ (12-یوسف:105) ’ آسمان و زمین کی بہت سی نشانیاں ہیں جو لوگوں کی نگاہوں تلے ہیں لیکن پھر بھی وہ ان سے منہ موڑے ہوئے ہیں ‘ ۔ کوئی غور و فکر ہی نہیں کرتے ، کبھی نہیں سوچتے کہ کتنا پھیلا ہوا ، کتنا بلند ، کس قدر عظیم الشان یہ آسمان ہمارے سروں پر بغیر ستون کے اللہ تعالیٰ نے قائم کر رکھا ہے ۔ پھر اس میں کس خوبصورتی سے ستاروں کاجڑاؤ ہو رہا ہے ۔ ان میں بھی کوئی ٹھہرا ہوا ہے ، کوئی چلتا پھرتا ہے ۔ پھر سورج کی چال مقرر ہے ۔ اس کی موجودگی دن ہے اس کا نظر نہ آنا رات ہے ۔ پورے آسمان کا چکر صرف ایک دن رات میں سورج پورا کر لیتا ہے ۔ اس کی چال کو ، اس کی تیزی کو بجز اللہ کے کوئی نہیں جانتا ۔ یوں قیاس آرائیاں اور اندازے کرنا اور بات ہے ۔ بنی اسرائیل کے عابدوں میں سے ایک نے اپنی تیس سال کی مدت عبادت پوری کرلی مگر جس طرح اور عابدوں پر تیس سال کی عبادت کے بعد ابر کا سایہ ہو جایا کرتا تھا ، اس پر نہ ہوا تو اس نے اپنی والدہ سے یہ حال بیان کیا ۔ اس نے کہا ، بیٹے تم نے اپنی اس عبادت کے زمانے میں کوئی گناہ کر لیا ہوگا ؟ اس نے کہا اماں ایک بھی نہیں ۔ کہا پھر تم نے کسی گناہ کا پورا قصد کیا ہوگا ؟ جواب دیا کہ ایسا بھی مطلقاً نہیں ہوا ۔ ماں نے کہا ، بہت ممکن ہے کہ تم نے آسمان کی طرف نظر کی ہو اور غور و تدبر کے بغیر ہی ہٹالی ہو ۔ عابد نے جواب دیا ایسا تو برابر ہوتا رہا ، فرمایا بس یہی سبب ہے ۔ پھر اپنی قدرت کاملہ کی بعض نشانیاں بیان فرماتا ہے کہ ’ رات اور اس کے اندھیرے کو دیکھو ، دن اور اس کی روشنی پر نظر ڈالو ، پھر ایک کے بعد دوسرے کا بڑھنا دیکھو ، سورج چاند کو دیکھو ۔ سورج کا نور ایک مخصوص نور ہے اور اس کا آسمان ، اس کا زمانہ ، اس کی حرکت ، اس کی چال علیحدہ ہے ۔ چاند کا نور الگ ہے ، فلک الگ ہے ، چال الگ ہے ، انداز اور ہے ‘ ۔ «وَکُلٌّ فِی فَلَکٍ یَسْبَحُونَ» (36-یس:40) ’ ہر ایک اپنے اپنے فلک میں گویا تیرتا پھرتا ہے اور حکم الٰہی کی بجا آوری میں مشغول ہے ‘ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:520/18:) جیسے فرمان ہے «فَالِقُ الْإِصْبَاحِ وَجَعَلَ اللَّیْلَ سَکَنًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْبَانًا ذٰلِکَ تَقْدِیرُ الْعَزِیزِ الْعَلِیمِ» ۱؎ (6-الأنعام:96) ’ وہی صبح کاروشن کرنے والا ہے وہی رات کو پرسکون بنانے والا ہے ۔ وہی سورج چاند کا انداز مقرر کرنے والا ہے ۔ وہی ذی عزت ، غلبے والا اور ذی علم علم والا ہے ‘ ۔ الأنبياء
31 الأنبياء
32 الأنبياء
33 الأنبياء
34 خضر علیہ السلام مر چکے ہیں جتنے لوگ ہوئے ، سب کو ہی موت ایک روز ختم کرنے والی ہے ۔ «کُلٰ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ وَیَبْقَیٰ وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِکْرَامِ» ۱؎ (55-الرحمن:26-27) ’ تمام روئے زمین کے لوگ موت سے ملنے والے ہیں ۔ ہاں رب کی جلال و اکرام والی ذات ہی ہمیشہ اور لازوال ہے ‘ ۔ اسی آیت سے علماء نے استدلال کیا ہے کہ خضر علیہ السلام مرگئے ۔ یہ غلط ہے کہ وہ اب تک زندہ ہوں کیونکہ وہ بھی انسان ہی تھے ، ولی ہوں یا نبی ہوں یا رسول ہوں ، تھے تو انسان ہی ۔ ’ ان کفار کی یہ آرزو کتنی ناپاک ہے کہ تم مرجاؤ ؟ تو کیا یہ ہمیشہ رہنے والے ہیں ؟ ‘ ایسا تو محض ناممکن ہے ، دنیا میں تو چل چلاؤ لگ رہا ہے ۔ کسی کو بجز ذات باری کے دوام نہیں ۔ کوئی آگے ہے کوئی پیچھے ۔ پھر فرمایا «کُلٰ نَفْسٍ ذَائِقَۃُ الْمَوْتِ» (آیت35) ’ موت کا ذائقہ ہر ایک کو چکھنا پڑے گا ‘ ۔ امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ ” لوگ میری موت کے آرزو مند ہیں تو کیا اس کے بارے میں میں ہی اکیلا ہوں ؟ یہ وہ ذائقہ نہیں جو کسی کو چھوڑ دے “ ۔ پھر فرماتا ہے ” بھلائی برائی سے ، سکھ دکھ سے ، مٹھاس کڑواہٹ سے ، کشادگی تنگی سے ہم اپنے بندوں کو آزما لیتے ہیں تاکہ شکر گزار اور ناشکرا ، صابر اور ناامید کھل جائے ۔ صحت و بیماری ، تونگری ، فقیری ، سختی ، نرمی ، حلال ، حرام ، ہدایت ، گمراہی ، اطاعت ، معصیت ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:440/18:) یہ سب آزمائشیں ہیں ۔ اس میں بھلے برے کھل جاتے ہیں ۔ تمہارا سب کا لوٹنا ہماری ہی طرف ہے ۔ اس وقت جو جیسا تھا کھل جائے گا ۔ بروں کوسزا نیکوں کو جزا ملے گی ‘ ۔ الأنبياء
35 الأنبياء
36 جلد باز انسان ابوجہل وغیرہ کفار قریش نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے ہی ہنسی مذاق شروع کردیتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بے ادبی کرنے لگتے ۔ کہنے لگتے کہ لو میاں دیکھ لو ، یہی ہیں جو ہمارے معبودوں کو برا کہتے ہیں ، تمہارے بزرگوں کو بیوقوف بتاتے ہیں ۔ ایک تو ان کی یہ سرکشی ہے ۔ دوسرے یہ کہ خود ‌ ذکر رحمن کے منکر ہیں ۔ اللہ کے منکر ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منکر ۔ اور آیت میں ان کے اسی کفر کا بیان کر کے فرمایا گیا ہے آیت «وَإِذَا رَأَوْکَ إِن یَتَّخِذُونَکَ إِلَّا ہُزُوًا أَہٰذَا الَّذِی بَعَثَ اللہُ رَسُولًا إِن کَادَ لَیُضِلٰنَا عَنْ آلِہَتِنَا لَوْلَا أَن صَبَرْنَا عَلَیْہَا وَسَوْفَ یَعْلَمُونَ حِینَ یَرَوْنَ الْعَذَابَ مَنْ أَضَلٰ سَبِیلًا» ۱؎ (25-الفرقان:41-42) یعنی ’ وہ تو کہیے ہم جمے رہے ورنہ اس نے تو ہمیں ہمارے پرانے معبودوں سے برگشتہ کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی تھی ۔ خیر انہیں عذاب کے معائنہ سے معلوم ہو جائے گا کہ گمراہ کون تھا ؟ ‘ «وَکَانَ الْإِنسَانُ عَجُولًا» ۱؎ (17-الاسراء:11) ’ انسان بڑا ہی جلدباز ہے ‘ ۔ مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ، ” اللہ تعالیٰ نے تمام چیزوں کی پیدائش کے بعد آدم علیہ السلام کو پیدا کرنا شروع کیا ۔ شام کے قریب جب ان میں روح پھونکی گئی ، سر ، آنکھ اور زبان میں جب روح آ گئی تو کہنے لگے ، الٰہی مغرب سے پہلے ہی میری پیدائش مکمل ہو جائے “ ۔ { حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ، { تمام دنوں میں بہتر و افضل دن جمعہ کا دن ہے ، اسی میں آدم علیہ السلام پیدا کئے گئے اسی میں جنت میں داخل ہوئے اسی میں وہاں سے اتارے گئے ، اسی میں قیامت قائم ہوگی ، اسی دن میں ایک ایسی ساعت ہے کہ اس وقت جو بندہ نماز میں ہو اور اللہ تعالیٰ سے جو کچھ طلب کرے ، اللہ اسے عطا فرماتا ہے } ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیوں سے اشارہ کرکے بتلایا کہ { وہ ساعت بہت تھوڑی سی ہے } ۔ عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ، مجھے معلوم ہے کہ وہ ساعت کون سی ہے وہ جمعہ کے دن کی آخری ساعت ہے ، اسی وقت اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا ۔ پھر آپ نے یہی آیت پڑھی } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:1046 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) پہلی آیت میں کافروں کی بدبختی کا ذکر کرکے اس کے بعد ہی انسانی عجلت کا ذکر اس حکمت سے ہے کہ گویا کافروں کی سرکشی سنتے ہی مسلمان کا انتقامی جذبہ بھڑک اٹھتا ہے اور وہ جلد بدلہ لینا چاہتا ہے اس لیے کہ انسانی جبلت میں ہی جلدبازی ہے ۔ لیکن عادت الٰہی یہ ہے کہ وہ ظالموں کو ڈھیل دیتا ہے ۔ پھر جب پکڑتا ہے تو چھوڑتا نہیں ۔ اسی لیے فرمایا کہ ’ میں تمہیں اپنی نشانیاں دکھانے والا ہی ہوں کہ عاصیوں پر کس طرح سختی ہوتی ہے ۔ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مذاق میں اڑانے والوں کی کس طرح کھال ادھڑتی ہے ۔ تم ابھی ہی دیکھ لو گے ۔ جلدی نہ مچاؤ ، دیر ہے اندھیر نہیں ، مہلت ہے بھول نہیں ‘ ۔ الأنبياء
37 الأنبياء
38 خود عذاب کے طالب لوگ عذاب الٰہی کو ، قیامت کے آنے کو یہ لوگ چونکہ محال جانتے تھے ، اس لیے جرأت سے کہتے تھے کہ بتاؤ تو سہی تمہارے یہ ڈراوے کب پورے ہوں گے ؟ انہیں جواب دیا جاتا ہے کہ ’ تم اگر سمجھ دار ہوتے اور اس دن کی ہولناکیوں سے آگاہ ہوتے تو جلدی نہ مچاتے ‘ ۔ «لَہُم مِّن فَوْقِہِمْ ظُلَلٌ مِّنَ النَّارِ وَمِن تَحْتِہِمْ ظُلَلٌ» ۱؎ (39-الزمر:16) ’ اس وقت عذاب الٰہی اوپر تلے سے اوڑھنا بچھونا بنے ہوئے ہونگے ‘ ، «لَہُم مِّن جَہَنَّمَ مِہَادٌ وَمِن فَوْقِہِمْ غَوَاشٍ وَکَذٰلِکَ نَجْزِی الظَّالِمِینَ» ۱؎ (7-الأعراف:41) ’ طاقت نہ ہوگی کہ آگے پیچھے سے اللہ کا عذاب ہٹا سکو ‘ ۔ «سَرَابِیلُہُم مِّن قَطِرَانٍ وَتَغْشَیٰ وُجُوہَہُمُ النَّارُ» ۱؎ (14-ابراھیم:50) ’ گندھک کا لباس ہوگا جس میں آگ لگی ہوئی ہوگی اور کھڑے جل رہے ہوں گے ، ہرطرف سے جہنم گھیرے ہوئے ہوگی ‘ ۔ «وَمَا لَہُم مِّنَ اللہِ مِن وَاقٍ» ۱؎ (13-الرعد:34) ’ کوئی نہ ہوگا جو مدد کو اٹھے ۔ جہنم اچانک دبوچ لے گی ۔ اس وقت ہکے بکے رہ جاؤ گے ، مبہوت اور بے ہوش ہو جاؤ گے ، حیران و پریشان ہو جاؤ گے ، کوئی حیلہ نہ ملے گا کہ اسے دفع کرو ، اس سے بچ جاؤ اور نہ ایک ساعت کی ڈھیل اور مہلت ملے گی ‘ ۔ الأنبياء
39 الأنبياء
40 الأنبياء
41 انبیاء کی تکذیب کافروں کا شیوہ ہے اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ ’ تمہیں جو ستایا جا رہا ہے ، مذاق میں اڑایا جاتا ہے اور جھوٹا کہا جاتا ہے ، اس پر پریشان نہ ہونا ، کافروں کی یہ پرانی عادت ہے ۔ اگلے نبیوں کے ساتھ بھی انہوں نے یہی کیا جس کی وجہ سے آخرش عذابوں میں پھنس گئے ‘ ۔ جیسے فرمان ہے آیت «‏‏‏‏وَلَقَدْ کُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِکَ فَصَبَرُوْا عَلٰی مَا کُذِّبُوْا وَاُوْذُوْا حَتّٰی اَتٰیہُمْ نَصْرُنَا وَلَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِ اللّٰہِ وَلَقَدْ جَاءَکَ مِنْ نَّبَاِی الْمُرْسَلِیْنَ» ۱؎ (6-الأنعام:34) ‏‏‏‏ ، ’ تجھ سے پہلے کے انبیاء بھی جھٹلائے گئے اور انہوں نے اپنے جھٹلائے جانے پر صبر کیا یہاں تک کہ ان کے پاس ہماری مدد آگئی ۔ اللہ کی باتوں کا بدلنے والا کوئی نہیں ۔ تمہارے پاس رسولوں کی خبریں آچکی ہیں ‘ ۔ پھر اپنی نعمت بیان فرماتا ہے کہ ’ وہ تم سب کی حفاظت دن رات اپنی ان آنکھوں سے کر رہا ہے جو نہ کبھی تھکیں نہ سوئیں ‘ ۔ «مِنَ الرَّحْمٰنِ» کا معنی رحمان کے بدلے یعنی رحمان کے سوا ہیں ۔ عربی شعروں میں بھی «مِنَ» بدل کے معنی میں ہے ۔ اسی ایک احسان پر کیا موقوف ہے ۔ یہ کفار تو اللہ کے ہر ایک احسان کی ناشکری کرتے ہیں بلکہ اس کی نعمتوں کے منکر اور ان سے منہ پھیرنے والے ہیں ۔ پھر بطور انکار کے ڈانٹ ڈپٹ کے ساتھ فرماتا ہے کہ ’ کیا ان کے معبود جو اللہ کے سوا ہیں ، انہیں اپنی حفاظت میں رکھتے ہیں ؟ ‘ یعنی وہ ایسا نہیں کر سکتے ۔ ان کا یہ گمان محض غلط ہے ۔ بلکہ ان کے معبودان باطل خود اپنی مدد و حفاظت کے بھی مالک نہیں ۔ بلکہ وہ ہم سے بچ بھی نہیں سکتے ۔ ہماری جانب سے کوئی خبر ان کے ہاتھوں میں نہیں ۔ ایک معنی اس جملے کے یہ بھی ہیں کہ ’ نہ تو وہ کسی کو بچا سکیں نہ خود بچ سکیں ‘ ۔ الأنبياء
42 الأنبياء
43 الأنبياء
44 ذلت و رسوائی کے مارے لوگ کافروں کے کینے کی اور اپنی گمراہی پر جم جانے کی وجہ بیان ہو رہی ہے کہ انہیں کھانے پینے کو ملتا رہا ، لمبی لمبی عمریں ملیں ، انہوں نے سمجھ لیا کہ ہمارے کرتوت اللہ کو پسند ہیں ۔ اس کے بعد انہیں نصیحت کرتا ہے کہ ’ کیا وہ یہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے کافروں کی بستیوں کی بستیاں بوجہ ان کے کفر کے ملیامیٹ کر دیں ؟ ‘ اس جملے کے اور بھی بہت سے معنی کئے گئے ہیں جو سورۃ الرعد میں ہم بیان کر آئے ہیں ۔ لیکن زیادہ ٹھیک معنی یہی ہیں ۔ جیسے فرمایا آیت «ووَلَقَدْ اَہْلَکْنَا مَا حَوْلَکُمْ مِّنَ الْقُرٰی وَصَرَّفْنَا الْاٰیٰتِ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ» ۱؎ (46-الأحقاف:27) ، ’ ہم نے تمہارے آس پاس کی بستیاں ہلاک کیں اور اپنی نشانیاں ہیر پھیر کر کے تمہیں دکھا دیں تاکہ لوگ اپنی برائیوں سے باز آجائیں ‘ ۔ حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ نے اس کے ایک معنی یہ بھی بیان کئے ہیں کہ ’ ہم کفر پر اسلام کو غالب کرتے چلے آئے ہیں ‘ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:494/1:) کیا تم اس سے عبرت حاصل نہیں کرتے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے دوستوں کو اپنے دشمنوں پر غالب کر دیا اور کس طرح جھٹلانے والی اگلی امتوں کو اس نے ملیامیٹ کر دیا اور اپنے مومنوں کو نجات دے دی ۔ کیا اب بھی یہ لوگ اپنے آپ کو غالب ہی سمجھ رہے ہیں ؟ نہیں نہیں بلکہ یہ مغلوب ہیں ، ذلیل ہیں ، رذیل ہیں ، نقصان میں ہیں ، بربادی کے ماتحت ہیں ۔ میں تو اللہ کی طرف سے مبلغ ہوں ، جن جن عذابوں سے تمہیں خبردار کر رہا ہوں ، یہ اپنی طرف سے نہیں ہے بلکہ اللہ کا کہا ہوا ہے ۔ ہاں جن کی آنکھیں اللہ نے اندھی کر دی ہیں ، جن کے دل و دماغ بند کر دیئے ہیں ، انہیں یہ اللہ کی باتیں سود مند نہیں پڑتیں ۔ بہروں کو آگاہ کرنا بے کار ہے کیونکہ وہ تو سنتے ہی نہیں ۔ ان گنہگاروں پر اک ادنیٰ سا بھی عذاب آ جائے تو واویلا کرنے لگتے ہیں اور اسی وقت بے ساختہ اپنے قصور کا اقرار کر لیتے ہیں ۔ قیامت کے دن عدل کی ترازو قائم کی جائے گی ۔ یہ ترازو ایک ہی ہوگی لیکن چونکہ جو اعمال اس میں تولے جائیں گے وہ بہت سے ہوں گے ، اس اعتبار سے لفظ جمع لائے ۔ «وَلَا یَظْلِمُ رَبٰکَ أَحَدًا» ۱؎ (18-الکہف:49) ’ اس دن کسی پر کسی طرح کا ذرا سا بھی ظلم نہ ہوگا ‘ ۔ اس لیے کہ حساب لینے والا خود اللہ ہے جو اکیلا ہی تمام مخلوق کے حساب کے لیے کافی ہے ۔ ہر چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی وہاں موجود ہو جائے گا ۔ اور آیت میں فرمایا تیرا رب کسی پر ظلم نہ کرے گا ۔ فرمان ہے «إِنَّ اللہَ لَا یَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ وَإِن تَکُ حَسَنَۃً یُضَاعِفْہَا وَیُؤْتِ مِن لَّدُنْہُ أَجْرًا عَظِیمًا» ۱؎ (4-النساء:40) ، ’ اللہ تعالیٰ ایک رائی کے دانے برابر بھی ظلم نہیں کرتا ، نیکی کو بڑھاتا ہے اور اس کا اجر اپنے پاس سے بہت بڑا عنایت فرماتا ہے ‘ ۔ لقمان رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی وصیتوں میں اپنے بیٹے سے فرمایا تھا ، «یَابُنَیَّ إِنَّہَا إِن تَکُ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَکُن فِی صَخْرَۃٍ أَوْ فِی السَّمَاوَاتِ أَوْ فِی الْأَرْضِ یَأْتِ بِہَا اللہُ إِنَّ اللہَ لَطِیفٌ خَبِیرٌ» ۱؎ (31-لقمان:16) ’ بیٹے ایک رائی کے دانے برابر بھی جو عمل ہو خواہ وہ پتھر میں ہو یا آسمانوں میں ہو یا زمین میں ، وہ اللہ اسے لائے گا ، وہ بڑا ہی باریک بین اور باخبر ہے ‘ ۔ بخاری و مسلم میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { دو کلمے ہیں جو زبان پر ہلکے ہیں ، میزان میں وزن دار ہیں اور اللہ کو بہت پیارے ہیں «سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہِ سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیمِ» } } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2695) مسند احمد میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { میری امت کے ایک شخص کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تمام اہل محشر کے سامنے اپنے پاس بلائے گا اور اس کے گناہوں کے ایک کم ایک سو دفتر اس کے سامنے کھولے جائیں گے ۔ جہاں تک نگاہ کام کرے وہاں تک کا ایک ایک دفتر ہوگا ۔ پھر اس سے جناب باری تعالیٰ دریافت فرمائے گا کہ ’ کیا تجھے اپنے کئے ہوئے ان گناہوں میں سے کسی کا انکار ہے ؟ میری طرف سے جو محافظ فرشتے تیرے اعمال لکھنے پر مقرر تھے انہوں نے تجھ پر کوئی ظلم تو نہیں کیا ؟ ‘ یہ جواب دے گا کہ اے اللہ ! نہ انکار کی گنجائش ہے نہ یہ کہہ سکتا ہوں کہ ظلماً لکھا گیا ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’ اچھا تیرے پاس کوئی عذر ہے یا کوئی نیکی ہے ؟ ‘ وہ گھبرایا ہوا کہے گا اے اللہ کوئی نہیں ۔ پروردگار عالم فرمائے گا ’ کیوں نہیں ؟ بیشک تیری ایک نیکی ہمارے پاس ہے اور آج تجھ پر کوئی ظلم نہ ہوگا ‘ ۔ اب ایک چھوٹا سا پرچہ نکالا جائے گا جس میں «اَشْہَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلاَّ اﷲُ وَ اَنَّ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ» لکھا ہوا ہوگا ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’ اسے پیش کرو ‘ ۔ وہ کہے گا اے اللہ یہ پرچہ ان دفتروں کے مقابلے میں کیا کرے گا ؟ جناب باری فرمائے گا ’ تجھ پر ظلم نہ کیا جائے گا ‘ ۔ اب تمام کے تمام دفتر ترازو کے ایک پلڑے میں رکھے جائیں گے اور وہ پرچہ دوسرے پلڑے میں رکھا جائے گا تو اس پرچے کا وزن ان تمام دفتروں سے بڑھ جائے گا ۔ یہ جھک جائے گا اور وہ اونچے ہو جائیں گے اور اللہ رحمان و رحیم کے نام سے کوئی چیز وزنی نہ ہوگی } } ۔ ابن ماجہ اور ترمذی میں بھی روایت ہے ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2639،قال الشیخ الألبانی:صحیح) مسند احمد میں ہے کہ { قیامت کے دن جب ترازوئیں رکھی جائیں گی پس ایک شخص کو لایا جائے گا اور ایک پلڑے میں رکھا جائے گا اور جو کچھ اس پر شمار کیا گیا ہے ، وہ بھی رکھا جائے گا تو وہ پلڑا جھک جائے گا اور اسے جہنم کی طرف بھیج دیا جائے گا ۔ ابھی اس نے پیٹھ پھیری ہی ہوگی کہ اللہ کی طرف سے ایک آواز دینے والا فرشتہ آواز دے گا اور کہے گا جلدی نہ کرو ۔ ایک چیز اس کی ابھی باقی رہ گئی ہے پھر ایک پرچہ نکالا جائے گا جس میں «لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ» ہوگا وہ اس شخص کے ساتھ ترازو کے پلڑے میں رکھا جائے گا اور یہ پلڑا نیکی کا جھک جائے گا } ۔۱؎ (مسند احمد:221/2:حسن) مسند احمد میں ہے کہ { ایک صحابی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھ کر کہنے لگا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے غلام ہیں جو مجھے جھٹلاتے بھی ہیں ، میری خیانت بھی کرتے ہیں ، میری نافرمانی بھی کرتے ہیں اور میں بھی انہیں مارتا پیٹتا ہوں اور برا بھلا بھی کہتا ہوں ۔ اب فرمائیے میرا ان کا کیا حال ہوگا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ان کی خیانت ، نافرمانی ، جھٹلانا و‏غیرہ جمع کیا جائے گا اور تیرا مارنا پیٹنا برا بھلا کہنا بھی ۔ اگر تیری سزا ان کی خطاؤں کے برابر ہوئی تو تو چھوٹ گیا نہ عذاب نہ ثواب ۔ ہاں اگر تیری سزا کم رہی تو تجھے اللہ کا فضل و کرم ملے گا اور اگر تیری سزا ان کے کرتوتوں سے بڑھ گئی تو تجھ سے اس بڑھی ہوئی سزا کا انتقام لیا جائے گا } ۔ یہ سن کر وہ صحابی رضی اللہ عنہ رونے لگے اور چیخنا شروع کردیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اسے کیا ہو گیا ؟ کیا اس نے قرآن کریم میں یہ نہیں پڑھا آیت «وَنَضَعُ الْمَوَازِینَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیَامَۃِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْئًا وَإِن کَانَ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ أَتَیْنَا بِہَا وَکَفَیٰ بِنَا حَاسِبِینَ» } (آیت:47) یہ سن کر اس صحابی رضی اللہ عنہ نے کہا ، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان معاملات کو سن کر تو میرا جی چاہتا ہے کہ میں اپنے ان تمام غلاموں کو آزاد کردوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گواہ رہئے یہ سب اللہ کی راہ میں آزاد ہیں } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3165،قال الشیخ الألبانی:صحیح) الأنبياء
45 الأنبياء
46 الأنبياء
47 الأنبياء
48 کتاب النور ہم پہلے بھی اس بات کو جتا چکے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر اکثر ملا جلا آتا ہے اور اسی طرح توراۃ اور قرآن کا ذکر بھی عموماً ایک ساتھ ہی ہوتا ہے ۔ فرقان سے مراد کتاب ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:353/18:) یعنی تورات ہے جو حق و باطل ، حرام و حلال میں فرق کرنے والی تھی ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:353/18:) اسی سے جناب موسیٰ علیہ السلام کو مدد ملی ۔ کل کی کل آسمانی کتابیں حق وباطل ، ہدایت وگمراہی ، بھلائی برائی ، حلال و حرام میں جدائی کرنے والی ہوتی ہیں ۔ ان سے دلوں میں نورانیت ، اعمال میں حقانیت ، اللہ کا خوف وخشیت ، ڈر اور اللہ کی طرف رجوع حاصل ہوتا ہے ۔ اسی لیے فرمایا کہ ’ اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے یہ کتاب نصیحت و پند اور نور و روشنی ہے ‘ ۔ پھر ان متقیوں کا وصف بیان فرمایا کہ ’ وہ اپنے اللہ سے غائبانہ ڈرتے رہتے ہیں ‘ ۔ جیسے جنتیوں کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرمایا آیت «مَنْ خَشِیَ الرَّحْمٰنَ بالْغَیْبِ وَجَاءَ بِقَلْبٍ مٰنِیْبِ» ۱؎ (50-ق:33) ’ جو رحمن سے بن دیکھے ڈرتے ہیں اور جھکنے والا دل رکھتے ہیں ‘ ۔ اور آیت میں ہے «إِنَّ الَّذِینَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُم بِالْغَیْبِ لَہُم مَّغْفِرَۃٌ وَأَجْرٌ کَبِیرٌ» ۱؎ (67-الملک:12) ’ جو لوگ اپنے رب کا غائبانہ ڈر رکھتے ہیں ، ان کے لیے مغفرت ہے اور بہت بڑا اجر ہے ‘ ۔ ان متقیوں کا دوسرا وصف یہ ہے کہ یہ قیامت کا کھٹکا رکھتے ہیں ۔ اس کی ہولناکیوں سے لرزاں و ترساں رہتے ہیں ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ اس قرآن عظیم کو بھی ہم نے ہی نازل فرمایا ہے جس کے آس پاس بھی باطل نہیں آ سکتا ۔ جو حکمتوں اور تعریفوں والے اللہ کی طرف سے اترا ہے ۔ افسوس کیا اس قدر وضاحت وحقانیت ، صداقت ونورانیت والا قرآن بھی اس قابل ہے کہ تم اس کے منکر بنے رہو ؟ ‘ الأنبياء
49 الأنبياء
50 الأنبياء
51 یہودی روایتوں سے بچو فرمان ہے کہ ’ خلیل اللہ علیہ صلوات اللہ کو اللہ تعالیٰ نے ان کے بچپن سے ہی ہدایت عطا فرمائی تھی ۔ انہیں اپنی دلیلیں الہام کی تھیں اور بھلائی سمجھائی تھی ‘ ۔ جیسے آیت میں ہے «وَتِلْکَ حُجَّتُنَا آتَیْنَاہَا إِبْرَاہِیمَ عَلَیٰ قَوْمِہِ» ۱؎ (6-الأنعام:83) ۔ ’ یہ ہیں ہماری زبردست دلیلیں جو ہم نے ابراہیم علیہ السلام کو دی تھیں تاکہ وہ اپنی قوم کو قائل کر سکیں ‘ ۔ یہ جو قصے مشہور ہیں کہ ابراہیم علیہ السلام کے دودھ پینے کے زمانے میں ہی انہیں ان کے والد نے ایک غار میں رکھا تھا جہاں سے مدتوں بعد وہ باہر نکلے اور مخلوقات الٰہی پر خصوصا ً چاند تاروں وغیرہ پر نظر ڈال کر اللہ کو پہچانا ، یہ سب بنی اسرائیل کے افسانے ہیں ۔ قاعدہ یہ ہے کہ ان میں سے جو واقعہ اس کے مطابق ہو جو حق ہمارے ہاتھوں میں ہے یعنی کتاب وسنت ، وہ تو سچا ہے اور قابل قبول ہے اس لیے کہ وہ صحت کے مطابق ہے ۔ اور جو خلاف ہو وہ مردود ہے ۔ اور جس کی نسبت ہماری شریعت خاموش ہو ، موافقت ومخالفت کچھ نہ ہو ، گو اس کا روایت کرنا بقول اکثر مفسرین جائز ہے لیکن نہ تو ہم اسے سچا کر سکتے ہیں نہ غلط ۔ ہاں یہ ظاہر ہے کہ وہ واقعات ہمارے لیے کچھ سند نہیں ، نہ ان میں ہمارا کوئی دینی نفع ہے ۔ اگر ایسا ہوتا تو ہماری جامع و نافع ، کامل و شامل شریعت اس کے بیان میں کوتاہی نہ کرتی ۔ ہمارا اپنا مسلک تو اس تفسیر میں یہ رہا ہے کہ ہم ایسی بنی اسرائیلی روایتوں کو وارد نہیں کرتے کیونکہ اس میں سوائے وقت ضائع کرنے کے کوئی نفع نہیں ہاں نقصان کا احتمال زیادہ ہے ۔ کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ بنی اسرائیل میں روایت کی جانچ پڑتال کا مادہ ہی نہ تھا ، وہ سچ جھوٹ میں تمیز کرنا جانتے ہی نہ تھے ، ان میں جھوٹ سرایت کر گیا تھا جیسے کہ ہمارے حفاظ ائمہ نے تشریح کی ہے ۔ غرض یہ ہے کہ آیت میں اس امر کا بیان ہے کہ ’ ہم نے اس سے پہلے ابراہیم علیہ السلام کو ہدایت بخشی تھی اور ہم جانتے تھے کہ وہ اس کے لائق ہے ‘ ۔ بچپنے میں ہی آپ علیہ السلام نے اپنی قوم کی غیر اللہ پرستی کو ناپسند فرمایا اور نہایت جرأت سے اس کا سخت انکار کیا اور قوم سے برملا کہا کہ ان بتوں کے اردگرد مجمع لگا کر کیا بیٹھے ہو ؟ اصبغ بن نباتہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ راہ سے گزر رہے تھے جو دیکھا کہ شطرنج باز لوگ بازی کھیل رہے ہیں ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے یہی تلاوت فرما کر فرمایا کہ ” تم میں سے کوئی اپنے ہاتھ میں جلتا ہوا انگارا لے لے یہ اس شطرنج کے مہروں کے لینے سے اچھا ہے “ ۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی اس کھلی دلیل کا جواب ان کے پاس کیا تھا جو دیتے ؟ کہنے لگے کہ یہ تو پرانی روش ہے ، باپ دادوں سے چلی آتی ہے ۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا ! واہ یہ بھی کوئی دلیل ہوئی ؟ ہمارا اعتراض جو تم پر ہے وہی تمہارے اگلوں پر ہے ۔ ایک گمراہی میں تمہارے بڑے مبتلا ہوں اور تم بھی اس میں مبتلا ہو جاؤ تو وہ بھلائی بننے سے رہی ؟ میں کہتا ہوں ، تم اور تمہارے باپ دادا سبھی راہ حق سے برگشتہ ہو گئے ہو اور کھلی گمراہی میں ڈوبے ہوئے ہو ۔ اب تو ان کے کان کھڑے ہوئے کیونکہ انہوں نے اپنے عقل مندوں کی توہین دیکھی ، اپنے باپ دادوں کی نسبت نہ سننے والے کلمات سنے ، اپنے معبودوں کی حقارت ہوتی ہوئی دیکھی تو گھبرا گئے اور کہنے لگے ابراہیم [ علیہ السلام ] کیا واقعی تم ٹھیک کہہ رہے ہو یا مذاق کر رہے ہو ؟ ہم نے تو ایسی بات کبھی نہیں سنی ۔ آپ علیہ السلام کو تبلیغ کا موقعہ ملا اور صاف اعلان کیا کہ ” رب تو صرف خالق آسمان و زمین ہی ہے ، تمام چیزوں کا خالق و مالک وہی ہے ۔ تمہارے یہ معبود کسی ادنیٰ سی چیز کے بھی نہ خالق ہیں نہ مالک ۔ پھر معبود و مسجود کیسے ہو گئے ؟ میری گواہی ہے کہ خالق و مالک اللہ ہی لائق عبادت ہے نہ اس کے سوا کوئی رب نہ معبود “ ۔ الأنبياء
52 الأنبياء
53 الأنبياء
54 الأنبياء
55 الأنبياء
56 الأنبياء
57 کفر سے بیزاری طبیعت میں اضمحلال پیدا کرتی ہے اوپر ذکر گزرا کہ خلیل اللہ علیہ السلام نے اپنی قوم کو بت پرستی سے روکا ، اور جذبہ توحید میں آکر آپ علیہ السلام نے قسم کھا لی کہ میں تمہارے ان بتوں کا ضرور کچھ نہ کچھ علاج کرونگا ۔ اسے بھی قوم کے بعض افراد نے سن لیا ۔ ان کی عید کا دن جو مقرر تھا ، خلیل اللہ علیہ السلام نے فرمایا کہ ” جب تم اپنی رسوم عید ادا کرنے کے لیے باہر جاؤ گے ، میں تمہارے بتوں کو ٹھیک کر دوں گا “ ۔ عید کے ایک آدھ دن پیشتر آپ علیہ السلام کے والد نے آپ علیہ السلام سے کہا کہ پیارے بیٹے تم ہمارے ساتھ ہماری عید میں چلو تاکہ تمہیں ہمارے دین کی اچھائی اور رونق معلوم ہو جائے ۔ چنانچہ یہ آپ علیہ السلام کو لے چلا ، کچھ دور جانے کے بعد ابراہیم علیہ الصلوۃ والتسلیم گر پڑے اور فرمانے لگے ، ابا میں بیمار ہو گیا ۔ باپ آپ علیہ السلام کو چھوڑ کرمراسم کفر بجا لانے کے لیے آگے بڑھ گئے اور جو لوگ راستے سے گزرتے ، آپ علیہ السلام سے پوچھتے ، کیا بات ہے راستے پر کیسے بیٹھے ہو ؟ جواب دیتے کہ میں بیمار ہوں ۔ جب عام لوگ نکل گئے اور بڈھے بڑے لوگ رہ گئے تو آپ علیہ السلام نے فرمایا ، ” تم سب کے چلے جانے کے بعد آج میں تمہارے معبودوں کی مرمت کر دوں گا “ ۔ آپ علیہ السلام نے جو فرمایا کہ میں بیمار ہوں تو واقعی آپ علیہ السلام اس دن کے اگلے دن قدرے علیل بھی تھے ۔ جب کہ وہ لوگ چلے گئے تو میدان خالی پا کر آپ علیہ السلام نے اپنا ارادہ پورا کیا اور بڑے بت کو چھوڑ کر تمام بتوں کا چورا کر دیا ۔ جیسے اور آیتوں میں اس کا تفصیلی بیان موجود ہے کہ «فَرَاغَ عَلَیْہِمْ ضَرْبًا بِالْیَمِینِ» ۱؎ (37-الصفات:93) ’ اپنے ہاتھ سے ان بتوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے ‘ ۔ اس بڑے بت کے باقی رکھنے میں حکمت ومصلحت یہ تھی کہ اولاً ان لوگوں کے ذہن میں خیال آئے کہ شاید اس بڑے بت نے ان چھوٹے بتوں کو غارت کر دیا ہوگا ؟ کیونکہ اسے غیرت معلوم ہوئی ہوگی کہ مجھ بڑے کے ہوتے ہوئے یہ چھوٹے خدائی کے لائق کیسے ہوگئے ؟ چنانچہ اس خیال کی پختگی ان کے ذہنوں میں قائم کرنے کے لیے آپ علیہ السلام نے کلہاڑا بھی اس کی گردن پر رکھ دیا تھا ، جیسے کہ مروی ہے ۔ جب یہ مشرکین اپنے میلے سے واپس آئے تو دیکھا کہ ان کے سارے معبود منہ کے بل اوندھے گرے ہوئے ہیں ، اور اپنی حالت سے وہ بتا رہے ہیں کہ وہ محض بے جان ، بے نفع و نقصان ، ذلیل و حقیر چیز ہیں ۔ اور گویا اپنی اس حالت سے اپنے پجاریوں کی بے وقوفی پر وہ مہر لگا رہے تھے ۔ لیکن ان بے وقوفوں پر الٹا اثر ہوا کہنے لگے ، یہ کون ظالم شخص تھا جس نے ہمارے معبودوں کی ایسی اہانت کی ؟ اس وقت جن لوگوں نے ابراہیم علیہ السلام کا وہ کلام سنا تھا ، انہیں خیال آ گیا اور کہنے لگے ، وہ نوجوان جس کا نام ابراہیم [ علیہ السلام ] ہے اسے ہم نے اپنے معبودوں کی مذمت کرتے ہوئے سنا ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت کو پڑھتے اور فرماتے ، جو نبی آیا جوان ۔ جو عالم بنا جوان ۔ ۱؎ (ضعیف) شان الٰہی دیکھئیے جو مقصد خلیل اللہ علیہ صلوات اللہ کا تھا ، وہ اب پورا ہو رہا ہے ۔ الأنبياء
58 الأنبياء
59 الأنبياء
60 الأنبياء
61 . قوم کے یہ لوگ مشورہ کرتے ہیں کہ آؤ سب کو جمع کرو اور اسے بلاؤ اور پھر اس کو سزا دو ۔ خلیل اللہ علیہ السلام یہی چاہتے تھے کہ کوئی ایسا مجمع ہو اور میں اس میں ان کی غلطیاں ان پر واضح کروں اور ان میں توحید کی تبلیغ کروں ، اور انہیں بتلاؤں کہ یہ کیسے ظالم و جاہل ہیں کہ ان کی عبادتیں کرتے ہیں جو نفع نقصان کے مالک نہیں بلکہ اپنی جان کا بھی اختیار نہیں رکھتے ۔ چنانچہ مجمع ہوا ، سب چھوٹے بڑے آگئے ۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام بھی ملزم کی حیثیت سے موجود ہوئے اور آپ علیہ السلام سے سوال ہوا کہ ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ لغو حرکت تم نے کی ہے ؟ اس پر آپ علیہ السلام نے انہیں قائل معقول کرنے کے لیے فرمایا کہ ” یہ کام تو ان کے اس بڑے بت نے کیا ہے “ اور اس کی طرف اشارہ کیا جسے آپ علیہ السلام نے توڑا نہ تھا ۔ پھر فرمایا کہ ” مجھ سے کیا پوچھتے ہو ؟ اپنے ان معبودوں سے ہی کیوں دریافت نہیں کرتے کہ تمہارے ٹکڑے اڑانے والا کون ہے ؟ “ اس سے مقصود خلیل اللہ علیہ السلام کا یہ تھا کہ یہ لوگ خودبخود ہی سمجھ لیں کہ یہ پتھر کیا بولیں گے ؟ اور جب وہ اتنے عاجز ہیں تو یہ لائق عبادت کیسے ٹھہر سکتے ہیں ؟ چنانچہ یہ مقصد بھی آپ کا بفضل الٰہی پورا ہوا اور یہ دوسری ضرب بھی کاری لگی ۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ { خلیل اللہ نے تین جھوٹ بولے ہیں ۔ دو تو راہ اللہ میں : ایک تو انکا یہ فرمانا کہ ” ان بتوں کو ان کے بڑے نے توڑا ہے “ ۔ دوسرا یہ فرمانا کہ ” میں بیمار ہوں “ ، اور ایک مرتبہ سارہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ سفر میں تھے ۔ اتفاق سے ایک ظالم بادشاہ کی حدود سے آپ علیہ السلام گزر رہے تھے ، آپ علیہ السلام نے وہاں منزل کی تھی ۔ کسی نے بادشاہ کو خبر کر دی کہ ایک مسافر کے ساتھ بہترین عورت ہے اور وہ اس وقت ہماری سلطنت میں ہے ۔ بادشاہ نے جھٹ سپاہی بھیجا کہ وہ سارہ رضی اللہ عنہا کو لے آئے ۔ اس نے پوچھا کہ تمہارے ساتھ یہ کون ہے ؟ ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا ” میری بہن ہے “ اس نے کہا اسے بادشاہ کے دربار میں بھیجو ۔ آپ علیہ السلام سارہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اور فرمایا ” سنو ، اس ظالم نے تمہیں طلب کیا ہے اور میں تمہیں اپنی بہن بتا چکا ہوں ۔ اگر تم سے بھی پوچھا جائے تو یہی کہنا ، اس لیے کہ دین کے اعتبار سے تم میری بہن ہو ، روئے زمین پر میرے اور تمہارے سوا کوئی مسلمان نہیں “ ، یہ کہہ کر آپ علیہ السلام چلے آئے ۔ سارہ رضی اللہ عنہا وہاں سے چلیں اور آپ علیہ السلام نماز میں کھڑے ہوگئے ۔ جب سارہ رضی اللہ عنہا کو اس ظالم نے دیکھا اور ان کی طرف لپکا ، اسی وقت اللہ کے عذاب نے اسے پکڑ لیا ، ہاتھ پاؤں اینٹھ گئے ۔ گھبرا کر عاجزی سے کہنے لگا اے نیک عورت اللہ سے دعا کر کہ وہ مجھے چھوڑ دے میں وعدہ کرتا ہوں کہ تجھے ہاتھ بھی نہیں لگاؤں گا ۔ آپ رضی اللہ عنہا نے دعا کی اسی وقت وہ اچھا ہو گیا لیکن اچھا ہوتے ہی اس نے پھر قصد کیا اور آپ رضی اللہ عنہا کو پکڑنا چاہا ۔ وہی پھر عذاب الٰہی آ پہنچا اور یہ پہلی دفعہ سے زیادہ سخت پکڑ لیا گیا پھر عاجزی کرنے لگا ۔ غرض تین دفعہ پے در پے یہی ہوا ۔ تیسری دفعہ چھوٹتے ہی اس نے اپنے قریب کے ملازم کو آواز دی اور کہا تو میرے پاس کسی انسان عورت کو نہیں لایا بلکہ شیطانہ کو لایا ہے ۔ جا اسے نکال اور ہاجرہ کو اس کے ساتھ کر دے ۔ اسی وقت آپ وہاں سے نکال دی گئیں اور ہاجرہ آپ کے حوالے کی گئیں ۔ ابراہیم علیہ السلام نے ان کی آہٹ پاتے ہی نماز سے فراغت حاصل کی اور دریافت فرمایا کہ ” کہو کیا گزری ؟ “ آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا اللہ نے اس کافر کے مکر کو اسی پر لوٹا دیا اور حاجرہ میری خدمت کے لیے آگئیں ۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہا اس حدیث کو بیان فرما کر فرماتے کہ ” یہ ہیں تمہاری اماں اے آسمانی پانی کے لڑکو “ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3358) الأنبياء
62 الأنبياء
63 الأنبياء
64 اپنی حماقت سے پریشان کافر بیان ہو رہا ہے کہ خلیل اللہ علیہ السلام کی باتیں سن کر انہیں خیال تو پیدا ہو گیا ۔ اپنے آپ کو اپنی بیوقوفی پر ملامت کرنے لگے ۔ سخت ندامت اٹھائی اور آپس میں کہنے لگے کہ ہم نے بڑی غلطی کی ، اپنے معبودوں کے پاس کسی کو حفاظت کیلئے نہ چھوڑا اور چل دئیے ۔ پھر غور وفکر کر کے بات بنائی کہ آپ علیہ السلام جو کچھ ہم سے کہتے ہیں کہ ان سے ہم پوچھ لیں کہ تمہیں کس نے توڑا ہے تو کیا آپ علیہ السلام کو علم نہیں کہ یہ بت بے زبان ہیں ؟ عاجزی ، حیرت اور انتہائی لاجوابی کی حالت میں انہیں اس بات کا اقرار کرنا پڑا ۔ اب خلیل اللہ علیہ السلام کو خاصا موقعہ مل گیا اور آپ علیہ السلام فوراً فرمانے لگے کہ ” بے زبان ، بے نفع و ضرر چیز کی عبادت کیسی ؟ تم کیوں اس قدر بے سمجھ ہو رہے ہو ؟ تف ہے تم پر اور تمہارے ان جھوٹے خداؤں پر ۔ آہ کس قدر ظلم وجہل ہے کہ ایسی چیزوں کی پرستش کی جائے اور اللہ واحد کو چھوڑ دیا جائے ؟ یہی تھیں وہ دلیلیں جن کا ذکر پہلے ہوا تھا کہ «وَتِلْکَ حُجَّتُنَا آتَیْنَاہَا إِبْرَاہِیمَ عَلَیٰ قَوْمِہِ» ۱؎ (6-الأنعام:83) ’ ہم نے ابراہیم کو وہ دلیلیں سکھا دیں جن سے قوم حقیقت تک پہنچ جائے ‘ ۔ آگ گلستان بن گئی یہ قاعدہ ہے کہ جب انسان دلیل سے لاجواب ہو جاتا ہے تو یا نیکی اسے گھسیٹ لیتی ہے یا بدی غالب آ جاتی ہے ۔ یہاں ان لوگوں کو ان کی بدبختی نے گھیرلیا اور دلیل سے عاجز آ کر قائل معقول ہو کر لگے اپنے دباؤ کا مظاہرہ کرنے ۔ آپس میں مشورہ کیا کہ ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈال کر اس کی جان لے لو تاکہ ہمارے ان معبودوں کی عزت رہے ۔ اس بات پر سب نے اتفاق کر لیا اور لکڑیاں جمع کرنی شروع کر دیں ۔ یہاں تک کہ بیمار عورتیں بھی نذر مانتی تھیں تو یہی کہ اگر انہیں شفاء ہو جائے تو ابراہیم علیہ السلام کے جلانے کو لکڑیاں لائیں گی ۔ زمین میں ایک بہت بڑا اور بہت گہرا گڑھا کھودا ، لکڑیوں سے اسے پر کیا اور انبار کھڑا کر کے اس میں آگ لگائی ۔ روئے زمین پر کبھی اتنی بڑی آگ دیکھی نہیں گئی ۔ جب آگ کے شعلے آسمان سے باتیں کرنے لگے ، اس کے پاس جانا محال ہو گیا ، اب گھبرائے کہ خلیل اللہ علیہ السلام کو آگ میں ڈالیں کیسے ؟ آخر ایک کردی فارسی اعرابی کے مشورے سے جس کا نام ہیزن تھا ، ایک منجنیق تیار کرائی گئی کہ اس میں بٹھا کر جھولا کر پھینک دو ۔ ۱؎ (تفسیر قرطبی:303/11:) مروی ہے کہ اس شخص کو اللہ تعالیٰ نے اسی وقت زمین میں دھنسا دیا اور قیامت تک وہ اندر اترتا جاتا ہے ۔ جب آپ علیہ السلام کو آگ میں ڈالا گیا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا «حَسْبُنَا اللہُ وَنِعْمَ الْوَکِیلُ» ۱؎ (3-آل عمران:173) ، { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس بھی جب یہ خبر پہنچی کہ تمام عرب لشکر جرار لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے کے لیے آ رہے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہی پڑھا تھا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4563) یہ بھی مروی ہے کہ جب آپ علیہ السلام کو آگ میں ڈالنے لگے تو آپ علیہ السلام نے فرمایا ، «‏‏‏‏اللَّہُمَّ إِنَّکَ فِی السَّمَاءِ وَاحِدٌ وَأَنَا فِی الْأَرْضِ وَاحِدٌ أَعْبُدُکَ» ” الٰہی تو آسمانوں میں اکیلا معبود ہے اور توحید کے ساتھ تیرا عابد زمین پر صرف میں ہی ہوں “ ۔ ۱؎ (مسند بزار:2349:ضعیف) مروی ہے کہ جب کافر آپ علیہ السلام کو باندھنے لگے تو آپ علیہ السلام نے فرمایا ، ” الٰہی تیرے سوا کوئی لائق عبادت نہیں ، تیری ذات پاک ہے ، تمام حمد و ثنا تیرے ہی لیے سزاوار ہے ۔ سارے ملک کا تو اکیلا ہی مالک ہے کوئی بھی تیرا شریک و ساجھی نہیں “ ۔ شعیب جبائی فرماتے ہیں کہ ” اس وقت آپ علیہ السلام کی عمر صرف سولہ سال کی تھی “ ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ بعض سلف سے منقول ہے کہ اسی وقت جبرائیل علیہ السلام آپ علیہ السلام کے سامنے آسمان و زمین کے درمیان ظاہر ہوئے اور فرمایا ، ” کیا آپ علیہ السلام کو کوئی حاجت ہے ؟ “ آپ علیہ السلام نے جواب دیا ” تم سے تو کوئی حاجت نہیں البتہ اللہ تعالیٰ سے حاجت ہے “ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ” بارش کا داروغہ فرشتہ کان لگائے ہوئے تیار تھا کہ کب اللہ کا حکم ہو اور میں اس آگ پر بارش برسا کر اسے ٹھنڈی کر دوں لیکن براہ راست حکم الٰہی آگ کو ہی پہنچا کہ ’ میرے خلیل پر تو سلامتی اور ٹھنڈک بن جا ‘ ۔ فرماتے ہیں کہ ” اس حکم کے ساتھ ہی روئے زمین کی آگ ٹھنڈی ہوگئی “ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:466/18:) کعب احبار رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ” اس دن دنیا بھر میں آگ سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکا ، اور ابراہیم علیہ السلام کی جوتیاں تو آگ نے جلا دیں لیکن آپ علیہ السلام کے ایک رونگٹے کو بھی آگ نہ لگی “ ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ، ” آگ کو حکم ہوا کہ وہ خلیل اللہ علیہ السلام کو کوئی نقصان نہ پہنچائے “ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ” اگر آگ کو صرف ٹھنڈا ہونے کا ہی حکم ہوتا تو پھر ٹھنڈک بھی آپ علیہ السلام کو ضرر پہنچاتی ، ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:466/18:) اس لیے ساتھ ہی فرما دیا گیا کہ ’ ٹھنڈک کے ساتھ ہی سلامتی بن جا ‘ ۔ مذکور ہے کہ اس وقت حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ علیہ السلام کے ساتھ تھے ، آپ علیہ السلام کے منہ پر سے پسینا پونچھ رہے تھے بس اس کے سوا آگ نے کوئی تکلیف نہیں دی ۔ سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ، ” سایہ یا فرشتہ اس وقت آپ علیہ السلام کے ساتھ تھا “ ۔ مروی ہے کہ آپ علیہ السلام اس میں چالیس یا پچاس دن رہے ۔ فرمایا کرتے تھے کہ ” مجھے اس زمانے میں جو راحت وسرور حاصل تھا ویسا اس سے نکلنے کے بعد حاصل نہیں ہوا ، کیا اچھا ہوتا کہ میری ساری زندگی اسی میں گزرتی “ ۔ (الدر المنشور للسیوطی:479/4:ضعیف) الأنبياء
65 الأنبياء
66 الأنبياء
67 الأنبياء
68 آگ گلستان بن گئی سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ” ابراہیم علیہ السلام کے والد نے سب سے اچھا کلمہ جو کہا ہے وہ یہ ہے کہ جب ابراہیم علیہ السلام آگ سے زندہ صحیح سالم نکلے ، اس وقت آپ علیہ السلام کو اپنی پیشانی سے پسینہ پونچھتے ہوئے دیکھ کر آپ علیہ السلام کے والد نے کہا ، ابراہیم [ علیہ السلام ] ” تیرا رب بہت ہی بزرگ اور بڑا ہے “ ۔ قتادہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ، اس دن جو جانور نکلا وہ آپ علیہ السلام کی آگ کو بجھانے کی کوشش کرتا رہا سوائے گرگٹ کے “ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:467/18:) زہری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں، ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گرگٹ کے مار ڈالنے کا حکم فرمایا ہے اور اسے فاسق کہا ہے“۔ { ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں ایک نیزہ دیکھ کر ایک عورت نے سوال کیا کہ یہ کیوں رکھ چھوڑا ہے؟ آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ”گرگٹوں کو مار ڈالنے کے لیے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ { جس وقت ابراہیم علیہ السلام آگ میں ڈالے گئے اس وقت تمام جانور اس آگ کو بجھا رہے تھے سوائے گرگٹ کے، یہ اور پھونک رہا تھا } ، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے مار ڈالنے کا حکم فرمایا ہے } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:3231،قال الشیخ الألبانی:صحیح) پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’ ان کا مکر ہم نے ان پر الٹ دیا ‘ ۔ کافروں نے اللہ کے نبی علیہ السلام کو نیچا کرنا چاہا اللہ نے انہیں نیچا دکھایا ۔ . عطیہ عوفی رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ ” ابراہیم علیہ السلام کا آگ میں جلائے جانے کا تماشا دیکھنے کے لیے ان کافروں کا بادشاہ بھی آیا تھا ، ادھر خلیل اللہ علیہ السلام کو آگ میں ڈالا جاتا ہے ادھر آگ میں سے ایک چنگاری اڑتی ہے اور اس کافر بادشاہ کے انگوٹھے پر آ پڑتی ہے اور وہیں کھڑے کھڑے سب کے سامنے اس طرح اسے جلا دیتی ہے جیسے روئی جل جائے “ ۔ الأنبياء
69 الأنبياء
70 الأنبياء
71 ہجرت خلیل علیہ السلام اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ اس نے اپنے خلیل کو کافروں کی آگ سے بچا کر شام کے مقدس ملک میں پہنچا دیا ۔ ابی بن کعب رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں تمام میٹھا پانی شام کے صخرہ کے نیچے سے نکلتا ہے ۔ قتادہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں آپ علیہ السلام کو عراق کی سر زمین سے اللہ نے نجات دی اور شام کے ملک میں پہنچایا ۔ شام ہی نبیوں کا ہجرت کدہ رہا ۔ زمین میں سے جو گھٹتا ہے وہ شام میں بڑھتا ہے اور شام کی کمی فلسطین میں زیادتی ہوتی ہے ۔ شام ہی محشر کی سر زمین ہے ۔ یہیں عیسیٰ علیہ السلام اتریں گے ، یہیں دجال قتل کیا جائے گا ۔ بقول کعب رحمہ اللہ آپ علیہ السلام حران کی طرف گئے تھے ۔ یہاں آکر آپ علیہ السلام کو معلوم ہوا کہ یہاں کے بادشاہ کی لڑکی اپنی قوم کے دین سے بیزار ہے اور اس سے نفرت رکھتی ہے بلکہ ان کے اوپر طعنہ زنی کرتی ہے تو آپ علیہ السلام نے ان سے اس قرار پر نکاح کر لیا کہ وہ آپ علیہ السلام کے ساتھ ہجرت کرکے یہاں سے نکل چلے ، انہی کا نام سارہ ہے رضی اللہ عنہا ۔ یہ روایت غریب ہے اور مشہور یہ ہے کہ سارہ آپ علیہ السلام کے چچا کی صاحبزادی تھیں ، اور آپ علیہ السلام کے ساتھ ہی ہجرت کرکے چلی آئی تھیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں یہ ہجرت مکے شریف میں ختم ہوئی ۔ مکے ہی کی نسبت جناب باری فرماتا ہے کہ «إِنَّ أَوَّلَ بَیْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِی بِبَکَّۃَ مُبَارَکًا وَہُدًی لِّلْعَالَمِینَ فِیہِ آیَاتٌ بَیِّنَاتٌ مَّقَامُ إِبْرَاہِیمَ وَمَن دَخَلَہُ کَانَ آمِنًا» ۱؎ ۱؎ (3-آل عمران:97-96) ’ یہ اللہ کا پہلا گھر ہے جو برکت وہدایت والا ہے ، جس میں علاوہ اور بہت سی نشانیوں کے مقام ابراہیم بھی ہے ۔ اس میں آ جانے والا امن وسلامتی میں آ جاتا ہے ‘ ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ ہم نے اسے اسحاق دیا اور یعقوب کا عطیہ بھی کیا ‘ ۔ یعنی لڑکا اور پوتا جیسے فرمان ہے آیت «فَبَشَّرْنٰہَا بِاِسْحٰقَ وَمِنْ وَّرَاءِ اِسْحٰقَ یَعْقُوْبَ» ۱؎ (11-ھود:71) چونکہ خلیل اللہ علیہ السلام کے سوال میں ایک لڑکے ہی کی طلب تھی دعا کی تھی کہ آیت «رَبِّ ہَبْ لِی مِنَ الصَّالِحِینَ» ۱؎ (37-الصافات:100) اللہ تعالیٰ نے یہ دعا بھی قبول فرمائی اور لڑکے کے ہاں بھی لڑکا دیا جو سوال سے زائد تھا اور سب کو نیکوکار بنایا ۔ ان سب کو دنیا کا مقتدا اور پیشوا بنا دیا کہ بحکم الٰہی خلق اللہ کو راہ حق کی دعوت دیتے رہے ۔ ان کی طرف ہم نے نیک کاموں کی وحی فرمائی ۔ اس عام بات پر عطف ڈال کر پھر خاص باتیں یعنی نماز اور زکوٰۃ کا بیان فرمایا ۔ اور ارشاد ہوا کہ ’ وہ علاوہ ان نیک کاموں کے حکم کے خود بھی ان نیکیوں پر عامل تھے ‘ ۔ پھر لوط علیہ السلام کا ذکرشروع ہوتا ہے ۔ لوط بن ہاران بن آزر علیہ السلام ۔ آپ علیہ السلام ، ابراہیم علیہ السلام پر ایمان لائے تھے اور آپ علیہ السلام کی تابعداری میں آپ علیہ السلام ہی کے ساتھ ہجرت کی تھی ۔ جیسے کلام اللہ شریف میں ہے آیت «فَاٰمَنَ لَہٗ لُوْطٌ ۘ وَقَالَ اِنِّیْ مُہَاجِرٌ اِلٰی رَبِّیْ» ۱؎ (29-العنکبوت:26) ، ’ لوط علیہ السلام آپ پر ایمان لائے اور فرمایا کہ میں اپنے رب کی طرف ہجرت کرنے والا ہوں ‘ ۔ پس اللہ تعالیٰ نے انہیں حکمت وعلم عطا فرمایا اور وحی نازل فرمائی اور نبیوں کے پاک زمرے میں داخل کیا ۔ اور سدوم اور اس کے آس پاس کی بستیوں کی طرف آپ علیہ السلام کو بھیجا ۔ انہوں نے نہ مانا مخالفت پر کمربستگی کرلی ۔ جس کے باعث عذاب الٰہی میں گرفتار ہوئے اور فنا کر دئیے گئے ، جن کی بربادی کے واقعات اللہ تعالیٰ کی کتاب عزیز میں کئی جگہ بیان ہوئے ہیں ۔ یہاں فرمایا کہ ’ ہم نے انہیں بدترین کام کرنے والے فاسقوں کی بستی سے نجات دے دی اور چونکہ وہ اعلیٰ نیکوکار تھے ہم نے انہیں اپنی رحمت میں داخل کرلیا ‘ ۔ الأنبياء
72 الأنبياء
73 الأنبياء
74 الأنبياء
75 الأنبياء
76 نوح علیہ السلام کی دعا نوح نبی علیہ الصلوۃ والسلام کو ان کی قوم نے ستایا ۔ تکلیفیں دیں تو آپ علیہ السلام نے اللہ کو پکارا کہ «فَدَعَا رَبَّہُ أَنِّی مَغْلُوبٌ فَانتَصِرْ» ۱؎ (54-القمر:10) ’ باری تعالیٰ میں عاجز آ گیا ہوں تو میری مدد فرما ‘ ۔ «وَقَالَ نُوحٌ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْأَرْضِ مِنَ الْکَافِرِینَ دَیَّارًا إِنَّکَ إِن تَذَرْہُمْ یُضِلٰوا عِبَادَکَ وَلَا یَلِدُوا إِلَّا فَاجِرًا کَفَّارًا» ۱؎ (71-نوح:26-27) ’ زمین پر ان کافروں میں سے کسی ایک کو بھی باقی نہ رکھ ورنہ یہ تیرے بندوں کو بہکائیں گے ۔ اور ان کی اولادیں بھی ایسی ہی فاجر و کافر ہوں گی ‘ ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی دعا قبول فرمائی «وَأَہْلَکَ إِلَّا مَن سَبَقَ عَلَیْہِ الْقَوْلُ وَمَنْ آمَنَ ۚ وَمَا آمَنَ مَعَہُ إِلَّا قَلِیلٌ» ۱؎ (11-ھود:40) اور آپ علیہ السلام کو اور مومنوں کو نجات دی اور آپ علیہ السلام کے اہل کو بھی سوائے ان کے جن کے نام برباد ہونے والوں میں آگئے تھے ۔ آپ علیہ السلام پر ایمان لانے والوں کی بہت ہی کم مقدار تھی ۔ قوم کی سختی ، ایذاء دہی اور تکلیف سے رب عالم نے اپنے نبی علیہ السلام کو بچا لیا ۔ ساڑھے نو سو سال تک آپ علیہ السلام ان میں رہے اور انہیں دین اسلام کی طرف بلاتے رہے مگر سوائے چند لوگوں کے اور سب اپنے شرک و کفر سے باز نہ آئے ، بلکہ آپ علیہ السلام کو سخت ایذائیں دیں اور ایک دوسرے کو اذیت دینے کے لیے بھڑکاتے رہے ۔ ’ ہم نے ان کی مدد فرمائی اور عزت و آبرو کے ساتھ کفار کی ایذاء رسانیوں سے چھٹکارا دیا اور ان برے لوگوں کوٹھکانے لگا دیا ‘ ، اور نوح علیہ السلام کی دعا کے مطابق روئے زمین پر ایک بھی کافر نہ بچا ۔ سب ڈبو دئے گئے ۔ الأنبياء
77 الأنبياء
78 ایک ہی مقدمہ میں داؤد علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام کے مختلف فیصلے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” یہ کھیتی انگور کی تھی جس کے خوشے لٹک رہے تھے “ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:475/18:) «نَفَشَتْ» کے معنی ہیں رات کے وقت جانوروں کے چرنے کے ، اور دن کے وقت چرنے کو عربی میں «ھَمَل» کہتے ہیں ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:477/18:) سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” اس باغ کو بکریوں نے بگاڑ دیا ۔ داؤد علیہ السلام نے یہ فیصلہ کیا کہ باغ کے نقصان کے بدلے یہ بکریاں باغ والے کو دے دی جائیں ۔ سلیمان علیہ السلام نے یہ فیصلہ سن کر عرض کی کہ اے اللہ کے نبی علیہ السلام اس کے سوا بھی فیصلے کی کوئی صورت ہے ؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا وہ کیا ؟ جواب دیا کہ بکریاں باغ والے کے حوالے کر دی جائیں ، وہ ان سے فائدہ اٹھاتا رہے اور باغ بکری والے کو دے دیا جائے ۔ یہ اس میں انگور کی بیلوں کی خدمت کرے یہاں تک کہ بیلیں ٹھیک ٹھاک ہو جائیں ۔ انگور لگیں اور پھر اسی حالت پر آ جائیں جس پر تھے تو باغ والے کو اس کا باغ سونپ دے اور باغ والا اسے اس کی بکریاں سونپ دے ۔ یہی مطلب اس آیت کا ہے کہ ہم نے اس جھگڑے کا صحیح فیصلہ سلیمان علیہ السلام کو سمجھا دیا ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:475/18:) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ، ” داؤد علیہ السلام کا یہ فیصلہ سن کر بکریوں والے اپنا سا منہ لے کر صرف کتوں کو اپنے ساتھ لیے ہوئے واپس جا رہے تھے ۔ سلیمان علیہ السلام نے انہیں دیکھ کر دریافت کیا کہ تمہارا فیصلہ کیا ہوا ؟ انہوں نے خبر دی تو آپ علیہ السلام نے فرمایا ” اگر میں اس جگہ ہوتا تو یہ فیصلہ نہ دیتا بلکہ کچھ اور فیصلہ کرتا “ ۔ داؤد علیہ السلام کو جب یہ بات پہنچی تو آپ علیہ السلام نے انہیں بلوایا اور پوچھا کہ بیٹے تم کیا فیصلہ کرتے ؟ آپ نے وہی اوپر والا فیصلہ سنایا ۔ مسروق رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ” ان بکریوں نے خوشے اور پتے سب کھالئے تھے ۔ تو داؤد علیہ السلام کے فیصلے کے خلاف سلیمان علیہ السلام نے فیصلہ دیا کہ ان لوگوں کی بکریاں باغ والوں کو دے دی جائیں اور یہ باغ انہیں سونپا جائے ، جب تک باغ اپنی اصلی حالت پر آئے تب تک بکریوں کے بچے اور ان کا دودھ اور ان کا کل نفع باغ والوں کا ۔ پھر ہر ایک کو ان کی چیز سونپ دی جائے “ ۔ قاضی شریح رحمتہ اللہ علیہ کے پاس بھی ایک ایسا ہی جھگڑا آیا تھا تو آپ نے یہ فیصلہ کیا کہ اگر دن کو بکریوں نے نقصان پہنچایا ہے تب تو کوئی معاوضہ نہیں ۔ اور اگر رات کو نقصان پہنچایا ہے تو بکریوں والے ضامن ہیں ۔ پھر آپ رحمہ اللہ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:479/18:) مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ { سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی اونٹنی کسی باغ میں چلی گئی اور وہاں باغ کا بڑا نقصان کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ فرمایا کہ باغ والوں پر دن کے وقت باغ کی حفاظت ہے اور جو نقصان جانوروں سے رات کو ہو اس کا جرمانہ جانور والوں پر ہے } ۔ ۱؎ (سلسلۃ احادیث صحیحہ البانی:238) اس حدیث میں علتیں نکالی گئی ہیں اور ہم نے کتاب الاحکام میں اللہ کے فضل سے اس کی پوری تفصیل بیان کر دی ہے ۔ مروی ہے کہ ایاس بن معاویہ رحمتہ اللہ علیہ سے جب کہ قاضی بننے کی درخواست کی گئی تو وہ حسن رحمتہ اللہ علیہ کے پاس آئے اور رو دئے ۔ پوچھا گیا کہ اے ابوسعید آپ کیوں روتے ہیں ؟ فرمایا مجھے یہ روایت پہنچی ہے کہ اگر قاضی نے اجتہاد کیا ، پھر غلطی کی ، وہ جہنمی ہے اور جو خواہش نفس کی طرف جھک گیا ، وہ بھی جہنمی ہے ۔ ہاں جس نے اجتہاد کیا اور صحت پر پہنچ گیا ، وہ جنت میں پہنچا ۔ حسن رحمہ اللہ یہ سن کر فرمانے لگے ، ” سنو اللہ تعالیٰ نے داؤد علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام کی «قضاۃ» کا ذکر فرمایا ہے ، ظاہر ہے کہ انبیاء علیہم السلام اعلیٰ منصب پر ہوتے ہیں ، ان کے قول سے ان لوگوں کی باتیں رد ہو سکتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے سلیمان علیہ السلام کی تعریف تو بیان فرمائی ہے لیکن داؤد علیہ السلام کی مذمت بیان نہیں فرمائی ۔ پھر فرمانے لگے ، سنو تین باتوں کا عہد اللہ تعالیٰ نے قاضیوں سے لیا ہے ۔ ایک تو یہ کہ وہ منصفین شرع دنیوی نفع کی وجہ سے بدل نہ دیں ، دوسرے یہ کہ اپنے دلی ارادوں اور خواہشوں کے پیچھے نہ پڑ جائیں ، تیسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے نہ ڈریں ۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی «یَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاکَ خَلِیفَۃً فِی الْأَرْضِ فَاحْکُم بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْہَوَیٰ فَیُضِلَّکَ عَن سَبِیلِ اللہِ » ۱؎ (38-ص:26) یعنی ’ اے داؤد ! ہم نے تجھے زمین کا خلیفہ بنایا ہے تو لوگوں میں حق کے ساتھ فیصلے کرتا رہ خواہش کے پیچے نہ پڑ کہ اللہ کی راہ سے بہک جائے ‘ ۔ اور جگہ ارشاد ہے آیت «فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ» ۱؎ (5-المائدہ:44) ’ لوگوں سے نہ ڈرو مجھی سے ڈرتے رہا کرو ‘ ۔ اور فرمان ہے آیت «وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَـمَنًا قَلِیْلًا» ۱؎ (2-البقرۃ:41) ، ’ میری آیتوں کو معمولی نفع کی خاطر بیچ نہ دیا کرو ‘ ۔ میں کہتا ہوں انبیاء علیہم السلام کی معصومیت میں اور ان کی منجانب اللہ ہر وقت تائید ہوتے رہنے میں تو کسی کو بھی اختلاف نہیں ۔ رہے اور لوگ تو صحیح بخاری شریف کی حدیث میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { جب حاکم اجتہاد اور کوشش کرے پھ صحت تک پہنچ جائے تو اسے دوہرا اجر ملتا ہے اور جب پوری کوشش کے بعد بھی غلطی کرجائے تو اسے ایک اجر ملتا ہے } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:7352) یہ حدیث صاف بتا رہی ہے کہ حضرت ایاس رحمہ اللہ کو جو وہم تھا کہ باوجود پوری جدوجہد کے بھی خطا کرجائے تو دوزخی ہے یہ غلط ہے ، «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ سنن کی اور حدیث میں ہے ، { قاضی تین قسم کے ہیں ۔ ایک جنتی دو جہنمی اور جس نے حق کو معلوم کر لیا اور اسی سے فیصلہ کیا وہ جنتی ۔ اور جس نے جہالت کے ساتھ فیصلہ کیا وہ جہنمی اور جس نے حق کو جانتے ہوئے اس کے خلاف فیصلہ دیا وہ بھی جہنمی } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:3573 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) قرآن کریم کے بیان کردہ اس واقعے کے قریب ہی وہ قصہ ہے جو مسند احمد میں ہے ۔ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ، دو عورتیں تھیں جن کے ساتھ ان کے دو بچے بھی تھے ۔ بھیڑیا آ کر ایک بچے کو اٹھا لے گیا ، اب ہر ایک دوسری سے کہنے لگی کہ تیرا بچہ گیا اور جو ہے وہ میرا بچہ ہے ۔ آخر یہ قصہ داؤد علیہ السلام کے سامنے پیش ہوا ۔ آپ علیہ السلام نے بڑی عورت کو ڈگری دے دی کہ یہ بچہ تیرا ہے ۔ یہ یہاں سے نکلیں راستے میں سلیمان علیہ السلام تھے ، آپ علیہ السلام نے دونوں کو بلایا اور فرمایا چھری لاؤ ۔ میں اس لڑکے کے دو ٹکڑے کر کے آدھا آدھا ان دونوں کو دے دیتا ہوں ۔ اس پر بڑی تو خاموش ہوگئی لیکن چھوٹی نے ہائے واویلا شروع کر دیا کہ اللہ آپ علیہ السلام پر رحم کرے آپ علیہ السلام ایسا نہ کیجئے ، یہ لڑکا اسی بڑی کا ہے اسی کو دے دیجئیے ۔ سلیمان علیہ السلام معاملے کو سمجھ گئے اور لڑکا چھوٹی عورت کو دلادیا } ۔ یہ حدیث بخاری و مسلم میں بھی ہے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3427) امام نسائی رحمتہ اللہ علیہ نے اس پر باب باندھا ہے کہ حاکم کو جائز ہے کہ اپنا فیصلہ اپنے دل میں رکھ کر حقیقت کو معلوم کرنے کے لیے اس کے خلاف کچھ کہے ۔ ایسا ہی ایک واقعہ ابن عساکر میں ہے کہ ایک خوبصورت عورت سے ایک رئیس نے ملنا چاہا لیکن عورت نے نہ مانا ، اسی طرح تین اور شخصوں نے بھی اس سے بدکاری کا ارادہ کیا لیکن وہ باز رہی ۔ اس پر وہ رؤسا خار کھا گئے اور آپس میں اتفاق کر کے داؤد علیہ السلام کی عدالت میں جا کر سب نے گواہی دی کہ وہ عورت اپنے کتے سے ایسا کام کراتی ہے چاروں کے متفقہ بیان پر حکم ہوگیا کہ اسے رجم کر دیا جائے ۔ اسی شام کو سلیمان علیہ السلام اپنے ہم عمر لڑکوں کے ساتھ بیٹھ کر خود حاکم بنے اور چار لڑکے ان لوگوں کی طرح آپ علیہ السلام کے پاس اس مقدمے کو لائے اور ایک عورت کی نسبت یہی کہا ۔ سلیمان علیہ السلام نے حکم دیا ان چاروں کو الگ الگ کر دو ۔ پھر ایک کو اپنے پاس بلایا اور اس سے پوچھا کہ اس کتے کا رنگ کیسا تھا ؟ اس نے کہا سیاہ ۔ پھر دوسرے کو تنہا بلایا اس سے بھی یہی سوال کیا اس نے کہا سرخ ۔ تیسرے نے کہا خاکی ۔ چوتھے نے کہا سفید ۔ آپ علیہ السلام نے اسی وقت فیصلہ دیا کہ عورت پر یہ نری تہمت ہے اور ان چاروں کو قتل کر دیا جائے ۔ داؤد علیہ السلام کے پاس بھی یہ واقعہ بیان کیا گیا ۔ آپ علیہ السلام نے اسی وقت فی الفور ان چاروں امیروں کو بلایا اور اسی طرح الگ الگ ان سے اس کتے کے رنگ کی بابت سوال کیا ۔ یہ گڑبڑا گئے ۔ کسی نے کچھ کہا کسی نے کچھ ۔ آپ کو ان کا جھوٹ معلوم ہو گیا اور حکم فرمایا کہ انہیں قتل کر دیا جائے ۔ پھر بیان ہو رہا ہے کہ ’ داؤد علیہ السلام کو وہ نورانی گلا عطا فرمایا گیا تھا اور آپ علیہ السلام ایسی خوش آوازی اور خلوص کے ساتھ زبور پڑھتے تھے کہ پرند بھی اپنی پرواز چھوڑ کر تھم جاتے تھے اور اللہ کی تسبیح بیان کرنے لگتے تھے ۔ اسی طرح پہاڑ بھی ‘ ۔ آیت میں ہے «وَلَقَدْ آتَیْنَا دَاوُودَ مِنَّا فَضْلًا یَا جِبَالُ أَوِّبِی مَعَہُ وَالطَّیْرَ وَأَلَنَّا لَہُ الْحَدِیدَ» ۱؎ (34-سبأ:10) ’ اور ہم نے داؤد پر اپنا فضل کیا ، اے پہاڑو ! اس کے ساتھ رغبت سے تسبیح پڑھا کرو اور پرندوں کو بھی [ یہی حکم ہے ] اور ہم نے اس کے لیے لوہا نرم کر دیا ‘ ۔ ایک روایت میں ہے کہ { رات کے وقت سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ تلاوت قرآن کریم کر رہے تھے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی میٹھی رسیلی اور خلوص بھری آواز سن کر ٹھہر گئے اور دیر تک سنتے رہے ، پھر فرمانے لگے { یہ تو آل داؤد کی آوازوں کی شیرینی دیئے گئے ہیں } ۔ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہا کو جب معلوم ہوا تو فرمانے لگے کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر مجھے معلوم ہوتا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میری قرأت سن رہے ہیں تو میں اور بھی اچھی طرح پڑھتا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5048) الأنبياء
79 الأنبياء
80 الأنبياء
81 . حضرت ابوعثمان نہدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے تو کسی بہتر سے بہتر باجے کی آواز میں بھی وہ مزہ نہیں پایا جو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہا کی آواز میں تھا ۔ پس اتنی خوش آوازی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے داؤد علیہ السلام کی خوش آوازی کا ایک حصہ قرار دیا ۔ اب سمجھ لیجئے کہ خود داؤد علیہ السلام کی آواز کیسی ہو گی ؟ پھر اپنا ایک اور احسان بتاتا ہے کہ ’ داؤد علیہ السلام کو زرہیں بنانی ہم نے سکھا دی تھیں ‘ ۔ آپ علیہ السلام کے زمانے سے پہلے بغیر کنڈلوں اور بغیر حلقوں کی زرہ بنتی تھیں ۔ کنڈلوں دار اور حلقوں والی زرہیں آپ نے ہی بنائیں ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:480/18:) جیسے اور آیت میں ہے کہ « وَلَقَدْ آتَیْنَا دَاوُودَ مِنَّا فَضْلًا یَا جِبَالُ أَوِّبِی مَعَہُ وَالطَّیْرَ‌ وَأَلَنَّا لَہُ الْحَدِیدَ أَنِ اعْمَلْ سَابِغَاتٍ وَقَدِّرْ‌ فِی السَّرْ‌دِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا إِنِّی بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیرٌ‌» (34-سبأ:11-10) ’ ہم نے داؤد علیہ السلام کے لیے لوہے کو نرم کر دیا تھا کہ وہ بہترین زرہ تیار کریں اور ٹھیک انداز سے ان میں حلقے بنائیں ‘ ۔ یہ زرہیں میدان جنگ میں کام آتی تھیں ۔ پس یہ نعمت وہ تھی جس پر لوگوں کو اللہ کی شکر گزاری کرنی چاہے ۔ «غُدُوٰہَا شَہْرٌ وَرَوَاحُہَا شَہْرٌ» ۱؎ (34-سبأ:12) ’ ہم نے زور آور ہوا کو سلیمان علیہ السلام کے تابع کر دیا تھا جو انہیں ان کے فرمان کے مطابق برکت والی زمین یعنی ملک شام میں پہنچا دیتی تھی ، ہمیں ہرچیز کا علم ہے ‘ ۔ آپ علیہ السلام اپنے تخت پر مع اپنے لاؤ لشکر اور سامان اسباب کے بیٹھ جاتے تھے ۔ پھر جہان جانا چاہتے ہوا آپ کو آپ کے فرمان کے مطابق گھڑی بھر میں وہاں پہنچا دیتی ۔ تخت کے اوپر سے پرند پر کھولے آپ علیہ السلام پر سایہ ڈالتے ۔ جیسے فرمان ہے آیت «فَسَخَّرْنَا لَہُ الرِّیحَ تَجْرِی بِأَمْرِہِ رُخَاءً حَیْثُ أَصَابَ» ۱؎ (38-ص:36) ۔ یعنی ’ ہم نے ہوا کو ان کا تابع کر دیا کہ جہان پہنچنا چاہتے ان کے حکم کے مطابق اسی طرف نرمی سے لے چلتی ۔ صبح شام مہینہ مہینہ بھر کی راہ کو طے کر لیتی ‘ ۔ حضرت سعید بن جبیر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ” چھ ہزار کرسی لگائی جاتی ۔ آپ علیہ السلام کے قریب مومن انسان بیٹھتے ان کے پیچھے مومن جن ہوتے ۔ پھر آپ علیہ السلام کے حکم سے سب پر پرند سایہ کرتے پھر حکم کرتے تو ہوا آپ علیہ السلام کو لے چلتی “ ۔ عبداللہ بن عبید بن عمیر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ” سلیمان علیہ السلام کو حکم دیتے وہ مثل بڑے تودے کے جمع ہو جاتی گویا پہاڑ ہے پھر اس کے سب سے بلند مکان پر فرش افروز ہونے کا حکم دیتے پھر پہردار گھوڑے پر سوار ہو کر اپنے فرش پر چڑھ جاتے پھر ہوا کو حکم دیتے وہ آپ علیہ السلام کو بلندی پر لے جاتی آپ علیہ السلام اس وقت سرنیچا کر لیتے دائیں بائیں بالکل نہ دیکھتے اس میں آپ علیہ السلام کی تواضع اور اللہ کی شکر گزاری مقصود ہوتی تھی ۔ کیونکہ آپ علیہ السلام کو اپنی فروتنی کا علم تھا ۔ پھر جہاں آپ علیہ السلام حکم دیتے وہیں ہوا آپ علیہ السلام کو اتار دیتی “ ۔ اسی طرح سرکش جنات بھی اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کے قبضے میں کر دیئے تھے جو سمندروں میں غوطے لگا کرموتی اور جواہر وغیرہ نکال لایا کرتے تھے اور بھی بہت سے کام کاج کرتے تھے جیسے فرمان ہے آیت «وَالشَّیَاطِینَ کُلَّ بَنَّاءٍ وَغَوَّاصٍ وَآخَرِینَ مُقَرَّنِینَ فِی الْأَصْفَادِ» ۱؎ (38-ص:37-38) ، ’ ہم نے سرکش جنوں کو ان کا ماتحت کر دیا تھا جو معمار تھے اور غوطہٰ خور ‘ ۔ اور ان کے علاوہ اور شیاطین بھی ان کے ماتحت تھے جو زنجیروں میں بندھے رہتے تھے اور ہم ہی سلیمان کے حافظ و نگہبان تھے کوئی شیطان انہیں برائی نہ پہنچا سکتا تھا بلکہ سب کے سب ان کے ماتحت فرماں بردار اور تابع تھے کوئی ان کے قریب بھی نہ پھٹک سکتا تھا کی آپ کی حکمرانی ان پر چلتی تھی جسے چاہتے قید کر لیتے جسے چاہتے آزاد کر دیتے اسی کو فرمایا کہ ’ اور جنات تھے جو جکڑے رہا کرتے تھے ‘ ۔ الأنبياء
82 الأنبياء
83 آزمائش اور مصائب ایوب علیہ السلام حضرت ابوب علیہ السلام کی تکلیفوں کا بیان ہو رہا ہے جو مالی جسمانی اور اولاد پر مشتمل تھیں ان کے پاس بہت سے قسم قسم کے جانور تھے کھیتیاں باغات وغیرہ تھے اولاد بیویاں لونڈیاں غلام جائیداد اور مال ومتاع سبھی کچھ اللہ کا دیا موجود تھا ۔ اب جو رب کی طرف سے ان پر آزمائش آئی تو ایک سرے سے سب کچھ فنا ہوتا گیا یہاں تک کہ جسم میں جذام پھوٹ پڑا ۔ دل و زبان کے سوا سارے جسم کا کوئی حصہ اس مرض سے محفوظ نہ رہا ۔ یہاں تک کہ آس پاس والے کراہت کرنے لگے ۔ شہر کے ایک ویران کونے میں آپ علیہ السلام کو سکونت اختیار کرنی پڑی ۔ سوائے آپ علیہ السلام کی ایک بیوی صاحبہ رضی اللہ عنہا کے اور کوئی آپ علیہ السلام کے پاس نہ رہا ، اس مصیبت کے وقت سب نے کنارہ کر لیا ۔ یہی ایک تھیں جو ان کی خدمت کرتی تھیں ساتھ ہی محنت مزدوری کر کے پیٹ پالنے کو بھی لایا کرتی تھیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا کہ { سب سے زیادہ سخت امتحان نبیوں کا ہوتا ہے ، پھر صالح لوگوں کا پھر ان سے نیچے کے درجے والوں کا پھر ان سے کم درجے والوں کا } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2398،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اور روایت میں ہے کہ { ہر شخص کا امتحان اس کے دین کے انداز سے ہوتا ہے اگر وہ دین میں مضبوط ہے امتحان بھی سخت تر ہوتا ہے } ۔ ؎ (سنن ترمذی:2398،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ایوب علیہ السلام بڑے ہی صابر تھے یہاں تک کہ صبر ایوب زبان زد عام ہے ۔ یزید بن میسرہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ” جب آپ علیہ السلام کی آزمائش شروع ہوئی اہل و عیال مرگئے مال فنا ہوگیا کوئی چیز ہاتھ تلے نہ رہی ۔ آپ علیہ السلام اللہ کے ذکر میں اور بڑھ گئے کہنے لگے ” اے تمام پالنے والوں کے پالنے والے تو نے مجھ پر بڑے احسان کئے مال دیا اولاد دی اس وقت میرا دل بہت ہی مشغول تھا اب تو نے سب کچھ لے کر میرے دل کو ان فکروں سے پاک کر دیا اب میرے دل میں اور تجھ میں کوئی حائل نہ رہا اگر میرا دشمن ابلیس تیری اس مہربانی کو جان لیتا تو وہ مجھ پر بہت ہی حسد کرتا “ ۔ ابلیس لعین اس قول سے اور اس وقت کی اس حمد سے جل بھن کر رہ گیا ۔ ۱؎ (الدر المنشور للسیوطی:589/4:ضعیف) آپ علیہ السلام کی دعاؤں میں یہ بھی دعا تھی ” اے اللہ تو نے جب مجھے توانگر اور اولاد اور اہل و عیال والا بنا رکھا تھا تو خوب جانتا ہے کہ اس وقت میں نے نہ کبھی غرور و تکبر کیا نہ کبھی کسی پر ظلم ستم کیا ۔ میرے پروردگار تجھ پر روشن ہے کہ میرا نرم و گرم بستر تیار ہوتا اور میں راتوں کو تیری عبادتوں میں گزارتا اور اپنے نفس کو اس طرح ڈانٹ دیتا کہ تو اس لیے پیدا نہیں کیا گیا تیری رضا مندی کی طلب میں میں اپنی راحت و آرام کو ترک کر دیا کرتا “ ۔ ( ابن ابی حاتم ) اس آیت کی تفسیر میں ابن جریر اور ابن ابی حاتم میں ایک بہت لمبا قصہ ہے جسے بہت سے پچھلے مفسیرین نے بھی ذکر کیا ہے ۔ لیکن اس میں غرابت ہے اور اس کے طول کی وجہ سے ہم نے اسے چھوڑ دیا ہے ۔ مدتوں تک آپ علیہ السلام ان بلاؤں میں مبتلا رہے ۔ حضرت حسن اور قتادہ رحمہ اللہ علیہم فرماتے ہیں ” سات سال اور کئی ماہ آپ علیہ السلام بیماری میں مبتلا رہے ۔ بنو اسرائیل کے کوڑے پھینکنے کی جگہ آپ علیہ السلام کو ڈال رکھا تھا ۔ بدن میں کیڑے پڑ گئے تھے ، پھر اللہ نے آپ علیہ السلام پر رحم و کرم کیا تمام بلاؤں سے نجات دی اجر دیا اور تعریفیں کیں “ ۔ وہب بن منبہ رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ ” پورے تین سال آپ علیہ السلام اس تکلیف میں رہے ۔ سارا گوشت جھڑ گیا تھا ۔ صرف ہڈیاں اور چمڑا رہ گیا ۔ آپ علیہ السلام دکھ میں پڑے رہتے تھے صرف ایک بیوی صاحبہ تھیں جو آپ علیہ السلام کے پاس تھیں ۔ جب زیادہ زمانہ گزر گیا تو ایک روز عرض کرنے لگیں کہ ” اے نبی اللہ علیہ السلام آپ علیہ السلام اللہ سے دعا کیوں نہیں کرتے کہ وہ اس مصیبت کو ہم پر سے ٹال دے “ ۔ آپ علیہ السلام فرمانے لگے ” سنو ستر برس تک اللہ تعالیٰ نے مجھے صحت وعافیت میں رکھا تو اگر ستر سال تک میں اس حالت میں رہوں اور صبر کروں تو یہ بھی بہت کم ہے “ ۔ اس پر بیوی صاحبہ کانپ اٹھیں آپ شہر میں جاتیں ، لوگوں کا کام کاج کرتیں اور جو ملتا وہ لے آتیں اور آپ علیہ السلام کو کھلاتیں پلاتیں ۔ آپ علیہ السلام کے دو دوست اور دلی خیرخواہ دوست تھے انہیں فلسطین میں جاکر شیطان نے خبر دی کہ تمہارا دوست سخت مصیبت میں مبتلا ہے تم جاؤ ان کی خبرگیری کرو اور اپنے ہاں کی کچھ شراب اپنے ساتھ لے جاؤ وہ پلادینا اس سے انہیں شفاء ہو جائے گی ۔ چنانچہ یہ دونوں آئے ایوب علیہ السلام کی حالت دیکھتے ہی ان کے آنسو نکل آئے بلبلا کر رونے لگے ۔ آپ علیہ السلام نے پوچھا تم کون ہو ؟ انہوں نے یاد دلایا تو آپ علیہ السلام خوش ہوئے انہیں مرحبا کہا وہ کہنے لگے ” اے جناب آپ شاید کچھ چھپاتے ہوں گے اور ظاہر اس کے خلاف کرتے ہوں گے ؟ “ آپ علیہ السلام نے نگاہیں آسمان کی طرف اٹھا کر فرمایا ” اللہ خوب جانتا ہے کہ میں کیا چھپاتا تھا اور کیا ظاہر کرتا تھا میرے رب نے مجھے اس میں مبتلا کیا ہے تاکہ وہ دیکھے کہ میں صبر کرتا ہوں یا بے صبری ؟ “ وہ کہنے لگے اچھا ہم آپ کے واسطے دوا لائے ہیں آپ اسے پی لیجئے شفاء ہو جائے گی یہ شراب ہے ۔ ہم اپنے ہاں سے لائے ہیں ۔ یہ سنتے ہی آپ علیہ السلام سخت غضبناک ہوئے اور فرمانے لگے ” تمہیں شیطان خبیث لایا ہے تم سے کلام کرنا تمہارا کھانا پینا مجھ پر حرام ہے “ ۔ یہ دونوں آپ علیہ السلام کے پاس سے چلے گئے ۔ ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ آپ علیہ السلام کی بیوی صاحبہ نے ایک گھر والوں کی روٹیاں پکائیں ان کا ایک بچہ سویا ہوا تھا تو انہوں نے اس بچے کے حصے کی ٹکیا انہیں دے دی یہ لے کر ایوب علیہ السلام کے پاس آئیں ۔ آپ علیہ السلام نے کہا ” یہ آج کہاں سے لائیں ؟ “ انہوں نے ساراواقعہ بیان کر دیا ۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا ” ابھی ابھی واپس جاؤ ممکن ہے بچہ جاگ گیا ہو اور اسی ٹکیا کی ضد کرتا ہو اور رو رو کر سارے گھر والوں کو پریشان کرتا ہو “ ۔ آپ روٹی واپس لے کرچلیں ان کی ڈیوڑھی میں بکری بندھی ہوئی تھی اس نے زور سے آپ کو ٹکر ماری آپ کی زبان سے نکل گیا دیکھو ایوب کیسے غلط خیال والے ہیں ۔ پھر اوپر گئیں تو دیکھا واقعی بچہ جاگا ہوا ہے اور ٹکیا کے لیے مچل رہا ہے اور گھر بھر کا ناک میں دم کر رکھا ہے یہ دیکھ کر بے ساختہ زبان سے نکلا کہ اللہ ایوب پر رحم کرے ، اچھے موقعہ پر پہنچی ۔ ٹکیا دے دی اور واپس لوٹیں راستے میں شیطان بہ صورت طبیب ملا اور کہنے لگا کہ تیرے خاوند سخت تکلیف میں ہیں مرض پر مدتیں گزر گئیں تم انہیں سمجھاؤ فلاں قبیلے کے بت کے نام پر ایک مکھی مار دیں شفاء ہو جائے گی پھر توبہ کر لیں ۔ جب آپ ایوب علیہ السلام کے پاس پہنچیں تو ان سے یہ کہا آپ علیہ السلام نے فرمایا ” شیطان خبیث کاجادو تجھ پر چل گیا ۔ میں تندرست ہو گیا تو تجھے سو کوڑے لگاؤں گا “ ۔ ایک دن آپ حسب معمول تلاش معاش میں نکلیں گھر گھر پھر آئیں کہیں کام نہ لگا مایوس ہوگئیں شام کو پلٹنے وقت ایوب علیہ السلام کی بھوک کا خیال آیا تو آپ نے اپنے بالوں کی ایک لٹ کاٹ کر ایک امیر لڑکی کے ہاتھ فروخت کر دی اس نے آپ کو بہت کچھ کھانے پینے کا اسباب دیا ۔ جسے لے کر آپ آئیں ، ایوب علیہ السلام نے پوچھا ” یہ آج اتنا سارا اور اتنا اچھا کھانا کیسے مل گیا ؟ “ فرمایا میں نے ایک امیر گھر کا کام کر دیا تھا ۔ آپ علیہ السلام نے کھا لیا دوسرے روز بھی اتفاق سے ایسا ہی ہوا اور آپ نے اپنے بالوں کی دوسری لٹ کاٹ کر فروخت کر دی اور کھانا لے آئیں آج بھی یہی کھانا دیکھ کر آپ علیہ السلام نے فرمایا ” واللہ میں ہرگز نہ کھاؤں گا جب تک تو مجھے یہ نہ بتا دے کہ کیسے لائی ؟ “ اب آپ نے اپنا دوپٹہ سر سے اتار دیا دیکھا کہ سرکے بال سب کٹ چکے ہیں اس وقت سخت گھبراہٹ اور بے چینی ہوئی اور اللہ سے دعا کی کہ ” مجھے ضرر پہنچا اور تو سب سے زیادہ رحیم ہے “ ۔ حضرت نوف بکالی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ” جو شیطان ایوب علیہ السلام کے پیچھے پڑا تھا اس کا نام مسبوط تھا ۔ ایوب علیہ السلام کی بیوی صاحبہ عموماً آپ علیہ السلام سے عرض کیا کرتی تھیں کہ اللہ سے دعا کرو ۔ لیکن آپ علیہ السلام نہ کرتے تھے یہاں تک کہ ایک دن بنو اسرائیل کے کچھ لوگ آپ علیہ السلام کے پاس سے نکلے اور آپ علیہ السلام کو دیکھ کر کہنے لگے اس شخص کو یہ تکلیف ضرور کسی نہ کسی گناہ کی وجہ سے ہے اس وقت بےساختہ آپ علیہ السلام کی زبان سے یہ دعا نکل گئی “ ۔ عبداللہ بن عبید بن عمیر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ” ایوب علیہ السلام کہ دو بھائی تھے ایک دن وہ ملنے کے لیے آئے ۔ لیکن جسم کی بدبو کی وجہ سے قریب نہ آسکے دور ہی سے کھڑے ہو کر ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ اگر اس شخص میں بھلائی ہوتی تو اللہ تعالیٰ اسے اس مصیبت میں نہ ڈالتا اس بات نے ایوب علیہ السلام کو وہ صدمہ پہنچایا جو آج تک آپ علیہ السلام کو کسی چیز سے نہ ہوا تھا اس وقت کہنے لگے ” اللہ کوئی رات مجھ پر ایسی نہیں گزری کہ کوئی بھوکا شخص میرے علم میں ہو اور میں نے پیٹ بھرلیا ہو پروردگار اگر میں اپنی اس بات میں تیرے نزدیک سچا ہوں تو میری تصدیق فرما “ ۔ اُسی وقت آسمان سے آپ علیہ السلام کی تصدیق کی گئی تھی اور وہ دونوں سن رہے تھے ۔ پھر فرمایا کہ ” پروردگار کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میرے پاس ایک سے زائد کپڑے ہوں اور میں نے کسی ننگے کو نہ دیے ہوں اگر میں اس میں سچا ہوں تو میری تصدیق آسمان سے کر “ ۔ اس پر بھی آپ کی تصدیق ان کے سنتے ہوئے کی گئی ۔ پھر یہ دعا کرتے ہوئے سجدے میں گر پڑے کہ ” اے اللہ میں تو اب سجدے سے سر نہ اٹھاؤں گا جب تک کہ تو مجھ سے ان تمام مصیبتوں کو دور نہ کر دے جو مجھ پر نازل ہوئی ہیں “ ۔ چنانچہ یہ دعاقبول ہوئی ۔ اور اس سے پہلے کہ آپ علیہ السلام سر اٹھائیں تمام تکلیفیں اور بیماریاں دور ہو گئیں جو آپ علیہ السلام پر اتری تھیں ۔ ابن ابی حاتم میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ { ایوب علیہ السلام اٹھارہ برس تک بلاؤں میں گھرے رہے پھر ان کے دو دوستوں کے آنے اور بدگمانی کرنے کا ذکر ہے جس کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ میری تو یہ حالت تھی کہ راستہ چلتے دو شخصوں کو جھگڑتا دیکھتا اور ان میں سے کسی کو قسم کھاتے سن لیتا تو گھر آکر اس کی طرف سے کفارہ ادا کر دیتا کہ ایسا نہ ہو کہ اس نے نام ناحق لیا ہو ۔ آپ علیہ السلام اپنی اس بیماری میں اس قدر نڈھال ہو گئے تھے کہ آپ کی بیوی صاحبہ ہاتھ تھام کر پاخانہ پیشاب کے لیے لے جاتی تھیں ۔ ایک مرتبہ آپ علیہ السلام کو حاجت تھی آپ نے آواز دی لیکن انہیں آنے میں دیر لگی آپ کو سخت تکلیف ہوئی اسی وقت آسمان سے ندا آئی کہ ’ اے ایوب اپنی ایڑی زمین پر مارو اسی پانی کو پی بھی لو اور اسی سے نہا بھی لو ‘ } } اس حدیث کا مرفوع ہونا بالکل غریب ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:168/23:) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” اسی وقت اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کے لیے جنت کا حلہ نازل فرما دیا جسے پہن کر آپ علیہ السلام یکسو ہو کر بیٹھ گئے ۔ جب آپ کی بیوی آئیں اور آپ علیہ السلام کو نہ پہچان سکیں تو ، آپ علیہ السلام سے پوچھنے لگیں اے اللہ کے بندے یہاں ایک بیمار بے کس ، بے بس تھے تمہیں معلوم ہے کہ وہ کیا ہوئے ؟ کہیں انہیں بھیڑئیے نہ کھا گئے ہوں یا کتے نہ لے گئے ہوں ؟ تب آپ علیہ السلام نے فرمایا ” نہیں نہیں وہ بیمار ایوب [ علیہ السلام ] میں ہی ہوں “ ۔ بیوی صاحبہ کہنے لگی اے شخص تو مجھ دکھیا عورت سے ہنسی کر رہا ہے اور مجھے بنا رہا ہے ؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا ” نہیں نہیں مجھے اللہ نے شفا دے دی اور یہ رنگ روپ بھی “ ۔ آپ علیہ السلام کا مال آپ کو واپس دیا گیا ، آپ علیہ السلام کی اولاد وہی آپ علیہ السلام کو واپس ملی اور ان کے ساتھ ہی ویسی ہی اور بھی وحی میں یہ خوشخبری بھی سنا دی گئی تھی اور فرمایا گیا تھا کہ ’ قربانی کرو اور استغفار کرو ، تیرے اپنوں نے تیرے بارے میں میری نافرمانی کرلی تھی ‘ ۔ اور روایت میں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ایوب علیہ السلام کو عافیت عطا فرمائی آسمان سے سونے کی ٹڈیاں ان پر برسائیں جنہیں لے کر آپ علیہ السلام نے اپنے کپڑے میں جمع کرنی شروع کر دیں تو آواز دی گئی کہ اے ایوب کیا تو اب تک آسودہ نہیں ہوا ؟ آپ علیہ السلام نے جواب دیا کہ ” اے میرے پروردگار تیری رحمت سے آسودہ کون ہوسکتا ہے ؟ “ ۱؎ (مسند احمد:314/2:) پھر فرماتا ہے ’ ہم نے اسے اس کے اہل عطا فرمائے ‘ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ تو فرماتے ہیں ” وہی لوگ واپس کئے گئے “ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:506/18:) آپ علیہ السلام کی بیوی کا نام رحمت تھا ۔ یہ قول اگر آیت سے سمجھا گیا ہے تو یہ بھی دور از کار امر ہے اور اگر اہل کتاب سے لیا گیا ہے تو وہ تصدیق تکذیب کے قابل ہے چیز نہیں ۔ ابن عساکر نے ان کا نام اپنی تاریخ میں “ لیا “ بتایا ہے ۔ یہ منشا بن یوسف بن اسحاق بن ابراہیم علیہ السلام کی بیٹی ہیں ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ ” لیا “ یعقوب علیہ السلام کی بیٹی ایوب علیہ السلام کی بیوی ہیں جو شفیعہ کی زمین میں آپ علیہ السلام کے ساتھ تھیں ۔ مروی ہے کہ آپ علیہ السلام سے فرمایا گیا کہ ’ تیری اہل سب جنت میں ہیں تم کہو تو میں ان سب کو یہاں دنیا میں لادوں اور کہے تو وہیں رہنے دوں اور دنیا میں ان کا عوض دوں ‘ آپ علیہ السلام نے دوسری بات پسند فرمائی ۔ پس آخرت کا اجر اور دنیا کا بدلہ دونوں آپ علیہ السلام کو ملا ۔ ’ یہ سب کچھ ہماری رحمت کا ظہور تھا ۔ اور ہمارے سچے عابدوں کے لیے نصیحت وعبرت تھی ‘ ، آپ علیہ السلام اہل بلا کے پیشوا تھے ۔ یہ سب اس لیے ہوا کہ مصیبتوں میں پھنسے ہوئے لوگ اپنے لیے آپ کی ذات میں عبرت دیکھیں ، بے صبری سے ناشکری نہ کرنے لگیں اور لوگ انہیں اللہ کے برے بندے نہ سمجھیں ۔ ایوب علیہ السلام صبر کا پہاڑ ثابت قدمی کا نمونہ تھے اللہ کے لکھے پر ، اس کے امتحان پر انسان کو صبر و برداشت کرنی چاہیئے نہ جانیں قدرت درپردہ اپنی کیا کیا حکمتیں دکھا رہی ہے ۔ الأنبياء
84 الأنبياء
85 ذوالکفل نبی نہیں بزرگ تھے حضرت اسماعیل علیہ السلام ، ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے فرزند تھے ۔ سورۃ مریم میں ان کا واقعہ بیان ہو چکا ہے ۔ ادریس علیہ السلام کا بھی ذکر گزر چکا ہے ۔ ذوالکفل بہ ظاہر تو نبی ہی معلوم ہوتے ہیں کیونکہ نبیوں کے ذکر میں ان کا نام آیا ہے اور لوگ کہتے ہیں یہ نبی نہ تھے بلکہ ایک صالح شخص تھے اپنے زمانہ کے بادشاہ تھے بڑے ہی عادل اور بامروت ، امام ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ اس میں توقف کرتے ہیں ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:507/18:) «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ” یہ ایک نیک بزرگ تھے جنہوں نے اپنے زمانے کے نبی سے عہد و پیمان کئے اور ان پر قائم رہے ۔ قوم میں عدل وانصاف کیا کرتے تھے “ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:509/18:) مروی ہے کہ جب یسع علیہ السلام بہت بوڑھے ہو گئے تو ارادہ کیا کہ میں اپنی زندگی میں ہی ان کا خلیفہ مقرر کر دوں اور دیکھ لوں کہ وہ کیسے عمل کرتا ہے ۔ لوگوں کو جمع کیا اور کہا کہ تین باتیں جو شخص منظور کرے میں اسے خلافت سونپتا ہوں ۔ دن بھر روزے سے رہے رات بھر قیام کرے اور کبھی بھی غصے نہ ہو ۔ کوئی اور تو کھڑا نہ ہوا ایک شخص جسے لوگ بہت ہلکے درجے کا سمجھتے تھے کھڑا ہوا اور کہنے لگا میں اس شرط کو پوری کر دوں گا ۔ آپ نے پوچھا یعنی تو دنوں میں روزے سے رہے گا اور راتوں کو تہجد پڑھتا رہے گا اور غصہ نہ کرے گا ؟ اس نے کہا ہاں ۔ یسع علیہ السلام نے فرمایا اچھا اب کل سہی ۔ دوسرے روز بھی آپ نے اسی طرح مجلس میں عام سوال کیا لیکن اس شخص کے سوا کوئی اور کھڑا نہ ہوا ۔ چنانچہ انہی کو خلیفہ بنا دیا گیا ۔ اب شیطان نے چھوٹے چھوٹے شیاطین کو اس بزرگ کے بہکانے کے لیے بھیجنا شروع کیا ۔ مگر کسی کی کچھ نہ چلی ۔ ابلیس خود چلا دوپہر کو قیلولے کے لیے آپ لیٹے ہی تھے جو خبیث نے کنڈیاں پیٹنی شروع کر دیں آپ نے دریافت فرمایا کہ تو کون ہے ؟ اس نے کہنا شروع کیا کہ میں ایک مظلوم ہوں فریادی ہوں میری قوم مجھے ستارہی ہے ۔ میرے ساتھ انہوں نے یہ کیا یہ کیا اب لمبا قصہ سنانا شروع کیا تو کسی طرح ختم ہی نہیں کرتا نیند کا سارا وقت اسی میں چلا گیا اور ذوالکفل دن رات بس صرف اسی وقت ذرا سی دیر کے لیے سوتے تھے ۔ آپ نے فرمایا اچھا شام کو آنا میں تمہارا انصاف کر دوں گا اب شام کو آپ جب فیصلے کرنے لگے ہرطرف اسے دیکھتے ہیں لیکن اس کا کہیں پتہ نہیں یہاں تک کہ خود جا کر ادھر ادھر بھی تلاش کیا مگر اسے نہ پایا ۔ دوسری صبح کو بھی وہ نہ آیا پھر جہاں آپ دوپہر کو دو گھڑی آرام کرنے کے ارادے سے لیٹے جو یہ خبیث آ گیا اور دروازہ ٹھونکنے لگا آپ نے کھول دیا اور فرمانے لگے میں نے تو تم سے شام کو آنے کو کہا تھا ، منتظر رہا لیکن تم نہ آئے ۔ وہ کہنے لگا کیا بتاؤں جب میں نے آپ کی طرف آنے کا ارادہ کیا تو وہ کہنے لگے تم نہ جاؤ ہم تمہارا حق ادا کر دیتے ہیں میں رک گیا پھر انہوں نے اب انکار کر دیا اور بھی کچھ لمبے چوڑے واقعات بیان کرنے شروع کر دئے اور آج کی نیند بھی کھوئی اب شام کو پھر انتظار کیا لیکن نہ اسے آنا تھا نہ آیا ۔ تیسرے دن آپ نے آدمی مقرر کیا کہ دیکھو کوئی دروازے پر نہ آنے پائے مارے نیند کے میری حالت غیر ہو رہی ہے آپ ابھی لیٹے ہی تھے جو وہ مردود پھر آگیا چوکیدار نے اسے روکا یہ ایک طاق میں سے اندر گھس گیا اور اندر سے دروازہ کھٹکھٹانا شروع کیا ۔ آپ نے اٹھ کر پہرے دار سے کہا کہ دیکھو میں نے تمہیں ہدایت کر دی تھی پھر بھی آپنے دروازے کے اندر کسی کو آنے دیا اس نے کہا نہیں میری طرف سے کوئی نہیں آیا ۔ اب جو غور سے آپ نے دیکھا تو دروازے کو بند پایا ۔ اور اس شخص کو اندر موجود پایا ۔ آپ پہچان گئے کہ یہ شیطان ہے اس وقت شیطان نے کہا اے ولی اللہ میں تجھ سے ہارا نہ تو نے رات کا قیام ترک کیا نہ تو اس نوکر پر ایسے موقعہ پر غصے ہوا پس اللہ نے ان کا نام ذوالکفل رکھا ۔ اس لیے کہ جن باتوں کی انہوں نے کفالت لی تھیں انہیں پورا کر دکھایا ۔ (ابن ابی حاتم) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی کچھ تفسیر کے ساتھ یہ قصہ مروی ہے اس میں ہے کہ بنواسرائیل کے ایک قاضی نے بوقت مرگ کہا تھا کہ میرے بعد میرا عہدہ کون سنبھالتا ہے ؟ اس نے کہا میں چنانچہ ان کا نام ذوالکفل ہوا اس میں ہے کہ شیطان جب ان کے آرام کے وقت آیا پہرے والوں نے روکا اس نے اس قدر غل مچایا کہ آپ جاگ گئے دوسرے دن بھی یہی کیا تیسرے دن بھی یہی کیا اب آپ اس کے ساتھ چلنے کے لیے آمادہ ہوئے کہ میں تیرے ساتھ چل کر تیرا حق دلواتا ہوں لیکن راستے میں سے وہ اپنا ہاتھ چھڑا کر بھاگ کھڑا ہوا ۔ حضرت اشعری رحمہ اللہ نے منبر پر فرمایا کہ ذوالکفل نبی نہ تھا بنواسرائیل کا ایک صالح شخص تھا جو ہر روز سو نمازیں پڑھتا تھا اس کے بعد انہوں نے اس قسم کی عبادتوں کا ذمہ اٹھایا ۔ اس لیے انہیں ذوالکفل کہا گیا ۔ ایک منقطع روایت میں ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہا سے یہ منقول ہے ۔ ایک غریب حدیث مسند امام احمد بن حنبل میں ہے اس میں کفل کا ایک واقعہ بیان ہے ذوالکفل نہیں کہا گیا ۔ بہت ممکن ہے یہ کوئی اور صاحب ہوں ۔ واقعہ اس حدیث میں یہ ہے کہ { کفل نامی ایک شخص تھا جو کسی گناہ سے بچتا نہ تھا ۔ ایک مرتبہ اس نے ایک عورت کو ساٹھ دینار دے کر بدکاری کے لیے آمادہ کیا جب اپنا ارادہ پورا کرنے کے لیے تیار ہوا تو وہ عورت رونے اور کانپنے لگی ۔ اس نے کہا میں نے تجھ سے کوئی زبردستی تو کی نہیں پھر رونے اور کانپنے کی وجہ کیا ہے ؟ اس نے کہا میں نے ایسی کوئی نافرمانی آج تک اللہ تعالیٰ کی نہیں کی ۔ اس وقت میری محتاجی نے مجھے یہ برا دن دکھایا ہے ۔ کفل نے کہا تو ایک گناہ پر اس قدر پریشان ہے ؟ حالانکہ اس سے پہلے تو نے کبھی ایسا نہیں کیا ۔ اسی وقت اسے چھوڑ کر اس سے الگ ہو گیا اور کہنے لگا جا یہ دینار میں نے تجھے بخشے ۔ قسم اللہ کی آج سے میں کسی قسم کی اللہ کی نافرمانی نہ کروں گا ۔ اللہ کی شان اسی رات اس کا انتقال ہوتا ہے ۔ صبح لوگ دیکھتے ہیں کہ اس کے دروازے پر قدرتی حروف سے لکھا ہوا تھا کہ اللہ نے کفل کو بخش دیا } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2496،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) الأنبياء
86 الأنبياء
87 یونس علیہ السلام اور ان کی امت یہ واقعہ یہاں بھی مذکور ہے اور سورۃ الصافات میں بھی ہے اور سورۃ نون میں بھی ہے ۔ ۱؎ (37-الصافات:139-148) ۱؎ (68-القلم:48-50) یہ پیغمبر یونس بن متی علیہ السلام تھے ۔ انہیں موصل کے علاقے کی بستی نینوا کی طرف نبی بنا کر اللہ تعالیٰ نے بھیجا تھا ۔ آپ علیہ السلام نے اللہ کی راہ کی دعوت دی لیکن قوم ایمان نہ لائی ۔ آپ علیہ السلام وہاں سے ناراض ہو کرچل دئے اور ان لوگوں سے کہنے لگے کہ ” تین دن میں تم پر عذاب الٰہی آ جائے گا “ ۔ جب انہیں اس بات کی تحقیق ہوگئی اور انہوں نے جان لیا کہ انبیاء علیہم السلام جھوٹے نہیں ہوتے تو یہ سب کے سب چھوٹے بڑے مع اپنے جانوروں اور مویشوں کے جنگل میں نکل کھڑے ہوئے بچوں کو ماؤں سے جدا کردیا اور بلک بلک کر نہایت گریہ وزاری سے جناب باری تعالیٰ میں فریاد شروع کر دی ۔ ادھر ان کی آہ وبکاء ادھر جانوروں کی بھیانک صدا غرض اللہ کی رحمت متوجہ ہوگئی عذاب اٹھا لیا گیا ۔ جیسے فرمان ہے آیت « فَلَوْلَا کَانَتْ قَرْیَۃٌ اٰمَنَتْ فَنَفَعَہَآ اِیْمَانُہَآ اِلَّا قَوْمَ یُوْنُسَ» ۱؎ (10-یونس:98) یعنی ’ عذابوں کی تحقیق کے بعد کے ایمان نے کسی کو نفع نہیں دیا سوائے قوم یونس کے کہ ان کے ایمان کی وجہ سے ہم نے ان پر سے عذاب ہٹالیے اور دنیا کی رسوائی سے انہیں بچا لیا اور موت تک کی مہلت دے دی ‘ ۔ حضرت یونس علیہ السلام یہاں سے چل کر ایک کشتی میں سوار ہوئے آگے جاکر طوفان کے آثار نمودار ہوئے ۔ قریب تھا کہ کشتی ڈوب جائے مشورہ یہ ہوا کہ کسی آدمی کو دریا میں ڈال دینا چاہے کہ وزن کم ہو جائے ۔ قرعہ یونس علیہ السلام کا نکلا لیکن کسی نے آپ علیہ السلام کو دریا میں ڈالنا پسند نہ کیا ۔ دوبارہ قرعہ اندازی ہوئی آپ علیہ السلام ہی کا نام نکلا تیسری مرتبہ پھر قرعہ ڈالا اب کی مرتبہ بھی آپ علیہ السلام ہی کا نام نکلا ۔ چنانچہ خود قرآن میں ہے آیت «فَسَاہَمَ فَکَانَ مِنَ الْمُدْحَضِیْنَ» ۱؎ (37-الصافات:141) اب کہ یونس علیہ السلام خود کھڑے ہو گئے کپڑے اتار کر دریا میں کود پڑے ۔ بحر اخضر سے بحکم الٰہی ایک مچھلی پانی کاٹتی ہوئی آئی اور آپ علیہ السلام کو لقمہ کرگئی ۔ لیکن بحکم اللہ نے آپ علیہ السلام کی ہڈی توڑی نہ جسم کو کچھ نقصان پہچایا ۔ آپ علیہ السلام اس کے لیے غذا نہ تھے بلکہ اس کا پیٹ آپ علیہ السلام کے لیے قید خانہ تھا ۔ اسی وجہ سے آپ علیہ السلام کی نسبت مچھلی کی طرف کی گئی عربی میں مچھلی کو نون کہتے ہیں ۔ آپ علیہ السلام کا غضب وغصہ آپ کی قوم پر تھا ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:511/18:) خیال یہ تھا کہ اللہ آپ کو تنگ نہ پکڑے گا پس یہاں «نَقُدِرَ» کے یہی معنی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ ، مجاہدرحمہ اللہ ، ضحاک رحمہ اللہ وغیرہ نے کئے ہیں ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:514/18:) امام ابن جریر رحمہ اللہ بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں اور اس کی تائید آیت «وَمَن قُدِرَ عَلَیْہِ رِزْقُہُ فَلْیُنفِقْ مِمَّا آتَاہُ اللہُ لَا یُکَلِّفُ اللہُ نَفْسًا إِلَّا مَا آتَاہَا سَیَجْعَلُ اللہُ بَعْدَ عُسْرٍ یُسْرًا» ۱؎ (65-الطلاق:7) سے بھی ہوتی ہے ۔ حضرت عطیہ عوفی رحمتہ اللہ علیہ نے یہ معنی کئے ہیں کہ ” ہم اس پر مقدر نہ کریں گے “ ۔ «قَدَرَ» اور «قَدَّرَ» دونوں لفظ ایک معنی میں بولے جاتے ہیں اس کی سند میں عربی کے شعر کے علاوہ آیت «فَالْتَقَی الْمَاءُ عَلٰٓی اَمْرٍ قَدْ قُدِرَ» ۱؎ (54-القمر:12) بھی پیش کی جا سکتی ہے ۔ ان اندھیریوں میں پھنس کر اب یونس علیہ السلام نے اپنے رب کو پکارا ۔ سمندر کے نیچے کا اندھیرا پھر مچھلی کے پیٹ کا اندھیرا پھر رات کا اندھیرا یہ اندھیرے سب جمع تھے ۔ ۱؎ (تفسیر قرطبی:333/11:) آپ علیہ السلام نے سمندر کی تہہ کی کنکریوں کی تسبیح سنی اور خود بھی تسبیح کرنی شروع کی ۔ آپ علیہ السلام مچھلی کے پیٹ میں جا کر پہلے تو سمجھے کہ میں مرگیا پھر پیر کو ہلایا تو یقین ہوا کہ میں زندہ ہوں ۔ وہیں سجدے میں گر پڑے اور کہنے لگے ” بارالٰہی میں نے تیرے لیے اس جگہ کو مسجد بنایا جسے اس سے پہلے کسی نے جائے سجود نہ بنایا ہوگا “ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:518/18:) حسن بصری رحمتہ اللہ فرماتے ہیں ” چالیس دن آپ مچھلی کے پیٹ میں رہے “ ۔ ابن جریر میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { جب اللہ تعالیٰ نے یونس علیہ السلام کے قید کا ارادہ کیا تو مچھلی کو حکم دیا کہ آپ علیہ السلام کو نگل لے لیکن اس طرح کے نہ ہڈی ٹوٹے نہ جسم پر خراش آئے ۔ جب آپ علیہ السلام سمندر کی تہہ میں پہنچے تو وہاں تسبیح سن کر حیران رہ گئے وحی آئی کہ ’ یہ سمندر کے جانوروں کی تسبیح ہے ‘ ۔ چنانچہ آپ علیہ السلام نے بھی اللہ کی تسبیح شروع کر دی اسے سن کر فرشتوں نے کہا بار الٰہا ! یہ آواز تو بہت دور کی اور بہت کمزورہے کس کی ہے ؟ ہم تو نہیں پہچان سکے ۔ جواب ملا کہ ’ یہ میرے بندے یونس کی آواز ہے اس نے میری نافرمانی کی میں نے اسے مچھلی کے پیٹ کے قید خانے میں ڈال دیا ہے ‘ ۔ انہوں نے کہا پروردگار ان کے نیک اعمال تو دن رات کے ہر وقت چڑھتے ہی رہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کی سفارش قبول فرمائی اور مچھلی کو حکم دیا کہ وہ آپ علیہ السلام کو کنارے پر اگل دے } } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:24778:ضعیف) تفسیر ابن کثیر کے ایک نسخے میں یہ روایت بھی ہے کہ { حضور علیہ السلام نے فرمایا { کسی کو لائق نہیں کہ وہ اپنے تیئں یونس بن متع سے افضل کہے ۔ اللہ کے اس بندے نے اندھیریوں میں اپنے رب کی تسبیح بیان کی ہے } } ۔ ۱؎ (ابن ابی شیبۃ:156/12) اوپر جو روایت گزری اس کی وہی ایک سند ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے { حضور اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { جب یونس علیہ السلام نے یہ دعا کی تو یہ کلمات عرش کے اردگرد گھومنے لگے ، فرشتے کہنے لگے بہت دور دراز کی یہ آواز ہے لیکن کان اس سے پہلے آشنا ضرور ہیں آواز بہت ضعیف ہے ۔ جناب باری نے فرمایا کیا ’ تم نے پہچانا نہیں ؟ ‘ انہوں نے کہا نہیں ۔ فرمایا ’ یہ میرے بندے یونس کی آوازہے ‘ ۔ فرشتوں نے کہا وہی یونس [ علیہ السلام ] جس کے پاک عمل قبول شدہ ہر روز تیری طرف چڑھتے تھے اور جن کی دعائیں تیرے پاس مقبول تھیں ، اے اللہ جیسے وہ آرام کے وقت نیکیاں کرتا تھا تو اس مصیبت کے وقت اس پر رحم کر ۔ اسی وقت اللہ تعالیٰ نے مچھلی کو حکم دیا کہ وہ آپ علیہ السلام کو بغیر کسی تکلیف کے کنارے پر اگل دے } ۔ ۱؎ (الدر المنشور للسیوطی:599/4:ضعیف) استغفار موجب نجات ہے پھر فرماتا ہے کہ ’ ہم نے ان کی دعا قبول کرلی اور غم سے نجات دے دی ان اندھیروں سے نکال دیا ۔ اسی طرح ہم ایمان داروں کو نجات دیا کرتے ہیں ، وہ مصیبتوں میں گھر کر ہمیں پکارتے ہیں اور ہم ان کی دستگیری فرما کرتمام مشکلیں آسان کر دیتے ہیں ‘ ۔ خصوصاً جو لوگ اس دعائے یونس ہی کو پڑھیں جسکی تاکید سید الانبیاء رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ۔ مسند احمد ترمذی وغیرہ میں ہے { سیدنا سعد بن ابو وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں مسجد میں گیا سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ وہاں تھے ۔ میں نے سلام کیا آپ رضی اللہ عنہ نے مجھے بغور دیکھا اور میرے سلام کا جواب نہ دیا میں نے امیر المؤمنین عمربن خطاب رضی اللہ عنہ سے آکر شکایت کی آپ رضی اللہ عنہ نے عثمان رضی اللہ عنہ کو بلوایا ان سے کہا کہ ” آپ رضی اللہ عنہ نے ایک مسلمان بھائی کے سلام کا جواب کیوں نہ دیا ؟ “ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” نہ یہ آئے ، نہ انہوں نے سلام کیا ، نہ یہ کہ میں نے انہیں جواب نہ دیا ہو “ ۔ اس پر میں قسم کھائی تو ، آپ رضی اللہ عنہ نے بھی میرے مقابلے میں قسم کھالی ۔ پھر کچھ خیال کر کے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے توبہ استغفار کیا اور فرمایا ” ٹھیک ہے ۔ آپ نکلے تھے لیکن میں اس وقت اپنے دل سے وہ بات کہہ رہا تھا جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سے سنی تھی ۔ واللہ مجھے جب وہ یاد آتی ہے میری آنکھوں پر ہی نہیں بلکہ میرے دل پر بھی پردہ پڑ جاتا ہے “ } ۔ { سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” میں آپ رضی اللہ عنہ کو اس کی خبردیتا ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے اول دعا کا ذکر کیا ہی تھا جو ایک اعرابی آگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی باتوں میں مشغول کرلیا ۔ بہ وقت گزرتا گیا اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے اٹھے اور مکان کی طرف تشریف لے چلے میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ہولیا ، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر کے قریب پہنچ گئے مجھے ڈر لگا کہ کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اندر نہ چلے جائیں اور میں رہ جاؤں تو میں نے زور زور سے پاؤں مارمار کر چلنا شروع کیا میری جوتیوں کی آہٹ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری طرف دیکھا اور فرمایا : { کون ابواسحاق ؟} میں نے کہا جی ہاں یا رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ہی ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ہاں ہاں وہ دعا ذوالنون علیہ السلام کی تھی جو انہوں نے مچھلی کے پیٹ میں کی تھی یعنی «لَّآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰــنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ» ۱؎ (21-الأنبیاء:87) { سنو جو بھی مسلمان جس کسی معاملے میں جب کبھی اپنے رب سے یہ دعا کرے اللہ تعالیٰ اسے ضرور قبول فرماتا ہے } } } ۔ ابن ابی حاتم میں ہے { جو بھی یونس علیہ السلام اس دعا کے ساتھ دعا کرے اس کی دعا ضرور قبول کی جائے گی } ۔ ابوسعید رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” اسی آیت میں اس کے بعد ہی فرمان ہے ہم اسی طرح مؤمنوں کو نجات دیتے ہیں “ ۔ ابن جریر میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { اللہ کا وہ نام جس سے وہ پکارا جائے تو قبول فرمالے اور جو مانگا جائے وہ عطا فرمائے وہ یونس بن متع علیہ السلام کی دعا میں ہے } ۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں { میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ یونس علیہ السلام کے لیے ہی خاص تھی یا تمام مسلمانوں کے لیے عام ہے ؟ فرمایا : { ان کے لیے خاص اور تمام مسلمانوں کے لیے عام جو بھی یہ دعا کرے ، کیا تو نے قرآن میں نہیں پڑھا کہ ’ ہم نے اس کی دعا قبول فرمائی اسے غم سے چھڑایا اور اسی طرح ہم مومنوں کو چھڑاتے ہیں ‘ ۔ پس جو بھی اس دعا کو کرے اس سے اللہ کا قبولیت کا وعدہ ہو چکا ہے } } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:24779:ضعیف) ابن ابی حاتم میں ہے کثیر بن سعید فرماتے ہیں ” میں نے امام حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ سے پوچھا کہ ابوسعید ! اللہ کا وہ اسم اعظم کہ جب اس کے ساتھ اس سے دعا کی جائے اللہ تعالیٰ قبول فرمالے اور جب اس کے ساتھ اس سے سوال کیا جائے تو وہ عطا فرمائے کیا ہے ؟ آپ رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ برادر زادے ” کیا تم نے قرآن کریم میں اللہ کا یہ فرمان نہیں پڑھا ؟ “ پھر آپ رحمہ اللہ نے یہی دو آیتیں «وَذَا النٰونِ إِذ ذَّہَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَن لَّن نَّقْدِرَ عَلَیْہِ فَنَادَیٰ فِی الظٰلُمَاتِ أَن لَّا إِلٰہَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَکَ إِنِّی کُنتُ مِنَ الظَّالِمِینَ فَاسْتَجَبْنَا لَہُ وَنَجَّیْنَاہُ مِنَ الْغَمِّ وَکَذٰلِکَ نُنجِی الْمُؤْمِنِینَ» تلاوت فرمائیں اور فرمایا ” بھتیجے یہی اللہ کا وہ اسم اعظم ہے کہ جب اس کے ساتھ دعا کی جائے وہ قبول فرماتا ہے اور جب اس کے ساتھ اس سے مانگا جائے وہ عطا فرماتا ہے “ ۔ الأنبياء
88 الأنبياء
89 دعا اور بڑھاپے میں اولاد اللہ تعالیٰ زکریا علیہ السلام کا قصہ بیان فرماتا ہے کہ ’ انہوں نے دعا کی کہ مجھے اولاد ہو جو میرے بعد نبی بنے ‘ ۔ سورۃ مریم میں اور سورۃ آل عمران میں یہ واقعہ تفصیل سے ہے ۔ آپ علیہ السلام نے یہ دعا چھپا کر کی تھی ، ” مجھے تنہا نہ چھوڑ “ یعنی بے اولاد ۔ دعا کے بعد اللہ تعالیٰ کی ثناء کی جیسے کہ اس دعا کے لائق تھی ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کی دعا قبول فرمائی ۔ اور آپ علیہ السلام کی بیوی صاحبہ کو جنہیں بڑھاپے تک کوئی اولاد نہ ہوئی تھی اولاد کے قابل بنا دیا ۔ بعض لوگ کہتے ہیں ان کی طول زبانیں بند کردی ۔ بعض کہتے ہیں کہ ان کے اخلاق کی کمی پوری کردی ۔ لیکن الفاظ قرآن کے قریب پہلا معنی ہی ہے ۔ یہ سب بزرگ نیکیوں کی طرف اللہ کی فرمانبرداری کی طرف بھاگ دوڑ کرنے والے تھے ۔ اور لالچ اور ڈر سے اللہ سے دعائیں کرنے والے تھے اور سچے مومن رب کی باتیں ماننے والے اللہ کا خوف رکھنے والے تواضع انکساری اور عاجزی کرنے والے اللہ کے سامنے اپنی فروتنی ظاہر کرنے والے تھے ۔ مروی ہے کہ سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک خطبے میں فرمایا ” میں تمہیں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنے کی اور اس کی پوری ثناء و صفت بیان کرتے رہنے کی اور لالچ اور خوف سے دعائیں مانگنے کی اور دعاؤں میں خشوع وخضوع کرنے کی وصیت کرتا ہوں دیکھو اللہ عزوجل نے زکریا علیہ السلام کے گھرانے کی یہی فضیلت بیان فرمائی ہے “ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے یہ آیت تلاوت فرمائی ۔ الأنبياء
90 الأنبياء
91 بلا شوہر اولاد حضرت مریم اور عیسیٰ علیہم السلام کا قصہ بیان ہو رہا ہے ۔ قرآن میں کریم میں عموماً زکریا علیہ السلام اور یحییٰ علیہ السلام کے قصے کے ساتھ ہی ان کا قصہ بیان ہوتا رہا ہے ۔ اس لیے کہ ان لوگوں میں پورا رابط ہے ۔ زکریا علیہ السلام پورے بڑھاپے کے عالم میں آپ علیہ السلام کی بیوی صاحبہ جوانی سے گزری ہوئی اور پوری عمر کی بے اولاد ان کے ہاں اولاد عطا فرمائی ۔ اس قدرت کو دکھا کر پھر محض عورت بغیر شوہر کے اولاد کا عطا فرمانا یہ اور قدرت کا کمال ظاہر کرتا ہے ۔ سورۃ آل عمران اور سورۃ مریم میں بھی یہی ترتیب ہے ۔ مراد عصمت والی عورت سے مریم ہیں جیسے فرمان ہے ، آیت «وَمَرْیَمَ ابْنَتَ عِمْرٰنَ الَّتِیْٓ اَحْصَنَتْ فَرْجَہَا فَنَفَخْنَا فِیْہِ مِنْ رٰوْحِنَا وَصَدَّقَتْ بِکَلِمٰتِ رَبِّہَا وَکُتُبِہٖ وَکَانَتْ مِنَ الْقٰنِتِیْنَ» ۱؎ (66-التحریم:12) یعنی ’ عمران کی لڑکی مریم جو پاک دامن تھیں انہیں اور ان کے لڑکے اور عیسیٰ [ علیہ السلام ] کو اپنی بے نظیر قدرت کانشان بنایا کہ مخلوق کو اللہ کی ہر طرح کی قدرت اور اس کے پیدائش وسیع اختیارات اور صرف اپنا ارادے سے چیزوں کا بنانا معلوم ہو جائے ‘ ۔ عیسیٰ علیہ السلام اللہ کی قدرت کی ایک علامت تھے جنات کے لیے بھی اور انسانوں کے لیے بھی ۔ الأنبياء
92 تمام شریعتوں کی روح توحید فرمان ہے کہ ’ تم سب کا دین ایک ہی ہے ۔ اوامر ونواہی کے احکام تم سب میں یکساں ہیں ‘ ۔ «ھٰذِہٖ» اسم ہے «اِنَّ» کا اور «اُمَّتُکُمۡ» خبر ہے اور «اُمَّۃً وَّاحِدَۃً» حال ہے ۔ یعنی یہ شریعت جو بیان ہوئی تم سب کی متفق علیہ شریعت ہے ۔ جس کا اصلی مقصود توحید الٰہی ہے جیسے آیت «یٰٓاَیٰہَا الرٰسُلُ کُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا اِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ وَإِنَّ ہٰذِہِ أُمَّتُکُمْ أُمَّۃً وَاحِدَۃً وَأَنَا رَ‌بٰکُمْ فَاتَّقُونِ» ۱؎ (23-المؤمنون:52-51) { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { میں عیسیٰ بن مریم علیہما السلام سے اور لوگوں کی بہ نسبت زیادہ قریب ہوں ، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اور انبیاء علیہم السلام علاتی بھائیوں [کی طرح] ہیں ۔ ان کے مسائل میں اگرچہ اختلاف ہے لیکن دین سب کا ایک ہی ہے } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3443) جیسے فرمان قرآن ہے آیت «لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّمِنْہَاجًا» ۱؎ (5-المائدۃ:48) ’ ہر ایک کی راہ اور طریقہ ہے ‘ ۔ پھر لوگوں نے اختلاف کیا بعض اپنوں نبیوں پر ایمان لائے اور بعض نہ لائے ۔ قیامت کے دن سب کا لوٹنا ہماری طرف ہے ہر ایک کو اس کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا نیکوں کو نیک بدلہ اور بروں کو بری سزا ۔ جس کے دل میں ایمان ہو اور جس کے اعمال نیک ہوں اس کے اعمال اکارت نہ ہوں گے ۔ جیسے فرمان ہے آیت «اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اِنَّا لَا نُضِیْعُ اَجْرَ مَنْ اَحْسَنَ عَمَلًا» ۱؎ (18-الکہف:30) ’ نیک کام کرنے والوں کا اجر ہم ضائع نہیں کرتے ۔ ایسے اعمال کی قدردانی کرتے ہیں ایک ذرے کے برابر ہم ظلم روا نہیں رکھتے تمام اعمال لکھ لیتے ہیں کوئی چیز چھوڑتے نہیں ‘ ۔ الأنبياء
93 الأنبياء
94 الأنبياء
95 یافت کی اولاد ’ ہلاک شدہ لوگوں کا دنیا کی طرف پھر پلٹنا محال ہے ‘ ۔ یہ بھی مطلب ہوسکتا ہے کہ ’ ان کی توبہ مقبول نہیں ‘ ۔ لیکن پہلا قول اولیٰ ہے ۔ یاجوج ماجوج نسل آدم سے ہیں ۔ بلکہ وہ نوح علیہ السلام کے لڑکے یافت کی اولاد میں سے ہیں جن کی نسل ترک ہیں یہ بھی انہی کا ایک گروہ ہے یہ ذوالقرنین کی بنائی ہوئی دیوار سے باہر ہی چھوڑ دیے گئے تھے ۔ آپ نے دیوار بنا کر فرمایا تھا کہ یہ میرے رب کی رحمت ہے ۔ اللہ کے وعدے کے وقت اس کا چورا چورا ہو جائے گا میرے رب کا وعدہ حق ہے الخ ۔ یاجوج ماجوج قرب قیامت کے وقت وہاں سے نکل آئیں گے اور زمین میں فساد مچا دیں گے ۔ ہر اونچی جگہ کو عربی میں «حدب» کہتے ہیں ۔ ان کے نکلنے کے وقت ان کی یہی حالت ہوگی تو اس خبر کو اس طرح بیان کیا جیسے سننے والا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے اور واقع میں اللہ تعالیٰ سے زیادہ سچی خبر کس کی ہوگی ؟ جو غیب اور حاضر کا جاننے والا ہے ۔ ہوچکی ہوئی اور ہونے والی باتوں سے آگاہ ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے لڑکوں کو اچھلتے کودتے کھیلتے دوڑتے ایک دوسروں کی چٹکیاں بھرتے ہوئے دیکھ کر فرمایا ” اسی طرح یاجوج ماجوج آئیں گے “ ۔ بہت سی احادیث میں ان کے نکلنے کا ذکر ہے ۔ [١] مسند احمد میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { یاجوج ماجوج کھولے جائیں گے اور وہ لوگوں کے پاس پہنچیں گے جیسے اللہ عزوجل کا فرمان ہے آیت «وَہُمْ مِّنْ کُلِّ حَدَبٍ یَّنْسِلُوْنَ» ۱؎ (21-الأنبیاء:96) وہ چھاجائیں گے اور مسلمان اپنے شہروں اور قلعوں میں سمٹ آئیں گے اپنے جانورں کو بھی وہی لے لیں گے اور اپنا پانی انہیں پلاتے رہیں گے ۔ یاجوج ماجوج جس نہر سے گزریں گے اس کا پانی صفا چٹ کر جائیں گے یہاں تک کہ اس میں خاک اڑنے لگے گی ان کی دوسری جماعت جب وہاں پہنچے گی تو وہ کہے گی شاید اس میں کسی زمانے میں پانی ہوگا ۔ جب یہ دیکھیں گے کہ اب زمین پر کوئی نہ رہا اور واقع میں سوائے ان مسلمانوں کے جو اپنے شہروں اور قلعوں میں پناہ گزیں ہوں گے کوئی اور وہاں ہوگا بھی نہیں تو یہ کہیں گے کہ اب زمین والوں سے تم ہم فارغ ہو گئے آؤ آسمان والوں کی خبرلیں ۔ چنانچہ ان میں سے ایک شریر اپنا نیزہ گھما کر آسمان کی طرف پھینکے گا قدرت الٰہی سے وہ خون آلود ہو کر ان کے پاس گرے گا یہ بھی ایک قدرتی آزمائش ہو گی اب ان کی گردنوں میں گٹھلی ہو جائے گی اور اسی وبا میں یہ سارے کے سارے ایک ساتھ ایک دم مرجائیں گے ایک بھی باقی نہ رہے گا سارا شور و غل ختم ہو جائے گا مسلمان کہیں گے کوئی ہے جو اپنی جان ہم مسلمانوں کے لیے ہتھیلی پر رکھ کر شہرکے باہر جائے اور ان دشمنوں کو دیکھے کہ کس حال میں ہیں ؟ چنانچہ ایک صاحب اس کے لیے تیار ہو جائیں گے اور اپنے آپ کو قتل شدہ سمجھ کر اللہ کی راہ میں مسلمانوں کی خدمت کے لیے نکل کھڑے ہوں گے دیکھیں گے کہ سب کا ڈھیرلگ رہا ہے سارے ہلاک شدہ پڑے ہوئے ہیں یہ اسی وقت ندا کرے گا کہ مسلمانو ! خوش ہو جاؤ اللہ نے خود تمہارے دشمنوں کو غارت کر دیا یہ ڈھیر پڑا ہوا ہے اب مسلمان باہر آئیں گے اور اپنے مویشیوں کو بھی لائیں گے ان کے لیے چارہ بجز ان کے گوشت کے اور کچھ نہ ہو گا یہ ان کا گوشت کھا کھا کر خوب موٹے تازے ہو جائیں گے } ۔۱؎ (سنن ابن ماجہ:4079،قال الشیخ الألبانی:حسن صحیح) [٢] مسند احمد میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن صبح ہی صبح دجال کا ذکر کیا اس طرح کہ ہم سمجھے شاید وہ ان درختوں کی آڑ میں ہے اور اب نکلا ہی چاہتا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے { مجھے دجال سے زیادہ خوف تم پر اور چیز کا ہے ۔ اگر دجال میری موجودگی میں نکلا تو میں خود نمٹ لونگا تم میں سے ہر شخص اس سے بچے ۔ میں تمہیں اللہ کی امان میں دے رہا ہوں ۔ وہ جواں عمر الجھے ہوئے بالوں والا کانا اور ابھری ہوئی آنکھ والا ہے ۔ وہ شام اور عراق کے درمیان سے نکلے گا اور دائیں بائیں گھومے گا ۔ ایک بندگاں الٰہی تم ثابت قدم رہنا } ۔ ہم نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ کتنا ٹھہرے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { چالیس دن ۔ ایک دن مثل ایک برس کے ایک دن مثل ایک مہینہ کے ایک دن مثل ایک جمعہ کے اور باقی دن معمولی دنوں جیسے } ۔ ہم نے پوچھا یا رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو دن سال بھر کے برابر ہو گا اس میں ہمیں یہی پانچ نمازیں کافی ہوں گی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { نہیں ! تم اپنے اندازے سے وقت پر نماز پڑھتے رہا کرنا } ۔ ہم نے دریافت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی رفتار کیسی ہوگی ؟ فرمایا : { جیسے بادل کہ ہوا انہیں ادھر سے ادھر بھگائے لیے جاتی ہو ۔ ایک قبیلے کے پاس جائے گا انہیں اپنی طرف بلائے گا وہ اس کی مان لیں گے ۔ آسمان کو حکم دے گا کہ ان پر بارش برسائے زمین سے کہے گا کہ ان کے لیے پیداوار اگائے ان کے جانور ان کے پاس موٹے تازے بھرے پیٹ لوٹیں گے ۔ ایک قبیلے کے پاس اپنے تئیں منوانا چاہے گا وہ انکار کر دیں گے یہ وہاں سے نکلے گا تو ان کے تمام مال اس کے پیچھے لگ جائیں گے وہ بالکل خالی ہاتھ رہ جائیں گے وہ غیر آباد جنگلوں میں جائے گا اور زمین سے کہے گا اپنے خزانے اگل دے وہ اگل دے گی اور سارے خزانے اس کے پیچھے ایسے چلیں گے جیسے شہد کی مکھیاں اپنے سردار کے پیچھے ۔ یہ بھی دکھائے گا کہ ایک شخص کو تلوار سے ٹھیک دو ٹکرے کرا دے گا اور ادھرادھر دور دراز پھنکوا دے گا پھر اس کا نام لے کر آواز دے گا تو وہ زندہ چلتا پھرتا اس کے پاس آ جائے گا } ۔ { یہ اسی حال میں ہوگا جو اللہ عزوجل مسیح ابن مریم علیہ السلام کو اتارے گا ۔ آپ علیہ السلام دمشق کی مشرقی طرف سفید منارے کے پاس اتریں گے اپنے دونوں ہاتھ دو فرشتوں کے پروں پر رکھے ہوئے ہوں گے ۔ آپ علیہ السلام اس کا پیچھا کریں گے اور مشرقی باب کے لد کے پاس اسے پا کر قتل کر دیں گے ۔ پھر عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کی طرف اللہ کی وحی آئے گی میں اپنے ایسے بندوں کو بھیجتا ہوں جن سے لڑنے کی تم میں تاب وطاقت نہیں میرے بندوں کو طور کی طرف سمیٹ لے جا ۔ پھر جناب باری یاجوج ماجوج کو بھیجے گا جیسے فرمایا آیت «وَہُم مِّن کُلِّ حَدَبٍ یَنسِلُونَ» ان سے تنگ آکر عیسیٰ علیہ السلام اور آپ علیہ السلام کے ساتھی جناب باری میں دعا کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان پر گٹھلی کی بیماری بھیجے گا جو ان کی گردن میں نکلے گی سارے کے سارے اوپر تلے ایک ساتھ ہی مرجائیں گے ۔ تب عیسیٰ علیہ السلام مع مؤمنوں کے آئیں گے ، دیکھیں گے کہ تمام زمین ان کی لاشوں سے پٹی پڑی ہے اور ان کی بدبوسے کھڑا نہیں ہوا جاتا ۔ آپ علیہ السلام پھر اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے تو اللہ تعالیٰ بختی اونٹوں کی گردنوں جیسے پرند بھیجے گا جو انہیں اللہ جانے کہاں پھینک آئیں گے ؟ کعب رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہی «مہیل» میں یعنی سورج کے طلوع ہونے کی جگہ میں انہیں پھینک آئیں گے ۔ پھر چالیس دن تک تمام زمین میں مسلسل بارش برسے گی ، زمین دھل دھلا کر ہتھیلی کی طرح صاف ہو جائے گی پھر بحکم الٰہی اپنی برکتیں اگادے گی ۔ اس دن ایک جماعت کی جماعت ایک انار سے سیر ہو جائے گی اور اس کے چھلکے تلے سایہ حاصل کرلے گی ایک اونٹنی کا دودھ لوگوں کی ایک جماعت کو اور ایک گائے کا دودھ ایک قبیلے کو اور ایک بکری کا دودھ ایک گھرانے کو کافی ہو گا ۔ پھر ایک پاکیزہ ہوا چلے گی جو مسلمانوں کی بغلوں تلے سے نکل جائے گی اور ان کی روح قبض ہو جائے گی پھر روئے زمین پر بدترین شریر لوگ باقی رہ جائیں گے جو گدھوں کی طرح کودتے ہوں گے انہی پر قیامت قائم ہوگی } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2937) امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ اسے حسن کہتے ہیں ۔ [٣] مسند احمد میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک بچھو نے کاٹ کھایا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی انگلی پر پٹی باندھے ہوئے خطبے کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا : { تم کہتے ہو اب دشمن نہیں ہیں لیکن تم تو دشمنوں سے جہاد کرتے ہی رہو گے یہاں تک کہ یاجوج ماجوج آئیں وہ چوڑے چہرے والے چھوٹی آنکھوں والے ان کے چہرے تہہ بہ تہہ ڈھالوں جیسے ہوں گے } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:271/5:ضعیف) [٤] یہ روایت سورۃ الٱعراف کی تفسیر کے آخر میں بیان کر دی گی ہے ۔ مسند احمد میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ { معراج والی رات میں ابراہیم ، موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام سے روز قیامت کا مذکراہ شروع ہوا سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اس کے علم سے انکار کر دیا ۔ اسی طرح موسیٰ علیہ السلام نے بھی ہاں عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا ” اس کے واقع ہونے کے وقت تو بجز اللہ کے کوئی نہیں جانتا ہاں مجھ سے میرے اللہ نے یہ تو فرمایا ہے کہ دجال نکلنے والا ہے ۔ اس کے ساتھ دو ٹہنیاں ہوں گی ۔ وہ مجھے دیکھتے ہی سیسے کی طرح پگلنے لگے گا یہاں تک کہ اللہ اسے ہلاک کر دے جب کہ وہ مجھے دیکھے یہاں تک کہ پتھر اور درخت بھی پکار اٹھیں گے کہ ” اے مسلم ! یہ ہے میرے سایہ تلے کافر ، آ اور اسے قتل کر “ ۔ پس اللہ انہیں ہلاک کرے گا اور لوگ اپنے شہروں اور وطنوں کی طرف لوٹ جائیں گے ۔ اس وقت یاجوج ماجوج نکلیں گے جو ہر اونچائی سے پھدکتے آئیں گے جو پائیں گے تباہ کر دیں گے پانی جتنا پائیں گے پی جائیں گے لوگ پھر تنگ آ کر اپنوں وطنوں میں محصور ہو کر بیٹھ جائیں گے شکایت کریں گے تو میں پھر اللہ سے دعا کرونگا اللہ انہیں غارت کر دے ساری زمین پر ان کی بدبو پھیل جائے گی پھر بارش برسے گی اور پانی کا بہاؤ ان کے سڑے ہوئے جسموں کو گھسیٹ کر دریا برد کر دے گا ۔ میرے رب نے مجھ سے فرما دیا ہے کہ ’ جب یہ سب کچھ ظہور میں آ جائے گا پھر تو قیامت کا ہونا ایسا ہی ہے جیسے پورے دنوں میں حمل والی عورت کا وضع ہونا ‘ کہ گھر والوں کو فکر ہوتی ہے کہ صبح بچہ ہوا یا شام ہوا دن کو ہوا یا رات کو ہوا “ ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:4081،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) اس کی تصدیق کلام اللہ شریف کی آیت میں موجود ہے اس بارے میں حدیثیں بکثرت ہیں اور آثار سلف بھی بہت ہیں ۔ کعب رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ ” یاجوج ماجوج کے نکلنے کے وقت وہ دیوار کو کھودیں گے یہاں تک کہ ان کی کدالوں کی آواز پاس والے بھی سنیں گے رات ہو جائے گی ان میں سے ایک کہے گا کہ اب صبح آتے ہی اسے توڑ ڈالیں گے اور نکل کھڑے ہوں گے صبح یہ آئیں گے توجیسی کل تھی ویسی ہی آج بھی پائیں گے الغرض یونہی ہوتا رہے گا یہاں تک کہ ان کا نکالنا جب منظور ہو گا تو ایک شخص کی زبان سے نکلے گا کہ ہم کل ان شاءاللہ ایسے توڑ دیں گے اب جو آئیں گے تو جیسی چھوڑ گئے تھے ویسی ہی پائیں گے تو کھود کر توڑیں گے اور باہر نکل آئیں گے ان کا پہلا گروہ بحیرہ کے پاس سے نکلے گا سارا پانی پی جائے گا دوسرا آئے گا کیچڑ بھی چاٹ جائے گا تیسرا آئے گا تو کہے گا شاید یہاں کبھی پانی ہوگا ؟ لوگ ان سے بھاگ بھاگ کر ادھر ادھر چھپ جائیں گے جب انہیں کوئی بھی نظر نہ پڑے گا تو یہ اپنے تیر آسمان کی طرف پھینکیں گے وہاں سے وہ خون آلود واپس آئیں گے تو یہ فخر کریں گے کہ ہم زمین والوں پر اور آسمان والوں پر غالب آ گئے ۔ عیسیٰ بن مریم علیہ السلام ان کے لیے بدعا کریں گے کہ اللہ ہم میں ان کے مقابلے کی طاقت نہیں اور زمین پر ہمارا چلنا پھرنا بھی ضروری ہے تو ہمیں جس طریقے سے چاہے ان سے نجات دے تو اللہ ان کو طاعون میں مبتلا کرے گا گلٹیاں نکل آئیں گی اور سارے کہ سارے مرجائیں گے ۔ پھر ایک قسم کے پرند آئیں گے جو اپنی چونچ میں انہیں لے کر سمندر میں پھینک آئیں گے پھر اللہ تعالیٰ نہر حیات جاری کر دے گا جو زمین کو دھوکر پاک صاف کر دے گی اور زمین اپنی برکتیں نکال دے گی ایک انار ایک گھرانے کو کافی ہو گا اچانک ایک شخص آئے گا اور ندا کرے گا کہ ذوالسویقتین نکل آیا ہے ۔ عیسیٰ بن مریم علیہ السلام سات آٹھ سولشکریوں کا طلایہ بھیجیں گے یہ ابھی راستے میں ہی ہوں گے کہ یمنی پاک ہوا نہایت لطافت سے چلے گی جو تمام مؤمنوں کی روح قبض کر جائے گی پھر تو روئے زمین پر ردی کھدی لوگ رہ جائے گے جو چوپایوں جیسے ہوں گے ان پر قیامت قائم ہوگی ۔ اس وقت قیامت اس قدر قریب ہو گی جیسے پوری دنوں کی گھوڑی جو جننے کے قریب ہو اور گھوڑی والا اس کے آس پاس گھوم رہا ہو کہ کب بچہ ہو “ ۔ کعب رحمتہ اللہ یہ بیان فرما کر فرمانے لگے ” اب جو شخص میرے اس قول اور اس علم کے بعد بھی کچھ کہے اس نے تکلف کیا “ ۔ کعب رحمتہ اللہ کا یہ واقعہ بیان کرنا بہترین واقعہ ہے کیونکہ اس کی شہادت صحیح حدیث میں بھی پائی جاتی ہے ۔ احادیث میں یہ بھی آیا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام اس زمانے میں بیت اللہ شریف کا حج بھی کریں گے ۔ چنانچہ مسند امام احمد میں یہ حدیث مرفوعاً مروی ہے کہ { آپ علیہ السلام یاجوج ماجوج کے خروج کے بعد یقیناً بیت اللہ کا حج کریں گے } ۔ یہ حدیث بخاری میں بھی ہے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1513) جب یہ ہولناکیاں ، جب یہ زلزلے ، جب یہ بلائیں اور آفات آ جائیں گی تو اس وقت قیامت بالکل قریب آ جائے گی اسے دیکھ کر کافر کہنے لگیں گے یہ نہایت سخت دن ہے ان کی آنکھیں پھٹ جائیں گی اور کہنے لگیں گے ہائے ہم تو غفلت میں ہی رہے ۔ ہائے ہم نے اپنا آپ بگاڑا ۔ گناہوں کا اقرار اور اس پر شرمسار ہوں گا لیکن اب بے سود ہے ۔ الأنبياء
96 الأنبياء
97 الأنبياء
98 جہنم کی ہولناکیاں بت پرستوں سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’ تم اور تمہارے بت جہنم کی آگ کی لکڑیاں بنوگے ‘ ۔ جیسے فرمان ہے آیت «وَقُودُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ» ۱؎ (66-التحریم:6) (2-البقرۃ:24) ’ اس کا ایندھن انسان ہیں اور پتھر ‘ ۔ حبشی زبان میں حطب کو «حَصَبُ» کہتے ہیں یعنی لکڑیاں ۔ بلکہ ایک قرأت میں بجائے «حَصَبُ» کے «حَطَبْ» ہے ۔ ’ تم سب عابد و معبود جہنمی ہو اور وہ بھی ہمیشہ کے لیے ‘ ۔ اگر یہ سچے معبود ہوتے کیوں آگ میں جلتے ؟ یہاں تو پرستار اور پرستش کئے جانے والے سب ابدی طور پردوزخی ہو گئے وہ الٹی سانس میں چیخیں گے ۔ جیسے فرمان ہے آیت « فَاَمَّا الَّذِیْنَ شَقُوْا فَفِی النَّارِ لَہُمْ فِیْہَا زَفِیْرٌ وَّشَہِیْقٌ» ۱؎ (11-ھود:106) ، ’ وہ سیدھی الٹی سانسوں سے چیخیں گے اور چیخوں کے سوا ان کے کان میں اور کوئی آواز نہ پڑے گی ‘ ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ” جب صرف مشرک جہنم میں رہ جائیں گے انہیں آگ کے صندوقوں میں قید کر دیا جائے گا جن میں آگ کے سریے ہوں گے ان میں سے ہر ایک کو یہی گمان ہو گا کہ جہنم میں اس کے سوا اور کوئی نہیں “ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے یہی آیت تلاوت فرمائی ۔ (ابن جریر) «حُسْنَیٰ» سے مراد رحمت وسعادت ہیں ۔ دوزخیوں کا اور ان کے عذابوں کا ذکر کر کے اب نیک لوگوں اور ان کی جزاؤں کا ذکر ہو رہا ہے یہ لوگ باایمان تھے ان کے نیک اعمال کی وجہ سے سعادت ان کے استقبال کو تیار تھی ۔ جیسے فرمان ہے آیت «لِلَّذِیْنَ اَحْسَـنُوا الْحُسْنٰی وَزِیَادَۃٌ وَلَا یَرْہَقُ وُجُوْہَھُمْ قَتَرٌ وَّلَا ذِلَّۃٌ اُولٰیِٕکَ اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ ھُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ» ۱؎ (10-یونس:26) ’ نیکوں کے لیے نیک اجر ہے اور زیادتی اجر بھی ‘ ۔ فرمان ہے آیت «ہَلْ جَزَاءُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُ» ۱؎ (55-الرحمن:60) ’ نیکی کا بدلہ نیکی ہی ہے ‘ ۔ ان کے دنیا کے اعمال نیک تھے تو آخرت میں ثواب اور نیک بدلہ ملا ، عذاب سے بچے اور رحمت رب سے سرفراز ہوئے ۔ یہ جہنم سے دور کر دئیے گئے کہ اس کی آہٹ تک نہیں سنتے نہ دوزخیوں کا جلنا وہ سنتے ہیں ۔ پل صراط پردوزخیوں کو زہریلے ناگ ڈستے ہیں اور یہ وہاں ہائے ہائے کرتے ہیں جنتی لوگوں کے کان بھی اس درد ناک آواز سے ناآشنا رہیں گے ۔ اتنا ہی نہیں کہ خوف ڈر سے یہ الگ ہو گئے بلکہ ساتھ ہی راحت و آرام بھی حاصل کر لیا ۔ من مانی چیزیں موجود ۔ دوامی کی راحت بھی حاضر ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ایک رات اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا ” میں اور عمر عثمان اور زبیر اور طلحہ اور عبدالرحمٰن انہی لوگوں میں سے ہیں “ یا سعد کا نام لیا رضی اللہ عنہم ۔ اتنے میں نماز کی تکبیر ہوئی تو آپ رضی اللہ عنہ چادر گھیسٹتے آیت «لَا یَسْمَعُونَ حَسِیسَہَا» ، پڑھتے ہوئے اٹھ کھڑے ہو گئے ۔ اور روایت میں ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” عثمان رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی ایسے ہی ہیں “ ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ” یہی لوگ اولیاء اللہ ہیں بجلی سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ پل صراط سے پار ہو جائیں گے اور کافر وہیں گھٹنوں کے بل گر پڑیں گے “ ۔ بعض کہتے ہیں اس سے مراد وہ بزرگان دین ہیں جو اللہ والے تھے شرکت سے بیزار تھے لیکن ان کے بعد لوگوں نے ان کی مرضی کے خلاف ان کی پوجا پاٹ شروع کر دی تھی ، عزیر ، مسیح ، فرشتے ، سورج ، چاند ، مریم ، وغیرہ ۔ عبداللہ بن زبعری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا تیرا خیال ہے کہ اللہ نے آیت «اِنَّکُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ حَصَبُ جَہَنَّمَ اَنْتُمْ لَہَا وٰرِدُوْنَ» ۱؎ (21-الأنبیاء:98) اتاری ہے ؟ اگر یہ سچ ہے تو کیا سورج چاند ، فرشتے عزیر ، عیسیٰ ، سب کہ سب ہمارے بتوں کے ساتھ جہنم میں جائیں گے ؟ اس کے جواب میں آیت «وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْیَمَ مَثَلًا اِذَا قَوْمُکَ مِنْہُ یَصِدٰوْنَ» ۱؎ (43-الزخرف:57) اور آیت «اِنَّ الَّذِیْنَ سَبَقَتْ لَہُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰٓی اُولٰیِٕکَ عَنْہَا مُبْعَدُوْنَ» ۱؎ (21-الأنبیاء:101) نازل ہوئی ۔ سیرت ابن اسحاق میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن ولید بن مغیرہ کے ساتھ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ نضر بن حارث آیا اس وقت مسجد میں اور قریشی بھی بہت سارے تھے نضر بن حارث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے باتیں کر رہا تھا لیکن وہ لاجوب ہو گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت «اِنَّکُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ حَصَبُ جَہَنَّمَ اَنْتُمْ لَہَا وٰرِدُوْنَ لَوْ کَانَ ہٰؤُلَاءِ آلِہَۃً مَّا وَرَدُوہَا وَکُلٌّ فِیہَا خَالِدُونَ لَہُمْ فِیہَا زَفِیرٌ وَہُمْ فِیہَا لَا یَسْمَعُونَ» ۱؎ (21-الأنبیاء:100-98) تلاوت فرمائی ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس مجلس سے چلے گئے تو عبداللہ بن زبعری آیا لوگوں نے اس سے کہا آج نضر بن حارث نے باتیں کیں لیکن بری طرح چت ہوئے اور یہ فرماتے ہوئے چلے گے ۔ اس نے کہا اگر میں ہوتا تو انہیں جواب دیتا کہ ہم فرشتوں کو پوجتے ہیں یہود عزیر کو نصرانی مسیح کو تو کیا یہ سب بھی جہنم میں جلیں گے ؟ سب کو یہ جواب بہت پسند آیا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { جس نے اپنی عبادت کرائی وہ عابدوں کے ساتھ جہنم میں ہے یہ بزرگ اپنی عبادتیں نہیں کراتے تھے بلکہ یہ لوگ تو انہیں نہیں شیطان کو پوج رہے ہیں اسی نے انہیں ان کی عبادت کی راہ بتائی ہے } } ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب کے ساتھ ہی قرآنی جواب اس کے بعد ہی آیت «إِنَّ الَّذِینَ سَبَقَتْ لَہُم مِّنَّا الْحُسْنَیٰ أُولٰئِکَ عَنْہَا مُبْعَدُونَ» ۱؎ (21-الأنبیاء:101) میں اترا تو جن نیک لوگوں کی جاہلوں نے پرستش کی تھی وہ اس سے مستثنیٰ ہو گئے ۔ چنانچہ قرآن میں ہے آیت «مَن یَقُلْ مِنْہُمْ إِنِّی إِلٰہٌ مِّن دُونِہِ فَذٰلِکَ نَجْزِیہِ جَہَنَّمَ کَذٰلِکَ نَجْزِی الظَّالِمِینَ» ۱؎ (21-الأنبیاء:29) یعنی ’ ان میں سے جو اپنی معبودیت اوروں سے منوانی چاہے اس کا بدلہ جہنم ہے ہم ظالموں کو اسی طرح سزا دیتے ہیں ‘ ۔ اور آیت «وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْیَمَ مَثَلًا اِذَا قَوْمُکَ مِنْہُ یَصِدٰوْنَ وَقَالُوا أَآلِہَتُنَا خَیْرٌ أَمْ ہُوَ مَا ضَرَبُوہُ لَکَ إِلَّا جَدَلًا بَلْ ہُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ إِنْ ہُوَ إِلَّا عَبْدٌ أَنْعَمْنَا عَلَیْہِ وَجَعَلْنَاہُ مَثَلًا لِّبَنِی إِسْرَائِیلَ وَلَوْ نَشَاءُ لَجَعَلْنَا مِنکُم مَّلَائِکَۃً فِی الْأَرْضِ یَخْلُفُونَ» ۱؎ (43-الزخرف:57-60) اتری کہ ’ اس بات کہ سنتے ہی وہ لوگ متعجب ہوگئے اور کہنے لگے ہمارے معبود اچھے یا وہ یہ تو صرف دھینگا مشتی ہے اور یہ لوگ جھگڑالو ہی ہیں وہ ہمارا انعام یافتہ بندہ تھا اسے ہم نے بنی اسرائیل کے لیے نمونہ بنایا تھا ۔ اگر ہم چاہتے تو تمہارے جانشین فرشتوں کو کر دیتے ‘ ۔ «وَإِنَّہُ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَۃِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِہَا وَاتَّبِعُونِ ہٰذَا صِرَاطٌ مٰسْتَقِیمٌ» ۱؎ (43-الزخرف:61) ’ عیسیٰ [ علیہ السلام ] نشانِ قیامت ہیں ان کے ہاتھ سے جو معجزات صادر ہوئے وہ شبہ والی چیزیں نہیں وہ قیامت کی دلیل ہیں تجھے اس میں کچھ شک نہ کرنا چاہے ۔ میری مانتا چلا جا یہی صراط مستقیم ہے ‘ ۔ ابن زبعری کی جرات دیکھئیے خطاب اہل مکہ سے ہے اور ان کی ان تصویروں اور پتھروں کے لیے کہا گیا ہے جنہیں وہ سوائے اللہ کے پوجا کرتے تھے نہ کہ عیسیٰ علیہ السلام وغیرہ پاک نفس کے لیے جو غیر اللہ کی عبادت سے روکتے تھے ۔ امام ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں لفظ «ما» جو یہاں ہے وہ عرب میں ان کے لیے آتا ہے جو بے جان اور بے عقل ہوں ۔ یہ ابن زبعری اس کے بعد مسلمان ہوگئے تھے رضی اللہ عنہ ۔ یہ بڑے مشہور شاعر تھے ۔ پہلے انہوں نے مسلمانوں کی دل کھول کر دھول اڑائی تھی لیکن مسلمان ہونے کے بعد معذرت کی ۔ موت کی گھبراہٹ ، اس گھڑی کی گھبراہٹ جبکہ جہنم پر ڈھکن ڈھک دیا جائے گا جب کہ موت کو دوزخ جنت کے درمیان ذبح کر دیا جائے گا ۔ غرض کسی اندیشے کا نزول ان پر نہ ہوگا وہ ہر غم و ہراس سے دور ہوں گے ، پورے مسرور ہوں گے ، خوش ہوں گے اور ناخوشی سے کوسوں الگ ہوں گے ۔ فرشتوں کے پرے کے پرے ان سے ملاقاتیں کر رہے ہوں گے اور انہیں ڈھارس دیتے ہوئے کہتے ہوں گے کہ اسی دن کا وعدہ تم سے کیا گیا تھا ، اس وقت تم قبروں سے اٹھنے کے دن کے منتظر رہو ۔ الأنبياء
99 الأنبياء
100 الأنبياء
101 الأنبياء
102 الأنبياء
103 الأنبياء
104 اللہ تعالیٰ کی مٹھی میں تمام کائنات ’ یہ قیامت کے دن ہوگا جب ہم آسمان کو لپیٹ لیں گے ‘ ۔ جیسے فرمایا آیت «وَمَا قَدَرُوا اللہَ حَقَّ قَدْرِہِ» ۱؎ (39-الزمر:67) ’ ان لوگوں نے جیسی قدر اللہ تعالیٰ کی تھی ، جانا ہی نہیں ‘ ۔ تمام زمین قیامت کے دن اس کی مٹھی میں ہوگی اور تمام آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے ۔ وہ پاک اور برتر ہے ہر چیز سے جسے لوگ اس کا شریک ٹھہرا رہے ہیں ۔ بخاری شریف میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { اللہ تعالیٰ قیامت کے دن زمینوں کو مٹھی میں لے لے گا اور آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں ہوں گے } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:7412) ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ” ساتوں آسمانوں کو اور وہاں کی کل مخلوق کو ، ساتوں زمینوں کو اور اس کی کل کائنات کو اللہ تعالیٰ اپنے داہنے ہاتھ میں لپیٹ لے گا وہ اس کے ہاتھ میں ایسے ہوں گے جیسے رائی کا دانہ “ ۔ «سِّجِلِّ» سے مراد کتاب ہے ، اور کہا گیا ہے کہ مراد یہاں ایک فرشتہ ہے ۔ جب کسی کا استغفار چڑھتا ہے تو وہ کہتا ہے اسے نور لکھ لو ۔ یہ فرشتہ نامہ اعمال پر مقرر ہے ۔ جب انسان مر جاتا ہے تو اس کی کتاب کو اور کتابوں کے ساتھ لپیٹ کر اسے قیامت کے لیے رکھ دیتا ہے ۔ کہا گیا ہے کہ یہ نام ہے اس صحابی کا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کاتب وحی تھا ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2935،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) لیکن یہ روایت ثابت نہیں اکثر حفاظ حدیث نے ان سب کو موضوع کہا ہے خصوصا ہمارے استاد حافظ کبیر ابو الحجاج مزی رحمتہ اللہ نے ۔ میں نے اس حدیث کو ایک الگ کتاب میں لکھا ہے ۔ امام جعفر بن جریر رحمتہ اللہ علیہ نے بھی اس حدیث پر بہت ہی انکار کیا ہے اور اس کی خوب تردید کی اور فرمایا ہے کہ ” «سِّجِلِّ» نام کا کوئی صحابی ہے ہی نہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام کاتبوں کے نام مشہور ومعروف ہیں کسی کا نام «سِّجِلِّ» نہیں ۔ فی الواقع امام صاحب نے صحیح اور درست فرمایا یہ بڑی وجہ ہے اس حدیث کے منکر ہونے کی ۔ بلکہ یہ بھی یاد رہے کہ جس نے اس صحابی کا ذکر کیا ہے اس نے اسی حدیث پر اعتماد کر کے ذکر کیا ہے اور لغتاً بھی یہی بات ہے پس فرمان ہے ’ جس دن ہم آسمان کو لپیٹ لیں گے اس طرح جیسے لکھی ہوئی کتاب لپیٹی جاتی ہے ‘ ۔ لام یہاں پر معنی میں علیٰ کے ہے جیسے «فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّہُ لِلْجَبِینِ» ۱؎ (37-الصافات:103) میں لام معنی میں علیٰ ہے ۔ لغت میں اس کی اور نظیریں بھی ہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ یہ یقیناً ہو کر رہے گا ۔ اس دن اللہ تعالیٰ نئے سرے سے مخلوق کو پہلے کی طرح پیدا کرے گا ۔ جو ابتداء پر قادر تھا وہ اعادہ پر بھی اس سے زیادہ قادر ہے ۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے اس کے وعدے اٹل ہوتے ہیں ، وہ کبھی بدلتے نہیں ، نہ ان میں تضاد ہوتا ہے ۔ وہ تمام چیزوں پر قادر ہے وہ اسے پورا کر کے ہی رہے گا ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر اپنے ایک وعظ میں فرمایا : { تم لوگ اللہ کے سامنے جمع ہونے والے ہو ۔ ننگے پیر ننگے بدن بے ختنے ’ جیسے ہم نے پہلی بار پیدا کیا اسی طرح دوبارہ لوٹائینگے یہ ہمارا وعدہ ہے جسے ہم پورا کر کے رہیں گے ‘ } } ، الخ ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4740) سب چیزیں نیست و نابود ہو جائیں گی پھر بنائی جائیں گی ۔ الأنبياء
105 سچا فیصلہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو جس طرح آخرت میں دے گا اسی طرح دنیا میں بھی انہیں ملک و مال دیتا ہے ، یہ اللہ کا حتمی وعدہ اور سچا فیصلہ ہے ۔ جیسے فرمان آیت «إِنَّ الْأَرْضَ لِلہِ یُورِثُہَا مَن یَشَاءُ مِنْ عِبَادِہِ وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِینَ» ۱؎ (7-الأعراف:128) ’ زمین اللہ کی ہے جسے چاہتا ہے اس کا وارث بناتا ہے ، انجام کار پرہیزگاروں کا حصہ ہے ‘ ۔ اور فرمان ہے «إِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِینَ آمَنُوا فِی الْحَیَاۃِ الدٰنْیَا وَیَوْمَ یَقُومُ الْأَشْہَادُ» ۱؎ (40-غافر:51) ’ ہم اپنے رسولوں کی اور ایمانداروں کی دنیا میں اور آخرت میں مدد فرماتے ہیں ‘ ۔ اور فرمان ہے کہ «وَعَدَ اللہُ الَّذِینَ آمَنُوا مِنکُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِی الْأَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِینَ مِن قَبْلِہِمْ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمْ دِینَہُمُ الَّذِی ارْتَضَیٰ لَہُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّہُم مِّن بَعْدِ خَوْفِہِمْ أَمْنًا» ۱؎ (24-النور:55) ’ تم میں سے ایمان داروں اور نیک لوگوں سے اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ انہیں زمین میں غالب بنائے گا جیسے کہ ان سے اگلوں کو بنایا اور ان کے لیے ان کے دین کو قوی کر دے گا جس سے وہ خوش ہے ‘ ۔ اور فرمایا کہ ’ یہ شرعیہ اور قدریہ کتابوں میں مرقوم ہے ، یقیناً ہو کر ہی رہے گا ‘ ۔ زبور سے مراد بقول سعید بن جبیر رحمتہ اللہ علیہ تورات انجیل اور قرآن ہے ۔ مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں زبور سے مراد کتاب ہے بعض لوگ کہتے ہیں کہ زبور اس کتاب کا نام ہے جو داؤد علیہ السلام پر اتری تھی ۔ ذکر سے مراد یہاں پر توراۃ ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ” ذکر سے مراد قرآن ہے “ ۔ سعید رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” ذکر وہ ہے جو آسمانوں میں ہے یعنی اللہ کے پاس کی ام الکتاب جو سب سے پہلی کتاب ہے یعنی لوح محفوظ “ ۔ یہ بھی مروی ہے کہ زبور اور وہ آسمانی کتابیں جو پیغمبروں پرنازل ہوئیں اور ذکر مراد پہلی کتاب یعنی لوح محفوظ ۔ فرماتے ہیں توراۃ زبور اور علم الٰہی میں پہلے ہی یہ فیصلہ ہو گیا تھا کہ امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم زمین کی بادشاہ بنے گی اور نیک ہو کر جنت میں جائے گی ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ زمین سے مراد جنت کی زمین ۔ سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” صالح لوگ ہم ہی ہیں “ ۔ مراد اس سے با ایمان لوگ ہیں ’ اس قرآن میں جو نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم پر اتارا گیا ہے پوری نصیحت و کفایت ہے ان کے لیے جو ہمارے عبادت گزار بندے ہیں ۔ جو ہماری مانتے ہیں اپنی خواہش کو ہمارے نام پر قربان کر دیتے ہیں ‘ ۔ پھر فرماتا کہ ’ ہم نے اپنے اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا ہے پس اس نعمت کی شکر گزاری کرنے والا دنیا و آخرت میں شادماں ہے اور ناقدری کرنے والا دونوں جہاں میں برباد و ناشاد ہے ‘ ۔ جیسے ارشاد ہے کہ «أَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِینَ بَدَّلُوا نِعْمَتَ اللہِ کُفْرًا وَأَحَلٰوا قَوْمَہُمْ دَارَ الْبَوَارِ جَہَنَّمَ یَصْلَوْنَہَا وَبِئْسَ الْقَرَارُ» ۱؎ (14-ابراھیم:27-28) ’ کیا تم نے انہیں دیکھا جنہوں نے نعمت ربانی کی ناشکری کی اور اپنی قوم کو غارت کر دیا ‘ ۔ اس قرآن کی نسبت فرمایا کہ «قُلْ ہُوَ لِلَّذِینَ آمَنُوا ہُدًی وَشِفَاءٌ وَالَّذِینَ لَا یُؤْمِنُونَ فِی آذَانِہِمْ وَقْرٌ وَہُوَ عَلَیْہِمْ عَمًی أُولٰئِکَ یُنَادَوْنَ مِن مَّکَانٍ بَعِیدٍ» ۱؎ (41-فصلت:44) ’ یہ ایمان والوں کے لیے ہدایت وشفاء ہے بے ایمان بہرے اندھے ہیں ‘ ۔ صحیح مسلم میں ہے کہ { ایک موقع پر اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عرض کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کافروں کے لیے بدعا کیجئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ { میں لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا بلکہ رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں } } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2599) اور حدیث میں ہے { آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { میں تو صرف رحمت وہدایت ہوں } } ۔ (سلسلۃ احادیث صحیحہ البانی:490 ، ) اور روایت میں اس کے ساتھ یہ بھی ہے کہ { مجھے ایک قوم کی ترقی اور دوسری کے تنزل کے ساتھ بھیجا گیا ہے } ۔ طبرانی میں ہے کہ ابو جہل نے کہا اے قریشیو ! محمد [ صلی اللہ علیہ وسلم ] یثرب میں چلا گیا ہے اپنے طلائیے کے لشکر ادھرادھر تمہاری جستجو میں بھیج رہا ہے ۔ دیکھو ہوشیار رہنا وہ بھوکے شیر کی طرح تاک میں ہے وہ خار کھائے ہوئے ہے کیونکہ تم نے اسے نکال دیا ہے واللہ اس کے جادوگر بے مثال ہیں میں تو اسے یا اس کے ساتھیوں میں سے جس کسی کو دیکھتا ہوں تو مجھے ان کے ساتھ شیطان نظر آتے ہیں تم جانتے ہو کہ اوس اور خزرج ہمارے دشمن ہیں اس دشمن کو ان دشمنوں نے پناہ دی ہے ۔ اس پر مطعم بن عدی کہنے لگے ابو الحکم سنو تمہارے اس بھائی سے جسے تم نے اپنے ملک سے جلا وطن کر دیا ہے میں نے کسی کو زیادہ سچا اور زیادہ وعدے کا پورا کرنے والا نہیں پایا ۔ اب جب کہ ایسے بھلے آدمی کے ساتھ تم یہ بدسلوکی کر چکے ہو تو اب تو اسے چھوڑو تمہیں چاہیئے اس سے بالکل الگ تھلک رہو ۔ اس پر ابوسفیان بن حارث کہنے لگا نہیں تمہیں اس پر پوری سختی کرنی چاہیئے یاد رکھو اگر اس کے طرفدار تم پر غالب آ گئے تو تم کہیں کے نہ رہو گے وہ رشتہ دیکھیں گے نہ کنبہ میری رائے میں تو تمہیں مدینے والوں کو تنگ کر دینا چاہیئے کہ یا تو وہ محمد [ صلی اللہ علیہ وسلم ] کو نکال دیں اور وہ بیک بینی دوگوش تن تنہا رہ جائے یا ان مدینے والوں کا صفایا کر دینا چاہیئے اگر تم تیار ہو جاؤ تو میں مدینے کہ کونے کونے پر لشکر بٹھادوں گا اور انہیں ناکوں چنے چبوا دونگا ۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ باتیں پہنچیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ { اللہ کی قسم جس کہ ہاتھ میری جان ہے میں ہی انہیں قتل وغارت کروں گا اور قید کر کے پھر احسان کر کے چھوڑوں گا میں رحمت ہوں میرا بھیجنے والا اللہ ہے وہ مجھے اس دنیا سے نہ اٹھائے گا جب تک اپنے دین کو دنیا پر غالب نہ کر دے ۔ میرے پانچ نام ہیں محمد ، احمد ، ماحی ، یعنی میری وجہ سے اللہ کفر کو مٹا دے گا ، حاشر اس لیے کہ لوگ میرے قدموں پر جمع کئے جائیں گے اور عاقب } ۔ ۱؎ (سلسلۃ احادیث صحیحہ البانی تحت الحدیث:490،) مسند احمد میں ہے { سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ مدائن میں تھے بسا اوقات احادیث رسول کا مذاکرہ رہا کرتا تھا ایک دن حذیفہ رضی اللہ عنہ سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو سلمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” اے حذیفہ ایک دن رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبے میں فرمایا کہ { جسے میں نے غصے میں برا بھلا کہہ دیا ہو یا اس پر لعنت کر دی ہو تو سمجھ لو کہ میں بھی تم جیسا ایک انسان ہی ہوں تمہاری طرح مجھے بھی غصہ آ جاتا ہے ۔ ہاں البتہ میں چونکہ رحمتہ اللعالمین ہوں تو میری دعا ہے کہ اللہ میرے ان الفاظ کو بھی ان لوگوں کے لیے موجب رحمت بنا دے } } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4659،قال الشیخ الألبانی:صحیح) رہی یہ بات کہ کفار کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم رحمت کیسے تھے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ابن جریر میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اسی آیت کی تفسیر میں مروی ہے کہ ” مؤمنوں کے لیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا و آخرت میں رحمت تھے اور غیر مؤمنوں کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں رحمت تھے کہ وہ زمین میں دھنسائے جانے سے ، آسمان سے پتھر برسائے جانے سے بچ گئے ۔ جیسے کہ اگلی امتوں کے منکروں پر عذاب آئے “ ۔ الأنبياء
106 الأنبياء
107 الأنبياء
108 جلد یا بدیر حق غالب ہو گا اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ ’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مشرکوں سے فرما دیں کہ میری جانب یہی وحی کی جاتی ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی معبود برحق ہے تم سب بھی اسے تسلیم کر لو ۔ اور اگر تم میری بات پہ یقین نہیں کرتے تو ہم تم جدا ہیں تم ہمارے دشمن ہو ہم تمہارے ‘ ۔ جیسے آیت میں ہے کہ «وَإِن کَذَّبُوکَ فَقُل لِّی عَمَلِی وَلَکُمْ عَمَلُکُمْ أَنتُم بَرِیئُونَ مِمَّا أَعْمَلُ وَأَنَا بَرِیءٌ مِّمَّا تَعْمَلُونَ» ۱؎ (10-یونس:41) ’ اگر یہ جھٹلائیں تو کہہ دے کہ میرے لیے میرا عمل ہے اور تمہارے لیے تمہارا عمل ہے تم میرے اعمال سے بری ہو اور میں تمہارے کرتوتوں سے بیزار ہوں ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَاِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِیَانَۃً فَانْبِذْ اِلَیْہِمْ عَلٰی سَوَاءٍ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبٰ الْخَایِٕنِیْنَ» ۱؎ (8-الأنفال:58) یعنی ’ اگر تجھے کسی قوم سے خیانت و بد عہدی کا اندیشہ ہو تو عہد توڑ دینے کی انہیں فوراً خبردے دو ‘ ۔ اسی طرح یہاں بھی ہے کہ ’ اگر تم علیحدگی اختیار کرو تو ہمارے تمہارے تعلقات منقطع ہیں ۔ یقین مانو کہ جو وعدہ تم سے کیا جاتا ہے وہ پورا ہونے والا تو ضرور ہے اب خواہ ابھی ہو خواہ دیر سے اس کا خود مجھے علم نہیں ‘ ۔ ظاہر و باطن کا عالم اللہ ہی ہے جو تم ظاہر کرو اور جو چھپاؤ اسے سب کا علم ہے ۔ بندوں کے کل اعمال ظاہر اور پوشیدہ اس پر آشکارا ہیں ۔ چھوٹا بڑا کھلا عمل چھپا سب کچھ وہ جانتا ہے ۔ ممکن ہے اس کی تاخیر بھی تمہاری آزمائش ہو اور تمہیں تمہاری زندگانی تک نفع دینا ہو ۔ انبیاء علیہم السلام کو جو دعا تعلیم ہوئی تھی کہ ’ اے اللہ ہم میں اور ہماری قوم میں تو سچا فیصلہ کر اور تو ہی بہتر فیصلہ کرنے والا ہے ‘ ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اسی قسم کی دعا کا حکم ہوا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کبھی کسی غزوے میں جاتے تو دعا کرتے کہ «رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَأَنتَ خَیْرُ الْفَاتِحِینَ» ۱؎ (7-الأعراف:89) ’ میرے رب تو سچا فیصلہ فرما ۔ ہم اپنے مہربان رب سے ہی مدد طلب کرتے ہیں کہ وہ تمہارے جھوٹ افتراؤں کو ہم سے ٹالے اس میں ہمارا مددگار وہی ہے ‘ ۔ «اَلْحَمْدُ لِلہِ» سورۃ الانبیاء کی تفسیر ختم ہوئی ۔ الأنبياء
109 الأنبياء
110 الأنبياء
111 الأنبياء
112 الأنبياء
0 الحج
1 دعوت تقویٰ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو تقوے کا حکم فرماتا ہے اور آنے والے دہشت ناک امور سے ڈرا رہا ہے خصوصاً قیامت کے زلزلے سے ۔ اس سے مراد یا تو وہ زلزلہ ہے جو قیامت کے قائم ہونے کے درمیان آئے گا ۔ جیسے فرمان ہے آیت «إِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَہَا وَأَخْرَجَتِ الْأَرْضُ أَثْقَالَہَا» ۱؎ (99-الزلزلۃ:2،1) ، ’ زمین خوب اچھی طرح جھنجھوڑ دی جائے گی ‘ ۔ اور فرمایا آیت «وَحُمِلَتِ الْأَرْضُ وَالْجِبَالُ فَدُکَّتَا دَکَّۃً وَاحِدَۃً فَیَوْمَئِذٍ وَقَعَتِ الْوَاقِعَۃُ» ۱؎ (69-الحاقۃ:15،14) یعنی ’ زمین اور پہاڑ اٹھا کر باہم ٹکرا کر ٹکڑے ٹکڑے کر دئے جائیں گے‘ ۔ اور فرمان ہے آیت «إِذَا رُجَّتِ الْأَرْضُ رَجًّا وَبُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّا فَکَانَتْ ہَبَاءً مٰنبَثًّا» ۱؎ (56-الواقعۃ:6-4) یعنی ’ جب کہ زمین بڑے زور سے ہلنے لگے گی اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں گے ‘ ۔ صور کی حدیث میں ہے کہ { اللہ تعالیٰ جب آسمان و زمین کو پیدا کر چکا تو صور کو پیدا کیا اسے اسرافیل علیہ السلام کو دیا وہ اسے منہ میں لیے ہوئے آنکھیں اوپر کو اٹھائے ہوئے عرش کی جانب دیکھ رہے ہیں کہ کب حکم الٰہی ہو اور وہ صور پھونک دیں ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا ” یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! صور کیا چیز ہے ؟ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ایک پھونکنے کی چیز ہے بہت بری جس میں تین مرتبہ پھونکا جائے گا پہلا نفخہ گھبراہٹ کا ہو گا دوسرا بے ہوشی کا تیسرا اللہ کے سامنے کھڑا ہونے کا ۔ اسرافیل علیہ السلام کو حکم ہو گا وہ پھونکیں گے جس سے کل زمین و آسمان والے گھبرا اٹھیں گے سوائے ان کے جنہیں اللہ چاہے ۔ بغیر رکے ، بغیر سانس لیے بہت دیرتک برابر اسے پھونکتے رہیں گے } } ۔ اسی پہلے صور کا ذکر آیت «وَمَا یَنظُرُ ہٰؤُلَاءِ إِلَّا صَیْحَۃً وَاحِدَۃً مَّا لَہَا مِن فَوَاقٍ» ۱؎ (38-ص:15) میں ہے اس سے پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں گے زمین کپکپانے لگے گی ۔ جیسے فرمان ہے آیت «یَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاجِفَۃُ تَتْبَعُہَا الرَّادِفَۃُ قُلُوبٌ یَوْمَئِذٍ وَاجِفَۃٌ» ۱؎ (79-النازعات:8-6) ، جب کہ زمین لرزنے لگے گی اور یکے بعد دیگرے زبردست جھٹکے لگیں گے دل دھڑکنے لگیں گے زمین کی وہ حالت ہو جائے گی جو کشتی کی طوفان میں اور گرداب میں ہوتی ہے یا جیسے کوئی قندیل عرش میں لٹک رہی ہو جسے ہوائیں چاروں طرف جھلارہی ہوں ۔ آہ ! یہی وقت ہو گا کہ دودھ پلانے والیاں اپنے دودھ پیتے بچوں کو بھول جائیں گی اور حاملہ عورتوں کے حمل گر جائیں گے اور بچے بوڑھے ہو جائیں گے شیاطین بھاگنے لگیں گے زمین کے کناروں تک پہنچ جائیں گے لیکن وہاں سے فرشتوں کی مار کھا کر لوٹ آئیں گے ۔ لوگ ادھر ادھر حیران پریشان زمین ایک طرف سے دوسرے کو آوازیں دینے لگیں گے اسی لیے اس دن کا نام قرآن نے «یَوْمَ التَّنَاد» رکھا جیسے کہ آیت میں ہے «وَیَا قَوْمِ إِنِّی أَخَافُ عَلَیْکُمْ یَوْمَ التَّنَادِ» ۱؎ (40-غافر:32) ۔ اسی وقت زمین ایک طرف سے دوسری طرف تک پھٹ جائے گی اس وقت زمین ایک طرف سے دوسری طرف تک پھٹ جائے گی اس وقت کی گھبراہٹ کا انداز نہیں ہوسکتا ۔ اب آسمان میں انقلابات ظاہر ہوں گے سورج چاند بے نور ہو جائیں گے ، ستارے جھڑنے لگیں گے اور کھال ادھڑنے لگے گی ۔ زندہ لوگ یہ سب کچھ دیکھ رہے ہوں گے ہاں مردہ لوگ اس سے بے خبر ہونگے آیت قرآن «وَنُفِخَ فِی الصٰوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ اِلَّا مَنْ شَاءَ اللّٰہُ ثُمَّ نُفِخَ فِیْہِ اُخْرٰی فَاِذَا ہُمْ قِیَامٌ یَّنْظُرُوْنَ» ۱؎ (39-الزمر:68) میں جن لوگوں کا استثنا کیا گیا ہے کہ وہ بے ہوش نہ ہوں گے اس سے مراد شہید لوگ ہیں ۔ یہ گھبراہٹ زندوں پر ہو گی شہید اللہ کے ہاں زندہ ہیں اور روزیاں پاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ انہیں اس دن کے شر سے نجات دے گا اور انہیں پر امن رکھے گا ۔ یہ عذاب الٰہی صرف بدترین مخلوق کو ہو گا ۔ اسی کو اللہ تعالیٰ اس سورت کی شروع کی آیتوں میں بیان فرماتا ہے ۔ یہ حدیث طبرانی جریر ابن ابی حاتم وغیرہ میں ہے اور بہت مطول ہے اس حصے کو نقل کرنے سے یہاں مقصود یہ ہے کہ اس آیت میں جس زلزلے کا ذکر ہے یہ قیامت سے پہلے ہوگا ۔ اور قیامت کی طرف اس کی اضافت بوجہ قرب اور نزدیکی کے ہے ۔ جیسے کہا جاتا ہے «اشراط الساعۃ» وغیرہ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ یا اس سے مراد وہ زلزلہ ہے جو قیام قیامت کے بعد میدان محشر میں ہو گا جب کہ لوگ قبروں سے نکل کرمیدان میں جمع ہوں گے ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ اسے پسند فرماتے ہیں اس کی دلیل میں بھی بہت سی حدیثیں ہیں ۔ [١] { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر میں تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم تیز تیز چل رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے با آواز بلند ان دونوں آیتوں کی تلاوت کی ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کے کان میں آواز پڑتے ہی وہ سب اپنی سواریاں لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد جمع ہو گے کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ اور فرمائیں گے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { جانتے ہو یہ کون سا دن ہو گا ؟ یہ وہ دن ہو گا جس دن اللہ تعالیٰ آدم علیہ السلام کو فرمائے گا کہ اے آدم جہنم کا حصہ نکال ۔ وہ کہیں گے اے اللہ کتنوں میں سے کتنے ؟ فرمائے گا ہر ہزار میں سے نو سو نناوے جہنم کے لیے اور ایک جنت کے لیے } ۔ یہ سنتے ہی صحابہ کے دل دہل گئے ، چپ لگ گئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حالت دیکھ کر فرمایا کہ { غم نہ کرو ، خوش ہو جاؤ ، عمل کرتے رہو ۔ اس کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے تمہارے ساتھ مخلوق کی وہ تعداد ہے کہ جس کے ساتھ ہو اسے بڑھا دے یعنی یاجوج ماجوج اور نبی آدم میں سے جو ہلاک ہو گئے اور ابلیس کی اولاد } ۔ اب صحابہ رضی اللہ عنہم کی گھبراہٹ کم ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { عمل کرتے رہو اور خوشخبری سنو اس کی قسم جس کے قبضہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے تم تو اور لوگوں کے مقابلے پر ایسے ہی ہو جیسے اونٹ کے پہلو کا یا جانور کے ہاتھ کا داغ } } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3169،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اسی روایت کی اور سند میں ہے کہ { یہ آیت حالت سفر میں اتری ۔ اس میں ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ فرمان سن کر رونے لگے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { قریب قریب رہو اور ٹھیک ٹھاک رہو ہر نبوت کے پہلے جاہلیت کا زمانہ رہا ہے وہی اس گنتی کو پوری کر دے گا ورنہ منافقوں سے وہ گنتی پوری ہوگی } } ۔ اس میں ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ { مجھے تو امید ہے کہ اہل جنت کی چوتھائی صرف تم ہی ہو گے } ۔ یہ سن کر صحابہ رضی اللہ عنہم نے اللہ اکبر کہا ۔ ارشاد ہوا کہ { عجب نہیں کہ تم تہائی ہو } ، اس پر انہوں نے پھر تکبیر کہی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { مجھے امید ہے کہ تم ہی نصفاً نصف ہو گے } ، انہوں نے پھر تکبیر کہی } ۔ راوی کہتے ہیں مجھے یاد نہیں کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوتہائیاں بھی فرمائیں یا نہیں ؟ ۱؎ (سنن ترمذی:3168،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) اور روایت میں ہے کہ { غزوہ تبوک سے واپسی میں مدینے کے قریب پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلاوت آیت شروع کی } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:24906:مرسل) ایک اور روایت میں ہے کہ { جنوں اور انسانوں سے جو ہلاک ہوئے } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:4910:صحیح) اور روایت میں ہے کہ { تم تو ایک ہزار اجزا میں سے ایک جز ہی ہو } ۔ ۱؎ (مسند بزار:3467:ضعیف) صحیح بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر میں ہے کہ { قیامت والے دن اللہ تعالیٰ آدم علیہ السلام کو پکارے گا وہ جواب دیں گے «لَبَّیْکَ رَبّنَا وَسَعْدَیْک» پھر آواز آئے گی کہ ’ اللہ تجھے حکم دیتا ہے کہ اپنی اولاد میں جہنم کا حصہ نکال ‘ ، پوچھیں گے اللہ کتنا ؟ حکم ہوگا ’ ہر ہزار میں سے نو سو نناوے ‘ اس وقت حاملہ کے حمل گرجائیں گے ، بچے بوڑھے ہو جائیں گے ، اور لوگ حواس باختہ ہو جائیں گے کسی نشے سے نہیں بلکہ اللہ کے عذابوں کی سختی کی وجہ سے ۔ یہ سن کر صحابہ رضی اللہ عنہم کے چہرے متغیر ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { یاجوج ماجوج میں سے نو سو ننانوے اور تم میں سے ایک ۔ تم تو ایسے ہو جیسے سفید رنگ بیل کے چند سیاہ بال جو اس کے پہلو میں ہوں ۔ یامثل چند سفید بالوں کے جو سیاہ رنگ بیل کے پہلو میں ہوں } } ۔ پھر فرمایا { مجھے امید ہے کہ تمام اہل جنت کی گنتی میں تمہاری گنتی چوتھے حصے کی ہوگی } ، ہم نے اس پر تکبیر کہی ۔ پھر فرمایا { آدھی تعداد میں باقی سب اور آدھی تعداد صرف تمہاری } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4841) اور روایت میں ہے کہ { صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم پھر وہ ایک خوش نصیب ہم میں سے کون ہوگا؟ جب کہ یہ حالت ہے } ۔ ۱؎ (سلسلۃ احادیث صحیحہ البانی:3307،) اور روایت میں ہے { تم اللہ کے سامنے ننگے پیروں ننگے بدن بے ختنہ حاضر کئے جاؤ گے ، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مرد عورتیں ایک ساتھ ؟ ایک دوسرے پر نظریں پڑیں گی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { عائشہ وہ وقت نہایت سخت اور خطرناک ہو گا } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6527) مسند احمد میں ہے { ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ” میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا دوست اپنے دوست کو قیامت کے دن یاد کرے گا ؟ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { عائشہ تین موقعوں پر کوئی کسی کو یاد نہ کرے گا ۔ اعمال کے تول کے وقت جب تک کمی زیادتی نہ معلوم ہو جائے ۔ اعمال ناموں کے اڑائے جانے کے وقت جب تک دائیں بائیں ہاتھ میں نہ آ جائیں ۔ اس وقت جب کہ جہنم میں سے ایک گردن نکلے گی جو گھیرلے گی اور سخت غیظ وغضب میں ہوگی اور کہے گی میں تین قسم کے لوگوں پر مسلط کی گئی ہوں ایک تو وہ لوگ جو اللہ کے سوا دوسروں کو پکارتے رہتے ہیں دوسرے وہ جو حساب کے دن پر ایمان نہیں لاتے اور تیسرے ہر سرکش ضدی متکبر پر پھر تو وہ انہیں سمیٹ لے گی اور چن چن کر اپنے پیٹ میں پہنچا دے گی جہنم پر پل صراط ہو گی جو بال سے باریک اور تلوار سے تیز ہو گی اس پر آنکس اور کانٹے ہوں گے جسے اللہ چاہے پکڑ لے گی اس پر سے گزرنے والے مثل بجلی کے ہوں گے مثل آنکھ جھپکنے کے مثل ہوا کے مثل تیزرفتار گھوڑوں اور اونٹوں کے فرشتے ہر طرف کھڑے دعائیں کرتے ہوں گے کہ اللہ سلامتی دے اللہ بچا دے پس بعض تو بالکل صحیح سالم گزر جائیں گے بعض کچھ چوٹ کھا کر بچ جائیں گے بعض اوندھے منہ جہنم میں گریں گے} } ۔ ۱؎ (مسند احمد:110/6:ضعیف) قیامت کے آثار میں اور اس کی ہولناکیوں میں اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں ۔ جن کی جگہ اور ہے ۔ یہاں فرمایا ’ قیامت کا زلزلہ نہایت خطرناک ہے بہت سخت ہے نہایت مہلک ہے دل دہلانے والا اور کلیجہ اڑانے والا ہے ‘ ۔ زلزلہ رعب و گھبراہٹ کے وقت دل کے ہلنے کو کہتے ہیں جیسے آیت میں ہے کہ «ہُنَالِکَ ابْتُلِیَ الْمُؤْمِنُونَ وَزُلْزِلُوا زِلْزَالًا شَدِیدًا» ۱؎ (33-الأحزاب:11) ’ اس میدان جنگ میں مومنوں کو مبتلا کیا گیا اور سخت جھنجھوڑ دئے گئے ‘ ۔ جب تم اسے دیکھو گے یہ ضمیر شان کی قسم سے ہے اسی لیے اس کے بعد اس کی تفسیر ہے کہ ’ اس سختی کی وجہ سے دودھ پلانے والی ماں اپنے دودھ پیتے بچے کو بھول جائے گی اور حاملہ کے حمل ساقط ہو جائیں گے ۔ لوگ بدحواس ہو جائیں گے ایسے معلوم ہوں گے جیسے کوئی نشے میں بدمست ہو رہا ہو ۔ دراصل وہ نشے میں نہ ہوں گے بلکہ اللہ کے عذابوں کی سختی نے انہیں بے ہوش کر رکھا ہو گا ‘ ۔ الحج
2 الحج
3 ازلی مردہ لوگ جو لوگ موت کے بعد کی زندگی کے منکر ہیں اور اللہ کو اس پر قادر نہیں مانتے اور فرمان الٰہی سے ہٹ کر نبیوں کی تابعداری کو چھوڑ کر سرکش انسانوں اور جنوں کی ماتحتی کرتے ہیں ان کی جناب باری تعالیٰ تردید فرما رہا ہے ، ’ آپ دیکھیں گے کہ جتنے بدعتی اور گمراہ لوگ ہیں وہ حق سے منہ پھیر لیتے ہیں ، باطل کی اطاعت میں لگ جاتے ہیں ۔ اللہ کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو چھوڑ دیتے ہیں اور گمراہ سرداروں کی مانتے ہیں وہ ازلی مردود ہے اپنی تقلید کرنے والوں کو وہ بہکاتا رہتا ہے اور آخرش انہیں عذابوں میں پھانس دیتا ہے جو جہنم کی جلانے والی آگ کے ہیں ‘ ۔ یہ آیت نضر بن حارث کے بارے میں اتری ہے اس خبیث نے کہا تھا کہ ذرا بتلاؤ تو اللہ تعالیٰ سونے کا ہے یا چاندی کا یا تانبے کا اس کے اس سوال سے آسمان لرز اٹھا اور اس کی کھوپڑی اڑ گئی ۔ ایک روایت میں ہے کہ ایک یہودی نے ایسا ہی سوال کیا تھا اسی وقت آسمانی کڑاکے نے اسے ہلاک کردیا ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:20267:مرسل ضعیف) الحج
4 الحج
5 پہلی پیدائش دوسری پیدائش کی دلیل مخالفین اور منکرین قیامت کے سامنے دلیل بیان کی جاتی ہے کہ ’ اگر تمہیں دوسری بار کی زندگی سے انکار ہے تو ہم اس کی دلیل میں تمہاری پہلی دفعہ کی پیدائش تمہیں یاد دلاتے ہیں ‘ ۔ تم اپنی اصلیت پر غور کر کے دیکھو کہ ہم نے تمہیں مٹی سے بنایا ہے یعنی تمہارے باپ آدم علیہ السلام کو جن کی نسل تم سب ہو ۔ پھر تم سب کو ذلیل پانی کے قطروں سے پیدا کیا ہے جس نے پہلے خون بستہ کی شکل اختیار کی پھر گوشت کا ایک لوتھڑا بنا ۔ چالیس دن تک تو نطفہ اپنی شکل میں بڑھتا ہے پھر بحکم الٰہی اس میں خون کی سرخ پھٹکی پڑتی ہے ، پھر چالیس دن کے بعد وہ ایک گوشت کے ٹکڑے کی شکل اختیار کر لیتا ہے جس میں کوئی صورت و شبیہ نہیں ہوتی ، پھر اللہ تعالیٰ اسے صورت عنایت فرماتا ہے سر ، ہاتھ ، سینہ ، پیٹ ، رانیں ، پاؤں اور کل اعضاء بنتے ہیں ۔ کبھی اس سے پہلے ہی حمل ساقط ہو جاتا ہے ، کبھی اس کے بعد بچہ گر پڑتا ہے ۔ یہ تو تمہارے مشاہدے کی بات ہے ۔ اور کبھی ٹھہرجاتا ہے ۔ جب اس لوتھڑے پر چالیس دن گزر جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرشتے کو بھیجتا ہے جو اسے ٹھیک ٹھاک اور درست کرکے اس میں روح پھونک دیتا ہے اور جیسے اللہ چاہتا ہو خوبصورت بدصورت مرد عورت بنا دیا جاتا ہے رزق ، اجل ، نیکی ، بدی اسی وقت لکھ دی جاتی ہے ۔ بخاری و مسلم میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { تم میں سے ہر ایک کی پیدائش اس کی ماں کے پیٹ میں چالیس رات تک جمع ہوتی ہے ۔ پھر چالیس دن تک خون بستہ کی صورت رہتی ہے ، پھر چالیس دن تک گوشت کے لوتھڑے کی ، پھر فرشتے کو چار چیزیں لکھ دینے کا حکم دے کر بھیجا جاتا ہے ۔ رزق ، عمل ، اجل ، شقی یا سعید ہونا لکھ لیا جاتا ہے پھر اس میں روح پھونکی جاتی ہے } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3208) عبداللہ فرماتے ہیں نطفے کے رحم میں ٹھہرتے ہی فرشتہ پوچھتا ہے کہ ” اے اللہ یہ مخلوق ہو گا یا نہیں ؟ “ اگر انکار ہوا تو وہ جمتا ہی نہیں ۔ خون کی شکل میں رحم اسے خارج کر دیتا ہے اور اگر حکم ملا کہ اس کی پیدائش کی جائے گی تو فرشتہ دریافت کرتا ہے کہ لڑکا ہو گا یا لڑکی ؟ نیک ہو گا یا بد ؟ اجل کیا ہے ؟ اثر کیا ہے ؟ کہاں مرے گا ؟ پھر نطفے سے پوچھا جاتا ہے تیرے رب کون ہے وہ کہتا ہے اللہ ! ، پوچھا جاتا ہے رازق کون ہے ؟ کہتا ہے کہ اللہ ! ۔ پھر فرشتے سے کہا جاتا ہے تو جا اور اصل کتاب میں دیکھ لے وہیں اس کا حال مل جائے گا پھر وہ پیدا کیا جاتا ہے لکھی ہوئی زندگی گزارتا ہے مقدر کا رزق پاتا ہے مقررہ جگہ چلتا پھرتا ہے پھر موت آتی ہے اور دفن کیا جاتا ہے جہاں دفن ہونا مقدر ہے ۔ پھر عامر رحمتہ اللہ علیہ نے یہی آیت تلاوت فرمائی مضغہ ہونے کے بعد چوتھی پیدائش کی طرف لوٹایا جاتا ہے اور ذی روح بنتا ہے ۔ حضرت حذیفہ بن اسید رضی اللہ عنہ کی مرفوع روایت میں ہے کہ { چالیس پینتالیس دن جب نطفے پر گزر جاتے ہیں تو فرشتہ دریافت کرتا ہے کہ یہ دوزخی ہے یا جنتی ؟ جو جواب دیا جاتا ہے لکھ لیتا ہے پھر پوچھتا ہے لڑکا ہے یا لڑکی ؟ جو جواب ملتا ہے لکھ لیتا ہے پھر عمل اور اثر اور رزق اور اجل لکھی جاتی ہے اور صحیفہ لپیٹ لیا جاتا ہے جس میں نہ کمی ممکن ہے نہ زیادتی } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2643) پھر بچہ ہو کردنیا میں تولد ہوتا ہے نہ عقل ہے نہ سمجھ ۔ کمزور ہے اور تمام اعضاء ضعیف ہیں پھر اللہ تعالیٰ بڑھاتا رہتا ہے ماں باپ کو مہربان کر دیتا ہے ۔ دن رات انہیں اس کی فکر رہتی ہے تکلیفیں اٹھا کر پرورش کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ پروان چڑھاتا ہے ۔ یہاں تک کہ عنفوان جوانی کا زمانہ آتا ہے خوبصورت تنومند ہو جاتا ہے بعض تو جوانی میں ہی چل بستے ہیں بعض بوڑھے پھونس ہو جاتے ہیں کہ پھر عقل وخرد کھوبیٹھتے ہیں اور بچوں کی طرح ضعیف ہو جاتے ہیں ۔ حافظہ ، فہم ، فکر سب میں فتور پڑ جاتا ہے علم کے بعد بےعلم ہو جاتے ہیں ۔ جیسے فرمان ہے آیت «اَللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ ﮨـعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْ بَعْدِ ﮨـعْفٍ قُوَّۃً ثُمَّ جَعَلَ مِنْ بَعْدِ قُوَّۃٍ ﮨـعْفًا وَّشَیْبَۃً یَخْلُقُ مَا یَشَاءُ وَہُوَ الْعَلِیْمُ الْقَدِیْرُ» ۱؎ (30-الروم:54) ’ اللہ نے تمہیں کمزوری میں پیدا کیا پھر زور دیا پھر اس قوت وطاقت کے بعد ضعف اور بڑھاپا آیا جو کچھ وہ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے پورے علم والا اور کامل قدرت والا ہے ‘ ۔ مسند حافظ ابو یعلیٰ موصلی میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { بچہ جب تک بلوغت کو نہ پہنچے اس کی نیکیاں اس کے باپ کے یا ماں باپ کے نامہ اعمال میں لکھی جاتی ہیں اور برائی نہ اس پر ہوتی ہے نہ ان پر ۔ بلوغت پر پہنچتے ہی قلم اس پر چلنے لگتا ہے اس کے ساتھ کے فرشتوں کو اس کی حفاظت کرنے اور اسے درست رکھنے کا حکم مل جاتا ہے ۔ جب وہ اسلام میں ہی چالیس سال کی عمر کو پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے تین بلاؤں سے نجات دے دیتا ہے جنون اور جذام سے اور برص سے ، جب اسے اللہ تعالیٰ کے دین پر بچاس سال گزرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کے حساب میں تخفیف کر دیتا ہے جب وہ ساٹھ سال کا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی رضا مندی کے کاموں کی طرف اس کی طبعیت کا پورا میلان کر دیتا ہے اور اسے اپنی طرف راغب کر دیتا ہے جب وہ ستر برس کا ہو جاتا ہے تو آسمانی فرشتے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور جب وہ اسی برس کا ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی نیکیاں تو لکھتا ہے لیکن برائیوں سے تجاوز فرما لیتا ہے ۔ جب وہ نوے برس کی عمر کو پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے اگلے پچھلے گناہ بخش دیتا ہے اس کے گھرانے والوں کے لیے اسے سفارشی اور شفیع بنا دیتا ہے وہ اللہ کے ہاں امین اللہ کا خطاب پاتا ہے اور زمین میں اللہ کے قیدیوں کی طرح رہتا ہے جب بہت بڑی ناکارہ عمر کو پہنچ جاتا ہے جب کہ علم کے بعد بے علم ہو جاتا ہے تو جو کچھ وہ اپنی صحت اور ہوش کے زمانے میں نیکیاں کیا کرتا تھا سب اس کے نامہ اعمال میں برابر لکھی جاتی ہیں اور اگر کوئی برائی اس سے ہو گئی تو وہ نہیں لکھی جاتی } } ۔ ۱؎ (مسند ابو یعلی:3678:ضعیف) یہ حدیث بہت غریب ہے اور اس میں سخت نکارت ہے باوجود اس کے اسے امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ اپنی مسند میں لائے ہیں موقوفاً بھی اور مرفوعاً بھی ۔ انس رضی اللہ عنہ سے موقوفاً مروی ہے اور عبداللہ بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے از فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ ۱؎ (مسند احمد:89/2:ضعیف) پھر انس رضی اللہ عنہ سے ہی دوسری سند سے مرفوعاً یہی وارد کی ہے ۔ ۱؎ (مسند احمد:217/3:ضعیف) حافظ ابوبکر بن بزار رحمتہ اللہ علیہ نے بھی اسے بہ روایت انس بن مالک رضی اللہ عنہ مرفوع میں بیان کیا ہے ۔ ۱؎ (مسند بزار:3587:ضعیف) [ اور مسلمانوں پر رب کی مہربانی کا تقاضا بھی یہی ہے ۔ اللہ ہماری عمر میں نیکی کے ساتھ برکت دے آمین] مردوں کے زندہ کر دینے کی ایک دلیل یہ بیان کر کے پھر دوسری دلیل بیان فرماتا ہے کہ ’ چٹیل میدان بے روئیدگی کی خشک اور سخت زمین کو ہم آسمانی پانی سے لہلہاتی اور تروتازہ کر دیتے ہیں طرح طرح کے پھل پھول میوے دانے وغیرہ کے درختوں سے سرسبز ہو جاتی ہے قسم قسم کے درخت اگ آتے ہیں اور جہاں کچھ نہ تھا وہاں سب کچھ ہو جاتا ہے مردہ زمین ایک دم زندگی کے کشادہ سانس لینے لگتی ہے جس جگہ ڈرلگتا تھا وہاں اب راحت روح اور نورعین اور سرور قلب موجود ہو جاتا ہے قسم قسم کے طرح طرح کے میٹھے کھٹے خوش ذائقہ مزیدار رنگ روپ والے پھل اور میوؤں سے لدے ہوئے خوبصورت چھوٹے بڑے جھوم جھوم کر بہار کا لطف دکھانے لگتے ہیں ‘ ۔ یہی وہ مردہ زمین ہے جو کل تک خاک اڑا رہی تھی آج دل کا سرور اور آنکھوں کا نور بن کر اپنی زندگی کی جوانی کامزا دی رہی ہے ۔ پھولوں کے چھوٹے چھوٹے پودے دماغ کو مخزن عطار بنا دیتے ہیں دور سے نسیم کے ہلکے ہلکے جھونکے کتنے خوشگوار معلوم ہوتے ہیں ۔ سچ ہے خالق ، مدبر ، اپنی چاہت کے مطابق کرنے والا ، خود مختیار حاکم حقیقی اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ وہی مردوں کو زندہ کرنے والا ہے اور اس کی نشانی مردہ زمین کا زندہ ہونا مخلوق کی نگاہوں کے سامنے ہے ۔ وہ ہر انقلاب پر ہر قلب ماہیت پر قادر ہے جو چاہتا ہے ہو جاتا ہے ۔ جس کام کا ارادہ کرتا ہے ، فرماتا ہے ہو جا ، پھر ناممکن ہے کہ وہ کہتے ہی ہو نہ جائے جیسے کہ آیت میں ہے «إِنَّمَا أَمْرُہُ إِذَا أَرَادَ شَیْئًا أَن یَقُولَ لَہُ کُن فَیَکُونُ» ۱؎ (36-یس:82) ۔ یاد رکھو قیامت قطعا بلا شک و شبہ آنے والی ہی ہے اور قبروں کے مردوں کو وہ قدرت والا اللہ زندہ کر کے اٹھانے والا ہے وہ عدم سے وجود میں لانے پر قادر تھا اور ہے اور رہے گا ۔ سورۃ یاسین میں بھی بعض لوگوں کے اس اعتراض کا ذکر کر کے انہیں ان کی پہلی پیدائش یاد دلا کر قائل کیا گیا ہے ساتھ ہی سبز درخت سے آگ پیدا کرنے کی قلب ماہیت کو بھی دلیل میں پیش فرمایا گیا ہے اور آیتیں بھی اس بارے میں بہت سی ہیں ۔ سیدنا لقیط بن عامر رضی اللہ عنہ جو ابورزین عقیلی کی کنیت سے مشہور ہیں { ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرتے ہیں کہ کیا ہم لوگ سب کے سب قیامت کے دن اپنے رب تبارک وتعالیٰ کو دیکھیں گے ؟ اور اس کی مخلوق میں اس دیکھنے کی مثال کوئی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { کیا تم سب کے سب چاند کو یکساں طور پر نہیں دیکھتے ؟ } ہم نے کہا ” ہاں “ فرمایا { پھر اللہ تو بہت بڑی عظمت والا ہے } ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے پھر پوچھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کو دوبارہ زندہ کرنے کی بھی کوئی مثال دنیا میں ہے ؟ جواب ملا کہ { کیا ان جنگلوں سے تم نہیں گزرے جو غیر آباد ویران پڑے ہوں خاک اڑ رہی ہو خشک مردہ ہو رہیں پھر دیکھتے ہو کہ وہی ٹکڑا سبزے سے اور قسم قسم کے درختوں سے ہرا بھرا نوپید ہو جاتا ہے بارونق بن جاتا ہے اسی طرح اللہ مردوں کو زندہ کرتا ہے اور مخلوق میں یہی دیکھی ہوئی مثال اس کا کافی نمونہ اور ثبوت ہے } } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4731،قال الشیخ الألبانی:حسن) معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” جو اس بات کا یقین رکھے کہ اللہ تعالیٰ حق ہے اور قیامت قطعا بے شبہ آنے والی ہے اور اللہ تعالیٰ مردوں کو قبروں سے دوبارہ زندہ کرے گا وہ یقیناً جنتی ہے “ ۔ الحج
6 الحج
7 الحج
8 گمراہ جاہل مقلد لوگ چونکہ اوپر کی آیتوں میں گمراہ جاہل مقلدوں کا حال بیان فرمایا تھا یہاں ان کے مرشدوں اور پیروں کا حال بیان فرما رہے ہیں کہ ’ وہ بےعقلی اور بے دلیلی سے صرف رائے قیاس اور خواہش نفسانی سے اللہ کے بارے میں کلام کرتے رہتے ہیں ، حق سے اعراض کرتے ہیں ، تکبر سے گردن پھیرلیتے ہیں ، حق کو قبول کرنے سے بےپراوہی کے ساتھ انکار کرجاتے ہیں جیسے فرعونیوں نے موسیٰ علیہ السلام کے کھلے معجزوں کو دیکھ کر بھی بےپراوہی کی اور نہ مانے ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَإِذَا قِیلَ لَہُمْ تَعَالَوْا إِلَیٰ مَا أَنزَلَ اللہُ وَإِلَی الرَّسُولِ رَأَیْتَ الْمُنَافِقِینَ یَصُدٰونَ عَنکَ صُدُودًا» ۱؎ (4-النساء:61) ’ جب ان سے اللہ کی وحی کی تابعداری کو کہا جاتا ہے اور رسول اللہ کے فرمان کی طرف بلایا جاتا ہے تو تو دیکھے گا کہ اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ منافق تجھ سے دور چلے جایا کرتے ہیں ‘ ۔ سورۃ المنافقون میں ارشاد ہوا کہ «وَإِذَا قِیلَ لَہُمْ تَعَالَوْا یَسْتَغْفِرْ لَکُمْ رَسُولُ اللہِ لَوَّوْا رُءُوسَہُمْ وَرَأَیْتَہُمْ یَصُدٰونَ وَہُم مٰسْتَکْبِرُونَ» ۱؎ (63-المنافقون:5) ’ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ اور اپنے لیے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے استغفار کرواؤ تو وہ اپنے سرگھما کر گھمنڈ میں آ کر بے نیاز ی سے انکار کرجاتے ہیں ‘ ۔ لقمان رحمہ اللہ نے اپنے صاحبزادے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا آیت «وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّکَ للنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبٰ کُلَّ مُخْـتَالٍ فَخُــوْرٍ» ۱؎ (31-لقمان:18) ’ لوگوں سے اپنے رخسار نہ پھلادیا کر یعنی اپنے آپ کو بڑا سمجھ کر ان سے تکبر نہ کر ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَإِذَا تُتْلَیٰ عَلَیْہِ آیَاتُنَا وَلَّیٰ مُسْتَکْبِرًا کَأَن لَّمْ یَسْمَعْہَا کَأَنَّ فِی أُذُنَیْہِ وَقْرًا فَبَشِّرْہُ بِعَذَابٍ أَلِیمٍ» ۱؎ (31-لقمان:7) ’ ہماری آیتیں سن کر یہ تکبر سے منہ پھیرلیتا ہے ‘ ۔ «لِیُضِلَّ» کا لام یہ تو لام عاقبت ہے یا لام تعلیل ہے اس لیے کہ بسا اوقات اس کا مقصود دوسروں کو گمراہ کرنا نہیں ہوتا اور ممکن ہے کہ اس سے مراد معاند اور انکار ہی ہو اور ہوسکتا ہے کہ یہ مطلب ہو کہ ہم نے اسے ایسا بداخلاق اس لیے بنا دیا ہے کہ یہ گمراہوں کا سردار بن جائے ۔ اس کے لیے دنیا میں بھی ذلت وخواری ہے جو اس کے تکبر کا بدلہ ۔ یہ یہاں تکبر کر کے بڑا بننا چاہتا تھا ہم اسے اور چھوٹا کر دیں گے یہاں بھی اپنی چاہت میں ناکام اور بے مراد رہے گا ۔ اور آخرت کے دن بھی جہنم کی آگ کا لقمہ ہو گا ۔ اسے بطور ڈانٹ ڈپٹ کے کہا جائے کا کہ ’ یہ تیرے اعمال کا نتیجہ ہے اللہ کی ذات ظلم سے پاک ہے ‘ ۔ جیسے فرمان ہے کہ «خُذُوہُ فَاعْتِلُوہُ إِلَیٰ سَوَاءِ الْجَحِیمِ ثُمَّ صُبٰوا فَوْقَ رَ‌أْسِہِ مِنْ عَذَابِ الْحَمِیمِ ذُقْ إِنَّکَ أَنتَ الْعَزِیزُ الْکَرِ‌یمُ إِنَّ ہٰذَا مَا کُنتُم بِہِ تَمْتَرُ‌ونَ» (44-الدخان:47-50) ’ فرشتوں سے کہا جائے گا کہ اسے پکڑ لو اور گھسیٹ کر جہنم میں لے جاؤ اور اس کے سر پر آگ جیسے پانی کی دھار بہاؤ ۔ لے اب اپنی عزت اور تکبر کا بدلہ لیتا جا ۔ یہی وہ ہے جس سے عمربھر شک شبہ میں رہا ‘ ۔ حسن رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں مجھے یہ روایت پہنچی ہے کہ { ایک دن میں وہ ستر ستر مرتبہ آگ میں جل کر بھرتا ہو جائے گا ۔ پھر زندہ کیا جائے گا پھر جلایا جائے گا } ۔ ۱؎ (ابن ابی حاتم) «اعاذنا اللہ» ۔ الحج
9 الحج
10 الحج
11 شک کے مارے لوگ «حَرْفٍ» کے معنی شک کے ایک طرف کے ہیں ۔ گویا وہ دین کے ایک کنارے کھڑے ہو جاتے ہیں فائدہ ہوا تو پھولے نہیں سماتے ، نقصان دیکھا بھاگ کھڑے ہوئے ۔ صحیح بخاری شریف میں [ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ ] سے مروی ہے کہ { اعراب ہجرت کر کے مدینے پہنچتے تھے اب اگر بال بچے ہوئے جانوروں میں برکت ہوئی تو کہتے یہ دین بڑا اچھا ہے اور اگر نہ ہوئے تو کہتے یہ دین تو نہایت برا ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4742) ابن حاتم میں آپ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ” اعراب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے اسلام قبول کرتے واپس جا کر اگر اپنے ہاں بارش ، پانی پاتے ، جانوروں میں ، گھربار میں برکت دیکھتے تو اطمینان سے کہتے بڑا اچھا دین ہے اور اگر اس کے خلاف دیکھتے تو جھٹ سے بک دیتے کہ اس دین میں سوائے نقصان کے اور کچھ نہیں ، اس پر یہ آیت اتری “ ۔ بروایت عوفی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ ” ایسے لوگ بھی تھے جو مدینے پہنچتے ہی اگر ان کے ہاں لڑکا ہوتا یا ان کی اونٹنی بچہ دیتی تو انہیں راحت ہوئی تو خوش ہو جاتے اور ان کی تعریفیں کرنے لگتے اور اگر کوئی بلا ، مصیبت آ گئی ، مدینے کی ہوا موافق نہ آئی ، گھر میں لڑکی پیدا ہو گئی ، صدقے کا مال میسر نہ ہوا توشیطانی وسوسے میں آ جاتے اور صاف کہہ دیتے کہ اس دین میں تو مشکل ہی مشکل ہے “ ۔ عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ ” یہ حالت منافقوں کی ہے ، دنیا اگر مل گئی تو دین سے خوش ہیں جہاں نہ ملی یا امتحان آ گیا فوراً پلہ جھاڑلیا کرتے ہیں ، مرتد کافر ہو جاتے ہیں “ ۔ یہ پورے بدنصیب ہیں دنیا آخرت دونوں برباد کر لیتے ہیں اس سے زیادہ اور بربادی کیا ہوتی ؟ جن ٹھاکروں ، بتوں اور بزرگوں سے یہ مدد مانگتے ہیں ، جن سے فریاد کرتے ہیں ، جن کے پاس اپنی حاجتیں لے کر جاتے ہیں ، جن سے روزیاں مانگتے ہیں وہ تو محض عاجز ہیں ، نفع نقصان ان کے ہاتھ ہی نہیں ۔ سب سے بڑی گمراہی یہی ہے ۔ دنیا میں بھی ان کی عبادت سے نقصان نفع سے پیشتر ہی ہو جاتا ہے ۔ اور آخرت میں ان سے جو نقصان پہنچے گا اس کا کہنا ہی کیا ہے ؟ یہ بت تو ان کے نہایت برے والی اور نہایت برے ساتھی ثابت ہوں گے ۔ یا یہ مطلب کہ ایسا کرنے والے خود بہت ہی بد اور بڑے ہی برے ہیں لیکن پہلی تفسیر زیادہ اچھی ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ الحج
12 الحج
13 الحج
14 یقین کے مالک لوگ برے لوگوں کا بیان کر کے بھلے لوگوں کا ذکر ہو رہا ہے جن کے دلوں میں یقین کا نور ہے اور جن کے اعمال میں سنت کا ظہور ہے بھلائیوں کے خواہاں برائیوں سے گریزاں ہیں یہ بلند محلات میں عالی درجات میں ہونگے کیونکہ یہ راہ یافتہ ہیں ان کے علاوہ سب لوگ حواس باختہ ہیں ۔ اب جو چاہے کرے جو چاہے رکھے دھرے ۔ الحج
15 مخالفین نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہلاک ہوں یعنی جو یہ جان رہا ہے کہ ’ اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد نہ دنیا میں کرے گا نہ آخرت میں وہ یقین مانے کہ اس کا یہ خیال محض خیال ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد ہو کر ہی رہے گی چاہے ایسا شخص اپنے غصے میں ہار ہی جائے بلکہ اسے چاہے کہ اپنے مکان کی چھت میں رسی باندھ کر اپنے گلے میں پھندا ڈال کر اپنے آپ کو ہلاک کر دے ۔ ناممکن ہے کہ وہ چیز یعنی اللہ کی مدد اس کے نبی کے لیے نہ آئے گو یہ جل جل کر مرجائیں مگر ان کی خیال آرائیاں غلط ثابت ہو کر رہیں گی ‘ ۔ یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ اس کی سمجھ کے خلاف ہو کر ہی رہے گا ۔ اللہ کی امداد آسمان سے نازل ہو گی ۔ ہاں اگر اس کے بس میں ہو تو ایک رسی لٹکا کر آسمان پر چڑھ جائے اور اس اترتی ہوئی مدد آسمانی کو کاٹ دے ۔ لیکن پہلا معنی زیادہ ظاہر ہے اور اس میں ان کی پوری بے بسی اور نامرادی کا ثبوت ہے کہ اللہ اپنے دین کو اپنی کتاب کو اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ترقی دے گا ہی چونکہ یہ لوگ اسے دیکھ نہیں سکتے اس لیے انہیں چاہیئے کہ یہ مرجائیں ، اپنے آپ کو ہلاک کر ڈالیں ۔ جیسے فرمان ہے آیت «إِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِینَ آمَنُوا فِی الْحَیَاۃِ الدٰنْیَا وَیَوْمَ یَقُومُ الْأَشْہَادُ یَوْمَ لَا یَنفَعُ الظَّالِمِینَ مَعْذِرَتُہُمْ وَلَہُمُ اللَّعْنَۃُ وَلَہُمْ سُوءُ الدَّارِ» ۱؎ (40-غافر:52،51) ’ ہم اپنے رسولوں کی اور ایماندروں کی مدد کرتے ہی ہیں دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ‘ ۔ یہاں فرمایا کہ ’ یہ پھانسی پر لٹک کر دیکھ لے کہ شان محمدی کو کس طرح کم کر سکتا ہے ؟ اپنے سینے کی آگ کو کسی طرح بجھا سکتا ہے اس قرآن کو ہم نے اتارا ہے جس کی آیتیں الفاظ اور معنی کے لحاظ سے بہت ہی واضع ہیں ۔ اللہ کی طرف سے اس کے بندوں پر یہ حجت ہے ۔ ہدایت گمراہی اللہ کے ہاتھ میں ہے اس کی حکمت وہی جانتا ہے کوئی اس سے بازپرس نہیں کر سکتا وہ سب کا حاکم ہے ، وہ رحمتوں والا ، عدل والا ، غلبے والا ، حکمت والا ، عظمت والا ، اور علم والا ہے ‘ ۔ «لَا یُسْأَلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَہُمْ یُسْأَلُونَ» ۱؎ (21-الانبیاء:23) ’ کوئی اس پر مختار نہیں جو چاہے کرے سب سے حساب لینے والا وہی ہے اور وہ بھی بہت جلد ‘ ۔ الحج
16 الحج
17 مختلف مذہبوں کا فیصلہ روز قیامت ہو گا «صَّابِئِینَ» کا بیان مع اختلاف سورۃ البقرہ کی تفسیر میں گزر چکا ہے یہاں فرماتا ہے کہ ’ ان مختلف مذہب والوں کا فیصلہ قیامت کے دن صاف ہو جائے گا ۔ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو جنت دے گا اور کفار کو جہنم واصل کرے گا ۔ سب کے اقوال وافعال ظاہر وباطن اللہ پر عیاں ہیں ‘ ۔ الحج
18 چاند سورج ستارے سب سجدہ ریز مستحق عبادت صرف وحدہ لاشریک اللہ ہے اس کی عظمت کے سامنے ہر چیز سر جھکائے ہوئے ہے خواہ بخوشی خواہ بے خوشی ۔ ہر چیز کا سجدہ اپنی وضع ہر چیز کا سجدہ اپنی وضع میں ہے ۔ چنانچہ قرآن نے سائے کا دائیں بائیں اللہ کے سامنے سر بہ سجود ہونا بھی آیت «اَوَلَمْ یَرَوْا اِلٰی مَا خَلَقَ اللّٰہُ مِنْ شَیْءٍ یَّتَفَیَّؤُا ظِلٰلُہٗ عَنِ الْیَمِیْنِ وَالشَّمَایِٕلِ سُجَّدًا لِّلّٰہِ وَہُمْ دٰخِرُوْنَ» ۱؎ (16-النحل:48) میں بیان فرمایا ہے ۔ آسمانوں کے فرشتے ، زمین کے حیوان ، انسان ، جنات ، پرند ، چرند ، سب اس کے سامنے سربہ سجود ہیں اور اس کی تسبیح اور حمد کر رہے ۔ سورج چاند ستارے بھی اس کے سامنے سجدے میں گرے ہوئے ہیں ۔ ان تینوں چیزوں کو الگ اس لیے بیان کیا گیا کہ بعض لوگ ان کی پرستش کرتے ہیں حالانکہ وہ خود اللہ کے سامنے جھکے ہوئے ہیں اسی لیے فرمایا ’ سورج چاند کو سجدے نہ کرو اسے سجدے کرو جو ان کا خالق ہے ‘ ۔ بخاری و مسلم میں ہے { رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے پوچھا { جانتے ہو کہ یہ سورج کہاں جاتا ہے ؟ } آپ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ ” اللہ کو علم ہے اور اس کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو “ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { یہ عرش تلے جا کر اللہ کو سجدہ کرتا ہے پھر اس سے اجازت طلب کرتا ہے وقت آ رہا ہے کہ اس سے ایک دن کہہ دیا جائے گا کہ جہاں سے آیا ہے وہیں واپس چلا جا } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3199) سنن ابی داؤد ، نسائی ، ابن ماجہ ، اور مسند احمد میں گرہن کی حدیث میں ہے کہ { سورج چاند اللہ کی مخلوق ہے وہ کسی کی موت پیدائش سے گرہن میں نہیں آتے بلکہ اللہ تعالیٰ اپنی میں سے جس کس پر تجلی ڈالتا ہے تو وہ اس کے سامنے جھک جاتا ہے } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:1193،قال الشیخ الألبانی:منکر) ابو العالیہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں سورج چاند اور کل ستارے غروب ہو کر سجدے میں جاتے ہیں اور اللہ سے اجازت مانگ کر داہنی طرف سے لوٹ کر پھر اپنے مطلع میں پہنچتے ہیں ۔ پہاڑوں اور درختوں کا سجدے میں ان کے سائے کا دائیں بائیں پڑنا ہے ۔ { ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنا خواب بیان کیا کہ میں نے دیکھا ہے کہ گویا میں ایک درخت کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہوں ۔ میں جب سجدے میں گیا تو وہ درخت بھی سجدے میں گیا اور میں نے سنا کہ وہ اپنے سجدے میں یہ پڑھ رہا تھا ۔ دعا «اللَّہُمَّ اکْتُبْ لِی بِہَا عِنْدَکَ أَجْرًا وَضَعْ عَنِّی بِہَا وِزْرًا وَاجْعَلْہَا لِی عِنْدَکَ ذُخْرًا وَتَقَبَّلْہَا منی منّی کَمَا تَقَبّلْتَہا مِنْ عَبْدِکَ دَاوُودَ» ۔ یعنی ” اے اللہ اس سجدے کی وجہ سے میرے لیے اپنے پاس اجر و ثواب لکھ اور میرے گناہ معاف فرما اور میرے لیے اسے ذخیرہ آخرت کر اور اسے قبول فرما جسے کہ تو نے اپنے بندے داؤد علیہ السلام کا سجدہ قبول فرمایا تھا “ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ پھر میں نے دیکھا کہ ایک دن رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدے کی آیت پڑھی ۔ سجدہ کیا اور یہی دعا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس سجدے میں پڑھی جسے میں سن رہا تھا } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:579،قال الشیخ الألبانی:حسن) تمام حیوانات بھی اسے سجدہ کرتے ہیں ۔ چنانچہ مسند احمد کی حدیث میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اپنے جانور کی پیٹھ کو اپنا منبر نہ بنا لیا کرو بہت سی سواریاں اپنے سوار سے زیادہ اچھی ہوتی ہیں اور زیادہ ذکر اللہ کرنے والی ہوتی ہیں } ۔ ۱؎ (مسند احمد:440/3:حسن ضعیف) اکثر انسان بھی اپنی خوشی سے عبادت الٰہی بجا لاتے ہیں اور سجدے کرتے ہیں ہاں وہ بھی ہیں جو اس سے محروم ہیں تکبر کرتے ہیں ۔ سرکشی کرتے ہیں اللہ جسے ذلیل کرے اسے عزیز کون کر سکتا ہے ؟ رب فاعل خودمختار ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے کسی نے کہا یہاں ایک شخص ہے جو اللہ کے ارادوں اور اس کی مشیت کو نہیں مانتا ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اسے فرمایا ” اے شخض بتا تیری پیدائش اللہ تعالیٰ نے تیری چاہت کے مطابق کی یا اپنی ؟ “ اس نے کہا اپنی چاہت کے مطابق ۔ فرمایا ” یہ بھی بتا کہ جب تو چاہتا ہے مریض ہو جاتا ہے یا جب اللہ چاہتا ہے ؟ “ اس نے کہا جب وہ چاہتا ہے ۔ پوچھا ” پھر تجھے شفاء تیری چاہت سے ہوتی ہے یا اللہ کے ارادے سے ؟ “ جواب دیا اللہ کے ارادے سے ۔ فرمایا ” اچھا یہ بھی بتاکہ اب وہ جہاں چاہے گا تجھے لے جائے گا یا جہاں تو چاہے گا ؟ “ کہا جہاں وہ چاہے ۔ فرمایا ” پھر کیا بات باقی رہ گئی ؟ سن اگر تو اس کے خلاف جواب دیتا تو واللہ میں تیرا سراڑا دیتا “ ۔ مسلم شریف میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب انسان سجدے کی آیت پڑھ کر سجدہ کرتا ہے تو شیطان الگ ہٹ کر رونے لگتا ہے کہ افسوس ابن آدم کو سجدے کا حکم ملا اس نے سجدہ کر لیا جنتی ہو گیا میں نے انکار کر دیا جہنمی بن گیا } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:81) عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ { یا رسول صلی اللہ علیہ وسلم سورۃ الحج کو اور تمام سورتوں پر یہ فضیلت ملی کہ اس میں دو آیتیں سجدے کی ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ہاں اور جو ان دونوں پر سجدہ نہ کرے اسے چاہے کہ اسے پڑھے ہی نہیں } } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:1402،قال الشیخ الألبانی:حسن) امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ” یہ حدیث قوی نہیں “ ، لیکن امام صاحب رحمتہ اللہ علیہ کا یہ قول قابل غور ہے کیونکہ اس کے راوی ابن لہیہ رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی سماعت کی اس میں تصریح کر دی ہے اور ان پر بڑی جرح وتدلیس کی ہے جو اس سے اٹھ جاتی ہے ۔ ابوداؤد میں فرمان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ { سورۃ الحج کو قرآن کی اور سورتوں پر یہ فضیلت دی گئی ہے اس میں دو سجدے ہیں } ۔ ۱؎ (المراسیل لا بی داؤد:78/13:ضعیف) امام ابوداؤد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس سند سے تو یہ حدیث مستند نہیں لیکن اور سند سے یہ مسند بھی بیان کی گئی ہے مگر صحیح نہیں ۔ مروی ہے کہ { سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حدیبہ میں اس سورت کی تلاوت کی اور دوبار سجدہ کیا اور فرمایا اسے ان سجدوں سے فضیلت دی گئی } ۔ (ابوبکر بن عدی) { سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے قرآن میں پندرہ سجدے پڑھائے ، تین مفصل میں دو سورۃ الحج میں } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:1057،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) یہ سب روایتیں اس بات کو پوری طرح مضبوط کر دیتی ہیں ۔ الحج
19 مومن و کافر کی مثال سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ قسم کھا کر فرماتے تھے کہ { یہ آیت سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ اور ان کے مقابلے میں بدر کے دن جو دو کافر آئے تھے اور عتبہ اور اس کے دو ساتھیوں کے بارے میں اتری ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3966) صحیح بخاری شریف میں ہے { سیدنا علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” قیامت کے دن میں سب سے پہلے اللہ کے سامنے اپنی حجت ثابت کرنے کے لیے گھٹنوں کے بل گرجاؤں گا “ ۔ قیس فرماتے ہیں انہی کے بارے میں یہ آیت اتری ہے بدر کے دن یہ لوگ ایک دوسرے کے سامنے آئے تھے علی اور حمزہ رضی اللہ عنہم اور عبیدہ اور شیبہ اور عتبہ اور ولید } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4744) اور قول ہے کہ مراد مسلمان اور اہل کتاب ہیں ۔ اہل کتاب کہتے تھے ہمارا نبی تمہارے نبی سے اور ہماری کتاب تمہاری کتاب سے پہلے ہے اس لیے ہم اللہ سے بہ نسبت تمہارے زیادہ قریب ہیں ۔ مسلمان کہتے تھے کہ ہماری کتاب تمہاری کتاب کا فیصلہ کرتی ہے اور ہمارے نبی خاتم الانبیاء ہیں اس لیے تم سے ہم اولیٰ ہیں پس اللہ نے اسلام کو غالب کیا اور یہ آیت اتری ۔ قتادہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں مراد اس سے سچا ماننے والے اور جھٹلانے والے ہیں ۔ مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس آیت میں مومن و کافر کی مثال ہے جو قیامت میں مختلف تھے ۔ عکرمہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں مراد جنت دوزخ کا قول ہے دوزخ کی مانگ تھی کہ مجھے سزا کی چیز بنا ، اور جنت کی آرزو تھی کہ مجھے رحمت بنا ۔ مجاہد رحمتہ اللہ علیہ کا قول ان تمام اقوال میں شامل ہے اور بدر کا واقعہ بھی اس کے ضمن میں آسکتا ہے مومن اللہ کے دین کا غلبہ چاہتے تھے اور کفار نور ایمان کے بجھانے حق کو پست کرنے اور باطل کے ابھارنے کی فکر میں تھے ۔ ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ بھی اس کو مختار بتلاتے ہیں اور یہ ہے بھی بہت اچھا چنانچہ اس کے بعد ہی ہے کہ کفار کے لیے آگ کے ٹکڑے الگ الگ مقرر کر دئے جائیں گے ۔ یہ تانبے کی صورت ہوں گے جو بہت ہی حرارت پہنچاتا ہے پھر اوپر سے گرم ابلتے ہوئے پانی کا تریڑا ڈالا جائے گا ۔ جس سے ان کے آنتیں اور چربی گھل جائے گی اور کھال بھی جھلس کر جھڑجائے گی ۔ ترمذی میں ہے کہ { اس گرم آگ جیسے پانی سے ان کی آنتیں وغیرہ پیٹ سے نکل کر پیروں پر گر پڑیں گی ۔ پھر جیسے تھے ویسے ہو جائیں گے پھر یہی ہو گا } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2582،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) عبداللہ بن سری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں فرشتہ اس ڈولچے کو اس کے کڑوں سے تھام کر لائے گا اس کے منہ میں ڈالنا چاہے گا یہ گھبرا کر منہ پھیر لے گا ۔ تو فرشتہ اس کے ماتھے پر لوہے کا ہتھوڑا مارے گا جس سے اس کا سر پھٹ جائے گا وہیں سے اس گرم آگ پانی کو ڈالے گا جو سیدھا پیٹ میں پہنچے گا ۔ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ان ہتھوڑوں میں جن سے دوزخیوں کی ٹھکائی ہو گی اگر ایک زمین پر لا کر رکھ دیا جائے تو تمام انسان اور جنات مل کر بھی اسے اٹھا نہیں سکتے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:29/3:ضعیف) { آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { اگر وہ کسی بڑے پہاڑ پر مار دیا جائے تو وہ ریزہ ریزہ ہو جائے جہنمی اس سے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گے پھر جیسے تھے ویسے ہی کر دئے جائیں گے اگر عساق کا جو جہنمیوں کی غذا ہے ایک ڈول دنیا میں بہا دیا جائے تو تمام اہل دنیا بدبو کے مارے ہلاک ہو جائیں } } ۔ (مسند احمد:83/3:ضعیف) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اس کے لگتے ہی ایک ایک عضو بدن جھڑ جائے گا اور ہائے وائے کا غل مچ جائے گا جب کبھی وہاں سے نکل جانا چاہیں گے وہیں لوٹا دیئے جائیں گے ۔ سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” جہنم کی آگ سخت سیاہ بہت اندھیرے والی ہے اس کے شعلے بھی روشن نہیں نہ اس کے انگارے روشنی والے ہیں پھر آپ رضی اللہ عنہ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی “ ۔ زید رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے ” جہنمی اس میں سانس بھی نہ لے سکیں گے “ ۔ فضیل بن عیاض رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ” واللہ انہیں چھوٹنے کی تو آس ہی نہیں رہے گی پیروں میں بوجھل بیڑیاں ہیں ہاتھوں میں مضبوط ہتھکڑیاں ہیں آگ کے شعلے انہیں اس قدر اونچا کر دیتے ہیں کہ گویا باہر نکل جائیں گے لیکن پھر فرشتوں کے ہاتھوں سے گرز کھا کر تہ میں اتر جاتے ہیں ۔ ان سے کہا جائے گا کہ اب جلنے کا مزہ چکھو “ ۔ جیسے فرمان ہے «وَقِیلَ لَہُمْ ذُوقُوا عَذَابَ النَّارِ‌ الَّذِی کُنتُم بِہِ تُکَذِّبُونَ» ۱؎ (32-السجدۃ:20) ’ ان سے کہا جائے گا اس آگ کا عذاب برداشت کرو جسے آج تک جھٹلاتے رہے ‘ ۔ زبانی بھی اور اپنے اعمال سے بھی ۔ الحج
20 الحج
21 الحج
22 الحج
23 جنت کے محلات و باغات اوپر دوزخیوں کا ، ان کی سزاؤں کا ، ان کے طوق و زنجیر کا ، ان کے جلنے جھلسنے کا ، ان کے آگ کے لباس کا ذکر کر کے اب جنت کا ، وہاں کی نعمتوں کا اور وہاں کے رہنے والوں کا حال بیان فرما رہا ہے ۔ اللہ ہمیں اپنی سزاؤں سے بچائے اور جزاؤں سے نوازے آمین ! فرماتا ہے ’ ایمان اور نیک عمل کے بدلے جنت مل گئی جہاں کے محلات اور باغات کے چاروں طرف پانی کی نہریں لہریں مار رہی ہونگی جہاں چاہیں گے وہیں خودبخود ان کا رخ ہو جایا کرے گا سونے کے زیوروں سے سجے ہوئے ہوں گے موتیوں میں تل رہے ہوں گے ‘ ۔ متفق علیہ حدیث میں ہے { مومن کا زیور وہاں تک پہنچے گا جہاں تک وضو کا پانی پہنچتا ہے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:250) کعب احبار رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جنت میں ایک فرشتہ ہے کہ جس کا نام بھی مجھے معلوم ہے وہ اپنی پیدائش سے مومنوں کے لیے زیور بنا رہا ہے اور قیامت تک اسی کام میں رہے گا اگر ان میں سے ایک کنگن بھی دنیا میں ظاہر ہو جائے تو سورج کی روشنی اسی طرح جاتی رہے جس طرح اس کے نکلنے سے چاند کی روشنی جاتی رہتی ہے ۔ دوزخیوں کے کپڑوں کا ذکر اوپر ہو چکا ہے جنتیوں کے کپڑوں کا ذکر ہو رہا ہے کہ وہ نرم چمکیلے ریشمی کپڑے پہنے ہوئے ہوں گے جسے سورۃ الدہر میں ہے کہ «عَالِیَہُمْ ثِیَابُ سُندُسٍ خُضْرٌ وَإِسْتَبْرَقٌ وَحُلٰوا أَسَاوِرَ مِن فِضَّۃٍ وَسَقَاہُمْ رَبٰہُمْ شَرَابًا طَہُورًا نَّ ہٰذَا کَانَ لَکُمْ جَزَاءً وَکَانَ سَعْیُکُم مَّشْکُورًا» ۱؎ (76-الانسان:،20،21) ’ ان کے لباس سبزریشمی ہوں گے چاندی کے کنگن ہوں گے اور شراب طہور کے جام پر جام پی رہے ہونگے ۔ یہ ہے تمہاری جزا اور یہ تمہارے بار اور سعی کا نتیجہ ‘ ۔ صحیح حدیث میں ہے { ریشم تم نہ پہنو جو اسے دنیا میں پہن لے گا وہ آخرت کے دن اس سے محروم رہے گا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5830) عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں جو اس دن ریشمی لباس سے محروم رہا وہ جنت میں نہ جائے گا کیونکہ جنت والوں کا یہی لباس ہے ان کو پاک بات سکھا دی گئی ۔ جیسے فرمان ہیں آیت «وَأُدْخِلَ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِن تَحْتِہَا الْأَنْہَارُ خَالِدِینَ فِیہَا بِإِذْنِ رَبِّہِمْ تَحِیَّتُہُمْ فِیہَا سَلَامٌ» ۱؎ (14-ابراھیم:23) ’ ایماندار بحکم الٰہی جنت میں جائیں گے جہاں ان کا تحفہ آپس میں سلام ہو گا ‘ ۔ اور آیت میں ہے «أُولٰئِکَ یُجْزَوْنَ الْغُرْفَۃَ بِمَا صَبَرُوا وَیُلَقَّوْنَ فِیہَا تَحِیَّۃً وَسَلَامًا» ۱؎ (25-الفرقان:75) ’ ہر دروازے سے فرشتے ان کے پاس آئیں گے اور سلام کر کے کہیں گے تمہارے صبر کا کیا ہی اچھا انجام ہوا ‘ ۔ اور جگہ فرمایا آیت «لَا یَسْمَعُوْنَ فِیْہَا لَغْوًا وَّلَا تَاْثِیْمًا اِلَّا قِیْلًا سَلٰمًا سَلٰمًا» ۱؎ (56-الواقعۃ:26،25) ’ وہاں کوئی لغو بات اور رنج دینے والی بات نہ سنیں گے بجز سلام اور سلامتی کے ‘ ۔ پس انہیں وہ مکان دے دیا گیا جہاں صرف دل لبھانے والی آوازیں اور سلام ہی سلام سنتے ہیں ۔ جیسے فرمان ہے وہاں مبارک سلامت کی آوازیں ہی آئیں گی برخلاف دوزخیوں کے کہ ہر وقت ڈانٹ ڈپٹ سنتے ہیں ، جھڑکے جاتے ہیں سرزنش کی جا رہی ہے کہ ایسے عذاب برداشت کرو وغیرہ ۔ اور انہیں وہ جگہ دی گئی کہ یہ نہال نہال ہو گئے اور بے ساختہ ان کی زبانوں سے اللہ کی حمد ادا ہونے لگی ۔ کیونکہ بےشمار بے نظیر رحمتیں پالیں ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ { جیسے بے قصد و بے تکلف سانس آتا جاتا رہتا ہے اسی طرح بہشتیوں کو تسبیح وحمد کا الہام ہو گا } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2835) بعض مفسیریں کا قول ہے کہ طیب کلام سے مراد قرآن کریم ہے اور « «لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ» » ہے حدیث کے ورد اور اذکار ہیں اور صراط حمید سے مراد اسلامی راستہ ہے یہ تفسیر بھی پہلی تفسیر کے خلاف نہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ الحج
24 الحج
25 مسجدالحرام سے روکنے والے اللہ تعالیٰ کافروں کے اس فعل کی تردید کرتا ہے جو وہ مسلمانوں کو مسجد الحرام سے روکتے تھے وہاں انہیں احکام حج ادا کرنے سے باز رکھتے تھے «وَمَا کَانُوا أَوْلِیَاءَہُ إِنْ أَوْلِیَاؤُہُ إِلَّا الْمُتَّقُونَ وَلٰکِنَّ أَکْثَرَہُمْ لَا یَعْلَمُونَ» ۱؎ (8-الانفال:34) ’ باوجود اس کے اولیاء اللہ کے ہونے کا دعویٰ کرتے تھے حالانکہ اولیاء وہ ہیں جن کے دلوں میں اللہ کا ڈر ہو ‘ ۔ اس سے معلوم ہوتا کہ یہ ذکر مدینے شریف کا ہے ۔ جیسے سورۃ البقرہ کی آیت «یَسْأَلُونَکَ عَنِ الشَّہْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِیہِ قُلْ قِتَالٌ فِیہِ کَبِیرٌ وَصَدٌّ عَن سَبِیلِ اللہِ وَکُفْرٌ بِہِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِخْرَاجُ أَہْلِہِ مِنْہُ أَکْبَرُ عِندَ اللہِ » ۱؎ (2-البقرۃ:217) ، میں ہے یہاں فرمایا کہ ’ باوجود کفر کے پھر یہ بھی فعل ہے کہ اللہ کی راہ سے اور مسجد الحرام سے مسلمانوں کو روکتے ہیں جو درحقیقت اس کے اہل ہیں ‘ ۔ یہی ترتیب اس آیت کی ہے «لَّذِینَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنٰ قُلُوبُہُم بِذِکْرِ اللہِ أَلَا بِذِکْرِ اللہِ تَطْمَئِنٰ الْقُلُوبُ» ۱؎ (13-الرعد:28) یعنی ’ ان کی صفت یہ ہے کہ ان کے دل ذکر اللہ سے مطمئن ہو جاتے ہیں ‘ ۔ مسجد الحرام جو اللہ نے سب کے لیے یکساں طور پر باحرمت بنائی ہے مقیم اور مسافر کے حقوق میں کوئی کمی زیادتی نہیں رکھی ۔ اہل مکہ مسجد الحرام میں اترسکتے ہیں اور باہر والے بھی ۔ وہاں کی منزلوں میں وہاں کے باشندے اور بیرون ممالک کے لوگ سب ایک ہی حق رکھتے ہیں ۔ اس مسئلے میں امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ تو فرمانے لگے مکے کی حویلیاں ملکیت میں لائی جا سکتی ہیں ۔ ورثے میں بٹ سکتی ہیں اور کرائے پر بھی دی جا سکتی ہیں ۔ دلیل یہ دی کہ { اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال کیا کہ کل آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہی مکان میں اتریں گے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ { عقیل نے ہمارے لیے کون سی حویلی چھوڑی ہے ؟ پھر فرمایا کافر مسلمان کا ورث نہیں ہوتا اور نہ مسلمان کافر کا} } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4282) اور دلیل یہ ہے کہ امیر المؤمنین عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے صفوان بن امیہ کامکان چار ہزار درہم میں خرید کر وہاں جیل خانہ بنایا تھا ۔ طاؤس اور عمرو بن دینار بھی اس مسئلے میں امام صاحب کے ہم نوا ہیں ۔ امام اسحاق بن راہویہ اس کے خلاف کہتے ہیں کہ ورثے میں بٹ نہیں سکتے نہ کرائے پر دئیے جا سکتے ہیں ۔ اسلاف میں سے ایک جماعت یہ کہتی ہے مجاہد اور عطا رحمہ اللہ علیہم کا یہی مسلک ہے ۔ اس کی دلیل ابن ماجہ کی یہ حدیث ہے { سیدنا علقمہ بن نضلہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں صدیقی اور فاروقی خلافت میں مکے کی حویلیاں آزاد اور بے ملکیت استعمال کی جاتی رہیں اگر ضرورت ہوتی تو رہتے ورنہ اوروں کو بسنے کے لیے دے دیتے } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:3107،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں نہ تو مکہ شریف کے مکانوں کا بیچنا جائز ہے نہ ان کا کرایہ لینا ۔ عطا رحمہ اللہ بھی حرم میں کرایہ لینے کو منع کرتے تھے ۔ سیدنا عمربن خطاب رضی اللہ عنہ مکہ شریف کے گھروں کے دروازے رکھنے سے روکتے تھے کیونکہ صحن میں حاجی لوگ ٹھیرا کرتے تھے ۔ سب سے پہلے گھر کا دروازہ سہیل بن عمرو نے بنایا عمر رضی اللہ عنہ نے اسی وقت انہیں حاضری کا حکم بھیجا انہوں نے آ کر کہا مجھے معاف فرمایا جائے میں سوداگر شخص ہوں میں نے ضرورتاً یہ دروازے بنائے ہیں تاکہ میرے جانور میرے بس میں رہیں ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا پھر خیر ہم اسے تیرے لیے جائز رکھتے ہیں ۔ اور روایت میں حکم فاروقی رضی اللہ عنہ ان الفاظ میں مروی ہے کہ اہل مکہ اپنے مکانوں کے دروازے نہ رکھو تاکہ باہر کے لوگ جہاں چاہیں ٹھیریں ۔ عطا رحمہ اللہ فرماتے ہیں شہری اور غیروطنی ان میں برابر ہیں جہاں چاہیں اتریں ۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں مکے شریف کے لوگ گھروں کا کرایہ کھانے والا اپنے پیٹ میں آگ بھرنے والا ہے ۔ امام احمد رحمتہ اللہ علیہ نے ان دونوں کے درمیان کا مسلک پسند فرمایا یعنی ملکیت کو اور ورثے کو تو جائز بتایا ہاں کرایہ کو ناجائز کہا ہے اس سے دلیلوں میں جمع ہو جاتی ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» «بِإِلْحَادٍ» میں “با“ زائد ہے جیسے «تَـنْـبُتُ بِالدٰہُنِ» ۱؎ (23-المؤمنون:20) میں ۔ اور اعشی کے شعر «ضَمَنَتْ بِرِزْقِ عِیَالِناً اًرْحُنَا» ، میں یعنی ہمارے گھرانے کی روزیاں ہمارے نیزوں پر موقوف ہیں الخ ، اور شعروں کے اشعار میں ”با“ کا ایسے موقعوں پر زائد آنا مستعمل ہوا ہے لیکن اس سے بھی عمدہ بات یہ ہے کہ ہم کہیں کہ یہاں کا فعل «یَہُمٰ» کے معنی کا متضمن ہے اس لیے ”با“ کے ساتھ متعدی ہوا ہے ۔ الحاد سے مراد کبیرہ شرمناک گناہ ہے ۔ «بِظُلْمٍ» سے مراد قصداً ہے تاویل کی روسے نہ ہونا ہے ۔ اور معنی شرک کے غیر اللہ کی عبادت کے بھی کئے گئے ہیں ۔ یہ بھی مطلب ہے کہ حرم میں اللہ کے حرام کئے ہوئے کام کو حلال سمجھ لینا جیسے گناہ قتل بے جا ظلم وستم وغیرہ ۔ ایسے لوگ درد ناک عذابوں کے سزاوار ہیں ۔ مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں جو بھی یہاں برا کام کرے یہ حرم شریف کی خصوصیت ہے کہ غیروطنی لوگ جب کسی بدکام کا ارادہ بھی کر لیں تو بھی انہیں سزا ہوتی ہے چاہے اسے عملاً نہ کریں ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اگر کوئی شخص عدن میں ہو اور حرم میں الحاد وظلم کا ارادہ رکھتا ہو تو بھی اللہ اسے درد ناک عذاب کا مزہ چکھائے گا ۔ شعبہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس نے تو اس کو مرفوع بیان کیا تھا لیکن میں اسے مرفوع نہیں کرتا ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:141/17:صَحِیحٌ عَلَی شَرْطِ الْبُخَارِیِّ) اس کی اور سند بھی ہے جو صحیح ہے اور موقوف ہونا بہ نسبت مرفوع ہونے کے زیادہ ٹھیک ہے عموماً قول سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے ، «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اور روایت میں ہے کسی پر برائی کے صرف سے برائی نہیں لکھی جاتی لیکن اگر دور دراز مثلا عدن میں بیٹھ کر بھی یہاں کے کسی شخص کے قتل کا ارادہ کرے تو اللہ اسے درد ناک عذاب میں مبتلا کرے گا ۔ مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ہاں یا نہیں کہنے پر یہاں قسمیں کھانا بھی الحاد میں داخل ہے ۔ سعید بن جبیر رحمتہ اللہ علیہ کا فرمان ہے کہ اپنے خادم کو یہاں گالی دینا بھی الحاد میں ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے امیر شخص کا یہاں آ کر تجارت کرنا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں مکے میں اناج کا بیچنا ۔ ابن حبیب بن ابوثابت فرماتے ہیں گراں فروشی کے لیے اناج کو یہاں روک رکھنا ۔ ابن ابی حاتم میں بھی فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی منقول ہے ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2020،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں { یہ آیت عبداللہ بن انیس کے بارے میں اتری ہے اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہاجر اور ایک انصار کے ساتھ بھیجا تھا ایک مرتبہ ہر ایک اپنے اپنے نسب نامے پر فخر کرنے لگا اس نے غصے میں آ کر انصاری کو قتل کر دیا اور مکے کی طرف بھاگ کھڑا ہوا اور دین اسلام چھوڑ بیٹھا ۔ تو مطلب یہ ہو گا کہ جو الحاد کے بعد مکہ کی پناہ لے } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:ضعیف) ان آثار سے گویہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب کام الحاد میں سے ہیں لیکن حقیقتاً یہ ان سب سے زیادہ اہم بات ہے بلکہ اس سے بڑی چیز پر اس میں تنبیہہ ہے ۔ اسی لیے جب ہاتھی والوں نے بیت اللہ شریف کی خرابی کا ارادہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر پرندوں کے غول کے غول بھیج دئے «تَرْمِیہِم بِحِجَارَۃٍ مِّن سِجِّیلٍ فَجَعَلَہُمْ کَعَصْفٍ مَّأْکُولٍ» ۱؎ (105-الفیل:4،5) جنہوں نے ان پر کنکریاں پھینک کر ان کا بھس اڑا دیا اور وہ دوسروں کے لیے باعث عبرت بنا دئے گئے ۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ { ایک لشکر اس بیت اللہ کے غزوے کے ارادے سے آئے گا جب وہ بیدا میں پہنچیں گے تو سب کے سب مع اول آخر کے دھنسادئے جائیں گے } ۔ (صحیح بخاری:2118) الخ ۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں { آپ یہاں الحاد کرنے سے بچیں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ یہاں ایک قریشی الحاد کرے گا اس کے گناہ اگر تمام جن و انس کے گناہوں سے تولے جائیں تو بھی بڑھ جائیں دیکھو خیال رکھو تم وہی نہ بن جانا } ۔ ۱؎ (مسند احمد:136/2:حسن) اور روایت میں یہ بھی ہے کے نصیحت آپ نے انہیں حطیم میں بیٹھ کر کی تھی ۔ ۱؎ (مسند احمد:196/2:حسن) الحج
26 مسجدالحرام کی اولین بنیاد توحید یہاں مشرکین کو متنبہ کیا جاتا ہے کہ ’ وہ گھر جس کی بنیاد اول دن سے اللہ کی توحید پر رکھی گئی ہے تم نے اس میں شرک جاری کر دیا ۔ اس گھر کے بانی خلیل اللہ علیہ السلام ہیں سب سے پہلے آپ علیہ السلام نے ہی اسے بنایا ‘ ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے سوال کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی ؟ فرمایا : { مسجد الحرام } ۔ میں نے کہا پھر ؟ فرمایا : { بیت المقدس } ۔ میں نے کہا ان دونوں کے درمیان کس قدر مدت کا فاصلہ ہے ؟ فرمایا : { چالیس سال کا } } ۔ (صحیح بخاری:3366) اللہ کا فرمان ہے آیت «إِنَّ أَوَّلَ بَیْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِی بِبَکَّۃَ مُبَارَکًا وَہُدًی لِّلْعَالَمِینَ فِیہِ آیَاتٌ بَیِّنَاتٌ مَّقَامُ إِبْرَاہِیمَ» ۱؎ (3-آل عمران:97،96) ، دو آیتوں تک ۔ اور آیت میں ہے «وَعَہِدْنَا إِلَیٰ إِبْرَاہِیمَ وَإِسْمَاعِیلَ أَن طَہِّرَا بَیْتِیَ لِلطَّائِفِینَ وَالْعَاکِفِینَ وَالرٰکَّعِ السٰجُودِ» ۱؎ (2-البقرہ:125) ’ ہم نے ابراہیم واسماعیل علیہم السلام سے وعدہ لیا کہ میرے گھر کو پاک رکھنا ‘ الخ ۔ بیت اللہ شریف کی بنا کا کل ذکر ہے ہم پہلے لکھ چکے ہیں اس لیے یہاں دوبارہ لکھنے کی ضرورت نہیں ۔ یہاں فرمایا ’ اسے صرف میرے نام پر بنا اور اسے پاک رکھ یعنی شرک وغیرہ سے اور اسے خاص کر دے ان کے لیے جو موحد ہیں ‘ ۔ طواف وہ عبادت ہے جو ساری زمین پر بجز بیت اللہ کے میسر ہی نہیں ناجائز ہے ۔ پھر طواف کے ساتھ نماز کو ملایا قیام ، رکوع ، سجدے ، کا ذکر فرمایا اس لیے کہ جس طرح طواف اس کے ساتھ مخصوص ہے نماز کا قبلہ بھی یہی ہے ہاں اس کی حالت میں کہ انسان کو معلوم نہ ہو یا جہاد میں ہو یا سفر میں ہو نفل نماز پڑھ رہا ہو تو بیشک قبلہ کی طرف منہ نہ ہونے کی حالت میں بھی نماز ہو جائے گی «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اور یہ حکم ملا کہ ’ اس گھر کے حج کی طرف تمام انسانوں کو بلا ‘ ۔ مذکور ہے کہ آپ علیہ السلام نے اس وقت عرض کی کہ باری تعالیٰ میری آواز ان تک کیسے پہنچے گی ؟ جواب ملا کہ ’ آپ کے ذمہ صرف پکارنا ہے آواز پہنچانا میرے ذمہ ہے ‘ ۔ آپ علیہ السلام نے مقام ابراہیم پر یا صفا پہاڑی پر ابو قیس پہاڑ پر کھڑے ہو کر ندا کی کہ ” لوگو ! تمہارے رب نے اپنا ایک گھر بنایا ہے پس تم اس کا حج کرو “ ۔ پہاڑ جھک گئے اور آپ کی آواز ساری دنیا میں گونج گئی ۔ یہاں تک کہ باپ کی پیٹھ میں اور ماں کے پیٹ میں جو تھے انہیں بھی سنائی دی ۔ ہرپتھر درخت اور ہر اس شخص نے جس کی قسمت میں حج کرنا لکھا تھا باآواز لبیک پکارا ۔ بہت سے سلف سے یہ منقول ہے ، «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ پھر فرمایا پیدل لوگ بھی آئیں گے اور سواریوں پر سوار بھی آئیں گے ۔ اس سے بعض حضرات نے استدلال کیا ہے کہ جسے طاقت ہو اس کے لیے پیدل حج کرنا سواری پر حج کرنے سے افضل ہے اس لیے کہ پہلے پیدل والوں کا ذکر ہے پھر سواروں کا ۔ تو ان کی طرف توجہ زیادہ ہوئی اور ان کی ہمت کی قدر دانی کی گئی ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں میری یہ تمنا رہ گئی کہ کاش کہ میں پیدل حج کرتا ۔ اس لیے کہ فرمان الٰہی میں پیدل والوں کا ذکر ہے ۔ لیکن اکثر بزرگوں کا قول ہے کہ سواری پر افضل ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باوجود کمال قدرت وقوت کے پا پیادہ حج نہیں کیا تو سواری پر حج کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری اقتداء ہے ۔ پھر فرمایا دور دراز سے حج کے لیے آئیں گے خلیل اللہ علیہ السلام کی دعا بھی یہی تھی کہ آیت «فَاجْعَلْ أَفْئِدَۃً مِّنَ النَّاسِ تَہْوِی إِلَیْہِمْ وَارْزُقْہُم مِّنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّہُمْ یَشْکُرُونَ» ۱؎ (14-ابراھیم:37) ’ لوگوں کے دلوں کو اے اللہ تو ان کی طرف متوجہ کر دے ‘ ۔ آج دیکھ لو وہ کون سا مسلمان ہے جس کا دل کعبے کی زیارت کا مشتاق نہ ہو ؟ اور جس کے دل میں طواف کی تمنائیں تڑپ نہ رہی ہوں ۔ [ اللہ تعالیٰ ہمیں نصیب فرمائے ] ۔ الحج
27 الحج
28 دنیا اور آخرت کے فائدے دنیا اور آخرت کے فوائد حاصل کرنے کے لیے آئیں ۔ اللہ کی رضا کے ساتھ ہی دنیاوی مفاد تجارت وغیرہ کا فائدہ اٹھائیں ۔ جیسے فرمایا آیت «لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّکُمْ فَاِذَآ اَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفٰتٍ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ ۠ وَاذْکُرُوْہُ کَمَا ھَدٰیکُمْ وَاِنْ کُنْتُمْ مِّنْ قَبْلِہٖ لَمِنَ الضَّالِّیْنَ» ۱؎ (2-البقرۃ:198) موسم حج میں تجارت کرنا ممنوع نہیں ۔ مقررہ دنوں سے مراد ذی الحجہ کا پہلا عشرہ ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے { کسی دن کا عمل اللہ کے نزدیک ان دنوں کے عمل سے افضل نہیں ۔ لوگوں نے پوچھا جہاد بھی نہیں ؟ فرمایا : { جہاد بھی نہیں ، بجز اس مجاہد کے عمل کے جس نے اپنی جان و مال اللہ کی راہ میں قربان کر دیا ہو } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:969) میں نے اس حدیث کو اس کی تمام سندوں کے ساتھ ایک مستقل کتاب میں جمع کر دیا ہے ۔ چنانچہ ایک روایت میں ہے { کسی دن کا عمل اللہ کے نزدیک ان دنوں سے بڑا اور پیارا نہیں پس تم ان دس دنوں میں « «لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ» » «اﷲُ اَکْبَرُ» اور «اَلْحَمْدُ لِلہِ» بکثرت پڑھا کرو } ۔ ۱؎ (مسند احمد:75/2:صحیح) انہی دنوں کی قسم «وَالْفَجْرِ وَلَیَالٍ عَشْرٍ» ۱؎ (89-الفجر:1۔2) کی آیت میں ہے ۔ بعض سلف کہتے ہیں آیت «وَوٰعَدْنَا مُوْسٰی ثَلٰثِیْنَ لَیْلَۃً وَّاَتْمَمْنٰہَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِیْقَاتُ رَبِّہٖٓ اَرْبَعِیْنَ لَیْلَۃً» ۱؎ (7-الأعراف:142) سے بھی مراد یہی دن ہیں ۔ ابو داؤد میں ہے کہ { ان دنوں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم روزے سے رہا کرتے تھے } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2452،قال الشیخ الألبانی:صحیح) سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ان دنوں بازار میں آتے اور تکبیر پکارتے ، بازار والے بھی آپ رضی اللہ عنہم کے ساتھ تکبیر پڑھنے لگتے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:قبل الحدیث:970) ان ہی دس دنوں میں عرفہ کا دن ہے جس دن کے روزے کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ { گزشتہ اور آئندہ دو سال کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1162) ان ہی دس دنوں میں قربانی کا دن یعنی بقر عید کا دن ہے جس کا نام اسلام میں حج اکبر کا دن ہے ۔ ایک روایت میں ہے کہ { اللہ کے نزدیک یہ سب دنوں سے افضل ہے } ۔ الغرض سارے سال میں ایسی فضیلت کے دن اور نہیں ۔ جیسے کہ حدیث شریف میں ہے { یہ دس دن رمضان شریف کے آخری دس دنوں سے بھی افضل ہیں} ۔ کیونکہ نماز روزہ صدقہ وغیرہ جو رمضان کے اس آخری عشرے میں ہوتا ہے وہ سب ان دنوں میں بھی ہوتا ہے مزید برآں ان میں فریضہ حج ادا ہوتا ہے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ رمضان شریف کے آخری دن افضل ہیں کیونکہ انہیں میں لیلۃ القدر ہے جو ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے ۔ تیسرا قول درمیانہ ہے کہ دن تو یہ افضل اور راتیں رمضان المبارک کے آخری دس دنوں کی افضل ہیں ۔ اس قول کے مان لینے سے مختلف دلائل میں جمع ہو جاتی ہیں «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ ایام معلومات کی تفسیر میں ایک دوسرا قول یہ ہے کہ یہ قربانی کا دن اور اس کے بعد کے تین دن ہیں ۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ اور ابراہیم نخعی رحمتہ اللہ علیہ سے یہی مروی ہے اور ایک روایت سے امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ کا مذہب بھی یہی ہے ۔ تیسرا قول یہ ہے کہ بقرہ عید اور اس کے بعد کے دو دن ۔ اور ایام معدودات سے بقرہ عید اور اس کے بعد کے تین دن ۔ اس کی اسناد سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما تک صحیح ہے ۔ سدی رحمتہ اللہ علیہ بھی یہی کہتے ہیں ، امام مالک رحمتہ اللہ علیہ کا بھی یہی مذہب ہے اور اس کی اور اس سے پہلے کے قول کی تائید فرمان باری آیت «عَلٰی مَا رَزَقَہُمْ مِّنْ بَہِیْمَۃِ الْاَنْعَامِ» ۱؎ (22-الحج:28) سے ہوتی ہے کیونکہ اس سے مراد جانوروں کی قربانی کے وقت اللہ کا نام لینا ہے ۔ چوتھا قول یہ ہے کہ یہ عرفے کا دن بقرہ عید کا دن اور اس کے بعد کا ایک دن ہے ۔ امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کا مذہب یہی ہے ۔ حضرت اسلم رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ مراد یوم نحر اور ایام تشریق ہیں «بَہِیْمَۃِ الْاَنْعَامِ» سے مراد اونٹ گائے اور بکری ہیں ۔ جیسے سورۃ الانعام کی آیت «ثَمٰنِیَۃَ اَزْوَاجٍ مِنَ الضَّاْنِ اثْنَیْنِ وَمِنَ الْمَعْزِ اثْنَیْنِ قُلْ ءٰالذَّکَرَیْنِ حَرَّمَ اَمِ الْاُنْثَیَیْنِ اَمَّا اشْـتَمَلَتْ عَلَیْہِ اَرْحَامُ الْاُنْثَیَیْنِ نَبِّـــــُٔـوْنِیْ بِعِلْمٍ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ» ۱؎ (6-الأنعام:143) میں مفصل موجود ہے ۔ پھر فرمایا ’ اسے خود کھاؤ اور محتاجوں کو کھلاؤ ‘ ۔ اس سے بعض لوگوں نے دلیل لی ہے کہ قربانی کا گوشت کھانا واجب ہے ۔ لیکن یہ قول غریب ہے ۔ اکثر بزرگوں کا مذہب ہے کہ یہ رخصت ہے یا استحباب ہے ۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب قربانی کی تو حکم دیا کہ ہر اونٹ کے گوشت کا ایک ٹکڑا نکال کر پکالیا جائے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ گوشت کھایا اور شوربا پیا } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1218) امام مالک رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں میں اسے پسند کرتا ہوں کہ قربانی کا گوشت قربانی کرنے والا کھا لے کیونکہ اللہ کا فرمان ہے ۔ ابراہیم رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مشرک لوگ اپنی قربانی کا گوشت نہیں کھاتے تھے اس کہ برخلاف مسلمانوں کو اس کے گوشت کے کھانے کی اجازت دی گئی اب جو چاہے کھائے جو چاہے نہ کھائے ۔ مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مشرک لوگ اپنی قربانیوں کا گوشت نہیں کھاتے تھے اس کے برخلاف مسلمانوں کو اس گوشت کے کھانے کی اجازت دی گئی اب جو چاہے کھائے جو چاہے نہ کھائے مجاہد رحمتہ اللہ علیہ اور عطا رحمتہ اللہ علیہ سے بھی اسی طرح منقول ہے ۔ مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہاں کا یہ حکم آیت «وَاِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوْا وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَـنَاٰنُ قَوْمٍ اَنْ صَدٰوْکُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اَنْ تَعْتَدُوْا» ۱؎ (5-المائدۃ:2) کی طرح ہے یعنی ’ جب تم احرام سے فارغ ہو جاؤ تو شکار کھیلو ‘ ۔ اور سورۃ الجمعہ میں فرمان ہے آیت «فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ وَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ» ۱؎ (62-الجمعۃ:10) ’ جب نماز پوری ہو جائے تو زمین میں پھیل جاؤ ‘ ۔ مطلب یہ ہے کہ ان دونوں آیتوں میں حکم ہے شکار کرنے کا اور زمین میں روزی تلاش کرنے کے لیے پھیل جانے کا لیکن یہ حکم وجوبی اور فرضی نہیں اسی طرح اپنی قربانی کے گوشت کو کھانے کا حکم بھی ضروری اور واجب نہیں ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ بھی اس قول کو پسند فرماتے ہیں ۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ قربانی کے گوشت کے دو حصے کر دئیے جائیں ایک حصہ خود قربانی کرنے والے کا دوسرا حصہ فقیر فقراء کا ۔ بعض کہتے ہیں تین کرنے چاہیئں تہائی اپنا تہائی ہدیہ دینے کے لیے اور تہائی صدقہ کرنے کے لیے ۔ پہلے قول والے اوپر کی آیت کی سند لاتے ہیں اور دوسرے قول والے آیت «وَاَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ کَذٰلِکَ سَخَّرْنٰہَا لَکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ» ۱؎ (22-الحج:36) کو دلیل میں پیش کرتے ہیں اس کا پورا بیان آئے گا ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ عکرمہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ” آیت «الْبَائِسَ الْفَقِیرَ» سے مطلب وہ بے بس انسان ہے جو احتیاج ہونے پر بھی سوال سے بچتا ہو ۔ مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں جو دست سوال دارز نہ کرتا ہو ، کم بینائی والا ہو “ ۔ الحج
29 احکام حج پھر وہ احرام کھول ڈالے سر منڈوالیں کپڑے پہن لیں ، ناخن کٹوا ڈالیں ، وغیرہ احکام حج پورے کر لیں ۔ نذریں پوری کر لیں حج کی قربانی کی اور جو ہو ۔ پس جو شخص حج کے لیے نکلا اس کے ذمے طواف بیت اللہ ، طواف صفا مروہ ، عرفات کے میدان میں جانا ، مزدلفے کی حاضری ، شیطانوں کو کنکر مارنا وغیرہ سب کچھ لازم ہے ۔ ان تمام احکام کو پورے کریں اور صحیح طور پر بجا لائیں اور بیت اللہ شریف کا طواف کریں جو یوم النحر کو واجب ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں { حج کا آخری کام طواف ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کیا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دس ذی الحجہ کو منٰی کی طرف واپس آئے تو سب سے پہلے شیطانوں کو سات سات کنکریاں ماریں ۔ پھر قربانی کی ، پھر سر منڈوایا ، پھر لوٹ کر بیت اللہ آ کر طواف بیت اللہ کیا } ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بخاری و مسلم میں مروی ہے کہ { لوگوں کو حکم کیا گیا ہے کہ ان کا آخری کام طواف بیت اللہ ہو ۔ ہاں البتہ حائضہ عورتوں کو رعایت کر دی گئی ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1755) بیت العتیق کے لفظ سے استدلال کر کے فرمایا گیا ہے کہ طواف کرنے والے کو حطیم بھی اپنے طواف کے اندر لے لینا چاہے ۔ اس لیے کہ وہ بھی اصل بیت اللہ شریف میں سے ہے ابراہیم علیہ السلام کی بنا میں یہ داخل تھا گو قریش نے نیا بناتے وقت اسے باہر چھوڑ دیا لیکن اس کی وجہ بھی خرچ کی کمی تھی نہ کہ اور کچھ ۔ { اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حطیم کے پیچھے سے طواف کیا اور فرمایا بھی دیا کہ { حطیم بیت اللہ شریف میں داخل ہے } ۔ اور آپ نے دونوں شامی رکنوں کو ہاتھ نہیں لگایا نہ بوسہ دیا کیونکہ وہ بناء ابراہیمی کے مطابق پورے نہیں ۔ اس آیت کے اترنے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حطیم کے پیچھے سے طواف کیا } ۔ ۱؎ (الدر المنشور للسیوطی:41/6:) پہلے اس طرح کی عمارت تھی کہ یہ اندر تھا اسی لیے اسے پرانا گھر کہا گیا یہی سب سے پہلا اللہ کا گھر ہے اور وجہ یہ بھی ہے کہ یہ طوفان نوح میں سلامت رہا ۔ اور یہ بھی وجہ ہے کہ کوئی سرکش اس پر غالب نہیں آسکا ۔ یہ ان سب کی دست برد سے آزاد ہے جس نے بھی اس سے برا قصد کیا وہ تباہ ہوا ۔ اللہ نے اسے سرکشوں کے تسلط سے آزاد کر لیا ہے } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3170،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ترمذی میں اسی طرح کی ایک مرفوع حدیث بھی ہے جو حسن غریب ہے اور ایک اور سند سے مرسلاً بھی مروی ہے ۔ الحج
30 بت پرستی کی گندگی سے دور رہو فرماتا ہے یہ تو تھے احکام حج اور ان پر جو جزا ملتی ہے اس کا بیان ۔ اب اور سنو جو شخص حرمات الٰہی کی عزت کرے یعنی گناہوں سے اور حرام کاموں سے بچے ، ان کے کرنے سے اپنے آپ کو روکے اور ان سے بھاگا رہے اس کے لیے اللہ کے پاس بڑا اجر ہے ۔ جس طرح نیکیوں کے کرنے پر اجر ہے اسی طرح برائیوں کے چھوڑنے پر بھی ثواب ہے ۔ مکہ حج عمرہ بھی حرمات الٰہی ہیں ۔ تمہارے لیے چوپائے سب حلال ہیں ہاں جو حرام تھے وہ تمہارے سامنے بیان ہو چکے ہیں ۔ یہ جو مشرکوں نے بحیرہ ، سائبہ ، وصیلہ اور حام نام رکھ چھوڑے ہیں یہ اللہ نے نہیں بتلائے ۔ اللہ کو جو حرام کرنا تھا بیان فرما چکا جیسے «الْمَیْتَۃُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنزِیرِ وَمَا أُہِلَّ لِغَیْرِ اللہِ بِہِ وَالْمُنْخَنِقَۃُ وَالْمَوْقُوذَۃُ وَالْمُتَرَدِّیَۃُ وَالنَّطِیحَۃُ وَمَا أَکَلَ السَّبُعُ إِلَّا مَا ذَکَّیْتُمْ» ۱؎ (5-المائدہ:3) مردار جانور بوقت ذبح بہا ہوا خون سور کا گوشت اللہ کے سوا دوسرے کے نام پر مشہور کیا ہوا ، گلا گھٹا ہوا وغیرہ ۔ تمہیں چاہے کہ بت پرستی کی گندگی سے دور رہو ۔ «مِنَ» یہاں پر بیان جنس کے لیے ہے ، اور جھوٹی بات سے بچو ۔ اس آیت میں شرک کے ساتھ جھوٹ کو ملادیا جیسے آیت «قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ وَالْاِثْمَ وَالْبَغْیَ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَاَنْ تُشْرِکُوْا باللّٰہِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ سُلْطٰنًا وَّاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَی اللّٰہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ» ۱؎ (7-الأعراف:33) یعنی ’ میرے رب نے گندے کاموں کو حرام کر دیا خواہ وہ ظاہر ہوں خواہ پوشیدہ ۔ اور گناہ کو سرکشی کو اور بےعلمی کے ساتھ اللہ پر باتیں بنانے کو ‘ ۔ اسی میں جھوٹی گواہی بھی داخل ہے ۔ بخاری و مسلم میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا میں تمہیں سب سے بڑا کبیرہ گناہ بتاؤں ؟ صحابہ نے کہا ارشاد ہو ، فرمایا : { اللہ کے ساتھ شریک کرنا ماں باپ کی نافرمانی کرنا } پھر تکیہ سے الگ ہٹ کر فرمایا : { اور جھوٹ بولنا اور جھوٹی شہادت دینا } ۔ اسے باربار فرماتے رہے یہاں تک کہ ہم نے کہا کاش کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اب نہ فرماتے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2654) مسند احمد میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبے میں کھڑے ہو کر تین بار فرمایا : { جھوٹی گواہی اللہ کے ساتھ شرک کرنے کے برابر کر دی گئی ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مندرجہ بالا فقرہ تلاوت فرمایا } } ۔ (سنن ابوداود:3599،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) اور روایت میں ہے کہ { صبح کی نماز کی بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر یہ فرمایا } ۔ (سنن ابوداود:3599،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان بھی مروی ہے ” اللہ کے دین کو خلوص کے ساتھ تھام لو باطل سے ہٹ کر حق کی طرف آ جاؤ ۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانے والوں میں نہ بنو “ ۔ پھر مشرک کی تباہی کی مثال بیان فرمائی کہ ’ جیسے کوئی آسمان سے گر پڑے پس یا تو اسے پرند ہی اچک لے جائیں گے یا ہوا کسی ہلاکت کے دور دراز گڑھے میں پہنچا دے گی ‘ ۔ چنانچہ کافر کی روح کو لے کر جب فرشتے آسمان کی طرف چڑھتے ہیں تو اس کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھلتے اور وہیں سے وہ پھینک دی جاتی ہے اسی کا بیان اس آیت میں ہے ۔ یہ حدیث پوری تفصیل کے ساتھ سورۃ ابراہیم میں گزر چکی ہے سورۃ الانعام میں ان مشرکوں کی ایک اور مثال بیان فرمائی ہے «قُلْ أَنَدْعُو مِن دُونِ اللہِ مَا لَا یَنفَعُنَا وَلَا یَضُرٰنَا وَنُرَدٰ عَلَیٰ أَعْقَابِنَا بَعْدَ إِذْ ہَدَانَا اللہُ کَالَّذِی اسْتَہْوَتْہُ الشَّیَاطِینُ فِی الْأَرْضِ حَیْرَانَ لَہُ أَصْحَابٌ یَدْعُونَہُ إِلَی الْہُدَی ائْتِنَا قُلْ إِنَّ ہُدَی اللہِ ہُوَ الْہُدَیٰ وَأُمِرْنَا لِنُسْلِمَ لِرَبِّ الْعَالَمِینَ» ۱؎ (6-الأنعام:71) ’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیجئیے کہ کیا ہم اللہ تعالیٰ کے سوا ایسی چیز کو پکاریں کہ نہ وہ ہم کو نفع پہنچائے اور نہ ہم کو نقصان پہنچائے اور کیا ہم الٹے پھر جائیں اس کے بعد کہ ہم کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت کر دی ہے ، جیسے کوئی شخص ہو کہ اس کو شیطانوں نے کہیں جنگل میں بے راہ کر دیا ہو اور وہ بھٹکتا پھرتا ہو ، اس کے کچھ ساتھی بھی ہوں کہ وہ اس کو ٹھیک راستہ کی طرف بلا رہے ہوں کہ ہمارے پاس آ ۔ آپ کہہ دیجئیے کہ یقینی بات ہے کہ راہ راست وہ خاص اللہ ہی کی راہ ہے اور ہم کو یہ حکم ہوا ہے کہ ہم پروردگار عالم کے پورے مطیع ہو جائیں ‘ ۔ یہ اس کی مثل کے ہے جسے شیطان باؤلا بنا دے ۔ الحج
31 الحج
32 قربانی کے جانور اور حجاج اللہ کے شعائر کی جن میں قربانی کے جانور بھی شامل ہیں حرمت وعزت بیان ہو رہی ہے کہ ’ احکام الٰہی پر عمل کرنا اللہ کے فرمان کی توقیر کرنا ہے ‘ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں { یعنی قربانی کے جانوروں کو فربہ اور عمدہ کرنا ۔ سہل کا بیان ہے کہ ہم قربانی کے جانوروں کو پال کر انہیں فربہ اور عمدہ کرتے تھے تمام مسلمانوں کا یہی دستور تھا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:9/10) { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ { دو سیاہ رنگ کے جانوروں کے خون سے ایک عمدہ سفید رنگ جانور کا خون اللہ کو زیادہ محبوب ہے } } ۔ ۱؎ (سلسلۃ احادیث صحیحہ البانی:1861،) پس اگرچہ اور رنگت کے جانور بھی جائز ہیں لیکن سفید رنگ جانور افضل ہیں ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مینڈھے چتکبرے بڑے بڑے سینگوں والے اپنی قربانی میں ذبح کئے } ۔ (صحیح بخاری:5565) سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مینڈھا بڑا سینگ والا چت کبرا ذبح کیا جس کے منہ پر آنکھوں کے پاس اور پیروں پر سیاہ رنگ تھا } ۔ (سنن ابوداود:2796،قال الشیخ الألبانی:صحیح) امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ اسے صحیح کہتے ہیں ۔ ابن ماجہ وغیرہ میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مینڈھے بہت موٹے تازے چکنے چتکبرے خصی ذبح کئے } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:3122،قال الشیخ الألبانی:صحیح) سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ { ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا کہ ہم قربانی کے لیے جانور خریدتے وقت اس کی آنکھوں کو اور کانوں کو اچھی طرح دیکھ بھال لیا کریں ۔ اور آگے سے کٹے ہوئے کان والے پیچھے سے کٹے ہوئے کان والے لمبائی میں چرے ہوئے کان والے یا سوراخ دار کان والے کی قربانی نہ کریں } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2804،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اسے امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ صحیح کہتے ہیں ۔ اسی طرح { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگ ٹوٹے ہوئے اور کان کٹے ہوئے جانور کی قربانی سے منع فرمایا ہے } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2805،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) اس کی شرح میں سعید بن مسیب رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں جب کہ آدھا یا آدھے سے زیادہ کان یا سینگ نہ ہو ۔ بعض اہل لغت کہتے ہیں اگر اوپر سے کسی جانور کا سینگ ٹوٹا ہوا ہو تو اسے عربی میں «قصماً» کہتے اور جب نیچے کا حصہ ٹوٹا ہوا ہو تو اسے «عضب» کہتے ۔ اور حدیث میں لفظ «عضب» ہے اور کان کا کچھ حصہ کٹ گیا ہو تو اسے بھی عربی میں «عضب» کہتے ہیں ۔ امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ایسے جانور کی قربانی گو جائز ہے لیکن کراہت کے ساتھ ۔ امام احمد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جائز ہی نہیں ۔ [ بظاہر یہی قول مطابق حدیث ہے ] امام مالک رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اگر سینگ سے خون جاری ہے تو جائز نہیں ورنہ جائز ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے کہ { چار قسم کے عیب دار جانور قربانی میں جائز نہیں کانا جانور جس کا بھینگا پن ظاہر ہو اور وہ بیمار جانور جس کی بیماری کھلی ہوئی ہو اور وہ لنگڑا جس کا لنگڑا پن ظاہر ہو اور وہ دبلا پتلا مریل جانور جو گودے کے بغیر کا ہو گیا ہو } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2802،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اسے امام ترمذی صحیح کہتے ہیں ۔ یہ عیوب وہ ہیں جن سے جانور گھٹ جاتا ہے ۔ اس کا گوشت ناقص ہو جاتا ہے اور بکریاں چرتی چگتی رہتی ہیں اور یہ بوجہ اپنی کمزوری کے چارہ پورہ نہیں پاتا اسی لیے اس حدیث کے مطابق امام شافعی وغیرہ کے نزدیک اس کی قربانی ناجائز ہے ۔ ہاں بیمار جانور کے بارے میں جس کی بیماری خطرناک درجے کی نہ ہو بہت کم ہو امام صاحب کے دونوں قول ہیں ۔ ابو داؤد میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا بالکل سینگ کٹے جانور سینگ ٹوٹے جانور اور کانے جانور سے اور بالکل کمزور جانور سے جو ہمیشہ ہی ریوڑ کے پیچھے رہ جاتا ہو بوجہ کمزوری کے یا بوجہ زیادہ عمر کے اور لنگڑے جانور سے } ۱؎ (سنن ابوداود:2803،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) پس ان کل عیوب والے جانوروں کی قربانی ناجائز ہے ۔ ہاں اگر قربانی کے لیے صحیح سالم بےعیب جانور مقرر کر دینے کے بعد اتفاقاً اس میں کوئی ایسی بات آ جائے مثلا لولا لنگڑا وغیرہ ہو جائے تو امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک اس کی قربانی بلاشبہ جائز ہے ، امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ اس کے خلاف ہیں ۔ امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کی دلیل وہ حدیث ہے جو مسند احمد میں ابوسعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ { میں نے قربانی کے لیے جانور خریدا اس پر ایک بھیڑیئے نے حملہ کیا اور اس کی ران کا بوٹا توڑ لیا میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے واقعہ بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { تم اسی جانور کی قربانی کر سکتے ہو } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:32/3:ضعیف) پس خریدتے وقت جانور کا فربہ ہونا تیار ہونا بےعیب ہونا چاہیئے جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ { آنکھ کان دیکھ لیا کرو } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2804،قال الشیخ الألبانی:صحیح) { سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک نہایت عمدہ اونٹ قربانی کے لیے نامزد کیا لوگوں نے اس کی قیمت تین سو اشرفی لگائیں تو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ دریافت کیا اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اجازت دیں تو میں اسے بیچ دوں اور اس کی قیمت سے اور جانور بہت سے خرید لوں اور انہیں راہ للہ قربان کروں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرما دیا اور حکم دیا کہ { اسی کوفی سبیل اللہ ذبح کرو } } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:1756،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں قربانی کے اونٹ شعائر اللہ میں سے ہیں ۔ محمد بن ابی موسیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں عرفات میں ٹھہرنا اور مزدلفہ اور رمی جمار اور سر منڈوانا اور قربانی کے اونٹ یہ سب شعائر اللہ ہیں ۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ان سب سے بڑھ کر بیت اللہ شریف ہے ۔ پھر فرماتا ہے ’ ان جانوروں کے بالوں میں ، اون میں تمہارے لیے فوائد ہیں ان پر تم سوار ہوتے ہو ان کی کھالیں تمہارے لیے کار آمد ہیں ۔ یہ سب ایک مقررہ وقت تک ۔ یعنی جب تک اسے راہ للہ نامزد نہیں کیا ۔ ان کا دودھ پیو ان سے نسلیں حاصل کرو جب قربانی کے لیے مقرر کر دیا پھر وہ اللہ کی چیز ہو گیا ‘ ۔ بزرگ کہتے ہیں اگر ضرورت ہو تو اب بھی سواری کی اجازت ہے ۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ { ایک شخص کو اپنی قربانی کا جانور ہانکتے ہوئے دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس پر سوار ہو جاؤ } ۔ اس نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں اسے قربانی کی نیت کا کر چکا ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری یا تیسری بار فرمایا { افسوس بیٹھ کیوں نہیں جاتا } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1690) صحیح مسلم شریف میں ہے { جب ضرورت اور حاجت ہو تو سوار ہو جایا کرو } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1324) ایک شخص کی قربانی کی اونٹنی نے بچہ دیا تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اسے حکم دیا کہ اس کو دودھ پیٹ بھر کر پی لینے دے پھر اگر بچ رہے تو خیر تو اپنے کام میں لا اور قربانی والے دن اسے اور اس بچے کو دونوں کو بنام اللہ ذبح کر دے ۔ پھر فرماتا ہے ’ ان کی قربان گاہ بیت اللہ شریف ہے ‘ ۔ جیسے فرمان ہے آیت «ہَدْیًا بٰلِــغَ الْکَعْبَۃِ» ۱؎ (5-المائدۃ:95) اور آیت میں «وَالْہَدْیَ مَعْکُوْفًا اَنْ یَّبْلُغَ مَحِلَّہٗ» ۱؎ (48-الفتح:25) بیت العتیق کے معنی اس سے پہلے ابھی ابھی بیان ہو چکے ہیں «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں بیت اللہ کا طواف کرنے والا احرام سے حلال ہو جاتا ہے ۔ دلیل میں یہی آیت «لَکُمْ فِیہَا مَنَافِعُ إِلَیٰ أَجَلٍ مٰسَمًّی ثُمَّ مَحِلٰہَا إِلَی الْبَیْتِ الْعَتِیقِ» ۱؎ (22-الحج:33) تلاوت فرمائی ۔ الحج
33 الحج
34 قربانی ہر امت پر فرض قرار دی گئی فرمان ہے کہ ’ کل امتوں میں ہر مذہب میں ہر گروہ کو ہم نے قربانی کا حکم دیا تھا ۔ ان کے لیے ایک دن عید کا مقرر تھا ۔ وہ بھی اللہ کے نام ذبیحہ کرتے تھے ‘ ۔ سب کے سب مکے شریف میں اپنی قربانیاں بھیجتے تھے ۔ تاکہ قربانی کے چوپائے جانوروں کے ذبح کرنے کے وقت اللہ کا نام ذکر کریں ۔ { حضور علیہ السلام کے پاس دو مینڈھے چتکبرے بڑے بڑے سینگوں والے لائے گئے آپ نے انہیں لٹا کر ان کی گردن پر پاؤں رکھ کر بسم اللہ واللہ اکبر پڑھ کر ذبح کیا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5564) مسند احمد میں ہے کہ { صحابہ رضی اللہ عنہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یہ قربانیاں کیا ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا { تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت } ۔ پوچھا ہمیں اس میں کیا ملتا ہے ؟ فرمایا : { ہر بال کے بدلے ایک نیکی } ۔ دریافت کیا اور “اون“ کا کیا حکم ہے ؟ فرمایا : { ان کے روئیں کے بدلے ایک نیکی } } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:3127،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) اسے امام ابن جریر رحمتہ اللہ بھی لائے ہیں ۔ تم سب کا اللہ ایک ہے گو شریعت کے بعض احکام ادل بدل ہوتے رہے لیکن توحید میں ، اللہ کی یگانگت میں ، کسی رسول کو کسی نیک امت کو اختلاف نہیں ہوا ۔ اور آیت میں ہے «وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِکَ مِن رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِی إِلَیْہِ أَنَّہُ لَا إِلٰہَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ» ۱؎ (21-الانبیاء:25) ’ تجھ سے پہلے بھی جو رسول ہم نے بھیجا اس کی طرف یہی وحی نازل فرمائی کہ میرے سوا کوئی معبود برحق نہیں پس تم سب میری ہی عبادت کرو ‘ ۔ سب اللہ کی توحید ، اسی کی عبادت کی طرف تمام جہان کو بلاتے رہے ۔ سب پر اول وحی یہی نازل ہوتی رہی ۔ پس تم سب اس کی طرف جھک جاؤ ، اس کے ہو کر رہو ، اس کے احکام کی پابندی کرو ، اس کی اطاعت میں استحکام کرو ۔ جو لوگ مطمئن ہیں ، جو متواضع ہیں ، جو تقوے والے ہیں ، جو ظلم سے بیزار ہیں ، مظلومی کی حالت میں بدلہ لینے کے خوگر نہیں ، مرضی مولا ، رضائے رب پر راضی ہیں انہیں خوشخبریاں سنا دیں ، وہ مبارکباد کے قابل ہیں ۔ جو ذکر الٰہی سنتے ہیں دل نرم ، اور خوف الٰہی سے پر کر کے رب کی طرف جھک جاتے ہیں ، کٹھن کاموں پر صبر کرتے ہیں ، مصیبتوں پر صبر کرتے ہیں ۔ امام حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ” واللہ اگر تم نے صبر وبرداشت کی عادت نہ ڈالی تو تم برباد کر دیئے جاؤ گے “ ۔ «وَالْمُقِیمِی» کی قرأت اضافت کے ساتھ تو جمہور کی ہے ۔ لیکن ابن سمیفع نے «وَالْمُقِیمِی» پڑھا ہے اور «الصَّلَوٰۃِ» کا زبر پڑھا ہے ۔ امام حسن نے پڑھا تو ہے نون کے حذف اور اضافت کے ساتھ لیکن «الصَّلَوٰۃِ» کا زبر پڑھا ہے اور فرماتے ہیں کہ نون کا حذف یہاں پر بوجہ تخفیف کے ہے کیونکہ اگر بوجہ اضافت مانا جائے تو اس کا زبر لازم ہے ۔ اور ہوسکتا ہے کہ بوجہ قرب کے ہو ۔ مطلب یہ ہے کہ فریضہ الٰہی کے پابند ہیں اور اللہ کا حق ادا کرنے والے ہیں اور اللہ کا دیا ہوا دیتے رہتے ہیں ، اپنے گھرانے کے لوگوں کو ، فقیروں محتاجوں کو اور تمام مخلوق کو جو بھی ضرورت مند ہوں سب کے ساتھ سلوک و احسان سے پیش آتے ہیں ۔ اللہ کی حدود کی حفاظت کرتے ہیں منافقوں کی طرح نہیں کہ ایک کام کریں تو ایک کو چھوڑیں ۔ سورۃ براۃ میں بھی یہی صفتیں بیان فرمائی ہیں اور وہیں پوری تفسیر بھی بحمدللہ ہم کر آئے ہیں ۔ «فَلِلہِ الْحَمْدُ وَالْمِنَّۃُ» الحج
35 الحج
36 شعائر اللہ کیا ہیں ؟ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے جانور پیدا کئے اور انہیں اپنے نام پر قربان کرنے اور اپنے گھر بطور قربانی کے پہنچانے کا حکم فرمایا اور انہیں شعائر اللہ قرار دیا اور حکم فرمایا آیت «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تُحِلٰوا شَعَائِرَ‌ اللہِ وَلَا الشَّہْرَ‌ الْحَرَ‌امَ وَلَا الْہَدْیَ وَلَا الْقَلَائِدَ وَلَا آمِّینَ الْبَیْتَ الْحَرَ‌امَ یَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّن رَّ‌بِّہِمْ وَرِ‌ضْوَانًا» ۱؎ (5-المائدۃ:2) ’ نہ تو اللہ کے ان عظمت والے نشانات کی بے ادبی کرو نہ حرمت والے مہینوں کی گستاخی کرو ‘ لہٰذا ہر اونٹ گائے جو قربانی کے لیے مقرر کر دیا جائے وہ بدن میں داخل ہے ۔ گو بعض لوگوں نے صرف اونٹ کو ہی بدن کہا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ اونٹ تو ہے ہی گائے بھی اس میں شامل ہے ۔ حدیث میں ہے کہ { جس طرح اونٹ سات آدمیوں کی طرف سے قربان ہوسکتا ہے اسی طرح گائے بھی } ۔ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے صحیح مسلم شریف میں روایت ہے کہ { ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ہم اونٹ میں سات شریک ہو جائیں اور گائے میں بھی سات آدمی شرکت کر لیں } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1318) امام اسحاق بن راہویہ وغیرہ تو فرماتے ہیں ان دونوں جانوروں میں دس دس آدمی شریک ہو سکتے ہیں مسند احمد اور سنن نسائی میں ایسی حدیث بھی آئی ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» پھر فرمایا ’ ان جانورں میں تمہارا اخروی نفع ہے ‘ ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { بقرہ عید والے دن انسان کا کوئی عمل اللہ کے نزدیک قربانی سے زیادہ پسندیدہ نہیں ۔ جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں ، کھروں اور بالوں سمیت انسان کی نیکیوں میں پیش کیا جائے گا ۔ یاد رکھو قربانی کے خون کا قطرہ زمین پر گرنے سے پہلے اللہ کے ہاں پہنچ جاتا ہے پس ٹھنڈے دل سے قربانیاں کرو } } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:1493،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) سفیان ثوری رحمتہ اللہ علیہ تو قرض اٹھا کر بھی قربانی کیا کرتے تھے اور لوگوں کے دریافت کرنے پر فرماتے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہیں اس میں تمہارا بھلا ہے ۔ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { کسی خرچ کا فضل اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہ نسبت اس خرچ کے جو بقرہ عید والے دن کی قربانی پر کیا جائے ہرگز افضل نہیں } } ۔ ۱؎ (دارقطنی:282/4:ضعیف) پس اللہ فرماتا ’ تمہارے لیے ان جانوروں میں ثواب ہے نفع ہے ضرورت کے وقت دودھ پی سکتے ہو سوار ہو سکتے ہو ‘ ،پھر ان کی قربانی کے وقت اپنا نام پڑھنے کی ہدایت کرتا ہے ۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں { میں نے عید الاضحی کی نماز رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھی نماز سے فراغت پاتے ہی سامنے مینڈھا لایا گیا جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا «بِسْمِ اللَّہ وَاَللَّہ أَکْبَر اللہُمَّ ہَذَا عَنِّی وَعَمَّنْ لَمْ یُضَحِّ مِنْ أُمَّتِی» پڑھ کر ذبح کیا [ کہا اے اللہ یہ میری طرف سے ہے اور میری امت میں سے جو قربانی نہ کر سکے اس کی طرف سے ہے ] } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2810،قال الشیخ الألبانی:صحیح) امام محمد بن اسحاق رحمہ اللہ فرماتے ہیں { عید والے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو مینڈھے لائے گئے انہیں قبلہ رخ کر کے آپ نے دعا «وَجَّہْت وَجْہِیَ لِلَّذِی فَطَرَ السَّمَوَات وَالْأَرْض حَنِیفًا وَمَا أَنَا مِنْ الْمُشْرِکِینَ إِنَّ صَلَاتِی وَنُسُکِی وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِی لِلہِ رَبّ الْعَالَمِینَ لَا شَرِیک لَہُ وَبِذَلِکَ أُمِرْت وَأَنَا أَوَّل الْمُسْلِمِینَ اللہُمَّ مِنْک وَلَک عَنْ مُحَمَّد وَأُمَّتہ» پڑھ کر «بِسْمِ اللہِ وَ اللہِ أَکْبَرُ» کہہ کر ذبح کر ڈالا } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2795،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ { قربانی کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو مینڈھے موٹے موٹے تازے تیار عمدہ بڑے سینگوں والے چتکبرے خریدتے ، جب نماز پڑھ کر خطبے سے فراغت پاتے ایک جانور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا جاتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہیں عید گاہ میں ہی خود اپنے ہاتھ سے اسے ذبح کرتے اور فرماتے { اللہ تعالیٰ یہ میری ساری امت کی طرف سے ہے جو بھی توحید وسنت کا گواہ ہے } ، پھر دوسرا جانور حاضر کیا جاتا جسے ذبح کرکے فرماتے { یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہے } پھر دونوں کا گوشت مسکینوں کو بھی دیتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والے بھی کھاتے } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:3122،قال الشیخ الألبانی:صحیح) «صَوَافَّ» کے معنی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اونٹ کو تین پیروں پر کھڑا کر کے اس کا بایاں ہاتھ باندھ کر دعا «بِسْمِ اللَّہ وَاَللَّہ أَکْبَر لَا إِلَہ إِلَّا اللَّہ اللہُمَّ مِنْک وَلَک» پڑھ کر اسے نحر کرنے کے کئے ہیں ۔ { سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک شخص کو دیکھا کہ اس نے اپنے اونٹ کو قربان کرنے کے لیے بٹھایا ہے تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” اسے کھڑا کر دے اور اس کا پیر باندھ کر اسے نحر کر یہی سنت ہے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی “ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1713) سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم اونٹ کا ایک پاؤں باندھ کر تین پاؤں پر کھڑا کر کے ہی نحر کرتے تھے } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:1768،قال الشیخ الألبانی:صحیح) سالم بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے سلیمان بن عبدالملک سے فرمایا تھا کہ بائیں طرف سے نحر کیا کرو ۔ حجتہ الوداع کا بیان کرتے ہوئے جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تریسٹھ اونٹ اپنے دست مبارک سے نحر کئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں حربہ تھا جس سے آپ زخمی کر رہے تھے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1218) سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی قرأت میں «صَوَافِن» ہے یعنی کھڑے کر کے پاؤں باندھ کر «صَوَافَّ» کے معنی خالص کے بھی کئے گئے ہیں یعنی جس طرح جاہلیت کے زمانے میں اللہ کے ساتھ دوسروں کو بھی شریک کرتے تھے تم نہ کرو ، صرف اللہ واحد کے نام پر ہی قربانیاں کرو ۔ پھر جب یہ زمین پر گر پڑیں یعنی نحر ہو جائیں ٹھنڈے پڑجائیں تو خود کھاؤ اوروں کو بھی کھلاؤ نیزہ مارتے ہی ٹکڑے کاٹنے شروع نہ کرو جب تک روح نہ نکل جائے اور ٹھنڈا نہ پڑ جائے ۔ چنانچہ ایک حدیث میں بھی آیا ہے کہ { روحوں کے نکالنے میں جلدی نہ کرو } ۔ صحیح مسلم کی حدیث میں کہ { اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے ساتھ سلوک کرنا لکھ دیا ہے دشمنوں کو میدان جنگ میں قتل کرتے وقت بھی نیک سلوک رکھو اور جانوروں کو ذبح کرتے وقت بھی اچھی طرح سے نرمی کے ساتھ ذبح کرو چھری تیز کر لیا کرو اور جانور کو تکلیف نہ دیا کرو } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1955) فرمان ہے کہ { جانور میں جب تک جان ہے اور اس کے جسم کا کوئی حصہ کاٹ لیا جائے تو اس کا کھانا حرام ہے } ۔ (سنن ابوداود:2857،قال الشیخ الألبانی:صحیح) پھر فرمایا ’ اسے خود کھاؤ ‘ ، بعض سلف تو فرماتے ہیں ” یہ کھانا مباح ہے “ ۔ امام مالک رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہے ” مستحب ہے “ اور لوگ کہتے ہیں ” واجب ہے “ ۔ ’ اور مسکینوں کو بھی دو خواہ وہ گھروں میں بیٹھنے والے ہوں خواہ وہ دربدر سوال کرنے والے ‘ ۔ یہ بھی مطلب ہے کہ قانع تو وہ ہے جو صبر سے گھر میں بیٹھا رہے اور معتر وہ ہے جو سوال تو نہ کرے لیکن اپنی عاجزی مسکینی کا اظہار کرے ۔ یہ بھی مروی ہے کہ قانع وہ ہے جو مسکین ہو آنے جانے والا ۔ اور «مُعْتَرَّ» سے مراد دوست اور ناتواں لوگ اور وہ پڑوسی جو گو مالدار ہوں لیکن تمہارے ہاں جو آئے جائے اسے وہ دیکھتے ہوں ۔ وہ بھی ہیں جو طمع رکھتے ہوں اور وہ بھی جو امیر فقیر موجود ہوں ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ «الْقَانِعَ» سے مراد اہل مکہ ہیں ۔ امام ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ کا فرمان ہے کہ ” «قَانِعَ» سے مراد تو سائل ہے کیونکہ وہ اپنا ہاتھ سوال کے لیے دراز کرتا ہے ، اور «مُعْتَرَّ» سے مراد وہ جو ہیر پھیر کرے کہ کچھ مل جائے “ ۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ قربانی کے گوشت کے تین حصے کرنے چاہئیں ۔ تہائی اپنے کھانے کو ، تہائی دوستوں کے دینے کو ، تہائی صدقہ کرنے کو ۔ حدیث میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { میں نے تمہیں قربانی کے گوشت کو جمع کر کے رکھنے سے منع فرما دیا تھا کہ تین دن سے زیادہ تک نہ روکا جائے اب میں اجازت دیتا ہوں کہ کھاؤ جمع کرو جس طرح چاہو } } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1977) اور روایت میں ہے کہ { کھاؤ جمع کرو اور صدقہ کرو } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1971) اور روایت میں ہے { کھاؤ اور کھلاؤ اور راہ للہ دو } ۔ بعض لوگ کہتے ہیں قربانی کرنے والا آدھا گوشت آپ کھائے اور باقی صدقہ کر دے کیونکہ قرآن نے فرمایا ہے ’ خود کھاؤ اور محتاج فقیر کو کھلاؤ ‘ ۔ اور حدیث میں بھی ہے کہ { کھاؤ ، جمع ، ذخیرہ کرو اور راہ للہ دو } ۔ اب جو شخص اپنی قربانی کا سارا گوشت خود ہی کھا جائے تو ایک قول یہ بھی ہے کہ اس پر کچھ حرج نہیں ۔ بعض کہتے ہیں اس پر ویسی ہی قربانی یا اس کی قیمت کی ادائیگی ہے بعض کہتے ہیں آدھی قیمت دے ، بعض آدھا گوشت ۔ بعض کہتے ہیں اس کے اجزا میں سے چھوٹے سے چھوٹے جز کی قیمت اس کے ذمے ہے باقی معاف ہے ۔ کھال کے بارے میں مسند احمد میں حدیث ہے کہ { کھاؤ اور فی اللہ دو اور اس کے چمڑوں سے فائدہ اٹھاؤ لیکن انہیں بیچو نہیں } ۔ ۱؎ (مسند احمد:15/4:ضعیف) بعض علماء نے بیچنے کی رخصت دی ہے ۔ بعض کہتے ہیں غریبوں میں تقسیم کر دئیے جائیں ۔ مسئلہ براء بن عازب کہتے ہیں { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { سب سے پہلے ہمیں اس دن نماز عید ادا کرنی چاہیئے پھر لوٹ کر قربانیاں کرنی چاہئیں جو ایسا کرے اس نے سنت کی ادائیگی کی ۔ اور جس نے نماز سے پہلے ہی قربانی کر لی اس نے گویا اپنے والوں کے لیے گوشت جمع کر لیا اسے قربانی سے کوئی لگاؤ نہیں } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:951-955) اسی لیے امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ اور علماء کی ایک جماعت کا خیال ہے کہ قربانی کا اول وقت اس وقت ہوتا ہے جب سورج نکل آئے اور اتنا وقت گزر جائے کہ نماز ہولے اور دو خطبے ہو لیں ۔ امام احمد رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک اس کے بعد کا اتنا وقت بھی کہ امام ذبح کر لے ۔ کیونکہ صحیح مسلم میں ہے { امام جب تک قربانی نہ کرے تم قربانی نہ کرو } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1964) امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک تو گاؤں والوں پر عید کی نماز ہی نہیں اس لیے کہتے ہیں کہ وہ طلوع فجر کے بعد ہی قربانی کر سکتے ہیں ہاں شہری لوگ جب تک امام نماز سے فارغ نہ ہولے قربانی نہ کریں «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ پھر یہ بھی کہا گیا ہے کہ صرف عید والے دن ہی قربانی کرنا مشروع ہے اور قول ہے کہ شہر والوں کے لیے تو یہی ہے کیونکہ یہاں قربانیاں آسانی سے مل جاتی ہیں ۔ لیکن گاؤں والوں کے لیے عید کا دن اور اس کے بعد کے ایام تشریق ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ دسویں اور گیا رھویں تاریخ سب کے لیے قربانی ہے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ عید کے بعد کے دو دن ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ عید کا دن اور اس کے بعد کے تین دن جو ایام تشریق کے ہیں ۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا مذہب یہی ہے کیونکہ جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ { رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ایام تشریق سب قربانی کے ہیں } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:82/4:ضعیف و منقطع) کہا گیا ہے کہ قربانی کے دن ذی الحجہ کے خاتمہ تک ہیں لیکن یہ قول غریب ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ اسی وجہ سے ہم نے ان جانوروں کو تمہارا فرماں بردار اور زیر اثر کر دیا ہے کہ تم چاہو سواری لو ، جب چاہو دودھ نکال لو ، جب چاہو ذبح کر کے گوشت کھا لو ‘ ۔ جیسے سورۃ یسٰین میں آیت «أَوَلَمْ یَرَوْا أَنَّا خَلَقْنَا لَہُم مِّمَّا عَمِلَتْ أَیْدِینَا أَنْعَامًا فَہُمْ لَہَا مَالِکُونَ وَذَلَّلْنَاہَا لَہُمْ فَمِنْہَا رَکُوبُہُمْ وَمِنْہَا یَأْکُلُونَ وَلَہُمْ فِیہَا مَنَافِعُ وَمَشَارِبُ أَفَلَا یَشْکُرُونَ» ۱؎ (36-یس:71-73) تک بیان ہوا ہے ۔ یہی فرمان یہاں ہے کہ ’ اللہ کی اس نعمت کا شکر ادا کرو اور ناشکری ، ناقدری نہ کرو ‘ ۔ الحج
37 قربانی پر اللہ تعالیٰ کی کبریائی بیان کرو ارشاد ہوتا ہے کہ ’ قربانیوں کے وقت اللہ کا نام بڑائی سے لیا جائے ‘ ۔ اسی لیے قربانیاں مقرر ہوئی ہیں کہ خالق رازق اسے مانا جائے نہ کہ قربانیوں کے گوشت و خون سے اللہ کو کوئی نفع ہوتا ہو ۔ اللہ تعالیٰ ساری مخلوق سے غنی اور کل بندوں سے بے نیاز ہے ۔ جاہلیت کی بیوقوفیوں میں ایک یہ بھی تھی کہ قربانی کے جانور کا گوشت اپنے بتوں کے سامنے رکھ دیتے تھے اور ان پر خون کا چھینٹا دیتے تھے ۔ یہ بھی دستور تھا کہ بیت اللہ شریف پر قربانی کے خون چھڑکتے ، مسلمان ہو کر صحابہ رضی اللہ عنہم نے ایسا کرنے کے بارے میں سوال کیا جس پر یہ آیت اتری کہ ’ اللہ تو تقویٰ کو دیکھتا ہے اسی کو قبول فرماتا ہے اور اسی پر بدلہ عنایت فرماتا ہے ‘ ۔ چنانچہ صحیح حدیث میں ہے کہ { اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں کو نہیں دیکھتا نہ اس کی نظریں تمہارے مال پر ہیں بلکہ اس کی نگاہیں تمہارے دلوں پر اور تمہارے اعمال پر ہیں } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2564) اور حدیث میں ہے کہ { خیرات وصدقہ سائل کے ہاتھ میں پڑے اس سے پہلے اللہ کے ہاتھ میں چلا جاتا ہے ۔ قربانی کے جانور کے خون کا قطرہ زمین پر ٹپکے اس سے پہلے اللہ کے ہاں پہنچ جاتا ہے } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:1493،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) اس کا مطلب یہی ہے کہ خون کا قطرہ الگ ہوتے ہی قربانی مقبول ہو جاتی ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ عامر شعبی رحمہ اللہ سے قربانی کی کھالوں کی نسبت پوچھا گیا تو فرمایا ” اللہ کو گوشت و خون نہیں پہنچتا اگر چاہو بیچ دو ، اگر چاہو خود رکھ لو ، اگر چاہو راہ للہ دے دو ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان جانوروں کو تمہارے قبضے میں دیا ہے ۔ کہ تم اللہ کے دین اور اس کی شریعت کی راہ پا کر اس کی مرضی کے کام کرو اور نا مرضی کے کاموں سے رک جاؤ ۔ اور اس کی عظمت وکبریائی بیان کرو ۔ جو لوگ نیک کار ہیں ، حدود اللہ کے پابند ہیں ، شریعت کے عامل ہیں ، رسولوں کی صداقت تسلیم کرتے ہیں وہ مستحق مبارکباد اور لائق خوشخبری ہیں “ ۔ مسئلہ امام ابوحنیفہ ، مالک ثوری رحمہ اللہ علیہم کا قول ہے کہ ” جس کے پاس نصاب زکوٰۃ جتنا مال ہو اس پر قربانی واجب ہے “ ۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک یہ شرط بھی ہے کہ وہ اپنے گھر میں مقیم ہو ۔ چنانچہ ایک صحیح حدیث میں ہے کہ { جسے وسعت ہو اور قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ آئے } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:3123،قال الشیخ الألبانی:حسن) اس روایت میں غرابت ہے اور امام احمد رحمتہ اللہ علیہ اسے منکر بتاتے ہیں ۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم برابر دس سال قربانی کرتے رہے } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:1507،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) امام شافعی رحمہ اللہ اور حضرت مام احمد رحمہ اللہ کا مذہب ہے کہ قربانی واجب و فرض نہیں بلکہ مستحب ہے ۔ کیونکہ حدیث میں آیا ہے کہ { مال و زکوٰۃ کے سوا اور کوئی فرضیت نہیں } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:1789،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) یہ بھی روایت پہلے بیان ہو چکی ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تمام امت کی طرف سے قربانی کی } پس وجوب ساقط ہو گیا ۔ ابو شریحہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں میں ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہم کے پڑوس میں رہتا تھا ۔ یہ دونوں بزرگ قربانی نہیں کرتے تھے اس ڈر سے کہ لوگ ان کی اقتداء کریں گے ۔ بعض لوگ کہتے ہیں قربانی سنت کفایہ ہے ، جب کہ محلے میں سے یا گلی میں سے یا گھر میں سے کسی ایک نے کر لی باقی سب نے ایسا نہ کیا ۔ اس لیے کہ مقصود صرف شعار کا ظاہر کرنا ہے ۔ ترمذی وغیرہ میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میدان عرفات میں فرمایا : { ہر گھر والوں پر ہر سال قربانی ہے اور «عَتِیرَۃ» ہے جانتے ہو «عَتِیرَۃ» کیا ہے ؟ وہی جسے تم «رَّجَبِیَّۃ» کہتے ہو } } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2788،قال الشیخ الألبانی:حسن) اس کی سند میں کلام کیا گیا ہے ۔ سیدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں { صحابہ رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں اپنے پورے گھر کی طرف سے ایک بکری راہ للہ ذبح کر دیا کرتے تھے اور خود بھی کھاتے ، اوروں کو بھی کھلاتے ۔ پھر لوگوں نے اس میں وہ کر لیا جو تم دیکھ رہے ہو } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:1505،قال الشیخ الألبانی:صحیح) { سیدنا عبداللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ اپنی اور اپنے تمام گھر والوں کی طرف سے ایک بکری کی قربانی کیا کرتے تھے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:7210) اب قربانی کے جانور کی عمر کا بیان ملاحظہ ہو ۔ صحیح مسلم میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { نہ ذبح کرو مگر «مُسِنَّۃ» بجز اس صورت کے کہ وہ تم پر بھاری پڑ جائے تو پھر بھیڑ کا بچہ بھی چھ ماہ کا ذبح کر سکتے ہو } } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2788،قال الشیخ الألبانی:حسن) زہری رحمہ اللہ تو کہتے ہیں کہ «الْجَذَع» یعنی چھ ماہ کا کوئی جانور قربانی میں کام ہی نہیں آسکتا اور اس کے بالمقابل اوزاعی رحمہ اللہ کا مذہب ہے کہ ہر جانور کا جزعہ کافی ہے ۔ لیکن یہ دونوں قول افراط والے ہیں ۔ جمہور کا مذہب یہ ہے کہ اونٹ گائے بکری تو وہ جائز ہے جو ثنی ہو ۔ اور بھیڑ کا چھ ماہ کا بھی جائز ہے ۔ اونٹ تو ثنی ہوتا ہے جب پانچ سال پورے کر کے چھٹے میں لگ جائے ۔ اور گائے جب دو سال پورے کر کے تیسرے میں لگ جائے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ تین گزار کر چوتھے میں لگ گیا ہو ۔ اور بکری کا ثنی وہ ہے جو دو سال گزار چکا ہو اور جذعہ کہتے ہیں اسے جو سال بھر کا ہو گیا ہو اور کہا گیا ہے جو دس ماہ کا ہو ۔ ایک قول ہے جو آٹھ ماہ کا ہو ایک قول ہے جو چھ ماہ کا ہو اس سے کم مدت کا کوئی قول نہیں ۔ اس سے کم عمر والے کو حمل کہتے ہیں ۔ جب تک کہ اس کی پیٹھ پر بال کھڑے ہوں اور بال لیٹ جائیں اور دونوں جانب جھک جائیں تو اسے جذع کہا جاتا ہے ، «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ الحج
38 1 اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے خبر دے رہا ہے کہ ’ جو اس کے بندے اس پر بھروسہ رکھیں اس کی طرف جھکتے رہیں انہیں وہ اپنی امان نصیب فرماتا ہے ، شریروں کی برائیاں دشمنوں کی بدیاں خود ہی ان سے دور کر دیتا ہے ، اپنی مدد ان پر نازل فرماتا ہے ، اپنی حفاظت میں انہیں رکھتا ہے ‘ ۔ جیسے فرمان ہے آیت «اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ وَیُخَوِّفُوْنَکَ بالَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِہٖ وَمَنْ یٰضْلِلِ اللّٰہُ فَمَا لَہٗ مِنْ ہَادٍ» ۱؎ (39-الزمر:36) یعنی ’ کیا اللہ اپنے بندے کو کافی نہیں ؟ ‘ اور آیت میں «وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَہُوَ حَسْبُہٗ اِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ اَمْرِہٖ قَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ شَیْءٍ قَدْرًا» ۱؎ (65-الطلاق:3) ’ جو اللہ پر بھروسہ رکھے اللہ آپ اسے کافی ہے ‘ الخ ، دغا باز ناشکرے اللہ کی محبت سے محروم ہیں اپنے عہدو پیمان پورے نہ کرنے والے اللہ کی نعمتوں کے منکر اللہ کے پیار سے دور ہیں ۔ الحج
39 حکم جہاد صادر ہوا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم مدینے سے بھی نکالے جانے لگے اور کفار مکے سے چڑھ دوڑے تب جہاد کی اجازت کی یہ آیت اتری ۔ بہت سے سلف سے منقول ہے کہ جہاد کی یہ پہلی آیت ہے جو قرآن میں اتری ۔ اسی سے بعض بزرگوں نے استدلال کیا ہے کہ یہ سورت مدنی ہے ۔ { جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکے شریف سے ہجرت کی ، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی زبان سے نکلا کہ ” افسوس ان کفار نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو وطن سے نکالا یقیناً یہ تباہ ہوں گے “ ۔ پھر یہ آیت اتری تو صدیق رضی اللہ عنہ نے جان لیا کہ جنگ ہو کر رہے گی } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3171،قال الشیخ الألبانی:صحیح الاسناد) اور آیت میں ہے «فَإِذَا لَقِیتُمُ الَّذِینَ کَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّیٰ إِذَا أَثْخَنتُمُوہُمْ فَشُدٰوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً حَتَّیٰ تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَہَا ذٰلِکَ وَلَوْ یَشَاءُ اللہُ لَانتَصَرَ مِنْہُمْ وَلٰکِن لِّیَبْلُوَ بَعْضَکُم بِبَعْضٍ وَالَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیلِ اللہِ فَلَن یُضِلَّ أَعْمَالَہُمْ سَیَہْدِیہِمْ وَیُصْلِحُ بَالَہُمْ وَیُدْخِلُہُمُ الْجَنَّۃَ عَرَّفَہَا لَہُمْ» ۱؎ (47-محمد:4-6) ’ اللہ اپنے مومن بندوں کی مدد پر قادر ہے ۔ اگر چاہے تو بے لڑے بھڑے انہیں غالب کر دے لیکن وہ آزمانا چاہتا ہے اسی لیے حکم دیا کہ ان کفار کی گردنیں مارو ‘ ۔ الخ ، اور آیت میں ہے فرمایا «قَاتِلُوْہُمْ یُعَذِّبْہُمُ اللّٰہُ بِاَیْدِیْکُمْ وَیُخْزِہِمْ وَیَنْصُرْکُمْ عَلَیْہِمْ وَیَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مٰؤْمِنِیْنَ وَیُذْہِبْ غَیْظَ قُلُوبِہِمْ وَیَتُوبُ اللہُ عَلَیٰ مَن یَشَاءُ وَ اللہُ عَلِیمٌ حَکِیمٌ» ۱؎ (9-التوبہ:15،14) ’ ان سے لڑو اللہ انہیں تمہارے ہاتھوں سزا دے گا اور رسوا کرے اور ان پر تمہیں غالب کرے گا اور مومنوں کے حوصلے نکالنے کا موقع دے گا کہ ان کے کلیجے ٹھنڈے ہو جائیں ساتھ ہی جسے چاہے گا توفیق توبہ دے گا اللہ علم وحکمت والا ہے ‘ ۔ اور آیت میں ہے «اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تُتْرَکُوْا وَلَمَّا یَعْلَمِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ جٰہَدُوْا مِنْکُمْ وَلَمْ یَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَلَا رَسُوْلِہٖ وَلَا الْمُؤْمِنِیْنَ وَلِیْجَۃً وَاللّٰہُ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ» ۱؎ (9-التوبہ:16) یعنی ’ کیا تم نے یہ سوچ رکھا ہے کہ تم چھوڑ دیئے جاؤ گے حالانکہ اب تک تو وہ کھل کر سامنے نہیں آئے جو مجاہد ہیں ، اللہ ، رسول اور مسلمانوں کے سوا کسی سے دوستی اور یگانگت نہیں کرتے ۔ سمجھ لو کہ اللہ تمہارے اعمال سے باخبر ہے ‘ ۔ اور آیت میں ہے «حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَعْلَمِ اللہُ الَّذِینَ جَاہَدُوا مِنکُمْ وَیَعْلَمَ الصَّابِرِینَ» ۱؎ (3-آل عمران:142) ’ کیا تم نے یہ گمان کیا ہے کہ تم جنت میں چلے جاؤ گے حالانکہ اب تک مجاہدین اور صابرین دوسروں سے ممتاز نہیں ہوئے ‘ ۔ اور آیت میں فرمایا ہے آیت «وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ حَتّٰی نَعْلَمَ الْمُجٰہِدِیْنَ مِنْکُمْ وَالصّٰبِرِیْنَ وَنَبْلُوَا۟ اَخْبَارَکُمْ» ۱؎ (47-محمد:31) ’ ہم تمہیں یقیناً آزمائیں گے یہاں تک کہ تم میں سے غازی اور صبر کرنے والے ہمارے سامنے نمایاں ہو جائیں ‘ ۔ اس بارے میں اور بھی بہت سی آیتیں ہیں ۔ پھر فرمایا ’ اللہ ان کی مدد پر قادر ہے ‘ ۔ اور یہی ہوا بھی کہ اللہ نے اپنے لشکر کو دنیا پر غالب کر دیا ۔ جہاد کو شریعت نے جس وقت مشروع فرمایا وہ وقت بھی اس کے لیے بالکل مناسب اور نہایت ٹھیک تھا ۔ الحج
40 1 جب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکے میں رہے مسلمان بہت ہی کمزور تھے تعداد میں بھی دس کے مقابلے میں ایک بمشکل بیٹھتا ۔ چنانچہ جب لیلتہ العقبہ میں انصاریوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی تو انہوں نے کہا کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حکم دیں تو اس وقت منیٰ میں جتنے مشرکین جمع ہیں ان پر شب خون ماریں ۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { مجھے ابھی اس کا حکم نہیں دیا گیا } ۔ یہ یاد رہے کہ یہ بزرگ صرف اسی [٨٠] سے کچھ اوپر تھے ۔ جب مشرکوں کی بغاوت بڑھ گئی ، جب وہ سرکشی میں حد سے گزر گئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت ایذائیں دیتے دیتے اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کرنے کے درپے ہو گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جلا وطن کرنے کے منصوبے گانٹھنے لگے ۔ اسی طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر مصیبتوں کے پہاڑ توڑ دیئے ۔ بیک بینی و دوگوش وطن مال اسباب ، اپنوں غیروں کو چھوڑ کر جہاں جس کا موقعہ بنا گھبرا کر چل دیا کچھ تو حبشہ پہنچے کچھ مدینے گئے ۔ یہاں تک کہ خود آفتاب رسالت کا طلوع بھی مدینے شریف میں ہوا ۔ اہل مدینہ محمدی جھنڈے تلے جوش خروش سے جمع لشکری صورت مرتب ہو گئی ۔ کچھ مسلمان ایک جھنڈے تلے دکھائی دینے لگے ، قدم ٹکانے کی جگہ مل گئی ۔ اب دشمنان دین سے جہاد کے احکام نازل ہوئے تو پس سب سے پہلے یہی آیت اتری ۔ اس میں بیان فرمایا گیا کہ ’ یہ مسلمان مظلوم ہیں ، ان کے گھربار ان سے چھین لیے گئے ہیں ، بے وجہ گھر سے بے گھر کر دئیے گئے ہیں ، مکے سے نکال دئیے گئے ، مدینے میں بے سرو سامانی میں پہنچے ۔ ان کا جرم بجز اس کے سوا نہ تھا کہ صرف اللہ کے پرستار تھے رب کو ایک مانتے تھے اپنے پروردگار صرف اللہ کو جانتے تھے ۔ یہ استثنا منقطع ہے گو مشرکین کے نزدیک تو یہ امر اتنا بڑا جرم ہے جو ہرگز کسی صورت سے معافی کے قابل نہیں ‘ ۔ فرمان ہے آیت «یُخْرِجُوْنَ الرَّسُوْلَ وَاِیَّاکُمْ اَنْ تُؤْمِنُوْا باللّٰہِ رَبِّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ خَرَجْتُمْ جِہَادًا فِیْ سَبِیْلِیْ وَابْتِغَاءَ مَرْضَاتِیْ» ۱؎ (60-الممتحنۃ:1) ’ تمہیں اور ہمارے رسول کو صرف اس بنا پر نکالتے ہیں کہ تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو جو تمہارا حقیقی پروردگار ہے ‘ ۔ خندقوں والوں کے قصے میں فرمایا آیت «مَا نَقَمُوا مِنْہُمْ إِلَّا أَن یُؤْمِنُوا بِ اللہِ الْعَزِیزِ الْحَمِیدِ» ۱؎ (85-البروج:8) یعنی ’ دراصل ان کا کوئی قصور نہ تھا سوائے اس کے کہ وہ اللہ تعالیٰ غالب ، مہربان ، ذی احسان پر ایمان لائے تھے ‘ ۔ { مسلمان صحابہ رضی اللہ عنہم خندق کھودتے ہوئے اپنے رجز میں کہہ رہے تھے ، شعر «لَا ہُمَّ لَوْلَا أَنْتَ مَا اِہْتَدَیْنَا وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّیْنَا» «فَأَنْزِلَن سَکِینَۃ عَلَیْنَا وَثَبِّتْ الْأَقْدَام إِنْ لَاقَیْنَا» «إِنَّ الْأُلَی قَدْ بَغَوْا عَلَیْنَا إِذَا أَرَادُوا فِتْنَۃ أَبَیْنَا» خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کی موافقت میں تھے اور قافیہ کا آخری حرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے ساتھ ادا کرتے اور «‏‏‏‏أَبَیْنَا» ‏‏کہتے ہوئے خوب بلند آواز کرتے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4106) پھر فرماتا ہے ’ اگر اللہ تعالیٰ ایک کا علاج دوسرے سے نہ کرتا اگر ہر سیر پر سوا سیر نہ ہوتا تو زمین میں شر فساد مچ جاتا ، ہر قوی ہر کمزور کو نگل جاتا ‘ ۔ عیسائی عابدوں کے چھوٹے عبادت خانوں کو «صَوَامِعُ» کہتے ہیں ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ صابی مذہب کے لوگوں کے عبادت خانوں کا نام ہے اور بعض کہتے ہیں مجوسیوں کے آتش کدوں کو «صَوَامِعُ» کہتے ہیں ۔ مقاتل کہتے ہیں یہ وہ گھر ہیں جو راستوں پر ہوتے ہیں ۔ «بِیَعٌ» ان سے بڑے مکانات ہوتے ہیں یہ بھی نصرانیوں کے عابدوں کے عبادت خانے ہوتے ہیں ۔ بعض کہتے ہیں یہ یہودیوں کے کنیسا ہیں ۔ صلوات کے بھی ایک معنی تو یہی کئے گئے ہیں ۔ بعض کہتے ہیں مراد گرجا ہیں ۔ بعض کا قول ہے صابی لوگوں کا عبادت خانہ ۔ راستوں پر جو عبادت کے گھر اہل کتاب کے ہوں انہیں صلوات کہا جاتا ہے اور مسلمانوں کے ہوں انہیں مساجد ۔ «فِیہَا» کی ضمیر کا مرجع مساجد ہے اس لیے کہ سب سے پہلے یہی لفظ ہے یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد یہ سب جگہیں ہیں یعنی تارک الدنیا لوگوں کے صوامع ، نصرانیوں کے بیع ، یہودیوں کے صلوات اور مسلمانوں کی مسجدیں جن میں اللہ کا نام خوب لیا جاتا ہے ۔ بعض علماء کا بیان ہے کہ اس آیت میں اقل سے اکثر کی طرف کی ترقی کی صنعت رکھی گئی ہے پس سب سے زیادہ آباد سب سے بڑا عبادت گھر جہاں کے عابدوں کا قصد صحیح نیت نیک عمل صالح ہے وہ مسجدیں ہیں ۔ پھر فرمایا ’ اللہ اپنے دین کے مددگاروں کا خود مددگار ہے ‘ ، جیسے فرمان ہے آیت «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِن تَنصُرُوا اللہَ یَنصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ أَقْدَامَکُمْ وَالَّذِینَ کَفَرُوا فَتَعْسًا لَّہُمْ وَأَضَلَّ أَعْمَالَہُمْ» ۱؎ (47-محمد:8،7) یعنی ’ اگر اے مسلمانو ! تم اللہ کے دین کی امداد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد فرمائے گا اور تمہیں ثابت قدمی عطا فرمائے گا ۔ کفار پر افسوس ہے اور ان کے اعمال غارت ہیں ‘ ۔ پھر اپنے دو وصف بیان فرمائے قوی ہونا کہ ساری مخلوق کو پیدا کر دیا ، عزت والا ہونا کہ سب اس کے ماتحت ہر ایک اس کے سامنے ذلیل وپست سب اس کی مدد کے محتاج وہ سب سے بے نیاز جسے وہ مدد دے وہ غالب جس پر سے اس کی مدد ہٹ جائے وہ مغلوب ۔ فرماتا ہے آیت «وَلَقَدْ سَبَقَتْ کَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِینَ إِنَّہُمْ لَہُمُ الْمَنصُورُونَ وَإِنَّ جُندَنَا لَہُمُ الْغَالِبُونَ» ۱؎ (37-الصافات:173-171) یعنی ’ ہم نے تو پہلے سے ہی اپنے رسولوں سے وعدہ کر لیا ہے کہ ان کی یقینی طور پر مدد کی جائے گی اور یہ کہ ہمارا لشکر ہی غالب آئے گا ‘ ۔ اور آیت میں ہے «کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ اِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ» ۱؎ (58-المجادلۃ:21) ’ اللہ کہہ چکا ہے کہ میں اور میرا رسول غالب ہیں ۔ بیشک اللہ تعالیٰ قوت وعزت والا ہے ‘ ۔ الحج
41 پابندی احکامات کی تاکید سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” یہ آیت ہمارے بارے میں اتری ہے ۔ ہم بےسبب خارج ازوطن کئے گئے تھے ، پھر ہمیں اللہ نے سلطنت دی ، ہم نے نماز و روزہ کی پابندی کی بھلے احکام دئیے اور برائی سے روکنا جاری کیا ۔ پس یہ آیت میرے اور میرے ساتھیوں کے بارے میں ہے “ ۔ ابوالعالیہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ” مراد اس سے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں “ ۔ خلیفہ رسول عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے خطبے میں اس آیت «الَّذِینَ إِن مَّکَّنَّاہُمْ فِی الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاۃَ وَآتَوُا الزَّکَاۃَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنکَرِ وَلِلہِ عَاقِبَۃُ الْأُمُورِ» ۱؎ (22-الحج:41) کی تلاوت فرما کر فرمایا ” اس میں بادشاہوں کا بیان ہی نہیں بلکہ بادشاہ رعایا دونوں کا بیان ہے ۔ بادشاہ پر تو یہ ہے کہ حقوق الٰہی تم سے برابر لے اللہ کے حق کی کوتاہی کے بارے میں تمہیں پکڑے اور ایک کا حق دوسرے سے دلوائے اور جہاں تک ممکن ہو تمہیں صراط مستقیم سمجھاتا رہے ۔ تم پر اس کا یہ حق ہے کہ ظاہر وباطن خوشی خوشی اس کی اطاعت گزاری کرو “ ۔ عطیہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اسی آیت کامضمون آیت «وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ» ۱؎ (24-النور:55) میں ہے ۔ کاموں کا انجام اللہ کے ہاتھ ہے ۔ «وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِینَ» ۱؎ (28-القص:83) عمدہ نتیجہ پرہیزگاروں کا ہو گا ۔ ہرنیکی کا بدلہ اسی کے ہاں ہے ۔ الحج
42 کافروں کی حجت بازی بہت پرانی بیماری ہے اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتا ہے کہ ’ منکروں کا انکار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کوئی نئی چیز نہیں ۔ نوح علیہ السلام سے لے کر موسیٰ علیہ السلام تک کے کل انبیاء کا انکار کفار برابر کرتے چلے آئے ہیں ۔ دلائل سامنے تھے ، حق سامنے تھا لیکن منکروں نے مان کر نہ مانا ۔ میں نے کافروں کو مہلت دی کہ یہ سوچ سمجھ لیں اپنے انجام پر غور کر لیں ۔ لیکن جب وہ اپنی نمک حرامی سے باز نہ آئے تو آخر کار میرے عذابوں میں گرفتار ہوئے ، دیکھ لے کہ میری پکڑ کیسی بےپناہ ثابت ہوئی کس قدر درد ناک انجام ہوا ‘ ۔ سلف سے منقول ہے کہ فرعون کے حکمرانی کے دعوے اور اللہ کی پکڑ کے درمیان چالیس سال کا عرصہ تھا ۔ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ { اللہ تعالیٰ ہر ظالم کو ڈھیل دیتا ہے پھر جب پکڑتا ہے تو چھٹکارا نہیں ہوتا } پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت «وَکَذٰلِکَ اَخْذُ رَبِّکَ اِذَآ اَخَذَ الْقُرٰی وَہِیَ ظَالِمَۃٌ اِنَّ اَخْذَہٗٓ اَلِیْمٌ شَدِیْدٌ» ۱؎ (11-ھود:102) تلاوت کی } ۔ پھر فرمایا کہ ’ کئی ایک بستیوں والے ظالموں کو جنہوں نے رسولوں کی تکذیب کی تھی ہم نے غارت کر دیا ۔ جن کے محلات کھنڈر بنے پڑے ہیں اوندھے گرے ہوئے ہیں ، ان کی منزلیں ویران ہوگیئں ، ان کی آبادیاں ویران ہوگئیں ، ان کے کنویں خالی پڑے ہیں ، جو کل تک آباد تھے آج خالی ہیں ، ان کے چونہ گچ محل جو دور سے سفید چمکتے ہوئے دکھائی دیتے تھے ، جو بلند و بالا اور پختہ تھے وہ آج ویران پڑے ہیں ، وہاں الو بول رہا ہے ، ان کی مضبوطی انہیں نہ بچا سکی ، ان کی خوبصورتی اور پائیداری بے کار ثابت ہوئی ۔ رب کے عذاب نے تہس نہس کر دیا ‘ ۔ جیسے فرمان ہے آیت «اَیْنَ مَا تَکُوْنُوْا یُدْرِکْکٰمُ الْمَوْتُ وَلَوْ کُنْتُمْ فِیْ بُرُوْجٍ مٰشَـیَّدَۃٍ» ۱؎ (4-النساء:78) یعنی ’ گو تم چونہ گچ پکے قلعوں میں محفوظ ہو لیکن موت وہاں بھی تمہیں چھوڑنے کی نہیں ‘ ۔ ’ کیا وہ خود زمین میں چلے پھرے نہیں یا کبھی غور وفکر بھی نہیں کیا کہ کچھ عبرت حاصل ہوتی ؟ ‘ امام ابن ابی الدنیا کتاب «التفکر و الا عبار» میں روایت لائے ہیں کہ ” اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کے پاس وحی بھیجی کہ اے موسیٰ ! لوہے کی نعلین پہن کر لوہے کی لکڑی لے کر زمین میں چل پھر کر آثار وعبرت کو دیکھ وہ ختم نہ ہوں گے یہاں تک کہ تیری لوہے کی جوتیاں ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں اور لوہے کی لکڑی بھی ٹوٹ پھوٹ جائے ۔ اسی کتاب میں بعض دانشمندوں کا قول ہے کہ وعظ کے ساتھ اپنے دل کو زندہ کر ۔ اور غور وفکر کے ساتھ اسے نورانی کر اور زہد اور دنیا سے بچنے کے ساتھ اسے مار دے اور یقین کے ساتھ اس کو قوی کرلے اور موت کے ذکر سے اسے ذلیل کر دے اور فنا کے یقین سے اسے صبر دے ۔ دنیا کی مصیبتیں اس کے سامنے رکھ کر اس آنکھیں کھول دے زمانے کی تنگی اسے دکھا اسے دہشت ناک بنا دے ، دنوں کے الٹ پھیر اسے سمجھا کر بیدار کر دے ۔ گزشتہ واقعات سے اسے عبرتناک بنا ۔ اگلوں کے قصے اسے سنا کر ہوشیار رکھ ۔ ان کے شہروں میں اور ان کی سوانح میں اسے غور وفکر کرنے کا عادی بنا ۔ اور دیکھ کہ گہنگاروں کے ساتھ اس کا معاملہ کیا ہوا کس طرح وہ لوٹ پوٹ کر دیئے گئے “ ۔ الحج
43 الحج
44 الحج
45 الحج
46 1 پس یہاں بھی یہی فرمان ہے کہ ’ اگلوں کے واقعات سامنے رکھ کر دلوں کو سمجھدار بناؤ ان کی ہلاکت کے سچے افسانے سن کر عبرت حاصل کرو ۔ سن لو آنکھیں ہی اندھی نہیں ہوتیں بلکہ سب سے برا اندھا پن دل کا ہے گو آنکھیں صحیح سالم موجود ہوں ۔ دل کے اندھے پن کی وجہ سے نہ تو عبرت حاصل ہوتی ہے نہ خیر و شر کی تمیز ہوتی ہے ‘ ۔ ابو محمد بن جیارہ اندلسی نے جن کا انتقال ؁٥١٧ھ میں ہوا ہے اس مضمون کو اپنے چند اشعار میں خوب نبھایا ہے وہ فرماتے ہیں ” اے وہ شخص جو گناہوں میں لذت پا رہا ہے کیا اپنے بڑھاپے اور نفس کی برائی سے بھی تو بیخبر ہے ؟ اگر نصیحت اثر نہیں کرتی تو کیا دیکھنے سننے سے بھی عبرت حاصل نہیں ہوتی ؟ سن لے آنکھیں اور کان اپنا کام نہ کریں تو اتنا برا نہیں جتنا ، برا یہ ہے کہ واقعات سے سبق نہ حاصل کیا جائے ۔ یاد رکھ نہ تو دنیا باقی رہے گی نہ آسمان نہ سورج چاند ۔ گو جی نہ چاہے مگر دنیا سے تم کو ایک روز بادل ناخواستہ کوچ کرناہی پڑے گا ۔ کیا امیر ہو کیا غریب کیا شہری ہو یا دیہاتی “ ۔ الحج
47 ذرا صبر ، عذاب کا شوق پورا ہو گا اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلوات اللہ وسلامہ علیہ سے فرما رہا ہے کہ ’ یہ ملحد کفار اللہ کو اس کے رسول کو اور قیامت کے دن کو جھٹلانے والے تجھ سے عذاب طلب کرنے میں جلدی کر رہے ہیں کہ جلد ان عذابوں کو کیوں نہیں برپا کر دیا جاتا جن سے ہمیں ہر وقت ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے ‘ ۔ چنانچہ وہ اللہ سے بھی کہتے تھے کہ «وَإِذْ قَالُوا اللہُمَّ إِن کَانَ ہٰذَا ہُوَ الْحَقَّ مِنْ عِندِکَ فَأَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَۃً مِّنَ السَّمَاءِ أَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِیمٍ» ۱؎ (8-الأنفال:32) ’ الٰہی اگر یہ تیری طرف سے حق ہے تو ہم پر آسمان سے سنگ باری کر یا اور کسی طرح کا درد ناک عذاب بھیج ‘ ۔ کہتے تھے کہ «وَقَالُوا رَبّنَا عَجِّلْ لَنَا قِطّنَا قَبْل یَوْم الْحِسَاب» ۱؎ (38-ص:16) ’ حساب کے دن سے پہلے ہی ہمارا معاملہ صاف کر دے ‘ ۔ اللہ فرماتا ہے «وَلَنْ یُخْلِف اللَّہ وَعْدہ» ۱؎ (22-الحج:47) ’ یاد رکھو اللہ کا وعدہ اٹل ہے قیامت اور عذاب آ کر ہی رہیں گے ‘ ۔ اولیاء اللہ کی عزت اور اعداء اللہ کی ذلت یقینی اور ہو کر رہنے والی ہے ۔ اصمعی کہتے ہیں میں ابوعمرو بن علا کے پاس تھا کہ عمرو بن عبید آیا اور کہنے لگا کہ اے ابوعمرو ! کیا اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کا خلاف کرتا ہے ؟ آپ نے فرمایا ” نہیں “ ، اس نے اسی وقت عذاب کی ایک آیت تلاوت کی اس پر آپ نے فرمایا کیا تو عجمی ہے ؟ سن عرب میں «الْوَعْد» کا یعنی اچھی بات سے وعدہ خلافی کو برا فعل سمجھا جاتا ہے لیکن «الْإِیعَاد» کا یعنی سزا کے احکام کا ردو بدل یا معافی بری نہیں سمجھی جاتی بلکہ وہ کرم ورحم سمجھا جاتا ہے دیکھو شاعر کہتا ہے ۔ «فَإِنِّی وَإِنْ أَوْعَدْتہ أَوْ وَعَدْتہ» «لَمُخْلِف إِیعَادِی وَمُنْجِز مَوْعِدِی» میں کسی کو سزا کہوں یا اس سے انعام کا وعدہ کروں ۔ تو یہ تو ہوسکتا ہے کہ میں اپنی دھمکی کے خلاف کر جاؤں بلکہ قطعا ہرگز سزا نہ دوں لیکن اپنا وعدہ تو ضرور پورا کر کے ہی رہوں گا ۔ الغرض سزا کا وعدہ کر کے سزا نہ کرنا یہ وعدہ خلافی نہیں ۔ لیکن رحمت انعام کا وعدہ کر کے پھر روک لینا یہ بری صفت ہے جس سے اللہ کی ذات پاک ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ ایک ایک دن اللہ کے نزدیک تمہارے ہزار ہزار دنوں کے برابر ہے یہ بہ اعتبار اس کے حلم اور بردباری کے ہے کیونکہ اسے علم ہے کہ وہ ہر وقت ان کی گرفت پر قادر ہے اس لیے عجلت کیا ہے ؟ ‘ گو کتنی ہی سے مہلت مل جائے ، گو کتنی ہی سے رسی دراز ہو جائے لیکن جب چاہے گا سانس لینے کی بھی مہلت نہ دے گا اور پکڑ لے گا ۔ اسی لیے اس کے بعد ہی فرمان ہوتا ہے ’ بہت سی بستیوں کے لوگ ظلم پر کمر کسے ہوئے تھے ، میں نے بھی چشم پوشی کر رکھی تھی ۔ جب مست ہو گئے تو اچانک گرفت کر لی ، سب مجبور ہیں سب کو میرے ہی سامنے حاضر ہونا ہے ، سب کا لوٹنا میری ہی طرف ہے ‘ ۔ ترمذی وغیرہ میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں فقراء مسلمان مالدار مسلمانوں سے آدھا دن پہلے جنت میں جائیں گے یعنی پانچ سو برس پہلے } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2353،قال الشیخ الألبانی:حسن صحیح) اور روایت میں ہے { سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا آدھے دن کی مقدار کیا ہے ؟ فرمایا کیا تو نے قرآن نہیں پڑھا ؟ میں نے کہا ہاں ! تو یہی آیت «وَیَسْتَعْجِلُونَکَ بِالْعَذَابِ وَلَن یُخْلِفَ اللہُ وَعْدَہُ وَإِنَّ یَوْمًا عِندَ رَبِّکَ کَأَلْفِ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدٰونَ» سنائی ۔ یعنی ’ اللہ کے ہاں ایک دن ایک ہزار سال کا ہے ‘ } ۔ ابوداؤد کی کتاب الملاحم کے آخر میں { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { مجھے اللہ تعالیٰ کی ذات سے امید ہے کہ وہ میری امت کو آدھے دن تک تو ضرور مؤخر رکھے گا } ۔ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا آدھا دن کتنے عرصے کا ہوگا ؟ آپ نے فرمایا پانچ سو سال کا }۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4350،قال الشیخ الألبانی:صحیح) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت «وَیَسْتَعْجِلُونَکَ بِالْعَذَابِ وَلَن یُخْلِفَ اللہُ وَعْدَہُ وَإِنَّ یَوْمًا عِندَ رَبِّکَ کَأَلْفِ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدٰونَ» کو پڑھ کر فرمانے لگے یہ ان دنوں میں سے جن میں اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ۔ ( ابن جریر ) بلکہ امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ نے کتاب «الرد علی الجمیہ» میں اس بات کو کھلے لفظ میں بیان کیا ہے ۔ مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ آیت مثل آیت «یُدَبِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَاءِ اِلَی الْاَرْضِ ثُمَّ یَعْرُجُ اِلَیْہِ فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٗٓ اَلْفَ سَـنَۃٍ مِّمَّا تَعُدٰوْنَ» ۱؎ (32-السجدۃ:5) کے ہے یعنی ’ اللہ تعالیٰ کام کی تدبیر آسمان سے زمین کی طرف کرتا ہے ، پھر اس کی طرف چڑھ جاتا ہے ۔ ایک ہی دن میں جس کی مقدار تمہاری گنتی کے اعتبار سے ایک ہزار سال کی ہے ‘ ۔ امام محمد بن سیرین رحمتہ اللہ علیہ ایک نو مسلم اہل کتاب سے نقل کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین چھ دن میں پیدا کیا اور ایک دن تیرے رب کے نزدیک مثل ایک ہزار سال کے ہے جو گنتے ہو ۔ اللہ نے دنیا کی اجل چھ دن کی کی ہے ساتویں دن قیامت ہے اور ایک ایک دن مثل ہزار ہزار سال کے ہے پس چھ دن تو گزر گئے اور اب تم ساتویں دن میں ہو اب تو بالکل اس حاملہ کی طرح ہے جو پورے دنوں میں ہو اور نہ جانے کب بچہ ہو جائے ۔ الحج
48 الحج
49 اطاعت الٰہی سے روکنے والوں کا حشر چونکہ کفار عذاب مانگا کرتے تھے اور ان کی جلدی مچاتے رہتے تھے ان کے جواب میں اعلان کرایا جا رہا ہے کہ ’ لوگو ! میں تو اللہ کا بھیجا ہوا آیا ہوں کہ تمہیں رب کے عذابوں سے جو تمہارے آگے ہیں چوکنا کر دوں ، تمہارا حساب میرے ذمے نہیں ۔ عذاب اللہ کے بس میں ہے چاہے اب لائے چاہے دیر سے لائے ۔ مجھے کیا معلوم کہ تم میں کس کی قسمت میں ہدایت ہے اور کون اللہ کی رحمت سے محروم رہنے والا ہے چاہت اللہ کی ہی پوری ہونی ہے حکومت اسی کے ہاتھ ہے مختار اور کرتا دھرتا وہی ہے «لَا مُعَقِّبَ لِحُکْمِہِ وَہُوَ سَرِیعُ الْحِسَابِ» ۱؎ (13-الرعد:41) ’ کسی کو اس کے سامنے چوں چرا کی مجال نہیں وہ بہت جلد حساب لینے والا ہے ‘ ۔ میری حیثیت تو صرف ایک آگاہ کرنے والے کی ہے ‘ ۔ جن کے دلوں میں یقین و ایمان ہے اور اس کی شہادت ان کے اعمال سے بھی ثابت ہے ۔ ان کے کل گناہ معافی کے لائق ہیں اور ان کی کل نیکیاں قدردانی کے قابل ہیں ۔ رزق کریم سے مراد جنت ہے ۔ جو لوگ اوروں کو بھی اللہ کی راہ سے اطاعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روکتے ہیں وہ جہنمی ہیں ، سخت عذابوں اور تیز آگ کے ایندھن ہیں ، اللہ ہمیں بچائے ۔ اور آیت میں ہے کہ «الَّذِینَ کَفَرُوا وَصَدٰوا عَن سَبِیلِ اللہِ زِدْنَاہُمْ عَذَابًا فَوْقَ الْعَذَابِ بِمَا کَانُوا یُفْسِدُونَ» ۱؎ (16-النحل:88) ’ ایسے کفار کو ان کے فساد کے بدلے عذاب پر عذاب ہیں ‘ ۔ الحج
50 الحج
51 الحج
52 شیطان کا تصرف غلط ہے یہاں پر اکثر مفسرین نے غرانیق کا قصہ نقل کیا ہے اور یہ بھی کہ اس واقعہ کی وجہ سے اکثر مہاجرین حبش یہ سمجھ کر کہ مشرکین مکہ اب مسلمان ہو گئے واپس مکے آ گئے ۔ لیکن یہ روایت ہر سند سے مرسل ہے ۔ کسی صحیح سند سے مسند مروی نہیں ، «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ چنانچہ ابن ابی حاتم میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ شریف میں سورۃ النجم کی تلاوت فرمائی جب یہ آیتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھ رہے تھے آیت «أَفَرَأَیْتُمْ اللَّاتَ وَالْعُزَّی وَمَنَاۃ الثَّالِثَۃ الْأُخْرَی» ۱؎ (53-النجم:19) تو شیطان نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک پر یہ الفاظ ڈالے کہ [ «تِلْکَ الْغَرَانِیق الْعُلَی وَإِنَّ شَفَاعَتہنَّ تُرْتَجَی» ] پس مشرکین خوش ہو گئے کہ آج تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے معبودوں کی تعریف کی جو اس سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی نہیں کی ۔ چنانچہ ادھر حضور نے سجدہ کیا ادھر وہ سب بھی سجدے میں گر پڑے اس پر یہ آیت اتری «وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِکَ مِن رَّسُولٍ وَلَا نَبِیٍّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّیٰ أَلْقَی الشَّیْطَانُ فِی أُمْنِیَّتِہِ» } ۱؎ (22-الحج:52) الخ ، اسے ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ نے بھی روایت کیا ہے یہ مرسل ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:25331:مرسل و ضعیف) مسند بزار میں بھی اس کے ذکر کے بعد ہے کہ صرف اسی سند سے ہی یہ متصلاً مروی ہے ۔ صرف امیہ بن خالد ہی اسے وصل کرتے ہیں وہ مشہور ثقہ ہیں ۔ یہ صرف طریق کلبی سے ہی مروی ہے ۔ (ضعیف) ابن ابی حاتم نے اسے دو سندوں سے لیا ہے لیکن دونوں مرسل ہیں ، ابن جریر میں بھی مرسل ہے ۔ قتادہ رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں مقام ابراہیم کے پاس نماز پڑھتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اونگھ آ گئی اور شیطان نے آپ کی زبان پر ڈالا [ «وَإِنَّ شَفَاعَتہَا لَتُرْتَجَی وَإِنَّہَا لَمَعَ الْغَرَانِیق الْعُلَی» ] نکلوادیا ۔ مشرکین نے ان لفظوں کو پکڑ لیا اور شیطان نے یہ بات پھیلا دی ۔ اس پر یہ آیت «وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِکَ مِن رَّسُولٍ وَلَا نَبِیٍّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّیٰ أَلْقَی الشَّیْطَانُ فِی أُمْنِیَّتِہِ» ۱؎ (22-الحج:52) اتری اور اسے ذلیل ہونا پڑا ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ { سورۃ النجم نازل ہوئی اور مشرکین کہہ رہے تھے کہ اگر یہ شخص ہمارے معبودوں کا اچھے لفظوں میں ذکر کرے تو ہم اسے اور اس کے ساتھیوں کو چھوڑیں مگر اس کا تو یہ حال ہے کہ یہود ونصاری اور جو لوگ اس کے مخالف ہیں اس سب سے زیادہ گالیوں اور برائی سے ہمارے معبودوں کا ذکر کرتا ہے ۔ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم پر سخت مصائب توڑے جا رہے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی ہدایت کی لالچ تھی جب سورۃ النجم کی تلاوت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شروع کی اور «أَلَکُمُ الذَّکَرُ‌ وَلَہُ الْأُنثَیٰ» ۱؎ (53-النجم:21) تک پڑھا تو ، شیطان نے بتوں کے ذکر کے وقت یہ کلمات ڈال دئیے [ «وَإِنَّہُنَّ لَہُنَّ الْغَرَانِیق الْعُلَی وَإِنَّ شَفَاعَتہنَّ لَہِیَ الَّتِی تُرْتَجَی» ] یہ شیطان کی مقفی عبارت تھی ۔ ہر مشرک کے دل میں یہ کلمے بیٹھ گئے اور ایک ایک کو یاد ہو گئے یہاں تک کہ یہ مشہور ہو گیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ کے خاتمے پر سجدہ کیا تو سارے مسلمان اور مشرکین بھی سجدے میں گر پڑے ، ہاں ولید بن مغیرہ چونکہ بہت ہی بوڑھا تھا اس لیے اس نے ایک مٹھی مٹی کی بھر کر اونچی لے جا کر اس کو اپنے ماتھے سے لگا لیا ۔ اب ہر ایک کو تعجب معلوم ہونے لگا کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دونوں فریق سجدے میں شامل تھے ۔ مسلمانوں کو تعجب تھا کہ یہ لوگ ایمان تو لائے نہیں ، یقین نہیں ، پھر ہمارے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سجدے پر سجدہ انہوں کیسے کیا ؟ شیطان نے جو الفاظ مشرکوں کے کانوں میں پھونکے تھے وہ مسلمانوں نے سنے ہی نہ تھے ادھر ان کے دل خوش ہو رہے تھے کیونکہ شیطان نے اس طرح آواز میں آواز ملائی کہ مشرکین اس میں کوئی تمیز ہی نہ کر سکتے تھے } ۔ وہ تو سب کو اسی یقین پر پکا کر چکا تھا کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی سورت کی ان دونوں آیتوں کو تلاوت فرمایا ہے ۔ پس دراصل مشرکین کا سجدہ اپنے کو تھا ۔ شیطان نے اس واقعہ کو اتنا پھیلا دیا کہ مہاجرین حبشہ کے کانوں میں بھی یہ بات پہنچی ۔ سیدنا عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے جب سنا کہ اہل مکہ مسلمان ہو گئے ہیں بلکہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی اور ولید بن مغیرہ سجدہ نہ کرسکا تو اس نے مٹی کی ایک مٹھی اٹھا کر اس پر سرٹکالیا ۔ مسلمان اب پورے امن اور اطمینان سے ہیں تو انہوں نے وہاں سے واپسی کی ٹھانی اور خوشی خوشی مکے پہنچے ۔ ان کے پہنچنے سے پہلے شیطان کے ان الفاظ کی قلعی کھل چکی تھی اللہ نے ان الفاظ کو ہٹا دیا تھا اور اپنا کلام محفوظ کر دیا تھا یہاں مشرکین کی آتش عداوت اور بھڑک اٹھی تھی اور انہوں نے مسلمانوں پر نئے مصائب کے بادل برسانے شروع کردئے تھے یہ روایت بھی مرسل ہے ۔ بیہقی کی کتاب دلائل النبوۃ میں بھی یہ روایت ہے امام محمد ابن اسحاق رحمتہ اللہ علیہ بھی اسے اپنی سیرت میں لائے ہیں لیکن یہ سندیں مرسلات اور منقطعات ہیں «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ امام بغوی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر میں یہ سب کچھ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ کے کلام سے اسی طرح کی روایتیں وارد کی ہیں ۔ پھر خود ہی ایک سوال وارد کیا ہے کہ ” جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بچاؤ کا ذمہ دار محافظ خود اللہ تعالیٰ ہے تو ایسی بات کیسے واقع ہوگئی “ ۔ پھر بہت سے جواب دئے ہیں جن میں ایک لطیف جواب یہ بھی ہے کہ شیطان نے یہ الفاظ لوگوں کے کانوں میں ڈالے اور انہیں وہم ڈالا کہ یہ الفاظ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے نکلے ہیں حقیقت میں ایسا نہ تھا یہ صرف شیطانی حرکت تھی نہ کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز ۔ ۱؎ (نصب المجانیق لنسف قصۃ الغرانیق الألبانی:0000،قال الشیخ الألبانی:باطل) «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اور بھی اسی قسم کے بہت سے جواب متکلمین نے دئے ہیں ۔ قاضی عیاض رحمتہ اللہ علیہ نے بھی شفاء میں اسے چھیڑا ہے اور ان کے جواب کا ماحصل یہ ہے کہ اللہ کا اپنا فرمان اس بات کا ثبوت ہے کہ شیطان کا تصرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ناممکن ہے ۔ مگر جب کہ وہ آرزو کرتا ہے الخ ۔ اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تسلی فرمائی گئی ہے کہ ’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر پریشان خاطر نہ ہوں اگلے نبیوں رسولوں علیہم السلام پر بھی ایسے اتفاقات آئے ‘ ۔ بخاری میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ { اس کی آرزو میں جب نبی بات کرتا ہے تو شیطان اس کی بات میں بول شامل کر دیتا ہے پس شیطان کے ڈالے ہوئے کو باطل کر کے پھر اللہ تعالیٰ اپنی آیات کو محکم کرتا ہے } ۔ مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں «تَمَنَّیٰ» کا معنی «قَالَ» کے ہیں «أُمْنِیَّتِہِ» کے معنی «قَرَائَتِہِ» کے ہیں «إِلَّا أَمَانِیَّ» کا مطلب یہ ہے کہ پڑھتے ہیں لکھتے نہیں ۔ بغوی رحمتہ اللہ علیہ اور اکثر مفسیرین کہتے ہیں «تَمَنَّیٰ» کے معنی «تَلَا» کے ہیں یعنی جب کتاب اللہ پڑھتا ہے تو شیطان اس کی تلاوت میں کچھ ڈال دیتا ہے ۔ چنانچہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی مدح میں شاعر نے کہا ہے ۔ شعر «تَمَنَّی کِتَابَ اللہِ أَوَّلَ لَیْلَۃٍ وَآخِرَہَا لَاقَی حِمَامَ الْمَقَادِرِ» ۔ یہاں بھی لفظ «تَمَنَّیٰ» ‏‏‏‏پڑھنے کے معنی میں ہے ۔ ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں یہ قول بہت قریب کی تاویل والا ہے ۔ نسخ کے حقیقی معنی لغتاً ازلہ اور رفع کے معنی ہٹانے اور مٹادینے کے ہیں یعنی اللہ سبحانہ وتعالیٰ شیطان کے القا کو باطل کر دیتا ہے ۔ جبرائیل علیہ السلام بحکم الٰہی شیطان کی زیادتی کو مٹا دیتے ہیں اور اللہ کی آیتیں مضبوط رہ جاتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ تمام کاموں کا جاننے والا ہے ۔ کوئی مخفی بات بھی کوئی راز بھی اس پر پوشیدہ نہیں ، وہ حکیم ہے اس کا کام الحکمت سے خالی نہیں ۔ یہ اس لیے کہ جن کے دلوں میں شک ، شرک ، کفر اور نفاق ہے ، ان کے لیے یہ فتنہ بن جائے ۔ چنانچہ مشرکین نے اسے اللہ کی طرف سے مان لیا حالانکہ وہ الفاظ شیطانی تھے ۔ لہٰذا بیمار دل والوں سے مراد منافق ہیں اور سخت دل والوں سے مراد مشرک ہیں ۔ یہ بھی قول ہے کہ مراد یہود ہیں ۔ ظالم حق سے بہت دور نکل گئے ہیں ۔ وہ سیدھے راستے سے گم ہو گئے ہیں اور جنہیں صحیح علم دیا گیا ہے جس سے وہ حق و باطل میں تمیز کرلیتے ہیں انہیں اس بات کے بالکل حق ہونے کا اور منجانب اللہ ہونے کا صحیح یقین ہو جائے اور وہ کامل الایمان بن جائیں اور سمجھ لیں کہ بیشک یہ اللہ کا کلام ہے جبھی تو اس قدر اس کی حفاظت دیانت اور نگہداشت ہے ۔ کہ کسی جانب سے کسی طریق سے اس میں باطل کی آمیزش نہیں ہو سکتی ۔ حکیم وحمید اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے پس ان کے دل تصدیق سے پر ہو جاتے ہیں ، جھک کر رغبت سے متوجہ ہو جاتے ہیں ، اللہ تعالیٰ ایمان داروں کی رہبری دنیا میں حق اور ہدایت کی طرف کرتا ہے صراط مستقیم سجھا دیتا ہے اور آخرت میں عذابوں سے بچا کر بلند درجوں میں پہنچاتا ہے اور نعمتیں نصیب فرماتا ہے ۔ الحج
53 الحج
54 الحج
55 کافروں کے دل سے شک و شبہ نہیں جائے گا یعنی کافروں کو جو شک شبہ اللہ کی اس وحی یعنی قرآن میں ہے وہ ان کے دلوں سے نہیں جائے گا ۔ شیطان یہ غلط گمان قیامت تک ان کے دلوں سے نہ نکلنے دے گا ۔ قیامت اور اس کے عذاب ان کے پاس ناگہاں آ جائیں گے ۔ اس وقت یہ محض بے شعور ہوں گے جو مہلت انہیں مل رہی ہے اس سے یہ مغرور ہو گئے ۔ جس قوم کے پاس اللہ کے عذاب آئے اسی حالت میں آئے کہ وہ ان سے نڈر بلکہ بےپروا ہو گئے تھے اللہ کے عذابوں سے غافل وہی ہوتے ہیں جو پورے فاسق اور اعلانیہ مجرم ہوں ۔ یا انہیں بے خبر دن عذاب پہنچے جو دن ان کے لیے منحوس ثابت ہو گا ۔ بعض کا قول ہے کہ اس سے مراد یوم بدر ہے اور بعض نے کہا ہے مراد اس سے قیامت کا دن ہے یہی قول صحیح ہے گو بدر کا دن بھی ان کے لیے عذاب اللہ کا دن تھا ۔ اس دن صرف اللہ کی بادشاہت ہوگی ۔ جیسے اور آیت میں ہے «مَالِکِ یَوْمِ الدِّینِ» ۱؎ (1-الفاتحہ:4) ’ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کا مالک ہے ‘ ۔ اور آیت میں ہے «الْمُلْکُ یَوْمَئِذٍ الْحَقٰ لِلرَّحْمٰنِ وَکَانَ یَوْمًا عَلَی الْکَافِرِینَ عَسِیرًا» ۱؎ (25-الفرقان:26) ’ اس دن رحمن کا ہی ملک ہو گا اور وہ دن کافروں پر نہایت ہی گراں گزرے گا ‘ ۔ فیصلے خود اللہ کرے گا ۔ جن کے دلوں میں اللہ پر ایمان رسول کی صداقت اور ایمان کے مطابق جن کے اعمال تھے جن کے دل اور عمل میں موافقت تھی ۔ جن کی زبانیں دل کے مانند تھیں وہ جنت کی نعمتوں میں مالا مال ہوں گے جو نعمتیں نہ فنا ہوں نہ گھٹیں نہ بگڑیں نہ کم ہوں ۔ جن کے دلوں میں حقانیت سے کفر تھا ، جو حق کو جھٹلاتے تھے ، نبیوں کے خلاف کرتے تھے ، اتباع حق سے تکبر کرتے تھے ان کے تکبر کے بدلے انہیں ذلیل کرنے والے عذاب ہوں گے ۔ جیسے فرمان ہے آیت «اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَہَنَّمَ دٰخِرِیْنَ» ۱؎ (40-غافر:60) ’ جو لوگ میری عبادتوں سے سرکشی کرتے ہیں وہ ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے ‘ ۔ الحج
56 الحج
57 الحج
58 اللہ تعالیٰ کا بہترین رزق پانے والے لوگ یعنی جو شخص اپنا وطن اپنے اہل و عیال اپنے دوست احباب چھوڑ کر اللہ کی رضا مندی کے لیے اس کی راہ میں ہجرت کر جائے اس کے رسول کی اور اس کے دین کی مدد کے لیے پہنچے پھر وہ میدان جہاد میں دشمن کے ہاتھوں شہید کیا جائے یا بے لڑے بھڑے اپنی قضاء کے ساتھ اپنے بستر پر موت آ جائے اور اسے بہت بڑا اجر اور زبردست ثواب اللہ کی طرف سے ہے ۔ جیسے ارشاد ہے آیت «وَمَنْ یَخْرُجْ مِنْ بَیْتِہِ مُہَاجِرًا إِلَی اللہِ وَرَسُولِہِ ثُمَّ یُدْرِکْہُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُہُ عَلَی اللہِ وَکَان اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا» ۱؎ (4-النساء:100) یعنی ’ جو شخص اپنے گھر اور دیس کو چھوڑ کر اللہ رسول کی طرف ہجرت کر کے نکلے پھر اسے موت آ جائے تو اسے اس کا اجر اللہ کے ذمے طے ہو چکا ۔ ان پر اللہ کا فضل ہو گا ، انہیں جنت کی روزیاں ملیں گی جس سے ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں ۔ اللہ تعالیٰ بہترین رازق ہے ‘ ۔ انہیں پروردگار جنت میں پہنچائے گا ۔ جہاں یہ خوش خوش ہونگے جسے فرمان ہے کہ «فَأَمَّا إِن کَانَ مِنَ الْمُقَرَّبِینَ فَرَوْحٌ وَرَیْحَانٌ وَجَنَّتُ نَعِیمٍ» ۱؎ (56-الواقعہ:88،89) ’ جو ہمارے مقربوں میں سے ہے اس کے لیے راحت اور خوشبودار پھول اور نعمتوں بھرے باغات ہیں ایسے لوگوں کو راحت ورزق اور جنت ملے گی ‘ ۔ اپنی راہ کے سچے مہاجروں کو اپنی راہ میں جہاد کرنے والوں کو اپنی نعمتوں کے مستحق لوگوں کو اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے ۔ وہ بڑے حکم والا ہے بندوں کے گناہ معاف فرماتا ہے ان کی خطاؤں سے درگزر فرماتا ہے ان کی ہجرت قبول کرتا ہے ان کے توکل کو خوب جانتا ہے ۔ جو لوگ اللہ کی راہ میں شہید ہوں مہاجر ہوں یا نہ ہوں وہ رب کے پاس زندگی اور روزی پاتے ہیں ۔ جیسے فرمان ہے آیت «وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتًا بَلْ اَحْیَاءٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ یُرْزَقُوْنَ» ۱؎ (3-آل عمران:169) ، ’ خدا کی راہ کے شہیدوں کو مردہ نہ سمجھو وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں روزیاں دیے جاتے ہیں ‘ ۔ اس بارے میں بہت سی حدیثیں ہیں جو بیان ہوچکیں ۔ پس فی سبیل اللہ شہید ہونے والوں کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ ثابت ہے اس آیت سے اور اسی بارے کی احادیث سے بھی ۔ حضرت شرجیل بن سمط رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ { روم کے ایک قلعے کے محاصرے پر ہمیں مدت گزر چکی اتفاق سے سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ وہاں سے گزرے تو فرمانے لگے ” میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے جو شخص راہ اللہ کی تیاری میں مرجائے تو اس کا اجر اور رزق برابر اللہ کی طرف سے ہمیشہ اس پر جاری رہتا ہے اور وہ اتنے میں ڈالنے والوں سے محفوظ رہتا ہے ۔ اگر تم چاہو تو یہ آیت «وَالَّذِیْنَ ہَاجَرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ثُمَّ قُتِلُوْٓا اَوْ مَاتُوْا لَیَرْزُقَنَّہُمُ اللّٰہُ رِزْقًا حَسَنًاَ» ۱؎ (22-الحج:58) پڑھ لو } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:136/17:) ابو قبیل اور ربیع بن سیف مغافری کہتے ہیں ہم رودس کے جہاد میں تھے ہمارے ساتھ فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ بھی تھے ۔ دو جنازے ہمارے پاس سے گزرے جن میں ایک شہید تھا دوسرا اپنی موت مرا تھا لوگ شہید کے جنازے میں ٹوٹ پڑے ۔ فضالہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ کیا بات ہے ؟ لوگوں نے کہا یہ شہید ہیں اور یہ دوسرے شہادت سے محروم ہیں ۔ آپ نے فرمایا واللہ مجھے تو دونوں باتیں برابر ہیں ، خواہ اس کی قبر میں سے اٹھوں خواہ اس کی میں سے ۔ سنو کتاب اللہ میں ہے پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی ۔ اور روایت میں ہے کہ آپ مرے ہوئے کی قبر پر ہی ٹہھرے رہے اور فرمایا تمہیں اور کیا چاہیئے جنت ، جگہ اور عمدہ روزی ۔ اور روایت میں ہے کہ آپ اس وقت امیر تھے ۔ یہ آخری آیت صحابہ رضی اللہ عنہم کے اس چھوٹے سے لشکر کے بارے میں اتری ہے جن سے مشرکین کے ایک لشکر نے باوجود ان کے رک جانے کی حرمت کے مہینے میں لڑائی کی اللہ نے مسلمانوں کی امداد فرمائی اور مخالفین کو نیچا دکھایا اللہ تعالیٰ درگزر کرنے والا اور بخشنے والا ہے ۔ الحج
59 الحج
60 الحج
61 اس پر کوئی حاکم نہیں اللہ تعالیٰ بیان فرما رہا ہے کہ خالق اور متصرف صرف وہی ہے ، اپنی ساری مخلوق میں جو چاہتا ہے کرتا ہے ۔ فرمان ہے آیت «قُلِ اللّٰہُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَاءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَاءُ ۡ وَتُعِزٰ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلٰ مَنْ تَشَاءُ بِیَدِکَ الْخَیْرُ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ تُولِجُ اللَّیْلَ فِی النَّہَارِ وَتُولِجُ النَّہَارَ فِی اللَّیْلِ وَتُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَتُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ وَتَرْزُقُ مَن تَشَاءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ» ۱؎ (3-آل عمران:27،26) ’ الٰہی تو ہی مالک الملک ہے جسے چاہے ملک دے جس سے چاہے لے لے جسے چاہے عزت کا جھولا جھلائے ، جسے چاہے دردر سے ذلیل منگائے ، ساری بھلائیاں تیرے ہی ہاتھ میں ہیں ، تو ہی ہر چیز پر قادر ہے ۔ دن کو رات ، رات کو دن میں تو ہی لے جاتا ہے ۔ زندے کو مردے سے مردے کو زندے سے تو ہی نکالتا ہے جسے چاہتا ہے بے حساب روزیاں پہنچاتا ہے ‘ ۔ پس کبھی دن بڑے راتیں چھوٹی کبھی راتیں بڑی دن چھوٹے جیسے گرمیوں اور جاڑوں میں ہوتا ہے ۔ بندوں کی تمام باتیں اللہ سنتا ہے ان کی تمام حرکات وسکنات دیکھتا ہے کوئی حال اس پر پوشیدہ نہیں ۔ اس کا کوئی حاکم نہیں بلکہ کوئی چوں چرا بھی اس کے سامنے نہیں کر سکتا ۔ وہی سچا معبود ہے ۔ عبادتوں کے لائق اس کے سوا کوئی اور نہیں ۔ «وَہُوَ الْعَلِیٰ الْعَظِیمُ» ۱؎ (2-البقرۃ:255) ’ زبردست غلبے والا ‘ ، بڑی شان والا وہی ہے ، جو چاہتا ہے ہوتا ہے ، جو نہیں چاہتا ناممکن ہے کہ وہ ہو جائے ۔ ہر شخص اس کے سامنے فقیر ، ہر ایک اس کے آگے عاجز ۔ اس کے سوا جسے لوگ پوجیں وہ باطل ، کوئی نفع نقصان کسی کے ہاتھ نہیں ، «الْکَبِیرُ الْمُتَعَالِ» ۱؎ (13-الرعد:9) ’ وہ بلندیوں والا ، عظمتوں والا ہے ‘ ۔ ہر چیز اس کے ماتحت ، اس کے زیر حکم ۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، نہ اس کے سوا کوئی رب ، نہ اس سے کوئی بڑا ، نہ اس پر کوئی غالب ۔ وہ تقدس والا ، وہ عزت وجلال والا ، ظالموں کی کہی ہوئی تمام فضول باتوں پاک ، سب خوبیوں والا تمام نقصانات سے دور ۔ الحج
62 الحج
63 قدرت اور غلبہ الٰہی کا اظہار اپنی عظیم الشان قدرت اور زبردست غلبے کو بیان فرما رہا ہے کہ «فَإِذَا أَنزَلْنَا عَلَیْہَا الْمَاءَ اہْتَزَّتْ وَرَبَتْ وَأَنبَتَتْ مِن کُلِّ زَوْجٍ بَہِیجٍ» ۱؎ (22-الحج:5) ’ سوکھی غیر آباد مردہ زمین پر اس کے حکم سے ہوائیں بادل لاتی ہیں جو پانی برساتے ہیں اور زمین لہلہاتی ہوئی سرسبزوشاداب ہو جاتی ہے گویا جی اٹھتی ہے ‘ ۔ یہاں پر [ف] تعقیب کے لیے ہے ہر چیز کی تعقیب اسی کے انداز سے ہوتی ہے ۔ «ثُمَّ خَلَقْنَا النٰطْفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظَامًا» ۱؎ (23-المؤمنون:14) نطفے کا ملقہ ہونا پھر ملقے کا مضغہ ہونا جہاں بیان فرمایا ہے وہاں بھی [ف] آئی ہے اور ہر دو صورت میں چالیس دن کا فاصلہ ہوتا ہے ۔ اور یہ بھی مذکور ہے کہ حجاز کی بعض زمینیں ایسی بھی ہیں کہ بارش کے ہوتے ہی معا سرخ وسبز ہو جاتی ہیں «فَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ زمین کے گوشوں میں اور اس کے اندر جو کچھ ہے ، سب اللہ کے علم میں ہے ۔ ایک ایک دانہ اس کی دانست میں ہے ۔ پانی وہیں پہنچتا ہے اور وہ اگ آتا ہے ۔ جیسے لقمان رحمتہ اللہ علیہ کے قول میں ہے کہ «یَا بُنَیَّ إِنَّہَا إِن تَکُ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَکُن فِی صَخْرَۃٍ أَوْ فِی السَّمَاوَاتِ أَوْ فِی الْأَرْضِ یَأْتِ بِہَا اللہُ إِنَّ اللہَ لَطِیفٌ خَبِیرٌ» ۱؎ (31-لقمان:16) ’ اے بچے ! اگرچہ کوئی چیز رائی کے دانے برابر ہوچاہے کسی چٹان میں ہو یا آسمان میں یا زمین میں اللہ اسے ضرور لائے گا اللہ تعالیٰ پاکیزہ اور باخبر ہے ‘ ۔ ایک اور آیت میں ہے «أَلَّا یَسْجُدُوا لِلہِ الَّذِی یُخْرِجُ الْخَبْءَ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ» ۱؎ (27-النمل:25) ’ زمین و آسمان کی ہر چیز کو اللہ ظاہر کر دے گا ‘ ۔ ایک آیت میں ہے «وَمَا تَسْقُطُ مِن وَرَقَۃٍ إِلَّا یَعْلَمُہَا وَلَا حَبَّۃٍ فِی ظُلُمَاتِ الْأَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَلَا یَابِسٍ إِلَّا فِی کِتَابٍ مٰبِینٍ» ۱؎ (6-الأنعام:59) ، ’ ہرپتے کے جھڑنے کا ، ہر دانے کا جو زمین کے اندھیروں میں ہو ہر تر وخشک چیز کا اللہ کو علم ہے اور وہ کھلی کتاب میں ہے ‘ ۔ ایک اور آیت میں ہے «وَمَا یَعْزُبُ عَن رَّبِّکَ مِن مِّثْقَالِ ذَرَّۃٍ» ۱؎ (10-یونس:61) ’ کوئی ذرہ آسمان و زمیں میں اللہ سے پوشیدہ نہیں ، کوئی چھوٹی بڑی چیز ایسی نہیں جو ظاہر کتاب میں نہ ہو ‘ ۔ امیہ بن ابو صلت یا زید بن عمر و بن نفیل کے قصیدے میں ہے شعر «وَقُولَا لَہُ مَنْ یُنْبِت الْحَبّ فِی الثَّرَی» «فَیُصْبِح مِنْہُ الْبَقْل یَہْتَزّ رَابِیًا» «وَیُخْرِج مِنْہُ حَبّہ فِی رُءُوسہ» «فَفِی ذَلِکَ آیَات لِمَنْ کَانَ وَاعِیًا» ”اے میرے دونوں پیغمبرو ! تم اس سے کہو کہ مٹی میں سے دانے کون نکالتا ہے کہ درخت پھوٹ کر جھومنے لگتا ہے اور اس کے سرے پر بال نکل آتی ہے ؟ عقلمند کے لیے تو اس میں قدرت کی ایک چھوڑ کئی نشانیاں موجود ہیں “ ۔ تمام کائنات کا مالک وہی ہے ۔ وہ ہر ایک سے بے نیاز ہے ۔ ہر ایک اس کے سامنے فقیر اور اس کی بارگاہ عالی کا محتاج ہے ۔ سب انسان اس کے غلام ہیں ۔ کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ کل حیوانات ، جمادات ، کھیتیاں ، باغات اس نے تمہارے فائدے کے لیے ، تمہاری ماتحتی میں دے رکھے ہیں آسمان و زمین کی چیزیں تمہارے لیے سرگرداں ہیں ۔ اس کا احسان وفضل و کرم ہے کہ اسی کے حکم سے کشتیاں تمہیں ادھر سے ادھر لے جاتی ہیں ۔ تمہارے مال ومتاع ان کے ذریعے یہاں سے وہاں پہنچتے ہیں ۔ پانی کو چیرتی ہوئیں ، موجوں کو کاٹتی ہوئیں بحکم الٰہی ہواؤں کے ساتھ تمہارے نفع کے لیے چل رہی ہیں ۔ یہاں کی ضرورت کی چیزیں وہاں سے وہاں کی یہاں برابر پہنچتی رہتی ہیں ۔ وہ خود آسمان کو تھامے ہوئے ہے کہ زمین پر نہ گر پڑے ورنہ ابھی وہ حکم دے تو یہ زمین پر آ رہے اور تم سب ہلاک ہو جاؤ ۔ انسانوں کے گناہوں کے باوجود اللہ ان پر رأفت و شفقت ، بندہ نوازی اور غلام پروری کر رہا ہے ۔ جیسے فرمان ہے آیت «وَاِنَّ رَبَّکَ لَذُوْ مَغْفِرَۃٍ لِّلنَّاسِ عَلٰی ظُلْمِہِمْ وَاِنَّ رَبَّکَ لَشَدِیْدُ الْعِقَابِ» ۱؎ (13-الرعد:6) ، ’ لوگوں کے گناہوں کے باوجود اللہ تعالیٰ ان پر صاحب مغفرت ہے ۔ ہاں بے شک وہ سخت عذابوں والا بھی ہے ‘ ۔ اسی نے تمہیں پیدا کیا ہے ، وہی تمہیں فناکرے گا ، وہی پھر دوبارہ پیدا کرے گا ۔ جیسے فرمایا آیت «کَیْفَ تَکْفُرُوْنَ باللّٰہِ وَکُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْیَاکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ ثُمَّ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ» ۱؎ (2-البقرۃ:28) ’ تم اللہ کے ساتھ کیسے کفر کرتے ہو ؟ حالانکہ تم مردہ تھے ، اسی نے تمہیں زندہ کیا پھر وہی تمہیں مار ڈالے گا ، پھر دوبارہ زندہ کر دے گا ۔ پھر تم سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے ‘ ۔ ایک اور آیت میں ہے «قُلِ اللّٰہُ یُحْیِیْکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یَجْمَعُکُمْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ لَا رَیْبَ فِیْہِ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ» ۱؎ (45-الجاثیۃ:26) ’ اللہ ہی تمہیں دوبارہ زندہ کرتا ہے پھر وہی تمہیں مار ڈالے گا پھر تمہیں قیامت والے دن ، جس کے آنے میں کوئی شبہ نہیں جمع کرے گا ‘ ۔ اور جگہ فرمایا «قَالُوا رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَیْنِ وَأَحْیَیْتَنَا اثْنَتَیْنِ» ۱؎ (40-غافر:11) ’ وہ کہیں گے کہ اے اللہ تو نے ہمیں دو دفعہ مارا اور دو دفعہ زندہ کیا ‘ ۔ پس کلام کا مطلب یہ ہے کہ ایسے اللہ کے ساتھ تم دوسروں کو شریک کیوں ٹھیراتے ہو ؟ دوسروں کی عبادت اس کے ساتھ کیسے کرتے ہو ؟ پیدا کرنے والا فقط وہی ، روزی دینے والا وہی ، مالک ومختار فقط وہی ، تم کچھ نہ تھے اس نے تمہیں پیدا کیا ۔ پھر تمہاری موت کے بعد دوبارہ پیدا کرے گا یعنی قیامت کے دن انسان بڑا ہی ناشکرا اور بے قدرا ہے ۔ الحج
64 الحج
65 الحج
66 الحج
67 مناسک کے معنی اصل میں عربی زبان میں «مَنسَکً» کا لفظی ترجمہ وہ جگہ ہے ، جہاں انسان جانے آنے کی عادت ڈال لے ۔ احکام حج کی بجا آوری کو اس لیے «مَنَاسِکَ» کہا جاتا ہے کہ لوگ باربار وہاں جاتے ہیں اور ٹھہرتے ہیں ۔ منقول ہے کہ یہاں مراد یہ ہے کہ ہر امت کے پیغمبر کے لیے ہم نے شریعت مقرر کی ہے ، اس امر میں لوگ نہ لڑے ، سے مراد یہ مشرک لوگ ہیں ۔ اور اگر مراد ہر امت کے بطور قدرت کے ان کے افعال کا تقرر کرنا ہے ۔ جیسے سورۃ البقرہ میں فرمان ہے کہ «وَلِکُلٍّ وِجْہَۃٌ ہُوَ مُوَلِّیہَا» ۱؎ (2-البقرۃ:148) ’ ہر ایک لیے ایک سمت ہے جدھر وہ متوجہ ہوتا ہے ‘ یہاں بھی ہے کہ ’ وہ اس کے بجا لانے والے ہیں ‘ تو ضمیر کا اعادہ بھی خود ان پر ہی ہے یعنی یہ ’ اللہ کی قدرت اور ارادے سے کر رہے ہیں ان کے جھگڑنے سے تو بددل نہ ہو اور حق سے نہ ہٹ ۔ اپنے رب کی طرف بلاتا رہ اور اپنی ہدایت واستقامت پر مکمل یقین رکھ ۔ یہی راستہ حق سے ملانے والا ہے ، کامیابی سے ہمکنار کرنے والا ہے ‘ ۔ جیسے فرمایا ہے «وَلَا یَصُدٰنَّکَ عَنْ اٰیٰتِ اللّٰہِ بَعْدَ اِذْ اُنْزِلَتْ اِلَیْکَ وَادْعُ اِلٰی رَبِّکَ وَلَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ» ۱؎ (28-القص:87) ’ خبردار کہیں تجھے اللہ کی آیتوں کے تیرے پاس پہنچ جانے پر بھی ان سے روک نہ دیں ، اپنے رب کے راستے کی دعوت عام برابر دیتا رہ ‘ ۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی حق قبول کرنے سے جائے تو اس سے کنارہ اختیار کیجئے اور کہہ دیجئیے اللہ تمہارے اعمال دیکھ رہا ہے ۔ جیسے کئی جگہ اسی مضمون کو دہرایا ہے ۔ ایک اور جگہ ہے کہ «وَإِن کَذَّبُوکَ فَقُل لِّی عَمَلِی وَلَکُمْ عَمَلُکُمْ أَنتُم بَرِیئُونَ مِمَّا أَعْمَلُ وَأَنَا بَرِیءٌ مِّمَّا تَعْمَلُونَ» ۱؎ (10-یونس:41) ’ اگر یہ تجھے جھٹلائیں تو ان سے کہہ دے کہ میرے لیے میرا عمل ہے اور تمہارے لیے تمہارا عمل ہے تم میرے اعمال سے بری ہو ، میں تمہارے کرتوت سے بیزار ہوں ‘ ۔ پس یہاں بھی ان کے کان کھول دیئے کہ «ہُوَ أَعْلَمُ بِمَا تُفِیضُونَ فِیہِ کَفَیٰ بِہِ شَہِیدًا بَیْنِی وَبَیْنَکُمْ» ۱؎ (46-الاحقاف:8) ’ اللہ تمہارے اعمال سے باخبر ہے وہ تمہاری ادنیٰ سی ادنیٰ حرکت کو بھی جانتا ہے اور وہی ہے تم میں کافی شاہد ہے قیامت کے دن ہم تم میں فیصلہ اللہ خود کر دے گا ، اور اس وقت سارے اختلافات مٹ جائیں گے ‘ ۔ جیسے فرمان ہے «فَلِذٰلِکَ فَادْعُ وَاسْتَقِمْ کَمَا أُمِرْتَ وَلَا تَتَّبِعْ أَہْوَاءَہُمْ وَقُلْ آمَنتُ بِمَا أَنزَلَ اللہُ مِن کِتَابٍ وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَیْنَکُمُ اللہُ رَبٰنَا وَرَبٰکُمْ لَنَا أَعْمَالُنَا وَلَکُمْ أَعْمَالُکُمْ لَا حُجَّۃَ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمُ اللہُ یَجْمَعُ بَیْنَنَا وَإِلَیْہِ الْمَصِیرُ» ۱؎ (42-الشوری:15) ’ تو اسی کی دعوت دیتا رہ اور ہمارے حکم پر ثابت قدم رہ اور کسی کی خواہش کے پیچھے نہ لگ اور صاف اعلان کر دے کہ اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب پر میرا ایمان ہے ‘ ۔ الحج
68 الحج
69 الحج
70 کمال علم رب کی شان رب کے کمال علم کا بیان ہو رہا ہے کہ ’ زمین و آسمان کی ہر چیز اس کے علم کے احاطہٰ میں ہے ایک ذرہ بھی اس سے باہر نہیں کائنات کے وجود سے پہلے ہی کائنات کا علم اسے تھا بلکہ اس نے لوح محفوظ میں لکھوا دیا تھا ‘ ۔ صحیح مسلم میں حدیث ہے کہ { اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کی پیدائش سے پچاس ہزار سال پہلے جب کہ اس کا عرش پانی پر تھا مخلوق کی تقدیر لکھی } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2653) سنن کی حدیث میں ہے کہ { سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے فلک کو پیدا کیا اور اس سے فرمایا ’ لکھ ‘ اس نے دریافت کیا کہ کیا لکھوں ؟ فرمایا ’ جو کچھ ہونے والا ہے ‘ پس قیامت تک جو کچھ ہونے والا تھا اسے قلم نے قلم بند کر دیا } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2154،قال الشیخ الألبانی:حسن) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ ” سو سال کی راہ میں اللہ نے لوح محفوظ کو پیدا کیا اور مخلوق کی پیدائش سے پہلے جب کہ اللہ تعالیٰ عرش پر تھا قلم کو لکھنے کا حکم دیا اس نے پوچھا کیا لکھوں فرمایا ’ میرا علم جو مخلوق کے متعلق قیامت کا ہے ‘ ۔ پس قلم چل پڑا اور قیامت تک کے ہونے والے امور جو علم الٰہی میں ہے اس نے لکھ لیے “ ۔ پس اسی کو اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت میں فرما رہا ہے کہ ’ کیا تو نہیں جانتا کہ آسمان و زمین کی ہر ایک چیز کا میں عالم ہوں ‘ ۔ پس یہ اس کا کمال علم ہے کہ چیز کے وجود سے پہلے اسے معلوم ہے بلکہ لکھ بھی لیا ہے اور وہ سب یوں ہی واقع میں ہونے والا ہے ۔ اللہ کو بندوں کے تمام اعمال کا علم ان کے عمل سے پہلے ہے ۔ وہ جو کچھ کرتے ہیں اس کرنے سے پہلے اللہ جانتا تھا ، ہر فرماں بردار اور نافرمان اس کے علم میں تھا اور اس کی کتاب میں لکھا ہوا تھا اور ہر چیز اس کے علمی احاطے کے اندر ہی اندر اور یہ امر اللہ پر مشکل بھی نہ تھا سب کتاب میں تھا اور رب پر بہت ہی آسان ۔ الحج
71 شیطان کی تقلید بلاسند ، بغیر دلیل کے اللہ کے سوا دوسرے کی پوجا پاٹ عبادت وبندگی کرنے والوں کا جہل وکفر بیان فرماتا ہے کہ شیطانی تقلید اور باپ دادا کی دیکھا دیکھی کے سوا نہ کوئی نقلی دلیل ان کے پاس ہے نہ عقلی ۔ چنانچہ اور آیت میں ہے «وَمَنْ یَّدْعُ مَعَ اللّٰہِ اِلٰــہًا اٰخَرَ» ۱؎ (23-المؤمنون:117) ’ جو بھی اللہ کے ساتھ دوسرے معبود کو بے دلیل پکارے اس سے اللہ خود ہی بازپرس کر لے گا ۔ ناممکن ہے کہ ایسے ظالم چھٹکارا پاجائیں ‘ ۔ یہاں بھی فرمایا کہ ’ ان ظالموں کا کوئی مددگار نہیں کہ اللہ کے کسی عذاب سے انہیں بچالے ‘ ۔ ان پر اللہ کے پاک کلام کی آیتیں ، صحیح دلیلیں ، واضح حجتیں جب پیش کی جاتی ہیں تو ان کے تن بدن میں آگ لگ جاتی ۔ اللہ کی توحید ، رسولوں کی اتباع کو صاف طور پر بیان کیا تو انہیں سخت غصہ آیا ، ان کی شکلیں بدل گئیں ، تیوریوں پر بل پڑنے لگے آستینیں چڑھنے لگیں اگر بس چلے تو زبان کھینچ لیں ، ایک لفظ حقانیت کا زمین پر نہ آنے دیں ۔ اسی وقت گلا گھونٹ دیں ، ان سچے خیرخواہوں کی اللہ کے دین کے مبلغوں کی برائیاں کرنے لگتے ہیں ۔ زبانیں ان کے خلاف چلنے لگتی ہیں اور ممکن ہو تو ہاتھ بھی ان کے خلاف اٹھنے میں نہیں رکتے ۔ فرمان ہوتا ہے کہ ’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان سے کہہ دو کہ ایک طرف تو تم جو دکھ ان اللہ کے متوالوں کو پہنچانا چاہتے ہو اسے وزن کرو دوسری طرف اس دکھ کا وزن کر لو جو تمہیں یقیناً تمہارے کفر و انکار کی وجہ سے پہنچنے والا ہے پھر دیکھو کہ بدترین چیز کون سی ہے ؟ وہ آتش دوزخ اور وہاں کے طرح طرح کے عذاب ؟ یا جو تکلیف تم ان سچے موحدوں کو پہنچانا چاہتے ہو ؟ گو یہ بھی تمہارے ارادے ہی ارادے ہیں اب تم ہی سمجھ لو کہ جہنم کیسی بری جگہ ہے ؟ کس قدر ہولناک ہے ؟ کس قدرایذاء دہندہ ہے ؟ اور کتنی مشکل والی جگہ ہے ؟ ‘ «إِنَّہَا سَاءَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقَامًا» ۱؎ (25-الفرقان:66) ’ یقیناً وہ نہایت ہی بدترین جگہ اور بہت ہی خوفناک مقام ہے ‘ ، جہاں راحت و آرام کا نام بھی نہیں ۔ الحج
72 الحج
73 کم عقل پجاری اللہ کے ماسوا جن کے عبادت کی جاتی ہے ان کی کمزوری اور ان کے پجاریوں کی کم عقلی بیان ہو رہی ہے کہ ’ اے لوگو ! یہ جاہل جس جس کی بھی اللہ کے سوا عبادت کرتے ہیں ، رب کے ساتھ یہ جو شرک کرتے ہیں ، ان کی ایک مثال نہایت عمدہ اور بالکل واقعہ کے مطابق بیان ہو رہی ہے ذرا توجہ سے سنو ۔ کہ ان کے تمام کے تمام بت ، بزرگ وغیرہ جنہیں یہ اللہ کا شریک ٹھہرا رہے ہیں ، جمع ہو جائیں اور ایک مکھی بنانا چاہیں تو سارے عاجز آ جائیں گے اور ایک مکھی بھی پیدا نہ کر سکیں گے ‘ ۔ مسند احمد کی حدیث قدسی میں فرمان الٰہی ہے { اس سے زیادہ ظالم کون ہے جو میری طرح کسی کو بنانا چاہتا ہے ۔ اگر واقعی میں کسی کو یہ قدرت حاصل ہے تو ایک ذرہ ، ایک مکھی یا ایک دانہ اناج کا ہی خود بنادیں } ۔ ۱؎ (مسند احمد:391/2:صحیح) بخاری و مسلم میں الفاظ یوں ہیں کہ ’ وہ ایک ذرہ یا ایک جو ہی بنادیں ‘ ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5953) اچھا اور بھی ان کے معبودان باطل کی کمزوری اور ناتوانی سنو کہ ’ یہ ایک مکھی کا مقابلہ بھی نہیں کر سکتے وہ ان کا حق ان کی چیز ان سے چھینے چلی جا رہی ہے ، یہ بے بس ہیں ، یہ بھی تو نہیں کر سکتے کہ اس سے اپنی چیز ہی واپس لے لیں بھلا مکھی جیسی حقیر اور کمزور مخلوق سے بھی جو اپنا حق نہ لے سکے اس سے بھی زیادہ کمزور ، بودا ضعیف ناتوان بے بس اور گرا پڑا کوئی اور ہوسکتا ہے ؟ ‘ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ” طالب “ سے مراد بت اور ” مطلوب “ سے مراد مکھی ہے ۔ امام ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ بھی اسی کو پسند کرتے ہیں اور ظاہر لفظوں سے بھی یہی ظاہر ہے ۔ دوسرا مطلب یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ طالب سے مراد عابد اور مطلوب سے مراد اللہ کے سوا اور معبود ۔ اللہ کی قدروعظمت ہی ان کے دلوں میں نہیں رچی اگر ایسا ہوتا تو اتنے بڑے توانا اللہ کے ساتھ ایسی ذلیل مخلوق کو کیوں شریک کر لیتے ۔ جو مکھی اڑانے کی بھی قدرت نہیں رکھتی جیسے مشرکین قریش کے بت تھے ۔ اللہ اپنی قدرت وقوت میں یکتا ہے تمام چیزیں بے نمونہ «وَہُوَ الَّذِی یَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیدُہُ وَہُوَ أَہْوَنُ عَلَیْہِ» ۱؎ (30-الروم:27) ’ سب سے پہلی پیدائش میں اس نے پیدا کر دی ہیں کسی ایک سے بھی مدد لیے بغیر پھر سب کو ہلاک کر کے دوبارہ اس سے بھی زیادہ آسانی سے پیدا کرنے پر قادر ہے ‘ ۔ «إِنَّ بَطْشَ رَبِّکَ لَشَدِیدٌ إِنَّہُ ہُوَ یُبْدِئُ وَیُعِیدُ» ۱؎ (85-البروج:13-12) ’ وہ بڑی مضبوط پکڑ والا ، ابتداء اور اعادہ کرنے والا ‘ ، «إِنَّ اللہَ ہُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّۃِ الْمَتِینُ» ۱؎ (51-الذاریات:58) ’ رزق دینے والا ، اور بے انداز قوت رکھنے والا ہے ‘ ، ’ سب کچھ اس کے سامنے پست ہے ، کوئی اس کے ارادے کو بدلنے والا ، اس کے فرمان کو ٹالنے والا اس کی عظمت اور سلطنت کا مقابلہ کرنے والا نہیں ، وہ واحد قہار ہے ‘ ۔ الحج
74 الحج
75 منصب نبوت کا حقدار کون؟ اپنی مقرر کردہ تقدیر کے جاری کرنے اور اپنی مقرر کردہ شریعت کو اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچانے کے لیے اللہ تعالیٰ جس فرشتے کو چاہتا ہے ، مقرر کر لیتا ہے اسی طرح لوگوں میں سے بھی پیغمبری کی خلعت سے جسے چاہتا ہے نوازتا ہے ۔ بندوں کے سب اقوال سنتا ہے ایک ایک بندہ اور اس کے اعمال اس کی نگاہ میں ہیں وہ بخوبی جانتا ہے کہ منصب نبوت کا مستحق کون ہے ؟ جیسے فرمایا آیت «اَللّٰہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ سَیُصِیْبُ الَّذِیْنَ اَجْرَمُوْا صَغَارٌ عِنْدَ اللّٰہِ وَعَذَابٌ شَدِیْدٌ بِمَا کَانُوْا یَمْکُرُوْنَ» ۱؎ (6-الأنعام:124) ’ رب ہی کو علم ہے کہ منصب رسالت کا صحیح طور اہل کون ہے ؟ رسولوں کے آگے پیچھے کا اللہ کو علم ہے ، کیا اس تک پہنچا ، کیا اس نے پہنچایا ، سب اس پر ظاہر و باہر ہے ‘ ۔ جیسے فرمان ہے آیت «عَالِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْہِرُ عَلَیٰ غَیْبِہِ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَیٰ مِن رَّسُولٍ فَإِنَّہُ یَسْلُکُ مِن بَیْنِ یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہِ رَصَدًا لِّیَعْلَمَ أَن قَدْ أَبْلَغُوا رِسَالَاتِ رَبِّہِمْ وَأَحَاطَ بِمَا لَدَیْہِمْ وَأَحْصَیٰ کُلَّ شَیْءٍ عَدَدًا» ۱؎ (72-الجن:28-26) ، یعنی ’ وہ غیب کا جاننے والا ہے اپنے غیب کا کسی پر اظہار نہیں کرتا ۔ ہاں جس پیغمبر کو وہ پسند فرمائے اس کے آگے پیچھے پہرے مقرر کر دیتا ہے ، تاکہ وہ جان لے کہ انہوں نے اپنے پروردگار کے پیغام پہنچادئے اور اللہ تعالیٰ ہر اس چیز کا احاطہٰ کئے ہوئے ہے جو ان کے پاس ہے اور ہر چیز کی گنتی تک اس کے پاس شمار ہو چکی ہے ‘ ۔ پس اللہ سبحانہ وتعالیٰ اپنے رسولوں کا نگہبان ہے جو انہیں کہا سنا جاتا ہے اس پر خود گواہ ہے خود ہی ان کا حافظ ہے اور ان کا مددگار بھی ہے ۔ جیسے فرمان ہے آیت « یَا أَیٰہَا الرَّ‌سُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَیْکَ مِن رَّ‌بِّکَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ» ۱؎ (5-المائدۃ:67) ، ’ اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ تیرے پاس تیرے رب کے طرف سے اترا ہے ، پہنچا دے اگر ایسا نہ کیا تو حق رسالت ادا نہ ہو گا تیرا بچاؤ اللہ کے ذمے ہے ‘ ، الخ ۔ الحج
76 الحج
77 سورہ حج کو دو سجدوں کی فضلیت حاصل ہے اس دوسرے سجدے کے بارے میں دو قول ہیں ۔ پہلے سجدے کی آیت کے موقعہ پر ہم نے وہ حدیث بیان کر دی ہے جس میں ہے کہ { رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا «فُضِّلَتْ سُورَۃ الْحَجّ بِسَجْدَتَیْنِ فَمَنْ لَمْ یَسْجُدہُمَا فَلَا یَقْرَأہُمَا» سورۃ الحج کو دو سجدوں سے فضیلت دی گئی جو یہ سجدے نہ کرے وہ یہ پڑھے ہی نہیں } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:578،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) پس رکوع سجدہ عبادت اور بھلائی کا حکم کرکے فرماتا ہے ۔ الحج
78 امت مسلمہ کو سابقہ امتوں پر فضیلت ’ اپنے مال ، جان اور اپنی زبان سے راہ اللہ میں جہاد کرو اور حق جہاد ادا کرو ‘ ۔ جیسے حکم دیا ہے کہ «اتَّقُوا اللہَ حَقَّ تُقَاتِہِ» ۱؎ (3-آل عمران:102) ’ اللہ سے اتنا ڈرو جتنا اس سے ڈرنے کا حق ہے ‘ ، اسی نے تمہیں برگزیدہ اور پسندیدہ کر لیا ہے ۔ اور امتوں پر تمہیں شرافت وکرامت عزت وبزرگی عطا فرمائی ۔ کامل رسول اور کامل شریعت سے تمہیں سربرآوردہ کیا ، تمہیں آسان ، سہل اور عمدہ دین دیا ۔ وہ احکام تم پر نہ رکھے وہ سختی تم پر نہ کی وہ بوجھ تم پر نہ ڈالے جو تمہارے بس کے نہ ہوں جو تم پر گراں گزریں ۔ جنہیں تم بجا نہ لاسکو ۔ اسلام کے بعد سب سے اعلیٰ اور سب سے زیادہ تاکید والا ، رکن نماز ہے ۔ اسے دیکھئیے گھر میں آرام سے بیٹھے ہوئے ہوں تو چار رکعت فرض اور پھر اگر سفر ہو تو وہ بھی دو ہی رہ جائیں ۔ اور خوف میں تو حدیث کے مطابق صرف ایک ہی رکعت وہ بھی سواری پر ہو تو اور پیدل ہو تو ، روبہ قلبہ ہو تو اور دوسری طرف توجہ ہو تو ، اسی طرح یہی حکم سفر کی نفل نماز کا ہے کہ جس طرف سواری کا منہ ہو پڑھ سکتے ہیں ۔ پھر نماز کا قیام بھی بوجہ بیماری کے ساقط ہو جاتا ہے ۔ مریض بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے ، اس کی بھی طاقت نہ ہو تو لیٹے لیٹے ادا کر لے ۔ اسی طرح اور فرائض اور واجبات کو دیکھو کہ کس قدر ان میں اللہ تعالیٰ نے آسانیاں رکھی ہیں ۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے { میں یک طرفہ اور بالکل آسانی والا دین دے کر بھیجا گیا ہوں } ۔ ۱؎ (مسند احمد:266/5:اسنادہ ضعیف) جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ اور ابوموسیٰ رضی اللہ عنہم کو یمن کا امیر بنا کر بھیجا تو فرمایا تھا { تو خوشخبری سنانا ، نفرت نہ دلانا ، آسانی کرنا ، سختی نہ کرنا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3038) اور بھی اس مضمون کی بہت سی حدیثیں ہیں ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت کی تفسیر کرتے ہیں کہ ’ تمہارے دین میں کوئی تنگی و سختی نہیں ‘ ۔ ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں «مِلَّۃ» کا نصب بہ نزع خفض ہے گویا اصل میں [ «کَمِلَّۃِ أَبِیکُمْ» ] تھا ۔ اور ہوسکتا ہے کہ «الْزَمُوا» کو محذوف مانا جائے اور «مِّلَّۃَ» کو اس کا مفعول قرار دیا جائے ۔ اس صورت میں یہ اسی آیت کی طرح ہو جائے گا «دِینًا قِیَمًا» الخ ، ’ اس نے تمہارا نام مسلم رکھا ہے ‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے ، ابراہیم علیہ السلام سے پہلے ۔ کیونکہ ان کی دعا تھی کہ ” ہم دونوں باپ بیٹوں کو اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک گروہ کو مسلمان بنا دے “ ۔ لیکن امام ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ قول کچھ جچتا نہیں کہ پہلے سے مراد ابراہیم علیہ السلام کے پہلے سے ہو اس لیے کہ یہ تو ظاہر ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے اس امت کا نام اس قرآن میں مسلم نہیں رکھا ۔ ” پہلے سے“ کے لفظ کے معنی یہ ہیں کہ پہلی کتابوں میں ذکر میں اور اس پاک اور آخری کتاب میں ۔ یہی قول مجاہد رحمتہ اللہ علیہ وغیرہ کا ہے اور یہی درست ہے ۔ کیونکہ اس سے پہلے اس امت کی بزرگی اور فضیلت کا بیان ہے ان کے دین کے آسان ہونے کا ذکر ہے ۔ پھر انہیں دین کی مزید رغبت دلانے کے لیے بتایا جا رہا ہے کہ ’ یہ دین وہ ہے جو ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام لے کر آئے تھے ‘ ، پھر اس امت کی بزرگی کے لیے اور انہیں مائل کرنے کے لیے فرمایا جا رہا ہے کہ ’ تمہارا ذکر میری سابقہ کتابوں میں بھی ہے ۔ مدتوں سے انبیاء کی آسمانی کتابوں میں تمہارے چرچے چلے آ رہے ہیں ۔ سابقہ کتابوں کے پڑھنے والے تم سے خوب آگاہ ہیں پس اس قرآن سے پہلے اور اس قرآن میں تمہارا نام مسلم ہے اور خود اللہ کا رکھا ہوا ہے ‘ ۔ نسائی میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ { جو شخص جاہلیت کے دعوے اب بھی کرے [ یعنی باپ دادوں پر حسب نسب پر فخر کرے دوسرے مسلمانوں کو کمینہ اور ہلکا خیال کرے ] وہ جہنم کا ایندھن ہے } ۔ کسی نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگرچہ وہ روزے رکھتا ہو ؟ اور نمازیں بھی پڑھتا ہو ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا { ہاں ہاں اگرچہ وہ روزے دار اور نمازی ہو } ۔ یعنی مسلمین ، مومنین اور عباد اللہ } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2873،قال الشیخ الألبانی:صحیح) سورۃ البقرہ کی آیت «یَا أَیٰہَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّکُمُ الَّذِی خَلَقَکُمْ وَالَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ» ۱؎ (2-البقرۃ:21) کی تفسیر میں ہم اس حدیث کو بیان کر چکے ہیں ۔ پھر فرماتا ہے ’ ہم نے تمہیں عادل عمدہ بہتر امت اسلئے بنایا ہے اور اس لیے تمام امتوں میں تمہاری عدالت کی شہرت کر دی ہے کہ تم قیامت کے دن اور لوگوں پر شہادت دو ‘ ۔ تمام اگلی امتیں امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بزرگی اور فضیلت کا اقرار کریں گی ۔ کہ اس امت کو اور تمام امتوں پر سرداری حاصل ہے اس لیے ان کی گواہی اس پر معتبر مانی جائے گی ۔ اس بارے میں کہ اس کے رسولوں نے اللہ کا پیغام انہیں پہنچایا ہے ، وہ تبلیغ کا فرض ادا کر چکے ہیں اور خود رسول صلی اللہ علیہ وسلم امت پر شہادت دیں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دین پہنچا دیا اور حق رسالت ادا کر دیا ۔ اس بابت جتنی حدیثیں ہیں اور اس بارے کی جتنی تفسیر ہے وہ ہم سب کی سب سورۃ البقرہ کے سترھویں رکوع کی آیت «وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَاءَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًا» ۱؎ (2-البقرۃ:143) کی تفسیر میں لکھ آئے ہیں ۔ اس لیے یہاں اسے دوبارہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں وہیں دیکھ لی جائے ۔ وہیں نوح علیہ السلام اور ان کی امت کا واقعہ بھی بیان کر دیا ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ اتنی بڑی عظیم الشان نعمت کا شکریہ تمہیں ضرور ادا کرنا چاہیئے ، جس کا طریقہ یہ ہے کہ جو اللہ کے فرائض تم پر ہیں انہیں شوق خوشی سے بجا لاؤ خصوصاً نماز اور زکوٰۃ کا پورا خیال رکھو ۔ جو کچھ اللہ نے واجب کیا ہے اسے دلی محبت سے بجالاؤ اور جو چیزیں حرام کر دیں ہیں اس کے پاس بھی نہ پھٹکو ‘ ۔ پس نماز جو خالص رب کی ہے اور زکوٰۃ جس میں رب کی عبادت کے علاوہ مخلوق کے ساتھ احسان بھی ہے کہ امیر لوگ اپنے مال کا ایک حصہ فقیروں کو خوشی خوشی دیتے ہیں ، ان کا کام چلتا ہے دل خوش ہو جاتا ہے ۔ اس میں بھی ہے کہ اللہ کی طرف سے بہت آسانی ہے حصہ کم بھی ہے اور سال بھر میں ایک ہی مرتبہ ۔ زکوٰۃ کے کل احکام سورۃ التوبہ کی آیت زکوٰ «اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسٰکِیْنِ وَالْعٰمِلِیْنَ عَلَیْہَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُہُمْ وَفِی الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِیْنَ وَفِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَابْنِ السَّبِیْلِ فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّٰہِ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ» ۱؎ (9-التوبہ:60) کی تفسیر میں ہم نے بیان کر دئے ہیں وہیں دیکھ لیے جائیں ۔ پھر حکم ہوتا ہے کہ ’ اللہ پر پورا بھروسہ رکھو ، اسی پر توکل کرو ، اپنے تمام کاموں میں اس کی امداد طلب کیا کرو ، ہر وقت اعتماد اس پر رکھو ، اسی کی تائید پر نظریں رکھو ۔ وہ تمہارا مولیٰ ہے ، تمہارا حافظ ہے ناصر ہے ، تمہیں تمہارے دشمنوں پر کامیابی عطا فرمانے والا ہے ، وہ جس کا ولی بن گیا اسے کسی اور کی ولایت کی ضرورت نہیں ، سب سے بہتر والی وہی ہے سب سے بہتر مددگار وہی ہے ، تمام دنیا گو دشمن ہو جائے لیکن وہ سب قادر ہے اور سب سے زیادہ قوی ہے ‘ ۔ ابن ابی حاتم میں وہیب بن ورد سے مروی ہے کہ ” اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے ’ اے ابن آدم اپنے غصے کے وقت تو مجھے یاد کر لیا کر ۔ میں بھی اپنے غضب کے وقت تجھے معافی فرما دیا کروں گا ، اور جن پر میرا عذاب نازل ہو گا میں تجھے ان میں سے بچا لونگا ۔ برباد ہونے والوں کے ساتھ تجھے برباد نہ کروں گا ۔ اے ابن آدم جب تجھ پر ظلم کیا جائے تو صبروضبط سے کام لے ، مجھ پر نگاہیں رکھ ، میری مدد پر بھروسہ رکھ میری امداد پر راضی رہ ، یاد رکھ میں تیری مدد کروں یہ اس سے بہت بہتر ہے کہ تو آپ اپنی مدد کرے ‘ ۔ [ اللہ تعالیٰ ہمیں بھلائیوں کی توفیق دے اپنی امداد نصیب فرمائے آمین ] «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ الحج
0 المؤمنون
1 دس آیتیں اور جنت کی ضمانت نسائی ، ترمذی اور مسند احمد میں مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب وحی اترتی تو ایک ایسی میٹھی میٹھی ، بھینی بھینی ، ہلکی ہلکی سی آواز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سنی جاتی جیسے شہد کی مکھیوں کے اڑنے کی بھنبھناہٹ کی ہوتی ہے ۔ ایک مرتبہ یہی حالت طاری ہوئی ۔ تھوڑی دیر کے بعد جب وحی اتر چکی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ کی طرف متوجہ ہو کر اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر یہ دعا پڑھی کہ اے اللہ تو ہمیں زیادہ کر ، کم نہ کر ، ہمارا اکرام کر ، اہانت نہ کر ، ہمیں انعام عطا فرما ، محروم نہ رکھ ، ہمیں دوسروں کے مقابلے میں فضیلت دے ، ہم پر دوسروں کو پسند نہ فرما ، ہم سے خوش ہو جا اور ہمیں خوش کر دے ۔ عربی کے الفاظ یہ ہیں ۔ دعا «الہم زدنا ولا تنقصنا واکرمنا ولاتہنا واعطنا ولاتحرمنا واثرنا ولاتوثرعلینا وارض عناوارضنا» پھر فرمایا مجھ پر دس آیتیں اتری ہیں ، جو ان پر جم گیا وہ جنتی ہو گیا ۔ پھر آپ نے سورۃ المومنوں کی ابتدائی دس آیتیں تلاوت فرمائیں ۔ (مسند احمد:34/1:ضعیف) امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ اس حدیث کو منکر بتاتے ہیں ، کیونکہ اس کا راوی صرف یونس بن سلیم ہے جو محدثین کے نزدیک معروف نہیں ۔ نسائی میں ہے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عادات واخلاق کی بابت سوال ہوا تو آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خلق قرآن تھا ، پھر ان آیتوں کی «وَالَّذِینَ ہُمْ عَلَیٰ صَلَوَاتِہِمْ یُحَافِظُونَ» ( 23-المؤمنون : 9 ) ۔ تک تلاوت فرمائی ۔ اور فرمایا یہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق تھے ۔ مروی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے جنت عدن پیدا کی اور اس میں درخت وغیرہ اپنے ہاتھ سے لگائے تو اسے دیکھ کر فرمایا کچھ بول ۔ اس نے یہی آیتیں تلاوت کیں جو قرآن میں نازل ہوئیں ۔ سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اس کی ایک اینٹ سونے کی اور دوسری چاندی کی ہے ۔ فرشتے اس میں جب داخل ہوئے ، کہنے لگے واہ واہ یہ تو بادشاہوں کی جگہ ہے ۔ اور روایت میں ہے اس کا گارہ مشک کا تھا ۔ (مسند بزار،3508:ضعیف) اور روایت میں ہے کہ اس میں وہ وہ چیزیں ہیں جو نہ کسی آنکھ نے دیکھیں ، نہ کسی دل میں سمائیں ۔ (طبرانی کبیر:11439:ضعیف) اور روایت میں ہے کہ جنت نے جب ان آیتوں کی تلاوت کی تو جناب باری نے فرمایا مجھے اپنی بزرگی اور جلال کی قسم تجھ میں بخیل ہرگز داخل نہیں ہوسکتا ۔ (طبرانی:12723:ضعیف) اور حدیث میں ہے کہ اس کی ایک اینٹ سفید موتی کی ہے اور دوسری سرخ یاقوت کی اور تیسری سبز ذمرد کی ۔ اس کا گارہ مشک کا ہے اس کی گھاس زعفران ہے ۔ اس روایت کے آخر میں ہے کہ اس حدیث کو بیان فرما کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت «وَمَنْ یٰوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰیِٕکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ» ( 59- الحشر : 9 ) پڑھی ۔(صفۃ الجنۃ لابن ابی الدنیا:20:ضعیف) الغرض فرمان ہے کہ مومن مراد کو پہنچ گئے ، وہ سعادت پا گئے ، انہوں نے نجات پالی ۔ ان مومنوں کی شان یہ ہے کہ وہ اپنی نمازوں میں اللہ کا خوف رکھتے ہیں خشوع اور سکون کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں ۔ دل حاضر رکھتے ہیں ، نگاہیں نیچی ہوتی ہیں ، بازو جھکے ہوئے ہوتے ہیں ۔ محمد بن سیرین رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے اپنی نگاہیں آسمان کی طرف اٹھاتے تھے ۔ لیکن اس آیت کے نازل ہونے کے بعد ان کی نگاہیں نیچی ہو گئیں ، سجدے کی جگہ سے اپنی نگاہ نہیں ہٹاتے تھے ۔ اور یہ بھی مروی ہے کہ جائے نماز سے ادھر ادھر ان کی نظر نہیں جاتی تھی اگر کسی کو اس کے سوا عادت پڑگئی ہو تو اسے چاہے کہ اپنی نگاہیں نیچی کر لے ۔ ایک مرسل حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے ایسا کیا کرتے تھے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:25425:مرسل) پس یہ خضوع و خشوع اسی شخص کو حاصل ہوسکتا ہے ، جس کا دل فارغ ہو ، خلوص حاصل ہو اور نماز میں پوری دلچسپی ہو اور تمام کاموں سے زیادہ اسی میں دل لگتا ہو ۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مجھے خوشبو اور عورتیں زیادہ پسند ہیں اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھ دی گئی ہے (مسند احمد:128/3:حسن) ایک انصاری صحابی رضی اللہ تعالیٰ نے نماز کے وقت اپنی لونڈی سے کہا کہ پانی لاؤ ، نماز پڑھ کر راحت حاصل کروں تو سننے والوں کو ان کی یہ بات گراں گزری ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا رسول صلی اللہ علیہ وسلم بلال رضی اللہ عنہا سے فرماتے تھے ۔ اے بلال اٹھو اور نماز کے ساتھ ہمیں راحت پہنچاؤ ۔ مومنوں کے اوصاف پھر اور وصف بیان ہوا کہ وہ باطل ، شرک ، گناہ اور ہر ایک بیہودہ اور بے فائدہ قول وعمل سے بچتے ہیں ۔ جیسے فرمان ہے «وَاِذَا مَرٰوْا باللَّغْوِ مَرٰوْا کِرَامًا» ( 25- الفرقان : 72 ) وہ لغو بات سے بزرگانہ گزر جاتے ہیں وہ برائی اور بےسود کاموں سے اللہ کی روک کی وجہ سے رک جاتے ہیں ۔ اور انکا یہ وصف ہے کہ یہ مال کی زکوٰۃ ادا کرتے ہیں ۔ اکثر مفسرین یہی فرماتے ہیں لیکن اس میں ایک بات یہ ہے کہ یہ آیت مکی ہے اور زکوٰۃ کی فرضیت ہجرت کے دوسرے سال میں ہوتی ہے پھر مکی آیت میں اس کا بیان کیسے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اصل زکوٰۃ تو مکہ میں واجب ہو چکی تھی ہاں اس کی مقدار ، مال کا نصاب وغیرہ یہ سب احکام مدینے میں مقرر ہوئے ۔ دیکھئیے سورۃ الانعام بھی مکی ہے اور اس میں یہی زکوٰۃ کا حکم موجود ہے « وَآتُوا حَقَّہُ یَوْمَ حَصَادِہِ وَلَا تُسْرِفُوا » ۔یعنی کھیتی کے کٹنے والے دن اس کی زکوٰۃ ادا کر دیا کرو ۔(6-الأنعام:141) ہاں یہ بھی معنی ہو سکتے ہیں کہ مراد زکوٰۃ سے یہاں نفس کو شرک و کفر کے میل کچیل سے پاک کرنا ہو ۔ جیسے فرمان ہے آیت «قَدْ أَفْلَحَ مَن زَکَّاہَا وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاہَا» (91-الشمس:9-10) ، جس نے اپنے نفس کو پاک کر لیا اس نے فلاح پالی ۔ اور جس نے اسے خراب کر لیا وہ نامراد ہوا ۔ یہی ایک قول «و قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوحَیٰ إِلَیَّ أَنَّمَا إِلٰہُکُمْ إِلٰہٌ وَاحِدٌ فَاسْتَقِیمُوا إِلَیْہِ وَاسْتَغْفِرُوہُ وَوَیْلٌ لِّلْمُشْرِکِینَ الَّذِینَ لَا یُؤْتُونَ الزَّکَاۃَ وَہُم بِالْآخِرَۃِ ہُمْ کَافِرُونَ» ( 41- فصلت : 7-6 ) میں بھی ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آیت میں دونوں زکاتیں ایک ساتھ مراد لی جائیں ۔ یعنی زکوٰۃ نفس بھی اور زکوٰۃ مال بھی ۔ فی الواقع مومن کامل وہی ہے جو اپنے نفس کو بھی پاک رکھے اور اپنے مال کی بھی زکوٰۃ دے «واللہ اعلم» ۔ المؤمنون
2 المؤمنون
3 المؤمنون
4 المؤمنون
5 المؤمنون
6 المؤمنون
7 . پھر اور وصف بیان فرمایا کہ وہ سوائے اپنی بیویوں اور ملکیت کی لونڈیوں کے دوسری عورتوں سے اپنے نفس کو دور رکھتے ہیں ۔ یعنی حرام کاری سے بچتے ہیں ۔ زنا لواطت وغیرہ سے اپنے آپ کو بچاتے ہیں ۔ ہاں ان کی بیویاں جو اللہ نے ان پر حلال کی ہیں اور جہاد میں ملی ہوئی لونڈیاں جو ان پر حلال ہیں ۔ ان کے ساتھ ملنے میں ان پر کوئی ملامت اور حرج نہیں ۔ جو شخص ان کے سوا دوسرے طریقوں سے یا کسی دوسرے سے خواہش پوری کرے وہ حد سے گزر جانے والا ہے ۔ حضرت قتادہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک عورت نے اپنے غلام کو لے لیا اور اپنی سند میں یہی آیت پیش کی ۔ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہا کو یہ معلوم ہوا تو آپ نے صحابہ رضی اللہ عنہم کے سامنے اس معاملے کو پیش کیا ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے فرمایا اس نے غلط معنی مراد لیے ۔ اس پر فاروق اعظم رضی اللہ عنہما نے اس غلام کا سرمنڈوا کر جلا وطن کر دیا اور اس عورت سے فرمایا اس کے بعد تو ہر مسلمان پر حرام ہے ، لیکن یہ اثر منقطع ہے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:11277:منقطع) اور ساتھ ہی غریب بھی ہے ۔ امام ابن جریر نے اسے سورۃ المائدہ کی تفسیر کے شروع میں وارد کیا ہے لیکن اس کے وارد کرنے کی موزوں جگہ یہی تھی ۔ اسے عام مسلمانوں پر حرام کرنے کی وجہ اس کے ارادے کے خلاف اس کے ساتھ معاملہ کرنا تھا واللہ اعلم ۔ امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ اور ان کے موافقین نے اس آیت سے استدلال کیا ہے اپنے ہاتھ سے اپنا خاص پانی نکال ڈالنا حرام ہے کیونکہ یہ بھی ان دونوں حلال صورتوں کے علاوہ ہے اور مشت زنی کرنے والا شخص بھی حد سے آگے گزرجانے والا ہے ۔ امام حسن بن عرفہ نے اپنے مشہور جز میں ایک حدیث وارد کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سات قسم کے لوگ ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ نظر رحمت سے نہ دیکھے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا اور نہ انہیں عالموں کے ساتھ جمع کرے گا اور انہیں سب سے پہلے جہنم میں جانے والوں کے ساتھ جہنم میں داخل کرے گا یہ اور بات ہے کہ وہ توبہ کر لیں توبہ کرنے والوں پر اللہ تعالیٰ مہربانی سے رجوع فرماتا ہے ایک تو ہاتھ سے نکاح کرنے والا یعنی مشت زنی کرنے والا اور اغلام بازی کرنے اور کرانے والا ۔ اور نشے باز شراب کا عادی اور اپنے ماں باپ کو مارنے پیٹنے والا یہاں تک کہ وہ چیخ پکار کرنے لگیں اور اپنے پڑوسیوں کو ایذاء پہنچانے والا یہاں تک کہ وہ اس پر لعنت بھیجنے لگے اور اپنی پڑوسن سے بدکاری کرنے والا ۔ (بیہقی فی شعب الایمان:5470:ضعیف) لیکن اس میں ایک راوی مجہول ہے ۔ واللہ اعلم ۔ اور وصف ہے کہ وہ اپنی امانتیں اور اپنے وعدے پورے کرتے ہیں امانت میں خیانت نہیں کرتے بلکہ امانت کی ادائیگی میں سبقت کرتے ہیں وعدے پورے کرتے ہیں اس کے خلاف عادتیں منافقوں کی ہوتی ہیں ۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ منافق کی تین نشانیاں ہیں ۔ ( ١ ) جب بات کرے ، جھوٹ بولے ( ٢ ) جب وعدہ کرے خلاف کرے ( ٣ ) جب امانت دیا جائے خیانت کرے ۔ (صحیح بخاری:7232) پھر اور وصف بیان فرمایا کہ وہ نمازوں کی ان اوقات پر حفاظت کرتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ سب سے زیادہ محبوب عمل اللہ کے نزدیک کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نماز کو وقت پر ادا کرنا ۔ پوچھا گیا پھر ؟ فرمایا ماں باپ سے حسن سلوک کرنا ۔ پوچھا گیا پھر ؟ فرمایا اللہ کے راہ میں جہاد کرنا (صحیح بخاری:527) حضرت قتادہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں وقت ، رکوع ، سجدہ وغیرہ کی حفاظت مراد ہے ۔ ان آیات پر دوبارہ نظر ڈالو ۔ شروع میں بھی نماز کا بیان ہوا اور آخر میں بھی نماز کا بیان ہوا ۔ جس سے ثابت ہوا کہ نماز سب سے افضل ہے ۔ حدیث شریف میں ہے سیدھے سیدھے رہو اور تم ہرگز احاطہٰ نہ کر سکو گے ۔ جان لو کہ تمہارے تمام اعمال میں بہترین عمل نماز ہے ۔ دیکھو وضو کی حفاظت صرف مومن ہی کر سکتا ہے ۔ (سنن ابن ماجہ:277،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ان سب صفات کو بیان فرما کر ارشاد ہوتا ہے کہ یہی لوگ وارث ہیں جو جنت الفردوس کے دائمی وارث ہونگے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے اللہ سے جب مانگو جنت الفردوس مانگو ، وہ سب سے اعلی اور اوسط جنت ہے ۔ وہیں سے سب نہریں جاری ہوتی ہیں اسی کے اوپر اللہ تعالیٰ کا عرش ہے-(صحیح بخاری:2790) فرماتے ہیں تم میں ہر ایک کی دو دو جگہیں ہیں ۔ ایک منزل جنت میں ایک جہنم میں ، جب کوئی دوزخ میں گیا تو اس کی منزل کے وارث جنتی بنتے ہیں ۔ اسی کا بیان اس آیت میں ہے ۔ (سنن ابن ماجہ:4341،قال الشیخ الألبانی:صحیح) مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں جنتی تو اپنی جنت کی جگہ سنوار لیتا ہے اور جہنم کی جگہ ڈھا دیتا ہے ۔ اور دوزخی اس کے خلاف کرتا ہے ، کفار جو عبادت کے لیے پیدا کئے گئے تھے ، انہوں نے عبادت ترک کر دی تو ان کے لیے جو انعامات تھے وہ ان سے چھین کر سچے مومنوں کے حوالے کر دئیے گئے ۔ اسی لیے انہیں وارث کہا گیا ۔ صحیح مسلم میں ہے کچھ مسلمان پہاڑوں کے برابر گناہ لے کر آئیں گے ، جنہیں اللہ تعالیٰ یہود ونصاری پر ڈال دے گا اور انہیں بخش دے گا ۔ (صحیح مسلم:2767) اور سند سے مروی ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو ایک ایک یہودی یا نصرانی دے گا کہ یہ تیرا فدیہ ہے ، جہنم سے ۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ نے جب یہ حدیث سنی تو راوی حدیث ابوبردہ رضی اللہ عنہما کو قسم دی انہوں نے تین مرتبہ قسم کھا کر حدیث کو دوہرا دیا ۔ اسی جیسی آیت یہ بھی ہے «تِلْکَ الْجَــــنَّۃُ الَّتِیْ نُوْرِثُ مِنْ عِبَادِنَا مَنْ کَانَ تَقِیًّا» ( 19- مریم : 63 ) ، اسی جیسی آیت یہ بھی «وَتِلْکَ الْجَنَّۃُ الَّتِیْٓ اُوْرِثْتُمُوْہَا بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ» ( 43- الزخرف : 72 ) ، فردوس رومی زبان میں باغ کو کہتے ہیں بعض سلف کہتے کہ اس باغ کو جس میں انگور کی بیلیں ہوں «واللہ اعلم» ۔ المؤمنون
8 المؤمنون
9 المؤمنون
10 المؤمنون
11 المؤمنون
12 انسان کی پیدائش مرحلہ وار اللہ تعالیٰ انسانی پیدائش کی ابتداء بیان کرتا ہے کہ اصل آدم مٹی سے ہیں ، جو کیچڑ کی اور بجنے والی مٹی کی صورت میں تھی پھر آدم علیہ السلام کے پانی سے ان کی اولاد پیدا ہوئی ۔ جیسے فرمان ہے کہ «وَمِنْ آیَاتِہِ أَنْ خَلَقَکُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ إِذَا أَنتُم بَشَرٌ تَنتَشِرُونَ» ( 30-الروم : 20 ) اللہ تعالیٰ نے تمہیں مٹی سے پیدا کر کے پھر انسان بنا کر زمین پر پھیلادیا ہے ۔ مسند میں اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو خاک کی ایک مٹھی سے پیدا کیا ، جسے تمام زمین پر سے لیا تھا ۔ پس اسی اعتبار سے اولاد آدم کے رنگ روپ مختلف ہوئے ، کوئی سرخ ہے ، کوئی سفید ہے ، کوئی سیاہ ہے ، کوئی اور رنگ کا ہے ۔ ان میں نیک ہیں اور بد بھی ہیں ۔ (مسند احمد:400/4:صحیح) «ثم جعلنہ» ۔ میں ضمیر کا مرجع جنس انسان کی طرف ہے جیسے ارشاد ہے «ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَہُ مِن سُلَالَۃٍ مِّن مَّاءٍ مَّہِینٍ» ( 32- السجدۃ : 8 ) ۔ اور آیت میں ہے «أَلَمْ نَخْلُقکٰم مِّن مَّاءٍ مَّہِینٍ فَجَعَلْنَاہُ فِی قَرَارٍ مَّکِینٍ إِلَیٰ قَدَرٍ مَّعْلُومٍ فَقَدَرْنَا فَنِعْمَ الْقَادِرُونَ» ( 77- المرسلات : 22-20 ) ۔ پس انسان کے لیے ایک مدت معین تک اس کی ماں کا رحم ہی ٹھکانہ ہوتا ہے جہاں ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف اور ایک صورت سے دوسری صورت کی طرف منتقل ہوتا رہتا ہے ۔ پھر نطفے کی جو ایک اچھلنے والا پانی ہے جو مرد کی پیٹ سے عورت کے سینے سے نکلتا ہے شکل بدل کر سرخ رنگ کی بوٹی کی شکل میں بدل جاتا ہے پھر اسے گوشت کے ایک ٹکڑے کی صورت میں بدل دیا جاتا ہے جس میں کوئی شکل اور کوئی خط نہیں ہوتا ۔ پھر ان میں ہڈیاں بنادیں سر ہاتھ پاؤں ہڈی رگ پٹھے وغیرہ بنائے اور پیٹھ کی ہڈی بنائی ۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں انسان کا تمام جسم سڑ گل جاتا ہے سوائے ریڑھ کی ہڈی کے ۔ اسی سے پیدا کیا جاتا ہے اور اسی سے ترکیب دی جاتی ہے ۔ (صحیح بخاری:4814) پھر ان ہڈیوں کو وہ گوشت پہناتا ہے تاکہ وہ پوشیدہ اور قوی رہیں ۔ پھر اس میں روح پھونکتا ہے جس سے وہ ہلنے جلنے چلنے پھرنے کے قابل ہو جائے اور ایک جاندار انسان بن جائے ۔ دیکھنے کی سننے کی سمجھنے کی اور حرکت وسکون کی قدرت عطا فرماتا ہے ۔ وہ بابرکت اللہ سب سے اچھی پیدائش کا پیدا کرنے والا ہے ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب نطفے پر چار مہنیے گزر جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ایک فرشتے کو بھجتا ہے جو تین تین اندھیریوں میں اس میں روح پھونکتا ہے یہی معنی ہے کہ ہم پھر اسے دوسری ہی پیدائش میں پیدا کرتے ہیں یعنی دوسری قسم کی اس پیدائش سے مراد روح کا پھونکا جانا ہے پس ایک حالت سے دوسری اور دوسری سے تیسری کی طرف ماں کے پیٹ میں ہی ہیر پھیر ہونے کے بعد بالکل ناسمجھ بچہ پیدا ہوتا ہے پھر وہ بڑھتا جاتا ہے یہاں تک کہ جوان بن جاتا ہے پھر ادھیڑپن آتا ہے پھر بوڑھا ہو جاتا ہے پھر بالکل ہی بڈھا ہو جاتا ہے الغرض روح کا پھونکا جانا پھر ان کے انقلابات کا آنا شروع ہو جاتا ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ صادق ومصدوق نبی کریم محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ تم میں سے ہر ایک کی پیدائش چالیس دن تک اس کی ماں کے پیٹ میں جمع ہوتی ہے پھر چالیس دن تک خون بستہ کی صورت میں رہتا ہے پھر چالیس دن تک وہ گوشت کے لوتھڑے کی شکل میں رہتا ہے پھر اللہ تعالیٰ فرشتے کو بھیجتا ہے جو اس میں روح پھونکتا ہے اور بحکم الٰہی چار باتیں لکھ لی جاتی ہیں روزی ، اجل ، عمل ، اور نیک یا بد ، برا یا بھلا ہونا پس قسم ہے اس کی جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں کہ ایک شخص جنتی عمل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ جنت سے ایک ہاتھ دور رہ جاتا ہے لیکن تقدیر کا وہ لکھا غالب آ جاتا ہے اور خاتمے کے وقت دوزخی کام کرنے لگتا ہے اور اسی پر مرتا ہے اور جہنم رسید ہوتا ہے ۔ اسی طرح ایک انسان برے کام کرتے کرتے دوزخ سے ہاتھ بھر کے فاصلے پر رہ جاتا ہے لیکن پھر تقدیر کا لکھا آگے بڑھ جاتا ہے اور جنت کے اعمال پر خاتمہ ہو کر داخل فردوس بریں ہو جاتا ہے ۔ (صحیح بخاری:6594) سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں نطفہ جب رحم میں پڑتا ہے تو وہ ہر ہر بال اور ناخن کی جگہ پہنچ جاتا ہے پھر چالیس دن کے بعد اس کی شکل جمے ہوئے خون جیسی ہو جاتی ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم سے باتیں بیان کر رہے تھے کہ ایک یہودی آ گیا تو کفار قریش نے اس سے کہا یہ نبوت کے دعویدار ہیں اس نے کہا اچھا میں ان سے ایک سوال کرتا ہوں جسے نبیوں کے سوا اور کوئی نہیں جانتا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آ کر بیٹھ کر پوچھتا ہے کہ بتاؤ انسان کی پیدائش کس چیز سے ہوتی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مرد عورت کے نطفے سے ۔ مرد کا نطفہ غلیظ اور گاڑھا ہوتا ہے اس سے ہڈیاں اور پٹھے بنتے ہیں اور عورت کا نطفہ رقیق اور پتلا ہوتا ہے اس سے گوشت اور خون بنتا ہے ۔ اس نے کہا ۔ آپ سچے ہیں اگلے نبیوں کا بھی یہی قول ہے ۔(مسند احمد:465/1:ضعیف و منقطع) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب نطفے کو رحم میں چالیس دن گزر جاتے ہیں تو ایک فرشتہ آتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ سے دریافت کرتا ہے کہ اے اللہ یہ نیک ہو گا یا بد ؟ مرد ہو گا یا عورت ؟ جو جواب ملتا ہے وہ لکھ لیتا ہے اور عمل ، عمر ، اور نرمی گرمی سب کچھ لکھ لیتا ہے پھر دفتر لپیٹ لیا جاتا ہے اس میں پھر کسی کمی بیشی کی گنجائش نہیں رہتی ۔(صحیح مسلم:2644) حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رحم پر ایک فرشتہ مقرر کیا ہے جو عرض کرتا ہے اے اللہ اب نطفہ ہے ، اے اللہ اب لوتھڑا ہے ، اے اللہ اب گوشت کا ٹکڑا ہے ۔ جب جناب باری تعالیٰ اسے پیدا کرنا چاہتا ہے وہ پوچھتا ہے اے اللہ مرد ہو یا عورت ، شکی ہو یا سعید ؟ رزق کیا ہے ؟ اجل کیا ہے ؟ اس کا جواب دیا جاتا ہے اور یہ سب چیزیں لکھ لی جاتی ہیں ۔(صحیح بخاری:6595) ان سب باتوں اور اتنی کامل قدرتوں کو بیان فرما کر فرمایا کہ سب سے اچھی پیدائش کرنے والا اللہ برکتوں والا ہے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں میں نے اپنے رب کی موافقت چار باتوں میں کی ہے جب یہ آیت اتری کہ ہم نے انسان کو بجتی مٹی سے پیدا کیا ہے تو بےساختہ میری زبان سے فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَ نکلا اور وہی پھر اترا ۔ (مسند طیالسی،41:ضعیف) سیدنا زید بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اوپر والی آیتیں لکھوا رہے تھے اور «ثُمَّ اَنْشَاْنٰہُ خَلْقًا اٰخَرَ» تک لکھوا چکے تو معاذ رضی اللہ عنہ نے بے ساختہ کہا «فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَ» ( 23- المؤمنون : 14 ) اسے سن کر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہنس دئیے تو معاذ رضی اللہ عنہما نے دریافت فرمایا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کیسے ہنسے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس آیت کے خاتمے پر بھی یہی ہے ۔ (طبرانی اوسط:11187:ضعیف) اس حدیث کی سند کا ایک راوی جابر جعفی ہے جو بہت ہی ضعیف ہے اور یہ روایت بالکل منکر ہے ۔ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہما کاتب وحی مدینے میں تھے نہ کہ مکے میں معاذ رضی اللہ عنہما کے اسلام کا واقعہ بھی مدینے کا واقعہ ہے اور یہ آیت مکے میں نازل ہوئی ہے پس مندرجہ بالا روایت بالکل منکر ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اس پہلی پیدائش کے بعد تم مرنے والے ہو ، پھر قیامت کے دن دوسری دفعہ پیدا کئے جاؤ گے ، پھر حساب کتاب ہو گا خیر و شر کا بدلہ ملے گا ۔ المؤمنون
13 المؤمنون
14 المؤمنون
15 المؤمنون
16 المؤمنون
17 آسمان کی پیدائش مرحلہ وار انسان کی پیدائش کا ذکر کر کے آسمانوں کی پیدائش کا بیان ہو رہا ہے «لَخَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَکْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلٰکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُونَ» ( 40-غافر : 57 ) جن کی بناوٹ انسانی بناوٹ سے بہت بڑی بہت بھاری اور بہت بڑی صنعت والی ہے ۔ سورۃ «الم سجدہ» ( 32-سورۃ السجدۃ : 4 ) میں بھی اسی کا بیان ہے جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن صبح کی نماز کی اول رکعت میں پڑھا کرتے تھے وہاں پہلے آسمان و زمین کی پیدائش کا ذکر ہے پھر انسانی پیدائش کا بیان ہے پھر قیامت کا اور سزا و جزا کا ذکر ہے وغیرہ ۔ سات آسمانوں کے بنانے کا ذکر کیا ہے جسے فرمان ہے «تتُـسَبِّحُ لَہُ السَّمٰوٰتُ السَّـبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِیْہِنَّ» ( 17- الإسراء : 44 ) ، ساتوں آسمان اور سب زمینیں اور ان کی سب چیزیں اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتی ہیں «أَلَمْ تَرَوْا کَیْفَ خَلَقَ اللہُ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا» ( 71-نوح : 15 ) کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح اوپر تلے ساتوں آسمانوں کو بنایا ہے ۔ « اللہُ الَّذِی خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَہُنَّ یَتَنَزَّلُ الْأَمْرُ بَیْنَہُنَّ لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللہَ عَلَیٰ کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ وَأَنَّ اللہَ قَدْ أَحَاطَ بِکُلِّ شَیْءٍ عِلْمًا» ( 65-الطلاق : 12 ) اللہ تعالیٰ وہ ہے جس نے سات آسمان بنائے انہی جیسی زمینیں بھی ۔ اس کا حکم ان کے درمیان نازل ہوتا ہے تاکہ تم جان لو کہ اللہ تعالیٰ ہرچیز پر قادر ہے ۔ اور تمام چیزوں کو اپنے وسیع علم سے گھیرے ہوئے ہے اللہ اپنی مخلوق سے غافل نہیں ۔ جو چیز زمین میں جائے جو زمین سے نکلے اللہ کے علم میں ہے آسمان سے جو اترے اور جو آسمان کی طرف چڑھے وہ جانتا ہے جہاں بھی تم ہو وہ تمہارے ساتھ ہے اور تمہارے ایک ایک عمل کو وہ دیکھ رہا ہے ۔ «وَعِندَہُ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُہَا إِلَّا ہُوَ وَیَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَا تَسْقُطُ مِن وَرَقَۃٍ إِلَّا یَعْلَمُہَا وَلَا حَبَّۃٍ فِی ظُلُمَاتِ الْأَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَلَا یَابِسٍ إِلَّا فِی کِتَابٍ مٰبِینٍ» ( 6-الأنعام : 59 ) آسمان کی بلند و بالا چیزیں اور زمین کی پوشیدہ چیزیں ، اور پہاڑوں کی چوٹیاں ، سمندروں ، میدانوں ، درختوں کی اسے خبر ہے ۔ درختوں کا کوئی پتہ نہیں گرتا جو اس کے علم میں نہ ہو کوئی دانہ زمین کی اندھیروں میں ایسا نہیں جاتا جسے وہ نہ جانتا ہو کوئی ترخشک چیز ایسی نہیں جو کھلی کتاب میں نہ ہو ۔ المؤمنون
18 آسمان سے نزول بارش اللہ تعالیٰ کی یوں تو بےشمار اور ان گنت نعمتیں ہیں ۔ لیکن چند بڑی بڑی نعمتوں کا یہاں ذکر ہو رہا ہے کہ وہ آسمان سے بقدر حاجت وضرورت بارش برساتا ہے ۔ نہ تو بہت زیادہ کہ زمین خراب ہو جائے اور پیداوار گل سڑ جائے ۔ نہ بہت کم کہ پھل اناج وغیرہ پیدا ہی نہ ہو ۔ بلکہ اس اندازے سے کہ کھیتی سرسبز رہے ، باغات ہرے بھرے رہیں ۔ حوض ، تالاب ، نہریں ندیاں ، نالے ، دریا بہہ نکلیں نہ پینے کی کمی ہو نہ پلانے کی ۔ یہاں تک کہ جس جگہ زیادہ بارش کی ضرورت ہوتی ہے زیادہ ہوتی ہے اور جہاں کم کی ضرورت ہوتی ہے کم ہوتی ہے اور جہاں کی زمین اس قابل ہی نہیں ہوتی وہاں پانی نہیں برستا لیکن ندیوں اور نالوں کے ذریعہ وہاں قدرت برساتی پانی پہنچا کر وہاں کی زمین کو سیراب کر دیتی ہے ۔ جیسے کہ مصر کے علاقہ کی زمین جو دریائے نیل کی تری سے سرسبزوشاداب ہو جاتی ہے ۔ اسی پانی کے ساتھ سرخ مٹی کھیچ کر جاتی ہے جو حبشہ کے علاقہ میں ہوتی ہے وہاں کی بارش کے ساتھ مٹی بہہ کر پہنچتی ہے جو زمین پر ٹھہرجاتی ہے اور زمین قابل زراعت ہو جاتی ہے ورنہ وہاں کی شور زمین کھیتی باڑی کے قابل نہیں ۔ سبحان اللہ اس لطیف خبیر ، اس غفور رحیم اللہ کی کیا کیا قدرتیں اور حکمتیں زمین میں اللہ پانی کو ٹھیرا دیتا ہے زمین میں اس کو چوس لینے اور جذب کر لینے کی قابلیت اللہ تعالیٰ پیدا کر دیتا ہے تاکہ دانوں کو اور گٹھلیوں کو اندر ہی اندر وہ پانی پہنچا دے ۔ پھر فرماتا ہے ہم اس کے لے جانے اور دور کر دینے پریعنی نہ برسانے پر بھی قادر ہیں اگر چاہیں شور ، سنگلاخ زمین ، پہاڑوں اور بے کار بنوں میں برسا دیں ۔ اگر چاہیں تو پانی کو کڑوا کر دیں نہ پینے کے قابل رہے نہ پلانے کے ، نہ کھیت اور باغات کے مطلب کا رہے ، نہ نہانے دھونے کے مقصد کا ۔ اگرچاہیں زمین میں وہ قوت ہی نہ رکھیں کہ وہ پانی کو جذب کر لے چوس لے بلکہ پانی اوپر ہی اوپر تیرتا پھرے یہ بھی ہمارے اختیار میں ہے کہ ایسی دوردراز جھیلوں میں پانی پہنچا دیں کہ تمہارے لیے بے کار ہو جائے اور تم کوئی فائدہ اس سے نہ اٹھا سکو ۔ یہ خاص اللہ کا فضل و کرم اور اس کا لطف ورحم ہے کہ وہ بادلوں سے میٹھا عمدہ ہلکا اور خوش ذائقہ پانی برساتا ہے پھر اسے زمین میں پہنچاتا ہے اور ادھر ادھر ریل پیل کر دیتا ہے کھیتیاں الگ پکتی ہیں باغات الگ تیار ہوتے ہیں ، خود پیتے ہو اپنے جانوروں کو پلاتے ہو نہاتے دھوتے ہو پاکیزگی اور ستھرائی حاصل کرتے ہو «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» ۔ آسمانی بارش سے رب العالمین تمہارے لیے روزیاں اگاتا ہے ، لہلہاتے ہوئے کھیت ہیں ، کہیں سرسبز باغ ہیں جو خوش نما اور خوش منظر ہونے کے علاوہ مفید اور فیض والے ہیں ۔ کھجور انگور جو اہل عرب کا دل پسند میوہ ہے ۔ اور اسی طرح ہر ملک والوں کے لیے الگ الگ طرح طرح کے میوے اس نے پیدا کر دیے ہیں ۔ جن کے حصول کے عوض اللہ کے شکر گزاری بھی کسی کے بس کی نہیں ۔ بہت میوے تمہیں اس نے دے رکھے ہیں جن کی خوبصورتی بھی تم دیکھتے ہو اور ان کے ذائقے سے بھی کھا کر فائدہ اٹھاتے ہو ۔ پھر زیتوں کے درخت کا ذکر فرمایا ۔ طورسینا وہ پہاڑ ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے بات چیت کی تھی اور اس کے اردگرد کی پہاڑیاں طور اس پہاڑ کو کہتے ہیں جو ہرا اور درختوں والا ہو ورنہ اسے جبل کہیں گے طور نہیں کہیں گے ۔ پس طورسینا میں جو درخت زیتوں پیدا ہوتا ہے اس میں سے تیل نکلتا ہے جو کھانے والوں کو سالن کا کام دیتا ہے ۔ حدیث میں ہے زیتوں کا تیل کھاؤ اور لگاؤ وہ مبارک درخت میں سے نکلتا ہے (مسند احمد:497/3:حسن لغیرہ) سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہا کے ہاں ایک صاحب عاشورہ کی شب کو مہمان بن کر آئے تو آپ رضی اللہ عنہ نے انہیں اونٹ کی سری اور زیتون کھلایا اور فرمایا یہ اس مبارک درخت کا تیل ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا ہے ۔ (سنن ترمذی:1851،قال الشیخ الألبانی:صحیح) پھر چوپایوں کا ذکر ہو رہا ہے اور ان سے جو فوائد انسان اٹھا رہے ہیں ، ان پر سوار ہوتے ہیں ان پر اپنا سامان اسباب لادتے ہیں اور دوردراز تک پہنچتے ہیں کہ یہ نہ ہوتے تو وہاں تک پہچنے میں جان آدھی رہ جاتی ۔ بیشک اللہ تعالیٰ بندوں پر مہربانی اور رحمت والا ہے جیسے فرمان ہے «اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّا خَلَقْنَا لَہُمْ مِّمَّا عَمِلَتْ اَیْدِیْنَآ اَنْعَامًا فَہُمْ لَہَا مٰلِکُوْنَ» ( 36- یس : 71 ) کیا وہ نہیں دیکھتے کہ خود ہم نے انہیں چوپایوں کا مالک بنا رکھا ہے کہ یہ ان کے گوشت کھائیں ان پر سواریاں لیں اور طرح طرح کہ نفع حاصل کریں کیا اب بھی ان پر ہماری شکر گزاری واجب نہیں ؟ یہ خشکی کی سواریاں ہیں پھر تری کی سواریاں کشتی جہاز وغیرہ الگ ہیں ۔ المؤمنون
19 المؤمنون
20 المؤمنون
21 المؤمنون
22 المؤمنون
23 نوح علیہ السلام اور متکبر وڈیرے نوح علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بشیرونذیر بنا کر ان کی قوم کی طرف مبعوث فرمایا ۔ آپ نے ان میں جا کر پیغام الٰہی پہنچایا کہ اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہاری عبادت کا حقدار کوئی نہیں ۔ تم اللہ کے سوا اس کے ساتھ دوسروں کو پوجتے ہوئے اللہ سے ڈرتے نہیں ہو ؟ قوم کے بڑوں نے اور سرداروں نے کہا یہ تو تم جیسا ہی ایک انسان ہے ۔ نبوت کا دعویٰ کر کے تم سے بڑا بننا چاہتا ہے سرداری حاصل کرنے کی فکر میں ہے بھلا انسان کی طرف وحی کیسے آتی ؟ اللہ کا ارادہ نبی بھیجنے کا ہوتا تو کسی آسمانی فرشتے کو بھیج دیتا ۔ یہ تو ہم نے کیا ، ہمارے باپ دادوں نے بھی نہیں سنا کہ انسان اللہ کا رسول بن جائے ۔ یہ تو کوئی دیوانہ شخص ہے کہ ایسے دعوے کرتا ہے اور ڈینگیں مارتا ہے ۔ اچھا خاموش رہو دیکھ لو ہلاک ہو گا ۔ المؤمنون
24 المؤمنون
25 المؤمنون
26 نوح علیہ السلام کو کشتی بنانے کا حکم جب نوح علیہ السلام ان سے تنگ آ گئے اور مایوس ہو گئے تو اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ «فَدَعَا رَبَّہُ أَنِّی مَغْلُوبٌ فَانتَصِرْ» ( 54-القمر : 10 ) میرے پروردگار میں لاچار ہو گیا ہوں میری مدد فرما ۔ جھٹلانے والوں پر مجھے غالب کر اسی وقت فرمان الٰہی آیا کہ کشتی بناؤ اور خوب مضبوط چوڑی چکلی ۔ اس میں ہر قسم کا ایک ایک جوڑا رکھ لو حیوانات نباتات پھل وغیرہ وغیرہ اور اسی میں اپنے والوں کو بھی بٹھالو مگر جس پر اللہ کی طرف سے ہلاکت سبقت کر چکی ہے جو ایمان نہیں لائے ۔ جیسے آپ کی قوم کے کافر اور آپ کا لڑکا اور آپ کی بیوی ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اور جب تم عذاب آسمانی بصورت بارش اور پانی آتا دیکھ لو پھر مجھ سے ان ظالموں کی سفارش نہ کرنا ۔ پھر ان پر رحم نہ کرنا نہ ان کے ایمان کی امید رکھنا ۔ بس پھر تو یہ سب غرق ہو جائیں گے اور کفر پر ہی ان کا خاتمہ ہو گا ۔ اس کا پورا قصہ سورۃ ھود کی تفسیر میں گزر چکا ہے ہے اس لیے ہم نہیں دہراتے ۔ جب تو اور تیرے مومن ساتھی کشتی پرسوار ہو جاؤ تو کہنا کہ سب تعریف اللہ ہی کے لیے ہے ، جس نے ہمیں ظالموں سے نجات دی جیسے فرمان ہے کہ «وَالَّذِی خَلَقَ الْأَزْوَاجَ کُلَّہَا وَجَعَلَ لَکُم مِّنَ الْفُلْکِ وَالْأَنْعَامِ مَا تَرْکَبُونَ لِتَسْتَوُوا عَلَیٰ ظُہُورِہِ ثُمَّ تَذْکُرُوا نِعْمَۃَ رَبِّکُمْ إِذَا اسْتَوَیْتُمْ عَلَیْہِ وَتَقُولُوا سُبْحَانَ الَّذِی سَخَّرَ لَنَا ہٰذَا وَمَا کُنَّا لَہُ مُقْرِنِینَ وَإِنَّا إِلَیٰ رَبِّنَا لَمُنقَلِبُونَ» ( 43-الزخرف : 12- 14 ) اللہ نے تمہاری سواری کے لیے کشتیاں اور چوپائے بنائے ہیں تاکہ تم سواری لے کر اپنے رب کی نعمت کو مانو اور سوار ہو کر کہو کہ وہ اللہ پاک ہے جس نے ان جانوروں کو ہمارے تابع بنا دیا ہے حالانکہ ہم میں خود اتنی طاقت نہ تھی بالیقین ہم اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں ۔ نوح علیہ السلام نے یہی کہا اور فرمایا «وَقَالَ ارْکَبُوا فِیہَا بِسْمِ اللہِ مَجْرَاہَا وَمُرْسَاہَا إِنَّ رَبِّی لَغَفُورٌ رَّحِیمٌ» ( 11-ہود : 41 ) آؤ اس میں بیٹھ جاؤ اللہ کے نام کے ساتھ اس کا چلنا اور ٹھیرنا ہے پس شروع چلنے کے وقت بھی اللہ کو یاد کیا ۔ اور جب وہ ٹھیرنے لگی تب بھی اللہ کو یاد کیا اور دعا کی کہ اے اللہ مجھے مبارک منزل پر اتارنا اور تو ہی سب سے بہتر اتارنے والا ہے اس میں یعنی مومنوں کی نجات اور کافروں کی ہلاکت میں انبیاء کی تصدیق کی نشایاں ہیں اللہ کی الوہیت کی علامتیں ہیں اس کی قدرت اس کا علم اس سے ظاہر ہوتا ہے ۔ یقیناً رسولوں کو بھیج کر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی آزمائش اور ان کا پورا امتحان کر لیتا ہے ۔ المؤمنون
27 المؤمنون
28 المؤمنون
29 المؤمنون
30 المؤمنون
31 عاد و ثمود کا تذکرہ اللہ تعالیٰ بیان فرتا ہے کہ نوح علیہ السلام کے بعد بھی بہت سی امتیں آئیں جیسے عاد جو ان کے بعد آئی یا ثمود قوم جن پر چیخ کا عذاب آیا تھا ۔ جیسے کہ اس آیت میں ہے ان میں بھی اللہ کے رسول علیہ السلام آئے اللہ کی عبادت اور اس کی توحید کی تعلیم دی ۔ لیکن انہوں نے جھٹلایا ، مخالفت کی ، اتباع سے انکار کیا ۔ محض اس بنا پر کے یہ انسان ہیں ۔ قیامت کو بھی نہ مانا ، جسمانی حشرکے منکر بن گئے اور کہنے لگے کہ یہ بالکل دور از قیاس ہے ۔ بعثت ونشر ، حشروقیامت کوئی چیز نہیں ۔ اس شخص نے یہ سب باتیں از خود گھڑلی ہیں ہم ایسی فضول باتوں کے مانے والے نہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی اور ان پر مدد طلب کی ۔ اسی وقت جواب ملاکہ تیری ناموافقت ابھی ابھی ان پر عذاب بن کر برسے گی اور یہ آٹھ آٹھ آنسو روئیں گے ۔ آخر ایک زبردست چیخ اور بےپناہ چنگھاڑ کے ساتھ سب تلف کر دئیے گئے اور وہ مستحق بھی اسی کے تھے ۔ تیزوتند آندھی اور پوری طاقتور ہوا کے ساتھ ہی فرشتے کی دل دہلانے والی خوف ناک آواز نے انہیں پارہ پارہ کر دیا وہ ہلاک اور تباہ ہو گئے ۔ بھوسہ بن کر اڑ گئے ۔ صرف مکانات کے کھنڈر اِن گئے گزرے ہوئے لوگوں کی نشاندہی کے لیے رہ گئے وہ کوڑے کرکٹ کی طرح ناچیز محض ہو گئے ۔ ایسے ظالموں کے لیے دوری ہے ۔ ان پر رب نے ظلم نہیں کیا بلکہ انہی کا کیا ہوا تھا جو ان کے سامنے آیا ۔ پس اے لوگو ! تمہیں بھی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت سے ڈرنا چاہے ۔ المؤمنون
32 المؤمنون
33 المؤمنون
34 المؤمنون
35 المؤمنون
36 المؤمنون
37 المؤمنون
38 المؤمنون
39 المؤمنون
40 المؤمنون
41 المؤمنون
42 اکثریت ہمشہ بدکاروں کی رہی ان کے بعد بھی بہت سی امتیں اور مخلوق آئی جو ہماری پیدا کردہ تھی ۔ ان کی پیدائش سے پہلے ان کی اجل جو قدرت نے مقرر کی تھی ، اسے اس نے پورا کیا نہ تقدیم ہوئی نہ تاخیر ۔ پھر ہم نے پے در پے لگاتار رسول بھیجے ۔ ہر امت میں پیغمبر آیا اس نے لوگوں کو پیغام الٰہی پہنچایا کہ ایک اللہ کی عبادت کرو اس کے ماسوا کسی کی پوجا نہ کرو ۔ بعض راہ راست پر آ گئے اور بعض پر کلمہ عذاب راست آ گیا ۔ تمام امتوں کی اکثریت نبیوں کی منکر رہی جیسے سورۃ یاسین میں فرمایا آیت «یٰحَسْرَۃً عَلَی الْعِبَادِ ڱ مَا یَاْتِیْہِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا کَانُوْا بِہٖ یَسْتَہْزِءُوْنَ» ( 36- یس : 30 ) افسوس ہے بندوں پر ۔ ۔ ان کے پاس جو رسول آیا انہوں نے اسے مذاق میں اڑایا ۔ ہم نے یکے بعد دیگرے سب کو غارت اور فناکر دیا «وَکَمْ اَہْلَکْنَا مِنَ الْقُرُوْنِ مِنْ بَعْدِ نُوْحٍ وَکَفٰی بِرَبِّکَ بِذُنُوْبِ عِبَادِہٖ خَبِیْرًا بَصِیْرًا» ( 17- الإسراء : 17 ) نوح علیہ السلام کے بعد بھی ہم نے کئی ایک بستیاں تباہ کر دیں ۔ انہیں ہم نے پرانے افسانے بنا دیا وہ نیست و نابود ہو گئے اور قصے ان کے باقی رہ گئے ۔ بے ایمانوں کے لیے رحمت سے دوری ہے ۔ المؤمنون
43 المؤمنون
44 المؤمنون
45 دریا برد فرعون حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے بھائی ہارون علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے فرعون اور قوم فرعون کے پاس پوری دلیلوں کے ساتھ اور زبردست معجزوں کے ساتھ بھیجا لیکن انہوں نے بھی سابقہ کافروں کی طرح اپنے نبیوں کی تکذیب ومخالفت کی اور سابقہ کفار کی طرح یہی کہا کہ ہم اپنے جیسے انسانوں کی نبوت کے قائل نہیں ان کے دل بھی بالکل ان جیسے ہی ہو گئے بالآخر ایک ہی دن میں ایک ساتھ سب کو اللہ تعالیٰ نے دریا برد کر دیا ۔ اس کے بعد موسیٰ علیہ السلام کو لوگوں کی ہدایت کے لیے تورات ملی ۔ دوبارہ مومنوں کے ہاتھوں کافر ہلاک کئے گئے جہاد کے احکام اترے اس طرح عام عذاب سے کوئی امت فرعون اور قوم فرعون یعنی قبطیوں کے بعد ہلاک نہیں ہوئی ۔ ایک اور آیت میں فرمان ہے «وَلَقَدْ آتَیْنَا مُوسَی الْکِتَابَ مِن بَعْدِ مَا أَہْلَکْنَا الْقُرُونَ الْأُولَیٰ بَصَائِرَ لِلنَّاسِ وَہُدًی وَرَحْمَۃً لَّعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُونَ» ( 28-القص : 43 ) گزشتہ امتوں کی ہلاکت کے بعد ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو کتاب عنائت فرمائی جو لوگوں کے لیے بصیرت ہدایت اور رحمت تھی ۔ تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں ۔ المؤمنون
46 المؤمنون
47 المؤمنون
48 المؤمنون
49 المؤمنون
50 ربوہ کے معنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور مریم کو اللہ نے اپنی قدرت کاملہ کے اظہار کی ایک زبردست نشانی بنایا آدم کو مرد و عورت کے بغیر پیدا کیا حواء کو صرف مرد سے بغیر عورت کے پیدا کیا عیسیٰ علیہ السلام کو صرف عورت سے بغیر مرد کے پیدا کیا ۔ بقیہ تمام انسانوں کو مرد و عورت سے پیدا کیا ۔ ربوہ کہتے ہیں بلند زمین کو جو ہری اور پیداوار کے قابل ہو وہ جگہ گھاس پانی والی تروتازہ اور ہری بھری تھی ۔ جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے اس غلام اور نبی کو اور ان کی صدیقہ والدہ کو جو اللہ کی بندی اور لونڈی تھیں جگہ دی تھی ۔ وہ جاری پانی والی صاف ستھری ہموار زمین تھی ۔ کہتے ہیں یہ ٹکڑا مصر کا تھا یا دمشق کا یا فلسطین کا ۔ ربوۃ ریتلی زمین کو بھی کہتے ہیں ۔ چنانچہ ایک بہت ہی غریب حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی صحابی رضی اللہ عنہما سے فرمایا تھا کہ تیرا انتقال ربوہ میں ہو گا ۔ وہ ریتلی زمین میں فوت ہوئے ۔(طبرانی اوسط:11188:ضعیف) ان تمام اقوال میں زیادہ قریب قول وہ ہے کہ مراد اس سے نہر ہے جیسے اور آیت میں اس طرح بیان فرمایا گیا ہے آیت «قَدْ جَعَلَ رَبٰکِ تَحْتَکِ سَرِیًّا» ( 19- مریم : 24 ) تیرے رب نے تیرے قدموں تلے ایک جاری نہر بہا دی ہے ۔ پس یہ مقام بیت المقدس کا مقام ہے تو گویا اس آیت کی تفسیر یہ آیت ہے اور قرآن کی تفسیر اولاً قرآن سے پھر حدیث سے پھر آثار سے کرنی چاہے ۔ المؤمنون
51 اکل حلال کی فضیلت اللہ تعالیٰ اپنے تمام انبیاء علیہ السلام کو حکم فرتا ہے کہ وہ حلال لقمہ کھائیں اور نیک اعمال بجالایا کریں پس ثابت ہوا کہ لقمہ حلال عمل صالحہ کا مددگار ہے پس انبیاء نے سب بھلائیاں جمع کر لیں ، قول ، فعل ، دلالت ، نصیحت ، سب انہوں نے سمیٹ لی ۔ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے سب بندوں کی طرف سے نیک بدلے دے ۔ یہاں کوئی رنگت ، مزہ بیان نہیں فرمایا بلکہ یہ فرمایا کہ «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آمَنُوا کُلُوا مِن طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاکُمْ وَاشْکُرُوا لِلہِ إِن کُنتُمْ إِیَّاہُ تَعْبُدُونَ» ( 2-البقرۃ : 172 ) حلال چیزیں کھاؤ ۔ عیسیٰ علیہ السلام اپنی والدہ کے بُنّنے کی اجرت میں سے کھاتے تھے صحیح حدیث میں ہے کوئی نبی ایسا نہیں جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں لوگوں نے پوچھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سمیت ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں میں بھی چند قیراط پر اہل مکہ کی بکریاں چرایا کرتا تھا ؟(صحیح بخاری:2262) اور حدیث میں ہے داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ کی محنت کا کھایا کرتے تھے ۔(صحیح بخاری:2072) بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے اللہ کو سب سے زیادہ پسند روزہ داؤد علیہ السلام کا روزہ ہے اور سب سے زیادہ پسندیدہ قیام داؤد علیہ السلام کا قیام ہے ۔ آدھی رات سوتے تھے اور تہائی رات نماز تہجد پڑھتے تھے اور چھٹا حصے سوجاتے تھے اور ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن نہ رکھتے تھے میدان جنگ میں کبھی پیٹھ نہ دکھاتے ۔ (صحیح بخاری:1131) ام عبداللہ بن شداد رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دودھ کا ایک پیالہ شام کے وقت بھیجا تاکہ آپ اس سے اپنا روزہ افطار کریں دن کا آخری حصہ تھا اور دھوپ کی تیزی تھی تو آپ نے قاصد کو واپس کر دیا اگر تیری بکری کا ہوتا تو خیر اور بات تھی ۔ انہوں نے پیغام بھیجا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے یہ دودھ اپنے مال سے خرید کیا ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پی لیا دوسرے دن مائی صاحبہ حاضر خدمت ہو کر عرض کرتی ہیں کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس گرمی میں میں نے دودھ بھیجا ، بہت دیر سے بھیجا تھا آپ نے میرے قاصد کو واپس کر دیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں مجھے یہی فرمایا گیا ہے ۔ “انبیاء صرف حلال کھاتے ہیں اور صرف نیک عمل کرتے ہیں “ ، (طبرانی کبیر:174/25:ضعیف) اور حدیث میں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگو اللہ تعالیٰ پاک ہے وہ صرف پاک کو ہی قبول فرماتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو بھی وہی حکم دیا ہے جو رسول کو دیا ہے کہ اے رسولو ! پاک چیز کھاؤ اور نیک کام کرو میں تمہارے اعمال کا عالم ہوں یہی حکم ایمان والوں کو دیا کہ اے ایماندارو ! جو حلال چیزیں ہم نے تمہیں دے رکھی ہیں انہیں کھاؤ ۔ پھر آپ نے ایک شخص کا ذکر کیا جو لمبا سفر کرتا ہے پراگندہ بالوں والا غبار آلود چہرے والا ہوتا ہے لیکن کھانا پہننا حرام کا ہوتا ہے وہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف پھیلا کر اے رب ، اے رب کہتا ہے ، لیکن ناممکن ہے کہ اس کی دعا قبول فرمائی جائے ۔ (صحیح مسلم:1015) امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ اس حدیث کو حسن غریب بتلاتے ہیں ۔ پھر فرمایا اے پیغمبرو تمہارا یہ دین ایک ہی دین ہے ایک ہی ملت ہے یعنی اللہ واحد لاشریک لہ کی عبادت کی طرف دعوت دینا ۔ اسی لیے اسی کے بعد فرمایا کہ میں تمہارا رب ہوں ۔ پس مجھ سے ڈرو ۔ سورۃ انبیاء میں اس کی تفسیر وتشریح ہو چکی ہے آیت «وَإِنَّ ہٰذِہِ أُمَّتُکُمْ أُمَّۃً وَاحِدَۃً وَأَنَا رَبٰکُمْ فَاتَّقُونِ» ( المومنون آیت 52 ) پر نصب حال ہونے کی وجہ ہے ۔ جن امتوں کی طرف انبیاء علیہم السلام بھیجے گئے تھے انہوں نے اللہ کے دین کے ٹکڑے کر دئے اور جس گمراہی پر اڑ گئے اسی پر نازاں وفرحاں ہو گئے اس لیے کہ اپنے نزدیک اسی کو ہدایت سمجھ بیٹھے ۔ پس بطور ڈانٹ کے فرمایا «فَمَہِّلِ الْکَافِرِینَ أَمْہِلْہُمْ رُوَیْدًا» ( 86-الطارق : 17 ) اور آیت «ذَرْہُمْ یَأْکُلُوا وَیَتَمَتَّعُوا وَیُلْہِہِمُ الْأَمَلُ فَسَوْفَ یَعْلَمُونَ» ( 15-الحجر : 3 ) انہیں ان کے بہکنے بھٹکنے میں ہی چھوڑ دیجئیے یہاں تک کہ ان کی تباہی کا وقت آ جائے ۔ کھانے پینے دیجئیے ، مست وبے خود ہونے دیجئیے ، ابھی ابھی معلوم ہو جائے گا ۔ «وَقَالُوا نَحْنُ أَکْثَرُ أَمْوَالًا وَأَوْلَادًا وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِینَ» ( 34-سبأ : 35 ) کیا یہ مغرور یہ گمان کرتے ہیں کہ ہم جو مال و اولاد انہیں دے رہے ہیں وہ ان کی بھلائی اور نیکی کی وجہ سے ان کے ساتھ سلوک کر رہے ہیں ؟ ہرگز نہیں ۔ یہ تو انہیں دھوکا لگا ہے یہ اس سے سمجھ بیٹھے ہیں کہ ہم جیسے یہاں خوش حال ہیں وہاں بھی بےسزا رہ جائیں گے یہ محض غلط ہے جو کچھ انہیں دنیا میں ہم دے رہے ہیں وہ تو صرف ذرا سی دیر کی مہلت ہے لیکن یہ بے شعور ہیں ۔ یہ لوگ اصل تک پہنچے ہی نہیں ۔ جیسے فرمان ہے ۔ «فَلَا تُعْجِبْکَ اَمْوَالُہُمْ وَلَآ اَوْلَادُہُمْ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَہُمْ بِہَا فِی الْحَیٰوۃِ الدٰنْیَا وَتَزْہَقَ اَنْفُسُہُمْ وَہُمْ کٰفِرُوْنَ» ( 9- التوبہ : 55 ) ، تجھے ان کے مال و اولاد دھوکے میں نہ ڈالیں اللہ کا ارادہ تو یہ ہے کہ اس سے انہیں دنیا میں عذاب کرے ۔ اور آیت میں ہے «وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا أَنَّمَا نُمْلِی لَہُمْ خَیْرٌ لِّأَنفُسِہِمْ إِنَّمَا نُمْلِی لَہُمْ لِیَزْدَادُوا إِثْمًا وَلَہُمْ عَذَابٌ مٰہِینٌ» ( 3-آل عمران : 178 ) یہ ڈھیل صرف اس لیے دی گئی ہے کہ وہ اپنے گناہوں میں اور بڑھ جائیں ۔ اور جگہ ہے ۔ مجھے اور اس بات کے جھٹلانے والوں کو چھوڑ دے ہم انہیں اس طرح بتدریج پکڑیں گے کہ انہیں معلوم بھی نہ ہو ۔ اور آیتوں میں فرمایا ہے «ذَرْنِیْ وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِیْدًا وَجَعَلْتُ لَہُ مَالًا مَّمْدُودًا وَبَنِینَ شُہُودًا وَمَہَّدتٰ لَہُ تَمْہِیدًا ثُمَّ یَطْمَعُ أَنْ أَزِیدَ کَلَّا إِنَّہُ کَانَ لِآیَاتِنَا عَنِیدًا» ( 74- المدثر : 16-11 ) ، یعنی مجھے اور اسے چھوڑ دے جس کو میں نے تنہا پیدا کیا ہے اور بہ کثرت مال دیا ہے اور ہمہ وقت موجود فرزند دئیے ہیں اور سب طرح کا سامان اس لیے مہیا کر دیا ہے پھر اسے ہوس ہے کہ میں اسے اور زیادہ دوں ، ہرگز نہیں وہ ہماری باتوں کا مخالف ہے اور آیت میں ہے ۔ «وَمَآ اَمْوَالُکُمْ وَلَآ اَوْلَادُکُمْ بالَّتِیْ تُقَرِّبُکُمْ عِنْدَنَا زُلْفٰٓی اِلَّا مَنْ اٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ۡ فَاُولٰیِٕکَ لَہُمْ جَزَاءُ الضِّعْفِ بِمَا عَمِلُوْا وَہُمْ فِی الْغُرُفٰتِ اٰمِنُوْنَ» ( 34- سبأ : 37 ) ، تمہارے مال اور تمہاری اولادیں تمہیں مجھ سے قربت نہیں دے سکتیں مجھ سے قریب تو وہ ہے جو ایماندار اور نیک عمل ہو ۔ اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں حضرت قتادہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہی اللہ کا شکر ہے پس تم انسانوں کو مال اور اولاد سے نہ پرکھو بلکہ انسان کی کسوٹی ایمان اور نیک عمل ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے اخلاق بھی تم میں اسی طرح تقسیم کئے ہیں جس طرح روزیاں تقسیم فرمائی ہیں اللہ تعالیٰ دنیا تو اسے بھی دیتا ہے جس سے محبت رکھے اور اسے بھی دیتا ہے جس سے محبت نہ رکھے ہاں دین صرف اسی کو دیتا ہے جس سے پوری محبت رکھتا ہو پس جسے اللہ دین دے سمجھو کہ اللہ تعالیٰ اس سے محبت رکھتا ہے اس کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے بندہ مسلمان نہیں ہوتا جب تک کہ اس کا دل اور زبان مسلمان نہ ہو جائے اور بندہ مومن نہیں ہوتا جب تک کہ اس کے پڑوسی اس کی ایذاؤں سے بے فکر نہ ہو جائیں ۔ لوگوں نے پوچھا کہ ایذاؤں سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا دھوکے بازی ، ظلم وغیرہ ۔ سنو جو بندہ حرام مال حاصل کر لے اس کے خرچ میں برکت نہیں ہوتی اس کا صدقہ قبول نہیں ہوتا جو چھوڑ کر جاتا ہے وہ اس کا جہنم کا توشہ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ برائی کو برائی سے نہیں مٹاتا ہاں برائی کو بھلائی سے رفع کرتا ہے ۔ خبیث خبیث کو نہیں مٹاتا ۔ (مسند احمد:378/1:ضعیف) المؤمنون
52 المؤمنون
53 المؤمنون
54 المؤمنون
55 المؤمنون
56 المؤمنون
57 مؤمن کی تعریف فرمان ہے کہ احسان اور ایمان کے ساتھ ہی ساتھ نیک اعمال اور پھر اللہ کی ہیبت سے تھرتھرانا اور کانپتے رہنا یہ ان کی صفت ہے ۔ یہ ان کی صفت ہے حضرت حسن رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مومن نیکی اور خوف الٰہی کا مجموعہ ہوتا ہے ۔ منافق برائی کے ساتھ نڈر اور بے خوف ہوتا ہے ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی شرعی اور فطری آیات اور نشانیوں پر یقین رکھتے ہیں جیسے مریم علیہا السلام کا وصف بیان ہوا ہے کہ «وَمَرْیَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِی أَحْصَنَتْ فَرْجَہَا فَنَفَخْنَا فِیہِ مِن رٰوحِنَا وَصَدَّقَتْ بِکَلِمَاتِ رَبِّہَا وَکُتُبِہِ وَکَانَتْ مِنَ الْقَانِتِینَ» ( 66-التحریم : 12 ) وہ اپنے رب کے کلمات اور اس کی کتابوں کا یقین رکھتی تھیں اللہ کی قدرت قضاء اور شرع کا انہیں کامل یقین تھا ۔ اللہ کے ہر امر کو وہ محبوب رکھتے ہیں اللہ کے منع کردہ ہرکام کو وہ ناپسند رکھتے ہیں ، ہرخبر کو وہ سچ مانتے ہیں وہ موحد ہوتے ہیں شرک سے بیزار رہتے ہیں ، اللہ کو واحد اور بے نیاز جانتے ہیں اسے بے اولاد اور بیوی کے بغیر مانتے ہیں ، بے نظیر اور بے کفو سمجھتے ہیں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے اللہ کے نام پر خیراتیں کرتے ہیں لیکن خوف زدہ رہتے ہیں کہ ایسا نہ ہو قبول نہ ہوئی ہو ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضور اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا یہ وہ لوگ ہیں جن سے زنا ، چوری ، اور شراب خواری ہو جاتی ہے ؟ لیکن ان کے دل میں خوف الٰہی ہوتا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے صدیق کی لڑکی یہ نہیں بلکہ یہ وہ ہیں جو نمازیں پڑھتے ہیں ، روزے رکھتے ہیں ، صدقے کرتے ہیں ، لیکن قبول نہ ہونے سے ڈرتے ہیں ، یہی ہیں جو نیکیوں میں سبقت کرتے ہیں ۔ (سنن ترمذی:3175،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اس آیت کی دوسری قرأت «یاتون ما اتوا» بھی ہے یعنی کرتے ہیں جو کرتے ہیں لیکن دل ان کے ڈرتے ہیں ۔ مسند احمد میں ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ابو عاصم گئے ۔ آپ رضی اللہ عنہا نے مرحبا کہا اور کہا برابر آتے کیوں نہیں ہو ؟ جواب دیا اس لیے کہ کہیں آپ کو تکلیف نہ ہو لیکن آج میں ایک آیت «وَالَّذِیْنَ یُؤْتُوْنَ مَآ اٰتَوْا وَّقُلُوْبُہُمْ وَجِلَۃٌ اَنَّہُمْ اِلٰی رَبِّہِمْ رٰجِعُوْنَ» ( 23- المؤمنون : 60 ) کے الفاظ کی تحقیق کے لیے حاضر ہوا ہوں آیت «یوتون ما اتوا» ہیں یا «یاتون مااتوا» ہیں ؟ آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کیا ہونا تمہارے لیے مناسب ہے میں نے کہا آخر کے الفاظ اگر ہوں تو گویا میں نے ساری دنیا پالی ۔ بلکہ اس سے بھی زیادہ خوشی مجھے ہو گی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر تم خوش ہو جاؤ ۔ واللہ میں نے اسی طرح انہی الفاظ کو پڑھتے ہوئے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا ہے ۔ (مسند احمد:95/6:ضعیف) اس کا ایک راوی اسماعیل بن مسلم مکی ضعیف ہے ۔ ساتوں مشہور قرأتوں اور جمہور کی قرأت میں وہی ہے جو موجودہ قرآن میں ہے اور معنی کی رو سے بھی زیادہ ظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کیونکہ انہیں سابق قرار دیا ہے اور اگر دوسری قرأت کو لیں تو یہ سابق نہیں بلکہ ہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ المؤمنون
58 المؤمنون
59 المؤمنون
60 المؤمنون
61 المؤمنون
62 آسان شریعت اللہ تعالیٰ نے شریعت آسان رکھی ہے ۔ ایسے احکام نہیں دئیے جو انسانی طاقت سے خارج ہوں ۔ پھر قیامت کے دن وہ اعمال کا حساب لے گا جو سب کے سب کتابی صورت میں لکھے ہوئے موجود ہوں گے ۔ یہ نامہ اعمال صحیح صحیح طور پر ان کا ایک ایک عمل بتادے گا ۔ کسی طرح کا ظلم کسی پر نہ کیا جائے گا کوئی نیکی کم نہ ہو گی ہاں اکثر مومنوں کی برائیاں معاف کر دی جائیں گی ۔ لیکن مشرکوں کے دل قرآن سے بہکے اور بھٹکے ہوئے ہیں ۔ اس کے سوا بھی ان کی اور بد اعمالیاں بھی ہیں جیسے شرک وغیرہ جسے یہ دھڑلے سے کر رہے ہیں ۔ تاکہ ان کی برائیاں انہیں جہنم سے دور نہ رہنے دیں ۔ چنانچہ وہ حدیث گزر چکی جس میں فرمان ہے کہ انسان نیکی کے کام کرتے کرتے جنت سے صرف ہاتھ بھر کے فاصلے پر رہ جاتا ہے جو اس پر تقدیر کا لکھا غالب آ جاتا اور بداعمالیاں شروع کر دیتا ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جہنم واصل ہو جاتا ہے ۔ (صحیح بخاری:6594) یہاں تک کہ جب ان میں سے آسودہ حال دولت مند لوگوں پر عذاب الٰہی آپڑتا ہے تو اب وہ فریاد کرنے لگتے ہیں ۔ سورۃ مزمل میں فرمان ہے کہ «وَذَرْنِی وَالْمُکَذِّبِینَ أُولِی النَّعْمَۃِ وَمَہِّلْہُمْ قَلِیلًا إِنَّ لَدَیْنَا أَنکَالًا وَجَحِیمًا وَطَعَامًا ذَا غُصَّۃٍ وَعَذَابًا أَلِیمًا» ( 73-المزمل : 11- 13 ) مجھے ان مالدار جھٹلانے والوں پر چھوڑ دیجئیے انہیں کچھ مہلت اور دیجئیے ہمارے پاس بیڑیاں بھی ہیں اور جہنم بھی ہے اور گلے میں اٹکنے والا کھانا ہے اور درد ناک سزا ہے ۔ اور آیت میں ہے «کَمْ أَہْلَکْنَا مِن قَبْلِہِم مِّن قَرْنٍ فَنَادَوا وَّلَاتَ حِینَ مَنَاصٍ» ( 38- ص : 3 ) ۔ یعنی ہم نے ان سے پہلے اور بھی بہت سی بستیوں کو تباہ کر دیا اس وقت انہوں نے واویلا شروع کی جب کہ وہ محض بےسود تھی ۔ یہاں فرماتا ہے آج تم کیوں شور مچا رہے ہو ؟ کیوں فریاد کر رہے ہو ؟ کوئی بھی تمہیں آج کام نہیں آسکتا تم پر عذاب الٰہی آ پڑے اب چیخنا چلانا سب بےسود ہے ۔ کون ہے ؟ جو میرے عذابوں کے مقابلے میں تمہاری مدد کر سکے ؟ پھر ان کا ایک بڑا گناہ بیان ہو رہا ہے کہ «ذٰلِکُم بِأَنَّہُ إِذَا دُعِیَ اللہُ وَحْدَہُ کَفَرْتُمْ وَإِن یُشْرَکْ بِہِ تُؤْمِنُوا فَالْحُکْمُ لِلہِ الْعَلِیِّ الْکَبِیرِ» ( 40-غافر : 12 ) یہ میری آیتوں کے منکر تھے انہیں سنتے تھے اور ٹال جاتے تھے ، بلائے جاتے تھے لیکن انکار کر دیتے تھے توحید کا انکار کرتے تھے شرک پر عقیدہ رکھتے تھے حکم تو بلندوبرتر اللہ ہی کا چلتا ہے «مُسْتَکْبِرِینَ» دال ہے ان کے حق سے ہٹنے اور حق کا انکار کرنے سے آیت ہے کہ «مُسْتَکْبِرِینَ بِہِ سَامِرًا تَہْجُرُونَ» ( 23-سورۃ المؤمنون : 67 ) یہ اس وقت تکبر کرتے تھے اور حق اور اہل حق کو حقیر سمجھتے تھے ۔ اس معنی کی رو سے بہ کے ضمیر کا مرجع یا تو حرم ہے یعنی مکہ کہ یہ اس میں بیہودہ بکواس بکتے تھے ۔ یا قرآن ہے جسے یہ مذاق میں اڑاتے تھے کبھی شاعری کہتے تھے کبھی کہانت وغیرہ ۔ یا خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں کہ راتوں کو بے کار بیٹھے ہوئے اپنی گپ شب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی شاعر کہتے ، کبھی کاہن کہتے ، کبھی جادوگر کہتے ، کبھی جھوٹا کہتے ، کبھی مجنون بتلاتے ۔ حالانکہ حرم اللہ کا گھر ہے قرآن اللہ کا کلام ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں جہنیں اللہ نے اپنی مدد پہنچائی اور مکے پر قابض کیا ۔ ان مشرکین کو وہاں سے ذلیل وپست کر کے نکالا ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد یہ ہے کہ یہ لوگ بیت اللہ کی وجہ سے فخر کرتے تھے اور خیال کرتے تھے کہ وہ اولیاء اللہ ہیں حالانکہ یہ خیال محض وہم تھا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ مشرکین قریش بیت اللہ پر فخر کرتے تھے اپنے آپ کو اس کا مہتمم اور متولی بتلاتے تھے حالانکہ نہ اسے آباد کرتے تھے نہ اس کا صحیح ادب کرتے تھے امام ابن ابی حاتم رحمتہ اللہ علیہ نے یہاں پر بہت کچھ لکھا ہے حاصل سب کا یہی ہے ۔ المؤمنون
63 المؤمنون
64 المؤمنون
65 المؤمنون
66 المؤمنون
67 المؤمنون
68 قرآن کریم سے فرار اللہ تعالیٰ مشرکوں کے اس فعل پر اظہار کر رہا ہے جو وہ قرآن کے نہ سمجھنے اور اس میں غور وفکر نہ کرنے میں کر رہے تھے اور اس سے منہ پھیر لیتے تھے ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ رب العزت نے ان پر اپنی وہ پاک اور برتر کتاب نازل فرمائی تھی جو کسی نبی پر نہیں اتاری گئی ، یہ سب سے اکمل اشرف اور افضل کتاب ہے ان کے باپ دادے جاہلیت میں مرے تھے جن کے ہاتھوں میں کوئی الہامی کتاب نہ تھی ان میں کوئی پیغمبر نہیں آیا تھا ۔ تو انہیں چاہیے تھا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مانتے کتاب اللہ کی قدر کرتے اور دن رات اس پر عمل کرتے جیسے کہ ان میں کے سمجھ داروں نے کیا کہ وہ مسلمان متبع رسول ہو گئے ۔ اور اپنے اعمال سے اللہ کو راضی رضامند کر دیا ۔ افسوس کفار نے عقلمندی سے کام نہ لیا ۔ قرآن کی متشابہ آیتوں کے پیچھے پڑ کر ہلاک ہو گئے ۔ کیا یہ لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جانتے نہیں ؟ کیا آپ کی صداقت امانت دیانت انہیں معلوم نہیں ؟ آپ تو انہی میں پیدا ہوئے انہی میں پلے انہی میں بڑے ہوئے پھر کیا وجہ ہے کہ آج اسے جھوٹا کہنے لگے جسے اس سے پہلے سچا کہتے تھے ؟ دوغلے ہو رہے تھے ۔ سیدنا جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہما نے شاہ حبش نجاشی رحمتہ اللہ علیہ سے سر دربار یہی فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ رب العالمین وحدہ لاشریک نے ہم میں ایک رسول بھیجا ہے جس کا نسب جس کی صداقت جس کی امانت ہمیں خوب معلوم تھی ۔ سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہا نے کسریٰ سے بوقت جنگ میدان میں یہی فرمایا تھا ابوسفیان صخر بن حرب نے شاہ روم سے یہی فرمایا تھا جب کہ سردربار اس نے ان سے اور ان کے ساتھیوں سے پوچھا تھا ۔ حالانکہ اس وقت تک وہ مسلمان بھی نہیں تھے لیکن انہیں آپ کی صداقت امانت دیانت سچائی اور نسب کی عمدگی کا اقرار کرنا پڑا ۔ (صحیح بخاری:7) کہتے تھے اسے جنون ہے یا اس نے قرآن اپنی طرف سے گھڑلیا ہے حالانکہ بات اس طرح سے نہیں ۔ حقیت صرف یہ ہے کہ ان کے دل ایمان سے خالی ہیں یہ قرآن پر نظریں نہیں ڈالتے اور جو زبان پر آتا ہے بک دیتے ہیں قرآن تو وہ کلام ہے جس کی مثل اور نظیر سے ساری دنیا عاجز آ گئی باوجود سخت مخالفت کے اور باجود پوری کوشش اور انتہائی مقابلے کے کسی سے نہ بن پڑا کہ اس جیسا قرآن خود بنا لیتا یا سب کی مدد لے کر اس جیسی ایک ہی سورت بنا لاتا ۔ یہ تو سراسر حق ہے اور انہیں حق سے چڑ ہے پچھلا جملہ حال ہے اور ہوسکتا ہے کہ خبر یہ «مستانفعہ» ، «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ مذکور ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ایک شخص سے فرمایا مسلمان ہو جا اس نے کہا اگرچہ مجھے یہ ناگوار ہو ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں اگرچہ ناگوار ہو ایک روایت میں ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو راستے میں ملا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا اسلام قبول کر اسے یہ بُرا محسوس ہوا اس کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دیکھو اگر تم کسی غیر آباد خطرناک غلط راستے پر چلے جا رہے ہو اور تمہیں ایک شخص ملے جس کے نام نسب سے جس کی سچائی اور امانت داری سے تم بخوبی واقف ہو وہ تم سے کہے کہ اس راستے پر چلو جو وسیع آسان سیدھا اور صاف ہے بتاؤ تم اس کے بتائے ہوئے راستے پر چلو گے یا نہیں ؟ اس نے کہا ہاں ضرور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فریاما بس تو یقین مانو قسم اللہ کی تم اس دن بھی سخت دشوار اور خطرناک راہ سے بھی زیادہ بری راہ پر ہو اور میں تمہیں آسان راہ کی دعوت دیتا ہوں میری مان لو ۔ مذکور ہے کہ ایک اور ایسے ہی شخص سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا جب کہ اس نے دعوت اسلام کا برا منایا بتا تو ؟ اگر تیرے دوساتھی ہوں ایک تو سچا امانت دار دوسرا جھوٹا خیانت پیشہ بتاؤ تم کس سے محبت کرو گے اس نے کہا سچے امین سے ۔ فرمایا اسی طرح تم لوگ اپنے رب کے نزدیک ہو حق سے مراد بقول سدی رحمتہ اللہ علیہ خود اللہ تعالیٰ ہے یعنی اللہ تعالیٰ اگر انہی کی مرضی کے مطابق شریعت مقرر کرتا تو زمینوں آسمان بگڑ جاتے جیسے اور آیت میں کہ کافروں نے کہا ان دونوں بستیوں میں سے کسی بڑے شخص کے اوپر یہ قرآن کیوں نہ اترا اس کے جواب میں فرمان ہے کہ کیا اللہ کی رحمت کی تقسیم ان کے ہاتھوں میں ہے اور آیت میں ہے کہ اور اگر انہیں ملک کے کسی حصے کا مالک بنا دیا ہوتا تو کسی کو ایک کوڑی بھی نہ پرکھاتے ۔ پس ان آیتوں میں جناب باری تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ انسانی دماغ مخلوق کے انتظام کی قابلیت میں نااہل ہے یہ اللہ ہی کی شان ہے کہ اس کی صفتیں اس کے فرمان اس کے افعال اس کی شریعت اس کی تقدیر اس کی تدبیر تمام مخلوق کو حاوی ہے اور تمام مخلوق کی حاجت بر آوری اور ان کی مصلحت کے مطابق ہے اس کے سوا نہ کوئی معبود ہے نہ پالنہار ہے پھر فرمایا اس قرآن کو ان کی نصیحت کے لیے ہم لائے اور یہ اس سے منہ موڑ رہے ہیں ۔ پھر ارشاد ہے کہ تو تبلیغ قرآن پر ان سے کوئی اجرت نہیں مانگتا تیری نظریں اللہ پر ہیں وہی تجھے اس کا اجر دے گا جیسے فرمایا جو بدلہ میں تم سے مانگو وہ بھی تمہیں ہی دیا میں تو اجر کا طالب صرف اللہ ہی سے ہوں ۔ ایک آیت میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہوا کہ اعلان کر دو کہ نہ میں کوئی بدلہ چاہتا ہوں نہ میں تکلف کرنے والوں میں سے ہوں اور جگہ ہے کہہ دے کہ میں تم سے کوئی اجرت نہیں چاہتا ۔ صرف قرابت داری کی محبت کا خواہاں ہوں ۔ سورۃ یاسین میں ہے کہ شہر کے دور کے کنارے سے جو شخص دوڑا ہوا آیا اس نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم کے لوگوں نبیوں کی اطاعت کرو جو تم سے کسی اجر کے خواہاں نہیں یہاں فرمایا وہی بہترین رازق ہے ۔ تو لوگوں کو صحیح راہ کی طرف بلارہا ہے ۔ مسند امام احمد میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سوئے ہوئے تھے جو دو فرشتے آئے ایک آپ کے پاؤں میں بیٹھا دوسرا سر کی طرف پہلے نے دوسرے سے کہا ان کی اور دوسروں کی امت کی مثالیں بیان کرو اس نے کہا ان کی مثال ان مسافروں کے قافلے کی مثل ہے جو ایک بیابان چٹیل میدان میں تھے ان کے پاس نہ توشہ تھا نہ دانہ پانی نہ آگے بڑھنے کی قوت نہ پیچھے ہٹنے کی طاقت حیران تھے کہ کیا ہو گا اتنے میں انہوں نے دیکھا کہ ایک بھلا آدمی ایک شریف انسان عمدہ لباس پہنے ہوئے آ رہا ہے اس نے آتے ہی ان کی گھبراہٹ اور پریشانی دیکھ کر ان سے کہا کہ اگر تم میرا کہا مانو اور میرے پیچھے چلو تو میں تمہیں پھلوں سے لدے ہوئے باغوں اور پانی سے بھرے حوضوں پر پہنچا دوں ۔ سب نے اس کی بات مان لی اور اس نے انہیں فی الواقع ہرے بھرے تروتازہ باغوں اور جاری چشموں میں پہنچا دیا یہاں ان لوگوں نے بیروک ٹوک کھایا پیا اور آسودہ حالی کی وجہ سے موٹے تازہ ہو گئے ایک دن اس نے کہا دیکھو میں تمہیں اس ہلاکت وافلاس سے بچا کریہاں لایا اور اس فارغ البالی میں پہنچایا ۔ اب اگر تم میری مانو تو میں تمہیں اس سے بھی اعلیٰ باغات اور اس سے طیب جگہ اور اس سے بھی زیادہ جگہ لہردار نہروں کی طرف لے چلوں اس پر ایک جماعت تو تیار ہو گئی اور انہوں نے کہا ہم آپ کے ساتھ ہیں لیکن دوسری جماعت نے کہاہمیں اور زیادہ کی ضرورت نہیں بس یہیں رہ پڑے ۔ (مسند احمد:267/1:ضعیف) ابویعلیٰ موصلی میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں تمہیں اپنی باہوں میں سمیٹ کرتمہاری کمریں پکڑ پکڑ کر جہنم سے روک رہا ہوں ۔ لیکن تم پرنالوں اور برساتی کیڑوں کی طرح میرے ہاتھوں سے چھوٹ چھوٹ کر آگ میں گر رہے ہو کیا تم یہ چاہتے ہو ؟ کہ میں تمہیں چھوڑ دوں ؟ سنو میں تو حوض کوثر پر بھی تمہارا پیشوا اور میرِ سامان ہوں ۔ وہاں تم ِاکا دُکا اور گروہ گروہ بن کر میرے پاس آؤ گے ۔ میں تمہیں تمہاری نشانیوں علامتوں اور ناموں سے پہچان لونگا ۔ جیسے کہ ایک نو وارد انجان آدمی اپنے اونٹوں کو دوسروں کے اونٹوں سے تمیز کر لیتا ہے ۔ میرے دیکھتے ہوئے تم میں سے بعض کو بائیں طرف والے عذاب کے فرشتے پکڑ کر لے جانا چاہیں گے تو میں جناب باری تعالیٰ میں عرض کروں گا ۔ کہ اے اللہ یہ میری قوم کے میری امت کے لوگ ہیں ۔ پس جواب دیا جائے گا آپ کو نہیں معلوم کہ انہیں نے آپ کے بعد کیا کیا بدعتیں نکالیں تھیں ؟ یہ آپ کے بعد اپنی ایڑیوں کے بل لوٹتے ہی رہتے ۔ میں انہیں بھی پہچان لوں گا جو قیامت کے دن اپنی گردن پر بکری لیے ہوئے آئے گا جو بکری چیخ رہی ہو گی وہ میرا نام لے کر آوازیں دے رہا ہو گا ۔ لیکن میں اس سے صاف کہہ دوں گا کہ میں اللہ کے سامنے تجھے کچھ کام نہیں آسکتا میں نے تو اللہ کی باتیں پہنچا دی تھیں ۔ اسی طرح کوئی ہو گا جو اونٹ کو لیے ہوئے آئے گا جو بِلبلا رہا ہو گا ۔ ندا کرے گا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! میں کہہ دوں گا کہ میں اللہ کے ہاں تیرے لیے کچھ اختیار نہیں رکھتا میں نے تو حق بات تمہیں پہنچا دی تھی ۔ بعض آئیں گے جن کی گردن پر گھوڑا سوار ہو گا جو ہنہنا رہا ہو گا وہ بھی مجھے آواز دے گا اور میں یہی جواب دوں گا بعض آئیں گے اور مشکیں لادے ہوئے پکاریں گے یامحمد صلی اللہ علیہ وسلم یامحمد صلی اللہ علیہ وسلم ! میں کہوں گا تمہارے کسی معاملہ سے میرا کوئی تعلق نہیں ۔ میں تو تم تک حق بات پہنچا چکا تھا ۔ (مجمع الزوائد،85/3) امام علی بن مدینی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اسی حدیث کی سند ہے تو حسن لیکن اس کا ایک راوی حفص بن حمید مجہول ہے لیکن امام یحییٰ بن ابی معین نے اسے صالح کہا ہے اور نسائی اور ابن حبان نے بھی اسے ثقہ کہا ہے ۔ آخرت کا یقین نہ رکھنے والے راہ راست سے ہٹے ہوئے ہیں ۔ جب کوئی شخص سیدھی راہ سے ہٹ گیا تو عرب کہتے ہیں «نکب فلان عن الطریق» ۔ ان کے کفر کی پختگی بیان ہو رہی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ ان سے سختی کو ہٹادے انہیں قرآن سنا اور سمجھا بھی دے تو بھی یہ اپنے کفروعناد سے ، سرکشی اور تکبر سے باز نہ آئیں گے ۔ جو کچھ نہیں ہوا وہ جب ہو گا تو کس طرح ہو گا اس کا علم اللہ کو ہے ۔ اس لیے اور جگہ ارشاد فرمایا دیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ ان میں بھلائی دیکھتا تو ضرور انہیں اپنے احکام سناتا اگر انہیں سناتا بھی تو وہ منہ پھیرے ہوئے اس سے گھوم جاتے یہ توجہنم کے سامنے کھڑے ہو کر ہی یقین کریں گے اور اس وقت کہیں گے کاش کہ ہم لوٹا دئیے جاتے اور رب کی باتوں کو نہ جھٹلاتے اور یقین مند ہو جاتے ۔ اس سے پہلے جو چھپا تھا وہ اب کھل گیا ۔ بات یہ ہے کہ اگر یہ لوٹابھی دئیے جائیں تو پھر سے منع کردہ کاموں کی طرف لوٹ آئیں گے ۔ پس یہ وہ بات ہے جو ہو گی نہیں لیکن اگر ہو تو کیا ہو ؟ اسے اللہ جانتا ہے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ لو سے جو جملہ قرآن کریم میں ہے وہ کبھی واقع ہونے والا نہیں ۔ المؤمنون
69 المؤمنون
70 المؤمنون
71 المؤمنون
72 المؤمنون
73 المؤمنون
74 المؤمنون
75 المؤمنون
76 جرائم کی سزا پانے کی باوجود نیک نہ بن سکے فرماتا ہے کہ ہم نے انہیں ان کی برائیوں کی وجہ سے سختیوں اور مصیبتوں میں بھی مبتلا کیا لیکن تاہم نہ تو انہوں نے اپنا کفر چھوڑا نہ اللہ کی طرف جھکے بلکہ کفر و ضلالت پر اڑے رہے ۔ نہ ان کے دل نرم ہوئے نہ یہ سچے دل سے ہماری طرف متوجہ ہوئے نہ دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے ۔ جیسے فرمان ہے «فَلَوْلَآ اِذْ جَاءَہُمْ بَاْسُنَا تَضَرَّعُوْا وَلٰکِنْ قَسَتْ قُلُوْبُہُمْ وَزَیَّنَ لَہُمُ الشَّیْطٰنُ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ» ( 6- الانعام : 43 ) ، ہمارا عذاب دیکھ کریہ ہماری طرف عاجزی سے کیوں نہ جھکے ؟ بات یہ ہے کہ ان کے دل سخت ہو گئے ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اس آیت میں اس قحط سالی کا ذکر ہے جو قریشیوں پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نہ ماننے کے صلے میں آئی تھی ، جس کی شکایت لے کر ابوسفیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی قسمیں دے کر ، رشتے داریوں کے واسطے دے کر کہا تھا کہ ہم تو اب لید اور خون کھانے لگے ہیں ۔ (سنن نسائی فی التفسیر،372:حسن) بخاری و مسلم میں ہے کہ قریش کی شرراتوں سے تنگ آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدعا کی تھی کہ جیسے یوسف علیہ السلام کے زمانے میں سات سال کی قحط سالی آئی تھی ، ایسے ہی قحط سے اے اللہ تو ان پر میری مدد فرما ۔ (صحیح بخاری:1007) ابن ابی حاتم میں ہے کہ وہب بن منبہ رحمتہ اللہ علیہ کو قید کر دیا گیا ۔ وہاں ایک نوعمر شخص نے کہا میں آپ رحمہ اللہ کو جی بہلانے کے لیے اشعار سناؤں ؟ تو آپ نے فرمایا ” اس وقت ہم عذاب اللہ میں ہیں اور قرآن نے ان کی شکایت کی ہے جو ایسے وقت بھی اللہ کی طرف نہ جھکیں “ پھر آپ رحمہ اللہ نے تین روزے برابر رکھے ۔ ان سے سوال کیا گیا کہ یہ بیچ میں افطار کئے بغیر روزے کیسے ؟ تو جواب دیا کہ ایک نئی چیز ادھر سے ہوئی یعنی قید ، تو ایک نئی چیز ہم نے کی یعنی زیادتی عبادت ۔ یہاں تک کہ حکم الٰہی آ پہنچا اچانک وقت آ گیا اور جس عذاب کا وہم و گمان بھی نہ تھا وہ آپڑا تو تمام خیر سے مایوس ہو گئے آس ٹوٹ گئی اور حیرت زدہ رہ گئے اللہ کی نعمتوں کو دیکھو ، اس نے کان دئیے ، آنکھیں دیں ، دل دیا ، عقل فہم عطا فرمائی کہ غور و فکر کر سکو ، اللہ کی وحدانیت کو اس کے اختیار کو سمجھ سکو ۔ لیکن جیسے جیسے نعمتیں بڑھیں شکر کم ہوئے جیسے فرمان ہے تو گو حرص کر لیکن ان میں سے اکثر بے ایمان ہیں ۔ پھر اپنی عظیم الشان سلطنت اور قدرت کا بیان فرما رہا ہے کہ اس نے مخلوق کو پیدا کر کے وسیع زمین پر پھیلا دیا ہے پھر قیامت کے دن بکھرے ہوؤں کو سمیٹ کر اپنے پاس جمع کرے گا اب بھی اسی نے پیدا کیا ہے پھر بھی وہی جلائے گا کوئی چھوٹا بڑا آگے پیچھے کا باقی نہ بچے گا ۔ «أَإِذَا کُنَّا عِظَامًا نَّخِرَۃً قَالُوا تِلْکَ إِذًا کَرَّۃٌ خَاسِرَۃٌ فَإِنَّمَا ہِیَ زَجْرَۃٌ وَاحِدَۃٌ فَإِذَا ہُم بِالسَّاہِرَۃِ» ( 79-النازعات : 11- 14 ) وہی بوسیدہ اور کھوکھلی ہڈیوں کا زندہ کرنے والا اور لوگوں کو مار ڈالنے والا ہے «لَا الشَّمْسُ یَنبَغِی لَہَا أَن تُدْرِکَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّیْلُ سَابِقُ النَّہَارِ وَکُلٌّ فِی فَلَکٍ یَسْبَحُونَ» ( 36-یس : 40 ) اسی کے حکم سے دن چڑھتا ہے رات آتی ہے ایک ہی نظام کے مطابق ایک کے بعد ایک آتا جاتا ہے نہ سورج چاند سے آگے نکلے نہ رات دن پر سبقت کرے کیا تم میں اتنی بھی عقل نہیں ؟ کہ اتنے بڑے نشانات دیکھ کر اپنے اللہ کو پہچان لو ؟ اور اس کے غلبے اور اس کے علم کے قائل بن جاؤ بات یہ ہے کہ اس زمانہ کے کافر ہوں یا گزشتہ زمانوں کے ان سب کے دل یکساں ہیں زبانیں بھی ایک ہی ہیں وہی بکواس جو گزشتہ لوگوں کی تھی وہی ان کی ہے کہ مر کر مٹی ہو جانے اور صرف بوسیدہ ہڈیوں کی صورت میں باقی رہ جانے کے بعد بھی دوبارہ پیدا کئے جائیں یہ سمجھ سے باہر ہے ہم سے بھی یہی کہا گیا ہمارے باپ دادوں کو بھی اس سے دھمکایا گیا لیکن ہم نے تو کسی کو مر کر زندہ ہوتے نہیں دیکھا ہمارے خیال میں تو یہ صرف بکواس ہے ۔ دوسری آیت «وَقَالُوا إِنْ ہِیَ إِلَّا حَیَاتُنَا الدٰنْیَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوثِینَ» ( 6-الأنعام : 29 ) میں ہے کہ انہوں نے کہا کیا جب ہم بوسیدہ ہڈیاں ہو جائیں گے اس وقت بھی پھر زندہ کئے جائیں گے ؟ جناب باری نے فرمایا جسے تم انہونی بات سمجھ رہے ہو وہ تو ایک آواز کے ساتھ ہو جائے گی اور ساری دنیا اپنی قبروں سے نکل کرایک میدان میں ہمارے سامنے آ جائے گی ۔ سورۃ یاسین میں بھی یہ اعتراض اور جواب ہے «أَوَلَمْ یَرَ الْإِنسَانُ أَنَّا خَلَقْنَاہُ مِن نٰطْفَۃٍ فَإِذَا ہُوَ خَصِیمٌ مٰبِینٌ وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَنَسِیَ خَلْقَہُ قَالَ مَن یُحْیِی الْعِظَامَ وَہِیَ رَمِیمٌ قُلْ یُحْیِیہَا الَّذِی أَنشَأَہَا أَوَّلَ مَرَّۃٍ وَہُوَ بِکُلِّ خَلْقٍ عَلِیمٌ» ( 36- یس : 77- 79 ) کہ کیا انسان دیکھتا نہیں کہ ہم نے نطفے سے پیدا کیا پھر وہ ضدی جھگڑالو بن بیٹھا اور اپنی پیدائش کو بھول بسرگیا اور ہم پر اعتراض کرتے ہوئے مثالیں دینے لگا کہ ان بوسیدہ ہڈیوں کو کون جلائے گا ؟ اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تم انہیں جواب دو کہ انہیں نئے سرے سے وہ اللہ پیدا کرے گا جس نے انہیں اول بار پیدا کیا ہے اور جو ہرچیز کی پیدائش کا عالم ہے ۔ المؤمنون
77 المؤمنون
78 المؤمنون
79 المؤمنون
80 المؤمنون
81 المؤمنون
82 المؤمنون
83 المؤمنون
84 اللہ تعالٰی ہی معبود واحد ہے اللہ تعالیٰ جل وعلا اپنے وحدانیت ، خالقیت ، تصرف اور ملکیت کا ثبوت دیتا ہے تاکہ معلوم ہو جائے کہ معبود برحق صرف وہی ہے اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہیں کرنی چاہے ۔ وہ واحد اور لاشریک ہے پس اپنے محترم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ آپ ان مشرکین سے دریافت فرمائیں تو وہ سات لفظوں میں اللہ کے رب ہونے کا اقرار کرے گے اور اس میں کسی کو شریک نہیں بتائیں گے ۔ آپ انہی کے جواب کو لے کر انہیں قائل کریں کہ جب خالق ، مالک ، صرف اللہ ہے اس کے سوا کوئی نہیں پھر معبود بھی تنہا وہی کیوں نہ ہو ؟ اس کے ساتھ دوسروں کی عبادت کیوں کی جائے ؟ واقعہ یہی ہے کہ وہ اپنے معبودوں کو بھی مخلوق الٰہی اور مملوک رب جانتے تھے لیکن انہیں مقربان رب سمجھ کر اس نیت سے ان کی عبادت کرتے تھے کہ وہ ہمیں بھی مقرب بارگاہ اللہ بنا دیں گے ۔ پس حکم ہوتا ہے کہ زمین اور زمین کی تمام چیزوں کا خالق کون ہے ؟ اس کی بابت ان مشرکوں سے سوال کرو ۔ ان کا جواب یہی ہو گا کہ اللہ وحدہ لاشریک لہ اب تم پھر ان سے کہو کہ کیا اب بھی اس اقرار کے بعد بھی تم اتنا نہیں سمجھتے کہ عبادت کے لائق بھی وہی ہے کیونکہ خالق و رازق وہی ہے ۔ پھر پوچھو کہ اس بلند و بالا آسمان کا اس کی مخلوق کا خالق کون ہے ؟ جو عرش جیسی زبردست چیز کا رب ہے ؟ جو مخلوق کی چھت جیسے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ”اللہ کی شان بہت بڑی ہے اس کا عرش آسمانوں پر اس طرح ہے اور آپ نے اپنے ہاتھ سے قبہ کی طرح بنا کر بتایا “ (سنن ابوداود:4726،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ ساتوں آسمان اور زمین اور ان کی کل مخلوق کرسی کے مقابلے پر ایسی ہے جیسے کسی چٹیل میدان میں کوئی حلقہ پڑا ہو اور کرسی اپنی تمام چیزوں سمیت عرش کے مقابلے میں بھی ایسی ہی ہے ۔ بعض سلف سے منقول ہے عرش کی ایک جانب سے دوسری جانب کی دوری پچاس ہزار سال کی مسافت کی ہے ۔ اور ساتویں زمین سے اس کی بلندی پچاس ہزار سال کی مسافت کی ہے ۔ عرش کا نام عرش اس کی بلندی کی وجہ سے ہی ہے ۔ سیدنا کعب احبار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آسمان عرش کے مقابلے میں ایسے ہیں جیسے کوئی قندیل آسمان و زمین کے درمیان ہو ۔حضرت مجاہد رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ آسمان و زمین بمقابلہ عرش الٰہی ایسے ہیں جیسے کوئی چھلا کسی چٹیل وسیع میدان میں پڑا ہو۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں عرش کی قدرت و عظمت کا کوئی بھی سوائے اللہ تعالیٰ کے اندازہ نہیں کر سکتا بعض سلف کا قول ہے کہ عرش سرخ رنگ یاقوت کا ہے اس آیت میں عرش عظیم کہا گیا ہے اور اس سورت کے آخر میں عرش کریم کہا گیا ہے یعنی بہت بڑا اور بہت حسن وخوبی والا ۔ پس لمبائی ، چوڑائی ، وسعت و عظمت ، حسن وخوبی میں وہ بہت ہی اعلیٰ و بالا ہے اسی لیے لوگوں نے اسے یاقوت سرخ کہا ہے ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے کہ تمہارے رب کے پاس رات دن کچھ نہیں اس کے عرش کا نور اس کے چہرے کے نور سے ہے ۔ الغرض اس سوال کا جواب بھی وہ یہی دیں گے کہ آسمان اور عرش کا رب اللہ ہے تو تم کہو کہ پھر تم اس کے عذاب سے کیوں نہیں ڈرتے ۔ اس کے ساتھ دوسروں کی عبادت کیوں کر رہے ہو ؟ کتاب التفکر والاعتبار میں امام ابوبکر ابن ابی الدنیا ایک حدیث لائے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عموماً اس حدیث کو بیان فرمایا کرتے تھے کہ “جاہلیت کے زمانے میں ایک عورت پہاڑ کی چوٹی پر اپنی بکریاں چرایا کرتی تھی اس کے ساتھ اس کا لڑکا بھی تھا ایک مرتبہ اس نے اپنی ماں سے دریافت کیا کہ اماں جان تمہیں کس نے پیدا کیا ہے ؟ اس نے کہا اللہ نے کہا میرے والد کو کس نے پیدا کیا ؟ اس نے جواب دیا اللہ نے پوچھا اور ان پہاڑوں کو اماں کس نے بنایا ہے ماں نے جواب دیا ان کا خالق بھی اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ پوچھا اور ان ہماری بکریوں کا خالق کون ہے ماں نے کہا اللہ ہی ہے اس نے کہا سبحان اللہ ۔ اللہ کی اتنی بڑی شان ہے بس اس قدر عظمت اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی سما گئی کہ وہ تھر تھر کانپنے لگا اور پہاڑ سے گرپڑا اور جان اللہ کے سپرد کر دی اس کا ایک راوی ذرا ٹھیک نہیں ،(ابن عدی فی الکامل،178/4:ضعیف) «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ دریافت کرو کہ تمام ملک کا مالک ہرچیز کا مختار کون ہے ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم عموماً ان لفظوں میں ہوتی تھی کہ اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اور جب کوئی تاکیدی قسم کھاتے تو فرماتے اس کی قسم جو دلوں کا مالک اور ان کے پھیرنے والا ہے ۔(صحیح بخاری:6617) پھر یہ بھی پوچھ کہ وہ کون ہے ؟ جو سب کو پناہ دے اور اس کی دی ہوئی پناہ کو کوئی توڑ نہ سکے اور اس کے مقابلے پر کوئی پناہ دے نہ سکے کسی کی پناہ کا وہ پابند نہیں یعنی اتنا بڑا سید و مالک کہ تمام خلق ، ملک ، حکومت ، اسی کے ہاتھ میں ہے بتاؤ وہ کون ہے ؟ عرب میں دستور تھا کہ سردار قبیلہ اگر کسی کو پناہ دیدے تو سارا قبیلہ اس کا پابند تھا لیکن قبیلے میں سے کوئی کسی کو پناہ میں لے لے تو سردار پر اس کی پابندی نہیں ۔ پس یہاں اللہ تعالیٰ کی سلطنت و عظمت بیان ہو رہی ہے کہ وہ قادر مطلق حاکم کل ہے اس کا ارادہ کوئی بدل نہیں سکتا ۔ وہ سب سے باز پرس کر لے لیکن کسی کی مجال نہیں کہ اس سے کوئی سوال کر سکے ۔ اس کی عظمت ، اس کی کبریائی ، اس کا غلبہ ، اس کا دباؤ ، اس کی قدرت ، اس کی عزت ، اس کی حکمت ، اس کا عدل بےپایاں اور بے مثل ہے ۔ سب مخلوق اس کے سامنے عاجز پست اور لاچار ہے ۔ اب ساری مخلوق کی بعض پرس کرنے والا ہے اس سوال کا جواب بھی ان کے پاس اس کے سوا کوئی اور نہیں کہ وہ اقرار کریں کہ اتنا بڑا بادشاہ ایسا خود مختار اللہ واحد ہی ہے کہہ دے کہ پھر تم پر کیا ٹپکی پڑی ہے ؟ ایسا کون سا جادو تم پر ہو گیا ہے ؟ باوجود اس اقرار کے پھر بھی دوسروں کی پرستش کرتے ہو ؟ ہم تو ان کے سامنے حق واضع کر چکے توحید ربوبیت کے ساتھ ساتھ توحید الوہیت بیان کر دی صحیح دلیلیں اور صاف باتیں پہنچا دیں اور ان کا غلط گو ہونا ظاہر کر دیا کہ یہ شریک بنانے میں جھوٹے ہیں اور ان کا جھوٹ خود ان کے اقرار سے ظاہر و باہر ہے جیسے کہ سورت کے آخر میں فرمایا کہ اللہ کے سوا دوسروں کے پکارنے کی کوئی سند نہیں ۔ صرف باپ دادا کی تقلید پر ضد ہے اور وہ یہی کہتے بھی تھے کہ ہم نے اپنے بزرگوں کو اسی پر پایا اور ہم ان کی تقلید نہیں چھوڑیں گے ۔ المؤمنون
85 المؤمنون
86 المؤمنون
87 المؤمنون
88 المؤمنون
89 المؤمنون
90 المؤمنون
91 وہ ہر شان میں بےمثال ہے اللہ تعالیٰ اس سے اپنی برتری بیان فرما رہا ہے کہ اس کی اولاد ہو یا اس کا شریک ہو ۔ ملک میں ، تصرف میں ، عبادت کا مستحق ہونے میں ، وہ یکتا ہے ، نہ اس کی اولاد ہے ، نہ اس کا شریک ہے ۔ اگر مان لیا جائے کہ کئی ایک اللہ ہیں تو ہر ایک اپنی مخلوق کامستقل مالک ہونا چاہے تو موجودات میں نظام قائم نہیں رہ سکتا ۔ حالانکہ کائنات کا انتظام مکمل ہے ، عالم علوی اور عالم سفلی ، آسمان و زمین وغیرہ کمال ربط کے ساتھ اپنے اپنے مقررہ کام میں مشغول ہیں ۔ دستور سے ایک انچ ادھر ادھر نہیں ہوتے ۔ پس معلوم ہوا کہ ان سب کا خالق مالک اللہ ایک ہی ہے نہ کہ متفرق کئی ایک اور بہت سے اللہ مان لینے کی صورت میں یہ بھی ظاہر ہے کہ ہر ایک دوسرے کو پست ومغلوب کرنا اور خود غالب اور طاقتور ہونا چاہے گا ۔ اگر غالب آ گیا تو مغلوب اللہ نہ رہا اگر غالب نہ آیا تو وہ خود اللہ نہیں ۔ پس یہ دونوں دلیلیں بتا رہی ہیں کہ اللہ ایک ہی ہے ۔ متکلمین کے طور پر اس دلیل کو دلیل تمانع کہتے ہیں ۔ ان کی تقریر یہ ہے کہ اگر دو اللہ مانے جائیں یا اس سے زیادہ پھر ایک تو ایک جسم کی حرکت کا ارادہ کر لے اور دوسرا اس کے سکون کا ارادہ کرے اب اگر دونوں کی مراد حاصل نہ ہو تو دونوں ہی عاجز ٹھہرے اور جب عاجز ٹھہرے تو اللہ نہیں ہو سکتے ۔ کیونکہ واجب عاجز نہیں ہوتا ۔ اور یہ بھی ناممکن ہے کہ دونوں کی مراد پوری ہو کیونکہ ایک کے خلاف دوسرے کی چاہت ہے ۔ تو دونوں کی مراد کا حاصل ہونا محال ہے ۔ اور یہ محال لازم ہوا ہے اس وجہ سے کہ دو یا دو سے زیادہ اللہ فرض کئے گئے تھے پس یہ تعدد میں باطل ہو گیا ۔ اب رہی تیسری صورت یعنی یہ کہ ایک کی چاہت پوری ہو اور ایک کی نہ ہو تو جس کی پوری ہوئی وہ تو غالب اور واجب رہا اور جس کی پوری نہ ہوئی اور مغلوب اور ممکن ہوا ۔ کیونکہ واجب کی صفت یہ نہیں کہ وہ مغلوب ہو تو اس صورت میں بھی معبودوں کی کثرت تعداد باطل ہوتی ہے ۔ پس ثابت ہوا کہ اللہ ایک ہے وہ ظالم سرکش ، حد سے گزر جانے والے ، مشرک جو اللہ کی اولاد ٹھہراتے ہیں اور اس کے شریک بتاتے ہیں ، ان کے ان بیان کردہ اوصاف سے ذات الٰہی بلند و بالا اور برتر و منزہ ہے ۔ وہ ہرچیز کو جانتا ہے جو مخلوق سے پوشیدہ ہے ۔ اور اسے بھی جو مخلوق پر عیاں ہے ۔ پس وہ ان تمام شرکا سے پاک ہے ، جسے منکر اور مشرک شریک الٰہ بتاتے ہیں ۔ المؤمنون
92 المؤمنون
93 برائی کے بدلے اچھائی سختیوں کے اترنے کے وقت کی دعا تعلیم ہو رہی ہے کہ اگر تو ان بدکاروں پر عذاب لائے اور میں ان میں موجود ہوں ۔ تو مجھے ان عذابوں سے بچا لینا ۔ مسند احمد اور ترمذی شریف کی حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں میں یہ جملہ بھی ہوتا تھا کہ اے اللہ جب تو کسی قوم کے ساتھ فتنے کا ارادہ کرے ، تو مجھے فتنہ میں ڈالنے سے پہلے اٹھالے ۔ (مسند احمد:243/5:صحیح) اللہ تعالیٰ اس کی تعلیم دینے کے بعد فرماتا ہے کہ ہم ان عذابوں کو تجھے دکھا دینے پر قادر ہیں ۔ جو ان کفار پر ہماری جانب سے اترنے والے ہیں ۔ پھر وہ بات سکھائی جاتی ہے جو تمام مشکلوں کی دوا ، اور رفع کرنے والی ہے اور وہ یہ کہ برائی کرنے والے سے بھلائی کی جائے ۔ تاکہ اس کی عداوت محبت سے اور نفرت الفت سے بدل جائے ۔ جیسے ایک اور آیت میں بھی ہے کہ بھلائی سے دفع کر تو جانی دشمن ، دلی دوست بن جائے گا ۔ لیکن یہ کام انہیں سے ہوسکتا ہے جو صبر کرنے والے ہوں ۔ یعنی اس کے حکم کی تعمیل اور اس کی صفت کی تحصیل صرف ان لوگوں سے ہو سکتی ہے جو لوگوں کی تکلیف کو برداشت کر لینے کے عادی ہو جائیں ۔ اور گو وہ برائی کریں لیکن یہ بھلائی کرتے جائیں ۔ یہ وصف انہی لوگوں کا ہے جو بڑے نصیب دار ہوں ۔ دنیا اور آخرت کی بھلائی جن کی قسمت میں ہو ۔ شیطان سے بچنے کی دعائیں انسان کی برائی سے بچنے کی بہترین ترکیب بتا کر پھر شیطان کی برائی سے بچنے کی ترکیب بتائی جاتی ہے کہ اللہ سے دعا کرو کہ وہ تمہیں شیطان سے بچا لے ۔ اس لیے کہ اس کے فن فریب سے بچنے کا ہتھیار تمہارے پاس سوائے اس کے اور نہیں ۔ وہ سلوک و احسان سے بس میں نہیں آنے کا ۔ استعاذہ کے بیان میں ہم لکھ آئے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم «اعوذ باللہ السمیع العلیم من الشیطان الرجیم» من ہمزہ ونفخہ ونفثہ پڑھا کرتے تھے ۔ اور ذکر شیطان کی شمولیت کو روک دیتا ہے ۔ کھانا پینا جماع ذبح وغیرہ کل کاموں کے شروع کرنے سے پہلے اللہ کا ذکر کرنا چاہے ۔ ابوداؤد میں ہے کہ حضور علیہ السلام کی ایک دعا یہ بھی تھی ۔ «اللہم انی اعوذبک من الھرم و اعوذ من الھدم ومن الغرق واعوذبک ان یتخبطنی الشیطان عندالموت» ۔ اے اللہ میں تجھ سے بڑے بڑھاپے سے اور دب کر مرجانے سے اور ڈوب کر مرجانے سے پناہ مانگتا ہوں اور اس سے بھی کہ موت کے وقت شیطان مجھ کو بہکاوے ۔ (سنن ابوداود:1552،قال الشیخ الألبانی:صحیح) مسند احمد میں ہے کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دعا سکھاتے تھے کہ نیند اچاٹ ہو جانے کے مرض کو دور کرنے کے لیے ہم سوتے وقت پڑھا کریں ۔ «بِسمِ اللّٰہِ أَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَّاتِ مِن غَضَبِہِ وَعِقَابِہِ وَمِن شَرِّ عِبَادِہِ وَمِن ہَمَزَاتِ الشَّیَاطِینِ وَاَئن یَحضُرُونَ» ۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا دستور تھا کہ اپنی اولاد میں سے جو ہوشیار ہوتے انہیں یہ دعا سکھا دیا کرتے اور جو چھوٹے ناسمجھ ہوتے یاد نہ کر سکتے ان کے گلے میں اس دعا کو لکھ کر لٹکا دیتے ۔ (سنن ابوداود:3893،قال الشیخ الألبانی:حسن دون الجملۃ) ابوداؤد ترمذی اور نسائی میں بھی یہ حدیث ہے امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ اسے حسن غریب بتاتے ہیں ۔ المؤمنون
94 المؤمنون
95 المؤمنون
96 المؤمنون
97 المؤمنون
98 المؤمنون
99 بعد از مرگ بیان ہو رہا ہے کہ موت کے وقت کفار اور بدترین گناہگار سخت نادم ہوتے ہیں اور حسرت و افسوس کے ساتھ آرزو کرتے ہیں کہ کاش کہ ہم دنیا کی طرف لوٹائے جائیں ۔ تاکہ ہم نیک اعمال کر لیں ۔ لیکن اس وقت وہ امید فضول ، یہ آرزو لا حاصل ہے چنانچہ سورۃ المنافقون میں فرمایا جو ہم نے دیا ہے ہماری راہ میں دیتے رہو ، اس سے پہلے کہ تم میں سے کسی کی موت آ جائے اس وقت وہ کہے کہ اے اللہ ذرا سی مہلت دیدے تو میں صدقہ خیرات کر لوں اور نیک بندہ بن جاؤں لیکن اجل آ جانے کے بعد کسی کو مہلت نہیں ملتی تمہارے تمام اعمال سے اللہ تعالیٰ خبردار ہے اسی مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں ۔ مثلا «وَاَنْذِرِ النَّاسَ یَوْمَ یَاْتِیْہِمُ الْعَذَابُ فَیَقُوْلُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا رَبَّنَآ اَخِّرْنَآ اِلٰٓی اَجَلٍ قَرِیْبٍ نٰجِبْ دَعْوَتَکَ وَنَتَّبِعِ الرٰسُلَ » ( 14- ابراہیم : 44 ) اور آیت «یَوْمَ یَاْتِیْ تَاْوِیْلُہٗ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ نَسُوْہُ مِنْ قَبْلُ قَدْ جَاءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بالْحَقِّ فَہَلْ لَّنَا مِنْ شُفَعَاءَ فَیَشْفَعُوْا لَنَآ اَوْ نُرَدٰ فَنَعْمَلَ غَیْرَ الَّذِیْ کُنَّا نَعْمَلُ قَدْ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَہُمْ وَضَلَّ عَنْہُمْ مَّا کَانُوْا یَفْتَرُوْنَ» ( 7- الاعراف : 53 ) اور آیت «وَلَوْ تَرٰٓی اِذِ الْمُجْرِمُوْنَ نَاکِسُوْا رُءُوْسِہِمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ رَبَّنَآ اَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا اِنَّا مُوْقِنُوْنَ» ( 32- السجدۃ : 12 ) تک اور آیت «وَلَوْ تَرَیٰ إِذْ وُقِفُوا عَلَی النَّارِ فَقَالُوا یَا لَیْتَنَا نُرَدٰ وَلَا نُکَذِّبَ بِآیَاتِ رَبِّنَا وَنَکُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ بَلْ بَدَا لَہُم مَّا کَانُوا یُخْفُونَ مِن قَبْلُ وَلَوْ رُدٰوا لَعَادُوا لِمَا نُہُوا عَنْہُ وَإِنَّہُمْ لَکَاذِبُونَ» ( 6-الأنعام : 27 ، 28 ) تک اور آیت «وَتَرَی الظّٰلِمِیْنَ لَمَّا رَاَوُا الْعَذَابَ یَقُوْلُوْنَ ہَلْ اِلٰی مَرَدٍّ مِّنْ سَبِیْلٍ» ( 42- الشوری : 44 ) تک اور آیت «قَالُوْا رَبَّنَآ اَمَتَّنَا اثْنَتَیْنِ وَاَحْیَیْتَنَا اثْنَتَیْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوْبِنَا فَہَلْ اِلٰی خُرُوْجٍ مِّنْ سَبِیْلٍ» ( 40- غافر : 11 ) اور اس کے بعد کی آیت «وَہُمْ یَصْطَرِخُوْنَ فِیْہَا رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَیْرَ الَّذِیْ کُنَّا نَعْمَلُ اَوَلَمْ نُعَمِّرْکُمْ مَّا یَتَذَکَّرُ فِیْہِ مَنْ تَذَکَّرَ وَجَاءَکُمُ النَّذِیْرُ فَذُوْقُوْا فَمَا للظّٰلِمِیْنَ مِنْ نَّصِیْرٍ» ( 35- فاطر : 37 ) ، وغیرہ ۔ ان آیتوں میں بیان ہوا ہے کہ ایسے بدکار لوگ موت کو دیکھ کر قیامت کے دن اللہ کے سامنے کی پیشی کے وقت جہنم کے سامنے کھڑے ہو کر دنیا میں واپس آنے کی تمنا کریں گے اور نیک اعمال کرنے کا وعدہ کریں گے ۔ لیکن ان وقتوں میں ان کی طلب پوری نہ ہو گی ۔ یہ تو وہ کلمہ ہے جو بہ مجبوری ایسے آڑے وقتوں میں ان کی زبان سے نکل ہی جاتا ہے اور یہ بھی کہ یہ کہتے ہیں مگر کرنے کے نہیں ۔ اگر دنیا میں واپس لوٹائے بھی جائیں تو عمل صالح کر کے نہیں دینے کے بلکہ ویسے ہی رہیں گے جسے پہلے رہے تھے یہ تو جھوٹے اور لپاڑئیے ہیں کتنا مبارک وہ شخص ہے جو اس زندگی میں نیک عمل کر لے اور کیسے بدنصیب یہ لوگ ہیں کہ آج نہ انہیں مال و اولاد کی تمنا ہے ۔ نہ دنیا اور زینت دنیا کی خواہش ہے صرف یہ چاہتے ہیں کہ دو روز کی زندگی اور ہو جائے تو کچھ نیک اعمال کر لیں لیکن تمنا بے کار ، آرزو بےسود ، خواہش بے جا ۔ یہ بھی مروی ہے کہ ان کی تمنا پر انہیں اللہ ڈانٹ دے گا اور فرمائے گا کہ یہ بھی تمہاری بات ہے عمل اب بھی نہیں کرو گے ۔ حضرت علاء بن زیاد رحمتہ اللہ علیہ کیا ہی عمدہ بات فرماتے ہیں ۔ آپ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ، تم یوں سمجھ لو کہ میری موت آ چکی تھی ، لیکن میں نے اللہ سے دعا کی کہ مجھے چند روز کی مہلت دے دی جائے تاکہ میں نیکیاں کر لوں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کافر کی اس امید کو یاد رکھو اور خود زندگی کی گھڑیاں اطاعت اللہ میں بسر کرو ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں جب کافر اپنی قبر میں رکھا جاتا ہے اور اپنا جہنم کا ٹھکانا دیکھ لیتا ہے تو کہتا ہے میرے رب مجھے لوٹا دے میں توبہ کر لوں گا اور نیک اعمال کرتا رہوں گا جواب ملتا ہے کہ جتنی عمر تجھے دی گئی تھی تو ختم کر چکا پھر اس کی قبر اس پر سمٹ جاتی ہے اور تنگ ہو جاتی ہے اور سانپ بچھو چمٹ جاتے ہیں ۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں گناہگاروں پر ان کی قبریں بڑی مصیبت کی جگہیں ہوتی ہیں ان کی قبروں میں انہیں کالے ناگ ڈستے رہتے ہیں جن میں سے ایک بہت بڑا اس کے سرہانے ہوتا ہے ایک اتنا ہی بڑا پاؤں کی طرف ہوتا ہے وہ سر کی طرف سے ڈسنا اور اوپر چڑھنا شروع کرتا ہے اور یہ پیروں کی طرف سے کاٹنا اور اوپر چڑھنا شروع کرتا ہے یہاں تک کہ بیچ کی جگہ آ کر دونوں اکٹھے ہو جاتے ہیں پس یہ ہے وہ برزخ جہاں یہ قیامت تک رہیں گے۔ من ورائہم کہ معنی کئے گے ہیں کہ ان کے آگے برزخ ایک حجاب اور آڑ ہے دنیا اور آخرت کے درمیان وہ نہ تو صحیح طور دنیا میں ہیں کہ کھائیں پیئں نہ آخرت میں ہیں کہ اعمال کے بدلے میں آ جائیں بلکہ بیچ ہی بیچ میں ہیں پس اس آیت میں ظالموں کو ڈرایا جا رہا ہے کہ انہیں عالم برزخ میں بھی بڑے بھاری عذاب ہوں گے جیسے فرمان ہے «مِنْ وَّرَایِٕہِمْ جَہَنَّمُ وَلَا یُغْنِیْ عَنْہُمْ مَّا کَسَبُوْا شَیْـــــًٔا وَّلَا مَا اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَوْلِیَاءَ وَلَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ» ( 45- الجاثیۃ : 10 ) ان کے آگے جہنم ہے اور آیت میں ہے «وَمِنْ وَّرَایِٕہٖ عَذَابٌ غَلِیْظٌ» ( 14- ابراھیم : 17 ) ان کے آگے سخت عذاب ہے برزخ کا ۔ قبر کا یہ عذاب ان پر قیامت کے قائم ہونے تک برابر جاری رہے گا ۔ جیسے حدیث میں ہے کہ وہ اس میں برابر عذاب میں رہے گا یعنی زمین میں ۔(سنن ترمذی:1071،قال الشیخ الألبانی:صحیح) المؤمنون
100 المؤمنون
101 قبروں سے اٹھنے کے بعد جب جی اٹھنے کا صور پھونکا جائے گا اور لوگ اپنی قبروں سے زندہ ہو کر اٹھ کھڑے ہوں گے ، اس دن نہ تو کوئی رشتے ناتے باقی رہیں گے ۔ نہ کوئی کسی سے پوچھے گا ، نہ باپ کو اولاد پرشفقت ہو گی ، نہ اولاد باپ کا غم کھائے گی ۔ عجب آپا دھاپی ہو گی ۔ جیسے فرمان ہے کہ «وَلَا یَسْأَلُ حَمِیمٌ حَمِیمًا یُبَصَّرُونَہُمْ یَوَدٰ الْمُجْرِمُ لَوْ یَفْتَدِی مِنْ عَذَابِ یَوْمِئِذٍ بِبَنِیہِ» ( 70-المعارج : 10 ، 11 ) کوئی دوست کسی دوست سے ایک دوسرے کو دیکھنے کے باوجود کچھ نہ پوچھے گا ۔ صاف دیکھے گا کہ قریبی شخص ہے مصیبت میں ہے ، گناہوں کے بوجھ سے دب رہا ہے لیکن اس کی طرف التفات تک نہ کرے گا ، نہ کچھ پوچھے گا آنکھ پھیرلے گا ، جیسے قرآن میں ہے کہ «یَوْمَ یَفِرٰ الْمَرْءُ مِنْ أَخِیہِ وَأُمِّہِ وَأَبِیہِ وَصَاحِبَتِہِ وَبَنِیہِ لِکُلِّ امْرِئٍ مِّنْہُمْ یَوْمَئِذٍ شَأْنٌ یُغْنِیہِ» ( 80-عبس : 34- 37 ) اس دن آدمی اپنے بھائی سے ، اپنی ماں سے ، اپنے باپ سے ، اپنی بیوی سے ، اور اپنے بچوں سے بھاگتا پھرے گا“ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اگلوں پچھلوں کو جمع کرے گا پھر ایک منادی ندا کرے گا جس کسی کا کوئی حق کسی دوسرے کے ذمہ ہو وہ بھی آئے اور اس سے اپنا حق لے جائے ۔ تو اگرچہ کسی کا کوئی حق باپ کے ذمہ یا اپنی اولاد کے ذمہ یا اپنی بیوی کے ذمہ ہو وہ بھی خوش ہوتا ہوا اور دوڑتا ہوا آئے گا اور اپنے حق کے تقاضے شروع کرے گا جسے اس آیت «فَإِذَا نُفِخَ فِی الصٰورِ فَلَا أَنسَابَ بَیْنَہُمْ یَوْمَئِذٍ وَلَا یَتَسَاءَلُونَ» ( سورۃ المؤمنون-23 : 101 ) میں ہے ۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ” فاطمہ رضی اللہ عنہا میرے جسم کا ایک ٹکڑا ہے جو چیز اسے نہ خوش کرے وہ مجھے بھی ناخوش کرتی ہے اور جو چیز اسے خوش کرے وہ مجھے بھی خوش کرتی ہے قیامت کے روز سب رشتے ناتے ٹوٹ جائیں گے لیکن میرا نسب میرا سبب میری رشتہ داری نا ٹوٹے گی“(مسند احمد:323/4:صحیح) اس حدیث کی اصل بخاری مسلم میں بھی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”فاطمہ رضی اللہ عنہا میرے جسم کا ایک ٹکڑا ہے اسے ناراض کرنے والی اور اسے ستانے والی چیزیں مجھے ناراض کرنے والی اور مجھے تکلیف پہنچانے والی ہے “ ۔(صحیح بخاری:3714) رضی اللہ عنہا مسند احمد میں ہے رسول اللہ علیہ وسلم نے منبر پر فرمایا ”لوگوں کا کیا حال ہے کہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رشتہ بھی آپ کی قوم کو کوئی فائدہ نہ دے گا واللہ میرے رشتہ دنیا میں اور آخرت میں ملا ہوا ہے ۔ اے لوگو ! میں تمہارا میرسامان ہوں ، جب تم آؤ گے ، ایک شخص کہے گا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں فلاں بن فلاں ہوں ، میں جواب دونگا کہ ہاں نسب تو میں نے پہچان لیا لیکن تم لوگوں نے میرے بعد بدعتیں ایجاد کی تھیں اور ایڑیوں کے بل مرتد ہو گے تھے“ ۔ (مسند احمد:18/3:حسن لغیرہ) مسند امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما میں ہم نے کئی سندوں سے یہ روایت کی ہے کہ جب آپ نے ام کلثوم بنت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا تو فرمایا کرتے تھے واللہ مجھے اس نکاح سے صرف یہ غرض تھی کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ہر سبب ونسب قیامت کے دن کٹ جائے گا مگر میرا نسب اور سبب ۔ (مسند عمر بن الخطاب لابن کثیر 398/3) بھی مذکور ہے کہ آپ نے ان کا مہر از روئے تعظیم وبزرگی چالیس ہزار مقرر کیا تھا ۔ ابن عساکر میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”کل رشتے ناتے اور سسرالی تعلقات بجز میرے ایسے تعلقات کے قیامت کے دن کٹ جائیں گے “ ۔ (طبرانی کبیر:45/3:صحیح بالشواھد) ایک حدیث میں ہے کہ ”میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ جہاں میرا نکاح ہوا ہے اور جس کا نکاح میرے ساتھ ہوا ہے وہ سب جنت میں بھی میرے ساتھ رہیں تو اللہ تعالیٰ نے میری دعا قبول فرمائی“ ۔ (تاریخ دمشق 119/19:ضعیف) جس کی ایک نیکی بھی گناہوں سے بڑھ گئی وہ کامیاب ہو گیا جہنم سے آزاد اور جنت میں داخل ہو گیا اپنی مراد کو پہنچ گیا اور جس سے ڈرتا تھا اس سے بچ گیا ۔ اور جس کی برائیاں بھلائیوں سے بڑھ گئیں وہ ہلاک ہوئے نقصان میں آ گئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں” قیامت کے دن ترازو پر ایک فرشتہ مقرر ہو گا جو ہر انسان کو لا کر ترازو کے پاس بیچوں بیچ کھڑا کرے گا ، پھر نیکی بدی تولی جائے گی اگر نیکی بڑھ گئی تو باآواز بلند اعلان کرے گا کہ فلاں بن فلاں نجات پا گیا اب اس کے بعد ہلاکت اس کے پاس بھی نہیں آئے گی اور اگر بدی بڑھ گئی تو ندا کرے گا اور سب کو سنا کر کہے گا کہ فلاں کا بیٹا فلاں ہلاک ہوا اب وہ بھلائی سے محروم ہوگیا“ (ابو نعیم فی الحلیۃ کما فی تخریج الاحیاء:4098،ضعیف) اس کی سند ضعیف ہے داؤد ابن حجر راوی ضعیف و متروک ہے ۔ ایسے لوگ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے دوزخ کی آگ ان کے منہ جھلس دے گی چہروں کو جلادے گی کمر کو سلگا دے گی یہ بے بس ہوں گے آگ کو ہٹا نہ سکیں گے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں” پہلے ہی شعلے کی لپٹ ان کا سارے گوشت پوست ہڈیوں سے الگ کر کے ان کے قدموں میں ڈال دے گی وہ وہاں بدشکل ہوں گے دانت نکلے ہوں گے ہونٹ اوپر چڑھا ہوا اور نیچے گرا ہوا ہو گا اوپر کا ہونٹ تو تالو تک پہنچا ہوا ہو گا اور نیچے کا ہونٹ ناف تک آ جائے گا “ ۔ (مسند احمد:88/3:ضعیف) المؤمنون
102 المؤمنون
103 المؤمنون
104 المؤمنون
105 مکمل آگاہی کے بعد بھی محروم ہدایت کافروں کو ان کے کفر اور گناہوں پر ایمان نہ لانے پر قیامت کے دن جو ڈانٹ ڈپٹ ہو گی ، اس کا بیان ہو رہا ہے کہ ان سے اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ «رٰسُلًا مٰبَشِّرِینَ وَمُنذِرِینَ لِئَلَّا یَکُونَ لِلنَّاسِ عَلَی اللہِ حُجَّۃٌ بَعْدَ الرٰسُلِ وَکَانَ اللہُ عَزِیزًا حَکِیمًا» ( 4-النساء : 165 ) ”میں نے تمہاری طرف رسول بھیجے تھے ، تم پر کتابیں نازل فرمائی تھیں ، تمہارے شک زائل کر دئیے تھے تمہاری کوئی حجت باقی نہیں رکھی تھی جیسے فرمان ہے کہ تاکہ لوگوں کا عذر رسولوں کے آنے کے بعد باقی نہ رہے“ ۔ اور فرمایا «وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِینَ حَتَّیٰ نَبْعَثَ رَسُولًا» ( 17-الإسراء : 15 ) ”ہم جب تک رسول نہ بھیج دیں عذاب نہیں کرتے“ ایک اور آیت میں ہے «تَکَادُ تَمَیَّزُ مِنَ الْغَیْظِ کُلَّمَا أُلْقِیَ فِیہَا فَوْجٌ سَأَلَہُمْ خَزَنَتُہَا أَلَمْ یَأْتِکُمْ نَذِیرٌ قَالُوا بَلَیٰ قَدْ جَاءَنَا نَذِیرٌ فَکَذَّبْنَا وَقُلْنَا مَا نَزَّلَ اللہُ مِن شَیْءٍ إِنْ أَنتُمْ إِلَّا فِی ضَلَالٍ کَبِیرٍ وَقَالُوا لَوْ کُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا کُنَّا فِی أَصْحَابِ السَّعِیرِ فَاعْتَرَفُوا بِذَنبِہِمْ فَسُحْقًا لِّأَصْحَابِ السَّعِیرِ» ( 67-الملک : 8-11 ) ”جب جہنم میں کوئی جماعت جائے گی اس سے وہاں کے داروغے پوچھیں گے کہ کیا تمہارے پاس اللہ کی طرف سے آگاہ کرنے والے آئے نہ تھے“ ؟ اس وقت یہ حرماں نصیب لوگ اقرار کریں گے کہ بیشک تیری حجت پوری ہو گئی تھی لیکن ہم اپنی بدقسمتی اور سخت دلی کے باعث درست نہ ہوئے اپنی گمراہی پر اڑ گئے اور راہ راست پر نہ چلے ۔ اللہ اب تو ہمیں پھر دنیا کی طرف بھیج دے اگر اب ایسا کریں تو بیشک ہم ظالم ہیں اور مستحق سزا ہیں ، جیسے فرمان ہے «فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوْبِنَا فَہَلْ اِلٰی خُرُوْجٍ مِّنْ سَبِیْلٍ ذٰلِکُم بِأَنَّہُ إِذَا دُعِیَ اللہُ وَحْدَہُ کَفَرْتُمْ وَإِن یُشْرَکْ بِہِ تُؤْمِنُوا فَالْحُکْمُ لِلہِ الْعَلِیِّ الْکَبِیرِ» ( 40- غافر : 12 ، 11 ) ہمیں اپنی تقصیروں کا اقرار ہے کیا اب کسی طرح بھی چھٹکارے کی راہ مل سکتی ہے ؟ لیکن جواب دیا جائے گا کہ اب سب راہیں بند ہیں ۔ دار فنا ہو گیا ، اب دار جزا ہے ۔ توحید کے وقت شرک کیا ، اب پچھتانے سے کیا حاصل ؟ المؤمنون
106 المؤمنون
107 المؤمنون
108 ناکام آرزو کافر جب جہنم سے نکلنے کی آرزو کریں گے تو انہیں جواب ملے گا کہ اب تو تم اسی میں ذلت کے ساتھ پڑے رہو گے خبردار اب یہ سوال مجھ سے نہ کرنا آہ یہ کلام رحمان ہو گا جو دوزخیوں کو ہرکھیل سے مایوس کر دے گا اللہ ہمیں بچائے اے رحمتوں والے اللہ ہمیں اپنے رحم کے دامن میں چھپالے اپنی ڈانٹ ڈپٹ اور غصے سے بچالے آمین ۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جہنمی پہلے تو داروغہ جہنم کو بلائیں گے چالیس سال تک اسے پکارتے رہیں گے لیکن کوئی جواب نہ پائیں گے چالیس برس کے بعد جواب ملے گا کہ تم یہیں پڑے رہو ۔ ان کی پکار کی کوئی وقعت اور داروغہ جہنم کے پاس ہو گی نہ اللہ جل وعلا کے پاس ۔ پھر براہ راست اللہ تعالیٰ سے فریاد کریں گے اور کہیں گے کہ اے اللہ ہم اپنی بدبختی کی وجہ سے ہلاک ہو گئے ہم اپنی گمراہی میں ڈوب گئے اے اللہ اب تو ہمیں یہاں سے نجات دے اگر اب بھی ہم یہی برے کام کریں تو جو چاہے سزا کرنا اس کا جواب انہیں دنیا کی دگنی عمر تک نہ دیا جائے گا پھر فرمایا جائے گا کہ رحمت سے دور ہو کر ذلیل وخوار ہو کر اسی دوزخ میں پڑے رہو اور مجھ سے کلام نہ کرو اب یہ محض مایوس ہو جائیں گے اور گدھوں کی طرح چلاتے اور شور مچاتے جلتے اور بھنتے رہیں گے ۔ اس وقت ان کے چہرے بدل جائیں گے صورتیں مسخ ہو جائیں گی یہاں تک کہ بعض مومن شفاعت کی اجازت لے کر آئیں گے لیکن یہاں کسی کو نہیں پہچانیں گے جہنمی انہیں دیکھ کر کہیں گے کہ میں فلاں ہوں لیکن یہ جواب دیں گے کہ غلط ہے ہم تمہیں نہیں پہچانیں گے ۔ اب دوزخی لوگ اللہ کو پکاریں گے اور وہ جواب پائیں گے جو اوپر مذکور ہوا ہے پھر دوزخ کے دروازے بند کر دئیے جائیں گے اور یہ وہی سڑتے رہیں گے ۔ انہیں شرمندہ اور پشیمان کرنے کے لیے ان کا ایک زبردست گناہ پیش کیا جائے گا کہ وہ اللہ کے پیارے بندوں کا مذاق اڑتے تھے اور ان کی دعاؤں پر دل لگی کرتے تھے وہ مومن اپنے رب سے بخشش و رحمت طلب کرتے تھے اسے ارحم الراحمین کہہ کر پکارتے تھے لیکن یہ اسے ہنسی میں اڑاتے تھے اور ان کے بغض میں ذکر رب چھوڑ بیٹھتے تھے اور ان کی عبادتوں اور دعاؤں پر ہنستے تھے جیسے فرمان ہے «إِنَّ الَّذِینَ أَجْرَمُوا کَانُوا مِنَ الَّذِینَ آمَنُوا یَضْحَکُونَ وَإِذَا مَرٰوا بِہِمْ یَتَغَامَزُونَ» (83-المطففین:29،30) ، یعنی گنہگار ایمانداروں سے ہنستے تھے اور انہیں مذاق میں اڑاتے تھے ۔ اب ان سے اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں نے اپنے ایماندار صبر گزار بندوں کو بدلہ دے دیا ہے وہ سعادت سلامت نجات وفلاح پا چکے ہیں اور پورے کامیاب ہو چکے ہیں ۔ المؤمنون
109 المؤمنون
110 المؤمنون
111 المؤمنون
112 مختصر زندگی طویل گناہ بیان ہو رہا ہے کہ دنیا کی تھوڑی سے عمر میں یہ بدکاریوں میں مشغول ہو گئے اگر نیکو کار رہتے تو اللہ کے نیک بندوں کے ساتھ ان نیکیوں کا بڑا اجر پاتے آج ان سے سوال ہو گا کہ تم دنیا میں کس قدر رہے جواب دیں گے کہ بہت ہی کم ایک دن یا اس سے بھی کم حساب داں لوگوں سے دریافت کر لیا جائے جواب ملے گا کہ اتنی مدت ہو یا زیادہ لیکن واقع میں وہ آخرت کی مدت کے مقابلے میں بہت ہی کم ہے اگر تم اسی کو جانتے ہوتے تو اس فانی کو اس جاودانی پر ترجیح نہ دیتے اور برائی کر کے اس تھوڑی سی مدت میں اس قدر اللہ کو ناراض نہ کر دیتے وہ ذرا سا وقت اگر صبر وضبط سے اطاعت الٰہی میں بسر کر دیتے تو آج راج تھا ۔ خوشی ہی خوشی تھی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب جنتی دوزخی اپنی اپنی جگہ پہنچ جائیں گے تو جناب باری عزوجل مومنوں سے پوچھے گا کہ تم دنیا میں کتنی مدت رہے ؟ وہ کہیں گے یہی کوئی ایک آدھ دن اللہ فرمائے گا پھر تو بہت ہی اچھے رہے کہ اتنی سی دیر کی نیکیوں کا یہ بدلہ پایا کہ میری رحمت رضا مندی اور جنت حاصل کر لی ۔ جہاں ہمیشگی ہے پھر جہنمیوں سے یہ سوال ہو گا وہ بھی اتنی ہی مدت بتائیں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا تمہاری تجارت بڑی گھاٹے والی ہوئی کہ اتنی سی مدت میں تم نے میری ناراضگی غصہ اور جہنم خرید لیا ، جہاں تم ہمیشہ پڑے رہو گے کیا تم لوگ یہ سمجھے ہوئے ہو کہ تم بے کار بے مقصد و ارادہ پیدا کئے گے ہو ؟ کوئی حکمت تمہاری پیدائش میں نہیں ؟ محض کھیل کے طور پر تمہیں پیدا کر دیا گیا ہے ؟ کہ مثل جانوروں کے تم اچھل کودتے پھرو ثواب عذاب کے مستحق ہو یہ گمان غلط ہے تم عبادت کے لیے اللہ کے حکموں کی بجا آوری کے لیے پیدا کیے گئے ہو ۔ کیا تم یہ خیال کر کے نچنت ہو گے ہو گئے ہو کہ تمہیں ہماری طرف لوٹنا ہی نہیں ؟ یہ بھی غلط خیال ہے جیسے فرمایا «اَیَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَنْ یٰتْرَکَ سُدًی» ( 75- القیامۃ : 36 ) کیا لوگ یہ گماں کرتے ہیں کہ وہ مہمل چھوڑ دئیے جائیں گے اللہ کی بات اس سے بلندوبرتر ہے کہ وہ کوئی عبث کام کرے بے کار بنائے ، بگاڑے وہ سچا بادشاہ اس سے پاک ہے اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ عرش عظیم کا مالک ہے جو تمام مخلوق پر مثل چھت کے چھایا ہوا ہے وہ بہت بھلا اور عمدہ ہے خوش شکل اور نیک منظر ہے جیسے فرمان ہے ”زمین میں ہم نے ہرجوڑا عمدہ پیدا کر دیا ہے “ ۔ خلیفۃ المسلمین امیر المؤمنین عمر بن العزیر رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے آخری خطبے میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا کہ لوگو ! تم بے کار اور عبث پیدا نہیں کئے گئے اور تم مہمل چھوڑ نہیں دیئے گئے یاد رکھو کہ وعدے کا ایک دن ہے جس میں خود اللہ تعالیٰ فیصلے کرنے اور حکم فرمانے کیلئے نازل ہو گا ۔ وہ نقصان میں پڑا اس نے خسارہ اٹھایا وہ بے نصیب اور بدبخت ہو گیا ، وہ محروم اور خالی ہاتھ رہا ، جو اللہ کی رحمت سے دور ہو گیا اور جنت سے روک دیا گیا ، جس کی چوڑائی مثل کل زمینوں اور آسمانوں کے ہے ۔ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ کل قیامت کے دن عذاب الٰہی سے وہ بچ جائے گا ، جس کے دل میں اس دن کا خوف آج ہے اور جو اس فانی دنیا کو اس باقی آخرت پر قربان کر رہا ہے ، اس تھوڑے کو اس بہت کے حاصل کرنے کیلئے بے تکان خرچ کر رہا ہے اور اپنے اس خوف کو امن سے بدلنے کے اسباب مہیا کر رہا ہے ۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ تم سے گزشتہ لوگ ہلاک ہوئے ، جن کے قائم مقام اب تم ہو ۔ اسی طرح تم بھی مٹا دیئے جاؤ گے اور تمہارے بدلے آئندہ آنے والے آئیں گے یہاں تک کہ ایک وقت آئے گا کہ ساری دنیا سمٹ کر اس خیرالوراثین کے دربار میں حاضری دے گی ۔ لوگو خیال تو کرو کہ تم دن رات اپنی موت سے قریب ہو رہے ہو اور اپنے قدموں سے اپنی گور کی طرف جا رہے ہو ، تمہارے پھل پک رہے ہیں ، تمہاری امیدیں ختم ہو رہی ہیں ، تمہاریں عمریں پوری ہو رہی ہیں ۔ تمہاری اجل نزدیک آ گئی ہے ، تم زمین کے گڑھوں میں دفن کر دیئے جاؤ گے ، جہاں نہ کوئی بستر ہو گا ، نہ تکیہ ، دوست احباب چھوٹ جائیں گے ، حساب کتاب شروع ہو جائے گا ، اعمال سامنے آ جائیں گے ، جو چھوڑ آئے وہ دوسروں کا ہو جائے گا ۔ جو آگے بھیج چکے ، اسے سامنے پاؤ گے ، نیکیوں کے محتاج ہو گے ، بدیوں کی سزائیں بھگتو گے ۔ اے اللہ کے بندو ! اللہ سے ڈرو ، اس کی باتیں سامنے آ جائیں اس سے پہلے موت تم کو اچک لے جائے ۔ اس سے پہلے جواب دہی کیلئے تیار ہو جاؤ ، اتنا کہا تھا کہ رونے کے غلبہ نے آواز بلند کر دی ۔ منہ پر چادر کا کونہ ڈال کر رونے لگے اور حاضرین کی بھی آہ و زاری شروع ہو گئی ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ ایک بیمار شخص جسے کوئی جن ستا رہا تھا ، سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو آپ نے «اَفَحَسِبْتُمْ» سے سورت کے ختم تک کی آیتیں اس کے کان میں تلاوت فرمائیں وہ اچھا ہو گیا ۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” عبداللہ رضی اللہ عنہما تم نے اس کے کان میں کیا پڑھا تھا ؟ ” آپ رضی اللہ عنہما نے بتایا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تم نے یہ آیتیں اس کے کان میں پڑھ کر اسے جلا دیا ۔ واللہ ان آیتوں کو اگر کوئی باایمان اور بایقین شخص کسی پہاڑ پر پڑھے تو وہ بھی اپنی جگہ سے ٹل جائے“ ۔ (ابو نعیم فی الحلیۃ 70/1:مرفوع) ابونعیم نے روایت کی ہے کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر میں بھیجا اور حکم فرمایا کہ ہم صبح شام «اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰکُمْ عَبَثًا وَّاَنَّکُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ» ( 23- المؤمنون : 115 ) پڑھتے رہیں ہم نے برابر اس کی تلاوت دونوں وقت جاری رکھی ۔ الحمدللہ ہم سلامتی اور غنیمت کے ساتھ واپس لوٹے ۔ (الدر المنثور للسیوطی،34/5) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ”میری امت کا ڈوبنے سے بچاؤ کشتیوں میں سوار ہونے کے وقت یہ کہنا ہے ۔ (طبرانی کبیر:124/12:ضعیف) «وَمَا قَدَرُوا اللہَ حَقَّ قَدْرِہِ وَالْأَرْضُ جَمِیعًا قَبْضَتُہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَالسَّمَاوَاتُ مَطْوِیَّاتٌ بِیَمِینِہِ سُبْحَانَہُ وَتَعَالَیٰ عَمَّا یُشْرِکُونَ» ( 39-الزمر : 67 ) «بِسْمِ اللہِ مَجْرَاہَا وَمُرْسَاہَا إِنَّ رَبِّی لَغَفُورٌ رَّحِیمٌ» ( 11- ہود : 41 ) “ ۔ المؤمنون
113 المؤمنون
114 المؤمنون
115 المؤمنون
116 المؤمنون
117 دلائل کے ساتھ مشرک کا موحد ہونا مشرکوں کو اللہ واحد ڈرا رہا ہے اور بیان فرما رہا ہے کہ ان کے پاس ان کے شرک کی کوئی دلیل نہیں ۔ یہ جملہ معترضہ ہے اور جواب شرط «فَاِنَّمَا» والے جملے کے ضمن میں ہے یعنی اس کا حساب اللہ کے ہاں ہے ۔ کافر اس کے پاس کامیاب نہیں ہو سکتے ۔ وہ نجات سے محروم رہ جاتے ہیں ۔ ایک شخص سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ تو کس کس کو پوجتا ہے ؟ اس نے کہا صرف اللہ تعالیٰ جل شانہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کام آنے والا وہی ہے تو پھر اس کے ساتھ ان دوسروں کی عبادت کی کیا ضرورت ہے ؟ کیا تیرا خیال ہے کہ وہ اکیلا تجھے کافی نہ ہو گا ؟ جب اس نے کہا یہ تو نہیں کہہ سکتا ، البتہ ارادہ یہ ہے کہ اوروں کی عبادت کر کے اس کا پورا شکر بجا لاسکوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، سبحان اللہ ! علم کے ساتھ یہ بےعلمی ؟ جانتے ہو اور پھر انجان بنے جاتے ہو ؟ اب کوئی جواب بن نہ پڑا ۔ چنانچہ وہ مسلمان ہو جانے کے بعد کہا کرتے تھے مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قائل کر لیا ۔ یہ حدیث مرسل ہے ۔ ترمذی میں سنداً بھی مروی ہے ۔ پھر ایک دعا تعلیم فرمائی گئی ۔ غفر کے معنی جب وہ مطلق ہو تو گناہوں کو مٹا دینے اور انہیں لوگوں سے چھپا دینے کے آتے ہیں ۔ اور رحمت کے معنی صحیح راہ پر قائم رکھنے اور اچھے اقوال و افعال کی توفیق دینے کے ہوتے ہیں ۔ الحمدللہ سورۃ مومنون کی تفسیر ختم ہوئی ۔ المؤمنون
118 المؤمنون
0 النور
1 مسئلہ رجم اس بیان سے کہ ’ ہم نے اس سورت کو نازل فرمایا ہے ‘ ، اس سورت کی بزرگی اور ضرورت کو ظاہر کرتا ہے ، لیکن اس سے یہ مقصود نہیں کہ اور سورتیں ضروری اور بزرگی والی نہیں ۔ «فَرَضْنٰھَا» کے معنی مجاہد و قتادہ رحمہ اللہ علیہم نے یہ بیان کئے ہیں کہ ” حلال و حرام ، امر و نہی اور حدود وغیرہ کا اس میں بیان ہے “ ۔ امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ” اسے ہم نے تم پر اور تمہارے بعد والوں پر مقرر کر دیا ہے ۔ اس میں صاف صاف ، کھلے کھلے ، روشن احکام بیان فرمائے ہیں تاکہ تم نصیحت و عبرت حاصل کرو ، احکام الٰہی کو یاد رکھو اور پھر ان پر عمل کرو “ ۔ پھر زناکاری کی شرعی سزا فرمائی ، زنا کار یا تو کنوارا ہوگا یا شادی شدہ ہوگا یعنی وہ جو حریت بلوغت اور عقل کی حالت میں نکاح شرعی کے ساتھ کسی عورت سے ملا ہو ۔ اور جمہور علماء کے نزدیک اسے ایک سال کی جلا وطنی بھی دی جائے گی ۔ ہاں امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ یہ جلا وطنی امام کی رائے پر ہے اگر وہ چاہے دے چاہے نہ دے ۔ جمہور کی دلیل تو بخاری مسلم کی وہ حدیث ہے جس میں ہے کہ { دو اعرابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ، ایک نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرا بیٹا اس کے ہاں ملازم تھا وہ اس کی بیوی سے زنا کربیٹھا ، میں نے اس کے فدیے میں ایک سو بکریاں اور ایک لونڈی دی ۔ پھر میں نے علماء سے دریافت کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ میرے بیٹے پر شرعی سزا سو کوڑوں کی ہے اور ایک سال کی جلا وطنی اور اس کی بیوی پر رجم یعنی سنگ ساری ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { سنو ! میں تم میں اللہ کی کتاب کا صحیح فیصلہ کرتا ہوں ۔ لونڈی اور بکریاں تو تجھے واپس دلوا دی جائیں گی اور تیرے بچے پر سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی ہے اور اے انیس تو اس کی بیوی کا بیان لے ۔ [ یہ انیس رضی اللہ عنہ قبیلہ اسلم کے ایک شخص تھے ] ۔ اگر وہ اپنی سیاہ کاری کا اقرار کرے تو تو اسے سنگسار کر دینا } ۔ چنانچہ اس بیوی صاحبہ رضی اللہ عنہا نے اقرار کیا اور انہیں رجم کر دیا گیا رضی اللہ عنہا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2314) اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ کنوارے پر سو کوڑوں کے ساتھ ہی سال بھر تک کی جلا وطنی بھی ہے اور اگر شادی شدہ ہے تو وہ رجم کر دیا جائے گا ۔ چنانچہ موطا مالک میں ہے کہ عمر رضی اللہ عنہا نے اپنے ایک خطبہ میں حمد و ثناء کے بعد فرمایا کہ ” لوگو ! اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی کتاب نازل فرمائی ۔ اس کتاب اللہ میں رجم کرنے کے حکم کی آیت بھی تھی جسے ہم نے تلاوت کی ، یاد کیا ، اس پر عمل بھی کیا خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی رجم ہوا اور ہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد رجم کیا ۔ مجھے ڈر لگتا ہے کہ کچھ زمانہ گزرنے کے بعد کوئی یہ نہ کہنے لگے کہ ہم رجم کو کتاب اللہ میں نہیں پاتے ، ایسا نہ ہو کہ وہ اللہ کے اس فریضے کو جسے اللہ نے اپنی کتاب میں اتارا ، چھوڑ کر گمراہ ہو جائیں ۔ کتاب اللہ میں رجم کا حکم مطلق حق ہے ،اس پر جو زنا کرے اور شادی شدہ ہو خواہ مرد ہو ، خواہ عورت ہو ۔ جب کہ اس کے زنا پر شرعی دلیل ہو یا حمل ہو یا اقرار ہو “ ۔ ۱؎ (موطا:823/2) یہ حدیث بخاری و مسلم میں اس سے ہی مطول ہے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2462) مسند احمد میں ہے کہ ” آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے خطبے میں فرمایا لوگ کہتے ہیں کہ رجم یعنی سنگساری کا مسئلہ ہم قرآن میں نہیں پاتے ، قرآن میں صرف کوڑے مارنے کا حکم ہے ۔ یاد رکھو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کیا اور ہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد رجم کیا اگر مجھے یہ خوف نہ ہوتا کہ لوگ کہیں گے ، قرآن میں جو نہ تھا ، عمر [ رضی اللہ عنہ ] نے لکھ دیا تو میں آیت رجم کو اسی طرح لکھ دیتا ، جس طرح نازل ہوئی تھی “ ۔ ۱؎ (مسند احمد:29/1:صحیح) یہ حدیث نسائی شریف میں بھی ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے خطبے میں رجم کا ذکر کیا اور فرمایا ” رجم ضروری ہے وہ اللہ تعالیٰ کی حدوں میں سے ایک حد ہے ، خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کیا اور ہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد رجم کیا ۔ اگر لوگوں کے اس کہنے کا کھٹکا نہ ہوتا کہ عمر [ رضی اللہ عنہ ] نے کتاب اللہ میں زیادتی کی جو اس میں نہ تھی تو میں کتاب اللہ کے ایک طرف آیت رجم لکھ دیتا ۔ عمر بن خطاب عبداللہ بن عوف اور فلاں اور فلاں کی شہادت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کیا اور ہم نے بھی رجم کیا ۔ یاد رکھو تمہارے بعد ایسے لوگ آنے والے ہیں جو رجم کو اور شفاعت کو اور عذاب قبر کو جھٹلائیں گے ، اور اس بات کو بھی کہ کچھ لوگ جہنم سے اس کے بعد نکالے جائیں گے کہ وہ کوئلے ہوں گے “ ۔ ۱؎ (مسند احمد:23/1:اسنادہ ضعیف) مسند احمد میں ہے کہ امیرالمونین عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ، ” رجم کے حکم کے انکار کرنے کی ہلاکت سے بچنا “ ۔ ۱؎ (مسند احمد:36/1:صحیح) امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ بھی اسے لائے ہیں اور اسے صحیح کہا ہے ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:1431،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابو یعلیٰ موصلی میں ہے کہ لوگ مروان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ، سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بھی بیٹھے ہوئے تھے آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ، ” ہم قرآن میں آیت رجم پڑھتے تھے کہ شادی شدہ مرد یا عورت جب زنا کاری کریں تو انہیں ضرور رجم کردو “ مروان نے کہا کہ تم نے پھر اس آیت کو قرآن میں کیوں نہ لکھا ؟ فرمایا سنو ! ہم میں جب اس کا ذکر چلا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” میں تمہاری تشفی کر دیتا ہوں ، { ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا ، اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی ذکر کیا اور رجم کا بیان کیا ۔ کسی نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم رجم کی آیت لکھ لیجئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، { اب تو میں اسے لکھ نہیں سکتا ، یا اسی کے مثل } } ۔ ۱؎ (نسائی فی السنن الکبری:7145:) یہ روایت نسائی میں بھی ہے ۔ پس ان سب احادیث سے ثابت ہوا کہ رجم کی آیت پہلے لکھی ہوئی تھی پھر تلاوت میں منسوخ ہو گئی اور حکم باقی رہا ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کی بیوی کے رجم کا حکم دیا ، جس نے اپنے ملازم سے بدکاری کرائی تھی ۔ اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ماعز رضی اللہ عنہ کو اور ایک غامدیہ عورت کو رجم کرایا ۔ ان سب واقعات میں یہ مذکور نہیں کہ رجم سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کوڑے بھی لگوائے ہوں ۔ بلکہ ان سب صحیح اور صاف احادیث میں صرف رجم کا ذکر ہے کسی میں بھی کوڑوں کا بیان نہیں ۔ اسی لیے جمہور علماء اسلام کا یہی مذہب ہے ۔ ابوحنیفہ رحمہ اللہ ، مالک رحمہ اللہ ، شافعی رحمہ اللہ بھی اسی طرف گئے ہیں ۔ امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” پہلے اسے کوڑے مارنے چاہئیں ، پھر رجم کرنا چاہیئے تاکہ قرآن و حدیث دونوں پر عمل ہو جائے جیسے کہ امیر المؤمنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ جب آپ رضی اللہ عنہ کے پاس سراجہ لائی گئی جو شادی شدہ عورت تھی اور زناکاری میں آئی تھی تو آپ رضی اللہ عنہ نے جمعرات کے دن تو اسے کوڑے لگوائے اور جمعہ کے دن سنگسار کرا دیا ، اور فرمایا کہ ” کتاب اللہ پر عمل کر کے میں نے کوڑے پٹوائے اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کر کے سنگسار کرایا “ ۔ مسند احمد ، سنن اربعہ اور مسلم شریف میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { میری بات لے لو ، میری بات لے لو ، اللہ تعالیٰ نے ان کیلئے راستہ نکال دیا ۔ کنوارا کنواری کے ساتھ زنا کر لے تو سو کوڑے اور سال بھر کی جلا وطنی اور شادی شدہ شادی شدہ کے ساتھ کرے تو رجم } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1690) پھر فرمایا ’ اللہ کے حکم کے ماتحت اس حد کے جاری کرنے میں تمہیں ان پر ترس اور رحم نہ کھانا چاہیئے ‘ ۔ دل کا رحم اور چیز ہے اور وہ تو ضرور ہوگا لیکن حد کے جاری کرنے میں امام کا سزا میں کمی کرنا اور سستی کرنا بری چیز ہے ۔ جب امام یعنی سلطان کے پاس کوئی ایسا واقعہ جس میں حد ہو ، پہنچ جائے ، تو اسے چاہیئے کہ حد جاری کرے اور اسے نہ چھوڑے ۔ حدیث میں ہے { آپس میں حدود سے درگزر کرو ، جو بات مجھ تک پہنچی اور اس میں حد ہو تو وہ تو واجب اور ضروری ہوگئی } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4376،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اور حدیث میں ہے کہ { حد کا زمین میں قائم ہونا ، زمین والوں کیلئے چالیس دن کی بارش سے بہتر ہے } ۔ ۱؎ (سنن نسائی:4909،قال الشیخ الألبانی:حسن) یہ بھی قول ہے کہ ترس کھا کر ، مار کو نرم نہ کر دو بلکہ درمیانہ طور پر کوڑے لگاؤ ، یہ بھی نہ ہو کہ ہڈی توڑ دو ۔ تہمت لگانے والے کی حد کے جاری کرنے کے وقت اس کے جسم پر کپڑے ہونے چاہئیں ۔ ہاں زانی پر حد کے جاری کرنے کے وقت کپڑے نہ ہوں ۔ یہ قول حماد بن ابوسلیمان رحمتہ اللہ کا ہے ۔ اسے بیان فرما کر آپ رحمہ اللہ نے یہی جملہ آیت «وَّ لَا تَاۡخُذۡکُمۡ بِہِمَا رَاۡفَۃٌ فِیۡ دِیۡنِ اللّٰہِ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ لۡیَشۡہَدۡ عَذَابَہُمَا طَآئِفَۃٌ مِّنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ» ۱؎ (24-النور:2) ، پڑھا تو سعید بن ابی عروبہ نے پوچھا یہ حکم میں ہے ؟ کہا ہاں حکم میں ہے اور کوڑوں میں یعنی حد کے قائم کرنے میں اور سخت چوٹ مارنے میں ۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کی لونڈی نے جب زنا کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے اس کے پیروں پر اور کمر پر کوڑے مارے تو نافعہ نے اسی آیت کا یہ جملہ تلاوت کیا کہ اللہ کی حد کے جاری کرنے میں تمہیں ترس نہ آنا چاہیئے تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” کیا تیرے نزدیک میں نے اس پر کوئی ترس کھایا ہے ؟ سنو اللہ نے اس کے مار ڈالنے کا حکم نہیں دیا نہ یہ فرمایا ہے کہ اس کے سر پر کوڑے مارے جائیں ۔ میں نے اسے طاقت سے کوڑے لگائے ہیں اور پوری سزا دی ہے “ ۔ پھر فرمایا اگر تمہیں اللہ پر اور قیامت پر ایمان ہے تو تمہیں اس حکم کی بجا آوری کرنی چاہیئے اور زانیوں پر حدیں قائم کرنے میں پہلو تہی نہ کرنی چاہیئے ۔ اور انہیں ضرب بھی شدید مارنی چاہیئے لیکن ہڈی توڑنے والی نہیں تاکہ وہ اپنے اس گناہ سے باز رہیں اور ان کی یہ سزا دوسروں کیلئے بھی عبرت بنے ۔ رجم بری چیز نہیں ۔ ایک حدیث میں ہے کہ { ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بکری کو زبح کرتا ہوں لیکن میرا دل دکھتا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اس رحم پر بھی تجھے اجر ملے گا } } ۔ ۱؎ (سلسلۃ احادیث صحیحہ البانی:26:صحیح) پھر فرماتا ہے ’ ان کی سزا کے وقت مسلمانوں کا مجمع ہونا چاہیئے تاکہ سب کے دل میں ڈر بیٹھ جائے اور زانی کی رسوائی بھی ہو تاکہ اور لوگ اس سے رک جائیں ‘ ۔ اسے اعلانیہ سزا دی جائے ، مخفی طور پر مار پیٹ کر نہ چھوڑا جائے ۔ ایک شخص اور اس سے زیادہ بھی ہوجائیں تو جماعت ہوگئی اور آیت پر عمل ہوگیا اسی کو لے کر امام محمد کا مذھب ہے کہ ایک شخص بھی طائفہ ہے ۔ عطا رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ دو ہونے چاہئیں ۔ سعید بن جبیر رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں چار ہوں ۔ زہری رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں تین یا تین سے زیادہ ۔ امام مالک رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں چار اور اس سے زیادہ کیونکہ زنا میں چار سے کم گواہ نہیں ہیں ، چار ہوں یا اس سے زیادہ ۔ امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کا مذہب بھی یہی ہے ۔ ربیعہ رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں پانچ ہوں ۔ حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک دس ۔ قتادہ رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں ایک جماعت ہو تاکہ نصیحت ، عبرت اور سزا ہو ۔ نصرت بن علقمہ رحمتہ اللہ کے نزدیک جماعت کی موجودگی کی علت یہ بیان کی ہے کہ وہ ان لوگوں کیلئے جن پر حد جاری کی جا رہی ہے دعا مغفرت و رحمت کریں ۔ النور
2 النور
3 زانی اور زانیہ اور اخلاقی مجرم اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ زانی سے زناکاری پر رضامند وہی عورت ہوتی ہے جو بدکار ہو یا مشرکہ ہو کہ وہ اس برے کام کو عیب ہی نہیں سمجھتی ۔ ایسی بدکار عورت سے وہی مرد ملتا ہے جو اسی جیسا بدچلن ہو یا مشرک ہو جو اس کی حرمت کا قائل ہی نہ ہو ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بہ سند صحیح مروی ہے کہ ” یہاں نکاح سے مراد جماع ہے یعنی زانیہ عورت سے زنا کار یا مشرک مرد ہی زنا کرتا ہے “ ۔ یہی قول مجاہد ، عکرمہ ، سعید بن جبیر ، عروہ بن زبر ، ضحاک ، مکحول ، مقاتل بن حیان رحمہ اللہ علیہم اور بہت سے بزرگ مفسرین سے مروی ہے ۔ مومنوں پر یہ حرام ہے یعنی زناکاری کرنا اور زانیہ عورتوں سے نکاح کرنا یا عفیفہ اور پاک دامن عورتوں کو ایسے زانیوں کے نکاح میں دینا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ” بدکار عورتوں سے نکاح کرنا مسلمانوں پر حرام ہے “ جیسے اور آیت میں ہے «مُحْصَنٰتٍ غَیْرَ مُسٰفِحٰتٍ وَّلَا مُتَّخِذٰتِ اَخْدَانٍ» ۱؎ (4-النساء:25) یعنی ’ مسلمانوں کو جن عورتوں سے نکاح کرنا چاہیئے ان میں یہ تینوں اوصاف ہونے چاہئیں وہ پاک دامن ہوں ، وہ بدکار نہ ہوں ، نہ چوری چھپے برے لوگوں سے میل ملاپ کرنے والی ہوں ‘ ۔ یہی تینوں وصف مردوں میں بھی ہونے کا بیان کیا گیا ہے ۔ اسی لیے امام احمد رحمتہ اللہ علیہ کا فرمان ہے کہ ” نیک اور پاک دامن مسلمان کا نکاح بدکار عورت سے صحیح نہیں ہوتا جب تک کہ وہ توبہ نہ کرلے ہاں بعد از توبہ عقد نکاح درست ہے ۔ اسی طرح بھولی بھالی ، پاک دامن ، عفیفہ عورتوں کا نکاح زانی اور بدکار لوگوں سے منعقد ہی نہیں ہوتا ، جب تک وہ سچے دل سے اپنے اس ناپاک فعل سے توبہ نہ کر لے کیونکہ فرمان الٰہی ہے کہ ’ یہ مومنوں پر حرام کر دیا گیا ہے ‘ ۔ { ایک شخض نے ام مھزول نامی ایک بدکار عورت سے نکاح کر لینے کی اجازت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی آیت پڑھ کر سنائی } ۔ ۱؎ (مسند احمد:159/2:حسن) ایک اور روایت میں ہے کہ اس کی طلب اجازت پر یہ آیت اتری ۔ ۱؎ (مسند احمد:225/2:صحیح) ترمذی شریف میں ہے کہ { ایک صحابی جن کا نام سیدنا مرثد بن ابو مرثد رضی اللہ عنہ تھا ، یہ مکہ سے مسلمان قیدیوں کو اٹھالایا کرتے تھے اور مدینے پہنچا دیا کرتے تھے ۔ عناق نامی ایک بدکار عورت مکے میں رہا کرتی تھی ۔ جاہلیت کے زمانے میں ان کا اس عورت سے تعلق تھا ۔ سیدنا مرثد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک مرتبہ میں ایک قیدی کو لانے کیلئے مکہ شریف گیا ، میں ایک باغ کی دیوار کے نیچے پہنچا رات کا وقت تھا چاندنی چٹکی ہوئی تھی ۔ اتفاق سے عناق آ پہنچی اور مجھے دیکھ لیا بلکہ پہچان بھی لیا اور آواز دے کر کہا کیا مرثد ہے ؟ میں نے کہا ہاں مرثد ہوں ۔ اس نے بڑی خوشی ظاہر کی اور مجھ سے کہنے لگی چلو رات میرے ہاں گزارنا ۔ میں نے کہا عناق اللہ تعالیٰ نے زناکاری حرام کردی ہے ۔ جب وہ مایوس ہوگئی تو اس نے مجھے پکڑوانے کیلئے غل مچانا شروع کیا کہ اے خیمے والو ہوشیار ہو جاؤ دیکھو چور آ گیا ہے ۔ یہی ہے جو تمہارے قیدیوں کو چرا کر لے جایا کرتا ہے ۔ لوگ جاگ اٹھے اور آٹھ آدمی مجھے پکڑنے کیلئے میرے پیچھے دوڑے ۔ میں مٹھیاں بند کر کے خندق کے راستے بھاگا اور ایک غار میں جا چھپا ۔ یہ لوگ بھی میرے پیچھے ہی پیچھے غار پر آ پہنچے لیکن میں انہیں نہ ملا ۔ یہ وہیں پیشاب کرنے کو بیٹھے واللہ ان کا پیشاب میرے سر پر آ رہا تھا لیکن اللہ نے انہیں اندھا کردیا ۔ ان کی نگاہیں مجھ پر نہ پڑیں ، ادھر ادھر ڈھونڈ بھال کر واپس چلے گئے ۔ میں نے کچھ دیر گزار کر جب یہ یقین کرلیا کہ وہ پھر سوگئے ہوں گے تو یہاں سے نکلا ، پھر مکے کی راہ لی اور وہیں پہنچ کر اس مسلمان قیدی کو اپنی کمر پر چڑھایا اور وہاں سے لے بھاگا ، چونکہ وہ بھاری بدن کے تھے ، میں جب اذخر میں پہنچا تو تھک گیا میں نے انہیں کمر سے اتارا ان کے بندھن کھول دیئے اور آزاد کر دیا ۔ } { اب اٹھاتا چلاتا مدینے پہنچ گیا ، چونکہ عناق کی محبت میرے دل میں تھی ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت چاہی کہ میں اس سے نکاح کر لوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو رہے ۔ میں نے دوبارہ یہی سوال کیا پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے اور یہ آیت اتری ، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اے مرثد زانیہ سے نکاح زانی یا مشرک ہی کرتا ہے تو اس سے نکاح کا ارادہ چھوڑ دے } } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3177،قال الشیخ الألبانی:حسن) امام ابوداؤد اور نسائی بھی اسے اپنی سنن کی کتاب النکاح میں لائے ہیں ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2051،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابوداؤد وغیرہ میں ہے { زانی جس پر کوڑے لگ چکے ہوں وہ اپنے جیسے سے ہی نکاح کر سکتا ہے } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2052،قال الشیخ الألبانی:صحیح) مسند امام احمد میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ، { تین قسم کے لوگ ہیں جو جنت میں نہ جائیں گے اور جن کی طرف اللہ تعالیٰ نظر رحمت سے نہ دیکھے گا ۔ [١] ماں باپ کا نافرمان ۔ [٢] وہ عورتیں جو مردوں کی مشابہت کریں ۔ [٣] اور دیوث ۔ اور تین قسم کے لوگ ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ نظر رحمت سے نہ دیکھے گا ، [١] ماں باپ کا نافرمان [٢] ہمیشہ کا نشے کا عادی [٣] اور اللہ کی راہ میں دے کر احسان جتانے والا } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:134/2:حسن) مسند میں ہے { آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تین قسم کے لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے جنت حرام کر دی ہے [١] ہمیشہ کا شرابی ، [٢] ماں باپ کا نافرمان ۔ [٣] اور اپنے گھر والوں میں خباثت کو برقرار رکھنے والا } ۔ ۱؎ (مسند احمد:29/2:صحیح بالشواہد) ابوداؤد طیالسی میں ہے { جنت میں کوئی دیوث نہیں جائے گا } ۔ ۱؎ (مسند طیالسی:642:ضعیف) ابن ماجہ میں ہے { جو شخص اللہ تعالیٰ سے پاک صاف ہو کر ملنا چاہتا ہے ، اسے چاہیئے کہ پاکدامن عورتوں سے نکاح کرے جو لونڈیاں نہ ہوں } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:1862،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) اس کی سند ضعیف ہے ۔ دیوث کہتے ہیں بے غیرت شخص کو ۔ نسائی میں ہے کہ { ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا مجھے اپنی بیوی سے بہت ہی محبت ہے لیکن اس میں یہ عادت ہے کہ کسی ہاتھ کو واپس نہیں لوٹاتی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { طلاق دیدے } ۔ اس نے کہا مجھے تو صبر نہیں آنے کا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { پھر جا اس سے فائدہ اٹھا } } ۔ (سنن نسائی:3231،قال الشیخ الألبانی:حسن) لیکن یہ حدیث ثابت نہیں اس کا راوی عبدالکریم قوی نہیں ۔ دوسرا راوی اس کا ہارون ہے جو اس سے قوی ہے مگر ان کی روایت مرسل ہے اور یہی ٹھیک بھی ہے ۔ یہی روایت مسند میں مروی ہے لیکن امام نسائی رحمتہ اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ مسند کرنا خطا ہے اور صواب یہی ہے کہ یہ مرسل ہے ۔ یہ حدیث کی اور کتابوں میں ہے اور سندوں سے بھی مروی ہے ۔ امام احمد رحمہ اللہ تو اسے منکر کہتے ہیں ۔ امام ابن قتیبہ رحمہ اللہ اس کی تاویل کرتے ہیں کہ یہ جو کہا ہے کہ وہ کسی چھونے والے کے ہاتھ کو لوٹاتی نہیں اس سے مراد بے حد سخاوت ہے کہ وہ کسی سائل سے انکار ہی نہیں کرتی ۔ لیکن اگر یہی مطلب ہوتا تو حدیث میں بجائے «لَامِسٍ» کے لفظ کے «مُلْتَمِسٍ» کا لفظ ہونا چاہیئے تھا ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کی خصلت ایسی معلوم ہوتی تھی نہ یہ کہ وہ برائی کرتی تھی کیونکہ اگر یہی عیب اس میں ہوتا تو پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس صحابی رضی اللہ کو اس کے رکھنے کی اجازت نہ دیتے کیونکہ یہ تو دیوثی ہے ۔ جس پر سخت وعید آئی ہے ۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ خاوند کو اس کی عادت ایسی لگی ہو اور اس کا اندیشہ ظاہر کیا ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشورہ دیا کہ پھر طلاق دیدو لیکن جب اس نے کہا کہ مجھے اس سے بہت ہی محبت ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بسانے کی اجازت دیدی کیونکہ محبت تو موجود ہے ۔ اسے ایک خطرے کے صرف وہم پر توڑ دینا ممکن ہے کوئی برائی پیدا کر دے ۔ «وَاللہُ سُبْحَانَہُ وَ تَعَالیٰ اَعْلَمُ» ۔ الغرض زانیہ عورتوں سے پاک دامن مسلمانوں کو نکاح کرنا منع ہے ہاں جب وہ توبہ کر لیں تو نکاح حلال ہے ۔ چنانچہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے پوچھا کہ ایک ایسی ہی واہی عورت سے میرا برا تعلق تھا ، لیکن اب اللہ تعالیٰ نے ہمیں توبہ کی توفیق دی تو میں چاہتا ہوں کہ اس سے نکاح کرلوں لیکن بعض لوگ کہتے ہیں کہ زانی ہی زانیہ اور مشرکہ سے نکاح کرتے ہیں ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” اس آیت کا یہ مطلب نہیں تم اس سے اب نکاح کرسکتے ہو ، جاؤ اگر کوئی گناہ ہو تو میرے ذمے “ ۔ حضرت یحییٰ رحمہ اللہ سے جب یہ ذکر آیا تو آپ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ” یہ آیت منسوخ ہے اس کے بعد کی آیت «وَاَنْکِحُوا الْاَیَامٰی مِنْکُمْ وَالصّٰلِحِیْنَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَاِمَایِٕکُمْ اِنْ یَّکُوْنُوْا فُقَرَاءَ یُغْنِہِمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ» ۱؎ (24-النور:32) سے “ ۔ امام ابو ابوعبداللہ محمد بن ادریس شافعی رحمہ اللہ بھی یہی فرماتے ہیں ۔ النور
4 تہمت لگانے والے مجرم جو لوگ کسی عورت پر یا کسی مرد پر زناکاری کی تہمت لگائیں اور ثبوت نہ دے سکیں ، تو انہیں اسی کوڑے لگائے جائیں گے ، ہاں اگر شہادت پیش کر دیں تو حد سے بچ جائیں گے اور جن پر جرم ثابت ہوا ہے ان پر حد جاری کی جائے گی ۔ اگر شہادت نہ پیش کر سکے تو اسی کوڑے بھی لگیں گے اور آئندہ کیلئے ہمیشہ ان کی شہادت غیر مقبول رہے گی اور وہ عادل نہیں بلکہ فاسق سمجھے جائیں گے ۔ اس آیت میں جن لوگوں کو مخصوص اور مستثنیٰ کر دیا ہے تو بعض تو کہتے ہیں کہ یہ استثنا صرف فاسق ہونے سے ہے یعنی بعد از توبہ وہ فاسق نہیں رہیں گے ، بعض کہتے ہیں نہ فاسق رہیں گے نہ مردود الشہادۃ بلکہ پھر ان کی شہادت بھی لی جائے گی ۔ ہاں حد جو ہے وہ توبہ سے کسی طرح ہٹ نہیں سکتی ۔ امام مالک ، احمد اور شافعی رحمتہ اللہ علیہ کا مذہب تو یہ ہے کہ توبہ سے شہادت کا مردود ہونا اور فسق ہٹ جائے گا ۔ سید التابعین سعید بن مسیب رحمتہ اللہ علیہ اور سلف کی ایک جماعت کا یہی مذہب ہے ، لیکن امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں صرف فسق دور ہو جائے گا لیکن شہادت قبول نہیں ہوسکتی ۔ بعض اور لوگ بھی یہی کہتے ہیں ۔ شعبی اور ضحاک رحمہ اللہ علیہم کہتے ہیں کہ اگر اس نے اس بات کا اقرار کر لیا کہ اسے بہتان باندھا تھا اور پھر توبہ بھی پوری کی تو اس کی شہادت اس کے بعد مقبول ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ النور
5 النور
6 لعان سے مراد ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ رب العالمین نے ان خاوندوں کیلئے جو اپنی بیویوں کی نسبت ایسی بات کہہ دیں چھٹکارے کی صورت بیان فرمائی ہے کہ جب وہ گواہ پیش نہ کرسکیں تو لعان کرلیں ۔ اس کی صورت یہ ہے کہ امام کے سامنے آ کر وہ اپنا بیان دے جب شہادت نہ پیش کر سکے تو حاکم اسے چار گواہوں کے قائم مقام چار قسمیں دے گا اور یہ قسم کھا کر کہے گا کہ وہ سچا ہے جو بات کہتا ہے وہ حق ہے ۔ پانچویں دفعہ کہے گا کہ اگر وہ جھوٹا ہو تو اس پر اللہ کی لعنت ۔ اتنا کہتے ہی امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ وغیرہ کے نزدیک اس کی عورت اس سے بائن ہو جائے گی اور ہمیشہ کیلئے حرام ہو جائے گی ۔ یہ مہر ادا کر دے گا اور اس عورت پر زنا ثابت ہو جائے گی ۔ لیکن اگر وہ عورت بھی سامنے ملاعنہ کرے تو حد اس پر سے ہٹ جائے گی ۔ یہ بھی چار مرتبہ حلفیہ بیان دے گی کہ اس کا خاوند جھوٹا ہے ۔ اور پانچویں مرتبہ کہے گی کہ اگر وہ سچا ہو تو اس پر اللہ کا غضب نازل ہو ۔ اس نکتہ کو بھی خیال میں رکھئے کہ عورت کیلئے غضب کا لفظ کہا گیا اس لیے کہ عموماً کوئی مرد نہیں چاہتا کہ وہ اپنی بیوی کو خواہ مخواہ تہمت لگائے اور اپنے آپ کو بلکہ اپنے کنبے کو بھی بدنام کرے عموماً وہ سچا ہی ہوتا ہے اور اپنے صدق کی بنا پر ہی وہ معذور سمجھا جاسکتا ہے ۔ اس لیے پانچویں مرتبہ میں اس سے یہ کہلوایا گیا کہ اگر اس کا خاوند سچا ہو تو اس پر اللہ کا غضب آئے ۔ پھر غضب والے وہ ہوتے ہیں جو حق کو جان کر پھر اس سے روگردانی کریں ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ اگر اللہ کا فضل و رحم تم پر نہ ہوتا تو پھر غضب والے وہ ہوتے ہیں جو حق کو جان کر پھر اس سے روگردانی کریں ‘ ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ اگر اللہ کا فضل و رحم تم پر نہ ہوتا تو ایسی آسانیاں تم پر نہ ہوتیں بلکہ تم پر مشقت اترتی ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ قبول فرمایا کرتا ہے گو کیسے ہی گناہ ہوں اور گو کسی وقت بھی توبہ ہو وہ حکیم ہے ، اپنی شرع میں ، اپنے حکموں میں ، اپنی ممانعت میں ‘ ۔ اس آیت کے بارے میں جو روایتیں ہیں وہ بھی سن لیجئے ۔ “ مسند احمد میں ہے { جب یہ آیت اتری تو سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ جو انصار کے سردار ہیں کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا یہ آیت اسی طرح اتاری گئی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { انصاریو ! سنتے نہیں ہو ؟ یہ تمہارے سردار کیا کہہ رہے ہیں ؟ } انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم درگزر فرمائیے یہ صرف ان کی بڑھی چڑھی غیرت کا باعث ہے اور کچھ نہیں ۔ ان کی غیرت کا یہ حال ہے کہ انہیں کوئی بیٹی دینے کی جرأت نہیں کرتا ۔ سیدنا سعد رضی اللہ عنہا نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ تو میرا ایمان ہے کہ یہ حق ہے لیکن اگر میں کسی کو اس کے پاؤں پکڑے ہوئے دیکھ لوں تو بھی میں اسے کچھ نہیں کہہ سکتا یہاں تک کہ میں چار گواہ لاؤں تب تک تو وہ اپنا کام پورا کرلے گا ۔ اس بات کو ذرا سی ہی دیر ہوئی ہوگی کہ ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ آئے یہ ان تین شخصوں میں سے جن کی توبہ قبول کی گئی انہوں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اپنے کانوں سے ان کی باتیں سنیں ۔ صبح ہی صبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ذکر کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت برا معلوم ہوا اور طبیعت پر نہایت ہی شاق گزرا ۔ { سب انصار جمع ہو گئے اور کہنے لگے سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے قول کی وجہ سے ہم اس آفت میں مبتلا کئے گئے مگر اس صورت میں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ کو تہمت کی حد لگائیں اور اس کی شہادت کو مردود ٹھہرائیں ۔ ہلال رضی اللہ عنہ کہنے لگے واللہ میں سچا ہوں اور مجھے اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ میرا چھٹکارا کر دے گا ۔ کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں دیکھتا ہوں کہ میرا کلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت پر بہت گراں گزرا ، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اللہ کی قسم ہے میں سچا ہوں ، اللہ خوب جانتا ہے ۔ لیکن چونکہ گواہ پیش نہیں کر سکتے تھے قریب تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں حد مارنے کو فرماتے اتنے میں وحی اترنا شروع ہوئی ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کو دیکھ کر علامت سے پہچان گئے کہ اس وقت وحی نازل ہو رہی ہے ۔ جب اترچکی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہلال رضی اللہ عنہا کی طرف دیکھ کر فرمایا : { اے ہلال رضی اللہ عنہ خوش ہو جاؤ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے کشادگی اور چھٹی نازل فرمادی } ۔ سیدنا ہلال رضی اللہ عنہ کہنے لگے «اَلْحَمْدُ لِلہِ» مجھے اللہ رحیم کی ذات سے یہی امید تھی ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہلال رضی اللہ عنہ کی بیوی کو بلوایا اور ان دونوں کے سامنے آیت ملاعنہ پڑھ کر سنائی اور فرمایا : { دیکھو آخرت کا عذاب دنیا کے عذاب سے سخت ہے } ۔ ہلال رضی اللہ عنہ فرمانے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بالکل سچا ہوں ۔ اس عورت نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ جھوٹ کہہ رہا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اچھا لعان کرو ۔ تو ہلال کو کہا گیا کہ اس طرح چار قسمیں کھاؤ اور پانچویں دفعہ یوں کہو ۔ ہلال رضی اللہ عنہ جب چار بار کہہ چکے اور پانچویں بار کی نوبت آئی تو آپ رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ ہلال ! اللہ سے ڈر جا ، دنیا کی سزا آخرت کے عذابوں سے بہت ہلکی ہے یہ پانچویں بار تیری زبان سے نکلتے ہی تجھ پر عذاب واجب ہو جائے گا ، تو آپ رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قسم اللہ کی جس طرح اللہ نے مجھے دنیا کی سزا سے میری صداقت کی وجہ سے بچایا ، اسی طرح آخرت کے عذاب سے بھی میری سچائی کی وجہ سے میرا رب مجھے محفوظ رکھے گا ۔ پھر پانچویں دفعہ کے الفاظ بھی زبان سے ادا کر دیئے } ۔ { اب اس عورت سے کہا گیا کہ تو چار دفعہ قسمیں کھا کہ یہ جھوٹا ہے ۔ جب وہ چاروں قسمیں کھاچکی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پانچویں دفعہ کے اس کلمہ کے کہنے سے روکا اور جس طرح ہلال رضی اللہ عنہ کو سمجھایا گیا تھا اس سے بھی فرمایا تو اسے کچھ خیال پیدا ہوگیا ۔ رکی ، جھجکی ، زبان کو سنبھالا ، قریب تھا کہ اپنے قصور کا اقرار کر لے لیکن پھر کہنے لگی میں ہمیشہ کیلئے اپنی قوم کو رسوا نہیں کرنے کی ۔ پھر کہہ دیا کہ اگر اس کا خاوند سچا ہو تو اس پر اللہ کا غضب نازل ہو ۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں میں جدائی کرا دی اور حکم دیدیا کہ اس سے جو اولاد ہو وہ ہلال رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب نہ کی جائے ، نہ اسے حرام کی اولاد کہا جائے ۔ جو اس بچے کو حرامی کہے یا اس عورت پر تہمت رکھے ، وہ حد لگایا جائے گا ، یہ بھی فیصلہ دیا کہ اس کا کوئی نان نفقہ اس کے خاوند پر نہیں کیونکہ جدائی کردی گئی ہے ۔ نہ طلاق ہوئی ہے نہ خاوند کا انتقال ہوا ہے اور فرمایا : { دیکھو اگر یہ بچہ سرخ سفید رنگ موٹی پنڈلیوں والا پیدا ہو تو تو اسے ہلال رضی اللہ عنہ کا سمجھنا اور اگر وہ پتلی پنڈلیوں والا سیاہی مائل رنگ کا پیدا ہو تو اس شخص کا سمجھنا جس کے ساتھ اس پر الزام قائم کیا گیا ہے } ۔ جب بچہ ہوا تو لوگوں نے دیکھا کہ وہ اس بری صفت پر تھا جو الزام کی حقانیت کی نشانی تھی ۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اگر یہ مسئلہ قسموں پر طے شدہ نہ ہوتا تو میں اس عورت کو قطعاً حد لگاتا } ۔ یہ صاحبزادے بڑے ہو کر مصر کے والی بنے اور ان کی نسبت ان کی ماں کی طرف تھی ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2256،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) اس حدیث کے اور بھی بہت سے شاہد ہیں ۔ بخاری شریف میں بھی یہ حدیث ہے ۔ اس میں ہے کہ { شریک بن عماء کے ساتھ تہمت لگائی گئی تھی ، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جب ہلال رضی اللہ عنہ نے ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { گواہ پیش کرو ورنہ تمہاری پیٹھ پر حد لگے گی } ۔ ہلال رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص اپنی بیوی کو برے کام پر دیکھ کر گواہ ڈھونڈنے جائے ؟ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہی فرماتے رہے ۔ اس میں یہ بھی ہے کہ دونوں کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ { اللہ خوب جانتا ہے کہ تم دونوں میں سے ایک ضرور جھوٹا ہے ۔ کیا تم میں سے کوئی توبہ کرکے اپنے جھوٹ سے ہٹتا ہے ؟} اور روایت میں ہے کہ پانچویں دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی سے کہا کہ { اس کا منہ بند کر دو } پھر اسے نصیحت کی ، اور فرمایا : { اللہ کی لعنت سے ہرچیز ہلکی ہے } ۔ اسی طرح اس عورت کے ساتھ کیا گیا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2671) سعید بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” لعان کرنے والے مرد و عورت کی نسبت مجھ سے دریافت کیا گیا کہ کیا ان میں جدائی کرا دی جائے ؟ { یہ واقعہ ہے ابن زبیر رضی اللہ عنہ کی امارت کے زمانہ کا ، مجھ سے تو اس کا جواب کچھ نہ بن پڑا تو میں اپنے مکان سے چل کر سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی منزل پر آیا اور ان سے یہی مسئلہ پوچھا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ! ” سبحان اللہ سب سے پہلے یہ بات فلاں بن فلاں نے دریافت کی تھی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی شخص اپنی عورت کو کسی برے کام پر پائے تو اگر زبان سے نکالے تو بھی بڑی بے شرمی کی بات ہے اور اگر خاموش رہے تو بھی بڑی بے غیرتی کی خاموشی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سن کر خاموش ہو رہے ۔ پھر وہ آیا اور کہنے لگا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں نے جو سوال جناب سے کیا تھا افسوس وہی واقعہ میرے ہاں پیش آیا ۔ پس اللہ تعالیٰ نے سورۃ النور کی یہ آیتیں نازل فرمائیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کو پاس بلا کر ایک ایک کو الگ الگ نصیحت کی ۔ بہت کچھ سمجھایا لیکن ہر ایک نے اپنا سچا ہونا ظاہر کیا پھر دونوں نے آیت کے مطابق قسمیں کھائیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں جدائی کرا دی } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5312) ایک اور روایت میں ہے کہ { صحابہ رضی اللہ عنہم کا ایک مجمع شام کے وقت جمعہ کے دن مسجد میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک انصاری نے کہا جب کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی شخص کو پائے تو اگر وہ اسے مار ڈالے تو تم اسے مار ڈالو گے اور اگر زبان سے نکالے گا تو تم شہادت موجود نہ ہونے کی وجہ سے اسی کو کوڑے لگاؤ گے اور اگر یہ اندھیر دیکھ کر خاموش ہو کر بیٹھا رہے تو یہ بڑی بے غیرتی اور بڑی بے حیائی ہے ۔ واللہ اگر میں صبح تک زندہ رہا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی بابت دریافت کروں گا ۔ چنانچہ اس نے انہی لفظوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا اور دعا کی کہ یا اللہ اس کا فیصلہ نازل فرما ۔ پس آیت لعان اتری اور سب سے پہلے یہی شخص اس میں مبتلا ہوا } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1495) اور روایت میں ہے کہ { سیدنا عویمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ذرا جاؤ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت تو کرو کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی کو پائے تو کیا کرے ؟ ایسا تو نہیں کہ وہ قتل کرے تو اسے بھی قتل کیا جائے گا ؟ چنانچہ عاصم رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سوال سے بہت ناراض ہوئے ۔ جب عویمر رضی اللہ عنہ عاصم رضی اللہ عنہ سے ملے تو پوچھا کہ کہو تم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا ؟ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا جواب دیا ؟ عاصم رضی اللہ عنہ نے کہا تم نے مجھ سے کوئی اچھی خدمت نہیں لی افسوس میرے اس سوال پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عیب پکڑا اور برا مانا ۔ عویمر رضی اللہ عنہ نے کہا اب اگر میں اسے اپنے گھر لے جاؤں تو گویا میں نے اس پر جھوٹ تہمت باندھی تھی ۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے پہلے ہی اس عورت کو جدا کر دیا ۔ پھر تو لعان کرنے والوں کا یہی طریقہ مقرر ہوگیا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:423) ایک اور روایت میں ہے کہ { یہ عورت حاملہ تھی اور ان کے خاوند نے اس سے انکار کیا کہ یہ حمل ان سے ہوا ۔ اس لیے یہ بچہ اپنی ماں کی طرف منسوب ہوتا رہا پھر منسون طریقہ یوں جاری ہوا کہ یہ اپنی ماں کا وارث ہوگا اور ماں اس کی وارث ہو گی } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:423) ایک مرسل اور غریب حدیث میں ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ { اگر تمہارے ہاں ایسی واردات ہو تو کیا کرو گے ؟ } دونوں نے کہا گردن اڑا دیں گے ۔ ایسے وقت چشم پوشی وہی کر سکتے ہیں جو دیوث ہوں ، اس پر یہ آیتیں اتریں } ۔ ۱؎ (مسند بزار:2237:ضعیف) ایک روایت میں ہے کہ ” سب سے پہلا لعان مسلمانوں میں ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ اور ان کی بیوی کے درمیان ہوا تھا “ ۔ النور
7 النور
8 النور
9 النور
10 النور
11 ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی پاکیزگی کی شہادت اس آیت سے لے کر دسویں آیت تک ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں نازل ہوئی ہیں جب کہ منافقین نے آپ رضی اللہ عنہا پر بہتان باندھا تھا جس پر اللہ کو بہ سبب قرابت داری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غیرت آئی اور یہ آیتیں نازل فرمائیں تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آبرو پر حرف نہ آئے ۔ ان بہتان بازوں کی ایک پارٹی تھی ۔ اس لعنتی کام میں سب سے پیش پیش عبداللہ بن ابی بن سلول تھا جو تمام منافقوں کا گرو گھنٹال تھا ۔ اس بے ایمان نے ایک ایک کان میں بنا بنا کر اور مصالحہ چڑھ چڑھا کر یہ باتیں خوب گھڑ گھڑ کر پہنچائی تھیں ۔ یہاں تک کہ بعض مسلمانوں کی زبان بھی کھلنے لگی تھی اور یہ چہ میگوئیاں قریب قریب مہینے بھر تک چلتی رہیں ۔ یہاں تک کہ قرآن کریم کی یہ آیتیں نازل ہوئیں اس واقعے کا پورا بیان صحیح احادیث میں موجود ہے ۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک تھی کہ سفر میں جانے کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کے نام کا قرعہ ڈالتے اور جس کا نام نکلتا اسے اپنے ساتھ لے جاتے ۔ چنانچہ ایک غزوے کے موقعہ پر میرا نام نکلا ۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلی ، یہ واقعہ پردے کی آیتیں اترنے کے بعد کا ہے ۔ میں اپنے ھودج میں بیٹھی رہتی اور جب قافلہ کہیں اترتا تو میرا ھودج اتار لیا جاتا ۔ میں اسی میں بیٹھی رہتی جب قافلہ چلتا یونہی ھودج رکھ دیا جاتا ۔ ہم گئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوے سے فارغ ہوئے ، واپس لوٹے ، مدینے کے قریب آ گئے رات کو چلنے کی آواز لگائی گئی میں قضائے حاجت کیلئے نکلی اور لشکر کے پڑاؤ سے دور جا کر میں نے قضائے حاجت کی ۔ پھر واپس لوٹی ، لشکر گاہ کے قریب آ کر میں نے اپنے گلے کو ٹٹولا تو ہار نہ پایا ۔ میں واپس اس کے ڈھونڈنے کیلئے چلی اور تلاش کرتی رہی ۔ یہاں یہ ہوا کہ لشکر نے کوچ کردیا جو لوگ میرا ھودج اٹھاتے تھے انہوں نے یہ سمجھ کر کہ میں حسب عادت اندر ہی ہوں ۔ ھودج اٹھا کر اوپر رکھ دیا اور چل پڑے ۔ یہ بھی یاد رہے کہ اس وقت تک عورتیں نہ کچھ ایسا کھاتی پیتی تھیں نہ وہ بھاری بدن کی بوجھل تھیں ۔ تو میرے ھودج کے اٹھانے والوں کو میرے ہونے نہ ہونے کا مطلق پتہ نہ چلا ، اور میں اس وقت اوائل عمر کی تو تھی ہی } ۔ { الغرض بہت دیر کے بعد مجھے میرا ہار ملا جب میں یہاں پہنچی تو کسی آدمی کا نام و نشان بھی نہ تھا نہ کوئی پکارنے والا ، نہ جواب دینے والا ، میں اپنے نشان کے مطابق وہیں پہنچی ، جہاں ہمارا اونٹ بٹھایا گیا تھا اور وہیں انتظار میں بیٹھ گئی تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب آگے چل کر میرے نہ ہونے کی خبر پائیں گے تو مجھے تلاش کرنے کیلئے یہیں آئیں گے ، مجھے بیٹھے بیٹھے نیند آ گئی ۔ اتفاق سے صفوان بن معطل سلمی ذکوانی رضی اللہ عنہ جو لشکر کے پیچھے رہے تھے اور پچھلی رات کو چلے تھے ، صبح کی روشنی میں یہاں پہنچ گئے ۔ ایک سوتے ہوئے آدمی کو دیکھ کر خیال آنا ہی تھا ، غور سے دیکھا تو چونکہ پردے کے حکم سے پہلے مجھے انہوں نے دیکھا ہوا تھا ۔ دیکھتے ہی پہچان گئے اور باآواز بلند ان کی زبان سے «إِنَّا لِلہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ» ۱؎ (2-البقرۃ:157) نکلا ان کی آواز سنتے ہی میری آنکھ کھل گئی اور میں اپنی چادر سے اپنا منہ ڈھانپ کر سنبھل بیٹھی ۔ انہوں نے جھٹ اپنے اونٹ کو بٹھایا اور اس کے ہاتھ پر اپنا پاؤں رکھا میں اٹھی اور اونٹ پر سوار ہوگئی ۔ انہوں نے اونٹ کو کھڑا کردیا اور بھگاتے ہوئے لے چلے ۔ قسم اللہ کی نہ وہ مجھ سے کچھ بولے ، نہ میں نے ان سے کوئی کلام کیا نہ سوائے اناللہ کے میں نے ان کے منہ سے کوئی کلمہ سنا ۔ دوپہر کے قریب ہم اپنے قافلے سے مل گئے ۔ پس اتنی سی بات کا ہلاک ہونے والوں نے بتنگڑ بنا لیا ۔ ان کا سب سے بڑا اور بڑھ بڑھ کر باتیں بنانے والا عبداللہ بن ابی بن سلول تھا } ۔ { مدینے آتے ہی میں بیمار پڑگئی اور مہینے بھر تک بیماری میں گھر ہی میں رہی ، نہ میں نے کچھ سنا ، نہ کسی نے مجھ سے کہا جو کچھ غل غپاڑہ لوگوں میں ہو رہا تھا ، میں اس سے محض بے خبر تھی ۔ البتہ میرے جی میں یہ خیال بسا اوقات گزرتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مہرو محبت میں کمی کی کیا وجہ ہے ؟ بیماری میں عام طور پر جو شفقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو میرے ساتھ ہوتی تھی اس بیماری میں وہ بات نہ پاتی تھی ۔ مجھے رنج تو بہت تھا مگر کوئی وجہ معلوم نہ تھی ۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاتے سلام کرتے اور دریافت فرماتے { طبیعت کیسی ہے ! } اور کوئی بات نہ کرتے اس سے مجھے بڑا صدمہ ہوتا مگر بہتان بازوں کی تہمت سے میں بالکل غافل تھی } ۔ { اب سنئے اس وقت تک گھروں میں بیت الخلاء نہیں ہوتے تھے اور عرب کی قدیم عادت کے مطابق ہم لوگ میدان میں قضائے حاجت کیلئے جایا کرتے تھے ۔ عورتیں عموماً رات کو جایا کرتی تھیں ۔ گھروں میں بیت الخلاء بنانے سے عام طور پر نفرت تھی ، حسب عادت میں ، ام مسطح بنت ابی رہم بن عبدالمطلب بن عبدالمناف رضی اللہ عنہا کے ساتھ قضائے حاجت کیلئے چلی ۔ اس وقت میں بہت ہی کمزور ہو رہی تھی یہ ام مسطح رضی اللہ عنہا میرے والد صاحب رضی اللہ عنہ کی خالہ تھیں ان کی والدہ صخر بن عامر کی لڑکی تھیں ، ان کے لڑکے کا نام مسطح بن اثاثہ بن عباد بن عبدالمطلب تھا ۔ جب ہم واپس آنے لگے تو ام مسطح رضی اللہ عنہا کا پاؤں چادر کے دامن میں الجھا اور بےساختہ ان کے منہ سے نکل گیا کہ مسطح غارت ہو ۔ مجھے بہت برا لگا اور میں نے کہا کہ تم نے بہت برا کلمہ بولا ، توبہ کرو ، تم اسے گالی دیتی ہو ، جس نے جنگ بدر میں شرکت کی ۔ اس وقت ام مسطح رضی اللہ عنہا نے کہا بھولی بیوی آپ کو کیا معلوم ؟ میں نے کہا کیا بات ہے ؟ انہوں نے فرمایا وہ بھی ان لوگوں میں سے ہے جو آپ رضی اللہ عنہا کو بدنام کرتے پھرتے ہیں ۔ مجھے سخت حیرت ہوئی میں ان کے سر ہوگئی کہ کم از کم مجھ سے سارا واقعہ تو کہو ۔ اب انہوں نے بہتان باز لوگوں کی تمام کارستانیاں مجھے سنائیں ۔ میرے تو ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے ، رنج و غم کا پہاڑ مجھ پر ٹوٹ پڑا ، مارے صدمے کے میں تو اور بیمار ہو گئی ۔ بیمار تو پہلے سے ہی تھی ، اس خبر نے تو نڈھال کر دیا ، جوں توں کر کے گھر پہنچی ۔ اب صرف یہ خیال تھا میں اپنے میکے جا کر اور اچھی طرح معلوم تو کر لوں کہ کیا واقعی میری نسبت ایسی افواہ پھیلائی گئی ہے ؟ اور کیا کیا مشہور کیا جا رہا ہے ؟ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے ، سلام کیا اور دریافت فرمایا کہ { کیا حال ہے ؟ } میں نے کہا اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اجازت دیں تو اپنے والد صاحب کے ہاں ہو آؤں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دیدی ، میں یہاں آئی ، اپنی والدہ سے پوچھا کہ اماں جان لوگوں میں کیا باتیں پھیل رہی ہیں ؟ انہوں نے فرمایا بیٹی یہ تو نہایت معمولی بات ہے تم اتنا اپنا دل بھاری نہ کرو ، کسی شخص کی اچھی بیوی جو اسے محبوب ہو اور اس کی سوکنیں بھی ہوں وہاں ایسی باتوں کا کھڑا ہونا تو لازمی امر ہے ۔ میں نے کہا سبحان اللہ کیا واقعی لوگ میری نسبت ایسی افواہیں اڑا رہے ہیں ؟ اب تو مجھے غم و رنج نے اس قدر گھیرا کہ بیان سے باہر ہے ۔ اس وقت سے جو رونا شروع ہوا واللہ ایک دم بھر کیلئے میرے آنسو نہیں تھمے ، میں سر ڈال کر روتی رہتی ۔ کس کا کھانا پینا ، کس کا سونا بیٹھنا ، کہاں کی بات چیت ، غم و رنج اور رونا ہے اور میں ہوں ۔ ساری رات اسی حالت میں گزری کہ آنسو کی لڑی نہ تھمی دن کو بھی یہی حال رہا } ۔ { آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اور سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو بلوایا ، وحی میں دیر ہوئی ، اللہ کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی بات معلوم نہ ہوئی تھی ، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں حضرات سے مشورہ کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے الگ کر دیں یا کیا ؟ اسامہ رضی اللہ عنہ نے تو صاف کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم آپ کی اہل پر کوئی برائی نہیں جانتے ۔ ہمارے دل ان کی عفت ، عزت اور شرافت کی گواہی دینے کیلئے حاضر ہیں ۔ ہاں سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی تنگی نہیں ، عورتیں ان کے سوا بھی بہت ہیں ۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر کی خادمہ سے پوچھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صحیح واقعہ معلوم ہوسکتا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت گھر کی خادمہ بریرہ رضی اللہ عنہا کو بلوایا اور ان سے فرمایا کہ { عائشہ رضی اللہ عنہا کی کوئی بات شک و شبہ والی کبھی بھی دیکھی ہو تو بتاؤ } ۔ بریرہ رضی اللہ عنہا نے کہا اللہ کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ معبوث فرمایا ہے میں نے ان سے کوئی بات کبھی اس قسم کی نہیں دیکھی ۔ ہاں صرف یہ بات ہے کہ کم عمری کی وجہ سے ایسا ہو جاتا ہے کہ کبھی کبھی گندھا ہوا آٹا یونہی رکھا رہتا ہے اور سوجاتی ہیں تو بکری آکر کھاجاتی ہے ، اس کے سوا میں نے ان کا کوئی قصور کبھی نہیں دیکھا ۔ چونکہ کوئی ثبوت اس واقعہ کا نہ ملا اس لیے اسی دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے ہوئے اور مجمع سے مخاطب ہو کر فرمایا : { کون ہے ؟ جو مجھے اس شخص کی ایذاؤں سے بچائے جس نے مجھے ایذائیں پہنچاتے پہنچاتے اب تو میری گھر والیوں میں بھی ایذائیں پہنچانا شروع کردی ہیں ۔ واللہ میں جہاں تک جانتا ہوں مجھے اپنی گھر والیوں میں سوائے بھلائی کے کوئی چیز معلوم نہیں ، جس شخص کا نام یہ لوگ لے رہے ہیں ، میری دانست تو اس کے متعلق بھی سوائے بھلائی کے اور کچھ نہیں وہ میرے ساتھ ہی گھر میں آتا تھا } ۔ { یہ سنتے ہی سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوگئے اور فرمانے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود ہوں اگر وہ قبیلہ اوس کا شخض ہے تو ابھی ہم اس کی گردن تن سے الگ کرتے ہیں اور اگر وہ ہمارے خزرج بھائیوں سے ہے تو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو حکم دیں ہمیں اس کی تعمیل میں کوئی عذر نہ ہوگا ۔ یہ سن کر سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوگئے یہ قبیلہ خزرج کے سردار تھے ۔ تھے تو یہ بڑے نیک بخت مگر سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ سے کہنے لگے نہ تو تو اسے قتل کرے گا نہ اس کے قتل پر تو قادر ہے اگر وہ تیرے قبیلے کا ہوتا تو تو اس کا قتل کیا جانا کبھی پسند نہ کرتا ۔ یہ سن کر اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے یہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے بھتیجے ہوتے تھے کہنے لگے اے سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ تم جھوٹ کہتے ہو ، ہم اسے ضرور مار ڈالیں گے آپ منافق آدمی ہیں کہ منافقوں کی طرف داری کر رہے ہیں ۔ اب ان کی طرف سے ان کا قبیلہ اور ان کی طرف سے ان کا قبیلہ ایک دوسرے کے مقابلے پر آ گیا اور قریب تھا کہ اوس و خزرج کے یہ دونوں قبیلے آپس میں لڑ پڑیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر سے ہی انہیں سمجھانا اور چپ کرانا شروع کیا یہاں تک کہ دونوں طرف خاموشی ہوگئی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی چپکے ہو رہے یہ تو تھا وہاں کا واقعہ ۔ میرا حال یہ تھا کہ یہ سارا دن بھی رونے میں ہی گزرا ۔ میرے اس رونے نے میرے ماں باپ کے بھی ہوش گم کر دیئے تھے ، وہ سمجھ بیٹھے تھے کہ یہ رونا میرا کلیجہ پھاڑ دے گا ۔ دونوں حیرت زدہ مغموم بیٹھے ہوئے تھے اور مجھے رونے کے سوا اور کوئی کام ہی نہ تھا اتنے میں انصار کی ایک عورت آئیں اور وہ بھی میرے ساتھ رونے لگی ہم یونہی بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشیرف لائے اور سلام کر کے میرے پاس بیٹھ گئے ۔ قسم اللہ کی جب سے یہ بہتان بازی ہوئی تھی آج تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس کبھی نہیں بیٹھے تھے ۔ مہینہ بھر گزر گیا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی حالت تھی ۔ کوئی وحی نہیں آئی تھی کہ فیصلہ ہو سکے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھتے ہی اول تو تشہد پڑھا پھر امابعد فرما کر فرمایا کہ { اے عائشہ ! تیری نسبت مجھے یہ خبر پہنچی ہے ۔ اگر تو واقعی پاک دامن ہے تو اللہ تعالیٰ تیری پاکیزگی ظاہر فرما دے گا اور اگر فی الحقیقت تو کسی گناہ میں آلودہ ہوگئی ہے تو اللہ تعالیٰ سے استغفار کر اور توبہ کر ، بندہ جب گناہ کر کے اپنے گناہ کے اقرار کے ساتھ اللہ کی طرف جھکتا ہے اور اس سے معافی طلب کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے بخش دیتا ہے } ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتنا فرما کر خاموش ہوگئے یہ سنتے ہی میرا رونا دھونا سب جاتا رہا ۔ آنسو تھم گئے یہاں تک کہ میری آنکھوں میں آنسو کا ایک قطرہ بھی باقی نہ رہا ۔ { میں نے اول تو اپنے والد سے درخواست کی کہ میری طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ رضی اللہ عنہ ہی جواب دیجئیے لیکن انہوں نے فرمایا کہ واللہ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا جواب دوں ؟ اب میں نے اپنی والدہ کی طرف دیکھا اور ان سے کہا کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دیجئیے لیکن انہوں نے بھی یہی کہا کہ میں نہیں سمجھ سکتی کہ میں کیا جواب دوں ؟ آخر میں نے خود ہی جواب دینا شروع کیا ۔ میری عمر کچھ ایسی بڑی تو نہ تھی اور نہ مجھے زیادہ قرآن حفظ تھا ۔ میں نے کہا ، آپ سب نے ایک بات سنی ، اسے آپ نے دل میں بٹھا لیا اور گویا سچ سمجھ لیا ۔ اب اگر میں کہوں گی کہ میں اس سے بالکل بری ہوں اور اللہ خوب جانتا ہے کہ میں بالکل بے گناہ ہوں تو تم ابھی مان لو گے ۔ میری اور تمہاری مثال تو بالکل ابو یوسف علیہ السلام کا یہ قول ہے آیت «فَصَبْرٌ جَمِیلٌ وَ اللہُ الْمُسْتَعَانُ عَلَیٰ مَا تَصِفُونَ» ۱؎ (12-یوسف:18) پس صبر ہی اچھا ہے جس میں شکایت کا نام ہی نہ ہو اور تم جو باتیں بناتے ہو ان میں اللہ ہی میری مدد کرے ، اتنا کہہ کر میں نے کروٹ پھیر لی اور اپنے بستر پر لیٹ گئی ۔ اللہ کی قسم مجھے یقین تھا کہ چونکہ میں پاک ہوں اللہ تعالیٰ میری برأت اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ضرور معلوم کرا دے گا لیکن یہ تو میرے شان و گمان میں بھی نہ تھا کہ میرے بارے میں قرآن کی آیتیں نازل ہوں ۔ میں اپنے آپ کو اس سے بہت کم تر جانتی تھی کہ میرے بارے میں کلام اللہ کی آیتیں اتریں ۔ ہاں مجھے زیادہ سے زیادہ یہ خیال ہوتا تھا کہ ممکن ہے خواب میں اللہ تعالیٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو میری برأت دکھا دے ۔ واللہ ابھی تو نہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جگہ سے ہٹے تھے اور نہ گھر والوں میں سے کوئی گھر سے باہر نکلا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہونی شروع ہوگئی ۔ اور چہرہ پر وہی آثار ظاہر ہوئے جو وحی کے وقت ہوتے تھے اور پیشانی سے پسینے کی پاک بوندیں ٹپکنے لگیں ۔ سخت جاڑوں میں بھی وحی کے نزول کی یہی کیفیت ہوا کرتی تھی ، جب وحی اتر چکی تو ہم نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ ہنسی سے شگفتہ ہو رہا ہے ۔ سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری طرف دیکھ کر فرمایا : { عائشہ خوش ہو جاؤ اللہ تعالیٰ نے تمہاری برأت نازل فرما دی } ۔ اسی وقت میری والدہ نے فرمایا بچی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑی ہو جاؤ ۔ میں نے جواب دیا کہ واللہ نہ تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑی ہوں گی اور نہ سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کسی کی تعریف کروں گی اسی نے میری برأت اور پاکیزگی نازل فرمائی ہے ۔ پس آیت «إِنَّ الَّذِینَ جَاءُوا بِالْإِفْکِ» ۱؎ (24-النور:11) سے لے کر دس آیتوں تک نازل ہوئیں ۔ { ان آیتوں کے اترنے کے بعد اور میری پاک دامنی ثابت ہوچکنے کے بعد اس شر کے پھیلانے میں مسطح بن اثاثہ بھی شریک تھے اور انہیں میرے والد صاحب ان کی محتاجی اور ان کی قرابت داری کی وجہ سے ہمیشہ کچھ دیتے رہتے تھے ۔ اب انہوں نے کہا جب اس شخص نے میری بیٹی پر تہمت باندھنے میں حصہ لیا تو اب میں اس کے ساتھ کچھ بھی سلوک نہ کروں گا ۔ اس پر آیت «وَلَا یَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنکُمْ وَالسَّعَۃِ أَن یُؤْتُوا أُولِی الْقُرْبَیٰ وَالْمَسَاکِینَ وَالْمُہَاجِرِینَ فِی سَبِیلِ اللہِ وَلْیَعْفُوا وَلْیَصْفَحُوا أَلَا تُحِبٰونَ أَن یَغْفِرَ اللہُ لَکُمْ وَ اللہُ غَفُورٌ رَّحِیمٌ» ۱؎ (24-النور:22) ، نازل ہوئی یعنی ’ تم میں سے جو لوگ بزرگی اور وسعت والے ہیں ، انہیں نہ چاہیئے کہ قرابت داروں ، مسکینوں اور اللہ کی راہ کے مہاجروں سے سلوک نہ کرنے کی قسم کھا بیٹھیں ۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ یہ بخشش والا اور مہربانی والا اللہ تمہیں بخش دے ؟ ‘ اسی وقت اس کے جواب میں صدیق اکبر رضی اللہ عنہا نے فرمایا قسم اللہ کی میں تو اللہ کی بخشش کا خواہاں ہوں ۔ چنانچہ اسی وقت مسطح رضی اللہ عنہ کا وظیفہ جاری کردیا اور فرما دیا کہ واللہ اب عمر بھر تک اس میں کمی یا کوتاہی نہ کروں گا ۔ میرے اس واقعہ کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے بھی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی صاحبہ تھیں دریافت فرمایا تھا ۔ یہی بیوی صاحبہ تھیں جو حضور کی تمام بیویوں میں میرے مقابلے کی تھیں لیکن یہ اپنی پرہیزگاری اور دین داری کی وجہ سے صاف بچ گئیں اور جواب دیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں تو سوائے بہتری کے عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں اور کچھ نہیں جانتی ۔ میں اپنے کانوں کو اور اپنی نگاہ کو محفوظ رکھتی ہوں ۔ گو انہیں ان کی بہن حمنہ بنت جحش نے بہت کچھ بہلاوے بھی دیئے بلکہ لڑ پڑیں لیکن انہوں نے اپنی زبان سے میری برائی کا کوئی کلمہ نہیں نکالا ۔ ہاں ان کی بہن نے تو زبان کھول دی اور میرے بارے میں ہلاک ہونے والوں میں شامل ہو گئی } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2661) یہ روایت بخاری مسلم وغیرہ حدیث کی بہت سی کتابوں میں ہے ۔ ایک سند سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس خطبے میں یہ بھی فرمایا تھا کہ { جس شخص کی طرف منسوب کرتے ہیں ، وہ سفر حضر میں میرے ساتھ رہا میری عدم موجودگی میں کبھی میرے گھر نہیں آیا } اس میں ہے کہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے مقابلہ میں جو صاحب کھڑے ہوئے انہی کے قبیلے میں ام مسطح رضی اللہ عنہا تھیں ۔ اس میں یہ بھی ہے کہ اسی خطبہ کے دن کے بعد رات کو میں ام مسطح کے ساتھ نکلی تھی ۔ اس میں یہ بھی ہے کہ ایک مرتبہ یہ پھسلیں اور انہوں نے اپنے بیٹے مسطح رضی اللہ عنہ کو کوسا ، میں نے منع کیا پھر پھسلیں ، پھر کوسا ، میں نے پھر روکا ۔ پھر الجھیں ، پھر کوسا تو میں نے انہیں ڈانٹنا شروع کیا ۔ اس میں ہے کہ اسی وقت سے مجھے بخار چڑھ آیا ۔ اس میں ہے کہ میری والدہ کے گھر پہنچانے کیلئے میرے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک غلام کر دیا تھا ۔ میں جب وہاں پہنچی تو میرے والد اوپر کے گھر میں تھے ۔ تلاوت قرآن میں مشغول تھے اور والدہ نیچے کے مکان میں تھیں ۔ مجھے دیکھتے ہی میری والدہ نے دریافت فرمایا ! آج کیسے آنا ہوا ؟ تو میں نے تمام بپتا کہہ سنائی لیکن میں نے دیکھا کہ انہیں یہ بات نہ کوئی انوکھی بات معلوم ہوئی نہ اتنا صدمہ اور رنج ہوا جس کی توقع مجھے تھی ۔ اس میں ہے کہ میں نے والدہ سے پوچھا کیا میرے والد صاحب کو بھی اس کا علم ہے ؟ انہوں نے کہا ہاں میں نے کہا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک بھی یہ بات پہنچی ہے ؟ جواب دیا کہ ہاں ۔ اب تو مجھے پھوٹ پھوٹ کر رونا آنے لگا یہاں تک کہ میری آواز اوپر میرے والد صاحب کے کان میں بھی پہنچی وہ جلدی سے نیچے آئے دریافت فرمایا کہ کیا بات ہے ؟ میری والدہ نے کہا کہ انہیں اس تہمت کا علم ہو گیا ہے جو ان پر لگائی گئی ہے ، یہ سن کر اور میری حالت دیکھ کر میرے والد صاحب رضی اللہ عنہ کی آنکھوں میں بھی آنسو بھر آئے اور مجھ سے کہنے لگے بیٹی میں تمہیں قسم دیتا ہوں کہ ابھی اپنے گھر لوٹ جاؤ ۔ چنانچہ میں واپس چلی گئی ۔ یہاں میرے پیچھے گھر کی خادمہ سے بھی میری بابت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور لوگوں کی موجودگی میں دریافت فرمایا ۔ جس پر اس نے جواب دیا کہ میں عائشہ میں کوئی برائی نہیں دیکھتی بجز اس کے کہ وہ آٹا گندھا ہوا چھوڑ کر اٹھ کھڑی ہوتی ہیں ، بے خبری سے سو جاتی ہیں ۔ بسا اوقات آٹا بکریاں کھا جاتی ہیں ۔ بلکہ اسے بعض لوگوں نے بہت ڈانٹا ڈپٹا بھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سچ سچ بات جو ہو بتا دے اس پر بہت سختی کی لیکن اس نے کہا واللہ ایک سنار خالص سونے میں جس طرح کوئی عیب کسی طرح تپا تپا کر بھی بتا نہیں سکتا ۔ اسی طرح میں صدیقہ رضی اللہ عنہا پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتی ۔ جب اس شخص کو یہ اطلاع پہنچی جنہیں بدنام کیا جا رہا تھا تو اس نے کہا قسم اللہ کی میں نے تو آج تک کسی عورت کا بازو کبھی کھولا ہی نہیں ۔ بالآخر یہ اللہ کی راہ میں شہید ہوئے [ رضی اللہ عنہ ] ۔ اس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس عصر کی نماز کے بعد تشریف لائے تھے ۔ اس وقت میری ماں اور میرے باپ میرے دائیں بائیں بیٹھے ہوئے تھے ۔ اور وہ انصاریہ عورت جو آئی تھیں وہ دروازے پر بیٹھی ہوئی تھیں اس میں ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نصیحت شروع کی اور مجھ سے حقیقت حال دریافت کی تو میں نے کہا ہائے کیسی بے شرمی کی بات ہے ؟ اس عورت کا بھی تو خیال نہیں ؟ اس میں ہے کہ میں نے بھی اللہ کی حمد و ثناء کے بعد جواب دیا تھا ۔ اس میں یہ بھی ہے کہ میں نے اس وقت ہر چند یعقوب علیہ السلام کا نام تلاش کیا لیکن واللہ وہ زبان پر نہ چڑھا ، اسلئے میں نے ابو یوسف کہہ دیا ۔ اس میں ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی کے اترنے کے بعد مجھے خوشخبری سنائی واللہ اس وقت میرا غم بھرا غصہ بہت ہی بڑھ گیا تھا ۔ میں نے اپنے ماں باپ سے بھی کہا تھا کہ میں اس معاملے میں تمہاری بھی شکر گزار نہیں ۔ تم سب نے ایک بات سنی لیکن نہ تم نے انکار کیا نہ تمہیں ذرا غیرت آئی ۔ اس میں ہے کہ اس قصے کو زبان پر لانے والے حمنہ بنت حجش ، مسطح ، حسان بن ثبات اور عبداللہ بن ابی منافق تھے ۔ یہ سب کا سرغنہ تھا اور یہی زیادہ تر لگاتا بجھاتا تھا ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4757) اور حدیث میں ہے کہ { میرے عذر کی یہ آیتیں اترنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مردوں اور ایک عورت کو تہمت کی حد لگائی یعنی حسان بن ثابت ، مسطح بن اثاثہ اور حمنہ بنت حجش رضی اللہ عنہم کو } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4474،قال الشیخ الألبانی:حسن) ایک روایت میں ہے کہ { جب ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو اپنے اوپر تہمت لگنے کا علم ہوا اور یہ بھی پتہ چلا کہ اس کا علم آپ رضی اللہ عنہا کے والد اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہو چکا ہے تو آپ رضی اللہ عنہا بے ہوش ہو کر گر پڑیں ۔ جب ذرا ہوش میں آئیں تو سارا جسم تپ رہا تھا اور زور کا بخار چڑھا ہوا تھا اور کانپ رہی تھیں ۔ آپ رضی اللہ عنہا کی والدہ نے اسی وقت لحاف اوڑھا دیا ۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے پوچھا { یہ کیا حال ہے ؟ } میں نے کہا جاڑے سے بخار چڑھا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { شاید اس خبر کو سن کر یہ حال ہو گیا ہوگا ؟} جب آپ رضی اللہ عنہا کے عذر کی آیتیں اتریں اور آپ رضی اللہ عنہا نے انہیں سن کر فرمایا کہ ” یہ اللہ کے فضل سے ہے نہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فضل سے “ ۔ تو سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طرح کہتی ہو ؟ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ” ہاں “ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3388) اب آیتوں کا مطلب سنئے جو لوگ جھوٹ بہتان گھڑی ہوئی بات لے آئے اور وہ ہیں بھی زیادہ اسے تم اے آل ابی بکر رضی اللہ عنہ اپنے لیے برا نہ سمجھو بلکہ انجام کے لحاظ سے دین و دنیا میں وہ تمہارے لیے بھلا ہے ۔ دنیا میں تمہاری صداقت ثابت ہوگی ، آخرت میں بلند مراتب ملیں گے ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی برأت قرآن کریم میں نازل ہوگی ، جس کے آس پاس بھی باطل نہیں آسکتا ۔ یہی وجہ تھی کہ جب سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ اماں صاحبہ رضی اللہ عنہا کے پاس ان کے آخری وقت آئے تو فرمانے لگے ” ام المؤمنین رضی اللہ عنہا آپ خوش ہو جائیے کہ آپ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ رہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم محبت سے پیش آتے رہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہا کے سوا کسی اور باکرہ سے نکاح نہیں کیا اور آپ رضی اللہ عنہا کی برأت آسمان سے نازل ہوئی ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4753) ایک مرتبہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ اور سیدہ زینب رضی اللہ عنہم اپنے اوصاف حمیدہ کا ذکر کرنے لگیں تو ام المؤمنین سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے فرمایا ” میرا نکاح آسمان سے اترا “ ، اور ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ” میری پاکیزگی کی شہادت قرآن میں آسمان سے اتری جب کہ صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ مجھے اپنی سواری پر بٹھا لائے تھے “ ۔ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے پوچھا ” یہ تو بتاؤ جب تم اس اونٹ پر سوار ہوئی تھیں تو تم نے کیا کلمات کہے تھے ؟ آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا «حَسْبُنَا اللہُ وَنِعْمَ الْوَکِیلُ » ۱؎ (3-آل عمران:173) اس پر وہ بول اٹھیں کہ ” تم نے مومنوں کا کلمہ کہا تھا “ ۔ پھر فرمایا ’ جس جس نے پاک دامن صدیقہ پر تہمت لگائی ہے ہر ایک کو بڑا عذاب ہوگا ، اور جس نے اس کی ابتداء اٹھائی ہے ، جو اسے ادھر ادھر پھیلاتا رہا ہے اس کیلئے سخت تر عذاب ہیں ‘ ۔ اس سے مراد عبداللہ بن ابی بن سلول ملعون ہے ، ٹھیک قول یہی ہے گو کسی کسی نے کہا کہ مراد اس سے سیدنا حسان رضی اللہ عنہ ہیں لیکن یہ قول ٹھیک نہیں ۔ چونکہ یہ قول بھی ہے اس لیے ہم نے اسے یہاں بیان کر دیا ورنہ اس کے بیان میں بھی چنداں نفع نہیں کیونکہ سیدنا حسان رضی اللہ عنہ بڑے بزرگ صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے ہیں ۔ ان کی بہت سی فضیلتیں اور بزرگیاں احادیث میں موجود ہیں ۔ یہی تھے جو کافر شاعروں کی ہجو کے شعروں کا اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جواب دیتے تھے ۔ انہی سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ { تم کفار کی مذمت بیان کرو جبرائیل علیہ السلام تمہارے ساتھ ہیں } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3213) سیدنا مسروق رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ” میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھا کہ سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ آئے ، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں عزت کے ساتھ بٹھایا ۔ حکم دیا کہ ان کیلئے گدی بچھا دو ، جب وہ واپس چلے گئے تو میں نے کہا کہ آپ رضی اللہ عنہا انہیں کیوں آنے دیتی ہیں ؟ ان کے آنے سے کیا فائدہ ؟ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ ’ ان میں سے جو تہمت کا والی ہے اس کیلئے بڑا عذاب ہے ‘ تو ام المؤمنین رضی اللہ عنہا نے فرمایا ” اندھا ہونے سے بڑا عذاب اور کیا ہوگا “ یہ نابینا ہوگئے تھے ، تو فرمایا ” شاید یہی عذاب عظیم ہو “ ۔ پھر فرمایا ” تمہیں نہیں خبر ؟ یہی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کافروں کے ہجو والے اشعار کا جواب دینے پر مقرر تھے “ ۔ ایک روایت میں ہے کہ سیدنا حسان رضی اللہ عنہ نے اس وقت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ کی مدح میں شعر پڑھا تھا کہ آپ رضی اللہ عنہا پاکدامن ، بھولی ، تمام اوچھے کاموں سے ، غیبت اور برائی سے پرہیز کرنے والی ہیں ، تو آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ” تم تو ایسے نہ تھے “ ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4755) ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ” مجھے سیدنا حسان رضی اللہ عنہ کے شعروں سے زیادہ اچھے اشعار نظر نہیں آتے اور میں جب کبھی ان شعروں کو پڑھتی ہوں تو میرے دل میں خیال آتا ہے کہ سیدنا حسان رضی اللہ عنہ جنتی ہیں ۔ وہ ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب کو خطاب کرکے اپنے شعروں میں فرماتے ہیں تو نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کی ہے ، جس کا میں جواب دیتا ہوں اور اس کا بدلہ اللہ تعالیٰ سے پاؤں گا ۔ میرے باپ دادا اور میری عزت آبرو سب محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہے ، میں ان سب کو فنا کر کے بھی تمہاری بدزبانیوں کے مقابلے سے ہٹ نہیں سکتا ۔ تجھ جیسا شخص جو میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کف پا کی ہمسری بھی نہیں کر سکتا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کرے ؟ یاد رکھو کہ تم جیسے بد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیسے نیک پر فدا ہیں ۔ جب تم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کی ہے تو اب میری زبان سے جو تیز دھار اور بےعیب تلوار سے بھی تیز ہے ۔ بچ کر تم کہاں جاؤ گے ؟ ام المؤمنین سے پوچھا گیا کہ کیا یہ لغو کلام نہیں ؟ آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ” ہرگز نہیں لغو کلام تو شاعروں کی وہ بکواس ہے جو عورتوں وغیرہ کے بارے میں ہوتی ہے “ ۔ آپ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا کیا قرآن میں نہیں کہ اس تہمت میں بڑا حصہ لینے والے کیلئے برا عذاب ہے ؟ فرمایا ” ہاں لیکن کیا جو عذاب انہیں ہوا بڑا نہیں ؟ آنکھیں ان کی جاتی رہیں ، تلوار ان پر اٹھی ، وہ تو کہئے سیدنا صفوان رضی اللہ عنہ رک گئے ورنہ عجب نہیں کہ ان کی نسبت یہ بات سن کر انہیں قتل ہی کر ڈالتے “ ۔ النور
12 اخلاق و آداب کی تعلیم ان آیتوں میں اللہ تبارک و تعالیٰ مومنوں کو ادب سکھاتا ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی شان میں جو کلمات منہ سے نکالے وہ ان کی شایان شان نہ تھے بلکہ انہیں چاہیئے تھا کہ یہ کلام سنتے ہی اپنی شرعی ماں کے ساتھ کم از کم وہ خیال کرتے جو اپنے نفسوں کے ساتھ کرتے ، جب کہ وہ اپنے آپ کو بھی ایسے کام کے لائق نہ پاتے تو شان ام المؤمنین رضی اللہ عنہا کو اس سے بہت اعلیٰ اور بالا جانتے ۔ ایک واقعہ بھی بالکل اسی طرح کا ہوا تھا ، ابوایوب خالد بن زید انصاری رضی اللہ عنہ سے ان کی بیوی صاحبہ ام ایوب رضی اللہ عنہا نے کہا کہ کیا آپ نے وہ بھی سنا جو ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی نسبت کہا جا رہا ہے ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” ہاں اور یہ یقیناً جھوٹ ہے ۔ ام ایوب تم ہی بتاؤ کیا تم کبھی ایسا کر سکتی ہو ؟ “ انہوں نے کہا کہ ” نعوذ باللہ ناممکن “ ۔ آپ نے فرمایا ” پس سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا تو تم سے کہیں افضل اور بہتر ہیں “ ۔ پس جب آیتیں اتریں تو پہلے تو بہتان بازوں کا ذکر ہوا ۔ یعنی حسان رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کا پھر ان آیتوں میں ذکر ہوا ، سیدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ اور ان کی بیوی صاحبہ رضی اللہ عنہا کی اس بات چیت کا جو اوپر مذکور ہوئی ۔ یہ بھی ایک قول ہے کہ یہ مقولہ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا تھا ۔ الغرض مومنوں کو صاف باطن رہنا چاہیئے اور اچھے خیال کرنے چاہئیں بلکہ زبان سے بھی ایسے واقعہ کی تردید اور تکذیب کردینی چاہیئے ۔ اس لیے کہ جو کچھ واقعہ گزرا اس میں شک شبہ کی گنجائش بھی نہ تھی ۔ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا کھلم کھلا سواری پر سوار دن دیہاڑے بھرے لشکر میں پہنچی ہیں ، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہیں اگر اللہ نہ کرے خاکم بدہن کوئی بھی ایسی بات ہوتی تو یہ اس طرح کھلے بندوں عام مجمع میں نہ آتے بلکہ خفیہ اور پوشیدہ طور پر شامل ہو جاتے جو کسی کو کانوں کان خبر تک نہ پہنچے ۔ پس صاف ظاہر ہے کہ بہتان بازوں کی زبان نے جو قصہ گھڑا وہ محض جھوٹ بہتان اور افترا ہے ۔ جس سے انہوں نے اپنے ایمان اور اپنی عزت کو غارت کیا ۔ پھر فرمایا کہ ’ ان بہتان بازوں نے جو کچھ کہا اپنی سچائی پر چار گواہ واقعہ کے کیوں پیش نہیں کئے ؟ اور جب کہ یہ گواہ پیش نہ کرسکیں تو شرعاً اللہ کے نزدیک وہ جھوٹے ہیں ، فاسق و فاجر ہیں ‘ ۔ النور
13 النور
14 اللہ کا فصل نہ ہوتا تو عذاب آ جاتا فرمان ہے کہ ’ اے وہ لوگوں جنہوں نے صدیقہ رضی اللہ عنہا کی بابت اپنی زبانوں کو بری حرکت دی اگر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم تم پر نہ ہوتا کہ وہ دنیا میں تمہاری توبہ کو قبول کرلے اور آخرت میں تمہیں تمہارے ایمان کی وجہ سے معاف فرما دے تو جس بہتان میں تم نے اپنی زبانیں ہلائیں اس میں تمہیں بڑا بھاری عذاب ہوتا ‘ ۔ یہ آیت ان لوگوں کے حق میں ہے جن کے دلوں میں ایمان تھا لیکن رواداری میں کچھ کہہ گئے تھے جیسے مسطع حسان ، حمنہ رضی اللہ عنہم ۔ لیکن جن کے دل ایمان سے خالی تھے جو اس طوفان کے اٹھانے والے تھے جیسے عبداللہ بن ابی بن سلول وغیرہ منافقین یہ لوگ اس حکم میں نہیں تھے ، کیونکہ نہ اس کے پاس ایمان تھا نہ عمل صالح ۔ یہ بھی یاد رہے کہ جس بدی پر جو وعید ہے وہ اسی وقت ثابت ہوتی ہے جب توبہ نہ ہو اور اس کے مقابلہ میں اس جیسی یا اس سے بڑی نیکی نہ ہو ۔ جب کہ تم اس بات کو پھیلا رہے تھے ، اس سے سن کر اس سے کہی اور اس نے سن کر دوسرے سے کہی ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:کتاب التفسیر سورۃ النور) ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی قرأت میں «إِذْ تَلِقُونَہُ بِأَلْسِنَتِکُمْ» ہے یعنی ’ جب کہ تم اس جھوٹ کی اشاعت کر رہے تھے ‘ ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4752) پہلی قرأت جمہور کی ہے ، اور یہ قرأت ان کی ہے جنہیں اس آیت کا زیادہ علم تھا ، اور تم وہ بات زبان سے نکالتے تھے ، جس کا تمہیں علم نہ تھا ۔ تم گو اس کلام کو ہلکا سمجھتے رہے ، لیکن دراصل اللہ کے نزدیک وہ بڑا بھاری کلام تھا ۔ کسی مسلمان عورت کی نسبت ایسی تہمت جرم عظیم ہے ۔ پھر اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ رضی اللہ عنہا کے اوپر ایسا کلمہ ، سمجھ لو کہ کتنا بڑا کبیرا گناہ ہوا ؟ اسی لیے رب کی غیرت اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے جوش میں آئی اور اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرما کر خاتم الانبیاء سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ رضی اللہ عنہا کی پاکیزگی ثابت فرمائی ۔ ہر نبی علیہ السلام کی بیوی کو اللہ تعالیٰ نے اس بے حیائی سے دور رکھا ہے پس کیسے ممکن تھا کہ کہ تمام نبیوں کی بیویوں سے افضل اور ان کی سردار ۔ تمام نبیوں سے افضل اور تمام اولاد آدم کے سردار محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی اس میں آلودہ ہوں ۔ «حَاشَا وَکَلَّا» ۔ پس تم گو اس کلام کو بے وقعت سمجھو لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے ۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ { انسان بعض مرتبہ اللہ کی ناراضگی کا کوئی کلمہ کہہ کر گزرتا ہے ، جس کی کوئی وقعت اس کے نزدیک نہیں ہوتی لیکن اس کی وجہ سے وہ جہنم کے اتنے نیچے طبقے میں پہنچ جاتا ہے کہ جتنی نیچی زمین آسمان سے ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ نیچا ہوتا ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6477) النور
15 النور
16 پہلے تحقیق کرو پھر بولو پہلے تو نیک گمانی کا حکم دیا ۔ یہاں دوسرا حکم دے رہا ہے کہ ’ بھلے لوگوں کی شان میں کوئی برائی کا کلمہ بغیر تحقیق ہرگز نہ نکلنا چاہیئے ، برے خیالات ، گندے الزامات اور شیطانی وسوسوں سے دور رہنا چاہیئے ۔ کبھی ایسے کلمات زبان سے نہ نکالنے چاہیں ، گو دل میں کوئی ایسا وسوسہ شیطانی پیدا بھی ہو تو زبان قابو میں رکھنی چاہیئے ‘ ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ { اللہ تعالیٰ نے میری امت کے دلوں میں پیدا ہونے والے وسوسوں سے درگزر فرما لیا ہے ، جب تک وہ زبان سے نہ کہیں یا عمل میں نہ لائیں } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2528) تمہیں چاہیئے تھا کہ ایسے بے ہودہ کلام کو سنتے ہی کہہ دیتے کہ ہم ایسی لغویات سے اپنی زبان نہیں بگاڑتے ۔ ہم سے یہ بے ادبی نہیں ہو سکتی کہ اللہ کے خلیل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی صاحبہ کی نسبت کوئی ایسی لغویات کہیں ، اللہ کی ذات پاک ہے ۔ دیکھو خبردار آئندہ کبھی ایسی حرکت نہ ہو ورنہ ایمان کے ضبط ہونے کا اندیشہ ہے ۔ ہاں اگر کوئی شخص ایمان سے ہی کورا ہو تو وہ تو بے ادب ، گستاخ اور بھلے لوگوں کی اہانت کرنے والا ہوتا ہی ہے ۔ احکام شرعیہ کو اللہ تعالیٰ تمہارے سامنے کھول کھول کر بیان فرما رہا ہے ۔ وہ اپنے بندوں کی مصلحتوں سے واقف ہے ۔ اس کا کوئی حکم حکمت سے خالی نہیں ہوتا ۔ النور
17 النور
18 النور
19 برائی کی تشہیر نہ کرو یہ تیسری تنبیہ ہے کہ جو شخص کوئی ایسی بات سنے ، اسے اس کا پھیلانا حرام ہے جو ایسی بری خبروں کو اڑاتے پھیرتے ہیں ۔ دنیوی سزا یعنی حد بھی لگے گی اور اخروی سزا یعنی عذاب جہنم بھی ہوگا ۔ اللہ تعالیٰ عالم ہے ، تم بے علم ہو ، پس تمہیں اللہ کی طرف تمام امور لوٹانے چاہئیں ۔ حدیث شریف میں ہے { بندگان اللہ کو ایذاء نہ دو ، انہیں عار نہ دلاؤ ۔ ان کی خفیہ باتوں کی ٹوہ میں نہ لگے رہو ۔ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے عیوب ٹٹولے گا ، اللہ اس کے عیبوں کے پیچھے پڑ جائے گا اور اسے یہاں تک رسوا کرے گا کہ اس کے گھر والے بھی اسے بری نظر سے دیکھنے لگیں گے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:279/5:صحیح لغیرہ) النور
20 شیطانی راہوں پر مت چلو یعنی اگر اللہ کا فضل و کرم ، لطف و رحم نہ ہوتا تو اس وقت کوئی اور ہی بات ہو جاتی مگر اس نے توبہ کرنے والوں کی توبہ قبول فرمالی ۔ پاک ہونے والوں کو بذریعہ حد شرعی کے پاک کردیا ۔ شیطانی طریقوں پر شیطانی راہوں میں نہ چلو ، اس کی باتیں نہ مانو ۔ وہ تو برائی کا ، بدی کا ، بدکاری کا ، بے حیائی کا حکم دیتا ہے ۔ پس تمہیں اس کی باتیں ماننے سے پرہیز کرنا چاہیئے ۔ اس کے عمل سے بچنا چاہیئے اس کے وسوسوں سے دور رہنا چاہے ۔ اللہ کی ہر نافرمانی میں قدم شیطان کی پیروی ہے ۔ ایک شخص نے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ” میں نے فلاں چیز کھانے کی قسم کھالی ہے ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” یہ شیطان کا بہکاوا ہے ، اپنی قسم کا کفارہ دے دو اور اسے کھا لو “ ۔ ایک شخص نے شعبی رحمہ اللہ سے کہا کہ میں نے اپنے بچے کو ذبح کرنے کی نذر مانی ہے ۔ آپ رحمہ اللہ نے فرمایا ، ” یہ شیطانی حرکت ہے ، ایسا نہ کرو ، اس کے بدلے ایک بھیڑ ذبح کرو “ ۔ ابورافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ” ایک مرتبہ میرے اور میری بیوی کے درمیان جھگڑا ہو گیا ۔ وہ بگڑ کر کہنے لگیں کہ ایک دن وہ یہودیہ ہے اور ایک دن نصرانیہ ہے اور اس کے تمام غلام آزاد ہیں ، اگر تو اپنی بیوی کو طلاق نہ دے ۔ میں نے آ کر سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے یہ مسئلہ دریافت کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” یہ شیطانی حرکت ہے “ ۔ سیدہ زینب بن ام سلمہ رضی اللہ عنہا جو اس وقت سب سے زیادہ دینی سمجھ رکھنے والی عورت تھیں ، انہوں نے بھی یہی فتوی دیا اور عاصم بن عمرو رضی اللہ عنہ کی بیوی نے بھی یہی بتایا ۔ پھر فرماتا ہے ’ اگر اللہ کا فضل و کرم نہ ہوتا تو تم میں سے ایک بھی اپنے آپ کو شرک و کفر ، برائی اور بدی سے نہ بچا سکتا ۔ یہ رب کا احسان ہے کہ وہ تمہیں توبہ کی توفیق دتیا ہے پھر تم پر مہربانی سے رجوع کرتا ہے اور تمہیں پاک صاف بنا دیتا ہے ۔ اللہ جسے چاہے پاک کرتا ہے اور جسے چاہے ہلاکت کے گڑھے میں دھکیل دیتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی باتیں سننے والا ، ان کے احوال کو جاننے والا ہے ۔ ہدایت یاب اور گمراہ سب اس کی نگاہ میں ہیں اور اس میں بھی اس حکیم مطلق کی بے پایاں حکمت ہے ‘ ۔ النور
21 النور
22 دولت مند افراد سے خطاب تم میں سے جو کشادہ روزی والے ، صاحب مقدرت ہیں ، صدقہ اور احسان کرنے والے ہیں انہیں اس بات کی قسم نہ کھانی چاہیئے کہ وہ اپنے قرابت داروں ، مسکینوں ، مہاجروں کو کچھ دیں گے ہی نہیں ۔ اس طرح انہیں متوجہ فرما کر پھر اور نرم کرنے کے لیے فرمایا کہ ’ ان کی طرف سے کوئی قصور بھی سرزد ہوگیا ہو تو انہیں معاف کر دینا چاہیئے ۔ ان سے کوئی ایذاء یا برائی پہنچی ہو تو ان سے درگزر کر لینا چاہیئے ۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا حکم و کرم اور لطف رحم ہے کہ وہ اپنے نیک بندوں کو بھلائی کا ہی حکم دیتا ہے ‘ ۔ یہ آیت سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں اتری ہے جب کہ آپ رضی اللہ عنہ نے سیدنا مسطح بن اثاثہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ کسی قسم کا سلوک کرنے کی قسم کھا لی تھی کیونکہ بہتان سیدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا میں یہ بھی شامل تھے ۔ جیسے کہ پہلے کی آیتوں کی تفسیر میں یہ واقعہ گزر چکا ہے تو جب حقیقت اللہ تعالیٰ نے ظاہر کر دی ، ام المؤمنین رضی اللہ عنہا بری ہو گئیں ، مسلمانوں کے دل روشن ہوگئے ، مومنوں کی توبہ قبول ہوگئی ، تہمت رکھنے والوں میں سے بعض کو حد شرعی لگ چکی ، تو اللہ تعالیٰ نے سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ کو سیدنا مسطح رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ فرمایا جو آپ رضی اللہ عنہ کی خالہ صاحبہ کے فرزند تھے اور مسکین شخص تھے ۔ سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ ہی ان کی پرورش کرتے رہتے تھے ، یہ مہاجر تھے لیکن اس بارے میں اتفاقیہ زبان کھل گئی تھی ۔ انہیں تہمت کی حد لگائی گئی تھی ۔ سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ کی سخاوت مشہور تھی ، کیا اپنے کیا غیر سب کے ساتھ آپ رضی اللہ عنہ کا حسن سلوک عام تھا ۔ آیت کے یہ خصوصی الفاظ سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ کے کان میں پڑے کہ ’ کیا تم بخشش الٰہی کے طالب نہیں ہو ؟ ‘ آپ رضی اللہ عنہ کی زبان سے بےساختہ نکل گیا کہ ” ہاں قسم ہے اللہ کی ہماری تو عین چاہت ہے کہ اللہ ہمیں بخشے “ ، اور اسی وقت سے سیدنا مسطح رضی اللہ عنہ کو جو کچھ دیا کرتے تھے ، جاری کر دیا ۔ گویا ان آیتوں میں ہمیں تلقین ہوئی کہ جس طرح ہم چاہتے ہیں کہ ہماری تقصیریں معاف ہو جائیں ، ہمیں چاہیئے کہ دوسروں کی تقصیروں سے بھی درگزر کر لیا کریں ۔ یہ بھی خیال میں رہے کہ جس طرح آپ نے پہلے یہ فرمایا تھا کہ واللہ میں اس کے ساتھ کبھی بھی سلوک نہ کروں گا ۔ اب عہد کیا کہ واللہ میں اس سے کبھی بھی اس کا مقررہ روزینہ نہ روکوں گا ۔ سچ ہے صدیق صدیق ہی تھے رضی اللہ عنہ ۔ النور
23 ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے گستاخ پر اللہ کی لعنت جب کہ عام مسلمان عورتوں پر طوفان اٹھانے والوں کی سزا یہ ہے تو انبیاء علیہم السلام کی بیویوں پر جو مسلمانوں کی مائیں ہیں ، بہتان باندھنے والوں کی سزا کیا ہوگی ؟ اور خصوصا اس بیوی پر جو سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی تھیں رضی اللہ عنہا ۔ علماء کرام کا اس پر اجماع ہے کہ ان آیتوں کے نزول کے بعد بھی جو شخص ام المؤمنین رضی اللہ عنہا کو اس الزام سے یاد کرے ، وہ کافر ہے کیونکہ اس نے قرآن پاک کے خلاف کیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اور ازواج مطہرات «رَضِیَ اللہُ عَنْہُنَّ وَأَرْضَاہُنَّ» کے بارے میں صحیح قول یہی ہے کہ وہ بھی مثل صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ فرماتا ہے کہ ’ ایسے موذی بہتان پرداز دنیا اور آخرت میں لعنت اللہ کے مستحق ہیں ‘ ۔ جیسے اور آیت میں ہے «اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ لَعَنَہُمُ اللّٰہُ فِی الدٰنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ وَاَعَدَّ لَہُمْ عَذَابًا مٰہِیْنًا» ۱؎ (33-الأحزاب:57) ، یعنی ’ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذاء دیتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ کی پھٹکار ہے اور ان کے لیے رسواکرنے والے عذاب تیار ہیں ‘ ۔ بعض لوگوں کا قول ہے کہ یہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ مخصوص ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ یہی فرماتے ہیں ۔ سعید بن جبیر ، مقاتل بن حیان رحمہ اللہ علیہم کا بھی یہی قول ہے ۔ ابن جریر رحمہ اللہ نے بھی ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ نقل کیا ہے لیکن پھر جو تفصیل وار روایت لائے ہیں اس میں آپ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگنے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی آنے اور اس آیت کے نازل ہونے کا ذکر ہے لیکن آپ رضی اللہ عنہا کے ساتھ اس حکم کے مخصوص ہونے کا ذکر نہیں ۔ پس سبب نزول گو خاص ہو لیکن حکم عام رہتا ہے ۔ ممکن ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ وغیرہ کے قول کا بھی یہی مطلب ہو ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ بعض بزرگ فرماتے ہیں کہ کل ازواج مطہرات «رَضِیَ اللہُ عَنْہُنَّ وَأَرْضَاہُنَّ» کا تو یہ حکم ہے لیکن اور مومنہ عورتوں کا یہ حکم نہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اس آیت سے تو مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں «رَضِیَ اللہُ عَنْہُنَّ وَأَرْضَاہُنَّ» ہیں کہ اہل نفاق جو اس تہمت میں تھے ، سب راندہ درگاہ ہوئے ، لعنتی ٹھہرے اور غضب اللہ کے مستحق بن گئے ۔ اس کے بعد عام مومنہ عورتوں پر بدکاری کا بہتان باندھنے والوں کے حکم میں آیت «وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَاْتُوْا بِاَرْبَعَۃِ شُہَدَاءَ فَاجْلِدُوْہُمْ ثَمٰنِیْنَ جَلْدَۃً وَّلَا تَــقْبَلُوْا لَہُمْ شَہَادَۃً اَبَدًا وَاُولٰیِٕکَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ إِلَّا الَّذِینَ تَابُوا مِن بَعْدِ ذٰلِکَ وَأَصْلَحُوا فَإِنَّ اللہَ غَفُورٌ رَّحِیمٌ» (24-النور:5 ، 4) ، اتری پس انہیں کوڑے لگیں گے ۔ اگر انہوں نے توبہ کی توبہ تو قبول ہے لیکن گواہی ان کی ہمیشہ تک غیر معبتر رہے گی ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ سورۃ النور کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ” یہ آیت توحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں «رَضِیَ اللہُ عَنْہُنَّ وَأَرْضَاہُنَّ» کے بارے میں اتری ہے ، ان بہتان بازوں کی توبہ بھی قبول نہیں ۔ اس آیت میں ابہام ہے ، اور چار گواہ نہ لاسکنے کی آیت عام ایماندار عورتوں پر تہمت لگانے والوں کے حق میں ہے ، ان کی توبہ مقبول ہے “ ، یہ سن کر اکثر لوگوں کا ارادہ ہوا کہ آپ کی پیشانی چوم لیں ۔ کیونکہ آپ نے نہایت ہی عمدہ تفسیر کی تھی ۔ ابہام سے مراد یہ ہے کہ ہر پاک دامن عورت کی شان میں حرمت تہمت عام ہے ، اور ایسے سب لوگ ملعون ہیں ۔ عبدالرحمٰن رحمہ اللہ فرماتے ہیں ہر ایک بہتان باز اس حکم میں شامل ہے لیکن سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بطور اولیٰ ہیں ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ بھی عموم ہی کو پسند فرماتے ہیں اور یہی صحیح بھی ہے اور عموم کی تائید میں یہ حدیث بھی ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { سات گناہوں سے بچو جو مہلک ہیں } ۔ پوچھا گیا وہ کیا ہیں ؟ فرمایا : { اللہ کے ساتھ شرک کرنا ، جادو کسی کو بلا وجہ مار ڈالنا ، سود کھانا ، یتیم کا مال کھانا ، جہاد سے بھاگنا ، پاک دامن بھولی مومنہ پر تہمت لگانا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2766) اور حدیث میں ہے { پاک دامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگانے والے کی سو سال کی نیکیاں غارت ہیں } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:3023:ضعیف) اعضاء کی گواہی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ ” جب مشرکین دیکھیں گے کہ جنت میں سوائے نمازوں کے اور کوئی نہیں بھیجا جاتا تو وہ کہیں گے آؤ ہم بھی انکار کردیں چنانچہ اپنے شرک کا یہ انکار کردیں گے ۔ اسی وقت ان کے منہ پر مہر لگ جائے گی اور ہاتھ پاؤں گواہی دینے لگیں گے اور اللہ سے کوئی بات چھپا نہ سکیں گے “ ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { کافروں کے سامنے جب ان کی بداعمالیاں پیش کی جائیں گی تو وہ انکار کر جائیں گے اور اپنی بے گناہی بیان کرنے لگیں گے تو کہا جائے گا یہ ہیں تمہارے پڑوسی یہ تمہارے خلاف شہادت دے رہے ہیں ۔ یہ کہیں گے یہ سب جھوٹے ہیں تو کہا جائے گا کہ اچھا خود تمہارے کنبے کے قبیلے کے لوگ موجود ہیں ۔ یہ کہہ دیں گے یہ بھی جھوٹے ہیں تو کہا جائے گا ۔ اچھا تم قسمیں کھاؤ ، یہ قسمیں کھا لیں گے پھر اللہ انہیں گونگا کر دے گا اور خود ان کے ہاتھ پاؤں ان کی بداعمالیوں کی گواہی دیں گے ۔ پھر انہیں جہنم میں بھیج دیا جائے گا } } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:25888:ضعیف) سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں { ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس دئے اور فرمانے لگے ، { جانتے ہو میں کیوں ہنسا ؟ } ہم نے کہا اللہ ہی جانتا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { بندہ قیامت کے دن اپنے رب سے جو حجت بازی کرے گا اس پر یہ کہے گا کہ اللہ کیا تو نے مجھے ظلم سے نہیں روکا تھا ؟ اللہ فرمائے گا ’ ہاں ‘ ۔ تو یہ کہے گا ، بس آج جو گواہ میں سچا مانوں ، اسی کی شہادت میرے بارے میں معتبر مانی جائے ۔ اور وہ گواہ سوا میرے اور کوئی نہیں ۔ اللہ فرمائے گا ، ’ اچھا یونہی سہی تو ہی اپنا گواہ رہ ‘ ، اب منہ پر مہر لگ جائے گی اور اعضاء سے سوال ہوگا تو وہ سارے عقدے کھول دیں گے ۔ اس وقت بندہ کہے گا ، تم غارت ہو جاؤ ، تمہیں بربادی آئے تمہاری طرف سے ہی تو میں لڑ جھگڑ رہا تھا } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2969) قتادہ رحمہ اللہ فرماتے تھے ” اے ابن آدم تو خود اپنی بد اعمالیوں کا گواہ ہے ، تیرے کل جسم کے اعضاء تیرے خلاف بولیں گے ، ان کا خیال رکھ اللہ سے پوشیدگی اور ظاہری میں ڈرتا رہ ۔ اس کے سامنے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ، اندھیرا اس کے سامنے روشنی کی مانند ہے ۔ چھپا ہوا اس کے سامنے کھلا ہوا ہے ۔ اللہ کے ساتھ نیک گمانی کی حالت میں مرو ۔ اللہ ہی کے ساتھ ہماری قوتیں ہیں “ ۔ یہاں دین سے مراد حساب ہے ۔ جمہور کی قرأت میں حق کا زبر ہے کیونکہ وہ دین کی صفت ہے ۔ مجاہد رحمہ اللہ نے «الْحَقَّ» پڑھا ہے کہ یہ لغت ہے لفظ اللہ کی ۔ ابی بن کعب کے مصحف میں «یَوْمَئِذٍ یُوَفِّیہِمُ اللہُ الْحَقٰ دِینَہُمْ» بعض سلف سے پڑھنا مروی ہے ۔ ’ اس وقت جان لیں گے کہ اللہ کے وعدے وعید حق ہیں ۔ اس کا حساب عدل والا ہے ظلم سے دور ہے ‘ ۔ النور
24 النور
25 النور
26 بھلی بات کے حق دار بھلے لوگ ہی ہیں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ” ایسی بری بات برے لوگوں کے لیے ہے ، بھلی بات کے حقدار بھلے لوگ ہوتے ہیں “ ۔ یعنی اہل نفاق نے سیدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر جو تہمت باندھی اور ان کی شان میں جو بد الفاظی کی اس کے لائق وہی ہیں اس لیے کہ وہی بد ہیں اور خبیث ہیں ۔ سیدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا چونکہ پاک ہیں اس لیے وہ پاک کلموں کے لائق ہیں وہ ناپاک بہتان سے بری ہیں ۔ یہ آیت بھی ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ آیت کا صاف مطلب یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو ہر طرح سے طیب ہیں ، ناممکن ہے کہ ان کے نکاح میں اللہ کسی ایسی عورت کو دے جو خبیثہ ہو ۔ خبیثہ عورتیں تو خبیث مردوں کے لیے ہوتی ہیں ۔ اسی لیے فرمایا کہ ’ یہ لوگ ان تمام تہمتوں سے پاک ہیں جو دشمنان اللہ باندھ رہے ہیں ۔ انہیں ان کی بدکلامیوں سے جو رنج وایذاء پہنچی وہ بھی ان کے لیے باعث مغفرت گناہ بن جائے گی ۔ اور یہ چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ہیں ، جنت عدن میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی رہیں گی ‘ ۔ ایک مرتبہ اسیر بن جابر ، عبداللہ رضی اللہ عنہ کے پاس آ کر کہنے لگے آج تو میں نے ولید بن عقبہ سے ایک نہایت ہی عمدہ بات سنی تو عبداللہ نے فرمایا ” ٹھیک ہے مومن کے دل میں پاک بات اترتی ہے اور وہ اس کے سینے میں آ جاتی ہے پھر وہ اسے زبان سے بیان کرتا ہے ، وہ بات چونکہ بھلی ہوتی ہے ، بھلے سننے والے اسے اپنے دل میں بٹھالیتے ہیں اور اسی طرح بری بات برے لوگوں کے دلوں سے سینوں تک اور وہاں سے زبانوں تک آتی ہے ، برے لوگ اسے سنتے ہیں اور اپنے دل میں بٹھالیتے ہیں “ ۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی ۔ مسند احمد میں حدیث ہے کہ { جو شخص بہت سی باتیں سنے ، پھر ان میں جو سب سے خراب ہو اسے بیان کرے ، اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص کسی بکریوں والے سے ایک بکری مانگے وہ اسے کہے کہ جا اس ریوڑ میں سے تجھے جو پسند ہو لے لے ۔ یہ جائے اور ریوڑ کے کتے کا کان پکڑ کر لے جائے } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:4172 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) اور حدیث میں ہے { حکمت کا کلمہ مومن کی گم گشتہ دولت ہے جہاں سے پائے لے لے } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:4169 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) النور
27 شرعی آداب شرعی ادب بیان ہو رہا ہے کہ ’ کسی کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے اجازت مانگو ، جب اجازت ملے ، جاؤ پہلے سلام کرو ، اگر پہلی دفعہ کی اجازت طلبی پر جواب نہ ملے تو پھر اجازت مانگو ۔ تین مرتبہ اجازت چاہو اگر پھر بھی اجازت نہ ملے تو لوٹ جاؤ ‘ ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ { سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ ، سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس گئے ۔ تین دفعہ اجازت مانگی ، جب کوئی نہ بولا تو آپ رضی اللہ عنہ واپس لوٹ گئے ۔ تھوڑی دیر میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے کہا ! دیکھو عبداللہ بن قیس رضی اللہ عنہ آنا چاہتے ہیں ، انہیں بلا لو لوگ گئے ، دیکھا تو وہ چلے گئے ہیں ۔ واپس آ کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو خبر دی ۔ دوبارہ جب ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کی ملاقات ہوئی تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہا نے پوچھا آپ رضی اللہ عنہ واپس کیوں چلے گئے تھے ؟ جواب دیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ { تین دفعہ اجازت چاہنے کے بعد بھی اگر اجازت نہ ملے تو واپس لوٹ جاؤ } ۔ النور
28 1 { میں نے تین بار اجازت چاہی جب جواب نہ آیا تو میں اس حدیث پر عمل کرکے واپس لوٹ گیا ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” اس پر کسی گواہ کو پیش کرو ورنہ میں تمہیں سزا دوں گا “ ۔ آپ رضی اللہ عنہ وہاں سے اٹھ کر انصار کے ایک مجمع میں پہنچے اور سارا واقعہ ان سے بیان کیا اور فرمایا کہ ” تم میں سے کسی نے اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم سنا ہو تو میرے ساتھ چل کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہہ دے “ ۔ انصار نے کہا یہ مسئلہ تو عام ہے بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ہم سب نے سنا ہے ہم اپنے سب سے نوعمر لڑکے کو تیرے ساتھ کر دیتے ہیں ، یہی گواہی دے آئیں گے ۔ چنانچہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ گئے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے جا کر کہا کہ میں نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی سنا ہے ۔ عمر رضی اللہ عنہ اس وقت افسوس کرنے لگے کہ بازاروں کے لین دین نے مجھے اس مسئلہ سے غافل رکھا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2026) { ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے اجازت مانگی ۔ فرمایا : { السلام علیکم ورحمۃ اللہ ! } سعد رضی اللہ عنہ نے جواب میں وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ تو کہہ دیا لیکن ایسی آواز سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ سنیں ۔ چنانچہ تین بار یہی ہوا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سلام کرتے ، آپ رضی اللہ عنہ جواب دیتے لیکن اس طرح کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سنیں نہیں ۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے واپس لوٹ چلے ۔ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے لپکے ہوئے آئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی تمام آوازیں میرے کانوں میں پہنچ رہی تھیں ۔ میں نے ہر سلام کا جواب بھی دیا لیکن اس خیال سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں بہت ساری لوں اور زیادہ برکت حاصل کروں کہ جواب اس طرح نہ دیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنائی دے اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلئے ! تشریف رکھئے چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گئے ۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کشمش لا کر رکھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نوش فرمائیں اور فارغ ہو کر فرمانے لگے { تمہارا کھانا نیک لوگوں نے کھایا ۔ فرشتے تم پر رحمت بھیج رہے ہیں ، تمہارے ہاں روزے داروں نے روزہ کھولا } ۔ ۱؎ (مسند احمد:138/3:حسن) اور روایت میں ہے کہ { جس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کیا اور سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے آہستہ جواب دیا تو ان کے لڑکے سیدنا قیس رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اجازت کیوں نہیں دیتے ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا خاموش رہو دیکھو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ سلام کہیں گے ، ہمیں دوبارہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا ملے گی ۔ اس میں یہ بھی ہے کہ یہاں جا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل کیا ۔ سعد رضی اللہ عنہ نے زعفران یا ورس سے رنگی ہوئی ایک چادر پیش کی ، جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جسم مبارک پر لپیٹ لی ، پھر ہاتھ اٹھا کر سعد رضی اللہ عنہ کے لیے دعا کی کہ { اے اللہ سعد بن عبادہ کی آل پر اپنے درود و رحمت نازل فرما } ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہیں کھانا تناول فرمایا جب واپس جانے کا ارادہ کیا تو سعد رضی اللہ عنہا اپنے گدھے پر پالان کس لائے ۔ اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کے لیے پیش کیا اور اپنے لڑکے قیس رضی اللہ عنہ سے کہا تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جاؤ ۔ یہ ساتھ چلے مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا : { قیس آؤ تم بھی سوار ہو جاؤ } ۔ انہوں نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے تو یہ نہ ہو سکے گا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { دو باتوں میں سے ایک تمہیں ضرور کرنی ہوگی یا تو میرے ساتھ اس جانور پر سوار ہو جاؤ یا واپس چلے جاؤ } ، قیس رضی اللہ عنہ نے واپس جانا منظور کر لیا } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:5185،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) یہ یاد رہے کہ اجازت مانگنے والا گھر کے دروازے کے بالمقابل کھڑا نہ رہے بلکہ دائیں بائیں قدرے کھسک کے کھڑا رہے ۔ کیونکہ ابوداؤد میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کے ہاں جاتے تو اس کے دروازے کے بالکل سامنے کھڑے نہ ہوتے بلکہ ادھر یا ادھر قدرے دور ہو کر زور سے سلام کہتے اس وقت تک دروازوں پر پردے بھی نہیں ہوتے تھے } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:5186،قال الشیخ الألبانی:صحیح) { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان کے دروازے کے سامنے ہی کھڑے ہو کر ایک شخص نے اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تعلیم دی کہ { نظر نہ پڑے اسی لیے تو اجازت مقرر کی گئی ہے ۔ پھر دروازے کے سامنے کھڑے ہو کر آواز دینے کے کیا معنی ؟ یا تو ذرا سا ادھر ہو جاؤ یا ادھر } } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:5174،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ایک اور حدیث میں ہے کہ { اگر کوئی تیرے گھر میں تیری اجازت کے بغیر جھانکنے لگے اور تو اسے کنکر مارے جس سے اس کی آنکھ پھوٹ جائے تو تجھے کوئی گناہ نہ ہوگا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6902) { سیدنا جابر رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ اپنے والد مرحوم کے قرضے کی ادائیگی کے فکر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ، دروازہ پر دستک دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا { کون صاحب ہیں ؟ } جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { میں میں } گویا آپ نے ناپسند فرمایا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6250) کیونکہ ” میں “ کہنے سے یہ تو معلوم نہیں ہوسکتا کون ہے جب تک کے نام یا مشہور کنیت نہ بتائی جائے ” میں “ تو ہر شخص اپنے لیے کہہ سکتا ہے ۔ پس اجازت طلبی کا اصلی مقصود حاصل نہیں ہو سکتا ۔ «الِاسْتِئْذَانُ» ، «الِاسْتِئْنَاسُ» ایک ہی بات ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے تھے «تَسْتَأْنِسُوا» کاتبوں کی غلطی ہے ۔ «تَسْتَأْذِنُوا» لکھنا چاہیئے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی ہی قرأت تھی اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی بھی ۔ لیکن یہ بہت غریب ہے ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے اپنے مصحف میں «حَتَّی تُسَلِّمُوا عَلَی أَہْلِہَا وَتَسْتَأْذِنُوا» ہے ۔ صفوان بن امیہ جب مسلمان ہوگئے تو ایک مرتبہ کلدہ بن حنبل کو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا ۔ آپ اس وقت وادی کے اونچے حصے میں تھے یہ سلام کئے بغیر اور اجازت لیے بغیر ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { لوٹ جاؤ ، اور کہو السلام علیکم کیا میں آؤں ؟ } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:5176،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اور حدیث میں ہے { قبیلہ بنو عامر کا ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر آیا اور کہنے لگا میں اندر آ جاؤں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے غلام سے فرمایا : { جاؤ اور اسے اجازت مانگنے کا طریقہ سکھاؤ کہ پہلے تو سلام کرے پھر دریافت کرے } ۔ اس شخص نے یہ سن لیا اور اسی طرح سلام کر کے اجازت چاہی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی اور وہ اندر گئے } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:5177،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ایک اور حدیث میں ہے { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی خادمہ سے فرمایا تھا } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:25917:مرسل) اور حدیث میں ہے { کلام سے پہلے سلام ہونا چاہیئے } ۔ یہ حدیث ضعیف ہے ، ترمذی میں موجود ہے ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2699،قال الشیخ الألبانی:حسن) سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ قضائے حاجت سے فارغ ہو کر آ رہے تھے لیکن دھوپ کی تاب نہ لا سکے تو ایک قریشی کی جھونپڑی کے پاس پہنچ کر فرمایا السلام علیکم کیا میں اندر آ جاؤں اس نے کہا سلامتی سے آ جاؤ آپ رضی اللہ عنہ نے پھر یہی کہا اس نے پھر یہی جواب دیا ۔ آپ رضی اللہ عنہ کے پاؤں جل رہے تھے کبھی اس قدم پر سہارا لیتے ، کبھی اس قدم پر ، فرمایا یوں کہو کہ آ جاؤ ، اب آپ رضی اللہ عنہ اندر تشریف لے گئے ۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس چار عورتیں گئیں ، اجازت چاہی کہ کیا ہم آ جائیں ؟ آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ” نہیں ! تم میں جو اجازت کا طریقہ جانتی ہو اسے کہو کہ وہ اجازت لے “ ۔ تو ایک عورت نے پہلے سلام کیا ، پھر اجازت مانگی ، ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اجازت دے دی ، پھر یہی آیت پڑھ کر سنائی ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” اپنی ماں اور بہنوں کے پاس بھی جانا ہو تو ضرور اجازت لے لیا کرو “ ۔ { انصار کی ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ میں بعض دفعہ گھر میں اس حالت میں ہوتی ہوں کہ اس وقت اگر میرے باپ بھی آجائیں یا میرا اپنا لڑکا بھی اس وقت آ جائے تو مجھے برا معلوم ہوتا ہے کیونکہ وہ حالت ایسی نہیں ہوتی کہ اس وقت کسی کی بھی نگاہ مجھ پر پڑے تو میں ناخوش نہ ہوؤں ۔ اور گھر والوں میں سے کوئی آہی جاتا ہے اس وقت یہ آیت اتری } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:25921:ضعیف) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” تین آیتیں ہیں کہ لوگوں نے ان پر عمل چھوڑ رکھا ہے ایک تو یہ کہ اللہ فرماتا ہے ’ تم میں سے سب سے زیادہ بزرگی والا وہ ہے جو سب سے زیادہ اللہ کا خوف رکھتا ہو ‘ ۔ اور لوگوں کا خیال یہ ہے کہ سب سے بڑا وہ ہے جو سب سے زیادہ امیر ہو ، اور ادب کی آیتیں بھی لوگ چھوڑ بیٹھتے ہیں “ ۔ عطار حمۃ اللہ علیہ نے پوچھا ۔ میرے گھر میں میری یتیم بہنیں ہیں جو ایک ہی گھر میں رہتی ہیں اور میں ہی انہیں پالتا ہوں کیا ان کے پاس جانے کے لیے بھی مجھے اجازت کی ضرورت ہے ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” ہاں ضرور اجازت طلب کیا کرو “ ، میں نے دوبارہ یہی سوال کیا کہ شاید کوئی رخصت کا پہلو نکل آئے ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” کیا تم انہیں ننگا دیکھنا پسند کرو گے ؟ “ میں نے کہا نہیں فرمایا ” پھر ضرور اجازت مانگا کرو “ ۔ میں نے یہی سوال دوہرایا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” کیا تو اللہ کا حکم مانے گا یا نہیں ؟ “ میں نے کہا ہاں مانوں گا ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” پھر بغیر اطلاع ہرگز ان کے پاس بھی نہ جاؤ “ ۔ طاؤس رحمہ اللہ فرماتے ہیں محرمات ابدیہ پر ان کی عریانی کی حالت میں نظر پڑ جائے اس سے زیادہ برائی میرے نزدیک اور کوئی نہیں ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ اپنی ماں کے پاس بھی گھر میں بغیر اطلاع کے نہ جاؤ ۔ عطا رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ بیوی کے پاس بھی بغیر اجازت کے نہ جائے ؟ فرمایا ” یہاں اجازت کی ضرورت نہیں “ ۔ یہ قول بھی محمول ہے اس پر کہ اس سے اجازت مانگنے کی ضرورت نہیں لیکن تاہم اطلاع ضرور ہونی چاہیئے ممکن ہے وہ اس وقت ایسی حالت میں ہو کہ وہ نہیں چاہتی کہ خاوند بھی اس حالت میں اسے دیکھے ۔ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ” میرے خاوند عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جب میرے پاس گھر میں آتے تو کھنکار کر آتے ۔ کبھی بلند آواز سے دروازے کے باہر کسی سے باتیں کرنے لگتے تاکہ گھر والوں کو آپ رضی اللہ عنہ کی اطلاع ہو جائے “ ۔ چنانچہ مجاہد رحمہ اللہ نے «تَسْتَأْنِسُوا» کے معنی بھی یہی کئے ہیں کہ کھنکار دے یا جوتیوں کی آہٹ سنا دے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ { سفر سے رات کے وقت بغیر اطلاع گھر آجانے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے ۔ کیونکہ اس سے گویا گھر والوں کی خیانت کا پوشیدہ طور پر ٹٹولنا ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1801) { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ایک سفر سے صبح کے وقت آئے تو حکم دیا کہ { بستی کے پاس لوگ اتریں تاکہ مدینے میں خبر مشہور ہو جائے ، شام کو اپنے گھروں میں جانا ، اس لیے کہ اس اثناء میں عورتیں اپنی صفائی ستھرائی کر لیں } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5245) اور حدیث میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا سلام تو ہم جانتے ہیں لیکن «اسْتِئْنَاسُ» کا طریقہ کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { «سُبْحَانَ اللہِ » یا «اَلْحَمْدُ لِلہِ» یا «اﷲ اَکْبَر» بلند آواز سے کہہ دینا یا کھنکار دینا جس سے گھر والے معلوم کر لیں کہ فلاں آ رہا ہے } } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:3707،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” تین بار کی اجازت اس لیے مقرر ہے کی ہے کہ پہلی دفعہ میں تو گھر والے معلوم کر لیں کہ فلاں ہے ۔ دوسری دفعہ میں وہ سنبھل جائیں اور ہوشیار ہو جائیں ۔ تیسری مرتبہ میں اگر وہ چاہیں اجازت دیں چاہیں منع کردیں ۔ جب اجازت نہ ملے پھر دروازے پر ٹھہرا رہنا برا ہے ، لوگوں کو اپنے کام اور اشغال ایسے ضروری ہوتے ہیں کہ وہ اس وقت اجازت نہیں دے سکتے “ ۔ مقاتل میں حیان رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جاہلیت کے زمانے میں دستور نہ تھا ، ایک دوسرے سے ملتے تھے لیکن سلام نہ کرتے تھے ۔ کسی کے ہاں جاتے تھے تو اجازت نہیں لیتے تھے یونہی جا دھمکے پھر کہہ دیا کہ میں آ گیا ہوں ۔ تو بسا اوقات یہ گھر والے پر گراں گزرتا ۔ ایسا بھی ہوتا کہ وہ اپنے گھر میں کبھی ایسے حال میں ہوتا ہے کہ اس میں اس کا آنا بہت برا لگتا ۔ اللہ تعالیٰ نے یہ تمام برے دستور اچھے آداب سکھا کر بدل دئیے ۔ اسی لیے فرمایا کہ ’ یہی طریقہ تمہارے لیے بہتر ہے ۔ اس میں مکان والے کو آنے والے کو دونوں کو راحت ہے ۔ یہ چیزیں تمہاری نصیحت اور خیر خواہی کی ہیں ۔ اگر وہاں کسی کو نہ پاؤ تو بے اجازت اندر نہ جاؤ ۔ کیونکہ یہ دوسرے کی ملک میں تصرف کرنا ہے جو ناجائز ہے ۔ مالک مکان کو حق ہے اگر وہ چاہے اجازت دے ، چاہے روک دے ۔ اگر تمہیں کہا جائے ، لوٹ جاؤ تو تمہیں واپس چلا جانا چاہے ۔ اس میں برا ماننے کی بات نہیں بلکہ یہ تو بڑا ہی پیارا طریقہ ہے ‘ ۔ بعض مہاجرین رضی اللہ عنہم اجمعین افسوس کیا کرتے تھے کہ ہمیں اپنی پوری عمر میں اس وقت آیت پر عمل کرنے کا موقعہ نہیں ملا کہ کوئی ہم سے کہتا لوٹ جاؤ اور ہم اس آیت کے ماتحت وہاں سے واپس ہو جاتے ، اجازت نہ ملنے پر دروازے پر ٹھہرے رہنا بھی منع فرما دیا ۔ اللہ تمہارے عملوں سے باخبر ہے ۔ یہ آیت اگلی آیت سے مخصوص ہے اس میں ان گھروں میں بلا اجازت جانے کی رخصت ہے جہاں کوئی نہ ہو اور وہاں اس کا کوئی سامان وغیرہ ہو ۔ جیسے کہ مہمان خانہ وغیرہ ۔ یہاں جب پہلی مربتہ اجازت مل گئی پھر ہربار کی اجازت ضروری نہیں ۔ تو گویا یہ آیت پہلی آیت سے استثنا ہے ۔ اسی طرح کی ایسے تاجروں کے گودام مسافر خانے وغیرہ ۔ اور اول بات زیادہ ظاہر ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ زید کہتے ہیں مراد اس سے بیت الشعر ہے ۔ النور
29 النور
30 حرام چیزوں پر نگاہ نہ ڈالو حکم ہوتا ہے کہ ’ جن چیزوں کا دیکھنا میں نے حرام کر دیا ہے ان پر نگاہیں نہ ڈالو ، حرام چیزوں سے آنکھیں نیچی کر لو ‘ ۔ اگر بالفرض نظر پڑ جائے تو بھی دوبارہ یا نظر بھر کر نہ دیکھو ۔ صحیح مسلم میں ہے { سیدنا جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اچانک نگاہ پڑ جانے کی بابت پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اپنی نگاہ فوراً ہٹا لو } } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2159) نیچی نگاہ کرنا یا ادھر ادھر دیکھنے لگ جانا اللہ کی حرام کردہ چیز کو نہ دیکھنا آیت کا مقصود ہے ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { علی رضی اللہ عنہ نظر پر نظر نہ جماؤ ، اچانک جو پڑگئی وہ تو معاف ہے قصداً معاف نہیں } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2149،قال الشیخ الألبانی:حسن) { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا { راستوں پر بیٹھنے سے بچو } ۔ لوگوں نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کام کاج کے لیے وہ تو ضروری ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اچھا تو راستوں کا حق ادا کرتے رہو } ۔ انہوں نے کہا وہ کیا ؟ فرمایا : { نیچی نگاہ رکھنا ، کسی کو ایذاء نہ دینا ، سلام کا جواب دینا ، اچھی باتوں کی تعلیم کرنا ، بری باتوں سے روکنا } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6229) { آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { چھ چیزوں کے تم ضامن ہو جاؤ میں تمہارے لیے جنت کا ضامن ہوتا ہوں ، بات کرتے ہوئے جھوٹ نہ بولو ، امانت میں خیانت نہ کرو ، وعدہ خلافی نہ کرو ، نظر نیچی رکھو ، ہاتھوں کو ظلم سے بچائے رکھو ، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو } } ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:8018:ضعیف) صحیح بخاری میں ہے { جو شخص زبان اور شرمگاہ کو اللہ کے فرمان کے ماتحت رکھے ، میں اس کے لیے جنت کا ضامن ہوں } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6474) عبیدہ کا قول ہے کہ جس چیز کا نتیجہ نافرمانی رب ہو ، وہ کبیرہ گناہ ہے چونکہ نگاہ پڑنے کے بعد دل میں فساد کھڑا ہوتا ہے ، اس لیے شرمگاہ کو بچانے کے لیے نظریں نیچی رکھنے کا فرمان ہوا ۔ نظر بھی ابلیس کے تیروں میں سے ایک تیر ہے ۔ پس زنا سے بچنا بھی ضروری ہے اور نگاہ نیچی رکھنا بھی ضروری ہے ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرو مگر اپنی بیویوں اور لونڈیوں سے } } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4017،قال الشیخ الألبانی:صحیح) محرمات کو نہ دیکھنے سے دل پاک ہوتا ہے اور دین صاف ہوتا ہے ۔ جو لوگ اپنی نگاہ حرام چیزوں پر نہیں ڈالتے ۔ اللہ ان کی آنکھوں میں نور بھر دیتا ہے ، اور ان کے دل بھی نورانی کر دیتا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { جس کی نظر کسی عورت کے حسن و جمال پر پڑ جائے پھر وہ اپنی نگاہ ہٹالے ۔ اللہ تعالیٰ اس کے بدلے ایک ایسی عبادت اسے عطا فرماتا ہے جس کی لذت وہ اپنے دل میں پاتا ہے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:264/5:ضعیف) اس حدیث کی سندیں تو ضعیف ہیں مگر یہ رغبت دلانے کے بارے میں ہے ، اور ایسی احادیث میں سند کی اتنی زیادہ دیکھ بھال نہیں ہوتی ۔ طبرانی میں ہے کہ { یا تو تم اپنی نگاہیں نیچی رکھو گے اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو گے اور اپنے منہ سیدھے رکھو گے یا اللہ تعالیٰ تمہاری صورتیں بدل دے گا } ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:7840:ضعیف) «اَعَاذَنَا اللہُ مِنْ کُلِ ّ عَذَابِہِ» فرماتے ہیں ، { نظر ابلیسی تیروں میں سے ایک تیر ہے جو شخص اللہ کے خوف سے اپنی نگاہ روک رکھے ، اللہ اس کے دل میں ایسا نور ایمان پیدا کردیتا ہے کہ اسے مزہ آنے لگتا ہے } ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:10363:ضعیف) لوگوں کا کوئی عمل اللہ سے پوشیدہ نہیں ہے وہ آنکھوں کی خیانت دل کے بھیدوں کو جانتا ہے ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { ابن آدم کے ذمے اس کا زنا کا حصہ لکھ دیا گیا ہے جسے وہ لامحالہ پالے گا ، آنکھوں کا زنا دیکھنا ہے ، زبان کا زنا بولنا ہے ، کانوں کا زنا سننا ہے ۔، ہاتھوں کا زنا تھامنا ہے ، پیروں کا زنا چلنا ہے ، دل خواہش تمنا اور آرزو کرتا ہے ، پھر شرمگاہ تو سب کو سچا کر دیتی ہے یا سب کو جھوٹا بنا دیتی ہے } ۔ (صحیح بخاری:6243) اکثر سلف لڑکوں کو گھورا گھاری سے بھی منع کرتے تھے ۔ اکثر ائمہ صوفیہ نے اس بارے میں بہت کچھ سختی کی ہے ۔ اہل علم کی جماعت نے اس کو مطلق حرام کہا ہے اور بعض نے اسے کبیرہ گناہ فرمایا ہے ۔ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { ہر آنکھ قیامت کے دن روئے گی مگر وہ آنکھ جو اللہ کی حرام کردہ چیزوں کے دیکھنے سے بند رہے اور وہ آنکھ جو اللہ کی راہ میں جاگتی رہے اور وہ آنکھ جو اللہ کے خوف سے رودے ، گو اس میں سے آنسو صرف مکھی کے سر کے برابر ہی نکلا ہو } ۔ ۱؎ (ابو نعیم فی الحلیۃ:163/3:ضعیف) النور
31 مومنہ عورتوں کو تاکید یہاں اللہ تعالیٰ مومنہ عورتوں کو چند حکم دیتا ہے تاکہ ان کے باغیرت مردوں کو تسکین ہو اور جاہلیت کی بری رسمیں نکل جائیں ۔ مروی ہے کہ اسماء بنت مرثد رضی اللہ عنہا کا مکان بنوحارثہ کے محلے میں تھا ، ان کے پاس عورتیں آتی تھیں اور دستور کے مطابق اپنے پیروں کے زیور ، سینے اور بال کھولے آیا کرتی تھیں ۔ اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا یہ کیسی بری بات ہے ؟ اس پر یہ آیتیں اتریں ۔ پس حکم ہوتا ہے کہ ’ مسلمان عورتوں کو بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھنی چاہئیں ۔ سوا اپنے خاوند کے کسی کو بہ نظر شہوت نہ دیکھنا چاہیئے ‘ ۔ اجنبی مردوں کی طرف تو دیکھنا ہی حرام ہے خواہ شہوت سے ہو خواہ بغیر شہوت کے ۔ ابوداؤد اور ترمذی میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا بیٹھی تھیں کہ سیدنا ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے ، یہ واقعہ پردے کی آیتیں اترنے کے بعد کا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ { پردہ کرلو } ۔ انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! وہ تو نابینا ہیں ، نہ ہمیں دیکھیں گے ، نہ پہچانیں گے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { تم تو نابینا نہیں ہو کہ اس کو نہ دیکھو ؟ } } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4112،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ہاں بعض علماء نے بے شہوت نظر کرنا حرام نہیں کہا ۔ ان کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں ہے کہ { عید والے دن حبشی لوگوں نے مسجد میں ہتھیاروں کے کرتب شروع کئے اور ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیچھے کھڑا کر لیا آپ رضی اللہ عنہا دیکھ ہی رہی تھیں یہاں تک کہ جی بھر گیا اور تھک کر چلی گئیں } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:455) عورتوں کو بھی اپنی عصمت کا بچاؤ چاہیئے ، بدکاری سے دور رہیں ، اپنا آپ کسی کو نا دکھائیں ۔ اجنبی غیر مردوں کے سامنے اپنی زینت کی کسی چیز کو ظاہر نہ کریں ہاں جس کاچھپانا ممکن ہی نہ ہو ، اس کی اور بات ہے جیسے چادر اور اوپر کا کپڑا وغیرہ جنکا پوشیدہ رکھنا عورتوں کے لیے ناممکنات سے ہے ۔ یہ بھی مروی ہے کہ اس سے مراد چہرہ ، پہنچوں تک کے ہاتھ اور انگوٹھی ہے ۔ لیکن ہو سکتا ہے کہ اس سے مراد یہ ہو کہ یہی زینت کے وہ محل ہیں ، جن کے ظاہر کرنے سے شریعت نے ممانعت کر دی ہے ۔ جب کہ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ” وہ اپنی زینت ظاہر نہ کریں یعنی بالیاں ہار پاؤں کا زیور وغیرہ “ ۔ فرماتے ہیں ” زینت دو طرح کی ہے ایک تو وہ جسے خاوند ہی دیکھے جیسے انگوٹھی اور کنگن اور دوسری زینت وہ جسے غیر بھی دیکھیں جیسے اوپر کا کپڑا “ ۔ زہری رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ” اسی آیت میں جن رشتہ داروں کا ذکر ہے ان کے سامنے تو کنگن دوپٹہ بالیاں کھل جائیں تو حرج نہیں لیکن اور لوگوں کے سامنے صرف انگوٹھیاں ظاہر ہو جائیں تو پکڑ نہیں “ ، اور روایت میں انگوٹھیوں کے ساتھ ہی پیر کے خلخال کا بھی ذکر ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ «مَا ظَہَرَ مِنْہَا» کی تفیسر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے منہ اور پہنچوں سے کی ہو ۔ جیسے ابوداؤد میں ہے کہ { اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں کپڑے باریک پہنے ہوئے تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منہ پھیر لیا اور فرمایا : { جب عورت بلوغت کو پہنچ جائے تو سوا اس کے اور اس کے یعنی چہرہ کے اور پہنچوں کے اس کا کوئی عضو دکھانا ٹھیک نہیں } } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4104،قال الشیخ الألبانی:صحیح) لیکن یہ مرسل ہے ۔ خالد بن دریک رحمۃاللہ علیہ اسے ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں اور ان کا ام المؤمنین رضی اللہ عنہا سے ملاقات کرنا ثابت نہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ عورتوں کو چاہیئے کہ اپنے دوپٹوں سے یا اور کپڑے سے بکل مار لیں تاکہ سینہ اور گلے کا زیور چھپا رہے ۔ جاہلیت میں اس کا بھی رواج نہ تھا ۔ عورتیں اپنے سینوں پر کچھ نہیں ڈالتیں تھیں بسا اوقات گردن اور بال چوٹی بالیاں وغیرہ صاف نظر آتی تھیں ۔ ایک اور آیت میں ہے «یَا أَیٰہَا النَّبِیٰ قُل لِّأَزْوَاجِکَ وَبَنَاتِکَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِینَ یُدْنِینَ عَلَیْہِنَّ مِن جَلَابِیبِہِنَّ ذٰلِکَ أَدْنَیٰ أَن یُعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْنَ وَکَانَ اللہُ غَفُورًا رَّحِیمًا» ۱؎ (33-الأحزاب:59) ’ اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں سے ، اپنی بیٹیوں سے اور مسلمان عورتوں سے کہہ دیجئیے کہ اپنی چادریں اپنے اوپر لٹکا لیا کریں تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور ستائی نہ جائیں ‘ ۔ «خُمُرُ» «خِمَارٍ» کی جمع ہے «خِمَارٍ» کہتے ہیں ہر اس چیز کو جو ڈھانپ لے ۔ چونکہ دوپٹہ سر کو ڈھانپ لیتا ہے اس لیے اسے بھی «خِمَارٍ» کہتے ہیں ۔ پس عورتوں کو چاہے کہ اپنی اوڑھنی سے یا کسی اور کپڑے سے اپنا گلا اور سینہ بھی چھپائے رکھیں ۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ” اللہ تعالیٰ ان عورتوں پر رحم فرمائے جنہوں نے شروع شروع ہجرت کی تھی کہ جب یہ آیت اتری انہوں نے اپنی چادروں کو پھاڑ کر دوپٹے بنائے ۔ بعض نے اپنے تہمد کے کنارے کاٹ کر ان سے سر ڈھک لیا “ ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4858) ایک مرتبہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس عورتوں نے قریش عورتوں کی فضیلت بیان کرنی شروع کی تو آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ” ان کی فضیلت کی قائل میں بھی ہوں لیکن واللہ میں نے انصار کی عورتوں سے افضل عورتیں نہیں دیکھیں ، ان کے دلوں میں جو کتاب اللہ کی تصدیق اور اس پر کامل ایمان ہے ، وہ بیشک قابل قدر ہے “ ۔ سورۃ النور کی آیت «وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلَیٰ جُیُوبِہِنَّ» ۱؎ (24-النور:31) إلخ ، جب نازل ہوئی اور ان کے مردوں نے گھر میں جا کر یہ آیت انہیں سنائی ، اسی وقت ان عورتوں نے اس پر عمل کر لیا اور صبح کی نماز میں وہ آئیں تو سب کے سروں پر دوپٹے موجود تھے ۔ گویا ڈول رکھے ہوئے ہیں ۔ اس کے بعد ان مردوں کا بیان فرمایا جن کے سامنے عورت ہوسکتی ہے اور بغیر بناؤ سنگھار کے ان کے سامنے شرم وحیاء کے ساتھ آ جا سکتی ہے گو بعض ظاہری زینت کی چیزوں پر بھی ان کی نظر پڑ جائے ۔ سوائے خاوند کے کہ اس کے سامنے تو عورت اپنا پورا سنگھار زیب زینت کرے ۔ گو چچا اور ماموں بھی ذی محرم ہیں لیکن ان کا نام یہاں اس لیے نہیں لیا گیا کہ ممکن ہے وہ اپنے بیٹوں کے سامنے ان کے محاسن بیان کریں ۔ اس لیے ان کے سامنے بغیر دوپٹے کے نہ آنا چاہیئے ۔ پھر فرمایا تمہاری عورتیں یعنی مسلمان عورتوں کے سامنے بھی اس زینت کے اظہار میں کوئی حرج نہیں ۔ اہل ذمہ کی عورتوں کے سامنے اس لیے رخصت نہیں دی گئی کہ بہت ممکن ہے وہ اپنے مردوں میں ان کی خوبصورتی اور زینت کا ذکر کریں ۔ گو مومن عورتوں سے بھی یہ خوف ہے مگر شریعت نے چونکہ اسے حرام قرار دیا ہے اس لیے مسلمان عورتیں تو ایسا نہ کریں گی لیکن ذمی کافروں کی عورتوں کو اس سے کون سی چیز روک سکتی ہے ؟ بخاری مسلم میں ہے کہ { کسی عورت کو جائز نہیں کہ دوسری عورت سے مل کر اس کے اوصاف اپنے خاوند کے سامنے اس طرح بیان کرے کہ گویا وہ اسے دیکھ رہا ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5240) امیرالمؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ ” مجھے معلوم ہوا ہے کہ بعض مسلمان عورتیں حمام میں جاتی ہیں ، ان کے ساتھ مشرکہ عورتیں بھی ہوتی ہیں ۔ سنو کسی مسلمان عورت کو حلال نہیں کہ وہ اپنا جسم کسی غیر مسلمہ عورت کو دکھائے “ ۔ مجاہد رحمہ اللہ بھی آیت «أَوْ نِسَائِہِنَّ» ۱؎ (سورۃ النور:31) کی تفسیر میں فرماتے ہیں ” مراد اس سے مسلمان عورتیں ہیں تو ان کے سامنے وہ زینت ظاہر کر سکتی ہے جو اپنے ذی محرم رشتے داروں کے سامنے ظاہر کر سکتی ہے ۔ یعنی گلا بالیاں اور ہار ۔ پس مسلمان عورت کو ننگے سر کسی مشرکہ عورت کے سامنے ہونا جائز نہیں ۔ ایک روایت میں ہے کہ جب صحابہ بیت المقدس پہنچے تو ان کی بیویوں کے لیے دایہ یہودیہ اور نصرانیہ عورتیں ہی تھیں ۔ پس اگر یہ ثابت ہو جائے تو محمول ہو گا ضرورت پر یا ان عورتوں کی ذلت پر ۔ پھر اس میں غیر ضروری جسم کا کھلنا بھی نہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ ہاں مشرکہ عورتوں میں جو لونڈیاں باندیاں ہوں وہ اس حکم سے خارج ہیں ۔ بعض کہتے ہیں غلاموں کا بھی یہی حکم ہے ۔ ابوداؤد میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس انہیں دینے کے لیے ایک غلام لے کر آئے ۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اسے دیکھ کر اپنے آپ کو اپنے دوپٹے میں چھپانے لگیں ۔ لیکن چونکہ کپڑا چھوٹا تھا ، سر ڈھانپتی تھیں تو پیر کھل جاتے تھے اور پیر ڈھانپتی تھیں تو سرکھل جاتا تھا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھ کر فرمایا : { بیٹی کیوں تکلیف کرتی ہو میں تو تمہارا والد ہوں اور یہ تمہارا غلام ہے } } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4106،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابن عساکر کی روایت میں ہے کہ اس غلام کا نام عبداللہ بن مسعدہ تھا ۔ یہ فزاری تھے ۔ سخت سیاہ فام ۔ سیدہ فاطمۃالزھرا رضی اللہ عنہا نے انہیں پرورش کرکے آزاد کر دیا تھا ۔ صفین کی جنگ میں یہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بہت مخالف تھے ۔ مسند احمد میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے فرمایا : { تم میں سے جس کسی کا مکاتب غلام ہو جس سے یہ شرط ہوگئی ہو کہ اتنا روپیہ دیدے تو تو آزاد ، پھر اس کے پاس اتنی رقم بھی جمع ہوگئی ہو تو چاہیئے کہ اس سے پردہ کرے }} ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:3928،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) پھر بیان فرمایا کہ نوکر چاکر کام کاج کرنے والے ان مردوں کے سامنے جو مردانگی نہیں رکھتے عورتوں کی خواہش جنہیں نہیں ۔ اس مطلب کے ہی وہ نہیں ، ان کا حکم بھی ذی محرم مردوں کا ہے یعنی ان کے سامنے بھی اپنی زینت کے اظہار میں مضائقہ نہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو سست ہو گئے ہیں عورتوں کے کام کے ہی نہیں ۔ لیکن وہ مخنث اور ہیجڑے جو بدزبان اور برائی کے پھیلانے والے ہوتے ہیں ان کا یہ حکم نہیں ۔ جیسے کہ بخاری مسلم وغیرہ میں ہے کہ { ایک ایسا ہی شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر آیا تھا چونکہ اسے اسی آیت کے ماتحت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات نے سمجھا اسے منع نہ کیا تھا ۔ اتفاق سے اسی وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آ گئے ، اس وقت وہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا بھائی عبداللہ سے کہہ رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ جب طائف کو فتح کرائے گا تو میں تجھے غیلان کی لڑائی دکھاؤں گا کہ آتے ہوئے اس کے پیٹ پر چار شکنیں پڑتی ہیں اور واپس جاتے ہوئے آٹھ نظر آتی ہیں ۔ اسے سنتے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { خبردار ایسے لوگوں کو ہرگز نہ آنے دیا کرو ۔ اس سے پردہ کر لو }} ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4324) چنانچہ اسے مدینے سے نکال دیا گیا ۔ بیداء میں یہ رہنے لگا وہاں سے جمعہ کے روز آ جاتا اور لوگوں سے کھانے پینے کو کچھ لے جاتا ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4107،قال الشیخ الألبانی:صحیح) چھوٹے بچوں کے سامنے ہونے کی اجازت ہے جو اب تک عورتوں کے مخصوص اوصاف سے واقف نہ ہوں ۔ عورتوں پر ان کی للچائی ہوئی نظریں نہ پڑتی ہوں ۔ ہاں جب وہ اس عمر کو پہنچ جائیں کہ ان میں تمیز آ جائے ۔ عورتوں کی خوبیاں ان کی نگاہوں میں جچنے لگیں ، خوبصورت بدصورت کا فرق معلوم کر لیں ۔ پھر ان سے بھی پردہ ہے گو وہ پورے جوان نہ بھی ہوئے ہوں ۔ بخاری و مسلم میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { لوگو ! عورتوں کے پاس جانے سے بچو } پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ دیور جیٹھ ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { وہ تو موت ہے } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5232) پھر فرمایا کہ ’ عورتیں اپنے پیروں کو زمین پر زور زور سے مار مار کر نہ چلیں ‘ جاہلیت میں اکثر ایسا ہوتا تھا کہ وہ زور سے پاؤں زمین پر رکھ کر چلتی تھیں تاکہ پیر کا زیور بجے ۔ اسلام نے اس سے منع فرما دیا ۔ پس عورت کو ہر ایک ایسی حرکت منع ہے جس سے اس کا کوئی چھپا ہوا سنگھار کھل سکے ۔ پس اسے گھر سے عطر اور خوشبو لگا کر باہر نکلنا بھی ممنوع ہے ۔ ترمذی میں ہے کہ { ہر آنکھ زانیہ ہے } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2786،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابوداؤد میں ہے کہ { سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو ایک عورت خوشبو سے مہکتی ہوئی ملی ۔ آپ نے اس سے پوچھا کیا تو مسجد سے آ رہی ہے ؟ اس نے کہا ہاں فرمایا کیا تم نے خوشبو لگائی ہے ؟ اس نے کہا ہاں ! آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” میں نے اپنے حبیب ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ { جو عورت اس مسجد میں آنے کے لیے خوشبو لگائے ، اس کی نماز نا مقبول ہے جب کہ وہ لوٹ کر جنابت کی طرح غسل نہ کر لے } } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4174،قال الشیخ الألبانی:حسن صحیح) ترمذی میں ہے کہ { اپنی زینت کو غیر جگہ ظاہر کرنے والی عورت کی مثال قیامت کے اس اندھیرے جیسی ہے جس میں نور نہ ہو } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:1167،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ابوداؤد میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں عورتوں کو راستے میں ملے جلے چلتے ہوئے دیکھ کر فرمایا : { عورتو ! تم ادھر ادھر ہو جاؤ ، تمہیں بیچ راہ میں نہ چلنا چاہیئے } ۔ یہ سن کر عورتیں دیوار سے لگ کر چلنے لگیں یہاں تک کہ ان کے کپڑے دیواروں سے رگڑتے تھے } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:5272،قال الشیخ الألبانی:حسن) پھر فرماتا ہے کہ ’ اے مومنو ! میری بات پر عمل کرو ، ان نیک صفتوں کو لے لو ، جاہلیت کی بدخصلتوں سے رک جاؤ ۔ پوری فلاح اور نجات اور کامیابی اسی کے لیے ہے جو اللہ کا فرمانبردار ہو ، اس کے منع کردہ کاموں سے رک جاتا ہو ، اللہ ہی سے ہم مدد چاہتے ہیں ‘ ۔ النور
32 نکاح اور شرم و حیا کی تعلیم اس میں اللہ تعالیٰ نے بہت سے احکام بیان فرما دئیے ہیں اولاً نکاح کا ۔ علماء کی جماعت کا خیال ہے کہ جو شخص نکاح کی قدرت رکھتا ہو اس پر نکاح کرنا واجب ہے ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ { اے نوجوانو ! تم میں سے جو شخص نکاح کی طاقت رکھتا ہو ، اسے نکاح کر لینا چاہیئے ۔ نکاح نظر کو نیچی رکھنے والا شرمگاہ کو بچانے والا ہے اور جسے طاقت نہ ہو وہ لازمی طور پر روزے رکھے ، یہی اس کے لیے خصی ہونا ہے } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1905) سنن میں ہے { آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { زیادہ اولاد جن سے ہونے کی امید ہو ان سے نکاح کرو تاکہ نسل بڑھے میں تمہارے ساتھ اور امتوں میں فخر کرنے والا ہوں } } ۔ ایک روایت میں ہے { یہاں تک کہ کچے گرے ہوئے بچے کی گنتی کے ساتھ بھی } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2050 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) «أَیَامَی» جمع ہے «أَیِّمٍ» کی ۔ جوہری رحمہ اللہ کہتے ہیں اہل لغت کے نزدیک بے بیوی کا مرد اور بے خاوند کی عورت کو «أَیِّمٍ» کہتے ہیں ، خواہ وہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ ہو ۔ پھر مزید رغبت دلاتے ہوئے فرماتا ہے کہ ’ اگر وہ مسکین بھی ہوں گے تو اللہ انہیں اپنے فضل و کرم سے مالدار بنا دے گا ۔ خواہ وہ آزاد ہوں خواہ غلام ہوں ‘ ۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا قول ہے ” تم نکاح کے بارے میں اللہ کا حکم مانو ، وہ تم سے اپناوعدہ پورا کرے گا “ ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” امیری کو نکاح میں طلب کرو “ ۔ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ، { تین قسم کے لوگوں کی مدد کا اللہ کے ذمے حق ہے ۔ نکاح کرنے والا جو حرام کاری سے بچنے کی نیت سے نکاح کرے ۔ وہ لکھت لکھ دینے والا غلام جس کا ارادہ ادائیگی کا ہو ، وہ غازی جو اللہ کی راہ میں نکلا ہو } } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:1655،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اسی کی تایئد میں وہ روایت ہے جس میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کا نکاح ایک عورت سے کرا دیا ، جس کے پاس سوائے تہبند کے اور کچھ نہ تھا یہاں تک کہ لوہے کی انگوٹھی بھی اس کے پاس سے نہیں نکلی تھی اس فقیری اور مفلسی کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نکاح کر دیا اور مہر یہ ٹھہرایا کہ جو قرآن اسے یاد ہے ، اپنی بیوی کو یاد کرا دے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5057) یہ اسی بنا پر کہ نظریں اللہ کے فضل و کرم پر تھیں کہ وہ مالک انہیں وسعت دے گا اور اتنی روزی پہنچائے گا کہ اسے اور اس کی بیوی کو کفالت ہو ۔ ایک حدیث اکثر لوگ وارد کیا کرتے ہیں کہ فقیری میں بھی نکاح کیا کرو اللہ تمہیں غنی کر دے گا میری نگاہ سے تو یہ حدیث نہیں گزری ۔ نہ کسی قوی سند سے نہ ضعیف سند سے ۔ اور نہ ہمیں ایسی لاپتہ روایت کے اس مضمون میں کوئی ضرورت ہے کیونکہ قرآن کی اس آیت اور ان احادیث میں یہ چیز موجود ہے ، «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» ۔ پھر حکم دیا کہ ’ جنہیں نکاح کا مقدور نہیں وہ حرام کاری سے بچیں ‘ ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { اے جوان لوگو ! تم میں سے جو نکاح کی وسعت رکھتے ہوں ، وہ نکاح کر لیں یہ نگاہ نیچی کرنے والا ، شرمگاہ کو بچانے والا ہے اور جسے اس کی طاقت نہ ہو وہ اپنے ذمے روزوں کا رکھنا ضروری کر لے یہی اس کے لیے خصی ہونا ہے } } ۔ یہ آیت مطلق ہے اور سورۃ نساء کی آیت اس سے خاص ہے یعنی یہ فرمان آیت «وَمَن لَّمْ یَسْتَطِعْ مِنکُمْ طَوْلًا أَن یَنکِحَ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ فَمِن مَّا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُم مِّن فَتَیَاتِکُمُ الْمُؤْمِنَاتِ» ۱؎ (4-النساء:25) پس لونڈیوں سے نکاح کرنے سے صبر کرنا بہتر ہے ۔ اس لیے کہ اس صورت میں اولاد پر غلامی کا حرف آتا ہے ۔ عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” جو مرد کسی عورت کو دیکھے اور اس کے دل میں خواہش پیدا ہو اسے چاہیئے کہ اگر اس کی بیوی موجود ہو تو اس کے پاس چلا جائے ورنہ اللہ کی مخلوق میں نظریں ڈالے اور صبر کرے یہاں تک کہ اللہ اسے غنی کر دے “ ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے فرماتا ہے جو غلاموں کے مالک ہیں کہ ’ اگر ان کے غلام ان سے اپنی آزادگی کی بابت کوئی تحریر کرنی چاہیں تو وہ انکار نہ کریں ، غلام اپنی کمائی سے وہ مال جمع کر کے اپنے آقا کو دیدے گا اور آزاد ہو جائے گا ‘ ۔ اکثر علماء فرماتے ہیں یہ حکم ضروری نہیں فرض و واجب نہیں بلکہ بطور استحباب کے اور خیر خواہی کے ہے ۔ آقا کو اختیار ہے کہ غلام جب کوئی ہنر جانتا ہو اور وہ کہے کہ مجھ سے اسی قدر روپیہ لے لو اور مجھے آزاد کر دو تو اسے اختیار ہے خواہ اس قسم کا غلام اس سے اپنی آزادگی کی بابت تحریر چاہے وہ اس کی بات کو قبول کر لے ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ، انس رضی اللہ عنہ کا غلام سیرین نے جو مالدار تھا ان سے درخواست کی کہ مجھ سے میری آزادی کی کتابت کرلو ۔ انس رضی اللہ عنہ نے انکار کر دیا ، دربار فاروقی رضی اللہ عنہ میں مقدمہ گیا ، آپ رضی اللہ عنہ نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ کو حکم دیا اور ان کے نہ ماننے پر کوڑے لگوائے اور یہی آیت تلاوت فرمائی یہاں تک کہ انہوں نے تحریر لکھوا دی ۔ ( بخاری ) عطاء رحمہ اللہ سے دونوں قول مروی ہیں ۔ امام شافعی رحمۃاللہ علیہ کا قول یہی تھا لیکن نیا قول یہ ہے کہ واجب نہیں ۔ کیونکہ حدیث میں ہے { مسلمان کا مال بغیر اس کی دلی خوشی کے حلال نہیں } ۔ ۱؎ (مسند احمد:72/5:ضعیف) امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ واجب نہیں ۔ میں نے نہیں سنا کہ کسی امام نے کسی آقا کو مجبور کیا ہو کہ وہ اپنے غلام کی آزادگی کی تحریر کر دے ، اللہ کا یہ حکم بطور اجازت کے ہے نہ کہ بطور وجوب کے ۔ یہی قول امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ وغیرہ کا ہے ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ کے نزدیک مختار قول وجوب کا ہے ۔ خیر سے مراد امانت داری ، سچائی ، مال اور مال کے حاصل کرنے پر قدرت وغیرہ ہے ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { اگر تم اپنے غلاموں میں جو تم سے مکاتب کرنا چاہیں ، مال کے کمانے کی صلاحیت دیکھو تو ان کی اس خواہش کو پوری کرو ورنہ نہیں کیونکہ اس صورت میں وہ لوگوں پر اپنا بوجھ ڈالیں گے } } ۔ ۱؎ (المراسیل لابی داود:162:مرسل و ضعیف) یعنی ان سے سوال کریں گے اور رقم پوری کرنا چاہیں گے ۔ اس کے بعد فرمایا ہے کہ ’ انہیں اپنے مال میں سے کچھ دو ‘ ۔ یعنی جو رقم ٹھہر چکی ہے ، اس میں سے کچھ معاف کر دو ، چوتھائی یا تہائی یا آدھا یا کچھ حصہ ۔ یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے کہ مال زکوٰۃ سے ان کی مدد کرو آقا بھی اور دوسرے مسلمان بھی اسے مال زکوٰۃ دیں تاکہ وہ مقرر رقم پوری کر کے آزاد ہو جائے ۔ پہلے حدیث گزر چکی ہے کہ جن تین قسم کے لوگوں کی مدد اللہ پر برحق ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے لیکن پہلا قول زیادہ مشہور ہے ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے غلام ابوامیہ نے مکاتبہ کیا تھا جب وہ اپنی رقم کی پہلی قسط لے کر آیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا جاؤ اپنی اس رقم میں دوسروں سے بھی مدد طلب کرو اس نے جواب دیا کہ امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ آپ آخری قسط تک تو مجھے ہی محنت کرنے دیجئیے ۔ فرمایا نہیں مجھے ڈر ہے کہ کہیں اللہ کے اس فرمان کو ہم چھوڑ نہ بیٹھیں کہ انہیں اللہ کا وہ مال دو جو اس نے تمہیں دے رکھا ہے ۔ پس یہ پہلی قسطیں تھیں جو اسلام میں ادا کی گئیں ۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کی عادت تھی کہ شروع شروع میں آپ رضی اللہ عنہ نہ کچھ دیتے تھے نہ معاف فرماتے تھے کیونکہ خیال ہوتا تھا کہ ایسا نہ ہو آخر میں یہ رقم پوری نہ کرسکے تو میرا دیا ہوا مجھے ہی واپس آ جائے ۔ ہاں آخری قسطیں ہوتیں تو جو چاہتے اپنی طرف سے معاف کر دیتے ۔ ایک غریب مرفوع حدیث میں ہے کہ { چوتھائی چھوڑ دو } ۔ ۱؎ (مستدرک حاکم:397/2:موقوف) لیکن صحیح یہی ہے کہ وہ علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ اپنی لونڈیوں سے زبردستی بدکاریاں نہ کراؤ ‘ ۔ جاہلیت کے بدترین طریقوں میں ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ وہ اپنی لونڈیوں کو مجبور کرتے تھے کہ وہ زناکاری کرائیں اور وہ رقم اپنے مالکوں کو دیں ۔ اسلام نے آ کر اس بد رسم کو توڑا ۔ منقول ہے کہ یہ آیت عبداللہ بن ابی بن سلول منافق کے بارے میں اتری ہے ، وہ ایسا ہی کرتا تھا تاکہ روپیہ بھی ملے اور لونڈی زادوں سے شان ریاست بھی بڑھے ۔ اس کی لونڈی کا نام معاذہ تھا ۔ اور روایت میں ہے اس کا نام مسیکہ تھا ۔ اور یہ بدکاری سے انکار کرتی تھی ۔ جاہلیت میں تو یہ کام چلتا رہا یہاں تک اسے ناجائز اولاد بھی ہوئی لیکن اسلام لانے کے بعد اس نے انکار کر دیا ، اس پر اس منافق نے اسے زدوکوب کیا ، پس یہ آیت اتری ۔ مروی ہے کہ بدر کا ایک قریشی قیدی عبداللہ بن ابی کے پاس تھا وہ چاہتا تھا کہ اس کی لونڈی سے ملے ، لونڈی بوجہ اسلام کے حرام کاری سے بچتی تھی ۔ عبداللہ کی خواہش تھی کہ یہ اس قریشی سے ملے ، اس لیے اسے مجبور کرتا تھا اور مارتا پیٹتا تھا ، پس یہ آیت اتری ۔ اور روایت میں ہے کہ یہ سردار منافقین اپنی اس لونڈی کو اپنے مہمانوں کی خاطر تواضع کے لیے بھیج دیا کرتا تھا ۔ اسلام کے بعد اس لونڈی سے جب یہ ارادہ کیا گیا تو اس نے انکار کر دیا اور سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے اپنی یہ مصیبت بیان کی ۔ صدیق رضی اللہ عنہ نے دربار محمدی صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ بات پہنچائی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اس لونڈی کو اس کے ہاں نہ بھیجو ۔ اس نے لوگوں میں غل مچانا شروع کیا کہ دیکھو محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہماری لونڈیوں کو چھین لیتا ہے اس پر یہ آسمانی حکم اترا ۔ ایک روایت میں ہے کہ مسیکہ اور معاذ دو لونڈیاں دو شخصوں کی تھیں ، جو ان سے بدکاری کراتے تھے ۔ اسلام کے بعد مسیکہ اور اس کی ماں نے آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی ، اس پر یہ آیت اتری ۔ یہ جو فرمایا گیا ہے کہ ’ اگر وہ لونڈیاں پاک دامنی کا ارادہ کریں ‘ اس سے یہ مطلب نہ لیا جائے کہ اگر ان کا ارادہ یہ نہ ہو تو پھر کوئی حرج نہیں کیونکہ اس وقت واقعہ یہی تھا اس لیے یوں فرمایا گیا ۔ پس اکثریت اور غلبہ کے طور پر یہ فرمایا گیا ہے کوئی قید اور شرط نہیں ہے ۔ اس سے غرض ان کی یہ تھی کہ مال حاصل ہو ، اولادیں ہوں جو لونڈیاں غلام بنیں ۔ حدیث میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھنے لگانے کی اجرت ، بدکاری کی اجرت ، کاہن کی اجرت سے منع فرما دیا } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1568) ایک اور روایت میں ہے { زنا کی خرچی اور پچھنے لگانے والی کی قیمت اور کتے کی قیمت خبیث ہے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1568) پھر فرماتا ہے ’ جو شخص ان لونڈیوں پر جبر کرے تو انہیں تو اللہ بوجہ ان کی مجبوری بخش دے گا اور ان مالکوں کو جنہوں نے ان پر دباؤ زور زبردستی ڈالی تھی انہیں پکڑ لے گا ، اس صورت میں یہی گنہگار رہیں گے ‘ ۔ بلکہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی قرأت میں «رَحِیمٌ» کے بعد «وَإِثْمُہُنَّ عَلَی مَنْ أَکْرَہَہُنَّ» ہے ۔ یعنی ’ اس حالت میں جبر اور زبردستی کرنے والوں پر گناہ ہے ‘ ۔ مرفوع حدیث میں ہے کہ { اللہ تعالیٰ نے میری امت کی خطا سے ، بھول سے اور جن کاموں پر وہ مجبور کر دئیے جائیں ، ان پر زبردستی کی جائے ان سے درگزر فرما لیا ہے } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:2043،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ان احکام کو تفصیل وار بیان کرنے کے بعد بیان ہوتا ہے کہ ’ ہم نے اپنے کلام قرآن کریم کی یہ روشن و واضح آیات تمہارے سامنے بیان فرما دیں ۔ اگلے لوگوں کے واقعات بھی تمہارے سامنے آچکے کہ ان کی مخالفت حق کا انجام کیا اور کیسا ہوا ؟ وہ ایک افسانہ بنا دئے گئے اور آنے والوں کے لیے عبرتناک واقعہ بنا دیئے گئے کہ متقی ان سے عبرت حاصل کریں اور اللہ کی نافرمانیوں سے بچیں ‘ ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے تھے ، ” قرآن میں تمہارے اختلاف کے فیصلے موجود ہیں ، تم سے پہلے زمانہ کے لوگوں کی خبریں موجود ہیں ، بعد میں ہونے والے امور کے احوال کا بیان ہے ۔ یہ مفصل ہے بکواس نہیں اسے جو بھی بے پرواہی سے چھوڑے گا ، اسے اللہ برباد کر دے گا اور جو اس کے سوا دوسری کتاب میں ہدایت تلاش کرے گا اسے اللہ گمراہ کر دے گا “ ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2906،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) النور
33 النور
34 النور
35 مدبر کائنات نور ہی نور ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” اللہ ہادی ہے ، آسمان والوں اور زمین والوں کا ، وہی ان دونوں میں سورج چاند اور ستاروں کی تدبیر کرتا ہے “ ۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” اللہ کا نور ہدایت ہے “ ۔ ابن جریر رحمہ اللہ اسی کو اختیار کرتے ہیں ۔ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” اس کے نور کی مثال یعنی اس کا نور رکھنے والے مومن کی مثال جن کے سینے میں ایمان و قرآن ہے ، اس کی مثال اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے ۔ اولاً اپنے نور کا ذکر کیا پھر مومن کی نورانیت کا کہ اللہ پر ایمان رکھنے والے کے نور کی مثال “ بلکہ ابی رضی اللہ عنہ اس کو اس طرح پڑھتے تھے آیت «مَثَلُ نُورِ مَنْ آمَنَ بِہِ» سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا اس طرح پڑھنا بھی مروی ہے «نُورِ مَنْ آمَنَ بِ اللہِ » ۔ بعض کی قرأت میں « اللہُ نَوَّرَ» ہے یعنی ’ اس نے آسمان و زمین کو نورانی بنا دیا ہے ‘ ۔ سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اسی کے نور سے آسمان و زمین روشن ہیں ۔ سیرت محمد بن اسحاق میں ہے کہ { جس دن اہل طائف نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت ایذاء پہنچائی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعا میں فرمایا تھا « " أُعُوذُ بِنُورِ وَجْہِکَ الَّذِی أَشْرَقَتْ لَہُ الظٰلُمَاتُ ، وَصَلُحَ عَلَیْہِ أَمْرُ الدٰنْیَا وَالْآخِرَۃِ ، أَنْ یَحِلَّ بِیَ غَضَبُکَ أَوْ یَنْزِلَ بِی سَخَطُکَ ، لَکَ الْعُتْبَی حَتَّی تَرْضَی ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِکَ» اس دعا میں ہے کہ { تیرے چہرے کے اس نور کی پناہ میں آ رہا ہوں جو اندھیروں کو روشن کر دیتا ہے اور جس پر دنیا آخرت کی صلاحیت موقوف ہے } } الخ ۔ ۱؎ (السیرۃ النبویۃ:420/1) بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو تہجد کے لیے اٹھتے تب یہ فرماتے کہ « اللہُمَّ لَکَ الْحَمْدُ ، أَنْتَ قَیِّمُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمِنْ فِیہِنَّ ، وَلَکَ الْحَمْدُ ، أَنْتَ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمِنْ فِیہِنَّ» { اللہ تیرے ہی لیے ہے سب تعریف سزاوار ہے تو آسمان اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے سب کا نورہے } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1120) سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” تمہارے رب کے ہاں رات اور دن نہیں ، اس کے چہرے کے نور کی وجہ سے اس کے عرش کا نور ہے “ ۔ «نُورِہِ» کی ضمیر کا مرجع بعض کے نزدیک تو لفظ اللہ ہی ہے یعنی اللہ کی ہدایت جو مومن کے دل میں ہے اس کی مثال یہ ہے اور بعض کے نزدیک مومن ہے جس پر سیاق کلام کی دلالت ہے یعنی مومن کے دل کے نور کی مثال مثل طاق کے ہے ۔ جیسے فرمان ہے کہ ایک شخص ہے جو اپنے رب کی دلیل اور ساتھ ہی شہادت لیے ہوئے ہے پس مومن کے دل کی صفائی کو بلور کے فانوس سے مشابہت دی اور پھر قرآن اور شریعت سے جو مدد اسے ملتی رہتی ہے اس کی زیتون کے اس تیل سے تشبیہ دی جو خود صاف شفاف چمکیلا اور روشن ہے ۔ پس طاق اور طاق میں چراغ اور وہ بھی روشن چراغ ۔ یہودیوں نے اعتراضاً کہا تھا کہ اللہ کانور آسمانوں کے پار کیسے ہوتا ہے ؟ تو مثال دے کر سمجھایا گیا کہ جیسے فانوس کے شیشے سے روشنی ۔ پس فرمایا کہ ’ اللہ آسمان زمین کا نور ہے ‘ ۔ «مِشْکَاۃٍ» کے معنی گھر کے طاق کے ہیں یہ مثال اللہ نے اپنی فرمانبرداری کی دی ہے اور اپنی اطاعت کو نور فرمایا ہے پھر اس کے اور بھی بہت سے نام ہیں ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ، حبشہ کی لغت میں اسے طاق کہتے ہیں ۔ بعض کہتے ہیں ایسا طاق جس میں کوئی اور سوراخ وغیرہ نہ ہو ۔ فرماتے ہیں اسی میں قندیل رکھی جاتی ہے ۔ پہلا قول زیادہ قوی ہے یعنی قندیل رکھنے کی جگہ ۔ چنانچہ قرآن میں بھی ہے کہ اس میں چراغ ہے ۔ پس «مِصْبَاحٌ» سے مراد نور ہے یعنی قرآن اور ایمان جو مسلمان کے دل میں ہوتا ہے ۔ سدی رحمہ اللہ کہتے ہیں چراغ مراد ہے ۔ پھر فرمایا ’ یہ روشنی جس میں بہت ہی خوبصورتی ہے ، یہ صاف قندیل میں ہے ‘ ، یہ مومن کے دل کی مثال ہے ۔ پھر وہ قندیل ایسی ہے جیسے موتی جیسا چمکیلا روشن ستارہ ۔ اس کی دوسری قرأت «دِرِّیءٌ» اور «دُرِّیءٌ» بھی ہے ۔ یہ ماخوذ ہے «دَرْءِ» سے جس کے معنی دفع کے ہیں ۔ مطلب چمکدار اور روشن ستارہ ٹوٹتا ہے اس وقت وہ بہت روشن ہوتا ہے اور جو ستارے غیر معروف ہیں انہیں بھی عرب «دَرَارِیَّ» کہتے ہیں ۔ مطلب چمکدار اور روشن ستارہ ہے جو خوب ظاہر ہو اور بڑا ہو ۔ پھر اس چراغ میں تیل بھی مبارک درخت زیتون کا ہو ۔ «زَیْتُونَۃٍ» کا لفظ بدل ہے یا عطف بیان ہے ۔ پھر وہ زیتون کا درخت بھی نہ مشرقی ہے کہ اول دن سے اس پر دھوپ آ جائے ۔ اور نہ مغربی ہے کہ غروب سورج سے پہلے اس پر سے سایہ ہٹ جائے بلکہ وسط جگہ میں ہے ۔ صبح سے شام تک سورج کی صاف روشنی میں رہے ۔ پس اس کا تیل بھی بہت صاف ، چمکدار اور معتدل ہوتا ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” مطلب یہ ہے کہ وہ درخت میدان میں ہے کوئی درخت ، پہاڑ ، غار یا کوئی اور چیز اسے چھپائے ہوئے نہیں ہے ۔ اس وجہ سے اس درخت کا تیل بہت صاف ہوتا ہے “ ۔ عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” صبح سے شام تک کھلی ہوا اور صاف دھوپ اسے پہنچتی رہتی ہے کیونکہ وہ کھلے میدان میں درمیان کی جگہ ہے ۔ اسی وجہ سے اس کا تیل بہت پاک صاف اور روشن چمکدار ہوتا ہے اور اسے نہ مشرقی کہہ سکتے ہیں نہ مغربی ۔ ایسا درخت بہت سرسبز اور کھلا ہوتا ہے پس جیسے یہ درخت آفتوں سے بچا ہوا ہوتا ہے ، اسی طرح مومن فتنوں سے محفوظ ہوتا ہے اگر کسی فتنے کی آزمائش میں پڑتا بھی ہے تو اللہ تعالیٰ اسے ثابت قدم رکھتا ہے “ ۔ پس اسے چار صفتیں قدرت دے دیتی ہے (١) بات میں سچ (٢) حکم میں عدل (٣) بلا پر صبر (٤) نعمت پر شکر پھر وہ اور تمام انسانوں میں ایسا ہوتا ہے جیسے کوئی زندہ جو مردوں میں ہو ۔ حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” اگر یہ درخت دنیا میں زمین پر ہوتا تو ضرور تھا کہ مشرقی ہوتا یا مغربی لیکن یہ تو نور الٰہی کی مثال ہے “ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ” یہ مثال ہے نیک مرد کی جو نہ یہودی ہے نہ نصرانی “ ۔ ان سب اقوال میں بہترین قول پہلا ہے کہ وہ درمیانہ زمین میں ہے کہ صبح سے شام تک بے روک ہوا اور دھوپ پہنچتی ہے کیونکہ چاروں طرف سے کوئی آڑ نہیں تو لامحالہ ایسے درخت کا تیل بہت زیادہ صاف ہوگا اور لطیف اور چمکدار ہوگا ۔ اسی لیے فرمایا کہ خود وہ تیل اتنا لطیف ہے کہ گویا بغیر جلائے روشنی دے ۔ نور پر نور ہے ۔ یعنی ایمان کانور پھر اس پر نیک اعمال کا نور ۔ خود زیتون کا تیل روشن پھر وہ جل رہا ہے اور روشنی دے رہا ہے پس اسے پانچ نور حاصل ہو جاتے ہیں اس کا کلام نور ہے اس کا عمل نور ہے ۔ اس کا آنا نور اس کا جانا نور ہے اور اس کا آخری ٹھکانا نورہے یعنی جنت ۔ کعب رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ یہ مثال ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اس قدر ظاہر ہے کہ گو آپ صلی اللہ علیہ وسلم زبانی نہ بھی فرمائیں تاہم لوگوں پر ظاہر ہو جائے ۔ جیسے یہ زیتون کہ بغیر روشن کئے روشن ہے ۔ تو دونوں یہاں جمع ہیں ایک زیتون کا ایک آگ کا ۔ ان کے مجموعے سے روشنی حاصل ہوتی ہوئی ۔ اسی طرح نور قرآن نور ایمان جمع ہو جاتے ہیں اور مومن کا دل روشن ہو جاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ جسے پسند فرمائے ، اپنی ہدایت کی راہ لگا دیتا ہے ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کو ایک اندھیرے میں پیدا کیا پھر اس دن ان پر اپنا نور ڈالا جیسے وہ نور پہنچا اس نے راہ پائی اور جو محروم رہا وہ گمراہ ہوا ۔ اس لیے کہتا ہوں کہ قلم اللہ کے علم کے مطابق چل کر خشک ہو گیا } ۔ (سنن ترمذی:2642،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اللہ تعالیٰ نے مومن کے دل کی ہدایت کی مثال نور سے دے کر پھر فرمایا کہ ’ اللہ یہ مثالیں لوگوں کے سمجھنے کے لئے بیان فرما رہا ہے ، اس کے علم میں بھی کوئی اس جیسا نہیں ، وہ ہدایت وضلالت کے ہر مستحق کو بخوبی جانتا ہے ‘ ۔ مسند کی ایک حدیث میں ہے { دلوں کی چار قسمیں ہیں ایک تو صاف اور روشن ، ایک غلاف دار اور بندھا ہوا ، ایک الٹا اور اور اوندھا ، ایک پھرا ہوا الٹا سیدھا ۔ پہلا دل تو مومن کا دل ہے جو نورانی ہوتا ہے ۔ اور دوسرا دل کافر کا دل ہے اور تیسرا دل منافق کا دل ہے کہ اس نے جانا پھر انجان ہو گیا ۔ پہچان لیا پھر منکر ہو گیا ۔ چوتھا دل وہ دل ہے جس میں ایمان بھی ہے اور نفاق بھی ہے ۔ ایمان کی مثال تو اس میں ترکاری کے درخت کی مانند ہے کہ اچھا پانی اسے بڑھا دیتا ہے اور اس میں نفاق کی مثال دمثل پھوڑے کے ہے کہ خون پیپ اسے ابھاردیتا ہے } ۔ اب ان میں سے جو غالب آ گیا وہ اس دل پر چھا جاتا ہے ۔ ۱؎ (مسند احمد:17/3:ضعیف) النور
36 مومن کے دل سے مماثلت مومن کے دل کی اور اس میں جو ہدایت وعلم ہے اس کی مثال اوپر والی آیت میں اس روشن چراغ سے دی تھی جو شیشہ کی ہانڈی میں ہو اور صاف زیتون کے روشن تیل سے جل رہا ہے ۔ اس لیئے یہاں اس کی عبادت کی جاتی ہے اور اس کی توحید بیان کی جاتی ہے ۔ جن کی نگہبانی اور پاک صاف رکھنے کا اور بے ہودہ اقوال و افعال سے بچانے کا حکم اللہ نے دیا ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ وغیرہ فرماتے ہیں کہ ” «أَنْ تُرْفَعَ» کے معنی اس میں بیہودگی نہ کرنے کے ہیں “ ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” مراد اس سے یہی مسجدیں ہیں جن کی تعمیر ، آبادی ، ادب اور پاکیزگی کا حکم اللہ نے دیا ہے “ ۔ کعب رحمہ اللہ کہا کرتے تھے کہ توراۃ میں لکھا ہوا ہے کہ زمین پر مسجدیں میرا گھر ہیں ، جو بھی باوضو میرے گھر پر میری ملاقات کے لیے آئے گا ، میں اس کی عزت کرونگا ہر اس شخص پر جس سے ملنے کے لیے کوئی اس کے گھر آئے حق ہے کہ وہ اس کی تکریم کرے ( تفسیر ابن ابی حاتم ) مسجدوں کے بنانے اور ان کا ادب احترام کرنے انہیں خوشبودار اور پاک صاف رکھنے کے بارے میں بہت سی حدیثیں وارد ہوئی ہیں جنہیں بحمد اللہ میں نے ایک مستقل کتاب میں لکھا ہے یہاں بھی ان میں سے تھوڑی بہت وارد کرتا ہوں ، اللہ مدد کرے اسی پر بھروسہ اور توکل ہے ۔ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { جو شخص اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی نیت سے مسجد بنائے اللہ تعالیٰ اس کے لیے اسی جیسا گھر جنت میں بناتا ہے } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:450) { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { نام اللہ کے ذکر کئے جانے کے لیے جو شخص مسجد بنائے اللہ اس کے لیے جنت میں گھر بناتا ہے }} ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:735،قال الشیخ الألبانی:صحیح) { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ محلوں میں مسجدیں بنائی جائیں اور پاک صاف اور خوشبودار رکھی جائیں } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:455،قال الشیخ الألبانی:صحیح) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے ” لوگوں کے لیے مسجدیں بناؤ جہاں انہیں جگہ ملے لیکن سرخ یا زردرنگ سے بچو تاکہ لوگ فتنے میں نہ پڑیں “ ۔ (صحیح بخاری تعلیقا:کتاب الصلواۃ:باب:بنیان المسجد) ایک ضعیف سند سے مروی ہے کہ { جب تک کسی قوم نے اپنی مسجدوں کو ٹیپ ٹاپ والا ، نقش و نگار اور رنگ روغن والا نہ بنایا ان کے اعلام برے نہیں ہوئے } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:741 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) اس کی سند ضعیف ہے ۔ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مجھے مسجدوں کو بلند و بالا اور پختہ بنانے کا حکم نہیں دیا گیا } ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ راوی حدیث فرماتے ہیں کہ ” تم یقیناً مسجدوں کو مزین ، منقش اور رنگ دار کرو گے جیسے کہ یہودونصاری نے کیا “ ۔ (سنن ابوداود:448 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { قیامت قائم نہ ہوگی جب تک کہ لوگ مسجدوں کے بارے میں آپس میں ایک دوسرے پر فخر و غرور نہ کرنے لگیں } } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:449،قال الشیخ الألبانی:صحیح) { ایک شخص مسجد میں اپنے اونٹ کو ڈھونڈتا ہوا آیا اور کہنے لگا ہے کوئی جو مجھے میرے سرخ رنگ کے اونٹ کا پتہ دے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بد دعا کی کہ { اللہ کرے تجھے نہ ملے ۔ مسجدیں تو جس مطلب کے لیے بنائی گئی ہیں ، اسی کام کے لیے ہیں } } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:569) { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجدوں میں خرید و فروخت ، تجارت کرنے سے اور وہاں اشعار کے گائے جانے سے منع فرما دیا ہے } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:1079،قال الشیخ الألبانی:صحیح) فرمان ہے کہ { جسے مسجد میں خرید و فروخت کرتے ہوئے دیکھو تو کہو کہ اللہ تیری تجارت میں نفع نہ دے اور جب کسی کو گمشدہ جانور مسجد میں تلاش کرتا ہوا پاؤ تو کہو کہ اللہ کرے نہ ملے } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:1321،قال الشیخ الألبانی:صحیح) { بہت سی باتیں مسجد کے لائق نہیں ، مسجد کو راستہ نہ بنایا جائے ، نہ تیر پھیلائے جائیں نہ کچا گوشت لایا جائے ، نہ یہاں حد ماری جائے ، نہ یہاں باتیں اور قصے کہے جائیں نہ اسے بازار بنایا جائے } ۔ (سنن ابن ماجہ:748،قال الشیخ الألبانی:ضعیف و صحت منہ الخصلۃ الاولی) فرمان ہے کہ { ہماری مسجدوں سے اپنے بچوں کو ، دیوانوں کو ، خرید و فروخت کو ، لڑائی جھگڑے کو اور بلند آواز سے بولنے کو اور حد جاری کرنے کو اور تلواروں کے ننگی کرنے کو روکو ۔ ان کے دروازوں پر وضو وغیرہ کی جگہ بناؤ اور جمعہ کے دن انہیں خوشبو سے مہکا دو } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:750،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) اس کی سند ضعیف ہے ۔ بعض علماء نے بلا ضرورت کے مسجدوں کو گزرگاہ بنانا مکروہ کہا ہے ۔ ایک اثر میں ہے کہ جو شخص بغیر نماز پڑھے مسجد سے گزر جائے ، فرشتے اس پر تعجب کرتے ہیں ۔ ہتھیاروں اور تیروں سے جو منع فرمایا یہ اس لیے کہ مسلمان وہاں بکثرت جمع ہوتے ہیں ایسان نہ ہو کہ کسی کے لگ جائے ۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ { تیر یا نیزہ لے کر گزرے تو اسے چاہیئے کہ اس کا پھل اپنے ہاتھ میں رکھے تاکہ کسی کو ایذاء نہ پہنچے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:452) کچا گوشت لانا اس لیے منع ہے کہ خوف ہے اس میں سے خون نہ ٹپکے جیسے کہ حائضہ عورت کو بھی اسی وجہ سے مسجد میں آنے کی ممانعت کر دی گئی ہے ۔ مسجد میں حد لگانا اور قصاص لینا اس لیے منع کیا گیا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ شخص مسجد کو نجس نہ کر دے ۔ بازار بنانا اس لیے منع ہے کہ وہ خرید و فروخت کی جگہ ہے اور مسجد میں یہ دونوں باتیں منع ہیں ۔ کیونکہ مسجدیں ذکر اللہ اور نماز کی جگہ ہیں ۔ جیسے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اعرابی سے فرمایا تھا ، جس نے مسجد کے گوشے میں پیشاب کر دیا تھا کہ { مسجدیں اس لیے نہیں بنیں ، بلکہ وہ اللہ کے ذکر اور نماز کی جگہ ہے } ۔ پھر اس کے پیشاب پر ایک بڑا ڈول پانی کا بہانے کا حکم دیا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6025) دوسری حدیث میں ہے { اپنے بچوں کو اپنی مسجدوں سے روکو } ۱؎ (سنن ابن ماجہ:750،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) اس لیے کہ کھیل کود ہی ان کا کام ہے اور مسجد میں یہ مناسب نہیں ۔ چنانچہ فاروق اعظم رضی اللہ عنہا جب کسی بچے کو مسجد میں کھیلتا ہوا دیکھ لیتے تو اسے کوڑے سے پیٹتے اور عشاء کی نماز کے بعد مسجد میں کسی کو نہ رہنے دیتے ۔ دیوانوں کو بھی مسجدوں سے روکا گیا کیونکہ وہ بےعقل ہوتے ہیں اور لوگوں کے مذاق کا ذریعہ ہوتے ہیں اور مسجد اس تماشے کے لائق نہیں ۔ اور یہ بھی ہے کہ ان کی نجاست وغیرہ کا خوف ہے ۔ بیع و شرا سے روکا گیا کیونکہ وہ ذکر اللہ سے مانع ہے ۔ جھگڑوں کی مصالحتیٰ مجلس منعقد کرنے سے اس لیے منع کر دیا گیا کہ اس میں آوازیں بلند ہوتی ہیں ایسے الفاظ بھی نکل جاتے ہیں جو آداب مسجد کے خلاف ہیں ۔ اکثر علماء کا قول ہے کہ فیصلے مسجد میں نہ کئے جائیں اسی لیے اس جملے کے بعد بلند آواز سے منع فرمایا ۔ سائب بن یزید کندی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں ” میں مسجد میں کھڑا تھا کہ اچانک مجھ پر کسی نے کنکر پھینکا ، میں نے دیکھا تو وہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تھے مجھ سے فرمانے لگے ، جاؤ ان دونوں شخصوں کو میرے پاس لاؤ ، جب میں آپ کے پاس انہیں لایا تو آپ نے ان سے دریافت فرمایا ۔ تم کون ہو ؟ یا پوچھا کہ ” تم کہاں کے ہو “ ؟ انہوں نے کہ ” ہم طائف کے رہنے والے ہیں “ ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” اگر تم یہاں رہنے والے ہوتے تو میں تمہیں سخت سزا دیتا تم مسجد نبوی میں اونچی اونچی آوازوں سے بول رہے ہو “ ؟ ۱؎ (صحیح بخاری:470) ایک شخص کی اونچی آواز سن کر جناب فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا ۔ ” جانتا بھی ہے تو کہاں ہے ؟ “ ۔ ( نسائی ) اور مسجد کے دروازوں پر وضو کرنے والے اور پاکیزگی حاصل کرنے کی جگہ بنانے کا حکم دیا ۔ مسجد نبوی کے قریب ہی کنویں تھے جن میں سے پانی کھینچ کر پیتے تھے اور وضو اور پاکیزگی حاصل کرتے تھے ۔ اور جمعہ کے دن اسے خوشبودار کرنے کا حکم ہوا ہے کیونکہ اس دن لوگ بکثر جمع ہوتے ہیں ۔ چنانچہ ابو یعلیٰ موصلی میں ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ ہر جمعہ کے دن مسجد نبوی کو مہکایا کرتے تھے ۔ بخاری و مسلم میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ { جماعت کی نماز انسان کی اکیلی نماز پر جو گھر میں یا دوکان پر پڑھی جائے ، پچیس درجے زیادہ ثواب رکھتی ہے ، یہ اس لیے کہ جب وہ اچھی طرح سے وضو کرکے صرف نماز کے ارادے سے چلتا ہے تو ہر ایک قدم کے اٹھانے پر اس کا ایک درجہ بڑھتا ہے اور ایک گناہ معاف ہوتا ہے اور جب نماز پڑھ چکتا ہے پھر جت تک وہ اپنی نماز کی جگہ رہے ، فرشتے اس پر درود بھیجتے رہتے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ اے اللہ اس پر اپنی رحمت نازل فرما اور اس پر رحم کر ۔ اور جب تک جماعت کے انتظار میں رہے نماز کا ثواب ملتا رہتا ہے } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:477) دارقطنی میں ہے { مسجد کے پڑوسی کی نماز مسجد کے سوا نہیں ہوتی } ۔ ۱؎ (دارقطنی:420/1:موقوف) سنن میں ہے { اندھیروں میں مسجد جانے والوں کو خوشخبری سنا دو کہ انہیں قیامت کے دن پورا پورا نور ملے گا } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:561،قال الشیخ الألبانی:صحیح) یہ بھی مستحب ہے کہ مسجد میں جانے والا پہلے اپنا داہنا قدم رکھے اور یہ دعا پڑھے ۔ بخاری شریف میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مسجد میں آتے یہ کہتے « أَعُوذُ بِ اللہِ الْعَظِیمِ ، وَبِوَجْہِہِ الْکَرِیمِ ، وَسُلْطَانِہِ الْقَدِیمِ ، مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیمِ» ۔ فرمان ہے کہ جب کوئی شخص یہ پڑھتا ہے شیطان کہتا ہے میرے شر سے یہ تمام دن محفوظ ہو گیا } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:466،قال الشیخ الألبانی:صحیح) مسلم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مروی ہے کہ { تم میں سے کوئی مسجد میں جانا چاہے یہ دعا پڑھے « اللہُمَّ افْتَحْ لِی أَبْوَابَ رَحْمَتِکَ» ” اے اللہ میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے “ اور جب مسجد سے باہر جائے تو یہ کہے « اللہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ» ” اے اللہ ! میں تیرے فضل کا طالب ہوں } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:713) ابن ماجہ وغیرہ میں ہے کہ { جب تم میں سے کوئی مسجد میں جائے تو اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام بھیجے پھر دعا « اللہُمَّ افْتَحْ لِی أَبْوَابَ رَحْمَتِکَ» پڑھے اور جب مسجد سے نکلے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام بھیج کر دعا « اللہُمَّ اعْصِمْنِی مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیمِ » پڑھے } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:773،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ترمذی وغیرہ میں ہے کہ { جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں آتے تو درود پڑھ کر دعا « اللہُمَّ ، اغْفِرْ لِی ذُنُوبِی ، وَافْتَحْ لِی أَبْوَابَ رَحْمَتِکَ» پڑھتے اور جب مسجد سے نکلتے تو درود کے بعد دعا « اللہُمَّ ، اغْفِرْ لِی ذُنُوبِی ، وَافْتَحْ لِی أَبْوَابَ فَضْلِکَ» پڑھتے } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:314،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اس حدیث کی سند متصل نہیں ۔ الغرض یہ اور ان جیسی اور بہت سی حدیثیں اس آیت کے متعلق ہیں جو مسجد اور احکام مسجد کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں ۔ اور آیت میں ہے «یَابَنِی آدَمَ خُذُوا زِینَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ» ۱؎ (7-الأعراف:31) ’ تم ہر مسجد میں اپنا منہ سیدھا رکھو ‘ ۔ «وَأَقِیمُوا وُجُوہَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ وَادْعُوہُ مُخْلِصِینَ لَہُ الدِّینَ» ۱؎ (7-الأعراف:29) ’ اور خلوص کے ساتھ صرف اللہ کو پکارو ‘ ۔ ایک اور آیت میں ہے کہ «وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلہِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللہِ أَحَدًا» ۱؎ (72-الجن:18) ’ مسجدیں اللہ ہی کی ہیں ۔ اس کا نام ان میں لیا جائے ‘ یعنی کتاب اللہ کی تلاوت کی جائے ۔ ’ صبح شام وہاں اس اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں ‘ «آصَالُ» جمع ہے «أَصِیلٍ» کی ، شام کے وقت کو «أَصِیلٍ» کہتے ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” جہاں کہیں قرآن میں «تَسْبِیحٍ» کا لفظ ہے وہاں مراد نماز ہے “ ۔ پس یہاں مراد صبح کی اور عصر کی نماز ہے ۔ پہلے پہلے یہی دو نمازیں فرض ہوئی تھیں پس وہی یاد دلائی گئیں ۔ ایک قرأت میں «یُسَبِّحُ» ہے اور اس قرأت پر «وَالْآصَالِ» پر پورا وقف ہے اور «رِجَالٌ» سے پھر دوسری بات شروع ہے گویا کہ وہ مفسر ہے فاعل محذوف کے لیے ۔ تو گویا کہا گیا کہ وہاں تسبیح کون کرتے ہیں ؟ تو جواب دیا گیا کہ ایسے لوگ اور «یُسَبِّحُ» کی قرأت پر «رِجَالٌ» فاعل ہے تو وقف فاعل کے بیان کے بعد چاہیئے ۔ کہتے ہیں «رِجَالٌ» اشارہ ہے ان کے بہترین مقاصد اور ان کی پاک نیتوں اور اعلی کاموں کی طرف یہ اللہ کے گھروں کے آباد رکھنے والے ہیں ۔ اس کی عبادت کی جگہیں ان سے زینت پاتی ہیں ، توحید اور شکر گزری کرنے والے ہیں ۔ جیسے فرمان ہے آیت «مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاہَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ» ۱؎ (33-الأحزاب:23) ، یعنی ’ مومنوں میں ایسے بھی مرد ہیں جنہوں نے جو عہد اللہ تعالیٰ سے کئے تھے انہیں پورے کر دکھایا ‘ ۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : { عورت کی اپنے گھر کی نماز اس کی اپنے صحن کی نماز سے افضل ہے ، اور اس کی اپنی اس کوٹھری کی نماز اس کے اپنے گھر کی نماز سے افضل ہے } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:570،قال الشیخ الألبانی:صحیح) مسند احمد میں ہے { عورتوں کی بہترین مسجد گھر کے اندر کا کونا ہے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:297/6:حسن بالشواہد) مسند احمد میں ہے کہ { ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ کی بیوی صاحبہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کرنا بہت پسند کرتی ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { یہ مجھے بھی معلوم ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ تیری اپنے گھر کی نماز صحن کی نماز سے اور حجرے کی نماز گھر کی نماز سے اور گھر کی کوٹھڑی کی نماز حجرے کی نماز سے افضل ہے ۔ اور محلے کی مسجد سے افضل گھر کی نماز ہے اور محلے کی مسجد کی نماز میری مسجد کی نماز سے افضل ہے } ۔ یہ سن کر مائی صاحبہ نے اپنے گھر کے بالکل انتہائی حصے میں ایک جگہ کو بطور مسجد کے مقرر کر لیا اور آخری گھڑی تک وہیں نماز پڑھتی رہیں } ۔ رضی اللہ عنہا ۔ ۱؎ (مسند احمد:371/6:حسن) ہاں البتہ عورتوں کے لیے بھی مسجد میں مردوں کے ساتھ نماز پڑھنا جائز ضرور ہے ۔ بشرطیکہ مردوں پر اپنی زینت ظاہر نہ ہونے دیں اور نہ خوشبو لگا کر نکلیں ۔ صحیح حدیث میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ { اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں سے نہ روکو } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:900) ابوداؤد میں ہے کہ { عورتوں کے لیے ان کے گھر افضل ہیں } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:567،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اور حدیث میں ہے کہ { وہ خوشبو استعمال کرکے نہ نکلیں } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:565،قال الشیخ الألبانی:صحیح بالشواہد) صحیح مسلم شریف میں ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے فرمایا : { جب تم میں سے کوئی مسجد آنا چاہے تو خوشبو کو ہاتھ بھی نہ لگائے } } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:443) بخاری و مسلم میں ہے کہ ” مسلمان عورتیں صبح کی نماز میں آتی تھیں پھر وہ اپنی چادروں میں لپٹی ہوئی چلی جاتی تھیں اور بوجہ رات کے اندھیرے کی وجہ سے وہ پہچانی نہیں جاتی تھیں “ ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:372) ام المؤمنین سیدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ” عورتوں نے یہ جو نئی نئی باتیں نکالیں ہیں اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان باتوں کو پالیتے تو انہیں مسجدوں میں آنے سے روک دیتے جیسے کہ بنو اسرائیل کی عورتیں روک دی گئیں “ ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:869) ایسے لوگ جنہیں خرید و فروخت یاد الٰہی سے نہیں روکتی ۔ جیسے ارشاد ہے «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تُلْہِکُمْ أَمْوَالُکُمْ وَلَا أَوْلَادُکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللہِ وَمَنْ یَفْعَلْ ذَلِکَ فَأُولَئِکَ ہُمُ الْخَاسِرُونَ» ۱؎ (63-المنافقون:9) ’ ایمان والو ، مال و اولاد تمہیں ذکر اللہ سے غافل نہ کر دے ‘ ۔ سورۃ الجمعہ میں ہے کہ «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِذَا نُودِیَ لِلصَّلَاۃِ مِن یَوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا إِلَیٰ ذِکْرِ اللہِ وَذَرُوا الْبَیْعَ ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ إِن کُنتُمْ تَعْلَمُونَ» ۱؎ (62-الجمعۃ:9) ’ جمعہ کی اذان سن کر ذکر اللہ کی طرف چل پڑو اور تجارت چھوڑ دو ‘ ۔ مطلب یہ ہے کہ ان نیک لوگوں کو دنیا اور متاع آخرت اور ذکر اللہ سے غافل نہ کر سکتی ، انہیں آخرت اور آخرت کی نعمتوں پر یقین کامل ہے اور انہیں ہمیشہ رہنے والا سمجھتے ہیں اور یہاں کی چیزوں کو فانی جانتے ہیں اس لیے انہیں چھوڑ کر اس طرف توجہ کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کو ، اس کی محبت کو ، اس کے احکام کو مقدم کرتے ہیں ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ تجارت پیشہ حضرات کو اذان سن کر اپنے کام کاج چھوڑ کر مسجد کی طرف جاتے ہوئے دیکھ کر یہی آیت تلاوت فرمائی اور فرمایا ” یہ لوگ انہی میں سے ہیں “ ۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے بھی یہی مروی ہے ۔ ابودرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ” میں سوداگری یا تجارت کروں اگرچہ اس میں مجھے ہر دن تین سو اشرفیاں ملتی ہوں لیکن میں نمازوں کے وقت یہ سب چھوڑ کر ضرور چلا جاؤں گا “ ۔ میرا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ تجارت کرنا حرام ہے بلکہ یہ ہے کہ ہم میں یہ وصف ہونا چاہیئے ، جو اس آیت میں بیان ہو رہا ہے ۔ سالم بن عبداللہ رحمہ اللہ نماز کے لیے جا رہے تھے ، دیکھا کہ مدینہ شریف کے سوداگر اپنی اپنی دوکانوں پر کپڑے ڈھک کر نماز کے لیے گئے ہوئے ہیں اور کوئی بھی دوکان پر موجود نہیں تو یہی آیت پڑھی اور فرمایا ” یہ انہی میں سے ہیں جن کی تعریف جناب باری نے فرمائی ہے “ ۔ اس بات کا سلف میں یہاں تک خیال تھا کہ ترازو اٹھائے تول رہے ہیں اور اذان کان میں پڑی تو ترازو رکھ دی اور مسجد کی طرف چل دئے فرض نماز باجماعت مسجد میں ادا کرنے کا انہیں عشق تھا ۔ وہ نماز کے اوقات کی ارکان اور آداب کی حفاظت کے ساتھ نمازوں کے پابند تھے ۔ یہ اس لیے کہ دلوں میں خوف الٰہی تھا قیامت کا آنا برحق جانتے تھے اس دن کی خوفناکی سے واقف تھے کہ سخت تر گھبراہٹ اور کامل پریشانی اور بے حد الجھن کی وجہ سے آنکھیں پتھرا جائیں گی ، دل اڑ جائیں گے ، کلیجے دہل جائیں گے ۔ جیسے فرمان ہے کہ «وَیُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَی حُبِّہِ مِسْکِینًا وَیَتِیمًا وَأَسِیرًا إِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللہِ لَا نُرِیدُ مِنْکُمْ جَزَاءً وَلَا شُکُورًا إِنَّا نَخَافُ مِنْ رَبِّنَا یَوْمًا عَبُوسًا قَمْطَرِیرًا فَوَقَاہُمُ اللہُ شَرَّ ذَلِکَ الْیَوْمِ وَلَقَّاہُمْ نَضْرَۃً وَسُرُورًا وَجَزَاہُمْ بِمَا صَبَرُوا جَنَّۃً وَحَرِیرًا» ۱؎ (76-الإنسان:8-12) ’ میرے نیک بندے میری محبت کی بنا پر مسکینوں یتیموں اور قیدیوں کو کھانا کھلاتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ ہم تمہیں محض اللہ کی رضاجوئی کے لیے کھلا رہے ہیں ، ہمارا مقصد تم سے شکریہ طلب کرنے یا بدلہ لینے کا نہیں ۔ ہمیں تو اپنے پروردگار سے اس دن کا ڈر ہے جب کہ لوگ مارے رنج و غم کے منہ بسورے ہوئے اور تیوریاں بدلے ہوئے ہوں گے ۔ پس اللہ ہی انہیں اس دن کی مصیبتوں سے نجات دے گا اور انہیں تروتازگی بشاشت ، ہنسی خوشی اور راحت و آرام سے ملا دے گا ۔ اور ان کے صبر کے بدلے انہیں جنت اور ریشمی لباس عطا فرمائے گا ‘ ۔ یہاں بھی فرماتا ہے کہ ’ ان کی نیکیاں مقبول ہیں ، برائیاں معاف ہیں ان کے ایک ایک عمل کا بہترین بدلہ مع زیادتی اور اللہ کے فضل کے انہیں ضرور ملنا ہے ‘ ۔ جیسے فرمان ہے «إِنَّ اللہَ لَا یَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ وَإِنْ تَکُ حَسَنَۃً یُضَاعِفْہَا وَیُؤْتِ مِنْ لَدُنْہُ أَجْرًا عَظِیمًا» ۱؎ (4-النساء:40) ’ اللہ تعالیٰ بقدر ایک ذرے کے بھی ظلم نہیں کرتا ‘ ۔ اور آیت میں ہے «مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہُ عَشْرُ أَمْثَالِہَا» (6-الأنعام:160) ’ نیکی دس گناہ کر دی جاتی ہے ‘ ۔ اور آیت میں ہے «مَنْ ذَا الَّذِی یُقْرِضُ اللہَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضَاعِفَہُ لَہُ أَضْعَافًا کَثِیرَۃً» ۱؎ (2-البقرۃ:245) ’ جو اللہ کو اچھا قرض دے گا ، اسے اللہ تعالیٰ بڑھا چڑھا کر زیادہ سے زیادہ کرکے دے گا ‘ ۔ فرمان ہے آیت «یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَاءُ» ۱؎ (2-البقرۃ:261) ’ وہ بڑھا دیتا ہے جس کے لیے چاہے ‘ ۔ یہاں فرمان ہے ’ وہ جسے چاہے بے حساب دیتا ہے ‘ ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہا کے پاس ایک مرتبہ دودھ لایا گیا ، آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی مجلس کے ساتھیوں میں سے ہر ایک کو پلانا چاہا مگر سب روزے سے تھے ۔ اس لیے آپ رضی اللہ عنہ ہی کے پاس پھر برتن آیا ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے یہی آیت «یَخَافُونَ» سے پڑھی اور پی لیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { قیامت کے دن جب کہ اول آخر سب جمع ہونگے ، اللہ تعالیٰ ایک منادی کو حکم دے گا جو باآواز بلند ندا کرے گا جسے تمام اہل محشر سنیں گے کہ آج سب کو معلوم ہو جائے گا کہ اللہ کے ہاں سب سے زیادہ بزرگ کون ہے ؟ پھر فرمائے گا ’ وہ لوگ کھڑے ہو جائیں گے جنہیں لین دین اور تجارت ذکر اللہ سے روکتا نہ تھا ‘ ،طپس وہ کھڑے ہو جائیں گے اور وہ بہت ہی کم ہوں گے سب سے پہلے انہیں حساب سے فارغ کیا جائے گا } ۔ ۱؎ (الدر المنشور للسیوطی:95/5) آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { ان کی نیکیوں کا اجر یعنی جنت بھی انہیں ملے گی اور مزید فضل الٰہی یہ ہو گا کہ جن لوگوں نے ان کے ساتھ احسان کئے ہوں گے اور وہ مستحق شفاعت ہونگے ان سب کی شفاعت کا منصب انہیں حاصل ہو جائے گا } ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:10462:ضعیف) النور
37 النور
38 النور
39 دو قسم کے کافر یہ دو مثالیں ہیں اور دو قسم کے کافروں کی ہیں ۔ جیسے سورۃ البقرہ کی شروع میں دو مثالیں دو قسم کی منافقوں کی بیان ہوئی ہیں ۔ ایک آگ کی ایک پانی کی ۔ اور جیسے کہ سورۃ الرعد میں ہدایت وعلم کی جو انسان کے دل میں جگہ پکڑ جائے ۔ ایسی ہی دو مثالیں ایک آگ کی ایک پانی کی بیان ہوئی ہیں ۔ دونوں سورتوں میں ان آیتوں کی تفسیر کامل گزر چکی ہے ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» یہاں پہلی مثال تو ان کافروں کی ہے جو کفر کی طرف دوسروں کو بھی بلاتے ہیں ، اور اپنے آپ کو ہدایت پر سمجھتے ہیں حالانکہ وہ سخت گمراہ ہیں ۔ ان کی تو ایسی مثال ہے جیسے کسی پیاسے کو جنگل میں دور سے ریت کا چمکتا ہوا تودہ دکھائی دیتا ہے اور وہ اسے پانی کا موج دریا سمجھ بیٹھتا ہے ۔ «قِیعَۃُ» جمع ہے «قَاعٍ» کی جیسے «جَارٍ» کی جمع «جِیرَۃٍ» اور «قَاعُ» واحد بھی ہوتا ہے اور جمع «قِیعَانِ» ہوتی ہے جیسے «جَارٍ» کی جمع «جِیرَانٌ» ہے ۔ معنی اس کے چٹیل وسیع پھیلے ہوئے میدان کے ہیں ۔ ایسے ہی میدانوں میں سراب نظر آیا کرتے ہیں ۔ دوپہر کے وقت بالکل یہی معلوم ہوتا ہے کہ پانی کا وسیع دریا لہریں لے رہا ہے ۔ جنگل میں جو پیاسا ہو ، پانی کی تلاش میں اس کی باچھیں کھل جاتی ہیں اور اسے پانی سمجھ کر جان توڑ کوشش کرکے وہاں تک پہنچتا ہے لیکن حیرت وحسرت سے اپنا منہ لپیٹ لیتا ہے ۔ دیکھتا ہے کہ وہاں پانی کا قطرہ چھوڑ نام و نشان بھی نہیں ۔ اسی طرح یہ کفار ہیں کہ اپنے دل میں سمجھے بیٹھے ہیں کہ ہم نے بہت کچھ اعمال کئے ہیں ، بہت سی بھلائیاں جمع کر لی ہیں لیکن قیامت کے دن دیکھیں گے کہ ایک نیکی بھی ان کے پاس نہیں یا تو ان کی بدنیتی سے وہ غارت ہو چکی ہے یا شرع کے مطابق نہ ہونے کی وجہ سے برباد ہو گئی ہے ۔ غرض ان کے یہاں پہنچنے سے پہلے ان کے کام جہنم رسید ہو چکے ہیں ، یہاں یہ بالکل خالی ہاتھ رہ گئے ہیں ۔ حساب کے موقعہ پر اللہ خود موجود ہے اور ایک ایک عمل کا حساب لے رہا ہے اور کوئی عمل ان کا قابل ثواب نہیں نکلتا ۔ چنانچہ بخاری و مسلم میں ہے کہ { یہودیوں سے قیامت کے دن سوال ہوگا کہ تم دنیا میں کس کی عبادت کرتے رہے ؟ وہ جواب دیں گے کہ اللہ کے بیٹے عزیر کی ۔ کہا جائے گا کہ جھوٹے ہو اللہ کا کوئی بیٹا نہیں ۔ اچھا بتاؤ اب کیا چاہتے ہو ؟ وہ کہیں گے اے اللہ ہم بہت پیاسے ہو رہے ہیں ، ہمیں پانی پلوایا جائے تو ان سے کہا جائے گا کہ دیکھو وہ کیا نظر آ رہا ہے ؟ تم وہاں کیوں نہیں جاتے ؟ اب انہیں دور سے جہنم ایسی نظر آئے گی جیسے دنیا میں سراب ہوتا ہے جس پر جاری پانی کا دھوکہ ہوتا ہے یہ وہاں جائیں گے اور دوزخ میں ڈال دئیے جائیں گے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4581) یہ مثال تو تھی جہل مرکب والوں کی ۔ اب جہل بسیط والوں کی مثال سنئے جو کورے مقلد تھے ، اپنی گرہ کی عقل مطلق نہیں رکھتے تھے ۔ مندرجہ بالا مثال والے ائمہ کفر کی تقلید کرتے تھے اور آنکھیں بند کرکے ان کی آواز پر لگے ہوئے تھے کہ ان کی مثال گہرے سمندر کی تہہ کے اندھیروں جیسی ہے جسے اوپر سے تہہ بہ تہہ موجوں نے ڈھانپ رکھا ہو اور پھر اوپر سے ابر ڈھانکے ہوئے ہوں ۔ یعنی اندھیرے پر اندھیرا ہو ۔ یہاں تک کہ ہاتھ کو ہاتھ بھی سجھائی نہ دیتا ہو ۔ یہی حال ان سفلے جاہل کافروں کا ہے کہ نرے مقلد ہیں ۔ یہاں تک کہ جس کی تقلید کر رہے ہیں لیکن معلوم نہیں کہ وہ انہیں کہاں لے جا رہا ہے ؟ چنانچہ مثالاً کہا جاتا ہے کہ کسی جاہل سے پوچھا گیا کہاں جا رہا ہے ؟ اس نے کہا ان کے ساتھ جا رہا ہوں ۔ پوچھنے والے نے پھر دریافت کیا کہ یہ کہاں جار ہے ہیں ؟ اس نے کہا مجھے تو معلوم نہیں ۔ پس جیسے اس سمندر پر موجیں اٹھ رہی ہیں ، اسی طرح کافر کے دل پر ، اس کے کانوں پر ، اس کی آنکھوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں ۔ جیسے فرمان ہے کہ «خَتَمَ اللہُ عَلَی قُلُوبِہِمْ وَعَلَی سَمْعِہِمْ وَعَلَی أَبْصَارِہِمْ غِشَاوَۃٌ وَلَہُمْ عَذَابٌ عَظِیمٌ» ۱؎ (2-البقرۃ:7) ’ اللہ نے ان کے دلوں پر اور کانوں پر مہر لگا دی ہے ‘ ۔ ایک اور آیت میں ارشاد ہوتا ہے «اَفَرَءَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰــہَہٗ ہَوٰیہُ وَاَضَلَّہُ اللّٰہُ عَلٰی عِلْمٍ وَّخَتَمَ عَلٰی سَمْعِہٖ وَقَلْبِہٖ وَجَعَلَ عَلٰی بَصَرِہٖ غِشٰوَۃ» ۱؎ (45-الجاثیۃ:23) ، ’ تو نے انہیں دیکھا ؟ جنہوں نے خواہش پرستی شروع کر رکھی ہے اور اللہ نے انہیں علم پر بہکا دیا ہے اور ان کے دلوں پر اور کانوں پر مہر لگا دی ہے اور آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ہے ‘ ۔ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” ایسے لوگ پانچ اندھیروں میں ہوتے ہیں (١) کلام (٢) عمل (٣) جانا (٤) آنا (٥) اور انجام سب اندھیروں میں ہیں ۔ جسے اللہ اپنے نور کی طرف ہدایت نہ کرے وہ نورانیت سے خالی رہ جاتا ہے ۔ جہالت میں مبتلا رہ کر ہلاکت میں پڑ جاتا ہے “ ۔ جیسے فرمایا آیت «مَنْ یٰضْلِلِ اللّٰہُ فَلَا ہَادِیَ لَہٗ وَیَذَرُہُمْ فِیْ طُغْیَانِہِمْ یَعْمَہُوْنَ» ۱؎ (7-الأعراف:186) ’ جسے اللہ گمراہ کرے اس کے لیے کوئی ہادی نہیں ہوتا ‘ ۔ یہ اس کے مقابل ہے جو مومنوں کی مثال کے بیان میں فرمایا تھا کہ «یَہْدِی اللہُ لِنُورِہِ مَنْ یَشَاءُ» ’ اللہ اپنے نور کی ہدایت کرتا ہے جسے چاہے ‘ ۔ اللہ تعالیٰ عظیم وکریم سے ہماری دعا ہے کہ وہ ہمارے دلوں میں نور پیدا کر دے اور ہمارے دائیں بائیں بھی نور عطا فرمائے اور ہمارے نور کو بڑھا دے اور اسے بہت بڑا اور زیادہ کرے ۔ آمین ۔ النور
40 النور
41 ہر ایک تسبیح خوان ہے کل کے کل انسان ، جنات ، فرشتے اور حیوان یہاں تک کہ جمادات بھی اللہ کی تسبیح کے بیان میں مشغول ہیں ۔ ایک اور جگہ ہے کہ «تُسَبِّحُ لَہُ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَالْأَرْضُ وَمَنْ فِیہِنَّ وَإِنْ مِنْ شَیْءٍ إِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِہِ وَلَکِنْ لَا تَفْقَہُونَ تَسْبِیحَہُمْ إِنَّہُ کَانَ حَلِیمًا غَفُورًا» ۱؎ (17-الإسراء:44) ’ ساتوں آسمان اور سب زمینیں اور ان میں جو ہیں سب اللہ کی پاکیزگی کی بیان میں مشغول ہیں ‘ ۔ اپنے پروں سے اڑنے والے پرند بھی اپنے رب کی عبادت اور پاکیزگی کے بیان میں مشغول ہیں ۔ ان سب کو جو جو تسبیح لائق تھی اللہ نے انہیں سکھا دی ہے ، سب کو اپنی عبادت کے مختلف جداگانہ طریقے سکھا دئے ہیں اور اللہ پر کوئی کام مخفی نہیں ، وہ عالم کل ہے ۔ حاکم ، متصرف ، مالک ، مختار کل ، معبود حقیقی ، آسمان و زمین کا بادشاہ صرف وہی ہے ۔ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ، اس کے حکموں کو کوئی ٹالنے والا نہیں ۔ قیامت کے دن سب کو اسی کے سامنے حاضر ہونا ہے ، وہ جو چاہے گا اپنی مخلوقات میں حکم فرمائے گا ۔ برے لوگ برا بدلہ پائیں گے ۔ نیک نیکیوں کا پھل حاصل کریں گے ۔ خالق مالک وہی ہے ، دنیا اور آخرت کا حاکم حقیقی وہی ہے اور اسی کی ذات لائق حمد و ثنا ہے ۔ النور
42 النور
43 بادل مرحلہ وار پتلے دھوئیں جیسے بادل اول اول تو قدرت الٰہی سے اٹھتے ہیں پھر مل جل کر وہ جسیم ہو جاتے ہیں اور ایک دوسرے کے اوپر جم جاتے ہیں پھر ان میں سے بارش برستی ہے ۔ ہوائیں چلتی ہیں ، زمین کو قابل بناتی ہیں ، پھر ابر کو اٹھاتی ہیں ، پھر انہیں ملاتی ہیں ، پھر وہ پانی سے بھر جاتے ہیں ، پھر برس پڑتے ہیں ۔ پھر آسمان سے اولوں کو برسانے کا ذکر ہے اس جملے میں پہلا «مِنِ» ابتداء غایت کا ہے ، دوسرا تبعیض کا ہے ، تیسرا بیان جنس کا ہے ۔ یہ اس تفسیر کی بنا پر ہے کہ آیت کے معنی یہ کئے جائیں کہ اولوں کے پہاڑ آسمان پر ہیں ۔ اور جن کے نزدیک یہاں پہاڑ کا لفظ ابر کے لیے بطور کنایہ ہے ان کے نزدیک «مِنِ» ثانیہ بھی ابتداء غایت کے لیے ہے لیکن وہ پہلے کا بدل ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اس کے بعد کے جملے کا یہ مطلب ہے کہ بارش اور اولے جہاں اللہ برسانا چاہے ، وہاں اس کی رحمت سے برستے ہیں اور جہاں نہ چاہے نہیں برستے ۔ یا یہ مطلب ہے کہ اولوں سے جن کی چاہے ، کھیتیاں اور باغات خراب کر دیتا ہے اور جن پر مہربانی فرمائے انہیں بچالیتا ہے ۔ پھر بجلی کی چمک کی قوت بیان ہو رہی ہے کہ قریب ہے وہ آنکھوں کی روشنی کھودے ۔ دن رات کا تصرف بھی اسی کے قبضے میں ہے ، جب چاہتا ہے دن کو چھوٹا اور رات کو بڑی کر دیتا ہے اور جب چاہتا ہے رات کو بڑی کر کے دن کو چھوٹا کر دیتا ہے ۔ یہ تمام نشانیاں ہیں جو قدرت قادر کو ظاہر کرتی ہیں ، اللہ کی عظمت کو آ شکارا کرتی ہیں ۔ جیسے فرمان ہے کہ «إِنَّ فِی خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ لِآیَاتٍ لِأُولِی الْأَلْبَابِ» ۱؎ (3-آل عمران:190) ’ آسمان و زمین کی پیدائش ، رات دن کے اختلاف میں عقلمندوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں ‘ ۔ النور
44 النور
45 ایک ہی پانی اور مختلف اجناس کی پیدائش اللہ تعالیٰ اپنی کامل قدرت اور زبردست سلطنت کا بیان فرماتا ہے کہ ’ اس نے ایک ہی پانی سے طرح طرح کی مخلوق پیدا کر دی ہے ۔ سانپ وغیرہ کو دیکھو جو اپنے پیٹ کے بل چلتے ہیں ۔ انسان اور پرند کو دیکھو ان کے دوپاؤں ہوتے ہیں ۔ حیوانوں اور چوپاوں کو دیکھو وہ چار پاؤں پر چلتے ہیں ، وہ بڑا قادر ہے جو چاہتا ہے ہو جاتا ہے جو نہیں چاہتا ہرگز نہیں ہوسکتا ، وہ قادر کل ہے ‘ ۔ النور
46 1 یہ حکمت بھرے احکام ، یہ روشن ، اس قرآن کریم میں اللہ ہی نے بیان فرمائی ہیں ۔ عقلمندوں کو ان کے سمجھنے کی توفیق دی ہے ، رب جسے چاہے اپنی سیدھی راہ پر لگائے ۔ النور
47 منافق کی زبان اور ، دل منافقوں کا حال بیان ہو رہا ہے کہ ’ زبان تو ایمان واطاعت کا اقرار کرتے ہیں لیکن دل سے اس کے خلاف ہیں ، عمل کچھ ہے قول کچھ ہے ، اس لیے کہ دراصل ایماندار نہیں ‘ ۔ حدیث میں ہے کہ { جو شخص بادشاہ کے سامنے بلوایا جائے اور وہ نہ جائے وہ ظالم ہے اور ناحق پر ہے } ۔ جب انہیں ہدایت کی طرف بلایا جاتا ہے ، قرآن و حدیث کے ماننے کو کہا جاتا ہے تو یہ منہ پھیر لیتے ہیں اور تکبر کرنے لگتے ہیں ۔ جیسے آیت «أَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِینَ یَزْعُمُونَ أَنَّہُمْ آمَنُوا بِمَا أُنزِلَ إِلَیْکَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِکَ یُرِیدُونَ أَن یَتَحَاکَمُوا إِلَی الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوا أَن یَکْفُرُوا بِہِ وَیُرِیدُ الشَّیْطَانُ أَن یُضِلَّہُمْ ضَلَالًا بَعِیدًا وَإِذَا قِیلَ لَہُمْ تَعَالَوْا إِلَیٰ مَا أَنزَلَ اللہُ وَإِلَی الرَّسُولِ رَأَیْتَ الْمُنَافِقِینَ یَصُدٰونَ عَنکَ صُدُودًا» ۱؎ (4-النساء:60،61) تک کی آیتوں میں بیان گزر چکا ہے ۔ ہاں اگر انہیں شرعی فیصلے میں اپنا نفع نظر آتا ہو تو لمبے لمبے کلمے پڑھتے ہوئے ، گردن ہلاتے ہوئے ہنسی خوش چلے آئیں گے اور جب معلوم ہو جائے کہ شرعی فیصلہ ان کی طبعی خواہش کے خلاف ہے ، دنیوں مفاد کے خلاف ہے تو حق کی طرف مڑ کر دیکھیں گے بھی نہیں ۔ پس ایسے لوگ پکے کافر ہیں ۔ اس لیے کہ تین حال سے خالی نہیں یا تو یہ کہ ان کے دلوں میں ہی بے ایمانی گھر کرگئی ہے یا انہیں اللہ کے دین کی حقانیت میں شکوک ہیں یاخوف ہے کہ کہیں اللہ اور رسول ان کا حق نہ مارلیں ، ان پر ظلم وستم کریں گے اور یہ تینوں صورتیں کفر کی ہیں ۔ اللہ ان میں سے ہر ایک کو جانتا ہے جو جیسا باطن میں ہے اس کے پاس وہ ظاہر ہے ۔ دراصل یہی لوگ جابر ہیں ، ظالم ہیں ، اللہ اور رسول اللہ اس سے پاک ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایسے کافر جو ظاہر میں مسلمان تھے ، بہت سے تھے ، انہیں جب اپنا مطلب قرآن و حدیث میں نکلتا نظر آتا تو خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنے جھگڑے پیش کرتے اور جب انہیں دوسروں سے مطلب براری نظر آتی تو سرکار محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں آنے سے صاف انکار کر جاتے ۔ پس یہ آیت اتری اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { جن دو شخصوں میں کوئی جھگڑا ہو اور وہ اسلامی حکم کے مطابق فیصلے کی طرف بلایا جائے اور وہ اس سے انکار کرے وہ ظالم ہے اور ناحق پر ہے } ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:6939:ضعیف) یہ حدیث غریب ہے ۔ النور
48 النور
49 1 پھر سچے مومنوں کی شان بیان ہوتی ہے کہ ’ وہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی تیسری چیز کو داخل دین نہیں سمجھتے ۔ وہ تو قرآن و حدیث سنتے ہی ، اس کی دعوت کی ندا کان میں پڑتے ہی صاف کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے سنا اور مانا یہ کامیاب ، بامراد اور نجات یافتہ لوگ ہیں ‘ ۔ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ جو بدری صحابی ہیں ، انصاری ہیں ، انصاروں کے ایک سردار ہیں ، انہوں نے اپنے بھتیجے جنادہ بن امیہ سے بوقت انتقال فرمایا کہ ” آؤ مجھ سے سن لو کہ تمہارے ذمے کیا ہے ؟ سننا اور ماننا سختی میں بھی آسانی میں بھی ، خوشی میں بھی ناخوشی میں بھی ، اس وقت بھی جب کہ تیرا حق دوسرے کو دیا جا رہا ہو ، اپنی زبان کو عدل اور سچائی کے ساتھ سیدھی رکھ ۔ کام کے اہل لوگوں سے کام کو نہ چھین ، ہاں اگر کسی کھلی نافرمانی کا وہ حکم دیں تو نہ ماننا ۔ کتاب اللہ کے خلاف کوئی بھی کہے ہرگز نہ ماننا ۔ کتاب اللہ کی پیروی میں لگے رہنا “ ۔ سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ” اسلام بغیر اللہ کی اطاعت کے نہیں اور بہتری جو کچھ ہے وہ جماعت کی ، اللہ کی ، اس کے رسول کی ، خلیفۃ المسلمین کی اور عام مسلمانوں کی خیر خواہی میں ہے “ ۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” اسلام کا مضبوط کڑا ، اللہ کی وحدانیت کی گواہی ، نماز کی پابندی ، زکوٰۃ کی ادائیگی اور مسلمانوں کے بادشاہ کی اطاعت ہے “ ۔ جو احادیث و آثار کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے بارے میں اور مسلمان بادشاہوں کی ماننے کے بارے میں مروی ہیں وہ اس کثرت سے ہیں کہ سب یہاں کسی طرح بیان ہو ہی نہیں سکتیں ۔ جو شخص اللہ اور رسول کا نافرمان بن جائے جو حکم ملے بجا لائے جس چیز سے روک دیں رک جائے جو گناہ ہو جائے اس سے خوف کھاتا رہے آئندہ کے لیے اس سے بچتا رہے ایسے لوگ تمام بھلائیوں کو سمیٹنے والے اور تمام برائیوں سے بچ جانے والے ہیں ۔ دنیا اور آخرت میں وہ نجات یافتہ ہیں ۔ النور
50 النور
51 النور
52 النور
53 مکار منافق اہل نفاق کا حال بیان ہو رہا ہے کہ ’ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر اپنی ایمانداری اور خیر خواہی جتاتے ہوئے قسمیں کھا کھا کر یقین دلاتے تھے کہ ہم جہاد کیلئے تیار بیٹھے ہیں بلکہ بے قرار ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی دیر ہے فرمان ہوتے ہی گھربار بال بچے چھوڑ کر میدان جنگ میں پہنچ جائیں گے ‘ ۔ اللہ تعالیٰ ان سے فرماتا ہے «یَحْلِفُونَ لَکُمْ لِتَرْضَوْا عَنْہُمْ فَإِن تَرْضَوْا عَنْہُمْ فَإِنَّ اللہَ لَا یَرْضَیٰ عَنِ الْقَوْمِ الْفَاسِقِینَ» ۱؎ (9-التوبۃ:96) ’ ان سے کہہ دو کہ قسمیں نہ کھاؤ تمہاری اطاعت کی حقیقت تو روشن ہے ‘ ، زبانی ڈینگیں بہت ہیں ، عملی حصہ صفر ہے ۔ «اتَّخَذُوا أَیْمَانَہُمْ جُنَّۃً فَصَدٰوا عَن سَبِیلِ اللہِ إِنَّہُمْ سَاءَ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ» ۱؎ (63-المنافقون:2) ’ تمہاری قسموں کی حقیقت بھی معلوم ہے ، دل میں کچھ ہے ، زبان پر کچھ ہے ، جتنی زبان مومن ہے اتنا ہی دل کافر ہے ۔ یہ قسمیں صرف مسلمانوں کی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے ہیں ‘ ۔ «لَئِنْ أُخْرِجُوا لَا یَخْرُجُونَ مَعَہُمْ وَلَئِن قُوتِلُوا لَا یَنصُرُونَہُمْ وَلَئِن نَّصَرُوہُمْ لَیُوَلٰنَّ الْأَدْبَارَ ثُمَّ لَا یُنصَرُونَ» ۱؎ (59-الحشر:12) ’ ان قسموں کو تو یہ لوگ ڈھال بنائے ہوئے ہیں تم سے ہی نہیں بلکہ کافروں کے سامنے بھی ان کی موافقت اور ان کی امداد کی قسمیں کھاتے ہیں لیکن اتنے بزدل ہیں کہ ان کا ساتھ خاک بھی نہیں دے سکتے ‘ ۔ اس جملے کے ایک معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ ’ تمہیں تو معقول اور پسندیدہ اطاعت کاشیوہ چاہے نہ کہ قسمیں کھانے اور ڈینگیں مارنے کا ، تمہارے سامنے مسلمان موجود ہیں دیکھو نہ وہ قسمیں کھاتے ہیں نہ بڑھ بڑھ کر باتیں بناتے ہیں ، ہاں کام کے وقت سب سے آگے نکل آتے ہیں اور فعلی حصہ بڑھ چڑھ کر لیتے ہیں ۔ اللہ پر کسی کا کوئی عمل مخفی نہیں وہ اپنے بندوں کے ایک ایک عمل سے باخبر ہے ۔ ہر عاصی اور مطیع اس پر ظاہر ہے ۔ ہر ایک باطن پر بھی اس کی نگاہیں ویسی ہی ہیں جیسی ظاہر پر ، گو تم ظاہر کچھ کرو لیکن وہ باطن پر بھی اگاہ ہے ۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی یعنی قرآن اور حدیث کی اتباع کرو اگر تم اس سے منہ موڑ لو ، اسے چھوڑ دو تو تمہارے اس گناہ کا وبال میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نہیں ۔ اس کے ذمے تو صرف پیغام الٰہی پہنچانا اور ادائے امانت کر دینا ہے ۔ تم پر وہ ہے جس کے ذمے دار تم ہو یعنی قبول کرنا ، عمل کرنا وغیرہ ‘ ۔ ہدایت صرف اطاعت رسول میں ہے ، اس لیے کہ «صِرَاطِ اللہِ الَّذِی لَہُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ أَلَا إِلَی اللہِ تَصِیرُ الْأُمُورُ» ۱؎ (42-الشوری:53) ’ صراط مستقیم کا داعی وہی ہے جو صراط مستقیم اس اللہ تک پہنچاتی ہے جس کی سلطنت تمام زمین آسمان ہے ‘ ۔ «وَإِن مَّا نُرِیَنَّکَ بَعْضَ الَّذِی نَعِدُہُمْ أَوْ نَتَوَفَّیَنَّکَ فَإِنَّمَا عَلَیْکَ الْبَلَاغُ وَعَلَیْنَا الْحِسَابُ» ۱؎ (13-الرعد:40) ’ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمے صرف پہنچادینا ہی ہے ، سب کا حساب ہمارے ذمے ہے ‘ ۔ جیسے فرمان ہے آیت «فَذَکِّرْ إِنَّمَا أَنتَ مُذَکِّرٌ لَّسْتَ عَلَیْہِم بِمُصَیْطِرٍ» ۱؎ (88-الغاشیۃ:22،21) ، ’ تو صرف ناصح و واعظ ہے ۔ انہیں نصیحت کر دیا کر ، تو ان کا وکیل یا داروغہ نہیں ‘ ۔ وہب بن منبہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” شعیاء علیہ السلام کی طرف وحی الٰہی آئی کہ ’ تو بنی اسرائیل کے مجمع میں کھڑا ہوجا ، میں تیری زبان سے جو چاہوں گا نکلواؤں گا ‘ ، چنانچہ آپ علیہ السلام کھڑے ہوئے تو آپ علیہ السلام کی زبان سے بہ حکم الٰہی یہ خطبہ بیان ہوا : ” اے آسمان سن ، اے زمین خاموش رہ ، اللہ تعالیٰ ایک شان پوری کرنا اور ایک امر کی تدبیر کرنے والا ہے وہ چاہتا ہے کہ جنگلوں کو آباد کردے ، ویرانے کو بسا دے ، صحراوں کو سرسبز بنا دے ، فقیروں کو غنی کر دے ، چرواہوں کو سلطان بنا دے ، ان پڑھوں میں سے ایک امی کو نبی بنا کر بھیجے جو نہ بدگو ہو نہ بد اخلاق ہو ، نہ بازاروں میں شور و غل کرنے والا ہو ، اتنا مسکین صفت ہو اور متواضع ہو کہ اس کے دامن کی ہوا سے چراغ بھی نہ بجھے ، جس کے پاس سے وہ گزرا ہو ۔ اگر وہ سوکھے بانسوں پر پیر رکھ کر چلے تو بھی چراچراہٹ کسی کے کان میں نہ پہنچے ۔ میں اسے بشیر و نذیر بنا کر بھیجوں گا ، وہ زبان کا پاک ہو گا ، اندھی آنکھیں اس کی وجہ سے روشن ہو جائیں گی ، بہرے کان اس کے باعث سننے لگیں گے ، غلاف والے دل اس کی برکت سے کھل جائیں گے ۔ ہر ایک بھلے کام سے میں اسے سنواردوں گا ۔ حکمت اس کی باتیں ہوں گی ، صدق و وفا کی کی طبیعت ہوگی ، عفو ودرگزر کرنا اور عمدگی و بھلائی چاہنا اس کی خصلت ہو گی ۔ حق اس کی شریعت ہوگی ، عدل اس کی سیرت ہو گی ، ہدایت اس کی امام ہوگی ۔ اسلام اس کی ملت ہو گا ۔ احمد اس کا نام ہوگا [ صلی اللہ علیہ وسلم ] گمراہی کے بعد اس کی وجہ سے میں ہدایت پھیلاوں گا ، جہالت کے بعد علم چمک اٹھے گا ، پستی کے بعد اس کی وجہ سے ترقی ہو گی ۔ نادانی اس کی ذات سے دانائی میں بدل جائے گی ۔ کمی زیادتی سے بدل جائے گی ، فقیری کو اس کی وجہ سے میں امیری سے بدل دوں گا ۔ اس کی ذات سے جدا جدا لوگوں کو میں ملا دوں گا ، فرقت کے بعد الفت ہوگی ، انتشار کے بعد اتحاد ہوگا ، اختلاف کے بعد اتفاق ہوگا ، مختلف دل ، جداگانہ خواہشیں ایک ہو جائیں گی ۔ بے شمار بندگان رب ہلاکت سے بچ جائیں گے ، اس کی امت کو میں تمام امتوں سے بہتر کر دوں گا جو لوگوں کے نفع کے لیے ہوگی ، بھلائیوں کا حکم کرنے والی برائیوں سے روکنے والی ہوگی ، موحد مومن مخلص ہوں گے ، اللہ کے جتنے رسول اللہ کی طرف سے جو لائے ہیں یہ سب کو مانیں گے ، کسی کے منکر نہ ہوں گے “ ۔ النور
54 النور
55 عروج اسلام لازم ہے اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ فرما رہا ہے کہ ’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو زمین کا مالک بنا دے گا ، لوگوں کا سردار بنا دے گا ، ملک ان کی وجہ سے آباد ہوگا ، بندگان رب ان سے دل شاد ہوں گے ۔ آج یہ لوگوں سے لرزاں وترساں ہیں کل یہ باامن و اطمینان ہوں گے ، حکومت ان کی ہو گی ، سلطنت ان کے ہاتھوں میں ہوگی ‘ ۔ الحمدللہ یہی ہوا بھی ، مکہ ، خیبر ، بحرین ، جزیرہ عرب اور یمن تو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں فتح ہوگیا ۔ حجر کے مجوسیوں نے جزیہ دے کر ماتحتی قبول کرلی ، شام کے بعض حصوں کا بھی یہی حال ہوا ۔ شاہ روم ہرقل نے تحفے تحائف روانہ کئے ۔ مصر کے والی نے بھی خدمت اقدس میں تحفے بھیجے ، اسکندریہ کے بادشاہ مقوقس نے ، عمان کے شاہوں نے بھی یہی کیا اور اس طرح اپنی اطاعت گزاری کا ثبوت دیا ۔ حبشہ کے بادشاہ اصحمہ رحمہ اللہ تو مسلمان ہی ہوگئے اور ان کے بعد جو والی حبشہ ہوا ۔ اس نے بھی سرکار محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں عقیدت مندی کے ساتھ تحائف روانہ کئے ۔ پھر جب کہ اللہ تعالیٰ رب العزت نے اپنے محترم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی مہمانداری میں بلوالیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خلافت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے سنبھالی ، جزیرہ عرب کی حکومت کو مضبوط اور مستقل بنایا اور ساتھ ہی ایک جرار لشکر سیف اللہ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی سپہ سالاری میں بلاد فارس کی طرف بھیجا جس نے وہاں فتوحات کا سلسلہ شروع کیا ، کفر کے درختوں کو چھانٹ دیا اور اسلامی پودے ہر طرف لگادئیے ۔ سیدنا ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ وغیرہ امراء کے ماتحت شام کے ملکوں کی طرف لشکر اسلام کے جاں بازوں کو روانہ فرمایا ، انہوں نے بھی یہاں محمدی جھنڈا بلند کیا اور صلیبی نشان اوندھے منہ گرائے ، پھر مصر کی طرف مجاہدین کا لشکر سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی سرداری میں روانہ فرمایا ۔ بصریٰ ، دمشق ، حران وغیرہ کی فتوحات کے بعد آپ رضی اللہ عنہ بھی راہی ملک بقا ہوئے اور بہ الہام الٰہی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جیسے فاروق کے زبردست زورآور ہاتھوں میں سلطنت اسلام کی باگیں دے گئے ۔ سچ تو یہ ہے کہ آسمان تلے کسی نبی علیہ السلام کے بعد ایسے پاک خلیفوں کا دور نہیں ہوا ۔ آپ رضی اللہ عنہ کی قوت ، طبیعت ، آپ رضی اللہ عنہ کی نیکی ، سیرت ، آپ رضی اللہ عنہ کے عدل کا کمال ، آپ رضی اللہ عنہ کی ترسی کی مثال دنیا میں آپ رضی اللہ عنہ کے بعد تلاش کرنا محض بے سود اور بالکل لا حاصل ہے ۔ تمام ملک شام ، پورا علاقہ مصر ، اکثر حصہ فارس آپ رضی اللہ عنہ کی خلافت کے زمانے میں فتح ہوا ۔ سلطنت کسریٰ کے ٹکڑے اڑگئے ، خود کسریٰ کو منہ چھپانے کے لیے کوئی جگہ نہ ملی ۔ کامل ذلت واہانت کے ساتھ بھاگتا پھرا ۔ قیصر کو فنا کر دیا ۔ مٹا دیا ۔ شام کی سلطنت سے دست بردار ہونا پڑا ۔ قسطنطنیہ میں جا کر منہ چھپایا ان سلطنتوں کی صدیوں کی دولت اور جمع کئے ہوئے بے شمار خزانے ان بندگان رب نے اللہ کے نیک نفس اور مسکین خصلت بندوں پر خرچ کئے اور اللہ کے وعدے پورے ہوئے جو اس نے حبیب اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے کہلوائے تھے ۔ «صَلَوَاتُ اللہِ وَسَلَامُہُ عَلَیْہِ»۔ پھر سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی خلافت کا دور آتا ہے اور مشرق و مغرب کی انتہا تک اللہ کا دین پھیل جاتا ہے ۔ اللہ کا لشکر ایک طرف اقصیٰ مشرق تک اور دوسری طرف انتہاء مغرب تک پہنچ کر دم لیتے ہیں ۔ اور مجاہدین کی آب دار تلواریں اللہ کی توحید کو دنیا کے گوشے گوشے اور چپے چپے میں پہنچا دیتی ہیں ۔ اندلس ، قبرص ، قیروان وسبتہ یہاں تک کہ چین تک آپ رضی اللہ عنہ کے زمانے میں فتح ہوئے ۔ کسریٰ قتل کر دیا گیا اس کا ملک تو ایک طرف نام و نشان تک کھود کر پھینک دیا گیا اور ہزارہا برس کے آتش کدے بجھا دئیے گئے اور ہر اونچے ٹیلے سے صدائے اللہ اکبر آنے لگی ۔ دوسری جانب مدائن ، عراق ، خراسان ، اھواز سب فتح ہو گئے ترکوں سے جنگ عظیم ہوئی آخر ان کا بڑا بادشاہ خاقان خاک میں ملا ذلیل وخوار ہوا اور زمین کے مشرقی اور مغربی کونوں نے اپنے خراج بارگاہ خلافت عثمانی رضی اللہ عنہ میں پہنچوائے ۔ حق تو یہ ہے کہ مجاہدین کی ان جانبازیوں میں جان ڈالنے والی چیز سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی تلاوت قرآن کی برکت تھی ۔ آپ رضی اللہ عنہ کو قرآن سے کچھ ایسا شغف تھا جو بیان سے باہر ہے ۔ قرآن کے جمع کرنے ، اس کے حفظ کرنے ، اس کی اشاعت کرنے ، اس کے سنبھالنے میں جو نمایاں خدمیتں خلیفہ ثالث نے انجام دیں وہ یقیناً عدیم المثال ہیں ۔ آپ رضی اللہ عنہ کے زمانے کو دیکھو اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیش گوئی کو دیکھو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ { میرے لیے زمین سمیٹ دی گئی یہاں تک کہ میں نے مشرق و مغرب دیکھ لی عنقریب میری امت کی سلطنت وہاں تک پہنچ جائے گی جہاں تک اس وقت مجھے دکھائی گئی ہے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2889) [ مسلمانو ! رب کے اس وعدے کو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیش گوئی کو دیکھو پھر تاریخ کے اوراق پلٹو اور اپنی گزشتہ عظمت وشان کو دیکھو آؤ نظریں ڈالو کہ آج تک اسلام کا پرچم بحمد اللہ بلند ہے اور مسلمان ان مجاہدین کرام کی مفتوح زمینوں میں شاہانہ حیثیت سے چل پھر رہے ہیں اللہ اور اس کے رسول سچے ہیں مسلمانو حیف اور صد حیف اس پر جو قرآن حدیث کے دائرے سے باہر نکلے حسرت اور صد حسرت اس پر جو اپنے آبائی ذخیرے کو غیر کے حوالے کرے ۔ اپنے آباؤ اجداد کے خون کے قطروں سے خریدی ہوئی چیز کو اپنی نالائقیوں اور بے دینیوں سے غیر کی بھینٹ چڑھاوے اور سکھ سے بیٹھا ، لیٹا رہے ۔ اللہ ہمیں اپنا لشکری بنا لے آمین آمین ] ۔ { حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { لوگوں کا کام بھلائی سے جاری رہے گا یہاں تک کہ ان میں بارہ خلفاء ہوں گے } پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جملہ آہسۃ بولا جو راوی حدیث جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہا سن نہ سکے تو انہوں نے اپنے والد صاحب سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا انہوں نے بیان کیا کہ یہ فرمایا ہے { یہ سب کے سب قریشی ہوں گے } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:7222) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات اس شام کو بیان فرمائی تھی جس دن ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ کو رجم کیا گیا تھا ۔ پس معلوم ہوا کہ ان بارہ خلیفوں کا ہونا ضروری ہے لیکن یہ یاد رہے کہ یہ وہ خلفاء نہیں جو شیعوں نے سمجھ رکھے ہیں کیونکہ شیعوں کے اماموں میں بہت سے وہ بھی ہیں جنہیں خلافت وسلطنت کا کوئی حصہ بھی پوری عمر میں نہیں ملا تھا اور یہ بارہ خلفاء ہوں گے ۔ سب کے سب قریشی ہوں گے ، حکم میں عدل کرنے والے ہوں گے ، ان کی بشارت اگلی کتابوں میں بھی ہے اور یہ شرط نہیں ہے کہ یہ سب یکے بعد دیگرے ہوں گے بلکہ ان کا ہونایقینی ہے خواہ پے در پے کچھ ہوں خواہ متفرق زمانوں میں کچھ ہوں ۔ چنانچہ چاروں خلیفہ تو بالترتیب ہوئے اول سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ ان کے بعد پھر سلسلہ ٹوٹ گیا پھر بھی ایسے خلیفہ ہوئے اور ممکن ہے آگے چل کر بھی ہوں ۔ ان کے صحیح زمانوں کا علم اللہ ہی کو ہے ۔ ہاں اتنا یقینی ہے کہ امام مہدی علیہ السلام بھی انہی بارہ میں سے ہوں گے جن کا نام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے جن کی کنیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کنیت سے مطابق ہوگی تمام زمین کو عدل وانصاف سے بھر دیں گے جیسے کہ وہ ظلم وناانصافی سے بھرگئی ہوگی ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے { میرے بعد خلافت تیس سال رہے گی پھر کاٹ کھانے والا ملک ہو جائے گا } } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4646 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابوالعالیہ رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں ” نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم بیس سال تک مکے میں رہے اللہ کی توحید اور اس کی عبادت کی طرف دنیا کو دعوت دیتے رہے لیکن یہ زمانہ پوشیدگی کا ، ڈر خوف کا اور بے اطمینانی کا تھا ، جہاد کا حکم نہیں آیا تھا ۔ مسلمان بے حد کمزور تھے اس کے بعد ہجرت کا حکم ہوا ۔ مدینے پہنچے اب جہاد کا حکم ملا جہاد شروع ہوا دشمنوں نے چاروں طرف سے گھیرا ہوا تھا ۔ اہل اسلام بہت خائف تھے ۔ خطرے سے کوئی وقت خالی نہیں جاتا تھا صبح شام صحابہ رضی اللہ عنہم ہتھیاروں سے آراستہ رہتے تھے ۔ ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہم اسی طرح خوف زدہ ہی رہیں گے ؟ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہماری زندگی کی کوئی گھڑی بھی اطمینان سے نہیں گزرے گی ؟ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہتھیار اتار کر بھی ہمیں کبھی آسودگی کا سانس لینا میسر آئے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے سکون سے فرمایا : { کچھ دن اور صبر کر لو پھر تو اس قدر امن و اطمینان ہو جائے گا کہ پوری مجلس میں ، بھرے دربار میں چوکڑی بھر کر آرام سے بیٹھے ہوئے رہو گے ۔ ایک کے پاس کیا کسی کے پاس بھی کوئی ہتھیار نہ ہوگا کیونکہ کامل امن وامان پورا اطمینان ہوگا } ۔ اسی وقت یہ آیت اتری ۔ پھر تو اللہ کے نبی جزیرہ عرب پر غالب آگئے عرب میں بھی کوئی کافر نہ رہا مسلمانوں کے دل خوف سے خالی ہو گئے اور ہتھیار ہر وقت لگائے رہنے ضروری نہ رہے ۔ پھر یہی امن و راحت کا دور دورہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے بعد بھی تین خلافتوں تک رہا یعنی ابوبکر وعمر و عثمان رضی اللہ عنہم کے زمانے تک ۔ پھر مسلمان ان جھگڑوں میں پڑگئے جو رونما ہوئے پھر خوف زدہ رہنے لگے اور پہرے دار اور چوکیدار داروغے وغیرہ مقرر کئے اپنی حالتوں کو متغیر کیا تو متغیر ہوگئے “ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:26179:مرسل) بعض سلف سے منقول ہے کہ انہوں نے سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہم کی خلافت کی حقانیت کے بارے میں اس آیت کو پیش کیا ۔ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جس وقت یہ آیت اتری ہے اس وقت ہم انتہائی خوف اور اضطراب کی حالت میں تھے ۔ جیسے فرمان ہے آیت «اذْکُرُوْٓا اِذْ اَنْتُمْ قَلِیْلٌ مٰسْتَضْعَفُوْنَ فِی الْاَرْضِ تَخَافُوْنَ اَنْ یَّتَخَطَّفَکُمُ النَّاسُ فَاٰوٰیکُمْ وَاَیَّدَکُمْ بِنَصْرِہٖ وَرَزَقَکُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ» ۱؎ (8-الأنفال:26) ، یعنی ’ یہ وہ وقت بھی تھا کہ تم بے حد کمزور اور تھوڑے تھے اور قدم قدم اور دم دم پر خوف زدہ رہتے تھے اللہ تعالیٰ نے تمہاری تعداد بڑھا دی تمہیں قوت وطاقت عنایت فرمائی اور امن وامان دیا ‘ ۔ پھر فرمایا کہ ’ جیسے ان سے پہلے کے لوگوں کو اس نے زمین کا مالک کر دیا تھا ‘ جیسے کہ کلیم اللہ موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا «عَسٰی رَبٰکُمْ اَنْ یٰہْلِکَ عَدُوَّکُمْ وَیَسْتَخْلِفَکُمْ فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرَ کَیْفَ تَعْمَلُوْنَ» ۱؎ (7-الأعراف:129) ، ’ بہت ممکن ہے بلکہ بہت ہی قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کو ہلاک کر دے اور تمہیں ان کا جانشین بنا دے ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَنُرِیْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِی الْاَرْضِ وَنَجْعَلَہُمْ اَیِٕمَّۃً وَّنَجْعَلَہُمُ الْوٰرِثِیْنَ» ۱؎ (28-القصص:5-6) یعنی ’ ہم نے ان پر احسان کرنا چاہا جو زمین بھر میں سب سے زیادہ ضعیف اور ناتواں تھے ‘ ۔ پھر فرمایا کہ ’ ان کے دین کو جو اللہ کا پسندیدہ ہے جما دے گا اور اسے قوت و طاقت دے گا ‘ ۔ سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ جب بطور وفد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا : { کیا تو نے حیرہ دیکھا ہے } اس نے جواب دیا کہ میں حیرہ کو نہیں جانتا ہاں اس کا نام سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اللہ تعالیٰ میرے اس دین کو کامل طور پر پھیلائے گا یہاں تک کہ امن وامان قائم ہو جائے گا کہ حیرہ سے ایک سانڈنی سوار عورت تنہا نکلے گی اور وہ بیت اللہ تک پہنچ کر طواف سے فارغ ہو کر واپس ہوگی نہ خوف زدہ ہوگی نہ ہی اس کے ساتھ محافظ ہوگا ۔ یقین مان کہ کسریٰ بن ھرمز کے خزانے مسلمانوں کی فتوحات میں آئیں گے } ۔ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں اسی کسری بن ھرمز کے ۔ سنو اس قدر مال بڑھ جائے گا کہ کوئی قبول کرنے والا نہ ملے گا } ۔ عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اب تم دیکھ لو کہ فی الواقع حیرہ سے عورتیں بغیر کسی کی پناہ کی آتی جاتی ہیں ۔ اس پیشن گوئی کو پورا ہوتے ہوئے ہم نے دیکھ لیا دوسری پیشین گوئی تو میری نگاہوں کے سامنے پوری ہوئی کسریٰ کے خزانے فتح کرنے والوں نے بتایا خود میں موجود تھا اور تیسری پیشین گوئی یقیناً پوری ہو کر رہے گی کیونکہ وہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3595) مسند احمد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے { اس امت کو ترقی اور بڑھوتری کی مدد اور دین کی اشاعت کی بشارت دو ۔ ہاں جو شخص آخرت کا عمل دنیا کے حاصل کرنے کے لیے کرے وہ جان لے کہ آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہ ملے گا } ۔ ۱؎ (مسند احمد:134/5:صحیح) پھر فرماتا ہے کہ ’ وہ میری ہی عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گے ‘ ۔ مسند میں ہے { معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک گدھے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان صرف پالان کی لکڑی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے نام سے مجھے آواز دی میں نے «لبیک و سعدیک» کہا پھر تھوڑی سی دیر کے بعد چلنے کے بعد اسی طرح مجھے پکارا اور میں نے بھی اسی طرح جواب دیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { جانتے ہو اللہ کا حق اپنے بندوں پر کیا ہے ؟ } میں نے کہا اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم خوب جانتا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { بندوں پر اللہ کا حق یہ ہے کہ وہ اسی کی عبادت کریں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں } ۔ پھر تھوڑی سی دیر چلنے کے بعد مجھے پکارا اور میں جواب دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { جانتے ہو جب بندے اللہ کا حق ادا کریں تو اللہ کے ذمے بندوں کا حق کیا ہے ؟ } میں نے جواب دیا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی پورا علم ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { یہ کہ انہیں عذاب نہ کرے } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5967) پھر فرمایا ’ اس کے بعد جو منکر ہو جائے وہ یقیناً فاسق ہے ‘ ۔ یعنی اس کے بعد بھی جو میری فرمانبرداری چھوڑ دے اس نے میری حکم عدولی کی اور یہ گناہ سخت اور بہت بڑا ہے ۔ شان الٰہی دیکھو جتنا جس زمانے میں اسلام کا زور رہا اتنی ہی مدد اللہ کی ہوئی ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم اپنے ایمان میں بڑھے ہوئے تھے فتوحات میں بھی سب سے آگے نکل گئے جوں جوں ایمان کمزور ہوتا گیا دنیوی حالت سلطنت وشوکت بھی گرتی گئی ۔ بخاری و مسلم میں ہے { میری امت میں سے ایک جماعت ہمیشہ برسر حق رہے گی اور وہ غالب اور نڈر رہے گی ان کی مخالفت ان کا کچھ نہ بگاڑسکیں گے قیامت تک یہ اسی طرح رہے گی } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:7459) اور روایت میں ہے { یہاں تک اللہ کا وعدہ آ جائے گا } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1923) ایک اور روایت میں ہے { یہاں تک کہ یہی جماعت سب سے آخر دجال سے جہاد کرے گی } ۔ ۱؎ (مسند بزار:3387:ضعیف) اور حدیث میں ہے کہ { عیسیٰ علیہ السلام کے اترنے تک یہ لوگ کافروں پر غالب رہیں گے } ۔ ۱؎ (مسند ابو یعلی:2078:ضعیف ولہ شواہد) یہ سب روایتیں صحیح ہیں اور ایک ہی مطلب سب کا ہے ۔ النور
56 صلوۃ اور حسن سلوک کی ہدایات اللہ تعالیٰ اپنے با ایمان بندوں کو صرف اپنی عبادت کا حکم دیتا ہے کہ ’ اسی کے لیے نمازیں پڑھتے رہو ، اور ساتھ ہی اس کے بندوں کے ساتھ حسن سلوک کرتے رہو ۔ ضعیفوں ، مسکینوں ، فقیروں کی خبرگیری کرتے رہو ۔ مال میں سے اللہ کا حق یعنی زکوٰۃ نکالتے رہو ۔ اور ہر امر میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتے رہو ۔ جس بات کا وہ حکم فرمائے لاؤ جس امر سے وہ روکیں رک جاؤ ۔ یقین مانوکہ اللہ کی رحمت کے حاصل کرنے کا یہی طریقہ ہے ‘ ۔ چنانچہ اور آیت میں ہے «اُولٰیِٕکَ سَیَرْحَمُہُمُ اللّٰہُ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ» ۱؎ (9-التوبۃ:71) ’ یہی لوگ ہیں جن پر ضرور بضرور اللہ کی رحمت نازل ہوتی ہے ۔ اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ گمان نہ کرنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلانے والے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نہ ماننے والے ہم پر غالب آجائیں گے یا ادھر ادھر بھاگ کر ہمارے بے پناہ عذابوں سے بچ جائیں گے ۔ ہم تو ان کا اصلی ٹھکانہ جہنم میں مقرر کر چکے ہیں جو نہایت بری جگہ ہے ۔ قرار گاہ کے اعتبار اور بازگشت کے اعتبار سے بھی ‘ ۔ النور
57 النور
58 گھروں میں اجازت کے بغیر داخل نہ ہوں اس آیت میں قریب رشتے داروں کو بھی حکم ہو رہا ہے کہ وہ اجازت حاصل کر کے آیا کریں ۔ اس سے پہلے کہ اس سورت کی شروع کی آیت میں جو حکم تھا وہ اجنبیوں کے لیے تھا ۔ پس فرماتا ہے کہ ’ تین وقتوں میں غلاموں کو نابالغ بچوں کو بھی اجازت مانگنی چاہے ‘ ۔ صبح کی نماز سے پہلے کیونکہ وہ وقت سونے کا ہوتا ہے ۔ اور دوپہر کو جب انسان دو گھڑی راحت حاصل کرنے کے لیے عموماً اپنے گھر میں بالائی کپڑے اتار کر سوتا ہے اور عشاء کی نماز کے بعد کیونکہ وہ بھی بال بچوں کے ساتھ سونے کا وقت ہے ۔ پس تین وقتوں میں نہ جائیں انسان بے فکری سے اپنے گھر میں کس حالت میں ہوتا ہے ؟ اس لیے گھر کے لونڈی غلام اور چھوٹے بچے بھی بے اطلاع ان وقتوں میں چپ چاپ نہ گھس آئیں ۔ ہاں ان خاص وقتوں کے علاوہ انہیں آنے کی اجازت مانگنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ان کا آنا جانا تو ضروری ہے باربار کے آنے جانے والے ہیں ہر وقت کی اجازت طلبی ان کے لیے اور نیز تمہارے لیے بھی بڑی حرج کی چیز ہوگی ۔ ایک حدیث میں ہے کہ { بلی نجس نہیں وہ تو تمہارے گھروں میں تمہارے آس پاس گھومنے پھرنے والی ہے } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:75،قال الشیخ الألبانی:صحیح) حکم تو یہی ہے اور عمل اس پر بہت کم ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” تین آیتوں پر عموماً لوگوں نے عمل چھوڑ رکھا ہے ۔ ایک تو یہی آیت اور ایک سورۃ نساء کی آیت «وَاِذَا حَضَرَ الْقِسْمَۃَ اُولُوا الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنُ فَارْزُقُوْھُمْ مِّنْہُ وَقُوْلُوْا لَھُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا» ۱؎ (4-النساء:8) اور ایک سورۃ الحجرات کی آیت «اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰیکُمْ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ» ۱؎ (49-الحجرات:13) ، شیطان لوگوں پر چھا گیا اور انہیں ان آیتوں پر عمل کرنے سے غافل کر دیا گویا ان پر ایمان ہی نہیں میں نے تو اپنی اس لونڈی سے بھی کہہ رکھا ہے کہ ان تینوں وقتوں میں بے اجازت ہرگز نہ آئے “ ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:5191،قال الشیخ الألبانی:صحیح الإسناد موقوف) پہلی آیت میں تو ان تین وقتوں میں لونڈی غلاموں اور نابالغ بچوں کو بھی اجازت لینے کا حکم ہے دوسری آیت میں ورثے کی تقسیم کے وقت جو قرابت دار اور یتیم مسکین آجائیں انہیں بنام الٰہی کچھ دے دینے اور ان سے نرمی سے بات کرنے کا حکم ہے اور تیسری آیت میں حسب ونسب پر فخر کرنے بلکہ قابل اکرام خوف الٰہی کے ہونے کا ذکر ہے ۔ حضرت شعمی رحمہ اللہ سے کسی نے پوچھا کیا یہ آیت منسوخ ہو گئی ہے ؟ آپ رحمہ اللہ نے فرمایا ” ہرگز نہیں “ ۔ اس نے کہا پھر لوگوں نے اس پر عمل کیوں چھوڑ رکھا ہے ؟ فرمایا ” اللہ سے توفیق طلب کرنی چاہے “ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” اس آیت پر عمل کے ترک کی وجہ مالداری اور فراخ دلی ہے ۔ پہلے تو لوگوں کے پاس اتنا بھی نہ تھا کہ اپنے دروازوں پر پردے لٹکا لیتے یا کشادہ گھر کئی کئی الگ الگ کمروں والے ہوتے ہیں تو بسا اوقات لونڈی غلام بے خبری میں چلے آتے اور میاں بیوی مشغول ہوتے تو آنے والے بھی شرما جاتے اور گھر والوں پر بھی شاق گزرتا اب جب کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو کشادگی دی ، کمرے جداگانہ بن گئے ، دروازے باقاعدہ لگ گئے ، دروازوں پر پردے پڑ گئے تو محفوظ ہو گئے ۔ حکم الٰہی کی مصلحت پوری ہوگئی اس لیے اجازت کی پابندی اٹھ گئی اور لوگوں نے اس میں سستی اور غفلت شروع کر دی “ ۔ سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” یہی تین وقت ایسے ہیں کہ انسان کو ذرا فرصت ہوتی ہے گھر میں ہوتا ہے اللہ جانے کس حالت میں ہو اس لیے لونڈی غلاموں کو بھی اجازت کا پابند کر دیا ہے کیونکہ اسی وقت میں عموماً لوگ اپنی گھر والیوں سے ملتے ہیں تاکہ نہا دھو کر بہ آرام گھر سے نکلیں اور نمازوں میں شامل ہوں “ ۔ یہ بھی مروی ہے کہ { ایک انصاری رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کچھ کھانا پکایا لوگ بلا اجازت ان کے گھر میں جانے لگے ۔ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ تو نہایت بری بات ہے کہ غلام بے اجازت گھر میں آ جائے ممکن ہے میاں بیوی ایک ہی کپڑے میں ہوں ۔ پس یہ آیت اتری } ۔ ۱؎ (مرسل و ضعیف) اس آیت کے منسوخ نہ ہونے پر اس آیت کے خاتمے کے الفاظ بھی دلالت کرتے ہیں کہ اسی طرح تین وقتوں میں جن کا بیان اوپر گزرا اجازت مانگنی ضروری ہے لیکن بعد بلوغت تو ہر وقت اطلاع کر کے ہی جانا چاہے ، جیسے کہ اور بڑے لوگ اجازت مانگ کر آتے ہیں خواہ اپنے ہوں یا پرائے ۔ جو بڑھیا عورتیں اس عمر کو پہنچ جائیں کہ نہ اب انہیں مرد کی خواہش رہے نہ نکاح کی توقع حیض بند ہو جائے عمر سے اتر جائیں تو ان پر پردے کی وہ پابندیاں نہیں جو اور عورتوں پر ہیں ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں آیت «وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ یَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِہِنَّ» ۱؎ (24-النور:31) سے یہ آیت مستثنیٰ ہے ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4111،قال الشیخ الألبانی:حسن) سیدنا ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ” ایسی عورتوں کو اجازت ہے کہ وہ برقعہ اور چادر اتار دیا کریں صرف دوپٹے میں اور کرتے پاجامے میں رہیں “ ۔ آپ رضی اللہ عنہ کی قرأت بھی «اَنْ یَّضَعْنَ مِنْ ثِیَابِہِنَّ» ۱؎ (24-النور:60) ہے ۔ مراد اس سے دوپٹے کے اوپر کی چادر ڈالنا ضروری نہیں ۔ لیکن مقصود اس سے بھی اظہار زینت نہ ہو ۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے جب اس قسم کے سوالات عورتوں نے کئے تو آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ” تمہارے لیے بناؤ سنگھار بے شک حلال اور طیب ہے لیکن غیر مردوں کی آنکھیں ٹھنڈی کرنے کے لیے نہیں “ ۔ سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کی بیوی صاحبہ جب بالکل بڑھیا پھوس ہو گئیں تو آپ رضی اللہ عنہا نے اپنے غلام کے ہاتھوں اپنے سر کے بالوں میں مہندی لگوائی جب ان سے سوال کیا گیا تو فرمایا ” میں ان عمر رسیدہ عورتوں میں ہوں جنہیں خواہش نہیں رہی “ ۔ آخر میں فرمایا ’ گو چادر کا نہ لینا ان بڑی عورتوں کے لیے جائز تو ہے مگر تاہم افضل یہی ہے کہ چادروں اور برقعوں میں ہی رہیں ۔ اللہ تعالیٰ سننے جاننے والا ہے ‘ ۔ النور
59 النور
60 النور
61 جہاد میں شمولیت کی شرائط اس آیت میں جس حرج کے نہ ہونے کا ذکر ہے اس کی بابت عطاء رحمہ اللہ وغیرہ تو فرماتے ہیں ” مراد اس سے اندھے لولے لنگڑے کا جہاد میں نہ آنا ہے “ ۔ جیسے کہ سورۃ الفتح میں ہے ’ تو یہ لوگ اگر جہاد میں شامل نہ ہوں تو ان پر بوجہ ان کے معقول شرعی عذر کے کوئی حرج نہیں ‘ ۔ سورۃ براۃ میں ہے آیت «لَیْسَ عَلَی الضٰعَفَاءِ وَلَا عَلَی الْمَرْضٰی وَلَا عَلَی الَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ مَا یُنْفِقُوْنَ حَرَجٌ اِذَا نَصَحُوْا لِلہِ وَرَسُوْلِہٖ مَا عَلَی الْمُحْسِنِیْنَ مِنْ سَبِیْلٍ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ وَلَا عَلَی الَّذِینَ إِذَا مَا أَتَوْکَ لِتَحْمِلَہُمْ قُلْتَ لَا أَجِدُ مَا أَحْمِلُکُمْ عَلَیْہِ تَوَلَّوا وَّأَعْیُنُہُمْ تَفِیضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا أَلَّا یَجِدُوا مَا یُنفِقُونَ» ۱؎ (9-التوبۃ:91-92) ، ’ بوڑھے بڑوں پر اور بیماروں پر اور مفلسوں پر جب کہ وہ تہ دل سے دین حق کے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خیرخواہ ہوں کوئی حرج نہیں ، بھلے لوگوں پر کوئی حرج نہیں ہے ۔ بھلے لوگوں پر کوئی سرزنش نہیں ، اللہ غفور ورحیم ہے ۔ ان پر بھی اسی طرح کوئی حرج نہیں جو سواری نہیں پاتے اور تیرے پاس آتے ہیں تو تیرے پاس سے بھی انہیں سواری نہیں مل سکتی ‘ ۔ سعید رحمۃاللہ علیہ وغیرہ فرماتے ہیں لوگ اندھوں ، لولوں ، لنگڑوں اور بیماروں کے ساتھ کھانا کھانے میں حرج جانتے تھے کہ ایسا نہ ہو وہ کھا نہ سکیں اور ہم زیادہ کھالیں یا اچھا اچھا کھالیں تو اس آیت میں انہیں اجازت ملی کہ اس میں تم پر کوئی حرج نہیں ۔ بعض لوگ کراہت کرکے بھی ان کے ساتھ کھانے کو نہیں بیٹھتے تھے ، یہ جاہلانہ عادتیں شریعت نے اٹھا دیں “ ۔ مجاہد رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ ” لوگ ایسے لوگوں کو اپنے باپ بھائی بہن وغیرہ قریب رشتہ داروں کے ہاں پہنچا آتے تھے کہ وہ وہاں کھالیں یہ لوگ اس عار سے کرتے کہ ہمیں اوروں کے گھر لے جاتے ہیں اس پر یہ آیت اتری “ ۔ سدی رحمۃ اللہ کا قول ہے کہ ” انسان جب اپنے بہن بھائی وغیرہ کے گھر جاتا ہے وہ نہ ہوتے اور عورتیں کوئی کھانا انہیں پیش کرتیں تو یہ اسے نہیں کھاتے تھے کہ مرد تو ہیں نہیں نہ ان کی اجازت ہے ۔ تو جناب باری تعالیٰ نے اس کے کھا لینے کی رخصت عطا فرمائی “ ۔ یہ جو فرمایا کہ ’ خود تم پر بھی حرج نہیں ‘ یہ تو ظاہر ہی تھا ۔ اس کا بیان اس لیے کیا گیا کہ اور چیز کا اس پر عطف ہو اور اس کے بعد کا بیان اس حکم میں برابر ہو ۔ بیٹوں کے گھروں کا بھی یہی حکم ہے گو لفظوں میں بیان نہیں آیا لیکن ضمناً ہے ۔ بلکہ اسی آیت کے استدلال کر کے بعض نے کہا ہے کہ بیٹے کا مال بمنزلہ باپ کے مال کے ہے ۔ مسند اور سنن میں کئی سندوں سے حدیث ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { تو اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے } } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:3530 ، قال الشیخ الألبانی:حسن صحیح) اور جن لوگوں کے نام آئے ان سے استدلال کر کے بعض نے کہا ہے کہ قرابت داروں کا نان و نفقہ بعض کا بعض پر واجب ہے جیسے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا اور امام احمد رحمہ اللہ کے مذہب کا مشہور مقولہ ہے ” جس کی کنجیاں تمہاری ملکیت میں ہیں اس سے مراد غلام اور داروغے ہیں کہ وہ اپنے آقا کے مال سے حسب ضرورت و دستور کھا پی سکتے ہیں “ ۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ { جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنگ میں جاتے تو ہر ایک کی چاہت یہی ہوتی کہ ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جائیں ، جاتے ہوئے اپنے خاص دوستوں کو اپنی کنجیاں دے جاتے اور ان سے کہہ دیتے کہ جس چیز کے کھانے کی تمہیں ضرورت ہو ہم تمہیں رخصت دیتے ہیں لیکن تاہم یہ لوگ اپنے آپ کو امین سمجھ کر اور اس خیال سے کہ مبادا ان لوگوں نے بادل ناخواستہ اجازت دی ہو ، کسی کھانے پینے کی چیز کو نہ چھوتے اس پر یہ حکم نازل ہوا } ۔ پھر فرمایا کہ ’ تمہارے دوستوں کے گھروں سے بھی کھا لینے میں تم پر کوئی پکڑ نہیں جب کہ تمہیں علم ہو کہ وہ اس سے برا نہ مانے گا اور ان پر یہ شاق نہ گزرے گا ‘ ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” تو جب اپنے دوست کے ہاں جائے تو بلا اجازت اس کے کھانے کو کھا لینے کی رخصت ہے “ ۔ پھر فرمایا ’ تم پر ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے میں اور جدا جدا ہو کر کھانے میں بھی کوئی گناہ نہیں ‘ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ” جب آیت «یٰٓاَیٰھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بالْبَاطِلِ اِلَّآ اَنْ تَکُوْنَ تِجَارَۃً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْکُمْ» ۱؎ (4-النساء:29) اتری یعنی ’ ایمان والو ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ ‘ چنانچہ وہ اس سے بھی رک گئے اس پر یہ آیت اتری اسی طرح سے تنہاخوری سے بھی کراہت کرتے تھے جب تک کوئی ساتھی نہ ہو کھاتے نہیں تھے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس حکم میں دونوں باتوں کی اجازت دی یعنی دوسروں کے ساتھ کھانے کی اور تنہا کھانے کی “ ۔ قبیلہ بنو کنانہ کے لوگ خصوصیت سے اس مرض میں مبتلا تھے بھوکے ہوتے تھے لیکن جب تک ساتھ کھانے والا کوئی نہ ہو کھاتے نہ تھے سواری پر سوار ہو کر ساتھ کھانے والے کی تلاش میں نکلتے تھے پس اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تنہا کھانے کر رخصت نازل فرما کر جاہلیت کی اس سخت رسم کو مٹا دیا ۔ اس آیت میں گو تنہا کھانے کی رخصت ہے لیکن یہ یاد رہے کہ لوگوں کے ساتھ مل کر کھانا افضل ہے اور زیادہ برکت بھی اسی میں ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ { ایک شخص نے آ کر کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھاتے تو ہیں لیکن آسودگی حاصل نہیں ہوتی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { شاید تم الگ الگ کھاتے ہو گے ؟ جمع ہو کر ایک ساتھ بیٹھ کر اللہ کا نام لے کر کھاؤ تو تمہیں برکت دی جائے گی } } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:3764،قال الشیخ الألبانی:حسن) ابن ماجہ وغیرہ میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { مل کر کھاؤ ، تنہا نہ کھاؤ ، برکت مل بیٹھنے میں ہے } } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:3287،قال الشیخ الألبانی:ضعیف جدا) پھر تعلیم ہوئی کہ گھروں میں سلام کر کے جایا کرو ۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ ” جب تم گھر میں جاؤ تو اللہ کا سکھایا ہوا بابرکت بھلا سلام کہا کرو ۔ میں نے تو آزمایا ہے کہ یہ سراسر برکت ہے “ ۔ ابن طاؤس رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” تم میں سے جو گھر میں داخل ہو تو گھر والوں کو سلام کہے “ ۔ عطاء رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ کیا یہ واجب ہے ؟ فرمایا ” مجھے تو یاد نہیں کہ اس کے وجوب کا قائل کوئی ہو لیکن ہاں مجھے تو یہ بہت ہی پسند ہے کہ جب بھی گھر میں جاؤ سلام کر کے جاؤ ۔ میں تو اسے کبھی نہیں چھوڑتا ہاں یہ اور بات ہے کہ میں بھول جاؤں “ ۔ مجاہد رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں ” جب مسجد میں جاؤ تو کہو «السَّلَام عَلَیْنَا وَعَلَی عِبَاد اللَّہ الصَّالِحِینَ» “ یہ بھی مروی ہے کہ یوں کہو « بِسْمِ اللَّہ وَالْحَمْد لِلہِ السَّلَام عَلَیْنَا مِنْ رَبّنَا السَّلَام عَلَیْنَا وَعَلَی عِبَاد اللَّہ الصَّالِحِینَ» یہی حکم دیا جا رہا ہے ایسے وقتوں میں تمہارے سلام کا جواب اللہ کے فرشتے دیتے ہیں “ ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں { مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ باتوں کی وصیت کی ہے فرمایا ہے { اے انس ! کامل وضو کرو تمہاری عمر بڑھے گی ۔ جو میرا امتی ملے سلام کرو نیکیاں بڑھیں گی ، گھر میں سلام کر کے جایا کرو گھر کی خیریت بڑھے گی ۔ ضحٰی کی نماز پڑھتے رہو تم سے اگلے لوگ جو اللہ والے بن گئے تھے ان کا یہی طریقہ تھا ۔ اے انس ! چھوٹوں پر رحم کر بڑوں کی عزت و توقیر کر تو قیامت کے دن میرا ساتھی ہوگا } } ۔ ۱؎ (ابن عدی فی الکامل:382/5:ضعیف) پھر فرماتا ہے ’ یہ دعائے خیر ہے جو اللہ کی طرف سے تمہیں تعلیم کی گئی ہے برکت والی اور عمدہ ہے ‘ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” میں نے تو التحیات قرآن سے ہی سیکھی ہے نماز کی التحیات یوں ہے « التَّحِیَّات الْمُبَارَکَات الصَّلَوَات الطَّیِّبَات لِلہِ أَشْہَد أَنْ لَا إِلَہ إِلَّا اللَّہ وَأَشْہَد أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدہ وَرَسُولہ السَّلَام عَلَیْک أَیّہَا النَّبِیّ وَرَحْمَۃ اللَّہ وَبَرَکَاتہ السَّلَام عَلَیْنَا وَعَلَی عِبَاد اللَّہ الصَّالِحِینَ» اسے پڑھ کر نمازی کو اپنے لیے دعا کرنی چاہیئے پھر سلام پھیر دے “ ۔ انہی ابن عباس رضی اللہ عنہا سے مرفوعاً صحیح مسلم شریف میں اس کے سوا بھی مروی ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:403) اس سورۃ کے احکام کا ذکر کرکے پھر فرمایا کہ ’ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے سامنے اپنے واضح احکام مفید فرمان کھول کھول کر اسی طرح بیان فرمایا کرتا ہے تاکہ وہ غور وفکر کریں ، سوچیں سمجھیں اور عقلمندی حاصل کریں ‘ ۔ النور
62 رخصت پر بھی اجازت مانگو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ایک ادب اور بھی سکھاتا ہے کہ ’ جیسے آتے ہوئے اجازت مانگ کر آتے ہو ایسے جانے کے وقت بھی میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت مانگ کر جاؤ ۔ خصوصاً ایسے وقت جب کہ مجمع ہو اور کسی ضروری امر پر مجلس ہوئی ہو مثلا نماز جمعہ ہے یا نماز عید ہے یا جماعت ہے یا کوئی مجلس شوری ہم تو ایسے موقعوں پر جب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت نہ لے لو ہرگز ادھر ادھر نہ جاؤ مومن کامل کی ایک نشانی یہ بھی ہے ‘ ۔ پھر اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ ’ جب یہ اپنے کسی ضروری کام کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت چاہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان میں سے جسے چاہیں اجازت دے دیا کریں اور ان کے لیے طلب بخشش کی دعائیں بھی کرتے رہیں ‘ ۔ ابوداؤد وغیرہ میں ہے { جب تم میں سے کوئی کسی مجلس میں جائے تو اہل مجلس کو سلام کر لیا کرے اور جب وہاں سے آنا چاہے تو بھی سلام کر لیا کرے آخری دفعہ کا سلام پہلی مرتبہ کے سلام سے کچھ کم نہیں ہے } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:5208،قال الشیخ الألبانی:حسن صحیح) یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے اور امام صاحب نے اسے حسن فرمایا ہے ۔ النور
63 آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پکارنے کے آداب لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بلاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام یا کنیت سے معمولی طور پر جیسے آپس میں ایک دوسرے کو پکارا کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی پکار لیا کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے اس گستاخی سے منع فرمایا کہ ’ نام نہ لو بلکہ یا نبی اللہ یا رسول اللہ کہہ کر پکارو ۔ تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بزرگی اور عزت وادب کا پاس رہے ‘ ۔ اسی کے مثل آیت «یٰٓاَیٰہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَقُوْلُوا انْظُرْنَا وَاسْمَعُوْا وَلِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِــیْمٌ» ۱؎ (2-البقرۃ:104) ہے اور اسی جیسی آیات «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجْہَرُوا لَہُ بِالْقَوْلِ کَجَہْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُکُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ إِنَّ الَّذِینَ یَغُضٰونَ أَصْوَاتَہُمْ عِندَ رَسُولِ اللہِ أُولٰئِکَ الَّذِینَ امْتَحَنَ اللہُ قُلُوبَہُمْ لِلتَّقْوَیٰ لَہُم مَّغْفِرَۃٌ وَأَجْرٌ عَظِیمٌ إِنَّ الَّذِینَ یُنَادُونَکَ مِن وَرَاءِ الْحُجُرَاتِ أَکْثَرُہُمْ لَا یَعْقِلُونَ وَلَوْ أَنَّہُمْ صَبَرُوا حَتَّیٰ تَخْرُجَ إِلَیْہِمْ لَکَانَ خَیْرًا لَّہُمْ وَ اللہُ غَفُورٌ رَّحِیمٌ» ۱؎ (49-الحجرات:2-5) ہے یعنی ’ ایمان والو ! اپنی آوازیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پربلند نہ کرو ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اونچی اونچی آوازوں سے نہ بولو جیسے کہ بے تکلفی سے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو اگر ایسا کیا تو سب اعمال غارت ہو جائیں گے اور پتہ بھی نہ چلے ‘ ۔ یہاں تک کہ فرمایا ’ جو لوگ تجھے حجروں کے پیچھے سے پکارتے ہیں ان میں سے اکثر بےعقل ہیں اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ تم خود ان کے پاس آ جاتے تو یہ ان کے لیے بہتر تھا ‘ ۔ پس یہ سب آداب سکھائے گئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب کس طرح کریں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات چیت کس طرح کریں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کس طرح بولیں چالیں بلکہ پہلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سرگوشیاں کرنے کے لیے صدقہ کرنے کا بھی حکم تھا ۔ ایک مطلب تو اس آیت کا یہ ہوا ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ ’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کو تم اپنی دعاؤں کی طرح سمجھو ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا مقبول و مستجاب ہے ۔ خبردار کبھی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف نہ دینا کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کے منہ سے کوئی کلمہ نکل جائے تو تہس نہس ہو جاؤ ‘ ۔ اس سے اگلے جملے کی تفسیر میں مقاتل بن حیان رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” جمعہ کے دن خطبے میں بیٹھا رہنا منافقوں پر بہت بھاری پڑتا تھا جب کسی کو کوئی ایسی ضرورت ہوتی تو اشارے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت چاہتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اجازت دے دیتے اس لیے کہ خطبے کی حالت میں بولنے سے جمعہ باطل ہو جاتا ہے تو یہ منافق آڑ ہی آڑ میں نظریں بچا کر سرک جاتے تھے “ ۔ سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” جماعت میں جب منافق ہوتے تو ایک دوسرے کی آڑ لے کر بھاگ جاتے ۔ اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے اور اللہ کی کتاب سے ہٹ جاتے ، صف سے نکل جاتے ، مخالفت پر آمادہ ہو جاتے ۔ جو لوگ امر رسول ، سنت رسول ، فرمان رسول ، طریقہ رسول اور شرع رسول کے خلاف کریں وہ سزا یاب ہونگے ۔ انسان کو اپنے اقوال وافعال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں اور احادیث سے ملانے چاہئیں جو موافق ہوں اچھے ہیں جو موافق نہ ہوں مردود ہے “ ۔ بخاری مسلم میں ہے { حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { جو ایسا عمل کرے جس پر ہمارا حکم نہ ہو وہ مردود ہے } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2697) ظاہر یا باطن میں جو بھی ہے شریعت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کرے اس کے دل میں کفر ونفاق ، بدعت وبرائی کا بیج بودیا جاتا ہے یا اسے سخت عذاب ہوتا ہے ۔ یا تو دنیا میں ہی قتل قید حد وغیر جیسی سزائیں ملتی ہیں یا آخرت میں عذاب اخروی ملے گا ۔ مسند احمد میں حدیث ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { میری اور تمہاری مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے آگ جلائی جب وہ روشن ہوئی تو پتنگوں اور پروانوں کا اجتماع ہوگیا اور وہ دھڑا دھڑ اس میں گرنے لگے ۔ اب یہ انہیں ہر چند روک رہا ہے لیکن وہ ہیں شوق سے اس میں گرے جاتے ہیں اور اس شخص کے روکنے سے نہیں روکتے ۔ یہی حالت میری اور تمہاری ہے کہ تم آگ میں گرنا چاہتے ہو اور میں تمہیں اپنی بانہوں میں لپیٹ لپیٹ کر اس سے روک رہا ہوں کہ آگ میں نہ گھسو ، آگ سے بچو لیکن تم میری نہیں مانتے اور اس آگ میں گھسے چلے جا رہے ہو } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6483) یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی ہے ۔ النور
64 ہر ایک اس کے علم میں ہے مالک زمین و آسمان عالم غیب و حاضر بندوں کے چھپے کھلے اعمال کا جاننے والا ہی ہے ۔ «قَدْ یَعْلَمُ» میں «قَدْ» تحقیق کے لیے ہے جیسے اس سے پہلے کی آیت «قَدْ یَعْلَمُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ یَتَسَلَّـلُوْنَ مِنْکُمْ لِوَاذًا» ۱؎ (24-النور:63) میں ۔ اور جیسے آیت «قَدْ یَعْلَمُ اللّٰہُ الْمُعَوِّقِیْنَ مِنْکُمْ وَالْقَایِٕلِیْنَ لِاِخْوَانِہِمْ ہَلُمَّ اِلَیْنَا وَلَا یَاْتُوْنَ الْبَاْسَ اِلَّا قَلِیْلًا» ۱؎ (33-الأحزاب:18) میں ۔ اور جیسے آیت «قَدْ سَمِعَ اللہُ قَوْلَ الَّتِی تُجَادِلُکَ فِی زَوْجِہَا وَتَشْتَکِی إِلَی اللہِ وَ اللہُ یَسْمَعُ تَحَاوُرَکُمَا إِنَّ اللہَ سَمِیعٌ بَصِیرٌ» ۱؎ (58-المجادلۃ:1) میں اور جیسے آیت «قَدْ نَعْلَمُ اِنَّہٗ لَیَحْزُنُکَ الَّذِیْ یَقُوْلُوْنَ فَاِنَّہُمْ لَا یُکَذِّبُوْنَکَ وَلٰکِنَّ الظّٰلِمِیْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ یَجْحَدُوْنَ» ۱؎ (6-الأنعام:33) میں اور جیسے «قَدْ نَرَیٰ تَقَلٰبَ وَجْہِکَ فِی السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّیَنَّکَ قِبْلَۃً تَرْضَاہَا» ۱؎ (2-البقرۃ:144) میں ۔ اور جیسے مؤذن کہتا ہے «قَدْ قَامَتِ الصَّلوۃُ» تو فرماتا ہے کہ «الَّذِی یَرَاکَ حِینَ تَقُومُ وَتَقَلٰبَکَ فِی السَّاجِدِینَ إِنَّہُ ہُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ» ۱؎ (26-الشعراء:217-220) ’ جس حال پر تم جن اعمال وعقائد کے تم ہو اللہ پر خوب روشن ہے ۔ آسمان و زمین کا ایک ذرہ بھی اللہ پر پوشیدہ نہیں ۔ جو عمل تم کرو جو حالت تمہاری ہو اس اللہ پر عیاں ہے ۔ کوئی ذرہ اس سے چھپا ہوا نہیں ‘ ۔ «وَمَا تَکُونُ فِی شَأْنٍ وَمَا تَتْلُو مِنْہُ مِن قُرْآنٍ وَلَا تَعْمَلُونَ مِنْ عَمَلٍ إِلَّا کُنَّا عَلَیْکُمْ شُہُودًا إِذْ تُفِیضُونَ فِیہِ وَمَا یَعْزُبُ عَن رَّبِّکَ مِن مِّثْقَالِ ذَرَّۃٍ فِی الْأَرْضِ وَلَا فِی السَّمَاءِ وَلَا أَصْغَرَ مِن ذٰلِکَ وَلَا أَکْبَرَ إِلَّا فِی کِتَابٍ مٰبِینٍ» ۱؎ (10-یونس:61) ’ ہر چھوٹی بڑی چیز کتاب مبین میں محفوظ ہے ‘ ۔ «أَلَا إِنَّہُمْ یَثْنُونَ صُدُورَہُمْ لِیَسْتَخْفُوا مِنْہُ أَلَا حِینَ یَسْتَغْشُونَ ثِیَابَہُمْ یَعْلَمُ مَا یُسِرٰونَ وَمَا یُعْلِنُونَ إِنَّہُ عَلِیمٌ بِذَاتِ الصٰدُورِ» ۱؎ (11-ہود:5) ’ بندوں کے تمام خیر و شر کا وہ عالم ہے کپڑوں میں ڈھک جاؤ چھپ لک کر کچھ کرو ہر پوشیدہ اور ہر ظاہر اس پر یکساں ہے ‘ ۔ «سَوَاءٌ مِّنکُم مَّنْ أَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَن جَہَرَ بِہِ وَمَنْ ہُوَ مُسْتَخْفٍ بِاللَّیْلِ وَسَارِبٌ بِالنَّہَارِ» ۱؎ (13-الرعد:10) ’ سرگوشیاں اور بلند آواز کی باتیں اس کے کانوں میں ہیں تمام جانداروں کا روزی رساں وہی ہے ہر ایک جاندار کے ہر حال کو جاننے والا وہی ہے اور سب کچھ لوح محفوظ میں پہلے سے درج ہے ‘ ۔ «وَعِندَہُ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُہَا إِلَّا ہُوَ وَیَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَا تَسْقُطُ مِن وَرَقَۃٍ إِلَّا یَعْلَمُہَا وَلَا حَبَّۃٍ فِی ظُلُمَاتِ الْأَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَلَا یَابِسٍ إِلَّا فِی کِتَابٍ مٰبِینٍ» ۱؎ (6-الأنعام:59) ’ غیب کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں جہنیں اس کے سوا کوئی اور نہیں جانتا ۔ خشکی تری کی ہر ہرچیز کو وہ جانتا ہے ‘ ۔ «وَمَا مِن دَابَّۃٍ فِی الْأَرْضِ إِلَّا عَلَی اللہِ رِزْقُہَا وَیَعْلَمُ مُسْتَقَرَّہَا وَمُسْتَوْدَعَہَا کُلٌّ فِی کِتَابٍ مٰبِینٍ» ۱؎ (11-ہود:6) ’ کسی پتے کا جھڑنا اس کے علم سے باہر نہیں زمین کی اندھیریوں کے اندر کا دانہ اور کوئی تر وخشک چیز ایسی نہیں جو کتاب مبین میں نہ ہو ‘ ۔ اور بھی اس مضمون کی بہت سی آیتیں اور حدیثیں ہیں ۔ «یُنَبَّأُ الْإِنسَانُ یَوْمَئِذٍ بِمَا قَدَّمَ وَأَخَّرَ» ۱؎ (75-القیامۃ:13) ’ جب مخلوق اللہ کی طرف لوٹائی جائے گی ‘ ۔ «وَوُضِعَ الْکِتَابُ فَتَرَی الْمُجْرِمِینَ مُشْفِقِینَ مِمَّا فِیہِ وَیَقُولُونَ یَا وَیْلَتَنَا مَالِ ہٰذَا الْکِتَابِ لَا یُغَادِرُ صَغِیرَۃً وَلَا کَبِیرَۃً إِلَّا أَحْصَاہَا وَوَجَدُوا مَا عَمِلُوا حَاضِرًا وَلَا یَظْلِمُ رَبٰکَ أَحَدًا» ۱؎ (18-الکہف:49) ’ اس وقت ان کے سامنے ان کی چھوٹی سے چھوٹی نیکی اور بدی پیش کر دی جائے گی ۔ تمام اگلے پچھلے اعمال دیکھ لے گا ۔ اعمال نامہ کو ڈرتا ہوا دیکھے گا اور اپنی پوری سوانح عمری اس میں پاکر حیرت زدہ ہو کر کہے گا کہ یہ کیسی کتاب ہے جس نے بڑی تو بڑی کوئی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی نہیں چھوڑی جو جس نے کیا تھا وہ وہاں پائے گا ۔ تیرے رب کی ذات ظلم سے پاک ہے ‘ ۔ آخر میں فرمایا ’ اللہ بڑا ہی دانا ہے ہرچیز اس کے علم میں ہے ‘ ۔ «اَلْحَمْدُ لِلہِ» سورۃ النور کی تفسیر ختم ہوئی ۔ النور
0 الفرقان
1 اللہ تعالیٰ کی رحمت کا بیان اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کا بیان فرماتا ہے تاکہ لوگوں پر اس کی بزرگی عیاں ہو جائے کہ اس نے اس پاک کلام کو اپنے بندے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا ہے ۔ سورۃ الکہف کے شروع میں بھی اپنی حمد اسی اندازے سے بیان کی ہے ، یہاں اپنی ذات کا بابرکت ہونا بیان فرمایا اور یہی وصف بیان کیا ۔ یہاں لفظ «نَزَّلَ» فرمایا جس سے بار بار بکثرت اترنا ثابت ہوتا ہے ۔ جیسے فرمان ہے «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آمَنُوا آمِنُوا بِ اللہِ وَرَسُولِہِ وَالْکِتَابِ الَّذِی نَزَّلَ عَلَیٰ رَسُولِہِ وَالْکِتَابِ الَّذِی أَنزَلَ مِن قَبْلُ» ۱؎ (4-النساء:136) پس پہلی کتابوں کو لفظ «أَنزَلَ» سے اور اس آخر کتاب کو لفظ «نَزَّلَ» سے تعبیر فرمانا ۔ اسی لیے ہے کہ پہلی کتابیں ایک ساتھ اترتی رہیں اور قرآن کریم تھوڑا تھوڑا کر کے حسب ضرورت اترتا رہا ۔ کبھی کچھ آیتیں ، کبھی کچھ سورتیں ، کبھی کچھ احکام ۔ اس میں ایک بڑی حکمت یہ بھی تھی کہ لوگوں کو اس پر عمل مشکل نہ ہو اور خوب یاد ہو جائے اور مان لینے کے لیے دل کھل جائے ۔ جیسے کہ اسی سورت میں فرمایا ہے کہ کافروں کا ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ قرآن کریم اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک ساتھ کیوں نہ اترا ؟ جواب دیا گیا ہے کہ اس طرح اس لیے اترا کہ اس کے ساتھ تیری دل جمعی رہے اور ہم نے ٹھہرا ٹھہرا کر نازل فرمایا ۔ یہ جو بھی بات بنائیں گے ہم اس کا صحیح اور جچاتلا جواب دیں جو خوب تفصیل والا ہو گا ۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں اس آیت میں اس کا نام فرقان رکھا ۔ اس لیے کہ یہ حق و باطل میں ، ہدایت و گمراہی میں فرق کرنے والا ہے ۔ اس سے بھلائی برائی میں ، حلال حرام میں تمیز ہوتی ہے ۔ قرآن کریم کی یہ پاک صفت بیان فرما کر ، جس پر قرآن اترا ان کی ایک پاک صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ خاص اس کی عبادت میں لگے رہنے والے ہیں ، اس کے مخلص بندے ہیں ۔ یہ وصف سب سے اعلیٰ وصف ہے ۔ اسی لیے بڑی بڑی نعمتوں کے بیان کے موقعہ پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی وصف بیان فرمایا گیا ہے ۔ جیسے معراج کے موقعہ پر فرمایا «سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیٰتِنَا اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ» ۱؎ (17-الإسراء:1) اور جیسے اپنی خاص عبادت نماز کے موقعہ پر فرمایا «وَّاَنَّہٗ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللّٰہِ یَدْعُوْہُ کَادُوْا یَکُوْنُوْنَ عَلَیْہِ لِبَدًا» ۱؎ (72-الجن:19) ’ اور جب بندہ اللہ یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی عبادت کرنے کھڑے ہوتے ہیں ‘ یہی وصف قرآن کریم کے اترنے اور آپ کے پاس بزرگ فرشتے کے آنے کے اکرام کے بیان کرنے کے موقعہ پر بیان فرمایا ۔ پھر ارشاد ہوا کہ اس پاک کتاب کا آپ کی طرف اترنا اس لیے ہے کہ آپ تمام جہان کے لیے آگاہ کرنے والے بن جائیں ، ایسی کتاب جو سراسر حکمت و ہدایت والی ہے ۔ جو مفصل ، مبین اور محکم ہے ۔ جس کے آس پاس بھی باطل پھٹک نہیں سکتا ۔ جو حکیم و حمید اللہ کی طرف سے اتاری ہوئی ہے ۔ آپ اس کی تبلیغ دنیا بھر میں کر دیں ، ہر سرخ و سفید کو ، ہر دور و نزدیک والے کو اللہ کے عذابوں سے ڈرا دیں ، جو بھی آسمان کے نیچے اور زمین کے اوپر ہے اس کی طرف آپ کی رسالت ہے ۔ جیسے کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : { میں تمام سرخ و سفید انسانوں کی طرف بھیجا گیا ہوں ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:521) اور فرمان ہے : { مجھے پانچ باتیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئی تھیں ، ان میں سے ایک یہ ہے کہ ہر نبی اپنی اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا رہا لیکن میں تمام دنیا کی طرف بھیجا گیا ہوں ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:335) خود قرآن میں ہے «قُلْ یٰٓاَیٰھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعَا الَّذِیْ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ یُـحْیٖ وَیُمِیْتُ» ۱؎ (7-الأعراف:158) ’ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! اعلان کر دو کہ اے دنیا کے لوگو ! میں تم سب کی طرف اللہ کا پیغمبر ہوں ۔ ‘ پھر فرمایا مجھے رسول بنا کر بھیجنے والا ، مجھ پر یہ پاک کتاب اتارنے والا وہ اللہ ہے جو آسمان و زمین کا تنہا مالک ہے ، جو جس کام کو کرنا چاہے اسے کہہ دیتا ہے کہ ہو جا وہ اسی وقت ہو جاتا ہے ۔ وہی مارتا اور جلاتا ہے ، اس کی کوئی اولاد نہیں ، نہ اس کا کوئی شریک ہے ۔ ہر چیز اس کی مخلوق اور اس کی زیر پرورش ہے ۔ سب کا خالق ، مالک ، رازق ، معبود اور رب وہی ہے ۔ ہر چیز کا اندازہ مقرر کرنے والا اور تدبیر کرنے والا وہی ہے ۔ الفرقان
2 الفرقان
3 مشرکوں کی جہالت مشرکوں کی جہالت بیان ہو رہی ہے کہ وہ خالق ، مالک ، مختار بادشاہ کو چھوڑ کر ان کی عبادتیں کرتے ہیں جو ایک مچھر کا پر بھی نہیں بنا سکتے بلکہ وہ خود اللہ کے بنائے ہوئے اور اسی کے پیدا کئے ہوئے ہیں ۔ وہ اپنے آپ کو بھی کسی نفع نقصان کے پہنچانے کے مالک نہیں چہ جائیکہ دوسرے کا بھلا کریں یا دوسرے کا نقصان کریں ۔ یا دوسری کوئی بات کر سکیں ۔ وہ اپنی موت زیست کا یا دوبارہ جی اٹھنے کا بھی اختیار نہیں رکھتے ۔ پھر اپنی عبادت کرنے والوں کی ان چیزوں کے مالک وہ کیسے ہو جائیں گے ؟ بات یہی ہے کہ ان تمام کاموں کا مالک اللہ ہی ہے ، وہی جلاتا اور مارتا ہے ، وہی اپنی تمام مخلوق کو قیامت کے دن نئے سرے سے پیدا کرے گا ۔ اس پر یہ کام مشکل نہیں ، ایک کا پیدا کرنا اور سب کو پیدا کرنا ، ایک کو موت کے بعد زندہ کرنا اور سب کو کرنا ، اس پر یکساں اور برابر ہے ۔ ایک آنکھ جھپکانے میں اس کا پورا ہو جاتا ہے ۔ صرف ایک آواز کے ساتھ تمام مری ہوئی مخلوق زندہ ہو کر اس کے سامنے ایک چٹیل میدان میں کھڑی ہو جائے گی ۔ اور آیت میں فرمایا ہے صرف ایک دفعہ کی ایک آواز ہو گی کہ ساری مخلوق ہمارے سامنے حاضر ہو جائے گی ، وہی معبود برحق ہے ۔ اس کے سوا نہ کوئی رب ہے ، نہ لائق عبادت ہے ۔ اس کا چاہا ہوتا ہے ، اس کے چاہے بغیر کچھ بھی نہیں ہوتا ۔ وہ ماں باپ سے ، لڑکی لڑکوں سے ، عدیل و بدیل سے ، وزیر و نظیر سے ، شریک وسہیم سب سے پاک ہے ۔ وہ «أَحَدٌ» ہے ، «الصَّمَدُ» ہے ، «لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُولَدْ» ہے ، اس کا کفو کوئی نہیں ۔ الفرقان
4 خود فریب مشرک خود فریب مشرکین ایک جہالت اوپر کی آیتوں میں بیان ہوئی ۔ جو ذات الٰہی کی نسبت تھی ۔ یہاں دوسری جہالت بیان ہو رہی ہے جو ذات رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کہ وہ کہتے ہیں کہ اس قرآن کو تو اس نے اوروں کی مدد سے خود ہی جھوٹ موٹ گھڑ لیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ ان کا ظلم اور جھوٹ ہے جس کے باطل ہونے کا خود انہیں بھی علم ہے ۔ جو کچھ کہتے ہیں وہ خود اپنی معلومات کے بھی خلاف کہتے ہیں ۔ کبھی ہانک لگانے لگتے ہیں کہ اگلی کتابوں کے قصے اس نے لکھوا لئے ہیں ، وہی صبح شام اس کی مجلس میں پڑھے جا رہے ہیں ۔ یہ جھوٹ وہ ہے جس میں کسی کو کوئی شک نہ ہو سکے ۔ اس لیے کہ صرف اہل مکہ ہی نہیں بلکہ دنیا جانتی ہے کہ ہمارے نبی امی تھے نہ لکھنا جانتے تھے نہ پڑھنا ۔ چالیس سال کی نبوت سے پہلے کی زندگی آپ نے انہی لوگوں میں گزاری تھی اور وہ اس طرح کہ اتنی مدت میں ایک واقعہ بھی آپ کی زندگی میں یا ایک لمحہ بھی ایسا نہ تھا جس پر انگلی اٹھا سکے ۔ ایک ایک وصف آپ کا وہ تھا جس پر زمانہ شیدا تھا جس پر اہل مکہ رشک کرتے تھے ۔ آپ کی عام مقبولیت اور محبوبیت ، بلند اخلاق اور خوش معاملگی اتنی بڑھی ہوئی تھی کہ ہر ایک دل میں آپ کے لیے جگہ تھی ۔ عام زبانیں آپ کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم امین کے پیارے خطاب سے پکارتی تھیں ، دنیا آپ کے قدموں تلے آنکھیں بچھاتی تھی ۔ کون سا دل تھا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا گھر نہ ہو ، کون سی آنکھ تھی جس میں احمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت نہ ہو ؟ کون سا مجمع تھا جس میں آپ کا ذکر خیر نہ ہو ؟ کون وہ شخص تھا جو آپ کی بزرگی ، صداقت ، امانت ، نیکی اور بھلائی کا قائل نہ ہو ؟ پھر جب کہ اللہ کی بلند ترین عزت سے آپ معزز کئے گئے ۔ آسمانی وحی کے آپ امین بنائے گئے تو صرف باپ دادوں کی روش کو پامال ہوتے ہوئے دیکھ کر یہ بےوقوف بےپیندے لوٹے کی طرح لڑھک گئے ، تھالی کے بینگن کی طرح ادھر سے ادھر ہو گئے ، لگے باتیں بنانے ، اور عیب جوئی کرنے لیکن جھوٹ کے پاؤں کہاں ؟ کبھی آپ کو شاعر کہتے ، کبھی ساحر اور کبھی کذاب ۔ حیران تھے کہ کیا کہیں اور کس طرح اپنی جاہلانہ روش کو باقی رکھیں اور اپنے معبودان باطل کے جھنڈے اوندھے نہ ہونے دیں اور کس طرح ظلم کدہ دنیا کو نور الہٰی سے نہ جگمگانے دیں ؟ اب انہیں جواب ملتا ہے کہ قرآن کی سچی حقائق پہ مبنی اور سچی خبریں اللہ کی دی ہوئی ہیں جو علام الغیوب ہے ، جس سے ایک ذرہ پوشیدہ نہیں کہ اس میں ماضی کے بیان سبھی سچ ہیں ۔ جو آئندہ کی خبر اس میں ہے وہ بھی سچ ہے ۔ اللہ کے سامنے ہو چکی ہوئی اور ہونے والی بات یکساں ہے ۔ وہ غیب کو بھی اسی طرح جانتا ہے جس طرح ظاہر کو ۔ اس کے بعد اپنی شان غفاریت کو اور شان رحم و کرم کو بیان فرمایا تاکہ بدلوگ بھی اس سے مایوس نہ ہوں ۔ کچھ بھی کیا ہو ، اب بھی اس کی طرف جھک جائیں ، توبہ کریں ، اپنے کئے پر پچھتائیں ۔ نادم ہوں ، اور رب کی رضا چاہیں ۔ رحمت رحیم کے قربان جائیے کہ ایسے سرکش و دشمن ، اللہ و رسول پر بہتان باز ، اس قدر ایذائیں دینے والے لوگوں کو بھی اپنی عام رحمت کی دعوت دیتا ہے اور اپنے کرم کی طرف انہیں بلاتا ہے ۔ وہ اللہ کو برا کہیں ، وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو برا کہیں ، وہ کلام اللہ پر باتیں بنائیں اور اللہ تعالیٰ انہیں اپنی رحمت کی طرف رہنمائی کرے ، اپنے فضل و کرم کی طرف دعوت دے ، اسلام اور ہدایت ان پر پیش کرے ، اپنی بھلی باتیں ان کو سجھائے اور سمجھائے ۔ چنانچہ اور آیت میں عیسائیوں کی تثلیث پرستی کا ذکر کر کے ان کی سزا کا بیان کرتے ہوئے فرمایا «اَفَلَا یَتُوْبُوْنَ اِلَی اللّٰہِ وَیَسْتَغْفِرُوْنَہٗ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ» ۱؎ (5-المائدۃ:74) ’ یہ لوگ کیوں اللہ سے توبہ نہیں کرتے ؟ اور کیوں اس کی طرف جھک کر اس سے اپنے گناہوں کی معافی طلب نہیں کرتے ؟ وہ تو بڑا ہی بخشنے والا اور بہت ہی مہربان ہے ۔ ‘ مومنوں کو ستانے اور انہیں فتنے میں ڈالنے والوں کا ذکر کر کے سورۃ البروج میں فرمایا کہ اگر ایسے لوگ بھی توبہ کر لیں ، اپنے برے کاموں سے ہٹ جائیں ، باز آئیں تو میں بھی ان پر سے اپنے عذاب ہٹالوں گا اور رحمتوں سے نواز دونگا ۔ امام حسن بصری رحمہ اللہ نے کیسے مزے کی بات بیان فرمائی ہے ۔ آپ فرماتے ہیں : اللہ کے رحم و کرم کو دیکھو ، یہ لوگ اس کے نیک چہیتے بندوں کو ستائیں ، ماریں ، پیٹیں ، قتل کریں اور وہ انہیں توبہ کی طرف اور اپنے رحم و کرم کی طرف بلائے ! «فسبحانہ ما اعظم شانہ» ۔ الفرقان
5 الفرقان
6 الفرقان
7 مشرکین کی حماقتیں اس حماقت کو ملاحظہ فرمائیے کہ رسول کی رسالت کے انکار کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ یہ کھانے پینے کا محتاج کیوں ہے ؟ اور بازاروں میں تجارت اور لین دین کے لیے آتا جاتا کیوں ہے ؟ اس کے ساتھ ہی کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتارا گیا ؟ کہ وہ اس کے دعوے کی تصدیق کرتا اور لوگوں کو اس کے دین کی طرف بلاتا اور عذاب الٰہی سے آگاہ کرتا ۔ فرعون نے بھی یہی کہا تھا کہ «فَلَوْلَآ اُلْقِیَ عَلَیْہِ اَسْوِرَۃٌ مِّنْ ذَہَبٍ اَوْ جَاءَ مَعَہُ الْمَلٰیِٕکَۃُ مُقْتَرِنِیْنَ» ۱؎ (43-الزخرف:53) الخ ، ’ اس پر سونے کے کنگن کیوں نہیں ڈالے گئے ؟ یا اس کی مدد کے لیے آسمان سے فرشتے کیوں نہیں اتارے گئے ۔ ‘ چونکہ دل ان تمام کافروں کے یکساں ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے کفار نے بھی کہا کہ اچھا یہ نہیں تو اسے کوئی خزانہ ہی دے دیا جاتا کہ یہ خود باآرام اپنی زندگی بسر کرتا اور دوسرں کو بھی دیتا یا اس کے ساتھ کوئی چلتا پھرتا باغ ہوتا کہ یہ اپنے کھانے پینے سے تو بےفکر ہو جاتا ۔ بےشک یہ سب کچھ اللہ کے لیے آسان ہے لیکن سردست ان سب چیزوں کے نہ دینے میں بھی حکمت ہے ۔ یہ ظالم مسلمانوں کو بھی بہکاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم ایک ایسے شخص کے پیچھے لگ گئے ہو جس پر کسی نے جادو کر دیا ہے ۔ دیکھو تو سہی کہ کیسی بےبنیاد باتیں بناتے ہیں ، کسی ایک بات پر جم ہی نہیں سکتے ، ادھر ادھر کروٹیں لے رہے ہیں ۔ کبھی جادوگر کہہ دیا تو کبھی جادو کیا ہوا بتا دیا ، کبھی شاعر کہہ دیا ، کبھی جن کا سکھایا ہوا کہہ دیا ، کبھی کذاب کہا ، کبھی مجنون ۔ حالانکہ یہ سب باتیں محض غلط ہیں اور ان کا غلط ہونا اس سے بھی واضح ہے کہ خود ان میں تضاد ہے ۔ کسی ایک بات پر خود ان مشرکین کا اعتماد نہیں ۔ گھڑتے ہیں پھر چھوڑتے ہیں پھر گھڑتے ہیں پھر بدلتے ہیں ، کسی ٹھیک بات پر جمتے ہی نہیں ۔ جدھر متوجہ ہوتے ہیں راہ بھولتے اور ٹھوکر کھاتے ہیں ۔ حق تو ایک ہوتا ہے ، اس میں تضاد اور تعارض نہیں ہوسکتا ۔ ناممکن ہے کہ یہ لوگ ان بھول بھلیوں سے نکل سکیں ۔ بےشک اگر رب چاہے تو جو یہ کافر کہتے ہیں ، اس سے بہت بہتر اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا میں ہی دے دے ۔ وہ بڑی برکتوں والا ہے ۔ پتھر سے بنے ہوئے گھر کو عرب قصر کہتے ہیں خواہ وہ بڑا ہو یا چھوٹا ہو ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تو جناب باری تعالیٰ کی جانب سے فرمایا گیا تھا کہ اگر آپ چاہیں تو زمین کے خزانے اور یہاں کی کنجیاں آپ کو دے دی جائیں اور اس قدر دنیا کا مالک بنا کر دیا جائے کہ کسی اور کو اتنی ملی نہ ہو ۔ ساتھ ہی آخرت کی آپ کی تمام نعمتیں جوں کی توں برقرار ہیں لیکن آپ نے اسے پسند نہ فرمایا اور جواب دیا کہ نہیں میرے لیے تو سب کچھ آخرت میں ہی جمع ہو ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:26286:ضعیف) پھر فرماتا ہے کہ یہ جو کچھ کہتے ہیں یہ صرف تکبر ، عناد ، ضد اور ہٹ دھرمی کے طور پر کہتے ہیں ۔ یہ نہیں کہ ان کا کہا ہوا ہو جائے تو یہ مسلمان ہو جائیں گے ۔ اس وقت پھر اور کچھ حیلہ بہانہ ٹٹول نکالیں گے ۔ ان کے دل میں تو یہ خیال جما ہوا ہے کہ قیامت ہونے کی نہیں ۔ اور ایسے لوگوں کے لیے ہم نے بھی عذاب الیم تیار کر رکھا ہے جو ان کے دل کی برداشت سے باہر ہے جو بھڑکانے اور سلگانے والی ، جھلس دینے والی تیز آگ کا ہے ۔ ابھی تو جہنم ان سے سو سال کے فاصلے پر ہو گی ، جب ان کی نظریں اس پر اور اس کی نگاہیں ان پر پڑیں گی ، وہیں جہنم پیچ و تاب کھائے گی اور جوش و خروش سے آوازیں نکالے گا ۔ جسے یہ بدنصیب سن لیں گے اور ان کے ہوش و حواس خطا ہو جائیں گے ، ہوش جاتے رہیں گے ، ہاتھوں کے طوطے اڑ جائیں گے ۔ جہنم ان بدکاروں پر دانت پیس رہی ہو گی اور غصے کے مارے بل کھا رہی ہو گی اور شور مچا رہی ہو گی کہ کب ان کفار کا نوالہ بناؤں ؟ اور کب ان ظالموں سے انتقام لوں ؟ سورۃ تبارک میں ہے : ’ جب یہ لوگ اس میں ڈالے جائیں گے تو دور ہی سے اس کی خوفناک آوازیں سنیں گے اور وہ ایسی بھڑک رہی ہو گے کہ ابھی ابھی مارے جوش کے پھٹ پڑے ۔ ‘ ۱؎ (67-الملک:7-8) ابن ابی حاتم میں ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’ جو شخص میرا نام لے کر میرے ذمے وہ بات کہے جو میں نے نہ کہی ہو اور جو شخص اپنے ماں باپ کے سوا دوسروں کو اپنا ماں باپ کہے اور جو غلام اپنے آقا کے سوا اور کی طرف اپنی غلامی کی نسبت کرے ، وہ جہنم کی دونوں آنکھوں کے درمیان اپنا ٹھکانا بنا لے ۔ لوگوں نے کہا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا جہنم کی بھی آنکھیں ہیں ؟ آپ نے فرمایا : کیا تم نے اللہ کے کلام کی یہ آیت نہیں سنی «اِذَا رَاَتْہُمْ مِّنْ مَّکَانٍ بَعِیْدٍ سَمِعُوْا لَہَا تَغَیٰظًا وَّزَفِیْرًا» الخ ‘ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:26287:ضعیف) ایک مرتبہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ربیع وغیرہ کو ساتھ لیے ہوئے کہیں جا رہے تھے ۔ راستے میں لوہار کی دکان آئی ، آپ وہاں ٹھہر گئے اور لوہا جو آگ میں تپایا جا رہا تھا اسے دیکھنے لگے ۔ ربیع رحمہ اللہ کا تو برا حال ہو گیا ۔ عذاب الٰہی کا نقشہ آنکھوں تلے پھر گیا ۔ قریب تھا کہ بےہوش ہو کر گر پڑیں ۔ اس کے بعد آپ فرات کے کنارے گئے ، وہاں آپ نے تنور کو دیکھا کہ اس کے بیچ میں آگ شعلے مار رہی ہے ۔ بےساختہ آپ کی زبان سے یہ آیت نکل گئی ، اسے سنتے ہی ربیع رحمہ اللہ بےہوش ہو کر گر پڑے ۔ چارپائی پر ڈال کر آپ کو گھر پہنچایا گیا ، صبح سے لے کر دوپہر تک سیدنا عبد اللہ رضی اللہ عنہ ان کے پاس بیٹھے رہے اور چارہ جوئی کرتے رہے لیکن ربیع کو ہوش نہ آیا ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب جہنمی کو جہنم کی طرف گھسیٹا جائے گا ، جہنم چیخے گی اور ایک ایسی جھرجھری لے گی ، کل اہل محشر خوف زدہ ہو جائیں گے ۔ اور راویت میں ہے کہ بعض لوگوں کو جب دوزخ کی طرف لے چلیں گے دوزخ سمٹ جائے گی ۔ اللہ تعالیٰ مالک و رحمن اس سے پوچھے گا : یہ کیا بات ہے ؟ وہ جواب دے گی کہ اے اللہ ! یہ تو اپنی دعاؤں میں تجھ سے جہنم سے پناہ مانگا کرتا تھا ، آج بھی پناہ مانگ رہا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کو رحم آ جائے گا ، حکم ہو گا اسے چھوڑ دو ۔ کچھ اور لوگوں کو لے چلیں گے ۔ وہ کہیں گے : پروردگار ! ہمارا گمان تو تیری نسبت یہ نہ تھا ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : پھر تم کیا سمجھ رہے تھے ؟ یہ کہیں گے : یہی کہ تیری رحمت ہمیں چھپا لے گی ، تیرا کرم ہمارے شامل حال ہو گا ، تیری وسیع رحمت ہمیں اپنے دامن میں لے لے گی ۔ اللہ تعالیٰ ان کی آرزو بھی پوری کرے گا اور حکم دے گا کہ میرے ان بندوں کو بھی چھوڑ دو ۔ کچھ اور لوگ گھسٹتے ہوئے آئیں گے ، انہیں دیکھتے ہی جہنم ان کی طرف شور مچاتی ہوئی بڑھے گی اور اس طرح جھرجھری لے گی کہ تمام مجمع محشر خوف زدہ ہو جائے گا ۔ سیدنا عبید بن عمیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب جہنم مارے غصے کے تھرتھرائے گی اور شور و غل اور چیخ و پکار اور جوش و خروش شروع کرے گی ، اس وقت تمام مقرب فرشتے اور ذی رتبہ انبیاء علیہم السلام کانپنے لگیں گے یہاں تک خلیل اللہ ابراہیم علیہ السلام بھی اپنے گھٹنوں کے بل گر پڑیں گے اور کہنے لگیں گے : اے اللہ ! میں آج تجھ سے صرف اپنی جان کا بچاؤ چاہتا ہوں اور کچھ نہیں مانگتا ۔ یہ لوگ جہنم کے ایسے تنگ و تاریک مکان میں ٹھوس دیئے جائیں گے جیسے بھالا کسی سوراخ میں ۔ اور روایت میں { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کی بابت سوال ہونا اور آپ کا یہ فرمانا مروی ہے کہ جیسے کیل دیوار میں بمشکل گاڑی جاتی ہے ، اس طرح ان دوزخیوں کو ٹھونسا جائے گا ۔ } ۱؎ (الدر المنشور للسیوطی:117/5:ضعیف) یہ اس وقت خوب جکڑے ہوئے ہوں گے ، بال بال بندھا ہوا ہو گا ۔ وہاں وہ موت کو ، فوت کو ، ہلاکت کو ، حسرت کو پکارنے لگیں گے ۔ ان سے کہا جائے گا : ایک موت کو کیوں پکارتے ہو ؟ صدہا ہزارہا موتوں کو کیوں نہیں پکارتے ؟ مسند احمد میں ہے : { سب سے پہلے ابلیس کو جہنمی لباس پہنایا جائے گا ، یہ اسے اپنی پیشانی پر رکھ کر پیچھے سے گھسیٹتا ہوا اپنی ذریت کو پیچھے لگائے ہوئے موت و ہلاکت کو پکارتا ہوا دوڑتا پھرے گا ۔ اس کے ساتھ ہی اس کی اولاد بھی سب ۔ حسرت و افسوس ، موت و غارت کو پکار رہی ہو گی ۔ اس وقت ان سے یہ کہا جائے گا ۔ } ۱؎ (مسند احمد:152/3:ضعیف) «ثبور» سے مراد موت ، ہلاکت ، ویل ، حسرت ، خسارہ ، بربادی وغیرہ ہے ۔ جیسے کہ موسیٰ علیہ السلام نے فرعون سے کہا تھا : «وَاِنِّیْ لَاَظُنٰکَ یٰفِرْعَوْنُ مَثْبُوْرًا» ۱؎ (17-الإسراء:102) ’ فرعون ! میں تو سمجھتا ہوں کہ تو مٹ کر برباد ہو کر ہی رہے گا ۔ ‘ شاعر بھی لفظ «ثبور» کو ہلاکت و بربادی کے معنی میں لائے ہیں ۔ الفرقان
8 الفرقان
9 الفرقان
10 الفرقان
11 الفرقان
12 الفرقان
13 الفرقان
14 الفرقان
15 ابدی لذتیں اور مسرتیں اوپر بیان فرمایا ان بدکاروں کا جو ذلت و خواری کے ساتھ اوندھے منہ جہنم کی طرف گھسیٹے جائیں گے اور سر کے بل وہاں پھینک دئیے جائیں گے ۔ بندھے بندھائے ہوں گے اور تنگ و تاریک جگہ ہوں گے ، نہ چھوٹ سکیں ، نہ حرکت کر سکیں ، نہ بھاگ سکیں ، نہ نکل سکیں ۔ پھر فرماتا ہے : بتلاؤ یہ اچھے ہیں یا وہ ؟ جو دنیا میں گناہوں سے بچتے رہے ، اللہ کا ڈر دل میں رکھتے رہے اور آج اس کے بدلے اپنے اصلی ٹھکانے پہنچ گئے یعنی جنت میں جہاں من مانی نعمتیں ، ابدی لذتیں ، دائمی مسرتیں ان کے لیے موجود ہیں ۔ عمدہ کھانے ، اچھے بچھونے ، بہترین سواریاں ، پرتکلف لباس ، بہتر سے بہتر مکانات ، بنی سنوری پاکیزہ حوریں ، راحت افزا منظر ، ان کے لیے مہیا ہیں ، جہاں تک کسی کی نگاہیں تو کہاں خیالات بھی نہیں پہنچ سکتے ۔ نہ ان راحتوں کے بیانات کسی کان میں پہنچے ۔ پھر ان کے کم ہو جانے ، ختم ہو جانے کا بھی کوئی خطرہ نہیں اور نہ وہ وہاں سے نکالے جائیں نہ ، وہ نعمتیں کم ہوں ۔ لازوال ، بہترین زندگی ، ابدی رحمت ، دوامی کی دولت انہیں مل گئی اور ان کی ہو گئی ۔ یہ رب کا احسان و انعام ہے جو ان پر ہوا اور جس کے یہ مستحق تھے ۔ رب کا وعدہ ہے جو اس نے اپنے ذمے کر لیا ہے جو ہو کر رہنے والا ہے جس کا عدم ایفا ناممکن ہے ، جس کا غلط ہونا محال ہے ۔ اس سے اس کے وعدے کے پورا کرنے کا سوال کرو ، اس سے جنت طلب کرو ، اسے اس کا وعدہ یاد دلاؤ ۔ یہ بھی اس کا فضل ہے کہ اس کے فرشتے اس سے دعائیں کرتے رہتے ہیں کہ رب العالمین مومن بندوں سے جو تیرا وعدہ ہے ، اسے پورا کر اور انہیں جنت عدن میں لے جا ۔ قیامت کے دن مومن کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ! تیرے وعدے کو سامنے رکھ کر ہم عمل کرتے رہے ، آج تو اپنا وعدہ پورا کر ۔ یہاں پہلے دوزخیوں کا ذکر کر کے پھر سوال کے بعد جنتیوں کا ذکر ہوا ۔ سورۃ الصافات میں جنتیوں کا ذکر کر کے پھر سوال کے بعد دوزخیوں کا ذکر ہوا کہ ’ کیا یہی بہتر ہے یا زقوم کا درخت ؟ جسے ہم نے ظالموں کے لیے فتنہ بنا رکھا ہے جو جہنم کی جڑ سے نکلتا ہے جس کے پھل ایسے بدنما ہیں جیسے سانپ کے پھن ۔ دوزخی اسے کھائیں گے اور اسی سے پیٹ بھرنا پڑے گا ۔ پھر کھولتا ہوا گرم پانی پیپ وغیرہ سے ملا جلا پینے کو دیا جائے گا ۔ پھر ان کا ٹھکانہ جہنم ہو گا ۔ انہوں نے اپنے پاپ دادوں کو گمراہ پایا اور بےتحاشا ان کے پیچھے لپکنا شروع کر دیا ۔ ‘ ۱؎ (37-الصافات:62-70) الفرقان
16 الفرقان
17 عیسیٰ علیہ السلام سے سولات بیان ہو رہا ہے کہ مشرک جن جن کی عبادتیں اللہ کے سوا کرتے رہے ، قیامت کے دن انہیں ان کے سامنے ان پر عذاب کے علاوہ زبانی سرزنش بھی کی جائے گی تاکہ وہ نادم ہوں ۔ عیسیٰ علیہ السلام ، عزیر علیہ السلام اور فرشتے جن جن کی عبادت ہوئی تھی ، سب موجود ہوں گے اور ان کے عابد بھی ۔ سب اسی مجمع میں حاضر ہوں گے ۔ اس وقت اللہ تبارک و تعالیٰ ان معبودوں سے دریافت فرمائے گا کہ کیا تم نے میرے ان بندوں سے اپنی عبادت کرنے کو کہا تھا یا یہ از خود ایسا کرنے لگے ؟ چنانچہ اور آیت میں ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام سے بھی یہی سوال ہو گا ۔ جس کا وہ جواب دیں گے کہ میں نے انہیں ہرگز اس بات کی تعلیم نہیں دی یہ جیسا کہ تجھ پر خوب روشن ہے ، میں نے تو انہیں وہی کہا تھا جو تو نے مجھ سے کہا تھا کہ عبادت کے لائق فقط اللہ ہی ہے ۔ یہ سب معبود جو اللہ کے سوا تھے اور سچے بندے تھے اور شرک سے بیزار تھے ۔ جواب دیں گے کہ کسی مخلوق کو ، ہم کو یا ان کو یہ لائق ہی نہ تھا کہ تیرے سوا کسی اور کی عبادت کریں ۔ ہم نے ہرگز انہیں اس شرک کی تعلیم نہیں دی ۔ خود ہی انہوں نے اپنی خوشی سے دوسروں کی پوجا شروع کر دی تھی ۔ ہم ان سے اور ان کی عبادتوں سے بیزار ہیں ۔ ہم ان کے اس شرک سے بری الذمہ ہیں ۔ ہم تو خود تیرے عابد ہیں ۔ پھر کیسے ممکن تھا کہ معبودیت کے منصب پر آ جاتے ؟ یہ تو ہمارے لائق ہی نہ تھا ، تیری ذات اس سے بہت پاک اور برتر ہے کہ کوئی تیرا شریک ہو ۔ چنانچہ اور آیت میں صرف فرشتوں سے اس سوال جواب کا ہونا بھی بیان ہوا ہے ۔ «نَّتَّخِذَ» کی دوسری قرأت «نُتَّخَذََ» بھی ہے یعنی یہ کسی طرح نہیں ہوسکتا تھا ، نہ یہ ہمارے لائق تھا کہ لوگ ہمیں پوجنے لگیں اور تیری عبادت چھوڑ دیں ۔ کیونکہ ہم تو خود تیرے بندے ہیں ، تیرے در کے بھکاری ہیں ۔ مطلب دونوں صورتوں میں قریب قریب ایک ہی ہے ۔ ان کے بہکنے کی وجہ ہماری سمجھ میں تو یہ آتی ہے کہ انہیں عمریں ملیں ، بہت کھانے پینے کو ملتا رہا ۔ بد مستی میں بڑھتے گئے یہاں تک کہ جو نصیحت رسولوں کی معرفت پہنچتی تھی اسے بھلا دیا ۔ تیری عبادت سے اور سچی توحید سے ہٹ گئے ۔ یہ لوگ تھے یہ بےخبر ، ہلاکت کے گڑھے میں گر پڑے ۔ تباہ و برباد ہو گئے «ُبوراً» سے مطلب ہلاکت والے ہی ہیں ۔ جیسے ابن زبعری نے اپنے شعر میں اس لفظ کو اس معنی میں باندھا ہے ۔ اب اللہ تعالیٰ ان مشرکوں سے فرمائے گا : لو اب تو تمہارے یہ معبود خود تمہیں جھٹلا رہے ہیں ، تم تو انہیں اپنا سمجھ کر اس خیال سے کہ یہ تمہیں اللہ کے مقرب بنا دیں گے ان کی پوجا پاٹ کرتے رہے ، آج یہ تم سے کوسوں دور بھاگ رہے ہیں ، تم سے یکسو ہو رہے ہیں اور بیزاری ظاہر کر رہے ہیں ۔ جیسے ارشاد ہے : «وَمَنْ اَضَلٰ مِمَّنْ یَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَنْ لَّا یَسْتَجِیْبُ لَہٗٓ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ وَہُمْ عَنْ دُعَایِٕہِمْ غٰفِلُوْنَ وَإِذَا حُشِرَ النَّاسُ کَانُوا لَہُمْ أَعْدَاءً وَکَانُوا بِعِبَادَتِہِمْ کَافِرِینَ» ۱؎ (46-الأحقاف:5-6) الخ ، ’ اس سے زیادہ گمراہ کون ہے جو اللہ کے سوا ایسوں کو پکارتا ہے جو قیامت تک اس کی چاہت پوری نہ کر سکیں بلکہ وہ تو ان کی دعا سے محض غافل ہیں اور محشر والے دن یہ سب ان سب کے دشمن ہو جائیں گے اور ان کی عبادتوں کے صاف منکر ہو جائیں گے ۔ ‘ پس قیامت کے دن یہ مشرکین نہ تو اپنی جانوں سے عذاب اللہ ہٹا سکیں گے اور نہ اپنی مدد کر سکیں گے ، نہ کسی کو اپنا مددگار پائیں گے ۔ تم میں سے جو بھی اللہ واحد کے ساتھ شرک کرے ، ہم اسے زبردست اور نہایت سخت عذاب کریں گے ۔ الفرقان
18 الفرقان
19 الفرقان
20 1 کافر اس بات پر اعتراض کرتے تھے کہ نبی کو کھانے پینے اور تجارت بیوپار سے کیا مطلب ؟ اس کا جواب ہو رہا ہے کہ اگلے سب پیغمبر بھی انسانی ضرورتیں بھی رکھتے تھے ، کھانا پینا ان کے ساتھ بھی لگا ہوا تھا ۔ بیوپار ، تجارت اور کسب معاش وہ بھی کیا کرتے تھے ۔ یہ چیزیں نبوت کے خلاف نہیں ۔ ہاں اللہ تعالیٰ عزوجل اپنی عنایت خاص سے انہیں وہ پاکیزہ اوصاف ، نیک خصائل ، عمدہ اقوال ، مختار افعال ، ظاہر دلیلیں ، اعلیٰ معجزے دیتا ہے کہ ہر عقل سلیم والا ، ہر دانا بینا مجبور ہو جاتا ہے کہ ان کی نبوت کو تسلیم کر لے اور ان کی سچائی کو مان لے ۔ اسی آیت جیسی اور آیت «وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِکَ إِلَّا رِجَالًا نٰوحِی إِلَیْہِم مِّنْ أَہْلِ الْقُرَیٰ» ۱؎ (12-یوسف:109) الخ ، ہے ۔ ’ یعنی تجھ سے پہلے بھی جتنے نبی آئے ، سب شہروں میں رہنے والے انسان ہی تھے ۔ ‘ اور آیت میں ہے «وَمَا جَعَلْنٰہُمْ جَسَدًا لَّا یَاْکُلُوْنَ الطَّعَامَ وَمَا کَانُوْا خٰلِدِیْنَ» ۱؎ (21-الأنبیاء:8) الخ ، ’ ہم نے انہیں ایسے جثے نہیں بنائے تھے کہ کھانے پینے سے وہ آزاد ہوں ۔ ‘ ہم تو تم میں سے ایک ایک کی آزمائش ایک ایک سے کر لیا کرتے ہیں تاکہ فرمانبردار اور نافرمان ظاہر ہو جائیں ۔ صابر اور غیر صابر معلوم ہو جائیں ۔ تیرا رب دانا و بینا ہے ، خوب جانتا ہے کہ مستحق نبوت کون ہے ؟ جیسے فرمایا «اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ سَیُصِیْبُ الَّذِیْنَ اَجْرَمُوْا صَغَارٌ عِنْدَ اللّٰہِ وَعَذَابٌ شَدِیْدٌ بِمَا کَانُوْا یَمْکُرُوْنَ» ۱؎ (6-الأنعام:124) ’ منصب رسالت کی اہلیت کس میں ہے ؟ اسے اللہ ہی بخوبی جانتا ہے ۔ ‘ اسی کو اس کا بھی علم ہے کہ مستحق ہدایت کون ہیں ؟ اور کون نہیں ؟ چونکہ اللہ کا ارادہ بندوں کا امتحان لینے کا ہے ، اس لیے نبیوں کو عموماً معمولی حالت میں رکھتا ہے ورنہ اگر انہیں بکثرت دنیا دیتا تو ان کے مال کے لالچ میں بہت سے ان کے ساتھ ہو جاتے تو پھر سچے جھوٹے مل جاتے ۔ صحیح مسلم میں ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ { اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں خود تجھے اور تیری وجہ سے اور لوگوں کو آزمانے والا ہوں ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:2865) مسند میں ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : { اگر میں چاہتا تو میرے ساتھ سونے چاندی کے پہاڑ چلتے رہتے ۔ } ۱؎ (مسند ابویعلیٰ:4920:صحیح) اور صحیح حدیث میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی اور بادشاہ بننے میں اور نبی اور بندہ بننے میں اختیار دیا گیا تو آپ نے بندہ اور نبی بننا پسند فرمایا ۔ } ۱؎ (مسند احمد:231/2:صحیح) «فصلوات اللہ وسلامہ علیہ وعلی الہ واصحابہ اجمعین» الفرقان
21 تصدیق نبوت کے لئے احمقانہ شرائط کافر لوگ انکار نبوت کا ایک بہانہ یہ بھی بناتے تھے کہ اگر اللہ کو کوئی رسول بھیجنا ہی تھا تو کسی فرشتے کو کیوں نہ بھیجا ؟ چنانچہ اور آیت میں ہے کہ وہ ایک بہانہ یہ بھی کرتے تھے کہ «قَالُوا لَن نٰؤْمِنَ حَتَّیٰ نُؤْتَیٰ مِثْلَ مَا أُوتِیَ رُسُلُ اللہِ » ۱؎ (6-الأنعام:124) یعنی ’ جب تک خود ہمیں وہ نہ دیا جائے جو رسولوں کو دیا گیا ، ہم ہرگز ایمان نہ لائیں گے ۔ ‘ مطلب یہ ہے کہ جس طرح نبیوں کے پاس اللہ کی طرف سے فرشتہ وحی لے کر آتا ہے ، ہمارے پاس بھی آئے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان کا مطالبہ یہ ہو کہ فرشتوں کو دیکھ لیں ۔ خود فرشتے آ کر ہمیں سمجھائیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی تصدیق کریں تو ہم آپ کو نبی مان لیں گے ۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ کفار نے کہا : «أَوْ تَأْتِیَ بِ اللہِ وَالْمَلَائِکَۃِ قَبِیلًا» ۱؎ (17-الإسراء:92) یعنی ’ تو اللہ کو لے آ ، فرشتوں کو بنفس نفیس ہمارے پاس لے آ ۔ ‘ اس کی پوری تفسیر سورۃ سبحان میں گزر چکی ہے ۔ یہاں بھی ان کا یہی مطالبہ بیان ہوا ہے کہ یا تو ہمارے اوپر فرشتے اتریں یا ہم اپنے رب کو دیکھ لیں ۔ یہ بات اس لیے ان کی منہ سے نکلی کہ یہ اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھنے لگے تھے اور ان کا غرور حد سے بڑھ گیا تھا ۔ ان کی ایمان لانے کی نیت نہ تھی ۔ جیسے ارشاد ہے «وَلَوْ أَنَّنَا نَزَّلْنَا إِلَیْہِمُ الْمَلَائِکَۃَ وَکَلَّمَہُمُ الْمَوْتَیٰ وَحَشَرْنَا عَلَیْہِمْ کُلَّ شَیْءٍ قُبُلًا مَّا کَانُوا لِیُؤْمِنُوا إِلَّا أَن یَشَاءَ اللہُ وَلٰکِنَّ أَکْثَرَہُمْ یَجْہَلُونَ» ۱؎ (6-الأنعام:111) الخ ، یعنی ’ اگر ہم ان پر فرشتوں کو بھی اتارتے اور ان سے مردے باتیں کرتے ، اس قسم کی اور بھی تمام چیزیں ہم ان کے سامنے کر دیتے ۔ جب بھی انہیں ایمان لانا نصیب نہ ہوتا ۔ ‘ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : فرشتوں کو یہ دیکھیں گے لیکن اس وقت ان کے لیے ان کا دیکھنا کچھ سود مند نہ ہو گا ۔ اس سے مراد سکرات موت کا وقت ہے جب کہ فرشتے کافروں کے پاس آتے ہیں اور اللہ کے غضب اور جہنم کی آگ کی خبر انہیں سناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے خبیث نفس ! تو خبیث اور ناپاک جسم میں تھا ، اب گرم ہواؤں ، گرم پانی اور نامبارک سایوں کی طرف چل ، وہ نکلنے سے کتراتی ہے اور بدن میں چھپتی پھرتی ہے ۔ اس پر فرشتے ان کے چہروں پر اور ان کی کمروں پر ضربیں مارتے ہیں ۔ جیسے فرمان ہے «وَلَوْ تَرَیٰ إِذِ الظَّالِمُونَ فِی غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلَائِکَۃُ بَاسِطُو أَیْدِیہِمْ أَخْرِجُوا أَنفُسَکُمُ الْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْہُونِ بِمَا کُنتُمْ تَقُولُونَ عَلَی اللہِ غَیْرَ الْحَقِّ وَکُنتُمْ عَنْ آیَاتِہِ تَسْتَکْبِرُونَ» ۱؎ (6-الأنعام:93) یعنی ’ کاش کہ تو ظالموں کو ان کی سکرات کے وقت دیکھتا جب کہ فرشتے انہیں مارنے کے لیے ہاتھ بڑھائے ہوئے ہوں گے اور کہہ رہے ہوں گے کہ اپنی جانیں نکالو ، آج تمہیں ذلت کے عذاب چکھنے پڑیں گے کیونکہ تم اللہ تعالیٰ سے متعلق ناحق الزامات تراشتے تھے اور اس کی آیتوں سے تکبر کرتے تھے ۔ ‘ مومنوں کا حال ان کے بالکل برعکس ہو گا ، وہ اپنی موت کے وقت خوشخبریاں سنائے جاتے ہیں اور ابدی مسرتوں کی بشارتیں دئیے جاتے ہیں ۔ جیسے فرمان ہے «إِنَّ الَّذِینَ قَالُوا رَبٰنَا اللہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَیْہِمُ الْمَلَائِکَۃُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّۃِ الَّتِی کُنتُمْ تُوعَدُونَ نَحْنُ أَوْلِیَاؤُکُمْ فِی الْحَیَاۃِ الدٰنْیَا وَفِی الْآخِرَۃِ وَلَکُمْ فِیہَا مَا تَشْتَہِی أَنفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیہَا مَا تَدَّعُونَ نُزُلًا مِّنْ غَفُورٍ رَّحِیمٍ» ۱؎ (41-فصلت:30-32) ’ جنہوں نے اللہ کو اپنا رب کہا اور مانا پھر اس پر جمے رہے ، ان کے پاس ہمارے فرشتے آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم نہ ڈرو اور نہ غم کرو بلکہ ان جنتوں میں جانے کی خوشی مناؤ جن کا تمہیں وعدہ دیا جاتا رہا ۔ ہم تمہارے والی ہیں دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی ، تم جو کچھ چاہو گے پاؤ گے اور جس چیز کی خواہش کرو گے موجود ہو جائے گی ، بخشنے والے مہربان اللہ کی طرف سے یہ تمہاری میزبانی ہو گی ۔ ‘ صحیح حدیث میں ہے کہ { فرشتے مومن کی روح سے کہتے ہیں : اے پاک روح ! جو پاک جسم میں تھی ، تو اللہ تعالیٰ کے رحم اور رحمت کی طرف چل ، جو تجھ سے نارض نہیں ۔ } ۱؎ (سنن ابن ماجہ:4262،قال الشیخ الألبانی:صحیح) سورۃ ابراہیم کی آیت «یُثَبِّتُ اللہُ الَّذِینَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیَاۃِ الدٰنْیَا وَفِی الْآخِرَۃِ وَیُضِلٰ اللہُ الظَّالِمِینَ وَیَفْعَلُ اللہُ مَا یَشَاءُ» ۱؎ (14-إبراہیم:27) کی تفسیر میں یہ سب حدیثیں مفصل بیان ہو چکی ہیں ۔ بعض نے کہا ہے : مراد اس سے قیامت کے دن فرشتوں کا دیکھنا ہو سکتا ہے کہ دونوں موقعوں پر فرشتوں کا دیکھنا مراد ہو ۔ اس میں ایک قول کی دوسرے قول سے نفی نہیں کیونکہ دونوں موقعوں پر ہر نیک و بد فرشتوں کو دیکھیں گے ، مومنوں کو رحمت و رضوان کی خوشخبری کے ساتھ فرشتوں کا دیدار ہو گا اور کافروں کو لعنت و پھٹکار اور عذابوں کی خبروں کے ساتھ ۔ فرشتے اس وقت ان کافروں سے صاف کہہ دیں گے کہ اب فلاح و بہبود تم پر حرام ہے ۔ حجر کے لفظی معنی روک ہیں چنانچہ قاضی جب کسی کو اس کی مفلسی یا حماقت یا بچپن کی وجہ سے مال کے تصرف سے روک دے تو کہتے ہیں : «حَجرَ الْقَاضِیَ عَلیٰ فُلاَنٍ» ۔ حطیم کو بھی حجر کہتے ہیں اس لیے کہ وہ طواف کرنے والوں کو اپنے اندر طواف کرنے سے روک دیتا ہے بلکہ اس کے باہر سے طواف کیا جاتا ہے ۔ عقل کو بھی عربی میں حجر کہتے ہیں اس لیے وہ بھی انسان کو برے کاموں سے روک دیتی ہے ۔ پس فرشتے ان سے کہتے ہیں کہ جو خوشخبریاں مومنوں کو اس وقت ملتی ہیں ، اس سے تم محروم ہو ۔ یہ معنی تو اس بنا پر ہیں کہ اس جملے کو فرشتوں کا قول کہا جائے ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ یہ مقولہ اس وقت کافروں کا ہو گا ۔ وہ فرشتوں کو دیکھ کر کہیں گے کہ اللہ کرے تم ہم سے آڑ میں رہو ، تمہیں ہمارے پاس آنا نہ ملے ۔ گو یہ معنی ہو سکتے ہیں لیکن دور کے معنی ہیں ۔ بالخصوص اس وقت کہ جب اس کے خلاف وہ تفسیر جو ہم نے اوپر بیان کی ، سلف سے مروی ہے ۔ البتہ مجاہد رحمہ اللہ سے ایک قول ایسا مروی ہے لیکن انہی سے صراحت کے ساتھ یہ بھی مروی ہے کہ یہ قول فرشتوں کا ہو گا ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ پھر قیامت کے دن اعمال کے حساب کے وقت ان کے اعمال غارت و اکارت ہو جائیں گے ۔ یہ جنہیں اپنی نجات کا ذریعہ سمجھے ہوئے تھے ، وہ بےکار ہو جائیں گے کیونکہ یا تو وہ خلوص والے نہ تھے یا سنت کے مطابق نہ تھے ۔ اور جو عمل ان دونوں سے یا ان میں سے ایک چیز سے خالی ہو ، وہ اللہ کے نزدیک قابل قبول نہیں ۔ اس لیے کافروں کے نیک اعمال بھی مردود ہیں ۔ ہم نے ان کے اعمال کا ملاحظہ کیا اور ان کو مثل بکھرے ہوئے ذروں کے کر دیا کہ وہ سورج کی شعاعیں جو کسی سوراخ میں سے آ رہی ہوں ، ان میں نظر تو آتے ہیں لیکن کوئی انہیں پکڑنا چاہے تو ہاتھ نہیں آتے ۔ جس طرح پانی جو زمین پر بہا دیا جائے ، وہ پھر ہاتھ نہیں آ سکتا ۔ یا غبار جو ہاتھ نہیں لگ سکتا ۔ یا درختوں کے پتوں کا چورا جو ہوا میں بکھر گیا ہو یا راکھ اور خاک جو اڑتی پھرتی ہو ۔ اسی طرح ان کے اعمال ہیں جو محض بے کار ہو گئے ، ان کا کوئی ثواب ان کے ہاتھ نہیں لگے گا ۔ اس لیے کہ یا تو ان میں خلوص نہ تھا یا شریعت کے مطابقت نہ تھی یا دونوں وصف نہ تھے ۔ پس جب یہ عالم و عادل حاکم حقیقی کے سامنے پیش ہوئے تو محض نکمے ثابت ہوئے ، اسی لیے اسے ردی اور نہ ہاتھ لگنے والی چیز سے تشبیہ دی گئی ۔ جیسے اور جگہ ہے «مَّثَلُ الَّذِینَ کَفَرُوا بِرَبِّہِمْ أَعْمَالُہُمْ کَرَمَادٍ اشْتَدَّتْ بِہِ الرِّیحُ فِی یَوْمٍ عَاصِفٍ لَّا یَقْدِرُونَ مِمَّا کَسَبُوا عَلَیٰ شَیْءٍ ذٰلِکَ ہُوَ الضَّلَالُ الْبَعِیدُ» ۱؎ (14-إبراہیم:18) ’ کافروں کے اعمال کی مثال راکھ جیسی ہے جسے تیز ہوا اڑا دے ۔ ‘ انسان کی نیکیاں بعض بدیوں سے بھی ضائع ہو جاتی ہیں جیسے صدقہ و خیرات کہ وہ احسان جتانے اور تکلیف پہنچانے سے ضائع ہو جاتا ہے ۔ جیسے فرمان ہے «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِکُم بِالْمَنِّ وَالْأَذَیٰ کَالَّذِی یُنفِقُ مَالَہُ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا یُؤْمِنُ بِ اللہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَمَثَلُہُ کَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَیْہِ تُرَابٌ فَأَصَابَہُ وَابِلٌ فَتَرَکَہُ صَلْدًا لَّا یَقْدِرُونَ عَلَیٰ شَیْءٍ مِّمَّا کَسَبُوا وَ اللہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْکَافِرِینَ» ۱؎ (2-البقرۃ:264) پس ان کے اعمال میں سے آج یہ کسی عمل پر قادر نہیں ۔ اور آیت میں ان کی مثال اس ریت کے ٹیلے سے دی گئی جو دور سے مثل دریا کے لہریں مارتا ہوا دکھائی دیتا ہے ، جسے دیکھ کر پیاسا آدمی پانی سمجھتا ہے لیکن جب پاس آتا ہے تو امید ٹوٹ جاتی ہے ۔ ۱؎ (24-النور:39) اس کی تفسیر بھی اللہ کے فضل سے گزر چکی ہے ۔ پھر فرمایا کہ ان کے مقابلے میں جنتیوں کی بھی سن لو کیونکہ یہ دونوں فریق برابر کے نہیں ۔ جنتی تو بلند درجوں میں ، اعلیٰ بالاخانوں میں امن و امان ، راحت و آرام کے ساتھ عیش و عشرت میں ہوں گے ۔ مقام اچھا ، منظر دل پسند ، ہر راحت موجود ، ہر دل خوش کن چیز سامنے ، جگہ اچھی ، مکان طیب ، منزل مبارک ، سونے بیٹھنے رہنے سہنے کا آرام ۔ برخلاف اس کے جہنمی دوزخ کے نیچے کے طبقوں میں جکڑ بند ، اوپر نیچے ، دائیں بائیں آگ ، حسرت افسوس ، رنج و غم پھکنا ، جلنا و بےقراری ، جگرسوزی ، مقام بد ، بری منزل ، خوفناک منظر ، عذاب سخت ۔ نیک لوگوں کے جن کے دل میں ایمان تھا اعمال مقبول ہوئے ، اچھی جزائیں دی گئیں ، بدلے ملے ۔ جہنم سے بچے ، جنت کے مالک وارث بنے ۔ پس یہ جو تمام بھلائیوں کو سمیٹ بیٹھے اور وہ جو ہر نیکی سے محروم رہے ، کہیں برابر ہو سکتے ہیں ؟ پس نیکوں کی سعادت بیان فرما کر بدوں کی شقاوت پر تنبیہ کر دی ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ کوئی ساعت ایسی بھی ہو گی کہ جنتی حوروں کے ساتھ دن دوپہر کو آرام فرمائیں اور جہنمی شیطانوں کے ساتھ جکڑے ہوئے دوپہر کو گھبرائیں ۔ سعید بن جبیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آدھے دن میں بندوں کے حساب سے فارغ ہو جائے گا ۔ پس جنتیوں کا دوپہر کے سونے کا وقت جنت میں ہو گا اور دوزخیوں کا جہنم میں ۔ عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : مجھے معلوم ہوا ہے کہ کس وقت جنتی جنت میں جائیں گے اور جہنمی جہنم میں ۔ یہ وہ وقت ہو گا جب یہاں دنیا میں دوپہر کا وقت ہوتا ہے اور لوگ اپنے گھروں کو دو گھڑی آرام حاصل کرنے کی غرض سے لوٹتے ہیں ۔ جنتیوں کا یہ قیلولہ جنت میں ہو گا ۔ مچھلی کی کلیجی انہیں پیٹ بھر کر کھلائی جائے گی ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ دن آدھا ہو ، اس سے بھی پہلے جنتی جنت میں اور جہنمی جہنم میں قیلولہ کریں گے ۔ پھر آپ نے یہی آیت پڑھی اور آیت «ثُمَّ إِنَّ مَرْجِعَہُمْ لَإِلَی الْجَحِیمِ» ۱؎ (37-الصافات:68) بھی پڑھی ۔ جنت میں جانے والے صرف ایک مرتبہ جناب باری کے سامنے پیش ہونگے ، یہی آسانی سے حساب لینا ہے پھر یہ جنت میں جا کر دوپہر کا آرام کریں گے ۔ جیسے اللہ کا فرمان ہے : «فَأَمَّا مَنْ أُوتِیَ کِتَابَہُ بِیَمِینِہِ ٧ فَسَوْفَ یُحَاسَبُ حِسَابًا یَسِیرًا ٨ وَیَنقَلِبُ إِلَیٰ أَہْلِہِ مَسْرُورًا» ۱؎ (84-الانشقاق:7-9) یعنی ’ جس شخص کو اپنا اعمال نامہ داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا اس سے بہت آسان حساب لیا جائے گا اور وہ اپنے والوں کی طرف خوشی خوشی لوٹے گا ۔ ‘ اس کا قیام اور منزل بہتر ہے ۔ صفوان بن محرز رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن دو شخصوں کو لایا جائے گا ، ایک تو وہ جو ساری دنیا کا بادشاہ تھا ، اس سے حساب لیا جائے گا تو اس کی پوری عمر میں ایک بھی نیکی نہ نکلے گی پس اسے جہنم کے داخلے کا حکم ملے گا ۔ پھر دوسرا شخص آئے گا جس نے ایک کمبل میں دنیا گزاری تھی ، جب اس سے حساب لیا جائے گا تو یہ کہے گا کہ اللہ میرے پاس دنیا میں تھا ہی کیا جس کا حساب لیا جائے ؟ اللہ فرمائے گا : یہ سچا ہے ، اسے چھوڑ دو ۔ اسے جنت میں جانے کی اجازت دی جائے گی ۔ پھر کچھ عرصے کے بعد دونوں کو بلایا جائے گا تو جہنمی بادشاہ تو مثل سوختہ کوئلے کے ہو گیا ہو گا ۔ اس سے پوچھا جائے گا : کہو کس حال میں ہو ؟ کہے گا : نہایت برے حال میں اور نہایت خراب جگہ میں ہوں ۔ پھر جنتی کو بلایا جائے گا اس کا چہرہ چودہویں رات کے چاند کی طرح چمکتا ہو گا ۔ اس سے پوچھا جائے گا : کہو کیسی گزرتی ہے ؟ یہ کہے گا : الحمدللہ بہت اچھی اور نہایت بہتر جگہ میں ہوں ۔ اللہ فرمائے گا : جاؤ اپنی اپنی جگہ پھر چلے جاؤ ۔ سعید صواف رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ مومن پر تو قیامت کا دن ایسا چھوٹا ہو جائے گا جیسے عصر سے مغرب تک کا وقت ۔ یہ جنت کی کیاریوں میں پہنچا دئیے جائیں گے ۔ یہاں تک کہ اور مخلوق کے حساب ہو جائیں ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:382/9) پس جنتی بہتر ٹھکانے والے اور عمدہ جگہ والے ہوں گے ۔ الفرقان
22 الفرقان
23 الفرقان
24 الفرقان
25 فیصلوں کا دن قیامت کے دن جو ہولناک امور ہوں گے ، ان میں سے ایک آسمان کا پھٹ جانا اور نورانی ابر کا نمودار ہونا بھی شامل ہے جس کی روشنی سے آنکھیں چکا چوند ہو جائیں گی ، پھر فرشتے اتریں گے اور میدان محشر میں تمام انسانوں کو گھیر لیں گے ۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں میں فیصلے کے لیے تشریف لائے گا ۔ جیسے فرمان ہے : «ہَلْ یَنظُرُونَ إِلَّا أَن یَأْتِیَہُمُ اللہُ فِی ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَالْمَلَائِکَۃُ وَقُضِیَ الْأَمْرُ وَإِلَی اللہِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ» ۱؎ (2-البقرۃ:210) یعنی کہ ’ انہیں اس بات کا انتظار ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے بادلوں میں آئیں ۔ ‘ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ اپنی تمام مخلوق کو سب انسانوں اور کل جنات کو ایک میدان میں جمع کرے گا ۔ تمام جانور ، چوپائے ، درندے ، پرندے اور کل مخلوق وہاں ہو گی پھر آسمان اول پھٹے گا اور اس کے فرشتے اتریں گے جو تمام مخلوق کو دو طرف سے گھیرلیں گے اور وہ گنتی میں بہت زیادہ ہوں گے ۔ پھر دوسرا آسمان پھٹے گا اس کے فرشتے بھی آئیں گے جو زمین کی اور آسمان اول کی تمام مخلوق کی گنتی سے بھی زیادہ ہوں گے ۔ پھر تیسرا آسمان شق ہو گا اس کے فرشتے بھی ، دونوں آسمانوں کے فرشتے مل کر زمین کی مخلوق سے بھی زیادہ ہوں گے ، سب کو گھیر کر کھڑے ہو جائیں گے ۔ پھر اسی طرح چوتھا پانچواں پھر چھٹا پھر ساتواں ۔ پھر ہمارا رب عز و جل ابر کے سائے میں تشریف لائے گا ، اس کے اردگرد بزرگ تر پاک فرشتے ہوں گے جو ساتوں آسمانوں اور ساتوں زمینوں کی کل مخلوق سے بھی زیادہ ہوں گے ، ان پر سینگوں جیسے نشان ہونگے ، وہ اللہ تعالیٰ کے عرش کے نیچے اللہ کی تسبیح و تہلیل و تقدس بیان کریں گے ، ان کے تلوے سے لے کر ٹخنے تک کا فاصلہ پانچ سو سال کا راستہ ہو گا اور ٹخنے سے گھٹنے تک کا بھی اتنا ہی ۔ اور گھٹنے سے ناف تک کا بھی اتنا فاصلہ ہو گا ۔ اور ناف سے گردن کا بھی اتنا ہی فاصلہ ہو گا اور گردن سے کان کی لو تک بھی اتنا ہی فاصلہ ہو گا اور اس کے اوپر سے سر تک کا بھی اتنا ہی فاصلہ ہو گا ۔ ۱؎ (ضعیف) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے کہ قیامت کا نام «یَوْمَ التَّلاَقِ» اسی لیے ہے کہ اس میں زمین و آسمان والے ملیں گے ، انہیں دیکھ کر پہلے تو محشر والے سمجھ لیں گے کہ ہمارا اللہ آیا ۔ لیکن فرشتے سمجھا دیں گے کہ وہ آنے والا ہے ، ابھی تک نازل نہیں ہوا ۔ پھر جب ساتوں آسمانوں کے فرشتے آ جائیں گے ، اللہ تعالیٰ اپنے عرش پر تشریف لائے گا جسے آٹھ فرشتے اٹھائے ہوں گے جن کے ٹخنے سے گھٹنے تک ستر سال کا راستہ ہے اور ران اور مونڈھے کے درمیان بھی ستر سال کا راستہ ہے ۔ ہر فرشتہ دوسرے سے علیحدہ اور جداگانہ ہے ۔ ہر ایک کی ٹھوڑی سینے سے لگی ہوئی ہے اور زبان پر «سبُْحَانَ الْمَلِکِ الْقُدٰوْسِ» کا وظیفہ ہے ۔ ان کے سروں پر ایک پھیلی ہوئی چیز ہے جیسے سرخ شفق ، اس کے اوپر عرش ہو گا ۔ اس میں راوی علی بن زید بن جدعان ہیں جو ضعیف ہیں اور بھی اس حدیث میں بہت سی خامیاں ہیں ۔ صور کی مشہور حدیث میں بھی اسی کے قریب قریب مروی ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اور آیت میں ہے کہ ’ اس دن ہو پڑنے والی ہو پڑے گی اور آسمان پھٹ کر روئی کی طرح ہو جائے گا ۔ اور اس کے کناروں پر فرشتے ہوں گے اور اس دن تیرے رب کا عرش آٹھ فرشتے لیے ہوں گے ۔ ‘ ۱؎ (69-الحاقۃ:15-17) شہر بن حوشب رحمہ اللہ کہتے ہیں : ان میں سے چار کی تسبیح تو یہ ہو گی «سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ وَ بِحَمْدِکَ لَکّ الْحَمْدُ عَلیٰ حِلْمِکَ بَعْدَ عِلْمِکَ» اے اللہ ! تو پاک ہے ، تو قابل ستائش و تعریف ہے ۔ باوجود علم کے پھر بھی بردباری برتنا تیرا وصف ہے جس پر ہم تیری تعریف بیان کرتے ہیں ۔ اور چار کی تسبیح یہ ہو گی «سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ وَ بِحَمْدِکَ لَکَ الْحَمْدُ عَلیٰ عَفْوِکَ بَعْدَ قُدْرَتِکَ» اے اللہ ! تو پاک ہے اور اپنی تعریفوں کے ساتھ ہے تیرے ہی لیے سب تعریف ہے کہ تو باوجود قدرت کے معاف فرماتا رہتا ہے ۔ ابوبکر بن عبداللہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ عرش کو اترتا دیکھ کر اہل محشر کی آنکھیں پھٹ جائیں گی ، جسم کانپ اٹھیں گے ، دل لرز جائیں گے ۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جس وقت اللہ عز و جل مخلوق کی طرف اترے گا تو درمیان میں ستر ہزار پردے ہوں گے ۔ بعض نور کے ، بعض ظلمت کے ۔ اس ظلمت میں سے ایک ایسی آواز نکلے گی جس سے دل پاش پاش ہو جائیں گے ۔ شاید ان کی یہ روایت انہی دو تھیلوں میں سے لی ہوئی ہو گی ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اس دن صرف اللہ ہی کی بادشاہت ہو گی ۔ جیسے فرمان ہے «لِّمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ لِلہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِ» ۱؎ (40-غافر:16) ’ آج ملک کس کے لیے ہے ؟ صرف اللہ غالب و قہار کے لیے ۔ ‘ صحیح حدیث میں ہے : { اللہ تعالیٰ آسمانوں کو اپنے داہنے ہاتھ میں لپیٹ لے گا اور زمینوں کو اپنے دوسرے ہاتھ میں لے لے گا ، پھر فرمائے گا : میں مالک ہوں ، میں فیصلہ کرنے والا ہوں ۔ زمین کے بادشاہ کہاں ہیں ؟ تکبر کرنے والے کہاں ہیں ؟ } ۱؎ (صحیح بخاری:7413) وہ دن کفار پر بڑا بھاری پڑا ہو گا ۔ اسی کا بیان اور جگہ بھی ہے کہ { کافروں پر وہ دن گراں گزرے گا ۔ } ۱؎ (74-المدثر:9-10) ہاں مومنوں کو اس دن مطلق گھبراہٹ یا پریشانی نہ ہو گی ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! پچاس ہزار سال کا دن تو بہت ہی دراز ہو گا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ مومنوں پر تو وہ ایک وقت کی فرض نماز سے بھی ہلکا اور آسان ہو گا ۔ } ۱؎ (مسند احمد:75/3:ضعیف) پیغمبر علیہ السلام کے طریقے اور آپ کے لائے ہوئے کھلے حق سے ہٹ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ کے سوا دوسری راہوں پہ چلنے والے اس دن بڑے ہی نادم ہونگے اور حسرت و افسوس کے ساتھ اپنے ہاتھ چبائیں گے ۔ گو اس کا نزول عقبہ بن ابی معیط کے بارے میں ہو یا کسی اور کے بارے میں لیکن حکم کے اعتبار سے یہ ہر ایسے ظالم کو شامل ہے ۔ جیسے فرمان ہے آیت «یَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوہُہُمْ فِی النَّارِ یَقُولُونَ یَا لَیْتَنَا أَطَعْنَا اللہَ وَأَطَعْنَا الرَّسُولَا وَقَالُوا رَبَّنَا إِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَکُبَرَاءَنَا فَأَضَلٰونَا السَّبِیلَا» ۱؎ (33-الأحزاب:66-67) ’ پس ہر ظالم قیامت کے دن پچھتائے گا ، اپنے ہاتھوں کو چبائے گا اور آہ و زاری کر کے کہے گا : کاش ! کہ میں نے نبی کی راہ اپنائی ہوتی ۔ کاش ! کہ میں نے فلاں کی عقیدت مندی نہ کی ہوتی ۔ جس نے مجھے راہ حق سے گمراہ کر دیا ۔ ‘ امیہ بن خلف کا اور اس کے بھائی ابی بن خلف کا بھی یہی حال ہو گا اور ان کے سوا اور بھی ایسے لوگوں کا یہ حال ہو گا ۔ کہے گا کہ اس نے مجھے ذکر یعنی قرآن سے بیگانہ کر دیا حالانکہ وہ مجھ تک پہنچ چکا تھا ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : شیطان انسان کو رسوا کرنے والا ہے ، وہ اسے ناحق کی طرف بلاتا ہے اور حق سے ہٹا دیتا ہے ۔ الفرقان
26 الفرقان
27 الفرقان
28 الفرقان
29 الفرقان
30 شکایت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم قیامت والے دن اللہ کے سچے رسول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کی شکایت جناب باری تعالیٰ میں کریں گے کہ نہ یہ لوگ قرآن کی طرف مائل تھے ، نہ رغبت سے قبولیت کے ساتھ سنتے تھے بلکہ اوروں کو بھی اس کے سننے سے روکتے تھے ۔ جیسے کہ کفار کا مقولہ خود قرآن میں ہے کہ وہ کہتے تھے «وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَا تَسْمَعُوْا لِھٰذَا الْقُرْاٰنِ وَالْـغَوْا فِیْہِ لَعَلَّکُمْ تَغْلِبُوْنَ» ۱؎ (41-فصلت:26) ’ اس قرآن کو نہ سنو اور اس کے پڑھے جانے کے وقت شور و غل کرو ۔ ‘ یہی اس کا چھوڑ رکھنا تھا ۔ نہ اس پر ایمان لاتے تھے ، نہ اسے سچا جانتے تھے ، نہ اس پر غور و فکر کرتے تھے ، نہ ہی اسے سمجھنے کی کوشش کرتے تھے ۔ نہ اس پر عمل تھا ، نہ اس کے احکام کو بجا لاتے تھے ، نہ اس کے منع کردہ کاموں سے رکتے تھے بلکہ اس کے سوا اور کاموں میں مشغول و منہمک رہتے تھے جیسے شعر ، اشعار ، غزلیات ، باجے ، گانے ، راگ ، راگنیاں ، اسی طرح اور لوگوں کے کلام سے دلچسپی لیتے تھے اور ان پر عامل تھے ، یہی اسے چھوڑ دینا تھا ۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ کریم و منان ، جو ہر چیز پر قادر ہے ، ہمیں توفیق دے کہ ہم اس کے ناپسندیدہ کاموں سے دست بردار ہو جائیں اور اس کے پسندیدہ کاموں کی طرف جھک جائیں ۔ وہ ہمیں اپنے کلام کی سمجھ دے اور دن رات اس پر عمل کرنے کی ہدایت دے ، جس سے وہ خوش ہو ۔ وہ کریم و وہاب ہے ۔ پھر فرمایا : جس طرح اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کی قوم میں قرآن کو نظر انداز کر دینے والے لوگ ہیں ۔ اسی طرح اگلی امتوں میں بھی ایسے لوگ تھے جو خود کفر کر کے دوسروں کو اپنے کفر میں شریک کار کرتے تھے اور اپنی گمراہی کے پھیلانے کی فکر میں لگے رہتے تھے ۔ جیسے فرمان ہے «وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَـیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ یُوْحِیْ بَعْضُہُمْ اِلٰی بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا وَلَوْ شَاءَ رَبٰکَ مَا فَعَلُوْہُ فَذَرْہُمْ وَمَا یَفْتَرُوْنَ» ۱؎ (6-الأنعام:112) یعنی ’ اسی طرح ہم نے ہر نبی کے دشمن شیاطین و انسان بنا دئیے ہیں ۔ ‘ پھر فرمایا : جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری کرے ، کتاب اللہ پر ایمان لائے ، اللہ کی وحی پر یقین کرے ، اس کا ہادی اور ناصر خود اللہ تعالیٰ ہے ۔ مشرکوں کی جو خصلت اوپر بیان ہوئی ، اس سے ان کی غرض یہ تھی کہ لوگوں کو ہدایت پر نہ آنے دیں اور آپ مسلمانوں پر غالب رہیں ۔ اس لیے قرآن نے فیصلہ کیا کہ یہ نامراد ہی رہیں گے ۔ اللہ اپنے نیک بندوں کو خود ہدایت کرے گا اور مسلمان کی خود مدد کرے گا ۔ یہ معاملہ اور ایسوں کا مقابلہ کچھ تجھ سے ہی نہیں ، تمام اگلے نبیوں کے ساتھ یہی ہوتا رہا ہے ۔ الفرقان
31 الفرقان
32 قرآن حکیم مختلف اوقات میں کیوں اتارا کافروں کا ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ جیسے تورات ، انجیل ، زبور وغیرہ ایک ساتھ پیغمبروں پر نازل ہوتی رہیں ۔ یہ قرآن ایک ہی دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیوں نہ ہوا ؟ اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ ہاں واقعی یہ متفرق طور پر اترا ہے ، بیس برس میں نازل ہوا ہے جیسے جیسے ضرورت پڑتی گئی ، جو جو واقعات ہوتے رہے ، احکام نازل ہوتے گئے تاکہ مومنوں کا دل جما رہے ۔ ٹھہر ٹھہر کر احکام اتریں تاکہ ایک دم عمل مشکل نہ ہو پڑے ، وضاحت کے ساتھ بیان ہو جائے ۔ سمجھ میں آ جائے ۔ تفسیر بھی ساتھ ہی ساتھ ہوتی رہے ۔ ہم ان کے کل اعتراضات کا صحیح اور سچا جواب دیں گے جو ان کے بیان سے بھی واضح اور سچا ہو گا ۔ جو کمی یہ بیان کریں گے ، ہم ان کی تسلی کر دیں گے ۔ صبح و شام ، رات دن ، سفر حضر میں بار بار اس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور اپنے خاص بندوں کی ہدایت کے لیے ہمارا کلام ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی تک اترتا رہا ۔ جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بزرگی اور فضیلت بھی ظاہر ہوتی رہی لیکن دوسرے انبیاء علیہم السلام پر ایک ہی مرتبہ سارا کلام اترا مگر اس سے بہترین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تبارک و تعالیٰ بار بار خطاب کرتا رہا تاکہ اس قرآن کی عظمت بھی آشکار ہو جائے ، اس لیے کہ یہ کتنی لمبی مدت میں نازل ہوا ۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی سب نبیوں میں اعلیٰ اور قرآن بھی سب کلاموں میں بالا ۔ اور لطیفہ یہ ہے کہ قرآن کو دونوں بزرگیاں ملیں ۔ یہ ایک ساتھ لوح محفوظ سے ملأ اعلیٰ میں اترا ۔ لوح محفوظ سے پورے کا پورا دنیا کے آسمان تک پہنچا ۔ پھر حسب ضرورت تھوڑا تھوڑا کر کے نازل ہوتا رہا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں : سارا قرآن ایک دفعہ ہی لیلۃ القدر میں دنیا کے آسمان پر نازل ہوا پھر بیس سال تک زمین پر اترتا رہا ۔ پھر اس کے ثبوت میں آپ نے آیت «وَلَا یَاْتُوْنَکَ بِمَثَلٍ اِلَّا جِئْنٰکَ بالْحَقِّ وَاَحْسَنَ تَفْسِیْرًا» اور آیت «وَقُرْاٰنًا فَرَقْنٰہُ لِتَقْرَاَہٗ عَلَی النَّاسِ عَلٰی مُکْثٍ وَّنَزَّلْنٰہُ تَنْزِیْلًا» ۱؎ (17-الإسراء:106) تلاوت فرمائی ۔ اس کے بعد کافروں کی جو درگت قیامت کے روز ہونے والی ہے ، اس کا بیان فرمایا کہ بدترین حالت اور قبیح تر ذلت میں ان کا حشر جہنم کی طرف ہو گا ۔ یہ اوندھے منہ گھسیٹے جائیں گے ، یہی برے ٹھکانے والے اور سب سے بڑھ کر گمراہ ہیں ۔ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کافروں کا حشر منہ کے بل کیسے ہو گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے انہیں پیر کے بل چلایا ہے ِ، وہ سر کے بل چلانے پر بھی قادر ہے ۔ الفرقان
33 الفرقان
34 الفرقان
35 انبیأ سے دشمنی کا خمیازہ اللہ تعالیٰ مشرکین کو اور آپ کے مخالفین کو اپنے عذابوں سے ڈرا رہا ہے کہ تم سے پہلے کے جن لوگوں نے میرے نبیوں کی نہ مانی ، ان سے دشمنی کی ، ان کی مخالفت کی ، میں نے انہیں تہس نہس کر دیا ۔ فرعونیوں کا حال تم سن چکے ہو کہ ہم نے موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کو ان کی طرف نبی بنا کر بھیجا لیکن انہوں نے نہ مانا جس کے باعث اللہ کا عذاب آ گیا اور سب ہلاک کر دیئے گئے ۔ قوم نوح کو دیکھو ، انہوں نے بھی ہمارے رسولوں کو جھٹلایا اور چونکہ ایک رسول کا جھٹلانا تمام نبیوں کو جھٹلانا ہے ، اس واسطے یہاں ” رسل “ جمع کر کے کہا گیا ۔ اور یہ اس لیے بھی کہ اگر بالفرض ان کی طرف تمام رسول بھی بھیجے جاتے تو بھی یہ سب کے ساتھ وہی سلوک کرتے جو نوح علیہ السلام کے ساتھ کیا ۔ یہ مطلب نہیں کہ ان کی طرف بہت سے رسول بھیجے گئے بلکہ ان کے پاس تو صرف نوح علیہ السلام ہی آئے تھے جو ساڑھے نو سو سال تک ان میں رہے اور ہر طرح سے انہیں سمجھایا بجھایا سوائے معدودے چند کے کوئی ایمان نہ لایا ۔ اس لیے اللہ نے سب کو غرق کر دیا ۔ سوائے ان کے جو نوح علیہ السلام کے ساتھ کشتی میں تھے ، ایک بھی بنی آدم روئے زمین پر نہ بچا ۔ لوگوں کے لیے ان کی ہلاکت باعث عبرت بنا دی گئی ۔ جیسے فرمان ہے کہ پانی کی ظغیانی کے وقت ہم نے تمہیں کشی میں سوار کر لیا تھا تاکہ تم اسے اپنے لیے باعث عبرت بناؤ اور کشتی کو ہم نے تمہارے لیے اس طوفان سے نجات پانے اور لمبے لمبے سفر طے کرنے کا ذریعہ بنا دیا تاکہ تم اللہ کی اس نعمت کو یاد رکھو کہ اس نے عالمگیر طوفان سے تمہیں بچا لیا اور ایماندار اور ایمانداروں کی اولاد میں رکھا ۔ عادیوں اور ثمودیوں کا قصہ تو بارہا بیان ہو چکا ہے ۔ جیسے کہ سورۃ الاعراف وغیرہ میں « اَصْحَابَ الرَّسِّ » کی بابت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہا کا قول ہے کہ یہ ثمودیوں کی ایک بستی والے تھے ۔ عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : یہ فلج [ یمامہ ] والے تھے جن کا ذکر سورۃ یاسین میں ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ بھی مروی ہے کہ آذر بائیجان کے ایک کنویں کے پاس ان کی بستی تھی ۔ عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : انہیں کنویں والے اس لیے کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے پیغمبر کو کنویں میں ڈال دیا تھا ۔ ابن اسحاق رحمہ اللہ محمد بن کعب رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ایک سیاہ فام غلام سب سے اول جنت میں جائے گا ۔ اللہ تعالیٰ نے ایک بستی والوں کی طرف اپنا نبی بھیجا تھا لیکن ان بستی والوں میں سے بجز اس کے کوئی بھی ایمان نہ لایا بلکہ انہوں نے اللہ کے نبی کو ایک غیر آباد کنویں میں ، ویران میدان میں ڈال دیا اور اس کے منہ پر ایک بڑی بھاری چٹان رکھ دی کہ یہ وہیں مر جائیں ۔ یہ غلام جنگل میں جاتا ، لکڑیاں کاٹ کر لاتا ، انہیں بازار میں فروخت کرتا اور روٹی وغیرہ خرید کر کنویں پر آتا ، اس پتھر کو سرکا دیتا جو کئی آدمیوں سے کھسک نہ سکتا تھا لیکن اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھوں اسے سرکا دیتا ۔ یہ ایک رسی میں لٹکا کر روٹی اور پانی اس پیغمبر علیہ السلام کے پاس پہنچا دیتا جسے وہ کھا پی لیتے ۔ مدتوں تک یونہی ہوتا رہا ۔ ایک مرتبہ یہ گیا ، لکڑیاں کاٹیں ، چنیں ، جمع کیں ، گٹھری باندھی ، اتنے میں نیند کا غلبہ ہوا ، سوگیا ۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر نیند ڈال دی ۔ سات سال تک وہ سویا رہا ۔ سات سال بعد آنکھ کھلی ، انگڑائی لی ، کروٹ بدل کر پھر سو رہا ۔ سات سال بعد پھر آنکھ کھلی تو اس نے لکڑیوں کی گٹھری اٹھائی اور شہر کی طرف چلا ۔ اسے یہی خیال تھا کہ ذرا سی دیر کے لیے سو گیا تھا ۔ شہر میں آ کر لکڑیاں فروخت کیں ۔ حسب عادت کھانا خریدا اور وہیں پہنچا ۔ دیکھتا ہے کہ کنواں تو وہاں ہے ہی نہیں ۔ بہت ڈھونڈا لیکن نہ ملا ۔ درحقیقت اس عرصہ میں یہ ہوا تھا کہ قوم کے دل ایمان کی طرف راغب ہوئے ، انہوں نے جا کر اپنے نبی کو کنویں سے نکالا ۔ سب کے سب ایمان لائے ، پھر نبی فوت ہو گئے ۔ نبی علیہ السلام بھی اپنی زندگی میں اس حبشی غلام کو تلاش کرتے رہے لیکن اس کا پتہ نہ چلا ۔ پھر اس نبی علیہ السلام کے انتقال کے بعد یہ شخص اپنی نیند سے جگایاگیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : پس یہ حبشی غلام ہے جو سب سے پہلے جنت میں جائے گا ۔ } ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:26381:ضعیف) یہ روایت مرسل ہے اور اس میں غرابت و نکارت ہے اور شاید ادراج بھی ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اس روایت کو ان اصحاب رس پر چسپاں بھی نہیں کر سکتے ، اس لیے کہ یہاں تو مذکور ہے کہ انہیں ہلاک کر دیا گیا ۔ ہاں یہ ایک توجیہہ ہو سکتی ہے کہ یہ لوگ تو ہلاک کر دئیے گئے پھر ان کی نسلیں ٹھیک ہو گئیں اور انہیں ایمان کی توفیق ملی ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ کا فرمان ہے کہ اصحاب رس وہی ہیں جن کا ذکر سورۃ البروج میں ہے جنہوں نے خندقیں کھدوائی تھیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ پھر فرمایا کہ اور بھی ان کے درمیان بہت سی امتیں آئیں جو ہلاک کر دی گئیں ۔ ہم نے ان سب کے سامنے اپنا کلام بیان کر دیا تھا ، دلیلیں پیش کر دی تھیں ، معجزے دکھائے تھے ، عذر ختم کر دئیے تھے ۔ پھر سب کو غارت اور برباد کر دیا ۔ جیسے فرمان ہے کہ ’ نوح علیہ السلام کے بعد کی بھی بہت سی بستیاں ہم نے غارت کر دیں ۔ ‘ ۱؎ (17-الإسراء:17) قرن کہتے ہیں امت کو ۔ جیسے فرمان ہے کہ ’ ان کے بعد ہم نے بہت سی قرن یعنی امتیں پیدا کیں ۔ ‘ ۱؎ (23-المؤمنون:31) قرن کی مدت بعض کے نزدیک ایک سو بیس سال ہے ۔ کوئی کہتا ہے سو سال ، کوئی کہتا ہے اسی سال ، کوئی کہتا ہے چالیس سال ، اور بھی بہت سے قول ہیں ۔ زیادہ ظاہر بات یہ ہے کہ ایک زمانہ والے ایک قرن ہیں جب وہ سب مرجائیں تو دوسرا قرن شروع ہوتا ہے ۔ جیسے بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے : { سب سے بہتر زمانہ میرا زمانہ ہے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:3651) پھر فرماتا ہے کہ سدوم نامی بستی کے پاس سے تو یہ عرب برابر گزرتے رہتے ہیں ۔ یہیں لوطی آباد تھے ۔ جن پر زمین الٹ دی گئی اور آسمان سے پتھر برسائے گئے اور برا مینہ ان پر برسا جو سنگلاخ پتھروں کا تھا ۔ یہ دن رات وہاں سے آمدورفت رکھتے ہیں پھر بھی عقلمندی کو کام میں نہیں لیتے ۔ یہ بستیاں تو تمہاری گزرگاہ پر ہیں ۔ ان کے واقعات مشہور ہیں ۔ کیا تم انہیں نہیں دیکھتے ؟ یقیناً دیکھتے ہو لیکن عبرت کی آنکھیں ہی نہیں کہ سمجھ سکو اور غور کرو کہ اپنی بدکاریوں کی وجہ سے وہ اللہ کے عذابوں کے شکار ہو گئے ۔ بس انہیں اڑا دیا گیا ، بےنشان کر دئیے گئے ۔ بری طرح دھجیاں بکھیر دی گئیں ۔ اسے سوچے تو وہ جو قیامت کا قائل ہو ۔ لیکن انہیں کیا عبرت حاصل ہو گی جو قیامت ہی کے منکر ہیں ؟ دوبارہ زندگی کو ہی محال جانتے ہیں ۔ الفرقان
36 الفرقان
37 الفرقان
38 الفرقان
39 الفرقان
40 الفرقان
41 انبیاء کا مذاق کافر لوگ اللہ کے برتر و بہتر پیغمبر احمد مجتبیٰ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر ہنسی مذاق اڑاتے تھے ، عیب جوئی کرتے تھے اور آپ میں نقصان بتاتے تھے ۔ یہی حالت ہر زمانے کے کفار کی اپنے نبیوں کے ساتھ رہی ۔ جیسے فرمان ہے «وَلَقَدِ اسْتُہْزِیَٔ بِرُسُلٍ مِّنْ قَبْلِکَ فَحَاق بالَّذِیْنَ سَخِرُوْا مِنْہُمْ مَّا کَانُوْا بِہٖ یَسْتَہْزِءُوْنَ» ۱؎ (13-الرعد:32) ’ تجھ سے پہلے کے رسولوں کا بھی مذاق اڑایا گیا ۔ ‘ کہنے لگے : وہ تو کہئے کہ ہم جمے رہے ورنہ اس رسول نے ہمیں بہکانے میں کوئی کمی نہ رکھی تھی ۔ اچھا عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ ہدایت پر یہ کہاں تک تھے ؟ عذابوں کو دیکھتے ہی آنکھیں کھل جائیں گی ۔ اصل یہ ہے کہ ان لوگوں نے خواہش پرستی شروع کر رکھی ہے ۔ نفس و شیطان جس چیز کو اچھا ظاہر کرتا ہے ، یہ بھی اسے اچھی سمجھنے لگتے ہیں ۔ بھلا ان کا ذمہ دار تو کیسے ٹھہر سکتا ہے ؟ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ جاہلیت میں عرب کی یہ حالت تھی کہ جہاں کسی سفید گول مول پتھر کو دیکھا ، اس کے سامنے جھکنے اور سجدے کرنے لگے ۔ اس سے اچھا کوئی نظر پڑ گیا تو اس کے سامنے جھک گئے ۔ اور اول کو چھوڑ دیا ۔ پھر فرماتا ہے : یہ تو چوپایوں سے بھی بدتر ہیں ۔ نہ ان کے کان ہیں ، نہ دل ہیں ۔ چوپائے تو خیر قدرتاً آزاد ہیں لیکن یہ جو عبادت کے لیے پیدا کیے گئے تھے ، یہ ان سے بھی زیادہ بہک گئے بلکہ اللہ کے سوا دوسروں کی عبادت کرنے لگے ۔ اور قیام حجت کے بعد ، رسولوں کے پہنچ چکنے کے بعد بھی اللہ کی طرف نہیں جھکتے ۔ اس کی توحید اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو نہیں مانتے ۔ الفرقان
42 الفرقان
43 الفرقان
44 الفرقان
45 اگر وہ چاہے تو رات دن نہ بدلے اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی قدرت پر دلیلیں بیان ہو رہی ہے کہ مختلف اور متضاد چیزوں کو وہ پیدا کر رہا ہے ۔ سائے کو وہ بڑھاتا ہے ، کہتے ہیں کہ یہ وقت صبح صادق سے لے کر سورج نکلنے تک کا ہے ۔ اگر وہ چاہتا تو اسے ایک ہی حالت پر رکھ دیتا ۔ جیسے فرمان ہے کہ اگر وہ رات ہی رات رکھے تو کوئی دن نہیں کر سکتا اور اگر دن ہی دن رکھے تو کوئی رات نہیں لا سکتا ۔ اگر سورج نہ نکلتا تو سائے کا حال ہی معلوم نہ ہوتا ۔ ہر چیز اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہے ۔ سائے کے پیچھے دھوپ ، دھوپ کے پیچھے سایہ ، یہ بھی قدرت کا انتظام ہے ۔ پھر سہج سہج ہم اسے یعنی سائے کو یا سورج کو اپنی طرف سمیٹ لیتے ہیں ۔ ایک گھٹتا جاتا ہے تو دوسرا بڑھتا جاتا ہے اور یہ انقلاب سرعت سے عمل میں آتا ہے ۔ کوئی جگہ سایہ دار باقی نہیں رہتی ۔ صرف گھروں کے چھپڑوں کے اور درختوں کے نیچے سایہ رہ جاتا ہے اور ان کے بھی اوپر دھوپ کھلی ہوئی ہوتی ہے ۔ آہستہ آہستہ تھوڑا تھوڑا کر کے ہم اسے اپنی طرف سمیٹ لیتے ہیں ۔ اسی نے رات کو تمہارے لیے لباس بنایا ہے کہ وہ تمہارے وجود پر چھا جاتی ہے اور اسے ڈھانپ لیتی ہے جیسے فرمان ہے : قسم ہے رات کی جبکہ ڈھانپ لے ، اسی نے نیند کو سبب راحت و سکون بنایا ہے کہ اس وقت حرکت موقوف ہو جاتی ہے ۔ اور دن بھر کے کام کاج سے جو تھکن چڑھ گئی تھی ، وہ اس آرام سے اتر جاتی ہے ۔ بدن کو اور روح کو راحت حاصل ہو جاتی ہے ۔ پھر دن کو اٹھ کھڑے ہوتے ہو ، پھیل جاتے ہو ۔ اور روزی کی تلاش میں لگ جاتے ہو ۔ جیسے فرمان ہے کہ ’ اس نے اپنی رحمت سے رات دن مقرر کر دیا ہے کہ تم سکون و آرام بھی حاصل کر لو اور اپنی روزیاں بھی تلاش کرو ۔ ‘ ۱؎ (28-القصص:73) الفرقان
46 الفرقان
47 الفرقان
48 بارش سے پہلے بارش کی خوشخبری اللہ تعالیٰ اپنی ایک اور قدرت کا بیان فرما رہا ہے کہ وہ بارش سے پہلے بارش کی خوشخبری دینے والی ہوائیں چلاتا ہے ۔ ان ہواؤں میں رب نے بہت سے خواص رکھے ہیں ۔ بعض بادلوں کو پراگندہ کر دیتی ہیں ، بعض انہیں اٹھاتی ہیں ، بعض انہیں لے چلتی ہیں ، بعض خنک اور بھیگی ہوئی چل کر لوگوں کو باران رحمت کی طرف متوجہ کر دیتی ہیں ، بعض اس سے پہلے زمین کو تیار کر دیتی ہیں ، بعض بادلوں کو پانی سے بھر دیتی ہیں اور انہیں بوجھل کر دیتی ہیں ۔ آسمان سے ہم پاک صاف پانی برساتے ہیں کہ وہ پاکیزگی کا آلہ بنے ۔ یہاں طہور ایسا ہی ہے جیسا سحور اور وجور وغیرہ ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ فعول معنی فاعل کے ہے یا یہ مبالغہ کے لیے مبنی ہے یا متعدی کے لیے ۔ یہ سب اقوال لغت اور حکم کے اعتبار سے مشکل ہیں ۔ پوری تفصیل کے لائق یہ مقام نہیں ، «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ ثابت بنانی رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ میں ابوالعالیہ رحمہ اللہ کے ساتھ بارش کے زمانہ میں نکلا ۔ بصرے کے راستے اس وقت بڑے گندے ہو رہے تھے ۔ آپ نے ایسے راستہ پر نماز ادا کی ۔ میں نے آپ کو توجہ دلائی تو آپ نے فرمایا : اسے آسمان کے پاک پانی نے پاک کر دیا ۔ اللہ فرماتا ہے کہ ہم آسمان سے پاک پانی برساتے ہیں ۔ سعید بن مسیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ نے اسے پاک اتارا ہے ، اسے کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی ۔ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ بئر بضاعہ سے وضو کر لیں ؟ یہ ایک کنواں ہے جس میں لوگ گندگی اور کتوں کا گوشت پھینکتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : پانی پاک ہے ، اسے کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی ۔ } ۱؎ (سنن ابوداود:66،قال الشیخ الألبانی:صحیح) امام شافعی اور امام احمد رحمہما اللہ نے اسے وارد کیا ہے ۔ امام ابوداؤد اور امام ترمذی رحمہما اللہ نے اسے صحیح کہا ہے ۔ نسائی میں بھی یہ روایت ہے ۔ عبدالملک بن مروان کے دربار میں ایک مرتبہ پانی کا ذکر چھڑا تو خالد بن یزید رحمہ اللہ نے کہا : بعض پانی آسمان کے ہوتے ہیں ، بعض پانی وہ ہوتے ہیں جسے بادل سمندر سے پیتا ہے اور اسے گرج ، کڑک اور بجلی میٹھا کر دیتی ہے لیکن اس سے زمین میں پیداوار نہیں ہوتی ۔ ہاں آسمانی پانی سے پیداوار اگتی ہے ۔ عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : آسمان کے پانی کے ہر قطرہ سے چارہ ، گھاس وغیرہ پیدا ہوتا ہے ۔ سمندر میں لؤلؤ اور موتی پیدا ہوتے ہیں ۔ یعنی «فِیْ الْبَرِّ بَرٌّ وَّ فِیْ الْبَحْرِ دَرٌّ» زمین میں گیہوں اور سمندر میں موتی ۔ پھر فرمایا کہ اسی سے ہم غیر آباد بنجر خشک زمین کو زندہ کر دیتے ہیں ، وہ لہلہانے لگتی ہے اور تروتازہ ہو جاتی ہے ۔ جیسے فرمان ہے «فَاِذَآ اَنْزَلْنَا عَلَیْہَا الْمَاءَ اہْتَزَّتْ وَرَبَتْ إِنَّ الَّذِی أَحْیَاہَا لَمُحْیِی الْمَوْتَیٰ إِنَّہُ عَلَیٰ کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ» ۱؎ (22-الحج:5) علاوہ مردہ زمین کے زندہ ہو جانے کے ، یہ پانی حیوانوں اور انسانوں کے پینے میں آتا ہے ، ان کے کھیتوں اور باغات کو پلایا جاتا ہے ۔ جیسے فرمان ہے کہ ’ وہ اللہ وہی ہے ، جو لوگوں کی کامل ناامیدی کے بعد ان پر بارشیں برساتا ہے ۔ ‘ ۱؎ (42-الشوری:28) اور آیت میں ہے کہ ’ اللہ کے آثار رحمت کو دیکھو کہ کس طرح مردہ زمین کو زندہ کر دیتا ہے ۔ ‘ ۱؎ (30-الروم:5) پھر فرماتا ہے : ساتھ ہی میری قدرت کا ایک نظارہ یہ بھی دیکھو کہ ابر اٹھتا ہے ، گرجتا ہے لیکن جہاں میں چاہتا ہوں برستا ہے ، اس میں بھی حکمت و حجت ہے ۔ بارش اللہ کے حکم سے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ کوئی سال کسی سال کے کم و بیش بارش کا نہیں لیکن اللہ جہاں چاہے ، برسائے ۔ جہاں سے چاہے ، پھیرے ۔ پس چاہئے تھا کہ ان نشانات کو دیکھ کر اللہ کی ان زبردست حکمتوں کو اور قدرتوں کو سامنے رکھ کر اس بات کو بھی مان لیتے کہ بیشک ہم دوبارہ زندہ کئے جائیں گے اور یہ بھی جان لیتے کہ بارشیں ہمارے گناہوں کی شامت سے بند کر دی جاتی ہیں تو ہم گناہ چھوڑ دیں لیکن ان لوگوں نے ایسا نہ کیا بلکہ ہماری نعمتوں پر اور ناشکری کی ۔ ایک مرسل حدیث ابن ابی حاتم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام سے کہا کہ میں بادل کی نسبت کچھ پوچھنا چاہتا ہوں ۔ جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا : بادلوں پر جو فرشتہ مقرر ہے ، وہ یہ ہے ۔ آپ ان سے جو چاہیں ، دریافت فرما لیں ۔ اس نے کہا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمارے پاس تو اللہ کا حکم آتا ہے کہ فلاں فلاں شہر اتنے اتنے قطرے برساؤ ، ہم تعمیل ارشاد کر دیتے ہیں ۔ بارشیں جیسی نعمت کے وقت اکثر لوگوں کے کفر کا طریقہ یہ بھی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم فلاں فلاں ستارے کی وجہ سے یہ بارش برسائے گئے ۔ چنانچہ صحیح حدیث میں ہے کہ { ایک مرتبہ بارش برس چکنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لوگو ! جانتے ہو تمہارے رب نے کیا فرمایا ؟ انہوں نے کہا : اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم خوب جاننے والا ہے ۔ آپ نے فرمایا : سنو ! اللہ تعالیٰ نے فرمایا : میرے بندوں میں سے بہت سے میرے ساتھ مومن ہو گئے اور بہت سے کافر ہو گئے ۔ جنہوں نے کہا کہ صرف اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے بارش ہم پر برسی ہے ، وہ تو میرے ساتھ ایمان رکھنے والے اور ستاروں سے کفر کرنے والے ہوئے اور جنہوں نے کہا کہ ہم پر فلاں فلاں تارے کے اثر سے پانی برسایا گیا ، انہوں نے میرے ساتھ کفر کیا اور تاروں پر ایمان لائے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:810) الفرقان
49 الفرقان
50 الفرقان
51 النبی کل عالم علیہ السلام اگر رب چاہتا تو ہر ہر بستی میں ایک ایک نبی بھیج دیتا ۔ اس نے تمام دنیا کی طرف صرف ایک ہی نبی بھیجا ہے اور پھر اسے حکم دے دیا کہ قرآن کا وعظ سب کو سنا دے ۔ جیسے فرمان ہے کہ میں اس قرآن سے تمہیں اور جس جس کو یہ پہنچے ہوشیار کر دوں اور ان تمام جماعتوں میں سے جو بھی کفر کرے ، اس کے ٹھہرنے کی جگہ جہنم ہے ۔ اور فرمان ہے کہ ’ تو مکے والوں کو اور چاروں طرف کے لوگوں کو آگاہ کر دے ۔ ‘ ۱؎ (6-الأنعام:92) اور آیت میں ہے کہ ’ اے نبی ! آپ کہہ دیجئے کہ اے لوگو ! میں تم سب کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بن کر آیا ہوں ۔ ‘ ۱؎ (7-الأعراف:158) بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے : { میں سرخ و سیاہ سب کی طرف بھیجا گیا ہوں ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:3) بخاری و مسلم کی اور حدیث میں ہے کہ { تمام انبیاء علیہم السلام اپنی اپنی قوم کی طرف بھیجے جاتے رہے اور میں تمام لوگوں کی طرف مبعوث کیا گیا ہوں ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:335) پھر فرمایا : کافروں کا کہنا نہ ماننا اور اس قرآن کے ساتھ ان سے بہت بڑا جہاد کرنا ۔ جیسے ارشاد ہے «یٰٓاَیٰہَا النَّبِیٰ جَاہِدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنٰفِقِیْنَ وَاغْلُظْ عَلَیْہِمْ وَمَاْوٰیہُمْ جَہَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ» ۱؎ (9-التوبۃ:73) یعنی ’ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! کافروں سے اور منافقوں سے جہاد کرتے رہو ۔ اسی رب نے پانی کو دو طرح کا کر دیا ہے ، میٹھا اور کھاری ۔ نہروں ، چشموں اور کنوؤں کا پانی عموماً شیریں ، صاف اور خوش ذائقہ ہوتا ہے ۔ بعض ٹھہرے ہوئے سمندروں کا پانی کھاری اور بدمزہ ہوتا ہے ۔ اللہ کی اس نعمت پر بھی شکر کرنا چاہیے کہ اس نے میٹھے پانی کی چاروں طرف ریل پیل کر دی تاکہ لوگوں کو نہانے دھونے اور اپنے کھیت اور باغات کو پانی دینے میں آسانی رہے ۔ مشرقوں اور مغربوں میں محیط سمندر کھاری پانی کے اس نے بہا دیئے جو ٹھہرے ہوئے ہیں ، ادھر ادھر بہتے نہیں لیکن موجیں مار رہے ہیں ، تلاطم پیدا کر رہے ہیں ، بعض میں مدوجزر ہے ، ۔ ہر مہینے کی ابتدائی تاریخوں میں تو ان میں زیادتی اور بہاؤ ہوتا ہے پھر چاند کے گھٹنے کے ساتھ وہ گھٹتا جاتا ہے یہاں تک آخر میں اپنی حالت پر آ جاتا ہے پھر جہاں چاند چڑھا ، یہ بھی چڑھنے لگا ۔ چودہ تاریخ تک برابر چاند کے ساتھ چڑھتا رہا ، پھر اترنا شروع ہوا ۔ ان تمام سمندروں کو اسی اللہ نے پیدا کیا ہے ، وہ پوری اور زبردست قدرت والا ہے ۔ کھاری اور گرم پانی گو پینے کے کام نہیں آتا لیکن ہواؤں کو صاف کر دیتا ہے ۔ جس سے انسانی زندگی ہلاکت میں نہ پڑے ۔ اس میں جو جانور مر جاتے ہیں ، ان کی بدبو دنیا والوں کو ستا نہیں سکتی اور کھاری پانی کے سبب سے اس کی ہوا صحت بخش اور اس کا مردہ پاک ، طیب ہوتا ہے ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جب سمندر کے پانی کی نسبت سوال ہوا کہ کیا ہم اس سے وضو کر لیں ؟ تو آپ نے فرمایا : اس کا پانی پاک ہے اور اس کا مردہ حلال ہے ۔ } ۱؎ (سنن ابوداود:83،قال الشیخ الألبانی:صحیح) مالک ، شافعی رحمۃ اللہ علیہما اور اہل سنن رحمۃ اللہ علیہم نے اسے روایت کیا ہے اور اسناد بھی صحیح ہے ۔ پھر اس کی قدرت دیکھو کہ محض اپنی طاقت سے اور اپنے حکم سے ایک دوسرے سے جدا رکھا ہے ۔ نہ کھاری میٹھے میں مل سکے ، نہ میٹھا کھاری میں مل سکے ۔ جیسے فرمان ہے «مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیَانِ بَیْنَہُمَا بَرْزَخٌ لَّا یَبْغِیَانِ فَبِأَیِّ آلَاءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ» ۱؎ (55-الرحمن:19-21) ’ اس نے دونوں سمندر جاری کر دئیے ہیں کہ دونوں مل جائیں اور ان دونوں کے درمیان ایک حجاب قائم کر دیا ہے کہ حد سے نہ بڑھیں ۔ پھر تم اپنے رب کی کس نعمت کے منکر ہو ؟ ‘ اور آیت میں ہے : ’ کون ہے وہ جس نے زمین کو جائے قرار بنایا اور اس میں جگہ جگہ دریا جاری کر دئیے ، اس پر پہاڑ قائم کر دئیے اور سمندروں کے درمیان اوٹ کر دی ۔ کیا اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور کوئی معبود بھی ہے ؟ بات یہ ہے کہ ان مشرکوں کے اکثر لوگ بےعلم ہیں ۔ ‘ ۱؎ (27-النمل:61) اس نے انسان کو ضعیف نطفے سے پیدا کیا ہے پھر ٹھیک ٹھاک اور برابر بنایا ہے ۔ اور اچھی پیدائش میں پیدا کر کے پھر اسے مرد یا عورت بنایا ۔ پھر اس کے لیے نسب کے رشتےدار بنا دئیے پھر کچھ مدت بعد سسرالی رشتے قائم کر دئیے ۔ اتنے بڑے قادر اللہ کی قدرتیں تمہارے سامنے ہیں ۔ الفرقان
52 الفرقان
53 الفرقان
54 الفرقان
55 آبائی گمراہی مشرکوں کی جہالت بیان ہو رہی ہے کہ وہ بت پرستی کرتے ہیں ، بلادلیل و حجت ان کی پوجا کرتے ہیں جو نہ نفع کے مالک ، نہ نقصان کے ۔ صرف باپ دادوں کی دیکھا دیکھی ، نفسانی خواہشات سے ان کی محبت و عظمت اپنے دل میں جمائے ہوئے ہیں اور اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دشمنی اور مخالفت رکھتے ہیں ۔ شیطانی لشکر میں شامل ہو گئے ہیں اور رحمانی لشکر کے مخالف ہو گئے ہیں لیکن یاد رکھیں کہ انجام کار غلبہ اللہ والوں کو ہی ہو گا ۔ یہ خواہ مخواہ ان کی طرف سے سینہ سپر ہو رہے ہیں ۔ انجام کار مومنوں کے ہی ہاتھ رہے گا ۔ دنیا و آخرت میں ان کا پروردگار ان کی امداد کرے گا ۔ ان کفار کو تو شیطان صرف اللہ کی مخالفت پر ابھار دیتا ہے اور کچھ نہیں ۔ سچے اللہ کی عداوت ان کے دل میں ڈال دیتا ہے ، شرک کی محبت بٹھا دیتا ہے ۔ یہ اللہ کے احکام سے پیٹھ پھیر لیتے ہیں ۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب کر کے فرماتا ہے کہ ہم نے تمہیں مومنوں کو خوشخبری سنانے والا اور کفار کو ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے ۔ اطاعت گزاروں کو جنت کی بشارت دیجئے اور نافرمانوں کو جہنم کے عذابوں سے مطلع فرما دیجئے ۔ لوگوں میں عام طور پر اعلان کر دیجئے کہ میں اپنی تبلیغ کا بدلہ ، اپنے وعظ کا معاوضہ تم سے نہیں چاہتا ۔ میرا ارادہ سوائے اللہ کی رضا مندی کی تلاش کے اور کچھ نہیں ۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ تم میں سے جو راہ راست پر آنا چاہے ، اس کے سامنے صحیح راستہ نمایاں کر دوں ۔ اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ! اپنے کاموں میں اس اللہ پر بھروسہ رکھئے جو ہمیشہ اور دوام والا ہے ، جو موت و فوت سے پاک ہے ، جو اول و آخر ، ظاہر و باطن اور ہر چیز کا عالم ہے ، جو دائم ، باقی ، سرمدی ، ابدی ، حی و قیوم ہے ، جو ہر چیز کا مالک ہے اور رب ہے ، اس کو اپنا ماویٰ و ملجا ٹھہرا لے ۔ اسی کی ذات ایسی ہے کہ اس پر توکل کیا جائے ۔ ہر گھبراہٹ میں اسی کی طرف جھکا جائے ۔ وہ کافی ہے ، وہی ناصر ہے ، وہی موید و مظفر ہے ۔ جیسے فرمان ہے «یٰٓاَیٰھَا الرَّسُوْلُ بَلِّــغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ» ۱؎ (5-المائدۃ:67) الخ ، ’ اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ! جو کچھ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے اتارا گیا ہے ، اسے پہنچا دیجئے ۔ اگر آپ نے یہ نہ کیا تو آپ نے حق رسالت ادا نہیں کیا ۔ آپ بےفکر رہیے ، اللہ آپ کو لوگوں کے برے ارادوں سے بچالے گا ۔ ‘ ایک مرسل حدیث میں ہے کہ { مدینے کی کسی گلی میں سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ کرنے لگے تو آپ نے فرمایا : اے سلمان ! مجھے سجدہ نہ کر ۔ سجدے کے لائق وہ ہے جو ہمیشہ کی زندگی والا ہے ، جس پر کبھی موت نہیں ۔ [ ابن ابی حاتم ] اور اس کی تسبیح و حمد بیان کرتا رہ ۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تعمیل میں فرمایا کرتے تھے : «سُبْحَانَکَ الّٰلہُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِکَ» } ۱؎ (صحیح بخاری:794) مراد اس سے یہ کہ عبادت اللہ ہی کی کر ، توکل صرف اسی کی ذات پر کر ۔ جیسے فرمان ہے : ’ مشرق و مغرب کا رب وہی ہے ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، تو اسی کو اپنا کارساز سمجھ ۔ ‘ ۱؎ (73-المزمل:9) اور جگہ ہے «فَاعْبُدْہُ وَتَوَکَّلْ عَلَیْہِ وَمَا رَبٰکَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ» ۱؎ (11-ہود:123) ’ اسی کی عبادت کر ، اسی پر بھروسہ رکھ ۔ ‘ اور آیت میں ہے : اعلان کر دے کہ اسی رحمن کے ہم بندے ہیں اور اسی پر ہمارا کامل بھروسہ ہے ۔ اس پر بندوں کے سب اعمال ظاہر ہیں ۔ کوئی ایک ذرہ بھی اس سے پوشیدہ نہیں ، کوئی پراسرار بات بھی اس سے مخفی نہیں ۔ وہی تمام چیزوں کا خالق ہے ، مالک و قابض ہے ، وہی ہر جاندار کا روزی رساں ہے ، اس نے اپنی قدرت و عظمت سے آسمان و زمین جیسی زبردست مخلوق کو صرف چھ دن میں پیدا کر دیا ہے ۔ پھر عرش پر قرار پکڑا ، کاموں کی تدبیروں کا انجام اسی کی طرف سے اور اسی کے حکم اور تدبیر کا مرہون ہے ۔ اس کا فیصلہ اعلی اور اچھا ہی ہوتا ہے ۔ جو ذات الٰہ کا عالم ہو اور صفات الٰہ سے آگاہ ہو ، اس سے اس کی شان دریافت کر لے ۔ یہ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کی پوری خبر رکھنے والے ، اس کی ذات سے پورے واقف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے ۔ جو دنیا اور آخرت میں تمام اولاد آدم کے علی الاطلاق سردار تھے ۔ جو ایک بات بھی اپنی طرف سے نہیں کہتے تھے بلکہ جو فرماتے تھے ، وہ فرمودہ الٰہ ہی ہوتا تھا ۔ آپ نے جو جو صفتیں اللہ کی بیان کیں ، سب برحق ہیں ، آپ نے جو خبریں دیں ، سب سچ ہیں ۔ سچے امام آپ ہی ہیں ، تمام جھگڑوں کا فیصلہ آپ ہی کے حکم سے کیا جا سکتا ہے ۔ جو آپ کی بات بتلائے ، وہ سچا ۔ جو آپ کے خلاف کہے ، وہ مردود خواہ کوئی بھی ہو ۔ اللہ کا فرمان واجب الاذعان کھلے طور سے صادر ہو چکا ہے «فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدٰوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِیْلًا» ۱؎ (4-النساء:59) ’ تم اگر کسی چیز میں جھگڑو تو اسے اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹاؤ ۔ ‘ اور فرمان ہے «وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِیہِ مِن شَیْءٍ فَحُکْمُہُ إِلَی اللہِ ذٰلِکُمُ اللہُ رَبِّی عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَإِلَیْہِ أُنِیبُ» ۱؎ (42-الشوری:10) ’ تم جس چیز میں بھی اختلاف کرو ، اس کا فیصلہ اللہ کی طرف ہے ۔ ‘ اور فرمان ہے «وَتَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ صِدْقًا وَّعَدْلًا لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِہٖ وَہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ» ۱؎ (6-الأنعام:115) ’ تیرے رب کی باتیں جو خبروں میں سچی اور حکم و ممانعت میں عدل کی ہیں ، پوری ہوچکیں ۔ ‘ یہ بھی مروی ہے کہ اس سے مراد قرآن ہے ۔ مشرکین اللہ کے سوا اوروں کو سجدے کرتے تھے ۔ ان سے جب رحمان کو سجدہ کرنے کو کہا جاتا تھا تو کہتے تھے کہ ہم رحمان کو نہیں جانتے ۔ وہ اس سے منکر تھے کہ اللہ کا نام رحمان ہے ۔ جیسے { حدیبیہ والے سال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح نامہ کے کاتب سے فرمایا : «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» لکھ ۔ تو مشرکین نے کہا : نہ ہم رحمان کو جانیں ، نہ رحیم کو ۔ ہمارے رواج کے مطابق «بِاسْمِکَ الّٰلہُمَّ» لکھ ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:2731-2732) اس کے جواب میں یہ آیت اتری «قُلِ ادْعُوا اللّٰہَ اَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ اَیًّا مَّا تَدْعُوْا فَلَہُ الْاَسْمَاءُ الْحُسْنٰی وَلَا تَجْـہَرْ بِصَلَاتِکَ وَلَا تُخَافِتْ بِہَا وَابْتَغِ بَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیْلًا» ۱؎ (17-الإسراء:110) ’ کہہ دے کہ اللہ کو پکارو یا رحمان کو ، جس نام سے چاہو پکارو ۔ اس کے بہت سے بہترین نام ہیں ۔ ‘ وہی اللہ ہے ، وہی رحمن ہے ۔ پس مشرکین کہتے تھے کہ کیا صرف تیرے کہنے سے ہم ایسا مان لیں ؟ الغرض وہ اور نفرت میں بڑھ گئے ۔ برخلاف مومنوں کے کہ وہ اللہ کی عبادت کرتے ہیں ، جو رحمان و رحیم ہے ۔ اسی کو عبادت کے لائق سمجھتے ہیں اور اسی کے لیے سجدے کرتے ہیں ۔ علماء رحمۃ اللہ علیہم کا اتفاق ہے کہ سورۃ الفرقان کی اس آیت کے پڑھنے اور سننے والے پر سجدہ مشروع ہے ، جیسے کہ اس کی تفصیل موجود ہے «وَاللہُ سُبْحَانَہُ وَ تَعَالیٰ اَعْلَمُ» ۔ الفرقان
56 الفرقان
57 الفرقان
58 الفرقان
59 الفرقان
60 الفرقان
61 اللہ تعالٰی کی رفعت و عظمت اللہ تعالیٰ کی بڑائی ، عظمت ، رفعت کو دیکھو کہ اس نے آسمان میں برج بنائے ۔ اس سے مراد یا تو بڑے بڑے ستارے ہیں یا چوکیداری کے برج ہیں ۔ پہلا قول زیادہ ظاہر ہے اور ہوسکتا ہے کہ بڑے بڑے ستاروں سے مراد بھی یہی برج ہوں ۔ اور آیت میں ہے : آسمان دنیا کو ہم نے ستاروں کے ساتھ مزین بنایا ۔ سراج سے مراد سورج ہے ، جو چمکتا رہتا ہے اور مثل چراغ کے ہے ۔ جیسے فرمان ہے «وَّجَعَلْنَا سِرَاجًا وَّہَّاجًا» ۱؎ (78-النبأ:13) ’ اور ہم نے روشن چراغ یعنی سورج بنایا ۔ ‘ اور چاند بنایا جو منور اور روشن ہے ، دوسرے نور سے جو سورج کے سوا ہے ۔ جیسے فرمان ہے کہ ’ اس نے سورج کو روشن بنایا اور چاند کو نور بنایا ۔ ‘ ۱؎ (10-یونس:5) نوح علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا : «اَلَمْ تَرَوْا کَیْفَ خَلَقَ اللّٰہُ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا وَجَعَلَ الْقَمَرَ فِیہِنَّ نُورًا وَجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا» ۱؎ (71-نوح:15-16) ’ کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ اللہ تعالیٰ نے اوپر تلے سات آسمان پیدا کیے اور ان میں چاند کو نور بنایا اور سورج کو چراغ بنایا ۔ ‘ دن رات کے ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے میں اس کی قدرت کا نظام ہے ۔ یہ جاتا ہے ، وہ آتا ہے ۔ اس کا جانا اس کا آنا ہے ۔ جیسے فرمان ہے : اس نے تمہارے لیے سورج ، چاند پے در پے آنے جانے والے بنائے ہیں ۔ اور جگہ ہے : رات دن کو ڈھانپ لیتی ہے اور جلدی جلدی اسے طلب کرتی آتی ہے ۔ نہ سورج چاند سے آگے بڑھ سکے ، نہ رات دن سے سبقت لے سکے ۔ اسی سے اس کے بندوں کو اس کی عبادتوں کے وقت معلوم ہوتے ہیں ۔ رات کا فوت شدہ عمل دن میں پورا کر لیں ، دن کا رہ گیا ہوا عمل رات کو ادا کر لیں ۔ صحیح حدیث شریف میں ہے : { اللہ تعالیٰ رات کو اپنے ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ دن کا گنہگار توبہ کر لے اور دن کو ہاتھ پھیلاتا ہے کہ رات کا گنہگار توبہ کر لے ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:2759) سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک دن ضحیٰ کی نماز میں بڑی دیر لگا دی ۔ سوال پر فرمایا کہ رات کا کچھ میرا وظیفہ باقی رہ گیا تھا تو میں نے چاہا کہ اسے پورا کر لوں یا قضاء کر لوں ۔ پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی ۔ «خِلْفَۃً» کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ مختلف یعنی دن روشن ، رات تاریک ۔ اس میں اجالا ، اس میں اندھیرا ۔ یہ نورانی اور وہ ظلماتی ۔ الفرقان
62 الفرقان
63 مومنوں کا کردار اللہ کے مومن بندوں کے اوصاف بیان ہو رہے ہیں کہ وہ زمین پر سکون و وقار کے ساتھ ، تواضع ، عاجزی ، مسکینی اور فروتنی سے چلتے پھرتے ہیں ۔ تکبر ، تجبر ، فساد اور ظلم و ستم نہیں کرتے ۔ جیسے لقمان رحمہ اللہ نے اپنے لڑکے سے فرمایا تھا کہ اکڑ کر نہ چلا کر ۔ مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ تصنع اور بناوٹ سے کمر جھکا کر مریضوں کی طرح قدم قدم چلنا ۔ یہ تو ریاکاروں کا کام ہے کہ وہ اپنے آپ کو دکھانے کے لیے اور دنیا کی نگاہیں اپنی طرف اٹھانے کے لیے ایسا کرتے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت اس کے بالکل برعکس تھی ۔ آپ کی چال ایسی تھی کہ گویا آپ کسی اونچائی سے اتر رہے ہیں اور گویا کہ زمین آپ کے لیے لپٹی جا رہی ہے ۔ سلف صالحین نے بیماروں کی سی تکلف والی چال کو مکروہ فرمایا ہے ۔ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ایک نوجوان کو دیکھا کہ وہ بہت آہستہ آہستہ چل رہا ہے ۔ آپ نے اس سے دریافت فرمایا کہ کیا تو کچھ بیمار ہے ؟ اس نے کہا : نہیں ۔ آپ نے فرمایا : پھر یہ کیا چال ہے ؟ خبردار ! جو اب اس طرح چلا تو کوڑے کھائے گا ۔ طاقت کے ساتھ جلدی جلدی چلا کرو ۔ پس یہاں مراد تسکین اور وقار کے ساتھ شریفانہ چال چلنا ہے ، نہ کہ ضعیفانہ اور مریضانہ ۔ چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ { جب نماز کے لیے آؤ تو دوڑ کر نہ آؤ بلکہ تسکین کے ساتھ آؤ ۔ جو جماعت کے ساتھ مل جائے ، ادا کر لو اور جو فوت ہو جائے ، پوری کر لو ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:636) امام حسن بصری رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر میں نہایت ہی عمدہ بات ارشاد فرمائی ہے کہ مومنوں کی آنکھیں اور ان کے کان اور ان کے اعضاء جھکے ہوئے اور رکے ہوئے رہتے ہیں ، یہاں تک کہ گنوار اور بےوقوف لوگ انہیں بیمار سمجھ لیتے ہیں حالانکہ وہ بیمار نہیں ہوتے بلکہ خوف الٰہی سے جھکے جاتے ہیں ۔ ویسے پورے تندرست ہیں لیکن دل اللہ کے خوف سے پر ہیں ۔ آخرت کا علم دنیا طلبی سے اور یہاں کے ٹھاٹھ سے انہیں روکے ہوئے ہے ۔ یہ قیامت کے دن کہیں گے کہ اللہ کا شکر ہے جس نے ہم سے غم کو دور کر دیا ۔ اس سے کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ انہیں دنیا میں کھانے پینے کا غم لگا رہتا تھا ، نہیں نہیں ، اللہ کی قسم ! دنیا کا کوئی غم ان کے پاس بھی نہیں پھٹکتا تھا ۔ ہاں انہیں آخرت کا کھٹکا ہر وقت لگا رہتا تھا ۔ جنت کے کسی کام کو وہ بھاری نہیں سمجھتے تھے ، ہاں جہنم کا خوف انہیں رلاتا رہتا تھا ۔ جو شخص اللہ کے خوف دلانے سے بھی خوف نہ کھائے ، اس کا نفس حسرتوں کا مالک ہے ۔ جو شخص کھانے پینے کو ہی اللہ کی نعمت سمجھے ، وہ کم علم ہے اور عذابوں میں پھنسا ہوا ہے ۔ پھر اپنے نیک بندوں کا اور وصف بیان فرمایا کہ جب جاہل لوگ ان سے جہالت کی باتیں کرتے ہیں تو یہ بھی ان کی طرح جہالت پر نہیں اتر آتے بلکہ درگزر کر لیتے ہیں ، معاف فرما دیتے ہیں اور سوائے بھلی بات کے ، گندی باتوں سے اپنی زبان آلودہ نہیں کرتے ۔ جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ جوں جوں دوسرا آپ پر تیز ہوتا ، آپ اتنے ہی نرم ہوتے ۔ یہی وصف قرآن کریم کی اس آیت میں بیان ہوا ہے «وَاِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ اَعْرَضُوْا عَنْہُ وَقَالُوْا لَنَآ اَعْمَالُنَا وَلَکُمْ اَعْمَالُکُمْ ۡ سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ ۡ لَا نَبْتَغِی الْجٰہِلِیْنَ» ۱؎ (28-القصص:55) ’ مومن لوگ بے ہودہ باتیں سن کر منہ پھیر لیتے ہیں ۔ ‘ ایک حسن سند سے مسند احمد میں مروی ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کسی شخص نے دوسرے کو برا بھلا کہا لیکن اس نے پلٹ کر جواب دیا کہ تجھ پر سلام ہو ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم دونوں کے درمیان فرشتہ موجود تھا ، وہ تیری طرف سے گالیاں دینے والے کو جواب دیتا تھا ۔ وہ جو گالی تجھے دیتا تھا ، فرشتہ کہتا تھا یہ نہیں بلکہ تو ۔ اور جب تو کہتا تھا تجھ پر سلام تو فرشتہ کہتا تھا اس پر نہیں بلکہ تجھ پر ، تو ہی سلامتی کو پورا حق دار ہے ۔ } ۱؎ (مسند احمد:445/5:حسن لغیرہ) پس فرمان ہے کہ یہ اپنی زبان کو گندی نہیں کرتے ۔ برا کہنے والوں کو برا نہیں کہتے ، سوائے بھلے کلمے کے زبان سے اور کوئی لفظ نہیں نکالتے ۔ امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : دوسرا ان پر ظلم کرے ، یہ صلح اور برداشت کرتے ہیں ۔ اللہ کے بندوں کے ساتھ دن اس طرح گزارتے ہیں کہ ان کی کڑوی کسیلی سن لیتے ہیں ۔ رات کو جس حالت میں گزارتے ہیں ، اس کا بیان اگلی آیت میں ہے ۔ فرماتا ہے کہ رات اللہ کی عبادت اور اس کی اطاعت میں بسر ہوتی ہے ، بہت کم سوتے ہیں ۔ صبح کو استغفار کرتے ہیں ، کروٹیں بستروں سے الگ رہتی ہیں ، دلوں میں اللہ کا خوف ہوتا ہے ۔ امید رحمت ہوتی ہے اور راتوں کی گھڑیوں کو اللہ کی عبادتوں میں گزارتے ہیں ۔ دعائیں مانگتے ہیں کہ اے اللہ ! عذاب جہنم ہم سے دور رکھ ، وہ تو دائمی اور لازمی عذاب ہے ۔ جیسے شاعر نے اللہ کی شان بتائی ہے کہ «اِنْ یُعَذِّبْ یَکُنْ غَرَامًا وَ اِنْ یٰعْطِ جَزِیْلًا فَاِنَّہُ لَا یُبَالِی» یعنی اس کے عذاب بھی سخت اور لازمی اور ابدی ۔ اور اس کی عطا اور انعام بھی بے حد ، ان گنت اور بے حساب ۔ جو چیز آئے اور ہٹ جائے وہ غرام نہیں ۔ غرام وہ ہے جو آنے کے بعد ہٹنے اور دور ہونے کا نام ہی نہ لے ۔ یہ معنی بھی کئے گئے ہیں کہ عذاب جہنم تاوان ہے جو کفران نعمت سے لیا جائے گا ۔ انہوں نے اللہ کے دیئے کو اس کی راہ میں نہیں لگایا لہٰذا آج اس کا تاوان یہ بھرنا پڑے گا جہنم کو پر کر دیں ۔ وہ بری جگہ ہے ، بدمنظر ہے ، تکلیف دہ ہے ، مصیبت ناک ہے ۔ مالک بن حارث رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ جب دوزخی کو دوزخ میں پھینک دیا جائے گا تو اللہ ہی جانتا ہے کہ کتنی مدت تک وہ نیچے ہی نیچے چلا جائے گا ۔ اس کے بعد جہنم کے ایک دروازے پر اسے روک دیا جائے گا اور کہا جائے گا : تم بہت پیاسے ہو رہے ہو گے ، لو ایک جام تو نوش کر لو ۔ یہ کہہ کر انہیں کالے ناگ اور زہریلے بچھوؤں کے زہر کا ایک پیالہ پلا دیا جائے گا جس کے پیتے ہی ان کی کھالیں الگ جھڑ جائیں گی ، بال الگ ہو جائیں گے ، رگیں الگ جا پڑیں گی ، ہڈیاں جدا جدا ہو جائیں گی ۔ عبید بن عمیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : جہنم میں گڑھے ہیں ، کنویں ہیں ۔ ان میں سانپ ہیں جیسے بختی اونٹ اور بچھو ہیں جیسے خچر ۔ جب کسی جہنمی کو جہنم میں ڈالا جاتا ہے تو وہ وہاں سے نکل کر آتے اور انہیں لپٹ جاتے ہیں ، ہونٹوں پر ، سروں پر اور جسم کے اور حصوں پر ڈستے اور ڈنک مارتے ہیں ۔ جس سے ان کے سارے بدن میں زہر پھیل جاتا ہے اور پھکنے لگتے ہیں ۔ سارے سر کی کھال جھلس کر گر پڑتی ہے پھر وہ سانپ چلے جاتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ { جہنمی ایک ہزار سال تک جہنم میں چلاتا رہے گا «یَا حَنَّانُ یَا مَنَّانُ» تب اللہ تعالیٰ جبرائیل علیہ السلام سے فرمائے گا : جاؤ دیکھو ، یہ کیا کہہ رہا ہے ؟ جبرائیل علیہ السلام آ کر دیکھیں گے کہ سب جہنمی برے حال سر جھکائے آہ و زاری کر رہے ہیں ۔ جا کر جناب باری تعالیٰ میں خبر کریں گے ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : پھر جاؤ ، فلاں فلاں جگہ یہ شخص ہے ، جاؤ اور اسے لے آؤ ۔ یہ بحکم الٰہی جائیں گے اور اسے لا کر اللہ کے سامنے کھڑا کر دیں گے ۔ اللہ تعالیٰ اس سے دریافت فرمائے گا کہ تو کیسی جگہ پر ہے ؟ یہ جواب دے گا کہ اے اللہ ! ٹھہرنے کی بری جگہ اور سونے بیٹھے کی بھی بدترین جگہ ہے ۔ اللہ فرمائے گا : اچھا اب اسے اس کی جگہ واپس لے جاؤ تو یہ گڑگڑائے گا ، عرض کرے گا کہ اے میرے ارحم الراحمین اللہ ! جب تو نے مجھے اس سے باہر نکالا تو تیری ذات ایسی نہیں کہ پھر مجھے اس میں داخل کر دے ، مجھے تو تجھ سے رحم و کرم کی ہی امید ہے ۔ اے اللہ ! بس اب مجھ پر کرم فرما ۔ جب تو نے مجھے جہنم سے نکالا تو میں خوش ہو گیا تھا کہ اب تو اس میں نہ ڈالے گا ۔ اس مالک و رحمن و رحیم اللہ کو بھی رحم آ جائے گا اور فرمائے گا : اچھا میرے بندے کو چھوڑ دو ۔ } ۱؎ (مسند احمد:230/3:ضعیف) پھر ان کا ایک اور وصف بیان ہوتا ہے کہ نہ تو وہ مسرف ہیں ، نہ بخیل ہیں ، نہ بےجا خرچ کرتے ہیں ، نہ ضروری اخراجات میں کوتاہی کرتے ہیں بلکہ میانہ روی سے کام لیتے ہیں ۔ نہ ہی ایسا کرتے ہیں کہ اپنے والوں کو ، اہل و عیال کو بھی تنگ رکھیں ، نہ ایسا کرتے ہیں کہ جو ہو سب لٹا دیں ۔ اسی کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے ۔ فرماتا ہے : «وَلَا تَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُوْلَۃً اِلٰی عُنُقِکَ وَلَا تَبْسُطْہَا کُلَّ الْبَسْطِ فَتَـقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا» ۱؎ (17-الإسراء:29) یعنی ’ نہ تو اپنے ہاتھ اپنی گردن سے باندھ اور نہ انہیں بالکل ہی چھوڑ دے ۔ ‘ مسند احمد میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ { اپنی گزران میں میانہ روی کرنا انسان کی سمجھ داری کی دلیل ہے ۔ } ۱؎ (مسند احمد:194/5:ضعیف) اور حدیث میں ہے : { جو افراط تفریط سے بچتا ہے ، وہ کبھی فقیر محتاج نہیں ہوتا ۔ } ۱؎ (مسند احمد:447/1:ضعیف) بزار کی حدیث میں ہے کہ { امیری میں ، فقیری میں ، عبادت میں میانہ روی بڑی ہی بہتر اور احسن چیز ہے ۔ } ۱؎ (مسند بزار:3604:ضعیف) امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اللہ کی راہ میں کتنا ہی چاہو دو ، اس کا نام اسراف نہیں ہے ۔ ایاس بن معاویہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : جہاں کہیں تو حکم اللہ سے آگے بڑھ جائے ، وہی اسراف ہے ۔ اور بزرگوں کا قول ہے : اللہ کی نافرمانی کا خرچ اسراف کہلاتا ہے ۔ الفرقان
64 الفرقان
65 الفرقان
66 الفرقان
67 الفرقان
68 سب سے بڑا گناہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے سوال کیا کہ سب سے بڑا گناہ کون سا ہے ؟ آپ نے فرمایا : تیرا اللہ کے ساتھ شرک کرنا حالانکہ اسی اکیلے نے تجھے پیدا کیا ہے ۔ اس نے کہا : اس سے کم ؟ فرمایا : تیرا اپنی اولاد کو اس خوف سے مار ڈالنا کہ تو اسے کھلائے گا کہاں سے ؟ پوچھا : اس کے بعد ؟ فرمایا : تیرا اپنے پڑوس کی کسی عورت سے بدکاری کرنا ۔ } پس اس کی تصدیق میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں ۔ یہ حدیث بخاری و مسلم وغیرہ میں موجود ہے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4761) اور روایت میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر جانے لگے ، تنہا تھے ۔ میں بھی ساتھ ہو لیا ۔ آپ ایک اونچی جگہ بیٹھ گئے ۔ میں آپ سے نیچے بیٹھ گیا اور اس تنہائی کے موقعہ کو غنیمت سمجھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ سوالات کئے ، جو اوپر مذکور ہوئے ۔ } ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:26509) حجۃ الوداع میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { چار گناہوں سے بہت بچو ؛ اللہ کے ساتھ شرک ، کسی حرمت والے نفس کا قتل ، زناکاری اور چوری ۔ } ۱؎ (مسند احمد:339/4:حسن) مسند احمد میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم سے پوچھا : زنا کی بابت تم کیا کہتے ہو ؟ انہوں نے جواب دیا : وہ حرام ہے اور قیامت تک حرام ہے ۔ آپ نے فرمایا : ہاں سنو ! انسان کا اپنے پڑوس کی عورت سے زنا کرنا دوسری دس عورتوں کے زنا سے بھی بدتر ہے ۔ پھر آپ نے فرمایا : چوری کی نسبت کیا کہتے ہو ؟ انہوں نے یہی جواب دیا کہ وہ حرام ہے ، اللہ و رسول اسے حرام قرار دے چکے ہیں ۔ آپ نے فرمایا : سنو ! دس جگہ کی چوری بھی اتنی بری نہیں جیسی پڑوس کی ایک جگہ کی چوری ۔ } ۱؎ (مسند احمد:8/6:جید) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ { شرک کے بعد اس سے بڑا گناہ کوئی نہیں کہ انسان اپنا نطفہ اس رحم میں ڈالے جو اس کے لیے حلال نہیں ۔ } ۱؎ (الورع لابن ابی الدنیا:137:ضعیف) یہ بھی مروی ہے کہ { بعض مشرکین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا : آپ کی دعوت اچھی ہے ، سچی ہے لیکن ہم نے تو شرک بھی کیا ہے ، قتل بھی کیا ہے ، زناکاریاں بھی کی ہیں اور یہ سب بکثرت کیے ہیں تو فرمائیے ہمارے لیے کیا حکم ہے ؟ اس پر یہ آیت اتری اور آیت «قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذٰنُوْبَ جَمِیْعًا اِنَّہٗ ہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ» ۱؎ (39-الزمر:53) نازل ہوئی ۔ } ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:26504) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : { اللہ تمہیں اس سے منع فرماتا ہے کہ تم خالق کو چھوڑ کر مخلوق کی عبادت کرو اور اس سے بھی منع فرماتا ہے کہ اپنے کتے کو تو پالو اور اپنے بچے کو قتل کر ڈالو ۔ اور اس سے بھی منع فرماتا ہے کہ اپنی پڑوسن سے بدکاری کرو ۔ } ۱؎ (الدر المنشور للسیوطی:277/6) «اثام» جہنم کی ایک وادی کا نام ہے ۔ یہی وہ وادیاں ہیں جن میں زانیوں کو عذاب کیا جائے گا ۔ اس کے معنی عذاب و سزا کے بھی آتے ہیں ۔ لقمان حکیم رحمہ اللہ کی نصیحتوں میں ہے کہ اے بچے ! زناکاری سے بچنا ، اس کے شروع میں ڈر ، خوف ہے اور اس کا انجام ندامت و حسرت ہے ۔ یہ بھی مروی ہے کہ «غی» اور «اثام» دوزخ کے دو کنوئیں ہیں ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:29/19) اللہ ہمیں محفوظ رکھے ۔ «اثام» کے معنی بدلے کے بھی مروی ہیں اور یہی ظاہر آیت کے بھی مشابہ بھی ہے ۔ اور گویا اس کے بعد کی آیت اسی بدلے اور سزا کی تفسیر ہے کہ اسے بار بار عذاب کیا جائے گا اور سختی کی جائے گی اور ذلت کے دائمی عذابوں میں پھنس جائے گا ۔ «اَللّٰھُمَّ احْفَظْنَا» ان کاموں کے کرنے والے کی سزا تو بیان ہو چکی ہے مگر اس سزا سے وہ بچ جائیں گے جو دنیا ہی میں اس سے توبہ کر لیں ، اللہ ان کی توبہ قبول فرمائے گا ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قاتل کی توبہ بھی قبول ہے جو آیت سورۃ نساء میں ہیں «وَمَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مٰتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُہٗ جَہَنَّمُ خٰلِدًا فِیْھَا وَغَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَلَعَنَہٗ وَاَعَدَّ لَہٗ عَذَابًا عَظِیْمًا» ۱؎ (4-النساء:93) وہ اس کے خلاف نہیں گو وہ مدنی آیت ہے لیکن وہ مطلق ہے تو وہ محمول کی جائے گی ان قاتلوں پر جو اپنے اس فعل سے توبہ نہ کریں اور یہ آیت ان قاتلوں کے بارے میں ، جو توبہ کریں ۔ پھر مشرکوں کی بخشش نہ ہونے کا بیان فرمایا ہے اور صحیح احادیث سے بھی قاتل کی توبہ کی مقبولیت ثابت ہے ۔ جیسے اس شخص کا قصہ جس نے ایک سو قتل کیے تھے اور اس کی توبہ قبول ہوئی ۔ وغیرہ ۔ یہ لوگ ہیں جن کی برائیاں اللہ تعالیٰ بھلائیوں سے بدل دیتا ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اسلام قبول کرنے سے پہلے گناہ کے کام کئے تھے ۔ اسلام میں آنے کے بعد نیکیاں کیں تو اللہ نے ان گناہ کے کاموں کے بدلے نیکیوں کی توفیق عنایت فرمائی ۔ اس آیت کی تلاوت کے وقت آپ ایک عربی شعر پڑھتے تھے جس میں احوال کے تغیر کا بیان ہے جیسے گرمی سے ٹھنڈک ۔ عطا بن ابی رباح رحمہ اللہ فرماتے ہیں : یہ دنیا کا ذکر ہے کہ انسان کی بری خصلت کو اللہ تعالیٰ اپنی مہربانی سے نیک عادت سے بدل دیتا ہے ۔ سعید بن جبیر رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ بتوں کی پرستش کے بدلے اللہ تعالیٰ کی توفیق انہیں ملی ۔ مومنوں سے لڑنے کے بجائے کافروں سے جہاد کرنے لگے ۔ مشرکہ عورتوں سے نکاح کے بجائے مومنہ عورتوں سے نکاح کئے ۔ حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : گناہ کے بدلے ثواب کے عمل کرنے لگے ۔ شرک کے بدلے توحید و اخلاص ملا ۔ بدکاری کے بدلے پاکدامنی حاصل ہوئی ۔ کفر کے بدلے اسلام ملا ۔ ایک معنی تو اس آیت کے یہ ہوئے ۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ خلوص کے ساتھ ان کی جو توبہ تھی ، اس سے خوش ہو کر اللہ عزوجل نے ان کے گناہوں کو نیکوں میں بدل دیا ۔ یہ اس لیے کہ توبہ کے بعد جب کبھی انہیں اپنے گزشتہ گناہ یاد آتے تھے ، انہیں ندامت ہوتی تھی ۔ یہ غمگین ہو جاتے تھے ، شرمانے لگتے تھے اور استغفار کرتے تھے ۔ اس وجہ سے ان کے گناہ اطاعت سے بدل گئے گو وہ ان کے نامہ اعمال میں گناہ کے طور پر لکھے ہوئے تھے لیکن قیامت کے دن وہ سب نیکیاں بن جائیں گے ۔ جیسے کہ احادیث و آثار میں ثابت ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : { میں اس شخص کو پہچانتا ہوں جو جنت میں داخل ہونے والوں میں سب سے آخر میں جنت میں داخل ہو گا اور سب سے آخر میں جہنم سے نکلے گا ، یہ ایک وہ شخص ہو گا جسے اللہ کے سامنے لایا جائے گا ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : اس کے بڑے بڑے گناہوں کو چھوڑ کر چھوٹے چھوٹے گناہوں کی نسبت اس سے بازپرس کرو چنانچہ اس سے سوال ہو گا کہ فلاں فلاں دن تو نے فلاں کام کیا تھا ؟ فلاں دن فلاں گناہ کیا تھا ؟ یہ ایک کا بھی انکار نہ کر سکے گا ، اقرار کرے گا ۔ آخر میں کہا جائے گا : تجھے ہم نے ہر گناہ کے بدلے نیکی دی ہے تو اب اس کی باچھیں کھل جائیں گی اور کہے گا : اے میرے پروردگار ! میں نے اور بھی بہت سے اعمال کئے تھے جنہیں یہاں پا نہیں رہا ۔ یہ فرما کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر ہنسے کہ آپ کے مسوڑھے دیکھے جانے لگے ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:190ـ314) [ مسلم ] آپ فرماتے ہیں کہ { جب انسان سوتا ہے تو فرشتہ شیطان سے کہتا ہے : مجھے اپنا صحیفہ جس میں اس کے گناہ لکھے ہوئے ہیں دے ، وہ دیتا ہے تو ایک ایک نیکی کے بدلے دس دس گناہ وہ اس کے صحیفے سے مٹا دیتا ہے اور انہیں نیکیاں لکھ دیتا ہے پس تم میں سے جو بھی سونے کا ارادہ کرے ، وہ چونتیس دفعہ «اللہ اکبر» کہے اور تینتیس دفعہ «الحمدللہ» کہے اور تینتیس دفعہ «سبحان اللہ» کہے ، یہ مل کر سو مرتبہ ہو گئے ۔ } ۱؎ (طبرانی کبیر:3451:ضعیف) [ ابن ابی دنیا ] سلمان فرماتے ہیں : انسان کو قیامت کے دن نامہ اعمال دیا جائے گا ۔ وہ پڑھنا شروع کرے گا تو اوپر برائیاں درج ہوں گی جنہیں پڑھ کر یہ کچھ ناامید سا ہونے لگے گا ۔ اسی وقت اس کی نظر نیچے کی طرف پڑے گی تو اپنی نیکیاں لکھی ہوئی پائے گا جس سے کچھ ڈھارس بندھے گی ۔ اب دوبارہ اوپر کی طرف دیکھے گا تو وہاں کی برائیوں کو بھی بھلائیوں سے بدلا ہوا پائے گا ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : بہت سے لوگ اللہ تعالیٰ کے سامنے آئیں گے جن کے پاس کچھ گناہ ہوں گے ۔ پوچھا گیا کہ وہ کون سے لوگ ہوں گے ؟ تو آپ نے فرمایا کہ وہ جن کی برائیوں کو اللہ تعالیٰ بھلائیوں سے بدل دے گا ۔ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : جنتی جنت میں چار قسم کے جائیں گے ؛ متقین یعنی پرہیزگاری کرنے والے ، پھر شاکرین یعنی شکر الٰہی کرنے والے ، پھر خائفین یعنی خوف الٰہی رکھنے والے ، پھر اصحاب یمین یعنی دائیں ہاتھ میں نامہ اعمال پانے والے ۔ پوچھا گیا کہ انہیں اصحاب یمین کیوں کہا جاتا ہے ؟ جواب دیا : اس لیے کہ انہوں نے نیکیاں ، بدیاں سب کی تھیں ۔ ان کے اعمال نامے ان کے داہنے ہاتھ ملے ، اپنی بدیوں کا ایک ایک حرف پڑھ کر یہ کہنے لگے کہ اے اللہ ! ہماری نیکیاں کہاں ہیں ؟ یہاں تو سب بدیاں لکھی ہوئی ہیں ۔ اس وقت اللہ تعالیٰ ان بدیوں کو مٹا دے گا اور ان کے بدلے نیکیاں لکھ دے گا ۔ انہیں پڑھ کر خوش ہو کر اب تو یہ ایک دوسروں سے کہیں گے کہ آؤ ، ہمارے اعمال نامے دیکھو ۔ جنتیوں میں اکثر یہی لوگ ہونگے ۔ علی بن حسین زین العابدین رحمہ اللہ فرماتے ہیں : برائیوں کو بھلائیوں میں بدلنا آخرت میں ہو گا ۔ مکحول رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کو بخشے گا اور انہیں نیکیوں میں بدل دے گا ۔ مکحول رحمہ اللہ نے ایک مرتبہ حدیث بیان کی کہ { ایک بہت بوڑھے ضعیف آدمی جن کی بھویں آنکھوں پر اتر آئی تھیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کرنے لگے کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں ایک ایسا شخص ہوں جس نے کوئی غداری ، کوئی گناہ ، کوئی بدکاری باقی نہیں چھوڑی ۔ میرے گناہ اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ اگر تمام انسانوں پر تقسیم ہو جائیں تو سب کے سب غضب الٰہی میں گرفتار ہو جائیں ، کیا میری بخشش کی بھی کوئی صورت ہے ؟ کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ تم مسلمان ہو جاؤ ۔ اس نے کلمہ پڑھ لیا کہ «اَشْھَدُاَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَحدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ وَ اَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہُ وَ رَسُوْلُہُ» تو آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ تیری تمام برائیاں ، گناہ ، بدکاریاں سب کچھ معاف کر دے گا بلکہ جب تک تو اس پر قائم رہے گا ، اللہ تعالیٰ تیری برائیاں بھلائیوں میں بدل دے گا ۔ اس نے پھر پوچھا : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے چھوٹے بڑے سب گناہ صاف ہو جائیں گے ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ہاں سب کے سب ، پھر تو وہ شخص خوشی خوشی واپس جانے لگا اور تکبیر و تہلیل پکارتا ہوا لوٹ گیا ۔ } [ ابن ابی حاتم ] { سیدنا ابوفروہ رضی اللہ عنہ حاضر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہو کر عرض کرتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے سارے گناہ کئے ہوں ۔ جو جی میں آیا ہو ، پورا کیا ہو ۔ کیا ایسے شخص کی بھی توبہ قبول ہو سکتی ہے ؟ آپ نے فرمایا : تم مسلمان ہو گئے ہو ؟ اس نے کہا : جی ہاں ۔ آپ نے فرمایا : اب نیکیاں کرو ، برائیوں سے بچو تو اللہ تعالیٰ تمہارے گناہ بھی نیکوں میں بدل دے گا ۔ اس نے کہا : میری غداریاں اور بدکاریاں بھی ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ۔ اب وہ اللہ اکبر کہتا ہوا واپس چلا گیا ۔ } [ طبرانی ] ۱؎ (طبرانی کبیر:7235:صحیح) { ایک عورت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئی اور دریافت کیا فرمایا کہ مجھ سے بدکاری ہو گئی ، اس سے بچہ ہو گیا ، میں نے اسے مار ڈالا ۔ اب کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اب نہ تیری آنکھیں ٹھنڈی ہو سکتی ہیں ، نہ اللہ کے ہاں تیری بزرگی ہو سکتی ہے ، تیرے لیے توبہ ہرگز نہیں ۔ وہ روتی پیٹتی واپس چلی گئی ۔ صبح کی نماز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھ کر میں نے یہ واقعہ بیان کیا تو آپ نے فرمایا : تو نے اس سے بہت ہی بری بات کہی ، کیا تو ان آیتوں کو قرآن میں نہیں پڑھتا ؟ «وَالَّذِینَ لَا یَدْعُونَ مَعَ اللہِ إِلٰہًا آخَرَ وَلَا یَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِی حَرَّمَ اللہُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا یَزْنُونَ وَمَن یَفْعَلْ ذٰلِکَ یَلْقَ أَثَامًا یُضَاعَفْ لَہُ الْعَذَابُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَیَخْلُدْ فِیہِ مُہَانًا إِلَّا مَن تَابَ» مجھے بڑا ہی رنج ہوا اور میں لوٹ کر اس عورت کے پاس پہنچا ۔ اور اسے یہ آیتیں پڑھ کر سنائیں ۔ وہ خوش ہو گئی اور اسی وقت سجدے میں گر پڑی اور کہنے لگی : اللہ کا شکر ہے کہ اس نے میرے لیے چھٹکارے کی صورت پیدا کر دی ۔ } [ طبرانی ] ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:26515:ضعیف) اور روایت میں ہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا پہلا فتویٰ سن کر وہ حسرت و افسوس کے ساتھ یہ کہتی ہوئی واپس چلی گئی کہ ہائے ہائے ، یہ اچھی صورت کیا جہنم کے لے بنائی گئی تھی ؟ اس میں یہ بھی ہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو اس عورت کو ڈھونڈنے کے لیے نکلے ۔ تمام مدینہ اور ایک ایک گلی چھان ماری لیکن کہیں پتہ نہ چلا ۔ اتفاق سے رات کو وہی عوت پھر آئی ۔ تب سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے انہیں صحیح مسئلہ بتلایا ۔ اس میں یہ بھی ہے کہ اس نے اللہ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اس نے میرے لیے چھٹکارے کی صورت بنائی اور میری توبہ کو قبول فرمایا ۔ یہ کہہ کر اس کے ساتھ جو لونڈی تھی ، اسے آزاد کر دیا ۔ اس لونڈی کی ایک لڑکی بھی تھی اور سچے دل سے توبہ کر لی ۔ پھر فرماتا ہے اور اپنے عام لطف و کرم ، فضل و رحم کی خبر دیتا ہے کہ جو بھی اللہ کی طرف جھکے اور اپنی سیاہ کاریوں پر نادم ہو کر توبہ کرے ، اللہ اس کی سنتا ہے ، قبول فرماتا ہے اور اسے بخش دیتا ہے ۔ جیسا ارشاد ہے «وَمَنْ یَّعْمَلْ سُوْءًا اَوْ یَظْلِمْ نَفْسَہٗ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللّٰہَ یَجِدِ اللّٰہَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا» ۱؎ (4-النساء:110) ’ جو برا عمل کرے یا اپنی جان پر ظلم کرے پھر اللہ سے استغفار کرے ، وہ اللہ کو غفور رحیم پائے گا ۔ ‘ اور جگہ ارشاد ہے «أَلَم یَعلَموا أَنَّ اللہَ ہُوَ یَقبَلُ التَّوبَۃَ عَن عِبادِہِ» ۱؎ (9-التوبۃ:104) ’ کیا انہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ اللہ تعالیٰ توبہ کو قبول فرمانے والا ہے ۔ ‘ اور آیت میں ہے «قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِینَ أَسْرَفُوا عَلَیٰ أَنفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَۃِ اللہِ إِنَّ اللہَ یَغْفِرُ الذٰنُوبَ جَمِیعًا إِنَّہُ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ» ۱؎ (39-الزمر:53) ’ میرے ان بندوں سے جو گنہگار ہیں ، کہہ دیجئیے کہ وہ میری رحمت سے ناامید نہ ہوں ۔ ‘ یعنی توبہ کرنے والا محروم نہیں ۔ الفرقان
69 الفرقان
70 الفرقان
71 الفرقان
72 عباد الرحمن کے اوصاف عباد الرحمان کے اور نیک اوصاف بیان ہو رہے ہیں کہ وہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے یعنی شرک نہیں کرتے ، بت پرستی سے بچتے ہیں ، جھوٹ نہیں بولتے ، فسق و فجور نہیں کرتے ، کفر سے الگ رہتے ہیں ، لغو اور باطل کاموں سے پرہیز کرتے ہیں ، گانا نہیں سنتے ، مشرکوں کی عیدیں نہیں مناتے ، خیانت نہیں کرتے ، بری مجلسوں میں نشست نہیں رکھتے ، شرابیں نہیں پیتے ، شراب خانوں میں نہیں جاتے ، اس کی رغبت نہیں کرتے ۔ حدیث میں بھی ہے کہ { سچے مومن کو چاہئے کہ اس دستر خوان پر نہ بیٹھے جس پر دور شراب چل رہا ہو اور یہ مطلب ہے کہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے ۔ } ۱؎ (مسند احمد:20/1:حسن) بخاری و مسلم میں ہے : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { کیا میں تمہیں سب سے بڑا گناہ بتا دوں ؟ تین دفعہ یہی فرمایا ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا : ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے فرمایا : اللہ کے ساتھ شرک کرنا ، ماں باپ کی نافرمانی کرنا ۔ اس وقت تک آپ تکیہ لگائے بیٹھے ہوئے تھے ، اب اس سے الگ ہو کر فرمانے لگے : سنو اور جھوٹی بات کہنا ، سنو اور جھوٹی گواہی دینا ، اسے باربار فرماتے رہے یہاں تک کہ ہم اپنے دل میں کہنے لگے کہ کاش ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اب خاموش ہو جاتے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:2654) زیادہ ظاہر لفظوں سے تو یہ ہے کہ وہ جھوٹ کے پاس نہیں جاتے ۔ اللہ کے ان بزرگ بندوں کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ قرآن کی آیتیں سن کر ان کے دل دہل جاتے ہیں ، ان کے ایمان اور توکل بڑھ جاتے ہیں بخلاف کفار کے کہ ان پر کلام الٰہی کا اثر نہیں ہوتا ، وہ اپنی بداعمالیوں سے باز نہیں رہتے ۔ نہ اپنا کفر چھوڑتے ہیں نہ سرکشی ، طغیانی اور جہالت و ضلالت سے باز آتے ہیں ۔ ایمان والوں کے ایمان بڑھ جاتے ہیں اور بیمار دل والوں کی گندگی ابھر آتی ہے ۔ پس کافر اللہ کی آیتوں سے بہرے اور اندھے ہو جاتے ہیں ۔ ان مومنوں کی حالت ان کے برعکس ہے ، نہ یہ حق سے بہرے ہیں ، نہ حق سے اندھے ہیں ۔ سنتے ہیں ، سمجھتے ہیں ، نفع حاصل کرتے ہیں ، اپنی اصلاح کرتے ہیں ۔ ایسے بہت سے لوگ ہیں جو پڑھتے تو ہیں لیکن اندھا پن ، بہرا پن نہیں چھوڑتے ۔ شعبی رحمہ اللہ سے سوال ہوا کہ ایک شخص آتا ہے اور وہ دوسروں کو سجدے میں پاتا ہے لیکن اسے نہیں معلوم کہ کس آیت کو پڑھ کر سجدہ کیا ہے ؟ تو کیا وہ بھی ان کے ساتھ سجدہ کر لے ؟ تو آپ نے یہی آیت پڑھی یعنی سجدہ نہ کرے ۔ اس لیے کہ اس نے سجدے کی آیت پڑھی ، نہ سنی ، نہ سوچی تو مومن کا کوئی کام اندھا دھند نہ کرنا چاہیے جب تک اس کے سامنے کسی چیز کی حقیقت نہ ہو ، اسے شامل نہ ہونا چائیے ۔ پھر ان بزرگ بندوں کی ایک دعا بیان ہوتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے طلب کرتے ہیں کہ ان کی اولادیں بھی ان کی طرح رب کی فرمانبردار ، عبادت گزار ، موحد اور غیر مشرک ہوں تاکہ دنیا میں بھی اس نیک اولاد سے ان کا دل ٹھنڈا رہے اور آخرت میں بھی ۔ یہ انہیں اچھی حالت میں دیکھ کر خوش ہوں ۔ اس دعا سے ان کی غرض خوبصورتی اور جمال نہیں بلکہ نیکی اور خوش خلقی کی ہے ۔ مسلمان کی سچی خوشی اسی میں ہے کہ وہ اپنے اہل و عیال کو ، دوست احباب کو اللہ کا فرماں بردار دیکھے ۔ وہ ظالم نہ ہوں ، بدکار نہ ہوں ۔ سچے مسلمان ہوں ۔ { سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر ایک صاحب فرمانے لگے : ان کی آنکھوں کو مبارک باد ہو جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی ہے ۔ کاش کہ ہم بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے اور تمہاری طرح فیض صحبت حاصل کرتے ۔ اس پر سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ ناراض ہوئے تو نفیر کہتے ہیں : مجھے تعجب معلوم ہوا کہ اس بات میں کوئی برائی نہیں ، پھر یہ کیوں خفا ہو رہے ہیں ؟ اتنے میں سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ نے فرمایا : لوگوں کو کیا ہو گیا ہے ؟ کہ اس چیز کی آرزو کرتے ہیں کہ جو قدرت نے انہیں نہیں دی ۔ اللہ ہی کو علم ہے کہ یہ اگر اس وقت ہوتے تو ان کا کیا حال ہوتا ؟ واللہ وہ لوگ بھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھے جنہوں نے نہ آپ کی تصدیق کی ، نہ تابعداری کی اور اوندھے منہ جہنم میں گئے ۔ تم اللہ کا یہ احسان نہیں مانتے کہ اللہ نے تمہیں اسلام میں اور مسلمان گھروں میں پیدا کیا ؟ پیدا ہوتے ہی تمہارے کانوں میں اللہ کی توحید اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پڑی اور ان بلاؤں سے تم بچالئے گئے جو تم سے اگلے لوگوں پر آئی تھیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو ایسے زمانے میں مبعوث ہوئے تھے جس وقت دنیا کی اندھیر نگری اپنی انتہا پر تھی ۔ اس وقت دنیا والوں کے نزدیک بت پرستی سے بہتر کوئی مذہب نہ تھا ۔ آپ فرقان لے کر آئے ، حق و باطل میں تمیز کی ۔ باپ بیٹے جدا ہو گئے ۔ مسلمان اپنے باپ دادوں ، بیٹوں ، پوتوں ، دوست احباب کو کفر پر دیکھتے ، ان سے انہیں کوئی محبت پیار نہیں ہوتا تھا بلکہ کڑہتے تھے کہ یہ جہنمی ہیں اسی لیے ان کی دعائیں ہوتی تھیں کہ ہمیں ہماری اولاد اور بیویوں سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما کیونکہ کفار کو دیکھ کر ان کی آنکھیں ٹھنڈی نہیں ہوتی تھیں ۔ } ۱؎ (مسند احمد:3/6:صحیح) اس دعا کا آخر یہ ہے کہ ہمیں لوگوں کا رہبر بنا دے کہ ہم انہیں نیکی کی تعلیم دیں ، لوگ بھلائی میں ہماری اقتداء کریں ۔ ہماری اولاد ہماری راہ چلے تاکہ ثواب بڑھ جائے اور ان کی نیکیوں کا باعث بھی ہم بن جائیں ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ { انسان کے مرتے ہی اس کے اعمال ختم ہو جاتے ہیں مگر تین چیزیں ؛ نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے یا علم جس سے اس کے بعد نفع اٹھایا جائے یا صدقہ جاریہ ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:3084) الفرقان
73 الفرقان
74 الفرقان
75 مومنوں کے اعمال اور اللہ کے انعامات مومنوں کی پاک صفتیں ، ان کے بھلے اقوال ، عمدہ افعال بیان فرما کر ان کا بدلہ بیان ہو رہا ہے کہ انہیں جنت ملے گی جو بلند تر جگہ ہے ۔ اس وجہ سے کہ یہ ان کے اوصاف پر جمے رہے ۔ وہاں ان کی عزت ہو گی ، اکرام ہو گا ، ادب و تعظیم ہو گی ، احترام اور توقیر ہو گی ۔ ان کے لیے سلامتی ہے ، ان پر سلامتی ہے ، ہر دروازہ جنت سے فرشتے حاضر خدمت ہوتے ہیں اور سلام کر کے کہتے ہیں کہ تمہارا انجام بہتر ہو گیا کیونکہ تم صبر کرنے والے تھے ۔ یہ وہاں ہمیشہ رہیں گے ، نہ نکلیں ، نہ نکالے جائیں ، نہ نعمتیں کم ہوں ، نہ راحتیں فنا ہوں ۔ یہ سعید بخت ہیں ۔ جنتوں میں ہمیشہ رہیں گے ۔ ان کے رہنے سہنے ، راحت و آرام کرنے کی جگہ بڑی سہانی و پاک ، صاف ، طیب و طاہر ہے ۔ دیکھنے میں خوش منظر ، رہنے میں آرام دہ ۔ اللہ نے اپنی مخلوق کو اپنی عبادت اور تسبیح و تہلیل کے لیے پیدا کیا ہے ۔ اگر مخلوق یہ نہ بجا لائے تو وہ اللہ کے نزدیک نہایت حقیر ہے ۔ ایمان کے بغیر انسان ناکارہ محض ہے ۔ اگر اللہ کو کافروں کی چاہت ہوتی تو وہ انہیں بھی اپنی عبادت کی طرف جھکا دیتا لیکن اللہ کے نزدیک یہ کسی گنتی میں ہی نہیں ۔ کافرو ! تم نے جھٹلایا ۔ اب تم نہ سمجھو کہ بس معاملہ ختم ہو گیا ۔ نہیں اس کا وبال تمہارے ساتھ ہی ساتھ ہے ، دنیا اور آخرت میں تم برباد ہو گے اور عذاب اللہ تم سے چمٹے ہوئے ہیں ۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی بدر کے دن کی کفار کی ہزیمت اور شکست تھی جیسے کہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ وغیرہ سے مروی ہے : قیامت کے دن کی سزا ابھی باقی ہے ۔ الحمدللہ کہ سورۃ الفرقان کی تفسیر ختم ہوئی ۔ الفرقان
76 الفرقان
77 الفرقان
0 الشعراء
1 تعارف قرآن کریم پھر فرمان ہے کہ ’ یہ آیتیں قرآن مبین کی ہیں جو بہت واضح بالکل صاف اور حق وباطل بھلائی برائی کے درمیان فیصلہ اور فرق کرنے والا ہے ۔ ان لوگوں کے ایمان نہ لانے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم رنجیدہ خاطر اور غمگین نہ ہوں ‘ ۔ جیسے اور جگہ ارشاد ہے آیت «فَلَا تَذْہَبْ نَفْسُکَ عَلَیْہِمْ حَسَرٰتٍ اِنَّ اللّٰہَ عَلِـیْمٌ بِمَا یَصْنَعُوْنَ» ۱؎ (35-فاطر:8) ’ تو ان کے ایمان نہ لانے پر حسرت وافسوس نہ کر ‘ ۔ اور آیت میں ہے آیت «فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ عَلٰٓی اٰثَارِہِمْ اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِہٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًا» ۱؎ (18-الکہف:6) ، ’ کہیں ایسا نہ ہو کہ تو ان کے پیچھے اپنی جان گنوادے ‘ ۔ چونکہ ہماری یہ چاہت ہی نہیں کہ لوگوں کو ایمان پر زبردستی کریں اگر یہ چاہتے تو کوئی ایسی چیز آسمان سے اتارتے کہ یہ ایمان لانے پر مجبور ہو جاتے مگر ہم کو تو ان کا اختیاری ایمان طلب کرتے ہیں ۔ اور آیت میں ہے «وَلَوْ شَاءَ رَبٰکَ لَاٰمَنَ مَنْ فِی الْاَرْضِ کُلٰھُمْ جَمِیْعًا اَفَاَنْتَ تُکْرِہُ النَّاسَ حَتّٰی یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ» ۱؎ (10-یونس:99) ، ’ اگر تیرا رب چاہے تو روئے زمین کے تمام لوگ مومن ہو جائیں کیا تو لوگوں پر جبر کرے گا ؟ جب تک کہ وہ مومن نہ ہو جائیں ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَلَوْ شَاءَ رَ‌بٰکَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّۃً وَاحِدَۃً وَلَا یَزَالُونَ مُخْتَلِفِینَ» ’ اگر تیرا رب چاہتا تو تمام لوگوں کو ایک ہی امت بنا دیتا ‘ ۔ ۱؎ (11-ہود:118) یہ اختلاف دین ومذہب بھی اس کا مقرر کیا ہوا ہے اور اس کی حکمت کو ظاہر کرنے والا ہے اس نے رسول بھیج دئیے کتابیں اتاردیں اپنی دلیل وحجت قائم کر دی انسان کو ایمان لانے نہ لانے میں مختار کر دیا ۔ اب جس راہ پر وہ چاہے لگ جائے جب کبھی کوئی آسمانی کتاب نازل ہوئی بہت سے لوگوں نے اس سے منہ موڑ لیا ۔ «وَمَا أَکْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِینَ» ’ تیری پوری آرزو کے باوجود اکثر لوگ بے ایمان ہی رہیں گے ‘ ۔ ۱؎ (12-یوسف:103) سورۃ یاسین میں فرمایا «یَا حَسْرَۃً عَلَی الْعِبَادِ مَا یَأْتِیہِم مِّن رَّسُولٍ إِلَّا کَانُوا بِہِ یَسْتَہْزِئُونَ» ’ بندوں پر افسوس ہے ان کے پاس جو بھی رسول آیا انہوں نے اس کا مذاق اڑایا ‘ ۔ ۱؎ (36-یس:30) اور آیت میں ہے «ثُمَّ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا تَتْرَیٰ کُلَّ مَا جَاءَ أُمَّۃً رَّسُولُہَا کَذَّبُوہُ فَأَتْبَعْنَا بَعْضَہُم بَعْضًا وَجَعَلْنَاہُمْ أَحَادِیثَ فَبُعْدًا لِّقَوْمٍ لَّا یُؤْمِنُونَ» ’ ہم نے پے در پے پیغمبر بھیجے لیکن جس امت کے پاس ان کا رسول آیا اس نے اپنے رسول کو جھٹلانے میں کمی نہ کی ‘ ۔ ۱؎ (23-المؤمنون:44) یہاں بھی اس کے بعد ہی فرمایا کہ ’ نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم نے بھی اسے جھٹلایا ہے انہیں بھی اس کا بدلہ عنقریب مل جائے گا ان ظالموں کو بہت جلد معلوم ہو جائے گا کہ یہ کس راہ ڈالے گئے ہیں ؟ ‘ پھر اپنی شان وشوکت قدرت و عظمت عزت ورفعت بیان فرماتا ہے کہ ’ جس کے پیغام اور جس کے قاصد کو تم جھوٹا کہہ رہے ہو وہ اتنا بڑا قادر قیوم ہے کہ اسی ایک نے ساری زمین بنائی ہے اور اس میں جاندار اور بے جان چیزیں پیدا کی ہیں ۔ کھیت پھل باغ وبہار سب اسی کے پیدا کردہ ہیں ‘ ۔ شعبی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں لوگ زمین کی پیداوار ہیں ان میں جو جنتی ہیں وہ کریم ہیں اور جو دوزخی ہیں وہ کنجوس ہیں ۔ اس میں قدرت خالق کی بہت سی نشانیاں ہیں یہ اس نے پھیلی ہوئی زمین کو اور اونچے آسمان کو پیدا کر دیا ۔ باوجود اس کے بھی اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے بلکہ الٹا اس کے نبیوں کو جھوٹا کہتے ہیں اس کی کتابوں کو نہیں مانتے اس کے حکموں کی مخالفت کرتے ہیں اور اس کے منع کردہ کاموں میں دلچسپی لیتے ہیں ۔ بیشک تیرا رب ہرچیز پر غالب ہے اس کے سامنے مخلوق عاجز ہے ۔ ساتھ ہی وہ اپنے بندوں پر مہربان ہے نافرمانوں کے عذاب میں جلدی نہیں کرتا تاخیر اور ڈھیل دیتا ہے تاکہ وہ اپنے کرتوتوں سے باز آ جائیں لیکن پھر بھی جب وہ راہ راست پر نہیں آتے تو انہیں سختی سے پکڑلیتا ہے اور ان سے پورا انتقام لیتا ہے ہاں جو توبہ کرے اور اس کی طرف جھکے اور اس کا فرمانبردار ہو جائے وہ اس پر اس کے ماں باپ سے بھی زیادہ رحم و کرم کرتا ہے ۔ الشعراء
2 الشعراء
3 الشعراء
4 الشعراء
5 الشعراء
6 الشعراء
7 الشعراء
8 الشعراء
9 الشعراء
10 موسیٰ علیہ السلام اور اللہ جل شانہ کے مکالمات اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے اور اپنے رسول اور اپنے کلیم موسیٰ علیہ الصلٰوۃ والتسلیم کو جو حکم دیا تھا اسے بیان فرما رہے ہیں کہ ’ طور کے دائیں طرف سے آپ علیہ السلام کو آواز دی آپ علیہ السلام سے سرگوشیاں کیں آپ علیہ السلام کو اپنا رسول اور برگزیدہ بنایا اور آپ علیہ السلام کو فرعون اور اس کی قوم کی طرف بھیجا جو ظلم پر کمربستہ تھے ۔ اور اللہ کا ڈر اور پرہیزگاری نام کو بھی ان میں نہیں رہی تھی ‘ ۔ موسیٰ علیہ السلام نے اپنی چند کمزوریاں جناب باری تعالیٰ کے سامنے بیان کی جو عنایت الٰہی سے دور کر دی گئیں جیسے سورۃ طہٰ میں آپ علیہ السلام کے سوالات پور کر دئیے گئے ۔ یہاں آپ علیہ السلام کے عذر یہ بیان ہوئے کہ ’ مجھے ڈر ہے کہ وہ مجھے جھٹلا دیں گے ۔ میرا سینہ تنگ ہے ، میری زبان لکنت والی ہے ، ہارون کو بھی میرے ساتھ نبی بنا دیا جائے ۔ اور میں نے ان ہی میں سے ایک قبطی کو بلا قصور مار ڈالا تھا جس وجہ سے میں نے مصر چھوڑا اب جاتے ہوئے ڈر لگتا ہے کہ کہیں وہ مجھ سے بدلہ نہ لے لیں ‘ ۔ جناب باری تعالیٰ نے جواب دیا کہ ’ کسی بات کا کھٹکا نہ رکھو ۔ ہم تیرے بھائی کو تیرا ساتھی بنا دیتے ہیں ۔ اور تمہیں روشن دلیل دیتے ہیں وہ لوگ تمہیں کوئی ایذاء نہ پہنچا سکیں گے میرا وعدہ ہے کہ تم کو غالب کرونگا ۔ تم میری آیتیں لے کر جاؤ تو سہی ، میری مدد تمہارے ساتھ رہے گی ۔ میں تمہاری ان کی سب باتیں سنتا رہونگا ‘ ۔ جیسے فرمان ہے ’ میں تم دونوں کے ساتھ ہوں سنتا ہوں دیکھتا رہونگا ۔ میری حفاظت میری مدد میری نصرت وتائید تمہارے ساتھ ہے ۔ تم فرعون کے پاس جاؤ اور اس پر اپنی رسالت کا اظہار کرو ‘ ۔ جیسے دوسری آیت میں ہے کہ ’ اس سے کہو کہ ہم دونوں میں سے ہر ایک اللہ کا فرستادہ ہے ‘ ۔ فرعون سے کہا کہ ’ تو ہمارے ساتھ بنو اسرائیل کو بھیج دے وہ اللہ کے مومن بندے ہیں تو نے انہیں اپنا غلام بنارکھا ہے اور ان کی حالت زبوں کر رکھی ہے ۔ ذلت کے ساتھ ان سے اپنا کام لیتا ہے اور انہیں عذابوں میں جکڑ رکھاہے اب انہیں آزاد کر دے ‘ ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس پیغام کو فرعون نے نہایت حقارت سے سنا ۔ اور آپ علیہ السلام کو ڈانٹ کر کہنے لگا کہ کیا تو وہی نہیں کہ ہم نے تجھے اپنے ہاں پالا ؟ مدتوں تک تیری خبرگیری کرتے رہے اس احسان کا بدلہ تو نے یہ دیا کہ ہم میں سے ایک شخص کو مار ڈالا اور ہماری ناشکری کی ۔ جس کے جواب میں کلیم اللہ علیہ السلام نے فرمایا ” یہ سب باتیں نبوت سے پہلے کی ہیں جب کہ میں خود بے خبر تھا “ ۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہا کی قرائت میں بجائے «مِنَ الضَّالِّینَ» کے «مِنَ الْجَاہِلِیْنَ» ہے ۔ موسیٰ علیہ السلام نے ساتھ ہی فرمایا کہ ” پھر وہ پہلا حال جاتا رہا دوسرا دور آیا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنا رسول بنا کر تیری طرف بھیجا اب اگر تو میرا کہا مانے گا تو سلامتی پائے گا اور میری نافرمانی کرے گا تو ہلاک ہو گا ۔ اس خطا کے بعد جب کہ میں تم میں سے بھاگ گیا اس کے بعد اللہ کا یہ فضل مجھ پر ہوا اب پرانے قصہ یاد نہ کر ۔ میری آواز پر لبیک کہہ ۔ سن اگر ایک مجھ پر تو نے احسان کیا ہے تو میری قوم کی قوم پر تو نے ظلم وتعدی کی ہے ۔ ان کو بری طرح غلام بنارکھا ہے کیا میرے ساتھ کا سلوک اور ان کے ساتھ کی یہ سنگدلی اور بدسلوکی برابر برابر ہوجائیگی ؟“ چونکہ فرعون نے اپنی رعیت کو بہکا رکھا تھا اور انہیں یقین دلایا تھا کہ معبود اور رب صرف میں ہی ہوں میرے سوا کوئی نہیں اس لیے ان سب کا عقیدہ یہ تھا ۔ جب موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ ” میں رب العالمین کا رسول علیہ السلام ہوں “ ، تو اس نے کہا کہ رب العالمین ہے کیا چیز ؟ مقصد یہی تھا کہ میرے سوا کوئی رب ہے ہی نہیں تو جو کہہ رہا ہے محض غلط ہے ۔ چنانچہ اور آیت میں ہے کہ اس نے پوچھا آیت «قَالَ فَمَن رَّبٰکُمَا یَا مُوسَیٰ قَالَ رَبٰنَا الَّذِی أَعْطَیٰ کُلَّ شَیْءٍ خَلْقَہُ ثُمَّ ہَدَیٰ» (20-سورۃطہ:49،50) ’ موسیٰ تم دونوں کا رب کون ہے ؟ اس کے جواب میں کلیم اللہ نے فرمایا جس نے ہر ایک کی پیدائش کی ہے اور جو سب کا ہادی ہے ‘ ۔ یہاں پر یہ یاد رہے کہ بعض منطقیوں نے یہاں ٹھوکر کھائی ہے اور کہا ہے کہ فرعون کا سوال اللہ کی ماہیت سے تھا یہ محض غلط ہے اس لیے کہ ماہیت کو تو جب پوچھتا جب کہ پہلے وجود کا قائل ہوتا ۔ وہ تو سرے سے اللہ کے وجود کا منکر تھا ۔ اپنے اسی عقیدے کو ظاہر کرتا تھا اور ہر ایک ایک کو یہ عقیدہ گھونٹ گھونٹ کر پلا رہا تھا گو اس کے خلاف دلائل وبراہین اس کے سامنے کھل گئے تھے ۔ پس اس کے اس سوال پر کہ رب العالمین کون ہے ؟ کلیم اللہ علیہ السلام نے جواب دیا کہ ” وہ جو سب کا خالق ہے ، سب کا مالک ہے ، سب پر قادر ہے یکتا ہے اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ۔ عالم علوی آسمان اور اس کی مخلوق عالم سفلی زمین اور اس کی کائنات اب اسی کی پیدا کی ہوئی ہے ۔ ان کے درمیان کی چیزیں ہوا پرندہ وغیرہ سب اس کے سامنے ہیں اور اس کے عبادت گزار ہیں ۔ اگر تمہارے دل یقین کی دولت سے محروم نہیں اگر تمہاری نگاہیں روشن ہیں تو رب العالمین کے یہ اوصاف اس کی ذات کے ماننے کے لیے کافی ہیں “ ۔ یہ سن کر فرعون سے چونکہ کوئی جواب نہ بن سکا اس لیے بات کو مذاق میں ڈالنے کے لیے لوگوں کو اپنے سکھائے بتائے ہوئے عقیدے پر جمانے کے لیے ان کی طرف دیکھ کر کہنے لگا لو اور سنو یہ میرے سوا کسی اور کو ہی اللہ مانتا ہے ؟ تعجب کی بات ہے ۔ موسیٰ علیہ السلام اس کی اس بے التفاتی سے گھبرائے نہیں اور وجود اللہ کے دلائل بیان کرنے شروع کر دیئے کہ وہ تم سب کا اور تمہارے اگلوں کا مالک اور پروردگار ہے ۔ آج اگر تم فرعون کو اللہ مانتے ہو تو ذرا اسے تو سوچو کہ فرعون سے پہلے جہان والوں کا اللہ کون تھا ؟ اس کے وجود سے پہلے آسمان و زمین کا وجود تھا تو ان کا موجد کون تھا ؟ بس وہی میرا رب ہے وہی تمام جہانوں کا رب ہے اسی کا بھیجا ہوا ہوں میں ۔ فرعون دلائل کی تاب نہ لاسکا کوئی جواب بن نہ پڑا تو کہنے لگا اسے چھوڑو یہ تو کوئی پاگل آدمی ہے ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو میرے سوا کسی اور کو رب کیوں مانتا ۔ کلیم اللہ علیہ السلام نے پھر بھی اپنی دلیلوں کو جاری رکھا ۔ اس کے لغو کلام سے بے تعلق ہو کر فرمانے لگے کہ ” سنو میرا اللہ مشرق و مغرب کا مالک ہے اور وہی میرا رب ہے ۔ وہ سورج چاند ستارے مشرق سے چڑھاتا ہے ۔ مغرب کی طرف اتارتا ہے اگر فرعون اپنی الوہیت کے دعوے میں سچا ہے تو ذرا ایک دن اس کا خلاف کر کے دکھا دے یعنی انہیں مغرب سے نکالے اور مشرق کو لے جائے “ ۔ یہی بات خلیل علیہ السلام نے اپنے زمانے کے بادشاہ سے بوقت مناظرہ کہی تھی پہلے تو اللہ کا وصف بیان کیا کہ ” وہ جلاتا مارتا ہے “ لیکن اس بیوقوف نے جب کہ اس وصف کا اللہ کے ساتھ مختص ہونے سے انکار کر دیا اور کہنے لگا یہ تو میں بھی کر سکتا ہوں آپ علیہ السلام نے باوجود اسی دلیل میں بہت سی گنجائش ہونے کے اس سے بھی واضح دلیل اس کے سامنے رکھی کہ ” اچھا میرا رب مشرق سے سورج نکالتا ہے تو اسے مغرب سے نکال “ ۔ اب تو اس کے حواس گم ہو گئے ۔ اسی طرح موسیٰ ٰعلیہ السلام کی زبانی تابڑ توڑ ایسی واضح اور روشن دلیلیں سن کر فرعون کے اوسان خطا ہو گئے وہ سمجھ گیا کہ اگر ایک میں نے نہ مانا تو کیا ؟ یہ واضح دلیلیں ان سب لوگوں پر اثر کر جائیں گی اس لیے اب اپنی قوت کو کام میں لانے کا ارادہ کیا اور موسیٰ علیہ السلام کو ڈرانے دھمکانے لگا جیسے آگے آرہا ہے ۔ الشعراء
11 الشعراء
12 الشعراء
13 الشعراء
14 الشعراء
15 الشعراء
16 الشعراء
17 الشعراء
18 الشعراء
19 الشعراء
20 الشعراء
21 الشعراء
22 الشعراء
23 الشعراء
24 الشعراء
25 الشعراء
26 الشعراء
27 الشعراء
28 الشعراء
29 فرعون اور موسیٰ علیہ السلام کا مباحثہ جب مباحثے میں فرعون ہارا دلیل و بیان میں غالب نہ آسکا تو قوت و طاقت کا مظاہرہ کرنے لگا اور سطوت و شوکت سے حق کو دبانے کا ارادہ کیا اور کہنے لگا کہ موسیٰ [علیہ السلام] میرے سوا کسی اور کو معبود بنائے گا تو جیل میں سڑا سڑا کر تیری جان لے لونگا ۔ موسیٰ علیہ السلام بھی چونکہ وعظ ونصیحت کر ہی چکے تھے آپ علیہ السلام نے بھی ارادہ کیا کہ میں بھی اسے اور اس کی قوم کو دوسری طرح قائل کروں تو فرمانے لگے ” کیوں جی میں اگر اپنی سچائی پر کسی ایسے معجزے کا اظہار کروں کہ تمہیں بھی قائل ہونا پڑے تب ؟ “ فرعون سو اس کے کیا کر سکتا تھا کہ کہا اچھا اگر سچا ہے تو پیش کر ۔ آپ علیہ السلام نے سنتے ہی اپنی لکڑی جو آپ علیہ السلام کے ہاتھ میں تھی ہی اسے زمین پر ڈال دیا ۔ بس اس کا زمین پر گرنا تھا کہ وہ ایک اژدہے کی شکل بن گئی ۔ اور اژدہا بھی بہت بڑا تیز کچلیوں والا ہیبت ناک ڈراؤنی اور خوفناک شکل والا منہ پھاڑے ہوئے پھنکارتا ہوا ۔ ساتھ ہی اپنے گریبان میں اپنا ہاتھ ڈال کر نکالا تو وہ چاند کی طرح چمکتاہوا نکلا ۔ فرعون کی قسمت چونکہ ایمان سے خالی تھی ایسے واضح معجزے دیکھ کر بھی اپنی بدبختی پر اڑا رہا اور تو کچھ بن نہ پڑا اپنے ساتھیوں اور درباریوں سے کہنے لگا کہ یہ تو جادو کے کرشمے ہیں ۔ بے شک اتنا تو میں بھی مان گیا کہ یہ اپنے فن جادوگری میں استاد کامل ہے ۔ پھر انہیں موسیٰ علیہ السلام کی دشمنی پر آمادہ کرنے کے لیے ایک اور بات بنائی کہ یہ ایسے ہی شعبدے دکھا دکھا کر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر لے گا ۔ اور جب کچھ لوگ اس کے ساتھی ہو جائیں گے تو یہ علم بغاوت بلند کر دے گا پھر تمہیں مغلوب کر کے اس ملک میں قبضہ کر لے گا تو اس کے استحصال کی کوشش ابھی سے کرنی چاہیئے ۔ بتلاؤ تمہاری رائے کیا ہے ؟ اللہ کی قدرت دیکھو کہ فرعونیوں سے اللہ نے وہ بات کہلوائی جس سے موسیٰ علیہ السلام کو عام تبلیغ کا موقعہ ملے اور لوگوں پر حق واضح ہو جائے ۔ یعنی جادوگروں کو مقابلہ کے لیے بلوانا ۔ الشعراء
30 الشعراء
31 الشعراء
32 الشعراء
33 الشعراء
34 الشعراء
35 الشعراء
36 الشعراء
37 الشعراء
38 مناظرہ کے بعد مقابلہ مناظرہ زبانی ہو چکا ۔ اب مناظرہ عملاً ہو رہا ہے اس مناظرہ کا ذکر سورۃ الاعراف ، سورۃ طہٰ اور اس سورت میں ہے ۔ قبطیوں کا ارادہ اللہ کے نور کے بجھانے کا تھا اور اللہ کا ارادہ اس کی نورانیت کے پھیلانے کا تھا ۔ پس اللہ کا ارادہ غالب رہا ۔ ایمان و کفر کا مقابلہ جب کبھی ہوا ایمان کفر پر غالب رہا ۔ اللہ تعالیٰ حق کو غالب کرتا ہے باطل کا سر پھٹ جاتا ہے اور لوگوں کے باطل ارادے ہوا میں اڑ جاتے ہیں ۔ حق آ جاتا ہے باطل بھاگ کھڑا ہوتا ہے ۔ یہاں بھی یہ ہوا ہر ایک شہر میں سپاہی بھیجے گئے ۔ چاروں طرف سے بڑے بڑے نامی گرامی جادوگر جمع کئے گئے جو اپنے فن میں کامل اور استاد زمانہ تھے کہا گیا ہے کہ ان کی تعداد بارہ یا پندرہ یا سترہ یا انیس یا کچھ اوپر تیس یا اسی ہزار کی یا اس سے کم و بیش تھی ۔ صحیح تعداد اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے ان تمام کے استاد اور سردار چار شخص تھے ۔ سابور عاذور حطحط اور مصفی ۔ چونکہ سارے ملک میں شور مچ چکا تھا چاروں طرف سے لوگوں کے غول کے غول وقت مقررہ سے پہلے مصر میں جمع ہو گئے ۔ چونکہ یہ کلیہ قاعدہ ہے کہ رعیت اپنے بادشاہ کے مذہب پر ہوتی ہے ۔ سب کی زبان سے یہی نکلتا تھا کہ جادوگروں کے غلبہ کے بعد ہم تو ان کی راہ لگ جائیں گے ۔ یہ کسی زبان سے نہ نکلا کہ جس طرف حق ہو گا ہم اسی طرف ہو جائیں گے اب موقعہ پر فرعون مع اپنے جاہ چشم کے نکال تمام امراء و رؤسا ساتھ تھے لشکر فوج پلٹن ہمراہ تھی جادوگروں کو اپنے دربار میں اپنے سامنے بلوایا ۔ جادوگروں نے بادشاہ سے عہد لینا چاہا اس لیے کہا کہ جب ہم غالب آ جائیں تو بادشاہ ہمیں انعامات سے محروم نہیں رکھیں گے ؟ فرعون نے جواب دیا واہ یہ کیسے ہوسکتا ہے نہ صرف انعام بلکہ میں تو تمہیں اپنے خاص رؤسا میں شامل کرونگا اور تم ہمیشہ میرے پاس اور میرے ساتھ ہی رہا کرو گے ۔ تم میرے مقرب بن جاؤ گے میری تمام تر توجہ تمہاری ہی طرف ہو گی ۔ وہ خوشی خوشی میدان کی طرف چل دیئے ۔ وہاں جا کر موسیٰ علیہ السلام سے کہنے لگے ۔ بولو تم پہلے اپنی استادی دکھاتے ہو ؟ یا ہم دکھائیں ؟ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا نہیں تم ہی پہلے اپنی بھڑاس نکال لو تاکہ تمہارے دل میں کوئی ارمان نہ رہ جائے یہ جواب پاتے ہی انہوں نے اپنی چھڑیاں اور رسیاں میدان میں ڈال دیں اور کہنے لگے فرعون کی عزت سے ہمارا غلبہ رہے گا ۔ جیسے جاہل عوام جب کسی کام کو کرتے ہیں تو کہتے ہیں یہ فلاں کے ثواب سے ۔ سورۃ الاعراف میں ہے « قَالَ أَلْقُوا فَلَمَّا أَلْقَوْا سَحَرُ‌وا أَعْیُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْ‌ہَبُوہُمْ وَجَاءُوا بِسِحْرٍ‌ عَظِیمٍ» ۱؎ (7-الأعراف:116) ’ جادوگروں نے لوگوں کی آنکھوں پر جادو کر دیا ۔ انہیں ہیبت میں ڈال دیا اور بڑا بھاری جادو ظاہر کیا ‘ ۔ سورۃ طہٰ میں ہے کہ ’ ان کی لاٹھیاں اور رسیاں ان کے جادو سے ہلتی جلتی معلوم ہونے لگیں ‘ ۔ اب موسیٰ علیہ السلام نے اپنے ہاتھ میں جو لکڑی تھی اسے میدان میں ڈال دیا جس نے سارے میدان میں ان کی جو کچھ نظربندیوں کی چیزیں تھیں ، سب کو ہضم کر لیا ۔ پس حق ظاہر ہو گیا اور باطل دب گیا اور ان کا کیا کرایا سب غارت ہو گیا ۔ یہ کوئی ہلکی سی بات اور تھوڑی سی دلیل نہ تھی جادوگر تو اسے دیکھتے ہی مسلمان ہوگئے کہ ایک شخص اپنے استاد فن کے مقابلے میں آتا ہے اس کا حال جادوگروں کا سا نہیں ۔ وہ کوئی بات نہیں کرتا یقیناً ہمارا جادو صرف نگاہوں کا فریب ہے اور اس کے پاس اللہ کا دیا ہوا معجزہ ہے وہ تو اسی وقت وہیں کے وہیں اللہ کے سامنے سجدے میں گرگئے ۔ اور اسی مجمع میں سب کے سامنے اپنے ایمان لانے کا اعلان کیا کہ ہم رب العالمین پر ایمان لا چکے ۔ پھر اپنا قول اور واضح کرنے کے لیے یہ بھی ساتھ ہی کہہ دیا کہ رب العالمین سے ہماری مراد وہ رب ہے جسے موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام اپنا رب کہتے ہیں ۔ اتنا بڑا معجزہ اس قدر انقلاب فرعون نے اپنی آنکھوں سے دیکھا لیکن ملعون کی قسمت میں ایمان نہ تھا ۔ پھر بھی آنکھیں نہ کھلی ۔ اور دشمن جاں ہو گیا ۔ اور اپنی طاقت سے حق کو کچلنے لگا ۔ اور کہنے لگا کہ ہاں میں جان گیا موسیٰ تم سب کے استاد تھے اسے تم نے پہلے سے بھیج دیا پھر تم بظاہر مقابلہ کرنے کے لیے آئے اور باطنی مشورے کے مطابق میدان ہار گئے اور اس کی بات مان گئے پس تمہارا یہ مکر کھل گیا ۔ الشعراء
39 الشعراء
40 الشعراء
41 الشعراء
42 الشعراء
43 الشعراء
44 الشعراء
45 الشعراء
46 الشعراء
47 الشعراء
48 الشعراء
49 جرات وہمت والے کامل ایمان لوگ سبحان اللہ کیسے کامل الایمان لوگ تھے حالانکہ ابھی ہی ایمان میں آئے تھے لیکن ان کی صبر و ثبات کا کیا کہنا ؟ فرعون جیسا ظالم و جابر حاکم پاس کھڑا ڈرا دھمکا رہا ہے اور وہ نڈر بے خوف ہو کر اس کی منشأ کے خلاف جواب دے رہے ہیں ۔ حجاب کفر دل سے دور ہو گئے ہیں اس وجہ سے سینہ ٹھونک کر مقابلہ پر آ گئے ہیں اور مادی طاقتوں سے بالکل مرعوب نہیں ہوتے ۔ ان کے دلوں میں یہ بات جم گئی ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کے پاس اللہ کا دیا ہوا معجزہ ہے کسب کیا ہوا جادو نہیں ۔ اسی وقت حق کو قبول کیا ۔ فرعون آگ بگولہ ہو گیا اور کہنے لگا کہ تم نے مجھے کوئی چیز ہی نہ سمجھا ۔ مجھ سے باغی ہو گئے مجھ سے پوچھا ہی نہیں اور موسیٰ علیہ السلام کی مان لی ؟ یہ کہہ کر پھر اس خیال سے کہ کہیں حاضرین مجلس پر ان کے ہارجانے بلکہ پھر مسلمان ہو جانے کا اثر نہ پڑے اس نے انہیں ذلیل سمجھا ۔ ایک بات بنائی اور کہنے لگا کہ ہاں تم سب اس کے شاگرد ہو اور یہ تمہارا استاد ہے تم سب خورد ہو اور یہ تمہار برزگ ہے ۔ تم سب کو اسی نے جادو سکھایا ہے اس مکابرہ کو دیکھو یہ صرف فرعون کی بے ایمانی اور دغا بازی تھی ورنہ اس سے پہلے نہ تو جادوگروں نے موسیٰ کلیم اللہ کو دیکھا تھا اور نہ ہی اللہ کے رسول ان کی صورت سے آشنا تھے ۔ رسول اللہ تو جادو جانتے ہی نہ تھے کسی کو کیا سکھاتے ؟ عقلمندی کے خلاف یہ بات کہہ کر پھر دھمکانا شروع کردیا اور اپنی ظالمانہ روش پر اتر آیا کہنے لگا میں تمہارے سب کے ہاتھ پاؤں الٹی طرف سے کاٹ دوں گا اور تمہیں ٹنڈے منڈے بنا کر پھر سولی دونگا کسی اور ایک کو بھی اس سزا سے نہ چھوڑونگا ۔ سب نے متفقہ طور پر جواب دیا کہ ” راجا جی اس میں حرج ہی کیا ہے ؟ جو تم سے ہو سکے کر گزرو ۔ ہمیں مطلق پرواہ نہیں ہمیں تو اللہ کی طرف لوٹ کر جانا ہے ہمیں اسی سے صلہ لینا ہے جتنی تکلیف تو ہمیں دے گا اتنا اجر و ثواب ہمارا رب ہمیں عطافرمائے گا ۔ حق پر مصیبت سہنا بالکل معمولی بات ہے جس کا ہمیں مطلق خوف نہیں ۔ ہماری تو اب یہی ایک آرزو ہے کہ ہمارا رب ہمارے اگلے گناہوں پر ہماری پکڑ نہ کرے جو مقابلہ تو نے ہم سے کروایا ہے ۔ اس کا وبال ہم پر سے ہٹ جائے اور اس کے لیے ہمارے پاس سوائے اس کے کوئی وسیلہ نہیں کہ ہم سب سے پہلے اللہ والے بن جائیں ایمان میں سبقت کریں “ ۔ اس جواب پر وہ اور بھی بگڑا اور ان سب کو اس نے قتل کرادایا ۔ «رضی اللہ عنہم اجمعین» ۔ الشعراء
50 الشعراء
51 الشعراء
52 فرعونیوں کا انجام موسیٰ علیہ السلام نے اپنی نبوت کا بہت سارا زمانہ ان میں گزارا ۔ اللہ کی آیتیں ان پر واضح کر دیں لیکن ان کا سر نیچا نہ ہوا ان کا تکبر نہ ٹوٹا ان کی بد دماغی میں کوئی فرق نہ آیا ۔ تو اب سوا اس کے کے کوئی چیز باقی نہ رہی کہ ان پر عذاب الٰہی آ جائے اور یہ غارت ہوں ۔ موسیٰ علیہ السلام کو اللہ کی وحی آئی کہ راتوں رات بنی اسرائیلیوں کو لے کر میرے حکم کے مطابق چل دو ۔ بنو اسرائیل نے اس موقع پر قبطیوں سے بہت سے زیور بطور عاریت کے لیے اور چاند چڑھنے کے وقت چپ چاپ چل دئیے ۔ مجاہد رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ اس رات چاند گہن تھا ۔ موسیٰ علیہ السلام نے راستے میں دریافت فرمایا کہ یوسف علیہ السلام کی قبر کہاں ہے ؟ بنو اسرائیل کی ایک بڑھیا نے قبر بتلادی ۔ آپ نے تابوت یوسف علیہ السلام اپنے ساتھ اٹھا لیا ۔ کہا گیا کہ خود آپ علیہ السلام نے ہی اسے اٹھایا تھا ۔ یوسف علیہ السلام کی وصیت تھی کہ بنی اسرائیل جب یہاں سے جانے لگیں تو آپ علیہ السلام کا تابوت اپنے ہمراہ لیتے جائیں ۔ ابن ابی حاتم کی ایک حدیث میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی اعرابی کے ہاں مہمان ہوئے اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی خاطر تواضع کی واپسی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { کبھی ہم سے مدینے میں بھی مل لینا } کچھ دنوں بعد اعرابی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { کچھ چاہیئے ؟ } اس نے کہاں ہاں ایک تو اونٹنی دیجئیے مع ہودج کے اور ایک بکری دیئجے جو دودھ دیتی ہو ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { افسوس تو نے بنی اسرائیل کی بڑھیا جیسا سوال نہ کیا } ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا ۔ وہ واقعہ کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { جب کلیم اللہ علیہ السلام بنی اسرائیل کو لے کر چلے تو راستہ بھول گئے ہزار کوشش کی لیکن راہ نہیں ملتی ۔ آپ علیہ السلام نے لوگوں کو جمع کر کے پوچھا یہ کیا اندھیر ہے ؟ تو علمائے بنی اسرائیل نے کہا بات یہ ہے کہ یوسف علیہ السلام نے اپنے آخری وقت ہم سے عہد لیا تھا کہ جب ہم مصر سے چلیں تو آپ علیہ السلام کے تابوت کو بھی یہاں سے اپنے ساتھ لیتے جائیں ۔ موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام نے دریافت فرمایا کہ ” تم میں سے کون جانتا ہے کہ یوسف علیہ السلام کی تربت کہاں ہے ؟ “ سب نے انکار کر دیا ہم نہیں جانتے ہم میں سوائے ایک بڑھیا کے اور کوئی بھی آپ علیہ السلام کی قبر سے واقف نہیں آپ علیہ السلام نے اس بڑھیا کے پاس آدمی بھیج کر اس سے کہلوایا کہ مجھے یوسف علیہ السلام کی قبر دکھا ۔ بڑھیا نے کہا ہاں دکھاؤں گی لیکن پہلے اپنے حق لے لوں ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا ” تو کیا چاہتی ہے؟ “ اس نے جواب دیا کہ جنت میں آپ علیہ السلام کا ساتھ مجھے میسر ہو ۔ آپ علیہ السلام پر اس کا یہ سوال بھاری پڑا اسی وقت وحی آئی کہ ’ اس کی بات مان لو اور اس کی شرط منظور کر لو ‘ ۔ اب وہ آپ علیہ السلام کو ایک جھیل کے پاس لے گئی جس کے پانی کا رنگ بھی متغیر ہو گیا تھا کہا کہ اس کا پانی نکال ڈالو جب پانی نکال ڈالا اور زمین نظر آنے لگی تو کہا اب یہاں کھودو ۔ کھودنا شروع ہوا تو قبر ظاہر ہو گئی اسے ساتھ رکھ لیا اب جو چلنے لگے تو راستہ صاف نظر آنے لگا اور سیدھی راہ لگ گئے } ۔ ۱؎ (مسند ابویعلیٰ:2754:موقوف) لیکن یہ حدیث بہت ہی غریب ہے بلکہ زیادہ قریب تو یہ ہے کہ یہ موقوف ہے یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ یہ لوگ تو اپنے راستے لگ گئے ادھر فرعون اور فرعونیوں کی صبح کے وقت جو آنکھ کھلتی ہے تو چوکیدار غلام وغیرہ کوئی نہیں ۔ سخت پیچ وتاب کھانے لگے اور مارے غصے کے سرخ ہو گئے جب یہ معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل رات کو سب کے سب فرار ہو گئے ہیں تو اور بھی سناٹا چھاگیا ۔ اسی وقت اپنے لشکر جمع کرنے لگا ۔ سب کو جمع کر کے ان سے کہنے لگا ۔ کہ یہ بنی اسرائیل کا ایک چھوٹا سا گروہ ہے ۔ الشعراء
53 الشعراء
54 الشعراء
55 1 محض ذلیل کمین اور قلیل لوگ ہیں ہر وقت ان سے ہمیں کوفت ہوتی رہتی ہے تکلیف پہنچتی رہتی ہے ۔ اور پھر ہر وقت ہمیں ان کی طرف سے دغدغہ ہی لگا رہتا ہے یہ معنی «حَاذِرُوْنَ» کی قرأت پر ہیں سلف کی ایک جماعت نے اسے «حَذِرُوْنَ» بھی پڑھا ہے یعنی ہم ہتھیار بند ہیں ۔ میں ارادہ کر چکا ہوں کہ اب انہیں ان کی سرکشی کا مزہ چکھا دوں ۔ ان سب کو ایک ساتھ گھیر گھار کر گاجر مولی کی طرح کاٹ ڈال دوں ۔ اللہ کی شان یہی بات اسی پر لوٹ پڑی اور وہ مع اپنی قوم اور لاؤ لشکر کے یہ یک وقت ہلاک ہوا ۔ «لعنۃ اللہ علیہ وعلی من تبعہ» ۔ جناب باری کا ارشاد ہے کہ ’ یہ لوگ اپنی طاقت اور اکثریت کے گھمنڈ پر بنی اسرائیل کے تعاقب میں انہیں نیست و نابود کرنے کے ارادے سے نکل کھڑے ہوئے اس بہانے ہم نے انہیں ان کے باغات چشموں نہروں خزانوں اور بارونق مکانوں سے خارج کیا اور جہنم واصل کیا ۔ وہ اپنے بلند و بالا شوکت وشان والے محلات ہرے بھرے باغات جاری نہریں خزانے سلطنت ملک تخت و تاج جاہو مال سے چھوڑ کر بنی اسرائیل کے پیچھے مصر سے نکلے ۔ اور ہم نے ان کی یہ تمام چیزیں بنی اسرائیل کو دلوادیں جو آج تک پست حال تھے ذلیل و نادار تھے ۔ چونکہ ہمار ارادہ ہو چکا تھا کہ ہم ان کمزوروں کو ابھاریں اور ان گرے پڑے لوگوں کو برسر ترقی لائیں اور انہیں پیشوا اور وارث بنادیں اور ارادہ ہم نے پورا کیا ‘ ۔ الشعراء
56 الشعراء
57 الشعراء
58 الشعراء
59 الشعراء
60 فرعون اور اس کا لشکر غرق دریا ہو گیا فرعون اپنے تمام لاؤ لشکر اور تمام رعایا کو مصر اور بیرون کے لوگوں کو اپنے والوں کو اور اپنی قوم کے لوگوں کو لے کر بڑ طمطراق اور ٹھاٹھ سے بنی اسرائیل کو تہس نہس کرنے کے ارادے سے چلا بعض کہتے ہیں ان کی تعداد لاکھوں سے تجاوز کر گئی تھی ۔ ان میں سے ایک لاکھ تو صرف سیاہ رنگ کے گھوڑوں پر سوار تھے لیکن یہ خبر اہل کتاب کی ہے جو تامل طلب ہے ۔ کعب رضی اللہ عنہ سے تو مروی ہے کہ آٹھ لاکھ تو ایسے گھوڑوں پر سوار تھے ۔ ہمارا تو خیال ہے کہ یہ سب بنی اسرائیل کی مبالغہ آمیز روایتیں ہیں ۔ اتنا تو قرآن سے ثابت ہے کہ فرعون اپنی کل جماعت کو لے کر چلا مگر قرآن نے ان کی تعداد بیان نہیں فرمائی نہ اس کو علم ہمیں کچھ نفع دینے والا ہے طلوع آفتاب کے وقت یہ ان کے پاس پہنچ گیا ۔ کافروں نے مومنوں اور مومنوں نے کافروں کو دیکھ لیا ۔ موسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں کے منہ سے بےساختہ نکل گیا کہ موسیٰ علیہ السلام اب بتاؤ کیا کریں ۔ پکڑ لیے گئے آگے بحر قلزم ہے پیچھے فرعون کاٹڈی دل لشکر ہے ۔ نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن ۔ ظاہر ہے کہ نبی اور غیر نبی کا ایمان یکساں نہیں ہوتا موسیٰ علیہ السلام نہایت ٹھنڈے دل سے جواب دیتے ہیں کہ ” گھبراؤ نہیں تمہیں کوئی ایذاء نہیں پہنچا سکتی میں اپنی رائے سے تمہیں لے کر نہیں نکلا بلکہ احکم الحکمین کے حکم سے تمہیں لے کر چلا ہوں ۔ وہ وعدہ خلاف نہیں ہے “ ۔ ان کے اگلے حصے پر ہارون علیہ السلام تھے انہی کے ساتھ یوشع بن نون تھے یہ آل فرعون کا مومن شخص تھا ۔ اور موسیٰ علیہ السلام لشکر کے اگلے حصے میں تھے ۔ گھبراہٹ کے مارے اور راہ نہ ملنے کی وجہ سے سارے بنو اسرئیل ہکا بکا ہو کر ٹھہر گئے اور اضطراب کے ساتھ جناب کلیم اللہ علیہ السلام سے دریافت فرمانے لگے کہ اسی راہ پر چلنے کا اللہ کا حکم تھا ؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا ” ہاں “ ۔ اتنی دیر میں تو فرعون کا لشکر سر پر آ پہنچا ۔ اسی وقت پروردگار کی وحی آئی کہ ’ اے نبی ! اس دریا پر اپنی لکڑی مارو ۔ اور پھر میری قدرت کا کرشمہ دیکھو ‘ ۔ آپ علیہ السلام نے لکڑی ماری جس کے لگتے ہی بحکم اللہ پانی پھٹ گیا اس پریشانی کے وقت موسیٰ علیہ السلام نے جو دعا مانگی تھی ۔ وہ ابن ابی حاتم میں ان الفاظ سے مروی ہے «یَا مَنْ کَانَ قَبْل کُلّ شَیْء وَالْمُکَوِّن لِکُلِّ شَیْء وَالْکَائِن بَعْد کُلّ شَیْء اِجْعَلْ لَنَا مَخْرَجًا» یہ دعا موسیٰ علیہ السلام کے منہ سے نکلی ہی تھی کہ اللہ کی وحی آئی کہ ’ دریا پر اپنی لکڑی مارو ‘ ۔ حضرت قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس رات اللہ تعالیٰ نے دریا کی طرف پہلے ہی سے وحی بھیج دی تھی کہ جب میرے پیغمبر موسیٰ علیہ السلام آئیں اور تجھے لکڑی ماریں تو تو ان کی بات سننا اور ماننا پس سمندر میں رات بھر تلاطم رہا اس کی موجیں ادھر ادھر سر ٹکراتی پھیریں کہ نہ معلوم علیہ السلام کب اور کدھر سے آ جائیں اور مجھے لکڑی مار دیں ایسا نہ ہو کہ مجھے خبر نہ لگے اور میں ان کے حکم کی بجا آوری نہ کرسکوں جب بالکل کنارے پہنچ گئے تو آپ علیہ السلام کے ساتھی یوشع بن نون رحمۃ اللہ نے فرمایا اے اللہ کے نبی ! اللہ کا آپ کو کیا حکم ہے ؟ آپ نے فرمایا ” یہی کہ میں سمندر میں لکڑی ماروں “ ۔ انہوں نے کہا پھر دیر کیا ہے ؟ چنانچہ آپ علیہ السلام نے لکڑی مار کر فرمایا اللہ کے حکم سے تو پھٹ اور مجھے چلنے کا راستہ دیدے ۔ اسی وقت وہ پھٹ گیا راستے بیچ میں صاف نظر آنے لگے اور اس کے آس پاس پانی بطور پہاڑ کے کھڑا ہو گیا ۔ اس میں بارہ راستے نکل آئے بنو اسرائیل کے قبیلے بھی بارہ ہی تھے ۔ پھر قدرت الٰہی سے ہر دو فریق کے درمیان جو پہاڑ حائل تھا اسمیں طاق سے بن گئے تاکہ ہر ایک دوسرے کو سلامت روی سے آتا ہوا دیکھے ۔ پانی مثل دیواروں کے ہو گیا ۔ اور ہوا کو حکم ہوا کہ اس نے درمیان سے پانی کو اور زمین کو خشک کر کے راستے صاف کر دیئے پس اس خشک راستے سے آپ مع اپنی قوم کے بے کھٹکے جانے لگے ۔ پھر فرعونیوں کو اللہ تعالیٰ نے دریا سے قریب کر دیا پھر موسیٰ علیہ السلام اور بنواسرائیل اور سب کو تو نجات مل گئی ۔ اور باقی سب کافروں کو ہم نے ڈبودیا نہ ان میں سے کوئی بچا ۔ نہ ان میں سے کوئی ڈوبا ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” فرعون کو جب بنو اسرائل کے بھاگ جانے کی خبر ملی تو اس نے ایک بکری ذبح کی اور کہا اس کی کھال اترنے سے پہلے چھ لاکھ کا لشکرجمع ہو جانا چاہیئے ۔ ادھر موسیٰ علیہ السلام بھاگم بھاگ دریا کے کنارے جب پہنچ گئے تو دریا سے فرمانے لگے تو پھٹ جا کہیں ہٹ جا اور ہمیں جگہ دیدے اس نے کہا یہ کیا تکبر کی باتیں کر رہے ہو ؟ کیا میں اس سے پہلے بھی کبھی پھٹا ہوں ؟ اور ہٹ کر کسی انسان کو جگہ دی ہے جو تجھے دوں گا ؟ آپ علیہ السلام کے ساتھ جو بزرگ شخص تھے انہوں نے کہا اے نبی علیہ السلام کیا یہی راستہ اور یہی جگہ اللہ کی بتلائی ہوئی ہے ؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا ہاں یہی انہوں نے کہا پھر نہ تو آپ علیہ السلام جھوٹے ہیں نہ آپ علیہ السلام سے غلط فرمایا گیا ہے ۔ آپ علیہ السلام نے دوبارہ یہی کہا لیکن پھر بھی کچھ نہ ہوا ۔ اس بزرگ شخص نے دوبارہ یہی سوال کیا اسی وقت وحی اتری کہ ’ سمندر پر اپنی لکڑی مار ‘ ۔ اب آپ علیہ السلام کو خیال آیا اور لکڑی ماری لکڑی لگتے ہی سمندر نے راستہ دے دیا ۔ بارہ راہیں ظاہر ہو گئیں ہر فرقہ اپنے راستے کو پہچان گیا اور اپنی راہ پر چل دیا اور ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے بہ اطمینان تمام چل دئیے ۔ موسیٰ علیہ السلام تو بنی اسرائیل کو لے کر پار نکل گئے اور فرعونی ان کے تعاقب میں سمندر میں آ گئے کہ اللہ کے حکم سے سمندر کا پانی جیسا تھا ویسا ہو گیا اور سب کو ڈبودیا ۔ جب سب سے آخری بنی اسرائیلی نکلا اور سب سے آخری قبطی سمندر میں آ گیا اسی وقت جناب باری تعالیٰ کے حکم سے سمندر کا پانی ایک ہو گیا اور سارے کے سارے قبطی ایک ایک کر کے ڈبودیئے گئے “ ۔ ’ اس میں بڑی عبرتناک نشانی ہے کہ کس طرح گنہگار برباد ہوتے ہیں اور نیک کردار شاد ہوتے ہیں لیکن پھر بھی اکثر لوگ ایمان جیسی دولت سے محروم ہیں ۔ بیشک تیرا رب عزیز ورحیم ہے ‘ ۔ الشعراء
61 الشعراء
62 الشعراء
63 الشعراء
64 الشعراء
65 الشعراء
66 الشعراء
67 الشعراء
68 الشعراء
69 ابراہیم علیہ السلام علامت توحیدی پرستی تمام موحدوں کے باپ اللہ کے بندے اور رسول اور خلیل ابراہیم علیہ افضل التحیۃ والتسلیم کا واقعہ بیان ہو رہا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہو رہا ہے کہ ’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کو یہ واقعہ سنا دیں ، تاکہ وہ اخلاص توکل اور اللہ واحد کی عبادت اور شرک اور مشرکین سے بیزاری میں آپ علیہ السلام کی اقتداء کریں ۔ آپ علیہ السلام اول دن سے اللہ کی توحید پر قائم تھے اور آخر دن تک اسی توحید پر جمے رہے ‘ ۔ اپنی قوم سے اور اپنے باپ سے فرمایا کہ ” یہ بت پرستی کیا کر رہے ہو “ ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم تو پرانے وقت سے ان بتوں کی مجاوری اور عبادت کرتے چلے آتے ہیں ۔ ابراہیم علیہ السلام نے ان کی اس غلطی کو ان پر وضح کر کے ان کی غلط روش بے نقاب کرنے کے لیے ایک بات اور بھی بیان فرمائی کہ تم جو ان سے دعائیں کرتے ہو اور دور نزدیک سے انہیں پکارتے ہو تو کیا یہ تمہاری پکار سنتے ہیں ؟ یا جس نفع کے حاصل کرنے کے لیے تم انہیں بلاتے ہو وہ نفع تمہیں وہ پہنچاسکتے ہیں ؟ یا اگر تم ان کی عبادت چھوڑ دو تو کیا وہ تمہیں نقصان پہنچا سکتے ہیں ؟ اس کا جواب جو قوم کی جانب سے ملا وہ صاف ظاہر ہے کہ ان کے معبود ان کاموں میں سے کسی کام کو نہیں کر سکتے ۔ انہوں نے صاف کہا کہ ہم تو اپنے بڑوں کی وجہ سے بت پرستی پر جمے ہوئے ہیں ۔ اس کے جواب میں خلیل اللہ علیہ السلام نے ان سے اور ان کے معبودان باطلہ سے اپنی برأت اور بیزاری کا اعلان کر دیا ۔ صاف فرما دیا کہ ” تم اور تمہارے معبود سے میں بیزار ہوں ، جن کی تم اور تمہارے باپ دادا پرستش کرتے رہے ۔ ان سب سے میں بیزار ہوں وہ سب میرے دشمن ہیں میں صرف سچے رب العلمین کا پرستار ہوں ۔ میں موحد مخلص ہوں ۔ جاؤ تم سے اور تمہارے معبودوں سے جو ہو سکے کر لو “ ۔ نوح نبی علیہ السلام نے بھی اپنی قوم سے یہی فرمایا تھا ” تم اور تمہارے سارے معبود مل کر اگر میرا کچھ بگاڑ سکتے ہوں تو کمی نہ کرو “ ۔ ھود علیہ السلام نے بھی فرمایا تھا ” میں تم سے اور تمہارے اللہ کے سوا باقی معبودوں سے بیزار ہوں تم سب اگر مجھے نقصان پہنچا سکتے ہو تو جاؤ پہنچالو ۔ میرا بھروسہ اپنے رب کی ذات پر ہے تمام جاندار اس کے ماتحت ہیں وہ سیدھی راہ والا ہے “ ۔ اسی طرح خلیل الرحمن علیہ صلوات الرحمن نے فرمایا کہ ” میں تمہارے معبودوں سے بالکل نہیں ڈرتا ۔ ڈر تو تمہیں میرے رب سے رکھنا چاہیئے ۔ جو سچا ہے “ ۔ آپ علیہ السلام نے اعلان کر دیا تھا کہ ” جب تک تم ایک اللہ پر ایمان نہ لاؤ مجھ میں تم میں عداوت ہے ۔ میں اے باپ تجھ سے اور تیری قوم سے اور تیرے معبودوں سے بری ہوں ۔ صرف اپنے رب سے میری آرزو ہے کہ وہ مجھے راہ راست دکھلائے اسی کو یعنی «لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ» کو انہوں نے کلمہ بنا لیا ۔ الشعراء
70 الشعراء
71 الشعراء
72 الشعراء
73 الشعراء
74 الشعراء
75 الشعراء
76 الشعراء
77 الشعراء
78 خلیل اللہ کی تعریف حضرت خلیل اللہ علیہ السلام اپنے رب کی صفتیں بیان فرماتے ہیں کہ ” میں تو ان اوصاف والے رب کا ہی عابد ہوں ۔ اس کے سوا اور کسی کی عبادت نہیں کرونگا ۔ پہلا وصف یہ کہ وہ میرا خالق ہے اسی نے اندازہ مقرر کیا ہے اور وہی مخلوقات کی اس کی طرف رہبری کرتا ہے ۔ دوسرا وصف یہ کہ وہ ہادی حقیقی ہے جسے چاہتا ہے اپنی راہ مستقیم پر چلاتا ہے جسے چاہتا ہے اسے غلط راہ پر لگا دیتا ہے ۔ تیسر وصف میرے رب کا یہ ہے کہ وہ رازق ہے آسمان و زمین کے تمام اسباب اسی نے مہیا کئے ہیں ۔ بادلوں کا اٹھانا پھیلانا ان سے بارش کا برسانا اس سے زمین کو زندہ کرنا پھر پیداوار اگانا اسی کا کام ہے ۔ وہی میٹھا اور پیاس بجھانے والا پانی ہمیں دیتا ہے اور اپنی مخلوق کو بھی غرض کھلانے پلانے والا ہی ہے ۔ ساتھ ہی بیمار تندرستی بھی اسی کے ہاتھ ہے “ ۔ لیکن خلیل اللہ علیہ السلام کا کمال ادب دیکھئیے کہ بیماری کی نسبت تو اپنی طرف کی اور شفاء کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہے ۔ گو بیماری بھی اس قضاء و قدر ہے اور اسی کی بنائی ہوئی چیز ہے ۔ یہی لطافت سورۃ فاتحہ کی دعا میں بھی ہے کہ انعام وہدایت کی اسناد تو اللہ عالم کی طرف کی ہے اور غضب کے فاعل کو حزف کر دیا ہے اور ضلالت بندے کی طرف منسوب کر دی ہے ۔ سورۃ الجن میں جنات کا قول بھی ملاحظہ ہوجہاں انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں نہیں معلوم کہ زمین والی مخلوق کے ساتھ کسی برائی کا ارادہ کیا گیا ہے یا ان کے ساتھ ان کے رب نے بھلائی کا ارادہ کیا ہے ؟ یہاں بھی بھلائی کی نسبت رب کی طرف کی گئی اور برائی کے ارادے میں نسبت ظاہر نہیں کی گئی ۔ اسی طرح کی آیت ہے کہ ’ جب میں بیمار پڑتا ہوں تو میری شفاء پر بجز اس اللہ کے اور کوئی قادر نہیں ‘ ۔ دوا میں تاثیر پیدا کرنا بھی اسی کے بس کی چیز ہے ۔ موت و حیات پر قادر بھی وہی ہے ۔ ابتداء اسی کے ساتھ ہے اسی نے پہلی پیدائش کی ہے ۔ وہی دوبارہ لوٹائے گا ۔ دنیا اور آخرت میں گناہوں کی بخشش پر بھی وہی قادر ہے وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے ، غفور ورحیم وہی ہے ۔ الشعراء
79 الشعراء
80 الشعراء
81 الشعراء
82 الشعراء
83 حکم سے کیا مراد ہے؟ حکم سے مراد علم عقل الوہیت کتاب اور نبوت ہے ۔ آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ مجھے یہ چیزیں عطا فرما کر دنیا اور آخرت میں نیک لوگوں میں شامل رکھ ۔ چنانچہ صحیح حدیث میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی آخری وقت میں دعا مانگی تھی کہ { اے اللہ اعلیٰ رفیقوں میں ملادے } تین بار یہی دعا کی } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4436) ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا بھی مروی ہے ۔ { « اللہُمَّ أَحْیِنَا مُسْلِمِینَ وَأَمِتْنَا مُسْلِمِینَ وَأَلْحِقْنَا بِالصَّالِحِینَ غَیْر خَزَایَا وَلَا مُبَدِّلِینَ» ۔ یعنی اے اللہ ! ہمیں اسلام پر زندہ رکھ اور مسلمانی کی حالت میں ہی موت دے اور نیکوں میں ملادے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:424/3:صحیح) در آنحالیکہ نہ رسوائی ہو نہ تبدیلی ۔ پھر اور دعا کرتے ہیں کہ میرے بعد بھی میرا ذکر خیر لوگوں میں جاری رہے ۔ لوگ نیک باتوں میں میری اقتداء کرتے رہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے بھی ان کا ذکر پچھلی نسلوں میں باقی رکھا ۔ ہر ایک آپ علیہ السلام پر سلام بھیجتا ہے اللہ کسی نیک بندے کی نیکی اکارت نہیں کرتا ۔ ایک جہان ہے جن کی زبانیں آپ علیہ السلام کی تعریف وتوصیف سے تر ہیں ۔ دنیا میں بھی اللہ نے انہیں اونچائی اور بھلائی دی ۔ عموماً ہر مذہب وملت کے لوگوں خلیل اللہ علیہ السلام سے محبت رکھتے ہیں ۔ اور دعا کرتے ہیں کہ ” میرا ذکر جمیل جہاں میں باقی رہے وہاں آخرت میں بھی جنتی بنایا جاؤں ۔ اور اے اللہ میرے گمراہ باپ کو معاف فرما “ ۔ لیکن اپنے کافر باپ کے لیے یہ استغفار کرنا ایک وعدے پر تھا جب آپ علیہ السلام پر اس کا دشمن اللہ ہونا کھل گیا کہ وہ کفر پر ہی مرا تو آپ علیہ السلام کے دل سے اس کی عزت ومحبت جاتی رہی اور استغفار کرنا بھی ترک کر دیا ۔ ابرہیم علیہ السلام بڑے صاف دل اور بردبار تھے ۔ ہمیں بھی جہاں ابراہیم علیہ السلام کی روش پر چلنے کا حکم ملا ہے وہیں یہ بھی فرما دیا گیا ہے کہ اس بات میں ان کی پیروی نہ کرنا پھر دعا کرتے ہیں کہ ” مجھے قیامت کے دن کی رسوائی سے بچالینا ۔ جب کہ تمام اگلی پچھلی مخلوق زندہ ہو کر ایک میدان میں کھڑی ہوگی “ ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ { قیامت کے دن ابراہیم علیہ السلام کی اپنے والد سے ملاقات ہوگی ۔ آپ علیہ السلام دیکھیں گے کہ اس کا منہ ذلت سے اور گردوغبار سے آلودہ ہو رہا ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4768) اور روایت میں ہے کہ { اس وقت آپ علیہ السلام جناب باری تعالیٰ میں عرض کریں گے کہ پروردگار تیرا مجھ سے قول ہے کہ مجھے قیامت کے دن رسوا نہ کرے گا ۔ اللہ فرمائے گا ’ سن لے جنت تو کافر پر قطعاً حرام ہے ‘ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4768) اور روایت میں ہے کہ { ابراہیم علیہ السلام اپنے باپ کو اس حالت میں دیکھ کر فرمائیں گے کہ ” دیکھ میں تجھے نہیں کہہ رہا تھا کہ میری نافرمانی نہ کر “ باپ جواب دے گا کہ ” اچھا اب نہ کرونگا “ ۔ آپ اللہ تعالیٰ کی جناب میں عرض کریں گے کہ ” پروردگار تو نے مجھے سے وعدہ کیا ہے کہ اس دن مجھے رسوا نہ فرمائے گا ۔ اب اس سے بڑھ کر اور رسوائی کیا ہو گی کہ میرا باپ اس طرح رحمت سے دور ہے “ ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ ’ میرے خلیل علیہ السلام میں نے جنت کو کافروں پر حرام کر دیا ہے ‘ ، پھر فرمائے گا ’ ابراہیم [ علیہ السلام ] دیکھ تیرے پیروں تلے کیا ہے؟ ‘ آپ علیہ السلام دیکھیں گے کہ ایک بدصورت بچھو کیچڑ و پانی میں لتھڑا کھڑا ہے جس کے پاؤں پکڑ کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا} ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3350) حقیقتاً یہ ان کے والد ہونگے جو اس صورت میں کر دئیے گئے اور اپنی مقررہ جگہ پہنچادئے گئے اس دن انسان اگر اپنا فدیہ مال سے ادا کرنا چاہے گو دنیا بھر کے خزانے دیدے لیکن بےسود ہے ، نہ اس دن اولاد فائدہ دے گی ۔ تمام اہل زمین کو اپنے بدلے میں دینا چاہے پھر بھی لاحاصل ۔ اس دن نفع دینے والی چیز ایمان اخلاص اور شرک اور اہل شرک سے بیزاری ہے ۔ جس کا دل صالح ہو یعنی شرک و کفر کے میل کچیل سے صاف ہو ، اللہ کو سچا جانتا ہو قیامت کو یقینی مانتا ہو دوبارہ کے جی اٹھنے پر ایمان رکھتا ہو اللہ کی توحید کا قائل اور عامل ہو ۔ نفاق وغیرہ سے دل مریض نہ ہو ۔ بلکہ ایمان واخلاص اور نیک عقیدے سے دل صحیح اور تندرست ہو ۔ بدعتوں سے نفرت رکھتا ہو اور سنت سے اطمینان اور الفت رکھتا ہو ۔ الشعراء
84 الشعراء
85 الشعراء
86 الشعراء
87 الشعراء
88 الشعراء
89 الشعراء
90 نیک لوگ اور جنت جن لوگوں نے نیکیاں کی تھیں برائیوں سے بچے تھے جنت اس دن ان کے پاس ہی ان کے سامنے ہی زیب و زینت کے ساتھ موجود ہو گی ۔ اور سرکشوں کے لیے اسی طرح جہنم ظاہر ہوگی اس میں سے ایک گردن نکل کھڑی ہوگی جو گنہگاروں کی طرف غضبناک تیوروں سے نظر ڈالے گی اور اس طرح شور مچائے گی کہ دل اڑ جائیں گے اور مشرکوں سے ڈانٹ ڈپٹ کے ساتھ فرمایا جائے گا کہ ’ تمہارے معبودان باطل جنہیں تم اللہ کے سوا پوجتے تھے کہاں ہیں ۔ کیا وہ تمہاری کچھ مدد کرتے ہیں ؟ یا خود اپنی مدد کر سکتے ہیں ؟ نہیں نہیں بلکہ عابد ومعبود سب دوزخ میں الٹے لٹک رہے ہیں اور جل بھن رہے ہیں ‘ ۔ تابع ومتبوع سب اوپر تلے جہنم میں جھونک دیئے جائیں گے ۔ ساتھ ہی ابلیس کے کل لشکری بھی اول سے لے کر آخر تک ۔ وہاں سفلے لوگ بڑے لوگوں سے جھگڑیں گے اور کہیں گے کہ ہم نے زندگی بھر تمہاری مانی ۔ آج تم ہمیں عذابوں سے کیوں نہیں چھڑاتے ۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم ہی بالکل گمراہ تھے راہ سے دور ہو گئے تھے کہ تمہارے احکام کو اللہ کے احکام کے مثل سمجھ بیٹھے تھے اور رب العلیمن کے ساتھ ہی تمہاری بھی عبادت کرتے رہے گویا کہ تمہیں رب کے برابر سمجھے ہوئے تھے ۔ افسوس ہمیں اس غلط اور خطرناک راہ پر مجرموں نے لگائے رکھا ۔ اب تو ہماری کوئی سفارشی بھی نہیں رہا ۔ آپس میں پوچھیں گے کہ کیا کوئی ہمارا شفیع ہے جو ہماری شفاعت کرے ؟ یا ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ ہم دوبارہ دنیاکی طرف لوٹائے جائیں اور وہاں جا کر اب تک کئے ہوئے اعمال کے خلاف عمل کریں ؟ جہاں ہمارا کوئی سفارشی ہمیں نظر نہیں آتا وہاں کوئی قریبی سچا دوست بھی نہیں دکھائی دیتا کہ وہی ہماری ہمدردی و غم خواری کرے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر کسی صالح شخص سے ہماری دوستی ہوتی تو وہ آج ضرور ہمیں نفع دیتا اور اگر کوئی ہمارا دلی محب ہوتا تو وہ ضرور ہماری شفاعت کے لیے آگے بڑھتا اور اگر ہمیں پھر سے دنیا میں جانا ملتا تو ہم آپ اپنے ان بد اعمال کا تدارک کر لیتے اپنے رب کی ہی مانتے اور اسی کی عبادتیں کرتے ۔ لیکن حق تو یہ ہے کہ یہ بدبخت ازلی اگر دوبارہ بھی لائیں جائیں تو وہی بد اعمالیاں پھر سے شروع کر دیں ۔ سورۃ ص میں بھی ان دوزخیوں کے جھگڑے کا بیان کر کے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ’ ان کا یہ جھگڑا یقیناً ہو گا ‘ ۔ ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم سے جو کچھ فرمایا اور جو دلیلیں انہیں دیں اور ان پر توحید کی وضاحت کی اس میں یقیناً اللہ کی الوہیت پر اور اس کی یکتائی پر صاف برہان موجود ہے لیکن پھر بھی اکثر لوگ ایمان سے محروم ہیں اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ تیرا پالنہار پروردگار پورے غلبے اور قوت والا ساتھ ہی بخشش و رحم والا ہے ۔ الشعراء
91 الشعراء
92 الشعراء
93 الشعراء
94 الشعراء
95 الشعراء
96 الشعراء
97 الشعراء
98 الشعراء
99 الشعراء
100 الشعراء
101 الشعراء
102 الشعراء
103 الشعراء
104 الشعراء
105 بت پرستی کا اغاز زمین پر سب سے پہلے جو بت پرستی شروع ہوئی اور لوگ شیطانی راہوں پر چلنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے اولوالعزم رسولوں کے سلسلے کو نوح علیہ السلام سے شروع کیا جنہوں نے آکر لوگوں کو اللہ کے عذابوں سے ڈرایا اور اس کی سزاؤں سے انہیں آگاہ کیا لیکن وہ اپنے ناپاک کرتوتوں سے باز نہ آئے غیر اللہ کی عبادت نہ چھوڑی بلکہ نوح علیہ السلام کو جھوٹا کہا ان کے دشمن بن گئے اور ایذاء رسانی کے درپے ہو گئے ۔ نوح علیہ السلام کا جھٹلانا گویا تمام پیغمبروں سے انکار کرنا تھا اس لیے آیت میں فرمایا گیا کہ ’ قوم نوح نے نبیوں کو جھٹلایا ‘ ۔ حضرت نوح علیہ السلام نے پہلے تو انہیں اللہ کا خوف کرنے کی نصیحت کی کہ ” تم جو غیر اللہ کی عبادت کرتے ہو اللہ کے عذاب کا تمہیں ڈر نہیں ؟ “ اس طرح توحید کی تعلیم کے بعد اپنی رسالت کی تلقین کی اور فرمایا ” میں تمہاری طرف اللہ کا رسول بن کر آیا ہوں اور میں امانت دار بھی ہوں اس کا پیغام ہو بہو وہی ہے جو تمہیں سنارہا ہوں ۔ پس تمہیں اپنے دلوں کو اللہ کے ڈر سے پرکھنا چاہیئے اور میری تمام باتوں کو بلا چوں وچرا مان لینا چائیے ۔ اور سنو میں تم سے اس تبلیغ رسالت پر کوئی اجرت نہیں مانگتا ۔ میر امقصد اس سے صرف یہی ہے کہ میرا رب مجھے اس کا بدلہ اور ثواب عطا فرمائے ۔ پس تم اللہ سے ڈرو اور میر اکہنا مانو میری سچائی میری خیر خواہی تم پر خوب روشن ہے ۔ ساتھ ہی میری دیانت داری اور امانت داری بھی تم پر واضح ہے “ ۔ الشعراء
106 الشعراء
107 الشعراء
108 الشعراء
109 الشعراء
110 الشعراء
111 ہدایت طبقاتی عصبیت سے پاک ہے قوم نوح نے اللہ کے رسول کو جواب دیا کہ چند سفلے اور چھوٹے لوگوں نے تیری بات مانی ہے ۔ ہم سے یہ نہیں ہوسکتا کہ ان رذیلوں کا ساتھ دیں اور تیری مان لیں ۔ اس کے جواب میں اللہ کے رسول نے جواب دیا ” یہ میرا فرض نہیں کہ کوئی حق قبول کرنے کو آئے تو میں اس سے اس کی قوم اور پیشہ دریافت کرتا پھروں ۔ اندرونی حالات پر اطلاع رکھنا ، حساب لینا اللہ کا کام ہے ۔ افسوس تمہیں اتنی سمجھ بھی نہیں ۔ تمہاری اس چاہت کو پورا کرنا میرے اختیار سے باہر ہے کہ میں ان مسکینوں سے اپنی محفل خالی کرالوں ۔ میں تو اللہ کی طرف سے ایک آگاہ کر دینے والا ہوں ۔ جو بھی مانے وہ میرا اور جو نہ مانے وہ خود ذمہ دار ۔ شریف ہو یا رذیل ہو امیر ہو یا غریب ہو جو میری مانے میرا ہے اور میں اس کا ہوں “ ۔ الشعراء
112 الشعراء
113 الشعراء
114 الشعراء
115 الشعراء
116 تذکرہ نوح علیہ السلام لمبی مدت تک جناب نوح علیہ السلام ان میں رہے دن رات چھپے کھلے انہیں اللہ کی راہ کی دعوت دیتے رہے لیکن جوں جوں آپ علیہ السلام اپنی نیکی میں بڑھتے گئے وہ اپنی بدی میں سوار ہوتے گئے بالآخر زور باندھتے باندھتے صاف کہہ دیا کہ ” اگر اب ہمیں اپنے دین کی دعوت دی تو ہم تجھ پر پتھراؤ کر کے تیری جان لے لیں گے “ ۔ آپ علیہ السلام کے ہاتھ بھی جناب باری میں اٹھ گئے قوم کی تکذیب کی شکایت آسمان کی طرف بلند ہوئی ۔ اور آپ نے فتح کی دعا کی فرمایا کہ ” اے اللہ ! میں مغلوب اور عاجز ہوں میری مدد کر میرے ساتھ میرے ساتھیوں کو بھی بچا لے “ ۔ پس جناب باری عزوجل نے آپ علیہ السلام کی دعا قبول کی ۔ انسانوں جانوروں اور سامان اسباب سے کچھا کچھ بھری ہوئی کشتی میں سوار ہو جانے کا حکم دے دیا ۔ ’ یقیناً یہ واقعہ بھی عبرت آموز ہے لیکن اکثر لوگ بےیقین ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ رب بڑے غلبے والا لیکن وہ مہربان بھی بہت ہے ‘ ۔ الشعراء
117 الشعراء
118 الشعراء
119 الشعراء
120 الشعراء
121 الشعراء
122 الشعراء
123 ہود علیہ السلام اور ان کی قوم حضرت ہود علیہ السلام کا قصہ بیان ہو رہا ہے کہ انہوں نے عادیوں کو جو احقاف کے رہنے والے تھے اللہ کی طرف بلایا ۔ احقاف ملک یمن میں حضر موت کے پاس ریتلی پہاڑیوں کے قریب ہے ان کا زمانہ نوح علیہ السلام کے بعد کا ہے ۔ سورۃ الاعراف میں بھی ان کا ذکر گزر چکا ہے کہ انہیں قوم نوح کا جانشین بنایا گیا اور انہیں بہت کچھ کشادگی اور وسعت دی گئی ۔ ڈیل ڈول دیا بڑی قوت طاقت دی پورے مال اولاد کھیت باغات پھل اور اناج دیا ۔ بکثرت دولت اور زر بہت سی نہریں اور چشمے جا بجا دئیے ۔ الغرض ہر طرح کی آسائش اور آسانی مہیا کی لیکن رب کی تمام نعمتوں کی ناقدری کرنے والے اور اللہ کے ساتھ شریک کرنے والوں نے اپنے نبی علیہ السلام کو جھٹلایا ۔ یہ انہی میں سے تھے نبی علیہ السلام نے انہیں سمجھایا بجھایا ڈرایا دھمکایا ۔ اپنا رسول ہونا ظاہر فرمایا ۔ اپنی اطاعت اور اللہ کی عبادت و وحدانیت کی دعوت دی جیسے کہ نوح علیہ السلام نے دی تھی ۔ اپنا بے لاگ ہونا طالب دنیا نہ ہونا بیان فرمایا ۔ اپنے خواص کا بھی ذکر کیا یہ جو فخر و ریا کے طور پر اپنے مال برباد کرتے تھے اور اونچے اونچے مشہور ٹیلوں پر اپنی قوت کے اور مال کے اظہار کے لیے بلند و بالا علامتیں بناتے تھے اس فعل عبث سے انہیں ان کے نبی ہود علیہ السلام نے روکا کیونکہ اس میں بے کار دولت کا کھونا وقت کا برباد کرنا اور مشقت اٹھانا ہے جس سے دین دنیا کا کوئی فائدہ نہ مقصود ہوتا ہے نہ متصور ۔ بڑے بڑے پختہ اور بلند برج اور مینار بناتے تھے جس کے بارے میں ان کے نبی علیہ السلام نے نصیحت کی کہ ” کیا تم یہ سمجھے بیٹھے ہو کہ یہیں ہمیشہ رہو گے محبت دنیا نے تمہیں آخرت بھلادی ہے لیکن یاد رکھو تمہاری یہ چاہت بےسود ہے ۔ دنیا زائل ہونے والی ہے تم خود فنا ہونے والے ہو “ ۔ ایک قرأت میں «کَاَنَّکُمْ خَالِدُوْنَ» ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ جب مسلمانوں نے غوطہٰ میں محلات اور باغات کی تعمیر اعلی پیمانے پر ضروت سے زیادہ شروع کر دی تو سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ نے مسجد میں کھڑے ہو کر فرمایا کہ اے دمشق کے رہنے والو سنو ! لوگ سب جمع ہو گئے تو آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا کہ ” تمہیں شرم نہیں آتی تم خیال نہیں کرتے کہ تم نے وہ جمع کرنا شروع کر دیا جسے تم کھا نہیں سکتے ۔ تم نے وہ مکانات بنانے شروع کر دئیے جو تمہارے رہنے سہنے کے کام نہیں آتے تم نے وہ دور دراز کی آرزوئیں کرنی شروع کر دیں جو پوری ہونی محال ہیں ۔ کیا تم بھول گئے تم سے اگلے لوگوں نے بھی جمع جتھا کر کے سنبھال سنبھال کر رکھا تھا ۔ بڑے اونچے اونچے پختہ اور مضبوط محلات تعمیر کئے تھے بڑی بڑی آرزوئیں باندھی تھیں لیکن نتیجہ یہ ہوا کہ وہ دھوکے میں رہ گئے ان کی پونجی برباد ہو گئی ان کے مکانات اور بستیاں اجڑگئیں ۔ عادیوں کو دیکھو کہ عدن سے لے کر عمان تک ان کے گھوڑے اور اونٹ تھے لیکن آج وہ کہاں ہیں ؟ ہے کوئی ایسا بیوقوف کہ قوم عاد کی میراث کو دو درہموں کے بدلے بھی خریدے “ ۔ ان کے مال ومکانات کا بیان فرما کر ’ ان کی قوت وطاقت کا بیان فرمایا کہ بڑے سرکش ، بتکبر اور سخت لوگ تھے ‘ ۔ نبی علیہ صلوات اللہ نے انہیں اللہ سے ڈرنے اور اپنی اطاعت کرنے کا حکم دیا کہ عبادت رب کی کرو اطاعت اس کے رسول کی کرو پھر وہ نعمتیں یاد دلائیں جو اللہ نے ان پر انعام کی تھیں جنہیں وہ خود جانتے تھے ۔ مثلا چوپائے جانور اور اولاد باغات اور دریا پھر اپنا اندیشہ ظاہر کیا کہ ” اگر تم نے میری تکذیب کی اور میری مخالفت پر جمے رہے تو تم پر عذاب اللہ برس پڑے گا لالچ اور ڈر دونوں دکھائے مگر بےسود رہیں “ ۔ الشعراء
124 الشعراء
125 الشعراء
126 الشعراء
127 الشعراء
128 الشعراء
129 الشعراء
130 الشعراء
131 الشعراء
132 الشعراء
133 الشعراء
134 الشعراء
135 الشعراء
136 موثر بیانات بھی بےاثر حضرت ہود علیہ السلام کے موثر بیانات نے اور آپ کے رغبت اور ڈر بھرے خطبوں نے قوم پر کوئی اثر نہیں کیا اور انہوں نے صاف کہہ دیا کہ آپ ہمیں وعظ سنائیں یا نہ سنائیں نصیحت کریں یا نہ کریں ہم تو اپنی روش کو نہیں چھوڑ سکتے ۔ «قَالُوا یَا ہُودُ مَا جِئْتَنَا بِبَیِّنَۃٍ وَمَا نَحْنُ بِتَارِکِی آلِہَتِنَا عَن قَوْلِکَ وَمَا نَحْنُ لَکَ بِمُؤْمِنِینَ» ۱؎ (11-ہود:53) ’ ہم آپ کی بات مان کر اپنے معبودوں سے دست بردار ہو جائیں یہ یقیناً محال ہے ہمارے ایمان سے آپ مایوس ہو جائیں ہم آپ کی نہیں مانیں گے ‘ ۔ فی الوقع کافروں کا یہی حال ہے کہ انہیں سمجھانا بےسود رہتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی آخرالزماں سے بھی یہی فرمایا کہا «إِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَیْہِمْ أَأَنذَرْتَہُمْ أَمْ لَمْ تُنذِرْہُمْ لَا یُؤْمِنُونَ» ۱؎ (2-البقرۃ:6) ’ ان ازلی کفار پر آپ کی نصیحت مطلق اثر نہیں کرے گی یہ نصیحت کرنے اور ہوشیار کر دینے کے بعد بھی ویسے ہی رہیں گے جیسے پہلے تھے ‘ ۔ «إِنَّ الَّذِینَ حَقَّتْ عَلَیْہِمْ کَلِمَتُ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُونَ وَلَوْ جَاءَتْہُمْ کُلٰ آیَۃٍ حَتَّیٰ یَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِیمَ» ( 10-یونس : 96 ، 97 ) یہ تو قدرتی طور پر ایمان سے محروم کر دیے گئے ہیں ۔ جن پر تیرے رب کی بات صادق آنے والی ہے انہیں ایمان نصیب نہیں ہونے والا ‘ ۔ «إِنْ ہٰذَا إِلَّا خُلُقُ الْأَوَّلِینَ» (26-الشعراء:137) «خُلُقُ الْأَوَّلِینَ» کی دوسری قرأت «خَلْقُ الْاَوَّلِیْنَ» بھی ہے یعنی ’ جو باتیں تو ہمیں کہتا ہے یہ تو اگلوں کی کہی ہوئی ہیں ‘ ، جیسے قریشیوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا کہ اگلوں کی کہانیاں ہیں جو صبح شام تمہارے سامنے پڑھی جاتی ہیں ۔ یہ ایک بہتان ہے جسے تو نے گھڑ لیا ہے اور کچھ لوگ اپنے طرفدار کرلئے ہیں ۔ مشہور قرأت کی بنا پر معنی یہی ہوئے کہ ’ جس پر ہم ہیں وہی ہمارے پرانے باپ دادوں کا مذہب ہے ہم تو انہیں کی راہ چلیں گے اور اسی روش پر رہیں گے جیئں گے پھر مرجائیں گے جیسے وہ مرگئے ۔ یہ محض لاف ہے کہ پھر ہم اللہ کے ہاں زندہ کئے جائیں گے ۔ یہ بھی غلط ہے کہ ہمیں عذاب کیا جائے گا ‘ ۔ آخر شان کی تکذیب اور مخالفت کی وجہ سے انہیں ہلاک کر دیا گیا ۔ سخت تیز وتند آندھی ان پر بھیجی گئی اور یہ برباد کر دئیے گئے یہ عاد اولیٰ تھے جنہیں آیت «اِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ» (89-الفجر:7) بھی کہا گیا ۔ یہ ارم سام بن نوح علیہ السلام کی نسل میں سے تھے ۔ عمد میں یہ رہتے تھے ارم نوح علیہ السالم کے پوتے کا نام ہے نہ کہ کسی شہر کا ۔ گو بعض لوگوں سے یہ بھی مروی ہے لیکن اس کے قائل بنی اسرائیل ہیں ۔ ان سے سن سنا کر اوروں نے بھی یہ کہہ دیا حقیقت میں اس کی کوئی مضبوط دلیل نہیں ۔ اسی لیے قرآن نے ارم کا ذکر کرتے ہی فرمایا کہ آیت «لَمْ یُخْلَقْ مِثْلُہَا فِی الْبِلَادِ» ۱؎ (89-الفجر:8) ۔ ’ ان جیسا اور کوئی شہروں میں پیدا نہیں کیا گیا ‘ ۔ اگر اس سے مراد شہر ارم ہوتا تو یوں فرمایا جاتا کہ اس جیسا اور کوئی شہر بنایا نہیں گیا ۔ قرآن کریم کی اور آیت میں ہے آیت «فَاَمَّا عَادٌ فَاسْـتَکْبَرُوْا فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَقَالُوْا مَنْ اَشَدٰ مِنَّا قُوَّۃً» ۱؎ (41-فصلت:15) ، ’ عادیوں نے زمین میں تکبر کیا اور نعرہ لگایا کہ ہم سے بڑھ کر قوت والا کون ہے ؟ ‘ ’ کیا وہ اسے بھی بھول گئے ان کا پیدا کرنے والا ان سے زیادہ قوی ہے دراصل انہیں ہماری آیتوں سے انکار تھا ‘ ۔ یہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ ان پر صرف بیل کے نتھنے کے برابر ہوا چھوڑی گئی تھی ۔ جس نے ان کو ان کے شہروں کا ان کے مکانات کا نام و نشان مٹا دیا جہاں سے گزر گئی صفایا کر دیا شائیں شائیں کرتی تمام چیزوں کا ستیاناس کرتی چلی تھی ۔ تمام قوم کے سر الگ ہو گئے اور دھڑ الگ ہو گئے ۔ عذاب الٰہی کو ہوا کی صورت آتا دیکھ کر قلعوں میں محلات میں محفوظ مکانات میں گھس گئے تھے ۔ زمین میں گڑھے کھود کھود کر آدھے آدھے جسم ان میں ڈال کر محفوظ ہوئے تھے لیکن بھلا عذاب اللہ کو کوئی چیز روک سکتی ہے ؟ وہ ایک منٹ کے لیے بھی کسی کو مہلت اور دم لینے دیتا ہے ؟ سب چٹ پٹ کر دئیے گئے اور اس واقعہ کو بعد میں آنے والوں کے لیے نشان عبرت بنا دیا گیا ۔ ان میں سے پھر بھی اکثر لوگ بے ایمان ہی رہے اللہ کا غلبہ اور رحم دونوں مسلم تھے ۔ الشعراء
137 الشعراء
138 الشعراء
139 الشعراء
140 الشعراء
141 صالح علیہ السلام اور قوم ثمود اللہ تعالیٰ کے بندے اور رسول صالح علیہ السلام کا واقعہ بیان ہو رہا کہ آپ علیہ السلام اپنی قوم ثمود کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے تھے یہ لوگ عرب حجر نامی شہر میں رہتے تھے جو وادی القری اور ملک شام کے درمیان ہے ۔ یہ عادیوں کے بعد اور ابراہمیوں سے پہلے تھے شام کی طرف جاتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس جگہ سے گزرنے کا بیان سورۃ الاعراف کی تفسیر میں پہلے گزر چکا ہے ۔ انہیں ان کے نبی علیہ السلام نے اللہ کی طرف بلایا کہ یہ اللہ کی توحید کو مانیں اور صالح علیہ السلام کی رسالت کا اقرار کریں لیکن انہوں نے بھی انکار کر دیا اور اپنے کفر پر جمے رہے اللہ کے پیغمبر علیہ السلام کو جھوٹا کہا ۔ باوجود اللہ سے ڈرتے رہنے کی نصیحت سننے کی پرہیزگاری اختیار نہ کی ۔ باوجود رسول امین کی موجودگی کے راہ ہدایت اختیار نہ کی ۔ حالانکہ نبی کا صاف اعلان تھا کہ ” میں اپنا کوئی بوجھ تم پر ڈال نہیں رہا میں تو رسالت کی تبلیغ کے اجرا کا صرف اللہ تعالیٰ سے خواہاں ہوں “ ۔ اس کے بعد اللہ کی نعمتیں انہیں یاد دلائیں ۔ الشعراء
142 الشعراء
143 الشعراء
144 الشعراء
145 الشعراء
146 صالح علیہ السلام کی باغی قوم حضرت صالح علیہ السلام اپنی قوم میں وعظ فرما رہے ہیں انہیں اللہ کی نعمتیں یاد دلا رہے ہیں اور اس کے عذابوں سے متنبہ فرما رہے ہیں کہ ” وہ اللہ جو تمہیں یہ کشادہ روزیاں دے رہا ہے جس نے تمہارے لیے باغات اور چشمے کھیتیاں اور پھل پھول مہیا فرمادئیے ہیں امن چین سے تمہاری زندگی کے ایام پورے کر رہے ہیں تم اس کی نافرمانیاں کرکے انہی نعمتوں میں اور اسی امن وامان میں نہیں چھوڑے جا سکتے ۔ ان باغات اور ان دریاؤں میں ان کھیتوں میں ان کھجوروں کے باغات میں جن کے خوشے کھجوروں کی زیادتی کے مارے بوجھل ہو رہے ہیں اور جھکے پڑتے ہیں جن میں تہہ بہ تہہ تر کجھوریں بھرپور لگ رہی ہیں جو نرم خوش نما میٹھی اور خوش ذائقہ کجھوروں سے لدی ہوئے ہیں تم اللہ کی نافرمانیاں کر کے ان کو بہ آرام ہضم نہیں کر سکتے ۔ اللہ نے تمہیں اس وقت جن مضبوط اور پرتکلف بلند اور عمدہ گھروں میں رکھ چھوڑا ہے اللہ کی توحید اور میری رسالت سے انکار کے بعد یہ بھی قائم نہیں رہ سکتے ۔ افسوس تم اللہ کی نعمتوں کی قدر نہیں کرتے اپنا وقت اپنا روپیہ بیجا برباد کر کے یہ نقش و نگار والے مکانات پہاڑوں میں بہ تصنع وتکلف صرف بڑائی اور ریاکاری کیلئے اپنی عظمت اور قوت کے مظاہرے کیلے تراش رہے ہو جس میں کوئی نفع نہیں بلکہ اس کا وبال تمہارے سروں پر منڈلا رہا ہے پس تمہیں اللہ سے ڈرنا چاہیئے اور میری اتباع کرنی چاہیئے اپنے خالق رازق منعم محسن کی عبادت اور اس کی فرمانبرداری اور اس کی توحید کی طرف پوری طرح متوجہ ہو جانا چاہیئے ۔ جس کا نفع تمہیں اپنے دنیا اور آخرت میں ملے تمہیں اس کا شکر ادا کرنا چاہیئے اس کی تسبیح وتہلیل کرنی چاہئیے صبح و شام اس کی عبادت کرنی چاہیئے تمہیں اپنے ان موجودہ سردارں کی ہرگز نہ ماننی چاہیئے یہ تو حدود اللہ سے تجاوز کر گئے ، توحید کو ، اتباع کو بھلا بیٹھے ہیں ۔ زمین میں فسادپھیلا رہے ہیں نافرمانی ، گناہ ، فسق وفجور پر خود لگے ہوئے ہیں اور دوسروں کو بھی اسی کی طرف بلا رہے ہیں اور حق کی موافقت اور اتباع کر کے اصلاح کی کوشش نہیں کرتے “ ۔ الشعراء
147 الشعراء
148 الشعراء
149 الشعراء
150 الشعراء
151 الشعراء
152 الشعراء
153 نبی کا اپنے آپ سے تقابل ثمودیوں نے اپنے نبی کو جواب دیا کہ تجھ پر تو کسی نے جادو کر دیا ہے گو ایک معنی یہ بھی کئے گئے کہ تو مخلوق میں سے ہے اور اس کی دلیل میں عربی کا ایک شعر بھی پیش کیا جاتا ہے لیکن ظاہر معنی پہلے ہی ہیں ۔ اسی کے ساتھ انہوں نے کہا کہ تو تو ہم جیسا ایک انسان ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم میں سے تو کسی پر وحی نہ آئے اور تجھ پر آ جائے کچھ نہیں یہ صرف بناوٹ ہے ایک خود ساختہ ڈرامہ ہے محض جھوٹ اور صاف طوفان ہے اچھا ہم کہتے ہیں اگر تو واقعی سچا نبی ہے تو کوئی معجزہ دکھا اس وقت ان کے چھوٹے بڑے سب جمع تھے اور یک زبان ہو کر سب نے معجزہ طلب کیا تھا ۔ آپ علیہ السلام نے پوچھا ” تم کیا معجزہ دیکھانا چاہتے ہو ؟ “ انہوں نے کہا یہ سامنے جو پتھر کی بڑی ساری چٹان ہے یہ ہمارے دیکھتے ہوئے پھٹے اور اس میں سے ایک گابھن اونٹنی اس اس رنگ کی اور ایسی ایسی نکلے ۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا ” اچھا اگر میں رب سے دعا کروں اور وہ یہی معجزہ میرے ہاتھوں تمہیں دکھا دے پھر تو تمہیں میری نبوت کے ماننے میں کوئی عذر نہ ہو گا ؟ “ سب نے پختہ وعدہ کیا قول قرار کیا کہ ہم سب ایمان لائیں گے اور آپ کی نبوت مان لیں گے ۔ آپ علیہ السلام بہت جلد یہ معجزہ دکھائیں ۔ آپ علیہ السلام نے اسی وقت نماز شروع کر دی پھر اللہ عزوجل سے دعا کی اسی وقت وہ پتھر پھٹا اور اسی طرح کی ایک اونٹنی ان کے دیکھتے ہوئے اس میں سے نکلی ۔ کچھ لوگ تو حسب اقرار مومن ہو گئے لیکن اکثر لوگ پھر بھی کافر کے کافر رہے ۔ آپ علیہ السلام نے کہا ” سنو ایک دن یہ پانی پئے گی اور ایک دن پانی کی باری تمہاری مقرر رہے گی ۔ اب تم میں سے کوئی اسے برائی نہ پہنچائے ورنہ بدترین عذاب تم پر اتر پڑے گا “ ۔ ایک عرصے تک تو وہ رکے رہے ۔ اونٹنی ان میں رہی چارہ چگتی اور اپنی باری والے دن پانی پیتی ۔ اس دن یہ لوگ اس کے دودھ سے سیر ہو جاتے ۔ لیکن ایک مدت کے بعد ان کی بدبختی نے انہیں آ گھیرا ۔ ان میں سے ایک ملعون نے اونٹنی کے مار ڈالنے کا ارادہ کیا اور کل اہل شہر اس کے موافق ہو گئے چنانچہ اس کی کوچیں کاٹ کر اسے مار ڈالا ۔ جس کے نتیجے میں انہیں سخت ندامت اور پیشمانی اٹھانی پڑی اللہ کے عذاب نے انہیں اچانک آ دبوچا ۔ ان کی زمین ہلا دی گئیں اور ایک چیخ سے سب کے سب ہلاک کر دئیے گئے ۔ دل اڑ گئے کلیجے پاش پاش ہو گئے اور وہم گمان بھی جس چیز کا نہ تھا وہ آن پڑا ۔ اور تا آخر سب غارت ہو گئے اور دنیا جہاں کے لیے یہ خوفناک واقعہ عبرت افزا ہو گیا ۔ اتنی بڑی نشانی اپنی آنکھوں دیکھ کر بھی ان میں سے اکثر لوگوں کو ایمان لانا نصیب نہ ہوا اسمیں کچھ شک نہیں کہ اللہ غالب ہے اور رحیم بھی ہے ۔ الشعراء
154 الشعراء
155 الشعراء
156 الشعراء
157 الشعراء
158 الشعراء
159 الشعراء
160 لوط علیہ السلام اور ان کی قوم اب اللہ تعالیٰ اپنے بندے اور رسول لوط علیہ السلام کا قصہ بیان فرما رہا ہے ۔ ان کا نام لوط بن ہاران بن آزر تھا ۔ یہ ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے بھتیجے تھے ۔ انہیں اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کی حیات میں بہت بڑی امت کی طرف بھیجا تھا ۔ یہ لوگ سدوم اور اس کے پاس بستے تھے بالآخر یہ بھی اللہ کے عذابوں میں پکڑے گئے سب کے سب ہلاک ہوئے اور ان کی بستیوں کی جگہ ایک جھیل سڑے ہوئے گندے کھاری پانی کی باقی رہ گئی ۔ یہ اب تک بھی بلاد غور میں مشہور ہے جو کہ بیت المقدس اور کرک وشوبک کے درمیان ہے ۔ ان لوگوں نے بھی رسول اللہ علیہ السلام کی تکذیب کی ۔ آپ علیہ السلام نے انہیں اللہ کی معصیت چھوڑنے اور اپنی تابعداری کرنے کی ہدایت کی ۔ اپنا رسول ہو کر آنا ظاہر کیا ۔ انہیں اللہ کے عذابوں سے ڈرایا اللہ کی باتیں مان لینے کو فرمایا ۔ اعلان کر دیا کہ میں تمہارے پیسے ٹکے کا محتاج نہیں ۔ میں صرف اللہ کے واسطے تمہاری خیر خواہی کر رہا ہوں ، تم اپنے اس خبیث فعل سے باز آؤ یعنی عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے حاجت روائی کرنے سے رک جاؤ لیکن انہیں نے اللہ کے رسول علیہ السلام کی نہ مانی بلکہ ایذائیں پہنچانے لگے ۔ الشعراء
161 الشعراء
162 الشعراء
163 الشعراء
164 الشعراء
165 ہم جنسی پرستی کا شکار لوط نبی علیہ السلام نے اپنی قوم کو ان کی خاص بدکاری سے روکا کہ تم مردوں کے پاس شہوت سے نہ آؤ ۔ ہاں اپنی حلال بیویوں سے اپنی خواہش پوری کر جنہیں اللہ نے تمہارے لیے جوڑا بنا دیا ہے ۔ رب کی مقرر حدوں کا ادب واحترام کرو ۔ اس کا جواب ان کے پاس یہی تھا کہ اے لوط علیہ السلام اگر تو باز نہ آیا تو ہم تجھے جلا وطن کر دیں گے انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ ان پاکبازوں لوگوں کو تو الگ کر دو ۔ یہ دیکھ کر آپ علیہ السلام نے ان سے بیزاری اور دست برداری کا اعلان کر دیا ، اور فرمایا کہ ” میں تمہارے اس برے کام سے ناراض ہوں میں اسے پسند نہیں کرتا میں اللہ کے سامنے اپنی برأت کا اظہار کرتا ہوں “ ۔ پھر اللہ سے ان کی لیے بد دعا کی اور اپنی اور اپنے گھرانے کی نجات طلب کی ۔ اللہ تعالیٰ نے سب کو نجات دی مگر آپ علیہ السلام کی بیوی نے اپنی قوم کا ساتھ دیا اور انہی کے ساتھ تباہ ہوئی جیسے کہ سورۃ الاعراف ، سورۃ ہود اور سورۃ الحجر میں بالتفصیل بیان گزر چکا ہے ۔ آپ علیہ السلام اپنے والوں کو لے کر اللہ کے فرمان کے مطابق اس بستی سے چل کھڑے ہوئے حکم تھا کہ آپ علیہ السلام کے نکلتے ہی ان پر عذاب آئے گا اس وقت پلٹ کر ان کی طرف دیکھنا بھی نہیں ۔ پھر ان سب پر عذاب برسا اور سب برباد کر دئیے گئے ۔ ان پر آسمان سے سنگ باری ہوئی ۔ اور انکا انجام بد ہوا ۔ یہ بھی عبرتناک واقعہ ہے ان میں سے بھی اکثر بے ایمان تھے ۔ رب کے غلبے میں اس کے رحم میں کوئی شک نہیں ۔ الشعراء
166 الشعراء
167 الشعراء
168 الشعراء
169 الشعراء
170 الشعراء
171 الشعراء
172 الشعراء
173 الشعراء
174 الشعراء
175 الشعراء
176 شیعب علیہ السلام یہ لوگ مدین کے رہنے والے تھے ۔ شعیب علیہ السلام بھی ان ہی میں تھے آپ علیہ السلام کو ان کا بھائی صرف اس لیے نہیں کہا گیا کہ اس آیت میں ان لوگوں کی نسبت ایکہ کی طرف کی ہے ۔ جسے یہ لوگ پوجتے تھے ۔ ایکہ ایک درخت تھا یہی وجہ ہے کہ جیسے اور نبیوں کی ان کی امتوں کا بھائی فرمایا گیا انہیں ان کا بھائی نہیں کہا گیا ورنہ یہ لوگ بھی انہی کی قوم میں سے تھے ۔ بعض لوگ جن کے ذہن کی رسائی اس نکتے تک نہیں ہوئی وہ کہتے ہیں کہ یہ لوگ آپ کی قوم میں سے نہ تھے ۔ اس لیے شعیب علیہ السلام کو انکا بھائی فرمایا گیا یہ اور ہی قوم تھی ۔ شعیب علیہ السلام اپنی قوم کی طرف بھی بھیجے گئے تھے اور ان لوگوں کی طرف بھی ۔ بعض کہتے ہیں کہ ایک تیسری امت کی طرف بھی آپ علیہ السلام کی بعثت ہوئی تھی ۔ چنانچہ عکرمہ رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ کسی نبی علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے دو مرتبہ نہیں بھیجا سوائے شعیب علیہ السلام کے کہ ایک مرتبہ انہیں مدین والوں کی طرف بھیجا اور ان کی تکذیب کی وجہ سے انہیں ایک چنگھاڑ کے ساتھ ہلاک کر دیا ۔ اور دوبارہ انہیں ایکہ والوں کی طرف بھیجا اور ان کی تکذیب کی وجہ ان پر سائے والے دن کا عذاب آیا اور وہ برباد ہوئے ۔ لیکن یاد رہے کہ اس کے راویوں میں ایک راوی اسحاق بن بشر کاہلی ہے جو ضعیف ہے ۔ قتادۃ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ اصحاب رس اور اصحاب ایکہ قوم شعیب ہے اور ایک بزرگ فرماتے ہیں اصحاب ایکہ اور اصحاب مدین ایک ہی ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ ابن عساکر میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اصحاب مدین اور اصحاب ایکہ دو قومیں ہیں ان دونوں نے امتوں کی طرف اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی شعیب علیہ السلام کو بھیجا تھا } لیکن یہ حدیث غریب ہے اور اس کے مرفوع ہونے میں کلام ہے بہت ممکن ہے کہ یہ موقوف ہی ہو ۔ صحیح امر یہی ہے کہ یہ دونوں ایک ہی امت ہے ۔ دونوں جگہ ان کے وصف الگ الگ بیان ہوئے ہیں مگر وہ ایک ہی ہے ۔ اس کی ایک بڑی دلیل یہ بھی ہے کہ دونوں قصوں میں شعیب علیہ السلام کا وعظ ایک ہی ہے دونوں کو ناپ تول صحیح کرنے کا حکم دیا ہے ۔ الشعراء
177 الشعراء
178 الشعراء
179 الشعراء
180 الشعراء
181 ڈنڈی مار قوم حضرت شعیب علیہ السلام اپنی قوم کو ناپ تول درست کرنے کی ہدایت کر رہے ہیں ۔ ڈنڈی مارنے اور ناپ تول میں کمی کرنے سے روکتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ” جب کسی کو کوئی شے ناپ کر دو تو پورا پیمانہ بھر کر دو اس کے حق سے کم نہ کرو ۔ اسی طرح دوسرے سے جب لو تو زیادہ لینے کی کوشش اور تدبیر نہ کرو ۔ یہ کیا کہ لینے کے وقت پورا لو اور دینے کے وقت کم دو ؟ لین دین دونوں صاف اور پورا رکھو ۔ ترازو اچھی رکھو جس میں تول صحیح آئے بٹے بھی پورے رکھو تول میں عدل کرو ڈنڈی نہ مارو کم نہ تولو کسی کو اس کی چیز کم نہ دو ۔ کسی کی راہ نہ مارو چوری چکاری لوٹ مار غارتگری رہزنی سے بچو لوگوں کو ڈرا دھمکا کر خوفزدہ کر کے ان سے مال نہ لوٹو ۔ اس اللہ کے عذابوں کا خوف رکھو جس نے تمہیں اور سب اگلوں کو پیدا کیا ہے ۔ جو تمہارے اور تمہارے بڑوں کا رب ہے “ ۔ یہی لفظ آیت «وَلَقَدْ اَضَلَّ مِنْکُمْ جِبِلًّا کَثِیْرًا اَفَلَمْ تَکُوْنُوْا تَـعْقِلُوْنَ» ۱؎ (36-یس:62) میں بھی اسی معنی میں ہے ۔ الشعراء
182 الشعراء
183 الشعراء
184 الشعراء
185 مشرکین کی وہی حماقتیں ثمودیوں نے جو جواب اپنے نبی علیہ السلام کو دیا تھا وہی جواب ان لوگوں نے بھی اپنے رسولوں کو دیا کہ تجھ پر تو کسی نے جادو کر دیا ہے تیری عقل ٹھکانے نہیں رہی ۔ تو ہم جیسا ہی انسان ہے اور ہمیں تو یقین ہے کہ تو جھوٹا آدمی ہے ۔ اللہ نے تجھے نہیں بھیجا ۔ اچھا تو اگر اپنے دعوے میں سچا ہے تو ہم پر آسمان کا ایک ٹکڑا گرادے ۔ آسمانی عذاب ہم پر لے آ ۔ جیسے قریشیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا کہ ہم تجھ پر ایمان لانے کے نہیں جب تک کہ تو عرب کے اس ریتلی زمین میں دریا نہ بہادے یہاں تک کہا کہ یا تو تو ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گردے جیسے کہ تیرا خیال ہے یا تو اللہ تعالیٰ کو یا فرشتوں کو کھلم کھلا لے آ ۔ اور آیت میں ہے کہ ’ انہوں نے کہا اے اللہ اگر یہ تیرے پاس ہے اور حق ہے تو تو ہم پر آسمان سے پتھر برسادے ‘ اسی طرح ان جاہل کافروں نے کہا کہ تو ہم پر آسمان کا ٹکڑا گرادے ۔ رسول اللہ علیہ السلام نے جواب دیا کہ ” اللہ کو تمہارے اعمال بخوبی معلوم ہیں جس لائق تم ہو وہ خود کر دے گا ۔ اگر تم اس کے نزدیک آسمانی عذاب کے قابل ہو تو بلا تاخیر تم پر آسمانی عذاب آ جائے گا اللہ ظالم نہیں کہ بے گناہوں کو سزادے “ ۔ بالآخر جس قسم کا عذاب یہ مانگ رہے تھے اسی قسم کا عذاب ان پر آیا ۔ انہیں سخت گرمی محسوس ہوئی سات دن تک گویا زمین ابلتی رہی ۔ کسی جگہ کسی سایہ میں ٹھنڈک یا راحت میسر نہ ہوئی ۔ تڑپ اٹھے بے قرار ہو گئے ، سات دن کے بعد انہوں نے دیکھا کہ ایک سیاہ بادل ان کی طرف آ رہا ہے وہ آ کر ان کے سروں پر چھا گیا یہ سب گرمی اور حرارت سے زچ ہو گئے تھے اس کے نیچے جابیٹھے ۔ جب سارے کے سارے اس کے سائے میں پہنچ گئے وہیں بادل میں سے آگ برسنے لگی ساتھ ہی زمین زور زور سے جھٹکے لینے لگی اور اس زور کی ایک آواز آئی جس سے ان کے دل پھٹ گئے جان نکل گئی اور سارے بہ یک آن تباہ ویران ہو گئے ۔ اس دن کے سائبان والے سخت عذاب نے ان میں سے ایک کو بھی باقی نہ چھوڑا ۔ سورۃ الأعراف میں تو فرمایا گیا ہے کہ ’ ایک زلزلے کے ساتھ ہی یہ سب ہلاک ہو گئے ‘ ۔ سورۃ ہود میں بیان ہوا ہے کہ ’ ان کی تباہی کا باعث ایک خطرناک منظر دل شکن چیخ تھی ‘ اور یہاں بیان ہوا کہ ’ انہیں سائبان کے دن عذاب نے قابو کر لیا ‘ ، تو تینوں مقامات پر تینوں کا ایک ایک کر کے ذکر اس مقام کی عبارت کی مناسبت کی وجہ سے ہوا ہے ۔ سورۃ الاعراف میں ان کی اس خباثت کا ذکر ہے کہ ’ انہوں نے شعیب علیہ السلام کو دھمکایا تھا کہ اگر تم ہمارے دین میں نہ آئے تو ہم تمہیں اور تمہارے ساتھیوں کو شہر بدر کر دیں گے ‘ ۔ چونکہ وہاں نبی علیہ السلام کے دل کو ہلانے کا ذکر تھا اس لیے عذاب بھی ان کے جسموں کو مع دلوں کو ہلادینے والے یعنی زلزلے اور جھٹکے کا ذکر ہوا ۔ سورۃ ہود میں ذکر ہے کہ ’ انہوں نے اپنے نبی کو بطور مذاق کے کہا تھا کہ آپ تو بڑے بردبار اور بھلے آدمی ہیں ‘ ۔ مطلب یہ تھا کہ بڑے بکی بکواسی اور برے آدمی ہیں تو وہاں عذاب میں چیخ اور چنگھاڑ کا بیان ہوا ۔ یہاں چونکہ ان کی آرزو آسمان کے ٹکڑے کے گرنے کی تھی تو عذاب کا ذکر بھی سائبان نما ابر کے ٹکڑے سے ہوا ۔ «فسبحانہ ما اعظم شانہ» ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ” سات دن تک وہ گرمی پڑی کہ الامان و الحفیظ کہیں ٹھنڈک کا نام نہیں تھا تلملا اٹھے اس کے بعد ایک ابر اٹھا اور امڈھا ۔ اس کے سائے میں ایک شخص پہنچا اور وہاں راحت اور ٹھنڈک پاکر اس نے دوسروں کو بلایا جب سب جمع ہو گئے تو ابر پھٹا اور اس میں سے آگ برسی “ ۔ یہ بھی مروی ہے کہ ” ابر جو بطور سائبان کے تھا ان کے جمع ہوتے ہی ہٹ گیا اور سورج سے ان پر آگ برسی جس نے ان سب کا بھرتا بنا دیا “ ۔ محمد بن کعب قرظی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” اہل مدین پر تینوں عذاب آئے شہروں میں زلزلہ آیا جس سے خائف ہو کر حدود شہر سے باہر آ گئے ۔ باہر جمع ہوتے ہی گھبراہٹ پریشانی اور بے کلی شروع ہو گئی تو وہاں سے بھگدڑ مچی لیکن شہر میں جانے سے ڈرے وہیں دیکھا کہ ایک ابر کا ٹکڑا ایک جگہ ہے ایک اس کے نیچے گیا اور اس کی ٹھنڈک محسوس کر کے سب کو آواز دی کہ یہاں آ جاؤ یہاں جیسی ٹھنڈک اور تسکین تو کبھی دیکھی ہی نہیں یہ سنتے سب اس کے نیچے جمع ہو گئے کہ اچانک ایک چیخ کی آواز آئی جس سے کلیجے پھٹ گئے سب کے سب مرگئے “ ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ” سخت گرج کڑک اور گرمی شروع ہوئی جس سے سانس گھٹنے لگے اور بے چینی حد کو پہنچ گئی ۔ گھبراکر شہر چھوڑ کر میدان میں جمع ہو گئے ۔ یہاں بادل آیا جس کے نیچے ٹھنڈک اور راحت حاصل کرنے کے لیے سب جمع ہوئے ۔ وہیں آگ برسی جل بھن گئے “ ۔ یہ تھا سائبان والے بڑے بھاری دن کا عذاب جس نے ان کا نام و نشان مٹا دیا ۔ یقیناً یہ واقعہ سراسر عبرت اور قدرت الٰہی کی ایک زبردست نشانی ہے ۔ ان میں اکثر بے ایمان تھے اللہ تعالیٰ اپنے بد بندوں سے انتقام لینے میں غالب ہے ۔ کوئی اسے مغلوب نہیں کر سکتا وہ اپنے نیک بندوں پر مہربان ہے انہیں بچالیا کرتا ہے ۔ الشعراء
186 الشعراء
187 الشعراء
188 الشعراء
189 الشعراء
190 الشعراء
191 الشعراء
192 مبارک کتاب سورۃ کی ابتداء میں قرآن کریم کا ذکر آیا تھا وہی ذکر پھر تفصیلاً بیان ہو رہا ہے کہ ’ یہ مبارک کتاب قرآن کریم اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے اور نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمائی ہے ‘ ۔ روح الامین سے مراد جبرائیل علیہ السلام ہیں جن کے واسطے سے یہ وحی سرور رسل علیہ السلام پر اتری ہے ۔ جیسے فرمان ہے آیت «قُلْ مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِیْلَ فَاِنَّہٗ نَزَّلَہٗ عَلٰی قَلْبِکَ بِاِذْنِ اللّٰہِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ وَھُدًی وَّبُشْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَ» ۱؎ (2-البقرۃ:97) یعنی ’ اس قرآن کو بحکم الٰہی جبرائیل علیہ السلام نے تیرے دل پر نازل فرمایا ہے ۔ یہ قرآن اگلی تمام الہامی کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے ۔ یہ فرشتہ ہمارے ہاں ایسا مکرم ہے کہ اس کا دشمن ہمارا دشمن ہے ‘ ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں جس سے روح الامین بولے اسے زمین نہیں کھاتی ۔ اس بزرگ بامرتبہ فرشتے نے جو فرشتوں کا سردار ہے تیرے دل پر اس پاک اور بہتر کلام اللہ کو نازل فرمایا ہے جو ہر طرح کے میل کچیل سے کمی زیادتی سے نقصان اور کجی سے پاک ہے ۔ تاکہ تو اللہ کے مخالفین کو گہنگاروں کو اللہ کی سزا سے بچاؤ کرنے کی رہبری کر سکے ۔ اور تابع فرمان لوگوں کو اللہ کی مغفرت ورضوان کی خوشخبری پہنچ اس کے ۔ یہ کھلی فصیح عربی زبان میں ہے ۔ تاکہ ہر شخص سمجھ سکے پڑھ سکے ۔ کسی کا عذر باقی نہ رہے اور ہر ایک پر قرآن کریم اللہ کی حجت بن جائے ۔ { ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کے سامنے نہایت فصاحت سے ابر کے اوصاف بیان کئے جسے سن کر صحابہ رضی اللہ عنہم کہہ اٹھے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو کمال درجے کے فصیح وبلیغ زبان بولتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { بھلا میری زبان ایسی پاکیزہ کیوں نہ ہو گی ، قرآن بھی تو میری زبان میں اترا ہے } فرمان ہے آیت «بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مٰبِیْنٍ» (26-الشعراء:195)} ۔ ۱؎ (ضعیف) امام سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں وحی عربی میں اتری ہے یہ اور بات ہے کہ ہر نبی نے اپنی قوم کے لیے ان کی زبان میں ترجمہ کر دیا ۔ قیامت کے دن سریانی زبان ہوگی ہاں جنتیوں کی زبان عربی ہوگی ۔ (ابن ابی حاتم) الشعراء
193 الشعراء
194 الشعراء
195 الشعراء
196 بشارت و تصدیق یافتہ کتاب فرماتا ہے کہ ’ اللہ کی اگلی کتابوں میں بھی اس پاک اور اللہ کی آخری کلام کی پیشن گوئی اور اس کی تصدیق وصفت موجود ہے ۔ اگلے نبیوں نے بھی اس کی بشارت دی یہاں تک کہ ان تمام نبیوں کے آخری نبی جن کے بعد حضور علیہ السلام تک اور کوئی نبی نہ تھا ‘ ۔ «وَإِذْ قَالَ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ یَا بَنِی إِسْرَائِیلَ إِنِّی رَسُولُ اللہِ إِلَیْکُم مٰصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرَاۃِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ یَأْتِی مِن بَعْدِی اسْمُہُ أَحْمَدُ فَلَمَّا جَاءَہُم بِالْبَیِّنَاتِ قَالُوا ہٰذَا سِحْرٌ مٰبِینٌ» ۱؎ (61-الصف:6) یعنی عیسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو جمع کر کے جو خطبہ دیتے ہیں اس میں فرماتے ہیں کہ ’ اے بنی اسرائیل ! میں تمہاری جانب اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں جو اگلی کتابوں کو سچانے کے ساتھ ہی آنے والے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت تمہیں سناتا ہوں ‘ ۔ زبور داؤ دعلیہ السلام کی کتاب کا نام ہے یہاں زبر کا لفظ کتابوں کے معنی میں ہے جیسے فرمان ہے ۔ آیت «وَکُلٰ شَیْءٍ فَعَلُوْہُ فِی الزٰبُرِ» ۱؎ (54-القمر:52) ’ جو کچھ یہ کر رہے ہیں سب کتابوں میں تحریر ہے ‘ ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ اگر یہ سمجھیں اور ضد اور تعصب نہ کریں تو قرآن کی حقانیت پر یہی دلیل کیا کم ہے کہ خود بنی اسرائیل کے علماء اسے مانتے ہیں ‘ ۔ ان میں سے جو حق گو اور بے تعصب ہیں وہ توراۃ کی ان آیتوں کا لوگوں پر کھلے عام ذکر کر رہے ہیں جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت قرآن کا ذکر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حقانیت کی خبر ہے ۔ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ ، سلمان فارسی رضی اللہ عنہ اور ان جیسے حق گو حضرات نے دنیا کے سامنے توراۃ وانجیل کی وہ آیتیں «الَّذِینَ یَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِیَّ الْأُمِّیَّ الَّذِی یَجِدُونَہُ مَکْتُوبًا عِندَہُمْ فِی التَّوْرَاۃِ وَالْإِنجِیلِ» إلخ ۱؎ (7-الأعراف:157) رکھ دیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کو ظاہر کرنے والی تھیں ۔ اس کے بعد کی آیت کا مطلب یہ ہے کہ ’ اگر اس فصیح وبلیغ جامع بالغ حق کلام کو ہم کسی عجمی پر نازل فرماتے پھر بھی کوئی شک ہی نہیں ہوسکتا تھا کہ یہ ہمارا کلام ہے ۔ مگر مشرکین قریش اپنے کفر اور اپنی سرکشی میں اتنے بڑھ گئے ہیں کہ اس وقت بھی وہ ایمان نہ لاتے ‘ ۔ جیسے فرمان ہے «وَلَوْ فَتَحْنَا عَلَیْہِم بَابًا مِّنَ السَّمَاءِ فَظَلٰوا فِیہِ یَعْرُجُونَ لَقَالُوا إِنَّمَا سُکِّرَتْ أَبْصَارُنَا بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَّسْحُورُونَ» ۱؎ (15-الحجر:14،15) کہ ’ اگر آسمان کا دروازہ بھی ان کے لیے کھول دیا جاتا اور یہ خود چڑھ کر جاتے تب بھی یہی کہتے ہمیں نشہ پلا دیا گیا ہے ۔ ہماری آنکھوں پر پردہ ڈال دیا گیا ہے ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَلَوْ أَنَّنَا نَزَّلْنَا إِلَیْہِمُ الْمَلَائِکَۃَ وَکَلَّمَہُمُ الْمَوْتَیٰ وَحَشَرْ‌نَا عَلَیْہِمْ کُلَّ شَیْءٍ قُبُلًا مَّا کَانُوا لِیُؤْمِنُوا» ۱؎ (6-الأنعام:111) ’ اگر ان کے پاس فرشتے آ جاتے اور مردے بول اٹھتے تب بھی انہیں ایمان نصیب نہ ہوتا ‘ ۔ «إِنَّ الَّذِینَ حَقَّتْ عَلَیْہِمْ کَلِمَتُ رَ‌بِّکَ لَا یُؤْمِنُونَ وَلَوْ جَاءَتْہُمْ کُلٰ آیَۃٍ حَتَّیٰ یَرَ‌وُا الْعَذَابَ الْأَلِیمَ» ۱؎ (10-یونس:96-97) ’ ان پر عذاب کا کلمہ ثابت ہو چکا ، عذاب ان کا مقدر ہو چکا اور ہدایت کی راہ مسدود کر دی گئی ‘ ۔ الشعراء
197 الشعراء
198 الشعراء
199 الشعراء
200 کفر و انکار تکذیب وکفر انکار وعدم تسلیم کو ان مجرموں کے دل میں بٹھا دیا ہے ۔ یہ جب تک عذاب اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں ایمان نہیں لائیں گے ۔ اس وقت اگر ایمان لائے بھی تو محض بے سود ہو گا ان پر لعنت برس چکی ہو گی ۔ برائی مل چکی ہوگی ۔ نہ پچھتانا کام آئے نہ معذرت نفع دے ۔ عذاب اللہ آئیں گے اور اچانک ان کی بے خبری میں ہی آ جائیں گے اس وقت ان کی تمنائیں اگر ذرا سی بھی مہلت پائیں تو نیک بن جائیں بے سود ہونگی ۔ ایک انہی پر کیا موقوف ہے ہر ظالم ، فاجر ، فاسق ، کافر بدکار عذاب کو دیکھتے ہی سیدھا ہو جاتا ہے ، نادم ہوتا ہے توبہ تلافی کرتا ہے مگر سب لا حاصل ۔ فرعون ہی کو دیکھئیے موسیٰ علیہ السلام نے اس کے لیے بد دعا کی «وَقَالَ مُوسَیٰ رَبَّنَا إِنَّکَ آتَیْتَ فِرْعَوْنَ وَمَلَأَہُ زِینَۃً وَأَمْوَالًا فِی الْحَیَاۃِ الدٰنْیَا رَبَّنَا لِیُضِلٰوا عَن سَبِیلِکَ رَبَّنَا اطْمِسْ عَلَیٰ أَمْوَالِہِمْ وَاشْدُدْ عَلَیٰ قُلُوبِہِمْ فَلَا یُؤْمِنُوا حَتَّیٰ یَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِیمَ» ۱؎ (10-یونس:88،89) جو قبول ہوئی عذاب کو دیکھ کر ڈوبتے ہوئے کہنے لگا کہ ” اب میں مسلمان ہوتا ہوں لیکن جواب ملا کہ ’ یہ ایمان بےسود ہے ‘ ۔ اسی طرح ایک اور آیت میں «وَجَاوَزْنَا بِبَنِی إِسْرَائِیلَ الْبَحْرَ فَأَتْبَعَہُمْ فِرْعَوْنُ وَجُنُودُہُ بَغْیًا وَعَدْوًا حَتَّیٰ إِذَا أَدْرَکَہُ الْغَرَقُ قَالَ آمَنتُ أَنَّہُ لَا إِلٰہَ إِلَّا الَّذِی آمَنَتْ بِہِ بَنُو إِسْرَائِیلَ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِینَ آلْآنَ وَقَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ وَکُنتَ مِنَ الْمُفْسِدِینَ» ۱؎ (10-یونس:90-91) ہے کہ ’ ہمارا عذاب دیکھ کر ایمان کا اقرار کیا ‘ ۔ پھر ان کی ایک اور بدبختی بیان ہو رہی ہے کہ ’ وہ اپنے نبیوں سے کہتے تھے اگر سچے ہو تو عذاب اللہ لاؤ ۔ اگرچہ ہم انہیں مہلت دیں اور کچھ دنوں تک کچھ مدت تک انہیں عذاب سے بچائے رکھیں ۔ پھر ان کے پاس ہمارا مقررہ عذاب آجائے ۔ ان کا حال ان کی نعمتیں ان کی جاہ وحشمت غرض کوئی چیز انہیں ذرا سابھی فائدہ نہیں دے سکتی ۔ اس وقت تک یہی معلوم ہو گا کہ شاید ایک صبح یا ایک شام ہی دنیا میں رہے ‘ ۔ جیسے ایک اور آیت میں ہے «یَوَدٰ اَحَدُھُمْ لَوْ یُعَمَّرُ اَلْفَ سَـنَۃٍ وَمَا ھُوَ بِمُزَحْزِحِہٖ مِنَ الْعَذَابِ اَنْ یٰعَمَّرَ وَاللّٰہُ بَصِیْرٌ بِمَا یَعْمَلُوْنَ» ۱؎ (2-البقرۃ:96) ، ’ ان میں سے ہر ایک کی چاہت ہے کہ وہ ہزار ہزار سال جئے لیکن اتنی عمر بھی اللہ کے عذاب ہٹا نہیں سکتی ‘ ۔ یہی یہاں بھی فرمایا کہ ’ اسباب ان کے کچھ کام نہ آئیں گے الٹا عذاب میں مبتلا ہوتے وقت ان کی تمام طاقتیں اور اسباب یونہی رکھے رکھے رہ جائیں گے ‘ ۔ چنانچہ صحیح حدیث میں ہے کہ { کافر کو قیامت کے دن لایا جائے گا ، پھر آگ میں ایک غوطہٰ دلا کر پوچھا جائے گا کہ تو نے کبھی راحت بھی اٹھائی ہے تو کہے گا کہ اللہ کی قسم میں نے کبھی کوئی راحت نہیں دیکھی اور ایک اس شخص کو لایا جائے گا جس نے پوری عمر واقعی کوئی راحت چکھی ہی نہ ہو ۔ اسے جنت کی ہوا کھلا کر لایا جائے گا اور سوال ہو گا کہ کیا تو نے عمر بھر کبھی کوئی برائی دیکھی ہے ؟ تو وہ کہے گا اے اللہ تیری ذات پاک کی قسم میں نے کبھی کوئی زحمت نہیں اٹھائی } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2807) سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ عموماً یہ شعر پڑھا کرتے تھے کہ ” جب تو اپنی مراد کو پہنچ گیا تو گویا تو نے کبھی کسی تکلیف کا نام بھی نہیں سنا “ ۔ اللہ عزوجل اس کے بعد اپنے عدل کی خبر دیتا ہے کہ ’ کبھی اس نے حجت ختم ہونے سے پہلے کبھی کسی امت کو ختم نہیں کیا ‘ ۔ رسولوں کو بھیجتا ، کتابیں اتارتا ہے ، خبریں دیتا ہے ، ہوشیار کرتا ہے پھر نہ ماننے والوں پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں ۔ پس فرمایا کہ ’ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ انبیاء علیہم السلام کے بھیجنے سے پہلے ہی ہم نے کسی امت پر عذاب بھیج دئے ہوں ‘ ۔ ڈرانے والے بھیج کر نصیحت کر کے عذر ہٹا کر پھر نہ مانے پر عذاب ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ’ تیرا رب کسی بستی کو ہلاک نہیں کرتا جب تک کہ ان کی بستیوں کی صدر بستی میں کسی رسول کو نہ بھیج دے جو انہیں ہماری آیتیں پڑھ کر سنائے ‘ ۔ الشعراء
201 الشعراء
202 الشعراء
203 الشعراء
204 الشعراء
205 الشعراء
206 الشعراء
207 الشعراء
208 الشعراء
209 الشعراء
210 یہ کتاب عزیز ’ یہ کتاب عزیز جس کے آس پاس بھی باطل پھٹک نہیں سکتا جو حکیم و حمید اللہ کی طرف سے اتری ہے جس کو روح الامین جو قوت وطاقت والے ہیں لے کر آئیں ہیں اسے شیاطین نہیں لائے ‘ ۔ پھر ان کے نہ لانے پر تین وجوہات بیان کی گئیں ، ایک تو یہ کہ وہ اس کے لائق نہیں ۔ ان کا کام مخلوق کو بہکانا ہے نہ کہ راہ راست پر لانا ۔ «الْأَمْر بِالْمَعْرُوفِ» اور «وَالنَّہْی عَنْ الْمُنْکَر» جو اس کتاب کی شان ہے اس کے سراسر خلاف ہے ۔ یہ نور یہ ہدایت ہے یہ برہان ہے اور شیاطین ان تینوں چیزوں سے چڑتے ہیں وہ ظلمت کے دلدادہ اور ضلالت کے ہیرو ہیں ۔ وہ جہالت کے شیدا ہیں پس اس کتاب میں اور ان میں تو تباین اور اختلاف ہے ۔ کہاں وہ کہاں یہ ؟ دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ جہاں اس کے اہل نہیں وہاں ان میں اس کو اٹھانے اور لانے کی طاقت بھی نہیں ۔ «لَوْ أَنزَلْنَا ہٰذَا الْقُرْآنَ عَلَیٰ جَبَلٍ لَّرَأَیْتَہُ خَاشِعًا مٰتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْیَۃِ اللہِ وَتِلْکَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُہَا لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُونَ» ۱؎ (59-الحشر:21) یہ تو وہ ذی عزت والا کام ہے کہ ’ اگر کسی بڑے سے بڑے پہاڑ بھی اترے تو اس کو بھی چکنا چور کر دے ‘ ۔ پھر تیسری وجہ یہ بیان فرمائی کہ ’ وہ تو اس کے نزول کے وقت ہٹادئیے گئے تھے انہیں تو سننا بھی نہیں ملا ۔ تمام آسمان پر سخت پہرہ چوکی تھی یہ سننے کے لیے چڑھتے تھے تو ان پر آگ برسائی جاتی تھیں ۔ اس کا ایک حرف سن لینا بھی ان کی طاقت سے باہر تھا ۔ تاکہ اللہ کا کلام محفوظ طریقے پر اس کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وساطت سے مخلوق الٰہی کو پہنچے ‘ ۔ جیسے سورۃ الجن میں «وَأَنَّا لَمَسْنَا السَّمَاءَ فَوَجَدْنَاہَا مُلِئَتْ حَرَسًا شَدِیدًا وَشُہُبًا وَأَنَّا کُنَّا نَقْعُدُ مِنْہَا مَقَاعِدَ لِلسَّمْعِ فَمَن یَسْتَمِعِ الْآنَ یَجِدْ لَہُ شِہَابًا رَّصَدًا وَأَنَّا لَا نَدْرِی أَشَرٌّ أُرِیدَ بِمَن فِی الْأَرْضِ أَمْ أَرَادَ بِہِمْ رَبٰہُمْ رَشَدًا» ۱؎ (72-الجن:8-10) خود جنات کا مقولہ بیان ہوا ہے کہ ’ ہم نے آسمان کو ٹٹولا تو اسے سخت پہر چوکی سے بھرپور پایا اور جگہ جگہ شعلے متعین پائے پہلے تو ہم بیٹھ کراکا دکا بات اڑا لایا کرتے تھے لیکن اب تو کان لگاتے ہی شعلہ لپکتا ہے اور جلا کر بھسم کر دیتا ہے ‘ ۔ الشعراء
211 الشعراء
212 الشعراء
213 مستحق سزا لوگوں سے الگ ہو جاؤ خود اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب کر کے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’ صرف میری ہی عبادت کر ۔ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کر جو بھی ایسا کرے گا وہ ضرور مستحق سزا ہے ۔ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ہوشیار کر دے کہ بجز ایمان کے کوئی چیز نجات دہندہ نہیں ‘ ۔ پھر حکم دیتا ہے کہ ’ موحد متبع سنت لوگوں سے فروتنی کے ساتھ ملتا جلتا رہ ۔ اور جو بھی میرے حکم نہ مانے خواہ کوئی ہو تو اس سے بے تعلق ہو جا ۔ اور اپنی بیزاری کا اظہار کر دے ‘ ۔ یہ خاص طور کی خاص لوگوں کی تنبیہہ عام لوگوں کی تنبیہہ کے منافی نہیں کیونکہ یہ اس کا جز ہے ۔ اور جگہ ارشاد ہے ’ تو اس قوم کو ڈرادے جن کے بڑے بھی ڈرائے نہیں گئے اور جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَلِتُنْذِرَ اُمَّ الْقُرٰی وَمَنْ حَوْلَہَا» ۱؎ (6-الأنعام:92) ’ تا کہ تو مکے والوں کو اور اس کے گرد والوں کو سب کو ڈرائے ‘ ۔ اور آیت میں ہے ’ تو اس قرآن سے انہیں ہوشیار کر دے ، جو اپنے رب کے پاس جمع ہونے سے خوف زدہ ہو رہے ہیں ‘ ۔ دیگر آیت میں ارشاد فرمایا کہ ’ تو اس قرآن سے پرہیزگاروں کو خوشخبری سنا دے اور سرکشوں کو ڈرادے ‘ ۔ اور آیت میں فرمایا «لِاُنْذِرَکُمْ بِہٖ وَمَنْ بَلَغَ» ۱؎ (6-الأنعام:19) ’ تاکہ میں اسی قرآن کے ساتھ تمہیں اور جسے بھی یہ پہنچے ڈرادوں ‘ ۔ اور فرمان ہے ’ اس کے ساتھ ان تمام فرقوں میں سے جو بھی کفر کرے اس کی سزا جہنم ہے ‘ ۔ صحیح مسلم کی حدیث میں ہے { اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس امت میں سے جس کے کان میری رسالت کی بات پڑ جائے خواہ یہودی ہو یا نصرانی پھر وہ مجھ پر ایمان نہ لائے تو ضرور وہ جہنم میں جائے گا } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:153) اس آیت کی تفسیر میں بہت سی حدیثیں ہیں انہیں سن لیجئے ۔ (١) مسند احمد میں ہے { جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صفا پہاڑ پر چڑھ گئے ۔ اور «یَا صَبَاحَاہ» کرکے آواز دی ۔ لوگ جمع ہو گئے جو نہیں آسکتے تھے انہوں نے اپنے آدمی بھیج دئیے اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اے اولاد عبدالمطلب ! اے اولاد فہر ! بتاؤ اگر میں تم سے کہوں کہ اس پہاڑ کی پشت پر تمہارے دشمن کا لشکر پڑا ہوا ہے اور گھات میں ہے ۔ موقعہ پاتے ہی تم سب کو قتل کر ڈالے گا تو کیا تم مجھے سچا سمجھو گے ؟} سب نے بیک زبان کہا کہ ہاں ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا ہی سمجھیں گے ۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { سن لو میں تمہیں آنے والے سخت عذابوں سے ڈرانے والا ہوں } ۔ اس پر ابولہب ملعون نے کہا تو ہلاک ہو جائے یہی سنانے کے لیے تو نے ہمیں بلایا تھا اس کے جواب میں سورۃ «تَبَّتْ یَدَا أَبِی لَہَبٍ وَتَبَّ» ۱؎ (111-المسد:1-5) اتری } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4971) (٢) مسند احمد میں ہے { اس آیت کے اترتے ہی اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوگئے اور فرمانے لگے { اے فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، اے صفیہ بنت عبدالطلب سنو میں تمہیں اللہ کے ہاں کچھ کام نہیں آ سکتا ۔ ہاں میرے پاس جو مال ہو جتنا تم چاہو میں دینے کے لیے تیار ہوں ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:205) (٣) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ { اس آیت کے اترتے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قریشیوں کو بلایا اور انہیں ایک ایک کر کے اور عام طور پر خطاب کر کے فرمایا : { اے قریشیو ! اپنی جانیں جہنم سے بچالو اے کعب کے خاندان والو ! اپنی جانیں آگ سے بچالو اے ہاشم کی اولاد کے لوگو ! اپنے آپ کو اللہ کے عذابوں سے چھڑوالو ۔ اے عبدالمطلب کے لڑکو ! اللہ کے عذابوں سے بچنے کی کوشش کرو ۔ اے فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت محمد [ صلی اللہ علیہ وسلم ] ! اپنی جان کو دوزخ سے بچالے قسم اللہ کی میں اللہ کے ہاں کی کسی چیز کا مالک نہیں ۔ بیشک تمہاری قرابت داری ہے جس کے دنیوی حقوق میں ہر طرح ادا کرنے کو تیار ہوں } } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:204) بخاری مسلم میں بھی قدرے الفاظ کی تبدیلی سے یہ حدیث مروی ہے اسمیں یہ بھی ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پھوپھی صفیہ اور اپنی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا سے یہ بھی فرمایا کہ { میرے مال میں سے جو چاہو مجھ سے طلب کر لو } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3527) ابویعلیٰ میں ہے کہ { آپ نے فرمایا : { اے قصی ! اے ہاشم ! اے عبد مناف کی اولادو ! یاد رکھو میں ڈرانے والا ہوں اور موت بدلہ دینے والی ہے اس کا چھاپہ پڑنے ہی والا ہے اور قیامت وعدہ گاہ ہے } } ۔ ۱؎ (مسند ابویعلیٰ:6149:ضعیف) (٤) مسند احمد میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت اتری تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک پہاڑی پر چڑھ گئے جس کی چوٹی پر پتھر تھے وہاں پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اے بنی عبد مناف میں تو صرف چوکنا کر دینے والا ہوں میری اور تمہاری مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے دشمن کو دیکھا اور دوڑ کر اپنے عزیزوں کو ہوشیار کرنے کے لیے آیا تاکہ وہ بچاؤ کر لیں دور سے ہی اس نے غل مچانا شروع کر دیا کہ پہلے ہی خبردار ہو جائیں } } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:207) (۵) سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ { جب یہ آیت اتری تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہل بیت کو جمع کرلیا یہ تیس شخص تھے جب یہ کھا پی چکے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { کون ہے جو میرا قرض اپنے ذمے لے ۔ اور میرے بعد میرے وعدے پورے کرے وہ جنت میں بھی میرا ساتھی اور میری اہل میں خلیفہ ہوگا } ۔ تو ایک شخص نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو سمندر ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کون کھڑا ہوسکتا ہے ؟ تین دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیکن کوئی تیار نہ ہوا تو میں نے کہا ” یا رسول اللہ میں اس کے لیے تیار ہوں “ } ۔ ۱؎ (مسند احمد:111/1:ضعیف) ایک اور سند میں اس سے زیادہ تفصیل کے ساتھ مروی ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو عبدالمطلب کو جمع کیا یہ ایک جماعت کی جماعت تھی اور بڑے کھاؤ تھے ایک شخص ایک ایک بکری کا بچہ کھاجاتا تھا اور ایک بڑا بدھنا دودھ کا پی جاتا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب کے کھانے کے لیے صرف تین پاؤ کے قریب کھانا پکوایا لیکن اللہ نے اسی میں اتنی برکت دی کہ سب پیٹ بھر کر کھاچکے اور خوب آسودہ ہو کر پی چکے لیکن نہ تو کھانے میں کمی نظرآئی تھی نہ پینے کی چیز گھٹی ہوئی معلوم ہوتی تھی ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اے اولاد عبدالمطلب میں تمہاری طرف خصوصا اور تمام لوگوں کی طرف عموماً نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں ۔ اس وقت تم ایک معجزہ بھی میرا دیکھ چکے ہو ۔ اب تم میں سے کون تیار ہے کہ مجھ سے بیعت کرے وہ میرا بھائی اور میرا ساتھی ہوگا لیکن ایک شخص بھی مجمع سے کھڑا نہ ہوا سوائے میرے اور میں اس وقت عمر کے لحاظ سے ان سب سے چھوٹا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { تم بیٹھ جاؤ } ، تین مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا اور تینوں مرتبہ بجز میرے اور کوئی کھڑا نہ ہوا ۔ تیسری مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری بیعت لی } ۔ ۱؎ (مسند احمد:159/1:ضعیف) امام بہیقی رحمہ اللہ دلائل النبوۃ میں لائے ہیں کہ { جب یہ آیت اتری تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اگر میں اپنی قوم کے سامنے ابھی ہی اسے پیش کروں گا تو وہ نہ مانیں گے ۔ اور ایسا جواب دیں گے جو مجھ پر گراں گزرے } ۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے اتنے میں جبرائیل علیہ السلام آئے اور فرمانے لگے ” محمد صلی اللہ علیہ وسلم اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعمیل ارشاد میں تاخیر کی تو ڈر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سزا ہوگی “ ۔ اسی وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو بلایا اور فرمایا : { مجھے حکم ہوا ہے کہ میں اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرادوں میں نے یہ خیال کر کے اگر پہلے ہی سے ان سے کہا گیا تو یہ مجھے ایسا جواب دیں گے جس سے مجھے ایذاء پہنچے میں خاموش رہا لیکن جبرائیل علیہ السلام آئے اور کہا کہ اگر تو نے ایسا نہ کیا تو تجھے عذاب ہو گا تو اب اے علی تم ایک بکری ذبح کر کے گوشت پکالو ۔ اور کوئی تین سیر اناج بھی تیار کرلو اور ایک بدھنا دودھ کا بھی بھرلو ۔ اور اولاد عبدالمطلب کو بھی جمع کرلو } ۔ میں نے ایسا ہی کیا اور سب کو دعوت دے دی چالیس آدمی جمع ہوئے یا ایک آدھ کم یا ایک آدھ زیادہ ان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا بھی تھے ۔ ابوطالب ، حمزہ ، عباس ، اور ابولہب کافر خبیث ۔ میں نے سالن پیش کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے ایک بوٹی لے کر کچھ کھائی پھر اسے ہنڈیا میں ڈال دیا اور فرمایا : { لو اللہ کا نام لو اور کھانا شروع کرو } ۔ سب نے کھانا شروع کیا یہاں تک کہ پیٹ بھر گئے لیکن اللہ کی قسم گوشت اتنا ہی تھا جتنا رکھتے وقت رکھا تھا صرف ان کی انگلیوں کے نشانات تو تھے مگر گوشت کچھ بھی نہ گھٹا تھا ۔ حالانکہ ان میں سے ایک ایک اتنا گوشت تو کھالیتا تھا ۔ پھر مجھ سے فرمایا : { اے علی انہیں پلاؤ } ۔ میں وہ بدھنا لایا سب نے باری باری شکم سیر ہو کر پیا اور خوب آسودہ ہو گئے لیکن دودھ بالکل کم نہ ہوا ۔ حالانکہ ان میں سے ایک ایک اتنا دودھ پی لیا کرتا تھا ۔ اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ فرمانا چاہا لیکن ابولہب جلدی سے اٹھ کھڑا ہوا اور کہنے لگا لو صاحب اب معلوم ہوا کہ یہ تمام جادوگری محض اس لیے تھی ۔ چنانچہ مجمع اسی وقت اکھڑ گیا اور ہر ایک اپنی راہ لگ گیا ۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نصیحت وتبلیغ کو موقعہ نہ ملا ۔ دوسرے روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : { آج پھر اسی طرح ان سب کی دعوت کرو کیونکہ کل اس نے مجھے کچھ کہنے کا وقت ہی نہیں دیا } ۔ میں نے پھر اسی طرح کا انتظام کیا سب کو دعوت دی آئے کھایا پیا پھر کل کی طرح آج بھی ابولہب نے کھڑے ہو کر وہی بات کہی اور اسی طرح سب تتر بتر ہو گئے ۔ تیسرے دن پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے یہی فرمایا آج جب سب کھا پی چکے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جلدی سے اپنی گفتگو شروع کر دی اور فرمایا : { اے بنو عبدالمطلب واللہ کوئی نوجوان شخص اپنی قوم کے پاس اس سے بہتر بھلائی نہیں لایا ، جو میں تمہارے پاس لایا ہوں میں دنیا اور آخرت کی بھلائی لایا ہوں } } ۔ ۱؎ (دلائل النبوۃ للبیہقی:178/2:ضعیف) اور روایت میں یہ بھی ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ { اب بتاؤ تم میں سے کون میرے ساتھ اتفاق کرتا ہے اور کون میرا ساتھ دیتا ہے ؟ مجھے اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا ہے کہ پہلے میں تمہیں اس کی دعوت دوں جو آج میری مان لے گا وہ میرا بھائی ہو گا اور یہ درجے ملیں گے } ۔ لوگ سب خاموش ہو گئے لیکن سیدنا علی رضی اللہ عنہ جو اس وقت اس مجمع میں سب سے کم عمر تھے اور دکھتی آنکھوں والے اور موٹے پیٹ والے اور بھری پنڈلیوں والے تھے ، بول اٹھے یا رسول اللہ اس امر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وزارت میں قبول کرتا ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری گردن پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ { یہ میرا بھائی ہے اور ایسی فضیلتوں والا ہے تم اس کی سنو اور مانو } ۔ یہ سن کر وہ سب لوگ ہنستے ہوتے اٹھ کھڑے ہوئے اور ابوطالب سے کہنے لگے لے اب تو اپنے بچے کی سن اور مان } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:40/19:ضعیف) لیکن اس کا راوی عبدالغفار بن قاسم بن ابی مریم متروک ہے کذاب ہے اور ہے بھی شیعہ ۔ ابن مدینی وغیرہ فرماتے ہیں یہ حدیثیں گھڑلیاکرتا تھا ، دیگر ائمہ حدیث نے بھی اس کو ضعیف لکھا ہے ۔ اور روایت میں ہے کہ اس دعوت میں صرف بکری کے ایک پاؤں کا گوشت پکا تھا اس میں یہ بھی ہے کہ { جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دینے لگے تو انہوں نے جھٹ سے کہہ دیا کہ آج جیسا جادو تو ہم نے کبھی نہیں دیکھا ۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوگئے ۔ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ یہ ہے کہ { کون ہے جو میرا قرض اپنے ذمہ لے اور میری اہل میں میرا خلیفہ بنے اس پر سب خاموش رہے اور عباس بھی چپ تھے صرف اپنے مال کی بخل کی وجہ سے ۔ میں عباس کو خاموش دیکھ کر خاموش ہو رہا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ یہی فرمایا دوبارہ بھی سب طرف خاموشی تھی مجھ سے رہا نہ گیا اور میں بول پڑا ۔ میں اس وقت ان سب سے گری پڑی حالت والا ۔ چندھی آنکھوں والا بڑے پیٹ والا اور بوجھل پنڈلیوں والا تھا } } ۔ ۱؎ (ضعیف) ان روایتوں میں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ { کون میرا قرض اپنے ذمے لیتا ہے اور میری اہل کی میرے بعد حفاظت اپنے ذمے لیتا ہے ؟ } اس سے مطلب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ تھا کہ جب میں اس تبلیغ دین کو پھیلاؤں گا اور لوگوں کو اللہ کی توحید کی طرف بلاؤں گا تو سب کے سب میرے دشمن ہو جائیں گے اور مجھے قتل کر دیں گے ۔ یہی کھٹکا آپ کو لگا رہا یہاں تک کہ یہ آیت اتری «وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ» ۱؎ (5-المائدۃ:67) ’ اللہ تعالیٰ تجھے لوگوں کی ایذاء رسانی سے بچالے گا ‘ ۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم بے خطر ہو گئے ۔ اس سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی پہرہ چوکی بھی بٹھاتے تھے لیکن اس آیت کے اترنے کے بعد وہ بھی ہٹادی ۔ اس وقت فی الواقع تمام بنو ہاشم میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے زیادہ ایمان والا اور تصدیق ویقین والا کوئی نہ تھا ۔ اس لیے ہی آپ رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اقرار کیا ۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوہ صفا پر عام دعوت دی اور لوگوں کو توحید خالص کی طرف بلایا اور اپنی نبوت کا اعلان کیا ۔ ابن عساکر میں ہے کہ ایک مرتبہ ابودرداء رضی اللہ عنہ اپنی مسجد میں بیٹھے ہوئے وعظ فرما رہے تھے فتوے دے رہے تھے ۔ مجلس کھچاکھچ بھری ہوئی تھی ۔ ہر ایک کی نگاہیں آپ کی چہرے پر تھیں اور شوق سے سن رہے تھے لیکن آپ کے لڑکے اور گھر کے آدمی آپس میں بے پرواہی سے اپنی باتوں میں مشغول تھے ۔ کسی نے ابودرداء رضی اللہ عنہ کی اس طرف توجہ دلائی کہ اور سب لوگ تو دل سے آپ کی علمی باتوں میں دلچسپی لے رہے ہیں اور آپ کے اہل بیت اس سے بالکل بےپرواہ ہیں وہ اپنی باتوں میں نہایت بےپرواہی سے مشغول ہیں تو آپ نے جواب میں فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے دنیا سے بالکل کنارہ کشی کرنے والے انبیاء علیہم السلام ہوتے ہیں اور ان پر سب سے زیادہ سخت اور بھاری ان کے قرابت دار ہوئے ہیں اسی بارے میں آیت «وَأَنذِرْ عَشِیرَتَکَ الْأَقْرَبِینَ وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ فَإِنْ عَصَوْکَ فَقُلْ إِنِّی بَرِیءٌ مِّمَّا تَعْمَلُونَ» (26-سورۃالشعراء:214-216) ہے ۔ ۱؎ (تاریخ دمشق لا بن عساکر:587/10:ضعیف) پھر فرماتا ہے ’ اپنے تمام امور میں اللہ ہی پر بھروسہ رکھو وہی تمہارا حافظ و ناصر ہے وہی تمہاری تائید کرنے والا اور تمہارے کلمے کو بلند کرنے والا ہے ۔ اس کی نگاہیں ہر وقت تم پر ہیں ‘ ۔ جیسے فرمان ہے آیت «وَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ فَاِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا وَسَبِّــحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ حِیْنَ تَـقُوْمُ» ۱؎ (52-الطور:48) ’ اپنے رب کے حکموں پر صبر کر ۔ تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے‘ ۔ یہ بھی مطلب ہے کہ ’ جب تو نماز کیلئے کھڑا ہوتا ہے تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے ۔ ہم تمہارے رکوع سجود دیکھتے ہیں کھڑے ہو یا بیٹھے ہو یا کسی حالت میں ہو ہماری نظروں میں ہو ‘ ۔ یعنی تنہائی میں تو نماز پڑھے تو ہم دیکھتے ہیں اور جماعت سے پڑھے تو تو ہماری نگاہ کے سامنے ہوتا ہے یہ بھی مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ حالت نماز میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کی چیزیں دکھاتا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کے مقتدی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ میں رہتے تھے ۔ چنانچہ صحیح حدیث میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے { صفیں درست کر لیا کرو میں تمہیں اپنے پیچھے سے دیکھتا رہتا ہوں } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:718) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ یہ مطلب بھی بیان کرتے ہیں کہ ” ایک نبی کی پیٹھ سے دوسرے نبی کی پیٹھ کی طرف منتقل ہونا برابر دیکھتے رہے ہیں یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت نبی دنیا میں آئے “ ۔ وہ اللہ اپنے بندوں کی باتیں خوب سنتا ہے ، ان کی حرکات وسکنات کو خوب جانتا ہے جیسے فرماتا ہے آیت «وَمَا تَکُوْنُ فِیْ شَاْنٍ وَّمَا تَتْلُوْا مِنْہُ مِنْ قُرْاٰنٍ وَّلَا تَعْمَلُوْنَ مِنْ عَمَلٍ اِلَّا کُنَّا عَلَیْکُمْ شُہُوْدًا اِذْ تُفِیْضُوْنَ فِیْہِ» ۱؎ (10-یونس:61) ، ’ تو جس حالت میں ہو تم جتنا قرآن پڑھو تم جو عمل کرو اس پر ہم شاہد ہیں ‘ ۔ الشعراء
214 الشعراء
215 الشعراء
216 الشعراء
217 الشعراء
218 الشعراء
219 الشعراء
220 الشعراء
221 شیاطین اور جادوگر مشرکین کہا کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا یہ قرآن برحق نہیں ۔ اس نے اس کو خود گھڑلیا ہے یا اس کے پاس جنوں کا کوئی سردار آتا ہے جو اسے یہ سکھا جاتا ہے ۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس اعتراض سے پاک کیا اور ثابت کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس قرآن کو لائے ہیں وہ اللہ کا کلام ہے اسی کا اتارا ہوا ہے ۔ بزرگ امین طاقتور فرشتہ اسے لایا ہے ۔ یہ کسی شیطان یا جن کی طرف سے نہیں شیاطین تو تعلیم قرآن سے چڑتے ہیں اس کی تعلیمات ان کے یکسر خلاف ہیں ۔ انہیں کیا پڑی کہ ایسا پاکیزہ اور راہ راست پر لگانے والا قرآن وہ لائیں اور لوگوں کو نیک راہ بتائیں وہ تو اپنے جیسے انسانی شیطانوں کے پاس آتے ہیں جو پیٹ بھر کر جھوٹ بولنے والے ہوں ۔ بدکردار اور گناہگار ہوں ۔ ایسے کاہنوں اور بدکرداروں اور جھوٹے لوگوں کے پاس جنات اور شیاطین پہنچتے ہیں کیونکہ وہ بھی جھوٹے اور بداعمال ہیں ۔ اچٹتی ہوئی کوئی ایک آدھ بات سنی سنائی پہنچاتے ہیں اور وہ ایک جو آسمان سے چھپے چھپائے سن لی تو سو جھوٹ اس میں ملا کر کاہنوں کے کان میں ڈالدی ۔ انہوں نے اپنی طرف سے پھر بہت سی باتیں شامل کر کے لوگوں میں ڈینگیں مار دیں ۔ اب ایک آدھ بات تو سچی نکلی لیکن لوگوں نے ان کی اور سو جھوٹی باتیں بھی سچی مان لیں اور تباہ ہوئے ۔ بخاری شریف میں ہے کہ { لوگوں نے کاہنوں کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { وہ کوئی چیز نہیں ہیں } ۔ لوگوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھی تو ان کی کوئی بات کھری بھی نکل آتی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ہاں یہ وہی بات ہوتی ہے جو جنات آسمان سے اڑا لاتے ہیں اور ان کے کان میں کہہ کر جاتے ہیں پھر اس کے ساتھ جھوٹ اپنی طرف سے ملا کر کہہ دیتے ہیں } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5762) صحیح بخاری شریف کی ایک حدیث میں یہ بھی ہے کہ { جب اللہ تعالیٰ کسی کام کا فیصلہ آسمان پر کرتا ہے تو فرشتے با ادب اپنے پر جھکا دیتے ہیں ۔ ایسی آواز آتی ہے جیسے کسی چٹان پر زنجیر بجائی جاتی ہو جب وہ گھبراہٹ ان کے دلوں سے دور ہوتی ہے تو آپس میں دریافت کرتے ہیں کہ رب کا کیا حکم صادر ہوا ہے ؟ دوسرے جواب دیتے ہیں کہ رب نے یہ فرمایا اور وہ عالی شان اور بہت بڑی کبرائی والا ہے ۔ کبھی کبھی امر الٰہی سے چوری چھپے سننے والے کسی جن کے کان میں بھنک پڑجاتی ہے جو اس طرح ایک پر ایک پر ہو کر وہاں تک پہنچ جاتے ہیں ۔ راوی حدیث سیدنا سفیان نے اپنے ہاتھوں کی انگلیاں پھیلا کر اس پر دوسرا ہاتھ اس طرح رکھ کر انہیں ہلا کر بتایا کہ اس طرح ۔ اب اوپر والا نیچے والے کو اور وہ اپنے سے نیچے والے کو وہ بات بتلا دیتا ہے یہاں تک کہ جادوگر اور کاہن کو وہ پہنچادیتے ہیں ۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بات پہنچاتے اس سے پہلے شعلہ پہنچ جاتا ہے اور کبھی اس کے پہلے ہی وہ پہنچا دیتے ہیں اس میں کاہن وجادوگر اپنے سوجھوٹ شامل کر کے مشہور کرتا ہے چونکہ وہ ایک بات سچی نکلتی ہے لوگ سب باتوں کو ہی سچا سمجھنے لگتے ہیں } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4800) ان تمام احایث کا بیان آیت «حَتّیٰٓ اِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوْبِہِمْ قَالُوْا مَاذَا قَالَ رَبٰکُمْ قَالُوا الْحَقَّ وَہُوَ الْعَلِیٰ الْکَبِیْرُ» ۱؎ (34-سبأ:23) کی تفسیر میں آئے گا ۔ ان شاءاللہ ۔ بخاری شریف کی ایک حدیث میں یہ بھی ہے کہ { فرشتے آسمانی امر کی بات چیت بادلوں پر کرتے ہیں جسے شیطان سن کر کاہنوں اور وہ ایک سچ میں سو جھوٹ ملاتے ہیں } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3288) پھر فرمایا کہ ’ کافر شاعروں کی اتباع گمراہ لوگ کرتے ہیں ‘ ۔ عرب کے شاعروں کا دستور تھا کسی کی مذمت اور ہجو میں کچھ کہہ ڈالتے تھے لوگوں کی ایک جماعت ان کے ساتھ ہو جاتی تھی اور اس کی ہاں میں ہاں ملانے لگتی تھی ۔ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت کے ساتھ عرج میں جا رہے تھے راستے میں ایک شاعر شعر خوانی کرتے ہوئے ملا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اس شیطان کو پکڑ لو } یا فرمایا : { روکو ! تم میں سے کوئی شخص خون اور پیپ سے اپنا پیٹ بھرلے یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ شعروں سے اپنا پیٹ بھرے } } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2259) انہیں ہر جنگل کی ٹھوکریں کھاتے کسی نے نہیں دیکھا ؟ ہر لغو میں یہ گھس جاتے ہیں ۔ کلام کے ہر فن میں بولتے ہیں ۔ کبھی کسی کی تعریف میں زمین اور آسمان کے قلابے ملاتے ہیں ۔ کبھی کسی کی مذمت میں آسمان و زمین سر پر اٹھاتے ہیں جھوٹی خوشامد جھوٹی برائیاں گھڑی ہوئی بدیاں ان کے حصے میں آئی ہیں ۔ یہ زبان کے بھانڈ ہوتے ہیں لیکن کام کے کاہل ایک انصاری اور ایک دوسری قوم کے شخص نے ہجو کا مقابلہ کیا جس میں دنوں کے قوم کے بڑے بڑے لوگ بھی ان کے ساتھ ہوگئے ۔ پس اس آیت میں یہی ہے کہ ان کا ساتھ دینے والے گمراہ لوگ ہیں ۔ وہ وہ باتیں بکا کرتے ہیں جنہیں کسی نے کبھی کیا نہ ہو ۔ اسی لیے علماء نے اس بات میں اختلاف کیا ہے کہ اگر کسی شاعر نے نے اپنے شعر میں کسی ایسے گناہ کا اقرار کیا ہو جس پر حد شرع واجب ہوتی ہو تو آیا وہ حد اس پر جاری کی جائے گی یا نہیں ؟ دونوں طرف علماء گئے ۔ واقعی وہ فخر و غرور کے ساتھ ایسی باتیں بک دیتے ہیں کہ میں نے یہ کیا اور وہ کیا حالانکہ نہ کچھ کیا ہو اور نہ ہی کر سکتے ہوں ۔ امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہا نے اپنی خلافت کے زمانے میں نعمان بن عدی بن فضلہ کو بصرے کے شہر یسان کا گورنر مقرر کیا تھا ۔ وہ شاعر تھے ایک مرتبہ اپنے شعروں میں کہا کہ ” کیا حسینوں کو یہ اطلاع نہیں ہوئی کہ ان کا محبوب یسان میں ہے جہاں ہر وقت شیشے کے گلاسوں میں دور شراب چل رہا ہے اور گاؤں کی بھولی لڑکیوں نے گانے اور ان کے رقص وسرور مہیا ہیں ہاں اگر میرے کسی دوست سے ہو سکے تو اس بڑے اور بھرے ہوئے جام مجھے پلائے لیکن ان سے چھوٹے جام مجھے سخت ناپسند ہیں “ ۔ اللہ کرے امیر المؤمنین کو یہ خبر نہ پہنچے ورنہ برا مانیں گے اور سزادیں گے ۔ یہ اشعار سچ مچ امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ تک پہنچ گئے آپ رضی اللہ عنہ سخت ناراض ہوئے اور اسی وقت آدمی بھیجا کہ میں نے تجھے تیرے عہدے سے معزول کیا ۔ اور آپ رضی اللہ عنہ نے ایک خط بھیجا جس میں بسم اللہ کے بعد حم کی تین آیتیں «حم تَنزِیلُ الْکِتَابِ مِنَ اللہِ الْعَزِیزِ الْعَلِیمِ غَافِرِ الذَّنبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ شَدِیدِ الْعِقَابِ ذِی الطَّوْلِ لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ إِلَیْہِ الْمَصِیرُ» ۱؎ (40-غافر:1-3) تک لکھ کر پھر تحریر فرمایا کہ ” تیرے اشعار سے مجھے سخت رنج ہوا ۔ میں تجھے تیرے عہدے سے معزول کرتا ہوں “ ۔ چنانچہ اس خط کو پڑھتے ہی نعمان دربار خلافت میں حاضر ہوئے اور با ادب عرض کیا کہ امیر المؤمنین واللہ نہ میں نے کبھی شراب پی نہ ناچ رنگ وگانا بجانا دیکھا ، نہ سنا ۔ یہ تو صرف شاعرانہ ترنگ تھی ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” یہی میرا خیال ہے لیکن میری تو ہمت نہیں پڑتی کہ ایسے فحش گو شاعر کو کوئی عہدہ دوں “ ۔ پس معلوم ہوا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک بھی شاعر اپنے شعروں میں کسی جرم کے اعلان پر اگرچہ وہ قابل حد ہو تو حد نہیں لگائی جائے گی اس لیے کہ وہ جو کہتے ہیں سو کرتے نہیں ہاں وہ قابل ملامت اور لائق سرزنش ضرور ہیں ۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ { پیٹ کو لہو پیپ سے بھر لینا اشعار سے بھرلینے سے بد تر ہے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2258) مطلب یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ تو شاعر ہیں ، نہ ساحر ، نہ کاہن ، نہ مفتری ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ظاہر حال ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان عیوب سے برأت کا بہت بڑا عادل گواہ ہے جیسے فرمان ہے کہ «وَمَا عَلَّمْنَاہُ الشِّعْرَ‌ وَمَا یَنبَغِی لَہُ إِنْ ہُوَ إِلَّا ذِکْرٌ‌ وَقُرْ‌آنٌ مٰبِینٌ» ۱؎ (36-یس:69) ’ تو ہم نے انہیں شعر گوئی سکھائی ہے نہ اس کے لائق ہے یہ تو صرف نصیحت اور قرآن مبین ہے ‘ ۔ اور آیت میں ہے «إِنَّہُ لَقَوْلُ رَ‌سُولٍ کَرِ‌یمٍ وَمَا ہُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ‌ قَلِیلًا مَّا تُؤْمِنُونَ وَلَا بِقَوْلِ کَاہِنٍ قَلِیلًا مَّا تَذَکَّرُ‌ونَ تَنزِیلٌ مِّن رَّ‌بِّ الْعَالَمِینَ» ۱؎ (69-الحاقۃ:40-43) ’ یہ رسول اللہ کا قول ہے کسی شاعر کا نہیں تم میں ایمان کی کمی ہے یہ کسی کاہن کا قول نہیں ۔ تم میں نصیحت ماننے کا مادہ کم ہے یہ تو رب العلمین کی اتاری ہوئی کتاب ہے ‘ ۔ اس سورت میں بھی یہی فرمایا گیا کہ ’ یہ رب العلمین کی طرف سے اتری ہے ۔ روح الامین نے تیرے دل پر نازل فرمائی ہے عربی زبان میں ہے اس لیے کہ تو لوگوں کو آگاہ کر دے اسے شیاطین لے کر نہیں آئے نہ یہ ان کے لائق ہے نہ ان کی بس کی بات ہے وہ تو اس کے سننے سے بھی الگ کر دئیے گئے ہیں ‘ ۔ جو جھوٹے مفتری اور بد کردار ہوتے ہیں ان کے پاس شیاطین آتے ہیں جو اچٹتی باتیں سن سنا کر ان کے کانوں میں آ کر ڈال جاتے ہیں ۔ محض جھوٹ بولنے والے یہ خود ہوتے ہیں شاعروں کی پشت پناہی اوباشوں کا کام ہے وہ تو ہر وادی میں سرگرداں ہوتے ہیں زبانی باتیں بناتیں ہیں عمل سے کورے رہتے ہیں ۔ اس کے بعد جو فرمان ہے اس کا شان نزول یہ ہے کہ { اس سے اگلی آیت جس میں شاعروں کی مذمت ہے جب اتری تو دربار رسول کے شعراء حسان بن ثابت ، عبداللہ بن رواحہ ، کعب بن مالک رضی اللہ عنہم روتے ہوئے دربار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شاعروں کی تو یہ گت بنی اور ہم بھی شاعر ہیں اسی وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دوسری آیت تلاوت فرمائی کہ ’ ایمان لانے والے اور نیک عمل کرنے والے تم ہو ذکر اللہ بکثرت کرنے والے تم ہو مظلوم ہو کر بدلہ لینے والے تم ہو پس تم ان سے مستثنٰی ہو ‘ } ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:26848:ضعیف) ۔ ایک روایت میں کعب رضی اللہ عنہ کا نام ہے ایک روایت میں صرف عبداللہ رضی اللہ عنہ کی اس شکایت پر کہ ” یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شاعر تو میں بھی ہوں “ ۔ اس دوسری آیت کا نازل ہونا مروی ہے لیکن یہ قابل نظر ، اس لیے کہ یہ سورت مکیہ ہے شعراء انصار جتنے بھی تھے وہ سب مدینے میں تھے پھر ان کے بارے میں اس آیت کا نازل ہونا یقیناً محل غور ہو گا اور جو حدیثیں بیان ہوئیں وہ مرسل ہیں اس وجہ سے اعتماد نہیں ہوسکتا ہے یہ آیت بے شک استثناء کے بارے میں ہے اور صرف یہی انصاری شعراء رضی اللہ عنہم ہی نہیں بلکہ اگر کسی شاعر نے اپنی جاہلیت کے زمانے میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بھی اشعار کہے ہوں اور پھر مسلمان ہو جائے توبہ کر لے اور اس کے مقابلے میں ذکر اللہ بکثرت کرے وہ بیشک اس برائی سے الگ ہے ۔ حسنات سیئات کو دور کر دیتی ہے جب کہ اس نے مسلمان کو اور دین حق کو برا کہا تھا وہ برا تھا لیکن جب اس نے ان کی مدح کی تو برائی بھلائی سے بدل گئی ۔ جیسے عبداللہ بن زبعری رضی اللہ عنہ نے اسلام سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو بیان کی تھی لیکن اسلام کے بعد بڑی مدح بیان کی اور اپنے اشعار میں اس ہجو کا عذر بھی بیان کرتے ہوئے کہا ۔ میں اس وقت شیطانی پنجہ میں پھنسا ہوا تھا ۔ اسی طرح ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب باوجود آپ کا چچا زاد بھائی ہونے کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جانی دشمن تھا اور بہت ہجو کیا کرتا تھا جب مسلمان ہوئے تو ایسے مسلمان ہوئے کہ دنیا بھر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ محبوب انہیں کوئی نہ تھا ۔ اکثر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح کیا کرتے تھے اور بہت ہی عقیدت ومحبت رکھتے تھے ۔ [ رضی اللہ عنہ ] صحیح مسلم میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ { ابوسفیان صخر بن حرب جب مسلمان ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگا مجھے تین چیزیں عطا فرمائیے ایک تو یہ کہ میرے لڑکے معاویہ کو اپنا کاتب بنا لیجئیے ۔ دوسرے مجھے کافروں سے جہاد کے لیے بھیجیے اور میرے ساتھ کوئی لشکر دیجئیے تاکہ جس طرح کفر میں مسلمانوں سے لڑا کرتا تھا اب اسلام میں کافروں کی خبرلوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں باتیں قبول فرمائیں ایک تیسری درخواست بھی کی جو قبول کی گئی } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2501) پس ایسے لوگ اس آیت کے حکم سے اس دوسری آیت سے الگ کرلئے گئے ۔ ذکر اللہ خواہ وہ اپنے شعروں میں بکثرت کریں خواہ اور طرح اپنے کلام میں یقیناً وہ اگلے گناہوں کا بدلہ اور کفارہ ہے ۔ ’ اپنی مظلومی کا بدلہ لیتے ہیں ‘ ۔ یعنی کافروں کی ہجو کا جواب دیتے ہیں ۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حسان رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا { ان کفار کی ہجو کرو جبرائیل علیہ السلام تمہارے ساتھ ہیں } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3213) { کعب بن مالک رضی اللہ عنہ شاعر نے جب شعراء کی برائی قرآن میں سنی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { تم ان میں نہیں ہو مومن تو جس طرح اپنی جان سے جہاد کرتا ہے اپنی زبان سے بھی جہاد کرتا ہے ۔ واللہ تم لوگوں کے اشعار تو انہیں مجاہدین کے تیروں کی طرح چھید ڈالتے ہیں } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:387/6:صحیح) پھر فرمایا ’ ظالموں کو اپنا انجام ابھی معلوم ہو جائے گا ۔ انہیں عذر معذرت بھی کچھ کام نہ آئیگی ‘ ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { ظالم سے بچو اس سے میدان قیامت میں اندھیروں میں رہ جاؤ گے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2578) آیت عام ہے خواہ شاعر ہوں خواہ شاعر نہ ہوں سب شامل ہیں ۔ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے ایک نصرانی کے جنازے کو جاتے ہوئے دیکھ کر یہی آیت تلاوت فرمائی تھی ۔ آپ رضی اللہ عنہ جب اس آیت کی تلاوت کرتے تو اس قدر روتے کہ ہچکی بندھ جاتی ۔ روم میں جب فضالہ بن عبید تشریف لے گئے اس وقت ایک صاحب نماز پڑھ رہے تھے جب انہوں نے اس آیت کی تلاوت کی تو آپ نے فرمایا ” اس سے مراد بیت اللہ کی بربادی کرنے والے ہیں “ ، کہا گیا کہ ” اس سے مراد اہل مکہ ہیں “ ، یہ بھی مروی ہے کہ ” مراد مشرک ہیں “ ۔ حقیقت یہ ہے کہ آیت عام ہے سب پر مشتمل ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے { ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میرے والد سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے انتقال کے وقت اپنی وصیت صرف دو سطروں میں لکھی ۔ جو یہ تھی « «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» » یہ ہے وصیت ابوبکر بن ابی قحافہ کی ۔ اس وقت کی جب کہ وہ دنیا چھوڑ رہے تھے ۔ جس وقت کافر بھی مومن ہو جاتا ، فاجر بھی توبہ کر لیتا تب کاذب کو بھی سچا سمجھتا ہے میں تم پر اپنا خلیفہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو بنا جا رہا ہوں ۔ اگر وہ عدل کرے تو بہت اچھا اور میرا گمان بھی ان کے ساتھ یہی ہے اور اگر وہ ظلم کرے اور کوئی تبدیلی کر دے تو میں غیب نہیں جانتا ۔ ظالموں کو بہت جلد معلوم ہو جائے گا کہ کس لوٹنے کی جگہ وہ لوٹتے ہیں } ۔ ۱؎ (ضعیف) سورۃ الشعراء کی تفسیر بحمد اللہ ختم ہوئی ۔ الشعراء
222 الشعراء
223 الشعراء
224 الشعراء
225 الشعراء
226 الشعراء
227 الشعراء
0 النمل
1 تفسیر سورۂ نمل حروف مقطعہ جو سورتوں کے شروع میں آتے ہیں ان پر پوری بحث سورۃ البقرہ کے شروع میں ہم کر چکے ہیں ۔ یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں ۔ قرآن کریم جو کھلی ہوئی واضح روشن اور ظاہر کتاب ہے ۔ یہ اس کی آیتیں ہیں جو مومنوں کے لیے ہدایت وبشارت ہیں ۔ کیونکہ وہی اس پر ایمان لاتے ہیں اس کی اتباع کرتے ہیں اسے سچا جانتے ہیں اس میں حکم احکام ہیں ان پر عمل کرتے ہیں ۔ یہی وہ لوگ ہیں جو نمازیں صحیح طور پر پڑھتے ہیں فرضوں میں کمی نہیں کرتے اسی طرح فرض زکوٰۃ کو بھی نہیں روکتے ، دار آخرت پر کامل یقین رکھتے ہیں موت کے بعد کی زندگی اور جزا سزا کو بھی مانتے ہیں ۔ جنت ودوزخ کو حق جانتے ہیں ۔ چنانچہ اور روایت میں بھی ہے کہ ایمانداروں کے لیے تو یہ قرآن ہدایت اور شفاہے اور بے ایمانوں کے کان تو بہرے ہیں ان میں روئی دئیے ہوئے ہیں ۔ اس سے خوشخبری پرہیزگاروں کو ہے اور بدکرداروں کو اس میں ڈراوا ہے ۔ یہاں بھی فرماتا ہے کہ جو اسے جھٹلائیں اور قیامت کے آنے کو نہ مانیں ہم بھی انہیں چھوڑ دیتے ہیں ان کی برائیاں انہیں اچھی لگنے لگتی ہیں ۔ اسی میں وہ بڑھتے اور پھولتے پھلتے رہتے ہیں اور اپنی سرکشی اور گمراہی میں بڑھتے رہتے ہیں ۔ ان کی نگاہیں اور دل الٹ جاتے ہیں انہیں دنیا اور آخرت میں بدترین سزائیں ہونگی اور قیامت کے دن تمام اہل محشر میں سب سے زیادہ خسارے میں یہی رہیں گے بیشک آپ اے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے ہی قرآن لے رہے ہیں ۔ ہم حکیم ہیں امرو نہی کی حکمت کو بخوبی جانتے ہیں علیم ہیں چھوٹے بڑے تمام کاموں سے بخوبی خبردار ہیں ۔ پس قرآن کی تمام خبریں بالکل صدق وصداقت والی ہیں اور اس کے حکم احکام سب کے سب سراسر عدل والے ہیں جیسے فرمان ہے آیت «وَتَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ صِدْقًا وَّعَدْلًا ۭلَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِہٖ ۚ وَہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ » ۱؎ (6-الأنعام:1)(6-الأنعام:115) النمل
2 النمل
3 النمل
4 النمل
5 النمل
6 النمل
7 آگ لینے گئے رسالت مل گئی اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ یاد دلارہا ہے کہ اللہ نے انہیں کس طرح بزرگ بنایا اور ان سے کلام کیا اور انہیں زبردست معجزے عطا فرمائے اور فرعون اور فرعونیوں کے پاس اپنا رسول بنا کر بھیجا لیکن کفارنے آپ کا انکار کیا اپنے کفر وتکبر سے نہ ہٹے آپ کی اتباع اور پیروی نہ کی ۔ فرماتا ہے کہ جب موسیٰ علیہ السلام اپنی اہل کو لے کر چلے اور راستہ بھول گئے رات آ گئی اور وہ بھی سخت اندھیرے والی ۔ تو آپ نے دیکھا کہ ایک جانب سے آگ کا شعلہ سا دکھائی دیتا ہے آپ نے اپنی اہل سے فرمایا کہ تم تو یہیں ٹھہرو ۔ میں اس روشنی کے پاس جاتا ہوں کیا عجب کہ وہاں سے جو ہو اس سے راستہ معلوم ہو جائے یا میں وہاں کچھ آگ لے آؤں کہ تم اسے ذرا سینک تاپ کر لو ۔ ایسا ہی ہوا کہ آپ وہاں سے ایک بڑی خبر لائے اور بہت بڑا نور حاصل کیا فرماتا ہے کہ جب وہاں پہنچے اس منظر کو دیکھ کر حیر ان رہ گئے دیکھتے ہیں کہ سرسبز درخت ہے اس پر آگ لپٹی رہی شعلے تیز ہو رہے ہیں اور درخت کی سرسبزی اور بڑھ رہی ہے ۔ اونچی نگاہ کی تو دیکھا کہ وہ نور آسمان تک پہنچا ہوا ہے ۔ فی الوقع وہ آگ نہ تھی بلکہ نور تھا اور نور بھی رب العالمین وحدہ لاشریک کا ۔ موسیٰ علیہ السلام متعجب تھے اور کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی تھی ۔ کہ یکایک ایک آواز آتی ہے کہ اس نور میں جو کچھ ہے وہ پاکی والا اور بزرگی والا ہے اور اس کے پاس جو فرشتے ہیں وہ بھی مقدس ہیں ۔ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ سوتا نہیں اور نہ اسے سونا لائق ہے وہ ترازو کو پست کرتا ہے اور اونچی کرتا ہے رات کے کام اس کی طرف دن سے پہلے اور دن کے کام رات سے پہلے چڑھ جاتے ہیں ۔ اس کا حجاب نور یا آگ ہے اگر وہ بٹ جائیں تو اس کے چہرے کی تجلیاں ہرچیز کو جلادیں جس پر اس کی نگاہ پہنچ رہی ہے یعنی کل کائنات کو ۔ ابوعبیدہ رحمہ اللہ راوی حدیث نے یہ حدیث بیان فرما کر یہی آیت تلاوت کی ۔ یہ الفاظ ابن ابی حاتم کے ہیں اور اس کی اصل صحیح مسلم میں ہے ۔ پاک ہے وہ اللہ جو تمام جہانوں کا پالنہار ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے مخلوق میں سے کوئی بھی اس کے مشابہ نہیں ۔ اس کی مصنوعات میں سے کوئی چیز کسی کے احاطے میں نہیں ۔ وہ بلند و بالا ہے ساری مخلوق سے الگ ہے زمین و آسمان اسے گھیر نہیں سکتے وہ احد وصمد ہے وہ مخلوق کی مشابہت سے پاک ہے ۔ پھر خبر دی کہ خود اللہ تعالیٰ ان سے خطاب فرما رہا ہے وہی اسی وقت سرگوشیاں کر رہا ہے جو سب پر غالب ہے سب اس کے ماتحت اور زیر حکم ہیں ۔ وہ اپنے اقوال وافعال میں حکمت والا ہے اس کے بعد جناب باری عزوجل نے حکم دیا کہ اے موسیٰ اپنی لکڑی کو زمین پر ڈال دو تاکہ تم اپنی آنکھوں سے دیکھ سکو کہ اللہ تعالیٰ فاعل مختار ہے وہ ہرچیز پر قادر ہے ۔ موسیٰ علیہ السلام نے ارشاد سنتے ہی لکڑی کو زمین پر گرایا ۔ اسی وقت وہ ایک پھن اٹھائے پھنکارتا ہوا سانپ بن گئی اور بہت بڑے جسم کا سانپ بڑی ڈراؤنی صورت اس موٹاپے پر تیز تیز چلنے والا ۔ ایسا جیتا جاگتا چلتا پھرتا زبردست اژدہا دیکھ کر موسیٰ علیہ السلام خوف زدہ ہو گئے «جان» کا لفظ قرآن کریم میں ہے یہ ایک قسم کے سانپ ہیں جو بہت تیزی سے حرکت کرنے والے اور کنڈلی لگانے والے ہوتے ہیں ۔ ایک حدیث میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھروں میں رہنے والے ایسے سانپوں کے قتل سے ممانعت فرمائی ہے ۔ } الغرض جناب موسیٰ اسے دیکھ کر ڈرے اور دہشت کے مارے ٹھہر نہ سکے اور منہ موڑ کر پیٹھ پھیر کر وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے ایسے دہشت زدہ تھے کہ مڑ کر بھی نہ دیکھا ۔ اسی وقت اللہ تعالیٰ نے آواز دی کہ موسیٰ ڈرو نہیں ۔ میں تو تمہیں اپنا برگزیدہ رسول اور ذی عزت پیغمبر بنانا چاہتا ہوں ۔ اس کے بعد استثناء منقطع ہے اس آیت میں انسان کے لیے بہت بڑی بشارت ہے کہ جس نے بھی کوئی برائی کا کام کیا ہو پھر وہ اس پر نادم ہو جائے اس کام کو چھوڑ دے توبہ کر لے اللہ تعالیٰ کی طرف جھک جائے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرمالیتا ہے ۔ جیسے اور آیت میں ہے « وَاِنِّیْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اہْتَدٰی» ۱؎ (20-طہ:82) ’ جو بھی توبہ کرے اور ایمان لائے اور نیک عمل کرے اور راہ راست پر چلے میں اس کے گناہوں کو بخشنے والا ہوں ‘ اور فرمان ہے آیت «وَمَنْ یَّعْمَلْ سُوْۗءًا اَوْ یَظْلِمْ نَفْسَہٗ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللّٰہَ یَجِدِ اللّٰہَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا » (4-النساء:110) ’ جو شخص کسی برائی کا مرتکب ہو جائے یا کوئی گناہ کر بیٹھے پھر اللہ تعالیٰ سے استغفار کرے تو وہ یقیناً اللہ تعالیٰ کو غفور ورحیم پائے گا ۔ ‘ اس مضمون کی آیتیں کلام الہٰی میں اور بھی بہت ساری ہیں ۔ لکڑی کے سانپ بن جانے کے معجزے کے ساتھ ہی کلیم اللہ کو اور معجزہ دیا جاتا ہے کہ آپ جب بھی اپنے گریبان میں ہاتھ ڈال کر نکالیں گے تو وہ چاند کی طرح چمکتا ہو کر نکلے گا یہ دو معجزے ان نو [9] معجزوں میں سے ہیں کہ جن سے میں تیری وقتا فوقتا تائید کرتا رہونگا ۔ تاکہ فاسق فرعون اور اس کی فاسق قوم کے دلوں میں تیری نبوت کا ثبوت جگہ پکڑجائے یہ نو [9] معجزے وہ تھے جن کا ذکر آیت «وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰی تِسْعَ اٰیٰتٍۢ بَیِّنٰتٍ فَسْــــَٔـلْ بَنِیْٓ اِسْرَاۗءِیْلَ اِذْ جَاۗءَہُمْ فَقَالَ لَہٗ فِرْعَوْنُ اِنِّیْ لَاَظُنٰکَ یٰمُوْسٰی مَسْحُوْرًا» ۱؎ (17-الإسراء:101) میں ہے جس کی پوری تفسیر بھی اس آیت کے تحت میں گزر چکی ہے ۔ جب یہ واضح ظاہر صاف اور کھلے معجزے فرعونیوں کو دکھائے گئے تو وہ اپنی ضد میں آ کر کہنے لگے یہ تو جادو ہے لو ہم اپنے جادوگروں کو بلالیتے ہیں مقابلہ کر لو اس مقابلہ میں اللہ نے حق کو غالب کیا اور سب لوگ زیر ہو گئے مگر پھر بھی نہ مانے ۔ گو دلوں میں اس کی حقانیت جم چکی تھی ۔ لیکن ظاہر مقابلہ سے ہٹے ۔ صرف ظلم اور تکبر کی بنا پر حق کو جھٹلاتے رہے اب تو دیکھ لے کہ ان مفسدوں کا انجام کس طرح حیرتناک اور کیسا کچھ عبرت ناک ہوا ؟ ایک ہی مرتبہ ایک ہی ساتھ سارے کے سارے دریا برد کر دئے گئے ۔ پس اے آخری نبی الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کے جھٹلانے والو تم اس نبی کو جھٹلا کر مطمئن نہ بیٹھو ۔ کیونکہ یہ تو موسیٰ علیہ السلام سے بھی اشرف وافضل ہیں ان کی دلیلیں اور معجزے بھی ان کی دلیلوں اور معجزوں سے بڑے ہیں خود آپ کا وجود آپ کے عادات واخلاق اور اگلی کتابوں کی اور اگلے نبیوں کی آپ کی نسبت بشارتیں اور ان سے اللہ کا عہد پیمان یہ سب چیزیں آپ میں ہیں پس تمہیں نہ مان کر نڈر اور بیخوف نہ رہنا چاہیئے ۔ النمل
8 النمل
9 النمل
10 النمل
11 النمل
12 النمل
13 النمل
14 النمل
15 داؤد اور سلیمان علیھما السلام پر خصوصی انعامات ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ ان نعمتوں کی خبر دے رہا ہے جو اس نے اپنے بندے اور نبی سلیمان علیہ السلام اور داؤد علیہ السلام پر فرمائی تھیں کہ کس طرح دونوں جہان کی دولت سے انہیں مالا مال فرمایا ۔ ان نعمتوں کے ساتھ ہی اپنے شکرئیے کی بھی توفیق دی تھی ۔ دونوں باپ بیٹے ہر وقت اللہ کی نعمتوں پر اس کی شکر گزاری کیا کرتے تھے اور اس کی تعریفیں بیان کرتے رہتے تھے ۔ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے لکھاہے کہ جس بندے کو اللہ تعالیٰ جو نعمتیں دے اور ان پر وہ اللہ کی حمد کرے تو اس کی حمد ان نعمتوں سے بہت افضل ہے دیکھو خود کتاب اللہ میں یہ نکتہ موجود ہے پھر آپ نے یہی آیت لکھ کر لکھا کہ ان دونوں پیغمبروں کو جو نعمت دی گئی تھی اس سے افضل نعمت کیا ہو گی ۔ داؤد علیہ السلام کے وارث سلیمان علیہ السلام ہوئے اس سے مراد مال کی وراثت نہیں بلکہ ملک ونبوت کی وراثت ہے ۔ اگر مالی میراث مراد ہوتی تو اس میں صرف سلیمان علیہ السلام کا نام نہ آتا کیونکہ داؤد کی سو [100 ] بیویاں تھیں ۔ انبیاء علیہم السلام کی مال کی میراث نہیں بٹتی ۔ چنانچہ سید الانبیاء علیہ السلام کا ارشاد ہے { ہم جماعت انبیاء ہیں ہمارے ورثے نہیں بٹا کرتے ہم جو کچھ چھوڑ جائیں صدقہ ہے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:3094) سلیمان اللہ علیہ السلام اللہ کی نعمتیں یاد کرتے ہیں فرماتے ہیں یہ پورا ملک اور یہ زبردست طاقت کہ انسان ، جن ، پرند سب تابع فرمان ہیں ، پرندوں کی زبان بھی سمجھ لیتے ہیں یہ خاص اللہ کا فضل و کرم ہے ۔ جو کسی انسان پر نہیں ہوا ۔ بعض جاہلوں نے کہا ہے کہ اس وقت پرند بھی انسانی زبان بولتے تھے ۔ یہ محض ان کی بےعلمی ہے بھلا سمجھو تو سہی اگر واقعی یہی بات ہوتی تو پھر اس میں سلیمان علیہ السلام کی خصوصیت ہی کیا تھی ۔ جسے آپ اس فخر سے بیان فرماتے کہ ہمیں پرندوں کی زبان سکھا دی گئی پھر تو ہر شخص پرند کی بولی سمجھتا اور سلیمان علیہ السلام کی خصوصیت جاتی رہتی ۔ یہ محض غلط ہے پرند اور حیوانات ہمیشہ سے ہی ایسے رہے ان کی بولیاں بھی ایسی ہی رہیں ۔ یہ خاص اللہ کا فضل تھا کہ سلیمان علیہ السلام ہر چرند پرند کی زبان سمجھتے تھے ۔ ساتھ ہی یہ نعمت بھی حاصل ہوئی تھی ۔ کہ ایک بادشاہت میں جن جن چیزوں کی ضروت ہوتی ہے سب سلیمان علیہ السلام کو قدرت نے مہیا کر دی تھیں ۔ یہ تھا اللہ کا کھلا احسان آپ پر ۔ مسند امام احمد میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں داؤد علیہ السلام بہت ہی غیرت والے تھے جب آپ گھر سے باہر جاتے تو دروازے بند کر جاتے پھر کسی کو اندر جانے کی اجازت نہ تھی ایک مرتبہ آپ اسی طرح باہر تشریف لے گئے ۔ تھوڑی دیر بعد ایک بیوی صاحبہ کی نظر اٹھی تو دیکھتی ہیں کہ گھر کے بیچوں بیچ ایک صاحب کھڑے ہیں حیران ہو گئیں اور دوسروں کو دکھایا ۔ آپس میں سب کہنے لگیں یہ کہاں سے آ گئے ؟ اللہ کی قسم داؤد علیہ السلام بھی آ گئے آپ نے بھی انہیں کھڑا دیکھا اور دریافت کیا کہ تم کون ہو ؟ اس نے جواب دیا وہ جسے کوئی دروازہ یا کوئی روک نہ سکے وہ جو کسی بڑے سے بڑے کی مطلق پرواہ نہ کرے ۔ داؤد علیہ السلام سمجھ گئے اور فرمانے لگے مرحبا مرحبا آپ تو ملک الموت ہیں اسی وقت ملک الموت نے آپ کی روح قبض کی ۔ سورج نکل آیا اور آپ پر دھوپ آ گئی تو سلیمان علیہ السلام نے پرندوں کو حکم دیا کہ وہ داؤد علیہ السلام پر سایہ کریں انہوں نے اپنے پر کھول کر ایسی گہری چھاؤں کر دی کہ زمین پر اندھیرا سا چھا گیا پھر حکم دیا کہ ایک ایک کر کے اپنے سب پروں کو سمیٹ لو ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرندوں نے پھر پر کیسے سمیٹے ؟ آپ نے فرمایا اپنا ہاتھ سمیٹ کر بتلایا کہ اس طرح ۔ اس پر اس دن سرخ رنگ گدھ غالب آ گئے ۔ } ۱؎ (مسند احمد:419/2:ضعیف) سلیمان علیہ السلام کا لشکر جمع ہوا جس میں انسان جن پرند سب تھے ۔ آپ سے قریب انسان تھے پھر جن تھے پرند آپ کے سروں پر رہتے تھے ۔ گرمیوں میں سایہ کر لیتے تھے ۔ سب اپنے اپنے مرتبے پر قائم تھے ۔ جس کی جو جگہ مقررر تھی وہ وہیں رہتا ۔ جب ان لشکروں کو لے کر سلیمان علیہ السلام چلے ۔ ایک جنگل پر گذر ہوا جہاں چیونٹیوں کا لشکر تھا ۔ سلیمان علیہ السلام لشکر کو دیکھ کر ایک چیونٹی نے دوسری چیونٹیوں سے کہا کہ جاؤ اپنے اپنے سوراخوں میں چلی جاؤ کہیں ایسا نہ ہو کہ لشکر سلیمان علیہ السلام کا لشکر چلتا ہوا تمہیں روند ڈالے اور انہیں علم بھی نہ ہو ۔ حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس چیونٹی کا نام ترس تھا یہ بنو شیصان کے قبیلے سے تھی ۔ تھی بھی لنگڑی بقدر بھیڑیئے کے اسے خوف ہوا کہیں سب روندی جائیں گی اور پس جائیگی یہ سن کر سلیمان علیہ السلام کو تبسم بلکہ ہنسی آ گئی اور اسی وقت اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اے اللہ مجھے اپنی ان نعمتوں کا شکریہ ادا کرنا جو تو نے مجھ پر انعام کی ہیں مثلا پرندوں اور حیوانوں کی زبان سکھا دینا وغیرہ ۔ نیز جو نعمتیں تو نے میرے والدین پر انعام کی ہیں کہ وہ مسلمان مومن ہوئے وغیرہ ۔ اور مجھے نیک عمل کرنے کی توفیق دے جن سے تو خوش ہو اور جب میری موت آ جائے تو مجھے اپنے نیک بندوں اور بلند رفقاء میں ملادے جو تیرے دوست ہیں ۔ مفسرین کا قول ہے کہ یہ وادی شام میں تھی ۔ بعض اور جگہ بتاتے ہیں ۔ یہ جیونٹی مثل مکھیوں کے پردار تھی ۔ اور بھی اقوال ہیں نوف بکالی کہتے ہیں یہ بھیڑئیے کے برابر تھی ۔ ممکن ہے اصل میں لفظ ذباب ہو یعنی مکھی کے برابر اور کاتب کی غلطی وہ ذیاب لکھ دیا گیا ہو یعنی بھیڑیا ۔ سلیمان علیہ السلام چونکہ جانوروں کی بولیاں سمجھتے تھے اس کی بات کو بھی سمجھ گئے اور بے اختیار ہنسی آ گئی ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ ایک مرتبہ سلیمان بن داؤد علیہ السلام استسقاء کے لیے نکلے تو دیکھا کہ ایک چیونٹی الٹی لیٹی ہوئی اپنے پاؤں آسمان کی طرف اٹھائے ہوئے دعا کر رہی ہے کہ اے اللہ ہم بھی تیری مخلوق ہیں پانی برسنے کی محتاجی ہمیں بھی ہے ۔ اگر پانی نہ برسا تو ہم ہلاک ہو جائیں گے اس چیونٹی کی یہ دعا سن کر آپ نے لوگوں میں اعلان کیا لوٹ چلو کسی اور ہی کی دعا سے تم پانی پلائے گئے ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں نبیوں میں سے کسی نبی کو ایک چیونٹی نے کاٹ لیا انہوں نے چیونٹیوں کے سوراخ میں آگ لگانے کا حکم دے دیا اسی وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آئی کہ اے پیغمبر محض ایک چونٹی کے کاٹنے پر تو نے ایک گروہ کے گروہ کو جو ہماری تسبیح خواں تھا ۔ ہلاک کر دیا ۔ تجھے بدلہ لینا تھا تو اسی سے لیتا ۔ } (صحیح بخاری:3019) النمل
16 النمل
17 النمل
18 النمل
19 النمل
20 ہدہد ہدہد سلیمان علیہ السلام فوج کی میں مہندس کا کام کرتا تھا وہ بتلاتا تھا کہ پانی کہاں ہے ؟ زمین کے اندر کا پانی اس کو اسطرح نظر آتا تھا جیسے کہ زمین کے اوپر کی چیز لوگوں کو نظر آتی ہے ۔ جب سلیمان علیہ السلام جنگل میں ہوتے اس سے دریافت فرماتے کہ پانی کہاں ہے ؟ یہ بتا دیتا کہ فلاں جگہ ہے ۔ اتنا نیچا ہے اتنا اونچا ہے وغیرہ ۔ سلیمان علیہ السلام اسی وقت جنات کو حکم دیتے اور کنواں کھود لیا جاتا ۔ ایک دن اسی طرح جنگل میں تھے پرندوں کی تفتیش کی تاکہ پانی کی تلاش کا حکم دیں ۔ اتفاق سے وہ موجود نہ تھا ۔ اس پر آپ نے فرمایا آج ہدہد نظر نہیں آتا کیا پرندوں میں کہیں وہ چھپ گیا جو مجھے نظر نہ آیا ۔ یا واقعی وہ حاضر نہیں ؟ ایک مرتبہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ تفسیر سن کر نافع بن ازرق خارجی نے اعتراض کیا تھا یہ بکواسی ہر وقت سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کی باتوں پر بیجا اعتراض کیا کرتا تھا کہنے لگا آج تو تم ہارگئے ۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیوں ؟ اس نے کہا آپ جو یہ فرماتے ہو کہ ہدہد زمین کے تلے کا پانی دیکھ لیتا تھا یہ کیسے صحیح ہوسکتا ہے ایک بچہ جال بچھاکر اسے مٹی سے ڈھک کر دانہ ڈال کر ہدہد کا شکار کر لیتا ہے اگر وہ زمین کے اندر کا پانی دیکھتا ہے تو زمین کے اوپر کا جال اسے کیوں نظر نہیں آتا ؟ آپ نے فرمایا اگر مجھے یہ خیال نہ ہوتا کہ تو یہ سمجھ جائے گا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما لاجواب ہو گیا تو مجھے جواب کی ضرورت نہ تھی سن جس وقت قضاء آ جاتی ہے آنکھیں اندھی ہو جاتی ہیں اور عقل جاتی رہتی ہے ۔ نافع لاجواب ہو گیا اور کہا واللہ اب میں آپ پر اعتراض نہ کرونگا ۔ عبداللہ برزی رحمہ اللہ ایک ولی کامل شخص تھے پیر جمعرات کا روزہ پابندی سے رکھا کرتے تھے ۔ اسی [80] سال کی عمر تھی ایک آنکھ سے کانے تھے ۔ سلیمان بن زید نے ان سے آنکھ کے جانے کا سبب دریافت کیا تو آپ نے اس کے بتانے سے انکار کر دیا ۔ یہ بھی پیچھے پڑ گئے مہینوں گذر گئے نہ وہ بتاتے نہ یہ سوال چھوڑتے آخر تنگ آ کر فرمایا لو سن لو میرے پاس دو خراسانی برزہ میں [ جو دمشق کے پاس ایک شہر ہے ] آئے اور مجھ سے کہا کہ میں انہیں برزہ کی وادی میں لے جاؤں میں انہیں وہاں لے گیا ۔ انہوں نے انگیٹھیاں نکالیں بخور نکالے اور جلانے شروع کئے یہاں تک کہ تمام وادی خوشبو سے مہکنے لگی ۔ اور ہر طرف سے سانپوں کی آمد شروع ہو گئی ۔ لیکن بےپرواہی سے بیٹھے رہے کسی سانپ کی طرف التفات نہ کرتے تھے ۔ تھوڑی دیر میں ایک سانپ آیا جو ہاتھ بھر کا تھا اور اس کی آنکھیں سونے کی طرح چمک رہی تھیں ۔ یہ بہت ہی خوش ہوئے اور کہنے لگے اللہ کا شکر ہے ہماری سال بھر محنت ٹھکانے لگی ۔ انہوں نے اس سانپ کو لے کر اس کی آنکھوں میں سلائی پھیر کر اپنی آنکھوں میں وہ سلائی پھیرلی میں نے ان سے کہا کہ میری آنکھوں میں بھی یہ سلائی پھیردو ۔ انہوں نے انکار کر دیا میں نے ان سے منت سماجت کی بہ مشکل وہ راضی ہوئے اور میری داہنی آنکھ میں وہ سلائی پھیر دی اب جو میں دیکھتا ہوں تو زمین مجھے ایک شیشے کی طرح معلوم ہونے لگی جیسی اوپر کی چیزیں نظر آتی تھیں ایسی ہی زمین کے اندر کی چیزیں بھی دیکھ رہا تھا ۔ انہوں نے مجھے سے کہا اب آپ ہمارے ساتھ ہی کچھ دور چلئے میں نے منظور کر لیا وہ باتیں کرتے ہوئے مجھے ساتھ لیے ہوئے چلے جب میں بستی سے بہت دور نکل گیا تو دونوں نے مجھے دونوں طرف سے پکڑ لیا اور ایک نے اپنی انگلی ڈال کر میری آنکھ نکالی اور اسے پھینک دیا ۔ اور مجھیے یونہی بندھا ہوا وہیں چھوڑ کر دونوں کہیں چل دئیے ۔ اتفاقاً وہاں سے ایک قافلہ گذرا اور انہوں نے مجھے اس حالت میں دیکھ کررحم کھایا قیدوبند سے مجھے آزاد کر دیا اور میں چلا آیا یہ قصہ ہے میری آنکھ کے جانے کا ۔ [ ابن عساکر ] ۱؎ (تاریخ دمشق:130/19) سلیمان علیہ السلام کے اس ہدہد کا نام عنبر تھا ، آپ فرماتے ہیں اگر فی الواقع وہ غیر حاضر ہے تو میں اسے سخت سزادوں گا اس کے پر نچوادوں گا اور اس کو پھنک دوں گا کہ کیڑے مکوڑے کھاجائیں یا میں اسے حلال کردونگا ۔ یا یہ کہ وہ اپنے غیر حاضر ہونے کی کوئی معقول وجہ پیش کر دے ۔ اتنے میں ہدہد آ گیا جانوروں نے اسے خبر دی کہ آج تیری خیر نہیں ۔ بادشاہ سلامت عہد کر چکے ہیں کہ وہ تجھے مار ڈالیں گے ۔ اس نے کہا یہ بیان کرو کہ آپ کے الفاظ کیا تھے ؟ انہوں نے بیان کئے تو خوش ہو کر کہنے لگا پھر تو میں بچ جاؤں گا ۔ مجاہد فرماتے ہیں اس کے بچاؤ کی وجہ اس کا اپنی ماں کے ساتھ سلوک تھا ۔ النمل
21 النمل
22 ہدہد کی غیر حاضری ہدہد کی غیر حاضری کو تھوڑی سی دیر گزری تھی جو وہ آ گیا ۔ اس نے کہا کہ اے نبی اللہ علیہ السلام جس بات کی آپ کو خبر بھی نہیں میں اس کی ایک نئی خبر لے کر آپ کے پاس حاضر ہوا ہوں ۔ میں سبا سے آ رہا ہوں اور پختہ یقینی خبر لایا ہوں ۔ ان کے سباحمیر تھے اور یہ یمن کے بادشاہ تھے ۔ ایک عورت ان کی بادشاہت کر رہی ہے اس کا نام بلقیس بنت شرجیل تھا یہ سب کی ملکہ تھی ۔ قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں ۔ اس کی ماں جنیہ عورت تھی اس کے قدم کا پچھلا حصہ چوپائے کے کھر جیسا تھا ۔ اور روایت میں ہے اس کی ماں کا نام رفاعہ تھا ابن جریج رحمہ اللہ کہتے ہیں ان کے باپ کا نام ذی شرخ تھا اور ماں کا نام بلتغہ تھا لاکھوں کا اس کا لشکر تھا ۔ اس کی بادشاہی ایک عورت کے ہاتھ میں ہے اس کے مشیر وزیر تین سو بارہ شخص ہیں ان میں سے ہر ایک کے ماتحت بارہ ہزار کی جمعیت ہے اس کی زمین کا نام مارب ہے یہ صنعاء سے تین میل کے فاصلہ پر ہے یہی قول قرین قیاس ہے اس کا اکثر حصہ مملکت یمن ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ہر قسم کا دنیوی ضروری اسباب اسے مہیا ہے اس کا نہایت ہی شاندار تخت ہے جس پر وہ جلوس کرتی ہے ۔ سونے سے منڈھا ہوا ہے اور جڑاؤ اور مروارید کی کاریگری اس پر ہوئی ہے ۔ یہ اسی [80] ہاتھ اونچا اور چالیس[40] ہاتھ چوڑا تھا ۔ چھ سو عورتیں ہر وقت اس کی خدمت میں کمربستہ رہتی تھیں اس کا دیوان خاص جس میں یہ تخت تھا بہت بڑا محل تھا بلند وبالاکشادہ اور فراخ پختہ مضبوط اور صاف جس کے مشرقی حصہ میں تین سو ساٹھ طاق تھے اور اتنے ہی مغربی حصے میں ۔ اسے اس صنعت سے بنایا تھا کہ ہر دن سورج ایک طاق سے نکلتا اور اسی کے مقابلہ کے طاق سے غروب ہوتا ۔ اہل دربار صبح و شام اس کوسجدہ کرتے ۔ راجا پر جا سب آفتاب پرست تھے اللہ کا عابد ان میں ایک بھی نہ تھا شیطان نے برائیاں انہیں اچھی کر دکھائی تھیں اور ان پر حق کا راستہ بند کر رکھا تھا وہ راہ راست پر آتے ہی نہ تھے ۔ راہ راست یہ ہے کہ سورج چاند اور ستاروں کی بجائے صرف اللہ ہی کی ذات کو سجدے کے لائق ماناجائے ۔ جیسے فرمان قرآن ہے«وَمِنْ آیَاتِہِ اللَّیْلُ وَالنَّہَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ ۚ لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلہِ الَّذِی خَلَقَہُنَّ إِن کُنتُمْ إِیَّاہُ تَعْبُدُونَ» ۱؎ (41-فصلت:37) ’ کہ رات دن سورج چاند سب قدرت اللہ کی نشانیاں ہیں ۔ تمہیں سورج چاند کو سجدہ نہ کرنا چاہیئے سجدہ صرف اسی اللہ کو کرنا چاہیئے جو ان سب کا خالق ہے ۔ ‘ آیت «الا یسجدوا» کی ایک قرأت «الایا اسجدوا» بھی ہے ۔ یا کہ بعد کا منادیٰ محذوف ہے یعنی اے میری قوم خبردار سجدہ اللہ ہی کے لیے کرنا جو آسمان کی زمین کی ہر ہر پوشیدہ چیز سے باخبر ہے ۔ «خب» کی تفسیر پانی اور بارش اور پیداوار سے بھی کی گئی ہے ۔ کیا عجب کہ ہدہد کی جس میں یہی صفت تھی یہی مراد ہو ۔ « سَوَاءٌ مِّنکُم مَّنْ أَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَن جَہَرَ بِہِ وَمَنْ ہُوَ مُسْتَخْفٍ بِاللَّیْلِ وَسَارِبٌ بِالنَّہَارِ » ۱؎ (13-الرعد:10) اور تمہارے ہر مخفی اور ظاہر کام کو بھی وہ جانتا ہے ۔ کھلی چھپی بات اس پر یکساں ہے وہی تنہا معبود برحق ہے وہی عرش عظیم کا رب ہے جس سے بڑی کوئی چیز نہیں ۔ چونکہ ہدہد خیر کی طرف بلانے والا ایک اللہ کی عبادت کا حکم دینے وال اس کے سوا غیر کے سجدے سے روکنے والا تھا اسی لیے اس کے قتل کی ممانعت کر دی گئی ۔ مسند احمد , ابوداؤد , ابن ماجہ میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چار جانوروں کا قتل منع فرما دیا ۔ چیونٹی شہد کی مکھی ہدہد اور صرد یعنی لٹورا ۔ } ۱؎ (سنن ابوداود:5267،قال الشیخ الألبانی:صحیح) النمل
23 النمل
24 النمل
25 النمل
26 النمل
27 تحقیق شروع ہو گئی ہدہد کی خبر سنتے ہی سلیمان علیہ السلام نے اس کی تحقیق شروع کر دی کہ اگر یہ سچا ہے تو قابل معافی ہے اور اگر جھوٹا ہے تو قابل سزا ہے ۔ اسی سے فرمایا کہ میرا یہ خط بلقیس کو جو وہاں کی فرمانروا ہے دے آ ۔ اس خط کو چونچ میں لے کر یا پر سے بندھواکر ہدہد اڑا ۔ وہاں پہنچ کر بلقیس کے محل میں گیا وہ اس وقت خلوت خانہ میں تھی ۔ اس نے ایک طاق میں سے وہ خط اس کے سامنے رکھا اور ادب کے ساتھ ایک طرف ہو گیا ۔ اسے سخت تعجب معلوم ہوا حیرت ہوئی اور ساتھ ہی کچھ خوف زدہ بھی ہوئی ۔ خط کو اٹھا کر مہر توڑ کر خط کھول کر پڑھا اس کے مضمون سے واقف ہو کر اپنے امراء وزراء سردار اور رؤسا کو جمع کیا اور کہنے لگی کہ ایک باوقعت خط میرے سامنے ڈالا گیا ہے اس خط کا باوقعت ہونا اس پر اس سے بھی ظاہر ہو گیا تھا کہ ایک جانور اسے لاتا ہے وہ ہوشیاری اور احتیاط سے پہنچاتا ہے ۔ سامنے با ادب رکھ کر ایک طرف ہو جاتا ہے تو جان گئی تھی کہ یہ خط مکرم ہے اور کسی باعزت شخص کا بھیجا ہوا ہے ۔ پھر خط کامضمون سب کو پڑھ کرسنایا کہ یہ خط سلیمان علیہ السلام کا ہے اور اس کے شروع میں « بسم اللہ الرحمن الرحیم» لکھا ہوا ہے ساتھ ہی مسلمان ہونے اور تابع فرمان بننے کی دعوت ہے ۔ اب سب نے پہچان لیا کہ یہ اللہ کے پیغمبر کا دعوت نامہ ہے اور ہم میں سے کسی میں ان کے مقابلے کی تاب وطاقت نہیں ۔ پھر خط کی بلاغت اختصار اور وضاحت نے سب کو حیران کر دیا یہ مختصر سی عبارت بہت سی باتوں سے سوا ہے ۔ دریا کو کوزہ میں بند کر دیا ہے علماء کرام کا مقولہ ہے کہ سلیمان علیہ السلام سے پہلے کسی نے خط میں «بسم اللہ الرحمن الرحیم» نہیں لکھی ۔ ایک غریب اور ضعیف حدیث ابن ابی حاتم میں ہے { سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جا رہا تھا کہ آپ نے فرمایا میں ایک ایسی آیت جانتا ہوں جو مجھ سے پہلے سلیمان بن داؤد علیہ السلام کے بعد کسی نبی پر نہیں اتری میں نے کہا حضور وہ کون سی آیت ہے ؟ آپ نے فرمایا مسجد سے جانے سے پہلے ہی میں تجھے بتا دوں گا اب آپ نکلنے لگے ایک پاؤں مسجد سے باہر رکھ بھی دیامیرے جی میں آیا شاید آپ بھول گئے ۔ اتنے میں آپ نے یہی آیت پڑھی ۔ } ۱؎ (ضعیف:اس میں عبدالکریم راوی ضعیف ہے) اور روایت میں ہے کہ { جب تک یہ آیت نہیں اتری تھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دعا«باسمک اللہم» تحریر فرمایا کرتے تھے ۔ جب یہ آیت اتری آپ نے «بسم اللہ الرحمن الرحیم» لکھنا شرع کیا ۔ } خط کا مضمون صرف اسی قدر تھا کہ میرے سامنے سرکشی نہ کرو مجھے مجبور نہ کرو میری بات مان لو تکبر سے کام نہ لو موحد مخلص مطیع بن کر میرے پاس چلی آؤ ۔ النمل
28 النمل
29 النمل
30 النمل
31 النمل
32 بلقیس کو خط ملا بلقیس نے سلیمان علیہ السلام کا خط انہیں سنا کر ان سے مشورہ طلب کیا اور کہا کہ تم جانتے ہو جب تک تم سے میں مشورہ نہ کر لوں ، تم موجود نہ ہو تو میں چونکہ کسی امر کا فیصلہ تنہا نہیں کرتی اس بارے میں بھی تم سے مشورہ طلب کرتی ہوں بتاؤ کیا رائے ہے ؟ سب نے متفقہ طور پر جواب دیا کہ ہماری جنگی طاقت بہت کچھ ہے اور ہماری طاقت مسلم ہے ۔ اس طرف سے تو اطمینان ہے آگے جو آپ کا حکم ہو ۔ ہم تابعدراری کے لیے موجود ہیں ۔ اسمیں ایک حد تک سرداران لشکر نے لڑائی کی طرف اور مقابلے کی طرف رغبت دی تھی ۔ لیکن بلقیس چونکہ سمجھدار عاقبت اندیش تھی اور ہدہد کے ہاتھوں خط کے ملنے کا ایک کھلا معجزہ دیکھ چکی تھی یہ بھی معلوم کر لیا تھا کہ سلیمان کی طاقت کے مقابلے میں ، میں میرا لاؤ لشکر کوئی حقیقت نہیں رکھتا ۔ اگر لڑائی کی نوبت آئی تو علاوہ ملک کی بربادی کے میں بھی سلامت نہ رہ سکوں گی اس لیے اس نے اپنے وزیروں اور مشیروں سے کہا بادشاہوں کا قاعدہ ہے کہ جب وہ کسی ملک کو فتح کرتے ہیں تو اسے برباد کر دیتے ہیں اجاڑ دیتے ہیں ۔ وہاں کے ذی عزت لوگوں کو ذلیل کر دیتے ہیں ۔ سرداران لشکر اور حکمران شہر خصوصی طور پر ان کی نگاہوں میں پڑھ جاتے ہیں ۔ جناب باری تعالیٰ نے اس کی تصدیق فرمائی کہ فی الواقع یہ صحیح ہے وہ ایسا ہی کیا کرتے تھے ۔ اس کے بعد اسنے جو ترکیب سوچی کہ ایک چال چلے اور سلیمان سے موافقت کر لے صلح کر لے وہ اس نے ان کے سامنے پیش کی کہا کہ اس وقت تو میں ایک گراں بہا تحفہ انہیں بھیجتی ہوں دیکھتی ہوں اس کے بعد وہ میرے قاصدوں سے کیا فرماتے ہیں ۔ بہت ممکن ہے کہ وہ اسے قبول فرما لیں اور ہم آئندہ بھی انہیں یہ رقم بطور جزیے کے بھیجتے رہیں اور انہیں ہم پر چڑھائی کرنے کی ضرورت نہ پڑے ۔ اسلام کی قبولیت میں اسی طرح اس نے ہدیے بھیجنے میں نہاپت دانائی سے کام لیا ۔ وہ جانتی تھی کہ روپیہ پیسہ وہ چیز ہے فولاد کو بھی نرم کر دیتا ہے ۔ نیز اسے یہ بھی آزمانا تھا کہ دیکھیں وہ ہمارے اس مال کو قبول کرتے ہیں یا نہیں ۔ ؟ اگر قبول کر لیا تو سمجھ لو کہ وہ ایک بادشاہ ہیں پھر ان سے مقابلہ کرنے میں کوئی حرج نہیں اور اگر واپس کر دیا تو ان کی نبوت میں کوئی شک نہیں پھر مقابلہ سراسر بےسود بلکہ مضر ہے ۔ بلقیس نے بہت ہی گراں قدر تحفہ سلیمان علیہ السلام کے پاس بھیجا ۔ سونا موتی جواہر وغیرہ سونے کی کثیر مقدار اینٹیں سونے کے برتن وغیرہ ۔ بعض کے مطابق کچھ بچے عورتوں کے لباس میں اور کچھ عورتیں لڑکوں کے لباس میں بھیجیں اور کہا کہ اگر وہ انہیں پہچان لیں تو اسے نبی مان لینا چاہیئے ۔ جب یہ سلیمان علیہ السلام کے پاس پہنچے تو آپ علیہ السلام نے سب کو وضو کرنے کا حکم دیا ۔ لڑکیوں نے برتن سے پانی بہا کر اپنے ہاتھ دھوئے اور لڑکوں نے برتن میں ہی ہاتھ ڈال کر پانی لیا ۔ اس سے آپ نے دونوں کو الگ الگ پہچان کر علیحدہ کر دیا کہ یہ لڑکیاں ہیں اور یہ لڑکے ہیں ۔ بعض کہتے ہیں اس طرح پہچانا کہ لڑکیوں نے تو پہلے اپنے ہاتھ کے اندرونی حصہ کو دھویا اور لڑکوں نے ان کے برخلاف بیرونی حصے کو پہلے دھویا یہ بھی مروی ہے کہ ان میں سے ایک جماعت نے اس کے برخلاف ہاتھ کی انگلیوں سے شروع کر کے کہنی تک لے گئے ۔ ان میں سے کسی میں نفی کا امکان نہیں ، «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ یہ بھی مذکور ہے کہ بلقیس نے ایک برتن بھیجا تھا کہا اسے ایسے پانی سے پر کر دو جو نہ زمین کا ہو نہ آسمان کا تو آپ نے گھوڑے دوڑائے اور ان کے پسینوں سے وہ برتن بھر دیا ۔ اسنے کچھ خرمہرے اور ایک لڑی بھیجی تھی آپ نے انہیں لڑی میں پرو دیا ۔ یہ سب اقوال عموماً بنی اسرائیل کی روایتوں سے لیے جاتے ہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ البتہ بظاہر الفاظ قرآنی سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اس رانی کے تحفے کی طرف مطلقاً التفات ہی نہیں کیا ۔ اور اسے دیکھتے ہی فرمایا کہ کیا تم مجھے مالی رشوت دے کر شرک پر باقی رہنا چاہتے ہو ؟ یہ محض ناممکن ہے مجھے رب نے بہت کچھ دے رکھا ہے ۔ ملک ، مال ، لاؤ ، لشکر سب میرے پاس موجود ہے ۔ تم سے پر طرح بہتر حالت میں میں ہوں «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» ۔ تم ہی اپنے اس ہدیے سے خوش رہو یہ کام تم ہی کو سونپا کہ مال سے راضی ہو جاؤ اور تحفہ تمہیں جھکا دے یہاں تو دو ہی چیزیں ہیں یا شرک چھوڑدو یا تلوار روکو ۔ یہ بھی کہا گیا ہے اس سے پہلے کہ اس کے قاصد پہنچیں سلیمان علیہ السلام نے جنات کو حکم دیا اور انہوں نے سونے چاندی کے ایک ہزار محل تیار کر دئے ۔ جس وقت قاصد پائے تخت میں پہنچے ان محلات کو دیکھ کر ہوش جاتے رہے اور کہنے لگے یہ بادشاہ تو ہمارے اس تحفے کو اپنی حقارت سمجھے گا ۔ یہاں تو سونا مٹی کی وقعت بھی نہیں رکھتا ۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ بادشاہوں کو یہ جائز ہے کہ بیرونی لوگوں کے لیے کچھ تکلفات کرے اور قاصدوں کے سامنے اپنی زینت کا اظہار کرے ۔ پھر آپ نے قاصدوں سے فرمایا کہ یہ ہدیے انہیں کو واپس کر دو اور ان سے کہدو مقابلے کی تیاری کر لیں یاد رکھو میں وہ لشکر لے کر چڑھائی کروں گا کہ وہ سامنے آہی نہیں سکتے ۔ انہیں ہم سے جنگ کرنے کی طاقت ہی نہیں ۔ ہم انہیں ان کی سلطنت سے بیک بینی و دوگوش ذلت و حقارت کے ساتھ نکال دیں گے ان کے تخت و تاج کو رونددیں گے ۔ جب قاصد اس تحفے کو واپس لے پہنچے اور شاہی پیغام بھی سنادیا ۔ بلقیس کو آپ کی نبوت کا یقین ہو گیا فوراً خود بھی اور تمام لشکر اور رعایا مسلمان ہو گئے اور اپنے لشکروں سمیت وہ سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو گئے جب آپ نے اس کا قصد معلوم کیا تو بہت خوش ہوئے اور اللہ کا شکر ادا کیا ۔ النمل
33 النمل
34 النمل
35 النمل
36 النمل
37 النمل
38 بلقیس کو دوبارہ پیغام نبوت ملا جب قاصد پہنچتا ہے اور بلقیس کو دوبارہ پیغام نبوت پہنچاتا ہے تو وہ سمجھ لیتی ہے اور کہتی ہے واللہ یہ سچے پیغمبر ہیں ایک پیغمبر کا مقابلہ کر کے کوئی پنپ نہیں سکتا ۔ اسی وقت دوبارہ قاصد بھیجا کہ میں اپنی قوم کے سرداروں سمیت حاضر خدمت ہوتی ہوں تاکہ خود آپ سے مل کر دینی معلومات حاصل کروں اور آپ سے اپنی تشفی کر لوں یہ کہلوا کر یہاں ایک کو اپنا نائب بنایا ۔ سلطنت کے انتظامات اس کے سپرد کئے اپنا لاجواب بیش قیمت جڑاؤ تخت جو سونے کا تھا سات محلوں میں مقفل کیا اور اپنے نائب کو اس کی حفاطت کی خاص تاکید کی اور بارہ ہزار سردار جن میں سے ہر ایک کے تحت ہزاروں آدمی تھے ۔ اپنے ساتھ لیے اور ملک سلیمان کی طرف چل دی ۔ جنات قدم قدم اور دم دم کی خبریں آپ کو پہنچاتے رہتے تھے ۔ جب آپکو معلوم ہوا کہ وہ قریب پہنچ چکی ہے تو آپ نے اپنے دربار میں جس میں جن و انس سب موجود تھے فرمایا کوئی ہے جو اس کے تخت کو اس کے پہنچنے سے پہلے یہاں پہنچا دے ؟ کیونکہ جب وہ یہاں آ جائیں گی اور اسلام میں داخل ہو جائیں پھر اس کا مال ہم پر حرام ہو گا ۔ یہ سن کر ایک طاقتور سرکش جن جس کا نام کوزن تھا اور جو مثل ایک بڑے پہاڑ کے تھا بول پڑا کہ اگر آپ مجھے حکم دیں تو آپ دربار برخواست کریں اس سے پہلے میں لادیتا ہوں ۔ آپ لوگوں کے فیصلے کرنے اور جھگڑے چکانے اور انصاف دینے کو صبح سے دوپہر تک دربارعام میں تشریف رکھاکرتے تھے ۔ اس نے کہا میں اس تخت کے اٹھا لانے کی طاقت رکھتا ہوں اور ہوں بھی امانت دار ۔ اس میں کوئی چیز نہیں چراؤں گا : سلیمان علیہ السلام نے فرمایا میں چاہتا ہوں اس سے بھی پہلے میرے پاس وہ پہنچ جائے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے نبی سلیمان بن داؤد علیہ السلام کی تخت کے منگوانے سے عرض یہ تھی کہ اپنے ایک زبردست معجزے کا اور پوری طاقت کا ثبوت بلقیس کو دکھائیں کہ اس کا تخت جسے اس نے سات مقفل مکانوں میں رکھا تھا وہ اس کے آنے سے پہلے دربار سلیمانی میں موجود ہے ۔ [ وہ غرض نہ تھی جو اوپر روایت قتادہ رحمہ اللہ میں بیان ہوئی ] سلیمان علیہ السلام کے اس جلدی کے تقاضے کو سن کر جس کے پاس کتابی علم تھا وہ بولا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ یہ آصف تھے سلیمان علیہ السلام کے کاتب تھے ان کے باپ کا نام برخیا تھا یہ ولی اللہ تھے اسم اعظم جانتے تھے ۔ پکے مسلمان تھے بنو اسرائیل میں سے تھے مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں ان کا نام اسطوم تھا ۔ بلیخا بھی مروی ہے ان کا لقب ذوالنور تھا ۔ عبداللہ بن لہیعہ کا قول ہے یہ خضر تھے لیکن یہ قول بہت ہی غریب ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آپ اپنی نگاہ دوڑائیے جہاں تک پہنچے نظر کیجئے ابھی آپ دیکھ ہی رہے ہوں گے کہ میں اسے لادوں گا ۔ پس سلیمان علیہ السلام نے یمن کی طرف جہاں اس کا تخت تھا نظر کی ادھر یہ کھڑے ہو کر وضو کر کے دعا میں مشغول ہوئے اور کہا «یا ذالجلال والاکرام» یا فرمایا « یا الھنا والہ کل شی الھا واحدا لا الہ الاانت ائتنی بعرشھا» اسی وقت تخت بلقیس سامنے آ گیا ۔ اتنی ذرا سی دیر میں یمن سے بیت المقدس میں وہ تخت پہنچ گیا اور لشکر سلیمان کے دیکھتے ہوئے زمین میں سے نکل آیا ۔ جب سلیمان علیہ السلام نے اسے اپنے سامنے موجود دیکھ لیا تو فرمایا یہ صرف میرے رب کا فضل ہے کہ وہ مجھے آزمالے کہ میں شکر گزاری کرتا ہوں یا ناشکری ؟ جو شکر کرے وہ اپنا ہی نفع کرتا ہے اور جو ناشکری کرے وہ اپنا ہی نقصان کرتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ بندوں کی بندگی سے بے نیاز ہے اور خود بندوں سے بھی اس کی عظمت کسی کی محتاجی نہیں ۔ جیسے فرمان ہے آیت « مَن کَفَرَ فَعَلَیْہِ کُفْرُہُ وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِأَنفُسِہِمْ یَمْہَدُونَ» ۱؎ (30-الروم:44) ’ جو نیک عمل کرتا ہے وہ اپنے لیے اور جو برائی کرتا ہے وہ اپنے لیے ۔ ‘ اور جگہ ہے جو نیکی کرتے ہیں وہ اپنے لیے ہی اچھائی جمع کرتے ہیں ۔ موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا تم اور روئے زمین کے سب انسان بھی اگر اللہ سے کفر کرنے لگو تو اللہ کا کچھ نہیں بگاڑوگے ۔ وہ غنی ہے اور حیمد ہے ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے { اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے میرے بندو اگر تمہارے سب اگلے پچھلے انسان جنات بہتر سے بہتر اور نیک بخت سے نیک بخت ہو جائیں تو میرا ملک بڑھ نہیں جائے گا اور اگر سب کے سب بدبخت اور برے بن جائیں تو میرا ملک گھٹ نہیں جائے گا یہ تو صرف تمہارے اعمال ہیں جو جمع ہونگے اور تم کو ہی ملیں گے جو بھلائی پائے تو اللہ کا شکر کرے اور جو برائی پائے تو صرف اپنے نفس کو ہی ملامت کرے ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:2577) النمل
39 النمل
40 النمل
41 بلقیس کا تخت آنے کے بعد اس تخت کے آجانے کے بعد سلیمان علیہ السلام نے حکم دیا کہ اس میں قدرے تغیر وتبدل کر ڈالو ۔ پس کچھ ہیرے جواہر بدل دئیے گئے ۔ رنگ وروغن میں بھی تبدیلی کر دی گئی نیچے اور اوپر سے بھی کچھ بدل دیا گیا ۔ کچھ کمی زیادتی بھی کر دی گئی تاکہ بلقیس کی آزمائش کریں کہ وہ اپنے تخت کو پہچان لیتی ہے یا نہیں ؟ جب وہ پہنچی تو اس سے کہا گیا کہ کیا تیرا تخت یہ ہی ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ ہوبہو اسی جیسا ہے ۔ اس جواب سے اس کی دور بینی عقلمندی ، زیر کی دانائی ظاہر ہے کہ دونوں پہلو سامنے رکھے دیکھا کہ تخت بالکل میرے تخت جیسا ہے مگر بظاہر اس کا یہاں پہنچنا ناممکن ہے تو اس نے بیچ کی بات کہی سلیمان علیہ السلام نے فرمایا اس سے پہلے ہی ہمیں علم دیا گیا تھا اور ہم مسلمان تھے بلقیس کو اللہ کے سوا اوروں کی عبادت نے اور اس کے کفر نے توحید اللہ سے روک دیا تھا ۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سلیمان علیہ السلام نے بلقیس کو غیر اللہ کی عبادت سے روک دیا اس سے پہلے کافروں میں سے تھی ۔ لیکن پہلے قول کی تائید اس سے بھی ہو سکتی ہے کہ ملکہ نے قبول اسلام کا اعلان محل میں داخل ہونے کے بعد کیا ہے ۔ جیسے عنقریب بیان ہو گا ۔ سلیمان علیہ السلام نے جنات کے ہاتھوں ایک محل بنوایا تھا جو صرف شیشے اور کانچ کا تھا اور اس کے نیچے پانی سے لباب حوض تھا شیشہ بہت ہی صاف شفاف تھا ۔ آنے والا شیشے کا امتیاز نہیں کر سکتا تھا بلکہ اسے یہی معلوم ہوتا تھا ۔ کہ پانی ہی پانی ہے ۔ حالانکہ اس کے اوپر شیشے کا فرش تھا ۔ بعض لوگوں کا بیان ہے کہ اس صنعت سے غرض سلیمان علیہ السلام کی یہ تھی کہ آپ اس سے نکاح کرنا چاہتے تھے ۔ لیکن یہ سنا تھا کہ اس کی پنڈلیاں بہت خراب ہیں اور اس کے ٹخنے چوپایوں کے کھروں جیسے ہیں اس کی تحقیق کے لیے آپ نے ایسا کیا تھا ۔ جب وہ یہاں آنے لگی تو پانی کے حوض کو دیکھ کر اپنے پائنچے اٹھائے آپ نے دیکھ لیا کہ جو بات مجھے پہنچائی گئی ہے غلط ہے ۔ اس کی پنڈلیاں اور پیر بالکل انسانوں جیسے ہی ہیں ۔ کوئی نئی بات یا بدصورتی نہیں ہے چونکہ بے نکاحی تھی پنڈلیوں پر بال بڑے بڑے تھے ۔ آپ نے استرے سے منڈوا ڈالنے کا مشورہ دیا لیکن اس نے کہا اس کی برداشت مجھ سے نہ ہو سکے گی ۔ آپ نے جنوں سے کہا کہ کوئی اور چیز بناؤ جس سے یہ بال جاتے رہیں ۔ پس انہوں نے ہڑتال پیش کی یہ دوا سب سے پہلے سلیمان علیہ السلام کے حکم سے ہی تلاش کی گئی ۔ محل میں بلانے کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے ملک سے اپنے دربار سے اپنی رونق سے اپنے سازو سامان سے اپنے لطف وعیش سے خود اپنے سے بڑی ہستی دیکھ لے اور اپنا جاہ حشم نظروں سے گر جائے جس کے ساتھ ہی تکبر تجبر کا خاتمہ بھی یقینی تھا ۔ یہ جب اندر آنے لگی اور حوض کی حد پر پہنچی تو اسے لہلاتا ہوا دریا سمجھ کر پانئچے اٹھائے ۔ اسی وقت کہا گیا کہ آپ کو غلطی لگی یہ تو شیشہ منڈہا ہوا ہے ۔ آپ اسی کے اوپر سے بغیر قدم تر کئے آ سکتی ہیں ۔ سلیمان علیہ السلام کے پاس پہنچتے ہی اس کے کان میں آپ نے صدائے توحید ڈالی اور سورج پرستی کی مذمت سنائی ۔ اس محل کو دیکھتے ہی اس حقیقت پر نظر ڈالتے ہی دربار کے ٹھاٹھ دیکھتے ہی اتنا تو وہ سمجھ گئی تھی کہ میرا ملک تو اس کے پاسنگ میں بھی نہیں ۔ نیچے پانی ہے اور اوپر شیشہ ہے بیچ میں تخت سلیمانی ہے اور اوپر سے پرندوں کا سایہ ہے جن و انس سب حاضر ہیں اور تابع فرمان ۔ جب اسے توحید کی دعوت دی گئی تو بیدینوں کی طرح اس نے بھی زندیقانہ جواب دیا جس سے اللہ کی جناب میں گستاخی لازم آتی تھی ۔ اسے سنتے ہی سلیمان علیہ السلام اللہ کے سامنے سجدے میں گر پڑے اور آپ کو دیکھ کر آپ کا سارا لشکر بھی ۔ اب وہ بہت ہی نادم ہو گئی ادھر سے نے ڈانٹا کہ کیا کہہ دیا ؟ اسنے کہا مجھ سے غلطی ہوئی ۔ اور اسی وقت رب کی طرف جھک گئی اور کہنے لگی اے اللہ میں نے اپنے اوپر ظلم کیا اب میں سلیمان کے ساتھ اللہ رب العالمین پر ایمان لے آئی ۔ چنانچہ سچے دل سے مسلمان ہو گئی ۔ ابن ابی شیبہ میں یہاں پر ایک غریب اثر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے وارد کیا ہے کہ آپ فرماتے ہیں سلیمان علیہ السلام جب تخت پر متمکن ہوتے تو اس کے پاس کی کرسیوں پر انسان بیٹھتے اور اس کے پاس والی کرسیوں پر جن بیٹھتے پھر ان کے بعد شیاطین بیٹھتے پھر ہوا اس تخت کو لے اڑتی اور معلق تھمادیتی پھر پرند آ کر اپنے پروں سے سایہ کر لیتے ۔ پھر آپ ہوا کو حکم دیتے اور وہ پرواز کر کے صبح صبح مہینے بھر کے فاصلے پر پہنچادیتی اسی طرح شام کو مہینے بھر کی دوری طے ہوتی ایک مرتبہ اسی طرح آپ جا رہے تھے پرندوں کی دیکھ بھال جو کی تو ہدہد کو غائب پایا بڑے ناراض ہوئے اور فرمایا کیا وہ جمگھٹے میں مجھے نظر نہیں پڑتا یا سچ مچ غیر حاضر ہے ؟ اگر واقعی وہ غیر حاضر ہے تو میں اسے سخت سزا دونگا بلکہ ذبح کردونگا ۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ غیر حاضری کی کوئی معقول وجہ بیان کر دے ایسے موقعہ پر آپ پرندوں کے پرنچواکر آپ زمین پر ڈلوادیتے تھے کیڑے مکوڑے کھاجاتے تھے ۔ اس کے بعد تھوڑ ہی دیر میں خود حاضر ہوتا ہے اپنا سبا جانا اور وہ ان کی خبر لانا بیان کرتا ہے ۔ اپنی معلومات کی تفصیل سے آگاہ کرتا ہے سلیمان علیہ السلام اس کی صداقت کی آزمائش کے لیے اسے ملکہ سبا کے نام ایک چھٹی دے کر اسے دوبارہ بھیجتے ہیں جس میں ملکہ کو ہدایت ہوتی ہے کہ میری نافرمانی نہ کرو اور مسلمان ہو کر میرے پاس آ جاؤ ۔ اس خط کو دیکھتے ہی ملکہ کے دل میں خط کی اور اس کے لکھنے والے کی عزت سماجاتی ہے ۔ وہ اپنے درباریوں سے مشورہ کرتی ہے وہ اپنی قوت وطاقت فوج کی ٹھاٹھ بیان کر کے کہہ دیتے ہیں کہ ہم تیار ہیں صرف اشارے کی دیر ہے لیکن یہ برے وقت اور اپنے شکست کے انجام کو دیکھ کر اس ارادے سے باز رہتی ہے ۔ اور دوستی کا سلسلہ اس طرح شروع کرتی ہے کہ تحفے اور ہدیے سلیمان علیہ السلام کے پاس بھیجتی ہے ۔ جسے سلیمان علیہ السلام واپس کر دیتے ہیں اور چڑھائی کی دھمکی دیتے ہیں اب یہ اپنے ہاں سے چلتی ہے جب قریب پہنچ جاتی ہے اور اس کے لشکر کی گرد کو سلیمان علیہ السلام دیکھ لیتے ہیں تب فرماتے ہیں کہ اس کا تختہ اٹھالاؤ ۔ ایک جن کہتا ہے کہ بہتر میں ابھی لاتا ہوں آپ یہاں سے اٹھیں اس سے پہلے ہی اسے دیکھ لیجئے ۔ آپ نے فرمایا کہ اس سے بھی جلد ممکن ہے ؟ اس پر تو یہ خاموش ہو گیا لیکن اللہ کے علم والے نے کہا ابھی ایک آنکھ جھپکتے ہی ۔ اتنے میں تو دیکھا کہ جس کرسی پر پاؤ رکھ کر سلیمان اپنے تخت پر چڑھتے ہیں وہاں بلقیس کا تخت نمایا ہوا ۔ آپ نے اللہ کا شکر ادا کیا اور لوگوں کو نصیحت کی اور اس میں کچھ تبدیلی کا حکم دیا اس کے آتے ہی اس سے اس تخت کے بابت پوچھا تو اس نے کہا کہ گویا یہ وہی ہے ۔ اس نے سلیمان علیہ السلام سے دو چیزیں طلب کیں ایک تو ایسا پانی جو نہ زمین سے نکلا ہو اور نہ آسمان سے برساہو ۔ آپ کی عادت تھی کہ جب کسی چیز کی ضرورت پڑتی تو اول انسانوں سے پھر جنوں سے پھر شیطانوں سے دریافت فرماتے اس سوال کے جواب میں شیطانوں نے کہا کہ یہ کوئی مشکل چیز نہیں ہے ۔ گھوڑے دوڑائیے اور ان کے پسینے سے اس کو پیالہ بھر دیجئیے اس سوال کے پورا ہونے کے بعد اس نے دوسرا سوال کیا کہ اللہ کا رنگ کیسا ہے ؟ اسے سن کر آپ اچھل پڑے اور اسی وقت سجدے میں گر پڑے اور اللہ تعالیٰ سے عرض کی کہ باری تعالیٰ اس نے ایسا سوال کیا کہ میں اسے تجھ سے دریافت ہی نہیں کر سکتا ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب ملا کہ بے فکر ہو جاؤ میں نے کفایت کر دی آپ سجدے سے اٹھے اور فرمایا تو نے کیا پوچھا تھا اس نے کہا پانی کے بارے میں میرا سوال تھا جو آپ نے پورا کیا اور تو میں نے کچھ نہیں پوچھا یہ خود اور اس کا لشکر اس دوسرے سوال ہی کو بھول گئے ۔ آپ نے لشکریوں سے بھی پوچھا کہ اس نے دوسرا سوال کیا کیا تھا ؟ انہوں نے جواب دیا بجز پانی کے اس نے اور کوئی سوال نہیں کیا ۔ شیطانوں کے دل میں خیال آیا کہ اگر سلیمان علیہ السلام نے اسے پسند کر لیا اور اسے اپنی نکاح میں لے لیا اور اولاد بھی ہو گئی تو یہ ہم سے ہمیشہ کے لیے گئے ۔ اس لیے انہوں نے حوض بنایا پانی سے پر کیا ۔ اور اوپر سے بلور کا فرش بنا دیا اس صفت سے کہ دیکھنے والے کو وہ معلوم ہی نہ دے وہ تو پانی ہی سمجھے جب بلقیس دربار میں آئی اور وہاں سے گزرنا چاہا تو پانی جان کر اپنے پائنچے اٹھالئے سلیمان علیہ السلام نے پنڈلیوں کے بال دیکھ کر ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا لیکن ساتھ ہی فرمایا کہ اسے زائل کرنے کی کوشش کرو تو کہا گیا کہ استرے سے مونڈ سکتے ہیں آپ نے فرمایا اس کا نشان مجھے ناپسند ہے کوئی اور ترکیب بتاؤ پس شیاطین نے طلا بنایا جس کے لگاتے ہی بال اڑ گئے ۔ پس اول بال صفا طلا سلیمان علیہ السلام کے حکم سے ہی تیار ہوا ہے ۔ امام ابن ابی شیبہ نے اس قصے کو نقل کر کے لکھا ہے یہ کتنا اچھا قصہ ہے لیکن میں کہتا ہوں بالکل منکر اور سخت غریب ہے یہ عطا بن سائب کا وہم ہے جو اس سیدنا نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے نام سے بیان کر دیا ہے ۔ اور زیادہ قرین قیاس امر یہ ہے کہ یہ بنی اسرائیل کے دفاتر سے لیا گیا ہے جو مسلمانوں میں کعب اور وہب نے رائج کر دیا تھا ۔ اللہ ان سے درگذر فرمائے ۔ پس ان قصوں کا کوئی اعتماد نہیں بنو اسرائیل تو جدت پسند اور جدت طراز تھے بدل لینا گھڑ لینا کمی زیادتی کر لینا ان کی عادت میں داخل تھا ۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں ان کا محتاج نہیں رکھا ہمیں وہ کتاب دی اور اپنے نبی کی زبانی وہ باتیں پہنچائیں جو نفع میں وضاحت میں بیان میں ان کی باتوں سے اعلی اور ارفع ہیں ساتھ ہی بہت مفید اور نہایت احتیاط والی ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» ۔ «صرح» کہتے ہیں محل کو ۔ اور ہر بلند عمارت کو ۔ چنانچہ فرعون ملعون نے بھی اپنے وزیر ہامان سے یہی کہا تھا ۔ آیت «وَقَالَ فِرْعَوْنُ یَا ہَامَانُ ابْنِ لِی صَرْحًا لَّعَلِّی أَبْلُغُ الْأَسْبَابَ » (40-غافر:36) ۔ یمن کے ایک خاص اور بلند محل کا نام بھی صرح تھا ۔ اس سے مراد ہر وہ بنا ہے جو محکم مضبوط استوار اور قوی ہو ۔ یہ بنا بلور اور صاف شفاف شیشے سے بنائی گئی تھی ۔ دومتہ الجندل میں ایک قلعہ ہے اس کا نام بھی مادر ہے ۔ مقصد صرف اتنا ہے کہ جب اس ملکہ نے سلیمان علیہ السلام کی یہ رفعت ، یہ عظمت ، یہ شوکت ، یہ سلطنت دیکھی اور اس میں غور وفکر کے ساتھ ہی سلیمان علیہ السلام کی سیرت ان کی نیکی اور ان کی دعوت سنی تو یقین آ گیا کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں اسی وقت مسلمان ہو گئی اپنے اگلے شرک و کفر سے توبہ کر لی اور دین سلیمان علیہ السلام کی مطیع بن گئی ۔ اللہ کی عبادت کرنے لگی جو خالق مالک متصرف اور مختارکل ہے ۔ النمل
42 النمل
43 النمل
44 النمل
45 صالح علیہ السلام کی ضدی قوم صالح علیہ السلام جب اپنی قوم ثمود کے پاس آئے اور اللہ کی رسالت ادا کرتے ہوئے انہیں دعوت توحید دی تو ان میں دو فریق بن گئے ایک جماعت مومنوں کی دوسرا گروہ کافروں کا ۔ یہ آپس میں گتھ گئے جیسے اور جگہ ہے کہ متکبروں نے عاجزوں سے کہا کہ کیا تم صالح علیہ السلام کو رسول اللہ مانتے ہو ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم کھلم کھلا ایمان لا چکے ہیں انہوں نے کہا بس تو ہم ایسے ہی کھلم کھلا کافر ہیں ۔ آپ نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تمہیں کیا ہو گیا بجائے رحمت کے عذاب مانگ رہے ہو ؟ تم استغفار کرو تاکہ نزول رحمت ہو ۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہمارا تو یقین ہے کہ ہماری تمام مصیبتوں کا باعث تو ہے اور تیرے ماننے والے ۔ یہی فرعونیوں نے کلیم اللہ سے کہا تھا کہ جو بھلائیاں ہمیں ملتی ہیں ان کے لائق تو ہم ہیں لیکن جو برائیاں پہنچتی ہیں وہ سب تیری اور تیرے ساتھیوں کی وجہ سے ہیں ۔ اور آیت میں ہے «وَاِنْ تُصِبْھُمْ حَسَـنَۃٌ یَّقُوْلُوْا ہٰذِہٖ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ ۚ وَاِنْ تُصِبْھُمْ سَیِّئَۃٌ یَّقُوْلُوْا ہٰذِہٖ مِنْ عِنْدِکَ ۭقُلْ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ ۭ فَمَالِ ہٰٓؤُلَاۗءِ الْقَوْمِ لَا یَکَادُوْنَ یَفْقَہُوْنَ حَدِیْثًا» (4-النساء:78) ’ یعنی اگر انہیں کوئی بھلائی مل جاتی ہے تو کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے اور اگر انہیں کوئی برائی پہنچ جاتی ہے تو کہتے ہیں یہ تیری جانب سے ہے ‘ تو کہہ دے کہ سب کچھ اللہ ہی کی طرف سے ہے یعنی اللہ کی قضاء و قدر سے ہے ۔ سورۃ یسین میں بھی کفار کا اپنے نبیوں کو یہی کہنا موجود ہے آیت « قَالُوْٓا اِنَّا تَــطَیَّرْنَا بِکُمْ ۚ لَیِٕنْ لَّمْ تَنْتَہُوْا لَنَرْجُمَنَّکُمْ وَلَیَمَسَّـنَّکُمْ مِّنَّا عَذَابٌ اَلِــیْمٌ» (36-یس:18) ’ ہم تو آپ سے بدشگونی لیتے ہیں اگر تم لوگ باز نہ رہے تو ہم تمہیں سنگسار کر دیں گے اور سخت سزا دیں گے ۔ ‘ نبیوں نے جواب دیا کہ تمہاری بدشگونی تو ہر وقت تمہارے وجود میں موجود ہے ۔ یہاں ہے کہ علیہ السلام صالح نے جواب دیا کہ تمہاری بدشگونی تو اللہ کے پاس ہے یعنی وہی تمہیں اس کا بدلہ دے گا ۔ بلکہ تم تو فتنے میں ڈالے ہوئے لوگ ہو تمہیں آزمایا جا رہا ہے اطاعت سے بھی اور معصیت سے بھی اور باوجود تمہاری معصیت کے تمہیں ڈھیل دی جا رہی ہے یہ اللہ کی طرف سے مہلت ہے اس کے بعد پکڑے جاؤ گے ۔ النمل
46 النمل
47 النمل
48 اونٹنی کو مار ڈالا ثمود کے شہر میں نوفسادی شخص تھے جن کی طبعیت میں اصلاح تھی ہی نہیں یہی ان کے رؤسا اور سردار تھے انہی کے مشورے اور حکم سے اونٹنی کو مار ڈالا گیا تھا ان کے نام یہ ہیں دعمی ، دعیم ، ھرما ، ھریم ، داب ، صواب ، مسطع ، قدار بن سالف یہی آخری وہ شخص ہے جس نے اپنے ہاتھ سے اونٹنی کی کوچیں کاٹی تھیں ۔ جس کا بیان آیت « فَنَادَوْا صَاحِبَہُمْ فَتَعَاطٰی فَعَقَرَ» ۱؎ (54-القمر:29) اور آیت« إِذِ انبَعَثَ أَشْقَاہَا * فَقَالَ لَہُمْ رَسُولُ اللہِ نَاقَۃَ اللہِ وَسُقْیَاہَا * فَکَذَّبُوہُ فَعَقَرُوہَا فَدَمْدَمَ عَلَیْہِمْ رَبٰہُم بِذَنبِہِمْ فَسَوَّاہَا » ۱؎ (91-الشمس:14-12) میں ہے ۔ یہی وہ لوگ تھے جو درہم کے سکے کو تھوڑا ساکتر لیتے تھے اور اسے چلاتے تھے ۔ سکے کو کاٹنا بھی ایک طرح کا فساد ہے چنانچہ ابوداؤد وغیرہ میں حدیث ہے { جس میں بلاضرورت سکے کو جو مسلمانوں میں رائج ہو کاٹنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے } ۱؎ (سنن ابوداود:3449،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) الغرض ان کا یہ فساد بھی تھا اور دیگر فساد بھی بہت سارے تھے ۔ اس ناپاک گروہ نے جمع ہو کر مشورہ کیا کہ آج رات کو صالح علیہ السلام کو اور اس کے گھرانے کو قتل کر ڈالو اس پر سب نے حلف اٹھائے اور مضبوط عہد و پیمان کئے ۔ لیکن یہ لوگ صالح علیہ السلام تک پہنچیں اس سے پہلے عذاب الٰہی ان تک پہنچ گیا اور ان کا ستیاناس کر دیا ۔ اوپر سے ایک چٹان لڑھکتی ہوئی اور ان سب سرداروں کے سر پھوٹ گئے سارے ہی ایک ساتھ مرگئے ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے تھے خصوصا جب انہوں نے صالح علیہ السلام کی اونٹنی کو قتل کیا ۔ اور دیکھا کہ کوئی عذاب الٰہی نہیں آیا تو اب نبی اللہ علیہ السلام کے قتل پر آمادہ ہوئے ۔ مشورے کئے کہ چپ چاپ اچانک اسے اور اس کے بال بچوں اور اس کے والی وارثوں کو ہلاک کر دو اور قوم سے کہہ دو کہ ہمیں کیا خبر ؟ اگر صالح نبی علیہ السلام ہے تو ہمارے ہاتھ لگنے کا نہیں ورنہ اسے بھی اس کی اونٹنی کے ساتھ سلادو اس ارادے سے چلے راہ ہی میں تھے جو فرشتے نے پتھر سے ان سب کے دماغ پاش پاش کر دئیے ۔ ان کے مشوروں میں جو اور جماعت شریک تھی انہوں نے جب دیکھا کہ انہیں گئے ہوئے عرصہ ہو گیا اور واپس نہیں آئے تو یہ خبر لینے چلے دیکھا کہ سب کے سر پھٹے ہوئے ہیں بھیجے نکلے پڑے ہیں اور سب مردہ ہیں ۔ انہوں نے صالح علیہ السلام پر ان کے قتل کی تہمت رکھی اور انہیں مار ڈالنے کے لیے نکلے لیکن ان کی قوم ہتھیار لگا کر آ گئی اور کہنے لگے دیکھو اس نے تم سے کہا ہے کہ تین دن میں اللہ کا عذاب تم پر آئے گا تم یہ تین دن گذرنے دو ۔ اگر یہ سچا ہے تو اس کے قتل سے اللہ کو اور ناراض کرو گے اور زیادہ سخت عذاب آئیں گے اور اگر یہ جھوٹا ہے تو پھر تمہارے ہاتھ سے بچ کر کہاں جائے گا ؟ چنانچہ وہ لوگ چلے گئے ۔ فی الواقع ان سے نبی اللہ صالح علیہ السلام نے صاف فرما دیا تھا کہ تم نے اللہ کی اونٹنی کو قتل کیا ہے تو تم اب تین دن تک مزے اڑالو پھر اللہ کا سچا وعدہ ہو کر رہے گا ۔ یہ لوگ صالح علیہ السلام کی زبانی یہ سب سن کر کہنے لگے یہ تو اتنی مدت سے کہہ رہا ہے آؤ ہم آج ہی اس سے فارغ ہو جائیں جس پتھر سے اونٹنی نکلی تھی اسی پہاڑی پر صالح علیہ السلام کی ایک مسجد تھی جہاں آپ نماز پڑھاکرتے تھے انہوں نے مشورہ کیا کہ جب وہ نماز کو آئے اسی وقت راہ میں ہی اس کا کام تمام کر دو ۔ جب پہاڑی پر چڑھنے لگے تو دیکھا کہ اوپر سے ایک چٹان لڑھکتی ہوئی آ رہی ہے اس سے بچنے کے لیے ایک غار میں گھس گئے چٹان آ کر غار کے منہ میں اس طرح ٹھہر گیا کہ غار کامنہ بالکل بند ہو گیا ۔ سب کے سب ہلاک ہو گئے اور کسی کو پتہ بھی نہ چلا کہ کہاں گئے ؟ انہیں یہاں عذاب آیا وہاں باقی والے وہیں ہلاک کر دئیے گئے نہ ان کی خبر انہیں ہوئی اور نہ ان کی انہیں ۔ صالح علیہ السلام اور باایمان لوگوں کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے اور اپنی جانیں اللہ کے عذابوں میں گنوادیں ۔ انہوں نے مکر کیا اور ہم نے ان کی چال بازی کا مزہ انہیں چکھا دیا ۔ اور انہیں اس سے ذرا پہلے بھی مطلق علم نہ ہو سکا ۔ انجام کار ان کی فریب بازیوں کا یہ ہوا کہ سب کے سب تباہ و برباد ہوئے ۔ یہ ہیں ان کی بستیاں جو سنسان پڑی ہیں ان کے ظلم کی وجہ سے یہ ہلاک ہو گئے ان کے بارونق شہر تباہ کر دئے گئے ذی علم لوگ ان نشانوں سے عبرت حاصل کر سکتے ہیں ۔ ہم نے ایماندار متقیوں کو بال بال بچا لیا ۔ النمل
49 النمل
50 النمل
51 النمل
52 النمل
53 النمل
54 ہم جنسوں سے جنسی تعلق (نتیجہ ایڈز) اللہ تعالیٰ اپنے بندے اور رسول لوط علیہ السلام کا واقعہ بیان فرما رہا ہے کہ آپ نے اپنی امت یعنی اپنی قوم کو اس کے نالائق فعل پر جس کا فاعل ان سے پہلے کوئی نہ ہوا تھا ۔ یعنی اغلام بازی پر ڈرایا ۔ تمام قوم کی یہ حالت تھی کہ مرد مردوں سے عورت عورتوں سے شہوت رانی کر لیا کرتی تھیں ۔ ساتھ ہی اتنے بے حیاء ہو گئے تھے کہ اس پاجی فعل کو پوشیدہ کرنا بھی کچھ ضروری نہیں جانتے تھے ۔ اپنے مجمعوں میں واہی فعل کرتے تھے ۔ عورتوں کو چھوڑ مردوں کے پاس آتے تھے ۔ اس لیے آپ نے فرمایا کہ اپنی اس جہالت سے باز آ جاؤ تم تو ایسے گئے گزرے اور اتنے نادان ہوئے کہ شرعی پاکیزگی کے ساتھ ہی تم سے طبعی طہارت بھی جاتی رہی ۔ جیسے دوسری آیت میں ہے «اَتَاْتُوْنَ الذٰکْرَانَ مِنَ الْعٰلَمِیْنَ * وَتَذَرُونَ مَا خَلَقَ لَکُمْ رَبٰکُم مِّنْ أَزْوَاجِکُم ۚ بَلْ أَنتُمْ قَوْمٌ عَادُونَ» ۱؎ (26-الشعراء:166-165) ’ کیا تم مردوں کے پاس آتے ہو اور عورتوں کو جنہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے جوڑ بنائے ہیں چھوڑتے ہو ؟ بلکہ تم حد سے نکل جانے والے لوگ ہو ۔ ‘ قوم کا جواب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ جب لوط علیہ السلام اور لوط والے تمہارے اس فعل سے بیزار ہیں اور نہ وہ تمہاری مانتے ہیں نہ تم ان کی ۔ تو پھر ہمیشہ کی اس بحث و تکرار کو ختم کیوں نہیں کر دیتے ؟ لوط علیہ السلام کے گھرانے کو دیس نکالا دے کر ان کے روزمرہ کے کچوکوں سے نجات حاصل کر لو ۔ جب کافروں نے پختہ ارادہ کر لیا اور اس پر جم گئے اور اجماع ہو گیا تو اللہ نے انہیں کو ہلاک کر دیا اور اپنے پاک بندے لوط علیہ السلام کو اور ان کی اہل کو ان سے جو عذاب ان پر آئے ان سے بچا لیا ۔ ہاں آپ کی بیوی جو قوم کے ساتھ ہی تھی وہ پہلے سے ہی ان ہلاک ہونے والوں میں لکھی جا چکی تھی وہ یہاں باقی رہ گئی اور عذاب کے ساتھ تباہ ہوئی کیونکہ یہ انہیں ان کے دین اور ان کے طریقوں میں مدد دیتی تھی ان کی بد اعمالیوں کو پسند کرتی تھی ۔ اسی نے لوط علیہ السلام کے مہمانوں کی خبر قوم کو دی تھی ۔ لیکن یہ خیال رہے کہ معاذاللہ ان کی اس فحش کاری میں یہ شریک نہ تھی ۔ اللہ کے نبی علیہ السلام کی بزرگی کے خلاف ہے کہ ان کی بیوی بدکار ہو ۔ اس قوم پر آسمان سے پتھر برسائے گئے جن پر ان کے نام کندہ تھے ہر ایک پر اسی کے نام کا پتھر آیا اور ایک بھی ان میں سے بچ نہ سکا ۔ ظالموں سے اللہ کی سزا دور نہیں ۔ ان پر حجت ربانی قائم ہو چکی تھی ۔ انہیں ڈرایا اور دھمکایا جا چکا تھا ۔ تبلیغ رسالت کافی طور پر ہو چکی تھی ۔ لیکن انہوں نے مخالفت میں جھٹلانے میں اور اپنی بےایمانی پر اڑنے میں کمی نہیں کی ۔ نبی اللہ لوط علیہ السلام کو تکلیفیں پہنچائیں بلکہ انہیں نکال دینے کا ارادہ کیا اس وقت اس بدترین بارش نے یعنی سنگ باری نے انہیں فناکر دیا ۔ النمل
55 النمل
56 النمل
57 النمل
58 النمل
59 1 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہو رہا ہے کہ آپ کہیں کہ ساری تعریفوں کے لائق فقط اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ اسی نے اپنے بندوں کو اپنی بےشمار نعمتیں عطا فرما رکھی ہیں ۔ اس کی صفتیں عالی ہیں اس کے نام بلند اور پاک ہیں اور حکم ہوتا ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے برگذیدہ بندوں پر سلام بھیجیں جیسے انبیاء اور رسول علیہم السلام ۔ حمدوصلوٰۃ کا ساتھ ہی ذکر آیت «سُبْحٰنَ رَبِّکَ رَبِّ الْعِزَّۃِ عَمَّا یَصِفُوْنَ * وَسَلَامٌ عَلَی الْمُرْسَلِینَ » ۱؎ (37-الصافات:181-180) میں بھی ہے ۔ برگزیدہ بندوں سے مراد اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور خود انبیاء علیہم السلام بطور اولیٰ اس میں داخل ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں اور ان کے تابعداروں کے بچالینے اور مخالفین کے غارت کر دینے کی نعمت بیان فرما کر اپنی تعریفیں کرنے والے اور اپنے نیک بندوں پر سلام بھیجنے کا حکم دیا ۔ اس کے بعد بطور سوال کے مشرکوں کے اس فعل پر انکار کیا کہ وہ اللہ عزوجل کے ساتھ اس کی عبادت میں دوسروں کو شریک ٹھہرا رہے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ پاک اور بری ہے ۔ الحمد للہ انیسواں پارہ ختم ہوا۔ النمل
60 اللہ کی ہمسر کوئی نہیں بیان کیا جا رہا ہے کہ کل کائنات کا رچانے والا ، سب کا پیدا کرنے والا ، سب کو روزیاں دینے والا ، سب کی حفاظتیں کرنے والا ، تمام جہان کی تدبیر کرنے والا ، صرف اللہ تعالیٰ ہے ۔ ان بلند آسمانوں کو چمکتے ستاروں کو اسی نے پیدا کیا ہے اس بھاری بوجھل زمین کو ان بلند چوٹیوں والے پہاڑوں کو ان پھیلے ہوئے میدانوں کو اسی نے پیدا کیا ہے ۔ کھیتیاں ، باغات ، پھل ، پھول ، دریا ، سمندر ، حیوانات ، جنات ، انسان ، خشکی اور تری کے عام جاندار اسی ایک کے بنائے ہوئے ہیں ۔ آسمانوں سے پانی اتارنے والا وہی ہے ۔ اسے اپنی مخلوق کو روزی دینے کا ذریعہ اسی نے بنایا ، باغات کھیت سب وہی اگاتا ہے ۔ جو خوش منظر ہونے کے علاوہ بہت مفید ہیں ۔ خوش ذائقہ ہونے کے علاوہ زندگی کو قائم رکھنے والے ہوتے ہیں ۔ تم میں سے یا تمہارے معبودان باطل میں سے کوئی بھی نہ کسی چیز کے پیدا کرنے کی قدرت رکھتا ہے نہ کسی درخت اگانے کی ۔ بس وہی خالق و رازق ہے اللہ کی خالقیت اور اس کی روزی پہنچانے کی صفت کو مشرکین بھی مانتے تھے ۔ جیسے دوسری آیت میں بیان ہوا ہے کہ آیت «وَلَئِن سَأَلْتَہُم مَّنْ خَلَقَہُمْ لَیَقُولُنَّ اللہُ ۖ فَأَنَّیٰ یُؤْفَکُونَ» ۱؎ (43-الزخرف:87) ’ یعنی اگر تو ان سے دریافت کرے کہ انہیں کس نے پیدا کیا ہے ؟ تو یہی جواب دیں گے اللہ تعالیٰ نے ۔ } الغرض یہ جانتے اور مانتے ہیں کہ خالق کل صرف اللہ ہی ہے ۔ لیکن ان کی عقلیں ماری گئی ہیں کہ عبادت کے وقت اوروں کو بھی شریک کر لیتے ہیں ۔ باوجودیکہ جانتے ہیں کہ نہ وہ پیدا کرتے ہیں اور نہ روزی دینے والے ۔ اور اس بات کا فیصلہ تو ہر عقلمند کر سکتا ہے کہ عبادت کے لائق وہی ہے جو خالق مالک اور رازق ہے ۔ اسی لیے یہاں اس آیت میں بھی سوال کیا گیا کہ معبود برحق کے ساتھ کوئی اور بھی عبادت کے لائق ہے ؟ کیا اللہ کے ساتھ مخلوق کو پیدا کرنے میں ، مخلوق کی روزی مہیا کرنے میں کوئی اور بھی شریک ہے ؟ چونکہ وہ مشرک خالق رازق صرف اللہ ہی کو مانتے تھے ۔ اور عبادت اوروں کی کرتے تھے ۔ اس لیے ایک اور آیت میں فرمایا ۔ « أَفَمَن یَخْلُقُ کَمَن لَّا یَخْلُقُ ۗ أَفَلَا تَذَکَّرُونَ» ۱؎ (16-النحل:17) ’ خالق اور غیر خالق یکساں نہیں پھر تم خالق اور مخلوق کو کیسے ایک کر رہے ہو ؟ ‘ یہ یاد رہے کہ ان آیات میں «امن» جہاں جہاں ہے وہاں یہی معنی ہیں کہ ایک تو وہ جو ان تمام کاموں کو کر سکے اور ان پر قادر ہو دوسرا وہ جس نے ان میں سے نہ تو کسی کام کو کیا ہو اور نہ کر سکتا کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں ؟ گو دوسری شق کو لفظوں میں بیان نہیں کیا لیکن طرز کلام اسے صاف کر دیتا ہے ۔ اور آیت میں صاف صاف یہ بھی ہے کہ «قُلِ الْحَمْدُ لِلہِ وَسَلَامٌ عَلَیٰ عِبَادِہِ الَّذِینَ اصْطَفَیٰ ۗ اللہُ خَیْرٌ أَمَّا یُشْرِکُونَ» (27-النمل:59) کیا اللہ بہتر ہے یا جنہیں وہ شریک کرتے ہیں ؟ آیت کے خاتمے پر فرمایا بلکہ ہیں بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کے شریک ٹھہرا رہے ہیں ۔ آیت «أَمَّنْ ہُوَ قَانِتٌ آنَاءَ اللَّیْلِ سَاجِدًا وَقَائِمًا یَحْذَرُ الْآخِرَۃَ وَیَرْجُو رَحْمَۃَ رَبِّہِ ۗ قُلْ ہَلْ یَسْتَوِی الَّذِینَ یَعْلَمُونَ وَالَّذِینَ لَا یَعْلَمُونَ ۗ إِنَّمَا یَتَذَکَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ» ۱؎ (39-الزمر:9) بھی اسی جیسی آیت ہے ’ یعنی ایک وہ شخص جو اپنے دل میں آخرت کا ڈر رکھ کر اپنے رب کی رحمت کا امیدوار ہو کر راتوں کو نماز میں گزارتا ہو ۔ یعنی وہ اس جیسا نہیں ہوسکتا جس کے اعمال ایسے نہ ہوں ۔ ‘ ایک اور جگہ ہے عالم اور بےعلم برابر نہیں ۔ عقلمند ہی نصیحت سے فائدہ اٹھاتے ہیں ایک وہ جس کا سینہ اسلام کے لیے کھلا ہوا ہو ، اور وہ اپنے رب کی طرف سے نور ہدایت لیے ہو اور وہ اس جیسا نہیں ۔ جس کے دل میں اسلام کی طرف سے کراہت ہو اور سخت دل ہو اللہ نے خود اپنی ذات کی نسبت فرمایا ۔ « أَفَمَنْ ہُوَ قَائِمٌ عَلَیٰ کُلِّ نَفْسٍ بِمَا کَسَبَتْ ۗ وَجَعَلُوا لِلہِ شُرَکَاءَ قُلْ سَمٰوہُمْ ۚ أَمْ تُنَبِّئُونَہُ بِمَا لَا یَعْلَمُ فِی الْأَرْضِ أَم بِظَاہِرٍ مِّنَ الْقَوْلِ ۗ بَلْ زُیِّنَ لِلَّذِینَ کَفَرُوا مَکْرُہُمْ وَصُدٰوا عَنِ السَّبِیلِ ۗ وَمَن یُضْلِلِ اللہُ فَمَا لَہُ مِنْ ہَادٍ » ۱؎ (13-الرعد:33) ’ یعنی وہ جو مخلوق کی تمام حرکات سکنات سے واقف ہو تمام غیب کی باتوں کو جانتا ہوں اس کی مانند ہے جو کچھ بھی نہ جانتا ہو ؟ بلکہ جس کی آنکھیں اور کان نہ ہو جیسے تمہارے یہ بت ہیں ۔ ‘ فرمان ہے آیت «وَجَعَلُوا لِلہِ شُرَکَاءَ قُلْ سَمٰوہُمْ » ۱؎ (13-الرعد:33) ’ یہ اللہ کے شریک ٹھہرا رہے ہیں ان سے کہہ ذرا ان کے نام تو مجھے بتاؤ ‘ پس ان سب آیتوں کا مطلب یہی ہے کہ اللہ نے اپنی صفیتں بیان فرمائی ہیں ۔ پھر خبر دی ہے کہ یہ صفات کسی میں نہیں ۔ ‎ النمل
61 کائنات کے مظاہر اللہ تعالٰی کی صداقت زمین کو اللہ تعالیٰ نے ٹھہری ہوئی اور ساکن بنایا تاکہ دنیا آرام سے اپنی زندگی بسر کر سکے اور اس پھیلے ہوئے فرش پر راحت پاسکے ۔ جیسے اور آیت میں ہے « اللہُ الَّذِی جَعَلَ لَکُمُ الْأَرْضَ قَرَارًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَصَوَّرَکُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَکُمْ وَرَزَقَکُم مِّنَ الطَّیِّبَاتِ ۚ ذٰلِکُمُ اللہُ رَبٰکُمْ ۖ فَتَبَارَکَ اللہُ رَبٰ الْعَالَمِینَ » ۱؎ (40-غافر:64) ’ اللہ تعالیٰ نے زمین کو تمہارے لیے ٹھہری ہوئی ساکن بنایا اور آسمان کو چھت بنایا ۔ اس نے زمین پر پانی کے دریا بہادئیے جوادھر ادھربہتے رہتے ہیں اور ملک ملک پہنچ کر زمین کو سیراب کرتے ہیں تاکہ زمین سے کھیت باغ وغیرہ اگیں ۔ اس نے زمین کی مضبوطی کے لیے اس پر پہاڑوں کی میخیں گاڑھ دیں تاکہ وہ تمہیں متزلزل نہ کر سکے ٹھہری رہے ۔‘ اس کی قدرت دیکھو کہ ایک کھاری سمندر ہے اور دوسرا میٹھا ہے ۔ دونوں بہہ رہے ہیں بیچ میں کوئی روک آڑ پردہ حجاب نہیں لیکن قدرت نے ایک کو ایک سے الگ کر رکھا ہے اور نہ کڑوا میٹھے میں مل سکے نہ میٹھا کرڑوے میں ۔ کھاری اپنے فوائد پہنچاتا رہے میٹھا اپنے فوائد دیتا رہے اس کا نتھرا ہوا خوش ذائقہ مسرورکن خوش ہضم پانی لوگ پئیں اپنے جانوروں کو پلائیں کھتیاں باڑیاں باغات وغیرہ میں یہ پانی پہنچائیں نہائیں دھوئیں وغیرہ ۔ کھاری پانی اپنی فوائد سے لوگوں کو سود مند کرے یہ ہرطرف سے گھیرے ہوئے ہے تاکہ ہوا خراب نہ ہو ۔ اور اس آیت میں بھی ہے ان دونوں کا بیان موجود ہے «وَہُوَ الَّذِیْ مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ ھٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَّھٰذَا مِلْحٌ اُجَاجٌ» (25-الفرقان:53) ’ یعنی ان دونوں سمندروں کا جاری کرنے والا اللہ ہی ہے اور اسی لیے ان دونوں کے درمیاں حد فاصل قائم کر رکھی ہے ۔ ‘ یہاں یہ قدرتیں اپنی جتاکر ۔ پھر سوال کرتا ہے کہ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور بھی ایسا ہے جس نے یہ کام کئے ہوں یا کرسکتا ہو ؟ تاکہ وہ بھی لائق عبادت سمجھاجائے ۔ اکثر لوگ محض بےعلمی سے غیر اللہ کی عبادت کرتے ہیں ۔ عبادتوں کے لائق صرف وہی ایک ہے ۔ النمل
62 بے کسوں کا سہار سختیوں اور مصیبتوں کے وقت پکارے جانے کے قابل اسی کی ذات ہے ۔ بےکس ، بےبس لوگوں کا سہارا وہی ہے گرے پڑے بھولے بھٹکے مصیبت زدہ اسی کو پکارتے ہیں ۔ اسی کی طرف لو لگاتے ہیں جیسے فرمایا کہ تمہیں جب سمندر کے طوفان زندگی سے مایوس کر دیتے ہیں تو تم اسی کو پکارتے ہو اس کی طرف گریہ وزاری کرتے ہو اور سب کو بھول جاتے ہو ۔ اسی کی ذات ایسی ہے کہ ہر ایک بیقرار وہاں پناہ لے سکتا ہے مصیبت زدہ لوگوں کی مصیبت اس کے سوا کوئی بھی دور نہیں کر سکتا ۔ ایک شخص نے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کس چیز کی طرف ہمیں بلا رہے ہیں ؟ آپ نے فرمایا اللہ کی طرف جو اکیلا ہے جس کا کوئی شریک نہیں جو اس وقت تیرے کام آتا ہے جب تو کسی بھنور میں پھنسا ہوا ہو ۔ وہی ہے کہ جب تو جنگلوں میں راہ بھول کر اسے پکارے تو وہ تیری رہنمائی کر دے تیرا کوئی کھو گیا ہو اور تو اس سے التجا کرے تو وہ اسے تجھ کو ملادے ۔ قحط سالی ہو گئی ہو اور تو اس سے دعائیں کرے تو وہ موسلا دھار مینہ تجھ پر برسادے ۔ اس شخص نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے کچھ نصیحت کیجئے ۔ آپ نے فرمایا کسی کو برا نہ کہہ ۔ نیکی کے کسی کام کو ہلکا اور بیوقعت نہ سمجھ ۔ خواہ اپنے مسلمان بھائی سے کشادہ پیشانی سے ملنا ہو گو اپنے ڈول سے کسی پیاسے کو ایک گھونٹ پانی کا دینا ہی ہو اور اپنے تہبند کو آدھی پنڈلی تک رکھ ۔ لمبائی میں زیادہ سے زیادہ ٹخنے تک ۔ اس سے نیچے لٹکانے سے بچتا رہ ۔ اس لیے کہ یہ فخر و غرور ہے جسے اللہ ناپسند کرتا ہے ۔ ۱؎ (مسند احمد:64/5:صحیح) ایک روایت میں انکا نام جابر بن سلیم ہے ۔ اس میں ہے کہ { جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا آپ ایک چادر سے گوٹ لگائے بیٹھے تھے جس کے پھندنے آپ کے قدموں پر گر رہے تھے میں نے آ کر پوچھا کہ تم میں اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کون ہیں ؟ آپ نے اپنے ہاتھ سے خود اپنی طرف اشارہ کیا میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں ایک گاؤں کا رہنے والا آدمی ہوں ادب تمیز کچھ نہیں جانتا مجھے احکام اسلام کی تعلیم دیجئیے ۔ آپ نے فرمایا کہ کسی چھوٹی سی نیکی کو بھی حقیر نہ سمجھ ، خواہ اپنے مسلمان بھائی سے خوش خلقی کے ساتھ ملاقات ہی ہو ۔ اور اپنے ڈول میں سے کسی پانی مانگے والے کے برتن میں ذراسا پانی ڈال دینا ہی ہو ۔ اگر کوئی تیری کسی شرمناک بات کو جانتا ہو اور وہ تجھے شرمندہ کرے تو تو اسے اس کی کسی ایسی بات کی عار نہ دلا تاکہ اجر تجھے ملے اور وہ گنہگار بن جائے ۔ ٹخنے سے نیچے کپڑا لٹکانے سے پرہیز کر کیونکہ یہ تکبر ہے اور تکبر اللہ کو پسند نہیں اور کسی کو بھی ہرگز گالی نہ دینا ۔ } ۱؎ (مسند احمد:63/5:صحیح) فرماتے ہیں یہ سننے کے بعد سے لےکر آج تک میں نے کبھی کسی انسان کو بلکہ کسی جانور کو بھی گالی نہیں دی ۔ طاؤس رحمہ اللہ ایک بیمار کی بیمار پرسی کے لیے گئے اس نے کہا میرے لیے دعا کرو آپ نے فرمایا تم خود اپنے لیے دعا کرو بیقرار کی بیقراری کے وقت کی دعا اللہ قبول فرماتا ہے ۔ وہب رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں نے اگلی آسمانی کتاب میں پڑھا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مجھے میری عزت کی قسم ! جو شخص مجھ پر اعتماد کرے اور مجھے تھام لے تو میں اسے اس کے مخالفین سے بچالوں گا اور ضرور بچالوں گا چاہے آسمان و زمین وکل مخلوق اس کی مخالفت اور ایذاء دینے پر تلے ہوں ۔ اور جو مجھ پر اعتماد نہ کرے میری پناہ میں نہ آئے تو میں اسے مان وامان سے چلتا پھرتا ہونے کے باوجود اگر چاہوں گا تو زمین میں دھنسادوں گا ۔ اور اس کی کوئی مدد نہ کروں گا ۔ ایک بہت ہی عجیب واقعہ حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے ۔ ایک صاحب فرماتے ہیں کہ میں ایک خچر پر لوگوں کو دمشق سے زیدانی لے جایاکرتا تھا اور اسی کرایہ پر میری گذر بسر تھی ۔ ایک مرتبہ ایک شخص نے خچر مجھ سے کرایہ پرلیا ۔ میں نے اسے سوار کیا اور چلا ایک جگہ جہاں دو راستے تھے جب وہاں پہنچے تو اس نے کہا اس راہ پر چلو ۔ میں نے کہا میں اس سے واقف نہیں ہوں ۔ سیدھی راہ یہی ہے ۔ اس نے کہا نہیں میں پوری طرح واقف ہوں ، یہ بہت نزدیک راستہ ہے ۔ میں اس کے کہنے پر اسی راہ پر چلا تھوڑی دیر کے بعد میں نے دیکھا کہ ایک لق ودق بیابان میں ہم پہنچ گئے ہیں جہاں کوئی راستہ نظر نہیں آتا ۔ نہایت خطرناک جنگل ہے ہر طرف لاشیں پڑی ہوئی ہیں ۔ میں سہم گیا ۔ وہ مجھ سے کہنے لگا ذرا لگام تھام لو مجھے یہاں اترنا ہے میں نے لگام تھام لی وہ اترا اور اپنا تہبند اونچا کر کے کپڑے ٹھیک کر کے چھری نکال کر مجھ پر حملہ کیا ۔ میں وہاں سے سرپٹ بھاگا لیکن اس نے میرا تعاقب کیا اور مجھے پکڑ لیا میں اسے قسمیں دینے لگا لیکن اس نے خیال بھی نہ کیا ۔ میں نے کہا اچھا یہ خچر اور کل سامان جو میرے پاس ہے تو لے لے اور مجھے چھوڑ دے اس نے کہا یہ تو میرا ہو ہی چکا لیکن میں تجھے زندہ نہیں چھوڑنا چاہتا میں نے اسے اللہ کا خوف دلایا آخرت کے عذابوں کا ذکر کیا لیکن اس چیز نے بھی اس پر کوئی اثر نہ کیا اور وہ میرے قتل پر تلا رہا ۔ اب میں مایوس ہو گیا اور مرنے کے لیے تیار ہو گیا ۔ اور اس سے منت سماجت کی کہ تم مجھے دو رکعت نماز ادا کر لینے دو ۔ اس نے کہا اچھا جلدی پڑھ لے ۔ میں نے نماز شروع کی لیکن اللہ کی قسم میری زبان سے قرآن کا ایک حرف نہیں نکلتا تھا ۔ یونہی ہاتھ باندھے دہشت زدہ کھڑا تھا اور وہ جلدی مچا رہا تھا اسی وقت اتفاق سے یہ آیت میری زبان پر آ گئی آیت «اَمَّنْ یٰجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَیَکْشِفُ السٰوْۗءَ وَیَجْعَلُکُمْ خُلَـفَاۗءَ الْاَرْضِ » ۱؎ (27-النمل:62) ’ یعنی اللہ ہی ہے جو بیقرار کی بیقراری کے وقت کی دعا کو سنتا اور قبول کرتا ہے اور بےبسی بےکسی کو سختی اور مصیبت کو دور کر دیتا ہے } پس اس آیت کا زبان سے جاری ہونا تھا جو میں نے دیکھا کہ بیچوں بیچ جنگل میں سے ایک گھڑ سوار تیزی سے اپنا گھوڑا بھگائے نیزہ تانے ہماری طرف چلا آ رہا ہے اور بغیر کچھ کہے اس ڈاکو کے پیٹ میں اس نے اپنا نیزہ گھونپ دیا جو اس کے جگر کے آرپار ہو گیا اور وہ اسی وقت بےجان ہو کر گر پڑا ۔ سوار نے باگ موڑی اور جانا چاہا لیکن میں اس کے قدموں سے لپٹ گیا اور بہ الحاح کہنے لگا اللہ کے لیے یہ بتاؤ تم کون ہو ؟ اس نے کہا میں اس کا بھیجا ہوا ہوں جو مجبوروں بےکسوں اور بےبسوں کی دعا قبول فرماتا ہے اور مصیبت اور آفت کوٹال دیتا ہے میں نے اللہ کا شکر کیا اور اپنا سامان اور خچر لے کر صحیح سالم واپس لوٹا ۔ ۱؎ (تاریخ دمشق:489/19) اس قسم کا ایک واقعہ اور بھی ہے کہ مسلمانوں کے ایک لشکر نے ایک جنگ میں کافروں سے شکست اٹھائی اور واپس لوٹے ۔ ان میں ایک مسلمان جو بڑے سخی اور نیک تھے ان کا گھوڑا جو بہت تیز رفتا تھا راستے میں اڑگیا ۔ اس ولی اللہ نے بہت کوشش کی لیکن جانور نے قدم ہی نہ اٹھایا ۔ آخر عاجز آ کر اس نے کہا کیا بات ہے جو اڑ گیا ۔ ایسے ہی موقعہ کے لیے تو میں نے تیری خدمت کی تھی اور تجھے پیار سے پالا تھا ۔ گھوڑے کو اللہ نے زبان دی اس نے جواب دیا کہ وجہ یہ ہے کہ آپ میرا گھاس دانہ سائیس کو سونپ دیتے تھے اور وہ اس میں سے چرا لیتا تھا مجھے بہت کم کھانے کو ملتا تھا اور مجھ پر ظلم کرتا تھا ۔ اللہ کے نیک بندے نے کہا اب سے میں تجھے اپنی گود ہی میں کھلایا کرونگا جانور یہ سنتے ہی تیزی سے لپکا اور انہیں جائے امن تک پہنچا دیا ۔ حسب وعدہ اب سے یہ بزرگ اپنے اس جانور کو اپنی گود میں ہی کھلایا کرتا تھا ۔ لوگوں نے ان سے اس کی وجہ پوچھی انہوں نے کسی سے واقعہ کہہ دیا جس کی عام شہرت ہو گئی اور لوگ ان سے یہ واقعہ سننے کے لیے دور دور سے آنے لگے ۔ شاہ روم کو جب اس کی خبر ملی تو انہوں نے چاہا کسی طرح ان کو اپنے شہر میں بلالے ۔ بہت کوشش کی مگر بےسود رہیں ۔ آخر میں انہوں نے ایک شخص بھیجا کہ کسی طرح حیلے بہانے کر کے ان کو بادشاہ تک پہنچا دے ۔ یہ شخص پہلے مسلمان تھا پھر مرتد ہو گیا تھا بادشاہ کے پاس سے یہاں آیا ان سے ملا اپنا اسلام ظاہر کیا توبہ کی اور نہایت نیک بن کر رہنے لگا یہاں تک کہ اس ولی کو اس پر پورا اعتماد ہو گیا اور اسے صالح اور دیندار سمجھ کر اس سے دوستی کر لی اور ساتھ ساتھ لے کر پھرنے لگے ۔ اس نے اپنا پورا رسوخ جماکر اپنی ظاہری دینداری کے فریب میں انہیں پھنسا کر بادشاہ کو اطلاع دی کہ فلاں وقت دریا کے کنارے ایک مضبوط جری شخص کو بھیجو میں انہیں وہاں لے کر آ جاؤں گا اور اس شخص کی مدد سے اس کو گرفتار کر لوں گا ۔ یہاں سے انہیں فریب دے کر چلا اور وہاں پہنچ آیا دفعتا ایک شخص نمودار ہوا اور اس نے بزرگ پر حملہ کیا ادھر سے اس مرتد نے حملہ کیا اس نیک دل شخص نے اس وقت آسمان کی طرف نگاہیں اٹھائیں اور دعا کی کہ اے اللہ ! اس شخص نے تیرے نام سے مجھے دھوکا دیا ہے میں تجھ سے التجا کرتا ہوں کہ تو جس طرح چاہے مجھے ان دونوں سے بچالے ۔ وہیں جنگل سے دو درندے دھاڑتے ہوئے آتے دکھائی دئیے اور ان دونوں شخصوں کو انہوں نے دبوچ لیا اور ٹکڑے ٹکڑے کر کے چل دئیے اور یہ اللہ کا بندہ امن و امان سے وہاں سے صحیح وسالم واپس تشریف لے آیا رحمہ اللہ ۔ اپنی اس شان رحمت کو بیان فرما کر پھر جناب باری کی طرف ارشاد ہوتا ہے کہ وہی تمہیں زمین کا جانشیں بناتا ہے ۔ ایک ایک کے پیچھے آ رہا ہے اور مسلسل سلسلہ چلا جا رہا ہے ۔ جیسے فرمان ہے «وَرَبٰکَ الْغَنِیٰ ذُو الرَّحْمَۃِ ۚ إِن یَشَأْ یُذْہِبْکُمْ وَیَسْتَخْلِفْ مِن بَعْدِکُم مَّا یَشَاءُ کَمَا أَنشَأَکُم مِّن ذُرِّیَّۃِ قَوْمٍ آخَرِینَ » ۱؎ (6-الأنعام:133) ’ اگر وہ چاہے تو تم سب کو تو یہاں سے فنا کر دے اور کسی اور ہی کو تمہارا جانشین بنا دے جیسے کہ خو تمہیں دوسروں کا خلیفہ بنا دیا ہے ۔ ‘ اور آیت میں ہے ۔ «وَہُوَ الَّذِیْ جَعَلَکُمْ خَلٰۗیِٕفَ الْاَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَکُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَبْلُوَکُمْ فِیْ مَآ اٰتٰیکُمْ» ۱؎ (6-الأنعام:165) ’ اس اللہ نے تمہیں زمینوں کا جانشین بنایا ہے اور تم میں سے ایک کو ایک پر درجوں میں بڑھا دیا ہے ‘ آدم علیہ السلام کو بھی خلیفہ کہا گیا وہ اس اعتبار سے کہ ان کی اولاد ایک دوسرے کی جانشین ہو گی جیسے کہ آیت «وَإِذْ قَالَ رَبٰکَ لِلْمَلَائِکَۃِ إِنِّی جَاعِلٌ فِی الْأَرْضِ خَلِیفَۃً» ۱؎ (2-البقرۃ:30) کی تفسیر اور بیان گذر چکا ہے ۔ اس آیت کے اس جملے سے بھی یہی مراد ہے کہ ایک کے بعد ایک ، ایک زمانہ کے بعد دوسرا زمانہ ایک قوم کے بعد دوسری قوم پس یہ اللہ کی قدرت ہے اس نے یہ کیا کہ ایک مرے ایک پیدا ہو ۔ آدم علیہ السلام کو پیدا کیا ان سے ان کی نسل پھیلائی اور دنیا میں ایک ایسا طریقہ رکھا کہ دنیا والوں کی روزیاں اور ان کی زندگیاں تنگ نہ ہوں ورنہ سارے انسان ایک ساتھ شاید زمین میں بہت تنگی سے گزارہ کرتے اور ایک سے ایک کو نقصانات پہنچتے ۔ پس موجودہ نظام الٰہی اس کی حکمت کا ثبوت ہے سب کی پیدائش کا ، موت کا آنے جانے کا وقت اس کے نزدیک مقرر ہے ۔ ایک ایک اس کے علم میں ہے اس کی نگاہ سے کوئی اوجھل نہیں ۔ وہ ایک دن ایسا بھی لانے والا ہے کہ ان سب کو ایک ہی میدان میں جمع کرے اور ان کے فیصلے کرے نیکی بدی کا بدلہ دے ۔ اپنی قدرتوں کو بیان فرما کر فرماتا ہے کوئی ہے جو ان کاموں کو کر سکتا ہو ؟ اور جب نہیں کر سکتا تو عبادت کے لائق بھی نہیں ہوسکتا ایسی صاف دلیلیں بھی بہت کم سوچی جاتی ہیں اور ان سے نصیحت بھی بہت کم لوگ حاصل کرتے ہیں ۔ النمل
63 ستاروں کے فوائد آسمان و زمین میں اللہ تعالیٰ نے ایسی نشانیاں رکھ دی ہیں کہ خشکی اور تری میں جو راہ بھول جائے وہ انہیں دیکھ کر راہ راست اختیار کر لے ۔ جیسے فرمایا ہے کہ «وَبِالنَّجْمِ ہُمْ یَہْتَدُونَ» ۱؎ (16-النحل:16) ’ ستاروں سے لوگ راہ پاتے ہیں ‘ «وَہُوَ الَّذِی جَعَلَ لَکُمُ النٰجُومَ لِتَہْتَدُوا بِہَا فِی ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ» ’ سمندروں میں خشکی میں انہیں دیکھ کر اپنا راستہ ٹھیک کر لیتے ہیں ‘ ۱؎ (6-الأنعام:97) بادل پانی بھرے برسیں اس سے پہلے ٹھنڈی اور بھینی بھینی ہوائیں چلاتا ہے ۔ جس سے لوگ سمجھ جاتے ہیں کہ اب رب کی رحمت برسے گی ۔ اللہ کے سوا ان کاموں کا کرنے والا کوئی نہیں نہ کوئی ان پر قادر ہے ۔ تمام شریکوں سے وہ الگ ہے پاک ہے سب سے بلند ہے ۔ قدرت کاملہ کا ثبوت فرمان ہے کہ اللہ وہ ہے جو اپنی قدرت کاملہ سے مخلوقات کو بےنمونہ پیدا کرتا ہے ۔ پھر انہیں فنا کر کے دوبارہ پیدا کرے گا ۔ جب تم اسے پہلی دفعہ پیدا کرنے پر قادر مان رہے ہو تو دوبارہ کی پیدائش جو اس کے لیے بہت ہی آسان ہے اس پر قادر کیوں نہیں مانتے ؟ آسمان سے بارش برسانا اور زمین سے اناج اگانا اور تمہاری روزی کا سامان آسمان اور زمین سے پیدا کرنا اسی کا کام ہے ۔ جیسے سورۃ الطارق میں فرمایا« وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الرَّجْعِ»*«وَالْأَرْضِ ذَاتِ الصَّدْعِ» ۱؎ (86-الطارق:12-11) ’ پانی والے آسمان کی اور پھوٹنے والی زمین کی قسم ۔ ‘ اور آیت میں ہے «ہُوَ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِی سِتَّۃِ أَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَیٰ عَلَی الْعَرْشِ ۚ یَعْلَمُ مَا یَلِجُ فِی الْأَرْضِ وَمَا یَخْرُجُ مِنْہَا وَمَا یَنزِلُ مِنَ السَّمَاءِ وَمَا یَعْرُجُ فِیہَا ۖ وَہُوَ مَعَکُمْ أَیْنَ مَا کُنتُمْ ۚ وَ اللہُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیرٌ » ۱؎ (57-الحدید:4) ’ یعنی اللہ خوب جانتا ہے ہر اس چیز کو جو آسمان میں سما جائے اور جو زمین سے باہر اگ آئے ۔ اور جو آسمان سے اترے اور جو اس پر چڑھے ۔ پس آسمان سے مینہ برسانے والا اسے زمین میں ادھر اھر تک پہنچانے والا اور اس کی وجہ سے طرح طرح کے پھل پھول اناج گھاس پات اگانے والا وہی ہے جو تمہاری اور تمہارے جانوروں کی روزیاں ہیں ۔ ‘ یقیناً یہ تمام چیزیں صاحب عقل کے لیے اللہ کی بڑی بڑی نشانیاں ہیں ۔ اپنی ان قدرتوں کو اور اپنے ان گراں بہا احسانوں کو بیان فرما کر فرمایا کہ کیا اللہ کے ساتھ ان کاموں کا کرنے والا کوئی اور بھی ہے ؟ جس کی عبادت کی جائے اگر تم اللہ کے سوا دوسروں کو معبود ماننے کے دعوے کو دلیل سے ثابت کر سکتے ہو تو وہ دلیل پیش کرو ؟ لیکن چونکہ وہ محض بےدلیل ہیں اس لیے دوسری آیت میں فرما دیا کہ «وَمَن یَدْعُ مَعَ اللہِ إِلٰہًا آخَرَ لَا بُرْہَانَ لَہُ بِہِ فَإِنَّمَا حِسَابُہُ عِندَ رَبِّہِ ۚ إِنَّہُ لَا یُفْلِحُ الْکَافِرُونَ» ۱؎ (23-المؤمنون:117) ’ اللہ کے ساتھ جو دوسرے کو بھی پوجے جس کی کوئی دلیل بھی اس کے پاس نہ ہو وہ یقیناً کافر ہے اور نجات سے محروم ہے ۔‘ النمل
64 النمل
65 اللہ کے سوا کوئی غیب داں نہیں اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ وہ سارے جہاں کو معلوم کرا دیں کہ ساری مخلوق آسمان کی ہو یا زمین کی غیب کے علم سے خالی ہے بجز اللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک لہ کے کوئی اور غیب کا جاننے والا نہیں ۔ یہاں استثناء منقطع ہے یعنی سوائے اللہ کے کوئی انسان جن فرشتہ غیب دان نہیں ۔ جیسے فرمان ہے «وَعِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُہَآ اِلَّا ہُوَ » ۱؎ (6-الأنعام:59) ’ یعنی غیب کی کنجیاں اسی کے پاس ہے جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ ‘ اور فرمان ہے «اِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗ عِلْمُ السَّاعَۃِ» ۱؎ (31-لقمان:34) ’ اللہ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے ۔ ‘ وہی بارش برساتا ہے وہی مادہ کے پیٹ کے بچے سے واقف ہے ۔ کوئی نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کرے گا نہ کسی کو یہ خبر کہ وہ کہاں مرے گا ؟ علیم وخبیر صرف اللہ ہی ہے ۔ اور بھی اس مضمون کی بہت سی آیتیں ہیں ۔ مخلوق تو یہ بھی نہیں جانتی کہ قیامت کب آئے گی ۔ آسمانوں اور زمینوں کے رہنے والوں میں سے ایک بھی واقف نہیں کہ قیامت کا دن کون سا ہے ؟ جیسے فرمان ہے آیت «ثَقُلَتْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ» ۱؎ (7-الأعراف:187) سب پر یہ علم مشکل ہے اور بوجھل ہے وہ تو اچانک آ جائے گی ۔ سیدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا فرمان ہے جو کہے کہ حضور کل کائنات کی بات جانتے تھے اس نے اللہ تبارک وتعالیٰ پر بہتان عظیم باندھا اس لیے کہ اللہ فرماتا ہے زمین و آسمان والوں میں سے کوئی بھی غیب کی بات جاننے والا نہیں ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:177) قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ستاروں میں تین فائدے رکھے ہیں ۔ آسمان کی زینت بھولے بھٹکوں کی رہبری اور شیطانوں کی مار ۔ کسی اور بات کا ان کے ساتھ عقیدہ رکھنا اپنی رائے سے بات بنانا اور خود ساختہ تکلیف اور اپنی عاقبت کے حصہ کو کھونا ہے ۔ جاہلوں نے ستاروں کے ساتھ علم نجوم کو متعلق رکھ کر فضول باتیں بنائی ہیں کہ اس ستارے کے وقت جو نکاح کرے یوں ہو گا فلاں ستارے کے موقعہ پر سفر کرنے سے یہ ہوتا ہے فلاں ستارے کے وقت جو تولد ہوا وہ ایسا وغیرہ وغیرہ ۔ یہ سب ڈھکوسلے ہیں ان کی بکواس کے خلاف اکثر ہوتا رہتا ہے ہر ستارے کے وقت کالا گورا ٹھنگنا لمبا خوبصورت بد شکل پیدا ہوتا ہی رہتا ہے ۔ نہ کوئی جانور غیب جانے نہ کسی پرند سے غیب حاصل ہو سکے نہ ستارے غیب کی رہنمائی کریں ۔ سنو اللہ کا فیصلہ ہو چکا ہے کہ آسمان و زمیں کی کل مخلوق غیب سے بےخبر ہے ۔ انہیں تو اپنے جی اٹھنے کا وقت بھی نہیں معلوم ہے ( ابن ابی حاتم ) سبحان اللہ قتادہ رحمہ اللہ کا یہ قول کتنا صحیح کس قدر مفید اور معلومات سے پر ہے ۔ فرماتا ہے بات یہ ہے کہ ان کے علم آخرت کے وقت کے جاننے سے قاصر ہیں عاجز ہو گئے ہیں ۔ ایک قرأت میں «بل ادرک »ہے یعنی سب کے علم آخرت کا صحیح وقت نہ جاننے میں برابر ہیں ۔ جیسے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام کے سوال کے جواب میں فرمایا تھا کہ میرا اور تیرا دونوں کا علم اس کے جواب سے عاجز ہے ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:94-93) پس یہاں بھی فرمایا کہ آخرت سے ان کے علم غائب ہیں ۔ چونکہ کفار اپنے رب سے جاہل ہیں اس لیے آخرت کے بھی منکر ہیں ۔ وہاں تک ان کے علم پہنچتے ہی نہیں ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ آخرت میں ان کو علم حاصل ہو گا لیکن بےسود ہے ۔ جیسے اور جگہ بھی ہیں کہ جس دن یہ ہمارے پاس پہنچے گے بڑے ہی دانا وبینا ہو جائیں گے ۔ لیکن آج ظالم کھلی گمراہی میں ہونگے ۔ پھر فرماتا ہے کہ بلکہ یہ تو شک ہی میں ہیں اس سے مراد کافر ہے جیسے فرمان ہے «وَعُرِضُوا عَلَیٰ رَبِّکَ صَفًّا لَّقَدْ جِئْتُمُونَا کَمَا خَلَقْنَاکُمْ أَوَّلَ مَرَّۃٍ ۚ بَلْ زَعَمْتُمْ أَلَّن نَّجْعَلَ لَکُم مَّوْعِدًا » ۱؎ (18-الکہف:48) ’ یعنی یہ لوگ اپنے رب کے سامنے صف بستہ پیش کئے جائیں گے ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ہم نے جس طرح تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا اب ہم تمہیں دوبارہ لے آئے ہیں ۔ ‘ لیکن تم تو یہ سمجھتے رہے کہ قیامت تو کوئی چیز ہی نہیں ۔ مراد یہ ہے کہ تم میں سے کافر یہ سمجھتے رہے ۔ پس مندرجہ بالا آیات بھی گو ضمیر جنس کی طرف لوٹتی ہے لیکن مراد کفار ہی ہیں اسی لیے آخر میں فرمایا کہ یہ تو اس سے اندھاپے میں ہیں ، نابینا ہو رہے ہیں ، آنکھیں بند کر رکھی ہیں ۔ النمل
66 النمل
67 حیات ثانی کے منکر یہاں یہ بیان ہو رہا ہے کہ منکرین قیامت کی سمجھ میں اب تک بھی نہیں آیا کہ مرنے اور سڑ گل جانے کے بعد مٹی اور راکھ ہو جانے کے بعد ہم دوبارہ کیسے پیدا کئے جائیں گے ؟ وہ اس پر سخت متعجب ہیں ۔ کہتے ہیں مدتوں سے اگلے زمانوں سے یہ سنتے تو چلے آتے ہیں لیکن ہم نے تو کسی کو مرنے کے بعد جیتا ہوا دیکھا نہیں ۔ سنی سنائی باتیں ہیں انہوں نے اپنے اگلوں سے انہوں نے اپنے سے پہلے والوں سے سنیں ہم تک پہنچیں لیکن سب عقل سے دور ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب بتاتا ہے کہ ان سے کہو ذرا زمین میں چل پھر کر دیکھیں کہ رسولوں کو جھوٹا جاننے والوں اور قیامت کو نہ ماننے والوں کا کیسا دردرناک حسرت ناک انجام ہوا ؟ ہلاک اور تباہ ہو گئے اور نبیوں اور ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ نے بچا لیا ۔ یہ نبیوں کی سچائی کی دلیل ہے ۔ پھر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتے ہیں کہ یہ تجھے اور میرے کلام کو جھٹلاتے ہیں لیکن تو ان پر افسوس اور رنج نہ کر ۔ ان کے پیچھے اپنی جان کو روگ نہ لگا ۔ یہ تیرے ساتھ جو روباہ بازیاں کر رہے ہیں اور جو چالیں چل رہے ہیں ہمیں خوب علم ہے تو بیفکر رہ ۔ تجھے اور تیرے دن کو ہم عروج دینے والے ہیں ۔ دنیا جہاں پر تجھے ہم بلندی دیں گے ۔ النمل
68 النمل
69 النمل
70 النمل
71 قیامت کے منکر مشرک چونکہ قیامت کے آنے کے قائل ہی نہیں ۔ جرات سے اسے جلدی طلب کرتے تھے اور کہتے تھے کہ اگر سچے ہو تو بتاؤ وہ کب آئے گی ۔ جناب باری کی طرف سے بواسطہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جواب مل رہا ہے کہ ممکن ہے وہ بالکل ہی قریب آ گئی ہو ۔ جیسے اور آیت میں ہے «عَسٰٓی اَنْ یَّکُوْنَ قَرِیْبًا» ۱؎ (17-الإسراء:51) اور جگہ ہے «یَسْتَعْجِلُونَکَ بِالْعَذَابِ وَإِنَّ جَہَنَّمَ لَمُحِیطَۃٌ بِالْکَافِرِینَ» ۱؎ (29-العنکبوت:54) ’ یہ عذابوں کو جلدی طلب کر رہے ہیں اور جہنم تو کافروں کو گھیرے ہوئے ہے ۔‘ «لکم» کا لام ردف کے «عجل» کے معنی کو متضمن ہونے کی وجہ سے ہے ۔ جیسے کہ مجاہد سے رحمہ اللہ مروی ہے ۔ پھر فرمایا کہ اللہ کے تو انسانوں پر بہت ہی فضل و کرم ہیں ۔ اس کی بےشمار نعمتیں ان کے پاس ہیں تاہم ان میں سے اکثر ناشکرے ہیں ۔ جس طرح تمام ظاہر امور اس پر آشکارا ہیں اسی طرح تمام باطنی امور بھی اس پر ظاہر ہیں ۔ جیسے فرمایا «سَوَاۗءٌ مِّنْکُمْ مَّنْ اَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَنْ جَہَرَ بِہٖ وَمَنْ ہُوَ مُسْتَخْفٍۢ بِالَّیْلِ وَسَارِبٌۢ بِالنَّہَارِ» ۱؎ (13-الرعد:10) اور آیت میں ہے « یَعْلَمُ السِّرَّ وَاَخْفٰی» ۱؎ (20-طہ:7) اور آیت میں ہے «اَلَا حِیْنَ یَسْتَغْشُوْنَ ثِیَابَھُمْ ۙ یَعْلَمُ مَا یُسِرٰوْنَ وَمَا یُعْلِنُوْنَ ۚ اِنَّہٗ عَلِیْمٌۢ بِذَات الصٰدُوْرِ » (11-ہود:5) مطلب یہی ہے کہ ہر ظاہر وباطن کا وہ عالم ہے ۔ پھر بیان فرماتا ہے کہ ہر غائب حاضر کا اسے علم ہے وہ علام الغیوب ہے ۔ آسمان و زمین کی تمام چیزیں خواہ تم کو ان کا علم ہو یا نہ ہو اللہ کے ہاں کھلی کتاب میں لکھی ہوئی ہیں ۔ جیسے فرمان ہے کہ کیا تو نہیں جانتا کہ آسمان و زمین کی ہر ایک چیز کا اللہ عالم ہے ۔ سب کچھ کتاب میں موجود ہے اللہ پر سب کچھ آسان ہے ۔ النمل
72 النمل
73 النمل
74 النمل
75 النمل
76 حق و باطل میں فیصلہ کرنے والا قرآن پاک کی ہدایت بیان ہو رہی ہے ۔ کہ اس میں جہاں رحمت ہے وہاں فرقان بھی ہے اور بنی اسرائیل یعنی حاملان تورات وانجیل کے اختلافات کا فیصلہ بھی ہے ۔ جیسے عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں یہودیوں نے منہ پھٹ بات اور نری تہمت رکھ دی تھی اور عیسائیوں نے انہیں ان کی حد سے آگے بڑھا دیا تھا ۔ قرآن نے فیصلہ کیا اور افراط وتفریط کو چھوڑ کر حق بات بتادی کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔ وہ اللہ کے حکم سے پیدا ہوئے ہیں ان کی والدہ نہایت پاکدامن تھی ۔ صحیح اور بیشک وشبہ بات یہی ہے ۔ اور یہ قرآن مومنوں کے دل کی ہدایت ہے ۔ اور ان کے لیے سراسر رحمت ہے ۔ قیامت کے دن اللہ ان کے فیصلے کرے گا جو بدلہ لینے میں غالب ہے اور بندہ کے اقوال و افعال کا عالم ہے ۔ تجھے اسی پر کام بھروسہ رکھنا چاہیئے ۔ اپنے رب کی رسالت کی تبلیغ میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیئے ۔ تو تو سراسر حق پر ہے مخالفین شقی ازلی ہیں ۔ ان پر تیرے رب کی بات صادق آ چکی ہے کہ انہیں ایمان نصیب نہیں ہونے کا ۔ گو تو انہیں تمام معجزے دکھا دے ۔ تو مردوں کو نفع دینے والی سماعت نہیں دے سکتا ۔ اسی طرح یہ کفار ہیں کہ ان کے دلوں پر پردے ہیں ان کے کانوں میں بوجھ ہیں ۔ یہ بھی قبولیت کا سننا نہیں سنیں گے ۔ اور نہ تو بہروں کو اپنی آواز سناسکتا ہے جب کہ وہ پیٹھ موڑے منہ پھیرے جا رہے ہوں ۔ اور تو اندھوں کو ان کی گمراہی میں بھی رہنمائی نہیں کر سکتا تو صرف انہیں کو سنا سکتا ہے ۔ یعنی قبول صرف وہی کریں گے جو کان لگا کر سنیں اور دل لگا کر سمجھیں ساتھ ہی ایمان و اسلام بھی ان میں ہو ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والے ہوں دین اللہ کے قائل وحامل ہوں ۔ النمل
77 النمل
78 النمل
79 النمل
80 النمل
81 النمل
82 دابتہ الارض جس جانور کا یہاں ذکر ہے یہ لوگوں کے بالکل بگڑ جانے اور دین حق کو چھوڑ بیٹھنے کے وقت آخر زمانے میں ظاہر ہو گا ۔ جب کہ لوگوں نے دین حق کو بدل دیا ہو گا ۔ بعض کہتے ہیں یہ مکہ شریف سے نکلے گا بعض کہتے ہیں اور کسی جگہ سے جس کی تفصیل ابھی آئے گی ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ وہ بولے گا باتیں کرے گا اور کہے گا کہ لوگ اللہ کی آیتوں کا یقین نہیں کرتے تھے ۔ ابن جریر رحمہ اللہ اسی کو مختار کہتے ہیں ۔ لیکن اس قول میں نظر ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ وہ انہیں زخمی کرے گا ایک روایت میں ہے کہ وہ یہ اور وہ دونوں کرے گا ۔ یہ قول بہت اچھا ہے اور دونوں باتوں میں کوئی تضاد نہیں ، «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ وہ احادیث و آثار جو دابتہ الارض کے بارے میں مروی ہیں ۔ ان میں سے کچھ ہم یہاں بیان کرتے ہیں «واللہ المستعان» ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایک مرتبہ بیٹھے قیامت کا ذکر کر رہے تھے ۔ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات سے آئے ۔ ہمیں ذکر میں مشغول دیکھ کر فرمانے لگے کہ قیامت قائم نہ ہو گی کہ تم دس نشانیاں نہ دیکھ لو ۔ سورج کا مغرب سے نکلنا ، دھواں ، دابتہ الارض ، یاجوج ماجوج ، عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کا ظہور ، اور دجال کانکلنا اور مغرب ، مشرق اور جزیرہ عرب میں تین خسف ہونا ، اور ایک آگ کا عدن سے نکلنا جو لوگوں کا حشر کرے گی ۔ انہی کے ساتھ رات گزارے گی اور انہی کے ساتھ دوپہر کا سونا سوئے گی ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:7214) ابوداؤد طیالسی میں ہے کہ { دابتہ الارض تین مرتبہ نکلے گا دور دراز کے جنگل سے ظاہر ہو گا اور اس کا ذکر شہر یعنی مکہ تک نہ پہنچے گا پھر ایک لمبے زمانے کے بعد دوبارہ ظاہر ہو گا اور لوگوں کی زبانوں پر اس کا قصہ چڑھ جائے گا یہاں تک کہ مکہ میں بھی اس کی شہرت پہنچے گی ۔ پھر جب لوگ اللہ کی سب سے زیادہ حرمت و عظمت والی مسجد مسجد الحرام میں ہوں گے اسی وقت اچانک دفعتا دابتہ الارض انہیں وہی دکھائی دے گا کہ رکن مقام کے درمیان اپنے سر سے مٹی جھاڑ رہا ہو گا ۔ لوگ اس کو دیکھ کر ادھر ادھر ہونے لگیں گے یہ مومنوں کی جماعت کے پاس جائے گا اور ان کے منہ کو مثل روشن ستارے کے منور کر دے گا اس سے بھاگ کر نہ کوئی بچ سکتا ہے اور نہ چھپ سکتا ہے ۔ یہاں تک کہ ایک شخص اس کو دیکھ کر نماز کو کھڑا ہو جائے گا یہ اس کو کہے گا اب نماز کو کھڑا ہوا ہے ؟ پھر اس کے پیشانی پر نشان کر دے گا اور چلاجائے گا اس کے ان نشانات کے بعد کافر مومن کا صاف طور امتیاز ہو جائے گایہاں تک کہ مومن کافر سے کہے گا کہ اے کافر ! میرا حق ادا کر اور کافر مومن سے کہے گا اے مومن ! میرا حق ادا کر ۔ } یہ روایت سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے موقوفاً بھی مروی ہے ۔ ایک روایت میں ہے کہ { یہ عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں ہو گا جب کہ آپ بیت اللہ شریف کا طواف کر رہے ہونگے ۔ } لیکن اس کی اسناد صحیح نہیں ہے ۔ صحیح مسلم میں ہے کہ { سب سے پہلے جو نشانی ظاہر ہو گی وہ سورج کا مغرب سے نکلنا اور دابتہ الارض کا ضحی کے وقت آ جانا ہے ۔ ان دونوں میں سے جو پہلے ہو گا اس کے بعد ہی دوسرا ہو گا ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:2941) صحیح مسلم شریف میں ہے { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چھ چیزوں کی آمد سے پہلے نیک اعمال کر لو ۔ سورج کا مغرب سے نکلنا ، دھویں کا آنا ، دجال کا آنا ، اور دابتہ الارض کا آنا تم میں سے ہر ایک کا خاص امر اور عام امر ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:.2947-128) یہ حدیث اور سندوں سے دوسری کتابوں میں بھی ہے ۔ ابوداؤد طیالسی میں ہے کہ { دابتہ الارض کے ساتھ عیسیٰ علیہ السلام کی لکڑی اور سلیمان علیہ السلام کی انگوٹھی ہو گی ۔ کافروں کی ناک پر لکڑی سے مہر لگائے گا اور مومنوں کے منہ انگوٹھی سے منور کر دے گا یہاں تک کہ ایک دستر خوان بیٹھے ہوئے مومن کافر سب ظاہر ہونگے ۔ } ۱؎ (مسند طیالسی:2564:ضعیف) ایک اور حدیث میں جو مسند احمد میں ہے ، مروی ہے کہ { کافروں کے ناک پر انگوٹھی سے مہر کرے گا اور مومنوں کے چہرے لکڑی سے چمکا دے گا ۔ } ۱؎ (مسند احمد:295/2:ضعیف) ابن ماجہ میں سیدنا ابن بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ { مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لے کر مکہ کے پاس ایک جنگل میں گئے ۔ میں نے دیکھا کہ ایک خشک زمین ہے جس کے اردگرد ریت ہے ۔ فرمانے لگے یہیں سے دابتہ الارض نکلے گا ۔ } سیدنا ابن بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں اس کے کئی سال بعد میں حج کے لیے نکلا تو مجھے لکڑی دکھائی دی جو میری اس لکڑی کے برابر تھی ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:4066،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اس کے چار پیر ہونگے صفا کے کھڈ سے نکلے گا بہت تیزی سے خروج کرے گا جیسے کہ کوئی تیز رفتار گھوڑا ہو لیکن تاہم تین دن میں اس کے جسم کا تیسرا حصہ بھی نہ نکلا ہو گا ۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے جب اس کی بابت پوچھا گیا تو فرمانے لگے جیاد میں ایک چٹان ہے اس کے نیچے سے نکلے گا میں اگر وہاں ہوتا تو تمہیں وہ چٹان دکھا دیتا ۔ یہ سیدھا مشرق کی طرف جائے گا اور اس شور سے جائے گا کہ ہر طرف اس کی آواز پہنچ جائے گی ۔ پھر شام کی طرف جائے گا وہاں بھی چیخ لگا کر ، پھر یمن کی طرف متوجہ ہوگا یہاں بھی آواز لگا کر شام کے وقت مکہ سے چل کر صبح کو عسفان پہنچ جائے گا ۔ لوگوں نے پوچھا پھر کیا ہو گا ؟ فرمایا پھر مجھے معلوم نہیں ۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا کا قول ہے کہ مزدلفہ کی رات کو نکلے گا ۔ عزیر علیہ السلام کے ایک کلام کی حکایت ہے کہ سدوم کے نیچے سے یہ نکلے گا ۔ اس کے کلام کو سب سنیں گے حاملہ کے حمل وقت سے پہلے گرجائیں گے ، میٹھا پانی کڑوا ہو جائے گا دوست دشمن ہو جائیں گے حکمت جل جائی گی علم اٹھ جائے گا نیچے کی زمین باتیں کرے گی انسان کی وہ تمنائیں ہونگی کہ جو کبھی پوری نہ ہوں ، ان چیزوں کی کوشش ہو گی جو کبھی حاصل نہ ہو ۔ اس بارے میں کام کریں گے جسے کھائیں گے نہیں ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے اس کے جسم پر سب رنگ ہونگے ۔ اس کے دوسینگوں کے درمیان سوار کے لیے ایک فرسخ کی راہ ہو گی ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ یہ موٹے نیزے کی اور بھالے کی طرح کا ہو گا ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس کے بال ہونگے کھر ہونگے ڈاڑھی ہو گی دم نہ ہو گی ۔ تین دن میں بمشکل ایک تہائی باہر آئے گا حالانکہ تیز گھوڑے کی چال چلتا ہو گا ۔ سیدنا ابو زبیر رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ اس کا سر بیل کے سرکے مشابہ ہو گا آنکھیں خنزیر کی آنکھوں کے مشابہ ہونگی ، کان ہاتھی جیسے ہوں گے ، سینگ کی جگہ اونٹ کی طرح ہو گی ، شتر مرغ جیسی گردن ہو گی ، شیر جیسا سینہ ہو گا ، چیتے جیسا رنگ ہو گا بلی جیسی کمر ہو گی مینڈے جیسی دم ہو گی اونٹ جیسے پاؤں ہونگے ہر دو جوڑ کے درمیان بارہ گز کا فاصلہ ہو گا ۔ موسیٰ علیہ السلام کی لکڑی اور سلیمان علیہ السلام کی انگوٹھی ساتھ ہو گی ہر مومن کے چہرے پر اپنے عصائے موسوی سے نشان کرے گا جو پھیل جائے گا اور چہرہ منور ہو جائے گا اور ہر کافر کے چہرے پر خاتم سلیمانی سے نشانی لگا دے گا جو پھیل جائے گا اور اس کا سارا چہرہ سیاہ ہو جائے گا ۔ اب تو اس طرح مومن کافر ظاہر ہو جائیں گے کہ خرید و فروخت کے وقت کھانے پینے کے وقت لوگ ایک دوسروں کو اے مومن اور اے کافر کہہ کر بلائیں گے ۔ دابتہ الارض ایک ایک کا نام لے کر ان کو جنت کی خوشخبری یا جہنم کی بدخبری سنائے گا ۔ یہی معنی ومطلب اس آیت کا ہے ۔ النمل
83 دابتہ الارض اللہ کی باتوں کو نہ ماننے والوں کا اللہ کے سامنے حشر ہو گا اور وہاں انہیں ڈانٹ ڈپٹ ہو گی تاکہ ان کی ذلت وحقارت ہو ۔ ہر قوم میں سے ہر زمانے کے ایسے لوگوں کے گروہ الگ الگ پیش ہونگے جیسے فرمان ہے «اُحْشُرُوا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا وَاَزْوَاجَہُمْ وَمَا کَانُوْا یَعْبُدُوْنَ» ۱؎ (37-الصافات:22) ’ ظالموں کو اور ان کے جوڑوں کو جمع کرو ۔ ‘ اور جیسے فرمان ہے «وَاِذَا النٰفُوْسُ زُوِّجَتْ» ۱؎ (81-التکویر:7) ’ جب کہ نفسوں کی جوڑیاں ملائی جائیں گی ۔ ‘ یہ سب ایک دوسرے کو دھکے دیں گے اور اول والے آخر والوں کو رد کریں گے ۔ پھر سب کے سب جانوروں کی طرح ہنکا کر اللہ کے سامنے لائیں جائیں گے ۔ ان کے حاضر ہوتے ہی وہ منتقم حقیقی نہایت غصہ سے ان سے باز پرس کرے گا ۔ یہ نیکیوں سے خالی ہاتھ ہونگے ۔ جیسے فرمایا «فَلَا صَدَّقَ وَلَا صَلَّیٰ * وَلٰکِن کَذَّبَ وَتَوَلَّیٰ » ۱؎ (75-القیامۃ:32-31) ’ یعنی نہ انہوں نے سچائی کی تھی نہ نمازیں پڑھی تھیں بلکہ جھٹلایا تھا اور منہ موڑا تھا ۔ ‘ پس ان پر حجت ثابت ہو جائے گی اور کوئی عذر نہ کر سکیں گے ۔ جیسے فرمان ہے «ہٰذَا یَوْمُ لَا یَنطِقُونَ»*«وَلَا یُؤْذَنُ لَہُمْ فَیَعْتَذِرُونَ»*«وَیْلٌ یَوْمَئِذٍ لِّلْمُکَذِّبِینَ» ۱؎ (77-المرسلات:37-35) ’ یہ وہ دن ہے کہ بول نہ سکیں گے اور نہ کوئی معقول عذر پیش کر سکیں گے اور نہ غیر معقول معذرت کی اجازت پائیں گے ۔‘ پس ان کے ذمہ بات ثابت ہو جائے گی ۔ ششدرو حیران رہ جائیں گے اپنے ظلم کا بدلہ خوب پائیں گے ۔ دنیا میں ظالم تھے اب جس کے سامنے کھٹے ہونگے وہ عالم الغیب ہے کوئی بات بنائے نہ بنے گی ۔ پھر اپنی قدرت کاملہ کا بیان فرماتا ہے اور اپنی بلندئ شان بتاتا ہے اور اپنی عظیم الشان سلطنت دکھاتا ہے جو کھلی دلیل ہے ۔ اس کی اطاعت کی فرضیت پر اور اس کے حکموں کے بجا لانے اور اس کے منع کردہ کاموں سے رکے رہنے کی ضروت پر ۔ اور اس کے نبیوں کو سچا ماننے کی اصلیت پر ۔ کہ اس نے رات کو پرسکون بنایا تاکہ تم اس میں آرام حاصل کر لو اور دن بھر کی تھکان دور کر لو اور دن کو روشن بنایا تاکہ تم اپنی معاش کی تلاش کر لو سفر تجارت کاروبار باآسانی کر سکو ۔ یہ تمام چیزیں ایک مومن کے لیے تو کافی سے زیادہ دلیل ہیں ۔ النمل
84 النمل
85 النمل
86 النمل
87 جب صور پھونکا جائے گا اللہ تعالیٰ قیامت کی گھبراہٹ اور بےچینی کو بیان فرما رہے ہیں ۔ صور میں اسرافیل علیہ السلام بحکم الٰہی پھونک ماریں گے ۔ اس وقت زمین پر بدترین لوگ ہونگے ۔ دیر تک «نفخہ» پھونکتے رہیں گے ۔ جس سے سب پریشان حال ہو جائیں گے سوائے شہیدوں کے جو اللہ کے ہاں زندہ ہیں اور روزیاں دئیے جاتے ہیں ۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ایک دن کسی شخص نے دریافت کیا کہ یہ آپ کیا فرمایا کرتے ہیں کہ اتنے اتنے وقت تک قیامت آ جائے گی ؟ آپ نے «سبحان اللہ» یا «لا الہ الا اللہ» یا اور کوئی ایسا ہی کلمہ بطور تعجب کہا اور فرمانے لگے سنو ! اب تو جی چاہتا ہے کہ کسی سے کوئی حدیث بیان ہی نہ کروں میں نے یہ کہا تھا کہ عنقریب تم بڑی اہم باتیں دیکھو گے ۔ بیت اللہ خراب ہو جائے گا اور یہ ہو گا وہ ہو گا وغیرہ ۔ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ دجال میری امت میں چالیس ٹھہرے گا ۔ میں نہیں جانتا کہ چالیس دن یا چالیس مہینے یا چالیس سال ۔ پھر اللہ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام کو نازل فرمائے گا ۔ وہ صورت شکل میں بالکل عروہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ ٰعنہ جیسے ہونگے آپ اسے ڈھونڈ نکالیں گے اور اسے ہلاک کر دیں گے ۔ پھر سات سال ایسے گزریں گے کہ دنیا بھر میں دو شخص ایسے نہ ہونگے جن میں آپس میں بغض وعدوات ہو ۔ پھر اللہ تعالیٰ شام کی طرف سے ایک بھینی بھینی ٹھنڈی ہوا چلائے گا جس سے ہر مومن فوت ہو جائے گا ۔ ایک ذرے کے برابر بھی جس کے دل میں خیر یا ایمان ہو گا اس کی روح بھی قبض ہو جائے گی ۔ یہاں تک کہ اگر کوئی شخص کسی پہاڑ کی کھوہ میں گھس گیا ہو گا تو یہ ہوا وہیں جا کر اسے فناکر دے گی ۔ اب زمین پر صرف بد لوگ رہ جائیں گے جو پرندوں جیسے ہلکے اور چوپائیوں جیسے بےعقل ہوں گے ۔ ان میں سے بھلائی برائی کی تمیز اٹھ جائے گی ان کے پاس شیطان پہنچے گا اور کہے گا تم شرماتے نہیں ؟ کہ بتوں کی پرستش چھوڑے بیٹھے ہو ؟ یہ بت پرستی شروع کر دیں گے ۔ اللہ انہیں روزیاں پہنچاتا رہے گا اور خوش و خرم رکھے گا ۔ یہ اسی مستی میں ہونگے جو صور پھونکنے کا حکم مل جائے گا ۔ جس کے کان میں آواز پڑی وہیں دائیں بائیں لوٹنے لگے گا سب سے پہلے اسے وہ شخص سنے گا جو اپنے اونٹ کے لیے حوض ٹھیک ٹھاک کر رہا ہو گا سنتے ہی بےہوش ہو جائے گا ۔ اور سب لوگ بےہوش ہونا شروع ہو جائیں گے ۔ پھر اللہ تعالیٰ مثل شبنم کے بارش برسائے گا جس سے لوگوں کے جسم اٹھنے لگیں گے ۔ پھر دوسرا «نفخہ» پھونکا جائے گا جس سے سب اٹھ کھڑے ہونگے ۔ وہیں آواز لگے گی کہ لوگو ! اپنے رب کے پاس چلو ۔ وہاں ٹھہرو تم سے سوال جواب ہو گا پھر فرمایا جائے گا کہ آگ کا حصہ نکالو ۔ پوچھا جائے گا کہ کتنوں میں سے کتنے ؟ تو فرمایا جائے گا کہ ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے ۔ یہ ہو گا وہ دن جو بچوں کو بوڑھا کر دے ۔ یہ ہو گا وہ دن جب پنڈلی [ تجلی رب ] کی زیارت کرائی جائے گی ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:2940-116) پہلا «نفخہ» تو گھبراہٹ کا «نفخہ» ہو گا ۔ دوسرا بےہوشی اور موت کا اور تیسرا دوبارہ جی کر رب العلمین کے دربار میں پیش ہونے کا ۔ «أتوہ» کی قرائت الف کے مد کے ساتھ بھی مروی ہے ۔ ہر ایک ذلیل وخوار ہو کر پست ولاچار ہو کر بےبس اور مجبور ہو کر ماتحت اور محکوم ہو کر اللہ کے سامنے حاضر ہو گا ۔ ایک سے بھی بن نہ پڑے گی کہ اس کی حکم عدولی کرے ۔ جیسے فرمان ہے « یَوْمَ یَدْعُوْکُمْ فَتَسْتَجِیْبُوْنَ بِحَمْدِہٖ وَتَظُنٰوْنَ اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا قَلِیْلًاہ» ۱؎ (17-الإسراء:52) ’ جس دن اللہ تمہیں بلائے گا اور تم اس کی حمد بیان کرتے ہوئے اس کی فرمانبرداری کرو گے ۔ ‘ اور آیت«وَمِنْ آیَاتِہِ أَن تَقُومَ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ بِأَمْرِہِ ۚ ثُمَّ إِذَا دَعَاکُمْ دَعْوَۃً مِّنَ الْأَرْضِ إِذَا أَنتُمْ تَخْرُجُونَ » ۱؎ (30-الروم:25) میں ہے کہ ’ پھر جب وہ تمہیں زمین سے بلائے گا تو تم سب نکل کھڑے ہو گے ۔ ‘ صور کی حدیث میں ہے کہ تمام روحیں صور کے سوراخ میں رکھی جائیں گی اور جب جسم قبروں سے اٹھ رہے ہونگے ۔ صور پھونک دیا جائے گا روحیں اڑنے لگیں گی مومنوں کی روحیں نورانی ہونگی کافروں کی روحیں اندھیرے اور ظلمت والی ہونگی ۔ رب العالمین خالق کل فرما دے گا میرے جلال کی میری عزت کی قسم ہے ہر روح اپنے بدن میں چلی جائے ۔ جس طرح زہر رگ وپے میں سرایت کرتا ہے اس طرح روحیں اپنے جسموں میں پھیل جائیں گی اور لوگ اپنی اپنی جگہ سے سرجھاڑ اٹھ کھڑے ہوں گے ۔ جیسے فرمایا «یَوْمَ یَخْرُجُونَ مِنَ الْأَجْدَاثِ سِرَاعًا کَأَنَّہُمْ إِلَیٰ نُصُبٍ یُوفِضُونَ » ۱؎ (70-المعارج:43) ’ کہ اس دن قبروں سے اس طرح جلدی نکلیں گے جس طرح اپنی عبادت گاہ کی طرف دوڑے بھاگے جاتے تھے ۔‘ یہ بلند پہاڑ جنہیں تم گڑا ہوا اور جما ہوا دیکھ رہے ہو یہ اس دن اڑتے بادلوں کی طرح ادھر ادھر پھیلے ہوئے اور ٹکڑے ٹکڑے ہوئے دکھائی دیں گے ۔ ریزہ ریزہ ہو کر یہ چلنے پھرنے لگیں گے اور آخر ریزہ ریزہ ہو کر بےنام و نشان ہو جائیں گے زمین صاف ہتھیلی جیسی بغیر کسی اونچ نیچ کے ہو جائے گی ۔ یہ ہے صفت اس صناع کی جس کی ہرصفت حکمت والی مضبوط پختہ اور اعلی ہوتی ہے ۔ جس کی اعلی تر قدرت انسانی سمجھ میں نہیں آ سکتی ۔ بندوں کے تمام اعمال خیر وشر سے وہ واقف ہے ہر ایک فعل کی سزا جزا وہ ضرور دے گا ۔ اس اختصار کے بعد تفصیل بیان فرمائی کہ نیکی اخلاص توحید لے کر جو آئے گا وہ ایک کے بدلے دس پائے گا اور اس دن کی گھبراہٹ سے نڈر رہے گا اور لوگ گھبراہٹ میں عذاب میں ہونگے ۔ یہ امن میں ثواب میں ہو گا بلند و بالا بالاخانوں میں راحت و اطمینان سے ہو گا ۔ اور جس کی برائیاں ہی برائیاں ہوں یا جس کی برائیاں بھلائیوں سے زیادہ ہوں اسے ان کا بدلہ ملے گا ۔ اپنی اپنی کرنی اپنی اپنی بھرنی ۔ اکثر مفسرین سے مروی ہے کہ برائی سے مراد شرک ہے ۔ النمل
88 النمل
89 النمل
90 النمل
91 اللہ تعالٰی کا حکم ، اعلان اللہ تعالیٰ اپنے نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ آپ لوگوں میں اعلان کر دیں کہ میں اس شہر مکہ کے رب کی عبادت کا اور اس کی فرمانبرداری کا مامور ہوں ۔ جیسے ارشاد ہے «قُلْ یَا أَیٰہَا النَّاسُ إِن کُنتُمْ فِی شَکٍّ مِّن دِینِی فَلَا أَعْبُدُ الَّذِینَ تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللہِ وَلٰکِنْ أَعْبُدُ اللہَ الَّذِی یَتَوَفَّاکُمْ ۖ وَأُمِرْتُ أَنْ أَکُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ» ۱؎ (10-یونس:104) ’ کہ اے لوگو ! اگر تمہیں میرے دین میں شک ہے تو ہواکرے میں توجن کی تم عبادت کر رہے ہو ان کی عبادت ہرگز نہیں کرونگا ۔ میں اسی اللہ کا عابد ہوں جو تمہاری زندگی موت کا مالک ہے ۔ ‘ یہاں مکہ شریف کی طرف ربوبیت کی اضافت صرف بزرگی اور شرافت کے اظہار کے لیے ہے جیسے فرمایا «فَلْیَعْبُدُوا رَبَّ ہٰذَا الْبَیْتِ * الَّذِی أَطْعَمَہُم مِّن جُوعٍ وَآمَنَہُم مِّنْ خَوْفٍ » ۱؎ (106-قریش:4-3) ’ انہیں چاہیئے کہ اس شہر کے رب کی عبادت کریں جس نے انہیں اوروں کی بھوک کے وقت آسودہ اور اوروں کے خوف کے وقت بےخوف کررکھا ہے ۔ ‘ یہاں فرمایا کہ اس شہر کو حرمت وعزت والا اس نے بنایا ہے ۔ جیسے بخاری و مسلم میں ہے کہ { رضی اللہ عنہ قیامت آ جائے نہ اس کے کانٹے کاٹے جائیں نہ اس کا شکار خوف زدہ کیا جائے نہ اس میں گری پڑی کسی کی چیز اٹھائی جائے ہاں جو پہچان کر مالک کو پہنچانا چاہے اس کے لیے جائز ہے ۔ اس کی گھاس بھی نہ کاٹی جائے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:1349) یہ حدیث بہت سی کتابوں میں بہت سی سندوں کے ساتھ مروی ہے جیسے کہ احکام کی کتابوں میں تفصیل سے موجود ہے ۔«وَاللہُ اَعْلَمُ» پھر اس خاص چیز کی ملکیت ثابت کر کے اپنی عام ملکیت کا ذکر فرماتا ہے کہ ہرچیز کا رب اور مالک وہی ہے ۔ اس کے سوا نہ کوئی مالک نہ معبود ۔ اور مجھے یہ حکم بھی ملا ہے کہ میں موحد مخلص مطیع اور فرمانبردار ہو کر رہوں ۔ اور مجھے یہ بھی فرمایا گیا کہ میں لوگوں کو اللہ کا کلام پڑھ کر سناؤں ۔ جیسے فرمان ہے «کہذٰلِکَ نَتْلُوہُ عَلَیْکَ مِنَ الْآیَاتِ وَالذِّکْرِ الْحَکِیمِ» ۱؎ (3-آل عمران:58) ’ ہم یہ آیتیں اور یہ حکمت والا ذکر تیرے سامنے تلاوت کرتے ہیں ۔ ‘ اور آیت «نَتْلُو عَلَیْکَ مِن نَّبَإِ مُوسَیٰ وَفِرْعَوْنَ بِالْحَقِّ لِقَوْمٍ یُؤْمِنُونَ » ۱؎ (28-القصص:3) میں ہے ’ ہم تجھے موسیٰ اور فرعون کا صحیح واقعہ سناتے ہیں ۔ ‘ مطلب یہ ہے کہ میں اللہ کامبلغ ہوں میں تمہیں جگا رہا ہوں ۔ تمہیں ڈرا رہا ہوں ۔ اگر میری مان کر راہ راست پر آؤ گے تو اپنا بھلاکرو گے ۔ اور اگر میری نہ مانی تو میں اپنے تبلیغ کے فرض کو ادا کر کے سبکدوش ہو گیا ہوں ۔ اگلے رسولوں نے بھی یہی کیا تھا اللہ کا کلام پہنچاکر اپنا دامن پاک کر لیا ۔ جیسے فرمان ہے «وَإِن مَّا نُرِیَنَّکَ بَعْضَ الَّذِی نَعِدُہُمْ أَوْ نَتَوَفَّیَنَّکَ فَإِنَّمَا عَلَیْکَ الْبَلَاغُ وَعَلَیْنَا الْحِسَابُ» ۱؎ (13-الرعد:40) ’ تجھ پر صرف پہنچادینا ہے حساب ہمارے ذمہ ہے ۔ ‘ اور فرمایا «إِنَّمَا أَنتَ نَذِیرٌ ۚ وَ اللہُ عَلَیٰ کُلِّ شَیْءٍ وَکِیلٌ » ۱؎ (11-ہود:12) ’ تو صرف ڈرا دینے والا ہے اور ہرچیز پر وکیل اللہ ہی ہے ۔ ‘ اللہ کے لیے تعریف ہے جو بندوں کی بیخبری میں انہیں عذاب نہیں کرتا بلکہ پہلے اپنا پیغام پہنچاتا ہے اپنی حجت تمام کرتا ہے بھلا برا سمجھا دیتا ہے ۔ ہم تمہیں ایسی آیتیں دکھائیں گے کہ تم خود قائل ہو جاؤ ۔ جیسے فرمایا آیت «سَنُرِیْہِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقٰ ۭ اَوَلَمْ یَکْ فِبِرَبِّکَ اَنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ شَہِیْدٌ» ۱؎ (41-فصلت:53) ’ یعنی ہم انہیں خود ان کے نفسوں میں اور ان کے اردگرد ایسی نشانیاں دکھائیں گے کہ جن سے ان پر حق ظاہر ہو جائے ۔ اللہ تعالیٰ تمہارے کرتوت سے غافل نہیں بلکہ اس کا علم ہر چھوٹی بڑی چیز کا احاطہٰ کئے ہوئے ہے ۔ ‘ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے دیکھو لوگو ! اللہ کو کسی چیز سے اپنے عمل سے غافل نہ جاننا ۔ وہ ایک ایک مچھر سے ایک ایک پتنگے سے اور ایک ایک ذرے سے باخبر ہے ۔ } عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ اگر وہ غافل ہوتا تو انسان کے قدموں کے نشان سے جنہیں ہوا مٹادیتی ہے غفلت کر جاتا لیکن وہ ان نشانات کا بھی حافظ ہے اور عالم ہے ۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اکثر ان دو شعروں کو پڑھتے تھے جو یا تو آپ کے ہیں یا کسی اور کے ۔ «اذا ماخلوت الدھر یوما فلا تقل» * « خلوت ولکن قل علی رقیب » یعنی جب تو کسی وقت بھی خلوت اور تنہائی میں ہو تو اپنے آپ کو تنہا اور اکیلا نہ سمجھنا بلکہ اپنے اللہ کو وہاں حاضر ناظر جاننا ۔ وہ ایک ساعت بھی کسی سے غافل نہیں نہ کوئی مخفی اور پوشیدہ چیز اس کے علم سے باہر ہے ۔ اللہ کے ۔ فضل و کرم سے سورۃ النمل کی تفسیر ختم ہوئی ۔ النمل
92 النمل
93 النمل
0 القصص
1 کتاب روشن کی آیتیں حروف مقطعہ کا بیان پہلے ہو چکا ہے ۔۱؎ (2-البقرۃ:1) یہ آیتیں ہیں واضح جلی روشن صاف اور کھلے قرآن کی تمام کاموں کی اصلیت اب گزشتہ اور آئندہ کی خبریں اس میں ہیں اور سب سچی اور کھلی ۔ ہم تیرے سامنے موسیٰ اور فرعون کا سچا واقعہ بیان کرتے ہیں ۔ جیسے اور آیت میں ہے « نَحْنُ نَقُصٰ عَلَیْکَ أَحْسَنَ الْقَصَصِ» ۱؎ (12-یوسف:3) ’ ہم تیرے سامنے بہترین واقعہ بیان کرتے ہیں ‘ ۔ اس طرح کہ گویا تو اس کے ہونے کے وقت وہیں موجود تھا ۔ فرعون ایک متکبر سرکش اور بد دماغ انسان تھا اس نے لوگوں پر بری طرح قبضہ جما رکھا تھا اور انہیں آپس میں لڑوا لڑوا کر ان میں پھوٹ اور اختلاف ڈلوا کر انہیں کمزور کر کے خود ان پر جبر و تعدی کے ساتھ سلطنت کر رہا تھا ۔ خصوصاً بنی اسرائیل کو تو اس ظالم نے نیست و نابود کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا اور دن رات یہ بیچارے بیکار میں گھسیٹے جاتے تھے ۔ اس پر بھی اس کا غصہ ٹھنڈا نہ ہوتا تھا یہ ان کی نرینہ اولاد کو قتل کروا ڈالتا تھا تاکہ یہ افرادی قوت سے محروم رہیں قوت والے نہ ہو جائیں اور اس لیے بھی کہ یہ ذلیل و خوار رہیں اور اس لیے بھی کہ اسے ڈر تھا کہ ان میں سے ایک بچے کے ہاتھوں میری سلطنت تباہ ہونے والی ہے ۔ بات یہ ہے کہ جب ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام مصر کی حکومت میں سے مع اپنی بیوی صاحبہ سارہ رضی اللہ عنہا کے جا رہے تھے اور یہاں کے سرکش بادشاہ نے سارہ رضی اللہ عنہا کو لونڈی بنانے کے لیے آپ علیہ السلام سے چھین لیا جنہیں اللہ نے اس کافر سے محفوظ رکھا اور اسے آپ علیہ السلام پر دست درازی کرنے کی قدرت ہی حاصل نہ ہوئی تو اس وقت ابراہیم علیہ السلام نے بطور پیش گوئی فرمایا تھا کہ ” تیری اولاد میں سے ایک کی اولاد کے لڑکے کے ہاتھوں ملک مصر اس قوم سے جاتا رہے گا اور انکا بادشاہ اس کے سامنے ذلت کے ساتھ ہلاک ہو گا “ ۔ چونکہ یہ روایت چلی آ رہی تھی اور ان کے درس میں ذکر ہوتا رہتا تھا جسے قبطی بھی سنتے تھے جو فرعون کی قوم تھی ، انہوں نے دربار میں مخبری کی جب سے فرعون نے یہ ظالمانہ اور سفاکانہ قانوں بنا دیا کہ بنو اسرائیل کے بچے قتل کر دئے جائیں اور ان کی بچیاں چھوڑ دی جائیں ۔ لیکن رب کو جو منظور ہوتا ہے وہ اپنے وقت پر ہو کر ہی رہتا ہے موسیٰ علیہ السلام زندہ رہ گئے اور اللہ نے آپ علیہ السلام کے ہاتھوں اس عادی سرکش کوذلیل وخوار کیا ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» ۔ چنانچہ فرمان ہے کہ ’ ہم نے ان ضعیفوں اور کمزوروں پر رحم کرنا چاہا ‘ ۔ ظاہر ہے کہ اللہ کی چاہت کا پورا ہونا یقینی ہے ۔ جیسے فرمایا آیت «وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِینَ کَانُوا یُسْتَضْعَفُونَ مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَہَا الَّتِی بَارَکْنَا فِیہَا وَتَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ الْحُسْنَیٰ عَلَیٰ بَنِی إِسْرَائِیلَ بِمَا صَبَرُوا وَدَمَّرْنَا مَا کَانَ یَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُہُ وَمَا کَانُوا یَعْرِشُونَ» ۱؎ (7-الاعراف:137) ۔ آپ نے اس گری پڑی قوم کو ان کی تمام چیزوں کا مالک بنا دیا ۔ فرعون نے اپنی تمام ترطاقت کا مظاہرہ کیا لیکن اسے اللہ کی طاقت کا اندازہ ہی نہ تھا ۔ آخر اللہ کا ارادہ غالب رہا اور جس ایک بچے کی خاطر ہزاروں بےگناہ بچوں کا خون ناحق بہایا تھا ۔ اس بچے کو قدرت نے اسی کی گود میں پلوایا ، پروان چڑھایا ، اور اسی کے ہاتھوں اس کا اس کے لشکر کا اور اس کے ملک و مال کا خاتمہ کرایا تاکہ وہ جان لے اور مان لے کہ وہ اللہ کا ذلیل مسکین بے دست و پا غلام تھا اور رب کی چاہت پر کسی کی چاہت غالب نہیں آ سکتی ۔ موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو اللہ نے مصر کی سلطنت دی اور فرعون جس سے خائف تھا وہ سامنے آ گیا اور تباہ و برباد ہوا ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» القصص
2 القصص
3 القصص
4 القصص
5 القصص
6 القصص
7 بچوں کا قتل اور بنی اسرائیل مروی ہے کہ جب بنی اسرائیل کے ہزار ہا بچے قتل ہو چکے تو قبطیوں کو اندیشہ ہوا کہ اگر بنو اسرائیل ختم ہو گئے توجتنے ذلیل کام اور بے ہودہ خدمتیں حکومت ان سے لے رہیں ہیں کہیں ہم سے نہ لینے لگیں ۔ تو دربار میں میٹنگ ہوئی اور یہ رائے قرار پائی کہ ایک سال مار ڈالے جائیں اور دوسرے سال قتل نہ کئے جائیں ۔ ہارون علیہ السلام اس سال تولد ہوئے جس سال بچوں کو قتل نہ کیا جاتا تھا لیکن موسیٰ علیہ السلام اس سال پیدا ہوئے جس سال بنی اسرائیل کے لڑکے عام طور پر تہ تیغ ہو رہے تھے ۔ عورتیں گشت کرتی رہتی تھی اور حاملہ عورتوں کا خیال رکھتی تھی ۔ ان کے نام لکھ لیے جاتے تھے ۔ وضع حمل کے وقت یہ عورتیں پہنچ جاتی تھی اگر لڑکی ہوئی تو واپس چلی جاتی تھی اور اگر لڑکا ہوا تو فوراً جلادوں کو خبر کر دیتی تھی ۔ یہ لوگ تیز چھرے لیے اسی وقت آ جاتے تھے اور ماں باپ کے سامنے اسی وقت ان کے بچوں کوٹکڑے ٹکڑے کر کے چلے جاتے تھے ۔ موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کا جب حمل ہوا تو عام حمل کی طرح اس کا پتا نہ چلا اور جو عورتیں اس کام پر مامور تھی اور جتنی دائیاں آتی تھی کسی کو حمل کا پتہ نہ چلا ۔ یہاں تک کہ موسیٰ علیہ السلام تولد بھی ہو گئے آپ علیہ السلام کی والدہ سخت پریشان ہونے لگی اور ہر وقت خوفزدہ رہنے لگیں اور اپنے بچے سے محبت بھی اتنی تھی کہ کسی ماں کو اپنے بچے سے اتنی نہ ہو گی ۔ ایک ماں پر ہی کیا موقوف اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کا چہرہ ہی ایسا بنایا تھا ۔ کہ جس کی نظر پڑ جاتی تھی اس کے دل میں ان کی محبت بیٹھ جاتی تھی ۔ جیسے جناب باری تعالیٰ کا ارشاد ہے آیت «أَنِ اقْذِفِیہِ فِی التَّابُوتِ فَاقْذِفِیہِ فِی الْیَمِّ فَلْیُلْقِہِ الْیَمٰ بِالسَّاحِلِ یَأْخُذْہُ عَدُوٌّ لِّی وَعَدُوٌّ لَّہُ وَأَلْقَیْتُ عَلَیْکَ مَحَبَّۃً مِّنِّی وَلِتُصْنَعَ عَلَیٰ عَیْنِی» ۱؎ (20-طہ:39) ’ میں نے اپنی خصوصی محبت سے تمہیں نوازا ‘ ۔ پس جب کہ والدہ موسیٰ علیہ السلام ہر وقت کبیدہ خاطر ، خوفزدہ اور رنجیدہ رہنے لگیں تو اللہ نے ان کے دل میں خیال ڈالا کہ اسے دودھ پلاتی رہ اور خوف کے موقعہ پر انہیں دریائے نیل میں بہادے جس کے کنارے پر ہی آپ کا مکان تھا ۔ چنانچہ یہی کیا کہ ایک پیٹی کی وضع کا صندوق بنا لیا اس میں موسیٰ کو رکھ دیا دودھ پلا دیا کرتیں اور اس میں سلادیا کرتیں ۔ جہاں کوئی ایسا ڈراؤنا موقعہ آیا تو اس صندوق کو دریا میں بہادیتیں اور ایک ڈوری سے اسے باندھ رکھا تھا خوف ٹل جانے کے بعد اسے کھینچ لیتیں ۔ ایک مرتبہ ایک ایسا شخص گھر میں آنے لگا جس سے آپ علیہ السلام کی والدہ صاحبہ کو بہت دہشت ہوئی دوڑ کر بچے کو صندوق میں لٹاکر دریا میں بہادیا اور جلدی اور گھبراہٹ میں ڈوری باندھنی بھول گئیں صندوق پانی کی موجوں کے ساتھ زور سے بہنے لگا اور فرعون کے محل کے پاس گزرا تو لونڈیوں نے اسے اٹھا لیا اور فرعون کی بیوی کے پاس لے گئیں راستے میں انہوں نے اسے ڈر کے مارے کھولا نہ تھا کہ کہیں تہمت ان پر نہ لگ جائے جب فرعون کی بیوی کے پاس اسے کھولا گیا تو دیکھا کہ اس میں تو ایک نہایت خوبصورت نورانی چہرے والا صحیح سالم بچہ لیٹا ہوا ہے جسے دیکھتے ہی ان کا دل مہر محبت سے بھر گیا اور اس بچہ کی پیاری شکل دل میں گھر کر گئی ۔ اس میں بھی رب کی مصلحت تھی کہ فرعون کی بیوی کو راہ راست دکھائے اور فرعون کے سامنے اس کا ڈر لائے اور اسے اور اس کے غرور کو ڈھائے تو فرماتا ہے کہ ’ آل فرعون نے اس صندوق کو اٹھا لیا اور انجام کار وہ ان کی دشمنی اور ان کے رنج وملال کا باعث ہوا ‘ ۔ محمد بن اسحاق وغیرہ فرماتے ہیں «لِیکُوْنَ» کا لام لام عاقبت ہے لام تعلیل نہیں ۔ اس لیے کہ ان کا ارادہ نہ تھا بظاہر یہ ٹھیک بھی معلوم ہوتا ہے لیکن معنی کو دیکھتے ہوئے لام کو لام تعلیل سمجھنے میں بھی کوئی حرج نہیں آتا اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اس صندوقچے کا اٹھانے والا اس لیے بنایا تھا کہ اللہ اسے ان کے لیے دشمن بنا دے اور ان کے رنج و غم کا باعث بنائے بلکہ اس میں ایک لطف یہ بھی ہے کہ جس سے وہ بچنا چاہتے تھے وہ ان کے سر چڑھ گیا ۔ اس لیے اس کے بعد ہی فرمایا گیا کہ ’ فرعون ہامان اور ان کے ساتھی خطا کار تھے ‘ ۔ روایت ہے کہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے قدریہ کو جو لوگ کہ تقدیر کے منکر ہیں ایک خط میں لکھا کہ موسیٰ علیہ السلام کے سابق علم میں فرعون کے دشمن اور اس کے لیے باعث رنج و غم تھے جیسے قرآن کی اس آیت سے ثابت ہے لیکن تم کہتے ہو کہ فرعون چاہتا تو موسیٰ علیہ السلام اس کے مددگار اور دوست ہوتے ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ اس بچے کو دیکھتے ہی فرعون بدکا کہ ایسا نہ ہو کسی اسرائیلی عورت نے اسے پھینک دیا ہو اور کہیں یہ وہی نہ ہو جس کے قتل کرنے کے لیے ہزاروں بچوں کو فنا کر چکا ہوں ‘ ۔ یہ سوچ کر اس نے انہیں بھی قتل کرنا چاہا لیکن اس کی بیوی آسیہ رضی اللہ عنہا نے ان کی سفارش کی ۔ فرعون کو اس کے ارادے سے روکا اور کہا اسے قتل نہ کیجیئے بہت ممکن ہے کہ یہ آپ کی اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک کا باعث ہو مگر فرعون نے جواب دیا کہ تیری آنکھوں کی ٹھنڈک ہو لیکن مجھے تو آنکھوں کی ٹھنڈک کی ضروت نہیں ۔ اللہ کی شان دیکھئیے کہ یہی ہوا کہ آسیہ کو اللہ نے اپنا دین نصیب فرمایا اور موسیٰ علیہ السلام کی وجہ سے انہوں نے ہدایت پائی اور اس متکبر کو اللہ نے اپنے نبی علیہ السلام کے ہاتھوں ہلاک کیا ۔ نسائی وغیرہ کے حوالے سے سورۃ طہٰ کی تفسیر میں حدیث فتون میں یہ قصہ پورا بیان ہو چکا ہے ۔ حضرت آسیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہے شاید ہمیں نفع پہنچائے ۔ ان کی امید اللہ نے پوری کی دنیا میں موسیٰ علیہ السلام ان کی ہدایت کا ذریعہ بنے اور آخرت میں جنت میں جانے کا ۔ اور کہتی ہیں کہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہم اسے اپنا بچہ بنا لیں ۔ ان کی کوئی اولاد نہ تھی تو چاہا کہ موسیٰ علیہ السلام کو متبنٰی بنا لیں ۔ ان میں سے کسی کو شعور نہ تھا کہ قدرت کس طرح پوشیدہ اپنا ارادہ پوراکر رہی ہے ۔ القصص
8 القصص
9 القصص
10 جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے؟ موسیٰ علیہ السلام کی والدہ نے جب ان کو صندوقچہ میں ڈال کر دریا میں بہادیا تو بہت پریشان ہوئیں اور سوائے اللہ کے سچے رسول اور اپنے لخت جگر موسیٰ علیہ السلام کے آپ کو کسی اور چیز کا خیال ہی نہ رہا ۔ صبر وسکون جاتا رہا دل میں بجز موسیٰ علیہ السلام کی یاد کے اور کوئی خیال ہی نہیں آتا تھا ۔ اگر اللہ کی طرف سے ان کی دلجمعی نہ کر دی جاتی تو وہ تو بے صبری میں راز فاش کر دیتیں لوگوں سے کہہ دیتیں کہ اس طرح میرا بچہ ضائع ہو گیا ۔ لیکن اللہ نے اس کا دل ٹھہرا دیا ڈھارس دی اور تسکین دے دی کہ تیرا بچہ تجھے ضرور ملے گا ۔ والدہ موسیٰ علیہ السلام نے اپنی بڑی بچی سے جو ذرا سمجھ دار تھیں فرمایا کہ بیٹی تم اس صندوق پر نظر جماکر کنارے کنارے چلی جاؤ دیکھو کیا انجام ہوتا ہے ؟ مجھے بھی خبر کرنا تو یہ دور سے اسے دیکھتی ہوئی چلیں لیکن اس انجان پن سے کہ کوئی اور نہ سمجھ سکے کہ یہ اس کا خیال رکھتی ہوئی اس کے ساتھ جا رہی ہے ۔ فرعون کے محل تک پہنچتے ہوئے اور وہاں اس کی لونڈیوں کو اٹھاتے ہوئے تو آپ کی ہمشیرہ نے دیکھا پھر وہیں باہر کھڑی رہ گئیں کہ شاید کچھ معلوم ہو سکے کہ اندر کیا ہو رہا ہے ۔ وہاں یہ ہوا کہ جب آسیہ نے فرعون کو اس کے خونی ارادے سے باز رکھا اور بچے کو اپنی پرورش میں لے لیا تو شاہی محل میں جتنی دایاں تھیں سب کو بچہ دیا گیا ۔ ہر ایک نے بشری محبت وپیار سے انہیں دودھ پلانا چاہا لیکن بحکم الٰہی موسیٰ علیہ السلام نے کسی کے دودھ کا ایک گھونٹ بھی نہ پیا ۔ آخر اپنی لونڈیوں کے ہاتھوں اسے باہر بھیجا کہ کسی دایہ کو تلاش کرو جس کا دودھ یہ پئے اس کو لے آؤ ۔ چونکہ رب العلمین کو یہ منظور نہ تھا کہ اس کا اپنی والدہ کے سوا کسی اور کا دودھ پئے اور اس میں سب سے بڑی مصلحت یہ تھی کہ اس بہانے موسیٰ علیہ السلام اپنی ماں تک پہنچ جائیں ۔ لونڈیاں آپ علیہ السلام کو لے کر جب باہر نکلیں تو آپ علیہ السلام کی بہن نے آپ علیہ السلام کو پہچان لیا ، لیکن ان پر ظاہر نہ کیا اور نہ خود انہیں کوئی پتہ چل سکا آپ کی بہن تو پہلے بہت پریشان تھی لیکن اس کے بعد اللہ نے انہیں صبر وسکون دے دیا اور وہ خاموش اور مطمئن تھیں ۔ بہن نے انکو کہا کہ تم اس قدر پریشان کیوں ہو ؟ انہوں نے کہا یہ بچہ کسی دائیہ کا دودھ نہیں پیتا اور ہم اس کے لیے دایہ کی تلاش میں ہیں ۔ یہ سن کر ہمشیرہ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا ” اگر تم کہو تو تمہیں ایک دائی کا پتہ دوں ؟ ممکن ہے بچہ ان کا دودھ پی لیے اور اس کی پرورش کریں اور اس کی خیر خواہی کریں “ ۔ یہ سن کر انہیں کچھ شک گزرا کہ یہ لڑکی اس لڑکے کی اصلیت ہے اور اس کے ماں باپ سے واقف ہے اسے گرفتار کر لیا اور پوچھا تمہیں کیا معلوم کہ وہ عورت اس کی کفالت اور خیر خواہی کرے گی ؟ اس نے فوراً جواب دیا سبحان اللہ ۔ کون نہ چاہے گا کہ شاہی دربار میں اس کی عزت ہو ۔ انعام واکرام کی خاطر کون اس سے ہمدردی نہ کرے گا ۔ ان کی سمجھ میں بھی آ گیا کہ ہمارا پہلا گمان غلط تھا یہ تو ٹھیک کہہ رہی ہے اسے چھوڑ دیا اور کہا اچھاچل اس کا مکان دکھا یہ انہیں لے کر اپنے گھر لے آئیں اور اپنی والدہ کی طرف اشارہ کر کے کہا انہیں دیجئیے ۔ سرکاری آدمیوں نے انہیں دیا تو بچہ دودھ پینے لگا ۔ فوراً یہ خبر آسیہ رضی اللہ عنہا کو دی گئی وہ یہ سن کر بہت خوش ہوئیں اور انہیں اپنے محل میں بلوایا اور بہت کچھ انعام واکرام کیا لیکن یہ علم نہ تھا کہ فی الواقع یہی اس بچے کی والدہ ہیں ۔ فقط اس وجہ سے کہ موسیٰ علیہ السلام نے ان کا دودھ پیا تھا وہ ان سے بہت خوش ہوئیں ۔ کچھ دنوں تک تو یونہی کام چلتارہا ۔ آخرکار ایک روز آسیہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا میری خوشی ہے کہ تم محل میں آ جاؤ یہیں رہو سہو اور اسے دودھ پلاتی رہو ۔ ام موسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا کہ یہ تو مجھ سے نہیں ہوسکتا میں بال بچوں والی ہوں میرے میاں بھی ہیں میں انہیں دودھ پلادیا کرونگی پھر آپ کے ہاں بھیج دیا کرونگی ۔ یہ طے ہوا اور اس پر فرعون کی بیوی بھی رضامند ہو گئیں ام موسیٰ علیہ السلام کا خوف امن سے ، فقیری امیری سے ، بھوک آسودگی سے ، دولت وعزت میں بدل گئی ۔ روزانہ انعام واکرام پاتیں ۔ کھانا ، کپڑا ، شاہی طریق پر ملتا اور اپنے پیارے بچے کو اپنی گود میں پالتیں ۔ ایک ہی رات یا ایک ہی دن یا ایک دن ایک رات کے بعد ہی اللہ نے اس کی مصیبت کو راحت سے بدل دیا ۔ حدیث شریف میں ہے { جو شخص اپنا کام دھندا کرے اور اس میں اللہ کا خوف اور میری سنتوں کا لحاظ کرے اس کی مثال ام موسیٰ علیہ السلام کی مثال ہے کہ اپنے ہی بچے کو دودھ پلائے اور اجرت بھی لے } ۔ اللہ کی ذات پاک ہے اسی کے ہاتھ میں تمام کام ہے اسی کا چاہا ہوا ہوتا ہے اور جس کام کو وہ نہ چاہے ہرگز نہیں ہوتا ۔ یقیناً وہ ہر اس شخص کی مدد کرتا ہے جو اس پر توکل کرے ۔ اس کی فرمانبردای کرنے والے کا دستگیر وہی ہے ۔ وہ اپنے نیک بندوں کے آڑے وقت کام آتا ہے اور ان کی تکلیفوں کو دور کرتا ہے اور ان کی تنگی کو فراخی سے بدلتا ہے ۔ اور ہر رنج کے بعد راحت عطا فرماتا ہے ۔ «فسبحانہ ما اعظم شانہ» ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ ہم نے اسے اس کی ماں کی طرف واپس لوٹادیا تا کہ اس کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور اسے اپنے بچے کا صدمہ نہ رہے ، اور وہ اللہ کے وعدوں کو بھی سچا سمجھے اور یقین مان لے کہ وہ ضرور نبی اور رسول بھی ہونے والا ہے ‘ ۔ اب آپ علیہ السلام کی والدہ اطمینان سے آپ علیہ السلام کی پرورش میں مشغول ہو گئیں اور اسی طرح پرورش کی جس طرح ایک بلند درجہ نبی علیہ السلام کی ہونی چاہیئے ۔ ہاں رب کی حکمتیں بےعلموں کی نگاہ سے اوجھل رہتی ہیں ۔ وہ اللہ کے احکام کی غایت کو اور فرمانبردای کے نیک انجام کو نہیں سوچتے ۔ ظاہری نفع نقصان کے پابند رہتے ہیں ۔ اور دنیا پر ریجھے ہوئے ہوتے ہیں ۔ انہیں یہ نہیں سوجھتا کہ ممکن ہے جسے وہ برا سمجھ رہے ہیں اچھاہو اور بہت ممکن ہے کہ جسے وہ اچھاسمجھ رہے ہیں وہ برا ہو یعنی ایک کام برا جانتے ہوں مگر کیا خبر کہ اس میں قدرت نے کیا فوائد پوشیدہ رکھیں ہیں ۔ القصص
11 القصص
12 القصص
13 القصص
14 گھونسے سے موت حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لڑکپن کا ذکر کیا اب ان کی جوانی کا واقعہ بیان ہو رہا ہے کہ ’ اللہ نے انہیں حکمت وعلم عطا فرمایا ‘ ۔ یعنی نبوت دی ۔ ’ نیک لوگ ایسا ہی بدلہ پاتے ہیں ‘ ، پھر اس واقعہ کا ذکر ہو رہا ہے جو موسیٰ علیہ السلام کے مصر چھوڑنے کا باعث بنا اور جس کے بعد اللہ کی رحمت نے ان کا رخ کیا یہ مصر چھوڑ کر مدین کی طرف چل دئیے ۔ آپ علیہ السلام ایک مرتبہ شہر میں آتے ہیں یا تو مغرب کے بعد یا ظہر کے وقت کہ لوگ کھانے پینے میں یا سونے میں مشغول ہیں راستوں پر آمد ورفت نہیں تھی تو دیکھتے ہیں کہ دو شخص لڑ جھگڑرہے ہیں ۔ ایک اسرائیلی ہے دوسرا قبطی ہے ۔ اسرائیلی نے موسیٰ علیہ السلام سے قبطی کی شکایت کی اور اس کا زور ظلم بیان کیا جس پر آپ علیہ السلام کو غصہ آ گیا اور ایک گھونسہ اسے کھینچ مارا جس سے وہ اسی وقت مرگیا ۔ موسیٰ علیہ السلام گھبرا گئے اور کہنے لگے یہ تو شیطانی کام ہے اور شیطان دشمن اور گمراہ ہے اور اس کا دوسروں کو گمراہ کرنے والا ہونا بھی ظاہر ہے ۔ پھر اللہ تعالیٰ سے معافی طلب کرنے لگے اور استغفار کرنے لگے ۔ اللہ نے بھی بخش دیا وہ بخشنے والا مہربان ہی ہے ۔ اب کہنے لگے ” اے اللہ تو نے جو جاہ وعزت بزرگی اور نعمت مجھے عطا فرمائی ہے میں اسے سامنے رکھ کر وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ کبھی کسی نافرمان کی کسی امر میں موافقت اور امداد نہیں کرونگا “ ۔ القصص
15 القصص
16 القصص
17 القصص
18 جسے بچایا اسی نے راز کھولا موسیٰ علیہ السلام کے گھونسے سے قبطی مرگیا تھا اس لیے آپ علیہ السلام کی طبیعیت پر گھبراہٹ تھی ۔ شہر میں ڈرتے دبکتے آئے کہ دیکھیں کیا باتیں ہو رہی ہیں ؟ کہیں راز کھل تو نہیں گیا ۔ دیکھتے ہیں کہ کل والا اسرائیلی آج ایک اور قبطی سے لڑ رہا ہے ۔ آپ علیہ السلام کو دیکھتے ہی کل کی طرح آج بھی فریاد اور دہائی دینے لگا ۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا ” تم بڑے فتنہ آدمی ہو “ ۔ یہ سنتے ہی وہ گھبرا گیا ۔ جب موسیٰ علیہ السلام نے اس ظالم قبطی کو روکنے کے لیے اس کی طرف ہاتھ بڑھانا چاہا تو یہ شخص اپنے کمینہ پن اور بزدلی سے سمجھ بیٹھا کہ آپ علیہ السلام نے مجھے برا کہا ہے اور مجھے پکڑنا چاہتے ہیں اپنی جان بچانے کے لیے شور مچانا شروع کر دیا کہ موسیٰ [ علیہ السلام ] کیا جیسے تو نے کل ایک شخص کا خون کیا تھا آج میری جان بھی لینا چاہتا ہے ؟ کل کا واقعہ صرف اسی کی موجودگی میں ہوا تھا اس لیے اب تک کسی کو پتہ نہ چلا تھا ؟ لیکن آج اس کی زبان سے اس قبطی کو پتہ چلا کہ یہ کام موسیٰ علیہ السلام کا ہے ۔ اس بزدل ڈرپوک نے یہ بھی ساتھ ہی کہا کہ تو زمین پر سرکش بن کر رہنا چاہتا ہے اور تیری طبعیت میں ہی صلح پسندی نہیں ۔ قبطی یہ سن کر بھاگا دوڑا دربار فرعونی میں پہنچا اور وہاں مخبری کی ۔ فرعون کی بددلی کی اب کوئی حد نہ رہی اور فوراً سپاہی دوڑائے کہ موسیٰ علیہ السلام کو لا کر پیش کریں ۔ القصص
19 القصص
20 گمنام ہمدرد اس آنے والے کو «رَجُلٌ» کہا گیا ۔ عربی میں رجل کہتے ہیں قدموں کو ۔ اس نے جب دیکھا کہ سپاہ موسیٰ علیہ السلام کے تعاقب میں جا رہی ہے تو یہ اپنے پاؤں پر تیزی سے دوڑا اور ایک قریب کے راستے سے نکل کر جھٹ سے آپ علیہ السلام کو اطلاع دے دی کہ یہاں کے امیر امراء آپ علیہ السلام کے قتل کے ارادے کر چکے ہیں آپ علیہ السلام شہر چھوڑ دیجئیے ۔ میں آپ کا بہی خواہ ہوں میری مان لیجئے ۔ القصص
21 موسی علیہ السلام کا فرار فرعون اور فرعونیوں کے ارادے جب اس شخص کی زبانی آپ علیہ السلام کو معلوم ہو گئے تو آپ علیہ السلام وہاں سے تن تنہا چپ چاپ نکل کھڑے ہوئے ۔ چونکہ اس سے پہلے کی زندگی کے ایام آپ علیہ السلام کے شہزادوں کی طرح گزرے تھے سفر بہت کڑا معلوم ہوا لیکن خوف وہراس کے ساتھ ادھر ادھر دیکھتے سیدھے چلے جا رہے تھے اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگتے جا رہے تھے کہ اے اللہ ! ان ظالموں سے یعنی فرعون اور فرعونیوں سے نجات دے ۔ مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کی رہبری کے واسطے ایک فرشتہ بھیجا تھا جو گھوڑے پر آپ علیہ السلام کے پاس آیا اور آپ علیہ السلام کو راستہ دکھا گیا «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ تھوڑی دیر میں آپ علیہ السلام جنگلوں اور بیابانوں سے نکل کر مدین کے راستے پر پہنچ گئے تو خوش ہوئے اور فرمانے لگے مجھے ذات باری سے امید ہے کہ وہ راہ راست پر ہی لے جائے گا ۔ اللہ نے آپ علیہ السلام کی امید بھی پوری کی ۔ اور آخرت کی سیدھی راہ نہ صرف بتائی بلکہ اوروں کو بھی سیدھی راہ بتانے والا بنایا ۔ مدین کے پاس کے کنویں پر آئے تو دیکھا کہ چرواہے پانی کھینچ کھینچ کر اپنے اپنے جانوروں کو پلا رہے ہیں ۔ وہیں آپ علیہ السلام نے یہ بھی ملاحظہ فرمایا کہ دو عورتیں اپنی بکریوں کو ان جانوروں کے ساتھ پانی پینے سے روک رہی ہیں تو آپ علیہ السلام کو ان بکریوں پر اور ان عورتوں کی اس حالت پر کہ بیچاریاں پانی نکال کر پلا نہیں سکتیں اور ان چرواہوں میں سے کوئی اس کا روادار نہیں کہ اپنے کھینچے ہوئے پانی میں سے ان کی بکریوں کو بھی پلادے تو آپ علیہ السلام کو رحم آیا ان سے دریافت فرمایا کہ تم اپنے جانوروں کو اس پانی سے کیوں روک رہی ہو ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم تو پانی نکال نہیں سکتیں جب یہ اپنے جانوروں کو پانی پلاکرچلے جائیں تو بچا کھچا پانی ہم اپنی بکریوں کو پلادیں گی ۔ ہمارے والد صاحب ہیں لیکن وہ بہت ہی بوڑھے ہیں ۔ بکریوں کو پانی پلایا آپ علیہ السلام نے خود ہی ان جانوروں کو پانی کھینچ کر پلا دیا ۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں کہ ” اس کنویں کے منہ کو ان چرواہوں نے ایک بڑے پتھر سے بند کر دیا تھا ۔ جس چٹان کو دو آدمی مل کر سرکا سکتے تھے آپ علیہ السلام نے تن تنہا اس پتھر کو ہٹا دیا اور ایک ڈول نکالا تھا جس میں اللہ نے برکت دی اور ان دونوں لڑکیوں کی بکریاں شکم سیر ہو گئیں “ ۔ اب آپ علیہ السلام تھکے ہارے بھوکے پیاسے ایک درخت کے سائے تلے بیٹھ گئے ۔ مصر سے مدین تک پیدل بھاگے دوڑے آئے تھے ۔ پیروں میں چھالے پڑ گئے تھے کھانے کو کچھ پاس نہیں تھا درختوں کے پتے اور گھاس پھونس کھاتے رہے تھے ۔ پیٹ پیٹھ سے لگ رہا تھا اور گھاس کا سبز رنگ باہر سے نظر آ رہا تھا ۔ آدھی کھجور سے بھی اس وقت آپ ترسے ہوئے تھے حالانکہ اس وقت کی ساری مخلوق سے زیادہ برگزیدہ اللہ کے نزدیک آپ تھے صلوات اللہ وسلامہ علیہ ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ” دو رات کا سفر کر کے میں مدین گیا اور وہاں کے لوگوں سے اس درخت کا پتہ پوچھا جس کے نیچے اللہ کے کلیم علیہ السلام نے سہارا لیا تھا ۔ لوگوں ایک درخت کی طرف اشارہ کیا میں نے دیکھا کہ وہ ایک سرسبز درخت ہے ۔ میرا جانور بھوکا تھا اس نے اس میں منہ ڈالا پتے منہ میں لے کر بڑی دیر تک بدقت چباتا رہا لیکن آخر اس نے نکال ڈالے ۔ میں نے کلیم اللہ علیہ السلام کے لیے دعا کی اور وہاں سے واپس لوٹ آیا “ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:56/10:ضعیف) اور روایت میں ہے کہ آپ اس درخت کو دیکھنے کے لیے گئے تھے جس سے اللہ نے آپ علیہ السلام سے باتیں کی تھیں جیسے کہ آگے آئے گا ۔ ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ ببول کا درخت تھا ۔ الغرض اس درخت تلے بیٹھ کر آپ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ ” اے رب میں تیرے احسانوں کا محتاج ہوں “ ۔ عطاء رحمہ اللہ کا قول ہے کہ ” اس عورت نے بھی آپ علیہ السلام کی دعا سنی “ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:57/10:) القصص
22 القصص
23 القصص
24 القصص
25 موسیٰ اور شعیب علیہما السلام کا معاہدہ ان دونوں بچیوں کی بکریوں کو جب موسیٰ علیہ السلام نے پانی پلا دیا تو یہ اپنی بکریاں لے کر واپس اپنے گھر گئیں ۔ باپ نے دیکھا کہ آج وقت سے پہلے یہ آگئیں ہیں تو دریافت فرمایا کہ ” آج کیا بات ہے ؟ “ انہوں نے سچا واقعہ کہہ سنایا ۔ آپ نے اسی وقت ان دونوں میں سے ایک کو بھیجا کہ جاؤ اور ان کو میرے پاس لے آؤ ۔ وہ موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں اور جس طرح گھر گھرہست پاک دامن عفیفہ عورتوں کا دستور ہوتا ہے شرم وحیاء سے اپنی چادر میں لپٹی ہوئی پردے کے ساتھ چل رہی تھی ۔ منہ بھی چادر کے کنارے سے چھپائے ہوئے تھیں پھر اس دانائی اور صداقت کو دیکھئیے کہ صرف یہی نہیں کہا کہ ” میرے ابا آپ علیہ السلام کو بلا رہے ہیں “ کیونکہ اس میں شبہ کی باتوں کی گنجائش تھی صاف کہہ دیا کہ ” میرے والد آپ کی مزدوری دینے کے لیے اور اس احسان کا بدلہ اتارنے کے لیے بلا رہے ہیں ، جو آپ علیہ السلام نے ہماری بکریوں کو پانی پلا کر ہمارے ساتھ کیا ہے “ ۔ کلیم اللہ علیہ السلام کو جو بھوکے پیاسے تن تنہا مسافر اور بے خرچ تھے یہ موقعہ غنیمت معلوم ہوا یہاں آئے ۔ انہیں ایک بزرگ سمجھ کر ان کے سوال پر اپنا سارا واقعہ بلا کم و کاست سنایا ۔ انہوں نے دلجوئی کی اور فرمایا اب کیا خوف ہے ؟ ان ظالموں کے ہاتھ سے آپ نکل آئے ۔ یہاں ان کی حکومت نہیں ۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ بزرگ شعیب علیہ السلام تھے جو مدین والوں کی طرف اللہ کے نبی بن کر آئے ہوئے تھے ۔ یہ مشہور قول ہے ۔ امام حسن بصری رحمۃ اللہ اور بہت سے علماء بھی یہی فرماتے ہیں ۔ طبرانی کی ایک حدیث میں ہے کہ { جب سعد رضی اللہ عنہ اپنی قوم کی طرف سے ایلچی بن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { شعیب علیہ السلام کی قوم اور موسیٰ علیہ السلام کے سسرال والوں کو مرحبا ہو کہ تمہیں ہدایت کی گئی } } ۔ ۱؎ (مسند بزار:2828:ضعیف) بعض کہتے ہیں کہ یہ شعیب علیہ السلام کے بھتیجے تھے کوئی کہتا ہے کہ قوم شعیب علیہ السلام کے ایک مومن مرد تھے ۔ بعض کا قول ہے کہ شعیب علیہ السلام کا زمانہ تو موسیٰ علیہ السلام کے زمانے سے بہت پہلے کا ہے ۔ ان کا قول قرآن میں اپنی قوم سے یہ مروی ہے کہ «وَمَا قَوْمُ لُوْطٍ مِّنْکُمْ بِبَعِیْدٍ» ۱؎ (11-ھود:89) یعنی ’ لوط کی قوم تم سے کچھ دور نہیں ‘ ۔ اور یہ بھی قرآن سے ثابت ہے کہ لوطیوں کی ہلاکت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے زمانے میں ہوئی تھی ۔ اور یہ بھی بہت ظاہر ہے کہ ابراہیم اور موسیٰ علیہم السلام کے درمیان کا زمانہ بہت لمبا زمانہ ہے ۔ تقریباً چار سو سال کا ہے جیسے اکثر مورخین کا قول ہے ہاں بعض لوگوں نے اس مشکل کا یہ جواب دیا ہے کہ شعیب علیہ السلام کی بڑی لمبی عمر ہوئی تھی ۔ ان کا مقصد غالباً اس اعتراض سے بچنا ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ ایک اور بات بھی خیال میں رہے کہ اگر یہ بزرگ شعیب علیہ السلام ہی ہوئے تو چاہیئے تھا کہ قرآن میں اس موقعہ پر ان کا نام صاف لے دیا جاتا ۔ ہاں البتہ بعض احادیث میں یہ آیا ہے کہ یہ شعیب علیہ السلام تھے ۔ لیکن ان احادیث کی سندیں صحیح نہیں جیسے کہ ہم عنقریب وارد کریں گے ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ بنی اسرائیل کی کتابوں میں ان کا نام ثیرون بتلایاگیا ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے فرماتے ہیں ثیرون شعیب علیہ السلام کے بھتیجے تھے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ یہ یثربی تھے ۔ ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ بات اس وقت ہوتی کہ جب اس بارے میں کوئی خبر مروی ہوتی اور ایسا ہے نہیں ۔ ان کی دونوں صاحبزادیوں میں سے ایک نے باپ کی توجہ دلائی ۔ یہ توجہ دلانے والی صاحبزادی وہی تھیں جو آپ علیہ السلام کو بلانے گئی تھیں ۔ کہا کہ ” انہیں آپ ہماری بکریوں کی چرائی پر رکھ لیجئے کیونکہ وہ کام کرنے والا اچھا ہوتا ہے جو قوی اور امانت دار ہو “ ۔ باپ نے بیٹی سے پوچھا ” تم نے یہ کیسے جان لیا کہ ان میں یہ دونوں وصف ہیں “ ۔ بچی نے جواب دیا کہ ” دس آدمی مل کر جس پتھر کو کنویں سے ہٹا سکتے تھے انہوں نے تنہا اس کو ہٹا دیا ان سے ان کی قوت کا اندازہ با آسانی ہوسکتا ہے ۔ امانت داری کا علم مجھے اس طرح ہوا کہ جب میں انہیں لے کر آپ کے پاس آنے لگی تو اس لیے کہ راستے سے ناواقف تھے میں آگے ہولی انہوں نے کہاتم میرے پیچھے رہو اور جہاں راستہ بدلنا ہو اس طرف کنکر پھینک دینا میں سمجھ لونگا کہ مجھے اس راستے چلنا چاہیئے “ ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” تین شخص کی سی زیرکی ، معاملہ فہی ، دانائی اور دوربینی کسی اور میں نہیں پائی گئی ، سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی دانائی کہ جب انہوں نے اپنے بعد خلافت کے لیے جناب عمر رضی اللہ عنہ کو منتخب کیا ۔ یوسف علیہ السلام کے خریدنے والے مصری جنہوں نے بیک نظر یوسف علیہ السلام کو پہچان لیا اور جا کر اپنی بیوی سے فرمایا کہ انہیں اچھی طرح رکھو ۔ اور اس بزرگ کی صاحبزادی جنہوں نے موسیٰ علیہ السلام کی نسبت اپنے باپ سے سفارش کی کہ انہیں اپنے کام پر رکھ لیجئے “ ۔ یہ سنتے ہی اس بچی کے باپ نے فرمایا کہ ” اگر آپ علیہ السلام پسند کریں تو میں اس مہر پر ان دو بچیوں میں سے ایک کا نکاح آپ کے ساتھ کر دیتا ہوں کہ آپ آٹھ سال تک ہماری بکریاں چرائیں ۔ ان دونوں کا نام صفوراً اور اولیا تھا یا صفوراً اور شرفایا صفوررا ورلیا ۔ اصحاب ابی حنیفہ رحمۃ اللہ نے اسی سے استدلال کیا ہے کہ جب کوئی شخص اس طرح کی بیع کرے کہ ان دوغلاموں میں سے ایک کو ایک سوکے بدلے فروخت کرتا ہوں اور خریدار منظور کر لے تو یہ بیع ثابت اور صحیح ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اس بزرگ نے کہا کہ ” آٹھ سال تو ضروری ہے اس کے بعد آپ علیہ السلام کو اختیار ہے دس سال کا ۔ اگر آپ اپنی خوشی سے دو سال تک اور بھی میراکام کریں تو اچھا ہے ورنہ آپ علیہ السلام پر لازمی نہیں ۔ آپ دیکھیں گے کی میں بد آدمی نہیں آپ کو تکلیف نہ دونگا “ ۔ امام اوزاعی رحمہ اللہ نے اس سے استدلال کر کے فرمایا ہے کہ ” اگر کوئی کہے میں فلاں چیز کو نقد دس اور ادھار بیس پر بیچتا ہوں تو یہ بیع صحیح ہے اور خریدار کو اختیار ہے کہ دس پر نقد لے بیس پر ادھار لے “ ۔ وہ اس حدیث کا بھی یہی مطلب لے رہے ہیں جس میں ہے { جو شخص دو بیع ایک بیع میں کرے اس کے لیے کمی والی بیع ہے یا سود } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:3461،قال الشیخ الألبانی:حسن) لیکن یہ مذہب غور طلب ہے جس کی تفصیل کا یہ مقام نہیں «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اصحاب امام احمد رحمہ اللہ نے اس آیت سے استدلال کر کے کہا ہے کہ ” کھانے پینے اور کپڑے پر کسی کو مزدوری اور کام کاج پر لگا لینا درست ہے “ ۔ اس کی دلیل میں ابن ماجہ کی ایک حدیث بھی ہے جو اس بات میں ہے کہ { مزدور مقرر کرنا اس مزدوری پر کہ وہ پیٹ بھر کر کھانا کھا لیا کرے گا اس میں حدیث لائیں ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ طس کی تلاوت کی جب موسیٰ علیہ السلام کے ذکر تک پہنچے تو فرمانے لگے { موسیٰ علیہ السلام نے اپنے پیٹ کے بھرنے اور اپنی شرمگاہ کو بچانے کے لیے آٹھ سال یادس سال کے لیے اپنے آپ کو ملازم کر لیا } } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:2444،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) اس حدیث کا راوی مسلمہ بن علی خشنی ہے جو ضعیف ہے ۔ یہ حدیث دوسری سند سے بھی مروی ہے لیکن وہ سند بھی نظر سے خالی نہیں ۔ کلیم اللہ علیہ السلام نے برزگ کی اس شرط کو قبول کر لیا اور فرمایا کہ ” ہم تم میں یہ طے شدہ فیصلہ ہے مجھے اختیار ہو گا کہ خواہ دس سال پورے کروں یا آٹھ سال کے بعد چھوڑ دوں آٹھ سال کے بعد آپ کا کوئی حق مزدوری مجھ پر لازم نہیں ۔ ہم اللہ تعالیٰ کو اپنے اس معاملہ پر گواہ کرتے ہیں اسی کی کارسازی کافی ہے “ ۔ تو گو دس سال پورا کرنا مباح ہے لیکن وہ فاضل چیز ہے ضروری نہیں ضروری آٹھ سال ہیں جیسے منٰی کے آخری دو دن کے بارے میں اللہ کا حکم ہے اور جیسے کہ حدیث میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حمزہ بن عمرو اسلمی رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا جو بکثرت روزے رکھا کرتے تھے کہ { اگر تم سفر میں روزے رکھو تو تمہیں اختیار ہے اور اگر نہ رکھو تو تمہیں اختیار ہے } } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1121) باوجود یکہ دوسری دلیل سے رکھنا افضل ہے ۔ چنانچہ اس کی دلیل بھی آ چکی ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے دس سال ہی پورے کئے ۔ بخاری شریف میں ہے { سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ سے یہودیوں نے سوال کیا کہ موسیٰ علیہ السلام نے آٹھ سال پورے کئے تھے یا دس سال ؟ تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھے خبر نہیں پھر میں عرب کے بہت بڑے عالم سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور ان سے یہی سوال کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ان دونوں میں جو زیادہ اور پاک مدت تھی وہی آپ علیہ السلام نے پوری کی یعنی دس سال ۔ اللہ تعالیٰ کے نبی جو کہتے ہیں پورا کرتے ہیں } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2684) حدیث فنون میں ہے کہ { سائل نصرانی تھا } لیکن بخاری میں جو ہے وہی اولیٰ ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ ابن جریر میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام سے سوال کیا کہ موسیٰ علیہ السلام نے کون سی مدت پوری کی تھی تو جواب ملا کہ ان دونوں میں سے جو کامل اور مکمل مدت تھی } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:27409:ضعیف) ایک مرسل حدیث میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے پوچھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا جبرائیل علیہ السلام نے اور فرشتے سے یہاں تک کہ فرشتے نے اللہ سے ۔ اللہ نے جواب دیا کہ ’ دونوں میں ہی پاک اور پوری مدت یعنی دس سال ‘ } ۔ ایک حدیث میں ہے کہ { سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کے سوال پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دس سال کی مدت کا پورا کرنا بتایا اور یہ بھی فرمایا کہ { اگر تجھ سے پوچھا جائے کہ کون سی لڑکی سے موسیٰ علیہ السلام نے نکاح کیا تھا تو جواب دینا کہ دونوں میں جو چھوٹی تھیں } } ۔ ۱؎ (مسند بزار:2244:ضعیف) اور روایت میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدت دراز کو پورا کرنا بتایا پھر فرمایا کہ { جب موسیٰ علیہ السلام ، شعیب علیہ السلام سے رخصتی لے کر جانے لگے تو اپنی بیوی صاحبہ سے فرمایا کہ اپنے والد سے کچھ بکریاں لے لو جن سے ہمارا گزارہ ہو جائے آپ نے اپنے والد سے سوال کیا جس پر انہوں نے وعدہ کیا کہ اس میں سے جتنی چت کبری بکریاں ہونگی سب تمہاری ۔ موسیٰ علیہ السلام نے بکریوں کے پیٹ پر اپنی لکڑی پھیری تو ہر ایک کو دو دو تین تین بچے ہوئے اور سب کے سب چتکبرے جن کی نسل اب تک تلاش کرنے سے مل سکتی ہے } } ۔ ۱؎ (مسند بزار:2246:ضعیف) دوسری روایت میں ہے کہ شعیب علیہ السلام کی سب بکریاں کالے رنگ کی خوبصورت تھیں ۔ جتنے بچے ان کے اس سال ہوئے سب کے سب بے عیب تھے اور بڑے بڑے بھرے ہوئے تھنوں والے اور زیادہ دودھ دینے والے ان تمام روایتوں کا مدار عبداللہ بن لہیعہ پر ہے جو حافظہ کے اچھے نہیں اور ڈر ہے کہ یہ روایتیں مرفوع نہ ہوں ۔ چنانچہ اور سند سے یہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے موقوفاً مروی ہے ، اور اس میں یہ بھی ہے کہ سب بکریوں کے بچے اس سال ابلق ہوئے سوائے ایک بکری کے ۔ جن سب کو آپ علیہ السلام لے گئے ۔ القصص
26 القصص
27 القصص
28 القصص
29 دس سال حق مہر پہلے یہ بیان گزر چکا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے دس سال پورے کئے تھے ۔ قرآن کے اس لفظ «الَْاَجَلَ» سے بھی اس کی طرف اشارہ ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ بلکہ مجاہد رحمہ اللہ کا تو قول ہے کہ دس سال یہ اور دس سال اور بھی گزرے ۔ اس قول میں یہ صرف تنہا ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اب موسیٰ علیہ السلام کو خیال اور شوق پیدا ہوا کہ چپ چاپ وطن میں جاؤں اور اپنے والوں سے مل آؤں چنانچہ آپ اپنی بیوی صاحبہ کو اور اپنی بکریوں کو لے کر وہاں سے چلے رات کو بارش ہونے لگی اور سرد ہوائیں چلنے لگیں اور سخت اندھیرا ہو گیا ۔ آپ علیہ السلام ہر چند چراغ جلاتے تھے مگر روشنی نہیں ہوتی تھی ۔ سخت متعجب اور حیران تھے اتنے میں دیکھتے ہیں کہ کچھ دور آگ روشن ہے تو اپنی اہلیہ صاحبہ سے فرمایا کہ تم یہاں ٹھہرو وہاں کچھ روشنی دکھائی دیتی ہے میں وہاں جاتا ہوں اگر کوئی وہاں ہوا تو اس سے راستہ بھی دریافت کرلونگا اس لیے کہ ہم راہ بھولے ہوئے ہیں ۔ یا میں وہاں سے کچھ آگ لے آؤ نگا جس سے تم تاپ لو اور جاڑے کا علاج ہو جائے ۔ جب آپ علیہ السلام وہاں پہنچے تو اس وادی کے دائیں جانب کے مغربی پہاڑ سے آواز سنائی دی ۔ جیسے قرآن کی اور آیت میں ہے «ووَمَا کُنتَ بِجَانِبِ الْغَرْبِیِّ إِذْ قَضَیْنَا إِلَیٰ مُوسَی الْأَمْرَ وَمَا کُنتَ مِنَ الشَّاہِدِینَ» ۱؎ (28-القصص:44) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام آگ کے قصد سے قبلہ کی طرف چلے تھے اور مغربی پہاڑ آپ علیہ السلام کے دائیں طرف تھا اور ایک سرسبز ہرے بھرے درخت میں آگ نظر آ رہی تھی جو پہاڑ کے دامن میں میدان کے متصل تھی ۔ یہ وہاں جا کر اس حالت کو دیکھ کر حیران وششدہ رہ گئے کہ ہرے اور سبز درخت میں سے آگ کے شعلے نکلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں لیکن آگ کسی چیز میں جلتی ہوئی دکھائی نہیں دیتی ، اسی وقت اللہ کی طرف سے آواز آئی ۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اس درخت کو جس میں سے موسیٰ علیہ السلام کو آواز آئی تھی دیکھا ہے وہ سرسبز وشاداب ہرا بھرا درخت ہے جو چمک رہا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ علیق کا درخت تھا اور بعض کہتے ہیں یہ عوسج کا درخت تھا اور آپ علیہ السلام کی لکڑی بھی اسی درخت کی تھی ۔ کلیم اللہ علیہ السلام نے سنا کہ آواز آ رہی ہے کہ ’ اے موسیٰ میں ہوں رب العالمین ۔ جو اس وقت تجھ سے کلام کر رہا ہوں ۔ میں جو چاہوں کر سکتا ہوں ۔ میرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں نہ میرے سوا کوئی رب ہے میں اس سے پاک ہو کہ کوئی مجھ جیسا ہو مخلوق میں سے کوئی بھی میرا شریک نہیں میں یکتا اور بے مثل ہوں اور «وَحدَہُ لَا شَرِیْکَ» ہوں ۔ میری ذات ، میری صفات ، میرے افعال میرے اقوال میں میرا کوئی شریک ساجھی ساتھی نہیں ۔ میں ہر طرح پاک اور نقصان سے دور ہوں ‘ ۔ اسی ضمن میں فرمان ہوا کہ ’ اپنی لکڑی زمین پر گرادو اور میری قدرت اپنی آنکھوں سے دیکھ لو ‘ ۔ اور آیت میں ہے کہ پہلے دریافت فرمایا گیا کہ ’ اے موسیٰ ! تیرے دائیں ہاتھ میں کیا ہے ؟ آپ علیہ السلام نے جواب دیا کہ یہ میری لکڑی ہے جس سے میں ٹیک لگاتا ہوں اور جس سے اپنی بکریوں کے لے پتے جھاڑ لیتا ہوں اور دوسرے بھی میرے بہت سے کام اس سے نکلتے ہیں ‘ ۔ اب مطلع فرمایا کہ ’ لکڑی کو احساس دلا کر پھر زمین پر انہی کے ہاتھوں پھنکوائی ۔ وہ زمین پر گرتے ہی ایک پھن اٹھائے پھنکارتا ہوا اژدہابن کر ادھر ادھر فراٹے بھرنے لگی ‘ ۔ یہ اس بات کی دلیل تھی کہ بولنے والا واقعی اللہ ہی ہے جوقادر مطلق ہے وہ جس چیز کو جو فرما دے ٹل نہیں سکتا ۔ سورۃ طہٰ کی تفسیر میں اس کا بیان بھی پورا گزر چکا ہے ۔ اس خوفناک سانپ کو جو باوجود بہت بڑا اور بہت موٹا ہونے کے تیر کی طرح ادھر ادھر جا رہا تھا منہ کھولتا تھا تو معلوم ہوتا تھا کہ ابھی نگل جائے گا ۔ جہاں سے گزرتا تھا پتھر ٹوٹ جاتے تھے ۔ اسے دیکھ کر موسیٰ علیہ السلام سہم گئے اور دہشت کے مارے ٹھہر نہ سکے الٹے پیروں بھاگے اور مڑ کر بھی نہ دیکھا ۔ وہیں اللہ کی طرف سے آواز آئی ’ موسیٰ ادھر آ ڈر نہیں تو میرے امن میں ہے ‘ ۔ اب موسیٰ علیہ السلام کا دل ٹھہر گیا ۔ اطمینان سے بے خوف ہو کر وہیں اپنی جگہ آ کر باادب کھڑے ہو گئے ۔ یہ معجزہ عطا فرما کر پھر دوسرا معجزہ یہ دیا کہ موسیٰ علیہ السلام اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈال کر نکالتے تو وہ چاند کی طرح چمکنے لگتا اور بہت بھلا معلوم ہوتا یہ نہیں کہ کوڑھ کے داغ کی طرح سفید ہو جائے ۔ یہ بھی بحکم الٰہی آپ نے وہی کیا اور اپنے ہاتھ کو مثل چاند منور دیکھ لیا ۔ پھر حکم دیا کہ ’ تمہیں اس سانپ سے یا کسی گھبراہٹ ڈر خوف رعب سے دہشت معلوم ہو تو اپنے بازو اپنے بدن سے ملالو ڈر خوف جاتا رہے گا ‘ ۔ اور یہ بھی ہے کہ جو شخص ڈر اور دہشت کے وقت اپنا ہاتھ اپنے دل پر اللہ کے اس فرمان کے ماتحت رکھ لے تو ان شاءاللہ اس کا خوف ڈر جاتا رہے گا ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ابتداء میں موسیٰ علیہ السلام کے دل پر فرعون کا بہت خوف تھا آپ جب اسے دیکھتے تو یہ دعا پڑھتے « اللہُمَّ إِنِّی أَدْرَأبِک فِیْ نَحْرہٖ وَأَعُوذبِک مِنْ شَرّہٖ» ۔ ” اے اللہ میں تجھے اس کے مقابلہ میں کرتا ہوں ۔ اور اس کی برائی سے تیری پناہ میں آتا ہوں “ ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دل سے رعب وخوف ہٹالیا اور فرعون کے دل میں ڈال دیا پھر تو اس کا یہ حال ہو گیا تھا کہ موسیٰ علیہ السلام کو دیکھتے ہی اس کا پیشاب خطا ہو جاتا تھا ۔ یہ دونوں معجزے یعنی عصائے موسیٰ علیہ السلام اور ید بیضاء دے کر اللہ نے فرمایا کہ ’ اب فرعون اور فرعونیوں کے پاس رسالت لے کر جاؤ اور بطور دلیل یہ معجزہ پیش کرو اور ان فاسقوں کو اللہ کی راہ دکھاؤ ‘ ۔ القصص
30 القصص
31 القصص
32 القصص
33 یاد ماضی یہ گزر چکاکہ موسیٰ علیہ السلام فرعون سے خوف کھا کر اس کے شہر سے بھاگ نکلے تھے ۔ جب اللہ تعالیٰ نے وہیں اسی کے پاس نبی بن کر جانے کو فرمایا تو آپ علیہ السلام کو وہ سب یاد آ گیا اور عرض کرنے لگے ” اے اللہ ان کے ایک آدمی کی جان میرے ہاتھ سے نکل گئی تھی تو ایسانہ ہو کہ وہ بدلے کا نام رکھ کر میرے قتل کے درپے ہو جائیں “ ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بچپن کے زمانے میں جب کہ آپ علیہ السلام کے سامنے بطور تجربہ کے ایک آگ اور ایک کھجور یا یک موتی رکھا تھا تو آپ نے انگارہ پکڑ لیا تھا اور منہ میں ڈال لیا تھا اس واسطے آپ کی زبان میں کچھ کسر رہ گئی تھی اور اسی لیے آپ نے اپنی زبان کی بابت اللہ سے دعا مانگی تھی «قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِی صَدْرِی وَیَسِّرْ لِی أَمْرِی وَاحْلُلْ عُقْدَۃً مِّن لِّسَانِی یَفْقَہُوا قَوْلِی وَاجْعَل لِّی وَزِیرًا مِّنْ أَہْلِی ہَارُونَ أَخِی اشْدُدْ بِہِ أَزْرِی وَأَشْرِکْہُ فِی أَمْرِی» (20-طہ:25-32) کہ ’ میری زبان کی گرہ کھول دے تا کہ لوگ میری بات سمجھ سکیں اور میرے بھائی ہارون علیہ السلام کو میرا وزیر بنا دے اس سے میرا بازو مضبوط کر اور اسے میرے کام میں شریک کر تاکہ نبوت ورسالت کا فریضہ ادا ہو اور تیرے بندوں کو تیری کبریائی کی دعوت دے سکیں ‘ ۔ یہاں بھی «. وَأَخِی ہَارُونُ ہُوَ أَفْصَحُ مِنِّی لِسَانًا فَأَرْسِلْہُ مَعِیَ رِدْءًا یُصَدِّقُنِی إِنِّی أَخَافُ أَن یُکَذِّبُونِ» ۱؎ (28-القصص:34) ہے ۔ آپ علیہ السلام کی دعا منقول ہے کہ ’ آپ علیہ السلام نے فرمایا میرے بھائی ہارون کو میرے ساتھ ہی اپنا رسول بنا کر بھیجیں وہ میرا معین و وزیر ہو جائے ۔ وہ میری باتوں کو باور کرے تاکہ میرا بازو مضبوط رہے دل بڑھا ہوا رہے ‘ ۔ اور یہ بھی بات ہے کہ دو آوازیں بہ نسبت ایک آواز کے زیادہ مضبوط اور با اثر ہوتی ہیں ۔ میں اکیلا رہا تو ڈر ہے کہ کہیں وہ مجھے جھٹلا نہ دیں اور ہارون علیہ السلام ساتھ ہوا تو میری باتیں بھی لوگوں کو سمجھا دیا کرے گا ۔ جناب باری ارحم الراحمین نے جواب دیا کہ ’ تیری مانگ منظور ہے ہم تیرے بھائی کو تجھ کو سہارا دیں گے اور اسے بھی تیرے ساتھ نبی بنا دیں گے ‘ ۔ جیسے اور آیت میں ہے «قَالَ قَدْ أُوتِیتَ سُؤْلَکَ یَا مُوسَیٰ» ۱؎ ( 20- طہ : 36 ) ’ موسیٰ [ علیہ السلام ] تیرا سوال پورا کر دیا گیا ‘ ۔ اور آیت «وَوَہَبْنَا لَہُ مِن رَّحْمَتِنَا أَخَاہُ ہَارُونَ نَبِیًّا» ۱؎ (19-مریم:53) میں ہے ’ ہم نے اپنی رحمت سے اسے اس کے بھائی ہارون کو نبی بنا دیا ‘ ۔ اسی لیے بعض اسلاف کا فرمان ہے کہ کسی بھائی نے اپنے بھائی پر وہ احسان نہیں کیا جو موسیٰ علیہ السلام نے ہارون علیہ السلام پر کیا کہ اللہ سے دعا کر کے انہیں نبی بنوادیا ۔ یہ موسیٰ علیہ السلام کی بڑی بزرگی کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی ایسی دعا بھی رد نہ کی ۔ واقعی آپ اللہ کے نزدیک بڑے ہی مرتبہ والے تھے ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ ہم تم دونوں کو زبردست دلیلیں اور کام حجتیں دیں گے فرعونی تمہیں کوئی ایذاء نہیں دے سکتے ۔ کیونکہ تم میرا پیغام میرے بندوں کے نام پہنچانے والے ہو ۔ ایسوں کو میں خود دشمنوں سے سنبھالتا ہوں ۔ ان کامددگار اور مؤید میں خود بن جاتا ہوں ۔ انجام کار تم اور تمہارے ماننے والے ہی غالب آئیں گے ‘ ۔ جیسے فرمان ہے اللہ لکھ چکا ہے «کَتَبَ اللہُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُ‌سُلِی إِنَّ اللہَ قَوِیٌّ عَزِیزٌ» ۱؎ (58-المجادلۃ:21) ’ میں اور میرے رسول ہی غالب آئیں گے ۔ اللہ تعالیٰ قوت والا عزت والا ہے ‘ ۔ اور آیت میں ہے «إِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِینَ آمَنُوا فِی الْحَیَاۃِ الدٰنْیَا وَیَوْمَ یَقُومُ الْأَشْہَادُ یَوْمَ لَا یَنفَعُ الظَّالِمِینَ مَعْذِرَتُہُمْ وَلَہُمُ اللَّعْنَۃُ وَلَہُمْ سُوءُ الدَّارِ» ۱؎ (40-غافر:51،52) ، ’ ہم اپنے رسولوں اور ایمان والوں کی دنیا کی زندگی میں بھی مدد کرتے ہیں ‘ ۔ ابن جریر رحمہ اللہ کے نزدیک آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ ہمارے دئیے ہوئے غلبہ کی وجہ سے فرعونی تمہیں تکلیف نہ پہنچاسکیں گے اور ہماری دی ہوئی نشانیوں کی وجہ سے غلبہ صرف تمہیں ہی حاصل ہو گا ۔ لیکن پہلے جو مطلب بیان ہوا ہے اس سے بھی یہی ثابت ہے تو اس کی کوئی حاجت ہی نہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ القصص
34 القصص
35 القصص
36 فرعونی قوم کا رویہ حضرت موسیٰ علیہ السلام خلعت نبوت سے اور کلام الٰہی سے ممتاز ہو کر بحکم اللہ مصر میں پہنچے اور فرعون اور فرعونیوں کو اللہ کی وحدت اور اپنی رسالت کی تلقین کے ساتھ ہی جو معجزے اللہ نے دئیے تھے انہیں دکھایا ۔ سب کو مع فرعون کے یقین کامل ہو گیا کہ بیشک موسیٰ علیہ السلام اللہ کے رسول ہیں ۔ لیکن مدتوں کا غرور اور پرانا کفر سر اٹھائے بغیر نہ رہا اور زبانیں دل کے خلاف کر کے کہنے لگے یہ تو صرف مصنوعی جادو ہے ۔ اب فرعونی اپنے دبدے اور قوت وطاقت سے حق کے مقابلے پر جم گئے اور اللہ کے نبیوں علیہم السلام کا سامنا کرنے پر تل گئے اور کہنے لگے ” کبھی ہم نے تو نہیں سنا کہ اللہ ایک ہے اور ہم تو کیا ہمارے اگلے باپ دادوں کے کان بھی آشنا نہیں تھے ۔ ہم سب کے سب مع اپنے بڑے چھوٹوں کے بہت سے معبودوں کو پوجتے رہے ۔ یہ نئی باتیں لے کر کہاں سے آ گیا ؟ “ ۔ کلیم اللہ موسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا کہ ” مجھے اور تم کو اللہ خوب جانتا ہے وہی ہم تم میں فیصلہ کرے گا ہم میں سے ہدایت پر کون ہے ؟ اور کون نیک انجام پر ہے ؟ اس کا علم بھی اللہ ہی کو ہے وہ فیصلہ کر دے گا اور تم عنقریب دیکھ لو گے کہ اللہ کی تائید کس کا ساتھ دیتی ہے ؟ ظالم یعنی مشرک کبھی خوش انجام اور شاد کام نہیں ہوئے وہ نجات سے محروم ہیں “ ۔ القصص
37 القصص
38 فرعونیوں کا انجام فرعون کی سرکشی اور اس کے الہامی دعوے کا ذکر ہو رہا ہے کہ «فَاسْتَخَفَّ قَوْمَہُ فَأَطَاعُوہُ إِنَّہُمْ کَانُوا قَوْمًا فَاسِقِینَ» ۱؎ (43-الزخرف:54) اس نے اپنی قوم کو بےعقل بنا کر ان سے اپنا دعویٰ منوا لیا اس نے ان کمینوں کو جمع کر کے ہانک لگائی کہ «فَحَشَرَ فَنَادَیٰ فَقَالَ أَنَا رَبٰکُمُ الْأَعْلَیٰ فَأَخَذَہُ اللہُ نَکَالَ الْآخِرَۃِ وَالْأُولَیٰ إِنَّ فِی ذٰلِکَ لَعِبْرَۃً لِّمَن یَخْشَیٰ» ۱؎ (79-النازعات:23-26) ’ تمہارا رب میں ہی ہوں سب سے اعلی اور بلند تر ہستی میری ہی ہے ‘ ، اسی بنا پر اللہ نے اسے دنیا اور آخرت کے عذابوں میں پکڑ لیا اور دوسروں کے لیے اسے نشان عبرت بنایا ۔ ان کمینوں نے اسے اللہ مان کر اس کا دماغ یہاں تک بڑھا دیا کہ اس نے کلیم اللہ موسیٰ علیہ السلام سے ڈانٹ کر کہا «الَ لَئِنِ اتَّخَذْتَ إِلٰہًا غَیْرِی لَأَجْعَلَنَّکَ مِنَ الْمَسْجُونِینَ» ۱؎ (26-الشعراء:29) کہ ’ سن اگر تو نے میرے سوا کسی اور کو اپنا معبود بنایا تو میں تجھے قید میں ڈال دونگا ‘ ۔ انہی سفلے لوگوں میں بیٹھ کر اپنا دعویٰ انہیں منوا کر اپنے ہی جیسے اپنے خبیث وزیر ہامان سے کہتا ہے کہ تو ایک پزاوہ [بھٹہ] بنا اور اس میں اینٹیں پکوا اور میرے لیے ایک بلند و بالا مینار بنا کہ میں جا کر جھانکوں کہ واقعہ میں موسیٰ علیہ السلام کا کوئی اللہ ہے بھی یا نہیں ۔ گو مجھے اس کے دروغ گو ہونے کا علم تو ہے ۔ مگر میں اس کا جھوٹ تم سب پر ظاہر کرنا چاہتا ہوں ۔ اسی کا بیان آیت «وَقَالَ فِرْعَوْنُ یَا ہَامَانُ ابْنِ لِی صَرْحًا لَّعَلِّی أَبْلُغُ الْأَسْبَابَ أَسْبَابَ السَّمَاوَاتِ فَأَطَّلِعَ إِلَیٰ إِلٰہِ مُوسَیٰ وَإِنِّی لَأَظُنٰہُ کَاذِبًا وَکَذٰلِکَ زُیِّنَ لِفِرْعَوْنَ سُوءُ عَمَلِہِ وَصُدَّ عَنِ السَّبِیلِ وَمَا کَیْدُ فِرْعَوْنَ إِلَّا فِی تَبَابٍ» ۱؎ (40-غافر:36،37) میں بھی ہے ۔ چنانچہ ایک بلند مینار بنایا گیا کہ اس سے اونچا دنیا میں نہیں بنایا گیا ۔ یہ موسیٰ علیہ السلام کو نہ صرف دعویٰ رسالت میں ہی جھوٹ جانتا تھا بلکہ یہ تو واحد باری تعالیٰ کا قائل ہی نہ تھا ۔ چنانچہ خود قرآن میں ہے «قَالَ فِرْعَوْنُ وَمَا رَبٰ الْعَالَمِینَ» ۱؎ (26-الشعراء:23) کہ ’ موسیٰ علیہ السلام سے اس نے کہا «وَمَا رَبٰ الْعَالَمِینَ» رب العالمین ہے کیا ؟ ‘ اور اس نے یہ بھی کہا تھا کہ «الَ لَئِنِ اتَّخَذْتَ إِلٰہًا غَیْرِی لَأَجْعَلَنَّکَ مِنَ الْمَسْجُونِینَ» ۱؎ (26-الشعراء:29)’ اگر تو نے میرے سوا کسی کو اللہ جانا تو میں تجھے قید کردونگا ‘ ۔ اس آیت میں بھی ہے کہ اس نے اپنے درباریوں سے کہا میرے علم میں بجز میرے تمہارا اللہ کوئی اور نہیں ۔ جب اس کی اور اس کی قوم کی طغیانی اور سرکشی حد سے گزر گئی ۔ اللہ کے ملک میں ان کے فساد کی کوئی انتہا نہ رہی ان کے عقیدے کھوٹے پیسے جیسے ہو گئے ۔ قیامت کے حساب کتاب کے بالکل منکر بن بیٹھے تو بالآخر اللہ کا عذاب ان پر برس پڑا اور رب نے انہیں تاک لیا اور بیج تک مٹا دیا ۔ سب کو اپنے عذاب میں پکڑ لیا اور ایک ہی دن ایک ہی وقت ایک ساتھ دریا برد کر دیا ۔ ’ لوگو سوچ لو کہ ظالموں کا کیسا عبرتناک انجام ہوتا ہے ؟ ہم نے انہیں دوزخیوں کا امام بنا دیا ہے کہ یہ لوگوں کو ان کاموں کی طرف بلاتے ہیں جن سے وہ اللہ کے عذابوں میں جلیں ‘ ۔ جو بھی ان کی روش پر چلا اسے وہ جہنم میں لیے گئے جس نے بھی رسولوں کو جھٹلایا اور اللہ کو نہ مانا وہ ان کی راہ پر ہے ۔ قیامت کے دن بھی ان کی کچھ نہ چلیں گی کہیں سے انہیں کوئی امداد نہ پہنچے گی دونوں جہاں میں یہ نقصان اور گھاٹے میں رہیں گے ۔ جیسے فرمان ہے «اَہْلَکْنٰہُمْ فَلَا نَاصِرَ لَہُمْ» ۱؎ (47-محمد:13) ’ ہم نے انہیں تہہ و بالا کر دیا اور کوئی ان کامددگار نہ ہوا ‘ ۔ دنیا میں بھی یہ ملعون ہوئے اللہ کی ان فرشتوں کی ان نبیوں کی اور تمام نیک بندوں کی ان پر لعنت ہے جو بھی بھلا آدمی ان کا نام سنے گا ان پر پھٹکار بھیجے گا دنیا میں بھی ملعون ہوئے اور آخرت میں بھی قباحت والے ہوں گے جیسے فرمان ہے آیت «وَاُتْبِعُوْا فِیْ ہٰذِہٖ لَعْنَۃً وَّیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ بِئْسَ الرِّفْدُ الْمَرْفُوْدُ» ۱؎ (11-ھود:99) ’ یہاں بھی پھٹکار وہاں بھی لعنت ‘ ۔ القصص
39 القصص
40 القصص
41 القصص
42 القصص
43 موسیٰ علیہ السلام کو تورات کا انعام اس آیت میں ایک لطیف بات یہ ہے کہ فرعونیوں کی ہلاکت کے بعد والی امتیں اس طرح عذاب آسمانی سے ہلاک نہیں ہوئیں بلکہ جس امت نے سرکشی کی اس کی سرکشی کا بدلہ اسی زمانے کے نیک لوگوں کے ہاتھوں اللہ نے اسے دلوایا ۔ مومنین مشرکین سے جہاد کرتے رہے ۔ جیسے فرمان باری ہے آیت «وَجَاءَ فِرْعَوْنُ وَمَنْ قَبْلَہٗ وَالْمُؤْتَفِکٰتُ بالْخَاطِئَۃِ فَعَصَوْا رَ‌سُولَ رَ‌بِّہِمْ فَأَخَذَہُمْ أَخْذَۃً رَّ‌ابِیَۃً» (69-الحاقۃ:10-9) ، یعنی ’ فرعون اور جو امتیں اس سے پہلے ہوئیں اور الٹی ہوئی بستی کے رہنے والے یعنی قوم لوط یہ سب لوگ بڑے بڑے قصوروں کے مرتکب ہوئے اور اپنے زمانے کے رسولوں کی نافرمانیوں پر کمر کس لی تو اللہ تعالیٰ نے ان سب کو بھی بڑی سخت پکڑ سے پکڑ لیا ‘ ۔ اس گروہ کی ہلاکت کے بعد بھی اللہ تعالیٰ کے انعام موسیٰ «الْکَلِیم عَلَیْہِ مِنْ رَبّہ أَفْضَل الصَّلَاۃ وَالتَّسْلِیم» پر نازل ہوتے رہے جن میں سے ایک بہت بڑے انعام کا ذکر یہاں ہے کہ انہیں تورات ملی ۔ اس تورات کے نازل ہونے کے بعد کسی قوم کو آسمان کے یا زمین کے عام عذاب سے ہلاک نہیں کیا گیا سوائے اس بستی کے چند مجرموں کے جنہوں نے اللہ کی حرمت کے خلاف ہفتے کے دن شکار کھیلا تھا اور اللہ نے انہیں سور اور بندر بنا دیا تھا ۔ یہ واقعہ بیشک موسیٰ علیہ السلام کے بعد کا ہے ۔ جیسے کہ ابوسیعد خدری رحمہ اللہ نے بیان فرمایا ہے اور اس کے بعد ہی آپ نے اپنے قول کی شہادت میں یہی آیت «وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ مِنْ بَعْدِ مَآ اَہْلَکْنَا الْقُرُوْنَ الْاُوْلٰی بَصَایِٕرَ للنَّاسِ وَہُدًی وَّرَحْمَۃً لَّعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ» (28-القص:43) کی تلاوت فرمائی ۔ ۱؎ (مسند بزار:2247:صحیح) ایک مرفوع حدیث میں بھی ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کے بعد کسی قوم کو عذاب آسمانی یا زمینی سے ہلاک نہیں کیا ۔ اسے عذاب جتنے آئے آپ علیہ السلام سے پہلے آئے } ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی آیت تلاوت فرمائی } ۔ پھر تورات کے اوصاف بیان ہور ہے ہیں کہ وہ کتاب کو اندھاپے سے گمراہی سے نکالنے والی تھی اور حق کی ہدات کرنے والی تھی ۔ اور آپ علیہ السلام کی رحمت سے تھی نیک اعمال کی ہادی تھی ۔ تاکہ لوگ اس سے ہدایت حاصل کریں اور نصیحت بھی ۔ اور راہ راست پر آجائیں ۔ القصص
44 دلیل نبوت اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی دلیل دیتا ہے کہ ’ ایک وہ شخص جو امی ہو جس نے ایک حرف بھی نہ پڑھا ہو جو اگلی کتابوں سے محض نا آشنا ہو جس کی قوم علمی مشاغل سے اور گزشتہ تاریخ سے بالکل بے خبر ہو وہ تفصیل اور وضاحت کے ساتھ کامل فصاحت وبلاغت کے ساتھ بالکل سچے ٹھیک اور صحیح گزشتہ واقعات کو اس طرح بیان کرے جیسے کہ اس کے اپنے چشم دید ہو اور جیسے کہ وہ ان کے ہونے کے وقت وہیں موجود ہو کیا یہ اس امر کی دلیل نہیں کہ وہ اللہ کی طرف سے تلقین کیا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ خود اپنی وحی کے ذریعہ سے انہیں وہ تمام باتیں بتاتا ہے ‘ ۔ مریم صدیقہ کا واقعہ بیان فرماتے ہوئے بھی قرآن نے اس چیز کو پیش کیا ہے اور فرمایا ہے آیت «ذٰلِکَ مِنْ اَنْبَاءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْہِ اِلَیْکَ وَمَا کُنْتَ لَدَیْہِمْ اِذْ یُلْقُوْنَ اَقْلَامَھُمْ اَیٰھُمْ یَکْفُلُ مَرْیَمَ ۠وَمَا کُنْتَ لَدَیْہِمْ اِذْ یَخْتَصِمُوْنَ» ۱؎ (3-آل عمران:44) ، ’ جب کہ وہ مریم کے پالنے کے لیے قلمیں ڈال کر فیصلے کر رہے تھے اس وقت تو ان کے پاس موجود نہ تھا اور نہ تو اس وقت تھا جب کہ وہ آپس میں جھگڑ رہے تھے ‘ ۔ پس باوجود عدم موجودگی اور بے خبری کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی کھری دلیل ہے اور صاف نشانی ہے اس امر پر کہ وحی الٰہی سے یہ کہہ رہے ہیں ۔ اسی طرح نوح نبی علیہ السلام کا واقعہ بیان فرما کر فرمایا ہے آیت «تِلْکَ مِنْ اَنْبَاءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْہَآ اِلَیْکَ مَا کُنْتَ تَعْلَمُہَآ اَنْتَ وَلَا قَوْمُکَ مِنْ قَبْلِ ھٰذَا ړ فَاصْبِرْ ړاِنَّ الْعَاقِبَۃَ لِلْمُتَّقِیْنَ» ۱؎ (11-ھود:49) ، ’ یہ غیب کی خبریں ہیں جنہیں ہم بذریعہ وحی کے تم تک پہنچا رہے ہیں تو اور تیری ساری قوم اس وحی سے پہلے ان واقعات سے محض بے خبر تھی ۔ اب صبر کے ساتھ دیکھتا رہ اور یقین مان کہ اللہ سے ڈرتے رہنے والے ہی نیک انجام ہوتے ہیں ‘ ۔ سورۃ یوسف کے آخر میں بھی ارشاد ہوا ہے «ذٰلِکَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَیْبِ نُوحِیہِ إِلَیْکَ وَمَا کُنتَ لَدَیْہِمْ إِذْ أَجْمَعُوا أَمْرَہُمْ وَہُمْ یَمْکُرُونَ» ۱؎ (12-یوسف:102) کہ ’ یہ غیب کی خبریں ہیں جنہیں ہم بذریعہ وحی کے تیرے پاس بھیج رہے ہیں تو ان کے پاس اس وقت موجود نہ تھا جب کہ برادران یوسف نے اپنا مصمم ارادہ کر لیا تھا اور اپنی تدبیروں میں لگ گئے تھے ‘ ۔ سورۃ طہٰ میں عام طور پر فرمایا آیت «کَذٰلِکَ نَقُصٰ عَلَیْکَ مِنْ اَنْبَاءِ مَا قَدْ سَبَقَ وَقَدْ اٰتَیْنٰکَ مِنْ لَّدُنَّا ذِکْرًا» ۱؎ (20-طہ:99) ’ اسی طرح ہم تیرے سامنے پہلے کی خبریں بیان فرماتے ہیں ‘ ۔ پس یہاں بھی موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ان کی نبوت کی ابتداء وغیرہ اول سے آخر تک بیان فرما کر فرمایا کہ ’ تم اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم مغربی پہاڑ کی جانب جہاں کے مشرقی درخت میں سے جو وادی کے کنارے تھے اللہ نے اپنے کلیم علیہ السلام سے باتیں کیں موجود نہ تھے بلکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنی وحی کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ سب معلومات کرائیں ‘ ۔ تا کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی ایک دلیل ہو جائے ان زمانوں پر جو مدتوں سے چلے آ رہے ہیں اور اللہ کی باتوں کو وہ بھول بھال چکے ہیں ۔ اگلے نبیوں کی وحی ان کے ہاتھوں سے گم ہو چکی ہے اور نہ تو مدین میں رہتا تھا کہ وہاں کے نبی شعیب علیہ السلام کی حالت بیان کرتا جو ان میں اور ان کے قوم میں واقع ہوئے تھے ۔ بلکہ ہم نے بذریعہ وحی یہ خبریں تمہیں پہنچائیں اور تمام جہان کی طرف تجھے اپنا رسول بنا کر بھیجا ۔ اور نہ تو طور کے پاس تھا جب کہ ہم نے آواز دی ۔ نسائی شریف میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ { یہ آواز دی گئی کہ اے امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تم اس سے پہلے مجھ سے مانگو میں نے تمہیں دے دیا اور اس سے پہلے تم مجھ سے دعا کرو میں قبول کر چکا } ۔ مقاتل رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ہم نے تیری امت کو جو ابھی باپ دادوں کی پیٹھ میں تھی آواز دی کہ جب تو نبی بنا کر بھیجا جائے تو وہ تیری اتباع کریں ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو آواز دی یہی زیادہ مشابہ اور مطابق ہے کیونکہ اوپر بھی یہی ذکر ہے ۔ اوپر عام طور بیان تھا یہاں خاص طور سے ذکر کیا ۔ جیسے اور آیت میں ہے «وَاِذْ نَادٰی رَبٰکَ مُوْسٰٓی اَنِ ائْتِ الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ» ۱؎ (26-الشعراء:10) ’ جبکہ تیرے پروردگار نے موسیٰ علیہ السلام کو آواز دی ‘ اور آیت «ذْ نَادَاہُ رَبٰہُ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًی» ۱؎ (79-النازعات:16) میں ہے کہ ’ وادی مقدس میں اللہ نے اپنے کلیم کو پکارا ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَنَادَیْنَاہُ مِن جَانِبِ الطٰورِ الْأَیْمَنِ وَقَرَّبْنَاہُ نَجِیًّا» ۱؎ (19-مریم:52) کہ ’ طور ایمن کی طرف سے ہم نے اسے پکارا اور سرگوشیاں کرتے ہوئے اسے اپنا قرب عطا فرمایا ‘ ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ ان میں سے ایک واقعہ بھی نہ تیری حاضری کا ہے نہ تیرا چشم دید ہے بلکہ یہ اللہ کی وحی ہے جو وہ اپنی رحمت سے تجھ پر فرما رہے ہیں اور یہ بھی اس کی رحمت ہے کہ اس نے تجھے اپنے بندوں کی طرف نبی بنا کر بھیجا ، کہ تو ان لوگوں کو آگاہ اور ہوشیار کر دے جن کے پاس تجھ سے پہلے کوئی نبی نہیں آیا تاکہ نصیحت حاصل کریں اور ہدایت پائیں ‘ ۔ اور اس لیے بھی کہ ان کی دلیل باقی نہ رہ جائے اور کوئی عذر ان کے ہاتھ میں نہ رہے اور یہ اپنے کفر کی وجہ سے عذابوں کو آتا دیکھ کر یہ نہ کہہ سکیں کہ ان کے پاس کوئی رسول آیا ہی نہ تھا جو انہیں راہ راست کی تعلیم دیتا اور جیسے کہ اپنی مبارک کتاب قرآن کریم کے نزول کو بیان فرما کر فرمایا کہ «أَن تَقُولُوا إِنَّمَا أُنزِلَ الْکِتَابُ عَلَیٰ طَائِفَتَیْنِ مِن قَبْلِنَا وَإِن کُنَّا عَن دِرَاسَتِہِمْ لَغَافِلِینَ أَوْ تَقُولُوا لَوْ أَنَّا أُنزِلَ عَلَیْنَا الْکِتَابُ لَکُنَّا أَہْدَیٰ مِنْہُمْ فَقَدْ جَاءَکُم بَیِّنَۃٌ مِّن رَّبِّکُمْ وَہُدًی وَرَحْمَۃٌ فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن کَذَّبَ بِآیَاتِ اللہِ وَصَدَفَ عَنْہَا سَنَجْزِی الَّذِینَ یَصْدِفُونَ عَنْ آیَاتِنَا سُوءَ الْعَذَابِ بِمَا کَانُوا یَصْدِفُونَ» ۱؎ (6-الأنعام:156،157) ’ یہ اس لیے ہے کہ تم یہ نہ کہہ سکو کہ کتاب تو ہم سے پہلے کی دونوں جماعت پر اترتی تھی لیکن ہم تو اس کی درس وتدریس سے بالکل غافل تھے اگر ہم پر کتاب نازل ہوتی تو یقیناً ہم ان سے زیادہ راہ راست پر آ جاتے ۔ اب بتاؤ کہ خود تمہارے پاس بھی تمہارے رب کی دلیل اور ہدایت و رحمت آ چکی ‘ ۔ اور آیت «رٰسُلًا مٰبَشِّرِینَ وَمُنذِرِینَ لِئَلَّا یَکُونَ لِلنَّاسِ عَلَی اللہِ حُجَّۃٌ بَعْدَ الرٰسُلِ وَکَانَ اللہُ عَزِیزًا حَکِیمًا» ( 4-النساء : 165 ) میں ہے ’ رسول ہیں خوشخبریاں دینے والے ڈرانے والے تاکہ ان رسولوں کے بعد کسی کی کوئی حجت اللہ پر باقی نہ رہ جائے ‘ ۔ اور آیت میں فرمایا «یٰٓاَہْلَ الْکِتٰبِ قَدْ جَاءَکُمْ رَسُوْلُنَا یُبَیِّنُ لَکُمْ عَلٰی فَتْرَۃٍ مِّنَ الرٰسُلِ» ۱؎ (5-المائدۃ:19) ، ’ اے اہل کتاب اس زمانہ میں جو رسولوں کی عدم موجودگی کا چلا آ رہا تھا ہمارا رسول تمہارے پاس آ چکا اب تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہمارے پاس کوئی بشیر ونذیر نہیں پہنچا لو خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا تمہارے پاس اللہ کی طرف سے آ پہنچا ‘ ۔ اور آیتیں بھی اس مضمون کی بہت ہیں غرض رسول آچکے اور تمہارا یہ عذر کٹ گیا کہ اگر رسول آتے تو ہم اس کی مانتے اور مومن ہو جاتے ۔ القصص
45 القصص
46 القصص
47 القصص
48 ہدایت کے لیئے معجزات ضروری نہیں پہلے بیان ہوا کہ ’ اگر نبیوں کے بھیجنے سے پہلے ہی ہم ان پر عذاب بھیج دیتے تو ان کی یہ بات رہ جاتی کہ اگر رسول ہمارے پاس آتے تو ہم ضرور ان کی مانتے اس لیے ہم نے رسول بھیجے ‘ ۔ بالخصوص رسول اکرم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آخر الزمان رسول بنا کر بھیجا ۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس پہنچے تو انہوں نے آنکھیں پھیر لیں منہ موڑ لیا اور تکبر عناد کے ساتھ ضد اور ہٹ دھرمی کے ساتھ کہنے لگے جیسے موسیٰ علیہ السلام کو بہت معجزات دئے گئے تھے جیسے لکڑی اور ہاتھ طوفان ٹڈیاں جوئیں مینڈک خون اور اناج کی پھلوں کی کمی وغیرہ جن سے دشمنان الٰہی تنگ آئے اور دریاکو چیرنا اور ابر کا سایہ کرنا اور من وسلویٰ کا اتارنا وغیرہ جو زبردست اور بڑے بڑے معجزے تھے انہیں کیوں نہیں دئیے گئے ؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے «ثُمَّ بَعَثْنَا مِن بَعْدِہِم مٰوسَیٰ وَہَارُونَ إِلَیٰ فِرْعَوْنَ وَمَلَئِہِ بِآیَاتِنَا فَاسْتَکْبَرُوا وَکَانُوا قَوْمًا مٰجْرِمِینَ» ۱؎ (10-یونس:78) ’ یہ لوگ جس واقعہ کو مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں اور جس جیسے معجزے طلب کر رہے ہیں یہ خود انہی معجزوں کو کلیم اللہ کے ہاتھ ہوتے ہوئے دیکھ کر بھی کون سا ایمان لائے تھے ؟ جو ان کے ایمان کی تمنا کرے ؟ انہوں نے تو یہ معجزے دیکھ کر صاف کہا تھا یہ دونوں بھائی ہمیں اپنے بڑوں کی تابعداری سے ہٹانا چاہتے ہیں اور اپنی بڑائی ہم سے منوانا چاہتے ہیں ہم تو ہرگز انہیں مان کر نہیں دیں گے ‘ ۔ «فَکَذَّبُوہُمَا فَکَانُوا مِنَ الْمُہْلَکِینَ» ۱؎ (23-المؤمنون:48) ’ دونوں نبیوں کو جھٹلاتے رہے آخر انجام ہلاک کر دئیے گئے ‘ ۔ تو فرمایا کہ ’ ان کے بڑے جو موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں تھے انہوں نے خود موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کفر کیا اور ان معجزوں کو دیکھ کر صاف کہہ دیا تھا کہ یہ دونوں بھائی آپس میں متفق ہو کر ہمیں زیر کرنے اور خود بڑا بننے کے لیے آئے ہیں تو ہم تو ان دونوں میں سے کسی کی بھی نہیں ماننے کے ‘ ۔ یہاں گو ذکر صرف موسیٰ علیہ السلام کا ہے لیکن چونکہ ہارون علیہ السلام ان کے ساتھ ایسے گھل مل گئے تھے کہ گویا دونوں ایک تھے تو ایک کے ذکر کے کو دووسرے کے ذکر کے لیے کافی سمجھا ۔ جیسے کسی شاعر کا قول ہے «فَمَا أَدْرِی إِذَا یَمَّمْت أَرْضًا أُرِید الْخَیْر أَیّہمَا یَلِینِی أَیْ فَمَا أَدْرِی یَلِینِی الْخَیْر أَوْ الشَّرّ» کہ جب میں کسی جگہ کا ارادہ کرتا ہوں تو میں نہیں جانتا کہ وہاں مجھے نفع ملے گا یا نقصان ہو گا ؟ تو یہاں بھی شاعر نے خیر کا لفظ تو کہا مگر شرط کا لفظ بیان نہیں کیونکہ خیر وشر دونوں کی ملازمت مقاربت اور مصاحبت ہے ۔ مجاہدرحمہ اللہ فرماتے ہیں یہودیوں نے قریش سے کہا کہ تم یہ اعتراض نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کرو انہوں نے کیا اور جواب پاکر خاموش رہے ایک قول یہ بھی ہے کہ دونوں جادوگروں سے مراد موسیٰ علیہ السلام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ ایک قول یہ بھی ہے کی مراد عیسیٰ علیہ السلام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں لیکن اس تیسرے قول میں تو بہت ہی بعد ہے اور دوسرے قول سے بھی پہلا قول مضبوط اور عمدہ ہے اور بہت قوی ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ یہ مطلب «سَاحِرَانِ» کی قرأت پر ہے اور جن کی قرأت «سِحْرَانِ» ہے ، وہ کہتے ہیں کہ مراد تورات اور قرآن ہے جو ایک دوسرے کی تصدیق کرنے والی ہیں ۔ کوئی کہتا ہے مراد تورات اور انجیل ہے۔ «وَاللہُ سُبْحَانَہُ وَ تَعَالیٰ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ» ۔ لیکن اس قرأت پر بھی ظاہری تورات و قرآن کے معنی ٹھیک ہیں کیونکہ اس کے بعد ہی فرمان اللہ ہے کہ ’ تم ہی ان دونوں سے زیادہ ہدایت کوئی کتاب اللہ کے ہاں سے لاؤ جس کی میں تابعداری کروں ‘ ۔ تورات اور قرآن کو اکثر ایک ہی جگہ میں بیان فرمایا گیا ہے ۔ جیسے فرمایا آیت «قُلْ مَنْ اَنْزَلَ الْکِتٰبَ الَّذِیْ جَاءَ بِہٖ مُوْسٰی نُوْرًا وَّہُدًی لِّلنَّاسِ تَجْعَلُوْنَہٗ قَرَاطِیْسَ تُبْدُوْنَہَا وَتُخْفُوْنَ کَثِیْرًا وَعُلِّمْتُمْ مَّا لَمْ تَعْلَمُوْٓا اَنْتُمْ وَلَآ اٰبَاؤُکُمْ قُلِ اللّٰہُ ثُمَّ ذَرْہُمْ فِیْ خَوْضِہِمْ یَلْعَبُوْنَ» ۱؎ (6-الأنعام:91-92) پس یہاں تورات کے نور وہدایت ہونے کا ذکر فرما کر پھر فرمایا آیت «وَھٰذَا کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ مُبٰرَکٌ فَاتَّبِعُوْہُ وَاتَّقُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ» ۱؎ (6-الأنعام:155) ’ اور اس کتاب کو بھی ہم نے ہی بابرکت بنا کر اتارا ہے ‘ ۔ اور سورت کے آخر میں فرمایا «ثُمَّ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ تَمَامًا عَلَی الَّذِیْٓ اَحْسَنَ وَتَفْصِیْلًا لِّکُلِّ شَیْءٍ وَّہُدًی وَّرَحْمَۃً لَّعَلَّہُمْ بِلِقَاءِ رَبِّہِمْ یُؤْمِنُوْنَ» ۱؎ (6-الأنعام:154) ’ پھر ہم نے موسیٰ کو کتاب دی ‘ اور فرمان ہے «وَھٰذَا کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ مُبٰرَکٌ فَاتَّبِعُوْہُ وَاتَّقُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ» ۱؎ (6-الأنعام:155) ’ اس ہماری اتاری ہوئی مبارک کتاب کی تم پیروی کرو اللہ سے ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے ‘ ۔ جنات کا قول قرآن میں ہے «قَالُوا یَا قَوْمَنَا إِنَّا سَمِعْنَا کِتَابًا أُنزِلَ مِن بَعْدِ مُوسَیٰ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ یَہْدِی إِلَی الْحَقِّ وَإِلَیٰ طَرِیقٍ مٰسْتَقِیمٍ» ۱؎ (46-الأحقاف:30) کہ ’ انہوں نے کہا ہم نے وہ کتاب سنی جو موسیٰ علیہ السلام کے بعد اتاری گئی ہے جو اپنے سے پہلے کی اور الہامی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے ‘ ۔ ورقہ بن نوفل کا مقولہ حدیث کی کتابوں میں مروی ہے کہ انہوں نے کہا تھا یہ وہی اللہ کے راز داں بھیدی ہیں جو موسیٰ علیہ السلام کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھیجے گئے ہیں ۔ جس شخص نے غائر نظر سے علم دین کا مطالعہ کیا ہے اس پر یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ آسمانی کتابوں میں سب سے زیادہ عظمت وشرافت والی عزت وکرامت والی کتاب تو یہی قرآن مجید فرقان حمید ہے جو اللہ تعالیٰ حمید و مجید نے اپنے رؤف ورحیم نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمائی ۔ اس کے بعد تورات شریف کا درجہ ہے جس میں ہدایت ونور تھا «إِنَّا أَنزَلْنَا التَّوْرَاۃَ فِیہَا ہُدًی وَنُورٌ یَحْکُمُ بِہَا النَّبِیٰونَ الَّذِینَ أَسْلَمُوا لِلَّذِینَ ہَادُوا وَالرَّبَّانِیٰونَ وَالْأَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوا مِن کِتَابِ اللہِ وَکَانُوا عَلَیْہِ شُہَدَاءَ» ۱؎ (5-المائدۃ:44) جس کے مطابق انیباء اور ان کے ماتحت حکم احکام جاری کرتے رہے ۔ انجیل تو صرف توراۃ کو تمام کرنے والی اور بعض حرام کو حلال کرنے والی تھی اس لیے فرمایا کہ ’ ان دونوں کتابوں سے بہتر کتاب اگر تم اللہ کے ہاں سے لاؤ تو میں اس کی تابعداری کرونگا ‘ ۔ پھر فرمایا کہ ’ جو آپ کہتے ہیں وہ بھی اگر یہ نہ کریں اور نہ آپ کی تابعداری کریں تو جان لے کہ دراصل انہیں دلیل برہان کی کوئی حاجت ہی نہیں ۔ یہ صرف جھگڑالو ہیں اور خواہش پرست ہیں ‘ ۔ اور ظاہر ہے کہ خواہش کے پابند لوگوں سے جو اللہ کی ہدایت سے خالی ہوں بڑھ کر کوئی ظالم نہیں ۔ اس میں انہماک کر کے جو لوگ اپنی جانوں پر ظلم کریں وہ آخر تک راہ راست سے محروم رہ جاتے ہیں ۔ ہم نے ان کے لیے تفصیلی قول بیان کر دیا واضح کر دیا صاف کر دیا اگلی پچھلی باتیں بیان کر دیں قریشوں کے سامنے سب کچھ ظاہر کر دیا ۔ بعض مراد اس سے رفاعہ لیتے ہیں اور ان کے ساتھ کے اور نو آدمی ۔ یہ رفاعہ صفیہ بن حی کے ماموں ہیں جنہوں نے تمیمیہ بن وہب کو طلاق دی تھی جن کا دوسرا نکاح عبدالرحمٰن بن زبیر رضی اللہ عنہ سے ہوا تھا ۔ القصص
49 القصص
50 القصص
51 القصص
52 اہل کتاب علماء اہل کتاب کے علماء درحقیقت اللہ کے دوست تھے ان کے پاکیزہ اوصاف بیان ہو رہے ہیں کہ وہ قرآن کو مانتے ہیں جیسے فرمان ہے «الَّذِینَ آتَیْنَاہُمُ الْکِتَابَ یَتْلُونَہُ حَقَّ تِلَاوَتِہِ أُولٰئِکَ یُؤْمِنُونَ بِہِ» ۱؎ (2-البقرۃ:121) ’ جنہیں ہم نے کتاب دی ہے اور وہ سمجھ بوجھ کر پڑھتے ہیں ان کا تو اس قرآن پر ایمان ہے ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَإِنَّ مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ لَمَن یُؤْمِنُ بِ اللہِ وَمَا أُنزِلَ إِلَیْکُمْ وَمَا أُنزِلَ إِلَیْہِمْ خَاشِعِینَ لِلہِ» ۱؎ (3-آل عمران:199) کہ ’ بعض اہل کتاب ایسے بھی ہیں جو اللہ کو مان کر تمہاری طرف نازل شدہ کتاب اور اپنی طرف اتری ہوئی کتاب کو بھی مانتے ہیں اور اللہ سے ڈرتے رہتے ہیں ‘ ۔ اور جگہ ہے «قُلْ آمِنُوا بِہِ أَوْ لَا تُؤْمِنُوا إِنَّ الَّذِینَ أُوتُوا الْعِلْمَ مِن قَبْلِہِ إِذَا یُتْلَیٰ عَلَیْہِمْ یَخِرٰونَ لِلْأَذْقَانِ سُجَّدًا وَّیَـقُوْلُوْنَ سُبْحٰنَ رَبِّنَآ اِنْ کَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُوْلًا» ۱؎ (17-الإسراء:107-108) ’ پہلے کے اہل کتاب ایسے بھی ہیں کہ ہمارے اس قرآن کی آیتیں سن کر سجدوں میں گر پڑتے ہیں اور زبان سے کہتے ہیں کہ «سُبْحٰنَ رَبِّنَآ اِنْ کَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُوْلًا» ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَلَتَجِدَنَّ اَقْرَبَہُمْ مَّوَدَّۃً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّا نَصٰرٰی ذٰلِکَ بِاَنَّ مِنْہُمْ قِسِّیْسِیْنَ وَرُہْبَانًا وَّاَنَّہُمْ لَا یَسْتَکْبِرُوْنَ» ۱؎ (5-المائدۃ:82) ، یعنی ’ مسلمانوں کے ساتھ دوستی کے اعتبار سے سب لوگوں سے قریب تر انہیں پاؤ گے جو اپنے تئیں نصاریٰ کہتے ہیں ‘ ، اس لیے کہ ان میں علماء اور مشائخ تھے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں نجاشی حبشہ کے بھیجے ہوئے آئے تھے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سورۃ یاسین سنائی جسے سن کر یہ رونے لگے اور مسلمان ہو گئے ۔ انہی کے بارے میں یہ آیتیں اتریں کہ ’ یہ انہیں سنتے ہی اپنے موحد مخلص ہونے کا اقرار کرتے ہیں اور قبول کر کے مومن مسلم بن جاتے ہیں ‘ ۔ ان کی ان صفتوں پر اللہ بھی انہیں دوہرا اجر دیتا ہے ایک پہلی کتاب کو ماننے کا دوسرا قرآن کو تسلیم کرنے وتعمیل کا ۔ یہ اتباع حق پر ثابت قدمی کرتے ہیں جو دراصل ایک مشکل اور اہم کام ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ { تین قسم کے لوگوں کو دوہرا اجر ملتا ہے اہل کتاب جو اپنے نبی علیہ السلام کو مان کر پھر مجھ پر بھی ایمان لائے ۔ غلام مملوک جو اپنے مجازی آقا کی فرماں برداری کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حق کی ادائیگی بھی کرتا رہے اور وہ شخص جس کے پاس کوئی لونڈی ہو جسے وہ ادب وعلم سکھائے پھر آزاد کرے اور اس سے نکاح کر لے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:98) ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں { فتح مکہ والے دن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کے ساتھ ہی اور بالکل پاس ہی تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت بہترین باتیں ارشاد فرمائیں جن میں یہ بھی فرمایا کہ { یہود ونصاریٰ میں جو مسلمان ہو جائے اسے دوہرا دوہرا اجر ہے اور اس کے عام مسلمانوں کے برابر حقوق ہیں } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:259/5:صحیح) پھر ان کے نیک اوصاف بیان ہو رہے ہیں کہ یہ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں لیتے بلکہ معاف کر دیتے ہیں ، درگزر کر دیتے ہیں ، اور نیک سلوک ہی کرتے ہیں اور اپنی حلال روزیاں اللہ کے نام خرچ کرتے ہیں اپنے بال بچوں کا پیٹ بھی پالتے ہیں زکوٰۃ صدقات وخیرات میں بھی بخیلی نہیں کرتے ۔ لغویات سے بچے ہوئے رہتے ہیں ۔ ایسے لوگوں سے دوستیاں نہیں کرتے ایسی مجلسوں سے دور رہتے ہیں بلکہ اگر اچانک گزر ہو بھی جائے تو بزرگانہ طور پر ہٹ جاتے ہیں ایسوں سے میل جول الفت محبت نہیں کرتے صاف کہہ دیتے ہیں کہ تمہاری کرنی تمہارے ساتھ ہمارے اعمال ہمارے ساتھ ۔ یعنی جاہلوں کی سخت کلامی برداشت کر لیتے ہیں انہیں ایسا جواب نہیں دیتے کہ وہ اور بھڑکیں بلکہ چشم پوشی کر لیتے ہیں اور کترا کر نکل جاتے ہیں ۔ چونکہ خود پاک نفس ہیں اس لیے پاکیزہ کلام ہی منہ سے نکالتے ہیں ۔ کہہ دیتے ہیں کہ تم پر سلام ہو ، ہم نہ جاہلانہ روش پر چلیں نہ جہالت کی چال کو پسند کریں ۔ امام محمد بن اسحاق رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حبشہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تقریباً بیس نصرانی آئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت مسجد میں تشریف فرما تھے یہیں یہ بھی بیٹھ گئے اور بات چیت شروع کی اس وقت قریشی اپنی اپنی بیٹھکوں میں کعبہ کے اردگرد بیٹھے ہوئے تھے ۔ ان عیسائی علماء نے جب سوالات کرلئے اور جوابات سے ان کی تشفی ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین اسلام ان کے سامنے پیش کیا اور قرآن کریم کی تلاوت کر کے انہیں سنائی ۔ چونکہ یہ لوگ پڑھے لکھے سنجیدہ اور روشن دماغ تھے قرآن نے ان کے دلوں پر اثر کیا اور ان کے آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ۔ انہوں نے فوراً دین اسلام قبول کر لیا اور اللہ پر اور اللہ کے رسول پر ایمان لائے ۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جو صفتیں انہوں نے اپنی آسمانی کتابوں میں پڑھی تھیں سب آپ میں موجود پائیں ۔ جب یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جانے لگے تو ابوجہل بن ہشام ملعون اپنے آدمیوں کو لیے ہوئے انہیں راستے میں ملا اور تمام قریشیوں نے مل کر انہیں طعنے دینے شروع کئے اور برا کہنے لگے کہ تم سے بدترین وفد کسی قوم کا ہم نے نہیں دیکھا تمہاری قوم نے تمہیں اس شخص کے حالات معلوم کرنے کے لیے بھیجا یہاں تم نے آبائی مذہب کو چھوڑ دیا اور اس کا ایسا رنگ تم پر چڑھا کہ ذراسی دیر میں اپنے دین کو ترک کر کے دین بدلدیا اور اسی کا کلمہ پڑھنے لگے تم سے زیادہ احمق ہم نے کسی کو نہیں دیکھا ۔ انہوں نے ٹھنڈے دل سے یہ سب سن لیا اور جواب دیا کہ ہم تمہارے ساتھ جاہلانہ باتیں کرنا پسند نہیں کرتے ہمارا دین ہمارے ساتھ تمہارا مذہب تمہارے ساتھ ۔ ہم نے جس بات میں اپنی بھلائی دیکھی اسے قبول کر لیا ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ وفد نجران کے نصرانیوں کا تھا «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ آیتیں انہی کے بارے میں اتری ہیں ۔ زہری رحمہ اللہ سے ان آیتوں کا شان نزول پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا میں تو اپنے علماء سے یہی سنتا چلا آیا ہوں کہ یہ آیتیں نجاشی اور ان کے اصحاب رضی اللہ عنہم کے بارے میں اتری ہیں ۔ اور سورۃ المائدہ کی آیتیں «لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِّلَّذِینَ آمَنُوا الْیَہُودَ وَالَّذِینَ أَشْرَکُوا وَلَتَجِدَنَّ أَقْرَبَہُم مَّوَدَّۃً لِّلَّذِینَ آمَنُوا الَّذِینَ قَالُوا إِنَّا نَصَارَیٰ ذٰلِکَ بِأَنَّ مِنْہُمْ قِسِّیسِینَ وَرُہْبَانًا وَأَنَّہُمْ لَا یَسْتَکْبِرُونَ وَإِذَا سَمِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَی الرَّسُولِ تَرَیٰ أَعْیُنَہُمْ تَفِیضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوا مِنَ الْحَقِّ یَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاکْتُبْنَا مَعَ الشَّاہِدِینَ» ۱؎ (5-المائدۃ:82،83) تک کی آیتیں بھی انہی کے بارے میں نازل ہوئی ہیں ۔ القصص
53 القصص
54 القصص
55 القصص
56 ہدایت صرف اللہ کے ذمہ ہے ’ اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی کا ہدایت قبول کرنا تمہارے قبضے کی چیز نہیں ۔ آپ پر تو صرف پیغام اللہ کے پہنچادینے کا فریضہ ہے ۔ ہدایت کا مالک اللہ ہے وہ اپنی حکمت کے ساتھ جسے چاہے قبول ہدایت کی توفیق بخشتا ہے ‘ ۔ جیسے فرمان ہے آیت «لَّیْسَ عَلَیْکَ ہُدَاہُمْ وَلٰکِنَّ اللہَ یَہْدِی مَن یَشَاءُ» ۱؎ (2-البقرۃ:272) ’ تیرے ذمہ ان کی ہدایت نہیں وہ چاہے تو ہدایت بخشے ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَمَآ اَکْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِیْنَ» ۱؎ (12-یوسف:103) ’ گو تو ہر چند طمع کرے لیکن ان میں سے اکثر ایماندار نہیں ہوتے ‘ کہ یہ اللہ کے ہی علم میں ہے کہ مستحق ہدایت کون ہے ؟ اور مستحق ضلالت کون ہے ؟ بخاری و مسلم میں ہے کہ { یہ آیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابوطالب کے بارے میں اتری جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بہت طرف دار تھا اور ہر موقعہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کرتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیتا تھا ۔ اور دل سے محبت کرتا تھا لیکن یہ محبت بوجہ رشتہ داری کے طبعی تھی شرعاً نہ تھی ۔ جب اس کی موت کا وقت قریب آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اسلام کی دعوت دی اور ایمان لانے کی رغبت دلائی لیکن تقدیر کا لکھا اور اللہ کا چاہا غالب آگیا یہ ہاتھوں میں سے پھسل گیا اور اپنے کفر پر اڑا رہا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے انتقال پر اس کے پاس آئے ۔ ابوجہل اور عبداللہ بن امیہ بھی اس کے پاس بیٹھے ہوئے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { «لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ» کہو میں اس کی وجہ سے اللہ کے ہاں تیرا سفارشی بن جاؤنگا } ۔ ابوجہل اور عبداللہ کہنے لگے ابوطالب کیا تو اپنے باپ عبدالمطلب کے مذہب سے پھر جائے گا ۔ اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سمجھاتے اور وہ دونوں اسے روکتے یہاں تک کہ آخر کلمہ اس کی زبان سے یہی نکلتا کہ میں یہ کلمہ نہیں پڑھتا اور میں عبدالمطلب کے مذہب پر ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { بہتر میں تیرے لیے رب سے استغفار کرتا رہونگا یہ اور بات ہے کہ میں روک دیا جاؤں اللہ مجھے منع فرما دے } ۔ لیکن اسی وقت آیت اتری کہ «‏‏‏‏مَا کَان للنَّبِیِّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ یَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِکِیْنَ وَلَوْ کَانُوْٓا اُولِیْ قُرْبٰی مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَھُمْ اَنَّھُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ» ۱؎ (9-التوبۃ:113) یعنی ’ نبی کو اور مومن کو ہرگز یہ بات سزاوار نہیں کہ وہ مشرکوں کے لیے استغفار کریں گو وہ ان کے نزدیکی قرابتدار ہی کیوں نہ ہوں ‘ اور اسی ابوطالب کے بارے میں آیت «‏‏‏‏اِنَّکَ لَا تَہْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَہْدِیْ مَنْ یَّشَاءُ وَہُوَ اَعْلَمُ بالْمُہْتَدِیْنَ» ‏‏‏‏ ۱؎ (28-القصص:56) بھی نازل ہوئی } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3884) ترمذی وغیرہ میں ہے کہ { ابوطالب کے مرض الموت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا کہ { چجا «لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ» کہہ لو میں اس کی گواہی قیامت کے دن دے دونگا } ، تو اس نے کہا اگر مجھے اپنے خاندان قریش کے اس طعنے کا خوف نہ ہو اس نے موت کی گھبراہٹ کی وجہ سے یہ کہہ لیا تو میں اسے کہہ کر تیری آنکھوں کو ٹھنڈی کر دیتا مگر پھر بھی اسے تیری خوشی کے لیے کہتا ہوں ۔ اس پر یہ آیت اتری } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:25) دوسری روایت میں ہے کہ اس نے کلمہ پڑھنے سے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ میرے بھتیجے میں تو اپنے بڑوں کی روش پر ہوں ۔ اور اسی بات پر اس کی موت ہوئی کہ وہ عبدالمطلب کے مذہب پر ہے ۔ قیصر کا قاصد جب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور قیصر کا خط خدمت نبوی میں پیش کیا تو { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی گود میں رکھ کر فرمایا : { تو کس قبیلے سے ہے ؟ } اس نے کہا تیرج قبیلے کا آدمی ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ { تیرا قصد ہے کہ تو اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام کے دین پر آ جائے ؟ } اس نے جواب دیا کہ میں جس قوم کا قاصد ہوں جب تک ان کے پیغام کا جواب انہیں نہ پہنچا دوں ان کے مذہب کو نہیں چھوڑ سکتا ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکرا کر اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرف دیکھ کر یہی آیت پڑھی } ۔ ۱؎ (مسند احمد:441/3:ضعیف) مشرکین اپنے ایمان نہ لانے کی ایک وجہ یہ بھی بیان کرتے تھے کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی ہدایت کو مان لیں تو ہمیں ڈر لگتا ہے کہ اس دین کے مخالف جو ہمارے چاروں طرف ہیں اور تعداد میں مال میں ہم سے زیادہ ہیں ۔ وہ ہمارے دشمن بن جائیں گے اور ہمیں تکلیفیں پہنچائیں گی اور ہمیں برباد کر دیں گے ۔ اللہ فرماتا ہے کہ ’ یہ حیلہ بھی ان کا غلط ہے اللہ نے انہیں حرم محترم میں رکھا ہے جہاں شروع دنیا سے اب تک امن وامان رہا ہے تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ حالت کفر میں تو یہاں امن سے رہیں اور جب اللہ کے سچے دین کو قبول کریں تو امن اٹھ جائے ؟‘ یہی تو وہ شہر ہے کہ طائف وغیرہ مختلف مقامات سے پھل فروٹ سامان اسباب مال تجارت وغیرہ کی آمد و رفت بکثرت رہتی ہے ۔ تمام چیزیں یہاں کھنچی چلی آتی ہیں اور ہم انہیں بیٹھے بٹھائے روزیاں پہنچا رہے ہیں لیکن ان میں اکثر بے علم ہیں ۔ اسی لیے ایسے رکیک حیلے اور بے جا عذر پیش کرتے ہیں مروی ہے کہ یہ کہنے والاحارث بن عامر بن نوفل تھا ۔ القصص
57 القصص
58 اہل مکہ کو تنبیہہ اہل مکہ کو ہوشیار کیا جاتا ہے کہ جو اللہ کے بہت سی نعمتیں حاصل کر کے اترا رہے تھے اور سرکشی اور بڑائی کرتے تھے اور اللہ سے کفر کرتے تھے نبی علیہ السلام کا انکار کرتے تھے اور اللہ کی روزیاں کھاتے تھے اور اس کی نمک حرامی کرتے تھے انہیں اللہ تعالیٰ نے اس طرح تباہ و برباد کر دیا کہ آج ان کا نام لینے والا نہیں رہا ۔ جیسے اور آیت میں ہے «وَضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا قَرْیَۃً کَانَتْ اٰمِنَۃً مٰطْمَیِٕنَّۃً یَّاْتِیْہَا رِزْقُہَا رَغَدًا مِّنْ کُلِّ مَکَانٍ فَکَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللّٰہِ فَاَذَاقَہَا اللّٰہُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَالْخَوْفِ بِمَا کَانُوْا یَصْنَعُوْنَ» (16-النحل:112-113) ، یہاں فرماتا ہے کہ ’ ان کی اجڑی ہوئی بستیاں اب تک اجڑی پڑی ہیں ۔ کچھ یونہی سی آبادی اگرچہ ہو گئی ہو لیکن دیکھو ان کے کھنڈرات سے آج تک وحشت برس رہی ہے ہم ہی ان کے مالک رہ گئے ہیں ‘ ۔ کعب رحمہ اللہ (تابعی) کا قول ہے کہ ” الو سے سلیمان علیہ السلام نے دریافت فرمایا کہ ” تو کھیتی اناج کیوں نہیں کھاتا ؟ “ اس نے کہا کہ اس لیے کہ اسی کے باعث آدم علیہ السلام جنت سے نکالے گئے پوچھا ” پانی کیوں نہیں پیتا ؟ “ کہا اس لیے کہ قوم نوح علیہ السلام اسی میں ڈبودی گئی ۔ پوچھا ” ویرانے میں کیوں رہتا ہے ؟ “ کہا اس لیے کہ وہ اللہ کی میراث ہے ۔ پھر کعب رحمہ اللہ نے آیت «وَکُنَّا نَحْنُ الْوٰرِثِیْنَ» (28-القص:58) پڑھا ۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے عدل وانصاف کو بیان فرما رہا ہے کہ ’ وہ کسی کے ظلم سے ہلاک نہیں کرتا پہلے ان پر اپنی حجت ختم کرتا ہے اور ان کا عذر دور کرتا ہے ۔ رسولوں کو بھیج کر اپنا کلام ان تک پہنچاتا ہے ‘ ۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت عام تھی آپ ام القریٰ میں مبعوث ہوئے تھے ۔ اور تمام عرب وعجم کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے تھے جیسے فرمان ہے آیت «لِّتُنذِرَ أُمَّ الْقُرَیٰ وَمَنْ حَوْلَہَا» ۱؎ (42-الشوری:7) ’ تاکہ تو مکہ والوں کو اور دوسرے شہر والوں کو ڈرادے ‘ اور فرمایا آیت «قُلْ یَا أَیٰہَا النَّاسُ إِنِّی رَ‌سُولُ اللہِ إِلَیْکُمْ جَمِیعًا الَّذِی لَہُ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ» ۱؎ (7-الأعراف:158) ’ کہہ دے کہ اے لوگو ! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں ‘ اور آیت میں ہے «لِاُنْذِرَکُمْ بِہٖ وَمَنْ بَلَغَ» ۱؎ (6-الأنعام:19) ’ تاکہ اس قرآن سے میں تمہیں بھی ڈرادوں اور ہر اس شخص کو جس تک یہ قرآن پہنچے ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَمَنْ یَّکْفُرْ بِہٖ مِنَ الْاَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُہٗ» ۱؎ (11-ھود:17) ’ اس قرآن کے ساتھ دنیا والوں میں سے جو بھی کفر کریں اس کے وعدے کی جگہ جہنم ہے ‘ ۔ اور جگہ اللہ کا فرمان ہے آیت «وَاِنْ مِّنْ قَرْیَۃٍ اِلَّا نَحْنُ مُہْلِکُوْہَا قَبْلَ یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ اَوْ مُعَذِّبُوْہَا عَذَابًا شَدِیْدًا کَانَ ذٰلِکَ فِی الْکِتٰبِ مَسْطُوْرًا» ۱؎ (17-الإسراء:58) ، یعنی ’ تمام بستیوں کو ہم قیامت سے پہلے ہلاک کرنے والے ہیں یا سخت عذاب کرنے والے ہیں ‘ ۔ پس خبر دی کہ قیامت سے پہلے وہ سب بستیوں کو برباد کر دے گا ۔ اور آیت میں ہے «وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِینَ حَتَّیٰ نَبْعَثَ رَسُولًا» ۱؎ (17-الإسراء:15) کہ ’ ہم جب تک رسول نہ بھیج دیں عذاب نہیں کرتے ‘ ۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کو عام کر دیا اور تمام جہاں کے لیے کر دیا اور مکہ میں جو کہ تمام دنیا کا مرکز ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرما کر ساری دنیا پر اپنی حجت ختم کر دی ۔ بخاری و مسلم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مروی ہے کہ { میں تمام سیاہ سفید کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:521) اسی لیے نبوت ورسالت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کر دیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سے قیامت تک نہ کوئی نبی آئے گا نہ رسول ۔ کہا گیا کہ مراد «اُمٰ الْقُرَیٰ» سے اصل اور بڑا قریہ ہے ۔ القصص
59 القصص
60 دنیا اور اخرت کا تقابلی جائزہ اللہ تعالیٰ دنیا کی حقارت اس کی رونق کی قلت و ذلت اس کی ناپائیداری بے ثباتی اور برائی بیان فرما رہا ہے اور اس کے مقابلہ میں آخرت کی نعمتوں کی پائیداری دوام عظمت اور قیام کا ذکر فرما رہے ہیں ۔ جیسے ارشاد ہے آیت «مَا عِنْدَکُمْ یَنْفَدُ وَمَا عِنْدَ اللّٰہِ بَاقٍ وَلَنَجْزِیَنَّ الَّذِیْنَ صَبَرُوْٓا اَجْرَہُمْ بِاَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ» ۱؎ (16-النحل:96) ’ تمہارے پاس جو کچھ ہے فنا ہونے والا ہے ۔ اور اللہ کے پاس تمام چیزیں بقا والی ہیں ‘ ۔ «وَمَا عِندَ اللہِ خَیْرٌ لِّلْأَبْرَارِ» ۱؎ (3-آل عمران:198) ’ اللہ کے پاس جو ہے وہ نیک لوگوں کے لیے بہت ہی بہتر اور عمدہ ہے ‘ ۔ «وَمَا الْحَیَاۃُ الدٰنْیَا فِی الْآخِرَۃِ إِلَّا مَتَاعٌ» ۱؎ (13-الرعد:26) ’ آخرت کے مقابلہ میں دنیا تو کچھ بھی نہیں ‘ ۔ «بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَیَاۃَ الدٰنْیَا وَالْآخِرَۃُ خَیْرٌ وَأَبْقَیٰ» (87-الأعلی:16،17) ’ لیکن افسوس کہ لوگ دنیا کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور آخرت سے غافل ہو رہے ہیں جو بہت بہتر اور بہت باقی رہنے والی ہے ‘ ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { دنیا آخرت کے مقابلہ میں ایسی ہے جیسے تم میں سے کوئی سمندر میں انگلی ڈبو کر نکال لے پھر دیکھ لے کہ اس کی انگلی پر جو پانی چڑھا ہوا ہے وہ سمندر کے مقابلہ میں کتنا کچھ ہے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2858) افسوس کہ اس پر بھی اکثر لوگ اپنی کم علمی اور بےعلمی کے باعث دنیا کے متوالے ہو رہے ہیں ۔ خیال کر لو ایک تو وہ جو اللہ پر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان و یقین رکھتا ہو اور ایک وہ جو ایمان نہ لایا ہو نتیجے کے اعتبار سے برابر ہو سکتے ہیں ؟ ایمان والوں کے ساتھ تو اللہ کا جنت کا اور اپنی بےشمار ان مٹ غیر فانی نعمتوں کا وعدہ ہے اور کافر کے ساتھ وہاں کے عذابوں کا ڈراوا ہے گو دنیا میں کچھ روز عیش ہی منالے ۔ مروی ہے کہ یہ آیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوجہل کے بارے میں نازل ہوئی ایک قول یہ بھی ہے کہ سیدنا حمزہ ، سیدنا علی رضی اللہ عنہم اور ابوجہل کے بارے میں یہ آیت اتری ہے ۔ ظاہر یہ ہے کہ یہ آیت عام ہے جیسے فرمان اللہ ہے کہ جنتی مومن اپنے جنت کے درجوں سے جھانک کر جہنمی کافر کو جہنم کے جیل خانہ میں دیکھ کر کہے گا «وَلَوْلَا نِعْمَۃُ رَبِّیْ لَکُنْتُ مِنَ الْمُحْضَرِیْنَ» ۱؎ (37-الصافات:57) ’ اگر مجھ پر میرے رب کا انعام نہ ہوتا تو میں بھی ان عذابوں میں پھنس جاتا ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّۃُ اِنَّہُمْ لَمُحْضَرُوْنَ» ۱؎ (37-الصافات:158) ’ جنات کو یقین ہے کہ وہ حاضر کیے جانے والوں میں سے ہیں ‘ ۔ القصص
61 القصص
62 کہاں ہیں تمہارے بت مشرکوں کو قیامت کے دن پکار کر سامنے کھڑا کر کے اللہ تبارک وتعالیٰ فرمائے گا کہ ’ دنیا میں جنہیں تم میرے سوا پوجتے رہے جن بتوں اور پتھروں کو مانتے رہے ہو وہ کہاں ہیں ؟ انہیں پکارو اور دیکھو کہ وہ تمہاری کچھ مدد کرتے ہیں ؟ یا وہ خود اپنی کوئی مدد کر سکتے ہیں ؟ ‘ یہ صرف بطور ڈانٹ ڈپٹ کے ہو گا ۔ جیسے فرمان ہے آیت «وَلَقَدْ جِئْتُمُوْنَا فُرَادٰی کَمَا خَلَقْنٰکُمْ اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّتَرَکْتُمْ مَّا خَوَّلْنٰکُمْ وَرَاءَ ظُہُوْرِکُمْ وَمَا نَرٰی مَعَکُمْ شُفَعَاءَکُمُ الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ اَنَّہُمْ فِیْکُمْ شُرَکٰؤُا لَقَدْ تَّقَطَّعَ بَیْنَکُمْ وَضَلَّ عَنْکُمْ مَّا کُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ» ۱؎ (6-الأنعام:94) ، یعنی ’ ہم تمہیں ویسے ہی تن تنہا اور ایک ایک کر کے لائیں گے جیسے ہم نے اول دفعہ پیدا کیا تھا اور جو کچھ ہم نے تمہیں یاد دلایا تھا وہ سب تم اپنے پیچھے ہی چھوڑ آئے ۔ ہم تو آج تمہارے ساتھ کسی سفارشی کو بھی نہیں دیکھتے جنہیں تم شریک الٰہی ٹھیرائے ہوئے تھے ۔ تم میں ان میں کوئی لگاؤ نہیں رہا اور تمہارے گمان کردہ شریک سب آج تم سے کھوئے ہوئے ہیں ۔ جن پر عذاب کی بات ثابت ہو چکی ‘ ۔ یعنی شیاطین اور سرکش لوگ اور کفر کے بانی اور شرک کی طرف لوگوں کو بلانے والے یہ سب بڑے بڑے لوگ اس دن کہیں گے کہ اے اللہ ہم نے انہیں گمراہ کیا اور انہوں نے ہماری کفریہ باتیں سنیں اور مانیں جیسے ہم بہکے ہوئے تھے انہیں بھی بہکایا ۔ ہم ان کی عبادت سے تیرے سامنے اپنی بیزاری کا اظہار کرتے ہیں ۔ جیسے اور آیت میں ہے «وَاتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اٰلِہَۃً لِّیَکُوْنُوْا لَہُمْ عِزًّا» الخ ۱؎ (19-مریم:81-82) ، ’ انہوں نے اللہ کے سوا اور معبود بنالئے تاکہ وہ ان کے لیے باعث عزت بنیں لیکن ایسا نہیں ہونے کا یہ تو ان کی عبادت سے بھی انکار کر جائیں گے اور الٹے ان کے دشمن بن جائیں گے ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَمَنْ اَضَلٰ مِمَّنْ یَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَنْ لَّا یَسْتَجِیْبُ لَہٗٓ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ وَہُمْ عَنْ دُعَایِٕہِمْ غٰفِلُوْنَ» الخ ۱؎ (46-الأحقاف:5-6) ، ’ اس سے بڑھ کر گمراہ کون ہے جو اللہ کے سوا دوسروں کو پکارتا ہے جو قیامت کی گھڑی تک انہیں جواب نہ دے سکیں اور وہ ان کی پکار سے بھی غافل ہوں اور قیامت کے دن لوگوں کے حشر کے موقعہ پر ان کے دشمن بن جائیں اور اس بات سے صاف انکار کر دیں کہ انہوں نے ان کی عبادت کی تھی ‘ ۔ خلیل اللہ علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا کہ ” تم نے جن بتوں کی پوجا پاٹ شروع کر رکھی ہے ان سے صرف دنیاکی ہی دوستی ہے قیامت کے دن تو تم سب ایک دوسرے کے منکر ہو جاؤ گے اور ایک دوسرے پر لعنت بھیجو گے “ ۔ اور آیت میں ہے «اِذْ تَبَرَّاَ الَّذِیْنَ اتٰبِعُوْا مِنَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْا وَرَاَوُا الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِہِمُ الْاَسْـبَابُ» الخ ۱؎ (2-البقرۃ:167-166) ، یعنی ’ جو تابعداری کرنے والے تھے اور وہ ان کی پرجوش کی تابعداری کرتے رہے مگر یہ ان سے بری اور بیزار ہو جائیں گے یعنی عذابوں کو سامنے دیکھتے ہوئے سب تعلقات ٹوٹ جائیں گے ‘ ۔ ان سے فرمایا جائے گا کہ ’ دنیا میں جنہیں پوجتے رہے ہو آج انہیں کیوں نہیں پکارتے ؟‘ اب یہ پکاریں گے لیکن کوئی جواب نہ پائیں گے اور انہیں یقین ہو جائے گا کہ یہ آگ کے عذاب میں جائیں گے اس وقت آرزو کریں گے کہ کاش ہم راہ یافتہ ہوتے ؟ القصص
63 القصص
64 1 جیسے ارشاد ہے کہ «وَیَوْمَ یَقُوْلُ نَادُوْا شُرَکَاءِیَ الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ فَدَعَوْہُمْ فَلَمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَہُمْ وَجَعَلْنَا بَیْنَہُمْ مَّوْبِقًا» الخ ۱؎ (18-الکہف:53-52) ، ’ جس دن فرمائے گا کہ میرے ان شریکوں کو آواز دو جنہیں تم بہت کچھ سمجھ رہے تھے یہ پکاریں گے لیکن وہ جواب نہ دیں گے اور ہم ان کے اور ان کے درمیان آڑ کریں گے مجرم لوگ دوزخ کو دیکھیں گے پھر باور کرائیں گے کہ وہ اس میں گرنے والے ہیں لیکن اس سے بچنے کی کوئی راہ نہ پائیں گے ‘ ۔ اسی قیامت والے دن ان سب کو سنا کر ایک سوال یہ بھی ہو گا کہ ’ تم نے میرے انبیاء علیہم السلام کو کیا جواب دیا ؟ اور کہاں تک ان کا ساتھ دیا ؟ ‘ پہلے توحید کے متعلق بازپرس تھی اب رسالت کے متعلق سوال جواب ہو رہے ہیں ۔ اسی طرح قبر میں بھی سوال ہوتا ہے کہ تیرا رب کون ہے ؟ تیرا نبی کون ہے ؟ اور تیرا دین کیا ہے ؟ مومن جواب دیتا ہے کہ میرا معبود صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے اور میرے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو اللہ کے بندے اور اس کے رسول تھے [ سلام علیہ ] ہاں کافر سے کوئی جواب نہیں بن پڑتا وہ گھبراہٹ اور پریشانی سے کہتا ہے مجھے اس کی کوئی خبر نہیں ۔ اندھا بہرا ہو جاتا ہے ۔ جیسے فرمایا آیت «وَمَنْ کَانَ فِیْ ہٰذِہٖٓ اَعْمٰی فَہُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ اَعْمٰی وَاَضَلٰ سَبِیْلًا» ۱؎ (17-الإسراء:72) ’ جو شخص یہاں اندھا ہے وہ وہاں بھی اندھا اور راہ بھولا رہے گا ‘ ۔ تمام دلیلیں ان کی نگاہوں سے ہٹ جائیں گی رشتے ناتے حسب نسب کی کوئی قدر نہ ہو گی نسب ناموں کا کوئی سوال نہ ہو گا ۔ ہاں دنیا میں توبہ کرنے والے ایمان اور نیکی کے ساتھ زندگی گزارنے والے تو بیشک فلاح اور نجات حاصل کر لیں گے یہاں «عَسیٰ» یقین کے معنی میں ہے یعنی مومن ضرور کامیاب ہونگے ۔ القصص
65 القصص
66 القصص
67 القصص
68 صفات الٰہی ساری مخلوق کا خالق تمام اختیارات والا اللہ ہی ہے ۔ نہ اس میں کوئی اس سے جھگڑنے والا نہ اس کا شریک و ساتھی ۔ جو چاہے پیدا کرے جسے چاہے اپنا خاص بندہ بنا لے ۔ جو چاہتا ہے ہوتا ہے جو نہیں چاہتا ہو نہیں سکتا ۔ تمام امور سب خیرو شر اسی کے ہاتھ ہے ۔ سب کی باز گشت اسی کی جانب ہے کسی کو کوئی اختیار نہیں ۔ یہی لفظ اسی معنی میں آیت «وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَہُمُ الْخِـیَرَۃُ مِنْ اَمْرِہِمْ» ۱؎ (33-الأحزاب:36) میں ہے دنوں جگہ «ما» نافیہ ہے ۔ گو ابن جریررحمہ اللہ نے یہ کہا کہ «ما» معنی میں «الَّذِیْ» کے ہے یعنی اللہ پسند کرتا ہے اسے جس میں بھلائی ہو اور اس معنی کو لے کر معتزلیوں نے مراعات صالحین پر استدلال کیا ہے لیکن صحیح بات یہی ہے کہ یہاں «ما» نفی کے معنی میں ہے جیسے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ وغیرہ سے مروی ہے ۔ یہ آیت اسی بیان میں ہے کہ مخلوق کی پیدائش میں تقدیر کے مقرر کرنے میں اختیار رکھنے میں اللہ ہی اکیلا ہے اور نظیر سے پاک ہے ۔ اسی لیے آیت کے خاتمہ پر فرمایا کہ ’ جب بتوں وغیرہ کو وہ شریک الٰہی ٹھہرا رہے ہیں جو نہ کسی چیز کو بناسکیں نہ کسی طرح اختیار رکھیں اللہ ان سب سے پاک اور بہت دور ہے ‘ ۔ پھر فرمایا ’ سینوں اور دلوں میں چھپی ہوئی باتیں بھی اللہ جانتا ہے اور وہ سب بھی اس پر اسی طرح ظاہر ہیں جس طرح کھلم کھلا اور ظاہر باتیں ۔ پوشیدہ بات کہو یا اعلان سے کہو وہ سب کا عالم ہے رات میں اور دن میں جو ہو رہا ہے اس پر پوشیدہ نہیں ‘ ۔ الوہیت میں بھی وہ یکتا ہے مخلوق میں کوئی ایسا نہیں جو اپنی حاجتیں اس کی طرف لے جائے ۔ جس سے مخلوق عاجزی کرے ، جو مخلوق کا ملجا و ماویٰ ہو ، جو عبادت کے لائق ہو ۔ خالق مختار رب مالک وہی ہے ۔ وہ جو کچھ کر رہا ہے سب لائق تعریف ہے اس کا عدل وحکمت اسی کے ساتھ ہے ۔ اس کے احکام کو کوئی رد نہیں کر سکتا اس کے ارادوں کو کوئی ٹال نہیں سکتا ۔ غلبہ حکمت رحمت اسی کی ذات پاک میں ہے ۔ تم سب قیامت کے دن اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے وہ سب کو ان کے اعمال کا بدلہ دے گا ۔ اس پر تمہارے کاموں میں سے کوئی کام چھپا ہوا نہیں ۔ نیکوں کو جزا بدوں کو سزا وہ اس روز دے گا اور اپنی مخلوق میں فیصلے فرمائے گا ۔ القصص
69 القصص
70 القصص
71 سنی ان سنی نہ کرو اللہ کا احسان دیکھو کہ بغیر تمہاری کوشش اور تدبیر کے دن اور رات برابر آگے پیچھے آ رہے ہیں اگر رات ہی رات رہے تو تم عاجز آ جاؤ تمہارے کام رک جائیں تم پر زندگی وبال ہو جائے تم تھک جاؤ اکتا جاؤ کسی کو نہ پاؤ جو تمہارے لیے دن نکال سکے کہ تم اس کی روشنی میں چلو پھرو ، دیکھو بھالو اپنے کام کاج کر لو ۔ افسوس تم سنا کر بھی بے سنا کر دیتے ہو ۔ اسی طرح اگر وہ تم پر دن ہی دن کو روک دے رات آئے ہی نہیں تو بھی تمہاری زندگی تلخ ہو جائے ۔ بدن کا نظام الٹ پلٹ ہو جائے تھک جاؤ تنگ ہو جاؤ کوئی نہیں جسے قدرت ہو کہ وہ رات لاسکے جس میں تم راحت و آرام حاصل کر سکو لیکن تم آنکھیں رکھتے ہوئے اللہ کی ان نشانیوں اور مہربانیوں کو دیکھتے ہی نہیں ہو ۔ یہ بھی اس کا احسان ہے کہ اس نے دن رات دونوں پیدا کر دئیے ہیں کہ رات کو تمہیں سکون و آرام حاصل ہو اور دن کو تم کام کاج تجارت ذراعت سفر شغل کر سکو ۔ تمہیں چاہیئے کہ تم اس مالک حقیقی اس قادر مطلق کا شکر ادا کرو رات کو اس کی عبادتیں کرو رات کے قصور کی تلافی دن میں اور دن کے قصور کی تلافی رات میں کر لیا کرو ۔ یہ مختلف چیزیں قدرت کے نمونے ہیں اور اس لیے ہیں کہ تم نصیحت وعبرت سیکھو اور رب کا شکر کرو ۔ القصص
72 القصص
73 القصص
74 افترا بندی چھوڑ دو مشرکوں کو دوسری دفعہ ڈانٹ دی جائے گی اور فرمایا جائے گا کہ ’ دنیا میں جنہیں میرا شریک ٹھہرا رہے تھے وہ آج کہاں ہیں ؟‘ ہر امت میں سے ایک گواہ یعنی اس امت کا پیغمبر ممتاز کر لیا جائے گا ۔ مشرکوں سے کہا جائے گا اپنے شرک کی کوئی دلیل پیش کرو ۔ اس وقت یہ یقین کر لیں گے کہ فی الواقع عبادتوں کے لائق اللہ کے سوا اور کوئی نہیں ۔ کوئی جواب نہ دے سکیں گے حیران رہ جائیں گے اور تمام افترا بھول جائیں گے ۔ القصص
75 القصص
76 افترا بندی چھوڑ دو مروی ہے کہ قارون موسیٰ علیہ السلام کے چچا کا لڑکا تھا ۔ اس کانسب یہ ہے قارون بن یصہر بن قاہیث اور موسیٰ علیہ السلام کانسب یہ ہے موسیٰ بن عمران بن قاہیث ۔ ابن اسحٰق کی تحقیق یہ کہ یہ موسیٰ علیہ السلام کا چچا تھا ۔ لیکن اکثر علماء چچا کا لڑکا بتاتے ہیں ۔ یہ بہت خوش آواز تھا ، تورات بڑی خوش الحانی سے پڑھتا تھا اس لیے اسے لوگ منور کہتے تھے ۔ لیکن جس طرح سامری نے منافق پنا کیا تھا یہ اللہ کا دشمن بھی منافق ہو گیا تھا ۔ چونکہ بہت مالدار تھا اس لیے بھول گیا تھا اور اللہ کو بھول بیٹھا تھا ۔ قوم میں عام طور پر جس لباس کا دستور تھا اس نے اس سے بالشت بھر نیچا لباس بنوایا تھا جس سے اس کا غرور اور اس کی دولت ظاہر ہو ۔ اس کے پاس اس قدر مال تھا کہ اس خزانے کی کنجیاں اٹھانے پر قوی مردوں کی ایک جماعت مقرر تھی ۔ اس کے بہت خزانے تھے ۔ ہر خزانے کی کنجی الگ تھی جو بالشت بھر کی تھی ۔ جب یہ کنجیاں اس کی سواری کے ساتھ خچروں پر لادی جاتیں تو اس کے لیے ساٹھ پنج کلیاں خچر مقرر ہوتے ، «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ القصص
77 1 قوم کے بزرگ اور نیک لوگوں اور عالموں نے جب اس کے سرکشی اور تکبر کو حد سے بڑھتے ہوتے دیکھا تو اسے نصیحت کی کہ اتنا اکڑ نہیں اس قدر غرور نہ کر اللہ کا ناشکرا نہ ہو ، ورنہ اللہ کی محبت سے دور ہو جاؤ گے ۔ قوم کے واعظوں نے کہا کہ یہ جو اللہ کی نعمتیں تیرے پاس ہیں انہیں اللہ کی رضا مندی کے کاموں میں خرچ کر تاکہ آخرت میں بھی تیرا حصہ ہو جائے ۔ یہ ہم نہیں کہتے کہ دنیا میں کچھ عیش وعشرت کر ہی نہیں ۔ نہیں اچھا کھا ، پی ، پہن اوڑھ جائز نعمتوں سے فائدہ اٹھا نکاح سے راحت اٹھا حلال چیزیں برت لیکن جہاں اپنا خیال رکھ وہاں مسکینوں کا بھی خیال رکھ جہاں اپنے نفس کو نہ بھول وہاں اللہ کے حق بھی فراموش نہ کر ۔ تیرے نفس کا بھی حق ہے تیرے مہمان کا بھی تجھ پر حق ہے تیرے بال بچوں کا بھی تجھ پر حق ہے ۔ مسکین غریب کا بھی تیرے مال میں ساجھا ہے ۔ ہر حقدار کا حق ادا کر اور جیسے اللہ نے تیرے ساتھ سلوک کیا تو اوروں کے ساتھ سلوک واحسان کر اپنے اس مفسدانہ رویہ کو بدل ڈال اللہ کی مخلوق کی ایذ رسانی سے باز آ جا ۔ اللہ فسادیوں سے محبت نہیں رکھتا ۔ القصص
78 اپنی عقل و دانش پہ مغرور قارون قوم کے علماء کی نصیحتوں کو سن کر قارون نے جو جواب دئیے اس کا ذکر ہو رہا ہے کہ اس نے کہا آپ اپنی نصیحتوں کو رہنے دیجئیے میں خوب جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے جو دے رکھا ہے اسی کا مستحق میں تھا ، میں ایک عقلمند زیرک ، دانا شخص ہوں میں اسی قابل ہوں اور اسے بھی اللہ جانتا ہے اسی لیے اس نے مجھے یہ دولت دی ہے ۔ بعض انسانوں کا یہ خاصہ ہوتا ہے جیسے قرآن میں ہے کہ «فَإِذَا مَسَّ الْإِنسَانَ ضُرٌّ دَعَانَا ثُمَّ إِذَا خَوَّلْنَاہُ نِعْمَۃً مِّنَّا قَالَ إِنَّمَا أُوتِیتُہُ عَلَیٰ عِلْمٍ بَلْ ہِیَ فِتْنَۃٌ وَلٰکِنَّ أَکْثَرَہُمْ لَا یَعْلَمُونَ» (39-الزمر:49) جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تب بڑی عاجزی سے ہمیں پکارتا ہے اور جب انسان کو کوئی نعمت و راحت اسے ہم دے دیتے ہیں تو کہہ دیتا ہے کہ آیت «قَالَ اِنَّمَآ اُوْتِیْتُہٗ عَلٰی عِلْمٍ عِنْدِیْ اَوَلَمْ یَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ قَدْ اَہْلَکَ مِنْ قَبْلِہٖ مِنَ الْقُرُوْنِ مَنْ ہُوَ اَشَدٰ مِنْہُ قُوَّۃً وَّاَکْثَرُ جَمْعًا وَلَا یُسْـَٔــلُ عَنْ ذُنُوْبِہِمُ الْمُجْرِمُوْنَ» ۱؎ (28-القصص:78) یعنی ’ اللہ جانتا تھا کہ میں اسی کا مستحق ہوں اس لیے اس نے مجھے یہ دیا ہے ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَلَئِنْ أَذَقْنَاہُ رَحْمَۃً مِّنَّا مِن بَعْدِ ضَرَّاءَ مَسَّتْہُ لَیَقُولَنَّ ہٰذَا لِی» ۱؎ (41-فصلت:50) کہ ’ اگر ہم اسے کوئی رحمت چکھائیں اس کے بعد جب اسے مصیبت پہنچی ہو تو کہہ اٹھتا ہے کہ «ہٰذَا لِی» اس کا حقدار تو میں تھا ہی ‘ ۔ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ قارون علم کیمیا جانتا تھا لیکن یہ قول بالکل ضعیف ہے ۔ بلکہ کیمیا کا علم فی الواقع ہے ہی نہیں ۔ کیونکہ کسی چیز کے عین کو بدل دینا یہ اللہ ہی کی قدرت کی بات ہے جس پر کوئی اور قادر نہیں ۔ فرمان الٰہی ہے «یَا أَیٰہَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوا لَہُ إِنَّ الَّذِینَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللہِ لَن یَخْلُقُوا ذُبَابًا وَلَوِ اجْتَمَعُوا لَہُ» ۱؎ (22-الحج:73) کہ ’ اگر تمام مخلوق بھی جمع ہو جائے تو ایک مکھی بھی پیدا نہیں کر سکتی ‘ ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ { اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ’ اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو کوشش کرتا ہے کہ میری طرح پیدائش کرے ۔ اگر وہ سچا ہے تو ایک ذرہ یا ایک جو ہی بنا دے ‘ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5953) یہ حدیث ان کے بارے میں ہے جو تصویریں اتارتے ہیں اور صرف ظاہر صورت کو نقل کرتے ہیں ۔ ان کے لیے تو یہ فرمایا پھر جو دعویٰ کرے کہ وہ کیمیا جانتا ہے اور ایک چیز کی کایا پلٹ کر سکتا ہے ایک ذات سے دوسری ذات بنا دیتا ہے مثلا لوہے کو سونا وغیرہ تو صاف ظاہر ہے کہ یہ محض جھوٹ ہے اور بالکل محال ہے اور جہالت وضلالت ہے ۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ رنگ وغیرہ بدل کر دھوکے بازی کرے ۔ لیکن حقیقتاً یہ ناممکن ہے ۔ یہ کیمیا گر جو محض جھوٹے جاہل فاسق اور مفتری ہیں یہ محض دعوے کر کے مخلوق کو دھوکے میں ڈالنے والے ہیں ۔ ہاں یہ خیال رہے کہ بعض اولیاء کے ہاتھوں جو کرامتیں سرزد ہو جاتی ہیں اور کبھی کبھی چیزیں بدل جاتی ہے ان کا ہمیں انکار نہیں ۔ وہ اللہ کی طرف سے ان پر ایک خاص فضل ہوتا ہے اور وہ بھی ان کے بس کا نہیں ہوتا ، نہ ان کے قبضے کا ہوتا ہے ، نہ کوئی کاری گری ، صنعت یا علم ہے ۔ وہ محض اللہ کے فرمان کا نتیجہ ہے جو اللہ اپنے فرمانبردار نیک کار بندوں کے ہاتھوں اپنی مخلوق کو دکھا دیتا ہے ۔ چنانچہ مروی ہے کہ حیوہ بن شریح مصری رحمہ اللہ سے ایک مرتبہ کسی سائل نے سوال کیا اور آپ کے پاس کچھ نہ تھا اور اس کی حاجت مندی اور ضرورت کو دیکھ کر آپ دل میں بہت آزردہ ہو رہے تھے ۔ آخر آپ نے ایک کنکر زمین سے اٹھایا اور کچھ دیر اپنے ہاتھوں میں الٹ پلٹ کر کے فقیر کی جھولی میں ڈال دیا تو وہ سونے کا بن گیا ۔ معجزے اور کرامات احادیث اور آثار میں اور بھی بہت سے مروی ہیں ۔ جنہیں یہاں بیان کرنا باعث طول ہو گا ۔ بعض کا قول ہے کہ قارون اسم اعظم جانتا تھا جسے پڑھ کر اس نے اپنی مالداری کی دعا کی تو اس قدر دولت مند ہو گیا ۔ قارون کے اس جواب کی رد میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’ یہ غلط ہے کہ میں جس پر مہربان ہوتا ہوں اسے دولت مند کر دیتا ہوں نہیں اس سے پہلے اس سے زیادہ دولت اور آسودہ حال لوگوں کو میں نے تباہ کر دیا ہے تو یہ سمجھ لینا کہ مالداری میری محبت کی نشانی ہے ، محض غلط ہے ۔ جو میرا شکر ادانہ کریں کفر پر جما رہے اس کا انجام بد ہوتا ہے ‘ ۔ گناہ گاروں کے کثرت گناہ کی وجہ سے پھر ان سے ان کے گناہوں کا سوال بھی عبث ہوتا ۔ اس کا خیال تھا کہ مجھ میں خیریت ہے اس لیے اللہ کا یہ فضل مجھ پر ہوا ہے ۔ وہ جانتا ہے کہ میں اس مالداری کا اہل ہوں اگر مجھ سے خوش نہ ہوتا اور مجھے اچھا آدمی نہ جانتا تو مجھے اپنی یہ نعمت بھی نہ دیتا ۔ القصص
79 سامان تعیش کی فروانی قارون ایک دن نہایت قیمتی پوشاک پہن کر زرق برق عمدہ سواری پرسوار ہو کر اپنے غلاموں کو آگے پیچھے بیش بہا پوشاکیں پہنائے ہوئے لے کر بڑے ٹھاٹھ سے اتراتا ہوا اکڑتا ہوا نکلا اس کا یہ ٹھاٹھ اور یہ زینت وتجمل دیکھ کر دنیا داروں کے منہ میں پانی بھر آیا اور کہنے لگے کاش کہ ہمارے پاس بھی اس جتنا مال ہوتا ۔ یہ تو بڑا خوش نصیب ہے اور بڑی قسمت والا ہے ۔ علماء کرام نے ان کی یہ بات سن کر انہیں اس خیال سے روکنا چاہا اور انہیں سمجھانے لگے کہ دیکھو اللہ نے جو کچھ اپنے مومن اور نیک بندوں کے لیے اپنے ہاں تیار کر رکھا ہے وہ اس سے کروڑہا درجہ بارونق دیرپا اور عمدہ ہے ۔ تمہیں ان درجات کو حاصل کرنے کے لیے اس دو روزہ زندگی کو صبر وبرداشت سے گزارنا چاہیئے جنت صابروں کا حصہ ہے یہ مطلب بھی ہے کہ ایسے پاک کلمے صبر کرنے والوں کی زبان ہی سے نکلتے ہیں جو دنیا کی محبت سے دور اور دار آخرت کی محبت میں چور ہوتے ہیں اس صورت میں ممکن ہے کہ یہ کلام ان واعظوں کا نہ ہو بلکہ ان کے کام کی اور ان کی تعریف میں یہ جملہ اللہ کی طرف سے خبر ہو ۔ القصص
80 القصص
81 ایک بالشت کا آدمی؟ اوپر قارون کی سرکشی بے ایمانی کا ذکر ہو چکا یہاں اس کے انجام کا بیان ہو رہا ہے ۔ ایک حدیث میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ایک شخص اپنا تہبند لٹکائے فخر سے جا رہا تھا کہ اللہ نے زمین کو حکم دیا کہ اسے نگل جا } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5790) کتاب العجائب میں نوفل بن مساحق کہتے ہیں کہ نجران کی مسجد میں میں نے ایک نوجوان کو دیکھا بڑا لمبا چوڑا بھرپور جوانی کے نشہ میں چور گٹھے ہوئے بدن والا بانکا ترچھا اچھے رنگ ورغن ، والا خوبصورت ، شکیل ۔ میں نگاہیں جماکر اس کے جمال وکمال کو دیکھنے لگا تو اس نے کہا کیا دیکھ رہے ہو ؟ میں نے کہا آپ کے حسن و جمال کامشاہدہ کر رہا ہوں اور تعجب معلوم ہو رہا ہے ۔ اس نے جواب دیا کہ تو ہی کیا خود اللہ تعالیٰ کو بھی تعجب ہے ۔ نوفل کہتے ہیں کہ اس کلمہ کے کہتے ہی وہ گھٹنے لگا اور اس کا رنگ روپ اڑنے لگا اور قد پست ہونے لگا یہاں تک کہ بے قدر ایک بالشت کے رہ گیا ۔ آخرکار اس کا کوئی قریبی رشتہ دار اپنی آستین میں ڈال کر لے گیا ۔ یہ بھی مذکور ہے کہ قارون کی ہلاکت موسیٰ علیہ السلام کی بدعا سے ہوئی تھی اور اس کے سبب میں بہت کچھ اختلاف ہے ۔ ایک سبب تو یہ بیان کیا جاتا ہے کہ قارون ملعون نے ایک فاحشہ عورت کو بہت کچھ مال ومتاع دے کر اس بات پر آمادہ کیا کہ عین اس وقت جب موسیٰ کلیم اللہ بنی اسرائیل میں کھڑے خطبہ کہہ رہے ہوں وہ آئے اور آپ علیہ السلام سے کہے کہ تو وہی ہے نا جس نے میرے ساتھ ایسا ایسا کیا ۔ اس عورت نے یہی کیا موسیٰ علیہ السلام کانپ اٹھے اور اسی وقت نماز کی نیت باندھ لی اور دو رکعت ادا کر کے اس عورت کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمانے لگے تجھے اس اللہ کی قسم جس نے سمندر میں سے راستہ دیا اور تیری قوم کو فرعون کے مظالم سے نجات دی اور بھی بہت سے احسانات کئے تو جو سچا واقعہ ہے اسے بیان کر ۔ یہ سن کر اس عورت کا رنگ بدل گیا اور اس نے صحیح واقعہ سب کے سامنے بیان کر دیا اور اللہ سے استغفار کیا اور سچے دل سے توبہ کر لی ۔ موسیٰ علیہ السلام پھر سجدہ میں گر گئے اور قارون کی سزا چاہی ۔ اللہ کی طرف سے وحی نازل ہوئی کہ میں نے زمین کو تیرے تابع کر دیا ہے ۔ آپ علیہ السلام نے سجدے سے سر اٹھایا اور زمین سے کہا کہ تو اسے اور اس کے محل کو نگل لے ۔ زمین نے یہی کیا ۔ دوسرا سبب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ جب قارون کی سواری اس طمطراق سے نکلی سفید قیمتی خچر پر بیش بہا پوشاک پہنے سوار تھا ، اس کے غلام بھی سب کے سب ریشمی لباسوں میں تھے ۔ ادھر موسیٰ علیہ السلام خطبہ پڑھ رہے تھے بنو اسرائیل کا مجمع تھا ۔ یہ جب وہاں سے نکلا تو سب کی نگاہیں اس پر اور اس کی دھوم دھام پر لگ گئیں ۔ موسیٰ علیہ السلام نے اسے دیکھ کر پوچھا آج اس طرح کیسے نکلے ؟ اس نے کہا بات یہ ہے کہ ایک بات اللہ نے تمہیں دے رکھی ہے اور ایک فضیلت مجھے دے رکھی ہے اگر تمہارے پاس نبوت ہے تو میرے پاس یہ جاہ وحشم ہے اور اگر آپ کو میری فضیلت پر شک ہو تو میں تیار ہوں کہ آپ اور میں چلیں اور اللہ سے دعا کریں ۔ دیکھ لیجئے کہ اللہ کس کی دعا قبول فرماتا ہے ۔ آپ علیہ السلام اس بات پر آمادہ ہو گئے اور اس کو لے کر چلے ۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ پہلے تو دعا کرتا ہے یا میں کروں ؟ اس نے کہا نہیں میں کرونگا اب اس نے دعا مانگنی شروع کر دی اور ختم ہو گئی لیکن دعا قبول نہ ہوئی ۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا اب دعا میں کرتا ہوں اس نے کہا ہاں کیجئے ۔ آپ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ یا اللہ زمین کو حکم دے کہ جو میں کہوں مان لے اللہ نے آپ کی دعا قبول فرمائی اور وحی آئی کہ میں نے زمین کو تیری اطاعت کا حکم دے دیا ہے ۔ موسیٰ علیہ السلام نے یہ سن کر زمین سے فرمایا اے زمین ! اسے اور اس کے لوگوں کو پکڑ لے وہیں یہ لوگ اپنے قدموں تک زمین میں دھنس گئے ۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا اور پکڑے لے ۔ یہ اپنے گھٹنوں تک دھنس گئے ۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا اور پکڑ یہ مونڈھوں تک زمین میں دھنس گئے ۔ پھر فرمایا ان کے خزانے اور مال بھی یہیں لے آ ۔ اسی وقت ان کے کل خزانے اور مال وہاں آ گئے اور انہوں نے اپنی آنکھوں سے ان سب کو دیکھ لیا پھر آپ علیہ السلام نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ ان کو ان کے خزانوں سمیت اپنے اندر کر لے اسی وقت یہ سب غارت ہوگئے اور زمین جیسی تھی ویسی ہوگئی ۔ مروی ہے کہ ساتوں زمین تک یہ لوگ بقدر انسان دھنستے جا رہے ہیں قیامت تک اسی عذاب میں رہیں گے ۔ یہاں پر بنی اسرائیل کی اور بہت سی روایتیں ہیں لیکن ہم نے ان کا ذکر یہاں چھوڑ دیا ہے ۔ نہ تو مال ان کے کام آیا نہ جاہ و حشم نہ دولت وتمکنت نہ کوئی ان کی مدد کے لیے اٹھا نہ یہ خود اپنا کوئی بچاؤ کر سکے ۔ تباہ ہو گئے بینشان ہو گئے مٹ گئے اور مٹادئیے گئے «اعاذنا اللہ» اس وقت تو ان لوگوں کی بھی آنکھیں کھل گئی جو قارون کی دولت کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتے تھے ۔ اور اسے نصیب دار سمجھ کر لمبے سانس لیا کرتے تھے اور رشک کیا کرتے تھے کہ کاش ہم ایسے دولت مند ہوتے ۔ وہ کہنے لگے اب دیکھ لیا کہ واقعی سچ ہے دولت مند ہونا کچھ اللہ کی رضا مندی کا سبب نہیں ۔ یہ اللہ کی حکمت ہے جسے چاہے زیادہ دے جسے چاہے کم دے ۔ جس پر چاہے وسعت کرے جس پر چاہے تنگ کرے ۔ اس کی حکمتیں وہی جانتا ہے ۔ ایک حدیث میں بھی ہے کہ { اللہ تعالیٰ نے تم میں اخلاق کی بھی اسی طرح تقسیم کی ہے جس طرح روزی کی ۔ مال تو اللہ کی طرف سے اس کے دوستوں کو بھی ملتا ہے اور اس کے دشمنوں کو بھی ۔ البتہ ایمان اللہ کی طرف سے اسی کو ملتا ہے جسے اللہ چاہتا ہو } ۔ ۱؎ (مسند احمد:387/1:صحیح موقوف فی حکم المرفوع) قارون کے اس دھنسائے جانے کو دیکھ کر وہ جو اس جیسا بننے کی امیدیں کر رہے تھے کہنے لگے اگر اللہ کا لطف واحسان ہم پر نہ ہوتا تو ہماری اس تمناکے بدلے جو ہمارے دل میں تھی کہ کاش ہم بھی ایسے ہی ہوتے ۔ آج اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اس کے ساتھ دھنسا دیتا ۔ وہ کافر تھا اور کافر اللہ کے ہاں فلاح کے لائق نہیں ہوتے ۔ نہ انہیں دنیا میں کامیابی ملے نہ آخرت میں ہی وہ چھٹکارا پائیں ۔ نحوی کہتے ہیں «وَیْکَاَنَّ» کے معنی «وَیْلَکَ اِعْلَمْ اَنَّ» ہیں لیکن مخفف کر کے «وَیْکَ» رہ گیا اور «اَنْ» کے فتح نے «اِعْلَمْ» کے محذوف ہونے پر دلالت کر دی ۔ لیکن اس قول کو امام ابن جریر نے ضعیف بتایا ہے ۔ مگر میں کہتا ہوں یہ ضعیف کہنا ٹھیک نہیں ۔ قرآن کریم میں اس کی کتابت کا ایک ساتھ ہونا اس کے ضعیف ہونے کی وجہ نہیں بن سکتا ۔ اس لیے کہ کتابت کا طریقہ تو اختراعی امر ہے جو رواج پا گیا وہی معتبر سمجھا جاتا ہے ۔ اس سے معنی پر کوئی اثر نہیں ہوتا ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ دوسرے معنی اس کے «اَلَمْ تَرَاَنَّ» کے لیے گئے ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس طرح یہ دو لفظ ہیں «وَیْ» اور «کَاَنَّ» ۔ حرف «وَیْ» تعجب کے لیے ہیں اور یا تنبیہہ کے لیے اور «کَاَنَّ» معنی میں «اَظُنٰ» کے ہے ۔ ان تمام اقوال میں قوی قول یہ ہے کہ یہ معنی میں «اَلَمْ تَرَ» کے ہے یعنی کیا نہ دیکھا تو نے جیسے کہ قتادہ رحمہ اللہ کا قول ہے اور یہی معنی عربی شعر میں بھی مراد لیے گئے ہیں ۔ القصص
82 القصص
83 جنت اور آخرت فرماتا ہے کہ ’ جنت اور آخرت کی نعمت صرف انہی کو ملے گی جن کے دل خوف الٰہی سے بھرے ہوئے ہوں اور دنیا کی زندگی تواضع فروتنی عاجزی اور اخلاق کے ساتھ گزاردیں ۔ کسی پر اپنے آپ کو اونچا اور بڑا نہ سمجھیں ادھر ادھر فساد نہ پھیلائیں سرکشی اور برائی نہ کریں ۔ کسی کا مال ناحق نہ ماریں اللہ کی زمین پر اللہ کی نافرمانیاں نہ کریں ‘ ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ جسے یہ بات اچھی لگے کہ اس کی جوتی کا تسمہ اپنے ساتھی کی جوتی کے تسمے سے اچھا ہو تو وہ بھی اسی آیت میں داخل ہے ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ جب وہ فخر غرور کرے ۔ اگر صرف بطور زیبائش کے چاہتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔ جیسے صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ { ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میری تو یہ چاہت ہے کہ میری چادر بھی اچھی ہو میری جوتی بھی اچھی ہو تو کیا یہ بھی تکبر ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { نہیں نہیں یہ تو خوبصورتی ہے اللہ تعالیٰ جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے } } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:147) پھر فرمایا جو ہمارے پاس نیکی لائے گا وہ بہت سی نیکیوں کا ثواب پائے گا ۔ یہ مقام فضل ہے اور برائی کا بدلہ صرف اسی کے مطابق سزا ہے ۔ یہ مقام عدل ہے اور آیت میں ہے «وَمَنْ جَاءَ بالسَّیِّئَۃِ فَکُبَّتْ وُجُوْہُہُمْ فِی النَّارِ ہَلْ تُجْزَوْنَ اِلَّا مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ» ۱؎ (27-النمل:90) ، ’ جو برائی لے کر آئے گا وہ اندھے منہ آگ میں جائے گا ، تمہیں وہی بدلہ دیا جائے گا جو تم کرتے رہے ‘ ۔ القصص
84 القصص
85 جو کرو گے سو بھرو گے اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو حکم فرماتا ہے کہ رسالت کی تبلیغ کرتے رہیں لوگوں کو کلام اللہ سناتے رہیں اللہ تعالیٰ آپ کو قیامت کی طرف واپس لے جانے والا ہے اور وہاں نبوت کی بابت پرستش ہو گی ۔ جیسے فرمان ہے «فَلَنَسْــــَٔـلَنَّ الَّذِیْنَ اُرْسِلَ اِلَیْہِمْ وَلَنَسْــــَٔـلَنَّ الْمُرْسَلِیْنَ» ۱؎ (7-الأعراف:6) یعنی ’ امتوں سے اور رسولوں سے سب سے ہم دریافت فرمائیں گے ‘ ۔ اور آیت میں ہے «یَوْمَ یَجْمَعُ اللہُ الرٰسُلَ فَیَقُولُ مَاذَا أُجِبْتُمْ قَالُوا لَا عِلْمَ لَنَا إِنَّکَ أَنتَ عَلَّامُ الْغُیُوبِ» (5-المائدۃ:109) ’ رسولوں کو جمع کر کے اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ تمہیں کیا جواب دیا گیا ؟ ‘ اور آیت میں ہے «وَجِیءَ بِالنَّبِیِّینَ وَالشٰہَدَاءِ» ۱؎ (39-الزمر:69) ’ نبیوں کو اور گواہوں کو لایا جائے گا ‘ ۔ «مَعَادٍ» سے مراد جنت بھی ہو سکتی ہے موت بھی ہو سکتی ہے ۔ دوبارہ کی زندگی بھی ہو سکتی ہے کہ دوبارہ پیدا ہوں اور داخل جنت ہوں ۔ صحیح بخاری میں ہے اس سے مراد مکہ ہے ۔ مجاہد رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ اس سے مراد مکہ ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے پیدائش تھی ۔ ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے نکلے ابھی جحفہ ہی میں تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں مکے کا شوق پیدا ہوا پس یہ آیت اتری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس مکے پہنچائے جائیں گے ۔ اس سے یہ بھی نکلتا ہے کہ یہ آیت مدنی ہو حالانکہ پوری سورت مکی ہے یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد اس سے بیت المقدس ہے شاید اس کہنے والے کی غرض اس سے بھی قیامت ہے ۔ اس لیے کہ بیت المقدس ہی محشر زمین ہے ۔ ان تمام اقوال میں جمع کی صورت یہ ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کبھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکے کی طرف لوٹنے سے اس کی تفسیر کی ہے جو فتح مکہ سے پوری ہوئی ۔ اور یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر کے پورا ہونے کی ایک زبردست علامت تھی جیسے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے سورۃ «إِذَا جَاءَ نَصْرُ‌ اللہِ وَالْفَتْحُ» (110-النصر:1) کی تفسیر میں فرمایا ہے ۔ جس کی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بھی موافقت کی تھی ۔ اور فرمایا تھا کہ ” تو جو جانتا ہے وہی میں بھی جانتا ہوں “ ۔ یہی وجہ ہے کہ انہی سے اس آیت کی تفسیر میں جہاں مکہ مروی ہے وہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال بھی مروی ہے اور کبھی قیامت سے تفسیر کی کیونکہ موت کے بعد قیامت ہے اور کبھی جنت سے تفسیر کی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ٹھکانا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ رسالت کا بدل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن و انس کو اللہ کے دین کی دعوت دی اور آپ تمام مخلوق سے زیادہ کلام زیادہ فصیح اور زیادہ افضل تھے ۔ پھر فرمایا کہ ’ اپنے مخالفین سے اور جھٹلانے والوں سے کہہ دو کہ ہم میں سے ہدایت والوں کو اور گمراہی والوں کو اللہ خوب جانتا ہے ۔ تم دیکھ لو گے کہ کس کا انجام بہتر ہوتا ہے ؟ اور دنیا اور آخرت میں بہتری اور بھلائی کس کے حصے میں آتی ہے ؟‘ پھر اپنی ایک اور زبردست نعمت بیان فرماتا ہے کہ ’ وحی اترنے سے پہلے کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خیال بھی نہ گزرا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کتاب نازل ہوگی ۔ یہ تو تجھ پر اور تمام مخلوق پر رب کی رحمت ہوئی کہ اس نے تجھ پر اپنی پاک اور افضل کتاب نازل فرمائی ۔ اب تمہیں ہرگز کافروں کا مددگار نہ ہونا چاہیئے بلکہ ان سے الگ رہنا چاہیئے ۔ ان سے بیزاری ظاہر کردینی چاہیئے اور ان سے مخالفت کا اعلان کر دینا چاہیئے ‘ ۔ القصص
86 القصص
87 1 پھر فرمایا کہ ’ اللہ کی اتری ہوئی آیتوں سے یہ لوگ کہیں تجھے روک نہ دیں یعنی جو تیرے دین کی مخالفت کرتے ہیں اور لوگوں کو تیری تابعداری سے روکتے ہیں ۔ تو اس سے اثر پذیر نہ ہونا اپنے کام پر لگے رہنا اللہ تیرے کلمے کو بلند کرنے والا ہے تیرے دین کی تائید کرنے والا ہے تیری رسالت کو غالب کرنے والا ہے ۔ تمام دینوں پر تیرے دین کو اونچا کرنے والا ہے ۔ تو اپنے رب کی عبادت کی طرف لوگوں کو بلاتا رہ جو اکیلا اور لاشریک ہے تجھے نہیں چاہیئے کہ مشرکوں کا ساتھ دے ۔ اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکار ۔ عبادت کے لائق وہی ہے الوہیت کے قابل اسی کی عظیم الشان ذات ہے وہی دائم اور باقی ہے حی وقیوم ہے تمام مخلوق مر جائے گی اور وہ موت سے دور ہے ‘ ۔ جیسے فرمایا آیت «کُلٰ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ وَّیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذو الْجَلٰلِ وَالْاِکْرَامِ» ۱؎ (55-الرحمن:27-26) ’ جو بھی یہاں پر ہے فانی ہے ۔ تیرے رب کا چہرہ ہی باقی رہ جائے گا جو جلالت وکرامت والا ہے ‘ ۔ «وَجْہُ» سے مراد ذات ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { سب سے زیادہ سچا کلمہ لبید شاعر کا ہے جو اس نے کہا ہے شعر «أَلَا کُلّ شَیْء مَا خَلَا اللَّہ بَاطِل» یاد رکھو کہ اللہ کے سوا سب کچھ باطل ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6147) مجاہد وثور رحمہ اللہ علیہم سے مروی ہے کہ ہرچیز باطل ہے مگر وہ کام جو اللہ کی رضا جوئی کے لیے کئے جائیں ان کا ثواب رہ جاتا ہے ۔ شاعروں کے شعروں میں بھی وجہ کا لفظ اس مطلب کے لیے استعمال کیا گیا ہے ملاحظہ ہو شعر «أَسْتَغْفِر اللَّہ ذَنْبًا لَسْت مُحْصِیہ» «رَبّ الْعِبَاد إِلَیْہِ الْوَجْہ وَالْعَمَل» ” میں اللہ سے جو تمام بندوں کا رب ہے جس کی طرف توجہ اور قصد ہے اور جس کے لیے عمل ہیں اپنے ان تمام گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں جنہیں میں شمار بھی نہیں کر سکتا “ ۔ یہ قول پہلے قول کے خلاف نہیں ۔ یہ بھی اپنی جگہ صحیح ہے کہ انسان کے تمام اعمال اکارت ہیں صرف ان ہی نیکیوں کے بدلے کا مستحق ہے جو محض اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے کی ہوں ۔ اور پہلے قول کا مطلب بھی بالکل صحیح ہے کہ سب جاندار فانی اور زائل ہیں صرف اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات پاک ہے جو فنا اور زوال سے بالاتر ہے ۔ وہی اول وآخر ہے ہر چیز سے پہلے تھا اور ہر چیز کے بعد رہے گا ۔ مروی ہے کہ جب سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ اپنے دل کو مضبوط کرنا چاہتے تھے تو جنگل میں کسی کھنڈر کے دروازے پر کھڑے ہو جاتے اور درد ناک آواز سے کہتے کہ ” اس کے بانی کہاں ہے ؟ پھر خود جواب میں یہی پڑھتے ۔ حکم و ملک اور ملکیت صرف اسی کی ہے مالک ومتصرف وہی ہے ۔ اس کے حکم احکام کو کوئی رد نہیں کر سکتا ۔ روز جزا سب اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے ۔ وہ سب کو ان نیکیوں اور بدیوں کا بدلہ دے گا ۔ نیک کو نیک بدلہ اور برے کو بری سزا “ ۔ «الْحَمْدُ لِلّٰہ» سورۃ قصص کی تفسیر ختم ہوئی ۔ القصص
88 القصص
0 العنكبوت
1 امتحان اور مومن حروف مقطعہ کی بحث سورۃ البقرہ کی تفسیر کے شروع میں گزر چکی ہے ۔ پھر فرماتا ہے : یہ ناممکن ہے کہ مومنوں کو بھی امتحان سے چھوڑ دیا جائے ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ { سب سے زیادہ سخت امتحان نبیوں کا ہوتا ہے ، پھر صالح نیک لوگوں کا ، پھر ان سے کم درجے والے ، پھر ان سے کم درجے والے ۔ انسان کا امتحان اس کے دین کے اندازے پر ہوتا ہے اگر وہ اپنے دین میں سخت ہے تو مصیبتیں بھی سخت نازل ہوتی ہیں ۔ } ۱؎ (سنن ترمذی:2398،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اسی مضمون کا بیان اس آیت میں بھی ہے «أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَعْلَمِ اللہُ الَّذِینَ جَاہَدُوا مِنکُمْ وَیَعْلَمَ الصَّابِرِ‌ینَ» ۱؎ (3-آل عمران:142) یعنی ’ کیا تم نے یہ گمان کر لیا ہے کہ تم چھوڑ دئیے جاؤ گے ؟ حالانکہ ابھی اللہ تعالیٰ نے یہ ظاہر نہیں کیا کہ تم میں سے مجاہد کون ہے ؟ ‘ اسی طرح سورۃ برات اور سورۃ بقرہ میں بھی گزر چکا ہے کہ ’ کیا تم نے یہ سوچ رکھا ہے کہ تم جنت میں یونہی چلے جاؤ گے ؟ اور اگلے لوگوں جیسے سخت امتحان کے موقعے تم پر نہ آئیں گے ۔ جیسے کہ انہیں بھوک ، دکھ ، درد وغیرہ پہنچے ۔ یہاں تک کہ رسول اور ان کے ساتھ کے ایماندار بول اٹھے کہ اللہ کی مدد کہاں ہے ؟ یقین مانو کہ اللہ کی مدد قریب ہے ۔ ‘ ۱؎ (2-البقرۃ:214) یہاں بھی فرمایا : ان سے اگلے مسلمانوں کی بھی جانچ پڑتال کی گئی ، انہیں بھی سرد و گرم چکھایا گیا تاکہ جو اپنے دعوے میں سچے ہیں اور جو صرف زبانی دعوے کرتے ہیں ، ان میں تمیز ہو جائے ۔ اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ اللہ اسے جانتا نہ تھا وہ ہر ہو چکی بات کو اور ہونے والی بات کو برابر جانتا ہے ۔ اس پر اہل سنت والجماعت کے تمام اماموں کا اجماع ہے ۔ پس یہاں علم روایت یعنی دیکھنے کے معنی میں ہے ۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما «لِنَعْلَمَ» کے معنی «لِنَرَی» کرتے ہیں کیونکہ دیکھنے کا تعلق موجود چیزوں سے ہوتا ہے اور علم اس سے عام ہے ۔ پھر فرمایا ہے جو ایمان نہیں لائے وہ بھی یہ گمان نہ کریں کہ امتحان سے بچ جائیں گے بڑے بڑے عذاب اور سخت سزائیں ان کی تاک میں ہیں ۔ یہ ہاتھ سے نکل نہیں سکتے ۔ ہم سے آگے بڑھ نہیں سکتے ۔ ان کے یہ گمان نہایت برے ہیں جن کا برا نتیجہ یہ عنقریب دیکھ لیں گے ۔ العنكبوت
2 العنكبوت
3 العنكبوت
4 العنكبوت
5 نیکیوں کی کوشش جنہیں آخرت کے بدلوں کی امید ہے اور اسے سامنے رکھ کر وہ نیکیاں کرتے ہیں ۔ ان کی امیدیں پوری ہونگی اور انہیں نہ ختم ہونے والے ثواب ملیں گے ۔ اللہ تعالیٰ دعاؤں کا سننے والا اور کل کائنات کا جاننے والا ہے ۔ اللہ کا ٹھہرایا ہوا وقت ٹلتا نہیں ۔ پھر فرماتا ہے ہر نیک عمل کرنے والا اپنا ہی نفع کرتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ بندوں کے اعمال سے بےپرواہ ہے ۔ اگر سارے انسان متقی بن جائیں تو اللہ کی سلطنت میں کوئی اضافہ نہیں ہوسکتا ۔ حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں جہاد تلوار چلانے کا نام ہی نہیں ۔ انسان نیکیوں کی کوشش میں لگا رہے یہ بھی ایک طرح کا جہاد ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ تمہاری نیکیاں اللہ کے کسی کام نہیں آتیں لیکن بہرحال اس کی یہ مہربانی کہ وہ تمہیں نیکیوں پر بدلے دیتا ہے ۔ ان کی وجہ سے تمہاری برائیں معاف فرما دیتا ہے ۔ چھوٹی سے چھوٹی نیکی کی قدر کرتا ہے اور اس پر بڑے سے بڑا اجر دیتا ہے ۔ ایک ایک نیکی کا سات سات سوگنا بدلہ عنایت فرماتا ہے اور بدی کو یا تو بالکل ہی معاف فرما دیتا ہے یا اسی کے برابر سزا دیتا ہے ۔ ’ وہ ظلم سے پاک ہے ، نیکیوں کو بڑھاتا ہے اور اپنے پاس سے اجر عظیم دیتا ہے ۔ ‘ ۱؎ (4-النساء:40) ایمانداروں کی سنت کے مطابق نیکیاں قبول فرماتا ہے ۔ ان کے گناہوں سے درگزر کر لیتا ہے اور ان کے اچھے اعمال کا بدلہ عطا فرماتا ہے ۔ العنكبوت
6 العنكبوت
7 العنكبوت
8 انسان کا وجود پہلے اپنی توحید پر مضبوطی کے ساتھ کاربند رہنے کا حکم فرما کر اب ماں باپ کے سلوک واحسان کا حکم دیتا ہے ۔ کیونکہ انہی سے انسان کا وجود ہوتا ہے ۔ باپ خرچ کرتا ہے اور پرورش کرتا ہے ماں محبت رکھتی ہے اور پالتی ہے ۔ دوسری آیت میں فرمان ہے «وَقَضَیٰ رَ‌بٰکَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا إِمَّا یَبْلُغَنَّ عِندَکَ الْکِبَرَ‌ أَحَدُہُمَا أَوْ کِلَاہُمَا فَلَا تَقُل لَّہُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْہَرْ‌ہُمَا وَقُل لَّہُمَا قَوْلًا کَرِ‌یمًا * وَاخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذٰلِّ مِنَ الرَّ‌حْمَۃِ وَقُل رَّ‌بِّ ارْ‌حَمْہُمَا کَمَا رَ‌بَّیَانِی صَغِیرً‌ا» ۱؎ (17-الإسراء:23-24) یعنی ’ اللہ تعالیٰ فیصلہ فرما چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرو ، اور ماں باپ کی پوری اطاعت کرو ۔ ان دونوں یا ان میں سے ایک کا بڑھاپے کا زمانہ آ جائے تو انہیں اف بھی نہ کہنا ، ڈانٹ ڈپٹ تو کہاں کی ؟ بلکہ ان کے ساتھ ادب سے کلام کرنا اور رحم کے ساتھ ان کے سامنے جھکے رہنا اور اللہ سے ان کے لیے دعا کرنا کہا اے اللہ ان پر ایسا رحم کر جیسے یہ بچپن میں مجھ پر کیا کرتے تھے ۔ ‘ لیکن ہاں یہ خیال رہے کہ اگر یہ شرک کی طرف بلائیں تو ان کا کہا نہ ماننا ۔ سمجھ لو کہ تمہیں ایک دن میرے سامنے کھڑے ہونا ہے ۔ اس وقت میں اپنی پرستش کا اور میرے فرمان کے تحت ماں باپ کی اطاعت کرنے کا بدلہ دونگا ۔ اور نیک لوگوں کے ساتھ حشر کرونگا ۔ اگر تم نے اپنے ماں باپ کی وہ باتیں نہیں مانیں جو میرے احکام کے خلاف نہیں تو وہ خواہ کیسے ہی ہوں میں ان سے تمہیں الگ کر لوں گا ۔ کیونکہ قیامت کے دن انسان اس کے ساتھ ہو گا جسے وہ دنیا میں چاہتا تھا ۔ اس لیے اس کے بعد ہی فرمایا کہ ایمان والوں اور نیک عمل والوں کو میں اپنے صالح بندوں میں ملا دوں گا ۔ { سیدنا سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میرے بارے میں چار آیتیں اتریں جن میں سے ایک آیت یہ بھی ہے ۔ یہ اس لیے اتری کہ میری ماں نے مجھ سے کہا کہ اے سعد ! کیا اللہ کا حکم میرے ساتھ نیکی کرنے کا نہیں ؟ اگر تو نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے انکار نہ کیا تو واللہ میں کھانا پینا چھوڑ دونگی چنانچہ اس نے یہی کیا یہاں تک کہ لوگ زبردستی اس کا منہ کھول کر غذا حلق میں پہنچا دیتے تھے پس یہ آیت اتری ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:1743-44) [ ترمذی وغیرہ ] العنكبوت
9 العنكبوت
10 مرتد ہونے والے ان منافقوں کا ذکر ہو رہا ہے جو زبانی ایمان کا دعویٰ کر لیتے ہیں لیکن جہاں مخالفین کی طرف سے کوئی دکھ پہنچا کہ یہ اسے اللہ کا عذاب سمجھ کر مرتد ہو جاتے ہیں ۔ یہی معنی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ نے کئے ہیں ۔ جیسے اور آیت میں ہے «وَمِنَ النَّاسِ مَن یَعْبُدُ اللہَ عَلَیٰ حَرْ‌فٍ فَإِنْ أَصَابَہُ خَیْرٌ‌ اطْمَأَنَّ بِہِ وَإِنْ أَصَابَتْہُ فِتْنَۃٌ انقَلَبَ عَلَیٰ وَجْہِہِ خَسِرَ‌ الدٰنْیَا وَالْآخِرَ‌ۃَ ذٰلِکَ ہُوَ الْخُسْرَ‌انُ الْمُبِینُ» ۱؎ (22-الحج:11) یعنی ’ بعض لوگ ایک کنارے کھڑے ہو کر اللہ کی عبادت کرتے ہیں اگر راحت ملی تو مطمئن ہو گئے اور اگر مصیبت پہنچی تو منہ پھیر لیا ۔ ‘ یہاں یہی بیان ہو رہا ہے کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی غنیمت ملی ، کوئی فتح ملی تو اپنا دیندار ہونا ظاہر کرنے لگتے ہیں ۔ جیسے اور آیت میں ہے «الَّذِینَ یَتَرَ‌بَّصُونَ بِکُمْ فَإِن کَانَ لَکُمْ فَتْحٌ مِّنَ اللہِ قَالُوا أَلَمْ نَکُن مَّعَکُمْ وَإِن کَانَ لِلْکَافِرِ‌ینَ نَصِیبٌ قَالُوا أَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَیْکُمْ وَنَمْنَعْکُم مِّنَ الْمُؤْمِنِینَ فَ اللہُ یَحْکُمُ بَیْنَکُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَلَن یَجْعَلَ اللہُ لِلْکَافِرِ‌ینَ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ سَبِیلًا» ۱؎ (4-النساء:141) یعنی ’ وہ تمہیں دیکھتے رہتے ہیں اگر فتح و نصرت ہوئی تو ہانک لگانے لگتے ہیں کہ کیا ہم تمہارے ساتھ نہیں ہیں ؟ اور اگر کافروں کی بن آئی تو ان سے اپنی ساز جتانے لگتے ہیں کہ دیکھو ہم نے تمہارا ساتھ دیا اور تمہیں بچا لیا ۔ ‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : بہت ممکن ہے کہ اللہ اپنے بندوں کو بالکل ہی غالب کر دے پھر تو یہ اپنی اس چھپی ہوئی حرکت پر صاف نادم ہو جائیں ۔ یہاں فرمایا کہ یہ کیا بات ہے ؟ انہیں اتنا بھی نہیں معلوم کہ اللہ عالم الغیب ہے ۔ وہ جہاں زبانی بات جانتا ہے وہاں قلبی بات بھی اسے معلوم ہے ۔ اللہ تعالیٰ بھلائیاں ، برائیاں پہنچا کر نیک و بد کو مومن ومنافق کو الگ الگ کر دے گا ۔ نفس کے پرستار ، نفع کے خواہاں یکسو ہو جائیں گے اور نفع نقصان میں ایمان کو نہ چھوڑنے والے ظاہر ہو جائیں گے ۔ جیسے فرمایا «وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ حَتَّیٰ نَعْلَمَ الْمُجَاہِدِینَ مِنکُمْ وَالصَّابِرِ‌ینَ وَنَبْلُوَ أَخْبَارَ‌کُمْ» ۱؎ (47-محمد:31) ’ ہم تمہیں آزماتے رہا کریں گے یہاں تک کہ تم میں سے مجاہدین کو اور صابرین کو ہم دنیا کے سامنے ظاہر کر دیں اور تمہاری خبریں دیکھ بھال لیں ۔ ‘ احد کے امتحان کا ذکر کر کے فرمایا کہ اللہ مومنوں کو جس حالت پر وہ تھے ، رکھنے والا نہ تھا جب تک کہ خبیث و طیب کی تمیز نہ کر لے ۔ العنكبوت
11 العنكبوت
12 گناہ کسی کا اور سزا دوسرے کو کفار قریش مسلمانوں کو بہکانے کے لیے ان سے یہ بھی کہتے تھے کہ تم ہمارے مذہب پر عمل کرو اگر اس میں کوئی گناہ ہو تو وہ ہم پر ۔ حالانکہ یہ اصولاً غلط ہے کہ کسی کا بوجھ کوئی اٹھائے ۔ یہ بالکل دروغ گو ہیں ۔ کوئی اپنے قرابت داروں کے گناہ بھی اپنے اوپر نہیں لے سکتا ۔ دوست دوست کو اس دن نہ پوچھے گا ۔ ہاں یہ لوگ اپنے گناہوں کے بوجھ اٹھائیں گے اور جنہیں انہوں نے گمراہ کیا ہے ان کے بوجھ بھی ان پر لادے جائیں گے مگر وہ گمراہ شدہ لوگ ہلکے نہ ہوں گے ۔ ان کا بوجھ ان پر ہے ۔ جیسے فرمان ہے «لِیَحْمِلُوا أَوْزَارَ‌ہُمْ کَامِلَۃً یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَمِنْ أَوْزَارِ‌ الَّذِینَ یُضِلٰونَہُم بِغَیْرِ‌ عِلْمٍ أَلَا سَاءَ مَا یَزِرُ‌ونَ» ۱؎ (16-النحل:25) یعنی ’ یہ اپنے کامل بوجھ اٹھائیں گے اور جنہیں بہکایا تھا ان کے بہکانے کا گناہ بھی ان پر ہو گا ۔ ‘ صحیح حدیث میں ہے کہ { جو ہدایت کی طرف لوگوں کو دعوت دے ۔ قیامت تک جو لوگ اس ہدایت پر چلیں گے ان سب کو جتنا ثواب ہو گا اتنا ہی اس ایک کو ہو گا لیکن ان کے ثوابوں میں سے گھٹ کر نہیں ۔ اسی طرح جس نے برائی پھیلائی اس پر جو بھی عمل پیرا ہوں ان سب کو جتنا گناہ ہو گا اتنا ہی اس ایک کو ہو گا لیکن ان گناہوں میں کوئی کمی نہیں ہو گی ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:6745) اور حدیث میں ہے کہ { زمین پر جتنی خون ریزیاں ہوتی ہیں ، آدم علیہ السلام کا وہ لڑکا جس نے اپنے بھائی کو ناحق قتل کر دیا تھا ، اس پر اس خون کا وبال پڑتا ہے ، اس لیے کہ قتلِ بےجا اسی سے شروع ہوا ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:3335) ان کے تمام بہتان ، جھوٹ ، افترا کی ان سے بروز قیامت بازپرس ہو گی ۔ سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی تمام رسالت پہنچا دی ۔ آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ { ظلم سے بچو کیونکہ قیامت والے دن اللہ تبارک و تعالیٰ فرمائے گا مجھے اپنی عزت کی اور اپنے جلال کی قسم آج ایک ظالم کو بھی میں نہ چھوڑوں گا ۔ پھر ایک منادیٰ ندا کرے گا کہ فلاں فلاں کہاں ہے ؟ وہ آئے گا اور پہاڑ کے پہاڑ نیکیوں کے اس کے ساتھ ہوں گے یہاں تک کہ اہل محشر کی نگاہیں اس کی طرف اٹھنے لگیں گی ۔ وہ اللہ کے سامنے آ کر کھڑا ہو جائے گا پھر منادیٰ ندا کرے گا کہ اس طرف سے کسی کا کوئی حق ہو اس نے کسی پر ظلم کیا ہو وہ آ جائے اور اپنا بدلہ لے لے ۔ اب تو ادھر ادھر سے لوگ اٹھ کھڑے ہوں گے اور اسے گھیر کر اللہ کے سامنے کھڑے ہو جائیں گے ، اللہ تعالیٰ فرمائے گا : میرے ان بندوں کو ان کے حق دلواؤ ۔ فرشتے کہیں گے : اے اللہ ! کیسے دلوائیں ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : اس کی نیکیاں لو اور انہیں دو ۔ چنانچہ یوں ہی کیا جائے گا یہاں تک کہ ایک نیکی باقی نہیں رہے گی اور ابھی تک بعض مظلوم اور حقدار باقی رہ جائیں گے ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا انہیں بھی بدلہ دو فرشتے کہیں گے : اب تو اس کے پاس ایک نیکی بھی نہیں رہی ۔ اللہ تعالیٰ حکم دے گا : ان کے گناہ اس پر لاد دو ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گھبرا کر اس آیت کی تلاوت فرمائی «وَلَیَحْمِلُنَّ أَثْقَالَہُمْ وَأَثْقَالًا مَّعَ أَثْقَالِہِمْ وَلَیُسْأَلُنَّ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَمَّا کَانُوا یَفْتَرُ‌ونَ» } ۱؎ (صحیح مسلم:2581) ابن ابی حاتم میں ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اے معاذ رضی اللہ عنہ ! قیامت کے دن مومن کی تمام کوششوں سے سوال کیا جائے گا یہاں تک کہ اس کی آنکھوں کے سرمے اور اس کے مٹی کے گوندھے سے بھی ۔ دیکھ ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن کوئی اور تیری نیکیاں لے جائے ۔ } ۱؎ (ابونعیم فی الحلیۃ:31/10:ضعیف) العنكبوت
13 العنكبوت
14 نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حوصلہ افزائی اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تسلی ہے ۔ آپ کو خبر دی جاتی ہے کہ نوح علیہ السلام اتنی لمبی مدت تک اپنی قوم کو اللہ کی طرف بلاتے رہے ۔ دن رات ،پوشیدہ اور ظاہر ہر طرح آپ نے انہیں اللہ کے دین کی طرف دعوت دی ۔ لیکن وہ اپنی سرکشی اور گمراہی میں ہی بڑھتے گئے ۔ بہت ہی کم لوگ آپ پر ایمان لائے ۔ آخرکار اللہ کا غضب ان پر بصورت طوفان آیا اور انہیں تہس نہس کر دیا تو اے پیغمبر آخرالزمان آپ اپنی قوم کی اس تکذیب کو نیا خیال نہ کریں ۔ آپ اپنے دل کو رنجیدہ نہ کریں ۔ ہدایت و ضلالت اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ جن لوگوں کا جہنم میں جانا طے ہو چکا ہے انہیں تو کوئی بھی ہدایت نہیں دے سکتا ۔ تمام نشانیاں گو دیکھ لیں لیکن انہیں ایمان نصیب نہیں ہو گا ۔ بالآخر جیسے نوح علیہ السلام کو نجات ملی اور قوم ڈوب گئی اسی طرح آخر میں غلبہ آپ کا ہے اور آپ کے مخالفین پست ہوں گے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ چالیس سال کی عمر میں نوح علیہ السلام کو نبوت ملی اور نبوت کے بعد ساڑھے نو سو سال تک آپ نے اپنی قوم کو تبلیغ کی ۔ طوفان کی عالمگیر ہلاکت کے بعد بھی نوح علیہ السلام ساٹھ سال تک زندہ رہے یہاں تک کہ بنو آدم کی نسل پھیل گئی اور دنیا میں یہ بکثرت نظر آنے لگے ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : نوح علیہ السلام کی عمر کل ساڑھے نو سو سال کی تھی تین سو سال تو آپ کے بے دعوت ان میں گزرے ،تین سو سال تک اللہ کی طرف اپنی قوم کو بلایا اور ساڑے تین سو سال بعد طوفان کے بعد زندہ رہے لیکن یہ قول غریب ہے اور آیت کے ظاہر الفاظ سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ ساڑھے نو سو سال تک اپنی قوم کو اللہ کی وحدانیت کی طرف بلاتے رہے ۔ عون بن ابی شداد کہتے ہیں کہ جب آپ کی عمر سو سال کی تھی اس وقت اللہ کی وحی آپ کو آئی اس کے بعد ساڑھے نو سو سال تک آپ لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتے رہے اس کے بعد پھر ساڑھے تین سو سال کی عمر اور پائی ۔ لیکن یہ بھی غریب قول ہے ۔ زیادہ درست قول ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول نظر آتا ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ ابن عمر نے مجاہدرحمہ اللہ سے پوچھا کہ نوح علیہ السلام اپنی قوم میں کتنی مدت تک رہے ؟ انہوں نے کہا ساڑھے نو سو سال ۔ آپ نے فرمایا کہ اس کے بعد سے لوگوں کے اخلاق اور ان کی عمریں اور عقلیں آج تک گھٹتی ہی چلی آئیں ۔ جب قوم نوح پر اللہ کا غضب نازل ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے اپنے نبی کو اور ایمان والوں کو جو آپ کے حکم سے طوفان سے پہلے کشتی میں سوار ہو چکے تھے بچا لیا ۔ سورۃ ہود میں اس کی تفصیل گزر چکی ہے اس لیے یہاں دوبارہ وارد نہیں کرتے ۔ ہم نے اس کشتی کو دنیا کے لیے نشان عبرت بنا دیا ۔ یا تو خود اس کشتی کو جیسے قتادۃ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ اول اسلام تک وہ جودی پہاڑ پر تھی ۔ یا یہ کہ کشتی کو دیکھ کر پھر پانی کے سفر کے لیے جو کشتیاں لوگوں نے بنائیں ان کو انہیں دیکھ کر اللہ کا وہ بچانا یاد آ جاتا ہے ۔ جیسے فرمان ہے «وَآیَۃٌ لَّہُمْ أَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّ‌یَّتَہُمْ فِی الْفُلْکِ الْمَشْحُونِ وَخَلَقْنَا لَہُم مِّن مِّثْلِہِ مَا یَرْ‌کَبُونَ» ۱؎ (36-یس:41-42) یعنی ’ ہماری قدرت کی نشانی ان کے لیے یہ بھی ہے کہ ہم نے ان کی نسل کو بھری ہوئی کشتی میں بٹھا دیا ۔ اور ہم نے ان کے لیے اور اسی جیسی سواریاں بنا دیں ۔ ‘ سورۃ الحاقہ میں فرمایا : جب پانی کا طوفان آیا تو ہم نے تمہیں کشتی میں سوار کر لیا ۔ اور ان کا ذکر تمہارے لیے یادگار بنا دیا تاکہ جن کانوں کو اللہ نے یاد کی طاقت دی ہے وہ یاد رکھ لیں ۔ یہاں شخص سے جنس کی طرف چڑھاؤ کیا ہے ۔ جیسے «وَلَقَدْ زَیَّنَّا السَّمَاءَ الدٰنْیَا بِمَصَابِیحَ وَجَعَلْنَاہَا رُ‌جُومًا لِّلشَّیَاطِینِ وَأَعْتَدْنَا لَہُمْ عَذَابَ السَّعِیرِ‌» ۱؎ (67-الملک:5) والی آیت میں ہے کہ آسمان دنیا کے ستاروں کے باعث زینت آسمان ہونا بیان فرما کر ان کی وضاحت میں شہاب کا شیطانوں کے لیے رجم ہونا بیان فرمایا ہے ۔ اور آیت میں انسان کے مٹی سے پیدا ہونے کا ذکر کر کے فرمایا ہے پھر ہم نے اسے نطفے کی شکل میں قرار گاہ میں کر دیا ۔ ہاں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آیت میں «ھا» کی ضمیر کا مرجع عقوبت اور سزا کو کیا جائے ، «وَاللہُ اَعْلَمُ» [ یہاں یہ خیال رہے کہ تفسیر ابن کثیر کے بعض نسخوں میں شروع تفسیر میں کچھ عبارت زیادہ ہے جو بعض نسخوں میں نہیں ۔ وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نوح علیہ السلام کا ساڑھے نو سو سال تک آزمایا جانا بیان کیا اور ان کی قوم کو ان کی اطاعت کے ساتھ آزمانا بتلایا کہ ان کی تکذیب کی وجہ سے اللہ نے انہیں غرق کر دیا ۔ پھر اس کے بعد جلا دیا ۔ پھر قوم ابراہیم علیہ السلام کی آزمائش کا ذکر کیا کہ انہوں نے بھی اطاعت ومتابعت نہ کی پھر لوط علیہ السلام کی آزمائش کا ذکر کیا اور ان کی قوم کا حشر بیان فرمایا ۔ پھر شعیب علیہ السلام کی قوم کے واقعات سامنے رکھے پھر عادیوں ، ثمودیوں ، قارونیوں ، فرعونیوں ، ہامانیوں وغیرہ کا ذکر کیا کہ اللہ پر ایمان نہ لانے اور اس کی توحید کو نہ ماننے کی وجہ سے انہیں بھی طرح طرح کی سزائیں دی گئیں ۔ پھر اپنے پیغمبر اعظم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین اور منافقین سے تکالیف سہنے کا ذکر کیا اور آپ کو حکم فرمایا کہ اہل کتاب سے بہترین طریق پر مناظرہ کریں ۔ ] العنكبوت
15 العنكبوت
16 ریاکاری سے بچو امام الموحدین ابوالمرسلین خلیل اللہ علیہ السلام کا بیان ہو رہا ہے کہ انہوں نے اپنی قوم کو توحید اللہ کی دعوت دی ریاکاری سے بچنے اور دل میں پرہیزگاری قائم کرنے کا حکم دیا اس کی نعمتوں پر شکر گزاری کرنے کو فرمایا ۔ اور اس کا نفع بھی بتایا کہ دنیا اور آخرت کی برائیاں اس سے دور ہو جائیں گی اور دونوں جہاں کی نعمتیں اس سے مل جائیں گی ۔ ساتھ ہی انہیں بتایا کہ جن بتوں کی تم پرستش کر رہے ہو ۔ یہ تو بےضرر اور بے نفع ہے تم نے خود ہی ان کے نام اور ان کے اجسام تراش لیے ہیں ۔ وہ تو تمہاری طرح مخلوق ہیں بلکہ تم سے بھی کمزور ہیں ۔ یہ تمہاری روزیوں کے بھی مختار نہیں ۔ اللہ ہی سے روزیاں طلب کرو ۔ اسی حصہ کے ساتھ آیت «إِیّاکَ نَعبُدُ وَإِیّاکَ نَستَعینُ» ۱؎ (1-الفاتحۃ:5) بھی ہے کہ ’ ہم سب تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد چاہتے ہیں ۔ ‘ یہی آسیہ رضی اللہ عنہا کی دعا میں ہے آیت «رَ‌بِّ ابْنِ لِی عِندَکَ بَیْتًا فِی الْجَنَّۃِ» ۱؎ (66-التحریم:11) ’ اے اللہ ! میرے لیے اپنے پاس ہی جنت میں مکان بنا ‘ ۔ چونکہ اس کے سوا کوئی رزق نہیں دے سکتا اس لیے تم اسی سے روزیاں طلب کرو اور جب اس کی روزیاں کھاؤ تو اس کے سوا دوسرے کی عبادت نہ کرو ۔ اس کی نعمتوں کا شکر بجالاؤ ۔ تم میں سے ہر ایک اسی کی طرف لوٹنے والا ہے ۔ وہ ہر عامل کو اس کے عمل کا بدلہ دے گا ۔ دیکھو مجھے جھوٹا کہہ کر خوش نہ ہو ۔ نظریں ڈالو کہ تم سے پہلے جنہوں نے نبیوں کو جھوٹ کی طرف منسوب کیا تھا ان کی کیسی درگت ہوئی ؟ یاد رکھو نبیوں کا کام صرف پیغام الٰہی پہنچا دینا ہے ۔ ہدایت عدم ہدایت اللہ کے ہاتھ ہے ۔ اپنے آپ کو سعات مندوں میں بناؤ بدبختوں میں شامل نہ کرو ۔ قتادہ رحمہ اللہ تو فرماتے ہیں اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مزید تشفی کی گئی ہے اس مطلب کا تقاضا تو یہ ہے کہ پہلا کام ختم ہوا ۔ اور یہاں سے لے کر آیت «فَمَا کَانَ جَوَابَ قَوْمِہِ إِلَّا أَن قَالُوا اقْتُلُوہُ أَوْ حَرِّ‌قُوہُ فَأَنجَاہُ اللہُ مِنَ النَّارِ‌ إِنَّ فِی ذٰلِکَ لَآیَاتٍ لِّقَوْمٍ یُؤْمِنُونَ» تک یہ سب عبارت بطور جملہ معترضہ کے ہے ۔ ابن جریر رحمہ اللہ نے تو کھلے لفظوں میں یہی کہا ہے ۔ لیکن الفاظ قرآن سے تو بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب کلام خلیل االرحمٰن علیہ السلام کا ہے آپ قیامت کے قائم ہونے کی دلیلیں پیش کر رہے ہیں کیونکہ اس تمام کلام کے بعد آپ کی قوم کا جواب ذکر ہوا ہے ۔ العنكبوت
17 العنكبوت
18 العنكبوت
19 تمام نشانیاں دیکھتے ہیں کہ وہ کچھ نہ تھے پھر اللہ نے پیدا کر دیا لیکن تاہم مر کر جینے کے قائل نہیں حالانکہ اس پر کسی دلیل کی ضروت نہیں کہ جو ابتداءً پیدا کر سکتا ہے اس پر دوبارہ پیدا کرنا بہت ہی آسان ہے ۔ پھر انہیں ہدایت کرتے ہیں کہ زمین اور نشانیوں پر غور کرو ۔ آسمانوں کو ، ستاروں کو ، زمینوں کو ، پہاڑوں کو ،درختوں کو ، جنگلوں کو ، نہروں کو ، دریاؤں کو ،سمندروں کو ، پھلوں کو ، کھیتوں کو دیکھو تو سہی کہ یہ سب کچھ نہ تھا پھر اللہ نے سب کچھ کر دیا کیا یہ تمام نشانیاں اللہ کی قدرت کو تم پر ظاہر نہیں کرتیں ؟ تم نہیں دیکھتے کہ اتنا بڑا صانع وقدیر اللہ کیا کچھ نہیں کر سکتا ؟ وہ تو صرف ہو جا کے کہنے سے تمام کو رچا دیتا ہے وہ خود مختار ہے اسے اسباب کی ضرورت نہیں ۔ اسی مضمون کو اور جگہ فرمایا کہ ’ وہی نئی پیدائش میں پیدا کرتا ہے وہی دوبارہ پیدا کرے گا اور یہ تو اس پر بہت آسان ہے ۔ ‘ ۱؎ (30-الروم:27) پھر فرمایا : زمین میں چل پھر کر دیکھو کہ اللہ نے ابتدائی پیدائش کس طرح کی تو تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ قیامت کے دن کی دوسری پیدائش کی کیا کیفیت ہو گی ۔ اللہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ جیسے فرمایا : ’ ہم انہیں دنیا کے ہر حصے میں اور خود ان کی اپنی جانوں میں اپنی نشانیاں اس قدر دکھائیں گے کہ ان پر حق ظاہر ہو جائے ۔ ‘ ۱؎ (41-فصلت:53) اور جگہ ارشاد ہے « أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَیْرِ‌ شَیْءٍ أَمْ ہُمُ الْخَالِقُونَ أَمْ خَلَقُوا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ بَل لَّا یُوقِنُونَ » ۱؎ (52-الطور:35-36) ’ کیا وہ بغیر کسی چیز کے پیدا کئے گئے یا وہی اپنے خالق ہیں ؟ یا وہ آسمان و زمین کے خالق ہیں ؟ کچھ نہیں بےیقین لوگ ہیں ۔ ‘ یہ اللہ کی شان ہے کہ جسے چاہے عذاب کرے ، جس پر چاہے رحم کرے ، وہ حاکم ہے ،قبضے والا ہے ،جو چاہتا ہے کرتا ہے ،جو ارادہ کرتا ہے جاری کر دیتا ہے ، کوئی اس کے حکم کو ٹال نہیں سکتا کوئی اس کے ارادے کو بدل نہیں سکتا ۔ کوئی اس سے چوں چرا نہیں کر سکتا ، کوئی اس سے سوال نہیں کر سکتا اور وہ سب پر غالب ہے ۔ جس سے چاہے پوچھ بیٹھے سب اس کے قبضے میں اس کی ماتحتی میں ہیں ۔ خلق کا خالق امر کا مالک وہی ہے ۔ اس نے جو کچھ کیا سراسر عدل ہے اس لیے کہ وہی مالک ہے وہ ظلم سے پاک ہے ۔ حدیث شریف میں ہے : { اگر اللہ تعالیٰ ساتوں آسمان والوں اور زمین والوں کو عذاب کرے تب بھی وہ ظالم نہیں ۔ } ۱؎ (سنن ابوداود:4699،قال الشیخ الألبانی:صحیح) عذاب و رحم سب اس کی چیزیں ہیں ۔ سب کے سب قیامت کے دن اس کی طرف لوٹائے جائیں گے اسی کے سامنے حاضر ہو کر پیش ہونگے ۔ زمین والوں میں سے اور آسمان والوں میں سے کوئی اسے ہرا نہیں سکتا ۔ بلکہ سب پر وہی غالب ہے ۔ ہر ایک اس سے کانپ رہا ہے سب اس کے درد کے فقیر ہیں اور وہ سب سے غنی ہے ۔ تمہارا کوئی ولی اور مددگار اس کے سوا نہیں ۔ اللہ کی آیتوں سے کفر کرنے والے ، اس کی ملاقات کو نہ ماننے والے ، اللہ کی رحمت سے محروم ہیں اور ان کے لیے دنیا اور آخرت میں درد ناک الم افزا عذاب ہیں ۔ العنكبوت
20 العنكبوت
21 العنكبوت
22 العنكبوت
23 العنكبوت
24 عقلی اور نقلی دلائل سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا یہ عقلی اور نقلی دلائل کا وعظ بھی ان لوگوں کے دلوں پر اثر نہ کر سکا اور انہوں نے یہاں بھی اپنی اسی شقاوت کا مظاہرہ کیا ۔ جواب تو دلیلوں کا دے نہیں سکتے تھے لہٰذا اپنی قوت سے حق کو دبانے لگے اور اپنی طاقت سے سچ کو روکنے لگے کہنے لگے ایک گڑھا کھودو اس میں آگ بھڑکاؤ اور اس آگ میں اسے ڈال دو کہ جل جائے ۔ لیکن اللہ نے ان کے اس مکر کو انہی پر لوٹا دیا مدتوں تک لکڑیاں جمع کرتے رہے اور ایک گڑھا کھود کر اس کے اردگرد احاطے کی دیواریں کھڑی کر کے لکڑیوں میں آگ لگا دی جب اس کے شعلے آسمان تک پہنچنے لگے اور اتنی زور کی آگ روشن ہوئی کہ زمین پر کہیں اتنی آگ نہیں دیکھی گئی تو ابراہیم علیہ السلام کو پکڑ کر باندھ کر منجنیق میں ڈال کر جھلا کر اس آگ میں ڈال دیا لیکن اللہ نے اسے اپنے خلیل علیہ السلام پر باغ وبہار بنا دیا آپ کئی دن کے بعد صحیح سلامت اس میں سے نکل آئے ۔ یہ اور اس جیسی قربانیاں تھیں جن کے باعث آپ کو امامت کا منصب عطا ہوا ۔ اپنا نفس آپ نے رحمان کے لیے ، اپنا جسم آپ نے میزان کے لیے ، اپنی اولاد آپ نے قربانی کے لیے ، اپنا مال آپ نے فیضان کے لیے کر دیا ۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے کل ادیان والے آپ سے محبت رکھتے ہیں ۔ اللہ نے آگ کو آپ کے لیے باغ بنا دیا ۔ اس واقعہ میں ایمانداروں کے لیے قدرت الٰہی کی بہت سی نشانیاں ہیں ۔ آپ نے اپنی قوم سے فرمایا کہ جن بتوں کو تم نے معبود بنا رکھاہے یہ تمہارا ایکا اور اتفاق دنیا تک ہی ہے ۔ «مَوَدَّۃً» زبر کے ساتھ مفعول لہ ہے ۔ ایک قرأت میں پیش کے ساتھ بھی ہے یعنی تمہاری یہ بت پرستی تمہارے لیے گو دنیا کی محبت حاصل کرا دے ۔ لیکن قیامت کے دن معاملہ برعکس ہو جائے گا مودۃ کی جگہ نفرت اور اتفاق کے بدلے اختلاف ہو جائے گا ۔ ایک دوسرے سے جھگڑو گے ، ایک دوسرے پر الزام رکھو گے ، ایک دوسرے پر لعنتیں بھیجو گے ۔ ہر گروہ دوسرے گروہ پر پھٹکار برسائے گا ۔ سب دوست دشمن بن جائیں گے ۔ ہاں پرہیزگار ، نیکو کار آج بھی ایک دوسرے کے خیرخواہ اور دوست رہیں گے ۔ کفار سب کے سب میدان قیامت کی ٹھوکریں کھا کھا کر بالآخر جہنم میں جائیں گے ۔ کوئی اتنا بھی نہ ہو گا کہ ان کی کسی طرح مدد کر سکے ۔ حدیث میں ہے { تمام اگلے پچھلوں کو اللہ تعالیٰ ایک میدان میں جمع کرے گا ۔ کون جان سکتا ہے کہ دونوں سمت میں کس طرف ؟ سیدہ ام ہانی رضی اللہ عنہا جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی ہمشیرہ ہیں ، نے جواب دیا کہ اللہ اور اس کارسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی زیادہ علم والا ہے ۔ پھر ایک منادی عرش تلے سے آواز دے گا کہ اے موحدو ! تب توحید والے اپنا سر اٹھائیں گے پھر یہی آواز لگائے گا پھر سہ بارہ یہی پکارے گا اور کہے اللہ تعالیٰ نے تمہاری تمام لغزشوں سے درگزر فرما لیا ۔ اب لوگ کھڑے ہونگے اور آپ کی ناچاقیوں اور لین دین کا مطالبہ کرنے لگیں گے تو اللہ وحدہ لاشریک لہ کی طرف سے آواز دی جائے گی کہ اے اہل توحید تم تو آپس میں ایک دوسرے کو معاف کر دو تمہیں اللہ بدل دے گا ۔ } ۱؎ (طبرانی اوسط:4803:ضعیف) العنكبوت
25 العنكبوت
26 لوط علیہ السلام اور سارہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کہا جاتا ہے کہ لوط علیہ السلام ابرہیم علیہ السلام کے بھتیجے تھے ۔ لوط بن ہاران بن آزر ۔ آپ کی ساری قوم میں سے ایک تو لوط ایمان لائے تھے اور ایک سارہ رضی اللہ عنہا جو آپ کی بیوی تھیں ۔ ایک روایت میں ہے کہ جب آپ کی بیوی صاحبہ کو اس ظالم بادشاہ نے اپنے سپاہیوں کے ذریعہ اپنے پاس بلوایا تو ابراہیم نے کہا تھا کہ دیکھو میں نے اپنا رشتہ تم سے بھائی بہن کا بنایا ہے تم بھی یہی کہنا کیونکہ اس وقت دنیا پر میرے اور تمہارے سوا کوئی مومن نہیں ہے تو ممکن ہے کہ اس سے مراد یہ ہو کہ کوئی میاں بیوی ہمارے سوا ایماندار نہیں ۔ لوط علیہ السلام آپ پر ایمان تو لائے مگر اسی وقت ہجرت کر کے شام چلے گئے تھے پھر اہل سدوم کی طرف نبی بنا کر بھیج دئے گئے تھے جیسا کہ بیان گزرا اور آئے گا ۔ ہجرت کا ارادہ یا تو لوط علیہ السلام نے ظاہر فرمایا کیونکہ ضمیر کا مرجع اقرب تو یہی ہے ۔ یا ابراہیم نے جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما اور ضحاک رحمہ اللہ کا بیان ہے ۔ تو گویا لوط علیہ السلام کے ایمان لانے کے بعد آپ نے اپنی قوم سے دست برداری کر لی اور اپنا ارادہ ظاہر کیا کہ اور کسی جگہ جاؤں شاید وہاں والے اللہ والے بن جائیں ۔ عزت اللہ کی اس کے رسول کی اور مومنوں کی ہے ۔ حکمت والے اقوال ، افعال ، تقدیر ، شریعت اللہ کی ہے ۔ قتادۃ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ آپ کوفے سے ہجرت کر کے شام کے ملک کی طرف گئے ۔ حدیث میں ہے کہ { ہجرت کے بعد کی ہجرت ابراہیم علیہ السلام کی ہجرت گاہ کی طرف ہو گی ۔ اس وقت زمین پر بدترین لوگ باقی رہ جائیں گے جنہیں زمین تھوک دے گی اور اللہ ان سے نفرت کرے گا انہیں آگ سورؤں اور بندروں کے ساتھ ہنکاتی پھرے گی ۔ راتوں کو دنوں کو انہی کے ساتھ رہے گی اور ان کی جھڑن کھاتی رہے گی ۔ } ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:27730:مرسل) اور روایت میں ہے { جو ان میں سے پیچھے رہ جائے گا اسے یہ آگ کھا جائے گی اور مشرق کی طرف سے کچھ لوگ میری امت میں ایسے نکلیں گے جو قرآن پڑھیں گے لیکن ان کے گلے سے نیچے نہیں اترے گا ان کے خاتمے کے بعد دوسرا گروہ کھڑا ہو گا ۔ یہاں تک کہ آپ نے بیس سے بھی زیادہ بار اسے دہرایا ۔ یہاں تک کہ انہی کے آخری گروہ میں سے دجال نکلے گا ۔ } ۱؎ (مسند احمد:199/2:ضعیف) { سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک زمانہ تو ہم پر وہ تھا کہ ہم ایک مسلمان بھائی کے لیے درہم ودینار کو کوئی چیز نہیں سمجھتے تھے اپنی دولت اپنے بھائی کی ہی سمجھتے تھے پھر وہ زمانہ آیا کہ دولت ہمیں اپنے مسلم بھائی سے زیادہ عزیز معلوم ہونے لگی ۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ اگر تم بیلوں کی دموں کے پیچھے لگ جاؤ گے اور تجارت میں مشغول ہوجاؤ گے اور اللہ کی راہ کا جہاد چھوڑ دو گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری گردنوں میں ذلت کے پٹے ڈال دے گا جو اس وقت تک تم سے الگ نہ ہوں گے جب تک کہ تم پھر سے وہیں نہ آ جاؤ جہاں تھے اور تم توبہ نہ کر لو ۔ پھر وہی حدیث بیان کی جو اوپر گزری اور فرمایا کہ میری امت میں ایسے لوگ ہونگے جو قرآن پڑھیں گے اور بدعملیاں کریں گے قرآن ان کے حلقوم سے نیچے نہیں اترے گا ۔ ان کے علم کو دیکھ کر تم اپنے علموں کو حقیر سمجھنے لگوگے ۔ وہ اہل اسلام کو قتل کریں گے پس جب یہ لوگ ظاہر ہوں تو انہیں قتل کر دینا ، پھر نکلیں پھر مار ڈالنا ، پھر ظاہر ہوں پھر قتل کر دینا ۔ وہ بھی خوش نصیب ہے جو انھیں قتل کرے اور وہ بھی خوش نصیب ہے جو انکے ہاتھوں قتل کیا جائے جب ان کے گروہ نکلیں گے اللہ انہیں برباد کر دے گا پھر نکلیں گے پھر برباد ہو جائیں گے ۔ { اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی بیس مرتبہ بلکہ اس سے بھی زیادہ بار یہی فرمایا ۔ } ۱؎ (مسند احمد:84/2:ضعیف) ہم نے ابراہیم علیہ السلام کو اسحاق علیہ السلام نامی بیٹا دیا اور اسحاق علیہ السلام کو یعقوب علیہ السلام نامی ۔ جیسے فرمان ہے کہ جب خلیل اللہ نے اپنی قوم کو اور ان کے معبودوں کو چھوڑ دیا تو اللہ نے آپ کو اسحاق اور یعقوب دیے اور ہر ایک کو نبی بنایا ۔ اس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ پوتا بھی آپ کی موجودگی میں ہو جائے گا اسحاق علیہ السلام بیٹے تھے اور یعقوب علیہ السلام پوتے تھے ۔ اور آیت میں ہے کہ ہم نے ابراہیم علیہ السلام کی بیوی صاحبہ کو اسحٰق کی اور اسحاق علیہ السلام کے پیچھے یعقوب علیہ السلام کی بشارت دی ۔ اور فرمایا کہ قوم کو چھوڑنے کے بدلے اللہ تمہارے گھر کی بستی یہ دے گا جس سے تمہاری آنکھیں ٹھنڈی رہیں ۔ پس ثابت ہوا کی یعقوب علیہ السلام اسحاق علیہ السلام کے فرزند تھے ۔ یہی سنت سے بھی ثابت ہے قرآن کی اور آیت میں ہے کیا تم اس وقت موجود تھے جب یعقوب علیہ السلام کی موت کا وقت آیا تو وہ اپنے لڑکوں سے کہنے لگے تم میرے بعد کس کی عبادت کرو گے ؟ انہوں نے کہا آپ کی اور آپ کے والد ابراہیم علیہ السلام ، اسماعیل علیہ السلام ، اسحاق علیہ السلام کے الہ کی جو یکتا ہے اور واحد لا شریک ہے ۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے : { کریم بن کریم بن کریم یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابرہیم علیہم السلام ہیں ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:3382_3390) ابن عباس رضی اللہ عنہما سے جو مروی ہے کہ اسحاق ویعقوب علیہم السلام ابراہیم علیہ السلام کے فرزند تھے اس سے مراد فرزند کے فرزند کو فرزند کہہ دینا ہے ۔ یہ نہیں کہ صلبی فرزند دونوں تھے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما تو کہاں ادنی آدمی بھی ایسی ٹھوکر نہیں کھا سکتا ۔ ہم نے انہی کی اولاد میں کتاب و نبوت رکھ دی ۔ خلیل کا خطاب انہیں کو ملا انہیں کہا گیا پھر ان کے بعد انہی کی نسل میں نبوت وحکمت رہی بنی اسرائیل کے تمام انبیاء یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم علیہم السلام کی نسل سے ہیں ۔ عیسیٰ تک تو یہ سلسلہ یوں ہی چلا ۔ بنی اسرائیل کے اس آخری پیغمبر نے اپنی امت کو صاف کہہ دیا کہ میں نے تمہیں نبی عربی قریشی ہاشمی خاتم المرسلین اور سیدالرسل اولادِ آدم کی بشارت دیتا ہوں جنہیں اللہ نے چن لیا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسماعیل علیہ السلام کی نسل میں سے تھے ۔ اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے آپ کے سوائے اور نبی نہیں ہوا ۔ «علیہ افضل الصلوۃ والتسلیم» ۔ ہم نے انہیں دنیا کے ثواب بھی دئیے اور آخرت کی نیکیاں بھی عطا فرمائیں ۔ دنیا میں رزق وسیع ، جگہ پاک ، بیوی نیک ، سیرت جمیل اور ذکر حسن دیا ساری دنیا کے دلوں میں آپ کی محبت ڈال دی ۔ باوجودیکہ اپنی اطاعت کی توفیق روز بروز اور زیادہ دی ۔ کامل اطاعت گزاری کی توفیق کے ساتھ دنیاکی بھلائیاں بھی عطا فرمائیں ۔ اور آخرت میں بھی صالحین میں رکھا ۔ جیسے فرمان ہے ابراہیم علیہ السلام مکمل فرماں بردار تھے موحد تھے مشرکوں میں سے نہ تھے آخرت میں بھلے لوگوں کا ساتھی ہوا ۔ العنكبوت
27 العنكبوت
28 سب سے خراب عادت لوطیوں کی مشہور بدکرداری سے لوط انہیں روکتے ہیں کہ تم جیسی خباثت تم سے پہلے تو کوئی جانتاہی نہ تھا ۔ کفر ، تکذیب رسول ، اللہ کے حکم کی مخالفت تو خیر اور بھی کرتے رہے مگر مردوں سے حاجت روائی تو کسی نے بھی نہیں کی ۔ دوسری بد خصلت ان میں یہ بھی تھی کہ راستے روکتے تھے ، ڈاکے ڈالتے تھے ، قتل وفساد کرتے تھے مال لوٹ لیتے تھے ، مجلسوں میں علی الاعلان بری باتیں اور لغو حرکتیں کرتے تھے ۔ کوئی کسی کو نہیں روکتا تھا یہاں تک کہ بعض کا قول ہے کہ وہ لواطت بھی علی الاعلان کرتے تھے ۔ گویا سوسائٹی کا ایک مشغلہ یہ بھی تھا ہوائیں نکال کر ہنستے تھے ، مینڈھے لڑواتے ، مرغ لڑواتے اور بدترین برائیاں کرتے تھے اور علی الاعلان مزے لے لے کر گناہ کرتے تھے ۔ حدیث میں ہے کہ { راہ چلتوں پر آوازہ کشی کرتے تھے اور کنکر پتھر پھینکتے رہتے تھے ۔ } ۱؎ (مسند احمد:241/6:ضعیف) سیٹیاں بجاتے تھے کبوتربازی کرتے تھے ، ننگے ہو جاتے تھے ، کفر عنادسرکشی ضد اور ہٹ دھرمی یہاں تک بڑھی ہوئی تھی کہ نبی کے سمجھانے پر کہنے لگے جاجا پس نصیحت چھوڑ جن عذابوں سے ڈرارہا ہے انہیں تو لے آ ۔ ہم بھی تیری سچائی دیکھیں ۔ عاجز آ کر لوط علیہ السلام نے بھی اللہ کے آگے ہاتھ پھیلادئیے کہ اے اللہ ! ان مفسدوں پر مجھے غلبہ دے میری مدد کر ۔ العنكبوت
29 العنكبوت
30 العنكبوت
31 فرشتوں کی آمد لوط علیہ السلام کی جب نہ مانی گئی بلکہ سنی بھی نہ گئی تو آپ نے اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کی جس پر فرشتے بھیجے گئے ۔ یہ فرشتے بشکل انسان پہلے بطور مہمان ابراہیم علیہ السلام کے گھر آئے ۔ آپ نے ضیافت کا سامان تیار کیا اور سامنے لارکھا ۔ جب دیکھا کہ انہیں اس کی رغبت نہ کی تو دل ہی دل میں خوفزدہ ہو گئے تو فرشتوں نے ان کی دلجوئی شروع کی اور خبر دی کہ ایک نیک بچہ ان کے ہاں پیدا ہو گا ۔ سارہ جو وہاں موجود تھیں یہ سن کر تعجب کرنے لگیں جیسے سورۃ ہود اور سورۃ الحجر میں مفصل تفسیر گزر چکی ہے ۔ اب فرشتوں نے اپنا اصلی ارادہ ظاہر کیا ۔ جسے سن کر ابراہیم علیہ السلام کو خیال آیا کہ اگر وہ لوگ کچھ اور ڈھیل دے دئیے جائیں تو کیا عجب کہ راہ راست پر آ جائیں ۔ اس لیے فرمانے لگے کہ وہاں تو لوط نبی علیہ السلام بھی ہیں ۔ فرشتوں نے جواب دیا ہم ان سے غافل نہیں ۔ ہمیں حکم ہے کہ انہیں اور ان کے خاندان کو بچالیں ۔ ہاں ان کی بیوی تو بیشک ہلاک ہو گی ۔ کیونکہ وہ اپنی قوم کے کفر میں ان کا ساتھ دیتی رہی ہے ۔ یہاں سے رخصت ہو کر خوبصورت قریب البلوغ بچوں کی صورت میں یہ لوط علیہ السلام کے پاس پہنچے ۔ انہیں دیکھتے ہی لوط نبی علیہ السلام شش وپنج میں پڑ گئے کہ اگر انہیں ٹھہراتے ہیں تو ان کی خبر پاتے ہی کفار بھڑ بھڑا کر آ جائیں گے اور مجھے تنگ کریں گے اور انہیں بھی پریشان کریں گے ۔ اگر نہیں ٹھہراتا تو یہ انہی کے ہاتھ پڑجائیں گے قوم کی خصلت سے واقف تھے اس لیے ناخوش اور سنجیدہ ہو گئے ۔ لیکن فرشتوں نے ان کی یہ گھبراہٹ دور کر دی کہ آپ گھبرائیے نہیں رنجیدہ نہ ہوں ہم تو اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں انہیں تباہ و برباد کرنے کے لیے آئیں ہیں ۔ آپ اور آپ کا خاندان سوائے آپ کی اہلیہ کے بچ جائے گا ۔ باقی ان سب پر آسمانی عذاب آئے گا اور انہیں ان کی بدکاری کا نتیجہ دکھایا دیا جائے گا ۔ پھر جبرائیل علیہ السلام نے ان بستیوں کو زمین سے اٹھایا اور آسمان تک لے گئے اور وہاں سے الٹ دیں پھر ان پر ان کے نام کے نشاندار پتھر برسائے گئے اور جس عذاب الٰہی کو وہ دورسجمھ رہے تھے وہ قریب ہی نکل آیا ۔ ان کی بستیوں کی جگہ ایک کڑوے گندے اور بدبودار پانی کی جھیل رہ گئی ۔ جو لوگوں کے لیے عبرت حاصل کرنے کا ذریعہ بنے ۔ اور عقلمند لوگ اس ظاہری نشان کو دیکھ کر ان کی بری طرح ہلاکت کو یاد کر کے اللہ کی نافرمانیوں پر دلیری نہ کریں ۔ عرب کے سفر میں رات دن یہ منظر ان کے پیش نظر تھا ۔ العنكبوت
32 العنكبوت
33 العنكبوت
34 العنكبوت
35 العنكبوت
36 فساد نہ کرو اللہ کے بندے اور اس کے سچے رسول شعیب علیہ السلام نے مدین میں اپنی قوم کو وعظ کیا ۔ انہیں اللہ وحدہ لاشریک لہ کی عبادت کا حکم دیا ۔ انہیں اللہ کے عذابوں سے اور اس کی سزاؤں سے ڈرایا ۔ انہیں قیامت کے ہونے کا یقین دلا کر فرمایا کہ اس دن کے لیے کچھ تیاریاں کر لو ، اس دن کا خیال رکھو ، لوگوں پر ظلم و زیادتی نہ کرو ، اللہ کی زمین میں فساد نہ کرو ، برائیوں سے الگ رہو ۔ ان میں ایک عیب یہ بھی تھا کہ ناپ تول میں کمی کرتے تھے لوگوں کے حق مارتے تھے ڈاکے ڈالتے تھے ، راستے بند کر دیتے تھے ، ساتھ ہی اللہ اور اس کے رسول سے کفر کرتے تھے ۔ انہوں نے اپنے پیغمبر کی نصیحتوں پر کان تک نہ دھرا بلکہ انہیں جھوٹا کہا اس بنا پر ان پر عذاب الٰہی برس پڑا ، سخت بھونچال آیا اور ساتھ ہی اتنی تیز وتند آواز آئی کہ دل اڑ گئے اور روحیں پرواز کر گئیں اور گھڑی کی گھڑی میں سب کا سب ڈھیر ہو گیا ۔ ان کا پورا قصہ سورۃ الاعراف ، سورۃ ہود اور سورۃ الشعراء میں گزر چکا ہے ۔ العنكبوت
37 العنكبوت
38 احقاف کے لوگ عادی ہود علیہ السلام کی قوم تھے ۔ احقاف میں رہتے تھے جو یمن کے شہروں میں حضر موت کے قریب ہے ۔ ثمودی صالح علیہ السلام کی قوم کے لوگ تھے ۔ یہ حجر میں بستے تھے جو وادی القریٰ کے قریب ہے ۔ عرب کے راستے میں ان کی بستی آتی تھی جسے یہ بخوبی جانتے تھے ۔ قارون ایک دولت مند شخص تھا جس کے بھرپور خزانوں کی کنجیاں ایک جماعت کی جماعت اٹھاتی تھی ۔ فرعون مصر کا بادشاہ تھا اور ہامان اس کا وزیر اعظم تھا ۔ اسی کے زمانے میں موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام نبی ہو کر اس کی طرف بھیجے گئے ۔ یہ دونوں قبطی کافر تھے ، جب ان کی سرکشی حد سے گزر گئی اللہ کی توحید کے منکر ہو گئے ، رسولوں کو ایذائیں دیں اور ان کی نہ مانی تو اللہ تعالیٰ نے ان سب کو طرح طرح کے عذابوں سے ہلاک کیا ۔ عادیوں پر ہوائیں بھیجیں ۔ انہیں اپنی قوت وطاقت کا بڑا گھمنڈ تھا کسی کو اپنے مقابلے کا نہ جانتے تھے ۔ ان پر ہوا بھیجی جو بڑی تیز وتند تھی جو ان پر زمین کے پتھر اڑا اڑا کر برسانے لگی ۔ بالآخر زور پکڑتے پکڑتے یہاں تک بڑھ گئی کہ انہیں اچک لے جاتی اور آسمان کے قریب لے جا کر پھر گرا دیتی ۔ سر کے بل گرتے اور سر الگ ہو جاتا دھڑ الگ ہو جاتا اور ایسے ہو جاتے جیسے کھجور کے درخت ، جس کے تنے الگ ہوں اور شاخیں جدا ہوں ، ثمودیوں پر حجت الٰہی پوری ہوئی دلائل دے دئیے گئے ان کی طلب کے موافق پتھر میں سے ان کے دیکھتے ہوئے اونٹنی نکلی لیکن تاہم انہیں ایمان نصیب نہ ہوا بلکہ طغیانی میں بڑھتے رہے ۔ اللہ کے نبی صالح علیہ السلام کو دھمکانے اور ڈرانے لگے اور ایمانداروں سے بھی کہنے لگے کہ ہمارے شہر چھوڑ دو ورنہ ہم تمہیں سنگسار کر دیں گے ۔ انہیں ایک چیخ سے پارہ پارہ کر دیا ۔ دل ہل گئے کلیجے اڑ گئے اور سب کی روحیں نکل گئیں ۔ قارون نے سرکشی اور تکبر کیا ۔ طغیانی اور بڑائی کی ، رب الاعلیٰ کی نافرمانی کی ، زمین میں فساد مچا دیا ، اکڑ اکڑ کر چلنے لگا ، اپنے ڈنڈ بل دیکھنے لگا ، اترانے لگا اور پھولنے لگا ، پس اللہ نے اسے مع اس کے محلات کے زمین دوز کر دیا جو آج تک دھنستا چلا جا رہا ہے ۔ فرعون ، ہامان اور ان کے لشکروں کو صبح ہی صبح ایک ساتھ ایک ہی ساعت میں دریا برد کر دیا ۔ ان میں سے ایک بھی نہ بچا جو ان کا نام تو کبھی لیتا ۔ اللہ نے یہ جو کچھ کیا کچھ ان پر ظلم نہ تھا بلکہ ان کے ظلم کا بدلہ تھا ۔ ان کے کرتوت کا پھل تھا ان کی کرنی کی بھرنی تھی ۔ یہ بیان یہاں بطور لف و نشر کے ہے ۔ اولاً جھٹلانے والی امتوں کا ذکر ہوا ۔ پھر ان میں سے ہر ایک کو عذابوں سے ہلاک کرنے کا ۔ کسی نے کہا کہ سب سے پہلے جن پر پتھروں کا مینہ برسانے کا ذکر ہے ان سے مراد لوطی ہیں اور غرق کی جانے والی قوم قوم نوح ہے لیکن یہ قول ٹھیک نہیں ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ مروی تو ہے لیکن سند میں انقطاع ہے ۔ ان دونوں قوموں کی حالت کا ذکر اسی صورت میں بہ تفصیل بیان ہو چکا ہے ۔ پھر بہت سے فاصلے کے بعد یہ بیان ہوا ہے ۔ قتادۃ رحمہ اللہ سے یہ بھی مروی ہے کہ پتھروں کا مینہ جن پر برسایا گیا ان سے مراد لوطی ہیں اور جنہیں چیخ سے ہلاک کیا گیا ان سے مراد قوم شعیب ہے لیکن یہ قول بھی ان آیتوں سے دور دراز ہے ، «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ العنكبوت
39 العنكبوت
40 العنكبوت
41 مکڑی کا جالا جو لوگ اللہ تعالیٰ رب العالمین کے سوا اوروں کی پرستش اور پوجاپاٹ کرتے ہیں ان کی کمزوری اور بےعلمی کا بیان ہو رہا ہے ۔ یہ ان سے مدد ، روزی اور سختی میں کام آنے کے امیدوار رہتے ہیں ۔ ان کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی مکڑی کے جالے میں بارش اور دھوپ اور سردی سے پناہ چاہے ۔ اگر ان میں علم ہوتا تو یہ خالق کو چھوڑ کر مخلوق سے امیدیں وابستہ نہ کرتے ۔ پس ان کا حال ایمانداروں کے حال کے بالکل برعکس ہے ۔ وہ ایک مضبوط کڑے کو تھامے ہوئے ہیں اور یہ مکڑی کے جالے میں اپنا سرچھپائے ہوئے ہیں ۔ اس کا دل اللہ کی طرف ، اس کا جسم اعمال صالحہ کی طرف مشغول ہے اور اس کا دل مخلوق کی طرف اور جسم اس کی پرستش کی طرف جھکا ہوا ہے ۔ العنكبوت
42 1 پھر اللہ تعالیٰ مشرکوں کو ڈرا رہا ہے کہ وہ ان سے ان کے شرک سے اور ان کے جھوٹے معبودوں سے خوب آگاہ ہے ۔ انہیں ان کی شرارت کا ایسا مزہ چھکائے گا کہ یہ یاد کریں ۔ انہیں ڈھیل دینے میں بھی اس کی مصلحت و حکمت ہے ۔ نہ یہ کہ وہ علیم اللہ ان سے بے خبر ہو ۔ ہم نے تو مثالوں سے بھی مسائل سمجھا دئیے ۔ لیکن اس کے سوچنے سمجھنے کا مادہ ، ان میں غوروفکر کرنے کی توفیق صرف باعمل علماء کو ہوتی ہے جو اپنے علم میں پورے ہیں ۔ اس آیت سے ثابت ہوا کہ اللہ کی بیان کردہ مثالوں کو سمجھ لینا سچے علم کی دلیل ہے ۔ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : { میں نے ایک ہزار مثالیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھی سمجھی ہیں ۔ } [ مسند احمد ] ۱؎ (مسند احمد:203/4:ضعیف) اس سے آپ کی فضیلت اور آپ کی علمیت ظاہر ہے ۔ عمرو بن مرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کلام اللہ شریف کی جو آیت میری تلاوت میں آئے اور اس کا تفصیلی معنوں کامطلب میری سمجھ میں نہ آئے تو میرا دل دکھتا ہے مجھے سخت تکلیف ہوتی ہے اور میں ڈرنے لگتا ہوں کہ کہیں اللہ کے نزدیک میری گنتی جاہلوں میں تو نہیں ہو گئی کیونکہ فرمان اللہ یہی ہے کہ ہم ان مثالوں کو لوگوں کے سامنے پیش کر رہے ہیں لیکن سوائے عالموں کے انہیں دوسرے سمجھ نہیں سکتے ۔ العنكبوت
43 العنكبوت
44 مقصد کائنات اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی قدرت کا بیان ہو رہا ہے کہ وہی آسمانوں کا اور زمینوں کا خالق ہے ۔ اس نے انہیں کھیل تماشے کے طور پر یا لغو و بے کار نہیں بنایا ۔ بلکہ اس لیے کہ یہاں لوگوں کو بسائے ۔ پھر ان کی نیکیاں بدیاں دیکھے ۔ اور قیامت کے دن ان کے اعمال کے مطابق انہیں جزا سزادے ۔ بروں کو ان کی بداعمالیوں پر سزا اور نیکوں کو ان کی نیکیوں پر بہترین بدلہ ۔ العنكبوت
45 اخلاص خوف اور اللہ کا ذکر اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اور ایمان داروں کو حکم دے رہا ہے کہ وہ قرآن کریم کی تلاوت کرتے رہیں اور اسے اوروں کو بھی سنائیں اور نمازوں کی نگہبانی کریں اور پابندی سے پڑھتے رہا کریں ۔ نماز انسان کو ناشائستہ کاموں اور نالائق حرکتوں سے باز رکھتی ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ { جس نمازی کی نماز نے اسے گناہوں سے اور سیاہ کاریوں سے باز نہ رکھا وہ اللہ سے بہت دور ہو جاتا ہے ۔ } ابن ابی حاتم میں ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کی تفسیر دریافت کی گئی تو آپ نے فرمایا : { جسے اس کی نماز بےجا اور فحش کاموں سے نہ روکے تو سمجھ لو کہ اس کی نماز اللہ کے ہاں مقبول نہیں ہوئی ۔ } ۱؎ (ضعیف و منقطع) اور روایت میں ہے کہ { وہ اللہ سے دور ہی ہوتا چلا جائے گا } ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:11025:ضعیف) ایک موقوف روایت میں ہے ، سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ { جو نمازی بھلے کاموں میں مشغول اور برے کاموں سے بچنے والا نہ ہو سمجھ لو کہ اس کی نماز اسے اللہ سے اور دور کرتی جا رہی ہے ۔ } رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” جو نماز کی بات نہ مانے اس کی نماز نہیں ، نماز بےحیائی سے اور بدفعلیوں سے روکتی ہے ، اس کی اطاعت یہ ہے کہ ان بےہودہ کاموں سے نمازی رک جائے ۔ } شعیب علیہ السلام سے جب ان کی قوم نے کہا کہ اے شعیب علیہ السلام ! کیا تمہیں تمہاری نماز حکم کرتی ہے تو سفیان رحمہ اللہ نے اس کی تفسیر میں فرمایا کہ { ہاں اللہ کی قسم ! نماز حکم بھی کرتی ہے اور منع بھی کرتی ہے ۔ } ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:27784:ضعیف و منقطع) سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے کسی نے کہا : فلاں شخص بڑی لمبی نماز پڑھتا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { نماز اسے نفع دیتی ہے جو اس کا کہا مانے ۔ } میری تحقیق میں اوپر جو مرفوع روایت بیان ہوئی ہے اس کا بھی موقوف ہونا ہی زیادہ صحیح ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ بزار میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے کہا : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ! فلاں شخص نماز پڑھتا ہے لیکن چوری نہیں چھوڑتا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عنقریب اس کی نماز اس کی یہ برائی چھڑا دے گی ۔ } ۱؎ (مسند احمد:447/2:صحیح) چونکہ نماز ذکر اللہ کا نام ہے اسی لیے اس کے بعد ہی فرمایا اللہ کی یاد بڑی چیز ہے اللہ تعالیٰ تمہاری تمام باتوں سے اور تمہارے کل کاموں سے باخبر ہے ۔ ابوالعالیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں نماز میں تین چیزیں ہیں اگر یہ نہ ہوں تو نماز نماز نہیں ۔ ۱ ۔ اخلاص وخلوص ۲ ۔ خوف الہی اور ۳ ۔ ذکر اللہ ۔ اخلاص سے تو انسان نیک ہو جاتا ہے اور خوف الہی سے انسان گناہوں کو چھوڑ دیتا ہے اور ذکر اللہ یعنی قرآن اسے بھلائی و برائی بتا دیتا ہے وہ حکم بھی کرتا ہے اور منع بھی کرتا ہے ۔ ابن عون انصاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : جب تو نماز میں ہو تو نیکی میں ہے اور نماز تجھے فحش اور منکر سے بچائے ہوئے ہے ۔ اور اس میں جو کچھ تو ذکر اللہ کررہا ہے وہ تیرے لیے بڑے ہی فائدے کی چیز ہے ۔ حماد رحمہ اللہ کا قول ہے کہ کم سے کم حالت نماز میں تو برائیوں سے بچا رہے گا ۔ ایک راوی سے ابن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ قول مروی ہے کہ جو بندہ یاد اللہ کو یاد کرتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اسے یاد کرتا ہے ۔ اس نے کہا : ہمارے ہاں جو صاحب ہیں وہ تو کہتے ہیں کہ مطلب اس کا یہ ہے کہ جب تم اللہ کا ذکر کرو گے تو وہ تمہاری یاد کرے گا اور یہ بہت بڑی چیز ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے «فَاذْکُرُ‌ونِی أَذْکُرْ‌کُمْ» ۱؎ (2-البقرۃ:152) ’ تم میری یاد کرو میں تمہاری یاد کرونگا ۔ ‘ اسے سن کر آپ نے فرمایا : اس نے سچ کہا ۔ یعنی دونوں مطلب درست ہیں ۔ یہ بھی اور وہ بھی اور خود ابن عباس سے یہ بھی تفسیر مروی ہے ۔ عبداللہ بن ربیعہ رحمہ اللہ سے ایک مرتبہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے دریافت فرمایا کہ اس جملے کا مطلب جانتے ہو ؟ انہوں نے کہا ہاں اس سے مراد نماز میں «سُبْحَانَ اللہِ ، اَلْحَمْدُلِلہِ ، اَللہُ اَکْبَرُ» وغیرہ کہنا ہے ۔ آپ نے فرمایا : تو نے عجیب بات کہی یہ یوں نہیں ہے بلکہ مقصود یہ ہے کہ حکم کے اور منع کے وقت اللہ کا تمہیں یاد کرنا تمہارے ذکر اللہ سے بہت بڑا اور بہت اہم ہے ۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود ، سیدنا ابودرداء ، سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہم وغیرہ سے بھی یہی مروی ہے ۔ اور اسی کو امام ابن جریر رحمہ اللہ پسند فرماتے ہیں ۔ العنكبوت
46 غیر مسلموں کو دلائل سے قائل کرو قتادۃ رحمہ اللہ وغیرہ تو فرماتے ہیں کہ یہ آیت تو جہاد کے حکم کے ساتھ منسوخ ہے اب تو یہی ہے کہ یا تو اسلام قبول کرو یا جزیہ ادا کرو یا لڑائی لڑیں ۔ لیکن اور بزرگ مفسرین کا قول ہے کہ یہ حکم باقی ہے جو یہودی یا نصرانی دینی امور کو سجھنا چاہے اور اسے مہذب طریقے پر سلجھے ہوئے پیرائے سے سمجھا دینا چاہیئے ۔ کیا عجیب ہے کہ وہ راہ راست اختیار کرے ۔ جیسے اور آیت میں عام حکم موجود ہے آیت «ادْعُ إِلَیٰ سَبِیلِ رَ‌بِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُم بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ» ۱؎ (16-النحل:125) ’ اپنے رب کی راہ کی دعوت حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ لوگوں کو دو ۔ ‘ موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کو جب فرعون کے طرف بھیجا جاتا ہے تو فرمان ہوتا ہے کہ آیت «فَقُولَا لَہُ قَوْلًا لَّیِّنًا لَّعَلَّہُ یَتَذَکَّرُ‌ أَوْ یَخْشَیٰ» ۱؎ (20-طہ:44) یعنی ’ اس سے نرمی سے گفتگو کرنا ، کیا عجب کہ وہ نصیحت قبول کر لے اور اس کا دل پگھل جائے ‘ ۔ یہی قول امام ابن جریر رحمہ اللہ کا پسندیدہ ہے ۔ اور ابن زید رضی اللہ عنہما سے یہی مروی ہے ۔ ہاں ان میں سے جو ظلم پر اڑ جائیں اور ضد اور تعصب برتیں حق کو قبول کرنے سے انکار کر دیں پھر مناظرے مباحثے بےسود ہیں پھر تو جدال وقتال کا حکم ہے ۔ جیسے جناب باری عز اِسمہُ کا ارشاد ہے آیت «لَقَدْ أَرْ‌سَلْنَا رُ‌سُلَنَا بِالْبَیِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَہُمُ الْکِتَابَ وَالْمِیزَانَ لِیَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ وَأَنزَلْنَا الْحَدِیدَ فِیہِ بَأْسٌ شَدِیدٌ» ۱؎ (57-الحدید:25) ’ ہم نے رسولوں کو واضح دلیلوں کے ساتھ بھیجا اور ان کے ہمراہ کتاب ومیزان نازل فرمائی تاکہ لوگوں میں عدل و انصاف کا قیام ہو سکے ۔ اور ہم نے لوہا بھی نازل فرمایا جس میں سخت لڑائی ہے ‘ ۔ پس اللہ کا حکم یہ ہے کہ بھلائی سے اور نرمی سے جو نہ مانے اس پر پھر سختی کی جائے ۔ جو لڑے اسی سے لڑاجائے ہاں یہ اور بات ہے کہ ماتحتی میں رہ کر جزیہ ادا کرے ۔ پھر فرماتا ہے جس کے کھرے کھوٹے ہونے کا تمہیں یقینی علم نہ ہو تو اس کی تکذیب کی طرف قدم نہ بڑھاؤ اور نہ بے تأمل تصدیق کر دیا کرو ممکن ہے کسی امر حق کو تم جھٹلادو اور ممکن ہے کسی باطل کی تم تصدیق کر بیٹھو ۔ پس شرط یہ ہے کہ تصدیق کرو یعنی کہہ دو کہ ہمارا اللہ کی ہر بات پر ایمان ہے اگر تمہاری پیش کردہ چیز اللہ کی نازل کردہ ہے تو ہم اسے تسلیم کرتے ہیں اور اگر تم نے تبدیل وتحریف کر دی ہے تو ہم اسے نہیں مانتے ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ { اہل کتاب توراۃ کو عبرانی زبان میں پڑھتے اور ہمارے سامنے عربی میں اس کا ترجمہ کرتے اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” نہ تم انہیں سچا کہو نہ جھوٹا بلکہ تم آیت «وَقُولُوا آمَنَّا بِالَّذِی أُنزِلَ إِلَیْنَا وَأُنزِلَ إِلَیْکُمْ وَإِلٰہُنَا وَإِلٰہُکُمْ وَاحِدٌ وَنَحْنُ لَہُ مُسْلِمُونَ» سے آخر آیت تک پڑھ دیا کرو } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4485) مسند احمد میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک یہودی آیا اور کہنے لگا کیا یہ جنازے بولتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : اللہ ہی کو علم ہے ۔ اس نے کہا میں جانتا ہوں یہ یقیناً بولتے ہیں اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ اہل کتاب جب تم سے کوئی بات بیان کریں تو تم نہ ان کی تصدیق کرو نہ تکذیب بلکہ کہہ دو ہمارا اللہ پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان ہے ۔ یہ اس لیے کہ کہیں ایسا نہ ہو تم کسی جھوٹ کو سچا کہہ دو یا کسی سچ کو جھوٹ بتا دو ۔ } ۱؎ (مسند احمد:136/4:حسن) یہاں یہ بھی خیال رہے کہ ان اہل کتاب کی اکثروبیشتر باتیں تو غلط اور جھوٹ ہی ہوتی ہیں عموماً بہتان و افتراء ہوتا ہے ۔ ان میں تحریف و تبدل ، تغیر وتاویل رواج پا چکی ہے ۔ اور صداقت ایسی رہ گئی ہے کہ گویا کچھ بھی نہیں ۔ پھر ایک بات اور بھی ہے کہ بالفرض سچ بھی ہو تو ہمیں کیا فائدہ ؟ ہمارے پاس تو اللہ کی تازہ اور کامل کتاب موجود ہے ۔ چنانچہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اہل کتاب سے تم کچھ بھی نہ پوچھو ۔ وہ خود جبکہ گمراہ ہیں تو تمہاری تصحیح کیا کریں گے ؟ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ ان کی کسی سچ بات کو تم جھوٹا کہہ دو ۔ یا ان کی کسی جھوٹی بات کو تم سچ کہہ دو ۔ یاد رکھو ہر اہل کتاب کے دل میں اپنے دین کا ایک تعصب ہے ۔ جیسے مال کی خواہش ہے ۔ [ ابن جریر ] صحیح بخاری شریف میں ہے { عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں کہ تم اہل کتاب سے سوالات کیوں کرتے ہو ؟ تم پر تو اللہ کی طرف سے ابھی ابھی کتاب نازل ہوئی ہے جو بالکل خالص ہے جس میں باطل نہ ملا نہ مل جل سکے ۔ تم سے تو خود اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ اہل کتاب نے اللہ کے دین کو بدل ڈالا ۔ اللہ کی کتاب میں تغیر کر دیا اور اپنے ہاتھوں سے لکھی ہوئی کتابوں کو اللہ کی کتاب کہنے لگے اور دنیوی نفع حاصل کرنے لگے ۔ کیوں بھلا تمہارے پاس جو علم اللہ ہے کیا وہ تمہیں کافی نہیں ؟ کہ تم ان سے دریافت کرو ۔ دیکھو تو کس قدر ستم ہے کہ ان میں سے تو ایک بھی تم سے کبھی کچھ نہ پوچھے اور تم ان سے دریافت کرتے پھرو ؟ } ۱؎ (صحیح بخاری:4363) صحیح بخاری شریف میں ہے کہ { ایک مرتبہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے مدینہ میں قریش کی ایک جماعت کے سامنے فرمایا کہ دیکھو ان تمام اہل کتاب میں اور ان کی باتیں بیان کرنے والوں میں سب سے اچھے کعب بن احبار رضی اللہ عنہا ہے لیکن باوجود اس کے بھی ان کی باتوں میں بھی ہم کبھی کھبی جھوٹ پاتے ہیں ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:7361) اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ عمداً جھوٹ بولتے ہیں بلکہ جن کتابوں پر انہیں اعتماد ہے وہ خود گیلی سوکھی سب جمع کر لیتے ہیں ان میں خود سچ جھوت صحیح غلط بھرا پڑا ہے ۔ ان میں مضبوط ذی علم حافظوں کی جماعت تھی ہی نہیں ۔ یہ تو اسی امت مرحومہ پر اللہ کا فضل ہے کہ اس میں بہترین دل ودماغ والے اور اعلیٰ فہم وذکا والے اور عمدہ حفظ و اتقان والے لوگ اللہ نے پیدا کر دیئے ہیں لیکن پھر بھی آپ دیکھئیے کہ کس قدر موضوعات کا ذخیرہ جمع ہو گیا ہے ؟ اور کس طرح لوگوں نے باتیں گھڑ لی ہیں ۔ محدثین نے اس باطل کو حق سے بالکل جدا کر دیا ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» ۔ العنكبوت
47 حق تلاوت فرمان ہے کہ جیسے ہم نے اگلے انبیاء پر اپنی کتابیں نازل فرمائی تھیں اسی طرح یہ کتاب یعنی قرآن شریف ہم نے اے ہمارے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم تم پر نازل فرمایا ہے ۔ پس اہل کتاب میں سے جن لوگوں نے ہماری کتاب کی قدر کی اور اس کی تلاوت کا حق ادا کیا وہ جہاں اپنی کتابوں پر ایمان لائے اس پاک کتاب کو بھی مانتے ہیں جیسے عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ اور جیسے سلمان فارسی رضی اللہ عنہ وغیرہ ۔ اور ان لوگوں یعنی قریش وغیرہ میں سے بھی بعض لوگ اس پر ایمان لاتے ہیں ۔ ہاں جو لوگ باطل سے حق کو چھپانے والے اور سورج کی روشنی سے آنکھیں بند کرنے والے ہیں وہ تو اس کے بھی منکر ہیں ۔ العنكبوت
48 1 پھر فرماتا ہے : اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ! تم ان میں مدت العمر تک رہ چکے ہو اس قرآن کے نازل ہونے سے پہلے اپنی عمر کا ایک بڑا حصہ ان میں گزار چکے ہو انہیں خوب معلوم ہے کہ آپ پڑھے لکھے نہیں ، ساری قوم اور سارا ملک بخوبی علم رکھتا ہے کہ آپ محض امی ہیں نہ لکھنا جانتے ہیں نہ پڑھنا ۔ پھر آج جو آپ کو انوکھی فصیح وبلیغ اور پر از حکمت کتاب پڑھتے ہیں ظاہر ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے ہے ۔ آپ اس حالت میں ایک حرف پڑھے ہوئے نہیں خود تصنیف وتالیف کر نہیں سکتے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی صفت اگلی کتابوں میں تھی جیسے قرأت ناقل ہے «الَّذِینَ یَتَّبِعُونَ الرَّ‌سُولَ النَّبِیَّ الْأُمِّیَّ الَّذِی یَجِدُونَہُ مَکْتُوبًا عِندَہُمْ فِی التَّوْرَ‌اۃِ وَالْإِنجِیلِ یَأْمُرُ‌ہُم بِالْمَعْرُ‌وفِ وَیَنْہَاہُمْ عَنِ الْمُنکَرِ‌» ۱؎ (7-الأعراف:157) یعنی ’ جو لوگ پیروی کرتے ہیں اس رسول و نبی امی کی جس کی صفات وہ اپنی کتاب توراۃ اور انجیل میں لکھی ہوئی پاتے ہیں جو انہیں نیکیوں کا حکم کرتا ہے اور برائیوں سے روکتا ہے ۔ ‘ لطف یہ ہے کہ اللہ کے معصوم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ لکھنے سے دور ہی رکھے گئے ۔ ایک سطر کیا معنی ، ایک حرف بھی لکھنا آپ کو نہ آتا تھا ۔ آپ نے کاتب مقرر کر لئے تھے جو وحی اللہ کو لکھ لیتے تھے اور ضرورت کے وقت شاہان دنیا سے خط وکتابت بھی وہی کرتے تھے پچھلے فقہاء میں قاضی ابوالولید باجی وغیرہ نے کہا کہ حدیبیہ والے دن خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے یہ جملہ صلح نامے میں لکھا تھا کہ «ھٰذَا مَا قَاضٰی عَلَیْہِ مُحَمَّدُ ابْنُ عَبْدُاللہَ» یعنی یہ وہ شرائط ہیں جن پر محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا ۔ لیکن یہ قول درست نہیں یہ وہم قاضی صاحب کو بخاری شریف کی اس روایت سے ہوا ہے جس میں یہ الفاظ ہیں کہ { «ثُمَّ اَخَذَ فَکَتَبَ» یعنی پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ لے کر لکھا ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:2698-2699) لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے لکھنے کا حکم دیا ۔ جیسے دوسری روایت میں صاف موجود ہے کہ «ثُمَّ اَمَرَ فَکُتِبَ» یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر حکم دیا اور لکھا گیا ۔ مشرق و مغرب کے تمام علماء کا یہی مذہب ہے بلکہ باجی رحمہ اللہ وغیرہ پر انہوں نے اس قول کا بہت سخت رد کیا ہے اور اس سے بیزاری ظاہر کی ہے ۔ اور اس قول کی تردید اپنے اشعار اور خطبوں میں بھی کی ہے ۔ لیکن یہ بھی خیال رہے کہ قاضی صاحب وغیرہ کا یہ خیال ہرگز نہیں کہ آپ اچھی طرح لکھنا جانتے تھے بلکہ وہ کہتے تھے کہ آپ کا یہ جملہ صلح نامے پر لکھ لینا آپ کا ایک معجزہ تھا ۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ { دجال کی دونوں آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہوا ہو گا } اور ایک روایت میں ہے کہ { ک ف ر لکھا ہوا ہو گا جسے ہر مومن پڑھ لے گا } ۱؎ (صحیح بخاری:7131) یعنی اگرچہ ان پڑھ ہو ، تب بھی اسے پڑھ لے گا ۔ یہ مومن کی ایک کرامت ہو گی اسی طرح یہ فقرہ لکھ لینا اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک معجزہ تھا اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ آپ لکھنا جانتے تھے ۔ یا آپ نے سیکھا تھا ۔ بعض لوگ ایک روایت پیش کرتے ہیں جس میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال نہ ہوا جب تک کہ آپ نے لکھنا نہ سیکھ لیا ۔ یہ روایت بالکل ضعیف ہے بلکہ محض بے اصل ہے ۔ قرآن کریم کی اس آیت کو دیکھئے ۔ کس قدر تاکید کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پڑھا ہونے کا انکار کرتی ہے اور کتنی سختی کے ساتھ پرزور الفاظ میں اس کا بھی انکار کرتی ہے کہ آپ لکھنا جانتے ہیں ۔ یہ جو فرمایا کہ داہنے ہاتھ سے یہ باعتبار غالب کے کہہ دیا ہے ورنہ لکھا تو دائیں ہاتھ سے ہی جاتا ہے اسی طرح «وَلَا طَائِرٍ‌ یَطِیرُ‌ بِجَنَاحَیْہِ» ۱؎ (6-الأنعام:38) میں ہے کیونکہ ہر پرند اپنے پروں سے ہی اڑتا ہے ۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ان پڑھ ہونا بیان فرما کر ارشاد ہوتا ہے کہ اگر آپ پڑھے لکھے ہوتے تو یہ باطل پرست آپ کی نسبت شک کرنے کی گنجائش پاتے کہ سابقہ انبیاء کی کتابوں سے پڑھ لکھ کر نقل کر لیتا ہے لیکن یہاں تو ایسا نہیں ۔ تعجب ہے کہ باوجود ایسانہ ہونے کے پھر بھی یہ لوگ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ الزام لگاتے ہیں ’ اور کہتے ہیں کہ یہ گزرے ہوئے لوگوں کی کہانیاں ہیں جنہیں اس نے لکھ لیا ہے ۔ وہی اس کے سامنے صبح و شام پڑھی جاتی ہیں ۔ ‘ ۱؎ (25-الفرقان:5) باوجودیکہ خود جانتے ہیں کہ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پڑھے لکھے نہیں ۔ ان کے اس قول کے جواب میں جناب باری عز اِسمہُ نے فرمایا : ’ انہیں جواب دو کہ اسے اس اللہ نے نازل فرمایا ہے جو زمین و آسمان کی پوشیدگیوں کو جانتا ہے ۔ ‘ ۱؎ (25-الفرقان:6) یہاں فرمایا بلکہ یہ روشن آیتیں ہیں جو اہل علم کے سینوں میں ہیں ۔ خود آیات واضح صاف اور سلجھے ہوئے الفاظ میں ہیں ۔ پھر علماء پر ان کا سمجھنا یاد کرنا پہنچانا سب آسان ہے جیسے فرمان ہے «وَلَقَدْ یَسَّرْ‌نَا الْقُرْ‌آنَ لِلذِّکْرِ‌ فَہَلْ مِن مٰدَّکِرٍ‌» ۱؎ (54-القمر:17) یعنی ’ ہم نے اس قرآن کو نصیحت کے لیے بالکل آسان بنا دیا ہے پس کیا کوئی ہے جو اس سے نصیحت حاصل کرے ؟ ‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : { ہر نبی کو ایسی چیز دی گئی جس کے باعث لوگ ان پر ایمان لائے مجھے ایسی چیز وحی اللہ دی گئی ہے جو اللہ نے میری طرف نازل فرمائی ہے تو مجھے ذات اللہ سے امید ہے کہ تمام نبیوں کے تابعداروں سے زیادہ میرے تابعدار ہونگے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:4981) صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ { اے نبی ! میں تمہیں آزماؤں گا اور تمہاری وجہ سے لوگوں کی بھی آزمائش کرلوں گا ۔ میں تم پر ایسی کتاب نازل فرماؤنگا جسے پانی دھو نہ سکے ۔ تو اسے سوتے جاگتے پڑھتا رہے گا ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:2865-63) مطلب یہ ہے کہ اس کے حروف پانی سے دھوئے جائیں لیکن وہ ضائع ہونے سے محفوظ ہے ۔ جیسے کہ حدیث میں ہے: { اگر قرآن کسی چمڑے میں ہو تو اسے آگ نہیں جلائے گی ۔ } ۱؎ (مسند احمد:155/4:حسن) اس لیے کہ وہ سینوں میں محفوظ ہے ، زبانوں پر آسان ہے اور دلوں میں موجود ہے ۔ اور اپنے لفظ اور معنی کے اعتبار سے ایک جیتا جاگتا معجزہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ سابقہ کتابوں میں اس امت کی ایک صفت یہ بھی مروی ہے کہ «اِنَّا جِیْلُھُمْ فِیْْ صُدُوْرِھِمْ» ان کی کتاب ان کے سینوں میں ہو گی ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ اسے پسند فرماتے ہیں کہ معنی یہ ہیں بلکہ اس کا علم کہ تو اس کتاب سے پہلے کوئی کتاب نہیں پڑھتا تھا اور نہ اپنے ہاتھ سے کچھ لکھتا تھا یہ آیات بینات اہل کتاب کے ذی علم لوگوں کے سینوں میں موجود ہیں ۔ قتادۃ اور ابن جریج رحمہ اللہ علیہم سے بھی یہی منقول ہے اور پہلا قول حسن بصری رحمہ اللہ کا ہے اور یہی بہ روایت عوفی رحمہ اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے اور یہ ضحاک رحمہ اللہ نے کہا ہے اور یہی زیادہ ظاہر ہے ۔ واللہ اعلم ۔ پھر فرماتا ہے کہ ہماری آیتوں کا جھٹلانا قبول نہ کرنا یہ حد سے گزرجانے والوں اور ضدی لوگوں کا ہی کام ہے جو حق ناحق کو سمجھتے ہیں اور نہ اس کی طرف مائل ہوتے ہیں ۔ جیسے فرمان ہے : ’ جن پر تیرے رب کی بات ثابت ہو چکی ہے وہ ہرگز ایمان نہ لائیں گے اگرچہ ان کے پاس نشانیاں آ جائیں ۔ یہاں تک کہ وہ المناک عذاب کا مشاہدہ کر لیں ۔ ‘ ۱؎ (10-یونس:96-97) العنكبوت
49 العنكبوت
50 محاسن کلام کا بےمثال جمال قرآن کریم کافروں کی ضد ، تکبر اور ہٹ دھرمی بیان ہو رہی ہے کہ انہوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی ہی نشانی طلب کی جیسی کہ صالح سے ان کی قوم نے مانگی تھی ۔ پھر اپنے نبی کو حکم دیتا ہے انہیں جواب دیجئے کہ آیتیں معجزے اور نشانات دکھانا میرے بس کی بات نہیں ۔ یہ اللہ کے ہاتھ ہے ۔ اگر اس نے تمہاری نیک نیتیں معلوم کر لیں تو وہ معجزہ دکھائے گا اور اگر تم اپنی ضد اور انکار سے بڑھ بڑھ کر باتیں ہی بنا رہے ہو تو وہ اللہ تم سے دبا ہوا نہیں کہ اس کی چاہت تمہاری چاہت کے تابع ہو جائے تم جو مانگو وہ کر ہی دکھائے گا ۔ جیسے ایک اور آیت میں ہے کہ ’ آیتیں بھیجنے سے ہمیں کوئی مانع نہیں سوائے اس کے کہ گزشتہ لوگ بھی برابر انکار ہی کرتے رہے ۔ قوم ثمود کو دیکھو ہماری نشانی اونٹنی جو ان کے پاس آئی انہوں نے اس پر ظلم کیا ۔ ‘ ۱؎ (17-الإسراء:59) کہہ دو کہ میں تو صرف ایک مبلغ ہوں ، پیغمبر ہوں ، قاصد ہوں ، میراکام تمہارے کانوں تک آواز اللہ کو پہنچا دینا ہے میں نے تو تمہیں تمہارا برا بھلا سمجھا دیا ۔ نیک بد سمجھا دیا ۔ اب تم جانو تمہارا کام جانے ۔ ہدایت ضلالت اللہ کی طرف سے ہے وہ اگر کسی کو گمراہ کر دے تو اس کی رہبری کوئی نہیں کر سکتا ۔ چنانچہ ایک اور جگہ ہے : ’ تجھ پر ان کی ہدایت کا ذمہ نہیں یہ اللہ کا کام ہے اور اس کی چاہت پر موقوف ہے ۔ ‘ ۱؎ (2-البقرۃ:277) بھلا اس فضول گوئی کو تو دیکھو کہ کتاب عزیز ان کے پاس آ چکی جس کے پاس کسی طرف سے باطل پھٹک نہیں سکتا اور انہیں اب تک نشانی کی طلب ہے ۔ حالانکہ یہ تو تمام معجزات سے بڑھ کرمعجزہ ہے ۔ تمام دنیا کے فصیح وبلیغ اس کے معارضہ سے اور اس جیسا کلام پیش کرنے سے عاجز آ گئے ۔ پورے قرآن کا تو معارضہ کیا کرتے ؟ دس سورتوں کا بلکہ ایک سورت کامعارضہ بھی چیلنج کے باوجود نہ کر سکے ۔ تو کیا اتنا بڑا اور اتنا بھاری معجزہ انہیں کافی نہیں ؟ جو اور معجزے طلب کرنے بیٹھے ہیں ۔ یہ تو وہ پاک کتاب ہے جس میں گزشتہ باتوں کی خبر ہے اور ہونے والی باتوں کی پیش گوئی ہے اور جھگڑوں کا فیصلہ ہے اور یہ اس کی زبان سے پڑھی جاتی ہے جو محض امی ہے ۔ جس نے کسی سے الف با بھی نہیں پڑھا جو ایک حرف لکھنا نہیں جانتا بلکہ اہل علم کی صحبت میں بھی کبھی نہیں بیٹھا ۔ اور وہ کتاب پڑھتا ہے جس سے گزشتہ کتابوں کی بھی صحت وعدم صحت معلوم ہوتی ہے جس کے الفاظ میں حلاوت جس کی نظم میں حلاوت ، جس کے انداز میں فصاحت ، جس کے بیان میں بلاغت جس کا طرز دلربا ، جس کا سیاق دلچسپ جس میں دنیا بھر کی خوبیاں موجود ہیں ۔ خود بنی اسرائیل کے علماء بھی اس کی تصدیق پر مجبور ، اگلی کتابیں جس پر شاہد ۔ بھلے لوگ جس کے مداح اور قائل وعامل ۔ اس اتنے بڑے معجزے کی موجودگی میں کسی اور معجزہ کی طلب محض بدنیتی اور گریز ہے ۔ پھر فرماتا ہے اس میں ایمان والوں کے لیے رحمت ونصیحت ہے ۔ یہ قرآن حق کا ظاہر کرنے اور باطل کو برباد کرنے والا ہے ۔ گزشتہ لوگوں کے واقعات تمہارے سامنے رکھ کر تمہیں نصیحت وعبرت کا موقعہ دیتا ہے ۔ گنہگاروں کا انجام دکھا کر تمہیں گناہوں سے روکتا ہے ۔ کہدو کہ میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواہ ہے اور اس کی گواہی کافی ہے ۔ وہ تمہاری تکذیب وسرکشی کو اور میری سچائی و خیر خواہی کو بخوبی جانتا ہے ۔ اگر میں اس پر جھوٹ باندھتا تو وہ ضرور مجھ سے انتقام لیتا وہ ایسے لوگوں کو بغیر انتقام نہیں چھوڑتا ۔ جیسے خود اس کا فرمان ہے کہ ’ اگر یہ رسول مجھ پر ایک بات بھی گھڑ لیتا تو میں اس کا داہنا ہاتھ پکڑ کر اس کی رگ جاں کاٹ دیتا اور کوئی نہ ہوتا جو اسے میرے ہاتھ سے چھڑا سکے ۔ ‘ ۱؎ (69-الحاقۃ:44-47) چونکہ اس پر میری سچائی روشن ہے اور میں اسی کا بھیجا ہوا ہوں اور اس کا نام لے کر اس کی کہی ہوئی تم سے کہتا ہوں اس لیے وہ میری تائید کرتا ہے اور مجھے روز بروز غلبہ دیتاجاتا ہے اور مجھ سے معجزات پر معجزات ظاہر کراتا ہے ۔ وہ زمین و آسمان کے غیب کاجاننے والا ہے اس پر ایک ذرہ بھی پوشیدہ نہیں ، باطل کا ماننے والے اور اللہ کو نہ ماننے والے ہی نقصان یافتہ اور ذلیل ہیں قیامت کے دن انہیں ان کی بداعمالی کا نتیجہ بھگتنا پڑے گا اور جو سرکشیاں دنیا میں کی ہیں سب کا مزہ چکھنا پڑے گا ۔ بھلا اللہ کو نہ ماننا اور بتوں کو ماننا اس سے بڑھ کر اور ظلم کیا ہو گا ؟ وہ علیم وحکیم اللہ اس کا بدلہ دیئے بغیر ہرگز نہیں رہے گا ۔ العنكبوت
51 العنكبوت
52 العنكبوت
53 موت کے بعد کفار کو عذاب اور مومنوں کو جنت مشرکوں کا اپنی جہالت سے عذاب الٰہی طلب کرنا بیان ہو رہا ہے ۔ یہ اللہ کے نبی سے بھی یہی کہتے تھے اور خود اللہ تعالیٰ سے بھی یہی دعائیں کرتے تھے کہ ’ جناب باری اگر یہ تیری طرف سے حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا یا ہمیں اور کوئی درد ناک عذاب کر ۔ ‘ ۱؎ (8-الأنفال:32) یہاں انہیں جواب ملتا ہے کہ رب العالمین یہ بات مقرر کر چکا ہے کہ ان کفار کو قیامت کے دن عذاب ہوں گے ۔ اگر یہ نہ ہوتا تو ان کے مانگتے ہی عذاب کے مہیب بادل ان پر برس پڑتے ۔ اب بھی یہ یقین مانیں کہ یہ عذاب آئیں گے اور ضرور آئیں گے بلکہ ان کی بےخبری میں اچانک اور یک بہ یک آ پڑیں گے ۔ یہ عذاب کی جلدی مچا رہے ہیں اور جہنم بھی انہیں چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہے یعنی یقیناً انہیں عذاب ہو گا ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ وہ جہنم یہی بحر اخضر ہے ، ستارے اسی میں جھڑیں گے اور سورج ، چاند اسی میں بے نور کر کے ڈال دئیے جائیں گے اور یہ بھڑک اٹھے گا اور جہنم بن جائے گا ۔ مسند احمد میں مرفوع حدیث ہے کہ سمندر ہی جہنم ہے راوی حدیث یعلیٰ سے لوگوں نے کہا کہ کیا آپ لوگ نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے «نَارًا اَحَاطَ بِہِمْ سُرَادِقُہَا» یعنی ’ وہ آگ جسے قناتیں گھیرے ہوئے ہیں ‘ تو فرمایا : قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں یعلیٰ کی جان ہے کہ میں اس میں ہرگز داخل نہ ہوں گا جب تک کہ اللہ کے سامنے پیش نہ کیا جاؤں اور مجھے اس کا ایک قطرہ بھی نہ پہنچے گا یہاں تک کہ میں اللہ کے سامنے پیش کیا جاؤں ۔ یہ تفسیر بھی بہت غریب ہے اور یہ حدیث بھی بہت ہی غریب ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ پھر فرماتا ہے کہ اس دن انہیں نیچے سے آگ ڈھانک لے گی ۔ جیسے اور آیت میں ہے «لَہُم مِّن جَہَنَّمَ مِہَادٌ وَمِن فَوْقِہِمْ غَوَاشٍ وَکَذٰلِکَ نَجْزِی الظَّالِمِینَ» ۱؎ (7-الأعراف:41) ’ ان کے لیے جہنم ہی اوڑھنا بچھونا ہے ۔ ‘ اور آیت میں ہے «لَہُمْ مِّنْ فَوْقِہِمْ ظُلَــلٌ مِّنَ النَّارِ وَمِنْ تَحْتِہِمْ ظُلَــلٌ ذٰلِکَ یُخَــوِّفُ اللّٰہُ بِہٖ عِبَادَہٗ یٰعِبَادِ فَاتَّقُوْنِ» ۱؎ (39-الزمر:16) یعنی ’ ان کے اوپر نیچے سے آگ ہی کا فرش و سائبان ہو گا ۔ ‘ اور مقام پر ارشاد ہے «لَوْ یَعْلَمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا حِیْنَ لَا یَکُفٰوْنَ عَنْ وٰجُوْہِہِمُ النَّارَ وَلَا عَنْ ظُہُوْرِہِمْ وَلَا ہُمْ یُنْــصَرُوْنَ» ۱؎ (21-الأنبیاء:39) یعنی ’ کاش کہ کافر اس وقت کو جان لیں جب کہ نہ یہ اپنے آگے سے آگ کو ہٹا سکیں گے نہ پیچھے سے ۔ ‘ ان آیتوں سے معلوم ہو گیا کہ ہر طرف سے ان کفار کو آگ کھا رہی ہو گی ، آگے پیچھے سے ، اوپر نیچے سے ، دائیں بائیں سے ۔ تو اس پر اللہ عالم کی ڈانٹ ڈپٹ اور مصیبت ہو گی ۔ ادھر ہر وقت کہا جائے گا : لو اب عذاب کے مزے چکھو ۔ پس ایک تو وہ ظاہری ، جسمانی عذاب ، دوسرا یہ باطنی ، روحانی عذاب ۔ اسی کا ذکر آیت «یَوْمَ یُسْحَبُوْنَ فِی النَّارِ عَلٰی وُجُوْہِہِمْ ذُوْقُوْا مَسَّ سَقَرَ» ۱؎ (40-غافر:71) اور آیت «یَوْمَ یُدَعٰونَ إِلَیٰ نَارِ جَہَنَّمَ دَعًّا ہٰذِہِ النَّارُ الَّتِی کُنتُم بِہَا تُکَذِّبُونَ أَفَسِحْرٌ ہٰذَا أَمْ أَنتُمْ لَا تُبْصِرُونَ اصْلَوْہَا فَاصْبِرُوا أَوْ لَا تَصْبِرُوا سَوَاءٌ عَلَیْکُمْ إِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ» ۱؎ (52-الطور:13-16) میں ہے یعنی ’ جبکہ جہنم میں اوندھے منہ گھسیٹے جائیں گے اور کہا جائے گا کہ لو اب آگ کے عذاب کا مزہ چکھو ۔ جس دن انہیں دھکے دے دے کر جہنم میں ڈالا جائے گا اور کہا جائے گا : یہ وہ جہنم ہے جسے تم جھٹلاتے رہے ۔ اب بتاؤ ! یہ جادو ہے ؟ یا تم اندھے ہو ؟ جاؤ اب جہنم میں چلے جاؤ ۔ اب تمہارا صبر کرنا یا نہ کرنا یکساں ہے ۔ تمہیں اپنے اعمال کا بدلہ ضرور بھگتنا ہے ۔ ‘ العنكبوت
54 العنكبوت
55 العنكبوت
56 مہاجرین کے لیے انعامات الٰہی اللہ تبارک و تعالیٰ اس آیت میں ایمان والوں کو ہجرت کا حکم دیتا ہے کہ جہاں وہ دین کو قائم نہ رکھ سکتے ہوں وہاں سے اس جگہ چلے جائیں جہاں ان کے دین میں انہیں آزادی رہے ۔ اللہ کی زمین بہت کشادہ ہے جہاں وہ فرمان اللہ کے ماتحت اللہ کی عبادت و توحید بجا لا سکیں ، وہاں چلے جائیں ۔ مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : { تمام شہر اللہ کے شہر ہیں اور کل بندے اللہ کے غلام ہیں ۔ جہاں تو بھلائی پا سکتا ہو ، وہیں قیام کر ۔ } ۱؎ (مسند احمد:166/1:ضعیف) چنانچہ صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم پر جب مکہ مکرمہ کی رہائش مشکل ہو گئی تو وہ ہجرت کر کے حبشہ چلے گئے تاکہ امن و امان کے ساتھ اللہ کے دین پر قیام کر سکیں ۔ وہاں کے سمجھدار ، دیندار بادشاہ اصحمہ نجاشی رحمہ اللہ نے ان کی پوری تائید و نصرت کی اور وہاں بہت عزت اور خوشی سے رہے سہے ۔ پھر اس کے بعد بااجازت الٰہی دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم نے اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی ۔ بعد ازاں فرماتا ہے کہ تم میں سے ہر ایک مرنے والا اور میرے سامنے حاضر ہونے والا ہے ۔ تم خواہ کہیں ہو ، موت کے پنجے سے نجات نہیں پا سکتے ۔ پس تمہیں زندگی بھر اللہ کی اطاعت میں اور اس کے راضی کرنے میں رہنا چاہیئے تاکہ مرنے کے بعد اللہ کے ہاں جا کر عذاب میں نہ پھنسو ۔ ایمان دار ، نیک اعمال لوگوں کو اللہ تعالیٰ جنت عدن کی بلند و بالا منزلوں میں پہنچائے گا ۔ جن کے نیچے قسم قسم کی نہریں بہہ رہی ہیں ۔ کہیں صاف شفاف پانی کی ، کہیں شراب طہور کی ، کہیں شہد کی ، کہیں دودھ کی ۔ یہ چشمے خودبخود جہاں جتنے چاہیں ، بہنے لگیں گے ۔ یہ وہاں ہمیشہ رہیں گے ۔ نہ وہاں سے نکالے جائیں گے ، نہ ہٹائے جائیں گے ، نہ وہ نعمتیں ختم ہونگی ، نہ ان میں گھاٹا آئے گا ۔ مومنوں کے نیک اعمال پر جنتی بالاخانے انہیں مبارک ہوں ۔ جنہوں نے اپنے سچے دین پر صبر کیا اور اللہ کی طرف ہجرت کی ، اس کے دشمنوں کو ترک کیا اور اپنے اقرباء اور اپنے گھر والوں کو راہ اللہ میں چھوڑا اور اس کی نعمتوں اور اس کے انعامات کی امید پر دنیا کے عیش و عشرت پر لات مار دی ۔ ابن ابی حاتم میں ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : { جنت میں ایسے بالاخانے ہیں جن کا ظاہر باطن سے نظر آتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے بنائے ہیں جو کھانا کھلائیں ، خوش کلام ، نرم گو ہوں ، روزے ، نماز کے پابند ہوں اور راتوں کو جبکہ لوگ سوئے ہوئے ہوں ، یہ نمازیں پڑھتے ہوں اور اپنے کل احوال میں دینی ہو یا دنیوی ۔ اپنے رب پر کامل بھروسہ رکھتے ہوں ۔ } ۱؎ (مسند احمد:343/5:حسن) پھر فرمایا کہ رزق کسی جگہ کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا تقسیم کیا ہوا رزق عام ہے اور ہر جگہ جو جہاں ہو ، اسے وہیں پہنچ جاتا ہے ۔ مہاجرین کے رزق میں ہجرت کے بعد اللہ نے وہ برکتیں دیں کہ یہ دنیا کے کناروں کے مالک ہو گئے اور بادشاہ بن گئے ۔ فرمایا کہ بہت سے جانور ہیں جو اپنے رزق کے جمع کرنے کی طاقت نہیں رکھتے ۔ اللہ کے ذمہ ان کی روزیاں ہیں ۔ پروردگار انہیں ان کے رزق پہنچا دیتا ہے ۔ تمہارا رازق بھی وہی ہے ، وہ کسی مخلوق کو کسی حالت میں کسی وقت نہیں بھولتا ۔ چیونٹیوں کو ان کے سوراخوں میں ، پرندوں کو آسمان و زمین کے خلا میں ، مچھلیوں کو پانی میں وہی رزق پہنچاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : «وَمَا مِنْ دَابَّۃٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ رِزْقُہَا وَیَعْلَمُ مُسْتَــقَرَّہَا وَمُسْـتَوْدَعَہَا کُلٌّ فِیْ کِتٰبٍ مٰبِیْنٍ» ۱؎ (11-ہود:6) یعنی ’ کوئی جانور روئے زمین پر ایسا نہیں کہ اس کی روزی اللہ کے ذمے نہ ہو ۔ وہی ان کے ٹھہرنے اور رہنے سہنے کی جگہ کو بخوبی جانتا ہے ۔ یہ سب اس کی روشن کتاب میں موجود ہے ۔ ‘ ابن ابی حاتم میں ہے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : { میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلا ، آپ مدینے کے باغات میں سے ایک باغ میں گئے ۔ اور گری پڑی ردی کھجوریں کھول کھول کر صاف کر کے کھانے لگے ۔ مجھ سے بھی کھانے کو فرمایا ۔ میں نے کہا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھ سے تو یہ ردی کھجوریں نہیں کھائی جائیں گی ۔ آپ نے فرمایا : لیکن مجھے تو یہ بہت اچھی معلوم ہوتی ہیں ، اس لیے کہ چوتھے دن کی صبح ہے کہ میں نے کھانا نہیں کھایا اور نہ کھانے کی وجہ یہ ہے کہ ملا ہی نہیں ۔ سنو ! اگر میں چاہتا تو اللہ سے دعا کرتا اور اللہ مجھے قیصر و کسریٰ کا ملک دے دیتا ۔ اے ابن عمر رضی اللہ عنہما ! تیرا کیا حال ہو گا جبکہ تو ایسے لوگوں میں ہو گا جو سال سال بھر کے غلے وغیرہ جمع کر لیا کریں گے اور ان کا یقین اور توکل بالکل بودہ ہو جائے گا ۔ ہم ابھی تو وہیں اسی حالت میں تھے کہ جو آیت «وَکَأَیِّن مِّن دَابَّۃٍ لَّا تَحْمِلُ رِزْقَہَا اللہُ یَرْزُقُہَا وَإِیَّاکُمْ وَہُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ» نازل ہوئی ۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ عزوجل نے مجھے دنیا کے خزانے جمع کرنے کا اور خواہشوں کے پیچھے لگ جانے کا حکم نہیں کیا ۔ جو شخص دنیا کے خزانے جمع کرے اور اس سے باقی والی زندگی چاہے وہ سمجھ لے کہ باقی رہنے والی حیات تو اللہ کے ہاتھ ہے ۔ دیکھو میں تو نہ دینار درہم جمع کروں ، نہ کل کے لیے آج روزی کا ذخیرہ جمع کر رکھوں ۔ } ۱؎ (بغوی فی التفسیر:253/6:ضعیف) یہ حدیث غریب ہے اور اس کا راوی ابوالعطوف جزی ضعیف ہے ۔ یہ مشہور ہے کہ کوے کے بچے جب نکلتے ہیں تو ان کے پر و بال سفید ہوتے ہیں ، یہ دیکھ کر کوا ان سے نفرت کر کے بھاگ جاتا ہے ۔ کچھ دنوں کے بعد ان کے پروں کی رنگت سیاہ پڑ جاتی ہے تب ان کے ماں باپ آتے ہیں اور انہیں دانہ وغیرہ کھلاتے ہیں ۔ ابتدائی ایام میں جبکہ ماں باپ ان چھوٹے بچوں سے متنفر ہو کر بھاگ جاتے ہیں اور ان کے پاس بھی نہیں آتے ، اس وقت اللہ تعالیٰ چھوٹے چھوٹے مچھر ان کے پاس بھیج دیتا ہے ، وہی ان کی غذا بن جاتے ہیں ۔ عرب کے شعراء نے اسے نظم بھی کیا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ { سفر کرو تاکہ صحت اور روزی پاؤ ۔ } ۱؎ (بیھقی فی السنن الکبری:102/7:ضعیف) اور حدیث میں ہے : { سفر کرو تاکہ صحت و غنیمت ملے ۔ } اور حدیث میں ہے : { سفر کرو ، نفع اٹھاؤ گے ۔ روزے رکھو ، تندرست رہو گے ۔ جہاد کرو ، غنیمت ملے گی ۔ } ۱؎ (مسند احمد:380/2:ضعیف) ایک اور روایت میں ہے : { جد والوں اور آسانی والوں کے ساتھ سفر کرو ۔ } ۱؎ (الدیلمی فی مسند الفردوس:3387:ضعیف) پھر فرمایا : اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی باتیں سننے والا اور ان کی حرکات و سکنات کو جاننے والا ہے ۔ العنكبوت
57 العنكبوت
58 العنكبوت
59 العنكبوت
60 العنكبوت
61 توحید ربویت توحید الوہیت اللہ تعالیٰ ثابت کرتا ہے کہ معبود برحق صرف وہی ہے ۔ خود مشرکین بھی اس بات کے قائل ہیں کہ آسمان و زمین کا پیدا کرنے والا ، سورج کو مسخر کرنے والا ، دن رات کو پے در پے لانے والا ، خالق ، رازق ، موت و حیات پر قادر صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ وہ خوب جانتا ہے کہ غنا کے لائق کون ہے اور فقر کے لائق کون ہے ؟ اپنے بندوں کی مصلحتیں اس کو پوری طرح معلوم ہیں ۔ پس جبکہ مشرکین خود مانتے ہیں کہ تمام چیزوں کا خالق صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے ، سب پر قابض صرف وہی ہے ۔ پھر اس کے سوا دوسروں کی عبادت کیوں کرتے ہیں ؟ اور اس کے سوا دوسروں پر توکل کیوں کرتے ہیں ؟ جبکہ ملک کا مالک وہ تنہا ہے تو عبادتوں کے لائق بھی وہ اکیلا ہے ۔ توحید ربوبیت کو مان کر پھر توحید الوہیت سے انحراف عجیب چیز ہے ۔ قرآن کریم میں توحید ربوبیت کے ساتھ ہی توحید الوہیت کا ذکر بکثرت ہے ۔ اس لیے کہ توحید ربویت کے قائل مشرکین مکہ تو تھے ہی ، انہیں قائل معقول کر کے پھر توحید الوہیت کی طرف دعوت دی جاتی ہے ۔ { مشرکین حج و عمرے میں لبیک پکارتے ہوئے بھی اللہ کے لاشریک ہونے کا اقرار کرتے تھے ، کہتے تھے : «لَبَیْکَ لَاشَرِیْکَ لَکَ اِلَّا شَرِیْکًا ھُوَ لَکَ تَمْلِکُہُ وَمَا مَلَکَ» یعنی یا اللہ ! ہم حاضر ہوئے ، تیرا کوئی شریک نہیں مگر ایسے شریک جن کا مالک اور جن کے ملک کا مالک بھی تو ہی ہے ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:1185) العنكبوت
62 العنكبوت
63 العنكبوت
64 جب عکرمہ طوفان میں گھر گئے دنیا کی حقارت و ذلت ، اس کے زوال و فنا کا ذکر ہو رہا ہے کہ اسے کوئی دوام نہیں ، اس کا کوئی ثبات نہیں ۔ یہ تو صرف لہو و لعب ہے ۔ البتہ دار آخرت کی زندگی دوام و بقا کی زندگی ہے ۔ وہ زوال و فنا سے ، قلت و ذلت سے دور ہے ۔ اگر انہیں علم ہوتا تو اس بقا والی چیز پر اس فانی چیز کو ترجیح نہ دیتے ۔ پھر فرمایا کہ مشرکین بےکسی اور بےبسی کے وقت تو اللہ وحدہ لاشریک لہ کو ہی پکارنے لگتے ہیں ۔ پھر مصیبت کے ہٹ جانے اور مشکل کے ٹل جانے کے بعد اس کے ساتھ دوسروں کا نام کیوں لیتے ہیں ؟ جیسے اور جگہ ارشاد ہے : «وَاِذَا مَسَّکُمُ الضٰرٰ فِی الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُوْنَ اِلَّآ اِیَّاہُ فَلَمَّا نَجّٰیکُمْ اِلَی الْبَرِّ اَعْرَضْتُمْ وَکَانَ الْاِنْسَانُ کَفُوْرًا» ۱؎ (17-الإسراء:67) یعنی ’ جب سمندر میں مشکل میں پھنستے ہیں ، اس وقت اللہ کے سوا سب کو بھول جاتے ہیں اور جب وہاں سے نجات پاکر خشکی میں آ جاتے ہیں تو فوراً ہی منہ پھیر لیتے ہیں ۔ ‘ سیرت ابن اسحاق میں ہے کہ { جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح کیا تو عکرمہ ابن ابی جہل یہاں سے بھاگ نکلا اور حبشہ جانے کے ارادے سے کشتی میں بیٹھ گیا ۔ اتفاقاً سخت طوفان آیا اور کشتی ادھر ادھر ہونے لگی ۔ جتنے مشرکین کشتی میں تھے ، سب کہنے لگے : یہ موقعہ صرف اللہ ہی کو پکارنے کا ہے ۔ اٹھو اور خلوص کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرو ۔ اس وقت نجات اسی کے ہاتھ ہے ۔ یہ سنتے ہی عکرمہ نے کہا : سنو اللہ کی قسم ! اگر سمندر کی اس بلا سے سوائے اللہ کے کوئی نجات نہیں دے سکتا تو خشکی کی مصیبتوں کا ٹالنے والا بھی وہی ہے ۔ اللہ میں تجھ سے عہد کرتا ہوں کہ اگر میں یہاں سے بچ گیا تو سیدھا جا کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ہاتھ رکھ دوں گا اور آپ کا کلمہ پڑھ لوں گا ۔ مجھے یقین ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میری خطاؤں سے درگزر فرما لیں گے اور مجھ پر رحم و کرم فرمائیں گے ۔ چنانچہ یہی ہوا بھی ۔ } ۱؎ (سیرۃ ابن اسحاق،حاکم:241/3:ضعیف) «لِیَکْفُرُوا» اور «وَلِیَتَمَتَّعُوا» میں لام جو ہے ، اسے لام عافیت کہتے ہیں ۔ اس لیے کہ ان کا قصد دراصل یہ نہیں ہوتا اور فی الواقع ان کی طرف نظریں ڈالنے سے بات بھی یہی ہے ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کی نسبت سے تو یہ لام تعلیل ہے ۔ اس کی پوری تقریر ہم آیت «فَالْتَقَطَہٗٓ اٰلُ فِرْعَوْنَ لِیَکُوْنَ لَہُمْ عَدُوًّا وَّحَزَنًا اِنَّ فِرْعَوْنَ وَہَامٰنَ وَجُنُوْدَہُمَا کَانُوْا خٰطِـــــِٕیْنَ» ۱؎ (28-القصص:8) میں کر چکے ہیں ۔ العنكبوت
65 العنكبوت
66 العنكبوت
67 احسان کے بدلے احسان؟ اللہ تعالیٰ قریش کو اپنا احسان جتاتا ہے کہ اس نے اپنے حرم میں انہیں جگہ دی ۔ جو شخص اس میں آ جائے ، امن میں پہنچ جاتا ہے ۔ اس کے آس پاس جدال وقتال ، لوٹ مار ہوتی رہتی ہے اور یہاں والے امن و امان سے اپنے دن گزارتے ہیں ۔ جیسے سورۃ «لِإِیلَافِ قُرَیْشٍ إِیلَافِہِمْ رِحْلَۃَ الشِّتَاءِ وَالصَّیْفِ فَلْیَعْبُدُوا رَبَّ ہٰذَا الْبَیْتِ الَّذِی أَطْعَمَہُم مِّن جُوعٍ وَآمَنَہُم مِّنْ خَوْفٍ» ۱؎ (106-قریش:1-4) میں بیان فرمایا ۔ تو کیا اس اتنی بڑی نعمت کا شکریہ یہی ہے کہ یہ اللہ کے ساتھ دوسروں کی بھی عبادت کریں ؟ بجائے ایمان لانے کے ، شرک کریں اور خود تباہ ہو کر دوسروں کو بھی اسی ہلاکت والی راہ لے چلیں ۔ انہیں تو یہ چاہیے تھا کہ اللہ واحد کی عبادت میں سب سے بڑھے ہوئے رہیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پورے اور سچے طرف دار رہیں ۔ لیکن انہوں نے اس کے برعکس اللہ کے ساتھ شرک و کفر کرنا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلانا اور ایذاء پہنچانا شروع کر رکھا ہے ۔ اپنی سرکشی میں یہاں تک بڑھ گئے کہ اللہ کے پیغمبر کو مکے سے نکال دیا ۔ بالآخر اللہ کی نعمتیں ان سے چھننی شروع ہو گئیں ۔ بدر کے دن ان کے بڑے بری طرح قتل ہوئے ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں مکہ کو فتح کیا اور انہیں ذلیل و پست کیا ۔ اس سے بڑھ کر ظالم کوئی نہیں جو اللہ پر جھوٹ باندھے ۔ وحی آتی نہ ہو اور کہہ دے کہ میری طرف وحی کی جاتی ہے اور اس سے بڑھ کر ظالم کوئی نہیں جو اللہ کی سچی وحی اور حق کو جھٹلائے اور باوجود حق پہنچنے کے تکذیب پر کمربستہ رہے ۔ ایسے مفتری اور مکذب لوگ کافر ہیں اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے ۔ راہ اللہ میں مشقت کرنے والے سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے اصحاب اور آپ کے تابع فرمان لوگ ہیں جو قیامت تک ہوں گے ۔ فرماتا ہے کہ ہم ان کوشش اور جستجو کرنے والوں کی رہنمائی کریں گے ۔ دنیا اور دین میں ان کی رہبری کرتے رہیں گے ۔ ابواحمد عباس ہمدانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : مراد یہ ہے کہ جو لوگ اپنے علم پر عمل کرتے ہیں ، اللہ انہیں ان امور میں بھی ہدایت دیتا ہے جو ان کے علم میں نہیں ہوتے ۔ ابوسلیمان دارانی رحمہ اللہ سے جب یہ ذکر کیا جاتا ہے تو آپ فرماتے ہیں کہ جس کے دل میں کوئی بات پیدا ہو ، گو وہ بھلی بات ہو ۔ تاہم اسے اس پر عمل نہ کرنا چاہیے جب تک قرآن و حدیث سے وہ ثابت نہ ہو ۔ جب ثابت ہو عمل کرے ۔ اور اللہ کی حمد کرے کہ جو اس کے جی میں آیا تھا ۔ وہی قرآن و حدیث میں بھی نکلا ۔ اللہ تعالیٰ محسنین کے ساتھ ہے ۔ عیسیٰ بن مریم علیہ السلام فرماتے ہیں کہ احسان اس کا نام ہے جو تیرے ساتھ بدسلوکی کرے تو اس کے ساتھ نیک سلوک کرے ۔ احسان کرنے والوں سے احسان کرنے کا نام احسان نہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ العنكبوت
68 العنكبوت
69 العنكبوت
0 الروم
1 معرکہ روم و فارس کا انجام یہ آیتیں اس وقت نازل ہوئیں جبکہ نیشاپور کا شاہ فارس بلاد شام اور جزیرہ کے آس پاس کے شہروں پر غالب آ گیا اور روم کا بادشاہ ہرقل تنگ آ کر قسطنطیہ میں محصور ہو گیا ۔ مدتوں محاصرہ رہا آخر پانسہ پلٹا اور ہرقل کی فتح ہوگئی ۔ مفصل بیان آگے آ رہا ہے ۔ مسند احمد میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس آیت کے بارے میں مروی ہے کہ { رومیوں کو شکست پر شکست ہوئی اور مشرکین نے اس پر بہت خوشیاں منائیں ۔ اس لیے کہ جیسے یہ بت پرست تھے ایسے ہی فارس والے بھی ان سے ملتے جلتے تھے اور مسلمانوں کی چاہت تھی کہ رومی غالب آئیں اس لیے کم از کم وہ اہل کتاب تو تھے ۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہا نے جب یہ ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { رومی عنقریب پھر غالب آ جائیں گے } ۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے مشرکین کو جب یہ خبر پہنچائی تو انہوں نے کہا آؤ کچھ شرط بدلو اور مدت مقرر کر لو اگر رومی اس مدت میں غالب نہ آئیں تو تم ہمیں اتنا اتنا دینار دینا اور اگر تم سچے نکلے تو ہم تمہیں اتنا اتنا دیں گے ۔ پانچ سال کی مدت مقرر ہوئی وہ مدت پوری ہوگئی اور رومی غالب نہ آئے تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہا نے خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ خبر پہنچائی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تم نے دس سال کی مدت مقرر کیوں نہ کی “ ۔ سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں قرآن میں مدت کے لیے لفظ «بِضْعٌ» استعمال ہوا ہے اور یہ دس سے کم پر اطلاق کیا جاتا ہے چنانچہ یہی ہوا بھی کہ دس سال کے اندر اندر رومی پھر غالب آ گئے ۔ اسی کا بیان اس آیت میں ہے } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3193،قال الشیخ الألبانی:صحیح) امام ترمذی نے اس حدیث کو غریب کہا ہے ۔ سفیان رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بدر کی لڑائی کے بعد رومی بھی فارسیوں پر غالب آ گئے ۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ { پانچ چیزیں گزرچکی ہیں دخان اور لزام اور بطشہ اور شق قمر کا معجزہ اور رومیوں کا غالب آنا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4767) ۔ اور روایت میں ہے کہ { سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی شرط سات سال کی تھی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ { «بِضْعٌ» کے کیا معنی تم میں ہوتے ہیں ؟ } جواب دیا کہ دس سے کم ۔ فرمایا : { پھر جاؤ مدت میں دو سال بڑھا دو } چنانچہ اسی مدت کے اندر اندر رومیوں کے غالب آجانے کی خبریں عرب میں پہنچ گئی ۔ اور مسلمان خوشیاں منانے لگے ۔ اسی کا بیان ان آیتوں میں ہے } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:27876:مرسل) ۔ اور روایت میں ہے کہ { مشرکوں نے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے یہ آیت سن کر کہا کہ کیا تم اس میں بھی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا مانتے ہو ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” ہاں “ اس پر شرط ٹھہری اور مدت گزر چکی اور رومی غالب نہ آئے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس شرط کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم رنجیدہ ہوئے اور سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے فرمایا : ” تم نے ایسا کیوں کیا ؟ “ جواب ملا کہ ” اللہ اور اس کے رسول کی سچائی پر بھروسہ کر کے “ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” پھر جاؤ اور مدت میں دس سال مقرر کر لو خواہ چیز بھی بڑھانی پڑے “ ۔ آپ گئے مشرکین نے دوبارہ یہ مدت بڑھا کر شرط منظور کر لی ۔ ابھی دس سال پورے نہیں ہوئے تھے کہ رومی فارس پر غالب آ گئے اور مدائن میں ان کے لشکر پہنچ گئے ۔ اور رومیہ کی بناء انہوں نے ڈال لی ۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے قریش سے شرط کا مال لیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اسے صدقہ کر دو “ } ۔ ۱؎ (ابو یعلی فی المسند الکبیر کما فی المطالب:5/9:ضعیف) اور روایت میں ہے کہ { یہ واقعہ ایسی شرط بد نے کے حرام ہونے سے پہلے کا ہے ۔ اس میں ہےکہ مدت چھ سال مقرر ہوئی تھی ۔ اس میں یہ بھی ہے کہ جب یہ پیشن گوئی پوری ہوئی اور رومی غالب ہوئے تو بہت سے مشرکین ایمان بھی لے آئے } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3194،قال الشیخ الألبانی:حسن) ۔ ایک بہت عجیب وغریب قصہ امام سنید ابن داؤد نے اپنی تفیسر میں وارد کیا ہے کہ عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” فارس میں ایک عورت تھی جس کے بچے زبردست پہلوان اور بادشاہ ہی ہوتے تھے ۔ کسریٰ نے ایک مرتبہ اسے بلوایا اور اس سے کہا کہ میں رومیوں پر ایک لشکر بھیجنا چاہتا ہوں اور تیری اولاد میں سے کسی کو اس لشکر کا سردار بنانا چاہتا ہوں ۔ اب تم مشورہ کر لو کہ کسے سردار بناؤں؟ اس نے کہا کہ میرا فلاں لڑکا تو لومڑی سے زیادہ مکار اور شکرے سے زیادہ ہوشیار ہے ۔ دوسرا لڑکا فرخان تیر جیسا ہے ۔ تیسرا لڑکا شہربراز سب سے زیادہ حلیم الطبع ہے ۔ اب تم جسے چاہو سرداری دو “ ۔ ” بادشاہ نے سوچ سمجھ کر شہربراز کو سردار بنایا ۔ یہ لشکروں کو لے کر چلا رومیوں سے لڑا بھڑا اور ان پر غالب آگیا ۔ ان کے لشکر کاٹ ڈالے ان کے شہر اجاڑ دئیے ۔ ان کے باغات برباد کر دئیے اس سرسبز وشاداب ملک کو ویران وغارت کر دیا ۔ اور اذرعات اور بصرہ میں جو عرب کی حدود سے ملتے ہیں ایک زبردست معرکہ ہوا ۔ اور وہاں فارسی رومیوں پر غالب آ گئے ۔ جس سے قریش خوشیاں منانے لگے اور مسلمان ناخوش ہوئے “ ۔ ” کفار قریش مسلمانوں کو طعنے دینے لگے کہ دیکھو تم اور نصرانی اہل کتاب ہو اور ہم اور فارسی ان پڑھ ہیں ہمارے والے تمہارے والوں پر غالب آگئے ۔ اسی طرح ہم بھی تم پر غالب آئیں گے اور اگر لڑائی ہوئی تم ہم بتلادیں گے کہ تم ان اہل کتاب کی طرح ہمارے ہاتھوں شکست اٹھاؤ گے ۔ اس پر قرآن کی یہ آیتیں اتریں “ ۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ان آیتوں کو سن کر مشرکین کے پاس آئے اور فرمانے لگے ” اپنی اس فتح پر نہ اتراؤ یہ عنقریب شکست سے بدل جائے گی اور ہمارے بھائی اہل کتاب تمہارے بھائیوں پر غالب آئیں گے ۔ اس بات کا یقین کر لو اس لیے کہ یہ میری بات نہیں بلکہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشن گوئی ہے “ ۔ یہ سن کر ابی بن خلف کھڑا ہو کر کہنے لگا اے ابوالفضل تم جھوٹ کہتے ہو ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اے اللہ کے دشمن تو جھوٹا ہے ۔ اس نے کہا اچھا میں دس دس اونٹنیوں کی شرط باندھتا ہوں ۔ اگر تین سال تک رومی فارسیوں پر غالب آ گئے تو میں تمہیں دس اونٹنیاں دونگا ورنہ تم مجھے دینا ۔ سیدنا صدیق اکبررضی اللہ عنہ نے یہ شرط قبول کر لی ۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آکر اس کا ذکر کیا تو ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا { میں نے تم سے تین سال کا نہیں کہا تھا «بِضْعٌ» کا لفظ قرآن میں ہے اور تین سے نو تک بولاجاتا ہے ۔ جاؤ اونٹنیاں بھی بڑھا دو اور مدت بھی بڑھا دو } ۔ سیدنا صدیق اکبررضی اللہ عنہ چلے جب ابی کے پاس پہنچے تو وہ کہنے لگا شاید تمہیں پچھتاوا ہوا؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا سنو! میں تو پہلے سے بھی زیادہ تیار ہو کر آیا ہوں ۔ آؤ مدت بھی بڑھاؤ اور شرط کا مال بھی زیادہ کرو ۔ چنانچہ ایک سو اونٹ مقرر ہوئے اور نو سال کی مدت ٹھہری اسی مدت میں رومی فارس پر غالب آ گئے اور مسلمان قریش پر چھا گئے ۔ رومیوں کے غلبے کا واقعہ یوں ہوا کہ جب فارس غالب آگئے تو شہربراز کا بھائی فرخان شراب نوشی کرتے ہوئے کہنے لگا میں نے دیکھا ہے کہ گویا میں کسریٰ کے تخت پر آ گیا ہوں اور فارس کا بادشاہ بن گیا ہوں ۔ یہ خبر کسریٰ کو بھی پہنچ گئی ۔ کسریٰ نے شہربراز کو لکھا کہ میرا یہ خط پاتے ہی اپنے اس بھائی کو قتل کر کے اس کا سر میرے پاس بھیج دو ۔ شہر برازنے لکھا کہ اے بادشاہ ! تم اتنی جلدی نہ کرو ۔ فرخان جیسا بہادر شیر اور جرات مند ، دشمنوں کے جمگھٹے میں گھسنے والا کسی کو تم نہ پاؤ گے ۔ بادشاہ نے پھر جواب لکھا کہ اس سے بہت زیادہ اور شیر دل پہلوان میرے دربار میں ایک سے بہتر ایک موجود ہیں تم اس کا غم نہ کرو اور میرے حکم کی فوراً تعمیل کرو ۔ شہربراز نے پھر اس کا جواب لکھ اور دوبارہ بادشاہ کسریٰ کو سمجھایا اس پر بادشاہ آگ بگولا ہو گیا اس نے اعلان کر دیا کہ شہربراز سے میں نے سرداری چھین لی اور اس کی جگہ اس کے بھائی فرخان کو اپنے لشکر کا سپہ سالار مقرر کر دیا ۔ اسی مضمون کا ایک خط لکھ کر قاصد کے ہمراہ شہربزار کو بھیج دیا کہ تم آج سے معزول ہو اور تم اپنا عہدہ فرخان کو دے دو ۔ ساتھ ہی قاصد کو ایک پوشیدہ خط دیا کہ شہربراز جب اپنے عہدے سے اترجائے اور فرخان اس عہدے پر آ جائے تو تم اسے میرا یہ فرمان دے دینا ۔ قاصد جب وہاں پہنچا تو شہر براز نے خط پڑھتے ہی کہا کہ مجھے بادشاہ کا حکم منظور ہے، میں بخوشی اپنا عہدہ فرخان کو دے رہا ہوں ۔ چنانچہ وہ تخت سے اتر گیا اور فرخان کو قبضہ دے دیا ۔ فرخان جب تخت سلطنت پر بیٹھ گیا اور لشکر نے اس کی اطاعت قبول کر لی تو قاصد نے وہ دوسرا خط فرخان کے سامنے پیش کیا جس میں شہربراز کے قتل کا اور اس کا سر دربار شاہی میں بھیجنے کا فرمان تھا ۔ فرخان نے اسے پڑھ کر شہر براز کو بلایا اور اس کی گردن مارنے کا حکم دے دیا ۔ شہربراز نے کہا بادشاہ جلدی نہ کر مجھے وصیت تو لکھ لینے دے ۔ اس نے منظور کر لیا تو شہربراز نے اپنا دفتر منگوایا اور اس میں وہ کاغذات جو شاہ کسریٰ نے فرخان کے قتل کے لیے اسے لکھے تھے وہ سب نکالے اور فرخان کے سامنے پیش کئے اور کہا دیکھ اتنے سوال و جواب میرے اور بادشاہ کے درمیان تیرے بارے میں ہوئے ۔ لیکن میں نے اپنی عقلمندی سے کام لیا اور عجلت نہ کی تو ایک خط دیکھتے ہی میرے قتل پر آمادہ ہو گیا ذرا سوچ لے ، ان خطوط کو دیکھ کر فرخان کی آنکھیں کھل گئیں وہ فوراً تخت سے نیچے اترگیا اور اپنے بھائی شہربراز کو پھر سے مالک کل بنا دیا ۔ شہربراز نے اسی وقت شاہ روم ہرقل کو خط لکھا کہ مجھے تم سے خفیہ ملاقات کرنی ہے اور ایک ضروری امر میں مشورہ کرنا ہے اسے میں نہ تو کسی قاصد کی معرفت آپ کو کہلوا سکتا ہوں نہ خط میں لکھ سکتا ہوں ۔ بلکہ میں خود ہی آمنے سامنے پیش کرونگا ۔ پچاس آدمی اپنے ساتھ لے کر خود آ جائے اور پچاس ہی میرے ساتھ ہونگے ۔ قیصر کو جب یہ پیغام پہنچا تو وہ اس سے ملاقات کے لیے چل پڑا ۔ لیکن احتیاطاً اپنے ساتھ پانچ ہزار سوار لے لیے ، اور آگے آگے جاسوسوں کو بھیج دیا تاکہ کوئی مکر یا فریب ہو تو کھل جائے ۔ جاسوسوں نے آ کر خبر دی کہ کوئی بات نہیں اور شہربراز تنہا اپنے ساتھ صرف پچاس سواروں کو لے کر آیا ہے اس کے ساتھ کوئی اور نہیں ۔ چنانچہ قیصر نے بھی مطمئن ہو کر اپنے سواروں کو لوٹادیا اور اپنے ساتھ صرف پچاس آدمی رکھ لیے ۔ جو جگہ ملاقات کی مقرر ہوئی تھی وہاں پہنچ گئے ۔ وہاں ایک ریشمی قبہ تھا اس میں جا کر دونوں تنہا بیٹھ گئے پچاس پچاس آدمی الگ چھوڑ دئے گئے دونوں وہاں بے ہتھیار تھے صرف چھریاں پاس تھیں اور دونوں کی طرف سے ایک ترجمان ساتھ تھا ۔ خیمہ میں پہنچ کر شہربراز نے کہا اے بادشاہ روم ! بات یہ ہے کہ تمہارے ملک کو ویران کرنے والے اور تمہارے لشکروں کو شکست دینے والے ہم دونوں بھائی ہیں ہم نے اپنی چالاکیوں اور شجاعت سے یہ ملک اپنے قبضہ میں کر لیا ہے ۔ لیکن اب ہمارا بادشاہ کسریٰ ہم سے حسد کرتا ہے اور ہمارا مخالف بن بیٹھا ہے مجھے اس نے میرے بھائی کو قتل کرنے کا فرمان بھیجا ، میں نے فرمان کو نہ مانا تو اس نے اب یہ طے کر لیا ہے کہ ہم آپ کے لشکر میں آ جائیں اور کسریٰ کے لشکروں سے آپ کے ساتھ ہو کر لڑیں ۔ قیصر نے یہ بات بڑی خوشی سے منظور کر لی ۔ پھر ان دونوں میں آپس میں اشاروں کنایوں سے باتیں ہوئیں جن کامطلب یہ تھا کہ یہ دونوں ترجمان قتل کر دئیے جائیں ایسانہ ہو کہ یہ راز ان کی وجہ سے کھل جائے کیونکہ جہاں دو کے سوا تیسرے کے کان میں کوئی بات پہنچی تو پھر وہ پھیل جاتی ہے ۔ دونوں اس پر اتفاق کر کے کھڑے ہو گئے اور ہر ایک نے اپنی چھری سے اپنے ترجمان کا کام تمام کر دیا ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے کسریٰ کو ہلاک کر دیا اور حدیبیہ والے دن اس کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بہت خوش ہوئے ۔ یہ سیاق عجیب ہے اور یہ خبر غریب ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:27873:مرسل) اب آیت کے الفاظ کے متعلق سنئے ۔ حروف مقطعہ جو سورتوں کے شروع میں ہوتے ہیں ان کی بحث تو ہم کر چکے ہیں سورۃ البقرہ کی تفسیر کے شروع میں دیکھ لیجئے ۔ رومی سب کے سب عیص بن اسحاق بن ابراہیم کی نسل سے ہیں بنو اسرائیل کے چچا زاد بھائی ہیں ۔ رومیوں کو بنو اصفر بھی کہتے ہیں یہ یونانیوں کے مذہب پر تھے یونانی یافث بن نوح کی اولاد میں سے ہیں ترکوں کے چچا زاد بھائی ہوتے ہیں ، یہ ستارہ پرست تھے ساتوں ستاروں کو مانتے اور پوجتے تھے ۔ انہیں متحیرہ بھی کہا جاتا ہے یہ قطب شمالی کو قبلہ مانتے تھے ۔ دمشق کی بنا انہی کے ہاتھوں پڑی ہے وہیں انہوں نے اپنی عبادت گاہ بنائی جس کے محراب شمال کی طرف ہیں ۔ عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت کے بعد بھی تین سو سال تک رومی اپنے پرانے خیالات پر ہی رہے ان میں سے جو کوئی شام کا اور جزیرے کا بادشاہ ہو جاتا اسے قیصر کہا جاتا تھا ۔ سب سے پہلے رومیوں کا بادشاہ قسطنطین بن قسطس نے نصرانی مذہب قبول کیا ۔ اس کی ماں کا نام مریم تھا ۔ ہیلانیہ غندقانیہ تھی حران کی رہنے والی ۔ پہلے اسی نے نصرانیت قبول کی تھی پھر اس کے کہنے سننے سے اس کے بیٹے نے بھی یہی مذہب اختیار کر لیا ۔ یہ بڑا فلفسی عقلمند اور مکار آدمی تھا ۔ یہ بھی مشہور ہے کہ اس نے دراصل دل سے اس مذہب کو نہیں مانا تھا ۔ اس کے زمانے میں نصرانی جمع ہوگئے ۔ ان میں آپس میں مذہبی چھیڑ چھاڑ اور اختلاف اور مناظرے چھڑگئے ۔ عبداللہ بن اویوس سے بڑے بڑے مناظرے ہوئے اور اس قدر انتشار اور تفریق ہوئی کہ بیان سے باہر ہے ۔ تین سو اٹھارہ پادریوں نے مل کر ایک کتاب لکھی جو بادشاہ کو دی گئی اور وہ شاہی عقیدہ تسلیم کی گئی ۔ اسی کو امانت کبریٰ کہا جاتا ہے ۔ جو درحقیقت خیانت صغریٰ ہے ۔ یہیں فقہی کتابیں اسی کے زمانے میں لکھی گئیں ، ان میں حلال حرام کے مسائل بیان کئے گئے اور ان علماء نے دل کھول کر جو چاہا ان میں لکھا ۔ جس قدر جی میں آئی کمی یا زیادتی اصل دین مسیح میں کی ۔ اور اصل مذہب محرف و مبدل ہوگیا مشرق کی جانب نمازیں پڑھنے لگے ۔ بجائے ہفتہ کے اتوار کو بڑا دن بنایا ۔ صلیب کی پرستش شروع ہو گئی ۔ خنزیر کو حلال کر لیا گیا اور بہت سے تہوار ایجاد کر لیے جیسے عید صلیب ،عید قدرس ،عید غطاس وغیرہ وغیرہ ۔ پھر ان علماء کے سلسلے قائم کئے گئے ایک تو بڑا پادری ہوتا تھا پھر اس کے نیچے درجہ بدرجہ اور محکمے ہوتے تھے ۔ رہبانیت اور ترک دنیا کی بدعت بھی ایجاد کرلی ۔ کلیسا اور گرجے بہت سارے بنالئے گئے اور شہر قسطنطیہ کی بنارکھی گئی ۔ اور اس بڑے شہر کو اسی بادشاہ کے نام پر نامزد کیا گیا ۔ اس بادشاہ نے بارہ ہزار [۱۲۰۰۰] گرجے بنادئیے ۔ تین محرابوں سے بیت لحم بنا ۔ اس کی ماں نے بھی قمامہ بنایا ۔ ان لوگوں کو ملکیہ کہتے ہیں اس لیے کہ یہ لوگ اپنے بادشاہ کے دین پر تھے ۔ ان کے بعد یعقوبہ پھر نسطوریہ ۔ یہ سب نسطور کے مقلد تھے ۔ پھر ان کے بہت سے گروہ تھے جیسے حدیث میں ہے کہ ان کے بہتر [٧٢] فرقے ہوگئے ۔ ان کی سلطنت برابر چلی آتی تھی ایک کے بعد ایک قیصر ہونا آتا تھا یہاں تک کہ آخر میں قیصر ہرقل ہوا ۔ یہ تمام بادشاہوں سے زیادہ عقلمند تھا ،بہت بڑا عالم تھا ، دانائی زیرکی ، دوراندیشی اور دور بینی میں اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا ۔ اس نے سلطنت بہت وسیع کر لی اور مملکت دوردراز تک پھیلادی ۔ اس کے مقابلے میں فارس کا بادشاہ کسریٰ کھڑا ہوا اور چھوٹی چھوٹی سلطنتوں نے بھی اس کا ساتھ دیا اس کی سلطنت قیصر سے بھی زیادہ بڑی تھی ۔ یہ مجوسی لوگ تھے آگ کو پوجتے تھے ۔ مندرجہ بالا روایت میں تو ہے کہ اس کا سپہ سالار مقابلہ پر گیا ۔ لیکن مشہور بات یہ ہے کہ خود کسریٰ اس کے مقابلے پر گیا ۔ قیصر کو شکست ہوئی یہاں تک کہ وہ قسطنطیہ میں گھر گیا ۔ نصرانی اس کی بڑی عزت اور تعظیم کرتے تھے گو کسریٰ لمبی مدت تک محاصرہ کئے پڑا رہا لیکن دارالسلطنت کو فتح نہ کر سکا ۔ ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس کا ملک نصف حصہ سمندر کی طرف تھا اور نصف خشکی کی طرف تھا ۔ تو شاہ قیصر کو کمک اور رسد تری کے راستے سے برابر پہنچتی رہی آخر میں قیصر نے ایک چال چلی اس نے کسریٰ کو کہلوا بھیجا کہ آپ جو چاہیں مجھ سے تسلی لے لیجئے اور جن شرائط پر چاہیں مجھ سے صلح کر لیجئے ۔ کسریٰ اس پر راضی ہو گیا اور اتنا مال طلب کیا کہ وہ اور یہ مل کر بھی جمع کرنا چاہے تو ناممکن تھا ۔ قیصر نے اسے قبول کر لیا کیونکہ اس نے اس سے کسریٰ کی بیوقوبی کا پتہ چلا لیا کہ یہ وہ چیز مانگتا ہے جس کا جمع کرنا دنیا کے اختیار سے باہر ہے بلکہ ساری دنیا مل کر اس کا دسواں حصہ بھی جمع نہیں کر سکتی ۔ قیصر نے کسرٰی سے کہلوا بھیجا کہ مجھے اجازت دے کہ میں اپنے ملک سے باہر چل پھر کر اس دولت کو جمع کر لوں اور آپ کو سونپ دو ۔ اس نے یہ درخواست منظور کرلی ۔ اب شاہ روم نے اپنے لشکر کو جمع کیا اور ان سے کہا میں ایک ضروری اور اہم کام کے لیے اپنے مخصوص احباب کے ساتھ جا رہا ہوں ۔ اگر ایک سال کے اندر اندر آ جاؤں تو یہ ملک میرا ہے ورنہ تمہیں اختیار ہے جسے چاہو اپنا بادشاہ تسلیم کر لینا ۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہمارے بادشاہ تو آپ ہی ہیں خواہ دس سال تک بھی آپ نہ لوٹے تو کیا ہوا ۔ یہ یہاں سے مختصر سی جانباز جماعت لے کر چپ چاپ چل کھڑا ہوا ۔ پوشیدہ راستوں سے نہایت ہوشیاری احتیاط اور چالاکی سے بہت جلد فارس کے شہروں تک پہنچ گیا اور یکایک دھاوا بول دیا چونکہ یہاں کی فوجیں تو روم پہنچ چکی تھیں عوام کہاں تک مقابلہ کرتے ۔ اس نے قتل عام شروع کیا ۔ جو سامنے آیا تلوار کے کام آیا یونہی بڑھتا چلا گیا یہاں تک کہ مدائن پہنچ گیا جو کسرٰی کی سلطنت کی کرسی تھی وہاں کی محافظ فوج پر بھی غالب آیا انہیں بھی قتل کر دیا اور چاروں طرف سے مال جمع کیا ۔ ان کی تمام عورتوں کو قید کر لیا اور تمام لڑنے والوں کو قتل کر ڈالا ۔ کسریٰ کے لڑکے کو زندہ گرفتار کیا اس محل سرائے کی عورتوں کو زندہ گرفتار کیا ۔ اس کی دربارداری عورتیں وغیرہ بھی پکڑی گئیں اس کے لشکر کا سر منڈوا کر گدھے پر بٹھا کر عورتوں سمیت کسریٰ کی طرف بھیجا کہ لیجئے جو مال اور عورتیں اور غلام تو نے مانگے تھے وہ سب حاضر ہیں ۔ جب یہ قافلہ کسریٰ کے پاس پہنچا کسریٰ کو سخت صدمہ ہوا یہ ابھی تک قسطنطیہ کا محاصرہ کئے پڑا تھا اور قیصر کی واپسی کا انتظار کر رہا تھا کہ اس کے پاس اس کا کل خاندان اور ساری حرم سرا اس ذلت کی حالت میں پہنچی ۔ یہ سخت غضبناک ہوا اور شہر پر بہت سخت حملہ کر دیا لیکن اس میں کوئی کامیابی نہ ہوئی اب یہ نہر جیحون کی طرف چلا کہ قیصر کو وہاں روک لے کیونکہ قیصر کا فارس سے قسطنطیہ آنے کا راستہ یہی تھا ۔ قیصر نے اسے سن کر پہلے سے بھی زبردست حیلہ کیا یعنی اس نے اپنے لشکر کو تو دریا کے اس دہانے چھوڑا اور خود تھوڑے سے آدمی لے کر سوار ہو کر پانی کے بہاؤ کی طرف چل دیا کوئی ایک دن رات کا راستہ چلنے کے بعد اپنے ساتھ جو کٹی چارہ لید گوبر وغیرہ لے گیا تھا اسے پانی میں بہادیا ۔ یہ چیزیں پانی میں بہتی ہوئی کسریٰ کے لشکر کے پاس سے گزریں تو وہ سمجھ گئے کہ قیصر یہاں سے گزر گیا ہے ۔ یہ اس کے لشکروں کے جانوروں کے آثار ہیں ۔ اب قیصر واپس اپنے لشکر میں پہنچ گیا ادھر کسریٰ اس کی تلاش میں آگے چلا گیا ۔ قیصر اپنے لشکروں سمیت جیحون کا دہانہ عبور کر کے راستہ بدل کر قسطنطیہ پہنچ گیا ۔ جس دن یہ اپنے دارالسلطنت میں پہنچا نصرانیوں میں بڑی خوشیاں منائی گئیں ۔ کسریٰ کو جب یہ اطلاع ہوئی تو اس کا عجب حال ہوا کہ نہ پائے ماندن نہ جائے رفتن نہ تو روم ہی فتح ہوا اور نہ فارس ہی رہا رومی غالب آ گئے ۔ فارس کی عورتیں اور وہاں کے مال ان کے قبضے میں آئے ۔ یہ کل امور نو سال میں ہوئے اور رومیوں نے اپنی کھوئی ہوئی سلطنت فارسیوں سے دوبارہ لے لی اور مغلوب ہو کر غالب آ گئے ۔ اذراعات اور بصرہ کے معرکے میں اہل فارس غالب آ گئے تھے اور یہ ملک شام کا وہ حصہ تھا جو حجاز سے ملتا تھا یہ بھی قول ہے کہ یہ ہزیمت جزیرہ میں ہوئی تھی جو رومیوں کی سرحد کا مقام ہے اور فارس سے ملتا ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ پھر نو سال کے اندر اندر رومی فارسیوں پر غالب آ گئے ۔ قرآن کریم میں لفظ «بِضْعٌ» کا ہے اور اس کا اطلاق بھی نو تک ہوتا ہے اور یہی تفسیر اس لفظ کی ترمذی اور ابن جریر والی حدیث میں ہے ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا کہ { تمہیں احیتاطاً دس سال تک رکھنے چاہیئے تھے کیونکہ «بِضْعٌ» کے لفظ کا اطلاق تین سے نو تک ہوتا ہے } } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3191،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) اس کے بعد «قَبْلُ» اور «بَعْدُ» پر پیش اضافت ہٹادینے کی وجہ سے ہے کہ اس کے بعد حکم اللہ ہی کا ہے اس دن جب کہ روم فارس پر غالب آ جائے گا تو مسلمان خوشیاں منائیں گے ۔ اکثر علماء کا قول ہے کہ بدر کی لڑائی والے دن رومی فارسیوں پر غالب آ گئے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما ، سدی ، ثوری اور ابوسعید رحمہ اللہ علیہم یہی فرماتے ہیں ۱؎ (سنن ترمذی:3192،قال الشیخ الألبانی:صحیح لغیرہ) ایک گروہ کا خیال ہے کہ یہ غلبہ حدیبیہ والے سال ہوا تھا عکرمہ ، زہری اور قتادۃ رحمہ اللہ علیہم وغیرہ کا یہی قول ہے ۔ بعض نے اس کی توجیہہ یہ بیان کی کہ قیصر روم نے نذر مانی تھی کہ اگر اللہ تعالیٰ اسے فارس پر غالب کرے گا تو وہ اس کے شکر میں پیادہ بیت المقدس تک جائے گا چنانچہ اس نے اپنی نذر پوری کی اور بیت المقدس پہنچا ۔ یہ یہیں تھا اور اس کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ مبارک پہنچا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کی معرفت بصریٰ کے گورنر کو بھیجا تھا اور اس نے ہرقل کو پہنچایا تھا ہرقل نے نامہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پاتے ہی شام میں جو حجازی عرب تھے انہیں اپنے پاس بلایا ان میں ابوسفیان صخر بن حرب اموی بھی تھا اور دوسرے بھی قریش کے ذی عزت بڑے بڑے لوگ تھے ۔ اس نے ان سب کو اپنے سامنے بٹھا کر ان سے پوچھا کہ تم میں سے اس کا سب زیادہ قریبی رشتہ دار کون ہے ؟ جس نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے ۔ ابوسفیان نے کہا میں ہوں ۔ بادشاہ نے انہیں آگے بٹھا لیا اور ان کے ساتھیوں کو پیچھے بٹھا لیا اور ان سے کہا کہ دیکھو میں اس شخص سے چند سوالات کرونگا اگریہ کسی سوال کا غلط جواب دے تو تم اس کو جھٹلادینا ۔ ابوسفیان کا قول ہے کہ اگر مجھے اس بات کا ڈر نہ ہوتا کہ اگر میں جھوٹ بولوں گا تو لوگ اس کو ظاہر کر دیں گے اور پھر اس جھوٹ کو میری طرف نسبت کریں گے تو یقیناً میں جھوٹ بولتا ۔ اب ہرقل نے بہت سے سوالات کئے ۔ مثلا حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے حسب نسب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف و عادات کے متعلق وغیرہ وغیرہ ۔ ان میں ایک سوال یہ بھی تھا کہ کیا وہ غداری کرتا ہے؟ ابوسفیان نے کہا کہ آج تک تو کبھی بد عہدی ، وعدہ شکنی اور غداری کی نہیں ۔ اس وقت ہم میں اس میں ایک معاہدہ ہے نہ جانے اس میں وہ کیا کرے ؟ ابوسفیان کے اس قول سے مراد صلح حدیبیہ ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور قریش کے درمیان یہ بات ٹھہری تھی کہ آپس میں دس سال تک کوئی لڑائی نہ ہوگی ۔ یہ واقعہ اس قول کی پوری دلیل بن سکتا ہے کہ رومی فارس پر حدیبیہ والے سال غالب آئے تھے ۔ اس لیے کہ قیصر نے اپنی نذر حدیبیہ کے بعد پوری کی تھی «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ لیکن اس کا جواب وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ غلبہ روم فارس پر بدر والے سال ہوا تھا یہ دے سکتے ہیں کہ چونکہ ملک کی اقتصادی اور مالی حالت خراب ہو چکی تھی ویرانی غیر آبادی وتنگ حالی بہت بڑھ گئی تھی ، اس لیے چار سال تک ہرقل نے اپنی پوری توجہ ملک کی خوشحالی اور آبادی پر رکھی ۔ اس کے بعد اس طرف سے اطمینان حاصل کر کے نذر کو پوری کرنے کے لیے روانہ ہوا «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ یہ اختلاف کوئی ایسا اہم امر نہیں ۔ ہاں مسلمان رومیوں کے غلبہ سے خوش ہوئے اس لیے کہ وہ کیسے ہی ہوں تاہم تھے اہل کتاب ۔ اور ان کے مقابلے مجوسیوں کی جماعت تھی جنہیں کتاب سے دور کا تعلق بھی نہ تھا ۔ تو لازمی امر تھا کہ مسلمان ان کے غلبے سے ناخوش ہوں اور رومیوں کے غلبے سے خوش ہوں ۔ خود قرآن میں موجود ہے کہ «لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِّلَّذِینَ آمَنُوا الْیَہُودَ وَالَّذِینَ أَشْرَ‌کُوا وَلَتَجِدَنَّ أَقْرَ‌بَہُم مَّوَدَّۃً لِّلَّذِینَ آمَنُوا الَّذِینَ قَالُوا إِنَّا نَصَارَ‌یٰ ذٰلِکَ بِأَنَّ مِنْہُمْ قِسِّیسِینَ وَرُ‌ہْبَانًا وَأَنَّہُمْ لَا یَسْتَکْبِرُ‌ونَ وَإِذَا سَمِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَی الرَّ‌سُولِ تَرَ‌یٰ أَعْیُنَہُمْ تَفِیضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَ‌فُوا مِنَ الْحَقِّ یَقُولُونَ رَ‌بَّنَا آمَنَّا فَاکْتُبْنَا مَعَ الشَّاہِدِینَ» ’ ایمان والوں کے سب سے زیادہ دشمن یہود اور مشرک ہیں اور ان سے دوستیاں رکھنے میں سب سے زیادہ قریب وہ لوگ ہیں جو اپنے آپ کو نصاریٰ کہتے ہیں اس لیے کہ ان میں علماء اور درویش لوگ ہیں اور یہ متکبر نہیں ۔ قرآن سن کر یہ رو دیتے ہیں کیونکہ حق کو جان لیتے ہیں پھر اقرار کرتے ہیں کہ اے اللہ ہم ایمان لائے تو ہمیں بھی ماننے والوں میں کر لے ‘ ۔ ۱؎ (5-المائدۃ:82-83) پس یہاں بھی یہی فرمایا کہ ’ مسلمان اس دن خوش ہونگے جس دن اللہ تعالیٰ رومیوں کی مدد کرے گا وہ جس کی چاہتا ہے مدد کرتا ہے وہ بڑا غالب اور بہت مہربان ہے ‘ ۔ زبیر کلابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں نے فارسیوں کا رومیوں پر غالب آنا پھر رومیوں کا فارسیوں پر غالب آنا پھر روم اور فارس دونوں پر مسلمانوں کا غالب آنا اپنی آنکھوں سے پندرہ سال کے اندر دیکھا لیا ۔ آخر آیت میں فرمایا ’ اللہ تعالیٰ اپنے دشمنوں سے بدلہ اور انتقام لینے پر قادر اور اپنے دوستوں کی خطاؤں اور لغزشوں سے در گزر فرمانے والا ہے ۔ جو خبر تمہیں دی ہے کہ رومی عنقریب فارسیوں پر غالب آ جائیں گے یہ اللہ کی خبر ہے رب کا وعدہ ہے پرودگار کا فیصلہ ہے ۔ ناممکن ہے کہ غلط نکلے ٹل جائے یاخلاف ہو جائے ۔ جو حق کے قریب ہو اسے بھی رب حق سے بہت دور والوں پر غالب رکھتے ہیں ہاں اللہ کی حکمتوں کو کم علم نہیں جان سکتے ‘ ۔ اکثر لوگ دنیا کا علم تو خوب رکھتے ہیں اس کی گھتیاں منٹوں میں سلجھا دیتے ہیں اس میں خوب دماغ دوڑاتے ہیں ۔ اس کے برے بھلے نقصان کو پہچان لیتے ہیں بہ یک نگاہ اس کی اونچ نیچ دیکھ لیتے ہیں ۔ دنیا کمانے کا پیسے جوڑنے کا خوب سلیقہ رکھتے ہیں لیکن امور دین میں اخروی کاموں میں محض جاہل غبی اور کم فہم ہوتے ہیں ۔ یہاں نہ ذہن کام کرے نہ سمجھ پہنچ سکے نہ غورو فکر کی عادت ۔ حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں بہت سے ایسے بھی ہیں کہ نماز تک تو ٹھیک پڑھ نہیں سکتے لیکن درہم چٹکی میں لیتے ہی وزن بتا دیا کرتے ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ” دنیا کی آبادی اور رونق کی تو بیسیوں صورتیں ان کا ذہن گھڑ لیتا ہے ۔ لیکن دین میں محض جاہل اور آخرت سے بالکل غافل ہیں “ ۔ الروم
2 الروم
3 الروم
4 الروم
5 الروم
6 الروم
7 الروم
8 کائنات کا ہر ذرہ دعوت فکر دیتا ہے چونکہ کائنات کا ذرہ ذرہ حق جل وعلا کی قدرت کا نشان ہے اور اس کی توحید اور ربوبیت پر دلالت کرنے والا ہے اس لیے ارشاد ہوتا ہے کہ ’ موجودات میں غور و فکر کیا کرو اور قدرت اللہ کی نشانیوں سے اس مالک کو پہچانو اور اس کی قدر و تعظیم کرو ‘ ۔ کبھی عالم علوی کو دیکھو، کبھی عالم سفلی پر نظر ڈال ، کبھی اور مخلوقات کی پیدائش کو سوچو اور سمجھو کہ یہ چیزیں عبث اور بے کار پیدا نہیں کی گئیں ۔ بلکہ رب نے انہیں کارآمد اور نشان قدرت بنایا ہے ۔ ہر ایک کا ایک وقت مقرر ہے یعنی قیامت کا دن ۔ جسے اکثر لوگ مانتے ہی نہیں ۔ اس کے بعد نبیوں کی صداقت کو اس طرح ظاہر فرماتا ہے کہ ’ دیکھ لو ان کے مخالفین کا کس قدر عبرتناک انجام ہوا ؟ اور ان کے ماننے والوں کو کس طرح دونوں جہاں کی عزت ملی ؟ تم چل پھر کر اگلے واقعات معلوم کرو کہ گزشتہ امتیں جو تم سے زیادہ زور آور تھیں تم سے زیادہ مال و زر والی تھیں تم سے کنبے قبیلے اور بیٹے پوتے والی تھیں تم تو ان کے دسویں حصہ کو بھی نہیں پہنچے وہ تم سے زیادہ عمر والے تھے ۔ تم سے زیادہ آبادیاں انہوں نے کیں، تم سے زیادہ کھیتیاں اور باغات ان کے تھے اس کے باوجود جب ان کے پاس اس زمانے کے رسول آئے انہوں نے دلیلیں اور معجزے دکھائے اور پھر بھی اس زمانے کے ان بدنصیبوں نے ان کی نہ مانی اور اپنے خیالات میں مستغرق رہے اور سیاہ کاریوں میں مشغول رہے تو بالآخر عذاب اللہ ان پر برس پڑے ‘ ۔ اس وقت کوئی نہ تھا جو انہیں بچا سکے یا کسی عذاب کو ان پر سے ہٹا سکے ۔ اللہ کی ذات اس سے پاک ہے کہ وہ اپنے بندوں پر ظلم کرے ۔ یہ عذاب تو ان کے اپنے کرتوتوں کا وبال تھا ۔ یہ اللہ کی آیتوں کو جھٹلاتے تھے رب کی باتوں کا مذاق اڑاتے تھے ۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ «وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَہُمْ وَأَبْصَارَ‌ہُمْ کَمَا لَمْ یُؤْمِنُوا بِہِ أَوَّلَ مَرَّ‌ۃٍ وَنَذَرُ‌ہُمْ فِی طُغْیَانِہِمْ یَعْمَہُونَ» (6-الأنعام:110)’ ان کی بےایمانی کی وجہ سے ہم نے ان کے دلوں کو ان کی نگاہوں کو پھیر دیا اور انہیں ان کی سرکشی میں ہی حیران چھوڑ دیا ہے ‘ ۔ اور آیت میں ہے «فَلَمَّا زَاغُوا أَزَاغَ اللہُ قُلُوبَہُمْ» (61-الصف:5) ’ ان کی کجی کی وجہ سے اللہ نے ان کے دل ٹیڑھے کر دئیے ‘ اور اس آیت میں ہے کہ «فَإِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلَمْ أَنَّمَا یُرِیدُ اللہُ أَنْ یُصِیبَہُمْ بِبَعْضِ ذُنُوبِہِمْ» ۱؎ (5-المائدۃ:49) ’ اگر اب بھی منہ موڑیں تو سمجھ لے کہ اللہ تعالیٰ ان کے بعض گناہوں پر ان کی پکڑ کرنے کا ارادہ کرچکا ہے ‘ ۔ اس بناء پر «اَلسٰوایٰ» منصوب ہو گا «اَسَاءُ» کا مفعول ہو کر ۔ اور یہ بھی قول ہے کہ «سٰوایٰ» یہاں پر اس طرح واقع ہے کہ برائی ان کا انجام ہوئی ۔ اس لیے کہ وہ آیات اللہ کے جھٹلانے والے اور ان کا مذاق اڑانے والے تھے ۔ تو اس معنی کی رو سے یہ لفظ منصوب ہو گا «کَان» کی خبر ہو کر ۔ امام ابن جریررحمہ اللہ نے یہی توجیہہ بیان کی ہے اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور قتادۃ رحمہ اللہ سے نقل بھی کی ہے ۔ ضحاک رحمہ اللہ بھی یہی فرماتے ہیں اور ظاہر بھی یہی ہے کیونکہ اس کے بعد آیت «ووَکَانُوْا بِہَا یَسْتَہْزِءُوْنَ» ۱؎ (30- الروم:10) ہے ۔ الروم
9 الروم
10 الروم
11 اعمال کے مطابق فیصلے فرمان باری ہے کہ ’ سب سے پہلے مخلوقات کو اسی اللہ نے بنایا اور جس طرح وہ اس کے پیدا کرنے پر اس وقت قادر تھا اب فنا کرکے دوبارہ پیدا کرنے پر بھی وہ اتنا ہی بلکہ اس سے بھی زیادہ قادر ہے تم سب قیامت کے دن اسی کے سامنے حاضر کئے جانے والے ہو ‘ ۔ وہاں وہ ہر ایک کو اس کے اعمال کا بدلہ دے گا ۔ قیامت کے دن گنہگار ناامید رسوا اور خاموش ہو جائیں گے ۔ اللہ کے سوا جن جن کی دنیا میں عبادت کرتے رہے ان میں سے ایک بھی ان کی سفارش کے لیے کھڑا نہ ہوگا ۔ اور یہ ان کے پوری طرح محتاج ہونگے لیکن وہ ان سے بالکل آنکھیں پھیر لیں گے اور خود ان کے معبودان باطلہ بھی ان سے کنارہ کش ہو جائیں گے اور صاف کہدیں گے کہ ہم میں ان میں کوئی دوستی نہیں ۔ قیامت قائم ہوتے ہی اس طرح الگ الگ ہو جائیں گے جس کے بعد ملاپ ہی نہیں ۔ نیک لوگ تو «علیین» میں پہنچا دئے جائیں گے اور برے لوگ «سجین» میں پہنچا دئیے جائیں گے وہ سب سے اعلیٰ بلندی پر ہونگے یہ سب سے زیادہ پستی میں ہونگے ۔ پھر اس آیت کی تفصیل ہوتی ہے کہ ’ نیک نفس تو جنتوں میں ہنسی خوشی سے ہونگے اور کفار جہنم میں جل بھن رہے ہونگے ‘ ۔ الروم
12 الروم
13 الروم
14 الروم
15 الروم
16 الروم
17 خالق کل مقتدر کل ہے اس رب تعالیٰ کی کمال قدرت اور عظمت سلطنت پر دلالت اس کی تسبیح اور اس کی حمد سے ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی رہبری کرتا ہے اور اپنا پاک ہونا اور قابل حمد ہونا بھی بیان فرما رہا ہے ۔ شام کے وقت جبکہ رات اپنے اندھیروں کو لے آتی ہے اور صبح کے وقت جبکہ دن اپنی روشنیوں کو لے آتا ہے ۔ اتنا بیان فرما کر اس کے بعد کاجملہ بیان فرمانے سے پہلے ہی یہ بھی ظاہر کر دیا کہ زمین و آسمان میں قابل حمد و ثناء وہی ہے ان کی پیدائش خود اس کی بزرگی پر دلیل ہے ۔ پھر صبح شام کے وقتوں کی تسبیح کا بیان جو پہلے گزرا تھا اس کے ساتھ عشاء اور ظہر کا وقت ملالیا ۔ جو پور ے اندھیرے اور کامل اجالے کا وقت ہوتا ہے ۔ بیشک تمام تر پاکیزگی اسی کو سزاوار ہے جو رات کے اندھیروں کو اور دن کے اجالوں کو پیدا کرنے والا ہے ۔ «فَالِقُ الْإِصْبَاحِ وَجَعَلَ اللَّیْلَ سَکَنًا» ۱؎ (6-الأنعام:96) ’ صبح کا ظاہر کرنے والا رات کو سکون والی بنانے والا وہی ہے ‘ ۔ اس جیسی آیتیں اور بھی بہت سی ہیں ۔ آیت «النَّہَارِ اِذَا جَلّٰیہَا وَاللَّیْلِ إِذَا یَغْشَاہَا» ۱؎ (91-الشمس:-4-3) اور «ووَاللَّیْلِ إِذَا یَغْشَیٰ وَالنَّہَارِ إِذَا تَجَلَّیٰ» ۱؎ (92-اللیل:-2-1) ٰ اور «وَالضٰحٰی وَالَّیْلِ اِذَا سَـجٰی» ۱؎ (93-الضحی:2-1) وغیرہ ۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ { میں تمہیں بتاؤں کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کا نام خلیل [وفادار] کیوں رکھا ؟ اس لیے کہ وہ صبح شام ان کلمات کو پڑھاکرتے تھے } ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت «فَسُـبْحٰنَ اللّٰہِ حِیْنَ تُمْسُوْنَ وَحِیْنَ تُصْبِحُوْنَ» ۱؎ (30-الروم:17) سے «وَلَہُ الْحَمْــدُ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَعَشِـیًّا وَّحِیْنَ تُظْہِرُوْنَ» ‏‏‏‏ ۱؎ (30-الروم:18) تک کی دونوں آیتیں تلاوت فرمائیں } ۔ ۱؎ (مسند احمد:439/3:ضعیف) طبرانی کی حدیث میں ان دونوں آیتوں کی نسبت ہے کہ { جس نے صبح و شام یہ پڑھ لیں اس نے دن رات میں جو چیز چھوٹ گئی اسے پا لیا } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:5076،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ۔ پھر بیان فرمایا کہ ’ موت وزیست کا خالق مردوں سے زندوں کو اور زندوں سے مردوں کو نکالنے والا وہی ہے ‘ ۔ ہر شئے پر اور اس کی ضد پر وہ قادر ہے دانے سے درخت ، درخت سے دانے ، مرغی سے انڈہ ، انڈے سے مرغی ، نطفے سے انسان ، انسان سے نطفہ ، مومن سے کافر ، کافر سے مومن غرض ہرچیز اور اس کے مقابلہ کی چیز پر اسے قدرت حاصل ہے ۔ خشک زمین کو وہی تر کردیتا ہے بنجر زمین سے وہی زراعت پیدا کرتا ہے جیسے سورۃ یاسین میں فرمایا کہ «وَآیَۃٌ لَّہُمُ الْأَرْ‌ضُ الْمَیْتَۃُ أَحْیَیْنَاہَا وَأَخْرَ‌جْنَا مِنْہَا حَبًّا فَمِنْہُ یَأْکُلُونَ وَجَعَلْنَا فِیہَا جَنَّاتٍ مِّن نَّخِیلٍ وَأَعْنَابٍ وَفَجَّرْ‌نَا فِیہَا مِنَ الْعُیُونِ» ’ خشک زمین کا تروتازہ ہو کرطرح طرح کے اناج وپھل پیدا کرنا بھی میری قدرت کا ایک کامل نشان ہے ‘ ۱؎ (36-یس:33-34) ۔ ایک اور آیت میں ہے «وَتَرَی الْأَرْضَ ہَامِدَۃً فَإِذَا أَنْزَلْنَا عَلَیْہَا الْمَاءَ اہْتَزَّتْ وَرَبَتْ وَأَنْبَتَتْ مِنْ کُلِّ زَوْجٍ بَہِیجٍ ذَلِکَ بِأَنَّ اللہَ ہُوَ الْحَقٰ وَأَنَّہُ یُحْیِی الْمَوْتَی وَأَنَّہُ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ وَأَنَّ السَّاعَۃَ آتِیَۃٌ لَا رَیْبَ فِیہَا وَأَنَّ اللہَ یَبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُورِ» (22-الحج:5-7) ’ تمہارے دیکھتے ہوئے اس زمین کو جس میں سے دھواں اٹھتا ہو دو بوند سے تر کر کے میں لہلہا دیتا ہوں اور ہر قسم کی پیداوار سے اسے سرسبز کر دیتا ہوں ‘ ۔ اور بھی بہت سی آیتوں میں اس مضمون کو کہیں مفصل کہیں مجمل بیان فرمایا ۔ یہاں فرمایا ’ اسی طرح تم سب بھی مرنے کے بعد قبروں میں سے زندہ کر کے کھڑے کر دئیے جاؤ گے ‘ ۔ الروم
18 الروم
19 الروم
20 بتدریج نظام حیات فرماتا ہے کہ ’ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی بے شمار نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارے باپ آدم کو مٹی سے پیدا کیا ۔ تم سب کو اس نے بے وقعت پانی کے قطرے سے پیدا کیا ‘ ۔ پھر تمہاری بہت اچھی صورتیں بنائیں نطفے سے خون بستہ کی شکل میں پھر گوشت کے لوتھڑے کی صورت میں ڈھال کر پھر ہڈیاں بنائیں اور ہڈیوں کو گوشت پہنایا ۔ پھر روح پھونکی ، آنکھ ، کان ، ناک پیدا کئے ماں کے پیٹ سے سلامتی سے نکالا ، پھر کمزوری کو قوت سے بدلا ، دن بدن طاقتور اور مضبوط قد آور ، زور آور کیا ، عمر دی حرکت وسکون کی طاقت دی اسباب اور آلات دئیے اور مخلوق کا سردار بنایا اور ادھر سے ادھر پہنچنے کے ذرائع دئیے ۔ سمندروں کی زمین کی مختلف سواریاں عطا فرمائیں عقل سوچ سمجھ تدبر غور کے لیے دل ودماغ عطا فرمائے ۔ دنیاوی کام سمجھائے رزق عزت حاصل کرنے لے طریقے کھول دئیے ۔ ساتھ ہی آخرت کو سنوارنے کا علم اور دنیاوی علم بھی سکھایا ۔ پاک ہے وہ اللہ جو ہرچیز کا صحیح اندازہ کرتا ہے ہر ایک کو ایک مرتبے پر رکھتا ہے ۔ شکل و صورت میں بول چال میں امیری فقیری میں عقل وہنر میں بھلائی برائی میں سعادت وشقات میں ہر ایک کو جداگانہ کر دیا ۔ تاکہ ہر شخص رب کی بہت سی نشانیاں اپنے میں اور دوسرے میں دیکھ لے ۔ مسند احمد میں حدیث ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اللہ تعالیٰ نے تمام زمین سے ایک مٹھی مٹی کی لے کر اس سے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا ۔ پس زمین کے مختلف حصوں کی طرح اولاد آدم کی مختلف رنگتیں ہوئیں ۔ کوئی سفید کوئی سرخ کوئی سیاہ کوئی خبیث کوئی طیب کوئی خوش خلق کوئی بدخلق وغیرہ } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4693،قال الشیخ الألبانی:صحیح) پھر فرماتا ہے کہ ’ اللہ تعالیٰ کی ایک نشانی قدرت یہ بھی ہے کہ اس نے تمہاری ہی جنس سے تمہارے جوڑے بنائے کہ وہ تمہاری بیویاں بنتی ہیں اور تم ان کے خاوند ہوتے ہو ۔ یہ اس لیے کہ تمہیں ان سے سکوں و راحت آرام وآسائش حاصل ہو ‘ ۔ جیسے ایک اور آیت میں ہے «ہُوَ الَّذِی خَلَقَکُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَۃٍ وَجَعَلَ مِنْہَا زَوْجَہَا لِیَسْکُنَ إِلَیْہَا» ۱؎ (7-الأعراف:189) ’ اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایک ہی نفس سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیویاں پیدا کی تاکہ وہ اس کی طرف راحت حاصل کرے ‘ ۔ حواء رضی اللہ عنہا آدم علیہ السلام کی بائیں پسلی سے جو سب سے زیادہ چھوٹی ہے پیدا ہوئی ہیں پس اگر انسان کا جوڑا انسان سے نہ ملتا اور کسی اور جنس سے ان کا جوڑا بندھتا تو موجودہ الفت و رحمت ان میں نہ ہو سکتی ۔ یہ پیار اخلاص یک جنسی کی وجہ سے ہے ۔ ان میں آپس میں محبت مودت رحمت الفت پیار اخلاص رحم اور مہربانی ڈال دی پس مرد یا تو محبت کی وجہ سے عورت کی خبر گیری کرتا ہے یا غم کھا کر اس کا خیال رکھتا ہے ۔ اس لیے کہ اس سے اولاد ہو چکی ہے اس کی پرورش ان دونوں کے میل ملاپ پر موقوف ہے ۔ الغرض بہت سی وجوہات رب العلمین نے رکھ دی ہیں ۔ جن کے باعث انسان با آرام اپنے جوڑے کے ساتھ زندگی گزارتا ہے ۔ یہ بھی رب کی مہربانی اور اس کی قدرت کاملہ کی ایک زبردست نشانی ہے ۔ ادنٰی غور سے انسان کا ذہن اس تک پہنچ جاتا ہے ۔ الروم
21 الروم
22 یہ رنگ یہ زبانیں اور وسیع تر کائنات رب العلمین اپنی زبردست قدرت کی ایک نشانی اور بیان فرماتا ہے کہ اس قدر بلند کشادہ آسمان کی پیدائش اس میں ستاروں کا جڑاؤ ان کی چمک دمک ان میں سے بعض کا چلتا پھرتا ہونا بعض کا ایکجا ثابت رہنا زمین کو ایک ٹھوس شکل میں بنانا اسے کثیف پیدا کرنا اس میں پہاڑ میدان جنگل دریا سمندر ٹیلے پتھر درخت وغیرہ جمادینا ۔ خود تمہاری زبانوں میں رنگتوں میں اختلاف رکھنا عرب کی زبان تاتاریوں کی زبان ، کر دوں ، رومیوں ، فرنگیوں ، تکرونیوں ، بربر ، حبشیوں ، ہندیوں ، ایرانیوں ، حقابلہ ، آرمینوں ، جزریوں اور اللہ جانے کتنی کتنی زبانیں زمین پر بنو آدم میں بولی جاتی ہیں ۔ انسانی زبانوں کے اختلاف کے ساتھ ہی ان کی رنگتوں کا اختلاف بھی شان اللہ کا مظہر ہے ۔ خیال تو فرمائیے کہ لاکھوں آدمی جمع ہو جائیں ایک کنبے قبیلے کے ایک ملک ایک زبان کے ہوں لیکن ناممکن ہے کہ ہر ایک میں کوئی نہ کوئی اختلاف نہ ہو ۔ حالانکہ اعضائے بدن کے اعتبار سے کلی موافقت ہے ۔ سب کی دو آنکھیں دو پلکیں ایک ناک دو دو کان ایک پیشانی ایک منہ دو ہونٹ دو رخسار وغیرہ لیکن تاہم ایک سے ایک علیحدہ ہے ۔ کوئی نہ کوئی عادت خصلت کلام بات چیت طرز ادا ایسی ضرور ہو گی کہ جس میں ایک دوسرے کا امتیاز ہو جائے گو وہ بعض مرتبہ پوشیدہ سی اور ہلکی سی چیزیں ہی ہو ۔ گو خوبصورتی اور بدصورتی میں کئی ایک یکساں نظر آئیں لیکن جب غور کیا جائے تو ہر ایک کو دوسرے سے ممتاز کرنے والا کوئی نہ کوئی وصف ضرور نظر آ جائے گا ۔ ہر جاننے والا اتنی بڑی طاقتوں اور قوتوں کے مالک کو پہچان سکتا ہے اور اس صنعت سے صانع کو جان سکتا ہے ۔ نیند بھی قدرت کی ایک نشانی ہے جس سے تھکان دور ہو جاتی ہے راحت وسکون حاصل ہوتا ہے اس کے لیے قدرت نے رات بنادی ۔ کام کاج کے لیے دنیا حاصل کرنے کے لیے کمائی دھندے کے لیے تلاش معاش کے لیے اللہ نے دن کو پیدا کر دیا جو رات کے بالکل خلاف ہے ۔ یقیناً سننے سمجھنے والوں کے لیے یہ چیزیں نشان قدرت ہیں ۔ طبرانی میں سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ { راتوں کو میری نیند اچاٹ ہوجایا کرتی تھی تو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس امر کی شکایت کی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { یہ دعا پڑھا کرو « اللہُمَّ غَارَتِ النٰجُومُ ، وَہَدَأَتِ الْعُیُونُ ، وَأَنْتَ حَیٌّ قَیٰومٌ ، یَا حَیٰ یَا قَیٰومُ ، أَنِمْ عَیْنِی وَ أَہْدِئْ لَیْلِی» } میں نے جب اس دعا کو پڑھا تو نیند نہ آنے کی بیماری بفضل اللہ دور ہوگئی } ۔ ۱؎ (سلسلۃ احادیث ضعیفہ البانی:1328،) الروم
23 الروم
24 قیام ارض و سما اللہ تعالیٰ کی عظمت پر دلالت کرنے والی ایک اور نشانی بیان کی جا رہی ہے کہ ’ آسمانوں پر اس کے حکم سے بجلی کوندتی ہے جسے دیکھ کر کبھی تمہیں دہشت لگنے لگتی ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کڑک کسی کو ہلاک کر دے ‘ کہیں بجلی گرے وغیرہ ’ اور کبھی تمہیں امید بندھتی ہے کہ اچھا ہوا اب بارش برسے گی پانی کی ریل پیل ہو گی ترسالی ہو جائے گی ‘ وغیرہ ۔ وہی ہے جو آسمان سے پانی اتارتا ہے اور اس زمین کو جو خشک پڑی ہوئی تھی جس پر نام نشان کی کوئی ہریاول نہ تھی مثل مردے کے بے کار تھی اس بارش سے وہ زندہ کر دیتا ہے لہلانے لگتی ہے ہری بھری ہوجاتی ہے اور طرح طرح کی پیدوار اگادیتی ہے ۔ عقل مندوں کے لئے عظمت اللہ کی یہ ایک جیتی جاگتی تصویر ہے ۔ وہ اس نشان کو دیکھ کر یقین کر لیتے ہیں کہ اس زمین کو زندہ کرنے والا ہماری موت کے بعد ہمیں بھی از سر نو زندہ کر دینے پر قادر ہے ۔ اس کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ زمین و آسمان اسی کے حکم سے قائم ہیں وہ آسمان کو زمین پر گرنے نہیں دیتا اور آسمان و زمین کو تھامے ہوئے ہے اور انہیں زوال سے بچائے ہوئے ہے ۔ سید ناعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جب کوئی تاکیدی قسم کھانا چاہتے تو فرماتے ” اس اللہ کی قسم جس کے حکم سے زمین و آسمان ٹھہرے ہوئے ہیں “ ۔ پھر قیامت کے دن وہ زمین و آسمان کو بدل دے گا مردے اپنی قبروں سے زندہ کر کے نکالے جائنگے ۔ خود اللہ انہیں آواز دے گا اور یہ صرف ایک آواز پر زندہ ہو کر اپنی قبروں سے نکل کھڑے ہونگے ۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ «یَوْمَ یَدْعُوکُمْ فَتَسْتَجِیبُونَ بِحَمْدِہِ وَتَظُنٰونَ إِنْ لَبِثْتُمْ إِلَّا قَلِیلًا» ۱؎ (17-الإسراء:52) ’ جس دن وہ تمہیں پکارے گا تم اس کی حمد کرتے ہوئے اسے جواب دو گے اور یقین کرلو گے کہ تم بہت ہی کم رہے ‘ ۔ اور آیت میں ہے «‏‏‏‏فَاِنَّمَا ھِیَ زَجْرَۃٌ وَّاحِدَۃٌ ۔ فَإِذَا ہُم بِالسَّاہِرَۃِ» ‏‏‏‏ ۱؎ (79-النازعات:-14-13) ’ صرف ایک ہی آواز سے ساری مخلوق میدان حشر میں جمع ہو جائے گی اور آیت میں ہے ‘ «اِنْ کَانَتْ اِلَّا صَیْحَۃً وَّاحِدَۃً فَاِذَا ہُمْ جَمِیْعٌ لَّدَیْنَا مُحْضَرُوْنَ» ۱؎ (36-یس:53) یعنی ’ وہ تو صرف ایک آواز ہو گی جسے سنتے ہی سب کے سب ہمارے سامنے حاضر ہو جائیں گے ‘ ۔ الروم
25 الروم
26 جس کا کوئی ہمسر نہیں فرماتا ہے کہ ’ تمام آسمانوں اور ساری زمینوں کی مخلوق اللہ ہی کی ہے ، سب اس کے لونڈی غلام ہیں ۔ سب اسی کی ملکیت ہیں ، ہر ایک اس کے سامنے عاجز ولاچار مجبور و بے بس ہیں ‘ ۔ ایک حدیث میں ہے کہ { قرآن کریم میں جہاں کہیں قنوت کا ذکر ہے وہاں مراد اطاعت وفرمانبردای ہے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:75/3:ضعیف) ابتدائی پیدائش بھی اسی نے کی اور وہی اعادہ بھی کرے گا اور اعادہ بہ نسبت ابتداء کے عادتاً آسان اور ہلکا ہوتا ہے ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { جناب باری تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’ مجھے ابن آدم جھٹلاتا ہے اور اسے یہ چاہیئے نہیں تھا ۔ وہ مجھے برا کہتا ہے اور یہ بھی اسے لائق نہ تھا ۔ اس کا جھٹلانا تو یہ ہے کہ کہتا ہے جس طرح اس نے مجھے اولاً پیدا کیا اس طرح دوبارہ پیدا کر نہیں سکتا ؟ حالانکہ دوسری مرتبہ کی پیدائش پہلی دفعہ کی پیدائش سے بالکل آسان ہوا کرتی ہے ۔ اس کا مجھے برا کہنا یہ ہے کہ کہتا ہے کہ اللہ کی اولاد ہے حالانکہ میں احد اور صمد ہوں ۔ جس کی نہ اولاد نہ ماں باپ اور جس کا کوئی ہمسر نہیں ۔ ‘ } } ۱؎ (صحیح بخاری:4974) ۔ الغرض دونوں پیدائشیں اس مالک کی قدر کی مظہر ہیں نہ اس پر کوئی کام بھاری نہ بوجھل ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ «ھُوَ» کی ضمیر کا مرجع «خَلْقُ» ہو ۔ «مَثَلُ» سے مراد یہاں اس کی توحید الوہیت اور توحید ربوبیت ہے نہ کہ مثال ۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات مثال سے پاک ہے فرمان ہے آیت «لَیْسَ کَمِثْلِہِ شَیْءٌ» ۱؎ (42-الشوری:11) ’ اس کی مثال کوئی اور نہیں ‘ ۔ بعض اہل ذوق نے کہا ہے کہ جب صاف شفاف پانی کا ستھرا پاک صاف حوض ٹھہرا ہوا ہو اور باد صبا کے تھپیڑے اسے ہلاتے جلاتے نہ ہوں اس وقت اس میں آسمان صاف نظر آتا ہے سورج اور چاند ستارے بالکل دکھائی دیتے ہیں ۔ اسی طرح بزرگوں کے دل ہیں جن میں وہ اللہ کی عظمت وجلال کو ہمیشہ دیکھتے رہتے ہیں ۔ وہ غالب ہے جس پر کسی کا بس نہیں نہ اس کے سامنے کسی کی کچھ چل سکے ہرچیز اس کی ماتحتی میں اور اس کے سامنے پست و لاچار عاجز و بے بس ہے ۔ اس کی قدرت، سطوت، سلطنت ہرچیز محیط ہے ۔ وہ حکیم ہے اپنے اقوال، افعال، شریعت، تقدیر، غرض ہر ہر امر میں ۔ محمد بن منکدر رحمہ اللہ فرماتے ہیں «مَثَلُ الْاَعْلی» سے مراد «لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ» ہے ۔ الروم
27 الروم
28 اپنے دلوں میں جھانکو! مشرکین مکہ اپنے بزرگوں کو شریک اللہ جانتے تھے لیکن ساتھ ہی یہ بھی مانتے تھے کہ یہ سب اللہ کے غلام اور اس کے ماتحت ہیں ۔ چنانچہ وہ حج وعمرے کے موقعہ پر لبیک پکارتے ہوئے کہتے تھے کہ [ («لَبَّیْکَ لَا شَرِیکَ لَکَ ، إِلَّا شَرِیکًا ہُوَ لَکَ ، تَمْلِکُہُ وَمَا مَلَکَ») ] یعنی ہم تیرے دربار میں حاضر ہیں تیرا کوئی شریک نہیں مگر وہ کہ وہ خود اور جس چیز کا وہ مالک ہے سب تیری ملکیت میں ہے ۔ یعنی ہمارے شریکوں کا اور ان کی ملکیت کا تو ہی اصلی مالک ہے ۔ پس یہاں انہیں ایک ایسی مثال سے سمجھایا جا رہا ہے جو خود یہ اپنے نفس ہی میں پائیں ۔ اور بہت اچھی طرح غور وخوض کر سکیں ۔ فرماتا ہے کہ ’ کیا تم میں سے کوئی بھی اس امر پر رضا مند ہو گا کہ اس کے کل مال وغیرہ میں اس کے غلام اس کے برابر کے شریک ہوں اور ہر وقت اسے یہ دھڑ کا رہتا ہو کہ کہیں وہ تقسیم کرکے میری جائیداد اور ملکیت آدھوں آدھ بانٹ نہ لے جائیں ‘ ۔ پس جس طرح تم یہ بات اپنے لیے پسند نہیں کرتے اللہ کے لیے بھی نہ چاہو جس طرح غلام آقا کی ہمسری نہیں کر سکتا اسی طرح اللہ کا کوئی بندہ اللہ کا شریک نہیں ہوسکتا ۔ یہ عجب ناانصافی ہے کہ اپنے لیے جس بات سے چڑیں اور نفرت کریں اللہ کے لیے وہی بات ثابت کرنے بیٹھ جائیں ۔ خود بیٹیوں سے جلتے تھے، اتنا سنتے ہی کہ تیرے ہاں لڑکی ہوئی ہے منہ کالے پڑجاتے تھے اور اللہ کے مقرب فرشتوں کو اللہ کی لڑکیاں کہتے تھے ۔ اسی طرح خود اس بات کے کبھی رودار نہیں ہونے کہ اپنے غلاموں کو اپنا برابر کا شریک و سہیم سمجھیں ۔ لیکن اللہ کے غلاموں کو اللہ کا شریک سمجھ رہے ہیں کس قدر انصاف کا خون ہے ؟ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ” مشرک جو لبیک پکارتے تھے اور اس میں اللہ کے لا شریک ہونے کا اقرار کرکے پھر اس کی غلامی تلے دوسروں کو مان کر انہیں اس کا شریک ٹھہراتے تھے اس پر یہ آیت اتری “ ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:12348:ضعیف) اور اس میں بیان ہے کہ ’ جب تم اپنے غلاموں کو اپنے برابر کا شریک ٹھہرانے سے عار رکھتے ہو تو اللہ کے غلاموں کو اللہ کا شریک کیوں ٹھہرا رہے ہو ؟ ‘ ۔ یہ صاف بات بیان فرما کر ارشاد فرماتا ہے کہ ’ ہم اسی طرح تفصیل وار دلائل غافلوں کے سامنے رکھ دیتے ہیں ‘ ۔ پھر فرماتا ہے اور بتلاتا ہے کہ ’ مشرکین کے شرک کی کوئی سند ، عقلی ، نقلی کوئی دلیل نہیں صرف کرشمہ جہالت اور پیروی خواہش ہے ۔ جبکہ یہ راہ راست سے ہٹ گئے تو پھر انہیں اللہ کے سوا اور کوئی راہ راست پر لا نہیں سکتا ‘ ۔ یہ گو دوسروں کا اپنا کارساز اور مددگار مانتے ہیں لیکن واقعہ یہ ہے کہ دشمنان اللہ کا دوست کوئی نہیں ۔ کون ہے جو اس کی مرضی کے خلاف لب ہلا سکے ۔ کون ہے جو اس پر مہربانی کرے جس پر اللہ نامہربان ہو؟ جو وہ چاہے وہی ہوتا ہے اور جسے وہ نہ چاہے ہو نہیں سکتا ۔ الروم
29 الروم
30 بچہ اور ماں باپ ’ ملت ابراہیم حنیف پر جم جاؤ جس دین کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے مقرر کر دیا ہے اور جسے اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے ہاتھ پر اللہ نے کمال کو پہنچایا ہے ‘ ۔ رب کی فطرت سلیمہ پر وہی قائم ہے جو اس دین اسلام کا پابند ہے ۔ اسی پر یعنی توحید پر رب نے تمام انسانوں کو بنایا ہے ۔ روز اول میں اسی کا سب سے اقرار کرا لیا گیا تھا کہ «وَأَشْہَدَہُمْ عَلَی أَنْفُسِہِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوا بَلَی» ’ کیا میں سب کا رب نہیں ہوں ؟ تو سب نے اقرار کیا کہ بیشک تو ہی ہمارا رب ہے ‘ ۔ ۱؎ (7-الأعراف:172) وہ حدیثیں عنقریب ان شاءاللہ بیان ہونگی جن سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی جملہ مخلوق کو اپنے سچے دین پر پیدا کیا ہے گو اس کے بعد لوگ یہودیت نصرانیت وغیرہ پر چلے گئے ۔ ’ لوگو! اللہ کی اس فطرت کو نہ بدلو ۔ لوگوں کو اس راہ راست سے نہ ہٹاؤ ‘ ۔ تو یہ خبر معنی میں امر ہوگی جیسے آیت «وَمَنْ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا» ۔ ۱؎ (3-آل عمران:97) میں یہ معنی نہایت عمدہ اور صحیح ہیں ۔ دوسرے معنی یہ بھی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق کو فطرت سلیمہ پر یعنی دین اسلام پر پیدا کیا ۔ رب کے اس دین میں کوئی تبدل و تغیر نہیں ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے یہی معنی کئے ہیں کہ ” یہاں خلق اللہ سے مراد دین اور فطرت اسلام ہے “ ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:تفسیر سورۃ الروم) ۔ بخاری شریف میں { بروایت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہما فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ { ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی نصرانی اور مجوسی بنا دیتے ہیں ۔ جیسے بکری کا صحیح سالم بچہ ہوتا ہے جس کے کان لوگ کتر دیتے ہیں ۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت کی «فَأَقِمْ وَجْہَکَ لِلدِّینِ حَنِیفًا فِطْرَتَ اللہِ الَّتِی فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْہَا لَا تَبْدِیلَ لِخَلْقِ اللہِ ذٰلِکَ الدِّینُ الْقَیِّمُ وَلٰکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُونَ» } } ۱؎ (صحیح بخاری:4775) مسند احمد میں ہے اسود بن سریع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں { میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر کفار سے جہاد کیا وہاں ہم بفضل اللہ غالب آگئے ۔ اس دن لوگوں نے بہت سے کفار کو قتل کیا یہاں تک کہ چھوٹے بچوں کو بھی قتل کر ڈالا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ چلا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت ناراض ہوئے اور فرمانے لگے { یہ کیا بات ہے لوگ حد سے آگے نکل جاتے ہیں آج بچوں کو بھی قتل کر دیا ہے } ۔ کسی نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آخر وہ بھی تو مشرکین کی ہی اولاد تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا { نہیں نہیں ۔ یاد رکھو تم میں سے بہترین لوگ مشرکین کے بچے ہیں ۔ خبردار بچوں کو کبھی قتل نہ کرنا ، نابالغوں کے قتل سے رک جانا ۔ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے یہاں تک کہ اپنی زبان سے کچھ کہے ۔ پھر اس کے ماں باپ اسے یہود نصرانی بنا لیتے ہیں } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:435/3:صحیح) سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے مسند شریف میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے یہاں تک کہ اسے زبان آ جائے ۔ اب یا تو شاکر بنتا ہے یا کافر } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:353/3:ضعیف) ۔ مسند میں بروایت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ { حضور علیہ السلام سے مشرکوں کی اولاد کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ { جب انہیں اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا وہ خوب جانتا تھا کہ وہ کیا اعمال کرنے والے ہیں } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1383) ۔ آپ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ { ایک زمانہ میں میں کہتا تھا مسلمانوں کی اولاد مسلمانوں کے ساتھ ہے اور مشرکوں کی اولاد مشرکوں کے ساتھ ہے یہاں تک کہ فلاں شخص نے فلاں سے روایت کر کے مجھے سنایا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرکوں کے بچوں کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ خوب عالم ہے اس چیز سے جو وہ کرتے } ۔ اس حدیث کو سن کر میں نے اپنا فتویٰ چھوڑ دیا } ۱؎ (مسند احمد:73/5:صحیح) ۔ عیاض بن حمار رضی اللہ عنہ سے مسند احمد وغیرہ میں حدیث ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک خطبہ میں فرمایا کہ { مجھے جناب باری عزوجل نے حکم دیا کہ جو اس نے مجھے آج سکھایا ہے اور اس سے تم جاہل ہو وہ میں تمہیں سکھا دوں } ۔ فرمایا کہ ’ جو میں نے اپنے بندوں کو دیا ہے میں نے ان کے لیے حلال کیا ہے میں نے اپنے سب بندوں کو یک طرفہ خالص دین والا بنایا ہے ،ان کے پاس شیطان پہنچتا ہے اور انہیں دین سے گمراہ کرتا ہے اور حلال کو ان پر حرام کرتا ہے اور انہیں میرے ساتھ شریک کرنے کو کہتا ہے جس کی کوئی دلیل نہیں ‘ } ۔ { اللہ تعالیٰ نے زمین والوں کی طرف نگاہ ڈالی اور عرب وعجم سب کو ناپسند فرمایا سوائے چند اہل کتاب کے کچھ لوگوں کے ۔ وہ فرماتا ہے کہ ’ میں نے تجھے صرف آزمائش کے لیے بھیجا ہے تیری اپنی بھی آزمائش ہوگی اور تیری وجہ سے اور سب کی بھی میں تو تجھ پر وہ کتاب اتارونگا جسے پانی دھو نہ سکے تو اسے سوتے جاگتے پڑھتا رہے گا ‘ ۔ { پھر مجھ سے جناب باری عزوجل نے ارشاد فرمایا کہ میں قریش کو ہوشیار کر دوں میں نے اپنا اندیشہ ظاہر کیا کہ کہیں وہ میرا سر کچل کر روٹی جیسا نہ بنادیں؟ تو فرمایا ’ سن جیسے یہ تجھے نکالیں گے میں انہیں نکالونگا تو ان سے جہاد کر میں تیرا ساتھ دونگا تو خرچ کر تجھ پر خرچ کیا جائے گا ۔ تو لشکر بھیج میں اس سے پانچ حصے زیادہ لشکر بھیجوں گا فرمانبرداروں کو لیکر اپنے نافرمانوں پر چڑھائی کر دے ‘ } ۔ { اہل جنت تین قسم کے ہیں عادل بادشاہ توفیق خیر والا سخی ۔ نرم دل ہر مسلمان کے ساتھ سلوک احسان کرنے والا پاک دامن، سوال اور حرام سے بچنے والا عیالدار آدمی، ۔ اہل جہنم پانچ قسم کے لوگ ہیں وہ بے وقعت ،کمینے لوگ جو بے زر اور بے گھر ہیں جو تمہارے دامنوں میں لپٹے رہتے ہیں ۔ وہ خائن جو حقیر چیزوں میں بھی خیانت کئے بغیر نہیں رہتا ۔ وہ لوگ جو ہر وقت لوگوں کو ان کی جان مال اور اہل و عیال میں دھوکے دیتے رہتے ہیں صبح شام چالبازیوں اور مکر و فریب میں لگے رہتے ہیں } ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے { بخیلی یا کذاب کا ذکر کیا اور فرمایا پانچوں قسم کے لوگ بدزبان بدگو ہیں } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2765) یہی فطرت سلیمہ یہی شریعت کو مضبوطی سے تھامے رہنا ہی سچا اور سیدھا دین ہے ۔ لیکن اکثر لوگ بے علم ہیں ۔ اور اپنی اسی جہالت کی وجہ سے اللہ کے ایسے پاک دین سے دور بلکہ محروم رہ جاتے ہیں ۔ جیسے ایک اور آیت میں ہے «وَمَا أَکْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِینَ» ’ گو تیری حرص ہو لیکن ان میں سے اکثر لوگ بے ایمان ہی رہیں گے ‘ ۔ ۱؎ (12-یوسف:103) ایک اور آیت میں ہے «وَإِنْ تُطِعْ أَکْثَرَ مَنْ فِی الْأَرْضِ یُضِلٰوکَ عَنْ سَبِیلِ اللہِ » (6-الأنعام:116) ’ اگر تو اکثریت کی اطاعت کرے گا تو وہ تجھے راہ اللہ سے بہکا دیں گے ‘ ۔ ’ تم سب اللہ کی طرف راغب رہو ، اسی کی جانب جھکے رہو ، اسی کا ڈر خوف رکھو اور اسی کا لحاظ رکھو ۔ نمازوں کی پابندی کرو جو سب سے بڑی عبادت اور اطاعت ہے ۔ تم مشرک نہ بنو بلکہ موحد اور خالص بن جاؤ اس کے سوا کسی اور سے کوئی مراد وابستہ نہ رکھو ‘ ۔ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس آیت کا مطلب پوچھا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” یہ تین چیزیں ہیں اور یہی نجات کی جڑیں ہیں اول اخلاص جو فطرت ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا ہے دوسرے نماز جو دراصل دین ہے تیسرے اطاعت جو عصمت اور بچاؤ ہے ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا آپ رضی اللہ عنہ نے سچ کہا ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:183/10:) تمہیں مشرکوں میں نہ ملنا چاہیئے تمہیں ان کا ساتھ نہ دینا چاہیئے اور نہ ان جیسے فعل کرنا چاہیئے جنہوں نے دین اللہ کو بدل دیا بعض باتوں کو مان لیا اور بعض سے انکار کر گئے «فَرَّقُوا» کی دوسری قرأت «فَارَقُوْا» ہے یعنی انہوں نے اپنے دین کو چھوڑ دیا ۔ جیسے یہود ، نصاری ، مجوسی ، بت پرست اور دوسرے باطل مذاہب والے ۔ جیسے ارشاد ہے «إِنَّ الَّذِینَ فَرَّقُوا دِینَہُمْ وَکَانُوا شِیَعًا لَسْتَ مِنْہُمْ فِی شَیْءٍ إِنَّمَا أَمْرُہُمْ إِلَی اللہِ ثُمَّ یُنَبِّئُہُمْ بِمَا کَانُوا یَفْعَلُون» (6-الأنعام:159) ’ جن لوگوں نے اپنے دین میں تفریق کی اور گروہ بندی کر لی تو ان میں شامل ہی نہیں ان کا انجام سپرد اللہ ہے ‘ ۔ ’ تم سے پہلے والی قومیں گروہ گروہ ہو گئیں تھی ‘ ۔ سب کی سب باطل پر جم گئیں اور ہر فرقہ یہی دعویٰ کر تا رہا کہ وہ سچا ہے دراصل حقانیت ان سب سے گم ہوگئی تھی اس امت میں بھی تفرقہ پڑا لیکن ان میں ایک حق پر ہے ہاں باقی سب گمراہی پر ہیں ۔ یہ حق والی جماعت اہل سنت والجماعت ہے جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کو مضبوط تھامنے والی ہے ۔ جس پر سابقہ زمانے کے صحابہ، تابعین اور ائمہ مسلمین تھے گزشتہ زمانے میں بھی اور اب بھی ۔ جیسے مستدرک حاکم میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ ان سب میں نجات پانے والا فرقہ کون سا ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : «مَنْ کَانَ عَلَی مِثْلِ مَا أَنَا عَلَیْہِ الْیَوْمَ وَأَصْحَابِی» یعنی وہ لوگ جو اس پر ہوں جس پر آج میں اور میرے اصحاب رضی اللہ عنہم ہیں } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2641) [ برادران غور فرمائیے کہ وہ چیز جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھے وہ وحی اللہ یعنی قرآن و حدیث ہی تھی یا کسی امام کی تقلید ؟ ] الروم
31 الروم
32 الروم
33 انسان کی مختلف حالتیں اللہ تعالیٰ لوگوں کی حالت بیان فرما رہا ہے کہ ’ دکھ درد مصیبت و تکلیف کے وقت تو وہ اللہ «وَحدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ» کو بڑی عاجزی زاری نہایت توجہ اور پوری دلسوزی کے ساتھ پکارتے ہیں اور جب اس کی نعمتیں ان پر برسنے لگتی ہے تو یہ اللہ کے ساتھ شرک کرنے لگتے ہیں ‘ ۔ «لِیَکْفُرُوا» میں لام بعض تو کہتے ہیں لام عاقبت ہے اور بعض کہتے ہیں لام تعلیل ہے ۔ لیکن لام تعلیل ہونا اس وجہ سے بھلا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے ان کے لیے یہ مقرر کیا پھر انہیں دھمکایا کہ تم ابھی معلوم کرلو گے ۔ بعض بزرگوں کا فرمان ہے کہ کوتوال یا سپاہی اگر کسی کو ڈرائے دھمکائے تو وہ کانپ اٹھتا ہے تعجب ہے کہ اس کے دھمکانے سے ہم دہشت میں آئیں جس کے قبضے میں ہرچیز ہے اور جس کا صرف یہ کہدینا ہر امر کے لیے کافی ہے کہ ہو جا ۔ پھر مشرکین کا محض بے دلیل ہونا بیان فرمایا جا رہا ہے کہ ’ ہم نے ان کے شرک کی کوئی دلیل نہیں اتاری ‘ ۔ پھر انسان کی ایک بے ہودہ خصلت بطور انکار بیان ہو رہی ہے کہ ’ سوائے چند ہستیوں کے عموماً حالت یہ ہے کہ راحتوں کے وقت پھول جاتے ہیں اور سختیوں کے وقت مایوس ہو جاتے ہیں ۔ گویا اب کوئی بہتری ملے گی نہیں ۔ ہاں مومن سختیوں میں صبر اور نرمیوں میں نیکیاں کرتے ہیں ‘ ۔ صحیح حدیث میں ہے { مومن پر تعجب ہے اس کے لیے اللہ کی ہر قضاء بہتر ہی ہوتی ہے ۔ راحت پر شکر کرتا ہے تو یہ بھی اس کے لیے بہتر ہوتا ہے اور مصیبت پر صبر کرتا ہے تو یہ بھی اس کے لیے بہتر ہوتا ہے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2999) اللہ تعالیٰ ہی متصرف اور مالک ہے ۔ وہ اپنی حکمت کے مطابق جہان کا نظام چلارہا ہے کسی کو کم دیتا ہے کسی کو زیادہ دیتا ہے ۔ کوئی تنگی ترشی میں ہے کوئی وسعت اور فراخی میں ۔ اس میں مومنوں کے لیے نشان ہیں ۔ الروم
34 الروم
35 الروم
36 الروم
37 الروم
38 صلہ رحمی کی تاکید قرابتداروں کے ساتھ نیکی سلوک اور صلہ رحمی کرنے کا حکم ہو رہا ہے مسکین اسے کہتے ہیں جس کے پاس کچھ نہ ہو یا کچھ ہو لیکن بقدر کفایت نہ ہو ۔ اس کے ساتھ بھی سلوک واحسان کرنے کا حکم ہو رہا ہے ۔ مسافر جس کا خرچ کم پڑ گیا ہو اور سفر خرچ پاس نہ رہا ہو اس کے ساتھ بھی بھلائی کرنے کا ارشاد ہوتا ہے ۔ یہ ان کے لیے بہتر ہے جو چاہتے ہیں کہ قیامت کے دن دیدار اللہ کریں حقیقت میں انسان کے لیے اس سے بڑی نعمت کوئی نہیں ۔ دنیا اور آخرت میں نجات ایسے ہی لوگوں کو ملے گی ۔ اس دوسری آیت کی تفسیر تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما مجاہد ، ضحاک ، قتادۃ ، عکرمہ ، محمد بن کعب اور شعبی رحمہ اللہ علیہم سے یہ مروی ہے کہ جو شخص کوئی عطیہ اس ارادے سے دے کہ لوگ اسے اس سے زیادہ دیں ۔ تو گو اس ارادے سے ہدیہ دینا ہے تو مباح لیکن ثواب سے خالی ہے ۔ اللہ کے ہاں اس کا بدلہ کچھ نہیں ۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے بھی روک دیا اس معنی میں یہ حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مخصوص ہوگا ۔ اسی کی مشابہ آیت «وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَکْثِرُ» ۱؎ (74-المدثر:6) ہے یعنی ’ زیادتی معاوضہ کی نیت سے کسی کے ساتھ احسان نہ کیا کرو ‘ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ” سود یعنی نفع کی دوصورتیں ہیں ایک تو بیوپار تجارت میں سود یہ تو حرام محض ہے ۔ دوسرا سود یعنی زیادتی جس میں کوئی حرج نہیں وہ کسی کو اس ارادہ سے ہدیہ تحفہ دینا ہے کہ یہ مجھے اس سے زیادہ دے ۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے یہ آیت پڑھ کر فرمایا کہ اللہ کے پاس ثواب تو زکوٰۃ کے ادا کرنے کا ہے ۔ زکوٰۃ دینے والوں کو بہت برکتیں ہوتی ہیں “ ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ { جو شخص ایک کھجور بھی صدقے میں دے لیکن حلال طور سے حاصل کی ہوئی ہو تو اسے اللہ تعالیٰ رحمن و رحیم اپنے دائیں ہاتھ میں لیتا ہے اور اسطرح پالتا اور بڑھاتا ہے جس طرح تم میں سے کوئی اپنے گھوڑے یا اونٹ کے بچے کی پرورش کرتا ہے ۔ یہاں تک کہ وہی ایک کھجور احد پہاڑ سے بھی بڑی ہو جاتی ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1410) اللہ ہی خالق ورازق ہے ۔ انسان اپنی ماں کے پیٹ سے ننگا ، بےعلم ، بے کان ، بےآنکھ ، بےطاقت نکلتا ہے پھر اللہ تعالیٰ اسے سب چیزیں عطا فرماتا ہے ۔ مال ، ملکیت ، کمائی ، تجارت غرض بےشمار نعمتیں عطا فرماتا ہے ۔ دوصحابیوں رضوان اللہ علیہم کا بیان ہے کہ { ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کام میں مشغول تھے ہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ بٹایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ { دیکھو سرہ لنے لگے تب تک بھی روزی سے کوئی محروم نہیں رہتا ۔ انسان ننگا بھوکا دنیا میں آتا ہے ایک چھلکا بھی اس کے بدن پر نہیں ہوتا پھر رب ہی اسے روزیاں دیتا ہے } } ۔ ۱؎ (سلسلۃ احادیث ضعیفہ البانی:4798،) ۔ اس حیات کے بعد تمہیں مار ڈالے گا پھر قیامت کے دن زندہ کرے گا ۔ اللہ کے سوا تم جن جن کی عبادت کر رہے ہو ان میں سے ایک بھی ان باتوں میں سے کسی ایک پر قابو نہیں رکھتا ۔ ان کاموں میں سے ایک بھی کوئی نہیں کر سکتا ۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہی تنہا خالق رازق اور موت زندگی کا مالک ہے ۔ وہی قیامت کے دن تمام مخلوق کو جلا دے گا ۔ اس کی مقدس ، منزہ ، معظم اور عزت وجلال والی ذات اس سے پاک ہے کہ کوئی اس کا شریک ہو یا اس جیسا ہو یا اس کے برابر ہو یا اس کی اولاد ہو یا ماں باپ ہوں وہ «احد» ہے ، «صمد» ہے، فرد ہے، ماں باپ اولاد سے پاک ہے اس کا کفو کوئی نہیں ۔ الروم
39 الروم
40 الروم
41 زمین کی اصلاح اللہ تعالٰی کی اطاعت میں مضمر ہے ممکن ہے «بَرِّ» یعنی خشکی سے مراد میدان اور جنگل ہوں اور «بَحْرِ» یعنی تری سے مراد شہر اور دیہات ہوں ۔ ورنہ ظاہر ہے کہ بر کہتے ہیں خشکی کو اور بحر کہتے ہیں تری کو خشکی کے فساد سے مراد بارش کا نہ ہونا پیداوار کا نہ ہونا قحط سالیوں کا آنا ہے ۔ تری کے فساد سے مراد بارش کا رک جانا جس سے پانی کے جانور اندھے ہو جاتے ہیں ۔ انسان کا قتل اور کشتیوں کا جبر چھین جھپٹ لینا یہ خشکی تری کا فساد ہے ۔ «بَحْرِ» سے مراد جزیرے اور «بَرِّ» سے مراد شہر اور بستیاں ہیں ۔ لیکن اول قول زیادہ ظاہر ہے اور اسی کی تائید محمد بن اسحاق کی اس روایت سے ہوتی ہے کہ { حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایلہ کے بادشاہ سے صلح کی اور اس کا بحر یعنی شہر اسی کے نام کر دیا } ۔ ۱؎ (طبقات ابن سعد:220/1:) پھلوں کا اناج کا نقصان دراصل انسان کے گناہوں کی وجہ سے ہے اللہ کے نافرمان زمین کے بگاڑنے والے ہیں ۔ آسمان و زمین کی اصلاح اللہ کی عبادت و اطاعت سے ہے ۔ ابوداؤد میں حدیث ہے کہ { زمین پر ایک حد کا قائم ہونا زمین والوں کے حق میں چالیس دن کی بارش سے بہتر ہے } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:2538 ، قال الشیخ الألبانی:حسن) ۔ یہ اس لیے کہ حد قائم ہونے سے مجرم گناہوں سے باز رہیں گے ۔ اور جب گناہ نہ ہونگے تو آسمانی اور زمینی برکتیں لوگوں کو حاصل ہونگی ۔ چنانچہ آخر زمانے میں جب عیسیٰ بن مریم علیہ السلام اتریں گے اور اس پاک شریعت کے مطابق فیصلے کریں گے مثلا خنزیر کا قتل ، صلیب کی شکست ، جزئیے کا ترک یعنی اسلام کی قبولیت یا جنگ پھر جب آپ علیہ السلام کے زمانے میں دجال اور اس کے مرید ہلاک ہو جائیں گے یاجوج ماجوج تباہ ہو جائیں گے تو زمین سے کہا جائے گا کہ اپنی برکتیں لوٹادے اس دن ایک انار لوگوں کی ایک بڑی جماعت کو کافی ہوگا اتنا بڑا ہوگا کہ اس کے چھلکے تلے یہ سب لوگ سایہ حاصل کرلیں ۔ ایک اونٹنی کا دودھ ایک پورے قبیلے کو کفایت کرے گا ۔ یہ ساری برکتیں صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے جاری کرنے کی وجہ سے ہونگی جیسے جیسے عدل و انصاف مطابق شرع بڑھے گا ویسے ویسے خیر و برکت بڑھتی چلی جائے گی ۔ اس کے برخلاف فاجر شخص کے بارے میں حدیث شریف میں ہے کہ { اس کے مرنے پر بندے ، شہر ، درخت اور جانور سب راحت پالیتے ہیں } ۱؎ (صحیح بخاری:6512) مسند امام احمد بن حنبل میں ہے کہ ” زیاد کے زمانے میں ایک تھیلی پائی گئی جس میں کھجور کی بڑی گھٹلی جیسے گہیوں کے دانے تھے اور اس میں لکھا ہوا تھا کہ یہ اس زمانے میں اگتے تھے جس میں عدل وانصاف کو کام میں لایا جاتا تھا “ ۔ ۱؎ (مسند احمد:296/2:ضعیف) سیدنا زید بن اسلم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ” فساد سے شرک ہے “ لیکن یہ قول تامل طلب ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ مال اور پیداوار کی اور پھر اناج کی کمی بطور آزمائش کے اور بطور ان کے بعض اعمال کے بدلے کے ہے ‘ ۔ جیسے اور جگہ ہے آیت «وَبَلَوْنٰہُمْ بالْحَسَنٰتِ وَالسَّیِّاٰتِ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ» ۱؎ (7-الأعراف:168) ’ ہم نے انہیں بھلائیوں برائیوں میں مبتلاکیا تاکہ وہ لوٹ جائیں ‘ ۔ ’ تم زمین میں چل پھر کر آپ ہی دیکھ لو کہ تم سے پہلے جو مشرک تھے اس کے نتیجے کیا ہوئے ؟ رسولوں کی نہ ماننے اللہ کے ساتھ کفر کرنے کا کیا وبال ان پر آیا ؟ یہ دیکھو اور عبرت حاصل کرو ‘ ۔ الروم
42 الروم
43 اللہ کے دین میں مستحکم ہو جاؤ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو دین پر جم جانے کی اور چستی سے اللہ کی فرمانبرداری کرنے کی ہدایت کرتا ہے اور فرماتا ہے ، ’ مضبوط دین کی طرف ہمہ تن متوجہ ہو جاؤ ، اس سے پہلے کہ قیامت کا دن آئے ‘ ۔ جب اس کے آنے کا اللہ کا حکم ہو چکے گا پھر اس حکم کو یا اس آنے والی ساعت کو کوئی ٹال نہیں سکتا ۔ اس دن نیک بد علیحدہ علیحدہ ہو جائیں گے ۔ ایک جماعت جنت میں ، ایک جماعت بھڑکتی ہوئی آگ میں ۔ کافر اپنے کفر کے بوجھ تلے دب رہے ہونگے ۔ نیک اعمال لوگ اپنے کئے ہوئے بہترین آرام دہ ذخیرے پر خوش و خرم ہونگے ۔ رب انہیں ان کی نیکیوں کا اجر بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر کئی کئی گناہ کر کے دے رہا ہو گا ۔ ایک ایک نیکی دس دس بلکہ سات سات سو بلکہ اس سے بھی بہت زیادہ کر کے انہیں ملے گی ۔ کفار اللہ کے دوست نہیں لیکن تاہم ان پر بھی ظلم نہ ہوگا ۔ الروم
44 الروم
45 الروم
46 مسلمان بھائی کی اعانت پر جہنم سے نجات کا وعدہ بارش کے آنے سے پہلے بھینی بھینی ہواؤں کا چلنا اور لوگوں کو بارش کی امید دلانا ۔ اس کے بعد مینہ برسانا تاکہ بستیاں آباد رہیں اور جاندار زندہ رہیں سمندروں اور دریاؤں میں جہاز اور کشتیاں چلیں ۔ کیونکہ کشتیوں کا چلنا بھی ہوا پر موقوف ہے ۔ ’ اب تم اپنی تجارت اور کمائی دھندے کے لیے ادھر سے ادھر ، ادھر سے ادھر جاسکو ۔ پس تمہیں چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ کی ان بےشمار ان گنت تعمتوں پر اس کا شکریہ ادا کرو ‘ ۔ پھر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسکین اور تسلی دینے کے لیے فرماتا ہے کہ ’ اگر آپ کو لوگ جھٹلاتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے کوئی انوکھی بات نہ سمجھیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کے رسولوں کو بھی ان کی امتوں نے ایسے ہی ٹیڑھے ترچھے فقرے سنائے ہیں ۔ وہ بھی صاف روشن اور واضح دلیلیں معجزے اور احکام لائے تھے بالآخر جھٹلانے والے عذاب کے شنکجے میں کس دئیے گئے اور مومنوں کو اس وقت ہر قسم کی برائی سے نجات ملی ‘ ۔ اپنے فضل سے اللہ تعالیٰ جل شانہ نے اپنے نفس کریم پر یہ بات لازم کر لی ہے کہ وہ اپنے با ایمان بندوں کو مدد دے گا ۔ جیسے فرمان ہے آیت «کَتَبَ رَبٰکُمْ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ» ۱؎ (6-الأنعام:54) ۔ ابن ابی حاتم میں حدیث ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { جو مسلمان اپنے مسلمان بھائی کی آبرو بچالے اللہ پر حق ہے کہ وہ اس سے جہنم کی آگ کو ہٹالے } ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھا آیت «وَکَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ» } ۱؎ (30-الروم:47) ۔ ۱؎ (سلسلۃ احادیث ضعیفہ البانی:580،) الروم
47 الروم
48 ناامیدی کے اندھیروں میں امید کے اجالے رحمت و زحمت کی ہوائیں اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ ’ وہ ہوائیں بھیجتا ہے جو بادلوں کو اٹھاتی ہیں یا تو سمندر پر سے یا جس طرح اور جہاں سے اللہ کا حکم ہو ۔ پھر رب العالمین ابر کو آسمان پر پھیلا دیتا ہے اسے بڑھا دیتا ہے تھوڑے کو زیادہ کر دیتا ہے ‘ ۔ تم نے اکثر دیکھا ہو گا کہ بالشت دو بالشت کا ابر اٹھا پھر جو وہ پھیلا تو آسمان کے کنارے ڈھانپ لیے ۔ اور کبھی یہ بھی دیکھا ہوگا کہ سمندروں سے پانی کے بھرے ابر اٹھتے ہیں ۔ اسی مضمون کو آیت «‏‏‏‏وَہُوَ الَّذِیْ یُرْسِلُ الرِّیٰحَ بُشْرًا بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِہٖ» ۱؎ (7-الاعراف:57) ، میں بیان فرمایا ہے پھر اسے ٹکڑے ٹکڑے اور تہہ بہ تہہ کر دیتا ہے ۔ وہ پانی سے سیاہ ہو جاتے ہیں ۔ زمین کے قریب ہو جاتے ہیں ۔ پھر بارش ان بادلوں کے درمیان سے برسنے لگتی ہے جہاں برسی وہیں کے لوگوں کی باچھیں کھل گئیں ۔ پھر فرماتا ہے ’ یہی لوگ بارش سے ناامید ہو چکے تھے اور پوری نا امیدی کے وقت بلکہ نا امیدی کے بعد ان پر بارشیں برسیں اور جل تھل ہوگئے ‘ ۔ دو دفعہ «مِنْ قَبْلِ» کا لفظ لانا تاکید کے لیے ہے ۔ «ہٖ» کی ضمیر کا مرجع «اِنْزَال» ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ تاسیسی دلالت ہو ۔ یعنی بارش ہونے سے پہلے یہ اس کے محتاج تھے اور وہ حاجت پوری ہو اس سے پہلے یہ اس کے محتاج تھے اور وہ حاجت پوری ہو اس سے پہلے وقت کے ختم ہو جانے کے قریب بارش نہ ہونے کی وجہ سے یہ مایوس ہو چکے تھے ۔ پھر اس نا امیدی کے بعد دفعتاً ابر اٹھتا ہے اور برس جاتا ہے اور ریل پیل کر دیتا ہے ۔ اور ان کی خشک زمین تر ہو جاتی ہے قحط سالی ترسالی سے بدل جاتی ہے ۔ یا تو زمین صاف چٹیل میدان تھی یا ہر طرف ہریاول دکھائی دینے لگتی ہے ۔ دیکھ لو کہ پروردگار عالم بارش سے کس طرح مردہ زمین کو زندہ کر دیتا ہے ، یاد رکھو جس رب کی یہ قدرت تم دیکھ رہے وہ ایک دن مردوں کو ان قبروں سے بھی نکالنے والا ہے ۔ حالانکہ ان کے جسم گل سڑگئے ہونگے ۔ سمجھ لو کہ اللہ ہرچیز پر قادر ہے ۔ پھر فرماتا ہے ’ اگر ہم باد تند چلائیں اگر آندھیاں آ جائیں اور ان کی لہلاتی ہوئی کھیتیاں پژمردہ ہو جائیں تو وہ پھر سے کفر کرنے لگ جاتے ہیں ‘ ۔ چنانچہ سورۃ الواقعہ میں بھی یہی بیان ہوا ہے ۔ آیت «‏‏‏‏اَفَرَءَیْتُمْ مَّا تَحْرُثُوْنَ» ۱؎ ‏‏‏‏(56-الواقعۃ:63) سے «‏‏‏‏بَلْ نَحْنُ مَحْرُوْمُوْنَ» ۱؎ (56-الواقعۃ:67) تک ۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہوائیں آٹھ قسم کی ہیں چار رحمت کی چار زحمت کی ۔ ناشرات ، مبشرات ، مرسلات اور ذاریات تو رحمت کی ہیں ۔ اور عقیم ، صرصر ، عاصف اور قاصف عذاب کی ۔ ان میں پہلی دو خشکیوں کی ہیں اور آخری دو تری کی ۔ { حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { ہوائیں دوسری سے مسخر ہیں یعنی دوسری زمین سے ۔ جب اللہ تعالیٰ نے قوم عاد کی ہلاکت کا ارادہ کیا تو ہواؤں کے داروغہ کو یہ حکم دیا اس نے دریافت کیا کہ جناب باری تعالیٰ کیا ہواؤں کے خزانے میں اتنا سوراخ کر دوں جتنا بیل کا نتھا ہوتا ہے ؟ تو فرمان اللہ ہوا کہ ’ نہیں نہیں اگر ایسا ہوا تو کل زمین اور زمین کی پوری چیزیں الٹ پلٹ ہو جائیں گی ۔ اتنا نہیں بلکہ اتنا روزن کر جتنا انگوٹھی میں نگینہ ہوتا ہے ‘ ۔ اب صرف اتنے سوراخ سے وہ ہوا چلی جو جہاں پہنچی وہاں بھس اڑادیا ۔ جس چیز پر سے گزری اسے بے نشان کر دیا } } ۔ یہ حدیث غریب ہے اور اس کا مرفوع ہونا مکروہ ہے ۔ زیادہ ظاہر یہی ہے کہ یہ خود سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کا قول ہے ۔ ۱؎ [ (ضعیف) :اسکی سند میں درج راوی ضعیف ہے] الروم
49 الروم
50 الروم
51 الروم
52 مسئلہ سماع موتی باری تعالیٰ عزوجل فرماتا ہے کہ ’ جس طرح یہ تیری قدرت سے خارج ہے کہ مردوں کو جو قبروں میں ہوں تو اپنی آواز سنا سکے ۔ اور جس طرح یہ ناممکن ہے کہ بہرے شخص کو جبکہ وہ پیٹھ پھیرے منہ موڑے جا رہا ہو تو اپنی بات سنا سکے ۔ اسی طرح سے جو حق سے اندھے ہیں تو ان کی رہبری ہدایت کی طرف نہیں کر سکتا ۔ ہاں اللہ تو ہرچیز پر قادر ہے جب وہ چاہے مردوں کو زندوں کی آواز سناسکتا ہے ۔ ہدایت ضلالت اس کی طرف سے ہے ۔ تو صرف انہیں سنا سکتا ہے جو با ایمان ہوں اور اللہ کے سامنے جھکنے والے اس کے فرمانبردار ہوں ۔ یہ لوگ حق کو سنتے ہیں اور مانتے بھی ہیں ‘ ۔ یہ تو حالت مسلمان کی ہوئی اور اس سے پہلے جو حالت بیان ہوئی ہے وہ کافر کی ہے ۔ جیسے اور آیت میں ہے «اِنَّمَا یَسْتَجِیْبُ الَّذِیْنَ یَسْمَعُوْنَ وَالْمَوْتٰی یَبْعَثُہُمُ اللّٰہُ ثُمَّ اِلَیْہِ یُرْجَعُوْنَ» ۱؎ (6-الأنعام:36) ، ’ تیری پکار وہی قبول کریں گے جو کان دھر کر سنیں گے مردوں کو اللہ تعالیٰ زندہ کر کے اٹھائے گا پھر سب اس کی طرف لوٹائے جائیں گے ‘ ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مشرکین سے جو جنگ بدر میں مسلمانوں کے ہاتھوں قتل کئے گئے تھے اور بدر کی کھائیوں میں ان کی لاشیں پھینک دی گئی تھی ان کی موت کے تین دن بعد ان سے خطاب کرکے انہیں ڈانٹا اور غیرت دلائی ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ دیکھ کرعرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے خطاب کرتے ہیں جو مر کر مردہ ہو گئے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم بھی میری اس بات کو جو میں انہیں کہہ رہا ہوں اتنا نہیں سنتے جتنا یہ سن رہے ہیں ۔ ہاں وہ جواب نہیں دے سکتے } } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2874) { سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس واقعہ کوسیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی زبانی سن کر فرمایا کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا کہ { وہ اب بخوبی جانتے ہیں کہ جو میں ان سے کہتا تھا وہ حق ہے } پھر آپ رضی اللہ عنہا نے مردوں کے نہ سن سکنے پر اسی آیت سے استدالال کیا کہ آیت «إِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَی» } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3980) قتادۃ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ کر دیا تھا یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات انہوں نے سن لی تاکہ انہیں پوری ندامت اور کافی شرم ساری ہو “ ۔ لیکن علماء کے نزدیک عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت بالکل صحیح ہے کیونکہ اس کے بہت سے شواہد ہیں ۔ ابن عبد البر رحمہ اللہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً ایک روایت صحت کر کے وارد کی ہے کہ ” جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی قبر کے پاس گزرتا ہے جسے یہ دنیا میں پہچانتا تھا اور اسے سلام کرتا ہے تو اللہ اس کی روح لوٹا دیتا ہے یہاں تک کہ وہ جواب دے “ ۔ «وَرَوَی ابْنُ أَبِی الدٰنْیَا بِإِسْنَادِہِ عَنْ رَجُلٍ مِنْ آلِ عَاصِمٍ الْجَحْدَرِیِّ قَالَ : رَأَیْتُ عَاصِمًا الْجَحْدَرَیَّ فِی مَنَامِی بَعْدَ مَوْتِہِ بِسَنَتَیْنِ ، فَقُلْتُ : أَلَیْسَ قَدْ مِتَّ ؟ قَالَ : بَلَی ، قُلْتُ : فَأَیْنَ أَنْتَ ؟ قَالَ : أَنَا - وَ اللہِ - فِی رَوْضَۃٍ مِنْ رِیَاضِ الْجَنَّۃِ ، أَنَا وَنَفَرٌ مِنْ أَصْحَابِی نَجْتَمِعُ کُلَّ لَیْلَۃِ جُمْعَۃٍ وَصَبِیحَتِہَا إِلَی بَکْرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ الْمُزَنِیِّ ، فَنَتَلَقَّی أَخْبَارَکُمْ . قَالَ : قُلْتُ : أَجْسَامُکُمْ أَمْ أَرْوَاحُکُمْ ؟ قَالَ : ہَیْہَاتَ! قَدْ بَلِیَتِ الْأَجْسَامُ ، وَإِنَّمَا تَتَلَاقَی الْأَرْوَاحُ ، قَالَ : قُلْتُ : فَہَلْ تَعْلَمُونَ بِزِیَارَتِنَا إِیَّاکُمْ ؟ قَالَ : نَعْلَمُ بِہَا عَشِیَّۃَ الْجُمْعَۃِ وَیَوْمَ الْجُمْعَۃِ کُلَّہُ وَیَوْمَ السَّبْتِ إِلَی طُلُوعِ الشَّمْسِ ، قَالَ : قُلْتُ : فَکَیْفَ ذَلِکَ دُونَ الْأَیَّامِ کُلِّہَا ؟ قَالَ : لِفَضْلِ یَوْمِ الْجُمْعَۃِ وَعَظْمَتِہِ » «قَالَ : وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَیْنِ ، ثَنَا بَکْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، ثَنَا حَسَنٌ الْقَصَّابُ قَالَ : کُنْتُ أَغْدُو مَعَ مُحَمَّدِ بْنِ وَاسْعٍ فِی کُلِّ غَدَاۃِ سَبْتٍ حَتَّی نَأْتِیَ أَہْلَ الْجَبَّانِ ، فَنَقِفُ عَلَی الْقُبُورِ فَنُسَلِّمُ عَلَیْہِمْ ، وَنَدْعُو لَہُمْ ثُمَّ نَنْصَرِفُ ، فَقُلْتُ ذَاتَ یَوْمٍ : لَوْ صَیَّرْتُ ہَذَا الْیَوْمَ یَوْمَ الِاثْنَیْنِ ؟ قَالَ : بَلَغَنِی أَنَّ الْمَوْتَی یَعْلَمُونَ بِزُوَّارِہِمْ یَوْمَ الْجُمْعَۃِ وَیَوْمًا قَبْلَہَا وَیَوْمًا بَعْدَہَا . قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدٌ ، ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنُ أَبَانٍ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ الثَّوْرِیٰ قَالَ : بَلَغَنِی عَنِ الضَّحَّاکِ أَنَّہُ قَالَ : مَنْ زَارَ قَبْرًا یَوْمَ السَّبْتِ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ عَلِمَ الْمَیِّتُ بِزِیَارَتِہِ ، فَقِیلَ لَہُ : وَکَیْفَ ذَلِکَ ؟ قَالَ : لِمَکَانِ یَوْمِ الْجُمُعَۃِ » «حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ خِدَاشٍ ، ثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ أَبِی التَّیَّاحِ یَقُولُ : کَانَ مُطَرَّفٌ یَغْدُو ، فَإِذَا کَانَ یَوْمُ الْجُمْعَۃِ أَدْلَجَ . قَالَ : وَسَمِعْتُ أَبَا الْتَّیَّاحِ یَقُولُ : بَلَغَنَا أَنَّہُ کَانَ یَنْزِلُ بِغَوْطَۃٍ ، فَأَقْبَلَ لَیْلَۃً حَتَّی إِذَا کَانَ عِنْدَ الْمَقَابِرِ یَقُومُ وَہُوَ عَلَی فَرَسِہِ ، فَرَأَی أَہْلَ الْقُبُورِ کُلَّ صَاحِبِ قَبْرٍ جَالِسًا عَلَی قَبْرِہِ ، فَقَالُوا : ہَذَا مُطَرِّفٌ یَأْتِی الْجُمْعَۃِ وَیُصَلٰونَ عِنْدَکُمْ یَوْمَ الْجُمْعَۃِ ؟ قَالُوا : نَعَمْ ، وَنَعْلَمُ مَا یَقُولُ فِیہِ الطَّیْرُ . قُلْتُ : وَمَا یَقُولُونَ ؟ قَالَ : یَقُولُونَ سَلَامٌ عَلَیْکُمْ; حَدَّثَنِی مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ ، ثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِی بَکْرٍ ، [ ص: 326 ] ثَنَا الْفَضْلُ بْنُ الْمُوَفَّقِ ابْنُ خَالِ سُفْیَانَ بْنِ عُیَیْنَۃَ قَالَ : لَمَّا مَاتَ أَبِی جَزِعْتُ عَلَیْہِ جَزَعًا شَدِیدًا ، فَکُنْتُ آتِی قَبْرَہُ فِی کُلِّ یَوْمٍ ، ثُمَّ قَصَّرْتُ عَنْ ذَلِکَ مَا شَاءَ اللہُ ، ثُمَّ إِنِّی أَتَیْتُہُ یَوْمًا ، فَبَیْنَا أَنَا جَالِسٌ عِنْدَ الْقَبْرِ غَلَبَتْنِی عَیْنَایَ فَنِمْتُ ، فَرَأَیْتُ کَأَنَّ قَبْرَ أَبِی قَدِ انْفَرَجَ ، وَکَأَنَّہُ قَاعِدٌ فِی قَبْرِہِ مُتَوَشِّحٌ أَکْفَانَہُ ، عَلَیْہِ سِحْنَۃُ الْمَوْتَی ، قَالَ : فَکَأَنِّی بَکَیْتُ لَمَّا رَأَیْتُہُ . قَالَ : یَا بُنَیَّ ، مَا أَبْطَأَ بِکَ عَنِّی ؟ قُلْتُ : وَإِنَّکَ لَتَعْلَمُ بِمَجِیئِی ؟ قَالَ : مَا جِئْتَ مَرَّۃً إِلَّا عَلِمْتُہَا ، وَقَدْ کُنْتَ تَأْتِینِی فَأُسَرٰ بِکَ وَیُسَرٰ مِنْ حَوْلِی بِدُعَائِکَ ، قَالَ : فَکُنْتُ آتِیہِ بَعْدَ ذَلِکَ کَثِیرًا » . «حَدَّثَنِی مُحَمَّدٌ ، حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ بِسْطَامٍ ، ثَنَا عُثْمَانُ بْنُ سُوَیْدٍ الطَّفَاوِیٰ قَالَ : وَکَانَتْ أُمٰہُ مِنَ الْعَابِدَاتِ ، وَکَانَ یُقَالُ لَہَا : رَاہِبَۃٌ ، قَالَ : لَمَّا احْتَضَرَتْ رَفَعَتْ رَأْسَہَا إِلَی السَّمَاءِ فَقَالَتْ : یَا ذُخْرِی وَذَخِیرَتِی مَنْ عَلَیْہِ اعْتِمَادِی فِی حَیَاتِی وَبَعْدَ مَوْتِی ، لَا تَخْذُلْنِی عِنْدَ الْمَوْتِ وَلَا تُوحِشْنِی . قَالَ : فَمَاتَتْ . فَکُنْتُ آتِیہَا فِی کُلِّ جُمْعَۃٍ فَأَدْعُو لَہَا وَأَسْتَغْفِرُ لَہَا وَلِأَہْلِ الْقُبُورِ ، فَرَأَیْتُہَا ذَاتَ یَوْمٍ فِی مَنَامِی ، فَقُلْتُ لَہَا : یَا أُمِّی ، کَیْفَ أَنْتِ ؟ قَالَتْ : أَیْ بُنِیَّ ، إِنَّ لِلْمَوْتِ لَکُرْبَۃً شَدِیدَۃً ، وَإِنِّی بِحَمْدِ اللہِ لَفِی بَرْزَخٍ مَحْمُودٍ یُفْرَشُ فِیہِ الرَّیْحَانُ ، وَنَتَوَسَّدُ السٰنْدُسَ وَالْإِسْتَبْرَقَ إِلَی یَوْمِ النٰشُورِ ، فَقُلْتُ لَہَا : أَلِکِ حَاجَۃٌ ؟ قَالَتْ : نَعَمْ ، قُلْتُ : وَمَا ہِیَ ؟ قَالَتْ : لَا تَدَعْ مَا کُنْتَ تَصْنَعُ مِنْ زِیَارَاتِنَا وَالدٰعَاءِ لَنَا ، فَإِنِّی لَأُبَشَّرُ بِمَجِیئِکَ یَوْمَ الْجُمْعَۃِ إِذَا أَقْبَلْتَ مِنْ أَہْلِکَ ، یُقَالُ لِی : یَا رَاہِبَۃُ ، ہَذَا ابْنُکِ ، قَدْ أَقْبَلَ ، فَأُسَرَّ وَیُسَرٰ بِذَلِکَ مَنْ حَوْلِی مِنَ الْأَمْوَاتِ » «حَدَّثَنِی مُحَمَّدٌ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ سُلَیْمَانَ ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مَنْصُورٍ قَالَ : لَمَّا کَانَ زَمَنُ الطَّاعُونِ کَانَ رَجُلٌ یَخْتَلِفُ إِلَی الْجَبَّانِ ، فَیَشْہَدُ الصَّلَاۃَ عَلَی الْجَنَائِزِ ، فَإِذَا أَمْسَی وَقَفَ عَلَی الْمَقَابِرِ فَقَالَ : آنَسَ اللہُ وَحْشَتَکُمْ ، وَرَحِمَ غُرْبَتَکُمْ ، وَتَجَاوَزَ عَنْ مُسِیئِکُمْ ، وَقَبِلَ حَسَنَاتِکُمْ ، لَا یَزِیدُ عَلَی ہَؤُلَاءِ الْکَلِمَاتِ ، قَالَ : فَأَمْسَیْتُ ذَاتَ لَیْلَۃٍ وَانْصَرَفْتُ إِلَی أَہْلِی وَلَمْ آتِ الْمَقَابِرَ فَأَدْعُو کَمَا کُنْتُ أَدْعُو ، قَالَ : فَبَیْنَا أَنَا نَائِمٌ إِذَا بِخَلْقٍ قَدْ جَاءُونِی ، فَقُلْتُ : مَا أَنْتُمْ وَمَا حَاجَتُکُمْ ؟ قَالُوا : نَحْنُ أَہْلُ الْمَقَابِرِ ، قُلْتُ : مَا حَاجَتُکُمْ ؟ قَالُوا : إِنَّکَ عَوَّدْتَنَا مِنْکَ ہَدِیَّۃً عِنْدَ انْصِرَافِکَ إِلَی أَہْلِکَ ، قُلْتُ : وَمَا ہِیَ ؟ قَالُوا : الدَّعَوَاتُ الَّتِی کُنْتَ تَدْعُو بِہَا ، قَالَ : قُلْتُ فَإِنِّی أَعُودُ لِذَلِکَ ، قَالَ : فَمَا تَرَکْتُہَا بَعْدُ » «وَأَبْلَغُ مِنْ ذَلِکَ أَنَّ الْمَیِّتَ یَعْلَمُ بِعَمَلِ الْحَیِّ مِنْ أَقَارِبِہِ وَإِخْوَانِہِ . قَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَکِ : حَدَّثَنِی ثَوْرُ بْنُ یَزِیدَ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَنْ أَیٰوبَ قَالَ : تُعْرَضُ أَعْمَالُ الْأَحْیَاءِ عَلَی الْمَوْتَی ، فَإِذَا رَأَوْا حَسَنًا فَرِحُوا وَاسْتَبْشَرُوا وَإِنْ رَأَوْا سُوءًا قَالُوا : اللہُمَّ رَاجِعْ بِہِ » . «وَذَکَرَ ابْنُ أَبِی الدٰنْیَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ أَبِی الْحُوَارَی قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدٌ أَخِی قَالَ : دَخَلَ عَبَّادُ بْنُ عَبَّادٍ عَلَی إِبْرَاہِیمَ بْنِ صَالِحٍ وَہُوَ عَلَی فِلَسْطِینَ فَقَالَ : عِظْنِی ، قَالَ : بِمَ أَعِظُکَ ، أَصْلَحَکَ اللہُ ؟ بَلَغَنِی أَنَّ أَعْمَالَ الْأَحْیَاءِ تُعْرَضُ عَلَی أَقَارِبِہِمْ مِنَ الْمَوْتَی ، فَانْظُرْ مَا یُعْرَضُ عَلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ عَمَلِکَ ، فَبَکَی إِبْرَاہِیمُ حَتَّی أَخْضَلَ لِحْیَتَہُ . قَالَ ابْنُ أَبِی الدٰنْیَا : وَحَدَّثَنِی مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَیْنِ ، ثَنَا خَالِدُ بْنُ عَمْرٍو الْأُمَوِیٰ ، ثَنَا صَدَقَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ الْجَعْفَرِیٰ قَالَ : کَانَتْ لِی شِرَّۃٌ سَمِجَۃٌ ، فَمَاتَ أَبِی فَتُبْتُ وَنَدِمْتُ عَلَی مَا فَرَّطْتُ ، ثُمَّ زَلَلْتُ أَیٰمَا زَلَّۃٍ ، فَرَأَیْتُ أَبِی فِی الْمَنَامِ ، فَقَالَ : أَیْ بُنَیَّ ، مَا کَانَ أَشَدَّ فَرَحِی بِکَ [ ص: 327 ] وَأَعْمَالُکَ تُعْرَضُ عَلَیْنَا ، فَنُشَبِّہُہَا بِأَعْمَالِ الصَّالِحِینَ ، فَلَمَّا کَانَتْ ہَذِہِ الْمَرَّۃُ اسْتَحْیَیْتُ لِذَلِکَ حَیَاءً شَدِیدًا ، فَلَا تُخْزِنِی فِیمَنْ حَوْلِی مِنَ الْأَمْوَاتِ ، قَالَ : فَکُنْتُ أَسْمَعُہُ بَعْدَ ذَلِکَ یَقُولُ فِی دُعَائِہِ فِی السَّحَرِ ، وَکَانَ جَارًا لِی بِالْکُوفَۃِ : أَسْأَلُکَ إِیَابَۃً لَا رَجْعَۃَ فِیہَا وَلَا حَوْرَ ، یَا مُصْلِحَ الصَّالِحِینَ ، وَیَا ہَادِیَ الْمُضِلِّینَ ، وَیَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ » «وَہَذَا بَابٌ فِیہِ آثَارٌ کَثِیرَۃٌ عَنِ الصَّحَابَۃِ . وَکَانَ بَعْضُ الْأَنْصَارِ مِنْ أَقَارِبِ عَبْدِ اللہِ بْنِ رَوَاحَۃَ یَقُولُ : اللہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ عَمَلٍ أَخْزَی بِہِ عِنْدَ عَبْدِ اللہِ بْنِ رَوَاحَۃَ ، کَانَ یَقُولُ ذَلِکَ بَعْدَ أَنِ اسْتُشْہِدَ عَبْدُ اللہِ » «وَقَدْ شُرِعَ السَّلَامُ عَلَی الْمَوْتَی ، وَالسَّلَامُ عَلَی مَنْ لَمْ یَشْعُرْ وَلَا یَعْلَمُ بِالْمُسْلِمِ مُحَالٌ ، وَقَدْ عَلِمَ النَّبِیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أُمَّتَہُ إِذَا رَأَوُا الْقُبُورَ أَنْ یَقُولُوا : " سَلَامٌ عَلَیْکُمْ أَہْلَ الدِّیَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ ، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللہُ بِکُمْ لَاحِقُونَ ، یَرْحَمُ اللہُ الْمُسْتَقْدِمِینَ مِنَّا وَمِنْکُمْ وَالْمُسْتَأْخِرِینَ ، نَسْأَلُ اللَّہَ لَنَا وَلَکُمُ الْعَافِیَۃَ " ، فَہَذَا السَّلَامُ وَالْخِطَابُ وَالنِّدَاءُ لِمَوْجُودٍ یَسْمَعُ وَیُخَاطِبُ وَیَعْقِلُ وَیَرُدٰ ، وَإِنْ لَمْ یَسْمَعِ الْمُسْلِمُ الرَّدَّ ، وَ اللہُ أَعْلَمُ » ۱؎ (http://library.islamweb.net/newlibrary/display_book.php?flag=1&bk_no=49&surano=30&ayano=52) الروم
53 الروم
54 پیدائش انسان کی مرحلہ وار روداد انسان کی ترقی و تنزل پر نظر ڈالو اس کی اصل تو مٹی سے ہے ، پھر نطفے سے ، پھرخون بستہ سے ، پھر گوشت کے لوتھڑے سے ، پھر اسے ہڈیاں پہنائی جاتی ہیں ، پھر ہڈیوں پر گوشت پوست پہنایا جاتا ہے پھر روح پھونکی جاتی ہے پھر ماں کے پیٹ سے ضعیف و نحیف ہو کر نکلتا ہے ۔ پھر تھوڑا تھوڑا بڑھتا ہے اور مضبوط ہوتا جاتا ہے پھر بچپن کے زمانے کی بہاریں دیکھتا ہے پھر جوانی کے قریب پہنچتا ہے پھر جوان ہوتا ہے آخر نشوونما موقوف ہو جاتی ہے ۔ اب قوی پھر مضمحل ہونے شروع ہوتے ہیں طاقتیں گھٹنے لگتی ہیں ادھیڑ عمر کر پہنچتا ہے ، پھر بڈھا ہوتاہے ، پھر بڈھا پھوس ہو جاتا ہے ۔ طاقت کے بعد یہ کمزوری بھی قابل عبرت ہوتی ہے کہ ہمت پست ہے ، دیکھنا ، سننا ، چلنا ، پھرنا ، اٹھنا ، اچکنا ، پکڑنا غرض ہرطاقت گھٹ جاتی ہے ۔ رفتہ رفتہ بالکل جواب دے جاتی ہے اور ساری صفتیں متغیر ہو جاتی ہیں ۔ بدن پر جھریاں پڑجاتی ہیں ۔ رخسار پچک جاتے ہیں دانت ٹوٹ جاتے ہیں بال سفید ہو جاتے ہیں ۔ یہ ہے قوت کے بعد کی ضعیفی اور بڑھاپا ، وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے ، بنانا بگاڑنا اس کی قدرت کے ادنیٰ کرشمے ہیں ۔ ساری مخلوق اس کی غلام وہ سب کا مالک ، وہ عالم و قادر ، نہ اس کا سا کسی کا علم نہ اس جیسی کسی کی قدرت ۔ عطیہ عوفی رحمہ اللہ کہتے ہیں ” میں نے اس آیت کو «ضُعْفًا» تک ابن عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے پڑھا تو ، آپ رضی اللہ عنہ نے بھی اسے تلاوت کیا اور فرمایا { میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس آیت کو اتنا ہی پڑھا تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھنے لگے جس طرح میں نے تمہاری قرأت پر قرأت شروع کردی } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:3978،قال الشیخ الألبانی:حسن) الروم
55 واپسی ناممکن ہو گی اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ ’ کفار دنیا اور آخرت کے کاموں سے بالکل جاہل ہیں ۔ دنیا میں ان کی جہالت تو یہ ہے کہ اللہ کے ساتھ اوروں کو شریک کرتے رہے اور اخرت میں یہ جہالت کریں گے کہ قسمیں کھا کر کہیں گے کہ ہم دنیا میں صرف ایک ساعت ہی رہے ‘ ۔ اس سے ان کامقصد یہ ہو گا کہ اتنے تھوڑے سے وقت میں ہم پر کوئی حجت قائم نہیں ہوئی ۔ ہمیں معذور سمجھا جائے ۔ اسی لیے فرمایا کہ ’ یہ جیسے یہاں بہکی بہکی باتیں کررے ہیں دنیا میں یہ بہکے ہوئے ہی رہے ‘ ۔ فرماتا ہے کہ ’ علماء کرام جس طرح ان کے اس کہنے پر دنیا میں انہیں دلائل دے کر قائل معقول کرتے رہے آخرت میں بھی ان سے کہیں گے کہ تم جھوٹی قسمیں کھا رہے ہو ‘ ۔ تم کتاب اللہ یعنی کتاب اعمال میں اپنی پیدائش سے لے کر جی اٹھنے تک ٹھہرے رہے لیکن تم بےعلم اور نرے جاہل لوگ ہو ۔ پس قیامت کے دن ظالموں کو اپنے کرتوت سے معذرت کرنا محض بےسود رہے گا ۔ اور دنیا کی طرف لوٹائے نہ جائیں گے ۔ جیسے فرمان ہے آیت «وَاِنْ یَّسْـتَعْتِبُوْا فَمَا ہُمْ مِّنَ الْمُعْتَـبِیْنَ» ۱؎ ‏‏‏‏ ۱؎ (41-فصلت:24) یعنی ’ اگر وہ دنیا کی طرف لوٹنا چاہیں تو لوٹ نہیں سکتے ‘ ۔ الروم
56 الروم
57 الروم
58 نماز میں مقتدی اور امام کا تعلق ’ حق کو ہم نے اس کلام پاک میں پوری طرح واضح کر دیا ہے اور مثالیں دےدے کر سمجھا دیا ہے کہ لوگوں پر حق کھل جائے اور اس کی تابعداری میں لگ جائیں ۔ ان کے پاس تو کوئی بھی معجزہ آ جائے کیساہی نشان حق دیکھ لیں لیکن یہ جھٹ سے بلاغور علی الفور کہیں گے کہ یہ جادو ہے باطل ہے جھوٹ ہے ‘ ۔ دیکھئیے چاند کو دو ٹکڑے ہوتے دیکھتے ہیں اور ایمان نہیں لاتے ۔ خود قرآن کریم کی آیت «اِنَّ الَّذِیْنَ حَقَّتْ عَلَیْہِمْ کَلِمَتُ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ» ۱؎ (10-یونس:96) میں ہے کہ ’ جن پر تیرے رب کی بات ثابت ہو چکی ہے وہ ایمان نہیں لائیں گے گو ان کے پاس تمام نشانیاں آ جائیں یہاں تک کہ وہ درد ناک عذاب کا معائنہ کر لیں ‘ ۔ پس یہاں بھی فرماتا ہے کہ ’ بے علم لوگوں کے دلوں پر اسی طرح اللہ کی مہر لگ جاتی ہے ۔ اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبر کیجئے ان کی مخالفت اور دشمنی پر درگزر کئے چلے جائیے ۔ اللہ کا وعدہ سچا ہے وہ ضرور تمہیں ایک دن ان پر غالب کرے گا اور تمہاری امداد فرمائے گا ، اور دنیا اور آخرت میں تجھے اور تیرے تابعداروں کو مخالفین پر غلبہ دے گا ۔ تہیں چاہیئے کہ اپنے کام پر لگے رہو حق پر جم جاؤ اس سے ایک انچ ادھر ادھر نہ ہٹو اسی میں ساری ہدایت ہے باقی سب باطل کے ڈھیر ہیں ‘ ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” سیدنا علی رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ صبح کی نماز میں تھے کہ ایک خارجی نے آپ رضی اللہ عنہ کا نام لے کر زور سے اس آیت کی تلاوت کی ۔ «وَلَقَدْ اُوْحِیَ اِلَیْکَ وَاِلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکَ لَیِٕنْ اَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ وَلَتَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ» ۱؎ (39-الزمر:65) آپ نے خاموشی سے اس آیت کو سنا سمجھا اور نماز ہی میں اس کے جواب میں آیت «فَاصْبِرْ اِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ وَّلَا یَسْتَخِفَّنَّکَ الَّذِیْنَ لَا یُوْقِنُوْنَ» ۱؎ (30-الروم:60) تلاوت فرمائی “ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:200/10:) [ وہ حدیث جس سے اس مبارک سورۃ کی فضیلت اور اس کی قرأت کا صبح کی نماز میں مستحب ہونا ثابت ہوتا ہے ] ۔ ایک صحابی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن صبح کی نماز پڑھاتے ہوئے اسی سورت کی قرأت کی ۔ اثناء قرأت میں آپ کو وہم سا ہو گیا فارغ ہو کر فرمانے لگے { تم میں بعض ایسے لوگ بھی ہیں جو ہمارے ساتھ نماز میں شامل ہوتے ہیں لیکن باقاعدہ ٹھیک ٹھاک وضو نہیں کرتے ۔ تم میں سے جو بھی ہمارے ساتھ نماز میں شامل ہو اسے اچھی طرح وضو کرنا چائیے } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:471/3:حسن) اس کی سند حسن ہے متن بھی حسن ہے اور اس میں ایک عجیب بھید ہے اور بہت بڑی خبر ہے اور وہ یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقتدیوں کے وضو بالکل درست نہ ہونے کا اثر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی پڑا ۔ پس ثابت ہوا کہ مقتدیوں کی نماز امام کی نماز کے ساتھ معلق ہے ۔ «اَلْحَمْدُ لِلہِ» سورہ روم کی تفسیر ختم ہوئی ۔ الروم
59 الروم
60 الروم
0 لقمان
1 ہدایت یافتہ کتاب سورۂ بقرہ کی تفسیر کے اول میں ہی حروف مقطعات کے معنی اور مطلب کی توضیح کر دی گئی ہے ۔ یہ قرآن ہدایت ، شفاء اور رحمت ہے اور ان نیک کاروں کے لیے جو شریعت کے پورے پابند ہیں ۔ نمازادا کرتے ہیں ارکان اوقات وغیرہ کی حفاظت کے ساتھ ہی نوافل سنت وغیرہ بھی نہیں چھوڑتے ۔ فرض زکوٰۃ ادا کرتے ہیں صلہ ر ، حمی سلوک واحسان ، سخاوت اور داد و دہش کرتے رہتے ہیں ۔ آخرت کی جزاء کا انہیں کامل یقین ہے اس لیے اللہ کی طرف پوری رغبت کرتے ہیں ثواب کے کام کرتے ہیں اور رب کے اجر پر نظریں رکھتے ہیں ۔ نہ ریاکاری کرتے ہیں نہ لوگوں سے داد چاہتے ہیں ۔ ان اوصاف والے راہ یافتہ ہیں ۔ راہ اللہ پر لگادیئے گئے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو دین ودنیا میں فلاح نجات اور کامیابی حاصل کریں گے ۔ لقمان
2 لقمان
3 لقمان
4 لقمان
5 لقمان
6 لہو و لعب موسیقی اور لغو باتیں اوپر بیان ہوا تھا نیک بختوں کا جو کتاب اللہ سے ہدایت پاتے تھے اور اسے سن کر نفع اٹھاتے تھے ۔ تو یہاں بیان ہو رہا ہے ان بدبختوں کا جو کلام الٰہی کو سن کر نفع حاصل کرنے سے باز رہتے ہیں اور بجائے اس کے گانے بجانے باجے گاجے ڈھول تاشے سنتے ہیں ۔ چنانچہ اس آیت کی تفسیر میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” قسم اللہ کی اس سے مراد گانا اور راگ ہے “ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:127/20:صحیح) ایک اور جگہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ سے اس آیت کا مطلب پوچھا گیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے تین دفعہ قسم کھا کر فرمایا کہ ” اس سے مقصد گانا اور راگ اور راگنیاں ہیں “ ۔ یہی قول سیدنا ابن عباس عنہما ، سیدنا جابر رضی اللہ عنہم ، عکرمہ ، سعید بن جیبر ، مجاہد مکحول ، عمرو بن شعیب ، علی بن بذیمہ رحمہ اللہ علیہم کا ہے ۔ امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” یہ آیت گانے بجانے باجوں گاجوں کے بارے میں اتری ہے “ ۔ قتادۃ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” اس سے مراد صرف وہی نہیں جو اس لہو ولعب میں پیسے خرچے یہاں مراد خرید سے اسے محبوب رکھنا اور پسند کرنا ہے “ ۔ انسان کو یہی گمراہی کافی ہے کہ باطل کی بات کو حق پر پسند کرلے ۔ اور نقصان کی چیز کو نفع پر مقدم کر لے ۔ ایک اور قول یہ بھی ہے کہ لغو بات خریدنے سے مراد گانے والی لونڈیوں کی خریداری ہے ۔ چنانچہ ابن ابی حاتم وغیرہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ { گانے والیوں کی خرید و فروخت حلال نہیں اور ان کی قیمت کا کھانا حرام ہے انہی کے بارے میں یہ آیت اتری ہے } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3195،قال الشیخ الألبانی:حسن) امام ترمذی بھی اس حدیث کو لائے ہیں اور اسے غریب کہا ہے اور اس کے ایک راوی علی بن یزید کو ضعیف کہا ہے ۔ میں کہتا ہوں خود علی ان کے استاد اور ان کے تمام شاگرد ضعیف ہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ ضحاک رحمہ اللہ کا قول ہے کہ ” مراد اس سے شرک ہے “ ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ ” ہر وہ کلام جو اللہ سے اور اتباع شرع سے روکے وہ اس آیت کے حکم میں داخل ہے ۔ اس سے غرض اس کی اسلام اور اہل اسلام کی مخالفت ہوتی ہے “ ۔ ایک قرأت میں «لِیَضِلَّ» ہے تو لام لام عاقبت ہو گا یا لام تعلیل ہوگا ۔ یعنی امر تقدیری ان کی اس کار گزاری سے ہو کر رہے گا ۔ ایسے لوگ اللہ کی راہ کو ہنسی بنا لیتے ہیں ۔ آیات اللہ کو بھی مذاق میں اڑاتے ہیں ۔ اب ان کا انجام بھی سن لو کہ جس طرح انہوں نے اللہ کی راہ کی کتاب اللہ کی اہانت کی قیامت کے دن ان کی اہانت ہو گی اور خطرناک عذاب میں ذلیل ورسوا ہونگے ۔ پھر بیان ہو رہا ہے کہ ’ یہ بد نصیب جو کھیل تماشوں ، باجوں گاجوں ، راگ راگنیوں پر ریجھا ہوا ہے ، یہ قرآن کی آیتوں سے بھاگتا ہے کان ان سے بہرے کر لیتا ہے یہ اسے اچھی نہیں معلوم ہوتیں ۔ سن بھی لیتا ہے تو بے سنی کر دیتا ہے ۔ لیکن انکا سننا اسے ناگوار گزرتا ہے کوئی مزہ نہیں آتا ۔ وہ اسے فضول کام قرار دیتا ہے چونکہ اس کی کوئی اہمیت اور عزت اس کے دل میں نہیں اس لیے وہ ان سے کوئی نفع حاصل نہیں کر سکتا وہ تو ان سے محض بے پرواہ ہے ۔ یہ یہاں اللہ کی آیتوں سے اکتاتا ہے توقیامت کے دن عذاب بھی وہ ہونگے کہ اکتا اکتا اٹھے ۔ یہاں آیات قرانی سن کر اسے دکھ ہوتا ہے وہاں دکھ دینے والے عذاب اسے بھگتنے پڑیں گے ‘ ۔ لقمان
7 لقمان
8 اللہ تعالٰی کے وعدے ٹلتے نہیں نیک لوگوں کا انجام بیان ہو رہا ہے کہ ’ جو اللہ پر ایمان لائے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مانتے رہے شریعت کی ماتحتی میں نیک کام کرتے رہے ان کے لیے جنتیں ہیں جن میں طرح طرح کی نعمتیں ، لذیذ غذائیں ، بہترین پوشاکیں ، عمدہ عمدہ سواریاں ، پاکیزہ نوارنی چہروں والی بیویاں ہیں ۔ وہاں انہیں اور ان کی نعمتوں کو دوام ہے کبھی زوال نہیں ۔ نہ تو یہ مریں نہ ان کی نعمتیں فناہوں نہ کم ہوں نہ خراب ہوں ‘ ۔ یہ حتماً اور یقیناً ہونے والا ہے کیونکہ اللہ فرما چکا ہے اور رب کی باتیں بدلتی نہیں اس کے وعدے ٹلتے نہیں ۔ وہ کریم ہے ، منان ہے ، محسن ہے ، منعم ہے ، جو چاہے کرسکتا ہے ۔ ہرچیز پر قادر ہے ، عزیز ہے ، سب کچھ اس کے قبضے میں ہے ، حکیم ہے ، کوئی کام کوئی بات کوئی فیصلہ خالی از حکمت نہیں ۔ «قُلْ ہُوَ لِلَّذِینَ آمَنُوا ہُدًی وَشِفَاءٌ وَالَّذِینَ لَا یُؤْمِنُونَ فِی آذَانِہِمْ وَقْرٌ‌ وَہُوَ عَلَیْہِمْ عَمًی أُولٰئِکَ یُنَادَوْنَ مِن مَّکَانٍ بَعِیدٍ» ’ اس نے قرآن کریم کو مومنوں کے لیے ہادی اور شافی بنایا ہاں بے ایمانوں کے کانوں میں بوجھ ہیں اور آنکھوں میں اندھیرا ہے یہ وہ لوگ ہیں جو کسی بہت دور دراز جگہ سے پکارے جا رہے ہیں ‘ ۔ ۱؎ (41-فصلت:44) اور آیت میں ہے «وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا ہُوَ شِفَاءٌ وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ وَلَا یَزِیْدُ الظّٰلِمِیْنَ اِلَّا خَسَارًا» ۱؎ (17-الإسراء:82) یعنی ’ جو قرآن ہم نے نازل فرمایا ہے وہ مومنوں کے لیے شفاء اور رحمت ہے اور ظالم تو نقصان میں ہی بڑھتے ہیں ‘ ۔ لقمان
9 لقمان
10 پہاڑوں کی میخیں اللہ سبحان وتعالیٰ اپنی قدرت کاملہ کا بیان فرماتا ہے کہ ’ زمین و آسمان اور ساری مخلوق کا خالق صرف وہی ہے ۔ آسمان کو اس نے بے ستون اونچا رکھا ہے ‘ ۔ واقع ہی میں کوئی ستون نہیں ، گو مجاہد رحمہ اللہ کا یہ قول بھی ہے کہ ستون ہمیں نظر نہیں آتے ۔ اس مسئلہ کا پورا فیصلہ میں سورۃ الرعد کی تفسیر میں لکھ چکا ہوں اس لیے یہاں دہرانے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ زمین کو مضبوط کرنے کے لیے اور ہلے جلنے سے بچانے کے لیے اس نے اس میں پہاڑوں کی میخیں گاڑ دیں تاکہ وہ تمہیں زلزلے اور جنبش سے بچالے ۔ اس قدر قسم قسم کے بھانت بھانت کے جاندار اس خالق حقیقی نے پیدا کئے کہ آج تک ان کا کوئی حصر نہیں کر سکا ۔ اپنا خالق اور اخلق ہونا بیان فرما کر اب رازق اور رزاق ہونا بیان فرما رہا ہے کہ ’ آسمان سے بارش اتار کر زمین میں سے طرح طرح کی پیداوار اگادی جو دیکھنے میں خوش منظر کھانے میں بے ضرر ۔ نفع میں بہت بہتر ‘ ۔ شعبی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ انسان بھی زمین کی پیداوار ہے جنتی کریم ہیں اور دوزخی لئیم ہیں ۔ اللہ کی یہ ساری مخلوق تو تمہارے سامنے ہے اب جنہیں تم اس کے سوا پوجتے ہو ذرا بتاؤ تو ان کی مخلوق کہاں ہے ؟ جب نہیں تو وہ خالق نہیں اور جب خالق نہیں تو معبود نہیں پھر ان کی عبادت نرا ظلم اور سخت ناانصافی ہے فی الواقع اللہ کے ساتھ شرک کرنے والوں سے زیادہ اندھا ، بہرا ، بے عقل ، بے علم ، بے سمجھ ، بیوقوف اور کون ہوگا ؟ لقمان
11 لقمان
12 لقمان نبی تھے یا نہیں؟ اس میں سلف کا اختلاف ہے کہ حضرت لقمان نبی تھے یا نہ تھے ؟ اکثر حضرات فرماتے ہیں کہ آپ نبی نہ تھے پرہیزگار ولی اللہ اور اللہ کے پیارے بزرگ بندے تھے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ” آپ حبشی غلام تھے اور بڑھئی تھے “ ۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے جب سوال ہوا تو آپ نے فرمایا ” لقمان پستہ قد اونچی ناک والے موٹے ہونٹ والے تھے “ ۔ سعید بن مسیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” آپ مصر کے رہنے والے حبشی تھے ۔ آپ کو حکمت عطا ہوئی تھی لیکن نبوت نہیں ملی تھی “ ۔ آپ رحمہ اللہ نے ایک مرتبہ ایک سیاہ رنگ غلام حبشی سے فرمایا ” اپنی رنگت کی وجہ سے اپنے آپ کو حقیر نہ سمجھ تین شخص جو تمام لوگوں سے اچھے تھے تینوں سیاہ رنگ تھے ۔ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ جو حضورصلی اللہ علیہ وسلم رسالت پناہ کے غلام تھے ۔ سیدنا مہج رضی اللہ عنہ جو جناب فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے غلام تھے اور لقمان حکیم جو حبشہ کے نوبہ تھے “ ۔ حضرت خالد ربعی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ ” لقمان جو حبشی غلام بڑھئی تھے ان سے ایک روز ان کے مالک نے کہا بکری ذبح کرو اور اس کے دو بہترین اور نفیس ٹکڑے گوشت کے میرے پاس لاؤ ۔ وہ دل اور زبان لے گئے کچھ دنوں بعد ان کے آقا نے یہی حکم کیا اور کہا آج اس سارے گوشت میں جو بدترین گوشت اور خبیث کے ٹکڑے ہوں وہ لادو ۔ آج بھی یہی دو چیزیں لے گئے ۔ مالک نے پوچھا کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ بہترین ٹکڑے تجھ سے مانگے تو تو یہی دو لایا اور بدترین مانگے تو تو نے یہی لادئیے ۔ یہ کیا بات ہے ؟ آپ نے فرمایا جب یہ اچھے رہے تو ان سے بہترین جسم کا کوئی عضو نہیں اور جب یہ برے بن جائے تو پھر سب سے بدتر بھی یہی ہیں “ ۔ حضرت مجاہد رحمہ اللہ کا قول ہے کہ ” لقمان نبی نہ تھے نیک بندے تھے ۔ سیاہ فام غلام تھے موٹے ہونٹوں والے اور بھرے قدموں والے “ ۔ اور بزرگ سے بھی یہ مروی ہے کہ ” بنی اسرائیل میں قاضی تھے “ ۔ ایک اور قول ہے کہ ” آپ داؤد علیہ السلام کے زمانے میں تھے ۔ ایک مرتبہ آپ کسی مجلس میں وعظ فرما رہے تھے کہ ایک چروا ہے نے آپ کو دیکھ کر کہا کیا تو وہی نہیں ہے جو میرے ساتھ فلاں فلاں جگہ بکریاں چرایا کرتا تھا ؟ آپ نے فرمایا ہاں میں وہی ہوں اس نے کہا پھر تجھے یہ مرتبہ کیسے حاصل ہوا ؟ فرمایا سچ بولنے اور بے کار کلام نہ کرنے سے “ ۔ اور روایت میں ہے کہ آپ نے اپنی بلندی کی وجہ یہ بیان کی کہ اللہ کا فضل اور امانت ادائیگی اور کلام کی سچائی اور بے نفع کاموں کو چھوڑ دینا ۔ الغرض ایسے ہی آثار صاف ہیں کہ آپ نبی نہ تھے ۔ بعض روایتیں اور بھی ہیں جن میں گو صراحت نہیں کہ آپ نبی نہ تھے لیکن ان میں بھی آپ کا غلام ہونا بیان کیا گیا ہے جو ثبوت ہے اس امر کا کہ آپ نبی نہ تھے کیونکہ غلامی نبوت کے منافی ہے ۔ انبیاء کرام علیہ السلام عالی نسب اور عالی خاندان کے ہوا کرتے تھے ۔ اسی لیے جمہور سلف کا قول ہے کہ لقمان نبی نہ تھے ۔ ہاں عکرمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نبی تھے لیکن یہ بھی جب کے سند صحیح ثابت ہو جائے لیکن اس کی سند میں جابر بن یزید جعفی ہیں جو ضعیف ہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ کہتے ہیں کہ لقمان حکیم سے ایک شخص نے کہا کیا تو بنی حسحاس کا غلام نہیں ؟ آپ نے فرمایا ہاں ہوں ۔ اس نے کہا تو بکریوں کا چرواہا نہیں ؟ آپ نے فرمایا ہاں ہوں ۔ کہا گیا تو سیاہ رنگ نہیں ؟ آپ نے فرمایا ظاہر ہے میں سیاہ رنگ ہوں تم یہ بتاؤ کہ تم کیا پوچھنا چاہتے ہو ؟ اس نے کہا یہی کہ پھر کیا وجہ ہے کہ تیری مجلس پر رہتی ہے لوگ تیرے دروازے پر آتے رہتے ہیں تری باتیں شوق سے سنتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا ” سنو! بھائی جو باتیں میں تمہیں کہتا ہوں ان پر عمل کر لو تو تم بھی مجھ جیسے ہوجاؤ گے ۔ آنکھیں حرام چیزوں سے بند کرلو ۔ زبان بے ہودہ باتوں سے روک لو ۔ مال حلال کھایا کرو ۔ اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرو ۔ زبان سے سچ بات بولا کرو ۔ وعدے کو پورا کیا کرو ۔ مہمان کی عزت کرو ۔ پڑوسی کا خیال رکھو ۔ بے فائدہ کاموں کو چھوڑ دو ۔ انہی عادتوں کی وجہ سے میں نے بزرگی پائی ہے “ ۔ سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں ” لقمان حکیم کسی بڑے گھرانے کے امیر اور بہت زیادہ کنبے قبیلے والے نہ تھے ۔ ہاں ان میں بہت سی بھلی عادتیں تھیں ۔ وہ خوش اخلاق خاموش غور و فکر کرنے والے گہری نظر والے دن کو نہ سونے والے تھے ۔ لوگوں کے سامنے تھوکتے نہ تھے نہ پاخانہ پیشاب اور غسل کرتے تھے لغو کاموں سے دور رہتے ہنستے نہ تھے ، جو کلام کرتے تھے حکمت سے خالی نہ ہوتا تھا جس وقت ان کی اولاد فوت ہوئی یہ بالکل نہیں روئے ۔ وہ بادشاہوں امیروں کے پاس اس لیے جاتے تھے کہ غوروفکر اور عبرت و نصیحت حاصل کریں ۔ اسی وجہ سے انہیں بزرگی ملی “ ۔ قتادۃ رحمہ اللہ سے ایک عجیب اثر وارد ہے کہ ” لقمان کو حکمت ونبوت کے قبول کرنے میں اختیار دیا گیا تو آپ نے حکمت قبول فرمائی راتوں رات ان پر حکمت برسادی گئی اور رگ و پے میں حکمت بھر دی گئی ۔ صبح کو ان کی باتیں اور عادتیں حکیمانہ ہوگئیں ۔ آپ سے سوال ہوا کہ آپ نے نبوت کے مقابلے میں حکمت کیسے اختیار کی ؟ تو جواب دیا کہ اگر اللہ مجھے نبی بنا دیتا تو اور بات تھی ممکن تھا کہ منصب نبوت کو میں نبھا جاتا ۔ لیکن جب مجھے اختیار دیا گیا تو مجھے ڈر لگا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں نبوت کا بوجھ نہ سہار سکوں ۔ اس لیے میں نے حکمت ہی کو پسند کیا “ ۔ اس روایت کے ایک راوی سعید بن بشیر ہیں جن میں ضعف ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ حضرت قتادہ رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ” مراد حکمت سے اسلام کی سمجھ ہے ۔ لقمان نہ نبی تھے نہ ان پر وحی آئی تھی پس سمجھ علم اور عبرت مراد ہے “ ۔ ’ ہم نے انہیں اپنا شکر بجالانے کا حکم فرمایا تھا کہ میں نے تجھے جو علم وعقل دی ہے اور دوسروں پر جو بزرگی عطا فرمائی ہے ۔ اس پر تو میری شکر گزاری کر ۔ شکر گزار کچھ مجھ پر احسان نہیں کرتا وہ اپنا ہی بھلا کرتا ہے ‘ ۔ جیسے اور آیت میں ہے «وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِاَنْفُسِہِمْ یَمْہَدُوْنَ» ۱؎ (30-الروم:44) ’ نیکی والے اپنے لیے بھی بھلا توشہ تیار کرتے ہیں ‘ ۔ یہاں فرمان ہے کہ ’ اگر کوئی ناشکری کرے تو اللہ کو اس کی ناشکری ضرر نہیں پہنچاسکتی وہ اپنے بندوں سے بے پرواہ ہے سب اس کے محتاج ہیں وہ سب سے بے نیاز ہے ‘ ۔ ساری زمین والے بھی اگر کافر ہو جائیں تو اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے وہ سب سے غنی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ ہم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہیں کرتے ۔ لقمان
13 لقمان کی اپنے بیٹے کو نصیحت و وصیت حضرت لقمان نے جو اپنے صاحبزادے کو نصیحت و وصیت کی تھی اس کا بیان ہو رہا ہے ۔ یہ لقمان بن عنقاء بن سدون تھے ان کے بیٹے کا نام سہیلی کے بیان کی رو سے ثاران ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا ذکر اچھائی سے کیا اور فرمایا ہے کہ ’ انکو حکمت عنایت فرمائی گئی تھی ‘ ۔ انہوں نے جو بہترین وعظ اپنے لڑکے کو سنایا تھا اور انہیں مفید ضروری اور عمدہ نصیحتیں کی تھیں ان کا ذکر ہو رہا ہے ۔ ظاہر ہے کہ اولاد سے پیاری چیز انسان کی اور کوئی نہیں ہوتی اور انسان اپنی بہترین اور انمول چیز اپنی اولاد کو دینا چاہتا ہے ۔ تو سب سے پہلے یہ نصیحت کی کہ ” صرف اللہ کی عبادت کرنا اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا ۔ یاد رکھو اس سے بڑی بے حیائی اور زیادہ برا کام کوئی نہیں “ ۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے صحیح بخاری میں مروی ہے کہ { جب آیت «ااَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ یَلْبِسُوْٓا اِیْمَانَہُمْ بِظُلْمٍ اُولٰیِٕکَ لَہُمُ الْاَمْنُ وَہُمْ مٰہْتَدُوْنَ» ۱؎ (6-الأنعام:82) اتری تو اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بڑی مشکل آپڑی اور انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا ہم میں سے وہ کون ہے جس نے کوئی گناہ کیا ہی نہ ہو ؟ اور آیت میں ہے کہ ’ ایمان کو جنہوں نے ظلم سے نہیں ملایا وہی با امن اور راہ راست والے ہیں ‘ ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ { ظلم سے مراد عام گناہ نہیں بلکہ ظلم سے مراد وہ ظلم ہے جو لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ بیٹے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا بڑا بھاری ظلم ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4629) اس پہلی وصیت کے بعد لقمان دوسری وصیت کرتے ہیں اور وہ بھی درجے اور تاکید کے لحاظ سے واقعی ایسی ہی ہے کہ اس پہلی وصیت سے ملائی جائے ، یعنی ” ماں باپ کے ساتھ سلوک واحسان کرنا “ ۔ جیسے فرمان جناب باری ہے آیت «وَقَضٰی رَبٰکَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا» ۱؎ (17-الإسراء:23) ، یعنی ’ تیرا رب یہ فیصلہ فرما چکا ہے کہ اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک و احسان کرتے رہو ‘ ۔ عموماً قرآن کریم میں ان دونوں چیزوں کا بیان ایک ساتھ ہے ۔ یہاں بھی اسی طرح ہے «وَھْنٌ» کے معنی مشقت تکلیف ضعف وغیرہ کے ہیں ۔ ایک تکلیف تو حمل کی ہوتی ہے جسے ماں برداشت کرتی ہے ۔ حالت حمل کے دکھ درد کی حالت سب کو معلوم ہے پھر دو سال تک اسے دودھ پلاتی رہتی ہے اور اس کی پرورش میں لگی رہتی ہے ۔ چنانچہ اور آیت میں ہے «وَالْوَالِدٰتُ یُرْضِعْنَ اَوْلَادَھُنَّ حَوْلَیْنِ کَامِلَیْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یٰتِمَّ الرَّضَاعَۃَ» ۱؎ (2-البقرۃ:233) الخ ، یعنی ’ جو لوگ اپنی اولاد کو پورا پورا دودھ پلانا چاہے ان کے لیے آخری انتہائی سبب یہ ہے کہ دو سال کامل تک ان بچوں کو ان کی مائیں اپنا دودھ پلاتی رہیں ‘ ۔ چونکہ ایک اور آیت میں فرمایا گیا ہے «وَحَمْلُہٗ وَفِصٰلُہٗ ثَلٰثُوْنَ شَہْرًا» ۱؎ (46-الأحقاف:15) یعنی ’ مدت حمل اور دودھ چھٹائی کل تیس ماہ ہے ‘ ۔ اس لیے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور دوسرے بڑے اماموں نے استدلال کیا ہے کہ ” حمل کی کم سے کم مدت چھ مہینے ہے “ ۔ ماں کی اس تکلیف کو اولاد کے سامنے اس لیے ظاہر کیا جاتا ہے کہ اولاد اپنی ماں کی ان مہربانیوں کو یاد کر کے شکر گزاری ، اطاعت اور احسان کرے ۔ جیسے اور آیت میں فرمان عالیشان ہے آیت «وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا» ۱؎ (17-الإسراء:24) ’ ہم سے دعا کرو اور کہو کہ میرے سچے پروردگار میرے ماں باپ پر اس طرح رحم و کرم فرما جس طرح میرے بچپن میں وہ مجھ پر رحم کیا کرتے تھے ‘ ۔ یہاں فرمایا ’ تاکہ تو میرا اور اپنے ماں باپ کا احسان مند ہو ۔ سن لے آخر لوٹنا تو میری طرف ہے اگر میری اس بات کو مان لیا تو پھر بہترین جزا دونگا ‘ ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ { جب سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امیر بنا کر بھیجا آپ رضی اللہ عنہ نے وہاں پہنچ کر سب سے پہلے کھڑے ہو کر خطبہ پڑھا جس میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا ” میں تمہاری طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھیجا ہوا آیا ہوں ۔ یہ پیغام لے کر تم اللہ ہی کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو میری باتیں مانتے رہو میں تمہاری خیر خواہی میں کوئی کوتاہی نہ کرونگا ۔ سب کو لوٹ کر اللہ کی طرف جانا ہے ۔ پھر یا تو جنت مکان بنے گی یا جہنم ٹھکانا ہو گا ۔ پھر وہاں سے نہ اخراج ہو گا نہ موت آئے گی “ } ۔ ۱؎ (مستدرک حاکم:83/1) پھر فرماتا ہے کہ ’ اگر تمہارے ماں باپ تمہیں اسلام کے سوا اور دین قبول کرنے کو کہیں ، گو وہ تمام تر طاقت خرچ کر ڈالیں خبردار! تم ان کی مان کر میرے ساتھ ہرگز شریک نہ کرنا ۔ لیکن اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ تم ان کے ساتھ سلوک و احسان کرنا چھوڑ دو نہیں دنیوی حقوق جو تمہارے ذمہ ان کے ہیں ادا کرتے رہو ۔ ایسی باتیں ان کی نہ مانو بلکہ ان کی تابعداری کرو جو میری طرف رجوع ہو چکے ہیں ۔ سن لو! تم سب لوٹ کر ایک دن میرے سامنے آنے والے ہو اس دن میں تمہیں تمہارے تمام تر اعمال کی خبر دونگا ‘ ۔ طبرانی کی کتاب العشرہ میں ہے سیدنا سعد بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت ” میرے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ میں اپنی ماں کی بہت خدمت کیا کرتا تھا اور ان کا پورا اطاعت گزار تھا ۔ جب مجھے اللہ نے اسلام کی طرف ہدایت کی تو میری والدہ مجھ پر بہت بگڑیں اور کہنے لگی بچے یہ نیا دین تو کہاں سے نکال لایا ۔ سنو! میں تمہیں حکم دیتی ہوں کہ اس دین سے دستبردار ہو جاؤ ورنہ میں نہ کھاؤنگی نہ پیوگی اور یونہی بھوکی مرجاؤں گی ۔ میں نے اسلام کو چھوڑا نہیں اور میری ماں نے کھانا پینا ترک کر دیا اور ہر طرف سے مجھ پر آوازہ کشی ہونے لگی کہ یہ اپنی ماں کا قاتل ہے ۔ میں بہت ہی دل میں تنگ ہوا اپنی والدہ کی خدمت میں باربار عرض کیا خوشامدیں کیں سمجھایا کہ اللہ کے لیے اپنی ضد سے باز آ جاؤ ۔ یہ تو ناممکن ہے کہ میں اس سچے دین کو چھوڑ دوں ۔ اسی ضد میں میری والدہ پر تین دن کا فاقہ گزر گیا اور اس کی حالت بہت ہی خراب ہو گئی تو میں اس کے پاس گیا اور میں نے کہا میری اچھی اماں جان سنو! تم مجھے میری جان سے زیادہ عزیز ہو لیکن میرے دین سے زیادہ عزیز نہیں ۔ واللہ! ایک نہیں تمہاری ایک سوجانیں بھی ہوں اور اسی بھوک پیاس میں ایک ایک کر کے سب نکل جائیں تو بھی میں اخری لمحہ تک اپنے سچے دین اسلام کو نہ چھوڑونگا ۔ اب میری ماں مایوس ہوگئیں اور کھانا پینا شرع کر دیا “ ۔ لقمان
14 لقمان
15 لقمان
16 قیامت کے دن اعلیٰ اخلاق کام آئے گا حضرت لقمان کی یہ اور وصیتیں ہیں اور چونکہ یہ سب حکمتوں سے پر ہیں ۔ قرآن انہیں بیان فرما رہا ہے تاکہ لوگ ان پر عمل کریں ۔ فرماتے ہیں کہ ” برائی ، خطا ، ظلم ہے چاہے رائی کے دانے کے برابر بھی ہو پھر وہ خواہ کتنا ہی پوشیدہ اور ڈھکا چھپا کیوں نہ ہو قیامت کے دن اللہ اسے پیش کرے گا میزان میں سب کو رکھا جائے گا اور بدلہ دیا جائے گا نیک کام پر جزا بد پر سزا “ ۔ جیسے فرمان ہے آیت «وَنَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَۃِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَـیْــــــًٔا» ‏‏‏‏ ۱؎ (21-الأنبیاء:47) ، یعنی ’ قیامت کے دن عدل کے ترازو رکھ کر ہر ایک کو بدلہ دیں گے کوئی ظلم نہ کیا جائے گا ‘ ۔ اور آیت میں ہے «فَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّ‌ۃٍ خَیْرً‌ا یَرَ‌ہُ وَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّ‌ۃٍ شَرًّ‌ا یَرَ‌ہُ» ’ ذرے برابر نیکی اور ذرے برابر برائی ہر ایک دیکھ لے گا ‘ ۔ ۱؎ (99-الزلزلۃ:8-7) خواہ وہ نیکی یا بدی کسی مکان میں ، محل میں ، قلعہ میں ، پتھر کے سوراخ میں ، آسمانوں کے کونوں میں ، زمین کی تہہ میں ہو کہیں بھی ہو اللہ تعالیٰ سے مخفی نہیں وہ اسے لا کر پیش کرے گا وہ بڑے باریک علم والا ہے ۔ چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی اس پر ظاہر ہے اندھیری رات میں چیونٹی جو چل رہی ہو اس کے پاؤں کی آہٹ کا بھی وہ علم رکھتا ہے ۔ بعض نے یہ بھی جائز رکھا ہے کہ «اِنَّہَا» میں ضمیر شان کی اور قصہ کی ہے اور اس بناء پر انہوں نے «مِثْقَالُ» کی لام کا پیش پڑھنا بھی جائز رکھا ہے لیکن پہلی بات ہی زیادہ اچھی ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ «صَخْرَۃٌ» سے مراد وہ پتھر ہے جو ساتویں آسمان اور زمین کے نیچے ہیں ۔ اس کی بعض سندیں بھی سدی رحمہ اللہ نے ذکر کی ہیں اگر صحیح ثابت ہوجائیں ۔ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم وغیرہ سے یہ مروی تو ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» بہت ممکن ہے کہ یہ بھی بنی اسرائیل سے منقول ہوں لیکن ان کی کتابوں کی کسی بات کو ہم نہ سچی مان سکیں نہ جھٹلاسکیں ۔ بہ ظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ بقدر رائی کے دانہ کے کوئی عمل حقیر ہو اور ایسا پوشیدہ ہو کہ کسی پتھر کے اندر ہو ۔ جیسے مسند احمد کی حدیث میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { اگر تم میں سے کوئی شخص کوئی علم عمل کرے کسی بے سوراخ کے پتھر کے اندر جس کا نہ کوئی دروازہ ہو نہ کھڑکی ہو نہ سوراخ ہو تاہم اللہ تعالیٰ اسے لوگوں پر ظاہر کر دے گا خواہ کچھ ہی عمل ہو نیک ہو یا بد } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:28/3:ضعیف) پھر فرماتے ہیں ” بیٹے نماز کا خیال رکھنا ۔ اس کے فرائض ، اس کے واجبات ، ارکان اوقات وغیرہ کی پوری حفاظت کرنا ۔ اپنی طاقت کے مطابق پوری کوشش کے ساتھ اللہ کی باتوں کی تبلیغ اپنوں ، غیروں میں کرتے رہنا بھلی باتیں کرنے اور بری باتوں سے بچنے کے لیے ہر ایک سے کہنا “ ۔ اور چونکہ نیکی کا حکم یعنی بدی سے روکنا جو عموماً لوگوں کو کڑوی لگتی ہے ۔ اور حق گو شخص سے لوگ دشمنی رکھتے ہیں اس لیے ساتھ ہی فرمایا کہ ” لوگوں سے جو ایذاء اور مصیبت پہنچے اس پر صبر کرنا درحقیقت اللہ کی راہ میں ننگی شمشیر رہنا اور حق پر مصیبتیں جھیلتے ہوئے پست ہمت نہ ہونا یہ بڑا بھاری اور جوانمردی کا کام ہے “ ۔ پھر فرماتے ہیں ” اپنا منہ لوگوں سے نہ موڑ انہیں حقیر سمجھ کریا اپنے آپ کو بڑا سمجھ کر لوگوں سے تکبر نہ کر ۔ بلکہ نرمی برت خوش خلقی سے پیش آ ۔ خندہ پیشانی سے بات کر “ ۔ حدیث شریف میں ہے کہ { کسی مسلمان بھائی سے تو کشادہ پیشانی سے ہنس مکھ ہو کر ملے یہ بھی تیری بڑی نیکی ہے ۔ تہبند اور پاجامے کو ٹخنے سے نیچا نہ کر یہ تکبرو غرور ہے اور تکبر اور غرور اللہ کو ناپسند ہے } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4084،قال الشیخ الألبانی:صحیح) حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو تکبر نہ کرنے کی وصیت کی ہے کہ ” ایسا نہ ہو کہ اللہ کے بندوں کو حقیر سمجھ کر تو ان سے منہ موڑ لے اور مسکنیوں سے بات کرنے سے بھی شرمائے “ ۔ منہ موڑے ہوئے باتیں کرنا بھی غرور میں داخل ہے ۔ باچھیں پھاڑ کر لہجہ بدل کر حاکمانہ انداز کے ساتھ گھمنڈ بھرے الفاظ سے بات چیت بھی ممنوع ہے ۔ ” صعر “ ایک بیماری ہے جو اونٹوں کی گردن میں ظاہر ہوتی ہے یا سر میں اور اس سے گردن ٹیڑھی ہو جاتی ہے ، پس متکبر شخص کو اسی ٹیڑھے منہ والے شخص سے ملا دیا گیا ۔ عرب عموماً تکبر کے موقعہ پر صعر کا استعمال کرتے ہیں اور یہ استعمال ان کے شعروں میں بھی موجود ہے ۔ زمین پر تن کر ، اکڑ کر ، اترا کر ، غرور وتکبر سے نہ چلو یہ چال اللہ کو ناپسند ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ناپسند رکھتا ہے جو خود بین متکبر سرکش اور فخر و غرور کرنے والے ہوں اور آیت میں ہے «‏‏‏‏وَلَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا اِنَّکَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا» ۱؎ (17-الإسراء:37) ، یعنی ’ اکڑ کر زمین پر نہ چلو نہ تو تم زمین کو پھاڑ سکتے ہو نہ پہاڑوں کی لمبائی کو پہنچ سکتے ہو ‘ ۔ اس آیت کی تفسیر بھی اس کی جگہ گزر چکی ہے ۔ { حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک مرتبہ تکبر کا ذکر آ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بڑی مذمت فرمائی اور فرمایا کہ { ایسے خود پسند مغرور لوگوں سے اللہ غصہ ہوتا ہے } ۔ اس پر ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں جب کپڑے دھوتا ہوں اور خوب سفید ہو جاتے ہیں تو مجھے بہت اچھے لگتے ہیں میں ان سے خوش ہوتا ہوں ۔ اسی طرح جوتے میں تسمہ بھلالگتا ہے ۔ کوڑے کا خوبصورت غلاف بھلا معلوم ہوتا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { یہ تکبر نہیں ہے تکبر اس کا نام ہے کہ تو حق کو حقیر سمجھے اور لوگوں کو ذلیل خیال کرے } } ۔ (طبرانی کبیر:1317:اسنادہ ضعیف ولہ شواہد) یہ روایت اور طریق سے بہت لمبی مروی ہے اور اس میں سیدنا ثابت رضی اللہ عنہ کے انتقال اور ان کی وصیت کا ذکر بھی ہے ۔ ” اور میانہ روی کی چال چلا کر نہ بہت آہستہ ، خراماں خراماں نہ بہت جلدی لمبے ڈگ بھربھر کے ۔ کلام میں مبالغہ نہ کرے بے فائدہ چیخ چلا نہیں ۔ بدترین آواز گدھے کی ہے ۔ جو پوری طاقت لگا کر بےسود چلاتا ہے ۔ باوجودیکہ وہ بھی اللہ کے سامنے اپنی عاجزی ظاہر کرتا ہے “ ۔ پس یہ بھی بری مثال دے کر سمجھا دیا کہ بلاوجہ چیخنا ڈانٹ ڈپٹ کرنا حرام ہے ۔ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { بری مثالوں کے لائق ہم نہیں ۔ اپنی دے دی ہوئی چیز واپس لینے والا ایسا ہے جیسے کتا جو قے کر کے چاٹ لیتا ہے } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2621) نسائی میں اس آیت کی تفسیر میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا { جب مرغ کی آواز سنو تو اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل طلب کرو اور جب گدھے کی آواز سنو تو اللہ تعالیٰ سے پناہ طلب کرو ۔ اس لیے کہ وہ شیطان کو دیکھتا ہے } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3303) ایک روایت میں ہے { رات کو } ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:5103،قال الشیخ الألبانی:صحیح) یہ وصیتیں لقمان حکیم کی نہایت ہی نفع بخش ہیں ۔ قرآن حکیم نے اسی لیے بیان فرمائی ہیں ۔ آپ سے اور بھی بہت حکیمانہ قول اور وعظ ونصیحت کے کلمات مروی ہیں ۔ بطور نمونہ کے اور دستور کے ہم بھی تھوڑے سے بیان کرتے ہیں ۔ مسند احمد میں بزبان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لقمان حکیم کا ایک قول یہ بھی مروی ہے کہ { اللہ کو جب کوئی چیز سونپ دی جائے اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی حفاظت کرتا ہے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:87/2:صحیح) اور حدیث میں آپ کا یہ قول بھی مروی ہے کہ { تصنع سے بچ یہ رات کے وقت ڈراؤنی چیز ہے اور دن کو مذمت وبرائی والی چیز ہے } ۔ ۱؎ (مستدرک حاکم:411/2:ضعیف) آپ نے اپنے بیٹے سے یہ بھی فرمایا تھا کہ ” حکمت سے مسکین لوگ بادشاہ بن جاتے ہیں “ ۔ آپ کا فرمان ہے کہ ” جب کسی مجلس میں پہنچو پہلے اسلامی طریق کے مطابق سلام کرو پھر مجلس کے ایک طرف بیٹھ جاؤ ۔ دوسرے نہ بولیں تو تم بھی خاموش رہو ۔ اگر وہ ذکر اللہ کریں تو تم ان میں سب سے پہلے زیادہ حصہ لینے کی کوشش کرو ۔ اور اگر وہ گپ شپ کریں تو تم اس مجلس کو چھوڑ دو “ ۔ مروی ہے کہ آپ اپنے بچے کو نصیحت کرنے کے لیے جب بیٹھے تو رائی کی بھری ہوئی ایک تھیلی اپنے پاس رکھ لی تھی اور ہر ہر نصیحت کے بعد ایک دانہ اس میں سے نکال لیتے یہاں تک کہ تھیلی خالی ہو گئی تو آپ نے فرمایا ” بچے اگر اتنی نصیحت کسی پہاڑ کو کرتا تو وہ بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا “ ۔ چنانچہ آپ کے صاحبزادے کا بھی یہی حال ہوا ۔ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { حبشیوں کودوست رکھا کر ان میں سے تین شخص اہل جنت کے سردار ہیں لقمان حکیم رحمہ اللہ ، نجاشی رحمہ اللہ اور بلال موذن رضی اللہ عنہ } } ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:11482:ضعیف و جدا) تواضع اور فروتنی کا بیان لقمان رحمہ اللہ نے اپنے بچے کو اس کی وصیت کی تھی اور ابن ابی الدنیا نے اس مسئلہ پر ایک مستقل کتاب لکھی ہے ۔ ہم اس میں سے اہم باتیں یہاں ذکر کر دیتے ہیں ۔ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { بہت سے پراگندہ بالوں والے میلے کچیلے کپڑوں والے جو کسی بڑے گھر تک نہیں پہنچ سکتے اللہ کے ہاں اتنے بڑے مرتبہ والے ہیں کہ اگر وہ اللہ پر کوئی قسم لگا بیٹھیں تو اللہ تعالیٰ اسے بھی پوری فرما دے } } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3854،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اور حدیث میں ہے { سیدنا براء بن مالک رضی اللہ عنہ ایسے ہی لوگوں میں سے ہیں } ۔ ۱؎ (مستدرک حاکم: 291/3: صحیح) ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کو قبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس روتے دیکھ کر دریافت فرمایا تو جواب ملا کہ ” صاحب قبر صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث میں نے سنی ہے جسے یاد کر کے رورہا ہوں ۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا فرماتے تھے { تھوڑی سی ریاکاری بھی شرک ہے اللہ تعالیٰ انہیں دوست رکھتا ہے جو متقی ہیں جو لوگوں میں چھپے چھپائے ہیں جو کسی گنتی میں نہیں آتے اگر وہ کسی مجمع میں نہ ہوں تو کوئی ان کا پرسان حال نہیں اگر آ جائیں تو کوئی آؤ بھگت نہیں لیکن ان کے دل ہدایت کے چراغ ہیں وہ ہر ایک غبار آلود اندھیرے سے بچ کرنور حاصل کر لیتے ہیں } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:3989،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { یہ میلے کچیلے کپڑوں والے جوذلیل گنے جاتے ہیں اللہ کے ہاں ایسے مقرب ہیں کہ اگر اللہ پر قسم کھا بیٹھیں تو اللہ پوری کر دے گو انہیں اللہ نے دنیا نہیں دی لیکن ان کی زبان سے پوری جنت کا سوال بھی نکل جائے تو اللہ پورا کر لیتا ہے } ۔ ۱؎ (مسند بزار:3628:ضعیف دون الجملۃ) { آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ { میری امت میں ایسے لوگ بھی ہیں کہ اگر تم میں سے کسی کے دروازے پر آ کر وہ لوگ ایک دینار ایک درہم بلکہ ایک فلوس بھی مانگیں تو تم نہ دو لیکن اللہ کے ہاں وہ ایسے پیارے ہیں کہ اگر اللہ سے جنت کی جنت مانگیں تو پروردگار دیدے ہاں دنیا نہ تو انہیں دیتا ہے نہ روکتا ہے اس لیے کہ یہ کوئی قابل قدر چیز نہیں ۔ یہ میلی کچیلی دو چادروں میں رہتے ہیں اگر کسی موقعہ پر قسم کھا بیٹھیں تو جو قسم انہوں نے کھائی ہو اللہ پوری کرتا ہے } } ۔ ۱؎ (ابن ابی الدنیا فی الاولیاء:9:مرسل و ضعیف) { حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ { جنت کے بادشاہ وہ لوگ ہیں جو پراگندہ اور بکھرے ہوئے بالوں والے ہیں غبار آلود اور گرد سے اٹے ہوئے وہ امیروں کے گھر جانا چاہیں تو انہیں اجازت نہیں ملتی اگر کسی بڑے گھرانے میں نکاح کی مانگ کر ڈالیں تو وہاں کی بیٹی نہیں ملتی ۔ ان مسکینوں سے انصاف کے برتاؤ نہیں برتے جاتے ۔ ان کی حاجتیں اور ان کی امنگیں اور مرادیں پوری ہونے سے پہلے ہی خود ہی فوت ہو جاتی ہیں اور آرزوئیں دل کی دل میں ہی رہ جاتی ہیں انہیں قیامت کے دن اس قدر نور ملے گا کہ اگر وہ تقسیم کیا جائے تو تمام دنیا کے لیے کافی ہو جائے } } ۔ ۱؎ (بیہقی فی شعب الایمان:10486:منقطع و ضعیف) عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کے شعروں میں ہے کہ بہت سے وہ لوگ جو دنیا میں حقیر وذلیل سمجھے جاتے ہیں کل قیامت کے دن تخت وتاراج والے ملک ومنال والے عزت وجلال والے بنے ہوئے ہونگے ۔ باغات میں ، نہروں میں ، نعمتوں میں ، راحتوں میں ، مشغول ہونگے ۔ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ { جناب باری کا ارشاد ہے ’ سب سے زیادہ میرا پسندیدہ ولی وہ ہے جو مومن ہو ، کم مال والا ، کم عال وعیال والا ، غازی ، عبادت واطاعت گزار ، پوشیدہ واعلانیہ مطیع ہو ، لوگوں میں اس کی عزت اور اس کا وقار نہ ہو ، اس کی جانب انگلیاں نہ اٹھتی ہوں ، اور وہ اس پر صابر ہو ‘ } ، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ جھاڑ کر فرمایا { اس کی موت جلدی آ جاتی ہے اس کی میراث بہت کم ہوتی ہے اس کی رونے والیاں تھوڑی ہوتی ہیں } } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:4117،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) فرماتے ہیں اللہ کے سب سے زیادہ محبوب بندے غرباء ہیں جو اپنے دین کو لیے پھرتے ہیں جہاں دین کے کمزور ہونے کا خطرہ ہوتا ہے وہاں سے نکل کھڑے ہوتے ہیں یہ قیامت کے دن عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ جمع ہونگے ۔ حضرت فضیل بن عیاض رحمہ اللہ کا قول ہے کہ ” مجھے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے بندے سے فرمائے گا ’ کیا میں نے تجھ پر انعام واکرام نہیں فرمایا ؟ کیا میں نے تجھے دیا نہیں ؟ کیا میں نے تیرا جسم نہیں ڈھانپا ؟ کیا میں نے تمہیں یہ نہیں دیا ؟ کیا وہ نہیں دیا ؟ کیا لوگوں میں تجھے عزت نہیں دی تھی ؟ ‘ وغیرہ تو جہاں تک ہو سکے ان سوالوں کے جواب دینے کا موقعہ کم ملے اچھا ہے ۔ لوگوں کی تعریفوں سے کیا فائدہ اور مذمت کریں تو کیا نقصان ہو گا ۔ ہمارے نزدیک تو وہ شخص زیادہ اچھا ہے جسے لوگ برا کہتے ہوں اور وہ اللہ کے نزدیک اچھا ہو “ ۔ ابن محیریز رحمہ اللہ تو دعا کرتے تھے کہ ” اللہ میری شہرت نہ ہو “ ۔ خلیل بن احمد رحمہ اللہ اپنی دعا میں کہتے تھے ” اللہ مجھے اپنی نگاہوں میں تو بلندی عطا فرما اور خود میری نظر میں مجھے بہت حقیر کر دے اور لوگوں کی نگاہوں میں مجھے درمیانہ درجہ کا رکھ “ ، پھر شہرت کا باب باندھ کر امام صاحب اس حدیث کو لائے ہیں { انسان کو یہی برائی کافی ہے کہ لوگ اس کی دینداری یادنیاداری کی شہرت دینے لگیں اور اس کی طرف انگلیاں اٹھنے لگیں اشارے ہونے لگیں ۔ پس اسی میں آ کر بہت سے لوگ ہلاک ہو جاتے ہیں مگر جنہیں اللہ بچالے ۔ سنو! اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ تمہارے دلوں اور اعمالوں کو دیکھتا ہے } ۔ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ سے بھی یہی روایت مرسلاً مروی ہے جب آپ رضی اللہ عنہ نے یہ روایت بیان کی تو کسی نے کہا آپ رضی اللہ عنہ کی طرف بھی انگلیاں اٹھتی ہیں ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” سمجھے نہیں مراد انگلیاں اٹھنے سے دینی بدعت یا دنیوی فسق و فجور ہے “ ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ ” شہرت حاصل کرنا نہ چاہو ۔ اپنے آپ کو اونچا نہ کرو کہ لوگوں میں تذکرے ہونے لگیں علم حاصل کرو لیکن چھپاؤ چپ رہو تاکہ سلامت رہو ، نیکوں کو خوش رکھو بدکاروں سے تصرف رکھو “ ۔ ابراہیم بن ادھم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” شہرت کا چاہنے والا اللہ کا ولی نہیں ہوتا “ ۔ ایوب رحمہ اللہ کا فرمان ہے ” جسے اللہ دوست بنالیتا ہے وہ تو لوگوں سے اپنا درجہ چھپاتا پھرتا ہے “ ۔ محمد بن علاء رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” اللہ کے دوست لوگ اپنے تئیں ظاہر نہیں کرتے “ ۔ سماک بن سلمہ رحمہ اللہ کا قول ہے ” عام لوگوں کے میل جول سے اور احباب کی زیادتی سے پرہیز کرو “ ۔ ابان بن عثمان رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” اگر دین کو سالم رکھنا چاہتے ہو تو لوگوں سے کم جان پہچان رکھو “ ۔ ابوالعالیہ رحمہ اللہ کا قاعدہ تھا جب دیکھتے کہ ان کی مجلس میں تین سے زیادہ لوگ جمع ہو گئے تو انہیں چھوڑ کر خود چل دیتے ۔ سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ نے جب اپنے ساتھ بھیڑ دیکھی تو فرمانے لگے ” طمع کی مکھیاں اور آگ کے پروانے جمع ہوگئے “ ۔ سیدنا حنظلہ رضی اللہ عنہ کو لوگ گھیرے کھڑے تھے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کوڑا تانا اور فرمایا ” اس میں تابع کے لیے ذلت اور متبوع کے لیے فتنہ ہے “ ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ جب لوگ چلنے لگے تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ” اگر تم پر میرا باطن ظاہر ہو جائے تو تم میں سے دو بھی میرے ساتھ چلنا پسند نہ کریں “ ۔ حماد بن زید رحمہ اللہ کہتے ہیں ” جب ہم کسی مجلس کے پاس سے گزرتے اور ہمارے ساتھ ایوب رحمہ اللہ ہوتے تو لوگ سلام کرتے اور وہ سختی سے جواب دیتے “ ۔ پس یہ ایک نعمت تھی ۔ آپ لمبی قمیض پہنتے اس پر لوگوں نے کہا تو آپ نے جواب دیا کہ اگلے زمانے میں شہرت کی چیز تھی ۔ لیکن یہ شہرت اس کو اونچا کرنے میں ہے ۔ ایک مرتبہ آپ نے اپنی ٹوپیاں مسنون رنگ کی رنگوائیں اور کچھ دنوں تک پہن کر اتاردی اور فرمایا ” میں نے دیکھا کہ عام لوگ انہیں نہیں پہنتے “ ۔ ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ ” نہ تو ایسا لباس پہنو کہ لوگوں کی انگلیاں اٹھیں نہ اتنا گھٹیا پہنو کہ لوگ حقارت سے دیکھیں “ ۔ ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” عام سلف کا یہی معمول تھا کہ نہ بہت بڑھیا کپڑا پہنتے تھے نہ بالکل گھٹیا “ ۔ ابوقلابہ رحمہ اللہ کے پاس ایک شخص بہت ہی بہترین اور شہرت کا لباس پہنے ہوئے آیا تو آپ نے فرمایا ” اس آواز دینے والے گدھے سے بچو “ ۔ حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” بعض لوگوں نے دلوں میں تو تکبر بھر رکھا ہے اور ظاہر لباس میں تواضع کر رکھی ہے گویا چادر ایک بھاری ہتھوڑا ہے “ ۔ موسیٰ علیہ السلام کا مقولہ ہے کہ آپ علیہ السلام نے بنی اسرائیل سے فرمایا ” میرے سامنے تو درویشوں کی پوشاک میں آئے حالانکہ تمہارے دل بھیڑیوں جیسے ہیں ۔ سنو لباس چاہے بادشاہوں جیسا پہنو مگر دل خوف اللہ سے نرم رکھو “ ۔ اچھے اخلاق کا بیان حضور صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بہتر اخلاق والے تھے ۱؎ (صحیح مسلم:5970) { آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ کونسامومن بہتر ہے فرمایا { سب سے اچھے اخلاق والا } } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:4259،قال الشیخ الألبانی:حسن) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ { باوجود کم اعمال کے صرف اچھے اخلاق کی وجہ سے انسان بڑے بڑے درجے اور جنت کی اعلی منازل حاصل کر لیتا ہے ۔ اور باوجود بہت ساری نیکیوں کے صرف اخلاق کی برائی کی وجہ سے جہنم کے نیچے کے طبقے میں چلا جاتا ہے } ۔ ۱؎ (ابن ابی الدنیا:168:ضعیف) فرماتے ہیں { اچھے اخلاق ہی میں دنیا آخرت کی بھلائی ہے } ۔ ۱؎ (ابن ابی الدنیا:169:ضعیف) فرماتے ہیں { انسان اپنی خوش اخلاقی کے باعث راتوں کو قیام کرنے والے اور دنوں کو روزے رکھنے والوں کے درجوں کو پالیتا } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4898،قال الشیخ الألبانی:صحیح) { حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ دخول جنت کا موجب عام طور سے کیا ہے ؟ فرمایا : { اللہ کا ڈر اور اخلاق کی اچھائی } ۔ پوچھا گیا عام طور سے جہنم میں کون سی چیز لے جاتی ہے ؟ فرمایا : { دو سوراخ دار چیزیں یعنی منہ اور شرمگاہ } } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2004،قال الشیخ الألبانی:حسن) { ایک مرتبہ چند اعراب کے اس سوال پر کہ انسان کو سب سے بہتر عطیہ کیا ملا ہے ؟ فرمایا : { کہ حسن خلق } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:278/4:صحیح) فرمایا کہ { نیکی کی ترازو میں اچھے اخلاق سے زیادہ وزنی چیز اور کوئی نہیں } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2202،قال الشیخ الألبانی:صحیح) فرماتے ہیں { تم میں سے سب سے بہتر وہ ہے جو سب سے اچھے اخلاق والا ہو } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3559) فرماتے ہیں { جس طرح مجاہد کو جو اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہے صبح شام اجر ملتا ہے اسی طرح اچھے اخلاق پر بھی اللہ ثواب عطا فرماتا ہے } ۔ ۱؎ (ابن ابی الدنیا:176:ضعیف) ارشاد ہے { تم میں مجھے سب سے زیادہ محبوب اور سب سے زیادہ قریب وہ ہے جو سب سے اچھے اخلاق والا ہو ۔ میرے نزدیک سب سے زیادہ بغض ونفرت کے قابل اور مجھ سے سب سے دور جنت میں وہ ہو گا جو بدخلق ، بدگو ، بدکلام ، بدزبان ہوگا } ۔ فرماتے ہیں { کامل ایماندار اچھے اخلاق والے ہیں جو ہر ایک سے سلوک ومحبت سے ملیں جلیں } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2018،قال الشیخ الألبانی:حسن) ارشاد ہے { جس کی پیدائش اور اخلاق اچھے ہیں اسے اللہ تعالیٰ جہنم کا لقمہ نہیں بنائے گا } ۔ ارشاد ہے کہ { دو خصلیتں مومن میں جمع نہیں ہو سکتی بخل اور بداخلاقی } ۔ ۱؎ (ابن ابی الدنیا:180:ضعیف و مرسل) فرماتے ہیں { بدخلقی سے زیادہ بڑا کوئی گناہ نہیں ، اس لیے کہ بداخلاقی سے ایک سے ایک بڑے گناہ میں مبتلا ہو جاتا ہے } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:1962،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے { اللہ کے نزدیک بد اخلاقی سے بڑا کوئی گناہ نہیں ۔ اچھے اخلاق سے گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔ بداخلاقیاں نیک اعمالوں کو غارت کر دیتی ہیں ۔ جیسے شہد کو سرکہ خراب کر دیتا ہے } ۔ ۱؎ (ابن ابی الدنیا:183:ضعیف و مرسل) { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ { غلام خریدنے سے غلام نہیں بڑھتے البتہ خوش اخلاقی سے لوگ گرویدہ اور جان نثا رہو جاتے ہیں } } ۔ ۱؎ (ابن ابی الدنیا:184:ضعیف) امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ کا قول ہے کہ ” اچھا خلق دین کی مدد کرتا ہے “ ۔ تکبر کی مذمت کا بیان { حضور صلی اللہ علیہ السلام فرماتے ہیں { وہ جنت میں نہ جائے گا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر تکبر ہو ، اور وہ جہنمی نہیں جس کے دل میں رائی کے برابر ایمان ہو } } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:39) فرماتے ہیں کہ { جس کے دل میں ایک ذرے کے برابر تکبر ہے وہ اوندھے منہ جہنم میں جائے گا } ۔ ۱؎ (مسند احمد:215/2:صحیح لغیرہ) ارشاد ہے کہ { انسان اپنے غرور اور خود پسندی میں بڑھتے بڑھتے اللہ کے ہاں جباروں میں لکھ دیا جاتا ہے ، پھر سرکشوں کے عذاب میں پھنس جاتا ہے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:215/2:صحیح) امام مالک بن دینار رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” ایک دن سلیمان بن داؤد علیہ السلام اپنے تخت پر بیٹے تھے آپ علیہ السلام کی دربار میں اس وقت دو لاکھ انسان تھے اور دو لاکھ جن تھے ۔ آپ علیہ السلام کو آسمان تک پہنچایا گیا یہاں تک کہ فرشتوں کی تسبیح کی آواز کان میں آنے لگی ۔ اور پھر زمین تک لایا گیا یہاں تک کہ سمندر کے پانی سے آپ علیہ السلام کے قدم بھیگ گئے ۔ پھر ہاتف غیب نے ندادی کہ اگر اس کے دل میں ایک دانے کے برابر بھی تکبر ہوتا تو جتنا اونچا گیا تھا اس سے زیادہ نیچے دھنسادیا جاتا “ ۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے خطبے میں انسان کی ابتدائی پیدائش کا بیان فرماتے ہوئے فرمایا کہ ” یہ دو شخصوں کی پیشاب گاہ سے نکلتا ہے “ ۔ اس طرح اسے بیان فرمایا کہ سننے والے کراہت کرنے لگے ۔ امام شعمی رحمہ اللہ کا قول ہے ” جس نے دو شخصوں کو قتل کر دیا وہ بڑا ہی سرکش اور جبار ہے پھر آپ رحمہ اللہ نے یہ آیت پڑھی «فَلَمَّا أَنْ أَرَادَ أَن یَبْطِشَ بِالَّذِی ہُوَ عَدُوٌّ لَّہُمَا قَالَ یَا مُوسَیٰ أَتُرِیدُ أَن تَقْتُلَنِی کَمَا قَتَلْتَ نَفْسًا بِالْأَمْسِ إِن تُرِیدُ إِلَّا أَن تَکُونَ جَبَّارًا فِی الْأَرْضِ وَمَا تُرِیدُ أَن تَکُونَ مِنَ الْمُصْلِحِینَ» ۱؎ ‏‏‏‏(28-سورۃالقص:19) ’ کیا تو مجھے قتل کرنا چاہتا ہے ؟ جیسے کہ تو نے کل ایک شخص کو قتل کیا ہے ۔ تیرا ارادہ تو دنیا میں سرکش اور جبار بن کر رہنے کا معلوم ہوتا ہے ‘ ۔ حضرت حسن رحمہ اللہ کا مقولہ ہے ” وہ انسان جو ہر دن میں دو مرتبہ اپنا پاخانہ اپنے ہاتھ سے دھوتا ہے وہ کس بنا پر تکبر کرتا ہے اور اس کا وصف اپنے میں پیدا کرنا چاہتا ہے جس نے آسمانوں کو پیدا کیا ہے اور اپنے قبضے میں رکھا ہے “ ۔ ضحاک بن سفیان رحمہ اللہ سے دنیا کی مثال اس چیز سے بھی مروی ہے جو انسان سے نکلتی ہے ۔ امام محمد بن حسین بن علی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” جس دل میں جتنا تکبر اور گھمنڈ ہوتا ہے اتنی ہی عقل اس کی کم ہو جاتی ہے “ ۔ یونس بن عبید رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” سجدہ کرنے کے ساتھ تکبر اور توحید کے ساتھ نفاق نہیں ہوا کرتا “ ۔ بنی امیہ مارمار کر اپنی اولاد کو اکڑا کر چلنا سکھاتے تھے ۔ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو آپ کی خلافت سے پہلے ایک مرتبہ اٹھلاتی ہوئی چال چلتے ہوئے دیکھ کر طاؤس رحمہ اللہ نے ان کے پہلو میں ایک ٹھونکا مارا اور فرمایا ” یہ چال اس کی جس کے پیٹ میں پاخانہ بھرا ہوا ہے ؟ “ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ بہت شرمندہ ہوئے اور کہنے لگے ” معاف فرمائیے ہمیں مارمار کر اس چال کی عادت ڈلوائی گئی ہے “ ۔ فخر و گھمنڈ کی مذمت کا بیان { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { جو شخص فخر و غرور سے اپنا کپڑا نیچے لٹکا کر گھسیٹے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف رحمت سے نہ دیکھے گا } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5789) فرماتے ہیں { { اس کی طرف اللہ قیامت کے دن نظر نہ ڈالے گا جو اپنا تہبند لٹکائے } ۔ ایک شخص دو عمدہ چادریں اوڑھے دل میں غرور لیے اکڑتا ہوا جا رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے زمین میں دھنسادیا قیامت تک وہ دھنستا ہوا چلا جائے گا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3485) لقمان
17 لقمان
18 لقمان
19 لقمان
20 انعام و اکرام کی بارش اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی نعمتوں کا اظہار فرما رہا ہے کہ ’ دیکھو آسمان کے ستارے تمہارے لیے کام میں مشغول ہیں چمک چمک کر تمہیں روشنی پہنچا رہے ہیں بادل بارش اولے خنکی سب تمہارے نفع کی چیزیں ہیں خود آسمان تمہارے لیے محفوظ اور مضبوط چھت ہے ۔ زمین کی نہریں چشمے دریا سمندر درخت کھیتی پھل یہ سب نعمتیں بھی اسی نے دے رکھی ہیں ‘ ۔ پھر ان ظاہری بے شمار نعمتوں کے علاوہ باطنی بےشمار نعمتیں بھی اسی نے تمہیں دے رکھی ہیں مثلا رسولوں کا بھیجنا کتابوں کانازل فرمانا شک و شبہ وغیرہ دلوں سے دور کرنا وغیرہ ۔ اتنی بڑی اور اتنی ساری نعمتیں جس نے دے رکھی ہیں حق یہ تھا کہ اس کی ذات پر سب کے سب ایمان لاتے لیکن افسوس کہ بہت سے لوگ اب تک اللہ کے بارے میں یعنی اس کی توحید اور اس کے رسولوں کی رسالت کے بارے ہی میں الجھ رہے ہیں اور محض جہالت سے ضلالت سے بغیر کسی سند اور دلیل کے اڑے ہوئے ہیں ۔ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کی نازل کردہ وحی کی اتباع کرو تو بڑی بے حیائی سے جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اپنے اگلوں کی تقلید کریں گے گو ان کے باپ دادے محض بےعقل اور بے راہ شیطان کے پھندے میں پھنسے ہوئے تھے اور اس نے انہیں دوزخ کی راہ پر ڈال دیا تھا یہ تھے ان کے سلف اور یہ ہیں ان کے خلف ۔ لقمان
21 لقمان
22 لقمان
23 مضبوط دستاویز فرماتا ہے کہ ’ جو اپنے عمل میں اخلاص پیدا کرے جو اللہ کا سچا فرمانبردار بن جائے جو شریعت کا تابعدار ہو جائے اللہ کے حکموں پر عمل کرے اللہ کے منع کردہ کاموں سے باز آ جائے اس نے مضبوط دستاویز حاصل کرلی گویا اللہ کا وعدہ لے لیا کہ عذابوں میں وہ نجات یافتہ ہے ‘ ۔ ’ کاموں کا انجام اللہ کے ہاتھ ہے ۔ اے پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کافروں کے کفر سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم غمگین نہ ہوں ۔ اللہ کی تحریر یونہی جاری ہو چکی ہے سب کا لوٹنا اللہ کی طرف ہے ۔ اس وقت اعمال کے بدلے ملیں گے اس اللہ پر کوئی بات پوشیدہ نہیں ۔ دنیا میں مزے کر لیں پھر تو ان عذابوں کو بے بسی سے برداشت کرنا پڑے گا جو بہت سخت اور نہایت گھبراہٹ والے ہیں ‘ ۔ جیسے اور آیت میں ہے «قُلْ اِنَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ لَا یُفْلِحُوْنَ» الخ ۱؎ ‏‏‏‏(10-یونس:70-69) ’ اللہ پر جھوٹ افترا کرنے والے فلاح سے محروم رہ جاتے ہیں ۔ دنیا کا فائدہ تو خیر الگ چیز ہے لیکن ہمارے ہاں [موت کے بعد] آنے کے بعد تو اپنے کفر کی سخت سزا بھگتنی پڑے گی ‘ ۔ لقمان
24 لقمان
25 حاکم اعلی وہ اللہ ہے اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ ’ یہ مشرک اس بات کو مانتے ہوئے سب کا خالق اکیلا اللہ ہی ہے پھر بھی دوسروں کی عبادت کرتے ہیں حالانکہ ان کی نسبت خود جانتے ہیں کہ یہ اللہ کے پیدا کئے ہوئے اور اس کے ماتحت ہیں ۔ ان سے اگر پوچھا جائے کہ خالق کون ہے ؟ تو انکا جواب بالکل سچا ہوتا ہے کہ اللہ! تو کہہ کہ اللہ کا شکر ہے اتنا تو تمہیں اقرار ہے ‘ ۔ بات یہ ہے کہ اکثر مشرک بے علم ہوتے ہیں ، زمین و آسمان کی ہر چھوٹی بڑی چھپی کھلی چیز اللہ کی پیدا کردہ اور اسی کی ملکیت ہے وہ سب سے بے نیاز ہے اور سب اس کے محتاج ہیں وہی سزاوار حمد ہے وہی خوبیوں والا ہے ۔ پیدا کرنے میں بھی احکام مقرر کرنے میں بھی وہی قابل تعریف ہے ۔ لقمان
26 لقمان
27 حمد و ثنا کا حق ادا کرنا کسی انسان کے بس کی بات نہیں اللہ رب العلمین اپنی عزت کبریائی ، بڑائی اور بزرگی ، جلالت اور شان بیان فرما رہا ہے ۔ اپنی پاک صفتیں اپنے بلند ترین نام اور اپنے بے شمار کلمات کا ذکر فرما رہا ہے جنہیں نہ کوئی گن سکے نہ شمار کر سکے نہ ان پر کسی کا احاطہٰ ہو نہ ان کی حقیقت کو کوئی پاسکے ۔ { سید البشر ختم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے «‏‏‏‏لاَ أُحْصِی ثَنَاءً عَلَیْکَ أَنْتَ کَمَا أَثْنَیْتَ عَلَی نَفْسِکَ» اے اللہ !میں تیری تعریفوں کا اتنا شمار بھی نہیں کرسکتا جتنی ثناء تو نے اپنے آپ فرمائی ہے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:486) پس یہاں جناب باری ارشاد فرماتا ہے کہ ’ اگر روئے زمین کے تمام تر درخت قلمیں بن جائیں اور تمام سمندر کے پانی سیاہی بن جائیں اور ان کے ساتھ ہی سات سمندر اور بھی ملالئے جائیں اور اللہ تعالیٰ کی عظمت و صفات جلالت و بزرگی کے کلمات لکھنے شروع کئے جائیں تو یہ تمام قلمیں گھس جائیں ختم ہو جائیں سب سیاہیاں پوری ہو جائیں ختم ہو جائیں لیکن اللہ «وَحدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ» کی تعریفیں ختم نہ ہوں ‘ ۔ یہ نہ سمجھا جائے کہ سات سمندر سے زیادہ ہوں تو پھر اللہ کے پورے کلمات لکھنے کے لیے کافی ہو جائیں ۔ نہیں یہ گنتی تو زیادتی دکھانے کے لیے ہے ۔ اور یہ بھی نہ سمجھا جائے کہ سات سمندر موجود ہیں اور وہ عالم کو گھیرے ہوئے ہیں البتہ بنواسرائیل کی ان سات سمندروں کی بات ایسی روایتیں ہیں لیکن نہ تو انہیں سچ کہا جا سکتا ہے اور نہ ہی جھٹلایا جا سکتا ہے ۔ ہاں جو تفسیر ہم نے کہ ہے اس کی تائید اس آیت سے بھی ہوتی ہے «‏‏‏‏قُلْ لَّوْ کَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّکَلِمٰتِ رَبِّیْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ کَلِمٰتُ رَبِّیْ وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِہٖ مَدَدًا» ۱؎ (18-الکہف:109) ، یعنی ’ اگر سمندر سیاہی بن جائیں اور رب کے کلمات کا لکھنا شروع ہو تو کلمات اللہ کے ختم ہونے سے پہلے ہی سمندر ختم ہو جائیں اگرچہ ایسا ہی اور سمندر اس کی مدد میں لائیں ‘ ۔ پس یہاں بھی مراد صرف اسی جیسا ایک ہی سمندر لانا نہیں بلکہ ویسا ایک پھر ایک اور بھی ویسا ہی پھر ویسا ہی پھر ویسا ہی الغرض خواہ کتنے ہی آجائیں لیکن اللہ کی باتیں ختم نہیں ہو سکتیں ۔ حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” اگر اللہ تعالیٰ لکھوانا شروع کرے کہ میرا یہ امر اور یہ امر تو تمام قلمیں ٹوٹ جائیں اور تمام سمندروں کے پانی ختم ہو جائیں “ ۔ مشرکین کہتے تھے کہ یہ کلام اب ختم ہو جائے گا جس کی تردید اس آیت میں ہو رہی ہے کہ نہ رب کے عجائبات ختم ہوں نہ اس کی حکمت کی انتہا نہ اس کی صفت اور اس کے علم کا آخر ۔ تمام بندوں کے علم اللہ کے علم کے مقابلے میں ایسے ہیں جیسے سمندر کے مقابلہ میں ایک قطرہ ۔ اللہ کی باتیں فنا نہیں ہوتیں نہ اسے کوئی ادراک کر سکتا ہے ۔ ہم جو کچھ اس کی تعریفیں کریں وہ ان سے سوا ہے ۔ یہود کے علماء نے مدینے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا کہ یہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن میں پڑھتے ہیں آیت «وَمَآ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا» ۱؎ (17-الإسراء:85) یعنی ’ تمہیں بہت ہی کم علم دیا گیا ہے ‘ ، اس سے کیا مراد ہے ہم یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ہاں سب } ۔ انہوں نے کہا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کلام اللہ شریف کی اس آیت کو کیا کریں گے جہاں فرمان ہے کہ توراۃ میں ہر چیز کا بیان ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { سنو وہ اور تمہارے پاس جو کچھ بھی ہے وہ سب اللہ کے کلمات کے مقابلہ میں بہت کم ہے تمہیں کفایت ہو اتنا اللہ تعالیٰ نے نازل فرمادیا ہے } ۔ اس پر آیت اتری ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:28/49:ضعیف) لیکن اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت مدنی ہونی چاہیئے حالانکہ مشہور یہ ہے کہ یہ آیت مکی ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر غالب ہے تمام اشیاء اس کے سامنے پست و عاجز ہیں کوئی اس کے ارادے کے خلاف نہیں جا سکتا اس کا کوئی حکم ٹل نہیں سکتا اس کی منشاء کو کوئی بدل نہیں سکتا ۔ وہ اپنے افعال اقوال شریعت حکمت اور تمام صفتوں میں سب سے اعلی غالب وقہار ہے ۔ پھر فرماتا ہے ’ تمام لوگوں کا پیدا کرنا اور انہیں مار ڈالنے کے بعد زندہ کر دینا مجھ پر ایسا ہی آسان ہے جیسے کہ ایک شخص کو مارنا اور پیدا کرنا ‘ ۔ اس کا تو کسی بات کو حکم فرما دینا کافی ہے ۔ ایک آنکھ جھپکانے جتنی دیر بھی نہیں لگتی ۔ نہ دوبارہ کہنا پڑے نہ اسباب اور مادے کی ضرورت ۔ ایک فرمان میں قیامت قائم ہو جائے گی ایک ہی آواز کے ساتھ سب جی اٹھیں گے ۔ اللہ تعالیٰ تمام باتوں کا سننے والا ہے سب کے کاموں کا جاننے والا ہے ۔ ایک شخص کی باتیں اور اس کے کام جیسے اس پر مخفی نہیں اسی طرح تمام جہان کے معاملات اس سے پوشیدہ نہیں ۔ لقمان
28 لقمان
29 اس کے سامنے پر چیز حقیر و پست ہے رات کو کچھ گھٹا کر دن کو کچھ بڑھانے والا اور دن کو کچھ گھٹاکر رات کو کچھ بڑھانے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ جاڑوں کے دن چھوٹے اور راتیں بڑی ، گرمیوں کے دن بڑے اور راتیں چھوٹی اسی کی قدرت کا ظہور ہے سورج چاند اسی کے تحت فرمان ہیں ۔ جو جگہ مقرر ہے وہیں چلتے ہیں قیامت تک برابر اسی چال چلتے رہیں گے اپنی جگہ سے ادھر ادھر نہیں ہو سکتے ۔ بخاری و مسلم میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ { جانتے ہو یہ سورج کہاں جاتا ہے ؟ } جواب دیا کہ ” اللہ اور اس کے رسول خوب جانتے ہیں “ ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { یہ جا کر اللہ کے عرش کے نیچے سجدے میں گر پڑتا ہے اور اپنے رب سے اجازت چاہتا ہے قریب ہے کہ ایک دن اس سے کہہ دیا جائے کہ جہاں سے آیا ہے وہیں لوٹ جا } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3199) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ ” سورج بمنزلہ ساقیہ کے ہے دن کو اپنے دوران میں جاری رہتا ہے غروب ہو کر رات کو پھر زمین کے نیچے گردش میں رہتا ہے یہاں تک کہ اپنی مشرق سے ہی طلوع ہوتا ہے ۔ اسی طرح چاند بھی “ ۔ ’ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے خبردار ہے ‘ جیسے فرمان ہے «أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللہَ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ» (22-الحج:70) ’ کیا تو نہیں جانتا کہ زمین آسمان میں جو کچھ ہے سب اللہ کے علم میں ہے سب کا خالق سب کا عالم اللہ ہی ہے‘ ۔ جیسے ارشاد ہے « اللہُ الَّذِی خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَہُنَّ یَتَنَزَّلُ الْأَمْرُ بَیْنَہُنَّ لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللہَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ وَأَنَّ اللہَ قَدْ أَحَاطَ بِکُلِّ شَیْءٍ عِلْمًا» (65-الطلاق:12)’ اللہ نے سات آسمان پیدا کئے اور انہی کے مثل زمینیں بنائیں ‘ ۔ ’ یہ نشانیاں پروردگار عالم اس لیے ظاہر فرماتا ہے کہ تم ان سے اللہ کے حق وجود پر ایمان لاؤ اور اس کے سوا سب کو باطل مانو ‘ ۔ وہ سب سے بے نیاز اور بے پرواہ ہے سب کے سب اس کے محتاج اور اس کے در کے فقیر ہیں ۔ سب اس کی مخلوق اور اس کے غلام ہیں ۔ کسی کو ایک ذرے کے حرکت میں لانے کی قدرت نہیں ۔ گو ساری مخلوق مل کر ارادہ کر لے کہ ایک مکھی پیدا کریں سب عاجز آ جائیں گے اور ہرگز اتنی قدرت بھی نہ پائیں گے ۔ وہ سب سے بلند ہے جس پر کوئی چیز نہیں ۔ وہ سب سے بڑا ہے جس کے سامنے کسی کی کوئی بڑائی نہیں ۔ ہر چیز اس کے سامنے حقیر اور پست ہے ۔ لقمان
30 لقمان
31 طوفان میں کون یاد آتا ہے؟ اللہ کے حکم سے سمندروں میں جہاز رانی ہو رہی ہے اگر وہ پانی میں کشتی کو تھامنے کی اور کشتی میں پانی کو کاٹنے کی قوت نہ رکھتا تو پانی میں کشتیاں کیسے چلتیں ؟ وہ تمہیں اپنی قدرت کی نشانیاں دکھارہا ہے مصیبت میں صبر اور راحت میں شکر کرنے والے ان سے بہت کچھ عبرتیں حاصل کر سکتے ہیں ۔ جب ان کفار کو سمندروں میں موجیں گھیر لیتی ہیں اور ان کی کشتی ڈگمگانے لگتی ہے اور موجیں پہاڑوں کی طرح ادھر سے ادھر ادھر سے ادھر کشتیوں کے ساتھ اٹھکیلیاں کرنے لگتی ہیں تو اپنا شرک کفر سب بھول جاتے ہیں اور گریہ وزاری سے ایک اللہ کو پکارنے لگتے ہیں ۔ جیسے اور جگہ ہے آیت «وَاِذَا مَسَّکُمُ الضٰرٰ فِی الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُوْنَ اِلَّآ اِیَّاہُ» ۱؎ ‏‏‏‏(17-الإسراء:67) ، ’ دریا میں جب تمہیں ضرر پہنچتا ہے تو بجز اللہ کے سب کو کھو بیٹھتے ہو ‘ ۔ اور آیت میں ہے «افَإِذَا رَکِبُوا فِی الْفُلْکِ دَعَوُا اللہَ مُخْلِصِینَ لَہُ الدِّینَ فَلَمَّا نَجَّاہُمْ إِلَی الْبَرِّ إِذَا ہُمْ یُشْرِکُونَ» ۱؎ (29-العنکبوت:65) ’ ان کی اس وقت کی لجاجت پر اگر ہمیں رحم آگیا ہو اور جب انہیں سمندر سے پار کر دیا تو تھوڑے سے کافر ہو جاتے ہیں ‘ ۔ مجاہد رحمہ اللہ نے یہی تفیسر کی ہے جیسے فرمان ہے آیت «فَلَمَّا نَجَّاہُمْ إِلَی الْبَرِّ إِذَا ہُمْ یُشْرِکُونَ» ۱؎ (29-سورۃالعنکبوت:65) لفظی معنی یہ ہیں کہ ’ ان میں سے بعض متوسط درجے کے ہوتے ہیں ‘ سیدنا ابن زید رضی اللہ عنہ یہی کہتے ہیں جیسے فرمان ہے آیت «ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْکِتَابَ الَّذِینَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَا فَمِنْہُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِہِ وَمِنْہُم مٰقْتَصِدٌ وَمِنْہُمْ سَابِقٌ بِالْخَیْرَاتِ بِإِذْنِ اللہِ ذٰلِکَ ہُوَ الْفَضْلُ الْکَبِیرُ»‏‏‏‏ ۱؎ (35-فاطر:32) ، ’ ان میں سے بعض ظالم ہیں بعض میانہ رو ہیں ‘ ۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دونوں ہی مراد ہوں تو مطلب یہ ہوگا کہ جس نے ایسی حالت دیکھی ہو جو اس مصیبت سے نکلا ہو اسے تو چاہئیے کہ نیکیوں میں پوری طرح کوشش کرے لیکن تاہم یہ بیچ میں ہی رہ جاتے ہیں اور کچھ تو پھر کفر پر چلے جاتے ہیں ۔ «خَتَّار» کہتے ہیں غدار کو جو عہد شکن ہو ۔ «خَتْرِ» کے معنی پوری عہد شکنی کے ہیں ۔ «کَفُورٌ» کہتے ہیں منکر کو جو نعمتوں سے نٹ جائے منکر ہو جائے ، شکر تو ایک طرف بھول جائے اور ذکر بھی نہ کرے ۔ لقمان
32 لقمان
33 اللہ تعالٰی کے روبرو کیا ہو گا اللہ تعالیٰ لوگوں کو قیامت کے دن سے ڈرا رہا ہے اور اپنے تقوے کا حکم فرما رہا ہے ۔ ارشاد ہے ’ اس دن باپ اپنے بچے کو یا بچہ اپنے باپ کو کچھ کام نہ آئے گا ۔ ایک دوسرے کا فدیہ نہ ہو سکے گا ۔ تم دنیا پر اعتماد کرنے والو آخرت کو فراموش نہ کر جاؤ ، شیطان کے فریب میں نہ آ جاؤ ، وہ تو صرف پردہ کی آڑ میں شکار کھیلنا جانتا ہے ‘ ۔ ابن ابی حاتم میں ہے عزیر علیہ السلام نے جب اپنی قوم کی تکلیف ملاحظہ کی اور غم ورنج بہت بڑھ گیا نیند اچاٹ ہو گئی تو اپنے رب کی طرف جھک پڑے ۔ فرماتے ہیں میں نے نہایت تضرع و زاری کی ، خوب رویا گڑگڑایا نمازیں پڑھیں روزے رکھے دعائیں مانگیں ۔ ایک مرتبہ رو رو کر تضرع کر رہا تھا کہ میرے سامنے ایک فرشتہ آ گیا میں نے اس سے پوچھا کیا نیک لوگ بروں کی شفاعت کریں گے ؟ یا باپ بیٹوں کے کام آئیں گے ؟ اس نے فرمایا کہ ” قیامت کا دن جھگڑوں کے فیصلوں کا دن ہے اس دن اللہ خود سامنے ہو گا کوئی بغیر اس کی اجازت کے لب نہ ہلا سکے گا کسی کو دوسرے کے بدلے نہ پکڑا جائے گا نہ باپ بیٹے کے بدلے نہ بیٹا باپ کے بدلے نہ بھائی بھائی کے بدلے نہ غلام آقا کے بدلے نہ کوئی کسی کا غم ورنج کرے گا نہ کسی کی طرف سے کسی کو خیال ہو گا نہ کسی پر رحم کرے گا نہ کسی کو کسی سے شفقت ومحبت ہو گی ۔ نہ ایک دوسرے کی طرف پکڑا جائے گا ۔ ہر شخص نفسانفسی میں ہو گا ہر ایک اپنی فکر میں ہو گا ہر ایک کو اپنا رونا پڑا ہو گا ہر ایک اپنابوجھ اٹھائے ہوئے ہو گا کسی اور کا نہیں “ ۔ لقمان
34 غیب کی پانچ باتیں یہ غیب کی وہ کنجیاں ہیں جن کا علم بجز اللہ تعالیٰ کے کسی اور کو نہیں ۔ مگر اس کے بعد کہ اللہ اسے علم عطا فرمائے ۔ قیامت کے آنے کا صحیح وقت نہ کوئی نبی مرسل جانے نہ کوئی مقرب فرشتہ ، اس کا وقت صرف اللہ ہی جانتا ہے اسی طرح بارش کب اور کہاں اور کتنی برسے گی اس کا علم بھی کسی کو نہیں ہاں جب فرشتوں کو حکم ہوتا ہے جو اس پر مقرر ہیں تب وہ جانتے ہیں اور جسے اللہ معلوم کرائے ۔ اسی طرح حاملہ کے پیٹ میں کیا ہے ؟ اسے بھی صرف اللہ ہی جانتا ہے ہاں جب جناب باری تعالیٰ کی طرف سے فرشتوں کو حکم ہوتا ہے جو اسی کام پر مقرر ہیں تب انہیں پتا چلتا ہے کہ نر ہو گا یا مادہ ، لڑکا ہو گا یا لڑکی ، نیک ہو گا یا بد ؟ اسی طرح کسی کو یہ بھی معلوم نہیں کہ کل وہ کیا کرے گا ؟ نہ کسی کو یہ علم ہے کہ وہ کہاں مرے گا ؟ اور آیت میں ہے «وَعِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُہَآ اِلَّا ہُوَ» ۱؎ (6-الانعام:59) ’ غیب کی کنجیاں اللہ ہی کے پاس ہیں جنہیں بجز اس کے اور کوئی نہیں جانتا ‘ ۔ اور حدیث میں ہے کہ { غیب کی کنجیاں یہاں پانچ چیزیں ہیں جن کا بیان آیت «‏‏‏‏اِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗ عِلْمُ السَّاعَۃِ وَیُنَزِّلُ الْغَیْثَ وَیَعْلَمُ مَا فِی الْاَرْحَامِ وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌ مَّاذَا تَکْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌ بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ» ۱؎ (31-لقمان:34) میں ہے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:353/5:صحیح) مسند احمد میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { پانچ باتیں ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی } } ۔ بخاری کی حدیث کے الفاظ تو یہ ہیں کہ { یہ پانچ غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا } ۔۱؎ (صحیح بخاری:1039) مسند احمد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے { مجھے ہر چیز کی کنجیاں دی گئی ہیں سوائے پانچ کے پھر یہی آیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھی } ۔ ۱؎ (مسند احمد:85/2:صحیح) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہماری مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے جو ایک صاحب تشریف لائے اور پوچھنے لگے ایمان کیا چیز ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اللہ کو ، فرشتوں کو ،کتابوں کو ، رسولوں کو ، آخرت کو ، مرنے کے بعد جی اٹھنے کو مان لینا } ۔ اس نے پوچھا اسلام کیا ہے ؟ فرمایا : { ایک اللہ کی عبادت کرنا اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا نمازیں پڑھنا ، زکوٰۃ دینا ، رمضان کے روزے رکھنا } ۔ اس نے دریافت کیا احسان کیا ہے ؟ فرمایا : { تیرا اس طرح اللہ کی عبادت کرنا کہ گویا تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو نہیں دیکھتا تو وہ تجھے دیکھ رہا ہے } ۔ اس نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کب ہے ؟ فرمایا : { اس کا علم نہ مجھے اور نہ تجھے ہاں اس کی کچھ نشانیاں میں تمہیں بتادیتا ہوں ۔ جب لونڈی اپنے سردار کو جنے اور جب ننگے پیروں اور ننگے بدنوں والے لوگوں کے سردار بن جائیں ۔ علم قیامت ان پانچ چیزوں میں سے ایک ہے جنہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا } پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی آیت کی تلاوت کی ۔ وہ شخص واپس چلا گیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { جاؤ اسے لوٹا لاؤ } لوگ دوڑ پڑے لیکن وہ کہیں بھی نظر نہ آیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ { یہ جبرائیل علیہ السلام تھے لوگوں کو دین سکھانے آئے تھے } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4777) ہم نے اس حدیث کا مطلب شرح صحیح بخاری میں خوب بیان کیا ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ { جبرائیل علیہ السلام نے اپنی ہتھیلیاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنوں پر رکھ کر یہ سوالات کیے تھے کہ اسلام کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ { تو اپنا چہرہ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ کر دے اور اللہ کے وحدہ لاشریک ہونے کی گواہی دے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عبد و رسول ہونے کی ۔ جب تو یہ کر لے تو تو مسلمان ہو گیا } ۔ پوچھا ، اچھا ایمان کس کا نام ہے ؟ فرمایا : { اللہ پر ، آخرت کے دن پر ، فرشتوں پر ، کتابوں پر ، نبیوں پر عقیدہ رکھنا ۔ موت اور موت کے بعد کی زندگی کو ماننا ، جنت دوزخ ، حساب ، میزان ، اور تقدیر کی بھلائی برائی پر ایمان رکھنا } ۔ پوچھا جب میں ایسا کر لوں تو مومن ہو جاؤں گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ہاں } ۔ پھر احسان کیا پوچھا اور جواب پایا جو اوپر مذکور ہوا ہے ۔ پھر قیامت کا پوچھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { سبحان اللہ! یہ ان پانچ چیزوں میں ہے جنہیں صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے } ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی آیت تلاوت کی } ۔ پھر نشانیوں میں یہ بھی ذکر ہے کہ { لوگ لمبی چوڑی عمارتیں بنانے لگیں گے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:319/1:حسن بالشواہد) ایک صحیح سند کے ساتھ مسند احمد میں مروی ہے کہ { بنو عامر قبیلے کا ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا کہنے لگا میں آؤں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خادم کو بھیجا کہ { جا کر انہیں ادب سکھاؤ یہ اجازت مانگنا نہیں جانتے ۔ ان سے کہو پہلے سلام کرو پھر دریافت کرو کہ میں آسکتا ہوں ؟ } انہوں نے سن لیا اور اسی طرح سلام کیا اور اجازت چاہی یہ گئے اور جا کر کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے کیا لے کر آئے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { بھلائی ہی بھلائی ۔ سنو! تم ایک اللہ کی عبادت کرو لات وعزیٰ کو چھوڑ دو ، دن رات میں پانچ نمازیں پڑھاکرو سال بھر میں ایک مہینے کے روزے رکھو اپنے مالداروں سے زکوٰۃ وصول کر کے اپنے فقیروں پر تقسیم کرو } ۔ انہوں نے دریافت کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا علم میں سے کچھ ایساباقی ہے جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ جانتے ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ہاں ایسا علم بھی ہے جسے بجز اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا } ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی آیت پڑھی } ۔ ۱؎ (مسند احمد:369/5:قال الشیخ الألبانی:صحیح) مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں گاؤں کے رہنے والے ایک شخص نے آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تھا کہ میری عورت حمل سے ہے بتلائے کیا بچہ ہوگا ؟ ہمارے شہر میں قحط ہے فرمائیے بارش کب ہوگی ؟ یہ تو میں نہیں جانتا کہ میں کب پیدا ہوا لیکن یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم معلوم کرادیجئیے کہ کب مرونگا ؟ اس کے جواب میں یہ آیت اتری کہ ’ مجھے ان چیزوں کا مطلق علم نہیں ‘ ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہی غیب کی کنجیاں ہیں جن کے بارے میں فرمان باری ہے کہ غیب کی کنجیاں صرف اللہ ہی کے پاس ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:28173:مرسل) سیدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ” جو تم سے کہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کل کی بات کا جانتے تھے تو سمجھ لینا کہ وہ سب سے بڑا جھوٹا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ کوئی نہیں جانتا کہ کل کیا ہو گا “ ۔ قتادۃ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کا علم اللہ تعالیٰ نے کسی کو نہیں دیا نہ نبی کو نہ فرشتہ کو اللہ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے کوئی نہیں جانتا کہ کس سال کس مہینے کس دن یا کس رات میں وہ آئے گی ۔ اسی طرح بارش کا علم بھی اس کے سوا کسی کو نہیں کہ کب آئے ؟ اور کوئی نہیں جانتا کہ حاملہ کے پیٹ میں بچہ نر ہو گا یا مادہ سرخ ہو گا یا سیاہ ؟ اور کوئی نہیں جانتا کہ کل وہ نیکی کرے گا یا بدی کرے گا ؟ مرے گا یا جئے گا بہت ممکن ہے کل موت یا آفت آ جائے ۔ نہ کسی کو یہ خبر ہے کہ کس زمین میں وہ دبایا جائے گا یا سمندر میں بہایا جائے گا یا جنگل میں مرے گا یا نرم یاسخت زمین میں جائے گا “ ۔ حدیث شریف میں ہے { جب کسی کو موت دوسری زمین میں ہوتی ہے تو اس کا وہیں کا کوئی کام نکل آتا ہے اور وہیں موت آ جاتی ہے } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2146،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اور روایت میں ہے کہ { یہ فرما کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی } ۔ اعشی ہمدان کے شعر ہیں جن میں اس مضمون کو نہایت خوبصورتی سے ادا کیا ہے ۔ ایک روایت میں ہے کہ { قیامت کے دن زمین اللہ تعالیٰ سے کہے گی کہ یہ ہیں تیری امانتیں جو تو نے مجھے سونپ رکھی تھیں } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:4263،قال الشیخ الألبانی:صحیح) طبرانی وغیرہ میں بھی یہ حدیث ہے ۔ «اَلْحَمْدُ لِلہِ» سورہ لقمان کی تفسیر ختم ہوئی ۔ لقمان
0 السجدة
1 قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا سورتوں کے شروع میں جو حروف مقطعات ہیں ان کی پوری بحث ہم سورۃ البقرہ کے شروع میں کر چکے ہیں ، یہاں دوبارہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں ۔ یہ کتاب قرآن حکیم بیشک وشبہ اللہ رب العلمین کی طرف سے نازل ہوا ہے ۔ مشرکین کا یہ قول غلط ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اسے گھڑلیا ہے ۔ نہیں یہ تو یقیناً اللہ کی طرف سے ہے اس لیے اترا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس قوم کو ڈراوے کے ساتھ آگاہ کردیں جن کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کوئی اور پیغمبر نہیں آیا ، تاکہ وہ حق کی اتباع کر کے نجات حاصل کرلیں ۔ السجدة
2 السجدة
3 السجدة
4 ہر ایک کی نکیل اللہ جل شانہ کے ہاتھ میں ہے تمام چیزوں کا خالق اللہ ہے ۔ اس نے چھ دن میں زمین و آسمان بنائے پھر عرش پر قرار پکڑا ۔ اس کی تفسیر گزرچکی ہے ۔ مالک و خالق وہی ہے ہرچیز کی نکیل اسی کے ہاتھ میں ہے ۔ تدبیریں سب کاموں کی وہی کرتا ہے ہرچیز پر غلبہ اسی کا ہے ۔ اس کے سوا مخلوق کا نہ کوئی والی نہ اس کی اجازت کے بغیر کوئی سفارشی ۔ اے وہ لوگو جو اس کے سوا اوروں کی عبادت کرتے ہو ، دوسروں پربھروسہ کرتے ہو کیا تم نہیں سمجھ سکتے کہ اتنی بڑی قدرتوں والا کیوں کسی کو اپنا شریک کار بنانے لگا ؟ وہ برابری سے ، وزیر و مشیر سے شریک و سہیم سے پاک منزہ اور مبرا ہے ۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں نہ اس کے علاوہ کوئی پالنہار ہے ۔ نسائی میں ہے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہیں { میرا ہاتھ تھام کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان اور ان کے درمیان کی تمام چیزیں پیدا کرکے ساتویں دن عرش پر قیام کیا ۔ مٹی ہفتے کے دن بنی ، پہاڑ اتوار کے دن ، درخت سوموار کے دن ، برائیاں منگل کے دن ، نور بدھ کے دن ، جانور جمعرات کے دن ، آدم جمعہ کے دن عصر کے بعد دن کی آخری گھڑی میں اسے تمام روئے زمین کی مٹی سے پیدا کیا جس میں سفید وسیاہ اچھی بری ہر طرح کی تھی اسی باعث اولاد آدم بھی بھلی بری ہوئی } } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2789) امام بخاری اسے معلل بتلاتے ہیں فرماتے ہیں اور سند سے مروی ہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اسے کعب احبار رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے اور حضرات محدثین نے بھی اسے معلول بتلایا ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ السجدة
5 1 اس کا حکم ساتوں آسمانوں کے اوپر سے اترتا ہے اور ساتوں زمینوں کے نیچے تک پہنچتا ہے جیسے اور آیت میں ہے «اَللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَہُنَّ یَـتَنَزَّلُ الْاَمْرُ بَیْنَہُنَّ لِتَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ڏ وَّاَنَّ اللّٰہَ قَدْ اَحَاطَ بِکُلِّ شَیْءٍ عِلْمًا» ۱؎ (65-الطلاق:12) ’ اللہ تعالیٰ نے سات آسمان بنائے اور انہی کے مثل زمینیں اس کا حکم ان سب کے درمیان اترتا ہے ‘ ۔ اعمال اپنے دیوان کی طرف اٹھائے اور چڑھائے جاتے ہیں جو آسمان دنیا کے اوپر ہے ۔ زمین سے آسمان اول پانچ سو سال کے فاصلہ پر ہے اور اتنا ہی اس کا گھیراؤ ہے ۔ اتنا اترنا چڑھنا اللہ کی قدرت سے فرشتہ ایک آنکھ جھپکنے میں کر لیتا ہے ۔ اسی لیے فرمایا ’ ایک دن میں جس کی مقدار تمہاری گنتی کے اعتبار سے ایک ہزار سال کی ہے ‘ ۔ ان امور کا مدبر اللہ ہے وہ اپنے بندوں کے اعمال سے باخبر ہے ۔ سب چھوٹے بڑے عمل اس کی طرف چڑھتے ہیں ۔ وہ غالب ہے جس نے ہرچیز کو اپنے ماتحت کر رکھا ہے کل بندے اور کل گردنیں اس کے سامنے جھکی ہوئی ہیں وہ اپنے مومن بندوں پر بہت ہی مہربان ہے عزیز ہے اپنی رحمت میں اور رحیم ہے اپنی عزت میں ۔ السجدة
6 السجدة
7 بہترین خالق بہترین مصور و مدور فرماتا ہے ’ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہرچیز کو قرینے سے بہترین طور سے ترکیب پر خوبصورت بنائی ہے ۔ ہرچیز کی پیدائش کتنی عمدہ کیسی مستحکم اور مضبوط ہے ۔ آسمان و زمین کی پیدائش کے ساتھ ہی خود انسان کی پیدائش پر غور کرو ۔ اس کا شروع دیکھو کہ مٹی سے پیدا ہوا ہے ‘ ۔ ابوالبشر آدم علیہ السلام مٹی سے پیدائے ہوئے ، پر ان کی نسل نطفے سے جاری رکھی جو مرد کی پیٹھ اور عورت کے سینے سے نکلتا ہے ۔ پھر اسے یعنی آدم کو مٹی سے پیدا کرنے کے بعد ٹھیک ٹھاک اور درست کیا اور اس میں اپنے پاس کی روح پھونکی ۔ تمہیں کان آنکھ سمجھ عطا فرمائی ۔ افسوس کہ پھر بھی تم شکر گزاری میں کثرت نہیں کرتے ۔ نیک انجام اور خوش نصیب وہ شخص ہے جو اللہ کی دی ہوئی طاقتوں کو اسی کی راہ میں خرچ کرتا ہے ۔ «جَلَّ شَاْنُہ وَ عَزَّاسْمُہ» السجدة
8 السجدة
9 السجدة
10 انسان اور فرشتوں کا ساتھ کفار کا عقیدہ بیان ہو رہا ہے کہ وہ مرنے کے بعد جینے کے قائل نہیں ، اور اسے وہ محال جانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب ہمارے ریزے ریزے جدا ہو جائیں گے اور مٹی میں مل کر مٹی ہو جائیں گے پھر بھی کیا ہم نئے سرے سے بنائے جا سکتے ہیں ؟ افسوس یہ لوگ اپنے اوپر اللہ کو بھی قیاس کرتے ہیں اور اپنی محدود قدرت پر اللہ کی نامعلوم قدرت کا اندازہ کرتے ہیں ۔ مانتے ہیں جانتے ہیں کہ اللہ نے اول بار پیدا کیا ہے ۔ تعجب ہے پھر دوبارہ پیدا کرنے پر اسے قدرت کیوں نہیں مانتے ؟ حالانکہ اس کا تو صرف فرمان چلتا ہے ۔ جہاں کہا یوں ہو جا وہیں ہو گیا ۔ اسی لیے فرما دیا کہ ’ انہیں اپنے پروردگار کی ملاقات سے انکار ہے ‘ ۔ ‎ اس کے بعد فرمایا کہ ’ ملک الموت جو تمہاری روح قبض کرنے پر مقرر ہیں تمہیں فوت کر دیں گے ‘ ۔ اس آیت میں بظاہر تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ ملک الموت ایک فرشتہ کا لقب ہے ۔ براء کی وہ حدیث جس کا بیان سورۃ ابراہیم میں گزرچکا ہے اس سے بھی پہلی بات سمجھ میں آتی ہے اور بعض آثار میں ان کا نام عزرائیل بھی آیا ہے اور یہی مشہور ہے ۔ ہاں ان کے ساتھی اور ان کے ساتھ کام کرنے والے فرشتے بھی ہیں جو جسم سے روح نکالتے ہیں اور نرخرے تک پہنچ جانے کے بعد ملک الموت اسے لے لیتے ہیں ۔ ان کے لیے زمین سمیٹ دی گئی ہیں اور ایسی ہی ہے جیسے ہمارے سامنے کوئی طشتری رکھی ہوئی ہو ، کہ جو چاہا اٹھا لیا ۔ ایک مرسل حدیث بھی اس مضمون کی ہے ۔ ۱؎ (الدر المنشور للسیوطی:332/5:مرسل ضعیف) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا مقولہ بھی ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ { ایک انصاری کے سرہانے ملک الموت کو دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ملک الموت میرے صحابی رضی اللہ عنہ کے ساتھ آسانی کیجئے } ۔ آپ نے جواب دیا کہ ” اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تسکین خاطر رکھئے اور دل خوش کیجئے واللہ میں خود با ایمان اور نہایت نرمی کرنے والا ہوں ۔ سنو ! یا رسول صلی اللہ علیہ وسلم قسم ہے اللہ کی تمام دنیا کے ہر کچے پکے گھر میں خواہ وہ خشکی میں ہو یاتری میں ہر دن میں میرے پانچ پھیرے ہوتے ہیں ۔ ہر چھوٹے بڑے کو میں اس سے بھی زیادہ جانتا ہوں جتنا وہ اپنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جانتا ہے ۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقین مانئے اللہ کی قسم میں تو ایک مچھر کی جان قبض کرنے کی بھی قدرت نہیں رکھتاجب تک مجھے اللہ کا حکم نہ ہو “ } ۔ حضرت جعفر رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ ” ملک الموت علیہ السلام کا دن میں پانچ وقت ایک ایک شخص کو ڈھونڈ بھال کرنا یہی ہے کہ آپ پانچوں نمازوں کے وقت دیکھ لیاکرتے ہیں اگر وہ نمازوں کی حفاظت کرنے والا ہو تو فرشتے اس کے قریب رہتے ہیں اور شیطان اس سے دور رہتا ہے اور اس کے آخری وقت فرشتہ اسے «لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللہِ » کی تلقین کرتا ہے “ ۔ ۱؎ (ابو شیخ فی العظمتہ:475:ضعیف) مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” ہر دن ہر گھر پر ملک الموت دو دفعہ آتے ہیں “ ۔ کعب احبار رحمہ اللہ اس کے ساتھ ہی یہ بھی فرماتے ہیں کہ ” ہر دروازے پر ٹھہر کر دن بھر میں سات مرتبہ نظر مارتے ہیں کہ اس میں کوئی وہ تو نہیں جس کی روح نکالنے کا حکم ہو چکا ہو “ ۔ پھر قیامت کے دن سب کا لوٹنا اللہ کی طرف ہے قبروں سے نکل کر میدان محشر میں اللہ کے سامنے حاضر ہو کر اپنے اپنے کئے کا پھل پانا ہے ۔ السجدة
11 السجدة
12 ناعاقبت اندیشو اب خمیازہ بھگتو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب یہ گنہگار اپنا دوبارہ جینا خود اپنے آنکھوں سے دیکھ لیں گے اور نہایت ذلت و حقارت کے ساتھ نادم ہو کر گردنیں جھکائے سر ڈالے اللہ کے سامنے کھڑے ہونگے ، اس وقت کہیں گے کہ اے اللہ ہماری آنکھیں روشن ہو گئیں کان کھل گئے ۔ اب ہم تیرے احکام کی بجا آوری کے لیے ہر طرح تیار ہیں اس دن خوب سوچ سمجھ والے دانا بینا ہو جائیں گے ، سب اندھا وبہرا پن جاتا رہے گا خود اپنے تئیں ملامت کرنے لگیں گے اور جہنم میں جاتے ہوئے کہیں گے ہمیں پھر دنیا میں بھیج دے تو ہم نیک اعمال کر آئیں ہمیں اب یقین ہو گیا ہے کہ تیری ملاقات سچ ہے تیرا کلام حق ہے ۔ لیکن اللہ کو خوب معلوم ہے کہ یہ لوگ اگر دوبارہ بھی بھیجے جائیں تو یہی حرکت کریں گے ۔ پھر سے اللہ کی آیتوں کو جھٹلائیں گے دوبارہ نبیوں کو ستائیں گے ۔ جیسے کہ خود قرآن کریم کی آیت «وَلَوْ تَرٰٓی اِذْ وُقِفُوْا عَلَی النَّارِ فَقَالُوْا یٰلَیْتَنَا نُرَدٰ وَلَا نُکَذِّبَ بِاٰیٰتِ رَبِّنَا وَنَکُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ» ۱؎ (6-الأنعام:27) میں ہے ، اسی لیے یہاں فرماتا ہے کہ ’ اگر ہم چاہتے تو ہر شخص کو ہدایت دے دیتے ‘ ، جیسے فرمان ہے «وَلَوْ شَاءَ رَبٰکَ لَآمَنَ مَنْ فِی الْأَرْضِ کُلٰہُمْ جَمِیعًا» ۱؎ (10-یونس:99) ’ اگر تیرا رب چاہتا تو زمین کا ایک ایک رہنے والا مومن بن جاتا ‘ ۔ لیکن اللہ کا یہ فیصلہ صادر ہو چکا ہے کہ انسان اور جنات سے جہنم پر ہونا ہے ۔ اللہ کی ذات اور اس کے پورپورے کلمات کا یہ اٹل امر ہے ۔ ہم اس کے تمام عذابوں سے پناہ چاہتے ہیں ۔ دوزخیوں سے بطور سرزنش کے کہا جائے گا کہ ’ اس دن کی ملاقات کی فراموشی کا مزہ چکھو ، اور اس کے جھٹلانے کا خمیازہ بھگتو ۔ اسے محال سمجھ کر تم نے وہ معاملہ کیا کہ جو ہر ایک بھولنے والا کیا کرتا ہے ، اب ہم بھی تمہارے ساتھ یہی سلوک کریں گے ‘ ۔ اللہ کی ذات حقیقی نسیان اور بھول سے پاک ہے ۔ یہ تو صرف بدلے کے طور پر فرمایا گیا ہے ۔ چنانچہ اور آیت میں بھی ہے «وَقِیْلَ الْیَوْمَ نَنْسٰـیکُمْ کَمَا نَسِیْتُمْ لِقَاءَ یَوْمِکُمْ ھٰذَا وَمَاْوٰیکُمُ النَّارُ وَمَا لَکُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَ» ۱؎ (45-الجاثیۃ:34) ’ آج ہم تمہیں بھول جاتے ‘ جیسے اور آیت میں ہے «لَا یَذُوقُونَ فِیہَا بَرْدًا وَلَا شَرَابًا إِلَّا حَمِیمًا وَغَسَّاقًا جَزَاءً وِفَاقًا إِنَّہُمْ کَانُوا لَا یَرْجُونَ حِسَابًا وَکَذَّبُوا بِآیَاتِنَا کِذَّابًا وَکُلَّ شَیْءٍ أَحْصَیْنَاہُ کِتَابًا فَذُوقُوا فَلَنْ نَزِیدَکُمْ إِلَّا عَذَابًا» ۱؎ (78-النبأ:24-30) ’ وہاں ٹھنڈک اور پانی نہ رہے گا سوائے گرم پانی اور لہو پیپ کے اور کچھ نہ ہوگا ‘ ۔ السجدة
13 السجدة
14 السجدة
15 ایماندار وہی ہے جس کے اعمال تابع قرآن ہوں! ’ سچے ایمانداروں کی نشانی یہ ہے کہ وہ دل کے کانوں سے ہماری آیتوں کو سنتے ہیں اور ان پر عمل کرتے ہیں ۔ زبانی حق مانتے ہیں اور دل سے بھی برحق جانتے ہیں ۔ سجدہ کرتے ہیں اور اپنے رب کی تسبیح اور حمد بیان کرتے ہیں ۔ اور اتباع حق سے جی نہیں چراتے ۔ نہ اکڑتے ضد کرتے ہیں ۔ یہ بدعات کافروں کی ہے ‘ ۔ جیسے فرمایا آیت «اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَہَنَّمَ دٰخِرِیْنَ» ۱؎ (40-غافر:60) یعنی ’ میری عبادت سے تکبر کرنے والے ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں جائیں گے ‘ ۔ ’ ان سچے ایمانداروں کی ایک یہ بھی علامت ہے کہ وہ راتوں کو نیند چھوڑ کر اپنے بستروں سے الگ ہو کر نمازیں ادا کرتے ہیں ، تہجد پڑھتے ہیں ‘ ۔ مغرب عشاء کے درمیان کی نماز بھی بعض نے مراد لی ہیں ۔ کوئی کہتا ہے مراد اس سے عشاء کی نماز کا انتظار ہے ۔ اور قول ہے کہ عشاء کی اور صبح کی نمازیں باجماعت اس سے مراد ہے ، وہ اللہ سے دعائیں کرتے ہیں اس کے عذابوں سے نجات کے لیے اور اس کی نعمتیں حاصل کرنے کے لیے ساتھ ہی صدقہ خیرات بھی کرتے رہتے ہیں ۔ اپنی حیثیت کے مطابق راہ اللہ میں دیتے رہتے ہیں ۔ وہ نیکیاں بھی کرتے ہیں جن کا تعلق انہی کی ذات سے ہے ۔ اور وہ نیکیاں بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے جن کا تعلق دوسروں سے ہے ۔ ان بہترین نیکیوں میں سب سے بڑھے ہوئے وہ ہیں جو درجات میں بھی سب سے آگے ہیں ۔ یعنی سید اولاد آدم فخر دو جہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۔ جیسے کہ عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے شعروں میں ہے ؎ «وَفِینَا رَسُولُ اللہِ یَتْلُو کِتَابَہُ إِذَا انْشَقَّ مَعْرُوفٌ مِنَ الصٰبْحِ سَاطِعُ» «أَرَانَا الْہُدَی بَعْدَ الْعَمَی فَقُلُوبُنَا بِہِ مُوقِنَاتٌ أَنَّ مَا قَالَ وَاقِعُ» «یَبِیتُ یُجَافِی جَنْبَہُ عَنْ فِرَاشِہِ إِذَا اسْتَثْقَلَتْ بِالْمُشْرِکِینَ الْمَضَاجِعُ» یعنی ہم میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو صبح ہوتے ہی اللہ کی پاک کتاب کی تلاوت کرتے ہیں ، راتوں کو جبکہ مشرکین گہری نیند میں سوتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کروٹ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر سے الگ ہوتی ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { اللہ تعالیٰ دو شخصوں سے بہت ہی خوش ہوتا ہے ایک تو وہ جو رات کو میٹھی نیند سویا ہوا ہے لیکن دفعۃً اپنے رب کی نعمتیں اور اس کی سزائیں یاد کرکے اٹھ بیٹھتا ہے اپنے نرم وگرم بسترے کو چھوڑ کر میرے سامنے کھڑا ہو کر نماز شروع کر دیتا ہے ۔ دوسرا شخص وہ ہے جو ایک غزوے میں ہے کافروں سے لڑتے لڑتے مسلمانوں کا پانسہ کمزور پڑ جاتا ہے لیکن یہ شخص یہ سمجھ کر کہ بھاگنے میں اللہ کی ناراضگی ہے اور اگے بڑھنے میں رب کی رضا مندی ہے میدان کی طرف لوٹتا ہے اور کافروں سے جہاد کرتا ہے یہاں تک کہ اپنا سر اس کے نام پر قربان کر دیتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فخر سے اپنے فرشتوں کو اسے دکھاتا ہے اور اس کے سامنے اس کے عمل کی تعریف کرتا ہے } } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:3536 ، قال الشیخ الألبانی:حسن) مسند احمد میں ہے { سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھا صبح کے وقت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہی چل رہا تھا میں نے پوچھا اے اللہ کے نبی مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جو مجھے جنت میں پہنچا دے اور جہنم سے الگ کر دے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { تو نے سوال تو بڑے کام کا کیا ہے لیکن اللہ جس پر آسان کردے اس پر بڑا سہل ہے ۔ سن تو اللہ کی عبادت کرتا رہ اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کر نمازوں کی پابندی کر رمضان کے روزے رکھ بیت اللہ کا حج کر زکوٰۃ ادا کرتا رہ ۔ آ اب میں تجھے بھلائیوں کے دروازے بتلاؤں ۔ روزہ ڈھال ہے اور انسان کی آدھی رات کی نماز ، صدقہ گناہوں کو معاف کرا دیتا ہے } ۔ { پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت «تَـتَجَافٰی جُنُوْبُہُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا ۡ وَّمِـمَّا رَزَقْنٰہُمْ یُنْفِقُوْنَ ۔ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِیَ لَہُم مِّن قُرَّۃِ أَعْیُنٍ جَزَاءً بِمَا کَانُوا یَعْمَلُونَ» ۱؎ (32-السجدۃ:16-17) کی تلاوت فرمائی ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { آ اب میں تجھے اس امر کے سر اس کے ستون اور اس کی کوہان کی بلندی بتاؤں ۔ اس تمام کا سر تو اسلام ہے اور اس کا ستون نماز ہے اس کے کوہان کی بلندی اللہ کی راہ کا جہاد ہے } ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اب میں تجھے تمام کاموں کے سردار کی خبردوں ؟ } پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان پکڑ کر فرمایا : { اسے روک رکھ } ۔ میں نے کہا کیا ہم اپنی بات چیت پر بھی پکڑے جائیں گے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اے معاذ ! افسوس تجھے معلوم نہیں انسان کو جہنم میں اوندھے منہ ڈالنے والی چیز تو اس کے زبان کے کنارے ہیں } } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2616 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) یہی حدیث کئی سندوں سے مروی ہے ایک میں یہ بھی ہے کہ { اس آیت «تَـتَجَافٰی جُنُوْبُہُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ» إلخ ۱؎ (32-السجدۃ:16-17) کو پڑھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اس سے مراد بندے کا رات کی نماز پڑھنا ہے } } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:28240:ضعیف و منقطع) اور روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان مروی ہے کہ { انسان کا آدھی رات کو قیام کرنا پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اسی آیت کو تلاوت کرنا مروی ہے } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:27237:ضعیف و منقطع) ایک حدیث میں ہے کہ { قیامت کے دن جبکہ اول و آخر سب لوگ میدان محشر میں جمع ہوں گے تو ایک منادی فرشتہ آواز بلند کرے گا جسے تمام مخلوق سنے گی ۔ وہ کہے گا کہ آج سب کو معلوم ہو جائے گا کہ سب سے زیادہ ذی عزت اللہ کے نزدیک کون ہے ؟ پھر لوٹ کر آواز لگائے گا کہ تہجد گزار لوگ اٹھ کھڑے ہوں اور اس آیت کی تلاوت فرمائے گا تو یہ لوگ اٹھ کھڑے ہونگے اور گنتی میں بہت کم ہوں گے } ۔ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ” جب یہ آیت اتری تو ہم لوگ مجلس میں بیٹھے تھے ۔ اور بعض صحابہ رضی اللہ عنہم مغرب کے بعد سے لے کر عشاء تک نماز میں مشغول رہتے تھے پس یہ آیت نازل ہوئی “ ۔ ۱؎ (مسند بزار:2250:ضعیف) اس حدیث کی یہی ایک سند ہے ۔ پھر فرماتا ہے “ ان کے لیے جنت میں کیا کیا نعمتیں اور لذتیں پوشیدہ پوشیدہ بنا کر رکھی ہیں ، اسی کا کسی کو علم نہیں چونکہ یہ لوگ بھی پوشیدہ طور پر عبادت کرتے تھے اسی طرح ہم نے بھی پوشیدہ طور پر ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کی ٹھنڈک اور ان کے دل کا سکھ تیار کر رکھا ہے جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی دل میں اس کا خیال آیا ‘ ۔ بخاری کی حدیث قدسی میں ہے { میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ رحمتیں اور نعمتیں مہیا کر رکھی ہیں جو نہ کسی آنکھ کے دیکھنے میں آئیں نہ کسی کان کے سننے میں نہ کسی کے دل کے سوچنے میں آئے ہوں } ۔ اس حدیث کو بیان فرما کر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی حدیث نے کہا قرآن کی اس آیت کو پڑھ لو «فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِیَ لَہُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ جَزَاءً بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ» ۱؎ (32-السجدۃ:17) ، اس روایت میں «قُرَّۃِ» کے بجائے «قُرَّاتِ» پڑھنا بھی مروی ہے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4779) اور روایت میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ { جنت کی نعمتیں جسے ملیں وہ کبھی بھی واپس نہیں ہونگی ۔ ان کے کپڑے پرانے نہ ہوں گے ان کی جوانی ڈھلے گی نہیں ان کے لیے جنت میں وہ ہے جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا نہ کسی انسان کے دل پر ان کا وہم و گمان آیا } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:3836) ایک حدیث میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کا وصف بیان کرتے ہوئے آخر میں یہی فرمایا اور پھر یہ آیت «تَـتَجَافٰی جُنُوْبُہُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا ۡ وَّمِـمَّا رَزَقْنٰہُمْ یُنْفِقُوْنَ ۔ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِیَ لَہُم مِّن قُرَّۃِ أَعْیُنٍ جَزَاءً بِمَا کَانُوا یَعْمَلُونَ» ۱؎ (32-السجدۃ:16-17) تک تلاوت فرمائی } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2825) حدیث قدسی میں ہے { میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے ایسی نعمتیں تیار کی ہیں جو نہ آنکھوں نے دیکھی ہیں نہ کانوں نے سنی ہیں بلکہ اندازہ میں بھی نہیں آسکتیں } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:28256:صحیح بالشواہد) صحیح مسلم شریف میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ { موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ رب العالمین عزوجل سے عرض کیا کہ ” اے باری تعالیٰ ادنٰی جنتی کا درجہ کیا ہے ؟ جواب ملا کہ ’ ادنٰی جنتی وہ شخص ہے جو کل جنتیوں کے جنت میں چلے جانے کے بعد آئے گا اس سے کہا جائے گا جنت میں داخل ہو جاؤ ‘ وہ کہے گا یا اللہ کہاں جاؤں ہر ایک نے اپنی جگہ پر قبضہ کرلیا ہے اور اپنی چیزیں سنھبال لی ہیں ۔ اس سے کہا جائے گا کہ ’ کیا تو اس پر خوش ہے ؟ کہ تیرے لیے اتنا ہو جتنا دنیا کے کسی بہت بڑے بادشاہ کے پاس تھا ؟ ‘ وہ کہے گا پروردگار میں اس پر بہت خوش ہوں ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’ تیرے لیے اتنا ہی اور اتنا ہی اور اتنا ہی اور پانچ گناہ ‘ ۔ یہ کہے گا بس بس اے رب میں راضی ہو گیا ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’ یہ سب ہم نے تجھے دیا اور اس کا دس گنا اور بھی دیا اور بھی جس چیز کو تیرا دل چاہے اور جس چیز سے تیری آنکھیں ٹھنڈی رہیں ‘ ۔ یہ کہے گا میرے پروردگار میری تو باچھیں کھل گئیں جی خوش ہو گیا ۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا پھر اللہ تعالیٰ اعلیٰ درجہ کے جنتی کی کیا کیفیت ہے ؟ فرمایا ’ یہ وہ لوگ ہیں جن کی خاطر و مدارت کی کرامت میں نے اپنے ہاتھ سے لکھی اور اس پر اپنی مہر لگا دی ہے پھر نہ تو وہ کسی کے دیکھنے میں آئی نہ کسی کے سننے میں نہ کسی کے خیال میں ‘ ۔ اس کا مصداق اللہ کی کتاب کی آیت «فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِیَ لَہُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ جَزَاءً بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ» ۱؎ (32-السجدۃ:17) ، ہے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:189) حضرت عباس بن عبدالواحد رحمہ اللہ فرماتے ہیں مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ ایک جنتی اپنی حور کے ساتھ محبت پیار میں ستر سال تک مشغول رہے گا کسی دوسری چیز کی طرف اس کا التفات ہی نہیں ہو گا ۔ پھر جو دوسری طرف التفات ہوگا تو دیکھے گا کہ پہلی سے بہت زیادہ خوبصورت اور نوارنی شکل کی ایک اور حور ہے ۔ وہ اسے اپنی طرف متوجہ دیکھ کر خوش ہو کر کہے گی کہ اب میری مراد بھی پوری ہوگی یہ کہے گا تو کون ہے ؟ وہ کہے گی میں اللہ کی مزید نعمتوں میں سے ہوں ۔ اب یہ سراپا اس کی طرف متوجہ ہو جائے گا پھر ستر سال کے بعد دوسری طرف دیکھے گا کہ اس سے بھی اچھی ایک اور حور ہے وہ کہے گی اب وقت آ گیا کہ آپ میں میرا حصہ بھی ہو یہ پوچھے گا تم کون ہو ؟ وہ جواب دے گی میں ان میں سے ہوں جن کی نسبت جناب باری تعالیٰ نے فرمایا ہے ’ کوئی نہیں جانتا کہ ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھوں کی کیا کیا ٹھنڈک چھپا رکھی ہے ‘ ۔ سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ” فرشتے جنتیوں کے پاس دنیا کے اندازے سے ہر دن میں تین تین بار جنت عدن کے اللہ کے تحفے لے کر جائیں گے جو ان کی جنت میں نہیں اسی کا بیان اس آیت میں ہے ۔ وہ فرشتے ان سے کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ تم سے خوش ہے “ ۔ ابوالیمان فزاری یا کسی اور سے مروی ہے کہ جنت کے سو درجے ہیں پہلا درجہ چاندی کا ہے اس کی زمین بھی چاندی کی ہے اس کے محلات بھی چاندی کے اس کی مٹی مشک کی ہے ، تیسری موتی کی ، زمین بھی موتی کی گھر بھی موتی کے برتن بھی موتی کے اور مٹی مشک کی ، اور باقی ستانوے تو وہ ہیں جو نہ کسی آنکھ نے دیکھیں نہ کسی کان نے سنیں نہ کسی انسان کے دل میں گزریں ، پھر اسی آیت کی تلاوت فرمائی ۔ ابن جریر میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم روح الامین علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ انسان کی نیکیاں بدیاں لائی جائی گی ۔ بعض بعض سے کم کی جائیں گی پھر اگر ایک نیکی بھی باقی بچ گئی تو اللہ تعالیٰ اسے بڑھا دے گا اور جنت میں کشادگی عطا فرمائے گا ۔ راوی نے یزداد سے پوچھا کہ نیکیاں کہاں چلی گئیں ؟ تو انہوں نے اس آیت کی تلاوت کی «اُولٰیِٕکَ الَّذِیْنَ نَتَقَبَّلُ عَنْہُمْ اَحْسَنَ مَا عَمِلُوْا وَنَتَجَاوَزُ عَنْ سَـیِّاٰتِہِمْ فِیْٓ اَصْحٰبِ الْجَــنَّۃِ وَعْدَ الصِّدْقِ الَّذِیْ کَانُوْا یُوْعَدُوْنَ» ۱؎ (46-الأحقاف:16) ، یعنی ’ یہ وہ لوگ ہیں جن کے اچھے اعمال ہم نے قبول فرمالئے اور ان کی برائیوں سے ہم نے در گزر فرما لیا ‘ ۔ { راوی نے کہا پھر اس آیت کے کیا معنی ہیں؟ «فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِیَ لَہُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ جَزَاءً بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ» (32-السجدۃ:17)، فرمایا { بندہ جب کوئی نیکی لوگوں سے چھپا کر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی قیامت کے دن اس کے آرام کی خبریں جو اس کے لیے پوشیدہ رکھ چھوڑی تھیں عطا فرمائے گا } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:28255:ضعیف) السجدة
16 السجدة
17 السجدة
18 نیک و بد دونوں ایک دوسرے کے ہم پلہ نہیں ہو سکتے اللہ تعالیٰ کے عدل و کرم کا بیان ان آیتوں میں ہے کہ اس کے نزدیک نیک کار اور بدکار برابر نہیں ۔ جیسے فرمان ہے آیت «اَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ اجْتَرَحُوا السَّیِّاٰتِ اَنْ نَّجْعَلَہُمْ کَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَوَاءً مَّحْیَاہُمْ وَمَمَاتُہُمْ سَاءَ مَا یَحْکُمُوْنَ» ۱؎ (45-الجاثیۃ:21) ، یعنی ’ کیا ان لوگوں نے جو برائیاں کر رہے ہیں یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم انہیں ایمان اور نیک عمل والوں کی مانند کر دیں گے ؟ ان کی موت زیست برابر ہے ۔ یہ کیسے برے منصوبے بنا رہے ہیں ‘ ۔ اور آیت میں ہے «اَمْ نَجْعَلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ کَالْمُفْسِدِیْنَ فِی الْاَرْضِ ۡ اَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِیْنَ کَالْفُجَّارِ» ۱؎ (38-ص:28) ، یعنی ’ ایماندار نیک عمل لوگوں کو کیا ہم زمین کے فسادیوں کے ہم پلہ کر دیں ؟ پرہیزگاروں کو گنہگاروں کے برابر کر دیں ؟ ‘ اور آیت «لَا یَسْتَوِیْٓ اَصْحٰبُ النَّارِ وَاَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ ہُمُ الْفَایِٕزُوْنَ» ۱؎ (59-الحشر:20) ’ دوزخی اور جنتی برابر نہیں ہو سکتے ‘ ۔ یہاں بھی فرمایا کہ ’ مومن اور فاسق قیامت کے دن ایک مرتبہ کے نہیں ہوں گے ‘ ۔ کہتے ہیں کہ یہ آیت سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور عقبہ بن ابی معیط کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ پھر ان دونوں قسموں کا تفصیلی بیان فرمایا کہ ’ جس نے اپنے دل سے کلام اللہ کی تصدیق کی اور اس کے مطابق عمل بھی کیا تو انہیں وہ جنتیں ملیں گی جن میں مکانات ہیں بلند بالاخانے ہیں اور رہائش آرام کے تمام سامان ہیں ۔ یہ ان کی نیک اعمالی کے بدلے میں مہمانداری ہو گی ۔ اور جن لوگوں نے اطاعت چھوڑی ان کی جگہ جہنم میں ہو گی جس میں سے وہ نکل نہ سکیں گے ‘ ۔ جیسے اور آیت میں ہے «کُلَّمَآ اَرَادُوْٓا اَنْ یَّخْرُجُوْا مِنْہَا مِنْ غَمٍّ اُعِیْدُوْا فِیْہَا ۤ وَذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ» ۱؎ (22-الحج:22) یعنی ’ جب کبھی وہاں کے غم سے چھٹکارا چاہیں گے دوبارہ وہیں جھونک دئیے جائیں گے ‘ ۔ فضیل بن عیاض فرماتے ہیں ” واللہ ان کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے ہونگے آگ شعلے انہیں اوپر نیچے لے جا رہے ہونگے فرشتے انہیں سزائیں کررہے ہونگے اور جھڑک کر فرماتے ہونگے کہ اس جہنم کے عذاب کا لطف اٹھاؤ جسے تم جھوٹا جانتے تھے “ ۔ عذاب ادنی سے مراد دنیوی مصیبتیں آفتیں دکھ درد اور بیماریاں ہیں یہ اس لیے ہوتی ہیں کہ انسان ہوشیار ہو جائے اور اللہ کی طرف جھک جائے اور بڑے عذابوں سے نجات حاصل کرے ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مراد گناہوں کی وہ مقرر کردہ سزائیں ہیں جو دنیا میں دی جاتی ہیں جنہیں شرعی اصطلاح میں حدود کہتے ہیں ۔ اور یہ بھی مروی ہے کہ اس سے مراد عذاب قبر ہے ۔ نسائی میں ہے کہ اس سے مراد قحط سالیاں ہیں ۔ سیدنا ابی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” چاند کا شق ہو جانا دھویں کا آنا اور پکڑنا اور برباد کن عذاب اور بدر والے دن ان کفار کا قید ہونا اور قتل کیا جانا ہے “ ۔ ۱؎ (مسند احمد:128/5:صحیح) کیونکہ بدر کی اس شکست نے مکے کے گھر گھر کو ماتم کدہ بنا دیا تھا ۔ ان عذابوں کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے ۔ پھر فرماتا ہے ’ جو اللہ کی آیتیں سن کر اس کی وضاحت کو پاکر ان سے منہ موڑلے بلکہ ان کا انکار کر جائے اس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوگا ؟ ‘ قتادۃرحمہ اللہ فرماتے ہیں ” اللہ کے ذکر سے اعراض نہ کرو ایسا کرنے والے بے عزت بے وقعت اور بڑے گنہگار ہیں “ ۔ یہاں بھی فرمان ہوتا ہے کہ ’ ایسے گنہگاروں سے ہم ضرور انتقام لیں گے ‘ ۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے { تین کام جس نے کئے وہ مجرم ہوگیا ۔ جس نے بے وجہ کوئی جھنڈا باندھا ، جس نے ماں باپ کا نافرمانی کی ، جس نے ظالم کے ظلم میں اس کا ساتھ دیا ۔ یہ مجرم لوگ ہیں اور اللہ کا فرمان ہے کہ ’ ہم مجرموں سے بازپرس کریں گے اور ان سے پورا بدلہ لیں گے ‘ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:28298:ضعیف) السجدة
19 السجدة
20 السجدة
21 السجدة
22 السجدة
23 شب معراج اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتا ہے ’ ہم نے موسیٰ کو کتاب تورات دی تو اس کی ملاقات کے بارے میں شک و شبہ میں نہ رہ ‘ ۔ قتادۃ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” یعنی معراج والی رات میں “ ۔ حدیث میں ہے { میں نے معراج والی رات سیدنا موسیٰ بن عمران علیہ السلام کو دیکھا کہ وہ گندم گوں رنگ کے لانبے قد کے گھونگھریالے بالوں والے تھے ایسے جیسے قبیلہ شنواہ کے آدمی ہوتے ہیں ۔ اسی رات میں نے عیسیٰ علیہ السلام کو بھی دیکھا وہ درمیانہ قد کے سرخ و سفید تھے سیدھے بال تھے ۔ میں نے اسی رات مالک کو دیکھا جو جہنم کے داروغہ ہیں اور دجال کو دیکھا یہ سب ان نشانیوں میں سے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھائیں } پس ’ اس کی ملاقات میں شک و شبہ نہ کر ‘ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یقیناً موسیٰ کو دیکھا اور ان سے ملے جس رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کرائی گئی ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:28299:) ’ موسیٰ علیہ السلام کو ہم نے بنی اسرائیل کا ہادی بنا دیا ‘ ۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ’ اس کتاب کے ذریعہ ہم نے اسرائیلیوں کو ہدایت دی ‘ ۔ جیسے سورۃ بنی اسرائیل میں ہے آیت «وَاٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ وَجَعَلْنٰہُ ہُدًی لِّبَنِیْٓ اِسْرَاءِیْلَ اَلَّا تَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِیْ ‎وَکِیْلًا» ۱؎ (17-الإسراء:2) ، یعنی ’ ہم نے موسیٰ [ علیہ السلام ] کو کتاب دی اور بنی اسرائیل کے لیے ہادی بنا دیا کہ تم میرے سوا کسی کو کار ساز نہ سمجھو ‘ ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ چونکہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی بجا آوری اس کی نافرمانیوں کے ترک اس کی باتوں کی تصدیق اور اس کے رسولوں کی اتباع وصبر میں جمے رہے ہم نے ان میں سے بعض کو ہدایت کے پیشوا بنا دیا جو اللہ کے احکام لوگوں کو پہنچاتے ہیں بھلائی کی طرف بلاتے ہیں برائیوں سے روکتے ہیں ‘ ۔ لیکن جب ان کی حالت بدل گئی انہوں نے کلام اللہ میں تبدیلی تحریف تاویل شروع کر دی تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان سے یہ منصب چھین لیا ان کے دل سخت کر دئیے عمل صالح اور اعتقاد صحیح ان سے دور ہوگیا ۔ پہلے تو یہ دنیا سے بچے ہوئے تھے ۔ سفیان رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” یہ لوگ پہلے ایسے ہی تھے لہٰذا انسان کے لیے ضروری ہے کہ اس کا کوئی پیشوا ہو جس کی یہ اقتداء کرکے دنیا سے بچا ہوا رہے “ ۔ آپ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” دین کے لیے علم ضروری ہے جیسے جسم کے لیے غذا ضروری ہے “ ۔ سفیان رحمہ اللہ سے علی رضی اللہ عنہ کے اس قول کے بارے میں سوال ہوا کہ ” صبر کی وجہ سے ان کو ایسا پیشوا بنا دیا کہ وہ ہمارے حکم کی ہدایت کرتے تھے “ ۔ آپ رحمہ اللہ نے فرمایا مطلب یہ ہے کہ ” چونکہ انہوں نے تمام کاموں کو اپنے ذمہ لے لیا اللہ نے بھی انہیں پیشوا بنا دیا “ ۔ چنانچہ فرمان ہے «وَلَقَدْ آتَیْنَا بَنِی إِسْرَائِیلَ الْکِتَابَ وَالْحُکْمَ وَالنٰبُوَّۃَ [ وَرَزَقْنَاہُمْ مِنَ الطَّیِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاہُمْ عَلَی الْعَالَمِینَ وَآتَیْنَاہُمْ بَیِّنَاتٍ مِنَ الْأَمْرِ ] فَمَا اخْتَلَفُوا إِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَہُمُ الْعِلْمُ» ۱؎ (45-الجاثیۃ:17-16) ’ ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب حکمت اور نبوت دی اور پاکیزہ روزیاں عنایت فرمائیں اور جہاں والوں پر فضیلت دی ‘ ۔ یہاں بھی آیت کے آخر میں فرمایا کہ ’ جن عقائد واعمال میں ان کا اختلاف ہے ان کا فیصلہ قیامت کے دن خود اللہ کرے گا ‘ ۔ السجدة
24 السجدة
25 السجدة
26 دریائے نیل کے نام عمر بن خطاب رضی اللہ کا خط کیا یہ اس کے ملاحظہ کے بعد بھی راہ راست پر نہیں چلتے کہ ان سے پہلے کے گمراہوں کو ہم نے تہہ و بالا کر دیا ہے ۔ آج ان کے نشانات مٹ گئے ۔ انہوں نے بھی رسولوں کو جھٹلایا اللہ کی باتوں سے بے پرواہی کی ، اب یہ جھٹلانے والے بھی ان ہی کے مکانوں میں رہتے سہتے ہیں ۔ ان کی ویرانی ان کے اگلے مالکوں کی ہلاکت ان کے سامنے ہے ۔ لیکن تاہم یہ عبرت حاصل نہیں کرتے ۔ اسی بات کو قرآن حکیم نے کئی جگہ بیان فرمایا ہے کہ ’ یہ غیر آباد کھنڈر یہ اجڑے ہوئے محلات تو تمہاری آنکھوں کو اور تمہارے کانوں کو کھولنے کے لیے اپنے اندر بہت سی نشانیاں رکھتے ہیں ‘ ۔ ’ دیکھ لو کہ اللہ کی باتیں نہ ماننے کا رسولوں کی تحقیر کرنے کا کتنا بد انجام ہوا ؟ کیا تمہارے کان ان کی خبروں سے نا آشنا ہیں ؟ ‘ پھر جناب باری تعالیٰ اپنے لطف و کرم کو احسان وانعام کو بیان فرما رہا ہے کہ ’ آسمان سے پانی اتارتا ہے پہاڑوں سے اونچی جگہوں سے سمٹ کرندی نالوں اور دریاؤں کے ذریعہ ادھر ادھر پھیل جاتا ہے ۔ بنجر غیر آباد زمین میں اس سے ہریالی ہی ہریالی ہو جاتی ہے ۔ خشکی تری سے موت زیست سے بدل جاتی ہے ‘ ۔ گو مفسرین کا قول یہ بھی ہے کہ جزر مصر کی زمین ہے لیکن یہ ٹھیک ہے ۔ ہاں مصر میں بھی ایسی زمین ہو تو ہو آیت میں مراد تمام وہ حصے ہیں جو سوکھ گئے ہوں جو پانی کے محتاج ہوں سخت ہو گئے ہوں زمین یبوست [ خشکی ] کے مارے پھٹنے لگی ہو ۔ بے شک مصر کی زمین بھی ایسی ہے دریائے نیل سے وہ سیراب کی جاتی ہے ۔ حبش کی بارشوں کا پانی اپنے ساتھ سرخ رنگ کی مٹی کو بھی گھسیٹتا جاتا ہے اور مصر کی زمین جو شور اور ریتلی ہے وہ اس پانی اور اس مٹی سے کھیتی کے قابل بن جاتی ہے اور ہرسال پر فصل کا غلہ تازہ پانی سے انہیں میسر آتا ہے جو ادھر ادھر کا ہوتا ہے ۔ اس حکیم و کریم منان و رحیم کی یہ سب مہربانیاں ہیں ۔ اسی کی ذات قابل تعریف ہے ۔ روایت ہے کہ جب مصر فتح ہوا تو مصر والے بوائی کے مہینے میں عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہنے لگے ہماری قدیمی عادت ہے کہ اس مہینے میں کسی کو دریائے نیل کی بھینٹ چڑھاتے ہیں اور اگر نہ چڑھائیں تو دریا میں پانی نہیں آتا ۔ ہم ایسا کرتے ہیں کہ اس مہینے کی بارہویں تاریخ کو ایک باکرہ لڑکی کو جو اپنے ماں باپ کی اکلوتی ہو اس کے والدین کو دے دلا کر رضا مند کرلیتے ہیں اور اسے بہت عمدہ کپڑے اور بہت قیمتی زیور پہنا کر بنا سنوار کر اس نیل میں ڈال دیتے ہیں تو اس کا بہاؤ چڑھتا ہے ورنہ پانی چڑھتا ہی نہیں ۔ سپہ سلار اسلام عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ فاتح مصر نے جواب دیا کہ ” یہ ایک جاہلانہ اور احمقانہ رسم ہے ۔ اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا اسلام تو ایسی عادتوں کو مٹانے کے لیے آیا ہے تم اب ایسا نہیں کر سکتے “ ۔ وہ باز رہے لیکن دریائے نیل کا پانی نہ چڑھا مہنیہ پورا نکل گیا لیکن دریا خشک رہا ۔ لوگ تنگ آ کر ارادہ کرنے لگے کہ مصر کو چھوڑ دیں ۔ یہاں کی بود و باش ترک کر دیں ۔ اب فاتح مصر کو خیال گزرتا ہے اور دربار خلافت کو اس سے مطلع فرماتے ہیں ۔ اسی وقت خلیفۃ المسلمین امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی طرف سے جواب ملتا ہے کہ ” آپ رضی اللہ عنہ نے جو کیا اچھا کیا اب میں اپنے اس خط میں ایک پرچہ دریائے نیل کے نام بھیج رہا ہوں تم اسے لے کر نیل کے دریا میں ڈال دو “ ۔ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے اس پرچے کو نکال کر پڑھا تو اس میں تحریر تھا کہ ” یہ خط اللہ کے بندے امیر المؤمنین عمر رضی اللہ عنہ کی طرف سے اہل مصر کے دریائے نیل کی طرف “ ۔ ” بعد حمد وصلوۃ کے مطلب یہ ہے کہ اگر تو اپنی طرف سے اور اپنی مرضی سے چل رہا ہے تب تو خیر نہ چل اگر اللہ تعالیٰ واحد و قہار تجھے جاری رکھتا ہے تو ہم اللہ تعالیٰ سے دعا مانگ رہیں کہ وہ تجھے رواں کر دے “ ۔ یہ پرچہ لے کر امیر عسکر نے دریائے نیل میں ڈال دیا ، ابھی ایک رات بھی گزرنے نہیں پائی تھی جو دریائے نیل میں سولہ ہاتھ گہرا پانی چلنے لگا اور اسی وقت مصر کی خشک سالی تر سالی سے گرانی ارزانی سے بدل گئی ۔ خط کے ساتھ ہی خطہٰ کا خطہٰ سرسبز ہو گیا اور دریا پوری روانی سے بہتا رہا ۔ اس کے بعد سے ہر سال جو جان چڑھائی جاتی تھی وہ بچ گئی اور مصر سے اس ناپاک رسم کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوا ۔ ۱؎ (کتاب السنہ للحافظ ابوالقاسم اللالکائی:ضعیف) اسی آیت کے مضمون کی آیت یہ بھی ہے «فَلْیَنْظُرِ الْاِنْسَانُ اِلٰی طَعَامِہٖٓ» ۱؎ (80-عبس:24) ، یعنی ’ انسان اپنی غذا کو دیکھے کہ ہم نے بارش اتاری اور زمین پھاڑ کر اناج اور پھل پیدا کئے ‘ ۔ اسی طرح یہاں بھی فرمایا کہ ’ یہ لوگ اسے نہیں دیکھتے ؟ ‘ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ” «جُرُزِ» وہ زمین ہے جس پر بارش ناکافی برستی ہے پھر نالوں اور نہروں کے پانی سے وہ سیراب ہوتی ہے “ ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” یہ زمین یمن میں ہے “ ۔ حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” ایسی بستیاں یمن اور شام میں ہیں “ ۔ ابن زید وغیرہ کا قول ہے ” یہ وہ زمین ہے جس میں پیداوار نہ ہو اور غبار آلود ہو “ ۔ اسی کو اس آیت میں بیان فرمایا ہے «وَاٰیَۃٌ لَّہُمُ الْاَرْضُ الْمَیْتَۃُ ښ اَحْیَیْنٰہَا وَاَخْرَجْنَا مِنْہَا حَبًّا فَمِنْہُ یَاْکُلُوْنَ» ۱؎ (36-یس:33) ، ’ ان کے لیے مردہ زمین بھی اک نشانی ہے جسے ہم زندہ کر دیتے ہیں ‘ ۔ السجدة
27 السجدة
28 نافرمان اپنی بربادی کو آپ بلاوا دیتا ہے کافر اعتراضاً کہا کرتے تھے کہ اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تم جو ہمیں کہا کرتے ہو اور اپنے ساتھیوں کو بھی مطمئن کر دیا ہے کہ تم ہم پر فتح پاؤ گے اور ہم سے بدلے لو گے وہ وقت کب آئے گا ؟ ہم تو مدتوں سے تمہیں مغلوب زیر اور بے وقعت دیکھ رہے ہیں ۔ چھپ رہے ہو ڈررہے ہو اگر سچے ہو تو اپنے غلبے کا اور اپنی فتح کا وقت بتاؤ ۔ اللہ فرماتا ہے کہ ’ جب عذاب اللہ آ جائے گا اور جب اس کا غصہ اور غضب اتر پڑتا ہے خواہ دنیا میں ہو خواہ آخرت میں اس وقت نہ تو ایمان نفع دیتا ہے نہ مہلت ملتی ہے ‘ ۔ جیسے فرمان ہے آیت «فَلَمَّا جَاءَتْہُمْ رُسُلُہُم بِالْبَیِّنَاتِ فَرِحُوا بِمَا عِندَہُم مِّنَ الْعِلْمِ وَحَاقَ بِہِم مَّا کَانُوا بِہِ یَسْتَہْزِئُونَ فَلَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا قَالُوا آمَنَّا بِ اللہِ وَحْدَہُ وَکَفَرْنَا بِمَا کُنَّا بِہِ مُشْرِکِینَ فَلَمْ یَکُ یَنفَعُہُمْ إِیمَانُہُمْ لَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا سُنَّتَ اللہِ الَّتِی قَدْ خَلَتْ فِی عِبَادِہِ وَخَسِرَ ہُنَالِکَ الْکَافِرُونَ» ۱؎ (40-غافر:85-83) ، یعنی ’ جب ان کے پاس اللہ کے پیغمبر دلیلیں لے کر آئے تو یہ اپنے پاس کے علم پر نازاں ہونے لگے ‘ ، پوری دو آیتوں تک ، اس سے فتح مکہ مراد نہیں ۔ فتح مکہ والے دن تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کافروں کو اسلام لانا قبول فرمایا تھا اور تقریباً دوہزار آدمی اس دن مسلمان ہوئے تھے ۔ اگر اس آیت میں یہی فتح مکہ مراد ہوتی تو چاہیئے تھا کہ اللہ کے پیغمبر علیہ السلام ان کا اسلام قبول نہ فرماتے جیسے اس آیت میں ہے کہ اس دن کافروں کا اسلام لانا مقبول ہوگا ۔ بلکہ یہاں مراد فتح سے فیصلہ ہے جیسے قرآن میں ہے آیت «فَافْتَحْ بَیْنِیْ وَبَیْنَہُمْ فَتْحًا وَّنَجِّـنِیْ وَمَنْ مَّعِیَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ» ۱؎ (26-الشعراء:118) ’ ہمارے درمیان تو فتح کر یعنی فیصلہ کر ‘ ۔ اور جیسے اور مقام پر ہے آیت «قُلْ یَجْمَعُ بَیْـنَنَا رَبٰنَا ثُمَّ یَفْتَـحُ بَیْـنَنَا بالْحَقِّ وَہُوَ الْفَتَّاحُ الْعَلِـیْمُ» ۱؎ (34-سبأ:26) یعنی ’ اللہ تعالیٰ ہمیں جمع کرے گا پھر ہمارے آپس کے فیصلے فرمائے گا ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَاسْتَفْتَحُوْا وَخَابَ کُلٰ جَبَّارٍ عَنِیْدٍ» ۱؎ (14-إبراھیم:15) ’ یہ فیصلہ چاہتے ہیں سرکش ضدی تباہ ہوئے اور جگہ ہے ‘ آیت «وَکَانُوْا مِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَی الَّذِیْنَ کَفَرُوْا» ۱؎ (2-البقرۃ:89) ’ اس سے پہلے وہ کافروں پر فتح چاہتے تھے ‘ اور آیت میں فرمان باری ہے «اِنْ تَسـْتَفْتِحُوْا فَقَدْ جَاءَکُمُ الْفَتْحُ» ۱؎ (8-الإنفال:19) ’ اگر تم فیصلے کے آرزومند ہو تو فتح آگئی ‘ ۔ پھر فرماتا ہے ’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان مشرکین سے بے پرواہ ہوجائیے جو رب نے اتارا ہے اسے پہنچاتے رہیے ‘ ۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ « اتَّبِعْ مَا أُوحِیَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِکِینَ» (6-الأنعام:106) ’ اپنے رب کی وحی کی اتباع کرو اس کے سوا کوئی اور معبود نہیں ‘ ۔ پھر فرمایا ’ تم اپنے رب کے وعدوں کو سچا مان لو اس کی باتیں اٹل ہیں اس کے فرمان سچے ہیں وہ عنقریب تجھے تیرے مخالفین پر غالب کرے گا وہ وعدہ خلافی سے پاک ہے یہ بھی منتظر ہیں ،چاہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی آفت آئے لیکن ان کی یہ چاہتیں بے سود ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اپنے والوں کو بھولتا نہیں نہ انہیں چھوڑتا ہے بھلا جو رب کے احکام پر جمے رہیں اللہ کی باتیں دوسروں کو پہنچائیں وہ تائید ایزدی سے کیسے محروم کر دئیے جائیں ؟ یہ جو کچھ تم پر دیکھنا چاہتے ہیں وہ ان پر اترے گا بدبختی [ نکبت ] وادبار میں ہائے وائے واویلا میں گرفتار کئے جائیں گے ۔ رب کے عذابوں کا شکار ہونگے ۔ کہدو کہ اللہ ہمیں کافی ہے اور وہی بہترین کارساز ہے ‘ ۔ اللہ کے فضل و کرم سے سورۃ السجدہ کی تفسیر ختم ہوئی ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» السجدة
29 السجدة
30 السجدة
0 الأحزاب
1 اللہ پر توکل رکھو تنبیہ کی ایک موثر صورت یہ بھی ہے کہ بڑے کو کہا جائے تاکہ چھوٹا چوکنا ہو جائے ۔ جب اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو کوئی بات تاکید سے کہے تو ظاہر ہے کہ اوروں پر وہ تاکید اور بھی زیادہ ہے ۔ تقویٰ اسے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق ثواب کے طلب کی نیت سے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی جائے ۔ اور فرمان باری کے مطابق اس کے عذابوں سے بچنے کے لیے اس کی نافرمانیاں ترک کی جائیں ۔ کافروں اور منافقوں کی باتیں نہ ماننا نہ ان کے مشوروں پر کاربند ہونا نہ ان کی باتیں قبولیت کے ارادے سے سننا ۔ علم وحکمت کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ چونکہ وہ اپنے وسیع علم سے ہر کام کا نتیجہ جانتا ہے اور اپنی بے پایاں حکمت سے اس کی کوئی بات ، کوئی فعل غیر حکیمانہ نہیں ہوتا تو ، تو اسی کی اطاعت کرتا رہ تاکہ بد انجام سے اور بگاڑ سے بچا رہے ۔ جو قرآن وسنت تیری طرف وحی ہو رہا ہے اس کی پیروی کر اللہ پر کسی کا کوئی فعل مخفی نہیں ۔ اپنے تمام امور واحوال میں اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہی بھروسہ رکھ ۔ اس پر بھروسہ کرنے والوں کو وہ کافی ہے ۔ کیونکہ تمام کارسازی پر وہ قادر ہے اس کی طرف جھکنے والا کامیاب ہی کامیاب ہے ۔ الأحزاب
2 الأحزاب
3 الأحزاب
4 سچ بدل نہیں سکتا لے پالک بیٹا نہیں بن سکتا مقصود کو بیان کرنے سے پہلے بطور مقدمے اور ثبوت کے مثلاً ایک وہ بات بیان فرمائی جسے سب محسوس کرتے ہیں اور پھر اس کی طرف سے ذہن ہٹاکر اپنے مقصود کی طرف لے گئے ۔ بیان فرمایا کہ ’ یہ تو ظاہر ہے کہ کسی انسان کے دل دو نہیں ہوتے ۔ اسی طرح تم سمجھ لو کہ اپنی جس بیوی کو تم ماں کہہ دو تو وہ واقعی ماں نہیں ہو جاتی ۔ ٹھیک اسی طرح دوسرے کی اولاد کو اپنا بیٹا بنا لینے سے وہ سچ مچ بیٹا ہی نہیں ہو جاتا ‘ ۔ اپنی بیوی سے اگر کسی نے بحالت غضب وغصہ کہد دیا کہ تو مجھ پر ایسی ہے جیسے میری ماں کی پیٹھ تو اس کہنے سے وہ سچ مچ ماں نہیں بن جاتی ۔ جیسے فرمایا «مَا ہُنَّ أُمَّہَاتِہِمْ إِنْ أُمَّہَاتُہُمْ إِلَّا اللَّائِی وَلَدْنَہُمْ وَإِنَّہُمْ لَیَقُولُونَ مُنْکَرًا مِنَ الْقَوْلِ وَزُورًا» ۱؎ (58-المجادلۃ:3) ’ ایسا کہہ دینے سے وہ مائیں نہیں بن جاتیں ، مائیں تو وہ ہیں جن کے بطن سے یہ پیدا ہوئے ہیں ‘ ۔ ان دونوں باتوں کے بیان کے بعد اصل مقصود کو بیان فرمایا کہ ’ تمہارے لے پالک لڑکے بھی درحقیقت تمہارے لڑکے نہیں ‘ ۔ یہ آیت زید بن حارث رضی اللہ عنہ کے بارے میں اتری ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ تھے انہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت سے پہلے اپنا متبنی بنا رکھا تھا ۔ انہیں زید بن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہا جاتا تھا ۔ اس آیت سے اس نسبت اور اس الحاق کا توڑ دینا منظور ہے ۔ جیسے کہ اسی سورت کے اثنا میں ہے آیت «مَا کَانَ مُحَـمَّـدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّـبِیّٖنَ وَکَان اللّٰہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِــیْمًا» ۱؎ (33-الأحزاب:40) ، ’ تم میں سے کسی مرد کے باپ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہیں ، بلکہ وہ اللہ کے رسول اور نبیوں کے ختم کرنے والے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کو ہرچیز کا علم ہے ‘ ۔ یہاں فرمایا ’ یہ تو صرف تمہاری ایک زبانی بات ہے جو تم کسی کے لڑکے کو کسی کا لڑکا کہو اس سے حقیقت بدل نہیں سکتی ۔ واقعی میں اس کا باپ وہ ہے جس کی پیٹھ سے یہ نکلا ۔ یہ ناممکن ہے کہ ایک لڑکے کے دو باپ ہوں جیسے یہ ناممکن ہے کہ ایک سینے میں دو دل ہوں ۔ اللہ تعالیٰ حق فرمانے والا اور سیدھی راہ دکھانے والا ہے ‘ ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ آیت ایک قریشی کے بارے میں اتری ہے جس نے مشہور کر رکھا تھا کہ اس کے دو دل ہیں اور دونوں عقل و فہم سے پر ہیں اللہ تعالیٰ نے اس بات کی تردید کر دی ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ خطرہ گزرا اس پر جو منافق نماز میں شامل تھے وہ کہنے لگے دیکھو اس کے دو دل ہیں ایک تمہارے ساتھ ایک ان کے ساتھ ۔ اس پر یہ آیت اتری کہ اللہ تعالیٰ نے کسی شخص کے سینے میں دو دل نہیں بنائے } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3199 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف الاسناد) زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” یہ تو صرف بطور مثال کے فرمایا گیا ہے یعنی جس طرح کسی شخص کے دو دل نہیں ہوتے اسی طرح کسی بیٹے کے دو باپ نہیں ہو سکتے “ ۔ اسی کے مطابق ہم نے بھی اس آیت کی تفسیر کی ہے ۔ «وَاللہُ سُبْحَانَہُ وَ تَعَالیٰ اَعْلَمُ» پہلے تو رخصت تھی کہ لے پالک لڑکے کو پالنے والے کی طرف نسبت کرکے اس کا بیٹا کہہ کر پکارا جائے لیکن اب اسلام نے اس کو منسوخ کر دیا ہے اور فرما دیا ہے کہ ’ ان کے جو اپنے حقیقی باپ ہیں ان ہی کی طرف منسوب کر کے پکارو ۔ عدل نیکی انصاف اور سچائی یہی ہے ‘ ۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” اس آیت کے اترنے سے پہلے ہم زید کو زید بن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہا کرتے تھے لیکن اس کے نازل ہونے کے بعد ہم نے یہ کہنا چھوڑ دیا “ ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4782) بلکہ پہلے تو ایسے لے پالک کے وہ تمام حقوق ہوتے تھے جو سگی اور صلبی اولاد کے ہوتے ہیں ۔ چنانچہ اس آیت کے اترنے کے بعد سہلہ بنت سہل رضی اللہ عنہا حاضر خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہو کر عرض کرتی ہیں کہ { یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے سالم کو منہ بولا بیٹا بنا رکھا تھا اب قرآن نے ان کے بارے میں فیصلہ کر دیا ۔ میں اس سے اب تک پردہ نہیں کرتی وہ آ جاتے ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ میرے خاوند حذیفہ رضی اللہ عنہ ان کے اس طرح آنے سے کچھ بیزار ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { پھر کیا ہے جاؤ سالم کو اپنا دودھ پلا اس پر حرام ہو جاؤگی } } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1453) الغرض یہ حکم منسوخ ہو گیا ہے اب صاف لفظوں میں ایسے لڑکوں کی بیویوں کی بھی حلت انہیں لڑکا بنانے والے کے لیے بیان فرما دی ۔ اور جب زید رضی اللہ عنہا نے اپنی بیوی صاحبہ زینب بنت جحش کو طلاق دے دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنا نکاح ان سے کر لیا «لِکَیْ لَا یَکُونَ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ حَرَجٌ فِی أَزْوَاجِ أَدْعِیَائِہِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْہُنَّ وَطَرًا وَکَانَ أَمْرُ اللہِ مَفْعُولًا» ۱؎ (33-الأحزاب:37) اور مسلمان اس ایک مشکل سے بھی چھوٹ گئے «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» اسی کا لحاظ رکھتے ہوئے ۔ جہاں حرام عورتوں کو ذکر کیا وہاں فرمایا آیت «وَحَلَایِٕلُ اَبْنَایِٕکُمُ الَّذِیْنَ مِنْ اَصْلَابِکُمْ» (4-النساء:23) یعنی ’ تمہاری اپنی صلب سے جو لڑکے ہوں ان کی بیویاں تم پر حرام ہیں ‘ ۔ ہاں رضاعی لڑکا نسبی اور صلبی لڑکے کے حکم میں ہے ۔ جیسے بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ { رضاعت سے وہ تمام رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو نسب سے حرام ہو جاتے ہیں } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2645) یہ بھی خیال رہے کہ پیار سے کسی کو بیٹا کہدینا یہ اور چیز ہے یہ ممنوع نہیں ۔ مسند احمد وغیرہ میں ہے ، { سیدنا ابن عباس رضی اللہ فرماتے ہیں ہم سب خاندان عبدالمطلب کے چھوٹے بچوں کو مزدلفہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کو ہی جمرات کی طرف رخصت کر دیا اور ہماری رانیں تھپکتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { بیٹو سورج نکلنے سے پہلے جمرات پر کنکریاں نہ مارنا } } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:1940 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) یہ واقعہ سنہ ١٠ ہجری ماہ ذی الحجہ کا ہے اور اس کی دلالت ظاہر ہے ۔ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ جن کے بارے میں یہ حکم اترا یہ سنہ ۸ ھجری میں جنگ موتہ میں شہید ہوئے ۔ صحیح مسلم شریف میں مروی ہے کہ { انس رضی اللہ تعالیٰ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا بیٹا کہہ کر بلایا } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2151) اسے بیان فرما کر کہ ’ لے پالک لڑکوں کو ان کے باپ کی طرف منسوب کر کے پکارا کرو پالنے والوں کی طرف نہیں ‘ ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ اگر تمہیں ان کے باپوں کا علم نہ ہو تو وہ تمہارے دینی بھائی اور اسلامی دوست ہیں ‘ ۔ { حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب عمرۃ القضاء والے سال مکہ شریف سے واپس لوٹے تو سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی چچا چچا کہتی ہوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے دوڑیں ۔ علی رضی اللہ عنہ نے انہیں لے کر سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کو دے دیا اور فرمایا ” یہ تمہاری چچازاد بہن ہے انہیں اچھی طرح رکھو “ ۔ سیدنا زید اور سیدنا جعفر رضی اللہ عنہم فرمانے لگے ” اس بچی کے حقدار ہم ہیں ہم انہیں پالیں گے “ ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” نہیں یہ میرے ہاں رہیں گی “ ، سیدنا علی رضی اللہ عنہا نے تو یہ دلیل دی کہ میرے چچا کی لڑکی ہیں ۔ سیدنا زید رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ” میرے بھائی کی لڑکی ہے “ ۔ جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہنے لگے ” میرے چچا کی لڑکی ہیں اور ان کی چچی میرے گھر میں ہیں “ یعنی سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا ۔ آخر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ کیا کہ { صاحبزادی تو اپنی خالہ کے پاس رہیں کیونکہ خالہ ماں کے قائم مقام ہے } ۔ سیدنا علی رضی اللہ سے فرمایا : { تو میرا ہے اور میں تیرا ہوں } ۔ سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ سے فرمایا : { تو صورت سیرت میں میرے مشابہ ہے } ، حضرت زید رضی اللہ عنہ سے فرمایا : { تو ہمارا بھائی اور ہمارا مولیٰ ہے } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4251) اس حدیث میں بہت سے احکام ہیں ۔ سب سے بہتر تو یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم حق سنا کر اور دعویداروں کو بھی ناراض نہیں ہونے دیا ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی آیت پر عمل کرتے ہوئے حضرت زید رضی اللہ عنہ سے فرمایا : { تم ہمارے بھائی اور ہمارے دوست ہو } ۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” اسی آیت کے ماتحت میں تمہارا بھائی ہوں “ ۔ ابی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” واللہ !اگر یہ بھی معلوم ہوتا کہ ان کے والد کوئی ایسے ویسے ہی تھے تو بھی یہ ان کی طرف منسوب ہوتے “ ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3508) حدیث شریف میں ہے کہ { جو شخص جان بوجھ کر اپنی نسبت اپنے باپ کی طرف سے دوسرے کی طرف کرے اس نے کفر کیا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:35080) اس سے سخت وعید پائی جاتی ہے اور ثابت ہوتا ہے کہ صحیح نسب سے اپنے آپ کو ہٹانا بہت بڑا کبیرہ گناہ ہے ۔ پھر فرماتا ہے ’ جب تم نے اپنے طور پر جتنی طاقت تم میں ہے تحقیق کرکے کسی کو کسی کی طرف نسبت کیا اور فی الحقیقت وہ نسبت غلط ہے تو اس خطا پر تمہاری پکڑ نہیں ‘ ۔ چنانچہ خود پروردگار نے ہمیں ایسی دعا تعلیم دی کہ ہم اس کی جناب میں ہیں کہیں «رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ اِنْ نَّسِیْنَآ اَوْ اَخْطَاْنَا» ۱؎ (2-البقرۃ:286) ’ اے اللہ ! ہماری بھول چوک اور غلطی پر ہمیں نہ پکڑ ‘ ۔ صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ { جب مسلمانوں نے یہ دعا پڑھی جناب باری عزاسمہ نے فرمایا ’ میں نے یہ دعاقبول فرمائی ‘ } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:126) صحیح بخاری شریف میں ہے { جب حاکم اپنی کوشش میں کامیاب ہو جائے اپنے اجتہاد میں صحت کو پہنچ جائے تو اسے دوہرا اجر ملتا ہے اور اگر خطا کرجائے تو اسے ایک اجر ملتا ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:7352) اور حدیث میں ہے کہ { اللہ تعالیٰ نے میری امت کو ان کی خطائیں بھول چوک اور جو کام ان سے زبردستی کرائے جائیں ان سے در گزر فرما لیا ہے } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:2043 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) یہاں بھی یہ فرما کر ارشاد فرمایا کہ ’ ہاں جو کام تم قصد قلب سے عمداً کرو وہ بیشک قابل گرفت ہیں ‘ ۔ قسموں کے بارے میں بھی یہی حکم ہے اوپر جو حدیث بیان ہوئی کہ نسب بدلنے والا کفر کا مرتکب ہے وہاں بھی یہ لفظ ہیں کہ { باوجود جاننے کے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3508) آیت قرآن جو اب تلاوتاً منسوخ ہے اس میں تھا «أَنْ لاَ تَرْغَبُوا عَنْ آبَائِکُمْ ، فَإِنَّہُ کُفْرٌ بِکُمْ أَنْ تَرْغَبُوا عَنْ آبَائِکُمْ ، أَوْ إِنَّ کُفْرًا بِکُمْ أَنْ تَرْغَبُوا عَنْ آبَائِکُمْ» یعنی ’ تمہارا اپنے باپ کی طرف نسبت ہٹانا کفر ہے ‘ ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کتاب نازل فرمائی اس میں رجم کی بھی آیت تھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی رجم کیا [ یعنی شادی شدہ زانیوں کو سنگسار کیا ] اور ہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد رجم کیا ۔ ہم نے قرآن میں یہ آیت بھی پڑھی ہے کہ اپنے باپوں سے اپنا سلسلہ نسب نہ ہٹاؤ یہ کفر ہے “ ۔ { حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے { مجھے تم میری تعریفوں میں اس طرح بڑھا چڑھا نہ دینا جیسے عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کے ساتھ ہوا ۔ میں تو صرف اللہ کا بندہ ہوں تو تم مجھے اللہ کا بندہ اور رسول اللہ کہنا } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:47/1:صحیح) ایک روایت میں صرف ابن مریم ہے ۔ اور حدیث میں ہے { تین خصلتیں لوگوں میں ہیں جو کفر ہیں ، نسب میں طعنہ زنی ، میت پر نوحہ ، ستاروں سے باران طلبی } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:934) الأحزاب
5 الأحزاب
6 تکمیل ایمان کی ضروری شرط چونکہ رب العزت «وَحدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ» کو علم ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت پر خود ان کی اپنی جان سے بھی زیادہ مہربان ہیں ۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی اپنی جان سے بھی انکا زیادہ اختیار دیا ۔ یہ خود اپنے لیے کوئی تجویز نہ کریں بلکہ ہر حکم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بہ دل و جان قبول کرتے جائیں ۔ جیسے فرمایا «‏‏‏‏فَلَا وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَــرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِــیْمًا» ۱؎ (4-النساء:65) ، ’ تیرے رب کی قسم یہ مومن نہ ہونگے جب تک کہ اپنے آپس کے تمام اختلافات میں تجھے منصف نہ مان لیں اور تیرے تمام تر احکام اور فیصلوں کو دل و جان بہ کشادہ پیشانی قبول نہ کر لیں ‘ ۔ صحیح حدیث شریف میں ہے { اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم میں سے کوئی با ایمان نہیں ہوسکتا ، جب تک کہ میں اسے اس کے نفس سے اس کے مال سے اس کی اولاد سے اور دنیا کے کل لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:15) ایک اور صحیح حدیث میں ہے { سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے تمام جہان سے زیادہ محبوب ہیں لیکن ہاں خود میرے اپنے نفس سے “ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { نہیں نہیں عمر ! جب تک کہ میں تجھے خود تیرے نفس سے بھی زیادہ محبوب نہ بن جاؤں } ۔ یہ سن کر جناب عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرمانے لگے ” قسم اللہ کی یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم اب مجھے ہر چیز سے یہاں تک کہ میری اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں “ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اب ٹھیک ہے } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6632) بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر میں ہے { حضورصلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { تمام مومنوں کا زیادہ حقدار دنیا اور آخرت میں خود ان کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ میں ہوں ۔ اگر تم چاہو تو پڑھ لو «اَلنَّبِیٰ اَوْلٰی بالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِہِمْ وَاَزْوَاجُہٗٓ اُمَّہٰتُہُمْ وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُہُمْ اَوْلٰی بِبَعْضٍ فِیْ کِتٰبِ اللّٰہِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُہٰجِرِیْنَ اِلَّآ اَنْ تَفْعَلُوْٓا اِلٰٓی اَوْلِیٰیِٕکُمْ مَّعْرُوْفًا کَانَ ذٰلِکَ فِی الْکِتٰبِ مَسْطُوْرًا» ‏‏‏‏ ۱؎ (33-الأحزاب:6) سنو جو مسلمان مال چھوڑ کر مرے اس کا مال تو اس کے وارثوں کا حصہ ہے ۔ اور اگر کوئی مر جائے اور اس کے ذمہ قرض ہو یا اس کے چھوٹے چھوٹے بال بچے ہوں تو اس قرض کی ادائیگی کا میں ذمہ دار ہوں اور ان بچوں کی پرورش میرے ذمہ ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2399) پھر فرماتا ہے ’ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن حرمت اور احترام میں عزت اور اکرام میں بزرگی اور عظام میں تمام مسلمانوں میں ایسی ہیں جیسی خود ان کی اپنی مائیں ‘ ۔ ہاں ماں کے اور احکام مثلاً خلوت یا ان کی لڑکیوں اور بہنوں سے نکاح کی حرمت یہاں ثابت نہیں گو بعض علماء نے ان کی بیٹیوں کو بھی مسلمانوں کی بہنیں لکھا ہے جیسے کہ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ نے مختصر میں نصاً فرمایا ہے لیکن یہ عبارت کا اطلاق ہے نہ کہ حکم کا اثبات ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ وغیرہ کو جو کسی نہ کسی ام المؤمنین کے بھائی تھے انہیں ماموں کہا جا سکتا ہے یا نہیں ؟ اس میں اختلاف ہے امام شافعی رحمہ اللہ نے تو کہا ہے کہہ سکتے ہیں ۔ رہی یہ بات کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ابو المؤمنین بھی کہہ سکتے ہیں یا نہیں ؟ یہ خیال رہے کہ ابوالمؤمنین کہنے میں مسلمان عورتیں بھی آ جائیں گی جمع مذکر سالم میں باعتبار تغلیب کے مونث بھی شامل ہے ۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا فرمان ہے کہ ” نہیں کہہ سکتے “ ۔ امام شافعی رحمہ اللہ کے دو قولوں میں بھی زیادہ صحیح قول یہی ہے ۔ ابی بن کعب اور ابن عباس رضی اللہ عنہم کی قرأت میں «اُمَّہَاتُہُمْ» کے بعد یہ لفظ ہیں «وَہُوَ اَبٌ لَّہُمْ» یعنی ’ آپ ان کے والد ہیں ‘ ۔ مذہب شافعی میں بھی ایک قول یہی ہے ۔ اور کچھ تائید حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { میں تمہارے لیے قائم مقام باپ کے ہوں میں تمہیں تعلیم دے رہا ہوں سنو ! تم میں سے جب کوئی پاخانے میں جائے تو قبلہ کی طرف منہ کر کے نہ بیٹھے ۔ نہ اپنے داہنے ہاتھ سے ڈھیلے لے نہ داہنے ہاتھ سے استنجا کرے } ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تین ڈھیلے لینے کا حکم دیتے تھے اور گوبر اور ہڈی سے استنجاء کرنے کی ممانعت فرماتے تھے } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:8،قال الشیخ الألبانی:حسن) دوسرا قول یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو باپ نہ کہا جائے کیونکہ قرآن کریم میں ہے «مَا کَانَ مُحَـمَّـدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّـبِیّٖنَ وَکَان اللّٰہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِــیْمًا» ۱؎ (33-الأحزاب:40) ’ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں ‘ ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ بہ نسبت عام مومنوں مہاجرین اور انصار کے ورثے کے زیادہ مستحق قرابتدار ہیں ‘ ۔ اس سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین اور انصار میں جو بھائی چارہ کرایا تھا اسی کے اعتبار سے یہ آپس میں ایک دوسرے کے وارث ہوتے تھے اور قسمیں کھا کر ایک دوسروں کے جو حلیف بنے ہوئے تھے وہ بھی آپس میں ورثہ بانٹ لیا کرتے تھے ۔ اس کو اس آیت نے منسوخ کر دیا ۔ پہلے اگر انصاری مرگیا تو اس کے وارث اس کی قرابت کے لوگ نہیں ہوتے تھے بلکہ مہاجر ہوتے تھے جن کے درمیان اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھائی چارہ کرا دیا تھا ۔ حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ” یہ حکم خاص ہم انصار و مہاجرین کے بارے میں اترا ہے ہم جب مکہ چھوڑ کر مدینے آئے تو ہمارے پاس کچھ مال نہ تھا یہاں آ کر ہم نے انصاریوں سے بھائی چارہ کیا یہ بہترین بھائی ثابت ہوئے یہاں تک کہ ان کے فوت ہونے کے بعد ان کے مال کے وارث بھی ہوتے تھے ۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا بھائی چارہ حضرت خارجہ بن زید رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا فلاں کے ساتھ ۔ تھا سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا ایک زرقی شخص کے ساتھ ۔ خود میرا سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کے ساتھ ۔ یہ زخمی ہوئے اور زخم بھی کاری تھے اگر اس وقت ان کا انتقال ہو جاتا تو میں بھی ان کا وارث بنتا ۔ پھر یہ آیت اتری اور میراث کا عام حکم ہمارے لیے بھی ہوگیا “ ۔ ۱؎ (مستدرک حاکم:443/3) پھر فرماتا ہے ’ ورثہ تو ان کا نہیں لیکن ویسے اگر تم اپنے ان مخلص احباب کے ساتھ سلوک کرنا چاہو تو تمہیں اخیتار ہے ۔ وصیت کے طور پر کچھ دے دلا سکتے ہو ‘ ۔ پھر فرماتا ہے ’ اللہ کا یہ حکم پہلے ہی سے اس کتاب میں لکھا ہوا تھا جس میں کوئی ترمیم وتبدیلی نہیں ہوئی ‘ ۔ بیچ میں جو بھائی چارے پر ورثہ بٹتا تھا یہ صرف ایک خاص مصلحت کی بنا پر خاص وقت تک کے لیے تھا اب یہ ہٹا دیا گیا اور اصلی حکم دے دیا گیا ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ الأحزاب
7 میثاق انبیاء فرمان ہے کہ ’ ان پانچوں اولوالعزم پیغمبروں سے اور عام نبیوں سے سب سے ہم نے عہدو وعدہ لیا کہ وہ میرے دین کی تبلیغ کریں گے اس پر قائم رہیں گے ۔ آپس میں ایک دوسرے کی مدد امداد اور تائید کریں گے اور اتفاق واتحاد رکھیں گے ‘ ۔ اسی عہد کا ذکر اس آیت میں ہے «وَاِذْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاق النَّبِیّٖنَ لَمَآ اٰتَیْتُکُمْ مِّنْ کِتٰبٍ وَّحِکْمَۃٍ ثُمَّ جَاءَکُمْ رَسُوْلٌ مٰصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنْصُرُنَّہٗ» ۱؎ (3-آل عمران:81) ، یعنی ’ اللہ تعالیٰ نے نبیوں سے قول قرار لیا کہ جو کچھ کتاب و حکمت دے کر میں تمہیں بھیجوں پھر تمہارے ساتھ کی چیز کی تصدیق کرنے والا رسول آ جائے تو تم ضرور اس پر ایمان لانا اور اس کی امداد کرنا ۔ بولو تمہیں اس کا اقرار ہے ؟ اور میرے سامنے اس کا پختہ وعدہ کرتے ہیں ؟ سب نے جواب دیا کہ ہاں ہمیں اقرار ہے ‘ ۔ جناب باری تعالیٰ نے فرمایا ’ بس اب گواہ رہنا اور میں خود بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں ‘ ۔ یہاں عام نبیوں کا ذکر کر کے پھر خاص جلیل القدر پیغمبروں کا نام بھی لے دیا ۔ اسی طرح ان کے نام اس آیت میں بھی ہیں «شَرَعَ لَکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہٖٓ اِبْرٰہِیْمَ وَمُوْسٰی وَعِیْسٰٓی اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ» ‏‏‏‏ ۱؎ (42-الشوری:13) ، یہاں حضرت نوح علیہ السلام کا ذکر ہے جو زمین پر اللہ کے پہلے پیغمبر تھے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہے جو سب سے آخری پیغمبر تھے ۔ اور ابراہیم ، موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام کا ذکر ہے جو درمیانی پیغمبر تھے ۔ ایک لطافت اس میں یہ ہے کہ پہلے پیغمبر آدم علیہ السلام کے بعد کے پیغمبر نوح علیہ السلام کا ذکر کیا اور آخری پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کے پیغمبر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر کیا اور درمیانی پیغمبروں میں سے حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ علیہما السلام کا ذکر کیا ۔ یہاں تو ترتیب یہ رکھی کہ فاتح اور خاتم کا ذکر کر کے بیچ کے نبیوں کا بیان کیا اور اس آیت میں سب سے پہلے خاتم الانیباء کا نام لیا اس لیے کہ سب سے اشرف وافضل آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں ۔ پھر یکے بعد دیگرے جس طرح آئے ہیں اسی طرح ترتیب وار بیان کیا اللہ تعالیٰ اپنے تمام نبیوں پر اپنا درود وسلام نازل فرمائے ۔ اس آیت کی تفسیر میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ { پیدائش کے اعتبار سے میں سب نبیوں سے پہلے ہوں اور دنیا میں آنے کے اعتبار سے سب سے آخر میں ہوں پس مجھ سے ابتداء کی ہے } ۔ ۱؎ (سلسلۃ احادیث ضعیفہ البانی:661 ، ) یہ حدیث ابن ابی حاتم میں ہے لیکن اس کے ایک راوی سعید بن بشیر ضعیف ہیں ۔ اور سند سے یہ مرسل مروی ہے اور یہی مشابہت رکھتی ہےاور بعض نے اسے موقوف روایت کہا ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد میں سب سے زیادہ اللہ کے پسندیدہ پانچ پیغمبر ہیں ۔ نوح ، ابراہیم ، موسیٰ ، عیسیٰ ، اور محمد «فَصَلَواۃُ الّلہِ وَسَلَامُہ عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْنَ» اور ان میں بھی سب سے بہتر محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ اس کا ایک راوی حمزہ ضعیف ہے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس آیت میں جس عہد ومیثاق کا ذکر ہے یہ وہ ہے جو روز ازل میں حضرت آدم علیہ السلام کی پیٹھ سے تمام انسانوں کو نکال کر لیا تھا ۔ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کو بلند کیا گیا آپ نے اپنی اولاد کو دیکھا ان میں مالدار مفلس خوبصورت اور ہر طرح کے لوگ دیکھے تو کہا کہ اللہ کیا اچھا ہوتا کہ تو نے ان سب کو برابر ہی رکھا ہوتا اللہ تعالیٰ جل و علا نے فرمایا کہ ’ یہ اس لئے ہے کہ میرا شکر ادا کیا جائے ‘ ۔ ان میں جو انبیاء کرام علیہم السلام تھے انہیں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا وہ روشنی کے مانند نمایاں تھے اور ان پر نور برس رہا تھا ان سے نبوت و رسالت کا ایک اور خاص عہد لیا گیا تھا جس کا بیان اس آیت میں ہے ۔ صادقوں سے ان کے صدق کا سوال ہو یعنی ان سے جو احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم پہنچانے والے تھے ۔ ان کی امتوں میں سے جو بھی ان کو نہ مانے اسے سخت عذاب ہوگا ۔ اے اللہ ! تو گواہ رہ ہماری گواہی ہے ہم دل سے مانتے ہیں کہ بیشک تیرے رسولوں نے تیرا پیغام تیرے بندوں کو بلا کم وکاست پہنچا دیا ۔ انہوں نے پوری خیر خواہی اور حق کو صاف طور پر نمایاں طریقے سے واضح کر دیا جس میں کوئی پوشیدگی کوئی شبہ کسی طرح کا شک نہ رہا گو بدنصیب ضدی جھگڑالو لوگوں نے انہیں نہ مانا ۔ ہمارا ایمان ہے کہ تیرے رسولوں کی تمام باتیں سچ اور حق ہیں اور جس نے ان کی راہ نہ پکڑی وہ گمراہ اور باطل پر ہے ۔ الأحزاب
8 الأحزاب
9 غزوئہ خندق اور مسلمانوں کی خستہ حالی جنگ خندق میں جو سنہ ٥ ہجری ماہ شوال میں ہوئی تھی اللہ تعالیٰ نے مومنوں پر اپنا فضل و احسان کیا تھا اس کا بیان ہو رہا ہے ۔ جبکہ مشرکین نے پوری طاقت سے اور پورے اتحاد سے مسلمانوں کو مٹا دینے کے ارادے سے زبردست لشکر لے کر حملہ کیا تھا ۔ بعض لوگ کہتے ہیں جنگ خندق سنہ ٤ ہجری میں ہوئی تھی ۔ اس لڑائی کا قصہ یہ ہے کہ بنو نضیر کے یہودی سرداروں نے جن میں سلام بن ابو حقیق ، سلام بن مشکم ، کنانہ بن ربیع وغیرہ تھے مکے میں آ کر قریشیوں کو جو اول ہی سے تیار حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑائی کرنے پر آمادہ کیا اور ان سے عہد کیا کہ ہم اپنے زیر اثر لوگوں کے ساتھ آپ کی جماعت میں شامل ہیں ۔ انہیں آمادہ کر کے یہ لوگ قبیلہ غطفان کے پاس گئے ان سے ساز باز کر کے اپنے ساتھ شامل کر لیا قریشیوں نے بھی ادھر ادھر پھر کر تمام عرب میں آگ لگا کر سب گرے پڑے لوگوں کو بھی ساتھ ملالیا ۔ ان سب کا سردار ابوسفیان صخر بن حرب بنا اور غطفان کا سردار عیینہ بن حصن بن بدر مقرر ہوا ۔ ان لوگوں نے کوشش کر کے دس ہزار کا لشکر اکٹھا کر لیا اور مدینے کی طرف چڑھ دوڑے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس لشکر کشی کی خبریں پہنچیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہ مشورہ سلمان فارسی رضی اللہ عنہ مدینے شریف کی مشرقی سمت میں خندق یعنی کھائی کھدوائی اس خندق کے کھودنے میں تمام صحابہ مہاجرین و انصار رضی اللہ عنہم شامل تھے اور خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی بہ نفس نفیس اس کے کھودنے اور مٹی ڈھونے میں بھی حصہ لیتے تھے ۔ مشرکین کا لشکر بلا مزاحمت مدینے شریف تک پہنچ گیا اور مدینے کے مشرقی حصے میں احد پہاڑ کے متصل اپنا پڑاؤ جمایا ۔ یہ تھا مدینے کا نیچا حصہ اوپر کے حصے میں انہوں نے اپنی ایک بڑی بھاری جمعیت بھیج دی جس نے اعالی مدینہ میں لشکر کا پڑاؤ ڈالا اور نیچے اوپر سے مسلمانوں کو محصور کر لیا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھ کے صحابہ رضی اللہ عنھم کو جو تین ہزار سے نیچے تھے اور بعض روایات میں ہے کہ صرف سات سو تھے لے کر ان کے مقابلے پر آئے ۔ سلع پہاڑی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پشت پر کیا اور دشمنوں کی طرف متوجہ ہو کر فوج کو ترتیب دیا ۔ خندق جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھودی اور کھدوائی تھی اس میں پانی وغیرہ نہ تھا وہ صرف ایک گڑھا تھا جو مشرکین کے ریلے کو بیروک آنے نہیں دیتا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں اور عورتوں کو مدینے کے ایک محلے میں کر دیا ۔ یہودیوں کی ایک جماعت بنو قریظہ مدینے میں تھی مشرقی جانب ان کا محلہ تھا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا معاہدہ مضبوط تھا ان کا بھی بڑا گروہ تھا تقریباً آٹھ سو جنگجو لڑنے کے قابل میدان میں موجود تھے مشرکین اور یہود نے ان کے پاس حی بن اخطب نضری کو بھیجا اس نے انہیں بھی شیشے میں اتار کر سبز باغ دکھلا کر اپنی طرف کر لیا اور انہوں نے بھی ٹھیک موقعہ پر مسلمانوں کے ساتھ بد عہدی کی ، اور اعلانیہ طور پر صلح توڑ دی ۔ باہر سے دس ہزار کا وہ لشکر جو گھیرا ڈالے پڑا ہے اندر سے ان یہودیوں کی بغاوت جو بغلی پھوڑے کی طرح اٹھ کھڑے ہوئے ۔ مسلمان بتیس دانتوں میں زبان یا آٹے میں نمک کی طرح ہوگئے ۔ یہ کل سات سو آدمی کر ہی کیا سکتے تھے ۔ یہ وقت تھا جس کا نقشہ قرآن کریم نے کھینچا ہے کہ ’ آنکھیں پتھرا گئیں دل الٹ گئے طرح طرح کے خیالات آنے لگے ۔ جھنجھوڑ دئیے گئے اور سخت امتحان میں مبتلا ہو گئے ‘ ۔ مہینہ بھر تک محاصرہ کی یہی تلخ صورت قائم رہی گو مشرکین کی یہ جرأت تو نہیں ہوئی کہ خندق سے پار ہو کر دستی لڑائی لڑتے لیکن ہاں گھیرا ڈالے پڑے رہے اور مسلمانوں کو تنگ کر دیا ۔ البتہ عمرو بن عبدود عامری جو عرب کا مشہور شجاع پہلوان اور فن سپہ سالاری میں یکتا تھا ساتھ ہی بہادر جی دار اور قوی تھا ایک مرتبہ ہمت کر کے اپنے ساتھ چند جانباز پہلوانوں کو لے کر خندق سے اپنے گھوڑوں کو گزارلایا ۔ یہ حال دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سواروں کی طرف اشارہ کیا لیکن کہا جاتا ہے کہ انہیں تیار نہ پاکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ تم اس کے مقابلے پر آ جاؤ آپ رضی اللہ عنہ گئے تھوڑی دیر تک تو دونوں بہادروں میں تلوار چلتی رہی لیکن بالآخر علی رضی اللہ عنہ نے کفر کے اس دیو کو تہہ تیغ کیا ـ جس سے مسلمان بہت خوش ہوئے اور انہوں نے سمجھ لیا کہ فتح ہماری ہے ۔ پھر پروردگار نے وہ تندوتیز آندھی بھیجی کہ مشرکین کے تمام خیمے اکھڑے گئے کوئی چیز قرینے سے نہ رہی آگ کا جلانا مشکل ہو گیا ۔ کوئی جائے پناہ نظر نہ آئی ۔ بالآخر تنگ آ کر نا مرادی سے واپس ہوئے ۔ جس کا بیان اس آیت میں ہے ۔ جس ہوا کا اس آیت میں ذکر ہے بقول مجاہد رحمۃ اللہ یہ صبا ہے اور اس کی تائید حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے بھی ہوتی ہے کہ { میں صبا ہوا سے مدد دیا گیا ہوں اور قوم عاد کے لوگ تند و تیز ہواؤں سے ہلاک کئے گئے تھے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4105) عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” جنوبی ہوا نے شمالی ہوا سے اس جنگ احزاب میں کہا کہ چل ہم تم جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کریں تو شمالی ہوا نے کہا کہ گرمی رات کو نہیں چلاتی ۔ پھر ان پر صبا ہوا بھیجی گئی “ ۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں مجھے میرے ماموں عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ نے خندق والی رات سخت جاڑے اور تیز ہوا میں مدینہ شریف بھیجا کہ کھانا اور لحاف لے آؤں ۔ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت مرحمت فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ { میرے جو صحابی تمہیں ملیں انہیں کہنا کہ میرے پاس چلے آئیں } ۔ اب میں چلا ہوائیں زناٹے کی شائیں شائیں چل رہی تھیں ۔ مجھے جو مسلمان ملا میں نے اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام دیا اور جس نے سنا الٹے پاؤں فوراً حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چل دیا یہاں تک کہ ان میں سے کسی نے پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا ۔ ہوا میری ڈھال کو دھکے دے رہی تھی اور وہ مجھے لگ رہی تھی یہاں تک کہ اس کا لوہا میرے پاؤں پر گرپڑا جسے میں نے نیچے پھینک دیا ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:28361:ضعیف) اس ہوا کے ساتھ ہی ساتھ اللہ تعالیٰ نے فرشتے بھی نازل فرمائے تھے جنہوں نے مشرکین کے دل اور سینے خوف اور رعب سے بھر دئیے ۔ یہاں تک کہ جتنے سرداران لشکر تھے اپنے ماتحت سپاہیوں کو اپنے پاس بلا بلا کر کہنے لگے نجات کی صورت تلاش کرو ، بچاؤ کا انتظام کرو ۔ یہ تھا فرشتوں کا ڈالا ہوا ڈر اور رعب اور یہی وہ لشکر ہے جس کا بیان اس آیت میں ہے کہ ’ اس لشکر کو تم نے نہیں دیکھا ‘ ۔ حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے ایک نوجوان شخص نے جو کوفے کے رہنے والے تھے کہا کہ اے ابوعبداللہ تم بڑے خوش نصبیب ہو کہ تم نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھے بتاؤ تم کیا کرتے تھے ؟ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا واللہ ! ہم جان نثاریاں کرتے تھے ۔ نوجوان فرمانے لگے سنئے چچا اگر ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کو پاتے تو واللہ ! آپ کو قدم زمین پر نہ رکھنے دیتے اپنی گردنوں پر اٹھا کر لے جاتے ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اے بھیتجے لو ایک واقعہ سنو جنگ خندق کے موقعہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بڑی رات تک نماز پڑھتے رہے ۔ فارغ ہو کر دریافت فرمایا کہ { کوئی ہے جا کر لشکر کفار کی خبر لائے ؟ اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس سے شرط کرتے ہیں کہ وہ جنت میں داخل ہو گا } ۔ کوئی کھڑا نہ ہوا کیونکہ خوف کی بھوک کی اور سردی کی انتہا تھی ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دیر تک نماز پڑھتے رہے ۔ پھر فرمایا { کوئی جو جا کر یہ خبر دے کہ مخالفین نے کیا کیا ؟ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اسے مطمئن کرتے ہیں کہ وہ ضرور واپس آئے گا اور میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے جنت میں میرا رفیق کرے } ۔ اب تک بھی کوئی کھڑا نہ ہوا اور کھڑا ہوتا کیسے ؟ بھوک کے مارے پیٹ کمر سے لگ رہا تھا سردی کے مارے دانت بج رہے تھے ، خوف کے مارے پتے پانی ہو رہے تھے ۔ بالآخر میرا نام لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آواز دی اب تو بے کھڑے ہوئے چارہ نہ تھا ۔ فرمانے لگے { حذیفہ [ رضی اللہ عنہ ] تو جا اور دیکھ کہ وہ اس وقت کیا کر رہے ہیں دیکھ جب تک میرے پاس واپس نہ پہنچ جائے کوئی نیا کام نہ کرنا } ۔ میں نے بہت خوب کہہ کر اپنی راہ لی اور جرأت کے ساتھ مشرکوں میں گھس گیا وہاں جا کر عجیب حال دیکھا کہ دکھائی نہ دینے والے اللہ کے لشکر اپنا کام پھرتی سے کر رہے ہیں ۔ چولہوں پر سے دیگیں ہوا نے الٹ دی ہیں ۔ خیموں کی چوبیں اکھڑ گئی ہیں ، آگ جلا نہیں سکتے ۔ کوئی چیز اپنے ٹھکانے پر نہیں رہی ۔ اسی وقت ابوسفیان کھڑا ہوا اور با آواز بلند منادی کی کہ اے قریشیوں ! اپنے اپنے ساتھی سے ہوشیار ہو جاؤ ۔ اپنے ساتھی کو دیکھ بھال لو ایسا نہ ہو کوئی غیر کھڑا ہو ۔ میں نے یہ سنتے ہی میرے پاس جو ایک قریشی جوان تھا اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور اس سے پوچھا تو کون ہے ؟ اس نے کہا میں فلاں بن فلاں ہوں ۔ میں نے کہا اب ہوشیار رہنا ۔ پھر ابوسفیان نے کہا قریشیو اللہ گواہ ہے ہم اس وقت کسی ٹھہرنے کی جگہ پر نہیں ہیں ۔ ہمارے مویشی ہمارے اونٹ ہلاک ہو رہے ہیں ۔ بنو قریظہ نے ہم سے وعدہ خلافی کی اس نے ہمیں بڑی تکلیف پہنچائی ، پھر اس ہوا نے تو ہمیں پریشان کر رکھا ہے ہم پکا کھا نہیں سکتے آگ تک نہیں جلا سکتے خیمے ڈیرے ٹھہر نہیں سکتے ۔ میں تو تنگ آ گیا ہوں اور میں نے تو ارادہ کر لیا ہے کہ واپس ہو جاؤں پس میں تم سب کو حکم دیتا ہوں کہ واپس چلو ۔ اتنا کہتے ہی اپنے اونٹ پر جو زانوں بندھا ہوا بیٹھا تھا چڑھ گیا اور اسے مارا وہ تین پاؤں سے ہی کھڑا ہو گیا پھر اس کا پاؤں کھولا ۔ اس وقت ایسا اچھا موقع تھا کہ اگر میں چاہتا ایک تیر میں ہی ابوسفیان کا کام تمام کر دیتا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرما دیا تھا کہ { کوئی نیا کام نہ کرنا } اس لیے میں نے اپنے دل کو روک لیا ۔ اب میں واپس لوٹا اور اپنے لشکر میں آ گیا جب میں پہنچا تو میں نے دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک چادر کو لپیٹے ہوئے ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بیوی صاحبہ کی تھی نماز میں مشغول ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھ کراپنے دونوں پیروں کے درمیان بٹھالیا اور چادر مجھے بھی اڑھا دی ۔ پھر رکوع اور سجدہ کیا اور میں وہیں وہی چادر اوڑھے بیٹھا رہا ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فارغ ہوئے تو میں نے سارا واقعہ بیان کیا ۔ قریشیوں کے واپس لوٹ جانے کی خبر جب قبیلہ غطفان کو پہنچی تو انہوں نے بھی سامان باندھا اور واپس لوٹ گئے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:28362:) اور روایت میں سیدنا ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” جب میں چلا تو باوجود کڑاکے کی سخت سردی کے قسم اللہ کی مجھے یہ معلوم ہوتا تھا کہ گویا میں کسی گرم حمام میں ہوں “ ۔ اس میں یہ بھی ہے کہ جب میں لشکر کفار میں پہنچا ہوں اس وقت ابوسفیان آگ سلگائے ہوئے تاپ رہا تھا میں نے اسے دیکھ کر اپنا تیر کمان پر چڑھالیا اور چاہتا تھا کہ چلادوں اور بالکل زد میں تھا ناممکن تھا کہ میر انشانہ خالی جائے لیکن مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان یاد آ گیا کہ { کوئی ایسی حرکت نہ کرنا کہ وہ چوکنے ہو کر بھڑک جائیں } ، تو میں نے اپنا ارادہ ترک کر دیا ۔ جب میں واپس آیا اس وقت بھی مجھے کوئی سردی محسوس نہ ہوئی بلکہ یہ معلوم ہو رہا تھا کہ گویا میں حمام میں چل رہا ہوں ۔ ہاں جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گیا بڑے زور کی سردی لگنے لگی اور میں کپکپانے لگا توحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر مجھے اوڑھادی ۔ میں جو اوڑھ کر لیٹا تو مجھے نیند آگئی اور صبح تک پڑا سوتا رہا صبح خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود مجھے یہ کہہ کر جگایا کہ { اے سونے والے بیدار ہو جا } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1788) اور روایت میں ہے کہ جب اس تابعی رحمہ اللہ نے کہا کہ ” کاش ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کو پاتے “ ، تو سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا ” کاش ! کہ تم جیسا ایمان ہمیں نصیب ہو تاکہ باوجود نہ دیکھنے کے پورا اور پختہ عقیدہ رکھتے ہو ۔ برادر زادے جو تمنا کرتے ہو یہ تمنا ہی ہے نہ جانے تم ہوتے تو کیا کرتے ؟ ہم پر تو ایسے کٹھن وقت آئے ہیں “ ۔ یہ کہہ کہ پھر آپ نے مندرجہ بالا خندق کی رات کا واقعہ بیان کیا ۔ اس میں یہ بھی ہے کہ ” ہوا جھڑی اور آندھی کے ساتھ بارش بھی تھی “ ۔ ۱؎ (دلائل النبوۃ للبیہقی:454/3:صحیح) اور روایت میں ہے کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کے واقعات کو بیان فرما رہے تھے جو اہل مجلس نے کہا کہ اگر ہم اس وقت موجود ہوتے تو یوں اور یوں کرتے اس پر آپ رضی اللہ عنہ نے یہ واقعہ بیان فرما دیا کہ باہر سے تو دس ہزار کا لشکر گھیرے ہوئے ہے اندر سے بنو قریظہ کے آٹھ سو یہودی بگڑے ہوئے ہیں بال بچے اور عورتیں مدینے میں ہیں خطرہ لگا ہوا ہے اگر بنو قریظہ نے اس طرف کا رخ کیا تو ایک ساعت میں ہی عورتوں بچوں کا فیصلہ کر دیں گے ۔ واللہ ! اس رات جیسی خوف وہراس کی حالت کبھی ہم پر کبھی نہیں گزری ۔ پھر وہ ہوائیں چلتی ہیں ، آندھیاں اٹھتی ہیں ، اندھیرا چھا جاتا ہے ، کڑک گرج اور بجلی ہوتی ہے کہ العظمتہ اللہ ۔ ساتھی کو دیکھنا تو کہاں اپنی انگلیاں بھی نظر نہیں آتی تھیں ۔ جو منافق ہمارے ساتھ تھے وہ ایک ایک ہو کر یہ بہانا بنا کر ہمارے بال بچے اور عورتیں وہاں ہیں اور گھر کا نگہبان کوئی نہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے آ آ کر اجازت چاہنے لگے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کسی ایک کو نہ روکا جس نے کہا کہ میں جاؤں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { شوق سے جاؤ } ۔ وہ ایک ایک ہو کر سرکنے لگے اور ہم صرف تین سو کے قریب رہ گئے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اب تشریف لائے ایک ایک کو دیکھا میری عجیب حالت تھی نہ میرے پاس دشمن سے بچنے کے لیے کوئی آلہ تھا نہ سردی سے محفوظ رہنے کے لیے کوئی کپڑا تھا ۔ صرف میری بیوی کی ایک چھوٹی سی چادر تھی جو میرے گھٹنوں تک بھی نہیں پہنچتی تھی ۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس پہنچے اس وقت میں اپنے گھٹنوں میں سر ڈالے ہوئے دبک کر بیٹھا ہوا کپکپارہا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا { یہ کون ہیں ؟ } میں نے کہا حذیفہ ۔ فرمایا : { حذیفہ سن! } واللہ مجھ پر تو زمین تنگ آگئی کہ کہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کھڑا نہ کریں میری تو درگت ہو رہی ہے لیکن کرتا کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان تھا میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سن رہا ہوں ارشاد ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { دشمنوں میں ایک نئی بات ہونے والی ہے جاؤ ان کی خبر لاؤ } ۔ واللہ اس وقت مجھ سے زیادہ نہ تو کسی کو خوف تھا نہ گھبراہٹ تھی نہ سردی تھی لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم سنتے ہی کھڑا ہو گیا اور چلنے لگا تو میں نے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے لیے دعا کر رہے ہیں کہ { اے اللہ اس کے آگے سے پیچھے سے دائیں سے بائیں سے اوپر سے نیچے سے اس کی حفاظت کر } ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعا کے ساتھ ہی میں نے دیکھا کہ کسی قسم کا خوف ڈر دہشت میرے دل میں تھی ہی نہیں ۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے آواز دے کر فرمایا : { دیکھو حذیفہ وہاں جا کر میرے پاس واپس آنے تک کوئی نئی بات نہ کرنا } ۔ اس روایت میں یہ بھی ہے کہ میں ابوسفیان کو اس سے پہلے پہچانتا نہ تھا میں گیا تو وہاں یہی آوازیں لگ رہی تھیں کہ چلو کوچ کرو واپس چلو ۔ ایک عجیب بات میں نے یہ بھی دیکھی کہ وہ خطرناک ہوا جو دیگیں الٹ دیتی تھی وہ صرف ان کے لشکر کے احاطہٰ تک ہی تھی واللہ اس سے ایک بالشت بھر باہر نہ تھی ۔ میں نے دیکھا کہ پتھر اڑ اڑ کر ان پر گرتے تھے ۔ جب میں واپس چلا ہوں تو میں نے دیکھا کہ تقریباً بیس سوار ہیں جو عمامے باندھے ہوئے ہیں انہوں نے مجھ سے فرمایا جاؤ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دو کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کفایت کر دی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کو مات دی ۔ ۱؎ (دلائل النبوۃ للبیہقی:450/3:حسن) اس میں یہ بھی بیان ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت میں داخل تھا کہ جب کبھی کوئی گھبراہٹ اور دقت کا وقت ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز شروع کر دیتے } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:1319 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) جب میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر پہنچائی اسی وقت یہ آیت اتری ۔ پس آیت میں نیچے کی طرف سے آنے والوں سے مراد بنو قریظہ ہیں ۔ شدت خوف اور سخت گھبراہٹ سے آنکھیں الٹ گئی تھیں اور دل حلقوم تک پہنچ گئے تھے اور طرح طرح کے گمان ہو رہے تھے یہاں تک کہ بعض منافقوں نے سمجھ لیا کہ اب کی لڑائی میں کافر غالب آ جائیں گے عام منافقوں کا تو پوچھنا ہی کیا ہے ؟ معتب بن قشیر کہنے لگا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو ہمیں کہہ رہے تھے کہ ہم قیصر وکسریٰ کے خزانوں کے مالک بنیں گے اور یہاں حالت یہ ہے کہ پاخانے کو جانا بھی دو بھر ہو رہا ہے ۔ یہ مختلف گمان مختلف لوگوں کے تھے مسلمان تو یقین کرتے تھے کہ غلبہ ہمارا ہی ہے ۔ جیسا کہ فرمان ہے «وَلَمَّا رَاَ الْمُؤْمِنُوْنَ الْاَحْزَابَ قَالُوْا ھٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ وَصَدَقَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ ۡ وَمَا زَادَہُمْ اِلَّآ اِیْمَانًا وَّتَسْلِیْمًا» ‏‏‏‏ ۱؎ (33-الأحزاب:22) ، لیکن منافقین کہتے تھے کہ اب کی مرتبہ سارے مسلمان مع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دئیے جائیں گے ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عین اس گھبراہٹ اور پریشانی کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ہمیں اس سے بچاؤ کی کوئی تلقین کریں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { یہ دعا مانگو « اللہُمَّ اسْتُرْ عَوْرَاتِنَا ، وَآمِنْ رَوْعَاتِنَا» اللہ ہماری پردہ پوشی کر اللہ ہمارے خوف ڈر کو امن وامان سے بدل دے } ۔ ادھر مسلمانوں کی یہ دعائیں بلند ہوئیں ادھر اللہ کا لشکر ہواؤں کی شکل میں آیا اور کافروں کا تیا پانچا کر دیا ، «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» ۔ ۱؎ (مسند احمد:3/3:اسنادہ ضعیف) الأحزاب
10 الأحزاب
11 منافقوں کا فرار اس گھبراہٹ اور پریشانی کا حال بیان ہو رہا ہے جو جنگ احزاب کے موقعہ پر مسلمانوں کی تھی کہ باہر سے دشمن اپنی پوری قوت اور کافی لشکر سے گھیرا ڈالے کھڑا ہے ۔ اندرون شہر میں بغاوت کی آگ بھڑکی ہوئی ہے یہودیوں نے دفعۃً صلح توڑ کر بے چینی کی باتیں بنا رہے ہیں کہہ رہے ہیں کہ بس اللہ کے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وعدے دیکھ لیے ۔ کچھ لوگ ہیں جو ایک دوسرے کے کان میں صور پھونک رہے ہیں کہ میاں پاگل ہوئے ہو ؟ دیکھ نہیں رہے دو گھڑی میں نقشہ پلٹنے والا ہے ۔ بھاگ چلو لوٹو لوٹو واپس چلو ۔ یثرب سے مراد مدینہ ہے ۔ جیسے صحیح حدیث میں ہے کہ { مجھے خواب میں تمہاری ہجرت کی جگہ دکھائی گئی ہے ۔ جو دو سنگلاخ میدانوں کے درمیان ہے پہلے تو میرا خیال ہوا تھا کہ یہ ہجر ہے لیکن نہیں وہ جگہ یثرب ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3622) اور روایت میں ہے کہ { وہ جگہ مدینہ ہے } ۔ البتہ یہ خیال رہے کہ ایک ضعیف حدیث میں ہے { جو مدینے کو یثرب کہے وہ استغفار کر لے ۔ مدینہ تو طابہ ہے ، وہ طابہ ہے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:285/4:ضعیف) یہ حدیث صرف مسند احمد میں ہے اور اس کی اسناد میں ضعف ہے ۔ کہا گیا ہے کہ عمالیق میں سے جو شخص یہاں آ کر ٹھہرا تھا چونکہ اس کا نام یثرب بن عبید بن مہلا بیل بن عوص بن عملاق بن لاد بن آدم بن سام بن نوح تھا اس لیے اس شہر کو بھی اسی کے نام سے مشہور کیا گیا ۔ یہ بھی قول ہے کہ تورات شریف میں اس کے گیارہ نام آئے ہیں ۔ مدینہ ، طابہ ، جلیلہ ، جابرہ ، محبہ ، محبوبہ ، قاصمہ ، مجبورہ ، عدراد ، مرحومہ ۔ کعب احبار رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم تورات میں یہ عبادت پاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مدینہ شریف سے فرمایا اے طیبہ اور اے طابہ اور اے مسکینہ خزانوں میں مبتلا نہ ہو تمام بستیوں پر تیرا درجہ بلند ہوگا ۔ کچھ لوگ تو اس موقعۂ خندق پر کہنے لگے یہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ٹھہرنے کی جگہ نہیں اپنے گھروں کو لوٹ چلو ۔ بنو حارثہ کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھروں میں چوری ہونے کا خطرہ ہے وہ خالی پڑے ہیں ہمیں واپس جانے کی اجازت ملنی چاہیئے ۔ اوس بن قینطی نے بھی یہی کہا تھا کہ ہمارے گھروں میں دشمن کے گھس جانے کا اندیشہ ہے ہمیں جانے کی اجازت دیجئیے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دل کی بات بتلادی کہ ’ یہ تو ڈھونگ رچایا ہے حقیقت میں عذر کچھ بھی نہیں نامردی سے بھگوڑا پن دکھاتے ہیں ۔ لڑائی سے جی چرا کر سرکنا چاہتے ہیں ‘ ۔ الأحزاب
12 الأحزاب
13 الأحزاب
14 جہاد سے پیٹھ پھیرنے والوں سے بازپرس ہو گی جو لوگ یہ عذر کر کے جہاد سے بھاگ رہے تھے کہ ہمارے گھر اکیلے پڑے ہیں جن کا بیان اوپر گزرا ۔ ان کی نسبت جناب باری فرماتا ہے کہ ’ اگر ان پر دشمن مدینے کے چو طرف سے اور ہر ہر رخ سے آ جائے پھر ان سے کفر میں داخل ہونے کا سوال کیا جائے تو یہ بے تامل کفر کو قبول کر لیں گے لیکن تھوڑے خوف اور خیالی دہشت کی بنا پر ایمان سے دست برداری کر رہے ہیں ‘ ۔ یہ ان کی مذمت بیان ہوئی ہے ۔ پھر فرماتا ہے ’ یہی تو ہیں جو اس سے پہلے لمبی لمبی ڈینگیں مارتے تھے کہ خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہو جائے ہم میدان جنگ سے پیٹھ پھیرنے والے نہیں ۔ کیا یہ نہیں جانتے کہ یہ جو وعدے انہوں نے اللہ تعالیٰ سے کئے تھے اللہ تعالیٰ ان کی بازپرس کرے گا ‘ ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ’ یہ موت و فوت سے بھاگنا لڑائی سے منہ چھپانا میدان میں پیٹھ دکھانا جان نہیں بچاسکتا بلکہ بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اچانک پکڑ کے جلد آجانے کا باعث ہو جائے اور دنیا کا تھوڑا سا نفع بھی حاصل نہ ہو سکے ۔ حالانکہ دنیا تو آخرت جیسی باقی چیز کے مقابلے پر کل کی کل حقیر اور محض ناچیز ہے ‘ ۔ پھر فرمایا کہ ’ بجز اللہ کے کوئی نہ دے سکے نہ دل اس کے نہ مددگاری کر سکے نہ حمایت پر آ سکے ۔ اللہ اپنے ارادوں کو پورا کر کے ہی رہتا ہے ‘ ۔ الأحزاب
15 الأحزاب
16 الأحزاب
17 الأحزاب
18 جہاد سے منہ موڑنے والے ایمان سے خالی لوگ اللہ تعالیٰ اپنے محیط علم سے انہیں خوب جانتا ہے جو دوسروں کو بھی جہاد سے روکتے ہیں ۔ اپنے ہم صحبتوں سے یار دوستوں سے کنبے قبیلے والوں سے کہتے ہیں کہ آؤ تم بھی ہمارے ساتھ رہو اپنے گھروں کو اپنے آرام کو اپنی زمین کو اپنے بیوی بچوں کو نہ چھوڑو ۔ خود بھی جہاد میں آتے نہیں یہ اور بات ہے کہ کسی کسی وقت منہ دکھاجائیں اور نام لکھوا جائیں ۔ یہ بڑے بخیل ہیں نہ ان سے تمہیں کوئی مدد پہنچے نہ ان کے دل میں تمہاری ہمدردی نہ مال غنیمت میں تمہارے حصے پر یہ خوش ۔ خوف کے وقت تو ان نامردوں کے ہاتھوں کے طوطے اڑجاتے ہیں ۔ آنکھیں چھاچھ پانی ہو جاتی ہے مایوسانہ نگاہوں سے تکتے لگتے ہیں ۔ لیکن خوف دور ہوا کہ انہوں نے لمبی لمبی زبانیں نکال ڈالیں اور بڑھے چڑھے دعوے کرنے لگے اور شجاعت و مردمی کا دم بھرنے لگے ۔ اور مال غنیمت پر بے طرح گرنے لگے ۔ ہمیں دو ہمیں دو کا غل مچا دیتے ہیں ۔ ہم آپ کے ساتھی ہیں ۔ ہم نے جنگی خدمات انجام دی ہیں ہمارا حصہ ہے ۔ اور جنگ کے وقت صورتیں بھی نہیں دکھاتے بھاگتوں کے آگے اور لڑتوں کے پیچھے رہاکرتے ہیں دونوں عیب جس میں جمع ہوں اس جیسا بے خیر انسان اور کون ہو گا ؟ امن کے وقت عیاری بد خلقی بد زبانی اور لڑائی کے وقت نامردی روباہ بازی اور زنانہ پن ۔ لڑائی کے وقت حائضہ عورتوں کی طرح الگ اور یکسو اور مال لینے کے وقت گدھوں کی طرح ڈھینچو ڈھینچو ۔ اللہ فرماتا ہے بات یہ ہے کہ ’ ان کے دل شروع سے ہی ایمان سے خالی ہیں ۔ اس لیے ان کے اعمال بھی اکارت ہیں ۔ اللہ پر یہ آسان ہے ‘ ۔ الأحزاب
19 الأحزاب
20 دشمن کا خوف ان کی بزدلی اور ڈرپوکی کا یہ عالم ہے کہ اب تک انہیں اس بات کا یقین ہی نہیں ہوا کہ لشکر کفار لوٹ گیا اور خطرہ ہے کہ وہ پھر کہیں آ نہ پڑے ۔ مشرکین کے لشکروں کو دیکھتے ہی چھکے چھوٹ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کاش کہ ہم مسلمانوں کے ساتھ اس شہر میں ہی نہ ہوتے بلکہ گنواروں کے ساتھ کسی اجاڑ گاؤں یا کسی دوردراز کے جنگل میں ہوتے کسی آتے جاتے سے پوچھ لیتے کہ کہو بھئی لڑائی کا کیا حشر ہوا ؟ اللہ فرماتا ہے ’ یہ اگر تمہارے ساتھ بھی ہوں تو بے کار ہیں ۔ ان کے دل مردہ ہیں نامردی کے گھن نے انہیں کھوکھلا کر رکھا ہے ۔ یہ کیا لڑیں گے اور کون سی بہادری دکھائیں گے ؟ ‘ الأحزاب
21 ٹھوس دلائل اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو لازم قرار دیتے ہیں یہ آیت بہت بڑی دلیل ہے اس امر پر کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام اقوال افعال احوال اقتداء پیروی اور تابعداری کے لائق ہیں ۔ جنگ احزاب میں جو صبر وتحمل اور عدیم المثال شجاعت کی مثال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم کی ، مثلاً راہ الہ کی تیاری شوق جہاد اور سختی کے وقت بھی رب سے آسانی کی امید اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھائی یقیناً یہ تمام چیزیں اس قابل ہیں کہ مسلمان انہیں اپنی زندگی کا جزوِ اعظم بنا لیں اور اپنے پیارے پیغمبر اللہ کے حبیب احمد مجتبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے لیے بہترین نمونہ بنا لیں اور ان اوصاف سے اپنے تئیں بھی موصوف کریں ۔ اسی لیے قرآن کریم ان لوگوں کو جو اس وقت سٹ پٹا رہے تھے اور گھبراہٹ اور پریشانی کا اظہار کرتے تھے فرماتا ہے کہ ’ تم نے میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری کیوں نہ کی ؟ میرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تو تم میں موجود تھے ان کا نمونہ تمہارے سامنے تھا تمہیں صبرو استقلال کی نہ صرف تلقین تھی بلکہ ثابت قدمی استقلال اور اطمینان کا پہاڑ تمہاری نگاہوں کے سامنے تھا ۔ تم جبکہ اللہ پر قیامت پر ایمان رکھتے ہو پھر کوئی وجہ نہ تھی کہ تم اپنے رسول کو اپنے لیے نمونہ اور نظیر نہ قائم کرتے ؟‘ پھر اللہ کی فوج کے سچے مومنوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے ساتھیوں کے ایمان کی پختگی بیان ہو رہی ہے کہ ’ انہوں نے جب ٹڈی دل لشکر کفار کو دیکھا تو پہلی نگاہ میں ہی بول اٹھے کہ انہی پر فتح پانے کی ہمیں خوشخبری دی گئی ہے ۔ ان ہی کی شکست کا ہم سے وعدہ ہوا ہے ‘ اور وعدہ بھی کس کا اللہ کا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ۔ اور یہ ناممکن محض ہے کہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا وعدہ غلط ہو یقیناً ہمارا سر اور اس جنگ کی فتح کا سہرا ہو گا ۔ ان کے اس کامل یقین اور سچے ایمان کو رب نے بھی دیکھ لیا اور دنیا آخرت میں انجام کی بہتری انہیں عطا فرمائی ۔ بہت ممکن ہے کہ اللہ کے جس وعدہ کی طرف اس میں اشارہ ہے وہ آیت یہ ہو جو سورۃ البقرہ میں گزر چکی ہے ۔ آیت «أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَأْتِکُم مَّثَلُ الَّذِینَ خَلَوْا مِن قَبْلِکُم مَّسَّتْہُمُ الْبَأْسَاءُ وَالضَّرَّاءُ وَزُلْزِلُوا حَتَّیٰ یَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِینَ آمَنُوا مَعَہُ مَتَیٰ نَصْرُ اللہِ أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللہِ قَرِیبٌ» ۱؎ (2-البقرۃ:214) ، یعنی ’ کیا تم نے یہ سمجھ لیا ؟ کہ بغیر اس کے کہ تمہاری آزمائش ہو تم جنت میں چلے جاؤ گے ؟ تم سے اگلے لوگوں کی آزمائش بھی ہوئی انہیں بھی دکھ درد لڑائی بھڑائی میں مبتلا کیا گیا یہاں تک کہ انہیں ہلایا گیا کہ ایماندار اور خود رسول کی زبان سے نکل گیا کہ اللہ کی مدد کو دیر کیوں لگ گئی ؟ یاد رکھو رب کی مدد بہت ہی قریب ہے ‘ ۔ یعنی یہ صرف امتحان ہے ادھر تم نے ثابت قدمی دکھائی ادھر رب کی مدد آئی ۔ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم سچا ہے ۔ فرماتا ہے کہ ’ ان اصحاب پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ایمان اپنے مخالفین کی اس قدر زبردست جمعیت دیکھ کر اور بڑھ گیا ۔ یہ اپنے ایمان میں اپنی تسلیم میں اور بڑھ گئے ۔ یقین کامل ہو گیا فرمانبرداری اور بڑھ گئی ‘ ۔ اس آیت میں دلیل ہے ایمان کی زیادتی ہونے پر ۔ بہ نسبت اوروں کے ان کے ایمان کے قوی ہونے پر جمہور ائمہ کرام کا بھی یہی فرمان ہے کہ ایمان بڑھتا اور گھٹتا ہے ۔ ہم نے بھی اس کی تقریر شرح بخاری کے شروع میں کر دی ہے «وَلِلہِ الْحَمْد وَالْمِنَّۃ» ۔ پس فرماتا ہے کہ ’ اس کی تنگی ترشی نے اس سختی اور تنگ حالی نے اس حال اور اس نقشہ نے انکا جو ایمان اللہ پر تھا اسے اور بڑھا دیا اور جو تسلیم کی خو ان میں تھی کہ اللہ رسول کی باتیں مانا کرتے تھے اور ان پر عامل تھے اس اطاعت میں اور بڑھ گئے ‘ ۔ الأحزاب
22 الأحزاب
23 اس دن مومنوں اور کفار میں فرق واضح ہو گیا منافقوں کا ذکر اوپر گزر چکا ہے کہ وقت سے پہلے تو جاں نثاری کے لمبے چوڑے دعوے کرتے تھے لیکن وقت آنے پر پورے بزدل اور نامرد ثابت ہوئے ، سارے دعوے اور وعدے دھرے کے دھرے رہ گئے اور بجائے ثابت قدمی کے پیٹھ موڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے ۔ یہاں مومنوں کا ذکر ہو رہا ہے کہ ’ انہوں نے اپنے وعدے پورے کر دکھائے ‘ ۔ بعض نے جام شہادت نوش فرمایا اور بعض اس کے نظارے میں بے چین ہیں ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے { ثابت رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں کہ جب ہم نے قرآن لکھنا شروع کیا تو ایک آیت مجھے نہیں ملتی تھی حالانکہ سورۃ الاحزاب میں وہ آیت میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سنی تھی ۔ آخر خزیمہ بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس یہ آیت ملی یہ وہ صحابی رضی اللہ عنہ ہیں جن کی اکیلے کی گواہی کو رسول اللہ «عَلَیْہِ أَفْضَل الصَّلَاۃ وَالتَّسْلِیم» نے دو گواہوں کے برابر کر دیا تھا ۔ وہ آیت «مِّنَ الْمُؤْمِنِینَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاہَدُوا اللہَ عَلَیْہِ فَمِنْہُم مَّن قَضَیٰ نَحْبَہُ وَمِنْہُم مَّن یَنتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِیلًا» ( 33- الأحزاب : 23 ) ، ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2807) یہ آیت انس بن نضیر رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4783) واقعہ یہ ہے کہ جنگ بدر میں شریک نہیں ہوئے تھے جس کا انہیں سخت افسوس تھا کہ { سب سے پہلی جنگ میں جس میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہ نفس نفیس شریک تھے میں شامل نہ ہو سکا اب جو جہاد کا موقعہ آئے گا میں اللہ تعالیٰ کو اپنی سچائی دکھا دونگا اور یہ بھی کہ میں کیا کرتا ہوں ؟ اس سے زیادہ کہتے ہوئے خوف کھایا ۔ اب جنگ احد کا موقعہ آیا تو انہوں نے دیکھا کہ سامنے سے سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ واپس آ رہے ہیں انہیں دیکھ کر تعجب سے فرمایا کہ ابوعمرو ! [ رضی اللہ عنہ ] کہاں جا رہے ہو ؟ واللہ مجھے احد پہاڑ کے اس طرف سے جنت کی خوشبوئیں آ رہی ہیں ۔ یہ کہتے ہی آپ رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اور مشرکوں میں خوب تلوار چلائی ۔ چونکہ مسلمان لوٹ گئے تھے یہ تنہا تھے ان کے بے پناہ حملوں نے کفار کے دانت کھٹے کر دئیے تھے اور کفار لڑتے لڑتے ان کی طرف بڑھے اور چاروں طرف سے گھیر لیا اور شہید کر دیا ۔ آپ رضی اللہ عنہ کو [۸۰] اسی سے اوپر اپر زخم آئے تھے کوئی نیزے کا کوئی تلوار کا کوئی تیر کا ۔ شہادت کے بعد کوئی آپ رضی اللہ عنہ کو پہچان نہ سکا یہاں تک کہ آپ رضی اللہ عنہ کی ہمشیرہ نے آپ رضی اللہ عنہ کو پہچانا اور وہ بھی ہاتھوں کی انگلیوں کی پوریں دیکھ کر ۔ انہی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ۔ اور یہی ایسے تھے جنہوں نے جو کہا تھا کر دکھایا ۔ رضی اللہ عنہم اجمعین } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1903) اور روایت میں ہے کہ { جب مسلمان بھاگے تو آپ نے فرمایا اے اللہ انہوں نے جو کیا میں اس سے اپنی معذوری ظاہر کرتا ہوں ۔ اور مشرکوں نے جو کیا میں اس سے بیزار ہوں ۔ اس میں یہ بھی ہے کہ سعد رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا میں آپ کے ساتھ ہوں ۔ ساتھ چلے بھی لیکن فرماتے ہیں جو وہ کر رہے تھے وہ میری طاقت سے باہر تھا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2805) طلحہ رضی اللہ عنہ کا بیان ابی ابن حاتم میں ہے کہ { جنگ احد سے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس مدینے آئے تو منبر پر چڑھ کر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور مسلمانوں سے ہمدردی ظاہر کی جو جو شہید ہو گئے تھے ان کے درجوں کی خبر دی ۔ پھر اسی آیت کی تلاوت کی ۔ ایک مسلمان نے کھڑے ہو کر پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جن لوگوں کا اس آیت میں ذکر ہے وہ کون ہیں ؟ اس وقت میں سامنے آ رہا تھا اور حضرمی سبز رنگ کے دو کپڑے پہنے ہوئے تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری طرف اشارہ کرکے فرمایا : { اے پوچھنے والے یہ بھی ان ہی میں سے ہیں } } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3203 ، قال الشیخ الألبانی:حسن صحیح) ان کے صاحبزادے موسیٰ بن طلحہ رضی اللہ عنہ ، معاویہ رضی اللہ عنہ کے دربار میں گئے جب وہاں سے واپس آنے لگے دروازے سے باہر نکلے ہی تھے جو جناب معاویہ رضی اللہ عنہا نے واپس بلایا اور فرمایا آؤ مجھ سے ایک حدیث سنتے جاؤ { میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ تمہارے والد طلحہ رضی اللہ عنہ ان میں سے ہے جن کا بیان اس آیت میں ہے کہ انہوں نے اپنا عہد اور نذر پوری کر دی } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3720،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) رب العلمین ان کا بیان فرما کر فرماتا ہے کہ ’ بعض اس دن کے منتظر ہیں کہ پھر لڑائی ہو اور وہ اپنی کار گزاری اللہ کو دکھائیں اور جام شہادت نوش فرمائیں ‘ ۔ پس بعض نے تو سچائی اور وفاداری ثابت کر دی اور بعض موقعہ کے منتظر ہیں انہوں نے نہ عہد بدلا نہ نذر پوری کرنے کا کبھی انہیں خیال گزرا بلکہ وہ اپنے وعدے پر قائم ہیں وہ منافقوں کی طرح بہانے بنانے والے نہیں ۔ یہ خوف اور زلزلہ محض اس واسطے تھا کہ خبیث و طیب کی تمیز ہو جائے اور برے بھلے کا حال ہر ایک پر کھل جائے ۔ کیونکہ اللہ تو عالم الغیب ہے اس کے نزدیک تو ظاہر و باطن برابر ہے جو نہیں ہوا اسے بھی وہ تو اسی طرح جانتا ہے جس طرح اسے جو ہو چکا ۔ لیکن اس کی عادت ہے کہ جب تک مخلوق عمل نہ کر لے انہیں صرف اپنے علم کی بنا پر جزا سزا نہیں دیتا ۔ جیسے اس کا فرمان ہے آیت «وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ حَتّٰی نَعْلَمَ الْمُجٰہِدِیْنَ مِنْکُمْ وَالصّٰبِرِیْنَ وَنَبْلُوَا۟ اَخْبَارَکُمْ» ۱؎ (47-محمد:31) ، ’ ہم تمہیں خوب پرکھ کر مجاہدین صابرین کو تم میں سے ممتاز کردینگے ‘ ۔ پس وجود سے پہلے کا علم پھر وجود کے بعد کا علم دونوں اللہ کو ہیں اور اس کے بعد جزا سزا ۔ جیسے فرمایا آیت «مَا کَان اللّٰہُ لِیَذَرَ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلٰی مَآ اَنْتُمْ عَلَیْہِ حَتّٰی یَمِیْزَ الْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ» ۱؎ (3-آل عمران:179) ، ’ اللہ تعالیٰ جس حال پر تم ہو اسی پر مومنوں کو چھوڑ دے ایسا نہیں جب تک کہ وہ بھلے برے کی تمیز نہ کر لے نہ اللہ ایسا ہے کہ تمہیں غیب پر مطلع کر دے ‘ ۔ پس یہاں بھی فرماتا ہے کہ ’ یہ اس لیے کہ سچوں کو ان کی سچائی کا بدلہ دے اور عہد شکن منافقوں کو سزادے ۔ یا انہیں توفیق توبہ دے کہ یہ اپنی روش بدل دیں اور سچے دل سے اللہ کی طرف جھک جائیں تو اللہ بھی ان پر مہربان ہو جائے اور ان کو معاف فرما دے ۔ اس لیے کہ وہ اپنی مخلوق کی خطائیں معاف فرمانے والا اور ان پر مہربانی کرنے والا ہے ۔ اس کی رافت و رحمت غضب و غصے سے بڑھی ہوئی ہے ‘ ۔ الأحزاب
24 الأحزاب
25 اللہ عزوجل کفار سے خود نپٹے اللہ تعالیٰ اپنا احسان بیان فرما رہا ہے کہ ’ اس نے طوفان باد و باراں بھیج کر اور اپنے نہ نظر آنے والے لشکر اتار کر کافروں کی کمر توڑی دی اور انہیں سخت مایوسی اور نامرادی کے ساتھ محاصرہ ہٹانا پڑا ۔ بلکہ اگر رحمۃ اللعالمین کی امت میں یہ نہ ہوتے تو یہ ہوائیں ان کے ساتھ وہی کرتیں جو عادیوں کے ساتھ اس بے برکت ہوا نے کیا تھا ‘ ۔ چونکہ رب العالمین کا فرمان ہے کہ «وَکَفَی اللہُ الْمُؤْمِنِینَ الْقِتَالَ وَکَانَ اللہُ قَوِیًّا عَزِیزًا» ۱؎ (8-الأنفال:33) ’ تو جب تک ان میں ہے اللہ انہیں عام عذاب نہیں کرے گا لہٰذا انہیں صرف ان کی شرارت کا مزہ چکھا دیا ۔ ان کے مجمع کو منتشر کر کے ان پر سے اپنا عذاب ہٹالیا ‘ ۔ چونکہ ان کا یہ اجتماع محض ہوائے نفسانی تھا اس لیے ہوا نے ہی انہیں پراگندہ کر دیا جو سوچ سمجھ کر آئے تھے سب خاک میں مل گیا کہاں کی غنیمت ؟ کہاں کی فتح ؟ جان کے لالے پڑے گئے اور ہاتھ ملتے دانت پیستے پیچ و تاب کھاتے ذلت ورسوائی کے ساتھ نامرادی اور ناکامی سے واپس ہوئے ۔ دنیا کا خسارہ الگ ہوا اور آخرت کا وبال الگ ۔ کیونکہ جو کوئی شخص کسی کام کا قصد کرتا ہے اور وہ اپنے کام کو عملی صورت بھی دیدے پھر وہ اس میں کامیاب نہ ہو تو گنہگار تو وہ ہو ہی گیا ۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو فنا کرنے کی آرزو پھر اہتمام پھر اقدام سب کچھ انہوں نے کر لیا ۔ لیکن قدرت نے دونوں جہان کا بوجھ ان پر لادھ کر انہیں جلے دل سے واپس کیا اللہ تعالیٰ نے خود ہی مومنوں کی طرف سے ان کا مقابلہ کیا ۔ نہ مسلمان ان سے لڑے نہ انہیں ہٹایا ۔ بلکہ مسلمان اپنی جگہ رہے اور وہ بھاگتے رہے ۔ اللہ نے اپنے لشکر کی لاج رکھ لی اور اپنے بندے کی مدد کی اور خود ہی کافی ہو گیا ۔ { اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے { اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس نے اپنے وعدے کو سچا کیا اپنے بندے کی مدد کی اپنے لشکر کی عزت کی تمام دشمنوں سے آپ ہی نمٹ لیا اور سب کو شکست دے دی ۔ اس کے بعد اور کوئی بھی نہیں } ۔ (صحیح بخاری:4114) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ احزاب کے موقعہ پر جناب باری تعالیٰ سے جو دعا کی تھی وہ بھی بخاری مسلم میں مروی ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : « اللہُمَّ مُنْزِلَ الْکِتَابِ ، سَرِیعَ الْحِسَابِ ، اہْزِمِ الْأَحْزَابَ . اللہُمَّ اہْزِمْہُمْ وَزَلْزِلْہُمْ» اے اللہ اے کتاب کے اتارنے والے جلد حساب لینے والے ان لشکروں کو شکست دے اور انہیں ہلا ڈال } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4115) اس فرمان «وَکَفَی اللّٰہُ الْمُؤْمِنِیْنَ الْقِتَالَ وَکَان اللّٰہُ قَوِیًّا عَزِیْزًا» ۱؎ (33-الأحزاب:25) یعنی ’ اللہ نے مومنوں کی کفایت جنگ سے کر دی ‘ ۔ اس میں نہایت لطیف بات یہ ہے کہ نہ صرف اس جنگ سے ہی مسلمان چھوٹ گئے بلکہ آئندہ ہمیشہ ہی صحابہ رضی اللہ عنہم اس سے بچ گئے کہ مشرکین ان پر چڑھ دوڑیں ۔ چنانچہ آپ تاریخ دیکھ لیں جنگ خندق کے بعد کافروں کی ہمت نہیں پڑی کہ وہ مدینے پر یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کسی جگہ خود چڑھائی کرتے ۔ ان کے منحوس قدموں سے اللہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مسکن و آرام گاہ کو محفوظ کر لیا «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» ۔ بلکہ برخلاف اس کے مسلمان ان پر چڑھ چڑھ گئے یہاں تک کہ عرب کی سر زمین سے اللہ نے شرک و کفر ختم کر دیا ۔ جب اس جنگ سے کافر لوٹے اسی وقت رسول اکرم صلی اللہ علہ وسلم نے بطور پیشن گوئی فرما دیا تھا کہ { اس سال کے بعد قریش تم سے جنگ نہیں کریں گے بلکہ تم ان سے جنگ کرو گے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4110) چنانچہ یہی ہوا ، یہاں تک کہ مکہ فتح ہو گیا ۔ اللہ کی قوت کا مقابلہ بندے کے بس کا نہیں ۔ اللہ کو کوئی مغلوب نہیں کرسکتا ۔ اسی نے اپنی مدد وقوت سے ان بپھرے ہوئے اور بکھرے ہوئے لشکروں کو پسپا کیا ۔ انہیں برائے نام بھی کوئی نفع نہ پہنچا ۔ اس نے اسلام اور اہل اسلام کو غالب کیا اپنا وعدہ سچا کر دکھایا اور اپنے عبد و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد فرمائی ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» ۔ الأحزاب
26 کفار نے عین موقعہ پر دھوکہ دیا اتنا ہم پہلے لکھ چکے ہیں جب مشرکین و یہود کے لشکر مدینے پر آئے اور انہوں نے گھیرا ڈالا تو بنو قریظہ کے یہودی جو مدینے میں تھے اور جن سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عہد و پیمان ہو چکا تھا انہوں نے بھی عین موقعہ پر بے وفائی کی اور عہد توڑ کر آنکھیں دکھانے لگے ان کا سردار کعب بن اسد باتوں میں آگیا اور حی بن اخطب خبیث نے اسے بدعہدی پر آمادہ کر دیا ۔ پہلے تو یہ نہ مانا اور اپنے عہد پر قائم رہا حی نے کہا کہ دیکھ تو سہی میں تو تجھے عزت کا تاج پہنانے آیا ہوں ۔ قریش اور ان کے ساتھی غطفان اور ان کے ساتھی اور ہم سب ایک ساتھ ہیں ۔ ہم نے قسم کھا رکھی ہے کہ جب تک ایک ایک مسلمان کا قیمہ نہ کر لیں یہاں سے نہیں ہٹنے کے کعب چونکہ جہاندیدہ شخص تھا اس نے جواب دیا کہ محض غلط ہے ۔ یہ تمہارے بس کے نہیں تو ہمیں ذلت کا طوق پہنانے آیا ہے ۔ تو بڑا منحوس شخص ہے میرے سامنے سے ہٹ جا اور مجھے اپنی مکاری کا شکار نہ بنا لیکن حی پھر بھی نہ ٹلا اور اسے سمجھاتا بجھاتا رہا ۔ آخر میں کہا سن اگر بالفرض قریش اور غطفان بھاگ بھی جائیں تو میں مع اپنی جماعت کے تیری گڑھی میں آ جاؤں گا اور جو کچھ تیرا اور تیری قوم کا حال ہو گا ۔ وہی میرا اور میری قوم کا حال ہو گا ۔ بالآخر کعب پر حی کا جادو چل گیا اور بنو قریظہ نے صلح توڑ دی جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اور صحابہ رضی اللہ عنہم کو سخت صدمہ ہوا اور بہت ہی بھاری پڑا ۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے اپنے غلاموں کی مدد کی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مع اصحاب رضی اللہ عنہم کے مظفر و منصور مدینے شریف کو واپس آئے صحابہ رضی اللہ عنہم نے ہتھیار کھول دئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہتھیار اتاکر سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں گرد و غبار سے پاک صاف ہونے کے لیے غسل کرنے کو بیٹھے ہی تھے جو جبرائیل علیہ السلام ظاہر ہوئے آپ کے سر پر ریشمی عمامہ تھا خچر پر سوار تھے جس پر ریشمی گدی تھی فرمانے لگے کہ ” یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کمر کھول لی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ہاں } ۔ حضرت جبرائیل نے فرمایا ” لیکن فرشتوں نے اب تک اپنے ہتھیار الگ نہیں کئے ۔ میں کافروں کے تعاقب سے ابھی ابھی آ رہا ہوں سنئے اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ بنو قریظہ کی طرف چلئے اور ان کی پوری گوشمالی کیجئے ۔ مجھے بھی اللہ کا حکم مل چکا ہے کہ میں انہیں تھرادوں “ ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت اٹھ کھڑے ہوئے تیار ہو کر صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کو حکم دیا اور فرمایا کہ { تم میں سے ہر ایک عصر کی نماز بنو قریظہ میں ہی پڑھے } ۔ ظہر کے بعد یہ حکم ملا تھا بنو قریظہ کا قلعہ یہاں سے کئی میل پر تھا ۔ نماز کا وقت صحابہ رضی اللہ عنہم کو راستہ میں آ گیا ۔ تو بعض نے تو نماز ادا کر لی اور کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان اس کا مطلب یہ تھا کہ ہم تیز چلیں ۔ اور بعض نے کہا ہم تو وہاں پہنچے بغیر نماز نہیں پڑھیں گے ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات معلوم ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں میں سے کسی کو ڈانٹ ڈپٹ نہیں کی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ پر ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنایا سیدنا علی رضی اللہ عنہما کے ہاتھ لشکر کا جھنڈادیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی صحابہ رضی اللہ عنہام اجمعین کے پیچھے پیچھے بنو قریظہ کی طرف چلے اور جا کر ان کے قلعہ کو گھیر لیا ۔ یہ محاصرہ پچیس روز تک رہا ۔ جب یہودیوں کے ناک میں دم آ گیا اور تنگ حال ہو گئے تو انہوں نے اپنا حاکم سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو بنایا جو قبیلہ اوس کے سردار تھے ۔ بنو قریظہ میں اور قبیلہ اوس میں زمانہ جاہلیت میں اتفاق و یگانگت تھی ایک دوسرے کے حلیف تھے اس لیے ان یہودیوں کو یہ خیال رہا کہ سعد رضی اللہ عنہ ہمارا لحاظ اور پاس کریں گے جیسے کہ عبداللہ بن ابی سلول نے بنو قینقاع کو چھڑوایا تھا ۔ ادھر سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کی یہ حالت تھی کہ جنگ خندق میں انہیں اکحل کی رگ میں ایک تیر لگا تھا جس سے خون جاری تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زخم پر داغ لگوایا تھا اور مسجد کے خیمے میں ہی انہیں رکھا تھا کہ پاس ہی پاس عیادت اور بیمار پر سی کر لیا کریں ۔ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے جو دعائیں کیں ان میں ایک دعا یہ تھی کہ ” اے پروردگار اگر اب بھی کوئی ایسی لڑائی باقی ہے جس میں کفار قریش تیرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر چڑھ آئیں تو تو مجھے زندہ رکھ کہ میں اس میں شرکت کر سکوں اور اگر تو نے کوئی ایک لڑائی بھی ایسی باقی نہیں رکھی تو خیر میرا زخم خون بہاتا رہے لیکن اے میرے رب جب تک میں بنو قریظہ قبیلے کی سرکشی کی سزا سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی نہ کر لوں تو میری موت کو مؤخر فرمانا “ ۔ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ جیسے مستجاب الدعوات کی دعا کی قبولیت کی شان دیکھئیے کہ آپ رضی اللہ عنہ دعا کرتے ہیں ادھر یہودان بنو قریظہ آپ رضی اللہ عنہ کے فیصلے پر اظہار رضا مندی کرکے قلعے کو مسلمانوں کے سپرد کرتے ہیں ۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آدمی بھیج کر آپ رضی اللہ عنہ کو مدینہ سے بلواتے ہیں کہ آپ رضی اللہ عنہ آ کر ان کے بارے میں اپنا فیصلہ سنا دیں ۔ یہ گدھے پر سوار کرالئے گیے اور سارا قبیلہ ان سے لپٹ گیا کہ دیکھئیے خیال رکھئے گا بنو قریظہ آپ رضی اللہ عنہ کے آدمی ہیں انہوں نے آپ رضی اللہ عنہ پر بھروسہ کیا ہے وہ آپ رضی اللہ عنہ کے حلیف ہیں آپ کے قوم کے دکھ کے ساتھی ہیں ۔ آپ رضی اللہ عنہ ان پر رحم فرمائیے گا ان کے ساتھ نرمی سے پیش آئیے گا ۔ دیکھئیے اس وقت ان کا کوئی نہیں وہ آپ رضی اللہ عنہ کے بس میں ہیں وغیرہ لیکن سعد رضی اللہ عنہا محض خاموش تھے کوئی جواب نہیں دیتے تھے ۔ ان لوگوں نے مجبور کیا کہ جواب دیں پیچھا ہی نہ چھوڑا ۔ آخر آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” وقت آگیا ہے کہ سعد [ رضی اللہ عنہ ] اس بات کا ثبوت دے کہ اسے اللہ کی راہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہیں “ ۔ یہ سنتے ہی ان لوگوں کے تو دل ڈوب گئے اور سمجھ لیا کہ بنو قریظہ کی خیر نہیں ۔ جب سعد رضی اللہ عنہا کی سواری اس خیمے کے قریب پہنچ گئی جس میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { لوگو اپنے سردار کے استقبال کے لیے اٹھو } ، چنانچہ مسلمان اٹھ کھڑے ہوئے اور آپ رضی اللہ عنہ کو عزت واکرام وقعت واحترام سے سواری سے اتارا یہ اس لیے تھا کہ اس وقت آپ رضی اللہ عنہ حاکم کی حیثیت میں تھے ان کے فیصلے پورے ناطق و نافذ سمجھے جائیں ۔ آپ رضی اللہ عنہ کے بیٹھتے ہی حضور نے فرمایا کہ { یہ لوگ آپ کے فیصلے پر رضامند ہو کر قلعے سے نکل آئیں ہیں اب آپ رضی اللہ عنہ ان کے بارے میں جو چاہیں حکم دیجئیے } ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے کہا جو میں ان پر حکم کروں وہ پورا ہو گا ؟ حضور نے فرمایا : { ہاں کیوں نہیں ؟ } کہا اور اس خیمے والوں پر بھی اس کی تعمیل ضروری ہو گی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { یقیناً } پوچھا اور اس طرف والوں پر بھی ؟ اور اشارہ اس طرف کیا جس طرف خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے ۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نہیں دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بزرگی اور عزت و عظمت کی وجہ سے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا { ہاں اس طرف والوں پر بھی } ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اب میرا فیصلہ سنئے ” میں کہتا ہوں بنو قریظہ میں جتنے لوگ لڑنے والے ہیں انہیں قتل کر دیا جائے اور ان کی اولاد کو قید کر لیا جائے ان کے مال قبضے میں لائے جائیں “ ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اے سعد [ رضی اللہ عنہ] تم نے ان کے بارے میں وہی حکم کیا جو اللہ تعالیٰ نے ساتویں آسمان کے اوپر کیا ہے } ۔ ۱؎ ایک روایت میں ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { تم نے سچے مالک اللہ تعالیٰ کا جو حکم تھا وہی سنایا ہے } } ۔ { پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے خندقیں کھائی کھدوا کر انہیں بندھا ہوا بلوا کر ان کی گردنیں ماری گئیں ۔ یہ گنتی میں سات آٹھ سو تھے ان کی عورتیں نابالغ بچے اور مال لے لیے گئے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4117) ہم نے یہ کل واقعات اپنی کتاب السیر میں تفصیل سے لکھ دئیے ہیں ۔ «والْحَمْدُ لِلّٰہ» ۔ پس فرماتا ہے کہ ’ جن اہل کتاب یعنی یہودیوں نے کافروں کے لشکروں کی ہمت افزائی کی تھی اور ان کا ساتھ دیا تھا ان سے بھی اللہ تعالیٰ نے ان کے قلعے خالی کرا دئیے ‘ ۔ اس قوم قریظہ کے بڑے سردار جن سے ان کی نسل جاری ہوئی تھی اگلے زمانے میں آ کر حجاز میں اسی طمع میں بسے تھے کہ نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی ہماری کتابوں میں ہے وہ چونکہ یہیں ہونے والے ہیں تو ہم سب پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی سعادت سے مسعود ہونگے ۔ لیکن ان ناحلقوں نے جب اللہ کی وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم آئے ان کی تکذیب کی جس کی وجہ سے اللہ کی لعنت ان پر نازل ہوئی ۔ «صَیَاصِی» سے مراد قلعے ہیں اسی معنی کے لحاظ سے سینگوں کو بھی «صَیَاصِی» کہتے ہیں اس لیے کہ جانور کے سارے جسم کے اوپر اور سب سے بلند یہی ہوتے ہیں ۔ ان کے دلوں میں اللہ نے رعب ڈال دیا انہوں نے ہی مشرکین کو بھڑکا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر چڑھائی کرائی تھی ۔ عالم جاہل برابر نہیں ہوتے ۔ یہی تھے جنہوں نے مسلمانوں کو جڑوں سے اکھیڑ دینا چاہا تھا لیکن معاملہ برعکس ہو گیا پانسہ پلٹ گیا قوت کمزوری سے اور مراد نامرادی سے بدل گئی ۔ نقشہ بگڑ گیا حمایتی بھاگ کھڑے ہوئے ۔ یہ بے دست و پا رہ گئے ۔ عزت کی خواہش نے ذلت دکھائی مسلمانوں کے برباد کرنے اور پیس ڈالنے کی خواہش نے اپنے تئیں پسوا دیا ۔ اور ابھی آخرت کی محرومی باقی ہے ۔ کچھ قتل کر دئیے گئے باقی قیدی کر دیئے گئے ۔ عطیہ فرظی کا بیان ہے کہ جب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا گیا تو میرے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ تردد ہوا ۔ فرمایا : { اسے الگ لے جاؤ دیکھو اگر اس کے ناف کے نیچے بال ہوں تو قتل کر دو ورنہ قیدیوں میں بٹھادو } ۔ دیکھا تو میں بچہ ہی تھا زندہ چھوڑ دیا گیا ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4404 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) ان کی زمین گھر ان کے مال کے مالک مسلمان بن گئے بلکہ اس زمین کے بھی جو اب تک پڑی تھی اور جہاں مسلمان کے نشان قدم بھی نہ پڑے تھے یعنی خیبر کی زمین یا مکہ شریف کی زمین ۔ یا فارس یا روم کی زمین اور ممکن ہے کہ یہ کل خطے مراد ہوں اللہ بڑی قدرتوں والا ہے ۔ مسند احمد میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ { خندق والے دن میں لشکر کا کچھ حال معلوم کرنے نکلی ۔ مجھے اپنے پیچھے سے کسی کے بہت تیز آنے کی آہٹ اور اس کے ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی میں راستے سے ہٹ کر ایک جگہ بیٹھ گئی دیکھا کہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ لشکر کی طرف جا رہے ہیں اور ان کے ساتھ ان کے بھائی حارث بن اوس رضی اللہ عنہ تھے جن کے ہاتھ میں ان کی ڈھال تھی ۔ سعد رضی اللہ عنہ لوہے کی زرہ پہنے ہوئے تھے لیکن بڑے لانبے چوڑے تھے زرہ پورے بدن پر نہیں آئی تھی ہاتھ کھلے تھے اشعار رجز پڑھتے ہوئے جھومتے جھامتے چلے جا رہے تھے میں یہاں سے اور آگے بڑھی اور ایک باغیچے میں چلی گئی ۔ وہاں کچھ مسلمان موجود تھے جن میں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی تھے اور ایک اور صاحب جو خود اوڑھے ہوئے تھے ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے دیکھ لیا پس پھر کیا تھا ؟ بڑے ہی بگڑے اور مجھ سے فرمانے لگے ” یہ دلیری ؟ تم نہیں جانتیں لڑائی ہو رہی ہے ؟ اللہ جانے کیا نتیجہ ہو ؟ تم کیسے یہاں چلی آئیں وغیرہ وغیرہ “ ۔ جو صاحب مغفر سے اپنا منہ چھپائے ہوئے تھے انہوں نے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی یہ باتیں سن کر اپنے سر سے لوہے کا ٹوپ اتارا دیکھا اب میں پہچان گئی کہ وہ سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ تھے انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ کو خاموش کیا کہ کیا ملامت شروع کر رکھی ہے نتیجے کا کیا ڈر ہے ؟ کیوں تمہیں اتنی گھبراہٹ ہے ؟ کوئی بھاگ کے جائے گا کہاں ؟ سب کچھ اللہ کے ہاتھ ہے ۔ سعد رضی اللہ عنہ کو ایک قریشی نے تاک کر تیر لگایا اور کہا لے میں ابن عرقہ ہوں ۔ سعد رضی اللہ عنہ کی رگ اکحل پر وہ تیر پڑا اور پیوست ہوگیا ۔ خون کے فوارے چھوٹ گئے اسی وقت آپ رضی اللہ عنہ نے دعا کی کہ ” اے اللہ مجھے موت نہ دینا جب تک بنو قریظہ کی تباہی اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لوں “ ۔ اللہ کی شان سے اسی وقت خون تھم گیا ۔ مشرکین کو ہواؤں نے بھگادیا اور اللہ نے مومنوں کی کفایت کر دی ابوسفیان اور اس کے ساتھی تو بھاگ کر تہامہ میں چلے گئے عیینہ بن بدر اس کے ساتھی نجد میں چلے گئے ۔ بنو قریظہ اپنے قلعہ میں جا کر پنا گزین ہو گئے ۔ میدان خالی دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینے میں واپس تشریف لے آئے ۔ { حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے لیے مسجد میں ہی چمڑے کا ایک خیمہ نصب کیا گیا ، اسی وقت جبرائیل علیہ السلام آئے آپ کا چہرہ گرد آلود تھا ، فرمانے لگے ” آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہتھیار کھول دئیے ؟ حالانکہ فرشتے اب تک ہتھیار بند ہیں ۔ اٹھئے بنو قریظہ سے بھی فیصلہ کر لیجئے ان پر چڑھائی کیجئے “ ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً ہتھیار لگا لیے اور صحابہ میں بھی کوچ کی منادی کرا دی ۔ بنو تمیم کے مکانات مسجد نبوی سے متصل ہی تھے راہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا { کیوں بھئی ؟ کسی کو جاتے ہوئے دیکھا ؟ } انہوں نے کہا کہ ہاں ابھی ابھی دحیہ کلبی رضی اللہ عنہا گئے ہیں ۔ حالانکہ تھے تو وہ جبرائیل علیہ السلام لیکن آپ کی ڈاڑھی چہرہ وغیرہ بالکل دحیہ کلبی سے ملتا جلتا تھا ۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جا کر بنو قریظہ کے قلعہ کا محاصرہ کیا پچیس روز تک یہ محاصرہ جاری رہا ۔ جب وہ گھبرائے اور تنگ آ گئے تو ان سے کہا گیا کہ قلعہ ہمیں سونپ دو اور تم اپنے آپ کو ہمارے حوالے کر دو ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے بارے میں جو چاہیں گے فیصلہ فرما دیں گے ۔ انہوں نے ابولبابہ بن عبدالمنذر سے مشورہ کیا تو انہوں نے کہا اس صورت میں تو اپنی جان سے ہاتھ دھولینا ہے ۔ انہوں نے یہ معلوم کر کے اسے تو نامنظور کر دیا اور کہنے لگے ہم قلعہ خالی کر دیتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فوج کو قبضہ دیتے ہیں ہمارے بارے کا فیصلہ ہم سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو دیتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بھی منظور فرما لیا ۔ سعد رضی اللہ عنہ کو بلایا آپ رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے گدھے پر سوار تھے جس پر کھجور کے درخت کی چھال کی گدی تھی ۔ آپ رضی اللہ عنہ اس پر بمشکل سوار کرادیئے گئے تھے ۔ آپ رضی اللہ عنہ کی قوم آپ کو گھیرے ہوئے تھی اور سمجھارہی تھی کہ دیکھو بنو قریظہ ہمارے حلیف ہیں ہمارے دوست ہیں ہماری موت زیست کے شریک ہیں اور ان کے تعلقات جو ہم سے ہیں وہ آپ رضی اللہ عنہ پر پوشیدہ نہیں ۔ آپ رضی اللہ عنہ خاموشی سے سب کی باتیں سنتے جاتے تھے جب ان کے محلہ میں پہنچے تو ان کی طرف نظر ڈالی اور کہا ” وقت آگیا کہ میں اللہ کی راہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی مطلقاً پرواہ نہ کروں “ ۔ { جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمے کے پاس ان کی سواری پہنچی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اپنے سید کی طرف اٹھو اور انہیں اتارو } ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” ہمارا سید تو اللہ ہی ہے “ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اتارو } ۔ لوگوں نے مل جل کر انہیں سواری سے اتارا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { سعد [ رضی اللہ عنہ ] ان کے بارے میں جو حکم کرنا چاہو کر دو } ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” ان کے بڑے قتل کر دئیے جائیں اور ان کے چھوٹے غلام بنائیے جائیں ان کا مال تقسیم کر لیا جائے “ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { سعد [ رضی اللہ عنہ ] تم نے اس حکم میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری موافقت کی } ۔ پھر سعد رضی اللہ عنہ نے دعا مانگی کہ ” اے اللہ اگر تیرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر قریش کی کوئی اور چڑھائی ابھی باقی ہو تو مجھے اس کی شمولیت کے لیے زندہ رکھ ورنہ اپنی طرف بلالے “ ۔ اسی وقت زخم سے خون بہنے لگا حالانکہ وہ پورا بھر چکا تھا یونہی سا باقی تھا چنانچہ انہیں پھر اسی خیمے میں پہنچا دیا گیا اور آپ وہیں شہد ہو گئے رضی اللہ عنہ ۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سیدنا ابوبکر عمر رضی اللہ عنہم وغیرہ بھی آئے سب رو رہے تھے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کی آواز عمر رضی اللہ عنہ کی آواز میں پہچان بھی ہو رہی تھی میں اس وقت اپنے حجرے میں تھی ۔ فی الواقع اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے ہی تھے جیسے اللہ نے فرمایا آیت «مٰحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہِ وَالَّذِینَ مَعَہُ أَشِدَّاءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَاءُ بَیْنَہُمْ» ۱؎ (48-الفتح:29) ’ آپس میں ایک دوسرے کی پوری محبت اور ایک دوسرے سے الفت رکھنے والے تھے ‘ ۔ علقمہ رضی اللہ نے پوچھا ام المؤمنین یہ تو فرمائیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح رویا کرتے تھے ؟ فرمایا ” آپ کی آنکھیں کسی پر آنسو نہیں بہاتی تھیں ہاں غم ورنج کے موقعہ پر آپ داڑھی مبارک اپنی مٹھی میں لے لیتے تھے “ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4122) الأحزاب
27 الأحزاب
28 امہات المومنین سے پرسش! دین یا دنیا؟ ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ ’ اپنی بیویوں کو دو باتوں میں سے ایک کی قبولیت کا اختیار دیں ۔ اگر تم دنیا پر اور اس کی رونق پر مائل ہوئی ہو تو آؤ میں تمہیں اپنے نکاح سے الگ کر دیتا ہوں اور اگر تم تنگی ترشی پر یہاں صبر کر کے اللہ کی خوشی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا مندی چاہتی ہو اور آخرت کی رونق پسند ہے تو صبر و سہار سے میرے ساتھ زندگی گزارو ۔ اللہ تمہیں وہاں کی نعمتوں سے سرفراز فرمائے گا ‘ ۔ اللہ آپ کی تمام بیویوں سے جو ہماری مائیں ہیں خوش رہے ۔ سب نے اللہ کو اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اور دار آخرت کو ہی پسند فرمایا جس پر رب راضی ہو اور پھر آخرت کے ساتھ ہی دنیا کی مسرتیں بھی عطا فرمائیں ۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ { اس آیت کے اترتے ہی اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے اور مجھ سے فرمانے لگے کہ { میں ایک بات کا تم سے ذکر کرنے والا ہوں تم جواب میں جلدی نہ کرنا اپنے ماں باپ سے مشورہ کر کے جواب دینا } ۔ یہ تو آپ جانتے ہی تھے کہ ناممکن ہے کہ میرے والدین مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جدائی کرنے کا مشورہ دیں ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھ کر سنائی ۔ میں نے فوراً جواب دیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں ماں باپ سے مشورہ کرنے کی کون سی بات ہے ۔ مجھے اللہ پسند ہے اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پسند ہیں اور آخرت کا گھر پسند ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4785) { آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اور تمام بیویوں نے بھی وہی کیا جو میں نے کیا تھا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4786) اور روایت میں ہے کہ { تین دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ { دیکھو بغیر اپنے ماں باپ سے مشورہ کئے کوئی فیصلہ نہ کر لینا } ، پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا جواب سنا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوگئے اور ہنس دیئے } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:28464:) { پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوسری ازواج مطہرات کے حجروں میں تشریف لے گئے ان سے پہلے ہی فرما دیتے تھے کہ { سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے تو یہ جواب دیا ہے } وہ کہتی تھیں یہی جواب ہمارا بھی ہے } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:28465:) فرماتی ہیں کہ { اس اختیار کے بعد جب ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار کیا تو اختیار طلاق میں شمار نہیں ہوا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5262) مسند احمد میں ہے کہ { سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونا چاہا لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر بیٹھے ہوئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اندر تشریف فرما تھے اجازت ملی نہیں ۔ اتنے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بھی آگئے اجازت چاہی لیکن انہیں بھی اجازت نہ ملی تھوڑی دیر میں دونوں کو یاد فرمایا گیا ۔ گئے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھی ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہیں ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا دیکھو میں اللہ کے پیغمبر کو ہنسا دیتا ہوں ۔ { پھر کہنے لگے ” یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاش کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھتے میری بیوی نے آج مجھ سے روپیہ پیسہ مانگا میرے پاس تھا نہیں جب زیادہ ضد کرنے لگیں تو میں نے اٹھ کر گردن ناپی “ ۔ یہ سنتے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے اور فرمانے لگے { یہاں بھی یہی قصہ ہے دیکھو یہ سب بیٹھی ہوئی مجھ سے مال طلب کر رہی ہیں ؟ } سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ، سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف لپکے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ، سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کی طرف اور فرمانے لگے ” افسوس تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ مانگتی ہو جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہیں “ ۔ وہ تو کہئے خیر گزری جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں روک لیا ورنہ عجب نہیں دونوں بزرگ اپنی اپنی صاحبزادیوں کو مارتے ۔ اب تو سب بیویاں کہنے لگیں کہ اچھا قصور ہوا اب سے ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہرگز اس طرح تنگ نہ کریں گی ۔ اب یہ آیتیں اتریں اور دنیا اور آخرت کی پسندیدگی میں اختیار دیا گیا ۔ سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے انہوں نے آخرت کو پسند کیا جیسے کہ تفصیل وار بیان گزر چکا ۔ ساتھ ہی درخواست کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کسی بیوی سے یہ نہ فرمائیے گا کہ ” میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار کیا “ ۔ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ { اللہ نے مجھے چھپانے والا بنا کر نہیں بھیجا بلکہ میں سکھانے والا آسانی کرنے والا بنا کر بھیجا گیا ہوں مجھ سے تو جو دریافت کرے گی میں صاف صاف بتا دوں گا } } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1478) سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ { طلاق کا اختیار نہیں دیا گیا تھا بلکہ دنیا یا آخرت کی ترجیح کا اختیار دیا تھا } ۱؎ (مسند احمد:78/1:ضعیف) لیکن اس کی سند میں بھی انقطاع ہے اور یہ آیت کے ظاہری لفظوں کے بھی خلاف ہے کیونکہ پہلی آیت کے آخر میں صاف موجود ہے کہ ’ آؤ میں تمہارے حقوق ادا کر دوں اور تمہیں رہائی دے دوں ‘ ۔ اس میں علماء کرام کا گو اختلاف ہے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم طلاق دے دیں تو پھر کسی کو ان سے نکاح جائز ہے یا نہیں ؟ لیکن صحیح قول یہ ہے کہ جائز ہے تاکہ اس طلاق سے وہ نتیجہ ملے یعنی دنیا طلبی اور دنیا کی زینت و رونق وہ انہیں حاصل ہو سکے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ جب یہ آیت اتری اور جب اس کا حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات امہات المؤمنین رضوان اللہ علیہن کو سنایا اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نو بیویاں تھیں ۔ پانچ تو قریش سے تعلق رکھتی تھیں عائشہ ، حفصہ ، سودہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہن اور صفیہ بنت جی قبیلہ نضر سے تھیں ، میمونہ بنت حارث ہلالیہ تھیں ، زینب بنت حجش اسدیہ تھیں اور جویریہ بنت حارث جو مصطلقیہ تھیں «رَضِیَ اللہُ عَنْہُنَّ وَأَرْضَاہُنَّ اَجْمَعِیْنَ» ۔ الأحزاب
29 الأحزاب
30 امہات المومنین سب سے معزز قرار دے دی گئیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں نے یعنی مومنوں کی ماؤں نے جب اللہ کو اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آخرت کے پہلے گھر کو پسند کر لیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں وہ ہمیشہ کے لیے مقرر ہو چکیں ، تو اب جناب باری عز اسمہ اس آیت میں انہیں وعظ فرما رہا ہے اور بتلا دیا ہے کہ ’ تمہارا معاملہ عام عورتوں جیسا نہیں ہے ۔ اگر بالفرض تم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری سے سرتابی اور بدخلقی سرزد ہوئی تو تمہیں دنیا اور آخرت میں عتاب ہوگا چونکہ تمہارے بڑے رتبے ہیں تمہیں گناہوں سے بالکل دور رہنا چاہیئے ۔ ورنہ رتبے کے مطابق مشکل بھی بڑھ جائے گی ‘ ۔ اللہ پر سب باتیں سہل اور آسان ہیں ، یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ فرمان بطور شرط کے ہے اور شرط کا ہونا ضروری نہیں ہوتا جیسے فرمان ہے آیت «لَیِٕنْ اَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ وَلَتَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ» ۱؎ (39-الزمر:65) ، ’ اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اگر تم شرک کرو گے تو تمہارے اعمال اکارت ہو جائیں گے ‘ ۔ نبیوں کا ذکر کرکے فرمایا آیت «وَلَوْ اَشْرَکُوْا لَحَبِطَ عَنْہُمْ مَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ» ۱؎ (6-الأنعام:88) ’ اگر یہ شرک کریں تو ان کی نیکیاں بیکار ہو جائیں ‘ ۔ اور آیت میں ہے «قُلْ إِن کَانَ لِلرَّحْمٰنِ وَلَدٌ فَأَنَا أَوَّلُ الْعَابِدِینَ» ۱؎ (43-الزخرف:81) ’ اگر رحمان کے اولاد ہو تو میں تو سب سے پہلے عابد ہوں ‘ ۔ اور آیت میں ارشاد ہو رہا ہے «لَوْ اَرَاد اللّٰہُ اَنْ یَّتَّخِذَ وَلَدًا لَّاصْطَفٰی مِمَّا یَخْلُقُ مَا یَشَاءُ سُبْحٰنَہٗ ہُوَ اللّٰہُ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ» ۱؎ (39-الزمر:4) ، یعنی ’ اگر اللہ کو اولاد منظور ہوتی تو وہ اپنی مخلوق میں سے جسے چاہتا پسند فرما لیتا وہ پاک ہے وہ یکتا اور ایک ہے وہ غالب اور سب پر حکمران ہے ‘ ۔ پس ان پانچوں آیتوں میں شرط کے ساتھ بیان ہے لیکن ایسا ہوا نہیں ۔ نہ نبیوں سے شرک ہونا ممکن نہ سردار رسولاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ممکن ۔ نہ اللہ کی اولاد ۔ اسی طرح امہات المؤمنین کی نسبت بھی جو فرمایا کہ ’ اگر تم میں سے کوئی کھلی لغو حرکت کرے تو اسے دگنی سزا ہو گی ‘ اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ واقعی ان میں سے کسی نے کوئی ایسی نافرمانی اور بدخلقی کی ہو ۔ نعوذ باللہ الأحزاب
31 ازواج مطہرات اامہات المؤمنین کی اطاعت گزاری اور نیک کاری اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے عدل و فضل کا بیان فرما رہا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات سے خطاب کر کے فرما رہا ہے کہ ’ تمہاری اطاعت گزاری اور نیک کاری پر تمہیں دگنا اجر ہے اور تمہارے لیے جنت میں باعزت روزی ہے ‘ ۔ کیونکہ یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی منزل میں ہوں گی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی منزل اعلیٰ علیین میں ہے جو تمام لوگوں سے بالا تر ہے ۔ اسی کا نام وسیلہ ہے ۔ یہ جنت کی سب سے اعلیٰ اور سب سے اونچی منزل ہے جس کی چھت عرش اللہ ہے ۔ الأحزاب
32 ارشادات الٰہی کی روشنی میں اسوہ امہات المومنین اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کو آداب سکھاتا ہے اور چونکہ تمام عورتیں انہی کے ماتحت ہیں ، اس لیے یہ احکام سب مسلمان عورتوں کے لیے ہیں پس فرمایا کہ ’ تم میں سے جو پرہیزگاری کریں وہ بہت بڑی فضیلت اور مرتبے والی ہیں ۔ مردوں سے جب تمہیں کوئی بات کرنی پڑے تو آواز بنا کر بات نہ کرو کہ جن کے دلوں میں روگ ہے انہیں طمع پیدا ہو ۔ بلکہ بات اچھی اور مطابق دستور کرو ‘ ۔ پس عورتوں کو غیر مردوں سے نزاکت کے ساتھ خوش آوازی سے باتیں کرنی منع ہیں ۔ گھل مل کر وہ صرف اپنے خاوندوں سے ہی کلام کر سکتی ہیں ۔ پھر فرمایا ’ بغیر کسی ضروری کام کے گھر سے باہر نہ نکلو ‘ ۔ مسجد میں نماز کے لیے آنا بھی شرعی ضرورت ہے ۔ جیسے کہ حدیث میں ہے { اللہ کی لونڈیوں کو اللہ کی مسجدوں سے نہ روکو ۔ لیکن انہیں چاہیئے کہ سادگی سے جس طرح گھروں میں رہتی ہیں اسی طرح آئیں } ۔ (سنن ابوداود:565 ، قال الشیخ الألبانی:حسن) ایک روایت میں ہے کہ { ان کے لیے ان کے گھر بہتر ہیں } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:567 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) مسند بزار میں ہے کہ { عورتوں نے حاضر ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ جہاد وغیرہ کی کل فضیلتیں مرد ہی لے گئے ۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں کوئی ایسا عمل بتائیں جس سے ہم مجاہدین کی فضیلت کو پا سکیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { تم میں سے جو اپنے گھر میں پردے اور عصمت کے ساتھ بیٹھی رہے وہ جہاد کی فضیلت پا لے گی } ۔ ۱؎ (مسند بزار:1475:ضعیف) ترمذی وغیرہ میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { عورت سر تا پا پردے کی چیز ہے ۔ یہ جب گھر سے باہر قدم نکالتی ہے تو شیطان جھانکنے لگتا ہے } } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:1173 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) یہ سب سے زیادہ اللہ کے قریب اس وقت ہوتی ہے جب یہ اپنے گھر کے اندرونی حجرے میں ہو ۔ ابوداؤد وغیرہ میں ہے { عورت کی اپنے گھر کی اندرونی کوٹھڑی کی نماز گھر کی نماز سے افضل ہے اور گھر کی نماز صحن کی نماز سے بہتر ہے } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:570 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) جاہلیت میں عورتیں بے پردہ پھرا کرتی تھیں اب اسلام بے پردگی کو حرام قرار دیتا ہے ۔ ناز سے اٹھلا کر چلنا ممنوع ہے ۔ دوپٹہ گلے میں ڈال لیا لیکن اسے لپیٹا نہیں جس سے گردن اور کانوں کے زیور دوسروں کو نظر آئیں ، یہ جاہلیت کا بناؤ سنگھار تھا جس سے اس آیت میں روکا گیا ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ” نوح اور ادریس علیہم السلام کی دو نسلیں آباد تھیں ۔ ایک تو پہاڑ پر دوسرے نرم زمین پر ۔ پہاڑیوں کے مرد خوش شکل تھے عورتیں سیاہ فام تھیں اور زمین والوں کی عورتیں خوبصورت تھیں اور مردوں کے رنگ سانولے تھے ۔ ابلیس انسانی صورت اختیار کر کے انہیں بہکانے کے لیے نرم زمین والوں کے پاس آیا اور ایک شخص کا غلام بن کر رہنے لگا ۔ پھر اس نے بانسری وضع کی ایک چیز بنائی اور اسے بجانے لگا اس کی آواز پر لوگ لٹو ہو گئے اور پھر بھیڑ لگنے لگی اور ایک دن میلے کا مقرر ہو گیا جس میں ہزار ہا مرد و عورت جمع ہونے لگے ۔ اتفاقاً ایک دن ایک پہاڑی آدمی بھی آ گیا اور ان کی عورتوں کو دیکھ کر واپس جا کر اپنے قبیلے والوں میں اس کے حسن کا چرچا کرنے لگا ۔ اب وہ لوگ بکثرت آنے لگے اور آہستہ آہستہ ان عورتوں مردوں میں اختلاط بڑھ گیا اور بدکاری اور زناکاری کا عام رواج ہو گیا ۔ یہی جاہلیت کا بناؤ ہے جس سے یہ آیت روک رہی ہے “ ۔ ان کاموں سے روکنے کے بعد اب کچھ احکام بیان ہو رہے ہیں کہ ’ اللہ کی عبادت میں سب سے بڑی عبادت نماز ہے اس کی پابندی کرو اور بہت اچھی طرح سے اسے ادا کرتی رہو ‘ ۔ ’ اسی طرح مخلوق کے ساتھ بھی نیک سلوک کرو ‘ ۔ یعنی زکوٰۃ نکالتی رہو ۔ ان خاص احکام کی بجا آوری کا حکم دے کر پھر عام طور پر اللہ کی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کرنے کا حکم دیا ۔ پھر فرمایا ’ اس اہل بیت سے ہر قسم کے میل کچیل کو دور کرنے کا ارادہ اللہ تعالیٰ کا ہو چکا ہے وہ تمہیں بالکل پاک صاف کر دے گا ‘ ۔ یہ آیت اس بات پر نص ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں ان آیتوں میں اہل بیت میں داخل ہیں ۔ اس لیے کہ یہ آیت انہی کے بارے میں اتری ہے ۔ آیت کا شان نزول تو آیت کے حکم میں داخل ہوتا ہی ہے گو بعض کہتے ہیں کہ صرف وہی داخل ہوتا ہے اور بعض کہتے ہیں وہ بھی اور اس کے سوا بھی ۔ اور یہ دوسرا قول ہی زیادہ صحیح ہے ۔ عکرمہ رحمتہ اللہ علیہ تو بازاروں میں منادی کرتے پھرتے تھے کہ یہ آیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں ہی کے بارے میں خالصتاً نازل ہوئی ہے ۔ ( ابن جریر ) ۔ ابن ابی حاتم میں عکرمہ رحمہ اللہ تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ ” جو چاہے مجھ سے مباہلہ کرلے ، یہ آیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات ہی کی شان میں نازل ہوئی ہے “ ۔ اس قول سے اگر یہ مطلب ہے کہ شان نزول یہی ہے اور نہیں ، تو یہ تو ٹھیک ہے اور اگر اس سے مراد یہ ہے کہ اہل بیت میں اور کوئی ان کے سوا داخل ہی نہیں تو اس میں نظر ہے اس لیے کہ احادیث سے اہل بیت میں ازواج مطہرات کے سوا اوروں کا داخل ہونا بھی پایا جاتا ہے ۔ مسند احمد اور ترمذی میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز کے لیے جب نکلتے تو فاطمہ رضی اللہ عنہا کے دروازے پر پہنچ کر فرماتے { اے اہل بیت نماز کا وقت آ گیا ہے } پھر اسی آیت تطہیر کی تلاوت کرتے } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3206 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) امام ترمذی اسے حسن غریب بتلاتے ہیں ۔ ابن جریر کی ایک اسی حدیث میں سات مہینے کا بیان ہے ۔ اس میں ایک راوی ابوداؤد اعمی نفیع بن حارث کذاب ہے ۔ یہ روایت ٹھیک نہیں ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:28491:ضعیف جدا) مسند میں ہے شداد بن عمار کہتے ہیں { میں ایک دن واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اس وقت وہاں کچھ اور لوگ بھی بیٹھے ہوئے تھے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہما کا ذکر ہو رہا تھا ۔ وہ آپ رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہہ رہے تھے میں نے بھی ان کا ساتھ دیا جب وہ لوگ گئے تو مجھ سے سے واثلہ نے فرمایا تونے بھی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی شان میں گستاخانہ الفاظ کہے ؟ میں نے کہا ” ہاں میں نے بھی سب کی زبان میں زبان ملائی “ ۔ تو فرمایا ” سن میں نے جو دیکھا ہے تجھے سناتا ہوں ۔ میں ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے گھر گیا تو معلوم ہوا کہ آپ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں گئے ہوئے ہیں ۔ میں ان کے انتظار میں بیٹھا رہا تھوڑی دیر میں دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آ رہے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ علی رضی اللہ عنہ اور حسن اور حسین رضی اللہ عنہم بھی ہیں دونوں بچے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلی تھامے ہوئے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ اور فاطمہ رضی اللہ عنہا کو تو اپنے سامنے بٹھا لیا اور دونوں نواسوں کو اپنے گھٹنوں پر بٹھا لیا اور ایک کپڑے سے ڈھک لیا پھر اسی آیت کی تلاوت کر کے فرمایا : { اے اللہ یہ ہیں میرے اہل بیت اور میرے اہل بیت زیادہ حقدار ہیں } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:107/4:صحیح) دوسری روایت میں اتنی زیادتی بھی ہے کہ { سیدنا واثلہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے یہ دیکھ کر کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہل بیت میں سے ہوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { تو بھی میرے اہل میں سے ہے } ۔ واثلہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان میرے لیے بہت ہی بڑی امید کا ہے } ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:706/22:صحیح) اور روایت میں ہے { واثلہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا جب علی فاطمہ حسن حسین رضی اللہ عنہم اجمعین آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر ان پر ڈال کر فرمایا : { اے اللہ یہ میرے اہل بیت ہیں یا اللہ ان سے ناپاکی کو دور فرما اور انہیں پاک کر دے } ۔ میں نے کہا میں بھی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ہاں تو بھی } ۔ میرے نزدیک سب سے زیادہ میرا مضبوط عمل یہی ہے } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:28493:ضعیف) مسند احمد میں ہے { ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں تھے جب فاطمہ رضی اللہ عنہا حریرے کی ایک پتیلی بھری ہوئی لائیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اپنے میاں کو اور اپنے دونوں بچوں کو بھی بلا لو } ۔ چنانچہ وہ بھی آ گئے اور کھانا شروع ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بستر پر تھے ۔ خیبر کی ایک چادر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نیچے بچھی ہوئی تھی ۔ میں حجرے میں نماز ادا کر رہی تھی جب یہ آیت اتری ۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چادر انہیں اڑھا دی اور چادر میں سے ایک ہاتھ نکال کر آسمان کی طرف اٹھا کر یہ دعا کی کہ { الٰہی یہ میرے اہل بیت اور حمایتی ہیں تو ان سے ناپاکی دور کر اور انہیں ظاہر کر } ۔ میں نے اپنا سر گھر میں سے نکال کر کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی آپ سب کے ساتھ ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { یقیناً تو بہتری کی طرف ہے ، فی الواقع تو خیر کی طرف ہے } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:292/6:صحیح) اس روایت کے روایوں میں عطا کے استاد کا نام نہیں جو معلم ہو سکے کہ وہ کیسے راوی ہیں باقی راوی ثقہ ہیں ۔ دوسری سند سے انہی ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ { ایک مرتبہ ان کے ساتھ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا ذکر آیا تو آپ نے فرمایا آیت تطہیر تو میرے گھر میں اتری ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں آئے اور فرمایا : { کسی اور کو آنے کی اجازت نہ دینا } ۔ تھوڑی دیر میں سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا آئیں ۔ اب بھلا میں بیٹی کو باپ سے کیسے روکتی ؟ پھر سیدنا حسن رضی اللہ عنہ آئے تو نواسے کو نانا سے کون روکے ؟ پھر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ آئے میں نے انہیں بھی نہ روکا ۔ پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ آئے میں انہیں بھی نہ روک سکی ۔ جب یہ سب جمع ہو گئے تو جو چادر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اوڑھے ہوئے تھے اسی میں ان سب کو لے لیا اور کہا { الٰہی یہ میرے اہل بیت ہیں ان سے پلیدی دور کر دے اور انہیں خوب پاک کر دے } ۔ پس یہ آیت اس وقت اتری جبکہ یہ چادر میں جمع ہو چکے تھے میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی ؟ لیکن اللہ جانتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر خوش نہ ہوئے اور فرمایا : { تو خیر کی طرف ہے } } ۔ مسند کی اور روایت میں ہے کہ { میرے گھر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھے جب خادم نے آ کر خبر کی کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ آ گئے ہیں ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا : { ایک طرف ہو جاؤ میرے اہل بیت آ گئے ہیں } ۔ میں گھر کے ایک کونے میں بیٹھ گئی جب دونوں ننھے بچے اور یہ دونوں صاحب تشریف لائے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں بچوں کو گودی میں لے لیا اور پیار کیا پھر ایک ہاتھ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی گردن میں دوسرا سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی گردن میں ڈال کر ان دونوں کو بھی پیار کیا اور ایک سیاہ چادر سب پر ڈال کر فرمایا : { یا اللہ تیری طرف نہ کہ آگ کی طرف میں اور میری اہل بیت } ۔ میں نے کہا میں بھی ؟ فرمایا : { ہاں تو بھی } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:296/6:ضعیف) اور روایت میں ہے کہ { میں اس وقت گھر کے دروازے پر بیٹھی ہوئی تھی اور میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا میں اہل بیت میں سے نہیں ہوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { تو بھلائی کی طرف ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں سے ہے } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:304/6:ضعیف) اور روایت میں ہے { میں نے کہا مجھے بھی ان کے ساتھ شامل کر لیجئے تو فرمایا : { تو میری اہل ہے } } ۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیاہ چادر اوڑھے ہوئے ایک دن صبح ہی صبح نکلے اور ان چاروں کو اپنی چادر تلے لے کر یہ آیت پڑھی } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2424) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک مرتبہ کسی نے علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں سوال کیا تو آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ” وہ سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب تھے ان کے گھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی تھیں جو سب سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب تھیں “ ۔ پھر چادر کا واقعہ بیان فرما کر فرمایا ” میں نے قریب جا کر کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت سے ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { دور رہو تم یقیناً خیر پر ہو } ۔ (ابن ابی حاتم) سیدنا سعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { میرے اور ان چاروں کے بارے میں یہ آیت اتری ہے } } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:28487:ضعیف) اور سند سے یہ ابوسعید رضی اللہ عنہ کا اپنا قول ہونا مروی ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں { جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اتری تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چاروں کو اپنے کپڑے تلے لے کر فرمایا : { یارب یہ میرے اہل ہیں اور میرے اہل بیت ہیں } ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:28501:ضعیف) صحیح مسلم شریف میں ہے { یزید بن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں اور حصین بن سیرہ اور عمر بن مسلمہ مل کر زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کے پاس گئے ۔ حصین کہنے لگے اے زید آپ کو تو بہت سی بھلائیاں مل گئیں ۔ آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں سنیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد کئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نمازیں پڑھیں غرض آپ نے بہت خیر و برکت پا لیا اچھا ہمیں کوئی حدیث تو سناؤ ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا بھتیجے اب میری عمر بڑی ہوگئی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ دور ہوگیا ۔ بعض باتیں ذہن سے جاتی رہیں ۔ اب تم ایسا کرو جو باتیں میں از خود بیان کروں انہیں تم قبول کرلو ورنہ مجھے تکلیف نہ دو ۔ سنو ! مکے اور مدینے کے درمیان ایک پانی کی جگہ پر جسے خم کہا جاتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر ہمیں ایک خطبہ سنایا ۔ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء اور وعظ و پند کے بعد فرمایا : { میں ایک انسان ہوں ۔ بہت ممکن ہے کہ میرے پاس میرے رب کا قاصد آئے اور میں اس کی مان لوں میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ۔ پہلی تو کتاب اللہ جس پر ہدایت و نور ہے ۔ تم اللہ کی کتابوں کو لو اور اسے مضبوطی سے تھام لو } پھر تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتاب اللہ کی بڑی رغبت دلائی اور اس کی طرف ہمیں خوب متوجہ فرمایا ۔ پھر فرمایا : { اور میری اہل بیت کے بارے میں اللہ کو یاد دلاتا ہوں } تین مرتبہ یہی کلمہ فرمایا ۔ تو حصین نے زید رضی اللہ عنہ سے پوچھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کون ہیں ؟ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہل بیت نہیں ہیں ؟ فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہل بیت ہیں ہی ۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہل بیت وہ ہیں جن پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صدقہ کھانا حرام ہے ، پوچھا وہ کون ہیں ؟ فرمایا آل علی ، آل عقیل ، آل جعفر ، آل عباس رضی اللہ عنہم ۔ پوچھا کیا ان سب پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صدقہ حرام ہے ؟ کہا ہاں ! } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2408) دوسری سند سے یہ بھی مروی ہے کہ { میں نے پوچھا کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں بھی اہل بیت میں داخل ہیں ؟ کہا نہیں قسم ہے اللہ کی بیوی کا تو یہ حال ہے کہ وہ اپنے خاوند کے پاس گو عرصہ دراز سے ہو لیکن پھر اگر وہ طلاق دیدے تو اپنے میکے میں اور اپنی قوم میں چلی جاتی ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت آپ کی اصل اور عصبہ ہیں جن پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صدقہ حرام ہے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2048) اس روایت میں یہی ہے لیکن پہلی روایت ہی اولیٰ ہے اور اسی کو لینا ٹھیک ہے اور اس دوسری میں جو ہے اس سے مراد صرف حدیث میں جن اہل بیت کا ذکر ہے وہ ہے کیونکہ وہاں وہ آل مراد ہے جن پر صدقہ خوری حرام ہے یا یہ کہ مراد صرف بیویاں نہیں ہیں بلکہ وہ مع آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اور آل کے ہیں ۔ یہی بات زیادہ راحج ہے اور اس سے اس روایت اور اس سے پہلے کی روایت میں جمع بھی ہو جاتی ہے اور قرآن اور پہلی احادیث میں بھی جمع ہو جاتی ہے لیکن یہ اس صورت میں کہ ان احادیث کی صحت کو تسلیم کر لیا جائے ۔ کیونکہ ان کی بعض اسنادوں میں نظر ہے «وَاللہُ سُبْحَانَہُ وَ تَعَالیٰ اَعْلَمُ» ۔ جس شخص کو نور معرفت حاصل ہو اور قرآن میں تدبر کرنے کی عادت ہو وہ یقیناً بیک نگاہ جان لے گا کہ اس آیت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں بلاشبک و شبہ داخل ہیں اس لیے کہ اوپر سے کلام ہی ان کے ساتھ اور انہی کے بارے میں چل رہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد ہی فرمایا کہ ’ اللہ کی آیتیں اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں جن کا درس تمہارے گھروں میں ہو رہا ہے انہیں یاد رکھو اور ان پر عمل کرو ‘ ۔ پس اللہ کی آیات اور حکمت سے مراد بقول قتادہ رحمہ اللہ وغیرہ کتاب و سنت ہے ۔ پس یہ خاص خصوصیت ہے جو ان کے سوا کسی اور کو نہیں ملی کہ ان کے گھروں میں اللہ کی وحی اور رحمت الٰہی نازل ہوا کرتی ہے اور ان میں بھی یہ شرف ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو بطور اولیٰ اور سب سے زیادہ حاصل ہے کیونکہ حدیث شریف میں صاف وارد ہے کہ { کسی عورت کے بستر پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وحی نہیں آتی بجز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بسترے کے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3775) یہ اس لیے بھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہا کے سوا کسی اور باکرہ سے نکاح نہیں کیا تھا ۔ ان کا بستر بجز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور کسی کے لیے نہ تھا ۔ پس اس زیادتی درجہ اور بلندی مرتبہ کی وہ صحیح طور پر مستحق تھیں ۔ ہاں جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں آپ کے اہل بیت ہوئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی رشتے دار بطور اولیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہل بیت ہیں ۔ جیسے حدیث میں گزر چکا کہ { میرے اہل بیت زیادہ حقدار ہیں } ۔ اس کی مثال میں یہ آیت ٹھیک طور پر پیش ہو سکتی ہے ، «لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَی التَّقْوٰی مِنْ اَوَّلِ یَوْمٍ اَحَقٰ اَنْ تَقُوْمَ فِیْہِ فِیْہِ رِجَالٌ یٰحِبٰوْنَ اَنْ یَّتَطَہَّرُوْا وَاللّٰہُ یُحِبٰ الْمُطَّہِّرِیْنَ» ۱؎ (9-التوبۃ:108)b ، کہ یہ اتری تو ہے مسجد قباء کے بارے میں جیسا کہ صاف صاف احادیث میں موجود ہے ۔ لیکن صحیح مسلم شریف میں ہے کہ { جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ اس مسجد سے کون سی مسجد مراد ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { وہ میری ہی مسجد ہے } یعنی مسجد نبوی } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1398) پس جو صفت مسجد قباء میں تھی وہی صفت چونکہ مسجد نبوی میں بھی ہے اس لیے اس مسجد کو بھی اسی نام سے اس آیت کے تحت داخل کر دیا ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ ” سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنایا گیا ۔ آپ رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ نماز پڑھا رہے تھے کہ بنو اسد کا ایک شخص کود کر آیا اور سجدے کی حالت میں آپ رضی اللہ عنہ کے جسم میں خنجر گھونپ دیا جو آپ رضی اللہ عنہ کے نرم گوشت میں لگا جس سے آپ رضی اللہ عنہ کئی مہینے بیمار رہے جب اچھے ہو گئے تو مسجد میں آئے منبر پر بیٹھ کر خطبہ پڑھا جس میں فرمایا ” اے عراقیو ! ہمارے بارے میں اللہ کا خوف کیا کرو ہم تمہارے حاکم ہیں ، تمہارے مہمان ہیں ، ہم اہل بیت ہیں جن کے بارے میں آیت «اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْرًا» ۱؎ (33-الأحزاب:33) ، اتری ہے “ ۔ اس پر آپ رضی اللہ عنہ نے خوب زور دیا اور اس مضمون کو باربار ادا کیا جس سے مسجد والے رونے لگے ۔ ایک مرتبہ آپ رضی اللہ عنہ نے ایک شامی سے فرمایا تھا ” کیا تونے سورۃ الاحزاب کی آیت تطہیر نہیں پڑھی ؟ “ اس نے کہا ہاں کیا اس سے مراد تم ہو ؟ فرمایا ” ہاں ! اللہ تعالیٰ بڑے لطف و کرم والا ، بڑے علم اور پوری خبر والا ہے ۔ اس نے جان لیا کہ تم اس کے لطف کے اہل ہو ، اس لیے اس نے تمہیں یہ نعمتیں عطا فرمائیں اور یہ فضیلتیں تمہیں دیں “ ۔ پس اس آیت کے معنی مطابق تفسیر ابن جریر یہ ہوئے کہ ” اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویو ! اللہ کی جو نعمت تم پر ہے اسے تم یاد کرو کہ اس نے تمہیں ان گھروں میں کیا جہاں اللہ کی آیات اور حکمت پڑھی جاتی ہے تمہیں اللہ تعالیٰ کی اس نعمت پر اس کا شکر کرنا چاہیئے اور اس کی حمد پڑھنی چاہیئے کہ تم پر اللہ کا لطف و کرم ہے کہ اس نے تمہیں ان گھروں میں آباد کیا ‘ ۔ حکمت سے مراد سنت و حدیث ہے ۔ اللہ انجام تک سے خبردار ہے ۔ اس نے اپنے پورے اور صحیح علم سے جانچ کر تمہیں اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں بننے کے لیے منتخب کر لیا ۔ پس دراصل یہ بھی اللہ کا تم پر احسان ہے جو لطیف و خبیر ہے ہرچیز کے جز و کل سے ۔ الأحزاب
33 الأحزاب
34 الأحزاب
35 اسلام اور ایمان میں فرق اور ذکر الٰہی { ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ مردوں کا ذکر تو قرآن میں آتا رہتا ہے لیکن عورتوں کا تو ذکر ہی نہیں کیا جاتا ؟ ایک دن میں اپنے گھر میں بیٹھی اپنے سر کے بال سلجھا رہی تھی جب میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز منبر پر سنی میں نے بالوں کو تو یونہی لپیٹ لیا اور حجرے میں آ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سننے لگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت یہی آیت تلاوت فرما رہے تھے } ۔ (سنن نسائی:425:صحیح) ۔ اور بہت سی روایتیں آپ رضی اللہ عنہا سے مختصراً مروی ہیں ۔ ایک روایت میں ہے کہ { چند عورتوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہا تھا } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:28510:اسنادہ ضعیف) اور روایت میں ہے کہ { عورتوں نے ازواج مطہرات «رَضِیَ اللہُ عَنْہُنَّ وَأَرْضَاہُنَّ» سے یہ کہا تھا } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:28505:) اسلام و ایمان کو الگ الگ بیان کرنا دلیل ہے اس بات کی کہ ایمان اسلام کا غیر ہے اور ایمان اسلام سے مخصوص و ممتاز ہے «قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا» ۱؎ (49-الحجرات:14) الخ ، والی آیت اور بخاری و مسلم کی حدیث کہ { زانی زنا کے وقت مومن نہیں ہوتا } ۱؎ (صحیح مسلم:2475) پھر اس پر اجماع کہ زنا سے کفر لازم نہیں آتا ۔ یہ اس پر دلیل ہے اور ہم شرح بخاری کی ابتداء میں اسے ثابت کر چکے ہیں ۔ [ یہ یاد رہے کہ ان میں فرق اس وقت ہے جب اسلام حقیقی نہ ہو جیسے کہ امام المحدثین امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے صحیح بخاری کتاب الایمان میں بدلائل کثیرہ ثابت کیا ہے ، «وَاللہُ اَعْلَمُ» ، مترجم ) ۔ قنوت سے مراد سکون کے ساتھ کی اطاعت گزاری ہے جیسے «ا اَمَّنْ ہُوَ قَانِتٌ اٰنَاءَ الَّیْلِ سَاجِدًا وَّقَایِٕمًا یَّحْذَرُ الْاٰخِرَۃَ وَیَرْجُوْا رَحْمَۃَ رَبِّہٖ قُلْ ہَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ اِنَّمَا یَتَذَکَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِ» ۱؎ (39-الزمر:9) ، میں ہے اور فرمان ہے «وَلَہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ کُلٌّ لَّہٗ قٰنِتُوْنَ» ۱؎ (30-الروم:26) یعنی ’ آسمان و زمین کی ہر چیزاللہ کی فرماں بردار ہے ‘ اور فرماتا ہے «یٰمَرْیَمُ اقْنُتِیْ لِرَبِّکِ وَاسْجُدِیْ وَارْکَعِیْ مَعَ الرّٰکِعِیْنَ» ۱؎ (3-آل عمران:43) ، اور فرماتا ہے «وَقُوْمُوْا لِلہِ قٰنِتِیْنَ» ۱؎ (2-البقرۃ:238) یعنی ’ اللہ کے سامنے با ادب فرماں برداری کی صورت میں کھڑے ہوا کرو ‘ ۔ پس اسلام کے اوپر کا مرتبہ ایمان ہے اور ان کے اجتماع سے انسان میں فرماں برداری اور اطاعت گزاری پیدا ہو جاتی ہے ۔ باتوں کی سچائی اللہ کو بہت ہی محبوب ہے اور یہ عادت ہر طرح محمود ہے ۔ صحابہ کبار رضی اللہ عنہم میں تو وہ بزرگ بھی تھے جنہوں نے جاہلیت کے زمانے میں بھی کوئی جھوٹ نہیں بولا تھا ، { سچائی ایمان کی نشانی ہے اور جھوٹ نفاق کی علامت ہے ۔ سچا نجات پاتا ہے ۔ سچ ہی بولا کرو ۔ سچائی نیکی کی طرف رہبری کرتی ہے اور نیکی جنت کی طرف ۔ جھوٹ سے بچو ۔ جھوٹ بدکاری کی طرف رہبری کرتا ہے اور فسق وفجور انسان کو جہنم کی طرف لے جاتا ہے ۔ انسان سچ بولتے بولتے اور سچائی کا قصد کرتے کرتے اللہ کے ہاں صدیق لکھ لیا جاتا ہے اور جھوٹ بولتے ہوئے اور جھوٹ کا قصد کرتے ہوئے اللہ کے نزدیک جھوٹا لکھ لیا جاتا ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6094) اور بھی اس بارے کی بہت سی حدیثیں ہیں ۔ صبر ثابت قدمی کا نتیجہ ہے ۔ مصیبتوں پر صبر ہوتا ہے اس علم پر کہ تقدیر کا لکھا ٹلتا نہیں ۔ سب سے زیادہ سخت صبر صدمے کے ابتدائی وقت پر ہے اور اسی کا اجر زیادہ ہے ۔ پھر تو جوں جوں زمانہ گزرتا ہے خواہ مخواہ ہی صبر آ جاتا ہے ۔ خشوع سے مراد تسکین دلجمعی تواضح فروتنی اور عاجزی ہے ۔ یہ انسان میں اس وقت آتی ہے جبکہ دل میں اللہ کا خوف اور رب کو ہر وقت حاضر ناظر جانتا ہو اور اس طرح اللہ کی عبادت کرتا ہو جیسے کہ وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے اور یہ نہیں تو کم از کم اس درجے پر وہ ضرور ہو کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے ۔ صدقے سے مراد محتاج ضعیفوں کو جن کی کوئی کمائی نہ ہو نہ جن کا کوئی کمانے والا ہو انہیں اپنا فالتو مال دینا اس نیت سے کہ اللہ کی اطاعت ہو اور اس کی مخلوق کا کام بنے ۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے { سات قسم کے لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنے عرش تلے سایہ دے گا جس دن اس کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہو گا ان میں ایک وہ بھی ہے جو صدقہ دیتا ہے لیکن اسطرح پوشیدہ طور پر کہ داہنے ہاتھ کے خرچ کی بائیں ہاتھ کو خبر نہیں لگتی } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:660) اور حدیث میں ہے { صدقہ خطاؤں کو اسطرح مٹا دیتا ہے جس طرح پانی آگ کو بجھا دیتا ہے } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2616 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) اور بھی اس بارے کی بہت سی حدیثیں ہیں جو اپنی اپنی جگہ موجود ہیں ۔ روزے کی بابت حدیث میں ہے کہ { یہ بدن کی زکوٰۃ ہے } ۱؎ (سنن ابن ماجہ:1745 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) یعنی اسے پاک صاف کر دیتا ہے اور طبی طور پر بھی ردی اخلاط کو مٹا دیتا ہے ۔ سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” رمضان کے روزے رکھ کر جس نے ہر مہینے میں تین روزے رکھ لیے وہ «وَالصَّایِٕـمِیْنَ وَالـﮩـیِٕمٰتِ وَالْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَہُمْ وَالْحٰفِظٰتِ وَالذّٰکِرِیْنَ اللّٰہَ کَثِیْرًا وَّالذّٰکِرٰتِ اَعَدَّ اللّٰہُ لَہُمْ مَّغْفِرَۃً وَّاَجْرًا عَظِیْمًا» ۱؎ (33-الأحزاب:35) ، میں داخل ہو گیا “ ۔ روزہ شہوت کو بھی جھکا دینے والا ہے ۔ حدیث میں ہے { اے نوجوانو ! تم میں سے جسے طاقت ہو وہ تو اپنا نکاح کر لے تاکہ اس سے نگاہیں نیچی رہیں اور پاک دامنی حاصل ہو جائے اور جسے اپنے نکاح کی طاقت نہ ہو وہ روزے رکھے ، یہی اس کے لیے گویا خصی ہونا ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1905) اسی لیے روزوں کے ذکر کے بعد ہی بدکاری سے بچنے کا ذکر کیا اور فرمایا کہ ’ ایسے مسلمان مرد و عورت حرام سے اور گناہ کے کاموں سے بچتے رہتے ہیں ۔ اپنی اس خاص قوت کو جائز جگہ صرف کرتے ہیں ‘ ۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ «وَالَّذِینَ ہُمْ لِفُرُوجِہِمْ حَافِظُونَ إِلَّا عَلَی أَزْوَاجِہِمْ أَوْ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُہُمْ فَإِنَّہُمْ غَیْرُ مَلُومِینَ فَمَنِ ابْتَغَی وَرَاءَ ذَلِکَ فَأُولَئِکَ ہُمُ الْعَادُونَ» ۱؎ (23-المؤمنون:7-5) ’ یہ لوگ اپنے بدن کو روکے رہتے ہیں ۔ مگر اپنی بیویوں سے اور لونڈیوں سے ان پر کوئی ملامت نہیں ۔ ہاں اس کے سوا جو اور کچھ طلب کرے وہ حد سے گزر جانے والا ہے ‘ ۔ ذکر اللہ کی نسبت ایک حدیث میں ہے کہ { جب میاں اپنی بیوی کو رات کے وقت جگا کر دو رکعت نماز دونوں پڑھ لیں تو وہ اللہ کا ذکر کرنے والوں میں لکھ لیے جاتے ہیں } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:1309 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ { یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بڑے درجے والا بندہ قیامت کے دن اللہ کے نزدیک کون ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والا } ۔ میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی راہ کے مجاہد سے بھی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اگرچہ وہ کافروں پر تلوار چلائے یہاں تک کہ تلوار ٹوٹ جائے اور وہ خون میں رنگ جائے تب بھی اللہ تعالیٰ کا بکثرت ذکر کرنے والا اس سے افضل ہی رہے گا } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:411/2:حسن) مسند ہی میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکے کے راستے میں جا رہے تھے جمدان پر پہنچ کر فرمایا : { یہ جمدان ہے مفرد بن کر چلو } ۔ آگے بڑھنے والوں نے پوچھا مفرد سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا : { اللہ تعالیٰ کا بہت زیادہ ذکر کرنے والے } ۔ پھر فرمایا : { اے اللہ حج و عمرے میں اپنا سر منڈوانے والوں پر رحم فرما ! } ۔ لوگوں نے کہا بال کتروانے والوں کے لیے بھی دعا کیجئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { یا اللہ سر منڈوانے والوں کو بخش } ۔ لوگوں نے پھر کتروانے والوں کے لیے درخواست کی تو ، ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { کتروانے والے بھی } } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2676) { آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ { اللہ کے عذابوں سے نجات دینے والا کوئی عمل اللہ کے ذکر سے بڑا نہیں } ۔ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { میں تمہیں سب سے بہتر سب سے پاک اور سب سے بلند درجے کا عمل نہ بتاؤں جو تمہارے حق میں سونا چاندی اللہ کی راہ میں لٹانے سے بھی بہتر ہو اور اس سے بھی افضل ہو جب تم کل دشمن سے ملو گے اور ان کی گردنیں مارو گے اور وہ تمہاری گردنیں ماریں گے } ۔ لوگوں نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ضرور بتلائے فرمایا : { اللہ عزوجل کا ذکر } } ۔ (مسند احمد:239/5:ضعیف) مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے کہ { ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ کون سا مجاہد افضل ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { سب سے زیادہ اللہ کا ذکر کرنے والا } ۔ اس نے پھر روزے دار کی نسبت پوچھا یہی جواب ملا پھر نماز ، زکوٰۃ ، حج صدقہ ، سب کی بابت پوچھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کا یہی جواب دیا تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہا ” پھر اللہ کا ذکر کرنے والے تو بہت ہی بڑھ گئے “ ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ہاں } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:438/3:ضعیف) کثرت ذکر اللہ کی فضیلت میں اور بھی بہت سی حدیثیں آئی ہیں ۔ اسی سورت کی آیت «یٰٓاَیٰہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْکُرُوا اللّٰہَ ذِکْرًا کَثِیْرًا» ۱؎ (33-الأحزاب:41) ، کی تفسیر میں ہم ان احادیث کو بیان کریں گے ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ پھر فرمایا ’ یہ نیک صفتیں جن میں ہوں ہم نے ان کے لیے مغفرت تیار کر رکھی ہے اور اجر عظیم ‘ یعنی جنت ۔ الأحزاب
36 حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو رد کرنا گناہ عظیم ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا زید بن حارث رضی اللہ عنہ کا پیغام لے کر زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے پاس گئے ۔ انہوں نے کہا ” میں اس سے نکاح نہیں کروں گی “ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ایسا نہ کہو اور ان سے نکاح کر لو } ۔ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ ” اچھا پھر کچھ مہلت دیجئیے میں سوچ لوں “ ۔ ابھی یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ وحی نازل ہوئی اور یہ آیت اتری ۔ اسے سن کر سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے فرمایا ۔ ” یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس نکاح سے رضامند ہیں ؟ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ہاں } ۔ تو سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ ” بس پھر مجھے کوئی انکار نہیں ، میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی نہیں کروں گی ۔ میں نے اپنا نفس ان کے نکاح میں دے دیا “ } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:28513:ضعیف) اور روایت میں ہے کہ وجہ انکار یہ تھی کہ نسب کے اعتبار سے یہ بہ نسبت سیدنا زید رضی اللہ عنہ کے زیادہ شریف تھیں ۔ زید رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام تھے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:28516:) عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ” یہ آیت عقبہ بن ابومعیط کی صاحبزادی ام کلثوم رضی اللہ عنہا کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ صلح حدیبیہ کے بعد سب سے پہلے مہاجر عورت یہی تھی ۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنا نفس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہبہ کرتی ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { مجھے قبول ہے } ۔ پھر زید بن حارث رضی اللہ عنہ سے ان کا نکاح کرا دیا ۔ غالباً یہ نکاح زینب رضی اللہ عنہا کی علیحدگی کے بعد ہوا ہوگا ۔ اس سے ام کلثوم رضی اللہ عنہا ناراض ہوئیں اور ان کے بھائی بھی بگڑ بیٹھے کہ ہمارا اپنا ارادہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح کا تھا نہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام سے نکاح کرنے کا ، اس پر یہ آیت اتری بلکہ اس سے بھی زیادہ معاملہ صاف کر دیا گیا اور فرما دیا گیا کہ «اَلنَّبِیٰ اَوْلٰی بالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِہِمْ وَاَزْوَاجُہٗٓ اُمَّہٰتُہُمْ وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُہُمْ اَوْلٰی بِبَعْضٍ فِیْ کِتٰبِ اللّٰہِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُہٰجِرِیْنَ اِلَّآ اَنْ تَفْعَلُوْٓا اِلٰٓی اَوْلِیٰیِٕکُمْ مَّعْرُوْفًا کَانَ ذٰلِکَ فِی الْکِتٰبِ مَسْطُوْرًا» ۱؎ (33-الأحزاب:6) ’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مومنوں کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ اولیٰ ہیں ‘ ۔ پس آیت «وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَہُمُ الْخِـیَرَۃُ مِنْ اَمْرِہِمْ وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مٰبِیْنًا» ۱؎ (33-الأحزاب:36) خاص ہے اور اس سے بھی جامع آیت یہ ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:28517:ضعیف) مسند احمد میں ہے کہ { ایک انصاری کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { تم اپنی لڑکی کا نکاح جلیبیب رضی اللہ عنہ سے کر دو } ۔ انہوں نے جواب دیا کہ اچھی بات ہے ۔ میں اس کی ماں سے بھی مشورہ کر لوں ۔ جا کر ان سے مشورہ کیا تو انہوں نے کہا یہ نہیں ہوسکتا ، ہم نے فلاں فلاں ان سے بڑے بڑے آدمیوں کے پیغام کو رد کر دیا اور اب جلیبیب رضی اللہ عنہ سے نکاح کر دیں ۔ انصاری اپنی بیوی کا یہ جواب سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جانا چاہتے ہی تھے کہ لڑکی جو پردے کے پیچھے سے یہ تمام گفتگو سن رہی تھی بول پڑی کہ ” تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کورد کرتے ہو ؟ جب حضور اس سے خوش ہیں تو تمہیں انکار نہ کرنا چاہیے “ ۔ اب دونوں نے کہا کہ بچی ٹھیک کہہ رہی ہے ۔ بیچ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اس نکاح سے انکار کرنا گویا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام اور خواہش کو رد کرنا ہے ، یہ ٹھیک نہیں ۔ چنانچہ انصاری سیدھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ” کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات سے خوش ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ہاں میں تو اس سے رضامند ہوں } ۔ کہا ” پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نکاح کر دیجئیے “ ، چنانچہ نکاح ہو گیا ۔ ایک مرتبہ اہل اسلام مدینہ والے دشمنوں کے مقابلے کے لیے نکلے ، لڑائی ہوئی جس میں جلبیب رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے انہوں نے بھی بہت سے کافروں کو قتل کیا تھا جن کی لاشیں ان کے آس پاس پڑی ہوئی تھیں ۔ انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ” میں نے خود دیکھا ان کا گھر بڑا آسودہ حال تھا ۔ تمام مدینے میں ان سے زیادہ خرچیلا کوئی نہ تھا “ } ۔ ۱؎ (مسند احمد:136/3:صحیح) ایک اور روایت میں سیدنا ابوبردہ اسلمی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ { سیدنا جلبیب رضی اللہ عنہ کی طبیعت خوش مذاق تھی اس لیے میں نے اپنے گھر میں کہہ دیا تھا کہ یہ تمہارے پاس نہ آئیں ۔ انصاریوں کی عادت تھی کہ وہ کسی عورت کا نکاح نہیں کرتے تھے یہاں تک کہ یہ معلوم کر لیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی بابت کچھ نہیں فرماتے “ ۔ پھر وہ واقعہ بیان فرمایا جو اوپر مذکور ہوا } ۔ اس میں یہ بھی ہے کہ { جلیبیب رضی اللہ عنہ نے سات کافروں کو اس غزوے میں قتل کیا تھا ۔ پھر کافروں نے یک مشت ہو کر آپ رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کو تلاش کرتے ہوئے جب ان کی نعش کے پاس آئے تو فرمایا : { سات کو مار کر پھر شہید ہوئے ہیں ۔ یہ میرے ہیں اور میں ان کا ہوں } ۔ دو یا تین مرتبہ یہی فرمایا پھر قبر کھدوا کر اپنے ہاتھوں پر انہیں اٹھا کر قبر میں اتارا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دست مبارک ہی ان کا جنازہ تھا اور کوئی چارپائی وغیرہ نہ تھی ۔ یہ بھی مذکور نہیں کہ انہیں غسل دیا گیا ہو ۔ اس نیک بخت انصاریہ عورت کے لیے جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کی عزت رکھ کر اپنے ماں باپ کو سمجھایا تھا کہ ” انکار نہ کرو “ ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا کی تھی کہ { اللہ اس پر اپنی رحمتوں کی بارش برسا اور اسے زندگی کے پورے لطف عطا فرما } ۔ تمام انصار میں ان سے زیادہ خرچ کرنے والی عورت نہ تھی ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2472) انہوں نے جب پردے کے پیچھے سے اپنے والدین سے کہا تھا کہ ” نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات رد نہ کرو “ اس وقت یہ آیت «وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَہُمُ الْخِـیَرَۃُ مِنْ اَمْرِہِمْ وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مٰبِیْنًا» ۱؎ (33-الأحزاب:36) ، نازل ہوئی تھی } ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے طاؤس رحمہ اللہ نے پوچھا کہ عصر کے بعد دو رکعت پڑھ سکتے ہیں ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے منع فرمایا اور اسی آیت کی تلاوت کی ۔ پس یہ آیت گو شان نزول کے اعتبار سے مخصوص ہے لیکن حکم کے اعتبار سے عام ہے ۔ اللہ اور اس کے رسول کے فرمان کے ہوتے ہوئے نہ تو کوئی مخالفت کر سکتا ہے نہ اسے ماننے نہ ماننے کا اختیار کسی کو باقی رہتا ہے ۔ نہ رائے اور قیاس کرنے کا حق ، نہ کسی اور بات کا ۔ جیسے فرمایا «فَلَا وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَــرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِــیْمًا» ۱؎ (4-النساء:65) ، یعنی ’ قسم ہے تیرے رب کی لوگ ایماندار نہ ہوں گے جب تک کہ وہ آپس کے تمام اختلافات میں تجھے حاکم نہ مان لیں ۔ پھر تیرے فرمان سے اپنے دل میں کسی قسم کی تنگی نہ رکھیں بلکہ کھلے دل سے تسلیم کر لیا ‘ ۔ صحیح حدیث میں ہے { اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو گا جب تک کہ اس کی خواہش اس چیز کی تابعدار نہ بن جائے جسے میں لایا ہوں } ۔ ۱؎ (سلسلۃ احادیث صحیحہ البانی:167،) اسی لیے یہاں بھی اس کی نافرمانی کی برائی بیان فرما دی کہ ’ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرنے والا کھلم کھلا گمراہ ہے ‘ ۔ جیسے فرمان ہے «فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِہٖٓ اَنْ تُصِیْبَہُمْ فِتْنَۃٌ اَوْ یُصِیْبَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ» ۱؎ (24-النور:63) یعنی ’ جو لوگ ارشاد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خلاف کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہیئے کہ ایسا نہ ہو ان پر کوئی فتنہ آ پڑے یا انہیں درد ناک عذاب ہو ‘ ۔ الأحزاب
37 عظمت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ ’ اس کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آزاد کردہ غلام زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو ہر طرح سمجھایا ۔ ان پر اللہ کا انعام تھا کہ اسلام اور متابعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی توفیق دی ‘ ۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی ان پر احسان تھا کہ انہیں غلامی سے آزاد کر دیا ۔ یہ بڑی شان والے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت ہی پیارے تھے یہاں تک کہ انہیں سب مسلمان «حِبٰ الرَّسُوْل» کہتے تھے ۔ ان کے صاحبزادے اسامہ کو بھی «الْحِبٰ ابْنُ الْحِبِّ» کہتے تھے ۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا فرمان ہے کہ { جس لشکر میں انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھیجتے تھے اس لشکر کا سردار انہی کو بناتے تھے ۔ اگر یہ زندہ رہتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ بن جاتے } ۔ (مسند احمد:227/6:حسن) مسند بزار میں ہے { اسامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں مسجد میں تھا میرے پاس سیدنا عباس اور سیدنا علی رضی اللہ عنہما آئے اور مجھ سے کہا جاؤ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمارے لیے اجازت طلب کرو ۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { جانتے ہو وہ کیوں آئے ہیں ؟ } میں نے کہا نہیں ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے : { فرمایا لیکن میں جانتا ہوں جاؤ بلا لاؤ } ، یہ آئے اور کہا ” یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذرا بتائیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے اہل میں سب سے زیادہ کون محبوب ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { میری بیٹی فاطمہ [ رضی اللہ عنہا ] } ۔ انہوں نے کہا ہم سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں نہیں پوچھتے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { پھر اسامہ بن زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ جن پر اللہ نے انعام کیا اور میں نے بھی } } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3819 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نکاح اپنی پھوپھی امیمہ بنت عبدالمطلب کی لڑکی زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا اسدیہ سے کرا دیا تھا ۔ دس دینار اور سات درہم مہر دیا تھا ، ایک ڈوپٹہ ایک چادر ایک کرتا پچاس مد اناج اور دس مد کھجوریں دی تھیں ۔ ایک سال یا کچھ اوپر تک تو یہ گھر بسا لیکن پھر ناچاقی شروع ہو گئی ۔ سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر شکایت شروع کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں سمجھانے لگے کہ { گھر نہ توڑو اللہ سے ڈرو } ۔ ابن ابی حاتم اور ابن جریر نے اس جگہ بہت سے غیر صحیح آثار نقل کئے ہیں جن کا نقل کرنا ہم نامناسب جان کر ترک کرتے ہیں کیونکہ ان میں سے ایک بھی ثابت اور صحیح نہیں ۔ مسند احمد میں بھی ایک روایت سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے ہے لیکن اس میں بھی بڑی غرابت ہے اس لیے ہم نے اسے بھی وارد نہیں کیا ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ { یہ آیت زینب بنت جحش اور زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں اتری ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4787) ابن ابی حاتم میں ہے کہ { اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی سے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دے دی تھی کہ زینب رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آئیں گی ۔ یہی بات تھی جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظاہر نہ فرمایا اور زید رضی اللہ عنہ کو سمجھایا کہ وہ اپنی بیوی کو الگ نہ کریں ۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ فرماتی ہیں ” نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اگر اللہ کی وحی کتاب اللہ میں سے ایک آیت بھی چھپانے والے ہوتے تو اس آیت کو چھپالیتے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:177) «وَطَرْ» کے معنی حاجت کے ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ جب سیدہ زید رضی اللہ عنہ ان سے سیر ہوگئے اور باوجود سمجھانے بجھانے کے بھی میل ملاپ قائم نہ رہ سکا بلکہ طلاق ہو گئی تو اللہ تعالیٰ نے زینب رضی اللہ عنہا کو اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں دے دیا ۔ اس لیے ولی کے ایجاب و قبول سے مہر اور گواہوں کی ضرورت نہ رہی ۔ مسند احمد میں ہے { سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کی عدت پوری ہو چکی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ { تم جاؤ اور انہیں مجھ سے نکاح کرنے کا پیغام پہنچاؤ } ۔ سیدنا زید رضی اللہ عنہ گئے اس وقت آپ رضی اللہ عنہا آٹا گوندھ رہی تھیں ۔ سیدنا زید رضی اللہ عنہ پر ان کی عظمت اس قدر چھائی کہ سامنے پڑ کر بات نہ کر سکے منہ پھیر کر بیٹھ گئے اور ذکر کیا ۔ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے فرمایا ” ٹھہرو ! میں اللہ تعالیٰ سے استخارہ کر لوں “ ۔ یہ تو کھڑی ہو کر نماز پڑھنے لگیں ادھر رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اتری جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’ میں نے ان کا نکاح تجھ سے کر دیا ‘ ۔ چنانچہ اسی وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بے اطلاع چلے آئے ، ، پھر ولیمے کی دعوت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سب کو گوشت روٹی کھلائی ۔ لوگ کھا پی کر چلے گئے مگر چند آدمی وہیں بیٹھے باتیں کرتے رہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکل کر اپنی بیویوں کے حجرے کے پاس گئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں السلام علیک کرتے تھے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرتی تھیں کہ فرمائیے بیوی صاحبہ سے خوش تو ہیں ؟ مجھے یہ یاد نہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم خبر دیئے گئے کہ لوگ وہاں سے چلے گئے ۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس گھر کی طرف تشریف لے گئے میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھا میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی جانے کا ارادہ کیا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پردہ گرا دیا اور میرے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان حجاب ہو گیا اور پردے کی آیتیں اتریں اور صحابہ رضی اللہ عنہم کو نصیحت کی گئی اور فرما دیا گیا کہ ’ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں بے اجازت نہ جاؤ ‘ } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1428) صحیح بخاری شریف میں ہے { سیدہ زینب رضی اللہ عنہا اور ازواج مطہرات «رَضِیَ اللہُ عَنْہُنَّ وَأَرْضَاہُنَّ» سے فخراً کہا کرتی تھیں کہ ” تم سب کے نکاح تمہارے ولی وارثوں نے کئے اور میرا نکاح خود اللہ تعالیٰ نے ساتویں آسمان پر کرا دیا “ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:7420) سورۃ النور کی تفسیر میں ہم یہ روایت بیان کر چکے ہیں کہ ” سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے کہا میرا نکاح آسمان سے اترا اور ان کے مقابلے پر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ” میری برأت کی آیتیں آسمان سے اتریں “ جس کا سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے اقرار کیا ۔ ابن جریر میں ہے { ام المؤمنین سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک مرتبہ کہا ” مجھ میں اللہ تعالیٰ نے تین خصوصیتیں رکھی ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اور بیویوں میں نہیں ایک تو یہ کہ میرا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دادا ایک ہے ۔ دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں دیا ۔ تیسرے یہ کہ ہمارے درمیان سفیر جبرائیل علیہ السلام تھے “ } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:28526:ضعیف و مرسل) پھر فرماتا ہے ’ ہم نے ان سے نکاح کرنا تیرے لیے جائز کر دیا تاکہ مسلمانوں پر ان کے لے پالک لڑکوں کو بیویوں کے بارے میں جب انہیں طلاق دے دی جائے کوئی حرج نہ رہے ‘ ۔ یعنی وہ اگر چاہیں ان سے نکاح کر سکیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت سے پہلے زید کو اپنا متنبی بنا رکھا تھا ۔ عام طور پر انہیں زید بن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہا جاتا تھا ۔ قرآن نے اس نسبت سے بھی ممانعت کر دی اور حکم دیا کہ ’ انہیں اپنے حقیقی باپ کی طرف نسبت کرکے پکارا کرو ‘ ۔ پھر سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے جب سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کو طلاق دے دی تو اللہ پاک نے انہیں اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں دے کر یہ بات بھی ہٹادی ۔ جس آیت میں حرام عورتوں کا ذکر کیا ہے وہاں بھی یہی فرمایا کہ ’ تمہارے اپنے صلبی لڑکوں کی بیویاں تم پر حرام ہیں ‘ ۔ تاکہ لے پالک لڑکوں کی لڑکیاں اس حکم سے خارج رہیں ۔ کیونکہ ایسے لڑکے عرب میں بہت تھے ۔ یہ امر اللہ کے نزدیک مقرر ہو چکا تھا ۔ اس کا ہونا حتمی ، یقینی اور ضروری تھا ۔ اور سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کو یہ شرف ملنا پہلے ہی سے لکھا جا چکا تھا کہ وہ ازواج مطہرات امہات المؤمنین میں داخل ہوں رضی اللہ عنہا ۔ الأحزاب
38 لے پالک کی بیوی سے متعلق حکم فرماتا ہے کہ ’ جب اللہ کے نزدیک اپنے لے پالک متبنی کی بیوی سے اس کی طلاق کے بعد نکاح کرنا حلال ہے پھر اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کیا حرج ہے اگلے نبیوں پر جو جو حکم اللہ نازل فرماتے تھے ۔ ان پر عمل کرنے میں ان پر کوئی حرج نہ تھا ‘ ۔ اس سے منافقوں کے اس قول کا رد کرنا ہے کہ دیکھو اپنے آزاد کردہ غلام اور لے پالک لڑکے کی بیوی سے نکاح کر لیا ۔ اس اللہ کے مقدر کردہ امور ہو کر ہی رہتے ہیں ، وہ جو چاہتا ہے ہوتا ہے جو نہیں چاہتا نہیں ہوتا ۔ الأحزاب
39 امی خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم ان کی تعریف ہو رہی ہے جو اللہ کی مخلوق کو اللہ کے پیغام پہنچاتے ہیں اور امانت اللہ کی ادائیگی کرتے ہیں اور اس سے ڈرتے رہتے ہیں اور سوائے اللہ کے کسی کا خوف نہیں کرتے ، کسی کی سطوت و شان سے مرعوب ہو کر پیغام اللہ کا پہنچانے میں خوف نہیں کھاتے ۔ اللہ تعالیٰ کی نصرت و امداد کافی ہے ۔ اس منصب کی ادائیگی میں سب کے پیشوا بلکہ ہر اک امر میں سب کے سردار محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ خیال فرمائیے کہ مشرق و مغرب کے ہر ایک بنی آدم کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے دین کی تبلیغ کی ۔ اور جب تک اللہ کا دین چار دانگ عالم میں پھیل نہ گیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل مشقت کے ساتھ اللہ کے دین کی اشاعت میں مصروف رہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے تمام انبیاء علیہم السلام اپنی اپنی قوم ہی کی طرف آتے رہے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ساری دنیا کی طرف اللہ کے رسول بن کر آئے تھے ۔ قرآن میں فرمان الٰہی ہے کہ «قُلْ یَا أَیٰہَا النَّاسُ إِنِّی رَسُولُ اللہِ إِلَیْکُمْ جَمِیعًا» ۱؎ (7-الأعراف:158) ’ لوگوں میں اعلان کر دو کہ میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں ‘ «سَلَامٌ عَلَیْہِ» ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد منصب تبلیغ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو ملا ۔ ان میں سب کے سردار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ہیں رضوان اللہ علیہم ۔ جو کچھ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھا تھا ، سب کچھ بعد والوں کو سکھا دیا ۔ تمام اقوال و افعال جو احوال دن اور رات کے ، سفر و حضر کے ، ظاہر و پوشیدہ دنیا کے سامنے رکھ دئیے ۔ اللہ ان پر اپنی رضا مندی نازل فرمائے ۔ پھر ان کے بعد والے ان کے وارث ہوئے اور اسی طرح پھر بعد والے اپنے سے پہلے والوں کے وارث بنے اور اللہ کا دین ان سے پھیلتا رہا ۔ اور قرآن و حدیث لوگوں تک پہنچتے رہے ہدایت والے ان کی اقتداء سے منور ہوتے رہے اور توفیق خیر والے ان کے مسلک پر چلتے رہے ۔ اللہ کریم سے ہماری دعا ہے کہ وہ ہمیں بھی ان میں سے کر دے ۔ مسند احمد میں ہے { تم میں سے کوئی اپنا آپ ذلیل نہ کرے ۔ لوگوں نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ کیسے ! فرمایا : { خلاف شرع کام دیکھ کر ، لوگوں کے خوف کے مارے خاموش ہو رہے ۔ قیامت کے دن اس سے بازپرس ہوگی کہ ” تو کیوں خاموش رہا ؟ “ یہ کہے گا کہ ” لوگوں کے ڈر سے “ ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’ سب سے زیادہ خوف رکھنے کے قابل تو میری ذات تھی ‘ } } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:4008 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) پھر اللہ تعالیٰ منع فرماتا ہے کہ ’ کسی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا صاحبزادہ کہا جائے ‘ ۔ لوگ جو زید بن محمد کہتے تھے جس کا بیان اوپر گزر چکا ہے ۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم زید کے والد نہیں ‘ ۔ یہی ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی نرینہ اولاد بلوغت کو پہنچی ہی نہیں ۔ قاسم ، طیب اور طاہر تین بچے خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے ، ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا سے ایک بچہ ہوا جس کا نام ابراہیم لیکن یہ بھی دودھ پلانے کے زمانے میں ہی انتقال کر گئے ۔ آپ کی لڑکیاں خدیجہ سے چار تھیں زینب ، رقیہ ، ام کلثوم اور فاطمہ رضی اللہ عنہم اجمعین ان میں سے تین تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی رحلت فرما گئیں صرف فاطمہ رضی اللہ عنہا کا انتقال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چھ ماہ بعد ہوا ۔ پھر فرماتا ہے ’ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں ‘ ۔ جیسے فرمایا « اللہُ أَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہُ» ۱؎ (6-الأنعام:124) ’ اللہ خوب جانتا ہے جہاں اپنی رسالت رکھتا ہے ‘ ۔ یہ آیت نص ہے اس امر پر کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں ۔ اور جب نبی ہی نہیں تو رسول کہاں ؟ کوئی نبی ، رسول آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہیں آئے گا ۔ رسالت تو نبوت سے بھی خاص چیز ہے ۔ ہر رسول نبی ہے لیکن ہر نبی رسول نہیں ۔ متواتر احادیث سے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ختم الانبیاء ہونا ثابت ہے ۔ بہت سے صحابہ سے یہ حدیثیں روایت کی گئی ہیں ۔ مسند احمد میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { میری مثال نبیوں میں ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک بہت اچھا اور پورا مکان بنایا لیکن اس میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی جہاں کچھ نہ رکھا لوگ اسے چاروں طرف سے دیکھتے بھالتے اور اس کی بناوٹ سے خوش ہوتے لیکن کہتے کیا اچھا ہو تاکہ اس اینٹ کی جگہ پُر کر لی جاتی ۔ پس میں نبیوں میں اسی اینٹ کی جگہ ہوں } } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3613 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) امام ترمذی بھی اس حدیث کو لائے ہیں اور اسے حسن صحیح کہا ہے ۔ مسند احمد میں ہے { رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { رسالت اور نبوت ختم ہوگئی ، میرے بعد نہ کوئی رسول ہے نہ نبی } ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم پر یہ بات گراں گزری تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { لیکن خوش خبریاں دینے والے } ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا خوشخبریاں دینے والے کیا ہیں ۔ فرمایا : { مسلمانوں کے خواب جو نبوت کے اجزأ میں سے ایک جز ہیں } } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2272 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) یہ حدیث بھی ترمذی شریف میں ہے اور امام ترمذی اسے صحیح غریب کہتے ہیں ۔ محل کی مثال والی حدیث ابوداؤد طیالسی میں بھی ہے ۔ اس کے آخر میں یہ ہے کہ { میں اس اینٹ کی جگہ ہوں مجھ سے انبیاء علیہم الصلوۃ السلام ختم کئے گئے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3534) اسے بخاری ، مسلم اور ترمذی بھی لائے ہیں ۔ مسند کی اس حدیث کی ایک سند میں ہے کہ { میں آیا اور میں نے اس خالی اینٹ کی جگہ پر کر دی } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2286) مسند میں ہے { { میرے بعد نبوت نہیں مگر خوشخبری والے } ۔ پوچھا گیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ کیا ہیں ؟ فرمایا : { اچھے خواب } یا فرمایا : { نیک خواب } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:454/5:صحیح) عبدالرزاق وغیرہ میں محل کی اینٹ کی مثال والی حدیث میں ہے کہ { لوگ اسے دیکھ کر محل والے سے کہتے ہیں کہ تو نے اس اینٹ کی جگہ کیوں چھوڑ دی ؟ پس میں وہ اینٹ ہوں } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3535) صحیح مسلم شریف میں ہے { رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { مجھے تمام انبیاء پر چھ فضیلتیں دی گئی ہیں ، مجھے جامع کلمات عطا فرمائے گئے ہیں ۔ صرف رعب سے میری مدد کی گئی ہے ۔ میرے لیے غنیمت کا مال حلال کیا گیا ۔ میرے لیے ساری زمین مسجد اور وضو بنائی گئی ، میں ساری مخلوق کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں ۔ اور میرے ساتھ نبیوں کو ختم کر دیا گیا } } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:523) یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے اور امام ترمذی اسے حسن صحیح کہتے ہیں ۔ صحیح مسلم وغیرہ میں محل مثال والی روایت میں یہ الفاظ بھی آئے ہیں کہ { میں آیا اور میں نے اس اینٹ کی جگہ پوری کر دی } ۔ مسند میں ہے { میں اللہ کے نزدیک نبیوں کا علم کرنے والا تھا اس وقت جبکہ آدم علیہ السلام پوری طور پر پیدا بھی نہیں ہوئے تھے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:127/4:صحیح) اور حدیث میں ہے { میرے کئی نام ہیں ، میں محمد ہوں اور میں احمد ہوں اور میں ماحی ہوں اللہ تعالیٰ میری وجہ سے کفر کو مٹا دے گا اور میں حاشر ہوں تمام لوگوں کا حشر میرے قدموں تلے ہو گا اور میں عاقب ہوں جس کے بعد کوئی نبی نہیں } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3532) عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں { ایک روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے گویا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رخصت کر رہے ہیں اور تین مرتبہ فرمایا : { میں امی نبی ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔ میں فاتح کلمات دیا گیا ہوں جو نہایت جامع اور پورے ہیں ۔ میں جانتا ہوں کہ جہنم کے داروغے کتنے ہیں اور عرش کے اٹھانے والے کتنے ہیں ۔ میرا اپنی امت سے تعارف کرایا گیا ہے ۔ جب تک میں تم میں ہوں میری سنتے رہو اور مانتے چلے جاؤ ۔ جب میں رخصت ہو جاؤں تو کتاب اللہ کو مضبوط تھام لو اس کے حلال کو حلال اور اس کے حرام کو حرام سمجھو } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:172/2:ضعیف) اس بارے میں اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی اس وسیع رحمت پر اس کا شکر کرنا چاہیئے کہ اس نے اپنے رحم و کرم سے ایسے عظیم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہماری طرف بھیجا اور انہیں ختم المرسلین اور خاتم الانبیاء بنایا اور یکسوئی والا ، آسان ، سچا اور سہل دین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں کمال کو پہنچایا ۔ رب العالمین نے اپنی کتاب میں اور رحمتہ للعالمین نے اپنی متواتر احادیث میں یہ خبر دی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں ۔ پس جو شخص بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت یا رسالت کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا ، مفتری ، دجال ، گمراہ اور گمراہ کرنے والا ہے ۔ گو وہ شعبدے دکھائے اور جادوگری کرے اور بڑے کمالات اور عقل کو حیران کر دینے والی چیزیں پیش کرے اور طرح طرح کی بے رنگ یاں دکھائے لیکن عقلمند جانتے ہیں کہ یہ سب فریب دھوکہ اور مکاری ہے ۔ یمن کے مدعی نبوت عنسی اور یمانہ کے مدعی نبوت مسیلمہ کذاب کو دیکھ لو کہ دنیا نے انہیں جیسے یہ تھے سمجھ لیا اور ان کی اصلیت سب پر ظاہر ہو گئ ۔ یہی حال ہو گا ہر اس شخص کا جو قیامت تک اس دعوے سے مخلوق کے سامنے آئے گا کہ اس کا جھوٹ اور اس کی گمراہی سب پر کھل جائے گی ۔ یہاں تک کہ سب سے آخری دجال مسیح آئے گا ۔ اس کی علامتوں سے بھی ہر عالم اور ہر مومن اس کا کذاب ہونا جان لے گا پس یہ بھی اللہ کی ایک نعمت ہے کہ ایسے جھوٹے دعوے داروں کو یہ نصیب ہی نہیں ہوتا کہ وہ نیکی کے احکام دیں اور برائی سے روکیں ۔ ہاں جن احکام میں ان کا اپنا کوئی مقصد ہوتا ہے ان پر بہت زورر دیتے ہیں ۔ ان کے اقوال ، افعال افترا اور فجور والے ہوتے ۔ جیسے فرمان باری ہے ۔ «ہَلْ أُنَبِّئُکُمْ عَلَی مَنْ تَنَزَّلُ الشَّیَاطِینُ تَنَزَّلُ عَلَی کُلِّ أَفَّاکٍ أَثِیمٍ» ۱؎ (26-الشعراء:222-221) الخ ، یعنی ’ کیا میں تمہیں بتاؤں کہ شیاطن کن کے پاس آتے ہیں ؟ ہر ایک بہتان باز گنہگار کے پاس ‘ ۔ سچے نبیوں کا حال اس کے بالکل برعکس ہوتا ہے وہ نہایت نیکی والے ، بہت سچے ہدایت والے ، استقامت والے ، قول و فعل کے اچھے ، نیکیوں کا حکم دینے والے ، برائیوں سے روکنے والے ہوتے ہیں ۔ ساتھ ہی اللہ کی طرف سے ان کی تائید ہوتی ہے ۔ معجزوں سے اور خارق عادت چیزوں سے ان کی سچائی اور زیادہ ظاہر ہوتی ہے ۔ اور اس قدر ظاہر واضح اور صاف دلیلیں ان کی نبوت پر ہوتی ہیں کہ ہر قلب سلیم ان کے ماننے پر مجبور ہو جاتا ہے اللہ تعالیٰ اپنے تمام سچے نبیوں پر قیامت تک درود سلام نازل فرماتا رہے ۔ الأحزاب
40 الأحزاب
41 بہترین دعا بہت سی نعمتوں کے انعام کرنے والے اللہ کا حکم ہو رہا ہے کہ ’ ہمیں اس کا بکثرت ذکر کرنا چاہیئے اور اس پر بھی ہمیں نعمتوں اور بڑے اجر و ثواب کا وعدہ دیا جاتا ہے ‘ ۔ { ایک مرتبہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { کیا میں تمہارے بہتر عمل اور بہت ہی زیادہ پاکیزہ کام اور سب سے بڑے درجے کی نیکی اور سونے چاندی کو راہ اللہ خرچ کرنے سے بھی زیادہ بہتر اور جہاد سے بھی افضل کام نہ بتاؤں ؟ } لوگوں نے پوچھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہ کیا ہے ؟ فرمایا : { اللہ عزوجل کا ذکر } } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3377،قال الشیخ الألبانی:صحیح) یہ حدیث پہلے «وَالذَّاکِرِینَ اللہَ کَثِیرًا وَالذَّاکِرَاتِ» ۱؎ (33-الأحزاب:35) کی تفسیر میں بھی گزر چکی ہے ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں { میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ دعا سنی ہے جسے میں کسی وقت ترک نہیں کرتا ۔ دعا یہ ہے « اللہُمَّ ، اجْعَلْنِی أُعْظِمُ شُکْرَکَ ، وَأَتْبَعُ نَصِیحَتَکَ ، وَأُکْثِرُ ذِکْرَکَ ، وَأَحْفَظُ وَصِیَّتَکَ» یعنی اے اللہ تو مجھے اپنا بہت بڑا شکر گزار ، فرماں بردار ، بکثرت ذکر کرنے والا اور تیرے احکام کی حفاظت کرنے والا بنا دے } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3604،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) { دو اعرابی رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ، ایک نے پوچھا ” سب سے اچھا شخص کون ہے ؟ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { جو لمبی عمر پائے ، اور نیک اعمال کرے } ۔ دوسرے نے پوچھا ” حضور صلی اللہ علیہ وسلم احکام اسلام تو بہت سارے ہیں مجھے کوئی چوٹی کا حکم بتا دیجئیے کہ اس میں چمٹ جاؤں “ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ذکر اللہ میں ہر وقت اپنی زبان کو تر رکھ } } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3375،قال الشیخ الألبانی:صحیح) { فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کا ذکر میں ہر وقت مشغول رہو یہاں تک کہ لوگ تمہیں مجنوں کہنے لگیں } ۱؎ (سلسلۃ احادیث ضعیفہ البانی:517:ضعیف) { فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کا بہ کثرت ذکر کرو یہاں تک کہ منافق تمہیں ریا کار کہنے لگیں } ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:12786:ضعیف) { فرماتے ہیں جو لوگ کسی مجلس میں بیٹھیں اور وہاں اللہ کا ذکر نہ کریں وہ مجلس قیامت کے دن ان پر حسرت افسوس کا باعث بنے گی } ۔ ۱؎ (مسند احمد:224/2:صحیح) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” ہر فرض کام کی کوئی حد ہے ، پھر عذر کی حالت میں وہ معاف بھی ہے لیکن ذکر اللہ کی کوئی حد نہیں نہ وہ کسی وقت ٹلتا ہے ۔ ہاں کوئی دیوانہ ہو تو اور بات ہے ۔ کھڑے بیٹھے لیٹے رات کو دن کو خشکی میں تری میں سفر میں حضر میں غنا میں فقر میں صحت میں بیماری پوشیدگی میں ظاہر میں غرض ہر حال میں ذکر اللہ کرنا چاہیئے ۔ صبح شام اللہ کی تسبیح بیان کرنی چاہیئے ۔ تم جب یہ کرو گے تو اللہ تم پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے گا اور فرشتے تمہارے لیے ہر وقت دعاگو رہیں گے “ ۔ اس بارے میں اور بھی بہت سی احادیث و آثار ہیں ۔ اس آیت میں بھی بکثرت ذکر اللہ کرنے کی ہدایت ہو رہی ہے ۔ بزرگوں نے ذکر اللہ اور وظائف کی بہت سی مستقل کتابیں لکھی ہیں ۔ جیسے امام نسائی ، امام معمری رحمہ اللہ علیہم وغیرہ ۔ ان سب میں بہترین کتاب اس موضوع پر امام نووی رحمہ اللہ علیہ کی ہے ۔ صبح شام اس کی تسبیح بیان کرتے رہو ۔ جیسے فرمایا «فَسُبْحَانَ اللہِ حِینَ تُمْسُونَ وَحِینَ تُصْبِحُونَ وَلَہُ الْحَمْدُ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَعَشِیًّا وَحِینَ تُظْہِرُونَ» ۱؎ (30-الروم:18-17) ، ’ اللہ کے لیے پاکی ہے ۔ جب تم شام کرو اور جب تم صبح کرو ، اسی کے لیے حمد ہے آسمانوں میں اور زمین میں اور بعد از زوال اور ظہر کے وقت ‘ ۔ پھر اس کی فضیلت بیان کرنے اور اس کی طرف رغبت دلانے کے لیے فرماتا ہے ’ وہ خود تم پر رحمت بھیج رہا ہے ‘ ۔ یعنی جب وہ تمہاری یاد رکھتا ہے تو پھر کیا وجہ کہ تم اس کے ذکر سے غفلت کرو ؟ جیسے فرمایا «کَمَآ اَرْسَلْنَا فِیْکُمْ رَسُوْلًا مِّنْکُمْ یَتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰتِنَا وَیُزَکِّیْکُمْ وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُعَلِّمُکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ فَاذْکُرُونِی أَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوا لِی وَلَا تَکْفُرُونِ» ۱؎ (2-البقرۃ:152-151) ، ’ جس طرح ہم نے تم میں خود تم ہی میں سے رسول بھیجا جو تم پر ہماری کتاب پڑھتا ہے اور وہ سکھاتا ہے جسے تم جانتے ہی نہ تھے ۔ پس تم میرا ذکر کرو میں تمہاری یاد کروں گا اور تم میرا شکر کرو اور میری ناشکری نہ کرو ‘ ۔ حدیث قدسی میں ہے { اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’ جو مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے میں بھی اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں ۔ اور جو مجھے کسی جماعت میں یاد کرتا ہے میں بھی اسے جماعت میں یاد کرتا ہوں جو اس کی جماعت سے بہتر ہوتی ہے ‘ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:7405) «الصَّلَاۃُ» جب اللہ کی طرف مضاف ہو تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی بھلائی اپنے فرشتوں کے سامنے بیان کرتا ہے ۔ اور قول میں ہے مراد اس کی رحمت ہے ۔ اور دونوں قولوں کا انجام ایک ہی ہے ۔ فرشتوں کی «الصَّلَاۃُ» ان کی دعا اور استغفار ہے ۔ جیسے اور آیت میں ہے «الَّذِینَ یَحْمِلُونَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَہُ یُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّہِمْ وَیُؤْمِنُونَ بِہِ وَیَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِینَ آمَنُوا رَبَّنَا وَسِعْتَ کُلَّ شَیْءٍ رَحْمَۃً وَعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِینَ تَابُوا وَاتَّبَعُوا سَبِیلَکَ وَقِہِمْ عَذَابَ الْجَحِیمِ رَبَّنَا وَأَدْخِلْہُمْ جَنَّاتِ عَدْنٍ الَّتِی وَعَدْتَہُمْ وَمَنْ صَلَحَ مِنْ آبَائِہِمْ وَأَزْوَاجِہِمْ وَذُرِّیَّاتِہِمْ إِنَّکَ أَنْتَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ وَقِہِمُ السَّیِّئَاتِ» ۱؎ (40-غافر:7-9) ، ’ عرش کے اٹھانے والے اور اس کے آس پاس والے اپنے رب کی حمد و تسبیح بیان کرتے ہیں ، اس پر ایمان لاتے ہیں اور مومن بندوں کے لیے استغفار کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب تو نے ہرچیز کو رحمت و علم سے گھیر لیا ہے ۔ اے اللہ تو انہیں بخش جو توبہ کرتے ہیں اور تیری راہ پر چلتے ہیں ۔ انہیں عذاب جہنم سے بھی نجات دے ۔ انہیں ان جنتوں میں لے جا جن کا تو ان سے وعدہ کر چکا ہے ۔ اور انہیں بھی ان کے ساتھ پہنچا جو ان کے باپ دادوں بیویوں اور اولادوں میں سے نیک ہیں ، انہیں برائیوں سے بچا لے ۔ وہ اللہ اپنی رحمت کو تم پر نازل فرما کر اپنے فرشتوں کی دعا کو تمہارے حق میں قبول فرما کر تمہیں جہالت وو ضلالت کی اندھیریوں سے نکال کر ھدایت و یقین کے نور کی طرف لے جاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں مومنوں پر رحیم و کریم ہے ‘ ۔ دنیا میں حق کی طرف ان کی راہنمائی کرتا ہے اور روزیاں عطا فرماتا ہے اور آخرت میں گھبراہٹ اور ڈر خوف سے بچا لے گا ۔ فرشتے آ کر انہیں بشارت دیں گے کہ تم جہنم سے آزاد ہو اور جنتی ہو ۔ کیونکہ ان فرشتوں کے دل مومنوں کی محبت و الفت سے پُر ہیں ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم کے ساتھ راستے سے گزر رہے تھے ۔ ایک چھوٹا بچہ راستے میں تھا اس کی ماں نے ایک جماعت کو آتے ہوئے دیکھا تو میرا بچہ میرا بچہ کہتی ہوئی دوڑی اور بچے کو گود میں لے کر ایک طرف ہٹ گئی ۔ ماں کی اس محبت کو دیکھ کر صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیال تو فرمائیے کیا یہ اپنے بچے کو آگ میں ڈال دے گی ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے مطلب کو سمجھ کر فرمانے لگے { قسم اللہ کی ! اللہ تعالیٰ بھی اپنے دوستوں کو آگ میں نہیں ڈالے گا } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:104/3:صحیح) صحیح بخاری شریف میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک قیدی عورت کو دیکھا کہ اس نے اپنے بچے کو دیکھتے ہی اٹھا لیا اور اپنے کلیجے سے لگا کر اسے دودھ پلانے لگی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { بتاؤ تو اگر اس کے اختیار میں ہو تو کیا یہ اپنی خوشی سے اپنے بچے کو آگ میں ڈال دے گی ؟ } صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا ہرگز نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { قسم ہے اللہ کی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ مہربان ہے ، اللہ کی طرف سے ان کا ثمرہ جس دن یہ اس سے ملیں گے سلام ہوگا } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5999) جیسے فرمایا «سَلَامٌ قَوْلًا مِّن رَّبٍّ رَّحِیمٍ» ۱؎ (36-یس:58) قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” آپس میں ایک دوسرے کو سلام کرے گا “ ۔ اس کی تائید بھی آیت «دَعْوَاہُمْ فِیہَا سُبْحَانَکَ اللہُمَّ وَتَحِیَّتُہُمْ فِیہَا سَلَامٌ وَآخِرُ دَعْوَاہُمْ أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ» ۱؎ (10-یونس:10) ، سے ہوتی ہے ۔ اللہ نے ان کے لیے اجر کریم یعنی جنت مع اس کی تمام نعمتوں کے تیار کر رکھی ہے ۔ جن میں سے ہر نعمت کھانا پینا پہننا اوڑھنا عورتیں لذتیں منظر وغیرہ ایسی ہیں کہ آج تو کسی کے خواب و خیال میں بھی نہیں آسکتیں ، چہ جائیکہ دیکھنے میں یا سننے میں آئیں ۔ الأحزاب
42 الأحزاب
43 الأحزاب
44 الأحزاب
45 تورات میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات عطابن یسار رحمہ اللہ فرماتے ہیں { میں نے عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفتیں تورات میں کیا ہیں ؟ فرمایا جو صفتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرآن میں ہیں انہی میں بعض اوصاف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تورات میں بھی ہیں ۔ تورات میں ہے ’ اے نبی ہم نے تجھے گواہ اور خوشی سنانے والا ، ڈرانے والا ، امتیوں کو بچانے والا بنا کر بھیجا ہے ۔ تو میرا بندہ اور رسول ہے ۔ میں نے تیرا نام متوکل رکھا ہے تو بدگو اور فحش کلام نہیں ہے ، نہ بازاروں میں شور مچانے والا ۔ وہ برائی کے بدلے برائی نہیں کرتا بلکہ در گزر کرتا ہے ، اور معاف فرماتا ہے ۔ اسے اللہ تعالیٰ قبض نہیں کرے گا ، جب تک لوگوں کو ٹیڑھا کر دئیے ہوئے دین کو اس کی ذات سے بالکل سیدھا نہ کر دے اور وہ «لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ» کے قائل نہ ہو جائیں ، جس سے اندھی آنکھیں روشن ہو جائیں ، اور بہرے کان سننے والے بن جائیں ، اور پردوں والے دلوں کے زنگ چھوٹ جائیں ‘ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4838) ابن ابی حاتم میں ہے ” وہیب بن منبہ فرماتے ہیں بنی اسرائیل کے ایک نبی شعیب علیہ السلام پر اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی کہ ’ اپنی قوم بنی اسرائیل میں کھڑے ہو جاؤ ، میں تمہاری زبان سے اپنی باتیں کہلواؤں گا ۔ میں امیوں میں سے ایک نبی امی کو بھیجنے والا ہوں جو نہ بدخلق ہے نہ بد گو ۔ نہ بازاروں میں شور و غل کرنے والا ۔ اس قدر سکون و امن کا حامل ہے کہ اگر چراغ کے پاس سے بھی گزر جائے تو وہ نہ بجھے اور اگر بانسوں پر بھی چلے تو پیر کی چاپ نہ معلوم ہو ۔ میں اسے خوشخبریاں سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجوں گا ۔ جو حق گو ہو گا اور میں اس کی وجہ سے اندھی آنکھوں کو کھول دوں گا اور بہرے کانوں کو سننے والا کروں گا اور زنگ آلود دلوں کو صاف کردوں گا ۔ ہر بھلائی کی طرف اس کی ضمیر ہوگی ۔ حکمت اس کی گویائی ہوگی ۔ صدق و وفا اس کی عادت ہوگی ۔ عفو و در گزر اس کا خلق ہوگا ۔ حق اس کی شریعت ہوگی ۔ عدل اس کی سیرت ہو گی ۔ ہدایت اس کی امام ہوگی اسلام اس کا دین ہوگا ۔ احمد اس کا نام ہوگا ۔ گمراہوں کو میں اس کی وجہ سے ہدایت دوں گا ۔ جاہلوں کو اس کی بدولت علماء بنا دوں گا ۔ تنزل والوں کو ترقی پر پہنچا دوں گا ۔ انجانوں کو مشہور و معروف کر دوں گا ۔ مختلف اور متضاد دلوں کو متفق اور متحد کر دوں گا ۔ جداگانہ خواہشوں کو یکسو کر دوں گا ۔ دنیا کو اس کی وجہ سے ہلاکت سے بچا لوں گا ۔ تمام امتوں سے اس کی امت کو اعلیٰ اور افضل بنا دوں گا ۔ وہ لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے دنیا میں پیدا کئے جائیں گے ۔ ہر ایک کو نیکی کا حکم کریں گے اور برائی سے روکیں گے ۔ وہ موحد ہوں گے ، مومن ہوں گے ، اخلاص والے ہوں گے ، رسولوں پر جو کچھ نازل ہوا ہے سب کو سچ ماننے والے ہوں گے ۔ وہ اپنی مسجدوں مجلسوں اور بستروں پر چلتے پھرتے بیٹھے اٹھتے میری تسبیح حمد و ثنا بزرگی اور بڑائی بیان کرتے رہیں گے ۔ کھڑے اور بیٹھے نمازیں ادا کرتے رہیں گے ۔ دشمنان اللہ سے صفیں باندھ کر حملہ کر کے جہاد کریں گے ۔ ان میں سے ہزارہا لوگ میری رضا مندی کی جستجو میں اپنا گھربار چھوڑ کر نکل کھڑے ہوں گے ۔ منہ ہاتھ وضو میں دھویا کریں گے ۔ تہمد آدھی پنڈلی تک باندھیں گے ۔ میری راہ میں قربانیاں دیں گے ۔ میری کتاب ان کے سینوں میں ہوگی ۔ راتوں کو عابد اور دنوں کو مجاہد ہوں گے ۔ میں اس نبی کی اہل بیت اور اولاد میں سبقت کرنے والے صدیق شہید اور صالح لوگ پیدا کر دوں گا ‘ ۔ ’ اس کی امت اس کے بعد دنیا کو حق کی ہدایت کرے گی ، اور حق کے ساتھ عدل و انصاف کرے گی ۔ ان کی امداد کرنے والوں کو میں عزت والا کروں گا ۔ اور ان کو بلانے والوں کی مدد کروں گا ۔ ان کے مخالفین اور ان کے باغی اور ان کے بدخواہوں پر میں برے دن لاؤں گا ۔ میں انہیں ان کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وارث کر دوں گا ۔ جو اپنے رب کی طرف لوگوں کو دعوت دیں گے ۔ نیکیوں کی باتیں بتائیں گے ، برائیوں سے روکیں گے ، نماز ادا کریں گے ، زکوٰۃ دیں گے ، وعدے پورے کریں گے ، اس خیر کو میں ان کے ہاتھوں پوری کروں گا جو ان سے شروع ہوئی تھی ۔ یہ ہے میرا فضل جسے چاہوں دوں ۔ اور میں بہت بڑے فضل و کرم کا مالک ہوں ‘ ۔ ابن ابی خاتم میں ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن کا حاکم بنا کر بھیج رہے تھے جب یہ آیت اتری تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا : { جاؤ خوشخبریاں سنانا نفرت نہ دلانا ، آسانی کرنا سختی نہ کرنا ، دیکھو مجھ پر یہ آیت اتری ہے } } ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:11841:ضعیف) طبرانی میں یہ بھی ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { مجھ پر یہ اترا ہے کہ ’ اے نبی ہم نے تجھے تیری امت پر گواہ بنا کر جنت کی خوشخبری دینے والا بنا کر جہنم سے ڈرانے والا بنا کر اور اللہ کے حکم سے اس کی توحید کی شہادت کی طرف لوگوں کو بلانے والا بنا کر اور روشن چراغ قرآن کے ساتھ بنا کر بھیجا پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی وحدانیت پر کہ اس کے ساتھ اور کوئی معبود نہیں گواہ ہیں ، اور قیامت کے دن آپ لوگوں کے اعمال پر گواہ ہوں گے ‘ } } ۔ ۱؎ (مجمع الزوائد:92/7:ضعیف) جیسے ارشاد ہے «وَّجِئْنَا بِکَ عَلٰی ہٰٓؤُلَاءِ شَہِیْدًا» ۱؎ (4-النساء:41) یعنی ’ ہم تجھے ان پر گواہ بنا کر لائیں گے ‘ ۔ اور آیت میں ہے کہ «لِتَکُونُوا شُہَدَاءَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُونَ الرَّسُولُ عَلَیْکُمْ شَہِیدًا» ۱؎ (2-البقرۃ:143) ’ تم لوگوں پر گواہ ہو اور تم پر یہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم گواہ ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مومنوں کو بہترین اجر کی بشارت سنانے والے اور کافروں کو بدترین عذاب کاڈر سنانے والے ہیں ‘ ۔ اور چونکہ اللہ کا حکم ہے اس کی بجا آوری کے ماتحت آپ صلی اللہ علیہ وسلم مخلوق کو خالق کی عبادت کی طرف بلانے والے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی اس طرح ظاہر ہے جیسے سورج کی روشنی ۔ ہاں کوئی ضدی اڑ جائے تو اور بات ہے ۔ ’ اے نبی ! کافروں اور منافقوں کی بات نہ مانو نہ ان کی طرف کان لگاؤ اور ان سے در گزر کرو ۔ یہ جو ایذائیں پہنچاتے ہیں انہیں خیال میں بھی نہ لاؤ اور اللہ پر پورا بھروسہ کرو وہ کافی ہے ‘ ۔ الأحزاب
46 الأحزاب
47 الأحزاب
48 الأحزاب
49 نکاح کی حقیقت اس آیت میں بہت سے احکام ہیں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف عقد پر بھی نکاح کا اطلاق ہوتا ہے ۔ اس کے ثبوت میں اس سے زیادہ صراحت والی آیت اور نہیں ۔ اس میں اختلاف ہے کہ لفظ نکاح حقیقت میں صرف ایجاب وقبول کے لیے ہے ؟ یا صرف جماع کے لیے ہے ؟ یا ان دونوں کے مجموعے کے لیے ؟ قرآن کریم میں اس کا اطلاق عقد و وطی دونوں پر ہی ہوا ہے ۔ لیکن اس آیت میں صرف عقد پر ہی اطلاق ہے ۔ اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ دخول سے پہلے بھی خاوند اپنی بیوی کو طلاق دے سکتا ہے ۔ مومنات کا ذکر یہاں پر بوجہ غلبہ کے ہے ورنہ حکم کتابیہ عورت کا بھی یہی ہے ۔ سلف کی ایک بڑی جماعت نے اس آیت سے استدلال کر کے کہا ہے کہ طلاق اسی وقت واقع ہوتی ہے جب اس سے پہلے نکاح ہو گیا ہو اس آیت میں نکاح کے بعد طلاق کو فرمایا ہے ۔ پس معلوم ہوا ہے کہ نکاح سے پہلے نہ طلاق صحیح ہے نہ وہ واقع ہوتی ہے ۔ امام شافعی اور امام احمد رحمہ اللہ علیہم اور بہت بڑی جماعت سلف و خلف کا یہی مذہب ہے ۔ مالک اور ابو حنفیہ رحمہ اللہ علیہم کا خیال ہے کہ نکاح سے پہلے بھی طلاق درست ہو جاتی ہے ۔ مثلاً کسی نے کہا کہ اگر میں فلاں عورت سے نکاح کروں تو اس پر طلاق ہے ۔ تو اب جب بھی اس سے نکاح کرے گا طلاق پڑ جائے گی ۔ پھر مالک اور ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہم میں اس شخص کے بارے میں اختلاف ہے جو کہے کہ جس عورت سے میں نکاح کروں اس پر طلاق ہے تو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں پس وہ جس سے نکاح کرے گا اس پر طلاق پڑ جائے گی اور امام مالک رحمہ اللہ کا قول ہے کہ نہیں پڑے گی کیونکہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ ” اگر کسی شخص نے نکاح سے پہلے یہ کہا ہو کہ میں جس عورت سے نکاح کروں اس پر طلاق ہے تو کیا حکم ہے ؟ “ آپ رضی اللہ عنہ نے یہ آیت تلاوت کی اور فرمایا ” اس عورت کو طلاق نہیں ہو گی ۔ کیونکہ اللہ عزوجل نے طلاق کو نکاح کے بعد فرمایا ہے “ ۔ پس نکاح سے پہلے کی طلاق کوئی چیز نہیں ۔ مسند احمد ابوداؤد ترمذی ابن ماجہ میں ہے { رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { ابن آدم جس کا مالک نہ ہو اس میں طلاق نہیں } } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2190،قال الشیخ الألبانی:حسن) اور حدیث میں ہے { جو طلاق نکاح سے پہلے کی ہو وہ کسی شمار میں نہیں } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:2048،قال الشیخ الألبانی:حسن صحیح) پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’ جب تم عورتوں کو نکاح کے بعد ہاتھ لگانے سے پہلے ہی طلاق دے دو تو ان پر کوئی عدت نہیں بلکہ وہ جس سے چاہیں اسی وقت نکاح کر سکتی ہیں ‘ ۔ ہاں اگر ایسی حالت میں ان کا خاوند فوت ہو گیا ہو تو یہ حکم نہیں اسے چار ماہ دس دن کی عدت گزارنی پڑے گی ۔ علماء کا اس پر اتفاق ہے ۔ پس نکاح کے بعد ہی میاں نے بیوی کو اس سے پہلے ہی اگر طلاق دے دی ہے تو اگر مہر مقرر ہو چکا ہے تو اس کا آدھا دینا پڑے گا ۔ ورنہ تھوڑا بہت دے دینا کافی ہے ۔ اور آیت میں ہے «وَإِن طَلَّقْتُمُوہُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسٰوہُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَہُنَّ فَرِیضَۃً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ إِلَّا أَن یَعْفُونَ أَوْ یَعْفُوَ الَّذِی بِیَدِہِ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ وَأَن تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوَیٰ وَلَا تَنسَوُا الْفَضْلَ بَیْنَکُمْ إِنَّ اللہَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیرٌ» ۱؎ (2-البقرۃ:237) یعنی ’ اگر مہر مقرر ہو چکا ہے اور ہاتھ لگانے سے پہلے ہی طلاق دے دی تو آدھے مہر کی وہ مستحق ہے ‘ ۔ اور آیت میں ارشاد ہے «لَاجُنَاحَ عَلَیْکُمْ اِنْ طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ مَالَمْ تَمَسٰوْھُنَّ اَوْ تَفْرِضُوْا لَھُنَّ فَرِیْضَۃً ښ وَّمَتِّعُوْھُنَّ عَلَی الْمُوْسِعِ قَدَرُہٗ وَعَلَی الْمُقْتِرِ قَدَرُہٗ مَتَاعًا بالْمَعْرُوْفِ حَقًّا عَلَی الْمُحْسِـنِیْنَ» ۱؎ (2-البقرۃ:236) ، یعنی ’ اگر تم اپنی بیویوں کو ہاتھ لگانے سے پہلے ہی طلاق دے دو تو یہ کچھ گناہ کی بات نہیں ۔ اگر ان کا مہر مقرر نہ ہوا ہو تو تم انہیں کچھ نہ کچھ دے دو ‘ ۔ اپنی اپنی طاقت کے مطابق ، امیر و غریب دستور کے مطابق ان سے سلوک کریں اور بھلے لوگوں پر یہ ضروری ہے ۔ چنانچہ ایسا ایک واقعہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی گزرا کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امیمہ بنت شرجیل سے نکاح کیا یہ رخصت ہو کر آ گئیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم گئے ہاتھ بڑھایا تو گویا اس نے اسے پسند نہ کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابواسید کو حکم دیا کہ ان کا سامان تیار کر دیں اور دو کپڑے ارزقیہ کے انہیں دے دیں } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5256) پس «سَرَاحًا جَمِیلًا» یعنی اچھائی سے رخصت کر دینا یہی ہے کہ اس صورت میں اگر مہر مقرر ہے تو آدھا دیدے ۔ اور اگر مقرر نہیں تو اپنی طاقت کے مطابق اس کے ساتھ کچھ سلوک کر دے ۔ الأحزاب
50 حق مہر اور بصورت علیحدگی کے احکامات اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرما رہا ہے کہ ’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جن بیویوں کو مہر ادا کیا ہے وہ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر حلال ہیں ‘ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام ازواج مطہرات کا مہر ساڑھے بارہ اوقیہ تھا جس کے پانچ سو درہم ہوتے ہیں ۔ ہاں ام المؤمنین حبیبہ بنت ابی سفیان رضی اللہ عنہا کا مہر نجاشی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے پاس سے چار سو دینار دیا تھا ۔ اور اسی طرح ام المؤمنین صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا کا مہر صرف ان کی آزادی تھی ۔ خیبر کے قیدیوں میں آپ رضی اللہ عنہا بھی تھیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آزاد کر دیا اور اور اسی آزادی کو مہر قرار دیا اور نکاح کر لیا ، اور ام المؤمنین سیدہ جویریہ رضی اللہ عنہا بنت حارث مصطلقیہ نے جتنی رقم پر مکاتبہ کیا تھا وہ پوری رقم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ کو ادا کر کے ان سے عقد باندھا تھا ۔ اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام ازواج مطہرات پر اپنی رضا مندی نازل فرمائے ۔ اسی طرح جو لونڈیاں غنیمت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قبضے میں آئیں وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر حلال ہیں ۔ صفیہ رضی اللہ عنہا اور جویریہ رضی اللہ عنہا کے مالک آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہوگئے تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آزاد کر کے ان سے نکاح کر لیا ۔ ریحانہ بنت شمعون نصریہ اور ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملکیت میں آئی تھیں ۔ ماریہ رضی اللہ عنہا سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرزند بھی ہوا ۔ جن کا نام ابراہیم رضی اللہ عنہ تھا ۔ چونکہ نکاح کے بارے میں نصرانیوں نے افراط اور یہودیوں نے تفریط سے کام لیا تھا اس لیے اس عدل و انصاف والی سہل اور صاف شریعت نے درمیانہ راہ حق کو ظاہر کر دیا ۔ نصرانی تو سات پشتوں تک جس عورت مرد کا نسب نہ ملتا ہو ، ان کا نکاح جائز جانتے تھے اور یہودی بہن اور بھائی کی لڑکی سے بھی نکاح کر لیتے تھے ۔ پس اسلام نے بھانجی بھتیجی سے نکاح کرنے کو روکا ۔ اور چچا کی لڑکی پھوپھی کی لڑکی ماموں کی لڑکی اور خالہ کی لڑکی سے نکاح کو مباح قرار دیا ۔ اس آیت کے الفاظ کی خوبی پر نظر ڈالئے کہ عم اور خال چچا اور ماموں کے لفظ کو تو واحد لائے اور عمات اور خلات یعنی پھوپھی اور خالہ کے لفظ کو جمع لائے ۔ جس میں مردوں کی ایک قسم کی فضیلت عورتوں پر ثابت ہو رہی ہے ۔ جیسے « اللہُ وَلِیٰ الَّذِینَ آمَنُوا یُخْرِجُہُم مِّنَ الظٰلُمَاتِ إِلَی النٰورِ وَالَّذِینَ کَفَرُوا أَوْلِیَاؤُہُمُ الطَّاغُوتُ یُخْرِجُونَہُم مِّنَ النٰورِ إِلَی الظٰلُمَاتِ» ۱؎ (2-البقرۃ:257) اور جیسے «وَجَعَلَ الظٰلُمٰتِ وَالنٰوْرَ» ۱؎ (6-الأنعام:1) یہاں بھی چونکہ ظلمات اور نور یعنی اندھیرے اور اجالے کا ذکر تھا اور اجالے کو اندھیرے پر فضیلت ہے اس لیے وہ لفظ ظلمات جمع لائے ، اور لفظ نور مفرد لائے ، اس کی اور بھی بہت سی نظیریں دی جا سکتی ہیں ۔ پھر فرمایا ’ جنہوں نے تیرے ساتھ ہجرت کی ہے ‘ ۔ سیدہ ام ہانی رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ” میرے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مانگا آیا تو میں نے اپنی معذوری ظاہر کی جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تسلیم کر لیا ، اور یہ آیت اتری میں ہجرت کرنے والیوں میں نہ تھی بلکہ فتح مکہ کے بعد ایمان لانے والیوں میں تھی “ ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3214 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) مفسرین نے بھی یہی کہا ہے کہ مراد ہے کہ جنہوں نے مدینے کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت کی ہو ۔ قتادہ رحمہ اللہ سے ایک روایت میں اس سے مراد اسلام لانا بھی مروی ہے ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی قرأت میں «وَاللَّاتِی ہَاجَرْنَ مَعَکَ» ہے ۔ پھر فرمایا ’ اور وہ مومنہ عورت جو اپنا نفس اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہبہ کر دے ۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس سے نکاح کرنا چاہیں ، تو بغیر مہر دیے اسے نکاح میں لا سکتے ہیں ‘ ۔ پس یہ حکم دو شرطوں کے ساتھ ہے جیسے آیت «وَلَا یَنْفَعُکُمْ نُصْحِیْٓ اِنْ اَرَدْتٰ اَنْ اَنْصَحَ لَکُمْ اِنْ کَان اللّٰہُ یُرِیْدُ اَنْ یٰغْوِیَکُمْ ہُوَ رَبٰکُمْ وَاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ» (11-ھود:34) میں ۔ یعنی ’ نوح علیہ السلام اپنی قوم سے فرماتے ہیں اگر میں تمہیں نصیحت کرنا چاہوں اور اگر اللہ تمہیں اس نصیحت سے مفید کرنا نہ چاہے تو میری نصیحت تمہیں کوئی نفع نہیں دے سکتی ‘ ۔ اور جیسے موسیٰ علیہ السلام کے اس فرمان میں «یَا قَوْمِ إِنْ کُنْتُمْ آمَنْتُمْ بِ اللہِ فَعَلَیْہِ تَوَکَّلُوا إِنْ کُنْتُمْ مُسْلِمِینَ» ۱؎ (10-یونس:84) یعنی ’ اے میری قوم اگر تم اللہ پر ایمان لائے ہو ، اور اگر تم مسلمان ہو گئے ہو تو تمہیں اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیئے ‘ ۔ پس جیسے ان آیتوں میں دو دو شرائط ہیں اسی طرح اس آیت میں بھی دو شرائط ہیں ۔ ایک تو اس کا اپنا نفس ہبہ کرنا دوسرے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی اسے اپنے نکاح میں لانے کا ارادہ کرنا ۔ مسند احمد میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک عورت آئی اور کہا کہ میں اپنا نفس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہبہ کرتی ہوں ۔ پھر وہ دیر تک کھڑی رہیں ۔ تو ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے نکاح کا ارادہ نہ رکھتے ہوں تو میرے نکاح میں دے دیجئیے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { تمہارے پاس کچھ ہے ؟ جو انہیں مہر میں دیں ؟ } جواب دیا کہ اس تہمد کی سوا اور کچھ نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { یہ اگر تم انہیں دے دو گے تو خود بغیر تہمد کے رہ جاؤ گے کچھ اور تلاش کرو } ۔ اس نے کہا میں اور کچھ نہیں پاتا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { تلاش تو کرو گو لوہے کی انگوٹھی ہی مل جائے } ۔ انہوں نے ہر چند دیکھ بھال کی لیکن کچھ نہ پایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { قرآن کی کچھ سورتیں بھی تمہیں یاد ہیں ؟ } اس نے کہا فلاں فلاں سورتیں یاد ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { بس انہی سورتوں پر میں نے انہیں تمہارے نکاح میں دیا } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2310) یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی ہے ۔ { سیدنا انس رضی اللہ عنہ جب یہ واقعہ بیان کرنے لگے تو ان کی صاحبزادی بھی سن رہی تھیں ۔ کہنے لگیں اس عورت میں بہت ہی کم حیاء تھی ۔ تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم سے وہ بہتر تھیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی رغبت کر رہی تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنا نفس پیش کر رہی تھیں } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5120) مسند احمد میں ہے کہ { ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور اپنی بیٹی کی بہت سی تعریفیں کرکے کہنے لگیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم میری مراد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے نکاح کرلیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرما لیا اور وہ پھر بھی تعریف کرتی رہیں ۔ یہاں تک کہ کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نہ وہ کبھی وہ بیمار پڑیں نہ سر میں درد ہوا یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { پھر مجھے اس کی کوئی حاجت نہیں } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:155/3:ضعیف) ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ { اپنے نفس کو ہبہ کرنے والی بیوی صاحبہ سیدہ خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا تھیں } ۔ ۱؎ (بیہقی فی السنن الکبری:55/7) اور روایت میں ہے یہ قبلہ بنو سلیم میں سے تھیں ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:23/22:) اور روایت میں ہے یہ بڑی نیک بخت عورت تھیں ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:23/22:) ممکن ہے ام سلیم ہی خولہ ہوں رضی اللہ عنہا ۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ دوسری کوئی عورت ہوں ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیرہ عورتوں سے نکاح کیا جن میں سے چھ تو قریشی تھیں ۔ خدیجہ ، عائشہ ، حفصہ ، ام حبیبہ ، سودہ و ام سلمہ رضی اللہ عنہن اجمعین اور تین بنو عامر بن صعصعہ کے قبیلے میں سے تھیں اور دو عورتیں قبیلہ بنوہلال بن عامر میں سے تھیں اور میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا ، یہی وہ ہیں جنہوں نے اپنا نفس رسول اللہ کوہبہ کیا تھا اور زینب رضی اللہ عنہا جن کی کنیت ام المساکین تھی ۔ اور ایک عورت بنو ابی بکرین کلاب سے ۔ یہ وہی ہے جس نے دنیا کو اختیار کیا تھا اور بنو جون میں سے ایک عورت جس نے پناہ طلب کی تھی ، اور ایک عورت اسدیہ جن کا نام زینب بنت جحش ہے رضی اللہ عنہا ۔ دو کنزیں تھیں ۔ صفیہ بنت حی بن اخطب اور جویریہ بنت حارث بن عمرو بن مصطلق خزاعیہ } ۔ ۱؎ (ابن ابی شیبۃ:270/5:مرسل و ضعیف) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ” اپنے نفس کو ہبہ کرنے والی عورت میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا تھیں لیکن اس میں انقطاع ہے ۔ اور یہ روایت مرسل ہے ۔ یہ مشہور بات ہے کہ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا جن کی کنیت ام المساکین تھی ، یہ زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا تھیں ، فبیلہ انصار میں سے تھیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں ہی انتقال کر گئیں ۔ رضی اللہ عنہا ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ مقصد یہ ہے کہ وہ عورتیں جنہوں نے اپنے نفس کا اختیار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا تھا ۔ چنانچہ صحیح بخاری شریف میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ { میں ان عورتوں پر غیرت کیا کرتی تھی جو اپنا نفس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہبہ کر دیتی تھیں اور مجھے بڑا تعجب معلوم ہوتا تھا کہ عورتیں اپنا نفس ہبہ کرتی ہیں ۔ جب یہ آیت اتری کہ «تُرْجِیْ مَنْ تَشَاءُ مِنْہُنَّ وَ تُـــــْٔوِیْٓ اِلَیْکَ مَنْ تَشَاءُ وَمَنِ ابْتَغَیْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْکَ ذٰلِکَ اَدْنٰٓی اَنْ تَقَرَّ اَعْیُنُہُنَّ وَلَا یَحْزَنَّ وَیَرْضَیْنَ بِمَآ اٰتَیْتَہُنَّ کُلٰہُنَّ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ مَا فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَکَان اللّٰہُ عَلِــیْمًا حَلِــیْمًا» ۱؎ (33-الأحزاب:51) ، ’ تو ان میں سے جسے چاہے اس سے نہ کر اور جسے چاہے اپنے پاس جگہ دے اور جن سے تو نے یکسوئی کر لی ہے انہیں بھی اگر تم لے آؤ تو تم پر کوئی حرج نہیں ‘ ۔ تو میں نے کہا بس اب تو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر خوب وسعت و کشادگی کردی } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1464) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ { کوئی عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہ تھی جس نے اپنا نفس آپ کو ہبہ کیا ہو } ۔ یونس بن بکیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” گو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ مباح تھا کہ جو عورت اپنے تئیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سونپ دے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے اپنے گھر میں رکھ لیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا نہیں ۔ کیونکہ یہ امر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی پر رکھا گیا تھا ۔ یہ بات کسی اور کے لیے جائز نہیں ہاں مہر ادا کر دے تو بیشک جائز ہے “ ۔ چنانچہ بروع بنت واشق رضی اللہ عنہا کے بارے میں جنہوں نے اپنا نفس سونپ دیا تھا جب ان کے شوہر انتقال کر گئے تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فیصلہ کیا تھا کہ ان کے خاندان کی اور عورتوں کے مثل انہیں مہر دیا جائے ۔ جس طرح موت مہر کو مقرر کر دیتی ہے اسی طرح صرف دخول سے بھی مہر واجب ہو جاتا ہے ۔ ہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس حکم سے مستثنیٰ تھے ۔ ایسی عورتوں کو کچھ دینا آپ پر واجب نہ تھا گو اسے شرف بھی حاصل ہو چکا ہو ۔ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بغیر مہر کے اور بغیر ولی کے اور بغیر گواہوں کے نکاح کر لینے کا اختیار تھا جیسا کہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے قصے میں ہے ۔ حضرت قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” کسی عورت کو یہ جائز نہیں کہ اپنے آپ کو بغیر ولی اور بغیر مہر کے کسی کے نکاح میں دیدے ۔ ہاں صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ تھا “ ۔ ’ اور مومنوں پر جو ہم نے مقرر کر دیا ہے اسے ہم خوب جانتے ہیں ‘ یعنی وہ چار سے زیادہ بیویاں ایک ساتھ رکھ نہیں سکتے ۔ ہاں ان کے علاوہ لونڈیاں رکھ سکتے ہیں ۔ اور ان کی کوئی تعداد مقرر نہیں ۔ اسی طرح ولی کی مہر کی گواہوں کی بھی شرط ہے ۔ پس امت کا تو یہ حکم ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اس کی پابندیاں نہیں ۔ تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی حرج نہ ہو ۔ اللہ بڑا غفور ورحیم ہے ۔ الأحزاب
51 روایات و احکامات بخاری شریف میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ { میں ان عورتوں پر عار رکھا کرتی تھی جو اپنا نفس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہبہ کریں اور کہتی تھیں کہ عورتیں بغیر مہر کے اپنے آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے کرنے میں شرماتی ہیں ؟ یہاں تک کہ یہ آیت اتری تو میں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کشادگی کرتا ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5113) پس معلوم ہوا کہ آیت سے مراد یہی عورتیں ہیں ۔ ان کے بارے میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار ہے کہ جسے چاہیں قبول کریں اور جسے چاہیں قبول نہ فرمائیں ۔ پھر اس کے بعد یہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار میں ہے کہ جنہیں قبول نہ فرمایا ہو انہیں جب چاہیں نواز دیں ۔ عامر شعبی رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ جنہیں مؤخر کر رکھا تھا ان میں ام شریک رضی اللہ عنہا تھیں ۔ ایک مطلب اس جملے کا یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار تھا کہ اگر چاہیں تقسیم کریں چاہیں نہ کریں جسے چاہیں مقدم کریں جسے چاہیں مؤخر کریں ۔ اسی طرح خاص بات چیت میں بھی ۔ لیکن یہ یاد رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی پوری عمر برابر اپنی ازواج مطہرات میں عدل کے ساتھ برابری کی تقسیم کرتے رہے ۔ بعض فقہاء شافعیہ کا قول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر تقسیم واجب تھی ۔ بخاری شریف میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ { اس آیت کے نازل ہو چکنے کے بعد بھی اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے اجازت لیا کرتے تھے ۔ مجھ سے تو جب دریافت فرماتے میں کہتی اگر میرے بس میں ہو تو میں کسی اور کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہرگز نہ جانے دوں } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4789) پس صحیح بات جو بہت اچھی ہے اور جس سے ان اقوال میں مطابقت بھی ہو جاتی ہے وہ یہ ہے کہ آیت عام ہے ۔ اپنے نفس سونپنے والیوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں سب کو شامل ہے ۔ ہبہ کرنے والیوں کے بارے میں نکاح کرنے نہ کرنے اور نکاح والیوں میں تقسیم کرنے نہ کرنے کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار تھا ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ یہی حکم بالکل مناسب ہے اور ازواج رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سہولت والا ہے ۔ جب وہ جان لیں گی کہ آپ باریوں کے مکلف نہیں ہیں ۔ پھر بھی مساوات قائم رکھتے ہیں تو انہیں بہت خوشی ہوگی ۔ اور ممنون و مشکور ہوں گی اور آپ کے انصاف و عدل کی داد دیں گی ۔ اللہ دلوں کی حالتوں سے واقف ہے ۔ وہ جانتا ہے کہ کسے کس کی طرف زیادہ رغبت ہے ‘ ۔ مسند میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے طور پر صحیح تقسیم اور پورے عدل کے بعد اللہ سے عرض کیا کرتے تھے کہ { الہ العالمین جہاں تک میرے بس میں تھا میں نے انصاف کر دیا ۔ اب جو میرے بس میں نہیں اس پر تو مجھے ملامت نہ کرنا } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:144/6:ضعیف) یعنی دل کے رجوع کرنے کا اختیار مجھے نہیں ، اللہ سینوں کی باتوں کا عالم ہے ، لیکن حلم و کرم والا ہے ۔ چشم پوشی کرتا ہے معاف فرماتا ہے ۔ الأحزاب
52 ازواج مطہرات کا عہد و فا پہلی آیتوں میں گزر چکا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات «رَضِیَ اللہُ عَنْہُنَّ وَأَرْضَاہُنَّ» کو اختیار دیا کہ اگر وہ چاہیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت میں رہیں اور اگر چاہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے علیحدہ ہو جائیں ۔ لیکن امہات المؤمنین «رَضِیَ اللہُ عَنْہُنَّ وَأَرْضَاہُنَّ» نے دامن رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑنا پسند نہ فرمایا ۔ اس پر انہیں اللہ کی طرف سے ایک دنیاوی بدلہ یہ بھی ملا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس آیت میں حکم ہوا کہ ’ اب اس کے سوا کسی اور عورت سے نکاح نہیں کر سکتے نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان میں سے کسی کو چھوڑ کر اس کے بدلے دوسری لاسکتے ہیں گو وہ کتنی ہی خوش شکل کیوں نہ ہو ؟ ہاں لونڈیوں اور کنیزوں کی اور بات ہے ‘ ۔ اس کے بعد پھر رب العالمین نے یہ تنگی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سے اٹھالی اور نکاح کی اجازت دے دی لیکن خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر سے کوئی اور نکاح کیا ہی نہیں ۔ اس حرج کے اٹھانے میں اور پھر عمل کے نہ ہونے میں بہت بڑی مصلحت یہ تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ احسان اپنی بیویوں پر رہے ۔ چنانچہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ سے مروی ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اور عورتیں بھی حلال کر دی تھیں } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3216 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے بھی مروی ہے کہ حلال کرنے والی آیت «تُرْجِیْ مَنْ تَشَاءُ مِنْہُنَّ وَ تُـــــْٔوِیْٓ اِلَیْکَ مَنْ تَشَاءُ وَمَنِ ابْتَغَیْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْکَ ذٰلِکَ اَدْنٰٓی اَنْ تَقَرَّ اَعْیُنُہُنَّ وَلَا یَحْزَنَّ وَیَرْضَیْنَ بِمَآ اٰتَیْتَہُنَّ کُلٰہُنَّ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ مَا فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَکَان اللّٰہُ عَلِــیْمًا حَلِــیْمًا» ۱؎ (33-الأحزاب:51) ، ہے جو اس آیت سے پہلے گزر چکی ہے بیان میں وہ پہلے ہے اور اترنے میں وہ پیچھے ہے ۔ سورۃ البقرہ میں بھی اس طرح عدت وفات کی پچھلی آیت منسوخ ہے اور پہلی آیت اس کی ناسخ ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اس آیت کے ایک اور معنی بھی بہت سے حضرات سے مروی ہیں ، وہ کہتے ہیں مطلب اس سے یہ ہے کہ جن عورتوں کا ذکر اس سے پہلے ہے ان کے سوا اور حلال نہیں جن میں یہ صفتیں ہوں وہ ان کے علاوہ بھی حلال ہیں ۔ چنانچہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے سوال ہوا کہ ” کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جو بیویاں تھیں اگر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں انتقال کرجائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور عورتوں سے نکاح نہیں کر سکتے تھے ؟ “ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” یہ کیوں ؟ “ تو سائل نے «لَّا یَحِلٰ لَکَ النِّسَاءُ مِن بَعْدُ وَلَا أَن تَبَدَّلَ بِہِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ وَلَوْ أَعْجَبَکَ حُسْنُہُنَّ إِلَّا مَا مَلَکَتْ یَمِینُکَ وَکَانَ اللہُ عَلَیٰ کُلِّ شَیْءٍ رَّقِیبًا» ۱؎ (33-الأحزاب:52) والی آیت پڑھی ۔ یہ سن کر ابی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” اس آیت کا مطلب تو یہ ہے کہ عورتوں کی جو قسمیں اس سے پہلے بیان ہوئی ہیں یعنی نکاحتاً بیویاں ، لونڈیاں ، چچا کی ، پھوپیوں کی ، ماموں اور خالاؤں کی بیٹیاں ہبہ کرنے والی عورتیں ۔ ان کے سوا جو اور قسم کی ہوں جن میں یہ اوصاف نہ ہوں وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر حلال نہیں ہیں “ ۔ ( ابن جریر ) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ” سوائے ان مہاجرات مومنات کے اور عورتوں سے نکاح کرنے کی آپ کو ممانعت کر دی گئی ۔ غیر مسلم عورتوں سے نکاح حرام کر دیا گیا ۔ قرآن میں ہے «وَمَنْ یَّکْفُرْ بالْاِیْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُہٗ ۡ وَہُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ» ۱؎ (5-المائدۃ:5) ، یعنی ’ ایمان کے بعد کفر کرنے والے کے اعمال غارت ہیں ‘ ۔ پس اللہ تعالیٰ نے آیت «یٰٓاَیٰہَا النَّبِیٰ اِنَّآ اَحْلَلْنَا لَکَ اَزْوَاجَکَ الّٰتِیْٓ» ۱؎ ( 33- الأحزاب : 50 ) الخ ، میں عورتوں کی جن قسموں کا ذکر کیا وہ تو حلال ہیں ان کے ماسوا اور حرام ہیں “ ۔۱؎ (سنن ترمذی:3215،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” ان کے سوا ہر قسم کی عورتیں خواہ وہ مسلمان ہوں خواہ یہودیہ ہوں خواہ نصرانیہ سب حرام ہیں “ ۔ ابوصالح رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” ان کے سوا ہر قسم کی عورتیں خواہ وہ مسلمان ہوں خواہ یہودیہ ہوں خواہ نصرانیہ سب حرام ہیں “ ۔ ابوصالح رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” اعرابیہ اور انجان عورتوں سے نکاح سے روک دیئے گئے ۔ لیکن جو عورتیں حلال تھیں ان میں سے اگر چاہیں سینکڑوں کرلیں حلال ہیں “ ۔ الغرض آیت عام ہے ان عورتوں کو جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں تھیں اور ان عورتوں کو جن کی اقسام بیان ہوئیں سب کو شامل ہے اور جن لوگوں سے اس کے خلاف مروی ہے ان سے اس کے مطابق بھی مروی ہے ۔ لہٰذا کوئی منفی نہیں ۔ ہاں اس پر ایک بات باقی رہ جاتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کو طلاق دے دی تھی پھر ان سے رجوع کر لیا تھا اور سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا کے فراق کا بھی ارادہ کیا تھا جس پر انہوں نے اپنی باری کا دن سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو دے دیا تھا ۔ اس کا جواب امام ابن جریر رحمہ اللہ نے یہ دیا ہے کہ یہ واقعہ اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے کا ہے ۔ بات یہی ہے لیکن ہم کہتے ہیں اس جواب کی بھی ضرورت نہیں ۔ اس لیے کہ آیت میں ان کے سوا دوسریوں سے نکاح کرنے اور انہیں نکال کر اوروں کو لانے کی ممانعت ہے نہ کہ طلاق دینے کی ، «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا والے واقعہ میں آیت «وَإِنِ امْرَ‌أَۃٌ خَافَتْ مِن بَعْلِہَا نُشُوزًا أَوْ إِعْرَ‌اضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِمَا أَن یُصْلِحَا بَیْنَہُمَا صُلْحًا وَالصٰلْحُ خَیْرٌ‌ وَأُحْضِرَ‌تِ الْأَنفُسُ الشٰحَّ وَإِن تُحْسِنُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ اللہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیرً‌ا» ۱؎ (4-النساء:128) ، اتری ہے اور سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا والا واقعہ ابوداؤد وغیرہ میں مروی ہے ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2283،قال الشیخ الألبانی:صحیح(4-النساء:128) ابو یعلیٰ میں ہے کہ { سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اپنی صاحبزادی سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک دن آئے دیکھا کہ وہ رو رہی ہیں پوچھا کہ ” شاید تمہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے طلاق دے دی ۔ سنو اگر رجوع ہو گیا اور پھر یہی موقعہ پیش آیا تو قسم اللہ کی میں مرتے دم تک تم سے کلام نہ کروں گا “ } ۔ ۱؎ (مسند ابویعلیٰ:172:ضعیف) آیت میں اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ کرنے سے اور کسی کو نکال کر اس کے بدلے دوسری کو لانے سے منع کیا ہے ۔ مگر لونڈیاں حلال رکھی گئیں ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ” جاہلیت میں ایک خبیث رواج یہ بھی تھا کہ لوگ آپس میں بیویوں کا تبادلہ کر لیا کرتے تھے یہ اپنی اسے دے دیتا تھا اور وہ اپنی اسے دے دیتا تھا ۔ اسلام نے اس گندے طریقے سے مسلمانوں کو روک دیا “ ۔ ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ { عیینہ بن حصن فزاری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ، اور اپنی جاہلیت کی عادت کے مطابق بغیر اجازت لیے چلے آئے ۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیٹھی ہوئی تھیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { تم بغیر اجازت کیوں چلے آئے ؟ } اس نے کہا واہ ! میں نے تو آج تک قبیلہ مفر کے خاندان کے کسی شخص سے اجازت مانگی ہی نہیں ۔ پھر کہنے لگا یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کون سی عورت بیٹھی ہوئی تھیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { یہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا تھیں } ۔ تو کہنے لگا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں چھوڑ دیں میں ان کے بدلے اپنی بیوی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتا ہوں جو خوبصورتی میں بے مثل ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اللہ تعالیٰ نے ایسا کرنا حرام کر دیا ہے } ۔ جب وہ چلے گئے تو مائی صاحبہ نے دریافت فرمایا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کون تھا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ایک احمق سردار تھا ۔ تم نے ان کی باتیں سنیں ؟ اس پر بھی یہ اپنی قوم کا سردار ہے } } ۔ ۱؎ (مسند بزار:2251:ضعیف جدا) اس روایت کا ایک راوی اسحاق بن عبداللہ بالکل گرے ہوئے درجے کا ہے ۔ الأحزاب
53 احکامات پردہ اس آیت میں پردے کا حکم ہے اور شرعی آداب و احکام کا بیان ہے ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے قول کے مطابق جو آیتیں اتری ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے ۔ بخاری مسلم میں آپ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ { تین باتیں میں نے کہیں جن کے مطابق ہی رب العالمین کے احکام نازل ہوئے ۔ میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مقام ابراہیم کو قبلہ بنائیں تو بہتر ہو ۔ اللہ تعالیٰ کا بھی یہی حکم اترا کہ «وَاتَّخِذُوا مِن مَّقَامِ إِبْرَ‌اہِیمَ مُصَلًّی» ۱؎ (2-البقرۃ:125) ، میں نے کہا ” یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے تو یہ اچھا نہیں معلوم ہوتا کہ گھر میں ہر کوئی یعنی چھوٹا بڑا آ جائے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کو پردے کا حکم دیں تو اچھا ہو “ ۔ پس اللہ تعالیٰ کی طرف سے پردے کا حکم نازل ہوا ۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات غیرت کی وجہ سے کچھ کہنے سننے لگیں تو میں نے کہا ” کسی غرور میں نہ رہنا اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں چھوڑ دیں تو اللہ تعالیٰ تم سے بہتر بیویاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دلوائے گا “ ، چنانچہ یہی آیت قرآن میں نازل ہوئی } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4483) صحیح مسلم میں ایک چوتھی موافقت بھی مذکور ہے وہ بدر کے قیدیوں کا فیصلہ ہے ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2399) اور روایت میں ہے سنہ 5 ھجری ماہ ذی قعدہ میں جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا ہے ۔ جو نکاح خود اللہ تعالیٰ نے کرایا تھا اسی صبح کو پردے کی آیت نازل ہوئی ہے ۔ بعض حضرات کہتے ہیں یہ واقعہ سن تین ہجری کا ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ (2-البقرۃ:125) صحیح بخاری شریف میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا تو لوگوں کی دعوت کی وہ کھا پی کر باتوں میں بیٹھے رہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اٹھنے کی تیاری بھی کی ۔ پھر بھی وہ نہ اٹھے یہ دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوگئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی کچھ لوگ تو اٹھ کر چل دیئے لیکن پھر بھی تین شخص وہیں بیٹھے رہ گئے اور باتیں کرتے رہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پلٹ کر آئے تو دیکھا کہ وہ ابھی تک باتوں میں لگے ہوئے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر لوٹ گئے ۔ جب یہ لوگ چلے گئے تو سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی ۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم آئے گھر میں تشریف لے گئے ۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” میں نے بھی جانا چاہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اور میرے درمیان پردہ کر لیا اور یہ آیت اتری “ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4791) اور روایت میں ہے کہ { حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقعہ پر گوشت روٹی کھلائی تھی اور سیدنا انس رضی اللہ عنہ کو بھیجا تھا کہ لوگوں کو بلا لائیں لوگ آتے تھے کھاتے تھے اور واپس جاتے تھے ۔ جب ایک بھی ایسا نہ بچا کہ جیسے سیدنا انس رضی اللہ عنہ بلاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اب دستر خوان بڑھا دو } ۔ لوگ سب چلے گئے مگر تین شخص باتوں میں لگے رہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہاں سے نکل کر ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اور فرمایا «السَّلَامُ عَلَیْکُمْ أَہْلَ الْبَیْتِ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہُ» ۔ انہوں نے جواب دیا ” «وَعَلَیْکَ السَّلَامُ وَرَحْمَۃُ اللہِ » فرمایئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیوی صاحبہ سے خوش تو ہیں ؟ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اللہ تمہیں برکت دے } ۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تمام ازواج مطہرات کے پاس گئے اور سب جگہ یہی باتیں ہوئیں ۔ اب لوٹ کر جو آئے تو دیکھا کہ وہ تینوں صاحب اب تک گئے نہیں ۔ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں شرم و حیاء لحاظ و مروت بے حد تھا اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ فرما نہ سکے اور پھر سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے کی طرف چلے ۔ اب نہ جانے میں نے خبر دی یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خود خبردار کر دیا گیا کہ وہ تینوں بھی چلے گئے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر آئے اور چوکھٹ میں ایک قدم رکھتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پردہ ڈال دیا اور پردے کی آیت نازل ہوئی } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4783) ایک روایت میں بجائے تین شخصوں کے دو کا ذکر ہے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4794) ابن ابی حاتم میں ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی نئے نکاح پر ام سلیم رضی اللہ عنہا نے مالیدہ بنا کر ایک برتن میں رکھ کر سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے کہا اسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچاؤ اور کہہ دینا کہ یہ تھوڑا سا تحفہ ہماری طرف سے قبول فرمایئے اور میرا سلام بھی کہہ دینا ۔ اس وقت لوگ تھے بھی تنگی میں ۔ میں نے جا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا ام المؤمنین کا سلام پہنچایا اور پیغام بھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھا اور فرمایا : { اچھا اسے رکھ دو } ۔ میں نے گھر کے ایک کونے میں رکھ دیا ، پھر فرمایا : { جاؤ فلاں اور فلاں کو بلا لاؤ } بہت سے لوگوں کے نام لیے اور پھر فرمایا : { ان کے علاوہ جو مسلمان مل جائے } میں نے یہی کیا ۔ جو ملا اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں کھانے کے لیے بھیجتا رہا واپس لوٹا تو دیکھا کہ گھر اور انگنائی اور بیٹھک سب لوگوں سے بھرے ہوئے ہے تقریباً تین سو آدمی جمع ہو گئے تھے ۔ اب مجھ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { آؤ وہ پیالہ اٹھا لاؤ } ۔ میں لایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ اس پر رکھ کر دعا کی اور جو اللہ نے چاہا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبان سے کہا ، پھر فرمایا : { چلو دس دس آدمی حلقہ کر کے بیٹھ جاؤ اور ہر ایک بسم اللہ کہہ کر اپنے اپنے آگے سے کھانا شروع کرو } ۔ اسی طرح کھانا شروع ہوا اور سب کے سب کھا چکے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { پیالہ اٹھالو } ۔ { سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے پیالہ اٹھا کر دیکھا تو میں نہیں کہہ سکتا کہ جس وقت رکھا اس وقت اس میں زیادہ کھانا تھا یا اب ؟ چند لوگ آپ کے گھر میں ٹھہر گئے ان میں باتیں ہو رہی تھیں اور ام المؤمنین رضی اللہ عنہا دیوار کی طرف منہ پھیرے بیٹھی ہوئی تھیں ان کا اتنی دیر تک نہ ہٹنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر شاق گزر رہا تھا لیکن شرم و لحاظ کی وجہ سے کچھ فرماتے نہ تھے ۔ اگر انہیں اس بات کا علم ہو جاتا تو وہ نکل جاتے لیکن وہ بے فکری سے بیٹھتے ہی رہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے نکل کر اور ازواج مطہرات کے حجروں کے پاس چلے گئے پھر واپس آئے تو دیکھا کہ وہ بیٹھے ہوئے ہیں ۔ اب تو یہ بھی سمجھ گئے بڑے نادم ہوئے اور جلدی سے نکل لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اندر بڑھے اور پردہ لٹکا دیا ۔ میں بھی حجرے میں ہی تھا جب یہ آیت اتری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تلاوت کرتے ہوئے باہر آئے سب سے پہلے اس آیت کو عورتوں نے سنا اور میں تو سب سے اول ان کا سننے والا ہوں } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1428) پہلے سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مانگا لے جانے کی روایت آیت «فَلَمَّا قَضَیٰ زَیْدٌ مِّنْہَا وَطَرًا زَوَّجْنَاکَہَا لِکَیْ لَا یَکُونَ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ حَرَجٌ فِی أَزْوَاجِ أَدْعِیَائِہِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْہُنَّ وَطَرًا وَکَانَ أَمْرُ اللہِ مَفْعُولًا» (33-الأحزاب:37) ، کی تفسیر میں گزر چکی ہے اس کے آخر میں بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ پھر لوگوں کو نصیحت کی گئی اور ہاشم کی اس حدیث میں اس آیت کا بیان بھی ہے ۔ ابن جریر میں ہے کہ { رات کے وقت ازواج مطہرات قضائے حاجت کے لیے جنگل کو جایا کرتی تھیں ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو یہ پسند نہ تھا آپ رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ انہیں اس طرح نہ جانے دیجئیے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس پر توجہ نہیں فرماتے تھے ایک مرتبہ سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا نکلیں تو چونکہ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی منشا یہ تھی کہ کسی طرح ازواج مطہرات «رَضِیَ اللہُ عَنْہُنَّ وَأَرْضَاہُنَّ» کا یہ نکلنا بند ہو اس لیے انہیں ان کے قد و قامت کی وجہ سے پہچان کر با آواز بلند کہا کہ ” ہم نے تمہیں اے سودہ [ رضی اللہ عنہا ] پہچان لیا “ ۔ اس کے بعد پردے کی آیتیں اتریں } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:28619:) اس روایت میں یونہی ہے لیکن مشہور یہ ہے کہ یہ واقعہ نزول حجاب کے بعد کا ہے ۔ چنانچہ مسند احمد میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ { حجاب کے حکم کے بعد سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا نکلیں اس میں یہ بھی ہے کہ یہ اسی وقت واپس آ گئیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شام کا کھانا تناول فرما رہے تھے ۔ ایک ہڈی ہاتھ میں تھی آ کر واقعہ بیان کیا اسی وقت وحی نازل ہوئی جب ختم ہوئی اس وقت بھی ہڈی ہاتھ میں ہی تھی اسے چھوڑی ہی نہ تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اللہ تعالیٰ تمہاری ضرورتوں کی بناء پر باہر نکلنے کی اجازت دیتا ہے } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4895) آیت میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اس عادت سے روکتا ہے جو جاہلیت میں اور ابتداء اسلام میں ان میں تھی کہ بغیر اجازت دوسرے کے گھر میں چلے جانا ۔ پس اللہ تعالیٰ اس امت کا اکرام کرتے ہوئے اسے یہ ادب سکھاتا ہے ۔ چنانچہ ایک حدیث میں بھی یہ مضمون ہے کہ { خبردار عورتوں کے پاس نہ جاؤ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5232) پھر اللہ نے انہیں مستثنیٰ کر لیا جنہیں اجازت دے دی جائے ، تو فرمایا ، ’ مگر یہ کہ تمہیں اجازت دیجائے ، کھانے کے لیے ایسے وقت پر نہ جاؤ کہ تم اس کی تیاری کے منتظر نہ رہو ‘ ۔ مجاہد اور قتادہ رحمہ اللہ علیہم فرماتے ہیں کہ ” کھانے کے پکنے اور اس کے تیار ہونے کے وقت ہی نہ پہنچو ۔ جب سمجھا کہ کھانا تیار ہوگا ، جا گھسے یہ خصلت اللہ کو پسند نہیں ۔ یہ دلیل ہے طفیلی بننے کی حرمت پر ۔ امام خطیب بغدادی نے اس کی مذمت میں پوری ایک کتاب لکھی ہے ۔ پھر فرمایا ’ جب بلائے جاؤ تم پھر جاؤ اور جب کھا چکو تو نکل جاؤ ‘ ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے کہ { تم میں سے کسی کو جب اس کا بھائی بلائے تو اسے دعوت قبول کرنی چاہیئے خواہ نکاح کی ہو یا کوئی اور اور } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1429) حدیث میں ہے { اگر مجھے فقط ایک کھر کی دعوت دی جائے تو بھی میں اسے قبول کروں گا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2568) دستور دعوت بھی بیان فرمایا کہ ’ جب کھا چکو تو اب میزبان کے ہاں چوکڑی مار کر نہ بیٹھ جاؤ ۔ بلکہ وہاں سے چلے جاؤ ۔ باتوں میں مشغول نہ ہو جایا کرو ‘ ۔ جیسے ان تین شخصوں نے کیا تھا ۔ جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف ہوئی لیکن شرمندگی اور لحاظ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ نہ بولے ، اسی طرح مطلب یہ بھی ہے کہ ’ تمہارا بے اجازت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں چلے جانا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر شاق گزرتا ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم بوجہ شرم و حیاء کے تم سے کہہ نہیں سکتے ‘ ۔ اللہ تعالیٰ تم سے صاف صاف فرما رہا ہے کہ ’ اب سے ایسا نہ کرنا ۔ وہ حق حکم سے حیاء نہیں کرتا ۔ تمہیں جس طرح بے اجازت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے پاس جانا منع ہے اسی طرح ان کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنا بھی حرام ہے ۔ اگر تمہیں ان سے کوئی ضروری چیز لینی دینی بھی ہو تو پس پردہ لین دین ہو ‘ ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ مالیدہ کھا رہے تھے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بھی بلا لیا آپ رضی اللہ عنہ بھی کھانے بیٹھ گئے ۔ سیدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پہلے ہی سے کھانے میں شریک تھیں ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ازواج مطہرات «رَضِیَ اللہُ عَنْہُنَّ وَأَرْضَاہُنَّ» کے پردے کی تمنا میں تھے کھاتے ہوئے انگلیوں سے انگلیاں لگ گئیں تو بےساختہ فرمانے لگے ” کاش کہ میری مان لی جاتی اور پردہ کرایا جاتا تو کسی کی نگاہ بھی نہ پڑتی “ اس وقت پردے کا حکم اترا } ۔ ۱؎ (نسائی فی السنن الکبری:11419:ضعیف) پھر پردے کی تعریف فرما رہا ہے کہ ’ مردوں عورتوں کے دلوں کی پاکیزگی کا یہ ذریعہ ہے ‘ ۔ کسی شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بیوی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نکاح کرنے کا ارادہ کیا ہوگا اس آیت میں یہ حرام قرار دیا گیا ۔ چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں زندگی میں اور جنت میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں ہیں اور جملہ مسلمانوں کی وہ مائیں ہیں اس لیے مسلمانوں پر ان سے نکاح کرنا محض حرام ہے ۔ یہ حکم ان بیویوں کے لیے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے وقت تھیں سب کے نزدیک اجماعاً ہے لیکن جس بیوی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں طلاق دے دی اور اس سے میل ہو چکا ہو تو اس سے کوئی اور نکاح کر سکتا ہے یا نہیں ؟ اس میں دو مذہب میں اور جس سے دخول نہ کیا اور طلاق دے دی ہو اس سے دوسرے لوگ نکاح کر سکتے ہیں ۔ قیلہ بنت اشعث بن قیس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ملکیت میں آ گئی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد اس نے عکرمہ رضی اللہ عنہ بن ابوجہل سے نکاح کر لیا ۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ پر یہ گراں گزرا لیکن سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سمجھایا کہ ” اے خلیفہ رسول یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی نہ تھی نہ اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار دیا نہ اسے پردہ کا حکم دیا اور اس کی قوم کے ارتداد کے ساتھ ہیں اس کے ارتداد کی وجہ سے اللہ نے اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بری کر دیا “ ، یہ سن کر سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ کا اطمینان ہو گیا ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:28624:مرسل) پس ان دونوں باتوں کی برائی بیان فرماتا ہے کہ ’ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذاء دینا ان کی بیویوں سے ان کے بعد نکاح کر لینا یہ دونوں گناہ اللہ کے نزدیک بہت بڑے ہیں ، «یَعْلَمُ خَائِنَۃَ الْأَعْیُنِ وَمَا تُخْفِی الصٰدُورُ» ۱؎ (40-غافر:19) تمہاری پوشیدگیاں اور علانیہ باتیں سب اللہ پر ظاہر ہیں ، اس پر کوئی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی پوشیدہ نہیں ۔ آنکھوں کی خیانت کو ، سینے میں چھپی ہوئی باتوں اور دل کے ارادوں کو وہ جانتا ہے ‘ ۔ الأحزاب
54 الأحزاب
55 پردہ کی تفصیلات چونکہ اوپر کی آیتوں میں اجنبیوں سے پردے کا حکم ہوا تھا اس لیے جن قریبی رشتہ داروں سے پردہ نہ تھا ان کا بیان اس آیت میں کر دیا ۔ سورۃ النور میں بھی اسی طرح فرمایا کہ ’ عورتیں اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر اپنے خاوندوں ، باپوں ، سسروں ، لڑکوں ، خاوند کے لڑکوں ، بھائیوں ، بھتیجوں ، بھانجوں ، عورتوں اور ملکیت جن کی ان کے ہاتھوں میں ہو ۔ ان کے سامنے یا کام کاج کرنے والے غیر خواہشمند مردوں یا کمسن بچوں کے سامنے ‘ ۔ ۱؎ (24-النور:31) اس کی پوری تفسیر اس آیت کے تحت میں گزر چکی ہے ۔ چچا اور ماموں کا ذکر یہاں اس لیے نہیں کیا گیا کہ ممکن ہے وہ اپنے لڑکوں کے سامنے ان کے اوصاف بیان کریں ۔ شعبی اور عکرمہ تو ان دونوں کے سامنے عورت کا دوپٹہ اتارنا مکروہ جانتے تھے ۔ «نِسَاۤئِہِنَّ» سے مراد مومن عورتیں ہیں ۔ ماتحت سے مراد لونڈی غلام ہیں ۔ جیسے کہ پہلے ان کا بیان گزر چکا ہے اور حدیث بھی ہم وہیں وارد کر چکے ہیں ۔ سعید بن مسیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” اس سے مراد صرف لونڈیاں ہی ہیں “ ۔ ’ اللہ تعالیٰ سے ڈرتی رہو ، اللہ ہرچیز پر شاہد ہے ، چھپا کھلا سب اسے معلوم ہے ، اس موجود اور حاضر کا خوف رکھو اور اس کا لحاظ کرتی رہو ‘ ۔ الأحزاب
56 صلوۃ و سلام کی فضیلت صحیح بخاری شریف میں ابوالعالیہ سے مروی ہے کہ ” اللہ کا اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا اپنے فرشتوں کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ثناء و صفت کا بیان کرنا ہے اور فرشتوں کا درود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دعا کرنا ہے “ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ” یعنی برکت کی دعا “ ۔ اکثر اہل علم کا قول ہے کہ ” اللہ کا درود رحمت ہے فرشتوں کا درود استغفار ہے “ ۔ عطا رحمہ اللہ فرماتے ہیں اللہ تبارک و تعالیٰ کی صلوٰۃ «سُبٰوحٌ قُدٰوسٌ , سَبَقَتْ رَحْمَتِی غَضَبِی» ہے ۔ مقصود اس آیت شریفہ سے یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قدر و منزلت عزت و مرتبت لوگوں کی نگاہوں میں جچ جائے وہ جان لیں کہ خود اللہ تعالیٰ آپ کا ثناء خواں ہے اور اس کے فرشتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے رہتے ہیں ۔ ملاء اعلیٰ کی یہ خبر دے کر اب زمین والوں کو حکم دیتا ہے کہ ’ تم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجا کرو تاکہ عالم علوی اور عالم سفلی کے لوگوں کا اس پر اجتماع ہو جائے ‘ ۔ موسیٰ علیہ السلام سے بنی اسرائیل نے پوچھا تھا کہ کیا اللہ تم پر صلٰواۃ بھیجتا ہے ؟ تو اللہ تعالیٰ نے وحی بھیجی کہ ’ ان سے کہدو کہ ہاں اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں اور رسولوں پر رحمت بھیجتا رہتا ہے ‘ ۔ اسی کی طرف اس آیت میں بھی اشارہ ہے دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ ’ یہی رحمت اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں پر بھی نازل فرماتا ہے ‘ ، ارشاد ہے «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آمَنُوا اذْکُرُوا اللہَ ذِکْرًا کَثِیرًا وَسَبِّحُوہُ بُکْرَۃً وَأَصِیلًا ہُوَ الَّذِی یُصَلِّی عَلَیْکُمْ وَمَلَائِکَتُہُ لِیُخْرِجَکُمْ مِنَ الظٰلُمَاتِ إِلَی النٰورِ وَکَانَ بِالْمُؤْمِنِینَ رَحِیمًا» (33-الأحزاب:41-43) ، یعنی ’ اے ایمان والو تم اللہ تعالیٰ کا بکثرت ذکر کرتے رہا کرو اور صبح شام اس کی تسبیح بیان کیا کرو وہ خود تم پر درود بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَبَشِّرِ الصَّابِرِینَ الَّذِینَ إِذَا أَصَابَتْہُم مٰصِیبَۃٌ قَالُوا إِنَّا لِلہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ أُولٰئِکَ عَلَیْہِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّہِمْ وَرَحْمَۃٌ وَأُولٰئِکَ ہُمُ الْمُہْتَدُونَ» ۱؎ (2-البقرۃ:155-157) ، ’ صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے ۔ جنہیں جب کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ «إِنَّا لِلہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ» ۱؎ (2-البقرۃ:156) ، پڑھتے ہیں ۔ ان پر ان کے رب کی طرف سے درود نازل ہوتے ہیں ‘ ۔ حدیث شریف میں ہے { اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے صفوں کی داہنی طرف والوں پر صلٰواۃ بھیجتے رہتے ہیں } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:676 ، قال الشیخ الألبانی:حسن) دوسری حدیث میں { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک شخص کے لیے یہ دعا مروی ہے کہ { « اللہُمَّ ، صَلِّ عَلَی آلِ أَبِی أَوْفَی» اے اللہ آلِ ابی اوفی پر اپنی رحمت نازل فرما } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1497) { سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی بیوی صاحبہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ ” میرے لیئے اور میرے خاوند کے لیے صلٰواۃ بھیجئے “ ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { «صَلَّی اللہُ عَلَیْکَ ، وَعَلَی زَوْجِکَ» ” اللہ تجھ پر اور تیرے خاوند پر درود نازل فرمائے “ } } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:1533 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) درود شریف کے بیان کی بہت سی حدیثیں ہیں جن میں تھوڑی ہم یہاں وارد کرتے ہیں ۔ «وَ اللہُ الْمُسْتَعَانُ» بخاری شریف میں ہے ، { آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا ، ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام کرنا تو جانتے ہیں ، صلٰواۃ کا طریقہ کیا ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { التحیات کے بعد کے دونوں درود بتلائے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6357) لیکن دونوں میں «وَعَلَی آَلِ إِبْرَاہِیْمَ» کا لفظ نہیں ہے ۔ ایک اور روایت میں ہے «آَلِ إِبْرَاہِیْمَ» کا لفظ نہیں ۔ اور روایت میں پہلا درود تو پہلے لفظوں کے ساتھ ہے اور دوسرا کچھ تغیر کے ساتھ ۔ عبدالرحمٰن بن ابی لیلی آخر میں «وَعَلَیْنَا مَعَہُمْ» بھی کہتے تھے ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:483،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ۔ جس سلام کی یہاں ذکر ہے ، وہ التحیات میں «اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُہَا النَّبِیُ وَرَحْمَۃُ اﷲِ وَبَرَکَاتُہُ» ہے ۔ یہ التحیات آپ صلی اللہ علیہ وسلم مثل قرآن کی سورت سکھایا کرتے تھے ۔ ایک روایت میں { « اللہُمَّ صَلِّ عَلیٰ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ عَبْدِکَ وَ نَبِیِّکَ وَ رَسُوْلِکَ» بھی ہے اور پچھلے درود میں قدرے تغیر ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4798) ایک روایت میں درود کے الفاظ یہ ہیں { « اللہُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِہِ وَذُرِّیَّتِہِ ، کَمَا صَلَّیْتَ عَلَی آلِ إِبْرَاہِیمَ ، وَبَارِکْ عَلَی مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِہِ وَذُرِّیَّتِہِ ، کَمَا بَارَکْتَ عَلَی آلِ إِبْرَاہِیمَ ، إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ» } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3369) بعض روایتوں میں «عَلَی آلِ إِبْرَاہِیمَ» کے بعد «فِی الْعَالَمِینَ» کا لفظ بھی ہے ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:906) ایک روایت میں سوال میں یہ لفظ بھی ہیں کہ درود نماز میں ہم کس طرح پڑھیں ۔ ۱؎ (مسند احمد:119/4:صحیح) امام شافعی رحمہ اللہ کا مذہب ہے کہ ” نماز کے آخری تشہد میں اگر کسی نے درود نہیں پڑھا تو اس کی نماز صحیح نہیں ہوگی ۔ درود کا پڑھنا اس جگہ واجب ہے “ ۔ بعض متاخرین نے اس مسئلے میں امام صاحب کا رد کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ صرف انہی کا قول اور اس کے خلاف اجماع ہے حالانکہ یہ غلط ہے ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت نے یہی کہا ہے مثلاً سیدنا ابن مسعود ، سیدنا ابومسعود بدری ، سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم ۔ تابعین میں بھی اس مذہب کے لوگ گزرے ہیں جیسے شعمی ، ابو جعفر باقر ، مقاتل بن حیان رحمہ اللہ علیہم وغیرہ اور شافعیہ کا سب کا تو یہی مذہب ہے ۔ امام احمدرحمہ اللہ کا بھی آخری قول یہی ہے ۔ جیسے ابوزرعہ دمشقی رحمہ اللہ کا بیان ہے ، اسحٰق بن راہویہ رحمہ اللہ ، امام محمد بن ابراہیم فقیہ رحمہ اللہ بھی یہی کہتے ہیں ۔ بلکہ بعض حنبلی آئمہ نے یہی کہا ہے کہ کم از کم «صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ» کا نماز میں کہنا واجب ہے جیسے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے سوال پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم دی اور ہمارے بعض ساتھیوں نے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آل پر درود بھیجنا بھی واجب کہا ہے ۔ الغرض درود کا نماز میں واجب ہونے کا قول بہت ظاہر ہے اور حدیث میں اس کی دلیل بھی موجود ہے اور سلف و خلف میں امام شافعی رحمہ اللہ کے علاوہ اور آئمہ بھی اس کے قائل رہے ہیں ۔ پس یہ کہنا کسی طرح صحیح نہیں کہ امام صاحب ہی کا یہ قول ہے اور یہ خلاف اجماع ہے ۔ اس کی تائید اس صحیح حدیث سے بھی ہوتی ہے جو مسند احمد ، ترمذی ، ابوداؤد ، نسائی ، ابنِ خزیمہ ، ابنِ حبان وغیرہ میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سن رہے تھے ۔ ایک شخص نے بغیر اللہ کی حمد و ثنأ کیئے اور بغیر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم درود پڑھے اپنی نماز میں دعا کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اس نے بہت جلدی کی } ، پھر اسے بلا کر فرمایا : یا کسی اور کو فرمایا کہ { جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو پہلے اللہ کی تعریفیں بیان کرے ، پھر درود پڑھے ، پھر جو چاہے دعا مانگے } } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:1481،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابنِ ماجہ میں ہے کہ { جس کا وضو نہیں ، اس کی نماز نہیں ۔ جو وضو میں «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» نہ کہے ، اس کا وضو نہیں ۔ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود نہ پڑھے ، اس کی نماز نہیں ۔ جو انصار سے محبت نہ رکھے ، اس کی نماز نہیں } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:400،قال الشیخ الألبانی:منکر) اس کی سند میں عبدالمہیمن نامی راوی متروک ہے ۔ طبرانی میں یہ روایت ان کے بھائی سے مروی ہے لیکن اس میں بھی نظر ہے اور معروف روایت پہلی ہی ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ مسند میں ہے کہ { ہم نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام کہنا تو جانتے ہیں درود سکھا دیجیئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { یوں کہو « اللہُمَّ اجْعَلْ صَلَوَاتِکَ وَرَحْمَتَکَ وَبَرَکَاتِکَ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ ، کَمَا جَعَلْتَہَا عَلَی إِبْرَاہِیمَ وَآلِ إِبْرَاہِیمَ إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ» } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:353/3:ضعیف) اس کا ایک راوی ابوداؤد اعمیٰ جس کا نام نفیع بن حارث ہے وہ متروک ہے ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے لوگوں کو اس دعا کا سکھانا بھی مروی ہے ، « اللہُمَّ دَاحِی الْمَدْحُوَّات وَبَارِئ الْمَسْمُوکَات وَجَبَّار الْقُلُوب عَلَی فِطْرَتہَا شَقِیّہَا وَسَعِیدہَا اِجْعَلْ شَرَائِف صَلَوَاتک وَنَوَامِی بَرَکَاتک وَرَأْفَۃ تَحَنٰنِک عَلَی مُحَمَّد عَبْدک وَرَسُولِک الْفَاتِح لِمَا أُغْلِقَ وَالْخَاتَم لِمَا سَبَقَ وَالْمُعْلِن الْحَقّ بِالْحَقِّ وَالدَّامِغ لِجَیْشَاتِ الْأَبَاطِیل کَمَا حَمَلَ فَاضْطَلَعَ بِأَمْرِک بِطَاعَتِک مُسْتَوْفِزًا فِی مَرْضَاتک غَیْر نَکِل فِی قَدَم وَلَا وَہَن فِی عَزْم وَاعِیًا لِوَحْیِک حَافِظًا لِعَہْدِک مَاضِیًا عَلَی نَفَاذ أَمْرک حَتَّی أَوْرَی قَبَسًا لِقَابِس , آلَاء اللَّہ تَصِل بِأَہْلِہِ أَسْبَابہ بِہِ ہُدِیَتْ الْقُلُوب بَعْد خَوْضَات الْفِتَن وَالْإِثْم وَأَبْہَج مُوَضِّحَات الْأَعْلَام وَنَائِرَات الْأَحْکَام وَمُنِیرَات الْإِسْلَام فَہُوَ أَمِینک الْمَأْمُون وَخَازِن عِلْمک الْمُخْزُونَ وَشَہِیدک یَوْم الدِّین وَبَعِیثُک نِعْمَۃ وَرَسُولُک بِالْحَقِّ رَحْمَۃ , اللہُمَّ أَفْسِحْ لَہُ فِی عَدْنک وَاجْزِہِ مُضَاعَفَات الْخَیْر مِنْ فَضْلِک مُہَنَّآت غَیْر مُکَدَّرَات مِنْ فَوْز ثَوَابک الْمَحْلُول وَجَزِیل عَطَائِک الْمَلُول اللہُمَّ أَعْلِ عَلَی بِنَاء النَّاس بِنَاءَہُ وَأَکْرِمْ مَثْوَاہُ لَدَیْک وَنُزُلہ وَأَتْمِمْ لَہُ نُورہ وَاجْزِہِ مِنْ اِبْتِعَاثک لَہُ مَقْبُول الشَّہَادَۃ مَرَضِیّ الْمَقَالَۃ ذَا مَنْطِق عَدْل وَخُطَّۃ فَصْل . وَحُجَّۃ وَبُرْہَان عَظِیم» مگر اس کی سند ٹھیک نہیں اس کا راوی ابو الحجاج مزی سلامہ کندی نہ تو معروف ہے نہ اس کی علامات سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے ۔۱؎ (التاریخ الکبیر للبخاری:195/4:ضعیف) ابن ماجہ میں ہے { سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجو تو بہت اچھا درود پڑھا کرو ۔ بہت ممکن ہے کہ تمہارا یہ درود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش کیا جائے ۔ لوگوں نے کہا پھر آپ رضی اللہ عنہ ہی ہمیں کوئی ایسا درود سکھائیے آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا بہتر ہے یہ پڑھو « اللہُمَّ اِجْعَلْ صَلَوَاتک وَرَحْمَتک وَبَرَکَتک عَلَی سَیِّد الْمُرْسَلِینَ وَإِمَام الْمُتَّقِینَ وَخَاتَم النَّبِیِّینَ مُحَمَّد عَبْدک وَرَسُولک إِمَام الْخَیْر وَقَائِد الْخَیْر وَرَسُول الرَّحْمَۃ اللہُمَّ اِبْعَثْہُ مَقَامًا مَحْمُودًا یَغْبِطہُ بِہِ الْأَوَّلُونَ وَالْآخِرُونَ» اس کے بعد التحیات کے بعد کے دونوں درود [ درود ابراھیمی ] ہیں } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:906،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) یہ روایت بھی موقف ہے ۔ ابن جریر کی ایک روایت میں ہے کہ { یونس بن خباب رحمہ اللہ نے اپنے فارس کے ایک خطبے میں اس آیت کی تلاوت کی ، پھر لوگوں کے درود کے طریقے کے سوال کو بیان فرما کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب میں «وَارْحَمْ مُحَمَّدًا وَآلَ مُحَمَّد کَمَا رَحِمْت آلَ إِبْرَاہِیم» کو بھی بیان فرمایا ہے } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:28635:) اس سے یہ بھی استدلال کیا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے رحم کی دعا بھی ہے ۔ جمہور کا یہی مذہب ہے ۔ اس کی مزید تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں ہے کہ { ایک اعرابی نے اپنی دعا میں کہا تھا ” اے اللہ مجھ پر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر رحم کر اور ہمارے ساتھ کسی اور پر رحم نہ کر “ ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا : { تو نے بہت ہی زیادہ کشادہ چیز تنگ کر دی } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6010) قاضی عیاض نے جمہور مالکیہ سے اس کا عدم جواز نقل کیا ہے ۔ ابو محمد بن ابوزید بھی اس کے جواز کی طرف گئے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ { جب تک کوئی شخص مجھ پر درد بھیجتا رہتا ہے تب تک فرشتے بھی اس کے لیے دعا رحم کرتے رہتے ہیں ۔ اب تمہیں اختیار ہے کہ کمی کرو یا زیادتی کرو } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:907،قال الشیخ الألبانی:حسن) حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { سب سے قریب روز قیامت مجھ سے وہ ہو گا جو سب سے زیادہ مجھ پر درود پڑھا کرتا تھا } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:484،قال الشیخ الألبانی:حسن لغیرہ) فرمان ہے { مجھ پر جو ایک مرتبہ درود بھیجے اللہ تعالیٰ اس پر اپنی دس رحمتیں بھیجتا ہے ۔ اس پر ایک شخص نے کہا پھر میں اپنی دعا کا آدھا وقت درود میں ہی خرچ کروں گا ۔ فرمایا : { جیسی تیری مرضی } ۔ اس نے کہا پھر میں دو تہائیاں کر لوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اگر چاہے } ۔ اس نے کہا پھر تو میں اپنا سارا وقت اس کے لیے ہی کر دیتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اس وقت اللہ تعالیٰ تجھے دین و دنیا کے غم سے نجات دیدے گا اور تیرے گناہ معاف فرما دے گا } } ۔ ( ترمذی ) سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ { آدھی رات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلتے اور فرماتے ہیں { ہلا دینے والی آ رہی ہے اور اس کے پیچھے ہی پیچھے لگنے والی بھی ہے } ۔ ابی رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ کہا ” نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں رات کو کچھ نماز پڑھا کرتا ہوں ، تو اس کا تہائی حصہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھتا رہوں ؟ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { آدھا حصہ } ۔ انہوں نے کہا کہ آدھا کر لوں ؟ فرمایا : { دو تہائی } کہا اچھا میں پورا وقت اسی میں گزاروں گا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { تب تو اللہ تیرے تمام گناہ معاف فرما دے گا } } ( ترمذی ) اسی روایت کی ایک اور سند میں ہے { دو تہائی رات گزرنے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { لوگو اللہ کی یاد کرو ۔ لوگو ذکر الٰہی کرو ۔ دیکھو کپکپا دینے والی آ رہی ہے اور اس کے پیچھے ہی پیچھے لگنے والی آ رہی ہے ۔ موت اپنے ساتھ کی کل مصیبتوں اور آفتوں کو لیے ہوئے چلی آ رہی ہے } ۔ ابی نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بکثرت درود پڑھتا ہوں پس کتنا وقت اس میں گزاروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { جتنا تو چاہے } ۔ کہا چوتھائی ؟ فرمایا : { جتنا چاہو اور زیادہ کرو تو اور اچھا ہے } ۔ کہا آدھا تو یہی جواب دیا پوچھا دو تہائی تو یہی جواب ملا ۔ کہا تو بس میں سارا ہی وقت اس میں گزاروں گا ۔ فرمایا : { پھر اللہ تعالیٰ تجھے تیرے تمام ہم و غم سے بچا لے گا اور تیرے گناہ معاف فرما دے گا } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2457،قال الشیخ الألبانی:حسن) { ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اگر میں اپنی تمام تر صلوۃ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی پر کر دوں تو ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { دنیا اور آخرت کے تمام مقاصد پورے ہو جائیں گے } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:136/5:حسن) سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں { آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ گھر سے نکلے ۔ میں ساتھ ہو لیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھجوروں کے ایک باغ میں گئے وہاں جا کر سجدے میں گرگئے اور اتنا لمبا سجدہ کیا ، اس قدر دیر لگائی کہ مجھے تو یہ کھٹکا گزرا کہ کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح پرواز نہ کر گئی ہو ۔ قریب جا کر غور سے دیکھنے لگا ، اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھایا مجھ سے پوچھا { کیا بات ہے ؟ } تو میں نے اپنی حالت ظاہر کی ۔ فرمایا : { بات یہ تھی کہ جبرائیل علیہ السلام میرے پاس آئے اور مجھ سے فرمایا ” تمہیں بشارت سناتا ہوں کہ جناب باری عزاسمہ فرماتا ہے ’ جو تجھ پر درود بھیجے گا میں بھی اس پر درود بھیجوں گا اور جو تجھ پر سلام بھیجے گا میں بھی اس پر سلام بھیجوں گا ‘ } ۔ ۱؎ (مسند احمد:191/1:حسن لغیرہ) اور روایت میں ہے کہ { یہ سجدہ اس امر پر اللہ کے شکریے کا تھا } ۔ ۱؎ (مسند احمد:191/5:حسن لغیرہ) { ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کسی کام کے لیے نکلے کوئی نہ تھا جو آپ کے ساتھ جاتا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جلدی سے پیچھے پیچھے گئے ۔ دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں ہیں ، دور ہٹ کر کھڑے ہو گئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھا کر ان کی طرف دیکھ کر فرمایا : { تم نے یہ بہت اچھا کیا کہ مجھے سجدے میں دیکھ کر پیچھے ہٹ گئے ۔ سنو میرے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے اور فرمایا ” آپ کی امت میں سے جو ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجے گا ۔ اللہ اس پر دس رحمتیں اتارے گا اور اس کے دس درجے بلند کرے گا “ } ۔ (طبرانی) { ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاس آئے ، چہرے سے خوشی ظاہر ہورہی تھی ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے سبب دریافت فرمایا کیا تو تو فرمایا : { ایک فرشتے نے آکر مجھے یہ بشارت دی کہ میرا امتی جب مجھ پر درود بھیجے گا تو اللہ تعالیٰ کی دس رحمتیں اس پر اتریں گی ۔ اسی طرح ایک سلام کے بدلے دس سلام } } ۔ ۱؎ (سنن نسائی:1284،قال الشیخ الألبانی:حسن) اور روایت میں ہے کہ { ایک درود کے بدلے دس نیکیاں ملیں گی ، دس گناہ معاف ہوں گے ، دس درجے بڑھیں گے اور اسی کے مثل اس پر لوٹایا جائے گا } ۔ (مسند احمد:29/4:حسن) { جو شخص مجھ پر ایک درود بھیجے گا اللہ اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:408) { حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { مجھ پر درود بھیجا کرو وہ تمہارے لیے زکوٰۃ ہے اور میرے لیے وسیلہ طلب کیا کرو وہ جنت میں ایک اعلیٰ درجہ ہے جو ایک شخص کو ہی ملے گا کیا عجب کہ وہ میں ہی ہوں } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:365/2:ضعیف) سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وسلم پر جو درود بھیجتا ہے اللہ اور اس کے فرشتے اس پر ستر درود بھیجتے ہیں ۔ اب جو چاہے کم کرے اور جو چاہے اس میں زیادتی کرے سنو ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے ایسے کہ گویا کوئی کسی کو رخصت کر رہا ہو ، تین بار فرمایا کہ { میں امی نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہوں ۔ میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔ مجھے نہایت کھلا بہت جامع اور ختم کر دینے والا کلام دیا گیا ہے ۔ مجھے جہنم کے داروغوں کی عرش کے اٹھانے والوں کی گنتی بتادی گئی ہے ۔ مجھ پر خاص عنایت کی گئی ہے اور مجھے اور میری امت کو عافیت عطا فرمائی گئی ہے ۔ جب تک میں تم میں موجود ہوں سنتے اور مانتے رہو ۔ جب مجھے میرا رب لے جائے تو تم کتاب اللہ کو مضبوط تھامے رہنا اس کے حلال کو حلال اور اس کے حرام کو حرام سمجھنا } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:172/2:ضعیف) فرماتے ہیں { جس کے سامنے میرا ذکر کیا جائے اسے چاہیئے کہ مجھ پر درود بھیجے ۔ ایک مرتبہ کے درود بھیجنے سے اللہ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے } ۔ ۱؎ (نسائی فی السنن الکبری:9889:جید) { ایک درود دس رحمتیں دلواتا ہے اور دس گناہ معاف کراتا ہے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:384) { بخیل ہے وہ جس کے سامنے میرا ذکر کیا گیا اور اس نے مجھ پر درود نہ پڑھا } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3546،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اور روایت میں ہے { ایسا شخص سب سے بڑا بخیل ہے } ۔ ۱؎ (فضل الصلواۃ علی النبی:37) ایک مرسل حدیث میں ہے { انسان کو یہ بخل کافی ہے کہ میرا نام سن کر درود نہ پڑھے } ۔ فرماتے ہیں { وہ شخص برباد ہوا جس کے پاس میرا ذکر کیا گیا اور اس نے مجھ پر درود نہ بھیجا ۔ وہ برباد ہوا جس کی زندگی میں رمضان آیا اور نکل جانے تک اس کے گناہ معاف نہ ہوئے ۔ وہ بھی برباد ہوا جس نے اپنے ماں باپ کے بڑھاپے کے زمانے کو پا لیا پھر بھی انہوں نے اسے جنت میں نہ پہنچایا } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3535،قال الشیخ الألبانی:صحیح) یہ حدیثیں دلیل ہیں اس امر پر کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنا واجب ہے ۔ علماء کی ایک جماعت کا بھی یہی قول ہے ۔ جیسے طحاوی حلیمی رحمہ اللہ علیہم وغیرہ ۔ ابن ماجہ میں ہے { جو مجھ پر درود پڑھنا بھول گیا اس نے جنت کی راہ سے خطا کی } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:908،قال الشیخ الألبانی:حسن صحیح) یہ حدیث مرسل ہے ۔ لیکن پہلی احادیث سے اس کی پوری تقویت ہو جاتی ہے ۔ بعض لوگ کہتے ہیں مجلس میں ایک دفعہ تو واجب ہے پھر مستحب ہے ۔ چنانچہ ترمذی کی ایک حدیث میں ہے { جو لوگ کسی مجلس میں بیٹھیں اور اللہ کے ذکر اور درود کے بغیر اٹھ کھڑے ہوں وہ مجلس قیامت کے دن ان پر وبال ہو جائے گی ۔ اگر اللہ چاہے تو انہیں عذاب کرے چاہے معاف کر دے } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3380،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اور روایت میں ذکر اللہ کا ذکر نہیں ، اس میں یہ بھی ہے کہ { گو وہ جنت میں جائیں لیکن محرومی ثواب کے باعث انہیں سخت افسوس رہے گا } ۔ ۱؎ (فضل الصلواۃ علی النبی:55) بعض کا قول ہے کہ عمر بھر میں ایک مرتبہ آپ پر درود واجب ہے پھر مستحب ہے تاکہ آیت کی تعمیل ہو جائے ۔ قاضی عیاض رحمہ اللہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کے وجوب کو بیان فرما کر اسی قول کی تائید کی ہے ۔ لیکن طبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ آیت سے تو استحاب ہی ثابت ہوتا ہے اور اس پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے ۔ بہت ممکن ہے کہ ان کا مطلب بھی یہی ہو کہ ایک مرتبہ واجب پھر مستحب جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی گواہی ۔ لیکن میں کہتا ہوں بہت سے ایسے اوقات ہیں جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے کا ہمیں حکم ملا ہے لیکن بعض وقت واجب ہے اور بعض جگہ واجب نہیں ۔ چنانچہ ( 1 ) اذان سن کر ۔ دیکھئیے مسند کی حدیث میں ہے { جب تم اذان سنو تو جو مؤذن کہہ رہا ہو تم بھی کہو پھر مجھ پر درود بھیجو ایک کے بدلے دس درود اللہ تم پر بھیجے گا پھر میرے لیے وسیلہ مانگو جو جنت کی ایک منزل ہے اور ایک ہی بندہ اس کا مستحق ہے مجھے امید ہے کہ وہ بندہ میں ہوں سنو جو میرے لیے وسیلہ کی دعا کرتا ہے اس کے لیے میری شفاعت حلال ہو جاتی ہے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:384) پہلے درود کے زکوٰۃ ہونے کی حدیث میں بھی اس کا بیان گزر چکا ہے ۔ فرمان ہے کہ { جو شخص درود بھیجے اور کہے «اَللّٰہُمَّ أَنْزِلْہُ الْمَقْعَدَ الْمُقَرَّبَ عِنْدَکَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ» اس کے لیے میری شفاعت قیامت کے دن واجب ہو جائے گی } ۔ ۱؎ (مسند احمد:108/4:ضعیف) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ دعا منقول ہے «اَللّٰہُمَّ تَقَبَّلْ شَفَاعَۃَ مُحَمَّدٍ الْکُبْرٰی وَارْفَعْ دَرَجَتَہُ الْعُلْیَا وَآتِہ سُؤْلَہ فِی الْأخِرَۃِ وَالْأَوْلٰی کَمَا آتَیْتَ إِبْرَاہیْمَ وَمُوْسٰی علیہما السّلام» ۔ (2) مسجد میں جانے اور مسجد سے نکلنے کے وقت ۔ چنانچہ مسند میں ہے ، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں { جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں جاتے تو درود و سلام پڑھ کر «اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِی ذُنُوبِی وَافْتَحْ لِی أَبْوَابَ رَحْمَتِکَ» پڑھتے اور جب مسجد سے نکلتے تو درود و سلام کے بعد «اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِی ذُنُوبِی وَافْتَحْ لِی أَبْوَابَ فَضْلِکَ» پڑھتے } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:314 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے ” جب مسجدوں میں جاؤ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھا کرو “ ۔ (3) نماز کے آخری قعدہ میں التحیات کا دورد ۔ اس کی بحث پہلی گزر چکی ۔ ہاں اول تشہد میں اسے کسی نے واجب نہیں کہا ۔ البتہ مستحب ہونے کا ایک قول شافعی کا ہے ۔ گو دوسرا قول اس کے خلاف بھی انہی سے مروی ہے ۔ (4) جنازے کی نماز میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنا ۔ چنانچہ سنت طریقہ یہ ہے کہ پہلی تکبیر میں سورۃ فاتحہ پڑھے ۔ دوسری میں درود پڑھ ۔ تیسری میں میت کے لیے دعا کرے چوتھی میں « اللہُمَّ لَا تَحْرِمْنَا أَجْرَہُ ، وَلَا تَفْتِنَا بَعْدَہُ» پڑھے ۔ ایک صحابی رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ { مسنون نماز جنازہ یوں ہے کہ امام تکبیر کہہ کر آہستہ سلام پھیر دے } ۔ ۱؎ (بیہقی فی السنن الکبری:39/4) (5) عید کی نماز میں ۔ سیدنا ابن مسعود ، ابوموسیٰ اور حذیفہ رضی اللہ عنہم کے پاس آ کر ولید بن عقبہ کہتا ہے عید کا دن ہے بتلاؤ تکبیروں کی کیا کفیت ہے ؟ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا تکبیر تحریمہ کہہ کر اللہ کی حمد کر اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیج ، دعا مانگ پھر تکبیر کہہ کر یہی کر ۔ پھر تکبیر کہہ کر یہی کر ۔ پھر تکبیر کہہ کر یہی کر ۔ پھر تکبیر کہہ کر یہی کر پھر قرأت کر پھر تکبیر کہہ کر رکوع کر پھر کھڑا ہو کر پڑھ اور اپنے رب کی حمد بیان کر اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر صلواۃ پڑھ اور دعا کر اور تکبیر کہہ اور اسی طرح کر پھر رکوع میں جا ۔ حذیفہ اور ابوموسیٰ رضی اللہ عنہم نے بھی اس کی تصدیق کی ۔ ۱؎ (اسماعیل القاضی:88) (6) دعا کے خاتمے پر ۔ ترمذی میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ { دعا آسمان و زمین میں معلق رہتی ہے یہاں تک کہ تو درود پڑھے تب چڑھتی ہے } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:486،قال الشیخ الألبانی:حسن) ایک روایت مرفوع بھی اسی طرح کی آئی ہے اس میں یہ بھی ہے کہ { دعا کے اول میں ، درمیان میں اور آخر میں درود پڑھ لیا کرو } ۔ ایک غریب اور ضعیف حدیث میں ہے کہ { مجھے سوار کے پیالے کی طرح نہ کر لو کہ جب وہ اپنی تمام ضروری چیزیں لے لیتا ہے تو پانی کا کٹورہ بھی بھر لیتا ہے اگر وضو کی ضرورت پڑی تو وضو کر لیا ، پیاس لگی تو پانی پی لیا ورنہ پانی بہاد دیا ۔ دعا کی ابتداء میں دعا کے درمیان میں اور دعا کے آخر میں مجھ پر درود پڑھا کرو } ۔ ۱؎ (ذکرہ ابن الاثیر فی جامع الاصول:155/4:) خصوصاً دعائے قنوت میں درود کی زیادہ تاکید ہے ۔ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں { مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ کلمات سکھائے جنہیں میں وتروں میں پڑھا کرتا ہوں ۔ « اللہُمَّ اہْدِنِی فِیمَنْ ہَدَیْتَ ، وَعَافِنِی فِیمَنْ عَافَیْتَ ، وَتَوَلَّنِی فِیمَنْ تَوَلَّیْتَ ، وَبَارِکْ لِی فِیمَا أَعْطَیْتَ ، وَقِنِی شَرَّمَا قْضَیْتَ ، إِنَّہُ لا یَذِلٰ مَنْ وَالَیْتَ ، تَبَارَکْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَیْتَ» } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:1425،قال الشیخ الألبانی:صحیح) نسائی کی روایت میں آخر میں یہ الفاظ بھی ہیں ۔ «وَصَلَّی اللہُ عَلَی النَّبِیِّ» ۔ ۱؎ (سنن نسائی:1747،قال الشیخ الألبانی:ضعیف و منقطع) (7) جمعہ کے دن اور جمعہ کی رات میں ۔ مسند احمد میں ہے { سب سے افضل دن جمعہ کا دن ہے ، اسی میں آدم علیہ السلام پیدا کئے گئے ، اسی میں قبض کئے گئے ، اسی میں نفخہ ہے ، اسی میں بیہوشی ہے ۔ پس تم اس دن مجھ پر بکثرت درود پڑھا کرو ۔ تمہارے درود مجھ پر پیش کئے جاتے ہیں ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو زمین میں دفنا دیئے گئے ہوں گے پھر ہمارے درود آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کیسے پیش کئے جائیں گے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اللہ تعالیٰ نے نبیوں کے جسموں کا کھانا زمین پر حرام کر دیا } } ۔ ابوداؤد نسائی وغیرہ میں بھی یہ حدیث ہے ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:1047،قال الشیخ الألبانی:) ابن ماجہ میں ہے { { جمعہ کے دن بکثرت درود پڑھو اس دن فرشتے حاضر ہوتے ہیں ۔ جب کوئی مجھ پر درود پڑھتا ہے اس کا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے جب تک کہ وہ فارغ ہو } ۔ پوچھا گیا موت کے بعد بھی ؟ فرمایا : { اللہ تعالیٰ نے زمین پر نبیوں کے جسموں کا گلانا سڑانا حرام کر دیا ہے نبی اللہ زندہ ہیں روزی دیئے جاتے ہیں } } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:1637،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) یہ حدیث غریب ہے اور اس میں انتقطاع ہے ۔ عبادہ بن نسی نے ابوالدرداء کو پایا نہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ بیہقی میں بھی حدیث ہے کہ { جمعہ کے دن اور جمعہ کی رات مجھ پر بکثرت درود بھیجو } لیکن وہ بھی ضعیف ہے ۔ ایک روایت میں ہے { اس کا جسم زمین نہیں کھاتی جس سے روح القدس نے کلام کیا ہو } ۔ لیکن یہ حدیث مرسل ہے ۔ ایک مرسل حدیث میں بھی جمعہ کے دن اور رات میں درود کی کثرت کا حکم ہے ۔ (8) اسی طرح خطیب پر بھی دونوں خطبوں میں درود و واجب ہے اس کے بغیر صحیح نہ ہوں گے ، اس لیے کہ یہ عبادت ہے اور اس میں ذکر اللہ واجب ہے پس ذکر رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی واجب ہوگا ۔ جیسے اذان و نماز شافعی رحمہ اللہ اور احمد رحمہ اللہ کا یہی مذہب ہے ۔ (9) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر شریف کی زیارت کے وقت ابوداؤد میں ہے { جو مسلمان مجھ پر سلام پڑھتا ہے ۔ اللہ میری روح کو لوٹا دیتا ہے یہاں تک کہ میں اس کے سلام کا جواب دوں } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2041،قال الشیخ الألبانی:حسن) ابوداؤد میں ہے { اپنے گھروں کو قبریں نہ بناؤ میری قبر پر عرس میلہ نہ لگاؤ ۔ ہاں مجھ پر درود پڑھو گو تم کہیں بھی ہو لیکن تمہارا درود مجھ تک پہنچایا جاتا ہے } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2042،قال الشیخ الألبانی:صحیح) قاضی اسماعیل بن اسحاق اپنی کتاب فضل الصلوۃ میں ایک روایت لائے ہیں کہ { ایک شخص ہر صبح روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر آتا تھا اور درود سلام پڑھتا تھا ۔ ایک دن اس سے سیدنا علی بن حسین بن علی رضی اللہ عنہ نے کہا تم روز ایسا کیوں کرتے ہو ؟ اس نے جواب دیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام کرنا مجھے بہت مرغوب ہے ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” سنو میں تمہیں ایک حدیث سناؤں میں نے اپنے باپ سے انہوں نے میرے دادا سے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { میری قبر کو عید نہ بناؤ ۔ نہ اپنے گھروں کو قبریں بناؤ جہاں کہیں تم ہو وہیں سے مجھ پر درود و سلام بھیجو وہ مجھے پہنچ جاتے ہیں } } ۔ ۱؎ (مسند ابویعلیٰ:469:ال الشیخ الألبانی:صحیح) اس کی اسناد میں ایک راوی مبہم ہے جس کا نام مذکور نہیں اور سند سے یہ روایت مرسل مروی ہے ۔ سیدنا حسن بن حسن بن علی رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ { انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے پاس کچھ لوگوں کو دیکھ کر انہیں یہ حدیث سنائی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر میلہ لگانے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روک دیا ہے } ۔ ممکن ہے ان کی کسی بے ادبی کی وجہ سے یہ حدیث آپ کو سنانے کی ضرورت پڑی ہو مثلاً وہ بلند آواز سے بول رہے ہوں ۔ یہ بھی مروی ہے کہ { آپ رحمہ اللہ نے ایک شخص کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ پر پے در پے آتے ہوئے دیکھ کر فرمایا کہ { تو اور جو شخص اندلس میں ہے جہاں کہیں تم ہو وہیں سے سلام بھیجو تمہارے سلام مجھے پہنچا دیئے جاتے ہیں } } ۔ ۱؎ (طبرانی اوسط:367:صحیح بالشواہد) طبرانی میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا کہ { یہ خاص راز ہے اگر تم مجھ سے نہ پوچھتے تو میں بھی نہ بتاتا ۔ سنو میرے ساتھ دو فرشتے مقرر ہیں جب میرا ذکر کسی مسلمان کے سامنے کیا جاتا ہے اور وہ مجھ پر درود بھیجتا ہے تو وہ فرشتے کہتے ہیں اللہ تجھے بخشے ۔ اور خود اللہ اور اس کے فرشتے اس پر آمین کہتے ہیں } } ۔ ۱؎ (طبرانی:2753:موضوع) یہ حدیث بہت ہی غریب ہے اور اس کی سند بہت ہی ضعیف ہے ۔ مسند احمد میں ہے { اللہ تعالیٰ کے فرشتے ہیں جو زمین میں چلتے پھرتے رہتے ہیں میری امت کے سلام مجھ تک پہنچاتے رہتے ہیں } ۔ ۱؎ (سنن نسائی:1283،قال الشیخ الألبانی:صحیح) نسائی وغیرہ میں بھی یہ حدیث ہے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ { جو میری قبر کے پاس سے مجھ پر سلام پڑھتا ہے اسے میں سنتا ہوں اور جو دور سے سلام بھیجتا ہے اسے میں پہنچایا جاتا ہوں } ۔ ۱؎ (العقیلی فی الضعفاء:136/4:ضعیف) یہ حدیث سنداً صحیح نہیں محمد بن مروان سدی صغیر متروک ہے ۔ (10) ہمارے ساتھیوں کا قول ہے کہ احرام والا جب لبیک پکارے تو اسے بھی درود پڑھنا چاہیئے ۔ دارقطنی وغیرہ میں قاسم بن محمد بن ابوکر صدیق رحمہ اللہ کا فرمان مروی ہے کہ ” لوگوں کو اس بات کا حکم کیا جاتا تھا “ ۔ صحیح سند سے سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا قول مروی ہے کہ { جب تم مکہ پہنچو تو سات مرتبہ طواف کرو ، مقام ابراہیم پر دو رکعت نماز ادا کرو ۔ پھر صفا پر چڑھو اتنا کہ وہاں سے بیت اللہ نظر آئے وہاں کھڑے رہ کر سات تکبیریں کہو ان کے درمیان اللہ کی حمد و ثناء بیان کرو اور درود پڑھو ۔ اور اپنے لیے دعا کرو پھر مروہ پر بھی اسی طرح کرو } ۔ (11) ہمارے ساتھیوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ذبح کے وقت بھی اللہ کے نام کے ساتھ درود پڑھنا چاہیئے ۔ آیت «وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ» (94-سورۃالشرح:4) سے انہوں نے تائید چاہی ہے کیونکہ اس کی تفسیر میں ہے کہ جہاں اللہ کا ذکر کیا جائے وہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بھی لیا جائے گا ۔ جمہور اس کے مخالف ہیں وہ کہتے ہیں یہاں صرف ذکر اللہ کافی ہے ۔ جیسے کھانے کے وقت اور جماع کے وقت وغیرہ وغیرہ کہ ان اوقات میں درود کا پڑھنا سنت سے ثابت نہیں ہوا ۔ ایک حدیث میں ہے کہ { اللہ کے تمام انبیاء اور رسولوں علیہم السلام پر بھی صلوٰۃ و سلام بھیجو وہ بھی میری طرح اللہ کے بھیجے ہوئے ہیں } ، ۱؎ (اسماعیل القاضی:435:ضعیف) لیکن اس کی سند میں دو ضعیف راوی ہیں عمر بن ہارون اور ان کے استاد ۔ کان کی سنسناہٹ کے وقت بھی درود پڑھنا ایک حدیث میں ہے ، اگر اس کی اسناد صحیح ثابت ہو جائے تو ۔ صحیح ابن خزیمہ میں ہے { جب تم میں سے کسی کے کان میں سرسراہٹ ہو تو مجھے ذکر کر کے درود پڑھے اور کہے کہ جس نے مجھے بھلائی سے یاد کیا اسے اللہ بھی یاد کرے } ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:120/2:ضعیف) اس کی سند غریب ہے اور اس کے ثبوت میں نظر ہے ۔ مسئلہ مسئلہ : اہل کتاب اس بات کو مستحب جانتے ہیں کہ کاتب جب کبھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لکھے صلی اللہ علیہ وسلم لکھے ۔ ایک حدیث میں ہے { جو شخص کسی کتاب میں مجھ پر درود لکھے اس کے درود کا ثواب اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک وہ کتاب رہے } ۔ ۱؎ (ابو القاسم الاصبہانی فی الترغیب والترہیب:205/1:ضعیف و باطل) لیکن کئی وجہ سے یہ حدیث صحیح نہیں بلکہ امام ذہبی کے استاد تو اسے موضوع کہتے ہیں ۔ یہ حدیث بہت سے طریق سے مروی ہے لیکن ایک سند بھی صحیح نہیں ۔ امام خطیب بغدادی رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب آداب الرادی والسامع میں لکھتے ہیں میں نے امام احمد کی دستی لکھی ہوئی کتاب میں بہت جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام دیکھا جہاں درود لکھا ہوا نہ تھا آپ رحمہ اللہ زبانی درود پڑھ لیا کرتے تھے ۔ فصل نبیوں کے سوا غیر نبیوں پر صلوٰۃ بھیجنا اگر تبعاً ہو تو بیشک جائز ہے ۔ جیسے حدیث میں ہے { « اللہُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِہِ وَذُرِّیَّتِہِ» } ۔ ہاں صرف غیر نبیوں پر صلوٰۃ بھیجنے میں اختلاف ہے ۔ بعض تو اسے جائز بتاتے ہیں اور دلیل میں آیت «ہُوَ الَّذِی یُصَلِّی عَلَیْکُمْ وَمَلَائِکَتُہُ لِیُخْرِ‌جَکُم مِّنَ الظٰلُمَاتِ إِلَی النٰورِ‌ وَکَانَ بِالْمُؤْمِنِینَ رَ‌حِیمًا» ۱؎ (33-الأحزاب:43) ، اور «أُولٰئِکَ عَلَیْہِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّ‌بِّہِمْ وَرَ‌حْمَۃٌ وَأُولٰئِکَ ہُمُ الْمُہْتَدُونَ» ۱؎ (2-البقرۃ:157) اور «وَصَلِّ عَلَیْہِمْ إِنَّ صَلَاتَکَ» ۱؎ (9-التوبۃ:103) پیش کرتے ہیں اور یہ حدیث بھی کہ { جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کسی قوم کا صدقہ آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے « اللہُمَّ صَلِّ عَلَیْہِمْ» } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1798) چنانچہ عبداللہ بن ابی اوفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں { جب میرے والد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنا صدقے کا مال لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { « اللہُمَّ ، صَلِّ عَلَی آلِ أَبِی أَوْفَی» } } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1078) ۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ { ایک عورت نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ پر اور میرے خاوند پر صلواۃ بھیجئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { «صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ عَلی زَوْجِکِ» } } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:1533،قال الشیخ الألبانی:صحیح) لیکن جمہور علماء اس کے خلاف ہیں اور کہتے ہیں کہ انبیاء علیہم السلام کے سوا اوروں پر خاصتہ صلوٰۃ بھیجنا ممنوع ہے ۔ اس لیے کہ اس لفظ کا استعمال انبیاء علیہم الصلٰوۃ السلام کیلئے اس قدر بکثرت ہو گیا ہے کہ سنتے ہی ذہن میں یہی خیال آتا ہے کہ یہ نام کسی نبی علیہ السلام کا ہے تو احتیاط اسی میں ہے کہ غیر نبی کیلئے یہ الفاظ نہ کہے جائیں ۔ مثلاً ابوبکر صل اللہ علیہ یا علی صلی اللہ علیہ نہ کہا جائے گو معنی اس میں کوئی قباحت نہیں جیسے محمد عزوجل نہیں کہا جاتا ۔ حالانکہ ذی عزت اور ذی مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہیں اس لیے کہ یہ الفاظ اللہ تعالیٰ کی ذات کیلئے مشہور ہو چکے ہیں اور کتاب و سنت میں صلوٰۃ کا جو استعمال غیر انبیاء کیلئے ہوا ہے وہ بطور دعا کے ہے ۔ اسی وجہ سے آل ابی اوفی کو اس کے بعد کسی نے ان الفاظ سے یاد نہیں کیا نہ جابر رضی اللہ عنہ اور ان کی بیوی رضی اللہ عنہا کو ۔ یہی مسلک ہمیں بھی اچھا لگتا ہے ، «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ بعض ایک اور وجہ بھی بیان کرتے ہیں یعنی یہ کہ غیر انبیاء کیلئے یہ الفاظ صلوٰۃ استعمال کرنا بددینوں کا شیوہ ہو گیا ہے ۔ وہ اپنے بزرگوں کے حق میں یہی الفاظ استعمال کرتے ہیں ۔ پس ان کی اقتداء ہمیں نہ کرنی چاہیئے ۔ اس میں بھی اختلاف ہے کہ یہ مخالفت کس درجے کی ہے حرمت کے طور پر یا کراہیت کے طور پر یا خلاف اولیٰ ۔ صحیح یہ ہے کہ یہ مکروہ تنزیہی ہے ۔ اس لیے کہ بدعتیوں کا طریقہ ہے جس پر ہمیں کاربند ہونا ٹھیک نہیں اور مکروہ وہی ہوتا ہے جس میں نہی مقصود ہو ۔ زیادہ تر اعتبار اس میں اسی پر ہے کہ صلوٰۃ کا لفظ سلف میں نبیوں پر ہی بولا جاتا رہا جیسے کہ عزوجل کا لفظ اللہ تعالیٰ ہی کیلئے بولا جاتا رہا ۔ اب رہا سلام سو اس کے بارے میں شیخ ابو محمد جوینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ بھی صلوٰۃ کے معنی میں ہے پس غائب پر اس کا استعمال نہ کیا جائے اور جو نبی نہ ہو اس کیلئے خاصتہً اسے بھی نہ بولا جائے ۔ پس علی علیہ السلام نہ کہا جائے ۔ زندوں اور مردوں کا یہی حکم ہے ۔ ہاں جو سامنے موجود ہو اس سے خطاب کر کے «سَلَامٌ عَلَیْکَ یَا سَلَامٌ عَلَیْکُمْ یَا السَّلَامُ عَلَیْکَ یَا عَلَیْکُمْ» کہنا جائز ہے اور اس پر اجماع ہے ۔ یہاں پر یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ عموماً مصنفین کے قلم سے علی علیہ السلام نکلتا ہے یا علی کرم اللہ وجہہ نکلتا ہے گو معنی اس میں کوئی حرج نہ ہو لیکن اس سے اور صحابہ رضی اللہ عنہم کی جناب میں ایک طرح کی سوء ادبی پائی جاتی ہے ۔ ہمیں سب صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ حسن عقیدت رکھنی چاہیئے ۔ یہ الفاظ تعظیم و تکریم کے ہیں اس لیے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے زیادہ مستحق ان کے سیدنا ابوبکر صدیق اور سیدنا عمر اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہم اجمعین ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ” نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی اور پر صلوٰۃ نہ بھیجنی چاہیئے ۔ ہاں مسلمان مردوں عورتوں کیلئے دعا مغفرت کرنی چاہیئے “ ۔ عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے ایک خط میں لکھا تھا کہ ” بعض لوگ آخرت کے اعمال سے دنیا کے جمع کرنے کی فکر میں ہیں اور بعض مولوی واعظ اپنے خلیفوں اور امیروں کیلئے صلوٰۃ کے ہی الفاظ بولتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے تھے ۔ جب تیرے پاس میرا یہ خط پہنچے تو انہیں کہہ دینا کہ صلوٰۃ صرف نبیوں کیلئے ہیں اور عام مسلمانوں کیلئے اس کے سوا جو چاہیں دعا کریں “ ۔ کعب رحمہ اللہ کہتے ہیں ہر صبح ستر ہزار فرشتے اتر کر قبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو گھیر لیتے ہیں اور اپنے پر سمیٹ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے دعا رحمت کرتے رہتے ہیں اور ستر ہزار رات کو آتے ہیں یہاں تک کہ قیامت کے دن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک شق ہو گی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ستر ہزار فرشتے ہوں گے ۔ ( فرع ) امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” حضور پر صلوٰۃ و سلام ایک ساتھ بھیجنے چاہئیں صرف صلی اللہ علیہ وسلم یا صرف علیہ السلام نہ کہے “ ۔ اس آیت میں بھی دونوں ہی کا حکم ہے پس اولیٰ یہ ہے کہ یوں کہا جائے «صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَسْلِیْماً» ۔ الأحزاب
57 ملعون و معذب لوگ جو لوگ اللہ کے احکام کی خلاف ورزی کر کے اس کے روکے ہوئے کاموں سے نہ رک کر اس کی نافرمانیوں پر جم کر اسے ناراض کر رہے ہیں اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمے طرح طرح کے بہتان باندھتے ہیں وہ ملعون اور معذب ہیں ۔ عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے مراد تصویریں بنانے والے ہیں ۔ بخاری و مسلم میں { فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ { اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’ مجھے ابن آدم ایذاء دیتا ہے وہ زمانے کو گالیاں دیتا ہے اور زمانہ میں ہوں میں ہی دن رات کا تغیر و تبدل کر رہا ہوں ‘ } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4826) مطلب یہ ہے کہ جاہلیت والے کہا کرتے تھے ہائے زمانے کی ہلاکت اس نے ہمارے ساتھ یہ کیا اور یوں کیا ۔ پس اللہ کے افعال کو زمانے کی طرف منسوب کر کے پھر زمانے کو برا کہتے تھے گویا افعال کے فاعل یعنی خود اللہ کو برا کہتے تھے ۔ سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا سے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کیا تو اس پر بھی بعض لوگوں نے باتیں بنانا شروع کی تھیں ۔ بقول سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ یہ آیت اس بارے میں اتری ۔ آیت عام ہے کسی طرح بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دے وہ اس آیت کے ماتحت ملعون اور معذب ہے ۔ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذاء دینی گویا اللہ کو ایذاء دینی ہے ۔ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت عین اطاعت الٰہی ہے ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { میں تمہیں اللہ کو یاد دلاتا ہوں دیکھو اللہ کو بیچ میں رکھ کر تم سے کہتا ہوں کہ میرے اصحاب رضی اللہ عنہم کو میرے بعد نشانہ نہ بنا لینا میری محبت کی وجہ سے ان سے بھی محبت رکھنا ان سے بغض و بیر رکھنے والا مجھ سے دشمنی کرنے والا ہے ۔ انہیں جس نے ایذاء دی اور جس نے اللہ کو ایذاء دی یقین مانو کہ اللہ اس کی بھوسی اڑا دے گا } } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3862،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے ۔ جو لوگ ایمانداروں کی طرف ان برائیوں کو منسوب کرتے ہیں ۔ جن سے وہ بری ہیں وہ بڑے بہتان باز اور زبردست گناہ گار ہیں ۔ اس وعید میں سب سے پہلے تو کفار داخل ہیں ۔ پھر رافضی شیعہ جو صحابہ رضی اللہ عنہم پر عیب گیری کرتے ہیں اور اللہ نے جن کی تعریفیں کی ہیں یہ انہیں برا کہتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے صاف فرما دیا ہے کہ ’ وہ انصار و مہاجرین سے خوش ہے ‘ ۔ قرآن کریم میں جگہ جگہ ان کی مدح و ستائش موجود ہے ۔ لیکن یہ بے خبر کند ذہن انہیں برا کہتے ہیں ان کی مذمت کرتے ہیں اور ان میں وہ باتیں بتاتے ہیں جن سے وہ بالکل الگ ہیں ۔ حق یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے ان کے دل اوندھے ہو گئے ہیں اس لیے ان کی زبانیں بھی الٹی چلتی ہیں ۔ قابل مدح لوگوں کی مذمت کرتے ہیں اور مذمت والوں کی تعریفیں کرتے ہیں ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوتا ہے کہ غیبت کسے کہتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { تیرا اپنے بھائی کا اس طرح ذکر کرنا جسے اگر وہ سنے تو اسے برا معلوم ہو } ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ اگر وہ بات اس میں ہو تب ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { جبھی تو غیبت ہے ورنہ بہتان ہے } } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4874،قال الشیخ الألبانی:صحیح) { ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم سے سوال کیا کہ { سب سے بڑی سود خوری کیا ہے ؟ } انہوں نے کہا کہ اللہ جانے اور اللہ کا رسول ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { سب سے بڑا سود اللہ کے نزدیک کسی مسلمان کی آبرو ریزی کرنا ہے } ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی آیت «وَالَّذِینَ یُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَیْرِ مَا اکْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُہْتَانًا وَإِثْمًا مُبِینًا» کی تلاوت فرمائی } ۔ ۱؎ (شعب الإیمان:393/4) الأحزاب
58 الأحزاب
59 تمام دنیا کی عورتوں سے بہتر و افضل کون؟ اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تسلیما کو فرماتا ہے کہ ’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مومن عورتوں سے فرما دیں بالخصوص اپنی بیویوں اور صاحبزادیوں سے کیونکہ وہ تمام دنیا کی عورتوں سے بہتر و افضل ہیں کہ وہ اپنی چادریں قدریں لٹکا لیا کریں تاکہ جاہلیت کی عورتوں سے ممتاز ہو جائیں اسی طرح لونڈیوں سے بھی آزاد عورتوں کی پہچان ہو جائے ‘ ۔ «جلباب» اس چادر کو کہتے ہیں جو عورتیں اپنی دوپٹیاکے اوپر ڈالتی ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ” اللہ تعالیٰ مسلمان عورتوں کو حکم دیتا ہے کہ ’ جب وہ اپنے کسی کام کاج کیلئے باہر نکلیں تو جو چادر وہ اوڑھتی ہیں اسے سر پر سے جھکا کر منہ ڈھک لیا کریں ، صرف ایک آنکھ کھلی رکھیں ‘ “ ۔ امام محمد بن سیرین رحمتہ اللہ علیہ کے سوال پر عبیدہ سلمانی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنا چہرہ اور سر ڈھانک کر اور بائیں آنکھ کھلی رکھ کر بتا دیا کہ ” یہ مطلب اس آیت کا ہے “ ۔ عکرمہ رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ ” اپنی چادر سے اپنا گلا تک ڈھانپ لے “ ۔ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ” اس آیت کے اترنے کے بعد انصار کی عورتیں جب نکلتی تھیں تو اس طرح لکی چھپی چلتی تھیں گویا ان کے سروں پر پرند ہیں سیاہ چادریں اپنے اوپر ڈال لیا کرتی تھیں “ ۔ زہری رحمہ اللہ سے سوال ہوا کہ کیا لونڈیاں بھی چادر اوڑھیں ؟ خواہ خاوندوں والیاں ہوں یا بے خاوند کی ہوں ؟ فرمایا ” دوپٹیا تو ضرور اوڑھیں اگر وہ خاوندوں والیاں ہوں اور چادر نہ اوڑھیں تاکہ ان میں اور آزاد عورتوں میں فرق رہے “ ۔ حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ ” ذمی کافروں کی عورتوں کی زینت کا دیکھنا صرف خوف زنا کی وجہ سے ممنوع ہے نہ کہ ان کی حرمت و عزت کی وجہ سے کیونکہ آیت میں مومنوں کی عورتوں کا ذکر ہے “ ۔ چادر کا لٹکانا چونکہ علامت ہےآزاد پاک دامن عورتوں کی اس لیے یہ چادر کے لٹکانے سے پہچان لی جائیں گی کہ یہ نہ واہی عورتیں ہیں نہ لونڈیاں ہیں ۔ سدی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ ” فاسق لوگ اندھیری راتوں میں راستے سے گزرنے والی عورتوں پر آوازے کستے تھے اس لیے یہ نشان ہو گیا کہ گھر گرہست عورتوں اور لونڈیوں باندیوں وغیرہ میں تمیز ہو جائے اور ان پاک دامن عورتوں پر کوئی لب نہ ہل اس کے “ ۔ پھر فرمایا کہ ” جاہلیت کے زمانے میں جو بے پردگی کی رسم تھی جب تم اللہ کے اس حکم کے عامل بن جاؤ گے تو اللہ تعالیٰ تمام اگلی خطاؤں سے درگزر فرمالے گا اور تم پر مہر و کرم کرے گا “ ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ اگر منافق لوگ اور بدکار اور جھوٹی افواہیں دشمنوں کی چڑھائی وغیرہ کی اڑانے والے اب بھی باز نہ آئے اور حق کے طرفدار نہ ہوئے تو ، ہم اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تجھے ان پر غالب اور مسلط کر دیں گے ۔ پھر تو وہ مدینے میں ٹھہر ہی نہیں سکیں گے ۔ بہت جلد تباہ کر دیے جائیں گے اور جو کچھ دن ان کے مدینے کی اقامت سے گزریں گے وہ بھی لعنت و پھٹکار میں ذلت اور مار میں گزریں گے ۔ ہر طرف سے دھتکارے جائیں گے ، راندہ درگاہ ہو جائیں گے ، جہاں جائیں گے گرفتار کئے جائیں گے اور بری طرح قتل کئے جائیں گے ۔ ایسے کفار و منافقین پر جبکہ وہ اپنی سرکشی سے باز نہ آئیں مسلمانوں کو غلبہ دینا ہماری قدیمی سنت ہے جس میں نہ کبھی تغیر و تبدل ہوا نہ اب ہو ‘ ۔ الأحزاب
60 الأحزاب
61 الأحزاب
62 الأحزاب
63 قیامت قریب تر سمجھو لوگ یہ سمجھ کر کہ قیامت کب آئے گی ، اس کا علم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے سب کو اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی معلوم کروا دیا کہ ’ اس کا مطلق مجھے علم نہیں یہ صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے ‘ ۔ سورۃ الأعراف میں بھی یہ بیان ہے اور اس سورت میں بھی پہلی سورت مکے میں اتری تھی یہ سورت مدینے میں نازل ہوئی ۔ جس سے ظاہر کرا دیا گیا کہ ابتداء سے انتہا تک قیامت کے صحیح وقت کی تعیین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم نہ تھی ۔ ہاں اتنا اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو معلوم کرا دیا تھا کہ قیامت کا وقت ہے قریب ۔ جیسے اور آیت میں ہے «اِقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ» ۱؎ (54-القمر:1) اور آیت میں ہے «اِقْتَرَبَ للنَّاسِ حِسَابُہُمْ وَہُمْ فِیْ غَفْلَۃٍ مٰعْرِضُوْنَ» ۱؎ (21-الأنبیاء:1) اور «اَتٰٓی اَمْرُ اللّٰہِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْہُ سُبْحٰنَہٗ وَتَعٰلٰی عَمَّا یُشْرِکُوْنَ» ۱؎ (16-النحل:1) وغیرہ ، ’ اللہ تعالیٰ نے کافروں کو اپنی رحمت سے دور کر دیا ہے ان پر ابدی لعنت فرمائی ہے ‘ ۔ ’ دار آخرت میں ان کیلئے آگ جہنم تیار ہے جو بڑی بھڑکنے والی ہے ، جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے نہ کبھی نکل سکیں نہ چھوٹ سکیں اور وہاں نہ کوئی اپنا فریاد رس پائیں گے نہ کوئی دوست و مددگار جو انہیں چھڑالے یا بچ اس کے ، یہ جہنم میں منہ کے بل ڈالے جائیں گے ۔ اس وقت تمنا کریں گے کہ کاش کہ ہم اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تابعدار ہوتے ۔ میدان قیامت میں بھی ان کی یہی تمنائیں رہیں گی ہاتھ کو چباتے ہوئے کہیں گے کہ کاش ہم قرآن حدیث کے عامل ہوتے ۔ کاش کہ میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا ۔ اس نے تو مجھے قرآن و حدیث سے بہکا دیا فی الواقع شیطان انسان کو ذلیل کرنے والا ہے ‘ اور آیت میں ہے «رُبَمَا یَوَدٰ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْ کَانُوْا مُسْلِمِیْنَ» ۱؎ (15-الحجر:2) ’ عنقریب کفار آرزو کریں گے کہ کاش کہ وہ مسلمان ہوتے ‘ ، اس وقت کہیں گے کہ اے اللہ ہم نے اپنے سرداروں اور اپنے علماء کی پیروی کی ۔ امراء اور مشائخین کے پیچھے لگے رہے ۔ رسولوں سے اختلاف کیا اور یہ سمجھا کہ ہمارے بڑے راہ راست پر ہیں ۔ ان کے پاس حق ہے آج ثابت ہوا کہ درحقیقت وہ کچھ نہ تھے ۔ انہوں نے تو ہمیں بہکا دیا ، پروردگار تو انہیں دوہرا عذاب کر ۔ ایک تو ان کے اپنے کفر کا ایک ہمیں برباد کرنے کا ۔ اور ان پر بدترین لعنت نازل کر ۔ ایک قرأت میں «کَبٰیراً» کے بدلے «کَثِیْراً» ہے مطلب دونوں کا یکساں ہے ۔ بخاری و مسلم میں ہے { سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی ایسی دعا کی درخواست کی جسے وہ نماز میں پڑھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا تعلیم فرمائی «للَّہُمَّ إِنِّی ظَلَمْتُ نَفْسِی ظُلْمًا کَثِیرًا ، وَلَا یَغْفِرُ الذٰنُوبَ إِلَّا أَنْتَ. فَاغْفِرْ لِی مَغْفِرَۃً مِنْ عِنْدِکَ ، وَارْحَمْنِی إِنَّکَ أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ» یعنی اے اللہ میں نے بہت سے گناہ کئے ہیں ۔ میں مانتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی انہیں معاف نہیں کر سکتا پس تو اپنی خصوصی بخشش سے مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم کر تو بڑا ہی بخشش کرنے والا اور مہربان ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:834) اس حدیث میں بھی «ظُلْمًا کَثِیرًا» اور «کَبٰیراً» دونوں ہی مروی ہیں ۔ بعض لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ دعا میں «کَثِیرًا کَبٰیراً» دونوں لفظ ملالے ۔ لیکن یہ ٹھیک نہیں بلکہ ٹھیک یہ ہے کہ کبھی «کَثِیرًا» کہے کبھی «کَبٰیراً» دونوں لفظوں میں سے جسے چاہے پڑھ سکتا ہے ۔ لیکن دونوں کو جمع نہیں کر سکتا ، «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا ایک ساتھی آپ رضی اللہ عنہ کے مخالفین سے کہہ رہا تھا کہ تم اللہ کے ہاں جا کر یہ کہو گے کہ «وَقَالُوا رَبَّنَا إِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَکُبَرَاءَنَا فَأَضَلٰونَا السَّبِیلَا» ۱؎ (33-الأحزاب:67) ۔ الأحزاب
64 الأحزاب
65 الأحزاب
66 الأحزاب
67 الأحزاب
68 الأحزاب
69 موسیٰ علیہ السلام کا مزاج صحیح بخاری شریف میں ہے کہ { موسیٰ علیہ السلام بہت ہی شرمیلے اور بڑے لحاظ دار تھے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4799) یہی مطلب ہے قرآن کی اس آیت کا ۔ کتاب التفسیر میں تو امام صاحب رحمہ اللہ اس حدیث کو اتنا ہی مختصر لائے ہیں ، لیکن احادیث انبیاء علیہم السلام کے بیان میں اسے مطول لائے ہیں ۔ اس میں یہ بھی ہے کہ { وہ بوجہ سخت حیاء و شرم کے اپنا بدن کسی کے سامنے ننگا نہیں کرتے تھے ۔ بنو اسرائیل آپ علیہ السلام کو ایذاء دینے کے درپے ہو گئے اور یہ افواہ اڑا دی کہ چونکہ ان کے جسم پر برص کے داغ ہیں یا ان کے بیضے بڑھ گئے ہیں یا کوئی اور آفت ہے اس وجہ سے یہ اس قدر پردے داری کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا ارادہ ہوا کہ یہ بدگمانی آپ علیہ السلام سے دور کر دے ۔ ایک دن موسیٰ علیہ الصلٰوۃ والسلام تنہائی میں ننگے نہا رہے تھے ، ایک پتھر پر آپ علیہ السلام نے کپڑے رکھ دیئے تھے ، جب غسل سے فارغ ہو کر آئے ، کپڑے لینے چاہے تو پتھر آگے کو سرک گیا ۔ آپ علیہ السلام اپنی لکڑی لیے اس کے پیچھے گئے وہ دوڑنے لگا ۔ آپ علیہ السلام بھی اے پتھر میرے کپڑے میرے کپڑے کرتے ہوئے اس کے پیچھے دوڑے ۔ بنی اسرائیل کی جماعت ایک جگہ بیٹھی ہوئی تھی ۔ جب آپ علیہ السلام وہاں تک پہنچ گئے تو اللہ کے حکم سے پتھر ٹھہر گیا ۔ آپ علیہ السلام نے اپنے کپڑے پہن لیے ۔ بنو اسرائیل نے آپ علیہ السلام کے تمام جسم کو دیکھ لیا اور جو فضول باتیں ان کے کانوں میں پڑی تھیں ان سے اللہ نے اپنے نبی علیہ السلام کو بری کر دیا ۔ غصے میں موسیٰ علیہ السلام نے تین یا چار پانچ لکڑیاں پتھر پر ماری تھیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { واللہ لکڑیوں کے نشان اس پتھر پر پڑ گئے } ۔ اسی برأت وغیرہ کا ذکر اس آیت میں ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3404) یہ حدیث مسلم میں نہیں یہ روایت بہت سی سندوں سے بہت سی کتابوں میں ہے ۔ بعض روایتیں موقوف بھی ہیں ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ” ایک مرتبہ موسیٰ اور ہارون علیہما السلام پہاڑ پر گئے جہاں ہارون علیہ السلام کا انتقال ہو گیا لوگوں نے موسیٰ علیہ السلام کی طرف بدگمانی کی اور آپ علیہ السلام کو ستانا شروع کیا ۔ پروردگار عالم نے فرشتوں کو حکم دیا اور وہ اسے اٹھا لائے اور بنو اسرائیل کی مجلس کے پاس سے گزرے اللہ نے اسے زبان دی اور قدرتی موت کا اظہار کیا ۔ ان کی قبر کا صحیح نشان نامعلوم ہے صرف اس ٹیلے کا لوگوں کو علم ہے اور وہی ان کی قبر کی جگہ جانتا ہے لیکن بے زبان ہے “ ۔ تو ہوسکتا ہے کہ ایذاء یہی ہو اور ہوسکتا ہے کہ وہ ایذاء ہو جس کا بیان پہلے گزرا ۔ لیکن میں کہتا ہوں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ اور یہ دونوں ہوں بلکہ ان کے سوا اور بھی ایذائیں ہوں ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ لوگوں میں کچھ تقسیم کیا اس پر ایک شخص نے کہا اس تقسیم سے اللہ کی رضا مندی کا ارادہ نہیں کیا گیا ۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے جب یہ سنا تو میں نے کہا اے اللہ کے دشمن میں تیری اس بات کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ضرور پہنچاؤں گا ۔ چنانچہ میں نے جا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خبر کر دی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ سرخ ہوگیا پھر فرمایا : { اللہ کی رحمت ہو موسیٰ علیہ السلام پر وہ اس سے بہت زیادہ ایذاء دے گئے لیکن صبر کیا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4335) اور روایت میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عام ارشاد تھا کہ { کوئی بھی میرے پاس کسی کی طرف سے کوئی بات نہ پہنچائے ۔ میں چاہتا ہوں کہ میں تم میں آ کر بیٹھوں تو میرے دل میں کسی کی طرف سے کوئی بات چبھتی ہوئی نہ ہو } ۔ ایک مرتبہ کچھ مال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے لوگوں میں تقسیم کیا ۔ دو شخض اس کے بعد آپس میں باتیں کر رہے تھے ۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ان کے پاس سے گزرے ایک دوسرے سے کہہ رہا تھا کہ واللہ اس تقسیم سے نہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی خوشی کا ارادہ کیا نہ آخرت کے گھر کا ۔ میں ٹھہر گیا اور دونوں کی باتیں سنیں ۔ پھر خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوا اور کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہ فرمایا ہے کہ { کسی کی کوئی بات میرے سامنے نہ لایا کرو } ۔ ابھی کا واقعہ ہے کہ میں جا رہا تھا جو فلاں اور فلاں سے میں نے یہ باتیں سنیں اسے سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ غصے کے مارے سرخ ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ بات بہت ہی گراں گزری ۔ پھر میری طرف دیکھ کر فرمایا : { عبداللہ جانے دو دیکھو موسیٰ علیہ السلام اس سے بھی زیادہ ستائے گئے لیکن انہوں نے صبر کیا } } ۔ (مسند احمد:395/1:ضعیف) قرآن فرماتا ہے موسیٰ علیہ السلام اللہ کے نزدیک بڑے مرتبے والے تھے ۔ مستجاب الدعوت تھے ۔ جو دعا کرتے تھے قبول ہوتی تھی ۔ ہاں اللہ کا دیدار نہ ہوا اس لیے کہ یہ طاقت انسانی سے خارج تھا ۔ سب سے بڑھ کر ان کی وجاہت کا ثبوت اس سے ملتا ہے کہ انہوں نے اپنے بھائی ہارون علیہ السلام کیلئے نبوت مانگی اللہ نے وہ بھی عطا فرمائی ۔ فرماتا ہے «وَوَہَبْنَا لَہٗ مِنْ رَّحْمَتِنَآ اَخَاہُ ہٰرُوْنَ نَبِیًّا» ۱؎ (19-مریم:53) ’ ہم نے اسے اپنی رحمت سے اس کے بھائی ہارون کو نبی بنا دیا ‘ ۔ الأحزاب
70 تقویٰ کی ہدایت اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو اپنے تقویٰ کی ہدایت کرتا ہے ان سے فرماتا ہے کہ ’ اس طرح وہ اس کی عبادت کریں کہ گویا اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور بات بالکل صاف ، سیدھی ، سچی ، اچھی بولا کریں ، جب وہ دل میں تقویٰ ، زبان پر سچائی اختیار کر لیں گے تو اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ انہیں اعمال صالحہ کی توفیق دے گا اور ان کے تمام اگلے گناہ معاف فرما دے گا بلکہ آئندہ کیلئے بھی انہیں استغفار کی توفیق دے گا تاکہ گناہ باقی نہ رہیں ۔ اللہ رسول کے فرمانبردار اور سچے کامیاب ہیں جہنم سے دور اور جنت سے سرفراز ہیں ‘ ۔ { ایک دن ظہر کی نماز کے بعد مردوں کی طرف متوجہ ہو کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { مجھے اللہ کا حکم ہوا ہے کہ میں تمہیں اللہ سے ڈرتے رہنے اور سیدھی بات بولنے کا حکم دوں ۔ پھر عورتوں کی طرف متوجہ ہو کر بھی یہی فرمایا } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:391/4:ضعیف) ابن ابی الدنیا کی کتاب التقویٰ میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ منبر پر ہر خطبے میں یہ آیت تلاوت فرمایا کرتے تھے } ۔ ۱؎ (میزان:5119:ضعیف) لیکن اس کی سند غریب ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے ” جسے یہ بات پسند ہو کہ لوگ اس کی عزت کریں اسے اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا چاہیئے “ ۔ عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں قول سدید «لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ» ہے ۔ خباب رحمہ اللہ فرماتے ہیں سچی بات قول سدید ہے ۔ مجاہد فرماتے ہیں ہر سیدھی بات قول سدید میں داخل ہے ۔ الأحزاب
71 الأحزاب
72 فرائض، حدود امانت ہیں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ ” امانت سے مراد یہاں اطاعت ہے “ ۔ اسے آدم علیہ السلام پر پیش کرنے سے پہلے زمین و آسمان اور پہاڑوں پر پیش کیا گیا لیکن وہ بار امانت نہ اٹھا سکے اور اپنی مجبوری اور معذوری کا اظہار کیا ۔ جناب باری عزاسمہ نے اسے اب آدم علیہ الصلٰوۃ والسلام پر پیش کیا کہ ’ یہ سب تو انکار کر رہے ہیں ، تم کہو ‘ ۔ آپ علیہ السلام نے پوچھا اللہ اس میں بات کیا ہے ؟ فرمایا ’ اگر بجا لاؤ گے ثواب پاؤ گے اور برائی کی سزا پاؤ گے ‘ ۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا ” میں تیار ہوں “ ۔ آپ رضی اللہ عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ ” امانت سے مراد فرائض ہیں دوسروں پر جو پیش کیا تھا یہ بطور حکم کے نہ تھا بلکہ جواب طلب کیا تھا تو ان کا انکار اور اظہار مجبوری گناہ نہ تھا بلکہ اس میں ایک قسم کی تعظیم تھی کہ باوجود پوری طاقت کے اللہ کے خوف سے تھرا اٹھے کہ کہیں پوری ادائیگی نہ ہو سکے اور مارے نہ جائیں ۔ لیکن انسان جو کہ بھولا تھا اس نے اس بار امانت کو خوشی خوشی اٹھا لیا “ ۔ آپ رضی اللہ عنہ ہی سے یہ بھی مروی ہے کہ ” عصر کے قریب یہ امانت اٹھائی تھی اور مغرب سے پہلے ہی خطا سرزد ہو گئی “ ۔ ابی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ” عورت کی پاکدامنی بھی اللہ کی امانت ہے “ ۔ قتادہ رحمہ اللہ کا قول ہے دین فرائض حدود سب اللہ کی امانت ہیں ۔ جنابت کا غسل بھی بقول بعض امانت ہے ۔ زید بن اسلام فرماتے ہیں تین چیزیں اللہ کی امانت ہیں غسل جنابت ، روزہ اور نماز ۔ مطلب یہ ہے کہ یہ چیزیں سب کی سب امانت میں داخل ہیں ۔ تمام احکام بجا لانے تمام ممنوعات سے پرہیز کرنے کا انسان مکلف ہے ۔ جو بجالائے گا ثواب پائے گا جہاں گناہ کرے گا سزا پائے گا ۔ امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” خیال کرو آسمان باوجود اس پختگی ، زینت اور نیک فرشتوں کا مسکن ہونے کے اللہ کی امانت برداشت نہ کر سکا جب اس نے یہ معلوم کر لیا کہ بجا آوری اگر نہ ہوئی تو عذاب ہوگا ۔ زمین صلاحیت کے باوجود اور سختی کے لمبائی اور چوڑائی کے ڈرگئی اور اپنی عاجزی ظاہر کرنے لگی ۔ پہاڑ باوجود اپنی بلندی اور طاقت اور سختی کے اس سے کانپ گئے ، اور اپنی لاچاری ظاہر کرنے لگے “ ۔ مقاتل رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” پہلے آسمانوں نے جواب دیا اور کہا یوں تو ہم مطیع ہیں لیکن ہاں ہمارے بس کی یہ بات نہیں کیونکہ عدم بجا آوری کی صورت میں بہت بڑا خطرہ ہے ۔ پھر زمین سے کہا گیا کہ ’ اگر پوری اتری تو فضل و کرم سے نواز دوں گا ‘ ۔ لیکن اس نے کہا یوں تو ہر طرح طابع فرمان ہوں جو فرمایا جائے عمل کروں لیکن میری وسعت سے تو یہ باہر ہے ۔ پھر پہاڑوں سے کہا گیا انہوں نے بھی جواب دیا کہ نافرمانی تو ہم کرنے کے نہیں امانت ڈال دی جائے تو اٹھالیں گے لیکن یہ بس کی بات نہیں ہمیں معاف فرمایا جائے ۔ پھر آدم علیہ الصلٰوۃ والسلام سے کہا گیا انہوں نے کہا ” اے اللہ اگر پورا اتروں تو کیا ملے گا ؟ “ فرمایا ’ بڑی بزرگی ہو گی جنت ملے گی رحم و کرم ہو گا اور اگر اطاعت نہ کی نافرمانی کی تو پھر سخت سزا ہوگی اور آگ میں ڈال دیئے جاؤ گے ‘ ۔ انہوں نے کہا ” یا اللہ منظور ہے “ ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” آسمان نے کہا میں نے ستاروں کو جگہ دی فرشتوں کو اٹھا لیا لیکن یہ نہیں اٹھا سکوں گا یہ تو فرائض کا بوجھ ہے جس کی مجھ میں طاقت نہیں ۔ زمین نے کہا مجھ میں تو نے درخت بوئے دریا جاری کئے ۔ لوگوں کو بسائے گا لیکن یہ امانت تو میرے بس کی نہیں ۔ میں فرض کی پابند ہو کر ثواب کی امید پر عذاب کے احتمال کو نہیں اٹھاسکتی ۔ پہاڑوں نے بھی یہی کہا لیکن انسان نے لپک کر اسے اٹھا لیا “ ۔ بعض روایات میں ہے کہ ” تین دن تک وہ گریہ زاری کرتے رہے اور اپنی بے بسی کا اظہار کرتے رہے لیکن انسان نے اسے اپنے ذمے لے لیا “ ۔ اللہ نے اسے فرمایا ’ اب سن اگر تو نیک نیت رہا تو میری اعانت ہمیشہ تیرے شامل حال رہے گی تیری آنکھوں پر میں دو پلکیں کر دیتا ہوں کہ میری ناراضگی کی چیزوں سے تو انہیں بند کر لے ۔ میں تیری زبان پر دو ہونٹ بنا دیتا ہوں کہ جب وہ مرضی کے خلاف بولنا چاہے تو تو اسے بند کر لے ۔ تیری شرمگاہ کی حفاظت کیلئے میں لباس اتارتا ہوں کہ میری مرضی کے خلاف تو اسے نہ کھولے ‘ ۔ زمین و آسمان نے ثواب و عذاب سے انکار کر دیا اور فرمانبرداری میں مسخر رہے لیکن انسانوں نے اسے اٹھا لیا ۔ ایک بالکل غریب مرفوع حدیث میں ہے کہ { امانت اور وفا انسانوں پر نبیوں کی معرفت نازل ہوئیں ۔ اللہ کا کلام ان کی زبانوں میں اترا نبیوں کی سنتوں سے انہوں نے ہر بھلائی برائی معلوم کر لی ۔ ہر شخص نیکی بدی کو جان گیا ۔ یاد رکھو ! سب سے پہلے لوگوں میں امانت داری تھی پھر وفا اور عہد کی نگہبانی اور ذمہ داری کو پورا کرنا تھا ۔ امانت داری کے دھندلے سے نشان لوگوں کے دلوں پر رہ گئے ۔ کتابیں ان کے ہاتھوں میں ہیں ۔ عالم عمل کرتے ہیں جاہل جانتے ہیں لیکن انجان بن رہے ہیں اب یہ امانت وفا مجھ تک اور میری امت تک پہنچی ۔ یاد رکھو اللہ اسی کو ہلاک کرتا ہے جو اپنے آپ کو ہلاک کر لے ۔ اسے چھوڑ کر غفلت میں پڑ جائے ۔ لوگو ! ہوشیار رہو اپنے آپ پر نظر رکھو ۔ شیطانی وسوسوں سے بچو ۔ اللہ تمہیں آزما رہا ہے کہ تم میں سے اچھے عمل کرنے والا کون ہے ؟ } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:28689:ضعیف) { حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { جو شخص ایمان کے ساتھ ان چیزوں کو لائے گا جنت میں جائے گا ۔ پانچوں وقتوں کی نماز کی حفاظت کرتا ہو ، وضو ، رکوع ، سجدہ اور وقت سجدہ اور وقت سمیت زکوٰۃ ادا کرتا ہو ۔ دل کی خوشی کے ساتھ زکوٰۃ کی رقم نکالتا ہو ۔ سنو واللہ یہ بغیر ایمان کے ہو ہی نہیں سکتا اور امانت کو ادا کرے } ۔ سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ سے سوال ہوا کہ امانت کی ادائیگی سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا جنابت کا فرضی غسل ۔ پس اللہ تعالیٰ نے ابن آدم پر اپنے دین میں سے کسی چیز کی اس کے سوا امانت نہیں دی }۔ ۱؎ (سنن ابوداود:429،قال الشیخ الألبانی:حسن) تفسیر ابن جریر میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { اللہ کی راہ کا قتل تمام گناہوں کو مٹا دیتا ہے مگر امانت کی خیانت کو نہیں مٹاتا ان خائنوں سے قیامت کے دن کہا جائے گا جاؤ ان کی امانتیں ادا کرو یہ جواب دیں گے اللہ کہاں سے ادا کریں ؟ دنیا تو جاتی رہی تین مرتبہ یہی سوال جواب ہو گا پھر حکم ہوگا کہ انہیں ان کی ماں ہاویہ میں لے جاؤ ۔ فرشتے دھکے دیتے ہوئے گرا دیں گے ۔ یہاں تک کہ اس کی تہہ تک پہنچ جائیں گے تو انہیں اسی امانت کی ہم شکل جہنم کی آگ کی چیز نظر پڑے گی ۔ یہ اسے لے کر اوپر کو چڑھیں گے جب کنارے تک پہنچیں گے تو وہاں پاؤں پھسل جائے گا ۔ پھر گر پڑیں گے اور جہنم کے نیچے تک گرتے چلے جائیں گے ۔ پھر لائیں گے پھر گریں گے ہمیشہ اسی عذاب میں رہیں گے ۔ امانت وضو میں بھی ہے ۔ نماز میں بھی امانت بات چیت میں بھی ہے اور ان سب سے زیادہ امانت ان چیزوں میں ہے جو کسی کے پاس بطور امانت رکھی جائیں } ۔ سیدنا براء رضی اللہ عنہ سے سوال ہوتا ہے کہ آپ کے بھائی سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ یہ کیا حدیث بیان فرما رہے ہیں؟ تو آپ اس کی تصدیق کرتے ہیں کہا ہاں ٹھیک ہے } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:28694:ضعیف) سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے دو حدیثیں سنی ہیں ۔ ایک کو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا اور دوسری کے ظہور کا مجھے انتظار ہے ایک تو یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { امانت لوگوں کی جبلت میں اتاری گئی } پھر قرآن اترا حدیثیں بیان ہوئیں ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امانت کے اٹھ جانے کی بابت فرمایا : { انسان سوئے گا جو اس کے دل سے امانت اٹھ جائے گی اور ایسا نشان رہ جائے گا جیسے کسی کے پیر پر کوئی انگارہ لڑھک کر آ گیا ہو اور پھپھولا پڑ گیا ہو کہ ابھرا ہوا معلوم ہوتا ہے لیکن اندر کچھ بھی نہیں } ۔ پھر آپ نے ایک کنکر لے کر اسے اپنے پیر پر لڑھکا کر دکھا دیا کہ اس طرح لوگ لین دین خرید و فروخت کیا کریں گے ۔ لیکن تقریباً ایک بھی ایماندار نہ ہوگا ۔ یہاں تک کہ مشہور ہو جائے گا کہ فلاں قبیلے میں کوئی امانت دار ہے ۔ اور یہاں تک کہ کہا جائے گا یہ شخص کیسا عقلمند ، کس قدر زیرک ، دانا اور فراست والا ہے حالانکہ اس کے دل میں رائی کے دانے برابر بھی ایمان نہ ہوگا ۔ حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں دیکھو اس سے پہلے تو میں ہر ایک سے ادھار سدھار کر لیا کرتا تھا کیونکہ اگر وہ مسلمان ہے تو وہ خود میرا حق مجھے دے جائے گا اور اگر یہودی یا نصرانی ہے تو حکومت اسلام مجھے اس سے دلوا دے گی ۔ لیکن اب تو صرف فلاں فلاں کو ہی ادھار دیتا ہوں باقی بند کر دیا ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6497) مسند احمد میں فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ { چار باتیں تجھ میں ہوں پھر اگر ساری دنیا بھی فوت ہو جائے تو تجھے نقصان نہیں ۔ امانت کی حفاظت ، بات چیت کی صداقت ، حسن اخلاق اور وجہ حلال کی روزی } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:177/2:ضعیف) عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کی کتاب الزھد میں ہے کہ جبلہ بن سحیم زیاد کے ساتھ تھے اتفاق سے ان کے منہ سے باتوں ہی باتوں میں نکل گیا ” قسم ہے امانت کی “ ۔ اس پر زیاد رونے لگے اور بہت روئے ۔ میں ڈرگیا کہ مجھ سے کوئی سخت گناہ سرزد ہوا ۔ میں نے کہا کیا وہ اسے مکروہ جانتے تھے فرمایا ” ہاں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اسے بہت مکروہ جانتے تھے اور اس سے منع فرماتے تھے “ ۔ ابوداؤد میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { وہ ہم میں سے نہیں جو امانت کی قسم کھائے } } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:0000،قال الشیخ الألبانی:) امانتداری جو آدم علیہ السلام نے کی اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ منافق مرد و عورت اور مشرک مرد و عورت یعنی وہ جو ظاہر میں مسلمان اور باطن میں کافر تھے اور وہ جو اندر باہر یکساں کافر تھے انہیں تو سخت سزا ملے اور مومن مرد و عورت پر اللہ کی رحمت نازل ہو ۔ جو اللہ کو اس کے فرشتوں کو اس کے رسولوں کو مانتے تھے اور اللہ کے سچے فرمانبردار رہے ۔ اللہ غفور و رحیم ہے ۔ «اَلْحَمْدُ لِلہِ» سورۃ الاحزاب کی تفسیر ختم ہوئی ۔ الأحزاب
73 الأحزاب
0 سبأ
1 اوصاف الٰہی چونکہ دنیا اور آخرت کی سب نعمتیں رحمتیں اللہ ہی کی طرف سے ہیں ۔ ساری حکومتوں کا حاکم وہی ایک ہے ۔ اس لیے ہر قسم کی تعریف و ثناء کا مستحق بھی وہی ہے ۔ وہی معبود ہے جس کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں ۔ اسی کے لئے دنیا اور آخرت کی حمد و ثناء سزاوار ہے ۔ اسی کی حکومت ہے اور اسی کی طرف سب کے سب لوٹائے جاتے ہیں ۔ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے سب اس کے ماتحت ہے ۔ جتنے بھی ہیں سب اس کے غلام ہیں ۔ اس کے قبضے میں ہیں سب پر تصرف اسی کا ہے ۔ جیسے اور آیت میں ہے « وَإِنَّ لَنَا لَلْآخِرَۃَ وَالْأُولَیٰ » ‏‏‏‏۱؎ (92-اللیل:13) آخرت میں اسی کی تعریفیں ہوں گی ۔ وہ اپنے اقوال ، افعال ، تقدیر ، شریعت سب پر حکومت والا ہے اور ایسا خبردار ہے جس پر کوئی چیز مخفی نہیں ۔ جس سے کوئی ذرہ پوشیدہ نہیں ۔ جو اپنے احکام میں حکیم جو اپنی مخلوق سے باخبر جتنے قطرے بارش کے زمین میں جاتے ہیں جتنے دانے اس میں بوئے جاتے ہیں اس کے علم سے باہر نہیں ۔ جو زمین سے نکلتا ہے اگتا ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اس کے محیط ، وسیع اور بےپایاں علم سے کوئی چیز دور نہیں ۔ ہر چیز کی گنتی کیفیت اور صفت اسے معلوم ہے ۔ آسمان سے جو بارش برستی ہے اس کے قطروں کی گنتی بھی اس کے علم میں محفوظ ہے جو رزق وہاں سے اترتا ہے اس کے علم سے نیک اعمال وغیرہ جو آسمان پر چڑھتے ہیں وہ بھی اس کے علم میں ہیں ۔ وہ اپنے بندوں پر خود ان سے بھی زیادہ مہربان ہے ۔ اسی وجہ سے ان کے گناہوں پر اطلاع رکھتے ہوئے انہیں جلدی سے سزا نہیں دیتا بلکہ مہلت دیتا ہے کہ وہ توبہ کر لیں ۔ برائیاں چھوڑ دیں رب کی طرف رجوع کریں ۔ پھر غفور ہے ۔ ادھر بندہ جھکا رویا پیٹا ادھر اس نے بخش دیا یا معاف فرما دیا درگزر کر لیا ۔ توبہ کرنے والا دھتکارا نہیں جاتا ۔ توکل کرنے والا نقصان نہیں اٹھاتا ۔ سبأ
2 سبأ
3 قیامت آ کر رہے گی پورے قرآن میں تین آیتیں ہیں جہاں قیامت کے آنے پر قسم کھا کر بیان فرمایا گیا ہے ۔ ایک تو سورۃ یونس میں «وَیَسْتَنْۢبِـــُٔـوْنَکَ اَحَقٌّ ھُوَ ڼ قُلْ اِیْ وَرَبِّیْٓ اِنَّہٗ لَحَقٌّ ې وَمَآ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ» ۱؎ (10-یونس:53) ’ لوگ تجھ سے دریافت کرتے ہیں کہ کیا قیامت کا آنا حق ہے ؟ تو کہہ دے کہ ہاں ہاں میرے رب کی قسم وہ یقیناً حق ہی ہے اور تم اللہ کو مغلوب نہیں کر سکتے ‘ دوسری آیت یہی ۔ تیسری آیت سورۃ التغابن میں «زَعَمَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَنْ لَّنْ یٰبْعَثُوْا ۭ قُلْ بَلٰی وَرَبِّیْ لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُـنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ ۭ وَذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرٌ» ۱؎ (64-التغابن:7) یعنی ’ کفار کا خیال ہے کہ وہ قیامت کے دن اٹھائے نہ جائیں گے ۔ تو کہہ دے کہ ہاں میرے رب کی قسم تم ضرور اٹھائے جاؤ گے ‘ ’ پھر اپنے اعمال کی خبر دیئے جاؤ گے اور یہ تو اللہ پر بالکل ہی آسان ہے ۔ ‘ پس یہاں بھی کافروں کا انکار قیامت کا ذکر کر کے اپنے نبی کو ان کے بارے قسمیہ بتا کر پھر اس کی مزید تاکید کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ وہ اللہ جو عالم الغیب ہے جس سے کوئی ذرہ پوشیدہ نہیں سب اس کے علم میں ہے ۔ گو ہڈیاں سڑ گل جائیں ان کے ریزے متفرق ہو جائیں لیکن وہ کہاں ہیں ؟ کتنے ہیں ؟ سب وہ جانتا ہے وہ ان سب کو جمع کرنے پر قادر ہے ۔ جیسے کہ پہلے انہیں پیدا کیا ۔ وہ ہر چیز کا جاننے والا ہے ۔ اور تمام چیزیں اس کے پاس اس کی کتاب میں بھی لکھی ہوئی ہیں ۔ پھر قیامت کے آنے کی حکمت بیان فرمائی کہ ایمان والوں کو ان کی نیکیوں کا بدلہ ملے گا ۔ وہ مغفرت اور رزق کریم سے نوازے جائیں اور جنہوں نے اللہ کی باتوں سے ضد کی ، رسولوں کی نہ مانی انہیں بدترین اور سخت سزائیں ہوں ۔ نیک کار مومن جزا اور بدکار سزا پائیں گے ۔ جیسے فرمایا جہنمی اور جنتی برابر نہیں ۔ جنتی کامیاب اور مقصد پانے والے ہیں ۔ ۱؎ (59-الحشر:20) اور آیت میں ہے «اَمْ نَجْعَلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ کَالْمُفْسِدِیْنَ فِی الْاَرْضِ ۡ اَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِیْنَ کَالْفُجَّارِ» ۱؎ (38-ص:28) ، یعنی ’ مومن اور مفسد متقی اور فاجر برابر نہیں ۔ ‘ پھر قیامت کی ایک اور حکمت بیان فرمائی کہ ایماندار بھی قیامت کے دن جب نیکوں کو جزا اور بدوں کو سزا ہوتے ہوئے دیکھیں گے تو وہ علم الیقین سے عین الیقین حاصل کر لیں گے اور اس وقت کہہ اٹھیں گے کہ ہمارے رب کے رسول ہمارے پاس حق لائے تھے ۔ اور اس وقت کہا جائے گا کہ یہ ہے جس کا وعدہ رحمان نے دیا تھا ۔ اور رسولوں نے سچ سچ کہہ دیا تھا ۔ اللہ نے تو لکھ دیا تھا کہ تم قیامت تک رہو گے تو اب قیامت کا دن آ چکا ہے ۔ وہ اللہ عزیز ہے یعنی بلند جناب والا بڑی سرکار والا ہے ۔ بہت عزت والا ہے پورے غلبے والا ہے نہ اس پر کسی کا بس نہ کسی کا زور ۔ ہر چیز اس کے سامنے پست و عاجز ۔ وہ قابل تعریف ہے اپنے اقوال و افعال شرع و فعل میں ۔ ان تمام میں اس کی ساری مخلوق اس کی ثنا خواں ہے ۔ «جل و علا» ۔ سبأ
4 سبأ
5 سبأ
6 سبأ
7 کافروں کی جہالت کافر اور ملحد جو قیامت کے آنے کو محال جانتے تھے اور اس پر اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑاتے تھے ان کے کفریہ کلمات کا ذکر ہو رہا ہے کہ وہ آپس میں کہتے تھے ” لو اور سنو ہم میں ایک صاحب ہیں جو فرماتے ہیں کہ جب مر کر مٹی میں مل جائیں گے اور چورا چورا اور ریزہ ریزہ ہو جائیں گے اس کے بعد بھی ہم زندہ کئے جائیں گے اس شخص کی نسبت دو ہی خیال ہو سکتے ہیں یا تو یہ کہ ہوش و حواس کی درستی میں وہ عمداً اللہ کے ذمے ایک جھوٹ بول رہا ہے اور جو اس نے نہیں فرمایا وہ اس کی طرف نسبت کر کے یہ کہہ رہا ہے اور اگر یہ نہیں تو اس کا دماغ خراب ہے ، مجنون ہے ، بے سوچے سمجھے جو جی میں آئے کہہ دیتا ہے “ اللہ تعالیٰ انہیں جواب دیتا ہے کہ یہ دونوں باتیں نہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہیں ، نیک ہیں ، راہ یافتہ ہیں ، دانا ہیں ، باطنی اور ظاہری بصیرت والے ہیں ۔ لیکن اسے کیا کیا جائے کہ منکر لوگ جہالت اور نادانی سے کام لے رہے ہیں ۔ اور غور و فکر سے بات کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش ہی نہیں کرتے ۔ جس کی وجہ سے حق بات اور سیدھی راہ ان سے چھوٹ جاتی ہے اور وہ بہت دور نکل جاتے ہیں ۔ کیا اس کی قدرت میں تم کوئی کمی دیکھ رہے ہو ۔ جس نے محیط آسمان اور بسیط زمین پیدا کر دی ۔ جہاں جاؤ نہ آسمان کا سایہ ختم ہو نہ زمین کا فرش ۔ جیسے فرمان ہے «وَالسَّمَاءَ بَنَیْنٰہَا بِاَیْیدٍ وَّاِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ» ۱؎ (51-الذاریات:47-48) ’ ہم نے آسمان کو اپنے ہاتھوں بنایا اور ہم کشادگی والے ہیں ۔ زمین کو ہم نے ہی بچھایا اور ہم بہت اچھے بچھانے والے ہیں ۔ ‘ یہاں بھی فرمایا کہ آگے دیکھو پیچھے دیکھو اسی طرح دائیں دیکھو بائیں کی طرف التفات کرو تو وسیع آسمان اور بسیط زمین ہی نظر آئے گی ۔ اتنی بڑی مخلوق کا خالق اتنی زبردست قدرتوں پر قادر کیا تم جیسی چھوٹی سی مخلوق کو فنا کر کے پھر پیدا کرنے پر قدرت کھو بیٹھے ؟ وہ تو قادر ہے کہ اگر چاہے تمہیں زمین میں دھنسا دے ۔ یا آسمان تم پر توڑ دے یقیناً تمہارے ظلم اور گناہ اسی قابل ہیں ۔ لیکن اللہ کا حکم اور عفو ہے کہ وہ تمہیں مہلت دیئے ہوئے ہے ۔ جس میں عقل ہے جس میں دور بینی کا مادہ ہو جس میں غور و فکر کی عادت ہو ۔ جس کی اللہ کی طرف جھکنے والی طبیعت ہو ۔ جس کے سینے میں دل ، دل میں حکمت اور حکمت میں نور ہو وہ تو ان زبردست نشانات کو دیکھنے کے بعد اس قادر و خالق اللہ کی اس قدرت میں شک کر ہی نہیں سکتا کہ مرنے کے بعد پھر جینا ہے ۔ آسمانوں جیسے شامیانے اور زمینوں جیسے فرش جس نے پیدا کر دئیے اس پر انسان کی پیدائش کیا مشکل ہے ؟ جس نے ہڈیوں ، گوشت ، کھال کو ابتداً پیدا کیا ۔ اسے ان کے سڑ گل جانے اور ریزہ ریزہ ہو کر جھڑ جانے کے بعد اکٹھا کر کے اٹھا بٹھانا کیا بھاری ہے ؟ اسی کو اور آیت میں فرمایا «اَوَلَیْسَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِقٰدِرٍ عَلٰٓی اَنْ یَّخْلُقَ مِثْلَہُمْ» ۱؎ (36-یس:81) ، یعنی ’ آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کر دیا کیا وہ ان کے مثل پیدا کرنے پر قادر نہیں ؟ بے شک وہ قادر ہے ‘ اور آیت میں ہے «لَخَــلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَکْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ» ۱؎ (40-غافر:57) یعنی ’ انسانوں کی پیدائش سے بہت زیادہ مشکل تو آسمان و زمین کی پیدائش ہے ۔ لیکن اکثر لوگ بےعلمی برتتے ہیں ۔ ‘ سبأ
8 سبأ
9 سبأ
10 داؤد علیہ السلام پر انعامات الٰہی اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ اس نے اپنے بندے اور رسول داؤد علیہ السلام پر دنیوی اور اخروی رحمت نازل فرمائی ۔ نبوت بھی دی بادشاہت بھی دی لاؤ لشکر بھی دیئے طاقت و قوت بھی دی ۔ پھر ایک پاکیزہ معجزہ عطا فرمایا کہ ادھر نغمہ داؤدی ہوا میں گونجا ، ادھر پہاڑوں اور پرندوں کو بھی وجد آ گیا ۔ پہاڑوں نے آواز میں آواز ملا کر اللہ کی حمد و ثناء شروع کی پرندوں نے پر ہلانے چھوڑ دیئے اور اپنی قسم قسم کی پیاری پیاری بولیوں میں رب کی وحدانیت کے گیت گانے لگے ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ { رات کو سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ قرآن پاک کی تلاوت کر رہے تھے جسے سن کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہر گئے دیر تک سنتے رہے پھر فرمانے لگے انہیں نغمہ داؤدی کا کچھ حصہ مل گیا ہے } ۱؎ (صحیح مسلم:793) ۔ ابوعثمان نہدی رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ واللہ ! ہم نے سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے زیادہ پیاری آواز کسی باجے کی بھی نہیں سنی ۔ « اوبی » کے معنی حبشی زبان میں یہ ہیں کہ تسبیح بیان کرو ۔ لیکن ہمارے نزدیک اس میں مزید غور کی ضرورت ہے لغت عرب میں یہ لفظ ترجیع کے معنی میں موجود ہے ۔ پس پہاڑوں کو اور پرندوں کو حکم ہو رہا ہے کہ وہ داؤد علیہ السلام کی آواز کے ساتھ اپنی آواز بھی ملا لیا کریں ۔ « تاویب » کے ایک معنی دن کو چلنے کے بھی آتے ہیں ۔ جیسے « سری » کے معنی رات کو چلنے کے ہیں لیکن یہ معنی بھی یہاں کچھ زیادہ مناسبت نہیں رکھتا یہاں تو یہی مطلب ہے کہ داؤد علیہ السلام کی تسبیح کی آواز میں تم بھی آواز ملا کر خوش آوازی سے رب کی حمد و ثناء بیان کرو ۔ اور فضل ان پر یہ ہوا کہ ان کے لئے لوہا نرم کر دیا گیا نہ انہیں لوہے کی بھٹی میں ڈالنے کی ضرورت نہ ہتھوڑے مارنے کی حاجت ہاتھ میں آتے ہی ایسا ہو جاتا تھا جیسے دھاگے ، اب اس لوہے سے بفرمان اللہ آپ زرہیں بناتے تھے ۔ بلکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ دنیا میں سب سے پہلے زرہ آپ ہی نے ایجاد کی ہے ۔ ہر روز صرف ایک زرہ بناتے اس کی قیمت چھ ہزار لوگوں کے کھلانے پلانے میں صرف کر دیتے ۔ زرہ بنانے کی ترکیب خود اللہ کی سکھائی ہوئی تھی کہ کڑیاں ٹھیک ٹھیک رکھیں حلقے چھوٹے نہ ہوں کہ ٹھیک نہ بیٹھیں بہت بڑے نہ ہوں کہ ڈھیلا پن رہ جائے بلکہ ناپ تول اور صحیح اندازے سے حلقے اور کڑیاں ہوں ۔ ابن عساکر میں ہے داؤد علیہ السلام بھیس بدل کر نکلا کرتے اور رعایا کے لوگوں سے مل کر ان سے اور باہر کے آنے جانے والوں سے دریافت فرماتے کہ داؤد کیسا آدمی ہے ؟ لیکن ہر شخص کو تعریفیں کرتا ہوا ہی پاتے ۔ کسی سے کوئی بات اپنی نسبت قابل اصلاح نہ سنتے ۔ ایک مرتبہ اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتے کو انسانی صورت میں نازل فرمایا ۔ داؤد علیہ السلام کی ان سے بھی ملاقات ہوئی تو جیسے اوروں سے پوچھتے تھے ان سے بھی سوال کیا انہوں نے کہا داؤد ہے تو اچھا اگر ایک کمی اس میں نہ ہوتی تو کامل بن جاتا ۔ آپ نے بڑی رغبت سے پوچھا کہ وہ کیا ؟ فرمایا وہ اپنا بوجھ مسلمانوں کے بیت المال پر ڈالے ہوئے ہیں خود بھی اسی میں سے لیتا ہے اور اپنی اہل و عیال کو اسی میں سے کھلاتا ہے ۔ داؤد علیہ السلام کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی کہ یہ شخص ٹھیک کہتا ہے اسی وقت جناب باری کی طرف جھک پڑے اور گریہ و زاری کے ساتھ دعائیں کرنے لگے کہ اللہ مجھے کوئی کام کاج ایسا سکھا دے جس سے میرا پیٹ بھر جایا کرے ۔ کوئی صنعت اور کاریگری مجھے بتا دے جس سے میں اتنا حاصل کر لیا کروں کہ وہ مجھے اور میرے بال بچوں کو کافی ہو جائے ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں زرہیں بنانا سکھائیں اور پھر اپنی رحمت سے لوہے کو ان کے لئے بالکل نرم کر دیا ۔ سب سے پہلے زرہیں آپ نے ہی بنائی ہیں ۔ ایک زرہ بنا کر فروخت فرماتے اور اس کی قیمت کے تین حصے کرتے ایک اپنے کھانے پینے وغیرہ کے لئے ایک صدقے کے لئے ایک رکھ چھوڑتے تاکہ دوسری زرہ بنانے تک اللہ کے بندوں کو دیتے رہیں ۔ داؤد علیہ السلام کو جو نغمہ دیا گیا تھا وہ تو محض بے نظیر تھا ۔ اللہ کی کتاب زبور پڑھنے بیٹھتے ۔ تو آواز نکلتے ہی چرند صبر و سکون کے ساتھ محویت کے عالم میں آپ کی آواز سے متاثر ہو کر کتاب اللہ کی تلاوت میں مشغول ہو جاتے ۔ سارے باجے شیاطین نے نغمہ داؤدی سے نکالے ہیں ۔ آپ کی بے مثل خوش آواز کی یہ چڑاؤنی جیسی نقلیں ہیں ۔ اپنی ان نعمتوں کو بیان فرما کر حکم دیتا ہے کہ اب تمہیں بھی چاہئے کہ نیک اعمال کرتے رہو ۔ میرے فرمان کے خلاف نہ کرو ۔ یہ بہت بری بات ہے کہ جس کے اتنے بڑے اور بےپایاں احسان ہوں ۔ اس کی فرمانبرداری ترک کر دی جائے ۔ میں تمہارے اعمال کا نگران ہوں ۔ تمہارا کوئی عمل چھوٹا بڑا نیک بد مجھ سے پوشیدہ نہیں ۔ ‎ سبأ
11 سبأ
12 اللہ کی نعمتیں اور سلیمان علیہ السلام داؤد علیہ السلام پر جو نعمتیں نازل فرمائی تھیں ان کو بیان کر کے پھر آپ کے فرزند سلیمان علیہ السلام پر جو نعمتیں نازل فرمائی تھیں ان کا بیان ہو رہا ہے کہ ان کے لئے ہوا کو تابع فرمان بنا دیا ۔ مہینے کی راہ صبح ہی صبح ہو جاتی تھی اور اتنی ہی مسافت کا سفر شام کو ہو جاتا ۔ مثلاً دمشق سے تخت مع فوج و اسباب کے اڑا اور تھوڑی دیر میں اصطخر پہنچا دیا جو تیز سوار کیلئے بھی مہینے بھر کا سفر تھا ۔ اسی طرح شام کو وہاں سے تخت اڑا اور شام ہی کو کابل پہنچ گیا ۔ تانبے کو بطور پانی کے کر کے اللہ تعالیٰ نے اس کے چشمے بہا دیئے تھے کہ جس کام میں جس طرح جس وقت لانا چاہیں تو بلا دقت لے لیا کریں ۔ یہ تانبا انہیں کے وقت سے کام میں آ رہا ہے ۔ سدی کا قول ہے کہ تین دن تک یہ بہتا رہا ۔ جنات کو ان کی ماتحتی میں کر دیا وہ جو چاہتے تھے اپنے سامنے ان سے کام لیتے ۔ ان میں سے جو جن احکام سلیمان علیہ السلام کی تعمیل سے جی چراتا تھا فوراً آگ میں جلا دیا جاتا ۔ ابن ابی حاتم میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جنات کی تین قسمیں ہیں ایک تو پردار ہے ۔ دوسری قسم سانپ اور کتے ہیں تیسری قسم وہ ہے جو سواریوں پر سوار ہوتے ہیں اترتے ہیں وغیرہ } ۱؎ (طبرانی کبیر:214/22:صحیح) ۔ یہ حدیث بہت غریب ہے ۔ ابن نعیم سے روایت ہے کہ جنات کی تین قسمیں ہیں ایک کے لئے تو عذاب و ثواب ہے ایک آسمان و زمین میں اڑتے رہتے ہیں ایک سانپ کتے ہیں ۔ انسانوں کی بھی تین قسمیں ہیں ایک وہ جنہیں اللہ تعالیٰ اپنے عرش تلے سایہ دے گا جس دن اس کے سائے کے سوائے اور کوئی سایہ نہ ہو گا ۔ اور ایک قسم مثل چوپایوں کے ہے بلکہ ان سے بھی بدتر ۔ اور تیسری قسم انسانی صورتوں میں شیطانی دل رکھنے والے ۔ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جن ابلیس کی اولاد میں سے ہیں اور انسان آدم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں دونوں میں مومن بھی ہیں اور کافر بھی ہیں عذاب ثواب میں دونوں شریک ہیں دونوں کے ایمان دار ولی ہیں اور دونوں کے بے ایمان شیطان ہیں ، « محاریب » کہتے ہیں بہترین عمارتوں کو ، گھر کے بہترین حصے کو ، مجلس کی صدارت کی جگہ کو ۔ بقول مجاہد رحمہ اللہ ان عمارتوں کو جو محلات سے کم درجے کی ہوں ۔ ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں مسجدوں کو ۔ قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں بڑے بڑے محل اور مسجدوں کو ۔ ابن زید رحمہ اللہ کہتے ہیں گھروں کو ۔ « تماثیل » تصویروں کو کہتے ہیں یہ تانبے کی تھیں ۔ بقول قتادہ رحمہ اللہ وہ مٹی اور شیشے کی تھیں ۔ « جواب » جمع ہے « جابیہ » کی ۔ « جابیہ » اس حوض کو کہتے ہیں جس میں پانی آتا رہتا ہے ۔ یہ مثل تالاب کے تھیں بہت بڑے بڑے لگن تھے تاکہ سلیمان علیہ السلام کی بڑی فوج کے لئے بہت سا کھانا بیک وقت تیار ہو سکے اور ان کے سامنے لایا جا سکے ۔ اور جمی ہوئی دیگیں جو بوجہ اپنی بڑائی کے اور بھاری پنے کے ادھر ادھر نہیں کی جا سکتی تھیں ۔ ان سے اللہ نے فرما دیا تھا کہ دین و دنیا کی جو نعمتیں میں نے تمہیں دے رکھی ہیں ان پر میرا شکر کرو ۔ شکر مصدر ہے بغیر فعل کے یا مفعول لہ ہے اور دونوں تقدیروں پر اس میں دلالت ہے کہ شکر جس طرح قول اور ارادہ سے ہوتا ہے فعل سے بھی ہوتا ہے جیسے شاعر کا قول ہے « افادتکم النعماء منی ثلاثہ » « یدی ولسانی والضمیر المحجبا » اس میں بھی شاعر نعمتوں کا شکر تینوں طرح مانتا ہے فعل سے ، زبان سے اور دل سے ۔ عبدالرحمٰن سلمی سے مروی ہے کہ نماز بھی شکر ہے اور روزہ بھی شکر ہے اور بھلا عمل جسے تو اللہ کے لئے کرے ۔ شکر ہے اور سب سے افضل شکر حمد ہے ۔ محمد بن کعب قرظی رحمہ اللہ فرماتے ہیں شکر اللہ تعالیٰ کا تقویٰ ہے اور نیک عمل ہے ۔ آل داؤد دونوں طرح شکر ادا کرتے تھے قولاً بھی اور فعلاً بھی ۔ ثابت بنانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں داؤد علیہ السلام نے اپنی اہل و عیال ، اولاد اور عورتوں پر اس طرح اوقات کی پابندی کے ساتھ نفل نماز تقسیم کی تھی کہ ہر وقت کوئی نہ کوئی نماز میں مشغول نظر آتا تھا ۔ بخاری و مسلم میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ کو سب سے زیادہ پسند داؤد علیہ السلام کی نماز تھی ۔ آپ آدھی رات سوتے تہائی رات قیام کرتے اور چھٹا حصہ سو رہتے اسی طرح سب روزوں سے زیادہ محبوب روزے بھی اللہ تعالیٰ کو آپ ہی کے تھے ۔ آپ ایک دن روزے سے رہتے اور ایک دن بے روزہ ایک خوبی آپ میں یہ تھی کہ دشمن سے جہاد کے وقت منہ نہ پھیرتے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:1131) ابن ماجہ میں ہے کہ { سلیمان علیہ السلام کی والدہ ماجدہ نے آپ سے فرمایا پیارے بچے رات کو بہت نہ سویا کرو رات کی زیادہ نیند انسان کو قیامت کے دن فقیر بنا دیتی ہے ۔ } ۱؎ (سنن ابن ماجہ:1332،قال الشیخ الألبانی:۔ضعیف) ابن ابی حاتم میں ہے اس موقعہ پر داؤد علیہ السلام کی ایک معطول حدیث مروی ہے ۔ اسی کتاب میں یہ بھی مروی ہے کہ داؤد علیہ السلام نے جناب باری سے عرض کیا کہ الہ العالمین تیرا شکر کیسے ادا ہو گا ؟ شکر گزاری خود تیری ایک نعمت ہے جواب ملا داؤد اب تو نے میری شکر گزاری ادا کر لی جب کہ تو نے اسے جان لیا کہ کل نعمتیں میری ہی طرف سے ہیں ۔ پھر ایک واقعے کی خبر دی جاتی ہے کہ بندوں میں سے شکر گزار بندے بہت ہی کم ہیں ۔ سبأ
13 سبأ
14 سلیمان علیہ السلام کی وفات سلیمان علیہ السلام کی موت کی کیفیت بیان ہو رہی ہے اور یہ بھی کہ جو جنات ان کے فرمان کے تحت کام کاج میں مصروف تھے ان پر ان کی موت کیسے نامعلوم رہی ؟ وہ انتقال کے بعد بھی لکڑی کے ٹیکے پر کھڑے ہی رہے اور یہ انہیں زندہ سمجھتے ہوئے سر جھکائے اپنے سخت سخت کاموں میں مشغول رہے ۔ مجاہد رحمہ اللہ وغیرہ فرماتے ہی تقریباً سال بھر اسی طرح گزر گیا ۔ جس لکڑی کے سہارے آپ کھڑے تھے جب اسے دیمک چاٹ گئی اور وہ کھوکھلی ہو گئی تو آپ گر پڑے ۔ اب جنات اور انسانوں کو آپ کی موت کا پتہ چلا ۔ تب تو نہ صرف انسانوں کو بلکہ خود جنات کو بھی یقین ہو گیا کہ ان میں سے کوئی بھی غیب داں نہیں ۔ ایک مرفوع منکر اور غریب حدیث میں ہے لیکن تحقیقی بات یہ ہے کہ اس کا مرفوع ہونا ٹھیک نہیں فرماتے ہیں کہ سلیمان علیہ السلام جب نماز پڑھتے تو ایک درخت اپنے سامنے دیکھتے اس سے پوچھتے کہ تو کیسا درخت ہے تیرا نام کیا ہے ؟ ۔ وہ بتا دیتا آپ اسے اسی استعمال میں لاتے ۔ ایک مرتبہ جب نماز کو کھڑے ہوئے اور اسی طرح ایک درخت دیکھا تو پوچھا تیرا نام کیا ہے ؟ اس نے کہا ضروب ۔ پوچھا تو کس لیے ہے ؟ کہا اس گھر کو اجاڑنے کے لئے تب آپ نے دعا مانگی کہ اللہ میری موت کی خبر جنات پر ظاہر نہ ہونے دے تاکہ انسان کو یقین ہو جائے کہ جن غیب نہیں جانتے ۔ اب آپ ایک لکڑی پر ٹیک لگا کر کھڑے ہوئے اور جنات کو مشکل مشکل کام سونپ دیئے آپ کا انتقال ہو گیا لیکن لکڑی کے سہارے آپ ویسے ہی کھڑے رہے جنات دیکھتے رہے اور سمجھتے رہے کہ آپ زندہ ہیں اپنے اپنے کام میں مشغول رہے ایک سال کامل ہو گیا ۔ چونکہ دیمک آپ کی لکڑی کو چاٹ رہی تھی سال بھر گزرنے پر وہ اسے کھا گئی اور اب سلیمان علیہ السلام گر پڑے اور انسانوں نے جان لیا کہ جنات غیب نہیں جانتے ورنہ سال بھر تک اس مصیبت میں نہ رہتے ۔ لیکن اس کے ایک راوی عطا بن مسلم خراسانی کی بعض احادیث میں نکارت ہوتی ہے ۔ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ سلیمان علیہ السلام کی عادت تھی آپ سال سال دو دو سال یا کم و بیش مدت کے لئے مسجد قدس میں اعتکاف میں بیٹھ جاتے آخری مرتبہ انتقال کے وقت بھی آپ مسجد بیت المقدس میں تھے ہر صبح ایک درخت آپ کے سامنے نمودار ہوتا ۔ آپ اس سے نام پوچھتے فائدہ پوچھتے وہ بتاتا آپ اسی کام میں اسے لاتے بالآخر ایک درخت ظاہر ہوا جس نے اپنا نام ضروبہ بتایا کہا تو کس مطلب کا ہے کہا اس مسجد کے اجاڑنے کے لئے ۔ سلیمان علیہ السلام سمجھ گئے فرمانے لگے میری زندگی میں تو یہ مسجد ویران ہو گی نہیں البتہ تو میری موت اور اس شہر کی ویرانی کے لئے ہے ۔ چنانچہ آپ نے اسے اپنے باغ میں لگا دیا مسجد کی بیچ کی جگہ میں کھڑے ہو کر ایک لکڑی کے سہارے نماز شروع کر دی ۔ وہیں انتقال ہو گیا لیکن کسی کو اس کا علم نہ ہوا ۔ شیاطین سب کے سب اپنی اپنی نوکری بجا لاتے رہے کہ ایسا نہ ہو ہم ڈھیل کریں اور اللہ کے رسول علیہ السلام آ جائیں تو ہمیں سزا دیں ۔ یہ محراب کے آگے پیچھے آئے ان میں جو بڑا پاجی شیطان تھا اس نے کہا دیکھو جی اس میں آگے اور پیچھے سوراخ ہیں اگر میں یہاں سے جا کر وہاں سے نکل آؤں تو میری طاقت مانو گے یا نہیں ؟ چنانچہ وہ گیا اور نکل آیا لیکن اسے سلیمان علیہ السلام کی آواز نہ آئی ۔ دیکھ تو سکتے نہ تھے کیونکہ سلیمان علیہ السلام کی طرف نگاہ بھر کر دیکھتے ہی وہ مر جاتے تھے لیکن اس کے دل میں کچھ خیال سا گزرا اس نے پھر اور جرأت کی اور مسجد میں چلا گیا دیکھا کہ وہاں جانے کے بعد وہ نہ جلا تو اس کی ہمت اور بڑھ گئی اور اس نے نگاہ بھر کر آپ کو دیکھا تو دیکھا کہ وہ گرے پڑے ہیں اور انتقال فرما چکے ہیں اب آ کر سب کو خبر کی لوگ آئے محراب کو کھولا تو واقعی اللہ کے رسول علیہ السلام کو زندہ نہ پایا ۔ آپ کو مسجد سے نکال لائے ۔ مدت انتقال کا علم حاصل کرنے کے لئے انہوں نے لکڑی کو دیمک کے سامنے ڈال دیا ایک دن رات تک جس قدر دیمک نے اسے کھایا اسے دیکھ کر اندازہ کیا تو معلوم ہوا کہ آپ کے انتقال کو پورا سال گزر چکا ۔ تمام لوگوں کو اس وقت کامل یقین ہو گیا کہ جنات جو بنتے تھے کہ ہم غیب کی خبریں جانتے ہیں یہ محض ان کی دھونس تھی ۔ ورنہ سال بھر تک کیوں مصیبت جھیلتے رہتے ۔ اس وقت سے جنات گھن کے کیڑے کو مٹی اور پانی لا دیا کرتے ہیں گویا اس کا شکریہ ادا کرتے ہیں ۔ کہا یہ بھی تھا کہ اگر تو کچھ کھاتا پیتا ہوتا تو بہتر سے بہتر غذا ہم تجھے پہنچاتے ۔ لیکن یہ سب بنی اسرائیل کے علماء کی روایتیں ہیں ان میں جو مطابق حق ہوں قبول ۔ خلاف حق ہوں مردود دونوں سے الگ ہوں وہ نہ تصدیق کے قابل نہ تکذیب کے ۔«وَاللہُ اَعْلَمُ» زید بن اسلم رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ سلیمان علیہ السلام نے ملک الموت سے کہہ رکھا تھا کہ میری موت کا وقت مجھے کچھ پہلے بتا دینا ملک الموت نے یہی کیا تو آپ نے جنات کو بغیر دروازے کے ایک شیشے کا مکان بنانے کا حکم دیا اور اس میں ایک لکڑی پر ٹیک لگا کر نماز شروع کی یہ موت کے ڈر کی وجہ سے نہ تھا ۔ ملک الموت اپنے وقت پر آئے اور روح قبض کر کے چلے گئے ۔ پھر لکڑی کے سہارے آپ سال بھر تک اسی طرح کھڑے رہے جنات ادھر ادھر سے دیکھ کر آپ کو زندہ سمجھ کر اپنے کاموں میں آپ کی ہیبت کی وجہ سے مشغول رہے لیکن جو کیڑا آپ کی لکڑی کو کھا رہا تھا جب وہ آدھی کھا چکا تو اب لکڑی بوجھ نہ اٹھا سکی اور آپ گر پڑے جنات کو آپ کی موت کا یقین ہو گیا اور وہ بھاگ کھڑے ہوئے ۔ اور بھی بہت سے اقوال سلف سے یہ مروی ہے ۔ سبأ
15 قوم سبا کا تفصیلی تذکرہ قوم سبا یمن میں رہتی تھی ۔ تبع بھی ان میں سے ہی تھے ۔ بلقیس بھی انہی میں سے تھیں ۔ یہ بڑی نعمتوں اور راحتوں میں تھے ۔ چین آرام سے زندگی گزار رہے تھے ۔ اللہ کے رسول ان کے پاس آئے انہیں شکر کرنے کی تلقین کی ۔ رب کی وحدانیت کی طرف بلایا اس کی عبادت کا طریقہ سمجھایا ۔ کچھ زمانے تک وہ یونہی رہے لیکن پھر جب کہ انہوں نے سرتابی اور روگردانی کی احکام اللہ بےپرواہی سے ٹال دیئے تو ان پر زور کا سیلاب آیا اور تمام ملک باغات اور کھیتیاں وغیرہ تاخت و تاراج ہو گئیں ۔ جس کی تفصیل یہ ہے ۔ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ سبا کسی عورت کا نام ہے ۔ یا مرد کا یا جگہ کا ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ ایک مرد تھا جس کے دس لڑکے تھے جن میں سے چھ تو یمن میں جا بسے تھے اور چار شام میں ۔ مذحج ، کندہ ، ازد ، اشعری ، اغار ، حمیریہ یہ چھ قبیلے یمن میں ۔ نجم ، جذام ، عاملہ اور غسان یہ چار قبیلے شام میں ۔ } ۱؎ (مسند احمد:316/1:حسن) [ مسند احمد ] { فردہ بن مسیک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میں اپنی قوم میں سے ماننے والوں اور آگے بڑھنے والوں کو لے کر نہ ماننے اور پیچھے ہٹنے والوں سے لڑوں ؟ آپ نے فرمایا ہاں ۔ جب میں جانے لگا تو آپ نے مجھے بلا کر فرمایا دیکھو پہلے انہیں اسلام کی دعوت دینا نہ مانیں تب جہاد کی تیاری کرنا ۔ میں نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ سبا کس کا نام ہے ؟ تو آپ کا جواب تقریباً وہی ہے جو اوپر مذکور ہوا ۔ اس میں یہ بھی ہے کہ قبیلہ انمار میں سے بجیلہ اور خثعم بھی ہیں ۔ } ۱؎ (سنن ترمذی:3222،قال الشیخ الألبانی:۔حسن صحیح) ایک اور مطول روایت میں اس آیت کے شان نزول کے متعلق اسی کے ساتھ یہ بھی ہے کہ فردہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! جاہلیت کے زمانے میں قوم سبا کی عزت تھی مجھے اب ان کے ارتداد کا خوف ہے ۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں ان سے جہاد کروں ۔ آپ نے فرمایا ان کے بارے میں مجھے کوئی حکم نہیں دیا گیا ۔ پس یہ آیت اتری ۔ لیکن اس میں غرابت ہے اس سے تو یہ پایا جاتا ہے کہ یہ آیت مدنی ہے ، حالانکہ سورت مکیہ ہے ۔ محمد بن اسحاق سبا کا نسب نامہ اس طرح بیان کرتے ہیں عبد شمس بن العرب بن قحطان اسے سبا اس لیے کہتے ہیں کہ اس نے سب سے پہلے عرب میں دشمن کے قید کرنے کا رواج ڈالا تھا ۔ اس وجہ سے اسے رائش بھی کہتے ہیں ۔ مال کو ریش اور ریاش بھی عربی میں کہتے ہیں ۔ یہ بھی مذکور ہے کہ اس بادشاہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لانے سے پہلے ہی آپ کی پیشن گوئی کی تھی ۔ کہ ملک کا مالک ہمارے بعد ایک نبی ہو گا جو حرم کی عزت کرے گا ۔ اس کے بعد اس کے خلیفہ ہوں گے ، جن کے سامنے دنیا کے بادشاہ سرنگوں ہو جائیں گے پھر ہم میں بھی بادشاہت آئے گی اور بنو قحطان کے ایک نبی بھی ہوں گے اس نبی کا نام احمد ہو گا [ صلی اللہ علیہ وسلم ] کاش کہ میں بھی ان کی نبوت کے زمانے کو پالیتا تو ہر طرح کی خدمت کو غنیمت سمجھتا ۔ لوگو ! جب بھی اللہ کے وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ظاہر ہوں تو تم پر فرض ہے کہ ان کا ساتھ دو اور ان کے مددگار بن جاؤ ۔ اور جو بھی آپ سے ملے اس پر میری جانب سے فرض ہے کہ وہ آپ کی خدمت میں میرا سلام پہنچا دے [ اکیل ہمدانی ] قحطان کے بارے میں تین قول ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ ارم بن سام بن نوح کی نسل میں سے ہے ۔ دوسرا یہ کہ عابر یعنی ہود علیہ السلام کی نسل میں سے ہے ۔ تیسرا یہ کہ اسماعیل بن ابراہیم علیہما السلام کی نسل سے ہے ۔ اس سب کو تفصیل کے ساتھ حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ نے اپنی کتاب الابناہ میں ذکر کیا ہے ۔ بعض روایتوں میں جو آیا ہے کہ سبا عرب میں سے تھے اس کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں میں سے جن کی نسل سے عرب ہوئے ۔ ان کا نسل ابراہیمی میں سے ہونا مشہور نہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» صحیح بخاری میں ہے کہ { قبیلہ اسلم جب تیروں سے نشانہ بازی کر رہے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس سے نکلے تو آپ نے فرمایا اے اولاد اسماعیل ! تیر اندازی کئے جاؤ تمہارے والد بھی پورے تیر انداز تھے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:2899) اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ سبا کا سلسلہ نسب خلیل الرحمن علیہ السلام تک پہنچتا ہے ۔ اسلم انصار کا ایک قبیلہ تھا اور انصار سارے کے سارے غسان میں سے ہیں اور یہ سب یمنی تھے ۔ سبا کی اولاد ہیں ۔ یہ لوگ مدینے میں اس وقت آئے جب سیلاب سے ان کا وطن تباہ ہو گیا ۔ ایک جماعت یہاں آ کر بسی تھی دوسری شام چلی گئی ۔ انہیں غسانی اس لیے کہتے ہیں کہ اسی نام کی پانی والی ایک جگہ پر یہ ٹھہرے تھے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ مشلل کے قریب ہے ۔ سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے شعر سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ایک پانی والی جگہ یا اس کنویں کا نام غسان تھا ۔ یہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی دس اولادیں تھیں اس سے مراد صلبی اولادیں نہیں کیونکہ بعض بعض دو دو تین تین نسلوں بعد کے بھی ہیں ۔ جیسے کہ کتب انساب میں موجود ہے ۔ جو شام اور یمن میں جا کر آباد ہوئے یہ بھی سیلاب کے آنے کے بعد کا ذکر ہے ۔ بعض وہیں رہے بعض ادھر ادھر چلے گئے ۔ دیوار کا قصہ یہ ہے کہ ان کے دونوں جانب پہاڑ تھے ۔ جہاں سے نہریں اور چشمے بہہ بہہ کر ان کے شہروں میں آتے تھے اسی طرح نالے اور دریا بھی ادھر ادھر سے آتے تھے ان کے قدیمی بادشاہوں میں سے کسی نے ان دونوں پہاڑوں کے درمیان ایک مضبوط پشتہ بنوا دیا تھا جس دیوار کی وجہ سے پانی ادھر ادھر ہو گیا تھا ۔ اور بصورت دریا جاری رہا کرتا تھا جس کے دونوں جانب باغات اور کھیتیاں لگا دی تھیں ۔ پانی کی کثرت اور زمین کی عمدگی کی وجہ سے یہ خطہ بہت ہی زرخیز اور ہرا بھرا رہا کرتا تھا ۔ یہاں تک کہ قتادہ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ کوئی عورت اپنے سر پر جھلی رکھ کر چلتی تھی ۔ کچھ دور جانے تک پھلوں سے وہ جھلی بالکل بھر جاتی تھی ۔ درختوں سے پھل خودبخود جو جھڑتے تھے وہ اس قدر کثرت سے ہوتے تھے کہ ہاتھ سے توڑنے کی حاجت نہیں پڑتی تھی ۔ یہ دیوار مارب میں تھی صنعاء سے تین مراحل پر تھی اور سد مارب کے نام سے مشہور تھی ۔ آب و ہوا کی عمدگی ، صحت مزاج اور اعتدال عنایت الہٰیہ سے اس طرح تھا کہ ان کے ہاں مکھی ، مچھر اور زہریلے جانور بھی نہیں ہوتے تھے ۔ یہ اس لیے تھا کہ وہ لوگ اللہ کی توحید کو مانیں اور دل و جان سے اس کی خلوص کے ساتھ عبادت کریں ۔ یہ تھی وہ نشانی قدرت جس کا ذکر اس آیت میں ہے کہ دونوں پہاڑوں کے درمیان آباد بستی اور بستی کے دونوں طرف ہرے بھرے پھل دار باغات اور سرسبز کھیتیاں اور ان سے جناب باری نے فرما دیا تھا کہ اپنے رب کی دی ہوئی روزیاں کھاؤ پیو اور اس کے شکر میں لگے رہو ۔ لیکن انہوں نے اللہ کی توحید کو ، اور اس کی نعمتوں کے شکر کو بھلا دیا اور سورج کی پرستش کرنے لگے ۔ جیسے کہ ہدہد نے سلیمان علیہ السلام کو خبر دی تھی کہ «فَمَکَثَ غَیْرَ بَعِیدٍ فَقَالَ أَحَطتُ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِہِ وَجِئْتُکَ مِن سَبَإٍ بِنَبَإٍ یَقِینٍ» ۱؎ (27-النمل:22-24) الخ یعنی ’ میں تمہارے پاس سبا کی ایک پختہ خبر لایا ہوں ۔ ایک عورت ان کی بادشاہت کر رہی ہے جس کے پاس تمام چیزیں موجود ہیں عظیم الشان تخت سلطنت پر وہ متمکن ہے ۔ رانی اور رعایا سب سورج پرست ہیں ۔ شیطان نے ان کو گمراہ کر رکھا ہے ۔ بے راہ ہو رہے ہیں ‘ مروی ہے کہ بارہ یا تیرہ پیغمبر ان کے پاس آئے تھے ۔ بالاخر شامت اعمال رنگ لائی جو دیوار انہوں نے بنا رکھی تھی وہ چوہوں نے اندر سے کھوکھلی کر دی اور بارش کے زمانے میں وہ ٹوٹ گئی پانی کی ریل پیل ہو گئی ان دریاؤں کے ، چشموں کے ، بارش کے ، نالوں کے ، سب پانی آ گئے ان کی بستیاں ، ان کے محلات ، ان کے باغات اور ان کی کھیتیاں سب تباہ و برباد ہو گئیں ۔ ہاتھ ملتے رہ گئے کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی ۔ پھر تو وہ تباہی آئی کہ اس زمین پر کوئی پھلدار درخت جمتا ہی نہ تھا ۔ پیلو ، جھاؤ ، کیکر ، ببول اور ایسے ہی بےمیوہ بدمزہ بےکار درخت اگتے تھے ۔ ہاں البتہ کچھ بیریوں کے درخت اگ آئے تھے جو نسبتاً اور درختوں سے کار آمد تھے ۔ لیکن وہ بھی بہت زیادہ خار دار اور بہت کم پھل دار تھے ۔ یہ تھا ان کے کفر و شرک کی سرکشی اور تکبر کا بدلہ کہ نعمتیں کھو بیٹھے اور زحمتوں میں مبتلا ہو گئے کافروں کو یہی اور اس جیسی ہی سخت سزائیں دی جاتی ہیں ۔ ابو خیرہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں گناہوں کا بدلہ یہی ہوتا ہے کہ عبادتوں میں سستی آ جائے روز گار میں تنگی واقع ہو لذتوں میں سختی آ جائے یعنی جہاں کسی راحت کا منہ دیکھا وہاں فوراً کوئی زحمت آ پڑی اور مزہ مٹی ہو گیا ۔ سبأ
16 سبأ
17 سبأ
18 قوم سبا پر اللہ کی نعمتیں ان پر جو نعمتیں تھیں ان کا ذکر ہو رہا ہے کہ قریب قریب آبادیاں تھیں ۔ کسی مسافر کو اپنے سفر میں توشہ یا پانی ساتھ لے جانے کی ضرورت نہ تھی ۔ ہر ہر منزل پر پختہ مزے دار تازے میوے خوشگوار میٹھا پانی موجود ہر رات کو کسی بستی میں گزار لیں اور راحت و آرام امن و امان سے جائیں آئیں کہتے ہیں کہ یہ بستیاں صنعاء کے قرب و جوار میں تھیں ، باعد کی دوسری قرأت « بعدہ » ۔ اس راحت و آرام سے وہ پھول گئے اور جس طرح بنو اسرائیل نے من و سلویٰ کے بدلے لہسن ، پیاز وغیرہ طلب کیا تھا انہوں نے بھی دور دراز کے سفر طے کرنے کی چاہت کی تاکہ درمیان میں جنگل بھی آئیں غیر آباد جگہیں بھی آئیں کھانے پینے کا لطف بھی آئے ۔ قوم موسیٰ علیہ السلام کی اس طلب نے ان پر ذلت و مسکنت ڈالی اسی طرح انہیں بھی فراخی روزی کے بعد ہلاکت ملی ۔ بھوک اور خوف میں پڑے ۔ اطمینان اور امن غارت ہوا ۔ انہوں نے کفر کر کے خود اپنا بگاڑا ۔ اب ان کی کہانیاں رہ گئیں ۔ لوگوں میں ان کے افسانے رہ گئے ۔ تتر بتر ہو گئے ۔ یہاں تک کہ جو قوم تین تیرہ ہو جائے تو عرب میں انہیں سبائیوں کی مثل سناتے ہیں ۔ عکرمہ رحمہ اللہ ان کا قصہ بیان فرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان میں ایک کاہنہ اور ایک کاہن تھا جن کے پاس جنات ادھر ادھر کی خبریں لایا کرتے تھے اس کاہن کو کہیں پتہ چل گیا کہ اس بستی کی ویرانی کا زمانہ قریب آ گیا ہے اور یہاں کے لوگ ہلاک ہونے والے ہیں ۔ تھا یہ بڑا مالدار خصوصاً جائیداد بہت ساری تھی اس نے سوچا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے ان حویلیوں اور مکانات اور باغات کی نسبت کیا انتظام کرنا چاہیے ؟ آخر ایک بات اس کی سمجھ میں آ گئی اس کے سسرال کے لوگ بہت سارے تھے اور وہ قبیلہ بھی جری ہونے کے علاوہ مالدار تھا ۔ اس نے اپنے لڑکے کو بلایا اور اس سے کہا سنو ! کل لوگ میرے پاس جمع ہو جائیں گے میں تجھے کسی کام کو کہوں گا تو انکار کر دینا میں تجھے برا بھلا کہوں گا تو بھی مجھے میری گالیوں کا جواب دینا میں اٹھ کر تجھے تھپڑ ماروں گا تو بھی اس کے جواب میں مجھے تھپڑ مارنا اس نے کہا ابا جی مجھ سے یہ کیسے ہو سکے گا ؟ کاہن نے کہا تم نہیں سمجھتے ایک ایسا ہی اہم معاملہ درپیش ہے اور تمہیں میرا حکم مان لینا چاہئے ۔ اس نے اقرار کیا دوسرے دن جب کہ اس کے پاس اس کے ملنے جلنے والے سب جمع ہو گئے اس نے اپنے اس لڑکے سے کسی کام کو کہا اس نے صاف انکار کر دیا اس نے اسے گالیاں دیں تو اس نے بھی سامنے گالیاں دیں ۔ یہ غصے میں اٹھا اور اسے مارا لڑکے نے بھی پلٹ کر اسے پیٹا یہ اور غضبناک ہوا اور کہنے لگا چھری لاؤ تو میں اسے ذبح کروں گا تمام لوگ گھبرا گئے ہر چند سمجھایا لیکن یہ یہی کہتا رہا کہ میں تو اسے ذبح کروں گا لوگ دوڑے بھاگے اور لڑکے کے ننھیال والوں کو خبر کی وہ سب آ گئے اول تو منت سماجت کی منوانا چاہا لیکن یہ کب مانتا تھا انہوں نے کہا آپ اسے کوئی اور سزا دیجئے اس کے بدلے ہمیں جو جی چاہے سزا دیجئے لیکن اس نے کہا میں تو اسے لٹا کر باقاعدہ اپنے ہاتھوں سے ذبح کروں گا انہوں نے کہا ایسا آپ نہیں کر سکتے اس سے پہلے ہم آپ کو مار ڈالیں گے ۔ اس نے کہا اچھا جب یہاں تک بات پہنچ گئی ہے تو میں ایسے شہر میں نہیں رہنا چاہتا جہاں میرے اور میری اولاد کے درمیان اور لوگ پڑیں مجھ سے میرے مکانات جائیدادیں اور زمینیں خرید لو میں یہاں سے کہیں اور چلا جاتا ہوں چنانچہ اس نے سب کچھ بیچ ڈالا اور قیمت نقد وصول کر لی جب اس طرف سے اطمینان ہو گیا تو اس نے اپنی قوم کو خبر دی سنو عذاب اللہ آ رہا ہے زوال کا وقت قریب پہنچ چکا ہے اب تم میں سے جو محنت کر کے لمبا سفر کر کے نئے گھروں کا آرزو مند ہو تو وہ عمان چلا جائے اور جو کھانے پینے کا شوقین ہو وہ بصرہ چلا جائے اور جو مزیدار کھجوریں باغات میں بیٹھ کر آزادی سے کھانا چاہتا ہو وہ مدینے چلا جائے ۔ قوم کو اس کی باتوں کا یقین تھا جسے جو جگہ اور جو چیز پسند تھی وہ اسی طرف منہ اٹھائے بھاگا ۔ بعض عمان کی طرف ، بعض بصرہ کی طرف ، بعض مدینے کی طرف ۔ اس طرف تین قبیلے چلے تھے ۔ اوس اور خزرج اور بنو عثمان جب یہ لوگ بطن مر میں پہنچے تو بنو عثمان نے کہا ہمیں یہ جگہ بہت پسند ہے اب ہم آگے نہیں جائیں گے ۔ چنانچہ یہ یہیں بس گئے اور اسی وجہ سے انہیں خزاعہ کہا گیا ۔ کیونکہ وہ اپنے ساتھیوں سے پیچھے رہ گئے اور اوس و خزرج برابر مدینے پہنچے اور یہاں آ کر قیام کیا ۔ یہ اثر بھی عجیب و غریب ہے ۔ جس کاہن کا اس میں ذکر ہے اس کا نام عمرو بن عامر ہے یہ یمن کا ایک سردار تھا اور سبا کے بڑے لوگوں میں سے تھا اور ان کا کاہن تھا ۔ سیرۃ ابن اسحاق میں ہے کہ سب سے پہلے یہی یمن سے نکلا تھا اس لیے کہ سد مارب کو کھوکھلا کرتے ہوئے اس نے چوہوں کو دیکھ لیا تھا اور سمجھ لیا تھا کہ اب یمن کی خیر نہیں ۔ یہ دیوار گری اور سیلاب سب تہ و بالا کرے گا تو اس نے اپنے سب سے چھوٹے لڑکے کو وہ مکر سکھایا جس کا ذکر اوپر گزرا اس وقت اس نے غصے میں کہا کہ میں ایسے شہر میں رہنا پسند نہیں کرتا میں اپنی جائیدادیں اور زمینیں اسی وقت بیچتا ہوں لوگوں نے کہا عمرو کے اس غصے کو غنیمت جانو چنانچہ سستا مہنگا سب کچھ بیچ ڈالا اور فارغ ہو کر چل پڑا قبیلہ اسد بھی اس کے ساتھ ہو لیا راستے میں عکہ ان سے لڑے برابر برابر کی لڑائی رہی ۔ جس کا ذکر عباس بن مرداس اسلمی کے شعروں میں بھی ہے ۔ پھر یہ یہاں سے چل کر مختلف شہروں میں پہنچ گئے ۔ آل جفتہ بن عمرو بن عامر شام میں گئے اوس و خزرج مدینے میں خزاعہ مرمیں ، از مراۃ سراۃ میں ۔ ازد عمان عمان میں یہاں سیلاب آیا جس نے مارب کے بند کو توڑ دیا ۔ سدی نے اس قصے میں بیان کیا ہے کہ اس نے اپنے مقابلے کے لیے اپنے بیٹے کو نہیں بلکہ اپنے بھتیجے کو کہا تھا ۔ بعض اہل علم کا بیان ہے کہ اس کی عورت جس کا نام طریفہ تھا اس نے اپنی کہانت سے یہ بات معلوم کر کے سب کو بتائی تھی ۔ اور روایت میں ہے کہ عمان میں غسانی اور ازد بھی ہلاک کر دیئے گئے ۔ میٹھے اور ٹھنڈے پانی کی ریل پیل پھلوں اور کھیتوں کی بےشمار روزی کے باوجود سیل عرم سے یہ حالت ہو گئی کہ ایک ایک لقمے کو اور ایک بوند پانی کو ترس گئے یہ پکڑ اور عذاب یہ تنگی اور سزا جو انہیں پہنچی اس سے ہر صابر و شاکر عبرت حاصل کر سکتا ہے کہ اللہ کی نافرمانیاں کس طرح انسان کو گھیر لیتی ہیں عافیت کو ہٹا کر آفت کو لے آتی ہیں ۔ مصیبتوں پر صبر ، نعمتوں پر شکر کرنے والے اس پر دلائل قدرت پائیں گے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { اللہ تعالیٰ نے مومن کے لیے تعجب ناک فیصلہ کیا ہے اگر اسے راحت ملے اور یہ شکر کرے تو اجر پائے ۔ اور اگر اسے مصیبت پہنچے اور صبر کرے تو اجر پائے ۔ غرض مومن کو ہر حالت پر اجر و ثواب ملتا ہے اس کا ہر کام نیک ہے ۔ یہاں تک کہ محبت کے ساتھ جو لقمہ اٹھا کر یہ اپنی بیوی کے منہ میں دے اس پر بھی اسے ثواب ملتا ہے ۔ } ۱؎ (مسند احمد:177/1:حسن) [ مسند احمد ] بخاری و مسلم میں ہے آپ فرماتے ہیں { تعجب ہے کہ مومن کے لیے اللہ تعالیٰ کی ہر قضا بھلائی کے لیے ہوتی ہے اگر اسے راحت اور خوشی پہنچتی ہے تو شکر کر کے بھلائی حاصل کرتا ہے اور اگر برائی اور غم پہنچتا ہے تو یہ صبر کرتا ہے اور بدلہ حاصل کرتا ہے ۔ یہ نعمت تو صرف مومن کو ہی حاصل ہے کہ جس کی ہر حالت بہتری اور بھلائی والی ہے ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:2999) مطرف رحمہ اللہ فرماتے ہیں صبر و شکر کرنے والا بندہ کتنا ہی اچھا ہے کہ جب نعمت اسے ملے تو شکر کرے اور جب زحمت پہنچے تو صبر کرے ۔ سبأ
19 سبأ
20 ابلیس اور اس کا عزم سبا کے قصے کے بیان کے بعد شیطان کے اور مریدوں کا عام طور پر ذکر فرماتا ہے کہ وہ ہدایت کے بدلے ضلالت بھلائی کے بدلے برائی لے لیتے ہیں ۔ ابلیس نے راندہ درگاہ ہو کر جو کہا تھا کہ میں ان کی اولاد کو ہر طرح برباد کرنے کی کوشش کروں گا اور تھوڑی سی جماعت کے سوا باقی سب لوگوں کو تیری سیدھی راہ سے بھٹکا دوں گا ۔ اس نے یہ کر دکھایا اور اولاد آدم کو اپنے پنجے میں پھانس لیا ۔ جب آدم اور حوا علیہم السلام اپنی خطا کی وجہ سے جنت سے اتار دیئے گئے اور ابلیس لعین بھی ان کے ساتھ اترا اس وقت وہ بہت خوش تھا اور جی میں اترا رہا تھا کہ جب انہیں میں نے بہکا لیا تو ان کی اولاد کو تباہ کر دینا تو میرے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔ اس خبیث کا قول تھا کہ میں ابن آدم کو سبز باغ دکھاتا رہوں گا غفلت میں رکھوں گا ۔ طرح طرح سے دھوکے دوں گا اور اپنے جال میں پھنسائے رکھوں گا ۔ جس کے جواب میں جناب باری جل جلالہ نے فرمایا تھا مجھے بھی اپنی عزت کی قسم موت کے غرغرے سے پہلے جب کبھی وہ توبہ کرے گا میں فوراً قبول کر لوں گا ۔ وہ مجھے جب پکارے گا میں اس کی طرف متوجہ ہو جاؤں گا ۔ مجھ سے جب کبھی جو کچھ مانگے گا میں اسے دوں گا مجھ سے جب وہ بخشش طلب کرے گا میں اسے بخش دوں گا ۔ [ ابن ابی حاتم ] اس کا کوئی غلبہ ، حجت ، زبردستی ، مار پیٹ انسان پر نہ تھی ۔ صرف دھوکہ ، فریب اور مکر بازی تھی جس میں یہ سب پھنس گئے ۔ اس میں حکمت الٰہی یہ تھی کہ مومن و کافر ظاہر ہو جائیں ۔ حجت اللہ ختم ہو جائے آخرت کو ماننے والے شیطان کی نہیں مانیں گے ۔ اس کے منکر رحمان کی اتباع نہیں کریں گے ۔ اللہ ہر چیز پر نگہبان ہے مومنوں کی جماعت اس کی حفاظت کا سہارا لیتی ہے اس لیے ابلیس ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا ۔ اور کافروں کی جماعت خود اللہ کو چھوڑ دیتی ہے اس لیے ان پر سے اللہ کی نگہبانی ہٹ جاتی ہے اور وہ شیطان کے ہر فریب کا شکار بن جاتے ہیں ۔ سبأ
21 سبأ
22 وحدہ لا شریک بیان ہو رہا ہے کہ اللہ اکیلا ہے ، واحد ہے ، احد ہے ، فرد ہے ، صمد ہے ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہ بےنظیر ، لاشریک اور بےمثل ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں ، ساتھی نہیں ، مشیر نہیں ، وزیر نہیں ، مددگار و پیشی بان نہیں ۔ پھر ضد کرنے والا اور خلاف کرنے والا کہاں ؟ جن جن کو پکارا کرتے ہو پکار کر دیکھ لو معلوم ہو جائے گا کہ ایک ذرے کے بھی مختار نہیں ۔ محض بےبس اور بالکل محتاج و عاجز ہیں ، نہ زمینوں میں ان کی کچھ چلے نہ آسمانوں میں ۔ جیسے اور آیت میں ہے «وَالَّذِینَ تَدْعُونَ مِن دُونِہِ مَا یَمْلِکُونَ مِن قِطْمِیرٍ» ۱؎ (35-فاطر:13) کہ ’ وہ ایک کھجور کے چھلکے کے بھی مالک نہیں ‘ اور یہی نہیں کہ انہیں خود اختیار حکومت نہ ہو نہ سہی شرکت کے طور پر ہی ہو نہیں شرکت کے طور پر بھی نہیں ۔ نہ اللہ تعالیٰ ان سے اپنے کسی کام میں مدد لیتا ہے ۔ بلکہ یہ سب کے سب فقیر محتاج ہیں اس کے در کے غلام اور اس کے بندے ہیں ، ۔ سبأ
23 اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی اس کی عظمت و کبریائی عزت و بڑائی ایسی ہے کہ بغیر اس کی اجازت کے کسی کی جرات نہیں کہ اس کے سامنے کسی کی سفارش کے لیے بھی لب ہلا سکے ۔ جیسے فرمان ہے «مَن ذَا الَّذی یَشفَعُ عِندَہُ إِلّا بِإِذنِہِ» ۱؎ (2-البقرۃ:255) ’ کون ہے ؟ جو اس کے سامنے کسی کی شفاعت بغیر اس کی رضا مندی کے بغیر کر سکے ‘ اور آیت میں ہے «وَکَمْ مِّنْ مَّلَکٍ فِی السَّمٰوٰتِ لَا تُغْـنِیْ شَفَاعَتُہُمْ شَـیْــــًٔا اِلَّا مِنْ بَعْدِ اَنْ یَّاْذَنَ اللّٰہُ لِمَنْ یَّشَاءُ وَیَرْضٰی» ۱؎ (53-النجم:26) الخ ، یعنی ’ آسمانوں کے کل فرشتے بھی اس کے سامنے کسی کی سفارش کے لیے لب ہلا نہیں سکتے مگر جس کے لیے اللہ اپنی رضا مندی سے اجازت دے دے ۔ ‘ ایک اور جگہ فرمان ہے «وَلَا یَشْفَعُوْنَ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰی وَہُمْ مِّنْ خَشْیَتِہٖ مُشْفِقُوْنَ» ۱؎ (21-الأنبیاء:28) الخ ، ’ وہ لوگ صرف ان کی شفاعت کر سکتے ہیں جن کے لیے اللہ کی رضا مندی ہو وہ تو خود ہی اس کے خوف سے تھرا رہے ہیں ۔ ‘ تمام اولاد آدم کے سردار سب سے بڑے شفیع اور سفارشی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی قیامت کے دن مقام محمود میں شفاعت کے لیے تشریف لے جائیں گے کہ اللہ تعالیٰ آئے اور مخلوق کے فیصلے کرے اس وقت کی نسبت آپ فرماتے ہیں { میں اللہ کے سامنے سجدے میں گر پڑوں گا اللہ ہی جانتا ہے کہ کب تک سجدے میں پڑا رہوں گا اس سجدے میں اس قدر اپنے رب کی تعریفیں بیان کروں گا ۔ کہ اس وقت تو وہ الفاظ بھی مجھے معلوم نہیں ۔ پھر مجھ سے کہا جائے گا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! اپنا سر اٹھایئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بات کیجئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سنی جائے گی آپ صلی اللہ علیہ وسلم مانگئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا جائے گا ۔ آپ شفاعت کیجئے قبول کی جائے گی ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:7410) رب کی عظمت کا ایک مقام بیان ہو رہا ہے کہ جب وہ اپنی وحی میں کلام کرتا ہے اور آسمانوں کے مقرب فرشتے اسے سنتے ہیں تو ہیبت سے کانپ اٹھتے ہیں اور غشی والے کی طرح ہو جاتے ہیں جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ ہٹ جاتی ہے ۔ « فزع » کی دوسری قرأت « فزغ » بھی آئی ہے مطلب دونوں کا ایک ہے ۔ تو اب آپس میں ایک دوسرے سے دریافت کرتے ہیں کہ اس وقت رب کا کیا حکم نازل ہوا ؟ پس اہل عرش اپنے پاس والوں کو وہ اپنے پاس والوں کو یونہی درجہ بدرجہ حکم پہنچا دیتے ہیں ۔ بلا کم و کاست ٹھیک ٹھیک اسی طرح پہنچا دیتے ہیں ۔ ایک مطلب اس آیت کا یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ جب سکرات کا وقت آتا ہے ۔ اس وقت مشرک یہ کہتے ہیں اور قیامت کے دن بھی جب اپنی غفلت سے چونکیں گے اور ہوش و حواس قائم ہو جائیں گے اس وقت یہ کہیں گے کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا ؟ جواب ملے گا کہ حق فرمایا ، حق فرمایا اور جس چیز سے دنیا میں بےفکر تھے آج اس کے سامنے پیش کر دی جائے گی ۔ تو دلوں سے گھبراہٹ دور کئے جانے کے یہ معنی ہوئے کہ جب آنکھوں پر سے پردہ اٹھا دیا جائے گا اس وقت سب شک و تکذیب الگ ہو جائیں گے ۔ شیطانی وساوس دور ہو جائیں گے اس وقت رب کے وعدوں کی حقانیت تسلیم کریں گے اور اس کی بلندی اور بڑائی کے قائل ہوں گے ۔ پس نہ تو موت کے وقت کا اقرار نفع دے نہ قیامت کے میدان کا اقرار فائدہ پہنچائے لیکن امام ابن جریر رحمہ اللہ کے نزدیک پہلی تفسیر ہی راجح ہے یعنی مراد اس سے فرشتے ہیں ۔ اور یہی ٹھیک ہے اور اس کی تائید احادیث و آثار سے بھی ہوتی ہے ۔ صحیح بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر کے موقعہ پر ہے کہ { جب اللہ تعالیٰ کسی امر کا فیصلہ آسمان میں کرتا ہے تو فرشتے عاجزی کے ساتھ اپنے پر جھکا لیتے ہیں اور رب کا کلام ایسا واقع ہوتا ہے جیسے اس زنجیر کی آواز جو پتھر پر بجائی جاتی ہو جب ہیبت کم ہو جاتی ہے ۔ تو پوچھتے ہیں کہ تمہارے رب نے اس وقت کیا فرمایا ؟ جواب ملتا ہے کہ جو فرمایا حق ہے اور وہ اعلی و کبیر ہے ۔ بعض مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ جو جنات فرشتوں کی باتیں سننے کی غرض سے گئے ہوئے ہیں اور جو تہہ بہ تہہ ایک دوسروں کے اوپر ہیں وہ کوئی کلمہ سن لیتے ہیں اوپر والا نیچے والے کو وہ اپنے سے نیچے والے کو سنا دیتا ہے اور وہ کاہنوں کے کانوں تک پہنچا دیتے ہیں ان کے پیچھے فوراً ان کے جلانے کو آگ کا شعلہ لپکتا ہے لیکن کبھی کبھی تو وہ اس کے آنے سے پہلے ہی ایک دوسرے کو پہنچا دیتا ہے اور کبھی پہنچانے سے پہلے ہی جلا دیا جاتا ہے ۔ کاہن اس ایک کلمے کے ساتھ سو جھوٹ ملا کر لوگوں میں پھیلاتا ہے ۔ وہ ایک بات سچی نکلتی ہے لوگ اس کے مرید بن جاتے ہیں کہ دیکھو یہ بات اس کے کہنے کے مطابق ہی ہوئی ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:4701) مسند احمد میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک ستارہ ٹوٹا اور زبردست روشنی ہو گئی ۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ جاہلیت میں تمہارا خیال ان ستاروں کے ٹوٹنے کی نسبت کیا تھا ؟ انہوں نے کہا ہم اس موقعہ پر سمجھتے تھے کہ یا تو کوئی بہت بڑا آدمی پیدا ہوا یا مرا ۔ زہری رحمہ اللہ سے سوال ہوا کہ کیا جاہلیت کے زمانے میں بھی ستارے جھڑتے تھے ؟ کہا ہاں لیکن کم ۔ آپ کی بعثت کے زمانے سے ان میں بہت زیادتی ہو گئی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا { سنو ! انہیں کسی کی موت و حیات سے کوئی واسطہ نہیں ۔ بات یہ ہے کہ جب ہمارا رب تبارک و تعالیٰ کسی امر کا آسمانوں میں فیصلہ کرتا ہے تو حاملان عرش اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں پھر ساتویں آسمان والے پھر چھٹے آسمان والے یہاں تک کہ یہ تسبیح آسمان دنیا تک پہنچتی ہے ۔ پھر عرش کے آس پاس کے فرشتے عرش کو اٹھانے والے فرشتوں سے پوچھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کیا فرمایا ؟ وہ انہیں بتاتے ہیں پھر ہر نیچے والا اوپر والے سے دریافت کرتا ہے اور وہ اسے بتاتا ہے یہاں تک کہ آسمان اول والوں کو خبر پہنچتی ہے ۔ کبھی اچک لے جانے والے جنات اسے سن لیتے ہیں تو ان پر یہ ستارے جھڑتے ہیں تاہم جو بات اللہ کو پہنچانی منظور ہوتی ہے اسے وہ لے اڑتے ہیں اور اس کے ساتھ بہت کچھ باطل اور جھوٹ ملا کر لوگوں میں شہرت دیتے ہیں ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:2229) no tafseer ابن ابی حاتم میں ہے اللہ تعالیٰ جب اپنے کسی امر کی وحی کرتا ہے تو آسمان مارے خوف سے کپکپا اٹھتے ہیں اور فرشتے ہیبت زدہ ہو کر سجدے میں گر پڑتے ہیں ۔ سب سے پہلے جبرائیل علیہ السلام سر اٹھاتے ہیں اور اللہ کا فرمان سنتے ہیں پھر ان کی زبانی فرشتے سنتے ہیں اور وہ کہتے جاتے ہیں کہ اللہ نے حق فرمایا وہ بلندی اور بڑائی والا ہے ۔ یہاں تک کہ وہ اللہ کا امین فرشتہ جس کی طرف ہو اسے پہنچا دیتا ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما اور قتادہ رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ یہ اس وحی کا ذکر ہے جو عیسیٰ علیہ السلام کے بعد نبیوں کے نہ ہونے کے زمانے میں بند ہو کر پھر ابتداء ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس ابتدائی وحی کے بھی اس آیت کے تحت میں داخل ہونے میں کوئی شک نہیں لیکن آیت اس کو اور سب کو شامل ہے ۔ سبأ
24 اللہ عزوجل کی صفات اللہ تعالیٰ اس بات کو ثابت کر رہا ہے کہ صرف وہی خالق و رازق ہے اور صرف وہی الوہیت والا ہے ۔ جیسے ان لوگوں کو اس کا اقرار ہے کہ آسمان سے بارشیں برسانے والا زمینوں سے اناج اگانے والا صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے ایسے ہی انہیں یہ بھی مان لینا چاہئے کہ عبادت کے لائق بھی فقط وہی ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ جب ہم تم میں اتنا بڑا اختلاف ہے تو لامحالہ ایک ہدایت پر اور دوسرا ضلالت پر ہے یہ نہیں ہو سکتا کہ دونوں فریق ہدایت پر ہوں یا دونوں ضلالت پر ہوں ۔ ہم موحد ہیں اور توحید کے دلائل کھلم کھلا اور واضح ہم بیان کر چکے ہیں اور تم شرک پر ہو جس کی دلیل تمہارے پاس نہیں ۔ پس یقیناً ہم ہدایت پر اور یقیناً تم ضلالت پر ہو ۔ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکوں سے یہی کہا تھا کہ ہم فریقین میں سے ایک ضرور سچا ہے ۔ کیونکہ اس قدر تضاد و تباین کے بعد دونوں کا سچا ہونا تو عقلاً محال ہے ۔ اس آیت کے ایک معنی یہ بھی بیان کئے گئے ہیں کہ ہم ہی ہدات پر اور تم ضلالت پر ہو ، ہمارا تمہارا بالکل کوئی تعلق نہیں ۔ ہم تم سے اور تمہارے اعمال سے بری الذمہ ہیں ۔ ہاں جس راہ ہم چل رہے ہیں اسی راہ پر تم بھی آ جاؤ تو بیشک تم ہمارے ہو اور ہم تمہارے ہیں ورنہ ہم تم میں کوئی تعلق نہیں ۔ اور ایک آیت میں بھی ہے کہ اگر یہ تجھے جھٹلائیں تو کہہ دے کہ میرا عمل میرے ساتھ ہے اور تمہارا عمل تمہارے ساتھ ہے ، تم میرے اعمال سے چڑتے ہو اور میں تمہارے کرتوت سے بیزار ہوں ۔ سورۃ «قُلْ یَا أَیٰہَا الْکَافِرُونَ ١ لَا أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ ٢ وَلَا أَنتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ ٣ وَلَا أَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدتٰمْ ٤ وَلَا أَنتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ ٥ لَکُمْ دِینُکُمْ وَلِیَ دِینِ ٦» ۱؎ (109-الکافرون:1) الخ ، میں بھی اسی بےتعلقی اور برات کا ذکر ہے ، رب العالمین تمام عالم کو میدان قیامت میں اکٹھا کر کے سچے فیصلے کر دے گا ۔ نیکوں کو ان کی جزا اور بدوں کو ان کی سزا دے گا ۔ اسی دن تمہیں ہماری حقانیت و صداقت معلوم ہو جائے گی ۔ جیسے ارشاد ہے «وَیَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ یَوْمَیِٕذٍ یَّتَفَرَّقُوْنَ» ۱؎ (30-الروم:14-16) الخ ، ’ قیامت کے دن سب جدا جدا ہو جائیں گے ۔ ایماندار جنت کے پاک باغوں میں خوش وقت و فرحان ہوں گے اور ہماری آیتوں اور آخرت کے دن کو جھٹلانے والے ، کفر کرنے والے ، دوزخ کے گڑھوں میں حیران و پریشان ہوں گے ۔ ‘ وہ حاکم و عادل ہے ، حقیقت کا پورا علم ہے ، تم اپنے ان معبودوں کو ذرا مجھے بھی تو دکھاؤ ۔ لیکن کہاں سے ثبوت دے سکو گے ۔ جبکہ میرا رب لانظیر ، بےشریک اور عدیم المثیل ہے ، وہ اکیلا ہے ، وہ ذی عزت ہے جس نے سب کو اپنے قبضے میں کر رکھا ہے اور ہر ایک پر غالب آ گیا ہے ۔ حکیم ہے اپنے اقوال و افعال میں ۔ اس طرح شریعت اور تقدیر میں بھی ۔ برکتوں والا بلندیوں والا پاک منزہ اور مشرکوں کی تمام تہمتوں سے الگ ہے ۔ سبأ
25 سبأ
26 سبأ
27 سبأ
28 تمام اقوام کے لئے نبوت اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے فرما رہا ہے کہ ہم نے تجھے تمام کائنات کی طرف اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے ۔ جیسے اور جگہ ہے «قُلْ یٰٓاَیٰھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعَا» ۱؎ (7-الأعراف:158) یعنی ’ اعلان کر دو کہ اے لوگو ! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں ۔ ‘ اور آیت میں ہے «تَبٰرَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہٖ لِیَکُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرَا» ۱؎ (25-الفرقان:1) ’ بابرکت ہے وہ اللہ جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل فرمایا تاکہ وہ تمام جہاں کو ہوشیار کر دے ‘ یہاں بھی فرمایا ” کہ اطاعت گزاروں کو بشارت جنت دے اور نافرمانوں کو خبر جہنم ۔ لیکن اکثر لوگ اپنی جہالت سے نبی کی نبوت کو نہیں مانتے “ جیسے فرمایا «وَمَآ اَکْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِیْنَ» ۱؎ (12-یوسف:103) ’ گو تو ہر چند چاہے تاہم اکثر لوگ بے ایمان رہیں گے ۔ ‘ ایک اور جگہ ارشاد ہوا اگر بڑی جماعت کی بات مانے گا تو وہ خود تجھے راہ راست سے ہٹا دیں گے ۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت عام لوگوں کی طرف ہے ۔ عرب و عجم سب کی طرف سے اللہ کو زیادہ پیارا وہ ہے جو سب سے زیادہ اس کا تابع فرمان ہو ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آسمان والوں اور نبیوں پر غرض سب پر فضیلت دی ہے ۔ لوگوں نے اس کی دلیل دریافت کی تو آپ نے فرمایا دیکھو قرآن فرماتا ہے کہ ہر رسول کو اس کی قوم کی زبان کے ساتھ بھیجا ۔ تاکہ وہ اس میں کھلم کھلا تبلیغ کر دے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت فرماتا ہے کہ ہم نے تجھے عام لوگوں کی طرف اپنا رسول صلی اللہ علیہ وسلم بنا کر بھیجا ۔ بخاری و مسلم میں فرمان رسالت مآب ہے کہ { مجھے پانچ صفتیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں ۔ مہینہ بھر کی راہ تک میری مدد صرف رعب سے کی گئی ہے ۔ میرے لیے ساری زمین مسجد اور پاک بنائی گئی ہے ۔ میری امت میں سے جس کسی کو جس جگہ نماز کا وقت آ جائے وہ اسی جگہ نماز پڑھ لے ۔ مجھ سے پہلے کسی نبی کے لیے غنیمت کا مال حلال نہ تھا میرے لیے غنیمت حلال کر دی گئی ۔ مجھے شفاعت دی گئی ۔ ہر نبی صرف اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا ۔ اور میں تمام لوگوں کی طرف بھیجا گیا ہوں ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:3521) اور حدیث میں ہے { سیاہ و سرخ سب کی طرف میں نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:3) یعنی جن و انس ، عرب و عجم کی طرف ، پھر کافروں کا قیامت کو محال ماننا بیان ہو رہا ہے کہ پوچھتے ہیں قیامت کب آئے گی ؟ جیسے اور جگہ ہے بے ایمان تو اس کی جلدی مچا رہے ہیں اور با ایمان اس سے کپکپا رہے ہیں اور اسے حق جانتے ہیں ۔ ۱؎ (42-الشوری:18) جواب دیتا ہے کہ تمہارے لیے وعدے کا دن مقرر ہو چکا ہے جس میں تقدیم و تاخیر کمی و زیادتی ناممکن ہے ۔ جیسے فرمان ہے «اِنَّ اَجَلَ اللّٰہِ اِذَا جَاءَ لَا یُؤَخَّرُ ۘ لَوْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ» ۱؎ (71-نوح:4) اور فرمایا «وَمَا نُؤَخِّرُہٗٓ اِلَّا لِاَجَلٍ مَّعْدُوْدٍ» ۱؎ (11-ہود:104-105) الخ یعنی ’ وہ مقررہ وقت پیچھے ہٹنے کا نہیں ۔ تمہیں اس وقت مقررہ وقت تک ڈھیل ہے جب وہ دن آ گیا پھر تو کوئی لب بھی نہ ہلا سکے گا ۔ اس دن بعض نیک بخت ہوں گے اور بعض بدبخت ۔ ‘ سبأ
29 سبأ
30 سبأ
31 کافروں کی سرکشی کافروں کی سرکشی اور باطل کی ضد کا بیان ہو رہا ہے کہ انہوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ گو قرآن کی حقانیت کی ہزارہا دلیلیں دیکھ لیں لیکن نہیں مانیں گے بلکہ اس سے اگلی کتاب پر بھی ایمان نہیں لائیں گے ۔ انہیں اپنے اس قول کا مزہ اس وقت آئے گا جب اللہ کے سامنے جہنم کے کنارے کھڑے کھڑے چھوٹے بڑوں کو بڑے چھوٹوں کو الزام دیں گے ۔ ہر ایک دوسرے کو قصوروار ٹھہرائے گا ۔ تابعدار اپنے سرداروں سے کہیں گے کہ تم ہمیں نہ روکتے تو ہم ضرور ایمان لائے ہوئے ہوتے ان کے بزرگ انہیں جواب دیں گے کہ کیا ہم نے تمہیں روکا تھا ؟ ہم نے ایک بات کہی تم جانتے تھے کہ یہ سب بےدلیل ہے ۔ دوسری جانب سے دلیلوں کی برستی ہوئی بارش تمہاری آنکھوں کے سامنے تھی پھر تم نے اس کی پیروی چھوڑ کر ہماری کیوں مان لی ؟ یہ تو تمہاری اپنی بےعقلی تھی ۔ تم خود شہوت پرست تھے ۔ تمہارے اپنے دل اللہ کی باتوں سے بھاگتے تھے رسولوں کی تابعداری خود تمہاری طبیعتوں پر شاق گزرتی تھی ۔ سارا قصور تمہارا اپنا ہی ہے ہمیں کیا الزام دے رہے ہو ؟ اپنے بزرگوں کی مان لینے والے یہ بےدلیل انہیں پھر جواب دیں گے کہ تمہاری دن رات کی دھوکے بازیاں ، جعل سازیاں ، فریب کاریاں ہمیں اطمینان دلاتیں کہ ہمارے افعال اور عقائد ٹھیک ہیں ہم سے بار بار شرک و کفر کے نہ چھوڑنے پرانے دین کے نہ بدلنے باپ دادوں کی روش پر قائم رہنے کو کہنا ہماری کمر تھپکنا ۔ ہماے ایمان سے رک جانے کا یہی سبب ہوا ۔ تم ہی آ آ کر ہمیں عقلی ڈھکوسلے سنا کر اسلام سے روگرداں کرتے تھے ۔ دونوں الزام بھی دیں گے ۔ برأت بھی کریں گے لیکن دل میں اپنے کئے پر پچھتا رہے ہوں گے ۔ ان سب کے ہاتھوں کو گردن سے ملا کر طوق و زنجیر سے جکڑ دیا جائے گا ۔ اب ہر ایک کو اس کے اعمال کے مطابق بدلہ ملے گا گمراہ کرنے والوں کو بھی اور گمراہ ہونے والوں کو بھی ۔ ہر ایک کو پورا پورا عذاب ہو گا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { جہنمی جب ہنکا کر جہنم کے پاس پہنچائے جائیں گے تو جہنم کے ایک ہی شعلے کی لپٹ سے سارے جسم کا گوشت جھلس کر پیروں پر آ پڑے گا ۔ } ۱؎ (میزان:327/2:ضعیف) [ ابن ابی حاتم ] حسن بن یحییٰ خشنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جہنم کے ہر قید خانے ، ہر غار ، ہر زنجیر ، ہر قید ، پر جہنمی کا نام لکھا ہوا ہے جب سلیمان درانی رحمہ اللہ کے سامنے یہ بیان ہوا تو آپ بہت روئے اور فرمانے لگے ہائے ہائے پھر کیا حال ہو گا اس کا جس پر یہ سب عذاب جمع ہو جائیں ؟ ۔ پیروں میں بیڑیاں ہوں ، ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ہوں ، گردن میں طوق ہوں پھر جہنم کے غار میں دھکیل دیا جائے ۔ اللہ تو بچانا پروردگار تو ہمیں سلامت رکھنا ۔ « اللھم سلم اللھم سلم» سبأ
32 سبأ
33 سبأ
34 نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تسلیاں اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتا ہے اور اگلے پیغمبروں کی سی سیرت رکھنے کو فرماتا ہے فرماتا ہے کہ جس بستی میں جو رسول گیا اس کا مقابلہ ہوا ۔ بڑے لوگوں نے کفر کیا ۔ ہاں غرباء نے تابعداری کی جیسے کہ قوم نوح نے اپنے نبی سے کہا تھا «قَالُـوْٓا اَنُؤْمِنُ لَکَ وَاتَّبَعَکَ الْاَرْذَلُوْنَ» ۱؎ (26-الشعراء:111) الخ ، ’ ہم تجھ پر کیسے ایمان لائیں ؟ تیرے ماننے والے تو سب نیچے درجے کے لوگ ہیں ۔ ‘ یہی مضمون دوسری آیت «وَمَا نَرٰیکَ اتَّبَعَکَ اِلَّا الَّذِیْنَ ہُمْ اَرَاذِلُـنَا بَادِیَ الرَّاْیِ» ۱؎ (11-ہود:27) الخ ، میں ہے قوم صالح کے متکبر لوگ ضعیفوں سے کہتے تھے «اَتَعْلَمُوْنَ اَنَّ صٰلِحًا مٰرْسَلٌ مِّنْ رَّبِّہٖ قَالُوْٓا اِنَّا بِمَآ اُرْسِلَ بِہٖ مُؤْمِنُوْنَ» ۱؎ (7-الأعراف:75) الخ ’ کیا تمہیں صالح کے نبی ہونے کا یقین ہے ؟ انہوں نے کہا ہاں ہم تو مومن ہیں ۔ تو متکبرین نے صاف کہا کہ ہم نہیں مانتے ۔ ‘ اور آیت میں ہے «وَکَذٰلِکَ فَتَنَّا بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ لِّیَقُوْلُوْٓا اَہٰٓؤُلَاءِ مَنَّ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِّنْ بَیْنِنَا اَلَیْسَ اللّٰہُ بِاَعْلَمَ بالشّٰکِرِیْنَ» ۱؎ (6-الأنعام:53) الخ ، یعنی ’ اسی طرح ہم نے ایک کو دوسرے سے فتنے میں ڈالا تاکہ وہ کہیں کیا یہی لوگ ہیں جن پر اللہ نے ہم سب میں سے احسان کیا ۔ کیا اللہ شکر گزاروں کو جاننے والا نہیں ؟ ‘ اور فرمایا ہر بستی میں وہاں کے بڑے لوگ مجرم اور مکار ہوتے ہیں اور فرمان ہے «وَاِذَآ اَرَدْنَآ اَنْ نٰہْلِکَ قَرْیَۃً اَمَرْنَا مُتْرَفِیْہَا فَفَسَقُوْا فِیْہَا فَحَقَّ عَلَیْہَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنٰہَا تَدْمِیْرًا» ۱؎ (17-الإسراء:16) الخ ، ’ جب کسی بستی کی ہلاکت کا ہم ارادہ کرتے ہیں تو اس کے سرکش لوگوں کو کچھ احکام دیتے ہیں وہ نہیں مانتے پھر ہم انہیں ہلاک کر دیتے ہیں ۔ ‘ پس یہاں بھی فرماتا ہے کہ ہم نے جس بستی میں کوئی نبی اور رسول بھیجا ہے وہاں کے جاہ و حشمت ، شان و شوکت والے رئیسوں ، امیروں ، سرداروں اور بڑے لوگوں نے جھٹ اپنے کفر کا اعلان کر دیا ۔ ابن ابی حاتم میں ہے { ابورزین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ دو شخص آپس میں شریک تھے ایک تو سمندر پار چلا گیا ، ایک وہیں رہا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو اس نے اپنے ساتھی سے لکھ کر دریافت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے ؟ اس نے جواب میں لکھا کہ گرے پڑے لوگوں نے اس کی بات مانی ہے ۔ شریف قریشیوں نے اس کی اطاعت نہیں کی ۔ اس خط کو پڑھ کر وہ اپنی تجارت چھوڑ چھاڑ کر سفر کر کے اپنے شریک کے پاس پہنچا ۔ یہ پڑھا لکھا آدمی تھا ، کتابوں کا اسے علم حاصل تھا ۔ اس سے پوچھا کہ بتاؤ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہاں ہیں ؟ معلوم کر کے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا آپ سے پوچھا کہ آپ لوگوں کو کس چیز کی طرف بلاتے ہیں ؟ { آپ نے اسلام کے ارکان اس کے سامنے بیان فرمائے ۔ وہ اسے سنتے ہی ایمان لے آیا ۔ آپ نے فرمایا تمہیں اس کی تصدیق کیونکر ہو گئی ؟ اس نے کہا اس بات سے کہ تمام انبیاء کے ابتدائی ماننے والے ہمیشہ ضعیف مسکین لوگ ہی ہوتے ہیں ۔ اس پر یہ آیتیں اتریں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آدمی بھیج کر انہیں کہلوایا کہ تمہاری بات کی سچائی اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی ۔ } ۱؎ (ضعیف) اسی طرح { ہرقل نے کہا تھا جب کہ اس نے ابوسفیان سے ان کی جاہلیت کی حالت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت دریافت کیا تھا کہ کیا شریف لوگوں نے ان کی تابعداری کی ہے یا ضعیفوں نے ؟ تو ابوسفیان نے جواب دیا کہ ضعیفوں نے ۔ اس پر ہرقل نے کہا کہ ہر رسول کی اولاً تابعداری کرنے والے یہی ضعیف لوگ ہوتے ہیں } ۱؎ (صحیح بخاری:7) پھر فرمایا یہ خوش حال لوگ مال و اولاد کی کثرت پر ہی فخر کرتے ہیں اور اسے اس بات کی دلیل بناتے ہیں کہ وہ پسندیدہ اللہ ہیں اگر اللہ کی خاص عنایت و مہربانی ان پر نہ ہوتی تو انہیں یہ نعمتیں نہ دیتا اور جب یہاں رب مہربان ہے تو آخرت میں بھی وہ مہربان ہی رہے گا ۔ قرآن نے ہر جگہ اس کا رد کیا ہے ۔ ایک اور جگہ فرمایا : «اَیَحْسَبُوْنَ اَنَّمَا نُمِدٰہُمْ بِہٖ مِنْ مَّالٍ وَّبَنِیْنَ» ۱؎ (23-المؤمنون:55-56) الخ ، ’ کیا ان کا خیال ہے کہ مال و اولاد کی اکثریت ان کے لیے بہتر ہے ؟ نہیں بلکہ برائی ہے لیکن یہ بےشعور ہیں ۔ ‘ ایک اور آیت میں ہے «وَلَا تُعْجِبْکَ اَمْوَالُہُمْ وَاَوْلَادُہُمْ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ اَنْ یٰعَذِّبَہُمْ بِہَا فِی الدٰنْیَا وَتَزْہَقَ اَنْفُسُہُمْ وَہُمْ کٰفِرُوْنَ» ۱؎ (9-التوبۃ:85) الخ ، ’ ان کی مال و اولاد تجھے دھوکے میں نہ ڈالے اس سے انہیں دنیا میں بھی سزا ہو گی اور مرتے دم تک یہ کفر پر ہی رہیں گے ۔ ‘ اور آیت میں ہے «ذَرْنِیْ وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِیْدًا» ۱؎ (74-المدثر:11-17) الخ ، یعنی ’ مجھے اور اس شخص کو چھوڑ دے جسے بہت سے فرزند دے رکھے ہیں ۔ اور ہر طرح کا عیش اس کے لیے مہیا کر دیا ہے ۔ تاہم اسے طمع ہے کہ میں اور زیادہ دوں ۔ ایسا نہیں یہ ہماری آیتوں کا مخالف ہے ۔ زمانہ جانتا ہے کہ اسے میں دوزخ کے پہاڑوں پر چڑھاؤں گا ۔ ‘ اس شخص کا واقعہ بھی مذکور ہوا ہے جس کے دو باغ تھے ، مال والا ، پھلوں والا ، اولاد والا تھا ۔ لیکن کسی چیز نے کوئی فائدہ نہ دیا عذاب الٰہی سے سب چیزیں دنیا میں ہی تباہ اور خاک سیاہ ہو گئیں ۔ اللہ جس کی روزی کشادہ کرنا چاہے ، کشادہ کر دیتا ہے اور جس کی روزی تنگ کرنا چاہے ، تنگ کر دیتا ہے دنیا میں تو وہ اپنے دوستوں دشمنوں سب کو دیتا ہے ۔ غنی یا فقیر ہونا اس کی رضا مندی اور ناراضگی کی دلیل نہیں ۔ بلکہ اس میں اور ہی حکمتیں ہوتی ہیں جنہیں اکثر لوگ جان نہیں سکتے ، مال و اولاد کو ہماری عنایت کی دلیل بنانا غلطی ہے ۔ یہ کوئی ہمارے پاس مرتبہ بڑھانے والی چیز نہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور مالوں کو نہیں دیکھتا بلکہ دلوں اور عملوں کو دیکھتا ہے ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:2564ـ34) [ مسلم ] ہاں اس کے پاس درجات دلانے والی چیز ایمان اور نیک اعمال ہیں ۔ ان کی نیکیوں کے بدلے انہیں بہت بڑھا چڑھا کر دیئے جائیں گے ۔ اور ایک ایک نیکی دس دس گنا بلکہ سات سات سو گنا کر کے دی جائے گی ۔ جنت کی بلند ترین منزلوں میں ہر ڈر خوف سے ، غم سے پر امن ہوں گے ۔ کوئی دکھ درد نہ ہو گا ۔ ایذا اور صدمہ نہ ہو گا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { جنت میں ایسے بالاخانے ہیں جن کا ظاہر باطن سے اور باطن ظاہر سے نظر آتا ہے ۔ ایک اعرابی نے کہا یہ بالاخانے کس کے لیے ہیں ؟ آپ نے فرمایا جو نرم کلامی کرے ، کھانا کھلائے ، بکثرت روزے رکھے اور لوگوں کی نیند کے وقت تہجد پڑھے ۔ } ۱؎ (سنن ترمذی:1984،قال الشیخ الألبانی:۔حسن) [ ابن ابی حاتم ] جو لوگ اللہ کی راہ سے اوروں کو روکتے ہیں ، رسولوں کی تابعداری سے لوگوں کو باز رکھتے ہیں ، اللہ کی آیتوں کی تصدیق نہیں کرتے ، وہ جہنم کی سزا میں حاضر کئے جائیں گے اور برا بدلہ پائیں گے ۔ سبأ
35 سبأ
36 سبأ
37 سبأ
38 اللہ تعالیٰ روزی کشادہ و تنگ کرتا ہے پھر فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کاملہ کے مطابق جسے چاہے بہت ساری دنیا دیتا ہے اور جسے چاہے بہت کم دیتا ہے کوئی سکھ چین میں ہے کوئی دکھ درد میں مبتلا ہے ۔ رب کی حکمتوں کو کوئی نہیں جان سکتا اس کی مصلحتیں وہی خوب جانتا ہے ۔ جیسے فرمایا «اُنْظُرْ کَیْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَلَلْاٰخِرَۃُ اَکْبَرُ دَرَجٰتٍ وَّاَکْبَرُ تَفْضِیْلًا» ۱؎ (17-الإسراء:21) ’ تو دیکھ لے کہ ہم نے کس طرح ایک کو دوسرے پر فضیلت دے رکھی ہے اور البتہ آخرت درجوں اور فضیلتوں میں بہت بڑی ہے ۔ ‘ یعنی جس طرح فقر و غنا کے ساتھ درجوں کی اونچ نیچ یہاں ہے ۔ اسی طرح آخرت میں بھی اعمال کے مطابق درجات و درکات ہوں گے ۔ نیک لوگ تو جنتوں کے بلند و بالا خانوں میں اور بد لوگ جہنم کے نیچے کے طبقے کے جیل خانوں میں ۔ { دنیا میں سب سے بہتر شخص رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق وہ ہے جو سچا مسلمان ہو اور بقدر کفایت روزی پاتا ہو اور اللہ کی طرف سے قناعت بھی دیا گیا ہو ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:1054) اللہ کے حکم یا اس کی اباحت کے ماتحت تم جو کچھ خرچ کرو گے اس کا بدلہ وہ تمہیں دونوں جہان میں دے گا ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ { ہر صبح ایک فرشتہ دعا کرتا ہے کہ اللہ بخیل کے مال کو تلف اور برباد کر ۔ دوسرا دعا کرتا ہے اللہ خرچ کرنے والے کو نیک بدلہ دے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:1442) { بلال رضی اللہ عنہ سے ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بلال خرچ کر اور عرش والے کی طرف سے تنگی کا خیال بھی نہ کر ۔ } ۱؎ (طبرانی:1020:ضعیف) ابن ابی حاتم میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تمہارے اس زمانے کے بعد ایسا زمانہ آ رہا ہے جو کاٹ کھانے والا ہو گا ۔ مال ہو گا لیکن مالدار نے گویا اپنے مال پر دانت گاڑے ہوئے ہوں گے کہ کہیں خرچ نہ ہو جائے ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی آیت میں «وَمَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ نَّفَقَۃٍ اَوْ نَذَرْتُمْ مِّنْ نَّذْرٍ فَاِنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُہٗ وَمَا للظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ» الخ ، کی تلاوت فرمائی ۔ } ۱؎ (المیزان:6983:ضعیف) اور حدیث میں ہے بدترین لوگ وہ ہیں جو بے بس اور مضطر لوگوں کی چیزیں کم داموں خریدتے پھریں ۔ یاد رکھو ایسی بیع حرام ہے ، مضطر کی بیع حرام ہے ۔ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ اس پر ظلم کرے نہ اسے رسوا کرے ۔ اگر تجھ سے ہو سکے تو دوسرے کے ساتھ اچھا سلوک اور بھلائی کر ورنہ اس کی ہلاکت کو تو نہ بڑھا [ ابو یعلیٰ موصلی] یہ حدیث اس سند سے غریب ہے اور ضعیف بھی ہے ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہیں اس آیت کا غلط مطلب نہ لے لینا ۔ اپنے مال کو خرچ کرنے میں میانہ روی کرنا ۔ روزیاں بٹ چکی ہیں ، رزق مقسوم ہے ۔ سبأ
39 سبأ
40 مشرکین سے سوال مشرکین کو شرمندہ لاجواب اور بےعذر کرنے کے لئے ان کے سامنے فرشتوں سے سوال ہو گا ۔ جن کی مصنوعی شکلیں بنا کر یہ مشرک دنیا میں پوجتے رہے کہ وہ انہیں اللہ سے ملا دیں ۔ سوال ہو گا کہ کیا تم نے انہیں اپنی عبادت کرنے کو کہا تھا ؟ جیسے سورۃ الفرقان میں ہے «ءَ اَنْتُمْ اَضْلَلْتُمْ عِبَادِیْ ہٰٓؤُلَاءِ اَمْ ہُمْ ضَلٰوا السَّبِیْلَ» ۱؎ (25-الفرقان:17) یعنی ’ کیا تم نے انہیں گمراہ کیا تھا ؟ یا یہ خود ہی بہکے ہوئے تھے ؟ ‘ عیسیٰ علیہ السلام سے یہی سوال ہو گا کہ کیا تم لوگوں سے کہہ آئے تھے کہ اللہ کو چھوڑ کر میری اور میری ماں کی عبادت کرنا ؟ آپ جواب دیں گے کہ اللہ ! تیری ذات پاک ہے جو کہنا مجھے سزاوار نہ تھا ، اسے میں کیسے کہہ دیتا ؟ اسی طرح فرشتے بھی اپنی برأت ظاہر کریں گے اور کہیں گے تو اس سے بہت بلند اور پاک ہے کہ تیرا کوئی شریک ہو ۔ ہم تو خود تیرے بندے تھے اور ہم ان سے بیزار رہے اور اب بھی ان سے الگ ہیں ۔ یہ شیاطین کی پرستش کرتے تھے ۔ شیطانوں نے ہی ان کے لیے بتوں کی پوجا کو مزین کر رکھا تھا اور انہیں گمراہ کر دیا تھا ان میں سے اکثر کا شیطان پر ہی اعتقاد تھا ۔ جیسے فرمان باری ہے «اِنْ یَّدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلَّآ اِنَاثًا وَاِنْ یَّدْعُوْنَ اِلَّا شَیْطٰنًا مَّرِیْدًا ۔ لَّعَنَہُ اللہُ ۘ وَقَالَ لَأَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبَادِکَ نَصِیبًا مَّفْرُوضًا» ۱؎ (4-النساء:117-118) یعنی ’ یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر عورتوں کی پرستش کرتے ہیں اور سرکش شیطان کی عبادت کرتے ہیں ۔ جس پر اللہ کی پھٹکار ہے ۔ ‘ پس جن جن سے تم مشرکو ! لو لگائے ہوئے تھے ان میں سے ایک بھی آج تمہیں کوئی نفع نہ پہنچا سکے گا ۔ اس شدت و کرب کے وقت یہ سارے جھوٹے معبود تم سے یک سو ہو جائیں گے کیونکہ انہیں کسی کے کسی طرح کے نفع و ضرر کا اختیار تھا ہی نہیں ۔ آج ہم خود مشرکوں سے فرما دیں گے کہ لو جس عذاب جہنم کو جھٹلا رہے تھے آج اس کا مزہ چکھو ۔ سبأ
41 سبأ
42 سبأ
43 کافر عذاب الٰہی کے مستحق کیوں ٹھہرے؟ کافروں کی وہ شرارت بیان ہو رہی ہے جس کے باعث وہ اللہ کے عذابوں کے مستحق ہوئے ہیں کہ اللہ کا کلام تازہ بتازہ اس کے افضل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے سنتے ہیں ۔ قبول کرنا ماننا اس کے مطابق عمل کرنا تو ایک طرف کہتے ہیں کہ دیکھو یہ شخص تمہیں تمہارے پرانے اچھے اور سچے دین سے روک رہا ہے اور اپنے باطل خیالات کی طرف تمہیں بلا رہا ہے یہ قرآن تو اس کا خود تراشیدہ ہے آپ ہی گھڑ لیتا ہے ۔ اور یہ تو جادو ہے اور اس کا جادو ہونا کچھ ڈھکا چھپا نہیں بالکل ظاہر ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ ان عربوں کی طرف نہ تو اس سے پہلے کوئی کتاب بھیجی گئی ہے نہ آپ سے پہلے ان میں سے کوئی رسول آیا ہے ۔ اس لیے انہیں مدتوں سے تمنا تھی کہ اگر اللہ کا رسول ہم میں آتا اگر کتاب اللہ ہم میں اترتی تو ہم سب سے پہلے مطیع اور پابند ہو جاتے ۔ لیکن جب اللہ نے ان کی یہ دیرینہ آرزو پوری کی تو جھٹلانے اور انکار کرنے لگے ، ان سے اگلی امتوں کے نتیجے ان کے سامنے ہیں ۔ وہ قوت و طاقت ، مال و متاع ، اسباب دنیوی ، ان لوگوں سے بہت زیادہ رکھتے تھے ۔ یہ تو ابھی ان کے دسویں حصے کو بھی نہیں پہنچے لیکن میرے عذاب کے بعد نہ مال کام آئے نہ اولاد اور کنبے قبیلے کام آئے ۔ نہ قوت و طاقت نے کوئی فائدہ دیا ۔ برباد کر دیئے گئے ۔ جیسے فرمایا «وَلَقَدْ مَکَّنّٰہُمْ فِیْمَآ اِنْ مَّکَّنّٰکُمْ فِیْہِ وَجَعَلْنَا لَہُمْ سَمْعًا وَّاَبْصَارًا وَّاَفْـــِٕدَۃً» ۱؎ (46-الأحقاف:26) یعنی ’ ہم نے انہیں قوت و طاقت دے رکھی تھی ۔ آنکھیں اور کان بھی رکھتے تھے دل بھی تھے لیکن میری آیتوں کے انکار پر جب عذاب آیا اس وقت کسی چیز نے کچھ فائدہ نہ دیا ۔ اور جس کے ساتھ مذاق اڑاتے تھے اس نے انہیں گھیر لیا ۔ ‘ کیا یہ لوگ زمین میں چل پھر کر اپنے سے پہلے لوگوں کا انجام نہیں دیکھتے جو ان سے تعداد میں زیادہ طاقت میں بڑھے ہوئے تھے ۔ مطلب یہ ہے کہ رسولوں کے جھٹلانے کے باعث پیس دیئے گئے ۔ جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیئے گئے ۔ تم غور کر لو ! دیکھ لو کہ میں نے کس طرح اپنے رسولوں کی نصرت کی اور کس طرح جھٹلانے والوں پر اپنا عذاب اتارا ؟ سبأ
44 سبأ
45 سبأ
46 ضد اور ہٹ دھرمی کفار کا شیوہ حکم ہوتا ہے کہ یہ کافر جو تجھے مجنون بتا رہے ہیں ان سے کہہ کہ ایک کام تو کرو خلوص کے ساتھ تعصب اور ضد کو چھوڑ کر ذرا سی دیر سوچو تو ۔ آپس میں ایک دوسرے سے دریافت کرو کہ کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم مجنون ہے ؟ اور ایمانداری سے ایک دوسرے کو جواب دے ۔ ہر شخص تنہا تنہا بھی غور کرے ۔ اور دوسروں سے بھی پوچھے لیکن یہ شرط ہے کہ ضد اور ہٹ کو دماغ سے نکال کر تعصب اور ہٹ دھرمی چھوڑ کر غور کرے ۔ تمہیں خود معلوم ہو جائے گا تمہارے دل سے آواز اٹھے گی کہ حقیقت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجنون نہیں ۔ بلکہ وہ تم سب کے خیرخواہ ہیں درد مند ہیں ۔ ایک آنے والے خطرے سے جس سے تم بےخبر ہو وہ تمہیں آگاہ کر رہے ہیں ۔ بعض لوگوں نے اس آیت سے تنہا اور جماعت سے نماز پڑھنے کا مطلب سمجھا ہے اور اس کے ثبوت میں ایک حدیث پیش کرتے ہیں لکین وہ حدیث ضعیف ہے ۔ اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا { میں تین چیزیں دیا گیا ہوں جو مجھ سے پہلے کوئی نہیں دیا گیا یہ میں فخر کے طور پر نہیں کہ رہا ہوں ۔ میرے لیے مال غنیمت حلال کیا گیا مجھ سے پہلے کسی کے لیے وہ حلال نہیں ہوا وہ مال غنیمت کو جمع کر کے جلا دیتے تھے ۔ اور میں ہر سرخ و سیاہ کی طرف بھیجا گیا ہوں اور ہر نبی صرف اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا رہا ۔ میرے لیے ساری زمین مسجد اور وضو کی چیز بنا دی گئی ہے ۔ تاکہ میں اس کی مٹی سے تیمم کر لوں اور جہاں ہوں اور نماز کا وقت آ جائے نماز ادا کر لوں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اللہ کے سامنے با ادب کھڑے ہو جایا کرو دو دو اور ایک ایک ۔ اور ایک مہینہ کی راہ تک میری مدد صرف رعب سے کی گئی ہے ۔ } ۱؎ یہ حدیث سندا ضعیف ہے ۔ اور بہت ممکن ہے کہ اس میں آیت کا ذکر اور اسے جماعت سے یا الگ نماز پڑھ لینے کے معنی میں لے لینا یہ راوی کا اپنا قول ہو اور اس طرح بیان کر دیا گیا ہو کہ بظاہر وہ الفاظ حدیث کے معلوم ہوتے ہوں کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات کی حدیثیں بہ سند صحیح بہت سے مروی ہیں اور کسی میں بھی یہ الفاظ نہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» آپ لوگوں کو اس عذاب سے ڈرانے والے ہیں جو ان کے آگے ہے اور جس سے یہ بالکل بےخبر بےفکری سے بیٹھے ہوئے ہیں ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن صفا پہاڑی پر چڑھ گئے اور عرب کے دستور کے مطابق «یا صباحاہ» کہہ کر بلند آواز کی جو علامت تھی کہ کوئی شخص کسی اہم بات کے لیے بلا رہا ہے ۔ عادت کے مطابق اسے سنتے ہی لوگ جمع ہو گئے ۔ آپ نے فرمایا اگر میں تمہیں خبر دوں کہ دشمن تمہاری طرف چڑھائی کر کے چلا آ رہا ہے اور عجب نہیں کہ صبح شام ہی تم پر حملہ کر دے تو کیا تم مجھے سچا سمجھو گے ؟ سب نے بیک زبان جواب دیا کہ ہاں بےشک ہم آپ کو سچا جانیں گے ۔ آپ نے فرمایا سنو ! میں تمہیں اس عذاب سے ڈرا رہا ہوں جو تمہارے آگے ہے ۔ یہ سن کر ابولہب ملعون نے کہا تیرے ہاتھ ٹوٹیں کیا اسی کے لیے تو نے ہم سب کو جمع کیا تھا ؟ اس پر سورہ «تَبَّتْ یَدَا أَبِی لَہَبٍ وَتَبَّ ١ مَا أَغْنَیٰ عَنْہُ مَالُہُ وَمَا کَسَبَ ٢ سَیَصْلَیٰ نَارًا ذَاتَ لَہَبٍ ٣ وَامْرَأَتُہُ حَمَّالَۃَ الْحَطَبِ ٤ فِی جِیدِہَا حَبْلٌ مِّن مَّسَدٍ ٥» ، اتری ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:4801) یہ حدیثیں «وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ» کی تفسیر میں گزر چکی ہیں ۔ مسند احمد میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور ہمارے پاس آ کر تین مرتبہ آواز دی ۔ فرمایا لوگو ! میری اور اپنی مثال جانتے ہو ؟ انہوں نے کہا اللہ کو اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پورا علم ہے ۔ آپ نے فرمایا میری اور تمہاری مثال اس قوم جیسی ہے جس پر دشمن حملہ کرنے والا تھا انہوں نے اپنا آدمی بھیجا کہ جا کر دیکھے اور دشمن کی نقل و حرکت سے انہیں مطلع کرے ۔ اس نے جب دیکھا کہ دشمن ان کی طرف چلا آ رہا ہے اور قریب پہنچ چکا ہے تو وہ لپکتا ہوا قوم کی طرف بڑھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میرے اطلاع پہنچانے سے پہلے ہی دشمن حملہ نہ کر دے ۔ اس لیے اس نے راستے میں سے ہی اپنا کپڑا ہلانا شروع کیا کہ ہوشیار ہو جاؤ دشمن آ پہنچا ، ہوشیار ہو جاؤ دشمن آ پہنچا ، تین مرتبہ یہی کہا ۔ } ۱؎ (مسند احمد:348/5:صحیح لغیرہ) ایک اور حدیث میں ہے { میں اور قیامت ایک ساتھ ہی بھیجے گئے قریب تھا کہ قیامت مجھ سے پہلے ہی آ جاتی ۔ } ۱؎ (مسند احمد:348/5:حسن لغیرہ) سبأ
47 مشرکین کو دعوت اصلاح حکم ہو رہا ہے کہ مشرکوں سے فرما دیجئے کہ میں جو تمہاری خیر خواہی کرتا ہوں تمہیں احکام دینی پہنچتا رہا ہوں وعظ و نصیحت کرتا ہوں اس پر میں تم سے کسی بدلے کا طالب نہیں ہوں ۔ بدلہ تو اللہ ہی دے گا جو تمام چیزوں کی حقیقت سے مطلع ہے ۔ میری تمہاری حالت اس پر خوب روشن ہے ۔ پھر جو فرمایا اسی طرح کی آیت «رَفِیْعُ الدَّرَجٰتِ ذو الْعَرْشِ یُلْقِی الرٰوْحَ مِنْ اَمْرِہٖ عَلٰی مَنْ یَّشَاءُ مِنْ عِبَادِہٖ لِیُنْذِرَ یَوْمَ التَّلَاقِ» ۱؎ (40-غافر:15) الخ ، ہے یعنی ’ اللہ تعالیٰ اپنے فرمان سے جبرائیل علیہ السلام کو جس پر چاہتا ہے اپنی وحی کے ساتھ بھیجتا ہے ‘ وہ حق کے ساتھ فرشتہ اتارتا ہے ۔ وہ علام الغیوب ہے اس پر آسمان و زمین کی کوئی چیز مخفی نہیں ۔ اللہ کی طرف سے حق اور مبارک شریعت آ چکی ہے ۔ باطل پراگندہ بودار ہو کر برباد ہو گیا ۔ جیسے فرمان ہے «بَلْ نَقْذِفُ بالْحَقِّ عَلَی الْبَاطِلِ فَیَدْمَغُہٗ فَاِذَا ہُوَ زَاہِقٌ وَلَـکُمُ الْوَیْلُ مِمَّا تَصِفُوْنَ» ۱؎ (21-الأنبیاء:18) ’ ہم باطل پر حق کو نازل فرما کر باطل کے ٹکڑے اڑا دیتے ہیں اور وہ چکنا چور ہو جاتا ہے ۔ ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ والے دن جب بیت اللہ میں داخل ہوئے تو وہاں کے بتوں کو اپنی کمان کی لکڑی سے گراتے جاتے تھے اور زبان سے فرماتے جاتے تھے «وَقُلْ جَاءَ الْحَقٰ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَہُوقًا» ۱؎ (17-الإسراء:81) ’ حق آ گیا باطل مٹ گیا وہ تھا ہی مٹنے والا ۔ ‘ ۱؎ (صحیح بخاری:4720) [ بخاری ، مسلم ] باطل کا اور ناحق کا دباؤ سب ختم ہو گیا ۔ بعض مفسرین سے مروی ہے کہ مراد یہاں باطل سے ابلیس ہے ۔ یعنی نہ اس نے کسی کو پہلے پیدا کیا نہ آئندہ کر سکے نہ مردے کو زندہ کر سکے نہ اسے کوئی اور ایسی قدرت حاصل ہے بات تو یہ بھی سچی ہے لیکن یہاں یہ مراد نہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» پھر جو فرمایا اس کا مطلب یہ ہے کہ خیر سب کی سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اللہ کی بھیجی ہوئی وحی میں وہی سراسر حق ہے اور ہدایت و بیان و رشد ہے ۔ گمراہ ہونے والے آپ ہی بگڑ رہے ہیں اور اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں ۔ سیدنا سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے جب کہ مفوضہ کا مسئلہ دریافت کیا گیا تھا تو آپ نے فرمایا تھا اسے میں اپنی رائے سے بیان کرتا ہوں اگر صحیح ہو تو اللہ کی طرف سے ہے ۔ اور اگر غلط ہو تو میری اور شیطان کی طرف سے ہے اور اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بری ہے ۔ وہ اللہ اپنے بندوں کی باتوں کا سننے والا ہے اور قریب ہے ۔ پکارنے والے کی ہر پکار کو ہر وقت سنتا اور قبول فرماتا ہے ۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ اپنے اصحاب سے فرمایا تم کسی بہرے یا غائب کو نہیں پکار رہے ۔ جسے تم پکار رہے ہو وہ سمیع و قریب مجیب ہے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:2992) سبأ
48 سبأ
49 سبأ
50 سبأ
51 عذاب قیامت اور کافر اللہ تبارک و تعالیٰ فرما رہا ہے کہ اے نبی ! کاش کہ آپ ان کافروں کی قیامت کے دن کی گھبراہٹ دیکھتے ۔ کہ ہر چند عذاب سے چھٹکارا چاہیں گے ۔ لیکن بچاؤ کی کوئی صورت نہیں پائیں گے ۔ نہ بھاگ کر ، نہ چھپ کر ، نہ کسی کی حمایت سے ، نہ کسی کی پناہ سے ۔ بلکہ فوراً ہی قریب سے ہی پکڑ لیے جائیں گے ۔ ادھر قبروں سے نکلے ادھر پھانس لیے گئے ۔ ادھر کھڑے ہوئے ادھر گرفتار کر لیے گئے ۔ یہ بھی مطلب ہو سکتا ہے کہ قتل و اسیر ہوئے ۔ لیکن صحیح یہی ہے کہ مراد قیامت کے دن کے عذاب ہیں ۔ بعض کہتے ہیں بنو عباس کی خلافت کے زمانے میں مکے مدینے کے درمیان ان لشکروں کا زمین میں دھنسایا جانا مراد ہے ۔ ابن جریر رحمہ اللہ نے اسے بیان کر کے اس کی دلیل میں ایک حدیث وارد کی ہے جو بالکل ہی موضوع اور گھڑی ہوئی ہے ۔ لیکن تعجب سا تعجب ہے کہ امام صاحب نے اس کا موضوع ہونا بیان نہیں کیا قیامت کے دن کہیں گے کہ ہم ایمان قبول کرتے ہیں اللہ پر ، اس کے فرشتوں پر ، اس کی کتابوں پر ، اس کے رسولوں پر ایمان لائے ۔ جیسے اور آیت میں ہے «وَلَوْ تَرٰٓی اِذِ الْمُجْرِمُوْنَ نَاکِسُوْا رُءُوْسِہِمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ رَبَّنَآ اَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا اِنَّا مُوْقِنُوْنَ» ۱؎ (32-السجدۃ:12) الخ ، ’ کاش کہ تو دیکھتا جب کہ گنہگار لوگ اپنے رب کے سامنے سرنگوں کھڑے ہوں گے ۔ اور شرمندگی سے کہہ رہے ہوں گے کہ اللہ ہم نے دیکھ سن لیا ۔ ہمیں یقین آ گیا ۔ اب تو ہمیں پھر سے دنیا میں بھیج دے تو ہم دل سے مانیں گے ۔ ‘ لیکن کوئی شخص جس طرح بہت دور کی چیز کو لینے کے لیے دور سے ہی ہاتھ بڑھائے اور اس کے ہاتھ نہیں آ سکتی ۔ اسی طرح یہی حال ان لوگوں کا ہے ، کہ آخرت میں وہ کام کرتے ہیں جو دنیا میں کرنا چاہئے تھا ۔ تو آخرت میں ایمان لانا بےسود ہے ۔ اب نہ دنیا میں لوٹائے جائیں نہ اس وقت کی گریہ و زاری توبہ و فریاد ، ایمان و اسلام کچھ کام آئے گا ۔ اس سے پہلے دنیا میں تو منکر رہے نہ اللہ کو مانا نہ رسول پر ایمان لائے نہ قیامت کے قائل ہوئے یونہی جیسے کوئی بن دیکھے اندازے سے ہی نشانے پر تیر بازی کر رہا ہو اسی طرح اللہ کی باتوں کو اپنے گمان سے ہی رد کرتے رہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی کاہن کہہ دیا کبھی شاعر بتا دیا ۔ کبھی جادوگر کہا اور کبھی مجنون ۔ صرف اٹکل پچو کے ساتھ قیامت کو جھٹلاتے رہے اور بے دلیل اوروں کی عبادت کرتے رہے جنت و دوزخ کا مذاق اڑاتے رہے ۔ اب ایمان اور ان میں حجاب آ گیا ۔ توبہ میں اور ان میں پردہ پڑ گیا ۔ دنیا ان سے چھوٹ گئی یہ دنیا سے الگ ہو گئے ۔ ابن ابی حاتم نے یہاں پر ایک عجیب و غریب اثر نقل کیا ہے جسے ہم پورا ہی نقل کرتے ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ { بنو اسرائیل میں ایک فاتح شخص تھا جس کے پاس مال بہت تھا ۔ جب وہ مر گیا اور اس کا لڑکا اس کا وارث ہوا تو بری طرح نافرمانیوں میں مال لٹانے لگا ۔ اس کے چچاؤں نے اسے ملامت کی اور سمجھایا اس نے غصے میں آ کر سب چیزیں بیچ کر روپیہ لے کر عین شجاجہ کے پاس آ کر ایک محل تعمیر کرا کر یہاں رہنے لگا ۔ ایک روز زور کی آندھی اٹھی جس میں ایک بہت خوبصورت خوشبودار عورت اس کے پاس آ گری ۔ اس نے اس سے پوچھا تم کون ہو ؟ اس نے کہا بنی اسرائیلی شخص ہوں ۔ کہا یہ محل آپ کا ہے ؟ اس نے کہا ہاں ۔ پوچھا آپ کی بیوی بھی ہے ؟ کہا نہیں ۔ کہا پھر تم اپنی زندگی کا لطف کیا اٹھاتے ہو ؟ اب اس نے پوچھا کہ کیا تمہارا خاوند ہے ؟ اس نے کہا نہیں ۔ پھر مجھے قبول کرو اس نے جواب دیا میں یہاں سے میل بھر دور رہتی ہوں کل تم یہاں سے اپنے ساتھ دن بھر کا کھانا پینا لے چلو اور میرے ہاں آؤ ۔ راستے میں کچھ عجائبات دیکھو تو گھبرانا نہیں ۔ اس نے قبول کیا اور دوسرے دن توشہ لے کر چلا ۔ میل دور جا کر ایک نہایت عالی شان محل دیکھا دستک دینے سے ایک خوبصورت نوجوان شخص آیا پوچھا آپ کون ہیں ؟ جواب دیا کہ میں بنی اسرائیلی ہوں کہا کیسے آئے ہیں ؟ کہا اس مکان کی ملکہ نے بلوایا ہے پوچھا راستے میں کچھ ہولناک چیزیں بھی دیکھیں جواب دیا ہاں اور اگر مجھے یہ کہا ہوا نہ ہوتا کہ گھبرانا مت تو میں ہول دہشت سے ہلاک ہو گیا ہوتا ۔ میں چلا ایک چوڑے راستے پر پہنچا تو دیکھا کہ ایک کتیا منہ پھاڑے بیٹھی ہوئی ہے میں گھبرا کر دوڑا تو دیکھا کہ مجھ سے آگے آگے وہ ہے اور اس کے پلے [ بچے ] اس کے پیٹ میں ہیں اور بھونک رہے ہیں ۔ اس جوان نے کہا تو اسے نہیں پائے گا یہ تو آخر زمانے میں ہونے والی ایک بات کی مثال تجھے دکھائی گئی ہے کہ ایک نوجوان بوڑھے بڑوں کی مجلس میں بیٹھے گا اور ان سے اپنے راز کی پوشیدہ باتیں کرے گا ۔ میں اور آگے بڑھا تو دیکھا ایک سو بکریاں جن کے تھن دودھ سے پر ہیں ایک بچہ ہے دودھ پی رہا ہے جب دودھ ختم ہو جاتا ہے اور وہ جان لیتا ہے کہ اور کچھ باقی نہیں رہا تو وہ منہ کھول دیتا ہے گویا ، اور مانگ رہا ہے ۔ اس نوجوان دربان نے کہا تو اسے بھی نہیں پائے گا یہ مثال تجھے بتائی گئی ہے ان بادشاہوں کی جو آخر زمانے میں آئیں گے لوگوں سے سونا چاندی گھسیٹیں گے یہاں تک کہ سمجھ لیں گے اب کسی کے پاس کچھ نہیں بچا تو بھی وہ ظلم و زیادتی کر کے منہ پھیلائے رہیں گے ۔ اس نے کہا میں اور آگے بڑھا تو میں نے ایک درخت نہایت تروتازہ خوش رنگ اور خوش وضع دیکھا میں نے اس کی ایک ٹہنی توڑنی چاہی تو دوسرے درخت سے آواز آئی کہ اے بندہ الٰہی ! میری ڈالی توڑ جا پھر تو ہر ایک درخت سے یہی آواز آنے لگی دربان نے کہا تو اسے بھی نہیں پائے گا ۔ { کہ اس میں اشارہ ہے کہ آخر زمانے میں مردوں کی قلت اور عورتوں کی کثرت ہو جائے گی یہاں تک کہ جب ایک مرد کی طرف سے کسی عورت کو پیغام جائے گا تو دس بیس عورتیں اسے اپنی طرف بلانے لگیں گی ۔ اس نے کہا میں اور آگے بڑھا تو میں نے دیکھا کہ ایک دریا کے کنارے ایک شخص کھڑا ہوا ہے اور لوگوں کو پانی بھر بھر کر دے رہا ہے پھر اپنی مشک میں ڈالتا ہے لیکن اس میں ایک قطرہ بھی نہیں ٹھہرتا ۔ دربان نے کہا تو اسے بھی نہیں پائے گا ۔ اس میں اشارہ ہے کہ آخر زمانے میں ایسے علماء اور واعظ ہوں گے جو لوگوں کو علم سکھائیں گے ۔ بھلی باتیں بتائیں گے ۔ لیکن خود عامل نہیں ہوں گے ۔ بلکہ خود گناہوں میں مبتلا رہے گے ۔ پھر جو میں آگے بڑھا تو میں نے دیکھا کہ ایک بکری ہے بعض لوگوں نے تو اس کے پاؤں پکڑ رکھے ہیں ، بعض نے دم تھام رکھی ہے ، بعض نے سینگ پکڑ رکھے ہیں ، بعض اس پر سوار ہیں اور بعض اس کا دودھ دوہ رہے ہیں ۔ اس نے کہا یہ مثال ہے دنیا کی جو اس کے پیر تھامے ہوئے ہیں ۔ یہ تو وہ ہیں جو دنیا سے گر گئے جنہیں یہ نہ ملی جس نے سینگ تھام رکھے ہیں یہ وہ ہے جو اپنا گزارہ کر لیتا ہے لیکن تنگی ترشی سے دم پکڑنے والے وہ ہیں جن سے دنیا بھاگ چکی ہے ۔ سوار وہ ہیں جو از خود تارک دنیا میں ہو گئے ہیں ۔ ہاں دنیا سے صحیح فائدہ اٹھانے والے وہ ہیں جنہیں تم نے اس بکری کا دودھ نکالتے ہوئے دیکھا ۔ انہیں خوشی ہو یہ مستحق مبارک باد ہیں ۔ اس نے کہا میں اور آگے چلا تو دیکھا کہ ایک شخص ایک کنویں میں سے پانی کھینچ رہا ہے اور ایک حوض میں ڈال رہا ہے جس حوض میں سے پانی پھر کنوئیں میں چلا جاتا ہے ۔ اس نے کہا یہ وہ شخص ہے جو نیک عمل کرتا ہے لیکن قبول نہیں ہوتے ۔ اس نے کہا پھر میں آگے بڑھا تو دیکھا کہ ایک شخص نے دانے زمین میں بوئے اسی وقت کھیتی تیار ہو گئی اور بہت اچھے نفیس گیہوں نکل آئے ۔ کہا یہ وہ شخص ہے جس کی نیکیاں اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے ۔ اس نے کہا میں اور آگے بڑھا تو دیکھا کہ ایک شخص چت لیٹا پڑا ہے ۔ مجھ سے کہنے لگا بھائی میرا ہاتھ پکڑ کر بیٹھا دو ، واللہ جب سے پیدا ہوا ہوں ، بیٹھا ہی نہیں ۔ میرے ہاتھ پکڑتے ہی وہ کھڑا ہو کر تیز دوڑا یہاں تک کہ میری نظروں سے پوشیدہ ہو گیا ۔ اس دربان نے کہا یہ تیری عمر تھی جو جا چکی اور ختم ہو گئی میں ملک الموت ہوں اور جس عورت سے تو ملنے آیا ہے اس کی صورت میں بھی میں ہی تھا اللہ کے حکم سے تیرے پاس آیا تھا کہ تیری روح اس جگہ قبض کروں پھر تجھے جہنم رسید کروں ۔ { اس کے بارے میں یہ آیت «وَحِیْلَ بَیْنَہُمْ وَبَیْنَ مَا یَشْتَہُوْنَ کَمَا فُعِلَ بِاَشْیَاعِہِمْ مِّنْ قَبْلُ اِنَّہُمْ کَانُوْا فِیْ شَکٍّ مٰرِیْبٍ» الخ نازل ہوئی ۔ } ۱؎ (الدر المنشور للسیوطی:716/6:ضعیف) یہ اثر غریب ہے اور اس کی صحت میں بھی نظر ہے ۔ آیت کا مطلب ظاہر ہے کہ کافروں کی جب موت آتی ہے ان کی روح حیات دنیا کی لذتوں میں اٹکی رہتی ہے ۔ لیکن موت مہلت نہیں دیتی اور ان کی خواہش اور ان کے درمیان وہ حائل ہو جاتا ہے ۔ جیسے اس مغرور و مفتون شخص کا حال ہوا ۔ کہ گیا تو عورت ڈھونڈنے کو اور ملاقات ہوئی ملک الموت سے ۔ امید پوری ہونے سے پہلے روح پرواز کر گئی ۔ پھر فرماتا ہے ان سے پہلے کی امتوں کے ساتھ بھی یہی کیا گیا وہ بھی موت کے وقت زندگی اور ایمان کی آرزو کرتے رہے ۔ جو محض بےسود تھی جیسے فرمان عالی شان ہے «فَلَمَّا رَاَوْا بَاْسَنَا قَالُوْٓا اٰمَنَّا باللّٰہِ وَحْدَہٗ وَکَفَرْنَا بِمَا کُنَّا بِہٖ مُشْرِکِیْنَ» ۱؎ (40-غافر:84-85) الخ ، ’ جب انہوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا تو کہنے لگے ہم اللہ واحد پر ایمان لائے اور جس جس کو ہم شریک اللہ بناتے تھے ان سب سے ہم انکار کرتے ہیں لیکن اس وقت ان کے ایمان نے انہیں کوئی فائدہ نہ دیا ان سے پہلوؤں میں بھی یہی طریقہ جاری رہا کفار نفع سے محروم ہی ہیں ۔ ‘ یہاں فرمایا کہ دنیا میں تو زندگی بھر شک و شبہ میں اور تردد میں ہی رہے ۔ اسی وجہ سے عذاب کے دیکھنے کے بعد ایمان بے کار رہا ۔ قتادہ رحمہ اللہ کا یہ قول آب زر سے لکھنے کے لائق ہے آپ فرماتے ہیں کہ شبہات اور شکوک سے بچو ۔ اس پر جس کی موت آئی وہ قیامت کے دن بھی اسی پر اٹھایا جائے گا اور جو یقین پر مرا ہے اسے یقین پر ہی اٹھایا جائے گا ۔ «وَاللہُ سُبْحَانَہُ وَ تَعَالیٰ الْمُوَفِّق لِلصَّوَابِ» اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کے لطف و رحم سے سورۃ سبا کی تفسیر ختم ہوئی ۔ سبأ
52 سبأ
53 سبأ
54 سبأ
0 فاطر
1 فاطر کے معنی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں «فاطر» کی بالکل ٹھیک معنی میں نے سب سے پہلے ایک اعرابی کی زبان سے سن کر معلوم کئے۔ وہ اپنے ایک ساتھی اعرابی سے جھگڑتا ہوا آیا ایک کنویں کے بارے میں ان کا اختلاف تھا تو اعرابی نے کہا انا فطرتھا یعنی پہلے پہل میں نے ہی اسے بنایا ہے پس معنی یہ ہوئے کہ ابتداء ابے نمونہ صرف اپنی قدرت کاملہ سے اللہ تبارک و تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا۔ ضحاک رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ فاطر کے معنی خالق کے ہیں۔ اپنے اور اپنے نبیوں کے درمیان قاصد اس نے اپنے فرشتوں کو بنایا ہے۔ جو پر والے ہیں اڑتے ہیں تاکہ جلدی سے اللہ کا پیغام اس کے رسولوں تک پہنچا دیں۔ ان میں سے بعض دو پروں والے ہیں بعض کے تین تین ہیں بعض کے چار چار پر ہیں۔ بعض ان سے بھی زیادہ ہیں۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام کو دیکھا ان کے چھ سو پر تھے اور ہر دو پر کے درمیان مشرق و مغرب جتنا فاصلہ تھا۔۱؎ (صحیح بخاری:3232) یہاں بھی فرماتا ہے رب جو چاہے اپنی مخلوق میں زیادتی کرے۔ جس سے چاہتا ہے اس سے بھی زیادہ پر کر دیتا ہے اور کائنات میں جو چاہے رچاتا ہے۔ اس سے مراد اچھی آواز بھی لی گئی۔ چنانچہ ایک شاذ قرأت فی الحلق ”ح“ کے ساتھ بھی ہے۔ «واللہ اعلم» فاطر
2 اللہ تعالیٰ ہر چیز پر غالب ہے اللہ تعالیٰ کا چاہا ہوا سب کچھ ہو کر رہتا ہے بغیر اس کی چاہت کے کچھ بھی نہیں ہوتا۔ وہ جو دے اسے کوئی روکنے والا نہیں۔ اور جسے وہ روک لے اسے کوئی دینے والا نہیں۔ نماز فرض کے سلام کے بعد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ یہ کلمات پڑھتے، «لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیکَ لَہُ، لَہُ الْمُلْکُ، وَلَہُ الْحَمْدُ، وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ، اللَّہُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَیْتَ، وَلَا مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلَا یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدٰ» اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فضول گوئی اور کثرت سوال اور مال کی بربادی سے منع فرماتے تھے اور آپ لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے اور ماؤں کی نافرنیاں کرنے اور خود لینے اور دوسروں کو نہ دینے سے بھی روکتے تھے۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6473) صحیح مسلم شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے «سمع اللہ لمن حمدہ» ، کہہ کر یہ فرماتے « اللہُمَّ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ. مِلْءُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ. وَمِلْءُ مَا شِئْتَ مِنْ شَیْءٍ بَعْدُ. أَہْلُ الثَّنَاءِ وَالْمَجْدِ. أَحَقٰ مَا قَالَ الْعَبْدُ. وَکُلٰنَا لَکَ عَبْدٌ. اللہُمَّ! لاَ مَانِعَ لِمَا أَعْطَیْتَ، وَلاَ مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلاَ یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدٰ» ‏‏‏‏۱؎(صحیح مسلم:477) اسی آیت جیسی آیت «‏‏‏‏وَاِنْ یَّمْسَسْکَ اللّٰہُ بِضُرٍّ فَلَا کَاشِفَ لَہٗٓ اِلَّا ہُوَ ۭ وَاِنْ یَّمْسَسْکَ بِخَیْرٍ فَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ» ہے۔ ۱؎ (6-الأنعام:17) اور بھی اس کی نظیر کی آیتیں بہت سی ہیں۔ امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بارش برستی تو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہم پر فتح کے تارے سے بارش برسائی گئی۔ پھر اسی آیت کی تلاوت کرتے (ابن ابی حاتم) فاطر
3 اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اس بات کی دلیل یہاں ہو رہی ہے کہ عبادتوں کے لائق صرف اللہ ہی کی ذات ہے کیونکہ خالق و رازق وہی ہے۔ پھر اس کے سوا دوسروں کی عبادت کرنا فاش غلطی ہے۔ دراصل اس کے سوا لائق عبادت اور کوئی نہیں۔ پھر تم اس واضح دلیل اور ظاہر برہان کے بعد کیسے بہک رہے ہو؟ اور دوسروں کی عبادت کی طرف جھکے جاتے ہو؟ «واللہ اعلم» فاطر
4 مایوسی کی ممانعت اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اگر آپ کے زمانے کے کفار آپ کی مخالفت کریں اور آپ کی بتائی ہوئی توحید اور خود آپ کی سچی رسالت کو جھٹلائیں۔ تو آپ شکستہ دل نہ ہو جایا کریں۔ اگلے نبیوں کے ساتھ بھی یہی ہوتا رہا۔ سب کاموں کا مرجع اللہ کی طرف ہے۔ وہ سب کو ان کے تمام کاموں کے بدلا دے گا اور سزا جزا سب کچھ ہو گی، لوگو قیامت کا دن حق ہے وہ یقیناً آنے والا ہے وہ وعدہ اٹل ہے۔ وہاں کی نعمتوں کے بدلے یہاں کے فانی عیش پر الجھ نہ جاؤ۔ دنیا کی ظاہری عیش کہیں تمہیں وہاں کی حقیقی خوشی سے محروم نہ کر دے۔ اسی طرح شیطان مکار سے بھی ہوشیار رہنا۔ اس کے چلتے پھرتے جادو میں نہ پھنس جانا۔ اس کی جھوٹی اور چکنی چپڑی باتوں میں آ کر اللہ رسول کے حق کلام کو نہ چھوڑ بیٹھنا۔ سورۃ لقمان کے آخر میں بھی یہی فرمایا ہے۔ پس غرور یعنی دھوکے باز یہاں شیطان کو کہا گیا ہے۔ جب مسلمانوں اور منافقوں کے درمیان قیامت کے دن دیوار کھڑی کر دی جائے گی جس میں دروازہ ہو گا۔ جس کے اندرونی حصے میں رحمت ہو گی اور ظاہری حصے میں عذاب ہو گا اس وقت منافقین مومنین سے کہیں گے کہ کیا ہم تمہارے ساتھی نہ تھے؟ یہ جواب دیں گے کہ ہاں ساتھ تو تھے لیکن تم نے تو اپنے تئیں فتنے میں ڈال دیا تھا اور سوچتے ہی رہے شک شبہ دور ہی نہ کیا خواہشوں کو پورا کرنے میں ڈوبے رہے۔ یہاں تک کہ اللہ کا حکم آ پہنچا اور دھوکے باز شیطان نے تمہیں بہلا وے میں ہی رکھا۔ اس آیت میں بھی شیطان کو غرور کہا گیا ہے، پھر شیطانی دشمنی کو بیان کیا کہ وہ تو تمہیں مطلع کر کے تمہاری دشمنی اور بربادی کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہے۔ پھر تم کیوں اس کی باتوں میں آ جاتے ہو؟ اور اس کے دھوکے میں پھنس جاتے ہو؟ اس کی اور اس کی فوج کی تو عین تمنا ہے کہ وہ تمہیں بھی اپنے ساتھ گھسیٹ کر جہنم میں لے جائے۔ اللہ تعالیٰ قوی و عزیز سے ہماری دعا ہے کہ وہ ہمیں شیطان کا دشمن ہی رکھے اور اس کے مکر سے ہمیں محفوظ رکھے اور اپنی کتاب اور اپنے نبی کی سنتوں کی پیروی کی توفیق عطا فرمائے۔ وہ ہرچیز پر قادر ہے اور دعاؤں کا قبول فرمانے والا ہے۔ جسطرح اس آیت میں شیطان کی دشمنی کا بیان کیا گیا ہے۔ اسی طرح سورۃ الکہف کی آیت «وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰۗیِٕکَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِیْسَ ۭ کَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ اَمْرِ رَبِّہٖۭ اَفَتَتَّخِذُوْنَہٗوَذُرِّیَّتَہٗٓ اَوْلِیَاۗءَ مِنْ دُوْنِیْ وَہُمْ لَکُمْ عَدُوٌّ ۭ بِئْسَ للظّٰلِمِیْنَ بَدَلًا» ۱؎ ،(18-الکہف:50) میں بھی اس کی دشمنی کا ذکر ہے۔ فاطر
5 فاطر
6 فاطر
7 شیطان کے تابعداروں کی جگہ جہنم اوپر بیان گزرا تھا کہ شیطان کے تابعداروں کی جگہ جہنم ہے۔ اس لیے یہاں بیان ہو رہا ہے کہ کفار کے لیے سخت عذاب ہے۔ اس لیے کہ یہ شیطان کے تابع اور رحمان کے نافرمان ہیں۔ مومنوں سے جو گناہ بھی ہو جائیں بہت ممکن ہے کہ اللہ انہیں معاف فرما دے اور جو نیکیاں ان کی ہیں ان پر انہیں بڑا بھاری اجر و ثواب ملے گا، کافر اور بدکار لوگ اپنی بد اعمالیوں کو نیکیاں سمجھ بیٹھے ہیں تو ایسے گمراہ لوگوں پر تیرا کیا بس ہے؟ ہدایت و گمراہی اللہ کے ہاتھ ہے۔ پس تجھے ان پر غمگین نہ ہونا چاہیئے۔ مقدرات اللہ جاری ہو چکے ہیں۔ مصلحت مالک الملوک کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ہدایت و ضلالت میں بھی اس کی حکمت ہے کوئی کام اس سچے حکیم کا حکمت سے خالی نہیں۔ لوگوں کے تمام افعال اس پر واضح ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی تمام مخلوق کو اندھیرے میں پیدا کیا پھر ان پر اپنا نور ڈالا پس جس پر وہ نور پڑ گیا وہ دنیا میں آ کر سیدھی راہ چلا اور جسے اس دن وہ نور نہ ملا وہ دنیا میں آ کر بھی ہدایت سے بہرہ ورہ نہ ہو سکا اسی لیے میں کہتا ہوں کہ اللہ عزوجل کے علم کے مطابق قلم چل کر خشک ہو گیا۔ ۱؎ (مسند احمد::176/2حسن) (ابن ابی حاتم) اور روایت میں ہے کہ ہمارے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور فرمایا اللہ کے لیے ہر تعریف ہے جو گمراہی سے ہدایت پر لاتا ہے اور جس پر چاہتا ہے گمراہی خلط ملط کر دیتا ہے ۱؎ (طبرانی کبیر:220/5،قال الشیخ زبیرعلی زئی:ضعیف) یہ حدیث بھی بہت ہی غریب ہے۔ فاطر
8 فاطر
9 موت کے بعد زندگی قرآن کریم میں موت کے بعد کی زندگی پر عموماً خشک زمین کے ہرا ہونے سے استدلال کیا گیا ہے۔ جیسے سورۃ الحج وغیرہ میں ہے۔۱؎ (22-الحج:5)بندوں کے لیے اس میں پوری عبرت اور مردوں کے زندہ ہونے کی پوری دلیل اس میں موجود ہے کہ زمین بالکل سوکھی پڑی ہے، کوئی تروتازگی اس میں نظر نہیں آتی لیکن بادل اٹھتے ہیں، پانی برستا ہے کہ اس کی خشکی، تازگی سے اور اس کی موت زندگی سے بدل جاتی ہے۔ یا تو ایک تنکا نظر نہ آتا تھا یا کوسوں تک ہریاول ہی ہریاول ہو جاتی ہے۔ اسی طرح بنو آدم کے اجزاء قبروں میں بکھرے پڑے ہوں گے ایک سے ایک الگ ہو گا۔ لیکن عرش کے نیچے سے پانی برستے ہی تمام جسم قبروں میں سے اگنے لگیں گے۔ جیسے زمین سے دانے الگ آتے ہیں۔ چنانچہ صحیح حدیث میں ہے ابن آدم تمام کا تمام گل سڑ جاتا ہے لیکن ریڑھ کی ہڈی نہیں سڑتی اسی سے پیدا کیا گیا ہے اور اس سے ترکیب دیا جائے گا۔۱؎ (صحیح بخاری:4814) یہاں بھی نشان بتا کر فرمایا کہ اسی طرح موت کے بعد کی زیست ہے۔ سورۃ الحج کی تفسیر میں یہ حدیث گذر چکی ہے کہ ابورزین رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ مردوں کو کس طرح زندہ کرے گا؟ اور اس کی مخلوق میں اس بات کی کیا دلیل ہے؟ آپ نے فرمایا اے ابورزین کیا تم اپنی بستی کے آس پاس کی زمین کے پاس سے اس حالت میں نہیں گذرے کہ وہ خشک بنجر پڑی ہوئی ہوتی ہے۔ پھر دوبارہ تم گذرتے ہو تو دیکھتے ہو کہ وہ سبزہ زار بنی ہوئی ہے اور تازگی کے ساتھ لہرا رہی ہے۔ ابو رزین نے جواب دیا ہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ تو اکثر دیکھنے میں آیا ہے۔ آپ نے فرمایا بس اسی طرح اللہ تعالیٰ مردوں کو زندہ کر دے گا۔۱؎ (مسند احمد::11/4ضعیف) فاطر
10 عزت اللہ کے پاس ہے جو شخص دنیا اور آخرت میں باعزت رہنا چاہتا ہو اسے اللہ تعالیٰ کی اطاعت گذاری کرنی چاہیئے وہی اس مقصد کا پورا کرنے والا ہے، دنیا اور آخرت کا مالک وہی ہے۔ ساری عزتیں اسی کی ملکیت میں ہیں۔ چنانچہ اور آیت میں ہے کہ جو لوگ مومنوں کو چھوڑ کر کفار سے دوستیاں کرتے ہیں کہ ان کے پاس ہماری عزت ہو وہ عزت کے حصول سے مایوس ہو جائیں کیونکہ عزت تو اللہ کے قبضے میں ہیں اور جگہ فرمان عالی شان ہے تجھے ان کی باتیں غم ناک نہ کریں، تمام تر عزتیں اللہ ہی کے لیے ہیں۔ اور آیت میں اللہ جل جلالہ کا فرمان ہے وَلِلہِ العِزَّۃُ وَلِرَسولِہِ وَلِلمُؤمِنینَ وَلٰکِنَّ المُنافِقینَ لا یَعلَمونَ (63-المنافقون:8) یعنی عزتیں اللہ ہی کے لیے ہیں اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اور ایمان والوں کے لیے لیکن منافق بےعلم ہیں۔۱؎ مجاہدرحمہ اللہ فرماتے ہیں بتوں کی پرستش میں عزت نہیں عزت والا تو اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ پس بقول قتادہ رحمہ اللہ آیت کا یہ مطلب ہے کہ طالب عزت کو احکام اللہ کی تعمیل میں مشغول رہنا چاہیئے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ جو یہ جاننا چاہتا ہو کہ کس کے لیے عزت ہے وہ جان لے کہ ساری عزتیں اللہ ہی کے لیے ہیں۔ ذکر، تلاوت ،دعا وغیرہ پاک کلمے اسی کی طرف چڑھتے ہیں۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جتنی حدیثیں تمہارے سامنے بیان کرتے ہیں۔ سب کی تصدیق کتاب اللہ سے پیش کر سکتے ہیں۔ سنو! مسلمان بندہ جب پڑھتا ہے تو ان کلمات کو فرشتہ اپنے پر تلے لے کر آسمان پر چڑھ جاتا ہے۔ فرشتوں کے جس مجمع کے پاس سے گذرتا ہے وہ مجمع ان کلمات کے کہنے والے کے لیے استغفار کرتا ہے۔ یہاں تک کہ رب العالمین عزوجل کے سامنے یہ کلمات پیش کئے جاتے ہیں۔ پھر آپ نے «ااِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہٗ» (35-فاطر:10)کی تلاوت کی۔ (ابن جریر) ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:399/10) کعب احبار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں «سبحان اللہ» اور «‏‏‏‏لا الہٰ الا اللہ اور اللہ اکبر» عرش کے اردگرد آہستہ آہستہ آواز نکالتے رہتے ہیں۔ جیسے شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ ہوتی ہے۔ اپنے کہنے والے کا ذکر اللہ کے سامنے کرتے رہتے ہیں اور نیک اعمال خزانوں میں محفوظ رہتے ہیں۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو لوگ اللہ کا جلال ،اس کی تسبیح، اس کی حمد، اس کی بڑائی، اس کی وحدانیت کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔ ان کے لیے ان کے یہ کلمات عرش کے آس پاس اللہ کے سامنے ان کا ذکر کرتے رہتے ہیں کیا تم نہیں چاہتے کہ کوئی نہ کوئی تمہارا ذکر تمہارے رب کے سامنے کرتا رہے؟ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:3809،قال الشیخ الألبانی:صحیح) سیدناابن رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے کہ پاک کلموں سے مراد ذکر اللہ ہے اور عمل صالح سے مراد فرائض کی ادائیگی ہے۔ پس جو شخص ذکر اللہ اور ادائے فریضہ کرے اس کا عمل اس کے ذکر کو اللہ تعالیٰ کی طرف چڑھاتا ہے۔ اور جو ذکر کرے لیکن فریضہ ادا نہ کرے اس کا کلام اس کے عمل پر لوٹا دیا جاتا ہے۔ اسی طرح مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ کلمہ طیب کو عمل صالح لے جاتا ہے اور بزرگوں سے بھی یہی منقول ہے بلکہ ایاس بن معاویہ قاضی رحمہ اللہ فرماتے ہیں قول بغیر عمل کے مردود ہے۔ برائیوں کے گھات میں لگنے والے وہ لوگ ہیں جو مکاری اور ریا کاری کے سے اعمال کرتے ہوں۔ لوگوں پر گویہ یہ ظاہر ہو کہ وہ اللہ کی فرماں برداری کرتے ہیں لکین دراصل اللہ کے نزدیک وہ سب سے زیادہ برے ہیں جو نیکیاں صرف دکھلاوے کی کرتے ہیں۔ یہ ذکر اللہ بہت ہی کم کرتے ہیں۔ عبدالرحمٰن رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے مراد مشرک ہیں۔ لیکن یہ صحیح ہے کہ یہ آیت عام ہے مشرک اس میں بطریق اولیٰ داخل ہیں۔ ان کے لیے سخت عذاب ہے اور ان کا مکر فاسد و باطل ہے۔ ان کا جھوٹ آج نہیں تو کل کھل جائے گا عقلمند ان کے مکر سے واقف ہو جائیں گے۔ جو شخص جو کچھ کرے اس کا اثر اس کے چہرے پر ہی ظاہر ہو جاتا ہے اس کی زبان اسی رنگ سے رنگ دی جاتی ہے۔ جیسا باطن ہوتا ہے اسی کا عکس ظاہر پر بھی پڑتا ہے۔ ریا کار کی بےایمانی لمبی مدت تک پوشیدہ نہیں رہ سکتی ہاں کوئی بیوقوف اس کے دام میں پھنس جائے تو اور بات ہے۔ مومن پورے عقلمند اور کامل دانا ہوتے ہیں وہ ان دھوکے بازوں سے بخوبی آگاہ ہو جاتے ہیں اور اس عالم الغیب اللہ پر تو کوئی بات بھی چھپ نہیں سکتی، اللہ تعالیٰ نے تمہارے باپ آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کیا اور ان کی نسل کو ایک ذلیل پانی سے جاری رکھا۔ پھر تمہیں جوڑا جوڑا بنایا یعنی مرد و عورت۔ یہ بھی اس کا لطف و کرم اور انعام واحسان ہے کہ مردوں کے لیے بیویاں بنائیں جو ان کے سکون و راحت کا سبب ہیں۔ ہر حاملہ کے حمل کی اور ہر بچے کے تولد ہونے کی اسے خبر ہے۔ بلکہ ہر پتے کے جھڑنے اور اندھیرے میں پڑے ہوئے دانے اور ہر ترو خشک چیز کا اسے علم ہے بلکہ اس کی کتاب میں وہ لکھا ہوا ہے۔ اسی آیت جیسی «اَللّٰہُ یَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ کُلٰ اُنْثٰی وَمَا تَغِیْضُ الْاَرْحَامُ وَمَا تَزْدَادُ ۭ وَکُلٰ شَیْءٍ عِنْدَہٗ بِمِقْدَارٍ» ‏‏‏‏ ۱؎ ،(13-الرعد:8) ہے اور وہیں اس کی پوری تفسیر بھی گذر چکی ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ عالم الغیب کو یہ بھی علم ہے کہ کس نطفے کو لمبی عمر ملنے والی ہے۔ یہ بھی اس کی پاس لکھا ہوا ہے «وَّلَا یُنْقَصُ مِنْ عُمُرِہٖٓ اِلَّا فِیْ کِتٰبٍ (35-فاطر:11)میں ہ کی ضمیر کا مرجع جنس ہے۔ عین ہی نہیں اس لیے کہ طول عمر کتاب میں ہے اور اللہ تعالیٰ کے علم میں اس کی عمر سے کمی نہیں ہوتی۔ جنس کی طرف بھی ضمیر لوٹتی ہے۔ جیسے عرب میں کہا جاتا ہے «عندی ثوب و نصفہ» یعنی میرے پاس ایک کپڑا ہے اور دوسرے کپڑے کا آدھا ہے۔ سیدناابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جس شخص کے لیے اللہ نے طویل عمر مقدر کی ہے وہ اسے پوری کر کے ہی رہے گا لیکن وہ لمبی عمر میری کتاب میں لکھی ہوئی موجود ہے وہیں تک پہنچے گی اور جس کے لیے میں نے کم عمر مقرر کی ہے اس کی حیات اسی عمر تک پہنچے گی یہ سب کچھ اللہ کی پہلی کتاب میں لکھی ہوئی موجود ہے اور رب پر یہ سب کچھ آسان ہے۔ عمر کے ناقص ہونے کا ایک مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جو نطفہ تمام ہونے سے پہلے ہی گر جاتا ہے وہ بھی اللہ کے علم میں ہے۔ بعض انسان سو سو سال کی عمر پاتے ہیں اور بعض پیدا ہوتے ہی مر جاتے ہیں۔ ساٹھ سال سے کم عمر میں مرنے والا بھی ناقص عمر والا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ماں کے پیٹ میں عمر کی لمبائی یا کمی لکھ لی جاتی ہے۔ ساری مخلوق کی یکساں عمر نہیں ہوتی کوئی لمبی عمر والا کوئی کم عمر والا۔ یہ سب اللہ کے ہاں لکھا ہوا ہے اور اسی کے مطابق ظہور میں آ رہا ہے۔ بعض کہتے ہیں اس کے معنی یہ ہیں کہ جو اجل لکھی گئی ہے اور اس میں سے جو گزر رہی ہے سب علم اللہ میں ہے اور اس کی کتاب میں لکھی ہوئی ہے۔ بخاری مسلم وغیرہ میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو یہ چاہے کہ اس کی روزی اور عمر بڑھے وہ صلہ رحمی کیا کرے۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2067) ابن ابی حاتم میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کسی کی اجل آ جانے کے بعد اسے مہلت نہیں ملتی۔ زیادتی عمر سے مراد نیک اولاد کا ہونا ہے جس کی دعائیں اسے اس کے مرنے کے بعد اس کی قبر میں پہنچتی رہتی ہے یہی زیادتی عمر ہے۔۱؎ (ابن عدی فی الکامل:285/3 ضعیف) یہ اللہ پر آسان ہے اس کا علم اس کے پاس ہے۔ اس کا علم تمام مخلوق کو گھیرے ہوئے ہے وہ ہر ایک چیز کو جانتا ہے۔ اس پر کچھ مخفی نہیں۔ فاطر
11 فاطر
12 قدرت الٰہی مختلف قسم کی چیزوں کی پیدائش کو بیان فرما کر اپنی زبردست قدرت کو ثابت کر رہا ہے۔ دو قسم کے دریا پیدا کر دیئے ایک تو صاف ستھرا میٹھا اور عمدہ پانی جو آبادیوں میں جنگلوں میں برابر بہہ رہا ہے اور دوسرا ساکن دریا جس کا پانی کھاری اور کڑوا ہے جس میں بڑی بڑی کشتیاں اور جہاز چل رہے ہیں اور دونوں قسم کے دریا میں سے قسم قسم کی مچھلیاں تم نکالتے ہو اور تروتازہ گوشت کھاتے رہتے ہو۔ پھر ان میں سے زیور نکالتے ہو یعنی لو لو اور مرجان۔ یہ کشتیاں برابر پانی کو کاٹتی رہتی ہیں۔ ہواؤں کا مقابلہ کر کے چلتی رہتی ہیں۔ تاکہ تم اس کا فضل تلاش کر لو تجارتی سفر ان پر طے کرو۔ ایک ملک سے دوسرے ملک میں پہنچ سکو تاکہ تم اپنے رب کا شکر کرو کہ اس نے یہ سب چیزیں تمہارے تابع فرمان بنا دیں۔ تم سمندر سے، دریاؤں سے، کشتیوں سے نفع حاصل کرتے ہو، جہاں جانا چاہو پہنچ جاتے ہو۔ اس قدرت والے اللہ نے زمین و آسمان کی چیزوں کو تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے یہ صرف اس کا ہی فضل و کرم ہے۔ فاطر
13 1 اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ کا بیان فرما رہا ہے کہ اس نے رات کو اندھیرے والی اور دن کو روشنی والا بنایا ہے۔ کبھی کی راتیں بڑی کبھی کے دن بڑے۔ کبھی دونوں یکساں۔ کبھی جاڑے ہیں کبھی گرمیاں ہیں۔ اسی نے سورج اور چاند کو تھمے ہوئے اور چلتے پھرتے ستاروں کو مطیع کر رکھا ہے۔ مقدار معین پر اللہ کی طرف سے مقرر شدہ چال پر چلتے رہتے ہیں۔ پوری قدرتوں والے اور کامل علم والے اللہ نے یہ نظام قائم کر رکھا ہے جو برابر چل رہا ہے اور وقت مقررہ یعنی قیامت تک یونہی جاری رہے گا۔ جس اللہ نے یہ سب کیا ہے وہی دراصل لائق عبادت ہے اور وہی سب کا پالنے والا ہے۔ اس کے سوا کوئی بھی لائق عبادت نہیں۔ جن بتوں کو، اور اللہ کے سوا جن جن کو لوگ پکارتے ہیں خواہ وہ فرشتے ہی کیوں نہ ہوں اور اللہ کے پاس بڑے درجے رکھنے والے ہی کیوں نہ ہوں لیکن سب کے سب اس کے سامنے محض مجبور اور بالکل بے بس ہیں۔ کھجور کی گٹھلی کے اوپر کے باریک چھلکے جیسی چیز کا بھی انہیں اختیار نہیں۔ آسمان و زمین کی حقیر سے حقیر چیز کا وہ مالک نہیں، جن جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ تمہاری آواز سنتے ہی نہیں۔ تمہارے یہ بت وغیرہ بیجان چیزیں کان والی نہیں جو سن سکیں۔ بیجان چیزیں بھی کہیں کسی کی سن سکتیں ہیں۔ اور بالفرض تمہاری پکار سن بھی لیں تو چونکہ ان کے قبضے میں کوئی چیز نہیں اس لئے وہ تمہاری حاجت برآری کر نہیں سکتے۔ قیامت کے دن تمہارے اس شرک سے وہ انکاری ہو جائیں گے تم سے بیزار نظر آئیں گے۔ جیسے فرمایا «‏‏‏‏وَمَنْ اَضَلٰ مِمَّنْ یَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَنْ لَّا یَسْتَجِیْبُ لَہٗٓ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ وَہُمْ عَنْ دُعَاۗیِٕہِمْ غٰفِلُوْنَ» ، ۱؎ (46-الأحقاف:5) یعنی اس سے زیادہ گمراہ کون ہو گا جو اللہ کے سوا ایسوں کو پکارتا ہے جو قیامت تک ان کی پکار کو نہ قبول کر سکیں بلکہ ان کی دعا سے وہ محض بیخبر اور غافل ہیں ۔اور میدان محشر میں وہ ان کے دشمن ہو جائیں گے اور ان کی عبادتوں سے منکر ہو جائیں گے ۔اور آیت میں ہے «وَاتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اٰلِہَۃً لِّیَکُوْنُوْا لَہُمْ عِزًّا» ۱؎(19-مریم:81) یعنی اللہ کے سوا اور معبود بنا لیے ہیں تاکہ وہ ان کے لیے باعث عزت بنیں لیکن ایسا نہیں ہو سکے گا بلکہ وہ ان کی عبادتوں سے بھی منکر ہو جائیں گے اور ان کے مخالف اور دشمن بن جائیں گے بھلا بتاؤ تو اللہ جیسی سچی خبریں اور کون دے سکتا ہے؟ جو اس نے فرمایا وہ یقیناً ہو کر ہی رہے گا جو کچھ ہونے والا ہے اس سے اللہ تعالیٰ پورا خبردار ہے اسی جیسی خبر کوئی اور نہیں دے سکتا۔ فاطر
14 فاطر
15 اللہ قادر مطلق اللہ ساری مخلوق سے بے نیاز ہے اور تمام مخلوق اس کی محتاج ہے۔ وہ غنی ہے اور سب فقیر ہیں۔ وہ بےپرواہ ہے اور سب اس کے حاجت مند ہیں۔ اس کے سامنے ہر کوئی ذلیل ہے اور وہ عزیز ہے ۔کسی قسم کی حرکت و سکون پر کوئی قادر نہیں سانس تک لینا کسی کے بس میں نہیں۔ مخلوق بالکل ہی بیبس ہے۔ غنی بےپرواہ اور بے نیاز صرف اللہ ہی ہے تمام باتوں پر قادر وہی ہے وہ جو کرتا ہے اس میں قابل تعریف ہے۔ اس کا کوئی کام حکمت و تعریف سے خالی نہیں۔ اپنے قول میں، اپنے فعل میں اپنی شرع میں تقدیروں کے مقرر کرنے میں غرض ہر طرح سے وہ بزرگ اور لائق حمد و ثناء ہے۔ لوگو اللہ کی قدرت ہے اگر وہ چاہے تو تم سب کو غارت و برباد کر دے اور تمہارے عوض دوسرے لوگوں کو لائے، رب پر یہ کام کچھ مشکل نہیں، قیامت کے دن کوئی دوسرے کے گناہ اپنے اوپر نہ لے گا۔ اگر کوئی گنہگار اپنے بعض یا سب گناہ دوسرے پر لادنا چاہے تو یہ چاہت بھی اس کی پوری نہ ہو گی۔ کوئی نہ ملے گا کہ اس کا بوجھ بٹائے عزیز و اقارب بھی منہ موڑ لیں گے اور پیٹھ پھیر لیں گے۔ گو ماں باپ اور اولاد ہو۔ ہر شخص اپنے حال میں مشغول ہو گا۔ ہر ایک کو اپنی اپنی پڑی ہو گی۔ عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں پڑوسی پڑوسی کے پیچھے پڑ جائے گا اللہ سے عرض کرے گا کہ اس سے پوچھ تو سہی کہ اس نے مجھ سے اپنا دروازہ کیوں بند کر لیا تھا؟ کافر مومن کے پیچھے لگ جائے گا اور جو احسان اس نے دنیا میں کئے تھے وہ یاد دلا کر کہے گا کہ آج میں تیرا محتاج ہوں مومن بھی اس کی سفارش کرے گا اور ہو سکتا ہے کہ اس کا عذاب قدرے کم ہو جائے گو جہنم سے چھٹکارا محال ہے۔ باپ اپنے بیٹے کو اپنے احسان جتائے گا اور کہے گا کہ رائی کے ایک دانے برابر مجھے آج اپنی نیکیوں میں سے دیدے وہ کہے گا ابا آپ چیز تو تھوڑی سی طلب فرما رہے ہیں لیکن آج تو جو کھٹکا آپ کو ہے وہی مجھے بھی ہے میں تو کچھ بھی نہیں دے سکتا۔ پھر بیوی کے پاس جائے گا اس سے کہے گا میں نے تیرے ساتھ دنیا میں کیسے سلوک کئے ہیں؟ وہ کہے گی بہت ہی اچھے یہ کہے گا آج میں تیرا محتاج ہوں مجھے ایک نیکی دیدے تاکہ عذابوں سے چھوٹ جاؤں جواب ملے گا کہ سوال تو بہت ہلکا ہے لیکن جس خوف میں تم ہو وہی ڈر مجھے بھی لگا ہوا ہے میں تو آج کچھ بھی سلوک نہیں کر سکتی۔ قرآن کریم کی اور آیت میں ہے «‏‏‏‏یٰٓاَیٰہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمْ وَاخْشَوْا یَوْمًا لَّا یَجْزِیْ وَالِدٌ عَنْ وَّلَدِہٖۡ وَلَا مَوْلُوْدٌ ہُوَ جَازٍ عَنْ وَّالِدِہٖ شَـیْـــــًٔا ۭ اِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّکُمُ الْحَیٰوۃُ الدٰنْیَا ۪ وَلَا یَغُرَّنَّکُمْ باللّٰہِ الْغَرُوْرُ» ‏‏‏‏ ۱؎ (31-لقمان:33) یعنی آج نہ باپ بیٹے کے کام آئے نہ بیٹا باپ کے کام آئے اور فرمان ہے «‏‏‏‏یَوْمَ یَفِرٰ الْمَرْءُ مِنْ اَخِیْہِ» ۱؎ (80-عبس:34) ، آج انسان اپنے بھائی سے، ماں سے، باپ سے، بیوی سے اور اولاد سے بھاگتا پھر ے گا۔ ہر شخص اپنے حال میں سمت و بیخود ہو گا۔ ہر ایک دوسرے سے غافل ہو گا، تیرے وعظ و نصیحت سے وہی لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں جو عقلمند اور صاحب فراست ہوں جو اپنے رب سے قدم قدم پر خوف کرنے والے اور اطاعت اللہ کرتے ہوئے نمازوں کو پابندی کے ساتھ ادا کرنے والے ہیں۔ نیک اعمال خود تم ہی کو نفع دیں گے جو پاکیزگیاں تم کروگے ان کا نفع تم ہی کو پہنچے گا۔ آخر اللہ کے پاس جانا ہے، اس کے سامنے پیش ہونا ہے، حساب کتاب اس کے سامنے ہونا ہے، اعمال کا بدلہ وہ خود دینے والا ہے۔ فاطر
16 فاطر
17 فاطر
18 فاطر
19 ایک موازنہ ارشاد ہوتا ہے کہ مومن و کفار برابر نہیں۔ جس طرح اندھا اور دیکھتا۔ اندھیرا اور روشنی، سایہ اور دھوپ، زندہ اور مردہ برابر نہیں۔ جس طرح ان چیزوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے اسی طرح ایماندار اور بے ایمان میں بھی بے انتہا فرق ہے۔ مومن آنکھوں والے اجالے، سائے اور زندہ کی مانند ہے۔ برخلاف اس کے کافر اندھے اندھیرے اور بھرپور لو والی گرمی کی مانند ہے۔ جیسے فرمایا «اَوَمَنْ کَانَ مَیْتًا فَاَحْیَیْنٰہُ وَجَعَلْنَا لَہٗ نُوْرًا یَّمْشِیْ بِہٖ فِی النَّاسِ کَمَنْ مَّثَلُہٗ فِی الظٰلُمٰتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِّنْہَا ۭ کَذٰلِکَ زُیِّنَ لِلْکٰفِرِیْنَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ» ۱؎ (6-الأنعام:122) ، یعنی جو مردہ تھا پھر اسے ہم نے زندہ کر دیا اور اسے نور دیا جسے لیے ہوئے لوگوں میں چل پھر رہا ہے ایسا شخص اور وہ شخص جو اندھیروں میں گھرا ہوا ہے جن سے نکل ہی نہیں سکتا کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟ اور آیت میں ہے «مَثَلُ الْفَرِیْقَیْنِ کَالْاَعْمٰی وَالْاَصَمِّ وَالْبَصِیْرِ وَالسَّمِیْعِ ۭ ہَلْ یَسْتَوِیٰنِ مَثَلًا ۭ اَفَلَا تَذَکَّرُوْنَ» ‏‏‏‏ ۱؎ (11-ہود:24) ، یعنی ان دونوں جماعتوں کی مثال اندھے بہرے اور دیکھنے اور سننے والوں کی سی ہے۔ مومن تو آنکھوں اور کانوں والا اجالے اور نور والا ہے پھر راہ مستقیم پر ہے۔ جو صحیح طور پر سایوں اور نہروں والی جنت میں پہنچے گا اور اس کے برعکس کافر اندھا بہرا اور اندھیروں میں پھنسا ہوا ہے جن سے نکل ہی نہ سکے گا اور ٹھیک جہنم میں پہنچے گا۔ جو تند و تیز حرارت اور گرمی والی آگ کا مخزن ہے۔ اللہ جسے چاہے سنا دے یعنی اس طرح سننے کی توفیق دے کہ دل سن کر قبول بھی کرتا جائے۔ تو قبر والوں کو نہیں سنا سکتا۔ فاطر
20 فاطر
21 فاطر
22 فاطر
23 1 یعنی جس طرح کوئی مرنے کے بعد قبر میں دفنا دیاجاتا ہے تو اسے پکارنا بےسود ہے۔ اسی طرح کفار ہیں کہ ہدایت و دعوت ان کے لیے بیکار ہے۔ اسی طرح ان مشرکوں پر بدبختی چھاگئی ہے اور ان کی ہدایت کی کوئی صورت باقی نہیں رہی۔ تو انہیں کسی طرح ہدایت پر نہیں لا سکتا تو صرف آگاہ کر دینے والا ہے۔ تیرے ذمے صرف تبلیغ ہے، ہدایت و ضلالت من جانب اللہ ہے۔ آدم علیہ السلام سے لے کر آج تک ہر امت میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم آتا رہا۔ تاکہ ان کا عذر باقی نہ رہ جائے۔ جیسے اور آیت میں ہے «وَّلِکُلِّ قَوْمٍ ہَادٍ» ‏‏‏‏ ۱؎ (13-الرعد:7) اور جیسے فرمان ہے «وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ» ‏‏‏‏ ۱؎ (16-النحل:36) ، وغیرہ، ان کا تجھے جھوٹا کہنا کوئی نئی بات نہیں ان سے پہلے کے لوگوں نے بھی اللہ کے رسولوں کو جھٹلایا ہے۔ جو بڑے بڑے معجزات، کھلی کھلی دلیلیں، صاف صاف آیتیں لے کر آئے تھے اور نورانی صحیفے ان کے ہاتھوں میں تھے، آخر ان کے جھٹلانے کا نتیجہ یہ ہوا کہ میں نے انہیں عذاب و سزا میں گرفتار کر لیا۔ دیکھ لے کہ میرے انکار کا نتیجہ کیا ہوا؟ کس طرح تباہ و برباد ہوئے؟ «واللہ اعلم» فاطر
24 فاطر
25 فاطر
26 فاطر
27 رب کی قدرتیں رب کی قدرتوں کے کمالات دیکھو کہ ایک ہی قسم کی چیزوں میں گوناگوں نمونے نظر آتے ہیں۔ ایک پانی آسمان سے اترتا ہے اور اسی سے مختلف قسم کے رنگ برنگے پھل پیدا ہو جاتے ہیں۔ سرخ سبز سفید وغیرہ اسی طرح ہر ایک کی خوشبو الگ الگ ہر ایک کا ذائقہ جداگانہ جیسے اور آیت میں فرمایا«‏‏‏‏وَفِی الْاَرْضِ قِطَعٌ مٰتَجٰوِرٰتٌ وَّجَنّٰتٌ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّزَرْعٌ وَّنَخِیْلٌ صِنْوَانٌ وَّغَیْرُ صِنْوَانٍ یٰسْقٰی بِمَاۗءٍ وَّاحِدٍ ۣ وَنُفَضِّلُ بَعْضَہَا عَلٰی بَعْضٍ فِی الْاُکُلِ ۭ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ» ۱؎ (13-الرعد:4)، یعنی کہیں انگور ہے، کہیں کھجور ہے، کہیں کھیتی ہے وغیرہ اسی طرح پہاڑوں کی پیدائش بھی قسم قسم کی ہے کوئی سفید ہے کوئی سرخ ہے کوئی کالا ہے۔ کسی میں راستے اور گھاٹیاں ہیں۔ کوئی لمبا ہے کوئی ناہموار ہے۔ (آیت ۲۸) ان بیجان چیزوں کے بعد جاندار چیزوں پر نظر ڈالو۔ انسانوں کو، جانوروں کو ،چوپایوں کو دیکھو ان میں بھی قدرت کی وضع وضع کی گلکاریاں پاؤ گے۔ بربرحبشی طماطم بالکل سیاہ فام ہوتے ہیں۔ مقالیہ رومی بالکل سفید رنگ ،عرب درمیانہ، ہندی ان کے قریب قریب۔ چنانچہ اور آیت میں ہے «وَمِنْ اٰیٰتِہٖ خَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافُ اَلْسِنَتِکُمْ وَاَلْوَانِکُمْ ۭ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّــلْعٰلِمِیْنَ» ۱؎ (30-الروم:22) تمہاری بول چال کا اختلاف تمہاری رنگتوں کا اختلاف بھی ایک عالم کے لیے تو قدرت کی کامل نشانی ہے۔ اسی طرح چوپائے اور دیگر حیوانات کے رنگ روپ بھی علیحدہ علیحدہ ہیں۔ بلکہ ایک ہی قسم کے جانوروں میں ان کی بھی رنگتیں مختلف ہیں۔ بلکہ ایک ہی جانور کے جسم پر کئی کئی قسم کے رنگ ہوتے ہیں۔ سبحان اللہ سب سے اچھا خالق اللہ کیسی کیسی کچھ برکتوں والا ہے۔ مسند بزار میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ سے سوال کیا کہ کیا اللہ تعالیٰ رنگ آمیزی بھی کرتا ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں ایسا رنگ رنگتا ہے جو کبھی ہلکا نہ پڑے۔ سرخ زرد اور سفید۔ ۱؎ (مسند بزار:2944:ضعیف) یہ حدیث مرسل اور موقوف بھی مروی ہے۔ اس کے بعد ہی فرمایا کہ جتنا کچھ خوف اللہ سے کرنا چاہیئے اتنا خوف تو اس سے صرف علماء ہی کرتے ہیں کیونکہ وہ جاننے بوجھنے والے ہوتے ہیں۔ حقیقتاً جو شخص جو قدر اللہ کی ذات سے متعلق معلومات زیادہ رکھے گا اسی قدر اس عظیم قدیر علیم اللہ کی عظمت وہیبت اس کے دل میں بڑھے گی اور اسی قدر اس کی خشیت اس کے دل میں زیادہ ہو گی۔ جو جانے گا کہ اللہ ہرچیز پر قادر ہے وہ قدم قدم پر اس سے ڈرتا رہے گا۔ اللہ کے ساتھ سچا علم اسے حاصل ہے جو اس کی ذات کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹہرائے اس کے حلال کئے ہوئے کو حلال اور اس کے حرام بتائے کاموں کو حرام جانے اس کے فرمان پر یقین کرے اس کی نصیحت کی نگہبانی کرے اس کی ملاقات کو برحق جانے اپنے اعمال کے حساب کو سچ سمجھے۔ خشیت ایک قوت ہوتی ہے جو بندے کے اور اللہ کی نافرمانی کے درمیان حائل ہو جاتی ہے عالم کہتے ہی اسے ہیں جو در پردہ بھی اللہ سے ڈرتا رہے اور اللہ کی رضا اور پسند کو چاہے رغبت کرے اور اس کی ناراضگی کے کاموں سے نفرت رکھے۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں باتوں کی زبادتی کا نام علم نہیں علم نام ہے بہ کثرت اللہ سے ڈرنے کا۔ امام مالک کا قول ہے کہ کثرت روایات کا نام علم نہیں علم تو ایک نام ہے نور ہے جسے اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے دل میں ڈال دیتا ہے۔ احد بن صالح مصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں علم کثرت روایات کا نام نہیں بلکہ علم اس کا جس کی تابعداری اللہ کی طرف سے فرض ہے یعنی کتاب و سنت اور جو اصحاب اور ائمہ سے پہنچا ہو وہ روایت سے ہی حاصل ہوتا ہے۔ نور جو بندے کے آگے آگے ہوتا ہے وہ علم کو اور اس کے مطلب کو سمجھ لیتا ہے۔ مروی ہے کہ علماء کی تین قسمیں ہیں عالم باللہ، عالم بامر اللہ اور عالم باللہ وبامر اللہ عالم باللہ، عالم بامر اللہ نہیں اور عالم با مر اللہ عالم باللہ نہیں۔ ہاں عالم باللہ و بامر اللہ وہ ہے جو اللہ سے ڈرتا ہو اور حدود فرائض کو جانتا ہو۔ عالم باللہ وہ ہے جو اللہ سے ڈرتا ہو لیکن حدود فرائض کو نہ جانتا ہو۔ عالم بامر اللہ وہ ہے جو حدود فرائض کو تو جانتا ہو لیکن اس کا دل اللہ کے خوف سے خالی ہو۔ فاطر
28 فاطر
29 کتاب اللہ کی تلاوت کے فضائل مومن بندوں کی نیک صفتیں بیان ہو رہی ہیں کہ وہ کتاب اللہ کی تلاوت میں مشغول رہا کرتے تھے ۔ ایمان کے ساتھ پڑھتے رہتے ہیں عمل بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ نماز کے پابند زکوٰۃ خیرات کے عادی ظاہر و باطن اللہ کے بندوں کے ساتھ سلوک کرنے والے ہوتے ہیں۔ اور وہ اپنے اعمال کے ثواب کے امیدوار اللہ سے ہوتے ہیں۔ جس کا ملنا یقینی ہے۔ جیسے کہ اس تفسیر کے شروع میں فضائل قرآن کے ذکر میں ہم نے بیان کیا ہے کہ کلام اللہ شریف اپنے ساتھی سے کہے گا کہ ہر تاجر اپنی تجارت کے پیچھے ہے اور تو تو سب کی سب تجارتوں کے پیچھے ہے۔ انہیں ان کے پورے ثواب ملیں گے بلکہ بہت بڑھا چڑھا کر ملیں گے جس کا خیال بھی نہیں۔ اللہ گناہوں کا بخشنے والا اور چھوٹے اور تھوڑے عمل کا بھی قدر دان ہے۔ مطرف رحمتہ اللہ علیہ تو اس آیت کو قاریوں کی آیت کہتے تھے۔ مسند کی ایک حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ جب کسی بندے سے راضی ہوتا ہے تو اس پر بھلائیوں کی ثناء کرتا ہے جو اس نے کی نہ ہوں اور جب کسی سے ناراض ہوتا ہے تو اسی طرح برائیوں کی۔ ۱؎ (مسند احمد:/338ضعیف) لیکن یہ حدیث بہت ہی غریب ہے۔ فاطر
30 فاطر
31 فضائل قرآن قرآن اللہ کا حق کلام ہے اور جس طرح اگلی کتابیں اس کی خبر دیتی رہی ہیں یہ بھی ان اگلی سچی کتابوں کی سچائی ثابت کر رہا ہے۔ رب خبیر و بصیر ہے۔ ہر مستحق فضیلت کو بخوبی جانتا ہے۔ انبیاء کو انسانوں پر اس نے اپنے وسیع علم سے فضیلت دی ہے۔ پھر انبیاء میں بھی آپس میں مرتبے مقرر کر دیئے ہیں اور علی الاطلاق حضور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا درجہ سب سے بڑا کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے تمام انبیاء پر درود و سلام بھیجے۔ فاطر
32 عظمت قرآن کریم اور ملت بیضا جس کتاب کا اوپر ذکر ہوا تھا اس بزرگ کتاب یعنی قرآن کریم کو ہم نے اپنے چیدہ بندوں کے ہاتھوں میں دیا ہے یعنی اس امت کے ہاتھوں۔ پھر حرمت والے کام بھی اس سے سرزد ہو گئے۔ بعض درمیانہ درجے کے رہے جنہوں نے محرمات سے تو اجتناب کیا واجبات بجا لاتے رہے لیکن کبھی کبھی کوئی مستحب کام ان سے چھوٹ بھی گیا اور کبھی کوئی ہلکی پھلکی نافرمانی بھی سرزد ہو گئی۔ بعض درجوں میں بہت ہی آگے نکل گئے۔ واجبات چھوڑ کر مستحباب کو بھی انہوں نے نہ چھوڑا اور محرمات چھوڑ کر مکروہات سے بھی یکسر الگ رہے۔ بلکہ بعض مرتبہ مباح چیزوں کو بھی ڈر کر چھوڑ دیا۔ سیدناابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ پسندیدہ بندوں سے مراد امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے جو اللہ کی ہر کتاب کی وارث بنائی گئی ہے۔ ان میں جو اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں انہیں بخشا جائے گا اور ان میں جو درمیانہ لوگ ہیں ان سے آسانی سے حساب لیا جائے گا اور ان میں جو نیکیوں میں بڑھ جانے والے ہیں انہیں بیحساب جنت میں پہنچایا جائے گا۔ طبرانی میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری شفاعت میری امت کے کبیرہ گناہ والوں کے لیے ہے۔ سیدناابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں سابق لوگ تو بغیر حساب کتاب کے جنت میں داخل ہوں گے اور میانہ رو رحمت رب سے داخل جنت ہوں گے اور اپنے نفسوں پر ظلم کرنے والے اور اصحاب اعراف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے جنت میں آئیں گے۔ الغرض اس امت کے ہلکے پھلکے گنہگار بھی اللہ کے پسندیدہ بندوں میں داخل ہیں۱؎ (طبرانی کبیر:11454:موضوع) «فالحمدللہ» گو اکثر سلف کا قول یہی ہے۔ لیکن بعض سلف نے یہ بھی فرمایا ہے کہ یہ لوگ نہ تو اس امت میں داخل ہیں نہ چیدہ اور پسندیدہ ہیں نہ وارثین کتاب ہیں۔ بلکہ مراد اس سے کافر منافق اور بائیں ہاتھ میں نامہ اعمال دیئے جانے والے ہیں پس یہ تین قسمیں وہی ہیں جن کا بیان سورۃ الواقعہ کے اول و آخر میں ہے۔ لیکن صحیح قول یہی ہے کہ یہ اسی امت میں ہیں۔ امام ابن جریر بھی اسی قول کو پسند کرتے ہیں اور آیت کے ظاہری الفاظ بھی یہی ہیں۔ احادیث سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے۔ چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ یہ تینوں گویا ایک ہیں اور تینوں ہی جنتی ہیں۔۱؎ (مسند احمد::78/3صحیح) یہ حدیث غریب ہے اور اس کے راویوں میں ایک راوی ہیں جن کا نام مذکور نہیں۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اس امت میں ہونے کے اعتبار سے اور اس اعتبار سے کہ وہ جنتی ہیں گویا ایک ہی ہیں۔ ہاں مرتبوں میں فرق ہونا لازمی ہے۔ دوسری حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کر کے فرمایا سابقین تو بیحساب جنت میں جائیں گے اور درمیانہ لوگوں سے آسانی کے ساتھ حساب لیا جائے گا اور اپنے نفسوں پر ظلم کرنے والے طول محشر میں روکے جائیں گے۔ پھر اللہ کی رحمتوں سے تلافی ہو جائے گی اور یہ کہیں گے اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہم سے غم و رنج دور کر دیا ہمارا رب بڑا ہی غفور و شکور ہے۔ جس نے ہمیں اپنے فضل و کرم سے رہائش کی ایسی جگہ عطا فرمائی جہاں ہمیں کوئی درد دکھ نہیں۔۱؎ (مسند احمد: 198/5:ضعیف) ابن ابی حاتم کی اس روایت میں الفاظ کی کچھ کمی بیشی ہے۔ ابن جریر نے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے۔ اس میں ہے کہ ابوثابت رضی اللہ عنہ مسجد میں آتے ہیں اور ابودرداء رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھ جاتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اللہ! میری وحشت کا انیس میرے لیے مہیا کر دے اور میری غربت پر رحم کر اور مجھے کوئی اچھا رفیق عطا فرما۔ یہ سن کر صحابی ان کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور فرماتے ہیں میں تیرا ساتھی ہوں سن میں آج تجھے وہ حدیث رسول سناتا ہوں جو میں نے آج تک کسی کو نہیں سنائی پھر اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا «سابق بالخیرات» تو جنت میں بیحساب جائیں گے اور مقتصد لوگوں سے آسانی کے ساتھ حساب لیا جائے گا اور «ظالم لنفسہ» کو اس مکان میں غم و رنج پہنچے گا۔ جس سے نجات پا کر وہ کہیں گے اللہ کا شکر ہے جس نے ہم سے غم و رنج دور کر دیا۔۱؎ (مسند احمد:194/5:ضعیف) تیسری حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تینوں کی نسبت فرمایا کہ یہ سب اسی امت میں سے ہیں۔۱؎ (طبرانی کبیر:410:ضعیف) چوتھی حدیث:میری امت کے تین حصے ہیں ایک بیحساب و بےعذاب جنت میں جانے والا۔ دوسرا آسانی سے حساب لیا جانے والا اور پھر بہشت نشیں ہونے والا۔ تیسری وہ جماعت ہو گی جن سے تفتیش و تلاش ہو گی لیکن پھرفرشتے حاضر ہو کر کہیں گے کہ ہم نے انہیں «‏‏‏‏لا الہٰ الا اللہ وحدہ» کہتے ہوئے پایا ہے اللہ تعالیٰ فرمائے گا سچ ہے میرے سوا کوئی معبود نہیں اچھا انہیں میں نے ان کے اس قول کی وجہ سے چھوڑا جاؤ انہیں جنت میں لے جاؤ اور ان کی خطائیں دوزخیوں پر لاد دو اسی کا ذکر آیت «وَلَیَحْمِلُنَّ اَثْــقَالَہُمْ وَاَثْــقَالًا مَّعَ اَثْقَالِہِمْ ۡ وَلَیُسْـَٔــلُنَّ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ عَمَّا کَانُوْا یَفْتَرُوْنَ» ۱؎ (29-العنکبوت:13) میں ہے یعنی وہ ان کے بوجھ اپنے بوجھ کے ساتھ اٹھائیں گے اس کی تصدیق اس میں ہے جس میں فرشتوں کا ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں میں سے جنہیں وارثین کتاب بنایا ہے ان کا ذکر کرتے ہوئے ان کی تین قسمیں بتائی ہیں پس ان میں جو اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہیں وہ بازپرس کئے جائیں گے۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:79/18:ضعیف) (ابن ابی حاتم) ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس امت کی قیات کے دن تین جماعتیں ہوں گی۔ ایک بیحساب جنت میں جانے والی ایک آسانی سے حساب لیے جانے والی ایک گنہگار جن کی نسبت اللہ تعالیٰ دریافت فرمائے گا حالانکہ وہ خوب جانتا ہے کہ یہ کون ہیں؟ فرشتے کہیں گے اللہ ان کے پاس بڑے بڑے گناہ ہیں لیکن انہوں نے کبھی بھی تیرے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا۔ رب عزوجل فرمائے گا انہیں میری وسیع رحمت میں داخل کر دو پھر عبداللہ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی۔ (ابن جریر) دوسرا اثر۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس آیت کے بارے میں سوال ہوتا ہے تو آپ فرماتی ہیں بیٹا یہ سب جنتی لوگ ہیں سابق بالخیرات تو وہ ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھے جنہیں خود آپ نے جنت کی بشارت دی۔ مقتصد وہ ہیں جنہوں نے آپ کے نقش قدم کی پیروی کی یہاں تک کہ ان سے مل گئے۔ اور ظالم لنفسہ مجھ تجھ جیسے ہیں (ابوداؤد طیالسی) خیال فرمایئے کہ صدیقہ رضی اللہ عنہا باوجودیکہ سابق بالخیرات میں سے بلکہ ان میں سے بھی بہترین درجے والوں میں سے ہیں لیکن کس طرح اپنے تئیں متواضع بناتی ہیں حالانکہ حدیث میں آ چکا ہے کہ تمام عورتوں پر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو وہی فضیلت ہے جو فضیلت ثرید کو ہر قسم کے طعام پر ہے۔ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ظالم لنفسہ تو ہمارے بدوی لوگ ہیں اور مقتصد ہمارے شہری لوگ ہیں اور سابق ہمارے مجاہد ہیں۔ (ابن ابی حاتم) ۱؎ (صحیح بخاری:3770) کعب احبار رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ تینوں قسم کے لوگ اسی امت میں سے ہیں اور سب جنتی ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان تینوں قسم کے لوگوں کے ذکر کے بعد جنت کا ذکر کر کے پھر فرمایا «وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَہُمْ نَارُ جَہَنَّمَ ۚ لَا یُقْضٰی عَلَیْہِمْ فَیَمُوْتُوْا وَلَا یُخَـفَّفُ عَنْہُمْ مِّنْ عَذَابِہَا ۭ کَذٰلِکَ نَجْزِیْ کُلَّ کَفُوْرٍ» ‏‏‏‏ (35-فاطر:36) پس یہ لوگ دوزخی ہیں۔ (ابن جریررحمہ اللہ) سیدناابن عباس رضی اللہ عنہما نے کعب سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا کعب کے اللہ کی قسم یہ سب ایک ہی زمرے میں ہیں ہاں اعمال کے مطابق ان کے درجات کم و بیش ہیں۔ ابواسحاق سیعی بھی اس آیت میں فرماتے ہیں کہ یہ تینوں جماعتیں ناجی ہیں۔ محمد بن حنفیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ امت مرحومہ ہے۔ ان کے گنہگاروں کو بخش دیا جائے گا اور ان کے مقصد اللہ کے پاس جنت میں ہوں گے۔ اور ان کے سابق بلند درجوں میں ہوں گے۔ محمد بن علی باقر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہاں جن لوگوں کو ظالم لنفسہ کہا گیا ہے یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے گناہ بھی کئے تھے اور نیکیاں بھی۔ ان احادیث اور آثار کو سامنے رکھ کر یہ تو صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ اس آیت میں عموم ہے اور اس امت کی ان تینوں قسموں کو یہ شامل ہے۔ پس علماء کرام اس نعمت کے ساتھ سب سے زیادہ رشک کے قابل ہیں اور اس رحمت کے سب سے زیادہ حقدار ہیں۔ جیسے کہ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ ایک شخص مدینے سے دمشق میں ابودرداء رضی اللہ عنہ کے پاس جاتا ہے اور آپ سے ملاقات کرتا ہے تو آپ دریافت فرماتے ہیں کہ پیارے بھائی یہاں کیسے آنا ہوا؟ وہ کہتے ہیں اس حدیث کے سننے کے لیے آیا ہوں جو آپ بیان کرتے ہیں۔ پوچھا کیا کسی تجارت کی غرض سے نہیں آئے؟ جواب دیا نہیں۔ پوچھا پھر کوئی اور مطلب بھی ہو گا؟ فرمایا کوئی مقصد نہیں۔ پوچھا پھر کیا صرف حدیث کی طلب کے لیے یہ سفر کیا ہے؟ جواب دیا کہ ہاں۔ فرمایا سنو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے جو شخص علم کی تلاشی میں کسی راستے کو قطع کرے اللہ اسے جنت کے راستوں میں چلائے گا۔ اللہ کی رحمت کے فرشتے طالب علموں کے لیے پر بچھا دیتے ہیں کیونکہ وہ ان سے بہت خوش ہیں اور ان کی خوشی کے خواہاں ہیں۔ عالم کے لیے آسمان و زمین کی ہرچیز استغفار کرتی ہے یہاں تک کہ پانی کے اندر کی مچھلیاں بھی۔ عابد و عالم کی فضیلت ایسی ہی ہے جیسی چاند کی فضیلت ستاروں پر، علماء نبیوں کے وارث ہیں۔ انبیاء علیہم السلام نے اپنے ورثے میں درہم و دینار نہیں چھوڑے ان کا ورثہ علم دین ہے۔ جس نے اسے لیا اس نے بڑی دولت حاصل کر لی۔ ۱؎ (سنن ابوداود:3641،قال الشیخ ا لألبانی:صحیح)(ابوداؤد، ترمذی وغیرہ) اس حدیث کے تمام طریق اور الفاظ اور شرح میں نے صحیح بخاری کتاب العلم کی شرح میں مفصلاً بیان کر دی ہے فالحمداللہ۔ سورۃ طہٰ کے شروع میں وہ حدیث گزر چکی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ علماء سے فرمائے گا۔ میں نے اپنا علم و حکمت تمہیں اس لیے ہی دیا تھا کہ تمہیں بخش دوں گو تم کیسے ہی ہو مجھے اس کی کچھ پرواہ ہی نہیں۔۱؎ (طبرانی کبیر:1381:ضعیف) فاطر
33 فاطر
34 اللہ کی کتاب کے وارث لوگ فرماتا ہے جن برگزیدہ لوگوں کو ہم نے اللہ کی کتاب کا وارث بنایا ہے انہیں قیامت کے دن ہمیشہ والی ابدی نعمتوں والی جنتوں میں لے جائیں گے۔ جہاں انہیں سونے کے اور موتیوں کے کنگن پہنائے جائیں گے۔ حدیث میں ہے مومن کا زیور وہاں تک ہو گا جہاں تک اس کے وضو کا پانی پہنچتا ہے۔۱؎ (صحیح مسلم:250) ان کا لباس وہاں پر خاص ریشمی ہو گا۔ جس سے دنیا میں وہ ممانعت کر دیئے گئے تھے۔ حدیث میں ہے جو شخص یہاں دنیا میں حریر و ریشم پہنے گا وہ اسے آخرت میں نہیں پہنایا جائے گا۔۱؎ (صحیح بخاری:5834) اور حدیث میں ہے یہ ریشم کافروں کے لیے دنیا میں ہے اور تم مومنوں کے لیے آخرت میں ہے۔۱؎ (صحیح بخاری:5831)اور حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل جنت کے زیوروں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا انیہں سونے چاندی کے زیور پہنائے جائیں گے جو موتیوں سے جڑاؤ کئے ہوئے ہوں گے۔ ان پر موتی اور یاقوت کے تاج ہوں گے۔ جو بالکل شاہانہ ہوں گے۔ وہ نوجوان ہوں گے بغیر بالوں کے سرمیلی آنکھوں والے،۱؎ )ابو نعیم فی صفۃ الجنۃ:(267وہ جناب باری عزوجل کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہیں گے کہ اللہ کا احسان ہے جس نے ہم سے خوف ڈر زائل کر دیا اور دنیا اور آخرت کی پریشانیوں اور پشمانیوں سے ہمیں نجات دے دی حدیث شریف میں ہے کہ لا الہٰ الا اللہ کہنے والوں پر قبروں میں میدان محشر میں کوئی دہشت و وحشت نہیں۔ میں تو گویا انہیں اب دیکھ رہا ہوں کہ وہ اپنے سروں پر سے مٹی جھاڑتے ہوئے کہہ رہے ہیں اللہ کا شکر ہے جس نے ہم سے غم و رنج دور کر دیا۔۱؎ (ابن حبان فی المجروحین:202/1:ضعیف) طبرانی میں ہے موت کے وقت بھی انہیں کوئی گھبراہٹ نہیں ہو گی۔۱؎ (مجمع الزوائد:18324) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے ان کی بڑی بڑی اور بہت سی خطائیں معاف کر دی گئیں اور چھوٹی چھوٹی اور کم مقدار نیکیاں قدر دانی کے ساتھ قبول فرمائی گئیں، یہ کہیں گے اللہ کا شکر ہے جس نے اپنے فضل و کرم ،لطف و رحم سے یہ پاکیزہ بلند ترین مقامات عطا فرمائے ہمارے اعمال تو اس قابل تھے ہی نہیں۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے تم میں سے کسی کو اس کے اعمال جنت میں نہیں لے جا سکتے لوگوں نے پوچھا آپ کو بھی نہیں؟ فرمایا ہاں مجھے بھی اسی صورت اللہ کی رحمت ساتھ دے گی۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5673) وہ کہیں گے یہاں تو ہمیں نہ کسی طرح کی مشقت و محنت ہے نہ تھکان اور کلفت ہے۔ روح الگ خوش ہے جسم الگ راضی راضی ہے۔ یہ اس کا بدلہ ہے جو دنیا میں اللہ کی راہ میں تکلیفیں انہیں اٹھانی پڑی تھیں آج راحت ہی راحت ہے۔ ان سے کہہ دیا گیا ہے کہ پسند اور دل پسند کھاتے پیتے رہو اور اس کے بدلے جو دنیا میں تم نے میری فرماں برداریاں کیں۔ فاطر
35 فاطر
36 برے لوگوں کا روح فرسا حال نیک لوگوں کا حال بیان فرما کر اب برے لوگوں کا حال بیان ہو رہا ہے کہ یہ دوزخ کی آگ میں جلتے جھلستے رہیں گے۔ انہیں وہاں موت بھی نہیں آئے گی جو مر جائیں۔ جیسے اور آیت میں ہے «‏‏‏‏ثُمَّ لَا یَمُوْتُ فِیْہَا وَلَا یَحْیٰی» ۱؎ (87-الأعلی:13) نہ وہاں انہیں موت آئے گی نہ کوئی اچھی زندگی ہو گی۔ صحیح مسلم شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔ جوابدی جہنمی ہیں انہیں وہاں موت نہیں آئے گی اور نہ اچھائی کی زندگی ملے گی۔ ۱؎(صحیح مسلم:185) وَنادَوا یا مالِکُ لِیَقضِ عَلَینا رَبٰکَ قالَ إِنَّکُم ماکِثونَ وہ تو کہیں گے کہ اے داروغہ جہنم تم ہی اللہ سے دعا کرو کہ اللہ ہمیں موت دیدے لیکن جواب ملے گا کہ تم تو یہیں پڑے رہو گے۔۱؎ (43-الزخرف:77) پس وہ موت کو اپنے لیے رحمت سمجھیں گے لیکن وہ آئے گی ہی نہیں۔ نہ مریں نہ عذابوں میں کمی دیکھیں۔ جیسے اور آیت میں ہے«اِنَّ الْمُجْرِمِیْنَ فِیْ عَذَابِ جَہَنَّمَ خٰلِدُوْنَ۔ لَا یُفَتَّرُ عَنْہُمْ وَہُمْ فِیہِ مُبْلِسُونَ» ۱؎ (43-الزخرف:-7574) یعنی کفار دائماً عذاب جہنم میں رہیں گے جو عذاب کبھی بھی نہ ہٹیں گے نہ کم ہوں گے۔ یہ تمام بھلائی سے محض مایوس ہوں گے اور جگہ فرمان ہے «کُلَّمَا خَبَتْ زِدْنٰہُمْ سَعِیْرًا» (17-الإسراء:79)۱؎ آگ جہنم ہمیشہ تیز ہوتی رہے گی۔ فرماتا ہے «‏‏‏‏فَذُوْقُوْا فَلَنْ نَّزِیْدَکُمْ اِلَّا عَذَابًا» ۱؎ (78-النبأ:30) لو اب مزے چکھو، عذاب ہی عذاب تمہارے لیے بڑھتے رہیں گے۔ کافروں کا یہی بدلہ ہے، وہ چیخ و پکار کریں گے ہائے وائے کریں گے دنیا کی طرف لوٹنا چاہیں گے اقرار کریں گے کہ ہم گناہ نہیں کریں گے نیکیاں کریں گے۔ لیکن رب العالمین خوب جانتا ہے کہ اگر یہ واپس بھی جائیں گے تو وہی سرکشی کریں گے اسی لیے ان کا یہ ارمان پورا نہ ہو گا۔ جیسے اور جگہ فرمایا کہ انہیں ان کے اس سوال پر جواب ملے گا کہ تم تو وہی ہو کہ جب اللہ کی وحدانیت کا بیان ہوتا تھا تو تم کفر کرنے لگتے تھے وہاں اس کے ساتھ شرک کرنے میں تمہیں مزہ آتا تھا۔ پس اب بھی اگر تمہیں لوٹا دیا گیا تو وہی کرو گے جس سے ممانعت کئے جاتے ہو۔ پس فرمایا انہیں کہا جائے گا کہ دنیا میں تو تم بہت جئے، تم اس لمبی مدت میں بہت کچھ کر سکتے تھے مثلاً سترہ سال جئے۔ قتادہ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ لمبی عمر میں بھی اللہ کی طرف سے حجت پوری کرنا ہے۔ اللہ سے پناہ مانگنی چاہیئے کہ عمر کے بڑھنے کے ساتھ ہی انسان برائیوں میں بڑھتا چلا جائے دیکھو تو یہ آیت جب اتری ہے اس وقت بعض لوگ صرف اٹھارہ سال کی عمر کے ہی تھے۔ وہب بن منبہ فرماتے ہیں مراد بیس سال کی عمر ہے۔ حسن فرماتے ہیں چالیس سال۔ مسروق فرماتے ہیں چالیس سال کی عمر میں انسان کو ہوشیار ہو جانا چاہیئے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اس عمر تک پہنچنا اللہ کی طرف سے عذر بندی ہو جاتا ہے۔ آپ ہی سے ساٹھ سال بھی مروی ہیں اور یہی زیادہ صحیح بھی ہے۔ جیسے ایک حدیث میں بھی ہے گو امام ابن جریر رحمہ اللہ اس کی سند میں کلام کرتے ہیں لیکن وہ کلام ٹھیک نہیں۔ علی رضی اللہ عنہ سے بھی ساٹھ سال ہی مروی ہیں۔ سید ناابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں قیامت کے دن ایک منادی یہ بھی ہو گی کہ ساٹھ سال کی عمر کو پہنچ جانے والے کہاں ہیں؟ لیکن اس کی سند ٹھیک نہیں۔ مسند میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جسے اللہ تبارک و تعالیٰ نے ساٹھ سال یا سترسال کی عمر کو پہنچا دیا اس کا کوئی عذر پھر اللہ کے ہاں نہیں چلنے کا۔ ۱؎ (مسند احمد: 275/6:صحیح) صحیح بخاری کتاب الرقاق میں ہے اس شخص کا عذر اللہ نے کاٹ دیا جسے ساٹھ سال تک دنیا میں رکھا۔۱؎ (صحیح بخاری:6419) اس حدیث کی اور سندیں بھی ہیں لیکن اگر نہ بھی ہوتیں تو بھی صرف امام بخاری رحمہ اللہ کا اسے اپنی صحیح میں وارد کرنا ہی اس کی صحت کا ثبوت تھا۔ ابن جریر رحمہ اللہ کا یہ کہنا کہ اس کی سند کی جانچ کی ضرورت ہے امام بخاری رحمہ اللہ کے صحیح کہنے کے مقابلے میں ایک جو کی بھی قیمت نہیں رکھتا۔ واللہ اعلم، بعض لوگ کہتے ہیں اطباء کے نزدیک طبعی عمر ایک سو بیس برس کی ہے ساٹھ سال تک تو انسان بڑھوتری میں رہتا ہے۔ پھر گھٹنا شروع ہو جاتا ہے۔ پس آیت میں بھی اسی عمر کو مراد لینا اچھا ہے اور یہی اس امت کی غالب عمر ہے۔ چنانچہ ایک حدیث میں ہے میری امت کی عمریں ساٹھ سے ستر سال تک ہیں اور اس سے تجاوز کرنے والے کم ہیں۔۱؎ (سنن ترمذی:3550،قال الشیخ الألبانی:حسن) (ترمذی وغیرہ) امام ترمذی رحمہ اللہ تو اس حدیث کی نسبت فرماتے ہیں اس کی اور کوئی سند نہیں لیکن تعجب ہے کہ امام صاحب نے یہ کیسے فرما دیا؟ اس کی ایک دوسری سند ابن ابی الدنیا میں موجود ہے۔ خود ترمذی میں بھی یہی حدیث دوسری سند سے کتاب الزہد میں مروی ہے۔ ایک اور ضعیف حدیث میں ہے میری امت میں ستر سال کی عمر والے بھی کم ہوں گے ۱؎(مسند ابویعلی:6544:ضعیف) اور روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کی امت کی عمر کی بابت سوال ہوا تو آپ نے فرمایا پچاس سے ساٹھ سال تک کی عمر ہے پوچھا گیا ستر سال کی عمر والے؟ فرمایا بہت کم اللہ ان پر اور اسی سال والوں پر اپنا رحم فرمائے۔ ۱؎ (مسند بزار:3586:ضعیف) (بزار) اس حدیث کا ایک راوی عثمان بن مطر قوی نہیں۔ صحیح حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر تریسٹھ سال کی تھی ۱؎(صحیح بخاری:3536) ایک قول ہے کہ ساٹھ سال کی تھی۱؎ (صحیح بخاری5900:) یہ بھی کہا گیا ہے کہ پینسٹھ برس کی تھی۔ (صحیح مسلم:2352) واللہ اعلم۔ (تطبیق یہ ہے کہ ساٹھ سال کہنے والے راوی دہائیوں کو لگاتے ہیں اکائیوں کو چھوڑ دیتے ہیں پینسٹھ سال والے سال تولد اور سال وفات کو بھی گنتے ہیں اور تریسٹھ والے ان دونوں برسوں کو نہیں لگاتے۔ پس کوئی اختلاف نہیں فالحمداللہ۔ مترجم) اور تمہارے پاس ڈرانے والے آ گئے یعنی سفید بال۔ یا خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ زیادہ صحیح قول دوسرا ہی ہے جیسے فرمان ہے «ہٰذَا نَذِیرٌ مِّنَ النٰذُرِ الْأُولَیٰ» ‏‏‏‏ ( ۱؎ (53-النجم:56) یہ پیغمبر نذیر ہیں۔ پس عمر دے کر، رسول بھیج کر اپنی حجت پوری کر دی۔ چنانچہ قیامت کے دن بھی جب دوزخی تمنائے موت کریں گے تو یہی جواب ملے گا کہ تمہارے پاس حق آ چکا تھا یعنی رسولوں کی زبانی ہم پیغام حق تمہیں پہنچا چکے تھے لیکن تم نہ مانے اور آیت میں ہے «وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلًا» ۱؎ (17-الإسراء:15) ہم جب تک رسول نہ بھیج دیں عذاب نہیں کرتے۔ سورۃ تبارک الذی۱؎ میں فرمان جب جہنمی جہنم میں ڈالے جائیں گے وہاں کے داروغے ان سے پوچھیں گے کہ کیا تمہارے پاس ڈرانے والے نہیں آئے تھے؟ یہ جواب دیں گے کہ ہاں آئے تھے لیکن ہم نے انہیں نہ مانا، انہیں جھوٹا جانا اور کہہ دیا کہ اللہ نے تو کوئی کتاب وغیرہ نازل نہیں فرمائی۔ (67-الملک:-98) تم یونہی بک رہے ہو، پس آج قیامت کے دن ان سے کہہ دیا جائے گا کہ نبیوں کی مخالفت کا مزہ چکھو مدت العمر انہیں جھٹلاتے رہے اب آج اپنے اعمال کے بدلے اٹھاؤ اور سن لو کوئی نہ کھڑا ہو گا جو تمہارے کام آ سکے تمہاری کچھ مدد کر سکے اور عذابوں سے بچا سکے یا چھڑا سکے۔ فاطر
37 فاطر
38 وسیع العلم اللہ تعالٰی کا فرمان اللہ تعالیٰ اپنے وسیع اور بےپایاں علم کا بیان فرما رہا ہے کہ وہ آسمان و زمین کی ہرچیز کا عالم ہے دلوں کے بھید سینوں کی باتیں اس پر عیاں ہیں۔ ہر عامل کو اس کے عمل کا بدلہ وہ دے گا، اس نے تمہیں زمین میں ایک دوسرے کا خلیفہ بنایا ہے۔ کافروں کے کفر کا وبال خود ان پر ہے۔ وہ جیسے جیسے اپنے کفر میں بڑھتے ہیں ویسے ہی اللہ کی ناراضگی ان پر بڑھتی ہے اور ان کا نقصان زیادہ ہوتا جاتا ہے۔ برخلاف مومن کے کہ اس کی عمر جس قدر بڑھتی ہے نیکیاں بڑھتی ہیں اور درجے پاتا ہے اور اللہ کے ہاں مقبول ہوتا جاتا ہے۔ فاطر
39 فاطر
40 مدلل پیغام اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے فرما رہا ہے کہ آپ مشرکوں سے فرمایئے کہ اللہ کے سوا جن جن کو تم پکارا کرتے ہو تم مجھے بھی تو ذرا دکھاؤ کہ انہوں نے کس چیز کو پیدا کیا ہے؟ یا یہی ثابت کر دو کہ آسمانوں میں ان کا کون سا حصہ ہے؟ جب کہ نہ وہ خالق نہ ساجھی پھر تم مجھے چھوڑ کر انہیں کیوں پکارتے ہو؟ وہ تو ایک ذرے کے بھی مالک نہیں۔ اچھا یہ بھی نہیں تو کم از کم اپنے کفر و شرک کی کوئی کتابی دلیل ہی پیش کر دو۔ لیکن تم یہ بھی نہیں کر سکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ تم صرف اپنی نفسانی خواہشوں اور اپنی رائے کے پیچھے لگ گئے ہو دلیل کچھ بھی نہیں۔ باطل جھوٹ اور دھوکے بازی میں مبتلا ہو۔ ایک دوسرے کو فریب دے رہے ہو، اپنے ان جھوٹے معبودوں کی کمزوری اپنے سامنے رکھ کر اللہ تعالیٰ کی جو سچا معبود ہے قدرت و طاقت دیکھو کہ آسمان و زمین اس کے حکم سے قائم ہیں۔ ہر ایک اپنی جگہ رکا اور تھما ہوا ہے۔ ادھر ادھر جنبش بھی تو نہیں کر سکتا۔ آسمان کو زمین پر گر پڑنے سے اللہ تعالیٰ رکے ہوئے ہے۔ یہ دونوں اس کے فرمان سے ٹھہرے ہوئے ہیں۔ اس کے سوا کوئی نہیں جو انہیں تھام سکے، روک سکے، نظام پر قائم رکھ سکے۔ اس حلیم و غفور اللہ کو دیکھو کہ مخلوق و مملوک، نافرمانی و سرکشی، کفر و شرک دیکھتے ہوئے بھی بربادی اور بخشش سے کام لے رہا ہے، ڈھیل اور مہلت دیئے ہوئے ہے۔ گناہوں کو معاف فرماتا ہے۔ ابن ابی حاتم میں اس آیت کی تفسیر میں ایک غریب بلکہ منکر حدیث ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کا ایک واقعہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ منبر پر بیان فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں خیال گزرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کبھی سوتا بھی ہے؟ تو اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتہ ان کے پاس بھیج دیا جس نے انہیں تین دن تک سونے نہ دیا۔ پھر ان کے ایک ایک ہاتھ میں ایک ایک بوتل دے دی اور حکم دیا کہ ان کی حفاظت کرو یہ گریں نہیں ، ٹوٹیں نہیں۔ موسیٰ علیہ السلام انہیں ہاتھوں میں لے کر حفاظت کرنے لگے لیکن نیند کا غلبہ ہونے لگا اونگھ آنے گی۔ کچھ جھکولے تو ایسے آئے کہ آپ ہوشیار ہو گئے اور بوتل گرنے نہ دی لیکن آخر نیند غالب آ گئی اور بوتلیں ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر گر گئیں اور چورا چور ہو گئیں۔ مقصد یہ تھا کہ سونے والا دو بوتلیں بھی تھام نہیں سکتا۔ پھر اللہ تعالیٰ سوتا تو زمین و آسمان کی حفاظت کیسے ہوتی؟۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:5782) لیکن بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نہیں بلکہ بنی اسرائیل کی گھڑنت ہے۔ بھلا موسیٰ علیہ السلام جیسا جلیل القدر پیغمبر یہ تصور بھی کر سکتا ہے؟ کہ اللہ تعالیٰ سو جاتا ہے۔ باوجود یکہ اللہ تعالیٰ اپنی صفات میں فرما چکا ہے کہ اسے نہ تو اونگھ آئے نہ نیند۔ زمین و آسمان کی کل چیزوں کا مالک صرف وہی ہے۔ بخاری و مسلم میں حدیث ہے کہ اللہ تعالیٰ نہ تو سوتا ہے نہ سونا اس کی شایان شان ہے۔ وہ ترازو کو اونچا نیچا کرتا رہتا ہے۔ دن کے عمل رات سے پہلے اور رات کے اعمال دن سے پہلے اس کی طرف چڑھ جاتے ہیں۔ اس کا حجاب نور ہے۔ یا آگ ہے۔ اگر اسے کھول دے تو اس کے چہرے کی تجلیاں جہاں تک اس کی نگاہ پہنچتی ہے سب مخلوق کو جلا دیں۔ ابن جریر میں ہے کہ ایک شخص عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا آپ نے اس سے دریافت فرمایا کہ کہاں سے آ رہے ہو؟ اس نے کہا شام سے۔ پوچھا وہاں کس سے ملے؟ کہا کعب رحمہ اللہ سے۔ پوچھا کعب نے کیا بات بیان کی؟ کہا یہ کہ آسمان ایک فرشتے کے کندھے تک گھوم رہے ہیں۔ پوچھا تم نے اسے سچ جانا یا جھٹلا دیا؟ جواب دیا کچھ بھی نہیں۔ فرمایا پھر تو تم نے کچھ بھی نہیں کیا۔ سنو کعب نے غلط کہا پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی۔ اس کی اسناد صحیح ہے۔ دوسری سند میں آنے والے کا نام ہے کہ وہ جندب بجلی رضی اللہ عنہ تھے۔ امام مالک رحمہ اللہ بھی اس کی تردید کرتے تھے کہ آسمان گردش میں ہیں اور اسی آیت سے دلیل لیتے تھے اور اس حدیث سے بھی جس میں ہے مغرب میں ایک دروازہ ہے جو توبہ کا دروازہ ہے وہ بند نہ ہو گا جب تک کہ آفتاب مغرب سے طلوع نہ ہو۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3536،قال الشیخ الألبانی:حسن) حدیث بالکل صحیح ہے۔ «واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم» فاطر
41 فاطر
42 قسمیں کھا کر مکرنے والے ظالم قریش نے اور عرب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے بڑی سخت قسمیں کھا رکھی تھیں کہ اگر اللہ کا کوئی رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں آئے تو ہم تمام دنیا سے زیادہ اس کی تابعداری کریں گے۔ جیسے اور جگہ فرمان ہے «ااَنْ تَقُوْلُوْٓا اِنَّمَآ اُنْزِلَ الْکِتٰبُ عَلٰی طَاۗیِٕفَتَیْنِ مِنْ قَبْلِنَا ۠ وَاِنْ کُنَّا عَنْ دِرَاسَتِہِمْ لَغٰفِلِیْنَ» ۱؎ (6-الأنعام:156)، یعنی اس لیے کہ تم یہ نہ کہہ سکو کہ ہم سے پہلے کی جماعتوں پر تو البتہ کتابیں اتریں۔ لیکن ہم تو ان سے بیخبر ہی رہے۔ اگر ہم پر کتاب اترتی تو ہم ان سے بہت زیادہ راہ یافتہ ہو جاتے۔ تو لو اب تو خود تمہارے پاس تمہارے رب کی بھیجی ہوئی دلیل آ پہنچی ہدایت و رحمت خود تمہارے ہاتھوں میں دی جا چکی اب بتاؤ کہ رب کی آیتوں کی تکذیب کرنے والوں اور ان سے منہ موڑنے والوں سے زیادہ ظالم کون ہے؟ اور آیتوں میں ہے کہ یہ کہا کرتے تھے کہ اگر ہمارے اپنے پاس اگلے لوگوں کے عبرتناک واقعات ہوتے تو ہم تو اللہ کے مخلص بندے بن جاتے۔ لیکن پھر بھی انہوں نے اس کے ان کے پاس آچکنے کے بعد کفر کیا اب انہیں عنقریب اس کا انجام معلوم ہو جائے گا۔ ان کے پاس اللہ کے آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اور رب کی آخری اور افضل تر کتاب آ چکی لیکن یہ کفر میں اور بڑھ گئے، انہوں نے اللہ کی باتیں ماننے سے تکبر کیا خود نہ مان کر پھر اپنی مکاریوں سے اللہ کے دوسرے بندوں کو بھی اللہ کی راہ سے روکا۔ لیکن انہیں باور کر لینا چاہیئے کہ اس کا وبال خود ان پر پڑے گا۔ یہ اللہ کا نہیں البتہ اپنا بگاڑ رہے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مکاریوں سے پرہیز کرو مکر کا بوجھ مکار پر ہی پڑتا ہے اور اس کی جواب دہی اللہ کے ہاں ہو گی۔۱؎ (الدرالمنثور للسیوطی:480/5) محمد بن کعب قرظی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ تین کاموں کاکرنے والا نجات نہیں پا سکتا، ان کاموں کا وبال ان پر یقیناً آئے گا، مکر، بغاوت اور وعدوں کو توڑ دینا پھر آپ نے یہی آیت پڑھی، انہیں صرف اسی کا انتظار ہے جو ان جیسے ان پہلے گزرنے والوں کا حال ہوا۔ کہ اللہ کے رسولوں کی تکذیب اور فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی وجہ سے اللہ کے دائمی عذب ان پر آ گئے۔ پس یہ تو اللہ تعالیٰ کی عادت ہی ہے اور تو غور کر۔ رب کی عادت بدلتی نہیں نہ پلٹتی ہے۔ جس قوم پر عذاب کا ارادہ الہی ہو چکا پھر اس ارادے کے بدلنے پر کوئی قدرت نہیں رکھتا کہ ان پر سے عذاب ہٹیں نہ وہ ان سے بچیں۔ نہ کوئی انہیں گھما سکے۔ واللہ اعلم۔ فاطر
43 فاطر
44 عبرت ناک مناظر سے سبق لو حکم ہوتا ہے کہ ان منکروں سے فرما دیجئیے کہ زمین میں چل پھر کر دیکھیں تو سہی کہ ان جیسے ان سے پہلے کے لوگوں کا کیسا عبرتناک انجام ہوا۔ ان کی نعمتیں چھن گئیں، ان کے محلات اجاڑ دیئے گئے، ان کی طاقت تنہا ہو گئی، ان کے مال تباہ کر دیئے گئے، ان کی اولادیں ہلاک کر دی گئیں، اللہ کے عذاب ان پر سے کسی طرح نہ ٹلے۔ آئی ہوئی مصیبت کو وہ نہ ہٹا سکے، نوچ لیے گئے، تباہ و برباد کر دیئے گئے، کچھ کام نہ آیا، کوئی فائدہ کسی سے نہ پہنچا۔ اللہ کو کوئی ہرا نہیں سکتا، اسے کوئی امر عاجز نہیں کر سکتا، اس کا کوئی ارادہ کامیابی سے جدا نہیں، اس کا کوئی حکم کسی سے ٹل نہیں سکتا ، وہ تمام کائنات کا عالم ہے وہ تمام کاموں پر قادر ہے۔ اگر وہ اپنے بندوں کے تمام گناہوں پر پکڑ کرتا تو تمام آسمانوں والے اور زمینوں والے ہلاک ہو جاتے۔ جانور اور رزق تک برباد ہو جاتے۔ جانوروں کو ان کے گھونسلوں اور بھٹوں میں بھی عذاب پہنچ جاتا۔ زمین پر کوئی جانور باقی نہ بچتا۔ لیکن اب ڈھیل دیئے ہوئے ہے عذابوں کو مؤخر کئے ہوئے ہے وقت آ رہا ہے کہ قیامت قائم ہو جائے اور حساب کتاب شروع ہو جائے۔ اطاعت کا بدلہ اور ثواب ملے۔ نافرمانی کا عذاب اور اس پر سزا ہو۔ اجل آنے کے بعد پھر تاخیر نہیں ملنے کی۔ اللہ عزوجل اپنے بندوں کو دیکھ رہا ہے اور وہ بخوبی دیکھنے والا ہے۔ فاطر
45 فاطر
0 يس
1 صراط مستقیم کی وضاحت حروف مقطعات جو سورتوں کے شروع میں ہوتے ہیں جیسے یہاں یاسین ہے ان کا پورا بیان ہم سورۃ البقرہ کی تفسیر کے شروع میں کر چکے ہیں لہٰذا اب یہاں اسے دہرانے کی ضرورت نہیں ۔ بعض لوگوں نے کہا کہ یٰسین سے مراد اے انسان ہے ۔ بعض کہتے ہیں حبشی زبان میں اے انسان کے معنی میں یہ لفظ ہے ۔ کوئی کہتا ہے یہ اللہ کا نام ہے ، پھر فرماتا ہے قسم ہے محکم اور مضبوط قرآن کی جس کے آس پاس بھی باطل پھٹک نہیں سکتا ، کہ بالیقین اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم علیہ وسلم آپ اللہ کے سچے رسول ہیں ، سچے اچھے مضبوط اور عمدہ سیدھے اور صاف دین پر آپ ہیں ، یہ راہ اللہ رحمن و رحیم صراط مستقیم کی ہے ، اسی کا اترا ہوا یہ دین ہے جو عزت والا اور مومنوں پر خاص مہربانی کرنے والا ہے ۔ جیسے فرمان ہے «وَاِنَّکَ لَـــتَہْدِیْٓ اِلٰی صِرَاطٍ مٰسْتَقِیْمٍ» ( 42- الشوری : 52 ) ، تو یقیناً راہ راست کی رہبری کرتا ہے جو اس اللہ کی سیدھی راہ ہے جو آسمان و زمین کا مالک ہے اور جس کی طرف تمام امور کا انجام ہے ، تاکہ تو عربوں کو ڈرا دے جن کے بزرگ بھی آگاہی سے محروم تھے جو محض غافل ہیں ۔ ان کا تنہا ذکر کرنا اس لیے نہیں کیا کہ دوسرے اس تنبیہہ سے الگ ہیں ۔ جیسے کہ بعض افراد کے ذکر سے عام کی نفی نہیں ہوتی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت عام تھی ساری دنیا کی طرف تھی اس کے دلائل وضاحت و تفصیل سے آیت «قُلْ یٰٓاَیٰھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعَا» ( 7- الاعراف : 158 ) کی تفسیر میں بیان ہو چکے ہیں ، اکثر لوگوں پر اللہ کے عذابوں کا قول ثابت ہو چکا ہے ۔ انہیں تو ایمان نصیب نہیں ہونے کا وہ تو تجھے جھٹلاتے ہی رہیں گے ۔ يس
2 يس
3 يس
4 يس
5 يس
6 يس
7 يس
8 شب ہجرت اور کفار کے سر خاک اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان بدنصیبوں کا ہدایت تک پہنچنا بہت مشکل بلکہ محال ہے ۔ یہ تو ان لوگوں کی طرح ہیں جن کے ہاتھ گردن پر باندھ دیئے جائیں اور ان کا سر اونچا جا رہا ہو ۔ گردن کے ذکر کے بعد ہاتھ کا ذکر چھوڑ دیا لیکن مراد یہی ہے کہ گردن سے ملا کر ہاتھ باندھ دیئے گئے ہیں اور سر اونچے ہیں اور ایسا ہوتا ہے کہ بولنے میں ایک چیز کا ذکر کر کے دوسری چیز کو جو اسی سے سمجھ لی جاتی ہے اس کا ذکر چھوڑ دیتے ہیں عرب شاعروں کے شعر میں بھی یہ بات موجود ہے ۔ غل کہتے ہی ہیں دونوں ہاتھوں کو گردن تک پہنچا کر گردن کے ساتھ جکڑ بند کر دینے کو ۔ اسی لیے گردن کا ذکر کیا اور ہاتھوں کا ذکر چھوڑ دیا ۔ مطلب یہ ہے کہ ہم نے ان کے ہاتھ ان کی گردنوں سے باندھ دیئے ہیں اس لیے وہ کسی کار خیر کی طرف ہاتھ بڑھا نہیں سکتے ان کے سر اونچے ہیں ان کے ہاتھ ان کے منہ پر ہیں وہ ہر بھلائی کرنے سے قاصر ہیں ، گردنوں کے اس طوق کے ساتھ ہی ان کے آگے دیوار ہے جو حق تسلیم کرنے میں مانع ہے ۔ پیچھے بھی دیوار ہے یعنی حق کو ماننے میں رکاوٹ ہے یعنی حق سے روک ہے ۔ اس وجہ سے تردد میں پڑے ہوتے ہیں حق کے پاس آنہیں سکتے ۔ گمراہیوں میں گھرے ہوئے ہیں ۔ آنکھوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں ۔ حق کو دیکھ ہی نہیں سکتے ۔ نہ حق کی طرف راہ پائیں ۔ نہ حق سے فائدہ اٹھائیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی قرأت میں «فَأَغْشَیْنَاہُمْ» عین سے ہے ۔ یہ ایک قسم کی آنکھ کی بیماری ہے جو انسان کو نابینا کر دیتی ہے ۔ پس اسلام و ایمان کے اور ان کے درمیان چو طرفہ رکاوٹ ہے ۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ جن پر تیرے رب کا کلمہ حق ہو چکا ہے وہ تو ایمان لانے کے ہی نہیں اگرچہ تو انہیں سب آیتیں بتا دے یہاں تک کہ وہ درد ناک عذابوں کو خود دیکھ لیں ۔ جسے اللہ روک دے وہ کہاں سے روک ہٹا سکے ۔ ایک مرتبہ ابوجہل ملعون نے کہا کہ اگر میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لوں گا تو یوں کروں گا اور یوں کروں گا اس پر یہ آیتیں اتریں ۔ لوگ اسے کہتے تھے یہ ہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم لیکن اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم دکھائی نہیں دیتے تھے اور پوچھتا تھا کہاں ہیں ؟ کہاں ہیں ؟ ایک مرتبہ اسی ملعون نے ایک مجمع میں کہا تھا کہ یہ دیکھو کہتا ہے کہ اگر تم اس کی تابعداری کرو گے تو تم بادشاہ بن جاؤ گے اور مرنے کے بعد خلد نشین ہو جاؤ گے اور اگر تم اس کا خلاف کرو گے تو یہاں ذلت کی موت مارے جاؤ گے اور وہاں عذابوں میں گرفتار ہو گے ۔ آج آنے تو دو ۔ اسی وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مٹھی میں خاک تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابتداء سورۃ یٰسین سے «لایبصرون» تک پڑھتے ہوئے آ رہے تھے ۔ اللہ نے ان سب کو اندھا کر دیا اور آپ ان کے سروں پر خاک ڈالتے ہوئے تشریف لے گئے ۔ ان بدبختوں کا گروہ کا گروہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کو گھیرے ہوئے تھا اس کے بعد ایک صاحب گھر سے نکلے ان سے پوچھا کہ تم یہاں کیسے گھیرا ڈالے کھڑے ہو انہوں نے کہا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے انتظار میں آج اسے زندہ نہیں چھوڑیں گے اس نے کہا واہ واہ وہ تو گئے بھی اور تم سب کے سروں پر خاک ڈالتے ہوئے نکل گئے ہیں ۔ یقین نہ ہو تو اپنے سر جھاڑو اب جو سر جھاڑے تو واقعی خاک نکلی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جب ابوجہل کی یہ بات دوہرائی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس نے ٹھیک کہا فی الواقع میری تابعداری ان کے لیے دونوں جہاں کی عزت کا باعث ہے اور میری نافرمانی ان کے لیے ذلت کا موجب ہے اور یہی ہو گا ، ان پر مہر اللہ کی لگ چکی ہے یہ نیک بات کا اثر نہیں لیتے ۔ سورۃ البقرہ میں بھی اس مضمون کی ایک آیت گزر چکی ہے اور آیت میں ہے «ااِنَّ الَّذِیْنَ حَقَّتْ عَلَیْہِمْ کَلِمَتُ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ» ( 10- یونس : 96 ) ، یعنی جن پر کلمہ عذاب ثابت ہو گیا ہے انہیں ایمان نصیب نہیں ہونے کا گو تو انہیں تمام نشانیاں دکھادے یہاں تک کہ وہ خود اللہ کے عذاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں ، ہاں تیری نصیحت ان پر اثر کر سکتی ہے جو بھلی بات کی تابعداری کرنے والے ہیں ۔ قرآن کو ماننے والے ہیں دین دیکھنے والے اللہ سے ڈرنے والے ہیں اور ایسی جگہ بھی اللہ کا خوف رکھتے ہیں جہاں کوئی اور دیکھنے والا نہ ہو ۔ وہ جانتے ہیں کہ اللہ ہمارے حال پر مطلع ہے اور ہمارے افعال کو دیکھ رہا ہے ہے ایسے لوگوں کو تو گناہوں کی معافی کی اور اجر عظیم و جمیل کی خوشخبری پہنچا دے ۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ جو لوگ پوشیدگی میں بھی اللہ کا خوف رکھتے ہیں ان کیلئے مغفرت اور ثواب کبیر ہے ، ہم ہی ہیں جو مردوں کو زندگی دیتے ہیں ہم قیامت کے دن انہیں نئی زندگی میں پیدا کرنے پر قادر ہیں اور اس میں اشارہ ہے کہ مردہ دلوں کے زندہ کرنے پر بھی اس اللہ کو قدرت ہے وہ گمراہوں کو بھی راہ راست پر ڈال دیتا ہے ۔ جیسے اور مقام پر مردہ دلوں کا ذکر کر کے قرآن حکیم نے فرمایا «اِعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ یُـحْیِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا قَدْ بَیَّنَّا لَکُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ» ( 57- الحدید : 17 ) ، جان لو کہ اللہ تعالیٰ زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کر دیتا ہے ہم نے تمہاری سمجھ بوجھ کے لیے بہت کچھ بیان فرما دیا اور ہم ان کے پہلے بھیجے ہوئے اعمال لکھ لیتے ہیں اور ان کے آثار بھی یعنی جو یہ اپنے بعد باقی چھوڑ آئے ۔ اگر خیر باقی چھوڑ آئے ہیں تو جزا اور سزا نہ پائیں گے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے جو شخص اسلام میں نیک طریقہ جاری کرے اسے اس کا اور اس طریقہ کو جو کریں ان سب کا بدلہ ملتا ہے ۔ لیکن ان کے بدلے کم ہو کر نہیں ۔ اور جو شخص کسی برے طریقے کو جاری کرے اس کا بوجھ اس پر ہے اور اس کا بھی جو اس پر اس کے بعد کاربند ہوں ۔ لیکن ان کا بوجھ گھٹا کر نہیں ۔ (صحیح مسلم:1017) ایک لمبی حدیث میں اس کے ساتھ ہی قبیلہ مضر کے چادر پوش لوگوں کا واقعہ بھی ہے اور آخر میں «اِنَّا نَحْنُ نُـحْیِ الْمَوْتٰی وَنَکْتُبُ مَا قَدَّمُوْا وَاٰثَارَہُمْ ڳ وَکُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰہُ فِیْٓ اِمَامٍ مٰبِیْنٍ» ( 36- یس : 12 ) پڑھنے کا ذکر بھی ہے ۔ صحیح مسلم شریف کی ایک اور حدیث میں ہے جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے تمام عمل کٹ جاتے ہیں مگر تین عمل ۔ علم جس سے نفع حاصل کیا جائے اور نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے اور وہ صدقہ جاریہ جو اس کے بعد بھی باقی رہے ۔ (صحیح مسلم:1631) حضرت مجاہد رحمہ اللہ سے اس آیت کی تفسیر میں مروی ہے کہ وہ گمراہ لوگ جو اپنی گمراہی باقی چھوڑ جائیں ۔ حضرت سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ ہر وہ نیکی بدی جسے اس نے جاری کیا اور اپنے بعد چھوڑ گیا ۔ حضرت بغوی رحمہ اللہ بھی اسی قول کو پسند فرماتے ہیں ۔ اس جملے کی تفسیر میں دوسرا قول یہ ہے کہ مراد آثار سے نشان قدم ہیں جو اطاعت یا معصیت کی طرف اٹھیں ۔ قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اے ابن آدم ! اگر اللہ تعالیٰ تیرے کسی فعل سے غافل ہوتا تو تیرے نشان قدم سے غافل ہوتا جنہیں ہوا مٹا دیتی ہے ۔ لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ اس سے اور تیرے کسی عمل سے غافل نہیں ۔ تیرے جتنے قدم اس کی اطاعت میں اٹھتے ہیں اور جتنے قدم تو اس کی معصیت میں اٹھاتا ہے سب اس کے ہاں لکھے ہوئے ہیں ۔ تم میں سے جس سے ہو سکے وہ اللہ کی فرماں برداری کے قدم بڑھا لے ۔ اسی معنی کی بہت سی حدیثیں بھی ہیں ۔ ”پہلی حدیث“ مسند احمد میں ہے سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں مسجد نبوی کے آس پاس کچھ مکانات خالی ہوئے تو قبیلہ بنو سلمہ نے ارادہ کیا کہ وہ اپنے محلے سے اٹھ کر یہیں قرب مسجد کے مکانات میں آبسیں جب اس کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے یہ بات معلوم ہوئی ہے ؟ کیا ٹھیک ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہا ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ فرمایا اے بنو مسلمہ اپنے مکانات میں ہی رہو تمہارے قدم اللہ کے ہاں لکھے جاتے ہیں ۔ (صحیح مسلم:665) ”دوسری حدیث“ ابن ابی حاتم کی اسی روایت میں ہے کہ اسی بارے میں یہ آیت نازل ہوئی اور اس قبیلے نے اپنا ارادہ بدل دیا ۔ بزار کی اسی روایت میں ہے کہ بنو سلمہ نے مسجد سے اپنے گھر دور ہونے کی شکایت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کی اس پر یہ آیت اتری اور پھر وہ وہیں رہتے رہے ۔ لیکن اس میں غرابت ہے کیونکہ اس میں اس آیت کا اس بارے میں نازل ہونا بیان ہوا ہے اور یہ پوری سورت مکی ہے ۔(سنن ترمذی:3226،قال الشیخ الألبانی:صحیح) «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ ”تیسری حدیث“ ابن جریر میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جن بعض انصار کے گھر مسجد سے دور تھے انہوں نے مسجد کے قریب کے گھروں میں آنا چاہا اس پر یہ آیت اتری تو انہوں نے کہا اب ہم ان گھروں کو نہیں چھوڑیں گے ۔ یہ حدیث موقوف ہے ۔(تفسیر ابن جریر الطبری:29069:ضعیف) ”چوتھی حدیث“ مسند احمد میں ہے کہ ایک مدنی صحابی کا مدینہ شریف میں انتقال ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جنازے کی نماز پڑھا کر فرمایا کاش کہ یہ اپنے وطن کے سوا کسی اور جگہ فوت ہوتا کسی نے کہا یہ کیوں ؟ فرمایا اس لیے کہ جب کوئی مسلمان غیر وطن میں فوت ہوتا ہے تو اس کے وطن سے لے کر وہاں تک کی زمین تک کا ناپ کر کے اسے جنت میں جگہ ملتی ہے ۔(سنن ابن ماجہ:1614،قال الشیخ الألبانی:حسن) ابن جریر میں سیدنا ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے ساتھ نماز کے لیے مسجد کیطرف چلا میں جلدی جلدی بڑے قدموں سے چلنے لگا تو آپ رضی اللہ عنہ نے میرا ہاتھ تھام لیا اور اپنے ساتھ آہستہ آہستہ ہلکے ہلکے قدموں سے لے جانے لگے جب ہم نماز سے فارغ ہوئے تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسجد کو جا رہا تھا اور تیز تیز قدم چل رہا تھا تو آپ رضی اللہ عنہ نے مجھ سے فرمایا اے انس رضی اللہ عنہ کیا تمھیں معلوم نہیں کہ یہ نشانات قدم لکھے جاتے ہیں ؟ اس قول سے پہلے قول کی مزید تائید ہوتی ہے کیونکہ جب نشان قدم تک لکھے جاتے ہیں تو پھیلائی ہوئی بھلائی کیوں نہ لکھی جاتی ہو گی ؟ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ پھر فرمایا کل کائنات جمیع موجودات مضبوط کتاب لوح محفوظ میں درج ہے ۔ جو ام الکتاب ہے یہی تفسیر بزرگوں سے آیت یَوْمَ نَدْعُو کُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِہِمْ فَمَنْ أُوتِیَ کِتَابَہُ بِیَمِینِہِ فَأُولٰئِکَ یَقْرَءُونَ کِتَابَہُمْ وَلَا یُظْلَمُونَ فَتِیلًا (17-الإسراء:71)کی تفسیر میں بھی مروی ہے کہ ان کا نامہ اعمال جس میں خیر و شر درج ہے ۔ جیسے آیت «وَوُضِـعَ الْکِتٰبُ فَتَرَی الْمُجْرِمِیْنَ» ( 18- الکہف : 49 ) ، اور آیت «وَوُضِعَ الْکِتٰبُ وَجِایْءَ بالنَّـبِیّٖنَ» ( 39- الزمر : 69 ) ، میں ہے ۔ يس
9 يس
10 يس
11 يس
12 يس
13 ایک قصہ پارینہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرما رہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم کے ساتھ ان سابقہ لوگوں کا قصہ بیان فرمایئے جنہوں نے ان سے پہلے اپنے رسولوں کو ان کی طرح جھٹلایا تھا ۔ یہ واقعہ شہر انطاکیہ کا ہے ۔ وہاں کے بادشاہ کا نام انطیخش تھا اس کے باپ اور دادا کا نام بھی یہی تھا یہ سب راجہ پرجابت پرست تھے ۔ ان کے پاس اللہ کے تین رسول آئے ۔ صادق ، صدوق اور شلوم ۔ اللہ کے درود و سلام ان پر نازل ہوں ۔ لیکن ان بدنصیبوں نے سب کو جھٹلایا ۔ عنقریب یہ بیان بھی آ رہا ہے کہ بعض بزرگوں نے اسے نہیں مانا کہ یہ واقعہ انطاکیہ کا ہو ، پہلے تو اس کے پاس دو رسول آئے انہوں نے انہیں نہیں مانا ان دو کی تائید میں پھر تیسرے نبی آئے ، پہلے دو رسولوں کا نام شمعون اور یوحنا تھا اور تیسرے رسول کا نام بولص تھا ۔ «علیہم السلام» ان سب نے کہا کہ ہم اللہ کے بھیجے ہوئے ہیں ۔ جس نے تمہیں پیدا کیا ہے اس نے ہماری معرفت تمہیں حکم بھیجا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرو ۔ قتادہ بنو عامہ کا خیال ہے کہ یہ تینوں بزرگ جناب مسیح علیہ السلام کے بھیجے ہوئے تھے ، بستی کے ان لوگوں نے جواب دیا کہ تم تو ہم جیسے ہی انسان ہو پھر کیا وجہ ؟ کہ تمہاری طرف اللہ کی وحی آئے اور ہماری طرف نہ آئے ؟ ہاں اگر تم رسول ہوتے تو چاہیئے تھا کہ تم فرشتے ہوتے ۔ اکثر کفار نے یہی شبہ اپنے اپنے زمانے کے پیغمبروں کے سامنے پیش کیا تھا ۔ جیسے اللہ عزوجل کا ارشاد ہے «ذٰلِکَ بِاَنَّہٗ کَانَتْ تَّاْتِیْہِمْ رُسُلُہُمْ بالْبَیِّنٰتِ فَقَالُوْٓا اَبَشَرٌ یَّہْدُوْنَنَا ۡ فَکَفَرُوْا وَتَوَلَّوْا وَّاسْتَغْنَی اللّٰہُ وَاللّٰہُ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ» ( 64- التغابن : 6 ) ، یعنی لوگوں کے پاس رسول آئے اور انہوں نے جواب دیا کہ کیا انسان ہمارے ہادی بن کر آ گئے ؟ اور آیت میں ہے «قَالُوا إِنْ أَنتُمْ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا تُرِیدُونَ أَن تَصُدٰونَا عَمَّا کَانَ یَعْبُدُ آبَاؤُنَا فَأْتُونَا بِسُلْطَانٍ مٰبِینٍ» ( 14-إبراہیم : 10 ) ، یعنی تم تو ہم جیسے انسان ہی ہو تم صرف یہ چاہتے ہو کہ ہمیں اپنے باپ دادوں کے معبودوں سے روک دو ۔ جاؤ کوئی کھلا غلبہ لے کر آؤ ۔ اور جگہ قرآن پاک میں ہے یعنی کافروں نے کہا کہ اگر تم نے اپنے جیسے انسانوں کی تابعداری کی تو یقیناً تم بڑے ہی گھاٹے میں پڑ گئے ۔ اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ آیت «وَمَا مَنَعَ النَّاسَ اَنْ یٰؤْمِنُوْٓا اِذْ جَاءَہُمُ الْہُدٰٓی اِلَّآ اَنْ قَالُوْٓا اَبَعَثَ اللّٰہُ بَشَرًا رَّسُوْلًا» ( 17- الإسراء : 94 ) ، میں اس کا بیان ہے ۔ یہی ان لوگوں نے بھی ان تینوں نبیوں سے کہا کہ تم تو ہم جیسے انسان ہی ہو اور حقیقت میں اللہ نے تو کچھ بھی نازل نہیں فرمایا تم یونہی غلط ملط کہہ رہے ہو ، پیغمبروں نے جواب دیا کہ اللہ خوب جانتا ہے کہ ہم اس کے سچے رسول ہیں ۔ اگر ہم جھوٹے ہوتے تو اللہ پر جھوٹ باندھنے کی سزا ہمیں اللہ تعالیٰ دے دیتا لیکن تم دیکھو گے کہ وہ ہماری مدد کرے گا اور ہمیں عزت عطا فرمائے گا ۔ اس وقت تمہیں خود روشن ہو جائے گا کہ کون شخص بہ اعتبار انجام کے اچھا رہا ؟ جیسے اور جگہ ارشاد ہے «قُلْ کَفٰی باللّٰہِ بَیْنِیْ وَبَیْنَکُمْ شَہِیْدًا یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بالْبَاطِلِ وَکَفَرُوْا باللّٰہِ اُولٰیِٕکَ ہُمُ الْخٰسِرُوْنَ» ( 29- العنکبوت : 52 ) ، میرے تمہارے درمیان اللہ کی شہادت کافی ہے ۔ وہ تو آسمان و زمین کے غیب جانتا ہے ۔ باطل پر ایمان رکھنے والے اور اللہ سے کفر کرنے والے ہی نقصان یافتہ ہیں ، سنو ہمارے ذمے تو صرف تبلیغ ہے مانو گے تمہارا بھلا ہے نہ مانو گے تو پچھتاؤ گے ہمارا کچھ نہیں بگاڑو گے کل اپنے کئے کا خمیازہ بھگتو گے ۔ يس
14 يس
15 يس
16 يس
17 يس
18 انبیأ و رسل سے کافروں کا رویہ ان کافروں نے ان رسولوں سے کا کہ تمہارے آنے سے ہمیں کوئی برکت و خیریت تو ملی نہیں ۔ بلکہ اور برائی اور بدی پہنچی ۔ تم ہو ہی بدشگون اور تم جہاں جاؤ گے بلائیں برسیں گی ۔ سنو اگر تم اپنے اس طریقے سے باز نہ آئے اور یہی کہتے رہے تو ہم تمہیں سنگسار کر دیں گے ۔ اور سخت المناک سزائیں دیں گے ۔ يس
19 رسولوں کا جواب رسولوں نے جواب دیا کہ تم خود بدفطرت ہو ۔ تمہارے اعمال ہی برے ہیں اور اسی وجہ سے تم پر مصیبتیں آتی ہیں ۔ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے ۔ یہی بات فرعونیوں نے موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کے مومنوں سے کہی تھی ۔ جب انہیں کوئی راحت ملتی توکہتے ہم تو اس کے مستحق ہی تھے ۔ اور اگر کوئی رنج پہنچتا تو موسیٰعلیہ السلام اور مومنوں کی بدشگونی پر اسے محمول کرتے ۔ جس کے جواب میں جناب باری نے فرمایا «أَلَا إِنَّمَا طَائِرُہُمْ عِندَ اللہِ وَلٰکِنَّ أَکْثَرَہُمْ لَا یَعْلَمُونَ» ( 7-سورۃ الأعراف : 31 ) یعنی ان کی مصیبتوں کی وجہ ان کے بد اعمال ہیں جن کا وبال ہماری جانب سے انہیں پہنچ رہا ہے ۔ قوم صالح نے بھی اپنے نبی سے یہی کہا تھا اور یہی جواب پایا تھا ۔ خود جناب پیغمبر آخر الزمان محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی یہی کہا گیا ہے جیسا کہ اللہ عزوجل کا ارشاد ہے «وَإِن تُصِبْہُمْ سَیِّئَۃٌ یَقُولُوا ہٰذِہِ مِنْ عِندِکَ قُلْ کُلٌّ مِّنْ عِندِ اللہِ فَمَالِ ہٰؤُلَاءِ الْقَوْمِ لَا یَکَادُونَ یَفْقَہُونَ حَدِیثًا» ( 4-سورۃ النساء : 78 ) یعنی اگر ان کافروں کو کوئی نفع ہوتا ہے تو کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے اور اگر کوئی نقصان ہوتا ہے تو کہتے ہیں یہ تیری طرف سے ہے ۔ کہدیجئیے کہ سب کچھ اللہ کی جانب سے ہے ۔ انہیں کیا ہو گیا ہے کہ ان سے یہ بات بھی نہیں سمجھی جاتی ؟ پھر فرماتا ہے کہ صرف اس وجہ سے کہ ہم نے تمہیں نصیحت کی ، تمہاری خیر خواہی کی ، تمہیں بھلی راہ سمجھائی ۔ تمہیں اللہ کی توحید کی طرف رہنمائی کی تمہیں اخلاص و عبادت کے طریقے سکھائے تم ہمیں منحوس سمجھنے لگے ؟ اور ہمیں اس طرح ڈرانے دھمکانے لگے ؟ اور خوفزدہ کرنے لگے ؟ اور مقابلہ پر اتر آئے ؟ حقیقت یہ ہے کہ تم فضول خرچ لوگ ہو ۔ حدود الہیہ سے تجاوز کر جاتے ہو ۔ ہمیں دیکھو کہ ہم تمہاری بھلائی چاہیں ۔ تمہیں دیکھو کہ تم ہم سے برائی سمجھو ۔ بتاؤ تو بھلا یہ کوئی انصاف کی بات ہے ؟ افسوس تم انصاف کے دائرے سے نکل گئے ۔ يس
20 مبلغ حق شہید کر دیا مروی ہے کہ اس بستی کے لوگ یہاں تک سرکش ہو گئے کہ انہیں نے پوشیدہ طور پر نبیوں کے قتل کا ارادہ کر لیا ۔ ایک مسلمان شخص جو اس بستی کے آخری حصے میں رہتا تھا جس کا نام حبیب تھا اور رسے کا کام کرتا تھا ، تھا بھی بیمار ، جذام کی بیماری تھی ، بہت سخی آدمی تھا ۔ جو کماتا تھا اس کا آدھا حصہ اللہ کی راہ میں خیرات کر دیا کرتا تھا ۔ دل کا نرم اور فطرت کا اچھا تھا ۔ لوگوں سے الگ تھلگ ایک غار میں بیٹھ کر اللہ عزوجل کی عبادت کیا کرتا تھا ۔ اس نے جب اپنی قوم کے اس بد ارادے کو کسی طرح معلوم کیا تو اس سے صبر نہ ہو سکا دوڑتا بھاگتا آیا ۔ بعض کہتے ہیں یہ بڑھئی تھے ۔ ایک قول ہے کہ یہ دھوبی تھے ۔ حضرت عمر بن حکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں جوتی گانٹھنے والے تھے ۔ اللہ ان پر رحم کرے ۔ انہوں نے آ کر اپنی قوم کو سمجھانا شروع کیا کہ تم ان رسولوں کی تابعداری کرو ۔ ان کا کہا مانو ۔ ان کی راہ چلو ، دیکھو تو یہ اپنا کوئی فائدہ نہیں کر رہے یہ تم سے تبلیغ رسالت پر کوئی بدلہ نہیں مانگتے ۔ اپنی خیر خواہی کی کوئی اجرت تم سے طلب نہیں کر رہے ۔ درد دل سے تمہیں اللہ کی توحید کی دعوت دے رہے ہیں اور سیدھے اور سچے راستے کی رہنمائی کر رہے ہیں ۔ خود بھی اسی راہ پر چل رہے ہیں ۔ تمہیں ضرور ان کی دعوت پر لبیک کہنا چاہیئے اور ان کی اطاعت کرنی چاہیئے ۔ لیکن قوم نے ان کی ایک نہ سنی بلکہ انہیں شہید کر دیا ۔ «رضی اللہ عنہا وارضاہ» ۔ يس
21 يس
22 راہ حق کا شہید وہ نیک بخت شخص جو اللہ کے رسولوں کی تکذیب و تردید اور توہین ہوتی دیکھ کر دوڑا ہوا آیا تھا اور جس نے اپنی قوم کو نبیوں کی تابعداری کی رغبت دلائی تھی وہ اب اپنے عمل اور عقیدے کو ان کے سامنے پیش کر رہا ہے اور انہیں حقیقت سے آگاہ کر کے ایمان کی دعوت دے رہا ہے ، تو کہتا ہے کہ میں تو صرف اپنے خالق مالک اللہ وحدہ لاشریک لہ کی ہی عبادت کرتا ہوں جبکہ صرف اسی نے مجھے پیدا کیا ہے تو میں اس کی عبادت کیوں نہ کروں ؟ پھر یہ نہیں کہ اب ہم اس کی قدرت سے نکل گئے ہیں ؟ اس سے اب ہمارا کوئی تعلق نہیں رہا ہو ؟ نہیں بلکہ سب کے سب لوٹ کر پھر اس کے سامنے جمع ہونے والے ہیں ۔ اس وقت وہ ہر بھلائی برائی کا بدلہ دے گا ۔ یہ کیسی شرم کی بات ہے کہ میں اس خالق و وقار کو چھوڑ کر اوروں کو پوجوں جو نہ تو یہ طاقت رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئی ہوئی کسی مصیبت کو مجھ سے ٹال دیں ، نہ یہ کہ ان کے کہنے سننے کی وجہ سے مجھے کوئی برائی پہنچے ، اللہ اگر مجھے کوئی ضرر پہنچانا چاہے تو یہ اسے دفع نہیں کر سکتے روک نہیں سکتے نہ مجھے اس سے بچاسکتے ہیں ، اگر میں ایسے کمزوروں کی عبادت کرنے لگوں تو مجھ سے بڑھ کر گمراہ اور بہکا ہوا اور کون ہو گا ؟ پھر تو نہ صرف مجھے بلکہ دنیا کے ہر بھلے انسان کو میری گمراہی کھل جائے گی ۔ میری قوم کے لوگو ! اپنے جس حقیقی معبود اور پروردگار سے تم منکر ہوئے ہو ۔ سنو میں تو اس کی ذات پر ایمان رکھتا ہوں اور یہ بھی معنی اس آیت کے ہو سکتے ہیں کہ اس اللہ کے بندے مرد صالح نے اب اپنی قوم سے روگردانی کر کے اللہ کے ان رسولوں سے یہ کہا ہو کہ اللہ کے پیغمبرو ! تم میرے ایمان کے گواہ رہنا ! میں اس اللہ کی ذات پر ایمان لایا جس نے تمہیں برحق رسول بنا کر بھیجا ہے ، پس گویا یہ اپنے ایمان پر اللہ کے رسولوں کو گواہ بنا رہا ہے ۔ یہ قول بہ نسبت اگلے قول کے بھی زیادہ واضح ہے واللہ اعلم ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ فرماتے ہیں کہ یہ بزرگ اتنا ہی کہنے پائے تھے کہ تمام کفار پل پڑے اور زدوکوب کرنے لگے ۔ کون تھا جو انہیں بچاتا ؟ پتھر مارتے مارتے انہیں اسی وقت فی الفور شہید کر دیا «رضی اللہ عنہ وارضاہ» یہ اللہ کے بندے یہ سچے ولی اللہ پتھر کھا رہے تھے لیکن زبان سے یہی کہے جا رہے تھے کہ اللہ میری قوم کو ہدایت کر یہ جانتے نہیں ۔ يس
23 يس
24 يس
25 يس
26 ظالموں کیلئے عذاب الٰہی سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ان کفار نے اس مومن کامل کو بری طرح مارا پیٹا اسے گرا کر اس کے پیٹ پر چڑھ بیٹھے اور پیروں سے اسے روندنے لگے یہاں تک کہ اس کی آنتیں اس کے پیچھے کے راستے سے باہر نکل آئیں ، اسی وقت اللہ کی طرف سے اسے جنت کی خوشخبری سنائی گئی ، اسے اللہ تعالیٰ نے دنیا کے رنج و غم سے آزاد کر دیا اور امن چین کے ساتھ جنت میں پہنچا دیا ان کی شہادت سے اللہ خوش ہوا جنت ان کیلئے کھول دی گئی اور داخلہ کی اجازت مل گئی ، اپنے ثواب و اجر کو ، عزت و اکرام کو دیکھ کر پھر اس کی زبان سے نکل گیا کاش کہ میری قوم یہ جان لیتی کہ مجھے میرے رب نے بخش دیا اور میرا بڑا ہی اکرام کیا ۔ فی الواقع مومن سب کے خیرخواہ ہوتے ہیں وہ دھوکے باز اور بدخواہ نہیں ہوتے ۔ دیکھئیے اس اللہ والے شخص نے زندگی میں بھی قوم کی خیر خواہی کی اور بعد مرگ بھی ان کا خیرخواہ رہا ۔ یہ بھی مطلب ہے کہ وہ کہتا ہے کاش کہ میری قوم یہ جان لیتی کہ مجھے کس سبب سے میرے رب نے بخشا اور کیوں میری عزت کی تو لامحالہ وہ بھی اس چیز کو حاصل کرنے کی کوشش کرتی ، اللہ پر ایمان لاتی اور رسولوں کی پیروی کرتی ، اللہ ان پر رحمت کرے اور ان سے خوش رہے ۔ دیکھو تو قوم کی ہدایت کے کس قدر خواہشمند تھے ۔ سیدنا عروہ بن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہ نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور اگر اجازت دیں تو میں اپنی قوم میں تبلیغ دین کیلئے جاؤں اور انہیں دعوت اسلام دوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایسا نہ ہو کہ وہ تمہیں قتل کر دیں ؟ جواب دیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کا تو خیال تک نہیں ۔ انہیں مجھ سے اس قدر الفت و عقیدت ہے کہ میں سویا ہوا ہوں تو وہ مجھے جگائیں گے بھی نہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا پھر جایئے ، یہ چلے ، جب لات و عزیٰ کے بتوں کے پاس سے ان کا گزر ہوا تو کہنے لگے اب تمہاری شامت آ گئی قبیلہ ثقیف بگڑ بیٹھا انہوں نے کہنا شروع کیا کہ اے میری قوم کے لوگو ! تم ان بتوں کو ترک کرو یہ لات و عزیٰ دراصل کوئی چیز نہیں ، اسلام قبول کرو تو سلامتی حاصل ہو گی ۔ اے میرے بھائی بندو ! یقین مانو کہ یہ بت کچھ حقیت نہیں رکھتے ، ساری بھلائی اسلام میں ہے وغیرہ ۔ ابھی تو تین ہی مرتبہ صرف اس کلمہ کو دوہرایا تھا جب ایک بدنصیب تن جلے نے دور سے ایک ہی تیر چلایا جو رگ اکحل پر لگا اور اسی وقت شہید ہو گئے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب یہ خبر پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ ایسا ہی تھا جیسے سورۃ یس والا جس نے کہا تھا کاش کہ میری قوم میری مغفرت و عزت کو جان لیتی ۔(تفسیر ابن جریر الطبری:147/17:مرسل) سیدنا کعب احبار رضی اللہ عنہ کے پاس جب حبیب بن زید بن عاصم رضی اللہ عنہا کا ذکر آیا جو قبیلہ بنو مازن بن نجار سے تھے جنہیں یمامہ میں مسیلمہ کذاب ملعون نے شہید کر دیا تھا تو آپ نے فرمایا اللہ کی قسم یہ حبیب بھی اسی حبیب کی طرح تھے جن کا ذکر سورۃ یاسین میں ہے ، ان سے اس کذاب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں دریافت کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا بیشک وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اس نے کہا میری نسبت بھی تو گواہی دیتا ہے کہ میں رسول اللہ ہوں ؟ تو حبیب رضی اللہ عنہما نے فرمایا میں نہیں سنتا ۔ اس نے کہا محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی نسبت تو کیا کہتا ہے ؟ جواب دیا کہ میں ان کی سچی رسالت کو مانتا ہوں ، اس نے پھر پوچھا میری رسالت کی نسبت کیا کہتا ہے ؟ جواب دیا کہ میں نہیں سنتا اس ملعون نے کہا ان کی نسبت تو سن لیتا ہے اور میری نسبت بہرا بن جاتا ہے ۔ ایک مرتبہ پوچھتا اور ان کے اس جواب پر ایک عضو بدن کٹوا دیتا پھر پوچھتا پھر یہی جواب پاتا پھر ایک عضو بدن کٹواتا اسی طرح جسم کا ایک ایک جوڑ کٹوا دیا اور وہ اپنے سچے اسلام پر آخری دم تک قائم رہے اور جو جواب پہلے تھا وہی آخر تک رہا یہاں تک کہ شہید ہو گئے ۔ رضی اللہ عنہ و ارضاہ ۔ اس کے بعد ان لوگوں پر جو اللہ کا غضب نازل ہوا اور جس عذاب سے وہ غارت کر دیئے گئے اس کا ذکر ہو رہا ہے ، چونکہ انہوں نے اللہ کے رسولوں کو جھٹلایا اللہ کے ولی کو قتل کیا اس لیے ان پر عذاب اترا اور ہلاک کر دیئے گئے ، لیکن انہیں برباد کرنے کیلئے اللہ نے تو کوئی لشکر آسمان سے بھیجا نہ کوئی خاص اہتمام کرنا پڑا نہ کسی بڑے سے بڑے کام کیلئے اس کی ضرورت ، اس کا تو صرف حکم کر دینا کافی ہے ، نہ انہیں اس کے بعد کوئی تنبیہہ کی گئی نہ ان پر فرشتے اتارے گئے ، بلکہ بلا مہلت عذاب میں پکڑلئے گئے اور بغیر اس کے کہ کوئی نام لینے والا پانی دینے والا ہو اول سے آخر تک ایک ایک کر کے سب کے سب فنا کے گھاٹ اتار دیئے گئے ۔ جبرائیل علیہ السلام آئے اور ان کے شہر انطاکیہ کے دروازے کی چوکھٹ تھام کر اس زور سے ایک آواز لگائی کہ کلیجے پاش پاش ہو گئے ، دل اڑ گئے اور روحیں پرواز کر گئیں ۔ حضرت قتادہ رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ ان لوگوں کے پاس جو تینوں رسول آئے تھے یہ عیسیٰ علیہ السلام کے بھیجے ہوئے قاصد تھے ، لیکن اس میں قدرے کلام ہے ، اولاً تو یہ کہ قصے کے ظاہر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ مستقل رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے ۔ فرمان ہے «اِذْ اَرْسَلْنَآ اِلَیْہِمُ اثْــنَیْنِ فَکَذَّبُوْہُمَا فَعَزَّزْنَا بِثَالِثٍ فَقَالُـوْٓا اِنَّآ اِلَیْکُمْ مٰرْسَلُوْنَ» ( 36- یس : 14 ) ، جبکہ ہم نے ان کی طرف دو رسول بھیجے جب انہوں نے ان دونوں کو جھٹلایا تو ہم نے ان کی مدد کیلئے تیسرا رسول بھیجا ۔ پھر اللہ کے یہ رسول اہل انطاکیہ سے کہتے ہیں «اِنَّآ اِلَیْکُمْ مٰرْسَلُوْنَ» ( 36- یس : 14 ) ، یعنی ہم تمہاری طرف رسول ہیں ۔ پس اگر یہ تینوں عیسیٰ کے حواریوں میں سے عیسیٰ علیہ السلام کے بھیجے ہوئے ہوتے تو انہیں یہ کہنا مناسب نہ تھا بلکہ وہ کوئی ایسا جملہ کہتے جس سے معلوم ہو جاتا کہ یہ عیسیٰ علیہ السلام کے قاصد ہیں «وَاللہُ اَعْلَمُ» پھر یہ بھی ایک قرینہ ہے کہ کفار انطاکیہ ان کے جواب میں کہتے ہیں «اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا ۭ تُرِیْدُوْنَ اَنْ تَصُدٰوْنَا عَمَّا کَانَ یَعْبُدُ اٰبَاۗؤُنَا فَاْتُوْنَا بِسُلْطٰنٍ مٰبِیْنٍ» ( 14- ابراھیم : 10 ) تم تو ہم ہی جیسے انسان ہو ، دیکھ لو یہ کلمہ کفار ہمیشہ رسولوں کو ہی کہتے رہے ۔ اگر وہ حواریوں میں سے ہوتے تو ان کا مستقل دعویٰ رسالت کا تھا ہی نہیں پھر انہیں یہ لوگ یہ الزام ہی کیوں دیتے ؟ ثانیاً اہل انطاکیہ کی طرف مسیح علیہ السلام کے قاصد گئے تھے اور اس وقت اس بستی کے لوگ ان پر ایمان لائے تھے بلکہ یہی وہ بستی ہے جو ساری کی ساری جناب مسیح علیہ السلام پر ایمان لائی اسی لیے نصرانیوں کے وہ چار شہر جو مقدس سمجھے جاتے ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے ۔ بیت المقدس کی بزرگی کے وہ قائل اس لیے کہ ہیں کہ وہ مسیح علیہ السلام کا شہر ہے اور انطاکیہ کو حرمت والا شہر اس لیے کہتے ہیں کہ سب سے پہلے یہیں کے لوگ مسیح علیہ السلام پر ایمان لائے ۔ اور اسکندریہ کی عظمت کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے مذہبی عہدیداروں کے تقرر پر اجماع کیا ۔ اور رومیہ کی حرمت کے قائل اس وجہ سے ہیں کہ شاہ قسطنطین کا شہر یہی ہے اور اسی بادشاہ نے ان کے دین کی امداد کی تھی اور یہیں ان کے تبرکات کو رومیہ سے لا کر رکھا ۔ سعد بن بطریق وغیرہ نصرانی مورخین کی کتابوں میں یہ سب واقعات مذکور ہیں ۔ مسلمان مورخین نے بھی یہی لکھا ہے پس معلوم ہوا کہ انطاکیہ والوں نے عیسیٰ علیہ السلام کے قاصدوں کی تو مان لی تھی اور یہاں بیان ہے کہ انہوں نے نہ مانی اور ان پر عذاب الٰہی آیا اور تہس نہس کر دیئے گئے تو ثابت ہوا کہ یہ واقعہ اور ہے یہ رسول مستقل رسالت پر مامور تھے انہوں نے نہ مانا جس پر انہیں سزا ہوئی اور وہ بے نشان کر دیئے گئے اور چراغ سحری کی طرح بجھا دیئے گئے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ثانیاً انطاکیہ والوں کا قصہ جو عیسیٰ کے حواریوں کے ساتھ وقوع میں آیا وہ قطعاً تورات کے اترنے کے بعد کا ہے اور سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ اور سلف کی ایک جماعت سے منقول ہے کہ توراۃ کے نازل ہوچکنے کے بعد کسی بستی کو اللہ تعالیٰ نے اپنے آسمانی عذاب سے بالکل برباد نہیں کیا بلکہ مومنوں کو کافروں سے جہاد کرنے کا حکم دے کر کفار کو نیچا دکھایا ہے ۔ جیسا کہ آیت «وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ مِنْ بَعْدِ مَآ اَہْلَکْنَا الْقُرُوْنَ الْاُوْلٰی بَصَایِٕرَ للنَّاسِ وَہُدًی وَّرَحْمَۃً لَّعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ» ( 28- القص : 43 ) ، کی تفسیر میں ہے اور اس بستی کی آسمانی ہلاکت پر آیات قرآنی شاہد عدل موجود ہیں اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ یہ واقعہ انطاکیہ کا نہیں جیسے کہ بعض سلف کے اقوال بھی اسے مستثنیٰ کر کے بتاتے ہیں کہ اس سے مراد مشہور شہر انطاکیہ نہیں ، ہاں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انطاکیہ نامی کوئی شہر اور بھی ہو اور یہ واقعہ وہاں کا ہو ۔ اس لیے کہ جو انطاکیہ مشہور ہے اس کا عذاب الٰہی سے نیست و نابود ہونا مشہور نہیں ہوا نہ تو نصرانیت کے زمانہ میں اور نہ اس سے پہلے ۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم ، یہ بھی یاد رہے کہ طبرانی کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ دنیا میں تین ہی شخص سبقت کرنے میں سب سے آگے نکل گئے ہیں ، موسیٰ علیہ السلام کی طرف سبقت کرنے والے تو یوشع بن نون تھے اور عیسیٰ علیہ السلام کی طرف سبقت کرنے والے وہ شخص تھے جن کا ذکر سورۃ یٰسین میں ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آگے بڑھنے والے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ تھے ، یہ حدیث بالکل منکر ہے ۔ صرف حسین اشعر اسے روایت کرتا ہے اور وہ شیعہ ہے اور متروک ہے ۔ (طبرانی کبیر:11152:ضعیف) «واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم بالصواب» يس
27 يس
28 يس
29 يس
30 منکرین کی ندامت بندوں پر حسرت و افسوس ہے ۔ بندے کل اپنے اوپر کیسے نادم ہوں گے ۔ باربار کہیں گے کہ ہائے افسوس ہم نے تو خود اپنا برا کیا ۔ بعض قرأتوں میں «یٰحَسرَۃَ العِبَادِ عَلٰی اَنفُسِھَم» بھی ہے مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن عذابوں کو دیکھ کر ہاتھ ملیں گے کہ انہوں نے کیوں رسولوں کو جھٹلایا ؟ اور کیوں اللہ کے فرمان کے خلاف کیا ؟ دنیا میں تو ان کا یہ حال تھا کہ جب کبھی جو رسول آیا انہوں نے بلا تامل جھٹلایا اور دل کھول کر ان کی بےادبی اور توہین کی ۔ وہ اگر یہاں تامل کرتے تو سمجھ لیتے کہ ان سے پہلے جن لوگوں نے پیغمبروں کی نہ مانی تھی وہ غارت و برباد کر دیئے گئے ان کی دھجیاں اڑا دی گئیں ۔ ایک بھی تو ان میں سے نہ بچ سکا نہ اس دار آخرت سے کوئی واپس پلٹا ۔ اس میں ان لوگوں کی بھی تردید ہے جو دہریہ تھے جن کا خیال تھا کہ یونہی دنیا میں مرتے جیتے چلے جائیں گے ، لوٹ لوٹ کر اس دنیا میں آئیں گے ۔ تمام گزرے ہوئے موجود اور آنے والے لوگ قیامت کے دن اللہ کے سامنے حساب و کتاب کے لیے حاضر کئے جائیں گے اور وہاں ہر ایک بھلائی برائی کا بدلہ پائیں گے ۔ جیسے اور آیت میں فرمایا «وَاِنَّ کُلًّا لَّمَّا لَیُوَفِّیَنَّہُمْ رَبٰکَ اَعْمَالَہُمْ اِنَّہٗ بِمَا یَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ» ( 11-ھود : 111 ) یعنی ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ تیرا رب عطا فرمائے گا ، ایک قرأت میں «لما» ہے تو ، «اِنَّ» ، اثبات کے لیے ہو گا ، اور «لَمَاّ» پڑھنے کے وقت ،«اِنَّ»، نافیہ ہو گا اور «لَمَاّ» معنی میں الا کے ہو گا تو مطلب آیت کا یہ ہو گا کہ نہیں ہیں سب مگر یہ کہ سب کے سب ہمارے سامنے حاضر شدہ ہیں دوسری قرأت کی صورت میں بھی مطلب یہی رہے گا ۔ «واللہ سبحان و تعالیٰ اعلم» يس
31 يس
32 يس
33 وجود باری تعالٰی کی ایک نشانی اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ میرے وجود پر ، میری زبردست قدرت پر اور مردوں کو زندگی دینے پر ایک نشانی یہ بھی ہے کہ مردہ زمین جو بنجر خشک پڑی ہوئی ہوتی ہے جس میں کوئی روئیدگی ، تازگی ، ہریالی ، گھاس وغیرہ نہیں ہوتی ۔ میں اس پر آسمان سے پانی برساتا ہوں وہ مردہ زمین جی اٹھتی ہے لہلہانے لگتی ہے ہر طرف سبزہ ہی سبزہ اگ جاتا ہے اور قسم قسم کے پھل پھول وغیرہ نظر آنے لگتے ہیں ۔ تو فرماتا ہے کہ ہم اس مردہ زمین کو زندہ کر دیتے ہیں اور اس سے قسم قسم کے اناج پیدا کرتے ہیں بعض کو تم کھاتے ہو بعض تمہارے جانور کھاتے ہیں ۔ ہم اس میں کھجوروں کے انگوروں کے باغات وغیرہ تیار کر دیتے ہیں ۔ نہریں جاری کر دیتے ہیں جو باغوں اور کھیتوں کو سیراب ، سرسبز و شاداب کرتی رہتی ہیں ۔ یہ سب اس لیے کہ ان درختوں کے میوے دنیا کھائے ، کھیتیوں سے ، باغات سے نفع حاصل کرے ، حاجتیں پوری کرے ، یہ سب اللہ کی رحمت اور اس کی قدرت سے پیدا ہو رہے ہیں ، کسی کے بس اور اختیار میں نہیں ، تمہارے ہاتھوں کی پیدا کردہ یا حاصل کردہ چیزیں نہیں ۔ نہ تمہیں انہیں اگانے کی طاقت نہ تم میں انہیں بچانے کی قدرت ، نہ انہیں پکانے کا تمہیں اختیار ۔ صرف اللہ کے یہ کام ہیں اور اسی کی یہ مہربانی ہے اور اس کے احسان کے ساتھ ہی ساتھ یہ اس کی قدرت کے نمونے ہیں ۔ پھر لوگوں کو کیا ہو گیا ہے جو شکر گزاری نہیں کرتے ؟ اور اللہ تعالیٰ کی بے انتہا ان گنت نعمتیں اپنے پاس ہوتے ہوئے اس کا احسان نہیں مانتے ؟ ایک مطلب یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ باغات کے پھل جو کھاتے ہیں اور اپنے ہاتھوں کا بویا ہوا یہ پاتے ہیں ، چنانچہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی قرأت میں «وَمَا عَمِلَتْہُ اَیْدِیْہِمْ اَفَلَا یَشْکُرُوْنَ» ( 36- یس : 35 ) ہے ۔ پاک اور برتر اور تمام نقصانات سے بری وہ اللہ ہے جس نے زمین کی پیداوار کو اور خود تم کو جوڑا جوڑا پیدا کیا ہے اور مختلف قسم کی مخلوق کے جوڑے بنائے ہیں جنہیں تم جانتے بھی نہیں ہو ۔ جیسے اور آیت میں ہے «وَمِنْ کُلِّ شَیْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ» ( 51- الذاریات : 49 ) ہم نے ہرچیز کے جوڑے پیدا کئے ہیں تاکہ تم نصیحت پکڑو ۔ يس
34 يس
35 يس
36 يس
37 گردش شمس و قمر اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کی ایک اور نشانی بیان ہو رہی ہے اور وہ دن رات ہیں جو اجالے اور اندھیرے والے ہیں اور برابر ایک دوسرے کے پیچھے جا رہے ہیں جیسے فرمایا «یُغْشِی الَّیْلَ النَّہَارَ یَطْلُبُہٗ حَثِیْثًا» ( 7- الاعراف : 54 ) رات سے دن کو چھپاتا ہے اور رات دن کو جلدی جلدی ڈھونڈتی آتی ہے ۔ یہاں بھی فرمایا رات میں سے ہم دن کو کھینچ لیتے ہیں ، دن تو ختم ہوا اور رات آ گئی اور ہر طرف سے اندھیرا چھا گیا ۔ حدیث میں ہے جب ادھر سے رات آ جائے اور دن ادھر سے چلا جائے اور سورج غروب ہو جائے تو روزے دار افطار کر لے ۔ (صحیح بخاری:1954) ظاہر آیت تو یہی ہے لیکن حضرت قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب مثل آیت «ذٰلِکَ بِأَنَّ اللہَ یُولِجُ اللَّیْلَ فِی النَّہَارِ وَیُولِجُ النَّہَارَ فِی اللَّیْلِ» ( 22-الحج : 61 ) کے ہے یعنی اللہ تعالٰی رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کر دیتا ہے ۔ حضرت امام ابن جریر رحمہ اللہ اس قول کو ضعیف بتاتے ہیں اور فرماتے اس آیت میں جو لفظ «ایلاج» ہے اس کے معنی ایک کی کمی کر کے دوسری میں زیادتی کرنے کے ہیں اور یہ مراد اس آیت میں نہیں ، امام صاحب کا یہ قول حق ہے ۔ «مستقر» سے مراد یا تو «مستقر مکانی» یعنی جائے قرار ہے اور وہ عرش تلے کی وہ سمت ہے پس ایک سورج ہی نہیں بلکہ کل مخلوق عرش کے نیچے ہی ہے اس لیے کہ عرش ساری مخلوق کے اوپر ہے اور سب کو احاطہٰ کئے ہوئے ہے اور وہ کرہ نہیں ہے جیسے کہ ہئیت داں کہتے ہیں ۔ بلکہ وہ مثل قبے کے ہے جس کے پائے ہیں اور جسے فرشتے اٹھائے ہوئے ہیں انسانوں کے سروں کے اوپر اوپر والے عالم میں ہے ، پس جبکہ سورج فلکی قبے میں ٹھیک ظہر کے وقت ہوتا ہے اس وقت وہ عرش سے بہت قریب ہوتا ہے پھر جب وہ گھوم کر چوتھے فلک میں اسی مقام کے بالمقابل آ جاتا ہے یہ آدھی رات کا وقت ہوتا ہے جبکہ وہ عرش سے بہت دور ہو جاتا ہے پس وہ سجدہ کرتا ہے اور طلوع کی اجازت چاہتا ہے جیسا کہ احادیث میں ہے ۔ صحیح بخاری میں ہے سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ میں سورج کے غروب ہونے کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مسجد میں تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا جانتے ہو یہ سورج کہاں غروب ہوتا ہے ؟ میں نے کہا اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی خوب جانتا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ عرش تلے جا کر اللہ کو سجدہ کرتا ہے پھر آپ نے آیت «وَالشَّمْسُ تَجْرِی لِمُسْتَقَرٍّ لَّہَا ذٰلِکَ تَقْدِیرُ الْعَزِیزِ الْعَلِیمِ» ( 36-یس : 38 ) ، تلاوت کی ۔ (صحیح بخاری:3199) اور حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ابوذر رضی اللہ عنہ نے اس آیت کا مطلب پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کی قرار گاہ عرش کے نیچے ہے ، (صحیح بخاری:4803) مسند احمد میں اس سے پہلے کی حدیث میں یہ بھی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے واپس لوٹنے کی اجازت طلب کرتا ہے اور اسے اجازت دی جاتی ہے ۔ گویا اس سے کہا جاتا ہے کہ جہاں سے آیا تھا وہیں لوٹ جا تو وہ اپنے طلوع ہونے کی جگہ سے نکلتا ہے اور یہی اس کا مستقر ہے ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کے ابتدائی فقرے کو پڑھا ۔ (صحیح بخاری:3199) ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ قریب ہے کہ وہ سجدہ کرے لیکن قبول نہ کیا جائے اور اجازت مانگے لیکن اجازت نہ دی جائے بلکہ کہا جائے جہاں سے آیا ہے وہیں لوٹ جا پس وہ مغرب سے ہی طلوع ہو گا یہی معنی ہیں اس آیت کے ۔ (صحیح بخاری:3199) سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ سورج طلوع ہوتا ہے اسے انسانوں کے گناہ لوٹا دیتے ہیں وہ غروب ہو کر سجدے میں پڑتا ہے اور اجازت طلب کرتا ہے ، ایک دن یہ غروب ہو کر بہ عاجزی سجدہ کرے گا اور اجازت مانگے گا لیکن اجازت نہ دی جائے گی وہ کہے گا کہ راہ دور ہے اور اجازت ملی نہیں تو پہنچ نہیں سکوں گا پھر کچھ دیر روک رکھنے کے بعد اس سے کہا جائے گا کہ جہاں سے غروب ہوا تھا وہیں سے طلوع ہو جا ۔ یہی قیامت کا دن ہو گا جس دن ایمان لانا محض بےسود ہو گا اور نیکیاں کرنا بھی ان کے لیے جو اس سے پہلے ایماندار اور نیکوکار نہ تھے بے کار ہو گا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مستقر سے مراد اس کے چلنے کی انتہا ہے پوری بلندی جو گرمیوں میں ہوتی ہے اور پوری پستی جو جاڑوں میں ہوتی ہے ۔ پس یہ ایک قول ہوا ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ آیت کے اس لفظ مستقر سے مراد اس کی چال کا خاتمہ ہے قیامت کے دن اس کی حرکت باطل ہو جائے گی یہ بے نور ہو جائے گا اور یہ عالم کل کا کل ختم ہو جائے گا ۔ یہ مستقر زمانی ہے ۔ حضرت قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں وہ اپنے مستقر پر چلتا ہے یعنی اپنے وقت اور اپنی میعاد پر جس سے تجاوز کر نہیں سکتا جو اس کے راستے جاڑوں کے اور گرمیوں کے مقرر ہیں انہی راستوں سے آتا جاتا ہے ، سیدنا ابن مسعود اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہم کی قرأت لامستقرلھا ہے یعنی اس کے لیے سکون و قرار نہیں بلکہ دن رات بحکم اللہ چلتا رہتا ہے نہ رکے نہ تھکے جیسے فرمایا «وَسَخَّــرَ لَکُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَایِٕـبَیْنِ وَسَخَّرَ لَکُمُ الَّیْلَ وَالنَّہَارَ» ( 14- ابراھیم : 33 ) یعنی اس نے تمہارے لیے سورج چاند کو مسخر کیا ہے جو نہ تھکیں نہ ٹھہریں قیامت تک چلتے پھرتے ہی رہیں گے ۔ یہ اندازہ اس اللہ کا ہے جو غالب ہیں جس کی کوئی مخالفت نہیں کر سکتا جس کے حکم کو کوئی ٹال نہیں سکتا ، وہ علیم ہے ، ہر حرکت و سکون کو جانتا ہے ۔ اس نے اپنی حکمت کاملہ سے اس کی چال مقرر کی ہے جس میں نہ اختلاف واقع ہو سکے نہ اس کے برعکس ہو سکے ۔ جیسے فرمایا «فَالِقُ الْاِصْبَاحِ وَجَعَلَ الَّیْلَ سَکَنًا وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْـبَانًا ذٰلِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ» ( 6- الانعام : 96 ) ، صبح کا نکالنے والا جس نے رات کو راحت کا وقت بنایا اور سورج چاند کو حساب سے مقرر کیا ، یہ ہے اندازہ غالب ذی علم کا ۔ حم سجدہ کی آیت «ذٰلِکَ تَقْدِیرُ الْعَزِیزِ الْعَلِیمِ» ( 41-فصلت : 12 ) کو بھی اسی طرح ختم کیا ۔ پھر فرماتا ہے «ہُوَ الَّذِی جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَاءً وَالْقَمَرَ نُورًا وَقَدَّرَہُ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِینَ وَالْحِسَابَ» ( 10-یونس : 5 ) چاند کی ہم نے منزلیں مقرر کر دی ہیں وہ ایک جداگانہ چال چلتا ہے جس سے مہینے معلوم ہو جائیں جیسے سورج کی چال سے رات دن معلوم ہو جاتے ہیں ، جیسے فرمان ہے کہ «یَسْأَلُونَکَ عَنِ الْأَہِلَّۃِ قُلْ ہِیَ مَوَاقِیتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ» ( 2-البقرۃ : 189 ) لوگ تجھ سے چاند کے بارے میں سوال کرتے ہیں تو جواب دے کہ وقت اور حج کے موسم کو بتانے کے لیے ہے۔ اور آیت میں فرمایا اس نے سورج کو ضیاء اور چاند کو نور دیا ہے اور اس کی منزلیں ٹھہرا دی ہیں تاکہ تم سالوں کو اور حساب کو معلوم کر لو ۔ ایک آیت میں ہے «وَجَعَلْنَا اللَّیْلَ وَالنَّہَارَ آیَتَیْنِ فَمَحَوْنَا آیَۃَ اللَّیْلِ وَجَعَلْنَا آیَۃَ النَّہَارِ مُبْصِرَۃً لِّتَبْتَغُوا فَضْلًا مِّن رَّبِّکُمْ وَلِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِینَ وَالْحِسَابَ وَکُلَّ شَیْءٍ فَصَّلْنَاہُ تَفْصِیلًا» ( 17-الإسراء : 12 ) ہم نے رات اور دن کو دو نشانیاں بنا دیا ہے ، رات کی نشانی کو ہم نے دھندلا کر دیا ہے اور دن کی نشانی کو روشن کیا ہے تاکہ تم اس میں اپنے رب کی نازل کردہ روزی کو تلاش کر سکو اور برسوں کا شمار اور حساب معلوم کر سکو ہم نے ہرچیز کو خوب تفصیل سے بیان کر دیا ہے ۔ پس سورج کی چمک دمک اس کے ساتھ مخصوص ہے اور چاند کی روشنی اسی میں ہے ۔ اس کی اور اس کی چال بھی مختلف ہے ۔ سورج ہر دن طلوع و غروب ہوتا ہے اسی روشنی کے ساتھ ہوتا ہے ہاں اس کے طلوع و غروب کی جگہیں جاڑے میں اور گرمی میں الگ الگ ہوتی ہیں ، اسی سبب سے دن رات کی طولانی میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے سورج دن کا ستارہ ہے اور چاند رات کا ستارہ ہے اس کی منزلیں مقرر ہیں ۔ مہینے کی پہلی رات طلوع ہوتا ہے بہت چھوٹا سا ہوتا ہے روشنی کم ہوتی ہے ، دوسری شب روشنی اس سے بڑھ جاتی ہے اور منزل بھی ترقی کرتی جاتی ہے ، پھر جوں جوں بلند ہوتا جاتا ہے روشنی بڑھتی جاتی ہے ، گو اس کی نورانیت سورج سے لی ہوئی ہوتی ہے آخر چودہویں رات کو چاند کامل ہو جاتا ہے اور اسی کی چاندنی بھی کمال کی ہو جاتی ہے ۔ پھر گھٹنا شروع ہوتا ہے اور اسی طرح درجہ بدرجہ بتدریج گھٹتا ہوا مثل کھجور کے خوشے کی ٹہنی کے ہو جاتا ہے جس پر تر کھجوریں لٹکتی ہوں اور وہ خشک ہو کر بل کھا گئی ہو ۔ پھر اسے نئے سرے سے اللہ تعالیٰ دوسرے مہینے کی ابتداء میں ظاہر کرتا ہے ، عرب میں چاند کی روشنی کے اعتبار سے مہینے کی راتوں کے نام رکھ لیے گئے ہیں ، مثلاً پہلی تین راتوں کا نام غرر ہے ، اس کے بعد کی تین راتوں کا نام نفل ہے ، اس کے بعد کی تین راتوں کا نام تسع ہے ، اس لیے کہ ان کی آخری رات نویں ہوتی ہے ، اس کے بعد کی تین راتوں کا نام عشر ہے ، اس لیے کہ اس کا شروع دسویں سے ہے ، اس کے بعد کی تین راتوں کا نام بیض ہے ، اس لیے کہ ان راتوں میں چاندنی کی روشنی آخر تک رہا کرتی ہے ، اس کے بعد کی تین راتوں کا نام ان کے ہاں ورع ہے ، یہ لفظ ورعاء کی جمع ہے ، ان کا یہ نام اس لیے رکھا ہے کہ سولہویں کو چاند ذرا دیر سے طلوع ہوتا ہے تو تھوڑی دیر تک اندھیرا یعنی سیاہی رہتی ہے اور عرب میں اس بکری کو جس کا سر سیاہ ہو «شاۃ درعاء» کہتے ہیں ، اس کے بعد کی تین راتوں کو ظلم کہتے ہیں ، پھر تین کو ضاوس پھر تین کو دراری پھر تین کو محاق اس لیے کہ اس میں چاند ختم ہو جاتا ہے اور مہینہ بھی ختم ہو جاتا ہے ۔ سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ ان میں سے تسع اور عشر کو قبول نہیں کرتے ، ملاحظہ ہو کتاب غریب المصنف ۔ سورج چاند کی حدیں اس نے مقرر کی ہیں ناممکن ہے کہ کوئی اپنی حد سے ادھر ادھر ہو جائے یا آگے پیچھے ہو جائے ، اس کی باری کے وقت وہ گم ہے اس کی باری کے وقت یہ خاموش ہے ۔ حسن رحمہ اللہ کہتے ہیں یہ چاند رات کو ہے ۔ ابن مبارک رحمہ اللہ کا قول ہے ہوا کے پر ہیں اور چاند پانی کے غلاف تلے جگہ کرتا ہے ، ابوصالح فرماتے ہیں اس کی روشنی اس کی روشنی کو پکڑ نہیں سکتی ، عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں رات کو سورج طلوع نہیں ہو سکتا ۔ نہ رات دن سے سبقت کر سکتی ہے ، یعنی رات کے بعد ہی رات نہیں آ سکتی بلکہ درمیان میں دن آ جائے گا ، پس سورج کی سلطنت دن کو ہے اور چاند کی بادشاہت رات کو ہے ، رات ادھر سے جاتی ہے ادھر سے دن آتا ہے ایک دوسرے کے تعاقب میں ہیں ، لیکن نہ تصادم کا ڈر ہے نہ بے نظمی کا خطرہ ہے ، نہ یہ کہ دن ہی دن چلا جائے رات نہ آئے نہ اس کے خلاف ، ایک جاتا ہے دوسرا آتا ہے ، ہر ایک اپنے اپنے وقت پر غائب و حاضر ہوتا رہتا ہے ، سب کے سب یعنی سورج چاند دن رات فلک آسمان میں تیر رہے ہیں اور گھومتے پھرتے ہیں ۔ زید بن عاصم کا قول ہے کہ آسمان و زمین کے درمیان فلک میں یہ سب آ جا رہے ہیں ، لیکن یہ بہت غریب بلکہ منکر قول ہے ۔ بعض لوگ کہتے ہیں فلک مثل چرخے کے تکلے کے ہے بعض کہتے ہیں مثل چکی کے لوہے کے پاٹ کے ۔ يس
38 يس
39 يس
40 يس
41 سمندر کی تسخیر اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی قدرت کی ایک اور نشانی بتا رہا ہے کہ اس نے سمندر کو مسخر کر دیا ہے جس میں کشتیاں برابر آمد و رفت کر رہی ہیں ۔ سب سے پہلی کشتی نوح علیہ السلام کی تھی جس پر سوار ہو کر وہ خود اور ان کے ساتھ ایماندار بندے نجات پا گئے تھے باقی روئے زمین پر ایک انسان بھی نہ بچا تھا ، ہم نے اس زمانے والے لوگوں کے آباؤ اجداد کو کشتی میں بٹھا لیا تھا جو بالکل بھرپور تھی ۔ کیونکہ اس میں ضرورت اکل اسباب بھی تھا اور ساتھ ہی حیوانات بھی تھے جو اللہ کے حکم سے اس میں بٹھا لیے گئے تھے ہر قسم کے جانور کا ایک ایک جوڑا تھا ، بڑا باوقار مضبوط اور بوجھل وہ جہاز تھا ، یہ صفت بھی صحیح طور پر نوح کی کشتی پر صادق آتی ہے ۔ اسی طرح کی خشکی کی سواریاں بھی اللہ نے ان کے لیے پیدا کر دی ہیں مثلاً اونٹ جو خشکی میں وہی کام دیتا ہے جو تری میں کشتی کام دیتی ہے ۔ اسی طرح دیگر چوپائے جانور ہیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کشتی نوح نمونہ بنی اور پھر اس نمونے پر اور کشتیاں اور جہاز بنتے چلے گئے ۔ اس مطلب کی تائید آیت «إِنَّا لَمَّا طَغَی الْمَاءُ حَمَلْنَاکُمْ فِی الْجَارِیَۃِ لِنَجْعَلَہَا لَکُمْ تَذْکِرَۃً وَتَعِیَہَا أُذُنٌ وَاعِیَۃٌ» ( 69- الحاقۃ : 11 ، 12 ) ، سے بھی ہوتی ہے یعنی جب پانی نے طغیانی کی تو ہم نے انہیں کشتی میں سوار کر لیا تاکہ اسے تمہارے لیے ایک یادگار بنا دیں اور یاد رکھنے والے کان اسے یاد رکھیں ۔ ہمارے اس احسان کو فراموش نہ کرو کہ سمندر سے ہم نے تمہیں پار کر دیا اگر ہم چاہتے تو اسی میں تمہیں ڈبو دیتے کشتی کی کشتی بیٹھ جاتی کوئی نہ ہوتا جو اس وقت تمہاری فریاد رسی کرتا نہ کوئی ایسا تمہیں ملتا جو تمہیں بچا سکتا ۔ لیکن یہ صرف ہماری رحمت ہے کہ خشکی اور تری کے لمبے چوڑے سفر تم با آرام و راحت طے کر رہے ہو اور ہم تمہیں اپنے ٹھہرائے ہوئے وقت تک ہر طرح سلامت رکھتے ہیں ۔ يس
42 يس
43 يس
44 يس
45 کفار کا تکبر کافروں کی سرکشی نادانی اور عناد تکبر بیان ہو رہا ہے کہ جب ان سے گناہوں سے بچنے کو کہا جاتا ہے کہ جو کر چکے ان پر نادم ہو جاؤ ان سے توبہ کر لو اور آئندہ کے لیے ان سے احتیاط کرو ۔ اس سے اللہ تم پر رحم فرمائے گا اور تمہیں اپنے عذابوں سے بچا لے گا ۔ تو وہ اس پر کار بند ہونا تو درکنار ایک طرف اور منہ پھلا لیتے ہیں ، قرآن نے اس جملے کو بیان نہیں فرمایا کیونکہ آگے جو آیت ہے وہ اس پر صاف طور سے دلالت کرتی ہے ۔ اس میں ہے کہ یہی ایک بات کیا ؟ ان کی تو عادت ہو گئی ہے کہ اللہ کی ہر بات سے منہ پھیر لیں ۔ نہ اس کی توحید کو مانتے ہیں نہ رسولوں کو سچا جانتے ہیں نہ ان میں غور و خوض کی عادت نہ ان میں قبولیت کا مادہ ، نہ نفع کو حاصل کرنے کا ملکہ ۔ ان کو جب کبھی اللہ کی راہ میں خیرات کرنے کو کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو تمہیں دیا ہے اس میں فقراء مساکین اور محتاجوں کا حصہ بھی ہے ۔ تو یہ جواب دیتے ہیں کہ اگر اللہ کا ارادہ ہوتا تو ان غریبوں کو خود ہی دیتا ، جب اللہ ہی کا ارادہ انہیں دینے کا نہیں تو ہم اللہ کے ارادے کے خلاف کیوں کریں ؟ تم جو ہمیں خیرات کی نصیحت کر رہے ہو اس میں بالکل غلطی پر ہو ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ پچھلہ جملہ کفار کی تردید میں اللہ کی طرف سے ہو ۔ یعنی اللہ تعالیٰ ان کفار سے فرما رہا ہے کہ تم کھلی گمراہی میں ہو لیکن ان سے یہی اچھا معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی کفار کے جواب کا حصہ ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» يس
46 يس
47 يس
48 قیامت کے بعد کوئی مہلت نہ ملے گی کافر چونکہ قیامت کے آنے کے قائل نہ تھے اس لیے وہ نبیوں سے اور مسلمانوں سے کہا کرتے تھے کہ پھر قیامت کو لاتے کیوں نہیں ؟ اچھا یہ تو بتاؤ کہ کب آئے گی ؟ اللہ تعالیٰ انہیں جواب دیتا ہے ۔ کہ اس کے آنے کے لیے ہمیں کچھ سامان نہیں کرنے پڑیں گے ، صرف ایک مرتبہ صور پھونک دیا جائے گا ۔ دنیا کے لوگ روزمرہ کی طرح اپنے اپنے کام کاج میں مشغول ہوں گے جب اللہ تعالیٰ اسرافیل علیہ السلام کو صور پھونکنے کا حکم دے گا وہیں لوگ ادھر ادھر گرنے شروع ہو جائیں گے اس آسمانی تیز و تند آواز سے سب کے سب محشر میں اللہ کے سامنے جمع کر دیئے جائیں گے اس چیخ کے بعد کسی کو اتنی بھی مہلت نہیں ملنی کہ کسی سے کچھ کہہ سن سکے ، کوئی وصیت اور نصیحت کر سکے اور نہ ہی انہیں اپنے گھروں کو واپس جانے کی طاقت رہے گی ۔ اس آیت کے متعلق بہت سے آثار و احادیث ہیں جنہیں ہم دوسری جگہ وارد کر چکے ہیں ۔ اس پہلے نفخہ کے بعد دوسرا نفخہ ہو گا جس سے سب کے سب مر جائیں گے ، کل جہان فنا ہو جائے گا ، بجز اس ہمیشگی والے اللہ عزوجل کے جسے فنا نہیں ۔ اس کے بعد پھر جی اٹھنے کا نفخہ ہو گا ۔ يس
49 يس
50 يس
51 قیامت کے دوسرے نفخہ پر لوگوں کا حال ان آیتوں میں دوسرے نفخہ کا ذکر ہو رہا ہے ۔ جس سے مردے جی اٹھیں گے ۔ «یَنسِلُوْنَ» کا مصدر نسلان سے ہے اور اس کے معنی تیز چلنے کے ہیں ۔ جیسے اور آیت میں ہے «یَوْمَ یَخْرُجُوْنَ مِنَ الْاَجْدَاثِ سِرَاعًا کَاَنَّہُمْ اِلٰی نُصُبٍ یٰوْفِضُوْنَ» ( 70- المعارج : 43 ) ، جس دن یہ قبروں سے نکل کر اس تیزی سے چلیں گے کہ گویا وہ کسی نشان منزل کی طرف لپکے جا رہے ہیں ۔ چونکہ دنیا میں انہیں قبروں سے جی اٹھنے کا ہمیشہ انکار رہا تھا اس لیے آج یہ حالت دیکھ کر کہیں گے کہ ہائے افسوس ہمارے سونے کی جگہ سے ہمیں کس نے اٹھایا ؟ اس سے قبر کے عذاب کا نہ ہونا ثابت نہیں ہوتا اس لیے کہ جس ہول و شدت کو جس تکلیف اور مصیبت کو یہ اب دیکھیں گے اس کی بہ نسبت تو قبر کے عذاب بیحد خفیف ہی تھے گویا کہ وہ وہاں آرام میں تھے ، بعض بزرگوں نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اس سے پہلے ذرا سی دیر کے لیے فی الواقع انہیں نیند آ جائے گی ، حضرت قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں پہلے نفخہ اور اس دوسرے نفخہ کے درمیان یہ سو جائیں گے ، اس لیے اب اٹھ کر یوں کہیں گے ، اس کا جواب ایماندار لوگ دیں گے کہ اسی کا وعدہ اللہ نے کیا تھا اور یہی اللہ کے سچے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ جواب فرشتے دیں گے ۔ بہرحال دونوں قولوں میں اس طرح تطبیق بھی ہو سکتی ہے کہ مومن بھی کہیں اور فرشتے بھی کہیں «وَاللہُ اَعْلَمُ» حضرت عبدالرحمٰن بن زید رحمہ اللہ کہتے ہیں یہ کل قول کافروں کا ہی ہے لیکن صحیح بات وہ ہے جسے ہم نے پہلے نقل کیا جیسے کہ سورۃ الصافات میں ہے کہ «وَقَالُوا یَا وَیْلَنَا ہٰذَا یَوْمُ الدِّینِ ہٰذَا یَوْمُ الْفَصْلِ الَّذِی کُنتُم بِہِ تُکَذِّبُونَ» ( 37-الصافات : 20 ، 21 ) یہ کہیں گے ہائے افسوس ہم پر یہ جزا کا دن ہے یہی فیصلہ کا دن ہے جسے ہم جھٹلاتے تھے اور آیت میں ہے «وَیَوْمَ تَقُومُ السَّاعَۃُ یُقْسِمُ الْمُجْرِمُونَ مَا لَبِثُوا غَیْرَ سَاعَۃٍ کَذٰلِکَ کَانُوا یُؤْفَکُونَ وَقَالَ الَّذِینَ أُوتُوا الْعِلْمَ وَالْإِیمَانَ لَقَدْ لَبِثْتُمْ فِی کِتَابِ اللہِ إِلَیٰ یَوْمِ الْبَعْثِ فَہٰذَا یَوْمُ الْبَعْثِ وَلٰکِنَّکُمْ کُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ» ( 30-الروم : 55 ، 56 ) ، جس دن قیامت برپا ہو گی گنہگار قسمیں کھا کھا کر کہیں گے کہ وہ صرف ایک ساعت ہی رہے ہیں اسی طرح وہ ہمیشہ حق سے پھرے رہے ، اس وقت با ایمان اور علماء فرمائیں گے تم اللہ کے لکھے ہوئے کے مطابق قیامت کے دن تک رہے یہی قیامت کا دن ہے لیکن تم محض بےعلم ہو ۔ تم تو اسے ان ہونی مانتے تھے حالانکہ وہ ہم پر بالکل سہل ہے ایک آواز کی دیر ہے کہ ساری مخلوق ہمارے سامنے موجود ہو جائے گی ، جیسے اور آیت میں ہے کہ «فَإِنَّمَا ہِیَ زَجْرَۃٌ وَاحِدَۃٌ فَإِذَا ہُم بِالسَّاہِرَۃِ» ( 79-النازعات : 13 ، 14 ) ایک ڈانٹ کے ساتھ ہی سب میدان میں مجتمع موجود ہوں گے ۔ اور آیت میں فرمایا «وَمَا أَمْرُ السَّاعَۃِ إِلَّا کَلَمْحِ الْبَصَرِ أَوْ ہُوَ أَقْرَبُ» ( 16-النحل : 77 ) امر قیامت تو مثل آنکھ جھپکانے کے بلکہ اس سے بھی زیادہ قریب ہے ، اور جیسے فرمایا «یَوْمَ یَدْعُوْکُمْ فَتَسْتَجِیْبُوْنَ بِحَمْدِہٖ وَتَظُنٰوْنَ اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا قَلِیْلًا» ( 17- الإسراء : 52 ) جس دن وہ تمہیں بلائے گا اور تم اس کی تعریف کرتے ہوئے اسے جواب دو گے اور یقین کر لو گے کہ تم بہت ہی کم مدت رہے ۔ الغرض حکم کے ساتھ ہی سب حاضر سامنے موجود ۔ اس دن کسی کا کوئی عمل مارا نہ جائے گا ، ہر ایک کو اس کے کئے ہوئے اعمال کا ہی بدلہ دیا جائے گا ۔ يس
52 يس
53 يس
54 يس
55 جنت کے مناظر جنتی لوگ میدان قیامت سے فارغ ہو کر جنتوں میں بہ صدا اکرام و بہ ہزار تعظیم پہنچائے جائیں گے اور وہاں کی گوناں گوں نعمتوں اور راحتوں میں اس طرح مشغول ہوں گے کہ کسی دوسری جانب نہ التفات ہو گا نہ کسی اور طرف کا خیال ، یہ جہنم سے جہنم والوں سے بے فکر ہوں گے ۔ اپنی لذتوں اور مزے میں منہمک ہوں گے ۔ اس قدر مسرور ہوں گے کہ ہر ایک چیز سے بیخبر ہو جائیں گے نہایت ہشاش بشاش ہوں گے ، کنواری حوریں انہیں ملی ہوئی ہوں گی ، جن سے وہ لطف اندوز ہو رہے ہوں گے ، طرح طرح کی راگ راگنیاں اور خوش کن آوازیں دلفریبی سے ان کے دلوں کو لبھا رہی ہوں گیں ۔ ان کے ساتھ ہی اس لطف و سرور میں ان کی بیویاں اور ان کی حوریں بھی شامل ہوں گی ۔ جنتی میوے دار درختوں کے ٹھنڈے اور گھنے سایوں میں بہ آرام تختوں پر تکیوں سے لگے بے غمی اور بیفکری کے ساتھ اللہ کی مہمانداری سے مزے اٹھا رہے ہوں گے ۔ ہر قسم کے میوے بکثرت ان کے پاس موجود ہوں گے اور بھی جس چیز کو جی چاہے جو خواہش ہو پوری ہو جائے گی ۔ سنن ابن ماجہ کی کتاب الزہد میں اور ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم میں سے کوئی اس جنت میں جانے کا خواہشمند اور اس کے لیے تیاریاں کرنے والا اور مستعدی ظاہر کرنے والا ہے ؟ جس میں کوئی خوف و خطر نہیں ، رب کعبہ کی قسم وہ سرا سر نور ہی نور ہے اس کی تازگیاں بے حد ہیں ۔ اس کا سبزہ لہلہا رہا ہے اس کے بالاخانے مضبوط بلند اور پختہ ہیں اس کی نہریں بھری ہوئی اور بہ رہی ہیں ۔ اس کے پھل ذائقے دار ، پکے ہوئے اور بکثرت ہیں ۔ اس میں خوبصورت نوجوان حوریں ہیں اور ان کے لباس ریشمی اور بیش قیمت ہیں ، اس کی نعمتیں ابدی اور لازوال ہیں ، وہ سلامتی کا گھر ہے ، وہ سبز اور تازے پھلوں کا باغ ہے ، اس کی نعمتیں بہ کثرت اور عمدہ ہیں اور اس کے محلات بلند و بالا اور مزین ہیں ۔ یہ سن کر جتنے صحابہ رضی اللہ عنہم تھے سب نے کہا یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم ہم اس کے لیے تیاری کرنے اور اس کے حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا «ان شاء اللہ» کہو چنانچہ انہوں نے کہا «ان شاء اللہ» ۔ (سنن ابن ماجہ:4332،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) اللہ کی طرف سے ان پر سلام ہی سلام ہے ۔ خود اللہ کا اہل جنت کے لیے سلام ہے ، جیسے فرمایا «تَحِیَّتُہُمْ یَوْمَ یَلْقَوْنَہٗ سَلٰمٌ ڻ وَاَعَدَّ لَہُمْ اَجْرًا کَرِیْمًا» ( 33- الأحزاب : 44 ) ( ترجمہ ) ان کا تحفہ جس روز وہ اللہ سے ملیں گے سلام ہو گا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جنتی اپنی نعمتوں میں مشغول ہوں گے کہ اوپر کی جانب سے ایک نور چمکے گا یہ اپنا سر اٹھائیں گے تو اللہ تعالیٰ کے دیدار سے مشرف ہوں گے اور رب فرمائے گا «السلام علیکم یا اھل الجنۃ» یہی معنی ہیں اس آیت «سَلَامٌ قَوْلًا مِّن رَّبٍّ رَّحِیمٍ» ( 36-یس : 58 ) ، کے جنتی صاف طور سے اللہ کو دیکھیں گے اور اللہ انہیں دیکھے گا کسی نعمت کی طرف اس وقت وہ آنکھ بھی نہ اٹھائیں گے یہاں تک کہ حجاب حائل ہو جائے گا اور نور و برکت ان کے پاس باقی رہ جائے گی ، (سنن ابن ماجہ:184،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) یہ حدیث ابن ابی حاتم میں ہے لیکن سند کمزور ہے ابن ماجہ میں بھی کتاب السنہ میں یہ روایت موجود ہے ۔ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ جب دوزخیوں اور جنتیوں سے فارغ ہو گا تو ابر کے سایہ میں متوجہ ہو گا فرشتے اس کے ساتھ ہوں گے جنتیوں کو سلام کرے گا اور جنتی جواب دیں گے ۔ قرظی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ اللہ کے فرمان «سَلَامٌ قَوْلًا مِّن رَّبٍّ رَّحِیمٍ» ( 36-یس : 58 ) میں موجود ہے ۔ اس وقت اللہ تعالیٰ فرمائے گا مجھ سے مانگو جو چاہو ، یہ کہیں گے پروردگار سب کچھ تو موجود ہے کیا مانگیں ؟ اللہ فرمائے گا ہاں ٹھیک ہے پھر بھی جو جی میں آئے طلب کرو ، وہ کہیں گے بس تیری رضا مندی مطلوب ہے ، اللہ تعالیٰ فرمائے گا وہ تو میں تمہیں دے چکا اور اسی کی بنا پر تم میرے اس مہمان خانے میں آئے اور میں نے تمہیں اس کا مالک بنا دیا ، جنتی کہیں گے پھر اللہ ہم تجھ سے کیا مانگیں ؟ تو نے تو ہمیں اتنا دے رکھا ہے کہ اگر تو حکم دے تو ہم میں سے ایک شخص کل انسانوں اور جنوں کی دعوت کر سکتا ہے اور انہیں پیٹ بھر کر کھلا پلا اور پہنا اڑھا سکتا ہے ۔ بلکہ ان کی سب ضروریات پوری کر سکتا ہے اور پھر بھی اس کی ملکیت میں کوئی کمی نہیں آ سکتی ۔ اللہ فرمائے گا ابھی میرے پاس اور زیادتی ہے چنانچہ فرشتے ان کے پاس اللہ کی طرف سے نئے نئے تحفے لائیں گے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:29206-29207) امام ابن جریر رحمہ اللہ اس روایت کو بہت سی سندوں سے لائے ہیں لیکن یہ روایت غریب ہے ، «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ يس
56 يس
57 يس
58 يس
59 نیک و بد علیحدہ علیحدہ کر دیئے جائیں گے فرماتا ہے کہ نیک کاروں سے بدکاروں کو چھانٹ دیا جائے گا ، کافروں سے کہدیا جائے گا کہ مومنوں سے دور ہو جاؤ ، پھر ہم ان میں امتیاز کر دیں گے انہیں الگ الگ کر دیں گے ۔ اسی طرح سورۃ یونس میں ہے «وَیَوْمَ نَحْشُرُہُمْ جَمِیعًا ثُمَّ نَقُولُ لِلَّذِینَ أَشْرَکُوا مَکَانَکُمْ أَنتُمْ وَشُرَکَاؤُکُمْ» ( 10-یونس : 28 ) اور آیت «وَیَوْمَ تَقُومُ السَّاعَۃُ یَوْمَئِذٍ یَتَفَرَّقُونَ» ( 30-الروم : 14 ) ( ترجمہ ) جس روز قیامت قائم ہو گی اس روز سب کے سب جدا جدا ہو جائیں گے ۔ یعنی ان کے دو گروہ بن جائیں گے ۔ سورۃ و الصافات میں فرمان ہے «اُحْشُرُوا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا وَاَزْوَاجَہُمْ وَمَا کَانُوْا یَعْبُدُوْنَ مِن دُونِ اللہِ فَاہْدُوہُمْ إِلَیٰ صِرَاطِ الْجَحِیمِ» ( 37- الصافات : 23 ، 22 ) ، یعنی ظالموں کو اور ان جیسوں کو اور ان کے جھوٹے معبودوں کو جنہیں وہ اللہ کے سوا پوجتے تھے جمع کرو اور انہیں جہنم کا راستہ دکھاؤ ۔ جنتیوں پر جو طرح طرح کی نوازشیں ہو رہی ہوں گی اس طرح جہنمیوں پر طرح طرح کی سختیاں ہو رہی ہوں گی انہیں بطور ڈانٹ ڈپٹ کے کہا جائے گا کہ کیا میں نے تم سے عہد نہیں لیا تھا کہ شیطان کی نہ ماننا ، وہ تمہارا دشمن ہے ؟ لیکن اس پر بھی تم نے مجھ رحمان کی نافرمانی کی اور اس شیطان کی فرمانبرداری کی ۔ خالق مالک رازق میں ، اور فرمانبرداری کی جائے میرے راندہ درگاہ کی ؟ میں تو کہہ چکا تھا کہ ایک میری ہی ماننا صرف مجھ ہی کو پوجنا مجھ تک پہنچنے کا سیدھا قریب کا اور سچا راستہ یہی ہے لیکن تم الٹے چلے ، یہاں بھی الٹے ہی جاؤ ، ان نیک بختوں کی اور تمہاری راہ الگ الگ ہے یہ جنتی ہیں تم جہنمی ہو ۔ جبلا سے مراد خلق کثیر بہت ساری مخلوق ہے لغت میں «جُبَلْ» بھی کہا جاتا ہے اور «جبل» بھی کہا جاتا ہے ، شیطان نے تم میں سے بکثرت لوگوں کو بہکا دیا اور صحیح راہ سے ہٹا دیا ، تم میں اتنی بھی عقل نہ تھی کہ تم اس کا فیصلہ کر سکتے کہ رحمان کی مانیں یا شیطان کی ؟ اللہ کو پوجیں یا مخلوق کو ؟ ابن جریر میں ہے قیامت کے دن اللہ کے حکم سے جہنم اپنی گردن نکالے گی جس میں سخت اندھیرا ہو گا اور بالکل ظاہر ہو گی وہ بھی کہے گی کہ اے انسانو ! کیا اللہ تعالیٰ نے تم سے وعدہ نہیں لیا تھا کہ تم شیطان کی عبادت نہ کرنا ؟ وہ تمہارا ظاہری دشمن ہے اور میری عبادت کرنا یہ سیدھی راہ ہے ، اس نے تم میں سے اکثروں کو گمراہ کر دیا کیا تم سمجھتے نہ تھے ؟ اے گنہگارو ! آج تم جدا ہو جاؤ ۔ اس وقت نیک بد الگ الگ ہو جائیں گے ۔ «وَتَرَیٰ کُلَّ أُمَّۃٍ جَاثِیَۃً کُلٰ أُمَّۃٍ تُدْعَیٰ إِلَیٰ کِتَابِہَا الْیَوْمَ تُجْزَوْنَ مَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ» ( 45-الجاثیۃ : 28 ) ہر ایک گھنٹوں کے بل گر پڑے گا ، ہر ایک کو اس کے نامہ اعمال کی طرف بلایا جائے گا ، آج ہی بدلے دیئے جاؤ گے جو کر کے آئے ہو ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:29210:ضعیف) يس
60 يس
61 يس
62 يس
63 اعضاء کی گواہی جہنم بھڑکتی ہوئی اور شعلے مارتی ہوئی چیختی ہوئی اور چلاتی ہوئی سامنے ہو گی اور کفار سے کہا جائے گا کہ یہی وہ جہنم ہے جس کا ذکر میرے رسول کیا کرتے تھے جس سے وہ ڈرایا کرتے تھے اور تم انہیں جھٹلاتے تھے ۔ لو اب اپنے اس کفر کا مزہ چکھو اٹھو اس میں کود پڑو ، چنانچہ اور آیت میں ہے «یَوْمَ یُدَعٰونَ إِلَیٰ نَارِ جَہَنَّمَ دَعًّا ہٰذِہِ النَّارُ الَّتِی کُنتُم بِہَا تُکَذِّبُونَ أَفَسِحْرٌ ہٰذَا أَمْ أَنتُمْ لَا تُبْصِرُونَ» ( 52-الطور : 13 - 15 ) ، جس دن یہ جہنم کی طرف دھکیلے جائیں گے اور کہا جائے گا یہی وہ دوزخ ہے جس کا انکار کرتے رہے ہو ۔ بتاؤ تو یہ جادو ہے ؟ یا تم اندھے ہو گئے ہو ؟ قیامت والے دن جب یہ کفار اور منافقین اپنے گناہوں کا انکار کریں گے اور اس پر قسمیں کھا لیں گے تو اللہ ان کی زبانوں کو بند کر دے گا اور ان کے بدن کے اعضاء سچی سچی گواہی دینا شروع کر دیں گے ۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے کہ آپ یکایک ہنسے اور اس قدر ہنسے کہ مسوڑھے کھل گئے پھر ہم سے دریافت کرنے لگے کہ جانتے ہو میں کیوں ہنسا ؟ ہم نے کہا اللہ اور اس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی خوب جانتا ہے ۔ فرمایا بندہ جو اپنے رب سے قیامت کے دن جھگڑا کرے گا اس پر ۔ کہے گا کہ باری تعالیٰ کیا تو نے مجھے ظلم سے بچایا نہ تھا ؟ اللہ فرمائے گا ہاں ، تو یہ کہے گا بس پھر میں کسی گواہ کی گواہی اپنے خلاف منظور نہیں کروں گا ۔ بس میرا اپنا بدن تو میرا ہے باقی سب میرے دشمن ہیں ۔ اللہ فرمائے گا اچھا یونہی سہی تو ہی اپنا گواہ سہی اور میرے بزرگ فرشتے گواہ سہی ۔ چنانچہ اسی وقت زبان پر مہر لگا دی جائے گی اور اعضائے بدن سے فرمایا جائے گا بولو تم خود گواہی دو کہ تم سے اس نے کیا کیا کام لیے ؟ وہ صاف کھول کھول کر سچ سچ ایک ایک بات بتا دیں گے پھر اس کی زبان کھول دی جائے گی تو یہ اپنے بدن کے جوڑوں سے کہے گا تمہارا ستیاناس ہو جائے تم ہی میرے دشمن بن بیٹھے میں تو تمہارے ہی بچاؤ کی کوشش کر رہا تھا اور تمہارے ہی فائدے کے لیے حجت بازی کر رہا تھا ۔ (صحیح مسلم:2969) نسائی کی ایک اور حدیث میں ہے تمہیں اللہ کے سامنے بلایا جائے گا جبکہ زبان بند ہو گی سب سے پہلے رانوں اور ہتھیلیوں سے سوال ہو گا ۔ (نسائی فی السنن الکبرٰی:11469) قیامت کی ایک طویل حدیث میں ہے کہ پھر تیسرے موقعہ پر اس سے کہا جائے گا کہ تو کیا ہے ؟ یہ کہے گا تیرا بندہ ہوں تجھ پر تیری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر تیری کتاب پر ایمان لایا تھا روزے نماز زکوٰۃ وغیرہ کا پابند تھا اور بھی بہت سی اپنی نیکیاں بیان کر جائے گا اس وقت اس سے کہا جائے گا ، اچھا ٹھہر جا ہم گواہ لاتے ہیں یہ سوچتا ہی ہو گا کہ گواہی میں کون پیش کیا جائے گا ؟ یکایک اس کی زبان بند کر دی جائے گی اور اس کی ران سے کہا جائے گا کہ تو گواہی دے ، اب ران اور ہڈیاں اور گوشت بول پڑے گا اور اس منافق کے سارے نفاق کو اور تمام پوشیدہ اعمال کو کھول کر رکھ دے گا ۔ یہ سب اس لیے ہو گا کہ پھر اس کی حجت باقی نہ رہے اور اس کا عذر ٹوٹ جائے ۔ چونکہ رب اس پر ناراض تھا اس لیے اس سے سختی سے بازپرس ہوئی ۔(صحیح مسلم:2968) ایک حدیث میں ہے منہ پر مہر لگنے کے بعد سب سے پہلے انسان کی بائیں ران بولے گی ۔ سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ مومن کو بلا کر اس کے گناہ اس کے سامنے پیش کر کے فرمائے گا ، کہو یہ ٹھیک ہے ؟ یہ کہے گا ہاں اللہ سب درست ہے بیشک مجھ سے یہ خطائیں سرزد ہوئی ہیں ۔ اللہ فرمائے گا اچھا ہم نے سب بخش دیں ، لیکن یہ گفتگو اس طرح ہو گی کہ کسی ایک کو بھی اس کا مطلق علم نہ ہو گا اس کا ایک گناہ بھی مخلوق میں سے کسی پر ظاہر نہ ہو گا ۔ اب اس کی نیکیاں لائی جائیں گی اور انہیں کھول کھول کر ساری مخلوق کے سامنے جتا جتا کر رکھی جائیں گی ۔ ( اے ستار العیوب اے غفار الذنوب تو ہم گناہ گاروں کی پردہ پوشی کر اور ہم مجرموں سے در گزر فرما ۔ اللہ اس دن ہمیں رسوا اور ذلیل نہ کر اور اپنے دامن رحمت میں ڈھانپ لے ۔ اے ذرہ نواز اللہ عزو جل ! اپنی بےپایاں بخشش کی موسلا دھار بارش کا ایک قطرہ ادھر بھی برسا دے اور ہمارے تمام گناہوں کو دھو ڈال ، پروردگار ایک نظر رحمت ادھر بھی ، مالک الملک ہم بھی تیری چشم رحمت کے منتظر ہیں ، اے غفور و رحیم اللہ کیا تیرے در سے بھی کوئی سوالی خالی جھولی لے کر ناامید ہو کر آج تک لوٹا ہے ؟ رحم کر رحم کر رحم کر ۔ اے مالک و خالق رحم کر اپنے انتقام سے بچا اپنے غصے سے نجات دے اپنی رحمتوں سے نواز دے اپنے عذابوں سے چھٹکارا دے اپنی جنت میں پہنچا دے ، اپنے دیدار سے مشرف فرما ۔ آمین آمین ) ۔ اور کافر و منافق کو بلایا جائے گا اس کے بد اعمال اس کے سامنے رکھے جائیں گے اور اس سے کہا جائے گا کہو یہ ٹھیک ہے ؟ یہ صاف انکار کر جائے گا اور کڑکڑاتی ہوئی قسمیں کھانے لگے گا ۔ کہ اللہ تعالیٰ تیرے ان فرشتوں نے جھوٹی تحریر لکھی ہے میں نے ہرگز یہ گناہ نہیں کئے ، فرشتہ کہے گا ہائیں ہائیں کیا کہہ رہا ہے ؟ کیا فلاں دن فلاں جگہ تو نے فلاں کام نہیں کیا ؟ یہ کہے گا اللہ تیری عزت کی قسم محض جھوٹ ہے میں نے ہرگز نہیں کیا ؟ اب اللہ تعالیٰ اس کی زبان بندی کر دے گا ، غالباً سب سے پہلے اس کی دائیں ران اس کے خلاف شہادت دے گی ، یہی مضمون اس آیت میں بیان ہو رہا ہے ۔ پھر فرماتا ہے اگر ہم چاہتے تو انہیں گمراہ کر دیتے اور پھر یہ کبھی ہدایت نہ حاصل کر سکتے ۔ اگر ہم چاہتے ان کی آنکھیں اندھی کر دیتے تو یہ یونہی بھٹکتے پھرتے ۔ ادھر ادھر راستے ٹٹولتے ۔ حق کو نہ دیکھ سکتے ، نہ صحیح راستے پر پہنچ سکتے اور اگر ہم چاہتے تو انہیں ان کے مکانوں میں ہی مسخ کر دیتے ان کی صورتیں بدل دیتے انہیں ہلاک کر دیتے انہیں پتھر کے بنا دیتے ، ان کی ٹانگیں توڑ دیتے ۔ پھر تو نہ وہ چل سکتے یعنی آگے کو نہ وہ لوٹ سکتے یعنی پیچھے کو بلکہ بت کی طرح ایک ہی جگہ بیٹھے رہتے ، آگے پیچھے نہ ہو سکتے ۔ يس
64 يس
65 يس
66 يس
67 يس
68 شاعری پیغمبرانہ شان کے منافی انسان کی جوانی جوں جوں ڈھلتی ہے پیری ، ضعیفی ، کمزوری اور ناتوانی آتی جاتی ہے ، جیسے سورۃ الروم کی آیت میں ہے ۔ «اَللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ ﮨـعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْ بَعْدِ ﮨـعْفٍ قُوَّۃً ثُمَّ جَعَلَ مِنْ بَعْدِ قُوَّۃٍ ﮨـعْفًا وَّشَیْبَۃً یَخْلُقُ مَا یَشَاءُ وَہُوَ الْعَلِیْمُ الْقَدِیْرُ» ( 30- الروم : 54 ) ، اللہ وہ ہے جس نے تمہیں ناتوانی کی حالت میں پیدا کیا ۔ پھر ناتوانی کے بعد طاقت عطا فرمائی پھر طاقت و قوت کے بعد ضعف اور بڑھاپا کر دیا ، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور وہ خوب جاننے والا پوری قدرت رکھنے والا ہے ۔ اور آیت میں ہے «وَمِنکُم مَّن یُرَدٰ إِلَیٰ أَرْذَلِ الْعُمُرِ لِکَیْلَا یَعْلَمَ مِن بَعْدِ عِلْمٍ شَیْئًا» ( 22-الحج : 5 ) ہم تم میں سے بعض بہت بڑی عمر کی طرف لوٹائے جاتے ہیں تاکہ علم کے بعد وہ بےعلم ہو جائیں ۔ پس مطلب آیت سے یہ ہے کہ دنیا زوال اور انتقال کی جگہ ہے یہ پائیدار اور قرار گاہ نہیں ، پھر بھی کیا یہ لوگ عقل نہیں رکھتے کہ اپنے بچپن ، پھر جوانی ، پھر بڑھاپے پر غور کریں اور اس سے نتیجہ نکال لیں کہ اس دنیا کے بعد آخرت آنے والی ہے اور اس زندگی کے بعد میں دوبارہ پیدا ہونا ہے ۔ پھر فرمایا نہ تو میں نے اپنے پیغمبر کو شاعری سکھائی نہ شاعری اس کے شایان شان نہ اسے شعر گوئی سے محبت نہ شعر اشعار کی طرف اس کی طبیعت کا میلان ۔ اسی کا ثبوت آپ کی زندگی میں نمایاں طور پر ملتا ہے کہ کسی کاشعر پڑھتے تھے تو صحیح طور پر ادا نہیں ہوتا تھا یا پورا یاد نہیں ہوتا تھا ۔ حضرت شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اولاد عبدالمطلب کا ہر مرد عورت شعر کہنا جانتا تھا مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے کوسوں دور تھے ۔ ( ابن اعساکر ) ایک بار اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ شعر پڑھا کفی بالاسلام والشیب للمرء ناہیا اس پر سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح نہیں بلکہ یوں ہے کفی الشیب ولاسلام للمرء ناھیاًٍ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ہی یا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا سچ مچ آپ اللہ کے رسول ہیں اللہ نے سچ فرمایا (وَمَا عَلَّمْنَاہُ الشِّعْرَ وَمَا یَنبَغِی لَہُ إِنْ ہُوَ إِلَّا ذِکْرٌ وَقُرْآنٌ مٰبِینٌ ) ۔ « الدار المنثور للسیوطی:505/5،ضعیف» دلائل بیہقی میں ہے کہ آپ نے ایک مرتبہ سیدنا عباس بن مرداس سلمی رضی اللہ عنہ سے فرمایا تم نے بھی تو یہ شعر کہا ہے ؟ «تجعل نھبی و نھب العبید ، بین الاقرع و عینیتہ» انہوں نے کہایا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم دراصل یوں ہے «بین عینیتہ» والا قرع آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چلو سب برابر ہے مطلب تو فوت نہیں ہوتا ؟ صلوات اللہ و سلامہ علیہ ۔ (دلائل النبوۃ للبیہقی:179/5:مرسل) سہیلی نے روض الانف میں اس تقدیم تاخیر کی ایک عجیب توجیہ کی ہے وہ کہتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اقرع کو پہلے اور عیینہ کو بعد میں اس لیے ذکر کیا کہ عیینہ خلافت صدیقی میں مرتد ہو گیا تھا بخلاف اقرع کے کہ وہ ثابت قدم رہا تھا ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ مغازی میں ہے کہ بدر کے مقتول کافروں کے درمیان گشت لگاتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے نکلا «نفلق ھاما» ( آگے کچھ نہ فرما سکے ۔ اس پر جناب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پورا شعر پڑھ دیا ) ۔ «من رجال اعزۃ علینا وھم کانوا اعق واظلما» یہ کسی عرب شاعر کا شعر ہے جو حماسہ میں موجود ہے ۔ مسند احمد میں ہے کبھی کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طرفہ کا یہ شعر بہت پڑھتے تھے ویاتیک بالا خبار من لم تزود اس کا پہلا مصرعہ یہ ہے «ستبدی لک الا یام ما کنت جاہلا» یعنی زمانہ تجھ پر وہ امور ظاہر کر دے گا جن سے تو بیخبر ہے اور تیرے پاس ایسا شخص خبریں لائے گا جسے تو نے توشہ نہیں دیا ، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال ہوا کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شعر پڑھتے تھے ، آپ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ سب سے زیادہ بغض آپ کو شعروں سے تھا ہاں کبھی کبھی بنو قیس والے کا کوئی شعر پڑھتے لیکن اس میں بھی غلطی کرتے تقدیم تاخیر کر دیا کرتے ۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ فرماتے یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم یوں نہیں ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے نہ شاعر ہوں نہ شعر گوئی میرے شایان شان ہے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:29229:مرسل و منقطع) دوسری روایت میں شعر اور آگے پیچھے کا ذکر بھی ہے یعنی «ویاتیک بالا خبار مالم تذود» کو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے «من لم تزود الاخبار» پڑھا تھا ، بیہقی کی ایک روایت میں ہے کہ پورا شعر کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں پڑھا زیادہ سے زیادہ ایک مصرعہ پڑھ لیتے تھے ۔ [ بیہقی فی السنن الکبری(43/7)ضعیف] صحیح حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خندق کھودتے ہوئے سیدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے اشعار پڑھے ۔ سو یاد رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ پڑھنا صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ تھا ۔ وہ اشعار یہ ہیں ۔ «لاھم لو لاانت ما اھتدینا ولا تصدقناولاً صلینا فانذلن سکینتہ علینا وثبت الاقدام ان لا قینا ان الاولیٰ قد بغوا علینا اذا ارادوا فتنتہ ابینا» حضور لفظ ابینا کو کھینچ کر پڑھتے اور سارے ہی بلند آواز سے پڑھتے ، (صحیح بخاری:4104) ترجمہ ان اشعار کا یہ ہے کوئی غم نہیں اگر تو نہ ہوتا تو ہم ہدایت یافتہ نہ ہوتے نہ صدقے دیتے اور نہ نمازیں پڑھتے ۔ اب تو ہم پر تسکین نازل فرما ۔ جب دشمنوں سے لڑائی چھڑ جائے تو ہمیں ثابت قدمی عطا فرما ، یہی لوگ ہم پر سرکشی کرتے ہیں ہاں جب کبھی فتنے کا ارادہ کرتے ہیں تو ہم انکار کرتے ہیں اسی طرح ثابت ہے کہ حنین والے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خچر کو دشمنوں کی طرف بڑھاتے ہوئے فرمایا ۔ «انا النبی لا کذب انا ابن عبدالمطلب» (صحیح بخاری:4315) اس کی بابت یہ یاد رہے کہ اتفاقیہ ایک کلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے نکل گیا جو وزن شعر پر اترا ۔ نہ کہ قصداً آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شعر کہا ، سیدنا جندب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غار میں تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلی زخمی ہو گئی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ «ھل انت الا اصبح دمیت وفی سبیل اللہ ما لقیت» یعنی تو ایک انگلی ہی تو ہے ۔ اور تو راہ اللہ میں خون آلود ہوئی ہے ۔ (صحیح بخاری:2802) یہ بھی اتفاقیہ ہے قصداً نہیں ۔ اسی طرح ایک حدیث «إِلَّا اللَّمَمَ إِنَّ رَبَّکَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَۃِ» ( 53- النجم : 32 ) کی تفسیر میں آئے گی کہ آپ نے فرمایا ۔ «ان تغفر اللھم تغفر جما وای عبدلک ما الما» یعنی اے اللہ تو جب بخشے تو ہمارے سبھی کے سب گناہ بخش دے ، ورنہ یوں تو تیرا کوئی بندہ نہیں جو چھوٹی چھوٹی لغزشوں سے بھی پاک ہو پس یہ سب کے سب اس آیت کے منافی نہیں کیونکہ اللہ کی تعلیم آپ کو شعر گوئی کی نہ تھی ۔ بلکہ رب العالمین نے تو آپ کو قرآن عظیم کی تعلیم دی تھی «لَّا یَأْتِیہِ الْبَاطِلُ مِن بَیْنِ یَدَیْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہِ تَنزِیلٌ مِّنْ حَکِیمٍ حَمِیدٍ» ( 41-فصلت : 42 ) جس کے پاس بھی باطل پھٹک نہیں سکتا ۔ قرآن حکیم کی یہ پاک نظم شاعری سے منزلوں دور تھی ۔ اسی طرح کہانت سے اور گھڑ لینے سے اور جادو کے کلمات سے جیسے کہ کفار کے مختلف گروہ مختلف بولیاں بولتے تھے ۔ آپ کی تو طبیعت ان لسانی صنعتوں سے معصوم تھی ۔ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ ابوداؤد میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے نزدیک یہ تینوں باتیں برابر ہیں ، تریاق کا پینا ، گنڈے کا لٹکانا اور شعر بنانا ۔ (سنن ابوداود:3869،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں شعر گوئی سے آپ کو طبعاً نفرت تھی ۔ دعا میں آپ کو جامع کلمات پسند آتے تھے اور اس کے سوا چھوڑ دیتے تھے ۔ (مسند احمد:189/6:صحیح) ترمذی میں ہے میں ہے کسی کا پیٹ پیپ سے بھر جانا اس کے لیے شعروں سے بھر لینے سے بہتر ہے ۔ (سنن ترمذی:2852،قال الشیخ الألبانی:صحیح) مسند احمد کی ایک غریب حدیث میں ہے جس نے عشاء کی نماز کے بعد کسی شعر کا ایک مصرع بھی باندھا اس کی اس رات کی نماز نامقبول ہے ۔ (مسند احمد:125/4:ضعیف جدا) یہ یاد رہے کہ شعر گوئی کی قسمیں ہیں ، مشرکوں کی ہجو میں شعر کہنے مشروع ہیں ۔ سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ ، سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ ، سیدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ وغیرہ جیسے اکابرین صحابہ نے کفار کی ہجو میں اشعار کے کلام میں ایسے اشعار پائے جاتے ہیں ۔ چنانچہ امیہ بن صلت کے اشعار کی بابت فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ اس کے شعر تو ایمان لا چکے ہیں لیکن اس کا دل کافر ہی رہا ۔ ایک صحابی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو امیہ کے ایک سو بیت سنائے ہر بیت کے بعد آپ فرماتے تھے اور کہو ۔ ابوداؤد میں حضور کا ارشاد ہے کہ بعض بیان مثل جادو کے ہیں اور بعض شعر سراسر حکمت والے ہیں ۔ (سنن ابوداود:5010،قال الشیخ الألبانی:صحیح) پس فرمان ہے کہ جو کچھ ہم نے انہیں سکھایا ہے وہ سراسر ذکر و نصیحت اور واضح صاف اور روشن قرآن ہے ، جو شخص ذرا سا بھی غور کرے اس پر یہ کھل جاتا ہے ۔ تاکہ روئے زمین پر جتنے لوگ موجود ہیں یہ ان سب کو آگاہ کر دے اور ڈرا دے جیسے فرمایا «لِاُنْذِرَکُمْ بِہٖ وَمَنْ بَلَغَ» ( 6- الانعام : 19 ) تاکہ میں تمہیں اس کے ساتھ ڈرا دوں اور جسے بھی یہ پہنچ جائے ۔ اور آیت میں ہے «وَمَنْ یَّکْفُرْ بِہٖ مِنَ الْاَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُہٗ» ( 11-ھود : 17 ) یعنی جماعتوں میں سے جو بھی اسے نہ مانے وہ سزاوار دوزخی ہے ۔ ہاں اس قرآن سے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے اثر وہی لیتا ہے ۔ جو زندہ دل اور اندرونی نور والا ہو ۔ عقل و بصیرت رکھتا ہو اور عذاب کا قول تو کافروں پر ثابت ہے ہی ۔ پس قرآن مومنوں کے لیے رحمت اور کافروں پر اتمام حجت ہے ۔ يس
69 يس
70 يس
71 چوپائیوں کے فوائد اللہ تعالیٰ اپنے انعام و احسان کا ذکر فرما رہا ہے ۔ کہ اس نے خود ہی یہ چوپائے پیدا کئے اور انسان کی ملکیت میں دے دئیے ، ایک چھوٹا سا بچہ بھی اونٹ کی نکیل تھام لے اونٹ جیسا قوی اور بڑا جانور اس کے ساتھ ساتھ ہی سو اونٹوں کی ایک قطار ہو ایک بچے کے ہانکنے سے سیدھے چلتی رہتی ہے ۔ اس ماتحتی کے علاوہ بعض لمبے لمبے مشقت والے سفر بآسانی جلدی جلدی طے ہوتے ہیں خود سوار ہوتے ہیں اسباب لادتے ہیں بوجھ ڈھونے کے کام آتے ہیں ۔ اور بعض کے گوشت کھائے جاتے ہیں ، پھر صوف اور ان کے بالوں کھالوں وغیرہ سے فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ دودھ پیتے ہیں ، بطور علاج پیشاب کام میں آتے ہیں اور بھی طرح طرح کے فوائد حاصل کئے جاتے ہیں ۔ کیا پھر ان کو نہ چاہے کہ ان نعمتوں کے منعم حقیقی ، ان احسانوں کے محسن ، ان چیزوں کے خالق ، ان کے حقیقی مالک کا شکر بجا لائیں ؟ صرف اسی کی عبادت کریں ؟ اس کی توحید کو مانیں اور اس کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کریں ۔ يس
72 يس
73 يس
74 نفع و نقصان کا اختیار کس کے پاس ہے؟ مشرکین کے اس باطل عقیدے کی تردید ہو رہی ہے جو وہ سمجھتے تھے کہ جن جن کی سوائے اللہ تعالیٰ کے یہ عبادت کرتے ہیں وہ ان کی امداد نصرت کریں گے ان کی روزیوں میں برکت دیں گے اور اللہ سے ملادیں گے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ ان کی مدد کرنے سے عاجز ہیں اور ان کی مدد تو کجا ، وہ تو خود اپنی مدد بھی نہیں کر سکتے بلکہ یہ بت تو اپنے دشمن کے نقصان سے بھی اپنے تئیں بچا نہیں سکتے ۔ کوئی اور انہیں توڑ مروڑ کر بھی چلا جائے تو یہ اس کا کچھ نہیں کر سکتے بلکہ بول چال پر بھی قادر نہیں سمجھ بوجھ نہیں ۔ یہ بت قیامت کے دن جمع شدہ حساب کے وقت اپنے عابدوں کے سامنے لاچاری اور بیکسی کے ساتھ موجود ہوں گے تاکہ مشرکین کی پوری ذلت و خواری ہو اور ان پر حجت تمام ہو ۔ حضرت قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ بت تو ان کی کسی طرح کی امداد نہیں کر سکتے ، لیکن پھر بھی یہ بےسمجھ مشرکین ان کے سامنے اس طرح موجود رہتے ہیں جیسے کوئی حاضر باش لشکر ہو وہ نہ انہیں کوئی نفع پہنچا سکیں نہ کسی نقصان کو دفع کر سکیں لیکن یہ ہیں کہ ان کے نام پر مرے جاتے ہیں یہاں تک کہ ان کے خلاف آواز سننا نہیں چاہتے غصے سے بے قابو ہو جاتے ہیں ۔ اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی کفر کی باتوں سے آپ غم ناک نہ ہوں ہم پر ان کا ظاہر باطن روشن ہے وقت آ رہا ہے ۔ گن چن کر ہم انہیں سزائیں دیں ۔ يس
75 يس
76 يس
77 موت کے بعد زندگی ابی ابن خلف ملعون ایک مرتبہ اپنے ہاتھ میں ایک بوسیدہ کھوکھلی سڑی گلی ہڈی لے کر آیا اور اسے اپنے چٹکی میں ملتے ہوئے جبکہ اس کے ریزے ہوا میں اڑ رہے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں کہ ان ہڈیوں کو اللہ زندہ کرے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ہاں اللہ تجھے ہلاک کر دے گا پھر زندہ کر دے گا پھر تیرا حشر جہنم کی طرف ہو گا ۔ اس پر اس سورت کی یہ آخری آیتیں نازل ہوئیں ۔ اور روایت میں ہے کہ یہ اعتراض کرنے والا عاص بن وائل تھا اور اس آیت سے لے کر ختم سورت تک کی آیتیں نازل ہوئیں اور روایت میں ہے کہ یہ واقعہ عبداللہ بن ابی سے ہوا تھا ۔ لیکن یہ ذرا غور طلب ہے اس لیے کہ یہ سورت مکی ہے اور عبداللہ بن ابی تو مدینہ میں تھا ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:31/23:ضعیف) بہر صورت خواہ ابی کے سوال پر یہ آیتیں اتری ہوں یا عاص کے سوال پر ہیں عام ۔ لفظ انسان جو الف لام ہے وہ جنس کا ہے جو بھی دوسری زندگی کا منکر ہو اسے یہی جواب ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کو چاہیئے کہ اپنے شروع پیدائش پر غور کریں ۔ جس نے ایک حقیر و ذلیل قطرے سے انسان کو پیدا کر دیا حالانکہ اس سے پہلے وہ کچھ نہ تھا پھر اس کی قدرت پر حرف رکھنے کے کیا معنی ؟ اس مضمون کو بہت سی آیتوں میں بیان فرمایا ہے جیسے «اَلَمْ نَخْلُقْکٰمْ مِّنْ مَّاءٍ مَّہِیْنٍ» ( 77- المرسلات : 20 ) اور جیسے «إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن نٰطْفَۃٍ أَمْشَاجٍ نَّبْتَلِیہِ فَجَعَلْنَاہُ سَمِیعًا بَصِیرًا» ( 76- الإنسان : 2 ) ، وغیرہ ۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ہتھیلی میں تھوکا پھر اس پر انگلی رکھ کر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے ابن آدم کیا تو مجھے بھی عاجز کر سکتا ہے ؟ میں نے تجھے اس جیسی چیز سے پیدا کیا پھر جب ٹھیک ٹھاک درست اور چست کر دیا اور تو ذرا کس بل والا ہو گیا تو تو نے مال جمع کرنا اور مسکینوں کو دینے سے روکنا شروع کر دیا ، ہاں جب دم نرخرے میں اٹکا تو کہنے لگا اب میں اپنا تمام مال اللہ کی راہ میں صدقہ کرتا ہوں ، بھلا اب صدقے کا وقت کہاں ؟ (سنن ابن ماجہ:2707،قال الشیخ الألبانی:حسن) الغرض نطفے سے پیدا کیا ہوا انسان حجت بازیاں کرنے لگا ۔ اور اپنا دوبارہ جی اٹھنا محال جاننے لگا اس اللہ کی قدرت سے نظریں ہٹالیں جس نے آسمان و زمین کو اور تمام مخلوق کو پیدا کر دیا ۔ یہ اگر غور کرتا تو اس عظیم الشان مخلوق کی پیدائش کے علاوہ خود اپنی پیدائش کو بھی دوبارہ پیدا کرنے کی قدرت کا ایک نشان عظیم پاتا ۔ لیکن اس نے تو عقل کی آنکھوں پر ٹھیکری رکھ لی ۔ يس
78 يس
79 جس نے اول پیدا کیا وہی زندہ کرے گا اس کے جواب میں کہدو کہ اول رتبہ ان ہڈیوں کو جو اب گلی سڑی ہیں جس نے پیدا کیا وہی دوبارہ انہیں پیدا کرے گا ۔ جہاں جہاں بھی یہ ہڈیاں ہوں وہ خوب جانتا ہے ۔ مسند کی حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے عقبہ بن عمرو نے کہا آپ ہمیں رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی کوئی حدیث سنائیے تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک شخص پر جب موت کی حالت طاری ہوئی تو اس نے اپنے وارثوں کو وصیت کی کہ جب میں مرجاؤں تو تم بہت ساری لکڑیاں جمع کر کے میری لاش کو جلا کر خاک کر دینا پھر اسے سمندر میں بہا دینا ، چنانچہ انہوں نے یہی کیا اللہ تعالیٰ نے اس کی راکھ کو جمع کر کے جب اسے دوبارہ زندہ کیا تو اس سے پوچھا کہ تو نے ایسا کیوں کیا ؟ اس نے جواب دیا کہ صرف تیرے ڈر سے ، اللہ تعالیٰ نے اسے بخش دیا ۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے راہ چلتے چلتے یہ حدیث بیان فرمائی جسے میں نے خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے اپنے کانوں سے سنا ۔ (مسند احمد:383/5:) یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی بہت سے الفاظ سے مروی ہے ، (صحیح بخاری:3479) ایک راویت میں ہے کہ اس نے کہا تھا میری راکھ کو ہوا کے رخ اڑا دینا کچھ تو ہوا میں کچھ دریا میں بہا دینا ۔ سمندر نے بحکم اللہ جو راکھ اس میں تھی اسے جمع کر دیا اسی طرح ہوا نے بھی ۔ پھر اللہ کے فرمان سے وہ کھڑا کر دیا گیا ۔ پھر اپنی قدرت کے مشاہدے کے لیے اور بات کی دلیل قائم کرنے کے لیے کہ اللہ ہر شے پر قادر ہے وہ مردوں کو بھی زندہ کر سکتا ہے ، ہیت کو وہ منقلب کر سکتا ہے فرمایا کہ تم غور کرو کہ پانی میں درخت اگائے سرسبز شاداب ہرے بھرے پھل والے ہوئے ، پھر وہ سوکھ گئے اور ان لکڑیوں سے میں نے آگ نکالی کہاں وہ تری اور ٹھنڈی کہاں یہ خشکی اور گرمی ؟ پس مجھے کوئی چیز کرنی بھاری نہیں تر کو خشک کرنا خشک کو تر کرنا زندہ کو مردہ کرنا مردے کو زندگی دینا سب میرے بس کی بات ہے ۔ یہ بھی کہا گیا کہ مراد اس سے مرخ اور عفار کے درخت ہیں جو حجاز میں ہوتے ہیں ان کی سبز ٹہنیوں کو آپس میں رگڑنے سے چقماق کی طرح آگ نکلتی ہے ۔ چنانچہ عرب میں ایک مشہور مثل ہے «لکل شجر ناروا استجدا المرخ والمفار حکماء» کا قول ہے کہ سوائے انگور کے درخت کے ہر درخت میں آگ ہے ۔ يس
80 يس
81 اللہ ہر چیز پر قادر اللہ تعالیٰ اپنی زبردست قدرت بیان فرما رہا ہے کہ اس نے آسمانوں کو اور ان کی سب چیزوں کو پیدا کیا ۔ زمین کو اس کے اندر کی سب چیزوں کو بھی اسی نے بنایا ۔ پھر اتنی بڑی قدرتوں والا انسانوں جیسی چھوٹی مخلوق کو پیدا کرنے سے عاجز آ جائے یہ تو عقل کے بھی خلاف ہے ، جیسے فرمایا «لَخَــلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَکْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ» ( 40- غافر : 57 ) یعنی آسمان و زمین کی پیدائش انسانی پیدائش سے بہت بڑی اور اہم ہے ، یہاں بھی فرمایا کہ وہ اللہ جس نے آسمان و زمین کو پیدا کر دیا وہ کیا انسانوں جیسی کمزور مخلوق کو پیدا کرنے سے عاجز آ جائے گا ؟ اور جب وہ قادر ہے تو یقیناً انہیں مار ڈالنے کے بعد پھر وہ انہیں جلا دے گا ۔ جس نے ابتداءً پیدا کیا ہے اس پر اعادہ بہت آسان ہے جیسے اور آیت میں ہے «اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّ اللّٰہَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَلَمْ یَعْیَ بِخَلْقِہِنَّ بِقٰدِرٍ عَلٰٓی اَنْ یٰحْیِۦ الْمَوْتٰی بَلٰٓی اِنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ» ( 46- الأحقاف : 33 ) ، کیا وہ نہیں دیکھتے کہ جس اللہ نے زمین و آسمان کو بنا دیا اور ان کی پیدائش سے عاجز نہ آیا نہ تھکا کیا وہ ُمردوں کے زندہ کرنے پر قادر نہیں ؟ بیشک قادر ہے بلکہ وہ تو ہرچیز پر قادر ہے ۔ وہی پیدا کرنے والا اور بنانے والا ، ایجاد کرنے والا اور خالق ہے ۔ ساتھ ہی دانا ، بینا اور رتی رتی سے واقف ہے ۔ وہ تو جو کرنا چاہتا ہے اس کا صرف حکم دے دینا کافی ہوتا ہے ۔ مسند کی حدیث قدسی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے میرے بندو ، تم سب فقیر ہو مگر جسے میں غنی کر دوں ۔ میں جواد ہوں ، میں ماجد ہوں ، میں واجد ہوں ۔ جو چاہتا ہوں کرتا ہوں ۔ میرا انعام بھی ایک کلام ہے اور میرا عذاب بھی کلام ہے ۔ میں جس چیز کو کرنا چاہتا ہوں کہ دیتا ہوں کہ ہو جا وہ ہو جاتی ہے ۔ (مسند احمد:160/5:صحیح) ہر برائی سے اس حی و قیوم اللہ کی ذات پاک ہے جو زمین و آسمان کا بادشاہ ہے ، جس کے ہاتھ میں آسمانوں اور زمینوں کی کنجیاں ہیں ۔ وہ سب کا خالق ہے ، وہی اصلی حاکم ہے ، اسی کی طرف قیامت کے دن سب لوٹائے جائیں گے وہی عادل و منعم اللہ انہیں سزا دے گا ۔ اور جگہ فرمان ہے پاک ہے وہ اللہ جس کے ہاتھ میں ہرچیز کی ملکیت ہے ۔ اور آیت میں ہے کون ہے جس کے ہاتھ میں ہرچیز کا اختیار ہے ؟ اور فرمان ہے «تَبٰرَکَ الَّذِیْ بِیَدِہِ الْمُلْکُ ۡ وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرُ ۝» ( 67- الملک : 1 ) ) پس ملک و ملکوت دونوں کے ایک ہی معنی ہیں جیسے رحمت و رحموت اور رہبت و رہبوت اور جبرو جبروت ۔ بعض نے کہا ہے کہ ملک سے مراد جسموں کا عالم اور ملکوت سے مراد روحوں کا عالم ہے ۔ لیکن صحیح بات پہلی ہی ہے اور یہی قول جمہور مفسرین کا ہے ۔ سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ایک رات میں تہجد کی نماز میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں کھڑا ہو گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سات لمبی سورتیں ( یعنی پونے دس پارے ) سات رکعت میں پڑھیں «سمع اللہ لمن حمدہ» کہہ کر رکوع سے سر اٹھا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ پڑھتے تھے «الحمدللہ ذی الملکوت والجبروت والکبریاء والعظمتہ» (مسند احمد:388/5:ضعیف) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رکوع قیام کے مناسب ہی لمبا تھا اور سجدہ بھی مثل رکوع کے تھا میری تو یہ حالت ہو گئی تھی کہ ٹانگیں ٹوٹنے لگیں ( ابوداؤد وغیرہ ) انہی سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ نے رات کی نماز پڑھتے ہوئے دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا پڑھ کر پھر قرأت شروع کی «اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر ذی الملکوت والجبروت والکبریاء والعظمتہ» پھرپوری سورۃ البقرہ پڑھ کر رکوع کیا اور رکوع میں بھی قریب قریب اتنی ہی دیر ٹھہرے رہے اور سبحان ربی العظیم پڑھتے رہے پھر اپنا سر رکوع سے اٹھایا اور تقریباً اتنی ہی دیر کھڑے رہے اور لرَِبَّیَ الُحَمُدُ پڑھتے رہے ۔ پھر سجدے میں گئے وہ بھی تقریباً قیام کے برابر تھا اور سجدے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سبحان ربی الاعلی پڑھتے رہے ۔ پھر سجدے سے سر اٹھایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک تھی کہ دونوں سجدوں کے درمیان بھی اتنی دیر بیٹھے رہتے تھے جتنی دیر سجدوں میں لگاتے تھے اور رب اغفرلی رب اغفرلی پڑھتے رہے ۔ چار رکعت آپ نے ادا کیں سورۃ البقرہ سورۃ آل عمران سورۃ نساء اور سورۃ المائدہ کی تلاوت کی ۔ (سنن ابوداود:874،قال الشیخ الألبانی:صحیح) حضرت شعبہ رحمہ اللہ کو شک ہے کہ سورۃ المائدہ کہا یا سورۃ الانعام ؟ نسائی وغیرہ میں ہے سیدنا عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک رات میں نے اے اللہ کے رسول ! صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تہجد کی نماز پڑھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ البقرہ کی تلاوت فرمائی ، ہر اس آیت پر جس میں رحمت کا ذکر ہوتا آپ ٹھہرتے اور اللہ تعالیٰ سے رحمت طلب کرتے اور ہر اس آیت پر جس میں عذاب کا ذکر ہوتا آپ ٹھہرتے اور اللہ تعالیٰ سے پناہ طلب کرتے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کیا وہ بھی قیام سے کچھ کم نہ تھا اور رکوع میں یہ فرماتے تھے «سبحان ذی الجبروت والملکوت و الکبریاء والعظمتہ» پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا وہ بھی قیام کے قریب قریب تھا ۔ اور سجدے میں بھی یہی پڑھتے پھر دوسری رکعت میں سورۃ آل عمران پڑھی ۔ پھر اسی طرح ایک ایک سورت ایک ایک رکعت میں پڑھتے رہے ۔ (سنن ابوداود:873،قال الشیخ الألبانی:صحیح) يس
82 يس
83 يس
0 الصافات
1 فرشتوں کا تذکرہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ان تینوں قسموں سے مراد فرشتے ہیں ۔ اور بھی اکثر حضرات کا یہی قول ہے ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں فرشتوں کی صفیں آسمانوں پر ہیں ۔ مسلم میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { ہمیں سب لوگوں پر تین باتوں میں فضیلت دی گئی ہے ۔ ہماری صفیں فرشتوں کی صفوں جیسی کی گئی ہیں ۔ ہمارے لیے ساری زمین مسجد بنادی گئی ہے ۔ اور پانی کے نہ ملنے کے وقت زمین کی مٹی ہمارے لیے وضو کے قائم مقام کی گئی ہے } } ۔۱؎ (صحیح مسلم:522) مسلم وغیرہ میں ہے کہ { ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا : { تم اس طرح صفیں نہیں باندھتے جس طرح فرشتے اپنے رب کے سامنے صف بستہ کھڑے ہوتے ہیں } ۔ ہم نے کہا وہ کس طرح ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اگلی صفوں کو وہ پورا کرتے جاتے ہیں اور صفیں بالکل ملا لیا کرتے ہیں } } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:430) ڈانٹنے والوں سے مراد سدی رحمتہ اللہ علیہ وغیرہ کے نزدیک ابر اور بادل کو ڈانٹ کر احکام دے کر ادھر سے ادھر لے جانے والے فرشتے ہیں ۔ ربیع بن انس رضی اللہ عنہ وغیرہ فرماتے ہیں قرآن جس چیز سے روکتا ہے وہ اسی سے بندش کرتے ہیں ۔ ذکر اللہ کی تلاوت کرنے والے فرشتے وہ ہیں جو اللہ کا پیغام بندوں کے پاس لاتے ہیں جیسے فرمان ہے «فَالْمُلْقِیٰتِ ذِکْرًا عُذْرًا أَوْ نُذْرًا » ۱؎ (77-المرسلات:6،5) یعنی ’ وحی اتارنے والے فرشتوں کی قسم جو عذر کو ٹالنے یا آگاہ کرنے کے لیے ہوتی ہے ‘ ۔ ان قسموں کے بعد جس چیز پر یہ قسمیں کھائی گئی ہیں اس کا ذکر ہو رہا ہے کہ تم سب کا معبود بر حق ایک اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ وہی آسمان و زمین کا اور ان کے درمیان کی تمام چیزوں کا مالک و متصرف ہے ۔ اسی نے آسمان میں ستارے اور چاند سورج کو مسخر کر رکھا ہے ، جو مشرق سے ظاہر ہوتے ہیں مغرب میں غروب ہوتے ہیں ۔ مشرقوں کا ذکر کر کے مغربوں کا ذکر اس کی دلالت موجود ہونے کی وجہ سے چھوڑ دیا ۔ دوسری آیت میں ذکر کر بھی دیا ہے فرمان ہے «رَبٰ الْمَشْرِقَیْنِ وَرَبٰ الْمَغْرِبَیْنِ» ۱؎ (55-الرحمن:17) یعنی ’ جاڑے گرمیوں کی طلوع و غروب کی جگہ کا رب وہی ہے ‘ ۔ الصافات
2 الصافات
3 الصافات
4 الصافات
5 الصافات
6 شیاطین اور کاہن آسمان دنیا کو دیکھنے والے کی نگاہوں میں جو زینت دی گئی ہے اس کا بیان فرمایا ۔ یہ اضافت کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے اور بدلیت کے ساتھ بھی معنی دونوں صورتوں میں ایک ہی ہیں ۔ اس کے ستاروں کی ، اس کے سورج کی روشنی زمین کو جگمگادیتی ہے ۔ جیسے اور آیت میں ہے «وَلَقَدْ زَیَّنَّا السَّمَاءَ الدٰنْیَا بِمَصَابِیْحَ وَجَعَلْنٰہَا رُجُوْمًا لِّلشَّـیٰطِیْنِ وَاَعْتَدْنَا لَہُمْ عَذَاب السَّعِیْرِ» ۱؎ (67-الملک:5) ، ’ ہم نے آسمان دنیا کو زینت دی ستاروں کے ساتھ ، اور انہیں شیطانوں کے لیے شیطانوں کے رجم کا ذریعہ بنایا اور ہم نے ان کے لیے آگ سے جلا دینے والے عذاب تیار کر رکھے ہیں ‘ ۔ اور آیت میں ہے«وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِی السَّمَاءِ بُرُوجًا وَزَیَّنَّاہَا لِلنَّاظِرِینَ وَحَفِظْنَاہَا مِن کُلِّ شَیْطَانٍ رَّجِیمٍ إِلَّا مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَأَتْبَعَہُ شِہَابٌ مٰبِینٌ» ۱؎ (15-الحجر:16-18) ’ ہم نے آسمان میں برج بنائے اور انہیں دیکھنے والوں کی آنکھوں میں کھب جانے والی چیز بنائی ۔ اور ہر شیطان رجیم سے اسے محفوظ رکھا جو کوئی کسی بات کو لے اڑنا چاہتا ہے وہیں ایک تیز شعلہ اس کی طرف اترتا ہے ۔ اور ہم نے آسمانوں کی حفاظت کی ہر سرکش شریر شیطان سے ، اس کا بس نہیں کہ فرشتوں کی باتیں سنے ، وہ جب یہ کرتا ہے تو ایک شعلہ لپکتا ہے اور اسے جلا دیتا ہے ‘ ۔ یہ آسمانوں تک پہنچ ہی نہیں سکتے ۔ اللہ کی شریعت تقدیر کے امور کی کسی گفتگو کو وہ سن ہی نہیں سکتے ۔ اس بارے کی حدیثیں ہم نے آیت «حَتّیٰٓ اِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوْبِہِمْ قَالُوْا مَاذَا قَالَ رَبٰکُمْ قَالُوا الْحَقَّ وَہُوَ الْعَلِیٰ الْکَبِیْرُ» ۱؎ (34-سبأ:23) ، کی تفسیر میں بیان کر دی ہیں ۔ جدھر سے بھی یہ آسمان پر چڑھنا چاہتے ہیں وہیں سے ان پر آتش بازی کی جاتی ہے ۔ انہیں ہنکانے پست و ذلیل کرنے روکنے اور نہ آنے دینے کے لیے یہ سزا بیان کی ہے اور آخرت کے دائمی عذاب ابھی باقی ہیں ، جو بڑے المناک درد ناک اور ہمیشگی والے ہوں گے ۔ ہاں کبھی کسی جن نے کوئی کلمہ کسی فرشتے کی زبان سے سن لیا اور اسے اس نے اپنے نیچے والے سے کہدیا اور اس نے اپنے نیچے والے سے وہیں اس کے پیچھے ایک شعلہ لپکتا ہے کبھی تو وہ دوسرے کو پہنچائے اس سے پہلے ہی شعلہ اسے جلا ڈالتا ہے کبھی وہ دوسرے کے کانوں تک پہنچا دیتا ہے ۔ یہی وہ باتیں ہیں جو کاہنوں کے کانوں تک شیاطین کے ذریعہ پہنچ جاتی ہیں ۔ ثاقب سے مراد سخت تیز بہت زیادہ روشنی والا ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ ” شیاطین پہلے جا کر آسمانوں میں بیٹھتے تھے اور وہی سن لیتے تھے اس وقت ان پر تارے نہیں ٹوٹتے تھے یہ وہاں کی وحی سن کر زمین پر آ کر ایک کی دس دس کر کے کاہنوں کے کانوں میں پھونکتے تھے ، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت ملی پھر شیطانوں کا آسمان پر جانا موقوف ہوا ، اب یہ جاتے ہیں تو ان پر آگ کے شعلے پھینکے جاتے ہیں اور انہیں جلا دیا جاتا ہے ، انہوں نے اس نو پیدا امر کی خبر جب ابلیس ملعون کو دی تو اس نے کہا کہ کسی اہم نئے کام کی وجہ سے اس قدر احتیاط و حفاظت کی گئی ہے ۔ چنانچہ خبر رسانوں کی جماعتیں اس نے روئے زمین پر پھیلا دیں تو جو جماعت حجاز کی طرف گئی تھی اس نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نخلہ کی دونوں پہاڑیوں کے درمیان نماز ادا کر رہے ہیں اس نے جا کر ابلیس کو یہ خبر دی اس نے کہا بس یہی وجہ ہے جو تمہارا آسمانوں پر جانا موقوف ہوا ۔ اس کی پوری تحقیق اللہ نے چاہا تو آیت « وَّاَنَّا لَمَسْنَا السَّمَاء فَوَجَدْنٰہَا مُلِئَتْ حَرَسًا شَدِیْدًا وَّشُہُبًا» ۱؎ (72-الجن:8) ، کی تفسیر میں آئے گی ۔ الصافات
7 الصافات
8 الصافات
9 الصافات
10 الصافات
11 اللہ کے لیئے دوبارہ پیدا کرنا دشوار نہیں اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ ’ ان منکرین قیامت سے پوچھو کہ تمہارا پیدا کرنا ہم پر مشکل ہے ؟ یا آسمان و زمین فرشتے جن وغیرہ کا ‘ ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی قرأت «أَمْ مَنْ عَدَدنَا» ہے مطلب یہ ہے کہ ’ اس کا اقرار تو انہیں بھی ہے کہ پھر مر کر جینے کا انکار کیوں کر رہے ہیں ؟ ‘ چنانچہ اور آیت میں ہے کہ«لَخَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَکْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلٰکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُونَ» ۱؎ (40-غافر:57) ’ انسانوں کی پیدائش سے تو بہت بڑی اور بہت بھاری پیدائش آسمان و زمین کی ہے لیکن اکثر لوگ بےعلمی برتتے ہیں ‘ ۔ پھر انسان کی پیدائشی کمزوری بیان فرماتا ہے کہ ’ یہ چکنی مٹی سے پیدا کیا گیا ہے جس میں لیس تھا جو ہاتھوں پر چپکتی تھی ۔ تو چونکہ حقیقت کو پہنچ گیا ہے ان کے انکار پر تعجب کر رہا ہے کیونکہ اللہ کی قدرتیں تیرے سامنے ہیں اور اس کے فرمان بھی ۔ لیکن یہ تو اسے سن کر ہنسی اڑاتے ہیں ۔ اور جب کبھی کوئی واضح دلیل سامنے آ جاتی ہے تو مسخرا پن کرنے لگتے ہیں ۔ اور کہتے ہیں کہ یہ تو جادو ہے ۔ ہم کسی طرح اسے نہیں ماننے کے کہ مر کر مٹی ہو کر پھر جی اٹھیں بلکہ ہمارے باپ دادا بھی دوسری زندگی میں آ جائیں ہم تو اس کے قائل نہیں ۔ اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تم ان سے کہدو کہ ہاں تم یقیناً دوبارہ پیدا کئے جاؤ گے ۔ تم ہو کیا چیز ،اللہ کی قدرت اور مشیت کے ماتحت ہو ، اس کی وہ ذات ہے کہ کسی کی اس کے سامنے کوئی ہستی نہیں ‘ ۔ فرماتا ہے «وَکُلٌّ أَتَوْہُ دَاخِرِینَ» ۱؎ (27-النمل:87) ’ ہر شخص اس کے سامنے عاجزی اور لاچاری سے حاضر ہونے والا ہے ‘ ۔ ایک آیت میں ہے «وَقَالَ رَبٰکُمُ ادْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ ۭ اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَہَنَّمَ دٰخِرِیْنَ» ۱؎ (40-غافر:60) ’ میری عبادت سے سرکشی کرنے والے ذلیل و خوار ہو کر جنہم میں جائیں گے ‘ ۔ پھر اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ ’ جسے تم مشکل سمجھتے ہو ، وہ مجھ پر تو بالکل ہی آسان ہے صرف ایک آواز لگتے ہی ہر ایک زمین سے نکل کر دہشت ناکی کے ساتھ احوالِ قیامت کو دیکھنے لگے گا ‘ ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» الصافات
12 الصافات
13 الصافات
14 الصافات
15 الصافات
16 الصافات
17 الصافات
18 الصافات
19 الصافات
20 قیامت والے دن کفار کا اپنے تئیں ملامت کرنا اور پچھتانا قیامت والے دن کفار کا اپنے تئیں ملامت کرنا اور پچھتانا اور افسوس و حسرت کرنا بیان ہو رہا ہے کہ ’ وہ نادم ہو کر قیامت کے دہشت خیز اور وحشت انگیز امور کو دیکھ کر کہیں گے ہائے ہائے یہی تو روز جزا ہے ‘ ۔ تو مومن اور فرشتے بطور ڈانٹ ڈپٹ اور ندامت بڑھانے کے ان سے کہیں گے ہاں یہی تو وہ فیصلے کا دن ہے جسے تم سچا نہیں مانتے تھے ۔ اس دن اللہ کی طرف سے فرشتوں کو حکم ہو گا کہ ظالموں کو ان کے جوڑوں کو ان کے بھائی بندوں کو اور ان جیسوں کو ایک جا جمع کرو ۔ مثلاً زانی زانیوں کے ساتھ سود خوار سود خواروں کے ساتھ شرابی شرابیوں کے ساتھ وغیرہ ، ایک قول یہ بھی ہے کہ ظالموں کو اور ان کی عورتوں کو ، لیکن یہ غریب ہے ۔ ٹھیک مطلب یہی ہے کہ انہی جیسوں کو اور ان کے ساتھ ہی جن بتوں کو اور جن جن کو شریک اللہ یہ مقرر کئے ہوئے تھے سب کو جمع کرو ۔ پھر ان سب کو جہنم کا راستہ دکھاؤ جیسے فرمان ہے ۔ «وَنَحْشُرُہُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ عَلٰی وُجُوْہِہِمْ عُمْیًا وَّبُکْمًا وَّصُمًّا مَاْوٰیہُمْ جَہَنَّمُ کُلَّمَا خَبَتْ زِدْنٰہُمْ سَعِیْرًا» ۱؎ (17-الإسراء:97) ، یعنی ’ انہیں ان کے منہ کے بل اندھے بہرے گونگے کر کے ہم جمع کریں گے پھر ان کا ٹھکانا جہنم ہو گا جس کی آگ جب کبھی ہلکی ہو جائے ہم اسے اور بھڑکا دیں گے ۔ انہیں جہنم کے پاس کچھ دیر ٹھہرا دو تاکہ ہم ان سے پوچھ گچھ کر لیں ، ان سے حساب لے لیں‘ ۔ ابن ابی حاتم میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { جو شخص کسی کو کسی چیز کی طرف بلائے ۔ وہ قیامت کے دن اس کے ساتھ کھڑاکیا جائے گا نہ بے وفائی ہو گی نہ جدائی ہو گی گو ایک کو ہی بلایا ہو ۔ } پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3228،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) عثمان بن زائدہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” سب سے پہلے انسان سے اس کے ساتھیوں کی بابت سوال کیا جائے گا ۔ پھر ان سے پوچھا جائے گا کہ کیوں آج ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتے ؟ تم تو دنیا میں کہتے پھرتے تھے کہ ہم سب ایک ساتھ ہیں اور ایک دوسرے کے مددگار ہیں ۔ یہ تو کہاں ؟ بلکہ آج تو یہ ہتھیار ڈال چکے اللہ کے فرمانبردار بن گئے ۔ نہ اللہ کے کسی فرمان کا خلاف کریں نہ کر سکیں نہ اس سے بچ سکیں نہ وہاں سے بھاگ سکیں “ ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ الصافات
21 الصافات
22 الصافات
23 الصافات
24 الصافات
25 الصافات
26 الصافات
27 دوزخیوں کا اپنے بزرگوں سے شکوہ «وَإِذْ یَتَحَاجٰونَ فِی النَّارِ فَیَقُولُ الضٰعَفَاءُ لِلَّذِینَ اسْتَکْبَرُوا إِنَّا کُنَّا لَکُمْ تَبَعًا فَہَلْ أَنتُم مٰغْنُونَ عَنَّا نَصِیبًا مِّنَ النَّارِ قَالَ الَّذِینَ اسْتَکْبَرُوا إِنَّا کُلٌّ فِیہَا إِنَّ اللہَ قَدْ حَکَمَ بَیْنَ الْعِبَادِ» ۱؎ (40-غافر:47،48) ’ کافر لوگ جس طرح جہنم کے طبقوں میں جلتے ہوئے آپس میں جھگڑے کریں گے اسی طرح قیامت کے میدان میں وہ ایک دوسرے پر الزام لگائیں گے کمزور لوگ زور آوروں سے کہیں گے کہ ہم تو تمہارے تابع فرمان تھے کیا آج ہمیں تم تھوڑے بہت عذاب سے بچالو گے ؟ وہ کہیں گے کہ ہم تو خود تمہارے ساتھ ہی اسی جہنم میں جل رہے ہیں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلے فرما چکا ‘ ۔ جیسے اور جگہ ان کی یہ بات چیت اس طرح منقول ہے کہ«وَقَالَ الَّذِینَ کَفَرُوا لَن نٰؤْمِنَ بِہٰذَا الْقُرْآنِ وَلَا بِالَّذِی بَیْنَ یَدَیْہِ وَلَوْ تَرَیٰ إِذِ الظَّالِمُونَ مَوْقُوفُونَ عِندَ رَبِّہِمْ یَرْجِعُ بَعْضُہُمْ إِلَیٰ بَعْضٍ الْقَوْلَ یَقُولُ الَّذِینَ اسْتُضْعِفُوا لِلَّذِینَ اسْتَکْبَرُوا لَوْلَا أَنتُمْ لَکُنَّا مُؤْمِنِینَ قَالَ الَّذِینَ اسْتَکْبَرُوا لِلَّذِینَ اسْتُضْعِفُوا أَنَحْنُ صَدَدْنَاکُمْ عَنِ الْہُدَیٰ بَعْدَ إِذْ جَاءَکُم بَلْ کُنتُم مٰجْرِمِینَ» (34-سبأ:31-33) ’ ضعیف لوگ متکبروں سے کہیں گے کہ اگر تم نہ ہوتے تو ہم ضرور ایماندار بن جاتے ۔ وہ جواب دیں گے کیا ہم نے تمہیں ہدایت سے روک دیا ؟ نہیں بلکہ تم تو خود ہی بدکار تھے ۔ یہ کہیں گے بلکہ دن رات کا مکر جبکہ تم ہمیں حکم کرتے تھے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کریں اور اس کے شریک مقرر کریں ۔ عذاب کو دیکھتے ہی یہ سب کے سب بےطرح نادام و پیشمان ہوں گے لیکن اپنی ندامت کو چھپائیں گے ۔ ان تمام کفار کی گردنوں میں طوق ڈال دئیے جائیں گے ہاں یہ یقینی بات ہے کہ ہر ایک کو صرف اس کی کرنی بھرنی پڑے گی ‘ ۔ پس یہاں بھی یہی بیان ہو رہا ہے کہ وہ اپنے بڑوں اور سرداروں سے کہیں گے تم ہماری دائیں جانب سے آتے تھے یعنی چونکہ ہم کمزور کم حیثیت تھے اور تمہیں ہم پر ترجیح تھی اس لیے تم ہمیں دبا دبو کر حق سے ناحق کی طرف پھیر دیتے تھے ، یہ کافروں کا مقولہ ہو گا جو وہ شیطانوں سے کہیں گے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ انسان یہ بات جنات سے کہیں گے کہ تم ہمیں بھلائی سے روک کر برائی پر آمادہ کرتے تھے گناہ کو مزین اور شیریں دکھاتے تھے اور نیکی کو بری اور مشکل جتاتے تھے ، حق سے روکتے تھے باطل پر جما دیتے تھے ، جب کبھی نیکی کا خیال ہمارے دل میں آتا تھا تم کسی نہ کسی فریب سے اس سے روک دیتے تھے ، اسلام ، ایمان ، خیرو خوبی ، نیکی اور سعادت مندی سے تم نے ہمیں محروم کر دیا ۔ توحید سے دور ڈال دیا ۔ ہم تمہیں اپنا خیرخواہ سمجھتے رہے ، راز دار بنائے رہے ، تمہاری باتیں مانتے رہے تمہیں بھلا آدمی سمجھتے رہے ۔ اس کے جواب میں جنات اور انسان جتنے بھی سردار ذی عزت اور بڑے لوگ تھے ان کمزوروں کو جواب دیں گے کہ اس میں ہمارا تو کوئی قصور نہیں تم تو خود ہی ایسے ہی تھے تمہارے دل ایمان سے بھاگتے تھے اور کفر کی طرف دوڑ کر جاتے تھے ۔ ہم نے تمیں جس چیز کی طرف بلایا وہ کوئی حق بات نہ تھی نہ اس کی بھلائی پر کوئی دلیل تھی لیکن چونکہ تم طبعاً برائی کی طرف مائل تھے خود تمہارے دلوں میں سرکشی اور برائی تھی اس لیے تم نے ہمارا کہا مان لیا ۔ اب تو ہم سب پر اللہ کا قول ثابت ہو گیا کہ ہم یقیناً عذابوں کا مزہ چکھنے والے ہیں ۔ یہ بڑے لوگ چھوٹوں سے یہ متبوع لوگ اپنے تابعداروں سے کہیں گے کہ ہم تو خود ہی بہکے ہوئے تھے ہم نے تمہیں بھی اپنی ضلالت کی طرف بلایا تم دوڑے ہوئے آ گئے ۔ بتاؤ تم نے ہماری بات مان لی ؟ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے ’ پس آج کے دن سب لوگ جہنم کے عذابوں میں شریک ہیں ہر ایک اپنے اپنے اعمال کی سزا بھگت رہا ہے ۔ مجرموں کے ساتھ ہم اسی طرح کیا کرتے ہیں ۔ یہ مومنوں کی طرح اللہ کی توحید کے قائل نہ تھے بلکہ توحید کی آواز سے تکبر نفرت کرتے تھے ‘ ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے جہاد کروں جب تک کہ وہ« «لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ»» نہ کہہ لیں جو اسے کہہ لے اس نے اپنا مال اور اپنی جان بچا لی مگر اسلامی فرمان سے ۔ اور اس کا باطنی حساب اللہ کے ذمے ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:29460) اللہ کی کتاب میں بھی یہی مضمون ہے ۔ اور ایک متکبر قوم کا ذکر ہے کہ وہ اس کلمہ سے روگردانی کرتے تھے ۔ ابن ابی حاتم میں ابو العلاء رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ یہودیوں کو قیامت کے دن لایا جائے گا اور ان سے سوال ہو گا کہ تم دنیا میں کس کی عبادت کرتے تھے ؟ وہ کہیں گے اللہ کی اور عزیر کی ۔ ان سے کہا جائے گا اچھا بائیں طرف آؤ ۔ پھر نصرانیوں سے یہی سوال ہو گا وہ کہیں گے اللہ کی اور مسیح کی تو ان سے بھی یہی کہا جائے گا پھر مشرکین کولایاجائے گا اور ان سے «لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ» کہا جائے گا وہ تکبر کریں گے تین مرتبہ ایسا ہی ہوگا ، پھر حکم ہو گا انہیں بھی بائیں طرف لے چلو فرشتے انہیں پرندوں سے بھی جلدی پہنچا دیں گے ۔ پھر مسلمانوں کو لایا جائے گا اور ان سے پوچھا جائے گا کہ تم کس کی عبادت کرتے رہے ؟ یہ کہیں گے صرف اللہ تعالیٰ کی ۔ تو ان سے کہا جائے گا کیا تم اسے دیکھ کر پہچان سکتے ہو ؟ یہ کہیں گے ہاں ۔ پوچھا جائے گا تم کیسے پہچان لو گے ؟ حالانکہ تم نے کبھی اسے دیکھا نہیں یہ جواب دیں گے ہاں یہ توٹھیک ہے ہم جانتے ہیں کہ اس کے برابر کا کوئی نہیں پس اللہ تعالیٰ اپنے تئیں انہیں پہچنوائے گا اور ان کو نجات دے گا ۔ یہ کلمہ توحید اور رد شرک سن کر جواب دیتے تھے کہ کیا اس شاعر و مجنوں کے کہنے سے ہم اپنی معبودوں سے دست بردار ہو جائیں گے ؟ ماننا تو ایک طرف الٹے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شاعر اور دیوانہ بتاتے تھے ۔ پس اللہ تعالیٰ ان کی تکذیب کرتا ہے اور ان کے رد میں فرماتا ہے کہ ’ یہ تو بالکل سچے ہیں سچ لے کر آئے ہیں ساری شریعت سراسر حق ہے خبریں ہوں تو اور حکم ہوں تو ۔ یہ رسولوں کو بھی سچا جانتا ہے ان رسولوں نے جو صفتیں اور پاکیزگیاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کی تھیں ۔ ان کے صحیح مصدق آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں ۔ یہ بھی وہی احکام بیان کرتے ہیں جو اگلے انبیاء نے کئے ‘ ۔ جیسے اور آیت میں ہے «مَا یُقَالُ لَکَ اِلَّا مَا قَدْ قِیْلَ للرٰسُلِ مِنْ قَبْلِکَ اِنَّ رَبَّکَ لَذُوْ مَغْفِرَۃٍ وَّذُوْ عِقَابٍ اَلِیْمٍ» ۱؎ (41-فصلت:43) ، یعنی ’ تجھ سے وہی کہا جاتا ہے جو تجھ سے پہلے کے نبیوں سے کہا جاتا رہا ‘ ۔ الصافات
28 الصافات
29 الصافات
30 الصافات
31 الصافات
32 الصافات
33 الصافات
34 الصافات
35 الصافات
36 الصافات
37 الصافات
38 متقیوں کے لیے نجات اور انعامات اللہ تعالیٰ تمام لوگوں سے خطاب کر کے فرما رہا ہے کہ ’ تم المناک عذاب چکھنے والے ہو ۔ اور صرف اسی کا بدلہ دئیے جانے والے ہو جسے تم نے کیا دھرا ہے ‘ ۔ پھر اپنے مخلص بندوں کو اس سے الگ کر لیتا ہے جیسے «وَالْعَصْرِ‌ إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِی خُسْرٍ‌ إِلَّا الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ‌ » ۱؎ (103-العصر:1-3) میں فرمایا کہ ’ تمام انسان گھاٹے میں ہیں ۔ مگر ایماندار نیک اعمال ‘ ۔ اور سورۃ والتین میں فرمایا «لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِی أَحْسَنِ تَقْوِیمٍ ثُمَّ رَ‌دَدْنَاہُ أَسْفَلَ سَافِلِینَ إِلَّا الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَلَہُمْ أَجْرٌ‌ غَیْرُ‌ مَمْنُونٍ» ۱؎ (95-التین:4-6) ’ ہم نے انسان کو بہت اچھی پیدائش میں پیدا کیا پھر اسے نیچوں کا نیچ کر دیا مگر جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک اعمال کئے ‘ ۔ اور سورۃ مریم میں فرمایا « وَإِن مِّنکُمْ إِلَّا وَارِ‌دُہَا کَانَ عَلَیٰ رَ‌بِّکَ حَتْمًا مَّقْضِیًّا ثُمَّ نُنَجِّی الَّذِینَ اتَّقَوا وَّنَذَرُ‌ الظَّالِمِینَ فِیہَا جِثِیًّا» ۱؎ (19-مریم:71-72) ، ’ تم میں سے ہر ایک جہنم پروارد ہونے والا ہے یہ تو تیرے رب نے فیصلہ کر دیا ہے اور یہ ضروری چیز ہے لیکن پھر ہم متقیوں کو نجات دیں گے اور ظالموں کو اسی میں گرے پڑے چھوڑ دیں گے ‘ ۔ سورۃ المدثر میں ارشاد ہوا ہے «کُلٰ نَفْسٍ بِمَا کَسَبَتْ رَ‌ہِینَۃٌ إِلَّا أَصْحَابَ الْیَمِینِ » ۱؎ (74-المدثر:38-39) ، ’ ہر شخص اپنے اپنے اعمال میں مشغول ہے مگر وہ جن کے دائیں ہاتھ میں نامہ اعمال آ چکا ہے ‘ ۔ اسی طرح یہاں پر بھی اپنے خاص بندوں کا استثناء کر لیا کہ وہ المناک عذابوں سے حساب کے پھنساوے سے الگ ہیں بلکہ ان کی برائیوں سے درگذر فرمایا گیا ہے اور ان کی نیکیاں بڑھا چڑھا کر ایک کی دس دس گنی بلکہ سات سات سو گنی کر کے بلکہ اس سے بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر انہیں دی گئی ہیں ۔ ان کے لیے مقررہ روزی اور وہ قسم قسم کے میوہ جات ہیں ۔ وہ مخدوم ہیں ، ذی عزت ہیں ، ذی اکرام ہیں ، ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے ہیں ، بڑی آؤ بھگت ہوتی ہے ، بڑا ادب لحاظ رکھا جاتا ہے ۔ یہ نعمتوں سے پر جنتوں میں ہیں ۔ وہاں کے تختوں پر اس طرح بیٹھے ہیں کہ کسی کی پیٹھ کسی کی طرف نہیں ۔ ایک مرفوع غریب حدیث میں بھی ہے کہ { اس آیت کی تلاوت کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ہر ایک کی نگاہیں دوسرے کے چہرے پر پڑیں گی ، آمنے سامنے بیٹھے ہوئے ہوں گے } ۔ ۱؎ (التاریخ الکبیر للبخاری:386/3:ضعیف) اس شراب کے دور ان میں چل رہے ہوں گے جو جاری ہے جس کے ختم ہو جانے کم ہو جانے کامطلق اندیشہ نہیں ۔ جو ظاہر باطن میں آراستہ ہے خوبیاں ہیں برائیاں نہیں ۔ رنگ کی سفید مزے کی بہت اچھی لذیذ ۔ نہ اس کے پینے سے سردرد ہو نہ بک جھک لگے ، دنیا کی شراب میں یہ آفتیں تھیں پیٹ کا درد سر کا درد بیہوشی بد حواسی وغیرہ لیکن جنت کی شراب میں ان میں سے ایک برائی بھی موجود نہیں رہی ۔ دیکھنے میں خوش رنگ ، پینے میں لذیذ ، فوائد میں اعلیٰ ، سرور و کیف میں عمدہ لیکن سدھ بدھ دور کر دینے والی بد مست بنادینے والی نہیں ، نہ بدبودار نہ بد نظر نہ قابل نفرت ۔ بلکہ خوشبودار خوش رنگ خوش ذائق خوش فائدہ ، اس کے پینے سے پیٹ میں درد نہیں ہوتا اور اس کی کثرت ضرر رساں نہیں خلاف طبع نہیں ۔ سربھاری نہیں ہو جاتا چکر نہیں آتے گرانی محسوس نہیں ہوتی ۔ ہوش و حواس جاتے نہیں رہتے ۔ کوئی ایذاء تکلیف قے متلی نہیں ہوتی } ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ” دنیا کی شراب میں چار برائیاں ہیں ، نشہ ، سردرد ، قے اور پیشاب ۔ جنت کی شراب ان تمام برائیوں سے پاک ہے دیکھ لو سورۃ الصافات “ ۔ ان کے پاس نیچی نگاہوں والی شرمیلی نظروں والی پاک دامن عفیفہ حوریں ہیں جن کی نگاہ اپنے خاوندوں کے چہرے کے سوا کبھی کسی کے چہرے پر نہیں پڑتی اور نہ پڑیں گی ۔ بڑی بڑی موٹی موٹی رسیلی آنکھیں ہیں حسن صورت حسن سیرت دونوں چیزیں ان میں موجود ہیں ۔ جس طرح زلیخا نے یوسف علیہ السلام میں یہ دونوں خوبیاں دیکھیں ۔ عورتوں نے جب انہیں طعنے دینے شروع کئے تو ایک دن سب کو بلا کر بٹھالیا اور یوسف کا پورا بناؤ سنگھار کرا کر بلایا عورتوں کی نگاہیں ان کے جمال کو دیکھ کر خیرہ ہو گئیں اور بےساختہ ان کے منہ سے نکل گیا کہ یہ تو فرشتہ ہیں ۔ اسی وقت کہا یہی تو ہیں جن کے بارے میں تم سب مجھے ملامت کر رہی تھیں واللہ میں نے ان کو ہر چند اپنی طرف مائل کرنا چاہا لیکن یہ پاک دامن ہی رہا ۔ یہ باوجود جمال ظاہری کے حسن باطنی بھی رکھتا ہے ۔ بڑا پاکباز امین پارسا متقی پرہیزگار ہے ۔ اسی طرح حوریں ہیں کہ جمال ظاہری کے ساتھ ہی باطنی خوبی بھی اپنے اندر رکھتی ہیں ۔ پھر ان کا مزید حسن بیان ہو رہا ہے کہ ان کا گورا گورا جسم اور بھبوکا سا رنگ ایسا چمکیلا دلکش اور جاذب نظر ہے کہ گویا محفوظ موتی ۔ جس تک کسی کا ہاتھ نہ پہنچا ہو ، جو سیپ سے نہ نکلا ہو جسے زمانے کی ہوا نہ لگی ہو جو اپنی آبداری میں بیمثل ہو ایسے ہی ان کے اچھوتے جسم ہیں ۔ یہ بھی کہا گیا کہ گویا وہ انڈے کی طرح ہیں ۔ انڈے کے اوپر کے چھلکے کے نیچے چھوٹے چھلکے جیسے ان کے بدن ہیں ۔ ایک حدیث میں { ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے سوال پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { حور عین سے مراد بہت بڑی آنکھوں والی سیاہ پلکوں والی حوریں ہیں } ۔ پھر پوچھا بیض مکنون سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا : { انڈے کے اندر کی سفید جھلی } } ۔۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:29376:ضعیف) ابن ابی حاتم میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { جب لوگ قبروں سے اٹھائے جائیں گے تو سب سے پہلے میں کھڑا کیا جاؤں گا اور جبکہ وہ جناب باری میں پیش ہوں گے تو میں ان کا خطیب بنوں گا اور جب وہ غمگین ہو رہے ہوں گے تو میں انہیں خوشخبریاں سنانے والا ہوں گا اور ان کا سفارشی بنوں گا جب کہ یہ رکے ہوئے ہوں گے ۔ حمد کا جھنڈا اس دن میرے ہاتھ میں ہو گا ۔ آدم علیہ السلام کی اولاد میں سے سب سے زیادہ اللہ کے ہاں اکرام و عزت والا میں ہوں یہ میں بطور فخر کے نہیں کہہ رہا ۔ میرے آگے پیچھے قیام کے دن ایک ہزار خادم گھوم رہے ہوں گے جو مثل چھپے ہوئے انڈوں یا اچھوت موتیوں کے ہوں گے } } ۔ ۱؎ (التفریب:138/2:ضعیف) «وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ»۔ الصافات
39 الصافات
40 الصافات
41 الصافات
42 الصافات
43 الصافات
44 الصافات
45 الصافات
46 الصافات
47 الصافات
48 الصافات
49 الصافات
50 محسن مقروض جب جنتی موج مزے اڑاتے ہوئے ، بے فکری اور فارغ البالی کے ساتھ جنت کے بلند و بالا خاتون میں عیش وعشرت کے ساتھ آپس میں مل جل کر تختوں پر تکئے لگائے بیٹھے ہوں گے ہزارہا پری جمال خدام سلیقہ شعاری سے کمربستہ خدمت پر مامور ہوں گے حکم احکام دے رہے ہوں گے قسم قسم کے کھانے پینے پہننے اوڑھنے اور طرح طرح کی لذتوں سے فائدہ مندی حاصل کرنے میں مصروف ہوں گے ۔ دور شراب طہور چل رہا ہو گا وہاں باتوں ہی باتوں میں یہ ذکر نکل آئے گا کہ دنیا میں کیا کیا گذرے کیسے کیسے دن کٹے ۔ اس پر ایک شخض کہے گا میری سنو میرا شیطان میرا ایک مشرک ساتھی تھا جو مجھ سے اکثر کہا کرتا تھا کہ تعجب سا تعجب ہے کہ تو اس بات کو مانتا ہے کہ جب ہم مر کر مٹی میں مل کر مٹی ہو جائیں ہم کھوکھلی بوسیدہ سڑی گلی ہڈی بن جائیں اس کے بعد بھی ہم حساب کتاب جزا سزا کے لیے اٹھائے جائیں گے مجھے وہ شخض جنت میں تو نظر آتا نہیں کیا عجب کہ وہ جہنم میں گیا ہو تو اگر چاہو تو میرے ساتھ چل کر جھانک کر دیکھ لو جہنم میں اس کی کیا درگت ہو رہی ہے ۔ اب جو جھانکتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ وہ شخص سر تا پا جل رہا ہے خود وہ آگ بن رہا ہے جہنم کے درمیان میں کھڑا ہے اور بے بسی کے ساتھ جل بھن رہا ہے اور ایک اسے ہی کیا دیکھے گا کہ تمام بڑے بڑے لوگوں سے جہنم بھرا ہے ۔ کعب احبار رحمہ اللہ فرماتے ہیں جنت میں اسے دیکھتے ہی کہے گا کہ آپ نے تو وہ پھندا ڈالا تھا کہ مجھے تباہ ہی کر ڈالتے لیکن اللہ کا شکر ہے کہ اس نے تمہارے پنجے سے چھڑا دیا ۔ اگر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم میرے شامل حال نہ ہوتا تو بڑی بری درگت ہوتی اور میں بھی تیری ساتھ کھنچا کھنچا یہیں جہنم میں آ جاتا اور جلتا رہتا ۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے تیری تیز کلامی چرب زبانی سے مجھے عافیت میں رکھا اور تیرے اثر سے مجھے محفوظ رکھا ۔ تو نے تو فتنے بپا کرنے میں کوئی کمی باقی نہیں رکھی تھی ۔ اب مومن اور ایک بات کہتا ہے جس میں اس کی اپنی تسکین اور کامیابی کی خبر ہے کہ وہ پہلی موت تو مرچکا ہے اب ہمیشہ کے گھر میں ہے نہ یہاں اس پر موت ہے نہ خوف ہے نہ عذاب ہے نہ وبال ہے اور یہی بہترین کامیابی فلاح ابدی ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے کہ ” جنتیوں سے کہا جائے گا کہ اپنے اعمال کے بدلے اپنی پسند کا جتنا چاہے کھاؤ پیو اس میں اشارہ ہے اس امر کی طرف کہ جنتی جنت میں مریں گے نہیں تو وہ یہ سن کر سوال کریں گے کہ کیا اب ہمیں موت تو نہیں آنے کی ۔ کسی وقت عذاب تو نہیں ہو گا ؟ تو جواب ملے گا نہیں ہرگز نہیں ۔ چونکہ انہیں کھٹکا تھا کہ موت آ کر یہ لذتیں فوت نہ کر دے جب یہ دھڑکا ہی جاتا رہا تو وہ سکون کا سان لے کر کہیں گے شکر ہے یہ تو کھلی کامیابی ہے اور بڑی ہی مقصد یاوری ہے ۔ اس کے بعد فرمایا ایسے ہی بدلے کے لیے عاملوں کو عمل کرنا چاہیئے “ ۔ قتادہ رحمہ اللہ تو فرماتے ہیں ” یہ اہل جنت کا مقولہ ہے“ ۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں ” اللہ کا فرمان ہے “ ، مطلب یہ ہے کہ ان جیسی نعمتوں اور رحمتوں کے حاصل کرنے کے لیے لوگوں کو دنیا میں بھرپور رغبت کے ساتھ عمل کرنا چاہیئے ، تاکہ انجام کار ان نعمتوں کو حاصل کر سکیں ۔ اسی آیت کے مضمون سے ملتا جلتا ایک قصہ ہے اسے بھی سن لیجئیے ۔ دو شخص آپس میں شریک تھے ان کے پاس آٹھ ہزار اشرفیاں جمع ہو گئیں ایک چونکہ پیشے حرفے سے واقف تھا اور دوسرا ناواقف تھا اس لیے اس واقف کار نے ناواقف سے کہا کہ اب ہمارا نباہ مشکل ہے ، آپ اپنا حق لے کر الگ ہو جائیے کیونکہ آپ کام کاج سے ناواقف ہیں ۔ چنانچہ دونوں نے اپنے اپنے حصے الگ الگ کر لیے اور جدا جدا ہو گئے ۔ پھر اس حرفے والے نے بادشاہ کے مرجانے کے بعد اس کا شاہی محل ایک ہزار دینار میں خریدا اور اپنے اس ساتھی کو بلا کر اسے دکھایا اور کہا بتاؤ میں نے کیسی چیز لی ؟ اس نے بڑی تعریف کی اور یہاں سے باہر چلا اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور کہا اللہ اس میرے ساتھی نے تو ایک ہزار دینار کا قصر دنیاوی خرید کیا ہے اور میں تجھ سے جنت کا محل چاہتا ہوں میں تیرے نام پر تیرے مسکین بندوں پر ایک ہزار اشرفی خرچ کرتا ہوں چنانچہ اس نے ایک ہزار دینار اللہ کی راہ خرچ کر دئیے ۔ پھر اس دنیادار شخص نے ایک زمانہ کے بعد ایک ہزار دینار خرچ کر کے اپنا نکاح کیا دعوت میں اپنے اس پرانے شریک کو بھی بلایا اور اس سے ذکر کیا کہ میں نے ایک ہزار دینار خرچ کر کے اس عورت سے شادی کی ہے ۔ اس نے اس کی بھی تعریف کی باہر آ کر اللہ تعالیٰ کی راہ میں ایک ہزار دینار دئیے اور اللہ تعالیٰ سے عرض کی کہ بار الٰہی میرے ساتھی نے اتنی ہی رقم خرچ کر کے یہاں ایک عورت حاصل کی ہے اور اس رقم سے تجھ سے میں حورعین کا طالب ہوں اور وہ رقم اللہ کی راہ میں صدقہ کر دی ۔ پھر کچھ مدت کے بعد اسنے اسے بلا کر کہا کہ دو ہزار کے دو باغ میں نے خرید کئے ہیں دیکھ لو کیسے ہیں ؟ اس نے دیکھ کر بہت تعریف کی اور باہر آ کر اپنی عادت کے مطابق جناب باری تعالیٰ میں عرض کی کہ اللہ میرے ساتھی نے دو ہزار کے دو باغ یہاں کے خریدے ہیں میں تجھ سے جنت کے دو باغ چاہتا ہوں اور یہ دو ہزار دینار تیرے نام پر صدقہ ہیں چنانچہ اس رقم کو مستحقین میں تقسیم کر دیا ۔ پھر فرشتہ ان دونوں کو فوت کر کے لے گیا اس صدقہ کرنے والے کو جنت کے ایک محل میں پہنچایا گیا جہاں پر ایک بہترین حسین عورت بھی اسے ملی اور اسے دو باغ بھی دئیے گئے اور وہ وہ نعمتیں ملیں جنہیں بجزاللہ کے اور کوئی نہیں جانتا تو اسے اس وقت اپنا وہ ساتھی یاد آ گیا فرشتے نے بتایا کہ وہ تو جہنم میں ہے تم اگر چاہو تو جھانک کر اسے دیکھ سکتے ہو اس نے جب اسے بیچ جہنم میں جلتا دیکھا تو اس نے کہا کہ قریب تھا کہ تو مجھے بھی چکمہ دے جاتا اور یہ تو رب کی مہربانی ہوئی کہ میں بچ گیا ۔ ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ تشدید والی قرأت کی مزید تائید کرتی ہے ۔ اور روایت میں ہے کہ تین تین ہزار دینار تھے ایک کافر تھا ایک مومن تھا جب یہ مومن اپنی کل رقم راہ اللہ خرچ کر چکا تو ٹوکری سر پر رکھ کر کدال پھاوڑا لے کر مزدوری کے لیے چلا اسے ایک شخص ملا اور کہا اگر تو میرے جانوروں کی سائیسی کرے اور گوبر اٹھائے تو میں تجھے کھانے پینے کو دے دوں گا اس نے منظور کر لیا اور کام شروع کر دیا ۔ لیکن یہ شخص بڑا بے رحم بد گمان تھا جہاں اس نے کسی جانور کو بیمار یا دبلا پتلا دیکھا اس مسکین کی گردن توڑتا خوب مارتا پیٹتا اور کہتا کہ اس کا دانہ تو چرا لیتاہو گا ۔ اس مسلمان سے یہ سختی برداشت نہ کی گئی تو ایک دن اس نے اپنے دل میں خیال کیا کہ میں اپنے کافر شریک کے ہاں چلا جاؤں اس کی کھیتی ہے باغات ہیں وہاں کام کاج کر دوں گا اور وہ مجھے روٹی ٹکڑا دے دیا کرے گا اور مجھے کیا لینا دینا ہے ؟ وہاں جو پہنچا تو شاہی ٹھاٹھ دیکھ کر حیران ہو گیا ، ایک بلند بالا محل ہے دربان ڈیوڑھی اور پہرے دار کی چوکی دار غلام لونڈیاں سب موجود ہیں یہ ٹھٹکا اور دربانوں نے اسے روکا ۔ اس نے ہر چند کہا کہ تم اپنے مالک سے میرا ذکر تو کرو ۔ انہوں نے کہا اب وقت نہیں تم ایک کونے میں پڑے رہو صبح جب وہ نکلیں تو خود سلام کر لینا اگر تم سچے ہو تو وہ تمہیں پہچان ہی لیں گے ورنہ ہمارے ہاتھوں تمہاری پوری مرمت ہو جائے گی ، اس مسکین کو یہی کرناپڑا جو کمبل کا ٹکڑا یہ جسم سے لپیٹے ہوئے تھا اسی کو اس نے اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا اور ایک کونے میں دبک کر پڑ گیا ۔ صبح کے وقت اس کے راستے پر جا کھڑا ہوا جب وہ نکلا اور اس پر نگاہ پڑی تو تعجب ہو کر پوچھا کہ ہیں ؟ یہ کیا حالت ہے مال کا کیا ہوا ؟ اس نے کہا وہ کچھ نہ پوچھ اس وقت تو میرا کام جو ہے اسے پورا کر دو یعنی مجھے اجازت دو کہ میں تمہاری کھیتی باڑی کا کام مثل اور نوکروں کے کروں اور آپ مجھے صرف کھانا دے دیا کیجئے اور جب یہ کمبل پھٹ ٹوٹ جائے تو ایک کمبل اور خرید دینا ۔ اس نے کہا نہیں نہیں میں اس سے بہتر سلوک تمہارے ساتھ کرنے کے لیے تیار ہوں لیکن پہلے تم یہ بتاؤ کہ اس رقم کو تم نے کیا کیا ؟ کہا میں نے اسے ایک شخص کو قرض دی ہے ۔ کہا کسے ؟ کہا ایسے کو جو نہ لے کر مکرے نہ دینے سے انکار کرے کہا وہ کون ہے ؟ اس نے جواب دیا وہ اللہ تعالیٰ ہے جو میرا اور تیرا رب ہے ۔ یہ سنتے ہی اس کافر نے اس مسلمان کے ہاتھ سے ہاتھ چھڑالیا اور اس سے کہا احمق ہوا ہے یہ ہو بھی سکتا ہے کہ ہم مر کر مٹی ہو کر پھر جئیں اور اللہ ہمیں بدلے دے ؟ جا جب تو ایسا ہی بودا اور ایسے عقیدوں والا ہے تو مجھے تجھ سے کوئی سرو کار نہیں ۔ پس وہ کافر تو مزے اڑاتا رہا اور یہ مومن سختی سے دن گزارتا رہا یہاں تک کہ دونوں کو موت آ گئی۔ مسلمان کو جنت میں جو جو نعمتیں اور رحمتیں ملیں وہ انداز و شمار سے زیادہ تھیں اس نے جو دیکھا کہ حد نظر سے بلکہ ساری دنیا سے زیادہ تو زمین ہے اور بےشمار درخت اور باغات ہیں اور جابجا نہریں اور چشمے ہیں تو پوچھا یہ سب کیا ہے ؟ جواب ملا یہ سب آپ کا ہے ۔ کہا سبحان اللہ ! اللہ کی یہ تو بڑی ہی مہربانی ہے ۔ اب جو آگے بڑھا تو اس قدر لونڈی غلام دیکھے کہ گنتی نہیں ہو سکتی ، پوچھا یہ کس کے ہیں ؟ کہا گیا سب آپ کے ۔ اسے اور تعجب اور خوشی ہوئی ۔ پھر جو آگے بڑھا تو سرخ یاقوت کے محل نظر آئے ایک موتی کا محل ، ہر ہر محل میں کئی کئی حورعین ، ساتھ ہی اطلاع ہوئی کہ یہ سب بھی آپ کا ہے پھر تو اس کی باچھیں کھل گئیں ۔ کہنے لگا اللہ جانے میرا وہ کافر ساتھی کہاں ہو گا ؟ اللہ اسے دکھائے گا کہ وہ بیچ جہنم میں جل رہا ہے ۔ اب ان میں وہ باتیں ہوں گی جن کا ذکر یہاں ہوا ہے پس مومن پر دنیا میں جو بلائیں آئی تھیں انہیں وہ یاد کرے گا تو موت سے زیادہ بھاری بلا اسے کوئی نظر نہ آئے گی ۔ الصافات
51 الصافات
52 الصافات
53 الصافات
54 الصافات
55 الصافات
56 الصافات
57 الصافات
58 الصافات
59 الصافات
60 الصافات
61 الصافات
62 زقوم اور طوبی جنت کی نعمتوں کا بیان فرما کر فرماتا ہے کہ ’ اب لوگ خود فیصلہ کر لیں کہ وہ جگہ اور وہ نعمتیں بہتر ہیں ؟ یا زقوم کا درخت جو دوزخیوں کا کھانا ہے ‘ ۔ ممکن ہے اس سے مراد خاص ایک ہی درخت ہو اور وہ تمام جہنم میں پھیلا ہوا ہو ، جیسے طوبیٰ کا ایک درخت ہے جو جنت کے ایک ایک محل میں پہنچا ہوا ہے ۔ اور ممکن ہے کہ مراد زقوم کے درخت کی جنس ہو اس کی تائید آیت «لَاٰکِلُوْنَ مِنْ شَجَرٍ مِّنْ زَقٰوْمٍ» ۱؎ (56-الواقعۃ:52) ، سے بھی ہوتی ہے ۔ ’ ہم نے اسے ظالموں کے لیے فتنہ بنایا ہے ‘ ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں شجرہ زقوم کا ذکر گمراہوں کے لیے فتنہ ہو گیا وہ کہنے لگے لو اور سنو آگ میں اور درخت ؟ آگ تو درخت جلا دینے والی ہے ۔ یہ نبی کہتے ہیں جہنم میں درخت اگے گا۔ تو اللہ نے فرمایا ہاں یہ درخت آگ ہی سے پیدا ہو گا اور اس کی غذا بھی آگ ہی ہو گی۔ ابوجہل ملعون اسی پر ہنسی اڑاتا تھا اور کہتا تھا میں تو خوب مزے سے کھجور مکھن کھاؤں گا اسی کا نام زقوم ہے۔ الغرض یہ بھی ایک امتحان ہے بھلے لوگ تو اس سے ڈر گئے اور بروں نے اس کا مذاق اڑایا ۔ جیسے فرمان ہے «وَمَا جَعَلْنَا الرٰءْیَا الَّتِیْٓ اَرَیْنٰکَ اِلَّا فِتْنَۃً لِّلنَّاسِ وَالشَّجَرَۃَ الْمَلْعُوْنَۃَ فِی الْقُرْاٰنِ ۭ وَنُخَوِّفُہُمْ ۙ فَمَا یَزِیْدُہُمْ اِلَّا طُغْیَانًا کَبِیْرًا» ۱؎ (17-الإسراء:60) ، ’ جو منظر ہم نے تجھے دکھایا تھا وہ صرف اس لیے ہے کہ لوگوں کی آزمائش ہو جائے اور اسی طرح اس نامبارک درخت کا ذکر بھی ۔ ہم تو انہیں دھمکا رہے ہیں مگر یہ نافرمانی میں بڑھتے ہی جا رہے ہیں ‘ ۔ اس درخت کی اصل جڑ جہنم میں ہے ۔ اس کے خوشے اور شاخیں بھیانک ڈراؤنی لمبی چوڑی دور دور شیطانوں کے سروں کی طرح پھیلی ہوئی ہیں ۔ گو شیطان کو بھی کسی نے دیکھا نہیں لیکن اس کا نام سنتے ہی اس کی بد صورتی اور خباثت کا منظر سامنے آ جاتا ہے ، یہی حال اس درخت کا ہے کہ دیکھنے اور چکھنے میں ظاہر اور باطن میں بری چیز ہے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ سانپوں کی ایک قسم ہے جو بدترین بھیانک اور خوفناک شکل کے ہوتے ہیں ۔ اور ایک قول یہ بھی ہے کہ نبات کی ایک قسم ہے جو بہت بری طرح پھیل جاتی ہے ۔ لیکن یہ دونوں احتمال درست نہیں ٹھیک بات وہی ہے جسے ہم نے پہلے ذکر کیا ۔ اسی بد منظر بدبو بد ذائقہ بد مزہ بد خصال تھور کو انہیں جبراً کھانا پڑے گا ۔ اور ٹھونس ٹھونس کر انہیں کھلایا جائے گا کہ یہ بجائے خود ایک زبردست عذاب ہے ۔ اور آیت میں ہے «لَیْسَ لَہُمْ طَعَامٌ اِلَّا مِنْ ضَرِیْعٍ ۙلَّا یُسْمِنُ وَلَا یُغْنِی مِن جُوعٍ» ۱؎ (88-الغاشیۃ:7،6) ، ’ ان کی خوراک وہاں صرف کانٹوں دار تھور ہو گا جو نہ انہیں فربہ کر سکے نہ بھوک مٹا سکے گا ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آیت «اتَّقُوا اللہَ حَقَّ تُقَاتِہِ» ۱؎ (3-آل عمران:102) کی تلاوت کر کے فرمایا : { اگر زقوم کا ایک قطرہ دنیا کے سمندروں میں پڑ جائے توروئے زمین کے تمام لوگوں کی خوراکیں خراب ہو جائیں ۔ اس کا کیا حال ہو گا جس کی خوراک ہی یہی ہو گا } } ۱؎ (سنن ترمذی:2584،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ۔ پھر اس زقوم کے کھانے کے ساتھ ہی انہیں اوپر سے جہنم کا کھولتا گرم پانی پلایا جائے گا ۔ یا یہ مطلب کہ اس جہنمی درخت کو جہنمی پانی کے ساتھ ملا کر انہیں کھلایا پلایا جائے گا ۔ اور یہ گرم پانی وہ ہو گا جو جہنمیوں کے زخموں سے لہو پیپ وغیرہ کی شکل میں نکلا ہو گا اور جو ان کی آنکھوں سے اور پوشیدہ راستوں سے نکلا ہوا ہو گا ۔ حدیث میں ہے کہ { جب یہ پانی ان کے سامنے لایا جائے گا ۔ انہیں سخت ایذاء ہو گی بڑی کراہیت آئے گی پھر جب وہ ان کے منہ کے پاس لایا جائے گا تو اس کی بھاپ سے اس کے چہرے کی کھال جھلس کر جھڑ جائے گی اور جب اس کا گھونٹ پیٹ میں جائے گا تو ان کی آنتیں کٹ کر پاخانے کے راستے سے باہر آ جائیں گی } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:52/21:) حضرت سعید بن جیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” جب جہنمی بھوک کی شکایت کریں گے تو زقوم کھلایا جائے گا جس سے ان کے چہر کی کھالیں بالکل الگ ہو کر گر پڑیں گی ۔ اس طرح انہیں پہچاننے والا اس میں ان کے منہ کی پوری کھال دیکھ کر پہچان سکتا ہے کہ یہ فلاں ہے ۔ پھر پیاس کی شدت سے بیتاب ہو کر وہ ہائے وائے پکاریں گے تو انہیں پگھلے ہوئے تانبے جیسا گرم پانی دیا جائے گا جو چہرے کے سامنے آتے ہی چہرے کے گوشت کو جھلس دے گا اور تمام گوشت گر پڑے گا اور پیٹ میں جا کر آنتوں کو کاٹ دے گا ۔ اوپر سے لوہے کے ہتھوڑے مارے جائیں گے اور ایک ایک عضو بدن الگ الگ جھڑ جائے گا ، بری طرح چیختے پیٹتے ہوں گے ۔ فیصلہ ہوتے ہی ان کا ٹھکانا جہنم ہو جائے گا جہاں طرح طرح کے عذاب ہوتے رہیں گے “ ۔ جیسے اور آیت میں ہے «یَطُوْفُوْنَ بَیْنَہَا وَبَیْنَ حَمِیْمٍ اٰنٍ» ۱؎ (55-الرحمن:44) ’ جہنم اور آگ جیسے گرم پانی کے درمیان چکر کھاتے رہیں گے ‘ ۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کی قرأت «ثُمَّ اِنَّ مَقِیْلَہُمْ لِإِلَی الْجَحِیْمِ» ہے ۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ ” واللہ آدھے دن سے پہلے ہی پہلے دونوں گروہ اپنی اپنی جگہ پہنچ جائیں گے اور وہیں قیلولہ یعنی دوپہر کا آرام کریں گے “ ۔ قرآن فرماتا ہے «اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ یَوْمَیِٕذٍ خَیْرٌ مٰسْتَــقَرًّا وَّاَحْسَنُ مَقِیْلًا» ۱؎ (25-الفرقان:24) ’ جنتی باعتبار جائے قیام کے بہت اچھے ہوں گے اور باعتبار آرام گاہ کے بھی بہت اچھے ہوں گے ‘ ۔ الغرض قیلولے کا وقت دونوں کا اپنی اپنی جگہ ہو گا آدھے دن سے پہلے پہلے اپنی اپنی جگہ پہنچ جائیں گے ۔ اس بنا پر یہاں «ثم » کا لفظ خبر پر خبر کے عطف کے لیے ہو گا ۔ یہ اس کا بدلہ ہے کہ ان لوگوں نے اپنے باپ دادوں کو گمراہ پایا ۔ لیکن پھر بھی انہی کے نقش قدم پر چلتے رہے ۔ مجبوروں اور بیوقوفوں کی طرح ان کے پیچھے ہولئے ۔ الصافات
63 الصافات
64 الصافات
65 الصافات
66 الصافات
67 الصافات
68 الصافات
69 الصافات
70 الصافات
71 سابقہ امتیں گذشتہ امتوں میں بھی اکثر لوگ گم کردہ راہ پر تھے اللہ کے ساتھ شریک کرتے تھے ۔ ان میں بھی اللہ کے رسول آئے تھے ۔ جنہوں نے انہیں ہوشیار کر دیا تھا اور ڈرا دھمکا دیا تھا اور بتلا دیا تھا کہ ان کے شرک و کفر اور تکذیب رسول سے بری طرح اللہ تعالیٰ ناراض ہے ۔ اور اگر وہ باز نہ آئے تو انہیں عذاب ہوں گے ۔ پھر بھی جب انہوں نے نبیوں کی نہ مانی اپنی برائی سے باز نہ آئے تو دیکھ لو کہ ان کا کیا انجام ہوا ؟ تہس نہس کر دئیے گئے تباہ برباد کر دئیے گئے ۔ ہاں نیک کار خلوص والے اللہ کے موحد بندے بچا لیے گئے اور عزت کے ساتھ رکھے گئے ۔ الصافات
72 الصافات
73 الصافات
74 الصافات
75 نیک لوگوں کے نام زندہ رہتے ہیں اوپر کی آیتوں میں پہلے لوگوں کی گمراہی کا اجمالاً ذکر تھا ۔ ان آیتوں میں تفصیلی بیان ہے ۔ نوح نبی علیہ السلام اپنی قوم میں ساڑھے نو سو سال تک رہے اور ہر وقت انہیں سمجھاتے بجھاتے رہے لیکن تاہم قوم گمراہی پر جمی رہی سوائے چند پاک باز لوگوں کے کوئی ایمان نہ لایا ۔ بلکہ ستاتے اور تکلیفیں دیتے رہے ، آخر کار اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تنگ آ کر رب سے دعا کی کہ « فَدَعَا رَ‌بَّہُ أَنِّی مَغْلُوبٌ فَانتَصِرْ‌» ۱؎ (54-القمر:10)اللہ ’ میں عاجز آ گیا تو میری مدد کر ‘ ۔ اللہ کا غضب ان پر نازل ہوا اور تمام کفار کو تہ آب اور غرق کر دیا ۔ تو فرماتا ہے کہ ’ نوح نے تنگ آ کر ہمارے جناب میں دعا کی ۔ ہم تو ہیں ہی بہترین طور پر دعاؤں کے قبول کرنے والے فوراً ان کی دعا قبول فرما لی ۔ اور اس تکذیب وایذاء سے جو انہیں کفار سے روز مرہ پہنچ رہی تھی ہم نے بچا لیا ‘ ۔ اور انہی کی اولاد سے پھر دنیا بسی ، کیونکہ وہی باقی بچے تھے ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں تمام لوگ نوح کی اولاد میں سے ہیں ۔ ترمذی کی مرفوع حدیث میں اس آیت کی تفسیر میں ہے کہ { سام حام اور یافث کی پھر اولاد پھیلی اور باقی رہی } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3230،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) مسند میں یہ بھی ہے کہ { سام سارے عرب کے باپ ہیں اور حام تمام حبش کے اور یافث تمام روم کے } ۔۱؎ (سنن ترمذی:3231،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) اس حدیث میں رومیوں سے مراد روم اول یعنی یونانی ہیں ۔ جو رومی بن لیطی بن یوناں بن یافث بن نوح کی طرف منسوب ہیں ۔ سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ نوح علیہ السلام کے ایک لڑکے سام کی اولاد عرب ، فارس اور رومی ہیں اور یافث کی اولاد ترک ، صقالبہ اور یاجوج ماجوج ہیں اور حام کی اولاد قبطی ، سوڈانی اور بربری ہیں «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ نوح علیہ السلام کی بھلائی اور ان کا ذکر خیر ان کے بعد کے لوگوں میں اللہ کی طرف سے زندہ رہا ۔ تمام انبیاء علیہم السلام کی حق گوئی کا نتیجہ یہی ہوتا ہے ہمیشہ ان پر لوگ سلام بھیجتے رہیں گے اور ان کی تعریفیں بیان کرتے رہیں گے ۔ نوح علیہ السلام پر سلام ہو ۔ یہ گویا اگلے جملے کی تفسیر ہے یعنی ان کا ذکر بھلائی سے باقی رہنے کے معنی یہ ہیں کہ ہر امت ان پر سلام بھیجتی رہتی ہے ۔ ہماری یہ عادت ہے کہ جو شخص خلوص کے ساتھ ہماری عبادت و اطاعت پر جم جائے ہم بھی اس کا ذکر جمیل بعد والوں میں ہمیشہ کے لیے باقی رکھتے ہیں ۔ نوح یقین و ایمان رکھنے والوں توحید پر جم جانے والوں میں سے تھے ۔ نوح اور نوح والوں کا تو یہ واقعہ ہوا ۔ لیکن نوح کے مخالفین غارت اور غرق کر دئیے گئے ۔ ایک آنکھ جھپکنے والی ان میں باقی نہ بچی ، ایک خبر رساں زندہ نہ رہا ، نشان تک باقی نہ بچا ۔ ہاں ان کی ہڈیاں اور برائیاں رہ گئیں جن کی وجہ سے مخلوق کی زبان پر ان کے یہ بدترین افسانے چڑھ گئے ۔ الصافات
76 الصافات
77 الصافات
78 الصافات
79 الصافات
80 الصافات
81 الصافات
82 الصافات
83 اب بھی سنبھل جاؤ ابراہیم علیہ السلام بھی نوح علیہ السلام کے دین پر تھے ، انہی کے طریقے اور چال چلن پر تھے ۔ اپنے رب کے پاس سلامت دل لے گئے یعنی توحید والا جو اللہ کو حق جانتا ہو ۔ قیامت کو آنے والی مانتا ہو ۔ مردوں کو دوبارہ جینے والا سمجھتا ہو ۔ شرک و کفر سے بیزار ہو ، دوسروں پر لعن طعن کرنے والا نہ ہو ۔ خلیل اللہ علیہ السلام نے اپنی تمام قوم سے اور اپنے سگے باپ سے صاف فرمایا کہ یہ تم کس کی پوجا پاٹ کر رہے ہو ؟ اللہ کے سوا دوسروں کی عبادت چھوڑ دو اپنے ان جھوٹ موٹھ کے معبودوں کی عبادت چھوڑ دو ۔ ورنہ جان لو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ کیا کچھ نہ کرے گا اور تمہیں کیسی کچھ سخت ترین سزائیں دیگا ؟ الصافات
84 الصافات
85 الصافات
86 الصافات
87 الصافات
88 بت کدہ آذر اور ابراہیم علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم سے یہ اس لیے فرمایا کہ وہ جب اپنے میلے میں چلے جائیں تو یہ ان کے عبادت خانے میں تنہارہ جائیں اور ان کے بتوں کو توڑ نے کا تنہائی میں موقعہ مل جائے ۔ اسی لیے ایک ایسی بات کہی جو درحقیقت سچی بات تھی لیکن ان کی سمجھ میں جو مطلب اس کا آیا اس سے آپ علیہ السلام نے اپنا دینی کام نکال لیا ۔ وہ تو اپنے اعتقاد کے موجب ابراہیم علیہ السلام کو سچ مچ بیمار سمجھ بیٹھے اور انہیں چھوڑ کر چلتے بنے ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” جو شخص کسی امر میں غور و فکر کرے تو عرب کہتے ہیں اس نے ستاروں پر نظریں ڈالیں “ ۔ مطلب یہ ہے کہ غور وفکر کے ساتھ تاروں کی طرف نگاہ اٹھائی ۔ اور سوچنے لگے کہ میں انہیں کس طرح ٹالوں ۔ سوچ سمجھ کر فرمایا کہ ” میں سقم ہوں یعنی ضعیف ہوں “ ۔ ایک حدیث میں آیا کہ { ابراہیم علیہ السلام نے صرف تین ہی جھوٹ بولے ہیں جن میں سے دو تو اللہ کے دین کے لیے ان کا فرمان «فَقَالَ اِنِّیْ سَقِیْمٌ» ۱؎ (37-الصافات:89) اور ان کا فرمان « قَالَ بَلْ فَعَلَہ ٗٗ کَبِیْرُہُمْ ھٰذَا فَسْـَٔــلُوْہُمْ اِنْ کَانُوْا یَنْطِقُوْنَ» ۱؎ (21-الأنبیاء:63) اور ایک ان کا سارہ رضی اللہ عنہا کو اپنی بہن کہنا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3357) تو یاد رہے کہ دراصل ان میں حقیقی جھوٹ ایک بھی نہیں ۔ انہیں تو صرف مجازاً جھوٹ کہا گیا ہے کلام میں ایسی تعریفیں کسی شرعی مقصد کے لیے کرنا جھوٹ میں داخل نہیں ، جیسا کہ حدیث میں بھی ہے کہ { تعریض جھوٹ سے الگ ہے اور اس سے بے نیاز کر دیتی ہے } ۔ ابن ابی حاتم میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ، { خلیل اللہ علیہ السلام کے ان تینوں کلمات میں سے ایک بھی ایسا نہیں جس سے حکمت عملی کے ساتھ دین اللہ کی بھلائی مقصود نہ ہو } } ۔۱؎ (تاریخ دمشق لا بن عساکر:320/2:ضعیف) حضرت سفیان رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” میں بیمار ہوں سے مطلب مجھے طاعون ہو گیا ہے ۔ اور وہ لوگ ایسے مریض سے بھاگتے تھے “ ۔ سعید رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ ” اللہ کے دین کی تبلیغ ان کے جھوٹے معبودوں کی تردید کے لیے خلیل اللہ علیہ السلام کی یہ ایک حکمت عملی تھی کہ ایک ستارے کو طلوع ہوتے دیکھ کر فرما دیا کہ میں مقیم ہوں “ ۔ اوروں نے یہ بھی لکھا ہے کہ ” میں بیمار ہونے والا ہوں یعنی یقیناً ایک مرتبہ مرض الموت آنے والا ہے ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مریض ہوں یعنی میرا دل تمہارے ان بتوں کی عبادت سے بیمار ہے “ ۔ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں جب آپ علیہ السلام کی قوم میلے میں جانے لگی تو آپ علیہ السلام کو بھی مجبور کرنے لگی آپ علیہ السلام ہٹ گئے اور فرما دیا کہ ” میں مقیم ہوں اور آسمان کی طرف دیکھنے لگے “ ۔ جب وہ انہیں تنہا چھوڑ کر چل دئیے تو آپ علیہ السلام نے بہ فراغت ان کے معبودوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے ۔ وہ تو سب اپنی عید میں گئے آپ علیہ السلام چپکے چپکے اور جلدی جلدی ان کے بتوں کے پاس آئے ۔ پہلے تو فرمایا کیوں جی تم کھاتے کیوں نہیں ؟ یہاں آ کر خلیل اللہ علیہ السلام نے دیکھا کہ جو چڑھا وے ان لوگوں نے ان بتوں پر چڑھا رکھے تھے وہ سب رکھے ہوئے تھے ان لوگوں نے تبرک کی نیت سے جو قربانیاں یہاں کی تھیں وہ سب یونہی پڑی ہوئی تھیں یہ بت خانہ بڑا وسیع اور مزین تھا دروازے کے متصل ایک بہت بڑا بت تھا اور اس کے اردگرد اس سے چھوٹے پھر ان سے چھوٹے یونہی تمام بت خانہ بھرا ہوا تھا ۔ ان کے پاس مختلف قسم کے کھانے رکھے ہوئے تھے جو اس اعتقاد سے رکھے گئے تھے کہ یہاں رہنے سے متبرک ہو جائیں گے پھر ہم کھالیں گے ۔ ابراہیم علیہ السلام نے اپنی بات کا جواب نہ پاکر پھر فرمایا ” یہ تمہیں کیا ہو گیا ہے ؟ بولتے کیوں نہیں “ ۔ اب تو پوری قوت سے دائیں ہاتھ سے مار کر ان کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے ۔ ہاں بڑے بت کو چھوڑ دیا تاکہ اس پر بدگمانی کی جا سکے ۔ جیسا کہ سورۃ انبیاء میں گزر چکا ہے اور وہیں اس کی پوری تفسیر بھی بیان ہو چکی ہے ۔ بت پرست جب اپنے میلے سے واپس ہوئے بت خانے میں گھسے تو دیکھا کہ ان کے سب خدا اڑنگ بڑنگ پڑے ہوئے ہیں کسی کا ہاتھ نہیں کسی کا پاؤں نہیں کسی کا سر نہیں کسی کا دھڑ نہیں حیران ہو گئے کہ یہ کیا ہوا ؟ آخر سوچ سمجھ کر بحث مباحثے کے بعد معلوم کر لیا کہ ہو نہ ہو یہ کام ابراہیم کا ہے [علیہ الصلوۃ والسلام] ۔ اب سارے کے سارے مل جل کر خلیل علیہ السلام کے پاس دوڑے ، بھاگے ، دانت پیستے ، تلملائے کوستے گئے ۔ خلیل اللہ علیہ السلام کو تبلیغ کا اور انہیں قائل معقول کرنے کا اور سمجھانے کا اچھا موقعہ ملا فرمانے لگے ” کیوں ان چیزوں کی پرستش کرتے ہو جنہیں خود تم بناتے ہو ؟ اپنے ہاتھوں گھڑتے اور تراشتے ہو ؟ حالانکہ تمہارا اور تمہارے اعمال کا خالق اللہ ہی ہے “ ۔ ممکن ہے کہ اس آیت میں «ما» مصدریہ ہو اور ممکن ہے کہ «الَّذِی» کے معنی میں ہو ، لیکن دونوں معنی میں تلازم ہے ۔ گو اول زیادہ ظاہر ہے ۔ چنانچہ امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ کی کتاب افعال العباد میں ایک مرفوع حدیث ہے کہ { اللہ تعالیٰ ہر صانع اور اس کی صنعت کو پیدا کرتا ہے } ۔ ۱؎ (خلق افعال العباد:17:صحیح) پھر بعض نے اسی آیت کی تلاوت کی ۔ چونکہ اس پاک صاف بات کا کوئی جواب ان کے پاس نہ تھا تو تنگ آ کر دشمنی پر اور سفلہ پن پر اتر آئے اور کہنے لگے ایک بنیان بناؤ اس میں آگ جلاؤ اور اسے اس میں ڈال دو ۔ چنانچہ یہی انہوں نے کیا لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل کو اس سے نجات دی ۔ انہی کو غلبہ دیا اور انہی کی مدد فرمائی ۔ گو انہوں نے انہیں برائی پہنچانی چاہی لیکن اللہ نے خود انہیں ذلیل کر دیا ۔ اس کا پورا بیان اور کامل تفسیر سورۃ انبیاء ۱؎ (21-الأنبیاء:1) میں گزر چکی ہے وہیں دیکھ لی جائے ۔ الصافات
89 الصافات
90 الصافات
91 الصافات
92 الصافات
93 الصافات
94 الصافات
95 الصافات
96 الصافات
97 الصافات
98 الصافات
99 ذبیح اللہ کی بحث اور یہودی روایات خلیل اللہ علیہ السلام جب اپنی قوم کی ہدایت سے مایوس ہو گئے ، بڑی بڑی قدرتی نشانیاں دیکھ کر بھی جب انہیں ایمان نصیب نہ ہوا تو آپ علیہ السلام نے ان سے ہٹ جانا پسند فرمایا اور اعلان کر دیا کہ میں اب تم میں سے ہجرت کرجاؤں گا میرا رہنما میرا رب ہے ۔ ساتھ ہی اپنے رب سے اپنے ہاں اولاد ہونے کی دعا مانگی تاکہ وہی توحید میں آپ علیہ السلام کا ساتھ دے ۔ اسی وقت دعا قبول ہوتی ہے اور ایک بردبار بچے کی بشارت دی جاتی ۔ یہ اسماعیل علیہ السلام تھے یہی آپ علیہ السلام کے لیے صاحبزادے تھے اور اسحاق علیہ السلام سے بڑے تھے ۔ اسے تو اہل کتاب بھی مانتے ہیں بلکہ ان کی کتب میں موجود ہے کہ اسماعیل علیہ السلام کی پیدائش کے وقت ابراہیم علیہ السلام کی عمر چھیاسی سال کی تھی اور جس وقت اسحاق علیہ السلام تولد ہوتے ہیں اس وقت آپ علیہ السلام کی عمر ننانوے برس کی تھی ۔ بلکہ ان کی اپنی کتاب میں تو یہ بھی ہے کہ جناب ابراہیم علیہ السلام کو اپنے اکلوتے فرزند کو ذبح کرنے کا حکم ہوا تھا ۔ لیکن صرف اس لیے کہ یہ لوگ خود تو نبی اللہ اسحاق علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں اور نبی اللہ و ذبیح اللہ اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے عرب ہیں ۔ انہی نے واقعہ کی اصلیت بدل دی اور اس فضیلت کو اسماعیل علیہ السلام سے ہٹاکر اسحاق علیہ السلام کو دے دیا اور بے جا تاویلیں کرتے اللہ کے کلام کو بدل ڈالا ، اور کہا ہماری کتاب میں لفظ «وَحِیْدَکَ» ہے اس سے مراد اکلوتا نہیں بلکہ جو تیرے پاس اس وقت اکیلا ہے وہ ہے ۔ یہ اس لیے کہ اسماعیل تو اپنی والدہ کے ساتھ مکے میں تھے یہاں خلیل اللہ کے ساتھ صرف اسحاق تھے ۔ لیکن یہ بالکل غلط ہے ۔ وحید اسی کو کہا جاتا ہے جو اکلوتا ہو اس کا اور کوئی بھائی نہ ہو ۔ پھر یہاں ایک بات اور بھی ہے کہ اکلوتے اور پہلوٹھی کے بچے کے ساتھ جو محبت ہوتی اور اس کے جو لاڈ پیار ہوتے ہیں عموماً دوسری اولاد کے ہونے پر پھر وہ باقی نہیں رہتے ۔ اس لیے اس کے ذبیحہ کا حکم امتحان اور آزمائش کی زبردست کڑی ہے ۔ ہم اسے مانتے ہیں کہ بعض سلف بھی اس کے قائل ہوئے ہیں کہ ذبیح اللہ اسحاق علیہ السلام تھے ، یہاں تک کہ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم سے بھی یہ مروی ہے لیکن یہ چیز کتاب و سنت سے ثابت نہیں ہوتی ۔ بلکہ خیال یہ ہے کہ بنو اسرائیل کی ایک شہرت دی ہوئی بات کو ان حضرات نے بھی بے دلیل اپنے ہاں لے لیا ۔ دور کیوں جائیں کتاب اللہ کے الفاظ میں ہی غور کر لیجئیے کہ اسمٰعیل علیہ السلام کی بشارت کا ” غلام حلیم “ کہہ کر ذکر ہوا اور پھر اللہ کی راہ میں ذبح کے لیے تیار ہونے کا ذکر ہوا ۔ اس تمام بیان کو ختم کر کے پھر نبی صالح اسحاق علیہ السلام کے تولد کی بشارت کا بیان ہوا ۔ اور فرشتوں نے بشارت اسحاق کے موقع پر ” غلام علیم “ فرمایا تھا ۔ اسی طرح قرآن میں ہے بشارت اسحاق علیہ السلام کے ساتھ ہی ہے «وَمِنْ وَّرَاءِ اِسْحٰقَ یَعْقُوْبَ» ۱؎ (11-ھود:71) یعنی ’ ابراہیم کی حیات میں ہی اسحاق کے ہاں یعقوب پیدا ہوں گے ‘ ، یعنی ان کی تو نسل جاری رہنے کا پہلے ہی علم کرایا جا چکا تھا اب انہیں ذبح کرنے کا حکم کیسے دیا جاتا ؟ اسے ہم پہلے بھی بیان کر چکے ۔ البتہ اسماعیل علیہ السلام کا وصف یہاں پر بردباری کا بیان کیا گیا ہے ۔ جو ذبیح کے لیے نہایت مناسب ہے ۔ اب اسماعیل علیہ السلام بڑے ہو گئے اپنے والد کے ساتھ چلنے پھرنے کے قابل ہو گئے ۔ آپ علیہ السلام اس وقت مع اپنی والدہ محترمہ کے فاران میں تھے ابراہیم علیہ السلام عموماً وہاں جاتے آتے رہتے تھے یہ مذکور ہے کہ براق پر جاتے تھے اور اس جملے کے یہ معنی بھی ہیں کہ جوانی کے لگ بھگ ہو گئے لڑکپن کا زمانہ نکل گیا اور باپ کی طرح چلنے پھرنے کام کاج کرنے کے قابل بن گئے تو ابراہیم علیہ السلام نے خواب دیکھا کہ گویا آپ علیہ السلام اپنے پیارے بچے کو ذبح کر رہے ہیں ۔ انبیاء کے خواب وحی ہوتے ہیں اور اس کی دلیل یہی آیت ہے ۔ ایک مرفوع روایت میں بھی یہ ہے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:138) پس اللہ کے رسول علیہ السلام نے اپنے لخت جگر کی آزمائش کے لیے کہ اچانک وہ گھبرا نہ اٹھے ، اپنا ارادہ ان کے سامنے ظاہر کیا ۔ وہاں کیا تھا ۔ وہ بھی اسی درخت کے پھل تھے نبی ابن نبی علیہ السلام تھے جواب دیتے ہیں اب پھر دیر کیوں لگا رہے ہو یہ باتیں بھی پوچھنے کی ہوتی ہیں جو حکم ہوا ہے اسے فوراً کر ڈالیے اور اگر میری نسبت کھٹکا ہو تو زبانی اطمینانی کیا کروں چھری رکھئے خود معلوم ہو جائے گا کہ میں کیسا کچھ صابر ہوں ۔ ان شاءاللہ میرا صبر آپ کا جی خوش کر دے گا ۔ سبحان اللہ جو کہا تھا وہی کر کے دکھایا اور صادق الوعد ہونے کا سرٹیفیکیٹ اللہ کی طرف سے حاصل کر ہی لیا ۔ آخر باپ بیٹا دونوں حکم اللہ کی اطاعت کے لیے جان بکف تیار ہو جاتے ہیں باپ بچے کو ذبح کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے ۔ اور باپ اپنے نور چشم لخت جگر کو منہ کے بل زمین پر گراتے ہیں تاکہ ذبح کے وقت منہ دیکھ کر محبت نہ آ جائے اور ہاتھ سست نہ پڑ جائے ۔ مسند احمد میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ” جب ابراہیم علیہ السلام اپنی نور نظر کو ذبح کرنے کے لیے بحکم اللہ لے چلے تو سعی کے وقت شیطان سامنے آیا لیکن ابراہیم علیہ السلام اس سے آگے بڑھ گئے ، پھر جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ آپ جمرہ عقبہ پر پہنچے تو پھر شیطان سامنے آیا ، آپ علیہ السلام نے اسے سات کنکریاں ماریں “ ۔ ” پھر جمرہ وسطی پاس آیا پھر وہاں سات کنکریاں ماریں ۔ پھر آگے بڑھ کر اپنے پیارے بچے کو اللہ کے نام پر ذبح کرنے کے لیے نیچے پچھاڑا ، ذبیح اللہ کے پاک جسم پر اس وقت سفید چادر تھی کہنے لگے ابا جی اسے اتار لیجئیے تاکہ اس میں آپ مجھے کفنا سکیں ۔ اس وقت بیٹے کو ننگا کرتے وقت باپ کا عجب حال تھا کہ آواز آئی بس ابراہیم خواب کو سچا کر چکے ۔ مڑ کر دیکھا تو ایک مینڈا سفید رنگ کا بڑے بڑے سینگوں اور صاف آنکھوں والا نظر پڑا ، ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اسی لیے ہم اس قسم کے مینڈے [چھترے] چن چن کر قربانی کے لیے لیتے تھے “ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما ہی سے دوسری روایت میں اسحاق علیہ السلام کا نام مروی ہے ۔ تو گو دونوں نام آپ رضی اللہ عنہما سے مروی ہیں لیکن اول ہی اولیٰ ہے اور اس کی دلیلیں آ رہی ہیں ۔ ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ اس کے بدلے بڑا ذبیحہ ، اللہ نے عطا فرمایا اس کی بابت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ” یہ جنتی چھترا تھا جو وہاں چالیس سال سے کھا پی رہا تھا “ ۔ اسے دیکھ کر آپ علیہ السلام اپنے بچے کو چھوڑ کر اس کے پیچھے ہولیے ۔ جمرہ اولیٰ پر آ کر سات کنکریاں پھنکیں پھر وہ بھاگ کر جمرہ وسطی پر آ گیا ۔ سات کنکریاں ماریں اور وہاں سے ملخر میں لا کر ذبح کیا اس کے سینگ سر سمیت ابتداء اسلام کے زمانہ تک کعبے کے پرنالے کے پاس لٹکتے رہے تھے پھر سوکھ گئے ۔ ایک مرتبہ سیدنا کعب رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے باتیں کر رہے تھے ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ تو حدیثیں بیان کر رہے تھے اور کعب رضی اللہ عنہ کتاب کے قصے بیان کر رہے تھے ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ { ہر نبی کے لیے ایک دعا قبول شدہ ہے اور میں نے اپنی اس مقبول دعا کو پوشیدہ کر کے رکھ چھوڑا ہے اپنی امت کی شفاعت کے لئے جو بروز قیامت ہوگی} ، تو سیدنا کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم نے خود اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے؟ فرمایا ہاں۔ سیدنا کعب رضی اللہ عنہ خوش ہوئے اور فرمانے لگے تم پر میرے ماں باپ فدا ہوں یا فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر میرے ماں باپ صدقے جائیں ۔ پھر کعب رضی اللہ عنہ نے ابراہیم خلیل علیہ السلام کا قصہ سنایا کہ جب آپ علیہ السلام اپنے لڑکے اسمٰعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کے لیے مستعد ہو گئے تو شیطان نے کہا اگر میں اس وقت انہیں نہ بہکا سکا تو مجھے ان سے عمر بھر کے لیے مایوس ہو جانا چاہیئے ۔ پہلے تو یہ سارہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا اور پوچھا کہ ابراہیم علیہ السلام تمہارے لڑکے کو کہاں لے گئے ہیں ؟ مائی صاحبہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا اپنے کسی کام پر لے گئے ہیں ، اس نے کہا نہیں بلکہ وہ ذبح کرنے کے لیے لے گئے ہیں ۔ مائی صاحبہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا وہ اسے کیوں ذبح کرنے لگے ؟ لعین نے کہا وہ کہتے ہیں اللہ کی طرف سے یہی حکم ہے جواب ملا پھر تو یہی بہتر ہے کہ وہ جلدی سے اللہ کے حکم کی بجا آوری سے فارغ ہو لیں ۔ یہاں سے نامراد ہو کر بچے کے پاس آیا اور کہا تمہارے ابا تمہیں کہاں لے جاتے ہیں ؟ فرمایا اپنے کام کے لیے کہا نہیں بلکہ وہ تجھے ذبح کرنے کے لیے لے جا رہے ہیں ، فرمایا یہ کیوں ؟ کہا اس لیے کہ وہ سمجھتے ہیں اللہ کا انہیں حکم ہے ۔ کہا پھر تو واللہ انہیں اس کام میں بہت جلدی کرنی چاہیئے ۔ ان سے بھی مایوس ہو کر یہ ملعون خلیل اللہ علیہ السلام کے پاس پہنچا ۔ ان سے کہا بچے کو کہاں لے جا رہے ہو ؟ جواب دیا اپنے کام کے لیے ملعون نے کہا نہیں بلکہ تم تو اسے ذبح کرنے کے لیے جا رہے ہو ؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا یہ کیوں ؟ بولا اس لیے کہ تمہارا خیال ہے کہ اللہ کا حکم تمہیں یونہی ہے ، آپ علیہ السلام نے فرمایا اللہ کی قسم پھر تو میں ضرور ہی اسے ذبح کر ڈالوں گا ۔ اب ابلیس مایوس ہو گیا ۔۱؎ (عبد الرزاق فی المصنف:20864:صحیح) دوسری روایت میں یہ بھی ہے کہ اس تمام واقعے کے بعد جناب باری تعالیٰ نے اسحاق علیہ السلام سے فرمایا کہ ’ ایک دعا تم مجھ سے مانگو جو مانگو گے ملے گا ‘ ۔ اسحاق علیہ السلام نے کہا ” پھر میری دعا یہ ہے کہ جس نے تیرے ساتھ شریک نہ کیا ہو اسے تو ضرور جنت میں لے جانا “ ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے { اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا کہ میں دو باتوں میں سے ایک کو اختیار کر لوں یا تو یہ کہ میری آدھوں آدھ امت بخشی جائے یا یہ کہ میں شفاعت کروں اور اسے اللہ تعالیٰ قبول فرما لے تو میں نے شفاعت کرنے کو ترجیح دی اس پر کہ وہ عام ہو گی ، ہاں ایک دعا تھی کہ میں وہی کرتا لیکن اللہ کا ایک نیک بندہ مجھ سے پہلے اس دعا کو مانگ چکا تھا } ۔ واقعہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اسحاق علیہ السلام سے ذبح ہونے کی تکلیف دور کر دی تو ان سے فرمایا گیا کہ ’ تو مانگ جو مانگے گا دیا جائے گا ‘ ۔ تو اسحاق علیہ السلام نے فرمایا ” واللہ شیطان کے بہکانے سے پہلے ہی میں اسے مانگ لوں گا ، اللہ جو شخص اس حالت میں مرا ہو کہ اس نے تیرے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو تو اسے بخش دے اور جنت میں پہنچا دے “ ۔ ۱؎ (الدر المنشور للسیوطی:531/5:ضعیف) یہ حدیث ابن ابی حاتم میں ہے لیکن سنداً غریب اور منکر ہے اور اس کے ایک راوی عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم ضعیف ہیں اور مجھے تو یہ بھی ڈر ہے کہ یہ الفاظ کہ [ جب اللہ تعالیٰ نے اسحاق علیہ السلام سے ] آخر تک راوی اپنے نہ ہوں جنہیں انہوں نے حدیث میں داخل کر دئیے ہیں ۔ ذبیح اللہ تو اسماعیل علیہ السلام ہیں ، محل ذبح منیٰ ہے اور وہ مکے میں ہے اور اسماعیل علیہ السلام یہیں تھے نہ کہ اسحاق علیہ السلام وہ تو شہر کنعان میں تھے جو شام ہے ۔ جب ابراہیم علیہ السلام اپنے پیارے بچے کو ذبح کرنے کے لیے لٹا دیتے ہیں جناب باری سے ندا آتی ہے کہ ’ بس ابراہیم علیہ السلام تم اپنے خواب کو پورا کر چکے ‘ ۔ سدی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ ” جب خلیل اللہ علیہ السلام نے ذبیح اللہ علیہ السلام کے حلق پر چھری پھیری تو گردن تانبے کی ہو گئے اور نہ کٹی اور یہ آواز آئی “ ۔ ہم اسی طرح نیک کاروں کو بدلہ دیتے ہیں ۔ یعنی سختیوں سے بچا لیتے ہیں اور چھٹکارا کر دیتے ہیں ۔ جیسے فرمایا ’ اللہ سے ڈرتے رہنے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ چھٹکارے کی صورت نکال ہی دیتا ہے اور اسے ایسی طرح روزی پہنچاتا ہے کہ اس کے گمان و وہم میں بھی نہ ہو ۔ اللہ پر بھروسہ کرنے والوں کو اللہ ہی کافی ہے اللہ اپنے کاموں کو مکمل کر کے چھوڑتا ہے ہرچیز کا اس نے ایک اندازہ مقرر کر رکھا ہے ‘ ۔ اس آیت سے اس پر استدلال کیا گیا ہے کہ فعل پر قدرت پانے سے پہلے ہی حکم منسوخ ہو سکتا ہے ۔ ہاں معتزلہ اسے نہیں مانتے ۔ وجہ استدلال بہت ظاہر ہے اس لیے کہ خلیل اللہ علیہ السلام کو اپنے بیٹے کے ذبح کرنے کا حکم ہوتا ہے اور پھر ذبح سے پہلے ہی فدئیے کے ساتھ منسوخ کر دیا جاتا ہے ۔ مقصود اس سے یہ تھا کہ صبر کا اور بجا آوری حکم پر مستعدی کا ثواب مرحمت فرما دیا جائے ۔ اسی لیے ارشاد ہوا ’ یہ تو صرف ایک آزمائش تھی کھلا امتحان تھا کہ ادھر حکم ہوا ادھر تیاری ہوئی ‘ ۔ اسی لیے جناب خلیل اللہ علیہ السلام کی تعریف میں قرآن میں ہے ’ ابراہیم بڑا ہی وفادار تھا ۔ بڑے ذبیح کے ساتھ ان کا فدیہ ہم نے دیا ‘ ۔ سفید رنگ بڑی آنکھوں اور بڑے سینگوں والا عمدہ خوراک سے پلا ہوا منیڈھا فدئیے میں دیا گیا جو ثبیر ببول کے درخت سے بندھا ہوا ملا ۔ جو جنت میں چالیس سال چرتا رہا ۔ منیٰ میں ثبیر کے پاس جو چٹان ہے اس پر یہ جانور ذبح کیا گیا یہ چیختا ہوا اوپر سے اترا تھا ۔ یہی وہ مینڈھا ہے جسے ہابیل نے اللہ کی راہ میں قربان کیا تھا ۔ اس کی اون قدرے سرخی مائل تھی اس کا نام جریر تھا ۔ بعض کہتے ہیں مقام ابراہیم پر اسے ذبح کیا ۔ کوئی کہتا ہے مٹی میں نحر پر ۔ ایک شخص نے اپنے تئیں راہ اللہ میں ذبح کرنے کی منت مانی تھی تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اسے ایک سو اونٹ ذبح کرنے کا فتویٰ دیا تھا لیکن پھر فرماتے تھے کہ ” اگر میں اسے ایک بھیڑ ذبح کرنے کو کہتا تب بھی کافی تھا کیونکہ کتاب اللہ میں ہے کہ ذبیح اللہ کا فدیہ اسی سے دیا گیا تھا “ ۔ اکثر لوگوں کا یہی قول ہے بعض کہتے ہیں یہ پہاڑی بکرا تھا ۔ کوئی کہتا ہے نر ہرن تھا ۔ مسند احمد میں ہے کہ { عثمان رضی اللہ عنہ کو بلا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { میں نے بھیڑ کے سینگ بیت اللہ شریف میں داخلے کے وقت اندر دیکھے تھے اور مجھے یاد نہ رہا کہ میں تجھے ان کے ڈھانک دینے کا حکم دوں ، جاؤ اسے ڈھک دو بیت اللہ میں کوئی ایسی چیز نہ ہونی چاہیئے جو نمازی کو اپنی طرف متوجہ کر لے } } ۔۱؎ (سنن ابوداود:2030،قال الشیخ الألبانی:صحیح) سفیان رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس بھیڑ کے سینگ بیت اللہ میں ہی رہے یہاں تک کہ ایک مرتبہ بیت اللہ میں آگ لگی اس میں وہ جل گئے ۔ ۱؎ (سلسلۃ احادیث صحیحہ البانی:23221،) یہ واقعہ بھی اس امر کی دلیل ہے کہ ذبیح اللہ ، اسماعیل علیہ السلام تھے اسی وجہ سے ان کی اولاد قریش تک یہ سینگ برابر اور مسلسل چلے آئے یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے مبعوث فرمایا ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ ” ان آثار کا بیان جن میں ذبیح اللہ کا نام ہے “ ابومیسرہ فرماتے ہیں یوسف علیہ السلام نے بادشاہ سے فرمایا ” کیا تو میرے ساتھ کھانا چاہتا ہے ، میں یوسف بن یعقوب نبی اللہ بن اسحاق ذبیح اللہ بن ابراہیم خلیل اللہ ہوں ( عبید بن عمیر رحمہ اللہ) موسیٰ علیہ السلام نے جناب باری میں عرض کی کہ ” اے اللہ کیا وجہ ہے جو لوگوں کی زبانوں پر یہ چڑھا ہوا ہے کہ ابراہیم ، اسمٰعیل اور یعقوب علیہم السلام کے اللہ کی قسم “ ، تو جواب ملا ’ اس لیے ابراہیم نے تو ہر ہرچیز پر مجھی کو ترجیح دی اور اسحاق علیہ السلام نے اپنے تئیں میری راہ میں ذبح ہونے کے لیے سپرد کر دیا پھر بھلا اور چیزیں اسے پیش کر دینا کیا مشکل تھیں اور یعقوب علیہ السلام کو میں جوں جوں بلاؤں میں ڈالتا گیا اس کے حسن ظنی میرے ساتھ بڑھتی ہی رہی ‘ ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک مرتبہ کسی نے فخراً اپنے باپ دادوں کا نام لیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا قابل فخر باپ دادا تو یوسف علیہ السلام کے تھے جو یعقوب بن اسحاق علیہ السلام اور ذبیح اللہ بن ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام تھے ۔ عکرمہ ، سیدنا ابن عباس ، خود سیدنا عباس ، سیدنا علی ،سعید بن جبیر رضی اللہ عنہم ، مجاہد ، شعبی ، عبید بن عمر ، ابومیسرہ ، زید بن اسلم ، عبداللہ بن شفیق ، زہری ، قاسم بن ابوبرزہ ، محکول ، عثمان بن ابی عاص ، سدی ، حسن ، قتادہ ، ابو الہذیل ، ابن سابط ، کعب احبار رحمہم اللہ اجمعین ، ان سب کا یہی قول ہے اور ابن جریر رحمہ اللہ بھی اسی کو اختیار کرتے ہیں کہ ذبیح اللہ اسحاق علیہ السلام تھے ۔ صحیح علم تو اللہ کو ہی ہے مگر بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان سب بزرگوں کے استاد کعب احبار رحمہ اللہ ہیں ۔ یہ خلافت فاروقی میں مسلمان ہوئے تھے اور کبھی کبھی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو قدیمی کتابوں کی باتیں سناتے تھے ، لوگوں نے اسے رخصت سمجھ کر پھر ان سے ہر ایک بات بیان کرنی شروع کر دی اور صحیح غلط کی تمیز اٹھ گئی حق تو یہ ہے کہ اس امت کو اگلی کتابوں کی ایک بات کی بھی حاجت نہیں ۔ بغوی نے کچھ اور نام بھی صحابہ تابعین کے بتلائے ہیں جنہوں نے کہا ہے کہ ذبیح اللہ اسحاق علیہ السلام ہیں ۔ ایک مرفوع حدیث میں بھی یہ آیا ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:29495:ضعیف) اگر وہ حدیث صحیح ہوتی تو جھگڑے کا فیصلہ تھا مگر وہ حدیث صحیح نہیں اس میں دو راوی ضعیف ہیں ۔ حسن بن دینار متروک ہیں اور علی بن زید بن جدعان منکر الحدیث ہیں اور زیادہ صحیح یہ ہے کہ ہے یہ بھی موقف ، چنانچہ ایک سند سے یہ مقولہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا مروی ہے اور یہی زیادہ ٹھیک ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اب ان آثار کو سنئے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ذبیح اللہ اسماعیل علیہ السلام ہی تھے اور یہی ٹھیک اور بالکل درست بھی ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما یہی فرماتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ” یہودی اسحاق علیہ السلام کا نام جھوٹ موٹ لیتے ہیں “ ۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ ، مجاہد ، شعبی ، حسن بصری ، محمد بن کعب قرظی ، خلیفہ المسلمین عمر ابن عبدالعزیز رحمہ اللہ علیہم کے سامنے جب محمد بن قرظی رحمہ اللہ نے یہ فرمایا اور ساتھ ہی اس کی دلیل بھی دی کہ ” ذبح کے ذکر کے بعد قرآن میں خلیل اللہ علیہ السلام کو اسحاق علیہ السلام کے پیدا ہونے کی بشارت کا ذکر ہے اور ساتھ ہی بیان ہے کہ ان کے ہاں بھی لڑکا ہو گا یعقوب نامی جب ان کے ہاں لڑکا ہونے کی بشارت دی گی تھی پھر باوجود ان کے ہاں لڑکا نہ ہوں کے اس سے پہلے ہی ان کے ذبح کرنے کا حکم کیسے دیا جاتا ہے ؟“ تو سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے فرمایا ” یہ بہت صاف دلیل ہے میرا ذہن یہاں نہیں پہنچا تھا گو یہ میں بھی جانتا تھا کہ ذبیح اللہ اسماعیل علیہ السلام ہی ہیں ۔ “ پھر شاہ اسلام نے شام کے ایک یہودی عالم سے پوچھا جو مسلمان ہو گئے تھے کہ تم اس بارے میں کیا علم رکھتے ہو انہوں نے فرمایا امیر المسلمین سچ تو یہی ہے کہ جن کے ذبح کرنے کا حکم دیا گیا وہ اسماعیل علیہ السلام ہی تھے لیکن چونکہ عرب ان کی اولاد میں سے ہیں تو یہ بزرگی ان کی طرف لوٹتی ہے اس حسد کے بارے میں یہودیوں نے اسے بدل دیا اور اسحاق علیہ السلام کا نام لے دیا ۔ حقیقی علم اللہ ہی کو ہے ہمارا ایمان ہے کہ اسماعیل ، اسحاق علیہم السلام دونوں ہی طاہر و طیب اور اللہ کے سچے فرمانبردار تھے ۔ کتاب الزہد میں ہے کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے صاحبزادے عبداللہ رحمہ اللہ نے اپنے والد سے جب یہ مسئلہ پوچھا تو آپ نے جواب دیا کہ ” ذبح ہونے والے اسماعیل علیہ السلام ہی تھے “ ۔ علی ابن عمر ، ابوالطفیل ، سعید بن مسیب ، سعید بن جبیر ، حسن ، مجاہد ، شعبی ، محمد بن کعب ، ابوجعفر محمد بن علی ابوصالح رحمہ اللہ عنہم سے بھی یہی مروی ہے ۔ امام بغوی رحمہ اللہ نے اور بھی صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین کے نام گنوائے ہیں ۔ ایک غریب حدیث بھی اسی کی تائید میں مروی ہے اس میں ہے کہ { شام میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے سامنے یہ بحث چھڑی کہ ذبیح اللہ کون ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا خوب ہوا جو یہ معاملہ مجھ جیسے باخبر شخص کے پاس آیا ، سنو ! ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے جب ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا اے اللہ کی راہ میں دو ذبح ہونے والوں کی نسل کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھے بھی مال غنیمت میں سے کچھ دلوایئے اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس دیئے ۔ ایک تو ذبیح اللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے والد عبداللہ تھے ، دوسرے اسمعیل علیہ السلام جن کی نسل میں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ عبداللہ کے ذبیح اللہ ہونے کا واقعہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا عبدالمطلب نے جب چاہ زمزم کھودا تو نذر مانی تھی کی اگر یہ کام آسانی سے پورا ہو گیا تو اپنے ایک لڑکے کو راہ اللہ میں ذبح کروں گا جب کام ہو گیا اور قرعہ اندازی کی گئی کہ کس بیٹے کو اللہ کے نام پر ذبح کریں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے والد عبداللہ کا نام نکلا ۔ ان کے ننھیال والوں نے کہا آپ ان کی طرف سے ایک سو اونٹ راہ اللہ ذبح کر دیں چنانچہ وہ ذبح کر دیئے گئے اور اسماعیل علیہ السلام کے ذبیح اللہ ہونے کا واقعہ تو مشہور ہی ہے } ۔۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:29530:ضعیف) ابن جریر میں یہ روایت موجود ہے اور مغازی امویہ میں بھی۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ نے اسحاق علیہ السلام کے ذبیح اللہ ہونے کی ایک دلیل تو یہ پیش کی یہ کہ جس علیم بچے کی بشارت کا ذکر ہے اس سے مراد اسحاق علیہ السلام ہیں قرآن میں اور جگہ ہے «قَالُوا لَا تَخَفْ وَبَشَّرُ‌وہُ بِغُلَامٍ عَلِیمٍ» ۱؎ (51-الذاریات:28) ، اور یعقوب علیہ السلام کی بشارت کا یہ جواب دیا ہے کہ وہ آپ کے ساتھ چلنے پھرنے کی عمر کو پہنچ گئے تھے اور ممکن ہے کہ یعقوب علیہ السلام کے ساتھ ہی کوئی اور اولاد بھی ہوئی ہو اور کعبتہ اللہ میں سینگوں کی موجودگی کے بارے میں فرماتے ہیں بہت ممکن ہے کہ یہ بلادکنعان سے لا کر یہاں رکھے گئے ہوں “ ۔ اور بعض لوگوں سے اسحاق علیہ السلام کے نام کی صراحت بھی آئی ہے ، لیکن یہ سب باتیں حقیقت سے بہت دور ہیں ۔ ہاں اسماعیل علیہ السلام کے ذبیح اللہ ہونے پر محمد بن کعب قرظی رحمہ اللہ کا استدلال بہت صاف اور قوی ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ پہلے ذبیح اللہ اسمعیل علیہ السلام کے تولد ہونے کی بشارت دی گئی تھی یہاں اس کے بعد ان کے بھائی اسحاق علیہ السلام کی بشارت دی جا رہی ہے ۔ سورۃ ہود اور سورۃ الحجر میں بھی اس کا ذکر گذر چکا ہے ۔ «نبیاً» حال مقدرہ ہے یعنی وہ نبی صالح ہو گا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ذبیح اللہ اسحاق علیہ السلام تھے اور یہاں نبوت اسحاق علیہ السلام کو بشارت ہے ۔ جیسے موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں فرمان ہے کہ ’ ہم نے انہیں اپنی رحمت سے ان کے بھائی ہارون کو نبی بنا دیا ‘ ۔ حالانکہ ہارون علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام سے بڑے تھے تو یہاں بھی ان کی نبوت کی بشارت ہے ۔ پس یہ بشارت اس وقت دی گئی جبکہ امتحان ذبح میں وہ صابر ثابت ہوئے ۔ یہ بھی مروی ہے کہ یہ بشارت دو مرتبہ دی گئی پیدائش سے کچھ قبل اور نبوت سے کچھ قبل ۔ حضرت قتادہ رحمہ اللہ سے بھی یہی مروی ہے ۔ ’ ان پر اور اسحاق علیہ السلام پر ہماری برکتیں ہم نے نازل فرمائیں ، ان کی اولاد میں ہر قسم کے لوگ ہیں نیک بھی بد بھی ‘ ۔ جیسے نوح علیہ السلام سے فرمان ہوا تھا کہ «قِیلَ یَا نُوحُ اہْبِطْ بِسَلَامٍ مِّنَّا وَبَرَ‌کَاتٍ عَلَیْکَ وَعَلَیٰ أُمَمٍ مِّمَّن مَّعَکَ وَأُمَمٌ سَنُمَتِّعُہُمْ ثُمَّ یَمَسٰہُم مِّنَّا عَذَابٌ أَلِیمٌ » ’ اے نوح ہماری سلام اور برکت کے ساتھ تواتر ۔ تو بھی اور تیرے ساتھ والے بھی اور ایسے بھی لوگ ہیں جنہیں ہم فائدے پہنچائیں گے پھر انہیں ہماری طرف سے درد ناک عذاب پہنچیں گے ‘ ۔۱؎ (11-ہود:48) الصافات
100 الصافات
101 الصافات
102 الصافات
103 الصافات
104 الصافات
105 الصافات
106 الصافات
107 الصافات
108 الصافات
109 الصافات
110 الصافات
111 الصافات
112 الصافات
113 الصافات
114 موسیٰ علیہ السلام پر انعامات الٰہی اللہ تعالیٰ موسیٰ اور ہارون علیہم السلام پر اپنی نعمتیں جتا رہا ہے کہ ’ انہیں نبوت دی انہیں مع ان کی قوم کے فرعون جیسے طاقتور دشمن سے نجات دی جس نے انہیں بےطرح پست و ذلیل کر رکھا تھا ان کے بچوں کو کاٹ دیتا تھا ان کی لڑکیوں کو رہنے دیتا تھا ان سے ذلیل مزدوریاں کراتا تھا اور بے حیثیت بنا رکھا تھا ۔ ایسے بدترین دشمن کو ان کے دیکھتے ہلاک کیا ، انہیں اس پر غالب کر دیا ان کی زمین و زر کے یہ مالک بن گئے ۔ پھر موسیٰ کو واضح جلی روشن اور بین کتاب عنایت فرمائی جو حق و باطل میں فرق و فیصلہ کرنے والی اور نور و ہدایت والی تھی ، ان کے اقوال و افعال میں انہیں استقامت عطا فرمائی اور ان کے بعد والوں میں بھی ان کا ذکر خیر اور ثناء و صفت باقی رکھی کہ ہر زبان ان پر سلام ہی پڑھتی ہے ۔ ہم نیک کاروں کو یہی اور ایسے ہی بدلے دیتے ہیں ۔ وہ ہمارے مومن بندے تھے ‘ ۔ الصافات
115 الصافات
116 الصافات
117 الصافات
118 الصافات
119 الصافات
120 الصافات
121 الصافات
122 الصافات
123 الیاس علیہ السلام بعض کہتے ہیں الیاس نام تھا ادریس علیہ السلام کا ۔ وہب کہتے ہیں ان کا سلسلہ نسب یوں ہے الیاس بن نسی بن فحاص بن عبراز بن ہارون بن عمران علیہ السلام ۔ خرقیل علیہ السلام کے بعد یہ بنی اسرائیل میں بھیجے گئے تھے وہ لوگ بعل نامی بت کے پجاری بن گئے تھے ۔ انہوں نے دعوت اسلام دی ان کے بادشاہ نے ان سے قبول بھی کرلی لیکن پھر مرتد ہو گیا اور لوگ بھی سرکشی پر تلے رہے اور ایمان سے انکار کر دیا ۔ آپ علیہ السلام نے ان پر بد دعا کی تین سال تک بارش نہ برسی ۔ اب تو یہ سب تنگ آ گئے اور قسمیں کھا کھا کر اقرار کیا کہ آپ دعا کیجئے بارش برستے ہی ہم سب آپ کی نبوت پر ایمان لائیں گے ۔ چنانچہ آپ کی دعا سے مینہ برسا ۔ لیکن یہ کفار اپنے وعدے سے ٹل گئے اور اپنے کفر پر اڑ گئے ۔ آپ علیہ السلام نے یہ حالت دیکھ کر اللہ سے دعا کی کہ اللہ انہیں اپنی طرف لے لے ۔ ان کے ہاتھوں تلے یسع بن اخطوب پلے تھے ۔ الیاس علیہ السلام کی اس دعا کے بعد انہیں حکم ملا کہ وہ ایک جگہ جائیں اور وہاں انہیں جو سواری ملے اس پر سوار ہو جائیں وہاں آپ علیہ السلام گئے ایک نوری گھوڑا دکھائی دیا جس پر سوار ہو گئے اللہ نے انہیں بھی نورانی کر دیا اور اپنے پروں سے فرشتوں کے ساتھ اڑنے لگے اور ایک انسانی فرشتہ زمینی اور آسمانی بن گئے ۔ اس کی صحت کا علم اللہ ہی کو ہے ۔ ہے یہ بات اہل کتاب کی روایت سے ۔ الیاس علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا کہ ” کیا تم اللہ سے ڈرتے نہیں ہو ؟ کہ اس کے سوا دوسروں کی عبادت کرتے ہو ؟ “ اہل یمن اور قبیلہ ازوشنوہ رب کو بعل کہتے تھے ۔ بعل نامی جس بت کی یہ پوجا کرتے تھے وہ ایک عورت تھی ۔ ان کے شہر کا نام بعلبک تھا تو اللہ کے نبی الیاس علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ” تعجب ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر جو خالق کل ہے اور بہترین خلاق ہے ایک بت کو پوج رہے ہو ؟ اور اس کو پکارتے رہتے ہو ؟ اللہ تعالیٰ تم سب کا اور تم سے اگلے تمہارے باپ دادوں کا رب ہے وہی مستحق عبادت ہے اس کے سوا کسی قسم کی عبادت کسی کے لائق نہیں “ ۔ لیکن ان لوگوں نے اللہ کے پیارے نبی علیہ السلام کی اس صاف اور خیر خواہانہ نصیحت کو نہ مانا تو اللہ نے بھی انہیں عذاب پر حاضر کر دیا ، کہ قیامت کے دن ان سے زبردست بازپرس اور ان پر سخت عذاب ہوں گے ۔ ہاں ان میں سے جو توحید پر قائم تھے وہ بچ رہیں گے ۔ ہم نے الیاس علیہ السلام کی ثناء جمیل اور ذکر خیر پچھلے لوگوں میں بھی باقی ہی رکھا کہ ہر مسلم کی زبان سے ان پر درود و سلام بھیجا جاتا ہے ۔ الیاس میں دوسری لغت الیاسین ہے جیسے اسماعیل میں اسماعین بنو اسد میں اسی طرح یہ لغت ہے ۔ ایک تمیمی کے شعر میں یہ لغت اس طرح لایا گیا ہے ۔ میکائیل کو میکال اور میکائین بھی کہا جاتا ہے ۔ ابراہیم کو ابراہام ، اسرائیل کو سزائیں ، طور سینا کوہ طور سے سینین ۔ غرض یہ لغت عرب میں مشہور و رائج ہے ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی قرأت میں «سَلَام عَلَی آلِ یَاسِین» ہے ۔ بعض کہتے ہیں اس سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ ’ ہم اسی طرح نیک کاروں کو نیک بدلہ دیتے ہیں ۔ یقیناً وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھے ‘ ۔ اس جملہ کی تفسیر گذر چکی ہے «وَاللہُ سُبْحَانَہُ وَ تَعَالیٰ اَعْلَمُ» ۔ الصافات
124 الصافات
125 الصافات
126 الصافات
127 الصافات
128 الصافات
129 الصافات
130 الصافات
131 الصافات
132 الصافات
133 قوم لوط علیہ السلام ایک عبرت کا مقام اللہ تعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول لوط علیہ السلام کا بیان ہو رہا ہے کہ ’ انہیں بھی ان کی قوم نے جھٹلایا ۔ جس پر اللہ کے عذاب ان پر برس پڑے اور اللہ نے اپنے پیارے لوط علیہ السلام کو مع ان کے گھر والوں کے نجات دے دی ۔ لیکن ان کی بیوی غارت ہوئی قوم کے ساتھ ہی ہلاک ہوئی اور ساری قوم بھی تباہ ہوئی ۔ قسم قسم کے عذاب ان پر آئے اور جس جگہ وو رہتے تھے وہاں ایک بدبودار اور جھیل بن گئی جس کا پانی بدمزہ بدبو بد رنگ ہے جو آنے جانے والوں کے راستے میں ہی پڑی ہے ۔ تم تو دن رات وہاں سے آتے جاتے رہتے ہو اور اس خوفناک منظر اور بھیانک مقام کو صبح شام دیکھتے رہتے ہو ۔ کیا اس معائنہ کے بعد بھی عبرت حاصل نہیں کرتے اور سوچتے سمجھتے نہیں ہو ؟ کس طرح یہ برباد کر دیئے گئے ؟ ایسا نہ ہو کہ یہی عذاب تم پر بھی آ جائیں ‘ ۔ الصافات
134 الصافات
135 الصافات
136 الصافات
137 الصافات
138 الصافات
139 واقعہ یونس علیہ السلام حضرت یونس علیہ السلام کا قصہ سورۃ یونس میں بیان ہو چکا ہے ۔ بخاری مسلم میں حدیث ہے کہ { کسی بندے کو یہ لائق نہیں کہ وہ کہے میں یونس بن متی سے افضل ہوں } ۔۱؎ (صحیح بخاری:3413) یہ نام ممکن ہے آپ علیہ السلام کی والدہ کا ہو اور ممکن ہے والد کا ہو ۔ یہ بھاگ کر مال و اسباب سے لدی ہوئی کشتی پر سوار ہوگئے ۔ وہاں قرعہ اندازی ہوئی اور یہ مغلوب ہوگئے کشتی کے چلتے ہی چاروں طرف سے موجیں اٹھیں اور سخت طوفان آیا ۔ یہاں تک کہ سب کو اپنی موت کا اور کشتی کے ڈوب جانے کا یقین ہو گیا ۔ سب آپس میں کہنے لگے کہ قرعہ ڈالو جس کے نام کا قرعہ نکلے اسے سمندر میں ڈال دو تاکہ سب بچ جائیں اور کشتی اس طوفان سے چھوٹ جائے ۔ تین دفعہ قرعہ اندازی ہوئی اور تینوں مرتبہ اللہ کے پیارے پیغبمر یونس علیہ السلام کا ہی نام نکلا ۔ اہل کشتی آپ علیہ السلام کو پانی میں بہانا نہیں چاہتے تھے لیکن کیا کرتے باربار کی قرعہ اندازی پر بھی آپ علیہ السلام کا نام نکلتا رہا اور خود آپ علیہ السلام کپڑے اتار کر باوجود ان لوگوں کے روکنے کے سمندر میں کود پڑے ۔ اس وقت بحر اخضر کی ایک بہت بڑی مچھلی کو جناب باری کا فرمان سرزد ہوا کہ ’ وہ دریاؤں کو چیرتی پھاڑتی جائے اور یونس کو نگل لے لیکن نہ تو ان کا جسم زخمی ہو نہ کوئی ہڈی ٹوٹے ‘ ۔ چنانچہ اس مچھلی نے پیغمبر اللہ علیہ السلام کو نگل لیا اور سمندروں میں چلنے پھرنے لگی ۔ جب یونس علیہ السلام پوری طرح مچھلی کے پیٹ میں جا چکے تو آپ علیہ السلام کو خیال گذرا کہ میں مر چکا ہوں لیکن جب ہاتھ پیروں کو حرکت دی اور ہلے جلے تو زندگی کا یقین کر کے وہیں کھڑے ہو کر نماز شروع کر دی اور اللہ تعالیٰ سے عرض کی کہ ” اے پروردگار میں نے تیرے لیے اس جگہ مسجد بنائی ہے جہاں کوئی نہ پہنچا ہو گا “ ۔ تین دن یا سات دن یا چالیس دن ایک ایک دن سے بھی کم یا صرف ایک رات تک مچھلی کے پیٹ میں رہے ۔ ’ اگر یہ ہماری پاکیزگی بیان کرنے والوں میں سے نہ ہوتے، یعنی جبکہ فراخی اور کشادگی اور امن و امان کی حالت میں تھے اس وقت ان کی نیکیاں اگر نہ ہوتیں ‘ ۔ ایک حدیث بھی اس قسم کی ہے جو عنقریب بیان ہو گی ان شاءاللہ تعالیٰ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے { آرام اور راحت کے وقت اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو تو وہ سختی اور بے چینی کے وقت تمہاری مدد کرے گا ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر یہ پابند نماز نہ ہوتے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر مچھلی کے پیٹ میں نماز نہ پڑھتے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر یہ «لَّآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰــنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ» ۱؎ (21-الأنبیاء:87) کے ساتھ ہماری تسبیح نہ کرتے } ۔ چنانچہ قرآن کریم کی اور آیتوں میں ہے کہ ’ اس نے اندھیروں میں یہی کلمات کہے اور ہم نے اس کی دعا قبول فرما کر اسے غم سے نجات دی اور اسی طرح ہم مومنوں کو نجات دیتے ہیں ‘ ۔ ابن ابی حاتم کی ایک حدیث میں ہے کہ { یونس علیہ السلام نے جب مچھلی کے پیٹ میں ان کلمات کو کہا تو یہ دعا عرش اللہ کے اردگرد منڈلانے لگی اور فرشتوں نے کہا ” اللہ یہ آواز تو کہیں بہت ہی دور کی ہے لیکن اس آواز سے ہمارے کان آشنا ضرور ہیں “ ۔ اللہ نے فرمایا ’ اب بھی پہچان لیا یہ کس کی آواز ہے ؟ ‘ انہوں نے کہا نہیں پہچانا فرمایا ’ یہ میرے بندے یونس کی آواز ہے ‘ ۔ فرشتوں نے کہا وہی یونس جس کے نیک اعمال اور مقبول دعائیں ہمیشہ آسمان پر چڑھتی رہتی تھیں ؟ اللہ اس پر تو ضرور رحم فرما اس کی دعا قبول کر وہ تو آسانیوں میں بھی تیرا نام لیا کرتا تھا ۔ اسے بلا سے نجات دے ۔ اللہ نے فرمایا ’ ہاں ! میں اسے نجات دوں گا ‘ ۔ چنانچہ مچھلی کو حکم ہوا کہ میدان میں یونس کو اگل دے اور اس نے اگل دیا اور وہیں اللہ تعالیٰ نے ان پر ان کی نخیفی کمزوری اور بیماری کی وجہ سے چھاؤں کے لیے کدو کی بیل اگا دی اور ایک جنگلی بکری کو مقرر کر دیا جو صبح شام ان کے پاس آ جاتی تھی اور یہ اس کا دودھ پی لیا کرتے تھے } ۔۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:29601:ضعیف) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے یہ واقعات مرفوع احادیث سے سورۃ انبیاء کی تفسیر میں بیان ہو چکے ہیں ۔ ’ ہم نے انہیں اس زمین میں ڈال دیا جہاں سبزہ روئیدگی گھاس کچھ نہ تھا ‘ ۔ دجلہ کے کنارے یا یمن کی سر زمین پر یہ لادے گئے تھے ۔ وہ اس وقت کمزور تھے جیسے پرندوں کے بچے ہوتے ہیں ۔ یا بچہ جس وقت پیدا ہوتا ہے ۔ یعنی صرف سانس چل رہا تھا اور طاقت ہلنے جلنے کی بھی نہ تھی ۔ «یقطین» کدو کے درخت کو بھی کہتے ہیں اور ہر اس درخت کو جس کا تنا نہ ہو یعنی بیل ہو اور اس درخت کو بھی جس کی عمر ایک سال سے زیادہ نہیں ہوتی ۔ کدو میں بہت سے فوائد ہیں یہ بہت جلد اگتا اور بڑھتا ہے اس کے پتوں کا سایہ گھنا اور فرحت بخش ہوتا ہے کیونکہ وہ بڑے بڑے ہوتے ہیں اور اس کے پاس مکھیاں نہیں آتیں ۔ یہ غذا کا کام دے جاتا ہے اور چھلکے اور گودے سمیت کھایا جاتا ہے ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کدو یعنی گھیا بہت پسند تھا اور برتن میں سے چن چن کر اسے کھاتے تھے } ۔۱؎ (صحیح بخاری:5435) پھر انہیں ایک لاکھ بلکہ زیادہ آدمیوں کی طرف رسالت کے ساتھ بھیجا گیا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس سے پہلے آپ رسول نہ تھے ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں مچھلی کے پیٹ میں جانے سے پہلے ہی آپ علیہ السلام اس قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے تھے ۔ دونوں قولوں سے اس طرح تضاد اٹھ سکتا ہے کہ پہلے بھی ان کی طرف بھیجے گئے تھے اب دوبارہ بھی ان ہی کی طرف بھیجے گئے اور وہ سب ایمان لائے اور آپ کی تصدیق کی ۔ بغوی رحمہ اللہ کہتے ہیں مچھلی کے پیٹ سے نجات پانے کے بعد دوسری قوم کی طرف بھیجے گئے تھے ۔ یہاں «اَوْ» معنی میں بلکہ کے ہے اور وہ ایک لاکھ تیس ہزار یا اس سے بھی کچھ اوپر ۔ یا ایک لاکھ چالیس ہزار سے بھی زیادہ یا ستر ہزار سے بھی زیادہ یا ایک لاکھ دس ہزار اور ایک غریب مرفوع حدیث کی رو سے { ایک لاکھ بیس ہزار تھے } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3229،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے کہ انسانی اندازہ ایک لاکھ سے زیادہ ہی کا تھا ۔ ابن جریر رحمہ اللہ کا یہی مسلک ہے اور یہی مسلک ان کا آیت« اَوْ اَشَدٰ قَسْوَۃً» (2-البقرۃ:74) اور آیت «اَوْ اَشَدَّ خَشْـیَۃً» ۱؎ (4-النساء:77) اور آیت«اَوْ اَدْنٰی» ۱؎ (53-النجم:9) میں ہے یعنی ’ اس سے کم نہیں اس سے زائد ہے ‘ ۔ پس قوم یونس علیہ السلام سب کی سب مسلمان ہو گئی ، یونس علیہ السلام کی تصدیق کی اور اللہ پر ایمان لے آئے ۔ ’ ہم نے بھی ان کے مقررہ وقت یعنی موت کی گھڑی تک دنیوی فائدے دئے اور آیت میں ہے «فَلَوْلَا کَانَتْ قَرْ‌یَۃٌ آمَنَتْ فَنَفَعَہَا إِیمَانُہَا إِلَّا قَوْمَ یُونُسَ لَمَّا آمَنُوا کَشَفْنَا عَنْہُمْ عَذَابَ الْخِزْیِ فِی الْحَیَاۃِ الدٰنْیَا وَمَتَّعْنَاہُمْ إِلَیٰ حِینٍ» ۱؎ (10-یونس:98) ’ کسی بستی کے ایمان نے انہیں [ عذاب آ چکنے کے بعد ] نفع نہیں دیا سوائے قوم یونس کے وہ جب ایمان لائے تو ہم نے ان پر سے عذاب ہٹا لیے اور انہیں ایک معیاد معین تک بہرہ مند کیا ‘ ۔ الصافات
140 الصافات
141 الصافات
142 الصافات
143 الصافات
144 الصافات
145 الصافات
146 الصافات
147 الصافات
148 الصافات
149 مشرکین کا اللہ تعالٰی کے لئے دوہرا معیار اللہ تعالیٰ مشرکوں کی بیوقوفی بیان فرما رہا ہے کہ ’ اپنے لیے تو لڑکے پسند کرتے ہیں اور اللہ کے لیے لڑکیاں مقرر کرتے ہیں ۔ اگر لڑکی ہونے کی خبر یہ پائیں تو چہرے سیاہ پڑ جاتے ہیں اور اللہ کی لڑکیاں ثابت کرتے ہیں ‘ ۔ پس فرماتا ہے ’ ان سے پوچھ تو سہی کہ یہ تقسیم کیسی ہے ؟ کہ تمہارے تو لڑکے ہوں اور اللہ کے لیے لڑکیاں ہوں ؟ ‘ پھر فرماتا ہے کہ ’ یہ فرشتوں کو لڑکیاں کس ثبوت پر کہتے ہیں ؟ کیا ان کی پیدائش کے وقت وہ موجود تھے ‘ ۔ قرآن کی اور آیت « وَجَعَلُوا الْمَلَائِکَۃَ الَّذِینَ ہُمْ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ إِنَاثًا أَشَہِدُوا خَلْقَہُمْ سَتُکْتَبُ شَہَادَتُہُمْ وَیُسْأَلُونَ » ۱؎ (43-الزخرف:19) ، میں بھی یہی بیان ہے ۔ دراصل یہ قول ان کا محض جھوٹ ہے ۔ کہ اللہ کے ہاں اولاد ہے ۔ وہ اولاد سے پاک ہے ۔ پس ان لوگوں کے تین جھوٹ اور تین کفر ہوئے اول تو یہ کہ فرشتے اللہ کی اولاد ہیں دوسرے یہ کہ اولاد بھی لڑکیاں تیسرے یہ کہ خود فرشتوں کی عبادت شروع کر دی ۔ پھر فرماتا ہے کہ« أَلَکُمُ الذَّکَرُ وَلَہُ الْأُنثَیٰ تِلْکَ إِذًا قِسْمَۃٌ ضِیزَیٰ» ( 53-النجم : 21 ، 22 ) آخر کس چیز نے اللہ کو مجبور کیا کہ اس نے لڑکے تو لیے نہیں اور لڑکیاں اپنی ذات کے لیے پسند فرمائیں ؟ جیسے اور آیت میں ہے کہ «أَفَأَصْفَاکُمْ رَ‌بٰکُم بِالْبَنِینَ وَاتَّخَذَ مِنَ الْمَلَائِکَۃِ إِنَاثًا إِنَّکُمْ لَتَقُولُونَ قَوْلًا عَظِیمًا» ۱؎ (17-الإسراء:40) ’ تمہیں تو لڑکوں سے نوازے اور فرشتوں کو اپنی لڑکیاں بنائے یہ تو تمہاری نہایت درجہ کی لغویات ہے ‘ ۔ یہاں فرمایا ’ کیا تمہیں عقل نہیں جو ایسی دور از قیاس باتیں بناتے ہو تم سمجھتے نہیں ہو ڈرو کہ اللہ پر جھوٹ باندھنا کیسا برا ہے ؟ اچھا گر کوئی دلیل تمہارے پاس ہو تو لاؤ اسی کو پیش کرو ۔ یا اگر کسی آسمانی کتاب سے تمہارے اس قول کی سند ہو اور تم سچے ہو تو لاؤ اسی کو سامنے لے آؤ ۔ یہ تو ایسی لچر اور فضول بات ہے جس کی کوئی عقلی یا نقلی دلیل ہو ہی نہیں سکتی ‘ ۔ اتنے ہی پر بس نہ کی ، جنات میں اور اللہ میں بھی رشتے داری قائم کی ۔ مشرکوں کے اس قول پر کہ فرشتے اللہ کی لڑکیاں ہیں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے سوال کیا کہ ” پھر ان کی مائیں کون ہیں ؟ “ تو انہوں نے کہا جن سرداروں کی لڑکیاں ۔ حالانکہ خود جنات کو اس کا یقین و علم ہے کہ اس قول کے قائل قیامت کے دن عذابوں میں مبتلا کئے جائیں گے ۔ ان میں بعض دشمنان اللہ تو یہاں تک کم عقلی کرتے تھے کہ شیطان بھی اللہ کا بھائی ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:535/10:) نعوذ باللہ ۔ اللہ تعالیٰ اس سے بہت پاک منزہ اور بالکل دور ہے جو یہ مشرک اس کی ذات پر الزام لگاتے ہیں اور جھوٹے بہتان باندھتے ہیں ۔ اس کے بعد استثناء منقطع ہے اور ہے مثبت مگر اس صورت میں کہ «یَصِفُوْنَ» کی ضمیر کا مرجع تمام لوگ قرار دیئے جائیں ۔ پس ان میں سے ان لوگوں کو الگ کر لیا جو حق کے ماتحت ہیں اور تمام نبیوں رسولوں علیہم السلام پر ایمان رکھتے ہیں ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ استثناء «اِنَّہُمْ لَمُحْضَرُوْنَ» سے ہے یعنی ’ سب کے سب عذاب میں پھانس لیے جائیں گے مگر وہ بندگان جو اخلاص والے تھے ‘ ۔ یہ قول ذرا تامل طلب ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ الصافات
150 الصافات
151 الصافات
152 الصافات
153 الصافات
154 الصافات
155 الصافات
156 الصافات
157 الصافات
158 الصافات
159 الصافات
160 الصافات
161 فرشتوں کے اوصاف اللہ تعالیٰ مشرکوں سے فرما رہا ہے کہ ’ تمہاری گمراہی اور شرک و کفر کی تعلیم وہی قبول کریں گے جو جہنم کے لیے پیدا کئے گئے ہوں ۔ جو عقل سے خالی کانوں سے بہرے اور آنکھوں کے اندھے ہوں جو مثل چوپایوں کے بلکہ ان سے بھی بدرجہا بدتر ہوں ‘ ۱؎ (7-الأعراف:179)۔ جیسے اور جگہ فرمایا ہے کہ ’ اس سے وہی گمراہ ہو سکتے ہیں جو دماغ کے خالی اور باطل کے شیدائی ہوں ‘ ۱؎ (51-الذاریات:9-8)۔ ازاں بعد فرشتوں کی برأت اور ان کی تسلی و رضا ایمان و اطاعت کا ذکر فرمایا کہ ’ وہ خود کہتے ہیں کہ ہم میں سے ہر ایک کے لیے ایک مقرر جگہ اور ایک مقام عبادت مخصوص ہے جس سے نہ ہم ہٹ سکتے ہیں نہ اس میں کمی بیشی کر سکتے ہیں ‘ ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ { آسمان چر چرا رہا ہے اور واقع میں اسے چر چرانا بھی چاہیئے اس میں ایک قدم رکھنے جتنی جگہ بھی خالی نہیں جہاں کوئی نہ کوئی فرشتہ رکوع سجدے میں پڑا ہوا نہ ہو ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تینوں آیتوں کی تلاوت کی } ۱؎ (الدر المنشور للسیوطی:539/5:موضوع) ایک روایت میں { آسمان دنیا کا لفظ ہے } ۱؎ (سلسلۃ احادیث صحیحہ البانی:1059،) ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک بالشت بھر جگہ آسمانوں میں ایسی نہیں جہاں پر کسی نہ کسی فرشتے کے قدم یا پیشانی نہ ہو ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں پہلے تو مرد عورت ایک ساتھ نماز پڑھتے تھے لیکن اس آیت کے نزول کے بعد مردوں کو آگے بڑھا دیا گیا اور عورتوں کو پیچھے کر دیا گیا ۔ ’ اور ہم سب فرشتے صفہ بستہ عبادت اللہ کی کیا کرتے ہیں‘ ۔ آیت « وَالصّــٰفّٰتِ صَفًّا» ۱؎ ( 37- الصافات : 1 ) کی تفسیر میں اس کا بیان گذر چکا ہے ۔ ولید بن عبداللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس آیت کے نازل ہونے تک نماز کی صفیں نہیں تھیں پھر صفیں مقرر ہو گئیں ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اقامت کے بعد لوگوں کی طرف منہ کر کے فرماتے تھے ” صفیں ٹھیک درست کرلو سیدھے کھڑے ہو جاؤ اللہ تعالیٰ تم سے بھی فرشتوں کی طرف صف بندی چاہتا ہے ۔ جیسے وہ فرماتے ہیں «وَإِنَّا لَنَحْنُ الصَّافٰونَ» “ ۱؎ (37-الصافات:165) ” اے فلاں آگے بڑھ اے فلاں پیچھے ہٹ “ ۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ آگے بڑھ کر نماز شروع کرتے ۔ (ابن ابی حاتم) صحیح مسلم میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { ہمیں تین فضیلتیں ایسی دی گئی ہیں جن میں اور کوئی ہمارے ساتھ نہیں ۔ ہماری صفیں فرشتوں جیسی بنائی گئیں ۔ ہمارے لیے ساری زمین مسجد بنائی گئی اور ہمارے لیے زمین کی مٹی پاک کرنے والی بنائی گئی } } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:522) ’ ہم اللہ کی تسبیح اور پاکی بیان کرنے والے ہیں اس کی بزرگی اور بڑائی بیان کرتے ہیں ۔ تمام نقصانوں سے اسے پاک مانتے ہیں ۔ ہم سب فرشتے اس کے غلام ہیں اس کے محتاج ہیں اس کے سامنے اپنی پستی اور عاجزی کا اظہار کرنے والے ہیں ‘ ۔ پس یہ تینوں اوصاف فرشتوں کے ہیں ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ تسبیح کرنے والوں سے مراد نماز پڑھنے والے ہیں ۔ اور آیت میں ہے «وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا» ۱؎ (19-مریم:88) ، یعنی ’ کفار نے کہا اللہ کی اولاد ہے ‘ ، اللہ اس سے پاک ہے البتہ فرشتے اس کے محترم بندے ہیں اس کے فرمان سے آگے نہیں بڑھتے ، اس کے احکام پر عمل کرتے ہیں وہ ان کا آگا پیچھا بخوبی جانتا ہے وہ کسی کی شفاعت کا بھی اختیار نہیں رکھتے بجز اس کے جس کے لیے رحمان راضی ہو وہ تو خوف اللہ سے تھرتھراتے رہتے ہیں ۔ ان میں سے جو اپنے آپ کو لائق عبادت کہے ہم اسے جہنم میں جھونک دیں ظالموں کی سزا ہمارے ہاں یہی ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آئے ، اس سے پہلے تو یہ کہتے تھے کہ اگر ہمارے پاس کوئی آ جائے جو ہمیں اللہ کی راہ کی تعلیم دیتا اور ہمارے سامنے اگلے لوگوں کے واقعات بطور نصیحت پیش کرتا اور ہمارے پاس کتاب اللہ لے آتا تو یقیناً ہم مخلص مسلمان بن جاتے ۔ جیسے اور آیت میں ہے « وَأَقْسَمُوا بِ اللہِ جَہْدَ أَیْمَانِہِمْ لَئِن جَاءَہُمْ نَذِیرٌ‌ لَّیَکُونُنَّ أَہْدَیٰ مِنْ إِحْدَی الْأُمَمِ فَلَمَّا جَاءَہُمْ نَذِیرٌ‌ مَّا زَادَہُمْ إِلَّا نُفُورً‌ا» ۱؎ (35-فاطر:42) ، یعنی ’ بڑی پختہ قسمیں کھا کھا کر کہتے تھے کہ اگر کوئی نبی کریم ہماری موجودگی میں آ جائیں تو ہم بڑے نیک بن جائیں گے اور ہدایت کی راہ کی طرف سب سے پہلے دوڑیں گے ، لیکن جب نبی اللہ آ گئے تو بھاگ کھڑے ہوئے ‘ ۔ اور آیت میں فرمایا « أَن تَقُولُوا إِنَّمَا أُنزِلَ الْکِتَابُ عَلَیٰ طَائِفَتَیْنِ مِن قَبْلِنَا وَإِن کُنَّا عَن دِرَ‌اسَتِہِمْ لَغَافِلِینَ»الخ ۱؎ (6-الأنعام:156-157) ، پس یہاں فرمایا کہ ’ جب یہ تمنا پوری ہوئی تو کفر کرنے لگے ۔ اب انہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ اللہ سے کفر کرنے کا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلانے کا کیا نتیجہ نکلتا ہے ؟‘ الصافات
162 الصافات
163 الصافات
164 الصافات
165 الصافات
166 الصافات
167 الصافات
168 الصافات
169 الصافات
170 الصافات
171 عذاب الٰہی آ کر رہے گا ارشاد باری ہے کہ ہم تو اگلی کتابوں میں بھی لکھ آئے ہیں پہلے نبیوں کی زبانی بھی دنیا کو سنا چکے ہیں کہ دنیا اور آخرت میں ہمارے رسول اور ان کے تابعداروں ہی کا انجام بہتر ہوتا ہے جیسے فرمایا «کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ ۭ اِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ» ۱؎ (58-المجادلۃ:21) ، اور فرمایا «اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوۃِ الدٰنْیَا وَیَوْمَ یَقُوْمُ الْاَشْہَادُ» ۱؎ (40-غافر:51) ، یعنی ’ میں ، میرے رسول اور ایماندار ہی دونوں جہان میں غالب رہیں گے ‘ ۔ یہاں بھی یہی فرمایا کہ ’ رسولوں سے ہمارا وعدہ ہو چکا ہے ۔ کہ وہ منصور ہیں ۔ ہم خود ان کی مدد کریں گے ۔ دیکھتے چلے آؤ کہ ان کے دشمن کس طرح خاک میں ملا دیئے گئے ؟ یاد رکھو ہمارا لشکر ہی غالب رہے گا ۔ انجام کار انہی کے ہاتھ رہے گا ۔ تو ایک وقت مقررہ تک صبر و استقامت سے معاملہ دیکھتا رہ ان کی ایذاؤں پر صبر کر ہم تجھے ان سب پر غالب کر دیں گے ۔ دنیا نے دیکھ لیا کہ یہی ہوا بھی تو انہیں دیکھتا رہ کہ کس طرح اللہ کی پکڑ ان پر نازل ہوتی ہے ؟ اور کس طرح یہ ذلت و توہین کے ساتھ پکڑ لیے جاتے ہیں ؟ یہ خود ان تمام رسوائیوں کو ابھی ابھی دیکھ لیں گے ۔ تعجب سا تعجب ہے کہ یہ طرح طرح کے چھوٹے چھوٹے عذابوں کی گرفت کے باوجود ابھی تک بڑے عذاب کو محال جانتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ کب آئے گا ؟ ‘ پس انہیں جواب ملتا ہے کہ ’ جب عذاب ان کے میدانوں میں ، محلوں میں ، انگنائیوں میں آئے گا وہ دن ان پر بڑا ہی بھاری دن ہو گا ۔ یہ ہلاک اور برباد کر دیئے جائیں گے ‘ ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ { خیبر کے میدانوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا لشکر صبح ہی صبح کفار کی بے خبری میں پہنچ گیا وہ لوگ حسب عادت اپنی کھیتیوں کے آلات لے کر شہر سے نکلے اور اس اللہ کی فوج کو دیکھ کر بھاگے اور شہر والوں کو خبر کی ، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا کہ { اللہ بہت بڑا ہے خیبر خراب ہوا ۔ ہم جب کسی قوم کے میدان میں اتر آتے ہیں اس وقت ان کی درگت ہوتی ہے } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:371) پھر دوبارہ پہلے حکم کی تاکید کی کہ ’ تو ان سے ایک مدت معین تک کے لیے بے پرواہ ہو جا اور انہیں چھوڑ دے اور دیکھتا رہ یہ بھی دیکھ لیں گے ‘ ۔ الصافات
172 الصافات
173 الصافات
174 الصافات
175 الصافات
176 الصافات
177 الصافات
178 الصافات
179 الصافات
180 اللہ تعالٰی مشرکین کے بہتانات سے مبرا ہے اللہ تعالیٰ ان تمام چیزوں سے اپنی برأت بیان فرماتا ہے جو مشرکین اس کی طرف منسوب کرتے تھے ۔ جیسے اولاد شریک وغیرہ ۔ وہ بہت بڑی اور لازوال عزت والا ہے ۔ ان جھوٹے اور مفتری لوگوں کے بہتان سے وہ پاک اور منزہ ہے ۔ اللہ کے رسولوں پر سلام ہے اس لیے کہ ان کی تمام باتیں ان عیوب سے مبرا ہیں جو مشرکوں کی باتوں میں موجود ہیں بلکہ نبیوں کی باتیں اور اوصاف جو اللہ تعالیٰ کے بارے میں بیان کرتے ہیں سب صحیح اور برحق ہیں ۔ اسی کی ذات کے لیے تمام حمد و ثناء ہے دنیا اور آخرت میں ابتداء اور انتہاء کا وہی سزاوار تعریف ہے ۔ ہر حال میں قابل حمد وہی ہے ۔ تسبیح سے ہر طرح کے نقصان سے اس کی ذات پاک سے دوری ثابت ہوتی ہے ، تو ثابت ہوتا ہے کہ ہر طرح کے کمالات کی مالک اس کی ذات واحد ہے ۔ اسی کو صاف لفظوں میں حمد ثابت کیا ۔ تاکہ نقصانات کی نفی اور کمالات کا اثبات ہو جائے ۔ ایسے ہی قران کریم کی بہت سی آیتوں میں تسبیح اور حمد کو ایک ساتھ بیان کیا گیا ہے ۔ حضرت قتادہ رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا { تم جب مجھ پر سلام بھیجو اور نبیوں پر بھی سلام بھیجو کیونکہ میں بھی منجملہ اور نبیوں میں سے ایک نبی ہی ہوں } ۔ } ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:29704:) یہ حدیث مسند میں بھی مروی ہے ۔ ابویعلیٰ کی ایک ضعیف حدیث میں ہے { جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سلام کا ارادہ کرتے تو ان تینوں آیتوں کو پڑھ کرسلام کرتے } ۔ ۱؎ (مسند ابویعلیٰ:1118:ضعیف) ابن ابی حاتم میں ہے { جو شخص یہ چاہے کہ بھرپور پیمانے سے ناپ کر اجر پائے تو وہ جس کسی مجلس میں ہو وہاں سے اٹھتے ہوئے یہ تینوں آیتیں پڑھ لے } ۱؎ (الدر المنشور للسیوطی:554/5:ضعیف)، اور سند سے یہ روایت سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے موقوفاً مروی ہے ۔۱؎ (بغوی:40/4:ضعیف) طبرانی کی حدیث میں ہے { جو شخص ہر فرض نماز کے بعد تین مرتبہ ان تینوں آیتوں کی تلاوت کرے اسے بھرپور اجر پورے پیمانے سے ناپ کر ملے گا } ۔۱؎ (طبرانی کبیر:5124:ضعیف) مجلس کے کفارے کے بارے میں بہت سی احادیث میں آیا ہے کہ { یہ پڑھے «سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ وَبِحَمْدِکَ اَلَّااِلٰہَ اِلَّااَنْتَ اَسْتَغْفِرُکَ وَاَتُوْبُ اِلَیْکَ» } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4857،قال الشیخ الألبانی:صحیح) میں نے اس مسئلہ پر ایک مستقل کتاب لکھی ہے ۔ الصافات
181 الصافات
182 الصافات
0 ص
1 نصیحت دینے والا قرآن حروف مقطعات جو سورتوں کے شروع میں آتے ہیں ان کی پوری تفسیر سورۃ البقرہ کے شروع میں گذر چکی ہے ۔ یہاں قرآن کی قسم کھائی اور اسے پند و نصیحت کرنے والا فرمایا ۔ کیونکہ اس کی باتوں پر عمل کرنے والے کی دین و دنیا دونوں سنور جاتی ہیں اور آیت میں ہے« لَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکُمْ کِتٰبًا فِیْہِ ذِکْرُکُمْ ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ» ( 21- الأنبیاء : 10 ) اس قرآن میں تمہارے لیے نصیحت ہے اور یہ بھی مطلب ہے کہ قرآن شرافت میں بزرگ عزت و عظمت والا ہے ۔ اب اس قسم کا جواب بعض کے نزدیک تو «اِنْ کُلٌّ اِلَّا کَذَّبَ الرٰسُلَ فَحَقَّ عِقَابِ» ( 38- ص : 14 ) ، ہے ۔ بعض کہتے ہیں «اِنَّ ذٰلِکَ لَحَــقٌّ تَخَاصُمُ اَہْلِ النَّارِ» ( 38- ص : 64 ) ، ہے لیکن یہ زیادہ مناسب نہیں معلوم ہوتا ۔ حضرت قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس کا جواب اس کے بعد کی آیت ہے ۔ ابن جریر رحمہ اللہ اسی کو مختار بتاتے ہیں ۔ بعض عربی داں کہتے ہیں اس کا جواب ص ہے اور اس لفظ کے معنی صداقت اور حقانیت کے ہیں ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ پوری سورت کا خلاصہ اس قسم کا جواب ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ پھر فرماتا ہے یہ قرآن تو سراسر عبرت و نصیحت ہے مگر اس سے فائدہ وہی اٹھاتے ہیں جن کے دل میں ایمان ہے کافر لوگ اس فائدے سے اس لیے محروم ہیں کہ وہ متکبر ہیں اور مخالف ہیں یہ لوگ اپنے سے پہلے اور اپنے جیسے لوگوں کے انجام پر نظر ڈالیں تو اپنے انجام سے ڈریں ۔ اگلی امتیں اسی جرم پر ہم نے تہ و بالا کر دی ہیں عذاب آ پڑنے کے بعد تو بڑے روئے پیٹے خوب آہ و زاری کی لیکن اس وقت کی تمام باتیں بےسود ہیں ۔ جیسے فرمایا « فَلَمَّآ اَحَسٰوْا بَاْسَنَآ اِذَا ہُمْ مِّنْہَا یَرْکُضُوْنَ » ( 21- الأنبیاء : 12 ) ہمارے عذابوں کو معلوم کر کے ان سے بچنا اور بھاگنا چاہا ۔ لیکن یہ کیسے ہو سکتا تھا ؟ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اب بھاگنے کا وقت نہیں نہ فریاد کا وقت ہے ، اس وقت کوئی فریاد رسی نہیں کر سکتا ۔ چاہو جتنا چیخو چلاؤ محض بےسود ہے ۔ اب توحید کی قبولیت غیر نافع ، توبہ بیکار ہے ۔ یہ بیوقت کی پکار ہے ۔ «لَاتَ» معنی « لا» کے ہے ۔ اس میں ”ت“ زائد ہے جیسے ثم میں بھی ”ت“ زیادہ ہوتی ہے اور ربت میں بھی ۔ یہ مفصولہ ہے اور اس پر وقف ہے ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ کا قول ہے کہ یہ ”ت“ «حین» سے ملی ہوئی ہے یعنی «ولاتحین» ہے ، لیکن مشہور اول ہی ہے ۔ جمہور نے «حین» کو زبر سے پڑھا ہے ۔ تو مطلب یہ ہو گا کہ یہ وقت آہو زاری کا وقت نہیں ۔ بعض نے یہاں زیر پڑھنا بھی جائز رکھا ہے لغت میں «نوص» کہتے ہیں پیچھے ہٹنے کو اور «بوص» کہتے ہیں آگے بڑھنے کو پس مقصد یہ ہے کہ یہ وقت بھاگنے اور نکل جانے کا وقت نہیں واللہ الموافق ۔ ص
2 ص
3 ص
4 مشرکین کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر تعجب حضور علیہ السلام کی رسالت پر کفار کے حماقت آمیز تعجب کا اظہار ہو رہا ہے جیسے اور آیت میں ہے «اَکَان للنَّاسِ عَجَبًا اَنْ اَوْحَیْنَآ اِلٰی رَجُلٍ مِّنْھُمْ اَنْ اَنْذِرِ النَّاسَ وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنَّ لَھُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّہِمْ ڼ قَالَ الْکٰفِرُوْنَ اِنَّ ھٰذَا لَسٰحِرٌ مٰبِیْنٌ » ( 10- یونس : 2 ) کیا لوگوں کو اس بات سے تعجب ہوا کہ ان میں سے ایک انسان کی طرف ہم نے وحی کی تاکہ وہ لوگوں کو ہوشیار کر دے اور ایمانداروں کو اس بات کی خوشخبری سنا دے کہ اس کے پاس ان کے لیے بہترین لائحہ عمل ہے ۔ کافر تو ہمارے رسول کو کھلا جادوگر کہنے لگے ۔ یہیں پر یہ ذکر ہے کہ انہی میں سے انہی جیسے ایک انسان کے رسول بن کر آنے پر انہیں تعجب ہوا اور کہنے لگے کہ یہ تو جادوگر اور کذاب ہے ۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر تعجب کے ساتھ ہی اللہ کی وحدانیت پر بھی انہیں تعجب معلوم ہوا اور کہنے لگے کہ اور سنو اتنے سارے معبودوں کے بدلے یہ تو کہتا ہے کہ اللہ ایک ہی ہے اور اس کا کوئی کسی طرح کا شریک ہی نہیں ان بیوقوفوں کو اپنے بڑوں کی دیکھا دیکھی جس شرک و کفر کی عادت تھی اس کے خلاف آواز سن کر ان کے دل دکھنے اور رکنے لگے اور وہ توحید کو ایک انوکھی اور انجان چیز سمجھنے لگے ۔ ان کے بڑوں اور سرداروں نے تکبر کے ساتھ منہ موڑتے ہوئے اعلان کیا کہ اپنے قدیمی مذہب پر جمے رہو ۔ اس کی بات نہ مانو اور اپنے معبودوں کی عبادت کرتے رہو ۔ یہ تو صرف اپنے مطلب کی باتیں کہتا ہے ۔ یہ اس بہانے اپنی جما رہا ہے کہ یہ تمہارا سب کا بڑا بن جائے اور تم اس کے تابع فرمان ہو جاؤ ۔ ان آیتوں کا شان نزول یہ ہے کہ ایک بار قریشیوں کے شریف اور سردار رؤسا ایک مرتبہ جمع ہوئے ان میں ابوجہل بن ہشام عاص بن وائل اسود بن المطلب اسود بن عبد یغوث وغیرہ بھی تھے اور سب نے اس بات پر اتفاق کیا کہ چل کر آج ابوطالب سے آخری فیصلہ کر لیں وہ انصاف کے ساتھ ایک بات ہمارے ذمہ ڈال دے اور ایک اپنے بھتیجے کے ذمے ۔ کیونکہ یہ اب انتہائی عمر کو پہنچ چکے ہیں چراغ سحری ہو رہے ہیں اگر مر گئے اور ان کے بعد ہم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی مصیبت پہنچائی تو عرب میں طعنہ دیں گے کہ بڈھے کی موجودگی تک تو کچھ نہ چلی اور ان کی موت کے بعد بہادری آ گئی ۔ چنانچہ ایک آدمی بھیج کر ابوطالب سے اجازت مانگی ان کی اجازت پر سب گھر میں گئے اور کہا سنئے جناب ! آپ ہمارے سردار ہیں بزرگ ہیں بڑے ہیں ۔ ہم آپ کے بھتیجے سے اب بہت تنگ آ گئے ہیں آپ انصاف کے ساتھ ہم میں اور اس میں فیصلہ کر دیجئیے ۔ دیکھئیے ہم آپ سے انصاف چاہتے ہیں وہ ہمارے معبودوں کو برا نہ کہیں اور نہ ہم انہیں ستائیں وہ مختار ہیں جس کی چاہیں عبادت کریں لیکن ہمارے معبودوں کو برا نہ کہیں ۔ ابوطالب نے آدمی بھیج کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بلوایا اور کہا جان پدر دیکھتے ہو آپ کی قوم کے سردار اور بزرگ سب جمع ہوئے ہیں اور آپ سے صرف یہ چاہتے ہیں کہ آپ ان کے معبودوں کی توہین اور برائی کرنے سے باز آ جائیں اور یہ آپ کو آپ کے دین پر چلنے میں آزادی دے رہے ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چچا جان کیا میں انہیں بہترین اور بڑی بھلائی کی طرف نہ بلاؤں ؟ ابوطالب نے کہا وہ کیا ہے ؟ فرمایا یہ ایک کلمہ کہدیں صرف اس کے کہنے کی وجہ سے سارا عرب ان کے ماتحت ہو جائے گا اور سارے عجم پر ان کی حکومت ہو جائے گی ۔ ابوجہل ملعون نے سوال کیا کہ اچھا بتاؤ وہ ایسا کون سا کلمہ ہے ؟ ایک نہیں ہم دس کہنے کو تیار ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہو «لا الہ الا اللہ» بس یہ سننا تھا کہ شور و غل کر دیا اور کہنے لگے اس کے سوا جو تو مانگے ہم دینے کو تیار ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم سورج کو بھی لا کر میرے ہاتھ پر رکھ دو تو بھی تو تم سے اس کلمے کے سوا اور کچھ نہیں مانگوں گا ۔ سارے کے سارے مارے غصے اور غضب کے بھنا کر کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے واللہ ہم تجھے اور تیرے اللہ کو گالیاں دیں گے جس نے تجھے یہ حکم دیا ہے ۔ اب یہ چلے اور ان کے سردار یہ کہتے رہے کہ جاؤ اپنے دین پر اور اپنے معبودوں کی عبادت پر جمے رہو ۔ معلوم ہو گیا کہ اس شخص کا تو ارادہ ہی اور ہے یہ تو بڑا بننا چاہتا ہے ۔ ( ابن ابی حاتم وغیرہ ) ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ ان کے بھاگ جانے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا سے کہا کہ آپ ہی اس کلمے کو پڑھ لیجئے اس نے کہا نہیں میں تو اپنے باپ دادؤں اور قوم کے بڑوں کے دین پر ہی رہوں گا ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا کہ « إِنَّکَ لَا تَہْدِی مَنْ أَحْبَبْتَ وَلٰکِنَّ اللہَ یَہْدِی مَن یَشَاءُ ۚ وَہُوَ أَعْلَمُ بِالْمُہْتَدِینَ» ( 28-القص : 56 ) جسے تو چاہے ہدایت نہیں کر سکتا ۔(تفسیر ابن جریر الطبری:29750:مرسل) اور روایت میں ہے کہ اس وقت ابوطالب بیمار تھے اور اسی وجہ سے وہ مرا بھی ۔ جس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اس وقت ابوطالب کے پاس ایک آدمی کے بیٹھنے کی جگہ خالی تھی باقی تمام گھر آدمیوں سے بھرا ہوا تھا تو ابوجہل خبیث نے خیال کیا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم آ کر اپنے چچا کے پاس بیٹھ گئے تو زیادہ اثر ڈال سکیں گے اس لیے یہ ملعون کود کر وہاں جا بیٹھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دروازہ کے پاس ہی بیٹھنا پڑا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ایک کلمہ کہنے کو کہا تو سب نے جواب دیا کہ ایک نہیں دس ہم سب منتظر ہیں فرمایئے وہ کیا کلمہ ہے ؟ اور جب کلمہ توحید آپ کی زبانی سنا تو کپڑے جھاڑتے ہوئے بھاگ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے لو اور سنو یہ تو سارے معبودوں کا ایک معبود بنا رہا ہے ۔ اس پر یہ آیتیں ، «بَل لَّمَّا یَذُوقُوا عَذَابِ» ( 38-سورۃ ص : 8 ) تک ، اتریں ۔ امام ترمذی اس روایت کو حسن کہتے ہیں ۔(سنن ترمذی:3232،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ص
5 ص
6 ص
7 ص
8 1 ہم نے تو یہ بات نہ اپنے دین میں دیکھی نہ نصرانیوں کے دین میں ۔ یہ بالکل غلط اور جھوٹ اور بےسند بات ہے ۔ یہ کیسے کچھ تعجب کی بات ہے کہ اللہ میاں کو کوئی اور نظر ہی نہ آیا اور اس پر قرآن اتار دیا ۔ جیسے ایک اور آیت میں ان کا قول ہے « وَقَالُوْا لَوْلَا نُزِّلَ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰی رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْیَـتَیْنِ عَظِیْمٍ أَہُمْ یَقْسِمُونَ رَحْمَتَ رَبِّکَ ۚ نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَہُم مَّعِیشَتَہُمْ فِی الْحَیَاۃِ الدٰنْیَا ۚ وَرَفَعْنَا بَعْضَہُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِّیَتَّخِذَ بَعْضُہُم بَعْضًا سُخْرِیًّا ۗ وَرَحْمَتُ رَبِّکَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُونَ» ( 43- الزخرف : 32 ، 31 ) یعنی ان دونوں شہروں میں کے کسی بڑے آدمی پر یہ قرآن کیوں نہ اتارا گیا ؟ جس کے جواب میں جناب باری کا ارشاد ہوا کہ کیا یہی لوگ رب کی رحمت کی تقسیم کرنے والے ہیں ؟ یہ تو اس قدر محتاج ہیں کہ ان کی اپنی روزیاں اور درجے بھی ہم تقسیم کرتے ہیں ۔ الغرض یہ اعتراض بھی ان کی حماقت کا غرہ تھا ۔ اللہ فرماتا ہے ، یہ ہے ان کے شک کا نتیجہ اور وجہ یہ ہے کہ اب تک یہ چکنی چپڑی کھاتے رہے ہیں ہمارے عذابوں سے سابقہ نہیں پڑا ۔ کل قیامت کے دن جبکہ دھکے دے کر جہنم میں گرائے جائیں گے ۔ اس وقت اپنی اس سرکشی کا مزہ پائیں گے ۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنا قبضہ اور اپنی قدرت ظاہر فرماتا ہے کہ جو وہ چاہے کرے ، جسے چاہے جو چاہے دے ، عزت ذلت اس کے ہاتھ ہے ، ہدایت ضلالت اس کی طرف سے ہے ۔ وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے وحی نازل فرمائے اور جس کے دل پر چاہے اپنی مہر لگا دے بندوں کے اختیار میں کچھ نہیں وہ محض بے بس بالکل لاچار اور سراسر مجبور ہیں ۔ اسی لیے فرمایا کیا ان کے پاس اس بلند جناب غالب ، وہاب اللہ کی رحمت کے خزانے ہیں ؟ یعنی نہیں ہیں جیسے فرمایا « اَمْ لَھُمْ نَصِیْبٌ مِّنَ الْمُلْکِ فَاِذًا لَّا یُؤْتُوْنَ النَّاسَ نَقِیْرًا أَمْ یَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَیٰ مَا آتَاہُمُ اللہُ مِن فَضْلِہِ ۖ فَقَدْ آتَیْنَا آلَ إِبْرَاہِیمَ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَآتَیْنَاہُم مٰلْکًا عَظِیمًا فَمِنْہُم مَّنْ آمَنَ بِہِ وَمِنْہُم مَّن صَدَّ عَنْہُ ۚ وَکَفَیٰ بِجَہَنَّمَ سَعِیرًا » ( 4- النسآء : 55-53 ) ، اگر اللہ کی حکمرانی کا کوئی حصہ ان کے ہاتھ میں ہوتا تو یہ بخیل تو کسی کو ٹکڑا بھی نہ کھانے دیتے ۔ اور انہیں لوگوں کے ہاتھوں میں اللہ کا فضل دیکھ کر حسد آ رہا ہے ؟ ہم نے آل ابراہیم کو کتاب و حکمت اور بہت بڑی سلطنت دی تھی ۔ ان میں سے بعض تو ایمان لائے اور بعض ایمان سے رکے رہے جو بھڑکتی جہنم کے لقمے بنیں گے وہ آگ ہی انہیں کافی ہے ۔ اور آیت میں ہے «قُلْ لَّوْ اَنْتُمْ تَمْلِکُوْنَ خَزَاۗیِٕنَ رَحْمَۃِ رَبِّیْٓ اِذًا لَّاَمْسَکْتُمْ خَشْیَۃَ الْاِنْفَاقِ ۭ وَکَانَ الْاِنْسَانُ قَتُوْرًا » ( 17- الإسراء : 100 ) ۔ یعنی اگر میرے رب کی رحمتوں کے خزانے تمہاری ملکیت میں ہوتے تو تم تو کمی سے ڈر کر خرچ کرنے سے رک جاتے انسان ہے ہی ناشکرا ۔ قوم صالح نے بھی اپنے نبی  سے یہی کہا تھا کہ«أَأُلْقِیَ الذِّکْرُ عَلَیْہِ مِن بَیْنِنَا بَلْ ہُوَ کَذَّابٌ أَشِرٌ سَیَعْلَمُونَ غَدًا مَّنِ الْکَذَّابُ الْأَشِرُ» ( 54-القمر : 25 -26 ) ، کیا ہم سب کو چھوڑ کر اسی پر ذکر اتارا گیا ؟ نہیں بلکہ یہ کذاب اور شریر ہے ۔ اللہ فرماتا ہے کل معلوم کر لیں گے کہ ایسا کون ہے ؟ پھر فرمایا کیا زمین آسمان اور اس کے درمیان کی چیزوں پر ان کا اختیار ہے ؟ اگر ایسا ہے تو پھر آسمانوں کی راہوں پر چڑھ جائیں ساتویں آسمان پر پہنچ جائیں ۔ یہ یہاں کا لشکر بھی عنقریب ہزیمت و شکست اٹھائے گا اور مغلوب و ذلیل ہو گا ۔ جیسے اور بڑے بڑے گروہ حق سے ٹکرائے اور پاش پاش ہو گئے ، جیسے اور آیت میں ہے « اَمْ یَقُوْلُوْنَ نَحْنُ جَمِیْعٌ مٰنْتَــصِرٌ سَیُہْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلٰونَ الدٰبُرَ بَلِ السَّاعَۃُ مَوْعِدُہُمْ وَالسَّاعَۃُ أَدْہَیٰ وَأَمَرٰ» ( 54- القمر : 46-44 ) ، یعنی کیا ان کا قول ہے کہ ہم بڑی جماعت ہیں اور ہم ہی فتح یاب رہیں گے ؟ سنو انہیں ابھی ابھی شکست فاش ہو گی اور پیٹھ دکھاتے ہوئے بزدلی کے ساتھ بدحواس ہو کر بھاگ کھڑے ہوں گے ۔ چنانچہ بدر والے دن اللہ کی فرماں روائی نے اللہ کی باتوں کی سچائی انہیں اپنی آنکھوں سے دکھائی اور ابھی ان کے عذابوں کے وعدے کا دن تو آخرت کا دن ہے جو سخت کڑوا اور نہایت دہشت ناک اور وحشت والا ہے ۔ ص
9 ص
10 ص
11 ص
12 گذشتہ مفرور قوموں کا انجام ان سب کے واقعات کئی مرتبہ بیان ہو چکے ہیں کہ کس طرح ان پر ان کے گناہوں کی وجہ سے اللہ کے عذاب ٹوٹ پڑے ۔ یہی وہ جماعتیں ہیں جو مال اولاد میں قوۃ و طاقت میں زور اور ذر میں تمہارے زمانہ کے ان کٹر کافروں سے بہت بڑھی ہوئی تھیں لیکن امر الٰہی کے آ چکنے کے بعد انہیں کوئی چیز کام نہ آئی ۔ پھر ان کی تباہی کی وجہ بھی بیان ہوئی کہ یہ رسولوں کے دشمن تھے انہیں جھوٹا کہتے تھے ۔ انہیں صرف صور کا انتظار ہے اور اس میں بھی کوئی دیر نہیں بس وہ ایک آواز ہو گی کہ جس کے کان میں پڑی بے ہوش و بے جان ہو گیا ۔ سوائے ان کے جنہیں رب نے مستثنیٰ کر دیا ہے ۔ « قِطَّ» کے معنی کتاب اور حصے کے ہیں ۔ مشرکین کی بیوقوفی اور ان کا عذابوں کو محال سمجھ کر نڈر ہو کر عذابوں کے طلب کرنے کا ذکر ہو رہا ہے ۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ «وَإِذْ قَالُوا اللہُمَّ إِن کَانَ ہٰذَا ہُوَ الْحَقَّ مِنْ عِندِکَ فَأَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَۃً مِّنَ السَّمَاءِ أَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِیمٍ » ( 8-الأنفال : 32 ) انہوں نے کہا اللہ اگر یہ صحیح ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا یا اور کوئی درد ناک عذاب آسمانی ہمیں پہنچا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ انہوں نے اپنا جنت کا حصہ یہاں طلب کیا اور یہ جو کچھ کہا یہ بہ وجہ اسے جھوٹا سمجھنے اور محال جاننے کے تھا ۔ ابن جریر کا فرمان ہے کہ جس خیر و شر کے وہ دنیا میں مستحق تھے اسے انہوں نے جلد طلب کیا ۔ یہی بات ٹھیک ہے حضرت ضحاک رحمہ اللہ اور اسماعیل رحمہ اللہ کی تفسیر کا ماحصل بھی یہی ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کی اس تکذیب اور ہنسی کے مقابلے میں اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو صبر کی تعلیم دی اور برداشت کی تلقین کی ۔ ص
13 ص
14 ص
15 ص
16 ص
17 داؤد علیہ السلام کی فراست «ذَا الْأَیْدِ» سے مراد علمی اور عملی قوت والا ہے اور صرف قوۃ والے کے معنی بھی ہوتے ہیں جیسے فرمان ہے« وَالسَّمَاۗءَ بَنَیْنٰہَا بِاَیْیدٍ وَّاِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ» ( 51- الذاریات : 47 ) ، مجاہد فرماتے ہیں مراد اطاعت کی طاقت ہے ۔ حضرت داؤد علیہ السلام کو عبادت کی قدرت اور اسلام کی فقہ عطا فرمائی گی تھی ۔ یہ مذکور ہے کہ آپ ہر رات تہائی رات تک تہجد میں کھڑے رہتے تھے اور ایک دن بعد ایک دن ہمیشہ روزے سے رہتے تھے ۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ اللہ کو سب سے زیادہ پسند داؤد علیہ السلام کی رات کی نماز اور انہی کے روزے تھے ۔ آپ آدھی رات سوتے اور تہائی رات قیام کرتے اور چھٹا حصہ رات کا پھر سو جاتے ، اور ایک دن روزہ رکھتے ایک دن نہ رکھتے اور دشمنان دین سے جہاد کرنے میں پیٹھ نہ دکھاتے اور اپنے ہر حال میں اللہ کی طرف رغبت و رجوع رکھتے ۔ (صحیح بخاری:1131) پہاڑوں کو ان کے ساتھ مسخر کر دیا تھا ۔ وہ آپ علیہ السلام کے ساتھ سورج کے ڈھلنے کے وقت اور دن کے آخری وقت تسبیح بیان کرتے ۔ جیسے فرمان ہے «یٰجِبَالُ اَوِّبِیْ مَعَہٗ وَالطَّیْرَ ۚ وَاَلَنَّا لَہُ الْحَدِیْدَ » ( 34- سبأ : 10 ) یعنی اللہ نے پہاڑوں کو ان کے ساتھ رجوع کرنے کا حکم دیا تھا ۔ اسی طرح پرندے بھی آپ کی آواز سن کر آپ کے ساتھ اللہ کی پاکی بیان کرنے لگ جاتے اڑتے ہوئے پرند پاس سے گذرتے اور آپ توراۃ پڑھتے ہوتے تو آپ کے ساتھ وہ بھی تلاوت میں مشغول ہو جاتے اور اڑنا بھول جاتے بلکہ ٹھہر جاتے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ والے دن ضحیٰ کے وقت ام ہانی رضی اللہ عنہا کے گھر میں آٹھ رکعت نماز ادا کی ۔ ابن عباس فرماتے ہیں میرا خیال ہے کہ یہ بھی وقت نماز ہے جیسے فرمان ہے «اِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَہٗ یُسَبِّحْنَ بالْعَشِیِّ وَالْاِشْرَاقِ» ( 38- ص : 18 ) ۔ سیدنا عبداللہ بن حارث بنی نوفل کہتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ضحیٰ کی نماز نہیں پڑھتے تھے ایک دن میں انہیں ام ہانی رضی اللہ عنہا کے ہاں لے گیا اور کہا کہ آپ ان سے وہ حدیث بیان کیجئے جو آپ نے مجھ سے بیان فرمائی تھی ۔ تو مائی صاحبہ نے فرمایا فتح مکہ والے دن میرے گھر میں میرے پاس اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آئے ۔ پھر ایک برتن میں پانی بھروایا اور ایک کپڑا تان کر نہانے بیٹھ گئے پھر گھر کے ایک کونے میں پانی چھڑک کر آٹھ رکعت صلوۃ ضحیٰ کی ادا کیں ، ان کا قیام رکوع سجدہ اور جلوس سب قریب قریب برابر تھے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ جب یہ سن کر وہاں سے نکلے تو فرمانے لگے پورے قرآن کو میں نے پڑھ لیا میں نہیں جانتا کہ ضحیٰ کی نماز کیا ہے آج مجھے معلوم ہوا کہ «اِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَہٗ یُسَبِّحْنَ بالْعَشِیِّ وَالْاِشْرَاقِ» ( 38- ص : 18 ) والی آیت میں بھی اشراق سے مراد یہی ضحیٰ ہے ۔ چنانچہ اس کے بعد انہوں نے اپنے اگلے قول سے رجوع کر لیا ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:29804:حسن بالشواھد) جب داؤد اللہ کی پاکیزگی اور بزرگی بیان فرماتے تو پرندے بھی ہواؤں میں رک جاتے تھے اور داؤد کی ماتحتی میں ان کی تسبیح کا ساتھ دیتے تھے ۔ اور اس کی سلطنت ہم نے مضبوط کر دی اور بادشاہوں کو جن جن چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے ہم نے اسے سب دے دیں ۔ چار ہزار تو ان کی محافظ سپاہ تھی ۔ اس قدر فوج تھی کہ ہر رات تینتیس ہزار فوجی پہرے پر چڑھتے تھے لیکن جو آج کی رات آتے پھر سال بھر تک ان کی باری نہ آتی ۔ چالیس ہزار آدمی ہر وقت ان کی خدمت میں مسلح تیار رہتے ۔ ایک روایت میں ہے کہ ان کے زمانے میں بنی اسرائیل کے دو آدمیوں میں ایک مقدمہ ہوا ۔ ایک نے دوسرے پر دعویٰ کیا کہ اس نے میری گائے غصب کر لی ہے ۔ دوسرے نے اس جرم سے انکار کیا داؤد علیہ السلام نے مدعی سے دلیل طلب کی وہ کوئی گواہ پیش نہ کر سکا آپ علیہ السلام نے فرمایا اچھا تمہیں کل فیصلہ سنایا جائے گا ۔ رات کو داؤد کو خواب میں حکم ہوا کہ دعویدار کو قتل کر دو ۔ صبح آپ نے دونوں بلوایا اور حکم دیا کہ اس مدعی کو قتل کر دیا جائے ۔ اس نے کہا اے اللہ کے نبی علیہ السلام آپ میرے ہی قتل کا حکم دے رہے ہیں حالانکہ اس نے میری گائے چرالی ہے ۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا یہ میرا حکم نہیں یہ اللہ کا فیصلہ ہے اور ناممکن ہے کہ یہ ٹل جائے تو تیار ہو جا ۔ تب اس نے کہا اے اللہ کے رسول علیہ السلام میں اپنے دعوے میں تو سچا ہوں اس نے میری گائے غصب کر لی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو میرے قتل کا حکم میرے اس مقدمے کی وجہ سے نہیں کیا ۔ اس کی وجہ اور ہی ہے اور اسے صرف میں ہی جانتا ہوں ۔ بات یہ ہے کہ آج میں نے اسے فریب سے قتل کر دیا ہے جس کا کسی کو علم نہیں ۔ پس اس کے بدلے میں اللہ نے آپ کو قصاص کا حکم دیا ہے ۔ چنانچہ وہ قتل کر دیا گیا ۔ اب تو داؤد علیہ السلام کی ہیبت ہر شخص کے دل میں بیٹھ گئی ہم نے اسے حکمت دی تھی یعنی فہم و عقل ، زیرکی اور دانائی ، عدل و فراست کتاب اللہ اور اس کی اتباع نبوت و رسالت وغیرہ اور جھگڑوں کا فیصلہ کرنے کا صحیح طریقہ ۔ یعنی گواہ لینا قسم کھلوانا ، مدعی کے ذمہ بار ثبوت ڈالنا مدعی علیہ سے قسم لینا ۔ یہی طریقہ فیصلوں کا انبیاء کا اور نیک لوگوں کا رہا اور یہی طریقہ اس امت میں رائج ہے ۔ غرض داؤد علیہ السلام معاملے کی تہ کو پہنچ جاتے تھے اور حق و باطل سچ جھوٹ میں صحیح اور کھرے کا امتیاز کر لیتے تھے ۔ کلام بھی آپ کا صاف ہوتا تھا اور حکم بھی عدل پر مبنی ہوتا تھا ۔ آپ علیہ السلام ہی نے امابعد کا کہنا ایجاد کیا ہے اور فصل الخطاب سے اس کی طرف بھی اشارہ ہے ۔ ص
18 ص
19 ص
20 ص
21 1 مفسرین نے یہاں پر ایک قصہ بیان کیا ہے لیکن اس کا اکثر حصہ بنو اسرائیل کی روایتوں سے لیا گیا ہے ۔ حدیث سے ثابت نہیں ۔ ابن ابی حاتم میں ایک حدیث ہے لیکن وہ بھی ثابت نہیں کیونکہ اس کا ایک راوی یزید رقاشی ہے گو وہ نہایت نیک شخص ہے لیکن ہے ضعیف ۔ پس اولیٰ یہ ہے کہ قرآن میں جو ہے اور جس پر یہ شامل ہے وہ حق ہے ۔ داؤد علیہ السلام کا انہیں دیکھ کر گھبرانا اس وجہ سے تھا کہ وہ اپنے تنہائی کے خاص خلوت خانے میں تھے اور پہرہ داروں کو منع کیا تھا کہ کوئی بھی آج اندر نہ آئے اور یکایک ان دونوں کو جو دیکھا تو گھبرا گئے ۔ « عزنی » الخ ، سے مطلب بات چیت میں غالب آ جانا دوسرے پر چھا جانا ہے ۔ داؤد سمجھ گئے کہ یہ اللہ کی آزمائش ہے پس وہ رکوع سجدہ کرتے ہوئے اللہ کی طرف جھک پڑے ۔ مذکور ہے کہ چالیس دن تک سجدہ سے سر نہ اٹھایا پس ہم نے اسے بخش دیا ۔ یہ یاد رہے کہ جو کام عوام کے لیے نیکیوں کے ہوتے ہیں وہی کام خواص کے لیے بعض مرتبہ بدیوں کے بن جاتے ہیں ۔ یہ آیت سجدے کی ہے یا نہیں ؟ اس کی بابت امام شافعی کا جدید مذہب تو یہ ہے کہ یہاں سجدہ ضروری نہیں یہ تو سجدہ شکر ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ «ص» ضروری سجدوں میں سے نہیں ہاں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس میں سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ہے (صحیح بخاری:1069) نسائی میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں سجدہ کر کے فرمایا یہ سجدہ داؤد کا تو توبہ کے لیے تھا اور ہمارا شکر کے لیے ہے ۔ (سنن نسائی:958،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ترمذی میں ہے کہ ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے خواب میں دیکھا گویا میں ایک درخت کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہوں اور نماز میں میں نے سجدے کی آیت تلاوت کی اور سجدہ کیا تو میرے ساتھ اس درخت نے بھی سجدہ کیا اور میں نے سنا کہ وہ یہ دعا مانگ رہا تھا ، «اللَّہُمَّ اُکْتُبْ لِی بِہَا عِنْدک أَجْرًا وَاجْعَلْہَا لِی عِنْدک ذُخْرًا وَضَعْ بِہَا عَنِّی وِزْرًا وَاقْبَلْہَا مِنِّی کَمَا قَبِلْتہَا مِنْ عَبْدک دَاوُد » یعنی اے اللہ ! میرے اس سجدے کو تو میرے لیے اپنے پاس اجر اور خزانے کا سبب بنا اور اس سے تو میرا بوجھ ہلکا کر دے اور اسے مجھ سے قبول فرما جیسے کہ تو نے اپنے بندے داؤد کے سجدے کو قبول فرمایا ۔ سیدنا ابن عباس فرماتے ہیں میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر نماز ادا کی اور سجدے کی آیت کو پڑھ کر سجدہ کیا اور اس سجدے میں وہی دعا پڑھی جو اس شخص نے درخت کی دعا نقل کی تھی ۔ (سنن ترمذی:3424،قال الشیخ الألبانی:حسن) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ اس آیت کے سجدے پر یہ دلیل وارد کرتے تھے کہ قرآن نے فرمایا ہے«وَنُوحًا ہَدَیْنَا مِن قَبْلُ ۖ وَمِن ذُرِّیَّتِہِ دَاوُودَ وَسُلَیْمَانَ» ( 6-الانعام : 84 ) اس کی اولاد میں سے داؤد سلیمان ہیں جنہیں ہم نے ہدایت کی تھی ، « أُولٰئِکَ الَّذِینَ ہَدَی اللہُ ۖ فَبِہُدَاہُمُ اقْتَدِہْ» ( 6-الانعام : 90 ) پس تو اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی ہدایت کی پیروی کر پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی اقتداء کے مامور تھے اور یہ صاف ثابت ہے کہ داؤد علیہ السلام نے سجدہ کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہ سجدہ کیا ۔ (صحیح بخاری:4807) سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے خواب میں دیکھا گویا میں سورۃ ص لکھ رہا ہوں جب آیت سجدہ تک پہنچا تو میں نے دیکھا کہ قلم اور دوات اور میرے آس پاس کی تمام چیزوں نے سجدہ کیا ۔ انہوں نے اپنا یہ خواب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا پھر آپ اس آیت کی تلاوت کے وقت برابر سجدہ کرتے رہے ۔ (مسند احمد:78/3:ضعیف) ابو داؤد میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر سورۃ ص پڑھی اور سجدے کی آیت تک پہنچ کر منبر سے اتر کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ تک پہنچے تو لوگوں نے سجدے کی تیاری کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ تو ایک نبی کی توبہ کا سجدہ تھا لیکن میں دیکھتا ہوں کہ تم سجدہ کرنے کے لیے تیار ہو گئے ہو چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اترے اور سجدہ کیا ۔ (سنن ابوداود:1410،قال الشیخ الألبانی:صحیح ) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے اسے بخش دیا ۔ قیامت کے دن اس کی بڑی منزلت اور قدر ہو گی نبیوں اور عادلوں کا درجہ وہ پائیں گے ۔ حدیث میں ہے عادل لوگ نور کے ممبروں پر رحمن کے دائیں جانب ہوں گے ۔ اللہ کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں ۔ یہ عادل وہ ہیں جو اپنی اہل و عیال میں اور جن کے وہ مالک ہوں عدل و انصاف کرتے ہیں ۔(صحیح مسلم:1827-18) اور حدیث میں ہے سب سے زیادہ اللہ کے دوست اور سب سے زیادہ اس کے مقرب وہ بادشاہ ہوں گے جو عادل ہوں اور سب سے زیادہ دشمن اور سب سے سخت عذاب والے وہ ہوں گے جو ظالم بادشاہ ہوں ۔ (سنن ترمذی:1329،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) مالک بن دینار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں قیامت کے دن داؤد علیہ السلام کو عرش کے پائے کے پاس کھڑا کیا جائے گا اور اللہ تعالیٰ حکم دے گا کہ اے داؤد جس پیاری درد ناک میٹھی اور جاذب آواز سے تم میری تعریفیں دنیا میں کرتے تھے اب بھی کرو ۔ آپ فرمائیں گے باری تعالیٰ اب وہ آواز کہاں رہی ؟ اللہ فرمائے گا میں نے وہی آواز آج تمہیں پھر عطا فرمائی ۔ اب داؤد علیہ السلام اپنی دلکش اور دلربا آواز نکال کر نہایت وجد کی حالت میں اللہ کی حمد و ثناء بیان کریں گے جسے سن کر جنتی اور نعمتوں کو بھی بھول جائیں گے اور یہ سریلی آواز اور نورانی گلا انہیں سب نعمتوں سے ہٹا کر اپنی طرف متوجہ کرے گا ۔ ص
22 ص
23 ص
24 ص
25 ص
26 صاحب اختیار لوگوں کے لئے انصاف کا حکم اس آیت میں بادشاہ اور ذی اختیار لوگوں کو حکم ہو رہا ہے کہ وہ عدل و انصاف کے ساتھ قرآن و حدیث کے مطابق فیصلے کریں ورنہ اللہ کی راہ سے بھٹک جائیں گے اور جو بھٹک کر اپنے حساب کے دن کو بھول جائے وہ سخت عذابوں میں مبتلا ہو گا ۔ حضعر ابوزرعہ رحمتہ اللہ علیہ سے بادشاہ وقت ولید بن عبدالملک نے ایک مرتبہ دریافت کیا کہ کیا خلیفہ وقت سے بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں حساب لیا جائے گا آپ رحمہ اللہ نے فرمایا سچ بتا دوں خلیفہ نے کہا ضرور سچ ہی بتاؤ اور آپ کو ہر طرح امن ہے ۔ فرمایا اے امیر المؤمنین اللہ کے نزدیک آپ سے بہت بڑا درجہ داؤد علیہ السلام کا تھا انہیں خلافت کے ساتھ ہی ساتھ اللہ تعالیٰ نے نبوت بھی دے رکھی تھی لیکن اس کے باوجود کتاب اللہ ان سے کہتی ہے « یٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰکَ خَلِیْفَۃً فِی الْاَرْضِ فَاحْکُمْ بَیْنَ النَّاس بالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْہَوٰی فَیُضِلَّکَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ۭاِنَّ الَّذِیْنَ یَضِلٰوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لَہُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌۢ بِمَا نَسُوْا یَوْمَ الْحِسَابِ» ( 38- ص : 26 ) حضرت عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ ان کے لیے یوم الحساب کو سخت عذاب ہیں اس کے بھول جانے کے باعث حضرت سدی رحمہ اللہ کہتے ہیں ان کے لیے سخت عذاب ہیں اس وجہ سے کہ انہوں نے یوم الحساب کے لیے اعمال جمع نہیں کئے ۔ آیت کے لفظوں سے اسی قول کو زیادہ مناسبت ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ص
27 مخلوق کی پیدائش عبث اور بیکار نہیں ارشاد ہے کہ مخلوق کی پیدائش عبث اور بیکار نہیں یہ سب عبادتِ خالق کے لیے پیدا کی گئی ہے پھر ایک وقت آنے والا ہے کہ ماننے والے کی سربلندی کی جائے اور نہ ماننے والوں کو سخت سزا دی جائے ۔ کافروں کا خیال ہے کہ ہم نے انہیں یونہی پیدا کر دیا ہے ؟ اور آخرت اور دوسری زندگی کوئی چیز نہیں یہ غلط ہے ۔ ان کافروں کو قیامت کے دن بڑی خرابی ہو گی کیونکہ اس آگ میں انہیں جلنا پڑے گا جو ان کے لیے اللہ کے فرشتوں نے بڑھکا رکھی ہے ۔ یہ ناممکن ہے اور ان ہونی بات ہے کہ مومن و مفسد کو اور پرہیزگار اور بدکار کو ایک جیسا کر دیں ۔ اگر قیامت آنے والی ہی نہ ہو تو یہ دونوں انجام کے لحاظ سے یکساں ہی رہے ۔ حالانکہ یہ خلاف انصاف ہے قیامت ضرور آئے گی نیک کار جنت میں اور گنہگار جہنم میں جائیں گے ۔ پس عقلی اقتضا بھی دار آخرت کے ثبوت کو ہی چاہتا ہے ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ظالم پاپی اللہ کی درگاہ سے راندہ ہوا دنیا میں خوش وقت ہے مال اولاد فراغت تندرستی سب کچھ اس کے پاس ہے اور ایک مومن متقی پاک دامن ایک ایک پیسے سے تنگ ایک ایک راحت سے دور رہے تو حکمت علیم و حکیم و عادل کا اقتضاء یہ تھا کہ کوئی ایسا وقت بھی آئے کہ اس نمک حرام سے اس کی نمک حرامی کا بدلہ لیا جائے اور اس صابر و شاکر فرمانبردار کی نیکیوں کا اسے بدلہ دیا جائے اور یہی دار آخرت میں ہونا ہے ۔ پس ثابت ہوا کہ اس جہان کے بعد ایک جہاں یقیناً ہے ۔ چونکہ یہ پاک تعلیم قرآن سے ہی حاصل ہوئی ہے اور اس نیکی کا رہبر یہی ہے اسی لیے اس کے بعد ہی فرمایا کہ یہ مبارک کتاب ہم نے تیری طرف نازل فرمائی ہے تاکہ لوگ اسے سمجھیں اور ذی عقل لوگ اس سے نصیحت حاصل کر سکیں ۔ حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں جس نے قرآن کے الفاظ حفظ کر لیے اور قرآن پر عمل نہیں کیا اس نے قرآن میں تدبر و غور بھی نہیں کیا لوگ کہتے ہیں ہم نے پورا قرآن پڑھ لیا لیکن قرآن کی ایک نصیحت یا قرآن کے ایک حکم کا نمونہ ان میں نظر نہیں آتا ایسا نہ چاہیئے ۔ اصل غور و خوض اور نصیحت و عبرت عمل ہے ۔ ص
28 ص
29 ص
30 سلیمان علیہ السلام داؤد علیہ السلام کے وارث اللہ تعالیٰ نے جو ایک بڑی نعمت داؤد علیہ السلام کو عطا فرمائی تھی اس کا ذکر فرما رہا ہے کہ ان کی نبوت کا وارث ان کے لڑکے سلیمان علیہ السلام کو بنا دیا ۔ اسی لیے صرف سلیمان کا ذکر کیا ورنہ ان کے اور بچے بھی تھے ۔ ایک سو عورتیں آپ کی لونڈیوں کے علاوہ تھیں ۔ چنانچہ اور آیت میں ہے «وَوَرِثَ سُلَیْمٰنُ دَاوٗدَ وَقَالَ یٰٓاَیٰہَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّیْرِ وَاُوْتِیْنَا مِنْ کُلِّ شَیْءٍ ۭ اِنَّ ھٰذَا لَہُوَ الْفَضْلُ الْمُبِیْنُ» ( 27- النمل : 16 ) یعنی داود کے وارث سلیمان ہوئے یعنی نبوت آپ کے بعد انہیں ملی ۔ یہ بھی بڑے اچھے بندے تھے یعنی خوب عبادت گذار تھے اور اللہ کی طرف جھکنے والے تھے ۔ مکحول رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ جناب داؤد نبی علیہ السلام نے ایک مرتبہ آپ سے چند سوالات کئے اور ان کے معقول جوابات پا کر فرمایا کہ آپ نبی اللہ ہیں ۔ پوچھا کہ سب سے اچھی چیز کیا ہے ؟ جواب دیا کہ اللہ کی طرف سکینت اور ایمان پوچھا کہ سب سے زیادہ میٹھی چیز کیا ہے ؟ جواب ملا اللہ کی رحمت پوچھا سب سے زیادہ ٹھنڈک والی چیز کیا ہے ؟ جواب دیا اللہ کا لوگوں سے درگذر کرنا اور لوگوں کا آپس میں ایک دوسرے کو معاف کر دینا ( ابن ابی حاتم ) سلیمان علیہ السلام کے سامنے ان کی بادشاہت کے زمانے میں ان کے گھوڑے پیش کئے گئے ۔ یہ بہت تیز رفتار تھے جو تین ٹانگوں پر کھڑے رہتے تھے اور ایک پیر یونہی سا زمین پر ٹکتا تھا ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ پردار گھوڑے تھے تعداد میں بیس تھے ۔ ابراہیم تمیمی نے گھوڑوں کی تعداد بیس ہزار بتلائی ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ابوداؤد میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تبوک یا خیبر کے سفر سے واپس آئے تھے گھر میں تشریف فرما تھے جب تیز ہوا کے جھونکے سے گھر کے کونے کا پردہ ہٹ گیا وہاں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی کھیلنے کی گڑیاں رکھی ہوئی تھیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر بھی پڑ گئی ۔ دریافت کیا یہ کیا ہے ؟ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا میری گڑیاں ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ بیچ میں ایک گھوڑا سا بنا ہوا ہے جس کے دو پر بھی کپڑے کے لگے ہوئے ہیں ۔ پوچھا یہ کیا ہے ؟ کہا گھوڑا ہے فرمایا اور یہ اس کے اوپر دونوں طرف کپڑے کے کیا بنے ہوئے ہیں ؟ کہا یہ دونوں اس کے پر ہیں ۔ فرمایا اچھا گھوڑا اور اس کے پر بھی ؟ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں سنا کہ سلیمان کے پردار گھوڑے تھے ، یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہنس دیئے یہاں تک کہ آپ کے آخری دانت دکھائی دینے لگے ۔(سنن ابوداود:4932،قال الشیخ الألبانی:صحیح) سلیمان علیہ السلام ان کے دیکھنے بھالنے میں اس قدر مشغول ہو گئے کہ عصر کی نماز کا خیال ہی نہ رہا بالکل بھول گئے ۔ جیسے کہ حضور علیہ السلام جنگ خندق والے دن لڑائی کی مشغولیت کی وجہ سے عصر کی نماز نہ پڑھ سکے تھے اور مغرب کے بعد ادا کی ۔ چنانچہ بخاری و مسلم میں ہے کہ سورج ڈوبنے کے بد عمر رضی اللہ عنہ کفار قریش کو برا کہتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں تو عصر کی نماز بھی نہ پڑھ سکا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں بھی اب تک ادا نہیں کر سکا ۔ چنانچہ ہم بطحان میں گئے وہاں وضو کیا اور سورج کے غروب ہونے کے بعد عصر کی نماز ادا کی اور پھر مغرب پڑھی ۔ (صحیح بخاری:596) یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دین سلیمان میں جنگی صالح کی وجہ سے تاخیر نماز جائز ہو اور یہ جنگی گھوڑے تھے جنہیں اسی مقصد سے رکھا تھا ۔ چنانچہ بعض علماء نے یہ کہا بھی ہے کہ صلوۃ خوف کے جاری ہونے سے پہلے یہی حال تھا ۔ بعض کہتے ہیں جب تلواریں تنی ہوئی ہوں لشکر بھڑ گئے ہوں اور نماز کے لیے رکوع و سجود کا امکان ہی نہ ہو تب یہ حکم ہے جیسے صحابہ رضی اللہ عنہم نے تیستر کی فتح کے بعد موقعہ پر کیا تھا لیکن ہمارا پہلا قول ہی ٹھیک ہے اس لیے کہ اس کے بعد ہی سلیمان کا ان گھوڑوں کو دوبارہ طلب کرنا وغیرہ بیان ہوا ہے ۔ انہیں واپس منگوا کر ان کے کاٹ ڈالنے کا حکم دیا اور فرمایا میرے رب کی عبادت سے مجھے اس چیز نے غافل کر دیا میں ایسی چیز ہی نہیں رکھنے کا ۔ چنانچہ ان کی کوچیں کاٹ دی گئیں اور ان کی گردنیں ماری گئیں ۔ لیکن سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ آپ نے گھوڑوں کے پیشانی کے بالوں وغیرہ پر ہاتھ پھیرا ۔ امام ابن جریررحمہ اللہ بھی اسی قول کو اختیار کرتے ہیں کہ بلا وجہ جانوروں کو ایذاء پہنچانی ممنوع ہے ان جانوروں کا کوئی قصور نہ تھا جو انہیں کٹوا دیتے لیکن میں کہتا ہوں کہ ممکن ہے یہ بات ان کی شرع میں جائز ہو خصوصاً ایسے وقت جبکہ وہ یاد اللہ میں حارج ہوئے اور وقت نماز نکل گیا تو دراصل یہ غصہ بھی اللہ کے لیے تھا ۔ چنانچہ اسی وجہ سے ان گھوڑوں سے بھی تیز اور ہلکی چیز اللہ نے اپنے نبی کو عطا فرمائی یعنی ہوا ان کے تابع کر دی ۔ حضرت ابوقتادہ رحمہ اللہ اور ابو دھما رحمہ اللہ اکثر حج کیا کرتے تھے ان کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ ایک گاؤں میں ہماری ایک بدوی سے ملاقات ہوئی اس نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ تھام کر مجھے بہت کچھ دینی تعلیم دی اس میں یہ بھی فرمایا کہ اللہ سے ڈر کر تو جس چیز کو چھوڑے گا اللہ تجھے اس سے بہتر عطا فرمائیگا ۔(مسند احمد:78/5:صحیح) ص
31 ص
32 ص
33 ص
34 سلیمان علیہ السلام کا تفصیلی تذکرہ ہم نے سلیمان علیہ السلام کا امتحان لیا اور ان کی کرسی پر ایک جسم ڈال دیا ، یعنی شیطان پھر وہ اپنے تخت و تاج کی طرف لوٹ آئے اس شیطان کا نام صخر تھا یا آصف تھا یا صرو تھا یا حقیق تھا ۔ یہ واقعہ اکثر مفسرین نے ذکر کیا ہے کسی نے تفصیل کے ساتھ ، کسی نے اختصار کے ساتھ ۔ حضرت قتادہ رحمہ اللہ اس واقعہ کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ سلیمان علیہ السلام کو بیت المقدس کی تعمیر کا اس طرح حکم ہوا کہ لوہے کی آواز بھی نہ سنی جائے ۔ آپ نے ہر چند تدبیریں کیں ، لیکن کارگر نہ ہوئیں ۔ پھر آپ نے سنا کہ سمندر میں ایک شطان ہے جس کا نام صخر ہے وہ البتہ ایسی ترکیب بتا سکتا ہے آپ علیہ السلام نے حکم دیا کہ اسے کسی طرح لاؤ ۔ ایک دریا سمندر میں ملتا تھا ہر ساتویں دن اس میں لبالب پانی آ جاتا تھا اور یہی پانی یہ شیطان پیتا تھا ۔ اس کا پانی نکال دیا گیا اور بالکل خالی کر کے پانی کو بند کر کے اس کے آنے والے دن اسے شراب سے پر کر دیا گیا جب شیطان آیا اور یہ حال دیکھا تو کہنے لگا یہ تو مزے کی چیز ہے لیکن عقل کی دشمن جہالت کو ترقی دینے والی چیز ہے ۔ چنانچہ وہ پیاسا ہی چلا گیا ۔ جب پیاس کی شدت ہوئی تو مجبوراً یہ سب کچھ کہتے ہوئے پینا ہی پڑا ۔ اب عقل جاتی رہی اور اسے سلیمان کی انگوٹھی دکھائی گئی یا مونڈھوں کے درمیان سے مہر لگا دی گئی ۔ یہ بے بس ہو گیا سلیمان علیہ السلام کی حکومت اسی انگوٹھی کی وجہ سے تھی ۔ جب یہ سلیمان علیہ السلام کے پاس پہنچا تو آپ نے اسے یہ کام سر انجام دینے کا حکم دیا یہ ہدہد کے انڈے لے آیا اور انہیں جمع کر کے ان پر شیشہ رکھ دیا ۔ ہدہد آیا اس نے اپنے انڈے دیکھے چاروں طرف گھوما لیکن دیکھا کہ ہاتھ نہیں آسکتے اڑ کر واپس چلا گیا اور الماس لے آیا اور اسے اس شیشے پر رکھ کر شیشے کو کاٹنا شروع کر دیا آخر وہ کٹ گیا اور ہدہد اپنے انڈے لے گیا اور اس الماس کو بھی لے لیا گیا اور اسی سے پتھر کاٹ کاٹ کر عمارت شروع ہوئی ۔ سلیمان علیہ السلام جب بیت الخلاء میں یا حمام میں جاتے تو انگوٹھی اتار جاتے ایک دن حمام میں جانا تھا اور یہ شیطان آپ کے ساتھ تھا آپ علیہ السلام اس وقت فرضی غسل کے لیے جا رہے تھے انگوٹھی اسی کو سونپ دی اور چلے گئے اس نے انگوٹھی سمندر میں پھینک دی اور شیطان پر سلیمان علیہ السلام کی شکل ڈال دی گئی اور آپ سے تخت و تاج چھن گیا ۔ سب چیزوں پر شیطان نے قبضہ کر لیا سوائے آپ کی بیویوں کے ۔ اب اس سے بہت سی غیر معروف باتیں ظہور میں آنے لگیں اس زمانہ میں ایک صاحب تھے جو ایسے ہی تھے جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں فاروق رضی اللہ عنہ ۔ اس نے کہا آزمائش کرنی چاہیئے مجھے تو یہ شخص سلیمان علیہ السلام معلوم نہیں ہوتا ۔ چنانچہ ایک روز اس نے کہا کیوں جناب اگر کوئی شخص رات کو جنبی ہو جائے اور موسم ذرا ٹھنڈا ہو اور وہ سورج طلوع ہونے تک غسل نہ کرے تو کوئی حرج تو نہیں ؟ اس نے کہا ہرگز نہیں ۔ چالیس دن تک یہ تخت سلیمان علیہ السلام پر رہا پھر آپ کی مچھلی کے پیٹ سے انگوٹھی مل گئی ہاتھ میں ڈالتے ہی پھر تمام چیزیں آپ کی مطیع ہو گئیں ۔ اسی کا بیان اس آیت میں ہے ۔ حضرت سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سلیمان علیہ السلام کی ایک سو بیویاں تھیں آپ کو سب سے زیادہ اعتبار ان میں سے ایک بیوی پر تھا جن کا نام جراوہ تھا ۔ جب جنبی ہونے یا پاخانے جاتے تو اپنی انگوٹھی انہی کو سونپ جاتے ۔ ایک مرتبہ آپ پاخانے گئے پیچھے سے ایک شیطان آپ ہی کی صورت بنا کر آیا اور بیوی صاحبہ سے انگوٹھی طلب کی آپ نے دے دی یہ آتے ہی تخت پر بیٹھ گیا جب سلیمان آئے اور انگوٹھی طلب کی تو بیوی صاحبہ نے فرمایا آپ انگوٹھی تو لے گئے ۔ آپ سمجھ گئے کہ یہ اللہ کی آزمائش ہے نہایت پریشان حال سے محل سے نکل گئے اس شیطان نے چالیس دن تک حکومت کی لیکن احکام کی تبدیلی کو دیکھ کر علماء نے سمجھ لیا کہ یہ سلیمان نہیں ۔ چنانچہ ان کی جماعت آپ علیہ السلام کی بیویوں کے پاس آئی اور ان سے کہا یہ کیا معاملہ ہے ہمیں سلیمان کی ذات میں شک پڑ گیا ۔ اگر یہ سچ مچ سلیمان ہے تو اس کی عقل جاتی رہی ہے یا یہ کہ یہ سلیمان ہی نہیں ۔ ورنہ ایسے خلاف شرع احکام نہ دیتا ۔ عورتیں یہ سن کر رونے لگیں ۔ یہ یہاں سے واپس آ گئے اور تخت کے اردگرد اسے گھیر کر بیٹھ گئے اور تورات کھول کر اس کی تلاوت شروع کر دی ۔ یہ خبیث شیطان کلام اللہ سے بھاگا اور انگوٹھی سمندر میں پھینک دی جسے ایک مچھلی نگل گئی ۔ سلیمان علیہ السلام یونہی اپنے دن گزارتے تھے ۔ ایک مرتبہ سمندر کے کنارے نکل گئے بھوک بہت لگی ہوئی تھی ماہی گیروں کو مچھلیاں پکڑتے ہوئے دیکھ کر ان کے پاس آ کر ان سے ایک مچھلی مانگی اور اپنا نام بھی بتایا ، اس پر بعض لوگوں کو بڑا طیش آیا کہ دیکھو بھیک مانگنے والا اپنے تئیں سلیمان بتاتا ہے ۔ انہوں نے آپ علیہ السلام کو مارنا پیٹنا شروع کیا آپ علیہ السلام زخمی ہو کر کنارے جا کر اپنے زخم کا خون دھونے لگے ۔ بعض ماہی گیروں کو رحم آ گیا کہ ایک سائل کو خواہ مخواہ مارا ۔ جاؤ بھئی اسے دو مچھلیاں دے آؤ بھوکا ہے بھون کھائے گا ۔ چنانچہ وہ مچھلیاں آپ کو دے آئے بھوک کی وجہ سے آپ اپنے زخم کو اور خون کو تو بھول گئے اور جلدی سے مچھلی کا پیٹ چاک کرنے بیٹھ گئے ۔ قدرت اللہ سے اس کے پیٹ سے وہ انگوٹھی نکلی آپ علیہ السلام نے اللہ کی تعریف بیان کی اور انگوٹھی انگلی میں ڈالی اس وقت پرندوں نے آ کر آپ پر سایہ کر لیا اور لوگوں نے آپ علیہ السلام کو پہچان لیا اور آپ سے معذرت کرنے لگے آپ علیہ السلام نے فرمایا یہ سب امر اللہ تھا اللہ کی طرف سے ایک امتحان تھا ۔ آپ آئے اپنے تخت پر بیٹھ گئے اور حکم دیا کہ اس شیطان کو جہاں بھی وہ ہو گرفتار کر لاؤ چنانچہ اسے قید کر لیا گیا آپ نے اسے ایک لوہے کے صندوق میں بند کیا اور قفل لگا کر اس پر اپنی مہر لگا دی اور سمندر میں پھنکوا دیا جو قیامت تک وہیں قید رہے گا ۔ اس کا نام حقیق تھا ۔ آپ کی یہ دعا کہ مجھے ایسا ملک عطا فرمایا جائے جو میرے بعد کسی کے لائق نہ ہو یہ بھی پوری ہوئی اور آپ کے تابع ہوائیں کر دی گئیں ۔ مجاہد رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ ایک شیطان سے جس کا نام آصف تھا ایک مرتبہ سلیمان علیہ السلام نے پوچھا کہ تم لوگوں کو کس طرح فتنے میں ڈالتے ہو ؟ اس نے کہا ذرا مجھے انگوٹھی دکھاؤ میں ابھی آپ کو دکھا دیتا ہوں آپ نے انگوٹھی دے دی اس نے اسے سمندر میں پھینک دیا تخت و تاج کا مالک بن بیٹھا اور آپ کے لباس میں لوگوں کو راہ اللہ سے ہٹانے لگا ۔ “یاد رہے کہ یہ سب واقعات بنی اسرائیل کے بیان کردہ ہیں “ اور ان سب سے زیادہ منکر واقعہ وہ ہے ۔ جو ابن ابی حاتم میں ہے جس کا اوپر بیان ہوا ۔ جس میں آپ کی بیوی صاحبہ جراوہ کا ذکر ہے ۔ اس میں یہ بھی ہے کہ آخر نبوت یہاں تک پہنچی تھی کہ لڑکے آپ کو پتھر مارتے تھے ۔ آپ علیہ السلام کی بیویوں سے جب علماء نے معاملہ کی تفتیش کی تو انہوں نے کہا کہ ہاں ہمیں بھی اس کے سلیمان ہونے سے انکار ہے کیونکہ وہ حالت حیض میں ہمارے پاس آتا ہے ۔ شیطان کو جب یہ معلوم ہو گیا کہ راز کھل گیا ہے تو اس نے جادو اور کفر کی کتابیں لکھوا کر کرسی تلے دفن کر دیا اور پھر لوگوں کے سامنے انہیں نکلوا کر ان سے کہا دیکھو ان کتابوں کی بدولت سلیمان تم پر حکومت کر رہا تھا چنانچہ لوگوں نے آپ کو کافر کہنا شروع کر دیا ۔ سلیمان سمندر کے کنارے مزدوری کرتے تھے ایک مرتبہ ایک شخص نے بہت سی مچھلیاں خریدیں مزدور کو بلایا آپ پہنچے اس نے کہا یہ اٹھالو پوچھا مزدوری کیا دو گے ؟ اس نے کہا اس میں سے ایک مچھلی تمہیں دے دوں گا آپ نے ٹوکرا سر پر رکھا اس کے ہاں پہنچایا اس نے ایک مچھلی دے دی آپ علیہ السلام نے اس کا پیٹ چاک کیا پیٹ چاک کرتے ہی وہ انگوٹھی نکل پڑی پہنتے ہی کل شیاطین جن انسان پھر تابع ہو گئے اور جھرمٹ باندھ کر حاضر ہو گئے آپ نے ملک پر قبضہ کیا اور اس شیطان کو سخت سزا دی ۔ پس ثم اناب سے مراد شیطان جو مسلط کیا گیا تھا اس کا لوٹنا ہے ۔ اس کی اسناد سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ تک ہے ۔ ہے تو قوی لیکن یہ ظاہر ہے کہ اسے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اہل کتاب سے لیا ہے ، یہ بھی اس وقت جبکہ اسے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول مان لیں ۔ اہل کتاب کی ایک جماعت سلیمان علیہ السلام کو نہیں مانتی تھی تو عجب نہیں کہ یہ بیہودہ قصہ اسی خبیث جماعت کا گھڑا ہوا ہو ۔ اس میں تو وہ چیزیں بھی ہیں جو بالکل ہی منکر ہیں خصوصاً اس شیطان کا آپ کی عورتوں کے پاس جانا اور آئمہ نے بھی ایسے ہی قصے بیان تو کئے ہیں لیکن اس بات کا سب نے انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ جن ان کے پاس نہیں جا سکا اور نبی کے گھرانے کی عورتوں کی عصمت و شرافت کا تقاضا بھی یہی ہے اور بھی بہت سے لوگوں نے ان واقعات کو بہت تفصیل سے بیان کیا ہے لیکن سب کی اصل یہی ہے کہ وہ بنی اسرائیل اور اہل کتاب سے لیے گئے ہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» شیبانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں آپ علیہ السلام نے اپنی انگوٹھی عسقلان میں پائی تھی اور بیت المقدس تک تواضعاً آپ علیہ السلام پیدل چلے تھے ۔ امام ابن بی حاتم نے صفت سلیمان علیہ السلام میں سیدنا کعب احبار رضی اللہ عنہ سے ایک عجیب خبر روایت کی ہے ۔ ابواسحاق مصری کہتے ہیں کہ جب «اِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ» ( 89- الفجر : 7 ) کے قصے سے سیدنا کعب رضی اللہ عنہ نے فراغت حاصل کی تو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا ابواسحاق آپ سلیمان علیہ السلام کی کرسی کا ذکر بھی کیجئے فرمایا کہ وہ ہاتھی دانت کی تھی اور یاقوت زبرجد اور لولو سے مرصع تھی اور اس کے چاروں طرف سونے کے کھجور کے درخت بنے ہوئے تھے جن کے خوشے بھی موتیوں کے تھے ان میں سے جو دائیں جانب تھے ان کے سرے پر سونے کے مور تھے اور بائیں طرف والوں پر سونے کے گدھ تھے ۔ اس کرسی کے پہلے درجے پر دائیں جانب سونے کے دو درخت صنوبر کے تھے اور بائیں جانب سونے کے دو شیر بنے ہوئے تھے ۔ ان کے سروں پر زبر جد کے دوستون تھے اور کرسی کے دونوں جانب انگور کی سنہری بیلیں تھیں جو کرسی کو ڈھانپے ہوئے تھیں اس کے خوشے بھی سرخ موتی کے تھے پھر کرسی کے اعلیٰ درجے پر دو شیر بہت بڑے سونے کے بنے ہوئے تھے جن کے اندر خول تھا ان میں مشک و عنبر بھرا رہتا تھا ۔ جب سلیمان علیہ السلام کرسی پر آتے تو یہ شیر حرکت کرتے اور ان کے گھومنے سے ان کے اندر سے مشک و عنبر چاروں طرف چھڑک دیا جاتا پھر دو منبر سونے کے بچھا دئے جاتے ۔ ایک آپ کے وزیر کا اور ایک اس وقت کے سب سے بڑے عالم کا ۔ پھر کرسی کے سامنے ستر منبر سونے کے اور بچھائے جاتے جن پر بنو اسرائیل کے قاضی ان کے علماء اور ان کے سردار بیٹھتے ۔ ان کے پیچھے پینتیس منبر سونے کے اور ہوتے تھے جو خالی رہا کرتے تھے ۔ سلیمان علیہ السلام جب تشریف لاتے پہلے زینے پر قدم رکھتے ہی کرسی ان تمام چیزوں سمیت گھوم جاتی شیر اپن داہنا قدم آگے بڑھا دیتا اور گدھ اپنا بایاں پر پھیلا دیتا ۔ جب دوسرے درجے پر قدم رکھتے تو شیر اپنا بایاں پاؤں پھیلا دیتا اور گدھ اپنا دایاں پر جب آپ تیسرے درجے پر چڑھ جاتے اور کرسی پر بیٹھ جاتے تو ایک بڑا گدھ آپ کا تاج لے کر آپ کے سر پر رکھتا پھر کرسی زور زور سے گھومتی ۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا آخر اس کی کیا وجہ ؟ فرمایا وہ ایک سونے کی لاٹ پر تھی جسے صخر جن نے بنایا تھا ۔ اس کے گھومتے ہی نیچے والے مور گدھ وغیرہ سب اوپر آ جاتے اور سر جھکاتے پر پھڑ پھڑاتے جس سے آپ کے جسم پر مشک و عنبر کا چھڑکاؤ ہو جاتا پھر ایک سونے کا کبوتر تورات اٹھا کر آپ کے ہاتھ میں دیتا جسے آپ تلاوت فرماتے ۔ لیکن یہ روایت بالکل غریب ہے ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی دعا کا مطلب یہ ہے کہ مجھے ایسا ملک دے کہ مجھ سے کوئی اور چھین نہ سکے جیسے کہ اس جسم کا واقعہ ہوا جو آپ کی کرسی پر ڈال دیا گیا تھا ۔ یہ مطلب نہیں کہ آپ دوسروں کے لیے ایسے ملک کے نہ ملنے کی دعا کرتے ہوں ۔ لیکن جن بعض لوگوں نے یہ معنی لیے ہیں وہ کچھ ٹھیک نظر نہیں آتے ، بلکہ صحیح مطلب یہی ہے کہ آپ علیہ السلام کی دعا کا یہی مطلب تھا کہ مجھے ایسا ملک اور سلطنت دی جائے کہ میرے بعد پھر کسی اور شخص کو ایسی سلطنت نہ ملے ۔ یہی آیت کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے اور یہی احادیث سے بھی ثابت ہوتا ہے ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا ایک سرکش جن نے گزشتہ شب مجھ پر زیادتی کی اور میری نماز بگاڑ دینا چاہی لیکن اللہ نے مجھے اس پر قابو دے دیا اور میں نے چاہا کہ اسے مسجد کے اس ستون سے باندھ دوں تاکہ صبح تم سب اسے دیکھو لیکن اسی وقت مجھے میرے بھائی سلیمان علیہ الصلوۃ و السلام کی دعا یاد آ گئی ۔ راوی حدیث روح رحمہ اللہ فرماتے ہیں پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ذلیل و خوار کر کے چھوڑ دیا ۔(صحیح بخاری:461) ایک اور روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں کھڑے ہوئے تو ہم نے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا «اعوذ باللہ منک» پھر آپ نے تین بار فرمایا« العنک بلعنتہ اللہ» پھر آپ نے اپنا ہاتھ اس طرح بڑھایا کہ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی چیز کو لینا چاہتے ہیں ۔ جب فارغ ہوئے تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان دونوں باتوں کی وجہ پوچھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کا دشمن ابلیس آگ لے کر میرے منہ میں ڈالنے کے لیے آیا تو میں نے تین مرتبہ اعوذ پڑھی پھر تین مرتبہ اس پر لعنت بھیجی لیکن وہ پھر بھی نہ ہٹا پھر میں نے چاہا کہ اسے پکڑ کر باندھ دوں تاکہ مدینے کے لڑکے اس سے کھیلیں اگر ہمارے بھائی سلیمان علیہ السلام کی دعا نہ ہوتی تو میں یہی کرتا ۔(صحیح مسلم:542-40) حضرت عطابن یزید لیثی رحمہ اللہ نماز پڑھ رہے تھے جو ابوعبیدہ نے ان کے سامنے سے گذرنا چاہا انہوں نے انہیں اپنے ہاتھ سے روک دیا پھر فرمایا مجھ سے سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز پڑھا رہے تھے یہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے تھے قرأت آپ پر خلط ملط ہو گئی فارغ ہو کر فرمایا کاش تم دیکھتے کہ میں نے ابلیس کو پکڑ لیا تھا اور اس قدر اس کا گلا گھونٹا کہ اس کے منہ کی جھاگ میری شہادت کی اور بیج کی انگلی پر پڑی اگر میرے بھائی سلیمان علیہ السلام کی دعا نہ ہوتی تو وہ صبح ہوتے اس مسجد کے ستون سے بندھا ہوا ہوتا اور مدینہ کے بچے اسے ستاتے تم سے جہاں تک ہو سکے اس بات کا خیال رکھو کہ نماز کی حالت میں تمہارے سامنے سے کوئی گذرنے نہ پائے ۔ (سنن ابوداود:699،قال الشیخ الألبانی:حسن ضعیف) مسند کی اور حدیث میں ہے ربیعہ بن یزید عبداللہ ویلمی رحمہ اللہ کہتے ہیں میں سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کے پاس طائف کے ایک باغ میں گیا جس کا ام وھط تھا آپ اس وقت ایک قریشی کا محاصرہ کئے ہوئے تھے جو زانی اور شرابی تھا ۔ میں نے ان سے کہا مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ یہ حدیث بیان فرماتے ہیں کہ جو ایک گھونٹ شراب پئے گا اللہ تعالیٰ چالیس دن تک اس کی توبہ قبول نہ فرمائے گا اور برا آدمی وہ ہے جو ماں کے پیٹ میں ہی برا ہو گیا ہے جو شخص صرف نماز ہی کی نیت سے بیت المقدس کی مسجد میں جائے تو وہ گناہوں سے ایسا پاک ہو جاتا ہے جیسے آج ہی پیدا ہوا ۔ وہ شرابی جسے عبداللہ پکڑے ہوئے تھے وہ شراب کا ذکر سنتے ہی جھٹکا دے کر اپنا ہاتھ چھڑا کر بھاگ گیا ۔ اب سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کسی کو حلال نہیں کہ میرے ذمے وہ بات کرے جو میں نے نہ کی ۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یوں سنا ہے جو شخص شراب کا ایک گھونٹ بھی پی لے اس کی چالیس دن کی نماز نامقبول ہے ۔ اگر وہ توبہ کرے تو اللہ اس کی توبہ قبول فرماتا ہے ۔ پھر اگر دوبارہ لوٹے تو پھر چالیس دن تک کی نمازیں نامقبول ہیں پھر اگر توبہ کر لے تو توبہ مقبول ہے مجھے اچھی طرح یاد نہیں کہ تیسری یا چوتھی مرتبہ فرمایا کہ پھر اگر لوٹے گا تو یقیناً اللہ تعالیٰ اسے جہنمیوں کے بدن کا خون ، پیپ ، پیشاب وغیرہ قیامت کے دن پلائے گا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے سنا ہے کہ اللہ عزوجل نے اپنی مخلوق کو اندھیرے میں پیدا کیا پھر ان پر اپنا نور ڈالا جس پر وہ نور اس دن پڑ گیا وہ تو ہدایت والا ہو گیا اور جس تک وہ نور نہ پہنچا وہ بھٹک گیا ۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ عزوجل کے علم کے مطابق قلم چل چکا اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ سلیمان علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے تین دعائیں کی جن میں سے دو تو انہیں مل گئیں اور ہمیں امید ہے کہ تیسری ہمارے لیے ہو ( 1 ) مجھے ایسا حکم دے جو تیرے حکم کے موافق ہو ( 2 ) مجھے ایسا ملک دے جو میرے بعد کسی کے لیے لائق نہ ہو ۔ تیسری دعا یہ تھی کہ جو شخص اپنے گھر سے اس مسجد کی نماز کے ارادے ہی سے نکلے تو جب وہ لوٹے تو ایسا ہو جائے گویا آج پیدا ہوا پس ہمیں اللہ سے امید ہے کہ یہ ہمارے لیے اللہ نے دی ہو ۔ (سنن ترمذی:1862،قال الشیخ الألبانی:صحیح) طبرانی میں ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ عزوجل نے داؤد علیہ السلام کو اپنے لیے ایک گھر بنانے کا حکم دیا داؤد علیہ السلام نے پہلے اپنا گھر بنا لیا اس پر وحی آئی کہ تم نے اپنا گھر میرے گھر سے پہلے بنایا آپ علیہ السلام نے عرض کیا پروردگار یہی فیصلہ کیا گیا تھا پھر مسجد بنانی شروع کی دیواریں پوری ہو گئیں تو اتفاقاً تہائی حصہ گر گیا آپ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی جواب ملا کہ تو میرا گھر نہیں بنا سکتا ۔ پوچھا کیوں ؟ فرمایا اس لیے کہ تیرے ہاتھوں سے خون بہا ہے ۔ عرض کیا اللہ تعالیٰ وہ بھی تیری ہی محبت میں فرمایا ہاں لیکن وہ میرے بندے تھے میں ان پر رحم کرتا ہوں ۔ آپ علیہ السلام کو یہ کلام سن کر سخت پریشانی ہوئی ۔ پھر وحی آئی کہ غمگین نہ ہو میں اسے تیرے لڑکے سلیمان علیہ السلام کے ہاتھوں پورا کراؤں گا ۔ چنانچہ آپ علیہ السلام کے انتقال کے بعد سلیمان علیہ السلام نے اسے بنانا شروع کیا جب پورا کر چکے تو بڑی بڑی قربانیاں کیں اور ذبیحہ ذبح کئے اور بنو اسرائیل کو جمع کر کے خوب کھلایا پلایا اللہ کی وحی آئی کہ تو نے یہ سب کچھ میرے حکم کی تعمیل کی خوشی میں کیا ہے تو مجھ سے مانگ جو مانگے گا پائے گا ۔ عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ میرے تین سوال ہیں مجھے ایسا فیصلہ سمجھا جو تیرے فیصلے کے مطابق ہو اور ایسا ملک دے جو میرے بعد کسی کے لائق نہ ہو اور جو اس گھر میں آئے صرف نماز کے ارادے سے تو وہ اپنے گناہوں سے ایسا آزاد ہو جائے جیسے آج پیدا ہوا ۔ ان میں سے دو چیزیں تو اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا فرما دیں اور مجھے امید ہے کہ تیسری بھی دے دی گئی ہو ۔(طبرانی کبیر:4477:ضعیف جدا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ہر دعا کو ان لفظوں سے شروع فرماتے «سبحان اَلَّلہِ رَبِّـیَ العلیِّ الأعلی الوہَّابِ»(مسند احمد:54/4:ضعیف) اور روایت میں ہے کہ داؤد علیہ السلام کے انتقال کے بعد اللہ تعالیٰ نے سلیمان علیہ السلام سے فرمایا مجھ سے اپنی حاجت طلب کرو آپ علیہ السلام نے عرض کیا اللہ تعالیٰ مجھے ایسا دل دے جو تجھ سے ڈرتا رہے جیسا کہ میرے والد کا دل تجھ سے خوف کیا کرتا تھا ،اور میرے دل میں اپنی محبت ڈال دے جیسے کہ میرے والد کے دل میں تیری محبت تھی اس پر اللہ تعالیٰ بہت خوش ہوا کہ میرا بندہ میری عین عطا کے وقت بھی مجھ سے ڈرا اور میری محبت طلب کرتا ہے مجھے اپنی قسم میں اسے اتنی بڑی سلطنت دوں گا جو اس کے بعد کسی کو نہ ملے ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی ماتحتی میں ہوائیں کر دیں اور جنات کو بھی ان کا ماتحت بنا دیا ۔ اور اسی قدر ملک و مال پر بھی ، انہیں حساب قیامت سے آزاد کر دیا ۔ ابن عساکر میں ہے کہ داؤد علیہ السلام نے دعا کی کہ باری تعالیٰ سلیمان کے ساتھ بھی اسی لطف و کرم سے پیش آنا جیسا آج لطف و کرم تیرا مجھ پر رہا تو وحی آئی کہ سلیمان سے کہہ دو وہ بھی اسی طرح میرا رہے جس طرح تو میرا تھا ، تو میں بھی اس کے ساتھ ہو جاؤں گا جیسے کہ تیرے ساتھ تھا ۔ پھر بیان ہو رہا ہے کہ جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے اللہ کی محبت میں آ کر ان خوبصورت پیارے وفادار تیز رو گھوڑوں کو کاٹ ڈالا تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے انہیں ان کے عوض ان سے بہتر عطا فرمائے ۔ یعنی ہوا کو ان کے تابع فرمان کر دیا جو مہینے بھر کی راہ کو صبح کی ایک گھڑی میں طے کر دیتی تھی اور اسی طرح شام کو جہاں کا ارادہ کرتے ذرا سی دیر میں پہنچا دیتی ۔ جنات کو بھی سلیمان علیہ السلام کے تابع کر دیا ان میں سے بعض بڑی اونچی لمبی سنگین پختہ عمارت کے بنانے کے کام سر انجام دیتے جو انسانی طاقت سے باہر تھا اور بعض غوطہٰ خور تھے جو سمندر کی تہ میں سے لولو جواہر اور دیگر قسم قسم کی نفیس و نادر چیزیں لا دیتے تھے ۔ پھر اور کچھ تھے جو بھاری بھاری بیڑیوں میں جکڑے رہتے تھے ۔ یہ یا تو وہ تھے جو حکومت سے سرتابی کرتے تھے یا کام کاج میں شرارت اور کمی کرتے تھے یا لوگوں کو ستاتے اور ایذاء دیتے تھے ۔ یہ ہے ہماری مہربانی اور ہماری بخشش اور ہمارا انعام اور ہمارا عطیہ اب تجھے اختیار ہے جس سے جو چاہے سلوک کر سب بے حساب ہے کسی پر پکڑ نہیں ۔ جو تیری زبان سے نکلے گا وہ حق ہو گا ۔ صحیح حدیث میں ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار دیا گیا کہ اگر چاہیں عبد و رسول رہیں یعنی جو حکم کیا جائے بجا لاتے رہیں اللہ کے فرمان کے مطابق تقسیم کرتے رہیں اور اگر چاہیں نبی اور بادشاہ بنا دیئے جائیں جسے چاہیں دیں جسے چاہیں نہ دیں اور اس کا کوئی حساب اللہ کے ہاں نہ لیا جائے تو آپ نے جبرائیل علیہ السلام سے مشورہ لیا اور آپ کے مشورے سے پہلی بات قبول فرمائی کیونکہ فضیلت کے لحاظ سے اولیٰ اور اعلیٰ وہی ہے ۔ گو نبوت و سلطنت بھی بڑی چیز ہے ۔ اسی لیے سلیمان علیہ السلام کا دنیوی عزو جاہ بیان کرتے ہی فرمایا کہ وہ دار آخرت میں بھی ہمارے پاس بڑے مرتبے اور بہترین بزرگی اور اعلیٰ تر قریب والا ہے ۔ ص
35 ص
36 ص
37 ص
38 ص
39 ص
40 ص
41 ایوب علیہ السلام اور ان کا صبر ایوب علیہ السلام کا ذکر ہو رہا ہے اور ان کے صبر اور امتحان میں پاس ہونے کی تعریف بیان ہو رہی ہے کہ مال برباد ہو گیا اولادیں مر گئیں جسم مریض ہو گیا یہاں تک کہ سوئی کے ناکے کے برابر سارے جسم میں ایسی جگہ نہ تھی جہاں بیماری نہ ہو صرف دل سلامت رہ گیا اور پھر فقیری اور مفلسی کا یہ حال تھا کہ ایک وقت کا کھانا پاس نہ تھا کوئی نہ تھا جو خبر گیر ہوتا سوائے ایک بیوی صاحبہ رضی اللہ عنہا کے جن کے دل میں خوف اللہ تھا اور اپنے خاوند اللہ کے رسول علیہ السلام کی محبت تھی ۔ لوگوں کا کام کاج کر کے اپنا اور اپنے میاں کا پیٹ پالتی تھیں آٹھ سال تک یہی حال رہا حالانکہ اس سے پہلے ان سے بڑھ کر مالدار کوئی نہ تھا ۔ اولاد بھی بکثرت تھی اور دنیا کی ہر راحت موجود تھی ۔ اب ہرچیز چھین لی گئی تھی اور شہر کا کوڑا کرکٹ جہاں ڈالا جاتا تھا وہاں آپ کو لا بٹھایا تھا ۔ اسی حال میں ایک دو دن نہیں سال دو سال نہیں آٹھ سال کامل گذارے اپنے اور غیر سب نے منہ پھیر لیا تھا ۔ خیریت پوچھنے والا بھی کوئی نہ تھا ۔ صرف آپ کی یہی ایک بیوی صاحبہ تھیں جو ہر وقت دن اور رات آپ کی خدمت میں کمربستہ تھیں ۔ ہاں پیٹ پالنے کے لیے محنت مزدوری کے وقت آپ کے پاس سے چلی جاتی تھیں۔ یہاں تک کہ دن پھرے اور اچھا وقت آ گیا تو رب العالمین الہ المرسلین کی طرف تضرع و زاری کی اور کپکپاتے ہوئے کلیجے سے دل سے دعا کی کہ اے میرے پالنہار اللہ مجھے دکھ نے تڑپا دیا ہے اور تو ارحم الراحمین ہے یہاں جو دعا ہے اس میں جسمانی تکلیف اور مال و اولاد کے دکھ درد کا ذکر کیا ۔ اسی وقت رحیم و کریم اللہ نے اس دعا کو قبول فرمایا اور حکم ہوا کہ زمین پر اپنا پاؤں مارو ۔ پاؤں کے لگتے ہی وہاں ایک چشمہ ابلنے لگا حکم ہوا کہ اس پانی سے غسل کر لو ۔ غسل کرتے ہی بدن کی تمام بیماری اس طرح جاتی رہی گویا تھی ہی نہیں ۔ پھر حکم ہوا کہ اور جگہ ایڑی لگاؤ وہاں پاؤں مارتے ہی دوسرا چشمہ جاری ہو گیا حکم ہوا کہ اس کا پانی پی لو اس پانی کے پیتے ہی اندرونی بیماریاں بھی جاتی رہیں اور ظاہر و باطن کی عافیت اور کامل تندرستی حاصل ہو گئی ۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اٹھارہ سال تک اللہ کے یہ پیغمبر دکھ درد میں مبتلا رہے اپنے اور غیر سب نے چھوڑ دیا ہاں آپ علیہ السلام کے مخلص دوست صبح شام خیریت خبر کے لیے آ جایا کرتے تھے ایک مرتبہ ایک نے دوسرے سے کہا میرا خیال یہ ہے کہ ایوب علیہ السلام نے اللہ کی کوئی بڑی نافرمانی کی ہے کہ اٹھارہ سال سے اس بلا میں پڑا ہوا ہے اور اللہ اس پر رحم کرے اس دوسرے شخص نے شام کو ایوب علیہ السلام سے اس کی یہ بات ذکر کر دی ۔ آپ علیہ السلام کو سخت رنج ہوا اور فرمایا میں نہیں جانتا کہ وہ ایسا کیوں کہتے ہیں ۔ اللہ خوب جانتا ہے میری یہ حالت تھی کہ جب دو شخصوں کو آپس میں جھگڑتے دیکھا اور دونوں اللہ کو بیچ میں لاتے تو مجھ سے یہ نہ دیکھا جاتا کہ اللہ تعالیٰ کے عزیز نام کی اس طرح یاد کی جائے کیونکہ دو میں سے ایک تو ضرور مجرم ہو گا اور دونوں اللہ کا نام لے رہے ہیں تو میں اپنے پاس سے دے دلا کر ان کے جھگڑے کو ختم کر دیتا کہ نام اللہ کی بےادبی نہ ہو ۔ آپ سے اس وقت چلا بھرا بلکہ اٹھا بیٹھا بھی نہیں جاتا تھا پاخانے کے بعد آپ کی بیوی صاحبہ آپ کو اٹھا کر لاتی تھیں ۔ ایک مرتبہ وہ نہیں تھیں آپ کو بہت تکلیف ہوئی اور دعا کی اور اللہ کی طرف سے وحی ہوئی کہ زمین پر لات مار دو ۔ بہت دیر کے بعد جب آپ علیہ السلام کی بیوی صاحبہ آئیں تو دیکھا کہ مریض تو ہے نہیں کوئی اور شخص تندرست نورانی چہرے والا بیٹھا ہوا ہے پہچان نہ سکیں اور دریافت کرنے لگیں کہ اے اللہ کے نیک بندے یہاں اللہ کے ایک نبی جو درد دکھ میں مبتلا تھے انہیں دیکھا ہے ؟ واللہ کہ جب وہ تندرست تھے تو قریب قریب تم جیسے ہی تھے ، تب آپ علیہ السلام نے فرمایا وہ میں ہی ہوں ۔ راوی کہتا ہے آپ کی دو کوٹھیاں تھیں ایک گیہوں کیلئے اور ایک جو کے لیے ۔ اللہ تعالیٰ نے دو ابر بھیجے ایک میں سونا برسا اور ایک کوٹھی اناج کی اس سے بھر گئی دوسرے میں سے بھی سونا برسا اور دوسری کوٹھی اس سے بھر گئی ۔ ( ابن جریر ) ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ایوب علیہ السلام ننگے ہو کر نہا رہے تھے جو آسمان سے سونے کی ٹٹڈیاں برسنے لگیں آپ علیہ السلام نے جلدی جلدی انہیں اپنے کپڑے میں سمیٹنی شروع کیں تو اللہ تعالیٰ نے آواز دی کہ اے ایوب علیہ السلام کیا میں نے تمہیں غنی اور بےپرواہ نہیں کر رکھا ؟ آپ علیہ السلام نے جواب دیا ہاں الٰہی بیشک تو نے مجھے بہت کچھ دے رکھا ہے میں سب سے غنی اور بے نیاز ہوں لیکن تیری رحمت سے بے نیاز نہیں ہوں ۔(صحیح بخاری:3391) بلکہ اس کا تو پورا محتاج ہوں ۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنے اس صابر پیغمبر علیہ السلام کو نیک بدلہ اور بہتر جزائیں عطا فرمائیں ۔ اولاد بھی دی اور اسی کے مثل اور بھی دی بلکہ حضرت حسن اور قتادہ رحمہ اللہ علیہما سے منقول ہے کہ مردہ اولاد اللہ نے زندہ کر دی اور اتنی ہی اور نئی دی ۔ یہ تھا اللہ کا رحم جو ان کے صبر و استقلال رجوع الی اللہ تواضع اور انکساری کے بدلے اللہ نے انہیں دیا اور عقلمندوں کے لیے نصیحت و عبرت ہے وہ جان لیتے ہیں کہ صبر کا انجام کشادگی ہے اور رحمت و راحت ہے ۔ بعض لوگوں کا بیان ہے کہ ایوب علیہ السلام اپنی بیوی کے کسی کام کی وجہ سے ان پر ناراض ہو گئے تھے بعض کہتے ہیں وہ اپنے بالوں کی ایک لٹ بیچ کر ان کے لیے کھانا لائی تھیں اس پر آپ ناراض ہوئے تھے اور قسم کھائی تھی کہ شفاء کے بعد سو کوڑے ماریں گے دوسروں نے وجہ ناراضگی اور بیان کی ہے ۔ جبکہ آپ تندرست اور صحیح سالم ہو گئے تو ارادہ کیا کہ اپنی قسم کو پورا کریں لیکن ایسی نیک صفت عورت اس سزا کے لائق نہ تھیں جو ایوب علیہ السلام نے طے کر رکھی تھی جس عورت نے اس وقت خدمت کی جبکہ کوئی ساتھ نہ تھا اسی لیے رب العالمین ارحم الراحمین نے ان پر رحم کیا اور اپنے نبی علیہ السلام کو حکم دیا کہ قسم پوری کرنے کے لیے کھجور کا ایک خوشہ لے لو جس میں ایک سو سیخیں ہوں اور ایک انہیں مار دو اس صورت میں قسم کا خلاف نہ ہو گا اور ایک ایسی صابرہ شاکرہ نیک بیوی پر سزا بھی نہ ہو گی ۔ یہی دستور الٰہی ہے کہ وہ اپنے نیک بندوں کو جو اس سے ڈرتے رہتے ہیں برائیوں اور بدیوں سے محفوظ رکھتا ہے ۔ پھر اللہ تعالیٰ ایوب علیہ السلام کی ثناء و صفت بیان فرماتا ہے کہ ہم نے انہیں بڑا صابر و ضابط پایا وہ بڑا نیک اور اچھا بندہ ثابت ہوا ۔ اس کے دل میں ہماری سچی محبت تھی وہ ہماری ہی طرف جھکتا رہا اور ہمیں سے لو لگائے رہا ، اسی لیے فرمان اللہ ہے کہ جو اللہ سے ڈرتا رہتا ہے اللہ اس کے لیے چھٹکارے کی صورت نکال دیتا ہے اور اسے ایسی جگہ سے روزی پہنچاتا ہے جو اس کے خیال میں بھی نہ ہو ۔ اللہ پر توکل رکھنے والوں کو اللہ کافی ہے ۔ اللہ اپنے کام میں پورا اترتا ہے اللہ تعالیٰ نے ہرچیز کا ایک اندازہ مقرر کر رکھا ہے ۔ (64-الطلاق:3-2) سمجھدار علماء کرام نے اس آیت سے بہت سے ایمانی مسائل اخذ کئے ہیں «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ ص
42 ص
43 ص
44 ص
45 ابراہیم ، اسحاق اور یعقوب صلواۃ اللہ وسلامہ علیہم اجمعین کا ذکر اللہ تعالیٰ اپنے عابد بندوں اور رسولوں کی فضیلتوں کو بیان فرما رہا ہے اور ان کے نام گنوا رہا ہے ابراہیم اسحاق اور یعقوب صلواۃ اللہ وسلامہ علیہم اجمعین اور فرماتا ہے کہ ان کے اعمال بہت بہتر تھے اور صحیح علم بھی ان میں تھا ۔ ساتھ ہی عبادت الٰہی میں قوی تھے اور قدرت کی طرف سے انہیں بصیرت عطا فرمائی گئی تھی ۔ دین میں سمجھدار تھے اطاعت اللہ میں قوی تھے حق کے دیکھنے والے تھے ۔ ان کے نزدیک دنیا کی کوئی اہمیت نہ تھی صرف آخرت کا ہی ہر وقت خیال بندھا رہتا تھا ۔ ہر عمل آخرت کے لیے ہی ہوتا تھا ۔ دنیا کی محبت سے وہ الگ تھے ، آخرت کے ذکر میں ہر وقت مشغول رہتے تھے ۔ وہ اعمال کرتے تھے جو جنت دلوائیں ، لوگوں کو بھی نیک اعمال کی ترغیب دیتے تھے ۔ انہیں اللہ تعالیٰ بھی قیامت کے دن بہترین بدلے اور افضل مقامات عطا فرمائے گا ۔ یہ بزرگان دین اللہ کے چیدہ مخلص اور خاص الخاص بندے ہیں ۔ اسماعیل اور ذوالکفل صلوات و سلامہ علیہم اجمعین بھی پسندیدہ اور خاص بندوں میں تھے ۔ ان کے بیانات سورۃ انبیاء میں گذر چکے ہیں اس لیے ہم نے یہاں بیان نہیں کئے ۔ ان فضائل کے بیان میں ان کے لیے نصیحت ہے جو پند و نصیحت حاصل کرنے کے لیے عادی ہیں اور یہ مطلب بھی ہے کہ یہ قرآن عظیم ذکر یعنی نصیحت ہے ۔ ص
46 ص
47 ص
48 ص
49 صالحین کے لئے اجر نیکوکار تقویٰ والوں کے لیے دار آخرت میں کتنا پاک بدلہ اور کیسی پیاری جگہ ہے ؟ ہمیشہ رہنے والی جنتیں ہیں جن کے دروازے ان کے لیے بند نہیں بلکہ کھلے ہوئے ہیں ۔ کھلوانے کی بھی زحمت نہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جنت میں ایک محل عدن ہے جس کے آس پاس برج ہیں جس کے پانچ ہزار دروازے ہیں اور ہر دروازے پر پانچ ہزار چادریں ہیں ان میں صرف نبی یا صدیق یا شہید یا عادل بادشاہ رہیں گے ۔[ (المیزان:4602)] اور یہ تو بہت سی بالکل صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ جنت کے آٹھ دروازے ہیں ۔ اپنے تختوں پر تکئے لگائے بے فکری سے چار زانو با آرام بیٹھے ہوئے ہوں گے ۔ اور جس قوم کو جس میوے شراب کا جی چاہے حکم کے ساتھ خدام باسلیقہ حاضر کر دیں گے ۔ ان کے پاس ان کی بیویاں ہوں گی جو عفیفہ ، پاک دامن ، نیچی نگاہوں والی اور ان سے محبت و عشق رکھنے والی ہوں گی ۔ جن کی نگاہیں کبھی دوسرے کی طرف نہ اٹھی ہیں نہ اٹھیں نہ اٹھ سکیں ۔ ان کی ہم عمر ہوں گی ان کی عمروں کے لائق ہوں گی ۔ ان صفات والی جنت کا وعدہ اللہ سے ڈرتے رہنے والے بندوں سے ہے ، قیامت کے دن یہ اس کے وارث و مالک ہوں گے جبکہ قبروں سے اٹھ کر آگ سے نجات پا کر حساب سے فارغ ہو کر یہاں آ کر بہ آرام بسیں گے ۔ یہ ہے ہمارے انعام جس میں نہ کبھی کمی آئے گی نہ یہ منقطع ہو گا ۔ جیسے فرمایا «مَا عِنْدَکُمْ یَنْفَدُ وَمَا عِنْدَ اللّٰہِ بَاقٍ» ( 16- النحل : 96 ) تمہارے پاس جو کچھ ہے وہ ختم ہو جاتا ہے اور اللہ کے پاس جو ہے وہ باقی رہنے والا ہے اور آیت میں ہے اور جگہ غیر ممنون بھی ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ نہ اس میں کبھی کمی ہے وہ باقی رہنے والا ہے اور آیت میں غیرجذوذ ہے اور جگہ غیرممنون بھی ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ نہ اس میں کبھی کمی اور گھاٹا آئے نہ کبھی وہ ختم اور فنا ہو ۔ جیسے ارشاد ہے «اُکُلُہَا دَاۗیِٕمٌ وَّظِلٰہَا ۭ تِلْکَ عُقْبَی الَّذِیْنَ اتَّقَوْاڰ وَّعُقْبَی الْکٰفِرِیْنَ النَّارُ» ( 13- الرعد : 35 ) اس کے میوے اور کھانے پینے اور اس کے سائے دائمی ہیں ۔ پرہیزگاروں کا انجام یہی ہے اور کافروں کا انجام جہنم ہے ۔ اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں ۔ ص
50 ص
51 ص
52 ص
53 ص
54 ص
55 اہل نار کے احوال اوپر نیکوں کا حال بیان کیا تو یہاں بروں کا حال بیان فرما رہا ہے جو اللہ کی نہیں مانتے تھے ، نبی کی نافرمانی کرتے تھے ان کے لوٹنے کی جگہ بہت بری ہے اور وہ جہنم ہے جس میں یہ لوگ داخل ہوں گے اور چاروں طرف سے انہیں آتش دوزخ گھیر لے گی ۔ یہ نہایت ہی برا بچھونا ہے ۔ ص
56 ص
57 دوزخیوں کا جھگڑا حمیم اس پانی کو کہتے ہیں جس کی حرارت اور گرمی انتہا کو پہنچ چکی ہو ۔ اور غساق کہتے ہیں اس ٹھنڈک کو جس کی سردی انتہا کو پہنچ چکی ہو ۔ پس ایک طرف آگ کا گرم عذاب دوسری جانب ٹھنڈک سرد عذاب اور اسی طرح قسم قسم کے ، جوڑ جوڑ کے عذاب ، جو ایک دوسرے کی ضد ہوں ۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اگر ایک ڈول غساق کا دنیا میں بہایا جائے تو تمام اہل دنیا بدبودار ہو جائیں ۔(سنن ترمذی:2584،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) سیدنا کعب احبار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں غساق نامی جہنم میں ایک نہر ہے جس میں سانپ بچھو وغیرہ کا زہر جمع ہوتا ہے پھر وہ گرم ہو کر اونٹنے لگتا ہے اس میں جہنمیوں کو غوطے دیئے جائیں گے جس سے ان کا سارا گوشت پوست جھڑ جائے گا اور پنڈلیوں میں لٹک جائے گا ۔ جسے وہ اس طرح گھسیٹتے پھریں گے جیسے کوئی شخص اپنا کپڑا گھسیٹ رہا ہو ۔ ( ابن ابی حاتم ) غرض سردی کا عذاب الگ ہو گا گرمی کا الگ ہو گا حمیم پینے کو زقوم کھانے کو کبھی آگ کے پہاڑوں پر چڑھایا جاتا ہے تو کبھی آگ کے گڑھوں میں دھکیلا جاتا ہے اللہ ہمیں بچائے ۔ اب جہنمیوں کا جھگڑا ان کا تنازع اور ایک دوسرے کو برا کہنا بیان ہو رہا ہے جیسے اور آیت میں ہے «کُلَّمَادَخَلَتْ اُمَّۃٌ لَّعَنَتْ اُخْتَہَا » ( 7- الاعراف : 38 ) ہر گروہ دوسرے پر بجائے سلام کے لعنت بھیجے گا ۔ ایک دوسرے کو جھٹلائے گا اور ایک دوسرے پر الزام رکھے گا ۔ ایک جماعت جو پہلے جہنم میں جا چکی ہے وہ دوسری جماعت کو داروغہ جہنم کے ساتھ آتی ہوئی دیکھ کر کہے گی کہ یہ گروہ جو تمہارے ساتھ ہے انہیں مرحبا نہ ہو اس لیے کہ یہ بھی جہنمی گروہ ہے ۔ وہ آنے والے ان سے کہیں گے کہ تمہارے لیے مرحبا ہو تم ہی تو تھے کہ ہمیں ان برے کاموں کی طرف بلاتے رہے جن کا انجام یہ ہوا ۔ پس بری منزل ہے ۔ پھر کہیں گے کہ اے باری تعالیٰ جس نے ہمارے لیے اس کی تقدیم کی تو اسے دوگنا عذاب کر ۔ جیسے فرمان ہے«قَالَتْ اُخْرٰیہُمْ لِاُوْلٰیہُمْ رَبَّنَا ہٰٓؤُلَاۗءِ اَضَلٰوْنَا فَاٰتِہِمْ عَذَابًا ضِعْفًا مِّنَ النَّارِ قَالَ لِکُلٍّ ضِعْفٌ وَّلٰکِنْ لَّا تَعْلَمُوْنَ» ( 7- الاعراف : 38 ) یعنی پچھلے پہلوں کے لیے کہیں گے کہ پروردگار انہوں نے ہمیں گمراہ کر دیا تو انہیں آگ کا دگنا عذاب کر ۔ اللہ فرمائے گا ہر ایک کے لیے دگنا ہی ہے لیکن تم نہیں جانتے ۔ یعنی ہر ایک کے لیے ایسا عذاب ہے جس کی انتہا اسی کے لیے ہے ۔ چونکہ کفار وہاں مومنوں کو نہ پائیں گے جنہیں اپنے خیال میں بہکا ہوا جانتے تھے تو اس میں ذکر کریں گے کہ اس کی وجہ کیا ہے ؟ ہمیں مسلمان جہنم میں نظر نہیں آتے ؟ مجاہد فرماتے ہیں کہ ابوجہل کہے گا کہ بلال عمار صھیب وغیرہ وغیرہ کہاں ہیں ؟ وہ تو نظر ہی نہیں آتے غرض ہر کافر یہی کہے گا کہ وہ لوگ جنہیں دنیا میں ہم شریر گنتے تھے وہ آج یہاں نظر نہیں آتے ۔ کیا ہماری ہی غلطی تھی کہ ہم انہیں دنیا میں مذاق اڑاتے تھے ؟ لیکن نہیں ایسا تو نہ تھا وہ ہوں گے تو جہنم میں ہی لیکن کہیں ادھر ادھر ہوں گے ہماری نگاہ میں نہیں پڑتے ۔ اسی وقت جنتیوں کی طرف سے ندا آئے گی کہ اے دوزخیو ! ادھر دیکھو ہم نے تو اپنے رب کے وعدے کو حق پایا تم اپنی کہو کیا اللہ کے وعدے کے سچے نکلے ؟ یہ جواب دیں گے کہ ہاں بالکل سچ نکلے اسی وقت ایک منادی ندا کرے گا کہ ظالموں پر اللہ کی لعنت ہو ۔ اسی کا بیان آیات قرآنیہ «وَنَادٰٓی اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ اَصْحٰبَ النَّارِ اَنْ قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبٰنَا حَقًّا فَہَلْ وَجَدْتٰمْ مَّا وَعَدَ رَبٰکُمْ حَقًّا ۭقَالُوْا نَعَمْ ۚ فَاَذَّنَ مُؤَذِّنٌۢ بَیْنَہُمْ اَنْ لَّعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الظّٰلِمِیْنَ» ( 7- الاعراف : 44 ) سے «وَلَا أَنتُمْ تَحْزَنُونَ » ( 7- الاعراف : 49 ) ہے ۔ پھر فرماتا ہے اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو خبر میں تمہیں دے رہا ہوں کہ جہنمی اسی طرح لڑیں جھگڑیں گے اور آپس میں ایک دوسرے پر لعن طعن کریں گے یہ بالکل سچی واقع اور ٹھیک خبر ہے جس میں کوئی شک و شبہ نہیں ۔ ص
58 ص
59 ص
60 ص
61 ص
62 ص
63 ص
64 ص
65 نبی علیہ السلام کا خواب اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرماتا ہے کہ کافروں سے کہہ دو کہ میری نسبت تمہارے خیالات محض غلط ہیں میں تو تمہیں ڈر کی خبر پہچانے والا ہوں ۔ اللہ وحدہ لا شریک لہ کے سوا اور کوئی قابل پرستش نہیں وہ اکیلا ہے وہ ہرچیز پر غالب ہے ، ہرچیز اس کے ماتحت ہے ۔ وہ زمین و آسمان اور ہرچیز کا مالک ہے اور سب تصرفات اسی کے قبضے میں ہیں ۔ وہ عزتوں والا ہے اور باوجود اس عظمت و عزت کے بڑا بخشنے والا ہے ۔ یہ بہت بڑی چیز ہے یعنی میرا رسول بن کر تمہاری طرف آنا پھر تم اے غافلو ! اس سے اعراض کر رہے ہو ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ بڑی چیز ہے یعنی قرآن کریم ۔ آدم علیہ السلام کے بارے میں فرشتوں میں جو کچھ اختلاف ہوا اگر رب کی وحی میرے پاس نہ آئی ہوتی تو مجھے اس کی بابت کیا علم ہوتا ؟ ابلیس کا آپ کو سجدہ کرنے سے منکر ہونا اور رب کے سامنے اس کی مخالفت کرنا اور اپنی بڑائی جتانا وغیرہ ان سب باتوں کو میں کیا جانوں ؟ مسند احمد میں ہے ایک دن صبح کی نماز میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت دیر لگا دی یہاں تک کہ سورج طلوع ہونے کا وقت آ گیا پھر بہت جلدی کرتے ہوئے آئے تکبیر کہی گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہلکی نماز پڑھائی ۔ پھر ہم سے فرمایا ذرا دیر ٹھہرے رہو پھر ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا رات کو میں تہجد کی نماز پڑھ رہا تھا جو مجھے اونگھ آنے لگی یہاں تک کہ میں جاگا میں نے دیکھا کہ گویا میں اپنے رب کے پاس ہوں میں نے اپنے پروردگار کو بہترین عمدہ صورت میں دیکھا مجھ سے جناب باری نے دریافت فرمایا جانتے ہو عالم بالا کے فرشتے اس وقت کس امر میں گفتگو اور سوال و جواب کر رہے ہیں ؟ میں نے کہا میرے رب مجھے کیا خبر ؟ تین مرتبہ کے سوال و جواب کے بعد میں نے دیکھا کہ میرے دونوں مونڈھوں کے درمیان اللہ عزوجل نے اپنا ہاتھ رکھا یہاں تک کہ انگلیوں کی ٹھنڈک مجھے میرے سینے میں محسوس ہوئی اور مجھ پر ہر ایک چیز روشن ہو گئی پھر مجھ سے سوال کیا اب بتاؤ ملاء اعلیٰ میں کیا بات چیت ہو رہی ہے ؟ میں نے کہا گناہوں کے کفارے کی ۔ فرمایا پھر تم بتاؤ کفارے کیا کیا ہیں ؟ میں نے کہا نماز با جماعت کے لیے قدم اٹھا کر جانا ۔ نمازوں کے بعد مسجدوں میں بیٹھے رہنا اور دل کے نہ چاہنے پر بھی کامل وضو کرنا ۔ پھر مجھ سے میرے اللہ نے پوچھا درجے کیا ہیں ؟ میں نے کہا کھانا کھلانا ۔ نرم کلامی کرنا اور راتوں کو جب لوگ سوئے پڑے ہوں نماز پڑھنا ۔ اب مجھ سے میرے رب نے فرمایا مانگ کیا مانگتا ہے ؟ میں نے کہا میں نیکیوں کا کرنا برائیوں کا چھوڑنا مسکینوں سے محبت رکھنا اور تیری بخشش ، تیرا رحم اور تیرا ارادہ جب کسی قوم کی آزمائش کا فتنے کے ساتھ ہو تو اسے فتنے میں مبتلا ہونے سے پہلے موت ، تیری محبت اور تجھ سے محبت رکھنے والوں کی محبت اور ان کاموں کی چاہت جو تیری محبت سے قریب کرنے والے ہوں مانگتا ہوں اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ سراسر حق ہے اسے پڑھو پڑھاؤ سیکھو سکھاؤ ۔ (مسند احمد:243/5:صحیح) (سنن ترمذی:3235،قال الشیخ الألبانی:صحیح) یہ حدیث خواب کی ہے اور مشہور بھی یہی ہے بعض نے کہا ہے یہ جاگتے کا واقعہ ہے لیکن یہ غلط ہے بلکہ صحیح یہ ہے کہ یہ واقعہ خواب کا ہے اور یہ بھی خیال رہے کہ قرآن میں فرشتوں کی جس بات کا رد و بدل کرنا اس آیت میں مذکور ہے وہ یہ نہیں جو اس حدیث میں ہے بلکہ یہ سوال تو وہ ہے جس کا ذکر اس کے بعد ہی ہے ملاحظہ ہوں اگلی آیتیں ۔ ص
66 ص
67 ص
68 ص
69 ص
70 ص
71 تخلیق آدم اور ابلیس کی سرکشی یہ قصہ سورۃ البقرہ ، سورۃ الاعراف ، سورۃ الحجر ، سورۃ الإسراء ، سورۃ الکہف اور اس سورۃ ص میں بیان ہوا ہے ۔ آدم کو پیدا کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو اپنا ارادہ بتایا کہ میں مٹی سے آدم کو پیدا کرنے والا ہوں ۔ جب میں اسے پیدا کر چکوں تو تم سب اسے سجدہ کرنا تاکہ میری فرمانبرداری کے ساتھ ہی آدم کی شرافت و بزرگی کا بھی اظہار ہو جائے ۔ پس کل کے کل فرشتوں نے تعمیل ارشاد کی ۔ ہاں ابلیس اس سے رکا ، یہ فرشتوں کی جنس میں سے تھا بھی نہیں بلکہ جنات میں سے تھا ۔ طبعی خباثت اور جبلی سرکشی ظاہر ہو گئی ۔ سوال ہوا کہ اتنی معزز مخلوق کو جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا تو نے میرے کہنے کے باوجود سجدہ کیوں نہ کیا ؟ یہ تکبر ! اور یہ سرکشی ؟ تو کہنے لگا کہ میں اس سے افضل و اعلیٰ ہوں کہاں آگ اور کہاں مٹی ؟ اس خطاکار نے اس کے سمجھنے میں بھی غلطی کی اور اللہ کے حکم کی مخالفت کی وجہ سے غارت ہو گیا حکم ہوا کہ میرے سامنے سے منہ ہٹا میرے دربار میں تجھ جیسے نافرمانوں کی رسائی نہیں تو میری رحمت سے دور ہو گیا اور تجھ پر ابدی لعنت نازل ہوئی اور اب تو خیرو خوبی سے مایوس ہو جا ۔ اس نے اللہ سے دعا کی کہ قیامت تک مجھے مہلت دی جائے ۔ اس حلیم اللہ نے جو اپنی مخلوق کو ان کے گناہوں پر فوراً نہیں پکڑتا اس کی یہ التجا پوری کر دی اور قیامت تک کی اسے مہلت دے دی ۔ اب کہنے لگا میں تو اس کی تمام اولاد کو بہکا دوں گا صرف مخلص لوگ تو بچ جائیں گے ۔ اللہ تعالیٰ کو منظور بھی یہی تھا جیسا کہ قرآن کریم کی اور آیتوں میں بھی ہے مثلا«قَالَ اَرَءَیْتَکَ ہٰذَا الَّذِیْ کَرَّمْتَ عَلَیَّ ۡ لَیِٕنْ اَخَّرْتَنِ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ لَاَحْتَنِکَنَّ ذُرِّیَّتَہٗٓ اِلَّا قَلِیْلًا» ( 17- الإسراء : 62 ) ، اور «اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْہِمْ سُلْطٰنٌ اِلَّا مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْغٰوِیْنَ » ( 15- الحجر : 42 ) فالحق کو مجاہد نے پیش سے پڑھا ہے معنی یہ ہیں کہ میں خود حق ہوں اور میری بات بھی حق ہی ہوتی ہے اور ایک روایت میں ان سے یوں مروی ہے کہ حق میری طرف سے ہے اور میں حق ہی کہتا ہوں اوروں نے دونوں لفظ زبر سے پڑھے ہیں ۔ سدی کہتے ہیں یہ قسم ہے ۔ میں کہتا ہوں یہ آیت اس آیت کی طرح ہے« وَلَوْ شِئْنَا لَاٰتَیْنَا کُلَّ نَفْسٍ ہُدٰیہَا وَلٰکِنْ حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّیْ لَاَمْلَئَنَّ جَہَنَّمَ مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ» ( 32- السجدۃ : 13 ) یعنی میرا یہ قول اٹل ہے کہ میں ضرور ضرور جہنم کو اس قسم کے انسانوں اور جنوں سے پر کر دونگا اور جیسے فرمان ہے«قَالَ اذْہَبْ فَمَن تَبِعَکَ مِنْہُمْ فَإِنَّ جَہَنَّمَ جَزَاؤُکُمْ جَزَاءً مَّوْفُورًا » ( 17-سورۃ الإسراء : 65 ) ، یہاں سے نکل جا جو شخص بھی تیری مانے گا اس کی اور تیری پوری سزا جہنم ہے ۔ ص
72 ص
73 ص
74 ص
75 ص
76 ص
77 ص
78 ص
79 ص
80 ص
81 ص
82 ص
83 ص
84 ص
85 ص
86 اللہ تعالیٰ کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ لوگوں میں آپ اعلان کر دیں کہ میں تبلیغ دین پر اور احکام قرآن پر تم سے کوئی اجرت و بدلہ نہیں مانگتا ۔ اس سے میرا مقصود کوئی دنیوی نفع حاصل کرنا نہیں اور نہ میں تکلف کرنے والا ہوں ، کہ اللہ نے نہ اتارا ہو اور میں جوڑ لوں ۔ مجھے تو جو کچھ پہنچایا جاتا ہے وہی میں تمہیں پہنچا دیتا ہوں نہ کمی کروں نہ زیادتی اور میرا مقصود اس سے صرف رضائے رب اور مرضی مولیٰ ہے ۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں لوگو ! جسے کسی مسئلہ کا علم ہو وہ اسے لوگوں سے بیان کر دے اور جو نہ جانتا ہو وہ کہدے کہ اللہ جانے ۔ دیکھو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی یہی فرمایا کہ میں تکلف کرنے والا نہیں ہوں ۔ یہ قرآن تمام انسانوں اور جنوں کے لیے نصیحت ہے جیسے اور آیت میں ہے «لِأُنذِرَکُم بِہِ وَمَن بَلَغَ ۚ أَئِنَّکُمْ لَتَشْہَدُونَ أَنَّ مَعَ اللہِ آلِہَۃً أُخْرَیٰ ۚ قُل لَّا أَشْہَدُ ۚ قُلْ إِنَّمَا ہُوَ إِلٰہٌ وَاحِدٌ وَإِنَّنِی بَرِیءٌ مِّمَّا تُشْرِکُونَ» ( 6-الانعام : 19 ) تاکہ میں تمہیں اور جن جن لوگوں تک یہ پہنچے آگاہ اور ہوشیار کر دوں اور آیت میں ہے کہ«وَمَن یَکْفُرْ بِہِ مِنَ الْأَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُہُ» ( 11-ہود : 17 ) جو شخص بھی اس سے کفر کرے وہ جہنمی ہے ۔ میری باتوں کی حقیقت میرے کلام کی تصدیق میرے بیان کی سچائی میرے زبان کی صداقت تمہیں ابھی ابھی معلوم ہو جائے گی یعنی مرتے ہی ، قیامت کے قائم ہوتے ہی ۔ موت کے وقت یقین آ جائے گا اور میری کہی ہوئی خبریں اپنی آنکھوں سے دیکھ لو گے ۔ «واللہ اعلم بالصواب» ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے سورۃ ص کی تفسیم ختم ہوئی ۔ اللہ تعالیٰ کے انعام و احسان پر اس کا شکر ہے ۔ ص
87 ص
88 ص
0 الزمر
1 باطل عقائد کی تردید اللہ تبارک و تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ ’ یہ قرآن عظیم اسی کا کلام ہے اور اسی کا اتارا ہوا ہے ۔ اس کے حق ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ‘ ۔ جیسے اور جگہ ہے« وَإِنَّہُ لَتَنزِیلُ رَ‌بِّ الْعَالَمِینَ نَزَلَ بِہِ الرٰوحُ الْأَمِینُ عَلَیٰ قَلْبِکَ لِتَکُونَ مِنَ الْمُنذِرِ‌ینَ بِلِسَانٍ عَرَ‌بِیٍّ مٰبِینٍ» ۱؎ (26-الشعراء:195-192) ، ’ یہ رب العالمین کی طرف سے نازل کیا ہوا ہے ۔ جسے روح الامین لے کر اترا ہے ۔ تیرے دل پر اترا ہے تاکہ تو آگاہ کرنے والابن جائے ۔ صاف فصیح عربی زبان میں ہے ‘ اور آیتوں میں ہے «إِنَّ الَّذِینَ کَفَرُ‌وا بِالذِّکْرِ‌ لَمَّا جَاءَہُمْ وَإِنَّہُ لَکِتَابٌ عَزِیزٌ لَّا یَأْتِیہِ الْبَاطِلُ مِن بَیْنِ یَدَیْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہِ تَنزِیلٌ مِّنْ حَکِیمٍ حَمِیدٍ» ۱؎ (41-فصلت:41-42) ’ یہ باعزت کتاب وہ ہے جس کے آگے یا پیچھے سے باطل آ ہی نہیں سکتا یہ حکمتوں والی تعریفوں والے اللہ کی طرف سے اتری ہے ‘ ۔ یہاں فرمایا کہ ’ یہ کتاب بہت بڑے عزت والے اور حکمت والے اللہ کی طرف سے اتری ہے جو اپنے اقوال افعال شریعت تقدیر سب میں حکمتوں والا ہے ۔ ہم نے تیری طرف اس کتاب کو حق کے ساتھ نازل فرمایا ہے ۔ تجھے چاہیئے کہ خود اللہ کی عبادتوں میں اور اس کی توحید میں مشغول رہ کر ساری دنیا کو اسی طرف بلا ، کیونکہ اس اللہ کے سوا کسی کی عبادت زیبا نہیں ، وہ لاشریک ہے ، وہ بے مثال ہے ، اس کا شریک کوئی نہیں ۔ دین خالص یعنی شہادت توحید کے لائق وہی ہے ‘ ۔ پھر مشرکوں کا ناپاک عقیدہ بیان کیا کہ ’ وہ فرشتوں کو اللہ کا مرقب جان کر ان کی خیالی تصویریں بنا کر ان کی پوجا پاٹ کرنے لگے یہ سمجھ کر یہ اللہ کے لاڈلے ہیں ، ہمیں جلدی اللہ کا مقرب بنا دیں گے ۔ پھر تو ہماری روزیوں میں اور ہرچیز میں خوب برکت ہو جائے گی ‘ ۔ یہ مطلب نہیں کہ قیامت کے روز ہمیں وہ نزدیکی اور مرتبہ دلوائیں گے ۔ اس لیے کہ قیامت کے تو وہ قائل ہی نہ تھے یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ انہیں اپنا سفارشی جانتے تھے ۔ جاہلیت کے زمانہ میں حج کو جاتے تو وہاں لبیک پکارتے ہوئے کہتے «لَبَّیْکَ لَا شَرِیکَ لَک إِلَّا شَرِیکًا ہُوَ لَک تَمْلِکُہُ وَمَا مَلَکَ» اللہ ہم تیرے پاس حاضر ہوئے ۔ تیرا کوئی شریک نہیں مگر ایسے شریک جن کے اپنے آپ کا مالک بھی تو ہی ہے اور جو چیزیں ان کے ماتحت ہیں ان کا بھی حقیقی مالک تو ہی ہے ۔ یہی شبہ اگلے پچھلے تمام مشرکوں کو رہا اور اسی کو تمام انبیاء علیہم السلام رد کرتے رہے اور صرف اللہ تعالیٰ واحد کی عبادت کی طرف انہیں بلاتے رہے ۔ یہ عقیدہ مشرکوں نے بے دلیل گھڑ لیا تھا جس سے اللہ بیزار تھا ۔ فرماتا ہے «وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا» ۱؎ (16-النحل:36) ، یعنی ’ ہر امت میں ہم نے رسول بھیجے کہ تم اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے سوا ہر ایک کی عبادت سے الگ رہو ‘ اور فرمایا «وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِیْٓ اِلَیْہِ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ» ۱؎ (21-الأنبیاء:25) ، یعنی ’ تجھ سے پہلے جتنے رسول ہم نے بھیجے سب کی طرف یہی وحی کی کہ معبود برحق صرف میں ہی ہوں پس تم سب میری ہی عبادت کرنا ‘ ۔ ساتھ ہی یہ بھی بیان فرمادیا کہ ’ آسمان میں جس قدر فرشتے ہیں خواہ وہ کتنے ہی بڑے مرتبے والے کیوں نہ ہوں سب کے سب اس کے سامنے لاچار عاجز اور غلاموں کی مانند ہیں اتنا بھی تو اختیار نہیں کہ کسی کی سفارش میں لب ہلا سکیں ‘ ۔ یہ عقیدہ محض غلط ہے کہ وہ اللہ کے پاس ایسے ہیں جیسے بادشاہوں کے پاس امیر امراء ہوتے ہیں کہ جس کی وہ سفارش کر دیں اس کا کام بن جاتا ہے اس باطل اور غلط عقیدے سے یہ کہہ کر منع فرمایا کہ « فَلَا تَضْرِ‌بُوا لِلہِ الْأَمْثَالَ إِنَّ اللہَ یَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ » ۱؎ (16-النحل:74) ’ اللہ کے سامنے مثالیں نہ بیان کیا کرو ۔ اللہ اسے بہت بلند و بالا ہے ‘ ۔ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کا سچا فیصلہ کر دے گا اور ہر ایک کو اس کے اعمال کا بدلہ دے گا ان سب کو جمع کر کے فرشتوں سے سوال کرے گا کہ ’ کیا یہ لوگ تمہیں پوجتے تھے ؟ ‘ وہ جواب دیں گے کہ تو پاک ہے ، یہ نہیں بلکہ ہمارا ولی تو تو ہی ہے یہ لوگ تو جنات کی پرستش کرتے تھے اور ان میں سے اکثر کا عقیدہ و ایمان انہی پر تھا ۔ اللہ تعالیٰ انہیں راہ راست نہیں دکھاتا جن کا مقصود اللہ پر جھوٹ بہتان باندھنا ہو اور جن کے دل میں اللہ کی آیتوں ، اس کی نشانیوں اور اس کی دلیلوں سے کفر بیٹھ گیا ہو ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے عقیدے کی نفی کی جو اللہ کی اولاد ٹھہراتے تھے مثلاً مشرکین مکہ کہتے تھے کہ فرشتے اللہ کی لڑکیاں ہیں ۔ یہود کہتے تھے عزیز علیہ السلام اللہ کے لڑکے ہیں ۔ عیسائی گمان کرتے تھے کہ عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں ۔ پس فرمایا کہ ’ جیسا ان کا خیال ہے اگر یہی ہوتا تو اس امر کے خلاف ہوتا ‘ ، پس یہاں شرط نہ تو واقع ہونے کے لیے ہے نہ امکان کے لیے ۔ بلکہ محال کے لیے ہے اور مقصد صرف ان لوگوں کی جہالت بیان کرنے کا ہے ۔ جیسے فرمایا «لَـوْ اَرَدْنَآ اَنْ نَّتَّخِذَ لَہْوًا لَّاتَّخَذْنٰہُ مِنْ لَّدُنَّآ اِنْ کُنَّا فٰعِلِیْنَ» ۱؎ (21-الأنبیاء:17) ، ’ اگر ہم ان بیہودہ باتوں کا ارادہ کرتے تو اپنے پاس سے ہی بنا لیتے اگر ہم کرنے والے ہی ہوتے‘ ۔ اور آیت میں ہے«قُلْ اِنْ کَان للرَّحْمٰنِ وَلَدٌ فَاَنَا اَوَّلُ الْعٰبِدِیْنَ» ۱؎ (43-الزخرف:81) یعنی ’ کہدے کہ اگر رحمان کی اولاد ہوتی تو میں تو سب سے پہلے اس کا قائل ہوتا ‘ ۔ پس یہ سب آیتیں شرط کو محال کے ساتھ متعلق کرنے والی ہیں ۔ امکان یا وقوع کے لیے نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ نہ یہ ہو سکتا ہے نہ وہ ہو سکتا ہے ۔ اللہ ان سب باتوں سے پاک ہے وہ فرد احد ، صمد اور واحد ہے ۔ ہرچیز اس کی ماتحت فرمانبردار عاجز محتاج فقیر بے کس اور بے بس ہے ۔ وہ ہرچیز سے غنی ہے سب سے بےپرواہ ہے سب پر اس کی حکومت اور غلبہ ہے ، ظالموں کے ان عقائد سے اور جاہلوں کی ان باتوں سے اس کی ذات مبرا و منزہ ہے ۔ الزمر
2 الزمر
3 الزمر
4 الزمر
5 تخلیقِ کائنات اور عقیدہ توحید ہر چیز کا خالق ، سب کا مالک ، سب پر حکمران اور سب کا قابض اللہ ہی ہے ۔ دن رات کا الٹ پھیر اسی کے ہاتھ ہے اسی کے حکم سے انتظام کے ساتھ دن رات ایک دوسرے کے پیچھے برابر مسلسل چلے آ رہے ہیں ۔ نہ وہ آگے بڑھ سکے نہ وہ پیچھے رہ سکے ۔ سورج چاند کو اس نے مسخر کر رکھا ہے وہ اپنے دورے کو پورا کر رہے ہیں قیامت تک اس انتظام میں تم کوئی فرق نہ پاؤ گے ۔ وہ عزت و عظمت والا کبریائی اور رفعت والا ہے ۔ گنہگاروں کا بخشنہار ، عاصیوں پر مہربان وہی ہے ۔ تم سب کو اس نے ایک ہی شخص یعنی آدم علیہ السلام سے پیدا کیا ہے پھر دیکھو کہ تمہارے آپس میں کس قدر اختلاف ہے ۔ رنگ صورت آواز بول چال زبان و بیان ہر ایک الگ الگ ہے ۔ آدم علیہ السلام سے ہی ان کی بیوی صاحبہ حواء رضی اللہ عنہا کو پیدا کیا ۔ جیسے اور جگہ ہے کہ«یَا أَیٰہَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّکُمُ الَّذِی خَلَقَکُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَۃٍ وَخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا» ۱؎ (4-النسأ:1) ’ لوگو ! اللہ سے ڈرو جو تمہارا رب ہے جس نے تمہیں ایک ہی نفس سے پیدا کیا ہے اسی سے اس کی بیوی کو پیدا کیا پھر بہت سے مرد و عورت پھیلا دیئے اس نے تمہارے لیے آٹھ نر و مادہ چوپائے پیدا کئے ‘ جن کا بیان سورۃ الأنعام کی آیات «مِنَ الضَّاْنِ اثْنَیْنِ وَمِنَ الْمَعْزِ اثْنَیْنِ»الخ ۱؎ (6-الأنعام:143-144) ، میں ہے ۔ یعنی بھیڑ ، بکری ، اونٹ گائے ۔ ’ وہ تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں میں پیدا کرتا ہے جہاں تمہاری مختلف پیدائشیں ہوتی رہتی ہیں‘ ۔ «ثُمَّ خَلَقْنَا النٰطْفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظَامًا فَکَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ أَنشَأْنَاہُ خَلْقًا آخَرَ فَتَبَارَکَ اللہُ أَحْسَنُ الْخَالِقِینَ » ۱؎ (23-المؤمنون:14) ’ پہلے نطفہ ، پھر خون بستہ ، پھر لوتھڑا ، پھر گوشت پوست ، ہڈی ، رگ ، پٹھے ، پھر روح ، غور کرو کہ وہ کتنا اچھا خالق ہے ‘ ، تین تین اندھیرے مرحلوں میں تمہاری یہ طرح طرح کی تبدیلیوں کی پیدائش کا ہیر پھیر ہوتا رہتا ہے رحم کی اندھیری اس کے اوپر کی جھلی کی اندھیری اور پیٹ کا اندھیرا یہ جس نے آسمان و زمین کو اور خود تم کو اور تمہارے اگلوں پچھلوں کو پیدا کیا ہے ۔ وہی رب ہے اسی کا مالک ہے ۔ وہی سب میں متصرف ہے وہی لائق عبادت ہے اس کے سوا کوئی اور نہیں ۔ افسوس نہ جانیں تمہاری عقلیں کہاں گئیں کہ تم اس کے سوا دوسروں کی عبادت کرنے لگے ۔ الزمر
6 الزمر
7 ساری مخلوق اللہ کی محتاج ہے فرماتا ہے کہ ’ ساری مخلوق اللہ کی محتاج ہے اور اللہ سب سے بے نیاز ہے ‘ ۔ موسیٰ علیہ السلام کا فرمان قرآن میں منقول ہے کہ «وَقَالَ مُوسَیٰ إِن تَکْفُرُوا أَنتُمْ وَمَن فِی الْأَرْضِ جَمِیعًا فَإِنَّ اللہَ لَغَنِیٌّ حَمِیدٌ» ۱؎ (14-إبراہیم:8) ’ اگر تم اور روئے زمین کے سب جاندار اللہ سے کفر کرو تو اللہ کا کوئی نقصان نہیں وہ ساری مخلوق سے بےپرواہ اور پوری تعریفوں والا ہے ‘ ۔ صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ { اے میرے بندو ! تمہارے سب اول و آخر انسان و جن مل ملا کر بدترین شخص کا سا دل بنا لو تو میری بادشاہت میں کوئی کمی نہیں آئے گی } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2577) ہاں اللہ تمہاری ناشکری سے خوش نہیں نہ وہ اس کا تمہیں حکم دیتا ہے اور اگر تم اس کی شکر گزاری کرو گے تو وہ اس پر تم سے رضامند ہو جائے گا اور تمہیں اپنی اور نعمتیں عطا فرمائے گا ۔ ہر شخص وہی پائے گا جو اس نے کیا ہو ایک کے بدلے دوسرا پکڑا نہ جائے گا اللہ پر کوئی چیز پوشیدہ نہیں ۔ انسان کو دیکھو کہ اپنی حاجت کے وقت تو بہت ہی عاجزی انکساری سے اللہ کو پکارتا ہے اور اس سے فریاد کرتا رہتا ہے ۔ جیسے اور آیت میں ہے«وَاِذَا مَسَّکُمُ الضٰرٰ فِی الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُوْنَ اِلَّآ اِیَّاہُ فَلَمَّا نَجّٰیکُمْ اِلَی الْبَرِّ اَعْرَضْتُمْ وَکَانَ الْاِنْسَانُ کَفُوْرًا» ۱؎ (17-الإسراء:67) ، یعنی ’ جب دریا اور سمندر میں ہوتے ہیں اور وہاں کوئی آفت آتی دیکھتے ہیں تو جن جن کو اللہ کے سوا پکارتے تھے سب کو بھول جاتے ہیں اور خالص اللہ کو پکارنے لگتے ہیں لیکن نجات پاتے ہی منہ پھیر لیتے ہیں انسان ہے ہی ناشکرا ‘ ۔ پس فرماتا ہے کہ ’ جہاں دکھ درد ٹل گیا پھر تو ایسا ہو جاتا ہے گویا مصیبت کے وقت اس نے ہمیں پکارا ہی نہ تھا اس دعا اور گریہ و زاری کو بالکل فراموش کر جاتا ہے ‘ ۔ جیسے اور آیت میں ہے«وَإِذَا مَسَّ الْإِنسَانَ الضٰرٰ دَعَانَا لِجَنبِہِ أَوْ قَاعِدًا أَوْ قَائِمًا فَلَمَّا کَشَفْنَا عَنْہُ ضُرَّہُ مَرَّ کَأَن لَّمْ یَدْعُنَا إِلَیٰ ضُرٍّ مَّسَّہُ» ۱؎ (10-یونس:12) ، یعنی ’ تکلیف کے وقت تو انسان ہمیں اٹھتے بیٹھتے لیٹتے ہر وقت بڑی حضور قلبی سے پکارتا رہتا ہے لیکن اس تکلیف کے ہٹتے ہی وہ بھی ہم سے ہٹ جاتا ہے گویا اس نے دکھ درد کے وقت ہمیں پکارا ہی نہ تھا ۔ بلکہ عافیت کے وقت اللہ کے ساتھ شریک کرنے لگتا ہے ‘ ۔ پس اللہ فرماتا ہے کہ ’ ایسے لوگ اپنے کفر سے گو کچھ یونہی سا فائدہ اٹھا لیں ‘ ۔ اس میں ڈانٹ ہے اور سخت دھمکی ہے جیسے فرمایا«قُلْ تَمَتَّعُوا فَإِنَّ مَصِیرَکُمْ إِلَی النَّارِ» ۱؎ (14-ابراھیم:30) ’ کہدیجئیے کہ فائدہ حاصل کر لو آخری جگہ تو تمہاری جہنم ہی ہے ‘ ،اور فرمان ہے «نُمَتِّعُہُمْ قَلِیلًا ثُمَّ نَضْطَرٰہُمْ إِلَیٰ عَذَابٍ غَلِیظٍ» ۱؎ (31-لقمان:24) ’ ہم انہیں کچھ فائدہ دیں گے پھر سخت عذابوں کی طرف بے بس کر دیں گے ‘ ۔ الزمر
8 الزمر
9 مشرک اور موحد برابر نہیں مطلب یہ ہے کہ جس کی حالت یہ ہو وہ مشرک کے برابر نہیں ۔ جیسے فرمان ہے «لَیْسُوْا سَوَاءً مِنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ أُمَّۃٌ قَائِمَۃٌ یَتْلُونَ آیَاتِ اللہِ آنَاءَ اللَّیْلِ وَہُمْ یَسْجُدُونَ» ۱؎ (3-آل عمران:113) ، یعنی ’ سب کے سب برابر کے نہیں ، اہل کتاب میں وہ جماعت بھی ہے جو راتوں کے وقت قیام کی حالت میں آیات الہیہ کی تلاوت کرتے ہیں اور سجدوں میں پڑے رہتے ہیں ‘ ۔ قنوت سے مراد یہاں پر نماز کا خشوع خضوع ہے ۔ صرف قیام مراد نہیں ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے «قَانِتٌ» کے معنی مطیع اور فرمانبردار کے ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ وغیرہ سے مروی ہے کہ «آنَاءَ اللَّیْلِ» سے مراد آدھی رات سے ہے ۔ منصور رحمہ اللہ فرماتے ہیں مراد مغرب عشاء کے درمیان کا وقت ہے ۔ قتادہ رحمہ اللہ وغیرہ فرماتے ہیں ۔ اول درمیانہ اور آخری شب مراد ہے ۔ یہ عابد لوگ ایک طرف لرزاں و ترساں ہیں دوسری جانب امیدوار اور طمع کناں ہیں ۔ نیک لوگوں پر زندگی میں تو خوف اللہ امید پر غالب رہتا ہے موت کے وقت خوف پرامید کا غلبہ ہو جاتا ہے ۔ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص کے پاس اس کے انتقال کے وقت جاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ { تو اپنے آپ کو کس حالت میں پاتا ہے ؟ } اس نے کہا خوف و امید کی حالت میں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { جس شخص کے دل میں ایسے وقت یہ دونوں چیزیں جمع ہو جائیں اس کی امید اللہ تعالیٰ پوری کرتا ہے اور اس کے خوف سے اسے نجات عطا فرماتا ہے } } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:983،قال الشیخ الألبانی:حسن) ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اس آیت کی تلاوت کر کے فرمایا ” یہ وصف صرف سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ میں تھا “ ۔ ۱؎ (الدر المنشور للسیوطی:355/5:ضعیف) فی الواقع آپ رضی اللہ عنہ رات کے وقت بکثرت تہجد پڑھتے رہتے تھے اور اس میں قرآن کریم کی لمبی قرأت کیا کرتے تھے یہاں تک کہ کبھی کبھی ایک ہی رکعت میں قرآن ختم کر دیتے تھے ۔ جیسا کہ ابوعبید رحمہ اللہ سے مروی ہے ۔ شاعر کہتا ہے ۔ صبح کے وقت ان کے منہ نورانی چمک لیے ہوئے ہوتے ہیں کیونکہ انہوں نے تسبیح و تلاوت قرآن میں رات گذاری ہے ۔ نسائی وغیرہ میں حدیث ہے کہ { جس نے ایک رات سو آیتیں پڑھ لیں اس کے نامہ اعمال میں ساری رات کی قنوت لکھی جاتی ہے } ۔ (مسند احمد:103/4:حسن بالشواہد) پس ایسے لوگ اور مشرک جو اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہراتے ہیں کسی طرح ایک مرتبے کے نہیں ہو سکتے ، عالم اور بےعلم کا درجہ ایک نہیں ہو سکتا ۔ ہر عقلمند پر ان کا فرق ظاہر ہے ۔ الزمر
10 ہر حال میں اللہ کی اطاعت لازمی ہے اللہ تعالیٰ اپنے ایماندار بندوں کو اپنے رب کی اطاعت پر جمے رہنے کا اور ہر امر میں اس کی پاک ذات کا خیال رکھنے کا حکم دیتا ہے کہ ’ جس نے اس دنیا میں نیکی کی اس کو اس دنیا میں اور آنے والی آخرت میں نیکی ہی نیکی ملے گی ۔ تم اگر ایک جگہ اللہ کی عبادت استقلال سے نہ کر سکو تو دوسری جگہ چلے جاؤ اللہ کی زمین بہت وسیع ہے ‘ ۔ معصیت سے بھاگتے رہو شرک کو منظور نہ کرو ۔ صابروں کو ناپ تول اور حساب کے بغیر اجر ملتا ہے جنت انہی کی چیز ہے ۔ مجھے اللہ کی خالص عبادت کرنے کا حکم ہوا ہے اور مجھ سے یہ بھی فرما دیا گیا ہے کہ اپنی تمام امت سے پہلے میں خود مسلمان ہو جاؤں اپنے آپ کو رب کے احکام کا عامل اور پابند کرلوں ۔ الزمر
11 الزمر
12 الزمر
13 نافرمانوں کے لئے قیامت کے دن کا عذاب حکم ہوتا ہے کہ ’ لوگوں میں اعلان کر دو کہ باوجودیکہ میں اللہ کا رسول ہوں ، لیکن عذاب الٰہی سے بے خوف نہیں ہوں ۔ اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو قیامت کے دن کے عذاب سے میں بھی بچ نہیں سکتا تو دوسرے لوگوں کو تو رب کی نافرمانی سے بہت زیادہ اجتناب کرنا چاہیئے ۔ تم اپنے دین کا بھی اعلان کر دو کہ میں پختہ اور یکسوئی والا موحد ہوں ۔ تم جس کی چاہو عبادت کرتے رہو ‘ ۔ اس میں بھی ڈانٹ ڈپٹ ہے نہ کہ اجازت ۔ پورے نقصان میں وہ ہیں جنہوں نے خود اپنے آپ کو اور اپنے والوں کو نقصان میں پھنسا دیا ۔ قیامت کے دن ان میں جدائی ہو جائے گی ۔ اگر ان کے اہل جنت میں گئے تو یہ دوزخ میں جل رہے ہیں اور ان سے الگ ہیں اور اگر سب جہنم میں گئے تو وہاں برائی کے ساتھ ایک دوسرے سے دور رہیں اور محزون و مغموم ہیں ۔ یہی واضح نقصان ہے ۔ پھر ان کا حال جو جہنم میں ہو گا اس کا بیان ہو رہا ہے کہ اوپر تلے آگ ہی آگ ہو گی ۔ جیسے فرمایا«لَہُمْ مِّنْ جَہَنَّمَ مِہَادٌ وَّمِنْ فَوْقِہِمْ غَوَاشٍ وَکَذٰلِکَ نَجْزِی الظّٰلِمِیْنَ» ۱؎ (7-الأعراف:41) ۔ یعنی ’ ان کا اوڑھنا بچھونا سب آتش جہنم سے ہو گا ۔ ظالموں کا یہی بدلہ ہے ‘ ۔ اور آیت میں ہے« یَوْمَ یَغْشَاہُمُ الْعَذَابُ مِن فَوْقِہِمْ وَمِن تَحْتِ أَرْجُلِہِمْ وَیَقُولُ ذُوقُوا مَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ » ۱؎ (29-العنکبوت:55) ’ قیامت والے دن انہیں نیچے اوپر سے عذاب ہو رہا ہو گا ۔ اور اوپر سے کہا جائے گا کہ اپنے اعمال کا مزہ چکھو ‘ ۔ یہ اس لیے ظاہر و باہر کر دیا گیا اور کھول کھول کر اس وجہ سے بیان کیا گیا کہ اس حقیقی عذاب سے جو یقیناً آنے والا ہے میرے بندے خبردار ہو جائیں اور گناہوں اور نافرمانیوں کو چھوڑ دیں ۔ میرے بندو میری پکڑ دھکڑ سے میرے عذاب و غضب سے میرے انتقام اور بدلے سے ڈرتے رہو ۔ الزمر
14 الزمر
15 الزمر
16 الزمر
17 شرک سے مبرا عبادات مروی ہے کہ یہ آیت زید بن عمر بن نفیل ، ابوذر اور سلمان فارسی رضی اللہ عنہم کے بارے میں اتری ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ یہ آیت جس طرح ان بزرگوں پر مشتمل ہے اسی طرح ہر اس شخص کو شامل کرتی ہے جس میں یہ پاک اوصاف ہوں یعنی بتوں سے بیزاری اور اللہ کی فرمانبرداری ۔ یہ ہیں جن کے لیے دونوں جہان میں خوشیاں ہیں ۔ بات سمجھ کر سن کر جب وہ اچھی ہو تو اس پر عمل کرنے والے مستحق مبارک باد ہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے کلیم پیغمبر موسیٰ علیہ السلام سے تورات کے عطا فرمانے کے وقت فرمایا تھا «فَخُذْہَا بِقُوَّۃٍ وَأْمُرْ‌ قَوْمَکَ یَأْخُذُوا بِأَحْسَنِہَا سَأُرِ‌یکُمْ دَارَ‌ الْفَاسِقِینَ» ۱؎ (7-الأعراف:145) ’ اسے مضبوطی سے تھامو اور اپنی قوم کو حکم کرو کہ اس کی اچھائی کو مضبوط تھام لیں ۔ عقلمند اور نیک راہ لوگوں میں بھلی باتوں کے قبول کرنے کا صحیح مادہ ضرور ہوتا ہے ‘ ۔ الزمر
18 الزمر
19 نیک اعمال کے حامل لوگوں کے لئے محلات فرماتا ہے کہ ’ جس کی بدبختی لکھی جا چکی ہے تو اسے کوئی بھی راہ راست نہیں دکھا سکتا ، کون ہے جو اللہ کے گمراہ کئے ہوئے کو راہ راست دکھا سکے ؟ تجھ سے یہ نہیں ہو سکتا کہ تو ان کی رہبری کر کے انہیں اللہ کے عذاب سے بچا سکے ۔ ہاں نیک بخت نیک اعمال نیک عقدہ لوگ قیامت کے دن جنت کے محلات میں مزے کریں گے ، ان بالا خانوں میں جو کئی کئی منزلوں کے ہیں ، تمام سامان آرائش سے آراستہ ہیں وسیع اور بلند خوبصورت اور جگمگ کرتے ہیں ‘ ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { جنت میں ایسے محل ہیں جن کا اندرونی حصہ باہر سے اور بیرونی حصہ اندر سے صاف دکھائی دیتا ہے } ۔ ایک اعرابی نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کن کے لیے ہیں ؟ فرمایا : { ان کے لیے جو نرم کلامی کریں کھانا کھلائیں اور راتوں کو جب لوگ میٹھی نیند میں ہوں یہ اللہ کے سامنے کھڑے ہو کر گڑ گڑائیں ۔ نمازیں پڑھیں } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2527،قال الشیخ الألبانی:حسن) مسند احمد میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ { جنت میں ایسے بالاخانے ہیں جن کا ظاہر باطن سے اور باطن ظاہر سے نظر آتا ہے انہیں اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے بنایا ہے جو کھانا کھلائیں کلام کو نرم رکھیں پے در پے نفل روزے بکثرت رکھیں اور پچھلی راتوں کو تہجد پڑھیں } ۔ ۱؎ (صحیح ابن خریمہ:2137:حسن) مسند کی اور حدیث میں ہے { جنتی جنت کے بالا خانوں کو اس طرح دیکھیں گے جیسے تم آسمان کے ستاروں کو دیکھتے ہو } اور روایت میں ہے { مشرقی مغربی کناروں کے ستارے جس طرح تمہیں دکھائی دیتے ہیں اسی طرح جنت کے وہ محلات تمہیں نظر آئیں گے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6556) اور حدیث میں ہے کہ { ان محلات کی یہ تعریفیں سن کر لوگوں نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ تو نبیوں کے لیے ہوں گے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ہاں ! اور ان کے لئے جو اللہ پر ایمان لائے اور رسولوں کو سچا جانے} } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2556،قال الشیخ الألبانی:صحیح) مسند احمد میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تک ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر رہتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کو دیکھتے رہتے ہیں اس وقت تک تو ہمارے دل نرم رہتے ہیں اور ہم آخرت کی طرف ہمہ تن متوجہ ہو جاتے ہیں ۔ لیکن جب آپ کی مجلس سے اٹھ کر دنیوی کاروبار میں پھنس جاتے ہیں بال بچوں میں مشغول ہو جاتے ہیں تو اس وقت ہماری وہ حالت نہیں رہتی ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اگر تم ہر وقت اسی حالت پر رہتے جو حالت تمہاری میرے سامنے ہوتی ہے تو فرشتے اپنے ہاتھوں سے تم سے مصافحہ کرتے اور تمہارے گھروں میں آ کر تم سے ملاقاتیں کرتے ۔ سنو اگر تم گناہ ہی نہ کرتے تو اللہ ایسے لوگوں کو لاتا جو گناہ کریں تاکہ اللہ تعالیٰ انہیں بخشے } ۔ ہم نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنت کی بنیاد کس چیز کی ہے ؟ فرمایا : { ایک اینٹ سونے کی ایک چاندی کی ۔ اس کا چونا خالص مشک ہے اس کی کنکریاں لولو اور یاقوت ہیں ۔ اس کی مٹی زعفران ہے ۔ اس میں جو داخل ہو گیا وہ مالا مال ہو گیا ۔ جس کے بعد بے مال ہونے کا خطرہ ہی نہیں ۔ وہ ہمیشہ اس میں ہی رہے گا وہاں سے نکالے جانے کا امکان ہی نہیں ۔ نہ موت کا کھٹکا ہے ، ان کے کپڑے گلتے سڑتے نہیں ، ان کی جوانی دوامی ہے ۔ سنو ! تین شخصوں کی دعا مردود نہیں ہوتی عادل بادشاہ ، روزے دار اور مظلوم ۔ ان کی دعا ابر پر اٹھائی جاتی ہے اور اس کے لیے آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں اور اللہ رب العزت فرماتا ہے مجھے اپنی عزت کی قسم میں تیری ضرور مدد کروں گا اگرچہ کچھ مدت کے بعد ہو } } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3598،قال الشیخ الألبانی:صحیح بالشواہد) ان محلات کے درمیان چشمے بہہ رہے ہیں اور وہ بھی ایسے کہ جہاں چاہیں پانی پہنچائیں جب اور جتنا چاہیں بہاؤ رہے ۔ یہ ہے اللہ تعالیٰ کا وعدہ اپنے مومن بندوں سے یقیناً اللہ تعالیٰ کی ذات وعدہ خلافی سے پاک ہے ۔ الزمر
20 الزمر
21 زندگی کی بہترین مثال زمین میں جو پانی ہے وہ درحقیقت آسمان سے اترا ہے ۔ جیسے فرمان ہے کہ«وَہُوَ الَّذِی أَرْسَلَ الرِّیَاحَ بُشْرًا بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِہِ وَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً طَہُورًا » ۱؎ (25-الفرقان:48) ’ ہم آسمان سے پانی اتارتے ہیں یہ پانی زمین پی لیتی ہے اور اندر ہی اندر وہ پھیل جاتا ہے ۔ پھر حسب حاجت کسی چشمہ سے اللہ تعالیٰ اسے نکالتا ہے اور چشمے جاری ہو جاتے ہیں ‘ ۔ جو پانی زمین کے میل سے کھارہ ہو جاتا ہے وہ کھارہ ہی رہتا ہے ۔ اسی طرح آسمانی پانی برف کی شکل میں پہاڑوں پر جم جاتا ہے ۔ جسے پہاڑ چوس لیتے ہیں اور پھر ان میں سے جھرنے بہ نکلتے ہیں ۔ ان چشموں اور آبشاروں کا پانی کھیتوں میں پہنچتا ہے ۔ جس سے کھیتیاں لہلہانے لگتی ہیں جو مختلف قسم کے رنگ و بو کی اور طرح طرح کے مزے اور شکل و صورت کی ہوتی ہیں ۔ پھر آخری وقت میں ان کی جوانی بڑھاپے سے اور سبزی زردے سے بدل جاتی ہے ۔ پھر خشک ہو جاتی ہے اور کاٹ لی جاتی ہے ۔ کیا اس میں عقل مندوں کے لیے بصیرت و نصیحت نہیں ؟ کیا وہ اتنا نہیں دیکھتے کہ اسی طرح دنیا ہے ۔ آج ایک جوان اور خوبصورت نظر آتی ہے کل بڑھیا اور بدصورت ہو جاتی ہے ۔ آج ایک شخص نوجوان طاقت مند ہے کل وہی بوڑھا کھوسٹ اور کمزور نظر آتا ہے ۔ پھر آخر موت کے پنجے میں پھنستا ہے ۔ پس عقلمند انجام پر نظر رکھیں بہتر وہ ہے جس کا انجام بہتر ہو ۔ اکثر جگہ دنیا کی زندگی کی مثال بارش سے پیدا شدہ کھیتی کے ساتھ دے گئی ہے جیسے «وَاضْرِبْ لَہُم مَّثَلَ الْحَیَاۃِ الدٰنْیَا کَمَاءٍ أَنزَلْنَاہُ مِنَ السَّمَاءِ فَاخْتَلَطَ بِہِ نَبَاتُ الْأَرْضِ فَأَصْبَحَ ہَشِیمًا تَذْرُوہُ الرِّیَاحُ وَکَانَ اللہُ عَلَیٰ کُلِّ شَیْءٍ مٰقْتَدِرًا» ۱؎ (18-الکہف:45) میں ہے ۔ پھر فرماتا ہے ’ جس کا سینہ اسلام کے لیے کھل گیا ، ذرا سوچو ! جس نے رب کے پاس سے نور پا لیا وہ اور سخت سینے اور تنگ دل والا برابر ہو سکتا ہے ۔ حق پر قائم اور حق سے دور یکساں ہو سکتے ہیں ؟ ‘ جیسے فرمای ا«اَوَمَنْ کَانَ مَیْتًا فَاَحْیَیْنٰہُ وَجَعَلْنَا لَہٗ نُوْرًا یَّمْشِیْ بِہٖ فِی النَّاسِ کَمَنْ مَّثَلُہٗ فِی الظٰلُمٰتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِّنْہَا کَذٰلِکَ زُیِّنَ لِلْکٰفِرِیْنَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ» ۱؎ (6-الأنعام:122) ، ’ وہ شخص جو مردہ تھا ہم نے اسے زندہ کر دیا اور اسے نور عطا فرمایا جسے اپنے ساتھ لیے ہوئے لوگوں میں چل پھر رہا ہے اور یہ اور وہ جو اندھیریوں میں گھرا ہوا ہے جن سے چھٹکارا محال ہے ۔ دونوں برابر ہو سکتے ہیں ؟ ‘ پس یہاں بھی بطور نصیحت بیان فرمایا کہ ’ جن کے دل اللہ کے ذکر سے نرم نہیں پڑتے احکام الٰہی کو ماننے کے لیے نہیں کھلتے رب کے سامنے عاجزی نہیں کرتے بلکہ سنگدل اور سخت دل ہیں ان کے لیے ویل ہے خرابی اور افسوس و حسرت ہے یہ بالکل گمراہ ہیں ‘ ۔ الزمر
22 الزمر
23 قرآن حکیم کی تاثیر اللہ تعالیٰ اپنی اس کتاب قرآن کریم کی تعریف میں فرماتا ہے کہ ’ اس بہترین کتاب کو اس نے نازل فرمایا ہے جو سب کی سب متشابہ ہیں اور جس کی آیتیں مکرر ہیں تاکہ فہم سے قریب تر ہو جائے ‘ ۔ ایک آیت دوسری کے مشابہ اور ایک حرف دوسرے سے ملتا جلتا ۔ اس سورت کی آیتیں اس سورت سے اور اس کی اس سے ملی جلی ۔ ایک ایک ذکر کئی کئی جگہ اور پھر بے اختلاف بعض آیتیں ایک ہی بیان میں بعض میں جو مذکور ہے اس کی ضد کا ذکر بھی انہیں کے ساتھ ہے مثلاً مومنوں کے ذکر کے ساتھ ہی کافروں کا ذکر ، جنت کے ساتھ ہی دوزخ کا بیان وغیرہ ۔ دیکھئیے ابرار کے ذکر کے ساتھ ہی فجار کا بیان ہے « إِنَّ الْأَبْرَارَ لَفِی نَعِیمٍ وَإِنَّ الْفُجَّارَ لَفِی جَحِیمٍ » (82-الانفطار:14،13) ۔ سجین کے ساتھ ہی علیین کا بیان ہے «کَلَّا إِنَّ کِتَابَ الْفُجَّارِ لَفِی سِجِّینٍ » ۱؎ (83-المطففین:7) «کَلَّا إِنَّ کِتَابَ الْأَبْرَارِ لَفِی عِلِّیِّینَ» ۱؎ (83-المطففین:18) ۔ متقین کے ساتھ ہی طاعین کا بیان ہے «ہٰذَا ذِکْرٌ وَإِنَّ لِلْمُتَّقِینَ لَحُسْنَ مَآبٍ» ۱؎ (38-ص:49) «ہٰذَا وَإِنَّ لِلطَّاغِینَ لَشَرَّ مَآبٍ» ۱؎ (38-ص:55)۔ ذکر جنت کے ساتھ ہی تذکرہ جہنم ہے ۔ یعنی معنی ہیں مثانی کے اور متشابہ ان آیتوں کو کہتے ہیں وہ تو یہ ہے اور «ھُوَ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ مِنْہُ اٰیٰتٌ مٰحْکَمٰتٌ ھُنَّ اُمٰ الْکِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِہٰتٌ» ۱؎ (3-آل عمران:7) میں اور ہی معنی ہیں ۔ اس کی پاک اور بااثر آیتوں کا مومنوں کے دل پر نور پڑتا ہے وہ انہیں سنتے ہی خوفزدہ ہو جاتے ہیں سزاؤں اور دھمکیوں کو سن کر ان کا کلیجہ کپکپانے لگتا ہے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور انتہائی عاجزی اور بہت ہی بڑی گریہ و زاری سے ان کے دل اللہ کی طرف جھک جاتے ہیں اس کی رحمت و لطف پر نظریں ڈال کر امیدیں بندھ جاتی ہیں ۔ ان کا حال سیاہ دلوں سے بالکل جداگانہ ہے ۔ یہ رب کے کلام کو نیکیوں سے سنتے ہیں ۔ وہ گانے بجانے پر سر دھنستے ہیں ۔ یہ آیات قرآنی سے ایمان میں بڑھتے ہیں ۔ وہ انہیں سن کر اور کفر کے زینے پر چڑھتے ہیں یہ روتے ہوئے سجدوں میں گر پڑتے ہیں ۔ وہ مذاق اڑاتے ہوئے اکڑتے ہیں ۔ فرمان قرآن ہے «اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُہُمْ وَاِذَا تُلِیَتْ عَلَیْہِمْ اٰیٰتُہٗ زَادَتْہُمْ اِیْمَانًا وَّعَلٰی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ» ۱؎ (8-الانفال:4-2) ، یعنی ’ یاد الٰہی مومنوں کے دلوں کو دہلا دیتی ہے ، وہ ایمان و توکل میں بڑھ جاتے ہیں ، نماز و زکوٰۃ و خیرات کا خیال رکھتے ہیں ، سچے با ایمان یہی ہیں ، درجے ، مغفرت اور بہترین روزیاں یہی پائیں گے ‘ ۔ اور آیت میں ہے « وَالَّذِینَ إِذَا ذُکِّرُ‌وا بِآیَاتِ رَ‌بِّہِمْ لَمْ یَخِرٰوا عَلَیْہَا صُمًّا وَعُمْیَانًا» ۱؎ (25-الفرقان:73) یعنی ’ بھلے لوگ آیات قرآنیہ کو بہروں اندھوں کی طرح نہیں سنتے پڑھتے کہ ان کی طرف نہ تو صحیح توجہ ہو نہ ارادہ عمل ہو بلکہ یہ کان لگا کر سنتے ہیں دل لگا کر سمجھتے ہیں غور و فکر سے معانی اور مطلب تک رسائی حاصل کرتے ہیں ‘ ۔ اب توفیق ہاتھ آتی ہے سجدے میں گر پڑتے ہیں اور تعمیل کے لیے کمربستہ ہو جاتے ہیں ۔ یہ خود اپنی سمجھ سے کام کرنے والے ہوتے ہیں دوسروں کی دیکھا دیکھی جہالت کے پیچھے پڑے نہیں رہتے ۔ تیسرا وصف ان میں برخلاف دوسروں کے یہ ہے کہ قرآن کے سننے کے وقت با ادب رہتے ہیں ۔ حضور علیہ السلام کی تلاوت سن کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے جسم و روح ذکر اللہ کی طرف جھک آتے تھے ان میں خشوع و خضوع پیدا ہو جاتا تھا لیکن یہ نہ تھا کہ چیخنے چلانے اور ہاہڑک کرنے لگیں اور اپنی صوفیت جتائیں بلکہ ثبات سکون ادب اور خشیت کے ساتھ کلام اللہ سنتے دل جمعی اور سکون حاصل کرتے اسی وجہ سے مستحق تعریف اور سزاوار توصیف ہوئے رضی اللہ عنہم ۔ عبدالرزاق میں ہے کہ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” اولیاء اللہ کی صفت یہی ہے کہ قرآن سن کر ان کے دل موم ہو جائیں اور ذکر اللہ کی طرف وہ جھک جائیں ان کے دل ڈر جائیں ان کی آنکھیں آنسو بہائیں اور طبیعت میں سکون پیدا ہو جائے ۔ یہ نہیں کہ عقل جاتی رہے حالت طاری ہو جائے ۔ نیک و بد کا ہوش نہ رہے ۔ یہ بدعتیوں کے افعال ہیں کہ ہا ہو کرنے لگتے ہیں اور کودتے اچھلتے اور پکڑے پھاڑتے ہیں یہ شیطانی حرکت ہے ۔ ذکر اللہ سے مراد وعدہ اللہ بھی بیان کیا گیا ہے “ ۔ پھر فرماتا ہے ’ یہ ہیں صفتیں ان لوگوں کی جنہیں اللہ نے ہدایت دی ہے ۔ ان کے خلاف جنہیں پاؤ سمجھ لو کہ اللہ نے انہیں گمراہ کر دیا ہے اور یقین رکھو کہ رب جنہیں ہدایت دینا چاہیئے انہیں کوئی راہ راست نہیں دکھا سکتا ‘ ۔ الزمر
24 روزِ قیامت کا احوال ایک وہ جسے اس ہنگامہ خیز دن میں امن و امان حاصل ہو اور ایک وہ جسے اپنے منہ پر عذاب کے تھپڑ کھانے پڑتے ہوں برابر ہو سکتے ہیں ؟ جیسے فرمایا «أَفَمَن یَمْشِی مُکِبًّا عَلَیٰ وَجْہِہِ أَہْدَیٰ أَمَّن یَمْشِی سَوِیًّا عَلَیٰ صِرَاطٍ مٰسْتَقِیمٍ» ۱؎ (67-الملک:22) ’ اوندھے منہ ، منہ کے بل چلنے والا اور راست قامت اپنے پیروں سیدھی راہ چلتے والا برابر نہیں ‘ ۔ «یَوْمَ یُسْحَبُونَ فِی النَّارِ عَلَیٰ وُجُوہِہِمْ ذُوقُوا مَسَّ سَقَرَ » ۱؎ (54-القمر:48) ’ ان کفار کو تو قیامت کے دن اوندھے منہ گھسیٹا جائے گا اور کہا جائے گا کہ آگ کا مزہ چکھو ‘ ۔ ایک اور آیت میں ہے «أَفَمَن یُلْقَیٰ فِی النَّارِ خَیْرٌ أَم مَّن یَأْتِی آمِنًا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ» ۱؎ (41-فصلت:40) ’ جہنم میں داخل کیا جانے والا بدنصیب اچھا یا امن و امان سے قیامت کا دن گذارنے والا اچھا ؟ ‘ یہاں اس آیت کا مطلب یہی ہے لیکن ایک قسم کا ذکر کر کے دوسری قسم کے بیان کو چھوڑ دیا کیونکہ اسی سے وہ بھی سمجھ لیا جاتا ہے یہ بات شعراء کے کلام میں برابر پائی جاتی ہے ۔ اگلے لوگوں نے بھی اللہ کی باتوں کو نہ مانا تھا اور رسولوں کو جھوٹا کہا تھا پھر دیکھو کہ ان پر کس طرح ان کی بے خبری میں مار پڑی ؟ عذاب اللہ نے انہیں دنیا میں بھی ذلیل و خوار کیا اور آخرت کے سخت عذاب بھی ان کے لیے باقی ہیں ۔ ’ پس تمہیں ڈرتے رہنا چاہیئے کہ اشرف رسل صلی اللہ علیہ وسلم کے ستانے اور نہ ماننے کی وجہ سے تم پر کہیں ان سے بھی بدتر عذاب برس نہ پڑیں ۔ تم اگر ذی علم ہو تو ان کے حالات اور تذکرے تمہاری نصیحت کے لیے کافی ہیں ‘ ۔ الزمر
25 الزمر
26 الزمر
27 فیصلے روز قیامت کو ہوں گے چونکہ مثالوں سے باتیں ٹھیک طور پر سمجھ میں آ جاتی ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ہر قسم کی مثالیں بھی بیان فرماتا ہے تاکہ لوگ سوچ سمجھ لیں ۔ چنانچہ ارشاد ہے «ضَرَبَ لَکُمْ مَّثَلًا مِّنْ اَنْفُسِکُمْ» ۱؎ (30-الروم:28) ’ اللہ نے تمہارے لیے وہ مثالیں بیان فرمائی ہیں جنہیں تم خود اپنے آپ میں بہت اچھی طرح جانتے بوجھتے ہو ‘ ۔ ایک اور آیت میں ہ ے«وَتِلْکَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُہَا لِلنَّاسِ وَمَا یَعْقِلُہَا إِلَّا الْعَالِمُونَ» ۱؎ (29-العنکبوت:43) ’ ان مثالوں کو ہم لوگوں کے سامنے بیان کر رہے ہیں علماء ہی انہیں بخوبی سمجھ سکتے ہیں ‘ ۔ ’ یہ قرآن فصیح عربی زبان میں ہے جس میں کوئی کجی اور کوئی کمی نہیں واضح دلیلیں اور روشن حجتیں ہیں ۔ یہ اس لیے کہ اسے پڑھ کر سن کر لوگ اپنا بچاؤ کر لیں ۔ اس کے عذاب کی آیتوں کو سامنے رکھ کر برائیاں چھوڑیں اور اس کے ثواب کی آیتوں کی طرف نظریں رکھ کر نیک اعمال میں محنت کریں ‘ ۔ اس کے بعد جناب باری عزاسمہ موحد اور مشرک کی مثال بیان فرماتا ہے کہ ’ ایک تو وہ غلام جس کے مالک بہت سارے ہوں اور وہ بھی آپس میں ایک دوسرے کے مخالف ہوں اور دوسرا وہ غلام جو خالص صرف ایک ہی شخص کی ملکیت کا ہو اس کے سوا اس پر دوسرے کسی کا کوئی اختیار نہ ہو ۔ کیا یہ دونوں تمہارے نزدیک یکساں ہیں ؟ ہرگز نہیں ‘ ۔ اسی طرح موحد جو صرف ایک « اللہُ وَحدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ» کی ہی عبادت کرتا ہے ۔ اور مشرک جس نے اپنے معبود بہت سے بنا رکھے ہیں ۔ ان دونوں میں بھی کوئی نسبت نہیں ۔ کہاں یہ مخلص موحد ؟ کہاں یہ در بہ در بھٹکنے والا مشرک ؟ اس ظاہر باہر روشن اور صاف مثال کے بیان پر بھی رب العالمین کی حمد و ثنا کرنی چاہیئے کہ اس نے اپنے بندوں کو اس طرح سمجھا دیا کہ معاملہ بالکل صاف ہو جائے ۔ شرک کی بدی اور توحید کی خوبی ہر ایک کے ذہن میں آ جائے ۔ اب رب کے ساتھ وہی شرک کریں گے جو محض بےعلم ہوں جن میں سمجھ بوجھ بالکل ہی نہ ہو ۔ اس کے بعد کی آیت کو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد پڑھ کر پھر دوسری آیت «وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِہِ الرٰسُلُ ۚ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَیٰ أَعْقَابِکُمْ وَمَن یَنقَلِبْ عَلَیٰ عَقِبَیْہِ فَلَن یَضُرَّ اللہَ شَیْئًا وَسَیَجْزِی اللہُ الشَّاکِرِینَ» ۱؎ (3-آل عمران:144) کی آخر آیت تک تلاوت کر کے لوگوں کو بتایا تھا ۔ مطلب آیت شریفہ کا یہ ہے کہ ’ سب اس دنیا سے جانے والے ہیں اور آخرت میں اپنے رب کے پاس جمع ہونے والے ہیں ۔ وہاں اللہ تعالیٰ مشرکوں اور موحدوں میں صاف فیصلہ کر دے گا اور حق ظاہر ہو جائے گا ۔ اس سے اچھے فیصلے والا اور اس سے زیادہ علم والا کون ہے ؟ ایمان اخلاص اور توحید و سنت والے نجات پائیں گے ۔ شرک و کفر انکار و تکذیب والے سخت سزائیں اٹھائیں گے ‘ ۔ اسی طرح جن دو شخصوں میں جو جھگڑا اور اختلاف دنیا میں تھا روز قیامت وہ اللہ عادل کے سامنے پیش ہو کر فیصلہ ہو گا ۔ { اس آیت کے نازل ہونے پر سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ قیامت کے دن پھر سے جھگڑے ہوں گے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ہاں یقیناً } تو عبداللہ نے کہا پھر تو سخت مشکل ہے } ۔ (ابن ابی حاتم) مسند احمد کی اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ { آیت «ثُمَّ لَتُسْـَٔــلُنَّ یَوْمَیِٕذٍ عَنِ النَّعِیْمِ» ۱؎ (102-التکاثر:8) یعنی ’ پھر اس دن تم سے اللہ کی نعمتوں کا سوال کیا جائے گا ‘ ، کے نازل ہونے پر آپ رضی اللہ عنہ ہی نے سوال کیا کہ ” وہ کون سی نعمتیں ہیں جن کی بابت ہم سے حساب لیا جائے گا ؟ ہم تو کھجوریں کھا کر اور پانی پی کر گزارہ کر رہے ہیں “ ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اب نہیں ہیں تو عنقریب بہت سی نعمتیں ہو جائیں گی } } ۔ (سنن ترمذی:3236،قال الشیخ الألبانی:حسن الاسناد) ۔ یہ حدیث ترمذی اور ابن ماجہ میں بھی ہے اور امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ اسے حسن بتاتے ہیں ۔ مسند کی اسی حدیث میں یہ بھی ہے کہ { زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے آیت «اِنَّکَ مَیِّتٌ وَّاِنَّہُمْ مَّیِّتُوْنَ» ۱؎ (39-الزمر:30) کے نازل ہونے پر پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا جو جھگڑے ہمارے دنیا میں تھے وہ دوبارہ وہاں قیامت میں دوہرائے جائیں گے ؟ ساتھ ہی گناہوں کی بھی پرستش ہوگی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ہاں وہ ضرور دوہرائے جائیں گے ۔ اور ہر شخص کو اس کا حق پورا پورا دلوایا جائے گا } ۔ تو آپ رضی اللہ عنہ نے کہا پھر تو سخت مشکل کام ہے } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3236،قال الشیخ الألبانی:حسن) مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { سب سے پہلے پڑوسیوں کے آپس میں جھگڑے پیش ہوں گے } (مسند احمد:151/4:حسن)۔ اور حدیث میں ہے { اس ذات پاک کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ سب جھگڑوں کا فیصلہ قیامت کے دن ہو گا ۔ یہاں تک کہ دوبکریاں جو لڑی ہوں گی اور ایک نے دوسری کو سینگ مارے ہوں گے ان کا بدلہ بھی دلوایا جائے گا } ۔ ۱؎ (مسند احمد:29/3:حسن لغیرہ) مسند ہی کی ایک اور حدیث میں ہے کہ { دو بکریوں کو آپس میں لڑتے ہوئے دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہا سے دریافت فرمایا کہ { جانتے ہو یہ کیوں لڑ رہی ہیں ؟ } سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کیا خبر ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ٹھیک ہے ۔ لیکن اللہ تعالیٰ کو اس کا علم ہے اور وہ قیامت کے دن ان میں بھی انصاف کرے گا } } ۔۱؎ (مسند احمد:162/5:حسن) مسند بزار میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ظالم اور خائن بادشاہ سے اس کی رعیت قیامت کے دن جھگڑا کرے گی اور اس پر وہ غالب آ جائے گی اور اللہ کا فرمان صادر ہو گا کہ جاؤ اسے جہنم کا ایک رکن بنا دو } ۔ ۱؎ (مسند بزار:1644:ضعیف) اس حدیث کے ایک راوی اغلب بن تمیم کا حافظہ جیسا چاہیئے ایسا نہیں ۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” ہر سچا جھوٹے سے ، ہر مظلوم ظالم سے ، ہر ہدایت والا گمراہی والے سے ، ہر کمزور زورآور سے اس روز جھگڑے گا “ ۔ ابن مندہ رحمتہ اللہ اپنی کتاب الروح میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت لائے کہ ” لوگ قیامت کے دن جھگڑیں گے یہاں تک کہ روح اور جسم کے درمیان بھی جھگڑا ہوگا ۔ روح تو جسم کو الزام دے گی کہ تونے یہ سب برائیاں کیں اور جسم روح سے کہے گا ساری چاہت اور شرارت تیری ہی تھی ۔ ایک فرشتہ ان میں فیصلہ کرے گا کہے گا سنو! ایک آنکھوں والا انسان ہے لیکن اپاہج بالکل لولا لنگڑا چلنے پھرنے سے معذور ۔ دوسرا آدمی اندھا ہے لیکن اسکے پیر سلامت ہیں چلتا پھرتا ہے دونوں ایک باغ میں ہیں۔ لنگڑا اندھے سے کہتا ہے بھائی یہ باغ تو میووں اور پھلوں سے لدا ہوا ہے۔ لیکن میرے تو پاؤں نہیں جو میں جاکر یہ پھل توڑ لوں۔ اندھا کہتا ہے آ میرے پاؤں ہیں میں تجھے اپنی پیٹھ پر چڑھا لیتا ہوں اور لے چلتا ہوں۔ چنانچہ یہ دونوں اس طرح پہنچے اور جی کھول کر پھل توڑے ، بتاؤ ان دونوں میں مجرم کون ہے؟ جسم و روح دونوں جواب دیتے ہیں کہ جرم دونوں کا ہے ۔ فرشتہ کہتا ہے بس اب تو تم نے اپنا فیصلہ آپ کردیا ۔ یعنی جسم گویا سواری ہے اور روح اس پر سوار ہے “ ۔ ابن ابی حاتم میں ہے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ” اس آیت کے نازل ہونے پر ہم تعجب میں تھے کہ ہم میں اور اہل کتاب میں تو جھگڑا ہے ہی نہیں پھر آخر روز قیامت میں کس سے جھگڑے ہوں گے ؟ اس کے بعد جب آپس کے فتنے شروع ہو گئے تو ہم نے سمجھ لیا کہ یہی آپس کے جھگڑے ہیں جو اللہ کے ہاں پیش ہوں گے “ ۔ ابوالعالیہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اہل قبلہ غیر اہل قبلہ سے جھگڑیں گے اور ابن زید رحمتہ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ مراد اہل اسلام اور اہل کفر کا جھگڑا ہے ۔ لیکن ہم پہلے ہی بیان کر چکے ہیں کہ فی الواقع یہ آیت عام ہے ۔ «وَاللہُ سُبْحَانَہُ وَ تَعَالیٰ اَعْلَمُ» ۔ «اَلْحَمْدُ لِلہِ»! اللہ تعالیٰ کے لطف و کرم اور فضل و رحم سے تفسیر محمدی کا تیسواں ( ۲۳ ) پارہ ختم ہوا ۔ اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے اور ہماری تقصیر کی معافی کا سبب اس تفسیر کو بنا دے ۔ ہمیں اپنے پاک کلام کی تلاوت کا ذوق ، اس کے معنی کے سمجھنے کا شوق عطا فرمائے ، علم و عمل کی توفیق دے ، عذاب سے نجات دے ، جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے ۔ آمین ! الزمر
28 الزمر
29 الزمر
30 الزمر
31 الزمر
32 مشرکین کی سزا اور موحدین کی جزا مشرکین نے اللہ پر بہت جھوٹ بولا تھا اور طرح طرح کے الزام لگائے تھے ، کبھی اس کے ساتھ دوسرے معبود بتاتے تھے ، کبھی فرشتوں کو اللہ کی لڑکیاں شمار کرنے لگتے تھے ، کبھی مخلوق میں سے کسی کو اس کا بیٹا کہہ دیا کرتے تھے ، جن تمام باتوں سے اس کی بلند و بالا ذات پاک اور برتر تھی ۔ ساتھ ہی ان میں دوسری بدخصلت یہ بھی تھی کہ جو حق انبیاء علیہم السلام کی زبانی اللہ تعالیٰ نازل فرماتا یہ اسے بھی جھٹلاتے ، پس فرمایا کہ ’ یہ سب سے بڑھ کر ظالم ہیں ‘ ۔ پھر جو سزا انہیں ہونی ہے اس سے انہیں آگاہ کر دیا کہ ’ ایسے لوگوں کا ٹھکانا جہنم ہی ہے ،جو مرتے دم تک انکار و تکذیب پر ہی رہیں ‘ ۔ ان کی بدخصلت اور سزا کا ذکر کر کے پھر مومنوں کی نیک خو اور ان کی جزا کا ذکر فرماتا ہے کہ ’ جو سچائی کو لایا اور اسے سچا مانا یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور جبرائیل علیہ السلام اور ہر وہ شخص جو کلمہ توحید کا اقراری ہو ۔ اور تمام انبیاء علیہم السلام اور ان کی ماننے والی ان کی مسلمان امت ‘ ۔ یہ قیامت کے دن یہی کہیں گے کہ جو تم نے ہمیں دیا اور جو فرمایا ہم اسی پر عمل کرتے رہے ۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس آیت میں داخل ہیں ۔ آپ بھی سچائی کے لانے والے ، اگلے رسولوں کی تصدیق کرنے والے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو کچھ نازل ہوا تھا اسے ماننے والے تھے اور ساتھ ہی یہی وصف تمام ایمان داروں کا تھا کہ وہ اللہ پر فرشتوں پر کتابوں پر اور رسولوں پر ایمان رکھنے والے تھے ۔ ربیع بن انس کی قرأت میں«وَالَّذِیْنَ جَاءُ وْابالصِّدْقِ» ہے ۔ عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم فرماتے ہیں سچائی کو لانے والے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور اسے سچ ماننے والے مسلمان ہیں یہی متقی پرہیزگار اور پارسا ہیں ۔ جو اللہ سے ڈرتے رہے اور شرک کفر سے بچتے رہے ۔ ان کے لیے جنت میں جو وہ چاہیں سب کچھ ہے ۔ جب طلب کریں گے پائیں گے ۔ یہی بدلہ ہے ان پاک باز لوگوں کا ، رب ان کی برائیاں تو معاف فرما دیتا ہے اور نیکیاں قبول کر لیتا ہے ۔ جیسے دوسری آیت میں « أُولٰئِکَ الَّذِینَ نَتَقَبَّلُ عَنْہُمْ أَحْسَنَ مَا عَمِلُوا وَنَتَجَاوَزُ عَن سَیِّئَاتِہِمْ فِی أَصْحَابِ الْجَنَّۃِ وَعْدَ الصِّدْقِ الَّذِی کَانُوا یُوعَدُونَ» ۱؎ (46-الأحقاف:16) ، ’ یہ وہ لوگ ہیں کہ ان کی نیکیاں ہم قبول کر لیتے ہیں اور برائیوں سے درگزر فرما لیتے ہیں ۔ یہ جنتوں میں رہیں گے ۔ انہیں بالکل سچا اور صحیح صحیح وعدہ دیا جاتا ہے ‘ ۔ الزمر
33 الزمر
34 الزمر
35 الزمر
36 بھروسہ کے لائق صرف اللہ عزوجل کی ذات ہے ایک قرأت میں «اَلَیْسَ اللہُ بِکَافٍ عِبَادَہُ» ہے ، یعنی ’ اللہ تعالیٰ اپنے ہر بندے کو کافی ہے ‘ ۔ اسی پر ہر شخص کو بھروسہ رکھنا چاہیئے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ { اس نے نجات پالی جو اسلام کی ہدایت دیا گیا اور بقدر ضرورت روزی دیا گیا اور قناعت بھی نصیب ہوئی } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2349،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ’ اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ لوگ تجھے اللہ کے سوا اوروں سے ڈرا رہے ہیں ۔ یہ ان کی جہالت و ضلالت ہے ، اور اللہ جسے گمراہ کر دے اسے کوئی راہ نہیں دکھا سکتا ، جس طرح اللہ کے راہ دکھائے ہوئے شخص کو کوئی بہکا نہیں سکتا ۔ اللہ تعالیٰ بلند مرتبہ والا ہے اس پر بھروسہ کرنے والے کا کوئی کچھ بگاڑ نہیں سکتا اور اس کی طرف جھک جانے والا کبھی محروم نہیں رہتا ۔ اس سے بڑھ کر عزت والا کوئی نہیں ‘ ۔ اسی طرح اس سے بڑھ کر انتقام پر قادر بھی کوئی نہیں ۔ جو اس کے ساتھ کفر و شرک کرتے ہیں ۔ اس کے رسولوں سے لڑتے بھڑتے ہیں یقیناً وہ انہیں سخت سزائیں دے گا ۔ مشرکین کی مزید جہالت بیان ہو رہی ہے کہ باوجود اللہ تعالیٰ کو خالق کل ماننے کے پھر بھی ایسے معبودان باطلہ کی پرستش کرتے ہیں جو کسی نفع نقصان کے مالک نہیں جنہیں کسی امر کا کوئی اختیار نہیں ۔ حدیث شریف میں ہے { اللہ کو یاد کر وہ تیری حفاظت کرے گا ۔ اللہ کو یاد رکھ تو اسے ہر وقت اپنے پاس پائے گا ۔ آسانی کے وقت رب کی نعمتوں کا شکر گذار رہ سختی کے وقت وہ تیرے کام آئے گا ۔ جب کچھ مانگ تو اللہ ہی سے مانگ اور جب مدد طلب کر تو اسی سے مدد طلب کر یقین رکھ کر اگر تمام دنیا مل کر تجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہے اور اللہ کا ارادہ نہ ہو تو وہ سب تجھے ذرا سا بھی نقصان نہیں پہنچا سکتے اور سب جمع ہو کر تجھے کوئی نفع پہنچانا چاہیں جو اللہ نے مقدر میں نہ لکھا ہو تو ہرگز نہیں پہنچا سکتا ۔ صحیفے خشک ہو چکے قلمیں اٹھالی گئیں ۔ یقین اور شکر کے ساتھ نیکیوں میں مشغول رہا کر تکلیفوں میں صبر کرنے پر بڑی نیکیاں ملتی ہیں ۔ مدد صبر کے ساتھ ہے ۔ غم و رنج کے ساتھ ہی خوشی اور فراخی ہے ۔ ہر سختی اپنے اندر آسانی کو لیے ہوئے ہے } ۔۱؎ (مسند احمد:307/1:صحیح) ’ تو کہدے کہ مجھے اللہ بس ہے ۔ بھروسہ کرن والے اسی کی پاک ذات پر بھروسہ کرتے ہیں ‘ ۔ جیسے کہ ہود علیہ السلام نے اپنی قوم کو جواب دیا تھا «إِن نَّقُولُ إِلَّا اعْتَرَاکَ بَعْضُ آلِہَتِنَا بِسُوءٍ قَالَ إِنِّی أُشْہِدُ اللہَ وَاشْہَدُوا أَنِّی بَرِیءٌ مِّمَّا تُشْرِکُونَ مِن دُونِہِ فَکِیدُونِی جَمِیعًا ثُمَّ لَا تُنظِرُونِ إِنِّی تَوَکَّلْتُ عَلَی اللہِ رَبِّی وَرَبِّکُم مَّا مِن دَابَّۃٍ إِلَّا ہُوَ آخِذٌ بِنَاصِیَتِہَا إِنَّ رَبِّی عَلَیٰ صِرَاطٍ مٰسْتَقِیمٍ» ۱؎ (11-ہود:54-56) ’ جبکہ انہوں نے کہا تھا کہ اے ہود ہمارے خیال سے تو تمہیں ہمارے کسی معبود نے کسی خرابی میں مبتلا کر دیا ہے ۔ تو آپ نے فرمایا میں اللہ کو گواہ کرتا ہوں اور تم بھی گواہ رہو کہ میں تمہارے تمام معبودان باطل سے بیزار ہوں ۔ تم سب مل کر میرے ساتھ جو داؤ گھات تم سے ہو سکتے ہیں سب کر لو اور مجھے مطلق مہلت نہ دو ۔ سنو میرا توکل میرے رب پر ہے جو دراصل تم سب کا بھی رب ہے ۔ روئے زمین پر جتنے چلنے پھرنے والے ہیں سب کی چوٹیاں اس کے ہاتھ میں ہیں ۔ میرا رب صراط مستقیم پر ہے ‘ ۔ رسول اللہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ { جو شخص سب سے زیادہ قوی ہونا چاہے وہ اللہ پر بھروسہ رکھے اور جو سب سے زیادہ غنی بننا چاہے وہ اس چیز پر جو اللہ کے ہاتھ میں ہے زیادہ اعتماد رکھے بہ نسبت اس چیز کے جو خود اس کے ہاتھ میں ہے اور جو سب سے زیادہ بزرگ ہونا چاہے وہ اللہ عزوجل سے ڈرتا رہے } ۔ ۱؎ (مسند عبد بن حمید:675:ضعیف) پھر مشرکین کو ڈانٹتے ہوئے فرماتا ہے کہ ’ اچھا تم اپنے طریقے پر عمل کرتے چلے جاؤ ۔ میں اپنے طریقے پر عامل ہوں ۔ تمہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ دنیا میں ذلیل و خوار کون ہوتا ہے ؟ اور آخرت کے دائمی عذاب میں گرفتار کون ہوتا ہے ؟‘ اللہ ہمیں محفوظ رکھے ۔ الزمر
37 الزمر
38 الزمر
39 الزمر
40 الزمر
41 نیند اور موت کے وقت ارواح کا قبض کرنا اللہ تعالیٰ رب العزت اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کر کے فرما رہا ہے کہ ’ ہم نے تجھ پر اس قرآن کو سچائی اور راستی کے ساتھ تمام جن و انس کی ہدایت کے لیے نازل فرمایا ہے ‘ ۔ اس کے فرمان کو مان کر راہ راست حاصل کرنے والے اپنا ہی نفع کریں گے اور اس کے ہوتے ہوئے بھی دوسری غلط راہوں پر چلنے والے اپنا ہی بگاڑیں گے تو اس امر کا ذمے دار نہیں کہ خواہ مخواہ ہر شخص اسے مان ہی لے ۔ «فَإِنَّمَا عَلَیْکَ الْبَلَاغُ وَعَلَیْنَا الْحِسَابُ» ۱؎ (13-الرعد:40) ’ تیرے ذمے صرف اس کا پہنچا دینا ہے ۔ حساب لینے والے ہم ہیں ‘ ، ’ ہم ہر موجود میں جو چاہیں تصرف کرتے رہتے ہیں ، وفات کبریٰ جس میں ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے انسان کی روح قبض کر لیتے ہیں اور وفات صغریٰ جو نیند کے وقت ہوتی ہے ہمارے ہی قبضے میں ہے ‘ ۔ جیسے اور آیت میں ہے«وَہُوَ الَّذِی یَتَوَفَّاکُم بِاللَّیْلِ وَیَعْلَمُ مَا جَرَ‌حْتُم بِالنَّہَارِ‌ ثُمَّ یَبْعَثُکُمْ فِیہِ لِیُقْضَیٰ أَجَلٌ مٰسَمًّی ثُمَّ إِلَیْہِ مَرْ‌جِعُکُمْ ثُمَّ یُنَبِّئُکُم بِمَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ وَہُوَ الْقَاہِرُ‌ فَوْقَ عِبَادِہِ وَیُرْ‌سِلُ عَلَیْکُمْ حَفَظَۃً حَتَّیٰ إِذَا جَاءَ أَحَدَکُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْہُ رُ‌سُلُنَا وَہُمْ لَا یُفَرِّ‌طُونَ » ۱؎ (6-الأنعام:60-61) ، یعنی ’ وہ اللہ جو تمہیں رات کو فوت کر دیتا ہے اور دن میں جو کچھ تم کرتے ہو جانتا ہے پھر تمہیں دن میں اٹھا بٹھاتا ہے تاکہ مقرر کیا ہوا وقت پورا کر دیا جائے پھر تم سب کی بازگشت اسی کی طرف ہے اور وہ تمہیں تمہارے اعمال کی خبر دے گا ۔ وہی اپنے سب بندوں پر غالب ہے وہی تم پر نگہبان فرشتے بھیجتا ہے ۔ تاوقتیکہ تم میں سے کسی کی موت آ جائے تو ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے اس کی روح قبض کر لیتے ہیں اور وہ تقصیر اور کمی نہیں کرتے ‘ ۔ پس ان دونوں آیتوں میں بھی یہی ذکر ہوا ہے پہلے چھوٹی موت کو پھر بڑی موت کو بیان فرمایا ۔ یہاں پہلے بڑی وفات کو پھر چھوٹی وفات کو ذکر کیا ۔ اس سے یہ بھی پایا جاتا ہے کہ ملاء اعلیٰ میں یہ روحیں جمع ہوتی ہیں جیسے کہ صحیح بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { جب تم میں سے کوئی بستر پر سونے کو جائے تو اپنے تہ بند کے اندرونی حصے سے اسے جھاڑ لے ، نہ جانے اس پر کیا کچھ ہو پھر یہ دعا پڑھے «بِاسْمِکَ رَبِّـی وَضَعْـتُ جَنْـبی، وَبِکَ أَرْفَعُـہ، فَإِن أَمْسَـکْتَ نَفْسـی فارْحَـمْہا، وَإِنْ أَرْسَلْتَـہا فاحْفَظْـہا بِمـا تَحْفَـظُ بِہ عِبـادَکَ الصّـالِحـین» یعنی اے میرے پالنے والے رب تیرے ہی پاک نام کی برکت سے میں لیٹتا ہوں اور تیری ہی رحمت میں جاگوں گا۔ اگر تو میری روح کو روک لے تو اس پر رحم فرما اور اگر تو اسے بھیج دے تو اس کی ایسی ہی حفاظت کرنا جیسی تو اپنے نیک بندوں کی حفاظت کرتا ہے} ۔۱؎ (صحیح بخاری:6320) بعض سلف کا قول ہے کہ ” مردوں کی روحیں جب وہ مریں اور زندوں کی روحیں جب وہ سوئیں قبض کر لی جاتی ہیں اور ان میں آپس میں تعارف ہوتا ہے ۔ جب تک اللہ چاہے پھر مردوں کی روحیں تو روک لی جاتی ہیں اور دوسری روحیں مقررہ وقت تک کے لیے چھوڑ دی جاتی ہیں ۔ یعنی مرنے کے وقت تک “ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” مردوں کی روحیں اللہ تعالیٰ روک لیتا ہے اور زندوں کی روحیں واپس بھیج دیتا ہے اور اس میں کبھی غلطی نہیں ہوتی غور و فکر کے جو عادی ہیں وہ اسی ایک بات میں قدرت الٰہی کے بہت سے دلائل پا لیتے ہیں “ ۔ الزمر
42 الزمر
43 مشرکین کی مذمت اللہ تعالیٰ مشرکوں کی مذمت بیان فرماتا ہے کہ ’ وہ بتوں اور معبودان باطلہ کو اپنا سفارشی اور شفیع سمجھتے ہیں ، اس کی نہ کوئی دلیل ہے نہ حجت اور دراصل انہیں نہ کچھ اختیار ہے نہ عقل و شعور ۔ نہ ان کی آنکھیں نہ ان کے کان ، وہ تو پتھر اور جمادات ہیں جو حیوانوں میں درجہا بدتر ہیں ‘ ۔ اس لیے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ ’ ان سے کہہ دو ، کوئی نہیں جو اللہ کے سامنے لب ہلا سکے آواز اٹھا سکے جب تک کہ اس کی مرضی نہ پالے اور اجازت حاصل نہ کر لے ، ساری شفاعتوں کا مالک وہی ہے ، زمین و آسمان کا بادشاہ تنہا وہی ہے ۔ قیامت کے دن تم سب کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے ، ۔ اس وقت وہ عدل کے ساتھ تم سب میں سچے فیصلے کرے گا اور ہر ایک کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دے گا ‘ ۔ ان کافروں کی یہ حالت ہے کہ توحید کا کلمہ سننا انہیں ناپسند ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا ذکر سن کر ان کے دل تنگ ہو جاتے ہیں ۔ اس کا سننا بھی انہیں پسند نہیں ۔ ان کا جی اس میں نہیں لگتا ۔ کفر و تکبر انہیں روک دیتا ہے ۔ جیسے اور آیت میں ہے «إِنَّہُمْ کَانُوا إِذَا قِیلَ لَہُمْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ یَسْتَکْبِرُونَ» (37-الصافات:35) یعنی ’ ان سے جب کہا جاتا تھا کہ اللہ ایک کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں تو یہ تکبر کرتے تھے اور ماننے سے جی چراتے تھے ‘ ۔ چونکہ ان کے دل حق کے منکر ہیں اس لیے باطل کو بہت جلد قبول کر لیتے ہیں ۔ جہاں بتوں کا اور دوسرے اللہ کا ذکر آیا ، ان کی باچھیں کھل گئیں ۔ الزمر
44 الزمر
45 الزمر
46 صبح و شام کے بعض و ظائف مشرکین کو جو نفرت توحید سے ہے اور جو محبت شرک سے ہے اسے بیان فرما کر اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ «وَحدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ» فرماتا ہے کہ ’ تو صرف اللہ تعالیٰ واحد کو ہی پکار جو آسمان و زمین کا خالق ہے اور اس وقت اس نے انہیں پیدا کیا ہے جبکہ نہ یہ کچھ تھے نہ ان کا کوئی نمونہ تھا ۔ وہ ظاہر و باطن چھپے کھلے کا عالم ہے ۔ یہ لوگ جو جو اختلافات اپنے آپس میں کرتے تھے سب کا فیصلہ اس دن ہو گا جب یہ قبروں سے نکلیں اور میدان قیامت میں آئیں گے ‘ ۔ { ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن رحمتہ اللہ علیہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تہجد کی نماز کو کس دعا سے شروع کرتے تھے ؟ آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ” اس دعا سے « اللہُمَّ رَبَّ جِبْرَائِیلَ وَمِیکَائِیلَ وَإِسْرَافِیلَ ، فَاطِرَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ ، عَالِمَ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ ، أَنْتَ تَحْکُمُ بَیْنَ عِبَادِکَ فِیمَا کَانُوا فِیہِ یَخْتَلِفُونَ ، اہْدِنِی لِمَا اخْتُلِفَ فِیہِ مِنَ الْحَقِّ بِإذْنِکَ ، إِنَّکَ تَہْدِی مَنْ تَشَاءُ إِلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ» “ یعنی اللہ اے جبرائیل ، میکائیل اور اسرافیل کے رب اے آسمان و زمین کو بے نمونے کے پیدا کرنے والے اسے حاضر و غائب کئے جانے والے تو ہی اپنے بندوں کے اختلاف کا فیصلہ کرنے والا ہے جس جس چیز میں اختلاف کیا گیا ہے تو مجھے ان سب میں اپنے فضل سے حق راہ دکھا تو جسے چاہے سیدھی راہ کی رہنمائی کرتا ہے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:770) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { جو بندہ اس دعا کو پڑھے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے فرشتوں سے فرمائے گا کہ میرے اس بندے نے مجھ سے عہد لیا ہے اس عہد کو پورا کرو ۔ چنانچہ اسے جنت میں پہنچا دیا جائے گا ۔ وہ دعا یہ ہے ، « اللَّہُمَّ فَاطِرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ ، عَالِمَ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ ، إِنِّی أَعْہَدُ إِلَیْکَ فِی ہَذِہِ الْحَیَاۃِ الدٰنْیَا أَنِّی أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا أَنْتَ ، وَحْدَکَ لَا شَرِیکَ لَکَ ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُکَ وَرَسُولُکَ ، فَإِنَّکَ إِنْ تَکِلْنِی إِلَی نَفْسِی تُقَرِّبْنِی مِنْ الشَّرِّ وَتُبَاعِدْنِی مِنْ الْخَیْرِ ، وَإِنِّی لَا أَثِقُ إِلَّا بِرَحْمَتِکَ ، فَاجْعَلْ لِی عِنْدَکَ عَہْدًا تُوَفِّینِیہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، إِنَّکَ لَا تُخْلِفُ الْمِیعَادَ » } یعنی { اے اللہ اے آسمان و زمین کو بے نمونے کے پیدا کرنے والے اے غائب و حاضر کے جاننے والے میں اس دنیا میں تجھ سے عہد کرتا ہوں کہ میری گواہی ہے کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو اکیلا ہے تیرا کوئی شریک نہیں اور میری یہ بھی شہادت ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تیرے بندے اور تیرے رسول ہیں ۔ تو اگر مجھے میری ہی طرف سونپ دے گا تو میں برائی سے قریب اور بھلائی سے دور پڑ جاؤں گا ۔ اللہ مجھے صرف تیری رحمت ہی کا سہارا اور بھروسہ ہے پس تو بھی مجھ سے عہد کر جسے تو قیامت کے دن پورا کرے یقیناً تو عہد شکن نہیں } ۔ اس حدیث کے راوی سہیل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے قاسم بن عبدالرحمٰن سے جب کہا کہ عون اس طرح یہ حدیث بیان کرتے ہیں تو آپ نے فرمایا سبحان اللہ ہماری تو پردہ نشین بچیوں کو بھی یہ حدیث یاد ہے ۔ ۱؎ (مسند احمد:412/1:ضعیف و منقطع) عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے ایک کاغذ نکالا اور فرمایا کہ { یہ دعا ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھائی ہے ، « اللہُمَّ فَاطِرَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ عَالِمَ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ رَبَّ کُلِّ شَیْءٍ وَمَلِیکَہُ أَشْہَدُ أَنْ لاَ إِلَہَ إِلاَّ أَنْتَ أَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ نَفْسِی وَشَرِّ الشَّیْطَانِ وَشِرْکِہِ ، وَأَعُوذُ بِکَ أَنْ أَقْتَرِفَ عَلَی نَفْسِی إِثْمًا أَوْ أَجُرَّہُ إِلَی مُسلِمٍ» یعنی اے اللہ اے آسمان و زمین کو بے نمونہ پیدا کرنے والے چھپی کھلی کے جاننے والے تو ہرچیز کا رب ہے اور ہرچیز کا معبود ہے ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو اکیلا ہے تیرا کوئی شریک نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم تیرے بندے اور تیرے رسول ہیں اور فرشتے بھی یہی گواہی دیتے ہیں ۔ میں شیطان سے اور اس کے شرک سے تیری پناہ میں آتا ہوں ۔ میں تجھ سے پناہ طلب کرتا ہوں کہ میں اپنی جان پر کوئی گناہ کروں یا کسی اور مسلمان کی طرف کسی گناہ کو لے جاؤں ۔ ابو عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں اس دعا کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کو سکھایا تھا اسے سونے کے وقت پڑھا کرتے تھے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:171/2:صحیح لغیرہ) اور روایت میں ہے کہ { ابو راشد حبرائی رحمہ اللہ نے کوئی حدیث سننے کی خواہش سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے کی تو سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے ایک کتاب نکال کر ان کے سامنے رکھ دی اور فرمایا یہ ہے جو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھوائی ہے میں نے دیکھا تو اس میں لکھا ہوا تھا کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں صبح و شام کیا پڑھوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { یہ پڑھو ، « اللہُمَّ فَاطِرَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ عَالِمَ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ رَبَّ کُلِّ شَیْءٍ وَمَلِیکَہہ أَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ نَفْسِی وَشَرِّ الشَّیْطَانِ وَشِرْکِہِ أَقْتَرِفَ عَلَی نَفْسِی سُوء‬ أَوْ أَجُرَّہُ إِلَی مُسلِمٍ»} }؎ (سنن ترمذی:3529،قال الشیخ الألبانی:صحیح) مسند احمد کی حدیث میں ہے { سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مجھے اس دعا کے پڑھنے کا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح شام اور سوتے وقت حکم دیا ہے } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3592،قال الشیخ الألبانی:صحیح) دوسری آیت میں ظالموں سے مراد مشرکین ہیں ۔ فرماتا ہے کہ ’ اگر ان کے پاس روئے زمین کے خزانے اتنے ہی اور ہوں تو بھی یہ قیامت کے بدترین عذاب کے بدلے انہیں اپنے فدیئے میں اور اپنی جان کے بدلے میں دینے کے لیے تیار ہو جائیں گے ۔ لیکن اس دن کوئی فدیہ اور بدلہ قبول نہ کیا جائے گا گو زمین بھر کر سونا دیں ‘ ۔ جیسے کہ اور آیت میں بیان فرما دیا ہے ، ’ آج اللہ کے وہ عذاب ان کے سامنے آئیں گے کہ کبھی انہیں ان کا خیال بھی نہ گذرا تھا جو جو حرام کاریاں بدکاریاں گناہ اور برائیاں انہوں نے دنیا میں کی تھیں اب سب کی سب اپنے آگے موجود پائیں گے دنیا میں جس سزا کا ذکر سن کر مذاق کرتے تھے آج وہ انہیں چاروں طرف سے گھیر لے گی ‘ ۔ الزمر
47 الزمر
48 الزمر
49 انسان کا ناشکرا پن اللہ تعالیٰ انسان کی حالت کو بیان فرماتا ہے کہ ’ مشکل کے وقت تو وہ آہ و زاری شروع کر دیتا ہے ، اللہ کی طرف پوری طرح راجع اور راغب ہو جاتا ہے ، لیکن جہاں مشکل ہو گئی جہاں راحت و نعمت حاصل ہوئی یہ سرکش و متکبر بنا ‘ ۔ اور اکڑتا ہوا کہنے لگا کہ یہ تو اللہ کے ذمے میرا حق تھا ۔ میں اللہ کے نزدیک اس کا مستحق تھا ہی ۔ میری اپنی عقلمندی اور خوش تدبیری کی وجہ سے اس نعمت کو میں نے حاصل کیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’ بات یوں نہیں بلکہ دراصل یہ ہماری طرف کی آزمائش ہے گو ہمیں ازل سے علم حاصل ہے لیکن تاہم ہم اسے ظہور میں لانا چاہتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اس نعمت کا یہ شکر ادا کرتا ہے یا ناشکری ؟ لیکن یہ لوگ بےعلم ہیں ۔ دعوے کرتے ہیں منہ سے بات نکال دیتے ہیں لیکن اصلیت سے بے خبر ہیں ، یہی دعویٰ اور یہی قول ان سے پہلے کے لوگوں نے بھی کیا اور کہا ، لیکن ان کا قول صحیح ثابت نہ ہوا اور ان نعمتوں نے ، کسی اور چیز نے اور ان کے اعمال نے انہیں کوئی نفع نہ دیا ، جس طرح ان پر وبال ٹوٹ پڑا اسی طرح ان پر بھی ایک دن ان کی بداعمالیوں کا وبال آ پڑے گا اور یہ اللہ کو عاجز نہیں کر سکتے ۔ نہ تھکا اور ہرا سکتے ہیں ‘ ۔ جیسے کہ قارون سے اس کی قوم نے کہا تھا «إِنَّ قَارُونَ کَانَ مِن قَوْمِ مُوسَیٰ فَبَغَیٰ عَلَیْہِمْ وَآتَیْنَاہُ مِنَ الْکُنُوزِ مَا إِنَّ مَفَاتِحَہُ لَتَنُوءُ بِالْعُصْبَۃِ أُولِی الْقُوَّۃِ إِذْ قَالَ لَہُ قَوْمُہُ لَا تَفْرَحْ إِنَّ اللہَ لَا یُحِبٰ الْفَرِحِینَ وَابْتَغِ فِیمَا آتَاکَ اللہُ الدَّارَ الْآخِرَۃَ وَلَا تَنسَ نَصِیبَکَ مِنَ الدٰنْیَا وَأَحْسِن کَمَا أَحْسَنَ اللہُ إِلَیْکَ وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِی الْأَرْضِ إِنَّ اللہَ لَا یُحِبٰ الْمُفْسِدِینَ قَالَ إِنَّمَا أُوتِیتُہُ عَلَیٰ عِلْمٍ عِندِی أَوَلَمْ یَعْلَمْ أَنَّ اللہَ قَدْ أَہْلَکَ مِن قَبْلِہِ مِنَ الْقُرُونِ مَنْ ہُوَ أَشَدٰ مِنْہُ قُوَّۃً وَأَکْثَرُ جَمْعًا وَلَا یُسْأَلُ عَن ذُنُوبِہِمُ الْمُجْرِمُونَ» (28-القص:76-78) ’ کہ اس قدر اکڑ نہیں اللہ تعالیٰ خود پسندوں کو محبوب نہیں رکھتا ۔ اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو خرچ کر کے آخرت کی تیاری کر اور وہاں کا سامان مہیا کر ۔ اس دنیا میں بھی فائدہ اٹھاتا رہ اور جیسے اللہ نے تیرے ساتھ سلوک کیا ہے ، تو بھی لوگوں کے ساتھ احسان کرتا رہ ۔ زمین میں فساد کرنے والا مت بن اللہ تعالیٰ مفسدوں سے محبت نہیں کرتا ‘ ۔ اس پر قارون نے جواب دیا کہ ان تمام نعمتوں اور جاہ و دولت کو میں نے اپنی دانائی اور علم و ہنر سے حاصل کیا ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’ کیا اسے یہ معلوم نہیں کہ اس سے پہلے اس سے زیادہ قوت اور اس سے زیادہ جمع جتھا والوں کو میں نے ہلاک و برباد کر دیا ہے ، مجرم اپنے گناہوں کے بارے میں پوچھے نہ جائیں گے ‘ ۔ الغرض مال و اولاد پر پھول کر اللہ کو بھول جانا یہ شیوہ کفر ہے ۔ کفار کا قول تھا کہ ہم مال و اولاد میں زیادہ ہیں ہمیں عذاب نہیں ہو گا ، ’ کیا انہیں اب تک یہ معلوم نہیں کہ رزق کا مالک اللہ تعالیٰ ہے جس کیلئے چاہے کشادگی کرے اور جس پر چاہے تنگی کرے ۔ اس میں ایمان والوں کیلئے طرح طرح کی عبرتیں اور دلیلیں ہیں ‘ ۔ الزمر
50 الزمر
51 الزمر
52 الزمر
53 توبہ تمام گناہوں کی معافی کا ذریعہ اس آیت میں تمام نافرمانوں کو گو وہ مشرک و کافر بھی ہوں توبہ کی دعوت دی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ اللہ کی ذات غفور و رحیم ہے ۔ وہ ہر تائب کی توبہ قبول کرتا ہے ۔ ہر جھکنے والی کی طرف متوجہ ہوتا ہے توبہ کرنے والے کے اگلے گناہ بھی معاف فرما دیتا ہے گو وہ کیسے ہی ہوں کتنے ہی ہوں کبھی کے ہوں ۔ اس آیت کو بغیر توبہ کے گناہوں کی بخشش کے معنی میں لینا صحیح نہیں اس لیے کہ شرک بغیر توبہ کے بخشا نہیں جاتا ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ { بعض مشکرین جو قتل و زنا کے بھی مرتکب تھے حاضر خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہو کر عرض کرتے ہیں کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دین ہمیں ہر لحاظ سے اچھا اور سچا معلوم ہوتا ہے ۔ لیکن یہ بڑے بڑے گناہ جو ہم سے ہو چکے ہیں ان کا کفارہ کیا ہو گا ؟ اس پر آیت «وَالَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰہِ اِلٰــہًا اٰخَرَ وَلَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بالْحَقِّ وَلَا یَزْنُوْنَ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ یَلْقَ اَثَامًا» ۱؎ (25-الفرقان:68) ، یہ اور آیت نازل ہوئی } ۔۱؎ (صحیح بخاری:4810) مسند احمد کی حدیث میں ہے { حضور علیہ السلام فرماتے ہیں { مجھے ساری دنیا اور اس کی ہرچیز کے ملنے سے اتنی خوشی نہ ہوئی جتنی اس آیت کے نازل ہونے سے ہوئی ہے } ۔ ایک شخص نے سوال کیا کہ جس نے شرک کیا ہو ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد فرمایا : { خبردار رہو جس نے شرک بھی کیا ہو تین مرتبہ یہی فرمایا } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:275/5:ضعیف) مسند کی ایک اور حدیث میں ہے کہ { ایک بوڑھا بڑا شخص لکڑی ٹکاتا ہوا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ میرے چھوٹے موٹے گناہ بہت سارے ہیں کیا مجھے بھی بخشا جائے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { کیا تو اللہ کی توحید کی گواہی نہیں دیتا ؟ } اس نے کہا ہاں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی بھی دیتا ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { تیرے چھوٹے موٹے گناہ معاف ہیں } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:385/4:صحیح بالشواہد) ابوداؤد ترمذی وغیرہ میں ہے سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں { میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا آپ اس آیت کی تلاوت اسی طرح فرما رہے تھے« اِنَّہٗ عَمَلٌ غَیْرُ صَالِحٍ» ۱؎ (11-ھود:46) اور اس آیت کو اس طرح پڑھتے ہوئے سنا «قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذٰنُوْبَ جَمِیْعًا اِنَّہٗ ہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ » ۱؎ (39-الزمر:53) ۔ ۱؎ (مسند احمد:454/6:ضعیف) پس ان تمام احادیث سے ثابت ہو رہا ہے کہ توبہ سے سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔ بندے کو رحمت رب سے مایوس نہ ہونا چاہیئے ۔ گو گناہ کتنے ہی بڑے اور کتنے ہی کثرت سے ہوں ۔ توبہ اور رحمت کا دروازہ ہمیشہ کھلا ہوا رہتا ہے اور وہ بہت ہی وسیع ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے «أَلَمْ یَعْلَمُوا أَنَّ اللہَ ہُوَ یَقْبَلُ التَّوْبَۃَ عَنْ عِبَادِہِ » ۱؎ (9-التوبۃ:104) ’ کیا لوگ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے ‘ ۔ اور فرمایا «وَمَن یَعْمَلْ سُوءًا أَوْ یَظْلِمْ نَفْسَہُ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ‌ اللہَ یَجِدِ اللہَ غَفُورً‌ا رَّ‌حِیمًا» ۱؎ (4-النساء:110) ، ’ جو برا کام کرے یا اپنی جان پر ظلم کر بیٹھے پھر اللہ سے استغفار کرے وہ اللہ کو بخشنے والا اور مہربانی کرنے والا پائے گا ‘ ۔ منافقوں کی سزا جو جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہو گی اسے بیان فرما کر بھی فرمایا «إِنَّ الْمُنَافِقِینَ فِی الدَّرْ‌کِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ‌ وَلَن تَجِدَ لَہُمْ نَصِیرً‌ا إِلَّا الَّذِینَ تَابُوا وَأَصْلَحُوا وَاعْتَصَمُوا بِ اللہِ وَأَخْلَصُوا دِینَہُمْ لِلہِ فَأُولٰئِکَ مَعَ الْمُؤْمِنِینَ وَسَوْفَ یُؤْتِ اللہُ الْمُؤْمِنِینَ أَجْرً‌ا عَظِیمًا» ۱؎ (4-النساء:145-146) یعنی ’ ان سے وہ مستثنیٰ ہیں جو توبہ کریں اور اصلاح کر لیں ‘ ۔ مشرکین نصاریٰ کے اس شرک کا کہ وہ اللہ کو تین میں کا تیسرا مانتے ہیں ذکر کر کے ان کی سزاؤں کے بیان سے پہلے فرما دیا «وَاِنْ لَّمْ یَنْتَھُوْا عَمَّا یَقُوْلُوْنَ لَیَمَسَّنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ» ۱؎ (5-المائدۃ:73) کہ ’ اگر یہ اپنے قول سے باز نہ آئے تو ‘ ۔ پھر اللہ تعالیٰ عظمت و کبریائی جلال و شان والے نے فرمایا«أَفَلَا یَتُوبُونَ إِلَی اللہِ وَیَسْتَغْفِرُونَہُ وَ اللہُ غَفُورٌ رَّحِیمٌ» ۱؎ (5-المائدۃ:74) ’ یہ کیوں اللہ سے توبہ نہیں کرتے اور کیوں اس سے استغفار نہیں کرتے ؟ وہ تو بڑا ہی غفور و رحیم ہے ‘ ۔ ان لوگوں کا جنہوں نے خندقیں کھود کر مسلمانوں کو آگ میں ڈالا تھا ذکر کرتے ہوئے بھی فرمایا ہے کہ ’ جو مسلمان مرد عورتوں کو تکلیف پہنچا کر پھر بھی توبہ نہ کریں ان کیلئے عذاب جہنم اور عذاب نار ہے ‘ ۔ امام حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ” اللہ کے کرم و جود کو دیکھو کہ اپنے دوستوں کے قاتلوں کو بھی توبہ اور مغفرت کی طرف بلا رہا ہے “ ۔ اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں ۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں اس شخص کا واقعہ بھی مذکور ہے { جس نے ننانوے آدمیوں کو قتل کیا تھا ۔ پھر بنی اسرائیل کے ایک عابد سے پوچھا کہ کیا اس کیلئے بھی توبہ ہے ؟ اس نے انکار کیا اس نے اسے بھی قتل کر دیا ۔ پھر ایک عالم سے پوچھا اس نے جواب دیا کہ تجھ میں اور توبہ میں کوئی روک نہیں اور حکم دیا کہ موحدوں کی بستی میں چلا جا چنانچہ یہ اس گاؤں کی طرف چلا لیکن راستے میں ہی موت آ گئی ۔ رحمت اور عذاب کے فرشتوں میں آپس میں اختلاف ہوا ۔ اللہ عزوجل نے زمین کے ناپنے کا حکم دیا تو ایک بالشت بھر نیک لوگوں کی بستی جس طرف وہ ہجرت کر کے جا رہا تھا قریب نکلی اور یہ انہی کے ساتھ ملا دیا گیا اور رحمت کے فرشتے اس کی روح کو لے گئے ۔ یہ بھی مذکور ہے کہ وہ موت کے وقت سینے کے بل اس طرف گھسیٹتا ہوا چلا تھا ۔ اور یہ بھی وارد ہوا ہے کہ نیک لوگوں کی بستی کے قریب ہو جانے کا اور برے لوگوں کی بستی کے دور ہو جانے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا تھا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3470) یہ ہے اس حدیث کا خلاصہ ، پوری حدیث اپنی جگہ بیان ہو چکی ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ” اللہ عزوجل نے تمام بندوں کو اپنی مغفرت کی طرف بلایا ہے انہیں بھی جو مسیح علیہ السلام کو اللہ کہتے تھے ، انہیں بھی جو آپ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا کہتے تھے ، انہیں بھی جو عزیز علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا بتاتے تھے ، انہیں بھی جو اللہ کو فقیر کہتے تھے ، انہیں بھی جو اللہ کے ہاتھوں کو بند بتاتے تھے ، انہیں بھی جو اللہ تعالیٰ کو تین میں کا تیسرا کہتے تھے ، اللہ تعالیٰ ان سب سے فرماتا ہے کہ ’ یہ کیوں اللہ کی طرف نہیں جھکتے اور کیوں اس سے اپنے گناہوں کی معافی نہیں چاہتے ؟ اللہ تو بڑی بخشش والا اور بہت ہی رحم و کرم والا ہے ‘ ۔ پھر توبہ کی دعوت اللہ تعالیٰ نے اسے دی جس کا قول ان سب سے بڑھ چڑھ کر تھا ۔ جس نے دعویٰ کیا تھا کہ میں تمہارا بلند و بالا رب ہوں ۔ جو کہتا تھا کہ میں نہیں جانتا کہ تمہارا کوئی معبود میرے سوا ہو “ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ” اس کے بعد بھی جو شخص اللہ کے بندوں کو توبہ سے مایوس کرے ، وہ اللہ عزوجل کی کتاب کا منکر ہے ۔ لیکن اسے سمجھ لو کہ جب تک اللہ کسی بندے پر اپنی مہربانی سے رجوع نہ فرمائے اسے توبہ نصیب نہیں ہوتی “ ۔ طبرانی میں سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ کتاب اللہ قرآن کریم میں سب سے زیادہ عظمت والی آیت « اللہُ لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ الْحَیٰ الْقَیٰومُ» الخ ۱؎ (2-البقرہ:255) آیت الکرسی ہے اور خیر و شر کی سب سے زیادہ جامع آیت «إِنَّ اللہَ یَأْمُرُ‌ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِیتَاءِ ذِی الْقُرْ‌بَیٰ وَیَنْہَیٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنکَرِ‌ وَالْبَغْیِ یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُ‌ونَ» ۱؎ (16-النحل:90)ہے اور سارے قرآن میں سب سے زیادہ خوشی کی آیت سورۃ الزمر کی «قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذٰنُوْبَ جَمِیْعًا اِنَّہٗ ہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ» ۱؎ (39-الزمر:53) ہے اور سب سے زیادہ ڈھارس دینے والی آیت «وَمَن یَتَّقِ اللہَ یَجْعَل لَّہُ مَخْرَجًا وَیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ» (65-الطلاق:3-2) ہے ، یعنی ’ اللہ سے ڈرتے رہنے والوں کی مخلصی خود اللہ کر دیتا ہے اور اسے ایسی جگہ سے روزی دیتا ہے جہاں کا اسے خیال و گمان بھی نہ ہو ‘ ۔ مسروق رحمہ اللہ نے یہ سن کر فرمایا کہ بیشک آپ رضی اللہ عنہ سچے ہیں ۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جا رہے تھے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے ایک واعظ کو دیکھا جو لوگوں کو نصیحتیں کر رہا تھا کہ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ۔ ” تو کیوں لوگوں کو مایوس کر رہا ہے ؟ پھر اسی آیت کی تلاوت کی“ ۔(تفسیر ابن ابی حاتم) [ ان احادیث کا بیان جن میں ناامیدی اور مایوسی کی ممانعت ہے ] { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ { اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم خطائیں کرتے کرتے زمین و آسمان پر کر دو پھر اللہ سے استغفار کرو تو یقیناً وہ تمہیں بخش دے گا ۔ اس کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد [صلی اللہ علیہ وسلم] کی جان ہے اگر تم خطائیں کرو ہی نہیں تو اللہ عزوجل تمہیں فنا کر کے ان لوگوں کو لائے گا جو خطا کر کے استغفار کریں اور پھر اللہ انہیں بخشے } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:238/3:صحیح لغیرہ) { سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ اپنے انتقال کے وقت فرماتے ہیں ایک حدیث میں نے تم سے آج تک بیان نہیں کی تھی اب بیان کر دیتا ہوں ۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اگر تم گناہ ہی نہ کرتے تو اللہ عزوجل ایسی قوم کو پیدا کرتا جو گناہ کرتی پھر اللہ انہیں بخشتا } } ۔۱؎ (صحیح مسلم:2748) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { گناہ کا کفارہ ندامت اور شرمساری ہے } اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اگر تم گناہ نہ کرتے تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو لاتا جو گناہ کریں پھر وہ انہیں بخشے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:279/1:اسنادہ ضعیف) آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { اللہ تعالیٰ اس بندے کو پسند فرماتا ہے جو کامل یقین رکھنے والا اور گناہوں سے توبہ کرنے والا ہو } ۔ ۱؎ (مسند احمد:80/1:ضعیف) عبداللہ بن عبید بن عمیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” ابلیس ملعون نے کہا اے میرے رب ! تو نے مجھے آدم علیہ السلام کی وجہ سے جنت سے نکالا ہے اور میں اس پر اس کے بغیر کہ تو مجھے اس پر غلبہ دے غالب نہیں آسکتا “ ۔ جناب باری نے فرمایا ’ جا تو ان پر مسلط ہے ‘ ۔ اس نے کہا ” اللہ کچھ اور بھی مجھے زیادتی عطا فرما “ ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’ جا بنی آدم میں جتنی اولاد پیدا ہو گی اتنی ہی تیرے ہاں بھی ہو گی ‘ ۔ اس نے پھر التجا کی باری تعالیٰ کچھ اور بھی مجھے زیادتی دے ۔ پروردگار عالم نے فرمایا ’ بنی آدم کے سینے میں تیرے لیے مسکن بنا دوں گا اور تم ان کے جسم میں خون کی جگہ پھرو گے ‘ ، اس نے پھر کہا کہ کچھ اور بھی مجھے زیادتی عنایت فرما ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’ جا تو ان پر اپنے سوار اور پیادے دوڑا ، اور ان کے مال و اولاد میں اپنا ساجھا کر اور انہیں امنگیں دلا ‘ ۔ گو حقیقتاً تیرا امنگیں دلانا اور وعدے کرنا سراسر دھوکے کی ٹٹی ہیں “ ۔ اس وقت آدم علیہ السلام نے دعا کی کہ ” اے میرے پروردگار تو نے اسے مجھ پر مسلط کر دیا اب میں اس سے تیرے بچائے بغیر بچ نہیں سکتا “ ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’ سنو تمہارے ہاں جو اولاد ہو گی اس کے ساتھ میں ایک محافظ مقرر کردوں گا جو شیطانی پنجے سے محفوظ رکھے ‘ ۔ آدم علیہ السلام نے اور زیادتی طلب کی اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’ ایک نیکی کو دس گنا کر کے دوں گا بلکہ دس سے بھی زیادہ اور برائی اسی کے برابر رہے گی یا معاف کر دوں گا ‘ ۔ آپ علیہ السلام نے پھر بھی اپنی یہی دعا جاری رکھی ۔ رب العزت نے فرمایا ’ توبہ کا دروازہ تمہارے لیے اس وقت تک کھلا ہے جب تک روح جسم میں ہے ‘ ، آدم نے دعا کی اللہ مجھے اور زیادتی بھی عطا فرما ۔ اب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت پڑھ کر سنائی کہ ’ میرے گنہگار بندوں سے کہہ دو وہ میری رحمت سے مایوس نہ ہوں ‘ ۔ (ابن ابی حاتم) سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے کہ { جو لوگ بوجہ اپنی کمزوری کے کفار کی تکلیفیں برداشت نہ کرسکنے کی وجہ سے اپنے دین میں فتنے میں پڑ گئے ہم اس کی نسبت آپس میں کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ان کی کوئی نیکی اور توبہ قبول نہ فرمائے گا ان لوگوں نے اللہ کو پہچان کر پھر کفر کو لے لیا اور کافروں کی سختی کو برداشت نہ کیا ۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینے میں آ گئے تو اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے بارے میں ہمارے اس قول کی تردید کر دی اور «قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِینَ أَسْرَ‌فُوا» سے «وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُ‌ونَ» [ سورۂ الزمر آیات 53 تا 55 ] تک آیتیں نازل ہوئیں } ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں { میں نے اپنے ہاتھ سے ان آیتوں کو لکھا اور ہشام بن عاص رضی اللہ عنہما کے پاس بھیج دیا } ہشام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں { میں اس وقت ذی طویٰ میں تھا میں انہیں پڑھ رہا تھا اور باربار پڑھتا جاتا تھا اور خوب غور و خوض کر رہا تھا لیکن اصلی مطلب تک ذہن رسائی نہیں کرتا تھا ۔ آخر میں نے دعا کی کہ پروردگار ان آیتوں کا صحیح مطلب اور ان کو میری طرف بھیجے جانے کا صحیح مقصد مجھ پر واضح کر دے ۔ چنانچہ میرے دل میں اللہ کی طرف سے ڈالا گیا کہ ان آیتوں سے مراد ہم ہی ہیں یہ ہمارے بارے میں ہیں اور ہمیں جو خیال تھا کہ اب ہماری توبہ قبول نہیں ہو سکتی اسی بارے میں نازل ہوئی ہیں ۔ اسی وقت میں واپس مڑا اپنا اونٹ لیا اس پر سواری کی اور سیدھا مدینے میں آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گیا } ۔ ۱؎ (سیرۃ ابن اسحاق) بندوں کی مایوسی کو توڑ کر انہیں بخشش کی امید دلا کر پھر حکم دیا اور رغبت دلائی کہ ’ وہ توبہ اور نیک عمل کی طرف سبقت اور جلدی کریں ایسا نہ ہو کہ اللہ کے عذاب آ پڑیں ‘ ۔ جس وقت کہ کسی کی مدد کچھ کام نہیں آتی اور انہیں چاہیئے کہ عظمت والے قرآن کریم کی تابعداری اور ماتحتی میں مشغول ہو جائیں اس سے پہلے کہ اچانک عذاب آئیں اور یہ بے خبری میں ہی ہوں ، اس وقت قیامت کے دن بے توبہ مرنے والے اور اللہ کی عبادت میں کمی لانے والے بڑی حسرت اور بہت افسوس کریں گے اور آرزو کریں گے کہ کاش کہ ہم خلوص کے ساتھ احکام اللہ بجا لاتے ۔ افسوس ! کہ ہم تو بےیقین رہے ۔ اللہ کی باتوں کی تصدیق ہی نہ کی بلکہ ہنسی مذاق ہی سمجھتے رہے اور کہیں گے کہ اگر ہم بھی ہدایت پالیتے تو یقیناً رب کی نافرمانیوں سے دنیا میں اور اللہ کے عذاب سے آخرت میں بچ جاتے اور عذاب کو دیکھ کر افسوس کرتے ہوئے کہیں گے کہ اگر اب دوبارہ دنیا کی طرف جانا ہو جائے تو دل کھول کر نیکیاں کرلیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ” بندے کیا عمل کریں گے اور کیا کچھ وہ کہیں گے ، ان کے عمل اور ان کے قول سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے اس کی خبر دیدی اور فی الواقع اس سے زیادہ باخبر کون ہوسکتا ہے ؟ نہ اس سے زیادہ سچی خبر کوئی دے سکتا ہے “ ۔ بدکاروں کے یہ تینوں قول بیان فرمائے اور دوسری جگہ یہ خبر دیدی کہ ’ اگر یہ واپس دنیا میں بھیجے جائیں تو بھی ہدایت کو اختیار نہ کریں گے ، بلکہ جن کاموں سے روکے گئے ہیں انہی کو کرنے لگیں گے اور یہاں جو کہتے ہیں سب جھوٹ نکلے گا ‘ ۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے { ہر جہنمی کو اس کی جنت کی جگہ دکھائی جاتی ہے اس وقت وہ کہتا ہے کاش کہ اللہ مجھے ہدایت دیتا ۔ یہ اس لیے کہ اسے حسرت و افسوس ہو ۔ اور اسی طرح ہر جنتی کو اس کی جہنم کی جگہ دکھائی جاتی ہے اس وقت وہ کہتا ہے کہ اگر مجھے اللہ تعالیٰ ہدایت نہ دیتا تو وہ جنت میں نہ آسکتا ۔ یہ اس لیے کہ وہ شکر اور احسان کے ماننے میں اور بڑھ جائے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:512/2:صحیح) جب گنہگار لوگ دنیا کی طرف لوٹنے کی آرزو کریں گے اور اللہ کی آیتوں کی تصدیق نہ کرنے کی حسرت کریں گے اور اللہ کے رسولوں کو نہ ماننے پر کڑھنے لگیں گے تو اللہ سبحان و تعالیٰ فرمائے گا کہ ’ اب ندامت لاحاصل ہے پچھتاوا بےسود ہے دنیا میں ہی میں تو اپنی آیتیں اتار چکا تھا ۔ اپنی دلیلیں قائم کر چکا تھا ، لیکن تو انہیں جھٹلاتا رہا اور ان کی تابعداری سے تکبر کرتا رہا ، ان کا منکر رہا ۔ کفر اختیار کیا ، اب کچھ نہیں ہوسکتا ‘ ۔ الزمر
54 الزمر
55 الزمر
56 الزمر
57 الزمر
58 الزمر
59 الزمر
60 مشرکین کے چہرے سیاہ ہو جائیں گے قیامت کے دن دو طرح کے لوگ ہوں گے ۔ کالے منہ والے اور نورانی چہرے والے ۔ تفرقہ اور اختلاف والوں کے چہرے تو سیاہ پڑ جائیں گے اور اہل سنت والجماعت کی خوبصورت شکلیں نورانی ہو جائیں گی ۔ اللہ کے شریک ٹھہرانے والوں اس کی اولاد مقرر کرنے والوں کو دیکھے گا کہ ان کے جھوٹ اور بہتان کی وجہ سے منہ کالے ہوں گے ۔ اور حق کو قبول نہ کرنے اور تکبر و خودنمائی کرنے کے وبال میں یہ جہنم میں جھونک دیئے جائیں گے ۔ جہاں بڑی ذلت کے ساتھ سخت تر اور بدترین سزائیں بھگتیں گے ۔ ابن ابی حاتم کی مرفوع حدیث میں ہے کہ { تکبر کرنے والوں کا حشر قیامت کے دن چیونٹیوں کی صورت میں ہو گا ہر چھوٹی سے چھوٹی مخلوق بھی انہیں روندتی جائے گی یہاں تک کہ جہنم کے جیل خانے میں بند کر دیئے جائیں گے جس کا نام بولس ہے ۔ جس کی آگ بہت تیز اور نہایت ہی مصیبت والی ہے ۔ دوزخیوں کو لہو اور پیپ اور گندگی پلائی جائے گی } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2492،قال الشیخ الألبانی:حسن) ہاں اللہ کا ڈر رکھنے والے اپنی کامیابی اور سعادت مندی کی وجہ سے اس عذاب سے اور اس ذلت اور مار پیٹ سے بالکل بچے ہوئے ہوں گے اور کوئی برائی ان کے پاس بھی نہ پھٹکے گی ۔ گھبراہٹ اور غم جو قیامت کے دن عام ہو گا وہ ان سے الگ ہو گا ۔ ہر غم سے بے غم اور ہر ڈر سے بے ڈر اور ہر سزا اور ہر دکھ سے بے پرواہ ہوں گے ۔ کسی قسم کی ڈانٹ جھڑکی انہیں نہ دی جائے گی امن و امان کے ساتھ راحت و چین کے ساتھ اللہ کی تمام نعمتیں حاصل کئے ہوئے ہوں گے ۔ الزمر
61 الزمر
62 اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کا پیدا کرنے والا اور نگران ہے تمام جاندار اور بے جان چیزوں کا خالق مالک رب اور متصرف اللہ تعالیٰ اکیلا ہی ہے ۔ ہرچیز اس کی ماتحتی میں اس کے قبضے اور اس کی تدبیر میں ہے ۔ سب کا کار ساز اور وکیل وہی ہے ۔ تمام کاموں کی باگ ڈور اسی کے ہاتھ میں ہے زمین و آسمان کی کنجیوں اور ان کے خزانوں کا وہی تنہا مالک ہے حمد و ستائش کے قابل اور ہرچیز پر قادر وہی ہے ۔ کفر و انکار کرنے والے بڑے ہی گھاٹے اور نقصان میں ہیں ۔ امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ نے یہاں ایک حدیث وارد کی ہے گو سند کے لحاظ سے وہ بہت ہی غریب ہے بلکہ صحت میں بھی کلام ہے لیکن تاہم ہم بھی اسے یہاں ذکر کر دیتے ہیں ۔ اس میں ہے کہ { سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کا مطلب پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اے عثمان! [ رضی اللہ عنہ ] تم سے پہلے کسی نے مجھ سے اس آیت کا مطلب دریافت نہیں کیا } } ۔ اس کی تفسیر یہ کلمات ہیں { «لَا إِلَہ إِلَّا اللَّہ وَاَللَّہ أَکْبَر وَسُبْحَان اللَّہ وَبِحَمْدِہِ أَسْتَغْفِر اللَّہ وَلَا قُوَّۃ إِلَّا بِاَللَّہِ الْأَوَّل وَالْآخِر وَالظَّاہِر وَالْبَاطِن بِیَدِہِ الْخَیْر یُحْیِی وَیُمِیت وَہُوَ عَلَی کُلّ شَیْء قَدِیْر» ۔ اے عثمان ! جو شخص اسے صبح کو دس بار پڑھ لے تو اللہ تعالیٰ اسے چھ فضائل عطا فرماتا ہے اول تو وہ شیطان اور اس کے لشکر سے بچ جاتا ہے ، دوم اسے ایک قنطار اجر ملتا ہے ، تیسرے اس کا ایک درجہ جنت میں بلند ہوتا ہے ، چوتھی اس کا حورعین سے نکاح کرا دیا جاتا ہے ، پانچویں اس کے پاس بارہ فرشتے آتے ہیں ، چھٹے اسے اتنا ثواب دیا جاتا ہے جیسے کسی نے قرآن اور توراۃ اور انجیل و زبور پڑھی ۔ پھر اس ساتھ ہی اسے ایک قبول شدہ حج اور ایک مقبول عمرے کا ثواب ملتا ہے اور اگر اسی دن اس کا انتقال ہو جائے تو شہادت کا درجہ ملتا ہے } ۔۱؎ (مجمع الزوائد:115/10:باطل و موضوع) یہ حدیث بہت غریب ہے اور اس میں بڑی نکارت ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” مشرکین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آؤ تم ہمارے معبودوں کی پوجا کرو اور ہم تمہارے رب کی پرستش کریں گے اس پر آیت «قُلْ أَفَغَیْرَ اللہِ تَأْمُرُونِّی أَعْبُدُ أَیٰہَا الْجَاہِلُونَ وَلَقَدْ أُوحِیَ إِلَیْکَ وَإِلَی الَّذِینَ مِن قَبْلِکَ لَئِنْ أَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ وَلَتَکُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِینَ» ۱؎ (39-الزمر:64-65) تک نازل ہوئی “ ۔ یہی مضمون اس آیت میں بھی ہے «وَلَوْ اَشْرَکُوْا لَحَبِطَ عَنْہُمْ مَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ» ۱؎ (6-الأنعام:88) ۔ اوپر انبیاء علیہم السلام کا ذکر ہے پھر فرمایا ہے ’ اگر بالفرض یہ انبیاء بھی شرک کریں تو ان کے تمام اعمال اکارت اور ضائع ہو جائیں ‘ ، یہاں بھی فرمایا کہ ’ تیری طرف اور تجھ سے پہلے کے تمام انبیاء [ علیہم السلام ] کی طرف ہم نے یہ وحی بھیج دی ہے کہ جو بھی شرک کرے اس کا عمل غارت ۔ اور وہ نقصان یافتہ اور زیاں کار ، پس تجھے چاہیئے کہ تو خلوص کے ساتھ اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت میں لگا رہ اور اس کا شکر گزار رہ ۔ تو بھی اور تیرے ماننے والے مسلمان بھی ‘ ۔ الزمر
63 الزمر
64 الزمر
65 الزمر
66 الزمر
67 زمین و آسمان اللہ کی انگلیوں میں مشرکین نے دراصل اللہ تعالیٰ کی قدر و عظمت جانی ہی نہیں اسی وجہ سے وہ اس کے ساتھ دوسروں کو شریک کرنے لگے ، اس سے بڑھ کر عزت والا اس سے زیادہ بادشاہت والا اس سے بڑھ کر غلبے اور قدرت والا کوئی نہیں ، نہ کوئی اس کا ہمسر اور نہ برابری کرنے والا ہے ۔ یہ آیت کفار قریش کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ انہیں اگر قدر ہوتی تو اس کی باتوں کو غلط نہ جانتے ۔ جو شخص اللہ کو ہرچیز پر قادر مانے ، وہ ہے جس نے اللہ کی عظمت کی اور جس کا یہ عقیدہ نہ ہو وہ اللہ کی قدر کرنے والا نہیں ۔ اس آیت کے متعلق بہت سی حدیثیں آئی ہیں ۔ اس جیسی آیتوں کے بارے میں سلف صالحین کا مسلک یہی رہا ہے کہ جس طرح اور جن لفظوں میں یہ آئی ہے اسی طرح انہی لفظوں کے ساتھ انہیں مان لینا اور ان پر ایمان رکھنا ۔ نہ ان کی کیفیت ٹٹولنا نہ ان میں تحریف و تبدیلی کرنا ۔ صحیح بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر میں ہے کہ { یہودیوں کا ایک بڑا عالم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ ہم یہ لکھا پاتے ہیں کہ اللہ عزوجل ساتوں آسمانوں کو ایک انگلی پر رکھ لے گا اور سب زمینوں کو ایک انگلی پر رکھ لے گا اور درختوں کو ایک انگلی پر رکھ لے گا اور پانی اور مٹی کو ایک انگلی پر اور باقی تمام مخلوق کو ایک انگلی پر رکھ لے گا پھر فرمائے گا ’ میں ہی سب کا مالک اور سچا بادشاہ ہوں ‘ ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی بات کی سچائی پر ہنس دیئے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مسوڑھے ظاہر ہو گئے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی آیت کی تلاوت کی } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4811) مسند کی حدیث بھی اسی کے قریب ہے اس میں ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنسے اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:7415) اور روایت میں ہے کہ { وہ اپنی انگلیوں پر بتاتا جاتا تھا پہلے اس نے کلمے کی انگلی دکھائی تھی } ۔ اس روایت میں چار انگلیوں کا ذکر ہے ۔۱؎ (سنن ترمذی:3240،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) صحیح بخاری شریف میں ہے { اللہ تعالیٰ زمین کو قبض کر لے گا اور آسمان کو اپنی داہنی مٹھی میں لے لے گا ۔ پھر فرمائے گا میں ہوں بادشاہ کہاں ہیں زمین کے بادشاہ ؟} ۱؎ (صحیح بخاری:4812) مسلم کی اس حدیث میں ہے کہ { زمینیں اس کی ایک انگلی پر ہوں گی اور آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں ہوں گے پھر فرمائے گا میں ہی بادشاہ ہوں } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2787) مسند احمد میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن منبر پر اس آیت کی تلاوت کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا ہاتھ ہلاتے جاتے آگے پیچھے لا رہے تھے اور فرماتے تھے { اللہ تعالیٰ اپنی بزرگی آپ بیان فرمائے گا کہ ’ میں جبار ہوں میں متکبر ہوں میں مالک ہوں میں باعزت ہوں میں کریم ہوں ‘ } ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بیان کے وقت اتنا ہل رہے تھے کہ ہمیں ڈر لگنے لگا کہ کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر سمیت گر نہ پڑیں } ۔ ۱؎ (مسند احمد:72/2:صحیح) ایک روایت میں ہے کہ { سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اس کی پوری کیفیت دکھا دی کہ کس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکایت کیا تھا ؟ کہ اللہ تبارک و آسمانوں اور زمینوں کو اپنے ہاتھ میں لے گا اور فرمائے گا ’ میں بادشاہ ہوں ‘ ۔ اپنی انگلیوں کو کبھی کھولے گا کبھی بند کرے گا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ہل رہے تھے یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہلنے سے سارا منبر ہلنے لگا اور مجھے ڈر لگا کہ کہیں وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گرا نہ دے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2788) بزار کی رویت میں ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی اور منبر ہلنے لگا پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم تین مرتبہ آئے گئے } ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:13321:ضعیف) «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ معجم کبیر طبرانی کی ایک غریب حدیث میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت سے فرمایا : { میں آج تمہیں سورۃ الزمر کی آخری آیتیں سناؤں گا جسے ان سے رونا آ گیا وہ جنتی ہو گیا } ، اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت سے لے کر ختم سورۃ تک کی آیتیں تلاوت فرمائیں بعض روئے اور بعض کو رونا نہ آیا انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے ہر چند رونا چاہا لیکن رونا نہ آیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { اچھا میں پھر پڑھوں گا جسے رونا نہ آئے وہ رونی شکل بنا کر بہ تکلف روئے} } ۔۱؎ (طبرانی کبیر:2459:ضعیف) ایک اس سے بڑھ کر غریب حدیث میں ہے کہ { اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں نے تین چیزیں اپنے بندوں میں چھپالی ہیں اگر وہ انہیں دیکھ لیتے تو کوئی شخص کبھی کوئی بدعملی نہ کرتا ۔ ( ١ ) اگر میں پردہ ہٹا دیتا اور وہ مجھے دیکھ کر خوب یقین کر لیتے اور معلوم کر لیتے کہ میں اپنی مخلوق کے ساتھ کیا کچھ کرتا ہوں جبکہ ان کے پاس آؤں اور آسمانوں کو اپنی مٹھی میں لے لوں پھر اپنی زمین کو اپنی مٹھی میں لے لوں پھر کہوں میں بادشاہ ہوں میرے سوا ملک کا مالک کون ہے ؟ ( ٢ ) پھر میں انہیں جنت دکھاؤں اور اس میں جو بھلائیاں ہیں سب ان کے سامنے کر دوں اور وہ یقین کے ساتھ خوب اچھی طرح دیکھ لیں ۔ ( ٣ ) اور میں انہیں جہنم دکھا دوں اور اس کے عذاب دکھا دوں یہاں تک کہ انہیں یقین آ جائے ۔ لیکن میں نے یہ چیزیں قصداً ان سے پوشیدہ کر رکھی ہیں ۔ تاکہ میں جان لوں کہ وہ مجھے کس طرح جانتے ہیں کیونکہ میں نے یہ سب باتیں بیان کر دی ہیں } ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:2447:ضعیف و منقطع) اس کی سند متقارب ہے اور اس نسخے سے بہت سی حدیثیں روایت کی جاتی ہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ الزمر
68 قیامت کی ہولناکی کا بیان قیامت کی ہولناکی اور دہشت و وحشت کا ذکر ہو رہا ہے کہ صور پھونکا جائے گا ۔ یہ دوسرا صور ہو گا جس سے ہر زندہ مردہ ہو جائے گا خواہ آسمان میں ہو خواہ زمین میں ۔ مگر جسے اللہ چاہے ۔ صور کی مشہور حدیث میں ہے کہ { پھر باقی والوں کی روحیں قبض کی جائیں گی یہاں تک کہ سب سے آخر خود ملک الموت کی روح بھی قبض کی جائے گی اور صرف اللہ تعالیٰ ہی باقی رہ جائے گا جو حی و قیوم ہے جو اول سے تھا اور آخر میں دوام کے ساتھ رہ جائے گا ۔ پھر فرمائے گا کہ آج کس کا راج پاٹ ہے ؟ تین مرتبہ یہی فرمائے گا پھر خود آپ ہی اپنے آپ کو جواب دے گا کہ اللہ واحد و قہار کا ، میں ہی اکیلا ہوں جس نے ہرچیز کو اپنی ماتحتی میں کر رکھا ہے آج میں نے سب کو فنا کا حکم دیدیا ہے ۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کو دوبارہ زندہ کرے گا ۔ سب سے پہلے اسرافیل علیہ السلام کو زندہ کرے گا اور انہیں حکم دے گا کہ دوبارہ نفخہ پھونکیں یہ تیسرا صور ہو گا جس سے ساری مخلوق جو مردہ تھی زندہ ہو جائے گی جس کا بیان اس آیت میں ہے کہ اور نفخہ پھونکا جائے گا اور سب لوگ اٹھ کھڑے ہوں گے اور نظریں دوڑانے لگیں گیے ۔ یعنی قیامت کی دل دوز حالت دیکھنے لگیں گے } ۔ جیسے فرمان ہے «فَإِنَّمَا ہِیَ زَجْرَۃٌ وَاحِدَۃٌ فَإِذَا ہُم بِالسَّاہِرَۃِ» ۱؎ (79-النازعات:14،13) یعنی ’ وہ تو صرف ایک ہی سخت آواز ہو گی جس سے سب لوگ فوراً ہی ایک میدان میں آموجود ہوں گے ‘ ۔ اور آیت میں ہے «یَوْمَ یَدْعُوْکُمْ فَتَسْتَجِیْبُوْنَ بِحَمْدِہٖ وَتَظُنٰوْنَ اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا قَلِیْلًا» ۱؎ ۱؎ (17-الإسراء:52) ، یعنی ’ جس دن اللہ تعالیٰ انہیں بلائے گا تو سب اس کی حمد کرتے ہوئے اس کی پکار کو مان لو گے اور دنیا کی زندگی کو کم سمجھنے لگو گے ‘ ۔ اللہ جل و علا کا اور جگہ ارشاد ہے «وَمِنْ اٰیٰتِہٖٓ اَنْ تَــقُوْمَ السَّمَاءُ وَالْاَرْضُ بِاَمْرِہٖ ثُمَّ اِذَا دَعَاکُمْ دَعْوَۃً مِّنَ الْاَرْضِ اِذَآ اَنْتُمْ تَخْرُجُوْنَ» ۱؎ (30-الروم:25) ’ اس کی نشانیوں میں سے زمین آسمان کا اس کے حکم سے قائم رہنا ہے پھر جب وہ تمہیں زمین میں سے پکار کر بلائے گا تو تم سب یکبارگی نکل پکڑو گے ‘ ۔ مسند احمد ہے کہ { ایک شخص نے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اتنے اتنے وقت تک قیامت آ جائے گی ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے ناراض ہو کر فرمایا ” جی تو چاہتا ہے کہ تم سے کوئی بات بیان ہی نہ کروں ۔ میں نے تو کہا تھا کہ بہت تھوڑی مدت میں تم اہم امر دیکھو گے “ ، پھر فرمایا ” میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے میری امت میں دجال آئے گا اور وہ چالیس سال تک رہے گا میں نہیں جانتا کہ چالیس دن یا چالیس مہینے یا چالیس سال یا چالیس راتیں پھر اللہ تعالیٰ عیسیٰ بن مریم علیہا السلام کو بھیجے گا ۔ وہ بالکل صورت شکل میں عروہ بن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہ جیسے ہوں گے اللہ آپ علیہ السلام کو غالب کرے گا اور دجال آپ علیہ السلام کے ہاتھوں ہلاک ہو گا پھر سات سال تک لوگ اس طرح ملے جلے رہیں گے کہ ساری دنیا میں دو شخصوں کے درمیان بھی آپس میں رنجش و عداوت نہ ہو گی ۔ پھر پروردگار عالم شام کی طرف ایک ہلکی ٹھنڈی ہوا چلائے گا ۔ جس سے تمام ایمان والوں کی روح قبض کر لی جائے گی یہاں تک کہ جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر ایمان ہو گا وہ بھی ختم ہو جائے گا ۔ یہ خواہ کہیں بھی ہو ۔ یہاں تک کہ اگر کسی پہاڑی کی کھوہ میں بھی کوئی مسلمان ہو گا تو یہ ہوا وہاں بھی پہنچے گی ۔ میں نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ۔ پھر تو بدترین لوگ باقی رہ جائیں گے جو اپنے کمینہ پن میں مثل پرندوں کے ہلکے اور اپنی بیوقوفی میں مثل درندوں کے بیوقوف ہوں گے نہ اچھائی اچھائی کو سمجھیں گے نہ برائی کو برائی جانیں گے ۔ ان پر شیطان ظاہر ہو گا اور کہے گا شرماتے نہیں کہ تم نے بت پرستی چھوڑ رکھی ہے چنانچہ وہ اس کے بہکاوے میں آ کر بت پرستی شروع کر دیں گے اس حالت میں بھی اللہ تعالیٰ ان کی روزی اور معاش میں کشادگی عطا فرمائے ہوئے ہو گا ۔ پھر صور پھونک دیا جائے گا جس کے کان میں اس کی آواز جائے گی وہ ادھر گرے گا ادھر کھڑا ہو گا پھر گرے گا ۔ سب سے پہلے اس کی آواز جس کے کان میں پڑے گی ۔ یہ وہ شخص ہو گا جو اپنا حوض ٹھیک کر رہا ہو گا فوراً بے ہوش ہو کر زمین پر گر پڑے گا ۔ پھر تو ہر شخص بے ہوش اور خود فراموش ہو جائے گا ۔ پھر اللہ تعالیٰ بارش نازل فرمائے گا جو شبنم کی طرح ہو گی اس سے لوگوں کے جسم اگ نکلیں گے ، پھر دوسرا صور پھونکا جائے گا تو سب زندہ کھڑے ہو جائیں گے اور دیکھنے لگیں گے ۔ پھر کہا جائے گا اے لوگو ! اپنے رب کی طرف چلو ۔ انہیں ٹھہرالو ان سے سوالات کئے جائیں گے پھر فرمایا جائے گا کہ جہنم کا حصہ نکال لو پوچھا جائے گا کس قدر ۔ جواب ملے گا ہر ہزار سے نو سو نناوے ۔ یہ دن ہو گا کہ بچے بوڑھے ہو جائیں گے اور یہی دن ہو گا جس میں پنڈلی کھولی جائے گی “ } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2940) صحیح بخاری میں ہے { دونوں نفحوں کے درمیان چالیس ہوں گے راوی حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہا سے سوال ہوا کہ کیا چالیس دن ؟ فرمایا میں اس کا جواب نہیں دوں گا کہ کہا گیا چالیس ماہ ؟ فرمایا میں اس کا بھی انکار کرتا ہوں ۔ انسان کی سب چیز گل سڑ جائے گی مگر ریڑھ کی ہڈی اسی سے مخلوق ترتیب دی جائے گی } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4935) مسند ابو یعلیٰ میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام سے دریافت کیا کہ { اس آیت میں جو استثناء ہے یعنی جسے اللہ چاہے اس سے کون لوگ مراد ہیں }؟ فرمایا شہداء ۔ یہ اپنی تلواریں لٹکائے اللہ کے عرش کے اردگرد ہوں گے فرشتے اپنے جھرمٹ میں انہیں محشر کی طرف لے جائیں گے ۔ یاقوت کی اونٹنیوں پر وہ سوار ہوں گے جن کی گدیاں ریشم سے بھی زیادہ نرم ہوں گی ۔ انسان کی نگاہ جہاں تک کام کرتی ہے اس کا ایک قدم ہو گا یہ جنت میں خوش وقت ہوں گے وہاں عیش و عشرت میں ہوں گے پھر ان کے دل میں آئے گا کہ چلو دیکھیں اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے فیصلے کر رہا ہو گا چنانچہ ان کی طرف دیکھ کر الہ العالمین ہنس دے گا ۔ اور اس جگہ جسے دیکھ کر رب ہنس دے اس پر حساب کتاب نہیں ہے } ۔ ۱؎ (مسند ابویعلیٰ:ضعیف) اس کے کل راوی ثقہ ہیں مگر اسماعیل بن عیاش کے استاد غیر معروف ہیں ۔ «وَاللہُ سُبْحَانَہُ وَ تَعَالیٰ اَعْلَمُ» ۔ قیامت کے دن جب کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے فیصلے کیلئے آئے گا اس وقت اس کے نور سے ساری زمین روشن ہو جائے گی ۔ نامہ اعمال لائے جائیں گے ۔ نبیوں کو پیش کیا جائے گا جو گواہی دیں گے کہ انہوں نے اپنی امتوں کو تبلیغ کر دی تھی ۔ اور بندوں کے نیک و بد اعمال کے محافظ فرشتے لائے جائیں گے ۔ اور عدل و انصاف کے ساتھ مخلوق کے فیصلے کئے جائیں گے ۔ اور کسی پر کسی قسم کا ظلم وستم نہ کیا جائے گا ۔ جیسے فرمایا «وَنَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَۃِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَـیْــــــًٔا» ۱؎ (21-الأنبیاء:47) ، یعنی ’ قیامت کے دن ہم میزان عدل قائم کریں گے اور کسی پر بالکل ظلم نہ ہو گا گو رائی کے دانے کے برابر عمل ہو ہم اسے بھی موجود کر دیں گے ۔ اور ہم حساب لینے والے کافی ہیں ‘ ۔ اور آیت میں ہے «إِنَّ اللہَ لَا یَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّ‌ۃٍ وَإِن تَکُ حَسَنَۃً یُضَاعِفْہَا وَیُؤْتِ مِن لَّدُنْہُ أَجْرً‌ا عَظِیمًا» ۱؎ (4-النساء:40) ’ اللہ تعالیٰ بہ قدر ذرے کے بھی ظلم نہیں کرتا وہ نیکیوں کو بڑھاتا ہے اور اپنے پاس سے اجر عظیم عنایت فرماتا ہے ‘ ۔ اسی لیے یہاں بھی ارشاد ہو رہا ہے کہ ’ ہر شخص کو اس کے بھلے برے عمل کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا ۔ وہ ہر شخص کے اعمال سے باخبر ہے ‘ ۔ الزمر
69 الزمر
70 الزمر
71 کفار کی آخری منزل بدنصیب منکرین حق ، کفار کا انجام بیان ہو رہا ہے کہ ’ وہ جانوروں کی طرح رسوائی ، ذلت ڈانٹ ڈپٹ اور جھڑکی سے جہنم کی طرف ہنکائے جائیں گے ‘ ۔ جیسے اور آیت «یَوْمَ یُدَعٰونَ إِلَیٰ نَارِ جَہَنَّمَ دَعًّا» ۱؎ (52-الطور:13) میں «یُدَعٰونَ» کا لفظ ہے یعنی ’ دھکے دیئے جائیں گے‘ اور سخت پیاسے ہوں گے ۔ جیسے اللہ جل و علا نے فرمایا «یَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِینَ إِلَی الرَّحْمٰنِ وَفْدًا وَنَسُوقُ الْمُجْرِمِینَ إِلَیٰ جَہَنَّمَ وِرْدًا» ۱؎ (19-مریم:86-85) ، ’ جس روز ہم پرہیزگاروں کو رحمان کے مہمان بنا کر جمع کریں گے اور گنہگاروں کو دوزخ کی طرف پیاسا ہانکیں گے ‘ ۔ «وَنَحْشُرُہُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَلَیٰ وُجُوہِہِمْ عُمْیًا وَبُکْمًا وَصُمًّا مَّأْوَاہُمْ جَہَنَّمُ کُلَّمَا خَبَتْ زِدْنَاہُمْ سَعِیرًا» ۱؎ (17-الإسراء:97) ’ اس کے علاوہ وہ بہرے گونگے اور اندھے ہوں گے اور منہ کے بل گھسیٹ کر لائیں گے ‘ ۔ یہ اندھے گونگے اور بہرے ہوں گے ان کا ٹھکانا دوزخ ہو گا جب اس کی آتش دھیمی ہونے لگے ہم اسے اور تیز کر دیں گے ۔ یہ قریب پہنچیں گے دروازے کھل جائیں گے تاکہ فوراً ہی عذاب نار شروع ہو جائے ۔ پھر انہیں وہاں کے محافظ فرشتے شرمندہ کرنے کیلئے اور ندامت بڑھانے کیلئے ڈانٹ کر اور گھرک کر کہیں گے کیونکہ ان میں رحم کا تو مادہ ہی نہیں سراسر سختی کرنے والے سخت غصے والے اور بڑی بری طرح مار مارنے والے ہیں کہ کیا تمہارے پاس تمہاری ہی جنس کے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہیں آئے تھے ؟ جن سے تم سوال جواب کر سکتے تھے اپنا اطمینان اور تسلی کر سکتے تھے ان کی باتوں کو سمجھ سکتے تھے ان کی صحبت میں بیٹھ سکتے تھے ، انہوں نے اللہ کی آیتیں تمہیں پڑھ کر سنائیں اپنے لائے ہوئے سچے دین پر دلیلیں قائم کر دیں ۔ تمہیں اس دن کی برائیوں سے آگاہ کر دیا ۔ آج کے عذابوں سے ڈرایا ۔ کافر اقرار کریں گے کہ ہاں یہ سچ ہے بیشک اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں آئے ۔ انہوں نے دلیلیں بھی قائم کیں ہمیں بہت کچھ کہا سنا بھی ۔ ڈرایا دھمکایا بھی ۔ لیکن ہم نے ان کی ایک نہ مانی بلکہ ان کے خلاف کیا مقابلہ کیا کیونکہ ہماری قسمت میں ہی شقاوت تھی ۔ ازلی بدنصیب ہم تھے ۔ حق سے ہٹ گئے اور باطل کے طرفدار بن گئے ۔ جیسے سورۃ تبارک کی آیت میں ہے«تَکَادُ تَمَیَّزُ مِنَ الْغَیْظِ کُلَّمَا أُلْقِیَ فِیہَا فَوْجٌ سَأَلَہُمْ خَزَنَتُہَا أَلَمْ یَأْتِکُمْ نَذِیرٌ قَالُوا بَلَیٰ قَدْ جَاءَنَا نَذِیرٌ فَکَذَّبْنَا وَقُلْنَا مَا نَزَّلَ اللہُ مِن شَیْءٍ إِنْ أَنتُمْ إِلَّا فِی ضَلَالٍ کَبِیرٍ وَقَالُوا لَوْ کُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا کُنَّا فِی أَصْحَابِ السَّعِیرِ» ۱؎ (67-الملک:8-10) ’ جب جہنم میں کوئی گروہ ڈالا جائے گا ۔ اس سے وہاں کے محافظ پوچھیں گے کہ کیا تمہارے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا تھا ؟ وہ جواب دیں گے کہ ہاں آیا تو تھا لیکن ہم نے اس کی تکذیب کی اور کہہ دیا کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ بھی نازل نہیں فرمایا تم بڑی بھاری غلطی میں ہو ۔ اگر ہم سنتے یا سمجھتے تو آج دوزخیوں میں نہ ہوتے ‘ ۔ «فَاعْتَرَفُوا بِذَنبِہِمْ فَسُحْقًا لِّأَصْحَابِ السَّعِیرِ» (67-الملک:11) یعنی ’ اپنے آپ کو آپ ملامت کرنے لگیں گے اپنے گناہ کا خود اقرار کریں گے ‘ ۔ اللہ فرمائے گا ’ دوری اور خسارہ ہو ، لعنت و پھٹکار ہو اہل دوزخ پر ‘ ، کہا جائے گا یعنی ہر وہ شخص جو انہیں دیکھے گا اور ان کی حالت کو معلوم کرے گا وہ صاف کہہ اٹھے گا کہ بے شک یہ اسی لائق ہیں ۔ اسی لیے کہنے والے کا نام نہیں لیا گیا بلکہ اسے مطلق چھوڑا گیا تاکہ اس کا عموم باقی رہے ۔ اور اللہ تعالیٰ کے عدل کی گواہی کامل ہو جائے ان سے کہہ دیا جائے گا کہ اب جاؤ جہنم میں یہیں ہمیشہ جلتے بھلستے رہنا نہ یہاں سے کسی طرح کسی وقت چھٹکارا ملے نہ تمہیں موت آئے ۔ آہ ! یہ کیا ہی برا ٹھکانہ ہے جس میں دن رات جلنا ہی جلنا ہے ۔ یہ ہے تمہارے تکبر کا اور حق کو نہ ماننے کا بدلہ ۔ جس نے تمہیں ایسی بری جگہ پہنچایا اور یہیں کر دیا ۔ کیا ہی برا حال ہے ؟ اور کیا ہی عبرتناک مال ہے ؟ اللہ ہمیں محفوظ رکھے ۔ الزمر
72 الزمر
73 متقیوں کی آخری منزل اوپر بدبختوں کا انجام اور ان کا حال بیان ہوا یہاں سعادت مندوں کا نتیجہ بیان ہو رہا ہے کہ ’ یہ بہترین خوبصورت اونٹنیوں پر سوار ہو کر جنت کی طرف پہنچائے جائیں گے ‘ ۔ ان کی بھی جماعتیں ہوں گی مقربین خاص کی جماعت ، پھر برابر کی ، پھر ان سے کم درجے والوں کی ، پھر ان سے کم درجے والوں کی ، ہر جماعت اپنے مناسب لوگوں کے ساتھ ہو گی ، انبیاء انبیاء علیہم السلام کے ہمراہ ، صدیق اپنے جیسوں کے ساتھ ، شہید لوگ اپنے والوں کے ہمراہ ، علماء اپنے جیسوں کے ساتھ ، غرض ہر ہم جنس اپنے میل کے لوگوں کے ساتھ ہوں گے جب وہ جنت کے پاس پہنچیں گے پل صراط سے پار ہو چکے ہوں گے ، وہاں ایک پل پر ٹھہرائے جائیں گے اور ان میں آپس میں جو مظالم ہوں گے ان کا قصاص اور بدلہ ہو جائے گا ۔ جب پاک صاف ہو جائیں گے تو جنت میں جانے کی اجازت پائیں گے ۔ صور کی مطول حدیث میں ہے کہ { جنت کے دروازوں پر پہنچ کر یہ آپس میں مشورہ کریں گے کہ دیکھو سب سے پہلے کسے اجازت دی جاتی ہے ، پھر وہ آدم علیہ السلام کا قصد کریں گے ۔ پھر نوح علیہ السلام کا پھر ابراہیم علیہ السلام کا پھر موسیٰ علیہ السلام کا پھر عیسیٰ علیہ السلام کا پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم و علیہم کا ۔ جیسے میدان محشر میں شفاعت کے موقعہ پر بھی کیا تھا ۔ اس سے بڑا مقصد جناب احمد مجتبیٰ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت کا موقعہ بموقعہ اظہار کرنا ہے } ۔ صحیح مسلم کی حدیث میں ہے { میں جنت میں پہلا سفارشی ہوں } ۔ ایک اور روایت میں ہے { میں پہلا وہ شخص ہوں جو جنت کا دروازہ کھٹکھٹائے گا } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:196) مسند احمد میں ہے { میں قیامت کے دن جنت کا دروازہ کھلوانا چاہوں گا تو وہاں کا دروازہ مجھ سے پوچھے گا کہ آپ کون ہیں ؟ میں کہوں گا کہ محمد [صلی اللہ علیہ وسلم] وہ کہے گا مجھے یہی حکم تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے پہلے جنت کا دروازہ کسی کیلئے نہ کھولوں } ۔۱؎ (صحیح مسلم:197) مسند احمد میں ہے کہ { پہلی جماعت جو جنت میں جائے گی ان کے چہرے چودھویں رات کے چاند جیسے ہوں گے ، تھوک ، رینٹ پیشاب ، پاخانہ وہاں کچھ نہ ہو گا ۔ ان کے برتن اور سامان آرائش سونے چاندی کا ہو گا ۔ ان کی انگیٹھیوں میں بہترین اگر خوشبو دے رہا ہو گا ان کا پسینہ مشک ہو گا ۔ ان میں سے ہر ایک کی دو بیویاں ہوں گی جن کی پنڈلی کا گودا بوجہ حسن و نزاکت صفائی اور نفاست کے گوشت کے پیچھے سے نظر آ رہا ہو گا ۔ کسی دو میں کوئی اختلاف اور حسد و بغض نہ ہو گا ۔ سب گھل مل کر ایسے ہوں گے جیسے ایک شخص کا دل } ۔۱؎ (صحیح بخاری:3245) { جو جنت میں جائے گا ان کے چہرے چودھویں رات کے چاند کی طرح روشن ہوں گے ۔ ان کے بعد والی جماعت کے چہرے ایسے ہوں گے جیسے بہترین چمکتا ستارہ پھر قریب قریب اوپر والی حدیث کے بیان ہے اور یہ بھی ہے کہ ان کے قد ساٹھ ہاتھ کے ہوں گے ۔ جیسے آدم علیہ السلام کا قد تھا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3327) اور حدیث میں ہے کہ { میری امت کی ایک جماعت جو ستر ہزار کی تعداد میں ہو گی پہلے پہل جنت میں داخل ہو گی ان کے چہرے چودھریں رات کے چاند کی طرح چمک رہے ہوں گے ۔ یہ سن کر عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ نے درخواست کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ اللہ مجھے بھی انہی میں سے کر دے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی کہ { اللہ انہیں بھی انہی میں سے کر دے } ، پھر ایک انصاری نے بھی یہی عرض کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { عکاشہ تجھ پر سبقت لے گیا } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5811) ان ستر ہزار کا بے حساب جنت میں داخل ہونا بہت سی کتابوں میں بہت سی سندوں سے بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے ۔ بخاری مسلم میں ہے کہ { سب ایک ساتھ ہی جنت میں قدم رکھیں گے ان کے چہرے چودھویں رات کے چاند جیسے ہوں گے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6543) ابن ابی شیبہ میں ہے { مجھ سے میرے رب کا وعدہ ہے کہ میری امت میں سے ستر ہزار شخص جنت میں جائیں گے ہر ہزار کے ساتھ ستر ہزار اور ہوں گے ان سے نہ حساب ہو گا نہ انہیں عذاب ہو گا ۔ ان کے علاوہ اور تین لپیں بھر کر ، جو اللہ تعالیٰ اپنے ہاتھوں سے لپ بھر کر جنت میں پہنچائے گا } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2437،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ۔ اس روایت میں ہے پھر ہر ہزار کے ساتھ ستر ہزار ہوں گے ۔۱؎ (طبرانی کبیر:126/17:اسنادہ ضعیف ولہ شواہد صحیحہ) اس حدیث کے بہت سے شواہد ہیں ۔ جب یہ سعید بخت بزرگ جنت کے پاس پہنچ جائیں گے ۔ ان کیلئے دروازے کھل جائیں گے ان کی وہاں عزت و تعظیم ہو گی وہاں کے محافظ فرشتے انہیں بشارت سنائیں گے ان کی تعریفیں کریں گے انہیں سلام کریں گے ۔ اس کے بعد کا جواب قرآن میں محذوف رکھا گیا ہے تاکہ عمومیت باقی رہے ۔ مطلب یہ ہے کہ اس وقت یہ پورے خوش وقت ہو جائیں گے بے انداز سرور راحت آرام و چین انہیں ملے گا ۔ ہر طرح کی آس اور بھلائی کی امید بندھ جائے گی ۔ ہاں یہاں یہ بیان کر دینا بھی ضروری ہے کہ بعض لوگوں نے جو کہا ہے کہ «وَفُتِحَتْ» میں واؤ آٹھویں ہے اور اس سے استدلال کیا ہے کہ جنت کے آٹھ دروازے ہیں ، انہوں نے بڑا تکلف کیا ہے اور بیکار مشقت اٹھائی ہے ۔ جنت کے آٹھ دروازوں کا ثبوت تو صحیح احادیث میں صاف موجود ہے ۔ مسند احمد میں ہے { جو شخص اپنے مال میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کر لے وہ جنت کے سب دروازوں سے بلایا جائے گا ۔ جنت کے کئی ایک دروازے ہیں نمازی باب الصلوۃ سے سخی باب الصدقہ سے مجاہد باب جہاد سے روزے دار باب الریان سے بلائے جائیں گے یہ سن کر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گو اس کی ضرورت تو نہیں کہ ہر دروازے سے پکارا جائے جس سے بھی پکارا جائے مقصد تو جنت میں جانے سے ہے، لیکن کیا کوئی ایسا بھی ہے جو جنت کے کل دروازوں سے بلایا جائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ہاں اور مجھے امید ہے کہ تم انہی میں سے ہو گے} } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1897) یہ حدیث بخاری مسلم وغیرہ میں بھی ہے۔ بخاری مسلم کی ایک اور حدیث میں ہے { جنت میں آٹھ دروازے ہیں ۔ جن میں سے ایک کا نام ” باب الریان“ ہے اس میں سے صرف روزے دار ہی داخل ہوں گے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1896) صحیح مسلم میں ہے { تم میں سے جو شخص کامل مکمل بہت اچھی طرح مل مل کر وضو کرے پھر «اَشْہَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلاَّ اﷲُ واَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُوْلُہُ» پڑھے اس کیلئے جنت کے آٹھوں دروازے کھل جاتے ہیں جس سے چاہے چلا جائے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:234) اور حدیث میں ہے { جنت کی کنجی « لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ» ہے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:242/5:ضعیف) ”جنت کے دروازوں کی کشادگی کا بیان“ اللہ ہمیں بھی جنت نصیب کرے ۔ شفاعت کی مطول حدیث میں ہے کہ { پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’ اے محمد [ صلی اللہ علیہ وسلم ] اپنی امت میں سے جن پر حساب نہیں انہیں داہنی طرف کے دروازے سے جنت میں لے جاؤ ‘ لیکن اور دروازوں میں بھی یہ دوسروں کے ساتھ شریک ہیں ۔ اس قسم جس کے ہاتھ میں محمد [ صلی اللہ علیہ وسلم ] کی جان ہے کہ جنت کی چوکھٹ اتنی بڑی وسعت والی ہے جتنا فاصلہ مکہ اور ہجر میں ہے ۔ یا فرمایا ہجر اور مکہ میں ہے ایک روایت میں ہے مکہ اور بصریٰ میں ہے۔} ۔۱؎ (صحیح بخاری:4812) حضرت عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ نے اپنے خطبے میں بیان فرمایا کہ { ہم سے یہ ذکر کیا گیا ہے کہ جنت کے دروازے کی وسعت چالیس سال کی راہ ہے ۔ ایک ایسا دن بھی آنے والا ہے جب کہ جنت میں جانے والوں کی بھیڑ بھاڑ سے یہ وسیع دروازے کھچا کھچ بھرے ہوئے ہوں گے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2967) مسند میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جنت کی چوکھٹ چالیس سال کی راہ کی ہے } ۱؎ (مسند احمد:29/3:صحیح وہذا اسناد ضعیف) ، یہ جب جنت کے پاس پہنچیں گے انہیں فرشتے سلام کریں گے اور مبارکباد دیں گے کہ تمہارے اعمال تمہارے اقوال تمہاری کوشش اور تمہارا بدلہ ہرچیز خوشی والی اور عمدگی والی ہے ۔ جیسے کہ { حضور علیہ السلام نے کسی غزوے کے موقعہ پر اپنے منادی سے فرمایا تھا { جاؤ ندا کر دو کہ جنت میں صرف مسلمان لوگ ہی جائیں گے } یا فرمایا تھا { صرف مومن ہی } } ۱؎ (صحیح بخاری:4204) ۔ فرشتے ان سے کہیں گے کہ تم اب یہاں سے نکالے نہ جاؤ گے بلکہ یہاں تمہارے لیے دوام ہے ، اپنا یہ حال دیکھ کر خوش ہو کر جنتی اللہ کا شکر ادا کریں گی اور کہیں گے کہ «اَلْحَمْدُ لِلہِ» جو وعدہ ہم سے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کی زبانی کیا تھا اسے پورا کیا ۔ یہی دعا ان کی دنیا میں تھی«رَبَّنَا وَاٰتِنَا مَا وَعَدْتَّنَا عَلٰی رُسُلِکَ وَلَا تُخْزِنَا یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اِنَّکَ لَا تُخْلِفُ الْمِیْعَادَ» ۱؎ (3-آل عمران:194) یعنی ’ اے ہمارے پروردگار ہمیں وہ دے جس کا وعدہ تو نے اپنے رسولوں کی زبانی ہم سے کیا ہے اور ہمیں قیامت کے دن رسوا نہ کر یقیناً تیری ذات وعدہ خلافی سے پاک ہے ‘ ۔ اور آیت میں ہے کہ ’ اس موقعہ پر اہل جنت یہ بھی کہیں گے اللہ کا شکر ہے جس نے ہمیں اس کی ہدایت کی اگر وہ ہدایت نہ کرتا تو ہم ہدایت نہ پاسکتے ۔ یقیناً اللہ کے رسول ہمارے پاس حق لائے تھے ۔ وہ یہ بھی کہیں گے کہ اللہ ہی کیلئے سب تعریف ہے جس نے ہم سے غم دور کر دیا یقیناً ہمارا رب بخشنے والا اور قدر کرنے والا ہے ۔ جس نے اپنے فضل و کرم سے یہ پاک جگہ ہمیں نصیب فرمائی جہاں ہمیں نہ کوئی دکھ درد ہے نہ رنج و تکلیف ، یہاں ہے کہ یہ کہیں گے اس سے ہمیں جنت کی زمین کا وارث کیا ‘ ۔ جیسے فرمان ہے «وَلَقَدْ کَتَبْنَا فِی الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّکْرِ أَنَّ الْأَرْضَ یَرِثُہَا عِبَادِیَ الصَّالِحُونَ » ۱؎ (21-سورۃالأنبیاء:105) ، ’ ہم نے زبور میں ذکر کے بعد لکھ دیا تھا کہ زمین کے وارث میرے نیک بندے ہوں گے ‘ ۔ اسی طرح آج جنتی کہیں گے کہ اس جنت میں ہم جہاں جگہ بنا لیں کوئی روک ٹوک نہیں ۔ یہ ہے بہترین بدلہ ہمارے اعمال کا ۔ معراج والے واقعہ میں بخاری و مسلم میں ہے کہ { جنت کے ڈیرے خیمے لولو کے ہیں اور اس کی مٹی مشک خالص ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:349) { ابن صائد سے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی مٹی کا سوال کیا تو اس نے کہا سفید میدے جیسی مشک خالص ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { یہ سچا ہے } } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2928) مسلم ہی کی اور روایت میں ہے کہ { ابن صائد نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2928) ابن ابی حاتم میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا قول مروی ہے کہ ” جنت کے دروازے پر پہنچ کر یہ ایک درخت کو دیکھیں گے جس کی جڑ میں سے دو نہریں نکلتی ہوں گی ۔ ایک میں وہ غسل کریں گے جس سے اس قدر پاک صاف ہو جائیں گے کہ ان کے جسم اور چہرے چمکنے لگیں گے ۔ ان کے بال کنگھی کئے ہوئے تیل والے ہو جائیں گے کہ پھر کبھی سلجھانے کی ضرورت ہی نہ پڑے نہ چہرے اور جسم کا رنگ روپ ہلکا پڑے ۔ پھر یہ دوسری نہر پر جائیں گے گویا کہ ان سے کہہ دیا گیا ہو اس میں سے پانی پئیں گے جن سے تمام گھن کی چیزوں سے پاک ہو جائیں گے جنت کے فرشتے انہیں سلام کریں گے مبارکباد پیش کریں گے اور انہیں جنت میں لے جانے کیلئے کہیں گے ۔ ہر ایک کے پاس اس کے غلمان آئیں گے اور خوشی خوشی ان پر قربان ہوں گے اور کہیں گے آپ خوش ہو جایئے اللہ تعالیٰ نے آپ کیلئے طرح طرح کی نعمتیں مہیا کر رکھی ہیں ان میں سے کچھ بھاگے دوڑے جائیں گے اور جو حوریں اس جنتی کیلئے مخصوص ہیں ان سے کہیں گے لو مبارک ہو فلاں صاحب آ گئے ۔ نام سنتے ہی خوش ہو کر وہ پوچھیں گی کہ کیا تم نے خود انہیں دیکھا ہے ؟ وہ کہیں گے ہاں ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ کر آ رہے ہیں ۔ یہ مارے خوشی کے دروازے پر آکھڑی ہوں گی ۔ جنتی جب اپنے محل میں آئے گا تو دیکھے گا کہ گدے برابر برابر لگے ہوئے ہیں ۔ اور آب خورے رکھے ہوئے ہیں اور قالین بچھے ہوئے ہیں ۔ اس فرش کو ملاحظہ فرما کر اب جو دیواروں کی طرف نظر کرے گا تو وہ سرخ و سبز اور زرد و سفید اور قسم قسم کے موتیوں کی بنی ہوئی ہوں گی ۔ پھر چھت کی طرف نگاہ اٹھائے گا تو وہ اس قدر شفاف اور مصفا ہو گی کہ نور کی طرح چمک دمک رہی ہو گی ۔ اگر اللہ اسے برقرار نہ رکھے تو اس کی روشنی آنکھوں کی روشنی کو بجھا دے ۔ پھر اپنی بیویوں پر یعنی جنتی حوروں پر محبت بھری نگاہ ڈالے گا ۔ پھر اپنے تختوں میں سے جس پر اس کا جی چاہے بیٹھے گا ۔ اور کہے گا اللہ کا شکر ہے جس نے ہمیں اس کی ہدایت کی ۔ اگر اللہ ہمیں یہ راہ نہ دکھاتا تو ہم تو ہرگز اسے تلاش نہیں کر سکتے تھے “ ۔ اور حدیث میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جب یہ اپنی قبروں سے نکلیں گے ، ان کا استقبال کیا جائے گا ان کیلئے پروں والی اونٹنیاں لائی جائیں گی جن پر سونے کے کجاوے ہوں گے ان کی جوتیوں کے تسمے تک نور سے چمک رہے ہوں گے ۔ یہ اونٹنیاں ایک ایک قدم اس قدر دور رکھتی ہیں جہاں تک انسان کی نگاہ جا سکتی ہے ۔ یہ ایک درخت کے پاس پہنچیں گی جس کے نیچے سے نہریں نکلتی ہیں ۔ ایک کا پانی یہ پئں گے جس سے ان کے پیٹ کی تمام فضولیات اور میل کچیل دھل جائے گا دوسری نہر سے یہ غسل کریں گے پھر ہمیشہ تک ان کے بدن میلے نہ ہوں گے ان کے بال پراگندہ نہ ہوں گے اور ان کے جسم اور چہرے بارونق رہیں گے ۔ اب یہ جنت کے دروازوں پر آئیں گے دیکھیں گے کہ ایک کنڈا سرخ یاقوت کا ہے جو سونے کی تختی پر آویزاں ہے ۔ یہ اسے ہلائیں گے تو ایک عجیب سریلی اور موسیقی صدا پیدا ہو گی اسے سنتے ہی حور جان لے گی کہ اس کے خاوند آ گئے یہ داروغے کو حکم دیں گی کہ جاؤ دروازہ کھولو وہ دروازہ کھول دے گا یہ اندر قدم رکھتے ہی اس داروغے کی نورانی شکل دیکھ کر سجدے میں گر پڑے گا لیکن وہ اسے روک لے گا اور کہے گا اپنا سر اٹھا میں تو تیرا ماتحت ہوں ۔ اور اسے اپنے ساتھ لے چلے گا } ۔ { جب یہ اس در و یاقوت کے خیمے کے پاس پہنچے گا جہاں اس کی حور ہے وہ بیتابانہ دوڑ کر خیمے سے باہر آ جائے گی اور بغل گیر ہو کر کہے گی تم میرے محبوب ہو اور میں تمہاری چاہنے والی ہوں میں یہاں ہمیشہ رہنے والی ہوں مروں گی نہیں ۔ میں نعمتوں والی ہوں فقر و محتاجی سے دور ہوں ۔ میں آپ سے ہمیشہ راضی خوشی رہوں گی کبھی ناراض نہیں ہوں گی ۔ میں ہمیشہ آپ کی خدمت میں حاضر رہنے والی ہوں کبھی ادھر ادھر نہیں ہٹوں گی ۔ پھر یہ گھر میں جائے گا جس کی چھت فرش سے ایک لاکھ ہاتھ بلند ہو گی ۔ اس کی کل دیواریں قسم قسم کے اور رنگ برنگے موتیوں کی ہوں گی اس گھر میں ستر تخت ہوں گے اور ہر تخت پر ستر ستر چھولداریاں ہوں گی اور ان میں سے ہر بستر پر ستر حوریں ہوں گی ہر حور پر ستر جوڑے ہوں گے اور ان سب حلوں کے نیچے سے ان کی پنڈلی کا گودا نظر آتا ہوگا ۔ ان کے ایک جماع کا اندازہ ایک پوری رات کا ہوگا ۔ ان کے باغوں اور مکانوں کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی ۔ جن کا پانی کبھی بدبودار نہیں ہوتا صاف شفاف موتی جیسا پانی ہے اور دودھ کی نہریں ہوں گی جن کا مزہ کبھی نہیں بدلتا ۔ جو دودھ کسی جانور کے تھن سے نہیں نکلا ۔ اور شراب کی نہریں ہوں گی جو نہایت لذیذ ہو گا جو کسی انسانی ہاتھوں کا بنایا ہوا نہیں ۔ اور خالص شہد کی نہریں ہوں گی جو مکھیوں کے پیٹ سے حاصل شدہ نہیں ۔ قسم قسم کے میووں سے لدے ہوئے درخت اس کے چاروں طرف ہوں گے جن کا پھل ان کی طرف جھکا ہوا ہو گا ۔ یہ کھڑے کھڑے پھل لینا چاہیں تو لے سکتے ہیں اگر یہ بیٹھے بیٹھے پھل توڑنا چاہیں تو شاخیں اتنی جھک جائیں گی کہ یہ توڑ لیں اگر یہ لیٹے لیٹے پھل لینا چاہیں تو شاخیں اتنی جھک جائیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت «وَدَانِیَۃً عَلَیْہِمْ ظِلٰلُہَا وَذُلِّـلَتْ قُـطُوْفُہَا تَذْلِیْلًا » ۱؎ (76-الإنسان:14) ، پڑھی یعنی ’ ان جنتی درختوں کے سائے ان پر جھکے ہوئے ہوں گے اور ان کے میوے بہت قریب کر دیئے جائیں گے ‘ ۔ یہ کھانا کھانے کی خواہش کریں گے تو سفید رنگ یا سبز رنگ پرندے ان کے پاس آ کر اپنا پر اونچا کر دیں گے یہ جس قسم کا اس کے پہلو کا گوشت چاہیں کھائیں گے پھر وہ زندہ کا زندہ جیسا تھا ویسا ہی ہو کر اڑ جائے گا ۔ فرشتے ان کے پاس آئیں گے سلام کریں گے اور کہیں گے کہ یہ جنتیں ہیں جن کے تم اپنے اعمال کے باعث وارث بنائے گئے ہو ۔ اگر کسی حور کا ایک بال زمین پر آ جائے تو وہ اپنی چمک سے اور اپنی سیاہی سے نور کو روشن کرے اور سیاہی نمایاں کرے } ۔ ۱؎ (ضعیف) یہ حدیث غریب ہے گو کہ یہ مرسل ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ الزمر
74 الزمر
75 روز قیامت انصاف کے ساتھ فیصلہ ہو گا جبکہ اللہ تعالیٰ نے اہل جنت اور اہل جہنم کا فیصلہ سنا دیا اور انہیں ان کے ٹھکانے پہنچائے جانے کا حال بھی بیان کر دیا ۔ اور اس میں اپنے عدل و انصاف کا ثبوت بھی دے دیا ، تو اس آیت میں فرمایا کہ ’ قیامت کے روز اس وقت تو دیکھے گا کہ فرشتے اللہ کے عرش کے چاروں طرف کھڑے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و تسبیح بزرگی اور بڑائی بیان کر رہے ہوں گے ‘ ۔ ساری مخلوق میں عدل و حق کے ساتھ فیصلے ہو چکے ہوں گے ۔ اس سراسر عدل اور بالکل رحم والے فیصلوں پر کائنات کا ذرہ ذرہ اس کی ثنا خوانی کرنے لگے گا اور جاندار چیز سے آواز آئے گی کہ « الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ» چونکہ اس وقت ہر اک تر و خشک چیز اللہ کی حمد بیان کرے گی اس لیے یہاں مجہول کا صیغہ لا کر فاعل کو عام کر دیا گیا ۔ قتادہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں خلق کی پیدائش کی ابتداء بھی حمد سے ہے ، فرماتا ہے «الْحَمْدُ لِلہِ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ» ۱؎ (6-الأنعام:1) اور مخلوق کی انتہا بھی حمد سے ہے ، فرماتا ہے «وَقُضِیَ بَیْنَہُمْ بالْحَقِّ وَقِیْلَ الْحَـمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ» ۱؎ (39-الزمر:75) ۔ «اَلْحَمْدُ لِلہِ» سورۃ الزمر کی تفسیر ختم ہوئی ۔ الزمر
0 غافر
1 یہ کتاب اللہ کی طرف سے ہے سورتوں کے اول میں حم وغیرہ جیسے جو حروف آئے ہیں ان کی پوری بحث سورۃ البقرہ کی تفسیر کے شروع میں کر آئے ہیں جس کے اعادہ کی اب چنداں ضرورت نہیں ۔ بعض کہتے ہیں حم اللہ کا ایک نام ہے اور اس کی شہادت میں وہ یہ شعر پیش کرتے ہیں «یذکرنی حم والرمح شاجر» «فھلا تلا حم قبل التقدم» یعنی یہ مجھے حم یاد دلاتا ہے جب کہ نیزہ تن چکا پھر اس سے پہلے ہی اس نے حٰمٗ کیوں نہ کہہ دیا ۔ ابوداؤد اور ترمذی کی حدیث میں وارد ہے کہ اگر تم پر شب خون مارا جائے تو «" حم " لا ینصرون "» کہنا ،(سنن ترمذی:1682،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اس کی سند صحیح ہے ۔ ابوعبید کہتے ہیں مجھے یہ پسند ہے کہ اس حدیث کو یوں روایت کی جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم کہو «حم لاینصروا» یعنی نون کے بغیر ، تو گویا ان کے نزدیک لاینصروا جزا ہے فقولوا کی یعنی جب تم یہ کہو گے تم مغلوب نہیں ہو گے ۔ تو قول صرف حم رہا یہ کتاب یعنی قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی جانب سے نازل شدہ ہے جو عزت و علم والا ہے ، جس کی جناب ہر بےادبی سے پاک ہے اور جس پر کوئی ذرہ بھی مخفی نہیں گو وہ کتنے ہی پردوں میں ہو ، وہ گناہوں کی بخشش کرنے والا اور جو اس کی طرف جھکے اس کی جانب مائل ہونے والا ہے ۔ اور جو اس سے بےپرواہی کرے اس کے سامنے سرکشی اور تکبر کرے اور دنیا کو پسند کر کے آخرت سے بے رغبت ہو جائے ۔ اللہ کی فرمانبرداری کو چھوڑ دے اسے وہ سخت ترین عذاب اور بدترین سزائیں دینے والا ہے ۔ جیسے فرمان ہے « نَبِّئْ عِبَادِی أَنِّی أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِیمُ وَأَنَّ عَذَابِی ہُوَ الْعَذَابُ الْأَلِیمُ » ( 15- الحجر : 50 ، 49 ) یعنی میرے بندوں کو آگاہ کر دو کہ میں بخشنے والا اور مہربانیاں کرنے والا بھی ہوں اور میرے عذاب بھی بڑے درد ناک عذاب ہیں ۔ اور بھی اس قسم کی آیتیں قرآن کریم میں بہت سی ہیں جن میں رحم و کرم کے ساتھ عذاب و سزا کا بیان بھی ہے تاکہ بندہ خوف و امید کی حالت میں رہے ۔ وہ وسعت و غنا والا ہے ۔ وہ بہت بہتری والا ہے بڑے احسانوں ، زبردست نعمتوں اور رحمتوں والا ہے ۔ «وَإِن تَعُدٰوا نِعْمَتَ اللہِ لَا تُحْصُوہَا» ( 14-إبراہیم : 34 ) بندوں پر اس کے انعام ، احسان اس قدر ہیں کہ کوئی انہیں شمار بھی نہیں کر سکتا چہ جائیکہ اس کا شکر ادا کر سکے ۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ کسی ایک نعمت کا بھی پورا شکر کسی سے ادا نہیں ہوسکتا ۔ اس جیسا کوئی نہیں اس کی ایک صفت بھی کسی میں نہیں اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں نہ اس کے سوا کوئی کسی کی پرورش کرنے والا ہے ۔ اسی کی طرف سب کو لوٹ کر جانا ہے ۔ اس وقت وہ ہر عمل کرنے والے کو اس کے عمل کے مطابق جزا سزا دے گا ۔ «وَہُوَ سَرِیعُ الْحِسَابِ» ( 13-الرعد : 41 ) اور بہت جلد حساب سے فارغ ہو جائے گا ۔ امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما سے ایک شخص آ کر مسئلہ پوچھتا ہے کہ میں نے کسی کو قتل کر دیا ہے کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے ؟ آپ رضی اللہ عنہما نے شروع سورت کی دو آیتیں تلاوت فرمائیں اور فرمایا ناامید نہ ہو اور نیک عمل کئے جا ۔ ( ابن ابی حاتم ) سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کے پاس ایک شامی کبھی کبھی آیا کرتا تھا اور تھا ذرا ایسا ہی آدمی ایک مرتبہ لمبی مدت تک وہ آیا ہی نہیں تو امیر المؤمنین رضی اللہ عنہما نے لوگوں سے اس کا حال پوچھا انہوں نے کہا کہ اس نے بہ کثرت شراب پینا شروع کر دیا ہے ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے کاتب کو بلوا کر کہا لکھو یہ خط ہے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی طرف سے فلاں بن فلاں کی طرف بعد از سلام علیک میں تمہارے سامنے اس اللہ کی تعریفیں کرتا ہوں جس کے ساتھ کوئی معبود نہیں جو گناہوں کو بخشنے والا توبہ کو قبول کرنے والا سخت عذاب والا بڑے احسان والا ہے جس کے سوا کوئی اللہ نہیں ۔ اسی کی طرف لوٹنا ہے ۔ یہ خط اس کی طرف بھجوا کر آپ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا اپنے بھائی کیلئے دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ اس کے دل کو متوجہ کر دے اور اس کی توبہ قبول فرمائے جب اس شخص کو سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کا خط ملا تو اس نے اسے باربار پڑھنا اور یہ کہنا شروع کیا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنی سزا سے ڈرایا بھی ہے اور اپنی رحمت کی امید دلا کر گناہوں کی بخشش کا وعدہ بھی کیا ہے کئی کئی مرتبہ اسے پڑھ کر رو دیئے پھر توبہ کی اور سچی پکی توبہ کی ۔ جب فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو یہ پتہ چلا تو آپ بہت خوش ہوئے ۔ اور فرمایا اسی طرح کیا کرو ۔ جب تم دیکھو کہ کوئی مسلمان بھائی لغزش کھا گیا تو اسے سیدھا کرو اور مضبوط کرو اور اس کیلئے اللہ سے دعا کرو ۔ شیطان کے مددگار نہ بنو ۔ حضرت ثابت بنانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں سیدنا مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہما کے ساتھ کوفے کے گرد و نواح میں تھا میں نے ایک باغ میں جا کر دو رکعت نماز شروع کی اور اس سورۃ مومن کی تلاوت کرنے لگا میں ابھی «الیہ المصیر» تک پہنچا ہی تھا کہ ایک شخص نے جو میرے پیچھے سفید خچر پر سوار تھا جس پر یمنی چادریں تھیں مجھ سے کہا جب« غافر الذنب» پڑھو تو کہو «یاغافر الذنب اغفرلی ذنبی» اور جب «قابل التوب» پڑھو تو کہو«یَا قَاُبَل الثّْوبْ اِقْبَْل تَْوبَتِیْ » اور جب « شدید العقاب » تو کہو «یاشدید العقاب لا تعاقبنی»۔ ۔ سیدنا مصعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے گوشہ چشم سے دیکھا تو مجھے کوئی نظر نہ آیا فارغ ہو کر میں دروازے پر پہنچا وہاں جو لوگ بیٹھے تھے ان سے میں نے پوچھا کہ کیا کوئی شخص تمہارے پاس سے گذرا جس پر یمنی چادریں تھیں انہوں نے کہا نہیں ہم نے تو کسی کو آتے جاتے نہیں دیکھا ۔ اب لوگ یہ خیال کرنے لگے کہ یہ الیاس علیہ السلام تھے ۔ یہ روایت دوسری سند سے بھی مروی ہے اور اس میں الیاس کا ذکر نہیں ۔ «واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم» ۔ غافر
2 غافر
3 غافر
4 انبیاء کی تکذیب کافروں کا شیوہ ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حق کے ظاہر ہوچکنے کے بعد اسے نہ ماننا اور اس میں نقصانات پیدا کرنے کی کوشش کرنا کافروں کا ہی کام ہے ۔ یہ لوگ اگر مالدار اور ذی عزت ہوں تو تم کسی دھوکے میں نہ پڑ جانا کہ اگر یہ اللہ کے نزدیک برے ہوتے تو اللہ انہیں اپنی یہ نعمتیں کیوں عطا فرماتا ؟ جیسے اور جگہ ہے«لَا یَغُرَّنَّکَ تَقَلٰبُ الَّذِینَ کَفَرُوا فِی الْبِلَادِ مَتَاعٌ قَلِیلٌ ثُمَّ مَأْوَاہُمْ جَہَنَّمُ ۚ وَبِئْسَ الْمِہَادُ» ( 3-آل عمران : 196 ، 197 ) کافروں کا شہروں میں چلنا پھرنا تجھے دھوکے میں نہ ڈالے یہ تو کچھ یونہی سا فائدہ ہے آخری انجام تو ان کا جہنم ہے جو بدترین جگہ ہے ۔ ایک اور آیت میں ارشاد ہے«نُمَتِّعُہُمْ قَلِیلًا ثُمَّ نَضْطَرٰہُمْ إِلَیٰ عَذَابٍ غَلِیظٍ» ( 31-لقمان : 24 ) ہم انہیں بہت کم فائدہ دے رہے ہیں بالآخر انہیں سخت عذاب کی طرف بے بس کر دیں گے ۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتا ہے کہ لوگوں کی تکذیب کی وجہ سے گھبرائیں نہیں ۔ اپنے سے اگلے انبیاء کے حالات کو دیکھیں کہ انہیں بھی جھٹلایا گیا اور ان پر ایمان لانے والوں کی بھی بہت کم تعداد تھی ، حضرت نوح علیہ السلام جو بنی آدم میں سب سے پہلے رسول ہو کر آئے انہیں ان کی امت جھٹلاتی رہی بلکہ سب نے اپنے اپنے زمانے کے نبی علیہ السلام کو قید کرنا اور مار ڈالنا چاہا اور بعض اس میں کامیاب بھی ہوئے ۔ اور اپنے شبہات سے اور باطل سے حق کو حقیر کرنا چاہا ۔ طبرانی میں فرمانِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے جس نے باطل کی مدد کی تاکہ حق کو کمزور کرے ، اس سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بری الذمہ ہیں ۔ (سلسلۃ احادیث صحیحہ البانی:1020:صحیح،) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں نے ان باطل والوں کو پکڑ لیا ۔ اور ان کے ان زبردست گناہوں اور بدترین سرکشیوں کی بنا پر انہیں ہلاک کر دیا ۔ اب تم ہی بتلاؤ کہ میرے عذاب ان پر کیسے کچھ ہوئے ؟ یعنی بہت سخت نہایت تکلیف دہ اور المناک ، جس طرح ان پر ان کے اس ناپاک عمل کی وجہ سے میرے عذاب اتر پڑے اسی طرح اب اس امت میں سے جو اس آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کرتے ہیں ان پر بھی میرے ایسے ہی عذاب نازل ہونے والے ہیں ۔ یہ گو نبیوں کو سچا مانیں لیکن جب تیری نبوت کے ہی قائل نہ ہوں ان کی سچائی مردود ہے ۔«وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ غافر
5 غافر
6 غافر
7 اللہ کی بزرگی اور پاکی بیان کرنے پر مامور فرشتے عرش کو اٹھانے والے فرشتے اور اس کے آس پاس کے تمام بہترین بزرگ فرشتے ایک طرف تو اللہ کی پاکی بیان کرتے ہیں تمام عیوب اور کل کمیوں اور برائیوں سے اسے دور بتاتے ہیں ، دوسری جانب اسے تمام ستائشوں اور تعریفوں کے قابل مان کر اس کی حمد بجا لاتے ہیں ۔ غرض جو اللہ میں نہیں اس کا انکار کرتے ہیں اور جو صفتیں اس میں ہیں انہیں ثابت کرتے ہیں ۔ اس پر ایمان و یقین رکھتے ہیں ۔ اس سے پستی اور عاجزی ظاہر کرتے ہیں اور کل ایماندار مردوں عورتوں کیلئے استغفار کرتے رہتے ہیں ۔ چونکہ زمین والوں کا ایمان اللہ تعالیٰ پر اسے دیکھے بغیر تھا ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے مقرب فرشتے ان گناہوں کی معافی طلب کرنے کیلئے مقرر کر دیئے جو ان کے بن دیکھے ہر وقت ان کی تقصیروں کی معافی طلب کیا کرتے ہیں ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے کہ جب مسلمان اپنے مسلمان بھائی کیلئے اس کی غیر حاضری میں دعا کرتا ہے تو فرشتہ اس کی دعا پر آمین کہتا ہے اور اس کیلئے دعا کرتا ہے کہ اللہ تجھے بھی یہی دے جو تو اس مسلمان کیلئے اللہ سے مانگ رہا ہے ۔ (صحیح مسلم:2732) مسند احمد میں ہے کہ امیہ بن صلت کے بعض اشعار کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تصدیق کی جیسے یہ شعر ہے «زحل و ثور تحت وجل یمینہ» و«النسر للاخری و لیث مرصد» یعنی حاملان عرش چار فرشتے ہیں دو ایک طرف دو دوسری طرف ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سچ ہے پھر اس نے کہا و«الشمس تطلع کل اخر لیلتہ حمراء یصبح لونھا یتورد تابی فما تطلع لنا فی رسلھا الا معذبتہ والا تجلد» یعنی سورج سرخ رنگ طلوع ہوتا ہے پھر گلابی ہو جاتا ہے ، اپنی ہیئت میں کبھی صاف ظاہر نہیں ہوتا بلکہ روکھا پھیکا ہی رہتا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سچ ہے ۔(مسند احمد:256/1:ضعیف) اس کی سند بہت پختہ ہے اور اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت حاملان عرش چار فرشتے ہیں ، ہاں قیامت کے دن عرش کو آٹھ فرشتے اٹھائیں گے ۔ جیسے قرآن مجید میں ہے «وَیَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّکَ فَوْقَہُمْ یَوْمَیِٕذٍ ثَمٰنِیَۃٌ» ( 69- الحاقۃ : 17 ) ہاں اس آیت کے مطلب اور اس حدیث کے استدلال میں ایک سوال رہ جاتا ہے کہ ابوداؤد کی ایک حدیث میں ہے کہ بطحاء میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت سے ایک ابر کو گزرتے ہوئے دیکھ کر سوال کیا کہ اس کا کیا نام ہے ؟ انہوں نے کہا سحاب ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور اسے مزن بھی کہتے ہیں ؟ کہا ہاں ! فرمایا عنان بھی ؟ عرض کیا ہاں ! ۔ پوچھا جانتے ہو آسمان و زمین میں کس قدر فاصلہ ہے ؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا نہیں ، فرمایا اکہتر یا بہتر یا تہتر سال کا راستہ پھر اس کے اوپر کا آسمان بھی پہلے آسمان سے اتنے ہی فاصلے پر اسی طرح ساتوں آسمان ساتویں آسمان پر ایک سمندر ہے جس کی اتنی ہی گہرائی ہے پھر اس پر آٹھ فرشتے پہاڑی بکروں کی صورت کے ہیں جن کے کھر سے گھٹنے کا فاصلہ بھی اتنا ہی ہے ان کی پشت پر اللہ تعالیٰ کا عرش ہے جس کی اونچائی بھی اسی قدر ہے ۔ پھر اس کے اوپر اللہ تبارک و تعالیٰ ہے ۔ (سنن ابوداود:4723،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ترمذی میں بھی یہ حدیث ہے اور امام ترمذی اسے غریب بتاتے ہیں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عرش اللہ اس وقت آٹھ فرشتوں کے اوپر ہے ۔ سیدنا شہر بن حوشب رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ حاملان عرش آٹھ ہیں جن میں سے چار کی تسبیح تو یہ ہے «سبْحَانَکَ اللَّہُمَّ وَبِحَمْدِکَ لَکَ الْحَمْدُ عَلَی حِلْمِکَ بَعْدَ عِلْمِکَ » یعنی اے باری تعالیٰ تیری پاک ذات ہی کیلئے ہر طرح کی حمد و ثناء ہے کہ تو باوجود علم کے پھر بردباری اور علم کرتا ہے ۔ اور دوسرے چار کی تسبیح یہ ہے« سبْحَانَکَ اللَّہُمَّ وَبِحَمْدِکَ لَکَ الْحَمْدُ علی عَفْوک بَعْدَ قُدْرَتِکَ» یعنی اے اللہ باوجود قدرت کے تو جو معافی اور درگذر کرتا رہتا ہے اس پر ہم تیری پاکیزگی اور تیری تعریف بیان کرتے ہیں ۔ اسی لیے مومنوں کے استغفار میں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اللہ تیری رحمت و علم نے ہرچیز کو اپنی وسعت و کشادگی میں لے لیا ہے ۔ بنی آدم کے تمام گناہ ان کی کل خطاؤں پر تیری رحمت چھائے ہوئے ہے ، اسی طرح تیرا علم بھی ان کے جملہ اقوال و افعال کو اپنے اندر لیے ہوئے ہے ۔ ان کی کل حرکات و سکنات سے تو بخوبی واقف ہے ۔ پس تو ان کے برے لوگوں کو جب وہ توبہ کریں اور تیری طرف جھکیں اور گناہوں سے باز آ جائیں اور تیرے احکام کی تعمیل کریں نیکیاں کریں بدیاں چھوڑیں بخش دے ، اور انہیں جہنم کے درد ناک گھبراہٹ والے عذابوں سے نجات دے ۔ انہیں مع ان کے والدین بیویوں اور بچوں کو جنت میں لے جا تاکہ ان کی آنکھیں ہر طرح ٹھنڈی رہیں ۔ گو ان کے اعمال ان جتنے نہ ہوں تاہم تو ان کے درجات بڑھا کر اونچے درجے میں پہنچا دے ۔ جیسے باری تعالیٰ کا فرمان عالیشان ہے ، «وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَاتَّبَعَتْہُمْ ذُرِّیَّــتُہُمْ بِاِیْمَانٍ اَلْحَـقْنَا بِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ وَمَآ اَلَتْنٰہُمْ مِّنْ عَمَلِہِمْ مِّنْ شَیْءٍ ۭ کُلٰ امْرِی بِمَا کَسَبَ رَہِیْنٌ» ( 52- الطور : 21 ) ، یعنی جو لوگ ایمان لائیں اور ان کے ایمان کی اتباع ان کی اولاد بھی کرے ہم ان کی اولاد کو بھی ان سے ملا دیں گے اور ان کا کوئی عمل کم نہ کریں گے ۔ درجے میں سب کو برابری دیں گے ۔ تاکہ دونوں جانب کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں ۔ اور پھر یہ نہ کریں گے کہ درجوں میں بڑھے ہوؤں کو نیچا کر دیں نہیں بلکہ نیچے والوں کو صرف اپنی رحمت و احسان کے ساتھ اونچا کر دیں گے ۔ حضرت سعید بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں مومن جنت میں جا کر پوچھے گا کہ میرا باپ میرے بھائی میری اولاد کہاں ہے ؟ جواب ملے گا کہ ان کی نیکیاں اتنی نہ تھیں کہ وہ اس درجے میں پہنچتے ، یہ کہے گا کہ میں نے تو اپنے لیے اور ان سب کیلئے عمل کئے تھے چنانچہ اللہ تعالیٰ انہیں بھی ان کے درجے میں پہنچا دے گا ۔ پھر آپ نے اسی آیت «رَبَّنَا وَاَدْخِلْہُمْ جَنّٰتِ عَدْنِۨ الَّتِیْ وَعَدْتَّہُمْ وَمَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَاۗیِٕـہِمْ وَاَزْوَاجِہِمْ وَذُرِّیّٰــتِہِمْ ۭ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ» ( 40- غافر : 8 ) کی تلاوت فرمائی ۔ سیدنا مطرف بن عبداللہ رضی اللہ عنہا کا فرمان ہے کہ ایمانداروں کی خیر خواہی فرشتے بھی کرتے ہیں پھر آپ رضی اللہ عنہ نے یہی آیت پڑھی ۔ اور شیاطین ان کی بدخواہی کرتے ہیں ۔ تو ایسا غالب ہے جس پر کوئی غالب نہیں اور جسے کوئی روک نہیں سکتا ۔ جو تو چاہتا ہے ہوتا ہے اور جو نہیں چاہتا نہیں ہوسکتا ۔ تو اپنے اقوال و افعال شریعت و تقدیر میں حکمت والا ہے ، تو انہیں برائیوں کے کرنے سے دنیا میں اور ان کے وبال سے دونوں جہان میں محفوظ رکھ ، قیامت کے دن رحمت والا وہی شمار ہوسکتا ہے جسے تو اپنی سزا سے اور اپنے عذاب سے بچالے حقیقتاً بڑی کامیابی پوری مقصد دری اور ظفریابی یہی ہے ۔ غافر
8 غافر
9 غافر
10 کفار کی دوبارہ زندگی کی لاحاصل آرزو قیامت کے دن جبکہ کافر آگ کے کنوؤں میں ہوں گے اور اللہ کے عذابوں کو چکھ چکے ہوں گے اور تمام ہونے والے عذاب نگاہوں کے سامنے ہوں گے اس وقت خود اپنے نفس کے دشمن بن جائیں گے اور بہت سخت دشمن ہو جائیں گے ۔ کیونکہ اپنے برے اعمال کے باعث جہنم واصل ہوں گے ۔ اس وقت فرشتے ان سے بہ آواز بلند کہیں گے کہ آج جس قدر تم اپنے آپ سے نالاں ہو اور جتنی دشمنی تمہیں خود اپنی ذات سے ہے اور جس قدر تم آج اپنے تئیں کہہ رہے ہو اس سے بہت زیادہ برے اللہ کے نزدیک تم دنیا میں تھے جبکہ تمہیں اسلام و ایمان کی دعوت دی جاتی تھی اور تم اسے مانتے نہ تھے ، اس کے بعد کی آیت« کَیْفَ تَکْفُرُوْنَ باللّٰہِ وَکُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْیَاکُمْ ۚ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ ثُمَّ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ» ( 2- البقرۃ : 28 ) کے ہے ۔ حضرت سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ دنیا میں مار ڈالے گئے پھر قبروں میں زندہ کئے گئے اور جواب سوال کے بعد مار ڈالے گئے پھر قیامت کے دن زندہ کر دیئے گئے ۔ حضرت ابن زیدرحمہ اللہ فرماتے ہیں آدم علیہ السلام کی پیٹھ سے روزِ میثاق کو زندہ کئے گئے پھر ماں کے پیٹ میں روح پھونکی گئی پھر موت آئی پھر قیامت کے دن جی اٹھے ۔ لیکن یہ دونوں قول ٹھیک نہیں اس لیے کہ اس طرح تین موتیں اور تین حیاتیں لازم آتی ہیں اور آیت میں دو موت اور دو زندگی کا ذکر ہے ، صحیح قول سیدنا ابن مسعودرضی اللہ عنہ اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کا ہے ۔ ( یعنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے کی ایک زندگی اور قیامت کی دوسری زندگی ، پیدائش دنیا سے پہلے کی موت اور دنیا سے رخصت ہونے کی موت یہ دو موتیں اور دو زندگیاں مراد ہیں ) مقصود یہ ہے کہ اس دن کافر اللہ تعالیٰ سے قیامت کے میدان میں آرزو کریں گے کہ اب انہیں دنیا میں ایک مرتبہ اور بھیج دیا جائے ۔ جیسے فرمان ہے «وَلَوْ تَرٰٓی اِذِ الْمُجْرِمُوْنَ نَاکِسُوْا رُءُوْسِہِمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ رَبَّنَآ اَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا اِنَّا مُوْقِنُوْنَ» ( 32- السجدۃ : 12 ) ، تو دیکھے گا کہ گنہگار لوگ اپنے رب کے سامنے سرنگوں ہوں گے اور کہہ رہے ہوں گے کہ اللہ ہم نے دیکھ سن لیا اب تو ہمیں پھر دنیا میں بھیج دے تو نیکیاں کریں گے اور ایمان لائیں گے ۔ لیکن ان کی یہ آرزو قبول نہ فرمائی جائے گی ۔ پھر جب عذاب و سزا کو جہنم اور اس کی آگ کو دیکھیں گے اور جہنم کے کنارے پہنچا دئیے جائیں گے تو دوبارہ یہی درخواست کریں گے اور پہلی دفعہ سے زیادہ زور دے کر کہیں گے جیسے ارشاد ہے «وَلَوْ تَرَیٰ إِذْ وُقِفُوا عَلَی النَّارِ فَقَالُوا یَا لَیْتَنَا نُرَدٰ وَلَا نُکَذِّبَ بِآیَاتِ رَبِّنَا وَنَکُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ بَلْ بَدَا لَہُم مَّا کَانُوا یُخْفُونَ مِن قَبْلُ وَلَوْ رُدٰوا لَعَادُوا لِمَا نُہُوا عَنْہُ وَإِنَّہُمْ لَکَاذِبُونَ» ( 6-سورۃ الأنعام : 28 ، 27 ) یعنی کاش کے تو دیکھتا جبکہ وہ جہنم کے پاس ٹھہرا دیئے گئے ہوں گے کہیں گے کاش کے ہم دنیا کی طرف لوٹائے جاتے اور اپنے رب کی باتوں کو نہ جھٹلاتے اور با ایمان ہوتے ، بلکہ ان کے لیے وہ ظاہر ہو گیا جو اس سے پہلے وہ چھپا رہے تھے ۔ اور بالفرض یہ واپس لوٹائے بھی جائیں تو بھی دوبارہ یہ وہی کرنے لگیں گے جس سے منع کئے گئے ہیں ۔ یہ ہیں ہی جھوٹے ۔ اس کے بعد جب انہیں جہنم میں ڈال دیا جائے گا اور عذاب شروع ہو جائیں گے اس وقت اور زیادہ زور دار الفاظ میں یہی آرزو کریں گے وہاں چیختے چلاتے ہوئے کہیں گے «رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَیْرَ الَّذِیْ کُنَّا نَعْمَلُ» ( 35- فاطر : 37 ) ، اے ہمارے پروردگار ہمیں یہاں سے نکال دے ہم نیک اعمال کرتے رہیں گے ان کے خلاف جو اب تک کرتے رہے جواب ملے گا کہ کیا ہم نے انہیں اتنی عمر اور مہلت نہ دی تھی کہ اگر یہ نصیحت حاصل کرنے والے ہوتے تو یقیناً کر سکتے ۔ بلکہ تمہارے پاس ہم نے آگاہ کرنے والے بھی بھیج دیئے تھے اب اپنے کرتوت کا مزہ چکھو ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ۔ کہیں گے کہ«رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْہَا فَإِنْ عُدْنَا فَإِنَّا ظَالِمُونَ قَالَ اخْسَئُوا فِیہَا وَلَا تُکَلِّمُونِ» ( 23-المؤمنون : 107 ، 108 ) اللہ ہمیں یہاں سے نکال دے اگر ہم پھر وہی کریں تو یقیناً ہم ظالم ٹھہریں گے ۔ اللہ فرمائے گا دور ہو جاؤ اسی میں پڑے رہو اور مجھ سے کلام نہ کرو ۔ اس آیت میں ان لوگوں نے اپنے سوال سے پہلے ایک مقدمہ قائم کر کے سوال میں ایک گونہ لطافت کر دی ہے ، اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کو بیان کیا کہ باری تعالیٰ ہم مردہ تھے تو نے ہمیں زندہ کر دیا پھر مار ڈالا پھر زندہ کر دیا ۔ پھر تو ہر اس چیز پر جسے تو چاہے قادر ہے ۔ ہمیں اپنے گناہوں کا اقرار ہے یقیناً ہم نے اپنی جانوں پر ظلم و زیادتی کی اب بچاؤ کی کوئی صورت بنا دے ۔ یعنی ہمیں دنیا کی طرف پھر لوٹا دے جو یقیناً تیرے بس میں ہے ہم وہاں جا کر اپنے پہلے اعمال کے خلاف اعمال کریں گے اب اگر ہم وہی کام کریں تو بیشک ہم ظالم ہیں ۔ انہیں جواب دیا جائے گا کہ اب دوبارہ دنیا میں جانے کی کوئی راہ نہیں ہے ۔ اس لیے کہ اگر دوبارہ چلے بھی جاؤ گے تو پھر بھی وہی کرو گے جس سے منع کئے گئے ۔ تم نے اپنے دل ہی ٹیڑھے کر لیے ہیں تم اب بھی حق کو قبول نہ کرو گے بلکہ اس کے خلاف ہی کرو گے ۔ تمہاری تو یہ حالت تھی کہ جہاں اللہ واحد کا ذکر آیا وہیں تمہارے دل میں کفر سمایا ۔ ہاں اس کے ساتھ کسی کو شریک کیا جائے تو تمہیں یقین و ایمان آ جاتا تھا ۔ یہی حالت پھر تمہاری ہو جائے گی ۔ دنیا میں اگر دوبارہ گئے تو پھر بھی یہی کرو گے ۔ پس حاکم حقیقی جس کے حکم میں کوئی ظلم نہ ہو سرا سر عدل و انصاف ہی ہو وہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جسے چاہے ہدایت دے جسے چاہے نہ دے جس پر چاہے رحم کرے جسے چاہے عذاب کرے اس کے حکم وعدل میں کوئی اس کا شریک نہیں ۔ وہ اللہ اپنی قدرتیں لوگوں پر ظاہر کرتا ہے ۔ زمین و آسمان میں اس کی توحید کی بےشمار نشانیاں موجود ہیں ۔ جن سے صاف ظاہر ہے کہ سب کا خالق سب کا مالک سب کا پالنہار اور حفاظت کرنے والا وہی ہے ۔ وہ آسمان سے روزی یعنی بارش نازل فرماتا ہے جس سے ہر قسم کے اناج کی کھیتیاں اور طرح طرح کے عجیب عجیب مزے کے مختلف رنگ روپ اور شکل وضع کے میوے اور پھل پھول پیدا ہوتے ہیں حالانکہ پانی ایک زمین ایک ۔ لہٰذا اس سے بھی اس کی شان ظاہر ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ عبرت و نصیحت فکرو غور کی توفیق ان ہی کو ہوتی ہے جو اللہ کی طرف رغبت و رجوع کرنے والے ہوں ، اب تم دعا اور عبادت خلوص کے ساتھ صرف اللہ واحد کی کیا کرو ۔ مشرکین کے مذہب و مسلک سے الگ ہو جاؤ ۔ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما ہر فرض کے سلام کے بعد یہ پڑھتے تھے ۔ « لا إلَہَ إِلاَّ اللہُ وَحْدَہُ لا شَرِیکَ لَہُ ، لَہُ المُلْکُ ؛ وَلَہُ الحَمْدُ ، وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ . لا حول ولا قوۃ إلا باللہ ، لا إلہ إلا اللہ ولا نعبد إلا إیاہ ، لہ النعمۃ ولہ الفضل ، ولہ الثناء الحسن ، لا إلہ إلا اللہ مخلصین لہ الدین ولو کرہ الکافرون»اور فرماتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہر نماز کے بعد انہیں پڑھا کرتے تھے ۔ (مسند احمد:4/4:صحیح) یہ حدیث مسلم ابوداؤد وغیرہ میں بھی ہے (صحیح مسلم:594) ابن ابی حاتم میں ہے اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا کرو اور قبولیت کا یقین کامل رکھو اور یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ بےپرواہ اور دوسری طرف کے مشغول دل کی دعا نہیں سنتا ۔(سنن ترمذی:3479،قال الشیخ الألبانی:حسن) غافر
11 غافر
12 غافر
13 غافر
14 غافر
15 روز قیامت سب اللہ کے سامنے ہوں گے اللہ تعالیٰ اپنی کبریائی اور عظمت اور اپنے عرش کی بڑائی اور وسعت بیان فرماتا ہے ۔ جو تمام مخلوق پر مثل چھت کے چھایا ہوا ہے جیسے ارشاد ہے «مِّنَ اللّٰہِ ذِی الْمَعَارِجِ تَعْرُجُ الْمَلَائِکَۃُ وَالرٰوحُ إِلَیْہِ فِی یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہُ خَمْسِینَ أَلْفَ سَنَۃٍ» ( 70- المعارج : 4 ، 3 ) ، یعنی وہ عذاب اللہ کی طرف سے ہو گا جو سیڑھیوں والا ہے ۔ کہ فرشتے اور روح اس کے پاس چڑھ کر جاتے ہیں ۔ ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہے اور اس بات کا بیان ان شاءاللہ آگے آئے گا کہ یہ دوری ساتویں زمین سے لے کر عرش تک کی ہے ، جیسے سلف و خلف کی ایک جماعت کا قول ہے اور یہی راجح بھی ہے ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ بہت سے مفسرین سے مروی ہے کہ عرش سرخ رنگ یاقوت کا ہے جس کے دو کناروں کی وسعت پچاس ہزار سال کی ہے اور جس کی اونچائی ساتویں زمین سے پچاس ہزار سال کی ہے اور اس سے پہلے اس حدیث میں جس میں فرشتوں کا عرش اٹھانا بیان ہوا ہے یہ بھی گذر چکا ہے کہ ساتوں آسمانوں سے بھی وہ بہت بلند اور بہت اونچا ہے وہ جس پر چاہے وحی بھیجے ۔ جیسے «یُنَزِّلُ الْمَلٰۗیِٕکَۃَ بالرٰوْحِ مِنْ اَمْرِہٖ عَلٰی مَنْ یَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِہٖٓ اَنْ اَنْذِرُوْٓا اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاتَّقُوْنِ» ( 16- النحل : 2 ) ، وہ فرشتوں کو وحی دے کر اپنے حکم سے جس کے پاس چاہتا ہے بھیجتا ہے کہ تم لوگوں کو آگاہ کر دو کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں مجھ سے ڈرتے رہو اور جگہ فرمان ہے«وَاِنَّہٗ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ نَزَلَ بِہِ الرٰوحُ الْأَمِینُ عَلَیٰ قَلْبِکَ لِتَکُونَ مِنَ الْمُنذِرِینَ» ( 26- الشعراء : 194-192 ) یعنی یہ قرآن تمام جہانوں کے رب کا اتارا ہوا ہے ۔ جسے معتبر فرشتے نے تیرے دل پر اتارا ہے ۔ تاکہ تو ڈرانے والا بن جائے ۔ یہاں بھی یہی فرمایا کہ وہ ملاقات کے دن سے ڈرا دے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یہ بھی قیامت کا ایک نام ہے جس سے اللہ نے اپنے بندوں کو ڈرایا ہے ۔ جس میں آدم خود اور ان کی اولاد میں سے سب سے آخری بچہ ایک دوسرے سے مل لے گا ۔ حضرت ابن زید رحمہ اللہ فرماتے ہیں بندے اللہ سے ملیں گے ۔ حضرت قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں آسمان والے اور زمین والے آپس میں ملاقات کریں گے ۔ خالق و مخلوق ، ظالم و مظلوم ملیں گے ۔ مقصد یہ ہے کہ ہر ایک دوسرے سے ملاقات کرے گا ۔ بلکہ عامل اور اس کا عمل بھی ملے گا ۔ آج سب اللہ کے سامنے ہوں گے ۔ بالکل ظاہر باہر ہوں گے ، چھپنے کی تو کہاں سائے کی جگہ بھی کوئی نہ ہو گی ۔ سب اس کے آمنے سامنے موجود ہوں گے ۔ اس دن خود اللہ فرمائے گا کہ آج بادشاہت کس کی ہے ؟ کون ہو گا جو جواب تک دے ؟ پھر خود ہی جواب دے گا کہ اللہ اکیلے کی جو ہمیشہ واحد ہے اور سب پر غالب و حکمراں ہے ۔ پہلے حدیث گذر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان و زمین کو لپیٹ کر اپنے ہاتھ میں لے لے گا اور فرمائے گا ۔ میں بادشاہ ہوں ، میں جبار ہوں متکبر ہوں ۔ زمین کے بادشاہ اور جبار اور متکبر لوگ آج کہاں ہیں ؟ (صحیح مسلم:2788) صور کی حدیث میں ہے کہ اللہ عزوجل جب تمام مخلوق کی روح قبض کر لے گا ۔ اور اس وحدہ لاشریک لہ کے سوا اور کوئی باقی نہ رہے گا ۔ اس وقت تین مرتبہ فرمائے گا آج ملک کس کا ہے ؟ پھر خود ہی جواب دے گا اللہ اکیلے غالب کا ۔ یعنی اس کا جو واحد ہے اس کا جو ہرچیز پر غالب ہے جس کی ملکیت میں ہرچیز ہے ۔ ابن ابی حاتم میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ قیامت کے قائم ہونے کے وقت ایک منادی ندا کرے گا کہ لوگو ! قیامت آ گئی جسے مردے زندے سب سنیں گے ۔ اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر نزول اجلال فرمائے گا اور کہے گا آج کس کے لیے ملک ہے صرف اللہ اکیلے غلبہ والے کے لیے ، پھر اللہ تعالیٰ کے عدل و انصاف کا بیان ہو رہا ہے کہ ذرا سا بھی ظلم اس دن نہ ہو گا بلکہ نیکیاں دس دس گنا کر کے ملیں گی اور برائیاں اتنی ہی رکھی جائیں گی ۔ صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ اے میرے بندو ! میں نے ظلم کرنا اپنے اوپر بھی حرام کر لیا ہے اور تم پر بھی حرام کر دیا ہے ۔ پس تم میں سے کوئی کسی پر ظلم نہ کرے آخر میں ہے اے میرے بندو ! یہ تو تمہارے اپنے اعمال ہیں ۔ جن پر میں نگاہ رکھتا ہوں اور جن کا پورا بدلہ دوں گا ۔ پس جو شخص بھلائی پائے وہ اللہ کی حمد کرے اور جو اس کے سوا پائے وہ اپنے تئیں ہی ملامت کرے ۔(صحیح مسلم:2577) پھر اپنے جلد حساب لینے کو بیان فرمایا کہ ساری مخلوق سے حساب لینا اس پر ایسا ہے جیسے ایک شخص کا حساب لینا جیسے ارشاد باری ہے«مَا خَلْقُکُمْ وَلَا بَعْثُکُمْ اِلَّا کَنَفْسٍ وَّاحِدَۃٍ ۭ اِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌۢ بَصِیْرٌ » ( 31- لقمان : 28 ) یعنی تم سب کا پیدا کرنا اور تم سب کو مرنے کے بعد زندہ کر دینا میرے نزدیک ایک شخص کے پیدا کرنے اور زندہ کر دینے کی مانند ہے اور آیت میں ہے اللہ عزوجل کا فرمان ہے «وَمَآ اَمْرُنَآ اِلَّا وَاحِدَۃٌ کَلَمْحٍۢ بِالْبَصَرِ» ( 54- القمر : 50 ) یعنی ہمارے حکم کے ساتھ ہی کام ہو جاتا ہے اتنی دیر میں جیسے کسی نے آنکھ بند کر کے کھول لی ۔ غافر
16 غافر
17 غافر
18 اللہ علیم پر ہر چیز ظاہر ہے « الْآزِفَۃِ» قیامت کا ایک نام ہے ۔ اس لیے وہ بہت ہی قریب ہے جیسے فرمان ہے«اَزِفَتِ الْاٰزِفَۃُ » ( 53- النجم : 57 ) ، یعنی قریب آنے والی قریب ہو چکی ہے ، جس کا کھولنے والا بجز اللہ کے کوئی نہیں اور جگہ ارشاد ہے «اِقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ» ( 54- القمر : 1 ) ، قیامت قریب آ گئی اور چاند پھٹ گیا اور فرمان ہے «اِقْتَرَبَ للنَّاسِ حِسَابُہُمْ وَہُمْ فِیْ غَفْلَۃٍ مٰعْرِضُوْنَ» ( 21- الأنبیاء : 1 ) لوگوں کے حساب کا وقت قریب آ گیا اور فرمان ہے «أَتَیٰ أَمْرُ اللہِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوہُ» ( 16-النحل : 1 ) اللہ کا امر آ چکا اس میں جلدی نہ کرو اور آیت میں ہے« فَلَمَّا رَاَوْہُ زُلْفَۃً سِیْۗـــــَٔتْ وُجُوْہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَقِیْلَ ہٰذَا الَّذِیْ کُنْتُمْ بِہٖ تَدَّعُوْنَ» ( 67- الملک : 27 ) جب اسے قریب دیکھ لیں گے تو کافروں کے چہرے سیاہ پڑ جائیں گے ۔ الغرض اسی نزدیکی کی وجہ سے قیامت کا نام «ازِفَۃِ» ہے ۔ اس وقت کلیجے منہ کو آ جائیں گے ۔ وہ خوف و ہراس ہو گا کہ کسی کا دل ٹھکانے نہ رہے گا ۔ سب پر غضب کا سناٹا ہو گا ۔ کسی کے منہ سے کوئی بات نہ نکلے گی ۔ کیا مجال کہ بے اجازت کوئی لب ہلا سکے ۔ سب رو رہے ہوں گے اور حیران و پریشان ہوں گے ۔ جن لوگوں نے اللہ کے ساتھ شرک کر کے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے ان کا آج کوئی دوست غمگسار نہ ہو گا جو انہیں کام آئے ۔ نہ شفیع اور سفارشی ہو گا جو ان کی شفاعت کے لیے زبان ہلائے ۔ بلکہ ہر بھلائی کے اسباب کٹ چکے ہوں گے ، اس اللہ کا علم محیط کل ہے ۔ تمام چھوٹی بڑی چھپی کھلی باریک موٹی اس پر یکساں ظاہر باہر ہیں ، اتنے بڑے علم والے سے جس سے کوئی چیز مخفی نہ ہو ہر شخص کو ڈرنا چاہیئے اور کسی وقت یہ خیال نہ کرنا چاہیئے کہ اس وقت وہ مجھ سے پوشیدہ ہے اور میرے حال کی اسے اطلاع نہیں ۔ بلکہ ہر وقت یہ یقین کر کے وہ مجھے دیکھ رہا ہے اس کا علم میرے ساتھ ہے اس کا لحاظ کرتا رہے اور اس کے رو کے ہوئے کاموں سے رکا رہے ۔ آنکھ جو خیانت کے لیے اٹھتی ہے گو بظاہر وہ امانت ظاہر کرے ۔ لیکن رب علیم پر وہ مخفی نہیں سینے کے جس گوشے میں جو خیال چھپا ہو اور دل میں جو بات پوشیدہ اٹھتی ہو اس کا اسے علم ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اس آیت سے مراد وہ شخص ہے جو مثلاً کسی گھر میں گیا وہاں کوئی خوبصورت عورت ہے یا وہ آ جا رہی ہے یا تو یہ کن اکھیوں سے اسے دیکھتا ہے جہاں کسی کی نظر پڑی تو نگاہ پھیرلی اور جب موقعہ پایا آنکھ اٹھا کر دیکھ لیا پس خائن آنکھ کی خیانت کو اور اس کے دل کے راز کو اللہ علیم خوب جانتا ہے کہ اس کے دل میں تو یہ ہے کہ اگر ممکن ہو تو پوشیدہ عضو بھی دیکھ لے ۔ حضرت ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے مراد آنکھ مارنا اشارے کرنا اور بن دیکھی چیز کو دیکھی ہوئی یا دیکھی ہوئی چیز کو ان دیکھی بتانا ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ۔ نگاہ جس نیت سے ڈالی جائے اللہ پر روشن ہے ۔ پھر سینے میں چھپا ہوا خیال کہ اگر موقعہ ملے اور بس ہو تو آیا یہ بدکاری سے باز رہے گا یا نہیں ۔ یہ بھی وہ جانتا ہے ۔ حضرت سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں دلوں کے وسوسوں سے وہ آگاہ ہے ، وہ عدل کے ساتھ حکم کرتا ہے قادر ہے کہ نیکی کا بدلہ نیکی دے اور برائی کی سزا بری دے ۔ وہ سننے دیکھنے والا ہے ۔ جیسے فرمان ہے کہ وہ بروں کو ان کی کرنے کی سزا اور بھلوں کو ان کی بھلائی کی جزا عنایت فرمائے گا ۔ جو لوگ اس کے سوا دوسروں کو پکارتے ہیں خواہ وہ بت اور تصویریں ہوں خواہ اور کچھ وہ چونکہ کسی چیز کے مالک نہیں ان کی حکومت ہی نہیں تو حکم اور فیصلے کریں گے ہی کیا ؟ اللہ اپنی مخلوق کے اقوال کو سنتا ہے ۔ ان کے احوال کو دیکھ رہا ہے جسے چاہے راہ دکھاتا ہے جسے چاہے گمراہ کرتا ہے اس کا اس میں بھی سرا سر عدل و انصاف ہے ۔ غافر
19 غافر
20 غافر
21 1 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا تیری رسالت کے جھٹلانے والے کفار نے اپنے سے پہلے کے رسولوں کو جھٹلانے والے کفار کی حالتوں کا معائنہ ادھر ادھر چل پھر کر نہیں کیا جو ان سے زیادہ قوی طاقتور اور جثہ دار تھے ۔ جن کے مکانات اور عالیشان عمارتوں کے کھنڈرات اب تک موجود ہیں ۔ جو ان سے زیادہ باتمکنت تھے ۔ ان سے بڑی عمروں والے تھے ، جب ان کے کفر اور گناہوں کی وجہ سے عذاب الٰہی ان پر آیا ۔ تو نہ تو کوئی اسے ہٹا سکا نہ کسی میں مقابلہ کی طاقت پائی گئی نہ اس سے بچنے کی کوئی صورت نکلی ، اللہ کا غضب ان پر برس پڑنے کی وجہ یہ ہوئی کہ ان کے پاس بھی ان کے رسول واضح دلیلیں اور صاف روشن حجتیں لے کر آئے باوجود اس کے انہوں نے کفر کیا جس پر اللہ نے انہیں ہلاک کر دیا اور کفار کے لیے انہیں باعث عبرت بنا دیا ۔ اللہ تعالیٰ پوری قوت والا ، سخت پکڑ والا ، شدید عذاب والا ہے ۔ ہماری دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے تمام عذابوں سے نجات دے ۔ غافر
22 غافر
23 فرعون کا بدترین حکم اللہ تعالیٰ اپنے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دینے کے لیے سابقہ رسولوں کے قصے بیان فرماتا ہے کہ جس طرح انجام کار فتح و ظفر ان کے ساتھ رہی اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کفار سے کوئی اندیشہ نہ کیجئے ۔ میری مدد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہے ۔ انجام کار آپ ہی کی بہتری اور برتری ہو گی جیسے کہ موسیٰ بن عمران علیہ السلام کا واقعہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہے کہ ہم نے انہیں دلائل و براہین کے ساتھ بھیجا ، قبطیوں کے بادشاہ فرعون کی طرف جو مصر کا سلطان تھا اور ہامان کی طرف جو اس کا وزیر اعظم تھا اور قارون کی طرف جو اس کے زمانے میں سب سے زیادہ دولت مند تھا اور تاجروں کا بادشاہ سمجھا جاتا تھا ۔ ان بدنصیبوں نے اللہ کے اس زبردست رسول کو جھٹلایا اور ان کی توہین کی اور صاف کہہ دیا کہ یہ تو جادوگر اور جھوٹا ہے ۔ یہی جواب سابقہ امتوں کے بھی انبیاء علیہم السلام کو دیتے رہے ۔ جیسے ارشاد ہے«کَذٰلِکَ مَآ اَتَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا قَالُوْا سَاحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ أَتَوَاصَوْا بِہِ ۚ بَلْ ہُمْ قَوْمٌ طَاغُونَ » ( 51- الذاریات : 53 ، 52 ) ، یعنی اس طرح ان سے پہلے بھی جتنے رسول آئے سب سے ان کی قوم نے یہی کہا کہ جادوگر ہے یا دیوانہ ہے ۔ کیا انہوں نے اس پر کوئی متفقہ تجویز کر رکھی ہے ؟ نہیں بلکہ دراصل یہ سب کے سب سرکش لوگ ہیں ، جب ہمارے رسول موسیٰ علیہ السلام ان کے پاس حق لائے اور انہوں نے اللہ کے رسول کو ستانا اور دکھ دینا شروع کیا اور فرعون نے حکم جاری کر دیا کہ اس رسول علیہ السلام پر جو ایمان لائے ہیں ان کے ہاں جو لڑکے ہیں انہیں قتل کر دو اور جو لڑکیاں ہوں انہیں زندہ چھوڑ دو ، اس سے پہلے بھی وہ یہی حکم جاری کر چکا تھا ۔ اس لیے کہ اسے خوف تھا کہ کہیں موسیٰ علیہ السلام پیدا نہ ہو جائیں یا اس لیے کہ بنی اسرائیل کی تعداد کم کر دے اور انہیں کمزور اور بےطاقت بنا دے اور ممکن ہے دونوں مصلحتیں سامنے ہوں اور ان کی گنتی نہ بڑھے اور یہ پست و ذلیل رہیں بلکہ انہیں خیال ہو کہ ہماری اس مصیبت کا باعث موسیٰ علیہ السلام ہیں ۔ چنانچہ بنی اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ آپ علیہ السلام کے آنے سے پہلے بھی ہمیں ایذاء دی گئی اور آپ علیہ السلام کے تشریف لانے کے بعد بھی ہم ستائے گئے ۔ آپ نے جواب دیا کہ «قَالُوا أُوذِینَا مِن قَبْلِ أَن تَأْتِیَنَا وَمِن بَعْدِ مَا جِئْتَنَا ۚ قَالَ عَسَیٰ رَبٰکُمْ أَن یُہْلِکَ عَدُوَّکُمْ وَیَسْتَخْلِفَکُمْ فِی الْأَرْضِ فَیَنظُرَ کَیْفَ تَعْمَلُونَ» ( 7-الاعراف : 129 ) تم جلدی نہ کرو بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے دشمن کو برباد کر دے اور تمہیں زمین کا خلیفہ بنائے پھر دیکھے ۔ کہ تم کیسے عمل کرتے ہو ؟ حضرت قتادہ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ فرعون کا یہ حکم دوبارہ تھا ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کفار کا فریب اور ان کی یہ پالیسی کہ بنی اسرائیل فنا ہو جائیں بے فائدہ اور فضول تھی ۔ فرعون کا ایک بدترین قصد بیان ہو رہا ہے کہ اس نے موسیٰ علیہ السلام کے قتل کا ارادہ کیا اور اپنی قوم سے کہا مجھے چھوڑو میں موسیٰ علیہ السلام کو قتل کر ڈالوں گا وہ اگرچہ اپنے اللہ کو بھی اپنی مدد کے لیے پکارے مجھے کوئی پرواہ نہیں ۔ مجھے ڈر ہے کہ اگر اسے زندہ چھوڑا گیا تو وہ تمہاے دین کو بدل دے گا تمہاری عادت و رسومات کو تم سے چھڑا دے گا اور زمین میں ایک فساد پھیلا دے گا ۔ اسی لیے عرب میں یہ مثل مشہور ہو گئی « صار فرعون مذکرا» یعنی فرعون بھی واعظ بن گیا ۔ بعض قرأتوں میں بجائے ان یطھر کے یطھر ہے ، موسیٰ علیہ السلام کو جب فرعون کا یہ بد ارادہ معلوم ہوا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا میں اس کی اور اس جیسے لوگوں کی برائی سے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں ۔ اے میرے مخاطب لوگو ! میں ہر اس شخص کی ایذاء رسانی سے جو حق سے تکبر کرنے والا اور قیامت کے دن پر ایمان نہ رکھنے ولا ہو ، اپنے اور تمہارے رب کی پناہ میں آتا ہوں ۔ حدیث شریف میں ہے کہ جب جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی قوم سے خوف ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا پڑھتے« اللہُمَّ إِنَّا نَعُوذُ بِکَ مِنْ شُرُورِہِمْ وَنَدْرَأُ بِکَ فِی نُحُورِہِمْ» یعنی اے اللہ ان کی برائی سے ہم تیری پناہ میں آتے ہیں اور ہم تجھ پر ان کے مقابلے میں بھروسہ کرتے ہیں ۔(سنن ابوداود:1537،قال الشیخ الألبانی:صحیح) غافر
24 غافر
25 غافر
26 غافر
27 غافر
28 ایک مرد مومن کی فرعون کو نصیحت مشہور تو یہی ہے کہ یہ مومن قبطی تھے ( رحمہ اللہ تعالیٰ ) اور فرعون کے خاندان کے تھے ۔ حضرت سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں فرعون کے یہ چچا زاد بھائی تھے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ انہوں نے بھی موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ نجات پائی تھی ۔ امام ابن جریر بھی اسی قول کو پسند فرماتے ہیں ۔ بلکہ جن لوگوں کا قول ہے کہ یہ مومن بھی اسرائیلی تھے ۔ آپ نے ان کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ اگر یہ اسرائیلی ہوتے تو نہ فرعون اس طرح صبر سے ان کی نصیحت سنتا نہ موسیٰ علیہ السلام کے قتل کے ارادے سے باز آتا ۔ بلکہ انہیں ایذاء پہنچاتا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے آل فرعون میں سے ایک تو یہ مرد ایماندار تھا اور دوسرے فرعون کی بیوی ایمان لائی تھیں ۔ تیسرا وہ شخص جس نے موسیٰ علیہ السلام کو خبر دی تھی کہ«یَا مُوسَیٰ إِنَّ الْمَلَأَ یَأْتَمِرُونَ بِکَ لِیَقْتُلُوکَ» ( 28-القص : 20 ) سرداروں کا مشورہ تمہیں قتل کرنے کا ہو رہا ہے ۔ یہ اپنے ایمان کو چھپاتے رہتے تھے لیکن قتل موسیٰ علیہ السلام کی سن کر ضبط نہ ہو سکی اور یہی درحقیقت سب سے بہتر اور افضل جہاد ہے کہ ظالم بادشاہ کے سامنے انسان کلمہ حق کہہ دے ۔ جیسے کہ حدیث میں ہے ، (سنن ابوداود:4344،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اور فرعون کے سامنے اس سے زیادہ بڑا کلمہ کوئی نہ تھا ۔ پس یہ شخص بہت بلند مرتبے کے مجاہد تھے «رحمہ اللہ علیہ» ۔ جن کے مقابلے کا کوئی نظر نہیں آتا ۔ البتہ صحیح بخاری شریف وغیرہ میں ایک واقعہ کئی روایتوں سے مروی ہے جس کا ماحاصل یہ ہے کہ سیدنا عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہا سے ایک مرتبہ پوچھا کہ سب سے بڑی ایذاء مشرکوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا پہنچائی ہے ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا سنو ایک روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ شریف میں نماز پڑھ رہے تھے کہ عقبہ بن ابی معیط آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پکڑ لیا اور اپنی چادر میں بل دے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن میں ڈال کر گھسیٹنے لگا جس سے آپصلی اللہ علیہ وسلم کا گلا گھٹنے لگا ۔ اسی وقت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ دوڑے دوڑے آئے اور اسے دھکا دے کر پرے پھینکا اور فرمانے لگے کیا تم اس شخص کو قتل کرنا چاہتے ہو جو کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور وہ تمہارے پاس دلیلیں لے کر آیا ہے ۔(صحیح بخاری:3856) ایک اور روایت میں ہے کہ قریشیوں کامجمع جمع تھا جب آپ وہاں سے گذرے تو انہوں نے کہا کیا تو ہی ہے ؟ جو ہمیں ہمارے باپ دادوں کے معبودوں کی عبادت سے منع کرتا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ہاں میں ہی ہوں ۔ اس پر وہ سب آپ کو چمٹ گئے اور کپڑے گھسیٹنے لگے ۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آ کر آپ کو چھڑایا اور پوری آیت «أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَن یَقُولَ رَبِّیَ اللہُ وَقَدْ جَاءَکُم بِالْبَیِّنَاتِ مِن رَّبِّکُمْ» ( الغافر : 28 ) کی تلاوت کی ۔(نسائی فی السنن الکبری:11462،صحیح:) ۔ پس اس مومن نے بھی یہی کہا کہ اس کا قصور تو صرف اتنا ہی ہے کہ یہ اپنا رب اللہ کو بتاتا ہے اور جو کہتا ہے اس پر سند اور دلیل پیش کرتا ہے ۔ اچھا مان لو بالفرض یہ جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا وبال اسی پر پڑے گا اللہ سبحان و تعالیٰ اسے دنیا اور آخرت میں سزا دے گا اور اگر وہ سچا ہے اور تم نے اسے ستایا دکھ دیا تو یقیناً تم پر عذاب اللہ برس پڑے گا جیسے کہ وہ کہہ رہا ہے ۔ پس عقلاً لازم ہے کہ تم اسے چھوڑ دو جو اس کی مان رہے ہیں مانیں ۔ تم کیوں اس کے درپے آزار ہو رہے ہو؟ موسیٰ علیہ السلام نے بھی فرعون اور قوم فرعون سے یہی چاہا تھا ۔ جیسے کہ آیت «وَلَقَدْ فَتَنَّا قَبْلَہُمْ قَوْمَ فِرْعَوْنَ وَجَاءَہُمْ رَسُولٌ کَرِیمٌ أَنْ أَدٰوا إِلَیَّ عِبَادَ اللہِ ۖ إِنِّی لَکُمْ رَسُولٌ أَمِینٌ وَأَن لَّا تَعْلُوا عَلَی اللہِ ۖ إِنِّی آتِیکُم بِسُلْطَانٍ مٰبِینٍ وَإِنِّی عُذْتُ بِرَبِّی وَرَبِّکُمْ أَن تَرْجُمُونِ وَإِن لَّمْ تُؤْمِنُوا لِی فَاعْتَزِلُونِ » ( 44- الدخان : 21-17 ) تک ہے یعنی ہم نے ان سے پہلے قوم فرعون کو آزمایا ان کے پاس رسول اللہ کو بھیجا ۔ اس نے کہا کہ اللہ کے بندوں کو مجھے سونپ دو ۔ میں تمہاری طرف رب کا رسول امین ہوں ۔ تم اللہ سے بغاوت نہ کرو ۔ دیکھو میں تمہارے پاس کھلی دلیلیں اور زبردست معجزے لایا ہوں ۔ تم مجھے سنگسار کر دو گے اس سے میں اللہ کی پناہ لیتا ہوں ، اگر تم مجھ پر ایمان نہیں لاتے تو مجھے چھوڑ دو ، یہی جناب رسول آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم سے فرمایا تھا کہ اللہ کے بندوں کو اللہ کی طرف مجھے پکارنے دو تم میری ایذاء رسانی سے باز رہو ۔ اور میری قرابت داری کو خیال کرتے ہوئے مجھے دکھ نہ دو ۔ صلح حدیبیہ بھی دراصل یہی چیز تھی جو کھلی فتح کہلائی ۔ وہ مومن کہتا ہے کہ سنو ! مسرف اور جھوٹے آدمی راہ یافتہ نہیں ہوتے ۔ ان کے ساتھ اللہ کی نصرت نہیں ہوتی ۔ ان کے اقوال و افعال بہت جلد ان کی خباثت کو ظاہر کر دیتے ہیں ۔ برخلاف اس کے یہ نبی اللہ علیہم السلام اختلاف و اضطراب سے پاک ہیں ۔ صحیح سچی اور اچھی راہ پر ہیں ۔ زبان کے سچے عمل کے پکے ہیں ۔ اگر یہ حد سے گذر جانے والے اور جھوٹے ہوتے تو یہ راستی اور عمدگی ان میں ہرگز نہ ہوتی ، پھر قوم کو نصیحت کرتے ہیں اور انہیں اللہ کے عذاب سے ڈراتے ہیں بھائیو ! تمہیں اللہ نے اس ملک کی سلطنت عطا فرمائی ہے ۔ بڑی عزت دی ہے ۔ تمہارا حکم جاری کر رکھا ہے ۔ اللہ کی اس نعمت پر تمہیں اس کا شکر کرنا چائے اور اس کے رسولوں کو سچا ماننا چاہیئے ۔ یاد رکھو اگر تم نے ناشکری کی اور رسول کی طرف بری نظریں ڈالیں ۔ تو یقیناً عذاب اللہ تم پر آ جائے گا ۔ بتاؤ اس وقت کسے لاؤ گے ۔ جو تمہاری مدد پر کھڑا ہو اور اللہ کے عذاب کو روکے یا ٹالے ؟ یہ لاؤ لشکر یہ جان و مال کچھ کام نہ آئیں گے ۔ فرعون سے اور تو کوئی معقول جواب بن نہ پڑا کھسایانہ بن کر قوم میں اپنی خیر خواہی جتانے لگا کہ میں دھوکا نہیں دے رہا جو میر اخیال ہے اور میرے ذہن میں ہے وہی تم پر ظاہر کر رہا ہوں ۔ حالانکہ دراصل یہ بھی اس کی خیانت تھی ۔ وہ بھی جانتا تھا کہ موسیٰ علیہ السلام اللہ کے سچے رسول ہیں ۔ جیسے فرمان باری ہے «لَقَدْ عَلِمْتَ مَآ اَنْزَلَ ہٰٓؤُلَاۗءِ اِلَّا رَبٰ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ بَصَاۗیِٕرَ ۚ وَاِنِّیْ لَاَظُنٰکَ یٰفِرْعَوْنُ مَثْبُوْرًا» ( 17- الإسراء : 102 ) یعنی موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا اے فرعون تو خوب جانتا ہے کہ یہ عجائبات خاص آسمان و زمین کے پروردگار نے بھیجے ہیں ۔ جو کہ بصیرت کے ذرائع ہیں ۔ اور آیت میں ہے «وَجَحَدُوْا بِہَا وَاسْتَیْقَنَتْہَآ اَنْفُسُہُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا ۭ فَانْظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُفْسِدِیْنَ» ( 27- النمل : 14 ) ، یعنی انہوں نے باوجود دلی یقین کے از راہ ظلم و زیادتی انکار کر دیا ۔ اسی طرح اس کا یہ کہنا بھی سراسر غلط تھا کہ میں تمہیں حق کی سچائی کی اور بھلائی کی راہ دکھاتا ہوں ۔ اس میں وہ لوگوں کو دھوکا دے رہا تھا اور رعیت کی خیانت کر رہا تھا ۔ لیکن اس کی قوم اس کے دھوکے میں آ گئی اور فرعون کی بات مان لی ۔ «إِلَیٰ فِرْعَوْنَ وَمَلَئِہِ فَاتَّبَعُوا أَمْرَ فِرْعَوْنَ ۖ وَمَا أَمْرُ فِرْعَوْنَ بِرَشِیدٍ» ( 11-ہود : 97 ) فرعون نے انہیں کسی بھلائی کی راہ نہ ڈالا ۔ اس کا عمل ہی ٹھیک نہیں تھا اور جگہ اللہ عزوجل فرماتا ہے«وَأَضَلَّ فِرْعَوْنُ قَوْمَہُ وَمَا ہَدَیٰ» ( 20-طہ : 79 ) فرعون نے اپنی قوم کو بہا دیا اور انہیں صحیح راہ تک نہ پہنچنے دیا نہ پہنچایا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو امام اپنی رعایا سے خیانت کر رہا ہو وہ مر کر جنت کی خوشبو بھی نہیں پاتا ۔ حالانکہ وہ خوشبو پانچ سو سال کی راہ پر آتی ہے ۔(صحیح بخاری:1750) «واللہ سبحانہ و تعالیٰ الموفق للصواب» غافر
29 غافر
30 مرد مومن کی اپنی قوم کو نصیحت اس مومن کی نصیحت کا آخری حصہ بیان ہو رہا ہے کہ اس نے فرمایا دیکھو اگر تم نے اللہ کے رسول کی نہ مانی اور اپنی سرکشی پر اڑے رہے تو مجھے ڈر یہ ہے کہ کہیں سابقہ قوموں کی طرح تم پر بھی عذاب اللہ کا برس نہ پڑے ۔ قوم نوح اور قوم عاد ثمود کو دیکھ لو کہ پیغمبروں کی نہ ماننے کے وبال میں ان پر کیسے عذاب آئے ؟ اور کوئی نہ تھا جو انہیں ٹالتا یا روکتا ۔ اس میں اللہ کا کچھ ظلم نہ تھا اس کی ذات بندوں پر ظلم کرنے سے پاک ہے ان کے اپنے کرتوت تھے جو ان کے لیے وبالِ جان بن گئے ، مجھے تم پر قیامت کے دن کے عذاب کا بھی ڈر ہے ۔ جو ہانک پکار کا دن ہے ۔ صور کی حدیث میں ہے کہ جب زمین میں زلزلہ آئے گا اور پھٹ جائے گی تو لوگ مارے گھبراہٹ کے ادھر ادھر پریشان حواس بھاگنے لگیں گے ۔ اور ایک دوسرے کو آواز دیں گے ۔ حضررت ضحاک رحمہ اللہ وغیرہ کا قول ہے کہ یہ اس وقت کا ذکر ہے جب جہنم لائی جائے گی اور لوگ اسے دیکھ کر ڈر کر بھاگیں گے اور فرشتے انہیں میدان محشر کی طرف واپس لائیں گے ۔ جیسے فرمان اللہ ہے«وَّالْمَلَکُ عَلٰٓی اَرْجَاۗیِٕہَا ۭ وَیَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّکَ فَوْقَہُمْ یَوْمَیِٕذٍ ثَمٰنِیَۃٌ» ( 69- الحاقۃ : 17 ) یعنی فرشتے اس کے کناروں پر ہوں گے ۔ اور فرمان ہے «یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْـطَار السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ فَانْفُذُوْا ۭ لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطٰنٍ» ( 55- الرحمن : 33 ) ، یعنی اے انسانو ! اور جنو ! اگر تم زمین و آسمان کے کناروں سے بھاگ نکلنے کی طاقت رکھتے ہو تو نکل بھاگو لیکن یہ تمہارے بس کی بات نہیں ۔ حضرت حسن رحمہ اللہ اور حضرت ضحاک رحمہ اللہ کی قرأت میں «یوم التناد» دال کی تشدید کے ساتھ ہے ۔ اور یہ ماخوذ ہے «ندالبعیر» سے ، جب اونٹ چلا جائے اور سرکشی کرنے لگے تو یہ لفظ کہا جاتا ہے ، کہا گیا ہے کہ جس ترازو میں عمل تولے جائیں گے وہاں ایک فرشتہ ہو گا جس کی نیکیاں بڑھ جائیں گی وہ با آواز بلند پکار کر کہے گا لوگو فلاں کا لڑکا فلاں سعادت والا ہو گیا اور آج کے بعد سے اس پر شقاوت کبھی نہیں آئے گی اور اس کی نیکیاں گھٹ گئیں تو وہ فرشتہ آواز لگائے گا کہ فلاں بن فلاں بدنصیب ہو گیا اور تباہ و برباد ہو گیا ۔ حضرت قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں قیامت کو « یَوْمَ التَّنَادِ» اس لیے کہا گیا ہے کہ جنتی جنتیوں کو اور جہنمی جہنمیوں کو پکاریں گے اور اعمال کے ساتھ پکاریں گے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ«وَنَادَیٰ أَصْحَابُ الْجَنَّۃِ أَصْحَابَ النَّارِ أَن قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبٰنَا حَقًّا فَہَلْ وَجَدتٰم مَّا وَعَدَ رَبٰکُمْ حَقًّا ۖ قَالُوا نَعَمْ ۚ» ( 7-الأعراف : 44 ) وجہ یہ ہے کہ جنتی دوزخیوں کو پکاریں گے اور کہیں گے کہ ہمارے رب نے ہم سے جو وعدہ کیا تھا وہ ہم نے سچ پایا ۔ تم بتاؤ کہ کیا تم نے بھی اپنے رب کا وعدہ سچا پایا ؟ وہ جواب دیں گے ہاں ۔ «وَنَادَیٰ أَصْحَابُ النَّارِ أَصْحَابَ الْجَنَّۃِ أَنْ أَفِیضُوا عَلَیْنَا مِنَ الْمَاءِ أَوْ مِمَّا رَزَقَکُمُ اللہُ ۚ قَالُوا إِنَّ اللہَ حَرَّمَہُمَا عَلَی الْکَافِرِینَ » ( 7-الأعراف : 50 ) اسی طرح جہنمی جنتیوں کو پکار کر کہیں گے کہ ہمیں تھوڑا سا پانی ہی چھوا دو یا وہ کچھ دے دو جو اللہ نے تمہیں دے رکھا ہے ۔ جنتی جواب دیں گے کہ یہاں کے کھانے پینے کو اللہ نے کافروں پر حرام کر دیا ہے اسی طرح سورۃ الاعراف میں یہ بھی بیان ہے کہ اعراف والے دوزخیوں اور جنتیوں کو پکاریں گے ۔ بغوی وغیرہ فرماتے ہیں کہ یہ تمام باتیں ہیں اور ان سب وجوہ کی بنا پر قیامت کے دن کا نام « یَوْمَ التَّنَادِ» ہے ۔ یہی قول بہت عمدہ ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ، اس دن لوگ پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوں گے ۔ لیکن بھاگنے کی کوئی جگہ نہ پائیں گے اور کہہ دیا جائے گا کہ«کَلَّا لَا وَزَرَ إِلَیٰ رَبِّکَ یَوْمَئِذٍ الْمُسْتَقَرٰ» ( 75-القیامۃ : 11 ، 12 ) آج ٹھہرنے کی جگہ یہی ہے اس دن کوئی نہ ہو گا جو بچا سکے اور اللہ کے عذاب سے چھڑا سکے بات یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی قادر مطلق نہیں وہ جسے گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا ، پھر فرماتا ہے کہ اس سے پہلے اہل مصر کے پاس یوسف علیہ السلام اللہ کے پیغمبر بن کر آئے تھے ۔ آپ علیہ السلام کی بعثت موسیٰ علیہ السلام سے پہلے ہوئی تھی ۔ عزیز مصر بھی آپ علیہ السلام ہی تھے اور اپنی امت کو اللہ کی طرف بلاتے تھے ۔ لیکن قوم نے ان کی اطاعت نہ کی ، ہاں بوجہ دنیوی جاہ کے اور وزارت کے تو انہیں ماتحتی کرنی پڑتی تھی ۔ پس فرماتا ہے کہ تم ان کی نبوت کی طرف سے بھی شک میں ہی رہے ۔ آخر جب ان کا انتقال ہو گیا تو تم بالکل مایوس ہو گئے اور امید کرتے ہوئے کہنے لگے کہا اب تو اللہ تعالیٰ کسی کو نبی بنا کر بھیجے گا ہی نہیں ۔ یہ تھا ان کا کفر اور ان کی تکذیب اسی طرح اللہ تعالیٰ اسے گمراہ کر دیتا ہے جو بےجا کام کرنے والا حد سے گذرے جانے والا اور شک شبہ میں مبتلا رہنے والا ہو ۔ یعنی جو تمہارا حال ہے یہی حال ان سب کا ہوتا ہے جن کے کام اسراف والے ہوں اور جن کا دل شک شبہ والا ہو ، جو لوگ حق کو باطل سے ہٹاتے ہیں اور بغیر دلیل کے دلیلوں کو ٹالتے ہیں اس پر اللہ ان سے ناخوش ہے اور سخت تر ناراض ہے ۔ ان کے یہ افعال جہاں اللہ کی ناراضگی کا باعث ہیں وہاں ایمان داروں کی بھی ناخوشی کا ذریعہ ہیں ۔ جن لوگوں میں ایسی بت ہودہ صفتیں ہوتی ہیں ان کے دل پر اللہ تعالیٰ مہر کر دیتا ہے جس کے بعد انہیں نہ اچھائی اچھی معلوم ہوتی ہے نہ برائی بری لگتی ہے ۔ ہر وہ شخص جو حق سے سرکشی کرنے والا ہو اور تکبر و غرور والا ہو ۔ حضرت شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں جبار وہ شخص ہے جو دو انسانوں کو قتل کر ڈالے ۔ حضرت ابوعمران جونی اور قتادہ رحمہ اللہ علیہم کا فرمان ہے کہ جو بغیر حق کے کسی کو قتل کرے وہ جبار ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ غافر
31 غافر
32 غافر
33 غافر
34 غافر
35 غافر
36 فرعون کی سرکشی اور تکبر فرعون کی سرکشی اور تکبر بیان ہو رہا ہے کہ اس نے اپنے وزیر ہامان سے کہا کہ میرے لیے ایک بلند و بالا محل تعمیر کرا ۔ اینٹوں اور چونے کی پختہ اور بہت اونچی عمارت بنا ۔ جیسے اور جگہ ہے کہ« فَأَوْقِدْ لِی یَا ہَامَانُ عَلَی الطِّینِ فَاجْعَل لِّی صَرْحًا» ( 28-القص : 38 ) اس نے کہا اے ہامان اینٹیں پکا کر میرے لیے ایک اونچی عمارت بنا ۔ حضرت ابرہیم نخی رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ قبر کو پختہ بنانا اور اسے چونے گج کرنا سلف صالحین مکروہ جانتے تھے ۔ ( ابن ابی حاتم ) فرعون کہتا ہے کہ یہ محل میں اس لیے بنوا رہا ہوں کہ آسمان کے دروازوں اور آسمان کے راستوں تک میں پہنچ جاؤں اور موسیٰ علیہ السلام کے اللہ کو دیکھ لوں گو میں جانتا ہوں کہ موسیٰ علیہ السلام ہے جھوٹا ۔ وہ جو کہہ رہا ہے کہ اللہ نے اسے بھیجا ہے یہ بالکل غلط ہے ۔ دراصل فرعون کا یہ ایک مکر تھا اور وہ اپنی رعیت پر یہ ظاہر کرنا چاہتا تھا کہ دیکھو میں ایسا کام کرتا ہوں جس سے موسیٰ علیہ السلام کا جھوٹ بالکل کھل جائے اور میری طرح تمہیں بھی یقین آ جائے کہ موسیٰ علیہ السلام غلط گو مفتری اور کذاب ہے ۔ فرعون راہ اللہ سے روک دیا گیا ۔ اس کی ہر تدبیر الٹی ہی رہی اور جو کام وہ کرتا ہے وہ اس کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے اور وہ خسارے میں بڑھتا ہی جا رہا ہے ۔ غافر
37 غافر
38 قوم فرعون کے مرد مومن کی سہ بارہ نصیحت فرعون کی قوم کا مومن مرد جس کا ذکر پہلے گزر چکا ہے اپنی قوم کے سرکشوں خود پسندوں اور متکبروں کو نصیحت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ تم میری مانو میری راہ چلو میں تمہیں راہ راست پر ڈال دوں گا ۔ یہ اپنے اس قول میں فرعون کی طرح کاذب نہ تھا ۔ یہ تو اپنی قوم کو دھوکا دے رہا تھا اور یہ ان کی حقیقی خیر خواہی کر رہا تھا ، پھر انہیں دنیا سے بے رعبت کرنے اور آخرت کی طرف متوجہ کرنے کیلئے کہتا ہے کہ دنیا ایک ڈھل جانے والا سایہ اور فنا ہو جانے والا فائدہ ہے ۔ لازوال اور قرار و ہمیشگی والی جگہ تو اس کے بعد آنے والی آخرت ہے ۔ جہاں کی رحمت و زحمت ابدی اور غیر فانی ہے ، جہاں برائی کا بدلہ تو اس کے برابر ہی دیا جاتا ہے ہاں نیکی کا بدلہ بے حساب دیا جاتا ہے ۔ نیکی کرنے والا چاہے مرد ہو ۔ چاہے عورت ہو ۔ ہاں یہ شرط ہے کہ ہو باایمان ۔ اسے اس نیکی کا ثواب اس قدر دیا جائے گا جو بے حد و بے حساب ہو گا ۔ غافر
39 غافر
40 غافر
41 عالم برزخ میں عذاب پر دلیل قوم فرعون کا مومن مرد اپنا وعظ جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ کیا بات ہے کہ میں تمہیں توحید کی طرف یعنی اللہ وحدہ لاشریک لہ کی عبادت کی طرف بلا رہا ہوں ۔ میں تمہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کرنے کی دعوت دے رہا ہوں ۔ اور تم مجھے کفر و شرک کی طرف بلا رہے ہو ؟ تم چاہتے ہو کہ میں جاہل بن جاؤں اور بے دلیل اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کروں ؟ غور کرو کہ تمہاری اور میری دعوت میں کس قدر فرق ہے ؟ میں تمہیں اس اللہ کی طرف لے جانا چاہتا ہوں جو بڑی عزت اور کبریائی والا ہے ۔ باوجود اس کے وہ ہر اس شخص کی توبہ قبول کرتا ہے جو اس کی طرف جھکے اور استغفار کرے ، لاجرم کے معنی حق و صداقت کے ہیں ، یعنی یہ یقینی سچ اور حق ہے کہ جس کی طرف تم مجھے بلا رہے ہو یعنی بتوں اور سوائے اللہ کے دوسروں کی عبادت کی طرف یہ تو وہ ہیں جنہیں دین و دنیا کا کوئی اختیار نہیں ۔ جنہیں نفع نقصان پر کوئی قابو نہیں جو اپنے پکارنے والے کی پکار کو سن سکیں تو قبول کر سکیں نہ یہاں نہ وہاں ۔ جیسے فرمان اللہ ہے «وَمَنْ اَضَلٰ مِمَّنْ یَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَنْ لَّا یَسْتَجِیْبُ لَہٗٓ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ وَہُمْ عَنْ دُعَاۗیِٕہِمْ غٰفِلُوْنَ وَإِذَا حُشِرَ النَّاسُ کَانُوا لَہُمْ أَعْدَاءً وَکَانُوا بِعِبَادَتِہِمْ کَافِرِینَ» ( 46- الأحقاف : 6 ، 5 ) ، یعنی اس سے بڑھ کر کوئی گمراہ نہیں جو اللہ کے سوا اوروں کو پکارتا ہے ۔ جو اس کی پکار کو قیامت تک سن نہیں سکتے ۔ جنہیں مطلق خبر نہیں کہ کون ہمیں پکار رہا ہے ؟ جو قیامت کے دن اپنے پکارنے والوں کے دشمن ہو جائیں گے اور ان کی عبادت سے بالکل انکار کر جائیں گے ۔ «إِن تَدْعُوہُمْ لَا یَسْمَعُوا دُعَاءَکُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَکُمْ» ( 35-فاطر : 14 ) گو تم انہیں پکارا کرو لیکن وہ نہیں سنتے ۔ اور بالفرض اگر سن بھی لیں تو قبول نہیں کر سکتے ۔ مومن آل فرعون کہتا ہے ۔ کہ ہم سب کو لوٹ کر اللہ ہی کے پاس جانا ہے ۔ وہاں ہر ایک کو اپنے اعمال کا بدلہ بھگتنا ہے ۔ وہاں حد سے گزر جانے والے اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک کرنے والے ہمیشہ کیلئے جہنم و اصل کر دیئے جائیں گے ، گو تم اس وقت میری باتوں کی قدر نہ کرو ۔ لیکن ابھی ابھی تمہیں معلوم ہو جائے گا میری باتوں کی صداقت و حقانیت تم پر واضح ہو جائے گی ۔ اس وقت ندامت حسرت اور افسوس کرو گے لیکن وہ محض بےسود ہو گا ۔ میں تو اپنا کام اللہ کے سپرد کرتا ہوں ۔ میرا توکل اسی کی ذات پر ہے ۔ میں تو اپنے ہر کام میں اسی سے مدد طلب کرتا ہوں ۔ مجھے تم سے کوئی واسطہ نہیں میں تم سے الگ ہوں اور تمہارے کاموں سے نفرت کرتا ہوں ۔ میرا تمہارا کوئی تعلق نہیں ۔ اللہ اپنے بندوں کے تمام حالات سے دانا بینا ہے ۔ مستحق ہدایت جو ہیں ان کی وہ رہنمائی کرے گا اور مستحقین ضلالت اس رہنمائی سے محروم رہیں گے ، اس کا ہر کام حکمت والا اور اس کی ہر تدبیر اچھائی والی ہے ۔ اس مومن کو اللہ تعالیٰ نے فرعونیوں کے مکر سے بچا لیا ۔ دنیا میں بھی وہ محفوظ رہا یعنی موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ اس نے نجات پائی اور آخرت کے عذاب سے بھی محفوظ رہا ۔ باقی تمام فرعونی بدترین عذاب کا شکار ہوئے ۔ سب دریا میں ڈبو دیئے گئے ، پھر وہاں سے جہنم واصل کر دیئے گئے ۔ ہر صبح شام ان کی روحیں جہنم کے سامنے لائی جاتی ہیں ، قیامت تک یہ عذاب انہیں ہوتا رہے گا ۔ اور قیامت کے دن ان کی روحیں جسم سمیت جہنم میں ڈال دی جائیں گی ۔ اور اس دن ان سے کہا جائے گا کہ اے آل فرعون سخت درد ناک اور بہت زیادہ تکلیف دہ عذاب میں چلے جاؤ ۔ یہ آیت اہل سنت کے اس مذہب کی کہ عالم برزخ میں یعنی قبروں میں عذاب ہوتا ہے بہت بڑی دلیل ہے ، ہاں یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہیئے ۔ کہ بعض احادیث میں کچھ ایسے مضامین وارد ہوئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ عذاب برزخ کا علم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینے شریف کی ہجرت کے بعد ہوا اور یہ آیت مکہ شریف میں نازل ہوئی ہے ۔ تو جواب اس کا یہ ہے کہ آیت سے صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ مشرکوں کی روحیں صبح شام جہنم کے سامنے پیش کی جاتی ہیں ۔ باقی رہی بات کہ یہ عذاب ہر وقت جاری اور باقی رہتا ہے یا نہیں ؟ اور یہ بھی کہ آیا یہ عذاب صرف روح کو ہی ہوتا ہے یا جسم کو بھی اس کا علم اللہ کی طرف سے آپ کو مدینے شریف میں کرایا گیا ۔ اور آپ نے اسے بیان فرما دیا ۔ پس حدیث و قرآن ملا کر مسئلہ یہ ہوا کہ عذاب و ثواب قبر ، روح اور جسم دونوں کو ہوتا ہے اور یہی حق ہے ۔ اب ان احادیث کو ملاحظہ فرمائیے ۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک یہودیہ عورت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت گزار تھی ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا جب کبھی اس کے ساتھ کچھ سلوک کرتی تو وہ دعا دیتی اور کہتی اللہ تجھے جہنم کے عذاب سے بچائے ۔ ایک روز سیدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا قیامت سے پہلے قبر میں بھی عذاب ہوتا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں تو یہ کس نے کہا ؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس یہودیہ عورت کا واقعہ بیان کیا تو آپ نے فرمایا یہود جھوٹے ہیں ۔ اور وہ تو اس سے زیادہ جھوٹ اللہ پر باندھا کرتے ہیں ۔ قیامت سے پہلے کوئی عذاب نہیں ۔ کچھ ہی دن گزرے تھے کہ ایک مرتبہ ظہر کے وقت کپڑا لپیٹے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں اور باآواز بلند فرما رہے تھے قبر مانند سیاہ رات کی اندھیریوں کے ٹکڑوں کے ہے ۔ لوگو اگر تم وہ جانتے جو میں جانتا ہوں تو بہت زیادہ روتے اور بہت کم ہنستے ، لوگو ! قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ طلب کرو ، یقین مانو کہ عذاب قبر حق ہے ۔ (مسند احمد:81/6:صحیح) اور روایت میں ہے کہ ایک یہودیہ عورت نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کچھ مانگا جو آپ رضی اللہ عنہا نے دیا اور اس نے وہ دعا دی اس کے آخر میں ہے کہ کچھ دنوں بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے وحی کی گئی ہے کہ تمہاری آزمائش قبروں میں کی جاتی ہے ۔(مسند احمد:238/6:صحیح) پس ان احادیث اور آیت میں ایک تطبیق تو وہ ہے جو اوپر بیان ہوئی ۔ دوسری تطبیق یہ بھی ہو سکتی ہے کہ آیت «النَّارُ یُعْرَضُونَ» ( الغافر : 46 ) سے صرف اس قدر ثابت ہوتا ہے کہ کفار کو عالم برزخ میں عذاب ہوتا ہے ۔ لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ مومن کو یہاں کے بعض گناہوں کی وجہ سے اس کی قبر میں عذاب ہوتا ہے ۔ یہ صرف حدیث شریف سے ثابت ہوا ۔ مسند احمد میں ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے اس وقت ایک یہودیہ عورت مائی صاحبہ کے پاس بیٹھی تھی اور کہہ رہی تھی کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ تم لوگ اپنی قبروں میں آزمائے جاؤ گے ؟ اسے سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کانپ گئے اور فرمایا یہود ہی آزمائے جاتے ہیں ۔ پھر چند دنوں بعد آپ نے فرمایا لوگو تم سب قبروں کے فتنہ میں ڈالے جاؤ گے ۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فتنہ قبر سے پناہ مانگا کرتے تھے ۔ (صحیح مسلم:584) یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ سے صرف روح کے عذاب کا ثبوت ملتا تھا ۔ اس سے جسم تک اس عذاب کے پہنچنے کا ثبوت نہیں تھا ۔ بعد میں بذریعہ وحی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ معلوم کرایا گیا کہ عذاب قبر جسم و روح کو ہوتا ہے ۔ چنانچہ آپ نے پھر اس سے بچاؤ کی دعا شروع کی ، واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم۔ ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک یہودیہ عورت آئی اور اس نے کہا عذاب قبر سے ہم اللہ کی پناہ چاہتے ہیں اس پر سیدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ کیا قبر میں عذاب ہوتا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں عذاب قبر برحق ہے فرماتی ہیں اس کے بعد میں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے بعد عذاب قبر سے پناہ مانگا کرتے تھے ۔(صحیح بخاری:1372) اس حدیث سے تو ثابت ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سنتے ہی یہودیہ عورت کی تصدیق کی ۔ اور اوپر والی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکذیب کی تھی ۔ دونوں میں تطبیق یہ ہے کہ یہ دو واقعے ہیں پہلے واقعے کے وقت چونکہ وحی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم نہیں ہوا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار فرما دیا ۔ پھر معلوم ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اقرار کیا ، واللہ سبحان و تعالیٰ اعلم ۔ قبر کے عذاب کا ذکر بہت سی صحیح احادیث میں آ چکا ہے ۔ واللہ اعلم ۔ حضرت قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں رہتی دنیا تک ہر صبح شام آل فرعون کی روحیں جہنم کے سامنے لائی جاتی ہیں اور ان سے کہا جاتا ہے کہ بدکارو تمہاری اصلی جگہ یہی ہے تاکہ ان کے رنج و غم بڑھیں ان کی ذلت و توہین ہو ۔ پس آج بھی وہ عذاب میں ہی ہیں ۔ اور ہمیشہ اسی میں رہیں گے ۔ ابن ابی حاتم میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ شہیدوں کی روحیں سبز رنگ کے پرندوں کے قالب میں ہیں وہ جنت میں جہاں کہیں چاہیں چلتی پھرتی ہیں ۔ اور مومنوں کے بچوں کی روحیں چڑیوں کے قالب میں ہیں اور جہاں وہ چاہیں جنت میں چلتی رہتی ہیں ۔ اور عرش تلے کی قندیلوں میں آرام حاصل کرتی ہیں ۔ اور آل فرعون کی روحیں سیاہ رنگ پرندوں کے قالب میں ہیں ۔ صبح بھی جہنم کے پاس جاتی ہیں ۔ اور شام کو بھی یہی ان کا پیش ہونا ہے ۔ معراج والی لمبی روایت میں ہے کہ پھر مجھے ایک بہت بڑی مخلوق کی طرف لے چلے جن میں سے ہر ایک کا پیٹ مثل بہت بڑے گھر کے تھا ۔ جو آل فرعون کے پاس قید تھے ۔ اور آل فرعون صبح شام آگ پر لائے جاتے ہیں ۔ اور جس دن قیامت قائم ہو گی اللہ تعالیٰ فرمائے گا ۔ ان فرعونیوں کو سخت تر عذابوں میں لے جاؤ اور یہ فرعونی لوگ نکیل والے اونٹوں کی طرح منہ نیچے کئے پتھر اور درخت پر چڑھ رہے ہیں اور بالکل بےعقل و شعور ہیں ۔(ضعیف) ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو احسان کرے خواہ مسلم ہو خواہ کافر اللہ تعالیٰ اسے ضرور بدلہ دیتا ہے ہم نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کافر کو کیا بدلہ ملتا ہے ؟ فرمایا اگر اس نے صلہ رحمی کی ہے یا صدقہ دیا ہے اور کوئی اچھا کام کیا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کا بدلہ اس کے مال میں اس کی اولاد میں اس کی صحت میں اور ایسی ہی اور چیزوں میں عطا فرماتا ہے ۔ ہم نے پھر پوچھا اور آخرت میں کیا ملتا ہے ؟ فرمایا بڑے درجے سے کم درجے کا عذاب پھر آپ نے«اَدْخِلُوْٓا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ» ( 40- غافر : 46 ) ، پڑھی۔(مسند بزار:945:ضعیف) ۔ ابن جریر میں ہے کہ حضرت اوزاعی رحمہ اللہ سے ایک شخص نے پوچھا کہ ذرا ہمیں یہ بتاؤ ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے مفید پرندوں کا غول کا غول سمندر سے نکلتا ہے اور اس کے مغربی کنارے اڑتا ہوا ، صبح کے وقت جاتا ہے ۔ اس قدر زیادتی کے ساتھ کہ ان کی تعداد کوئی گن نہیں سکتا ۔ شام کے وقت ایسا ہی جھنڈ کا جھنڈ واپس آتا ہے لیکن اس وقت ان کے رنگ بالکل سیاہ ہوتے ہیں آپ نے فرمایا تم نے اسے خوب معلوم کر لیا ۔ ان پرندوں کے قالب میں آل فرعون کی روحیں ہیں ۔ جو صبح شام آگ کے سامنے پیش کی جاتی ہیں پھر اپنے گھونسلوں کی طرف لوٹ جاتی ہیں ان کے پر جل گئے ہوئے ہوتے ہیں اور یہ سیاہ ہو جاتے ہیں ۔ پھر رات کو وہ اگ جاتے ہیں اور سیاہ جھڑ جاتے ہیں ۔ پھر وہ اپنے گھونسلوں کی طرف لوٹ جاتے ہیں یہی حالت ان کی دنیا میں ہے اور قیامت کے دن ان سے اللہ تعالیٰ فرمائے گا اس آل فرعون کو سخت عذابوں میں داخل کر دو کہتے ہیں کہ ان کی تعداد چھ لاکھ کی ہے جو فرعونی فوج تھی ۔ مسند احمد میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ تم میں سے جب کبھی کوئی مرتا ہے ہر صبح شام اس کی جگہ اس کے سامنے پیش کی جاتی ہے اگر وہ جنتی ہے تو جنت ۔ اور اگر وہ جہنمی ہے تو جہنم اور کہا جاتا ہے کہ تیری اصل جگہ یہ ہے جہاں تجھے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بھیجے گا ۔ (صحیح بخاری:1379) یہ حدیث صحیح بخاری مسلم میں بھی ہے ۔ غافر
42 غافر
43 غافر
44 غافر
45 غافر
46 غافر
47 دوزخیوں کیلئے ایک اور عذب جہنمی لوگ جہنم کے اور عذابوں کو برداشت کرتے ہوئے ایک اور عذاب کے بھی شکار ہوں گے جس کا بیان یہاں ہو رہا ہے ۔ یہ عذاب فرعون کو بھی ہو گا اور دوسرے دوزخیوں کو بھی یعنی آپس میں تھوکنا تذلیل اور لڑائی جھگڑے ۔ چھوٹے بڑوں سے یعنی تابعداری کرنے اور حکم احکام کے ماننے والے جن کی بڑائی اور بزرگی کے قائل تھے اور جن کی باتیں تسلیم کیا کرتے تھے اور جن کے کہے ہوئے پر عامل تھے ان سے کہیں گے ۔ کہ دنیا میں ہم تو آپ کے تابع فرمان رہے ۔ جو آپ نے کہا ہم بجا لاتے ۔ کفر اور گمراہی کے احکام بھی جو آپ کی بارگاہ سے صادر ہوئے آپ کے تقدس اور علم و فضل سرداری اور حکومت کی بنا پر ہم سب کو مانتے رہے ، اب یہاں آپ ہمیں کچھ تو کام آئیے ۔ ہمارے عذابوں کا ہی کوئی حصہ اپنے اوپر اٹھا لیجئے ، یہ رؤسا اور امرا سادات اور بزرگ جواب دیں گے کہ ہم بھی تو تمہارے ساتھ جل بھن رہے ہیں ۔ ہمیں جو عذاب ہو رہے ہیں وہ کیا کم ہیں جو ہم تمہارے عذاب اٹھائیں ؟ اللہ کا حکم جاری ہو چکا ہے ۔ رب فیصلے صادر فرما چکا ہے ۔ ہر ایک کو اس کے بداعمال کے مطابق سزا دے چکا ہے ۔ اب اس میں کمی ناممکن ہے ۔ جیسے اور آیت میں ہے«قَالَ لِکُلٍّ ضِعْفٌ وَلٰکِن لَّا تَعْلَمُونَ » ( 7-الأعراف : 38 ) ہر ایک کیلئے بڑھا چڑھا عذاب گو تم نہ سمجھو ۔ جب اہل دوزخ سمجھ لیں گے کہ اللہ ان کی دعا قبول نہیں فرما رہا بلکہ کان بھی نہیں لگاتا ۔ بلکہ انہیں ڈانٹ دیا ہے اور فرما چکا ہے کہ«قَالَ اخْسَئُوا فِیہَا وَلَا تُکَلِّمُونِ» ( 23-المؤمنون : 108 ) یہیں پڑے رہو اور مجھ سے کلام بھی نہ کرو ، تو وہ جہنم کے داروغوں سے کہیں گے ۔ جو وہاں کے ایسے ہی پاسبان ہیں جیسے دنیا کے جیل خانوں کے نگہبان داروغے اور محافظ سپاہ ہوتے ہیں ۔ ان سے کہیں گے کہ تم ہی ذرا اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ کسی ایک دن ہی وہ ہمارے عذاب ہلکے کر دے ، وہ انہیں جواب دیں گے کہ کیا رسولوں کی زبانی احکام ربانی دنیا میں تمہیں پہنچے نہ تھے ؟ یہ کہیں گے ہاں پہنچے تھے ۔ تو فرشتے کہیں گے پھر اب تم آپ ہی اللہ سے کہہ سن لو ۔ ہم تو تمہاری طرف سے کوئی عرض اس کی جناب میں کر نہیں سکتے ۔ بلکہ ہم خود تم سے بیزار اور تمہارے دشمن ہیں سنو ہم تمہیں کہہ دیتے ہیں کہ خواہ تم دعا کرو خواہ تمہارے لیے اور کوئی دعا کرے ناممکن ہے کہ تمہارے عذابوں میں کمی ہو ۔ کافروں کی دعا نامقبول اور مردود ہے ۔ غافر
48 غافر
49 غافر
50 غافر
51 رسولوں اور اہل ایمان کو دنیا و آخرت میں مدد کی بشارت آیت میں رسولوں کی مدد کرنے کا اللہ کا وعدہ ہے ، پھر ہم دیکھتے ہیں کہ بعض رسولوں کو ان کی قوموں نے قتل کر دیا ، جیسے حضرت یحییٰ ، زکریا ، شعیب صلوات اللہ علیہم و سلامہ ، اور بعض انبیاء کو اپنا وطن چھوڑنا پڑا ، جیسے ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام ۔ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے آسمان کی طرف ہجرت کرائی ۔ پھر کیا کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ وعدہ پورا کیوں نہیں ہوا ؟ اس کے دو جواب ہیں ایک تو یہ کہ یہاں گو عام خبر ہے لیکن مراد بعض سے ہے ، اور یہ لعنت میں عموماً پایا جاتا ہے کہ مطلق ذکر ہو اور مراد خاص افراد ہوں ۔ دوسرے یہ کہ مدد کرنے سے مراد بدلہ لینا ہو ۔ پس کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جسے ایذاء پہنچانے والوں سے قدرت نے زبردست انتقام نہ لیا ہو ۔ چنانچہ یحییٰ ، زکریا علیہ السلام ، شعیب علیہ السلام کے قاتلوں پر اللہ نے ان کے دشمنوں کو مسلط کر دیا اور انہوں نے انہیں زیر و زبر کر ڈالا ، ان کے خون کی ندیاں بہا دیں اور انہیں نہایت ذلت کے ساتھ موت کے گھاٹ اتارا ۔ نمرود مردود کا مشہور واقعہ دنیا جانتی ہے کہ قدرت نے اسے کیسی پکڑ میں پکڑا ؟ حضعر عیسیٰ علیہ السلام کو جن یہودیوں نے سولی دینے کی کوشش کی تھی ۔ ان پر جناب باری عزیز و حکیم نے رومیوں کو غالب کر دیا ۔ اور ان کے ہاتھوں ان کی سخت ذلت و اہانت ہوئی ۔ اور ابھی قیامت کے قریب جب آپ اتریں گے تب دجال کے ساتھ ان یہودیوں کی جو اس کے لشکری ہوں گے قتل کریں گے ۔ اور امام عادل اور حاکم باانصاف بن کر تشریف لائیں گے صلیب کو توڑیں گے خنزیر کو قتل کریں گے اور جزیہ باطل کر دیں گے بجز اسلام کے اور کچھ قبول نہ فرمائیں گے ۔ یہ ہے اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان مدد اور یہی دستور قدرت ہے جو پہلے سے ہے اور اب تک جاری ہے کہ وہ اپنے مومن بندوں کی دنیوی امداد بھی فرماتا ہے اور ان کے دشمنوں سے خود انتقام لے کر ان کی آنکھیں ٹھنڈی کرتا ہے ۔ صحیح بخاری شریف میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ عزوجل نے فرمایا ہے جو شخص میرے نبیوں سے دشمنی کرے اس نے مجھے لڑائی کیلئے طلب کیا ۔(صحیح بخاری:6502) دوسری حدیث میں ہے میں اپنے دوستوں کی طرف سے بدلہ ضرور لے لیا کرتا ہوں جیسے کہ شیر بدلہ لیتا ہے ۔(شرح السنۃ للبغوی:1242)۔ اسی بناء پر اس مالک الملک نے قوم نوح سے ، عاد سے ، ثمودیوں سے ، اصحاب الرس سے ، قوم لوط سے ، اہل مدین سے اور ان جیسے ان تمام لوگوں سے جنہوں نے اللہ کے رسولوں کو جھٹلایا تھا اور حق کا خلاف کیا تھا بدلہ لیا ۔ ایک ایک کو چن چن کر تباہ برباد کیا اور جتنے مومن ان میں تھے ان سب کو بچا لیا ۔ امام سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں جس قوم میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آئے یا ایماندار بندے انہیں پیغام الٰہی پہنچانے کیلئے کھڑے ہوئے اور اس قوم نے ان نبیوں کی یا ان مومنوں کی بے حرمتی کی اور انہیں مارا پیٹا قتل کیا ضرور بالضرور اسی زمانے میں عذاب الٰہی ان پر برس پڑے ۔ نبیوں کے قتل کے بدلے لینے والے اٹھ کھڑے ہوئے اور پانی کی طرح ان کے خون سے پیاسی زمین کو سیراب کیا ۔ پس گو انبیاء علیہ السلام اور مومنین رحمہ اللہ علیہم یہاں قتل کئے گئے لیکن ان کا خون رنگ لایا اور ان کے دشمنوں کا بھس کی طرح بھرکس نکال دیا ۔ ناممکن ہے کہ ایسے بندگان خاص کی امداد و اعانت نہ ہو اور ان کے دشمنوں سے پورا انتقام نہ لیا گیا ہو ۔ اشرف الانبیاء حبیب اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات زندگی دنیا اور دنیا والوں کے سامنے ہیں کہ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کو غلبہ دیا اور دشمنوں کی تمام تر کوششوں کو بے نتیجہ رکھا ۔ ان تمام پر آپ کو کھلا غلبہ عطا فرمایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلمے کو بلند و بالا کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دین دنیا کے تمام ادیان پر چھا گیا ۔ قوم کی زبردست مخالفتوں کے وقت اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینے پہنچا دیا اور مدینے والوں کو سچا جاں نثار بنا کر پھر مشرکین کا سارا زور بدر کی لڑائی میں ڈھا دیا ۔ ان کے کفر کے تمام وزنی ستون اس لڑائی میں اکھیڑ دیئے ۔ سردارانِ مشرکین یا تو ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے گئے یا مسلمانوں کے ہاتھوں میں قیدی بن کر نامرادی کے ساتھ گردن جھکائے نظر آنے لگے قید و بند میں جکڑے ہوئے ذلت و اہانت کے ساتھ مدینے کی گلیوں میں کسی کے ہاتھوں پر اور کسی کے پاؤں پر دوسرے کی گرفت تھی ۔ اللہ کی حکمت نے ان پر پھر احسان کیا اور ایک مرتبہ پھر موقعہ دیا فدیہ لے کر آزاد کر دیئے گئے لیکن پھر بھی جب مخالفت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے باز نہ آئے اور اپنے کرتوتوں پر اڑے رہے ۔ تو وہ وقت بھی آیا کہ جہاں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو چھپ چھپا کر رات کے اندھیرے میں پاپیادہ ہجرت کرنی پڑی تھی وہاں فاتحانہ حیثیت سے داخل ہوئے اور گردن پر ہاتھ باندھے دشمنان رسول سامنے لائے گئے ۔ اور بلاد حرم کی عظمت و عزت رسول صلی اللہ علیہ وسلم محترم کی وجہ سے پوری ہوئی ۔ اور تمام شرک و کفر اور ہر طرح کی بے ادبیوں سے اللہ کا گھر پاک صاف کر دیا گیا ۔ بالآخر یمن بھی فتح ہوا اور پورا جزیرہ عرب قبضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں آ گیا ۔ اور جوق کے جوق لوگ اللہ کے دین میں داخل ہو گئے ۔ پھر رب العالمین نے اپنے رسول رحمتہ العالمین کو اپنی طرف بلا لیا اور وہاں کی کرامت و عظمت سے اپنی مہمانداری میں رکھ کر نوازا صلی اللہ علیہ وسلم ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نیک نہاد صحابہ رضی اللہ عنہم کو آپ کا جانشین بنایا ۔ جو محمدی جھنڈا لیے کھڑے ہو گئے اور اللہ کی توحید کی طرف اللہ کی مخلوق کو بلانے لگے ۔ جو روڑا راہ میں آیا اسے الگ کیا ۔ جو خار چمن میں نظر پڑا اسے کاٹ ڈالا گاؤں گاؤں شہر شہر ملک ملک دعوت اسلام پہنچا دی جو مانع ہوا اسے منع کا مزہ چکھایا اسی ضمن میں مشرق و مغرب میں سلطنت اسلامی پھیل گئی ۔ زمین پر اور زمین والوں کے جسموں پر ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے فتح حاصل نہیں کی بلکہ ان کے دلوں پر بھی فتح پالی اسلامی نقوش دلوں میں جما دیئے اور سب کو کلمہ توحید کے نیچے جمع کر دیا ۔ دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کا چپہ چپہ اور کونا کونا اپنے قبضے میں کر لیا ۔ دعوت محمدیہ بہرے کانوں تک بھی پہنچ چکی ۔ صراط محمدی صلی اللہ علیہ وسلم اندھوں نے بھی دیکھ لیا ۔ اللہ اس پاکباز جماعت کو ان کی اولو العزمیوں کا بہترین بدلہ عنایت فرمائے ۔ آمین ! الحمدللہ آج تک اللہ کا دین غالب اور منصور ہے ۔ آج تک مسلمانوں میں حکومت اور سلطنت موجود ہے ۔ آج تک ان ہاتھوں میں اللہ کا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام موجود ہے ۔ اور آج تک ان کے سروں پر رب کا ہاتھ ہے ۔ اور قیامت تک یہ وطن مظفر و منصور ہی رہے گا اور جو اس کے مقابلے پر آئے گا منہ کی کھائے گا اور پھر کبھی منہ نہ دکھائے گا یہی مطلب ہے اس مبارک آیت کا ۔ قیامت کے دن بھی دینداروں کی مدد و نصرت ہو گی اور بہت بڑی اور بہت اعلیٰ پیمانے تک ۔ گواہوں سے مراد فرشتے ہیں ، دوسری آیت میں « یَوْمَ» بدل ہے پہلی آیت کے اسی لفظ سے ۔ بعض قرأتوں میں یوم ہے تو یہ گویا پہلے یوم کی تفسیر ہے ۔ ظالموں سے مراد مشرک ہیں ان کا عذر و فدیہ قیامت کے دن مقبول نہ ہو گا وہ رحمت رب سے اس دن دور دھکیل دیئے جائیں گے ۔ ان کیلئے برا گھر یعنی جہنم ہو گا ۔ ان کی عاقبت خراب ہو گی ، موسیٰ علیہ السلام کو ہم نے ہدایت ونور بخشا ۔ بنی اسرائیل کا انجام بہتر کیا ۔ فرعون کے مال و زمین کا انہیں وارث بنایا کیونکہ یہ اللہ کی اطاعت اور اتباع رسول میں ثابت قدمی کے ساتھ سختیاں برداشت کرتے رہے تھے ۔ جس کتاب کے یہ وارث ہوئے وہ عقلمندوں کیلئے سرتاپا باعث ہدایت و عبرت تھی ، اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ صبر کیجئے اللہ کا وعدہ سچا ہے آپ کا ہی بول بالا ہو گا انجام کے لحاظ سے آپ ہی غالب رہیں گے ۔ رب اپنے وعدے کے خلاف کبھی نہیں کرتا بلا شک و شبہ دین اللہ کا اونچا ہو کر ہی رہے گا ۔ تو اپنے رب سے استغفار کرتا رہ ۔ آپ کو حکم دے کر دراصل آپ کی امت کو استغفار پر آمادہ کرنا ہے ۔ دن کے آخری اور رات کے انتہائی وقت خصوصیت کے ساتھ رب کی پاکیزگی اور تعریف بیان کیا کر ، جو لوگ باطل پر جم کر حق کو ہٹا دیتے ہیں دلائل کو غلط بحث سے ٹال دیتے ہیں ان کے دلوں میں بجز تکبر کے اور کچھ نہیں ان میں اتباع حق سے سرکشی ہے ۔ یہ رب کی باتوں کی عزت جانتے ہی نہیں ۔ لیکن جو تکبر اور جو خودی اور جو اپنی اونچائی وہ چاہتے ہیں وہ انہیں ہرگز حاصل نہیں ہونے کی ۔ ان کے مقصود باطل ہیں ۔ ان کے مطلوب لاحاصل ہیں ۔ اللہ کی پناہ طلب کر ، کہ ان جیسا حال کسی بھلے آدمی کا نہ ہو ۔ اور ان نخوت پسند لوگوں کی شرارت سے بھی اللہ کی پناہ چاہا کر ۔ یہ آیت یہودیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ یہ کہتے تھے دجال انہی میں سے ہو گا اور اس کے زمانے میں یہ زمانے کے بادشاہ ہو جائیں گے ۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ فتنہ دجال سے اللہ کی پناہ طلب کیا کرو ۔ وہ سمیع و بصیر ہے ۔ لیکن آیت کو یہودیوں کے بارے میں نازل شدہ بتانا اور دجال کی بادشاہی اور اس کے فتنے سے پناہ کا حکم ۔ سب چیزیں تکلف سے پرہیں ۔ مانا کہ یہ تفسیر ابن ابی حاتم میں ہے مگر یہ قول ندرت سے خالی نہیں ۔ ٹھیک یہی ہے کہ عام ہے ۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم ۔ غافر
52 غافر
53 غافر
54 غافر
55 غافر
56 غافر
57 انسان کی دوبارہ پیدائش کے دلائل اللہ تعالیٰ قادر مطلق فرماتا ہے کہ مخلوق کو وہ قیامت کے دن نئے سرے سے ضرور زندہ کرے گا جبکہ اس نے آسمان و زمین جیسی زبردست مخلوق کو پیدا کر دیا تو انسان کا پیدا کرنا یا اسے بگاڑ کر بنانا اس پر کیا مشکل ہے ؟ اور آیت میں ارشاد ہے کہ«أَوَلَمْ یَرَوْا أَنَّ اللہَ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَلَمْ یَعْیَ بِخَلْقِہِنَّ بِقَادِرٍ عَلَیٰ أَن یُحْیِیَ الْمَوْتَیٰ ۚ بَلَیٰ إِنَّہُ عَلَیٰ کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ» ( 46-الأحقاف : 33 ) کیا ایسی بات اور اتنی واضح حقیقت بھی جھٹلائے جانے کے قابل ہے کہ جس اللہ نے زمین و آسمان کو پیدا کر دیا اور اس اتنی بڑی چیز کی پیدائش سے نہ وہ تھکا نہ عاجز ہوا اس پر مردوں کا جلانا کیا مشکل ہے ؟ ایسی صاف دلیل بھی جس کے سامنے جھٹلانے کی چیز ہو اس کی معلومات یقیناً نوحہ کرنے کے قابل ہیں ۔ اس کی جہالت میں کیا شک ہے ؟ جو ایسی موٹی بات بھی نہ سمجھ سکے ؟ تعجب ہے کہ بڑی بڑی چیز تو تسلیم کی جائے اور اس سے بہت چھوٹی چیز کو محال محض مانا جائے ، اندھے اور دیکھنے والے کا فرق ظاہر ہے ٹھیک اسی طرح مسلم و مجرم کا فرق ہے ۔ اکثر لوگ کس قدر کم نصیحت قبول کرتے ہیں ، یقین مانو کہ قیامت کا آنا حتمی ہے پھر بھی اس کی تکذیب کرنے اور اسے باور نہ کرنے سے بیشتر لوگ باز نہیں آتے ۔ ایک یمنی شیخ اپنی سنی ہوئی روایت بیان کرتے ہیں قریب قیامت کے وقت لوگوں پر بلائیں برس پڑیں گی اور سورج کی حرارت سخت تیز ہو جائے گی ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» غافر
58 غافر
59 غافر
60 دعا کی ہدایت اور قبولیت کا وعدہ اللہ تعالیٰ تبارک و تعالیٰ کے اس احسان پر قربان جائیں کہ وہ ہمیں دعا کی ہدایت کرتا ہے اور قبولیت کا وعدہ فرماتا ہے ۔ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ اپنی دعاؤں میں فرمایا کرتے تھے اے وہ اللہ جسے وہ بندہ بہت ہی پیارا لگتا ہے جو بکثرت اس سے دعائیں کیا کرے ۔ اور وہ بندہ اسے سخت برا معلوم ہوتا ہے جو اس سے دعا نہ کرے ۔ اے میرے رب یہ صفت تو صرف تیری ہی ہے ۔ شاعر کہتا ہے «اللہ یغضب ان ترکت سوالہ وبنی ادم حین یسال یغضب» یعنی اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ جب تو اس سے نہ مانگے تو وہ ناخوش ہوتا ہے اور انسان کی یہ حالت ہے کہ اس سے مانگو تو وہ روٹھ جاتا ہے ۔ حضرت کعب احبار رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس امت کو تین چیزیں ایسی دی گئی ہیں کہ ان سے پہلے کی کسی امت کو نہیں دی گئیں بجز نبی علیہ السلام کے ۔ دیکھو ہر نبی علیہ السلام کو اللہ کا فرمان یہ ہوا ہے کہ تو اپنی امت پر گواہ ہے ۔ لیکن تمام لوگوں پر گواہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں کیا ہے ۔ اگلے نبیوں سے کہا جاتا تھا کہ تجھ پر دین میں حرج نہیں ۔ لیکن اس امت سے فرمایا گیا کہ تمہارے دین میں تم پر کوئی حرج نہیں ہر نبی علیہ السلام سے کہا جاتا تھا کہ مجھے پکار میں تیری پکار قبول کروں گا لیکن اس امت کو فرمایا گیا کہ تم مجھے پکارو میں تمہاری پکار قبول فرماؤں گا ۔ ( ابن ابی حاتم ) ابو یعلیٰ میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا چار خصلتیں ہیں جن میں سے ایک میرے لیے ہے ایک تیرے لیے ایک تیرے اور میرے درمیان اور ایک تیرے درمیان اور میرے دوسرے بندوں کے درمیان ۔ جو خاص میرے لیے ہے وہ تو یہ کہ صرف میری ہی عبادت کر اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کر ۔ اور جو تیرا حق مجھ پر ہے وہ یہ کہ تیرے ہر عمل خیر کا بھرپور بدلہ میں تجھے دوں گا ۔ اور جو تیرے میرے درمیان ہے وہ یہ کہ تو دعا کر اور میں قبول کیا کروں ۔ اور چوتھی خصلت جو تیرے اور میرے اور دوسرے بندوں کے درمیان ہے وہ یہ کہ تو ان کیلئے وہ چاہ جو اپنے لیے پسند رکھتا ہے ۔(مسند ابویعلیٰ:2757:ضعیف) مسند احمد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ دعا عین عبادت ہے پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی ۔(مسند احمد:267/4:صحیح) یہ حدیث سنن میں بھی ہے امام ترمذی اسے حسن صحیح کہتے ہیں ۔ (سنن ترمذی:2969،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابن حبان اور حاکم بھی اسے اپنی صحیح میں لائے ہیں ۔ مسند میں ہے جو شخص اللہ سے دعا نہیں کرتا اللہ اس پر غضب ناک ہوتا ہے ۔ (مسند احمد:443/2:صحیح) سیدنا محمد بن مسلمہ انصاری رضی اللہ عنہ کی موت کے بعد ان کی تلوار کے درمیان میں سے ایک پرچہ نکلا جس میں تحریر تھا کہ تم اپنے رب کی رحمتوں کے مواقع کو تلاش کرتے رہو بہت ممکن ہے کہ کسی ایسے وقت تم دعائے خیر کرو کہ اس وقت رب کی رحمت جوش میں ہو اور تمہیں وہ سعادت مل جائے جس کے بعد کبھی بھی حسرت و افسوس نہ کرنا پڑے ۔ [ الرامھرمزی فئ المحدث الفاصل بین الراوی والواعی(ص:497)،(برقم:615:ضعیف] آیت میں عبادت سے مراد دعا اور توحید ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ قیامت کے دن متکبر لوگ چونٹیوں کی شکل میں جمع کئے جائیں گے ۔ چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی ان کی اوپر ہو گی انہیں بولس نامی جہنم کے جیل خانے میں ڈالا جائے گا اور بھڑکتی ہوئی سخت آگ ان کے سروں پر شعلے مارے گی ۔ انہیں جہنمیوں کا لہو پیپ اور پاخانہ پیشاب پلایا جائے گا ۔(مسند احمد:179/2:صحیح) ابن ابی حاتم میں ایک بزرگ فرماتے ہیں میں ملک روم میں کافروں کے ہاتھوں میں گرفتار ہو گیا تھا ایک دن میں نے سنا کہ ہاتف غیب ایک پہاڑ کی چوٹی سے بہ آواز بلند کہہ رہا ہے ۔ اے اللہ ! اس پر تعجب ہے جو تجھے پہچانتے ہوئے تیرے سوا دوسرے کی ذات سے امیدیں وابستہ رکھتا ہے ۔ اے اللہ ! اس پر بھی تعجب ہے جو تجھے پہچانتے ہوئے اپنی حاجتیں دوسروں کے پاس لے جاتا ہے ۔ پھر ذرا ٹھہر کر ایک پر زور آواز اور لگائی اور کہا پورا تعجب اس شخص پر ہے جو تجھے پہچانتے ہوئے دوسرے کی رضا مندی حاصل کرنے کیلئے وہ کام کرتا ہے جن سے تو ناراض ہو جائے ۔ یہ سن کر میں نے بلند آواز سے پوچھا کہ تو کوئی جن ہے یا انسان ؟ جواب آیا کہ انسان ہوں ۔ تو ان کاموں سے اپنا دھیان ہٹا لے جو تجھے فائدہ نہ دیں ۔ اور ان کاموں میں مشغول ہو جاؤ جو تیرے فائدے کے ہیں ۔ غافر
61 احسانات و انعامات کا تذکرہ اللہ تعالیٰ احسان بیان فرماتا ہے کہ اس نے رات کو سکون و راحت کی چیز بنائی ۔ اور دن کو روشن چمکیلا تاکہ ہر شخص کو اپنے کام کاج میں ، سفر میں ، طلب معاش میں سہولت ہو ۔ اور دن بھر کا کسل اور تھکان رات کے سکون و آرام سے اتر جائے ۔ مخلوق پر اللہ تعالیٰ بڑے ہی فضل و کرم کرنے والا ہے ۔ لیکن اکثر لوگ رب کی نعمتوں کی ناشکری کرتے ہیں ۔ ان چیزوں کو پیدا کرنے والا اور یہ راحت و آرام کے سامان مہیا کر دینے والا ہی اللہ واحد ہے ۔ جو تمام چیزوں کا خالق ہے ۔ اس کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں ، نہ اس کے سوا اور کوئی مخلوق کی پرورش کرنے والا ہے ۔ پھر تم کیوں اس کے سوا دوسروں کی عبادت کرتے ہو ؟ جو خود مخلوق ہیں ۔ کسی چیز کو انہوں نے پیدا نہیں کیا ۔ بلکہ جن بتوں کی تم پرستش کر رہے ہو وہ تو خود تمہارے اپنے ہاتھوں کے گھڑے ہوئے ہیں ، ان سے پہلے کے مشرکین بھی اسی طرح بہکے اور بیدلیل و حجت، غیر اللہ کی عبادت کرنے لگے ۔ خواہش نفسانی کو سامنے رکھ کر اللہ کے دلائل کی تکذیب کی ۔ اور جہالت کو آگے رکھ کر بہکتے بھٹکتے رہے اللہ تعالیٰ نے زمین کو تمہارے لیے قرار گاہ بنایا ۔ یعنی ٹھہری ہوئی اور فرش کی طرح بچھی ہوئی کہ اس پر تم اپنی زندگی گزارو چلو پھر آؤ جاؤ ۔ پہاڑوں کو اس پر گاڑ کر اسے ٹھہرا دیا کہ اب ہل جل نہیں سکتی ۔ اس نے آسمان کو چھت بنایا جو ہر طرح محفوظ ہے ۔ اسی نے تمہیں بہترین صورتوں میں پیدا کیا ۔ ہر جوڑ ٹھیک ٹھاک اور نظر فریب بنایا ۔ موزوں قامت مناسب اعضاء سڈول بدن خوبصورت چہرہ عطا فرمایا ۔ نفیس اور بہتر چیزیں کھانے پینے کو دیں ۔ پیدا کیا ، بسایا ، اس نے کھلایا پلایا ، اس نے پہنایا اوڑھایا ۔ پس صحیح معنی میں خالق و رازق وہی رب العالمین ہے ۔ جیسے سورۃ البقرہ میں فرمایا«یَا أَیٰہَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّکُمُ الَّذِی خَلَقَکُمْ وَالَّذِینَ مِن قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ » ( 2-البقرہ : 21 ) ، یعنی لوگو اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے اگلوں کو پیدا کیا تاکہ تم بچو ۔ اسی نے تمہارے لیے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے بارش نازل فرما کر اس کی وجہ سے زمین سے پھل نکال کر تمہیں روزیاں دیں پس تم ان باتوں کے جاننے کے باوجود اللہ کے شریک اوروں کو نہ بناؤ ۔ یہاں بھی اپنی یہ صفتیں بیان فرما کر ارشاد فرمایا کہ یہی اللہ تمہارا رب ہے ۔ اور سارے جہان کا رب بھی وہی ہے ۔ وہ بابرکت ہے ۔ وہ بلندی پاکیزگی برتری اور بزرگی والا ہے ، وہ ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا ۔ وہ زندہ ہے جس پر کبھی موت نہیں ۔ وہی اول و آخر ، ظاہر و باطن ہے ۔ اس کا کوئی وصف کسی دوسرے میں نہیں ۔ اس کا نظیر یا برابر کوئی نہیں ۔ تمہیں چاہیئے کہ اس کی توحید کو مانتے ہوئے اس سے دعائیں کرتے رہو ، اور اس کی عبادت میں مشغول رہو ۔ تمام تر تعریفوں کا مالک اللہ رب العالمین ہی ہے ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں اہل علم کی ایک جماعت سے منقول ہے کہ «لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ »پڑھنے والے کو ساتھ ہی« الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ» بھی پڑھنا چاہیئے تاکہ اس آیت پر عمل ہو جائے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی یہ مرودی ہے حضرت سعید بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہی جب تک « فَادْعُوہُ مُخْلِصِینَ لَہُ الدِّینَ» پڑھے تو «لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ» کہہ لیا کر اور اس کے ساتھ ہی «الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ» پڑھ لیا کر ۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ہر نماز کے سلام کے بعد « لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ لاَ شَرِیْک لَہٗ ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ ، وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ ، لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللّٰہِ لاَ اِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ ، وَلاَ نَعْبُدُ إِلاَّ إِیَّاہُ لَہُ النِّعْمَۃ وَلَہُ الْفَضْلُ وَلَہُ الثَّنَاء الْحَسَنُ ، لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ ، وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُوْنَ» پڑھا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کلمات کو ہر نماز کے بعد پڑھا کرتے تھے ۔ (صحیح مسلم:594:صحیح)۔ غافر
62 غافر
63 غافر
64 غافر
65 غافر
66 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مشرکین کو دعوت توحید اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تم ان مشرکوں سے کہہ دو کہ اللہ تعالیٰ اپنے سوا ہر کسی کی عبادت سے اپنی مخلوق کو منع فرما چکا ہے ۔ اس کے سوا اور کوئی مستحق عبادت نہیں ۔ اس کی بہت بڑی دلیل اس کے بعد کی آیت ہے ، جس میں فرمایا کہ اسی «وَحْدَہٗ لاَ شَرِیْک لَہٗ» نے تمہیں مٹی سے پھر نطفے سے پھر خون کی پھٹکی سے پیدا کیا ۔ اسی نے تمہیں ماں کے پیٹ سے بچے کی صورت میں نکالا ۔ ان تمام حالات کو وہی بدلتا رہا پھر اسی نے بچپن سے جوانی تک تمہیں پہنچایا ۔ وہی جوانی کے بعد بڑھاپے تک لے جائے گا یہ سب کام اسی ایک کے حکم تقدیر اور تدبیر سے ہوتے ہیں ۔ پھر کس قدر نامرادی ہے کہ اس کے ساتھ دوسرے کی عبادت کی جائے ؟ بعض اس سے پہلے ہی فوت ہو جاتے ہیں ۔ یعنی کچے پنے میں ہی گر جاتے ہیں ۔ حمل ساقط ہو جاتا ہے ۔ بعض بچین میں بعض جوانی میں بعض ادھیڑ عمر میں بڑھاپے سے پہلے ہی مر جاتے ہیں ۔ چنانچہ اور جگہ قرآن پاک میں ہے «وَنُقِرٰ فِی الْاَرْحَامِ مَا نَشَاۗءُ اِلٰٓی اَجَلٍ مٰسَمًّی» ( 22- الحج : 5 ) یعنی ہم ماں کے پیٹ میں ٹھہراتے ہیں جب تک چاہیں ۔ یہاں فرمان ہے کہ تاکہ تم وقت مقررہ تک پہنچ جاؤ ۔ اور تم سوچو سمجھو ۔ یعنی اپنی حالتوں کے اس انقلاب سے تم ایمان لے آؤ کہ اس دنیا کے بعد بھی تمہیں نئی زندگی میں ایک روز کھڑا ہونا ہے ، وہی زندگی دینے والا اور مارنے والا ہے ۔ اس کے سوا کوئی موت زیست پر قادر نہیں ۔ اس کے کسی حکم کو کسی فیصلے کو کسی تقرر کو کسی ارادے کو کوئی توڑنے والا نہیں ، جو وہ چاہتا ہے ہو کر ہی رہتا ہے اور جو وہ نہ چاہے ناممکن ہے کہ وہ ہو جائے ۔ غافر
67 غافر
68 غافر
69 کفار کو عذاب جہنم اور طوق و سلاسل کی وعید اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کیا تمہیں ان لوگوں پر تعجب نہیں ہوتا جو اللہ کی باتوں کو جھٹلاتے ہیں اور اپنے باطل کے سہارے حق سے اَڑتے ہیں ؟ تم نہیں دیکھ رہے کہ کس طرح ان کی عقلیں ماری گئی ہیں ؟ اور بھلائی کو چھوڑ برائی کو کیسے بری طرح چمٹ گئے ہیں ؟ پھر ان بدکردار کفار کو ڈرا رہا ہے کہ ہدایت و بھلائی کو جھوٹ جاننے والے کلام اللہ اور کلام رسول کے منکر اپنا انجام ابھی دیکھ لیں گے ۔ جیسے فرمایا «وَیْلٌ یَوْمَئِذٍ لِّلْمُکَذِّبِینَ» ( 77-المرسلات : 15 ) جھٹلانے والوں کیلئے ہلاکت ہے ، جبکہ گردنوں میں طوق اور زنجیریں پڑی ہوئی ہوں گی اور داروغہ جہنم گھسیٹے گھسیٹے پھر رہے ہوں گے ۔ کبھی حمیم میں اور کبھی حجیم میں ۔ گرم کھولتے ہوئے پانی میں سے گھسیٹے جائیں گے ۔ اور آگِ جہنم میں جھلسائے جائیں گے ۔ جیسے اور جگہ ہے«ہٰذِہِ جَہَنَّمُ الَّتِی یُکَذِّبُ بِہَا الْمُجْرِمُونَ یَطُوفُونَ بَیْنَہَا وَبَیْنَ حَمِیمٍ آنٍ » ( 55-الرحمن : 43 ، 44 ) ۔ یہ ہے وہ جہنم جسے گنہگار لوگ جھوٹا جانا کرتے تھے ۔ اب یہ اس کے اور آگ جیسے گرم پانی کے درمیان مارے مارے پریشان پھرا کریں ۔ اور آیتوں میں ان کا زقوم کھانا اور گرم پانی پینا بیان فرما کر فرمایا «ثُمَّ اِنَّ مَرْجِعَہُمْ لَا۟اِلَی الْجَحِیْمِ» ( 37- الصافات : 68 ) کہ پھر ان کی بازگشت تو جہنم ہی کیطرف ہے ۔ سورۃ الواقعہ میں اصحاب شمال کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا «وَأَصْحَابُ الشِّمَالِ مَا أَصْحَابُ الشِّمَالِ فِی سَمُومٍ وَحَمِیمٍ وَظِلٍّ مِّن یَحْمُومٍ لَّا بَارِدٍ وَلَا کَرِیمٍ» ( 56-سورۃ الواقعۃ : 41-44 ) بائیں ہاتھ والے کس قدر برے ہیں ؟ وہ آگ میں ہیں اور گرم پانی میں اور سیاہ دھوئیں کے سائے میں جو نہ ٹھنڈا ہے نہ سود مند ، آگے چل کر فرمایا ، «ثُمَّ إِنَّکُمْ أَیٰہَا الضَّالٰونَ الْمُکَذِّبُونَ لَآکِلُونَ مِن شَجَرٍ مِّن زَقٰومٍ فَمَالِئُونَ مِنْہَا الْبُطُونَ فَشَارِبُونَ عَلَیْہِ مِنَ الْحَمِیمِ فَشَارِبُونَ شُرْبَ الْہِیمِ ہٰذَا نُزُلُہُمْ یَوْمَ الدِّینِ» ( 56-سورۃ الواقعۃ : 51-56 ) اے بہکے ہوئے جھٹلانے والو البتہ سینڈ کا درخت کھاؤ گے اسی سے اپنے پیٹ بھرو گے ۔ پھر اس پر جلتا پانی پیو گے اور اس طرح جس طرح تونس والا اونٹ پیتا ہے ۔ آج انصاف کے دن ان کی مہمانی یہی ہو گی ۔ اور جگہ فرمایا ہے «إِنَّ شَجَرَتَ الزَّقٰومِ طَعَامُ الْأَثِیمِ کَالْمُہْلِ یَغْلِی فِی الْبُطُونِ کَغَلْیِ الْحَمِیمِ خُذُوہُ فَاعْتِلُوہُ إِلَیٰ سَوَاءِ الْجَحِیمِ ثُمَّ صُبٰوا فَوْقَ رَأْسِہِ مِنْ عَذَابِ الْحَمِیمِ ذُقْ إِنَّکَ أَنتَ الْعَزِیزُ الْکَرِیمُ إِنَّ ہٰذَا مَا کُنتُم بِہِ تَمْتَرُونَ» ( 44- الدخان : 43-50 ) ، یعنی یقیناً گنہگاروں کا کھانا زقوم کا درخت ہے جو مثل پگھلے ہوئے تابنے کے ہے جو پیٹوں میں کھولتا رہتا ہے ۔ جیسے تیز گرم پانی ۔ اسے پکڑو اور دھکیلتے ہوئے بیچوں بیچ جہنم میں پہنچاؤ پھر اس کے سر پر تیز گرم جلتے جلتے پانی کا عذاب بہاؤ ، لے چکھ تو بڑا ہی ذی عزت اور بڑی ہی تعظیم تکریم والا شخص تھا ۔ جس سے تم شک شبہ میں تھے ۔ مقصد یہ ہے کہ ایک طرف سے تو وہ یہ دکھ سہہ رہے ہوں گے جن کا بیان ہوا اور دوسری جانب سے انہیں ذلیل و خوار و رو سیاہ ناہنجار کرنے کیلئے بطور استہزاء اور تمسخر کے بطور ڈانٹ اور ڈپٹ کے بطور حقارت اور ذلت کے ان سے یہ کہا جائے گا جس کا ذکر ہوا ۔ ابن ابی حاتم کی ایک غریب مرفوع حدیث میں ہے کہ ایک جانب سے سیاہ ابر اٹھے گا جسے جہنمی دیکھیں گے اور ان سے پوچھا جائے گا کہ تم کیا چاہتے ہو ؟ وہ ابر کو دیکھتے ہوئے دنیا کے انداز پر کہیں گے کہ یہ چاہتے ہیں کہ یہ برسے وہیں اس میں سے طوق اور زنجیریں اور آگ کے انگارے برسنے لگیں گے جس کے شعلے انہیں جلائیں جھلسائیں گے اور وہ طوق و سلاسل ان کے طوق و سلاسل کے ساتھ اضافہ کر دیئے جائیں گے ۔ [ مجمع الزوائد:(18598)ضعیف] پھر ان سے کہا جائے گا کہ کیوں جی دنیا میں اللہ عزوجل کے سوا جن جن کو پوجتے رہے وہ سب آج کہاں ہیں ؟ کیوں وہ تمہاری مدد کو نہیں آئے ؟ کیوں تمہیں یوں کسمپرسی کی حالت میں چھوڑ دیا ؟ تو وہ جواب دیں گے کہ ہاں وہ تو سب آج ناپید ہو گئے وہ تھے ہی بےسود ۔ پھر انہیں کچھ خیال آئے گا اور کہیں گے نہیں نہیں ہم نے تو ان کی عبادت کبھی نہیں کی ۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ جب ان کے بنائے کچھ نہ بنے گی تو صاف انکار کر دیں گے اور جھوٹ بول دیں گے کہ «وَاللّٰہِ رَبِّنَا مَا کُنَّا مُشْرِکِیْنَ» ( 6- الانعام : 23 ) اللہ ہمیں تیری قسم ہم مشرک نہ تھے ۔ یہ کفار اسی طرح بیکاری میں کھوئے رہتے ہیں ، ان سے فرشتے کہیں گے یہ بدلہ ہے اس کا جو دنیا میں بے وجہ گردن اکڑائے اکڑتے پھرتے تھے ۔ تکبر و جبر پر چست کمر رہتے تھے لو اب آ جاؤ جہنم کے ان دروازوں میں داخل ہو جاؤ اب ہمیشہ یہیں پہ رہنا تم جیسے اترانے والوں کی ہی یہ بدمنزل اور بری جائے قرار ہے ۔ جس قدر تکبر کئے تھے اتنے ہی ذلیل و خوار آج بنو گے ۔ جتنے ہی بلند گئے تھے اتنے ہی ِگرو گے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ غافر
70 غافر
71 غافر
72 غافر
73 غافر
74 غافر
75 غافر
76 غافر
77 اللہ کے وعدے قطعاً حق ہیں اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو صبر کا حکم دیتا ہے کہ جو تیری نہیں مانتے تجھے جھوٹا کہتے ہیں تو ان کی ایذاؤں پر صبر و برداشت کر ۔ ان سب پر فتح و نصرت تجھے ملے گی ۔ انجام کار ہر طرح تیرے ہی حق میں بہتر رہے گا ۔ تو اور تیرے یہ ماننے والے ہی تمام دنیا پر غالب ہو کر رہیں گے ، اور آخرت تو صرف تمہاری ہی ہے ، پس یا تو ہم اپنے وعدے کی بعض چیزیں تجھے تیری زندگی میں دکھا دیں گے ، اور یہی ہوا بھی ، بدر والے دن کفار کا دھڑ اور سر توڑ دیا گیا قریشیوں کے بڑے بڑے سردار مارے گئے ۔ بالاخر مکہ فتح ہوا اور آپ دنیا سے رخصت نہ ہوئے جب تک کہ تمام جزیرہ عرب آپ کے زیر نگیں نہ ہو گیا ۔ اور آپ کے دشمن آپ کے سامنے ذلیل و خوار نہ ہوئے اور آپ کی آنکھیں رب نے ٹھنڈی نہ کر دیں ، یا اگر ہم تجھے فوت ہی کر لیں تو بھی ان کا لوٹنا تو ہماری ہی طرف ہے ہم انہیں آخرت کے درد ناک سخت عذاب میں مبتلا کریں گے ، پھر مزید تسلی کے طور پر فرما رہا ہے کہ تجھ سے پہلے بھی ہم بہت سے رسول بھیج چکے ہیں جن میں سے بعض کے حالات ہم نے تیرے سامنے بیان کر دیئے ہیں ۔ اور بعض کے قصے ہم نے بیان بھی نہیں کئے جیسے سورۃ نساء میں بھی فرمایا گیا ہے ۔ پس جن کے قصے مذکور ہیں دیکھ لو کہ قوم سے ان کی کیسی کچھ نمٹی ۔ اور بعض کے واقعات ہم نے بیان نہیں کئے وہ بہ نسبت ان کے بہت زیادہ ہیں ۔ جیسے کہ ہم نے سورۃ نساء کی تفسیر کے موقعہ پر بیان کر دیا ہے ۔ واللہ الحمد و المنہ ۔ پھر فرمایا یہ ناممکن ہے کہ کوئی رسول اپنی مرضی سے معجزات اور خوارق عادات دکھائے , ہاں اللہ عزوجل کے حکم کے بعد کیونکہ رسول علیہ السلام کے قبضے میں کوئی چیز نہیں ۔ ہاں جب اللہ کا عذاب آ جاتا ہے پھر تکذیب و تردید کرنے والے کفار بچ نہیں سکتے ۔ مومن نجات پا لیتے ہیں اور باطل پرست باطل کار تباہ ہو جاتے ہیں ۔ غافر
78 غافر
79 ہر مخلوق خالق کائنات پر دلیل ہے «اَنَعام» یعنی اونٹ گائے بکری اللہ تعالیٰ نے انسان کے طرح طرح کے نفع کیلئے پیدا کئے ہیں ۔ «وَذَلَّلْنَاہَا لَہُمْ فَمِنْہَا رَکُوبُہُمْ وَمِنْہَا یَأْکُلُونَ» ( 36-یس : 72 ) کچھ سواریوں کے کام آتے ہیں کچھ کھائے جاتے ہیں ۔ اونٹ سواری کا کام بھی دے کھایا بھی جائے ، دودھ بھی دے ، بوجھ بھی ڈھوئے , اور دور دراز کے سفر بہ آسانی سے کرا دیئے ۔ گائے کا گوشت کھانے کے کام بھی آئے دودھ بھی دے ۔ ہل بھی جوتے، بکری کا گوشت بھی کھایا جائے اور دودھ بھی پیا جائے ۔ پھر ان کے سب کے بال بیسیوں کاموں میں آئیں ۔ جیسے کہ سورۃ الانعام سورۃ النحل وغیرہ میں بیان ہو چکا ہے ۔ یہاں بھی یہ منافع بطور انعام گنوائے جا رہے ہیں ، دنیا جہاں میں اور اس کے گوشے گوشے میں اور کائنات کے ذرے ذرے میں اور خود تمہاری جانوں میں اس اللہ کی نشانیاں موجود ہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ اس کی ان گنت نشانیوں میں سے ایک کا بھی کوئی شخص صحیح معنی میں انکاری نہیں ہو سکتا یہ اور بات ہے کہ ضد اور اکڑ سے کام لے اور آنکھوں پر ٹھیکری رکھ لے ۔ غافر
80 غافر
81 غافر
82 نزول عذاب کے وقت کا ایمان بےفائدہ ہے اللہ تعالیٰ ان اگلے لوگوں کو خبر دے رہا ہے جو رسولوں کو اس سے پہلے جھٹلا چکے ہیں ۔ ساتھ ہی بتاتا ہے کہ اس کا نتیجہ کیا کچھ انہوں نے بھگتا ؟ باوجود یکہ وہ قوی تھے زیادہ تھے زمین میں نشانات عمارتیں وغیرہ بھی زیادہ رکھنے والے تھے اور بڑے مالدار تھے ۔ لیکن کوئی چیز ان کے کام نہ آئی کسی نے اللہ کے عذاب کو نہ دفع کیا نہ کم کیا نہ ٹالا نہ ہٹایا ۔ یہ تھے ہی غارت کئے جانے کے قابل کیونکہ جب ان کے پاس اللہ کے قاصد صاف صاف دلیلیں ، روشن حجتیں ، کھلے معجزات ، پاکیزہ تعلیمات لے کر آئے تو انہوں نے آنکھ بھر کر دیکھا تک نہیں اپنے پاس کے علوم پر مغرور ہو گئے ۔ اور رسولوں کی تعلیم کی حقارت کرنے لگے ، کہنے لگے ہم ہی زیادہ عالم ہیں حساب کتاب ، عذاب ثواب کوئی چیز نہیں ۔ اپنی جہالت کو علم سمجھ بیٹھے ۔ پھر تو اللہ کا وہ عذاب آیا کہ ان کے بنائے کچھ نہ بنی اور جسے جھٹلاتے تھے ۔ جس پر ناک بھوں چڑھاتے تھے جسے مذاق میں اڑاتے تھے اسی نے انہیں تہس نہس کر دیا ، بھرکس نکال ڈالا ، تہ و بالا کر دیا ، روئی کی طرح دھن دیا اور بھوسی کی طرح اڑا دیا ۔ اللہ کے عذابوں کو آتا ہوا بلکہ آیا ہوا دیکھ کر ایمان کا اقرار کیا اور توحید تسلیم بھی کر لی ۔ اور غیر اللہ جل شانہ سے صاف انکار بھی کیا ، لیکن اس وقت کی نہ توبہ قبول نہ ایمان قبول نہ اسلام مسلم ۔ فرعون نے بھی غرق ہوتے ہوئے کہا تھا کہ «قَالَ آمَنتُ أَنَّہُ لَا إِلٰہَ إِلَّا الَّذِی آمَنَتْ بِہِ بَنُو إِسْرَائِیلَ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِینَ » ( 10-یونس : 90 ) میرا اس اللہ جل شانہ پر ایمان ہے جس پر بنی اسرائیل کا ایمان ہے میں اس کے سوا کسی کو لائق عبادت نہیں مانتا میں اسلام قبول کرتا ہوں ۔ اللہ جل شانہ کی طرف سے جواب ملتا ہے کہ« آلْآنَ وَقَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ وَکُنتَ مِنَ الْمُفْسِدِینَ » ( 10-یونس : 91 ) اب ایمان لانا بےسود ہے ۔ بہت نافرمانیاں اور شرانگیزیاں کر چکے ہو ۔ موسیٰ علیہ السلام نے بھی اس سرکش کیلئے یہی بد دعا کی تھی کہ«وَاشْدُدْ عَلَیٰ قُلُوبِہِمْ فَلَا یُؤْمِنُوا حَتَّیٰ یَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِیمَ» ( 10-یونس : 88 ) اے اللہ جل شانہ آل فرعون کے دلوں کو اس قدر سخت کر دے کہ عذاب الیم دیکھ لینے تک انہیں ایمان نصیب نہ ہو ۔ پس یہاں بھی فرمان باری ہے کہ عذابوں کا معائنہ کرنے پر ایمان کی قبولیت نے انہیں کوئی فائدہ نہ پہنچایا ۔ یہ اللہ کا حکم عام ہے ۔ جو بھی عذابوں کو دیکھ کر توبہ کرے اس کی توبہ نامقبول ہے ۔ حدیث شریف میں ہے غرغرے سے پہلے تک کی توبہ قبول ہے ۔ (سنن ترمذی:3537،قال الشیخ الألبانی:حسن) جب دم سینے میں اٹکا روح حلقوم تک پہنچ گئی فرشتوں کو دیکھ لیا اب کوئی توبہ نہیں ۔ اسی لیے آخر میں ارشاد فرمایا کہ کفار ٹوٹے اور گھاٹے میں ہی ہیں ۔ « الْحَمْدُ لِلّٰہ» سورۃغافر کی تفسیر ختم ہوئی ، وللہ الحمد والمنۃ ۔ غافر
83 غافر
84 غافر
85 غافر
0 فصلت
1 ہر معجزۂ قرآن کے باوجود ہدایت نہ پائی فرماتا ہے کہ ’یہ عربی کا قرآن اللہ رحمان کا اتار ہوا ہے‘ ۔ جیسے اور آیت میں فرمایا «قُلْ نَزَّلَہُ رُوحُ الْقُدُسِ مِن رَّبِّکَ بِالْحَقِّ» ۱؎ (16-النحل:102) ’ اسے تیرے رب کے حکم سے روح الامین نے حق کے ساتھ نازل فرمایا ہے ‘ ۔ اور آیت میں ہے«وَإِنَّہُ لَتَنزِیلُ رَبِّ الْعَالَمِینَ نَزَلَ بِہِ الرٰوحُ الْأَمِینُ عَلَیٰ قَلْبِکَ لِتَکُونَ مِنَ الْمُنذِرِینَ» ۱؎ (26-الشعراء:192-194) ’ روح الامین نے اسے تیرے دل پر اس لیے نازل فرمایا ہے کہ تو لوگوں کو آگاہ کرنے والا بن جائے ‘ ، اس کی آیتیں مفصل ہیں ، ان کے معانی ظاہر ہیں ، احکام مضبوط ہیں ۔ الفاظ واضح اور آسان ہیں ۔ جیسے اور آیت میں ہے «کِتٰبٌ اُحْکِمَتْ اٰیٰتُہٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَکِیْمٍ خَبِیْرٍ» ۱؎ (11-ھود:1) ، ’ یہ کتاب ہے جس کی آیتیں محکم و مفصل ہیں یہ کلام ہے حکیم و خبیر اللہ جل شانہ کا لفظ کے اعتبار سے معجز اور معنی کے اعتبار سے معجز ‘ ۔ «لَّا یَأْتِیہِ الْبَاطِلُ مِن بَیْنِ یَدَیْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہِ تَنزِیلٌ مِّنْ حَکِیمٍ حَمِیدٍ» ۱؎ (41-فصلت:42) ’ باطل اس کے قریب پھٹک بھی نہیں سکتا ۔ حکیم و حمید رب کی طرف سے اتارا گیا ہے ‘ ۔ اس بیان و وضاحت کو ذی علم سمجھ رہے ہیں ۔ یہ ایک طرف مومنوں کو بشارت دیتا ہے ۔ دوسری جانب مجرموں کو دھمکاتا ہے ۔ کفار کو ڈراتا ہے ۔ باوجود ان خوبیوں کے پھر بھی اکثر قریشی منہ پھیرے ہوئے اور کانوں میں روئی دیئے بہرے ہوئے ہیں ، پھر مزید ڈھٹائی دیکھو کہ خود کہتے ہیں کہ تیری پکار سننے میں ہم بہرے ہیں ۔ تیرے اور ہمارے درمیان آڑ ہیں ۔ تیری باتیں نہ ہماری سمجھ میں آئیں نہ عقل میں سمائیں ۔ جا تو اپنے طریقے پر عمل کرتا چلا جا ۔ ہم اپنا طریقہ کار ہرگز نہ چھوڑیں گے ۔ ناممکن ہے کہ ہم تیری مان لیں ۔ مسند عبد بن حمید میں جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ ایک دن قریشیوں نے جمع ہو کر آپس میں مشاورت کی کہ جادو کہانت اور شعر و شاعری میں جو سب سے زیادہ ہو اسے ساتھ لے کر اس شخص کے پاس چلیں ۔[یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم] جس نے ہماری جمعیت میں تفریق ڈال دی ہے اور ہمارے کام میں پھوٹ ڈال دی ہے اور ہمارے دین میں عیب نکالنا شروع کر دیا ہے وہ اس سے مناظرہ کرے اور اسے ہرا دے اور لاجواب کر دے سب نے کہا کہ ایسا شخص تو ہم میں بجز عتبہ بن ربیعہ کے اور کوئی نہیں ۔ چنانچہ یہ سب مل کر عتبہ کے پاس آئے اور اپنی متفقہ خواہش ظاہر کی ۔ اس نے قوم کی بات رکھ لی اور تیار ہو کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا ۔ آ کر کہنے لگا کہ ” اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہ تو بتا تو اچھا ہے یا عبداللہ ؟ “ [ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد صاحب ] ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہ دیا ۔ اس نے دوسرا سوال کیا کہ ” تو اچھا ہے یا تیرا دادا عبدالمطلب ؟ “ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس پر بھی خاموش رہے ۔ وہ کہنے لگا سن اگر تو اپنے تئیں دادوں کو اچھا سمجھتا ہے تب تو تمہیں معلوم ہے وہ انہیں معبودوں کو پوجتے رہے جن کو ہم پوجتے ہیں اور جن کی تو عیب گیری کرتا رہتا ہے اور اگر تو اپنے آپ کو ان سے بہتر سمجھتا ہے تو ہم سے بات کر ہم بھی تیری باتیں سنیں ۔ قسم اللہ کی دنیا میں کوئی انسان اپنی قوم کیلئے تجھ سے زیادہ ضرر رساں پیدا نہیں ہوا ۔ تو نے ہماری شیرازہ بندی کو توڑ دیا ۔ تو نے ہمارے اتفاق کو نفاق سے بدل دیا ۔ تو نے ہمارے دین کو عیب دار بتایا اور اس میں برائی نکالی ۔ تو نے سارے عرب میں ہمیں بدنام اور رسوا کردیا ۔ آج ہر جگہ یہی تذکرہ ہے کہ قریشیوں میں ایک جادوگر ہے ۔ قریشیوں میں کاہن ہے ۔ اب تو یہی ایک بات باقی رہ گئی ہے کہ ہم میں آپس میں سر پھٹول ہو ، ایک دوسرے کے سامنے ہتھیار لگا کر آ جائیں اور یونہی لڑا بھڑا کر تو ہم سب کو فنا کر دینا چاہتا ہے ، سن ! اگر تجھے مال کی خواہش ہے تو لے ہم سب مل کر تجھے اس قدر مال جمع کر دیتے ہیں کہ عرب میں تیرے برابر کوئی اور تونگر نہ نکلے ۔ اور تجھے عورتوں کی خواہش ہے کہ تو ہم میں سے جس کی بیٹی تجھے پسند ہو تو بتا ہم ایک چھوڑ دس دس شادیاں تیری کرا دیتے ہیں “ ۔ یہ سب کچھ کہہ کر اب اس نے ذرا سانس لیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { بس کہہ چکے ؟ } اس نے کہا ” ہاں “ ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اب میری سنو ! چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» پڑھ کر اسی سورۃ کی تلاوت شروع کی اور تقریباً ڈیڑھ رکوع «مِّثْلَ صٰعِقَۃِ عَادٍ وَّثَمُوْدَ» ۱؎ (41-فصلت:13) تک پڑھا } ،اتنا سن کر عتبہ بول پڑا ” بس کیجئے آپ [ صلی اللہ علیہ وسلم ] کے پاس اس کے سوا کچھ نہیں ؟ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { نہیں } ۔ اب یہ یہاں سے اٹھ کر چل دیا قریش کا مجمع اس کا منتظر تھا ۔ انہوں نے دیکھتے ہی پوچھا کہو کیا بات رہی ؟ عتبہ نے کہا ” سنو تم سب مل کر جو کچھ اسے کہہ سکتے تھے میں نے اکیلے ہی وہ سب کچھ کہہ ڈالا “ ۔ انہوں نے کہا پھر اس نے کچھ جواب بھی دیا کہا ہاں جواب تو دیا لیکن باللہ میں تو ایک حرف بھی اس کا سمجھ نہیں سکا البتہ اتنا سمجھا ہوں کہ انہوں نے ہم سب کو عذاب آسمانی سے ڈرایا ہے جو عذاب قوم عاد اور قوم ثمود پر آیا تھا ۔ انہوں نے کہا تجھے اللہ کی مار ایک شخص عربی زبان میں جو تیری اپنی زبان ہے تجھ سے کلام کر رہا ہے اور تو کہتا ہے میں سمجھا ہی نہیں کہ اس نے کیا کہا؟ عتبہ نے جواب دیا کہ ”میں سچ کہتا ہوں بجز ذکر عذاب کے میں کچھ نہیں سمجھا“۔ ۱؎ (ابن ابی شیبۃ فی المصنف:295/14:اسنادہ ضعیف) بغوی رحمہ اللہ بھی اس روایت کو لائے ہیں اس میں یہ بھی ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی تو عتبہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ مبارک پر ہاتھ رکھ دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قسمیں دینے لگا اور رشتے داری یاد دلانے لگا ۔ اور یہاں سے الٹے پاؤں واپس جا کر گھر میں بیٹھا ۔ اور قریشیوں کی بیٹھک میں آنا جانا ترک کر دیا ۔ اس پر ابوجہل نے کہا کہ قریشیو ! میرا خیال تو یہ ہے کہ عتبہ بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جھک گیا اور وہاں کے کھانے پینے میں للچا گیا ہے ، وہ حاجت مند تھا اچھا تم میرے ساتھ ہو لو میں اس کے پاس چلتا ہوں ۔ اسے ٹھیک کر لوں گا ۔ وہاں جا کر ابوجہل نے کہا عتبہ تم نے جو ہمارے پاس آنا جانا چھوڑا اس کی وجہ ایک اور صرف ایک ہی معلوم ہوتی ہے کہ تجھے اس کا دستر خوان پسند آ گیا اور تو بھی اسی کی طرف جھک گیا ہے ۔ حاجب مندی بری چیز ہے میرا خیال ہے کہ ہم آپس میں چندہ کر کے تیری حالت ٹھیک کر دیں ، تاکہ اس مصیبت اور ذلت سے تو چھوٹ جائے ۔ اس سے ڈرنے کی اور نئے مذہب کی تجھے ضرورت نہ رہے ۔ اس پر عتبہ بہت بگڑا اور کہنے لگا مجھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا غرض ہے ؟ اللہ کی قسم کی اب اس سے کبھی بات تک نہ کروں گا ۔ اور تم میری نسبت ایسے ذلیل خیالات ظاہر کرتے ہو حالانکہ تمہیں معلوم ہے کہ قریش میں مجھ سے بڑھ کر کوئی مالدار نہیں ۔ بات صرف یہ ہے کہ میں تم سب کو کہنے سے ان کے پاس گیا سارا قصہ کہہ سنایا بہت باتیں کہیں میرے جواب میں پھر جو کلام اس نے پڑھا واللہ نہ تو وہ شعر تھا نہ کہانت کا کلام تھا نہ جادو وغیرہ تھا ۔ وہ جب اس سورۃ کو پڑھتے ہوئے آیت «فَاِنْ اَعْرَضُوْا فَقُلْ اَنْذَرْتُکُمْ صٰعِقَۃً مِّثْلَ صٰعِقَۃِ عَادٍ وَّثَمُوْدَ» ۱؎ (41-فصلت:13) ، تک پہنچے تو میں نے ان کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور انہیں رشتے ناتے یاد دلانے لگا کہ للہ رک جاؤ مجھے تو خوف لگا ہوا تھا کہ کہیں اسی وقت ہم پر وہ عذاب آ نہ جائے اور یہ تو تم سب کو معلوم ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جھوٹے نہیں ۔۱؎ (بغوی فی التفسیر:1863) سیرۃ ابن اسحاق میں یہ واقعہ دوسرے طریق پر ہے اس میں ہے کہ قریشیوں کی مجلس ایک مرتبہ جمع تھی ۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ کے ایک گوشے میں بیٹھے ہوئے تھے ۔ عتبہ قریش سے کہنے لگا کہ اگر تم سب کا مشورہ ہو تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤں انہیں کچھ سمجھاؤں اور کچھ لالچ دوں اگر وہ کسی بات کو قبول کر لیں تو ہم انہیں دے دیں اور انہیں ان کے کام سے روک دیں ۔ یہ واقعہ اس وقت کا ہے کہ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ مسلمان ہو چکے تھے اور مسلمانوں کی تعداد معقول ہو گئی تھی اور روز افزوں ہوتی جاتی تھی ۔ سب قریشی اس پر رضامند ہوئے ۔ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا ” برادر زادے تم عالی نسب ہو تم ہم میں سے ہو ہماری آنکھوں کے تارے اور ہمارے کلیجے کے ٹکڑے ہو ۔ افسوس کہ تم اپنی قوم کے پاس ایک عجیب و غریب چیز لائے ہو تم نے ان میں پھوٹ ڈلوا دی ۔ تم نے ان کے عقل مندوں کو بیوقوف قرار دیا ۔ تم نے ان کے معبودوں کی عیب جوئی کی ۔ تم نے ان کے دین کو برا کہنا شروع کیا ۔ تم نے ان کے بڑے بوڑھوں کو کافر بنایا اب سن لو آج میں آپ کے پاس ایک آخری اور انتہائی فیصلے کیلئے آیا ہوں ، میں بہت سی صورتیں پیش کرتا ہوں ان میں سے جو آپ کو پسند ہو قبول کیجئے ۔ للہ اس فتنے کو ختم کر دیجئیے “ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { جو تمہیں کہنا ہو کہو میں سن رہا ہوں } ۔ اس نے کہا ” سنو ! اگر تمہارا ارادہ اس چال سے مال کے جمع کرنے کا ہے تو ہم سب مل کر تمہارے لیے اتنا مال جمع کر دیتے ہیں کہ تم سے بڑھ کر مالدار سارے قریش میں کوئی نہ ہو ۔ اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارادہ اس سے اپنی سرداری کا ہے تو ہم سب مل کر آپ کو اپنا سردار تسلیم کر لیتے ہیں ۔ اور اگر آپ بادشاہ بننا چاہتے ہیں تو ہم ملک آپ کو سونپ کر خود رعایا بننے کیلئے بھی تیار ہیں ، اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی جن وغیرہ کا اثر ہے تو ہم اپنا مال خرچ کر کے بہتر سے بہتر طبیب اور جھاڑ پھونک کرنے والے مہیا کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا علاج کراتے ہیں ۔ ایسا ہو جاتا ہے کہ بعض مرتبہ تابع جن اپنے عامل پر غالب آ جاتا ہے تو اسی طرح اس سے چھٹکارا حاصل کیا جاتا ہے “ ۔ اب عتبہ خاموش ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اپنی سب بات کہہ چکے ؟ } کہا ہاں ، فرمایا : { اب میری سنو } ۔ وہ متوجہ ہو گیا ۔ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» پڑھ کر اس سورت کی تلاوت شرع کی عتبہ با ادب سنتا رہا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدے کی آیت پڑھی اور سجدہ کیا ، فرمایا ابوالولید ! میں کہہ چکا اب تجھے اختیار ہے } ۔ عتبہ یہاں سے اٹھا اور اپنے ساتھیوں کی طرف چلا اس کے چہرے کو دیکھتے ہی ہر ایک کہنے لگا کہ عتبہ کا حال بدل گیا ۔ اس سے پوچھا کہو کیا بات رہی ؟ اس نے کہا میں نے تو ایسا کلام سنا ہے جو واللہ اس سے پہلے کبھی نہیں سنا ۔ واللہ ! نہ تو وہ جادو ہے نہ شعر کوئی ہے نہ کاہنوں کا کلام ہے ۔ سنو قریشیو ! میری مان لو اور میری اس جچی تلی بات کو قبول کر لو ۔ اسے اس کے خیالات پر چھوڑ دو نہ اس کی مخالفت کرو نہ اتفاق ۔ اس کی مخالفت میں سارا عرب کافی ہے اور جو یہ کہتا ہے اس میں تمام عرب اس کا مخالف ہے وہ اپنی تمام طاقت اس کے مقابلہ میں صرف کر رہا ہے یا تو وہ اس پر غالب آ جائیں گے اگر وہ اس پر غالب آ گئے تو تم سستے چھوٹے یا یہ ان پر غالب آیا تو اس کا ملک تمہارا ہی ملک کہلائے گا اور اس کی عزت تمہاری عزت ہوگی اور سب سے زیادہ اس کے نزدیک مقبول تم ہی ہو گے ۔ یہ سن کر قریشیوں نے کہا ابوالولید قسم اللہ کی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تجھ پر جادو کر دیا ۔ اس نے جواب دیا میری اپنی جو رائے تھی آزادی سے کہہ چکا ، اب تمہیں اپنے فعل کا اختیار ہے ۔۱؎ (دلائل النبوۃ للبیہقی:206/2:ضعیف) فصلت
2 فصلت
3 فصلت
4 فصلت
5 فصلت
6 حصول نجات اور اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کا حکم ہو رہا ہے کہ ’ ان جھٹلانے والے مشرکوں کے سامنے اعلان کر دیجئیے کہ میں تم ہی جیسا ایک انسان ہوں ۔ مجھے بذریعہ وحی الٰہی کے حکم دیا گیا ہے کہ تم سب کا معبود ایک اکیلا اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ تم جو متفرق اور کئی ایک معبود بنائے بیٹھے ہو یہ طریقہ سراسر گمراہی والا ہے ۔ تم ساری عبادتیں اسی ایک اللہ کیلئے بجا لاؤ ۔ اور ٹھیک اسی طرح جس طرح تمہیں اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے معلوم ہو ۔ اور اپنے اگلے گناہوں سے توبہ کرو ۔ ان کی معافی طلب کرو ۔ یقین مانو کہ اللہ کے ساتھ شرک کرنے والے ہلاک ہونے والے ہیں ، جو زکوٰۃ نہیں دیتے ‘ ۔ یعنی بقول سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ «لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ» کی شہادت نہیں دیتے ۔ عکرمہ بھی یہی فرماتے ہیں ۔ قرآن کریم میں ایک جگہ ہے « قَدْ أَفْلَحَ مَن زَکَّاہَا وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاہَا » ۱؎ (91-الشمس:9-10) یعنی ’ اس نے فلاح پائی جس نے اپنے نفس کو پاک کر لیا ۔ اور وہ ہلاک ہوا جس نے اسے دبا دیا ‘ ۔ اور آیت میں فرمایا «قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہِ فَصَلَّیٰ» ۱؎ (87-الأعلی:15،14) یعنی ’ اس نے نجات حاصل کر لی جس نے پاکیزگی کی اور اپنے رب کا نام ذکر کیا پھر نماز ادا کی ‘ ۔ اور جگہ ارشاد ہے «ہَلْ لَّکَ اِلٰٓی اَنْ تَـزَکّٰی» ۱؎ (79-النازعات:18) ’ کیا تجھے پاک ہونے کا خیال ہے ؟ ‘ ان آیتوں میں زکوٰۃ یعنی پاکی سے مطلب نفس کو بے ہودہ اخلاق سے دور کرنا ہے اور سب سے بڑی اور پہلی قسم اس کی شرک سے پاک ہونا ہے ، اسی طرح آیت مندرجہ بالا میں بھی زکوٰۃ نہ دینے سے توحید کا نہ ماننا مراد ہے ۔ مال کی زکوٰۃ کو زکوٰۃ اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ حرمت سے پاک کر دیتی ہے ۔ اور زیادتی اور برکت اور کثرت مال کا باعث بنتی ہے ۔ اور اللہ کی راہ میں اسے خرچ کی توفیق ہوتی ہے ۔ لیکن امام سعدی ، معاویہ بن قرہ ، قتادہ رحمہ اللہ علیہم اور اکثر مفسرین نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ مال زکوٰۃ ادا نہیں کرتے ۔ اور بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے امام ابن جریر رحمہ اللہ بھی اسی کو مختار کہتے ہیں ۔ لیکن یہ قول تامل طلب ہے۔ اس لیے کہ زکوٰۃ فرض ہوتی ہے مدینے میں جا کر ہجرت کے دوسرے سال ۔ اور یہ آیت اتری ہے مکے شریف میں ۔ زیادہ سے زیادہ اس تفسیر کو مان کر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ صدقے اور زکوٰۃ کی اصل کا حکم تو نبوت کی ابتداء میں ہی تھا ، جیسے اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے «وَاٰتُوْا حَقَّہٗ یَوْمَ حَصَادِہٖ» ۱؎ (6-الأنعام:141) ’ جس دن کھیت کاٹو اس کا حق دے دیا کرو ‘ ۔ ہاں وہ زکوٰۃ جس کا نصاب اور جس کی مقدار من جانب اللہ مقرر ہے وہ مدینے میں مقرر ہوئی ۔ یہ قول ایسا ہے جس سے دونوں باتوں میں تطبیق بھی ہو جاتی ہے ۔ خود نماز کو دیکھئیے کہ طلوع آفتاب اور غروب آفتاب سے پہلے ابتداء نبوت میں ہی فرض ہو چکی تھی ۔ لیکن معراج والی رات ہجرت سے ڈیڑھ سال پہلے پانچوں نمازیں باقاعدہ شروط و ارکان کے ساتھ مقرر ہو گئیں ۔ اور رفتہ رفتہ اس کے تمام متعلقات پورے کر دیئے گئے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ جل جلالہ فرماتا ہے کہ ’ اللہ کے ماننے والوں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اطاعت گزاروں کیلئے وہ اجر و ثواب ہے جو دائمی ہے اور کبھی ختم نہیں ہونے والا ہے ‘ ۔ جیسے اور جگہ ہے «مَّاکِثِیْنَ فِیْہِ اَبَدًا» ۱؎ (18-الکہف:3) ’ وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں ‘ اور فرماتا ہے «عَطَاءً غَیْرَ مَجْذُوْذٍ» ۱؎ (11-ھود:108) ’ انہیں جو انعام دیا جائے گا وہ نہ ٹوٹنے والا اور مسلسل ہے ‘ ۔ سدی رحمہ اللہ کہتے ہیں گویا وہ ان کا حق ہے جو انہیں دیا گیا نہ کہ بطور احسان ہے ۔ لیکن بعض ائمہ نے اس کی تردید کی ہے ۔ کیونکہ اہل جنت پر بھی اللہ کا احسان یقیناً ہے ۔ خود قرآن میں ہے «بَلِ اللّٰہُ یَمُنٰ عَلَیْکُمْ اَنْ ہَدٰیکُمْ لِلْاِیْمَانِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ» ۱؎ (49-الحجرات:17) یعنی ’ بلکہ اللہ کا تم پر احسان ہے کہ وہ تمہیں ایمان کی ہدایت کرتا ہے ‘ ۔ جنتیوں کا قول ہے «فَمَنَّ اللّٰہُ عَلَیْنَا وَوَقٰینَا عَذَاب السَّمُوْمِ» ۱؎ (52-الطور:27) ’ پس اللہ نے ہم پر احسان کیا اور آگ کے عذاب سے بچا لیا ‘ ۔ رسول اللہ علیہ افضل اصلوۃ والتسلیم فرماتے ہیں { مگر یہ کہ اللہ مجھے اپنی رحمت میں لے لے اور اپنے فضل و احسان میں } ۔ فصلت
7 فصلت
8 فصلت
9 تخلیق کائنات کا مرحلہ وار ذکر ہر چیز کا خالق ہرچیز کا مالک ہرچیز پر حاکم ہرچیز پر قادر صرف اللہ ہے ۔ پس عبادتیں بھی صرف اسی کی کرنی چاہئیں ۔ اس نے زمین جیسی وسیع مخلوق کو اپنی کمال قدرت سے صرف دو دن میں پیدا کر دیا ہے ۔ تمہیں نہ اس کے ساتھ کفر کرنا چاہے نہ شرک ۔ جس طرح سب کا پیدا کرنے والا وہی ایک ہے ۔ ٹھیک اسی طرح سب کا پالنے والا بھی وہی ایک ہے ۔ یہ تفصیل یاد رہے کہ اور آیتوں «إِنَّ رَبَّکُمُ اللہُ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِی سِتَّۃِ أَیَّامٍ » ۱؎ (7-الأعراف:54) میں زمین و آسمان کا چھ دن میں پیدا کرنا بیان ہوا ہے ۔ اور یہاں اس کی پیدائش کا وقت الگ بیان ہو رہا ہے ۔ پس معلوم ہوا کہ پہلے زمین بنائی گئی ۔ عمارت کا قاعدہ یہی ہے کہ پہلے بنیادیں اور نیچے کا حصہ تیار کیا جاتا ہے پھر اوپر کا حصہ اور چھت بنائی جاتی ہے ۔ چنانچہ کلام اللہ شریف کی ایک اور آیت میں ہے«ہُوَ الَّذِی خَلَقَ لَکُم مَّا فِی الْأَرْضِ جَمِیعًا ثُمَّ اسْتَوَیٰ إِلَی السَّمَاءِ فَسَوَّاہُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ» ۱؎ (2-البقرۃ:29) ’ اللہ وہ ہے جس نے تمہارے لیے زمین میں جو کچھ ہے پیدا کر کے پھر آسمانوں کی طرف توجہ فرمائی اور انہیں ٹھیک سات آسمان بنا دیئے ‘ ۔ ہاں سورۃ النازعات میں « أَأَنتُمْ أَشَدٰ خَلْقًا أَمِ السَّمَاءُ بَنَاہَا رَفَعَ سَمْکَہَا فَسَوَّاہَا وَأَغْطَشَ لَیْلَہَا وَأَخْرَجَ ضُحَاہَا وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذٰلِکَ دَحَاہَا أَخْرَجَ مِنْہَا مَاءَہَا وَمَرْعَاہَا وَالْجِبَالَ أَرْسَاہَا مَتَاعًا لَّکُمْ وَلِأَنْعَامِکُمْ » ۱؎ (79-النازعات:27-33) ہے پہلے آسمان کی پیدائش کا ذکر ہے پھر فرمایا ہے کہ زمین کو اس کے بعد بچھایا ۔ اس سے مراد زمین میں سے پانی چارہ نکالنا اور پہاڑوں کا گاڑنا ہے جیسے کہ اس کے بعد کا بیان ہے ۔ یعنی پیدا پہلے زمین کی گئی پھر آسمان پھر زمین کو ٹھیک ٹھاک کیا ۔ لہٰذا دونوں آیتوں میں کوئی فرق نہیں ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ { ایک شخص نے عبداللہ بن عباس سے پوچھا کی بعض آیتوں میں مجھے کچھ اختلاف سا نظر آتا ہے چنانچہ ایک آیت میں ہے «فَلَآ اَنْسَابَ بَیْنَہُمْ یَوْمَیِٕذٍ وَّلَا یَتَسَاءَلُوْنَ» ۱؎ (23-المؤمنون:101) یعنی ’ قیامت کے دن آپس کے نسب نہ ہوں گے اور نہ ایک دوسرے سے سوال کرے گا ‘ ۔ دوسری آیت میں ہے «وَاَقْبَلَ بَعْضُہُمْ عَلٰی بَعْضٍ یَّتَسَاءَلُوْنَ» ۱؎ (37-الصافات:27) یعنی ’ بعض آپس میں ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر پوچھ گچھ کریں گے ‘ ۔ ایک آیت میں ہے «وَلَا یَکْتُمُوْنَ اللّٰہَ حَدِیْثًا» ۱؎ (4-النسآء:42) یعنی ’ اللہ سے کوئی بات چھپائیں گے نہیں ‘ } ۔ { دوسری آیت میں ہے کہ مشرکین کہیں گے «وَاللّٰہِ رَبِّنَا مَا کُنَّا مُشْرِکِیْنَ» ۱؎ (6-الأنعام:23) ’ اللہ کی قسم ہم نے شرک نہیں کیا ‘ ۔ ایک آیت میں ہے زمین کو آسمان کے بعد بچھایا «وَالْاَرْضَ بَعْدَ ذٰلِکَ دَحٰیہَا» ۱؎ (79-النازعات:30) دوسری آیت «قُلْ اَؤُنَبِّئُکُمْ بِخَیْرٍ مِّنْ ذٰلِکُمْ» ۱؎ (3-آل عمران:15) ، میں پہلے زمین کی پیدائش پھر آسمان کی پیدائش کا ذکر ہے ۔ ایک تو ان آیتوں کا صحیح مطلب بتائے جس سے اختلاف اٹھ جائے ۔ دوسرے یہ جو فرمایا ہے «وَکَانَ اللَّہ غَفُورًا رَحِیمًا » ۱؎ (4-النساء:96) ، « عَزِیزًا حَکِیمًا » ۱؎ (4-النساء:56) ، « سَمِیعًا بَصِیرًا » ۱؎ (4-النساء:58) تو کیا یہ مطلب ہے کہ اللہ ایسا تھا ؟ اس کے جواب میں آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ” جن دو آیتوں میں سے ایک میں آپس کا سوال جواب ہے اور ایک میں ان کا انکار ہے ۔ یہ دو وقت ہیں صور میں دو نفخے پھونکے جائیں گے ایک کے بعد آپس کی پوچھ گچھ کچھ نہ ہو گی ایک کے بعد آپس میں ایک دوسرے سے سوالات ہوں گے ۔ جن دو دوسری آیتوں میں ایک میں بات کے نہ چھپانے کا اور ایک میں چھپانے کا ذکر ہے یہ بھی دو موقعے ہیں جب مشرکین دیکھیں گے کہ موحدوں کے گناہ بخش دیئے گئے تو کہنے لگے کہ ہم مشرک نہ تھے ۔ لیکن جب منہ پر مہر لگ جائیں گی اور اعضاء بدن گواہی دینے لگیں گے تو اب کچھ بھی نہ چھپے گا ۔ اور خود اپنے کرتوت کے اقراری ہو جائیں گے اور کہنے لگیں گے کاش کے ہم زمین کے برابر کر دیئے جاتے ۔ آسمان و زمین کی پیدائش کی ترتیب بیان میں بھی دراصل کچھ اختلاف نہیں پہلے دو دن میں زمین بنائی گئی پھر آسمان کو دو دن میں بنایا گیا پھر زمین کی چیزیں پانی ، چارہ ، پہاڑ ، کنکر ، ریت ، جمادات ، ٹیلے وغیرہ دو دن میں پیدا کئے یہی معنی لفظ «دَحَاھَا» کے ہیں ۔ پس زمین کی پوری پیدائش چار دن میں ہوئی ۔ اور دو دن میں آسمان ۔ اور جو نام اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے مقرر کئے ہیں ان کا بیان فرمایا ہے وہ ہمیشہ ایسا ہی رہے گا ۔ اللہ کا کوئی ارادہ پورا ہوئے بغیر نہیں رہتا ۔ پس قرآن میں ہرگز اختلاف نہیں ۔ اس کا ایک ایک لفظ اللہ کی طرف سے ہے “ } ۔ { زمین کو اللہ تعالیٰ نے دو دن میں پیدا کیا ہے یعنی اتوار اور پیر کے دن ، اور زمین میں زمین کے اوپر ہی پہاڑ بنا دیئے اور زمین کو اس نے بابرکت بنایا ، تم اس میں بیج بوتے ہو درخت اور پھل وغیرہ اس میں سے پیدا ہوتے ہیں ۔ اور اہل زمین کو جن چیزوں کی احتیاج ہے وہ اسی میں سے پیدا ہوتی رہتی ہیں زمین کی یہ درستگی منگل بدھ کے دن ہوئی ۔ چار دن میں زمین کی پیدائش ختم ہوئی ۔ جو لوگ اس کی معلومات حاصل کرنا چاہتے تھے انہیں پورا جواب مل گیا ۔ زمین کے ہر حصے میں اس نے وہ چیز مہیا کر دی جو وہاں والوں کے لائق تھی ۔ مثلاً عصب یمن میں ۔ سابوری میں ابور میں ۔ طیالسہ رے میں ۔ یہی مطلب آیت کے آخری جملے کا ہے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ جس کی جو حاجت تھی اللہ تعالیٰ نے اس کیلئے مہیا کر دی ۔ اس معنی کی تائید اللہ کے اس فرمان سے ہوتی ہے «وَاٰتٰیکُمْ مِّنْ کُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْہُ» ۱؎ (14-ابراھیم:34) ’ تم نے جو جو مانگا اللہ نے تمہیں دیا ‘ } ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» پھر جناب باری نے آسمان کی طرف توجہ فرمائی وہ دھویں کی شکل میں تھا ، زمین کے پیدا کئے جانے کے وقت پانی کے جو بخارات اٹھے تھے ۔ اب دونوں سے فرمایا کہ ’ یا تو میرے حکم کو مانو اور جو میں کہتا ہوں ہو جاؤ خوشی سے یا ناخوشی سے ‘ ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” مثلاً آسمانوں کو حکم ہوا کہ سورج چاند ستارے طلوع کرے زمین سے فرمایا اپنی نہریں جاری کر اپنے پھل اگا وغیرہ ۔ دونوں فرمانبرداری کیلئے راضی خوشی تیار ہو گئے ۔ اور عرض کیا کہ ہم مع اس تمام مخلوق کے جسے تو رچانے والا ہے تابع فرمان ہے ۔ اور کہا گیا ہے کہ انہیں قائم مقام کلام کرنے والوں کیلئے کیا گیا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ زمین کے اس حصے نے کلام کیا جہاں کعبہ بنایا گیا ہے اور آسمان کے اس حصے نے کلام کیا جو ٹھیک اس کے اوپر ہے “ ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں اگر آسمان و زمین اطاعت گزاری کا اقرار نہ کرتے تو انہیں سزا ہوتی جس کا احساس بھی انہیں ہوتا ۔ پس دو دن میں ساتوں آسمان اس نے بنا دیئے یعنی جمعرات اور جمعہ کے دن ۔ اور ہر آسمان میں اس نے جو جو چیزیں اور جیسے جیسے فرشتے مقرر کرنے چاہے مقرر فرما دیئے اور دنیا کے آسمان کو اس نے ستاروں سے مزین کر دیا جو زمین پر چمکتے رہتے ہیں اور جو ان شیاطین کی نگہبانی کرتے ہیں جو ملاء اعلیٰ کی باتیں سننے کیلئے اوپر چڑھنا چاہتے ہیں ۔ یہ تدبیرو اندازہ اس اللہ کا قائم کردہ ہے جو سب پر غالب ہے جو کائنات کے ایک ایک چپے کی ہر چھپی کھلی حرکت کو جانتا ہے ۔ ابن جریر رحمہ اللہ کی روایت میں ہے { یہودیوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آسمان و زمین کی پیدائش کی بابت سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ { اتوار اور پیر کے دن اللہ تعالیٰ نے زمین کو پیدا کیا اور پہاڑوں کو منگل کے دن پیدا کیا اور جتنے نفعات اس میں ہیں اور بدھ کے دن درختوں کو پانی کو شہروں کو اور آبادی اور ویرانے کو پیدا کیا تو یہ چار دن ہوئے ۔ اسے بیان فرما کر پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی آیت کی تلاوت کی اور فرمایا کہ جمعرات والے دن آسمان کو پیدا کیا اور جمعہ کے دن ستاروں کو اور سورج چاند کو اور فرشتوں کو پیدا کیا تین ساعت کے باقی رہنے تک ۔ پھر دوسری ساعت میں ہرچیز میں آفت ڈالی جس سے لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ اور تیسری میں آدم علیہ السلام کو پیدا کیا انہیں جنت میں بسایا ابلیس کو انہیں سجدہ کرنے کا حکم دیا ۔ اور آخری ساعت میں وہاں سے نکال دیا } ۔ یہودیوں نے کہا اچھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پھر اس کے بعد کیا ہوا ؟ فرمایا : { پھر عرش پر مستوی ہو گیا } انہوں نے کہا سب تو ٹھیک کہا لیکن آخری بات یہ کہی کہ پھر آرام حاصل کیا ۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سخت ناراض ہوئے اور یہ آیت اتری «وَلَقَدْ خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا فِی سِتَّۃِ أَیَّامٍ وَمَا مَسَّنَا مِن لٰغُوبٍ فَاصْبِرْ‌ عَلَیٰ مَا یَقُولُونَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَ‌بِّکَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغُرُ‌وبِ» ۱؎ (50-ق:38-39) یعنی ’ ہم نے آسمان و زمین اور جو ان کے درمیان ہے سب کو چھ دن میں پیدا کیا اور ہمیں کوئی تھکان نہیں ہوئی ، تو ان کی باتوں پر صبر کر ‘ } ۔۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:30429:) یہ حدیث غریب ہے ۔ اور روایت میں ہے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں { میرا ہاتھ پکڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اللہ تعالیٰ نے مٹی کو ہفتے کے روز پیدا کیا اس میں پہاڑوں کو اتوار کے دن رکھا درخت پیر والے دن پیدا کئے مکروہات کو منگل کے دن نور کو بدھ کے دن پیدا کیا اور جانوروں کو زمین میں جمعرات کے دن پھیلا دیا اور جمعہ کے دن عصر کے بعد جمعہ کی آخری ساعت آدم کو پیدا کیا اور کل مخلوقات پوری ہوئی } } ۔۱؎ (صحیح مسلم:2789) مسلم اور نسائی میں یہ حدیث ہے لیکن یہ بھی غرائب صحیح میں سے ہے ۔ اور امام بخاری نے تاریخ میں اسے معلل بتایا ہے اور فرمایا ہے کہ اسے بعض راویوں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے اسے کعب احبار رحمہ اللہ سے روایت کیا ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے ۔ فصلت
10 فصلت
11 فصلت
12 انبیاء کی تکذیب عذاب الٰہی کا سبب حکم ہوتا ہے کہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلا رہے ہیں اور اللہ کے ساتھ کفر کر رہے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے فرما دیجئیے کہ میری تعلیم سے روگردانی تمہیں کسی نیک نتیجے پر نہیں پہنچائے گی ۔ یاد رکھو کہ جس طرح انبیاء علیہم السلام کی مخالف امتیں تم سے پہلے زیرو زبر کر دی گئیں کہیں تمہاری شامت اعمال بھی تمہیں انہی میں سے نہ کر دے ۔ قوم عاد اور قوم ثمود کے اور ان جیسے اوروں کے حالات تمہارے سامنے ہیں ۔ ان کے پاس پے در پے رسول علیہم السلام آئے اس گاؤں میں اس گاؤں میں اس بستی میں اس بستی میں اللہ کے پیغمبر علیہم السلام اللہ کی منادی کرتے پھرتے لیکن ان کی آنکھوں پر وہ چربی چڑھی ہوئی تھی اور دماغ میں وہ گند ٹھسا ہوا تھا کہ کسی ایک کو بھی نہ مانا ۔ اپنے سامنے اللہ والوں کی بہتری اور دشمنان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بدحالی دیکھتے تھے لیکن پھر بھی تکذیب سے باز نہ آئے ۔ حجت بازی اور کج بحثی سے نہ ہٹے اور کہنے لگے اگر اللہ کو رسول بھیجنا ہوتا تو کسی اپنے فرشتے کو بھیجتا تم انسان ہو کر رسول اللہ بن بیٹھے ؟ ہم تو اسے ہرگز باور نہ کریں گے ؟ قوم عاد نے زمین میں فساد پھیلا دیا ان کی سرکشی ان کا غرور حد کو پہنچ گیا ۔ ان کی لا ابالیاں اور بےپرواہیاں یہاں تک پہنچ گئیں کہ پکار اٹھے ہم سے زیادہ زور آور کوئی نہیں ۔ ہم طاقتور مضبوط اور ٹھوس ہیں اللہ کے عذاب ہمارا کیا بگاڑ لیں گے ؟ اس قدر پھولے کہ اللہ کو بھول گئے ۔ یہ بھی خیال نہ رہا کہ ہمارا پیدا کرنے والا تو اتنا قوی ہے کہ اس کی زور آوری کا اندازہ بھی ہم نہیں کر سکتے ۔ جیسے فرمان ہے «وَالسَّمَاءَ بَنَیْنٰہَا بِاَیْیدٍ وَّاِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ» ۱؎ (51-الذاریات:47)’ ہم نے اپنے ہاتھوں آسمان کو پیدا کیا اور ہم بہت ہی طاقتور اور زور آور ہیں ‘ ۔ پس ان کے اس تکبر پر اور اللہ کے رسولوں کے جھٹلانے پر اور اللہ کی نافرمانی کرنے اور رب کی آیتوں کے انکار پر ان پر عذاب الٰہی آ پڑا ۔ تیز و تند ، سرد ، دہشت ناک ، سرسراتی ہوئی سخت آندھی آئی ۔ تاکہ ان کا غرور ٹوٹ جائے اور ہوا سے وہ تباہ کر دیئے جائیں ۔ «صَرْصَراً» کہتے ہیں وہ ہوا جس میں آواز پائی جائے ۔ مشرق کی طرف ایک نہر ہے جو بہت زور سے آواز کے ساتھ بہتی رہتی ہے اس لیے اسے بھی عرب «صَرْصَراً» کہتے ہیں ۔ «نَحِسَات» سے مراد پے در پے ، ایک دم ، مسلسل ، سات راتیں اور آٹھ دن تک یہی ہوائیں رہیں ۔ وہ مصیبت جو ان پر مصیبت والے دن آئی وہ پھر آٹھ دن تک نہ ہٹی نہ ٹلی ۔ جب تک ان میں سے ایک ایک کو فنا کے گھاٹ نہ اتار دیا اور ان کا بیج ختم نہ کر دیا ۔ ساتھ ہی آخرت کے عذابوں کا لقمہ بنے جن سے زیادہ ذلت و توہین کی کوئی سزا نہیں ۔ نہ دنیا میں کوئی ان کی امداد کو پہنچا نہ آخرت میں کوئی مدد کیلئے اٹھے گا ۔ بےیارو مددگار رہ گئے ۔ ثمودیوں کی بھی ہم نے رہنمائی کی ۔ ہدایت کی ان پر وضاحت کر دی انہیں بھلائی کی دعوت دی ۔ اللہ کے نبی صالح علیہ السلام نے ان پر حق ظاہر کر دیا لیکن انہوں نے مخالفت اور تکذیب کی ۔ اور نبی اللہ علیہ السلام کی سچائی پر جس اونٹنی کو اللہ نے علامت بنایا تھا اس کی کوچیں کاٹ دیں ۔ پس ان پر بھی عذاب اللہ برس پڑا ۔ ایک زبردست کلیجے پھاڑ دینے والی چنگاڑ اور دل پاش پاش کر دینے والے زلزلے نے ذلت و توہین کے ساتھ ان کے کرتوتوں کا بدلہ لیا ۔ ان میں جتنے وہ لوگ تھے جنہیں اللہ کی ذات پر ایمان تھا نبیوں کی تصدیق کرتے تھے دلوں میں اللہ تعالیٰ کا خوف رکھتے تھے انہیں ہم نے بچا لیا انہیں ذرا سا بھی ضرر نہ پہنچا اور اپنے نبی علیہ السلام کے ساتھ ذلت و توہین سے اور عذاب اللہ سے نجات پالی ۔ فصلت
13 فصلت
14 فصلت
15 فصلت
16 فصلت
17 فصلت
18 فصلت
19 انسان اپنا دشمن آپ ہے یعنی ان مشرکوں سے کہو کہ ’ قیامت کے دن ان کا حشر جہنم کی طرف ہو گا اور داروغہ جہنم ان سب کو جمع کریں گے ‘ ۔ جیسے فرمان ہے «وَّنَسُوْقُ الْمُجْرِمِیْنَ اِلٰی جَہَنَّمَ وِرْدًا » ۱؎ (19-مریم:86) یعنی ’ گنہگاروں کو سخت پیاس کی حالت میں جہنم کی طرف ہانک لے جائیں گے ‘ ۔ انہیں جہنم کے کنارے کھڑا کر دیا جائے گا ۔ اور ان کے اعضاء بدن اور کان اور آنکھیں اور پوست ان کے اعمال کی گواہیاں دیں گی ۔ تمام اگلے پچھلے عیوب کھل جائیں گے ہر عضو بدن پکار اٹھے گا کہ مجھ سے اس نے یہ یہ گناہ کیا ، اس وقت یہ اپنے اعضاء کی طرف متوجہ ہو کر انہیں ملامت کریں گے ، کہ تم نے ہمارے خلاف گواہی کیوں دی ؟ وہ کہیں گے اللہ تعالیٰ کی حکم بجا آوری کے ماتحت اس نے ہمیں بولنے کی طاقت دی اور ہم نے سچ سچ کہہ سنایا ۔ وہی تو تمہارا ابتداء پیدا کرنے والا ہے اسی نے ہرچیز کو زبان عطا فرمائی ہے ۔ خالق کی مخالفت اور اس کے حکم کی خلاف ورزی کون کر سکتا ہے ؟ مسند بزار میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ مسکرائے یا ہنس دیئے پھر فرمایا : { تم میری ہنسی کی وجہ دریافت نہیں کرتے } ؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا ” فرمایئے کیا وجہ ہے “ ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { قیامت کے دن بندہ اپنے رب سے جھگڑے گا ۔ کہے گا کہ ” اے اللہ ! کیا تیرا وعدہ نہیں کہ تو ظلم نہ کرے گا “ ؟ اللہ تعالیٰ اقرار کرے گا تو بندہ کہے گا کہ ” میں تو اپنی بد اعمالیوں پر کسی کی شہادت قبول نہیں کرتا “ ۔ اللہ فرمائے گا ’ کیا میری اور میرے بزرگ فرشتوں کی شہادت ناکافی ہے ‘ ؟ لیکن پھر بھی وہ باربار اپنی ہی کہتا چلا جائے گا ۔ پس اتمام حجت کیلئے اس کی زبان بند کر دی جائے گی اور اس کے اعضاء بدن سے کہا جائے گا کہ اس نے جو جو کیا تھا اس کی گواہی تم دو ۔ جب وہ صاف صاف اور سچی گواہی دے دیں گے تو یہ انہیں ملامت کرے گا اور کہے گا کہ ” میں تو تمہارے ہی بچاؤ کیلئے لڑ جھگڑ رہا تھا “ } } ۔۱؎ (صحیح مسلم:2969) ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” کافر و منافق کو حساب کیلئے بلایا جائے گا اس کے اعمال اس کے سامنے پیش ہوں گے تو قسمیں کھا کھا کر انکار کرے گا اور کہے گا اے اللہ تیرے فرشتوں نے وہ لکھ لیا ہے جو میں نے ہرگز نہیں کیا فرشتے کہیں گے فلاں دن فلاں جگہ تو نے فلاں عمل نہیں کیا ؟ یہ کہے گا اے اللہ تیری عزت کی قسم میں نے ہرگز نہیں کیا ۔ اب منہ پر مہر مار دی جائے گی اور اعضاء بدن گواہی دیں گے سب سے پہلے اس کی داہنی ران بولے گی “ ۔ (ابن ابی حاتم) ابو یعلیٰ میں { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں قیامت کے دن کافر کے سامنے اس کی بداعمالیاں لائی جائیں گی تو وہ انکار کرے گا اور جھگڑنے لگے گا ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’ یہ ہیں تیرے پڑوسی جو شاہد ہیں ‘ ۔ یہ کہے گا سب جھوٹے ہیں ۔ فرمائے گا ’ یہ ہیں تیرے کنبے قبیلے والے جو گواہ ہیں ‘ ۔ کہے گا یہ بھی سب جھوٹے ہیں ۔ اللہ ان سے قسم دلوائے گا ، وہ قسم کھائیں گے لیکن یہ انکار ہی کرے گا ۔ سب کو اللہ چپ کرا دے گا اور خود ان کی زبانیں ان کے خلاف گواہی دیں گی پھر انہیں جہنم واصل کر دیا جائے گا } ۔ ابن ابی حاتم میں ہے ابن عباس فرماتے ہیں ” قیامت کے دن ایک وقت تو وہ ہو گا کہ نہ کسی کو بولنے کی اجازت ہو گی نہ عذر معذرت کرنے کی ۔ پھر جب اجازت دی جائے گی تو بولنے لگیں گے اور جھگڑے کریں گے اور انکار کریں گے اور جھوٹی قسمیں کھائیں گے ۔ پھر گواہوں کو لایا جائے گا آخر زبانیں بند ہو جائیں گی اور خود اعضاء بدن ہاتھ پاؤں وغیرہ گواہی دیں گے ۔ پھر زبانیں کھول دی جائیں گی تو اپنے اعضاء بدن کو ملامت کریں گے وہ جواب دیں گے کہ ہمیں اللہ نے قوت گویائی دی اور ہم نے صحیح صحیح کہا پس زبانی اقرار بھی ہو جائے گا “ ۔ ابن ابی حاتم میں رافع ابوالحسن رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ ” اپنے کرتوت کے انکار پر زبان اتنی موٹی ہو جائے گی کہ بولا نہ جائے گا ۔ پھر جسم کے اعضاء کو حکم ہو گا تم بولو تو ہر ایک اپنا اپنا عمل بتا دے گا کان ، آنکھ ، کھال ، شرمگاہ ، ہاتھ ، پاؤں وغیرہ “ ۔ اور بھی اسی طرح کی بہت سی روایتیں سورۃ یٰسین کی آیت «اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰٓی اَفْوَاہِہِمْ وَتُکَلِّمُنَآ اَیْدِیْہِمْ وَتَشْہَدُ اَرْجُلُہُمْ بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ» ۱؎ (36-یس:65) ، کی تفسیر میں گزر چکی ہے ۔ جنہیں دوبارہ وارد کرنے کی ضرورت نہیں ۔ ابن ابی حاتم میں ہے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” جب ہم سمندر کی ہجرت سے واپس آئے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن ہم سے پوچھا { تم نے حبشہ کی سر زمین پر کوئی تعجب خیز بات دیکھی ہو تو سناؤ } ۔ اس پر ایک نوجوان نے کہا ایک مرتبہ ہم وہاں بیٹھے ہوئے تھے ۔ ان کے علماء کی ایک بڑھیا عورت ایک پانی کا گھڑا سر پر لیے ہوئے آ رہی تھی انہی میں سے ایک جوان نے اسے دھکا دیا جس سے وہ گر پڑی اور گھڑا ٹوٹ گیا ۔ وہ اٹھی اور اس شخص کی طرف دیکھ کر کہنے لگی مکار تجھے اس کا حال اس وقت معلوم ہو گا جبکہ اللہ تعالیٰ اپنی کرسی سجائے گا اور سب اگلے پچھلوں کو جمع کرے گا اور ہاتھ پاؤں گواہیاں دیں گے ۔ اور ایک ایک عمل کھل جائے گا اس وقت تیرا اور میرا فیصلہ بھی ہو جائے گا ۔ یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے { اس نے سچ کہا اس نے سچ کہا اس قوم کو اللہ تعالیٰ کس طرح پاک کرے جس میں زور آور سے کمزور کا بدلہ نہ لیا جائے ؟ } ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:18457:) یہ حدیث اس سند سے غریب ہے ۔ ابن ابی الدنیا میں یہی روایت دوسری سند سے بھی مروی ہے ، جب یہ اپنے اعضاء کو ملامت کریں گے تو اعضاء جواب دیتے ہوئے یہ بھی کہیں گے کہ تمہارے اعمال دراصل کچھ پوشیدہ نہ تھے اللہ کے دیکھتے ہوئے اس کے سامنے تم کفر و معاصی میں مستغرق رہتے تھے اور کچھ پرواہ نہیں کرتے تھے ۔ کیونکہ تم سمجھے ہوئے تھے کہ ہمارے بہت سے اعمال اس سے مخفی ہیں ، اسی فاسد خیال نے تمہیں تلف اور برباد کر دیا اور آج کے دن تم برباد ہو گئے ۔ مسلم ترمذی وغیرہ میں سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ { میں کعبتہ اللہ کے پردے میں چھپا ہوا تھا جو تین شخص آئے بڑے پیٹ اور کم عقل والے ایک نے کہا کیوں جی ہم جو بولتے چالتے ہیں اسے اللہ سنتا ہے ؟ دوسرے نے جواب دیا اگر اونچی آواز سے بولیں تو تو سنتا ہے اور آہستہ آواز سے باتیں کریں تو نہیں سنتا ۔ دوسرے نے کہا اگر کچھ سنتا ہے تو سب سنتا ہو گا ۔ میں نے آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ واقعہ بیان کیا اس پر آیت «وَمَا کُنْتُمْ تَسْـتَتِرُوْنَ اَنْ یَّشْہَدَ عَلَیْکُمْ سَمْعُکُمْ وَلَآ اَبْصَارُکُمْ وَلَا جُلُوْدُکُمْ وَلٰکِنْ ظَنَنْتُمْ اَنَّ اللّٰہَ لَا یَعْلَمُ کَثِیْرًا مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ» ۱؎ (41-فصلت:22) ، نازل ہوئی } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4817) مسند عبد الرزق میں ہے { منہ بند ہونے کے بعد سب سے پہلے پاؤں اور ہاتھ بولیں گے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { جناب باری عزاسمہ کا ارشاد ہے کہ ’ میرے ساتھ میرا بندہ جو گمان کرتا ہے میں اس کے ساتھ وہی معاملہ کرتا ہوں اور جب وہ مجھے پکارتا ہے میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں ‘ } ۔ حسن رحمہ اللہ اتنا فرما کر کچھ تامل کر کے فرمانے لگے ” جس کا جیسا گمان اللہ کے ساتھ ہوتا نیک ظن ہوتا ہے وہ اعمال بھی اچھے کرتا ہے اور کافر و منافق چونکہ اللہ کے ساتھ بدظن ہوتے ہیں وہ اعمال بھی بد کرتے ہیں ۔ پھر آپ رحمہ اللہ نے یہی آیت تلاوت فرمائی “ ۔۱؎ (نسائی فی السنن الکبری:11469:حسن) مسند احمد کی مرفوع حدیث میں ہے { تم میں سے کوئی شخص نہ مرے مگر اس حالت میں کہ وہ اللہ کے ساتھ نیک ظن ہو ۔ جن لوگوں نے اللہ کے ساتھ برے خیالات رکھے اللہ نے انہیں تہ و بالا کر دیا ۔ پھر یہی آیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھی } ۔ ۱؎ (مسند احمد:390/3:حدیث صحیح وہذا اسناد ضعیف) آگ جہنم میں صبر سے پڑے رہنا اور بے صبری کرنا ان کیلئے یکساں ہے ۔ نہ ان کی عذر معذرت مقبول نہ ان کے گناہ معاف ۔ یہ دنیا کی طرف اگر لوٹنا چاہیں تو وہ راہ بھی بند جیسے اور جگہ ہے«قَالُوا رَبَّنَا غَلَبَتْ عَلَیْنَا شِقْوَتُنَا وَکُنَّا قَوْمًا ضَالِّینَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْہَا فَإِنْ عُدْنَا فَإِنَّا ظَالِمُونَ قَالَ اخْسَئُوا فِیہَا وَلَا تُکَلِّمُونِ» (23-المؤمنون:106-108) ’ جہنمی کہیں گے اے اللہ ہم پر ہماری بدبختی چھا گئی ۔ یقیناً ہم بے راہ تھے ۔ اے اللہ اب تو یہاں سے نجات دے ۔ اگر ایسا کریں تو پھر ہمیں ہمارے ظلم کی سزا دینا ‘ ۔ لیکن جناب باری کی طرف سے جواب آئے گا کہ ’ اب یہ منصوبے بےسود ہیں ۔ دھتکارے ہوئے یہیں پڑے رہو خبردار جو مجھ سے بات کی ‘ ۔ فصلت
20 فصلت
21 فصلت
22 فصلت
23 فصلت
24 فصلت
25 آداب قرآن حکیم اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ ’ مشرکین کو اس نے گمراہ کر دیا ہے اور یہ اس کی مشیت اور قدرت سے ہے ۔ وہ اپنے تمام افعال میں حکمت والا ہے ۔ اس نے کچھ جن و انس ایسے ان کے ساتھ کر دیئے تھے ۔ جنہوں نے ان کے بداعمال انہیں اچھی صورت میں دکھائے ۔ انہوں نے سمجھ لیا کہ دور ماضی کے لحاظ سے اور آئندہ آنے والے زمانے کے لحاظ سے بھی ان کے اعمال اچھے ہی ہیں ‘ ۔ جیسے اور آیتیں ہے «وَمَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِکْرِ الرَّحْمٰنِ نُـقَیِّضْ لَہٗ شَیْطٰنًا فَہُوَ لَہٗ قَرِیْنٌ وَإِنَّہُمْ لَیَصُدٰونَہُمْ عَنِ السَّبِیلِ وَیَحْسَبُونَ أَنَّہُم مٰہْتَدُونَ» ۱؎ (43-الزخرف:36-37) ، ان پر کلمہ عذاب صادق آ گیا ۔ جیسے ان لوگوں پر جو ان سے پہلے جیسے تھے ۔ نقصان اور گھاٹے میں یہ اور وہ یکساں ہو گئے ، کفار نے آپس میں مشورہ کر کے اس پر اتفاق کر لیا ہے کہ وہ کلام اللہ کو نہیں مانیں گے نہ ہی اس کے احکام کی پیروی کریں گے ۔ بلکہ ایک دوسرے سے کہہ رکھا ہے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو شور و غل کرو اور اسے نہ سنو ۔ تالیاں بجاؤ سیٹیاں بجاؤ آوازیں نکالو ۔ چنانچہ قریشی یہی کرتے تھے ۔ عیب جوئی کرتے تھے انکار کرتے تھے ۔ دشمنی کرتے تھے اور اسے اپنے غلبہ کا باعث جانتے تھے ۔ یہی حال ہر جاہل کافر کا ہے کہ اسے قرآن کا سننا اچھا نہیں لگتا ۔ اسی لیے اس کے برخلاف اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو حکم فرمایا «اِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ» ۱؎ (7-الأعراف:204) ۔ ’ جب قرآن پڑھا جائے تو تم سنو اور چب رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے ‘ ، ان کافروں کو دھمکایا جا رہا ہے کہ قرآن کریم سے مخالفت کرنے کی بناء پر انہیں سخت سزا دی جائے گی ۔ اور ان کی بدعملی کا مزہ انہیں ضرور چکھایا جائے گا ، ان اللہ کے دشمنوں کا بدلہ دوزخ کی آگ ہے ۔ جس میں ان کیلئے ہمیشہ کا گھر ہے ۔ یہ اس کا بدلہ ہے جو وہ اللہ کی آیات کا انکار کرتے تھے ۔ اس کے بعد آیت کا مطلب سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ” جن سے مراد ابلیس اور انس سے مراد آدم علیہ السلام کا وہ لڑکا ہے جس نے اپنے بھائی کو مار ڈالا تھا ۔ اور روایت میں ہے کہ ابلیس تو ہر مشرک کو پکارے گا ۔ اور آدم کا یہ لڑکا ہر کبیرہ گناہ کرنے والے کو پکارے گا ۔ پس ابلیس شرک کی طرف اور تمام گناہوں کی طرف لوگوں کو دعوت دینے والا ہے اور اول رسول آدم کا یہ لڑکا جو اپنے بھائی کا قاتل ہے “ ۔ چنانچہ حدیث میں ہے { روئے زمین پر جو قتل ناحق ہوتا ہے اس کا گناہ آدم کے اس پہلے فرزند پر بھی ہوتا ہے کیونکہ قتل بیجا کا شروع کرنے والا یہ ہے } ۔۱؎ (صحیح بخاری:3335) پس کفار قیامت کے دن جن و انس جو انہیں گمراہ کرنے والے تھے انہیں نیچے کے طبقے میں داخل کرانا چاہیں گے تا کہ انہیں سخت عذاب ہوں ۔ وہ درک اسفل میں چلے جائیں اور ان سے زیادہ سزا بھگتیں ۔ سورۃ الاعراف میں بھی یہ بیان گزر چکا ہے کہ یہ ماننے والے جن کی مانتے تھے ان کیلئے قیامت کے دن دوہرے عذاب کی درخواست کریں گے جس پر کہا جائے گا کہ «قَالَ لِکُلٍّ ضِعْفٌ وَلٰکِن لَّا تَعْلَمُونَ» ۱؎ (7-الأعراف:38) ’ ہر ایک دوگنے عذاب میں ہی ہے ، لیکن تم بے شعور ہو ‘ ۔ یعنی ہر ایک کو اس کے اعمال کے مطابق سزا ہو رہی ہے ۔ جیسے اور آیت میں ہے «الَّذِینَ کَفَرُوا وَصَدٰوا عَن سَبِیلِ اللہِ زِدْنَاہُمْ عَذَابًا فَوْقَ الْعَذَابِ بِمَا کَانُوا یُفْسِدُونَ» ۱؎ (16-النحل:88) ۔ یعنی ’ جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کی راہ سے روکا انہیں ہم ان کے فساد کی وجہ سے عذاب پر عذاب دیں گے ‘ ۔ فصلت
26 فصلت
27 فصلت
28 فصلت
29 فصلت
30 اسقامت اور اس کا انجام جن لوگوں نے زبانی اللہ تعالیٰ کے رب ہونے کا یعنی اس کی توحید کا اقرار کیا ۔ پھر اس پر جمے رہے یعنی فرمان الٰہی کے ماتحت اپنی زندگی گزاری ۔ چنانچہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت فرما کر وضاحت کی کہ بہت لوگوں نے اللہ کے رب ہونے کا اقرار کر کے پھر کفر کر لیا ۔ جو مرتے دم تک اس بات پر جما رہا وہ ہے جس نے اس پر استقامت کی } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3250،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے سامنے جب اس آیت کی تلاوت ہوئی تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” اس سے مراد کلمہ پڑھ کر پھر کبھی بھی شرک نہ کرنے والے ہیں ۔ “ ایک روایت میں ہے کہ خلیفتہ المسلمین رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ لوگوں سے اس آیت کی تفسیر پوچھی تو انہوں نے کہا کہ استقامت سے مراد گناہ نہ کرنا ہے آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” تم نے اسے غلط سمجھایا ۔ اس سے مراد اللہ کی الوہیت کا اقرار کر کے پھر دوسرے کی طرف کبھی بھی التفات نہ کرنا ہے “ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سوال ہوتا ہے کہ قرآن میں حکم اور جزا کے لحاظ سے سب سے زیادہ آسان آیت کون سی ہے ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے اس آیت کی تلاوت کی کہ ” توحید اللہ پر تا عمر قائم رہنا “ ۔ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے منبر پر اس آیت کی تلاوت کر کے فرمایا ” واللہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کی اطاعت پر جم جاتے ہیں اور لومڑی کی چال نہیں چلتے کہ کبھی ادھر کبھی ادھر “ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” فرائض اللہ کی ادائیگی کرتے ہیں “ ۔ قتادہ رحمہ اللہ یہ دعا مانگا کرتے تھے «اَللَّہُمَّ اَنْتَ رَبٰنـَا فَارْزُقْـنَا الْاِسْتِقَامَۃَ» یعنی ” اے اللہ تو ہمارا رب ہے ہمیں استقامت اور پختگی عطا فرما “ ۔ استقامت سے مراد دین اور عمل کا خلوص ابوالعالیہ رحمہ اللہ نے کہا ہے { ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ مجھے اسلام کا کوئی ایسا امر بتلائیے کہ پھر کسی سے دریافت کرنے کی ضرورت نہ رہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { زبان سے اقرار کر کہ میں اللہ پر ایمان لایا اور پھر اس پر جم جا } ۔ اس نے پھر پوچھا اچھا یہ تو عمل ہوا اب بچوں کس چیز سے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبان کی طرف اشارہ فرمایا } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:38) امام ترمذی رحمہ اللہ اسے حسن صحیح بتلاتے ہیں ۔ ان کے پاس ان کی موت کے وقت فرشتے آتے ہیں اور انہیں بشارتیں سناتے ہیں کہ تم اب آخرت کی منزل کی طرف جا رہے ہو بے خوف رہو تم پر وہاں کوئی کھٹکا نہیں ۔ تم اپنے پیچھے جو دنیا چھوڑے جا رہے ہو اس پر بھی کوئی غم و رنج نہ کرو ۔ تمہارے اہل و عیال ، مال و متاع کی دین و دیانت کی حفاظت ہمارے ذمے ہے ۔ ہم تمہارے خلیفہ ہیں ۔ تمہیں ہم خوشخبری سناتے ہیں کہ تم جنتی ہو تمہیں سچا اور صحیح وعدہ دیا گیا تھا وہ پورا ہو کر رہے گا ۔ پس وہ اپنے انتقال کے وقت خوش خوش جاتے ہیں کہ تمام برائیوں سے بچے اور تمام بھلائیاں حاصل ہوئیں ۔ حدیث میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { مومن کی روح سے فرشتے کہتے ہیں اے پاک روح جو پاک جسم میں تھی چل اللہ کی بخشش انعام اور اس کی نعمت کی طرف ۔ چل اس اللہ کے پاس جو تجھ پر ناراض نہیں } } ۔۱؎ (مسند احمد:287/4:صحیح) یہ بھی مروی ہے کہ جب مسلمان اپنی قبروں سے اٹھیں گے اسی وقت فرشتے ان کے پاس آئیں گے اور انہیں بشارتیں سنائیں گے ۔ حضرت ثابت رحمہ اللہ جب اس سورت کو پڑھتے ہوئے اس آیت تک پہنچے تو ٹھہر گئے اور فرمایا ” ہمیں یہ خبر ملی ہے کہ مومن بندہ جب قبر سے اٹھے گا تو وہ دو فرشتے جو دنیا میں اس کے ساتھ تھے اس کے پاس آتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں ڈر نہیں گھبرا نہیں غمگین نہ ہو تو جنتی ہے خوش ہو جا تجھ سے اللہ کے جو وعدے تھے پورے ہوں گے “ ۔ غرض خوف امن سے بدل جائے گا آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی دل مطمئن ہو جائے گا ۔ قیامت کا تمام خوف دہشت اور وحشت دور ہو جائے گی ۔ اعمال صالحہ کا بدلہ اپنی آنکھوں دیکھے گا اور خوش ہو گا ۔ الحاصل موت کے وقت قبر میں اور قبر سے اٹھتے ہوئے ہر وقت ملائکہ رحمت اس کے ساتھ رہیں گے اور ہر وقت بشارتیں سناتے رہیں گے ، ان سے فرشتے یہ بھی کہیں گے کہ زندگانی دنیا میں بھی ہم تمہارے رفیق و ولی تھے تمہیں نیکی کی راہ سمجھاتے تھے خیر کی رہنمائی کرتے تھے ۔ تمہاری حفاظت کرتے رہتے تھے ، ٹھیک اسی طرح آخرت میں بھی ہم تمہارے ساتھ رہیں گے تمہاری وحشت و دہشت دور کرتے رہیں گے قبر میں ، حشر میں ، میدان قیامت میں ، پل صراط پر ، غرض ہر جگہ ہم تمہارے رفیق اور دوست اور ساتھی ہیں ۔ نعمتوں والی جنتوں میں پہنچا دینے تک تم سے الگ نہ ہوں گے وہاں جو تم چاہو گے ملے گا ۔ جو خواہش ہو گی پوری ہو گی ، یہ مہمانی یہ عطا یہ انعام یہ ضیافت اس اللہ کی طرف سے ہے جو بخشنے والا اور مہربانی کرنے والا ہے ۔ اس کا لطف و رحم اس کی بخشش اور کرم بہت وسیع ہے ۔ سیدنا سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ملاقات ہوتی ہے تو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں { اللہ تعالیٰ ہم دونوں کو جنت کے بازار میں ملائے “ ۔ اس پر سعید رضی اللہ عنہ نے پوچھا ” کیا جنت میں بھی بازار ہوں گے ؟ “ فرمایا ” ہاں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ جنتی جب جنت میں جائیں گے اور اپنے اپنے مراتب کے مطابق درجے پائیں گے تو دنیا کے اندازے سے جمعہ والے دن انہیں ایک جگہ جمع ہونے کی اجازت ملے گی ۔ جب سب جمع ہو جائیں گے تو اللہ تعالیٰ ان پر تجلی فرمائے گا اس کا عرش ظاہر ہو گا ۔ وہ سب جنت کے باغیچے میں نور لولو یاقوت زبرجد اور سونے چاندی کے منبروں پر بیٹھیں گے ، جو نیکیوں کے اعتبار سے کم درجے کے ہیں لیکن جنتی ہونے کے اعتبار سے کوئی کسی سے کمتر نہیں وہ مشک اور کافور کے ٹیلوں پر ہوں گے لیکن اپنی جگہ اتنے خوش ہوں گے کہ کرسی والوں کو اپنے سے افضل مجلس میں نہیں جانتے ہوں گے “ ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ کیا ہم اپنے رب کو دیکھیں گے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ہاں ہاں دیکھو گے ۔ آدھے دن کے سورج اور چودہویں رات کے چاند کو جس طرح صاف دیکھتے ہو اسی طرح اللہ تعالیٰ کو دیکھو گے ۔ اس مجلس میں ایک ایک سے اللہ تبارک و تعالیٰ بات چیت کرے گا یہاں تک کہ کسی سے فرمائے گا ’ یاد ہے فلاں دن تم نے فلاں کا خلاف کیا تھا ؟ ‘ ،وہ کہے گا کیوں جناب باری تو تو وہ خطا معاف فرما چکا تھا پھر اس کا کیا ذکر ؟ کہے گا ہ’ اں ٹھیک ہے اسی میری مغفرت کی وسعت کی وجہ سے ہی تو اس درجے پر پہنچا ‘ ۔ یہ اسی حالت میں ہوں گے کہ انہیں ایک ابر ڈھانپ لے گا اور اس سے ایسی خوشبو برسے گی کہ کبھی کسی نے نہیں سونگھی تھی ۔ پھر رب العالمین عزوجل فرمائے گا کہ ’ اٹھو اور میں نے جو انعام و اکرام تمہارے لیے تیار کر رکھے ہیں انہیں لو ‘ ۔ پھر یہ سب ایک بازار میں پہنچیں گے جسے چاروں طرف سے فرشتے گھیرے ہوئے ہوں گے وہاں وہ چیزیں دیکھیں گے جو نہ کبھی دیکھی تھیں نہ سنی تھیں نہ کبھی خیال میں گزری تھیں ۔ جو شخص جو چیز چاہے گا لے لے گا خرید فروخت وہاں نہ ہو گی ۔ بلکہ انعام ہو گا ۔ وہاں تمام اہل جنت ایک دوسرے سے ملاقات کریں گے ایک کم درجے کا جنتی اعلیٰ درجے کے جنتی سے ملاقات کرے گا تو اس کے لباس وغیرہ کو دیکھ کر جی میں خیال کرے گا وہیں اپنے جسم کی طرف دیکھے گا کہ اس سے بھی اچھے کپڑے اس کے ہیں ۔ کیونکہ وہاں کسی کو کوئی رنج و غم نہ ہو گا ۔ اب ہم سب لوٹ کر اپنی اپنی منزلوں میں جائیں گے وہاں ہماری بیویاں ہمیں مرحبا کہیں گے اور کہیں گی کہ جس وقت آپ یہاں سے گئے تب یہ تروتازگی اور یہ نورانیت آپ میں نہ تھی لیکن اس وقت تو جمال و خوبی اور خوشبو اور تازگی بہت ہی بڑھی ہوئی ہے ۔ یہ جواب دیں گے کہ ہاں ٹھیک ہے ہم آج اللہ تعالیٰ کی مجلس میں تھے اور یقیناً ہم بہت ہی بڑھ چڑھ گئے } } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2549،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) مسند احمد میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { جو اللہ کی ملاقات کو پسند کرے اللہ بھی اس سے ملنے کو چاہتا ہے اور جو اللہ کی ملاقات کو برا جانے اللہ بھی اس کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے } ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم تو موت کو مکروہ جانتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اس سے مراد موت کی کراہیت نہیں بلکہ مومن کی سکرات کے وقت اس کے پاس اللہ کی طرف سے خوشخبری آتی ہے جسے سن کر اس کے نزدیک اللہ کی ملاقات سے زیاہ محبوب چیز کوئی نہیں رہتی ۔ پس اللہ بھی اس کی ملاقات پسند فرماتا ہے اور فاجر یا کافر کی سکرات کے وقت جب اسے اس برائی کی خبر دی جاتی ہے جو اسے اب پہنچنے والی ہے تو وہ اللہ کی ملاقات کو مکروہ رکھتا ہے ۔ پس اللہ بھی اس کی ملاقات کو مکروہ رکھتا ہے } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6507) یہ حدیث بالکل صحیح ہے اور اس کی بہت سی اسنادیں ہیں ۔ فصلت
31 فصلت
32 فصلت
33 اللہ تعالٰی کا محبوب انسان فرماتا ہے ’ جو اللہ کے بندوں کو اللہ کی طرف بلائے اور خود بھی نیکی کرے اسلام قبول کرے اس سے زیادہ اچھی بات اور کس کی ہو گی ؟ ‘ یہ ہے جس نے اپنے تئیں نفع پہنچایا اور خلق اللہ کو بھی اپنی ذات سے نفع پہنچایا ۔ یہ ان میں نہیں جو منہ کے بڑے باتونی ہوتے ہیں جو دوسروں کو کہتے تو ہیں مگر خود نہیں کرتے یہ تو خود بھی کرتا ہے اور دوسروں سے بھی کہتا ہے ۔ یہ آیت عام ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے اولیٰ طور پر اس کے مصداق ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کے مصداق اذان دینے والے ہیں جو نیک کار بھی ہوں ۔ چنانچہ صحیح مسلم میں ہے { قیامت کے دن مؤذن سب لوگوں سے زیادہ لمبی گردنوں والے ہوں گے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:387) سنن میں ہے { امام ضامن ہے اور مؤذن امانتدار ہے اللہ تعالیٰ اماموں کو راہ راست دکھائے اور موذنوں کو بخشے } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:517،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابن ابی حاتم میں ہے سیدنا سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” اذان دینے والوں کا حصہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک مثل جہاد کرنے والوں کے حصے کے ہے ۔ اذان و اقامت کے درمیان ان کی وہ حالت ہے جیسے کوئی جہاد میں راہ اللہ میں اپنے خون میں لوٹ پوٹ ہو رہا ہو “ ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” اگر میں مؤذن ہوتا تو پھر مجھے حج و عمرے اور جہاد کی اتنی زیادہ پروانہ نہ رہتی “ ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے { اگر میں مؤذن ہوتا تو میری آرزو پوری ہو جاتی ۔ اور میں رات کے نفلی قیام کی اور دن کے نفلی روزوں کی اس قدر تگ ودو نہ کرتا ۔ میں نے سنا ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار موذنوں کی بخشش کی دعا مانگی ۔ اس پر میں نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعا میں ہمیں یاد نہ فرمایا حالانکہ ہم اذان کہنے پر تلواریں تان لیتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ہاں ! لیکن اے عمر ! ایسا زمانہ بھی آنے والا ہے کہ مؤذنی غریب مسکین لوگوں تک رہ جائے گا ۔ سنو عمر جن لوگوں کا گوشت پوست جہنم پر حرام ہے ان میں مؤذن ہیں } } ۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں { اس آیت میں بھی موذنوں کی تعریف ہے اس کا «حَیَّ عَلَی الصَّلوٰۃِ» کہنا اللہ کی طرف بلانا ہے } ۔ ۱؎ (ضعیف) سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ اور عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” یہ آیت مؤذنوں کے بارے میں اتری ہے اور یہ جو فرمایا کہ وہ عمل صالح کرتا ہے اس سے مراد اذان و تکبیر کے درمیان دو رکعت پڑھنا ہے “ ۔ جیسے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے { دو اذانوں کے درمیان نماز ہے دو اذانوں کے درمیان نماز ہے دو اذانوں کے درمیان نماز ہے جو چاہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:624) ایک حدیث میں ہے کہ { اذان و اقامت کے درمیان کی دعا رد نہیں ہوتی } ۔۱؎ (سنن ابوداود:521،قال الشیخ الألبانی:صحیح) صحیح بات یہ ہے کہ آیت اپنے عموم کے لحاظ سے مؤذن غیر مؤذن ہر اس شخص کو شامل ہے جو اللہ کی طرف دعوت دے ۔ یہ یاد رہے کہ آیت کے نازل ہونے کے وقت تو سرے سے اذان شروع ہی نہ تھی ۔ اس لیے کہ آیت مکے میں اترتی ہے اور اذان مدینے پہنچ جانے کے بعد مقرر ہوئی ہے جبکہ عبداللہ بن زید بن عبدربہ رضی اللہ عنہ نے اپنے خواب میں اذان دیتے دیکھا اور سنا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { بلال کو سکھاؤ ۔ وہ بلند آواز والے ہیں } ۔ پس صحیح بات یہی ہے کہ آیت عام ہے اس میں مؤذن بھی شامل ہیں ۔ حسن بصری رحمہ اللہ اس آیت کو پڑھ کر فرماتے ہیں ” یہی لوگ حبیب اللہ ہیں ۔ یہی اولیاء اللہ ہیں یہی سب سے زیادہ اللہ کے پسندیدہ ہیں یہی سب سے زیادہ اللہ کے محبوب ہیں کہ انہوں نے اللہ کی باتیں مان لیں پھر دوسروں سے منوانے لگے اور اپنے ماننے میں نیکیاں کرتے رہے اور اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کرتے رہے یہاں اللہ کے خلیفہ ہیں ، بھلائی اور برائی نیکی اور بدی برابر برابر نہیں بلکہ ان میں بے حد فرق ہے جو تجھ سے برائی کرے تو اس سے بھلائی کر اور اس کی برائی کو اس طرح دفع کر “ ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ ” تیرے بارے میں جو شخص اللہ کی نافرمانی کرے تو تو اس کے بارے میں اللہ کی فرمابرداری کر اس سے بڑھ کو کوئی چیز نہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’ ایسا کرنے سے تیرا جانی دشمن دلی دوست بن جائے گا ‘ ، اس وصیت پر عمل اسی سے ہو گا جو صابر ہو نفس پر اختیار رکھتا ہو اور ہو بھی نصیب دار کہ دین و دنیا کی بہتری اس کی تقدیر میں ہو “ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” ایمان والوں کو اللہ کا حکم ہے کہ وہ غصے کے وقت صبر کریں اور دوسرے کی جہالت پر اپنی بردباری کا ثبوت دیں اور دوسرے کی برائی سے در گزر کر لیں ایسے لوگ شیطانی داؤ سے محفوظ رہتے ہیں اور ان کے دشمن بھی پھر تو ان کے دوست بن جاتے ہیں “ ۔ اب شیطانی شر سے بچنے کا طریقہ بیان ہو رہا ہے کہ ’ اللہ کی طرف جھک جایا کرو اسی نے اسے یہ طاقت دے رکھی ہے کہ وہ دل میں وساوس پیدا کرے اور اسی کے اختیار میں ہے کہ وہ اس کے شر سے محفوظ رکھے ‘ ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز میں فرماتے تھے { «أَعُوذُ بِاللہِ السَّمِیعِ العَلِیم مِنَ الشَّیطانِ الرَّجِیمِ مِن ہَمْزِہِ وَنَفْثِہِ وَنَفْخِہِ ومِنْ ہَمَزَاتِ الشّیَاطِینِ وَأَعُوذَ بَکَ رَبِّی أَنْ یَحْضُرُونِ» } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:775،قال الشیخ الألبانی:صحیح) پہلے ہم بیان کر چکے ہیں کہ اس مقام جیسا ہی مقام صرف سورۂ اعراف میں ہے جہاں ارشاد ہے «خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰہِلِیْنَ» ۱؎ (7-الأعراف:199) ، اور سورۃ مومنین کی آیت «اِدْفَعْ بالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ السَّیِّئَۃَ» ۱؎ (23-المؤمنون:96) ، میں حکم ہوا ہے کہ ’ در گزر کرنے کی عادت ڈالو اور اللہ کی پناہ میں آ جایا کرو برائی کا بدلہ بھلائی سے دیا کرو ‘ وغیرہ ۔ فصلت
34 فصلت
35 فصلت
36 فصلت
37 مخلوق کو نہیں خالق کو سجدہ کرو اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کو اپنی عظیم الشان قدرت اور بے مثال طاقت دکھاتا ہے کہ وہ جو کرنا چاہے کر ڈالتا ہے سورج چاند دن رات اس کی قدرت کاملہ کے نشانات ہیں ۔ رات کو اس کے اندھیروں سمیت دن کو اس کے اجالوں سمیت اس نے بنایا ہے ۔ کیسے یکے بعد دیگرے آتے جاتے ہیں ؟ سورج کو روشنی اور چمکتے چاند کو اور اس کی نورانیت کو دیکھ لو ان کی بھی منزلیں اور آسمان مقرر ہیں ۔ ان کے طلوع و غروب سے دن رات کا فرق ہو جاتا ہے ۔ مہینے اور برسوں کی گنتی معلوم ہو جاتی ہے جس سے عبادات معاملات اور حقوق کی باقادہ ادائیگی ہوتی ہے ۔ چونکہ آسمان و زمین میں زیادہ خوبصورت اور منور سورج اور چاند تھا اس لیے انہیں خصوصیت سے اپنا مخلوق ہونا بتایا اور فرمایا کہ«لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلہِ الَّذِی خَلَقَہُنَّ إِن کُنتُمْ إِیَّاہُ تَعْبُدُونَ» ۱؎ (41-فصلت:37) ’ اگر اللہ کے بندے ہو تو سورج چاند کے سامنے ماتھا نہ ٹیکنا اس لیے کہ وہ مخلوق ہیں اور مخلوق سجدہ کرنے کے قابل نہیں ہوتی سجدہ کئے جانے کے لائق وہ ہے جو سب کا خالق ہے ‘ ۔ پس تم اللہ کی عبادت کئے چلے جاؤ ۔ لیکن اگر تم نے اللہ کے سوا اس کی کسی مخلوق کی بھی عبادت کر لی تو تم اس کی نظروں سے گر جاؤ گے اور پھر تو وہ تمہیں کبھی نہ بخشے گا ، جو لوگ صرف اس کی عبادت نہیں کرتے بلکہ کسی اور کی بھی عبادت کر لیتے ہیں وہ یہ نہ سمجھیں کہ اللہ کے عابد وہی ہیں ۔ وہ اگر اس کی عبادت چھوڑ دیں گے تو اور کوئی اس کا عابد نہیں رہے گا ۔ نہیں نہیں اللہ ان کی عبادتوں سے محض بےپرواہ ہے اس کے فرشتے دن رات اس کی پاکیزگی کے بیان اور اس کی خالص عبادتوں میں بے تھکے اور بن اکتائے ہر وقت مغشول ہیں ۔ جیسے اور آیت میں ہے «فَإِن یَکْفُرْ بِہَا ہٰؤُلَاءِ فَقَدْ وَکَّلْنَا بِہَا قَوْمًا لَّیْسُوا بِہَا بِکَافِرِینَ» ۱؎ (6-الأنعام:89) ’ اگر یہ کفر کریں تو ہم نے ایک قوم ایسی بھی مقرر کر رکھی ہے جو کفر نہ کرے گی ‘ ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { رات دن کو سورج چاند کو اور ہوا کو برا نہ کہو یہ چیزیں بعض لوگوں کے لیے رحمت ہیں اور بعض کے لیے زحمت } ۔ ۱؎ (مسند ابویعلیٰ:2194:ضعیف) اس کی اس قدرت کی نشانی کہ وہ مردوں کو زندہ کر سکتا ہے اگر دیکھنا چاہتے ہو تو مردہ زمین کا بارش سے جی اٹھنا دیکھ لو کہ وہ خشک چٹیل اور بےگھاس پتوں کے بغیر ہوتی ہے ۔ مینہ برستے ہی کھیتیاں پھل سبزہ گھاس اور پھول وغیرہ اگ آتے ہیں اور وہ ایک عجیب انداز سے اپنے سبزے کے ساتھ لہلہانے لگتی ہے ، اسے زندہ کرنے والا ہی تمہیں بھی زندہ کرے گا ۔ یقین مانو کہ وہ جو چاہے اس کی قدرت میں ہے ۔ فصلت
38 فصلت
39 فصلت
40 عذاب و ثواب نہ ہوتا تو عمل نہ ہوتا «اِلْحَاد» کے معنی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کلام کو اس کی جگہ سے ہٹا کر دوسری جگہ رکھنے کے مروی ہیں ۔ اور قتادہ رحمہ اللہ وغیرہ سے «اِلْحَاد» کے معنی کفر و عناد ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’ ملحد لوگ ہم سے مخفی نہیں ۔ ہمارے اسماء وصفات کو ادھر ادھر کر دینے والے ہماری نگاہوں میں ہیں ۔ انہیں ہم بدترین سزائیں دیں گے ۔ سمجھ لو کہ کیا جہنم واصل ہونے والا اور تمام خطروں سے بچ رہنے والا برابر ہیں ؟ ہرگز نہیں ۔ بدکار کافرو ! جو چاہو عمل کرتے چلے جاؤ ۔ مجھ سے تمہارا کوئی عمل پوشیدہ نہیں ۔ باریک سے باریک چیز بھی میری نگاہوں سے اوجھل نہیں ‘ ۔ ذکر سے مراد بقول ضحاک سدی اور قتادہ رحمہ اللہ علیہم قرآن ہے ، وہ باعزت باتوقیر ہے اس کے مثل کسی کا کلام نہیں اس کے آگے پیچھے سے یعنی کسی طرف سے اس سے باطل مل نہیں سکتا ، یہ رب العالمین کی طرف سے نازل شدہ ہے ۔ جو اپنے اقوال و افعال میں حکیم ہے ۔ اس کے تمام تر احکام بہترین انجام والے ہیں ، ’ تجھ سے جو کچھ تیرے زمانے کے کفار کہتے ہیں یہی تجھ سے اگلے نبیوں کو ان کی کافر امتوں نے کہا تھا ۔ پس جیسے ان پیغمبروں نے صبر کیا تم بھی صبر کرو ۔ جو بھی تیرے رب کی طرف رجوع کرے وہ اس کے لیے بڑی بخششوں والا ہے اور جو اپنے کفر و ضد پر اڑا رہے مخالفت حق اور تکذیب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے باز نہ آئے اس پر وہ سخت درد ناک سزائیں کرنے والا ہے ‘ ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { اگر اللہ تعالیٰ کی بخشش اور معافی نہ ہوتی تو دنیا میں ایک متنفس جی نہیں سکتا تھا اور اگر اس کی پکڑ دکڑ عذاب سزا نہ ہوتی تو ہر شخص مطمئن ہو کر ٹیک لگا کر بے خوف ہو جاتا } ۔۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:مرسل و ضعیف) فصلت
41 فصلت
42 فصلت
43 فصلت
44 قرآن کو جھٹلانے والے جھکی ہیں قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت اس کے حکم احکام اس کے لفظی و معنوی فوائد کا بیان کر کے اس پر ایمان نہ لانے والوں کی سرکشی ضد اور عداوت کا بیان فرما رہا ہے ۔ جیسے اور آیت میں ہے «وَلَوْ نَزَّلْنَاہُ عَلَیٰ بَعْضِ الْأَعْجَمِینَ فَقَرَأَہُ عَلَیْہِم مَّا کَانُوا بِہِ مُؤْمِنِینَ » ۱؎ (26-الشعراء:198،199) مطلب یہ ہے کہ نہ ماننے کے بیسیوں حیلے ہیں نہ یوں چین نہ ووں چین ۔ اگر قرآن کسی عجمی زبان میں اترتا تو بہانہ کرتے کہ ہم تو اسے صاف صاف سمجھ نہیں سکتے ۔ مخاطب جب عربی زبان کے ہیں تو ان پر جو کتاب اترتی ہے وہ غیر عربی زبان میں کیوں اتر رہی ہے ؟ اور اگر کچھ عربی میں ہوتی اور کچھ دوسری زبان میں تو بھی ان کا یہی اعتراض ہوتا کہ اس کی کیا وجہ ؟ حسن بصری رحمہ اللہ کی قرأت «اَعْجَمِیٌّ» ہے ۔ سعید بن جبیر رحمہ اللہ بھی یہی مطلب بیان کرتے ہیں ۔ اس سے ان کی سرکشی معلوم ہوتی ہے ۔ پھر فرمان ہے کہ ’ یہ قرآن ایمان والوں کے دل کی ہدایت اور ان کے سینوں کی شفاء ہے ۔ ان کے تمام شک اس سے زائل ہو جاتے ہیں اور جنہیں اس پر ایمان نہیں وہ تو اسے سمجھ ہی نہیں سکتے جیسے کوئی بہرا ہو ، نہ اس کے بیان کی طرف انہیں ہدایت ہو جیسے کوئی اندھا ہو ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا ہُوَ شِفَاءٌ وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ وَلَا یَزِیْدُ الظّٰلِمِیْنَ اِلَّا خَسَارًا» ۱؎ (17-الإسراء:82) ’ ہمارا نازل کردہ یہ قرآن ایمان داروں کے لیے شفاء اور رحمت ہے ۔ ہاں ظالموں کو تو ان کا نقصان ہی بڑھاتا ہے ‘ ۔ ان کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی دور سے کسی سے کچھ کہہ رہا ہو کہ نہ اس کے کانوں تک صحیح الفاظ پہنچتے ہیں نہ وہ ٹھیک طرح مطلب سمجھتا ہے ۔ جیسے اور آیت میں ہے «وَمَثَلُ الَّذِینَ کَفَرُوا کَمَثَلِ الَّذِی یَنْعِقُ بِمَا لَا یَسْمَعُ إِلَّا دُعَاءً وَنِدَاءً صُمٌّ بُکْمٌ عُمْیٌ فَہُمْ لَا یَعْقِلُونَ» ۱؎ (2-البقرۃ:171) یعنی ، ’ کافروں کی مثال اس کی طرح ہے جو پکارتا ہے مگر آواز اور پکار کے سوا کچھ اور اس کے کان میں نہیں پڑتا ۔ بہرے گونگے اندھے ہیں پھر کیسے سمجھ لیں گے ؟ ‘ ضحاک رحمہ اللہ نے یہ مطلب بیان فرمایا ہے کہ قیامت کے دن انہیں ان کے بدترین ناموں سے پکارا جائے گا ۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ایک مسلمان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے جس کا آخری وقت تھا اس نے یکایک «لَبـَّیـْکَ» پکارا آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” کیا تجھے کوئی دیکھ رہا ہے یا کوئی پکار رہا ہے “ ؟ اس نے کہا ہاں سمندر کے اس کنارے سے کوئی بلا رہا ہے تو آپ رضی اللہ عنہ نے یہی جملہ پڑھا «اُولٰیِٕکَ یُنَادَوْنَ مِنْ مَّکَانٍ بَعِیْدٍ» ۱؎ (41-فصلت:44) ۔ (ابن ابی حاتم) پھر فرماتا ہے ہم نے موسیٰ کو کتاب دی لیکن اس میں بھی اختلاف کیا گیا ۔ انہیں بھی جھٹلایا اور ستایا گیا ۔ «فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ أُولُو الْعَزْمِ مِنَ الرٰسُلِ» ۱؎ (46-الأحقاف:35) ’ پس جیسے انہوں نے صبر کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی صبر کرنا چاہیئے ‘ ، چونکہ «وَلَوْلَا کَلِمَۃٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّکَ إِلَیٰ أَجَلٍ مٰسَمًّی» ۱؎ (42-الشوری:14) ’ پہلے ہی سے تیرے رب نے اس بات کا فیصلہ کر لیا ہے کہ ایک وقت مقرر یعنی قیامت تک عذاب رکے رہیں گے ‘ ۔ اس لیے یہ مہلت مقررہ ہے ورنہ ان کے کرتوت تو ایسے نہ تھے کہ یہ چھوڑ دیئے جائیں اور کھاتے پیتے رہیں ۔ ابھی ہی ہلاک کر دیئے جاتے ۔ یہ اپنی تکذیب میں بھی کسی یقین پر نہیں بلکہ شک میں ہی پڑے ہوئے ہیں ۔ لرز رہے ہیں ادھر ادھر ڈانواں ڈول ہو رہے ہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ فصلت
45 فصلت
46 ناکردہ گناہ سزا نہیں پاتا اس آیت کا مطلب بہت صاف ہے بھلائی کرنے والے کے اعمال کا نفع اسی کو ہوتا ہے اور برائی کرنے والے کی برائی کا وبال بھی اسی کی طرف لوٹتا ہے ۔ پروردگار کی ذات ظلم سے پاک ہے ۔ ایک کے گناہ پر دوسرے کو وہ نہیں پکڑتا ۔ ناکردہ گناہ کو وہ سزا نہیں دیتا ۔ پہلے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھیجتا ہے ۔ اپنی کتاب اتارتا ہے ، اپنی حجت تمام کرتا ہے ، اپنی باتیں پہنچا دیتا ہے ، اب بھی جو نہ مانے وہ مستحق عذاب و سزا قرار دے دیا جاتا ہے ۔ فصلت
47 علم الٰہی کی وسعتیں اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے کہ ’ قیامت کب آئے گی ؟ اس کا علم اس کے سوا اور کسی کو نہیں ‘ ۔ { تمام انسانوں کے سردار محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے جب فرشتوں کے سرداروں میں سے ایک سردار یعنی جبرائیل علیہ السلام نے قیامت کے آنے کا وقت پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ { جس سے پوچھا جاتا ہے وہ بھی پوچھنے والے سے زیادہ جاننے والا نہیں } } ۔۱؎ (صحیح بخاری:50) قرآن کریم کی ایک آیت میں ہے «اِلٰی رَبِّکَ مُنْتَہٰہَا» ۱؎ (79-النازعات:44) یعنی ’ قیامت کب ہو گی ؟ اس کے علم کا مدار تیرے رب کی طرف ہی ہے ‘ ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ جل شانہ نے اور جگہ فرمایا آیت «لَا یُجَلِّیْہَا لِوَقْتِہَآ اِلَّا ہُوَ ۂ ثَقُلَتْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لَا تَاْتِیْکُمْ اِلَّا بَغْتَۃً یَسْــــَٔـلُوْنَکَ کَاَنَّکَ حَفِیٌّ عَنْہَا قُلْ اِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ اللّٰہِ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ» ۱؎ (7-الاعراف:187) مطلب یہی ہے کہ ’ قیامت کے وقت کو اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا ‘ ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ ہر چیز کو اس اللہ کا علم گھیرے ہوئے ہے یہاں تک کہ جو پھل شگوفہ سے کھل کر نکلے ‘ ، « اللہُ یَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ کُلٰ أُنثَیٰ وَمَا تَغِیضُ الْأَرْحَامُ وَمَا تَزْدَادُ وَکُلٰ شَیْءٍ عِندَہُ بِمِقْدَارٍ» ۱؎ (13-الرعد:8) ’ جس عورت کو حمل رہے جو بچہ اسے ہو یہ سب اس کے علم میں ہے ۔ زمین و آسمان کا کوئی ذرہ اس کے وسیع علم سے باہر نہیں ‘ ۔ جیسے فرمایا آیت «لَا یَعْزُبُ عَنْہُ مِثْـقَالُ ذَرَّۃٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَلَا فِی الْاَرْضِ وَلَآ اَصْغَرُ مِنْ ذٰلِکَ وَلَآ اَکْبَرُ اِلَّا فِیْ کِتٰبٍ مٰبِیْنٍ» ۱؎ (34-سبأ:3) ایک اور آیت میں ہے «وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَۃٍ اِلَّا یَعْلَمُہَا وَلَا حَبَّۃٍ فِیْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَّلَا یَابِسٍ اِلَّا فِیْ کِتٰبٍ مٰبِیْنٍ » ۱؎ (6-الانعام:59) یعنی ’ جو پتہ جھڑتا ہے اسے بھی وہ جانتا ہے ‘ ۔ «وَ اللہُ خَلَقَکُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نٰطْفَۃٍ ثُمَّ جَعَلَکُمْ أَزْوَاجًا وَمَا تَحْمِلُ مِنْ أُنثَیٰ وَلَا تَضَعُ إِلَّا بِعِلْمِہِ وَمَا یُعَمَّرُ مِن مٰعَمَّرٍ وَلَا یُنقَصُ مِنْ عُمُرِہِ إِلَّا فِی کِتَابٍ إِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللہِ یَسِیرٌ» ۱؎ (35-فاطر:11) ’ ہر مادہ کو جو حمل رہتا ہے اور رحم جو کچھ گھٹاتے بڑھاتے رہتے ہیں اللہ خوب جانتا ہے اس کے پاس ہر چیز کا اندازہ ہے ۔ جس قدر عمریں گھٹتی بڑھتی ہیں وہ بھی کتاب میں لکھی ہوئی ہیں ایسا کوئی کام نہیں جو اللہ پر مشکل ہو ‘ ۔ قیامت والے دن مشرکوں سے تمام مخلوق کے سامنے اللہ تعالیٰ سوال کرے گا کہ ’ جنہیں تم میرے ساتھ پرستش میں شریک کرتے تھے وہ آج کہاں ہیں ؟‘ وہ جواب دیں گے کہ تو ہمارے بارے میں علم رکھتا ہے ۔ آج تو ہم میں سے کوئی بھی اس کا اقرار نہ کرے گا کہ تیرا کوئی شریک بھی ہے ، قیامت والے ان کے معبودان باطل سب گم ہو جائیں گے کوئی نظر نہ آئے گا جو انہیں نفع پہنچا سکے ۔ اور یہ خود جان لیں گے کہ آج اللہ کے عذاب سے چھٹکارے کی کوئی صورت نہیں یہاں ظن یقین کے معنی میں ہے ۔ قرآن کریم کی اور آیت میں اس مضمون کو اس طرح بیان کیا گیا ہے آیت «وَرَاَ الْمُجْرِمُوْنَ النَّارَ فَظَنٰوْٓا اَنَّہُمْ مٰوَاقِعُوْہَا وَلَمْ یَجِدُوْا عَنْہَا مَصْرِفًا » ۱؎ (18-الکہف:53) یعنی ’ گنہگار لوگ جہنم دیکھ لیں گے ۔ اور انہیں یقین ہو جائے گا کہ وہ اس میں گرنے والے ہیں اور اس سے بچنے کی کوئی راہ نہ پائیں گے ‘ ۔ فصلت
48 فصلت
49 انسان کی سرکشی کا حال اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ ’ مال صحت وغیرہ بھلائیوں کی دعاؤں سے تو انسان تھکتا ہی نہیں اور اگر اس پر کوئی بلا آ پڑے یا فقر و فاقہ کا موقعہ آ جائے تو اس قدر ہراساں اور مایوس ہو جاتا ہے کہ گویا اب کسی بھلائی کا منہ نہیں دیکھے گا ، اور اگر کسی برائی یا سختی کے بعد اسے کوئی بھلائی اور راحت مل جائے تو کہنے بیٹھ جاتا ہے کہ اللہ پر یہ تو میرا حق تھا ، میں اسی کے لائق تھا ، اب اس نعمت پر پھولتا ہے ، اللہ کو بھول جاتا ہے اور صاف منکر بن جاتا ہے ۔ قیامت کے آنے کا صاف انکار کر جاتا ہے ۔ مال و دولت راحت آرام اس کے کفر کا سبب بن جاتا ہے ‘ ۔ جیسے ایک اور آیت میں ہے «کَلَّآ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَیَطْغٰٓی أَن رَّآہُ اسْتَغْنَیٰ» ۱؎ (96-العلق:7،6) یعنی ’ انسان نے جہاں آسائش و آرام پایا وہیں اس نے سر اٹھایا اور سرکشی کی ‘ ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ اتنا ہی نہیں بلکہ اس بداعمالی پر بھلی امیدیں بھی کرتا ہے اور کہتا ہے کہ بالفرض اگر قیامت آئی بھی اور میں وہاں اکٹھا بھی کیا گیا تو جس طرح یہاں سکھ چین میں ہوں وہاں بھی ہوں گا ‘ ۔ غرض انکار قیامت بھی کرتا ہے مرنے کے بعد زندہ ہونے کو مانتا بھی نہیں اور پھر امیدیں لمبی باندھتا ہے اور کہتا ہے کہ جیسے میں یہاں ہوں ویسے ہی وہاں بھی رہوں گا ۔ پھر ان لوگوں کو ڈراتا ہے کہ ’ جن کے یہ اعمال و عقائد ہوں انہیں ہم سخت سزا دیں گے ‘ ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ جب انسان اللہ کی نعمتیں پا لیتا ہے تو اطاعت سے منہ موڑ لیتا ہے اور ماننے سے جی چراتا ہے ‘ ۔ جیسے فرمایا «فَتَوَلّٰی بِرُکْنِہٖ وَقَالَ سٰحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ» ۱؎ (51-الذاریات:39) ’ اور جب اسے کچھ نقصان پہنچتا ہے تو بڑی لمبی چوڑی دعائیں کرنے بیٹھ جاتا ہے ‘ ۔ ” عریض کلام“ اسے کہتے ہیں جس کے الفاظ بہت زیادہ ہوں اور معنی بہت کم ہوں ۔ اور جو کلام اس کے خلاف ہو یعنی الفاظ تھوڑے ہوں اور معنی زیادہ ہوں تو اسے ” وجیز کلام“ کہتے ہیں ۔ وہ بہت کم اور بہت کافی ہوتا ہے ۔ اسی مضمون کو اور جگہ اس طرح بیان کیا گیا ہے «وَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَان الضٰرٰ دَعَانَا لِجَنْبِہٖٓ اَوْ قَاعِدًا اَوْ قَایِٕمًا فَلَمَّا کَشَفْنَا عَنْہُ ضُرَّہٗ مَرَّ کَاَنْ لَّمْ یَدْعُنَآ اِلٰی ضُرٍّ مَّسَّہٗ کَذٰلِکَ زُیِّنَ لِلْمُسْرِفِیْنَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ» ۱؎ (10-یونس:12) ، ’ جب انسان کو مصیبت پہنچتی ہے تو اپنے پہلو پر لیٹ کر اور بیٹھ کر اور اکٹھے ہو کر غرض ہر وقت ہم سے مناجات کرتا رہتا ہے اور جب وہ تکلیف ہم دور کر دیتے ہیں تو اس بےپرواہی سے چلا جاتا ہے کہ گویا اس مصیبت کے وقت اس نے ہمیں پکارا ہی نہ تھا ‘ ۔ فصلت
50 فصلت
51 فصلت
52 قرآن کریم کی حقانیت کے بعض دلائل اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ ’ قرآن کے جھٹلانے والے مشرکوں سے کہہ دو کہ مان لو یہ قرآن سچ مچ اللہ ہی کی طرف سے ہے اور تم اسے جھٹلا رہے ہو تو اللہ کے ہاں تمہارا کیا حال ہو گا ؟ ‘ اس سے بڑھ کر گمراہ اور کون ہو گا جو اپنے کفر اور اپنی مخالفت کی وجہ سے راہ حق سے اور مسلک ہدایت سے بہت دور نکل گیا ہو پھر اللہ تعالیٰ عزوجل فرماتا ہے کہ ’ قرآن کریم کی حقانیت کی نشانیاں اور خصلتیں انہیں ان کے گرد و نواح میں دنیا کے چاروں طرف دکھا دیں گے ‘ ۔ مسلمانوں کو فتوحات حاصل ہوں گی وہ سلطنتوں کے سلطان بنیں گے ۔ تمام دینوں پر اس دین کو غلبہ ہو گا فتح بدر اور فتح مکہ کی نشانیاں خود ان میں موجود ہوں گی ۔ کافر لوگ تعداد اور شان و شوکت میں بہت زیادہ ہوں گے پھر بھی مٹھی بھر اہل حق انہیں زیر و زبر کر دیں گے اور ممکن ہے یہ مراد ہو کہ حکمت الٰہی کی ہزارہا نشانیاں خود انسان کے اپنے وجود میں موجود ہیں اس کی صنعت و بناوٹ اس کی ترکیب و جبلت اس کے جداگانہ اخلاق اور مختلف صورتیں اور رنگ روپ وغیرہ اس کے خالق و صانع کی بہترین یاد گاریں ہر وقت اس کے سامنے ہیں بلکہ اس کی اپنی ذات میں موجود ہیں پھر اس کا ہیر پھیر کبھی کوئی حالت کبھی کوئی حالت ۔ بچپن ، جوانی ، بڑھاپا ، بیماری ، تندرستی ، تنگی ، فراخی رنج و راحت وغیرہ اوصاف جو اس پر طاری ہوتے ہیں ۔ شیخ ابو جعفر قرشی نے اپنے اشعار میں بھی اسی مضمون کو ادا کیا ہے ۔ الغرض یہ بیرونی اور اندرونی آیات قدرت اس قدر ہیں کہ انسان اللہ کی باتوں کی حقانیت کے ماننے پر مجبور ہو جاتا ہے اللہ تعالیٰ کی گواہی بس کافی ہے وہ اپنے بندوں کے اقوال و افعال سے بخوبی واقف ہے ۔ جب وہ فرما رہا ہے کہ ’ پیغمبر صاحب صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہیں تو پھر تمہیں کیا شک ؟ ‘ جیسے ارشاد ہے آیت «و لٰکِنِ اللّٰہُ یَشْہَدُ بِمَآ اَنْزَلَ اِلَیْکَ اَنْزَلَہٗ بِعِلْمِہٖ وَالْمَلٰیِٕکَۃُ یَشْہَدُوْنَ وَکَفٰی باللّٰہِ شَہِیْدًا» ۱؎ (4-النساء:166) یعنی ’ لیکن اللہ تعالیٰ اس کتاب کے ذریعہ جس کو تمہارے پاس بھیجی ہے اور اپنے علم کے ساتھ نازل فرمائی ہے خود گواہی دے رہا ہے اور فرشتے اس کی تصدیق کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی گواہی کافی ہے ‘ ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ دراصل ان لوگوں کو قیامت کے قائم ہونے کا یقین ہی نہیں اسی لیے بے فکر ہیں نیکیوں سے غافل ہیں برائیوں سے بچتے نہیں ۔ حالانکہ اس کا آنا یقینی ہے ‘ ۔ ابن ابی الدنیا میں ہے کہ خلیفۃ المسلمین عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ منبر پر چڑھے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا ” لوگو ! میں نے تمہیں کسی نئی بات کے لیے جمع نہیں کیا بلکہ صرف اس لیے جمع کیا ہے کہ تمہیں یہ سنا دوں کہ روز جزا کے بارے میں میں نے خوب غور کیا میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اسے سچا جاننے والا احمق ہے اور اسے جھوٹا جاننے والا ہلاک ہونے والا ہے ۔ پھر آپ منبر سے اتر آئے “ ۔ آپ رحمہ اللہ کے اس فرمان کا کہ اسے سچا جاننے والا احمق ہے یہ مطلب ہے کہ سچ جانتا ہے پھر تیاری نہیں کرتا اور اس کی دل ہلا دینے والی دہشت ناک حالتوں سے غافل ہے اس سے ڈر کر وہ اعمال نہیں کرتا جو اسے اس روز کے ڈر سے امن دے سکیں پھر اپنے آپ کو اس کا سچا جاننے والا بھی کہتا ہے لہو و لعب غفلت و شہوت گناہ اور حماقت میں مبتلا ہے اور قیام قیامت کے قریب ہو رہا ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ پھر رب العالمین اپنی قدرت کاملہ کو بیان فرما رہا ہے کہ ’ ہر چیز پر اس کا احاطہٰ ہے قیام قیامت اس پر بالکل سہل ہے ، ساری مخلوق اس کے قبضے میں ہے جو چاہے کرے کوئی اس کا ہاتھ تھام نہیں سکتا جو اس نے چاہا ہوا جو چاہے گا ہو کر رہے گا اس کے سوا حقیقی حاکم کوئی نہیں ہے نہ اس کے سوا کسی اور کی ذات کی کسی قسم کی عبادت کے قابل ہے ‘ ۔ الحمدللہ سورۃ فصلت ( حم سجدہ ) کی تفسیر ختم ہوئی ۔ فصلت
53 فصلت
54 فصلت
0 الشورى
1 حم عسق کی تفسیر حروف مقطعات کی بحث پہلے گزر چکی ہے ۔ ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ نے یہاں پر ایک عجیب و غریب اثر وارد کیا ہے جو منکر ہے اس میں ہے کہ ایک شخص سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اس وقت آپ کے پاس سیدنا حذیفہرضی اللہ عنہ بن یمان بھی تھے ۔ اس نے ان حروف کی تفسیر آپ رضی اللہ عنہ سے پوچھی آپ نے ذرا سی دیر سر نیچا کر لیا پھر منہ پھیر لیا اس شخص نے دوبارہ یہی سوال کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے پھر بھی منہ پھیر لیا اور اس کے سوال کو برا جانا اس نے پھر تیسری مرتبہ پوچھا ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے پھر بھی کوئی جواب نہ دیا اس پر سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا میں تجھے بتاتا ہوں اور مجھے یہ معلوم ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ اسے کیوں ناپسند کر رہے ہیں ۔ ان کے اہل بیت میں سے ایک شخص کے بارے میں یہ نازل ہوئی ہے جسے «عبد الا لہٰ» اور عبداللہ کہا جاتا ہو گا وہ مشرق کی نہروں میں سے ایک نہر کے پاس اترے گا ۔ اور وہاں دو شہر بسائے گا نہر کو کاٹ کر دونوں شہروں میں لے جائے گا جب اللہ تعالیٰ ان کے ملک کے زوال اور ان کی دولت کا استیصال کا ارادہ کرے گا ۔ اور ان کا وقت ختم ہونے کا ہو گا تو ان دونوں شہروں میں سے ایک پر رات کے وقت آگ آئے گی جو اسے جلا کر بھسم کر دے گی وہاں کے لوگ صبح کو اسے دیکھ کر تعجب کریں گے ایسا معلوم ہو گا کہ گویا یہاں کچھ تھا ہی نہیں صبح ہی صبح وہاں تمام بڑے بڑے سرکش متکبر مخالف حق لوگ جمع ہوں گے اسی وقت اللہ تعالیٰ ان سب کو اس شہر سمیت غارت کر دے گا ۔ یہی معنی ہیں «حم عسق» کے یعنی اللہ کی طرف سے یہ عزیمت یعنی ضروری ہے یہ فتنہ قضاء کیا ہوا یعنی فیصل شدہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عین سے مراد عدل سین سے مراد ” سَِیَکوُنٌ “ یعنی یہ عنقریب ہو کر رہے گا ( ق ) سے مراد واقع ہونے والا ان دونوں شہروں میں ۔ اس سے بھی زیادہ غربت والی ایک اور روایت میں مسند حافظ ابو یعلیٰ کی دوسری جلد میں مسند سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ میں ہے جو مرفوع بھی ہے لیکن اس کی سند بالکل ضعیف ہے اور منقطع بھی ہے ۔ اس میں ہے کہ کسی نے ان حروف کی تفسیر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ جلدی سے اکھٹے ہوئے اور فرمایا ہاں میں نے سنی ہے «حم» اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے عین سے مراد «عاین المولون عذاب یوم بدر» ہے ۔ سین سے مراد «وَسَیَعْلَمُ الَّذِینَ ظَلَمُوا أَیَّ مُنقَلَبٍ یَنقَلِبُونَ» ( سورۃ الشعراء : 227 ) ( ق ) سے کیا مراد ہے اسے آپ رضی اللہ عنہ نہ بتا سکے تو سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی تفسیر کے مطابق تفسیر کی اور فرمایا ( ق ) سے مراد «قارعہ» آسمانی ہے جو تمام لوگوں کو ڈھانپ لے گا «ضعیف» ترجمہ یہ ہوا کہ بدر کے دن پیٹھ موڑ کر بھاگنے والے کفار نے عذاب کا مزہ چکھ لیا ۔ ان ظالموں کو عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ ان کا کتنا برا انجام ہوا ؟ ان پر آسمانی عذاب آئے گا جو انہیں تباہ و برباد کر دے گا پھر فرماتا ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جس طرح تم پر اس قرآن کی وحی نازل ہوئی ہے اسی طرح تم سے پہلے کے پیغمبروں پر کتابیں اور صحیفے نازل ہو چکے ہیں یہ سب اس اللہ کی طرف سے اترے ہیں جو اپنا انتقام لینے میں غالب اور زبردست ہے جو اپنے اقوال و افعال میں حکمت والا ہے ۔ سیدنا حارث بن ہشام رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ آپ پر وحی کس طرح نازل ہوتی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کبھی تو گھنٹی کی مسلسل آواز کی طرح جو مجھ پر بہت بھاری پڑتی ہے جب وہ ختم ہوتی ہے تو مجھے جو کچھ کہا گیا وہ سب یاد ہوتا ہے اور کبھی فرشتہ انسانی صورت میں میرے پاس آتا ہے مجھ سے باتیں کر جاتا ہے جو وہ کہتا ہے میں اسے یاد رکھ لیتا ہوں سیدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں سخت جاڑوں کے ایام میں بھی جب آپ پر وحی اترتی تھی تو شدت وحی سے آپ پانی پانی ہو جاتے تھے یہاں تک کہ پیشانی سے پسینہ کی بوندیں ٹپکنے لگتی تھیں ۔ (صحیح بخاری:2) مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وحی کی کیفیت پوچھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں ایک زنجیر کی سی گھڑگھڑاہٹ سنتا ہوں پھر کان لگا لیتا ہوں ایسی وحی میں مجھ پر اتنی شدت سی ہوتی ہے کہ ہر مرتبہ مجھے اپنی روح نکل جانے کا گمان ہوتا ہے ۔ (مسند احمد:222/2:حدیث صحیح و ھذا اسناد ضعیف) شرح صحیح بخاری کے شروع میں ہم کیفیت وحی پر مفصل کلام کر چکے ہیں «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» ۔ الشورى
2 الشورى
3 الشورى
4 1 پھر فرماتا ہے کہ زمین و آسمان کی تمام مخلوق اس کی غلام ہے اس کی ملکیت ہے اس کے دباؤ تلے اور اس کے سامنے عاجز و مجبور ہے«عَالِمُ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ الْکَبِیرُ الْمُتَعَالِ» ( 13-الرعد : 9 ) وہ بلندیوں والا اور بڑائیوں والا ہے وہ بہت بڑا اور بہت بلند ہے وہ اونچائی والا اور کبریائی والا ہے ۔ اس کی عظمت اور جلالت کا یہ حال ہے کہ قریب ہے آسمان پھٹ پڑیں ۔ فرشتے اس کی عظمت سے کپکپاتے ہوئے اس کی پاکی اور تعریف بیان کرتے رہتے ہیں اور زمین والوں کے لیے مغفرت طلب کرتے رہتے ہیں ۔ جیسے اور جگہ ارشاد ہے «اَلَّذِیْنَ یَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَہٗ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّہِمْ وَیُؤْمِنُوْنَ بِہٖ وَیَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ۚ رَبَّنَا وَسِعْتَ کُلَّ شَیْءٍ رَّحْمَۃً وَّعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِیْنَ تَابُوْا وَاتَّبَعُوْا سَبِیْلَکَ وَقِہِمْ عَذَابَ الْجَــحِیْمِ » ( 40- غافر : 7 ) یعنی حاملان عرش اور اس کے قرب و جوار کے فرشتے اپنے رب کی تسبیح اور حمد بیان کرتے رہتے ہیں اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان والوں کے لیے استغفار کرتے رہتے ہیں کہ اے ہمارے رب تو نے اپنی رحمت و علم سے ہر چیز کو گھیر رکھا ہے پس تو انہیں بخش دے جنہوں نے توبہ کی ہے اور تیرے راستے کے تابع ہیں انہیں عذاب جہنم سے بچا لے ۔ پھر فرمایا جان لو کہ اللہ غفور و رحیم ہے ، پھر فرماتا ہے کہ مشرکوں کے اعمال کی دیکھ بھال میں آپ کر رہا ہوں انہیں خود ہی پورا پورا بدلہ دوں گا ۔ «فَذَکِّرْ إِنَّمَا أَنتَ مُذَکِّرٌ لَّسْتَ عَلَیْہِم بِمُصَیْطِرٍ » ( 88-سورۃ الغاشیۃ : 21 ، 22 ) تیرا کام صرف انہیں آگاہ کر دینا ہے تو کچھ ان پر داروغہ نہیں ۔ الشورى
5 الشورى
6 الشورى
7 قیامت کا آنا یقینی ہے یعنی جس طرح اے نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم تم سے پہلے انبیاء پر وحی الٰہی آتی رہی تم پر بھی یہ قرآن وحی کے ذریعہ نازل کیا گیا ہے ۔ یہ عربی میں بہت واضح بالکل کھلا ہوا اور سلجھے ہوئے بیان والا ہے تاکہ تو شہر مکہ کے رہنے والوں کو احکام الٰہی اور اللہ کے عذاب سے آگاہ کر دے نیز تمام اطراف عالم کو ۔ آس پاس سے مراد مشرق و مغرب کی ہر سمت ہے مکہ شریف کو ام القرٰی اس لیے کہا گیا ہے کہ یہ تمام شہروں سے افضل و بہتر ہے اس کے دلائل بہت سے ہیں جو اپنی اپنی جگہ مذکور ہیں ہاں ! یہاں پر ایک دلیل جو مختصر بھی ہے اور صاف بھی ہے سن لیجئے ۔ ترمذی نسائی ، ابن ماجہ ، مسند احمد وغیرہ میں ہے سیدنا عبداللہ بن عدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ شریف کے بازار خزورہ میں کھڑے ہوئے فرما رہے تھے کہ اے مکہ ! قسم ہے اللہ کی تو اللہ کی ساری زمین سے اللہ کے نزدیک زیادہ محبوب اور زیادہ افضل ہے اگر میں تجھ میں سے نہ نکالا جاتا تو قسم ہے اللہ کی ہرگز تجھے نہ چھوڑتا ۔ امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ اس حدیث کو حسن صحیح فرماتے ہیں (مسند احمد:305/4:صحیح) اور اس لیے کہ تو قیامت کے دن سے سب کو ڈرا دے جس دن تمام اول و آخر زمانے کے لوگ ایک میدان میں جمع ہوں گے ۔ جس دن کے آنے میں کوئی شک و شبہ نہیں جس دن کچھ لوگ جنتی ہوں گے اور کچھ جہنمی یہ وہ دن ہو گا کہ جنتی نفع میں رہیں گے اور جہنمی گھاٹے میں ۔ دوسری آیت میں فرمایا گیا ہے «ذٰلِکَ یَوْمٌ مَّجْمُوْعٌ ۙ لَّہُ النَّاسُ وَذٰلِکَ یَوْمٌ مَّشْہُوْدٌ وَمَا نُؤَخِّرُہُ إِلَّا لِأَجَلٍ مَّعْدُودٍ یَوْمَ یَأْتِ لَا تَکَلَّمُ نَفْسٌ إِلَّا بِإِذْنِہِ ۚ فَمِنْہُمْ شَقِیٌّ وَسَعِیدٌ » ( 11-ھود : 105-103 ) یعنی ان واقعات میں اس شخص کے لیے بڑی عبرت ہے جو آخرت کے عذاب سے ڈرتا ہو آخرت کا وہ دن ہے جس میں تمام لوگ جمع کئے جائیں گے اور وہ سب کی حاضری کا دن ہے ۔ ہم تو اسے تھوڑی سی مدت معلوم کے لیے مؤخر کئے ہوئے ہیں ۔ اس دن کوئی شخص بغیر اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بات تک نہ کر سکے گا ان میں سے بعض تو بدقسمت ہوں گے اور بعض خوش نصیب ۔ مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس ایک مرتبہ دو کتابیں اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر آئے اور ہم سے پوچھا جانتے ہو یہ کیا ہے ؟ ہم نے کہا ہمیں تو خبر نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمائیے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی داہنے ہاتھ کی کتاب کی طرف اشارہ کر کے فرمایا یہ رب العالمین کی کتاب ہے جس میں جنتیوں کے نام ہیں مع ان کے والد اور ان کے قبیلہ کے نام کے اور آخر میں حساب کر کے میزان لگا دی گئی ہے اب ان میں نہ ایک بڑھے نہ ایک گھٹے ۔ پھر اپنے بائیں ہاتھ کی کتاب کی طرف اشارہ کر کے فرمایا یہ جہنمیوں کے ناموں کا رجسٹر ہے ان کے نام ان کی ولدیت اور ان کی قوم سب اس میں لکھی ہوئی ہے پھر آخر میں میزان لگا دی گئی ہے ان میں بھی کمی بیشی ناممکن ہے ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا پھر ہمیں عمل کی کیا ضرورت ؟ جب کہ سب لکھا جا چکا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ٹھیک ٹھاک رہو بھلائی کی نزدیکی لیے رہو ۔ اہل جنت کا خاتمہ نیکیوں اور بھلے اعمال پر ہی ہو گا گو وہ کیسے ہی اعمال کرتا ہو اور نار کا خاتمہ جہنمی اعمال پر ہی ہو گا گو وہ کیسے ہی کاموں کا مرتکب رہا ہو ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دونوں مٹھیاں بند کر لیں اور فرمایا تمہارا رب عزوجل بندوں کے فیصلوں سے فراغت حاصل کر چکا ہے ایک فرقہ جنت میں ہے اور ایک جہنم میں اس کے ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دائیں بائیں ہاتھوں سے اشارہ کیا گویا کوئی چیز پھینک رہے ہیں ۔ (سنن ترمذی:2141،قال الشیخ الألبانی:صحیح) یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے ۔ یہی حدیث اور کتابوں میں بھی ہے کسی میں یہ بھی ہے کہ یہ تمام عدل ہی عدل ہے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے جب آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اور ان کی تمام اولاد ان میں سے نکالی اور چیونٹیوں کی طرح وہ میدان میں پھیل گئی تو اسے اپنی دونوں مٹھیوں میں لے لیا اور فرمایا ایک حصہ نیکوں کا دوسرا بدوں کا ۔ پھر انہیں پھیلا دیا دوبارہ انہیں سمیٹ لیا اور اسی طرح اپنی مٹھیوں میں لے کر فرمایا ایک حصہ جنتی اور دوسرا جہنمی یہ روایت موقوف ہی ٹھیک ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ ابوعبداللہ نامی صحابی رضی اللہ عنہ بیمار تھے ہم لوگ ان کی بیمار پرسی کے لیے گئے ۔ دیکھا کہ وہ رو رہے ہیں تو کہا کہ آپ کیوں روتے ہیں آپ رضی اللہ عنہ سے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا ہے کہ اپنی مونچھیں کم رکھا کرو یہاں تک کہ مجھ سے ملو اس پر صحابی رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ تو ٹھیک ہے لیکن مجھے تو یہ حدیث رلا رہی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے اللہ تعالیٰ اپنی دائیں مٹھی میں مخلوق لی اور اسی طرح دوسرے ہاتھ کی مٹھی میں بھی اور فرمایا یہ لوگ اس کے لیے ہیں یعنی جنت کے لیے اور یہ اس کے لیے ہیں یعنی جہنم کے لیے اور مجھے کچھ پرواہ نہیں ۔ پس مجھے خبر نہیں کہ اللہ کی کس مٹھی میں میں تھا ؟ (مسند احمد:176/4:صحیح) اس طرح کی اثبات تقدیر کی اور بہت سی حدیثیں ہیں پھر فرماتا ہے اگر اللہ کو منظور ہوتا تو سب کو ایک ہی طریقے پر کر دیتا یعنی یا تو ہدایت پر یا گمراہی پر لیکن رب نے ان میں تفاوت رکھا بعض کو حق کی ہدایت کی اور بعض کو اس سے بھلا دیا اپنی حکمت کو وہی جانتا ہے وہ جسے چاہے اپنی رحمت تلے کھڑا کر لے ظالموں کا حمایتی اور مددگار کوئی نہیں ۔ ابن جریر میں ہے اللہ تعالیٰ سے موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام نے عرض کی کہ اے میرے رب تو نے اپنی مخلوق کو پیدا کیا پھر ان میں سے کچھ کو تو جنت میں لے جائے گا اور کچھ اوروں کو جہنم میں ۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ سب ہی جنت میں جاتے جناب باری نے ارشاد فرمایا موسیٰ اپنا پیرہن اونچا کرو آپ علیہ السلام نے اونچا کیا پھر فرمایا اور اونچا کرو آپ علیہ السلام نے اور اونچا کیا فرمایا اور اوپر اٹھاؤ جواب دیا اے اللہ اب تو سارے جسم سے اونچا کر لیا سوائے اس جگہ کے جس کے اوپر سے ہٹانے میں خیر نہیں فرمایا بس موسیٰ اسی طرح میں بھی اپنی تمام مخلوق کو جنت میں داخل کروں گا سوائے ان کے جو بالکل ہی خیر سے خالی ہیں ۔ الشورى
8 الشورى
9 مشرکین کا شرک اللہ تعالیٰ مشرکین کے اس مشرکانہ فعل کی قباحت بیان فرماتا ہے جو وہ اللہ کے ساتھ شریک کیا کرتے تھے اور دوسروں کی پرستش کرتے تھے ۔ اور بیان فرماتا ہے کہ سچا ولی اور حقیقی کارساز تو میں ہوں ۔ مردوں کو جلانا میری صفت ہے ہر چیز پر قابو اور قدرت رکھنا میرا وصف ہے پھر میرے سوا اور کی عبادت کیسی ؟ پھر فرماتا ہے جس کسی امر میں تم میں اختلاف رونما ہو جائے اس کا فیصلہ اللہ کی طرف لے جاؤ یعنی تمام دینی اور دنیوی اختلاف کے فیصلے کی چیز کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کو مانو ۔ جیسے فرمان عالی شان ہے «فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدٰوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِیْلًا » ( 4- النسآء : 59 ) اگر تم میں کوئی جھگڑا ہو تو اسے اللہ کی اور اس کے رسول کی طرف لوٹا لے جاؤ ۔ پھر فرماتا ہے کہ وہ اللہ جو ہر چیز پر حاکم ہے وہی میرا رب ہے ۔ میرا توکل اسی پر ہے اور اپنے تمام کام اسی کی طرف سونپتا ہوں اور ہر وقت اسی کی جانب رجوع کرتا ہوں وہ آسمانوں و زمین اور ان کے درمیان کی کل مخلوق کا خالق ہے اس کا احسان دیکھو کہ اس نے تمہاری ہی جنس اور تمہاری ہی شکل کے تمہارے جوڑے بنا دئیے یعنی مرد و عورت اور چوپایوں کے بھی جوڑے پیدا کئے جو آٹھ ہیں وہ اسی پیدائش میں تمہیں پیدا کرتا ہے یعنی اسی صفت پر یعنی جوڑ جوڑ پیدا کرتا جا رہا ہے نسلیں کی نسلیں پھیلا دیں قرنوں گذر گئے اور سلسلہ اسی طرح چلا آ رہا ہے ادھر انسانوں کا ادھر جانوروں کا ۔ حضرت بغوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں مراد رحم میں پیدا کرتا ہے بعض کہتے ہیں پیٹ میں بعض کہتے ہیں اسی طریق پر پھیلانا ہے حضرت مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں نسلیں پھیلانی مراد ہے ۔ بعض کہتے ہیں یہاں «فِیُہِ» معنی «بِہِ» کے ہے یعنی مرد اور عورت کے جوڑے سے نسل انسانی کو وہ پھیلا رہا اور پیدا کر رہا ہے حق یہ ہے کہ خالق کے ساتھ کوئی اور نہیں وہ فرد و صمد ہے وہ بینظیر ہے وہ سمیع و بصیر ہے آسمان و زمین کی کنجیاں اسی کے ہاتھوں میں ہیں سورۃ الزمر میں اس کی تفسیر گذر چکی ہے مقصد یہ ہے کہ سارے عالم کا متصرف مالک حاکم وہی یکتا لا شریک ہے جسے چاہے کشادہ روزی دے جس پر چاہے تنگی کر دے اس کا کوئی کام الحکمت سے خالی نہیں ۔ کسی حالت میں وہ کسی پر ظلم کرنے والا نہیں اس کا وسیع علم ساری مخلوق کو گھیرے ہوئے ہے ۔ الشورى
10 الشورى
11 الشورى
12 الشورى
13 امت محمدیہ پر شریعت الٰہی کا انعام اللہ تعالیٰ نے جو انعام اس امت پر کیا ہے اس کا ذکر یہاں فرماتا ہے کہ تمہارے لیے جو شرع مقرر کی ہے وہ ہے جو آدم کے بعد دنیا کے سب سے پہلے پیغمبر اور دنیا کے سب سے آخری پیغمبر اور ان کے درمیان کے اولو العزم پیغمبروں کی تھی ۔ پس یہاں جن پانچ پیغمبروں کا ذکر ہوا ہے انہی پانچ کا ذکر سورۃ الاحزاب میں بھی کیا گیا ہے فرمایا « وَاِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّـبِیّٖنَ مِیْثَاقَہُمْ وَمِنْکَ وَمِنْ نٰوْحٍ وَّاِبْرٰہِیْمَ وَمُوْسٰی وَعِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ ۠ وَاَخَذْنَا مِنْہُمْ مِّیْثَاقًا غَلِیْظًا» ( 33- الأحزاب : 7 ) ، وہ دین جو تمام انبیاء کا مشترک طور پر ہے وہ اللہ واحد کی عبادت ہے جیسے اللہ جل و علا کا فرمان ہے «وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِکَ مِن رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِی إِلَیْہِ أَنَّہُ لَا إِلٰہَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ » ( سورۃ الأنبیاء21 : 25 ) یعنی تجھ سے پہلے جتنے بھی رسول آئے ان سب کی طرف ہم نے یہی وحی کی ہے کہ معبود میرے سوا کوئی نہیں پس تم سب میری ہی عبادت کرتے رہو حدیث میں ہے ہم انبیاء کی جماعت آپس میں علاتی بھائیوں کی طرح ہیں ہم سب کا دین ایک ہی ہے جیسے علاتی بھائیوں کا باپ ایک ہوتا ہے ۔(صحیح بخاری:3442) الغرض احکام شرع میں گو جزوی اختلاف ہو ۔ لیکن اصولی طور پر دین ایک ہی ہے اور وہ توحید باری تعالیٰ ہے ، فرمان اللہ ہے «لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّمِنْہَاجًا » ( 5- المآئدہ : 48 ) تم میں سے ہر ایک کے لیے ہم نے شریعت و راہ بنا دی ہے ۔ یہاں اس وحی کی تفصیل یوں بیان ہو رہی ہے کہ دین کو قائم رکھو جماعت بندی کے ساتھ اتفاق سے رہو اختلاف اور پھوٹ نہ کرو پھر فرماتا ہے کہ یہی توحید کی صدائیں ان مشرکوں کو ناگوار گذرتی ہیں ۔ حق یہ ہے کہ ہدایت اللہ کے ہاتھ ہے جو مستحق ہدایت ہوتا ہے وہ رب کی طرف رجوع کرتا ہے اور اللہ اس کا ہاتھ تھام کر ہدایت کے راستے لا کھڑا کرتا ہے اور جو از خود برے راستے کو اختیار کر لیتا ہے اور صاف راہ چھوڑ دیتا ہے اللہ بھی اس کے ماتھے پر ضلالت لکھ دیتا ہے ۔ الشورى
14 آیت ۱۴ جب ان کے پاس حق آ گیا حجت ان پر قائم ہو چکی ۔ اس وقت وہ آپس میں ضد اور بحث کی بنا پر مختلف ہو گئے ۔ اگر قیامت کا دن حساب کتاب اور جزا سزا کے لیے مقرر شدہ نہ ہوتا تو ان کے ہر بد عمل کی سزا انہیں یہیں مل جایا کرتی ۔ پھر فرماتا ہے کہ یہ گزشتہ جو پہلوں سے کتابیں پائے ہوئے ہیں ۔ یہ صرف تقلیدی طور پر مانتے ہیں اور ظاہر ہے کہ مقلد کا ایمان شک شبہ سے خالی نہیں ہوتا ۔ انہیں خود یقین نہیں دلیل و حجت کی بناء پر ایمان نہیں ، بلکہ یہ اپنے پیشروؤں کے جو حق کے جھٹلانے والے تھے مقلد ہیں ۔ الشورى
15 تمام انبیاء کی شریعت یکساں ہے اس آیت میں ایک لطیفہ ہے جو قرآن کریم کی صرف ایک اور آیت میں پایا جاتا ہے باقی کسی اور آیت میں نہیں وہ یہ کہ اس میں دس کلمے ہیں جو سب مستقل ہیں الگ الگ ایک ایک کلمہ اپنی ذات میں ایک مستقل حکم ہے یہی بات دوسری آیت یعنی آیت الکرسی میں بھی ہے ۔ 1 - پہلا حکم تو یہ ہوتا ہے کہ جو وحی تجھ پر نازل کی گئی ہے اور وہی وحی تجھ سے پہلے کے تمام انبیاء پر آتی رہی ہے اور جو شرع تیرے لیے مقرر کی گئی ہے اور وہی تجھ سے پہلے تمام انبیاء کرام کے لیے بھی مقرر کی گئی تھی تو تمام لوگوں کو اس کی دعوت دے ہر ایک کو اسی کی طرف بلا اور اسی کے منوانے اور پھیلانے کی کوشش میں لگا رہ ۔ 2 - اور اللہ تعالیٰ کی عبادت و وحدانیت پر تو آپ استقامت کر اور اپنے ماننے والوں سے استقامت کروا ۔ 3 - مشرکین نے جو کچھ اختلاف کر رکھے ہیں جو تکذیب و افتراء ان کا شیوہ ہے جو عبادت غیر اللہ ان کی عادت ہے خبردار تو ہرگز ہرگز ان کی خواہش اور ان کی چاہتوں میں نہ آ جانا ۔ ان کی ایک بھی نہ ماننا ۔ 4 - اور علی الاعلان اپنے اس عقیدے کی تبلیغ کر کہ اللہ کی نازل کردہ تمام کتابوں پر میرا ایمان ہے میرا یہ کام نہیں کہ ایک کو مانوں اور دوسری سے انکار کروں ، ایک کو لے لوں اور دوسری کو چھوڑ دوں ۔ 5 - میں تم میں بھی وہی احکام جاری کرنا چاہتا ہوں جو اللہ کی طرف سے میرے پاس پہنچائے گئے ہیں اور جو سراسر عدل اور یکسر انصاف پر مبنی ہیں ۔ 6 - معبود برحق صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے ہمارا تمہارا معبود برحق وہی ہے اور وہی سب کا پالنہار ہے گو کوئی اپنی خوشی سے اس کے سامنے نہ جھکے لیکن دراصل ہر شخص بلکہ ہر چیز اس کے آگے جھکی ہوئی ہے اور سجدے میں پڑی ہوئی ہے ۔ 7 - ہمارے عمل ہمارے ساتھ تمہاری کرنی تمہیں بھرنی ۔ ہم تم میں کوئی تعلق نہیں ۔ جیسے اور آیت میں ہے«وَإِن کَذَّبُوکَ فَقُل لِّی عَمَلِی وَلَکُمْ عَمَلُکُمْ ۖ أَنتُم بَرِیئُونَ مِمَّا أَعْمَلُ وَأَنَا بَرِیءٌ مِّمَّا تَعْمَلُونَ» ( 10-یونس : 41 ) اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا ہے اگر یہ تجھے جھٹلائیں تو تو کہہ دے کہ میرے لیے میرے اعمال ہیں اور تمہارے لیے تمہارے اعمال ہیں ۔ تم میرے اعمال سے بری اور میں تمہارے اعمال سے بیزار ۔ 8 - ہم؎ تم میں کوئی خصومت اور جھگڑا نہیں ۔ کسی بحث مباحثے کی ضرورت نہیں ۔ حضرت سدی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ حکم تو مکہ میں تھا لیکن مدینے میں جہاد کے احکام اترے ۔ ممکن ہے ایسا ہی ہو کیونکہ یہ آیت مکی ہے اور جہاد کی آیتیں ہجرت کے بعد کی ہیں ۔ 9 - قیامت کے دن اللہ ہم سب کو جمع کرے گا جیسے اور آیت میں ہے « قُلْ یَجْمَعُ بَیْـنَنَا رَبٰنَا ثُمَّ یَفْتَـحُ بَیْـنَنَا بالْحَقِّ ۭ وَہُوَ الْفَتَّاحُ الْعَلِـیْمُ » ( 34- سبأ : 26 ) ، یعنی تو کہہ دے کہ ہمیں ہمارا رب جمع کرے گا پھر ہم میں حق کے ساتھ فیصلے کرے گا اور وہی فیصلے کرنے والا اور علم والا ہے ۔ 10 - پھر فرماتا ہے لوٹنا اللہ ہی کی طرف ہے ۔ الشورى
16 منکرین قیامت کے لئے وعیدیں اللہ تبارک و تعالیٰ ان لوگوں کو ڈراتا ہے جو ایمان داروں سے فضول حجتیں کیا کرتے ہیں ، انہیں راہ ہدایت سے بہکانا چاہتے ہیں اور اللہ کے دین میں اختلاف پیدا کرتے ہیں ۔ ان کی حجت باطل ہے ان پر رب غضبناک ہے ۔ اور انہیں قیامت کے روز سخت اور ناقابل برداشت مار ماری جائے گی ۔ ان کی طمع پوری ہونی یعنی مسلمانوں میں پھر دوبارہ جاہلیت کی خو بو آنا محال ہے ٹھیک اسی طرح یہود و نصارٰی کا بھی یہ جادو نہیں چلنے دے گا ۔ ناممکن ہے کہ مسلمان ان کے موجودہ دین کو اپنے سچے اچھے اصل اور کھرے دین پر ترجیح دیں ۔ اور اس دین کو لیں جس میں جھوٹ ملا ہوا ہے جو محرف و مبدل ہے ۔ پھر فرماتا ہے اللہ تعالیٰ نے حق کے ساتھ کتاب نازل فرمائی اور عدل و انصاف اتارا ۔ جیسے فرمان باری ہے «لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاس بالْقِسْطِ » ( 57- الحدید : 25 ) ، یعنی ہم نے اپنے رسولوں کو ظاہر دلیلوں کے ساتھ بھیجا قرآن کے ہمراہ کتاب اور میزان اتارا تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہو جائیں ۔ ایک اور آیت میں ہے « وَالسَّمَاۗءَ رَفَعَہَا وَوَضَعَ الْمِیْزَانَ أَلَّا تَطْغَوْا فِی الْمِیزَانِ وَأَقِیمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِیزَانَ » ( 55- الرحمن : 9-7 ) یعنی آسمان کو اسی نے اونچا کیا اور ترازؤں کو اسی نے رکھا تاکہ تم تولنے میں کمی بیشی نہ کرو ۔ اور انصاف کے ساتھ وزن کو ٹھیک رکھو اور تول کو مت گھٹاؤ ۔ پھر فرماتا ہے تو نہیں جان سکتا کہ قیامت بالکل قریب ہے اس میں خوف اور لالچ دونوں ہی ہیں اور اس میں دنیا سے بے رغبت کرنا بھی مقصود ہے ۔ پھر فرمایا «وَیَقُولُونَ مَتَیٰ ہٰذَا الْوَعْدُ إِن کُنتُمْ صَادِقِینَ» ( 34-سبأ : 29 ) اس کے منکر تو جلدی مچا رہے ہیں کہ قیامت کیوں نہیں آتی ؟ وہ کہتے ہیں کہ اگر سچے ہو تو قیامت قائم کر دو کیونکہ ان کے نزدیک قیامت ہونا محال ہے ۔ لیکن ان کے برخلاف ایماندار اس سے کانپ رہے ہیں کیونکہ ان کا عقیدہ ہے کہ روز جزا کا آنا حتمی اور ضروری ہے ۔ یہ اس سے ڈر کر وہ اعمال بجا لا رہے ہیں جو انہیں اس روز کام دیں ۔ ایک بالکل صحیح حدیث میں ہے جو تقریباً تواتر کے درجہ کو پہنچی ہوئی ہے کہ ایک شخص نے بلند آواز سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کب ہو گی ؟ یہ واقعہ سفر کا ہے وہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ دور تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ہاں وہ یقیناً آنے والی ہے تو بتا کہ تو نے اس کے لیے تیاری کیا کر رکھی ہے ؟ اس نے کہا اللہ اور اس کے رسول کی محبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو ان کے ساتھ ہو گا جن سے تو محبت رکھتا ہے۔(صحیح بخاری:6171) اور حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ہر شخص اس کے ساتھ ہو گا جس سے وہ محبت رکھتا تھا ۔ (صحیح بخاری:6171) یہ حدیث یقیناً متواتر ہے الغرض نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سوال کے جواب میں قیامت کے وقت کا تعین نہیں کیا بلکہ سائل کو اس دن کے لیے تیاری کرنے کو فرمایا پس قیامت کے آنے کے وقت علم کا سوائے اللہ کے کسی اور کو نہیں ۔ پھر فرماتا ہے کہ قیامت کے آنے میں جو لوگ جھگڑ رہے ہیں اور اس کے منکر ہیں اسے محال جانتے ہیں وہ نرے جاہل ہیں سچی سمجھ صحیح عقل سے دور پڑے ہوئے ہیں سیدھے راستے سے بھٹک کر بہت دور نکل گئے ہیں ۔ تعجب ہے کہ زمین و آسمان کا ابتدائی خالق اللہ کو مانیں اور انسان کو مار ڈالنے کے بعد دوبارہ زندہ کر دینے پر اسے قادر نہ جانیں جس نے بغیر کسی نمونے کے اور بغیر کسی جز کے ابتداء ً اسے پیدا کر دیا«وَہُوَ الَّذِی یَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیدُہُ وَہُوَ أَہْوَنُ عَلَیْہِ» ( 30-الروم : 27 ) تو دوبارہ جب کہ اس کے اجزاء بھی کسی نہ کسی صورت میں کچھ نہ کچھ موجود ہیں اسے پیدا کرنا اس پر کیا مشکل ہے بلکہ عقل سلیم بھی اسے تسلیم کرتی ہے اور اب تو اور بھی آسان ہے ۔ الشورى
17 الشورى
18 الشورى
19 غفور و رحیم اللہ اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ وہ اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے ایک کو دوسرے کے ہاتھ سے روزی پہنچا رہا ہے ایک بھی نہیں جسے اللہ بھول جائے نیک بد ہر ایک اس کے ہاں کا وظیفہ خوار ہے جیسے فرمایا «وَمَا مِنْ دَاۗبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ رِزْقُہَا وَیَعْلَمُ مُسْتَــقَرَّہَا وَمُسْـتَوْدَعَہَا ۭ کُلٌّ فِیْ کِتٰبٍ مٰبِیْنٍ » ( 11-ھود : 6 ) ، زمین پر چلنے والے تمام جانداروں کی روزیوں کا ذمہ دار اللہ تعالیٰ ہے وہ ہر ایک کے رہنے سہنے کی جگہ کو بخوبی جانتا ہے اور سب کچھ لوح محفوظ میں لکھا ہوا بھی ہے وہ جس کے لیے چاہتا ہے کشادہ روزی مقرر کرتا ہے وہ طاقتور غالب ہے جسے کوئی چیز عاجز نہیں کر سکتی پھر فرماتا ہے جو آخرت کے اعمال کی طرف توجہ کرتا ہے ہم خود اس کی مدد کرتے ہیں اسے قوت طاقت دیتے ہیں اس کی نیکیاں بڑھاتے رہتے ہیں کسی نیکی کو دس گنی کر دیتے ہیں کسی کو سات سو گنا کسی کو اس سے بھی زیادہ ۔ الغرض آخرت کی چاہت جس دل میں ہوتی ہے اس شخص کو نیک اعمال کی توفیق اللہ کی طرف سے عطا فرمائی جاتی ہے ۔ اور جس کی تمام کوشش دنیا حاصل کرنے کے لیے ہوتی ہیں آخرت کی طرف اس کی توجہ نہیں ہوتی تو وہ دونوں جہاں سے محروم رہتا ہے دنیا کا ملنا اللہ کے ارادے پر موقوف ہے ممکن ہے وہ ہزاروں جتن کر لے اور دنیا سے بھی محروم رہ جائے ۔ بد نیتی کے باعث عقبیٰ تو برباد کر ہی چکا تھا ۔ دنیا بھی نہ ملی تو دونوں جہان سے بھی گیا اور تھوڑی سی دنیا مل بھی گئی تو کیا ۔ دوسری آیت میں اس مضمون کو مقید بیان کیا گیا ہے ۔ فرمان ہے «مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْعَاجِلَۃَ عَجَّــلْنَا لَہٗ فِیْہَا مَا نَشَاۗءُ لِمَنْ نٰرِیْدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَہٗ جَہَنَّمَ ۚ یَصْلٰیہَا مَذْمُوْمًا مَّدْحُوْرًا وَمَنْ أَرَادَ الْآخِرَۃَ وَسَعَیٰ لَہَا سَعْیَہَا وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولٰئِکَ کَانَ سَعْیُہُم مَّشْکُورًا کُلًّا نٰمِدٰ ہٰؤُلَاءِ وَہٰؤُلَاءِ مِنْ عَطَاءِ رَبِّکَ ۚ وَمَا کَانَ عَطَاءُ رَبِّکَ مَحْظُورًا انظُرْ کَیْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَہُمْ عَلَیٰ بَعْضٍ ۚ وَلَلْآخِرَۃُ أَکْبَرُ دَرَجَاتٍ وَأَکْبَرُ تَفْضِیلًا» ( 17- الإسراء : 21-18 ) ، یعنی جو شخص دنیا کا ہو گا ایسے لوگوں میں سے ہم جسے چاہیں اور جتنا چاہیں دے دیں گے پھر اس کے لیے جہنم تجویز کریں گے جس میں وہ بدحال اور راندہ درگاہ ہو کر داخل ہو گا اور جو آخرت کی طلب کرے گا اور اس کے لیے جو کوشش کرنی چاہیئے کرے گا اور وہ با ایمان بھی ہو گا ۔ تو ناممکن ہے کہ اس کی کوشش کی قدر دانی نہ کی جائے ۔ دنیوی بخشش و عطا تو عام ہے ۔ اس سے ہم ان سب کی امداد کیا کرتے ہیں اور تیرے رب کی یہ دنیوی عطا کسی پر بند نہیں ، خود دیکھ لو کہ ہم نے ایک کو دوسرے پر کس طرح فوقیت دے رکھی ہے یقین مان لو کہ درجوں کے اعتبار سے بھی اور فضیلت کی حیثیت سے بھی آخرت بہت بڑی ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اس امت کو برتری اور بلندی کی نصرت اور سلطنت کی خوشخبری ہو ان میں سے جو شخص دینی عمل دنیا کے لیے کرے گا اسے آخرت میں کوئی حصہ نہ ملے گا ۔(مسند احمد:134/5:اسناد قوی)۔ الشورى
20 الشورى
21 1 پھر فرمایا ہے کہ یہ مشرکین دین اللہ کی تو پیروی کرتے نہیں بلکہ جن شیاطین اور انسانوں کو انہوں نے اپنا بڑا سمجھ رکھا ہے یہ جو احکام انہیں بتاتے ہیں انہی احکام کے مجموعے کو دین سمجھتے ہیں ۔ حلال و حرام کا تعین اپنے ان بڑوں کے کہنے پر کرتے ہیں انہی کے ایجاد کردہ عبادات کے طریقے استعمال کر رہے ہیں اسی طرح مال کے احکام بھی ازخود تراشیدہ ہیں جنہیں شرعی سمجھ بیٹھے ہیں چنانچہ جاہلیت میں بعض جانوروں کو انہوں نے از خود حرام کر لیا تھا مثلا وہ جانور جس کا کان چیر کر اپنے معبودان باطل کے نام پر چھوڑ دیتے تھے اور داغ دے کر سانڈ چھوڑ دیتے تھے اور مادہ بچے کو حمل کی صورت میں ہی ان کے نام کر دیتے تھے جس اونٹ سے دس بچے حاصل کر لیں اسے ان کے نام چھوڑ دیتے تھے پھر انہیں ان کی تعظیم کے خیال سے اپنے اوپر حرام سمجھتے تھے ۔ اور بعض چیزوں کو حلال کر لیا تھا جیسے مردار ، خون اور جوا ۔ صحیح حدیث میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں نے عمرو بن لحی بن قمعہ کو دیکھا کہ وہ جہنم میں اپنی آنتیں گھسیٹ رہا تھا یہی وہ شخص ہے جس نے سب سے پہلے غیر اللہ کے نام پر جانوروں کا چھوڑنا بتایا ۔(صحیح بخاری:3521) یہ شخص خزاعہ کے بادشاہوں میں سے ایک تھا اسی نے سب سے پہلے ان کاموں کی ایجاد کی تھی ۔ جو جاہلیت کے کام عربوں میں مروج تھے ۔ اسی نے قریشیوں کو بت پرستی میں ڈال دیا اللہ اس پر اپنی پھٹکار نازل فرمائے ۔ فرماتا ہے کہ اگر میری یہ بات پہلے سے میرے ہاں طے شدہ نہ ہوتی کہ میں گنہگاروں کو قیامت کے آنے تک ڈھیل دوں گا تو میں آج ہی ان کفار کو اپنے عذاب میں جکڑ لیتا ۔ اب انہیں قیامت کے دن جہنم کے المناک اور بڑے سخت عذاب ہوں گے ،میدان قیامت میں تم دیکھو گے کہ یہ ظالم لوگ اپنے کرتوتوں سے لرزاں و ترساں ہوں گے ۔ مارے خوف کے تھرا رہے ہوں گے ۔لیکن آج کوئی چیز نہ ہو گی جو انہیں بچا سکے ۔ آج تو یہ اعمال کا مزہ چکھ کر ہی رہیں گے ان کے بالکل برعکس ایماندار نیکوکار لوگوں کا حال ہو گا کہ وہ امن چین سے جنتوں کے باغات میں مزے کر رہے ہوں گے ان (ظالموں ) کی ذلت و رسوائی ڈر ،خوف کو دیکھو اور ان (ایمانداروں) کی عزت بڑائی امن چین کا خیال کر لو ، وہ (ظالم) طرح طرح کی مصیبتوں تکلیفوں میں ہوں گے یہ (ایماندار) طرح طرح کی راحتوں اور لذتوں میں ہوں گے ۔ عمدہ بہترین غذائیں ، بہترین لباس ، مکانات ، بہترین بیویاں اور بہترین سازو سامان انہیں ملے ہوئے ہوں گے جن کا دیکھنا سننا تو کہاں ؟ کسی انسان کے ذہن اور تصور میں بھی یہ چیزیں نہیں آسکتیں ۔ حضرت ابوطیبہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں جنتیوں کے سروں پر ابر آئے گا اور انہیں ندا ہو گی کہ بتاؤ کس چیز کی بارش چاہتے ہو ؟ پس جو لوگ جس چیز کی بارش چاہیں گے وہی چیز ان پر اس بادل سے برسے گی یہاں تک کہ کہیں گے ہم پر ابھرے ہوئے سینے والی ہم عمر عورتیں برسائی جائیں چنانچہ وہی برسیں گی ۔ اسی لیے فرمایا کہ فضل کبیر یعنی زبردست کامیابی کامل نعمت یہی ہے ۔ الشورى
22 الشورى
23 رسول اللہ سے قرابت داری کی فضیلت اوپر کی آیتوں میں جنت کی نعمتوں کا ذکر کر کے بیان فرما رہا ہے کہ ایماندار , نیک کار بندوں کو اس کی بشارت ہو پھر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ قریش کے مشرکین سے کہہ دو کہ اس تبلیغ پر اور اس تمہاری خیر خواہی پر میں تم سے کچھ طلب تو نہیں کر رہا ۔ تمہاری بھلائی تو ایک طرف رہی تم اگر اپنی برائی سے ہی ٹل جاؤ اور مجھے رب کی رسالت پہنچانے دو اور قرابت داری کے رشتے کو سامنے رکھ کر میری ایذاء رسانی سے ہی رک جاؤ تو یہی بہت ہے صحیح بخاری میں ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس آیت کی تفسیر دریافت کی گئی تو حضرت سعید بن جبیر رحمتہ اللہ علیہ نے کہا اس سے مراد قرابت آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے یہ سن کر آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم نے عجلت سے کام لیا سنو قریش کے جس قدر قبیلے تھے سب کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رشتہ داری تھی تو مطلب یہی کہ تم اس رشتے داری کا لحاظ رکھو جو مجھ میں اور تم میں ہے ۔(صحیح بخاری:4818) حضرت مجاہدرحمہ اللہ ، عکرمہ رحمہ اللہ ، قتادہ رحمہ اللہ ، سدی رحمہ اللہ ، ابو مالک رحمہ اللہ ، عبد الرحمن رحمہ اللہ وغیرہ بھی اس آیت کی یہی تفسیر کرتے ہیں ۔طبرانی میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار قریش سے کہا میں تم سے اس کی کوئی اجرت طلب نہیں کرتا مگر یہ کہ تم اس قرابت داری کا خیال رکھو جو مجھ اور تم میں ہے ۔ اس میری قرابت کا حق جو تم پر ہے وہ ادا کرو ۔(طبرانی اوسط:3347:ضعیف) مسند احمد میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے تمہیں جو دلیلیں دی ہیں جس ہدایت کا راستہ بتایا ہے اس پر کوئی اجر تم سے نہیں چاہتا سوائے اس کے کہ تم اللہ کو چاہنے لگو اور اس کی اطاعت کی وجہ سے اس سے قرب اور نزدیکی حاصل کر لو ۔(مسند احمد:268/1:ضعیف) حضرت حسن بصری رحمہ اللہ سے بھی یہی تفسیر منقول ہے تو یہ دوسرا قول ہوا پہلا قول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی رشتے داری کو یاد دلانا ۔ دوسرا قول آپ کی یہ طلب کہ لوگ اللہ کی نزدیکی حاصل کر لیں ۔ تیسرا قول جو حضرت سعید بن جبیر رحمہ اللہ کی روایت سے گزرا کہ تم میری قرابت کے ساتھ احسان اور نیکی کرو ۔ ابو الدیلم کا بیان ہے کہ جب حضرت علی بن حسین رحمہ اللہ کو قید کر کے لایا گیا اور دمشق کے بالاخانے میں رکھا گیا تو ایک شامی نے کہا اللہ کا شکر ہے کہ اس نے تمہیں قتل کرایا اور تمہارا ناس کرا دیا اور فتنہ کی ترقی کو روک دیا یہ سن کر آپ رحمہ اللہ نے فرمایا کیا تو نے قرآن بھی پڑھا ہے اس نے کہا کیوں نہیں ؟ فرمایا اس میں ( حٰم ) والی سورتیں بھی پڑھی ہیں ؟ اس نے کہا واہ سارا قرآن پڑھ لیا اور ( حم ) والی سورتیں نہیں پڑھیں ؟ آپ رحمہ اللہ نے فرمایا پھر کیا ان میں اس آیت کی تلاوت تو نے نہیں کی ؟ آیت «قُلْ لَّآ اَسْـَٔــلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبٰی ۭ وَمَنْ یَّــقْتَرِفْ حَسَنَۃً نَّزِدْ لَہٗ فِیْہَا حُسْنًا ۭ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ شَکُوْرٌ» ( 42- الشوری : 23 ) یعنی میں تم سے کوئی اجر طلب نہیں کرتا مگر محبت قرابت کی ۔ اس نے کہا پھر کیا تم وہ ہو ؟ آپ رحمہ اللہ نے فرمایا ہاں ! حضرت عمرو بن شعیب رحمہ اللہ سے جب اس آیت کی تفسیر پوچھی گئی تو آپ رحمہ اللہ نے فرمایا مراد قرابت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔ ابن جریر میں ہے کہ انصار رضی اللہ عنہم نے اپنی خدمات اسلام گنوائیں گویا فخر کے طور پر ۔ اس پر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ یا سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہم تم سے افضل ہیں جب یہ خبر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی مجلس میں آئے اور فرمایا انصاریو کیا تم ذلت کی حالت میں نہ تھے ؟ پھر اللہ نے تمہیں میری وجہ سے عزت بخشی ! انہوں نے کہا بیشک آپ صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہیں ۔ فرمایا کیا تم گمراہ نہ تھے ؟ پھر اللہ نے تمہیں میری وجہ سے ہدایت کی ؟ انہوں نے کہا ہاں بیشک آپ نے سچ فرمایا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب تم مجھے کیوں نہیں کہتے ؟ انہوں نے کہا کیا کہیں ؟ فرمایا کیوں نہیں کہتے ؟ کہ کیا تیری قوم نے تجھے نکال نہیں دیا تھا ؟ اس وقت ہم نے تجھے پناہ دی کیا انہوں نے تجھے جھٹلایا نہ تھا ؟ اس وقت ہم نے تیری تصدیق کی ؟ کیا انہوں نے تجھے پست کرنا نہیں چاہا تھا اس وقت ہم نے تیری مدد کی ؟ اس طرح کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور بھی بہت سی باتیں کیں یہاں تک کہ انصار اپنے گھٹنوں پر جھک پڑے اور انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری اولاد اور جو کچھ ہمارے پاس ہے سب اللہ کا اور سب اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:30678:ضعیف)۔ پھر یہ آیت «قُلْ لَّآ اَسْـَٔــلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبٰی ۭ وَمَنْ یَّــقْتَرِفْ حَسَنَۃً نَّزِدْ لَہٗ فِیْہَا حُسْنًا ۭ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ شَکُوْرٌ» ( 42- الشوری : 23 ) نازل ہوئی ۔ ابن ابی حاتم میں بھی اسی کے قریب ضعیف سند سے مروی ہے بخاری و مسلم میں یہ حدیث ہے .(صحیح بخاری:4330) اس میں ہے کہ یہ واقعہ حنین کی غنیمت کی تقسیم کے وقت پیش آیا تھا اور اس میں آیت کے اترنے کا ذکر بھی نہیں اور اس آیت کو مدینے میں نازل شدہ ماننے میں بھی قدرے تامل ہے اس لیے کہ یہ سورت مکی ہے پھر جو واقعہ حدیث میں مذکور ہے اس واقعہ میں اور اس آیت میں کچھ ایسی زیادہ ظاہر مناسبت بھی نہیں ایک روایت میں ہے کہ لوگوں نے پوچھا اس آیت سے کون لوگ مراد ہیں جن کی محبت رکھنے کا ہمیں حکم باری ہوا ہے آپ نے فرمایا فاطمہ اور ان کی اولاد رضی اللہ عنہم ۔ (طبرانی کبیر:12384:ضعیف) لیکن اس کی سند ضعیف ہے اور اس کا راوی مبہم ہے جو معروف نہیں پھر اس کا استاد ایک شیعہ ہے جو بالکل ثقاہت سے گرا ہوا ہے اس کا نام حسین اشغر ہے اس جیسی حدیث بھلا اس کی روایت سے کیسے مان لی جائے گی ؟ پھر مدینے میں آیت نازل ہونا ہی مستعد ہے حق یہ ہے کہ آیت مکی ہے اور مکہ شریف میں فاطمہ کا عقد ہی نہ ہوا تھا اولاد کیسی ؟ آپرضی اللہ عنہا کا عقد تو صرف سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ جنگ بدر کے بعد سنہ 2 ھ میں ہوا ۔ پس صحیح تفسیر اس کی وہی ہے جو حبرالامۃ ترجمان القرآن سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے کی ہے جو بحوالہ بخاری پہلے گذر چکی ہم اہل بیت کے ساتھ خیر خواہی کرنے کے منکر نہیں ہے ہم مانتے ہیں کہ ان کے ساتھ احسان و سلوک اور ان کا اکرام و احترام ضروری چیز ہے روئے زمین پر ان سے زیادہ پاک اور صاف ستھرا گھرانا اور نہیں حسب و نسب میں اور فخر و مباہات میں بلا شک یہ سب سے اعلیٰ ہیں ۔ بالخصوص ان میں سے وہ جو متبع سنت نبی صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم ہوں جیسے کہ اسلاف کی روش تھی یعنی سیدنا عباس رضی اللہ عنہ اور آل عباس رضی اللہ عنہ کی اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور آل علی رضی اللہ عنہ کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبے میں فرمایا ہے میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں کتاب اللہ اور میری عزت اور یہ دونوں جدا نہ ہوں گے جب تک کہ حوض پر میرے پاس نہ آئیں ۔(صحیح مسلم:2408) مسند احمد میں ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ قریشی جب آپس میں ملتے ہیں تو بڑی خندہ پیشانی سے ملتے ہیں ۔ لیکن ہم سے اس ہنسی خوشی کے ساتھ نہیں ملتے ۔ یہ سن کر آپ بہت رنجیدہ ہوئے اور فرمانے لگے اللہ کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے کسی کے دل میں ایمان داخل نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اللہ کے لیے اور اس کے رسول کی وجہ سے تم سے محبت نہ رکھے۔(سنن ترمذی:3758،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) اور روایت میں ہے کہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے کہا قریشی باتیں کرتے ہوتے ہیں ہمیں دیکھ کر چپ ہو جاتے ہیں اسے سن کر مارے غصے کے آپ کی پیشانی پر بل پڑ گئے اور فرمایا واللہ ! کسی مسلمان کے دل میں ایمان جاگزیں نہیں ہو گا جب تک کہ وہ تم سے اللہ کے لیے اور میری قرابت داری کی وجہ سے محبت نہ رکھے۔(مسند احمد:207/1:ضعیف) صحیح بخاری میں ہے کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا لوگو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا لحاظ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت میں رکھو ۔(صحیح بخاری:3713) ایک اور روایت میں ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا اللہ کی قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت داروں سے سلوک کرنا مجھے اپنے قرابت داروں کے سلوک سے بھی پیارا ہے۔(صحیح بخاری:3712) سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا واللہ تمہارا اسلام لانا مجھے اپنے والد خطاب کے اسلام لانے سے بھی زیادہ اچھا لگا اس لیے کہ تمہارا اسلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کے اسلام سے زیادہ محبوب تھا ۔ پس اسلام کے ان دو چمکتے ستاروں کا مسلمانوں کے ان دونوں سیدوں کا جو معاملہ آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اقربا پیغمبر کے ساتھ تھا وہی عزت و محبت کا معاملہ مسلمانوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت اور قرابت داروں سے رکھنا چاہیئے ۔ کیونکہ نبیوں اور رسولوں کے بعد تمام دنیا سے افضل یہی دونوں بزرگ خلیفہ رسول تھے رضی اللہ عنہما ۔ پس مسلمانوں کو ان کی پیروی کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت اور کنبے قبیلے کے ساتھ جس عقیدت سے پیش آنا چاہیئے ۔ اللہ تعالیٰ ان دونوں خلیفہ سے اہل بیت سے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کل صحابہ رضی اللہ عنہم سے خوش ہو جائے اور سب کو اپنی رضا مندی میں لے لے ۔ آمین ۔ صحیح مسلم وغیرہ میں حدیث ہے کہ یزید بن حیان اور حصین بن میسرہ اور عمر بن مسلم رحمہ اللہ علیہم سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کے پاس گئے حصین نے کہا اے حضرت ! آپ کو تو بڑی بڑی خیر و برکت مل گئی آپ رضی اللہ عنہ نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی آنکھوں سے دیکھا آپ رضی اللہ عنہ نے اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں اپنے کانوں سے سنیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد کیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نمازیں پڑھیں حق تو یہ ہے کہ بڑی بڑی فضیلتیں آپ رضی اللہ عنہم نے سمیٹ لیں اچھا اب کوئی حدیث ہمیں بھی بتائیے ۔ اس پر سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے فرمایا میرے بھتیجے سنو میری عمر اب بڑی ہو گئی ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کو عرصہ گذر چکا بعض چیزیں ذہن میں محفوظ نہیں رہیں اب تو یہی رکھو کہ جو از خود سنا دوں اسے مان لیا کرو ورنہ مجھے تکلیف نہ دو کہ تکلف سے بیان کرنا پڑے پھر آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مکے اور مدینے کے درمیان پانی کی جگہ کے پاس جسے خم کہا جاتا تھا کھڑے ہو کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک خطبہ سنایا اللہ کی حمد و ثنا کی وعظ و پند کیا پھر فرمایا لوگو میں ایک انسان ہوں کیا عجب کہ ابھی ابھی میرے پاس اللہ کا قاصد پہنچ جائے اور میں اس کی مان لوں سنو میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ایک تو کتاب اللہ جس میں نور و ہدایت ہے تم اللہ کی کتاب کو مضبوط تھام لو اور اس کو مضبوطی سے تھامے رہو پس اس کی بڑی رغبت دلائی اور بہت کچھ تاکید کی پھر فرمایا اے میرے اہل بیت میں تمہیں اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ کو یاد دلاتا ہوں یہ سن کر حصین رحمہ اللہ نے سیدنا زید رضی اللہ عنہ سے پوچھا اے زید رضی اللہ عنہ آپ کے اہل بیت کون ہیں ؟ کیا آپ کی بیویاں اہل بیت میں داخل نہیں ؟ فرمایا بیشک آپ کی بیویاں وہ ہیں جن پر آپ کے بعد صدقہ حرام ہے پوچھا وہ کون ہیں ؟ فرمایا آل علی ، آل عقیل ، آل جعفر ، آل عباس رضی اللہ عنہم پوچھا کیا ان سب پر صدقہ حرام ہے ؟ فرمایا ہاں !(صحیح مسلم:4208) ترمذی شریف میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تم میں ایسی چیز چھوڑے جا رہا ہوں کہ اگر تم اسے مضبوط تھامے رہے تو بہکو گے نہیں ایک دوسرے سے زیادہ عظمت والی ہے کتاب اللہ جو اللہ کی طرف سے ایک لٹکائی ہوئی رسی ہے جو آسمان سے زمین تک آئی ہے اور دوسری چیز میری عترت میرے اہل بیت ہے اور یہ دونوں جدا نہ ہوں گی یہاں تک کہ دونوں میرے پاس حوض کوثر پر آئیں ۔ پس دیکھ لو کہ میرے بعد کس طرح ان میں میری جانشینی کرتے ہو ؟(سنن ترمذی:3788،قال الشیخ الألبانی:صحیح ) امام صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن غریب ہے اور صرف ترمذی میں ہے سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے ترمذی میں ہے کہ عرفے والے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر جسے قصواء کہا جاتا تھا خطبہ دیا جس میں فرمایا لوگو میں تم میں ایسی چیز چھوڑے جا رہا ہوں کہ اگر تم اسے تھامے رہے تو ہرگز گمراہ نہیں ہو گے کتاب اللہ اور میری عترت اہل بیت ۔(سنن ترمذی:3786،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ترمذی کی اور روایت میں ہے کہ اللہ کی نعمتوں کو مدنظر رکھ کر تم لوگ اللہ تعالیٰ سے محبت رکھو اور اللہ کی محبت کی وجہ سے مجھ سے محبت رکھو اور میری محبت کی وجہ سے میری اہل بیت سے محبت رکھو ۔ (سنن ترمذی:3789،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) یہ حدیث اور اوپر کی حدیث حسن غریب ہے اس مضمون کی اور احادیث ہم نے آیت «اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْرًا» ( 33- الأحزاب : 33 ) کی تفسیر میں وارد کر دی ہیں یہاں ان کے دہرانے کی ضرورت نہیں «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» ۔ ایک ضعیف حدیث مسند ابو یعلیٰ میں ہے کہ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے بیت اللہ کے دروازے کا کنڈا تھامے ہوئے فرمایا لوگو جو مجھے جانتے ہیں وہ تو جانتے ہی ہیں جو نہیں پہچانتے وہ اب پہچان کر لیں کہ میرا نام ابوذر ہے سنو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ تم میں میرے اہل بیت کی مثال مثل نوح علیہ السلام کی کشتی کے ہے اس میں جو چلا گیا اس نے نجات پالی اور جو اس میں داخل نہ ہوا ہلاک ہوا ۔مسند ابویعلیٰ:ضعیف) پھر فرماتا ہے جو نیک عمل کرے ہم اس کا ثواب اور بڑھا دیتے ہیں جیسے ایک اور آیت میں فرمایا اللہ تعالیٰ ایک ذرے کے برابر ظلم نہیں کرتا اگر نیکی ہو تو اور بڑھا دیتا ہے اور اپنے پاس سے اجر عظیم عنایت فرماتا ہے بعض سلف کا قول ہے کہ نیکی کا ثواب اس کے بعد نیکی ہے اور برائی کا بدلہ اس کے بعد برائی ہے پھر فرمان ہوا کہ اللہ گناہوں کو بخشنے والا ہے اور نیکیوں کی قدر دانی کرنے والا ہے انہیں بڑھا چڑھا کر دیتا ہے ۔ الشورى
24 جاہل کفار کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تہمت لگانا پھر فرماتا ہے کہ یہ جاہل کفار جو کہتے ہیں کہ یہ قرآن تو نے گھڑ لیا ہے اور اللہ کے نام لگا دیا ہے ایسا نہیں اگر ایسا ہوتا تو اللہ تیرے دل پر مہر لگا دیتا اور تجھے کچھ بھی یاد نہ رہتا جیسے فرمان ہے «وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِیْلِ» ( 69- الحاقۃ : 44 ) ، اگر یہ رسول ہمارے ذمے کچھ باتیں لگا دیتے تو ہم ان کا داہنا ہاتھ پکڑ کر ان کے دل کی رگ کاٹ ڈالتے اور تم میں سے کوئی انہیں اس سزا سے نہ بچا سکتا ۔ یعنی یہ اگر ہمارے کلام میں کچھ بھی زیادتی کرتے تو ایسا انتقام لیتے کہ دنیا کی کوئی ہستی اسے نہ بچا سکتی ۔ اس کے بعد کا جملہ «أَمْ یَقُولُونَ افْتَرَیٰ عَلَی اللہِ کَذِبًا ۖ فَإِن یَشَإِ اللہُ یَخْتِمْ عَلَیٰ قَلْبِکَ ۗ وَیَمْحُ اللہُ الْبَاطِلَ وَیُحِقٰ الْحَقَّ بِکَلِمَاتِہِ ۚ إِنَّہُ عَلِیمٌ بِذَاتِ الصٰدُورِ )) ٢٤((»(سورۃالشوری[42:24])، «یَخْتِمْ» پر معطوف نہیں بلکہ یہ مبتدا ہے اور مبتدا ہونے کی وجہ سے مرفوع ہے ۔ «یَخْتِمْ» پر عطف نہیں جو مجزوم ہو ۔ واؤ کا کتابت میں نہ آنا یہ صرف امام کے رسم خط کی موافقت کی وجہ سے ہے جیسے آیت «سَـنَدْعُ الزَّبَانِیَۃَ» ( 96- العلق : 18 ) میں واؤ لکھنے میں نہیں آئی ۔ اور آیت « وَیَدْعُ الْإِنسَانُ بِالشَّرِّ دُعَاءَہُ بِالْخَیْرِ وَکَانَ الْإِنسَانُ عَجُولًا » ( الإسراء 17 : 11 ) میں واؤ نہیں لکھی گئی ہاں اس کے بعد کے جملے «اَنْ یٰحِقَّ الْحَقَّ بِکَلِمٰتِہٖ وَیَقْطَعَ دَابِرَ الْکٰفِرِیْنَ » ( 8- الانفال : 7 ) کا عطف «وَیَمْــحُ اللّٰہُ الْبَاطِلَ وَیُحِقٰ الْحَقَّ بِکَلِمٰتِہٖ ۭ اِنَّہٗ عَلِیْمٌۢ بِذَات الصٰدُوْرِ» ( 42- الشوری : 24 ) ، پر ہے یعنی اللہ تعالیٰ حق کو واضح اور مبین کر دیتا ہے اپنے کلمات سے یعنی دلائل بیان فرما کر حجت پیش کر کے وہ خوب دانا بینا ہے دلوں کے راز سینوں کے بھید اس پر کھلے ہوئے ہیں ۔ الشورى
25 توبہ گناہوں کی معافی کا ذریعہ اللہ تعالیٰ اپنا احسان اور اپنا کرم بیان فرماتا ہے کہ وہ اپنے غلاموں پر اس قدر مہربان ہے کہ بد سے بد گنہگار بھی جب اپنی بد کرداری سے باز آئے اور خلوص کے ساتھ اس کے سامنے جھکے اور سچے دل سے توبہ کرے تو وہ اپنے رحم و کرم سے اس کی پردہ پوشی کرتا ہے اس کے گناہ معاف فرما دیتا ہے اور اپنا فضل اس کے شامل حال کر دیتا ہے جیسے اور آیت میں ہے «وَمَنْ یَّعْمَلْ سُوْۗءًا اَوْ یَظْلِمْ نَفْسَہٗ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللّٰہَ یَجِدِ اللّٰہَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا» ( 4- النسآء : 110 ) ، جو شخص بد عملی کرے یا اپنی جان پر ظلم کرے پھر اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کرے تو وہ اللہ کو غفور و رحیم پائے گا ۔ صحیح مسلم میں ہے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ سے اس سے زیادہ خوش ہوتا ہے جس کی اونٹنی جنگل بیابان میں گم ہو گئی ہو جس پر اس کا کھانا پینا بھی ہو یہ اس کی جستجو کر کے عاجز آ کر کسی درخت تلے پڑ رہا اور اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا اونٹنی سے بالکل مایوس ہو گیا کہ یکایک وہ دیکھتا ہے کہ اونٹنی اس کے پاس ہی کھڑی ہے یہ فوراً اٹھ بیٹھتا ہے اس کی نکیل تھام لیتا ہے اور اس قدر خوش ہوتا ہے کہ بے تحاشا اس کی زبان سے نکل جاتا ہے کہ یا اللہ بیشک تو میرا غلام ہے اور میں تیرا رب ہوں وہ اپنی خوشی کی وجہ سے خطا کر جاتا ہے ۔ (صحیح مسلم:2747) ایک مختصر حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ سے اس قدر خوش ہوتا ہے کہ اتنی خوشی اس شخص کو بھی نہیں ہوتی جو ایسی جگہ میں ہو جہاں پیاس کے مارے ہلاک ہو رہا ہو اور وہیں اس کی سواری کا جانور گم ہو گیا ہو جو اسے دفعتًا مل جائے ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے جب یہ مسئلہ پوچھا گیا کہ ایک شخص ایک عورت سے برا کام کرتا ہے پھر اس سے نکاح کر سکتا ہے ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا نکاح میں کوئی حرج نہیں پھر آپ نے یہی آیت پڑھی ۔(تفسیر ابن جریر الطبری:147/11:) توبہ تو مستقبل کے لیے قبول ہوتی ہے اور برائیاں گذشتہ معاف کر دی جاتی ہیں تمہارے ہر قول و فعل اور عمل کا اسے علم ہے ۔ باوجود اس کے جھکنے والے کی طرف مائل ہوتا ہے اور توبہ قبول فرما لیتا ہے ۔ وہ ایمان والوں اور نیک کاروں کی دعا قبول فرماتا ہے ۔ وہ خواہ اپنے لیے دعا کریں خواہ دوسروں کے لیے ۔ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ ملک شام میں خطبہ پڑھتے ہوئے اپنے مجاہد ساتھیوں سے فرماتے ہیں تم ایماندار ہو اور جنتی ہو اور مجھے اللہ سے امید ہے کہ رومی اور فارسی جنہیں تم قید کر لائے ہو کیا عجب کہ یہ بھی جنت میں پہنچ جائیں کیونکہ ان میں سے جب تمہارا کوئی کام کر دیتا ہے تو تم اسے کہتے ہو اللہ تجھ پر رحم کرے تو نے بہت اچھا کام کیا اللہ تجھے برکت دے تو نے بہت اچھا کیا وغیرہ اور قرآن کا وعدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایمان لانے اور نیک عمل کرنے والوں کی دعا قبول فرماتا ہے پھر آپ رضی اللہ عنہ نے اسی آیت کا یہ جملہ«وَیَسْتَجِیبُ الَّذِینَ آمَنُوا» ( الشوری : 26 ) تلاوت فرمایا معنی اس کے یہ کہ اللہ ان کی سنتا ہے آیت «الَّذِینَ یَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُونَ أَحْسَنَہُ ۚ أُولٰئِکَ الَّذِینَ ہَدَاہُمُ اللہُ ۖ وَأُولٰئِکَ ہُمْ أُولُو الْأَلْبَابِ » ( 39-الزمر : 18 ) کی تفسیر یہ کی گئی ہے کہ جو بات کو مان لیتے ہیں اور اس کی اتباع کرتے ہیں اور جیسے فرمایا «اِنَّمَا یَسْتَجِیْبُ الَّذِیْنَ یَسْمَعُوْنَ » ( 6- الانعام : 36 ) ابن ابی حاتم میں ہے کہ اپنے فضل سے زیادتی دینا یہ ہے کہ ان کے حق میں ایسے لوگوں کی سفارش قبول فرما لے گا جن کے ساتھ انہوں نے کچھ سلوک کیا ہو ۔ (طبرانی کبیر:248/10:ضعیف) حضرت ابراہیم نخعی رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا ہے وہ اپنے بھائیوں کی سفارش کریں گے اور انہیں زیادہ فضل ملے گا یعنی بھائیوں کے بھائیوں کی بھی شفاعت کی اجازت ہو جائے گی مومنوں کی اس عزت و شان کو بیان فرما کر کفار کی بد حالی بیان فرمائی کہ انہیں سخت درد ناک اور گھبراہٹ والے عذاب ہونگے پھر فرمایا اگر ان بندوں کو ان کی روزیوں میں وسعت مل جاتی ان کی ضرورت سے زیادہ ان کے پلے پڑ جاتا تو یہ خرمستی میں آ کر دنیا میں ہلڑ مچا دیتے اور دنیا کے امن کو آگ لگا دیتے ایک دوسرے کو پھونک دیتے ، بھون کھاتے ، سرکشی اور طغیان تکبر اور بےپرواہی حد سے بڑھ جاتی ۔ اسی لیے حضرت قتادہ رحمہ اللہ کا فلسفیانہ مقولہ ہے کہ زندگی کا سامان اتنا ہی اچھا ہے جتنے میں سرکشی اور لاابالی پن نہ آئے ۔ اس مضمون کی پوری حدیث کہ مجھے تم پر سب سے زیادہ ڈر دنیا کی نمائش کا ہے پہلے بیان ہو چکی ہے(صحیح بخاری:6427) پھر فرماتا ہے وہ ایک اندازے سے روزیاں پہنچا رہا ہے بندے کی صلاحیت کا اسے علم ہے ۔ غنا اور فقیری کے مستحق کو وہ خوب جانتا ہے ۔ حدیث قدسی میں ہے میرے بندے ایسے بھی ہیں جن کی صلاحیت مالداری میں ہی ہے اگر میں انہیں فقیر بنا دوں تو وہ دینداری سے بھی جاتے رہیں گے ۔ اور بعض میرے بندے ایسے بھی ہیں کہ ان کے لائق فقیری ہی ہے اگر وہ مال حاصل کر لیں اور توانگر بن جائیں تو اس حالت میں گویا ان کا دین فاسد کر دوں ۔(بغوی فی التفسیر:1877:ضعیف) الشورى
26 الشورى
27 الشورى
28 1 پھر ارشاد ہوتا ہے کہ لوگ باران رحمت کا انتظار کرتے کرتے مایوس ہو جاتے ہیں ایسی پوری حاجت اور سخت مصیبت کے وقت میں بارش برساتا ہوں ان کی ناامیدی اور خشک سالی ختم ہو جاتی ہے اور عام طور پر میری رحمت پھیل جاتی ہے امیر المؤمنین خلیفتہ المسلمین فاروق اعظم عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ایک شخص کہتا ہے امیر المؤمنین قحط سالی ہو گئی اور اب تو لوگ بارش سے بالکل مایوس ہو گئے تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا جاؤ اب ان شاءاللہ ضرور بارش ہو گی پھر اس آیت کی تلاوت کی وہ ولی و حمید ہے یعنی مخلوقات کے تصرفات اسی کے قبضے میں ہیں اس کے کام قابل ستائش و تعریف ہیں ۔ مخلوق کے بھلے کو وہ جانتا ہے اور ان کے نفع کا اسے علم ہے اس کے کام نفع سے خالی نہیں ۔ الشورى
29 آفات اور تکالیف سے خطاؤں کی معافی ہوتی ہے اللہ تعالیٰ کی عظمت قدرت اور سلطنت کا بیان ہو رہا ہے ۔ کہ آسمان و زمین اسی کا پیدا کیا ہوا ہے اور ان میں کئی ساری مخلوق بھی اسی کی پیدا کی ہوئی ہے فرشتے انسان جنات اور مختلف قسموں کے حیوانات جو کونے کونے میں پھیلے ہوئے ہیں قیامت کے دن وہ ان سب کو ایک ہی میدان میں جمع کرے گا ۔ جبکہ ان کے حواس گم ہو چکے ہوں گے ۔ اور ان میں عدل و انصاف کیا جائے گا پھر فرماتا ہے لوگو ! تمہیں جو کچھ مصیبتیں پہنچتی ہیں وہ سب دراصل تمہارے اپنے کئے گناہوں کا بدلہ ہیں اور ابھی تو وہ غفور و رحیم اللہ تمہاری بہت سی حکم عدولیوں سے چشم پوشی فرماتا ہے اور انہیں معاف فرما دیتا ہے«وَلَوْ یُؤَاخِذُ اللہُ النَّاسَ بِمَا کَسَبُوا مَا تَرَکَ عَلَیٰ ظَہْرِہَا مِن دَابَّۃٍ » ( 35-فاطر : 45 ) اگر ہر اک گناہ پر پکڑے تو تم زمین پر چل پھر بھی نہ سکو ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ مومن کو جو تکلیف سختی غم اور پریشانی ہوتی ہے اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کی خطائیں معاف فرماتا ہے یہاں تک کہ ایک کانٹا لگنے کے عوض بھی ۔ (صحیح بخاری:5642) جب آیت « فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہٗ وَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَرَہُ » ( 99- الزلزلۃ : 8 ، 7 ) ، اتری اس وقت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کھانا کھا رہے تھے آپ رضی اللہ عنہ نے اسے سن کر کھانے سے ہاتھ ہٹا لیا اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہر برائی بھلائی کا بدلہ دیا جائے گا ؟ آپ نے فرمایا سنو طبیعت کے خلاف جو چیزیں ہوتی ہیں یہ سب برائیوں کے بدلے ہیں اور ساری نیکیاں اللہ کے پاس جمع شدہ ہیں ابو ادریس رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہی مضمون اس آیت میں بیان ہوا ہے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:30704) امیر المؤمنین علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں آؤ میں تمہیں کتاب اللہ شریف کی افضل ترین آیت سناؤں اور ساتھ ہی حدیث بھی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے یہ آیت تلاوت کی اور میرا نام لے کر فرمایا سن میں اس کی تفسیر بھی تجھے بتا دوں تجھے جو بیماریاں سختیاں اور بلائیں آفتیں دنیا میں پہنچتی ہیں وہ سب بدلہ ہے تمہارے اپنے اعمال کا اللہ تعالیٰ کا حکم اس سے بہت زیادہ ہے کہ پھر انہی پر آخرت میں بھی سزا کرے اور اکثر برائیاں معاف فرما دیتا ہے تو اس کے کرم سے یہ بالکل ناممکن ہے کہ دنیا میں معاف کی ہوئی خطاؤں پر آخرت میں پکڑے ( مسند احمد 85/1:ضعیف) ابن ابی حاتم میں یہی روایت سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہی کے قول سے مروی ہے اس میں ہے کہ ابوحجیفہ رحمہ اللہ جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں تمہیں ایک ایسی حدیث سناتا ہوں جسے یاد رکھنا ہر مومن کا فرض ہے پھر یہ تفسیر آیت کی اپنی طرف سے کر کے سنائی مسند میں ہے کہ مسلمان کے جسم میں جو تکلیف ہوتی ہے اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کے گناہ معاف فرماتا ہے ۔(مسند احمد:98/4:صحیح) مسند ہی کی اور حدیث میں ہے جب ایماندار بندے کے گناہ بڑھ جاتے ہیں اور اس کے کفارے کی کوئی چیز اس کے پاس نہیں ہوتی تو اللہ اسے کسی رنج و غم میں مبتلا کر دیتا ہے اور وہی اس کے ان گناہوں کا کفارہ ہو جاتا ہے (مسند احمد:157/6:ضعیف) ابن ابی حاتم میں حسن بصری رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ اس آیت کے اترنے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس اللہ کی قسم جس کے قبضے میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے کہ لکڑی کی ذرا سی خراش ہڈی کی ذرا سی تکلیف یہاں تک کہ قدم کا پھسلنا بھی کسی نہ کسی گناہ پر ہے اور ابھی اللہ کے عفو کئے ہوئے بہت سے گناہ تو یونہی مٹ جاتے ہیں ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:30705:مرسل) ابن ابی حاتم ہی میں ہے کہ جب حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کے جسم میں تکلیف ہوئی اور لوگ ان کی عیادت کو گئے تو حضرت حسن رحمہ اللہ نے کہا آپ کی یہ حالت تو دیکھی نہیں جاتی ہمیں بڑا صدمہ ہو رہا ہے آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ایسا نہ کہو جو تم دیکھ رہے ہو یہ سب گناہوں کا کفارہ ہے اور بھی بہت سے گناہ تو اللہ معاف فرما چکا ہے پھر اسی آیت کی تلاوت فرمائی ہے ۔ ابو البلاد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے علاء بن بدر رحمہ اللہ سے کہا کہ قرآن میں تو یہ آیت ہے اور میں ابھی نابالغ بچہ ہوں اور اندھا ہو گیا ہوں آپ رحمہ اللہ نے فرمایا یہ تیرے ماں باپ کے گناہوں کا بدلہ ہے حضرت ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ قرآن پڑھ کر بھول جانے والا یقیناً اپنے کسی گناہ میں پکڑا گیا ہے ۔ اس کی اور کوئی وجہ نہیں پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کر کے فرمایا بتاؤ تو اس سے بڑی مصیبت اور کیا ہو گی کہ انسان یاد کر کے کلام اللہ بھول جائے ۔ الشورى
30 الشورى
31 الشورى
32 سمندروں کی تسخیر قدرت الہی کی نشانی اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی قدرت کے نشان اپنی مخلوق کے سامنے رکھتا ہے کہ اس نے سمندروں کو مسخر کر رکھا ہے تاکہ کشتیاں ان میں برابر آئیں جائیں ۔ بڑی بڑی کشتیاں سمندروں میں ایسی ہی معلوم ہوتی ہیں جیسے زمین میں اونچے پہاڑ ۔ ان کشتیوں کو ادھر سے ادھر لے جانے والی ہوائیں اس کے قبضے میں ہیں اگر وہی چاہے تو ان ہواؤں کو روک لے پھر تو بادبان بیکار ہو جائیں اور کشتی رک کر کھڑی ہو جائے ہر وہ شخص جو سختیوں میں صبر کا اور آسانیوں میں شکر کا عادی ہو اس کے لیے تو بڑی عبرت کی جا ہے وہ رب کی عظیم الشان قدرت اور اس کی بےپایاں سلطنت کو ان نشانوں سے سمجھ سکتا ہے اور جس طرح ہوائیں بند کر کے کشتیوں کو کھڑا کر لینا اور روک لینا اس کے بس میں ہے اسی طرح ان پہاڑوں جیسی کشتیوں کو دم بھر میں ڈبو دینا بھی اس کے ہاتھ ہے اگر وہ چاہے تو اہل کشتی کے گناہوں کے باعث انہیں غرق کر دے ۔ ابھی تو وہ بہت سے گناہوں سے درگذر فرما لیتا ہے اور اگر سب گناہوں پر پکڑے تو جو بھی کشتی میں بیٹھے سیدھا سمندر میں ڈوبے ۔ لیکن اس کی بےپایاں رحمت ان کو اس پار سے اس پار کر دیتی ہے ۔ علماء تفسیر نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر وہ چاہے تو اسی ہوا کو ناموافق کر دے ۔ تیز و تند آندھی چلا دے جو کشتی کو سیدھی راہ چلنے ہی نہ دے ادھر سے ادھر کر دے سنبھالے نہ سنبھل سکے جہاں جانا ہے اس طرف جا ہی نہ سکے اور یونہی سرگشتہ و حیران ہو ہو کر اہل کشتی تباہ ہو جائیں ۔ الغرض اگر ہوا بند کر دے تو کھڑے کھڑے ناکام رہیں اگر تیز کر دے تو ناکامی ۔ لیکن یہ اس کا لطف و کرم ہے کہ خوشگوار موافق ہوائیں چلاتا ہے اور لمبے لمبے سفر ان کشتیوں کے ذریعہ بنی آدم طے کرتا ہے اور اپنے مقصد کو پالیتا ہے یہی حال پانی کا ہے کہ اگر بالکل نہ برسائے خشک سالی رہے دنیا تباہ ہو جائے ۔ اگر بہت ہی برسا دے تو تر سالی کوئی چیز پیدا نہ ہونے دے اور دنیا ہلاک ہو جائے ۔ ساتھ ہی مینہ کی کثرت طغیانی کا مکانوں کے گرنے کا اور پوری بربادی کا سبب بن جائے یہاں تک کہ رب کی مہربانی سے جن شہروں میں اور جن زمینوں میں زیادہ بارش کی ضرورت ہے وہاں کثرت سے مینہ برستا ہے اور جہاں کم کی ضرورت ہے وہاں کمی سے ۔ پھر فرماتا ہے کہ ہماری نشانیوں سے جھگڑنے والے ایسے موقعوں پر تو مان لیتے ہیں کہ ہماری قدرت سے باہر نہیں ۔ ہم اگر انتقام لینا چاہیں ہم اگر عذاب کرنا چاہیں تو وہ چھوٹ نہیں سکتے سب ہماری قدرت اور مشیت تلے ہیں «فَسُبْحَانَہُ مَا اَعْظَمَ شَاْنَہُ» الشورى
33 الشورى
34 الشورى
35 الشورى
36 درگزر کرنا بدلہ لینے سے بہتر ہے اللہ تعالیٰ نے دنیا کی بے قدری اور اس کی حقارت بیان فرمائی کہ اسے جمع کر کے کسی کو اس پر اترانا نہیں چاہیئے کیونکہ یہ فانی چیز ہے ۔ بلکہ آخرت کی طرف رغبت کرنی چاہیئے نیک اعمال کر کے ثواب جمع کرنا چاہیئے جو سرمدی اور باقی چیز ہے ۔ پس فانی کو باقی پر ، کمی کو زیادتی پر ترجیح دینا عقلمندی نہیں، اب اس ثواب کے حاصل کرنے کے طریقے بتائے جاتے ہیں کہ ایمان مضبوط ہو تاکہ دنیاوی لذتوں کے ترک پر صبر ہو سکے اللہ پر کامل بھروسہ ہو تاکہ صبر پر اس کی امداد ملے اور احکام الٰہی کی بجا آوری اور نافرمانیوں سے اجتناب آسان ہو جائے کبیرہ گناہوں اور فحش کاموں سے پرہیز چاہیئے ۔ اس جملہ کی تفسیر سورۃ الاعراف میں گذر چکی ہے ۔ غصے پر قابو چاہیئے کہ عین غصے اور غضب کی حالت میں بھی خوش خلقی اور درگذر کی عادت نہ چھوٹے چنانچہ صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی اپنے نفس کا بدلہ کسی سے نہیں لیا ہاں اگر اللہ کے احکام کی بےعزتی اور بے توقیری ہوتی ہو تو اور بات ہے ۔(صحیح بخاری:3560) اور حدیث میں ہے کہ بہت ہی زیادہ غصے کی حالت میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے اس کے سوا اور کچھ الفاظ نہ نکلتے کہ فرماتے اسے کیا ہو گیا ہے اس کے ہاتھ خاک آلود ہوں ۔(صحیح بخاری:6031) حضرت ابراہیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں مسلمان پست و ذلیل ہوتا تو پسند نہیں کرتے تھے لیکن غالب آ کر انتقام بھی نہیں لیتے تھے بلکہ درگذر کر جاتے اور معاف فرما دیتے ۔ ان کی اور صفت یہ ہے کہ یہ اللہ کا کہا کرتے ہیں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہیں جس کا وہ حکم کرے بجا لاتے ہیں جس سے وہ روکے رک جاتے ہیں نماز کے پابند ہوتے ہیں جو سب سے اعلیٰ عبادت ہے ۔ بڑے بڑے امور میں بغیر آپس کی مشاورت کے ہاتھ نہیں ڈالتے ۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہوتا ہے «وَشَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْر» ( 3- آل عمران : 159 ) یعنی ان سے مشورہ کر لیا کرو اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی کہ جہاد وغیرہ کے موقعہ پر لوگوں سے مشورہ کر لیا کرتے تاکہ ان کے جی خوش ہو جائیں ۔ اور اسی بنا پر امیر المؤمنین عمر رضی اللہ عنہ نے جب کہ آپ رضی اللہ عنہ کو زخمی کر دیا گیا اور وفات کا وقت آ گیا چھ آدمی مقرر کر دئیے کہ یہ اپنے مشورے سے میرے بعد کسی کو میرا جانشین مقرر کریں ان چھ بزرگوں کے نام یہ ہیں ۔ عثمان ، علی ، طلحہ ، زبیر ، سعد اور عبدالرحمٰن بن عوف رضٰی اللہ تعالیٰ عنہم ۔ پس سب نے باتفاق رائے سے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو اپنا امیر مقرر کیا پھر ان کا جن کے لیے آخرت کی تیاری اور وہاں کے ثواب ہیں ایک اور وصف بیان فرمایا کہ جہاں یہ حق اللہ ادا کرتے ہیں وہاں لوگوں کے حقوق کی ادائیگی میں بھی کمی نہیں کرتے اپنے مال میں محتاجوں کا حصہ بھی رکھتے ہیں اور درجہ بدرجہ اپنی طاقت کے مطابق ہر ایک کے ساتھ سلوک و احسان کرتے رہتے ہیں اور یہ ایسے ذلیل پست اور بیزور نہیں ہوتے کہ ظالم کے ظلم کی روک تھام نہ کر سکیں بلکہ اتنی قوت اپنے اندر رکھتے ہیں کہ ظالموں سے انتقام لیں اور مظلوم کو اس کے پنجے سے نجات دلوائیں لیکن ہاں ! اپنی شرافت کی وجہ سے غالب آ کر پھر چھوڑ دیتے ہیں ۔ جیسے کہ نبی اللہ یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں پر قابو پا کر فرما دیا کہ جاؤ تمہیں میں کوئی ڈانٹ ڈپٹ نہیں کرتا بلکہ میری خواہش ہے اور دعا ہے کہ اللہ بھی تمہیں معاف فرما دے ۔ (12-یوسف:92)۔ اور جیسے کہ سردار انبیاء رسول اللہ احمد مجتبیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ میں کیا جبکہ اسی وقت کفار غفلت کا موقع ڈھونڈ کر چپ چاپ لشکر اسلام میں گھس آئے جب یہ پکڑ لیے گئے اور گرفتار ہو کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دئیے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب کو معافی دے دی اور چھوڑ دیا ۔ اور اسی طرح آپ نے غورث بن حارث کو معاف فرما دیا یہ وہ شخص ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوتے ہوئے اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار پر قبضہ کر لیا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم جاگے اور اسے ڈانٹا تو تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلوار لے لی اور وہ مجرم گردن جھکائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑا ہو گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو بلا کر یہ منظر دکھایا اور یہ قصہ بھی سنایا پھر اسے معاف فرما دیا اور جانے دیا ۔(صحیح بخاری:4135) اسی طرح لبید بن اعصم نے جب آپ پر جادو کیا تو علم و قدرت کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے درگذر فرما لے۔(صحیح بخاری:5763) اور اسی طرح جس یہودیہ عورت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زہر دیا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بھی بدلہ نہ لیا اور قابو پانے اور معلوم ہو جانے کے باوجود بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنے بڑے واقعہ کو جانا آنا کر دیا اس عورت کا نام زینب تھا یہ مرحب یہودی کی بہن تھی ۔ جو جنگ خیبر میں محمود بن سلمہ کے ہاتھوں مارا گیا تھا ۔ اس نے بکری کے شانے کے گوشت میں زہر ملا کر خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا تھا خود شانے نے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے زہر آلود ہونے کی خبر دی تھی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلا کر دریافت فرمایا تو اس نے اقرار کیا تھا اور وجہ یہ بیان کی تھی کہ اگر آپ سچے نبی ہیں تو یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ نقصان نہ پہنچا سکے گا ۔ اور اگر آپ اپنے دعوے میں جھوٹے ہیں تو ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے راحت حاصل ہو جائے گی یہ معلوم ہو جانے پر اور اس کے اقبال کر لینے پر بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چھوڑ دیا ۔(صحیح بخاری:3169) معاف فرما دیا گو بعد میں وہ قتل کر دی گئی اس لیے کہ اسی زہر سے اور زہریلے کھانے سے بشر بن برا رضی اللہ عنہ فوت ہو گئے تب قصاصاً یہ یہودیہ عورت بھی قتل کرائی گئی ۔ اور بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عفو درگزر کے ایسے بہت سے واقعات ہیں صلی اللہ علیہ وسلم ۔ الشورى
37 الشورى
38 1 بڑے بڑے امور میں بغیر آپس کی مشاورت کے ہاتھ نہیں ڈالتے ۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم اللہ ہوتا ہے آیت «وَشَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْر» ( 3- آل عمران : 159 ) یعنی ان سے مشورہ کر لیا کرو اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی کہ جہاد وغیرہ کے موقعہ پر لوگوں سے مشورہ کر لیا کرتے تاکہ ان کے جی خوش ہو جائیں ۔ اور اسی بنا پر امیر المؤمنین عمر نے جب کہ آپ کو زخمی کر دیا گیا اور وفات کا وقت آ گیا چھ آدمی مقرر کر دئیے کہ یہ اپنے مشورے سے میرے بعد کسی کو میرا جانشین مقرر کریں ان چھ بزرگوں کے نام یہ ہیں ۔ عثمان ، علی ، طلحہ ، زبیر ، سعد اور عبدالرحمٰن بن عوف رضٰی اللہ تعالیٰ عنہم ۔ پس سب نے باتفاق رائے عثمان کو اپنا امیر مقرر کیا پھر ان کا جن کے لیے آخرت کی تیاری اور وہاں کے ثواب ہیں ایک اور وصف بیان فرمایا کہ جہاں یہ حق اللہ ادا کرتے ہیں وہاں لوگوں کے حقوق کی ادائیگی میں بھی کمی نہیں کرتے اپنے مال میں محتاجوں کا حصہ بھی رکھتے ہیں اور درجہ بدرجہ اپنی طاقت کے مطابق ہر ایک کے ساتھ سلوک و احسان کرتے رہتے ہیں اور یہ ایسے ذلیل پست اور بیزور نہیں ہوتے کہ ظالم کے ظلم کی روک تھام نہ کر سکیں بلکہ اتنی قوت اپنے اندر رکھتے ہیں کہ ظالموں سے انتقام لیں اور مظلوم کو اس کے پنجے سے نجات دلوائیں لیکن ہاں ! اپنی شرافت کی وجہ سے غالب آ کر پھر چھوڑ دیتے ہیں ۔ جیسے کہ نبی اللہ یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں پر قابو پا کر فرما دیا کہ جاؤ تمہیں میں کوئی ڈانٹ ڈپٹ نہیں کرتا بلکہ میری خواہش ہے اور دعا ہے کہ اللہ بھی تمہیں معاف فرما دے ۔ اور جیسے کہ سردار انبیاء رسول اللہ احمد مجتبیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ میں کیا جبکہ اسی وقت کفار غفلت کا موقع ڈھونڈ کر چپ چاپ لشکر اسلام میں گھس آئے جب یہ پکڑ لیے گئے اور گرفتار ہو کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دئیے گئے تو آپ نے ان سب کو معافی دے دی اور چھوڑ دیا ۔ اور اسی طرح آپ نے غورث بن حارث کو معاف فرما دیا یہ وہ شخص ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوتے ہوئے اس نے آپ کی تلوار پر قبضہ کر لیا جب آپ جاگے اور اسے ڈانٹا تو تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی اور آپ نے تلوار لے لی اور وہ مجرم گردن جھکائے آپ کے سامنے کھڑا ہو گیا آپ نے صحابہ کو بلا کر یہ منظر دکھایا اور یہ قصہ بھی سنایا پھر اسے معاف فرما دیا اور جانے دیا ۔ اسی طرح لبید بن اعصم نے جب آپ پر جادو کیا تو علم و قدرت کے باوجود آپ نے اس سے درگذر فرما لے اور اسی طرح جس یہودیہ عورت نے آپ کو زہر دیا تھا آپ نے اس سے بھی بدلہ نہ لیا اور قابو پانے اور معلوم ہو جانے کے باوجود بھی آپ نے اتنے بڑے واقعہ کو جانا آنا کر دیا اس عورت کا نام زینب تھا یہ مرحب یہودی کی بہن تھی ۔ جو جنگ خیبر میں محمود بن سلمہ کے ہاتھوں مارا گیا تھا ۔ اس نے بکری کے شانے کے گوشت میں زہر ملا کر خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا تھا خود شانے نے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے زہر آلود ہونے کی خبر دی تھی جب آپ نے اسے بلا کر دریافت فرمایا تو اس نے اقرار کیا تھا اور وجہ یہ بیان کی تھی کہ اگر آپ سچے نبی ہیں تو یہ آپ کو کچھ نقصان نہ پہنچا سکے گا ۔ اور اگر آپ اپنے دعوے میں جھوٹے ہیں تو ہمیں آپ سے راحت حاصل ہو جائے گی یہ معلوم ہو جانے پر اور اس کے اقبال کر لینے پر بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چھوڑ دیا ۔ معاف فرما دیا گو بعد میں وہ قتل کر دی گئی اس لیے اسی زہر سے اور زہریلے کھانے سے بشر بن برا فوت ہو گئے تب قصاصاً یہ یہودیہ عورت بھی قتل کرائی گئی اور بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عفو درگزر کے ایسے بہت سے واقعات ہیں صلی اللہ علیہ وسلم ۔ الشورى
39 الشورى
40 برائی کا بدلہ لینا جائز ہے ارشاد ہوتا ہے کہ برائی کا بدلہ لینا جائز ہے ۔ جیسے فرمایا «فَمَنِ اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ ۠ وَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ » ( 2- البقرۃ : 194 ) اور آیت میں ہے «وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِہٖ ۭوَلَیِٕنْ صَبَرْتُمْ لَہُوَ خَیْرٌ لِّلصّٰبِرِیْنَ » ( 16- النحل : 126 ) یعنی خاص زخموں کا بھی بدلہ ہے پھر اسے معاف کر دے تو وہ اس کے لیے کفارہ ہو جائے گا ۔ یہاں بھی فرمایا جو شخص معاف کر دے اور صلح و صفائی کر لے اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے ۔ حدیث میں ہے درگذر کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ بندے کی عزت اور بڑھا دیتا ہے ۔(صحیح مسلم:2588) لیکن جو بدلے میں اصل جرم سے بڑھ جائے وہ اللہ کا دشمن ہے ۔ پھر برائی کی ابتداء اسی کی طرف سے سمجھی جائے گی پھر فرماتا ہے جس پر ظلم ہو اسے بدلہ لینے میں کوئی گناہ نہیں ۔ حضرت ابن عون رحمہ اللہ فرماتے ہیں ، میں اس لفظ «انتَصَرَ» کی تفسیر کی طلب میں تھا تو مجھ سے علی بن زید بن جدعان رحمہ اللہ نے بروایت اپنی والدہ ام محمد کے جو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس جایا کرتی تھیں بیان کیا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گئے اس وقت سیدہ زینب رضی اللہ عنہا وہاں موجود تھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم نہ تھا صدیقہ رضی اللہ عنہا کی طرف جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ بڑھایا تو سیدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اشارے سے بتایا اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا ۔ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے صدیقہ رضی اللہ عنہا کو برا بھلا کہنا شروع کیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ممانعت پر بھی خاموش نہ ہوئیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو اجازت دی کہ جواب دیں ۔ اب جو جواب ہوا تو سیدہ زینب رضی اللہ عنہا عاجز آ گئیں اور سیدھی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس گئیں اور کہا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا تمہیں یوں یوں کہتی ہیں اور ایسا ایسا کرتی ہیں ۔ یہ سن کر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا قسم رب کعبہ کی ! عائشہ رضی اللہ عنہا سے میں محبت رکھتا ہوں یہ تو اسی وقت واپس چلی گئیں ۔ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے سارا واقعہ کہہ سنایا پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ آئے اور آپ سے باتیں کیں ۔(تفسیر ابن جریر الطبری:30729:ضعیف) یہ روایت ابن جریر میں اسی طرح ہے لیکن اس کے راوی اپنی روایتوں میں عموماً منکر حدیثیں لایا کرتے ہیں اور یہ روایت بھی منکر ہے نسائی اور ابن ماجہ میں اس طرح ہے کہ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا غصہ میں بھری ہوئی بلا اطلاع سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر چلی آئیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صدیقہ رضی اللہ عنہا کی نسبت کچھ کہا پھر عائشہ سے لڑنے لگیں لیکن مائی صاحبہ نے خاموشی اختیار کی جب وہ بہت کہہ چکیں تو آپ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا تو اپنا بدلہ لے لے پھر جو صدیقہ رضی اللہ عنہا نے جواب دینے شروع کئے تو سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کا تھوک خشک ہو گیا ۔ کوئی جواب نہ دے سکیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے سے وہ صدمہ مٹ گیا ۔(سنن ابن ماجہ:1981،قال الشیخ الألبانی:صحیح) حاصل یہ ہے کہ مظلوم ظالم کو جواب دے اور اپنا بدلہ لے لے ۔ بزار میں ہے ظالم کے لیے جس نے بد دعا کی اس نے بدلہ لے لیا ۔ (سنن ترمذی:3552،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) یہی حدیث ترمذی میں ہے لیکن اس کے ایک راوی میں کچھ کلام ہے پھر فرماتا ہے حرج و گناہ ان پر ہے جو لوگوں پر ظلم کریں اور زمین میں بلا وجہ شرو فساد کریں ۔ الشورى
41 الشورى
42 فسادیوں کے لئے دردناک عذاب چنانچہ صحیح حدیث میں ہے دو برا کہنے والے جو کچھ کہیں سب کا بوجھ شروع کرنے والے پر ہے جب کہ مظلوم بدلے کی حد سے آگے نہ نکل جائے ۔(صحیح مسلم:2587) ایسے فسادی قیامت کے دن درد ناک عذاب میں مبتلا کئے جائیں گے محمد بن واسع رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں مکہ جانے لگا تو دیکھا کہ خندق پر پل بنا ہوا ہے میں ابھی وہیں تھا جو گرفتار کر لیا گیا اور امیر بصرہ مروان بن مہلب کے پاس پہنچا دیا گیا اس نے مجھ سے کہا ابوعبداللہ تم کیا چاہتے ہو ؟ میں نے کہا یہی کہ اگر تم سے ہو سکے تو بنو عدی کے بھائی جیسے بن جاؤ پوچھا وہ کون ہے ؟ کہا علا بن زیاد کہ اپنے ایک دوست کو ایک مرتبہ کسی صیغہ پر عامل بنایا تو انہوں نے اسے لکھا کہ حمد و صلوۃ کے بعد اگر تجھ سے ہو سکے تو یہ کرنا کہ تیری کمر بوجھ سے خالی رہے تیرا پیٹ حرام سے بچ جائے تیرے ہاتھ مسلمانوں کے خون و مال سے آلودہ نہ ہوں تو جب یہ کرے گا تو تجھ پر کوئی گناہ کی راہ باقی نہ رہے گی یہ راہ تو ان پر ہے جو لوگوں پر ظلم کریں اور بیوجہ ناحق زمین میں فساد پھیلائیں ۔ مروان نے کہا اللہ جانتا ہے اس نے سچ کہا اور خیر خواہی کی بات کہی ۔ اچھا اب کیا آرزو ہے ؟ فرمایا یہی کہ تم مجھے میرے گھر پہنچا دو مروان نے کہا بہت اچھا ۔ ( ابن ابی حاتم ) پس ظلم و اہل ظلم کی مذمت بیان کر کے بدلے کی اجازت دے کر اب افضیلت کی طرف رغبت دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ جو ایذاء برداشت کر لے اور برائی سے درگذر کر لے اس نے بڑی بہادری سے کام کیا جس پر وہ بڑے ثواب اور پورے بدلے کا مستحق ہے ۔ حضرت فضیل بن عیاض رحمہ اللہ کا فرمان ہے کہ جب تم سے آ کر کوئی شخص کسی اور کی شکایت کرے تو اسے تلقین کرو کہ بھائی معاف کر دو معافی میں ہی بہتری ہے اور یہی پرہیزگاری کا ثبوت ہے اگر وہ نہ مانے اور اپنے دل کی کمزوری کا اظہار کرے تو خیر کہدو کہ جاؤ بدلہ لے لو لیکن اس صورت میں کہ پھر کہیں تم بڑھ نہ جاؤ ورنہ ہم تو اب بھی یہی کہیں گے کہ معاف کر دو یہ دروازہ بہت وسعت والا ہے اور بدلے کی راہ بہت تنگ ہے سنو معاف کر دینے والا تو آرام سے میٹھی نیند سو جاتا ہے اور بدلے کی دھن والا دن رات متفکر رہتا ہے ۔ اور توڑ جوڑ سوچتا ہے ۔ مسند امام احمد میں ہے کہ ایک شخص نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہنا شروع کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی وہیں تشریف فرما تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم تعجب کے ساتھ مسکرانے لگے صدیق رضی اللہ عنہ خاموش تھے لیکن جب کہ اس نے بہت گالیاں دیں تو آپ رضی اللہ عنہ نے بھی بعض کا جواب دیا ۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہو کر وہاں سے چل دئیے ۔سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے رہا نہ گیا آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ مجھے برا بھلا کہتا رہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے سنتے رہے اور جب میں نے اس کی دو ایک باتوں کا جواب دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ناراضگی سے اٹھ کے چلے آئے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سنو ! جب تک تم خاموش تھے فرشتہ تمہاری طرف سے جواب دیتا تھا جب تم آپ بولے تو فرشتہ ہٹ گیا اور شیطان بیچ میں آ گیا پھر بھلا میں شیطان کی موجودگی میں وہاں کیسے بیٹھا رہتا ؟ پھر فرمایا سنو ابوبکر رضی اللہ عنہ تین چیزیں بالکل حق ہیں ( ١ ) جس پر کوئی ظلم کیا جائے اور وہ اس سے چشم پوشی کر لے تو ضرور اللہ اسے عزت دے گا اور اس کی مدد کرے گا ( ٢ ) جو شخص سلوک اور احسان کا دروازہ کھولے گا اور صلہ رحمی کے ارادے سے لوگوں کو دیتا رہے گا اللہ اسے برکت دے گا اور زیادتی عطا فرمائے گا ( ٣ ) اور جو شخص مال بڑھانے کے لیے سوال کا دروازہ کھول لے گا اور دوسروں سے مانگتا پھرے گا اللہ اس کے ہاں بے برکتی کر دے گا اور کمی میں ہی وہ مبتلا رہے گا یہ روایت ابوداؤد میں بھی ہے اور مضمون کے اعتبار سے یہ بڑی پیاری حدیث ہے ۔(سنن ابوداود:4896،قال الشیخ الألبانی:حسن) الشورى
43 الشورى
44 اللہ تعالٰی کو کوئی پوچھنے والا نہیں اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ وہ جو چاہتا ہے ہوتا ہے اسے کوئی روک نہیں سکتا اور جو نہیں چاہتا نہیں ہوتا اور نہ اسے کوئی کر سکتا ہے وہ جسے راہ راست دکھا دے اسے بہکا نہیں سکتا اور جس سے وہ راہ حق گم کر دے اسے کوئی اس راہ کو دکھا نہیں سکتا اور جگہ فرمان ہے «وَمَنْ یٰضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَہٗ وَلِیًّا مٰرْشِدًا» ( 18- الکہف : 17 ) جسے وہ گمراہ کر دے اس کا کوئی چارہ ساز اور رہبر نہیں ۔ پھر فرماتا ہے یہ مشرکین قیامت کے عذاب کو دیکھ کر دوبارہ دنیا میں آنے کی تمنا کریں گے جیسے اور جگہ ہے « وَلَوْ تَرٰٓی اِذْ وُقِفُوْا عَلَی النَّارِ فَقَالُوْا یٰلَیْتَنَا نُرَدٰ وَلَا نُکَذِّبَ بِاٰیٰتِ رَبِّنَا وَنَکُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ بَلْ بَدَا لَہُم مَّا کَانُوا یُخْفُونَ مِن قَبْلُ ۖ وَلَوْ رُدٰوا لَعَادُوا لِمَا نُہُوا عَنْہُ وَإِنَّہُمْ لَکَاذِبُونَ » ( 6- الانعام : 28 ، 27 ) کاش کہ تو انہیں دیکھتا جب کہ یہ دوزخ کے پاس کھڑے کئے جائیں گے اور کہیں گے ہائے کیا اچھی بات ہو کہ ہم دوبارہ واپس بھیج دئیے جائیں تو ہم ہرگز اپنے رب کی آیتوں کو جھوٹ نہ بتائیں بلکہ ایمان لے آئیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ لوگ جس چیز کو اس سے پہلے پوشیدہ کئے ہوئے تھے وہ ان کے سامنے آ گئی ۔ بات یہ ہے کہ اگر یہ دوبارہ بھیج بھی دیئے جائیں تب بھی وہی کریں گے جس سے منع کئے جاتے ہیں یقیناً یہ جھوٹے ہیں ۔ پھر فرمایا یہ جہنم کے پاس لائے جائیں گے اور اللہ کی نافرمانیوں کی وجہ سے ان پر ذلت برس رہی ہو گی عاجزی سے جھکے ہوئے ہوں گے اور نظریں بچاکر جہنم کو تک رہے ہوں گے ۔ خوف زدہ اور حواس باختہ ہو رہے ہوں گے لیکن جس سے ڈر رہے ہیں اس سے بچ نہ سکیں گے نہ صرف اتنا ہی بلکہ ان کے وہم و گمان سے بھی زیادہ عذاب انہیں ہو گا ۔ اللہ ہمیں محفوظ رکھے اس وقت ایماندار لوگ کہیں گے کہ حقیقی نقصان یافتہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے ساتھ اپنے والوں کو بھی جہنم واصل کیا یہاں تک کہ آج کی ابدی نعمتوں سے محروم رہے اور انہیں بھی محروم رکھا آج وہ سب الگ الگ عذاب میں مبتلا ہیں دائمی ابدی اور سرمدی سزائیں بھگت رہے ہیں اور یہ ناامید ہو جائیں آج کوئی ایسا نہیں جو ان عذابوں سے چھڑا سکے یا تخفیف کرا سکے ان گمراہوں کو خلاصی دینے والا کوئی نہیں ۔ الشورى
45 الشورى
46 الشورى
47 آسانی میں شکر تنگی میں صبر مومنوں کی صفت ہے چونکہ اوپر یہ ذکر تھا کہ قیامت کے دن بڑے ہیبت ناک واقعات ہوں گے وہ سخت مصیبت کا دن ہو گا تو اب یہاں اس سے ڈرا رہا ہے اور اس دن کے لیے تیار رہنے کو فرماتا ہے کہ اس اچانک آجانے والے دن سے پہلے ہی پہلے اللہ کے فرمان پر پوری طرح عمل کر لو «یَقُولُ الْإِنسَانُ یَوْمَئِذٍ أَیْنَ الْمَفَرٰ کَلَّا لَا وَزَرَ إِلَیٰ رَبِّکَ یَوْمَئِذٍ الْمُسْتَقَرٰ » ( 75-القیامۃ : 10 - 12 ) جب وہ دن آ جائے تو تمہیں نہ تو کوئی جائے پناہ ملے گی نہ ایسی جگہ کہ وہاں انجان بن کر ایسے چھپ جاؤ کہ پہچانے نہ جاؤ اور نہ نظر پڑے ۔ پھر فرماتا ہے کہ« لَّیْسَ عَلَیْکَ ہُدَاہُمْ وَلٰکِنَّ اللہَ یَہْدِی مَن یَشَاءُ» ( 2-البقرۃ : 272 ) اگر یہ مشرک نہ مانیں تو آپ ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجے گئے انہیں ہدایت پر لاکھڑا کر دینا آپ کے ذمے نہیں یہ کام اللہ کا ہے ۔ «فَإِنَّمَا عَلَیْکَ الْبَلَاغُ وَعَلَیْنَا الْحِسَابُ » ( 13-الرعد : 40 ) آپ پر صرف تبلیغ ہے حساب ہم خود لے لیں گے انسان کی حالت یہ ہے کہ راحت میں بدمست بن جاتا ہے اور تکلیف میں ناشکرا پن کرتا ہے اس وقت اگلی نعمتوں کا بھی منکر بن جاتا ہے ۔ حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے فرمایا صدقہ کرو میں نے تمہیں زیادہ تعداد میں جہنم میں دیکھا ہے کسی عورت نے پوچھا یہ کس وجہ سے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہاری شکایت کی زیادتی اور اپنے خاوندوں کی ناشکری کی وجہ سے اگر تو ان میں سے کوئی تمہارے ساتھ ایک زمانے تک احسان کرتا رہے پھر ایک دن چھوڑ دے تو تم کہہ دو گی کہ میں نے تو تجھ سے کبھی کوئی راحت پائی ہی نہیں ۔(صحیح بخاری:304) فی الواقع اکثر عورتوں کا یہی حال ہے لیکن جس پر اللہ رحم کرے اور نیکی کی توفیق دیدے ۔ اور حقیقی ایمان نصیب فرمائے پھر تو اس کا یہ حال ہوتا ہے کہ ہر راحت پہ شکر ہر رنج پر صبر پس ہر حال میں نیکی حاصل ہوتی ہے اور یہ وصف بجز مومن کے کسی اور میں نہیں ہوتا ۔(صحیح مسلم:233) الشورى
48 الشورى
49 اولاد کا اختیار اللہ کے پاس ہے فرماتا ہے کہ خالق مالک اور متصرف زمین و آسمان کا صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے وہ جو چاہتا ہے ہوتا ہے جو نہیں چاہتا نہیں ہوتا جسے چاہے دے جسے چاہے نہ دے جو چاہے پیدا کرے اور بنائے جسے چاہے صرف لڑکیاں دے جیسے لوط علیہ الصلوۃ والسلام ۔ اور جسے چاہے صرف لڑکے ہی عطا فرماتا ہے جیسے ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوۃ والسلام ۔ اور جسے چاہے لڑکے لڑکیاں سب کچھ دیتا ہے جیسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور جسے چاہے لا ولد رکھتا ہے جیسے یحییٰ اور عیسیٰ ۔ پس یہ چار قسمیں ہوئیں ۔ لڑکیوں والے لڑکوں والے دونوں والے اور دونوں سے خالی ہاتھ ۔ وہ علیم ہے ہر مستحق کو جانتا ہے ۔ قادر ہے جس طرح چاہے تفاوت رکھتا ہے ۔ پس یہ مقام بھی مثل اس فرمان الٰہی کے ہے ۔ جو عیسیٰ کے بارے میں ہے کہ«وَلِنَجْعَلَہُ آیَۃً لِّلنَّاسِ» ( 19-مریم : 21 ) تاکہ کہ ہم اسے لوگوں کے لیے نشان بنائیں یعنی دلیل قدرت بنائیں اور دکھا دیں کہ ہم نے مخلوق کو چار طور پر پیدا کیا آدم علیہ السلام صرف مٹی سے پیدا ہوئے نہ ماں نہ باپ ۔ حواء صرف مرد سے پیدا ہوئیں باقی کل انسان مرد عورت دونوں سے سوائے عیسیٰ علیہ السلام کے کہ وہ صرف عورت سے بغیر مرد کے پیدا کئے گئے ۔ پس آپ کی پیدائش سے یہ چاروں قسمیں ہو گئیں ۔ پس یہ مقام ماں باپ کے بارے میں تھا اور وہ مقام اولاد کے بارے میں اس کی بھی چار قسمیں اور اس کی بھی چار قسمیں سبحان اللہ یہ ہے اس اللہ کے علم و قدرت کی نشانی ۔ الشورى
50 الشورى
51 قرآن حکیم شفا ہے مقامات و مراتب و کیفیات وحی کا بیان ہو رہا ہے کہ کبھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں وحی ڈال دی جاتی ہے جس کے وحی اللہ ہونے میں آپکو کوئی شک نہیں رہتا جیسے صحیح ابن حبان کی حدیث میں ہے کہ روح القدس نے میرے دل میں یہ بات پھونکی ہے کہ کوئی شخص بھی جب تک اپنی روزی اور اپنا وقت پورا نہ کر لے ہرگز نہیں مرتا پس اللہ سے ڈرو اور روزی کی طلب میں اچھائی اختیار کرو ۔ (سلسلۃ احادیث صحیحہ البانی:2607،صحیح) یا پردے کی اوٹ سے جیسے موسیٰ سے کلام ہوا ۔ کیونکہ انہوں نے کلام سن کر جمال دیکھنا چاہا لیکن وہ پردے میں تھا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے کسی سے کلام نہیں کیا مگر پردے کے پیچھے سے لیکن تیرے باپ سے اپنے سامنے کلام کیا ۔ (سنن ترمذی:3010،قال الشیخ الألبانی:حسن) یہ جنت احد میں کفار کے ہاتھوں شہید کئے گئے تھے ۔ لیکن یہ یاد رہے کہ یہ کلام عالم برزخ کا ہے اور آیت میں جس کلام کا ذکر ہے اس سے مراد دنیا کا کلام ہے یا اپنے قاصد کو بھیج کر اپنی بات اس تک پہنچائے جیسے جبرائیل علیہ السلام وغیرہ فرشتے انبیاء علیہ السلام کے پاس آتے رہے وہ علو اور بلندی اور بزرگی والا ہے ساتھ ہی حکیم اور حکمت والا ہے ۔ الشورى
52 قرآن کو بذریعہ وحی اتارا روح سے مراد قرآن ہے فرماتا ہے اس قرآن کو بذریعہ وحی کے ہم نے تیری طرف اتارا ہے کتاب اور ایمان کو جس تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہم نے اپنی کتاب میں ہے تو اس سے پہلے جانتا بھی نہ تھا ، لیکن ہم نے اس قرآن کو نور بنایا ہے تاکہ اس کے ذریعہ سے ہم اپنے ایماندار بندوں کو راہ راست دکھلائیں جیسے آیت میں ہے «قُلْ ہُوَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ہُدًی وَّشِفَاۗءٌ » ( 41- فصلت : 44 ) کہدے کہ یہ ایمان والوں کے واسطے ہدایت و شفاء ہے اور بے ایمانوں کے کان بہرے اور آنکھیں اندھی ہیں پھر فرمایا کہ اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تم صریح اور مضبوط حق کی رہنمائی کر رہے ہو پھر صراط مستقیم کی تشریح کی اور فرمایا اسے شرع مقرر کرنے والا خود اللہ ہے جس کی شان یہ ہے کہ آسمانوں زمینوں کا مالک اور رب وہی ہے ان میں تصرف کرنے والا اور حکم چلانے والا بھی وہی ہے کوئی اس کے کسی حکم کو ٹال نہیں سکتا تمام امور اس کی طرف پھیرے جاتے ہیں وہی سب کاموں کے فیصلے کرتا ہے اور حکم کرتا ہے وہ پاک اور برتر ہے ہر اس چیز سے جو اس کی نسبت ظالم اور منکرین کہتے ہیں وہ بلندیوں اور بڑائیوں والا ہے ۔ الشورى
53 الشورى
0 الزخرف
1 قرآن لوح محفوظ میں ہے قرآن کی قسم کھائی جو واضح ہے جس کے معانی روشن ہیں ۔ جس کے الفاظ نورانی ہیں ، جو سب سے زیادہ فصیح و بلیغ عربی زبان میں نازل ہوا ہے ۔ یہ اس لیے کہ لوگ سوچیں سمجھیں اور وعظ و پند نصیحت و عبرت حاصل کریں ۔ ہم نے اس قرآن کو عربی زبان میں نازل فرمایا ہے جیسے اور جگہ ہے ۱؎ «بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مٰبِینٍ» (26-الشعراء:195) ’ عربی واضح زبان میں اسے نازل فرمایا ہے ۔ ‘ اس کی شرافت و مرتبت جو عالم بالا میں ہے اسے بیان فرمایا تا کہ زمین والے اس کی منزلت و توقیر معلوم کر لیں ۔ فرمایا کہ ’ یہ لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے ۔ ‘ «لَدَیْنَا» سے مراد ہمارے پاس ۔ «لَعَلِیٌّ» سے مراد مرتبے والا عزت ولا شرافت اور فضیلت والا ہے ۔ «حَکِیمٌ» سے مراد محکم ، مضبوط جو باطل کے ملنے اور ناحق سے خلط ملط ہو جانے سے پاک ہے۔ اور آیت میں اس پاک کلام کی بزرگی کا بیان ان الفاظ میں ہے آیت « اِنَّہٗ لَقُرْاٰنٌ کَرِیْمٌ » الخ ۱؎ (56-الواقعۃ:77)، یعنی ’ یہ قرآن کریم لوح محفوظ میں درج ہے اسے بجز پاک فرشتوں کے اور کوئی ہاتھ لگا نہیں پاتا یہ رب العالمین کی طرف سے اترا ہوا ہے ۔ ‘ اور جگہ ہے آیت «کَلَّآ اِنَّہَا تَذْکِرَۃٌ فَمَن شَاءَ ذَکَرَہُ فِی صُحُفٍ مٰکَرَّمَۃٍ مَّرْفُوعَۃٍ مٰطَہَّرَۃٍ بِأَیْدِی سَفَرَۃٍ کِرَامٍ بَرَرَۃٍ » ۱؎ (80-عبس:16-11) ، ’ قرآن نصیحت کی چیز ہے جس کا جی چاہے اسے قبول کرے وہ ایسے صحیفوں میں سے ہے جو معزز ہیں بلند مرتبہ ہیں اور مقدس ہیں جو ایسے لکھنے والوں کے ہاتھوں میں ہیں جو ذی عزت اور پاک ہیں ۔ ‘ ان دونوں آیتوں سے علماء نے استنباط کیا ہے کہ بے وضو قرآن کریم کو ہاتھ میں نہیں لینا چاہیئے جیسے کہ ایک حدیث میں بھی آیا ہے بشرطیکہ وہ صحیح ثابت ہو جائے ۔ اس لیے کہ عالم بالا میں فرشتے اس کتاب کی عزت و تعظیم کرتے ہیں جس میں یہ قرآن لکھا ہوا ہے ۔ پس اس عالم میں ہمیں بطور اولیٰ اس کی بہت زیادہ تکریم و تعظیم کرنی چاہیئے کیونکہ یہ زمین والوں کی طرف ہی بھیجا گیا ہے اور اس کا خطاب انہی سے ہے تو انہیں اس کی بہت زیادہ تعظیم اور ادب کرنا چاہیئے اور ساتھ ہی اس کے احکام کو تسلیم کر کے ان پر عامل بن جانا چاہیئے کیونکہ رب کا فرمان ہے کہ یہ ہمارے ہاں ام الکتاب میں ہے اور بلند پایہ اور باحکمت ہے ۔ اس کے بعد کی آیت کے ایک معنی تو یہ کئے گئے ہیں کہ ’ کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ باوجود اطاعت گذاری اور فرمانبرداری نہ کرنے کے ہم تم کو چھوڑ دیں گے اور تمہیں عذاب نہ کریں گے؟ ‘ دوسرے معنی یہ ہیں کہ ’ اس امت کے پہلے گزرنے والوں نے جب اس قرآن کو جھٹلایا اسی وقت اگر یہ اٹھا لیا جاتا تو تمام دنیا ہلاک کر دی جاتی ۔ ‘ لیکن اللہ کی وسیع رحمت نے اسے پسند نہ فرمایا اور برابر بیس سال سے زیادہ تک یہ قرآن اترتا رہا اس قول کا مطلب یہ ہے کہ یہ اللہ کی لطف و رحمت ہے کہ وہ نہ ماننے والوں کے انکار اور بد باطن لوگوں کی شرارت کی وجہ سے انہیں نصیحت و موعظت کرنی نہیں چھوڑتا تاکہ جو ان میں نیکی والے ہیں وہ درست ہو جائیں اور جو درست نہیں ہوتے ان پر حجت تمام ہو جائے ۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ ’ آپ اپنی قوم کی تکذیب پر گھبرائیں نہیں ۔ صبر و برداشت کیجئے ۔ ان سے پہلے کی جو قومیں تھیں ان کے پاس بھی ہم نے اپنے رسول و نبی بھیجے تھے اور انہیں ہلاک کر دیا وہ آپ کے زمانے کے لوگوں سے زیادہ زور اور اور باہمت اور توانا ہاتھوں والے تھے ۔ ‘ جیسے اور آیت میں ہے « أَفَلَمْ یَسِیرُوا فِی الْأَرْضِ فَیَنظُرُوا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الَّذِینَ مِن قَبْلِہِمْ کَانُوا أَکْثَرَ مِنْہُمْ وَأَشَدَّ قُوَّۃً» ۱؎ (40-غافر:82) ، ’ کیا انہوں نے زمین میں چل پھر کر نہیں ؟ کہ ان سے پہلے کے لوگوں کا کیا انجام ہوا ؟ جو ان سے تعداد میں اور قوت میں بہت زیادہ بڑھے ہوئے تھے ۔ ‘ اور بھی آیتیں اس مضمون کی بہت سی ہیں ۔ پھر فرماتا ہے ’ اگلوں کی مثالیں گزر چکیں ‘ یعنی عادتیں ، سزائیں ، عبرتیں ۔ جیسے اس سورت کے آخر میں فرمایا ہے«فَجَعَلْنَاہُمْ سَلَفًا وَمَثَلًا لِّلْآخِرِینَ»۱؎ (43-الزخرف:56) ’ ہم نے انہیں گذرے ہوئے اور بعد والوں کے لیے عبرتیں بنا دیا ۔‘ اور جیسے فرمان ہے آیت «سُـنَّۃَ اللّٰہِ الَّتِیْ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ وَلَنْ تَجِدَ لِسُـنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًا» ۱؎ (40-غافر:85) ، یعنی ’ اللہ کا طریقہ جو اپنے بندوں میں پہلے سے چلا آیا ہے اور تو اسے بدلتا ہوا نہ پائے گا ۔‘ الزخرف
2 الزخرف
3 الزخرف
4 الزخرف
5 الزخرف
6 الزخرف
7 الزخرف
8 الزخرف
9 اصلی زاد راہ تقویٰ ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’ اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اگر تم ان مشرکین سے دریافت کرو تو یہ اس بات کا اقرار کریں گے کہ زمین و آسمان کا خالق اللہ تعالیٰ ہے پھر یہی اس کی وحدانیت کو جان کر اور مان کر عبادت میں دوسروں کو شریک ٹھہرا رہے ہیں جس نے زمین کو فرش اور ٹھہری ہوئی قرار گاہ اور ثابت و مضبوط بنایا جس پر تم چلو ، پھرو ، رہو ، سہو ، اٹھو ، بیٹھو ، سوؤ ، جاگو ۔ ‘ ’ حالانکہ یہ زمین خود پانی پر ہے لیکن مضبوط پہاڑوں کے ساتھ اسے ہلنے جلنے سے روک دیا ہے اور اس میں راستے بنا دئیے ہیں تاکہ تم ایک شہر سے دوسرے شہر کو ایک ملک سے دوسرے ملک کو پہنچ سکو۔ ‘ الزخرف
10 الزخرف
11 آیات ۱۱ تا ۱۴ اسی نے آسمان سے ایسے انداز سے بارش برسائی جو کفایت ہو جائے کھیتیاں اور باغات سرسبز رہیں پھلیں پھولیں اور پانی تمہارے اور تمہارے جانوروں کے پینے میں بھی آئے پھر اس مینہ سے مردہ زمین زندہ کر دی خشکی تری سے بدل گئی جنگل لہلہا اٹھے پھل پھول اگنے لگے اور طرح طرح کے خوشگوار میوے پیدا ہو گئے پھر اسی کو مردہ انسانوں کے جی اٹھنے کی دلیل بنایا ۔ اور فرمایا ’ اسی طرح تم قبروں سے نکالے جاؤ گے اس نے ہر قسم کے جوڑے پیدا کئے کھیتیاں پھل پھول ترکاریاں اور میوے وغیرہ طرح طرح کی چیزیں اس نے پیدا کر دیں ۔ ‘ مختلف قسم کے حیوانات تمہارے نفع کے لیے پیدا کئے کشتیاں سمندروں کے سفر کے لیے اور چوپائے جانور خشکی کے سفر کے لیے مہیا کر دئیے ان میں سے بہت سے جانوروں کے گوشت تم کھاتے ہو بہت سے تمہیں دودھ دیتے ہیں بہت سے تمہاری سواریوں کے کام آتے ہیں ۔ تمہارے بوجھ ڈھوتے ہیں تم ان پر سواریاں لیتے ہو اور خوب مزے سے ان پر سوار ہوتے ہو ۔ اب تمہیں چاہیئے کہ جم کر بیٹھ جانے کے بعد اپنے رب کی نعمت یاد کرو کہ اس نے کیسے کیسے طاقتور وجود تمہارے قابو میں کر دئیے ۔ اور یوں کہو کہ وہ اللہ پاک ذات والا ہے جس نے اسے ہمارے قابو میں کر دیا اگر وہ اسے ہمارا مطیع نہ کرتا تو ہم اس قابل نہ تھے نہ ہم میں اتنی طاقت تھی ۔ اور ہم اپنی موت کے بعد اسی کی طرف جانے والے ہیں اس آمدورفت سے اور اس مختصر سفر سے سفر آخرت یاد کرو ۔ جیسے کہ دنیا کے توشے کا ذکر کر کے اللہ تعالیٰ نے آخرت کے توشے کی جانب توجہ دلائی اور فرمایا ’ توشہ لے لیا کرو لیکن بہترین توشہ آخرت کا توشہ ہے ‘ اور دنیوی لباس کے ذکر کے موقعہ پر اخروی لباس کی طرف متوجہ کیا اور فرمایا ’ لباس تقوٰی افضل و بہتر ہے ـ‘ سواری پر سوار ہوتے وقت دعاؤں کی حدیثیں ”سواری پر سوار ہونے کے وقت کی دعاؤں کی حدیثیں : “ حضرت علی بن ربیعہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں سیدنا علی رضی اللہ عنہ جب اپنی سواری پر سوار ہونے لگے تو رکاب پر پیر رکھتے ہی فرمایا «بِسْمِ اللہِ » جب جم کر بیٹھ گئے تو فرمایا «اَلْحَمْدُ لِلہِ سُبْحَانَ الَّذِیْ سَخَّرَ لَنَا ہَذَا وَمَا کُنَّا لَہُ مُقْرِنِیْنَ وَإِنَّا إِلَی رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ» پھر تین مرتبہ «اَلْحَمْدُ لِلہِ» اور تین مرتبہ «اﷲُ اَکْبَرُ» پھر فرمایا «سُبْحَانک لَا إِلَہ إِلَّا أَنْتَ قَدْ ظَلَمْت نَفْسِی فَاغْفِرْ لِی» پھر ہنس دئیے ۔ میں نے پوچھا امیر المؤمنین آپ ہنسے کیوں ؟ فرمایا ” میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سب کچھ کیا پھر ہنس دئیے تو میں نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی سوال کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ { جب بندے کے منہ سے اللہ تعالیٰ سنتا ہے کہ وہ کہتا ہے «رَبّ اِغْفِرْ لِی» میرے رب مجھے بخش دے تو وہ بہت ہی خوش ہوتا ہے اور فرماتا ہے میرا بندہ جانتا ہے کہ میرے سوا کوئی گناہوں کو بخش نہیں سکتا ۔} ۱؎ (سنن ابوداود:2602،قال الشیخ الألبانی:صحیح) یہ حدیث ابوداؤد ترمذی نسائی اور مسند احمد میں بھی ہے ۔ امام ترمذی رحمہ اللہ اسے حسن صحیح بتلاتے ہیں ۔ اور حدیث میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو اپنی سواری پر اپنے پیچھے بٹھایا ٹھیک جب بیٹھ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ «اﷲُ اَکْبَرُ» کہا تین مرتبہ «سُبْحَانَ اللہ» اور ایک مرتبہ «لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ» کہا پھر اس پر چت لیٹنے کی طرح ہو کر ہنس دئیے اور عبداللہ رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہو کر فرمانے لگے ” جو شخص کسی جانور پر سوار ہو کر اس طرح کرے جس طرح میں نے کیا تو اللہ عزوجل اس کی طرف متوجہ ہو کر اسی طرح ہنس دیتا ہے جس طرح میں تیری طرف دیکھ کر ہنسا ۔ } ۱؎ (مسند احمد:330/1:ضعیف) سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کبھی اپنی سواری پر سوار ہوتے تین مرتبہ تکبیر کہہ کر ان دونوں آیات قرآنی کی تلاوت کرتے پھر یہ دعا مانگتے « اللہُمَّ إِنِّی أَسْأَلک فِی سَفَرِی ہَذَا الْبِرّ وَالتَّقْوَی وَمِنْ الْعَمَل مَا تَرْضَی اللہُمَّ ہَوِّنْ عَلَیْنَا السَّفَر وَاطْوِ لَنَا الْبَعِید اللہُمَّ أَنْتَ الصَّاحِب فِی السَّفَر وَالْخَلِیفَۃ فِی الْأَہْل اللہُمَّ اِصْحَبْنَا فِی سَفَرنَا وَاخْلُفْنَا فِی أَہْلنَا» یا اللہ میں تجھ سے اپنے اس سفر میں نیکی اور پرہیزگاری کا طالب ہوں اور ان اعمال کا جن سے تو خوش ہو جائے اے اللہ ہم پر ہمارا سفر آسان کر دے اور ہمارے لیے دوری کو لپیٹ لے پروردگار تو ہی سفر کا ساتھی اور اہل و عیال کا نگہبان ہے میرے معبود ہمارے سفر میں ہمارا ساتھ دے اور ہمارے گھروں میں ہماری جانشینی فرما ۔ اور جب آپ سفر سے واپس گھر کی طرف لوٹتے تو فرماتے «آیِبُونَ تَائِبُونَ إِنْ شَاءَ اللَّہ عَابِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ» یعنی واپس لوٹنے والے توبہ کرنے والے ان شاءاللہ عبادتیں کرنے والے اپنے رب کی تعریفیں کرنے والے ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:1342) ابو لاس خزاعی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں صدقے کے اونٹوں میں سے ایک اونٹ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری سواری کے لیے ہمیں عطا فرمایا کہ ہم اس پر سوار ہو کر حج کو جائیں ہم نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم نہیں دیکھتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اس پر سوار کرائیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { سنو! ہر اونٹ کی کوہان میں شیطان ہوتا ہے تم جب اس پر سوار ہو تو جس طرح میں تمہیں حکم دیتا ہوں اللہ تعالیٰ کا نام یاد کرو پھر اسے اپنے لیے خادم بنا لو ، یاد رکھو اللہ تعالیٰ ہی سوار کراتا ہے ۔}۱؎ (مسند احمد:221/4:حسن) سیدنا ابولاس رضی اللہ عنہ کا نام محمد بن اسود بن خلف ہے ۔ مسند کی ایک اور حدیث میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { ہر اونٹ کی پیٹھ پر شیطان ہے تو تم جب اس پر سواری کرو تو اللہ کا نام لیا کرو پھر اپنی حاجتوں میں کمی نہ کرو ۔} ۱؎ (مسند احمد:494/3:حسن صحیح) الزخرف
12 الزخرف
13 الزخرف
14 الزخرف
15 مشرکین کا بدترین فعل اللہ تعالیٰ مشرکوں کے اس افترا اور کذب کا بیان فرماتا ہے جو انہوں نے اللہ کے نام منسوب کر رکھا ہے جس کا ذکر سورۃ الانعام کی آیت «وَجَعَلُوا لِلہِ مِمَّا ذَرَ‌أَ مِنَ الْحَرْ‌ثِ وَالْأَنْعَامِ نَصِیبًا فَقَالُوا ہٰذَا لِلہِ بِزَعْمِہِمْ وَہٰذَا لِشُرَ‌کَائِنَا فَمَا کَانَ لِشُرَ‌کَائِہِمْ فَلَا یَصِلُ إِلَی اللہِ وَمَا کَانَ لِلہِ فَہُوَ یَصِلُ إِلَیٰ شُرَ‌کَائِہِمْ سَاءَ مَا یَحْکُمُونَ»۱؎ (6-الأنعام:136) میں ہے یعنی ’ اللہ تعالیٰ نے جو کھیتی اور مویشی پیدا کئے ہیں ان مشرکین نے ان میں سے کچھ حصہ تو اللہ کا مقرر کیا اور اپنے طور پر کہہ دیا کہ یہ تو اللہ کا ہے اور یہ ہمارے معبودوں کا اب جو ان کے معبودوں کے نام کا ہے وہ تو اللہ کی طرف نہیں پہنچتا اور جو ہر چیز اللہ کی ہوتی ہے وہ ان کے معبودوں کو پہنچ جاتی ہے ان کی یہ تجویز کیسی بری ہے ؟ ‘ اسی طرح مشرکین نے لڑکے لڑکیوں کی تقسیم کر کے لڑکیاں تو اللہ سے متعلق کر دیں جو ان کے خیال میں ذلیل و خوار تھیں اور لڑکے اپنے لیے پسند کئے جیسے کہ باری تعالیٰ کا فرمان ہے «اَلَکُمُ الذَّکَرُ وَلَہُ الْاُنْثٰی تِلْکَ إِذًا قِسْمَۃٌ ضِیزَیٰ» ۱؎ (53-النجم:22-21) ، ’ کیا تمہارے لیے تو بیٹے ہوں اور اللہ کے لیے بیٹیاں ؟ یہ تو بڑی بےڈھنگی تقسیم ہے ۔ ‘ پس یہاں بھی فرماتا ہے کہ ’ ان مشرکین نے اللہ کے بندوں کو اللہ کا جزء قرار دے لیا ہے۔ ‘ پھر فرماتا ہے کہ ’ ان کی اس بدتمیزی کو دیکھو کہ جب یہ لڑکیوں کو خود اپنے لیے ناپسند کرتے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کے لیے کیسے پسند کرتے ہیں ؟ ان کی یہ حالت ہے کہ جب ان میں سے کسی کو یہ خبر پہنچتی ہے کہ تیرے ہاں لڑکی ہوئی تو منہ بسور لیتا ہے گویا ایک شرمناک اندوہ ناک خبر سنی۔ ‘ کسی سے ذکر تک نہیں کرتا اندر ہی اندر کڑھتا رہتا ہے ذرا سا منہ نکل آتا ہے ۔ لیکن پھر اپنی کامل حماقت کا مظاہرہ کرنے بیٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ اللہ کی لڑکیاں ہیں یہ خوب مزے کی بات ہے کہ خود جس چیز سے گھبرائیں اللہ کے لیے وہ ثابت کریں ۔ پھر فرماتا ہے عورتیں ناقص سمجھی جاتی ہیں جن کے نقصانات کی تلافی زیورات اور آرائش سے کی جاتی ہے اور بچپن سے مرتے دم تک وہ بناؤ سنگھار کی محتاج سمجھی جاتی ہیں پھر بحث مباحثے اور لڑائی جھگڑے کے وقت ان کی زبان نہیں چلتی دلیل نہیں دے سکتیں عاجز رہ جاتی ہیں مغلوب ہو جاتی ہیں ایسی چیز کو جناب باری علی و عظیم کی طرف منسوب کرتے ہیں جو ظاہری اور باطنی نقصان اپنے اندر رکھتی ہیں ۔ جس کے ظاہری نقصان کو زینت اور زیورات سے دور کرنے کی کوشش کی جاتی جیسے کہ بعض عرب شاعروں کے اشعار ہیں «وَمَا الْحُلِیّ إِلَّا زِینَۃ مِنْ نَقِیصَۃ » «یُتَمِّم مِنْ حُسْن إِذَا الْحُسْن قَصَّرَا » «وَأَمَّا إِذَا کَانَ الْجَمَال مُوَفَّرًا » «کَحُسْنِک لَمْ یَحْتَجْ إِلَی أَنْ یُزَوَّرَا » یعنی زیورات کمی حسن کو پورا کرنے کے لیے ہوتے ہیں۔ بھرپور جمال کو زیورات کی کیا ضرورت؟ اور باطنی نقصان بھی ہیں جیسے بدلہ نہ لے سکنا نہ زبان سے نہ ہمت سے۔ ان مضمون کو بھی عربوں نے ادا کیا ہے جبکہ یہ صرف رونے دھونے سے ہی مدد کر سکتی ہے اور چوری چھپے کوئی بھلائی کر سکتی ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ انہوں نے فرشتوں کو عورتیں سمجھ رکھا ہے ان سے پوچھو کہ کیا جب وہ پیدا ہوئے تو تم وہاں موجود تھے ؟ تم یہ نہ سمجھو کہ ہم تمہاری ان باتوں سے بے خبر ہیں سب ہمارے پاس لکھی ہوئی ہیں اور قیامت کے دن تم سے ان کا سوال بھی ہو گا جس سے تمہیں ڈرنا چاہیئے اور ہوشیار رہنا چاہیئے ۔ ‘ پھر ان کی مزید حماقت بیان فرماتا ہے کہ ’ کہتے ہیں ہم نے فرشتوں کو عورتیں سمجھا پھر ان کی مورتیں بنائیں اور پھر انہیں پوج رہے ہیں اگر اللہ چاہتا تو ہم میں ان میں حائل ہو جاتا اور ہم انہیں نہ پوج سکتے ۔ ‘ پس جبکہ ہم انہیں پوج رہے ہیں اور اللہ ہم میں اور ان میں حائل نہیں ہوتا تو ظاہر ہے کہ ہماری یہ پوجا غلط نہیں بلکہ صحیح ہے ۔ پس پہلی خطا تو ان کی یہ کہ اللہ کے لیے اولاد ثابت کی دوسری خطا یہ کہ فرشتوں کو اللہ کی لڑکیاں قرار دیں تیسری خطا یہ کہ کہ انہی کی پوجا پاٹ شروع کر دی ۔ جس پر کوئی دلیل و حجت نہیں صرف اپنے بڑوں اور اگلوں اور باپ دادوں کی کورانہ تقلید ہے چوتھی خطا یہ کہ اسے اللہ کی طرف سے مقدر مانا اور اس سے یہ نتیجہ نکالا کہ اگر رب اس سے ناخوش ہوتا تو ہمیں اتنی طاقت ہی نہ دیتا کہ ہم ان کی پرستش کریں اور یہ ان کی صریح جہالت و خباثت ہے اللہ تعالیٰ اس سے سراسر ناخوش ہے ۔ ایک ایک پیغمبر اس کی تردید کرتا رہا ایک ایک کتاب اس کی برائی بیان کرتی رہی جیسے فرمان ہے «وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ فَمِنْہُمْ مَّنْ ہَدَی اللّٰہُ وَمِنْہُمْ مَّنْ حَقَّتْ عَلَیْہِ الضَّلٰلَۃُ ۭ فَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیْنَ» ۱؎ (16-النحل:36) ، یعنی ’ ہر امت میں ہم نے رسول بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا دوسرے کی عبادت سے بچو ۔ پھر بعض تو ایسے نکلے جنہیں اللہ نے ہدایت کی اور بعض ایسے بھی نکلے جن پر گمراہی کی بات ثابت ہو چکی تم زمین میں چل پھر کر دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا کیسا برا حشر ہوا ؟ ‘ اور آیت میں ہے «وَسْـَٔـلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رٰسُلِنَآ اَجَعَلْنَا مِنْ دُوْنِ الرَّحْمٰنِ اٰلِہَۃً یٰعْبَدُوْنَ» (43-الزخرف:45) ۱؎ ، یعنی ’ تو ان رسولوں سے پوچھ لے جنہیں ہم نے تجھ سے پہلے بھیجا تھا کیا ہم نے اپنے سوا دوسروں کی پرستش کی انہیں اجازت دی تھی ؟‘ پھر فرماتا ہے ’ یہ دلیل تو ان کی بڑی بودی ہے اور بودی یوں ہے کہ یہ بےعلم ہیں ، باتیں بنا لیتے ہیں اور جھوٹ بول لیتے ہیں ۔ ‘ یعنی یہ اللہ کی اس پر قدرت کو نہیں جانتے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:175/11) الزخرف
16 الزخرف
17 الزخرف
18 الزخرف
19 الزخرف
20 الزخرف
21 1 جو لوگ اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت کرتے ہیں ان کا بے دلیل ہونا بیان فرمایا جا رہا ہے کہ ’ کیا ہم نے ان کے اس شرک سے پہلے انہیں کوئی کتاب دے رکھی ہے ؟ جس سے وہ سند لاتے ہوں ۔ ‘ یعنی حقیقت میں ایسا نہیں جیسے فرمایا « اَمْ اَنْزَلْنَا عَلَیْہِمْ سُلْطٰنًا فَہُوَ یَتَکَلَّمُ بِمَا کَانُوْا بِہٖ یُشْرِکُوْنَ» ۱؎ (30-الروم:35) ، یعنی ’ کیا ہم نے ان پر ایسی دلیل اتاری ہے جو ان سے شرک کو کہے ؟ ‘ یعنی ایسا نہیں ہے ۔ پھر فرماتا ہے ’ یہ تو نہیں ، بلکہ شرک کی سند ان کے پاس ایک اور صرف ایک ہے اور وہ اپنے باپ دادوں کی تقلید کہ وہ جس دین پر تھے ہم اسی پر ہیں اور رہیں گے۔ ‘ امت سے مراد یہاں دین ہے اور آیت « إِنَّ ہٰذِہِ أُمَّتُکُمْ أُمَّۃً وَاحِدَۃً وَأَنَا رَ‌بٰکُمْ فَاعْبُدُونِ» ۱؎ (21-الأنبیاء:92) ، میں بھی امت سے مراد دین ہی ہے ساتھ ہی کہا کہ ہم انہی کی راہوں پر چل رہے ہیں پس ان کے بے دلیل دعوے کو سنا کر اب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’ یہی روش ان سے اگلوں کی بھی رہی ۔ ان کا جواب بھی نبیوں کی تعلیم کے مقابلہ میں یہی تقلید کو پیش کرنا تھا ۔‘ اور جگہ ہے آیت «کَذٰلِکَ مَآ اَتَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا قَالُوْا سَاحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ» ۱؎ (51-الذاریات:52) یعنی ’ ان سے اگلوں کے پاس بھی جو رسول آئے ان کی امتوں نے انہیں بھی جادوگر اور دیوانہ بتایا ۔‘ پس گویا کہ اگلے پچھلوں کے منہ میں یہ الفاظ بھر گئے ہیں حقیقت یہ ہے کہ سرکشی میں یہ سب یکساں ہیں پھر ارشاد ہے کہ ’ گو یہ معلوم کر لیں اور جان لیں کہ نبیوں کی تعلیم باپ دادوں کی تقلید سے بدرجہا بہتر ہے تاہم ان کا برا قصد اور ضد اور ہٹ دھرمی انہیں حق کی قبولیت کی طرف نہیں آنے دیتی ۔ ‘ پس ایسے اڑیل لوگوں سے ہم بھی ان کی باطل پرستی کا انتقام نہیں چھوڑتے مختلف صورتوں سے انہیں تہ و بالا کر دیا کرتے ہیں ان کا قصہ مذکور و مشہور ہے غور و تامل کے ساتھ دیکھ پڑھ لو اور سوچ سمجھ لو کہ کس طرح کفار برباد کئے جاتے ہیں اور کس طرح مومن نجات پاتے ہیں ۔ الزخرف
22 الزخرف
23 الزخرف
24 الزخرف
25 الزخرف
26 امام الموحدین کا ذکر اور دنیا کی قیمت قریشی کفار نسب اور دین کے اعتبار سے چونکہ خلیل اللہ امام الحنفاء سیدنا ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف منسوب تھے اس لیے اللہ تعالیٰ نے سنت ابراہیمی ان کے سامنے رکھی کہ دیکھو جو اپنے بندے آنے والے تمام نبیوں کے باپ ، اللہ کے رسول امام الموحدین تھے انہوں نے کھلے لفظوں میں نہ صرف اپنی قوم سے بلکہ اپنے سگے باپ سے بھی کہہ دیا کہ مجھ میں تم میں کوئی تعلق نہیں ۔ میں سوائے اپنے سچے اللہ کے جو میرا خالق اور ہادی ہے تمہارے ان معبودوں سے بیزار ہوں سب سے بے تعلق ہوں ۔ اللہ تعالیٰ نے بھی ان کی اس جرأت ‘ حق گوئی اور جوش توحید کا بدلہ یہ دیا کہ کلمہ توحید کو ان کی اولاد میں ہمیشہ کے لیے باقی رکھ لیا ۔ ناممکن ہے کہ آپ علیہ السلام کی اولاد میں اس پاک کلمے کے قائل نہ ہوں ۔ انہی کی اولاد اس توحید کلمہ کی اشاعت کرے گی اور سعید روحیں اور نیک نصیب لوگ اسی گھرانے سے توحید سیکھیں گے ۔ غرض اسلام اور توحید کا معلم یہ گھرانہ قرار پا گیا ۔ پھر فرماتا ہے بات یہ ہے کہ یہ کفار کفر کرتے رہے اور میں انہیں متاع دنیا دیتا رہا یہ اور بہکتے گئے اور اس قدر بد مست بن گئے کہ جب ان کے پاس دین حق اور رسول حق آئے تو انہوں نے جھٹلانا شروع کر دیا کہ کلام اللہ اور معجزات انبیاء علیہم السلام جادو ہیں اور ہم ان کے منکر ہیں ۔ سرکشی اور ضد میں آ کر کفر کر بیٹھے ۔ عناد اور بغض سے حق کے مقابلے پر اتر آئے اور باتیں بنانے لگے کہ کیوں صاحب اگر یہ قرآن سچ مچ اللہ ہی کا کلام ہے تو پھر مکے اور طائف کے کسی رئیس پر ‘ کسی بڑے آدمی پر‘ کسی دنیوی وجاہت والے پر کیوں نہ اترا ؟ اور بڑے آدمی سے ان کی مراد ولید بن مغیرہ ، عروہ بن مسعود ، عمیر بن عمرو ، عتبہ بن ربیعہ ، حبیب بن عمرو ابن عبد یا لیل ، کنانہ بن عمرو وغیرہ سے تھی ۔ غرض یہ تھی کہ ان دونوں بستیوں میں سے کسی بڑے مرتبے کے آدمی پر قرآن نازل ہونا چاہیئے تھا ۔ الزخرف
27 الزخرف
28 الزخرف
29 الزخرف
30 الزخرف
31 الزخرف
32 1 اس اعتراض کے جواب میں فرمان باری سرزد ہوتا ہے کہ کیا رحمت الٰہی کے یہ مالک ہے جو یہ اسے تقسیم کرنے بیٹھے ہیں ؟ اللہ کی چیز اللہ کی ملکیت وہ جسے چاہے دے پھر کہاں اس کا علم اور کہاں تمہارا علم ؟ اسے بخوبی معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رسالت کا حقدار صحیح معنی میں کون ہے ؟ یہ نعمت اسی کو دی جاتی ہے جو تمام مخلوق سے زیادہ پاک دل ہو ۔ سب سے زیادہ پاک نفس ہو سب سے بڑھ کر اشرف گھر کا ہو اور سب سے زیادہ پاک اصل کا ہو ۔ دنیا کی قدر و قیمت : پھر فرماتا ہے کہ ’ یہ رحمت اللہ کے تقسیم کرنے والے کہاں سے ہو گئے ؟ اپنی روزیاں بھی ان کے اپنے قبضے کی نہیں وہ بھی ان میں ہم بانٹتے ہیں اور فرق وتفاوت کے ساتھ جسے جب جتنا چاہیں دیں ۔ جس سے جب جو چاہیں چھین لیں عقل و فہم ، قوت طاقت وغیرہ بھی ہماری ہی دی ہوئی ہے اور اس میں بھی مراتب جداگانہ ہیں ۔ ‘ اس میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ ایک دوسرے سے کام لے کیونکہ اس کی اسے اور اس کی اسے ضرورت اور حاجت رہتی ہے۔ ایک ایک کے ماتحت رہے ۔ پھر ارشاد ہوا کہ ’ تم جو کچھ دنیا جمع کر رہے ہو اس کے مقابلہ میں رب کی رحمت بہت ہی بہتر اور افضل ہے‘ ، زاں بعد اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتا ہے کہ ’ اگر یہ بات نہ ہوتی کہ لوگ مال کو میرا فضل اور میری رضا مندی کی دلیل جان کر مالداروں کے مثل بن جائیں تو میں تو کفار کو یہ دنیا اتنی دیتا کہ ان کے گھر کی چھتیں بلکہ ان کے کوٹھوں کی سیڑھیاں بھی چاندی کی ہوتیں جن کے ذریعے یہ اپنے بالا خانوں پر پہنچتے ۔ اور ان کے گھروں کے دروازے ان کے بیٹھنے کے تخت بھی چاندی کے ہوتے اور سونے کے بھی ۔ میرے نزدیک دنیا کوئی قدر کی چیز نہیں یہ فانی ہے زائل ہونے والی ہے اور ساری مل بھی جائے جب بھی آخرت کے مقابلے میں بہت ہی کم ہے ۔ ان لوگوں کی اچھائیوں کے بدلے انہیں یہیں مل جاتے ہیں ۔ کھانے، پینے، رہنے، سہنے، برتنے برتانے میں کچھ سہولتیں بہم پہنچ جاتی ہیں ۔ آخرت میں تو محض خالی ہاتھ ہوں گے۔ ایک نیکی باقی نہ ہو گی جو اللہ سے کچھ حاصل کر سکیں ‘ ۔ جیسے کہ صحیح حدیث میں وارد ہوا ہے اور حدیث میں ہے { اگر دنیا کی قدر اللہ کے نزدیک ایک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو کسی کافر کو یہاں پانی کا ایک گھونٹ بھی نہ پلاتا۔} ۱؎ (سنن ترمذی:2320،قال الشیخ الألبانی:صحیح) پھر فرمایا آخرت کی بھلائیاں ان کے لیے جو دنیا میں پھونک پھونک کے قدم رکھتے رہے ڈر ڈر کر زندگی گزارتے رہے ۔ وہاں رب کی خاص نعمتیں اور مخصوص رحمتیں جو انہیں ملیں گی ان میں کوئی اور ان کا شریک نہ ہو گا ۔ چنانچہ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالا خانہ میں گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت اپنی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہما سے ایلا کر رکھا تھا تو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک چٹائی کے ٹکڑے پر لیٹے ہوئے ہیں جس کے نشان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک پر نمایاں ہیں تو رو دئیے اور کہا ” یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیصر و کسرٰی کس آن بان اور کس شان و شوکت سے زندگی گزار رہے ہیں اور آپ اللہ کی برگذیدہ پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہو کر کس حال میں ہیں ؟ “ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا تو تکیہ لگائے ہوئے بیٹھے ہوئے تھے یا فوراً تکیہ چھوڑ دیا اور فرمانے لگے { اے ابن خطاب رضی اللہ عنہ کیا تو شک میں ہے ؟ یہ تو وہ لوگ ہیں جن کی نیکیاں جلدی سے یہیں انہیں مل گئیں ۔} ۱؎ (صحیح بخاری:2468) ایک اور روایت میں ہے کہ { کیا تو اس سے خوش نہیں کہ انہیں دنیا ملے اور ہمیں آخرت } ۔۱؎ (صحیح بخاری:4913) بخاری و مسلم وغیرہ میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { سونے چاندی کے برتنوں میں نہیں کھاؤ پیو یہ دنیا میں ان کے لیے ہیں اور آخرت میں ہمارے لیے ہیں ۔ اور دنیا میں یہ ان کے لیے یوں ہیں کہ رب کی نظروں میں دنیا ذلیل و خوار ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5426) ترمذی وغیرہ کی ایک حسن صحیح حدیث میں ہے کہ حضور سلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اگر دنیا اللہ تعالیٰ کے نزدیک مچھر کے پر کے برابر بھی وقعت رکھتی تو کسی کافر کو کبھی بھی اللہ تعالیٰ ایک گھونٹ پانی کا نہ پلاتا } ۔۱؎ (سنن ترمذی:2320،قال الشیخ الألبانی:صحیح) الزخرف
33 الزخرف
34 الزخرف
35 الزخرف
36 شیطان سے بچو ارشاد ہوتا ہے کہ ’ جو شخص اللہ تعالیٰ رحیم و کریم کے ذکر سے غفلت و بے رغبتی کرے اس پر شیطان قابو پا لیتا ہے اور اس کا ساتھی بن جاتا ہے ‘ ۔ آنکھ کی بینائی کی کمی کو عربی زبان میں «عَشْیٌ فِیْ الْعَیْنِ» کہتے ہیں ۔ یہی مضمون قرآن کریم کی اور بھی بہت سی آیتوں میں ہے جیسے فرمایا آیت «وَمَنْ یٰشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْہُدٰی وَیَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَنُصْلِہٖ جَہَنَّمَ ۭ وَسَاءَتْ مَصِیْرًا » ۱؎ (4-النساء:115) ، یعنی ’ جو شخص ہدایت ظاہر کر چکنے کے بعد مخالفت رسول کر کے مومنوں کی راہ کے سوا دوسری راہ کی پیروی کرے ہم اسے وہیں چھوڑیں گے اور جہنم واصل کریں گے جو بڑی بری جگہ ہے ‘ ۔ اور آیت میں ارشاد ہے «فَلَمَّا زَاغُوْٓا اَزَاغ اللّٰہُ قُلُوْبَہُمْ ۭ وَاللّٰہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ» ۱؎ (61-الصف:5) یعنی ’ جب وہی ٹیڑھے ہو گئے اللہ نے ان کے دل بھی کج کر دئیے ‘ ۔ اور آیت میں فرمایا « وَقَیَّضْنَا لَہُمْ قُرَ‌نَاءَ فَزَیَّنُوا لَہُم مَّا بَیْنَ أَیْدِیہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ وَحَقَّ عَلَیْہِمُ الْقَوْلُ فِی أُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِہِم مِّنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ إِنَّہُمْ کَانُوا خَاسِرِ‌ینَ» ۱؎ (41-فصلت:25) ، یعنی ’ ان کے جو ہم نشین ہم نے مقرر کر دئیے ہیں وہ ان کے آگے پیچھے کی چیزوں کو زینت والی بنا کر انہیں دکھاتے ہیں ‘ ، یہاں ارشاد ہوتا ہے کہ ’ ایسے غافل لوگوں پر شیطان اپنا قابو کر لیتا ہے اور انہیں اللہ تعالیٰ کی راہ سے روکتا ہے اور ان کے دل میں یہ خیال جما دیتا ہے کہ ان کی روش بہت اچھی ہے یہ بالکل صحیح دین پر قائم ہیں قیامت کے دن جب اللہ کے سامنے حاضر ہوں گے اور معاملہ کھل جائے گا تو اپنے اس شیطان سے جو ان کے ساتھ تھا برات ظاہر کرے گا اور کہے گا کاش کے میرے اور تمہارے درمیان اتنا فاصلہ ہوتا جتنا مشرق اور مغرب میں ہے ۔ ‘ یہاں بہ اعتبار غلبے کے مشرقین یعنی دو مشرقوں کا لفظ کہدیا گیا ہے جیسے سورج چاند کو «قمرین» یعنی دو چاند کہہ دیا جاتا ہے اور ماں باپ کو «ابوین» یعنی دو باپ کہہ دیا جاتا ہے ۔ ایک قرأت میں «جَاۤءَ انَا» بھی ہے یعنی ’ شیطان اور یہ غافل انسان دونوں جب ہمارے پاس آئیں گے ‘ ۔ سعید جریری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” کافر کے اپنی قبر سے اٹھتے ہی شیطان آ کر اس کے ہاتھ سے ہاتھ ملا لیتا ہے پھر جدا نہیں ہوتا یہاں تک کہ جہنم میں بھی دونوں کو ساتھ ہی ڈالا جاتا ہے “ ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ جہنم میں تم سب کا جمع ہونا اور وہاں کے عذابوں میں سب کا شریک ہونا تمہارے لیے نفع دینے والا نہیں ‘ ، اس کے بعد اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ ’ ازلی بہروں کے کان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہدایت کی آواز نہیں ڈال سکتے مادر زاد اندھوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم راہ نہیں دکھا سکتے صریح گمراہی میں پڑے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت قبول نہیں کر سکتے ‘ ۔ یعنی تجھ پر ہماری جانب سے یہ فرض نہیں کہ خواہ مخواہ ہر ہر شخص مسلمان ہو ہی جائے ہدایت تیرے قبضے کی چیز نہیں جو حق کی طرف کان ہی نہ لگائے جو سیدھی راہ کی طرف آنکھ ہی نہ اٹھائے جو بہکے اور اسی میں خوش رہو تجھے ان کی بابت کیوں اتنا خیال ہے ؟ تجھ پر ضروری کام صرف تبلیغ کرنا ہے ہدایت و ضلالت ہمارے ہاتھ کی چیزیں ہیں عادل ہیں ہم حکیم ہیں ہم جو چاہیں گے کریں گے تم تنگ دل نہ ہو جایا کرو ۔ الزخرف
37 الزخرف
38 الزخرف
39 الزخرف
40 الزخرف
41 1 پھر فرماتا ہے کہ ’ اگرچہ ہم تجھے یہاں سے لے جائیں پھر بھی ہم ان ظالموں سے بدلہ لیے بغیر تو رہیں گے نہیں اگر ہم تجھے تیری آنکھوں سے وہ دکھا دیں جس کا وعدہ ہم نے ان سے کیا ہے تو ہم اس سے عاجز نہیں ‘ ۔ غرض اس طرح اور اسطرح دونوں صورتوں میں کفار پر عذاب تو آئے گا ہی ۔ لیکن پھر وہ صورت پسند کی گئی جس میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت زیادہ تھی ۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فوت نہ کیا جب تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کو مغلوب نہ کر دیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں ٹھنڈی نہ کر دیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی جانوں اور مالوں اور ملکیتوں کے مالک نہ بن گئے ۔ یہ تو ہے تفسیر سدی رحمہ اللہ وغیرہ کی ۔ لیکن قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے اٹھا لیے گئے اور انتقام باقی رہ گیا اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں امت میں وہ معاملات نہ دکھائے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناپسندیدہ تھے بجز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اور تمام انبیاء علیہ السلام کے سامنے ان کی امتوں پر عذاب آئے ہم سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ جب سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ معلوم کرا دیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر کیا کیا وبال آئیں گے اس وقت سے لے کر وصال کے وقت تک کبھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھل کھلا کر ہنستے ہوئے دیکھے نہیں گئے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:30872:مرسل و ضعیف) حسن رحمہ اللہ سے بھی اسی طرح کی روایت ہے ایک حدیث میں ہے { ستارے آسمان کے بچاؤ کا سبب ہیں جب ستارے جھڑ جائیں گے تو آسمان پر مصیبت آ جائے گی میں اپنے اصحاب کا ذریعہ امن ہوں میرے جانے کے بعد میرے اصحاب پر وہ آ جائے گا جس کا یہ وعدہ دئیے جاتے ہیں } ۔۱؎ (صحیح مسلم:2531) پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ’ جو قرآن تجھ پر نازل کیا گیا ہے جو سراسر حق و صدق ہے جو حقانیت کی سیدھی اور صاف راہ کی راہنمائی کرتا ہے تو اسے مضبوطی کے ساتھ لیے رہ ۔ یہی جنت نعیم اور راہ مستقیم کا رہبر ہے اس پر چلنے والا اس کے احکام کو تھامنے والا بہک اور بھٹک نہیں سکتا یہ تیرے لیے اور تیری قوم کے لیے ذکر ہے ‘ یعنی شرف اور بزرگی ہے ۔ بخاری شریف میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { یہ امر [ یعنی خلافت و امامت ] قریش میں ہی رہے گا جو ان سے جھگڑے گا اور چھینے گا اسے اللہ تعالیٰ اوندھے منہ گرائے گا جب تک دین کو قائم رکھیں } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:7139) اس لیے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شرافت قومی اس میں ہے کہ یہ قرآن آپ ہی کی زبان میں اترا ہے ۔ لغت قریش میں ہی نازل ہوا ہے تو ظاہر ہے کہ سب سے زیادہ اسے یہی سمجھیں گے ۔ انہیں لائق ہے کہ سب سے زیادہ مضبوطی کے ساتھ عمل بھی انہی کا اس پر رہے بالخصوص اس میں بڑی بھاری بزرگی ہے ان مہاجرین کرام رضی اللہ عنہم کی جنہوں نے اول اول سبقت کر کے اسلام قبول کیا ۔ اور ہجرت میں بھی سب سے پیش پیش رہے اور جو ان کے قدم بہ قدم چلے ۔ ذکر کے معنی نصیحت کے بھی کئے گئے ہیں ۔ اس صورت میں یہ یاد رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم کے لئے اس کا نصیحت ہونا دوسروں کے لئے نصیحت نہ ہونے کے معنی میں نہیں ۔ جیسے فرمان ہے آیت «لَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکُمْ کِتٰبًا فِیْہِ ذِکْرُکُمْ ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ» ۱؎ (21-الأنبیاء:10) یعنی ’ بالیقین ہم نے تمہاری طرف کتاب نازل فرمائی جس میں تمہارے لیے نصیحت ہے کیا پس تم عقل نہیں رکھتے ؟ ‘ اور آیت میں ہے «وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ» ۱؎ (26-الشعراء:214) یعنی ’ اپنے خاندانی قرابت داروں کو ہوشیار کر دے ‘ ۔ غرض نصیحت قرآنی رسالت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم عام ہے کنبہ والوں کو قوم کو اور دنیا کے کل لوگوں کو شامل ہے ۔ پھر فرماتا ہے ’ تم سے عنقریب سوال ہو گا کہ کہاں تک اس کلام اللہ شریف پر عمل کیا اور کہاں تک اسے مانا ؟ تمام رسولوں نے اپنی اپنی قوم کو وہی دعوت دی جو اے آخرالزمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کو دے رہے ہیں ‘ ۔ کل انبیاء کے دعوت ناموں کا خلاصہ صرف اس قدر ہے کہ انہوں نے توحید پھیلائی اور شرک کو ختم کیا جیسے خود قرآن میں ہے کہ ’ ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا اوروں کی عبادت نہ کرو ‘ ۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی قرأت میں یہ آیت اس طرح ہے «وَاسْأَلْ الَّذِینَ أَرْسَلْنَا إِلَیْہِمْ قَبْلک رُسُلنَا» پس یہ مثل تفسیر کے ہے نہ تلاوت کے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ تو مطلب یہ ہوا کہ ان سے دریافت کر لے جن میں تجھ سے پہلے ہم اپنے اور رسولوں کو بھیج چکے ہیں ۔ عبدالرحمٰن رحمہ اللہ فرماتے ہیں نبیوں سے پوچھ لے یعنی معراج والی رات کو جب کہ انبیاء علیہم السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جمع تھے کہ ہر نبی علیہ السلام توحید سکھانے اور شرک مٹانے کی ہی تعلیم لے کر ہماری جانب سے مبعوث ہوتا رہا ۔ الزخرف
42 الزخرف
43 الزخرف
44 الزخرف
45 الزخرف
46 قلاباز بنی اسرائیل حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جناب باری نے اپنا رسول و نبی فرما کر فرعون اور اس کے امراء اور اس کی رعایا قبطیوں اور بنی اسرائیل کی طرف بھیجا تاکہ آپ علیہ السلام انہیں توحید سکھائیں اور شرک سے بچائیں ۔ آپ علیہ السلام کو بڑے بڑے معجزے بھی عطا فرمائے جیسے ہاتھ کا روشن ہو جانا لکڑی کا اژدھابن جانا وغیرہ ۔ لیکن فرعونیوں نے اپنے نبی کی کوئی قدر نہ کی بلکہ تکذیب کی اور تمسخر اڑایا ۔ اس پر اللہ کا عذاب آیا تاکہ انہیں عبرت بھی ہو ۔ اور نبوت موسیٰ علیہ السلام پر دلیل بھی ہو پس طوفان آیا ٹڈیاں آئیں جوئیں آئیں ، مینڈک آئے اور کھیت ، مال ، جان اور پھل وغیرہ کی کمی میں مبتلا ہوئے ۔ جب کوئی عذاب آتا تو تلملا اٹھتے موسیٰ علیہ السلام کی خوشامد کرتے انہیں رضامند کرتے ان سے قول قرار کرتے آپ علیہ السلام دعا مانگتے عذاب ہٹ جاتا ۔ یہ پھر سرکشی پر اتر آتے پھر عذاب آتا پھر یہی ہوتا ۔ ساحر یعنی جادوگر سے وہ بڑا عالم مراد لیتے تھے ان کے زمانے کے علماء کا یہی لقب تھا اور انہی لوگوں میں علم تھا اور ان کے زمانے میں یہ علم مذموم نہیں سمجھا جاتا تھا بلکہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ۔ پس ان کا جناب موسیٰ علیہ السلام کو جادوگر کہہ کر خطاب کرنا بطور عزت کے تھا اعتراض کے طور پر نہ تھا کیونکہ انہیں تو اپنا کام نکالنا تھا ۔ ہر بار اقرار کرتے تھے کہ مسلمان ہو جائیں گے اور بنی اسرائیل کو تمہارے ساتھ کر دیں گے پھر جب عذاب ہٹ جاتا تو وعدہ شکنی کرتے اور قول توڑ دیتے ۔ اور آیت «فَاَرْسَلْنَا عَلَیْہِمُ الطٰوْفَانَ وَالْجَرَادَ وَالْقُمَّلَ وَالضَّفَادِعَ وَالدَّمَ اٰیٰتٍ مٰفَصَّلٰتٍ فَاسْتَکْبَرُوْا وَکَانُوْاقَوْمًا مٰجْرِمِیْنَ»الخ ۱؎ (7-الأعراف:133-135) میں اس پورے واقعہ کو بیان فرمایا ہے ۔ الزخرف
47 الزخرف
48 الزخرف
49 الزخرف
50 الزخرف
51 فرعون کے دعوے فرعون کی سرکشی اور خود بینی بیان ہو رہی ہے کہ اس نے اپنی قوم کو جمع کر کے ان میں بڑی باتیں ہانکنے لگا اور کہا ” کیا میں تنہا ملک مصر کا بادشاہ نہیں ہوں ؟ کیا میرے باغات اور محلات میں نہریں جاری نہیں ؟ کیا تم میری عظمت و سلطنت کو دیکھ نہیں رہے ؟ پھر موسیٰ علیہ السلام اور اس کے ساتھیوں کو دیکھو جو فقراء اور ضعفاء ہیں “ ۔ کلام پاک میں اور جگہ ہے « فَحَشَرَ‌ فَنَادَیٰ فَقَالَ أَنَا رَ‌بٰکُمُ الْأَعْلَیٰ فَأَخَذَہُ اللہُ نَکَالَ الْآخِرَ‌ۃِ وَالْأُولَیٰ» ۱؎ (79-النازعات:23-25) یعنی ’ اس نے جمع کر کے سب سے کہا میں تمہارا بلند و بالا رب ہوں جس پر اللہ نے اسے یہاں کے اور وہاں کے عذابوں میں گرفتار کیا ‘ ۔ «اَمْ» معنی میں «بَل ْ» کے ہے ۔ بعض قاریوں کی قرأت « اَمَآ اَناَ» بھی ہے ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں اگر یہ قرأت صحیح ہو جائے تو معنی تو بالکل واضح اور صاف ہو جاتے ہیں لیکن یہ قرأت تمام شہروں کی قرأت کے خلاف ہے سب کی قرأت «اَم ْ» استفہام کا ہے ۔ حاصل یہ ہے کہ ’ فرعون ملعون اپنے آپ کو کلیم اللہ علیہ السلام سے بہتر و برتر بنا رہا ہے اور یہ دراصل اس ملعون کا جھوٹ ہے ‘ ۔ «مُہِیْنٌ» کے معنی حقیر ، ضعیف ، بے مال ، بے شان ۔ پھر کہتا ہے ” موسیٰ [ علیہ السلام ] تو صاف بولنا بھی نہیں جانتا اس کا کلام فصیح نہیں وہ اپنا ما فی الضمیر ادا نہیں کر سکتا “ ۔ بعض کہتے ہیں بچپن میں آپ علیہ السلام نے اپنے منہ میں آگ کا انگارہ رکھ لیا تھا جس کا اثر زبان پر باقی رہ گیا تھا ۔ یہ بھی فرعون کا مکر جھوٹ اور دجل ہے ۔ حضرت موسیٰ صاف گو صحیح کلام کرنے والے ذی عزت بارعب و وقار تھے ۔ لیکن چونکہ ملعون اپنی کفر کی آنکھ سے نبی اللہ علیہ السلام کو دیکھتا تھا اس لیے اسے یہی نظر آتا تھا ۔ حقیقتاً ذلیل و غبی تھا ۔ گو موسیٰ علیہ السلام کی زبان میں بوجہ اس انگارے کے جسے بچپن میں منہ میں رکھ لیا تھا کچھ لکنت تھی لیکن آپ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی اور آپ علیہ السلام کی زبان کی گرہ کھل گئی تاکہ آپ علیہ السلام لوگوں کو باآسانی اپنا مدعا سمجھا سکیں ۔ اور اگر مان لیا جائے کہ تاہم کچھ باقی رہ گئی تھی کیونکہ دعاء کلیم میں اتنا ہی تھا کہ ’ میری زبان کی اس قدر گرہ کھل جائے کہ لوگ میری بات سمجھ لیں ۔ ‘ ، تو یہ بھی کوئی عیب کی بات نہیں اللہ تعالیٰ نے جس کسی کو جیسا بنا دیا وہ ویسا ہی ہے اس میں عیب کی کون سی بات ہے ؟ دراصل فرعون ایک کلام بنا کر ایک مسودہ گھڑ کر اپنی جاہل رعایا کو بھڑکانا اور بہکانا چاہتا تھا ۔ دیکھئیے وہ آگے چل کر کہتا ہے کہ ” کیوں جی اس پر آسمان سے ہن [ دولت ] کیوں نہیں برستا مالداری تو اسے اتنی ہونی چاہیئے کہ ہاتھ سونے سے پر ہوں لیکن یہ محض مفلس ہے اچھا یہ بھی نہیں تو اللہ اس کے ساتھ فرشتے ہی کر دیتا جو کم از کم ہمیں باور کرا دیتے کہ یہ اللہ کے نبی ہیں “ ۔ غرض ہزار جتن کر کے لوگوں کو بیوقوف بنا لیا اور انہیں اپنا ہم خیال اور ہم سخن کر لیا ۔ یہ خود فاسق فاجر تھے ۔ فسق و فجور کی پکار پر فوراً ریجھ گئے پس جب ان کا پیمانہ چھلک گیا اور انہوں نے دل کھول کر رب کی نافرمانی کر اور رب کو خوب ناراض کر دیا تو پھر اللہ کا کوڑا ان کی پیٹھ پر برسا اور اگلے پچھلے سارے کرتوت پکڑ لیے گئے یہاں ایک ساتھ پانی میں غرق کر دئیے گئے وہاں جہنم میں جلتے جھلستے رہیں گے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ { جب کسی انسان کو اللہ دنیا دیتا چلا جائے اور وہ اللہ کی نافرمانیوں پر جما ہوا ہو تو سمجھ لو کہ اللہ نے اسے ڈھیل دے رکھی ہے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی } ۔ (ابن ابی حاتم:ضعیف) حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کے سامنے جب اچانک موت کا ذکر آیا تو فرمایا ” ایماندار پر تو یہ تخفیف ہے اور کافر پر حسرت ہے ۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے اسی آیت کو پڑھ کر سنایا “ ۔ ۱؎ (الدرالمنشور للسیوطی:384/7) عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” انتقام غفلت کے ساتھ ہے “ ۔ پھر اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتا ہے کہ ’ ہم نے انہیں نمونہ بنا دیا کہ ان کے سے کام کرنے والے ان کے انجام کو دیکھ لیں اور یہ مثال یعنی باعث عبرت بن جائے کہ ان کے بعد آنے والے ان کے واقعات پر غور کریں اور اپنا بچاؤ ڈھونڈیں ‘ ۔ «وَاللہُ سُبْحَانَہُ وَ تَعَالیٰ الْمُوَفِّق لِلصَّوَابِ وَإِلَیْہِ الْمَرْجِع وَالْمَآب» الزخرف
52 الزخرف
53 الزخرف
54 الزخرف
55 الزخرف
56 الزخرف
57 قیامت کے قریب نزول عیسیٰ علیہ السلام «یَصِدٰونَ» کے معنی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ ،مجاہد ،عکرمہ اور ضحاک رحمہ اللہ علیہم نے کئے ہیں کہ ” وہ ہنسنے لگے “ یعنی اس سے ” انہیں تعجب معلوم ہوا “ ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” گھبرا کر بول پڑے “ ۔ ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کا قول ہے ” منہ پھیرنے لگے “ ۔ اس کی وجہ جو امام محمد بن اسحاق رحمہ اللہ نے اپنی سیرت میں بیان کی ہے وہ یہ ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ولید بن مغیرہ وغیرہ قریشیوں کے پاس تشریف فرما تھے جو نضر بن حارث آ گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ باتیں کرنے لگا جس میں وہ لاجواب ہو گیا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کی آیت « اِنَّکُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ حَصَبُ جَہَنَّمَ ۭ اَنْتُمْ لَہَا وٰرِدُوْنَ» ۱؎ (21-الأنبیاء:98) ، آیتوں تک پڑھ کر سنائیں یعنی ’ تم اور تمہارے معبود سب جہنم میں جھونک دئیے جاؤ گے ‘ } ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے چلے گئے تھوڑی ہی دیر میں عبداللہ بن زہیری تمیمی آیا تو ولید بن مغیرہ نے اس سے کہا نضر بن حارث تو ابن عبدالمطلب سے ہار گیا اور بالآخر ابن عبدالمطلب ہمیں اور ہمارے معبودوں کو جہنم کا ایندھن کہتے ہوئے چلے گئے ۔ اس نے کہا اگر میں ہوتا تو خود انہیں لاجواب کر دیتا جاؤ ذرا ان سے پوچھو تو کہ جب ہم اور ہمارے سارے معبود دوزخی ہیں تو لازم آیا کہ سارے فرشتے اور عزیر اور مسیح علیہم السلام بھی جہنم میں جائیں گے کیونکہ ہم فرشتوں کو پوجتے ہیں یہود عزیر علیہ السلام کی پرستش کرتے ہیں نصرانی عیسیٰ علیہ السلام کی عبادت کرتے ہیں ۔ اس پر مجلس کے کفار بہت خوش ہوئے اور کہا ہاں یہ جواب بہت ٹھیک ہے ۔ لیکن جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک یہ بات پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ہر وہ شخص جو غیر اللہ کی عبادت کرے اور ہر وہ شخص جو اپنی عبادت اپنی خوشی سے کرائے یہ دونوں عابد و معبود جہنمی ہیں فرشتوں یا نبیوں نے نہ اپنی عبادت کا حکم دیا نہ وہ اس سے خوش۔ ان کے نام سے دراصل یہ شیطان کی عبادت کرتے ہیں وہی انہیں شرک کا حکم دیتا ہے۔ اور یہ بجا لاتے ہیں } ۔ اس پر آیت « إِنَّ الَّذِینَ سَبَقَتْ لَہُم مِّنَّا الْحُسْنَیٰ أُولٰئِکَ عَنْہَا مُبْعَدُونَ » ۱؎ (21-الأنبیاء:101) ، نازل ہوئی یعنی ” عیسیٰ ، عزیر ، اور ان کے علاوہ جن احبار و رہبان کی پرستش یہ لوگ کرتے ہیں اور خود وہ اللہ کی اطاعت پر تھے شرک سے بیزار اور اس سے روکنے والے تھے اور ان کے بعد گمراہوں جاہلوں نے انہیں معبود بنا لیا تو وہ محض بے قصور ہیں “ ۔ اور فرشتوں کو جو مشرکین اللہ کی بیٹیاں مان کر پوجتے تھے ان کی تردید میں آیت « وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا سُبْحَانَہُ بَلْ عِبَادٌ مٰکْرَ‌مُونَ» ۱؎ (21-الأنبیاء:26) ، سے کئی آیتوں تک نازل ہوئیں اور ان کے اس باطل عقیدے کی پوری تردید کر دی ۔ اور عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں اس نے جو جواب دیا تھا جس پر مشرکین خوش ہوئے تھے یہ آیتیں اتریں کہ ’ اس قول کو سنتے ہی کہ معبودان باطل بھی اپنے عابدوں کے ساتھ جہنم میں جائیں گے انہوں نے جھٹ سے عیسیٰ کی ذات گرامی کو پیش کر دیا اور یہ سنتے ہی مارے خوشی کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم کے مشرک اچھل پڑے اور بڑھ بڑھ کر باتیں بنانے لگے کہ ہم نے دبا لیا ۔ ان سے کہو کہ عیسیٰ علیہ السلام نے کسی سے اپنی یا کسی اور کی پرستش نہیں کرائی وہ تو خود برابر ہماری غلامی میں لگے رہے اور ہم نے بھی انہیں اپنی بہترین نعمتیں عطا فرمائیں ۔ ان کے ہاتھوں جو معجزات دنیا کو دکھائے وہ قیامت کی دلیل تھے ‘ ۔ سیدنا ابن عباس سے ابن جریر میں ہے کہ { مشرکین نے اپنے معبودوں کا جہنمی ہونا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی سن کر کہا کہ ” پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابن مریم علیہ السلام کی نسبت کیا کہتے ہیں ؟ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں } ۔ اب کوئی جواب ان کے پاس نہ رہا تو کہنے لگے واللہ یہ تو چاہتے ہیں کہ جس طرح عیسائیوں نے عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ مان لیا ہے ہم بھی انہیں رب مان لیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’ یہ تو صرف بکواس ہے کھسیانے ہو کر بے تکی باتیں کرنے لگے ہیں ‘ ۔۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:86/25:ضعیف) مسند احمد میں ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ” قرآن میں ایک آیت ہے مجھ سے کسی نے اس کی تفسیر نہیں پوچھی ۔ میں نہیں جانتا کہ کیا ہر ایک اسے جانتا ہے یا نہ جان کر پھر بھی جاننے کی کوشش نہیں کرتے ؟ “ پھر اور باتیں بیان فرماتے رہے یہاں تک کہ مجلس ختم ہوئی اور آپ چلے گئے ۔ اب ہمیں بڑا افسوس ہونے لگا کہ وہ آیت تو پھر بھی رہ گئی اور ہم میں سے کسی نے دریافت ہی نہ کیا ۔ اس پر ابن عقیل انصاری کے مولیٰ ابویحییٰ نے کہا کہ اچھا کل صبح جب تشریف لائیں گے تو میں پوچھ لوں گا ۔ دوسرے دن جو آئے تو میں نے ان کی کل کی بات دہرائی اور ان سے دریافت کیا کہ وہ کون سی آیت ہے ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” ہاں سنو ! { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ قریش سے فرمایا کوئی ایسا نہیں جس کی عبادت اللہ کے سوا کی جاتی ہو اور اس میں خیر ہو } “ ۔ { اس پر قریش نے کہا کیا عیسائی عیسیٰ علیہ السلام کی عبادت نہیں کرتے ؟ اور کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا نبی اور اس کا برگذیدہ نیک بندہ نہیں مانتے ؟ پھر اس کا کیا مطلب ہوا کہ اللہ کے سوا جس کی عبادت کی جاتی ہے وہ خیر سے خالی ہے ؟ اس پر یہ آیتیں اتریں ۔ کہ جب عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کا ذکر آیا تو لوگ ہنسنے لگے ۔ ’ وہ قیامت کا علم ہیں ‘ یعنی عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کا قیامت کے دن سے پہلے نکلنا } ۔۱؎ (مسند احمد:318/1:حسن) ابن ابی حاتم میں بھی یہ روایت پچھلے جملے کے علاوہ ہے ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” ان کے اس قول کا کہ کیا ہمارے معبود بہتر ہیں یا وہ ۔ مطلب یہ ہے کہ ہمارے معبود محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بہتر ہیں یہ تو اپنے آپ کو بچوانا چاہتے ہیں “ ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی قرأت میں «اَمْ ھٰذَا» ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:202/11:) اللہ فرماتا ہے ’ یہ ان کا مناظرہ نہیں بلکہ مجادلہ اور مکابرہ ہے ‘ ، یعنی بے دلیل جھگڑا اور بے وجہ حجت بازی ہے خود یہ جانتے ہیں کہ نہ یہ مطلب ہے نہ ہمارا یہ اعتراض اس پر وارد ہوتا ہے ۔ اس لیے اولاً تو آیت میں لفظ «مَــا» ہے جو غیر ذوی العقول کے لیے ہے دوسرے یہ کہ آیت میں خطاب کفار قریش سے ہے جو اصنام و انداد یعنی بتوں اور پتھروں کو پوجتے تھے وہ مسیح علیہ السلام کے پجاری نہ تھے جو یہ اعتراض برمحل مانا جائے پس یہ صرف جدل ہے یعنی وہ بات کہتے ہیں جس کے غیر صحیح ہونے کو ان کے اپنے دل کو بھی یقین ہے ۔ ترمذی وغیرہ میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ { کوئی قوم اس وقت تک ہلاک نہیں ہوتی جب تک بیدلیل حجت بازی اس میں نہ آ جائے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی آیت کی تلاوت کی } ۔۱؎ (ترمذی کتاب التفسیر:3253،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابن ابی حاتم میں اس حدیث کے شروع میں یہ بھی ہے کہ { ہر امت کی گمراہی کی پہلی بات اپنے نبی کے بعد تقدیر کا انکار کرنا ہے } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:203/11:ضعیف) ابن جریر میں ہے کہ { ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ رضی اللہ عنہم کے مجمع میں آئے اس وقت وہ قرآن کی آیتوں میں بحث کر رہے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سخت غضبناک ہوئے اور فرمایا : { اس طرح اللہ کی کتاب کی آیتوں کو ایک دوسری کے ساتھ ٹکراؤ نہیں یاد رکھو جھگڑے کی اسی عادت نے اگلے لوگوں کو گمراہ کر دیا ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت «مَا ضَرَبُوْہُ لَکَ اِلَّا جَدَلًا ۭ بَلْ ہُمْ قَوْمٌ خَصِمُوْنَ» ۱؎ (43-الزخرف:58) کی تلاوت فرمائی } } ۔(تفسیر ابن جریر الطبری:203/11:ضعیف) الزخرف
58 الزخرف
59 1 پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ’ عیسیٰ علیہ السلام اللہ عزوجل کے بندوں میں سے ایک بندے تھے ۔ جن پر نبوت و رسالت کا انعام باری تعالیٰ ہوا تھا اور انہیں اللہ کی قدرت کی نشانی بنا کر بنی اسرائیل کی طرف بھیجا گیا تھا تاکہ وہ جان لیں کہ اللہ جو چاہے اس پر قادر ہے ‘ ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ’ اگر ہم چاہتے تو تمہارے جانشین بنا کر فرشتوں کو اس زمین میں آباد کر دیتے ‘ ۔ یا یہ کہ جس طرح تم ایک دوسرے کے جانشین ہوتے ہو یہی بات ان میں کر دیتے مطلب دونوں صورتوں میں ایک ہی ہے ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” یعنی بجائے تمہارے زمین کی آبادی ان سے ہوتی ہے “ ۔ اس کے بعد جو فرمایا ہے کہ ’ وہ قیامت کی نشانی ہے ‘ ، اس کا مطلب جو ابن اسحاق رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے وہ کچھ ٹھیک نہیں ۔ اور اس سے بھی زیادہ دور کی بات یہ ہے کہ بقول قتادہ ، حسن بصری اور سعید بن جبیر رحمہ اللہ علیہم کہتے ہیں کہہ کی ضمیر کا مرجع عائد ہے عیسیٰ علیہ السلام پر ۔ یعنی عیسیٰ علیہ السلام قیامت کی ایک نشانی ہیں ۔ اس لیے کہ اوپر سے ہی آپ علیہ السلام کا بیان چلا آ رہا ہے اور یہ بھی واضح رہے کہ مراد یہاں عیسیٰ علیہ السلام کا قیامت سے پہلے کا نازل ہونا ہے جیسے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا آیت « وَإِن مِّنْ أَہْلِ الْکِتَابِ إِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِہِ قَبْلَ مَوْتِہِ وَیَوْمَ الْقِیَامَۃِ یَکُونُ عَلَیْہِمْ شَہِیدًا » ۱؎ (4-النساء:159) یعنی ’ ان کی موت سے پہلے ایک ایک اہل کتاب ان پر ایمان لائے گا ‘ ۔ یعنی عیسیٰ علیہ السلام کی موت سے پہلے قیامت کے دن یہ ان پر گواہ ہوں گے ۔ اس مطلب کی پوری وضاحت اسی آیت کی دوسری قرأت سے ہوتی ہے جس میں ہے «وَاِنَّہٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَۃِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِہَا وَاتَّبِعُوْنِ ۭ ھٰذَا صِرَاطٌ مٰسْتَقِیْمٌ» ۱؎ (43-الزخرف:61) یعنی ’ جناب روح اللہ قیامت کے قائم ہونے کا نشان اور علامت ہیں ‘ ۔ حضرت مجاہدرحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ نشان ہیں قیامت کے لیے عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کا قیامت سے پہلے آنا ۔ اسی طرح روایت کی گئی ہے ۔ سیدنا ابوہریرہ سے اور سیدنا عباس رضی اللہ عنہم سے اور یہی مروی ہے ۔ ابو لعالیہ ، ابومالک ، عکرمہ ، حسن ، قتادہ ، ضحاک رحمہ اللہ علیہم وغیرہ سے ۔ اور متواتر احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ { قیامت کے دن سے پہلے عیسیٰ علیہ السلام امام عادل اور حاکم باانصاف ہو کر نازل ہوں گے ۔ پس تم قیامت کا آنا یقینی جانو اس میں شک شبہ نہ کرو اور جو خبریں تمہیں دے رہا ہوں اس میں میری تابعداری کرو یہی صراط مستقیم ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ شیطان جو تمہارا کھلا دشمن ہے تمہیں صحیح راہ سے اور میری واجب اتباع سے روک دے حضرت عیسیٰ نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ میں حکمت یعنی نبوت لے کر تمہارے پاس آیا ہوں اور دینی امور میں جو اختلافات تم نے ڈال رکھے ہیں۔ میں اس میں جو حق ہے اسے ظاہر کرنے کے لیے بھیجا گیا ہوں} ۔۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:207/11:) الزخرف
60 الزخرف
61 الزخرف
62 الزخرف
63 1 ابن جریر رحمہ اللہ یہی فرماتے ہیں اور یہی قول بہتر اور پختہ ہے ۔ پھر امام صاحب نے ان لوگوں کے قول کی تردید کی ہے جو کہتے ہیں کہ ” بعض “ کا لفظ یہاں پر ” کل “ کے معنی میں ہے اور اس کی دلیل میں لبید شاعر کا ایک شعر پیش کرتے ہیں ۔ لیکن وہاں بھی بعض سے مراد قائل کا خود اپنا نفس ہے نہ کہ سب نفس ۔ امام صاحب نے شعر کا جو مطلب بیان کیا ہے یہ بھی ممکن ہے ۔ پھر فرمایا { جو میں تمہیں حکم دیتا ہوں اس میں اللہ کا لحاظ رکھو اس سے ڈرتے رہو اور میری اطاعت گذاری کرو جو لایا ہوں اسے مانو یقین مانو کہ تم سب اور خود میں اس کے غلام ہیں اس کے محتاج ہیں اس کے در کے فقیر ہیں اس کی عبادت ہم سب پر فرض ہے وہ «وَحدَہُ لَا شَرِیْکَ» ہے } ۔ بس یہی توحید کی راہ راہ مستقیم ہے اب لوگ آپس میں متفرق ہو گئے بعض تو کلمۃ اللہ کو اللہ کا بندہ اور رسول ہی کہتے تھے اور یہی حق والی جماعت تھی اور بعض نے ان کی نسبت دعویٰ کیا کہ وہ اللہ کے فرزند ہیں ۔ اور بعض نے کہا آپ علیہ السلام ہی اللہ ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان دونوں دعوں سے پاک ہے اور بلند و برتر ہے ۔ اسی لیے ارشاد فرماتا ہے کہ ’ ان ظالموں کے لیے خرابی ہے قیامت والے دن انہیں المناک عذاب اور درد ناک سزائیں ہوں گی ‘ ۔ الزخرف
64 الزخرف
65 الزخرف
66 جنت میں جنت کے حقدار اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’ دیکھو تو یہ مشرک قیامت کا انتظار کر رہے ہیں جو محض بےسود ہے اس لیے کہ اس کے آنے کا کسی کو صحیح وقت تو معلوم نہیں وہ اچانک یونہی بے خبری کی حالت میں آ جائے گی اس وقت گو نادم ہوں لیکن اس سے کیا فائدہ ؟ یہ اسے ناممکن سمجھے ہوئے ہیں لیکن وہ نہ صرف ممکن بلکہ یقیناً آنے ہی والی ہے اور اس وقت کا یا اس کے بعد کا کوئی عمل کسی کو کچھ نفع نہ دے گا اس دن تو جن کی دوستیاں غیر اللہ کے لیے تھیں وہ سب عدوات سے بدل جائیں گی یہاں جو دوستی اللہ کے واسطے تھی وہ باقی اور دائم رہے گی ‘ ۔ جیسے خلیل الرحمن علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا کہ «وَقَالَ إِنَّمَا اتَّخَذْتُم مِّن دُونِ اللہِ أَوْثَانًا مَّوَدَّۃَ بَیْنِکُمْ فِی الْحَیَاۃِ الدٰنْیَا ثُمَّ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ یَکْفُرُ بَعْضُکُم بِبَعْضٍ وَیَلْعَنُ بَعْضُکُم بَعْضًا وَمَأْوَاکُمُ النَّارُ وَمَا لَکُم مِّن نَّاصِرِینَ » ۱؎ ( 29-العنکبوت : 25 ) ’ تم نے بتوں سے جو دوستیاں کر رکھی ہیں یہ صرف دنیا کے رہنے تک ہی ہیں قیامت کے دن تو ایک دوسرے کا نہ صرف انکار کریں گے بلکہ ایک دوسرے پر لعنت بھیجیں گے اور تمہارا ٹھکانہ جہنم ہو گا اور کوئی نہ ہو گا جو تمہاری امداد پر آئے ‘ ۔ ابن ابی حاتم میں مروی ہے کہ امیر المؤمنین سیدنا علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں ” دو ایماندار جو آپس میں دوست ہوتے ہیں جب ان میں سے ایک کا انتقال ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے جنت کی خوشخبری ملتی ہے تو وہ اپنے دوست کو یاد کرتا ہے اور کہتا ہے اے اللہ فلاں شخص میرا دلی دوست تھا جو مجھے تیرے اور تیرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیتا تھا بھلائی کی ہدایت کرتا تھا برائی سے روکتا تھا اور مجھے یقین دلایا کرتا تھا کہ ایک روز اللہ سے ملنا ہے ، پس اے باری تعالیٰ تو اسے راہ حق پر ثابت قدر رکھ یہاں تک کہ اسے بھی تو وہ دکھائے جو تو نے مجھے دکھایا ہے اور اس سے بھی اسی طرح راضی ہو جائے جس طرح مجھ سے راضی ہوا ہے ۔ اللہ کی طرف سے جواب ملتا ہے ’ تو ٹھنڈے کلیجوں چلا جا اس کے لیے جو کچھ میں نے تیار کیا ہے اگر تو اسے دیکھ لیتا تو تو بہت ہنستا اور بالکل آزردہ نہ ہوتا ‘ ۔ پھر جب دوسرا دوست مرتا ہے اور ان کی روحیں ملتی ہیں تو کہا جاتا ہے کہ ’ تم آپس میں ایک دوسرے کا تعلق بیان کرو ‘ ، پس ہر ایک دوسرے سے کہتا ہے کہ یہ میرا بڑا اچھا بھائی تھا اور نہایت نیک ساتھی تھا اور بہت بہتر دوست تھا ۔ دو کافر جو آپس میں ایک دوسرے کے دوست تھے جب ان میں سے ایک مرتا ہے اور جہنم کی خبر دیا جاتا ہے تو اسے بھی اپنا دوست یاد آتا ہے اور کہتا ہے باری تعالیٰ فلاں شخص میرا دوست تھا تیری اور تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی مجھے تعلیم دیتا تھا برائیوں کی رغبت دلاتا تھا بھلائیوں سے روکتا تھا اور تیری ملاقات نہ ہونے کا مجھے یقین دلاتا تھا پس تو اسے میرے بعد ہدایت نہ کرتا کہ وہ بھی وہی دیکھے جو میں نے دیکھا اور اس پر تو اسی طرح ناراض ہو جس طرح مجھ پر غضب ناک ہوا ۔ پھر جب دوسرا دوست مرتا ہے اور ان کی روحیں جمع کی جاتی ہیں تو کہا جاتا ہے کہ ’ تم دونوں ایک دوسرے کے اوصاف بیان کرو ‘ ، تو ہر ایک کہتا ہے تو بڑا برا بھائی تھا اور بدترین دوست تھا “۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ اور مجاہد ، قتادہ رحمہ اللہ علیہم فرماتے ہیں ” ہر دوستی قیامت کے دن دشمنی سے بدل جائے گی مگر پرہیزگاروں کی دوستی ۔ ابن عساکر میں ہے کہ جن دو شخصوں نے اللہ کے لیے آپس میں دوستانہ کر رکھا ہے خواہ ایک مشرق میں ہو اور دوسرا مغرب میں لیکن قیامت کے دن اللہ انہیں جمع کر کے فرمائے گا کہ ’ یہ جسے تو میری وجہ سے چاہتا تھا ‘ ۔۱؎ (مختصر تاریخ دمشق:79/27:اسنادہ ضعیف) پھر فرمایا کہ ان متقیوں سے روز قیامت میں کہا جائے گا کہ ’ تم خوف و ہراس سے دور ہو ۔ ہر طرح امن چین سے رہو سہو یہ ہے تمہارے ایمان و اسلام کا بدلہ ‘ ۔ یعنی باطن میں یقین و اعتقاد کامل ۔ اور ظاہر میں شریعت پر عمل ۔ معتمر بن سلیمان رحمہ اللہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ” قیامت کے دن جب کہ لوگ اپنی اپنی قبروں سے کھڑے کئے جائیں گے ۔ تو سب کے سب گھبراہٹ اور بے چینی میں ہوں گے اس وقت ایک منادی ندا کرے گا کہ ’ اے میرے بندو ! آج کے دن نہ تم پر خوشہ ہے نہ خوف ‘ ، تو تمام کے تمام اسے عام سمجھ کر خوش ہو جائیں گے وہیں منادی کہے گا ’ وہ لوگ جو دل سے ایمان لائے تھے اور جسم سے نیک کام کئے تھے ‘ ، اس وقت سوائے سچے پکے مسلمانوں کے باقی سب مایوس ہو جائیں گے پھر ان سے کہا جائے گا کہ تم نعمت وسعادت کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ “ ۔ سورۃ الروم میں اس کی تفسیر گذر چکی ہے ۔ الزخرف
67 الزخرف
68 الزخرف
69 الزخرف
70 الزخرف
71 جنت کی نعمتیں چاروں طرف سے ان کے سامنے طرح طرح کے ملذذ مرغن خوش ذائقہ مرغوب کھانوں کی طشتریاں رکابیاں اور پیالیاں پیش ہوں گی اور چھلکتے ہوئے جام ہاتھوں میں لیے غلمان ادھر ادھر گردش کر رہے ہوں گے ۔ «تَشْـتَہیْـہِ الْاَنْفُسُ» اور «تَشْتَہِی الْاَنْفُسُ» دونوں قرأتیں ہیں ۔ یعنی انہیں مزیدار خوشبو والے اچھی رنگت والے من مانے کھانے پینے ملیں گے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { سب سے نیچے درجے کا جنتی جو سب سے آخر میں جنت میں جائے گا اس کی نگاہ سو سال کے راستے تک جاتی ہو گی لیکن برابر وہاں تک اسے اپنے ہی ڈیرے اور محل سونے کے زمرد کے نظر آئیں گے جو تمام کے تمام قسم قسم اور رنگ برنگ کے سازو سامان سے پر ہوں گے صبح شام ستر ستر ہزار رکابیاں پیالے الگ الگ وضع کے کھانے سے پر اس کے سامنے رکھے جائیں گے جن میں سے ہر ایک اس کی خواہش کے مطابق ہو گا ۔ اور اول سے آخر تک اس کے اشتہاء برابر اور یکساں رہے گی ۔ اگر وہ روئے زمین والوں کی دعوت کر دے تو سب کو کفایت ہو جائے اور کچھ نہ گھٹے } ۔ ۱؎ (تفسیر عبدالرزاق:2785:مرسل) ابن ابی حاتم میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ { جنتی ایک لقمہ اٹھائے گا اور اس کے دل میں خیال آئے گا کہ فلاں قسم کا کھانا ہوتا تو اچھا ہوتا چنانچہ وہ نوالہ اس کے منہ میں وہ چیز بن جائے گا جس کی اس نے خواہش کی تھی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی آیت کی تلاوت کی } } ۔ ۱؎ (ضعیف) مسند احمد میں ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { سب سے ادنیٰ مرتبے کے جنتی کے بالاخانے کی سات منزلیں ہوں گی یہ چھٹی منزل میں ہو گا اور اس کے اوپر ساتویں ہو گی اس کے تیس خادم ہوں گے جو صبح شام تین سو سونے کے برتنوں میں اس کے طعام و شراب پیش کریں گے ہر ایک میں الگ الگ قسم کا عجیب و غریب اور نہایت لذیز کھانا ہو گا اول سے آخر تک اسے کھانے کی اشتہاء ویسی ہی رہے گی ۔ اسی طرح تین سو سونے کے پیالوں اور کٹوروں اور گلاسوں میں اسے پینے کی چیزیں دی جائیں گی ۔ وہ بھی ایک سے ایک سوا ہو گی یہ کہے گا کہ اے اللہ اگر تو مجھے اجازت دے تو میں تمام جنتیوں کی دعوت کروں ۔ سب بھی اگر میرے ہاں کھا جائیں تو بھی میرے کھانے میں کمی نہیں آ سکتی اور اس کی بہتر بیویاں حور عین میں سے ہوں گی ۔ اور دنیا کی بیویاں الگ ہوں گی ۔ ان میں سے ایک ایک میل میل بھر کی جگہ میں بیٹھے گی پھر ساتھ ہی ان سے کہا جائے گا کہ یہ نعمتیں بھی ہمیشہ رہنے والی ہیں اور تم بھی یہاں ہمیشہ رہو گے ۔ نہ موت آئے نہ گھاٹا آئے نہ جگہ بدلے نہ تکلیف پہنچے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:537/2:ضعیف) پھر ان پر اپنا فضل و احسان بتایا جاتا ہے کہ ’ تمہارے اعمال کا بدلہ میں نے اپنی وسیع رحمت سے تمہیں یہ دیا ہے ‘ ۔ کیونکہ کوئی شخص بغیر رحمت اللہ کے صرف اپنے اعمال کی بناء پر جنت میں نہیں جا سکتا ۔ البتہ جنت کے درجوں میں تفاوت جو ہو گا وہ نیک اعمال کے تفاوت کی وجہ سے ہو گا ۔ ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { جہنمی اپنی جنت کی جگہ جہنم میں دیکھیں گے اور حسرت و افسوس سے کہیں گے«أَوْ تَقُولَ لَوْ أَنَّ اللہَ ہَدَانِی لَکُنتُ مِنَ الْمُتَّقِینَ» ۱؎ (39-الزمر:57) ’ اگر اللہ تعالیٰ مجھے بھی ہدایت کرتا تو میں بھی متقیوں میں ہو جاتا ‘ ۔ اور ہر ایک جنتی بھی اپنی جہنم کی جگہ جنت میں سے دیکھے گا اور اللہ کا شکر کرتے ہوئے کہے گا کہ«الْحَمْدُ لِلہِ الَّذِی ہَدَانَا لِہٰذَا وَمَا کُنَّا لِنَہْتَدِیَ لَوْلَا أَنْ ہَدَانَا اللہُ» ۱؎ (7-الأعراف:43) ’ ہم خود اپنے طور پر راہ راست کے حاصل کرنے پر قادر نہ تھے ۔ اگر اللہ تعالیٰ نے خود ہماری رہنمائی نہ کرتا ‘ } ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { ہر ہر شخص کی ایک جگہ جنت میں ہے اور ایک جگہ جہنم میں ۔ پس کافر مومن کی جہنم کی جگہ کا وارث ہو گا ۔ اور مومن کافر کی جنت کی جگہ کا وارث ہو گا } یہی فرمان باری ہے ’ اس جنت کے وارث تم بہ سبب اپنے اعمال کے بنائے گئے ہو ‘ ۔ کھانے پینے کے ذکر کے بعد اب میووں اور ترکاریوں کا بیان ہو رہا ہے کہ ’ یہ بھی بہ کثرت مرغوب طبع انہیں ملیں گی ۔ جس قسم کی یہ چاہیں اور ان کی خواہش ہو ‘ ۔ غرض بھرپور نعمتوں کے ساتھ رب کے رضا مندی کے گھر میں ہمیشہ رہیں گے اللہ ہمیں بھی نصیب فرمائے ۔ آمین ۔ الزخرف
72 الزخرف
73 الزخرف
74 دوزخ اور دوزخیوں کی درگت اوپر چونکہ نیک لوگوں کا حال بیان ہوا تھا اس لیے یہاں بدبختوں کا حال بیان ہو رہا ہے کہ ’ یہ گنہگار جہنم کے عذابوں میں ہمیشہ رہیں گے ایک ساعت بھی انہیں ان عذابوں میں تخفیف نہ ہو گی اور اس میں وہ ناامید محض ہو کر پڑے رہیں گے ہر بھلائی سے وہ مایوس ہو جائیں گے ہم ظلم کرنے والے نہیں بلکہ انہوں نے خود اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے اپنی جان پر آپ ہی ظلم کیا ہم نے رسول بھیجے کتابیں نازل فرمائیں حجت قائم کر دی لیکن یہ اپنی سرکشی سے عصیان سے طغیان سے باز نہ آئے اس پر یہ بدلہ پایا اس میں اللہ کا کوئی ظلم نہیں اور نہ اللہ اپنے بندوں پر ظلم کرتا ہے یہ جہنمی مالک کو یعنی داروغہ جہنم کو پکاریں گے ‘ ۔ صحیح بخاری میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا : { یہ موت کی آرزو کریں گے تاکہ عذاب سے چھوٹ جائیں لیکن اللہ کا یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ «وَالَّذِینَ کَفَرُوا لَہُمْ نَارُ جَہَنَّمَ لَا یُقْضَیٰ عَلَیْہِمْ فَیَمُوتُوا وَلَا یُخَفَّفُ عَنْہُم مِّنْ عَذَابِہَا ۚ کَذٰلِکَ نَجْزِی کُلَّ کَفُورٍ » ۱؎ (35-فاطر:36) یعنی ’ نہ تو انہیں موت آئے گی اور نہ عذاب کی تخفیف ہو گی‘ ۔ اور فرمان باری ہے آیت «وَیَتَجَنَّبُہَا الْأَشْقَی الَّذِی یَصْلَی النَّارَ الْکُبْرَیٰ ثُمَّ لَا یَمُوتُ فِیہَا وَلَا یَحْیَیٰ » ۱؎ (87-الأعلی:-13-11) یعنی ’ وہ بدبخت اس نصیحت سے علیحدہ ہو جائے گا جو بڑی سخت آگ میں پڑے گا پھر وہاں نہ مرے گا اور نہ جئے گا ‘ } ۔ پس جب یہ داروغہ جہنم سے نہایت لجاجت سے کہیں گے کہ آپ ہماری موت کی دعا اللہ سے کیجئے تو وہ جواب دے گا کہ تم اسی میں پڑے رہنے والے ہو مرو گے نہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں مکث ایک ہزار سال ہے ۔ یعنی ’ نہ مرو گے نہ چھٹکارا پاؤ گے نہ بھاگ سکو گے ‘ ۔ پھر ان کی سیاہ کاری کا بیان ہو رہا ہے کہ ’ جب ہم نے ان کے سامنے حق کو پیش کر دیا واضح کر دیا تو انہوں نے اسے ماننا تو ایک طرف اس سے نفرت کی ۔ ان کی طبیعت ہی اس طرف مائل نہ ہوئی حق اور حق والوں سے نفرت کرتے رہے اس سے رکتے رہے ہاں ناحق کی طرف مائل رہے ناحق والوں سے ان کی خوب بنتی رہی ۔ پس تم اپنے نفس کو یہی ملامت کرو اور اپنے ہی اوپر افسوس کرو لیکن آج کا افسوس بھی بے فائدہ ہے ‘ ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ انہوں نے بدترین مکر اور زبردست داؤ کھیلنا چاہا تو ہم نے بھی ان کے ساتھ یہی کیا ‘ ۔ مجاہد رحمہ اللہ کی یہی تفسیر ہے اور اس کی شہادت اس آیت میں ہے «وَمَکَرُوْا مَکْرًا وَّمَکَرْنَا مَکْرًا وَّہُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ» ( 27- النمل : 50 ) یعنی ’ انہوں نے مکر کیا اور ہم نے بھی اس طرح مکر کیا کہ انہیں پتہ بھی نہ چلا ‘ ۔ مشرکین حق کو ٹالنے کے لیے طرح طرح کی حیلہ سازی کرتے رہتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے بھی انہیں دھوکے میں ہی رکھا اور ان کا وبال جب تک ان کے سروں پر نہ آ گیا اور ان کی آنکھیں نہ کھلیں ۔ اسی لیے اس کے بعد ہی فرمایا کہ ’ کیا ان کا گمان ہے کہ ہم ان کی پوشیدہ باتیں اور خفیہ سرگوشیاں سن نہیں رہے ؟ ان کا گمان بالکل غلط ہے ہم تو ان کی سرشت تک سے واقف ہیں بلکہ ہمارے مقرر کردہ فرشتے بھی ان کے پاس بلکہ ان کے ساتھ ہیں جو نہ صرف دیکھ ہی رہے ہیں بلکہ لکھ بھی رہے ہیں ‘ ۔ الزخرف
75 الزخرف
76 الزخرف
77 الزخرف
78 الزخرف
79 الزخرف
80 الزخرف
81 جہالت و خباثت کی انتہاء اللہ تعالٰی کے ساتھ شرک ہے ’ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ اعلان کر دیجئیے کہ اگر بالفرض اللہ تعالیٰ کی اولاد ہو تو مجھے سر جھکانے میں کیا تامل ہے ؟ ‘ نہ میں اس کے فرمان سے سرتابی کروں نہ اس کے حکم کو ٹالوں اگر ایسا ہوتا تو سب سے پہلے میں اسے مانتا اور اس کا اقرار کرتا لیکن اللہ کی ذات ایسی نہیں جس کا کوئی ہمسر اور جس کا کوئی کفو ہو ۔ یاد رہے کہ بطور شرط کے جو کلام وارد کیا جائے اس کا وقوع ضروری نہیں بلکہ امکان بھی ضروری نہیں ۔ جیسے فرمان باری ہے آیت « لَّوْ أَرَ‌ادَ اللہُ أَن یَتَّخِذَ وَلَدًا لَّاصْطَفَیٰ مِمَّا یَخْلُقُ مَا یَشَاءُ سُبْحَانَہُ ہُوَ اللہُ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ‌ » ۱؎ (39-الزمر:4) ، یعنی ’ اگر حق جل و علا اولاد کی خواہش کرتا تو اپنی مخلوق میں سے جسے چاہتا چن لیتا لیکن وہ اس سے پاک ہے اس کی شان وحدانیت اس کے خلاف ہے اس کا تنہا غلبہ اور قہاریت اس کی صریح منافی ہے ‘ ۔ بعض مفسریں نے «عَابِدِیْنَ» کے معنی انکاری کے بھی کئے ہیں جیسے سفیان ثوری رحمہ اللہ ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ «عَابِدِیْنَ» سے مراد یہاں «اَوَّلُ الْجَاحِدِیْـنَ» ہے یعنی پہلا انکار کرنے والا اور یہ «عَبْدَ یَعْبَدُ» کے باب سے ہے اور جو عبادت کے معنی میں ہوتا ہے ۔ وہ «عَـبَدَ یَـعْـبُدُ» سے ہوتا ہے ۔ اسی کی شہادت میں یہ واقعہ بھی ہے کہ ایک عورت کے نکاح کے چھ ماہ بعد بچہ ہوا سیدنا عثمان رضی اللہ عنہما نے اسے رجم کرنے کا حکم دیا لیکن سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اس کی مخالفت کی اور فرمایا ” اللہ تعالیٰ کی کتاب میں ہے آیت «وَحَمْلُہٗ وَفِصٰلُہٗ ثَلٰثُوْنَ شَہْرًا» ۱؎ (46-الأحقاف:15) یعنی ’ حمل کی اور دودھ کی چھٹائی کی مدت ڈھائی سال کی ہے ‘ ۔ اور جگہ اللہ عزوجل نے فرمایا آیت «وَوَصَّیْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَیْہِ حَمَلَتْہُ أُمٰہُ وَہْنًا عَلَیٰ وَہْنٍ وَفِصَالُہُ فِی عَامَیْنِ أَنِ اشْکُرْ لِی وَلِوَالِدَیْکَ إِلَیَّ الْمَصِیرُ» ۱؎ (31-لقمان:14) ’ دو سال کے اندر اندر دودھ چھڑانے کی مدت ہے ‘ ۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ ان کا انکار نہ کر سکے اور فوراً آدمی بھیجا کہ اس عورت کو واپس کرو ۔ یہاں بھی لفظ «عَـبِدَ» ہے یعنی انکار نہ کر سکے ۔ ابن وہب رحمہ اللہ کہتے ہیں «عَـبِدَ» کے معنی نہ ماننا انکار کرنا ہے ۔ شاعر کے شعر میں بھی «عَـبِدَ» انکار کے اور نہ ماننے کے معنی میں ہے ۔ لیکن اس قول میں نظر ہے اس لیے کہ شرط کے جواب میں یہ کچھ ٹھیک طور پر لگتا نہیں اسے ماننے کے بعد مطلب یہ ہو گا کہ ” اگر رحمان کی اولاد ہے تو میں پہلا منکر ہوں “ ۔ اور اس میں کلام کی خوبصورتی قائم نہیں رہتی ۔ ہاں صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ «اِنْ» شرط کے لیے نہیں ہے ۔ بلکہ نفی کے لیے ہے جیسے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول بھی ہے ۔ تو اب مضمون کلام یہ ہو گا کہ چونکہ رحمان کی اولاد نہیں پس میں اس کا پہلا گواہ ہوں ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ کلام عرب کے محاورے کے مطابق ہے یعنی ” نہ رحمان کی اولاد نہ میں اس کا قائل و عابد “ ۔ ابو صخر رحمہ اللہ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ ” میں تو پہلے ہی اس کا عابد ہوں کہ اس کی اولاد ہے ہی نہیں اور میں اس کی توحید کو ماننے میں بھی آگے آگے ہوں “ ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” میں اس کا پہلا عبادت گذار ہوں اور موحد ہوں اور تمہاری تکذیب کرنے والا ہوں “ ۔ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” میں پہلا انکاری ہوں “ ۔ یہ دونوں لغت میں «عَابِد» اور «عَبِدَ» اور اول ہی زیادہ قریب ہے اس وجہ سے کہ یہ شرط و جزا ہے لیکن یہ ممتنع اور محال محض ناممکن ۔ سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” اگر اس کی اولاد ہوتی تو میں اسے پہلے مان لیتا کہ اس کی اولاد ہے لیکن وہ اس سے پاک ہے “ ۔ ابن جریر اسی کو پسند فرماتے ہیں اور جو لوگ «اِنْ» کو نافیہ بتلاتے ہیں ان کے قول کی تردید کرتے ہیں ، اسی لیے باری تعالیٰ عزوجل فرماتا ہے کہ ’ آسمان و زمین اور تمام چیزوں کا حال اس سے پاک بہت دور اور بالکل منزہ ہے کہ اس کی اولاد ہو وہ فرد احمد صمد ہے اس کی نظیر کفو اولاد کوئی نہیں ‘ ۔ ارشاد ہوتا ہے کہ ’ نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اپنی جہالت میں غوطے کھاتے چھوڑو اور دنیا کے کھیل تماشوں میں مشغول رہنے دو اسی غفلت میں ان پر قیامت ٹوٹ پڑے گی ۔ اس وقت اپنا انجام معلوم کر لیں ‘ ۔ پھر ذات حق کی بزرگی اور عظمت اور جلال کا مزید بیان ہوتا ہے کہ ’ زمین و آسمان کی تمام مخلوقات اس کی عابد ہے اس کے سامنے پست اور عاجز ہے ۔ وہ خبیر و علیم ہے ‘ ۔ الزخرف
82 الزخرف
83 الزخرف
84 الزخرف
85 اللہ تعالیٰ کی چند صفات جیسے اور آیت میں ہے کہ «وَہُوَ اللہُ فِی السَّمَاوَاتِ وَفِی الْأَرْ‌ضِ یَعْلَمُ سِرَّ‌کُمْ وَجَہْرَ‌کُمْ وَیَعْلَمُ مَا تَکْسِبُونَ» ۱؎ (6-الأنعام:3) ’ زمین و آسمان میں اللہ وہی ہے ہر پوشیدہ اور ظاہر کو اور تمہارے ہر ہر عمل کو جانتا ہے ‘ ۔ وہ سب کا خالق و مالک سب کو بسانے اور بنانے والا سب پر حکومت اور سلطنت رکھنے والا بڑی برکتوں والا ہے ۔ وہ تمام عیبوں سے کل نقصانات سے پاک ہے وہ سب کا مالک ہے بلندیوں اور عظمتوں والا ہے کوئی نہیں جو اس کا حکم ٹال سکے کوئی نہیں جو اس کی مرضی بدل سکے ہر ایک پر قابض وہی ہے ہر ایک کام اس کی قدرت کے ماتحت ہے قیامت آنے کے وقت کو وہی جانتا ہے اس کے سوا کسی کو اس کے آنے کے ٹھیک وقت کا علم نہیں ساری مخلوق اسی کی طرف لوٹائی جائے گی وہ ہر ایک کو اپنے اپنے اعمال کا بدلہ دے گا ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ’ ان کافروں کے معبودان باطل جنہیں یہ اپنا سفارشی خیال کئے بیٹھے ہیں ان میں سے کوئی بھی سفارش کے لیے آگے بڑھ نہیں سکتا کسی کی شفاعت انہیں کام نہ آئے گی ‘ ۔ اس کے بعد استثناء منقطع ہے یعنی لیکن جو شخص حق کا اقراری اور شاہد ہو اور وہ خود بھی بصیرت و بصارت پر یعنی علم و معرفت والا ہو اسے اللہ کے حکم سے نیک لوگوں کی شفاعت کار آمد ہو گی ۔ الزخرف
86 الزخرف
87 مشرکین کی کم عقلی پھر فرماتا ہے کہ ’ ان سے اگر تو پوچھے کہ ان کا خالق کون ہے ؟ تو یہ اقرار کریں گے کہ اللہ ہی ہے ‘ ۔ افسوس کہ خالق اسی ایک کو مان کر پھر عبادت دوسروں کی بھی کرتے ہیں جو محض مجبور اور بالکل بے قدرت ہیں اور کبھی اپنی عقل کو کام میں نہیں لاتے کہ جب پیدا اسی ایک نے کیا تو ہم دوسرے کی عبادت کیوں کریں ؟ جہالت و خباثت کند ذہنی اور بیوقوفی اتنی بڑھ گئی ہے کہ ایسی سیدھی سی بات مرتے دم تک سمجھ نہ آئی ۔ بلکہ سمجھانے سے بھی نہ سمجھا ۔ اسی لیے تعجب سے ارشاد ہوا کہ ’ اتنا مانتے ہوئے پھر کیوں اندھے ہو جاتے ہو ؟ ‘ پھر ارشاد ہے کہ ’ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا یہ کہنا کہا ‘ ، یعنی اپنے رب کی طرف شکایت کی اور اپنی قوم کی تکذیب کا بیان کیا کہ یہ ایمان قبول نہیں کرتے ۔ جیسے اور آیت میں ہے «وَقَال الرَّسُوْلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ مَہْجُوْرًا » ۱؎ (25-الفرقان:30) یعنی ’ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ شکایت اللہ کے سامنے ہو گی کہ میری امت نے اس قران کو چھوڑ رکھا تھا ‘ ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ بھی یہی تفسیر بیان کرتے ہیں ۔ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی قرأت «وَقَالَ الرَّسُوْلُ یَا رَبِّ ہَؤُلَاءِ»الخ ہے۔ اس کی ایک توجیہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ آیت «اَمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّا لَا نَسْمَعُ سِرَّہُمْ وَنَجْوٰیہُمْ بَلٰی وَرُسُلُنَا لَدَیْہِمْ یَکْتُبُوْنَ» ۱؎ (43-الزخرف:80) پر معطوف ہے دوسرے یہ کہ یہاں فعل مقدر مانا جائے یعنی «قَالَ» کو مقدر مانا جائے ۔ دوسری قرأت یعنی لام کے زیر کے ساتھ جب ہو تو یہ عجب ہو گا آیت «وَعِنْدَہٗ عِلْمُ السَّاعَۃِ وَاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ» ۱؎ (43-الزخرف:85) پر تو تقدیر یوں ہو گی کہ ’ قیامت کا علم اور اس قول کا علم اس کے پاس ہے ‘ ۔ ختم سورۃ پر ارشاد ہوتا ہے کہ ’ مشرکین سے منہ موڑ لے اور ان کی بد زبانی کا بد کالمی سے جواب نہ دو بلکہ ان کے دل پر چانے کی خاطر قول میں اور فعل میں دونوں میں نرمی برتو کہہ دو کہ سلام ہے ۔ انہیں ابھی حقیقت حال معلوم ہو جائے گی ‘ ۔ اس میں رب قدوس کی طرف سے مشرکین کو بڑی دھمکی ہے اور یہی ہو کر بھی رہا کہ ان پر وہ عذاب آیا جو ان سے ٹل نہ سکا حق جل و علا نے اپنے دین کو بلند و بالا کیا اپنے کلمہ کو چاروں طرف پھیلا دیا اپنے موحد مومن اور مسلم بندوں کو قوی کر دیا اور پھر انہیں جہاد کے اور جلا وطن کرنے کے احکام دے کر اس طرح دنیا میں غالب کر دیا اللہ کے دین میں بےشمار آدمی داخل ہوئے اور مشرق و مغرب میں اسلام پھیل گیا «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ الزخرف
88 الزخرف
89 الزخرف
0 الدخان
1 عظیم الشان قرآن کریم کا نزول اور ماہ شعبان اللہ تبارک وتعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ اس عظیم الشان قرآن کریم کو بابرکت رات یعنی لیلۃ القدر میں نازل فرمایا ہے ۔ جیسے ارشاد ہے «اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ » ( 97- القدر : 1 ) ہم نے اسے لیلۃ القدر میں نازل فرمایا ہے ۔ اور یہ رات رمضان المبارک میں ہے ۔ جیسے اور آیت میں ہے «شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰی وَالْفُرْقَانِ » ( 2- البقرۃ : 185 ) رمضان کا مہینہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا ۔ سورۃ البقرہ میں اس کی پوری تفسیر گذر چکی ہے اس لیے یہاں دوبارہ نہیں لکھتے بعض لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ لیلۃ المبارکہ جس میں قرآن شریف نازل ہوا وہ شعبان کی پندرہویں رات ہے یہ قول سراسر بے دلیل ہے ۔ اس لیے کہ نص قرآن سے قرآن کا رمضان میں نازل ہونا ثابت ہے ۔ اور جس حدیث میں مروی ہے کہ شعبان میں اگلے شعبان تک کے تمام کام مقرر کر دئیے جاتے ہیں یہاں تک کہ نکاح کا اور اولاد کا اور میت کا ہونا بھی وہ حدیث مرسل ہے (تفسیر ابن جریر الطبری:222/11:مرسل و ضعیف) اور ایسی احادیث سے نص قرآنی کا معارضہ نہیں کیا جا سکتا ہم لوگوں کو آگاہ کر دینے والے ہیں یعنی انہیں خیر و شر نیکی بدی معلوم کرا دینے والے ہیں تاکہ مخلوق پر حجت ثابت ہو جائے اور لوگ علم شرعی حاصل کر لیں اسی شب ہر محکم کام طے کیا جاتا ہے یعنی لوح محفوظ سے کاتب فرشتوں کے حوالے کیا جاتا ہے تمام سال کے کل اہم کام عمر روزی وغیرہ سب طے کر لی جاتی ہے ۔ حکیم کے معنی محکم اور مضبوط کے ہیں جو بدلے نہیں وہ سب ہمارے حکم سے ہوتا ہے ہم رسل کے ارسال کرنے والے ہیں تاکہ وہ اللہ کی آیتیں اللہ کے بندوں کو پڑھ سنائیں جس کی انہیں سخت ضرورت اور پوری حاجت ہے یہ تیرے رب کی رحمت ہے اس رحمت کا کرنے والا قرآن کو اتارنے والا اور رسولوں کو بھیجنے والا وہ اللہ ہے جو آسمان زمین اور کل چیز کا مالک ہے اور سب کا خالق ہے ۔ تم اگر یقین کرنے والے ہو تو اس کے باور کرنے کے کافی وجوہ موجود ہیں پھر ارشاد ہوا کہ معبود برحق بھی صرف وہی ہے اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہر ایک کی موت زیست اسی کے ہاتھ ہے تمہارا اور تم سے اگلوں کا سب کا پالنے پوسنے والا وہی ہے اس آیت کا مضمون اس آیت جیسا ہے «قُلْ یٰٓاَیٰھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعَۨا » ( 7- الاعراف : 158 ) الخ ، یعنی تو اعلان کر دے کہ اے لوگو میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں وہ اللہ جس کی بادشاہت ہے آسمان و زمین کی ۔ جس کے سوا کوئی معبود نہیں جو جلاتا اور مارتا ہے ۔ الدخان
2 الدخان
3 الدخان
4 الدخان
5 الدخان
6 الدخان
7 الدخان
8 الدخان
9 دھواں ہی دھواں اور کفار فرماتا ہے کہ حق آ چکا اور یہ شک شبہ میں اور لہو لعب میں مشغول و مصروف ہیں انہیں اس دن سے آگاہ کر دے جس دن آسمان سے سخت دھواں آئے گا حضرت مسروق رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم ایک مرتبہ کوفے کی مسجد میں گئے جو کندہ کے دروازوں کے پاس ہے تو دیکھا کہ ایک اپنے ساتھیوں میں قصہ گوئی کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس آیت میں جس دھوئیں کا ذکر ہے اس سے مراد وہ دھواں ہے جو قیامت کے دن منافقوں کے کانوں اور آنکھوں میں بھر جائے گا اور مومنوں کو مثل زکام کے ہو جائے گا ۔ ہم وہاں سے جب واپس لوٹے اور سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے اس کا ذکر کیا تو آپ رضی اللہ عنہ لیٹے لیٹے بیتابی کے ساتھ بیٹھ گئے اور فرمانے لگے اللہ عزوجل نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا ہے میں تم سے اس پر کوئی بدلہ نہیں چاہتا اور میں تکلف کرنے والوں میں نہیں ہوں ۔ یہ بھی علم ہے کہ انسان جس چیز کو نہ جانتا ہو کہہ دے کہ اللہ جانے سنو میں تمہیں اس آیت کا صحیح مطلب سناؤں جب کہ قریشیوں نے اسلام قبول کرنے میں تاخیر کی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ستانے لگے تو آپ نے ان پر بد دعا کی کہ یوسف کے زمانے جیسا قحط ان پر آ پڑے ۔ چنانچہ وہ دعا قبول ہوئی اور ایسی خشک سالی آئی کہ انہوں نے ہڈیاں اور مردار چبانا شروع کیا ۔ اور آسمان کی طرف نگاہیں ڈالتے تھے تو دھویں کے سوا کچھ دکھائی نہ دیتا تھا ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:31043) ایک روایت میں ہے کہ بوجہ بھوک کے ان کی آنکھوں میں چکر آنے لگے جب آسمان کی طرف نظر اٹھاتے تو درمیان میں ایک دھواں نظر آتا ۔ اسی کا بیان ان دو آیتوں میں ہے ۔ لیکن پھر اس کے بعد لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی ہلاکت کی شکایت کی ۔ آپ کو رحم آ گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جناب باری تعالیٰ میں التجا کی چنانچہ بارش برسی اسی کا بیان اس کے بعد والی آیت میں ہے کہ عذاب کے ہٹتے ہی پھر کفر کرنے لگیں گے ۔ اس سے صاف ثابت ہے کہ یہ دنیا کا عذاب ہے کیونکہ آخرت کے عذاب تو ہٹتے کھلتے اور دور ہوتے نہیں ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ پانچ چیزیں گذر چکیں ۔ دخان ، روم ، قمر ، بطشہ ، اور لزام (صحیح بخاری:2798) یعنی آسمان سے دھوئیں کا آنا ۔ رومیوں کا اپنی شکست کے بعد غلبہ پانا ۔ چاند کے دو ٹکڑے ہونا بدر کی لڑائی میں کفار کا پکڑا جانا اور ہارنا ۔ اور چمٹ جانے والا عذاب بڑی سخت پکڑ سے مراد بدر کے دن لڑائی ہے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ ، حضرت نخعی ، ضحاک ، عطیہ ، عوفی رحمہ اللہ علیہم ، وغیرہ کا ہے اور اسی کو ابن جریر بھی ترجیح دیتے ہیں ۔ حضرت عبدالرحمٰن اعرج رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ یہ فتح مکہ کے دن ہوا ۔ یہ قول بالکل غریب بلکہ منکر ہے۔ اور بعض حضرات فرماتے ہیں یہ گذر نہیں گیا بلکہ قرب قیامت کے آئے گا ۔ پہلے حدیث گزر چکی ہے کہ صحابہ قیامت کا ذکر کر رہے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آ گئے ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تک دس نشانات تم نہ دیکھ لو قیامت نہیں آئے گی سورج کا مغرب سے نکلنا ، دھواں ، یاجوج ماجوج کا آنا ، مشرق مغرب اور جزیرۃ العرب میں زمین کا دھنسایا جانا ، آگ کا عدن سے نکل کر لوگوں کو ہانک کر ایکجا کرنا ۔ جہاں یہ رات گذاریں گے آگ بھی گذارے گی اور جہاں یہ دوپہر کو سوئیں گے آگ بھی قیلولہ کرے گی ۔ (صحیح مسلم:2901) بخاری و مسلم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن صیاد کے لیے دل میں آیت «فَارْتَـقِبْ یَوْمَ تَاْتِی السَّمَاۗءُ بِدُخَانٍ مٰبِیْنٍ » ( 44- الدخان : 10 ) چھپا کر اس سے پوچھا کہ بتا میں نے اپنے دل میں کیا چھپا رکھا ہے ؟ اس نے کہا ( دخ ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بس برباد ہو اس سے آگے تیری نہیں چلنے کی ۔(صحیح بخاری:1354) اس میں بھی ایک قسم کا اشارہ ہے کہ ابھی اس کا انتظار باقی ہے اور یہ کوئی آنے والی چیز ہے چونکہ ابن صیاد بطور کاہنوں کے بعض باتیں دل کی زبان سے بتانے کا مدعی تھا اس کے جھوٹ کو ظاہر کرنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کیا اور جب وہ پورا نہ بتا سکا تو آپ نے لوگوں کو اس کی حالت سے واقف کر دیا کہ اس کے ساتھ شیطان ہے کلام صرف چرا لیتا ہے اور یہ اس سے زیادہ پر قدرت نہیں پانے کا ۔ ابن جریر میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں قیامت کے اولین نشانیاں یہ ہیں ۔ دجال کا آنا اور عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کا نازل ہونا اور آگ کا بیچ عدن سے نکلنا جو لوگوں کو محشر کی طرف لے جائے گی قیلولے کے وقت اور رات کی نیند کے وقت بھی ان کے ساتھ رہے گی اور دھویں کا آنا ۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے سوال کیا کہ یارسول صلی اللہ علیہ وسلم دھواں کیسا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا یہ دھواں چالیس دن تک گھٹا رہے گا جس سے مسلمانوں کو تو مثل نزلے کے ہو جائے گا اور کافر بے ہوش و بدمست ہو جائے گا اس کے نتھنوں سے کانوں سے اور دوسری جگہ سے دھواں نکلتا رہے گا ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:228/11:ضعیف) یہ حدیث اگر صحیح ہوتی تو پھر دخان کے معنی مقرر ہو جانے میں کوئی بات باقی نہ رہتی ۔ لیکن اس کی صحت کی گواہی نہیں دی جا سکتی اس کے راوی رواد سے محمد بن خلف عسقلانی نے سوال کیا کہ کیا حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ سے تو نے خود یہ حدیث سنی ہے ؟ اس نے انکار کیا پوچھا کیا تو نے پڑھی اور اس نے سنی ہے ؟ کہا نہیں ۔ پوچھا اچھا تمہاری موجودگی میں اس کے سامنے یہ حدیث پڑھی گئی ؟ کہا نہیں کہا پھر تم اس حدیث کو کیسے بیان کرتے ہو ؟ کہا میں نے تو بیان نہیں کی میرے پاس کچھ لوگ آئے اس روایت کو پیش کی پھر جا کر میرے نام سے اسے بیان کرنی شروع کر دی بات بھی یہی ہے یہ حدیث بالکل موضوع ہے ۔ ابن جریر رحمہ اللہ اسے کئی جگہ لائے ہیں اور اس میں بہت سی منکرات ہیں خصوصًا مسجد الاقصیٰ کے بیان میں جو سورۃ بنی اسرائیل کے شروع میں ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اور حدیث میں ہے کہ تمہارے رب نے تمہیں تین چیزوں سے ڈرایا ، دھواں جو مومن کو زکام کر دے گا اور کافر کا تو سارا جسم پھلا دے گا ۔ روئیں روئیں سے دھواں اٹھے گا دابۃ الارض اور دجال ۔ اس کی سند بہت عمدہ ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں دھواں پھیل جائے گا مومن کو تو مثل زکام کے لگے گا اور کافر کے جوڑ جوڑ سے نکلے گا یہ حدیث سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے قول سے بھی مروی ہے اور حضرت حسن رحمہ اللہ کے اپنے قول سے بھی مروی ہے سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں دخان گذر نہیں گیا بلکہ اب آئے گا ۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے دھویں کی بابت اوپر کی حدیث کی طرح روایت ہے حضرت ابن ابی ملکیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایک دن صبح کے وقت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس گیا ۔ تو آپ رضی اللہ عنہ فرمانے لگے رات کو میں بالکل نہیں سویا میں نے پوچھا کیوں ؟ فرمایا اس لیے کہ لوگوں سے سنا کہ دم دار ستارہ نکلا ہے تو مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں یہی دخان نہ ہو پس صبح تک میں نے آنکھ سے آنکھ نہیں ملائی ۔ اس کی سند صحیح ہے اور ( حبرالامتہ ) ترجمان القرآن سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعینرحمہ اللہ علیہم بھی ہیں اور مرفوع حدیثیں بھی ہیں ۔ جن میں صحیح حسن اور ہر طرح کی ہیں اور ان سے ثابت ہوتا ہے کہ دخان ایک علامت قیامت ہے جو آنے والی ہے ظاہری الفاظ قرآن بھی اسی کی تائید کرتے ہیں کیونکہ قرآن نے اسے واضح اور ظاہر دھواں کہا ہے جسے ہر شخص دیکھ سکے اور بھوک کے دھوئیں سے اسے تعبیر کرنا ٹھیک نہیں کیونکہ وہ تو ایک خیالی چیز ہے بھوک پیاس کی سختی کی وجہ سے دھواں سا آنکھوں کے آگے نمودار ہو جاتا ہے جو دراصل دھواں نہیں اور قرآن کے الفاظ ہیں آیت «دخان مبین » کے ۔ پھر یہ فرمان کہ وہ لوگوں کو ڈھانک لے گی یہ بھی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی تفسیر کی تائید کرتا ہے کیونکہ بھوک کے اس دھوئیں نے صرف اہل مکہ کو ڈھانپا تھا نہ کہ تمام لوگوں کو پھر فرماتا ہے کہ یہ ہے المناک عذاب یعنی ان سے یوں کہا جائے گا جیسے اور آیت میں ہے « یَوْمَ یُدَعٰوْنَ اِلٰی نَارِ جَہَنَّمَ دَعًّا ہٰذِہِ النَّارُ الَّتِی کُنتُم بِہَا تُکَذِّبُونَ » ( 52- الطور : 14-13 ) ، جس دن انہیں جہنم کی طرف دھکیلا جائے گا کہ یہ وہ آگ ہے جسے تم جھٹلا رہے تھے یا یہ مطلب کہ وہ خود ایک دوسرے سے یوں کہیں گے کافر جب اس عذاب کو دیکھیں گے تو اللہ سے اس کے دور ہونے کی دعا کریں گے جیسے کہ اس آیت میں ہے «وَلَوْ تَرٰٓی اِذْ وُقِفُوْا عَلَی النَّارِ فَقَالُوْا یٰلَیْتَنَا نُرَدٰ وَلَا نُکَذِّبَ بِاٰیٰتِ رَبِّنَا وَنَکُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ» ( 6- الانعام : 27 ) ، یعنی کاش کہ تو انہیں دیکھتا جب یہ آگ کے پاس کھڑے کئے جائیں گے اور کہیں گے کاش کے ہم لوٹائے جاتے تو ہم اپنے رب کی آیتوں کو نہ جھٹلاتے اور باایمان بن کر رہتے ۔ الدخان
10 الدخان
11 الدخان
12 روز آخرت توبہ نہیں اور آیت میں ہے«وَأَنذِرِ النَّاسَ یَوْمَ یَأْتِیہِمُ الْعَذَابُ فَیَقُولُ الَّذِینَ ظَلَمُوا رَبَّنَا أَخِّرْنَا إِلَیٰ أَجَلٍ قَرِیبٍ نٰجِبْ دَعْوَتَکَ وَنَتَّبِعِ الرٰسُلَ ۗ أَوَلَمْ تَکُونُوا أَقْسَمْتُم مِّن قَبْلُ مَا لَکُم مِّن زَوَالٍ» ( 14-إبراہیم : 44 ) لوگوں کو ڈراوے کے ساتھ آگاہ کر دے جس دن ان کے پاس عذاب آئے گا اس دن گنہگار کہیں گے پروردگار ہمیں تھوڑے سے وقت تک اور ڈھیل دیدے تو ہم تیری پکار پر لبیک کہہ لیں اور تیرے رسولوں کی فرمانبرداری کر لیں ۔پس یہاں یہی کہا جاتا ہے کہ ان کے لیے نصیحت کہاں ؟ ان کے پاس میرے پیغمبر آچکے انہوں نے ان کے سامنے میرے احکام واضح طور پر رکھ دئیے لیکن ماننا تو کجا انہوں نے پرواہ تک نہ کی بلکہ انہیں جھوٹا کہا ، ان کی تعلیم کو غلط کہا اور صاف کہہ دیا کہ یہ تو سکھائے پڑھائے ہیں ، انہیں جنوں ہو گیا ہے ۔ جیسے اور آیت میں ہے اس دن انسان نصیحت حاصل کرے گا لیکن اب اس کے لیے نصیحت کہاں ہے ؟ اور جگہ فرمایا ہے «وَّقَالُوْٓا اٰمَنَّا بِہٖ ۚ وَاَنّٰی لَہُمُ التَّنَاوُشُ مِنْ مَّکَانٍۢ بَعِیْدٍ» ( 34- سبأ : 52 ) ، یعنی اس دن عذابوں کو دیکھ کر ایمان لانا سراسر بےسود ہے پھر جو ارشاد ہوتا ہے اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں ایک تو یہ کہ اگر بالفرض ہم عذاب ہٹا لیں اور تمہیں دوبارہ دنیا میں بھیج دیں تو بھی تم پھر وہاں جا کر یہی کرو گے جو اس سے پہلے کر کے آئے ہو جیسے فرمایا « وَلَوْ رَحِمْنٰہُمْ وَکَشَفْنَا مَا بِہِمْ مِّنْ ضُرٍّ لَّـــلَجٰوْا فِیْ طُغْیَانِہِمْ یَعْمَہُوْنَ» ( 23- المؤمنون : 75 ) ، یعنی اگر ہم ان پر رحم کریں اور برائی ان سے ہٹا لیں تو پھر یہ اپنی سرکشی میں آنکھیں بند کر کے منہمک ہو جائیں گے اور جیسے فرمایا «وَلَوْ رُدٰوْا لَعَادُوْا لِمَا نُہُوْا عَنْہُ وَاِنَّہُمْ لَکٰذِبُوْنَ» ( 6- الانعام : 28 ) ، یعنی اگر یہ لوٹائے جائیں تو قطعًا دوبارہ پھر ہماری نافرمانیاں کرنے لگیں گے اور محض جھوٹے ثابت ہوں گے ۔ دوسرے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ اگر عذاب کے اسباب قائم ہو چکنے اور عذاب آ جانے کے بعد بھی گو ہم اسے کچھ دیر ٹھہرا لیں تاہم یہ اپنی بد باطنی اور خباثت سے باز نہیں آنے کے ۔ اس سے یہ لازم آتا کہ عذاب انہیں پہنچا اور پھر ہٹ گیا جیسے قوم یونس کی حق تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے کہ«إِلَّا قَوْمَ یُونُسَ لَمَّا آمَنُوا کَشَفْنَا عَنْہُمْ عَذَابَ الْخِزْیِ فِی الْحَیَاۃِ الدٰنْیَا وَمَتَّعْنَاہُمْ إِلَیٰ حِینٍ » ( 10-یونس : 98 ) قوم یونس جب ایمان لائی ہم نے ان سے عذاب ہٹا لیا ۔ گویا عذاب انہیں ہونا شروع نہیں ہوا تھا ہاں اس کے اسباب موجود و فراہم ہو چکے تھے ان تک اللہ کا عذاب پہنچ چکا تھا اور اس سے یہ بھی لازم نہیں آتا کہ وہ اپنے کفر سے ہٹ گئے تھے پھر اس کی طرف لوٹ گئے ۔ «قَالَ الْمَلَأُ الَّذِینَ اسْتَکْبَرُوا مِن قَوْمِہِ لَنُخْرِجَنَّکَ یَا شُعَیْبُ وَالَّذِینَ آمَنُوا مَعَکَ مِن قَرْیَتِنَا أَوْ لَتَعُودُنَّ فِی مِلَّتِنَا ۚ قَالَ أَوَلَوْ کُنَّا کَارِہِینَ قَدِ افْتَرَیْنَا عَلَی اللہِ کَذِبًا إِنْ عُدْنَا فِی مِلَّتِکُم بَعْدَ إِذْ نَجَّانَا اللہُ مِنْہَا ۚ وَمَا یَکُونُ لَنَا أَن نَّعُودَ فِیہَا إِلَّا أَن یَشَاءَ اللہُ رَبٰنَا ۚ وَسِعَ رَبٰنَا کُلَّ شَیْءٍ عِلْمًا ۚ عَلَی اللہِ تَوَکَّلْنَا ۚ رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَأَنتَ خَیْرُ الْفَاتِحِینَ » ( 7-الأعراف : 88 ، 89 ) چنانچہ حضرت شعیب علیہ السلام اور ان پر ایمان لانے والوں سے جب قوم نے کہا کہ یا تو تم ہماری بستی چھوڑ دو یا ہمارے مذہب میں لوٹ آؤ تو جواب میں اللہ کے رسول علیہ السلام نے فرمایا کہ گو ہم اسے برا جانتے ہوں ۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس سے نجات دے رکھی ہے پھر بھی اگر ہم تمہاری ملت میں لوٹ آئیں تو ہم سے بڑھ کر جھوٹا اور اللہ کے ذمے بہتان باندھنے والا اور کون ہو گا ؟ ظاہر ہے کہ حضرت شعیب علیہ السلام نے اس سے پہلے بھی کبھی کفر میں قدم نہیں رکھا تھا اور حضرت قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ تم لوٹنے والے ہو ۔ اس سے مطلب اللہ کے عذاب کی طرف لوٹنا ہے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:229/11:) بڑی اور سخت پکڑ سے مراد جنگ بدر ہے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ اور آپ رضی اللہ عنہ کے ساتھ کی وہ جماعت جو دخان کو ہو چکا مانتی ہے وہ تو ( بطشہ ) کے معنی یہی کرتی ہے بلکہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے ایک اور جماعت سے یہی منقول ہے گو یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے لیکن بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد قیامت کے دن کی پکڑ ہے گو بدر کا دن بھی پکڑ کا اور کفار پر سخت دن تھا ۔ ابن جریر رحمہ اللہ میں ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ گو سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ اسے بدر کا دن بتاتے ہیں لیکن میرے نزدیک تو اس سے مراد قیامت کا دن ہے اس کی اسناد صحیح ہے حضرت حسن بصری رحمہ اللہ اور حضرت عکرمہ رحمہ اللہ سے بھی دونوں روایتوں میں زیادہ صحیح روایت یہی ہے واللہ اعلم ۔ الدخان
13 الدخان
14 الدخان
15 الدخان
16 الدخان
17 قبطیوں کا انجام ارشاد ہوتا ہے کہ ان مشرکین سے پہلے مصر کے قبطیوں کو ہم نے جانچا ان کی طرف اپنے بزرگ رسول حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھیجا انہوں نے میرا پیغام پہنچایا کہ بنی اسرائیل کو میرے ساتھ کر دو انہیں دکھ نہ دو میں اپنی نبوت پر گواہی دینے والے معجزے اپنے ساتھ لایا ہوں اور ہدایت کے ماننے والے سلامتی سے رہیں گے ۔(20-طہ:47) مجھے اللہ تعالیٰ نے اپنی وحی کا امانت دار بنا کر تمہاری طرف بھیجا ہے میں تمہیں اس کا پیغام پہنچا رہا ہوں تمہیں رب کی باتوں کے ماننے سے سرکشی نہ کرنی چاہیئے اس کے بیان کردہ دلائل و احکام کے سامنے سر تسلیم خم کرنا چاہیئے ۔ اس کی عبادتوں سے جی چرانے والے ذلیل و خوار ہو کر جہنم واصل ہوتے ہیں میں تو تمہارے سامنے کھلی دلیل اور واضح آیت رکھتا ہوں میں تمہاری بدگوئی اور اہتمام سے اللہ کی پناہ لیتا ہوں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ اور ابو صالح رحمہ اللہ تو یہی کہتے ہیں اور حضرت قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں مراد پتھراؤ کرنا پتھروں سے مار ڈالنا ہے یعنی زبانی ایذاء سے اور دستی ایذاء سے میں اپنے رب کی جو تمہارا بھی مالک ہے پناہ چاہتا ہوں اچھا اگر تم میری نہیں مانتے مجھ پر بھروسہ نہیں کرتے اللہ پر ایمان نہیں لاتے تو کم از کم میری تکلیف دہی اور ایذاء رسانی سے تو باز رہو ۔ اور اس کے منتظر رہو جب کہ خود اللہ ہم میں تم میں فیصلہ کر دے گا پھر جب اللہ کے نبی کلیم اللہ موسیٰ علیہ السلام نے ایک لمبی مدت ان میں گذاری خوب دل کھول کھول کر تبلیغ کر لی ہر طرح کی خیر خواہی کی ان کی ہدایت کے لیے ہر چند جتن کر لیے اور دیکھا کہ وہ روز بروز اپنے کفر میں بڑھتے جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ سے ان کے لیے بد دعا کی جیسے اور آیت میں ہے کہ«وَقَالَ مُوسَیٰ رَبَّنَا إِنَّکَ آتَیْتَ فِرْعَوْنَ وَمَلَأَہُ زِینَۃً وَأَمْوَالًا فِی الْحَیَاۃِ الدٰنْیَا رَبَّنَا لِیُضِلٰوا عَن سَبِیلِکَ ۖ رَبَّنَا اطْمِسْ عَلَیٰ أَمْوَالِہِمْ وَاشْدُدْ عَلَیٰ قُلُوبِہِمْ فَلَا یُؤْمِنُوا حَتَّیٰ یَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِیمَ » ( 10-یونس : 88 ) موسیٰ نے کہا اے ہمارے رب تو نے فرعون اور اس کے امراء کو دنیوی نمائش اور مال و متاع دے رکھی ہے اے اللہ یہ اس سے دوسروں کو بھی تیری راہ سے بھٹکا رہے ہیں تو ان کا مال غارت کر اور ان کے دل اور سخت کر دے تاکہ درد ناک عذابوں کے معائنہ تک انہیں ایمان نصیب ہی نہ ہو اللہ کی طرف سے جواب ملا کہ«قَالَ قَدْ أُجِیبَت دَّعْوَتُکُمَا فَاسْتَقِیمَا وَلَا تَتَّبِعَانِّ سَبِیلَ الَّذِینَ لَا یَعْلَمُونَ» ( 10-یونس : 89 ) اے موسیٰ اور اے ہارون علیہم السلام میں نے تمہاری دعا قبول کر لی اب تم استقامت پر تل جاؤ ۔(10-یونس:88-89) الدخان
18 الدخان
19 الدخان
20 الدخان
21 الدخان
22 الدخان
23 1 یہاں فرماتا ہے کہ«وَلَقَدْ أَوْحَیْنَا إِلَیٰ مُوسَیٰ أَنْ أَسْرِ بِعِبَادِی فَاضْرِبْ لَہُمْ طَرِیقًا فِی الْبَحْرِ یَبَسًا لَّا تَخَافُ دَرَکًا وَلَا تَخْشَیٰ» ( 20-طہ : 77 ) ہم نے موسیٰ سے کہا کہ میرے بندوں یعنی بنی اسرائیل کو راتوں رات فرعون اور فرعونیوں کی بے خبری میں یہاں سے لے کر چلے جاؤ ۔ یہ کفار تمہارا پیچھا کریں گے لیکن تم بے خوف و خطر چلے جاؤ میں تمہارے لیے دریا کو خشک کر دوں گا اس کے بعد موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو لے کر چل پڑے فرعونی لشکر مع فرعون کے ان کے پکڑنے کو چلا بیچ میں دریا حائل ہوا آپ علیہ السلام بنی اسرائیل کو لے کر اس میں اتر گئے دریا کا پانی سوکھ گیا اور آپ اپنے ساتھیوں سمیت پار ہو گئے تو چاہا کہ دریا پر لکڑی مار کر اسے کہدیں کہ اب تو اپنی روانی پر آ جا تاکہ فرعون اس سے گزر نہ سکے وہیں اللہ نے وحی بھیجی کہ اسے اسی حال میں سکون کے ساتھ ہی رہنے دو ساتھ ہی اس کی وجہ بھی بتا دی کہ یہ سب اسی میں ڈوب مریں گے ۔ پھر تو تم سب بالکل ہی مطمئن اور بے خوف ہو جاؤ گے غرض حکم ہوا تھا کہ دریا کو خشک چھوڑ کر چل دیں ۔ «رھواً» کے معنی سوکھا راستہ جو اصلی حالت پر ہو ۔ مقصد یہ ہے کہ پار ہو کہ دریا کو روانی کا حکم نہ دینا یہاں تک کہ دشمنوں میں سے ایک ایک اس میں آ نہ جائے اب اسے جاری ہونے کا حکم ملتے ہی سب کو غرق کر دے گا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے دیکھو کیسے غارت ہوئے ۔ باغات کھتیاں نہریں مکانات اور بیٹھکیں سب چھوڑ کر فنا ہو گئے ۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مصر کا دریائے نیل مشرق مغرب کے دریاؤں کا سردار ہے اور سب نہریں اس کے ماتحت ہیں جب اس کی روانی اللہ کو منظور ہوتی ہیں تو تمام نہروں کو اس میں پانی پہنچانے کا حکم ہوتا ہے جہاں تک رب کو منظور ہو اس میں پانی آ جاتا ہے پھر اللہ تبارک و تعالیٰ اور نہروں کو روک دیتا ہے اور حکم دیتا ہے کہ اب اپنی اپنی جگہ چلی جاؤ اور فرعونیوں کے یہ باغات دریائے نیل کے دونوں کناروں پر مسلسل چلے گئے تھے رسواں سے لے کر رشید تک اس کا سلسلہ تھا اور اس کی نو خلیجیں تھیں ۔ خلیج اسکندریہ ، دمیاط ، خلیج سردوس ، خلیج منصف ، خلیج فیوم ،خلیج منہی اور ان سب میں اتصال تھا ایک دوسرے سے متصل تھیں ۔ اور پہاڑوں کے دامن میں ان کی کھیتیاں تھیں جو مصر سے لے کر دریا تک برابر چلی آتی تھیں ان تمام کو بھی دریا سیراب کرتا تھا بڑے امن چین کی زندگی گذار رہے تھے لیکن مغرور ہو گئے اور آخر ساری نعمتیں یونہی چھوڑ کر تباہ کر دئیے گئے ۔ مال اولاد جاہ و مال سلطنت و عزت ایک ہی رات میں چھوڑ گئے اور بھس کی طرح اڑا دئیے گئے اور گذشتہ کل کی طرح بے نشان کر دئیے گئے ایسے ڈبوئے گئے کہ ابھر نہ سکے جہنم واصل ہو گئے اور بدترین جگہ پہنچ گئے«کَذٰلِکَ وَأَوْرَثْنَاہَا بَنِی إِسْرَائِیلَ » ( 26-الشعراء : 59 ) ان کی یہ تمام چیزیں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو دے دیں ۔ جیسے اور آیت میں فرمایا ہے کہ«وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِینَ کَانُوا یُسْتَضْعَفُونَ مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَہَا الَّتِی بَارَکْنَا فِیہَا ۖ وَتَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ الْحُسْنَیٰ عَلَیٰ بَنِی إِسْرَائِیلَ بِمَا صَبَرُوا ۖ وَدَمَّرْنَا مَا کَانَ یَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُہُ وَمَا کَانُوا یَعْرِشُونَ» ( 7-الأعراف : 137 ) ہم نے ان کمزوروں کو ان کے صبر کے بدلے اس سرکش قوم کی کل نعمتیں عطا فرما دیں اور بے ایمانوں کا بھرکس نکال ڈالا یہاں بھی دوسری قوم جسے وارث بنایا اس سے مراد بھی بنی اسرائیل ہیں پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ان پر زمین و آسمان نہ روئے کیونکہ ان پاپیوں کے نیک اعمال تھے ہی نہیں جو آسمانوں پر چڑھتے ہوں اور اب ان کے نہ چڑھنے کی وجہ سے وہ افسوس کریں نہ زمین میں ان کی جگہیں ایسی تھیں کہ جہاں بیٹھ کر یہ اللہ کی عبادت کرتے ہوں اور آج انہیں نہ پا کر زمین کی وہ جگہ ان کا ماتم کرے انہیں مہلت نہ دی گئی ۔ مسند ابو یعلیٰ موصلی میں ہے ہر بندے کے لیے آسمان میں دو دروازے ہیں ایک سے اس کی روزی اترتی ہے دوسرے سے اس کے اعمال اور اس کے کلام چڑھتے ہیں ۔ جب یہ مر جاتا ہے اور وہ عمل و رزق کو گمشدہ پاتے ہیں تو روتے ہیں پھر اسی آیت کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تلاوت کی ۔(سنن ترمذی:3255،قال الشیخ الألبانی:ضعیف)۔ ابن ابی حاتم میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ اسلام غربت سے شروع ہوا اور پھر غربت پر آ جائے گا یاد رکھو مومن کہیں انجام مسافر کی طرح نہیں مومن جہاں کہیں سفر میں ہوتا ہے جہاں اس کا کوئی رونے والا نہ ہو وہاں بھی اس کے رونے والے آسمان و زمین موجود ہیں پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کر کے فرمایا یہ دونوں کفار پر روتے نہیں۔(تفسیر ابن جریر الطبری:238/11) سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا کہ آسمان و زمین کبھی کسی پر روئے بھی ہیں ؟ آپ نے فرمایا آج تو نے وہ بات دریافت کی ہے کہ تجھ سے پہلے مجھ سے اس کا سوال کسی نے نہیں کیا ۔ سنو ہر بندے کے لیے زمین میں ایک نماز کی جگہ ہوتی ہے اور ایک جگہ آسمان میں اس کے عمل کے چڑھنے کی ہوتی ہے اور آل فرعون کے نیک اعمال ہی نہ تھے اس وجہ سے نہ زمین ان پر روئی نہ آسمان کو ان پر رونا آیا اور نہ انہیں ڈھیل دی گئی کہ کوئی نیکی بجا لاسکیں ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ سوال ہوا تو آپ رضی اللہ عنہ نے بھی قریب قریب یہی جواب دیا ۔(تفسیر ابن جریر الطبری:237/11) بلکہ آپ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ چالیس دن تک زمین مومن پر روتی رہتی ہے ۔ حضرت مجاہد رحمہ اللہ نے جب یہ بیان فرمایا تو کسی نے اس پر تعجب کا اظہار کیا آپ رحمہ اللہ نے فرمایا سبحان اللہ اس میں تعجب کی کون سی بات ہے جو بندہ زمین کو اپنے رکوع و سجود سے آباد رکھتا تھا جس بندے کی تکبیر و تسبیح کی آوازیں آسمان برابر سنتا رہا تھا بھلا یہ دونوں اس عابد اللہ پر روئیں گے نہیں ؟ حضرت قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں فرعونیوں جیسے ذلیل و خوار لوگوں پر یہ کیوں روتے ؟ حضرت ابراہیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں دنیا جب سے رچائی گئی ہے تب سے آسمان صرف دو شخصوں پر رویا ہے ان کے شاگرد سے سوال ہوا کہ کیا آسمان و زمین ہر ایماندار پر روتے نہیں ؟ فرمایا صرف اتنا حصہ جس حصے سے اس کا نیک عمل چڑھتا تھا سنو آسمان کا رونا اس کا سرخ ہونا اور مثل نری کے گلابی ہو جانا ہے سو یہ حال صرف دو شخصوں کی شہادت پر ہوا ہے ۔ حضرت یحییٰ کے قتل کے موقعے پر تو آسمان سرخ ہو گیا اور خون برسانے لگا اور دوسرے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے قتل پر بھی آسمان کا رنگ سرخ ہو گیا تھا ۔ ( ابن ابی حاتم ) یزید ابن ابو زیاد کا قول ہے کہ قتل سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی وجہ سے چار ماہ تک آسمان کے کنارے سرخ رہے اور یہی سرخی اس کا رونا ہے حضرت عطا رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس کے کناروں کا سرخ ہو جانا اس کا رونا ہے یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ قتل سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے دن جس پتھر کو الٹا جاتا تھا اس کے نیچے سے منجمد خون نکلتا تھا ۔ اس دن سورج کو بھی گہن لگا ہوا تھا آسمان کے کنارے بھی سرخ تھے اور پتھر گرے تھے ۔ لیکن یہ سب باتیں بے بنیاد ہیں اور شیعوں کے گھڑے ہوئے افسانے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کا واقعہ نہایت درد انگیز اور حسرت و افسوس والا ہے لیکن اس پر شیعوں نے جو حاشیہ چڑھایا ہے اور گھڑ گھڑا کر جو باتیں پھیلا دی ہیں وہ محض جھوٹ اور بالکل گپ ہیں ۔ خیال تو فرمائیے کہ اس سے بہت زیادہ اہم واقعات ہوئے اور قتل سیدنا حسین رضی اللہ عنہ سے بہت بڑی وارداتیں ہوئیں لیکن ان کے ہونے پر بھی آسمان و زمین وغیرہ میں یہ انقلاب نہ ہوا ۔ آپ رضی اللہ عنہ ہی کے والد ماجد سیدنا علی رضی اللہ عنہ بھی قتل کئے گئے جو بالاجماع آپ رضی اللہ عنہ سے افضل تھے لیکن نہ تو پتھروں تلے سے خون نکلا نہ اور کچھ ہوا ۔ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو گھیر لیا جاتا ہے اور نہایت بیدردی سے بلاوجہ ظلم و ستم کے ساتھ انہیں قتل کیا جاتا ہے فاروق اعظم سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو صبح کی نماز پڑھاتے ہوئے نماز کی جگہ ہی قتل کیا جاتا ہے یہ وہ زبردست مصیبت تھی کہ اس سے پہلے مسلمان کبھی ایسی مصیبت نہیں پہنچائے گئے تھے لیکن ان واقعات میں سے کسی واقعہ کے وقت اب میں سے ایک بھی بات نہیں جو شیعوں نے مقتل سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی نسبت مشہور کر رکھی ہے ۔ ان سب کو بھی جانے دیجئیے تمام انسانوں کے دینی اور دنیوی سردار سید البشر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لیجئے جس روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم رحلت فرماتے ہیں ان میں سے کچھ بھی نہیں ہوتا اور سنئے جس روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے ابراہیم علیہ السلام کا انتقال ہوتا ہے اتفاقاً اسی روز سورج گہن ہوتا ہے اور کوئی کہہ دیتا ہے کہ ابراہیم کے انتقال کی وجہ سورج کو گہن لگا ہے ۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گہن کی نماز ادا کر کے فوراً خطبے پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور فرماتے ہیں سورج چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں کسی کی موت زندگی کی وجہ سے انہیں گہن نہیں لگتا ۔(صحیح بخاری:1043) الدخان
24 الدخان
25 الدخان
26 الدخان
27 الدخان
28 الدخان
29 الدخان
30 1 اس کے بعد کی آیت میں اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل پر اپنا احسان جتاتا ہے کہ«إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِی الْأَرْضِ وَجَعَلَ أَہْلَہَا شِیَعًا یَسْتَضْعِفُ طَائِفَۃً مِّنْہُمْ یُذَبِّحُ أَبْنَاءَہُمْ وَیَسْتَحْیِی نِسَاءَہُمْ ۚ إِنَّہُ کَانَ مِنَ الْمُفْسِدِینَ» ( 28-القص : 4 ) ہم نے انہیں فرعون جیسے متکبر حدود شکن کے ذلیل عذابوں سے نجات دی اس نے بنی اسرائیل کو پست و خوار کر رکھا تھا ذلیل خدمتیں ان سے لیتا تھا اور اپنے نفس کو تولتا رہتا تھا خودی اور خود بینی میں لگا ہوا تھا بیوقوفی سے کسی چیز کی حد بندی کا خیال نہیں کرتا تھا اللہ کی زمین میں سرکشی کئے ہوئے تھا ۔ اور ان بدکاریوں میں اس کی قوم بھی اس کے ساتھ تھی پھر بنی اسرائیل پر ایک اور مہربانی کا ذکر فرما رہا ہے کہ اس زمانے کے تمام لوگوں پر انہیں فضیلت عطا فرمائی ہر زمانے کو عالم کہا جاتا ہے یہ مراد نہیں کہ تمام اگلوں پچھلوں پر انہیں بزرگی دی یہ آیت بھی اس آیت کی طرح ہے جس میں فرمان ہے «قَالَ یَا مُوسَیٰ إِنِّی اصْطَفَیْتُکَ عَلَی النَّاسِ بِرِسَالَاتِی وَبِکَلَامِی فَخُذْ مَا آتَیْتُکَ وَکُن مِّنَ الشَّاکِرِینَ» ( 7- الاعراف : 144 ) فرمایا "اے موسیٰ علیہ السلام ، میں نے تمام لوگوں پر ترجیح دے کر تجھے منتخب کیا کہ میری پیغمبری کرے اور مجھ سے ہم کلام ہو پس جو کچھ میں تجھے دوں اسے لے اور شکر بجالا" ۔ جیسے مریم علیہا السلام کے لیے فرمایا «وَإِذْ قَالَتِ الْمَلَائِکَۃُ یَا مَرْیَمُ إِنَّ اللہَ اصْطَفَاکِ وَطَہَّرَکِ وَاصْطَفَاکِ عَلَیٰ نِسَاءِ الْعَالَمِینَ» ( سورۃ آل عمران 3 : 42 ) اس کا بھی یہی مطلب ہے کہ اس زمانے کی تمام عورتوں پر آپ کو فضیلت ہے اس لیے کہ ام المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنہا ان سے یقیناً افضل ہیں یا کم ازکم برابر ۔ اسی طرح آسیہ بنت مزاحم جو فرعون کی بیوی تھیں اور ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت تمام عورتوں پر ایسی ہے جیسی فضیلت شوربے میں بھگوئی روٹی کی اور کھانوں پر ۔(صحیح مسلم:70-89) پھر بنی اسرائیل پر ایک اور احسان بیان ہو رہا ہے کہ ہم نے انہیں وہ حجت و برہان دلیل و نشان اور معجزات و کرامات عطا فرمائے جن میں ہدایت کی تلاش کرنے والوں کے لیے صاف صاف امتحان تھا ۔ الدخان
31 الدخان
32 الدخان
33 الدخان
34 شہنشاہ تبع کی کہانی یہاں مشرکین کا انکار قیامت اور اس کی دلیل بیان فرما کر اللہ تعالیٰ اس کی تردید کرتا ہے ان کا خیال تھا کہ قیامت آنی نہیں مرنے کے بعد جینا نہیں ۔ حشر اور نشر سب غلط ہے دلیل یہ پیش کرتے تھے کہ ہمارے باپ دادا مر گئے وہ کیوں دوبارہ جی کر نہیں آئے ؟ خیال کیجئے یہ کس قدر بودی اور بے ہودہ دلیل ہے دوبارہ اٹھ کھڑا ہونا مرنے کے بعد جینا قیامت کو ہو گا نہ کہ دنیا میں پھر لوٹ کر آئیں گے ۔ اس دن یہ ظالم جہنم کا ایندھن بنیں گے اس وقت یہ امت اگلی امتوں پر گواہی دے گی اور ان پر ان کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گواہی دیں گے ۔ پھر اللہ تعالیٰ انہیں ڈرا رہا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارے جو عذاب اسی جرم پر اگلی قوموں پر آئے وہ تم پر بھی آ جائیں اور ان کی طرح بے نام و نشان کر دئیے جاؤ ۔ ان کے واقعات سورۃ سبا میں گذر چکے ہیں وہ لوگ بھی قحطان کے عرب تھے جیسے یہ عدنان کے عرب ہیں حمیر جو سبا کے تھے وہ اپنے بادشاہ کو تبع کہتے تھے جیسے فارس کے بادشاہ کو کسریٰ اور روم کے ہر بادشاہ کو قیصر اور مصر کے ہر بادشاہ کو فرعون اور حبشہ کے ہر بادشاہ کو نجاشی کہا جاتا ہے ۔ ان میں سے ایک تبع یمن سے نکلا اور زمین پھرتا رہا سمرقند پہنچ گیا ہر جگہ کے بادشاہوں کو شکست دیتا رہا اور اپنا بہت بڑا ملک کر لیا زبردست لشکر اور بےشمار رعایا اس کے ماتحت تھی اس نے حیرہ نامی بستی بسائی یہ اپنے زمانے میں مدینے میں بھی آیا تھا اور یہاں کے باشندوں سے بھی لڑا لیکن اسے لوگوں نے اس سے روکا خود اہل مدینہ کا بھی اس سے یہ سلوک رہا کہ دن کو تو لڑتے تھے اور رات کو ان کی مہمان داری کرتے تھے آخر اس کو بھی لحاظ آ گیا اور لڑائی بند کر دی اس کے ساتھ یہاں کے دو یہودی عالم ہو گئے تھے جو موسیٰ کے سچے دین کے عامل بھی تھے وہ اسے ہر وقت بھلائی برائی سمجھاتے رہتے تھے انہوں نے کہا کہ آپ مدینے کو تاخت وتاراج نہیں کر سکتے کیونکہ یہ آخر زمانے کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کی جگہ ہے ۔ پس یہاں سے لوٹ گیا اور ان دونوں عالموں کو اپنے ساتھ لیتا چلا جب یہ مکے پہنچا تو اس نے بیت اللہ کو گرانا چاہا لیکن ان دونوں عالموں نے اسے روکا اور اس پاک گھر کی عظمت و حرمت بیان کی اور کہا کہ اس کے بانی خلیل اللہ ابراہیم علیہ السلام ہیں ۔ اور اس نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں پھر اس کی اصلی عظمت آشکارا ہو جائے گی ۔ چنانچہ یہ اپنے ارادے سے باز آیا بلکہ بیت اللہ کی بڑی تعظیم و تکریم کی طواف کیا غلاف چڑھایا اور یہاں سے یمن واپس چلا گیا ۔ خود موسیٰ علیہ السلام کے دین میں داخل ہوا اور تمام یمن میں یہی دین پھیلایا اس وقت تک مسیح علیہ السلام کا ظہور نہیں ہوا تھا اور اس زمانے والوں کے لیے یہی سچا دین تھا ۔ اس طرح کے واقعات بہت تفصیل سے سیرۃ ابن اسحاق رحمہ اللہ میں موجود ہیں ۔ اور حافظ ابن عساکر بھی اپنی کتاب میں بہت تفصیل کے ساتھ لائے ہیں اس میں ہے کہ اس کا پائے تخت دمشق میں تھا اس کے لشکروں کی صفیں دمشق سے لے کر یمن تک پہنچتی تھیں ۔ ایک حدیث میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ۔ میں نہیں جان سکا کہ حد لگنے سے گناہ کا کفارہ ہو جاتا ہے یا نہیں ؟ اور نہ مجھے یہ معلوم ہے کہ تبع ملعون تھا یا نہیں ؟ اور نہ مجھے یہ خبر ہے کہ ذوالقرنین نبی تھے یا بادشاہ اور روایت میں ہے کہ یہ بھی فرمایا عزیر پیغمبر تھے یا نہیں ؟ (سنن ابوداود:4674،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ( ابن ابی حاتم ) دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس حدیث کی روایت صرف عبدالرزاق سے ہی ہے اور سند سے مروی ہے کہ عزیر کا نبی ہونا مجھے معلوم نہیں نہ میں یہ جانتا ہوں کہ تبع پر لعنت کروں یا نہیں ؟ (تاریخ دمشق501/3) اسے وارد کرنے کے بعد حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ نے وہ روایتیں درج کی ہیں جن میں تبع کو گالی دینے اور لعنت کرنے سے ممانعت آئی ہے جیسے کہ ہم بھی وارد کریں گے ان شاءاللہ ۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ یہ پہلے کافر تھے پھر مسلمان ہو گئے یعنی موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام کے دین میں داخل ہوئے اور اس زمانے کے علماء کے ہاتھ پر ایمان قبول کیا ۔ بعثت مسیح علیہ السلام سے پہلے کا یہ واقعہ ہے جرہم کے زمانے میں بیت اللہ کا حج بھی کیا غلاف بھی چڑھایا اور بڑی تعظیم و تکریم کی چھ ہزار اونٹ نام اللہ قربان کئے اور بھی بہت بڑا طویل واقعہ ہے جو سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ، سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ۔ اور اصل قصہ کا دارومدار سیدنا کعب احبار اور عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہما پر ہے ۔ وہب بن منبہ نے بھی اس قصہ کو وارد کیا ہے ۔ حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ نے اس تبع کے قصے کے ساتھ دوسرے تبع کے قصے کو بھی ملا دیا ہے جو ان کے بہت بعد تھا اس کی قوم تو اس کے ہاتھ پر مسلمان ہو گئی تھی پھر ان کے انتقال کے بعد وہ کفر کی طرف لوٹ گئی ۔ اور دوبارہ آگ اور بتوں کی پرستش شروع کر دی ۔ جیسے کہ سورۃ سباء میں مذکور ہے اسی کی تفسیر میں ہم نے بھی وہاں اس کی پوری تفصیل لکھ دی ہے فالحمدللہ ۔ حضرت سعید بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس تبع نے کعبے پر غلاف چڑھایا تھا آپ لوگوں کو منع کرتے تھے کہ اس تبع کو برا نہ کہو یہ درمیان کا تبع ہے اس کا نام اسعد ابو کرب بن ملکیرب یمانی ہے ۔ اس کی سلطنت تین سو چھبیس سال تک رہی اس سے زیادہ لمبی مدت ان بادشاہوں میں سے کسی نے نہیں پائی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تقریبًا سات سو سال پہلے اس کا انتقال ہوا ہے مورخین نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ ان دونوں موسوی عالموں نے جو مدینے کے تھے انہوں نے جب تبع بادشاہ کو یقین دلایا کہ یہ شہر نبی آخر الزمان احمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہجرت گاہ ہے تو اس نے ایک قصیدہ کہا تھا اور اہل مدینہ کو بطور امانت دے گیا تھا جو ان کے پاس ہی رہا اور بطور میراث ایک دوسرے کے ہاتھ لگتا رہا اور اس کی روایت سند کے ساتھ برابر چلی آتی رہی یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے وقت اس کے حافظ ابو ایوب خالد بن زید رضی اللہ عنہ تھے اور اتفاق سے بلکہ بہ حکم اللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نزول جلال بھی یہیں ہوا تھا ۔ اس قصیدے کے یہ اشعار ملاحظہ ہوں «شھدت علی احمد انہ *** رسول من اللہ باری النسیم فلو مد عمری الی عمرہ *** لکنت وزیر الہ و ابن عم وجاھدت بالسیف اعداء ہ *** وفرجت عن صدرہ کل غم » یعنی میری تہ دل سے گواہی ہے کہ احمد مجتبیٰ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اس اللہ کے سچے رسول ہیں جو تمام جانداروں کا پیدا کرنے والا ہے ۔ اگر میں اس کے زمانے تک زندہ رہا تو قسم اللہ کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معاون بن کر رہوں گا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں سے تلوار کے ساتھ جہاد کروں گا اور کسی کھٹکے اور غم کو آپ کے پاس تک پھٹکنے نہ دوں گا ۔ ابن ابی الدنیا میں ہے کہ دور اسلام میں صفا شہر میں اتفاق سے قبر کھد گئی تو دیکھا گیا کہ دو عورتیں مدفون ہیں جن کے جسم بالکل سالم ہیں اور سرہانے پر چاندی کی ایک تختی لگی ہوئی ہے جس میں سونے کے حروف سے یہ لکھا ہوا ہے کہ یہ قبر حی اور لمیس کی ہے اور ایک روایت میں ان کے نام حبی اور تماخر ہیں یہ دونوں تبع کی بہنیں ہیں یہ دونوں مرتے وقت تک اس بات کی شہادت دیتی رہیں کہ لائق عبادت صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے یہ دونوں اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتی تھیں ۔ ان سے پہلے کے تمام نیک صالح لوگ بھی اسی شہادت کے ادا کرتے ہوئے انتقال فرماتے رہے ہیں ۔ سورۃ سباء میں ہم نے اس واقعہ کے متعلق سبا کے اشعار بھی نقل کر دئیے ہیں ۔ ضرت کعب رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ تبع کی تعریف قرآن سے اس طرح معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی قوم کی مذمت کی ان کی نہیں کی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول ہے کہ تبع کو برا نہ کہو وہ صالح شخص تھا ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تبع کو گالی نہ دو وہ مسلمان ہو چکا تھا ۔(تفسیر ابن جریر الطبری:241/11:ضعیف) طبرانی اور مسند احمد میں بھی یہ روایت ہے عبدالرزاق میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ مجھے معلوم نہیں تبع نبی تھا یا نہ تھا ؟ اور روایت میں جو اس سے پہلے گذر چکی کہ میں نہیں جانتا تبع ملعون تھا یا نہیں ؟ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ یہی روایت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے عطاء بن ابو رباح رحمہ اللہ فرماتے ہیں تبع کو گالی نہ دو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں برا کہنا منع فرمایا ہے ۔ «واللہ تعالیٰ اعلم » ۔ الدخان
35 الدخان
36 الدخان
37 الدخان
38 صور پھونکنے کے بعد یہاں اللہ عزوجل اپنے عدل کا بیان فرما رہا ہے اور بے فائدہ لغو اور عبث کاموں سے اپنی پاکیزگی کا اظہار فرماتا ہے جیسے اور آیت میں ارشاد ہے کہ ہم نے اپنی مخلوق کو باطل پیدا نہیں کیا ایسا گمان ہماری نسبت صرف ان کا ہے جو کفار ہیں اور جن کا ٹھکانا جہنم ہے (38-ص:27) اور ارشاد ہے آیت «أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاکُمْ عَبَثًا وَأَنَّکُمْ إِلَیْنَا لَا تُرْجَعُونَ فَتَعَالَی اللہُ الْمَلِکُ الْحَقٰ ۖ لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ رَبٰ الْعَرْشِ الْکَرِیمِ» ( 23-سورۃ المؤمنون : 116 ، 115 ) ، یعنی کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم نے تمہیں بیکار و عبث پیدا کیا ہے اور تم لوٹ کر ہماری طرف آنے ہی کے نہیں ؟ اللہ حق مالک بلندیوں اور بزرگیوں والا ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ عرش کریم کا رب ہے فیصلوں کا دن یعنی قیامت کا دن جس دن باری تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان حق فیصلے کرے گا کافروں کو سزا اور مومنوں کو جزا ملے گی ۔ اس دن تمام اگلے پچھلے اللہ کے سامنے جمع ہوں گے یہ وہ وقت ہو گا کہ ایک دوسرے سے جدا ہو جائے گا رشتے دار رشتے دار کو کوئی نفع نہ پہنچا سکے گا جیسے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے «فَاِذَا نُفِخَ فِی الصٰوْرِ فَلَآ اَنْسَابَ بَیْنَہُمْ یَوْمَیِٕذٍ وَّلَا یَتَسَاۗءَلُوْنَ » ( 23- المؤمنون : 101 ) ، یعنی جب صور پھونک دیا جائے گا تو نہ تو کوئی نسب باقی رہے گا نہ پوچھ گچھ ۔ اور آیت میں ہے«وَلَا یَسْأَلُ حَمِیمٌ حَمِیمًا یُبَصَّرُونَہُمْ ۚ یَوَدٰ الْمُجْرِمُ لَوْ یَفْتَدِی مِنْ عَذَابِ یَوْمِئِذٍ بِبَنِیہِ» ( 70-المعارج : 10 ، 11 ) کوئی دوست اس دن اپنے دوست کو پریشان حالی میں دیکھتے ہوئے بھی کچھ نہ پوچھے گا اور نہ کوئی اس دن کسی کی کسی طرح کی مدد کرے گا نہ اور کوئی بیرونی مدد آئے گی مگر ہاں اللہ کی رحمت جو مخلوق پر شامل ہے وہ بڑا غالب اور وسیع رحمت والا ہے ۔ الدخان
39 الدخان
40 الدخان
41 الدخان
42 الدخان
43 زقوم ابوجہل کی خوراک ہو گا منکرین قیامت کو جو سزا وہاں دی جائے گی اس کا بیان ہو رہا ہے کہ ان مجرموں کو جو اپنے قول اور فعل کو نافرمانی سے ملوث کئے ہوئے تھے آج زقوم کا درخت کھلایا جائے گا ۔ بعض کہتے ہیں اس سے مراد ابوجہل ہے ۔ گو دراصل وہ بھی اس آیت کی وعید میں داخل ہے لیکن یہ نہ سمجھا جائے کہ آیت صرف اسی کے حق میں نازل ہوئی ہے ۔ سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ ایک شخص کو یہ آیت پڑھا رہے تھے مگر اس کی زبان سے لفظ «اَثِیْم» ادا نہیں ہوتا تھا اور وہ بجائے اس کے یتیم کہہ دیا کرتا تھا تو آپ رضی اللہ عنہ نے اسے «طَعَامُ الْفَاجِر“ » پڑھوایا یعنی اسے اس کے سوا کھانے کو اور کچھ نہ دیا جائے گا ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر زقوم کا ایک قطرہ بھی زمین میں ٹپک جائے تو تمام زمین والوں کی معاش خراب کر دے ایک مرفوع حدیث میں بھی یہ آیا ہے جو پہلے بیان ہو چکی ہے ، یہ مثل تلچھٹ کے ہو گا ۔ اپنی حرارت بدمزگی اور نقصان کے باعث پیٹ میں جوش مارتا رہے گا اللہ تعالیٰ جہنم کے داروغوں سے فرمائے گا کہ اس کافر کو پکڑ لو وہیں ستر ہزار فرشتے دوڑیں گے اسے اندھا کر کے منہ کے بل گھسیٹ لے جاؤ اور بیچ جہنم میں ڈال دو پھر اس کے سر پر جوش مارتا گرم پانی ڈالو ۔ جیسے فرمایا «یُصَبٰ مِنْ فَوْقِ رُءُوْسِہِمُ الْحَمِیْمُ یُصْہَرُ بِہِ مَا فِی بُطُونِہِمْ وَالْجُلُودُ » ( 22- الحج : 20 ، 19 ) ، یعنی ان کے سروں پر جہنم کا جوش مارتا گرم پانی بہایا جائے گا جس سے ان کی کھالیں اور پیٹ کے اندر کی تمام چیزیں سوخت ہو جائیں گی اور یہ بھی ہم پہلے بیان کر آئے ہیں کہ فرشتے انہیں لوہے کے ہتھوڑے ماریں گے جن سے ان کا دماغ پاش پاش ہو جائیں گے پھر اوپر سے یہ حمیم ان پر ڈالا جائے گا یہ جہاں جہاں پہنچے گا ہڈی کو کھال سے جدا کر دے گا یہاں تک کہ اس کی آنتیں کاٹتا ہوا پنڈلیوں تک پہنچ جائے گا ۔ اللہ ہمیں محفوظ رکھے پھر انہیں شرمسار کرنے کے لیے اور زیادہ پشیمان بنانے کے لیے کہا جائے گا کہ لو مزہ چکھو تم ہماری نگاہوں میں نہ عزت والے ہو نہ بزرگی والے ۔ مغازی اموی میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوجہل ملعون سے کہا کہ مجھے اللہ کا حکم ہوا ہے کہ تجھ سے کہدوں«أَوْلَیٰ لَکَ فَأَوْلَیٰ “ ” ثُمَّ أَوْلَیٰ لَکَ فَأَوْلَیٰ» ( 75- القیامۃ : 34 ، 35 ) » تیرے لیے ویل ہے تجھ پر افسوس ہے پھر مکرر کہتا ہوں کہ تیرے لیے خرابی اور افسوس ہے ۔ اس پاجی نے اپنا کپڑا آپ کے ہاتھ سے گھسیٹتے ہوئے کہا جا تو اور تیرا رب میرا کیا بگاڑ سکتے ہو ؟ اس تمام وادی میں سب سے زیادہ عزت و تکریم والا میں ہوں ۔ پس اللہ تعالیٰ نے اسے بدر والے دن قتل کرایا اور اسے ذلیل کیا اور اس سے کہا جائے گا کہ لے اب اپنی عزت کا اور اپنی تکریم کا اور اپنی بزرگی اور بڑائی کا لطف اٹھا اور ان کافروں سے کہا جائے گا کہ یہ ہے جس میں ہمیشہ شک شبہ کرتے رہے ۔ جیسے اور آیتوں میں ہے کہ «یَوْمَ یُدَعٰونَ إِلَیٰ نَارِ جَہَنَّمَ دَعًّا ہٰذِہِ النَّارُ الَّتِی کُنتُم بِہَا تُکَذِّبُونَ أَفَسِحْرٌ ہٰذَا أَمْ أَنتُمْ لَا تُبْصِرُونَ» ( 52-الطور : 13 - 15 ) جس دن انہیں دھکے دے کر جہنم میں پہنچایا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہ وہ دوزخ ہے جسے تم جھٹلاتے رہے کیا یہ جادو ہے یا تم دیکھ نہیں رہے ؟ اسی کو یہاں بھی فرمایا ہے کہ یہ ہے جس میں تم شک کر رہے تھے ۔ الدخان
44 الدخان
45 الدخان
46 الدخان
47 الدخان
48 الدخان
49 الدخان
50 الدخان
51 جب موت کو ذبح کرایا جائے گا بدبختوں کا ذکر کر کے اب نیک بختوں کا حال بیان ہو رہا ہے ۔ اسی لیے قرآن کریم کو مثانی کہا گیا ہے اس دنیا میں جو اللہ تعالیٰ مالک و خالق و قادر سے ڈرتے دبتے رہے وہ قیامت کے دن جنت میں نہایت امن و امان سے ہوں گے ۔ موت سے ، وہاں سے نکلنے کے ، غم و رنج ، گھبراہٹ ، مشکلوں ، دکھ درد ، تکلیف ، مشقت ، شیطان اور اس کے مکر سے رب کی ناراضگی سے غرض تمام آفتوں اور مصیبتوں سے نڈر بے فکر مطمئن اور بے اندیشہ ہوں گے ۔ جہنمیوں کو تو زقوم کا درخت اور آگ جیسا گرم پانی ملے گا اور انہیں جنتیں اور نہریں ملیں گی مختلف قسم کے ریشمی پارچہ جات انہیں پہننے کو ملیں گے جن میں نرم باریک بھی ہو گا اور دبیز چمکیلا بھی ہو گا ۔ یہ تختوں پر بڑے طمطراق سے تکئے لگائے بیٹھے ہوں گے اور کسی کی کسی کی طرف پیٹھ نہ ہو گی بلکہ سب ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے ہوئے ہوں گے اس عطا کے ساتھ ہی انہیں حوریں دی جائیں گی جو گورے چٹے پنڈے کی بڑی بڑی رسیلی آنکھوں والی ہوں گی جن کے پاک جسم کو ان سے پہلے کسی نے چھوا بھی نہ ہو گا ۔ وہ یاقوت و مرجان کی طرح ہوں گی ۔ اور کیوں نہ ہو جب انہوں نے اللہ کا ڈر دل میں رکھا اور دنیا کی خواہشوں کی چیزوں سے محض فرمان اللہ کو مدنظر رکھ کر بچے رہے تو اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ یہ بہترین سلوک کیوں نہ کرتا ؟ ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ اگر ان حوروں میں سے کوئی کھاری سمندر میں تھوک دے تو اس کا سارا پانی میٹھا ہو جائے ۔(ابو نعیم فی صفۃ الجنۃ:386،ضعیف و باطل) پھر وہاں یہ جس میوے کی طلب کریں گے موجود ہو گا جو مانگیں گے ملے گا ادھر ارادہ کیا ادھر موجود ہوا ، خواہش ہوئی اور حاضر ہوا پھر نہایت بے فکری سے کمی کا خوف نہیں ہو گا ختم ہو جانے کا کھٹکا نہیں ہو گا پھر فرمایا وہاں انہیں کبھی موت نہیں آئے گی ۔(صحیح بخاری:4730) پھر استثناء منقطع لا کر اس کی تاکید کر دی ۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ موت کو بھیڑیئے کی صورت میں لا کر جنت دوزخ کے درمیان ذبح کر دیا جائے گا اور ندا کر دی جائے گی کہ جنتیو ! اب ہمیشگی ہے کبھی موت نہیں ۔ اور اے جہنمیو ! تمہارے لیے بھی ہمیشہ رہنا ہے کبھی موت نہ آئے گی ۔ سورۃ مریم کی تفسیر میں بھی یہ حدیث گذر چکی ہے ۔ صحیح مسلم وغیرہ میں ہے کہ جنتیوں سے کہہ دیا جائے گا کہ تم ہمیشہ تندرست رہو گے کبھی بیمار نہ پڑو گے اور ہمیشہ زندہ رہو گے کبھی مرو گے نہیں اور ہمیشہ نعمتوں میں رہو گے کبھی کمی نہ ہو گی اور ہمیشہ جوان بنے رہو گے کبھی بوڑھے نہ ہو گے (صحیح مسلم:2837) اور حدیث میں ہے جو اللہ سے ڈرتا رہے گا جنت میں جائے گا جہاں نعمتیں پائے گا کبھی محتاج نہ ہو گا جئے گا کبھی مرے گا نہیں جہاں کپڑے میلے نہ ہوں گے اور جوانی فنا نہ ہو گی ۔ (طبرانی اوسط:4895:ضعیف) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ کیا جنتی سوئیں گے بھی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نیند موت کی بہن ہے جنتی سوئیں گے نہیں ہر وقت راحت و لذت میں مشغول رہیں گے ۔(سلسلۃ احادیث صحیحہ البانی:1087،حسن) یہ حدیث اور سندوں سے بھی مروی ہے اور اس سے پہلے سندوں کا خلاف گذر چکا ہے۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اس راحت و نعمت کے ساتھ یہ بھی بڑی نعمت ہے کہ انہیں پروردگار عالم نے عذاب جہنم سے نجات دے دی ہے ۔ تو مطلوب حاصل ہے اور خوف زائل ہے ۔ الدخان
52 الدخان
53 الدخان
54 الدخان
55 الدخان
56 الدخان
57 1 اسی لیے ساتھ ہی فرمایا کہ یہ صرف اللہ تعالیٰ کا احسان و فضل ہے ۔ صحیح حدیث میں ہے تم ٹھیک ٹھاک رہو قریب قریب رہو اور یقین مانو کہ کسی کے اعمال اسے جنت میں نہیں لے جا سکتے لوگوں نے کہا کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال بھی ؟ فرمایا ہاں میرے اعمال بھی مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت میرے شامل حال ہو ۔(صحیح بخاری:6467) ہم نے اپنے نازل کردہ اس قرآن کریم کو بہت سہل ، بالکل آسان ،صاف ظاہر ، بہت واضح مدلل اور روشن کر کے تجھ پر تیری زبان میں نازل فرمایا ہے جو بہت فصیح و بلیغ بڑی شیریں اور پختہ ہے تاکہ لوگ بآسانی سمجھ لیں اور بخوشی عمل کریں ۔ باوجود اس کے بھی جو لوگ اسے جھٹلائیں نہ مانیں تو انہیں ہوشیار کر دے اور کہ دے کہ اچھا اب تم بھی انتظار کرو میں بھی منتظر ہوں تم دیکھ لو گے کہ اللہ کی طرف سے تائید ہوتی ہے ؟ کس کا کلمہ بلند ہوتا ہے ؟ کسے دنیا اور آخرت ملتی ہے ؟ مطلب یہ ہے کہ اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تم تسلی رکھو فتح و ظفر تمہیں ہو گی میری عادت ہے کہ اپنے نبیوں اور ان کے ماننے والوں کو اونچا کروں جیسے ارشاد ہے «کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ ۭ اِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ» ( 58- المجادلۃ : 21 ) ، یعنی اللہ تعالیٰ نے یہ لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسول ہی غالب رہیں گے اور آیت میں ہے «اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوۃِ الدٰنْیَا وَیَوْمَ یَقُوْمُ الْاَشْہَادُ یَوْمَ لَا یَنفَعُ الظَّالِمِینَ مَعْذِرَتُہُمْ ۖ وَلَہُمُ اللَّعْنَۃُ وَلَہُمْ سُوءُ الدَّارِ» ( 40- غافر : 52 ، 51 ) ، یعنی یقیناً ہم اپنے پیغمبروں کی اور ایمان والوں کی دنیا میں بھی مدد کریں گے اور قیامت میں بھی جس دن گواہ قائم ہوں گے اور ظالموں کو ان کے عذر نفع نہ دیں گے ان پر لعنت ہو گی اور ان کے لیے برا گھر ہو گا ۔ الدخان
58 الدخان
59 الدخان
0 الجاثية
1 1 اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کو ہدایت فرماتا ہے کہ وہ قدرت کی نشانیوں میں غور و فکر کریں ۔ اللہ کی نعمتوں کو جانیں اور پہچانیں ، پھر ان کا شکر بجا لائیں ، دیکھیں کہ اللہ کتنی بڑی قدرتوں والا ہے ، جس نے آسمان و زمین اور مختلف قسم کی تمام مخلوق کو پیدا کیا ہے ، فرشتے ، جن ، انسان ، چوپائے ، پرند ، جنگلی جانور ، درندے ، کیڑے ، پتنگے سب اسی کے پیدا کئے ہوئے ہیں ۔ سمندر کی بےشمار مخلوق کا خالق بھی وہی ایک ہے ۔ دن کو رات کے بعد اور رات کو دن کے پیچھے وہی لا رہا ہے ، رات کا اندھیرا ، دن کا اجالا اسی کے قبضے کی چیزیں ہیں ۔ حاجت کے وقت انداز کے مطابق بادلوں سے پانی وہی برساتا ہے ، رزق سے مراد بارش ہے ، اس لیے کہ اسی سے کھانے کی چیزیں اگتی ہیں ۔ خشک بنجر زمین سبز و شاداب ہو جاتی ہے اور طرح طرح کی پیداوار اگاتی ہے ۔ شمالی جنوبی پروا پچھوا تر و خشک ، کم و بیش رات اور دن کی ہوائیں وہی چلاتا ہے ۔ بعض ہوائیں بارش کو لاتی ہیں ، بعض بادلوں کو پانی والا کر دیتی ہیں ۔ بعض روح کی غذا بنتی ہیں اور بعض ان کے سوا کاموں کے لیے چلتی ہیں ۔ پہلے فرمایا کہ اس میں ایمان والوں کے لیے نشانیاں ہیں ، پھر یقین والوں کے لیے فرمایا ، پھر عقل والوں کے لیے فرمایا ، یہ ایک عزت والے کا حال سے دوسرے عزت والے حال کی طرف ترقی کرنا ہے ۔ اسی کے مثل سورۃ البقرہ کی آیت «إِنَّ فِی خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ وَالْفُلْکِ الَّتِی تَجْرِی فِی الْبَحْرِ بِمَا یَنفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنزَلَ اللہُ مِنَ السَّمَاءِ مِن مَّاءٍ فَأَحْیَا بِہِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا وَبَثَّ فِیہَا مِن کُلِّ دَابَّۃٍ وَتَصْرِیفِ الرِّیَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَآیَاتٍ لِّقَوْمٍ یَعْقِلُونَ» ۱؎ (2-البقرۃ:164) ہے ۔ امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ نے یہاں پر ایک طویل اثر وارد کیا ہے لیکن وہ غریب ہے اس میں انسان کو چار قسم کے اخلاط سے پیدا کرنا بھی ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» الجاثية
2 الجاثية
3 الجاثية
4 الجاثية
5 الجاثية
6 قرآن عظیم کی اہانت سے بچاؤ مطلب یہ ہے کہ قرآن جو حق کی طرف نہایت صفائی اور وضاحت سے نازل ہوا ہے ۔ اس کی روشن آیتیں تجھ پر تلاوت کی جا رہی ہیں ۔ جسے یہ سن رہے ہیں اور پھر بھی نہ ایمان لاتے ہیں ، نہ عمل کرتے ہیں ، تو پھر آخر ایمان کس چیز پر لائیں گے ؟ ان کے لیے «ویل» ہے اور ان پر افسوس ہے جو زبان کے جھوٹے ، کام کے گنہگار اور دل کے کافر ہیں ، اس کی باتیں سنتے ہوئے اپنے کفر ، انکار اور بدباطنی پر اڑے ہوئے ہیں گویا سنا ہی نہیں ، انہیں سنا دو کہ ان کے لیے اللہ کے ہاں دکھ کی مار ہے ، قرآن کی آیتیں ان کے مذاق کی چیز رہ گئی ہیں ۔ تو جس طرح یہ میرے کلام کی آج اہانت کرتے ہیں کل میں انہیں ذلت کی سزا دوں گا ۔ حدیث شریف میں ہے کہ { قرآن لے کر دشمنوں کے ملک میں نہ جاؤ ایسا نہ ہو کہ وہ اس کی اہانت و بے قدری کریں } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2990) پھر اس ذلیل کرنے والے کا عذاب کا بیان فرمایا کہ ان خصلتوں والے لوگ جہنم میں ڈالے جائیں گے ۔ ان کے مال و اولاد اور ان کے وہ جھوٹے معبود جنہیں یہ زندگی بھر پوجتے رہے انہیں کچھ کام نہ آئیں گے انہیں زبردست اور بہت بڑے عذاب بھگتنے پڑیں گے ۔ پھر ارشاد ہوا کہ یہ قرآن سراسر ہدایت ہے اور اس کی آیت سے جو منکر ہیں ان کے لیے سخت اور المناک عذاب ہیں ۔ «وَاللہُ سُبْحَانَہُ وَ تَعَالیٰ اَعْلَمُ» الجاثية
7 الجاثية
8 الجاثية
9 الجاثية
10 الجاثية
11 الجاثية
12 اللہ تعالٰی کے ابن آدم پر احسانات اللہ تعالیٰ اپنی نعمتیں بیان فرما رہا ہے کہ اسی کے حکم سے سمندر میں اپنی مرضی کے مطابق سفر طے کرتے ہوئے بڑی بڑی کشتیاں مال اور سواریوں سے لدی ہوئی ادھر سے ادھر لے جاتے ہو تجارتیں اور کمائی کرتے ہو ۔ یہ اس لیے بھی ہے کہ تم اللہ کا شکر بجا لاؤ ، نفع حاصل کر کے رب کا احسان مانو ، پھر اس نے آسمان کی چیز جیسے سورج ، چاند ، ستارے اور زمین کی چیز جیسے پہاڑ ، نہریں اور تمہارے فائدے کی بےشمار چیزیں تمہارے لیے مسخر کر دی ، یہ سب اس کا فضل و احسان انعام و اکرام ہے اور اسی ایک کی طرف سے ہے ۔ جیسے ارشاد ہے «وَمَا بِکُمْ مِّنْ نِّعْمَۃٍ فَمِنَ اللّٰہِ ثُمَّ اِذَا مَسَّکُمُ الضٰرٰ فَاِلَیْہِ تَجْــــَٔــرُوْنَ» ۱؎ (16-النحل:53) ، یعنی ’ تمہارے پاس جو نعمتیں ہیں سب اللہ کی دی ہوئی ہیں اور ابھی بھی سختی کے وقت تم اسی کی طرف گڑگڑاتے ہو ‘ ۔ { سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ہر چیز اللہ ہی کی طرف سے ہے اور یہ نام اس میں نام ہے اس کے ناموں میں سے ، پس یہ سب اس کی جانب سے ہے کوئی نہیں جو اس سے چھینا چھپٹی یا جھگڑا کر سکے ہر ایک اس یقین پر ہے کہ وہ اسی طرح ہے } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:255/11:) { ایک شخص نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سوال کیا کہ ” مخلوق کس چیز سے بنائی گئی ہے ؟ “ آپ نے فرمایا ” نور سے اور آگ سے اور اندھیرے سے اور مٹی سے اور کہا جاؤ ! سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کو اگر دیکھو تو ان سے بھی دریافت کر لو “ ۔ اس نے آپ سے بھی پوچھا : یہی جواب پایا ، پھر فرمایا : ” واپس ان کے پاس جاؤ اور پوچھا کہ یہ سب کس چیز سے پیدا کئے گئے ؟ “ ، وہ لوٹا اور سوال کیا تو آپ نے یہی آیت پڑھ کر سنائی } ۔ یہ اثر غریب ہے ۔ اور ساتھ ہی منکر بھی ہے ۔ غور و فکر کی عادت رکھنے والوں کے لیے اس میں بھی بہت نشانیاں ہیں پھر فرماتا ہے کہ صبر و تحمل کی عادت ڈالو منکرین قیامت کی کڑوی کسیلی سن لیا کرو ، مشرک اور اہل کتاب کی ایذاؤں کو برداشت کر لیا کرو ۔ یہ حکم شروع اسلام میں تھا لیکن بعد میں جہاد اور جلا وطنی کے احکام نازل ہوئے ۔ اللہ کے دنوں کی امید نہیں رکھتے ، یعنی اللہ کی نعمتوں کے حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے ۔ پھر فرمایا کہ ان سے تم چشم پوشی کرو ، ان کے اعمال کی سزا خود ہم انہیں دیں گے ، اسی لیے اس کے بعد ہی فرمایا کہ تم سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے اور ہر نیکی بدی کی جزا سزا پاؤ گے ۔ «وَاللہُ سُبْحَانَہُ وَ تَعَالیٰ اَعْلَمُ» الجاثية
13 الجاثية
14 الجاثية
15 الجاثية
16 بنی اسرائیل پر اللہ تعالٰی کے خصوصی انعامات کا تذکرہ بنی اسرائیل پر جو نعمتیں رحیم و کریم اللہ نے انعام فرمائی تھیں ان کا ذکر فرما رہا ہے کہ کتابیں ان پر اتاریں ، رسول ان میں بھیجے ، حکومت انہیں دی ۔ بہترین غذائیں اور ستھری صاف چیزیں انہیں عطا فرمائیں اور اس زمانے کے اور لوگوں پر انہیں برتری دی اور انہیں امر دین کی عمدہ اور کھلی ہوئی دلیلیں پہنچا دیں اور ان پر حجت اللہ قائم ہو گئی ۔ پھر ان لوگوں نے پھوٹ ڈالی اور مختلف گروہ بن گئے اور اس کا باعث بجز نفسانیت اور خودی کے اور کچھ نہ تھا ۔ اے نبی ! تیرا رب ان کے ان اختلافات کا فیصلہ قیامت کے دن خود ہی کر دے گا ۔ اس میں اس امت کو چوکنا کیا گیا ہے کہ خبردار تم ان جیسے نہ ہونا ، ان کی چال نہ چلنا اسی لیے اللہ جل و علا نے فرمایا کہ تو اپنے رب کی وحی کا تابعدار بنا رہ ، مشرکوں سے کوئی مطلب نہ رکھ ، بےعلموں کی ریس نہ کر ، یہ تجھے اللہ کے ہاں کیا کام آئیں گے ؟ ان کی دوستیاں تو ان میں آپس میں ہی ہیں ، یہ تو اپنے ملنے والوں کو نقصان ہی پہنچایا کرتے ہیں ۔ پرہیزگاروں کا ولی و ناصر رفیق و کار ساز پروردگار عالم ہے ، جو انہیں اندھیروں سے ہٹا کر نور کی طرف لے جاتا ہے اور کافروں کے دوست شیاطین ہیں ، جو انہیں روشنی سے ہٹا کر اندھیریوں میں جھونکتے ہیں یہ قرآن ان لوگوں کے لیے جو یقین رکھتے ہیں دلائل کے ساتھ ہی ہدایت و رحمت ہے ۔ الجاثية
17 الجاثية
18 الجاثية
19 الجاثية
20 الجاثية
21 اصل دین چار چیزیں ہیں اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ مومن و کافر برابر نہیں ، جیسے اور آیت میں ہے کہ «لَا یَسْتَوِی أَصْحَابُ النَّارِ وَأَصْحَابُ الْجَنَّۃِ أَصْحَابُ الْجَنَّۃِ ہُمُ الْفَائِزُونَ» ۱؎ (59-الحشر:20) ’ دوزخی اور جنتی برابر نہیں جنتی کامیاب ہیں ‘ ۔ یہاں بھی فرماتا ہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ کفر و برائی والے اور ایمان و اچھائی والے موت و زیست میں دنیا و آخرت میں برابر ہو جائیں ۔ یہ تو ہماری ذات اور ہماری صفت عدل کے ساتھ پرلے درجے کی بدگمانی ہے ۔ مسند ابو یعلیٰ میں ہے { سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” چار چیزوں پر اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی بنا رکھی ہے ، جو ان سے ہٹ جائے اور ان پر عامل نہ بنے وہ اللہ سے فاسق ہو کر ملاقات کرے گا “ ۔ پوچھا گیا کہ وہ چاروں چیزیں کیا ہیں ؟ فرمایا : ” یہ کہ کامل عقیدہ رکھے کہ حلال ، حرام، حکم اور ممانعت یہ چاروں صرف اللہ کی اختیار میں ہیں ، اس کے حلال کو حلال ، اس کے حرام بتائے ہوئے کو حرام ماننا ، اس کے حکموں کو قابل تعمیل اور لائق تسلیم جاننا ، اس کے منع کئے ہوئے کاموں سے باز آ جانا اور حلال حرام امر و نہی کا مالک صرف اسی کو جاننا بس یہ دین کی اصل ہے ۔ ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جس طرح ببول کے درخت سے انگور پیدا نہیں ہو سکتے اسی طرح بدکار لوگ نیک کاروں کا درجہ حاصل نہیں کر سکتے } ۔ ۱؎ (المجروحین:41/3:ضعیف) یہ حدیث غریب ہے ۔ سیرۃ محمد بن اسحاق میں ہے کہ { کعبتہ اللہ کی نیو میں سے ایک پتھر نکلا تھا جس پر لکھا ہوا تھا کہ تم برائیاں کرتے ہوئے نیکیوں کی امید رکھتے ہو یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی خاردار درخت میں سے انگور چننا چاہتا ہو } ۔ ۱؎ (سیرۃ ابن ھشام:196/1) طبرانی میں ہے کہ { سیدنا تمیم داری رضی اللہ عنہ رات بھر تہجد میں اسی آیت کو بار بار پڑھتے رہے یہاں تک کہ صبح ہو گئی } ۔ پھر فرماتا ہے اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو عدل کے ساتھ پیدا کیا ہے وہ ہر ایک شخص کو اس کے کئے کا بدلہ دے گا اور کسی پر اس کی طرف سے ذرا سا بھی ظلم نہ کیا جائے گا ۔ پھر اللہ تعالیٰ جل و علا فرماتا ہے کہ تم نے انہیں بھی دیکھا جو اپنی خواہشوں کو رب بنائے ہوئے ہیں ۔ جس کام کی طرف طبیعت جھکی کر ڈالا ، جس سے دل رکا چھوڑ دیا ۔ یہ آیت معتزلہ کے اس اصول کو رد کرتی ہے کہ اچھائی برائی عقلی ہے ۔ امام مالک رحمہ اللہ اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں ” اس کے دل میں جس کی عبادت کا خیال گزرتا ہے اسی کو پوجنے لگتا ہے ، اس کے بعد کے جملے کے دو معنی ہیں ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کی بناء پر اسے مستحق گمراہی جان کر گمراہ کر دیا دوسرا معنی یہ کہ اس کے پاس علم و حجت دلیل و سند آ گئی پھر اسے گمراہ کیا “ ۔ یہ دوسری بات پہلی کو بھی مستلزم ہے اور پہلی دوسری کو مستلزم نہیں ۔ اس کے کانوں پر مہر ہے ، نفع دینے والی شرعی بات سنتا ہی نہیں ۔ اس کے دل پر مہر ہے ، ہدایت کی بات دل میں اترتی ہی نہیں ، اس کی آنکھوں پر پردہ ہے کوئی دلیل اسے دکھتی ہی نہیں ، بھلا اب اللہ کے بعد اسے کون راہ دکھائے ؟ کیا تم عبرت حاصل نہیں کرتے ؟ جیسے فرمایا «مَنْ یٰضْلِلِ اللّٰہُ فَلَا ہَادِیَ لَہٗ وَیَذَرُہُمْ فِیْ طُغْیَانِہِمْ یَعْمَہُوْنَ» ۱؎ (7-الأعراف:186) یعنی ’ جسے اللہ گمراہ کر دے اس کا ہادی کوئی نہیں وہ انہیں چھوڑ دیتا ہے کہ اپنی سرکشی میں بہکتے رہیں ‘ ۔ الجاثية
22 الجاثية
23 الجاثية
24 زمانے کو گالی مت دو دہریہ کفار اور ان کے ہم عقیدہ مشرکین کا بیان ہو رہا ہے کہ یہ قیامت کے منکر ہیں اور کہتے ہیں کہ دنیا ہی ابتداء اور انتہاء ہے ، کچھ جیتے ہیں ، کچھ مرتے ہیں ، قیامت کوئی چیز نہیں ۔ فلاسفہ اور علم کلام کے قائل یہی کہتے تھے یہ لوگ ابتداء اور انتہاء کے قائل نہ تھے اور فلاسفہ میں سے جو لوگ دھریہ اور دوریہ تھے وہ خالق کے بھی منکر تھے ان کا خیال تھا کہ ہر چھتیس ہزار سال کے بعد زمانے کا ایک دور ختم ہوتا ہے اور ہر چیز اپنی اصلی حالت پر آ جاتی ہے اور ایسے کئی دور کے وہ قائل تھے دراصل یہ معقول سے بھی بیکار جھگڑتے تھے اور منقول سے بھی روگردانی کرتے تھے اور کہتے تھے کہ گردش زمانہ ہی ہلاک کرنے والی ہے نہ کہ اللہ ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’ اس کی کوئی دلیل ان کے پاس نہیں اور بجز و ہم و خیال کے کوئی سند وہ پیش نہیں کر سکتے ‘ ۔ ابوداؤد وغیرہ کی صحیح حدیث میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مجھے ابن آدم ایذاء دیتا ہے وہ دہر کو [ یعنی زمانے کو ] گالیاں دیتا ہے دراصل زمانہ میں ہی ہوں تمام کام میرے ہاتھ ہیں دن رات کا ہیر پھیر کرتا ہوں “ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4826) ایک روایت میں ہے { دہر [زمانہ] کو گالی نہ دو اللہ ہی زمانہ ہے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:299/5:صحیح) ابن جریر رحمہ اللہ نے اسے ایک بالکل غریب سند سے وارد کیا ہے اس میں ہے { اہل جاہلیت کا خیال تھا کہ ہمیں دن رات ہی ہلاک کرتے ہیں ، وہی ہمیں مارتے جلاتے ہیں ، پس اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کریم میں اسے نقل فرمایا ’ وہ زمانے کو برا کہتے تھے ‘ ،پس اللہ عزوجل نے فرمایا ’ مجھے ابن آدم ایذاء پہنچاتا ہے وہ زمانے کو برا کہتا ہے اور زمانہ میں ہوں ، میرے ہاتھ میں سب کام ہیں میں دن رات کا لے آنے لے جانے والا ہوں ‘ } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:264/11) ابن ابی حاتم میں ہے { ابن آدم زمانے کو گالیاں دیتا ہے ، میں زمانہ ہوں ، دن رات میرے ہاتھ میں ہیں } ۔ اور حدیث میں ہے { میں نے اپنے بندے سے قرض طلب کیا اس نے مجھے نہ دیا ، مجھے میرے بندے گالیاں دیں ، وہ کہتا ہے ہائے ہائے زمانہ اور زمانہ میں ہوں } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:92/25:) امام شافعی اور ابوعبیدہ رحمہا اللہ وغیرہ ائمہ لغت و تفسیر اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ ” جاہلیت کے عربوں کو جب کوئی بلا اور شدت و تکلیف پہنچتی تو وہ اسے زمانے کی طرف نسبت کرتے اور زمانے کو برا کہتے دراصل زمانہ خود تو کچھ کرتا نہیں ہر کام کا کرتا دھرتا اللہ تعالیٰ ہی ہے ، اس لیے اس کا زمانے کو گالی دینا فی الواقع اسے برا کہنا تھا جس کی ہاتھ میں اور جس کے بس میں زمانہ ہے جو راحت و رنج کا مالک ہے اور وہ ذات باری تعالیٰ «عزاسمہ» ہے ۔ پس وہ گالی حقیقی فاعل یعنی اللہ تعالیٰ پر پڑتی ہے اس لیے اس حدیث میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا : ” اور لوگوں کو اس سے روک دیا “ یہی شرح بہت ٹھیک اور بالکل درست ہے ۔ امام ابن حزم رحمہ اللہ وغیرہ نے اس حدیث سے جو یہ سمجھ لیا ہے کہ «دھر» اللہ کے اسماء حسنیٰ میں سے ایک نام ہے یہ بالکل غلط ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» پھر ان بےعلموں کی کج بخشی بیان ہو رہی ہے کہ قیامت قائم ہونے کی اور دوبارہ جلائے جانے کی بالکل صاف دلیلیں جب انہیں دی جاتی ہیں اور قائل معقول کر دیا جاتا ہے تو چونکہ جب کچھ بن نہیں پڑتا جھٹ سے کہہ دیتے ہیں کہ اچھا پھر ہمارے مردہ باپ دادوں پردادوں کو زندہ کر کے ہمیں دکھا دو تو ہم مان لیں گے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے «کَیْفَ تَکْفُرُونَ بِ اللہِ وَکُنتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْیَاکُمْ ثُمَّ یُمِیتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیکُمْ» ۱؎ (2-البقرۃ:28) ’ تم اپنا پیدا کیا جانا اور مر جانا تو اپنی آنکھ سے دیکھ رہے ہو کہ تم کچھ نہ تھے اور اس نے تمہیں موجود کر دیا پھر وہ تمہیں مار ڈالتا ہے ‘ ، «وَہُوَ الَّذِی یَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیدُہُ وَہُوَ أَہْوَنُ عَلَیْہِ» ۱؎ (30-الروم27) ’ تو جو ابتداءً پیدا کرنے پر قادر ہے وہ دوبارہ جی اٹھانے پر قادر کیسے نہ ہو گا ؟ ‘ ۔ بلکہ عقلًا ہدایت [ واضح طور پر ] کے ساتھ یہ بات ثابت ہے کہ جو شروع شروع کسی چیز کو بنا دے اس پر دوبارہ اس کا بنانا بہ نسبت پہلی دفعہ کے بہت آسان ہوتا ہے ۔ پس یہاں فرمایا کہ پھر وہ تمہیں قیامت کے دن جس کے آنے میں کوئی شک نہیں جمع کرے گا ۔ وہ دنیا میں تمہیں دوبارہ لانے کا نہیں جو تم کہہ رہے ہو کہ ہمارے باپ دادوں کو زندہ کر لاؤ ۔ یہ تو دارعمل ہے ، دارجزا قیامت کا دن ہے ، یہاں تو ہر ایک کو تھوڑی بہت تاخیر مل جاتی ہے جس میں وہ اگر چاہے اس دوسرے گھر کے لیے تیاریاں کر سکتا ہے بس اپنی بےعلمی کی بناء پر تمہیں اس کا انکار نہ کرنا چاہیے ۔ «إِنَّہُمْ یَرَوْنَہُ بَعِیدًا وَنَرَاہُ قَرِیبًا» ۱؎ (70-المعارج:6،7) ’ تم گو اسے دور جان رہے ہو لیکن دراصل وہ قریب ہی ہے ‘ ، تم گو اس کا آنا محال سمجھ رہے ہو لیکن فی الواقع اس کا آنا یقینی ہے ، مومن باعلم اور ذی عقل ہیں کہ وہ اس پر یقین کامل رکھ کر عمل میں لگے ہوئے ہیں ۔ الجاثية
25 الجاثية
26 الجاثية
27 اس دن ہر شخص گھٹنوں کے بل گرا ہو گا اب سے لے کر ہمیشہ تک اور آج سے پہلے بھی تمام آسمانوں کا کل زمینوں کا مالک بادشاہ سلطان اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ اللہ کے اور اس کی کتابوں کے اور اس کے رسولوں کے منکر قیامت کے روز بڑے گھاٹے میں رہیں گے ۔ سفیان ثوری رحمہ اللہ جب مدینے شریف میں تشریف لائے تو آپ نے سنا کہ معافری ایک ظریف شخص ہیں ، لوگوں کو اپنے کلام سے ہنسایا کرتے ہیں ، تو آپ نے انہیں نصیحت کی اور فرمایا : ” کیوں جناب کیا آپ کو معلوم نہیں کہ ایک دن آئے گا جس میں باطل والے خسارے میں پڑیں گے “ ۔ اس کا بہت اچھا اثر ہوا اور معافری رحمہ اللہ مرتے دم تک اس نصیحت کو نہ بھولے ۔ (ابن ابی حاتم) فرمایا وہ دن ایسا ہولناک اور سخت تر ہو گا کہ ہر شخص گھٹنوں پر گر جائے گا ۔ یہاں تک کہ خلیل اللہ ابراہیم علیہ السلام اور روح اللہ عیسیٰ علیہ السلام بھی ۔ ان کی زبان سے بھی اس وقت «نفسی نفسی نفسی» نکلے گا ۔ صاف کہہ دیں گے کہ ” اللہ آج ہم تجھ سے اور کچھ نہیں مانگتے صرف اپنی سلامتی چاہتے ہیں “ ۔ عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے کہ ” آج میں اپنی والدہ کے لیے بھی تجھ سے کچھ عرض نہیں کرتا بس مجھے بچا لے “ ۔ گو بعض مفسرین نے کہا ہے کہ مراد یہ ہے کہ ہر گروہ جداگانہ الگ الگ ہو گا لیکن اس سے اولیٰ اور بہتر وہی تفسیر ہے جو ہم نے کی یعنی ہر ایک اپنے زانو پر گرا ہوا ہو گا ۔ ابن ابی حاتم میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { گویا کہ میں تمہیں جہنم کے پاس زانو پر جھکے ہوئے دیکھ رہا ہوں } ۔ اور مرفوع حدیث میں جس میں صور وغیرہ کا بیان ہے یہ بھی ہے کہ { پھر لوگ جدا جدا کر دئیے جائیں گے اور تمام امتیں زانو پر جھکیں پڑیں گی } ۔ یہی اللہ کا فرمان ہے «وَتَرَ‌یٰ کُلَّ أُمَّۃٍ جَاثِیَۃً کُلٰ أُمَّۃٍ تُدْعَیٰ إِلَیٰ کِتَابِہَا الْیَوْمَ تُجْزَوْنَ مَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ» ۱؎ (45-الجاثیۃ:28) ، اس میں دونوں حالتیں جمع کر دی ہیں ، پس دراصل دونوں تفسیروں میں ایک دوسرے کے خلاف نہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» پھر فرمایا ہر گروہ اپنے نامہ اعمال کی طرف بلایا جائے گا ۔ جیسے ارشاد ہے «وَوُضِعَ الْکِتَابُ وَجِیءَ بِالنَّبِیِّینَ وَالشٰہَدَاءِ وَقُضِیَ بَیْنَہُم بِالْحَقِّ وَہُمْ لَا یُظْلَمُونَ» ۱؎ (39-الزمر:69) ، ’ نامہ اعمال رکھا جائے گا اور نبیوں اور گواہوں کو لایا جائے گا ‘ ، آج تمہیں تمہارے ہر ہر عمل کا بدلہ بھرپور دیا جائے گا ۔ جیسے فرمان ہے «یُنَبَّؤُا الْاِنْسَانُ یَوْمَیِٕذٍ بِمَا قَدَّمَ وَاَخَّرَ بَلِ الْإِنسَانُ عَلَیٰ نَفْسِہِ بَصِیرَۃٌ وَلَوْ أَلْقَیٰ مَعَاذِیرَہُ» ۱؎ (75-القیامۃ:15-13) ’ انسان کو ہر اس چیز سے باخبر کر دیا جائے گا جو اس نے آگے بھیجی اور پیچھے چھوڑی اس کے اگلے پچھلے تمام اعمال ہوں گے بلکہ خود انسان اپنے حال پر خوب مطلع ہو جائے گا گو اپنے تمام تر حیلے سامنے لا ڈالے ‘ ۔ یہ اعمال نامہ جو ہمارے حکم سے ہمارے امین اور سچے فرشتوں نے لکھا ہے وہ تمہارے اعمال کو تمہارے سامنے پیش کر دینے کے لیے کافی و وافی ہیں جیسے ارشاد ہے «وَوُضِـعَ الْکِتٰبُ فَتَرَی الْمُجْرِمِیْنَ مُشْفِقِیْنَ مِمَّا فِیْہِ وَیَقُوْلُوْنَ یٰوَیْلَتَنَا مَالِ ہٰذَا الْکِتٰبِ لَا یُغَادِرُ صَغِیْرَۃً وَّلَا کَبِیْرَۃً اِلَّآ اَحْصٰیہَا» ۱؎ (18-الکہف:49) ، یعنی ’ نامہ اعمال سامنے رکھ دیا جائے گا تو تو دیکھے گا کہ گنہگار اس سے خوفزدہ ہو جائیں گے اور کہیں گے ہائے ہماری کم بختی اور عمل نامے کی تو یہ صفت ہے کہ کسی چھوٹے بڑے عمل کو قلم بند کئے بغیر چھوڑا ہی نہیں ہے جو کچھ انہوں نے کیا تھا سب سامنے حاضر پا لیں گے ، تیرا رب کسی پر ظلم نہیں کرتا ‘ ۔ پھر فرماتا ہے کہ ہم نے محافظ فرشتوں کو حکم دے دیا تھا کہ وہ تمہارے اعمال لکھتے رہا کریں ۔ { سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ فرماتے ہیں کہ ” فرشتے بندوں کے اعمال لکھتے ہیں ، پھر انہیں لے کر آسمان پر چڑھتے ہیں ، آسمان کے دیوان عمل کے رشتے اس نامہ اعمال کو لوح محفوظ میں لکھے ہوئے اعمال سے ملاتے ہیں جو ہر رات اس کی مقدار کے مطابق ان پر ظاہر ہوتا ہے جسے اللہ نے اپنی مخلوق کی پیدائش سے پہلے ہی لکھا ہے تو ایک حرف کی کمی زیادتی نہیں پاتے پھر آپ نے اسی آخری جملے کی تلاوت فرمائی “ } ۔ الجاثية
28 الجاثية
29 الجاثية
30 کبریائی اللہ عزوجل کی چادر ہے ان آیتوں میں اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے اس فیصلے کی خبر دیتا ہے جو وہ آخرت کے دن اپنے بندوں کے درمیان کرے گا ۔ جو لوگ اپنے دل سے ایمان لائے اور اپنے ہاتھ پاؤں سے مطابق شرع نیک نیتی کے ساتھ اچھے عمل کئے انہیں اپنے کرم و رحم سے جنت عطا فرمائے گا «رحمت» سے مراد جنت ہے ۔ جیسے صحیح حدیث میں ہے کہ { اللہ تعالیٰ نے جنت سے فرمایا : تو میری رحمت ہے جسے میں چاہوں گا تجھے عطا فرماؤں گا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4850) کھلی کامیابی اور حقیقی مراد کو حاصل کر لینا یہی ہے اور جو لوگ ایمان سے رک گئے بلکہ کفر کیا ان سے قیامت کے دن بطور ڈانٹ ڈپٹ کے کہا جائے گا کہ کیا اللہ تعالیٰ کی آیتیں تمہارے سامنے نہیں پڑھی جاتی تھیں ؟ ، یعنی یقیناً پڑھی جاتی تھیں اور تمہیں سنائی جاتی تھیں پھر بھی تم نے غرور و نخوت میں آ کر ان کی اتباع نہ کی ۔ بلکہ ان سے منہ پھیرے رہے ، اپنے دلوں میں اللہ تعالیٰ کے فرمان کی تکذیب لیے ہوئے تم نے ظاہراً اپنے افعال میں بھی اس کی نافرمانی کی ، گناہوں پر گناہ دلیری سے کرتے چلے گئے ، [ جب کہا جاتا] اور قیامت ضرور قائم ہو گی اس کے آنے میں کوئی شک نہیں ، تو تم پلٹ کر جواب دے دیا کرتے تھے کہ ہم نہیں جانتے قیامت کسے کہتے ہیں ؟ ہمیں اگرچہ کچھ یوں ہی سا وہم ہوتا ہے لیکن ہرگز یقین نہیں کہ قیامت ضرور ہی آئے گی ۔ الجاثية
31 الجاثية
32 الجاثية
33 1 اب ان کی بداعمالیوں کی سزا ان کے سامنے آ گئی ، اپنی آنکھوں اپنے کرتوت کا بدلہ دیکھ چکے اور جس عذاب و سزا کا انکار کرتے تھے ، جسے مذاق میں اڑاتے تھے ، جس کا ہونا ناممکن سمجھ رہے تھے ، ان عذابوں نے انہیں چاروں طرف سے گھیر لیا اور انہیں ہر قسم کی بھلائی سے مایوس کرنے کے لیے کہہ دیا گیا کہ ہم تمہارے ساتھ وہی معاملہ کریں گے جیسے کوئی کسی کو بھول جاتا ہے یعنی جہنم میں جھونک کر پھر تمہیں کبھی اچھائی سے یاد بھی نہ کریں گے ۔ یہ بدلہ ہے اس کا کہ تم اس دن کی ملاقات کو بھلائے ہوئے تھے ، اس کے لیے تم نے کوئی عمل نہ کیا ، کیونکہ تم اس کے آنے کی صداقت کے قائل ہی نہ تھے ۔ اب تمہارا ٹھکانہ جہنم ہے اور کوئی نہیں جو تمہاری کسی قسم کی مدد کر سکے ۔ صحیح حدیث شریف میں ہے کہ { اللہ تعالیٰ اپنے بعض بندوں سے قیامت کے دن فرمائے گا ’ کیا میں نے تجھے بال بچے نہیں دئیے تھے ؟ ، کیا میں نے تجھ پر دنیا میں انعام و اکرام نازل نہیں فرمائے تھے ؟ ، کیا میں نے تیرے لیے اونٹوں اور گھوڑوں کو مطیع اور فرمانبردار نہیں کیا تھا ؟ اور تجھے چھوڑ دیا تھا کہ سرور و خوشی کے ساتھ اپنے مکانات اور حویلیوں میں آزادی کی زندگی بسر کرے ؟‘ یہ جواب دے گا کہ میرے پروردگار یہ سب سچ ہے ، بے شک تیرے یہ تمام احسانات مجھ پر تھے ، پس اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’ آج میں تجھے اس طرح بھلا دوں گا جس طرح تو مجھے بھول گیا تھا ‘ } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2968) پھر فرماتا ہے کہ یہ سزائیں تمہیں اس لئے دی گئی ہیں کہ تم نے اللہ تعالیٰ کی آیتوں کا خوب مذاق اڑایا تھا اور دنیا کی زندگی نے تمہیں دھوکے میں ڈال رکھا تھا ، تم اسی پر مطمئن تھے اور اس قدر تم نے بے فکری برتی کہ آخر آج نقصان اور خسارے میں پڑ گئے ۔ اب تم دوزخ سے نکالے نہ جاؤ گے اور نہ تم سے ہماری خفگی کے دور کرنے کی کوئی وجہ طلب کی جائے گی ، یعنی اس عذاب سے تمہارا چھٹکارا بھی محال اور اب میری رضا مندی کا تمہیں حاصل ہونا بھی ناممکن ۔ جیسے کہ مومن بغیر عذاب و حساب کے جنت میں جائیں گے ۔ ایسے ہی تم بے حساب عذاب کئے جاؤ گے اور تمہاری توبہ بےسود رہے گی ۔ اپنے اس فیصلے کو جو مومنوں اور کافروں میں ہو گیا بیان فرما کر اب ارشاد فرماتا ہے کہ تمام حمد زمین و آسمان اور ہر چیز کے مالک اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے ۔ جو کل جہان کا پالنہار ہے ، اسی کو کبریائی یعنی سلطنت اور بڑائی آسمانوں اور زمینوں میں ہے ، وہ بڑی عظمت اور بزرگی والا ہے ، ہر چیز اس کے سامنے پست ہے ہر ایک اس کا محتاج ہے ۔ صحیح مسلم کی حدیث قدسی میں ہے { اللہ تعالیٰ جل و علا فرماتا ہے ، عظمت میرا تہبند ہے اور کبریائی میری چادر ہے ، جو شخص ان میں سے کسی کو بھی مجھ سے لینا چاہے گا میں اسے جہنم رسید کر دوں گا } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2620) یعنی بڑائی اور تکبر کرنے والا دوزخی ہے ۔ وہ «عزیز» ہے یعنی غالب ہے جو کبھی کسی سے مغلوب نہیں ہونے کا ، کوئی نہیں جو اس پر روک ٹوک کر سکے ، اس کے سامنے پڑ سکے ، وہ «حکیم» ہے ، اس کا کوئی قول کوئی فعل اس کی شریعت کا کوئی مسئلہ اس کی لکھی ہوئی تقدیر کا کوئی حرف حکمت سے خالی نہیں نہ اس کے سوا کوئی مسجود ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کے لطف و رحم سے سورۃ الجاثیہ کی تفسیر ختم ہوئی اور اسی کے ساتھ پچیسویں پارے کی تفسیر ختم ہوئی ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» الجاثية
34 الجاثية
35 الجاثية
36 الجاثية
37 الجاثية
0 الأحقاف
1 1 اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ اس قرآن کریم کو اس نے اپنے بندے اور اپنے سچے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا ہے اور بیان فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسی بڑی عزت والا ہے جو کبھی کم نہ ہو گی ۔ اور ایسی زبردست حکمت والا ہے جس کا کوئی قول ، کوئی فعل حکمت سے خالی نہیں ۔ پھر ارشاد فرماتا ہے کہ آسمان و زمین وغیرہ تمام چیزیں اس نے عبث اور باطل پیدا نہیں کیں بلکہ سراسر حق کے ساتھ اور بہترین تدبیر کے ساتھ بنائی ہیں اور ان سب کے لیے وقت مقرر ہے جو نہ گھٹے ، نہ بڑھے ۔ اس رسول سے ، اس کتاب سے اور اللہ کے ڈراوے کی اور نشانیوں سے جو بدباطن لوگ بےپرواہی اور لا ابالی کرتے ہیں انہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ انہوں نے کس قدر خود اپنا ہی نقصان کیا ۔ پھر فرماتا ہے ذرا ان مشرکین سے پوچھو تو کہ اللہ کے سوا جن کے نام تم پوجتے ہو جنہیں تم پکارتے ہو اور جن کی عبادت کرتے ہو ذرا مجھے بھی تو ان کی طاقت قدرت دکھاؤ بتاؤ تو زمین کے کس ٹکڑے کو خود انہوں نے بنایا ہے ؟ یا ثابت تو کرو کہ آسمانوں میں ان کی شرکت کتنی ہے اور کہاں ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ آسمان ہوں یا زمینیں ہوں یا اور چیزیں ہوں ان سب کا پیدا کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ بجز اس کے کسی کو ایک ذرے کا بھی اختیار نہیں ، تمام ملک کا مالک وہی ہے ، وہ ہر چیز پر کامل تصرف اور قبضہ رکھنے والا ہے ، تم اس کے سوا دوسروں کی عبادت کیوں کرتے ہو ؟ کیوں اس کے سوا دوسروں کو اپنی مصیبتوں میں پکارتے ہو ؟ تمہیں یہ تعلیم کس نے دی ؟ کس نے یہ شرک تمہیں سکھایا ؟ دراصل کسی بھلے اور سمجھدار شخص کی یہ تعلیم نہیں ہو سکتی ۔ نہ اللہ نے یہ تعلیم دی ہے اگر تم اللہ کے سوا اوروں کی پوجا پر کوئی آسمانی دلیل رکھتے ہو ، تو اچھا اس کتاب کو تو جانے دو اور کوئی آسمانی صحیفہ ہی پیش کر دو ۔ اچھا نہ سہی اپنے مسلک پر کوئی دلیل علم ہی قائم کرو لیکن یہ تو جب ہو سکتا ہے کہ تمہارا یہ فعل صحیح بھی ہو ، اس باطل فعل پر نہ تو تم کوئی نقلی دلیل پیش کر سکتے ہو نہ عقلی ایک قرأت میں «او اثرۃ من علم» یعنی کوئی صحیح علم کی نقل اگلوں سے ہی پیش کرو ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ کسی کو پیش کرو جو علم کی نقل کرے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:273/11) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اس امر کی کوئی بھی دلیل لے آؤ ۔ مسند احمد میں ہے اس سے مراد علمی تحریر ہے (مسند احمد:262/1:صحیح) راوی کہتے ہیں میرا تو خیال ہے یہ حدیث مرفوع ہے ۔ ابوبکر بن عیاش رحمہ اللہ فرماتے ہیں مراد بقیہ علم ہے ۔ حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کسی مخفی دلیل کو ہی پیش کر دو ان اور بزرگوں سے یہ بھی منقول ہے کہ مراد اس سے اگلی تحریریں ہیں ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کوئی خاص علم ، اور یہ سب اقوال قریب قریب ہم معنی ہیں ۔ مراد وہی ہے جو ہم نے شروع میں بیان کر دی امام ابن جریر رحمہ اللہ نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے ۔ الأحقاف
2 الأحقاف
3 الأحقاف
4 1 پھر فرماتا ہے اس سے بڑھ کر کوئی گمراہ کردہ نہیں جو اللہ کو چھوڑ کر بتوں کو پکارے اور اس سے حاجتیں طلب کرے جن حاجتوں کو پورا کرنے کی ان میں طاقت ہی نہیں بلکہ وہ تو اس سے بھی بے خبر ہیں نہ کسی چیز کو لے دے سکتے ہیں اس لیے کہ وہ تو پتھر ہیں ، جمادات میں سے ہیں ۔ قیامت کے دن جب سب لوگ اکھٹے کئے جائیں گے تو یہ معبودان باطل اپنے عابدوں کے دشمن بن جائیں گے اور اس بات سے کہ یہ لوگ ان کی پوجا کرتے تھے صاف انکار کر جائیں گے ۔ جیسے اللہ عزوجل کا اور جگہ ارشاد ہے «وَاتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اٰلِہَۃً لِّیَکُوْنُوْا لَہُمْ عِزًّا کَلَّا سَیَکْفُرُونَ بِعِبَادَتِہِمْ وَیَکُونُونَ عَلَیْہِمْ ضِدًّا» (19-مریم:82،81)، یعنی ان لوگوں نے اللہ کے سوا اور معبود بنا رکھے ہیں تاکہ وہ ان کی عزت کا باعث بنیں ۔ واقعہ ایسا نہیں بلکہ وہ تو ان کی عبادت کا انکار کر جائیں گے اور ان کے پورے مخالف ہو جائیں گے یعنی جب کہ یہ ان کے پورے محتاج ہوں گے اس وقت وہ ان سے منہ پھیر لیں گے ۔ خلیل اللہ علیہ السلام نے اپنی امت سے فرمایا تھا «اِنَّمَا اتَّخَذْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَوْثَانًا مَّوَدَّۃَ بَیْنِکُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدٰنْیَا ثُمَّ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یَکْفُرُ بَعْضُکُمْ بِبَعْضٍ وَّیَلْعَنُ بَعْضُکُمْ بَعْضًا ۡ وَّمَاْوٰیکُمُ النَّارُ وَمَا لَکُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَ» (29-العنکبوت:25) ، یعنی تم نے اللہ کے سوا بتوں سے جو تعلقات قائم کر لیے ہیں اس کا نتیجہ قیامت کے دن دیکھ لو گے جب کہ تم ایک دوسرے سے انکار کر جاؤ گے اور ایک دوسرے پر لعنت کرنے لگو گے اور تمہاری جگہ جہنم مقرر اور متعین ہو جائے گی اور تم اپنا مددگار کسی کو نہ پاؤ گے ۔ الأحقاف
5 الأحقاف
6 الأحقاف
7 نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اظہار بےبسی مشرکوں کی سرکشی اور ان کا کفر بیان ہو رہا ہے کہ جب انہیں اللہ کی ظاہر و باطن واضح اور صاف آیتیں سنائی جاتی ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو صریح جادو ہے ، تکذیب و افترا ، ضلالت و کفر گویا ان کا شیوہ ہو گیا ہے ۔ جادو کہہ کر ہی بس نہیں کرتے بلکہ یوں بھی کہتے ہیں کہ اسے تو محمد نے گھڑ لیا ہے ۔ پس نبی کی زبانی اللہ جواب دلواتا ہے کہ اگر میں نے ہی اس قرآن کو بنایا ہے اور میں اس کا سچا نبی نہیں تو یقینًا وہ مجھے میرے اس جھوٹ اور بہتان پر سخت تر عذاب کرے گا اور پھر تم کیا سارے جہان میں کوئی ایسا نہیں جو مجھے اس کے عذابوں سے چھڑا سکے ۔ جیسے اور جگہ ہے «قُلْ اِنِّیْ لَنْ یٰجِیْرَنِیْ مِنَ اللّٰہِ اَحَدٌ ڏ وَّلَنْ اَجِدَ مِنْ دُوْنِہٖ مُلْتَحَدًا إِلَّا بَلَاغًا مِّنَ اللہِ وَرِسَالَاتِہِ» (72-الجن:23،22) ، یعنی تو کہہ دے کہ مجھے اللہ کے ہاتھ سے کوئی نہیں بچا سکتا اور نہ اس کے سوا کہیں اور مجھے پناہ کی جگہ مل سکے گی لیکن میں اللہ کی تبلیغ اور اس کی رسالت کو بجا لاتا ہوں ۔ اور جگہ ہے «وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِیْلِ لَأَخَذْنَا مِنْہُ بِالْیَمِینِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِینَ فَمَا مِنکُم مِّنْ أَحَدٍ عَنْہُ حَاجِزِینَ» (69-الحاقۃ:47-44) ، یعنی اگر یہ ہم پر کوئی بات بنا لیتا ، تو ہم اس کا داہنا ہاتھ پکڑ کر اس کی رگ گردن کاٹ ڈالتے اور تم میں سے کوئی بھی اسے نہ بچا سکتا ۔ پھر کفار کو دھمکایا جا رہا ہے کہ تمہاری گفتگو کا پورا علم اس علیم اللہ کو ہے ، وہی میرے اور تمہارے درمیان فیصلہ کرے گا ۔ اس کی دھمکی کے بعد انہیں توبہ اور انابت کی رغبت دلائی جا رہی ہے اور فرماتا ہے ، وہ غفور و رحیم ہے ، اگر تم اس کی طرف رجوع کرو اپنے کرتوت سے باز آؤ تو وہ بھی تمہیں بخش دے گا اور تم پر رحم کرے گا ۔ سورۃ الفرقان میں بھی اسی مضمون کی آیت ہے ۔ فرمان ہے «وَقَالُوْٓا اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ اکْتَتَبَہَا فَہِیَ تُمْلٰی عَلَیْہِ بُکْرَۃً وَّاَصِیْلًا قُلْ أَنزَلَہُ الَّذِی یَعْلَمُ السِّرَّ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِنَّہُ کَانَ غَفُورًا رَّحِیمًا» (25-الفرقان:6،5) ، یعنی یہ کہتے ہیں کہ یہ اگلوں کی کہانیاں ہیں جو اس نے لکھ لی ہیں اور صبح شام لکھائی جا رہی ہیں تو کہہ دے کہ اسے اس اللہ نے اتارا ہے جو ہر پوشیدہ کو جانتا ہے خواہ آسمانوں میں ہو ، خواہ زمین میں ہو وہ غفور و رحیم ہے ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ میں دنیا میں کوئی پہلا نبی تو نہیں ، مجھ سے پہلے بھی تو دنیا میں لوگوں کی طرف رسول آتے رہے پھر میرے آنے سے تمہیں اس قدر اچنبھا کیوں ہوا ؟ مجھے تو یہ بھی نہیں معلوم کہ میرے ساتھ کیا کیا جائے گا ؟ بقول سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت کے بعد آیت «لِّیَغْفِرَ لَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ وَیُتِمَّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکَ وَیَہْدِیَکَ صِرَاطًا مٰسْتَـقِیْمًا» (48-الفتح:2) ، اتری ہے ۔ اسی طرح عکرمہ ، حسن ، قتادہ رحمہم اللہ علیہم بھی اسے منسوخ بتاتے ہیں ۔ یہ بھی مروی ہے کہ جب آیت بخشش اتری جس میں فرمایا گیا تاکہ اللہ تیرے اگلے پچھلے گناہ بخشے تو ایک صحابی نے کہا : اے اللہ کے رسول ! یہ تو اللہ نے بیان فرما دیا کہ وہ آپ کے ساتھ کیا کرنے والا ہے پس وہ ہمارے ساتھ کیا کرنے والا ہے ؟ اس پر آیت «لِّیُدْخِلَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا وَیُکَفِّرَ عَنْہُمْ سَیِّاٰتِہِمْ وَکَانَ ذٰلِکَ عِنْدَ اللّٰہِ فَوْزًا عَظِیْمًا» (48-الفتح:5) اتری یعنی تاکہ اللہ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ایسی جنتوں میں داخل کرے جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ، صحیح حدیث سے بھی یہ تو ثابت ہے کہ مومنوں نے کہا یا رسول اللہ ! آپ کو مبارک ہو ، فرمائیے ! ہمارے لیے کیا حکم ہے ؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری (صحیح مسلم:1786) ضحاک رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ مطلب یہ ہے کہ مجھے نہیں معلوم کہ میں کیا حکم دیا جاؤں اور کس چیز سے روک دیا جاؤں ؟ امام حسن بصری رحمہ اللہ کا قول ہے کہ اس آیت سے مراد یہ ہے کہ آخرت کا انجام تو مجھے قطعًا معلوم ہے کہ میں جنت میں جاؤں گا ، ہاں دنیوی حال معلوم نہیں کہ اگلے بعض انبیاء کی طرح قتل کیا جاؤں یا اپنی زندگی کے دن پورے کر کے اللہ کے ہاں جاؤں ؟ اور اسی طرح میں نہیں کہہ سکتا کہ تمہیں دھنسایا جائے یا تم پر پتھر برسائے جائیں ۔(تفسیر ابن جریر الطبری:277/11) امام ابن جریر رحمہ اللہ اسی کو معتبر کہتے ہیں اور فی الواقع ہے بھی یہ ٹھیک ۔ آپ بالیقین جانتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیرو جنت میں ہی جائیں گے اور دنیا کی حالت کے انجام سے آپ بےخبر تھے کہ انجام کار آپ کا اور آپ کے مخالفین قریش کا کیا حال ہو گا ؟ آیا وہ ایمان لائیں گے یا کفر پر ہی رہیں گے اور عذاب کئے جائیں گے یا بالکل ہی ہلاک کر دئیے جائیں گے ۔ لیکن جو حدیث مسند احمد میں ہے (مسند احمد:436/6:صحیح) { سیدہ ام العلاء رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تھی کہ جس وقت مہاجرین بذریعہ قرعہ اندازی انصاریوں میں تقسیم ہو رہے تھے اس وقت ہمارے حصہ میں سیدنا عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ آئے ، آپ ہمارے ہاں بیمار ہوئے اور فوت بھی ہو گئے جب ہم آپ کو کفن پہنا چکے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لا چکے ، تو میرے منہ سے نکل گیا ، اے ابوالسائب ! اللہ تجھ پر رحم کرے میری تو تجھ پر گواہی ہے کہ اللہ تعالیٰ یقیناً تیرا اکرام ہی کرے گا ۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تمہیں کیسے معلوم ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ یقیناً اس کا اکرام ہی کرے گا “ ۔ میں نے کہا اے اللہ کے رسول ! پر میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں مجھے کچھ نہیں معلوم پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” سنو ! ان کے پاس تو ان کے رب کی طرف کا یقین آ پہنچا اور مجھے ان کیلئے بھلائی اور خیر کی امید ہے ، قسم ہے اللہ کے باوجود رسول ہونے کے میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا ؟ “ اس پر میں نے کہا : اللہ کی قسم اب اس کے بعد میں کسی کی برات نہیں کروں گی اور مجھے اس کا بڑا صدمہ ہوا ، لیکن میں نے خواب میں دیکھا کہ سیدنا عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی ایک نہر بہہ رہی ہے ، میں نے آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” یہ ان کے اعمال ہیں “ } ، یہ حدیث بخاری میں ہے (صحیح بخاری:1243) مسلم میں نہیں اور اس کی ایک سند میں ہے ” میں نہیں جانتا باوجود یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں کہ اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا ؟ “ دل کو تو کچھ ایسا لگتا ہے کہ یہی الفاظ موقعہ کے لحاظ سے ٹھیک ہیں کیونکہ اس کے بعد ہی یہ جملہ ہے کہ مجھے اس بات سے بڑا صدمہ ہوا ۔ الغرض یہ حدیث اور اسی کی ہم معنی اور حدیثیں دلالت ہیں اس امر پر کہ کسی معین شخص کے جنتی ہونے کا قطعی علم کسی کو نہیں ، نہ کسی کو ایسی بات زبان سے کہنی چاہیئے ۔ بجز ان بزرگوں کے جن کے نام لے کر شارع علیہ السلام نے انہیں جنتی کہا ہے ، جیسے عشرہ مبشرہ اور ابن سلام اور عمیصا اور بلال اور سراقہ اور عبداللہ بن عمرو بن حرام جو جابر کے والد ہیں اور وہ ستر قاری جو بیرمعونہ کی جنگ میں شہید کئے گئے اور زید بن حارثہ اور جعفر اور ابن رواحہ اور ان جیسے اور بزرگ رضی اللہ عنہم اجمعین ۔ پھر فرماتا ہے اے نبی ! تم کہہ دو کہ میں تو صرف اس وحی کا مطیع ہوں جو اللہ کی جناب سے میری جانب آئے اور میں تو صرف ڈرانے والا ہوں کہ کھول کھول کر ہر شخص کو آگاہ کر رہا ہوں ہر عقلمند میرے منصب سے باخبر ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» الأحقاف
8 الأحقاف
9 الأحقاف
10 تابع قرآن اور جنتیوں کے حالات اللہ تعالیٰ اپنے نبی سے فرماتا ہے کہ ان مشرکین کافرین سے کہو کہ اگر یہ قرآن سچ مچ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور پھر بھی تم اس کا انکار کر رہے ہو ، تو بتلاؤ تو تمہارا کیا حال ہو گا ؟ وہ اللہ جس نے مجھے حق کے ساتھ تمہاری طرف یہ پاک کتاب دے کر بھیجا ہے ، وہ تمہیں کیسی کچھ سزائیں کرے گا ؟ ، تم اس کا انکار کرتے ہو ، اسے جھوٹا بتلاتے ہو حالانکہ اس کی سچائی اور صحت کی شہادت وہ کتابیں بھی دے رہی ہیں جو اس سے پہلے وقتاً فوقتاً اگلے انبیأء علیہ السلام پر نازل ہوتی رہیں اور بنی اسرائیل کے جس شخص نے اس کی سچائی کی گواہی دی ، اس نے حقیقت کو پہچان کر اسے مانا اور اس پر ایمان لایا ۔ لیکن تم نے اس کی اتباع سے جی چرایا اور تکبر کیا ۔ یہ بھی مطلب بیان ہو گیا ہے کہ اس شاہد نے اپنے نبی پر اور اس کی کتاب پر یقین کر لیا لیکن تم نے اپنے نبی اور اپنی کتاب کے ساتھ کفر کیا ۔ اللہ تعالیٰ ظالم گروہ کو ہدایت نہیں کرتا ۔ «شَاھِدٌ» کا لفظ ہم جنس ہے اور یہ اپنے معانی کے لحاظ سے سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ وغیرہ سب کو شامل ہے ۔ یہ یاد رہے کہ یہ آیت مکی ہے ۔ سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کے اسلام سے پہلے کی ہے ۔ اسی جیسی آیت یہ بھی ہے «وَإِذَا یُتْلَیٰ عَلَیْہِمْ قَالُوا آمَنَّا بِہِ إِنَّہُ الْحَقٰ مِن رَّبِّنَا إِنَّا کُنَّا مِن قَبْلِہِ مُسْلِمِینَ» (28-القصص:53) یعنی ’ جب ان پر تلاوت کی جاتی ہے تو اقرار کرتے ہیں کہ یہ ہمارے رب کی جانب سے سراسر برحق ہے ہم تو اس سے پہلے ہی مسلمان ہیں ‘ ۔ اور فرمان ہے «قُلْ آمِنُوا بِہِ أَوْ لَا تُؤْمِنُوا إِنَّ الَّذِینَ أُوتُوا الْعِلْمَ مِن قَبْلِہِ إِذَا یُتْلَیٰ عَلَیْہِمْ یَخِرٰونَ لِلْأَذْقَانِ سُجَّدًا وَیَقُولُونَ سُبْحَانَ رَبِّنَا إِن کَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُولًا» (17-الإسراء:108،107) یعنی ’ جن لوگوں کو اس سے پہلے علم عطا فرمایا گیا ہے ان پر جب تلاوت کی جاتی ہے تو وہ بلا پس و پیش سجدے میں گر پڑتے ہیں اور زبان سے کہتے ہیں کہ ہمارا رب پاک ہے ، اس کے وعدے یقناً سچے اور ہو کر رہنے والے ہیں ‘ ۔ مسروق اور شعبی رحمہا اللہ فرماتے ہیں یہاں اس آیت سے مراد سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نہیں ، اس لئے کہ آیت مکہ میں اترتی ہے اور آپ مدینے کی ہجرت کے بعد اسلام قبول کرتے ہیں ۔ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کسی شخص کے بارے میں جو زندہ ہو اور زمین پر چل پھر رہا ہو ، میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی اس کا جنتی ہونا نہیں سنا ، بجز سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کے ، انہی کے بارے میں «قُلْ أَرَأَیْتُمْ إِن کَانَ مِنْ عِندِ اللہِ وَکَفَرْتُم بِہِ وَشَہِدَ شَاہِدٌ مِّن بَنِی إِسْرَائِیلَ عَلَیٰ مِثْلِہِ فَآمَنَ وَاسْتَکْبَرْتُمْ إِنَّ اللہَ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ» (سورۃالأحقاف46:10) نازل ہوئی ہے ( صحیحین وغیرہ ) سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور مجاہد ، ضحاک ، قتادہ ، عکرمہ ، یوسف بن عبداللہ بن سلام ، ہلال بن بشار ، سدی ، ثوری ، مالک بن انس بن زبیر رحمہم اللہ علیہم کا قول ہے کہ اس سے مراد سیدنا ابن سلام رضی اللہ عنہ ہیں ۔ یہ کفار کہا کرتے ہیں کہ اگر قرآن بہتری کی چیز ہوتی ، تو ہم جیسے شریف انسان جو اللہ کے مقبول بندے ہیں ، ان پر بھلا یہ نیچے کے درجے کے لوگ جیسے بلال ، عمار ، صہیب ، خباب رضی اللہ عنہم اور انہی جیسے اور گرے پڑے لونڈی غلام کیسے سبقت کر جاتے ۔ پھر تو اللہ سب سے پہلے ہمیں ہی نوازتا ۔ حالانکہ یہ قول بالبداہت باطل ہے ۔ اللہ تبارک تعالیٰ فرماتا ہے «وَکَذٰلِکَ فَتَنَّا بَعْضَہُم بِبَعْضٍ لِّیَقُولُوا أَہٰؤُلَاءِ مَنَّ اللہُ عَلَیْہِم مِّن بَیْنِنَا أَلَیْسَ اللہُ بِأَعْلَمَ بِالشَّاکِرِینَ» (سورۃالأنعام6:53) یعنی انہیں تعجب معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ کیسے ہدایت پا گئے ؟ اگر یہ چیز بھلی ہوتی تو ہم اس کی طرف لپک کر جاتے ۔ پس یہ خیال ان کا خام تھا لیکن اتنی بات یقینی ہے کہ نیک سمجھ والے ، سلامت روی والے ، ہمیشہ بھلائی کی طرف سبقت کرتے ہیں ۔ اسی لیے اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ جو قول و فعل صحابہ رضی اللہ عنہم سے ثابت نہ ہو وہ بدعت ہے ، اس لیے کہ اگر اس میں بہتری ہوتی تو وہ پاک جماعت جو کسی چیز میں پیچھے رہنے والی نہ تھی وہ اسے ترک نہ کرتی ۔ چونکہ اپنی بدنصیبی کے باعث یہ گروہ قرآن پر ایمان نہیں لایا اس لیے یہ اپنی خجالت دفع کرنے کو قرآن کی اہانت کرتا ہے اور کہتا ہے کہ تو پرانے لوگوں کی پرانی غلط باتیں ہیں ، یہ کہہ کر وہ قرآن اور قرآن والوں کو طعنہ دیتے ہیں ۔ یعنی وہ تکبر ہے جس کی بابت حدیث میں ہے کہ { تکبر نام ہے حق کو ہٹا دینے اور لوگوں کو حقیر سمجھنے کا } ۔ (صحیح مسلم:91) الأحقاف
11 الأحقاف
12 1 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے اس سے پہلے موسیٰ علیہ السلام پر نازل شدہ کتاب تورات امام و رحمت تھی اور یہ کتاب یعنی قرآن مجید اپنے سے پہلے کی تمام کتابوں کو منزل من اللہ اور سچی کتابیں مانتا ہے ۔ یہ عربی فصیح اور بلیغ زبان میں نہایت واضح کتاب ہے ۔ اس میں کفار کے لیے ڈراوا ہے اور ایمانداروں کے لیے بشارت ہے ۔ اس کے بعد کی آیت کی پوری تفسیر سورۂ حم السجدہ میں گزر چکی ہے ۔ ان پر خوف نہ ہو گا ۔ یعنی آئندہ اور یہ غم نہ کھائیں گے یعنی چھوڑی ہوئی چیزوں کا ۔ یہ ہمیشہ جنت میں رہنے والے جنتی ہیں ، ان کے پاکیزہ اعمال تھے ہی ایسے کہ رحمت رحیم ، کرم کریم کی بدلیاں ان پر جھوم جھوم کر موسلا دھار بارش برسائیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» الأحقاف
13 الأحقاف
14 الأحقاف
15 والدین سے بہترین سلوک کرو اس سے پہلے چونکہ اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی عبادت کے اخلاص کا اور اس پر استقامت کرنے کا حکم ہوا تھا اس لیے یہاں ماں باپ کے حقوق کی بجا آوری کا حکم ہو رہا ہے ۔ اسی مضمون کی اور بہت سی آیتیں قرآن پاک میں موجود ہیں ۔ جیسے فرمایا «وَقَضٰی رَبٰکَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ اَحَدُہُمَآ اَوْ کِلٰـہُمَا فَلَا تَـقُلْ لَّہُمَآ اُفٍّ وَّلَا تَنْہَرْہُمَا وَقُلْ لَّہُمَا قَوْلًا کَرِیْمًا» (17-الإسراء:23) یعنی ’ تیرا رب یہ فیصلہ کر چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرو ‘ ۔ اور آیت میں ہے «أَنِ اشْکُرْ لِی وَلِوَالِدَیْکَ إِلَیَّ الْمَصِیرُ» (31-لقمان:14) یعنی ’ میرا شکر کر اور اپنے والدین کا لوٹنا تو میری ہی طرف ہے ‘ اور بھی اس مضمون کی بہت سی آیتیں ہیں ۔ پس یہاں ارشاد ہوتا ہے کہ «وَوَصَّیْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَیْہِ حُسْنًا» (29-العنکبوت:8) ’ ہم نے انسان کو حکم کیا ہے کہ ماں باپ کے ساتھ احسان کرو ان سے تواضع سے پیش آؤ ‘ ۔ ابوداؤد طیالسی میں حدیث ہے کہ { سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کی والدہ نے آپ سے کہا کہ کیا ماں باپ کی اطاعت کا حکم اللہ نے نہیں دیا ؟ سن میں نہ کھانا کھاؤں گی ، نہ پانی پیوں گی ، جب تک تو اللہ عزوجل کے ساتھ کفر نہ کرے ، سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے انکار پر اس نے یہی کیا کہ کھانا پینا چھوڑ دیا یہاں تک کہ لکڑی سے اس کا منہ کھول کر جبراً پانی وغیرہ چھوا دیتے ، اس پر یہ آیت اتری یہ حدیث مسلم شریف وغیرہ میں بھی ہے } ۔ (صحیح مسلم:1748) ماں نے حالت حمل میں کیسی کچھ تکلیفیں برداشت کی ہیں ؟ اسی طرح بچہ ہونے کے وقت کیسی کیسی مصیبتوں کا وہ شکار بنی ہے ؟ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اس آیت سے اور اس کے ساتھ سورۃ لقمان کی آیت «وَّفِصٰلُہٗ فِیْ عَامَیْنِ اَنِ اشْکُرْ لِیْ وَلِوَالِدَیْکَ اِلَیَّ الْمَصِیْرُ» ۔ (31-لقمان:14) اور اللہ عزوجل کا فرمان «وَالْوَالِدٰتُ یُرْضِعْنَ اَوْلَادَھُنَّ حَوْلَیْنِ کَامِلَیْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یٰتِمَّ الرَّضَاعَۃَ» (2-البقرۃ:233) یعنی مائیں اپنے بچوں کو دو سال کامل دودھ پلائیں ان کے لیے جو دودھ پلانے کی مدت پوری کرنا چاہیں ملا کر استدلال کیا ہے کہ حمل کی کم سے کم مدت چھ ماہ ہے ۔ یہ استدلال بہت قوی اور بالکل صحیح ہے ۔ سیدنا عثمان اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت نے بھی اس کی تائید کی ہے { معمر بن عبداللہ جہنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہمارے قبیلے کے ایک شخص نے جہنیہ کی ایک عورت سے نکاح کیا چھ مہینے پورے ہوتے ہی اسے بچہ تولد ہوا اس کے خاوند نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے ذکر کیا آپ نے اس عورت کے پاس آدمی بھیجا وہ تیار ہو کر آنے لگی تو ان کی بہن نے گریہ و زاری شروع کر دی اس بیوی صاحبہ نے اپنی بہن کو تسکین دی اور فرمایا : کیوں روتی ہو ، اللہ کی قسم ! اس کی مخلوق میں سے کسی سے میں نہیں ملی میں نے کبھی کوئی برا فعل نہیں کیا ، تو دیکھو کہ اللہ کا فیصلہ میرے بارے میں کیا ہوتا ہے ، جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس یہ آئیں تو آپ نے انہیں رجم کرنے کا حکم دیا ۔ جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو یہ بات معلوم ہوئی تو آپ نے خلیفۃ المسلمین سے دریافت کیا کہ یہ آپ کیا کر رہے ہیں ؟ آپ نے جواب دیا کہ اس عورت کو نکاح کے چھ مہینے کے بعد بچہ ہوا ہے جو ناممکن ہے ۔ یہ سن کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : کیا آپ نے قرآن نہیں پڑھا ؟ فرمایا : ہاں پڑھا ہے فرمایا : کیا یہ آیت نہیں پڑھی «وَحَمْلُہٗ وَفِصٰلُہٗ ثَلٰثُوْنَ شَہْرًا» (46-الأحقاف:15) اور ساتھ ہی یہ آیت بھی «حَوْلَیْنِ کَامِلَیْنِ» (2-البقرۃ:233) پس مدت حمل اور مدت دودھ پلائی دونوں کے مل کر تیس مہینے اور اس میں سے جب دودھ پلائی کی کل مدت دو سال کے چوبیس وضع کر دئیے جائیں تو باقی چھ مہینے رہ جاتے ہیں ، تو قرآن کریم سے معلوم ہوا کہ حمل کی کم از کم مدت چھ ماہ ہے اور اس بیوی صاحبہ کو بھی اتنی ہی مدت میں بچہ ہوا ، پھر اس پر زنا کا الزام کیسے قائم کر رہے ہیں ؟ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا : واللہ ! یہ بات بہت ٹھیک ہے ، افسوس میرا خیال ہے میں اس طرف نہیں گیا ، جاؤ اس عورت کو لے آؤ پس لوگوں نے اس عورت کو اس حال پر پایا کہ اسے فراغت ہو چکی تھی ۔ معمر رحمہ اللہ فرماتے ہیں ، واللہ ! ایک کوا دوسرے کوے سے اور ایک انڈا دوسرے انڈے سے بھی اتنا مشابہ نہیں ہوتا جتنا اس عورت کا یہ بچہ اپنے باپ سے مشابہ تھا ، خود اس کے والد نے بھی اسے دیکھ کر کہا : اللہ کی قسم ! اس بچے کے بارے میں مجھے اب کوئی شک نہیں رہا اور اسے اللہ تعالیٰ نے ایک ناسور کے ساتھ مبتلا کیا جو اس کے چہرے پر تھا وہ ہی اسے گھلاتا رہا یہاں تک کہ وہ مر گیا } ۔ ابن ابی حاتم (الدالمنثورللسیوطی9/6) یہ روایت دوسری سند سے «فَاَنَا اَوَّلُ الْعٰبِدِیْنَ» (43-الزخرف:81) کی تفسیر میں ہم نے وارد کی ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں جب کسی عورت کو نو مہینے میں بچہ ہو تو اس کی دودھ پلائی کی مدت اکیس ماہ کافی ہیں اور جب سات مہینے میں ہو تو مدت رضاعت تئیس ماہ اور جب چھ ماہ میں بچہ ہو جائے تو مدت رضاعت دو سال کامل اس لیے کہ اللہ عزوجل کا فرمان ہے کہ حمل اور دودھ چھڑانے کی مدت تیس مہینے ہے ۔ جب وہ اپنی پوری قوت کے زمانے کو پہنچا یعنی قوی ہو گیا ، جوانی کی عمر میں پہنچ گیا ، مردوں کی گنتی میں آیا اور چالیس سال کا ہوا ، عقل پوری آئی ، فہم و کمال کو پہنچا ، حلم اور بردباری آ گئی ۔ یہ کہا جاتا ہے کہ چالیس سال کی عمر میں جو حالت اس کی ہوتی ہے عموماً پھر باقی عمر وہی رہتی ہے ۔ مسروق رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ انسان کب اپنے گناہوں پر پکڑا جاتا ہے ؟ تو فرمایا : جب تو چالیس سال کا ہو جائے تو اپنا بچاؤ مہیا کر لے ۔ ابو یعلیٰ موصلی میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” جب مسلمان بندہ چالیس سال کا ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے حساب میں تخفیف کر دیتا ہے اور جب ساٹھ سال کا ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنی طرف جھکنا نصیب فرماتا ہے اور جب ستر سال کی عمر کا ہو جاتا ہے تو آسمان والے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور جب اسی سال کا ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی نیکیاں ثابت رکھتا ہے اور اس کی برائیاں مٹا دیتا ہے اور جب نوے سال کا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے اگلے پچھلے گناہ معاف فرماتا ہے اور اس کے گھرانے کے آدمیوں کے بارے میں اسے شفاعت کرنے والا بناتا ہے اور آسمانوں میں لکھ دیا جاتا ہے کہ یہ اللہ کی زمین میں اس کا قیدی ہے } ۔ (مجمع الزوائد204/10ضعیف) یہ حدیث دوسری سند سے مسند احمد میں بھی ہے ۔ (مسند احمد:217/3:ضعیف) بنو امیہ کے دمشقی گورنر حجاج بن عبداللہ حکمی فرماتے ہیں کہ چالیس سال کی عمر میں تو میں نے نافرمانیوں اور گناہوں کو لوگوں کی شرم و حیاء سے چھوڑا تھا اس کے بعد گناہوں کے چھوڑنے کا باعث خود ذات اللہ سے حیاء تھی ۔ عرب شاعر کہتا ہے بچپنے میں ناسمجھی کی حالت میں تو جو کچھ ہو گیا ہو گیا لیکن جس وقت بڑھاپے نے منہ دکھایا تو سر کی سفیدی نے خود ہی برائیوں سے کہہ دیا کہ اب تم کوچ کر جاؤ ۔ پھر اس کی دعا کا بیان ہو رہا ہے کہ اس نے کہا میرے پرورودگار میرے دل میں ڈال کہ تیری نعمت کا شکر کروں جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر انعام فرمائی اور میں وہ اعمال کروں جن سے تو مستقبل میں خوش ہو جائے اور میری اولاد میں میرے لیے اصلاح کر دے یعنی میری نسل اور میرے پیچھے والوں میں ، میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میرا اقرار ہے کہ میں فرنبرداروں میں ہوں ۔ اس میں ارشاد ہے کہ چالیس سال کی عمر کو پہنچ کر انسان کو پختہ دل سے اللہ کی طرف توبہ کرنی چاہیئے اور نئے سرے سے اللہ کی طرف رجوع و رغبت کر کے اس پر جم جانا چاہیئے ۔ ابوداؤد میں ہے کہ { صحابہ رضی اللہ عنہم کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم التحیات میں پڑھنے کے لیے اس دعا کی تعلیم کیا کرتے تھے « اللہُمَّ أَلِّفْ بَیْنَ قُلُوبِنَا ، وَأَصْلِحْ ذَاتَ بَیْنِنَا ، وَاہْدِنَا سُبُلَ السَّلَامِ ، وَنَجِّنَا مِنَ الظٰلُمَاتِ إِلَی النٰورِ ، وَجَنِّبْنَا الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ ، وَبَارِکْ لَنَا فِی أَسْمَاعِنَا ، وَأَبْصَارِنَا ، وَقُلُوبِنَا ، وَأَزْوَاجِنَا ، وَذُرِّیَّاتِنَا ، وَتُبْ عَلَیْنَا إِنَّکَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ ، وَاجْعَلْنَا شَاکِرِینَ لِنِعْمِکَ مُثْنِینَ بِہَا عَلَیْکَ ، قَابِلِینَ لَہَا ، وَأَتِمِمْہَا عَلَیْنَا» یعنی ، اے اللہ ! ہمارے دلوں میں الفت ڈال اور ہمارے آپس میں اصلاح کر دے اور ہمیں سلامتی کی راہیں دکھا اور ہمیں اندھیروں سے بچا کر نور کی طرف نجات دے اور ہمیں ہر برائی سے بچا لے ، خواہ وہ ظاہر ہو ، خواہ چھپی ہوئی ہو اور ہمیں ہمارے کانوں میں اور آنکھوں میں اور دلوں میں اور بیوی بچوں میں برکت دے اور ہم پر رجوع فرما ، یقیناً تو رجوع فرمانے والا مہربان ہے اے اللہ ہمیں اپنی نعمتوں کا شکر گزار اور ان کے باعث اپنا ثنا خواں اور نعمتوں کا اقراری بنا اور اپنی بھرپور نعمتیں ہمیں عطا فرما } ۔(سنن ابوداود:969،قال الشیخ الألبانی:صحیح) پھر فرماتا ہے یہ جن کا بیان گزرا جو اللہ کی طرف توبہ کرنے والے اس کی جانب میں جھکنے والے اور جو نیکیاں چھوٹ جائیں انہیں کثرت استغفار سے پا لینے والے ہی وہ ہیں جن کی اکثر لغزشیں ہم معاف فرما دیتے ہیں اور ان کے تھوڑے نیک اعمال کے بدلے ہم انہیں جنتی بنا دیتے ہیں ان کا یہی حکم ہے جیسے کہ وعدہ کیا اور فرمایا یہ وہ سچا وعدہ ہے جو ان سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ ابن جریر میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بروایت روح الامین علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں : ” انسان کی نیکیاں اور بدیاں لائی جائیں گی اور ایک کو ایک کے بدلے میں کیا جائے گا پس اگر ایک نیکی بھی بچ رہی تو اللہ تعالیٰ اسی کے عوض اسے جنت میں پہنچا دے گا “ ۔ راوی حدیث نے اپنے استاد سے پوچھا اگر تمام نیکیاں ہی برائیوں کے بدلے میں چلی جائیں تو ؟ آپ نے فرمایا : ” ان کی برائیوں سے اللہ رب العزت تجاوز فرما لیتا ہے “ } ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:286/11:ضعیف) دوسری سند میں یہ بفرمان اللہ عزوجل مروی ہے ۔ یہ حدیث غریب ہے اور اس کی سند بہت پختہ ہے ، یوسف بن سعد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ { جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ اہل بصرہ پر غالب آئے اس وقت میرے ہاں مجمد بن حاطب رحمہ اللہ آئے ۔ ایک دن مجھ سے فرمانے لگے میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس تھا اور اس وقت سیدنا عمار ، صعصعہ ، اشتر ، محمد بن ابوبکر رضی اللہ عنہم بھی تھے ۔ بعض لوگوں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا ذکر نکالا اور کچھ گستاخی کی ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اس وقت تخت پر بیٹھے ہوئے تھے ، ہاتھ میں چھڑی تھی ۔ حاضرین مجلس میں سے کسی نے کہا کہ آپ کے سامنے تو آپ کی اس بحث کا صحیح محاکمہ کرنے والے موجود ہی ہیں ، چنانچہ سب لوگوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے سوال کیا ۔ اس پر آپ نے فرمایا : عثمان ان لوگوں میں سے تھے جن کے بارے میں اللہ عزوجل فرماتا ہے «اُولٰیِٕکَ الَّذِیْنَ نَتَقَبَّلُ عَنْہُمْ اَحْسَنَ مَا عَمِلُوْا وَنَتَجَاوَزُ عَنْ سَـیِّاٰتِہِمْ فِیْٓ اَصْحٰبِ الْجَــنَّۃِ وَعْدَ الصِّدْقِ الَّذِیْ کَانُوْا یُوْعَدُوْنَ» (46-الأحقاف:16) قسم اللہ کی یہ لوگ جن کا ذکر اس آیت میں ہے ، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ ہیں اور ان کے ساتھی ، تین مرتبہ یہی فرمایا ۔ راوی یوسف کہتے ہیں میں نے محمد بن حاطب رحمہ اللہ سے پوچھا : سچ کہو ، تمہیں اللہ کی قسم تم نے خود سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی زبانی یہ سنا ہے ؟ فرمایا : ہاں ، قسم اللہ کی میں نے خود سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے یہ سنا ہے } ۔ الأحقاف
16 الأحقاف
17 اس دنیا کے طالب آخرت سے محروم ہوں گے چونکہ اوپر ان لوگوں کا حال بیان ہوا تھا جو اپنے ماں باپ کے حق میں نیک دعائیں کرتے ہیں اور ان کی خدمتیں کرتے رہتے ہیں اور ساتھ ہی ان کے اخروی درجات کا اور وہاں نجات پانے اور اپنے رب کی نعمتوں سے مالا مال ہونے کا ذکر ہوا تھا ۔ اس لیے اس کے بعد ان بدبختوں کا بیان ہو رہا ہے جو اپنے ماں باپ کے نافرمان ہیں انہیں باتیں سناتے ہیں ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ آیت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے سیدنا عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ کے حق میں نازل ہوئی ہے جیسے کہ عوفی بروایت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں جس کی صحت میں بھی کلام ہے اور جو قول نہایت کمزور ہے اس لیے کہ سیدنا عبدالرحمٰن بن ابوبکر رضی اللہ عنہما تو مسلمان ہو گئے تھے اور بہت اچھے اسلام والوں میں سے تھے بلکہ اپنے زمانے کے بہترین لوگوں میں سے تھے بعض اور مفسرین کا بھی یہ قول ہے لیکن ٹھیک یہی ہے کہ یہ آیت عام ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ { مروان نے اپنے خطبہ میں کہا کہ اللہ تعالیٰ نے امیر المؤمنین کو یزید کے بارے میں ایک اچھی رائے سمجھائی ہے اگر وہ انہیں اپنے بعد بطور خلیفہ کے نامزد کر جائیں تو سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما نے بھی تو اپنے بعد خلیفہ مقرر کیا ہے اس پر سیدنا عبدالرحمٰن بن ابوبکر رضی اللہ عنہما بول اٹھے کہ کیا ہرقل کے دستور پر اور نصرانیوں کے قانون پر عمل کرنا چاہتے ہو ؟ قسم ہے اللہ کی نہ تو خلیفہ اول نے اپنی اولاد میں سے کسی کو خلافت کے لیے منتخب کیا ، نہ اپنے کنبے قبیلے والوں سے کسی کو نامزد کیا اور معاویہ رضی اللہ عنہ نے جو اسے کیا وہ صرف ان کی عزت افزائی اور ان کے بچوں پر رحم کھا کر کیا ، یہ سن کر مروان کہنے لگا کہ تو وہی نہیں جس نے اپنے والدین کو اف کہا تھا ؟ تو سیدنا عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ نے فرمایا : کیا تو ایک ملعون شخص کی اولاد میں سے نہیں ؟ تیرے باپ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی تھی ۔ سیدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے یہ سن کر مروان سے کہا تو نے عبدالرحمٰن سے جو کہا وہ بالکل جھوٹ ہے وہ آیت ان کے بارے میں نہیں بلکہ وہ فلاں بن فلاں کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ پھر مروان جلدی ہی منبر سے اتر کر آپ رضی اللہ عنہا کے حجرے کے دروازے پر آیا اور کچھ باتیں کر کے لوٹ گیا ۔ } (تفسیر ابن ابی حاتم:18572:حسن) بخاری میں یہ حدیث دوسری سند سے اور الفاظ کے ساتھ ہے ۔ اس میں یہ بھی ہے کہ { معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کی طرف سے مروان حجاز کا امیر بنایا گیا تھا ، اس میں یہ بھی ہے کہ مروان نے سیدنا عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ کو گرفتار کر لینے کا حکم اپنے سپاہیوں کو دیا لیکن یہ دوڑ کر اپنی ہمشیرہ صاحبہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں چلے گئے اس وجہ سے انہیں کوئی پکڑ نہ سکا ۔ اور اس میں یہ بھی ہے کہ سیدہ صدیقہ کبریٰ رضی اللہ عنہا نے پردہ میں سے ہی فرمایا کہ ہمارے بارے میں بجز میری پاک دامنی کی آیتوں کے اور کوئی آیت نہیں اتری } ۔ (صحیح بخاری:4827) نسائی کی روایت میں ہے کہ اس خطبے سے مقصود یزید کی طرف سے بیعت حاصل کرنا تھا ، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے فرمان میں یہ بھی ہے کہ مروان اپنے قول میں جھوٹا ہے جس کے بارے میں یہ آیت اتری ہے مجھے بخوبی معلوم ہے لیکن میں اس وقت اسے ظاہر کرنا نہیں چاہتی لیکن ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مروان کے باپ کو ملعون کہا ہے اور مروان اس کی پشت میں تھا ، پس یہ اس اللہ تعالیٰ کی لعنت کا بقیہ ہے ۔ یہ جہاں اپنے ماں باپ کی بےادبی کرتا ہے وہاں اللہ تعالیٰ کی بےادبی سے بھی نہیں چوکتا ، مرنے کے بعد کی زندگی کو جھٹلاتا ہے اور اپنے ماں باپ سے کہتا ہے کہ تم مجھے اس دوسری زندگی سے کیا ڈراتے ہو ، مجھ سے پہلے سینکڑوں زمانے گزر گئے ، لاکھوں کروڑوں انسان مرے ، میں تو کسی کو دوبارہ زندہ ہوتے نہیں دیکھا ، ان میں سے ایک بھی تو لوٹ کر خبر دینے نہیں آیا ۔ ماں باپ بیچارے اس سے تنگ آ کر جناب باری سے اس کی ہدایت چاہتے ہیں ، اس بارگاہ میں اپنی فریاد پہنچاتے ہیں اور پھر اس سے کہتے ہیں کہ بدنصیب ابھی کچھ نہیں بگڑا اب بھی مسلمان بن جا لیکن یہ مغرور پھر جواب دیتا ہے کہ جسے تم ماننے کو کہتے ہو ، میں تو اسے ایک دیرینہ قصہ سے زیادہ وقعت کی نظر سے نہیں دیکھ سکتا ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ لوگ اپنے جیسے گزشتہ جنات اور انسانوں کے زمرے میں داخل ہو گئے جنہوں نے خود اپنا نقصان بھی کیا اور اپنے والوں کو بھی برباد کیا ۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان میں یہاں لفظ «اولئک» ہے حالانکہ اس سے پہلے لفظ «والذی» ہے اس سے بھی ہماری تفسیر کی پوری تائید ہوتی ہے کہ مراد اس سے عام ہے جو بھی ایسا ہو یعنی ماں باپ کا بے ادب اور قیامت کا منکر اس کے لیے یہی حکم ہے چنانچہ حسن اور قتادہ رحمہا اللہ بھی یہی فرماتے ہیں کہ اس سے مراد کافر فاجر ، ماں باپ کا نافرمان اور مر کر جی اٹھنے کا منکر ہے ۔ (ضعیف) ابن عساکر کی ایک غریب حدیث میں ہے کہ چار شخصوں پر اللہ عزوجل نے اپنے عرش پر سے لعنت کی ہے اور اس پر فرشتوں نے آمین کہی ہے جو کسی مسکین کو بہکائے اور کہے کہ آؤ تجھے کچھ دوں گا اور جب وہ آئے تو کہہ دے کہ میرے پاس تو کچھ نہیں اور جو «ماعون» سے کہے سب حاضر ہے حالانکہ اس کے آگے کچھ نہ ہو ۔ اور وہ لوگ جو کسی کو اس کے اس سوال کے جواب میں فلاں کا مکان کون سا ہے ؟ کسی دوسرے کا مکان بتا دیں اور وہ جو اپنے ماں باپ کو مارے یہاں تک کہ تنگ آ جائیں اور چیخ و پکار کرنے لگیں ۔ الأحقاف
18 الأحقاف
19 1 پھر فرماتا ہے ہر ایک کے لیے اس کی برائی کے مطابق سزا ہے ، اللہ تعالیٰ ایک ذرے کے برابر بلکہ اس سے بھی کم کسی پر ظلم نہیں کرتا ۔ عبدالرحمٰن بن زید رحمہ اللہ فرماتے ہیں جہنم کے درجے نیچے ہیں اور جنت کے درجے اونچے ہیں ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:288/11) پھر فرماتا ہے کہ جب جہنمی جہنم پر لا کھڑے کئے جائیں گے انہیں بطور ڈانٹ ڈپٹ کے کہا جائے گا کہ تم اپنی نیکیاں دنیا میں ہی وصول کر چکے ان سے فائدہ وہیں اٹھا لیا ، سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بہت زیادہ مرغوب اور لطیف غذا سے اسی آیت کو پیش نظر رکھ کر اجتناب کر لیا تھا اور فرماتے تھے مجھے خوف ہے کہیں میں بھی ان لوگوں میں سے نہ ہو جاؤں جنہیں اللہ تعالیٰ ڈانٹ ڈپٹ کے ساتھ یہ فرمائے گا ۔ ابو مجلز رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو دنیا میں کی ہوئی اپنی نیکیاں قیامت کے دن گم پائیں گے اور ان سے یہی کہا جائے گا ۔ پھر فرماتا ہے آج انہیں ذلت کے عذابوں کی سزا دی جائے گی ان کے تکبر اور ان کے فسق کی وجہ سے ۔ جیسا عمل ویسا ہی بدلہ ملا ۔ دنیا میں یہ ناز و نعمت سے اپنی جانوں کو پالنے والے اور نخوت و بڑائی سے اتباع حق کو چھوڑنے والے اور برائیوں اور نافرمانیوں میں ہمہ تن مشغول رہنے والے تھے ، تو آج قیامت کے دن انہیں اہانت اور رسوائی والے عذاب اور سخت درد ناک سزائیں اور ہائے وائے اور افسوس و حسرت کے ساتھ جہنم کے نیچے کے طبقوں میں جگہ ملے گی اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہمیں ان سب باتوں سے محفوظ رکھے ۔ الأحقاف
20 الأحقاف
21 قوم عاد کی تباہی کے اسباب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تسلی کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر آپ کی قوم آپ کو جھٹلائے تو آپ اگلے انبیاء کے واقعات یاد کر لیجئے کہ ان کی قوم نے بھی ان کی تکذیب کی عادیوں کے بھائی سے مراد ہود پیغمبر ہیں علیہ السلام والصلوۃ ۔ انہیں اللہ تبارک وتعالیٰ نے عاد اولیٰ کی طرف بھیجا تھا جو «احقاف» میں رہتے تھے «احقاف» جمع ہے «حقف» کی اور «حقف» کہتے ہیں ریت کے پہاڑ کو ۔ مطلق پہاڑ اور غار اور حضر موت کی وادی جس کا نام برہوت ہے جہاں کفار کی روحیں ڈالی جاتی ہیں یہ مطلب بھی «احقاف» کا بیان کیا گیا ہے قتادہ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ یمن میں سمندر کے کنارے ریت کے ٹیلوں میں ایک جگہ تھی جس کا نام شحر تھا یہاں یہ لوگ آباد تھے ، (تفسیر ابن جریر الطبری:291/11) امام ابن ماجہ رحمہ اللہ نے باب باندھا ہے کہ { جب دعا مانگے تو اپنے نفس سے شروع کرے اس میں ایک حدیث لائے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ ہم پر اور عادیوں کے بھائی پر رحم کرے “ } ۔ (سنن ابن ماجہ:3852،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) پھر فرماتا ہے کہ اللہ عزوجل نے ان کے اردگرد کے شہروں میں بھی اپنے رسول علیہم السلام مبعوث فرمائے تھے ۔ جیسے اور آیت میں ہے «فَجَــعَلْنٰھَا نَکَالًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہَا وَمَا خَلْفَہَا وَمَوْعِظَۃً لِّلْمُتَّقِیْنَ» ۔ (2-البقرۃ:66) اور جیسے اللہ جل وعلا کا فرمان ہے «فَإِنْ أَعْرَضُوا فَقُلْ أَنذَرْتُکُمْ صَاعِقَۃً مِّثْلَ صَاعِقَۃِ عَادٍ وَثَمُودَ إِذْ جَاءَتْہُمُ الرٰسُلُ مِن بَیْنِ أَیْدِیہِمْ وَمِنْ خَلْفِہِمْ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا اللہَ قَالُوا لَوْ شَاءَ رَبٰنَا لَأَنزَلَ مَلَائِکَۃً فَإِنَّا بِمَا أُرْسِلْتُم بِہِ کَافِرُونَ» ۔ (41-فصلت:14،13) پھر فرماتا ہے کہ ہود علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تم موحد بن جاؤ ورنہ تمہیں اس بڑے بھاری دن میں عذاب ہو گا ۔ جس پر قوم نے کہا : کیا تو ہمیں ہمارے معبودوں سے روک رہا ہے ؟ جا جس عذاب سے تو ہمیں ڈرا رہا ہے وہ لے آ ۔ یہ تو اپنے ذہن میں اسے محال جانتے تھے تو جرات کر کے جلد طلب کیا ۔ جیسے کہ اور آیت میں ہے «یَسْتَعْجِلُ بِہَا الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِہَا» (42-الشوری:18) یعنی ایمان نہ لانے والے ہمارے عذابوں کے جلد آنے کی خواہش کرتے ہیں ۔ اس کے جواب میں ان کے پیغمبر نے کہا کہ اللہ ہی کو بہتر علم ہے اگر وہ تمہیں اسی لائق جانے گا تو تم پر عذاب بھیج دے گا ۔ میرا منصب تو صرف اتنا ہی ہے کہ میں اپنے رب کی رسالت تمہیں پہنچا دوں لیکن میں جانتا ہوں کہ تم بالکل بےعقل اور بیوقوف لوگ ہو ، اب اللہ کا عذاب آ گیا انہوں نے دیکھا کہ ایک کالا ابر ان کی طرف بڑھتا چلا آ رہا ہے چونکہ خشک سالی تھی ، گرمی سخت تھی ، یہ خوشیاں منانے لگے کہ اچھا ہوا ابر چڑھا ہے اور اسی طرف رخ ہے ، اب بارش برسے گی ۔ دراصل ابر کی صورت میں یہ وہ قہر الٰہی تھا جس کے آنے کی وہ جلدی مچا رہے تھے ، اس میں وہ عذاب تھا ، جسے ہود علیہ السلام سے یہ طلب کر رہے تھے وہ عذاب ان کی بستیوں کی تمام ان چیزوں کو بھی جن کی بربادی ہونے والی تھی تہس نہس کرتا ہوا آیا اور اسی کا اسے حکم تھا ۔ جیسے اور آیت میں ہے «مَا تَذَرُ مِنْ شَیْءٍ اَتَتْ عَلَیْہِ اِلَّا جَعَلَتْہُ کَالرَّمِیْمِ» (51-الذاریات:42) یعنی جس چیز پر وہ گزر جاتی تھی اسے چورا چورا کر دیتی تھی ، پس سب کے سب ہلاک و تباہ ہو گئے ایک بھی نہ بچ سکا ۔ پھر فرماتا ہے ہم اسی طرح ان کا فیصلہ کرتے ہیں جو ہمارے رسولوں کو جھٹلائیں اور ہمارے احکام کی خلاف ورزی کریں ایک بہت ہی غریب حدیث میں ان کا جو قصہ آیا ہے وہ بھی سن لیجئے ۔ { سیدنا حارث بکری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں سیدنا علا بن حضرمی رضی اللہ عنہ کی شکایت لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جا رہا تھا ۔ ربذہ میں مجھے بنو تمیم کی ایک بڑھیا ملی جس کے پاس سواری وغیرہ نہ تھی ، مجھ سے کہنے لگی ، اے اللہ کے بندے ! میرا ایک کام اللہ کے رسول سے ہے ، کیا تو مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا دے گا ؟ میں نے اقرار کیا اور انہیں اپنی سواری پر بٹھا لیا اور مدینہ شریف پہنچا میں نے دیکھا کہ مسجد نبوی لوگوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی ہے ، سیاہ رنگ جھنڈا لہرا رہا ہے اور بلال تلوار لٹکائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑے ہیں میں نے دریافت کیا کہ کیا بات ہے ؟ تو لوگوں نے مجھ سے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو کسی طرف بھیجنا چاہتے ہیں میں ایک طرف بیٹھ گیا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی منزل یا اپنے خیمے میں تشریف لے گئے تو میں بھی گیا اجازت طلب کی اور اجازت ملنے پر آپ کی خدمت میں باریاب ہوا ۔ سلام علیک کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ کیا تمہارے اور بنو تمیم کے درمیان کچھ رنجش تھی ؟ میں نے کہا : ہاں اور ہم ان پر غالب رہے تھے اور اب میرے اس سفر میں بنو تمیم کی ایک نادار بڑھیا راستے میں مجھے ملی اور یہ خواہش ظاہر کی کہ میں اسے اپنے ساتھ آپ کی خدمت میں پہنچاؤں چنانچہ میں اسے اپنے ساتھ لایا ہوں اور وہ دروازہ پر منتظر ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اسے بھی اندر بلا لو “ ، چنانچہ وہ آ گئیں میں نے کہا : یا رسول اللہ ! اگر آپ ہم میں اور بنو تمیم میں کوئی روک کر سکتے ہیں تو اسے کر دیجئیے ، اس پر بڑھیا کو حمیت لاحق ہوئی اور وہ بھرائی ہوئی آواز میں بول اٹھی کہ پھر یا رسول اللہ ! آپ کا مضطر کہاں قرار کرے گا ؟ میں نے کہا : سبحان اللہ میری تو وہی مثل ہوئی کہ ” اپنے پاؤں میں آپ ہی کلہاڑی ماری“ مجھے کیا خبر تھی کہ یہ میری ہی دشمنی کرے گی ؟ ورنہ میں اسے لاتا ہی کیوں ؟ اللہ کی پناہ ، واللہ ! کہیں ایسا نہ ہو کہ میں بھی مثل عادیوں کے قاصد کے ہو جاؤں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ عادیوں کے قاصد کا واقعہ کیا ہے ؟ باوجود یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس واقعہ سے بہ نسبت میرے بہت زیادہ واقف تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر میں نے وہ قصہ بیان کیا کہ عادیوں کی بستیوں میں جب سخت قحط سالی ہوئی تو انہوں نے اپنا ایک قاصد قیل نامی روانہ کیا ، یہ راستے میں معاویہ بن بکر کے ہاں آ کر ٹھہرا اور شراب پینے لگا اور اس کی دونوں کنیزوں کا گانا سننے میں جن کا نام جرادہ تھا اس قدر مشغول ہوا کہ مہینہ بھر تک یہیں پڑا رہا پھر چلا اور جبال مہرہ میں جا کر اس نے دعا کی کہ اللہ تو خوب جانتا ہے میں کسی مریض کی دوا کے لیے یا کسی قیدی کا فدیہ ادا کرنے کے لیے تو آیا نہیں الٰہی عادیوں کو وہ پلا جو تو انہیں پلانے والا ہے ۔ چنانچہ چند سیاہ رنگ بادل اٹھے اور ان میں سے ایک آواز آئی کہ ان میں سے جسے تو چاہے پسند کر لے چنانچہ اس نے سخت سیاہ بادل کو پسند کر لیا اسی وقت ان میں سے ایک آواز آئی کہ اسے راکھ اور خاک بنانے والا کر دے تاکہ عادیوں میں سے کوئی باقی نہ رہے ۔ کہا اور مجھے جہاں تک علم ہوا ہے یہی ہے کہ ہواؤں کے مخزن میں سے صرف پہلے ہی سوراخ سے ہوا چھوڑی گئی تھی جیسے میری اس انگوٹھی کا حلقہ اسی سے سب ہلاک ہو گئے ۔ ابووائل کہتے ہیں یہ بالکل ٹھیک نقل ہے عرب میں دستور تھا کہ جب کسی قاصد کو بھیجتے تو کہہ دیتے کہ عادیوں کے قاصد کی طرح نہ کرنا } ۔ (مسند احمد:482/3:حسن) یہ روایت ترمذی ، نسائی اور ابن ماجہ میں بھی ہے ۔ جیسے کہ سورۃ الاعراف کی تفسیر میں گزرا مسند احمد میں ہے کہ { سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی کھل کھلا کر اس طرح ہنستے ہوئے نہیں دیکھا کہ آپ کے مسوڑھے نظر آئیں ۔ آپ صرف تبسم فرمایا کرتے تھے اور جب ابر اٹھتا اور آندھی چلتی تو آپ کے چہرے سے فکر کے آثار نمودار ہو جاتے ۔ چنانچہ ایک روز میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا : یا رسول اللہ ! لوگ تو ابروباد کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں کہ اب بارش برسے گی لیکن آپ کی اس کے بالکل برعکس حالت ہو جاتی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” عائشہ میں اس بات سے کہ کہیں اس میں عذاب ہو کیسے مطمئن ہو جاؤں ؟ ایک قوم ہوا ہی سے ہلاک کی گئی ایک قوم نے عذاب کے بادل کو دیکھ کہا تھا کہ یہ ابر ہے جو ہم پر بارش برسائے گا “ ۔ صحیح بخاری و مسلم میں بھی یہ روایت دوسری سند سے مروی ہے } ۔ (صحیح بخاری:4828) مسند احمد میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کبھی آسمان کے کسی کنارے سے ابر اٹھتا ہوا دیکھتے تو اپنے تمام کام چھوڑ دیتے اگرچہ نماز میں ہوں اور یہ دعا پڑھتے «اللَّہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَآ فِیہ» اللہ میں تجھ سے اس برائی سے پناہ چاہتا ہوں جو اس میں ہے ، پس اگر یہ کھل جاتا تو اللہ عزوجل کی حمد کرتے اور اگر برس جاتا تو یہ دعا پڑھتے «اللَّہُمَّ صَیِّباً نَّافِعًا» اے اللہ ! اسے نفع دینے والا اور برسنے والا بنا دے } ۔ (مسند احمد:190/6:صحیح) صحیح مسلم میں روایت ہے کہ { جب ہوائیں چلتیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا پڑھتے «اللَّہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ خَیْرِہَا وَخَیْرِ مَا فِیھَا وَخَیْرَ مآ اَرسَلتَ بِہِ وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّہَا وَشَرّ مَآ فِیھَا وَشَرِ مَآ اَرسَلتَ بِہِ» یا اللہ ! میں تجھ سے اس کی اور اس میں جو ہے اس کی اور جس کو یہ ساتھ لے کر آئی ہے اس کی بھلائی طلب کرتا ہوں اور تجھ سے اس کی اور اس میں جو ہے اس کی اور جس چیز کے ساتھ یہ بھیجی گئی ہے اس کی برائی سے پناہ چاہتا ہوں ۔ اور جب ابر اٹھتا تو آپ کا رنگ متغیر ہو جاتا ، کبھی اندر ، کبھی باہر آتے کبھی جاتے ۔ جب بارش ہو جاتی تو آپ کی یہ فکرمندی دور ہو جاتی ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اسے سمجھ لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک بار سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ عائشہ خوف اس بات کا ہوتا ہے کہ کہیں یہ اسی طرح نہ ہو جس طرح قوم ہود نے اپنی طرف بادل بڑھتا دیکھ کر خوشی سے کہا تھا کہ یہ ابر ہمیں سیراب کرے گا } ۔ (صحیح مسلم:899,15) سورۃ الاعراف میں عادیوں کی ہلاکت کا اور ہود کا پورا واقعہ گزر چکا ہے اس لیے ہم اسے یہاں نہیں دوہراتے «فللہ الحمد والمنہ» طبرانی کی مرفوع حدیث میں ہے کہ { عادیوں پر اتنی ہی ہوا کھولی گئی تھی جتنا انگوٹھی کا حلقہ ہوتا ہے ، یہ ہوا پہلے دیہات والوں اور بادیہ نشینوں پر آئی وہاں سے شہری لوگوں پر آئی جسے دیکھ کر یہ کہنے لگے کہ یہ ابر جو ہماری طرف بڑھا چلا آ رہا ہے یہ ضرور ہم پر بارش برسائے گا لیکن اس میں جنگلی لوگ تھے جو ان شہریوں پر گرا دئیے گئے اور سب ہلاک ہو گئے ، ہوا کے خزانچیوں پر ہوا کی سرکشی اس وقت اتنی تھی کہ دروازوں کے سوراخوں سے وہ نکلی جا رہی تھی } ۔ (طبرانی کبیر:12416:ضعیف) «واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم» الأحقاف
22 الأحقاف
23 الأحقاف
24 الأحقاف
25 الأحقاف
26 مغضوب شدہ قوموں کی نشاندہی ارشاد ہوتا ہے کہ اگلی امتوں کو جو اسباب دنیوی مال و اولاد وغیرہ ہماری طرف سے دئیے گئے تھے ویسے تو تمہیں اب تک مہیا بھی نہیں ، ان کے بھی کان آنکھیں اور دل تھے لیکن جس وقت انہوں نے ہماری آیتوں کا انکار کیا اور ہمارے عذابوں کا مذاق اڑایا تو بالاخر ان کے ظاہری اسباب انہیں کچھ کام نہ آئے اور وہ سزائیں ان پر برس پڑیں جن کی یہ ہمیشہ ہنسی کرتے رہے تھے ۔ پس تمہیں ان کی طرح نہ ہونا چاہیئے ایسا نہ ہو کہ ان کے سے عذاب تم پر بھی آ جائیں اور تم بھی ان کی طرح جڑ سے کاٹ دئیے جاؤ ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے اے اہل مکہ تم اپنے آس پاس ہی ایک نظر ڈالو اور دیکھو کہ کس قدر قومیں نیست و نابود کر دی گئی ہیں اور کس طرح انہوں نے اپنے کرتوت کے بدلے پائے ہیں احقاف جو یمن کے پاس ہے حضر موت کے علاقہ میں ہے ، یہاں کے بسنے والے عادیوں کے انجام پر نظر ڈالو ، تمہارے اور شام کے درمیان ثمودیوں کا جو حشر ہوا اسے دیکھو ، اہل یمن اور اہل مدین کی قوم سبا کے نتیجہ پر غور کرو ، تم تو اکثر غزوات اور تجارت وغیرہ کے لیے وہاں سے آتے جاتے رہتے ہو ، بحیرہ قوم لوط سے عبرت حاصل کرو وہ بھی تمہارے راستے میں ہی پڑتا ہے پھر فرماتا ہے ہم نے اپنی نشانیوں اور آیتوں سے خوب واضح کر دیا ہے تاکہ لوگ برائیوں سے بھلائیوں کی طرف لوٹ آئیں ۔ پھر فرماتا ہے کہ ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے سوا جن جن معبودان باطل کی پرستش شروع کر رکھی تھی گو اس میں ان کا اپنا خیال تھا کہ اس کی وجہ سے ہم قرب الٰہی حاصل کریں گے ، لیکن کیا ہمارے عذابوں کے وقت جبکہ ان کو ان کی مدد کی پوری ضرورت تھی انہوں نے ان کی کسی طرح مدد کی ؟ ہرگز نہیں ، بلکہ ان کی احتیاج اور مصیبت کے وقت وہ گم ہو گئے ، ان سے بھاگ گئے ، ان کا پتہ بھی نہ چلا الغرض ان کا پوجنا صریح غلطی تھی غرض جھوٹ تھا اور صاف افتراء اور فضول بہتان تھا کہ یہ انہیں معبود سمجھ رہے تھے پس ان کی عبادت کرنے میں اور ان پر اعتماد کرنے میں یہ دھوکے میں اور نقصان میں ہی رہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» الأحقاف
27 الأحقاف
28 الأحقاف
29 طائف سے واپسی پر جنات نے کلام الہٰی سنا ، شیطان بوکھلایا مسند امام احمد میں سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ سے اس آیت کی تفسیر میں مروی ہے کہ { یہ واقعہ نخلہ کا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت نماز عشاء ادا کر رہے تھے ، یہ سب جنات سمٹ کر آپ کے اردگرد بھیڑ کی شکل میں کھڑے ہو گئے } ۔ (مسند احمد:167/1:حسن) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے کہ { یہ جنات «نصیبین» کے تھے تعداد میں سات تھے } ۔ کتاب دلائل النبوۃ میں بروایت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما مروی ہے کہ { نہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنات کو سنانے کی غرض سے قرآن پڑھا تھا ، نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھا ، آپ تو اپنے صحابہ کے ساتھ عکاظ کے بازار جا رہے تھے ادھر یہ ہوا تھا شیاطین کے اور آسمانوں کی خبروں کے درمیان روک ہو گئی تھی اور ان پر شعلے برسنے شروع ہو گئے تھے ۔ شیاطین نے آ کر اپنی قوم کو یہ خبر دی تو انہوں نے کہا کوئی نہ کوئی نئی بات پیدا ہوئی ہے جاؤ تلاش کرو پس یہ نکل کھڑے ہوئے ان میں کی جو جماعت عرب کی طرف متوجہ ہوئی تھی وہ جب یہاں پہنچی تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوق عکاظ کی طرف جاتے ہوئے نخلہ میں اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم کی نماز پڑھا رہے تھے ان کے کانوں میں جب آپ کی تلاوت کی آواز پہنچی تو یہ ٹھہر گئے اور کان لگا کر بغور سننے لگے اس کے بعد انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ بس یہی وہ چیز ہے جس کی وجہ سے تمہارا آسمانوں تک پہنچنا موقوف کر دیا گیا ہے یہاں سے فوراً ہی واپس لوٹ کر اپنی قوم کے پاس پہنچے اور ان سے کہنے لگے «قُلْ أُوحِیَ إِلَیَّ أَنَّہُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ فَقَالُوا إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآنًا عَجَبًا» (72-الجن:1) ہم نے عجیب قرآن سنا جو نیکی کا رہبر ہے ہم تو اس پر ایمان لا چکے اور اقرار کرتے ہیں کہ اب ناممکن ہے کہ اللہ کے ساتھ ہم کسی اور کو شریک کریں ۔ اس واقعہ کی خبر اللہ تعالیٰ نے اپنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سورۃ الجن میں دی } ، یہ حدیث بخاری و مسلم وغیرہ میں بھی ہے ۔(صحیح بخاری:773) مسند میں ہے { سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں جنات وحی الٰہی سنا کرتے تھے ایک کلمہ جب ان کے کان میں پڑ جاتا تو وہ اس میں دس ملا لیا کرتے پس وہ ایک تو حق نکلتا باقی سب باطل نکلتے اور اس سے پہلے ان پر تارے پھینکے نہیں جاتے تھے ۔ پس جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو ان پر شعلہ باری ہونے لگی ، یہ اپنے بیٹھنے کی جگہ پہنچتے اور ان پر شعلہ گرتا اور یہ ٹھہر نہ سکتے انہوں نے آ کر ابلیس سے یہ شکایت کی تو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نخلہ کی دونوں پہاڑیوں کے درمیان نماز پڑھتے ہوئے پایا اور جا کر اسے خبر دی اس نے کہا بس یہی وجہ ہے جو آسمان محفوظ کر دیا گیا اور تمہارا جانا بند ہوا } ۔ یہ روایت ترمذی اور نسائی میں بھی ہے ۔ (سنن ترمذی:3324،قال الشیخ الألبانی:صحیح) حسن بصری رحمہ اللہ کا قول بھی یہی ہے کہ اس واقعہ کی خبر تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ تھی ، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی آئی تب آپ نے یہ معلوم کیا ۔ سیرت ابن اسحاق میں محمد بن کعب کا ایک لمبا بیان منقول ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طائف جانا انہیں اسلام کی دعوت دینا ان کا انکار کرنا وغیرہ پورا واقعہ بیان ہے ۔ حسن رحمہ اللہ نے اس دعا کا بھی ذکر کیا ہے جو آپ نے اس تنگی کے وقت کی تھی جو یہ ہے { «اللّہُمّ إلَیْک أَشْکُو ضَعْفَ قُوّتِی ، وَقِلّۃَ حِیلَتِی ، وَہَوَانِی عَلَی النّاسِ ، یَا أَرْحَمَ الرّاحِمِینَ ! أَنْتَ رَبّ الْمُسْتَضْعَفِینَ وَأَنْتَ رَبّی ، إلَی مَنْ تَکِلُنِی ؟ إلَی بَعِیدٍ یَتَجَہّمُنِی ؟ أَمْ إلَی عَدُوّ مَلّکْتَہُ أَمْرِی ؟ إنْ لَمْ یَکُنْ بِک عَلَیّ غَضَبٌ فَلَا أُبَالِی ، وَلَکِنّ عَافِیَتَک ہِیَ أَوْسَعُ لِی ، أَعُوذُ بِنُورِ وَجْہِک الّذِی أَشْرَقَتْ لَہُ الظّلُمَاتُ وَصَلُحَ عَلَیْہِ أَمْرُ الدّنْیَا وَالْآخِرَۃِ مِنْ أَنْ تُنْزِلَ بِی غَضَبَک ، أَوْ یَحِلّ عَلَیّ سُخْطُکَ ، لَک الْعُتْبَی حَتّی تَرْضَی ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوّۃَ إلّا بِک» یعنی اپنی کمزوری اور بےسروسامانی اور کسمپرسی کی شکایت صرف تیرے سامنے کرتا ہوں ۔ اے ارحم الراحمین ! تو دراصل سب سے زیادہ رحم و کرم کرنے والا ہے اور کمزوروں کا رب تو ہی ہے میرا پالنہار بھی تو ہی ہے ، تو مجھے کس کو سونپ رہا ہے کسی دوری والے دشمن کو جو مجھے عاجز کر دے یا کسی قرب والے دوست کو جسے تو نے میرے بارے اختیار دے رکھا ہو ، اگر تیری کوئی خفگی مجھ پر نہ ہو تو مجھے اس درد دکھ کی کوئی پرواہ نہیں لیکن تاہم اگر تو مجھے عافیت کے ساتھ ہی رکھ تو وہ میرے لیے بہت ہی راحت رساں ہے ، میں تیرے چہرے کے اس نور کے باعث جس کی وجہ سے تمام اندھیریاں جگمگا اٹھی ہیں اور دین و دنیا کے تمام امور کی اصلاح کا مدار اسی پر ہے تجھ سے اس بات کی پناہ طلب کرتا ہوں کہ مجھ پر تیرا عتاب اور تیرا غصہ نازل ہو یا تیری ناراضگی مجھ پر آ جائے ، مجھے تیری ہی رضا مندی اور خوشنودی درکار ہے اور نیکی کرنے اور بدی سے بچنے کی طاقت تیری ہی مدد سے ہے ۔ اسی سفر کی واپسی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نخلہ میں رات گزاری اور اسی رات قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے «نصیبین» کے جنوں نے آپ کو سنا } ۔ (سیرۃ ابن ہشام21/2:مرسل) یہ ہے تو صحیح لیکن اس میں قول تامل طلب ہے اس لیے کہ جنات کا ، کلام اللہ سننے کا واقعہ وحی شروع ہونے کے زمانے کا ہے جیسے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی اوپر بیان کردہ حدیث سے ثابت ہو رہا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طائف جانا اپنے چچا ابوطالب کے انتقال کے بعد ہوا ہے جو ہجرت کے ایک یا زیادہ سے زیادہ دو سال پہلے کا واقعہ ہے جیسے کہ سیرت ابن اسحاق وغیرہ میں ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ابن ابی شیبہ میں ان جنات کی گنتی نو کی ہے جن میں سے ایک کا نام زوبعہ ہے ۔ انہی کے بارے میں یہ آیتیں نازل ہوئی ہیں (دلائل النبوۃ للبیہقی:228/2:) پس یہ روایت اور اس سے پہلے کی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت کا اقتضاء یہ ہے کہ اس مرتبہ جو جن آئے تھے ان کی موجودگی کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو علم نہ تھا یہ تو آپ کی بے خبری میں ہی آپ کی زبانی قرآن سن کر واپس لوٹ گئے اس کے بعد بطور وفد فوجیں کی فوجیں اور جتھے کے جتھے ان کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے جیسے کہ اس ذکر کے احادیث و آثار اپنی جگہ آ رہے ہیں ۔ «ان شاءاللہ» بخاری و مسلم میں ہے { عبدالرحمٰن نے مسروق رحمہا اللہ سے پوچھا کہ جس رات جنات نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن سنا تھا اس رات کس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا ذکر کیا تھا ؟ تو فرمایا مجھ سے تیرے والد سیدنا سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا ہے ان کی آگاہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک درخت نے دی تھی } ۔ (صحیح بخاری:3859) تو ممکن ہے کہ یہ خبر پہلی دفعہ کی ہو اور اثبات کو ہم نفی پر مقدم مان لیں ۔ اور یہ بھی احتمال ہے کہ جب وہ سن رہے تھے آپ کو تو کوئی خبر نہ تھی یہاں تک کہ اس درخت نے آپ کو ان کے اجتماع کی خبر دی ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ واقعہ اس کے بعد والے کئی واقعات میں سے ایک ہو ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» امام حافظ بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ پہلی مرتبہ نہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنوں کو دیکھا نہ خاص ان کے سنانے کے لیے قرآن پڑھا ہاں البتہ اس کے بعد جن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں قرآن پڑھ کر سنایا اور اللہ عزوجل کی طرف بلایا جیسے کہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ۔ اس کی روایتیں سنئے ۔ { علقمہ رحمہ اللہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے پوچھتے ہیں کہ کیا تم میں سے کوئی اس رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود تھا ؟ تو آپ نے جواب دیا کہ کوئی نہ تھا آپ رات بھر ہم سے غائب رہے اور ہمیں رہ رہ کر باربار یہی خیال گزرا کرتا تھا کہ شاید کسی دشمن نے آپ کو دھوکا دے دیا ، اللہ نہ کرے آپ کے ساتھ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آیا ہو ، وہ رات ہماری بڑی بری طرح کٹی ، صبح صادق سے کچھ ہی پہلے ہم نے دیکھا کہ آپ غار حرا سے واپس آ رہے ہیں ، پس ہم نے رات کی اپنی ساری کیفیت بیان کر دی ہے ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” میرے پاس جنات کا قاصد آیا تھا جس کے ساتھ جا کر میں نے انہیں قرآن سنایا “ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں لے کر گئے اور ان کے نشانات اور ان کی آگ کے نشانات ہمیں دکھائے ۔ شعبی رحمہ اللہ کہتے ہیں انہوں نے آپ سے توشہ طلب کیا تو عامر کہتے ہیں یعنی مکے میں اور یہ جن جزیرے کے تھے تو آپ نے فرمایا : ” ہر وہ ہڈی جس پر اللہ کا نام ذکر کیا گیا ہو وہ تمہارے ہاتھوں میں پہلے سے زیادہ گوشت والی ہو کر پڑے گی ، اور لید اور گوبر تمہارے جانوروں کا چارہ بنے گا ، پس اے مسلمانو ! ان دونوں چیزوں سے استنجاء نہ کرو یہ تمہارے جن بھائیوں کی خوراک ہیں “ } ۔ (صحیح مسلم:450-150) دوسری روایت میں ہے کہ { اس رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ پا کر ہم بہت ہی گھبرائے تھے اور تمام وادیوں اور گھاٹیوں میں تلاش کر آئے تھے } ۔ (ایضاً) اور حدیث میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” آج رات میں جنات کو قرآن سناتا رہا اور جنوں میں ہی اسی شغل میں رات گزاری “ } ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری31320:ضعیف) ابن جریر میں { سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تم میں سے جو چاہے آج کی رات جنات سے دلچسپی لینے والا میرے ساتھ رہے “ ، پس میں موجود ہو گیا آپ مجھے لے کر چلے جب مکہ شریف کے اونچے حصے میں پہنچے تو آپ نے اپنے پاؤں سے ایک خط کھینچ دیا اور مجھ سے فرمایا : ” بس یہیں بیٹھے رہو “ ، پھر آپ چلے اور ایک جگہ پر کھڑے ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرأت شروع کی پھر تو اس قدر جماعت آپ کے اردگرد ٹھٹ لگا کر کھڑی ہو گئی کہ میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت سننے سے بھی رہ گیا ۔ پھر میں نے دیکھا کہ جس طرح ابر کے ٹکڑے پھٹتے ہیں اس طرح وہ ادھر ادھر جانے لگے اور یہاں تک کہ اب بہت تھوڑے باقی رہ گئے پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صبح کے وقت فارغ ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے دور نکل گئے اور حاجت سے فارغ ہو کر میرے پاس تشریف لائے اور پوچھنے لگے ” وہ باقی کے کہاں ہیں ؟ “ میں نے کہا : وہ یہ ہیں پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہڈی اور لید دی ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو ان دونوں چیزوں سے استنجاء کرنے سے منع فرما دیا } ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:31319:ضعیف) اس روایت کی دوسری سند میں ہے کہ جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو بٹھایا تھا وہاں بٹھا کر فرما دیا تھا کہ { خبردار یہاں سے نکلنا نہیں ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے } ۔ اور روایت میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کے وقت آ کر ان سے دریافت کیا کہ کیا تم سو گئے تھے ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : نہیں نہیں , اللہ کی قسم ! میں نے تو کئی مرتبہ چاہا کہ لوگوں سے فریاد کروں لیکن میں نے سن لیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اپنی لکڑی سے دھمکا رہے تھے اور فرماتے جاتے تھے کہ بیٹھ جاؤ ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اگر تم یہاں سے باہر نکلتے ، تو مجھے خوف تھا کہ ان میں کے بعض تمہیں اچک نہ لے جائیں “ ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ اچھا تم نے کچھ دیکھا بھی ؟ میں نے کہا : ہاں ، لوگ تھے سیاہ انجان خوفناک ، سفید کپڑے پہنے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” یہ ( «نصیبین» ) کے جن تھے انہوں نے مجھ سے توشہ طلب کیا تھا پس میں نے ہڈی اور لید ، گوبر دیا ، میں نے پوچھا : یا رسول اللہ ! اس سے انہیں کیا فائدہ ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ہر ہڈی ان کے ہاتھ لگتے ہی ایسی ہو جائے گی جیسی اس وقت تھی جب کھائی گئی تھی یعنی گوشت والی ہو کر انہیں ملے گی اور لید میں بھی وہی دانے پائیں گے جو اس روز تھے جب وہ دانے کھائے گئے تھے پس ہم میں سے کوئی شخص بیت الخلاء سے نکل کر ہڈی لید اور گوبر سے استنجاء نہ کرے “ } ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:31317،ضعیف) اس روایت کی دوسری سند میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” پندرہ جنات جو آپس میں چچازاد اور پھوپھی زاد بھائی ہیں آج رات مجھ سے قرآن سننے کیلئے آنے والے ہیں ۔ اس میں ہڈی اور لید کے ساتھ کوئلے کا لفظ بھی ہے ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں دن نکلے میں اسی جگہ گیا تو دیکھا کہ وہ کوئی ساٹھ اونٹ بیٹھنے کی جگہ ہے } ۔ (دلائل النبوۃ للبیہقی:231/2:ضعیف) اور روایت میں ہے کہ { جب جنات کا اژدھام ہو گیا تو ان کے سردار نے کہا : یا رسول اللہ ! میں انہیں ادھر ادھر کر کے آپ کو اس تکلیف سے بچا لیتا ہوں ، تو آپ نے فرمایا : ” اللہ سے زیادہ مجھے کوئی بچانے والا نہیں “ ۔ آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : جنات والی رات میں مجھ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کیا تمہارے پاس پانی ہے ؟ میں نے کہا : یا رسول اللہ ! پانی تو نہیں البتہ ایک ڈولچی نبیذ ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” عمدہ کھجوریں اور پاکیزہ پانی “ } ۔ (سنن ابوداود:84،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) مسند احمد کی اس حدیث میں ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” مجھے اس سے وضو کراؤ “ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور فرمایا : ” یہ تو پینے کی اور پاک چیز ہے “ } ۔ (مسند احمد:398/1:ضعیف) { جب آپ لوٹ کر آئے تو سانس چڑھ رہا تھا میں نے پوچھا : یا رسول اللہ ! کیا بات ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” میرے پاس میرے انتقال کی خبر آئی ہے “ } ۔ (مسند احمد:449/1:ضعیف) یہی حدیث قدرے زیادتی کے ساتھ حافظ ابونعیم کی کتاب دلائل النبوۃ میں بھی ہے اس میں ہے کہ { میں نے یہ سن کر کہا : پھر یا رسول اللہ ! اپنے بعد کسی کو خلیفہ نامزد کر جائیے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا : ” کس کو ؟ “ میں نے کہا : سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے چلتے چلتے پھر کچھ دیر بعد یہی حالت طاری ہوئی ۔ میں نے وہی سوال کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی جواب دیا ۔ میں نے خلیفہ مقرر کرنے کو کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : ” کسے ؟ “ میں نے کہا : سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو اس پر آپ خاموش ہو گئے کچھ دور چلنے کے بعد پھر یہی حالت اور یہی سوال جواب ہوئے اب کی مرتبہ میں نے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا نام پیش کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : ” اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر یہ لوگ ان کی اطاعت کریں تو سب جنت میں چلے جائیں گے “ ۔ } (طبرانی کبیر:9970:ضعیف) لیکن یہ حدیث بالکل ہی غریب ہے اور بہت ممکن ہے کہ یہ محفوظ نہ ہو اور اگر صحت تسلیم کر لی جائے تو اس واقعہ کو مدینہ کا واقعہ ماننا پڑے گا ۔ وہاں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جنوں کے وفود آئے تھے جیسے کہ ہم عنقریب ان شاءاللہ تعالیٰ بیان کریں گے اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری وقت فتح مکہ کے بعد تھا جب کہ دین الٰہی میں انسانوں اور جنوں کی فوجیں داخل ہو گئیں اور سورۃ «إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللہِ وَالْفَتْحُ وَرَأَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُونَ فِی دِینِ اللہِ أَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْہُ إِنَّہُ کَانَ تَوَّابًا» (110-النصر:1-3) ، اتر چکی جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر انتقال دی گئی تھی ۔ جیسے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے اور امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی اس پر موافقت ہے جو حدیثیں ہم اسی سورت کی تفسیر میں لائیں گے ان شاءاللہ ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» مندرجہ بالا حدیث دوسری سند سے بھی مروی ہے لیکن اس کی سند بھی غریب ہے اور سیاق بھی غریب ہے ۔ عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ جنات جزیرہ موصل کے تھے ان کی تعداد بارہ ہزار کی تھی ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ اس خط کشیدہ کی جگہ میں بیٹھے ہوئے تھے ، لیکن جنات کے کھجوروں کے درختوں کے برابر کے قد و قامت وغیرہ دیکھ کر ڈر گئے اور بھاگ جانا چاہا لیکن فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم یاد آ گیا کہ اس حد سے باہر نہ نکلنا ۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اگر تم اس حد سے باہر آ جاتے تو قیامت تک ہماری تمہاری ملاقات نہ ہو سکتی “ اور روایت میں ہے کہ جنات کی یہ جماعت جن کا ذکر آیت «وَإِذْ صَرَفْنَا إِلَیْکَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ یَسْتَمِعُونَ الْقُرْآنَ فَلَمَّا حَضَرُوہُ قَالُوا أَنصِتُوا فَلَمَّا قُضِیَ وَلَّوْا إِلَی قَوْمِہِم مٰنذِرِینَ» (46-الأحقاف:29) میں ہے نینویٰ کی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ مجھے حکم دیا گیا کہ انہیں قرآن سناؤں تم میں سے میرے ساتھ کون چلے گا ؟ اس پر سب خاموش ہو گئے ، دوبارہ پوچھا : پھر خاموشی رہی ، تیسری مرتبہ دریافت کیا تو قبیلہ ہذیل کے شخص سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ تیار ہوئے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں ساتھ لے کر حجون کی گھاٹی میں گئے ۔ ایک لکیر کھینچ کر انہیں یہاں بٹھا دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھ گئے ۔ یہ دیکھنے لگے کہ گدھوں کی طرح کے زمین کے قریب اڑتے ہوئے کچھ جانور آ رہے ہیں ، تھوڑی دیر بعد بڑا غل غپاڑہ سنائی دینے لگا یہاں تک کہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر ڈر لگنے لگا ۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آئے تو میں نے کہا کہ یا رسول اللہ ! یہ شور و غل کیا تھا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ان کے ایک مقتول کا قصہ تھا ، جس میں یہ مختلف تھے ، ان کے درمیان صحیح فیصلہ کر دیا گیا ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:297/11:مرسل) یہ واقعات صاف ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قصدًا جا کر جنات کو قرآن سنایا ، انہیں اسلام کی دعوت دی اور جن مسائل کی اس وقت انہیں ضرورت تھی وہ سب بتا دئیے ۔ ہاں پہلی مرتبہ جب جنات نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی قرآن سنا اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ معلوم تھا ، نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سنانے کی غرض سے قرآن پڑھا تھا ، جیسے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اس کے بعد وہ وفود کی صورت میں آئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عمداً تشریف لے گئے اور انہیں قرآن سنایا ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس وقت نہ تھے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے بات چیت کی انہیں اسلام کی دعوت دی البتہ کچھ فاصلہ پر دور بیٹھے ہوئے تھے ۔ آپ کے ساتھ اس واقعہ میں سوائے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے اور کوئی نہ تھا اور دوسری تطبیق ان روایات میں جن میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ تھے اور جن میں ہے کہ نہ تھے یہ بھی ہو سکتی ہے کہ پہلی دفعہ نہ تھے دوسری مرتبہ تھے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» یہ بھی مروی ہے کہ نخلہ میں جن جنوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی تھی وہ نینویٰ کے تھے اور مکہ شریف میں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے وہ [ نصیبین ] کے تھے ۔ اور یہ جو روایتوں میں آیا ہے کہ ہم نے وہ رات بہت بری بسر کی اس سے مراد سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے سوا اور صحابہ رضی اللہ عنہم ہیں ، جنہیں اس بات کا علم نہ تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنات کو قرآن سنانے گئے ہیں ۔ لیکن یہ تاویل ہے ذرا دور کی ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» بیہقی میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حاجت اور وضو کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پانی کی ڈولچی لیے ہوئے جایا کرتے تھے ، ایک دن یہ پیچھے پیچھے پہنچے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : ” کون ہے ؟ “ جواب دیا کہ میں ابوہریرہ ہوں ، فرمایا : ” میرے استنجے کے لیے پتھر لاؤ لیکن ہڈی اور لید نہ لانا “ ، میں اپنی جھولی میں پتھر بھر لایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رکھ دئیے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فارغ ہو چکے اور چلنے لگے میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چلا اور پوچھا یا رسول اللہ ! کیا وجہ ہے جو آپ نے ہڈی اور لید سے منع فرما دیا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا : ” میرے پاس ( نصیبین ) کے جنوں کا وفد آیا تھا اور انہوں نے مجھ سے توشہ طلب کیا تھا تو میں نے اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا کی کہ وہ جس لید اور ہڈی پر گذریں اسے طَعام پائیں “ } ۔(بیہقی فی السنن الکبریٰ:233/2:ضعیف) صحیح بخاری میں بھی اسی کے قریب قریب مروی ہے (صحیح بخاری:3860) پس یہ حدیث اور اس سے پہلے کی حدیثیں دلالت کرتی ہیں کہ جنات کا وفد آپ کے پاس اس کے بعد بھی آیا تھا ۔ اب ہم ان احادیث کو بیان کرتے ہیں جو دلالت کرتی ہیں کہ جنات آپ کے پاس کئی دفعہ حاضر ہوئے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے جو روایت اس سے پہلے بیان ہو چکی ہے اس کے سوا بھی آپ سے دوسری سند سے مروی ہے ابن جریر میں ہے (تفسیر ابن جریر الطبری:297/11) آپ فرماتے ہیں یہ سات جن تھے [ نصیبین ] کے رہنے والے ۔ انہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے قاصد بنا کر جنات کی طرف بھیجا تھا ، مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں یہ جنات تعداد میں سات تھے [ نصیبین ] کے تھے ان میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین کو اہل حران سے ، کہا اور چار کو اہل [ نصیبین ] سے ، ان کے نام یہ ہیں ۔ «حسی» ، «حسا» ، «منسی» ، «ساحر» ، «ناصر» ، «الاردوبیان» ، «الاحتم» ۔ ابوحمزہ ثمالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں انہیں بنو شیصبان کہتے ہیں یہ قبیلہ جنات کے اور قبیلوں سے تعداد میں بہت زیادہ تھا اور یہ ان میں نصب کے بھی شریف مانے جاتے تھے اور عموماً یہ ابلیس کے لشکروں میں سے تھے ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں یہ نو تھے ان میں سے ایک کا نام روبعہ تھا ، اصل نخلہ سے آئے تھے ۔ بعض حضرات سے مروی ہے کہ یہ پندرہ تھے ۔ اور ایک روایت میں ہے کہ ساٹھ اونٹوں پر آئے تھے اور ان کے سردار کا نام وردان تھا اور کہا گیا ہے کہ تین سو تھے اور یہ بھی مروی ہے کہ بارہ ہزار تھے ۔ ان سب میں تطبیق یہ ہے کہ چونکہ وفود کئی ایک آئے تھے ممکن ہے کہ کسی میں چھ سات نو ہی ہوں کسی میں زیادہ کسی میں اس سے بھی زیادہ ۔ اس پر دلیل صحیح بخاری شریف کی یہ روایت بھی ہے کہ { سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جس چیز کی نسبت جب کبھی کہتے کہ میرے خیال میں یہ اس طرح ہو گی تو وہ عمومًا اسی طرح نکلتی ، ایک مرتبہ آپ بیٹھے ہوئے تھے تو ایک حسین شخص گزرا آپ رضی اللہ عنہ نے اسے دیکھ کر فرمایا : اگر میرا گمان غلط نہ ہو تو یہ شخص اپنے جاہلیت کے زمانہ میں ان لوگوں کا کاہن تھا ، جانا ذرا اسے لے آنا ، جب وہ آ گیا تو آپ نے اپنا یہ خیال اس پر ظاہر فرمایا ، وہ کہنے لگا مسلمانوں میں اس ذہانت و فطانت کا کوئی شخص آج تک میری نظر سے نہیں گزرا ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اب میں تجھ سے کہتا ہوں کہ تو اپنی کوئی صحیح اور سچی خبر سنا ، اس نے کہا : بہت اچھا سنئے میں جاہلیت کے زمانہ میں ان کا کاہن تھا ، میرے پاس میرا جن جو سب سے زیادہ تعجب خیز خبر لایا وہ سنئے ۔ میں ایک مرتبہ بازار جا رہا تھا تو وہ آ گیا اور سخت گھبراہٹ میں تھا اور کہنے لگا ، کیا تو نے جنوں کی بربادی مایوسی اور ان کے پھیلنے کے بعد سمٹ جانا اور ان کی درگت نہیں دیکھی ؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے یہ سچا ہے میں ایک مرتبہ ان کے بتوں کے پاس سویا ہوا تھا ایک شخص نے وہاں ایک بچھڑا چڑھایا کہ ناگہاں ایک سخت پُرزور آواز آئی ، ایسی کہ اتنی بلند اور کرخت آواز میں نے کبھی نہیں سنی اس نے کہا : اے جلیح ! نجات دینے والا امر آ چکا ، ایک شخص ہے جو فصیح زبان سے «لا الہ الا اللہ» کی منادی کر رہا ہے ۔ سب لوگ تو مارے ڈر کے بھاگ گئے لیکن میں وہیں بیٹھا رہا کہ دیکھوں آخر یہ کیا ہے ؟ کہ دوبارہ پھر اسی طرح وہی آواز سنائی دی اور اس نے وہی کہا پس کچھ ہی دن گزرے تھے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی آوازیں ہمارے کانوں میں پڑنے لگیں } ۔ (صحیح بخاری:3866) اس روایت سے ظاہر الفاظ سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ خود عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے یہ آوازیں اس ذبح شدہ بچھڑے سے سنیں اور ایک ضعیف روایت میں صریح طور پر یہ آ بھی گیا ہے لیکن باقی اور روایتیں یہ بتلا رہی ہیں کہ اسی کاہن نے اپنے دیکھنے سننے کا ایک واقعہ یہ بھی بیان کیا ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» امام بیہقی رحمہ اللہ نے یہی کہا ہے اور یہی کچھ اچھا معلوم ہوتا ہے اس شخص کا نام سواد بن قارب تھا جو شخص اس واقعہ کی پوری تفصیل دیکھنا چاہتا ہو وہ میری کتاب سیرۃ عمر دیکھ لے ۔ «وللہ الحمد المنہ» امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ممکن ہے یہی وہ کاہن ہو جس کا ذکر بغیر نام کے صحیح حدیث میں ہے { سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ منبر نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک مرتبہ خطبہ سنا رہے تھے ، اسی میں پوچھا کیا سواد بن قارب یہاں موجود ہیں لیکن اس پورے سال تک کسی نے ہاں نہیں کہی ، اگلے سال آپ رضی اللہ عنہ نے پھر پوچھا ، تو سیدنا براء رضی اللہ عنہ نے کہا : سواد بن قارب کون ہے ؟ اس سے کیا مطلب ہے ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اس کے اسلام لانے کا قصہ عجیب و غریب ہے ابھی یہ باتیں ہو ہی رہیں تھیں جو سواد بن قارب آ گئے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا : سواد اپنے اسلام کا ابتدائی قصہ سناؤ ، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : سنئے میں ہند گیا ہوا تھا ، میرا ساتھی جن ایک رات میرے پاس آیا میں اس وقت سویا ہوا تھا ، مجھے اس نے جگا دیا اور کہنے لگا اٹھ اور اگر کچھ عقل و ہوش ہیں تو سن لے سمجھ لے اور سوچ لے قبیلہ لوی بن غالب میں سے اللہ کے رسول مبعوث ہو چکے ہیں ، میں جنات کی حس اور ان کے بوریہ بستر باندھنے پر تعجب کر رہا ہوں اگر تو طالب ہدایت ہے تو فوراً مکے کی طرف کوچ کر ، سمجھ لے کہ بہتر اور بدتر جن یکساں نہیں ، جا جلدی جا اور بنو ہاشم کے اس دلارے کے منور مکھڑے پر نظریں تو ڈال لے ، مجھے پھر غنودگی سی آ گئی تو اس نے دوبارہ جگایا اور کہنے لگا ، اے سواد بن قارب ! اللہ عزوجل نے اپنا رسول بھیج دیا ہے تم ان کی خدمت میں پہنچو اور ہدایت اور بھلائی سمیٹ لو ۔ دوسری رات پھر آیا اور مجھے جگا کر کہنے لگا مجھے جنات کے جستجو کرنے اور جلد جلد پالان اور جھولیں کسنے پر تعجب معلوم ہوتا ہے اگر تو بھی ہدایت کا طالب ہے تو مکے کا قصد کر ۔ سمجھ لے کہ اس کے دونوں قدم اس کی دموں کی طرح نہیں ، تو اٹھ اور جلدی جلدی بنو ہاشم کے اس پسندیدہ شخص کی خدمت میں پہنچ اور اپنی آنکھیں اس کے دیدار سے منور کر ۔ تیسری رات پھر آیا اور کہنے لگا مجھے جنات کے باخبر ہو جانے اور ان کے قافلوں کے فوراً تیار ہو جانے پر تعجب آ رہا ہے وہ سب طلب ہدایت کے لیے مکہ کی طرف دوڑے جا رہے ہیں ان میں کے برے بھلوں کی برابری نہیں کر سکتے تو بھی اٹھ اور اس بنو ہاشم کے چیدہ شخص کی طرف چل کھڑا ہو ۔ مومن جنات کافروں کی طرح نہیں ، تین راتوں تک برابر یہی سنتے رہنے کے بعد میرے دل میں بھی دفعتًہ اسلام کا ولولہ اٹھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وقعت اور محبت سے دل پر ہو گیا ، میں نے اپنی سانڈنی پر کجاوہ کسا اور بغیر کسی جگہ قیام کئے سیدھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ، آپ اس وقت شہر مکہ میں تھے اور لوگ آپ کے آس پاس ایسے تھے جیسے گھوڑے پر ایال ۔ مجھے دیکھتے ہی یکبارگی اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” سواد بن قارب کو مرحبا ہو ، آؤ ہمیں معلوم ہے کہ کیسے اور کس لیے اور کس کے کہنے سننے سے آ رہے ہو “ ، میں نے کہا : یا رسول اللہ ! میں نے کچھ اشعار کہے ہیں اگر اجازت ہو تو پیش کروں ؟ آپ نے فرمایا : ” سواد شوق سے کہو “ ،تو سواد نے وہ اشعار پڑھے جن کا مضمون یہ ہے کہ میرے پاس میرا جن میرے سو جانے کے بعد رات کو آیا اور اس نے مجھے ایک سچی خبر پہنچائی ، تین راتیں برابر وہ میرے پاس آتا رہا اور ہر رات کہتا رہا کہ لوی بن غالب اللہ کے رسول مبعوث ہو چکے ہیں ، میں نے بھی سفر کی تیاری کر لی اور جلد جلد راہ طے کرتا یہاں پہنچ ہی گیا ، اب میری گواہی ہے کہ بجز اللہ کے اور کوئی رب نہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے امانت دار رسول ہیں ، آپ سے شفاعت کا آسرا سب سے زیادہ ہے ، اے بہترین بزرگوں اور پاک لوگوں کی اولاد ، اے تمام رسولوں سے بہتر رسول ، جو حکم آسمانی آپ ہمیں پہنچائیں گے وہ کتنا ہی مشکل اور طبیعت کے خلاف کیوں نہ ہو ناممکن کہ ہم اسے ٹال دیں ، آپ قیامت کے دن ضرور میرے سفارشی بننا کیونکہ وہاں بجز آپ کے سواد بن قارب کا سفارشی اور کون ہو گا ؟ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بہت ہنسے اور فرمانے لگے : ” سواد تم نے فلاح پا لی “ ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ واقعہ سن کر پوچھا : کیا وہ جن اب بھی تیرے پاس آتا ہے اس نے کہا : جب سے میں نے قرآن پڑھا وہ نہیں آتا اور اللہ کا بڑا شکر ہے کہ اس کے عوض میں نے رب کی پاک کتاب پائی } ۔ (بیہقی فی السنن اکبریٰ:249/2:ضعیف) اور اب جس حدیث کو ہم حافظ ابونعیم کی کتاب دلائل النبوۃ سے نقل کرتے ہیں اس میں بھی اس کا بیان ہے کہ { مدینہ شریف میں بھی جنات کا وفد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بازیاب ہوا تھا ۔ سیدنا عمرو بن غیلان ثقفی ، سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کے پاس جا کر ان سے دریافت کرتے ہیں کہ مجھے یہ معلوم ہوا کہ جس رات جنات کا وفد حاضر نبوت ہوا تھا اس رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ بھی تھے ؟ جواب دیا کہ ہاں ٹھیک ہے ، میں نے کہا : ذرا واقعہ تو سنائیے ۔ فرمایا : صفہ والے مساکین صحابہ کو لوگ اپنے اپنے ساتھ شام کا کھانا کھلانے لے گئے اور میں یونہی رہ گیا ، میرے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ہوا ، پوچھا : کون ہے ؟ میں نے کہا : ابن مسعود ، فرمایا : تمہیں کوئی نہیں لے گیا کہ تم بھی کھا لیتے ؟ میں نے جواب دیا نہیں ، کوئی نہیں لے گیا ، فرمایا : اچھا میرے ساتھ چلو شاہد کچھ مل جائے تو دے دوں گا ، میں ساتھ ہو لیا آپ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں گئے ، میں باہر ہی ٹھہر گیا ، تھوڑی دیر میں اندر سے ایک لونڈی آئی اور کہنے لگی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہم نے اپنے گھر میں کوئی چیز نہیں پائی ، تم اپنی خواب گاہ میں چلے جاؤ ۔ میں واپس مسجد میں آ گیا اور مسجد میں کنکریوں کا ایک چھوٹا سا ڈھیر کر کے اس پر سر رکھ کر اپنا کپڑا لپیٹ کر سو گیا تھوڑی ہی دیر گزری ہو گی تو وہی لونڈی پھر آئیں اور کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو یاد فرما رہے ہیں ، ساتھ ہو لیا اور مجھے امید پیدا ہو گئی کہ اب تو کھانا ضرور ملے گا ، جب میں اپنی جگہ پہنچا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے باہر تشریف لائے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں کھجور کے درخت کی ایک چھڑی تھی جسے میرے سینے پر رکھ کر فرمانے لگے ، جہاں میں جا رہا ہوں کیا تم بھی میرے ساتھ چلو گے ؟ میں نے کہا : جو اللہ نے چاہا ہو ، تین مرتبہ یہی سوال جواب ہوئے ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلے اور میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلنے لگا ، تھوڑی دیر میں بقیع غرقد جا پہنچے ، پھر قریب قریب وہی بیان ہے جو اوپر کی روایتوں میں گزر چکا ہے ۔ اس کی سند غریب ہے اور اس کی سند میں ایک مبہم راوی ہے جس کا نام ذکر نہیں کیا گیا } ۔ دلائل النبوۃ میں حافظ ابونعیم فرماتے ہیں کہ { مدینہ کی مسجد میں رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز ادا کی اور لوٹ کر لوگوں سے کہا : ” آج رات کو جنات کے وفد کی طرف تم میں سے کون میرے ساتھ چلے گا ؟ “ کسی نے جواب نہ دیا تین مرتبہ فرمان پر بھی کوئی نہ بولا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گزرے اور میرا ہاتھ تھام کر اپنے ساتھ لے چلے ، مدینہ کے پہاڑوں سے بہت آگے نکل کر صاف چٹیل میدان میں پہنچ گئے ، اب نیزوں کے برابر لمبے لمبے قد کے آدمی ، نیچے نیچے کپڑے پہنے ہوئے آنے شروع ہوئے ، میں تو انہیں دیکھ کر مارے ڈر کے کانپنے لگا ( ضعیف ) پھر اور واقعہ مثل حدیث سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے بیان کیا } ، یہ حدیث بھی غریب ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» اسی کتاب میں ایک غریب حدیث میں ہے کہ { عبداللہ کے ساتھی حج کو جا رہے تھے راستے میں ہم نے دیکھا کہ ایک سفید رنگ سانپ راستے میں لوٹ رہا ہے اور اس میں سے مشک کی خوشبو اڑ رہی ہے ، ابراہیم کہتے ہیں ، میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا تم تو سب جاؤ میں یہاں ٹھہر جاتا ہوں ، دیکھوں تو اس سانپ کا کیا ہوتا ہے ؟ چنانچہ وہ چل دئیے اور میں ٹھہر گیا ، تھوڑی ہی دیر گزری ہو گی جو وہ سانپ مر گیا ، میں نے ایک سفید کپڑا لے کر اس میں لپیٹ کر راستے کے ایک طرف دفن کر دیا اور رات کے کھانے کے وقت اپنے قافلے میں پہنچ گیا ، اللہ کی قسم ! میں بیٹھا ہوا تھا ، جو چار عورتیں مغرب کی طرف آئیں ، ان میں سے ایک نے پوچھا : عمرو کو کس نے دفن کیا ؟ ہم نے کہا : کون عمرو ؟ اس نے کہا : تم میں سے کسی نے ایک سانپ کو دفن کیا ہے ؟ میں نے کہا : ہاں ، میں نے دفن کیا ہے ، کہنے لگی قسم ہے اللہ کی تم نے بڑے روزے دار بڑے پختہ نمازی کو دفن کیا ہے جو تمہارے نبی کو مانتا تھا اور جس نے آپ کے نبی ہونے سے چار سو سال پیشتر آسمان سے آپ کی صفت سنی تھی ۔ (ابونعیم فی الحلیۃ275) ابراہیم کہتے ہیں اس پر ہم نے اللہ تبارک و تعالیٰ کی حمد و ثنا کی پھر حج سے فارغ ہو کر جب ہم سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پہنچے اور میں نے آپ رضی اللہ عنہ کو یہ سارا واقعہ سنایا تو آپ نے فرمایا : اس عورت نے سچ کہا ۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ مجھ پر ایمان لایا تھا میری نبوت کے چار سو سال پہلے } ، یہ حدیث بھی غریب ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ایک روایت میں ہے کہ { دفن کفن کرنے والے سیدنا صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ تھے ، کہتے ہیں کہ یہ صاحب جو یہاں دفن کئے گئے یہ ان نو جنات میں سے ایک ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قرآن سننے کے لیے وفد بن کر آئے تھے ، ان کا انتقال ان سب سے اخیر میں ہوا } ۔ ابونعیم میں ایک روایت ہے کہ { ایک شخص سیدنا عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ کی خدمت میں آئے اور کہنے لگے امیر المؤمنین ! میں ایک جنگل میں تھا ، میں نے دیکھا کہ دو سانپ آپس میں خوب لڑ رہے ہیں یہاں تک کہ ایک نے دوسرے کو مار ڈالا ۔ اب میں انہیں چھوڑ کر جہاں معرکہ ہوا تھا وہاں گیا تو بہت سے سانپ قتل کئے ہوئے پڑے ہیں اور بعض سے اسلام کی خوشبو آ رہی ہے پس میں نے ایک ایک کو سونگھنا شروع کیا یہاں تک کہ ایک زرد رنگ کے دبلے پتلے سانپ سے مجھے اسلام کی خوشبو آنے لگی ، میں نے اپنے عمامے میں لپیٹ کر اسے دفنا دیا ، اب میں چلا جا رہا تھا ، جو میں نے ایک آواز سنی کہ اے اللہ کے بندے تجھے اللہ کی طرف سے ہدایت دی گئی ۔ یہ دونوں سانپ جنات کے قبیلہ بنو شیعبان اور بنو اقیش میں سے تھے ۔ ان دونوں میں جنگ ہوئی اور پھر جس قدر قتل ہوئے وہ تم نے خود دیکھ لیے انہی میں ایک شہید جنہیں تم نے دفن کیا وہ تھے جنہوں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی وحی الٰہی سنی تھی ۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اس قصے کو سن کر فرمانے لگے : اے شخص ! اگر تو سچا ہے تو اس میں شک نہیں کہ تو نے عجب واقعہ دیکھا اور اگر تو جھوٹا ہے تو جھوٹ کا بوجھ تجھ پر ہے } ۔ (ابونعیم فی الحلیۃ256،منکر) اب آیت کی تفسیر سنئے ارشاد ہے کہ جب ہم نے تیری طرف جنات کے ایک گروہ کو پھیرا جو قرآن سن رہا تھا جب وہ حاضر ہو گئے اور تلاوت شروع ہونے کو تھی تو انہوں نے آپس میں ایک دوسرے کو یہ ادب سکھایا کہ خاموشی سے سنو ۔ ان کا ایک اور ادب بھی حدیث میں آیا ہے ۔ ترمذی وغیرہ میں ہے کہ { ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سامنے سورۃ الرحمن کی تلاوت کی پھر فرمایا : ” کیا بات ہے ؟ جو تم سب خاموش ہی رہے ، تم سے تو بہت اچھے جواب دینے والے جنات ثابت ہوئے ، جب بھی میرے منہ سے انہوں نے «فَبِاَیِّ اٰلَاءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ» (55-الرحمن:13) سنی انہوں نے جواب میں کہا : «ولا بشیءٍ من الائک او نعمک ربنا نکذب فلک الحمد» } ۔ پھر فرماتا ہے جب فراغت حاصل کی گئی ۔ «قضی» کے معنی ان آیتوں میں بھی یہی ہیں «فَإِذَا قُضِیَتِ الصَّلَاۃُ فَانتَشِرُوا فِی الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِن فَضْلِ اللہِ وَاذْکُرُوا اللہَ کَثِیرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ» (62-الجمعۃ:10) ۔ اور «فَقَضَاہُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ فِی یَوْمَیْنِ وَأَوْحَی فِی کُلِّ سَمَاءٍ أَمْرَہَا وَزَیَّنَّا السَّمَاءَ الدٰنْیَا بِمَصَابِیحَ وَحِفْظًا ذَلِکَ تَقْدِیرُ الْعَزِیزِ الْعَلِیمِ» (41-فصلت:12) ۔ اور «فَإِذَا قَضَیْتُم مَّنَاسِکَکُمْ» (2-البقرۃ:200) وہ اپنی قوم کو دھمکانے اور انہیں آگاہ کرنے کے لیے واپس ان کی طرف چلے ۔ جیسے اللہ عزوجل و علا کا فرمان ہے «فَّۃً فَلَوْلَا نَفَرَ مِن کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْہُمْ طَائِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّہُوا فِی الدِّینِ وَلِیُنذِرُوا قَوْمَہُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَیْہِمْ لَعَلَّہُمْ یَحْذَرُونَ» (9-التوبہ:122) ، یعنی وہ دین کی سمجھ حاصل کریں اور جب واپس اپنی قوم کے پاس پہنچیں تو انہیں بھی ہوشیار کر دیں بہت ممکن ہے کہ وہ بچاؤ اختیار کر لیں ۔ اس آیت سے استدلال کیا گیا ہے کہ جنات میں بھی اللہ کی باتوں کو پہنچانے والے اور ڈر سنانے والے ہیں لیکن ان میں سے رسول نہیں بنائے گئے ، یہ بات بلا شک ثابت ہے کہ جنوں میں پیغمبر نہیں ہیں ۔ فرمان باری ہے «وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِکَ إِلَّا رِجَالًا نٰوحِی إِلَیْہِم مِّنْ أَہْلِ الْقُرَی» (12-یوسف:109) یعنی ’ ہم نے تجھ سے پہلے بھی جتنے رسول بھیجے وہ سب بستیوں کے رہنے والے انسان ہی تھے جن کی طرف ہم نے اپنی وحی بھیجا کرتے تھے ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَمَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَکَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّآ اِنَّہُمْ لَیَاْکُلُوْنَ الطَّعَامَ وَیَمْشُوْنَ فِی الْاَسْوَاقِ وَجَعَلْنَا بَعْضَکُمْ لِبَعْضٍ فِتْنَۃً اَتَصْبِرُوْنَ وَکَانَ رَبٰکَ بَصِیْرًا» (25-الفرقان:20) یعنی ’ تجھ سے پہلے ہم نے جتنے رسول بھیجے وہ سب کھانا کھاتے تھے اور بازاروں میں چلتے پھرتے تھے ‘ ۔ ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی نسبت قرآن میں ہے «وَجَعَلْنَا فِی ذُرِّیَّتِہِ النٰبُوَّۃَ وَالْکِتَابَ وَآتَیْنَاہُ أَجْرَہُ فِی الدٰنْیَا وَإِنَّہُ فِی الْآخِرَۃِ لَمِنَ الصَّالِحِینَ» (29-العنکبوت:27) یعنی ’ ہم نے ان کی اولاد میں نبوۃ اور کتاب رکھ دی ‘ ،پس آپ کے بعد جتنے بھی نبی آئے وہ آپ علیہ السلام ہی کے خاندان اور آپ علیہ السلام ہی کی نسل میں سے ہوئے ہیں ۔ لیکن سورۃ الانعام کی آیت «یَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ أَلَمْ یَأْتِکُمْ رُسُلٌ مِّنکُمْ یَقُصٰونَ عَلَیْکُمْ آیَاتِی وَیُنذِرُونَکُمْ لِقَاءَ یَوْمِکُمْ ہَـذَا» (6-الانعام:130) یعنی ’ اے جنوں اور انسانوں کے گروہ کیا تمہارے پاس تم میں سے رسول نہیں آئے تھے ؟ ‘ اس کا مطلب اور اس سے مراد یہ دونوں جنس ہیں پس اس کا مصداق ایک جنس ہی ہو سکتی ہے ، جیسے فرمان «یَخْرُجُ مِنْہُمَا اللٰؤْلُؤُ وَالْمَرْجَانُ» (55-الرحمن:22) یعنی ’ ان دونوں سمندروں میں سے موتی اور مونگا نکلتا ہے ‘ حالانکہ دراصل ایک میں سے ہی نکلتا ہے ۔ الأحقاف
30 ایمان دار جنوں کی آخری منزل اب بیان ہو رہا ہے جنات کے اس وعظ کا جو انہوں نے اپنی قوم میں کیا ۔ فرمایا کہ ہم نے اس کتاب کو سنا ہے جو موسیٰ کے بعد نازل ہوئی ہے ، عیسیٰ کی کتاب انجیل کا ذکر اس لیے چھوڑ دیا کہ وہ دراصل توراۃ پوری کرنے والی تھی ۔ اس میں زیادہ تر وعظ کے اور دل کو نرم کرنے کے بیانات تھے ، حرام حلال کے مسائل بہت کم تھے ، پس اصل چیز توراۃ ہی رہی ، اسی لیے ان مسلم جنات نے اسی کا ذکر کیا اور اسی بات کو پیش نظر رکھ کر ورقہ بن نوفل نے جس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی جبرائیل علیہ السلام کے اول دفعہ آنے کا حال سنا تو کہا تھا کہ واہ واہ یہی تو وہ مبارک وجود اللہ کے بھیدی کا ہے جو موسیٰ کے پاس آیا کرتے تھے ، کاش کہ میں اور کچھ زمانہ زندہ رہتا ، الخ ۔ پھر قرآن کی اور صف بیان کرتے ہیں کہ وہ اپنے سے پہلے تمام آسمانی کتابوں کو سچا بتلاتا ہے ، وہ اعتقادی مسائل اور اخباری مسائل میں حق کی جانب رہبری کرتا ہے اور اعمال میں راہ راست دکھاتا ہے ۔ قرآن میں دو چیزیں ہیں یا خبر یا طلب ، پس اس کی خبر سچی اور اس کی طلب عدل والی ۔ جیسے فرمان ہے آیت «وَتَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ صِدْقًا وَعَدْلًا لَّا مُبَدِّلَ لِکَلِمَاتِہِ وَہُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ» (6-الانعام:115) یعنی ’ تیرے رب کا کلمہ سچائی اور عدل کے لحاظ سے بالکل پورا ہی ہے ‘ ۔ اور آیت میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتا ہے «ہُوَ الَّذِی أَرْسَلَ رَسُولَہُ بِالْہُدَی وَدِینِ الْحَقِّ» (9-التوبۃ:33) الخ یعنی ’ وہ اللہ جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور حق دین کے ساتھ بھیجا ہے ‘ ،پس ہدایت نفع دینے والا علم ہے اور دین حق نیک عمل ہے یہی مقصد جنات کا تھا ۔ پھر کہتے ہیں ، اے ہماری قوم ! اللہ کے داعی کی دعوت پر لبیک کہو ۔ اس میں دلالت ہے اس امر کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جن و انس کی دونوں جماعتوں کی طرف اللہ کی طرف سے رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں اس لیے کہ آپ نے جنات کو اللہ کی طرف دعوت دی اور ان کے سامنے قرآن کریم کی وہ سورت پڑھی جس میں ان دونوں جماعتوں کو مخاطب کیا گیا ہے اور ان کے نام احکام جاری فرمائے ہیں اور وعدہ وعید بیان کیا ہے یعنی سورۃ الرحمن ۔ پھر فرماتے ہیں ایسا کرنے سے وہ تمہارے بعض گناہ بخش دے گا ۔ لیکن یہ اس صورت میں ہو سکتا ہے جب لفظ «من» کو زائدہ نہ مانیں ، چنانچہ ایک قول مفسرین کا یہ بھی ہے اور قاعدے کے مطابق اثبات کے موقعہ پر لفظ «من» بہت ہی کم زائد آتا ہے اور اگر زائد مان لیا جائے تو مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے گناہ معاف فرمائے گا اور تمہیں اپنے المناک عذابوں سے رہائی دے گا ۔ اس آیت سے بعض علماء نے استدلال کیا ہے کہ ایماندار جنوں کو بھی جنت نہیں ملے گی ، ہاں عذاب سے وہ چھٹکارا پا لیں گے ، یہی ان کی نیک اعمالیوں کا بدلہ ہے اور اگر اس سے زیادہ مرتبہ بھی انہیں ملنے والا ہوتا تو اس مقام پر یہ مومن جن اسے ضرور بیان کر دیتے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ مومن جن جنت میں نہیں جائیں گے اس لیے کہ وہ ابلیس کی اولاد سے ہیں اور اولاد ابلیس جنت میں نہیں جائے گی ۔ لیکن حق یہ ہے کہ مومن جن مثل ایماندار انسانوں کے ہیں اور وہ جنت میں جگہ پائیں گے جیسا کہ سلف کی ایک جماعت کا مذہب ہے بعض لوگوں نے اس پر اس آیت سے استدلال کیا ہے «فِیہِنَّ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ لَمْ یَطْمِثْہُنَّ إِنسٌ قَبْلَہُمْ وَلَا جَانٌّ» ( 55- الرحمن : 56 ) یعنی ’ حوران بہشتی کو اہل جنت سے پہلے نہ کسی انسان کا ہاتھ لگا نہ کسی جن کا ‘ ۔ لیکن اس استدلال میں نظر ہے اس سے بہت بہتر استدلال تو اللہ عزوجل کے اس فرمان سے ہے «وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہِ جَنَّتَانِ» * «فَبِأَیِّ آلَاءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ» (55-الرحمن:47،46) یعنی ’ جو کوئی اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا اس کے لیے دو دو جنتیں ہیں ، پھر اے جنو اور انسانو ! تم اپنے پروردگار کی کون سی نعمت کو جھٹلاتے ہو ؟ ‘ ۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ انسانوں اور جنوں پر اپنا احسان جتاتا ہے کہ ان کے نیک کار کا بدلہ جنت ہے اور اس آیت کو سن کر مسلمان انسانوں سے بہت زیادہ شکر یہ مسلمان جنوں نے کیا اور اسے سنتے ہی کہا کہ اللہ ہم تیری نعمتوں میں سے کسی کے انکاری نہیں ، ہم تیرے بہت بہت شکر گزار ہیں ، ایسا تو نہیں ہو سکتا کہ ان کے سامنے ان پر وہ احسان جتایا جائے جو اصل انہیں ملنے کا نہیں ۔ اور بھی ہماری ایک دلیل سنئے جب کافر جنات کو جہنم میں ڈالا جائے گا جو مقام عدل ہے تو مومن جنات کو جنت میں کیوں نہ لے جایا جائے جو مقام فضل ہے بلکہ یہ بہت زیادہ لائق اور بطور اولیٰ ہونے کے قابل ہے اور اس پر وہ آیتیں بھی دلیل ہیں جن میں عام طور پر ایمانداروں کو جنت کو خوشخبری دی گئی ہے مثلا «اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ کَانَتْ لَہُمْ جَنّٰتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًا» (18-الکہف:107) وغیرہ وغیرہ یعنی ایمان داروں کا مہمان خانہ یقینًا جنت فردوس ہے ۔ «الحمداللہ» میں نے اس مسئلہ کو بہت کچھ وضاحت کے ساتھ اپنی ایک مستقل تصنیف میں بیان کر دیا ہے اور سنئے جنت کا تو یہ حال ہے کہ ایمانداروں کے کل کے داخل ہو جانے کے بعد بھی اس میں بےحد و حساب جگہ بچ رہے گی ۔ اور پھر ایک نئی مخلوق پیدا کر کے انہیں اس میں آباد کیا جائے گا ۔ پھر کوئی وجہ نہیں کہ ایماندار اور نیک عمل والے جنات جنت میں نہ بھیجے جائیں اور سنئے یہاں دو باتیں بیان کی گئی ہیں گناہوں کی بخشش اور عذابوں سے رہائی اور جب یہ دونوں چیزیں ہیں تو یقیناً یہ مستلزم ہیں دخول جنت کو ۔ اس لیے کہ آخرت میں یا جنت ہے یا جہنم ، پس جو شخص جہنم سے بچا لیا گیا وہ قطعًا جنت میں جانا چاہیئے اور کوئی نص صریح یا ظاہر اس بات کے بیان میں وارد نہیں ہوئی کہ مومن جن باوجود دوزخ سے بچ جانے کے جنت میں نہیں جائیں گے اگر کوئی اس قسم کی صاف دلیل ہو تو بیشک ہم اس کے ماننے کے لیے تیار ہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» نوح علیہ السلام کو دیکھئیے اپنی قوم سے فرماتے ہیں «یَغْفِرْ لَکُم مِّن ذُنُوبِکُمْ وَیُؤَخِّرْکُمْ إِلَیٰ أَجَلٍ مٰسَمًّی» (71-نوح:4) ’ اللہ تمہارے گناہوں کو [ بوجہ ایمان لانے کے ] بخش دے گا اور ایک وقت مقرر تک تمہیں مہلت دے گا ‘ ۔ تو یہاں بھی دخول جنت کا ذکر نہ ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ نوح علیہ السلام کی قوم کے مسلمان جنت میں نہیں جائیں گے بلکہ بالاتفاق وہ سب جنتی ہیں پس اسی طرح یہاں بھی سمجھ لیجئے ۔ اب چند اور اقوال بھی اس مسئلہ میں سن لیجئے عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ بیچ جنت میں تو یہ پہنچیں گے نہیں البتہ کناروں پر ادھر ادھر رہیں گے ۔ بعض لوگ کہتے ہیں جنت میں تو وہ ہوں گے لیکن دنیا کے بالکل برعکس انسان انہیں دیکھیں گے اور یہ انسانوں کو دیکھ نہیں سکیں گے ۔ بعض لوگوں کا قول ہے کہ وہ جنت میں کھائیں پئیں گے نہیں صرف تسبیح و تحمید و تقدیس کا طَعام ہو گا جیسے فرشتے اس لیے کہ یہ بھی انہی کی جنس سے ہیں ۔ لیکن ان تمام اقوال میں نظر ہے اور سب بے دلیل ہیں ۔ پھر مومن واعظ فرماتے ہیں کہ جو اللہ کے داعی کی دعوت کو قبول نہ کرے گا وہ زمین میں اللہ تعالیٰ کو ہرا نہیں سکتا بلکہ قدرت اللہ اس پر شامل اور اسے گھیرے ہوئے ہے اس کے عذابوں سے انہیں کوئی بچا نہیں سکتا ، یہ کھلے بہکاوے میں ہیں ، خیال فرمائیے کہ تبلیغ کا یہ طریقہ کتنا پیارا اور کس قدر موثر ہے ، رغبت بھی دلائی اور دھمکایا بھی اسی لیے ان میں سے اکثر ٹھیک ہو گئے اور قافلے کے قافلے اور فوجیں بن کر کئی کئی بار اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں باریاب ہوئے اور اسلام قبول کیا جیسے کہ پہلے مفصلًا ہم نے بیان کر دیا ہے جس پر ہم جناب باری کے احسان کے شکر گزار ہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» الأحقاف
31 الأحقاف
32 الأحقاف
33 1 اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا ان لوگوں نے جو مرنے کے بعد جینے کے منکر ہیں اور قیامت کے دن جسموں سمیت جی اٹھنے کو محال جانتے ہیں یہ نہیں دیکھا کہ اللہ نے کل آسمانوں اور تمام زمینوں کو پیدا کیا اور ان کی پیدائش نے اسے کچھ نہ تھکایا بلکہ صرف ہو جا کے کہنے سے ہی ہو گئیں ، کون تھا جو اس کے حکم کی خلاف ورزی کرتا ، یا مخالفت کرتا بلکہ حکم برداری سے راضی خوشی ڈرے دبتے سب موجود ہو گئے ، کیا اتنی کامل قدرت و قوت والا مرُدوں کے زندہ کر دینے کی سکت نہیں رکھتا ؟ چنانچہ دوسری آیت میں ہے «لَخَــلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَکْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ» (40-غافر:57) یعنی ’ انسانوں کی پیدائش سے تو بہت بھاری اور مشکل اور بہت بڑی اہم پیدائش آسمان و زمین کی ہے لیکن اکثر لوگ بےسمجھ ہیں ‘ ۔ جب زمین و آسمان کو اس نے پیدا کر دیا تو انسان کا پیدا کر دینا خواہ ابتدًا ہو ، خواہ دوبارہ ہو اس پر کیا مشکل ہے ؟ اسی لیے یہاں بھی فرمایا کہ ہاں وہ ہر شے پر قادر ہے اور انہی میں سے موت کے بعد زندہ کرتا ہے کہ اس پر بھی وہ صحیح طور پر قادر ہے ۔ پھر اللہ جل و علا کافروں کو دھمکاتا ہے کہ قیامت والے دن جہنم میں ڈالے جائیں گے ، اس سے پہلے جہنم کے کنارے پر انہیں کھڑا کر کے ایک مرتبہ پھر لاجواب اور بے حجت کیا جائے گا اور کہا جائے گا ، کیوں جی ہمارے وعدے اور یہ دوزخ کے عذاب اب تو صحیح نکلے یا اب بھی شک و شبہ اور انکار و تکذیب ہے ؟ یہ جادو تو نہیں ، تمہاری آنکھیں تو اندھی نہیں ہو گئیں ؟ جو دیکھ رہے ہو صحیح دیکھ رہے ہو یا درحقیقت صحیح نہیں ؟ اب سوائے اقرار کے کچھ نہ بن پڑے گا ، جواب دیں گے کہ ہاں ہاں سب حق ہے جو کہا گیا تھا وہی نکلا قسم اللہ کی اب ہمیں رتی برابر بھی شک نہیں، اللہ فرمائے گا اب دو گھڑی پہلے کے کفر کا مزہ چکھو ۔ الأحقاف
34 الأحقاف
35 1 پھر اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو تسلی دے رہا ہے کہ آپ کی قوم نے اگر آپ کو جھٹلایا ، آپ کی قدر نہ کی ، آپ کی مخالفت کی ، ایذاء رسانی کے درپے ہوئے تو یہ کوئی نئی بات تھوڑی ہی ہے ؟ اگلے اولوالعزم پیغمبروں کو یاد کرو کہ کیسی کیسی ایذائیں ، مصیبتیں اور تکلیفیں برداشت کیں اور کن کن زبردست مخالفوں کی مخالفت کو صبر سے برداشت کیا ان رسولوں کے نام یہ ہیں نوح ، ابراہیم ، موسیٰ ، عیسیٰ ، اور خاتم الانبیاء اللھم صلی علیہم اجمعین ۔ انبیاء علیہ السلام کے بیان میں ان کے نام خصوصیت سے سورۃ الاحزاب اور سورۃ شوریٰ میں مذکور ہیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اولوالعزم رسول سے مراد سب پیغمبر علیہ السلام ہوں تو «من الرسل» کا «من» بیان جنس کے لیے ہو گا ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھا پھر بھوکے ہی رہے پھر روزہ رکھا پھر بھوکے ہی رہے اور پھر روزہ رکھا پھر فرمانے لگے عائشہ محمد اور آل محمد کے لائق تو دنیا ہے ہی نہیں ۔ عائشہ دنیا کی بلاؤں اور مصیبتوں پر صبر کرنے اور دنیا کی خواہش کی چیزوں سے اپنے تئیں بچائے رکھنے کا حکم اولوالعزم رسول کئے گئے اور وہی تکلیف مجھے بھی دی گئی ہے جو ان عالی ہمت رسولوں کو دی گئی تھی ۔ قسم اللہ کی میں بھی انہی کی طرح اپنی طاقت بھر صبر و سہار سے ہی کام لوں گا اللہ کی قوت کے بھروسے پر یہ بات زبان سے نکال رہا ہوں ۔ (شرح السنۃ للبغوی4046ضعیف) پھر فرمایا : اے نبی ! یہ لوگ عذابوں میں مبتلا کئے جائیں اس کی جلدی نہ کرو ۔ جیسے اور آیت میں ہے «وَذَرْنِی وَالْمُکَذِّبِینَ أُولِی النَّعْمَۃِ وَمَہِّلْہُمْ قَلِیلًا» ۔ (73-المزمل:11) اور «فَمَہِّلِ الْکَافِرِینَ أَمْہِلْہُمْ رُوَیْدًا» (86-الطارق:17) ، یعنی کافروں کو مہلت دو ، انہیں تھوڑی دیر چھوڑ دو ۔ پھر فرماتا ہے جس دن یہ ان چیزوں کا مشاہدہ کر لیں گے جن کے وعدے آج دئیے جاتے ہیں اس دن انہیں معلوم ہونے لگے گا کہ دنیا میں صرف دن کا کچھ ہی حصہ گزارا ہے ۔ اور آیت میں ہے «أَنَّہُمْ یَوْمَ یَرَوْنَہَا لَمْ یَلْبَثُوا إِلَّا عَشِیَّۃً أَوْ ضُحَاہَا» (79-النازعات:46) یعنی ’ جس دن یہ قیامت کو دیکھ لیں گے تو ایسا معلوم ہو گا کہ گویا دنیا میں صرف ایک صبح یا ایک شام ہی گزاری تھی ‘ ۔ «وَیَوْمَ یَحْشُرُھُمْ کَاَنْ لَّمْ یَلْبَثُوْٓا اِلَّا سَاعَۃً مِّنَ النَّہَارِ یَتَعَارَفُوْنَ بَیْنَھُمْ قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِلِقَاءِ اللّٰہِ وَمَا کَانُوْا مُہْتَدِیْنَ» (10-یونس:45) یعنی ’ جس دن ہم انہیں جمع کریں گے تو یہ محسوس کرنے لگیں گے کہ گویا دن کی ایک ساعت ہی دنیا میں رہے تھے ‘ ۔ پھر فرمایا پہنچا دینا ہے ۔ اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں ایک تو یہ کہ دنیا کا ٹھہرنا صرف ہماری طرف سے ہماری باتوں کے پہنچا دینے کے لیے تھا دوسرے یہ کہ یہ قرآن صرف پہنچا دینے کیلئے ہے یہ کھلی تبلیغ ہے ۔ پھر فرماتا ہے سوائے فاسقوں کے اور کسی کو ہلاکی نہیں ۔ یہ اللہ جل و علا کا عدل ہے کہ جو خود ہلاک ہوا اسے ہی وہ ہلاک کرتا ہے ، عذاب اسی کو ہوتے ہیں جو خود اپنے ہاتھوں اپنے لیے عذاب مہیا کرے اور اپنے آپ کو مستحق عذاب کر دے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» «الحمدللہ» سورۃ الاحقاف کی تفسیر اختتام پذیر ہوئی۔ الأحقاف
0 محمد
1 1 ارشاد ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے خود بھی اللہ کی آیتوں کا انکار کیا اور دوسروں کو بھی راہ اللہ سے روکا اللہ نے ان کے اعمال ضائع کر دئیے ان کی نیکیاں بیکار ہو گئیں ۔ جیسے فرمان ہے «وَقَدِمْنَا إِلَیٰ مَا عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاہُ ہَبَاءً مَّنثُورًا» ۱؎ (25-الفرقان:23) ’ ہم نے ان کے اعمال پہلے ہی غارت و برباد کر دئیے ہیں ‘ ، اور جو لوگ ایمان لائے دل سے اور شرع کے مطابق اعمال کئے بدن سے یعنی ظاہر و باطن دونوں اللہ کی طرف جھکا دئیے ۔ اور اس وحی الٰہی کو بھی مان لیا جو موجودہ آخر الزمان پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم پر اتاری گئی ہے ۔ اور جو فی الواقع رب کی طرف سے ہی ہے اور جو سراسر حق و صداقت ہی ہے ۔ ان کی برائیاں برباد ہیں اور ان کے حال کی اصلاح کا ذمہ دار خود اللہ ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہو چکنے کے بعد ایمان کی شرط آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اور قرآن پر ایمان لانا بھی ہے ۔ حدیث کا حکم ہے کہ { جس کی چھینک پر حمد کرنے کا جواب دیا گیا ہو اسے چاہیئے کہ «یَہْدِیکُمُ اللَّہُ وَیُصْلِحُ بَالَکُمْ» کہے یعنی اللہ تمہیں ہدایت دے اور تمہاری حالت سنوار دے } ۔ (صحیح بخاری:6224) پھر فرماتا ہے کفار کے اعمال غارت کر دینے کی مومنوں کی برائیاں معاف فرما دینے اور ان کی شان سنوار دینے کی وجہ یہ ہے کہ کفار تو ناحق کو اختیار کرتے ہیں حق کو چھوڑ کر اور مومن ناحق کو پرے پھینک کر حق کی پابندی کرتے ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ لوگوں کے انجام کو بیان فرماتا ہے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ خوب جاننے والا ہے ۔ محمد
2 محمد
3 محمد
4 جب کفار سے میدان جہاد میں آمنا سامنا ہو جائے یہاں ایمان داروں کو جنگی احکام دئیے جاتے ہیں کہ جب کافروں سے مڈبھیڑ ہو جائے دستی لڑائی شروع ہو جائے تو ان کی گردنیں اڑاؤ ، تلواریں چلا کر گردن دھڑ سے اڑا دو ۔ پھر جب دیکھو کہ دشمن ہارا اس کے آدمی کافی کٹ چکے تو باقی ماندہ کو مضبوط قید و بند کے ساتھ مقید کر لو ، جب لڑائی ختم ہو چکے ، معرکہ پورا ہو جائے ، تو پھر تمہیں اختیار ہے کہ قیدیوں کو بطور احسان بغیر کچھ لیے ہی چھوڑ دو اور یہ بھی اختیار ہے کہ ان سے تاوان جنگ وصول کرو پھر چھوڑو ۔ بہ ظاہر معلوم ہوتا ہے کہ بدر کے غزوے کے بعد یہ آیت اتری ہے کیونکہ بدر کے معرکہ میں زیادہ تر مخالفین کو قید کرنے اور قید کرنے کی کمی کرنے میں مسلمانوں پر عتاب کیا گیا تھا اور فرمایا تھا «مَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّکُوْنَ لَہٗٓ اَسْرٰی حَتّٰی یُثْخِنَ فِی الْاَرْضِ تُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الدٰنْیَا وَاللّٰہُ یُرِیْدُ الْاٰخِرَۃَ وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ لَّوْلَا کِتَابٌ مِّنَ اللہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیمَا أَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیمٌ» ۱؎ (8-الانفال:67) ، ’ نبی کو لائق نہ تھا کہ اس کے پاس قیدی ہوں جب تک کہ ایک مرتبہ جی کھول کر مخالفین میں موت کی گرم بازاری نہ ہو لے کیا تم دنیوی اسباب کی چاہت میں ہو ؟ اللہ کا ارادہ تو آخرت کا ہے اور اللہ عزیز و حکیم ہے ۔ اگر پہلے ہی سے اللہ کا لکھا ہوا نہ ہوتا تو جو تم نے لیا اس کی بابت تمہیں بڑا عذاب ہوتا ‘ ۔ بعض علماء کا قول ہے کہ یہ اختیار منسوخ ہے اور یہ آیت ناسخ ہے آیت «فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْہُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَیْثُ وَجَدْتٰمُــوْہُمْ وَخُذُوْہُمْ وَاحْصُرُوْہُمْ وَاقْعُدُوْا لَہُمْ کُلَّ مَرْصَدٍ فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَخَــلٰوْا سَـبِیْلَہُمْ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ» ۱؎ (9-التوبۃ:5) ، کی یعنی ’ حرمت والے مہینے جب گزر جائیں تو مشرکوں کو جہاں پاؤ وہیں قتل کرو ‘ ۔ لیکن اکثر علماء کا فرمان ہے کہ منسوخ نہیں ۔ اب بعض تو کہتے ہیں قتل کر ڈالنے کا بھی اختیار ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ { بدر کے قیدیوں میں سے نضر بن حارث اور عقبہ بن ابومعیط کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قتل کرا دیا تھا اور یہ بھی اس کی دلیل ہے کہ ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ نے جب کہ وہ اسیری حالت میں تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا تھا کہ کہو ثمامہ ! کیا خیال ہے ؟ ، تو انہوں نے کہا : اگر آپ قتل کریں گے تو ایک خون والے کو قتل کریں گے اور اگر آپ احسان رکھیں گے تو ایک شکر گزار پر احسان رکھیں گے اور اگر مال طلب کرتے ہیں تو جو آپ مانگیں گے مل جائے گا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4372) امام شافعی رحمہ اللہ ایک چوتھی بات کا بھی اختیار بتاتے ہیں یعنی قتل ، احسان ، بدلے کا اور غلام بنا کر رکھ لینے کا ۔ اس مسئلے کی تفصیل کی جگہ فروعی مسائل کی کتابیں ہیں ۔ اور ہم نے بھی اللہ کے فضل و کرم سے کتاب الاحکام میں اس کے دلائل بیان کر دئیے ہیں ۔ پھر فرماتا ہے یہاں تک کہ لڑائی اپنے ہتھیار رکھ دے یعنی بقول مجاہد رحمہ اللہ عیسیٰ علیہ السلام نازل ہو جائیں ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:308/11:) ممکن ہے مجاہد رحمہ اللہ کی نظریں اس حدیث پر ہوں جس میں ہے { میری امت ہمیشہ حق کے ساتھ ظاہر رہے گی یہاں تک کہ ان کا آخری شخص دجال سے لڑے گا } ۔۱؎ (سنن ابوداود:2484،قال الشیخ الألبانی:صحیح) مسند احمد اور نسائی میں ہے کہ { سلمہ بن نفیل رضی اللہ عنہ خدمت نبوی میں حاضر ہوئے اور عرض کرنے لگے میں نے گھوڑوں کو چھوڑ دیا اور ہتھیار الگ کر دئیے اور لڑائی نے اپنے ہتھیار رکھ دئیے اور میں نے کہہ دیا کہ اب لڑائی ہے ہی نہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اب لڑائی آ گئی ، میری امت میں سے ایک جماعت ہمیشہ لوگوں پر ظاہر رہے گی جن لوگوں کے دل ٹیڑھے ہو جائیں گے ، یہ ان سے لڑیں گے اور اللہ تعالیٰ انہیں ان سے روزیاں دے گا یہاں تک کہ اللہ کا امر آ جائے اور وہ اسی حالت پر ہوں گے مومنوں کی زمین شام میں ہے ۔ گھوڑوں کی ایال میں قیامت تک کے لیے اللہ نے خیر رکھ دی ہے “ } ۔ ۱؎ (سلسلۃ احادیث صحیحہ البانی:1935،) یہ حدیث امام بغوی رحمہ اللہ نے بھی وارد کی ہے اور حافظ ابو یعلیٰ موصلی رحمہ اللہ نے بھی ، اس سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ جو لوگ اس آیت کو منسوخ نہیں بتاتے گویا کہ یہ حکم مشروع ہے جب تک لڑائی باقی رہے اور اس حدیث نے بتایا کہ لڑائی قیامت تک باقی رہے گی یہ آیت مثل اس آیت کے ہے «قَاتِلُوہُمْ حَتَّیٰ لَا تَکُونَ فِتْنَۃٌ وَیَکُونَ الدِّینُ لِلہِ» ۱؎ (2-البقرۃ:193) ، یعنی ’ ان سے لڑتے رہو جب تک کہ فتنہ باقی ہے اور جب تک کہ دین اللہ ہی کیلئے نہ ہو جائے ‘ ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں لڑائی کے ہتھیار رکھ دینے سے مراد شرک کا باقی نہ رہنا ہے اور بعض سے مروی ہے کہ مراد یہ ہے کہ مشرکین اپنے شرک سے توبہ کر لیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ اپنی کوششیں اللہ کی اطاعت میں صرف کرنے لگ جائیں ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ اگر اللہ چاہتا تو خود ہی کفار کو برباد کر دیتا اپنے پاس سے ان پر عذاب بھیج دیتا لیکن وہ تو یہ چاہتا ہے کہ تمہیں آزما لے ‘ ، اسی لیے جہاد کے احکام جاری فرمائے ہیں ۔ سورۃ آل عمران اور برأت میں بھی اسی مضمون کو بیان کیا ہے ۔ آل عمران میں ہے «اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَعْلَمِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ جٰہَدُوْا مِنْکُمْ وَیَعْلَمَ الصّٰبِرِیْنَ» ۱؎ (3-آل عمران:142) ’ کیا تمہارا یہ گمان ہے کہ بغیر اس بات کے کہ اللہ جان لے کہ تم میں سے مجاہد کون ہیں اور تم میں سے صبر کرنے والے کون ہیں تم جنت میں چلے جاؤ گے ؟ ‘ ۔ سورۃ براۃ میں ہے «قَاتِلُوْہُمْ یُعَذِّبْہُمُ اللّٰہُ بِاَیْدِیْکُمْ وَیُخْزِہِمْ وَیَنْصُرْکُمْ عَلَیْہِمْ وَیَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مٰؤْمِنِیْنَ وَیُذْہِبْ غَیْظَ قُلُوبِہِمْ وَیَتُوبُ اللہُ عَلَیٰ مَن یَشَاءُ وَ اللہُ عَلِیمٌ حَکِیمٌ» (9-التوبۃ:14-15) ’ ان سے جہاد کرو اللہ تمہارے ہاتھوں انہیں عذاب کرے گا اور تمہیں ان پر نصرت عطا فرمائے گا اور ایمان والوں کے سینے شفاء والے کر دے گا اور اپنے دلوں کے ولولے نکالنے کا انہیں موقعہ دے گا اور جس کی چاہے گا توبہ قبول فرمائے گا اللہ بڑا علیم و حکیم ہے ‘ ۔ اب چونکہ یہ بھی تھا کہ جہاد میں مومن بھی شہید ہوں اس لیے فرماتا ہے «وَالَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیلِ اللہِ فَلَن یُضِلَّ أَعْمَالَہُمْ» ۱؎ (47-محمد:4) ’ شہیدوں کے اعمال اکارت نہیں جائیں گے بلکہ بہت بڑھا چڑھا کر ثواب انہیں دئیے جائیں گے ‘ ۔ بعض کو تو قیامت تک کے ثواب ملیں گے ۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ { شہید کو چھ انعامات حاصل ہوتے ہیں ، اس کے خون کا پہلا قطرہ زمین پر گرتے ہی اس کے کل گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔ اسے اس کا جنت کا مکان دکھا دیا جاتا ہے اور نہایت خوبصورت بڑی بڑی آنکھوں والی حوروں سے اس کا نکاح کرا دیا جاتا ہے وہ بڑی گھبراہٹ سے امن میں رہتا ہے وہ عذاب قبر سے بچا لیا جاتا ہے اسے ایمان کے زیور سے آراستہ کر دیا جاتا ہے } ۔ ایک اور حدیث میں یہ بھی ہے کہ { اس کے سر پر وقار کا تاج رکھا جاتا ہے ۔ جو درو یاقوت کا جڑاؤ ہوتا ہے جس کا ایک یاقوت تمام دنیا اور اس کی تمام چیزوں سے گراں بہا ہے ۔ اسے بہتر حورعین ملتی ہیں اور اپنے خاندان کے ستر شخصوں کے بارے میں اس کی شفاعت قبول کی جاتی ہے } ۔ یہ حدیث ترمذی اور ابن ماجہ میں بھی ہے -۱؎ (سنن ترمذی:1663،قال الشیخ الألبانی:صحیح) صحیح مسلم شریف میں ہے { سوائے قرض کے شہیدوں کے سب گناہ بخش دئیے جاتے ہیں } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1886) شہیدوں کے فضائل کی اور بھی بہت حدیثیں ہیں ۔ محمد
5 1 پھر فرماتا ہے انہیں اللہ جنت کی راہ سمجھا دے گا ۔ جیسے یہ آیت «اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ یَہْدِیْہِمْ رَبٰھُمْ بِاِیْمَانِہِمْ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہِمُ الْاَنْہٰرُ فِیْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ» ۱؎ (10-یونس:9) یعنی ’ جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک کام کئے ان کے ایمان کے باعث ان کا رب انہیں ان جنتوں کی طرف رہبری کرے گا جو نعمتوں سے پر ہیں اور جن کے چپے چپے میں چشمے بہہ رہے ہیں ‘ ۔ اللہ ان کے حال اور ان کے کام سنوار دے گا اور جن جنتوں سے انہیں پہلے ہی آگاہ کر چکا ہے اور جن کی طرف ان کی رہبری کر چکا ہے آخر انہی میں انہیں پہنچائے گا ۔ یعنی ہر شخص اپنے مکان اور پانی کی جگہ کو جنت میں اس طرح پہچان لے گا جیسے دنیا میں پہچان لیا کرتا تھا ۔ انہیں کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہ پڑے گی یہ معلوم ہو گا گویا شروع پیدائش سے یہیں مقیم ہیں ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ { جس انسان کے ساتھ اس کے اعمال کا محافظ جو فرشتہ تھا وہی اس کے آگے آگے چلے گا جب یہ اپنی جگہ پہنچے گا تو ازخود پہچان لے گا کہ میری جگہ یہی ہے ۔ یونہی پھر اپنی زمین میں سیر کرتا ہوا جب سب دیکھ چکے گا تب فرشتہ ہٹ جائے گا اور یہ اپنی لذتوں میں مشغول ہو جائے گا } ۔ صحیح بخاری کی مرفوع حدیث میں ہے { جب مومن آگ سے چھوٹ جائیں گے تو جنت ، دوزخ کے درمیان ایک پل پر روک لیے جائیں گے اور آپس میں ایک دوسرے پر جو مظالم تھے ان کے بدلے اتار لیے جائیں گے ، جب بالکل پاک صاف ہو جائیں گے ، تو جنت میں جانے کی اجازت مل جائے گی ، قسم اللہ کی جس طرح تم میں سے ہر ایک شخص اپنے دنیوی گھر کی راہ جانتا ہے اور گھر کو پہچانتا ہے اس سے بہت زیادہ وہ لوگ اپنی منزل اور اپنی جگہ سے واقف ہوں گے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6535) پھر فرماتا ہے ایمان والو اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم مضبوط کر دے گا ۔ جیسے اور جگہ ہے «وَلَیَنْصُرَنَّ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہٗ اِنَّ اللّٰہَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ» ۱؎ (22-الحج:40) ’ اللہ ضرور اس کی مدد کرے گا جو اللہ کی مدد کرے گا ‘ اس لیے کہ جیسا عمل ہوتا ہے اسی جنس کی جزا ہوتی ہے اور وہ تمہارے قدم بھی مضبوط کر دے گا ۔ حدیث میں ہے { جو شخص کسی اختیار والے کے سامنے ایک ایسے حاجت مند کی حاجت پہنچائے جو خود وہاں نہ پہنچ سکتا ہو ، تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ پل صراط پر اس کے قدم مضبوطی سے جما دے گا } ۔ پھر فرماتا ہے ’ کافروں کا حال بالکل برعکس ہے یہ قدم قدم پر ٹھوکریں کھائیں گے ‘ ۔ حدیث میں ہے { دینار درہم اور کپڑے لتے کا بندہ ٹھوکر کھا گیا وہ برباد ہوا اور ہلاک ہوا وہ اگر بیمار پڑ جائے تو اللہ کرے اسے شفاء بھی نہ ہو } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2887) ایسے لوگوں کے نیک اعمال بھی اکارت ہیں اس لیے کہ یہ قرآن و حدیث سے ناخوش ہیں نہ اس کی عزت و عظمت ان کے دل میں نہ ان کا قصد و تسلیم کا ارادہ ۔ پس ان کے جو کچھ اچھے کام تھے اللہ نے انہیں بھی غارت کر دیا ۔ محمد
6 محمد
7 محمد
8 محمد
9 محمد
10 تمام شہروں سے پیارا شہر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان لوگوں نے جو اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں اور اس کے رسول کو جھٹلا رہے ہیں زمین کی سیر نہیں کی ؟ جو یہ معلوم کر لیتے ہیں اور اپنی آنکھوں دیکھ لیتے ہیں کہ ان سے اگلے جو ان جیسے تھے ان کے انجام کیا ہوئے ؟ کس طرح وہ تخت و تاراج کر دئیے گئے اور ان میں سے صرف اسلام و ایمان والے ہی نجات پا سکے کافروں کے لیے اسی طرح کے عذاب آیا کرتے ہیں ۔ پھر بیان فرماتا ہے مسلمانوں کا خود اللہ ولی ہے اور کفار بے ولی ہیں ۔ { اسی لیے احد والے دن مشرکین کے سردار ابوسفیان [صخر] بن حرب نے فخر کے ساتھ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں خلفاء کی نسبت سوال کیا اور کوئی جواب نہ پایا تو کہنے لگا کہ یہ سب ہلاک ہو گئے پھر اسے سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے جواب دیا اور فرمایا ” جن کی زندگی تجھے خار کی طرح کھٹکتی ہے اللہ نے ان سب کو اپنے فضل سے زندہ ہی رکھا ہے “ ۔ ابوسفیان کہنے لگا سنو یہ دن بدر کے بدلے کا دن ہے اور لڑائی تو مثل ڈولوں کے ہے کبھی کوئی اوپر کبھی کوئی اوپر ۔ تم اپنے مقتولین میں بعض ایسے بھی پاؤ گے جن کے ناک کان وغیرہ ان کے مرنے کے بعد کاٹ لیے گئے ہیں میں نے ایسا حکم نہیں دیا لیکن مجھے کچھ برا بھی نہیں لگا پھر اس نے رجز کے اشعار فخریہ پڑھنے شروع کئے کہنے لگا «اُعْلُ ہُبَل اُعْلُ ہُبَل»۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { تم اسے جواب کیوں نہیں دیتے ؟ } صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیا جواب دیں ؟ فرمایا : { کہو «اَللہُ اَعْلَی وَاَجَلٰ» } یعنی وہ کہتا تھا ” ہبل بت کا بول بالا ہو “ ، جس کے جواب میں کہا گیا ” سب سے زیادہ بلندی والا اور سب سے زیادہ عزت و کرم والا اللہ ہی ہے “ ۔ ابوسفیان نے پھر کہا «لَنَا الْعُزَّی وَلَا عُزَّی لَکُمْ » ” ہمارا عزیٰ [بت] ہے اور تمہارا نہیں “ ۔ اس کے جواب میں بفرمان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہا گیا { «اَللہُ مَوْلَانَا وَلَا مَوْلٰی لَکُمْ» اللہ ہمارا مولیٰ ہے اور تمہار مولا کوئی نہیں} } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4043) محمد
11 محمد
12 1 پھر جناب باری خبر دیتے ہیں کہ ایماندار قیامت کے دن جنت نشین ہوں گے اور کفر کرنے والے دنیا میں تو خواہ کچھ یونہی سا نفع اٹھا لیں لیکن ان کا اصلی ٹھکانا جہنم ہے ۔ دنیا میں ان کی زندگی کا مقصد صرف کھانا پینا اور پیٹ بھرنا ہے اسے یہ لوگ مثل جانوروں کے پورا کر رہے ہیں ، جس طرح وہ ادھر ادھر منہ مار کر گیلا سوکھا پیٹ میں بھرنے کا ہی ارادہ رکھتا ہے اسی طرح یہ ہے کہ حلال حرام کی اسے کچھ تمیز نہیں ، پیٹ بھرنا مقصود ہے ۔ حدیث شریف میں ہے { مومن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں میں } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5396) جزا والے دن اپنے اس کفر کی پاداش میں ان کے لیے جہنم کی گوناگوں سزائیں ہیں ۔ پھر کفار مکہ کو دھمکاتا ہے اور اپنے عذابوں سے ڈراتا ہے کہ «یُضَاعَفُ لَہُمُ الْعَذَابُ مَا کَانُوا یَسْتَطِیعُونَ السَّمْعَ وَمَا کَانُوا یُبْصِرُونَ» ۱؎ (11-ہود:20) دیکھو جن بستیوں والے تم سے بہت زیادہ طاقت قوت والے تھے ان کو ہم نے نبیوں کو جھٹلانے اور ہمارے احکام کی خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے تہس نہس کر دیا ، تم جو ان سے کمزور اور کم طاقت ہو اس رسول کو جھٹلاتے اور ایذائیں پہنچاتے ہو جو خاتم الانبیاء اور سید الرسل ہیں ، سمجھ لو کہ تمہارا انجام کیا ہو گا ؟ ۔ مانا کہ اس نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک وجود کی وجہ سے اگر دنیوی عذاب تم پر بھی نہ آئے تو اخروی زبردست عذاب تو تم سے دور نہیں ہو سکتے ؟ جب اہل مکہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نکالا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غار میں آ کر اپنے آپ کو چھپایا اس وقت مکہ کی طرف توجہ کی اور فرمانے لگے : ” اے مکہ ! تو تمام شہروں سے زیادہ اللہ کو پیارا ہے اور اسی طرح مجھے بھی تمام شہروں سے زیادہ پیارا تو ہے اگر مشرکین مجھے تجھ میں سے نہ نکالتے تو میں ہرگز نہ نکلتا ۔ “ پس تمام حد سے گزر جانے والوں میں سب سے بڑا حد سے گزر جانے والا وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی حدوں سے آگے نکل جائے یا حرم الٰہی میں کسی قاتل کے سوا کسی اور کو قتل کرے یا جاہلیت کے تعصب کی بنا پر قتل کرے پس اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت اتاری ۔ محمد
13 محمد
14 دودھ پانی اور شہد کے سمندر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو شخص دین اللہ میں یقین کے درجے تک پہنچ چکا ہو ، جسے بصیرت حاصل ہو چکی ہو ، فطرت صحیحہ کے ساتھ ساتھ ہدایت و علم بھی ہو وہ اور وہ شخص جو بداعمالیوں کو نیک کاریاں سمجھ رہا ہو جو اپنی خواہش نفس کے پیچھے پڑا ہوا ہو ، یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے ۔ جیسے فرمان ہے «اَفَمَنْ یَّعْلَمُ اَنَّمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ الْحَقٰ کَمَنْ ہُوَ اَعْمٰی اِنَّمَا یَتَذَکَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِ» ۱؎ (13-الرعد:19) یعنی ’ یہ نہیں ہو سکتا کہ اللہ کی وحی کو حق ماننے والا اور ایک اندھا برابر ہو جائے ‘ ۔ اور ارشاد ہے آیت «لَا یَسْتَوِیْٓ اَصْحٰبُ النَّارِ وَاَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ ہُمُ الْفَایِٕزُوْنَ» ۱؎ (59-الحشر:20) یعنی ’ جہنمی اور جنتی برابر نہیں ہو سکتے جنتی کامیاب اور مراد کو پہنچے ہوئے ہیں ‘ ۔ پھر جنت کے اور اوصاف بیان فرماتا ہے کہ اس میں پانی کے چشمے ہیں جو کبھی بگڑتا نہیں ، متغیر نہیں ہوتا ، سڑتا نہیں ، نہ بدبو پیدا ہوتی ہے بہت صاف موتی جیسا ہے کوئی گدلا پن نہیں کوڑا کرکٹ نہیں ۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” جنتی نہریں مشک کے پہاڑوں سے نکلتی ہیں اس میں پانی کے علاوہ دودھ کی نہریں بھی ہیں جن کا مزہ کبھی نہیں بدلتا بہت سفید ، بہت میٹھا اور نہایت صاف شفاف اور بامزہ پرذائقہ “ ۔ ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ { یہ دودھ جانوروں کے تھن سے نہیں نکلا ہوا بلکہ قدرتی ہے اور نہریں ہوں گی شراب صاف کی ، جو پینے والے کا دل خوش کر دیں ، دماغ کشادہ کر دیں } ۔ ۱؎ (بیہقی فی البعث والنشور:293) «بَیْضَاءَ لَذَّۃٍ لِّلشَّارِبِینَ» ۱؎ (37-الصافات:46) ’ جو شراب نہ تو بدبودار ہے ، نہ تلخی والی ہے ، نہ بدمنظر ہے ‘ ۔ بلکہ دیکھنے میں بہت اچھی ، پینے میں بہت لذیذ ، نہایت خوشبودار «لَّا یُصَدَّعُونَ عَنْہَا وَلَا یُنزِفُونَ» ۱؎ (56-الواقعۃ:19) ’ جس سے نہ عقل میں فتور آئے ، نہ دماغ چکرائیں ، نہ منہ سے بدبو آئے ، نہ بک جھک لگے ‘ ۔ «لَا فِیہَا غَوْلٌ وَلَا ہُمْ عَنْہَا یُنزَفُونَ» ۱؎ (37-الصافات:47) ’ نہ سر میں درد ہو ، نہ چکر آئیں ، نہ بہکیں ، نہ بھٹکیں ، نہ نشہ چڑھے ، نہ عقل جائے ‘ ۔ حدیث میں ہے کہ { یہ شراب بھی کسی کے ہاتھوں کی کشید کی ہوئی نہیں بلکہ اللہ کے حکم سے تیار ہوئی ہے ، خوش ذائقہ اور خوش رنگ ہے جنت میں شہد کی نہریں بھی ہیں جو بہت صاف ہے اور خوشبودار اور ذائقہ کا تو کہنا ہی کیا ہے } ۔ حدیث شریف میں ہے کہ { یہ شہد بھی مکھیوں کے پیٹ سے نہیں } ۔ مسند احمد کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ { جنت میں دودھ ، پانی ، شہد اور شراب کے سمندر ہیں جن میں سے ان کی نہریں اور چشمے جاری ہوتے ہیں } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2571،قال الشیخ الألبانی:صحیح) یہ حدیث ترمذی شریف میں بھی ہے اور امام ترمذی رحمہ اللہ اسے حسن صحیح فرماتے ہیں ۔ ابن مردویہ کی حدیث میں ہے { یہ نہریں جنت عدن سے نکلتی ہیں پھر ایک حوض میں آتی ہیں وہاں سے بذریعہ اور نہروں کے تمام جنتوں میں جاتی ہیں } ۔ ۱؎ (مسند احمد:316/4:ضعیف) ایک اور صحیح حدیث میں ہے { جب تم اللہ سے سوال کرو تو جنت الفردوس طلب کرو وہ سب سے بہتر اور سب سے اعلیٰ جنت ہے اسی سے جنت کی نہریں جاری ہوتی ہیں اور اس کے اوپر رحمن کا عرش ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2790) طبرانی میں ہے { لقیط بن عامر نے جب وفد میں آئے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ جنت میں کیا کچھ ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” صاف شہد کی نہریں اور بغیر نشے کے سر درد نہ کرنے والی شراب کی نہریں اور نہ بگڑنے والے دودھ کی نہریں اور خراب نہ ہونے والے شفاف پانی کی نہریں اور طرح طرح کے میوہ جات عجیب و غریب بے مثل و بالکل تازہ اور پاک صاف بیویاں جو صالحین کو ملیں گی اور خود بھی صالحات ہوں گی دنیا کی لذتوں کی طرح ان سے لذتیں اٹھائیں گے ہاں وہاں بال بچے نہ ہوں گے “ } ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:211/19:) سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ” یہ نہ خیال کرنا کہ جنت کی نہریں بھی دنیا کی نہروں کی طرح کھدی ہوئی زمین میں اور گڑھوں میں بہتی ہیں ، نہیں نہیں ، قسم اللہ کی ! وہ صاف زمین پر یکساں جاری ہیں ان کے کنارے کنارے «لؤلؤ» اور موتیوں کے خیمے ہیں ان کی مٹی مشک خالص ہے “ ۔ پھر فرماتا ہے وہاں ان کے لیے ہر طرح کے میوے اور پھل پھول ہیں ۔ جیسے اور جگہ فرمایا «یَدْعُوْنَ فِیْہَا بِکُلِّ فَاکِہَۃٍ اٰمِنِیْنَ» ۱؎ (44-الدخان:55) ، یعنی ’ وہاں نہایت امن و امان کے ساتھ وہ ہر قسم کے میوے منگوائیں گے اور کھائیں گے ‘ ۔ ایک اور آیت میں ہے «فِیْہِمَا مِنْ کُلِّ فَاکِہَۃٍ زَوْجٰنِ» ۱؎ (55-الرحمن:52) ، ’ دونوں جنتوں میں ہر اک قسم کے میوؤں کے جوڑے ہیں ‘ ۔ ان تمام نعمتوں کے ساتھ یہ کتنی بڑی نعمت ہے کہ رب خوش ہے وہ اپنی مغفرت ان کے لیے حلال کر چکا ہے ۔ انہیں نواز چکا ہے اور ان سے راضی ہو چکا ہے اب کوئی کھٹکا ہی نہیں ۔ جنتوں کی یہ دھوم دھام اور نعمتوں کے بیان کے بعد فرماتا ہے کہ دوسری جانب جہنمیوں کی یہ حالت ہے کہ وہ جہنم کے درکات میں جل بھلس رہے ہیں اور وہاں سے چھٹکارے کی کوئی سبیل نہیں اور سخت پیاس کے موقعہ پر وہ کھولتا ہوا گرم پانی جو دراصل آگ ہی ہے لیکن بشکل پانی انہیں پینے کے لیے ملتا ہے کہ ایک گھونٹ اندر جاتے ہی آنتیں کٹ جاتی ہیں ۔ اللہ ہمیں پناہ میں رکھے ۔ پھر بھلا اس کا اور اس کا کیا میل ؟ کہاں جنتی کہاں جہنمی کہاں نعمت کہاں زحمت یہ دونوں کیسے برابر ہو سکتے ہیں ؟ محمد
15 محمد
16 بے وقوف ، کند ذہن اور جاہل منافقوں کی کند ذہنی اور بےعلمی ، ناسمجھی اور بیوقوفی کا بیان ہو رہا ہے کہ باوجود مجلس میں شریک ہونے کے ، کلام الرسول صلی اللہ علیہ وسلم سن لینے کے ، پاس بیٹھے ہونے کے ، ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا ۔ مجلس کے خاتمے کے بعد اہل علم صحابہ رضی اللہ عنہم سے پوچھتے ہیں کہ اس وقت کیا کیا کہا ؟ یہ ہیں جن کے دلوں پر مہر اللہ لگ چکی ہے اور اپنے نفس کی خواہش کے پیچھے پڑ گئے ہیں ، فہم صریح اور قصد صحیح ہے ہی نہیں ۔ پھر اللہ عزوجل فرماتا ہے جو لوگ ہدایت کا قصد کرتے ہیں ، انہیں خود اللہ بھی توفیق دیتا ہے اور ہدایت نصیب فرماتا ہے ، پھر اس پر جم جانے کی ہمت بھی عطا فرماتا ہے اور ان کی ہدایت بڑھاتا رہتا ہے اور انہیں رشد و ہدایت الہام فرماتا رہتا ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ یہ تو اسی انتظار میں ہیں کہ اچانک قیامت قائم ہو جائے ۔ تو یہ معلوم کر لیں کہ اس کے قریب کے نشانات تو ظاہر ہو چکے ہیں ۔ جیسے اور موقعہ پر ارشاد ہوا ہے «ھٰذَا نَذِیْرٌ مِّنَ النٰذُرِ الْاُوْلٰی أَزِفَتِ الْآزِفَۃُ» ۱؎ (53-النجم:57،56) ’ یہ ڈرانے والا ہے اگلے ڈرانے والوں سے ، قریب آنے والی قریب آ چکی ہے ‘ ۔ اور بھی ارشاد ہوتا ہے «اِقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ» ۱؎ (54-القمر:1) ، قیامت قریب ہو گئی اور چاند پھٹ گیا اور فرمایا «اِقْتَرَبَ للنَّاسِ حِسَابُہُمْ وَہُمْ فِیْ غَفْلَۃٍ مٰعْرِضُوْنَ» ۱؎ (21-الأنبیاء:1) ’ لوگوں کا حساب قریب آ گیا پھر بھی وہ غفلت میں منہ موڑے ہوئے ہیں ‘ ۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نبی ہو کر دنیا میں آنا قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رسولوں کے ختم کرنے والے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کو کامل کیا اور اپنی حجت اپنی مخلوق پر پوری کی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کی شرطیں اور اس کی علامتیں اس طرح بیان فرما دیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کسی نبی نے اس قدر وضاحت نہیں کی تھی جیسے کہ اپنی جگہ وہ سب بیان ہوئی ہیں ۔ حسن بصری فرماتے ہیں ” نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا آنا قیامت کی شرطوں میں سے ہے “ ، چنانچہ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام حدیث میں یہ آئے ہیں { «نبی التوبہ» ، «نبی الملحمہ» ، «حاشر» جس کے قدموں پر لوگ جمع کئے جائیں ، «عاقب» جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:124) بخاری شریف کی حدیث میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیچ کی انگلی اور اس کے پاس والی انگلی کو اٹھا کر فرمایا : ” میں اور قیامت مثل ان دونوں کے بھیجے گئے ہیں “ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4936) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کافروں کو قیامت قائم ہو جانے کے بعد نصیحت و عبرت کیا سود مند ہو گی ؟ جیسے ارشاد ہے «یَوْمَیِٕذٍ یَّتَذَکَّرُ الْاِنْسَانُ وَاَنّٰی لَہُ الذِّکْرٰی» ۱؎ (89-الفجر:23) ’ اس دن انسان نصیحت حاصل کر لے گا لیکن اس کے لیے نصیحت کہاں ؟ ‘ یعنی قیامت کے دن کی عبرت بےسود ہے ۔ اور آیت میں ہے «وَّقَالُوْٓا اٰمَنَّا بِہٖ وَاَنّٰی لَہُمُ التَّنَاوُشُ مِنْ مَّکَانٍ بَعِیْدٍ» ۱؎ (34-سبأ:52) یعنی ’ اس وقت کہیں گے کہ ہم قرآن پر ایمان لائے حالانکہ اب انہیں ایسے دور از امکان پر دسترس کہاں ہو سکتی ہے ؟ ‘ یعنی ان کا ایمان اس وقت بےسود ہے ۔ پھر فرماتا ہے ’ اے نبی ! جان لو کہ اللہ ہی معبود برحق ہے کوئی اور نہیں ‘ ، یہ دراصل خبر دینا ہے اپنی وحدانیت کا ، یہ تو ہو نہیں سکتا کہ اللہ اس کے علم کا حکم دیتا ہو ۔ اسی لیے اس پر عطف ڈال کر فرمایا اپنے گناہوں کا اور مومن مرد و عورت کے گناہوں کا استغفار کرو ۔ صحیح حدیث میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” « اللہُمَّ اغْفِرْ لِی خَطِیئَتِی ، وَجَہْلِی ، وَإِسْرَافِی فِی أَمْرِی ، وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِہِ مِنِّی ، اللہُمَّ اغْفِرْ لِی ہَزْلِی وَجِدِّی ، وَخَطَئی ، وَعَمْدِی ، وَکُلٰ ذَلِکَ عِنْدِی » یعنی ، اے اللہ ! میری خطاؤں کو اور میری جہالت کو اور میرے کاموں میں مجھ سے جو زیادتی ہو گئی ہو اس کو اور ہر چیز کو جسے تو مجھ سے بہت زیادہ جاننے والا ہے بخش ۔ اے اللہ میرے بے قصد گناہوں کو اور میرے عزم سے کئے ہوئے گناہوں کو اور میری خطاؤں اور میرے قصد کو بخش اور یہ تمام میرے پاس ہے “ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2398) اور صحیح حدیث میں ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز کے آخر میں کہتے «اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ مَا قَدَّمْتُ وَمَا اَخَّرْتُ وَمَا اَسْرَرْتُ وَمَا اَعْلَنْتُ وَمَا أَسْرَفْتُ ، وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِہٖ مِنِّیْ ، أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَأَنْتَ الْمُوَخِّرُ لَا اِلٰہَ إلاَّ أَنْتَ» یعنی ، ” اے اللہ ! میں نے جو کچھ گناہ پہلے کئے ہیں اور جو کچھ پیچھے کئے ہیں اور جو چھپا کر کئے ہیں اور جو ظاہر کئے ہیں اور جو زیادتی کی ہے اور جنہیں تو مجھ سے زیادہ جانتا ہے بخش دے ، تو ہی میرا اللہ ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں “ } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:771) اور صحیح حدیث میں ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اے لوگو ! اپنے رب کی طرف توبہ کرو پس تحقیق میں اپنے رب کی طرف استغفار کرتا ہوں اور اس کی طرف توبہ کرتا ہوں ، ہر ایک دن ستر بار سے بھی زیادہ “ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6307) مسند احمد میں ہے { عبداللہ بن سرخس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کے کھانے میں سے کھانا کھایا ، پھر میں نے کہا : یا رسول اللہ ! اللہ آپ کو بخشے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اور تجھے بھی “ تو میں نے کہا : کیا میں آپ کے لیے استغفار کروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ہاں اور اپنے لیے بھی “ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی ” اپنے گناہوں اور مومن مردوں اور باایمان عورتوں کے گناہوں کی بخشش طلب کر “ ۔ پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے داہنے کھوے یا بائیں ہتھیلی کو دیکھا وہاں کچھ جگہ ابھری ہوئی تھی جس پر گویا تل تھے } ۱؎ (صحیح مسلم:2346) ۔ اسے مسلم ، ترمذی ، نسائی وغیرہ نے بھی روایت کیا ہے ۔ ابو یعلیٰ میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تم ««لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ»» کا اور «اَسْتَغْفِرُ اﷲَ» کا کہنا لازم پکڑو اور انہیں بکثرت کہا کرو اس لیے کہ ابلیس کہتا میں نے لوگوں کو گناہوں سے ہلاک کیا اور انہوں نے مجھے ان دونوں کلموں سے ہلاک کیا ۔ میں نے جب یہ دیکھا تو انہیں خواہشوں کے پیچھے لگا دیا پس وہ سمجھتے ہیں کہ ہم ہدایت پر ہیں “ } ۔ ایک اور اثر میں ہے کہ { ابلیس نے کہا : اللہ مجھے تیری عزت اور تیرے جلال کی قسم جب تک کسی شخص کی روح اس کے جسم میں ہے ، میں اسے بہکاتا رہوں گا پس اللہ عزوجل نے فرمایا : ’ مجھے بھی قسم ہے اپنی بزرگی اور بڑائی کی کہ میں بھی انہیں بخشتا ہی رہوں گا جب تک وہ مجھ سے استغفار کرتے رہیں ‘ } ۔ ۱؎ (مسند احمد:76/3:ضعیف ولہ شواہد) استغفار کی فضیلت میں اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں ۔ پھر اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہارا دن میں ہیر پھیر اور تصرف کرنا اور تمہارا رات کو جگہ پکڑنا اللہ تعالیٰ جانتا ہے ۔ جیسے فرمان ہے «وَہُوَ الَّذِیْ یَتَوَفّٰیکُمْ بالَّیْلِ وَیَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بالنَّہَارِ ثُمَّ یَبْعَثُکُمْ فِیْہِ لِیُقْضٰٓی اَجَلٌ مٰسَمًّی ثُمَّ اِلَیْہِ مَرْجِعُکُمْ ثُمَّ یُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ» ۱؎ (6-الأنعام:60) یعنی ’ اللہ وہ ہے جو تمہیں رات کو فوت کر دیتا ہے اور دن میں جو کچھ تم کرتے ہو وہ جانتا ہے ‘ ۔ ایک اور آیت میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے «وَمَا مِن دَابَّۃٍ فِی الْأَرْ‌ضِ إِلَّا عَلَی اللہِ رِ‌زْقُہَا وَیَعْلَمُ مُسْتَقَرَّ‌ہَا وَمُسْتَوْدَعَہَا کُلٌّ فِی کِتَابٍ مٰبِینٍ» ۱؎ (11-ہود:6) ، یعنی ’ زمین پر جتنے بھی چلنے والے ہیں ان سب کی روزی اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے اور وہ ان کے رہنے کی جگہ اور دفن ہونے کا مقام جانتا ہے یہ سب باتیں واضح کتاب میں لکھی ہوئی ہیں ‘ ۔ ابن جریج رحمہ اللہ کا یہی قول ہے اور امام جریر رحمہ اللہ بھی اسی کو پسند کرتے ہیں ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:318/11:) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ مراد آخرت کا ٹھکانا ہے ۔ سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں تمہارا چلنا پھرنا دنیا میں اور تمہاری قبروں کی جگہ اسے معلوم ہے لیکن اول قول ہی اولیٰ اور زیادہ ظاہر ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» محمد
17 محمد
18 محمد
19 محمد
20 ایمان کی دلیل حکم جہاد کی تعمیل ہے اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ مومن تو جہاد کے حکم کی تمنا کرتے ہیں پھر جب اللہ تعالیٰ جہاد کو فرض کر دیتا ہے اور اس کا حکم نازل فرما دیتا ہے تو اس سے اکثر لوگ ہٹ جاتے ہیں ، جیسے اور آیت میں ہے «أَلَمْ تَرَ‌ إِلَی الَّذِینَ قِیلَ لَہُمْ کُفٰوا أَیْدِیَکُمْ وَأَقِیمُوا الصَّلَاۃَ وَآتُوا الزَّکَاۃَ فَلَمَّا کُتِبَ عَلَیْہِمُ الْقِتَالُ إِذَا فَرِ‌یقٌ مِّنْہُمْ یَخْشَوْنَ النَّاسَ کَخَشْیَۃِ اللہِ أَوْ أَشَدَّ خَشْیَۃً وَقَالُوا رَ‌بَّنَا لِمَ کَتَبْتَ عَلَیْنَا الْقِتَالَ لَوْلَا أَخَّرْ‌تَنَا إِلَیٰ أَجَلٍ قَرِ‌یبٍ قُلْ مَتَاعُ الدٰنْیَا قَلِیلٌ وَالْآخِرَ‌ۃُ خَیْرٌ‌ لِّمَنِ اتَّقَیٰ وَلَا تُظْلَمُونَ فَتِیلًا» ۱؎ (4-النساء:77) یعنی ’ کیا تو نے انہیں نہیں دیکھا جن لوگوں سے کہا گیا کہ تم اپنے ہاتھوں کو روک لو اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ ادا کرتے رہو ۔ پھر جب ان پر جہاد فرض کیا گیا تو ان میں سے ایک فریق لوگوں سے اس طرح ڈرنے لگا جیسے اللہ کا ڈر ہو بلکہ اس سے بھی زیادہ ۔ اور کہنے لگے ، اے ہمارے رب ! ہم پر تو نے جہاد کیوں فرض کر دیا تو نے ہم کو قریب کی مدت تک ڈھیل کیوں نہ دی ؟ تو کہہ کہ دنیا کی متاع بہت ہی کم ہے اور پرہیزگاروں کے لیے آخرت بہت ہی بہتر ہے اور تم پر بالکل ذرا سا بھی ظلم نہ کیا جائے گا ‘ ۔ پس یہاں بھی فرماتا ہے کہ ایمان والے تو جہاد کے حکموں کی آیتوں کے نازل ہونے کی تمنا کرتے ہیں لیکن منافق لوگ جب ان آیتوں کو سنتے ہیں تو بوجہ اپنی گھبراہٹ بوکھلاہٹ اور نامردی کے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اس طرح تجھے دیکھنے لگتے ہیں جیسے موت کی غشی والا ۔ پھر انہیں مرد میدان بننے کی رغبت دلاتے ہوئے فرماتا ہے کہ ان کے حق میں بہتر تو یہ ہوتا کہ یہ سنتے مانتے اور جب موقعہ آ جاتا معرکہ کارزار گرم ہوتا تو نیک نیتی کے ساتھ جہاد کر کے اپنے خلوص کا ثبوت دیتے ۔ پھر فرمایا ’ قریب ہے کہ تم جہاد سے رک جاؤ اور اس سے بچنے لگو تو زمین میں فساد کرنے لگو اور صلہ رحمی توڑنے لگو ‘ ، یعنی زمانہ جاہلیت میں جو حالت تمہاری تھی وہی تم میں لوٹ آئے ۔ پس فرمایا ’ ایسے لوگوں پر اللہ کی پھٹکار ہے اور یہ رب کی طرف سے بہرے اندھے ہیں ‘ ۔ اس میں زمین میں فساد کرنے کی عموماً اور قطع رحمی کی خصوصا ممانعت ہے ۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے زمین میں اصلاح اور صلہ رحمی کرنے کی ہدایت کی ہے اور ان کا حکم فرمایا ہے ۔ صلہ رحمی کے معنی ہیں قرابت داروں سے بات چیت میں ، کام کاج میں ، سلوک و احسان کرنا اور ان کی مالی مشکلات میں ان کے کام آنا ۔ اس بارے میں بہت سی صحیح اور حسن حدیثیں مروی ہیں ۔ صحیح بخاری میں ہے کہ { جب اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کو پیدا کر چکا تو رحم کھڑا ہوا اور رحمٰن سے چمٹ گیا اس سے پوچھا گیا : کیا بات ہے ؟ اس نے کہا : یہ مقام ہے ٹوٹنے سے تیری پناہ میں آنے کا ، اس پر اللہ عزوجل نے فرمایا : کیا تو اس سے راضی نہیں ؟ کہ تیرے ملانے والے کو میں ملاؤں اور تیرے کاٹنے والے کو میں کاٹ دوں ؟ اس نے کہا : ہاں ، اس پر میں بہت خوش ہوں اس حدیث کو بیان فرما کر پھر راوی حدیث سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھ لو «فَہَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ تَوَلَّیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَتُـقَطِّعُوْٓا اَرْحَامَکُمْ» “ ۱؎ (47-محمد:22) } ۱؎ (صحیح بخاری:4830) اور سند سے ہے کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ ابوداؤد ترمذی ابن ماجہ وغیرہ میں ہے { کوئی گناہ اتنا بڑا اور اتنا برا نہیں جس کی بہت جلدی سزا دنیا میں اور پھر اس کی برائی آخرت میں بہت بری پہنچتی ہو بہ نسبت سرکشی بغاوت اور قطع رحمی کے } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4902،قال الشیخ الألبانی:صحیح) مسند احمد میں ہے { جو شخص چاہے کہ اس کی عمر بڑی ہو اور روزی کشادہ ہو وہ صلہ رحمی کرے } ۔۱؎ (مسند احمد:279/5:صحیح لغیرہ) اور حدیث میں ہے کہ { ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا : میرے نزدیکی قرابت دار مجھ سے تعلق توڑتے رہتے ہیں اور میں انہیں معاف کرتا رہتا ہوں وہ مجھ پر ظلم کرتے ہیں اور میں ان کے ساتھ احسان کرتا ہوں اور وہ میرے ساتھ برائیاں کرتے رہتے ہیں تو کیا میں ان سے بدلہ نہ لوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” نہیں اگر ایسا کرو گے تو تم سب کے سب چھوڑ دئیے جاؤ گے ، تو صلہ رحمی پر ہی رہ اور یاد رکھ کہ جب تک تو اس پر باقی رہے گا اللہ کی طرف سے تیرے ساتھ ہر وقت معاونت کرنے والا رہے گا “ } ۔ ۱؎ (مسند احمد:181/2:حسن لغیرہ) بخاری وغیرہ میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” صلہ رحمی عرش کے ساتھ لٹکی ہوئی ہے ، حقیقتًا صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو کسی احسان کے بدلے احسان کرے بلکہ صحیح معنی میں رشتے ناطے ملانے والا وہ ہے کہ گو تو اسے کاٹتا جائے وہ تجھ سے جوڑتا جائے “ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5991) مسند احمد میں ہے کہ { صلہ رحمی قیامت کے دن رکھی جائے گی ، اس کی رانیں ہوں گی مثل ہرن کی رانوں کے ، وہ بہت صاف اور تیز زبان سے بولے گی ، پس وہ کاٹ دیا جائے گا جو اسے کاٹتا تھا اور وہ ملایا جائے گا جو اسے ملاتا تھا } ۔ ۱؎ (مسند احمد:189/2:ضعیف) مسند کی ایک اور حدیث میں ہے { رحم کرنے والوں پر رحمٰن بھی رحم کرتا ہے ۔ تم زمین والوں پر رحم کرو ، آسمانوں والا تم پر رحم کرے گا ۔ رحم رحمان کی طرف سے ہے اس کے ملانے والے کو اللہ ملاتا ہے اور اس کے توڑنے والے کو اللہ تعالیٰ خود توڑ دیتا ہے } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4941،قال الشیخ الألبانی:صحیح) یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے اور امام ترمذی رحمہ اللہ اسے حسن صحیح کہتے ہیں ۔ { سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کی بیمار پرسی کے لیے لوگ گئے تو آپ فرمانے لگے : ” تم نے صلہ رحمی کی ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” اللہ عزوجل نے فرمایا ہے میں رحمن ہوں اور رحم کا نام میں نے اپنے نام پر رکھا ہے اسے جوڑنے والے کو میں جوڑوں گا اور اس کے توڑنے والے کو میں توڑ دوں گا “ } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:1694،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اور حدیث میں ہے { آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” روحیں ملی جلی ہیں جو روز ازل میں میل کر چکی ہیں وہ یہاں یگانگت برتتی ہیں اور جن میں وہاں نفرت رہی ہے یہاں بھی دوری رہتی ہے “ } ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:6172:صحیح بالشواہد) { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ” جب زبانی دعوے بڑھ جائیں ، عملی کام گھٹ جائیں ، زبانی میل جول ہو ، دلی بغض و عداوت ہو ، رشتے دار رشتے دار سے بدسلوکی کرے ، اس وقت ایسے لوگوں پر لعنت اللہ نازل ہوتی ہے اور ان کے کان بہرے اور آنکھیں اندھی کر دی جاتی ہیں } ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:6170:ضعیف) اس بارے میں اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» اللہ تعالیٰ اپنے کلام پاک میں غور و فکر کرنے اور سوچنے سمجھنے کی ہدایت فرماتا ہے اور اس سے بےپرواہی کرنے اور منہ پھیر لینے سے روکتا ہے ۔ پس فرماتا ہے ’ غور و تامل تو کجا ان کے دلوں پر تو قفل لگے ہوئے ہیں ‘ ۔ کوئی کلام اس میں اثر بھی نہیں کرتا ، اندر جائے تو اثر کرے ، جائے کہاں سے ، جب کہ جانے کی راہ نہ پائے ۔ ابن جریر میں ہے کہ { ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت کی تلاوت فرما رہے تھے ایک نوجوان یمنی نے کہا بلکہ ان پر ان کے قفل ہیں جب تک اللہ نہ کھولے اور الگ نہ کرے پس سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دل میں یہ بات رہی یہاں تک کہ اپنی خلافت کے زمانے میں اس سے مدد لیتے رہے } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:321/11:مرسل) محمد
21 محمد
22 محمد
23 محمد
24 1 پھر فرماتا ہے جو لوگ ہدایت ظاہر ہو چکنے کے بعد ایمان سے الگ ہو گئے اور کفر کی طرف لوٹ گئے دراصل شیطان نے اس کارِ بد کو ان کی نگاہوں میں اچھا دکھایا ہے اور انہیں دھوکے میں ڈال رکھا ہے ۔ دراصل ان کا یہ کفر ان کی سزا ہے ان کے اس نفاق کی جو ان کے دل میں تھا ، جس کی وجہ سے وہ ظاہر کے خلاف اپنا باطن رکھتے تھے ، کافروں سے مل جل کر انہیں اپنا کرنے کے لیے ان سے باطن میں باطل پر موافقت کر کے کہتے تھے گھبراؤ نہیں ابھی ابھی ہم بھی بعض امور میں تمہارا ساتھ دیں گے ۔ لیکن یہ باتیں اس اللہ سے تو چھپ نہیں سکتیں جو اندرونی اور بیرونی حالات سے یکسر اور یکساں واقف ہو ، جو راتوں کے وقت کی پوشیدہ اور راز کی باتیں بھی سنتا ہو جس کے علم کی کوئی انتہا نہ ہو ۔ محمد
25 محمد
26 محمد
27 1 پھر فرماتا ہے ان کا کیا حال ہو گا ؟ جبکہ فرشتے ان کی روحیں قبض کرنے کو آئیں گے اور ان کی روحیں جسموں میں چھپتی پھریں گی اور ملائکہ جبرا ، قہرا ، ڈانٹ ، جھڑک اور مار پیٹ سے انہیں باہر نکالیں گے ۔ جیسے ارشاد باری ہے «وَلَوْ تَرَ‌یٰ إِذْ یَتَوَفَّی الَّذِینَ کَفَرُ‌وا الْمَلَائِکَۃُ یَضْرِ‌بُونَ وُجُوہَہُمْ وَأَدْبَارَ‌ہُمْ وَذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِ‌یقِ» ۱؎ (8-الأنفال:50) ، یعنی ’ کاش کہ تو دیکھتا جبکہ ان کافروں کی روحیں فرشتے قبض کرتے ہوئے ان کے منہ پر طمانچے اور ان کی پیٹھ پر مکے مارتے ہیں ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَلَوْ تَرَیٰ إِذِ الظَّالِمُونَ فِی غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلَائِکَۃُ بَاسِطُو أَیْدِیہِمْ أَخْرِجُوا أَنفُسَکُمُ الْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْہُونِ بِمَا کُنتُمْ تَقُولُونَ عَلَی اللہِ غَیْرَ الْحَقِّ وَکُنتُمْ عَنْ آیَاتِہِ تَسْتَکْبِرُونَ» ۱؎ (6-الأنعام:93) ، یعنی ’ کاش کہ تو دیکھتا جبکہ یہ ظالم سکرات موت میں ہوتے ہیں اور فرشتے اپنے ہاتھ ان کی طرف مارنے کے لیے پھیلائے ہوئے ہوتے ہیں اور کہتے ہیں اپنی جانیں نکالو آج تمہیں ذلت کے عذاب کئے جائیں گے اس لیے کہ تم اللہ کے ذمے ناحق کہا کرتے تھے اور اس کی آیتوں میں تکبر کرتے تھے ‘ ۔ یہاں ان کا گناہ بیان کیا گیا کہ ان کاموں اور باتوں کے پیچھے لگے ہوئے تھے جن سے اللہ ناخوش ہو اور اللہ کی رضا سے کراہت کرتے تھے ۔ پس ان کے اعمال اکارت ہو گئے ۔ محمد
28 محمد
29 منافق کو اس کے چہرے کی زبان سے پہچانو یعنی کیا منافقوں کا خیال ہے کہ ان کی مکاری اور عیاری کا اظہار اللہ مسلمانوں پر کرے گا ہی نہیں ؟ یہ بالکل غلط خیال ہے اللہ تعالیٰ ان کا مکر اس طرح واضح کر دے گا کہ ہر عقلمند انہیں پہچان لے اور ان کی بدباطنی سے بچ سکے ۔ ان کے بہت سے احوال سورۃ براۃ میں بیان کئے گئے اور ان کے نفاق کی بہت سی خصلتوں کا ذکر وہاں کیا گیا ۔ یہاں تک کہ اس سورت کا دوسرا نام ہی «فاضحہ» رکھ دیا گیا یعنی منافقوں کو فضیحت کرنے والی ۔ «اَضْغَانَ» جمع ہے «ضِّغْنُ» کی ، «ضِّغْنُ» کہتے ہیں دلی حسد و بغض کو ۔ اس کے بعد اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ اے نبی ! اگر ہم چاہیں تو ان کے وجود تمہیں دکھا دیں پس تم انہیں کھلم کھلا جان جاؤ ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسا نہیں کیا ان تمام منافقوں کو بتا نہیں دیا تاکہ اس کی مخلوق پر پردہ پڑا رہے ان کے عیوب پوشیدہ رہیں ، اور باطنی حساب اسی ظاہر و باطن جاننے والے کے ہاتھ رہے لیکن ہاں تم ان کی بات چیت کے طرز اور کلام کے ڈھنگ سے ہی انہیں صاف پہچان لو گے ۔ امیرالمؤمنین سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں “ جو شخص کسی پوشیدگی کو چھپاتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اس کے چہرے پر اور اس کی زبان پر ظاہر کر دیتا ہے “ ۔ حدیث شریف میں ہے { جو شخص کسی راز کو پردہ میں رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اس پر عیاں کر دیتا ہے وہ بہتر ہے تو اور بدتر ہے تو } ۔ ہم نے شرح صحیح بخاری کے شروع میں عملی اور اعتقادی نفاق کا بیان پوری طرح کر دیا ہے جس کے دوہرانے کی یہاں ضرورت نہیں ۔ حدیث میں منافقوں کی ایک جماعت کی [تعیین] آ چکی ہے ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:1702:ضعیف) مسند احمد میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک خطبے میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا : ” تم میں بعض لوگ منافق ہیں پس جس کا میں نام لوں وہ کھڑا ہو جائے ۔ اے فلاں کھڑا ہو جا ، یہاں تک کہ چھتیس اشخاص کے نام لیے “ ۔ پھر فرمایا : ” تم میں ، یا تم میں سے ، منافق ہیں ، پس اللہ سے ڈرو “ ۔ اس کے بعد ان لوگوں میں سے ایک کے سامنے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ گزرے وہ اس وقت کپڑے میں اپنا منہ لپیٹے ہوا تھا ۔ آپ اسے خوب جانتے تھے پوچھا کہ کیا ہے ؟ اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اوپر والی حدیث بیان کی تو آپ نے فرمایا : اللہ تجھے غارت کرے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:273/5:ضعیف) پھر فرمایا ہے ہم حکم احکام دے کر ، روک ٹوک کر کے تمہیں خود آزما کر معلوم کر لیں گے کہ تم میں سے مجاہد کون ہیں ؟ اور صبر کرنے والے کون ہیں ؟ اور ہم تمہارے احوال آزمائیں گے ۔ یہ تو ہر مسلمان جانتا ہے کہ ظاہر ہونے سے پہلے ہی اس علام الغیوب کو ہر چیز ، ہر شخص اور اس کے اعمال معلوم ہیں تو یہاں مطلب یہ ہے کہ دنیا کے سامنے کھول دے اور اس حال کو دیکھ لے اور دکھا دے اسی لیے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اس جیسے مواقع پر «لِنَعْلَمَ» کے معنی کرتے تھے «ِلنَریٰ» یعنی تا کہ ہم دیکھ لیں ۔ محمد
30 محمد
31 محمد
32 نیکیوں کو غارت کرنے والی برائیوں کی نشاندہی اللہ سبحانہ و تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ کفر کرنے والے راہ اللہ کی بندش کرنے والے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرنے والے ہدایت کے ہوتے ہوئے گمراہ ہونے والے اللہ کا تو کچھ نہیں بگاڑتے بلکہ اپنا ہی کچھ کھوتے ہیں کل قیامت والے دن یہ خالی ہاتھ ہوں گے ایک نیکی بھی ان کے پاس نہ ہو گی ۔ جس طرح نیکیاں گناہوں کو مٹا دیتی ہیں اسی طرح اس کے بدترین جرم و گناہ ان کی نیکیاں برباد کر دیں گے ۔ امام محمد بن نصر مروزی رحمہ اللہ اپنی کتاب الصلوۃ میں حدیث لائے ہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کا خیال تھا کہ «لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ» کے ساتھ کوئی گناہ نقصان نہیں دیتا جیسے کہ شرک کے ساتھ کوئی نیکی نفع نہیں دیتی یہ «أَطِیعُوا اللہَ وَأَطِیعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَکُمْ» ۱؎ (47-محمد:33) ، اتری اس پر اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس سے ڈرنے لگے کہ گناہ نیکیوں کو باطل نہ کر دیں ۔ دوسری سند سے مروی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا خیال تھا کہ ہر نیکی بالیقین مقبول ہے یہاں تک کہ یہ آیت «إِنَّ اللہَ لَا یَغْفِرُ أَن یُشْرَکَ بِہِ وَیَغْفِرُ مَا دُونَ ذٰلِکَ لِمَن یَشَاءُ» ۱؎ (4-النساء:48) اتری تو کہنے لگے کہ ہمارے اعمال برباد کرنے والی چیز کبیرہ گناہ اور بدکاریاں کرنے والے پر انہیں خوف رہتا تھا اور ان سے بچنے والے کے لیے امید رہتی تھی ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے باایمان بندوں کو اپنی اور اپنے نبی کی اطاعت کا حکم دیتا ہے جو ان کے لیے دنیا اور آخرت کی سعادت کی چیز ہے اور مرتد ہونے سے روک رہا ہے جو اعمال کو غارت کرنے والی چیز ہے ۔ پھر فرماتا ہے ’ اللہ سے کفر کرنے والے ، راہ اللہ سے روکنے والے اور کفر ہی میں مرنے والے اللہ کی بخشش سے محروم ہیں ‘ ۔ جیسے فرمان ہے کہ ’ اللہ شرک کو نہیں بخشتا ‘ ۔ اس کے بعد جناب باری «عز اسمہ» فرماتا ہے کہ ’ اے میرے مومن بندو ! تم دشمنوں کے مقابلے میں عاجزی کا اظہار نہ کرو اور ان سے دب کر صلح کی دعوت نہ دو حالانکہ قوت و طاقت میں ، زور و غلبہ میں ، تعداد و اسباب میں تم قوی ہو ‘ ۔ ہاں جبکہ کافر قوت میں ، تعداد میں ، اسباب میں تم سے زیادہ ہوں اور مسلمانوں کا امام مصلحت صلح میں ہی دیکھے تو ایسے وقت بیشک صلح کی طرف جھکنا جائز ہے جیسے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کے موقع پر کیا جبکہ مشرکین مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ جانے سے روکا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس سال تک لڑائی بند رکھنے اور صلح قائم رکھنے پر معاہدہ کر لیا ۔ پھر ایمان والوں کو بہت بڑی بشارت و خوشخبری سناتا ہے کہ اللہ تمہارے ساتھ ہے اس وجہ سے نصرت و فتح تمہاری ہی ہے تم یقین مانو کہ تمہاری چھوٹی سے چھوٹی نیکی بھی وہ ضائع نہ کرے گا بلکہ اس کا پورا پورا اجر و ثواب تمہیں عنایت فرمائے گا ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» محمد
33 محمد
34 محمد
35 محمد
36 سخاوت کے فائدے اور بخل کے نقصانات دنیا کی حقارت اور اس کی قلت و ذلت بیان ہو رہی ہے کہ اس سے سوائے کھیل تماشے کے اور کچھ حاصل نہیں ہاں جو کام اللہ کے لیے کئے جائیں وہ باقی رہ جاتے ہیں ۔ پھر فرماتا ہے کہ اللہ کی ذات بے پرواہ ہے تمہارے بھلے کام تمہارے ہی نفع کیلئے ہیں وہ تمہارے مالوں کا بھوکا نہیں اس نے تمہیں جو خیرات کا حکم دیا ہے وہ صرف اس لیے کہ تمہارے ہی غرباء ، فقراء کی پرورش ہو اور پھر تم دار آخرت میں مستحق ثواب بنو ۔ پھر انسان کے بخل اور بخل کے بعد دلی کینے کے ظاہر ہونے کا حال بیان فرمایا : مال کے نکالنے میں یہ تو ہوتا ہی ہے کہ مال انسان کو محبوب ہوتا ہے اور اس کا نکالنا اس پر گراں گزرتا ہے ۔ پھر بخیلوں کی بخیلی کے وبال کا ذکر ہو رہا ہے کہ فی سبیل اللہ خرچ کرنے سے مال کو روکنا دراصل اپنا ہی نقصان کرنا ہے کیونکہ بخیلی کا وبال اسی پر پڑے گا ۔ صدقے کی فضیلت اور اس کے اجر سے محروم بھی رہے گا ۔ اللہ سب سے غنی ہے اور سب اس کے در کے بھکاری ہیں ۔ غناء اللہ تعالیٰ کا وصف لازم ہے اور احتیاج مخلوق کا وصف لازم ہے ، نہ یہ اس سے کبھی الگ ہوں ، نہ وہ اس سے ۔ پھر فرماتا ہے ’ اگر تم اس کی اطاعت سے روگرداں ہو گئے اس کی شریعت کی تابعداری چھوڑ دی تو وہ تمہارے بدلے تمہارے سوا اور قوم لائے گا جو تم جیسی نہ ہو گی بلکہ وہ سننے اور ماننے والے ، حکم بردار ، نافرمانیوں سے بیزار ہوں گے ‘ ۔ ابن ابی حاتم اور ابن جریر میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ آیت تلاوت فرمائی تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول ! وہ کون لوگ ہیں جو ہمارے بدلے لائے جاتے اور ہم جیسے نہ ہوتے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے شانے پر رکھ کر فرمایا : ” یہ اور ان کی قوم اگر دین ، ثریا کے پاس بھی ہوتا تو اسے فارس کے لوگ لے آتے “ } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2546) ، اس کے ایک راوی مسلم بن خالد زنجی کے بارے میں بعض ائمہ جرح تعدیل نے کچھ کلام کیا ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» «اَلْحَمْدُ لِلہِ» اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے سورۃ محمد کی تفسیر ختم ہوئی ۔ محمد
37 محمد
38 محمد
0 الفتح
1 تفسیر سورۃ فتح صحیح بخاری ، صحیح مسلم اور مسند احمد میں عبداللہ بن مغفل سے روایت ہے کہ { فتح مکہ والے سال اثناء سفر میں راہ چلتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اونٹنی پر ہی سورۃ الفتح کی تلاوت کی اور ترجیع سے پڑھ رہے تھے ۔ اگر مجھے لوگوں کے جمع ہو جانے کا ڈر نہ ہوتا تو میں آپ کی تلاوت کی طرح ہی تلاوت کر کے تمہیں سنا دیتا ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:4281) ذی قعدہ سنہ ۶ ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمرہ ادا کرنے کے ارادے سے مدینہ سے مکہ کو چلے لیکن راہ میں مشرکین مکہ نے روک دیا اور مسجد الحرام کی زیارت سے مانع ہوئے پھر وہ لوگ صلح کی طرف جھکے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس بات پر کہ اگلے سال عمرہ ادا کریں گے ان سے صلح کر لی جسے صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک بڑی جماعت پسند نہ کرتی تھی ، جس میں خاص قابل ذکر ہستی سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی ہے آپ نے وہیں اپنی قربانیاں کیں اور لوٹ گئے ، جس کا پورا واقعہ ابھی اسی سورت کی تفسیر میں آ رہا ہے ، ان شاءاللہ ۔ پس لوٹتے ہوئے راہ میں یہ مبارک سورت آپ پر نازل ہوئی جس میں اس واقعہ کا ذکر ہے اور اس صلح کو بااعتبار نتیجہ فتح کہا گیا ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ وغیرہ سے مروی ہے کہ تم تو فتح فتح مکہ کو کہتے ہو لیکن ہم صلح حدیبیہ کو فتح جانتے تھے ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:794) سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے بھی یہی مروی ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:332/11) صحیح بخاری میں ہے { سیدنا براء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں تم فتح مکہ کو فتح شمار کرتے ہو اور ہم بیعت الرضوان کے واقعہ حدیبیہ کو فتح گنتے ہیں ۔ ہم چودہ سو آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس موقعہ پر تھے حدیبیہ نامی ایک کنواں تھا ، ہم نے اس میں سے پانی اپنی ضرورت کے مطابق لینا شروع کیا تھوڑی دیر میں پانی بالکل ختم ہو گیا ایک قطرہ بھی نہ بچا آخر پانی نہ ہونے کی شکایت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کانوں میں پہنچی ، آپ اس کنویں کے پاس آئے اس کے کنارے بیٹھ گئے اور پانی کا برتن منگوا کر وضو کیا جس میں کلی بھی کی ، پھر کچھ دعا کی اور وہ پانی اس کنویں میں ڈلوا دیا ، تھوڑی دیر بعد جو ہم نے دیکھا تو وہ تو پانی سے لبالب بھرا ہوا تھا ہم نے پیا جانوروں نے بھی پیا اپنی حاجتیں پوری کیں اور سارے برتن بھر لیے ۔ }۱؎ (صحیح بخاری:4150) مسند احمد میں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ { ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا ، تین مرتبہ میں نے آپ سے کچھ پوچھا آپ نے کوئی جواب نہ دیا ، اب تو مجھے سخت ندامت ہوئی اس امر پر کہ افسوس میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دی آپ جواب دینا نہیں چاہتے اور میں خوامخواہ سر ہوتا رہا ۔ پھر مجھے ڈر لگنے لگا کہ میری اس بے ادبی پر میرے بارے میں کوئی وحی آسمان سے نہ نازل ہو ۔ چنانچہ میں نے اپنی سواری کو تیز کیا اور آگے نکل گیا ، تھوڑی دیر گزری تھی کہ میں نے سنا کوئی منادی میرے نام کی ندا کر رہا ہے ، میں نے جواب دیا تو اس نے کہا چلو تمہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یاد فرماتے ہیں ، اب تو میرے ہوش گم ہو گئے کہ ضرور کوئی وحی نازل ہوئی اور میں ہلاک ہوا ، جلدی جلدی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” گذشتہ شب مجھ پر ایک سورت اتری ہے جو مجھے دنیا اور دنیا کی تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہے “ پھر آپ نے صلی اللہ علیہ وسلم «اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مٰبِیْنًا» } ۱؎ (48-الفتح:1) تلاوت کی ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4177) یہ حدیث بخاری ترمذی اور نسائی میں بھی ہے { سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حدیبیہ سے لوٹتے ہوئے آیت «لِّیَغْفِرَ لَکَ اللہُ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنبِکَ وَمَا تَأَخَّرَ وَیُتِمَّ نِعْمَتَہُ عَلَیْکَ وَیَہْدِیَکَ صِرَاطًا مٰسْتَقِیمًا» (48-الفتح:2) نازل ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” مجھ پر ایک آیت اتاری گئی ہے جو مجھے روئے زمین سے زیادہ محبوب ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھ سنائی “ ، صحابہ رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبارکباد دینے لگے اور کہا یا رسول اللہ ! یہ تو ہوئی آپ کے لیے ہمارے لیے کیا ہے ؟ اس پر یہ آیت «لِّیُدْخِلَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا وَیُکَفِّرَ عَنْہُمْ سَیِّاٰتِہِمْ وَکَانَ ذٰلِکَ عِنْدَ اللّٰہِ فَوْزًا عَظِیْمًا» } (48-الفتح:5) نازل ہوئی ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4172) { سیدنا مجمع بن جاریہ انصاری رضی اللہ عنہ جو قاری قرآن تھے فرماتے ہیں حدیبیہ سے ہم واپس آ رہے تھے کہ میں نے دیکھا کہ لوگ اونٹوں کو بھگائے لیے جا رہے ہیں پوچھا کیا بات ہے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی وحی نازل ہوئی ہے تو ہم لوگ بھی اپنے اونٹوں کو دوڑاتے ہوئے سب کے ساتھ پہنچے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت کراع الغمیم میں تھے جب سب جمع ہو گئے ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سورت تلاوت کر کے سنائی ، ایک صحابی نے کہا یا رسول اللہ ! کیا یہ فتح ہے ؟ آپ نے فرمایا : ” ہاں ، قسم اس کی جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے یہ فتح ہے “ ، خیبر کی تقسیم صرف انہی پر کی گئی جو حدیبیہ میں موجود تھے اٹھارہ حصے بنائے گئے کل لشکر پندرہ سو کا تھا جس میں تین سو گھوڑے سوار تھے پس سوار کو دوہرا حصہ ملا اور پیدل کو اکہرا ۔ } ۱؎ (سنن ابوداود:2736،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) { سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : حدیبیہ سے آتے ہوئے ایک جگہ رات گزارنے کیلئے ہم اتر کر سو گئے ، تو ایسے سوئے کہ سورج نکلنے کے بعد جاگے ، دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی سوئے ہوئے ہیں ، ہم نے کہا : آپ کو جگانا چاہیئے کہ آپ خود جاگ گئے اور فرمانے لگے : ” جو کچھ کرتے تھے کرو اور اسی طرح کرے جو سو جائے یا بھول جائے ۔ اسی سفر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کہیں گم ہو گئی ، ہم ڈھونڈنے نکلے تو دیکھا کہ ایک درخت میں نکیل اٹک گئی ہے اور وہ رکی کھڑی ہے اسے کھول کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے آپ سوار ہوئے اور ہم نے کوچ کیا ، ناگہاں راستے میں ہی آپ پر وحی آنے لگی وحی کے وقت آپ پر بہت دشواری ہوتی تھی جب وحی ہٹ گئی تو آپ نے ہمیں بتایا کہ آپ پر سورۃ «اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مٰبِیْنًا» (48-الفتح:1) اتری ہے ۔ } ۱؎ (سنن ابوداود:447،قال الشیخ الألبانی:صحیح) { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نوافل تہجد وغیرہ میں اس قدر وقت لگاتے کہ پیروں پر ورم چڑھ جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے پچھلے گناہ معاف نہیں فرما دیئے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا ، کیا پھر میں اللہ کا شکر گزار غلام نہ بنوں ؟ } ۱؎ (صحیح بخاری:4836) اور روایت میں ہے کہ یہ پوچھنے والی ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا تھیں ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2820) پس «مبین» سے مراد کھلی صریح صاف ظاہر ہے اور «فتح» سے مراد صلح حدیبیہ ہے جس کی وجہ سے بڑی خیر و برکت حاصل ہوئی ، لوگوں میں امن و امان ہوا ، مومن کافر میں بول چال شروع ہو گئی ، علم اور ایمان کے پھیلانے کا موقعہ ملا ، آپ کے اگلے پچھلے گناہوں کی معافی یہ آپ کا خاصہ ہے جس میں کوئی آپ کا شریک نہیں ۔ ہاں ، بعض اعمال کے ثواب میں یہ الفاظ اوروں کے لیے بھی آئے ہیں ، اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت بڑی شرافت و عظمت ہے آپ اپنے تمام کاموں میں بھلائی استقامت اور فرمانبرداری الٰہی پر مستقیم تھے ایسے کہ اولین و آخرین میں سے کوئی بھی ایسا نہ تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انسانوں میں سب سے زیادہ اکمل انسان اور دنیا اور آخرت میں کل اولاد آدم کے سردار اور رہبر تھے ۔ اور چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ اللہ کے فرمانبردار اور سب سے زیادہ اللہ کے احکام کا لحاظ کرنے والے تھے۔ اسی لیے جب آپ کی اونٹنی آپ کو لے کر بیٹھ گئی تو { آپ نے فرمایا : ” اسے ہاتھیوں کے روکنے والے نے روک لیا ہے اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے آج یہ کفار مجھ سے جو مانگیں گے دوں گا بشرطیکہ اللہ کی حرمت کی ہتک نہ ہو ۔ “ } ۱؎ (صحیح بخاری:2731) پس جب آپ نے اللہ کی مان لی اور صلح کو قبول کر لیا تو اللہ عزوجل نے سورہ «فتح» اتاری اور دنیا اور آخرت میں اپنی نعمتیں آپ پر پوری کیں اور شرع عظیم اور دین قدیم کی طرف آپ کی رہبری کی اور آپ کے خشوع و خضوع کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو بلند و بالا کیا ، آپ کی تواضع ، فروتنی ، عاجزی اور انکساری کے بدلے آپ کو عز و جاہ مرتبہ منصب عطا فرمایا ، آپ کے دشمنوں پر آپ کو غلبہ دیا چنانچہ خود { آپ کا فرمان ہے بندہ درگزر کرنے سے عزت میں بڑھ جاتا ہے اور عاجزی اور انکساری کرنے سے بلندی اور عالی رتبہ حاصل کر لیتا ہے ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:2588) سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ تو نے کسی کو جس نے تیرے بارے میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی ہو ایسی سزا نہیں دی کہ تو اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرے ۔ الفتح
2 الفتح
3 الفتح
4 اطمینان و رحمت «سکینہ» کے معنی ہیں اطمینان ، رحمت اور وقار کے ۔ فرمان ہے کہ حدیبیہ والے دن جن باایمان صحابہ رضی اللہ عنہم نے اللہ کی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات مان لی اللہ نے ان کے دلوں کو مطمئن کر دیا اور ان کے ایمان اور بڑھ گئے ، اس سے امام بخاری رحمہ اللہ وغیرہ ائمہ کرام نے استدلال کیا ہے کہ دلوں میں ایمان بڑھتا ہے اور اسی طرح گھٹتا بھی ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ اللہ کے لشکروں کی کمی نہیں وہ اگر چاہتا تو خود ہی کفار کو ہلاک کر دیتا ۔ ایک فرشتے کو بھیج دیتا تو وہ ان سب کو برباد اور بے نشان کر دینے کے لیے بس کافی تھا ، لیکن اس نے اپنی حکمت بالغہ سے ایمانداروں کو جہاد کا حکم دیا جس میں اس کی حجت بھی پوری ہو جائے اور دلیل بھی سامنے آ جائے اس کا کوئی کام علم و حکمت سے خالی نہیں ہوتا ۔ اس میں ایک مصلحت یہ بھی ہے کہ ایمانداروں کو اپنی بہترین نعمتیں اس بہانے عطا فرمائے ۔ پہلے یہ روایت گزر چکی ہے کہ صحابہ نے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مبارک باد دی اور پوچھا کہ یا رسول اللہ ! ہمارے لیے کیا ہے ؟ تو اللہ عزوجل نے یہ آیت اتاری کہ ’ مومن مرد و عورت جنتوں میں جائیں گے جہاں چپے چپے پر نہریں جاری ہیں اور جہاں وہ ابدالآباد تک رہیں گے ‘ اور اس لیے بھی کہ اللہ تعالیٰ ان کے گناہ اور ان کی برائیاں دور اور دفع کر دے ، انہیں ان کی برائیوں کی سزا نہ دے بلکہ معاف فرما دے درگزر کر دے ، بخش دے ، پردہ ڈال دے ، رحم کرے اور ان کی قدر دانی کرے ، دراصل یہی اصل کامیابی ہے ۔ جیسے کہ اللہ عزوجل نے فرمایا «فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ وَمَا الْحَیٰوۃُ الدٰنْیَآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ» ۱؎ (3-آلعمران:185) ’ یعنی جو جہنم سے دور کر دیا گیا اور جنت میں پہنچا دیا گیا وہ مراد کو پہنچ گیا ۔ ‘ پھر ایک اور وجہ اور غایت بیان کی جاتی ہے کہ اس لیے بھی کہ نفاق اور شرک کرنے والے مرد و عورت جو اللہ تعالیٰ کے احکام میں بدظنی کرتے ہیں رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحاب رسول رضی اللہ عنہم کے ساتھ برے خیال رکھتے ہیں یہ ہیں ہی کتنے ؟ آج نہیں تو کل ان کا نام و نشان مٹا دیا جائے گا اس جنگ میں بچ گئے تو اور کسی لڑائی میں تباہ ہو جائیں گے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دراصل اس برائی کا دائرہ انہی پر ہے ان پر اللہ کا غضب ہے یہ رحمت الٰہی سے دور ہیں ان کی جگہ جہنم ہے اور وہ بدترین ٹھکانا ہے ۔ دوبارہ اپنی قوت ، قدرت اپنے اور اپنے بندوں کے دشمنوں سے انتقام لینے کی طاقت کو ظاہر فرماتا ہے کہ آسمانوں اور زمینوں کے لشکر سب اللہ ہی کے ہیں اور اللہ تعالیٰ عزیز و حکیم ہے ۔ الفتح
5 الفتح
6 الفتح
7 الفتح
8 آنکھوں دیکھا گواہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو فرماتا ہے ہم نے تمہیں مخلوق پر شاہد بنا کر ، مومنوں کو خوشخبریاں سنانے والا ، کافروں کو ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے اس آیت کی پوری تفسیر سورۃ الاحزاب میں گزر چکی ہے ۔ تاکہ اے لوگو ! اللہ پر اور اس کے نبی پر ایمان لاؤ اور اس کی عظمت و احترام کرو ، بزرگی اور پاکیزگی کو تسلیم کرو اور اس لیے کہ تم اللہ تعالیٰ کی صبح شام تسبیح کرو ۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے نبی کی تعظیم و تکریم بیان فرماتا ہے کہ جو لوگ تجھ سے بیعت کرتے ہیں وہ دراصل خود اللہ تعالیٰ سے ہی بیعت کرتے ہیں ۔ جیسے ارشاد ہے «مَّن یُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللہَ وَمَن تَوَلَّی فَمَا أَرْسَلْنَاکَ عَلَیْہِمْ حَفِیظًا» (4-النساء:80) یعنی ’ جس نے رسول [ صلی اللہ علیہ وسلم ] کی اطاعت کی اس نے اللہ کا کہا مانا ‘ ۔ ’ اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے ‘ یعنی وہ ان کے ساتھ ہے ، ان کی باتیں سنتا ہے ، ان کا مکان دیکھتا ہے ان کے ظاہر باطن کو جانتا ہے ۔ پس دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے سے ان سے بیعت لینے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ جیسے فرمایا «اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ» ۱؎ (9-التوبۃ:111) ’ یعنی اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال خرید لیے ہیں اور ان کے بدلے میں جنت انہیں دے دی ہے ۔ ‘ وہ راہ اللہ میں جہاد کرتے ہیں ، مرتے ہیں اور مارتے ہیں اللہ کا یہ سچا وعدہ تورات و انجیل میں بھی موجود ہے اور اس قرآن میں بھی ، سمجھ لو کہ اللہ سے زیادہ سچے وعدے والا کون ہو گا ؟ پس تمہیں اس خرید فروخت پر خوش ہو جانا چاہیئے دراصل سچی کامیابی یہی ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ” جس نے راہ اللہ میں تلوار اٹھا لی اس نے اللہ سے بیعت کر لی “ } ۔ ۱؎ اور حدیث میں ہے { حجر اسود کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اسے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کھڑا کرے گا اس کی دو آنکھیں ہوں گی جن سے دیکھے گا اور زبان ہو گی جس سے بولے گا اور جس نے اسے حق کے ساتھ بوسہ دیا ہے اس کی گواہی دے گا اسے بوسہ دینے والا دراصل اللہ تعالیٰ سے بیعت کرنے والا ہے “ } ۔ ۱؎ (کنز العمال:10485،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی ۔ الفتح
9 الفتح
10 1 پھر فرماتا ہے جو بیعت کے بعد عہد شکنی کرے اس کا وبال خود اسی پر ہو گا ، اللہ کا وہ کچھ نہ بگاڑے گا اور جو اپنی بیعت کو نبھا جائے وہ بڑا ثواب پائے گا یہاں جس بیعت کا ذکر ہے وہ بیعت الرضوان ہے جو ایک ببول کے درخت تلے حدیبیہ کے میدان میں ہوئی تھی اس دن بیعت کرنے والے صحابہ کی تعداد تیرہ سو ، چودہ سو یا پندرہ سو تھی ٹھیک یہ ہے کہ چودہ سو تھی اس واقعہ کی حدیثیں ملاحظہ ہوں ۔ بخاری شریف میں ہے ہم اس دن چودہ سو تھے ۱؎ (سنن ترمذی:961،قال الشیخ الألبانی:صحیح) بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے { آپ نے اس پانی میں ہاتھ رکھا پس آپ کی انگلیوں کے درمیان سے اس پانی کی سوتیں ابلنے لگیں ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:4840) یہ حدیث مختصر ہے اس حدیث سے جس میں ہے کہ { صحابہ رضی اللہ عنہم سخت پیاسے ہوئے ، پانی تھا نہیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے ترکش میں سے ایک تیر نکال کر دیا انہوں نے جا کر حدیبیہ کے کنویں میں اسے گاڑ دیا اب تو پانی جوش کے ساتھ ابلنے لگا یہاں تک کہ سب کو کافی ہو گیا ، سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ اس روز تم کتنے تھے ؟ فرمایا : چودہ سو لیکن اگر ایک لاکھ بھی ہوتے تو پانی اس قدر تھا کہ سب کو کافی ہو جاتا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4840) بخاری کی روایت میں ہے کہ پندرہ سو تھے ۱؎ (صحیح بخاری:25) سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے ایک روایت میں پندرہ سو بھی مروی ہے ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:80) امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں فی الواقع تھے تو پندرہ سو اور یہی سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کا پہلا قول تھا پھر آپ کو کچھ وہم سا ہو گیا اور چودہ سو فرمانے لگے ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ سوا پندرہ سو تھے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4153) لیکن آپ سے مشہور روایت چودہ سو کی ہے اکثر راویوں اور اکثر سیرت نویس بزرگوں کا یہی قول ہے کہ چودہ سو تھے ایک روایت میں ہے اصحاب شجرہ چودہ سو تھے اور اس دن آٹھواں حصہ مہاجرین کا مسلمان ہوا ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4155) سیرت محمد بن اسحاق میں ہے کہ حدیبیہ والے سال رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھ سات سو صحابہ کو لے کر زیارت بیت اللہ کے ارادے سے مدینہ سے چلے ، قربانی کے ستر اونٹ بھی آپ کے ہمراہ تھے ، ہر دس اشخاص کی طرف سے ایک اونٹ ، ہاں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ کے ساتھی اس دن چودہ سو تھے ۔ ابن اسحاق اسی طرح کہتے ہیں اور یہ ان کے اوہام میں شمار ہے ۔ بخاری و مسلم میں جو محفوظ ہے وہ یہ کہ ایک ہزار کئی سو تھے جیسے ابھی آ رہا ہے ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ اس بیعت کا سبب سیرت محمد بن اسحاق میں ہے کہ { پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بلوایا کہ آپ کو مکہ بھیج کر قریش کے سرداروں سے کہلوائیں کہ آپ لڑائی بھڑائی کے ارادے سے نہیں آئے بلکہ آپ بیت اللہ شریف کے عمرے کے لیے آئے ہیں ۔ لیکن سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : یا رسول اللہ ! میرے خیال سے تو اس کام کے لیے آپ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو بھیجیں کیونکہ مکہ میں میرے خاندان میں سے کوئی نہیں یعنی بنوعدی بن کعب کا قبیلہ نہیں جو میری حمایت کرے آپ جانتے ہیں کہ قریش سے میں نے کتنی کچھ اور کیا کچھ دشمنی کی ہے اور وہ مجھ سے وہ کس قدر خار کھائے ہوئے ہیں مجھے تو وہ زندہ ہی نہیں چھوڑیں گے ۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رائے کو پسند فرما کر سیدنا عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ کو ابوسفیان اور سرداران قریش کے پاس بھیجا آپ جا ہی رہے تھے کہ راستے میں یا مکہ میں داخل ہوتے ہی ابان بن سعید بن عاص مل گیا اور اس نے آپ کو اپنے آگے سواری پر بٹھا لیا اپنی امان میں انہیں اپنے ساتھ مکہ میں لے گیا آپ قریش کے بڑوں کے پاس گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام پہنچایا ۔ انہوں نے کہا کہ اگر آپ بیت اللہ شریف کا طواف کرنا چاہیں تو کر لیجئے آپ نے جواب دیا کہ یہ ناممکن ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے میں طواف کر لوں ، اب ان لوگوں نے سیدنا ذوالنورین رضی اللہ عنہ کو روک لیا ، ادھر لشکر اسلام میں یہ خبر مشہور ہو گئی کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا گیا ہے ۔ اس وحشت اثر خبر نے مسلمانوں کو اور خود رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑا صدمہ پہنچایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب تو ہم بغیر فیصلہ کئے یہاں سے نہیں ہٹیں گے ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو بلوایا اور ان سے بیعت لی ایک درخت تلے یہ بیعت الرضوان ہوئی ۔ لوگ کہتے ہیں یہ بیعت موت پر لی تھی یعنی لڑتے لڑتے مر جائیں گے ۔ لیکن سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ موت پر بیعت نہیں لی تھی بلکہ اس اقرار پر کہ ہم لڑائی سے بھاگیں گے نہیں ، جتنے مسلمان صحابہ رضی اللہ عنہم اس میدان میں تھے سب نے آپ سے بہ رضا مندی بیعت کی سوائے جد بن قیس کے جو قبیلہ بنو سلمہ کا ایک شخص تھا یہ اپنی اونٹنی کی آڑ میں چھپ گیا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کو معلوم ہو گیا کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی افواہ غلط تھی ۔ } ۱؎ (سیرۃ ابن ھشام:315/2) اس کے بعد قریش نے سہیل بن عمرو ، حویطب بن عبدالعزیٰ اور مکرز بن حفص کو آپ کے پاس بھیجا یہ لوگ ابھی یہیں تھے کہ بعض مشرکین میں سے کچھ تیز کلامی شروع ہو گئی نوبت یہاں تک پہنچی کہ سنگ باری اور تیر باری بھی ہوئی اور دونوں طرف کے لوگ آمنے سامنے ہو گئے ۔ ادھر ان لوگوں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ وغیرہ کو روک لیا ، ادھر یہ لوگ رک گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منادی نے ندا کر دی کہ روح القدس اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور بیعت کا حکم دے گئے ، آؤ اللہ کا نام لے کر بیعت کر جاؤ ۔ اب کیا تھا مسلمان بے تابانہ دوڑے ہوئے حاضر ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت درخت تلے تھے ، سب نے بیعت کی اس بات پر کہ وہ ہرگز ہرگز کسی صورت میں میدان سے منہ موڑنے کا نام نہ لیں گے اس سے مشرکین کانپ اٹھے اور جتنے مسلمان ان کے پاس تھے سب کو چھوڑ دیا اور صلح کی درخواست کرنے لگے ۔ ۱؎ (دلائل النبوۃ للبیہقی:133/4:مرسل و ضعیف) بیہقی میں ہے کہ { بیعت کے وقت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : الٰہی ! عثمان تیرے اور تیرے رسول کے کام کو گئے ہوئے ہیں پس آپ نے خود اپنا ایک ہاتھ اپنے دوسرے ہاتھ پر رکھا گویا سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف سے بیعت کی ۔ } پس سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ ان کے اپنے ہاتھ سے بہت افضل تھا ۔ ۱؎ [ ضعیف: اس میں حکم بن عبدالملک ضعیف ہے ] اس بیعت میں سب سے پہل کرنے والے سیدنا ابوسنان اسدی رضی اللہ عنہ تھے ۔ انہوں نے سب سے آگے بڑھ کر فرمایا : اے اللہ کے رسول ! ہاتھ پھیلائیے تاکہ میں بیعت کر لوں آپ نے فرمایا : ” کس بات پر بیعت کرتے ہو ؟ “ جواب دیا جو آپ کے دل میں ہو اس پر ۔ ۱؎ (دلائل النبوۃ للبیہقی:137/4:مرسل و ضعیف) آپ کے والد کا نام وہب تھا ۔ صحیح بخاری میں نافع سے مروی ہے کہ { لوگ کہتے ہیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے لڑکے سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اپنے والد سے پہلے اسلام قبول کیا دراصل واقعہ یوں نہیں ۔ بات یہ ہے کہ حدیبیہ والے سال سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے صاحبزادے سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کو ایک انصاری کے پاس بھیجا کہ جا کر اپنے گھوڑے لے آؤ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں سے بیعت لے رہے تھے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو اس کا علم نہ تھا یہ اپنے طور پوشیدگی سے لڑائی کی تیاریاں کر رہے تھے ۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت ہو رہی ہے تو یہ بیعت سے مشرف ہوئے پھر گھوڑا لینے گئے اور گھوڑا لا کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیعت لے رہے ہیں اب سیدنا فاروق رضی اللہ عنہ آئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی اس بنا پر لوگ کہتے ہیں کہ بیٹے کا اسلام باپ سے پہلے کا ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4187) بخاری کی دوسری روایت میں ہے { لوگ الگ الگ درختوں تلے آرام کر رہے تھے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ ہر ایک کی نگاہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہیں اور لوگ آپ کو گھیرے ہوئے ہیں ، سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا : جاؤ ذرا دیکھو تو کیا ہو رہا ہے ؟ یہ آئے دیکھا کہ بیعت ہو رہی ہے تو بیعت کر لی ، پھر جا کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو خبر کی چنانچہ آپ بھی فوراً آئے اور بیعت سے مشرف ہوئے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4187) سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ { جب ہم نے بیعت کی ہے اس وقت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ آپ کا ہاتھ تھامے ہوئے تھے اور آپ ایک ببول کے درخت تلے تھے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1856) سیدنا معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ { اس موقعہ پر درخت کی ایک جھکی ہوئی شاخ کو آپ کے سر سے اوپر کو اٹھا کر میں تھامے ہوئے تھا ہم نے آپ سے موت پر بیعت نہیں کی بلکہ نہ بھاگنے پر } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1858-76) سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں { ہم نے مرنے پر بیعت کی تھی } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2960) آپ فرماتے ہیں { ایک مرتبہ بیعت کر کے میں ہٹ کر ایک طرف کو کھڑا ہو گیا تو آپ نے مجھ سے فرمایا : ” سلمہ ! تم بیعت نہیں کرتے ؟ “ میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! میں نے تو بیعت کر لی ، آپ نے فرمایا : ” خیر آؤ ، بیعت کرو “ ، چنانچہ میں نے قریب جا کر پھر بیعت کی } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:7208) حدیبیہ کا وہ کنواں جس کا ذکر اوپر گزرا صرف اتنے پانی کا تھا کہ پچاس بکریاں بھی آسودہ نہ ہو سکیں ، آپ فرماتے ہیں کہ دوبارہ بیعت کر لینے کے بعد آپ نے جو دیکھا تو معلوم ہوا کہ میں بے سپر ہوں تو آپ نے مجھے ایک ڈھال عنایت فرمائی ۔ پھر لوگوں سے بیعت لینی شروع کر دی پھر آخری مرتبہ میری طرف دیکھ کر فرمایا : ” سلمہ ! تم بیعت نہیں کرتے ؟ “ میں نے کہا : یا رسول اللہ ! پہلی مرتبہ جن لوگوں نے بیعت کی میں نے ان کے ساتھ ہی بیعت کی تھی پھر بیچ میں دوبارہ بیعت کر چکا ہوں ۔ آپ نے فرمایا : ” اچھا پھر سہی “ چنانچہ اس آخری جماعت کے ساتھ بھی میں نے بیعت کی آپ نے پھر میری طرف دیکھ کر فرمایا : ” سلمہ ! تمہیں ہم نے جو ڈھال دی تھی وہ کیا ہوئی ؟ “ میں نے کہا : یا رسول اللہ ! عامر سے میری ملاقات ہوئی تو میں نے دیکھا کہ ان کے پاس دشمن کا وار روکنے والی کوئی چیز نہیں میں نے وہ ڈھال انہیں دے دی ۔ تو آپ ہنسے اور فرمایا : ” تم بھی اس شخص کی طرح ہو جس نے اللہ سے دعا کی کہ اے الٰہی میرے پاس کسی ایسے کو بھیج دے جو مجھے میری جان سے زیادہ عزیز ہو “ ۔ پھر اہل مکہ سے صلح کی تحریک کی آمدورفت ہوئی اور صلح ہو گئی ، میں سیدنا طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کا خادم تھا ان کے گھوڑے کی اور ان کی خدمت کیا کرتا تھا ، وہ مجھے کھانے کو دے دیتے تھے ، میں تو اپنا گھربار بال بچے مال دولت سب راہ اللہ میں چھوڑ کر ہجرت کر کے چلا آیا تھا ۔ جب صلح ہو چکی ادھر کے لوگ ادھر اور ادھر کے ادھر آنے لگے ، تو میں ایک درخت تلے جا کر کانٹے وغیرہ ہٹا کر اس کی جڑ سے لگ کر سو گیا ، اچانک مشرکین مکہ میں سے چار شخص وہیں آئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کچھ گستاخانہ کلمات سے آپس میں باتیں کرنے لگے ، مجھے بڑا برا معلوم ہوا ، میں وہاں سے اٹھ کر دوسرے درخت تلے چلا گیا ۔ ان لوگوں نے اپنے ہتھیار اتارے درخت پر لٹکا کر وہاں لیٹ گئے تھوڑی دیر گزری ہو گی جو میں نے سنا کہ وادی کے نیچے کے حصہ سے کوئی منادی ندا کر رہا ہے کہ اے مہاجر بھائیو سیدنا ابن زنیم رضی اللہ عنہ قتل کر دئیے گئے ۔ میں نے جھٹ سے تلوار تان لی اور اسی درخت تلے گیا جہاں چاروں سوئے ہوئے تھے ، جاتے ہی پہلے تو ان کے ہتھیار قبضے میں کئے اور اپنے ایک ہاتھ میں انہیں دبا کر دوسرے ہاتھ سے تلوار تول کر ان سے کہا : سنو ! اس اللہ کی قسم جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو عزت دی ہے تم میں سے جس نے بھی سر اٹھایا میں اس کا سر قلم کر دوں گا ۔ جب وہ اسے مان چکے میں نے کہا : اٹھو اور میرے آگے آگے چلو چنانچہ ان چاروں کو لے کر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ، ادھر میرے چچا سیدنا عامر رضی اللہ عنہ بھی مکرز نامی عبلات کے ایک مشرک کو گرفتار کر کے لائے اور بھی اسی طرح کے ستر مشرکین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر کئے گئے تھے ۔ آپ نے ان کی طرف دیکھا اور فرمایا : ” انہیں چھوڑ دو ، برائی کی ابتداء بھی انہی کے سر رہے اور پھر اس کی تکرار کے ذمہ دار بھی یہی رہیں “ ۔ چنانچہ ان سب کو رہا کر دیا گیا اسی کا بیان آیت «وَہُوَ الَّذِیْ کَفَّ اَیْدِیَہُمْ عَنْکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ عَنْہُمْ بِبَطْنِ مَکَّۃَ مِنْۢ بَعْدِ اَنْ اَظْفَرَکُمْ عَلَیْہِمْ ۭ وَکَان اللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرًا» ۱؎ (48-الفتح:24) میں ہے ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1807) سعید بن مسیب رحمہ اللہ کے والد بھی اس موقعہ پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے آپ کا بیان ہے کہ اگلے سال جب ہم حج کو گئے تو اس درخت کی جگہ ہم پر پوشیدہ رہی ہم معلوم نہ کر سکے کہ کس جگہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر ہم نے بیعت کی تھی اب اگر تم پر یہ پوشیدگی کھل گئی ہو تو تم جانو ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4162) ایک روایت میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ { اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” آج زمین پر جتنے ہیں ان سب پر افضل تم لوگ ہو “ ۔ آپ فرماتے ہیں اگر میری آنکھیں ہوتیں تو میں تمہیں اس درخت کی جگہ دکھا دیتا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4154) سفیان رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس جگہ کی تعین میں بڑا اختلاف ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جن لوگوں نے اس بیعت میں شرکت کی ہے ان میں سے کوئی جہنم میں نہیں جائے گا } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4653،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اور روایت میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جن لوگوں نے اس درخت تلے میرے ہاتھ پر بیعت کی ہے سب جنت میں جائیں گے مگر سرخ اونٹ والا “ ، ہم جلدی دوڑے دیکھا تو ایک شخص اپنے کھوئے ہوئے اونٹ کی تلاش میں تھا ہم نے کہا چل بیعت کر اس نے جواب دیا کہ بیعت سے زیادہ نفع تو اس میں ہے کہ میں اپنا گمشدہ اونٹ پا لوں } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3863،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) مسند احمد میں ہے { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” کون ہے جو ثنیۃ المرار پر چڑھ جائے اس سے وہ دور ہو جائے گا جو بنی اسرائیل سے دور ہوا “ ، پس سب سے پہلے قبیلہ خزرج کے ایک صحابی اس پر چڑھ گئے پھر تو اور لوگ بھی پہنچ گئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تم سب بخشے جاؤ گے مگر سرخ اونٹ والا “ ۔ ہم اس کے پاس آئے اور اس سے کہا تیرے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے استغفار طلب کریں تو اس نے جواب دیا کہ اللہ کی قسم مجھے میرا اونٹ مل جائے تو میں زیادہ خوش ہوں گا بہ نسبت اس کے کہ تمہارے صاحب میرے لیے استغفار کریں یہ شخص اپنا گمشدہ اونٹ ڈھونڈ رہا تھا } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2785) { سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی یہ سنا کہ اس بیعت والے دوزخ میں داخل نہیں ہوں گے تو کہا : ہاں ہوں گے ، آپ نے انہیں روک دیا تو مائی صاحبہ رضی اللہ عنہا نے آیت «وَاِنْ مِّنْکُمْ اِلَّا وَارِدُہَا ۚ کَانَ عَلٰی رَبِّکَ حَتْمًا مَّقْضِیًّا» ۱؎ (19-مریم:71) پڑھی یعنی ’ تم میں سے ہر شخص کو اس پر وارد ہونا ہے ‘ ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اس کے بعد ہی فرمان باری ہے «ثُمَّ نُـنَجِّی الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّنَذَرُ الظّٰلِمِیْنَ فِیْہَا جِثِیًّا» ۱؎ (19-مریم:72) ’ یعنی پھر ہم تقویٰ والوں کو نجات دیں گے اور ظالموں کو گھٹنوں کے بل اس میں گرا دیں گے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2496) { سیدنا حاطب بن ابوبلتعہ رضی اللہ عنہ کے غلام سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ کی شکایت لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ ! حاطب ضرور جہنم میں جائیں گے ، آپ نے فرمایا : ” تو جھوٹا ہے ، وہ جہنمی نہیں ، وہ بدر میں اور حدیبیہ میں موجود رہا “ } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2495-162) ان بزرگوں کی ثنا بیان ہو رہی ہے کہ یہ اللہ سے بیعت کر رہے ہیں ان کے ہاتھوں پر اللہ کے ہاتھ ہیں ، اس بیعت کو توڑنے والا اپنا ہی نقصان کرنے والا ہے اور اسے پورا کرنے والا بڑے اجر کا مستحق ہے ۔ جیسے فرمایا «لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِہِمْ فَاَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ عَلَیْہِمْ وَاَثَابَہُمْ فَتْحًا قَرِیْبًا» ۱؎ (48-الفتح:18) ’ یعنی اللہ تعالیٰ ایمان والوں سے راضی ہو گیا جبکہ انہوں نے درخت تلے تجھ سے بیعت کی ان کے دلی ارادوں کو اس نے جان لیا پھر ان پر دلجمعی نازل فرمائی اور قریب کی فتح سے انہیں سرفراز فرمایا ‘ ۔ الفتح
11 مجاہدین کی کامیاب واپسی جو اعراب لوگ جہاد سے جی چرا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ چھوڑ کر موت کے ڈر کے مارے گھر سے نہ نکلے تھے اور جانتے تھے کہ کفر کی زبردست طاقت ہمیں چکنا چور کر دے گی اور جو اتنی بڑی جماعت سے ٹکر لینے گئے ہیں یہ تباہ ہو جائیں گے ، بال بچوں کو ترس جائیں گے اور وہیں کاٹ ڈالے جائیں گے ۔ جب انہوں نے دیکھا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مع اپنے پاکباز مجاہدین کی جماعت کے ہنسی خوشی واپس آ رہے ہیں ، تو اپنے دل میں مسودے گانٹھنے لگے کہ اپنی مشیخت بنی رہے ، یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے ہی سے خبردار کر دیا کہ یہ بدباطن لوگ آ کر اپنے ضمیر کے خلاف اپنی زبان کو حرکت دیں گے اور عذر پیش کریں گے کہ حضور بال بچوں اور کام کاج کی وجہ سے نکل نہ سکے ورنہ ہم تو ہر طرح تابع فرمان ہیں ہماری جان تک حاضر ہے اپنی مزید ایمانداری کے اظہار کے لیے یہ بھی کہہ دیں گے کہ آپ ہمارے لیے استغفار کیجئے ۔ تو آپ انہیں جواب دے دینا کہ تمہارا معاملہ سپرد اللہ ہے وہ دلوں کے بھید سے واقف ہے اگر وہ تمہیں نقصان پہنچائے تو کون ہے جو اسے دفع کر سکے ؟ اور اگر وہ تمہیں نفع دینا چاہے تو کون ہے جو اسے روک سکے ؟ تصنع اور بناوٹ سے تمہاری ایمانداری اور نفاق سے وہ بخوبی آگاہ ہے ، ایک ایک عمل سے وہ باخبر ہے ، اس پر کوئی چیز مخفی نہیں ، دراصل تمہارا پیچھے رہ جانا کسی عذر کے باعث نہ تھا بلکہ بطور نافرمانی کے ہی تھا ۔ صاف طور پر تمہارا نفاق اس کے باعث تھا تمہارے دل ایمان سے خالی ہیں اللہ پر بھروسہ نہیں رسول کی اطاعت میں بھلائی کا یقین نہیں اس وجہ سے تمہاری جانیں تم پر گراں ہیں تم اپنی نسبت تو کیا بلکہ رسول اور صحابہ کی نسبت بھی یہی خیال کرتے تھے کہ یہ قتل کر دئیے جائیں گے ان کی بھوسی اڑا دی جائے گی ان میں سے ایک بھی نہ بچ سکے گا جو ان کی خبر تو لا کر دے ۔ ان بدخیالیوں نے تمہیں نامرد بنا رکھا تھا تم دراصل برباد شدہ لوگ ہو کہا گیا ہے کہ «بورا» لغت عمان ہے جو شخص اپنا عمل خالص نہ کرے اپنا عقیدہ مضبوط نہ بنا لے اسے اللہ تعالیٰ دوزخ کی آگ میں عذاب کرے گا گو دنیا میں وہ بہ خلاف اپنے باطن کے ظاہر کرتے رہے ۔ پھر اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے ملک ، اپنی شہنشاہی اور اپنے اختیارات کا بیان فرماتا ہے کہ مالک و متصرف وہی ہے ، بخشش اور عذاب پر قادر وہ ہے لیکن ہے غفور اور رحیم ، جو بھی اس کی طرف جھکے وہ اس کی طرف مائل ہو جاتا ہے اور جو اس کا در کھٹکھٹائے وہ اس کے لیے اپنا دروازہ کھول دیتا ہے ، خواہ کتنے ہی گناہ کئے ہوں جب توبہ کرے اللہ قبول فرما لیتا ہے اور گناہ بخش دیتا ہے بلکہ رحم اور مہربانی سے پیش آتا ہے ۔ الفتح
12 الفتح
13 الفتح
14 الفتح
15 مال غنیمت کے طالب ارشاد الٰہی ہے کہ جن بدوی لوگوں نے حدیبیہ میں اللہ کے رسول اور صحابہ کا ساتھ نہ دیا وہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اور ان صحابہ رضی اللہ عنہم کو خیبر کی فتح کے موقع پر مال غنیمت سمیٹنے کے لیے جاتے ہوئے دیکھیں گے تو آرزو کریں گے کہ ہمیں بھی اپنے ساتھ لے لو ، مصیبت کو دیکھ کر پیچھے ہٹ گئے راحت کو دیکھ کر شامل ہونا چاہتے ہیں ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ انہیں ہرگز ساتھ نہ لینا جب یہ جنگ سے جی چرائیں تو پھر غنیمت میں حصہ کیوں لیں ؟ اللہ تعالیٰ نے خیبر کی غنیمتوں کا وعدہ اہل حدیبیہ سے کیا ہے نہ کہ ان سے جو مشکل وقت پر ساتھ نہ دیں اور آرام کے وقت مل جائیں ان کی چاہت ہے کہ کلام الٰہی کو بدل دیں ۔ یعنی اللہ نے تو صرف حدیبیہ کی حاضری والوں سے وعدہ کیا تو یہ چاہتے ہیں کہ باوجود اپنی غیر حاضری کے اللہ کے اس وعدے میں مل جائیں تاکہ وہ بھی بدلا ہوا ثابت ہو جائے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:343/11) ابن زید رحمہ اللہ کہتے ہیں مراد اس سے یہ حکم الٰہی ہے «فَاِنْ رَّجَعَکَ اللّٰہُ اِلٰی طَایِٕفَۃٍ مِّنْہُمْ فَاسْتَاْذَنُوْکَ لِلْخُرُوْجِ فَقُلْ لَّنْ تَخْرُجُوْا مَعِیَ اَبَدًا وَّلَنْ تُقَاتِلُوْا مَعِیَ عَدُوًّا» (9-التوبۃ:83) یعنی ’ اے نبی ! اگر تمہیں اللہ ان میں سے کسی گروہ کی طرف واپس لے جائے اور وہ تم سے جہاد کے لیے نکلنے کی اجازت مانگیں تو تم ان سے کہہ دینا کہ تم میرے ساتھ ہرگز نہ نکلو اور میرے ساتھ ہو کر کسی دشمن سے نہ لڑو ‘ ، تم وہی ہو کہ پہلی مرتبہ ہم سے پیچھے رہ جانے میں ہی خوش رہے بس اب ہمیشہ بیٹھے رہنے والوں کے ساتھ ہی بیٹھے رہو لیکن اس قول میں نظر ہے اس لیے کہ یہ آیت سورۃ برات کی ہے جو غزوہ تبوک کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور غزوہ تبوک غزوہ حدیبیہ کے بہت بعد کا ہے ۔ ابن جریج رحمہ اللہ کا قول ہے کہ مراد اس سے ان منافقوں کا مسلمانوں کو بھی اپنے ساتھ ملا کر جہاد سے باز رکھنا ہے ، فرماتا ہے کہ انہیں ان کی اس آرزو کا جواب دو کہ تم ہمارے ساتھ چلنا چاہو اس سے پہلے اللہ یہ وعدہ اہل حدیبیہ سے کر چکا ہے اس لیے تم ہمارے ساتھ نہیں چل سکتے ۔ اب وہ طعنہ دیں گے کہ اچھا ہمیں معلوم ہو گیا تم ہم سے جلتے ہو تم نہیں چاہتے کہ غنیمت کا حصہ تمہارے سوا کسی اور کو ملے ، اللہ فرماتا ہے دراصل یہ ان کی ناسمجھی ہے اور اسی ایک پر کیا موقوف ہے یہ لوگ سراسر بےسمجھ ہیں ۔ الفتح
16 1 وہ سخت لڑاکا قوم جن سے لڑنے کی طرف یہ بلائے جائیں گے کون سی قوم ہے ؟ اس میں کئی اقوال ہیں ایک تو یہ کہ اس سے مراد قبیلہ ہوازن ہے ، دوسرے یہ کہ اس سے مراد قبیلہ ثقیف ہے ، تیسرے یہ کہ اس سے مراد قبیلہ بنو حنیفہ ہے ، چوتھے یہ کہ اس سے مراد اہل فارس ہیں ، پانچویں یہ کہ اس سے مراد رومی ہیں ، چھٹے یہ کہ اس سے مراد بت پرست ہیں ۔ بعض فرماتے ہیں اس سے مراد کوئی خاص قبیلہ یا گروہ نہیں بلکہ مطلق جنگجو قوم مراد ہے جو ابھی تک مقابلہ میں نہیں آئی سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس سے مراد کرد لوگ ہیں ۔ ایک مرفوع حدیث میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” قیامت قائم نہ ہو گی جب تک کہ تم ایک ایسی قوم سے نہ لڑو جن کی آنکھیں چھوٹی چھوٹی ہوں گی اور ناک بیٹھی ہوئی ہو گی ان کے منہ مثل تہہ بہ تہہ ڈھالوں کے ہوں گے “ ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:2928) سفیان رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے مراد ترک ہیں ایک حدیث میں ہے کہ { تمہیں ایک قوم سے جہاد کرنا پڑے گا جن کی جوتیاں بال دار ہوں گی ، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس سے مراد کرد لوگ ہیں } ۔ پھر فرماتا ہے کہ ان سے جہاد قتال تم پر مشروع کر دیا گیا ہے اور یہ حکم باقی رہے گا اللہ تعالیٰ ان پر تمہاری مدد کرے گا یا یہ کہ وہ خودبخود بغیر لڑے بھڑے دین اسلام قبول کر لیں گے ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے اگر تم مان لو گے اور جہاد کے لیے اٹھ کھڑے ہو جاؤ گے اور حکم کی بجا آوری کرو گے تو تمہیں بہت ساری نیکیاں ملیں گی اور اگر تم نے وہی کیا جو حدیبیہ کے موقع پر کیا تھا یعنی بزدلی سے بیٹھے رہے جہاد میں شرکت نہ کی احکام کی تعمیل سے جی چرایا تو تمہیں المناک عذاب ہو گا ۔ پھر جہاد کے ترک کرنے کے جو صحیح عذر ہیں ان کا بیان ہو رہا ہے پس دو عذر تو وہ بیان فرمائے جو لازمی ہیں یعنی اندھا پن اور لنگڑا پن اور ایک عذر وہ بیان فرمایا جو عارضی ہے جیسے بیماری کہ چند دن رہی پھر چلی گئی ۔ پس یہ بھی اپنی بیماری کے زمانہ میں معذور ہیں ہاں تندرست ہونے کے بعد یہ معذور نہیں پھر جہاد کی ترغیب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانبردار جنتی ہے اور جو جہاد سے بے رغبتی کرے اور دنیا کی طرف سراسر متوجہ ہو جائے ، معاش کے پیچھے معاد کو بھول جائے اس کی سزا دنیا میں ذلت اور آخرت کی دکھ مار ہے ۔ الفتح
17 الفتح
18 چودہ سو صحابہ اور بیعت رضوان پہلے بیان ہو چکا ہے کہ یہ بیعت کرنے والے چودہ سو کی تعداد میں تھے اور یہ درخت ببول کا تھا جو حدیبیہ کے میدان میں تھا ، صحیح بخاری شریف میں ہے کہ { سیدنا عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ جب حج کو گئے تو دیکھا کہ کچھ لوگ ایک جگہ نماز ادا کر رہے ہیں پوچھا کہ کیا بات ہے ؟ تو جواب ملا کہ یہ وہی درخت ہے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت الرضوان ہوئی تھی ۔ سیدنا عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ نے واپس آ کر یہ قصہ سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے بیان کیا ۔ تو آپ نے فرمایا : میرے والد صاحب بھی ان بیعت کرنے والوں میں تھے ، ان کا بیان ہے کہ بیعت کے دوسرے سال ہم وہاں گئے لیکن ہم سب کو بھلا دیا گیا وہ درخت ہمیں نہ ملا ، پھر سعید فرمانے لگے تعجب ہے کہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم خود بیعت کرنے والے تو اس جگہ کو نہ پا سکیں انہیں معلوم نہ ہو لیکن تم لوگ جان لو گویا تم اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی زیادہ جاننے والے ہو } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4163) پھر فرمایا ہے ان کی دلی صداقت نیت وفا اور سننے اوج جاننے والی عادت کو اللہ نے معلوم کر لیا پس ان کے دلوں میں اطمینان ڈال دیا اور قریب کی فتح انعام فرمائی ۔ یہ فتح وہ صلح ہے جو حدیبیہ کے میدان میں ہوئی جس سے عام بھلائی حاصل ہوئی اور جس کے قریب ہی خیبر فتح ہوا ، پھر تھوڑے ہی زمانے کے بعد مکہ بھی فتح ہو گیا ، پھر اور قلعے اور علاقے بھی فتح ہوتے چلے گئے ۔ اور وہ عزت و نصرت و فتح و ظفر و اقبال اور رفعت حاصل ہوئی کہ دنیا انگشت بدنداں حیران و پریشان رہ گئی ۔ اسی لیے فرمایا کہ بہت سی غنیمتیں عطا فرمائے گا ۔ سچے غلبہ والا اور کامل حکمت والا اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے ہم حدیبیہ کے میدان میں دوپہر کے وقت آرام کر رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منادی نے ندا کی کہ لوگو ! بیعت کے لیے آگے بڑھو ، روح القدس آ چکے ہیں ۔ ہم بھاگے دوڑے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ، آپ اس وقت ببول کے درخت تلے تھے ہم نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی جس کا ذکر آیت «لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِہِمْ فَاَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ عَلَیْہِمْ وَاَثَابَہُمْ فَتْحًا قَرِیْبًا» ۱؎ (48-الفتح:18) میں ہے ۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف سے آپ نے اپنا ہاتھ دوسرے ہاتھ پر رکھ کر خود ہی بیعت کر لی ، تو ہم نے کہا : سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ بڑے خوش نصیب رہے کہ ہم تو یہاں پڑے ہوئے ہیں اور وہ بیت اللہ کا طواف کر رہے ہوں گے یہ سن کر جناب رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” بالکل ناممکن ہے کہ عثمان ہم سے پہلے طواف کر لے ، گو کئی سال تک وہاں رہے “ ۔ ۱؎ [ ضعیف: اس کی سند میں موسیٰ بن عبیدہ ضعیف ہیں ] الفتح
19 الفتح
20 کفار کے بد ارادے ناکام ہوئے ان بہت سی غنیمتوں سے مراد آپ کے زمانے اور بعد کی سب غنیمتیں ہیں جلدی کی غنیمت سے مراد خیبر کی غنیمت ہے اور حدیبیہ کی صلح ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:351/11) اس اللہ کا ایک احسان یہ بھی ہے کہ کفار کے بدارادوں کو اس نے پورا نہ ہونے دیا ، نہ مکے کے کافروں کے ، نہ ان منافقوں کے جو تمہارے پیچھے مدینے میں رہے تھے ، نہ یہ تم پر حملہ آور ہو سکے ، نہ وہ تمہارے بال بچوں کو ستا سکے ، یہ اس لیے کہ مسلمان اس سے عبرت حاصل کریں اور جان لیں کہ اصل حافظ و ناصر اللہ ہی ہے ، پس دشمنوں کی کثرت اور اپنی قلت سے ہمت نہ ہار دیں اور یہ بھی یقین کر لیں کہ ہر کام کے انجام کا علم اللہ ہی کو ہے بندوں کے حق میں بہتری یہی ہے کہ وہ اس کے فرمان پر عامل رہیں اور اسی میں اپنی خیریت سمجھیں گو وہ فرمان بظاہر خلاف طبع ہو ۔ بہت ممکن ہے کہ تم جسے ناپسند رکھتے ہو وہی تمہارے حق میں بہتر ہو وہ تمہیں تمہاری حکم بجا آوری اور اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور سچی جانثاری کی عوض راہ مستقیم دکھائے گا اور دیگر غنیمتیں اور فتح مندیاں بھی عطا فرمائے گا جو تمہارے بس کی نہیں ۔ لیکن اللہ خود تمہاری مدد کرے گا اور ان مشکلات کو تم پر آسان کر دے گا سب چیزیں اللہ کے بس میں ہیں ، وہ اپنا ڈر رکھنے والے بندوں کو ایسی جگہ سے روزیاں پہنچاتا ہے جو کسی کے خیال میں تو کیا ؟ خود ان کے اپنے خیال میں بھی نہ ہوں ، اس غنیمت سے مراد خیبر کی غنیمت ہے جس کا وعدہ صلح حدیبیہ میں پنہاں تھا یا مکہ کی فتح تھی یا فارس اور روم کے مال ہیں یا وہ تمام فتوحات ہیں جو قیامت تک مسلمانوں کو حاصل ہوں گی ۔ الفتح
21 الفتح
22 1 پھر اللہ تبارک وتعالیٰ مسلمانوں کو خوشخبری سناتا ہے کہ وہ کفار سے مرعوب اور خائف نہ ہوں اگر کافر مقابلہ پر آئے تو اللہ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کی مدد کرے گا ۔ اور ان بے ایمانوں کو شکست فاش دے گا یہ پیٹھ دکھائیں گے اور منہ پھیر لیں گے اور کوئی والی اور مددگار بھی انہیں نہ ملے گا اس لیے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑنے کے لیے آئے ہیں اور اس کے ایماندار بندوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں ۔ پھر فرماتا ہے یہی اللہ کی عادت ہے کہ جب کفر و ایمان کا مقابلہ ہو وہ ایمان کو کفر پر غالب کرتا ہے اور حق کو ظاہر کر کے باطل کو دبا دیتا ہے جیسے کہ بدر والے دن بہت سے کافروں کو جو باسامان تھے چند مسلمانوں کے مقابلہ میں جو بےسرو سامان تھے شکست فاش دی ۔ پھر اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتا ہے میرے احسان کو بھی نہ بھولو کہ میں نے مشرکوں کے ہاتھ تم تک نہ پہنچنے دئیے اور تمہیں بھی مسجد الحرام کے پاس لڑنے سے روک دیا اور تم میں اور ان میں صلے کرا دی جو دراصل تمہارے حق میں سراسر بہتری ہے کیا دنیا کے اعتبار سے اور کیا آخرت کے اعتبار سے ۔ وہ حدیث یاد ہو گی جو اسی سورت کی تفسیر میں بروایت سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ گزر چکی ہے کہ { جب ستر کافروں کو باندھ کر صحابہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں پیش کیا تو آپ نے فرمایا : ” انہیں جانے دو ان کی طرف سے ہی ابتداء ہو اور انہی کی طرف سے دوبارہ شروع ہو “ } ۔ اسی بابت یہ آیت اتری ۔ مسند احمد میں ہے کہ { اسی [ 80 ] کافر ہتھیاروں سے آراستہ جبل تنعیم کی طرف سے چپ چپاتے موقعہ پا کر اتر آئے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غافل نہ تھے ، آپ نے فوراً لوگوں کو آگاہ کر دیا سب گرفتار کر لیے گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کئے گئے آپ نے ازراہ مہربانی ان کی خطا معاف فرما دی اور سب کو چھوڑ دیا } ۔ اور نسائی میں بھی ہے { سیدنا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : جس درخت کا ذکر قرآن میں ہے اس کے نیچے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تھے ہم لوگ بھی آپ کے اردگرد تھے اس درخت کی شاخیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کمر سے لگ رہی تھیں ، سیدنا علی بن ابوطالب اور سیدنا سہیل بن عمرو رضی اللہ عنہما آپ کے سامنے تھے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : ” «بسم اللہ الرحمن الرحیم» لکھو “ اس پر سہیل نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ تھام لیا اور کہا ہم «رحمن» اور «رحیم» کو نہیں جانتے ، ہمارے اس صلح نامہ میں ہمارے دستور کے مطابق لکھوائیے ، پس آپ نے فرمایا : ” «باسمک اللھم» لکھ لو “ ۔ پھر لکھا یہ وہ ہے جس پر اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مکہ سے صلح کی اس پر پھر سہیل نے آپ کا ہاتھ تھام کر کہا آپ رسول اللہ ہی ہیں تو پھر ہم نے بڑا ظلم کیا ، اس صلح نامہ میں وہی لکھوائیے جو ہم میں مشہور ہے ، تو آپ نے فرمایا : ” لکھو یہ وہ ہے جس پر محمد بن عبداللہ نے اہل مکہ سے صلح کی “ ، اتنے میں تیس نوجوان کفار ہتھیار بند آن پڑے ، آپ نے ان کے حق میں بد دعا کی ، اللہ نے انہیں بہرا بنا دیا ہم اٹھے اور ان سب کو گرفتار کر کے آپ کے سامنے پیش کر دیا ۔ آپ نے ان سے دریافت فرمایا کہ کیا تمہیں کسی نے امن دیا ہے ـ ؟ یا تم کسی کی ذمہ داری پر آئے ہو ؟ انہوں نے انکار کیا لیکن باوجود اس کے آپ نے ان سے درگزر فرمایا اور انہیں چھوڑ دیا ۔ اس پر یہ آیت «وھوالذی» الخ ، نازل ہوئی } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1808-133) ابن جریر میں ہے { جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قربانی کے جانور لے کر چلے اور ذوالحلیفہ تک پہنچ گئے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی ، اے اللہ کے نبی ! آپ ایک ایسی قوم کی بستی میں جا رہے ہیں ۱؎ (مسند احمد:86/4:صحیح) جو برسرپیکار ہیں اور آپ کے پاس نہ تو ہتھیار ہیں نہ اسباب ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر آدمی بھیج کر مدینہ سے سب ہتھیار اور کل سامان منگوا لیا جب آپ مکہ کے قریب پہنچ گئے تو مشرکین نے آپ کو روکا ، آپ مکہ نہ آئیں ، آپ کو خبر دی کہ عکرمہ بن ابوجہل پانچ سو کا لشکر لے کر آپ پر چڑھائی کرنے کے لیے آ رہا ہے آپ نے سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے فرمایا : ” اے خالد ! تیرا چچازاد بھائی لشکر لے کر آ رہا ہے “ ۔ سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے فرمایا پھر کیا ہوا ؟ میں اللہ کی تلوار ہوں اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ، اسی دن سے آپ کا لقب سیف اللہ ہوا ۔ مجھے آپ جہاں چاہیں اور جس کے مقابلہ میں چاہیں بھیجیں ، چنانچہ عکرمہ کے مقابلہ کے لیے آپ روانہ ہوئے گھاٹی میں دونوں کی مڈبھیڑ ہوئی سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے ایسا سخت حملہ کیا کہ عکرمہ کے پاؤں نہ جمے اسے مکہ کی گلیوں تک پہنچا کر سیدنا خالد رضی اللہ عنہ واپس آ گئے لیکن پھر دوبارہ وہ تازہ دم ہو کر مقابلہ پر آیا ، اب کی مرتبہ بھی شکست کھا کر مکہ کی گلیوں میں پہنچ گیا وہ پھر تیسری مرتبہ نکلا اس مرتبہ بھی یہی حشر ہوا } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:356/11:مرسل) اسی کا بیان آیت «وَہُوَ الَّذِیْ کَفَّ اَیْدِیَہُمْ عَنْکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ عَنْہُمْ بِبَطْنِ مَکَّۃَ مِنْۢ بَعْدِ اَنْ اَظْفَرَکُمْ عَلَیْہِمْ ۭ وَکَان اللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرًا» ۱؎ (48-الفتح:24) میں ہے ۔ پس اللہ تعالیٰ نے باوجود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ظفر مندی کے کفار کو بھی بچا لیا تاکہ جو مسلمان ضعفاء اور کمزور مکہ میں تھے انہیں اسلامی لشکر کے ہاتھوں کوئی گذند نہ پہنچے لیکن اس روایت میں بہت کچھ نظر ہے ناممکن ہے کہ یہ حدیبیہ والے واقعہ کا ذکر ہو ، اس لیے کہ اس وقت تک تو سیدنا خالد رضی اللہ عنہ مسلمان ہی نہ ہوئے تھے بلکہ مشرکین کے طلایہ کے یہ اس دن سردار تھے ۔ جیسے کہ صحیح حدیث میں موجود ہے اور یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ یہ واقعہ عمرۃ القضاء کا ہو ۔ اس لیے کہ حدیبیہ کے صلح نامہ کی شرائط کے مطابق یہ طے شدہ امر تھا کہ اگلے سال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آئیں عمرہ ادا کریں اور تین دن تک مکہ میں ٹھہریں چنانچہ اسی قرارداد کے مطابق جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہوئے تو کافروں نے آپ کو روکا نہیں ، نہ آپ سے جنگ و جدال کیا ۔ اسی طرح یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ یہ واقعہ فتح مکہ کا ہو اس لیے کہ فتح مکہ والے سال آپ اپنے ساتھ قربانیاں لے کر نہیں گئے تھے اس وقت تو آپ جنگی حیثیت سے گئے تھے ، لڑنے اور جہاد کرنے کی نیت سے تشریف لے گئے تھے ، پس اس روایت میں بہت کچھ خلل ہے اور اس میں ضرور قباحت واقع ہوئی ہے خوب سوچ لینا چاہیئے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے مولیٰ سیدنا عکرمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ { قریش نے اپنے چالیس یا پچاس آدمی بھیجے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لشکر کے اردگرد گھومتے رہیں اور موقعہ پا کر کچھ نقصان پہنچائیں یا کسی کو گرفتار کر کے لے آئیں ، یہاں یہ سارے کے سارے پکڑے لیے گئے لیکن پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں معاف فرما دیا اور سب کو چھوڑ دیا انہوں نے آپ کے لشکر پر کچھ پتھر بھی پھینکے تھے اور کچھ تیر بھی چلائے تھے } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:31556) یہ بھی مروی ہے کہ { ایک صحابی جنہیں ابن زنیم کہا جاتا تھا حدیبیہ کے ایک ٹیلے پر چڑھے تھے مشرکین نے تیربازی کر کے ان کو شہید کر دیا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ سوار ان کے تعاقب میں روانہ کئے وہ ان سب کو جو تعداد میں بارہ سو تھے گرفتار کر کے لے آئے ، آپ نے ان سے پوچھا کہ کوئی عہد و پیمان ہے ؟ کہا نہیں لیکن پھر بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں چھوڑ دیا ۔ اور اسی بارے میں آیت «وَہُوَ الَّذِیْ کَفَّ اَیْدِیَہُمْ عَنْکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ عَنْہُمْ بِبَطْنِ مَکَّۃَ مِنْ بَعْدِ اَنْ اَظْفَرَکُمْ عَلَیْہِمْ وَکَان اللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرًا» ۱؎ (48-الفتح:24) نازل ہوئی ۔ الفتح
23 الفتح
24 الفتح
25 مسجد حرام بیت اللہ کے اصل حقدار مشرکین عرب جو قریش تھے اور جو ان کے ساتھ اس عہد پر تھے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کریں گے ان کی نسبت قرآن خبر دیتا ہے کہ دراصل یہ لوگ کفر پر ہیں ، انہوں نے ہی تمہیں مسجد الحرام بیت اللہ شریف سے روکا ہے حالانکہ اصلی حقدار اور زیادہ لائق بیت اللہ کے تم ہی لوگ تھے ، پھر ان کی سرکشی اور مخالفت نے انہیں یہاں تک اندھا کر دیا کہ اللہ کی راہ کی قربانیوں کو بھی قربان گاہ تک نہ جانے دیا ، یہ قربانیاں تعداد میں ستر تھیں جیسے کہ عنقریب ان کا بیان آ رہا ہے ۔ «ان شاءاللہ تعالیٰ» پھر فرماتا ہے کہ سردست تمہیں لڑائی کی اجازت نہ دینے میں یہ راز پوشیدہ تھے کہ ابھی چند کمزور مسلمان مکے میں ایسے ہیں جو ان ظالموں کی وجہ سے نہ اپنے ایمان کو ظاہر کر سکے ہیں ، نہ ہجرت کر کے تم میں مل سکے ہیں اور نہ تم انہیں جانتے ہو ، تو یوں دفعۃً اگر تمہیں اجازت دے دی جاتی اور تم اہل مکہ پر چھاپہ مارتے تو وہ سچے پکے مسلمان بھی تمہارے ہاتھوں شہید ہو جاتے اور بےعلمی میں تم ہی مستحق گناہ اور مستحق دیت بن جاتے ۔ پس ان کفار کی سزا کو اللہ نے کچھ اور پیچھے ہٹا دیا تاکہ ان کمزور مسلمانوں کو چھٹکارا مل جائے اور بھی جن کی قسمت میں ایمان ہے وہ ایمان لے آئیں ۔ اگر یہ مومن ان میں نہ ہوتے تو یقیناً ہم تمہیں ان کفار پر ابھی اسی وقت غلبہ دے دیتے اور ان کا نام مٹا دیتے ۔ جنید بن سبیع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں صبح کو میں کافروں کے ساتھ مل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑ رہا تھا لیکن اسی شام کو اللہ تعالیٰ نے میرا دل پھیر دیا میں مسلمان ہو گیا اور اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہو کر کفار سے لڑ رہا تھا ، ہمارے ہی بارے میں یہ آیت «وَلَوْلَا رِجَالٌ مٰؤْمِنُونَ وَنِسَاءٌ مٰؤْمِنَاتٌ لَّمْ تَعْلَمُوہُمْ» ۱؎ (48-الفتح:25) نازل ہوئی ہے ۔ ہم کل نو شخص تھے سات مرد و عورتیں ۔ ۱؎ (مسند ابویعلیٰ:1560) اور روایت میں ہے کہ ہم تین مرد تھے اور نو عورتیں تھیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اگر یہ مومن ان کافروں میں ملے جلے نہ ہوتے تو اللہ تعالیٰ اسی وقت مسلمانوں کے ہاتھوں ان کافروں کو سخت سزا دیتا یہ قتل کر دئیے جاتے ۔ الفتح
26 1 پھر فرماتا ہے جبکہ یہ کافر اپنے دلوں میں غیرت و حمیت جاہلیت کو جما چکے تھے صلح نامہ میں آیت «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» لکھنے سے انکار کر دیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے ساتھ لفظ رسول اللہ لکھوانے سے انکار کیا ، پس اللہ تعالیٰ نے اس وقت اپنے نبی اور مومنوں کے دل کھول دئیے ان پر اپنی سکینت نازل فرما کر انہیں مضبوط کر دیا اور تقوے کے کلمے پر انہیں جما دیا یعنی «لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ» پر جیسے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے اور جیسے کہ مسند احمد کی مرفوع حدیث میں موجود ہے ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3265،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابن ابی حاتم میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جہاد کرتا رہوں جب تک کہ وہ «لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ» نہ کہہ لیں ، جس نے «لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ» کہہ لیا ، اس نے مجھ سے اپنے مال کو اور اپنی جان کو بچا لیا مگر حق اسلام کی وجہ سے اس کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے “ } ۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی کتاب میں نازل فرمایا ایک قوم کی مذمت بیان کرتے ہوئے فرمایا «اِنَّہُمْ کَانُوْٓا اِذَا قِیْلَ لَہُمْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ یَسْتَکْبِرُوْنَ» ۱؎ (37-الصافات:35) یعنی ’ ان سے کہا جاتا تھا کہ سوائے اللہ کے کوئی عبادت کے لائق نہیں تو یہ تکبر کرتے تھے ‘ ۔ اور اللہ تعالیٰ نے یہاں مسلمانوں کی تعریف بیان کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ یہی اس کے زیادہ حقدار اور یہی اس کے قابل بھی تھے ۔ یہ کلمہ «لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ» ہے انہوں نے اس سے تکبر کیا اور مشرکین قریش نے اسی سے حدیبیہ والے دن تکبر کیا پھر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ایک مدت معینہ تک کے لیے صلح نامہ مکمل کر لیا ۔ ابن جریر میں بھی یہ حدیث ان ہی زیادتیوں کے ساتھ مروی ہے لیکن بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ پچھلے جملے راوی کے اپنے ہیں یعنی زہری رحمہ اللہ کا قول ہے جو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ گویا حدیث میں ہی ہے ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے مراد اخلاص ہے ، عطا رحمہ اللہ فرماتے ہیں وہ کلمہ یہ ہے «لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ لاَ شَرِیْک لَہٗ ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ ، وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ » ۔ مسور رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے مراد «لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ لاَ شَرِیْک لَہٗ» ہے ، سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس سے مراد «لاَّ اِلٰہَ اِلاَّ اﷲُ وَاﷲُ اَکْبَرُ» ہے ۔ یہی قول سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا ہے ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اس سے مراد اللہ کی وحدانیت کی شہادت ہے جو تمام تقوے کی جڑ ہے ۔ سعید بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے مراد «لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ» بھی ہے اور جہاد فی سبیل اللہ بھی ہے ۔ عطا خراسانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کلمہ تقویٰ «لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ» ہے ۔ زہری فرماتے رحمہ اللہ ہیں «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» مراد ہے ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں مراد «لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ» ہے ۔ پھر فرماتا ہے اللہ تعالیٰ ہر چیز کو بخوبی جاننے والا ہے اسے معلوم ہے کہ مستحق خیر کون ہے ؟ اور مستحق شر کون ہے ؟ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی قرأت اسی طرح ہے «اذ جعل الذین کفروا فی قلوبھم الحمیتہ حمیتہ الجاھلیتہ ولو حمیتم کما حموا الفسد المسجد الحرام» یعنی ’ کافروں نے جس وقت اپنے دل میں جاہلانہ ضد پیدا کر لی اگر اس وقت تم بھی ان کی طرح ضد پر آ جاتے تو نتیجہ یہ ہوتا کہ مسجد الحرام میں فساد برپا ہو جاتا ‘ ۔ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو اس قرأت کی خبر پہنچی تو بہت تیز ہوئے لیکن سیدنا ابی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : یہ تو آپ کو بھی معلوم ہو گا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتا جاتا رہتا تھا اور جو کچھ اللہ تعالیٰ آپ کو سکھاتا تھا آپ اس میں سے مجھے بھی سکھاتے تھے اس پر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا : آپ ذی علم اور قرآن دان ہیں آپ کو جو کچھ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھایا ہے وہ پڑھئے اور سکھائیے ۔ ۱؎ (سنن نسائی) ان احادیث کا بیان جن میں حدیبیہ کا قصہ اور صلح کا واقعہ ہے مسند احمد میں ۔ ۱؎ (مسند احمد:323/4:حسن) سیدنا مسور بن مخرمہ اور سیدنا مروان بن حکم رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زیارت بیت اللہ کے ارادے سے چلے آپ کا ارادہ جنگ کا نہ تھا ، ستر اونٹ قربانی کے آپ کے ساتھ تھے ، کل ساتھی آپ کے سات سو تھے ، ایک ایک اونٹ دس دس آدمیوں کی طرف سے تھا ۔ آپ جب عسفان پہنچے تو سیدنا بشر بن سفیان کعبی رضی اللہ عنہ نے آپ کو خبر دی کہ یا رسول اللہ ! قریشیوں نے آپ کے آنے کی خبر پا کر مقابلہ کی تیاریاں کر لی ہیں ، انہوں نے اونٹوں کے چھوٹے چھوٹے بچے بھی اپنے ساتھ لے لیے ہیں اور چیتے کی کھالیں پہن لی ہیں اور عہد و پیمان کر لیے ہیں کہ وہ آپ کو اس طرح جبراً مکہ میں نہیں آنے دیں گے ، خالد بن ولید کو انہوں نے چھوٹا سا لشکر دے کر کراع غمیم تک پہنچا دیا ۔ یہ سن کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” افسوس قریشیوں کو لڑائیوں نے کھا لیا کتنی اچھی بات تھی کہ وہ مجھے اور لوگوں کو چھوڑ دیتے اگر وہ مجھ پر غالب آ جاتے تو ان کا مقصود پورا ہو جاتا اور اگر اللہ تعالیٰ مجھے اور لوگوں پر غالب کر دیتا تو پھر یہ لوگ بھی دین اسلام کو قبول کر لیتے اور اگر اس وقت بھی اس دین میں نہ آنا چاہتے تو مجھ سے لڑتے اور اس وقت ان کی طاقت بھی پوری ہوتی قریشیوں نے کیا سمجھ رکھا ہے ؟ قسم اللہ کی اس دین پر میں ان سے جہاد کرتا رہوں گا اور ان سے مقابلہ کرتا رہوں گا یہاں تک کہ یا تو اللہ مجھے ان پر کھلم کھلا غلبہ عطا فرما دے یا میری گردن کٹ جائے “ ۔ پھر آپ نے اپنے لشکر کو حکم دیا کہ دائیں طرف حمص کے پیچھے سے اس راستہ پر چلیں جو ثنیۃ المرار کو جاتا ہے اور حدیبیہ مکہ کے نیچے کے حصے میں ہے ۔ خالد والے لشکر نے جب دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے راستہ بدل دیا ہے تو یہ دوڑے ہوئے قریشیوں کے پاس گئے اور انہیں اس کی خبر دی ، ادھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب ثنیۃ المرار میں پہنچے تو آپ کی اونٹنی بیٹھ گئی ، لوگ کہنے لگے اونٹنی تھک گئی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” نہ یہ تھکی ، نہ اس کی بیٹھ جانے کی عادت ہے ، اسے اس اللہ نے روک لیا ہے جس نے مکہ سے ہاتھیوں کو روک لیا تھا ، سنو قریش آج مجھ سے جو چیز مانگیں گے ، جس میں صلہ رحمی ہو میں انہیں دوں گا “ ۔ پھر آپ نے لشکریوں کو حکم دیا کہ وہ پڑاؤ کریں انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! اس پوری وادی میں پانی نہیں آپ نے ترکش میں سے ایک تیر نکال کر ایک صحابی کو دیا اور فرمایا : ” اسے یہاں کے کسی کنویں میں گاڑ دو “ ، اس کے گاڑتے ہی پانی جوش مارتا ہوا ابل پڑا تمام لشکر نے پانی لے لیا اور وہ برابر بڑھتا چلا جا رہا تھا ۔ جب پڑاؤ ہو گیا اور وہ اطمینان سے بیٹھ گئے اتنے میں بدیل بن ورقہ اپنے ساتھ قبیلہ خزاعہ کے چند لوگوں کو لے کر آیا آپ نے اس سے بھی وہی فرمایا جو بشر بن سفیان سے فرمایا تھا چنانچہ یہ لوٹ گیا اور جا کر قریش سے کہا کہ تم لوگوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بڑی عجلت کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تم سے لڑنے کو نہیں آئے ، آپ تو صرف بیت اللہ کی زیارت کرنے اور اس کی عزت کرنے کو آئے ہیں تم اپنے فیصلے پر دوبارہ نظر ڈالو ۔ دراصل قبیلہ خزاعہ کے مسلم و کافر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طرفدار تھے مکہ کی خبریں انہی لوگوں سے آپ کو پہنچا کرتی تھیں ۔ قریشیوں نے انہیں جواب دیا کہ گو آپ اسی ارادے سے آئے ہوں لیکن یوں اچانک تو ہم انہیں یہاں نہیں آنے دیں گے ورنہ لوگوں میں تو یہی باتیں ہوں گی کہ آپ مکہ گئے اور کوئی آپ کو روک نہ سکا ۔ انہوں نے پھر مکرز بن حفص کو بھیجا یہ بنو عامر بن لوئی کے قبیلے میں سے تھا اسے دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” یہ عہد شکن شخص ہے “ اور اس سے بھی آپ نے وہی فرمایا جو اس سے پہلے آنے والے دونوں اور شخصوں سے فرمایا تھا ، یہ بھی لوٹ گیا اور جا کر قریشیوں سے سارا واقعہ بیان کر دیا قریشیوں نے پھر حلیس بن علقمہ کنانی کو بھیجا یہ ادھر ادھر کے مختلف لوگوں کا سردار تھا اسے دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” یہ اس قوم سے ہے جو اللہ کے کاموں کی عظمت کرتی ہے اپنی قربانی کے جانوروں کو کھڑا کر دو “ ۔ اس نے جو دیکھا کہ ہر طرف سے قربانی کے نشان دار جانور آ جا رہے ہیں اور رک جانے کی وجہ سے ان کے بال اڑے ہوئے ہیں یہ تو وہیں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے بغیر لوٹ گیا اور جا کر قریش سے کہا کہ اللہ جانتا ہے تمہیں حلال نہیں کہ تم انہیں بیت اللہ سے روکو ، اللہ کے نام کے جانور قربان گاہ سے رکے کھڑے ہیں یہ سخت ظلم ہے ، اتنے دن رکے رہنے سے ان کے بال تک اڑ گئے ہیں میں اپنی آنکھوں سے دیکھ کر آ رہا ہوں قریش نے کہا تو تو نرا اعرابی ہے خاموش ہو کر بیٹھ جا ۔ اب انہوں نے مشورہ کر کے عروہ بن مسعود ثقفی کو بھیجا عروہ نے اپنے جانے سے پہلے کہا کہ اے قریشیو ! جن جن کو تم نے وہاں بھیجا وہ جب واپس ہوئے تو ان سے تم نے کیا سلوک کیا ، یہ میں دیکھ رہا ہوں ، تم نے انہیں برا کہا ، ان کی بےعزتی کی ، ان پر تہمت رکھی ، ان سے بدگمانی کی ، میری حالت تمہیں معلوم ہے کہ میں تمہیں مثل باپ کے سمجھتا ہوں ، تم خوب جانتے ہو کہ جب تم نے ہائے وائے کی میں نے اپنی تمام قوم کو اکٹھا کیا اور جس نے میری بات مانی میں نے اسے اپنے ساتھ لیا اور تمہاری مدد کے لیے اپنی جان مال اور اپنی قوم کو لے کر آ پہنچا سب نے کہا بیشک آپ سچے ہیں ہمیں آپ سے کسی قسم کی بدگمانی نہیں آپ جائیے ۔ اب یہ چلا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ کر آپ کے سامنے بیٹھ کر کہنے لگا کہ آپ نے ادھر ادھر کے کچھ لوگوں کو جمع کر لیا ہے اور آئے ہیں ، اپنی قوم کی شان و شوکت کو خود ہی توڑنے کے لیے ۔ سنئے یہ قریشی ہیں آج یہ مصمم ارادہ کر چکے ہیں اور چھوٹے چھوٹے بچے بھی ان کے ساتھ ہیں جو چیتوں کی کھالیں پہنے ہوئے ہیں ، وہ اللہ کو بیچ میں رکھ کر عہد و پیمان کر چکے ہیں کہ ہرگز ہرگز آپ کو اس طرح اچانک زبردستی مکہ میں نہیں آنے دیں گے ۔ اللہ کی قسم ! مجھے تو ایسا نظر آتا ہے کہ یہ لوگ جو اس وقت بھیڑ لگائے آپ کے اردگرد کھڑے ہوئے ہیں یہ لڑائی کے وقت ڈھونڈنے سے بھی نہ ملیں گے ۔ یہ سن کر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے رہا نہ گیا ، آپ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے ، آپ نے کہا جا لات کی وہ چوستا رہ ، ہم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوں ؟ عروہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا : یہ کون ہے ؟ آپ نے فرمایا : ” ابوقحافہ کے بیٹے “ ، تو کہنے لگا اگر مجھ پر تیرا احسان پہلے کا نہ ہوتا تو میں تجھے ضرور مزہ چکھاتا ۔ اس کے بعد عروہ نے پھر کچھ کہنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ڈاڑھی میں ہاتھ ڈالا ، اس کی بےادبی کو سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ برداشت نہ کر سکے ، یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہی کھڑے تھے ، لوہا ان کے ہاتھ میں تھا ، وہی اس کے ہاتھ پر مار کر فرمایا : اپنا ہاتھ دور رکھ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم کو چھو نہیں سکتا ۔ یہ کہنے لگا تو بڑا ہی بدزبان اور ٹیڑھا آدمی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تبسم فرمایا اس نے پوچھا یہ کون ہے ؟ آپ نے فرمایا : ” یہ تیرا بھتیجا مغیرہ بن شعبہ ہے ؟ “ ، تو کہنے لگا غدار تو تو کل تک طہارت بھی نہ جانتا تھا ۔ الغرض اسے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی جواب دیا جو اس سے پہلے والوں کو فرمایا تھا اور یقین دلا دیا کہ ہم لڑنے نہیں آئے ۔ یہ واپس چلا اور اس نے یہاں کا یہ نقشہ دیکھا تھا کہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پروانے بنے ہوئے ہیں ، آپ کے وضو کا پانی وہ اپنے ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں ، آپ کے تھوک کو اپنے ہاتھوں میں لینے کے لیے وہ ایک دوسرے پر سبقت کرتے ہیں ، آپ کا کوئی بال گر پڑے تو ہر شخص لپکتا ہے کہ وہ اسے لے لے ۔ جب یہ قریشیوں کے پاس پہنچا تو کہنے لگا : اے قریش کی جماعت کے لوگو ! میں کسریٰ کے ہاں اس کے دربار میں اور نجاشی کے یہاں اس کے دربار میں ہو آیا ہوں ، اللہ کی قسم ! میں نے ان بادشاہوں کی بھی وہ عظمت اور وہ احترام نہیں دیکھا جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیکھا ہے ۔ آپ کے اصحاب تو آپ کی وہ عزت کرتے ہیں کہ اس سے زیادہ ناممکن ہے اب تم سوچ سمجھ لو اور اس بات کو باور کر لو کہ اصحاب رضی اللہ عنہم رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایسے نہیں کہ اپنے نبی کو تمہارے ہاتھوں میں دے دیں ۔ اب آپ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بلایا اور انہیں مکہ والوں کے پاس بھیجنا چاہا لیکن اس سے پہلے یہ واقعہ ہو چکا تھا کہ آپ نے ایک مرتبہ سیدنا خراش بن امیہ خزاعی رضی اللہ عنہ کو اپنے اونٹ پر جس کا نام ثعلب تھا سوار کرا کر مکہ مکرمہ بھیجا تھا قریش نے اس اونٹ کی کوچیں کاٹ دیں تھیں اور خود قاصد کو بھی قتل کر ڈالتے لیکن احابیش قوم نے انہیں بچا لیا ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جواب میں کہا کہ یا رسول اللہ ! مجھے تو ڈر ہے کہ کہیں یہ لوگ مجھے قتل نہ کر دیں کیونکہ وہاں میرے قبیلہ بنو عدی کا کوئی شخص نہیں جو مجھے ان قریشیوں سے بچانے کی کوشش کرے ، اس لیے کیا یہ اچھا نہ ہو گا کہ آپ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو بھیجیں جو ان کی نگاہوں میں مجھ سے بہت زیادہ ذی عزت ہیں ۔ چنانچہ آپ نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو بلا کر انہیں مکہ میں بھیجا کہ جا کر قریش سے کہہ دیں کہ ہم لڑنے کے لیے نہیں آئے بلکہ صرف بیت اللہ شریف کی زیارت اور اس کی عظمت بڑھانے کو آئے ہیں ۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے شہر میں قدم رکھا ہی تھا جو ابان بن سعید بن عاص آپ کو مل گئے اور اپنی سواری سے اتر کو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو آگے بٹھایا اور خود پیچھے بیٹھا اور اپنی ذمہ داری پر آپ کو لے چلا کہ آپ پیغام رسول اہل مکہ کو پہنچا دیں ، چنانچہ آپ وہاں گئے اور قریش کو یہ پیغام پہنچا دیا ۔ انہوں نے کہا کہ آپ تو آ ہی گئے ہیں آپ اگر چاہیں تو بیت اللہ کا طواف کر لیں لیکن سیدنا ذوالنورین رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ جب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم طواف نہ کر لیں ناممکن ہے کہ میں طواف کروں قریشیوں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو روک لیا اور انہیں واپس نہ جانے دیا ، ادھر لشکر اسلام میں یہ خبر پہنچی کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا گیا ہے ۔ زہری رحمہ اللہ کی روایت میں ہے کہ پھر قریشیوں نے سہیل بن عمرو کو آپ کے پاس بھیجا کہ تم جا کر صلح کر لو لیکن یہ ضروری ہے کہ اس سال آپ مکہ میں نہیں آ سکتے تاکہ عرب ہمیں یہ طعنہ نہ دے سکیں کہ وہ آئے اور تم روک نہ سکے چنانچہ سہیل یہ سفارت لے کر چلا ، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھا تو فرمایا : ” معلوم ہوتا ہے کہ قریشیوں کا ارادہ اب صلح کا ہو گیا جو اسے بھیجا ہے “ ، اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے باتیں شروع کیں اور دیر تک سوال جواب اور بات چیت ہوتی رہی ،شرائط صلح طے ہو گئیں صرف لکھنا باقی رہا ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ دوڑے ہوئے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور فرمانے لگے ، کیا ہم مسلمان نہیں ہیں ؟ کیا یہ لوگ مشرک نہیں ہیں ؟ آپ نے جواب دیا کہ ہاں ، تو کہا : پھر کیا وجہ ہے کہ ہم دینی معاملات میں اتنی کمزوری دکھائیں ۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا عمر اللہ کے رسول کی رکاب تھامے رہو ، آپ اللہ کے سچے رسول ہیں ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : یہ مجھے بھی کامل یقین ہے کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہا سے پھر بھی نہ صبر ہو سکا خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اسی طرح کہا ، آپ نے جواب میں فرمایا : ” سنو میں اللہ کا رسول ہوں اور اس کا غلام ہوں ، میں اس کے فرمان کے خلاف نہیں کر سکتا اور مجھے یقین ہے کہ وہ مجھے ضائع نہ کرے گا “ ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہنے کو تو اس وقت جوش میں ، میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سب کچھ کہہ گیا لیکن پھر مجھے بڑی ندامت ہوئی میں نے اس کے بدلے بہت روزے رکھے ، بہت سی نمازیں پڑھیں اور بہت سے غلام آزاد کئے ، اس سے ڈر کر کہ مجھے اس گستاخی کی کوئی سزا اللہ کی طرف سے نہ ہو ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو صلح نامہ لکھنے کے لیے بلوایا اور فرمایا : ” لکھو «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» “ اس پر سہیل نے کہا : میں اسے نہیں جانتا یوں لکھئیے «بسمک اللھم» ، آپ نے فرمایا : ” اچھا یوں ہی لکھو “ ۔ پھر فرمایا : ” لکھو یہ وہ صلح نامہ ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا “ ، اس پر سہیل نے کہا : اگر میں آپ کو رسول مانتا تو آپ سے لڑتا ہی کیوں ؟ یوں لکھئے کہ یہ وہ صلح نامہ ہے جو محمد بن عبداللہ اور سہیل بن عمرو نے کیا ، اس بات پر کہ دس سال تک ہم میں کوئی لڑائی نہ ہو گی ، لوگ امن و امان سے رہیں گے ، ایک دوسرے سے بچے ہوئے رہیں گے اور یہ کہ جو شخص آپ کے پاس اپنے ولی کی اجازت کے بغیر چلا جائے گا آپ اسے واپس لوٹا دیں گے اور جو صحابی رسول قریشیوں کے پاس چلا جائے گا وہ اسے نہیں لوٹائیں گے ، ہم میں آپ میں لڑائیاں بند رہیں گی ، صلح قائم رہے گی ، کوئی طوق و زنجیر قیدو بند بھی نہ ہو گا ۔ اسی میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت اور آپ کے عہد و پیمان میں آنا چاہے وہ آ سکتا ہے اور جو شخص قریش کے عہد و پیمان میں آنا چاہے وہ بھی آ سکتا ہے ، اس پر بنو خزاعہ جلدی سے بول اٹھے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدو پیمان میں آنا اور بنوبکر نے کہا کہ ہم قریشیوں کے ساتھ ان کے ذمہ میں ہیں ۔ صلح نامہ میں یہ بھی تھا کہ اس سال آپ واپس لوٹ جائیں ، مکہ میں نہ آئیں ، اگلے سال آئیں اس وقت ہم باہر نکل جائیں گے اور آپ اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم سمیت آئیں ، تین دن مکہ میں ٹھہریں ، ہتھیار اتنے ہی ہوں جتنے ایک سوار کے پاس ہوتے ہیں ، تلوار میان میں ہو ۔ ابھی صلح نامہ لکھا جا رہا تھا کہ سہیل کے لڑکے سیدنا ابوجندل رضی اللہ عنہ لوہے کی بھاری زنجیروں میں جکڑے ہوئے گرتے پڑتے مکہ سے چھپتے چھپاتے بھاگ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گئے ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین مدینہ سے نکلتے ہوئے ہی فتح کا یقین کئے ہوئے تھے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خواب دیکھ چکے تھے اس لیے انہیں فتح ہونے میں ذرا سا بھی شک نہ تھا ، یہاں آ کر جو یہ رنگ دیکھا کہ صلح ہو رہی ہے اور بغیر طواف کے ، بغیر زیارت بیت اللہ کے ، یہیں سے واپس ہونا پڑے گا بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے نفس پر دباؤ ڈال کر صلح کر رہے ہیں ، تو اس سے وہ بہت ہی پریشان خاطر تھے ، بلکہ قریب تھا کہ ہلاک ہو جائیں ۔ یہ سب کچھ تو تھا ہی ، مزید برآں جب سیدنا ابوجندل رضی اللہ عنہ جو مسلمان تھے اور جنہیں مشرکین نے قید کر رکھا تھا اور جن پر طرح طرح کے مظالم توڑ رہے تھے یہ سن کر کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آئے ہوئے ہیں کسی نہ کسی طرح موقعہ پا کر بھاگ آتے ہیں اور طوق و زنجیر میں جکڑے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاس حاضر ہوتے ہیں ، تو سہیل اٹھ کر انہیں طمانچے مارنا شروع کر دیتا ہے اور کہتا ہے اے محمد ! میرے آپ کے درمیان تصفیہ ہو چکا ہے یہ اس کے بعد آیا ہے لہٰذا اس شرط کے مطابق میں اسے واپس لے جاؤں گا آپ جواب دیتے ہیں کہ ہاں ٹھیک ہے ، سہیل کھڑا ہوتا ہے اور ابوجندل کے گریبان میں ہاتھ ڈال کر گھسیٹتا ہوا انہیں لے کر چلتا ہے ، سیدنا ابوجندل رضی اللہ عنہ بلند آواز کہتے ہیں ، اے مسلمانو ! مجھے مشرکوں کی طرف لوٹا رہے ہو ؟ ہائے یہ میرا دین مجھ سے چھیننا چاہتے ہیں اس واقعہ نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو اور برافروختہ کر دیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوجندل رضی اللہ عنہ سے فرمایا : ابوجندل صبر کر اور نیک نیت رہ اور طلب ثواب میں رہ ، نہ صرف تیرے لیے ہی بلکہ تجھ جیسے جتنے کمزور مسلمان ہیں ان سب کے لیے اللہ تعالیٰ راستہ نکالنے والا ہے اور تم سب کو اس درد و غم ، رنج و الم ، ظلم و ستم سے چھڑوانے والا ہے ، ہم چونکہ صلح کر چکے ہیں شرطیں طے ہو چکی ہیں اس بنا پر ہم نے انہیں سردست واپس کر دیا ہے ، ہم غدر کرنا ، شرائط کے خلاف کرنا ، عہد شکنی کرنا نہیں چاہتے ۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سیدنا ابوجندل رضی اللہ عنہ کے ساتھ ساتھ پہلو بہ پہلو جانے لگے اور کہتے جاتے تھے کہ ابوجندل صبر کرو ، ان میں رکھا ہی کیا ہے ؟ یہ مشرک لوگ ہیں ان کا خون مثل کتے کے خون کے ہے ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ساتھ ہی ساتھ اپنی تلوار کی موٹھ سیدنا ابوجندل رضی اللہ عنہ کی طرف کرتے جا رہے تھے کہ وہ تلوار کھینچ لیں اور ایک ہی وار میں باپ کے آرپار کر دیں ۔ لیکن سیدنا ابوجندل رضی اللہ عنہ کا ہاتھ باپ پر نہ اٹھا ۔ صلح نامہ مکمل ہو گیا فیصلہ پورا ہو گیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احرام میں نماز پڑھتے تھے اور جانور حلال ہونے کے لیے مضطرب تھے ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا کہ اٹھو اپنی اپنی قربانیاں کر لو اور سر منڈوا لو لیکن ایک بھی کھڑا نہ ہوا ، تین مرتبہ ایسا ہی ہوا ، آپ لوٹ کر سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اور فرمانے لگے : ” لوگوں کو یہ کیا ہو گیا ہے ؟ “ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا نے جواب دیا : یا رسول اللہ! اس وقت جس قدر صدمے میں یہ ہیں آپ کو بخوبی علم ہے ، آپ ان سے کچھ نہ کہئے ، اپنی قربانی کے جانور کے پاس جائیے اور اسے جہاں وہ ہو وہیں قربان کر دیجئیے اور خود سر منڈوا لیجئے ، پھر تو ناممکن ہے کہ اور لوگ بھی یہی نہ کریں ۔ آپ نے یہی کیا اب کیا تھا ہر شخص اٹھ کھڑا ہوا قربانی کو قربان کیا اور سر منڈوا لیا ، اب آپ یہاں سے واپس چلے آدھا راستہ طے کیا ہو گا جو سورۃ الفتح نازل ہوئی ۔ یہ روایت صحیح بخاری شریف میں بھی ہے ۱؎ (صحیح بخاری:2731) اس میں ہے کہ آپ کے سامنے ایک ہزار کئی سو صحابہ رضی اللہ عنہم تھے ، ذوالحلیفہ پہنچ کر آپ نے قربانی کے اونٹوں کو نشان دار کیا اور عمرے کا احرام باندھا اور اپنے ایک جاسوس کو جو قبیلہ خزاعہ میں سے تھا ، تجسس کے لیے روانہ کیا ۔ غدیر اشطاط میں آ کر اس نے خبر دی کہ قریش نے پورا مجمع تیار کر لیا ہے ادھر ادھر کے مختلف لوگوں کو بھی انہوں نے جمع کر لیا ہے اور ان کا ارادہ لڑائی کا اور آپ کو بیت اللہ سے روکنے کا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا : ” اب بتاؤ کیا ہم ان کے اہل و عیال پر حملہ کر دیں اگر وہ ہمارے پاس آئیں گے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی گردن کاٹ دی ہو گی ورنہ ہم انہیں غمگین چھوڑ کر جائیں گے اگر وہ بیٹھ رہیں گے تو اس غم و رنج میں رہیں گے اور اگر انہوں نے نجات پا لی تو یہ گردنیں ہوں گی جو اللہ عزوجل نے کاٹ دی ہوں گی ۔ دیکھو تو بھلا کتنا ظلم ہے کہ ہم نہ کسی سے لڑنے کو آئے ، نہ کسی اور ارادے سے آئے ، صرف اللہ کے گھر کی زیارت کے لیے جا رہے ہیں اور وہ ہمیں روک رہے ہیں ، بتاؤ ان سے ہم کیوں نہ لڑیں ؟ “ اس پر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا : یا رسول اللہ ! آپ بیت اللہ کی زیارت کو نکلے ہیں ، آپ چلے چلئیے ہمارا ارادہ جدال و قتال کا نہیں لیکن جو ہمیں اللہ کے گھر سے روکے گا ہم اس سے ضرور لڑیں گے خواہ کوئی ہو ، آپ نے فرمایا : ” بس اب اللہ کا نام لو اور چل کھڑے ہو “ ۔ کچھ اور آگے چل کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” خالد بن ولید طلائیہ کا لشکر لے کر آ رہا ہے پس تم دائیں طرف کو ہو لو ، خالد کو اس کی خبر بھی نہ ہوئی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مع صحابہ رضی اللہ عنہم کے ان کے کلے پر پہنچ گئے ۔ اب خالد دوڑا ہوا قریشیوں میں پہنچا اور انہیں اس سے مطلع کیا ، اونٹنی کا نام اس روایت میں قصویٰ بیان ہوا ہے اس میں یہ بھی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ فرمایا کہ جو کچھ وہ مجھ سے طلب کریں گے میں دوں گا بشرطیکہ حرمت اللہ کی اہانت نہ ہو پھر جو آپ نے اونٹنی کو للکارا تو وہ فوراً کھڑی ہو گئی ۔ بدیل بن ورقاء خزاعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر قریشیوں کو جب جواب پہنچاتا ہے تو عروہ بن مسعود ثقفی کھڑے ہو کر اپنا تعارف کرا کر جو پہلے بیان ہو چکا یہ بھی کہتا ہے کہ دیکھو اس شخص نے نہایت معقول اور واجبی بات کہی ہے اسے قبول کر لو ۔ اور جب یہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہو کر آپ کا یہی جواب آپ کے منہ سے سنتا ہے ، تو آپ سے کہتا ہے کہ سنئیے جناب دو ہی باتیں ہیں ، یا آپ غالب وہ مغلوب ، یا وہ غالب آپ مغلوب اگر پہلی بات ہی ہوئی تو بھی کیا ہوا ، آپ ہی کی قوم ہے ، آپ نے کسی کے بارے میں ایسا سنا ہے کہ جس نے اپنی قوم کا ستیاناس کیا ہو ؟ اور اگر دوسری بات ہو گی تو یہ جتنے آپ کے پاس ہیں ، میں تو دیکھتا ہوں کہ سارے ہی آپ کو چھوڑ چھاڑ دوڑ جائیں گے ۔ اس پر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا وہ جواب دیا جو پہلے گزر چکا ۔ مغیرہ والے بیان میں یہ بھی ہے کہ ان کے ہاتھ میں تلوار تھی اور سر پر خود تھا ، ان کے مارنے پر عروہ نے کہا غدار میں نے تو تیری غداری میں تیرا ساتھ دیا تھا ، بات یہ ہے کہ پہلے یہ جاہلیت کے زمانہ میں کافروں کے ایک گروہ کے ساتھ تھے ، موقعہ پا کر انہیں قتل کر ڈالا اور ان کا مال لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے ، آپ نے فرمایا : ” تمہارا اسلام تو میں منظور کرتا ہوں لیکن اس مال سے میرا کوئی تعلق نہیں “ ۔ عروہ نے یہاں یہ منظر بھی بچشم خود دیکھا کہ آپ تھوکتے ہیں تو کوئی نہ کوئی صحابی لپک کر اسے اپنے ہاتھوں میں لے لیتا ہے اور اپنے چہرے اور جسم پر مل لیتا ہے ، آپ کے ہونٹوں کو جنبش ہوتے ہی فرمانبرداری کے لیے ایک سے ایک آگے بڑھتا ہے ، جب آپ وضو کرتے ہیں تو آپ کے اعضاء بدن سے گرے ہوئے پانی پر جو قریب ہوتا ہے یوں لپکتا ہے جیسے صحابہ رضی اللہ عنہم لڑ پڑیں ، جب آپ بات کرتے ہیں تو بالکل سناٹا ہو جاتا ہے ، مجال نہیں جو کہیں سے چوں کی آواز بھی سنائی دے ۔ حد تعظیم یہ ہے کہ صحابہ آنکھ بھر کر آپ کے چہرہ منور کی طرف تکتے ہی نہیں بلکہ نیچی نگاہوں سے ہر وقت باادب رہتے ہیں اس نے پھر واپس آ کر یہی حال قریشیوں کو سنایا اور کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو انصاف و عدل کی بات پیش کر رہے ہیں اسے مان لو ۔ بنو کنانہ کے جس شخص کو اس کے بعد قریش نے بھیجا اسے دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” یہ لوگ قربانی کے جانوروں کی بڑی تعظیم کرتے ہیں اس لیے قربانی کے جانوروں کو کھڑا کر دو اور اس کی طرف ہانک دو “ ۔ اس نے جو یہ منظر دیکھا ادھر صحابہ رضی اللہ عنہم کی زبانی لبیک کی صدائیں سنیں تو کہہ اٹھا کہ ان لوگوں کو بیت اللہ سے روکنا نہایت لغو حرکت ہے ، اس میں یہ بھی ہے کہ مکرز کو دیکھ کر آپ نے فرمایا : ” یہ ایک تاجر شخص ہے “ ، ابھی یہ بیٹھا باتیں کر ہی رہا تھا جو سہیل آ گیا اسے دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا : ” لو اب کام سہل ہو گیا “ ، اس نے جب «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» لکھنے پر اعتراض کیا تو آپ نے فرمایا : ” واللہ ! میں رسول اللہ ہی ہوں گو تم نہ مانو “ ۔ یہ اس بنا پر کہ جب آپ کی اونٹنی بیٹھ گئی تھی تو آپ نے کہہ دیا تھا کہ یہ حرمات الٰہی کی عزت رکھتے ہوئے ، مجھ سے جو کہیں گے میں منظور کر لوں گا ، آپ نے صلح نامہ لکھواتے ہوئے فرمایا کہ اس سال ہمیں یہ بیت اللہ کی زیارت کر لینے دیں گے لیکن سہیل نے کہا یہ ہمیں منظور نہیں ورنہ لوگ کہیں گے کہ ہم دب گئے اور کچھ نہ کر سکے ۔ جب یہ شرط ہو رہی تھی کہ جو کافر ان میں سے مسلمان ہو کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلا جائے آپ اسے واپس کر دیں گے اس پر مسلمانوں نے کہا سبحان اللہ یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ کہ وہ مسلمان ہو کر آئے اور ہم اسے کافروں کو سونپ دیں یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ سیدنا ابوجندل رضی اللہ عنہ اپنی بیڑیوں میں جکڑے ہوئے آ گئے ، سہیل نے کہا اسے واپس کیجئے ۔ آپ نے فرمایا : ” ابھی تک صلح نامہ مکمل نہیں ہوا میں اسے کیسے واپس کر دوں ؟ “ اس نے کہا : پھر تو اللہ کی قسم میں کسی طرح اور کسی شرط پر صلح کرنے میں رضامند نہیں ہوں ، آپ نے فرمایا : ” تم خود مجھے خاص اس کی بابت اجازت دے دو “ ، اس نے کہا میں اس کی اجازت بھی آپ کو نہیں دوں گا ، آپ نے دوبارہ فرمایا لیکن اس نے پھر بھی انکار کر دیا ۔ مگر مکرز نے کہا ہاں ہم آپ کو اس کی اجازت دیتے ہیں ۔ اس وقت سیدنا ابوجندل رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں سے فریاد کی ان بیچاروں کو مشرکین بڑی سخت سنگین سزائیں کر رہے تھے ، اس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور وہ کہا جو پہلے گزر چکا ، پھر پوچھا : کیا آپ نے ہم سے یہ نہیں کہا کہ ہم بیت اللہ جائیں گے اور اس کا طواف بھی کریں گے ؟ آپ نے فرمایا : ” ہاں یہ تو میں نے کہا ہے ، لیکن یہ تو نہیں کہا یہ اسی سال ہو گا “ ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : ہاں یہ تو آپ نے نہیں فرمایا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” بس تو تم وہاں جاؤ گے ضرور اور بیت اللہ کا طواف کرو گے ضرور “ ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں پھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور وہی کہا جس کا اوپر بیان گزرا ہے اس میں اتنا اور ہے کہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول نہیں ؟ اس کے جواب میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ہاں ، پھر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی کا اسی طرح ذکر کیا اور وہی جواب مجھے ملا جو ذکر ہوا ۔ جو جواب خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا تھا ۔ اس روایت میں یہ بھی ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اپنے اونٹ کو نحر کیا اور نائی کو بلوا کر سر منڈوا لیا پھر تو سب صحابہ ایک ساتھ کھڑے ہو گئے اور قربانیوں سے فارغ ہو کر ایک دوسرے کا سر خود مونڈنے لگے اور مارے غم کے اور اژدھام کے قریب تھا کہ آس میں لڑ پڑیں ۔ اس کے بعد ایمان والی عورتیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں جن کے بارے میں آیت «یٰٓاَیٰہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا جَاۗءَکُمُ الْمُؤْمِنٰتُ مُہٰجِرٰتٍ فَامْتَحِنُوْہُنَّ ۭ اَللّٰہُ اَعْلَمُ بِـاِیْمَانِہِنَّ ۚ فَاِنْ عَلِمْتُمُوْہُنَّ مُؤْمِنٰتٍ فَلَا تَرْجِعُوْہُنَّ اِلَی الْکُفَّارِ ۭ لَا ہُنَّ حِلٌّ لَّہُمْ وَلَا ہُمْ یَحِلٰوْنَ لَہُنَّ ۭ وَاٰتُوْہُمْ مَّآ اَنْفَقُوْا ۭ وَلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ اَنْ تَنْکِحُوْہُنَّ اِذَآ اٰتَیْتُمُوْہُنَّ اُجُوْرَہُنَّ ۭ وَلَا تُمْسِکُوْا بِعِصَمِ الْکَوَافِرِ وَاسْـَٔــلُوْا مَآ اَنْفَقْتُمْ وَلْیَسْـَٔــلُوْا مَآ اَنْفَقُوْا ۭ ذٰلِکُمْ حُکْمُ اللّٰہِ ۭ یَحْکُمُ بَیْنَکُمْ ۭ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ» ۱؎ (60-الممتحنۃ:10) نازل ہوئی ۔ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس حکم کے تحت اپنی دو مشرکہ بیویوں کو اسی دن طلاق دے دی جن میں سے ایک نے معاویہ بن ابوسفیان سے نکاح کر لیا اور دوسری نے صفوان بن امیہ سے نکاح کر لیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہیں سے واپس لوٹ کر مدینہ شریف آ گئے ۔ سیدنا ابوبصیر رضی اللہ عنہ نامی ایک قریشی جو مسلمان تھے موقعہ پا کر مکہ سے نکل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مدینہ شریف پہنچے ان کے پیچھے ہی دو کافر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ عہد نامہ کی بنا پر اس شخص کو آپ واپس کیجئے ہم قریشیوں کے بھیجے ہوئے قاصد ہیں اور سیدنا ابوبصیر رضی اللہ عنہ کو واپس لینے کے لیے آئے ہیں آپ نے فرمایا : ” اچھی بات ہے میں اسے واپس کر دیتا ہوں “ ۔ چنانچہ آپ نے سیدنا ابوبصیر رضی اللہ عنہ کو انہیں سونپ دیا یہ انہیں لے کر چلے جب ذوالحلیفہ پہنچے کھجوریں کھانے لگے ، تو سیدنا ابوبصیر رضی اللہ عنہ نے ان میں سے ایک شخص سے کہا : واللہ ! میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ کی تلوار نہایت عمدہ ہے ۔ اس نے کہا : ہاں بیشک بہت ہی اچھے لوہے کی ہے ، میں نے بارہا اس کا تجربہ کر لیا ہے اس کی کاٹ کا کیا پوچھنا ہے ؟ یوں کہتے ہوئے اس نے تلوار میان سے نکال لی ۔ سیدنا ابوبصیر رضی اللہ عنہ نے ہاتھ بڑھا کر کہا ، ذرا مجھے دکھانا اس نے دے دی آپ نے ہاتھ میں لیتے ہی تول کر ایک ہی ہاتھ میں اس ایک کافر کا تو کام تمام کیا ، دوسرا اس رنگ کو دیکھتے ہی مٹھیاں بند کر کے ایسا سرپٹ بھاگا کہ سیدھا مدینہ پہنچ کر دم لیا ، اسے دیکھتے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” یہ بڑی گھبراہٹ میں ہے کوئی خوفناک منظر دیکھ چکا ہے “ ، اتنے میں یہ قریب پہنچ گیا اور دہائیاں دینے لگا کہ حضور میرا ساتھی تو مار ڈالا گیا اور میں بھی اب تھوڑے دم کا مہمان ہوں دیکھئیے وہ آیا ۔ اتنے میں سیدنا ابوبصیر رضی اللہ عنہ پہنچ گئے اور عرض کرنے لگے یا رسول اللہ ! اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذمہ کو پورا کر دیا آپ نے اپنے وعدے کے مطابق مجھے ان کے حوالے کر دیا ، اب یہ اللہ تعالیٰ کی کریمی ہے کہ اس نے مجھے ان سے رہائی دلوائی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” افسوس یہ کیسا شخص ہے ؟ یہ تو لڑائی کی آگ بھڑکانے والا ہے ، کاش کہ کوئی اسے سمجھا دیتا “ ، یہ سنتے ہی سیدنا ابوبصیر رضی اللہ عنہ چونک گئے کہ معلوم ہوتا ہے ، آپ شاید مجھے دوبارہ مشرکین کے حوالے کر دیں گے ، یہ سوچتے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے چلے گئے مدینہ کو الوداع کہا اور لمبے قدموں سمندر کے کنارے کی طرف چل دئیے اور وہیں بودوباش اختیار کر لی یہ واقعہ مشہور ہو گیا ۔ ادھر سے سیدنا ابوجندل بن سہیل رضی اللہ عنہ جنہیں حدیبیہ میں اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واپس کیا تھا وہ بھی موقعہ پا کر مکہ سے بھاگ کھڑے ہوئے اور براہ راست سیدنا ابوبصیر رضی اللہ عنہ کے پاس چلے ۔ اب یہ ہوا کہ مشرکین قریش میں سے جو بھی ایمان قبول کرتا سیدھا سیدنا ابوبصیر رضی اللہ عنہ کے پاس آ جاتا اور یہیں رہتا سہتا یہاں تک کہ ایک خاص معقول جماعت ایسے ہی لوگوں کی یہاں جمع ہو گئی ۔ اور انہوں نے یہ کرنا شروع کیا کہ قریشیوں کا جو قافلہ شام کی طرف جانے کے لیے نکلتا یہ اس سے جنگ کرتے جس میں قریشی کفار قتل بھی ہوئے اور ان کے مال بھی ان مہاجر مسلمانوں کے ہاتھ لگے یہاں تک کہ قریش تنگ آ گئے بالاخر انہوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آدمی کو بھیجا کہ حضور ہم پر رحم فرما کر ان لوگوں کو وہاں سے واپس بلوا لیجئے ، ہم ان سے دستبردار ہوتے ہیں ، ان میں سے جو بھی آپ کے پاس آ جائے وہ امن میں ہے ، ہم آپ کو اپنی رشتہ داریاں یاد دلاتے ہیں اور اللہ کا واسطہ دیتے ہیں کہ انہیں اپنے پاس بلوا لیں ۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس درخواست کو منظور فرما لیا اور ان حضرات کے پاس ایک آدمی بھیج کر سب کو بلوا لیا اور اللہ عزوجل نے آیت «وَہُوَ الَّذِیْ کَفَّ اَیْدِیَہُمْ عَنْکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ عَنْہُمْ بِبَطْنِ مَکَّۃَ مِنْ بَعْدِ اَنْ اَظْفَرَکُمْ عَلَیْہِمْ وَکَان اللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرًا» ۱؎ (48-الفتح:24) نازل فرمائی ۔ ان کفار کی حمیت جاہلیت یہ تھی کہ انہوں نے آیت «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» نہ لکھنے دی آپ کے نام کے ساتھ رسول اللہ نہ لکھنے دیا آپ کو بیت اللہ شریف کی زیارت نہ کرنے دی ۔ صحیح بخاری شریف کی کتاب التفسیر میں ہے { حبیب بن ابوثابت رحمہ اللہ کہتے ہیں میں ابووائل کے پاس گیا تاکہ ان سے پوچھوں ، انہوں نے کہا : ہم صفین میں تھے ایک شخص نے کہا کیا تو نے انہیں نہیں دیکھا کہ وہ کتاب اللہ کی طرف بلائے جاتے ہیں ۔ پس سیدنا علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ہاں پس سہیل بن حنیف نے کہا : اپنی جانوں پر تہمت رکھو ، ہم نے اپنے آپ کو حدیبیہ والے دن دیکھا یعنی اس صلح کے موقعہ پر جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مشرکین کے درمیان ہوئی تھی اگر ہماری رائے لڑنے کی ہوتی تو ہم یقیناً لڑتے ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے آ کر کہا کہ کیا ہم حق پر اور وہ باطل پر نہیں ؟ کیا ہمارے مقتول جنتی اور ان کے مقتول جہنمی نہیں ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ہاں “ ، کہا : پھر ہم کیوں اپنے دین میں جھک جائیں اور لوٹ جائیں ؟ حالانکہ اب تک اللہ تعالیٰ نے ہم میں ان میں کوئی فیصلہ کن کاروائی نہیں کی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اے ابن خطاب ! میں اللہ کا رسول ہوں وہ مجھے کبھی بھی ضائع نہ کرے گا “ ، یہ جواب سن کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ لوٹ آئے لیکن بہت غصے میں تھے ، وہاں سے سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور یہی سوال و جواب یہاں بھی ہوئے اور سورۃ الفتح نازل ہوئی } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4844) بعض روایات میں سہیل بن حنیف کے یہ الفاظ بھی ہیں کہ { میں نے اپنے آپ کو ابوجندل والے دن دیکھا کہ اگر مجھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو لوٹانے کی قدرت ہوتی تو میں یقیناً لوٹا دیتا ، اس میں یہ بھی ہے کہ جب سورۃ الفتح اتری تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ کو بلا کر یہ سورت انہیں سنائی } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:48) مسند احمد کی روایت میں ہے کہ { جس وقت یہ شرط طے ہوئی کہ ان کا آدمی انہیں واپس کیا جائے اور ہمارا آدمی وہ واپس نہ کریں گے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ کیا ہم یہ بھی مان لیں ؟ اور لکھ دیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ہاں ، اس لیے کہ ہم میں سے جو ان میں جائے ، اللہ اسے ہم سے دور ہی رکھے “ } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1748) مسند احمد میں { سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب خارجی نکل کھڑے ہوئے اور انہوں نے علیحدگی اختیار کی تو میں نے ان سے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ والے دن جب مشرکین سے صلح کی تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : لکھو ! یہ وہ شرائط صلح ہیں جن پر اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح کی تو مشرکین نے کہا : اگر ہم آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مانتے تو آپ سے ہرگز نہ لڑتے ، تو آپ نے فرمایا : ” علی ! اسے مٹا دو ، اللہ تو خوب جانتا ہے کہ میں تیرا رسول ہوں ، علی اسے کاٹ دو اور لکھو یہ وہ شرائط ہیں جن پر صلح کی محمد بن عبداللہ نے “ ۔ اللہ کی قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بہت بہتر تھے پھر بھی آپ نے اس لکھے ہوئے کو کٹوایا اس سے کچھ آپ نبوت سے نہیں نکل گئے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:342/1:حسن) مسند احمد میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ والے دن ستر اونٹ قربان کئے جن میں ایک اونٹ ابوجہل کا بھی تھا جب یہ اونٹ بیت اللہ سے روک دئیے گئے تو اس طرح نالہ و بکا کرتے تھے جیسے کسی سے اس کا دودھ پیتا بچہ الگ ہو گیا ہو } ۔ ۱؎ (مسند احمد:314/1:ضعیف) الفتح
27 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خواب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب دیکھا تھا کہ آپ مکہ میں گئے اور بیت اللہ شریف کا طواف کیا ، آپ نے اس کا ذکر اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم سے مدینہ شریف میں ہی کر دیا تھا ۔ حدیبیہ والے سال جب آپ عمرے کے ارادے سے چلے تو اس خواب کی بنا پر صحابہ کو یقین کامل تھا کہ اس سفر میں ہی کامیابی کے ساتھ اس خواب کا ظہور دیکھ لیں گے ۔ وہاں جا کر جو رنگت بدلی ہوئی دیکھی یہاں تک کہ صلح نامہ لکھ کر بغیر زیارت بیت اللہ واپس ہونا پڑا تو ان صحابہ رضی اللہ عنہم پر نہایت شاق گزرا ۔ چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے تو خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہا بھی کہ آپ نے تو ہم سے فرمایا تھا کہ ہم بیت اللہ جائیں گے اور طواف سے مشرف ہوں گے ، آپ نے فرمایا : ” یہ صحیح ہے لیکن یہ تو میں نے نہیں کہا تھا کہ اسی سال ہو گا ؟ “ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ہاں یہ تو نہیں فرمایا تھا ، آپ نے فرمایا : ” پھر جلدی کیا ہے ؟ تم بیت اللہ میں جاؤ گے ضرور اور طواف بھی یقیناً کرو گے “ ۔ پھر سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ سے یہی کہا اور ٹھیک یہی جواب پایا ۔ اس آیت میں جو «ان شاءاللہ» ہے یہ استثناء کے لیے نہیں بلکہ تحقیق اور تاکید کے لیے ہے اس مبارک خواب کی تاویل کو صحابہ رضی اللہ عنہم نے دیکھ لیا اور پورے امن و اطمینان کے ساتھ مکہ میں گئے اور وہاں جا کر احرام کھولتے ہوئے بعض نے اپنا سر منڈوایا اور بعض نے بال کتروائے ۔ صحیح حدیث میں { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ سر منڈوانے والوں پر رحم کرے لوگوں نے کہا اور کتروانے والوں پر بھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ بھی یہی فرمایا پھر لوگوں نے وہی کہا آخر تیسری یا چوتھی دفعہ میں آپ نے کتروانے والوں کے لیے بھی رحم کی دعا کی ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:1727) پھر فرمایا بےخوف ہو کر یعنی مکہ جاتے وقت بھی امن و امان سے ہوں گے اور مکہ کا قیام بھی بےخوفی کا ہو گا ۔ چنانچہ عمرۃ القضاء میں یہی ہوا یہ عمرہ ذی قعدہ سنہ ۷ ہجری میں ہوا تھا ۔ حدیبیہ سے آپ ذی قعدہ کے مہینے میں لوٹے ، ذی الحجہ اور محرم تو مدینہ شریف میں قیام رہا ، صفر میں خیبر کی طرف گئے اس کا کچھ حصہ تو ازروئے جنگ فتح ہوا اور کچھ حصہ ازروئے صلح مسخر ہوا یہ بہت بڑا علاقہ تھا اس میں کھجوروں کے باغات اور کھیتیاں بکثرت تھیں ۔ یہیں کے یہودیوں کو آپ نے بطور خادم یہاں رکھ کر ان سے یہ معاملہ طے کیا کہ وہ باغوں اور کھیتوں کی حفاظت اور خدمت کریں اور پیداوار کا نصف حصہ دے دیا کریں ، خیبر کی تقسیم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ان ہی صحابہ رضی اللہ عنہم میں کی جو حدیبیہ میں موجود تھے ان کے سوا کسی اور کو اس جنگ میں آپ نے حصہ دار نہیں بنایا ، سوائے ان لوگوں کے جو حبشہ کی ہجرت سے واپس آئے تھے ، جو حضرات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے وہ سب اس فتح خیبر میں بھی ساتھ تھے ۔ ابودجانہ ، سماک بن خرشہ رحمہا اللہ علیہ کے سوا ، جیسے کہ اس کا پورا بیان اپنی جگہ ہے ۔ یہاں سے آپ سالم و غنیمت لیے ہوئے واپس تشریف لائے اور ماہ ذوالقعدہ سنہ ۷ ہجری میں مکہ کی طرف باارادہ عمرہ اہل حدیبیہ کو ساتھ لے کر آپ روانہ ہوئے ، ذوالحلفیہ سے احرام باندھا قربانی کے لیے ساٹھ اونٹ ساتھ لیے اور لبیک پکارتے ہوئے ظہران کے قریب پہنچ کر سیدنا محمد بن سلمہ رضی اللہ عنہ کو کچھ گھوڑے سواروں کے ساتھ ہتھیار بند آگے آگے روانہ کیا ۔ اس سے مشرکین کے اوسان خطا ہو گئے اور مارے رعب کے ان کے کلیجے اچھلنے لگے ۔ انہیں یہ خیال گزرا کہ یہ تو پوری تیاری اور کامل ساز و سامان کے ساتھ آئے ہیں تو ضرور لڑائی کے ارادے سے آئے ہیں ۔ انہوں نے شرط توڑ دی کہ دس سال تک کوئی لڑائی نہ ہو گی ، چنانچہ یہ لوگ دوڑے ہوئے مکہ میں گئے اور اہلِ مکہ کو اس کی اطلاع دی ۔ َنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مرالظہران میں پہنچے جہاں سے کعبہ کے بت دکھائی دیتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام نیزے بھالے تیر کمان بطن یاجج میں بھیج دئیے ، مطابق شرط کے صرف تلواریں پاس رکھ لیں اور وہ بھی میان میں تھیں ابھی آپ راستے میں ہی تھے جو قریش کا بھیجا ہوا آدمی مکرز بن حفص آیا اور کہنے لگا : حضور آپ کی عادت تو عہد توڑنے کی نہیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : ” کیا بات ہے ؟ “ ، وہ کہنے لگا کہ آپ تیر اور نیزے لے کر آ رہے ہیں آپ نے فرمایا : ” نہیں تو ہم نے وہ سب یاجج بھیج دیے ہیں “ ۔ اس نے کہا : یہی ہمیں آپ کی ذات سے امید تھی ، آپ ہمیشہ سے بھلائی اور نیکی اور وفاداری ہی کرنے والے ہیں ، سرداران کفار تو بوجہ غیظ و غضب اور رنج و غم کے شہر سے باہر چلے گئے کیونکہ وہ تو آپ کو اور آپ کے اصحاب رضی اللہ عنہم کو دیکھنا بھی نہیں چاہتے تھے اور لوگ جو مکہ میں رہ گئے تھے وہ مرد ، عورت ، بچے تمام راستوں پر اور کوٹھوں پر اور چھتوں پر کھڑے ہو گئے اور ایک استعجاب کی نظر سے اس مخلص گروہ کو اس پاک لشکر کو اس اللہ کی فوج کو دیکھ رہے تھے ۔ آپ نے قربانی کے جانور ذی طوٰی میں بھیج دئیے تھے ، خود آپ اپنی مشہور و معروف سواری اونٹنی قصوا پر سوار تھے ، آگے آگے آپ کے اصحاب رضی اللہ عنہم تھے جو برابر لبیک پکار رہے تھے ۔ سیدنا عبداللہ بن رواحہ انصاری رضی اللہ عنہ آپ کی اونٹنی کی نکیل تھامے ہوئے تھے اور یہ اشعار پڑھ رہے تھے «باسم الذی لا دین الا دینہ» *** «بسم الذی محمد رسولہ» *** «خلوا بنی الکفار عن سبیلہ» *** «الیوم نضربکم علی تاویلہ» *** «کما ضربنا کم علی تنزیلہ» *** «ضربا یزیل الھام عن مقیلہ» *** «ویذھل الخلیل عن خلیلہ» *** «قد انزل الرحمن فی تنزیلہ» *** «فی صحف تتلی علی رسولہ» *** «بان خیرالقتل فی سبیلہ» *** «یا رب انی مومن بقیلہ» ۱؎ (سیرۃ ابن ھشام:320/3:مرسل) یعنی ’ اس اللہ عزوجل کے نام سے جس کے دین کے سوا اور کوئی دین قابل قبول نہیں ۔ اس اللہ کے نام سے جس کے رسول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ اے کافروں کے بچو ! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے سے ہٹ جاو ، آج ہم تمہیں آپ کے لوٹنے پر بھی ویسا ہی ماریں گے ، جیسے آپ کے آنے پر مارا تھا، وہ مار جو دماغ کو اس کے ٹھکانے سے ہٹا دے اور دوست کو دوست سے بھلا دے ۔ اللہ تعالیٰ رحم والے نے اپنی وحی میں نازل فرمایا ہے ، جو ان صحیفوں میں موجود ہے جو اس کے رسول کے سامنے تلاوت کیے جاتے ہیں کہ سب سے بہتر موت شہادت کی موت ہے ، جو اس کی راہ میں ہو ۔ اے میرے پروردگار اس بات پے ایمان لا چکا ہوں ‘ ۔ بعض روایتوں میں یہ الفاظ میں کچھ ہیر پھیر بھی ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ اس عمرے کے سفر میں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم [ مر الظہران ] میں پہنچے تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے سنا کہ اہل مکہ کہتے ہیں یہ لوگ بوجہ لاغری اور کمزوری کے اٹھ بیٹھ نہیں سکتے یہ سن کر صحابہ رضی اللہ عنہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا : اگر آپ اجازت دیں تو ہم اپنی سواریوں کے چند جانور ذبح کر لیں ان کا گوشت کھائیں اور شوربا پئیں اور تازہ دم ہو کر مکہ میں جائیں ۔ آپ نے فرمایا : ” نہیں ایسا نہ کرو ، تمہارے پاس جو کھانا ہو اسے جمع کرو “ ، چنانچہ جمع کیا دستر خوان بچھایا اور کھانے بیٹھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی وجہ سے کھانے میں اتنی برکت ہوئی کہ سب نے کھا پی لیا اور توشے دان بھر لیے ۔ آپ مکہ شریف آئے سیدھے بیت اللہ گئے قریشی حطیم کی طرف بیٹھے ہوئے تھے آپ نے چادر کے پلے دائیں بغل کے نیچے سے نکال کر بائیں کندھے پر ڈال لیے اور اصحاب رضی اللہ عنہم سے فرمایا : ” یہ لوگ تم میں سستی اور لاغری محسوس نہ کریں “ ، اب آپ نے رکن کو بوسہ دے کر دوڑنے کی سی چال سے طواف شروع کیا جب رکن یمانی کے پاس پہنچے جہاں قریش کی نظریں نہیں پڑتی تھیں تو وہاں سے آہستہ آہستہ چل کر حجر اسود تک پہنچے ۔ قریش کہنے لگے تم لوگ تو ہرنوں کی طرح چوکڑیاں بھر رہے ہو گویا چلنا تمہیں پسند ہی نہیں ، تین مرتبہ تو آپ اسی طرح ہلکی دوڑ کی سی چال حجر اسود سے رکن یمانی تک چلتے رہے تین پھیرے اس طرح کئے چنانچہ یہی مسنون طریقہ ہے ۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے حجتہ الوداع میں بھی اسی طرح طواف کے تین پھیروں میں رمل کیا یعنی دلکی چال چلے ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:1889) بخاری مسلم میں ہے کہ { اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینے کی آب و ہوا شروع میں کچھ ناموافق پڑی تھی اور بخار کی وجہ سے یہ کچھ لاغر ہو گئے تھے ، جب آپ مکہ پہنچے تو مشرکین مکہ نے کہا یہ لوگ جو آ رہے ہیں انہیں مدینے کے بخار نے کمزور اور سست کر دیا اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے اس کلام کی خبر اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو کر دی ۔ مشرکین حطیم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ۔ آپ نے اپنے اصحاب کو حکم دیا کہ وہ حجر اسود سے لے کر رکن یمانی تک طواف کے تین پہلے پھیروں میں دلکی چال چلیں اور رکن یمانی سے حجر اسود تک جہاں جانے کے بعد مشرکین کی نگاہیں نہیں پڑتی تھیں ، وہاں ہلکی چال چلیں پورے ساتوں پھیروں میں رمل کرنے کو نہ کہنا یہ صرف بطور رحم کے تھا ، مشرکوں نے جب دیکھا کہ یہ تو سب کے سب کود کود کر پھرتی اور چستی سے طواف کر رہے ہیں تو آپس میں کہنے لگے کیوں جی انہی کی نسبت اڑا رکھا تھا کہ مدینے کے بخار نے انہیں سست و لاغر کر دیا ہے ؟ یہ لوگ تو فلاں فلاں سے بھی زیادہ چست و چالاک ہیں } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4256) ایک روایت میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ذوالقعدہ کی چوتھی تاریخ کو مکہ شریف پہنچ گئے تھے اور روایت میں ہے کہ مشرکین اس وقت قعیقعان کی طرف تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا صفا مروہ کی طرف سعی کرنا بھی مشرکوں کو اپنی قوت دکھانے کے لیے تھا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4257) { سیدنا ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس دن ہم آپ پر چھائے ہوئے تھے اس لیے کہ کوئی مشرک یا کوئی ناسمجھ آپ کو کوئی ایذاء نہ پہنچا سکے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4255) بخاری شریف میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عمرے کے لیے نکلے لیکن کفار قریش نے راستہ روک لیا اور آپ کو بیت اللہ شریف تک نہ جانے دیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہیں قربانیاں کیں اور وہیں یعنی حدیبیہ میں سر منڈوا لیا اور ان سے صلح کر لی جس میں یہ طے ہوا کہ آپ اگلے سال عمرہ کریں گے سوائے تلواروں کے اور کوئی ہتھیار اپنے ساتھ لے کر مکہ مکرمہ میں نہیں آئیں گے اور وہاں اتنی ہی مدت ٹھہریں گے جتنی اہل مکہ چاہیں پس اگلے سال آپ اسی طرح آئے تین دن تک ٹھہرے پھر مشرکین نے کہا اب آپ چلے جائیں چنانچہ آپ وہاں سے واپس ہوئے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4252) صحیح بخاری شریف میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذی قعدہ میں عمرہ کرنے کا ارادہ کیا لیکن اہل مکہ حائل ہوئے تو آپ نے ان سے یہ فیصلہ کیا کہ آپ صرف تین دن ہی مکہ میں ٹھہریں گے جب صلح نامہ لکھنے لگے تو لکھا یہ وہ ہے جس پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح کی تو اہل مکہ نے کہا کہ اگر آپ کو ہم رسول اللہ جانتے تو ہرگز نہ روکتے بلکہ آپ محمد بن عبداللہ لکھئیے ۔ آپ نے فرمایا : ” میں رسول اللہ ہوں میں محمد بن عبداللہ ہوں “ ، پھر آپ نے سیدنا علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ سے فرمایا : ” لفظ رسول کو مٹا دو “ ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ” نہیں نہیں ، قسم اللہ کی ! میں اسے ہرگز نہ مٹاؤں گا “ ، چنانچہ آپ نے اس صلح نامہ کو اپنے ہاتھ میں لے کر باوجود اچھی طرح لکھنا نہ جاننے کے لکھا ، کہ یہ وہ ہے جس پر محمد بن عبداللہ نے صلح کی ۔ یہ کہ مکہ میں ہتھیار لے کر داخل نہ ہوں گے ، صرف تلوار ہو گی اور وہ بھی میان میں اور یہ کہ اہل مکہ میں سے جو آپ کے ساتھ جانا چاہے گا اسے آپ اپنے ساتھ نہیں لے جائیں گے اور یہ کہ آپ کے ساتھیوں میں سے جو مکے میں رہنے کے ارادے سے ٹھہر جانا چاہے گا آپ اسے روکیں گے نہیں ، پس جب آپ آئے اور وقت مقررہ گزر چکا تو مشرکین سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا آپ حضور سے کہئے کہ اب وقت گزر چکا تشریف لے جائیں ، چنانچہ آپ نے کوچ کر دیا ۔ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی چچا چچا کہہ کر آپ کے پیچھے ہو لیں ، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے انہیں لے لیا اور انگلی تھام کر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس لے گئے اور فرمایا : اپنے چچا کی لڑکی کو اچھی طرح رکھو سیدہ زہرا رضی اللہ عنہا نے بڑی خوشی سے بچی کو اپنے پاس بٹھا لیا ۔ اب سیدنا علی اور سیدنا جعفر رضی اللہ عنہما میں جھگڑا ہونے لگا ، سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے تھے انہیں میں لے آیا ہوں اور یہ میرے چچا کی صاحبزادی ہیں ، سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے میری چچا زاد بہن ہے اور ان کی خالہ میرے گھر میں ہیں ۔ سیدنا زید رضی اللہ عنہ فرماتے تھے میرے بھائی کی لڑکی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جھگڑے کا فیصلہ یوں کیا کہ لڑکی کو تو ان کی خالہ کو سونپا اور فرمایا خالہ قائم مقام ماں کے ہے ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : ” تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہوں “ ۔ سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تو خلق اور خلق میں مجھ سے پوری مشابہت رکھتا ہے ۔ سیدنا زید رضی اللہ عنہ سے فرمایا : ” تو ہمارا بھائی اور ہمارا مولیٰ ہے “ ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا : یا رسول اللہ ! آپ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی لڑکی سے نکاح کیوں نہ کر لیں ؟ آپ نے فرمایا : ” وہ میرے رضاعی بھائی کی لڑکی ہے “ ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4251) پھر فرماتا ہے اللہ تعالیٰ جس خیر و مصلحت کو جانتا تھا اور جسے تم نہیں جانتے تھے اس بنا پر تمہیں اس سال مکہ میں نہ جانے دیا اور اگلے سال جانے دیا اور اس جانے سے پہلے ہی جس کا وعدہ خواب کی شکل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا تھا تمہیں فتح قریب عنایت فرمائی ۔ یہ فتح وہ صلح ہے جو تمہارے دشمنوں کے درمیان ہوئی ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ مومنوں کو خوشخبری سناتا ہے کہ وہ اپنے رسول کو ان دشمنوں پر اور تمام دشمنوں پر فتح دے گا اس نے آپ کو علم نافع اور عمل صالح کے ساتھ بھیجا ہے ، شریعت میں دو ہی چیزیں ہوتی ہیں علم اور عمل پس علم شرعی صحیح علم ہے اور عمل شرعی مقبولیت والا عمل ہے ۔ اس کے اخبار سچے ، اس کے احکام سراسر عدل و حق والے ۔ چاہتا یہ ہے کہ روئے زمین پر جتنے دین ہیں عربوں میں ، عجمیوں میں ، مسلمین میں ، مشرکین میں ، ان سب پر اس اپنے دین کو غالب اور ظاہر کرے ، اللہ کافی گواہ ہے اس بات پر کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ ہی آپ کا مددگار ہے ۔ «واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم» الفتح
28 الفتح
29 تصدیق رسالت بزبان الہ ان آیتوں میں پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت و ثنا بیان ہوئی کہ آپ اللہ کے برحق رسول ہیں پھر آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کی صفت و ثنا بیان ہو رہی ہے کہ وہ مخالفین پر سختی کرنے والے اور مسلمانوں پر نرمی کرنے والے ہیں جیسے اور آیت میں ہے «أَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ أَعِزَّۃٍ عَلَی الْکَافِرِینَ» ۱؎ (5-المائدۃ:54) مومنوں کے سامنے نرم کفار کے مقابلہ میں گرم ، ہر مومن کی یہی شان ہونی چاہیئے کہ وہ مومنوں سے خوش خلقی اور متواضع رہے اور کفار پر سختی کرنے والا اور کفر سے ناخوش رہے ۔ قرآن حکیم فرماتا ہے «یٰٓاَیٰھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَاتِلُوا الَّذِیْنَ یَلُوْنَکُمْ مِّنَ الْکُفَّارِ وَلْیَجِدُوْا فِیْکُمْ غِلْظَۃً وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ» ۱؎ (9-التوبۃ:123) ’ ایمان والو ! اپنے پاس کے کافروں سے جہاد کرو ، وہ تم میں سختی محسوس کریں ‘ ۔ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” آپس کی محبت اور نرم دلی میں مومنوں کی مثال ایک جسم کی طرح ہے کہ اگر کسی ایک عضو میں درد ہو تو سارا جسم بےقرار ہو جاتا ہے کبھی بخار چڑھ آتا ہے کبھی نیند اچاٹ ہو جاتی ہے “ }۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6011) { آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” مومن مومن کے لیے مثل دیوار کے ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کو تقویت پہنچاتا ہے اور مضبوط کرتا ہے ، پھر آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسری میں ملا کر بتائیں “ } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2446) پھر ان کا اور وصف بیان فرمایا کہ نیکیاں بکثرت کرتے ہیں خصوصاً نماز جو تمام نیکیوں سے افضل و اعلیٰ ہے ، پھر ان کی نیکیوں میں چار چاند لگانے والی چیز کا بیان یعنی ان کے خلوص اور رضائے اللہ طلبی کا کہ یہ اللہ کے فضل اور اس کی رضا کے متلاشی ہیں ۔ یہ اپنے اعمال کا بدلہ اللہ تعالیٰ سے چاہتے ہیں جو جنت ہے اور اللہ کے فضل سے انہیں ملے گی اور اللہ تعالیٰ اپنی رضا مندی بھی انہیں عطا فرمائے گا جو بہت بڑی چیز ہے ۔ جیسے فرمایا «وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰہِ اَکْبَرُ ذٰلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ» ۱؎ (9-التوبۃ:72) ’ اللہ تعالیٰ کی ذرا سی رضا بھی سب سے بڑی چیز ہے ۔ ‘ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ چہروں پر سجدوں کے اثر سے علامت ہونے سے مراد اچھے اخلاق ہیں ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:370/11) مجاہد رحمہ اللہ وغیرہ فرماتے ہیں خشوع اور تواضع ہے ۔ منصور رحمہ اللہ مجاہد رحمہ اللہ سے کہتے ہیں میرا تو یہ خیال تھا کہ اس سے مراد نماز کا نشان ہے جو ماتھے پر پڑ جاتا ہے ، آپ نے فرمایا یہ تو ان کی پیشانیوں پر بھی ہوتا ہے جن کے دل فرعون سے بھی زیادہ سخت ہوتے ہیں ۔ سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں نماز ان کے چہرے اچھے کر دیتی ہے ۔ بعض سلف سے منقول ہے جو رات کو بکثرت نماز پڑھے گا اس کا چہرہ دن کو خوبصورت ہو گا ۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی روایت سے ابن ماجہ کی ایک مرفوع حدیث میں بھی یہی مضمون ہے ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:1333،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) لیکن صحیح یہ ہے کہ یہ موقوف ہے بعض بزرگوں کا قول ہے کہ نیکی کی وجہ سے دل میں نور پیدا ہوتا ہے چہرے پر روشنی آتی ہے ، روزی میں کشادگی ہوتی ہے ، لوگوں کے دلوں میں محبت پیدا ہوتی ہے ۔ امیرالمؤمنین سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ جو شخص اپنے اندرونی پوشیدہ حالات کی اصلاح کرے اور بھلائیاں پوشیدگی سے کرے ، اللہ تعالیٰ اس کے چہرے کی سلوٹوں پر اور اس کی زبان کے کناروں پر ان نیکیوں کو ظاہر کر دیتا ہے الغرض دل کا آئینہ چہرہ ہے ، جو اس میں ہوتا ہے اس کا اثر چہرہ پر ہوتا ہے ۔ پس مومن جب اپنے دل کو درست کر لیتا ہے ، اپنا باطن سنوار لیتا ہے ، تو اللہ تعالیٰ اس کے ظاہر کو بھی لوگوں کی نگاہوں میں سنوار دیتا ہے امیر المؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جو شخص اپنے باطن کی اصلاح کر لیتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے ظاہر کو بھی آراستہ و پیراستہ کر دیتا ہے ۔ طبرانی میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” جو شخص جیسی بات کو پوشیدہ رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اسی کی چادر اڑھا دیتا ہے اگر وہ پوشیدگی بھلی ہے تو بھلائی کی اور اگر بری ہے تو برائی کی “ } ۔ ۱؎ (اسنادہ موضوع) لیکن اس کا ایک راوی عراقی متروک ہے ۔ مسند احمد میں آپ کا فرمان ہے کہ { اگر تم میں سے کوئی شخص کسی ٹھوس چٹان میں گھس کر جس کا نہ کوئی دروازہ ہو ، نہ اس میں کوئی سوراخ ہو کوئی عمل کرے گا ، اللہ اسے بھی لوگوں کے سامنے رکھ دے گا برائی ہو تو یا بھلائی ہو تو “ } ۔ ۱؎ (مسند احمد:28/3:ضعیف) مسند کی اور حدیث میں ہے { نیک طریقہ ، اچھا خلق ، میانہ روی نبوت کے پچیسویں حصہ میں سے ایک حصہ ہے ۔ } ۱؎ (سنن ترمذی:2010،قال الشیخ الألبانی:حسن) الغرض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی نیتیں خالص تھیں اعمال اچھے تھے پس جس کی نگاہ ان کے پاک چہروں پر پڑتی تھی اسے ان کی پاکبازی جچ جاتی تھی اور وہ ان کے چال چلن اور ان کے اخلاق اور ان کے طریقہ کار پر خوش ہوتا تھا ۔ امام مالک رحمہ اللہ کا فرمان ہے کہ جن صحابہ رضی اللہ عنہم نے شام کا ملک فتح کیا جب وہاں کے نصرانی ان کے چہرے دیکھتے تو بےساختہ پکار اٹھتے ، اللہ کی قسم یہ عیسیٰ کے حواریوں سے بہت ہی بہتر و افضل ہیں ۔ فی الواقع ان کا یہ قول سچا ہے ، اگلی کتابوں میں اس امت کی فضیلت و عظمت موجود ہے اور اس امت کی صف اول ان کے بہتر بزرگ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور خود ان کا ذکر بھی اگلی اللہ کی کتابوں میں اور پہلے کے واقعات میں موجود ہے ۔ پس فرمایا یہی مثال ان کی توراۃ میں ہے ۔ پھر فرماتا ہے اور ان کی مثال انجیل کی مانند کھیتی کے بیان کی گئی ہے جو اپنا سبزہ نکالتی ہے پھر اسے مضبوط اور قوی کرتی ہے پھر وہ طاقتور اور موٹا ہو جاتا ہے اور اپنی بال پر سیدھا کھڑا ہو جاتا ہے اب کھیتی والے کی خوشی کا کیا پوچھنا ہے ؟ اسی طرح اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں کہ انہوں نے آپ کی تائید و نصرت کی پس وہ آپ کے ساتھ وہی تعلق رکھتے ہیں جو پٹھے اور سبزے کو کھیتی سے تھا یہ اس لیے کہ کفار شرمسار ہوں ۔ امام مالک رحمہ اللہ نے اس آیت سے رافضیوں کے کفر پر استدلال کیا ہے کیونکہ وہ صحابہ رضی اللہ عنہم سے چڑتے اور ان سے بغض رکھنے والا کافر ہے ۔ علماء کی ایک جماعت بھی اس مسئلہ میں امام صاحب کے ساتھ ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل میں اور ان کی لغزشوں سے چشم پوشی کرنے میں بہت سی احادیث آئی ہیں خود اللہ تعالیٰ نے ان کی تعریفیں بیان کیں اور ان سے اپنی رضا مندی کا اظہار کیا ہے کیا ان کی بزرگی میں یہ کافی نہیں ؟ پھر فرماتا ہے ان ایمان والوں اور نیک اعمال والوں سے اللہ کا وعدہ ہے کہ ان کے گناہ معاف اور انکا اجر عظیم اور رزق کریم ثواب جزیل اور بدلہ کبیر ثابت یاد رہے کہ «منھم» میں جو «من» ہے وہ یہاں بیان جنس کے لیے ہے ، اللہ کا یہ سچا اور اٹل وعدہ ہے جو نہ بدلے ، نہ خلاف ہو ان کے قدم بقدم چلنے والوں ، ان کی روش پر کاربند ہونے والوں سے بھی اللہ کا یہ وعدہ ثابت ہے لیکن فضیلت اور سبقت کمال اور بزرگی جو انہیں ہے امت میں سے کسی کو حاصل نہیں ، اللہ ان سے خوش ، اللہ ان سے راضی ، یہ جنتی ہو چکے اور بدلے پالئے ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” کو برا نہ کہو ان کی بےادبی اور گستاخی نہ کرو اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرے تو ان کے تین پاؤ اناج بلکہ ڈیڑھ پاؤ اناج کے اجر کو بھی نہیں پا سکتا “ } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2540) «الحمداللہ» سورۃ الفتح کی تفسیر ختم ہوئی ۔ الفتح
0 الحجرات
1 1 ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو اپنے نبی کے آداب سکھاتا ہے کہ تمہیں اپنے نبی کی توقیر و احترام عزت و عظمت کا خیال کرنا چاہیئے ، تمام کاموں میں اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے رہنا چاہیئے ، اتباع اور تابعداری کی خو ڈالنی چاہیئے ۔ { سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کی طرف بھیجا تو دریافت فرمایا : ” اپنے احکامات کے نفاذ کی بنیاد کسے بناؤ گے ؟ “ جواب دیا : اللہ کی کتاب کو ، فرمایا : ” اگر نہ پاؤ ؟ “ ، جواب دیا : سنت کو ، فرمایا : ” اگر نہ پاؤ ؟ “ جواب دیا : اجتہاد کروں گا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سینے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا : ” اللہ کا شکر ہے جس نے رسول اللہ کے قاصد کو ایسی توفیق دی جس سے اللہ کا رسول خوش ہو “ ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:3592،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) یہاں اس حدیث کے وارد کرنے سے ہمارا مقصد یہ ہے کہ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے اپنی رائے ، نظر اور اجتہاد کو کتاب و سنت سے مؤخر رکھا پس کتاب و سنت پر رائے کو مقدم کرنا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے بڑھنا ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ کتاب و سنت کے خلاف نہ کہو ۔ عوفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کے سامنے بولنے سے منع کر دیا گیا ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب تک کسی امر کی بابت اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ نہ فرمائیں تم خاموش رہو ۔ ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں امر دین ، احکام شرعی میں سوائے اللہ کے کلام اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے تم کسی اور چیز سے فیصلہ نہ کرو ۔ سفیان ثوری رحمہ اللہ کا ارشاد ہے کسی قول و فعل میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر پہل نہ کرو ۔ امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں مراد یہ ہے کہ امام سے پہلے دعا نہ کرو ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ لوگ کہتے ہیں اگر فلاں فلاں میں حکم اترے تو اس طرح رکھنا چاہیئے اسے اللہ نے ناپسند فرمایا ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ حکم اللہ کی بجا آوری میں اللہ کا لحاظ رکھو ، اللہ تمہاری باتیں سن رہا ہے اور تمہارے ارادے جان رہا ہے ۔ پھر دوسرا ادب سکھاتا ہے کہ وہ نبی کی آواز پر اپنی آواز بلند نہ کریں ۔ یہ آیت سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں نازل ہوئی ۔ صحیح بخاری میں ابن ابی ملیکہ رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ { قریب تھا کہ وہ بہترین ہستیاں ہلاک ہو جائیں یعنی سیدنا ابوبکر صدیق اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہما ان دونوں کی آوازیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بلند ہو گئیں جبکہ بنو تمیم کا وفد حاضر ہوا تھا ایک تو اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ کو کہتے تھے ، جو بنی مجاشع میں تھے اور دوسرے شخص کی بابت کہتے تھے ۔ اس پر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ” تم تو میرے خلاف ہی کیا کرتے ہو ؟ “ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے جواب دیا ” نہیں ، نہیں آپ یہ خیال بھی نہ فرمائیے “ ، اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس کے بعد تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نرم کلامی کرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دوبارہ پوچھنا پڑتا تھا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4845) اور روایت میں ہے کہ { سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے قعقاع بن معبد رضی اللہ عنہ کو اس وفد کا امیر بنائیے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے نہیں بلکہ اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ کو ، اس اختلاف میں آوازیں کچھ بلند ہو گئیں ، جس پر آیت «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَیْنَ یَدَیِ اللہِ وَرَ‌سُولِہِ وَاتَّقُوا اللہَ إِنَّ اللہَ سَمِیعٌ عَلِیمٌ» ۱؎ (49-الحجرات:1) نازل ہوئی اور آیت «وَلَوْ اَنَّہُمْ صَبَرُوْا حَتّٰی تَخْرُجَ اِلَیْہِمْ لَکَانَ خَیْرًا لَّہُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ» } ۔ ۱؎ (49-الحجرات:5) ۱؎ (صحیح بخاری:4847) مسند بزار میں ہے { آیت «یٰٓاَیٰہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجْـہَرُوْا لَہٗ بالْقَوْلِ کَجَــہْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَــطَ اَعْمَالُکُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ» ۱؎ (49-الحجرات:2) کے نازل ہونے کے بعد سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا : ” یا رسول اللہ ! قسم اللہ کی اب تو میں آپ سے اس طرح باتیں کروں گا جس طرح کوئی سرگوشی کرتا ہے “ } ۔ ۱؎ (مسند بزار:2257:حسن) صحیح بخاری میں ہے کہ { سیدنا ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کئی دن تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں نظر نہ آئے، اس پر ایک شخص نے کہا : یا رسول اللہ ! اس کی بابت آپ کو بتاؤں گا ، چنانچہ وہ ثابت رضی اللہ عنہ کے مکان پر آئے دیکھا کہ وہ سر جھکائے ہوئے بیٹھے ہیں ۔ پوچھا : کیا حال ہے ۔ جواب ملا ، برا حال ہے ، میں تو صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر اپنی آواز کو بلند کرتا تھا میرے اعمال برباد ہو گئے اور میں جہنمی بن گیا ۔ یہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور سارا واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہہ سنایا پھر تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے ایک زبردست بشارت لے کر دوبارہ یہ ثابت رضی اللہ عنہ کے ہاں گئے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تم جاؤ اور ان سے کہو کہ تو جہنمی نہیں بلکہ جنتی ہے ۔ “ } ۱؎ (صحیح بخاری:4846) مسند احمد میں بھی یہ واقعہ ہے { اس میں یہ بھی ہے کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تھا کہ ” ثابت کہاں ہیں ، نظر نہیں آتے ؟ “ اس کے آخر میں ہے سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم انہیں زندہ چلتا پھرتا دیکھتے تھے اور جانتے تھے کہ وہ اہل جنت میں سے ہیں ۔ یمامہ کی جنگ میں جب کہ مسلمان قدرے بددل ہو گئے تو ہم نے دیکھا کہ سیدنا ثابت رضی اللہ عنہ خوشبو ملے ، کفن پہنے ہوئے ، دشمن کی طرف بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور فرما رہے ہیں : ” مسلمانو تم لوگ اپنے بعد والوں کے لیے برا نمونہ نہ چھوڑ جاؤ “ ، یہ کہہ کر دشمنوں میں گھس گئے اور بہادرانہ لڑتے رہے یہاں تک کہ شہید ہو گئے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:137/3:صحیح) صحیح مسلم میں ہے { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں نہیں دیکھا تو سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے جو ان کے پڑوسی تھے دریافت فرمایا کہ ” کیا ثابت بیمار ہیں ؟ “ } ۱؎ (صحیح مسلم:187) لیکن اس حدیث کی اور سندوں میں سعد رضی اللہ عنہ کا ذکر نہیں اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ روایت معطل ہے اور یہی بات صحیح بھی ہے اس لیے کہ سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ اس وقت زندہ ہی نہ تھے بلکہ آپ کا انتقال بنو قریظہ کی جنگ کے بعد تھوڑے ہی دنوں میں ہو گیا تھا اور بنو قریظہ کی جنگ سنہ ۵ ہجری میں ہوئی تھی اور یہ آیت وفد بنی تمیم کی آمد کے وقت اتری ہے اور وفود کا پے در پے آنے کا واقعہ سنہ ۹ ہجری کا ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ابن جریر میں ہے ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:379/11) جب یہ آیت اتری تو سیدنا ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ راستے میں بیٹھ گئے اور رونے لگے سیدنا عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ جب وہاں سے گزرے اور انہیں روتے دیکھا تو سبب دریافت کیا جواب ملا کہ مجھے خوف ہے کہ کہیں یہ آیت میرے ہی بارے میں نازل نہ ہوئی ہو میری آواز بلند ہے سیدنا عاصم رضی اللہ عنہ یہ سن کر چلے گئے اور سیدنا ثابت رضی اللہ عنہ کی ہچکی بندھ گئی دھاڑیں مار مار کر رونے لگے اور اپنی بیوی صاحبہ جمیلہ بنت عبداللہ بن ابی سلول سے کہا میں اپنے گھوڑے کے طویلے میں جا رہا ہوں تم اس کا دروازہ باہر سے بند کر کے لوہے کی کیل سے اسے جڑ دو ۔ اللہ کی قسم ! میں اس میں سے نہ نکلوں گا یہاں تک کہ یا مر جاؤں یا اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مجھ سے رضامند کر دے ۔ یہاں تو یہ ہوا ، وہاں جب عاصم رضی اللہ عنہ نے دربار رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں ثابت رضی اللہ عنہ کی حالت بیان کی تو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ” تم جاؤ اور ثابت کو میرے پاس بلا لاؤ “ ، لیکن عاصم رضی اللہ عنہ اس جگہ آئے تو دیکھا کہ ثابت وہاں نہیں ، مکان پر گئے تو معلوم ہوا کہ وہ تو گھوڑے کے طویلے میں ہیں یہاں آ کر کہا : ثابت ! چلو تم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یاد فرما رہے ہیں ۔ سیدنا ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا : بہت خوب کیل نکال ڈالو اور دروازہ کھول دو ، پھر باہر نکل کر سرکار میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رونے کی وجہ پوچھی ، جس کا سچا جواب سیدنا ثابت رضی اللہ عنہ سے سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” کیا تم اس بات سے خوش نہیں ہو کہ تم قابل تعریف زندگی گزارو اور شہید ہو کر مرو اور جنت میں جاؤ “ ۔ اس پر سیدنا ثابت رضی اللہ عنہ کا سارا رنج کافور ہو گیا اور باچھیں کھل گئیں اور فرمانے لگے ” یا رسول اللہ ! میں اللہ تعالیٰ کی اور آپ کی اس بشارت پر بہت خوش ہوں اور اب آئندہ کبھی بھی اپنی آواز آپ کی آواز سے اونچی نہ کروں گا ۔ اس پر اس کے بعد کی آیت «إِنَّ الَّذِینَ یَغُضٰونَ أَصْوَاتَہُمْ عِندَ رَ‌سُولِ اللہِ أُولٰئِکَ الَّذِینَ امْتَحَنَ اللہُ قُلُوبَہُمْ لِلتَّقْوَیٰ لَہُم مَّغْفِرَ‌ۃٌ وَأَجْرٌ‌ عَظِیمٌ» ۱؎ (49-الحجرات:3) نازل ہوئی ، یہ قصہ اسی طرح کئی ایک تابعین سے بھی مروی ہے ۔ الغرض اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آواز بلند کرنے سے منع فرما دیا ۔ سیدنا امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے دو شخصوں کی کچھ بلند آوازیں مسجد نبوی میں سن کر وہاں آ کر ان سے فرمایا : ” تمہیں معلوم بھی ہے کہ تم کہاں ہو ؟ “ ، پھر ان سے پوچھا کہ تم کہاں کے رہنے والے ہو ؟ انہوں نے کہا : طائف کے ، آپ نے فرمایا : اگر تم مدینے کے ہوتے تو میں تمہیں پوری سزا دیتا ۔ علماء کرام کا فرمان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر شریف کے پاس بھی بلند آواز سے بولنا مکروہ ہے جیسے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے مکروہ تھا ، اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس طرح اپنی زندگی میں قابل احترام و عزت تھے اب اور ہمیشہ تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر شریف میں بھی باعزت اور قابل احترام ہی ہیں ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آپ سے باتیں کرتے ہوئے جس طرح عام لوگوں سے باآواز بلند باتیں کرتے ہیں باتیں کرنی منع فرمائیں ، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تسکین و وقار ، عزت و ادب ، حرمت و عظمت سے باتیں کرنی چاہیں ۔ جیسے اور جگہ ہے «لَّا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّ‌سُولِ بَیْنَکُمْ کَدُعَاءِ بَعْضِکُم بَعْضًا» ۱؎ (24-النور:63) ’ اے مسلمانو ! رسول [ صلی اللہ علیہ وسلم ] کو اس طرح نہ پکارو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہو ۔ ‘ پھر فرماتا ہے کہ ’ ہم نے تمہیں اس بلند آواز سے اس لیے روکا ہے کہ ایسا نہ ہو کسی وقت نبی [ صلی اللہ علیہ وسلم ] ناراض ہو جائیں اور آپ کی ناراضگی کی وجہ سے اللہ ناراض ہو جائے اور تمہارے کل اعمال ضبط کر لے اور تمہیں اس کا پتہ بھی نہ چلے ‘ ۔ چنانچہ صحیح حدیث میں ہے کہ { ایک شخص اللہ کی رضا مندی کا کوئی کلمہ ایسا کہہ گزرتا ہے کہ اس کے نزدیک تو اس کلمہ کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ، لیکن اللہ کو وہ اتنا پسند آتا ہے کہ اس کی وجہ سے وہ جنتی ہو جاتا ہے ، اسی طرح انسان اللہ کی ناراضگی کا کوئی ایسا کلمہ کہہ جاتا ہے کہ اس کے نزدیک تو اس کی کوئی وقعت نہیں ہوتی لیکن اللہ تعالیٰ اسے اس ایک کلمہ کی وجہ سے جہنم کے اس قدر نیچے کے طبقے میں پہنچا دیتا ہے کہ جو گڑھا آسمان و زمین سے زیادہ گہرا ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6478) پھر اللہ تبارک و تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آواز پست کرنے کی رغبت دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ ’ جو لوگ اللہ کے نبی کے سامنے اپنی آوازیں دھیمی کرتے ہیں انہیں اللہ رب العزت نے تقوے کے لیے خالص کر لیا ہے ، اہل تقویٰ اور محل تقویٰ یہی لوگ ہیں ، یہ اللہ کی مغفرت کے مستحق اور اجر عظیم کے لائق ہیں ‘ ۔ امام احمد رحمہ اللہ نے کتاب الزہد میں ایک روایت نقل کی ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ایک تحریراً استفتاء لیا گیا کہ اے امیر المؤمنین ایک وہ شخص جسے نافرمانی کی خواہش ہی نہ ہو اور نہ کوئی نافرمانی اس نے کی ہو وہ اور وہ شخص جسے خواہش معصیت ہے لیکن وہ برا کام نہیں کرتا تو ان میں سے افضل کون ہے ؟ آپ نے جواب میں لکھا کہ جنہیں معصیت کی خواہش ہوتی ہے پھر نافرمانیوں سے بچتے ہیں یہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ تعالیٰ نے پرہیزگاری کے لیے آزما لیا ہے ان کے لیے مغفرت ہے اور بہت بڑا اجر و ثواب ہے ۔ الحجرات
2 الحجرات
3 الحجرات
4 آداب خطاب ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی مذمت بیان کرتا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکانوں کے پیچھے سے آپ کو آوازیں دیتے اور پکارتے ہیں ۔ جس طرح اعراب میں دستور تھا تو فرمایا کہ ’ ان میں سے اکثر بےعقل ہیں ‘ ۔ پھر اس کی بابت ادب سکھاتے ہوئے فرماتا ہے کہ ’ چاہیئے تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتظار میں ٹھہر جاتے اور جب آپ مکان سے باہر نکلتے تو آپ سے جو کہنا ہوتا کہتے ‘ ، نہ کہ آوازیں دے کر باہر سے پکارتے ۔ دنیا اور دین کی مصلحت اور بہتری اسی میں تھی ۔ پھر حکم دیتا ہے کہ ’ ایسے لوگوں کو توبہ استغفار کرنا چاہیئے کیونکہ اللہ بخشنے والا مہربان ہے ‘ ۔ یہ آیت اقرع بن حابس تمیمی رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ { ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ، آپ کا نام لے کر پکارا ” یا محمد ! یا محمد ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کوئی جواب نہ دیا ، تو اس نے کہا : سنئے ، یا رسول اللہ! میرا تعریف کرنا بڑائی کا سبب ہے اور میرا مذمت کرنا ذلت کا سبب ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ایسی ذات محض اللہ تعالیٰ کی ہی ہے “ } ۔ ۱؎ (مسند احمد:488/3:صحیح لغیرہ) بشر بن غالب نے حجاج کے سامنے بشر بن عطارد وغیرہ سے کہا کہ تیری قوم بنو تمیم کے بارے میں یہ آیت اتری ہے ۔ جب سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے اس کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا : اگر وہ عالم ہوتے تو اس کے بعد کی آیت «یَمُنٰونَ عَلَیْکَ أَنْ أَسْلَمُوا قُل لَّا تَمُنٰوا عَلَیَّ إِسْلَامَکُم بَلِ اللہُ یَمُنٰ عَلَیْکُمْ أَنْ ہَدَاکُمْ لِلْإِیمَانِ إِن کُنتُمْ صَادِقِینَ» ۱؎ (49-الحجرات:17) پڑھ دیتے یعنی ’ اپنے مسلمان ہونے کا آپ پر احسان جتاتے ہیں۔ آپ کہہ دیجئے کہ اپنے مسلمان ہونے کا احسان مجھ پر نہ رکھو، بلکہ دراصل اللہ کا تم پر احسان ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کی ہدایت کی اگر تم راست گو ہو ‘ اور بنو اسد نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلیم کرنے میں کچھ دیر نہیں کی ۔ سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ { کچھ عرب جمع ہوئے اور کہنے لگے ہمیں اس شخص کے پاس لے چلو اگر وہ سچا نبی ہے تو سب سے زیادہ اس سے سعادت حاصل کرنے کے مستحق ہم ہیں اور اگر وہ بادشاہ ہے تو ہم اس کے پروں تلے پل جائیں گے ۔ میں نے آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ واقعہ بیان کیا پھر وہ لوگ آئے اور حجرے کے پیچھے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لے کر آپ کو پکارنے لگے ، اس پر یہ آیت اتری ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا کان پکڑ کر فرمایا : ” اللہ تعالیٰ نے تیری بات سچی کر دی اللہ تعالیٰ نے تیری بات سچی کر دی “ } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:382/11:حسن) الحجرات
5 الحجرات
6 فاسق کی خبر پر اعتماد نہ کرو اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ فاسق کی خبر کا اعتماد نہ کرو ، جب تک پوری تحقیق و تفتیش سے اصل واقعہ صاف طور پر معلوم نہ ہو جائے کوئی حرکت نہ کرو ، ممکن ہے کہ کسی فاسق شخص نے کوئی جھوٹی بات کہہ دی ہو یا خود اس سے غلطی ہوئی ہو اور تم اس کی خبر کے مطابق کوئی کام کر گزرو تو اصل اس کی پیروی ہو گی اور مفسد لوگوں کی پیروی حرام ہے ۔ اسی آیت کو دلیل بنا کر بعض محدثین کرام نے اس شخص کی روایت کو بھی غیر معتبر بتایا ہے جس کا حال نہ معلوم ہو اس لیے کہ بہت ممکن ہے یہ شخص فی الواقع فاسق ہو ۔ گو بعض لوگوں نے ایسے مجہول الحال راویوں کی روایت لی بھی ہے ، اور انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں فاسق کی خبر قبول کرنے سے منع کیا گیا ہے اور جس کا حال معلوم نہیں اس کا فاسق ہونا ہم پر ظاہر نہیں ۔ ہم نے اس مسئلہ کی پوری وضاحت سے صحیح بخاری شریف کی شرح میں کتاب العلم میں بیان کر دیا ہے ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» اکثر مفسرین کرام نے فرمایا ہے کہ یہ آیت ولید بن عقبہ بن ابومعیط کے بارے میں نازل ہوئی ہے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں قبیلہ بنو مصطلق سے زکوٰۃ لینے کے لیے بھیجا تھا ۔ چنانچہ مسند احمد میں ہے { حارث بن ضرار خزاعی جو ام المؤمنین سیدہ جویریہ رضی اللہ عنہا کے والد ہیں فرماتے ہیں : میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اسلام کی دعوت دی جو میں نے منظور کر لی اور مسلمان ہو گیا ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوٰۃ کی فرضیت سنائی میں نے اس کا بھی اقرار کیا اور کہا کہ میں واپس اپنی قوم میں جاتا ہوں اور ان میں سے جو ایمان لائیں اور زکوٰۃ ادا کریں ، میں ان کی زکوۃٰ جمع کرتا ہوں ، اتنے اتنے دنوں کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف کسی آدمی کو بھیج دیجئیے ، میں اس کے ہاتھ جمع شدہ مال زکوٰۃ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھجوا دوں گا ۔ سیدنا حارث رضی اللہ عنہ نے واپس آ کر یہی کیا ، مال زکوٰۃ جمع کیا ، جب وقت مقررہ گزر چکا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کوئی قاصد نہ آیا ، تو آپ نے اپنی قوم کے سرداروں کو جمع کیا اور ان سے کہا : یہ تو ناممکن ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے وعدے کے مطابق اپنا کوئی آدمی نہ بھیجیں ، مجھے تو ڈر ہے کہ کہیں کسی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے ناراض نہ ہو گئے ہوں ؟ اور اس بنا پر آپ نے اپنا کوئی قاصد مال زکوٰۃ لے جانے کے لیے نہ بھیجا ہو ، اگر آپ لوگ متفق ہوں تو ہم اس مال کو لے کر خود ہی مدینہ شریف چلیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیں یہ تجویز طے ہو گئی اور یہ حضرات اپنا مال زکوٰۃ ساتھ لے کر چل کھڑے ہوئے ۔ ادھر سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ کو اپنا قاصد بنا کر بھیج چکے تھے لیکن یہ راستے ہی میں سے ڈر کے مارے لوٹ آئے اور یہاں آ کر کہہ دیا کہ حارث نے زکوٰۃ بھی روک لی اور میرے قتل کے درپے ہو گیا ۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہوئے اور کچھ آدمی تنبیہ کے لیے روانہ فرمائے ، مدینہ کے قریب راستے ہی میں اس مختصر سے لشکر نے حارث کو پا لیا اور گھیر لیا ۔ حارث نے پوچھا : آخر کیا بات ہے ؟ تم کہاں اور کس کے پاس جا رہے ہو ؟ انہوں نے کہا ہم تیری طرف بھیجے گئے ہیں پوچھا کیوں ؟ کہا : اس لیے کہ تو نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد ولید رضی اللہ عنہ کو زکوٰۃ نہ دی بلکہ انہیں قتل کرنا چاہا ۔ حارث رضی اللہ عنہ نے کہا : قسم ہے اس اللہ کی جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا رسول بنا کر بھیجا ہے ، نہ میں نے اسے دیکھا ، نہ وہ میرے پاس آیا ، چلو میں تو خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو رہا ہوں ، یہاں آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا کہ تو نے زکوٰۃ بھی روک لی اور میرے آدمی کو بھی قتل کرنا چاہا ؟ حارث نے جواب دیا ہرگز نہیں یا رسول اللہ ! قسم ہے اللہ کی جس نے آپ کو سچا رسول بنا کر بھیجا ہے ، نہ میں نے انہیں دیکھا ، نہ وہ میرے پاس آئے ۔ بلکہ قاصد کو نہ دیکھ کر اس ڈر کے مارے کہ کہیں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے ناراض نہ ہو گئے ہوں اور اسی وجہ سے قاصد نہ بھیجا ہو میں خود حاضر خدمت ہوا ، اس پر یہ آیت «وَ اللہُ عَلِیمٌ حَکِیمٌ» ۱؎ (49-الحجرات:8) تک نازل ہوئی } ۔ ۱؎ (مسند احمد:279/4:حسن بشواھدہ) طبرانی میں یہ بھی ہے کہ { جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد حارث کی بستی کے پاس پہنچا تو یہ لوگ خوش ہو کر اس کے استقبال کیلئے خاص تیاری کر کے نکلے ، ادھر ان کے دل میں یہ شیطانی خیال پیدا ہوا کہ یہ لوگ مجھ سے لڑنے کے لیے آ رہے ہیں ، تو یہ لوٹ کر واپس چلے آئے ، انہوں نے جب یہ دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد واپس چلے گئے ، تو خود ہی حاضر ہوئے اور ظہر کی نماز کے بعد صف بستہ کھڑے ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ نے زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے اپنے آدمی کو بھیجا ، ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوئیں ، ہم بے حد خوش ہوئے ، لیکن اللہ جانے کیا ہوا کہ وہ راستے میں سے ہی لوٹ گئے تو اس خوف سے کہ کہیں اللہ ہم سے ناراض نہ ہو گیا ہو ہم حاضر ہوئے ہیں اسی طرح وہ عذر معذرت کرتے رہے ۔ عصر کی اذان جب سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے دی اس وقت یہ آیت نازل ہوئی } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:383/11:ضعیف) اور روایت میں ہے کہ { ولید رضی اللہ عنہ کی اس خبر پر ابھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سوچ ہی رہے تھے کہ کچھ آدمی ان کی طرف بھیجیں جو ان کا وفد آ گیا اور انہوں نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد آدھے راستے سے ہی لوٹ گیا ، تو ہم نے خیال کیا کہ آپ نے کسی ناراضگی کی بنا پر انہیں واپسی کا حکم بھیج دیا ہو گا اس لیے حاضر ہوئے ہیں ، ہم اللہ کے غصے سے اور آپ کی ناراضگی سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری اور اس کا عذر سچا بتایا } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:383/11:ضعیف) اور روایت میں ہے کہ قاصد نے یہ بھی کہا تھا کہ ان لوگوں نے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑنے کے لیے لشکر جمع کر لیا ہے اور اسلام سے مرتد ہو گئے ہیں ۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی زیر امارت ایک فوجی دستے کو بھیج دیا لیکن انہیں فرما دیا تھا کہ ” پہلے تحقیق و تفتیش اچھی طرح کر لینا ، جلدی سے حملہ نہ کر دینا “ ۔ اسی کے مطابق سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے وہاں پہنچ کر اپنے جاسوس شہر میں بھیج دئیے وہ خبر لائے کہ وہ لوگ دین اسلام پر قائم ہیں ، مسجد میں اذانیں ہوئیں ، جنہیں ہم نے خود سنا اور لوگوں کو نماز پڑھتے ہوئے خود دیکھا ۔ صبح ہوتے ہی سیدنا خالد رضی اللہ عنہ خود گئے اور وہاں کے اسلامی منظر سے خوش ہوئے ، واپس آ کر سرکار نبوی میں ساری خبر دی ۔ اس پر یہ آیت اتری ۔ قتادہ رحمہ اللہ جو اس واقعہ کو بیان کرتے ہیں کہتے ہیں کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ” تحقیق و تلاش بردباری اور دور بینی اللہ کی طرف سے ہے ۔ اور عجلت اور جلد بازی شیطان کی طرف سے ہے “ } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:384/11:ضعیف) سلف میں سے قتادہ رحمہ اللہ کے علاوہ اور بھی بہت سے حضرات نے یہی ذکر کیا ہے جیسے ابن ابی لیلیٰ ، یزید بن رومان ، ضحاک ، مقاتل بن حیان رحمہ اللہ علیہم وغیرہ ۔ ان سب کا بیان ہے کہ یہ آیت ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» الحجرات
7 1 پھر فرماتا ہے کہ جان لو کہ تم میں اللہ کے رسول موجود ہیں ان کی تعظیم و توقیر کرنا عزت و ادب کرنا ان کے احکام کو سر آنکھوں سے بجا لانا تمہارا فرض ہے ، وہ تمہاری مصلحتوں سے بہت آگاہ ہیں ، انہیں تم سے بہت محبت ہے ، وہ تمہیں مشقت میں ڈالنا نہیں چاہتے ۔ تم اپنی بھلائی کے اتنے خواہاں اور اتنے واقف نہیں ہو جتنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ چنانچہ اور جگہ ارشاد ہے «النَّبِیٰ أَوْلَیٰ بِالْمُؤْمِنِینَ مِنْ أَنفُسِہِمْ وَأَزْوَاجُہُ أُمَّہَاتُہُمْ وَأُولُو الْأَرْ‌حَامِ بَعْضُہُمْ أَوْلَیٰ بِبَعْضٍ فِی کِتَابِ اللہِ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُہَاجِرِ‌ینَ إِلَّا أَن تَفْعَلُوا إِلَیٰ أَوْلِیَائِکُم مَّعْرُ‌وفًا کَانَ ذٰلِکَ فِی الْکِتَابِ مَسْطُورً‌ا» ۱؎ (33-الأحزاب:6) یعنی ’ مسلمانوں کے معاملات میں ان کی اپنی بہ نسبت نبی [ صلی اللہ علیہ وسلم ] ان کے لیے زیادہ خیر اندیش ہیں ‘ ۔ پھر بیان فرمایا کہ ’ لوگو تمہاری عقلیں تمہاری مصلحتوں اور بھلائیوں کو نہیں پا سکتیں انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پا رہے ہیں ۔ پس اگر وہ تمہاری ہر پسندیدگی کی رائے پر عامل بنتے رہیں تو اس میں تمہارا ہی حرج واقع ہو گا ۔ ‘ جیسے اور آیت میں ہے «وَلَوِ اتَّبَعَ الْحَقٰ أَہْوَاءَہُمْ لَفَسَدَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْ‌ضُ وَمَن فِیہِنَّ بَلْ أَتَیْنَاہُم بِذِکْرِ‌ہِمْ فَہُمْ عَن ذِکْرِ‌ہِم مٰعْرِ‌ضُونَ» ۱؎ (23-المؤمنون:71) یعنی ’ اگر سچا رب ان کی خوشی پر چلے تو آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی ہر چیز خراب ہو جائے یہ نہیں بلکہ ہم نے انہیں ان کی نصیحت پہنچا دی ہے لیکن یہ اپنی نصیحت پر دھیان ہی نہیں دھرتے ‘ ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ اللہ نے ایمان کو تمہارے نفسوں میں محبوب بنا دیا ہے اور تمہارے دلوں میں اس کی عمدگی بٹھا دی ہے ‘ ۔ مسند احمد میں ہے { رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” اسلام ظاہر ہے اور ایمان دل میں ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سینے کی طرف تین بار اشارہ کرتے اور فرماتے تقویٰ یہاں ہے ، پرہیزگاری کی جگہ یہ ہے “ } ۔ ۱؎ (سلسلۃ احادیث ضعیفہ البانی:6906) اس نے تمہارے دلوں میں کبیرہ گناہ اور تمام نافرمانیوں کی عداوت ڈال دی ہے اس طرح بتدریج تم پر اپنی نعمتیں بھرپور کر دی ہیں ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے جن میں یہ پاک اوصاف ہیں انہیں اللہ نے رشد نیکی ہدایت اور بھلائی دے رکھی ہے ۔ مسند احمد میں ہے { احد کے دن جب مشرکین ٹوٹ پڑے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” درستگی کے ساتھ ٹھیک ٹھاک ہو جاؤ ، تو میں نے اپنے رب عزوجل کی ثنأ بیان کروں“ ، پس لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صفیں باندھ کر کھڑے ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا پڑھی : « اللہُمَّ لَکَ الْحَمْدُ کُلٰہُ ، اللہُمَّ لاَ قَابِضَ لِمَا بَسَطْتَ ، وَلاَ بَاسِطَ لِمَا قَبَضْتَ ، وَلاَ ہَادِیَ لِمَنْ أَضْلَلْتَ ، وَلاَ مُضِلَّ لِمَنْ ہَدَیْتَ ، وَلاَ مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ ، وَلاَ مَانِعَ لِمَا أَعْطَیْتَ ، وَلاَ مُقَرِّبَ لِمَا بَاعَدْتَ ، وَلاَ مُبَاعِدَ لِمَا قَرَّبْتَ ، اللہُمَّ ابْسُطْ عَلَیْنَا مِنْ بَرَکَاتِکَ ، وَرَحْمَتِکَ ، وَفَضْلِکَ ، وَرِزْقِکَ ، اللہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ النَّعِیمَ الْمُقِیمَ الَّذِی لاَ یَحُولُ وَلاَ یَزُولُ ، اللہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ النَّعِیمَ یَوْمَ الْعَیْلَۃِ ، وَالأَمْنَ یَوْمَ الْخَوْفِ ، اللہُمَّ إِنِّی عَائِذٌ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا أَعْطَیْتَنَا وَشَرِّ مَا مَنَعْتَنَا ، اللہُمَّ حَبِّبْ إِلَیْنَا الإِیمَانَ وَزِیِّنْہُ فِی قُلُوبِنَا ، وَکَرِّہْ إِلَیْنَا الْکُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْیَانَ ، وَاجْعَلْنَا مِنَ الرَّاشِدِینَ ، اللہُمَّ تَوَفَّنَا مُسْلِمِینَ ، وَأَحْیِنَا مُسْلِمِینَ ، وَأَلْحِقْنَا بِالصَّالِحِینَ غَیْرَ خَزَایَا وَلاَ مَفْتُونِینَ ، اللہُمَّ قَاتِلِ الْکَفَرَۃَ الَّذِینَ یُکَذِّبُونَ رُسُلَکَ ، وَیَصُدٰونَ عَنْ سَبِیلِکَ ، وَاجْعَلْ عَلَیْہِمْ رِجْزَکَ وَعَذَابَکَ ، اللہُمَّ قَاتِلِ الکَفَرَۃَ الَّذِینَ أُوتُوا الْکِتَابَ ، إِلَہَ الْحَقِّ» (نسائی) یعنی ” اے اللہ ! تمام تر تعریف تیرے ہی لیے ہے ، تو جسے کشادگی دے اسے کوئی تنگ نہیں کر سکتا اور جس پر تو تنگی کرے اسے کوئی کشادہ نہیں کر سکتا ، تو جسے گمراہ کرے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا اور جسے تو ہدایت دے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا ، جس سے تو روک لے اسے کوئی دے نہیں سکتا اور جسے تو دے اس سے کوئی باز نہیں رکھ سکتا ، جسے تو دور کر دے اسے قریب کرنے والا کوئی نہیں اور جسے تو قریب کر لے اسے دور ڈالنے والا کوئی نہیں ، اے اللہ ! ہم پر اپنی برکتیں رحمتیں فضل اور رزق کشادہ کر دے ، اے اللہ ! میں تجھ سے وہ ہمیشہ کی نعمتیں چاہتا ہوں جو نہ ادھر ادھر ہوں ، نہ زائل ہوں ۔ اللہ ! فقیری اور احتیاج والے دن مجھے اپنی نعمتیں عطا فرمانا اور خوف والے دن مجھے امن عطا فرمانا ۔ پروردگار ! جو تو نے مجھے دے رکھا ہے اور جو نہیں دیا ان سب کی برائی سے تیری پناہ مانگتا ہوں ۔ اے میرے معبود ! ہمارے دلوں میں ایمان کی محبت ڈال دے اور اسے ہماری نظروں میں زینت دار بنا دے اور کفر ، بدکاری اور نافرمانی سے ہمارے دل میں دوری اور عداوت پیدا کر دے اور ہمیں راہ یافتہ لوگوں میں کر دے ۔ اے ہمارے رب ! ہمیں اسلام کی حالت میں فوت کر اور اسلام پر ہی زندہ رکھ اور نیک کار لوگوں سے ملا دے ، ہم رسوا نہ ہوں ، ہم فتنے میں نہ ڈالے جائیں ۔ اللہ ! ان کافروں کا ستیاناس کر جو تیرے رسولوں کو جھٹلائیں اور تیری راہ سے روکیں تو ان پر اپنی سزا اور اپنا عذاب نازل فرما ۔ الٰہی ! اہل کتاب کے کافروں کو بھی تباہ کر ، اے سچے معبود “ } ۔ ۱؎ (مسند احمد:2424/3:صحیح) یہ حدیث امام نسائی بھی اپنی کتاب (عمل الیوم واللیلہ) میں لائے ہیں ۔ مرفوع حدیث میں ہے { جس شخص کو اپنی نیکی اچھی لگے اور برائی اسے ناراض کرے وہ مومن ہے } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2165،قال الشیخ الألبانی:صحیح) پھر فرماتا ہے یہ بخشش جو تمہیں عطا ہوئی ہے یہ تم پر اللہ کا فضل ہے اور اس کی نعمت ہے اللہ مستحقین ہدایت کو اور مستحقین ضلالت کو بخوبی جانتا ہے وہ اپنے اقوال و افعال میں حکیم ہے ۔ الحجرات
8 الحجرات
9 دو متحارب مسلمان جماعتوں میں صلح کرانا ہر مسلمان کا فرض ہے یہاں حکم ہو رہا ہے کہ اگر مسلمانوں کی کوئی دو جماعتیں لڑنے لگ جائیں تو دوسرے مسلمانوں کو چاہیئے کہ ان میں صلح کرا دیں ۔ آپس میں لڑنے والی جماعتوں کو مومن کہنا اس سے امام بخاری رحمہ اللہ نے استدلال کیا ہے کہ نافرمانی گو کتنی ہی بڑی ہو وہ انسان کو ایمان سے الگ نہیں کرتی ۔ خارجیوں کا اور ان کے موافق معتزلہ کا مذہب اس بارے میں خلاف حق ہے ۔ اسی آیت کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو صحیح بخاری وغیرہ میں مروی ہے کہ { ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر خطبہ دے رہے تھے آپ کے ساتھ منبر پر سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ بھی تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی ان کی طرف دیکھتے کبھی لوگوں کی طرف اور فرماتے کہ ” میرا یہ بچہ سید ہے اور اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی دو بڑی بڑی جماعتوں میں صلح کرا دے گا “ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2704) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیش گوئی سچی نکلی اور اہل شام اور اہل عراق میں بڑی لمبی لڑائیوں اور بڑے ناپسندیدہ واقعات کے بعد آپ رضی اللہ عنہ کی وجہ سے صلح ہو گئی ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے ’ اگر ایک گروہ دوسرے گروہ پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑائی کی جائے تاکہ وہ پھر ٹھکانے آ جائے حق کو سنے اور مان لے ‘ ۔ صحیح حدیث میں ہے { اپنے بھائی کی مدد کر ظالم ہو تو مظلوم ہو تو بھی ، سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ ” مظلوم ہونے کی حالت میں تو ظاہر ہے لیکن ظالم ہونے کی حالت میں کیسے مدد کروں ؟ “ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اسے ظلم سے باز رکھو یہی اس کی اس وقت یہ مدد ہے “ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6952) مسند احمد میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک مرتبہ کہا گیا : ” کیا اچھا ہو اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم عبداللہ بن ابی کے ہاں چلئے “ ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گدھے پر سوار ہوئے اور صحابہ رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمرکابی میں ساتھ ہو لیئے ، زمین شور تھی ، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں پہنچے ، تو یہ کہنے لگا مجھ سے الگ رہیے ، اللہ کی قسم آپ کے گدھے کی بدبو نے میرا دماغ پریشان کر دیا ۔ اس پر ایک انصاری نے کہا : واللہ ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گدھے کی بو تیری خوشبو سے بہت ہی اچھی ہے اس پر ادھر سے ادھر کچھ لوگ بول پڑے اور معاملہ بڑھنے لگا بلکہ کچھ ہاتھا پائی اور جوتے چھڑیاں بھی کام میں لائی گئیں ان کے بارے میں یہ آیت اتری ہے } ۔ سعید بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں اوس اور خزرج قبائل میں کچھ چشمک ہو گئی تھی ان میں صلح کرا دینے کا اس آیت میں حکم ہو رہا ہے ۔ سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ، عمران نامی ایک انصاری تھے ان کی بیوی صاحبہ کا نام ام زید تھا ، اس نے اپنے میکے جانا چاہا ، خاوند نے روکا اور منع کر دیا کہ میکے کا کوئی شخص یہاں بھی نہ آئے ۔ عورت نے یہ خبر اپنے میکے کہلوا دی وہ لوگ آئے اور اسے بالاخانے سے اتار لائے اور لے جانا چاہا ان کے خاوند گھر پر تھے نہیں ، خاوند والوں نے اس کے چچا زاد بھائیوں کو اطلاع دے کر انہیں بلا لیا ، اب کھینچا تانی ہونے لگی اور ان کے بارے میں یہ آیت اتری ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں طرف کے لوگوں کو بلا کر بیچ میں بیٹھ کر صلح کرا دی اور سب لوگ مل گئے پھر حکم ہوتا ہے ’ دونوں فریقوں میں عدل کرو ، اللہ عادلوں کو پسند فرماتا ہے ‘ ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ” دنیا میں جو عدل و انصاف کرتے رہے وہ موتیوں کے منبروں پر رحمن عزوجل کے سامنے ہوں گے اور یہ بدلہ ہو گا ان کے عدل و انصاف کا “ } ۔ ۱؎ (مسند احمد:159/2:صحیح) صحیح مسلم کی حدیث میں ہے { یہ لوگ ان منبروں پر رحمن عزوجل کے دائیں جانب ہوں گے یہ اپنے فیصلوں میں ، اپنے اہل و عیال میں اور جو کچھ ان کے قبضہ میں ہے اس میں عدل سے کام لیا کرتے تھے ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:18) پھر فرمایا ’ کل مومن دینی بھائی ہیں ‘ ۔ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” مسلمان مسلمان کا بھائی ہے اسے اس پر ظلم و ستم نہ کرنا چاہیئے “ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2442) صحیح حدیث میں ہے { اللہ تعالیٰ بندے کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہے } ۔ اور صحیح حدیث میں ہے { جب کوئی مسلمان اپنے غیر حاضر بھائی مسلمان کے لیے اس کی پس پشت دعا کرتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے آمین ۔ اور تجھے بھی اللہ ایسا ہی دے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:87) اس بارے میں اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں صحیح حدیث میں ہے { مسلمان سارے کے سارے اپنی محبت رحم دلی اور میل جول میں مثل ایک جسم کے ہیں جب کسی عضو کو تکلیف ہو تو سارا جسم تڑپ اٹھتا ہے کبھی بخار چڑھ آتا ہے کبھی شب بیداری کی تکلیف ہوتی ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6011) ایک اور حدیث میں ہے { مومن مومن کے لیے مثل دیوار کے ہے ، جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو تقویت پہنچاتا اور مضبوط کرتا ہے ، پھر آپ نے اپنی ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر بتایا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2446) مسند احمد میں ہے { مومن کا تعلق اور اہل ایمان سے ایسا ہے جیسے سر کا تعلق جسم سے ہے ، مومن اہل ایمان کے لیے وہی درد مندی کرتا ہے جو درد مندی جسم کو سر کے ساتھ ہے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:340/5:صحیح لغیرہ و ھذا اسناد ضعیف) پھر فرماتا ہے دونوں لڑنے والی جماعتوں اور دونوں طرف کے اسلامی بھائیوں میں صلح کرا دو اپنے تمام کاموں میں اللہ کا ڈر رکھو ۔ یہی وہ اوصاف ہیں جن کی وجہ سے اللہ کی رحمت تم پر نازل ہو گی پرہیزگاروں کے ساتھ ہی رب کا رحم رہتا ہے ۔ الحجرات
10 الحجرات
11 ہر طعنہ باز عیب جو مجرم ہے اللہ تبارک و تعالیٰ لوگوں کو حقیر و ذلیل کرنے اور ان کا مذاق اڑانے سے روک رہا ہے ، حدیث شریف میں ہے { تکبر حق سے منہ موڑ لینے اور لوگوں کو ذلیل و خوار سمجھنے کا نام ہے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:91) اس کی وجہ قرآن کریم نے یہ بیان فرمائی کہ ’ جسے تم ذلیل کر رہے ہو جس کا تم مذاق اڑا رہے ہو ممکن ہے کہ اللہ کے نزدیک وہ تم سے زیادہ باوقعت ہو ‘ ۔ مردوں کو منع کر کے پھر خاصتہً عورتوں کو بھی اس سے روکا اور اس ملعون خصلت کو حرام قرار دیا ، چنانچہ قرآن کریم کا ارشاد ہے «وَیْلٌ لِّکُلِّ ہُمَزَۃٍ لٰمَزَۃِ» ۱؎ (104-الہمزۃ:1) یعنی ’ ہر طعنہ باز عیب جو کے لیے خرابی ہے ‘ ۔ «ہُمَزَ» فعل سے ہوتا ہے اور «لٰمَزَۃِ» قول سے ۔ ایک اور آیت میں ہے «ہَمَّازٍ مَّشَّاءٍ بِنَمِیمٍ» ۱؎ (68-القلم:11) یعنی ’ وہ جو لوگوں کو حقیر گنتا ہو ۔ ‘ ان پر چڑھا چلا جا رہا ہو اور لگانے بجھانے والا ہو غرض ان تمام کاموں کو ہماری شریعت نے حرام قرار دیا ۔ یہاں لفظ تو یہ ہیں کہ اپنے آپ کو عیب نہ لگاؤ مطلب یہ ہے کہ آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگاؤ ، جیسے فرمایا : «وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَکُمْ إِنَّ اللہَ کَانَ بِکُمْ رَ‌حِیمًا» ۱؎ (4-النساء:29) یعنی ’ ایک دوسرے کو قتل نہ کرو یقیناً اللہ تعالیٰ تم پر نہایت مہربان ہے‘ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما ، مجاہد ، سعید بن جبیر ، قتادہ ، مقاتل بن حیان رحمہ اللہ علیہم فرماتے ہیں : اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک دوسرے کو طعنے نہ دے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:391/11:) پھر فرمایا کسی کو چڑاؤ مت ! جس لقب سے وہ ناراض ہوتا ہو اس لقب سے اسے نہ پکارو ، نہ اس کو برا نام دو ۔ مسند احمد میں ہے کہ { یہ حکم بنو سلمہ کے بارے میں نازل ہوا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینے میں آئے تو یہاں ہر شخص کے دو دو تین تین نام تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان میں سے کسی کو کسی نام سے پکارتے تو لوگ کہتے ، یا رسول اللہ ! یہ اس سے چڑتا ہے ۔ اس پر یہ آیت اتری } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4962،قال الشیخ الألبانی:صحیح) پھر فرمان ہے کہ ’ ایمان کی حالت میں فاسقانہ القاب سے آپس میں ایک دوسرے کو نامزد کرنا نہایت بری بات ہے اب تمہیں اس سے توبہ کرنی چاہیئے ورنہ ظالم گنے جاؤ گے ‘ ۔ الحجرات
12 مذاق اور عیب گیری کی ممانعت اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو بدگمانی کرنے ، تہمت رکھنے اپنوں اور غیروں کو خوفزدہ کرنے ، خواہ مخواہ کی دہشت دل میں رکھ لینے سے روکتا ہے اور فرماتا ہے کہ بسا اوقات اکثر اس قسم کے گمان بالکل گناہ ہوتے ہیں پس تمہیں اس میں پوری احتیاط چاہیئے ۔ سیدنا امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا : ” تیرے مسلمان بھائی کی زبان سے جو کلمہ نکلا ہو جہاں تک تجھ سے ہو سکے اسے بھلائی اور اچھائی پر محمول کر “ ۔ ابن ماجہ میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف کعبہ کرتے ہوئے فرمایا : ” تو کتنا پاک گھر ہے ؟ ، تو کیسی بڑی حرمت والا ہے ؟ ، اس کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد [ صلی اللہ علیہ وسلم ] کی جان ہے کہ مومن کی حرمت اس کے مال اور اس کی جان کی حرمت اور اس کے ساتھ نیک گمان کرنے کی حرمت اللہ تعالیٰ کے نزدیک تیری حرمت سے بہت بڑی ہے “ } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:3932،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) یہ حدیث صرف ابن ماجہ میں ہی ہے ۔ صحیح بخاری میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” بدگمانی سے بچو ، گمان سب سے بڑی جھوٹی بات ہے ، بھید نہ ٹٹولو ۔ ایک دوسرے کی ٹوہ حاصل کرنے کی کوشش میں نہ لگ جایا کرو ، حسد بغض اور ایک دوسرے سے منہ پھلانے سے بچو ، سب مل کر اللہ کے بندے اور آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو سہو ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:6066) مسلم وغیرہ میں ہے { ایک دوسرے سے روٹھ کر نہ بیٹھ جایا کرو ، ایک دوسرے سے میل جول ترک نہ کر لیا کرو ، ایک دوسرے کا حسد بغض نہ کیا کرو بلکہ سب مل کر اللہ کے بندے آپس میں دوسرے کے بھائی بند ہو کر زندگی گزارو ۔ کسی مسلمان کو حلال نہیں کہ اپنے دوسرے مسلمان بھائی سے تین دن سے زیادہ بول چال اور میل جول چھوڑ دے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6564) طبرانی میں ہے کہ { تین خصلتیں میری امت میں رہ جائیں گی فال لینا ، حسد کرنا اور بدگمانی کرنا ، ایک شخص نے پوچھا : اے اللہ کے رسول ! پھر ان کا تدارک کیا ہے ؟ فرمایا : ” جب حسد کرے تو استغفار کر لے ، جب گمان پیدا ہو تو اسے چھوڑ دے اور یقین نہ کر اور جب شگون لے خواہ نیک نکلے ، خواہ بد اپنے کام سے نہ رک اسے پورا کر “ } ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:3727:ضعیف) ابوداؤد میں ہے کہ { ایک شخص کو سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس لایا گیا اور کہا گیا کہ اس کی ڈاڑھی سے شراب کے قطرے گر رہے ہیں آپ نے فرمایا : ” ہمیں بھید ٹٹولنے سے منع فرمایا گیا ہے اگر ہمارے سامنے کوئی چیز ظاہر ہو گئی تو ہم اس پر پکڑ سکتے ہیں } “ ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4890،قال الشیخ الألبانی:صحیح) مسند احمد میں ہے کہ { عقبہ کے کاتب وحین کے پاس ابولہیثم گئے اور ان سے کہا کہ میرے پڑوس میں کچھ لوگ شرابی ہیں میرا ارادہ ہے کہ میں داروغہ کو بلا کر انہیں گرفتار کرا دوں ، آپ نے فرمایا : ایسا نہ کرنا بلکہ انہیں سمجھاؤ بجھاؤ ڈانٹ ڈپٹ کر دو ، پھر کچھ دنوں کے بعد آئے اور کہا : وہ باز نہیں آتے اب تو میں ضرور داروغہ کو بلاؤں گا آپ نے فرمایا : افسوس ! افسوس ! تم ہرگز ہرگز ایسا نہ کرو ، سنو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جو شخص کسی مسلمان کی پردہ داری کرے اسے اتنا ثواب ملے گا جیسے کسی نے زندہ درگور کردہ لڑکی کو بچا لیا “ } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4891،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ابوداؤد میں ہے { سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ” اگر تو لوگوں کے باطن اور ان کے راز ٹٹولنے کے درپے ہو گا تو ، تو انہیں بگاڑ دے گا “ ، یا فرمایا ” ممکن ہے تو انہیں خراب کر دے “ ۔ ابودرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” اس حدیث سے اللہ تعالیٰ نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو بہت فائدہ پہنچایا “ } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4888،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابوداؤد کی ایک اور حدیث میں ہے کہ { امیر اور بادشاہ جب اپنے ماتحتوں اور رعایا کی برائیاں ٹٹولنے لگ جاتا ہے اور گہرا اترنا شروع کر دیتا ہے تو انہیں بگاڑ دیتا ہے } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4889،قال الشیخ الألبانی:صحیح لغیرہ) پھر فرمایا کہ تجسس نہ کرو یعنی برائیاں معلوم کرنے کی کوشش نہ کرو تاک جھانک نہ کیا کرو ۔ اسی سے جاسوس ماخذ ہے «تجسس» کا اطلاق عموماً برائی پر ہوتا ہے اور «تحسس» کا اطلاق بھلائی ڈھونڈنے پر ۔ جیسے یعقوب علیہ السلام اپنے بیٹوں سے فرماتے ہیں «یَا بَنِیَّ اذْہَبُوا فَتَحَسَّسُوا مِن یُوسُفَ وَأَخِیہِ وَلَا تَیْأَسُوا مِن رَّ‌وْحِ اللہِ إِنَّہُ لَا یَیْأَسُ مِن رَّ‌وْحِ اللہِ إِلَّا الْقَوْمُ الْکَافِرُ‌ونَ» ۱؎ (12-یوسف:87) ، بچو تم جاؤ اور یوسف کو ڈھونڈو اور اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو ، اور کبھی کبھی ان دونوں کا استعمال شر اور برائی میں بھی ہوتا ہے ۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے { نہ «تجسس» کرو ، نہ «تحسس» کرو ، نہ حسد و بغض کرو ، نہ منہ موڑو بلکہ سب مل کر اللہ کے بندے بھائی بھائی بن جاؤ } ۔ امام اوزاعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں «تجسس» کہتے ہیں کسی چیز میں کرید کرنے کو اور «تحسس» کہتے ہیں ان لوگوں کی سرگوشی پر کان لگانے کو جو کسی کو اپنی باتیں سنانا نہ چاہتے ہوں ۔ اور «تدابر» کہتے ہیں ایک دوسرے سے رک کر آزردہ ہو کر قطع تعلقات کرنے کو ۔ پھر غیبت سے منع فرماتا ہے ، ابوداؤد میں ہے { لوگوں نے پوچھا : یا رسول اللہ ! غیبت کیا ہے ؟ فرمایا : ” یہ کہ تو اپنے مسلمان بھائی کی کسی ایسی بات کا ذکر کرے جو اسے بری معلوم ہو “ ، تو کہا گیا اگر وہ برائی اس میں ہو جب بھی ؟ فرمایا : ” ہاں ! غیبت تو یہی ہے ورنہ بہتان اور تہمت ہے “ } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4874،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابوداؤد میں ہے { ایک مرتبہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ صفیہ تو ایسی ایسی ہیں ، مسدد راوی کہتے ہیں یعنی کم قامت ، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تو نے ایسی بات کہی ہے کہ سمندر کے پانی میں اگر ملا دی جائے تو اسے بھی بگاڑ دے “ } ۔ { اور ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کسی شخص کی کچھ ایسی ہی باتیں بیان کی گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” میں اسے پسند نہیں کرتا مجھے چاہے ایسا کرنے میں کوئی بہت بڑا نفع بھی مل جائے “ } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4875،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابن جریر میں ہے کہ { ایک بی بی صاحبہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ کے ہاں آئیں جب وہ جانے لگیں تو صدیقہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اشارے سے کہا کہ یہ بہت پست قامت ہیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تم نے ان کی غیبت کی “ } ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:395/11) الغرض غیبت حرام ہے اور اس کی حرمت پر مسلمانوں کا اجماع ہے ۔ لیکن ہاں شرعی مصلحت کی بنا پر کسی کی ایسی بات کا ذکر کرنا غیبت میں داخل نہیں جیسے جرح و تعدیل نصیحت و خیر خواہی جیسے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک فاجر شخص کی نسبت فرمایا تھا : ” یہ بہت برا آدمی ہے “ } ۱؎ (صحیح بخاری:6054) اور جیسے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا : ” معاویہ مفلس شخص ہے اور ابوالجہم بڑا مارنے پیٹنے والا آدمی ہے “ } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1480) یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت فرمایا تھا جبکہ ان دونوں بزرگوں نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے نکاح کا مانگا ڈالا تھا اور بھی جو باتیں اس طرح کی ہوں ان کی تو اجازت ہے باقی اور غیبت حرام ہے اور کبیرہ گناہ ہے ۔ اسی لیے یہاں فرمایا کہ ’ جس طرح تم اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے سے گھن کرتے ہو اس سے بہت زیادہ نفرت تمہیں غیبت سے کرنی چاہیئے ‘ ۔ جیسے حدیث میں ہے { اپنے دئیے ہوئے ہبہ کو واپس لینے والا ایسا ہے جیسے کتا جو قے کر کے چاٹ لیتا ہے اور فرمایا بری مثال ہمارے لیے لائق نہیں } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2622) حجۃ الوداع کے خطبے میں ہے { تمہارے خون مال آبرو تم پر ایسے ہی حرام ہیں جیسی حرمت تمہارے اس دن کی تمہارے اس مہینے میں اور تمہارے اس شہر میں ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:67) ابوداؤد میں { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ” مسلمان کا مال اس کی عزت اور اس کا خون مسلمان پر حرام ہے انسان کو اتنی ہی برائی کافی ہے کہ وہ اپنے دوسرے مسلمان بھائی کی حقارت کرے “ } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2564) اور حدیث میں ہے { اے وہ لوگو ! جن کی زبانیں تو ایمان لا چکیں ہیں لیکن دل ایماندار نہیں ہوئے ، تم مسلمانوں کی غیبتیں کرنا چھوڑ دو اور ان کے عیبوں کی کرید نہ کیا کرو ، یاد رکھو اگر تم نے ان کے عیب ٹٹولے تو اللہ تعالیٰ تمہاری پوشیدہ خرابیوں کو ظاہر کر دے گا یہاں تک کہ تم اپنے گھرانے والوں میں بھی بدنام اور رسوا ہو جاؤ گے } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4880،قال الشیخ الألبانی:حسن صحیح) مسند ابو یعلیٰ میں ہے کہ { اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک خطبہ سنایا ، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پردہ نشین عورتوں کے کانوں میں بھی اپنی آواز پہنچائی اور اس خطبہ میں اوپر والی حدیث بیان فرمائی } ۔ ۱؎ (مسند ابویعلیٰ:1675:ضعیف) { سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ کعبہ کی طرف دیکھا اور فرمایا ” تیری حرمت و عظمت کا کیا ہی کہنا ہے لیکن تجھ سے بھی بہت زیادہ حرمت ایک ایماندار شخص کی اللہ کے نزدیک ہے } “ ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:5763،قال الشیخ الألبانی:حسن صحیح) ابوداؤد میں ہے { جس نے کسی مسلمان کی برائی کر کے ایک نوالہ حاصل کیا اسے جہنم کی اتنی ہی غذا کھلائی جائے گی اسی طرح جس نے مسلمانوں کی برائی کرنے پر پوشاک حاصل کی اسے اسی جیسی پوشاک جہنم کی پہنائی جائے گی اور جو شخص کسی دوسرے کی بڑائی دکھانے سنانے کو کھڑا ہوا اسے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن دکھاوے سناوے کے مقام میں کھڑا کر دے گا } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4881،قال الشیخ الألبانی:صحیح) { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” معراج والی رات میں نے دیکھا کہ کچھ لوگوں کے ناخن تانبے کے ہیں جن سے وہ اپنے چہرے اور سینے نوچ رہے ہیں میں نے پوچھا کہ جبرائیل ! یہ کون لوگ ہیں ؟ فرمایا : یہ وہ ہیں جو لوگوں کے گوشت کھاتے تھے اور ان کی عزتیں لوٹتے تھے } ۔ (سنن ابوداود:4878،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اور روایت میں ہے کہ { لوگوں کے سوال کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” معراج والی رات میں نے بہت سے لوگوں کو دیکھا جن میں مرد و عورت دونوں تھے کہ فرشتے ان کے پہلوؤں سے گوشت کاٹتے ہیں اور پھر انہیں اس کے کھانے پر مجبور کر رہے ہیں اور وہ اسے چبا رہے ہیں ، میرے سوال پر کہا گیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو طعنہ زن ، غیبت گو ، چغل خور تھے ، انہیں جبراً آج خود ان کا گوشت کھلایا جا رہا ہے } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:308/22:ضعیف) یہ حدیث بہت مطول ہے اور ہم نے پوری حدیث سورۃ سبحٰن کی تفسیر میں بیان بھی کر دی ہے ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» مسند ابوداؤد طیالسی میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو روزے کا حکم دیا اور فرمایا : ” جب تک میں نہ کہوں کوئی افطار نہ کرے “ ، شام کو لوگ آنے لگے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرنے لگے آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اجازت دیتے اور وہ افطار کرتے ، اتنے میں ایک صاحب آئے اور عرض کیا ، اے اللہ کے رسول ! دو عورتوں نے روزہ رکھا تھا جو آپ ہی کے متعلقین میں سے ہیں انہیں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اجازت دیجئیے کہ روزہ کھول لیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منہ پھیر لیا اس نے دوبارہ عرض کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” وہ روزے سے نہیں ہیں ، کیا وہ بھی روزے دار ہو سکتا ہے ؟ جو انسانی گوشت کھائے ، جاؤ انہیں کہو کہ اگر وہ روزے سے ہیں تو قے کریں ۔ “ چنانچہ انہوں نے قے کی جس میں خون جمے کے لوتھڑے نکلے اس نے آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اگر یہ اسی حالت میں مر جاتیں تو آگ کا لقمہ بنتیں “ } ۔ ۱؎ (مسند طیالسی:2107:ضعیف) اس کی سند ضعیف ہے اور متن بھی غریب ہے ۔ دوسری روایت میں ہے کہ { اس شخص نے کہا تھا : اے اللہ کے رسول ! ان دونوں عورتوں کی روزے میں بری حالت ہے ، مارے پیاس کے مر رہی ہیں اور یہ دوپہر کا وقت تھا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خاموشی پر اس نے دوبارہ کہا کہ یا رسول اللہ ! وہ تو مر گئی ہوں گی یا تھوڑی دیر میں مر جائیں گی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جاؤ انہیں بلا لاؤ “ ، جب وہ آئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ کا مٹکا ایک کے سامنے رکھ کر فرمایا : ” اس میں قے کر “ ، اس نے قے کی تو اس میں پیپ خون جامد وغیرہ نکلی جس سے آدھا مٹکا بھر گیا پھر دوسری سے قے کرائی اس میں بھی یہی چیزیں اور گوشت کے لوتھڑے وغیرہ نکلے اور مٹکا بھر گیا ، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” انہیں دیکھو حلال روزہ رکھے ہوئے تھیں اور حرام کھا رہی تھیں دونوں بیٹھ کر لوگوں کے گوشت کھانے لگی تھیں “ [ یعنی غیبت کر رہی تھیں ] } ۔ ۱؎ (مسند احمد:431/5:ضعیف) مسند حافظ ابو یعلیٰ میں ہے کہ { سیدنا ماعز رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا : ” یا رسول اللہ ! میں نے زنا کیا ہے “ ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منہ پھیر لیا یہاں تک کہ وہ چار مرتبہ کہہ چکے ، پھر پانچویں دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا : ” تو نے زنا کیا ہے ؟ “ ، جواب دیا ہاں ، فرمایا : ” جانتا ہے زنا کسے کہتے ہیں ؟ “ ، جواب دیا ، ہاں ! جس طرح انسان اپنی حلال عورت کے پاس جاتا ہے اسی طرح میں نے حرام عورت سے کیا “ ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اب تیرا مقصد کیا ہے ؟ “ کہا : یہ کہ آپ مجھے اس گناہ سے پاک کریں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” کیا تو نے اسی طرح دخول کیا تھا جس طرح سلائی سرمہ دانی میں اور لکڑی کنویں میں ؟ “ ، کہا : ہاں ، یا رسول اللہ ! ، اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں رجم کرنے یعنی پتھراؤ کرنے کا حکم دیا چنانچہ یہ رجم کر دئے گئے } ۔ (سنن ابوداود:4419،قال الشیخ الألبانی:صحیح دون قولہ لعلہ أن) { اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو شخصوں کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اسے دیکھو اللہ نے اس کی پردہ پوشی کی تھی لیکن اس نے اپنے تئیں نہ چھوڑا یہاں تک کہ کتے کی طرح پتھراؤ کیا گیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سنتے ہوئے چلتے رہے تھوڑی دیر بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ راستے میں ایک مردہ گدھا پڑا ہوا ہے فرمایا : ” فلاں فلاں شخص کہاں ہیں ؟ وہ سواری سے اتریں اور اس گدھے کا گوشت کھائیں “ ، انہوں نے کہا : یا رسول اللہ ! اللہ تعالیٰ آپ کو بخشے کیا یہ کھانے کے قابل ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ابھی جو تم نے اپنے بھائی کی بدی بیان کی تھی وہ اس سے بھی زیادہ بری چیز تھی ۔ اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے وہ شخص جسے تم نے برا کہا تھا وہ تو اب اس وقت جنت کی نہروں میں غوطے لگا رہا ہے “ } ، اس کی اسناد صحیح ہے ۔ ۱؎ (نسائی فی السنن الکبری:7164:ضعیف) مسند احمد میں ہے { ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ نہایت سڑی ہوئی مرداری بو والی ہوا چلی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جانتے ہو ، یہ بو کس چیز کی ہے ؟ یہ بدبو ان کی ہے جو لوگوں کی غیبت کرتے ہیں “ } ۔ اور روایت میں ہے کہ { منافقوں کے ایک گروہ نے مسلمانوں کی غیبت کی ہے یہ بدبودار ہوا وہ ہے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:351/3:قال الشیخ الألبانی:صحیح) سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ { سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ایک سفر میں دو شخصوں کے ساتھ تھے جن کی یہ خدمت کرتے تھے اور وہ انہیں کھانا کھلاتے تھے ایک مرتبہ سلمان رضی اللہ عنہ سو گئے تھے اور قافلہ آگے چل پڑا ۔ پڑاؤ ڈالنے کے بعد ان دونوں نے دیکھا کہ سلمان رضی اللہ عنہ نہیں تو اپنے ہاتھوں سے انہیں خیمہ کھڑا کرنا پڑا اور غصہ سے کہا : سلمان تو بس اتنے ہی کام کا ہے کہ پکی پکائی کھا لے اور تیار خیمے میں آ کر آرام کر لے ۔ تھوڑی دیر بعد سلمان رضی اللہ عنہ پہنچے ان دونوں کے پاس سالن نہ تھا تو کہا : تم جاؤ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمارے لیے سالن لے آؤ ۔ یہ گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا : یا رسول اللہ ! مجھے میرے دونوں ساتھیوں نے بھیجا ہے کہ اگر آپ کے پاس سالن ہو تو دے دیجئیے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” وہ سالن کا کیا کریں گے ؟ انہوں نے تو سالن پا لیا “ ، سلمان واپس گئے اور جا کر ان سے یہ بات کہی وہ اٹھے اور خود حاضر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہوئے اور کہا : اے اللہ کے رسول ! ہمارے پاس تو سالن نہیں ، نہ آپ نے بھیجا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تم نے مسلمان کے گوشت کا سالن کھا لیا جبکہ تم نے انہیں یوں کہا “ ، اس پر یہ آیت نازل ہوئی «أَخِیہِ مَیْتًا فَکَرِہْتُمُوہُ» ۱؎ (49-الحجرات:12) اس لیے کہ وہ سوئے ہوئے تھے اور یہ ان کی غیبت کر رہے تھے } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:102/6:ضعیف) مختار ابوضیاء میں تقریبًا ایسا ہی واقعہ سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہم کا ہے اس میں یہ بھی ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” میں تمہارے اس خادم کا گوشت تمہارے دانتوں میں اٹکا ہوا دیکھ رہا ہوں “ ، اور ان کا اپنے غلام سے جبکہ وہ سویا ہوا تھا اور ان کا کھانا تیار نہیں کیا تھا صرف اتنا ہی کہنا مروی ہے کہ ” یہ تو بڑا سونے والا ہے “ ، ان دونوں بزرگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا آپ ہمارے لیے استغفار کریں } ۔ ۱؎ (المختارۃ للمقدسی:71/5:حسن) ابو یعلیٰ میں ہے { جس نے دنیا میں اپنے بھائی کا گوشت کھایا [ یعنی اس کی غیبت کی ] قیامت کے دن اس کے سامنے وہ گوشت لایا جائے گا اور کہا جائے گا کہ جیسے اس کی زندگی میں تو نے اس کا گوشت کھایا تھا اب اس مردے کا گوشت بھی کھا ۔ اب یہ چیخے گا چلائے گا ہائے وائے کرے گا اور اسے جبراً وہ مردہ گوشت کھانا پڑے گا ۔ } یہ روایت بہت غریب ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ اللہ کا لحاظ کرو ، اس کے احکام بجا لاؤ ، اس کی منع کردہ چیزوں سے رک جاؤ اور اس سے ڈرتے رہا کرو ۔ جو اس کی طرف جھکے وہ اس کی طرف مائل ہو جاتا ہے توبہ کرنے والے کی توبہ قبول فرماتا ہے اور جو اس پر بھروسہ کرے اس کی طرف رجوع کرے وہ اس پر رحم اور مہربانی فرماتا ہے ۔ جمہور علماء کرام فرماتے ہیں غیبت گو کی توبہ کا طریقہ یہ ہے کہ وہ اس خصلت کو چھوڑ دے اور پھر سے اس گناہ کو نہ کرے پہلے جو کر چکا ہے اس پر نادم ہونا بھی شرط ہے یا نہیں ؟ اس میں اختلاف ہے اور جس کی غیبت کی ہے اس سے معافی حاصل کر لے ۔ بعض کہتے ہیں یہ بھی شرط نہیں اس لیے کہ ممکن ہے اسے خبر ہی نہ ہو اور معافی مانگنے کو جب جائے گا تو اسے اور رنج ہو گا ۔ پس اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ جن مجلسوں میں اس کی برائی بیان کی تھی ان میں اب اس کی سچی صفائی بیان کرے اور اس برائی کو اپنی طاقت کے مطابق دفع کر دے تو اولاً بدلہ ہو جائے گا ۔ مسند احمد میں ہے { جو شخص اس وقت کسی مومن کی حمایت کرے جبکہ کوئی منافق اس کی مذمت بیان کر رہا ہو اللہ تعالیٰ ایک فرشتے کو مقرر کر دیتا ہے جو قیامت والے دن اس کے گوشت کو نار جہنم سے بچائے گا اور جو شخص کسی مومن پر کوئی ایسی بات کہے گا جس سے اس کا ارادہ اسے مطعون کرنے کا ہو اسے اللہ تعالیٰ پل صراط پر روک لے گا یہاں تک کہ بدلا ہو جائے } ۔ یہ حدیث ابوداؤد میں بھی ہے ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4883،قال الشیخ الألبانی:حسن) ابوداؤد کی ایک اور حدیث میں ہے { جو شخص کسی مسلمان کی بےعزتی ایسی جگہ میں کرے جہاں اس کی آبرو ریزی اور توہین ہوتی ہو تو اسے بھی اللہ تعالیٰ ایسی جگہ رسوا کرے گا جہاں وہ اپنی مدد کا طالب ہو اور جو مسلمان ایسی جگہ اپنے بھائی کی حمایت کرے اللہ تعالیٰ بھی ایسی جگہ اس کی نصرت کرے گا } ۔ (سنن ابوداود:4884،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) الحجرات
13 نسل انسانی کا نکتہ آغاز اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ ’ اس نے تمام انسانوں کو ایک ہی نفس سے پیدا کیا ہے ‘ ۔ یعنی آدم علیہ السلام ہی سے ان کی بیوی صاحبہ حواء علیہا السلام کو پیدا کیا تھا اور پھر ان دونوں سے نسل انسانی پھیلی ۔ «شعوب» قبائل سے عام ہے مثال کے طور پر عرب تو «شعوب» میں داخل ہے پھر قریش غیر قریش پھر ان کی تقسیم میں یہ سب قبائل داخل ہے ۔ بعض کہتے ہیں «شعوب» سے مراد عجمی لوگ اور قبائل سے مراد عرب جماعتیں ۔ جیسے کہ بنی اسرائیل کو «اسباط» کہا گیا ہے میں نے ان تمام باتوں کو ایک علیحدہ مقدمہ میں لکھ دیا ہے جسے میں نے ابوعمر بن عبدالبر کی کتاب «الاشباہ» اور کتاب «القصد والامم فی معرفۃ انساب العرب والعجم» سے جمع کیا ہے ۔ مقصد اس آیت مبارکہ کا یہ ہے کہ آدم علیہ السلام جو مٹی سے پیدا ہوئے تھے ان کی طرف سے نسبت میں تو کل جہان کے آدمی ہم مرتبہ ہیں اب جو کچھ فضیلت جس کسی کو حاصل ہو گی وہ امر دینی ، اطاعت اللہ اور اتباع نبوی کی وجہ سے ہو گی ۔ یہی راز ہے جو اس آیت کو غیبت کی ممانعت اور ایک دوسرے کی توہین و تذلیل سے روکنے کے بعد وارد کی کہ سب لوگ اپنی پیدائشی نسبت کے لحاظ سے بالکل یکساں ہیں ، کنبے قبیلے برادریاں اور جماعتیں صرف پہچان کے لیے ہیں تاکہ جتھا بندی اور ہمدردی قائم رہے ۔ فلاں بن فلاں قبیلے والا کہا جا سکے اور اس طرح ایک دوسرے کی پہچان آسان ہو جائے ورنہ بشریت کے اعتبار سے سب قومیں یکساں ہیں ۔ سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں قبیلہ حمیر اپنے حلیفوں کی طرف منسوب ہوتا تھا اور حجازی عرب اپنے قبیلوں کی طرف اپنی نسبت کرتے تھے ۔ ترمذی میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” نسب کا علم حاصل کرو تاکہ صلہ رحمی کر سکو صلہ رحمی سے لوگ تم سے محبت کرنے لگیں گے تمہارے مال اور تمہاری زندگی میں اللہ برکت دے گا “ } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:1979،قال الشیخ الألبانی:صحیح) یہ حدیث اس سند سے غریب ہے ۔ پھر فرمایا ’ حسب نسب اللہ کے ہاں نہیں چلتا وہاں تو فضیلت ، تقویٰ اور پرہیزگاری سے ملتی ہے ‘ ۔ صحیح بخاری میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ سب سے زیادہ بزرگ کون ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو “ ۔ لوگوں نے کہا : ہم یہ عام بات نہیں پوچھتے ۔ فرمایا : ” پھر سب سے زیادہ بزرگ یوسف علیہ السلام ہیں جو خود نبی تھے نبی ذادے تھے دادا بھی نبی تھے پردادا تو خلیل اللہ علیہ السلام تھے “ ، انہوں نے کہا : ہم یہ بھی نہیں پوچھتے ۔ فرمایا : ” پھر عرب کے بارے میں پوچھتے ہو ؟ سنو ! ان کے جو لوگ جاہلیت کے زمانے میں ممتاز تھے وہی اب اسلام میں بھی پسندیدہ ہیں جب کہ وہ علم دین کی سمجھ حاصل کر لیں “ } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2378) صحیح مسلم میں ہے { اللہ تمہاری صورتوں اور مالوں کو نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے دلوں اور عملوں کو دیکھتا ہے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2564) مسند احمد میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے فرمایا : ” خیال رکھ کہ تو کسی سرخ و سیاہ پر کوئی فضیلت نہیں رکھتا ہاں تقویٰ میں بڑھ جا تو فضیلت ہے “ } ۔ ۱؎ (مسند احمد:158/5:ضعیف) طبرانی میں ہے { مسلمان سب آپس میں بھائی ہیں کسی کو کسی پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقویٰ کے ساتھ } ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:3547:ضعیف) مسند بزار میں ہے { تم سب اولاد آدم ہو اور خود آدم علیہ السلام مٹی سے پیدا کئے گئے ہیں ، لوگو ! اپنے باپ دادوں کے نام پر فخر کرنے سے باز آؤ ورنہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ریت کے تودوں اور آبی پرندوں سے بھی زیادہ ہلکے ہو جاؤ گے } ۔ ۱؎ (مسند بزار:2043:ضعیف) ابن ابی حاتم میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ والے دن اپنی اونٹنی قصوا پر سوار ہو کر طواف کیا اور ارکان کو آپ اپنی چھڑی سے چھو لیتے تھے ۔ پھر چونکہ مسجد میں اس کے بٹھانے کو جگہ نہ ملی تو لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہاتھوں ہاتھ اتارا اور اونٹنی کو بطن مسیل میں لے جا کر بٹھایا ۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر لوگوں کو خطبہ سنایا جس میں اللہ تعالیٰ کی پوری حمد و ثنا بیان کر کے فرمایا : ” لوگو اللہ تعالیٰ نے تم سے جاہلیت کے اسباب اور جاہلیت کے باپ دادوں پر فخر کرنے کی رسم اب دور کر دی ہے پس انسان دو ہی قسم کے ہیں یا تو نیک پرہیزگار جو اللہ کے نزدیک بلند مرتبہ ہیں یا بدکار غیر متقی جو اللہ کی نگاہوں میں ذلیل و خوار ہیں “ ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی ۔ پھر فرمایا : ” میں اپنی یہ بات کہتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے اپنے لیے اور تمہارے لیے استغفار کرتا ہوں “ } ۔ ۱؎ (مسند عبد بن حمید:793:ضعیف) مسند احمد میں ہے کہ { تمہارے نسب نامے دراصل کوئی کام دینے والے نہیں تم سب بالکل برابر کے آدم کے لڑکے ہو کسی کو کسی پر فضیلت نہیں ہاں فضیلت دین و تقویٰ سے ہے ، انسان کو یہی برائی کافی ہے کہ وہ بدگو ، بخیل ، اور فحش کلام ہو } ۔ ۱؎ (مسند احمد:145/4:ضعیف) ابن جریر کی اس روایت میں ہے کہ { اللہ تعالیٰ تمہارے حسب نسب کو قیامت کے دن نہ پوچھے گا ، تم سب میں سے زیادہ بزرگ اللہ کے نزدیک وہ ہیں جو تم سب سے زیادہ پرہیزگار ہوں } ۔ مسند احمد میں ہے کہ { نبی علیہ السلام منبر پر تھے کہ ایک شخص نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ ! سب سے بہتر کون ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جو سب سے زیادہ مہمان نواز ، سب سے زیادہ پرہیزگار ، سب سے زیادہ اچھی بات کا حکم دینے والا ، سب سے زیادہ بری بات سے روکنے والا ، سب سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والا ہے “ } ۔ ۱؎ (مسند احمد:432/6:ضعیف) مسند احمد میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا کی کوئی چیز یا کوئی شخص کبھی بھلا نہیں لگتا تھا مگر تقوے والے انسان کے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:69/6:ضعیف) اللہ تمہیں جانتا ہے اور تمہارے کاموں سے بھی خبردار ہے ، ہدایت کے لائق جو ہیں انہیں راہ راست دکھاتا ہے اور جو اس لائق نہیں وہ بے راہ ہو رہے ہیں ۔ رحم اور عذاب اس کی مشیت پر موقوف ہیں ، فضیلت اس کے ہاتھ ہے جسے چاہے جس پر چاہے بزرگی عطا فرمائے یہ تمام امور اس کے علم اور اس کی خبر پر مبنی ہیں ۔ اس آیت کریمہ اور ان احادیث شریفہ سے استدلال کر کے علماء نے فرمایا ہے کہ نکاح میں قومیت اور حسب نسب کی شرط نہیں ، سوائے دین کے اور کوئی شرط معتبر نہیں ۔ دوسروں نے کہا ہے کہ ہم نسبی اور قومیت بھی شرط ہے اور ان کے دلائل ان کے سوا اور ہیں جو کتب فقہ میں مذکور ہیں اور ہم بھی انہیں «کتاب الاحکام» میں ذکر کر چکے ہیں ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» طبرانی میں عبدالرحمٰن سے مروی ہے کہ { انہوں نے بنو ہاشم میں سے ایک شخص کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہ نسبت اور تمام لوگوں کے بہت زیادہ قریب ہوں ۔ پس دوسرے نے کہا کہ تیری بہ نسبت میں آپ سے بہت زیادہ قریب ہوں اور مجھے آپ سے نسبت بھی ہے } ۔ الحجرات
14 ایمان کا دعویٰ کرنے والے اپنا جائزہ تو لیں کچھ اعرابی لوگ اسلام میں داخل ہوتے ہی اپنے ایمان کا بڑھا چڑھا کر دعویٰ کرنے لگتے تھے حالانکہ دراصل ان کے دل میں اب تک ایمان کی جڑیں مضبوط نہیں ہوئی تھیں ان کو اللہ تعالیٰ اس دعوے سے روکتا ہے یہ کہتے تھے ہم ایمان لائے ۔ اللہ اپنے نبی کو حکم دیتا ہے کہ ان کو کہئیے اب تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا تم یوں نہ کہو کہ ہم ایمان لائے بلکہ یوں کہو کہ ہم مسلمان ہوئے یعنی اسلام کے حلقہ بگوش ہوئے نبی کی اطاعت میں آئے ہیں ۔ اس آیت نے یہ فائدہ دیا کہ ایمان اسلام سے مخصوص چیز ہے جیسے کہ اہل سنت و الجماعت کا مذہب ہے ، جبرائیل علیہ السلام والی حدیث بھی اسی پر دلالت کرتی ہے جبکہ انہوں نے اسلام کے بارے میں سوال کیا پھر ایمان کے بارے میں پھر احسان کے بارے میں ۔ پس وہ زینہ بہ زینہ چڑھتے گئے عام سے خاص کی طرف آئے اور پھر خاص سے اخص کی طرف آئے ۔ مسند احمد میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چند لوگوں کو عطیہ اور انعام دیا اور ایک شخص کو کچھ بھی نہ دیا اس پر سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا : یا رسول اللہ ! آپ نے فلاں فلاں کو دیا اور فلاں کو بالکل چھوڑ دیا حالانکہ وہ مومن ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” مسلمان ؟ “ تین مرتبہ یکے بعد دیگرے ، سعد رضی اللہ عنہ نے یہی کہا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہی جواب دیا پھر فرمایا : ” اے سعد ! میں لوگوں کو دیتا ہوں اور جو ان میں مجھے بہت زیادہ محبوب ہوتا ہے اسے نہیں دیتا ہوں ، دیتا ہوں اس ڈر سے کہ کہیں وہ اوندھے منہ آگ میں نہ گر پڑیں “ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:27) یہ حدیث بخاری و مسلم میں بھی ہے ۔ پس اس حدیث میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مومن و مسلم میں فرق کیا اور معلوم ہو گیا کہ ایمان زیادہ خاص ہے بہ نسبت اسلام کے ۔ ہم نے اسے مع دلائل صحیح بخاری کی «کتاب الایمان» کی شرح میں ذکر کر دیا ہے ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» اور اس حدیث میں اس بات پر بھی دلالت ہے کہ یہ شخص مسلمان تھے منافق نہ تھے اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کوئی عطیہ عطا نہیں فرمایا اور اسے اس کے اسلام کے سپرد کر دیا ۔ پس معلوم ہوا کہ یہ اعراب جن کا ذکر اس آیت میں ہے منافق نہ تھے ، تھے تو مسلمان لیکن اب تک ان کے دلوں میں ایمان صحیح طور پر مستحکم نہ ہوا تھا اور انہوں نے اس بلند مقام تک اپنی رسائی ہو جانے کا ابھی سے دعویٰ کر دیا تھا اس لیے انہیں ادب سکھایا گیا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور ابراہیم نخعی اور قتادہ رحمہ اللہ علیہم کے قول کا یہی مطلب ہے اور اسی کو امام ابن جریر رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے ہمیں یہ سب یوں کہنا پڑا کہ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ لوگ منافق تھے جو ایمان ظاہر کرتے تھے لیکن دراصل مومن نہ تھے [ یہ یاد رہے ایمان و اسلام میں فرق اس وقت ہے جبکہ اسلام اپنی حقیقت پر نہ ہو جب اسلام حقیقی ہو تو وہی اسلام ایمان ہے اور اس وقت ایمان اسلام میں کوئی فرق نہیں ] اس کے بہت سے قوی دلائل امام الائمہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں «کتاب الایمان» میں بیان فرمائے ہیں اور ان لوگوں کا منافق ہونا اس کا ثبوت بھی موجود ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» [ مترجم ] سعید بن جبیر ، مجاہد ، ابن زید رحمہ اللہ علیہم فرماتے ہیں یہ جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ بلکہ تم «اَسْلَمْنَا» کہو اس سے مراد یہ ہے کہ ہم قتل اور قید بند ہونے سے بچنے کے لیے تابع ہو گئے ہیں ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت بنو اسد بن خزیمہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ان لوگوں کے بارے میں اتری ہے جو ایمان لانے کا دعویٰ کرتے تھے حالانکہ اب تک وہاں پہنچے نہ تھے پس انہیں ادب سکھایا گیا اور بتایا گیا کہ یہ اب تک ایمان تک نہیں پہنچے اگر یہ منافق ہوتے تو انہیں ڈانٹ ڈپٹ کی جاتی اور ان کی رسوائی کی جاتی جیسے کہ سورۃ برات میں منافقوں کا ذکر کیا گیا لیکن یہاں تو انہیں صرف ادب سکھایا گیا ۔ پھر فرماتا ہے ’ اگر تم اللہ اور اس کے رسول کے فرماں بردار رہو گے تو تمہارے کسی عمل کا اجر مارا نہ جائے گا ‘ ۔ جیسے فرمایا «وَمَا أَلَتْنَاہُم مِّنْ عَمَلِہِم مِّن شَیْءٍ کُلٰ امْرِ‌ئٍ بِمَا کَسَبَ رَ‌ہِینٌ» ۱؎ (52-الطور:21) یعنی ’ ہم نے ان کے اعمال میں سے کچھ بھی نہیں گھٹایا ‘ ۔ پھر فرمایا ’ جو اللہ کی طرف رجوع کرے برائی سے لوٹ آئے اللہ اس کے گناہ معاف فرمانے والا اور اس کی طرف رحم بھری نگاہوں سے دیکھنے والا ہے ‘ ۔ پھر فرماتا ہے کہ کامل ایمان والے صرف وہ لوگ ہیں جو اللہ پر اور اس کے رسول پر دل سے یقین رکھتے ہیں پھر نہ شک کرتے ہیں ، نہ کبھی ان کے دل میں کوئی نکما خیال پیدا ہوتا ہے بلکہ اسی خیال تصدیق پر اور کامل یقین پر جم جاتے ہیں اور جمے ہی رہتے ہیں اور اپنے نفس اور دل کی پسندیدہ دولت کو بلکہ اپنی جانوں کو بھی راہ اللہ کے جہاد میں خرچ کرتے ہیں ۔ یہ سچے لوگ ہیں یعنی یہ ہیں جو کہہ سکتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں یہ ان لوگوں کی طرح نہیں جو صرف زبان سے ہی ایمان کا دعویٰ کر کے رہ جاتے ہیں ۔ مسند احمد میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” دنیا میں مومن کی تین قسمیں ہیں [۱] وہ جو اللہ پر اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے شک شبہ نہ کیا اور اپنی جان اور اپنے مال سے راہ اللہ میں جہاد کیا ، [۲] وہ جن سے لوگوں نے امن پا لیا ، نہ یہ کسی کا مال ماریں ، نہ کسی کی جان لیں ، [۳] وہ جو طمع کی طرف جب جھانکتے ہیں اللہ عزوجل کی یاد کرتے ہیں } ۔ ۱؎ (مسند احمد:8/3:ضعیف) الحجرات
15 الحجرات
16 1 پھر فرماتا ہے کہ کیا تم اپنے دل کا یقین و دین اللہ کو دکھاتے ہو ؟ وہ تو ایسا ہے کہ زمین و آسمان کا کوئی ذرہ اس سے مخفی نہیں ، وہ ہر چیز کا جاننے والا ہے ۔ پھر فرمایا جو اعراب اپنے اسلام لانے کا بار احسان تجھ پر رکھتے ہیں ان سے کہہ دو کہ مجھ پر اسلام لانے کا احسان نہ جتاؤ تم اگر اسلام قبول کرو گے میری فرماں برداری کرو گے میری مدد کرو گے تو اس کا نفع تمہیں کو ملے گا ۔ بلکہ دراصل ایمان کی دولت تمہیں دینا یہ اللہ ہی کا احسان ہے اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو ۔ [ اب غور فرمائیے کہ کیا اسلام لانے کا احسان پیغمبر اللہ پر جتانے والے سچے مسلمان تھے ؟ ] پس آیات کی ترتیب سے ظاہر ہے کہ ان کا اسلام حقیقت پر مبنی نہ تھا اور یہی الفاظ بھی ہیں کہ ایمان اب تک ان کے ذہن نشین نہیں ہوا اور جب تک اسلام حقیقت پر مبنی نہ ہو تب تک بیشک وہ ایمان نہیں لیکن جب وہ اپنی حقیقت پر صحیح معنی میں ہو تو پھر ایمان اسلام ایک ہی چیز ہے ۔ خود اس آیت کے الفاظ میں غور فرمائیے ارشاد ہے ’ اپنے اسلام کا احسان تجھ پر رکھتے ہیں حالانکہ دراصل ایمان کی ہدایت اللہ کا خود ان پر احسان ہے ‘ ۔ پس وہاں احسان اسلام رکھنے کو بیان کر کے اپنا احسان ہدایت ایمان جتانا بھی ایمان و اسلام کے ایک ہونے پر باریک اشارہ ہے ۔ [ مزید دلائل صحیح بخاری شریف وغیرہ ملاحظہ ہوں ۔ مترجم ] پس اللہ تعالیٰ کا کسی کو ایمان کی راہ دکھانا اس پر احسان کرنا ہے جیسے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین والے دن انصار سے فرمایا تھا : ” میں نے تمہیں گمراہی کی حالت میں نہیں پایا تھا ؟ پھر اللہ تعالیٰ نے تم میں اتفاق دیا تم مفلس تھے میری وجہ سے اللہ نے تمہیں مالدار کیا “ ۔ جب کبھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کچھ فرماتے وہ کہتے : ” بیشک اللہ اور اس کے رسول اس سے بھی زیادہ احسانوں والے ہیں “ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4330) مسند بزار میں ہے کہ { بنو اسد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے ، یا رسول اللہ ! ہم مسلمان ہوئے عرب آپ سے لڑتے رہے لیکن ہم آپ سے نہیں لڑے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ان میں سمجھ بہت کم ہے ، شیطان ان کی زبانوں پر بول رہا ہے “ اور یہ آیت «یَمُنٰوْنَ عَلَیْکَ اَنْ اَسْلَمُوْا ۭ قُلْ لَّا تَمُنٰوْا عَلَیَّ اِسْلَامَکُمْ بَلِ اللّٰہُ یَمُنٰ عَلَیْکُمْ اَنْ ہَدٰیکُمْ لِلْاِیْمَانِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ» ۱؎ (49-الحجرات:17) ، نازل ہوئی } ۔ پھر دوبارہ اللہ رب العزت نے اپنے وسیع علم اور اپنی سچی باخبری اور مخلوق کے اعمال سے آگاہی کو بیان فرمایا کہ ’ آسمان و زمین کے غیب اس پر ظاہر ہیں اور وہ تمہارے اعمال سے آگاہ ہے ‘ ۔ «اَلْحَمْدُ لِلہِ» سورۃ الحجرات کی تفسیر ختم ہوئی اللہ کا شکر ہے ۔ توفیق اور ہمت اسی کے ہاتھ ہے ۔ الحجرات
17 الحجرات
18 الحجرات
0 ق
1 تفسیر سورۂ ق «ق» حروف ہجا سے ہے جو سورتوں کے اول میں آتے ہیں جیسے «ص ، ن ، الم ، حم ، طس» ، وغیرہ ہم نے ان کی پوری تشریح سورۃ البقرہ کی تفسیر میں شروع میں کر دی ہے ۔ بعض سلف کا قول ہے کہ قاف ایک پہاڑ ہے زمین کو گھیرے ہوئے ہے ، میں تو جانتا ہوں کہ دراصل یہ بنی اسرائیل کی خرافات میں سے ہے جنہیں بعض لوگوں نے لے لیا ۔ یہ سمجھ کر کہ یہ روایت لینا مباح ہے گو تصدیق تکذیب نہیں کر سکتے ۔ اہل کتاب کی موضوع روایتیں لیکن میرا خیال ہے کہ یہ اور اس جیسی اور روایتیں تو بنی اسرائیل کے بددینوں نے گھڑ لی ہوں گی تاکہ لوگوں پر دین کو خلط ملط کر دیں ، آپ خیال کیجئے کہ اس امت میں باوجود یہ کہ علماء کرام اور حافظان عظام کی بہت بڑی دیندار مخلص جماعت ہر زمانے میں موجود ہے تاہم بددینوں نے بہت تھوڑی مدت میں موضوع احادیث تک گھڑ لیں ۔ پس بنی اسرائیل جن پر مدتیں گزر چکیں ، جو حفظ سے عاری تھے ، جن میں نقادان فن موجود نہ تھے ، جو کلام اللہ کو اصلیت سے ہٹا دیا کرتے تھے ، جو شرابوں میں مخمور رہا کرتے تھے ، جو آیات اللہ کو بدل ڈالا کرتے تھے ، ان کا کیا ٹھیک ہے ؟ پس حدیث نے جن روایات کو ان سے لینا مباح رکھا ہے یہ وہ ہیں جو کم از کم عقل و فہم میں تو آ سکیں ، نہ وہ جو صریح خلاف عقل ہوں ، سنتے ہی ان کے باطل اور غلط ہونے کا فیصلہ عقل کر دیتی ہو اور اس کا جھوٹ ہونا اتنا واضح ہو کہ اس پر دلیل لانے کی ضرورت نہ پڑے ۔ پس مندرجہ بالا روایات بھی ایسی ہی ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ افسوس کہ بہت سلف و خلف نے اہل کتاب سے اس قسم کی حکایتیں قرآن مجید کی تفسیر میں وارد کر دی ہیں دراصل قرآن کریم ایسی بےسروپا باتوں کا کچھ محتاج نہیں ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» یہاں تک کہ امام ابو محمد عبدالرحمٰن بن ابوحاتم رازی رحمہ اللہ نے بھی یہاں ایک عجیب و غریب اثر بروایت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما وارد کر دیا ہے جو ازروے سند ثابت نہیں ۔ اس میں ہے کہ { اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایک سمندر پیدا کیا ہے جو اس ساری زمین کو گھیرے ہوئے ہے اور اس سمندر کے پچھے ایک پہاڑ ہے جو اس کو روکے ہوئے ہے اس کا نام قاف ہے ، آسمان اور دنیا اسی پر اٹھا ہوا ہے ، پھر اللہ تعالیٰ نے اس پہاڑ کے پیچھے ایک زمین بنائی ہے جو اس زمین سے سات گنا بڑی ہے ، پھر اس کے پیچھے ایک سمندر ہے جو اسے گھیرے ہوئے ہے ، پھر اس کے پیچھے پہاڑ ہے جو اسے گھیرے ہوئے ہے اسے بھی قاف کہتے ہیں دوسرا آسمان اسی پر بلند کیا ہوا ہے اسی طرح سات زمینیں ، سات سمندر ، سات پہاڑ اور سات آسمان گنوائے ۔ پھر یہ آیت پڑھی «وَّالْبَحْرُ یَمُدٰہٗ مِنْ بَعْدِہٖ سَبْعَۃُ اَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ کَلِمٰتُ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ» ۱؎ (31-لقمان:27) } اس اثر کی اسناد میں انقطاع ہے ۔ ۱؎ (ضعیف و منقطع) علی بن ابوطلحہ جو روایت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کرتے ہیں اس میں ہے کہ «ق» اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں «ق» بھی مثل «ص ، ن ، طس ، الم» وغیرہ کے حروف ہجا میں سے ہے ۔ پس ان روایات سے بھی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ فرمان ہونا اور بعید ہو جاتا ہے یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد اس سے یہ ہے کہ کام کا فیصلہ کر دیا گیا ہے قسم اللہ کی اور «ق» کہہ کر باقی جملہ چھوڑ دیا گیا کہ یہ دلیل ہے محذوف پر ۔ جیسے شاعر کہتا ہے ۔ «قلت لھا قفی فقالت ق» لیکن یہ کہنا بھی ٹھیک نہیں ۔ اس لیے کہ محذوف پر دلالت کرنے والا کلام صاف ہونا چاہیئے اور یہاں کون سا کلام ہے ؟ جس سے اتنے بڑے جملے کے محذوف ہونے کا پتہ چلے ۔ پھر اس کرم اور عظمت والے قرآن کی قسم کھائی جس کے آگے سے یا پیچھے سے باطل نہیں آ سکتا ، جو حکمتوں اور تعریفوں والے اللہ کی طرف سے نازل ہوا ہے ۔ اس قسم کا جواب کیا ہے ؟ اس میں بھی کئی قول ہیں ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ نے تو بعض نحویوں سے نقل کیا ہے کہ اس کا جواب «قَدْ عَلِمْنَا مَا تَنقُصُ الْأَرْضُ مِنْہُمْ وَعِندَنَا کِتَابٌ حَفِیظٌ» ۱؎ (50-ق:4) پوری آیت تک ہے ۔ لیکن یہ بھی غور طلب ہے بلکہ جواب قسم کے بعد کا مضمون کلام ہے یعنی نبوت اور دوبارہ جی اٹھنے کا ثبوت اور تحقیق گو قسم لفظوں سے اس کا جواب نہ بتاتی ہو ایسا قرآن کی قسموں کے جواب میں اکثر ہے جیسے کہ سورۃ ص کی تفسیر کے شروع میں گزر چکا ہے ، اسی طرح یہاں بھی ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ انہوں نے اس بات پر تعجب ظاہر کیا ہے کہ انہی میں سے ایک انسان کیسے رسول بن گیا ؟ جیسے اور آیت میں ہے «اَکَان للنَّاسِ عَجَبًا اَنْ اَوْحَیْنَآ اِلٰی رَجُلٍ مِّنْھُمْ اَنْ اَنْذِرِ النَّاسَ وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنَّ لَھُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّہِمْ قَالَ الْکٰفِرُوْنَ اِنَّ ھٰذَا لَسٰحِرٌ مٰبِیْنٌ» ۱؎ (10-یونس:2) یعنی ’ کیا لوگوں کو اس بات پر تعجب ہوا کہ ہم نے انہی میں سے ایک شخص کی طرف وحی بھیجی تاکہ تم لوگوں کو خبردار کر دے ۔ ‘ یعنی دراصل یہ کوئی تعجب کی چیز نہ تھی اللہ جسے چاہے اپنے فرشتوں میں سے اپنی رسالت کے لیے چن لیتا ہے اور جسے چاہے انسانوں میں سے چن لیتا ہے ۔ اسی کے ساتھ یہ بھی بیان ہو رہا ہے کہ انہوں نے مرنے کے بعد جینے کو بھی تعجب کی نگاہوں سے دیکھا اور کہا کہ جب ہم مر جائیں گے اور ہمارے جسم کے اجزا جدا جدا ہو کر ، ریزہ ریزہ ہو کر ، مٹی ہو جائیں گے اس کے بعد تو اسی ہئیت و ترکیب میں ہمارا دوبارہ جینا بالکل محال ہے اس کے جواب میں فرمان صادر ہوا کہ زمین ان کے جسموں کو جو کھا جاتی ہے اس سے بھی ہم غافل نہیں ہمیں معلوم ہے کہ ان کے ذرے کہاں گئے اور کس حالت میں کہاں ہیں ؟ ہمارے پاس کتاب ہے جو اس کی حافظ ہے ہمارا علم ان سب معلومات پر مشتمل ہے اور ساتھ ہی کتاب میں محفوظ ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یعنی ان کے گوشت ، چمڑے ، ہڈیاں اور بال جو کچھ زمین کھا جاتی ہے ، ہمارے علم میں ہے ۔ پھر پروردگار عالم ان کے اس محال سمجھنے کی اصل وجہ بیان فرما رہا ہے کہ دراصل یہ حق کو جھٹلانے والے لوگ ہیں اور جو لوگ اپنے پاس حق کے آ جانے کے بعد اس کا انکار کر دیں ان سے اچھی سمجھ ہی چھن جاتی ہے ، «مریج» کے معنی ہیں مختلف ، مضطرب ، منکر اور خلط ملط کے جیسے فرمان ہے «اِنَّکُمْ لَفِیْ قَوْلٍ مٰخْتَلِفٍ» ۱؎ (51-الذاریات:8) یعنی ’ یقیناً تم ایک جھگڑے کی بات میں پڑے ہوئے ہو ۔ ‘ نافرمانی وہی کرتا ہے جو بھلائی سے محروم کر دیا گیا ہے ۔ ق
2 ق
3 ق
4 ق
5 ق
6 اللہ کے محیر العقول شاہکار یہ لوگ جس چیز کو ناممکن خیال کرتے تھے پروردگار عالم اس سے بھی بہت زیادہ بڑھے چڑھے ہوئے اپنی قدرت کے نمونے پیش کر رہا ہے کہ آسمان کو دیکھو اس کی بناوٹ پر غور کرو اس کے روشن ستاروں کو دیکھو اور دیکھو کہ اتنے بڑے آسمان میں ایک سوراخ ، ایک چھید ، ایک شگاف ، ایک دراڑ نہیں ۔ چنانچہ سورۃ تبارک میں فرمایا «الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا مَا تَرٰی فِیْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍ فَارْجِعِ الْبَصَرَ ہَلْ تَرٰی مِنْ فُطُوْرٍ» ۱؎ (67-الملک:3)، ’ اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان اوپر تلے پیدا کئے ، تو اللہ کی اس صفت میں کوئی خلل نہ دیکھے گا ، تو پھر نگاہ ڈال کر دیکھ لے کہیں تجھ کو کوئی خلل نظر آتا ہے ؟ ‘ پھر باربار غور کر اور دیکھ تیری نگاہ نامراد اور عاجز ہو کر تیری طرف لوٹ آئے گی ۔ پھر فرمایا زمین کو ہم نے پھیلا دیا اور بچھا دیا اور اس میں پہاڑ جما دئیے تاکہ ہل نہ سکے کیونکہ وہ ہر طرف سے پانی سے گھری ہوئی ہے اور اس میں ہر قسم کی کھیتیاں ، پھل ، سبزے اور قسم قسم کی چیزیں اگا دیں جیسے اور جگہ ہے «وَمِن کُلِّ شَیْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُونَ» ۱؎ (51-الذاریات:49) ’ ہر چیز کو ہم نے جوڑ جوڑ پیدا کیا تاکہ تم نصیحت و عبرت حاصل کرو ۔ ‘ «بھیج» کے معنی خوشنما ، خوش منظر ، بارونق ۔ پھر فرمایا آسمان و زمین اور ان کے علاوہ قدرت کے اور نشانات , دانائی اور بینائی کا ذریعہ ہیں ہر اس شخص کے لیے جو اللہ سے ڈرنے والا اور اللہ کی طرف رغبت کرنے والا ہو ۔ پھر فرماتا ہے ہم نے نفع دینے والا پانی آسمان سے برسا کر اس سے باغات بنائے اور وہ کھیتیاں بنائیں جو کاٹی جاتی ہیں اور جن کے اناج کھلیان میں ڈالے جاتے ہیں اور اونچے اونچے کھجور کے درخت اگا دئیے جو بھرپور میوے لادتے اور لدے رہتے ہیں یہ مخلوق کی روزیاں ہیں اور اسی پانی سے ہم نے مردہ زمین کو زندہ کر دیا وہ لہلہانے لگی اور خشکی کے بعد تروتازہ ہو گئی ۔ اور چٹیل سوکھے میدان سرسبز ہو گئے ۔ یہ مثال ہے موت کے بعد دوبارہ جی اٹھنے کی اور ہلاکت کے بعد آباد ہونے کی یہ نشانیاں جنہیں تم روزمرہ دیکھ رہے ہو کیا تمہاری رہبری اس امر کی طرف نہیں کرتیں ؟ کہ اللہ مردوں کے جلانے پر قادر ہے چنانچہ اور آیت میں ہے «لَخَــلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَکْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ» ۱؎ (40-غافر:57) یعنی ’ آسمان و زمین کی پیدائش انسانی پیدائش سے بہت بڑی ہے۔ ‘ اور آیت میں ہے «اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّ اللّٰہَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَلَمْ یَعْیَ بِخَلْقِہِنَّ بِقٰدِرٍ عَلٰٓی اَنْ یٰحْیِۦ الْمَوْتٰی بَلٰٓی اِنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ» ۱؎ (46-الأحقاف:33) یعنی ’ کیا وہ نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کر دیا اور ان کی پیدائش سے نہ تھکا , کیا وہ اس پر قادر نہیں کہ مردوں کو جلا دے ؟ بیشک وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔‘ اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتا ہے «وَمِنْ اٰیٰتِہٖٓ اَنَّکَ تَرَی الْاَرْضَ خَاشِعَۃً فَاِذَآ اَنْزَلْنَا عَلَیْہَا الْمَاءَ اہْتَزَّتْ وَرَبَتْ اِنَّ الَّذِیْٓ اَحْیَاہَا لَمُحْیِ الْمَوْتٰی اِنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ» ۱؎ (41-فصلت:39) ’ یعنی تو دیکھتا ہے کہ زمین بالکل خشک اور بنجر ہوتی ہے ، ہم آسمان سے پانی برساتے ہیں ، جس سے وہ لہلہانے اور پیداوار اگانے لگتی ہے ، کیا یہ میری قدرت کی نشانی نہیں بتاتی ؟ کہ جس ذات نے اسے زندہ کر دیا ، وہ مردوں کے جلانے پر بلا شک و شبہ قادر ہے ، یقینًا وہ تمام تر چیزوں پر قدرت رکھتی ہے ۔ ‘ ق
7 ق
8 ق
9 ق
10 ق
11 ق
12 شامت اعمال اللہ تعالیٰ اہل مکہ کو ان عذابوں سے ڈرا رہا ہے جو ان جیسے جھٹلانے والوں پر ان سے پہلے آچکے ہیں ، جیسے کہ نوح علیہ السلام کی قوم جنہیں اللہ تعالیٰ نے پانی میں غرق کر دیا اور اصحاب «رس» جن کا پورا قصہ سورۃ الفرقان کی تفسیر میں گزر چکا ہے اور ثمود اور عاد اور امت لوط جسے زمین میں دھنسا دیا اور اس زمین کو سڑا ہوا دلدل بنا دیا یہ سب کیا تھا ؟ ان کے کفر ، ان کی سرکشی ، اور مخالفت حق کا نتیجہ تھا اصحاب ایکہ سے مراد قوم شعیب ہے [ علیہ الصلوۃ والسلام ] اور قوم تبع سے مراد یمانی ہیں ۔ سورۃ الدخان میں ان کا واقعہ بھی گزر چکا ہے اور وہیں اس کی پوری تفسیر ہے یہاں دوہرانے کی ضرورت نہیں ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» ان تمام امتوں نے اپنے رسولوں کی تکذیب کی تھی اور عذاب اللہ سے ہلاک کر دئیے گئے یہی اللہ کا اصول جاری ہے ۔ یہ یاد رہے کہ ایک رسول کا جھٹلانے والا تمام رسولوں کا منکر ہے ۔ جیسے اللہ عزوجل و علا کا فرمان ہے «کَذَّبَتْ قَوْمُ نُوْحِ الْمُرْسَلِیْنَ» ۱؎ (26-الشعراء:105) ’ قوم نوح نے رسولوں کا انکار کیا ‘ حالانکہ ان کے پاس صرف نوح علیہ السلام ہی آئے تھے ، پس دراصل یہ تھے ایسے کہ اگر ان کے پاس تمام رسول آ جاتے تو یہ سب کو جھٹلاتے ، ایک کو بھی نہ مانتے ، سب کی تکذیب کرتے ، ایک کی بھی تصدیق نہ کرتے ، ان سب پر اللہ کے عذاب کا وعدہ ان کے کرتوتوں کی وجہ سے ثابت ہو گیا اور صادق آ گیا ۔ پس اہل مکہ اور دیگر مخاطب لوگوں کو بھی اس بدخصلت سے پرہیز کرنا چاہیئے کہیں ایسا نہ ہو کہ عذاب کا کوڑا ان پر بھی برس پڑے ، کیا جب یہ کچھ نہ تھے ان کا بسانا ہم پر بھاری پڑا تھا ؟ جو اب دوبارہ پیدا کرنے کے منکر ہو رہے ہیں ، ابتداء سے تو اعادہ بہت ہی آسان ہوا کرتا ہے ۔ جیسے فرمان ہے «وَہُوَ الَّذِیْ یَبْدَؤُا الْخَــلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہٗ وَہُوَ اَہْوَنُ عَلَیْہِ وَلَہُ الْمَثَلُ الْاَعْلٰی فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ» ۱؎ (30-الروم:27) یعنی ’ ابتداءً اسی نے پیدا کیا ہے اور دوبارہ بھی وہی اعادہ کرے گا اور یہ اس پر بہت آسان ہے ‘ ۔ سورۃ یٰسین میں فرمان الٰہی جل جلالہ گزر چکا کہ «وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّنَسِیَ خَلْقَہٗ قَالَ مَنْ یٰحْیِ الْعِظَامَ وَہِیَ رَمِیْمٌ قُلْ یُحْیِیہَا الَّذِی أَنشَأَہَا أَوَّلَ مَرَّۃٍ وَہُوَ بِکُلِّ خَلْقٍ عَلِیمٌ» ۱؎ (36-یس:79-78) ’ یعنی اپنی پیدائش کو بھول کر ہمارے سامنے مثالیں بیان کرنے لگا اور کہنے لگا ، بوسیدہ سڑی گلی ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا ؟ ان کو تو جواب دے کہ وہ جس نے انہیں پہلی بار پیدا کیا اور تمام خلق کو جانتا ہے ۔ ‘ صحیح حدیث میں ہے { اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مجھے بنی آدم ایذاء دیتا ہے جب یہ کہتا ہے کہ اللہ مجھے دوبارہ پیدا نہیں کر سکتا حالانکہ پہلی دفعہ پیدا کرنا دوبارہ پیدا کرنے سے کچھ آسان نہیں ۔ } ق
13 ق
14 ق
15 ق
16 دائیں اور بائیں دو فرشتے اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ وہی انسان کا خالق ہے اور اس کا علم تمام چیزوں کا احاطہٰ کئے ہوئے ہے یہاں تک کہ انسان کے دل میں جو بھلے برے خیالات پیدا ہوتے ہیں انہیں بھی وہ جانتا ہے ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ { اللہ تعالیٰ نے میری امت کے دل میں جو خیالات آئیں ان سے درگزر فرما لیا ہے جب تک کہ وہ زبان سے نہ نکالیں یا عمل نہ کریں ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:2528) اور ہم اس کی رگ جان سے بھی زیادہ اس کے نزدیک ہیں یعنی ہمارے فرشتے اور بعض نے کہا ہے ہمارا علم ۔ ان کی غرض یہ ہے کہ کہیں حلول اور اتحاد نہ لازم آ جائے جو بالاجماع اس رب کی مقدس ذات سے بعید ہے اور وہ اس سے بالکل پاک ہے لیکن لفظ کا اقتضاء یہ نہیں ہے اس لیے کہ «وانا» نہیں کہا بلکہ «ونحن» کہا ہے یعنی میں نہیں کہا بلکہ ہم کہا ہے ۔ یہی لفظ اس شخص کے بارے میں کہے گئے ہیں جس کی موت قریب آ گئی ہو اور وہ نزع کے عالم میں ہو فرمان ہے «وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَیْہِ مِنکُمْ وَلٰکِن لَّا تُبْصِرُونَ» ۱؎ (56-الواقعۃ:85) یعنی ’ ہم تم سب سے زیادہ اس سے قریب ہیں لیکن تم نہیں دیکھتے ۔ ‘ یہاں بھی مراد فرشتوں کا اس قدر قریب ہونا ہے ۔ جیسے فرمان ہے «اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ» ۱؎ (15-الحجر:9) ’ یعنی ہم نے ذکر کو نازل فرمایا اور ہم ہی اس کے محافظ بھی ہیں ‘ فرشتے ہی ذکر قرآن کریم کو لے کر نازل ہوئے ہیں اور یہاں بھی مراد فرشتوں کی اتنی نزدیکی ہے جس پر اللہ نے انہیں قدرت بخش رکھی ہے ۔ پس انسان پر ایک پہرا فرشتے کا ہوتا ہے اور ایک شیطان کا اسی طرح شیطان بھی جسم انسان میں اسی طرح پھرتا ہے جس طرح خون ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3107) جیسے کہ سچوں کے سچے اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ ق
17 1 اس لیے اس کے بعد ہی فرمایا کہ دو فرشتے جو دائیں بائیں بیٹھے ہیں ، وہ تمہارے اعمال لکھ رہے ہیں ، ابن آدم کے منہ سے جو کلمہ نکلتا ہے ، اسے محفوظ رکھنے والے اور اسے نہ چھوڑنے والے اور فوراً لکھ لینے والے فرشتے مقرر ہیں ۔ جیسے فرمان ہے «وَاِنَّ عَلَیْکُمْ لَحٰفِظِیْنَ کِرَامًا کَاتِبِینَ یَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ» ۱؎ (82-الإنفطار:12-10) ’ تم پر محافظ ہیں بزرگ فرشتے جو تمہارے فعل سے باخبر ہیں اور لکھنے والے ہیں ‘ حسن اور قتادہ رحمہما اللہ تو فرماتے ہیں یہ فرشتے ہر نیک و بد عمل لکھ لیا کرتے ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے دو قول ہیں ایک تو یہی ہے دوسرا قول آپ کا یہ ہے کہ ثواب و عذاب لکھ لیا کرتے ہیں ۔ لیکن آیت کے ظاہری الفاظ پہلے قول کی ہی تائید کرتے ہیں کیونکہ فرمان ہے جو لفظ نکلتا ہے اس کے پاس محافظ تیار ہیں ۔ مسند احمد میں ہے انسان ایک کلمہ اللہ کی رضا مندی کا کہہ گزرتا ہے جسے وہ کوئی بہت بڑا اجر کا کلمہ نہیں جانتا لیکن اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اپنی رضا مندی اس کے لیے قیامت تک کی لکھ دیتا ہے ۔ اور کوئی برائی کا کلمہ ، ناراضگی اللہ کا اسی طرح بےپرواہی سے کہہ گزرتا ہے جس کی وجہ سے اللہ اپنی ناراضی اس پر اپنی ملاقات کے دن تک کی لکھ دیتا ہے ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2319،قال الشیخ الألبانی:صحیح) علقمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس حدیث نے مجھے بہت سی باتوں سے بچا لیا ۔ ترمذی وغیرہ میں بھی یہ حدیث ہے اور امام ترمذی رحمہ اللہ اسے حسن بتلاتے ہیں احنف بن قیس رحمہ اللہ فرماتے ہیں دائیں طرف والا نیکیاں لکھتا ہے اور یہ بائیں طرف والے پر امین ہے ۔ جب بندے سے کوئی خطا ہو جاتی ہے تو یہ کہتا ہے ٹھہر جا اگر اس نے اسی وقت توبہ کر لی تو اسے لکھنے نہیں دیتا اور اگر اس نے توبہ نہ کی تو وہ لکھ لیتا ہے ۔ [ ابن ابی حاتم ] امام حسن بصری رحمہ اللہ اس آیت کی تلاوت کر کے فرماتے تھے اے ابن آدم تیرے لیے صحیفہ کھول دیا گیا ہے اور دو بزرگ فرشتے تجھ پر مقرر کر دئیے گئے ہیں ، ایک تیرے دائیں دوسرا بائیں ، دائیں طرف والا تو تیری نیکیوں کی حفاظت کرتا ہے اور بائیں طرف والا برائیوں کو دیکھتا رہتا ہے اب تو جو چاہے عمل کر کمی کر یا زیادتی کر جب تو مرے گا تو یہ دفتر لپیٹ دیا جائے گا اور تیرے ساتھ تیری قبر میں رکھ دیا جائے گا اور قیامت کے دن جب تو اپنی قبر سے اٹھے گا تو یہ تیرے سامنے پیش کر دیا جائے گا ۔ اسی کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے «وَکُلَّ إِنسَانٍ أَلْزَمْنَاہُ طَائِرَہُ فِی عُنُقِہِ وَنُخْرِجُ لَہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ کِتَابًا یَلْقَاہُ مَنشُورًا» * «اقْرَأْ کِتَابَکَ کَفَی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیبًا» ۱؎ (17-الإسراء:14-13) ’ ہر انسان کی شامت اعمال کی تفصیل ہم نے اس کے گلے لگا دی ہے اور ہم قیامت کے دن اس کے سامنے نامہ اعمال کی ایک کتاب پھینک دیں گے جسے وہ کھلی ہوئی پائے گا پھر اس سے کہیں گے کہ اپنی کتاب پڑھ لے آج تو خود ہی اپنا حساب لینے کو کافی ہے ۔ ‘ پھر حسن رحمہ اللہ نے فرمایا : اللہ کی قسم ! اس نے بڑا ہی عدل کیا جس نے خود تجھے ہی تیرا محاسب بنا دیا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں جو کچھ تو بھلا برا کلمہ زبان سے نکالتا ہے وہ سب لکھا جاتا ہے یہاں تک کہ تیرا یہ کہنا بھی کہ میں نے کھایا ، میں نے پیا ، میں گیا ، میں آیا ، میں نے دیکھا ۔ پھر جمعرات والے دن اس کے اقوال و افعال پیش کئے جاتے ہیں خیر و شر باقی رکھ لی جاتی ہے اور سب کچھ مٹا دیا جاتا ہے یہی معنی ہیں فرمان باری تعالیٰ شانہ کے «یَمْحُو اللہُ مَا یَشَاءُ وَیُثْبِتُ وَعِندَہُ أُمٰ الْکِتَابِ» ’ اللہ جو چاہے مٹا دے اور جو چاہے ثابت رکھے، لوح محفوظ اسی کے پاس ہے ‘ ۱؎ (13-الرعد:39) امام احمد رحمہ اللہ کی بابت مروی ہے کہ آپ اپنے مرض الموت میں کراہ رہے تھے تو آپ کو معلوم ہوا کہ طاؤس رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ فرشتے اسے بھی لکھتے ہیں چنانچہ آپ نے کراہنا بھی چھوڑ دیا اللہ آپ پر اپنی رحمت نازل فرمائے اپنی موت کے وقت تک اف بھی نہ کی ۔ پھر فرماتا ہے ، اے انسان ! موت کی بیہوشی یقینًا آئے گی اس وقت وہ شک دور ہو جائے گا جس میں آج کل تو مبتلا ہے ، اس وقت تجھ سے کہا جائے گا کہ یہی ہے جس سے تو بھاگتا پھرتا تھا ، اب وہ آ گئی ، تو کسی طرح اس سے نجات نہیں پا سکتا ، نہ بچ سکتا ہے ، نہ اسے روک سکتا ہے ، نہ اسے دفع کر سکتا ہے ، نہ ٹال سکتا ہے ، نہ مقابلہ کر سکتا ہے ، نہ کسی کی مدد و سفارش کچھ کام آ سکتی ہے ۔ صحیح یہی ہے کہ یہاں خطاب مطلق انسان سے ہے اگرچہ بعض نے کہا ہے کافر سے ہے اور بعض نے کچھ اور بھی کہا ہے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں اپنے والد کے آخری وقت میں آپ کے سرہانے بیٹھی تھی آپ پر غشی طاری ہوئی ، تو میں نے یہ بیت پڑھا «من لا یزال دمعہ مقننعا» *** «فانہ لا بد مرۃ مدفوق» مطلب یہ ہے کہ جس کے آنسو ٹھہرے ہوئے ہیں وہ بھی ایک مرتبہ ٹپک پڑیں گے ۔ تو آپ نے اپنا سر اٹھا کر کہا پیاری بچی یوں نہیں بلکہ جس طرح اللہ نے فرمایا «وَجَاءَتْ سَکْرَۃُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ ذَلِکَ مَا کُنتَ مِنْہُ تَحِیدُ» ۱؎ (50-ق:19) } ’ اور موت کی بے ہوشی حق لے کر آ پہنچی، یہی ہے جس سے تو بدکتا پھرتا تھا ‘ ۔ اور روایت میں بیت کا پڑھنا اور سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا یہ فرمانا مروی ہے کہ یوں نہیں بلکہ یہ آیت پڑھو ۔ اس اثر کے اور بھی بہت سے طریق ہیں جنہیں میں نے سیرۃ الصدیق رضی اللہ عنہ میں آپ کی وفات کے بیان میں جمع کر دیا ہے ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جب موت کی غشی طاری ہونے لگی تو آپ اپنے چہرہ مبارک سے پسینہ پونچھتے جاتے اور فرماتے جاتے : ” سبحان اللہ موت کی بڑی سختیاں ہیں “ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4449) اس آیت کے پچھلے جملے کی تفسیر دو طرح کی گئی ہے ایک تو یہ کہ «ما» موصولہ ہے یعنی یہ وہی ہے جسے تو بعید از مکان جانتا تھا ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ یہاں «ما» نافیہ ہے تو معنی یہ ہوں گے کہ یہ وہ چیز ہے جس کے جدا کرنے کی ، جس سے بچنے کی تجھے قدرت نہیں تو اس سے ہٹ نہیں سکتا ۔ معجم کبیر طبرانی میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” اس شخص کی مثال جو موت سے بھاگتا ہے اس لومڑی جیسی ہے جس سے زمین اپنا قرضہ طلب کرنے لگی اور یہ اس سے بھاگنے لگی ، بھاگتے بھاگتے جب تھک گئی اور بالکل چکنا چور ہو گئی تو اپنے بھٹ میں جا گھسی ، زمین چونکہ وہاں بھی موجود تھی اس نے لومڑی سے کہا : میرا قرض دے تو یہ وہاں سے پھر بھاگی سانس پھولا ہوا تھا حال برا ہو رہا تھا آخر یونہی بھاگتے بھاگتے بےدم ہو کر مر گئی “ } ۔ ۱؎ (طبرانی:6922:ضعیف) الغرض جس طرح اس لومڑی کو زمین سے بھاگنے کی راہیں بند تھیں اسی طرح انسان کو موت سے بچنے کے راستے بند ہیں اس کے بعد صور پھونکے جانے کا ذکر ہے جس کی پوری تفسیر والی حدیث گزر چکی ہے ۔ اور حدیث میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” میں کس طرح راحت و آرام حاصل کر سکتا ہوں حالانکہ صور پھونکنے والے فرشتے نے صور منہ میں لے لیا ہے اور گردن جھکائے حکم اللہ کا انتظار کر رہا ہے کہ کب حکم ملے اور کب وہ پھونک دے صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا : پھر یا رسول اللہ ! ہم کیا کہیں آپ نے فرمایا کہو «حَسْبُنَا اللہُ وَنِعْمَ الْوَکِیلُ» ’ ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ بہت اچھا کارساز ہے ‘ “ } ۱؎ (3-آل عمران:173) ۱؎ (سنن ترمذی:3243،قال الشیخ الألبانی:صحیح) پھر فرماتا ہے ہر شخص کے ساتھ ایک فرشتہ تو میدان محشر کی طرف لانے والا ہو گا اور ایک فرشتہ اس کے اعمال کی گواہی دینے والا ہو گا ۔ ظاہر آیت یہی ہے اور امام ابن جریر رحمہ اللہ بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں ۔ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے اس آیت کی تلاوت منبر پر کی اور فرمایا : ایک چلانے والا جس کے ہمراہ یہ میدان محشر میں آئے گا اور ایک گواہ ہو گا جو اس کے اعمال کی شہادت دے گا ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں «سائق» سے مراد فرشتہ ہے اور شہید سے مراد عمل ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے «سائق» فرشتوں میں سے ہوں گے اور «شہید» سے مراد خود انسان ہے جو اپنے اوپر آپ گواہی دے گا ، پھر اس کے بعد کی آیت میں جو خطاب ہے اس کی نسبت تین قول ہیں ، ایک تو یہ کہ یہ خطاب کافر سے ہو گا ، دوسرا یہ کہ اس سے مراد عام انسان ہیں نیک و بد سب ، تیسرا یہ کہ اس سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:420/11) دوسرے قول کی توجیہ یہ ہے کہ آخرت اور دنیا میں وہی نسبت ہے جو بیداری اور خواب میں ہے اور تیسرے قول کا مطلب یہ ہے کہ تو اس قرآن کی وحی سے پہلے غفلت میں تھا ۔ ہم نے یہ قرآن نازل فرما کر تیری آنکھوں پر سے پردہ ہٹا دیا اور تیری نظر قوی ہو گئی ۔ لیکن الفاظ قرآنی سے تو ظاہر یہی ہے کہ اس سے مراد عام ہے یعنی ہر شخص سے کہا جائے گا کہ تو اس دن سے غافل تھا اس لیے کہ قیامت کے دن ہر شخص کی آنکھیں خوب کھل جائیں گی یہاں تک کہ کافر بھی استقامت پر ہو جائے گا لیکن یہ استقامت اسے نفع نہ دے گی ۔ جیسے فرمان باری ہے «أَسْمِعْ بِہِمْ وَأَبْصِرْ یَوْمَ یَأْتُونَنَا لَـکِنِ الظَّالِمُونَ الْیَوْمَ فِی ضَلَالٍ مٰبِینٍ» (19-مریم:38) یعنی ’ کیا خوب دیکھنے سننے والے ہوں گے اس دن جبکہ ہمارے سامنے حاضر ہوں گے، لیکن آج تو یہ ﻇالم لوگ صریح گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں ‘ اور آیت میں ہے «وَلَوْ تَرَی إِذِ الْمُجْرِمُونَ نَاکِسُو رُءُوسِہِمْ عِندَ رَبِّہِمْ رَبَّنَا أَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا إِنَّا مُوقِنُونَ» ۱؎ (32-السجدۃ:12) یعنی ’ کاش کہ آپ دیکھتے جب کہ گناہ گار لوگ اپنے رب تعالیٰ کے سامنے سر جھکائے ہوئے ہوں گے، کہیں گے اے ہمارے رب! ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا اب تو ہمیں واپس لوٹا دے ہم نیک اعمال کریں گے ہم یقین کرنے والے ہیں ‘ ۔ ق
18 ق
19 ق
20 ق
21 ق
22 ق
23 ہمارے اعمال کے گواہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہو رہا ہے کہ جو فرشتہ ابن آدم کے اعمال پر مقرر ہے وہ اس کے اعمال کی شہادت دے گا اور کہے گا کہ یہ ہے میرے پاس تفصیل بلا کم و کاست حاضر ہے ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ اس فرشتے کا کلام ہو گا جسے سائق کہا گیا ہے جو اس کو محشر میں لے آیا تھا ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں میرے نزدیک مختار قول یہ ہے کہ وہ اس فرشتے پر بھی اور گواہی دینے والے فرشتے دونوں پہ مشتمل ہے اب اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے فیصلے عدل و انصاف سے کرے گا ۔ «القیا» تثنیہ کا صیغہ ہے بعض نحوی کہتے ہیں کہ بعض عرب واحد کو «تثنیہ» کر دیا کرتے ہیں جیسے کہ حجاج کا مقولہ مشہور ہے کہ وہ اپنے جلاد سے کہتا تھا «اضربا عنقہ» تم دونوں اس کی گردن مار دو حالانکہ جلاد ایک ہی ہوتا تھا ۔ ابن جریر رحمہ اللہ نے اس کی شہادت میں عربی کا ایک شعر بھی پیش کیا ہے ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:422/11) بعض کہتے ہیں کہ دراصل یہ نون تاکید ہے جس کی تسہیل الف کی طرف کر لی ہے لیکن یہ بعید ہے اس لیے کہ ایسا تو وقف کی حالت میں ہوتا ہے بظاہر یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ خطاب اوپر والے دونوں فرشتوں سے ہو گا ، لانے والے فرشتے نے اسے حساب کے لیے پیش کیا اور گواہی دینے والے نے گواہی دے دی تو اللہ تعالیٰ ان دونوں کو حکم دے گا کہ اسے جہنم کی آگ میں ڈال دو جو بدترین جگہ ہے اللہ ہمیں محفوظ رکھے ۔ ق
24 ق
25 1 پھر فرماتا ہے کہ ہر کافر اور ہر حق کے مخالف اور ہر حق کے نہ ادا کرنے والے اور ہر نیکی صلہ رحمی اور بھلائی سے خالی رہنے والے اور ہر حد سے گزر جانے والے خواہ وہ مال کے خرچ میں اسراف کرتا ہو ، خواہ بولنے اور چلنے پھرنے میں اللہ کے احکام کی پرواہ نہ کرتا ہو اور ہر شک کرنے والے اور ہر اللہ کے ساتھ شرک کرنے والے کے لیے یہی حکم ہے کہ اسے پکڑ کر سخت عذاب میں ڈال دو ۔ پہلے حدیث گزر چکی ہے کہ { جہنم قیامت کے دن لوگوں کے سامنے اپنی گردن نکالے گی اور باآواز بلند پکار کر کہے گی جسے تمام محشر کا مجمع سنے گا کہ میں تین قسم کے لوگوں پر مقرر کی گئی ہوں ہر سرکش حق کے مخالف کے لیے اور ہر مشرک کے لیے اور ہر تصویر بنانے والے کے لیے ، پھر وہ ان سب سے لپٹ جائے گی ۔ } مسند کی حدیث میں تیسری قسم کے لوگ وہ بتائے ہیں { جو ظالمانہ قتل کرنے والے ہوں ۔} ۱؎ (مسند احمد:40/3:ضعیف) پھر فرمایا اس کا ساتھی کہے گا ، اس سے مراد شیطان ہے جو اس کے ساتھ موکل تھا یہ اس کافر کو دیکھ کر اپنی براءت کرے گا اور کہے گا کہ میں نے اسے نہیں بہکایا بلکہ یہ تو خود گمراہ تھا باطل کو از خود قبول کر لیتا تھا حق کا اپنے آپ مخالف تھا ۔ جیسے دوسری آیت میں ہے کہ «وَقَالَ الشَّیْطَانُ لَمَّا قُضِیَ الْأَمْرُ إِنَّ اللہَ وَعَدَکُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدتٰکُمْ فَأَخْلَفْتُکُمْ وَمَا کَانَ لِیَ عَلَیْکُم مِّن سُلْطَانٍ إِلَّا أَن دَعَوْتُکُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِی فَلَا تَلُومُونِی وَلُومُوا أَنفُسَکُم مَّا أَنَا بِمُصْرِخِکُمْ وَمَا أَنتُم بِمُصْرِخِیَّ إِنِّی کَفَرْتُ بِمَا أَشْرَکْتُمُونِ مِن قَبْلُ إِنَّ الظَّالِمِینَ لَہُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ» ۱؎ (14-إبراہیم:22) ’ شیطان جب دیکھے گا کہ کام ختم ہوا تو کہے گا اللہ نے تم سے سچا وعدہ کیا تھا اور میں تو وعدہ خلاف ہوں ہی ، میرا کوئی زور تو تم پر تھا ہی نہیں ، میں نے تم سے کہا تم نے فوراً مان لیا ، اب مجھے ملامت نہ کرو بلکہ اپنی جانوں کو ملامت کرو ، نہ میں تمہیں کام دے سکوں گا ، نہ تم میرے کام آ سکوں تم جو مجھے شریک بنا رہے تھے تو میں پہلے ہی سے ان کا انکاری تھا ، ظالموں کے لیے المناک عذاب ہیں ۔ ‘ پھر فرماتا ہے اللہ تعالیٰ انسان سے اور اس کے ساتھی شیطان سے فرمائے گا کہ میرے سامنے نہ جھگڑو کیونکہ انسان کہہ رہا ہو گا کہ اللہ اس نے مجھے جبکہ میرے پاس نصیحت آ چکی گمراہ کر دیا اور شیطان کہے گا اللہ میں نے اسے گمراہ نہیں کیا ، تو اللہ انہیں تو تو میں میں سے روک دے گا اور فرمائے گا ، میں تو اپنی حجت ختم کر چکا رسولوں کی زبانی یہ سب باتیں تمہیں سنا چکا تھا ، تمہیں کتابیں بھیج دی تھیں اور ہر ہر طریقہ سے ہر طرح سے تمہیں سمجھا بھجا دیا تھا ، ہر شخص پر اتمام حجت ہو چکی اور ہر شخص اپنے گناہوں کا خود ذمہ دار ہے ۔ ق
26 ق
27 ق
28 ق
29 ق
30 متکبر اور متجبر کا ٹھکانہ چونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا جہنم سے وعدہ ہے کہ اسے پر کر دے گا اس لیے قیامت کے دن جو جنات اور انسان اس کے قابل ہوں گے انہیں اس میں ڈال دیا جائے گا اور اللہ تبارک وتعالیٰ دریافت فرمائے گا کہ اب تو تو پر ہو گئی ؟ اور یہ کہے گی کہ اگر کچھ اور گنہگار باقی ہوں تو انہیں بھی مجھ میں ڈال دو ۔ صحیح بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر میں یہ حدیث ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جہنم میں گنہگار ڈالے جائیں گے اور وہ زیادتی طلب کرتی رہے گی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا قدم اس پر رکھے گا پس وہ کہے گی بس بس “ } ۔ (صحیح بخاری:4848) مسند احمد کی حدیث میں یہ بھی ہے کہ { اس وقت یہ سمٹ جائے گی اور کہے گی تیری عزت و کرم کی قسم ، بس بس اور جنت میں جگہ بچ جائے گی یہاں تک کہ ایک نئی مخلوق پیدا کر کے اللہ تعالیٰ اس جگہ کو آباد کرے گا ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:2848) صحیح بخاری میں ہے { جنت اور دوزخ میں ایک مرتبہ گفتگو ہوئی ، جہنم نے کہا کہ میں ہر متکبر اور ہر متجبر کے لیے مقرر کی گئی ہوں اور جنت نے کہا میرا یہ حال ہے کہ مجھ میں کمزور لوگ اور وہ لوگ جو دنیا میں ذی عزت نہ سمجھے جاتے تھے وہ داخل ہوں گے ۔ اللہ عزوجل نے جنت سے فرمایا تو میری رحمت ہے ، اپنے بندوں میں سے جسے چاہوں گا اس رحمت کے ساتھ نواز دوں گا اور جہنم سے فرمایا تو میرا عذاب ہے تیرے ساتھ میں جسے چاہوں گا عذاب کروں گا ۔ ہاں تم دونوں بالکل بھر جاؤ گی ، تو جہنم تو نہ بھرے گی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا قدم اس میں رکھے گا ، اب وہ کہے گی بس بس بس ۔ اس وقت وہ بھر جائے گی اور اس کے سب جوڑ آپس میں سمٹ جائیں گے اور اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں سے کسی پر ظلم نہ کرے گا ۔ ہاں جنت میں جو جگہ بچ رہے گی اس کے بھرنے کے لیے اللہ عزوجل اور مخلوق پیدا کرے گا ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:4850) مسند احمد کی حدیث میں جہنم کا قول یہ ہے کہ { مجھ میں جبر کرنے والے ، تکبر کرنے والا بادشاہ اور شریف لوگ داخل ہوں گے اور جنت نے کہا مجھ میں کمزور ضعیف فقیر مسکین داخل ہوں گے ۔ } ۱؎ (مسند احمد:13/3:صحیح) مسند ابو یعلیٰ میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” اللہ تعالیٰ مجھے اپنی ذات قیامت کے دن دکھائے گا ، میں سجدے میں گر پڑوں گا ، اللہ تعالیٰ اس سے خوش ہو گا ، پھر میں اللہ تعالیٰ کی ایسی تعریفیں کروں گا کہ وہ اس سے خوش ہو جائے گا ، پھر مجھے شفاعت کی اجازت دی جائے گی ، پھر میری امت جہنم کے اوپر کے پل سے گزرنے لگے گی ، بعض تو نگاہ کی سی تیزی سے گزر جائیں گے بعض تیر کی طرح پار ہو جائیں گے ، بعض تیز گھوڑوں سے زیادہ تیزی سے پار ہو جائیں گے یہاں تک کہ ایک شخص گھٹنوں چلتا ہوا گزر جائے گا اور یہ مطابق اعمال ہو گا اور جہنم زیادتی طلب کر رہی ہو گی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس میں اپنا قدم رکھے گا پس یہ سمٹ جائے گی اور کہے گی بس بس اور میں حوض میں ہوں گا “ ۔ لوگوں نے کہا : حوض کیا ہے ؟ فرمایا : ” اللہ کی قسم ! اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید شہد سے زیادہ میٹھا ہے اور برف سے زیادہ ٹھنڈا ہے اور مشک سے زیادہ خوشبودار ہے ۔ اس پر برتن آسمان کے ستاروں سے زیادہ ہیں جسے اس کا پانی مل گیا وہ کبھی پیاسا نہ ہو گا اور جو اس سے محروم رہ گیا اسے کہیں سے پانی نہیں ملے گا جو سیراب کر سکے ۔ } ۱؎ (ذکرہ ابن حجر فی المطالب العالیہ:383/4:ضعیف و موضوع) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں وہ کہے گی کیا مجھ میں کوئی مکان ہے کہ مجھ میں زیادتی کی جائے ؟ عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں وہ کہے گی کیا مجھ میں ایک کے بھی آنے کی جگہ ہے ؟ میں بھر گئی ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس میں جہنمی ڈالے جائیں گے یہاں تک کہ وہ کہے گی میں بھر گئی اور کہے گی کہ کیا مجھ میں زیادہ کی گنجائش ہے ؟ امام ابن جریر رحمہ اللہ پہلے قول کو ہی اختیار کرتے ہیں اس دوسرے قول کا مطلب یہ ہے کہ گویا ان بزرگوں کے نزدیک یہ سوال اس کے بعد ہو گا کہ اللہ تعالیٰ اپنا قدم اس میں رکھ دے ، اب جو اس سے پوچھے گا کہ کیا تو بھر گئی تو وہ جواب دے گی کہ کیا مجھ میں کہیں بھی کوئی جگہ باقی رہی ہے جس میں کوئی آ سکے ؟ یعنی باقی نہیں رہی پر ہو گئی ۔ عوفی رحمہ اللہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا یہ اس وقت ہو گا جبکہ اس میں سوئی کے ناکے کے برابر بھی جگہ باقی نہ رہے گی ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» پھر فرماتا ہے جنت قریب کی جائے گی یعنی قیامت کے دن جو دور نہیں ہے اس لیے کہ جس کا آنا یقینی ہو وہ دور نہیں سمجھا جاتا ۔ «اواب» کے معنی رجوع کرنے والا ، توبہ کرنے والا ، گناہوں سے رک جانے والا ۔ «حفیظ» کے معنی وعدوں کا پابند ۔ عبید بن عمیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں «اواب حفیظ» وہ ہے جو کسی مجلس میں بیٹھ کر نہ اٹھے جب تک کہ استغفار نہ کر لے ۔ جو رحمان سے بن دیکھے ڈرتا رہے یعنی تنہائی میں بھی خوف اللہ رکھے ۔ حدیث میں ہے { وہ بھی قیامت کے دن عرش اللہ کا سایہ پائے گا جو تنہائی میں اللہ کو یاد کرے اور اس کی آنکھیں بہہ نکلیں ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:660) اور قیامت کے دن اللہ کے پاس دل سلامت لے کر جائے ۔ جو اس کی جانب جھکنے والا ہو ۔ اس میں یعنی جنت میں چلے جاؤ اللہ کے تمام عذابوں سے تمہیں سلامتی مل گئی اور یہ بھی مطلب ہے کہ فرشتے ان پر سلام کریں گے یہ «خلود» کا دن ہے ۔ یعنی جنت میں ہمیشہ کے لیے جا رہے ہو جہاں کبھی موت نہیں ۔ یہاں سے کبھی نکال دئیے جانے کا خطرہ نہیں جہاں سے تبدیلی اور ہیر پھیر نہیں ۔ پھر فرمایا یہ وہاں جو چاہیں گے پائیں گے بلکہ اور زیادہ بھی ۔ کثیر بن مرہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں مزید یہ بھی کہ اہل جنت کے پاس سے ایک بادل گزرے گا جس میں سے ندا آئے گی کہ تم کیا چاہتے ہو ؟ جو تم چاہو میں برساؤں ، پس یہ جس چیز کی خواہش کریں گے اس سے برسے گی ۔ کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں اگر میں اس مرتبہ پر پہنچا اور مجھ سے سوال ہوا تو میں کہوں گا کہ خوبصورت خوش لباس نوجوان کنواریاں برسائی جائیں ۔ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” تمہارا جی جس پرند کو کھانے کو چاہے گا وہ اسی وقت بھنا بھنایا موجود ہو جائے گا “ } ۔ مسند احمد میں ہے کہ { اگر جنتی اولاد چاہے گا تو ایک ہی ساعت میں حمل اور بچہ اور بچے کی جوانی ہو جائے گی } ۔ امام ترمذی رحمہ اللہ اسے حسن غریب بتلاتے ہیں اور ترمذی میں یہ بھی ہے کہ جس طرح یہ چاہے گا ہو جائے گا ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2562،قال الشیخ الألبانی:حسن) اور آیت میں ہے «لِّلَّذِینَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَیٰ وَزِیَادَۃٌ» ۱؎ (10-یونس:26) صہیب بن سنان رومی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس زیادتی سے مراد اللہ کریم کے چہرے کی زیارت ہے ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:181) سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہر جمعہ کے دن انہیں دیدار باری تعالیٰ ہو گا یہی مطلب مزید کا ہے ۔ مسند شافعی میں ہے { جبرائیل علیہ السلام ایک سفید آئینہ لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے جس کے بیچوں بیچ ایک نکتہ تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : ” یہ کیا ہے ؟ “ فرمایا : یہ جمہ کا دن ہے جو خاص آپ کو اور آپ کی امت کو بطور فضیلت کے عطا فرمایا گیا ہے ۔ سب لوگ اس میں آپ کے پیچھے ہیں یہود بھی اور نصاریٰ بھی آپ کے لیے اس میں بہت کچھ خیر و برکت ہے اس میں ایک ایسی ساعت ہے کہ اس وقت اللہ تعالیٰ سے جو مانگا جائے گا مل جاتا ہے ہمارے یہاں اس کا نام «یوم المزید» ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : ” یہ کیا ہے ؟ “ فرمایا : تیرے رب نے جنت الفردوس میں ایک کشادہ میدان بنایا ہے جس میں مشکی ٹیلے ہیں ، جمعہ کے دن اللہ تعالیٰ جن جن فرشتوں کو چاہے اتارتا ہے ، اس کے اردگرد نوری منبر ہوتے ہیں جن پر انبیاء علیہم السلام رونق افروز ہوتے ہیں ، یہ منبر سونے کے ہیں ، جس پر جڑاؤ جڑے ہوئے ہیں شہداء اور صدیق لوگ ان کے پیچھے ان مشکی ٹیلوں پر ہوں گے ۔ اللہ عزوجل فرمائے گا میں نے اپنا وعدہ تم سے سچا کیا اب مجھ سے جو چاہو مانگو پاؤ گے ۔ یہ سب کہیں گے ہمیں تیری خوشی اور رضا مندی مطلوب ہے ، اللہ فرمائے گا یہ تو میں تمہیں دے چکا میں تم سے راضی ہو گیا ، اس کے سوا بھی تم جو چاہو گے ، پاؤ گے اور میرے پاس اور زیادہ ہے ۔ پس یہ لوگ جمعہ کے خواہشمند رہیں گے کیونکہ انہیں بہت سی نعمتیں اسی دن ملتی ہیں یہی دن ہے جس دن تمہارا رب عرش پر مستوی ہوا اسی دن آدم پیدا کئے گئے اور اسی دن قیامت آئے گی ۔ } ۱؎ (مسند ابویعلیٰ:229/7:ضعیف) اسی طرح اسے امام شافعی رحمہ اللہ نے کتاب الام کی کتاب الجمعہ میں بھی وارد کیا ہے امام ابن جریر رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر کے موقعہ پر ایک بہت بڑا اثر وارد کیا ہے جس میں بہت سی باتیں غریب ہیں ۔ مسند احمد میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” جنتی ستر سال تک ایک ہی طرف متوجہ بیٹھا رہے گا پھر ایک حور آئے گی جو اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے اپنی طرف متوجہ کرے گی وہ اتنی خوبصورت ہو گی کہ اس کے رخسار میں اسے اپنی شکل اس طرح نظر آئے گی جیسے آب دار آئینے میں وہ جو زیورات پہنے ہوئے ہو گی ان میں کا ایک ایک ادنیٰ موتی ایسا ہو گا کہ اس کی جوت سے ساری دنیا منور ہو جائے ، وہ سلام کرے گی یہ جواب دے کر پوچھے گا تم کون ہو ؟ وہ کہے گی میں ہوں جسے قرآن میں «مزید» کہا گیا تھا ۔ اس پر ستر حلے ہوں گے تاہم اس کی خوبصورتی اور چمک دمک اور صفائی کی وجہ سے باہر ہی سے اس کی پنڈلی کا گودا تک نظر آئے گا اس کے سر پر جڑاؤ تاج ہو گا جس کا ادنیٰ موتی مشرق مغرب کو روشن کر دینے کے لیے کافی ہے “ } ۔ ۱؎ (مسند احمد:75/3:ضعیف) ق
31 ق
32 ق
33 ق
34 ق
35 ق
36 بےسود کوشش ارشاد ہوتا ہے کہ یہ کفار تو کیا چیز ہیں ؟ ان سے بہت زیادہ قوت و طاقت اور اسباب تعداد کے لوگوں کو اسی جرم پر ہم تہ و بالا کر چکے ہیں جنہوں نے شہروں میں اپنی یادگاریں چھوڑی ہیں ، زمین میں خوب فساد کیا ، لمبے لمبے سفر کرتے تھے ، ہمارے عذاب دیکھ کر بچنے کی جگہ تلاش کرنے لگے ، مگر یہ کوشش بالکل بےسود تھی ، اللہ کی قضاء و قدر اور اس کی پکڑ دھکڑ سے کون بچ سکتا تھا ؟ پس تم بھی یاد رکھو کہ جس وقت میرا عذاب آ گیا ، بغلیں جھانکتے رہ جاؤ گے اور بھوسی کی طرح اڑا دئیے جاؤ گے ۔ ہر عقلمند کے لیے اس میں کافی عبرت ہے اگر کوئی ایسا بھی ہو جو سمجھ داری کے ساتھ کان لگائے وہ بھی اس میں بہت کچھ پا سکتا ہے، یعنی دل کو حاضر کر کے کانوں سے سنے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:433/11) پھر اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس نے آسمانوں کو اور زمین کو اور اس کے درمیان کی چیزوں کو چھ روز میں پیدا کیا اور وہ تھکا نہیں ، اس میں بھی موت کے بعد کی زندگی پر اللہ کے قادر ہونے کا ثبوت ہے کہ جو ایسی بڑی مخلوق کو اولاً پیدا کر چکا ہے اس پر مردوں کو جلانا کیا بھاری ہے ؟ قتادۃ رحمہ اللہ کا فرمان ہے کہ ملعون یہود کہتے تھے کہ چھ دن میں مخلوق کو رچا کر خالق نے ساتوں روز آرام کیا اور یہ دن ہفتہ کا تھا اس کا نام ہی انہوں نے «یوم الراحت» رکھ چھوڑا تھا ۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کے اس واہی خیال کی تردید کی کہ ہمیں تھکن ہی نہ تھی آرام کیسا ؟ جیسے اور آیت میں ہے «أَوَلَمْ یَرَوْا أَنَّ اللہَ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَلَمْ یَعْیَ بِخَلْقِہِنَّ بِقَادِرٍ عَلَی أَن یُحْیِیَ الْمَوْتَی بَلَی إِنَّہُ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ» ۱؎ (46-الأحقاف:33) ’ یعنی کیا انہوں نے نہیں دیکھا ؟ کہ اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور ان کی پیدائش سے نہ تھکا وہ مردوں کے جلانے پر قادر نہیں ؟ ہاں کیوں نہیں وہ تو ہر چیز پر قادر ہے ‘ اور آیت میں ہے «لَخَــلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَکْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ» ۱؎ (40-غافر:57) ’ البتہ آسمان و زمین کی پیدائش لوگوں کی پیدائش سے بہت بڑی ہے ‘ اور آیت میں ہے «ءَاَنْتُمْ اَشَدٰ خَلْقًا اَمِ السَّمَاءُ بَنٰیہَا» ۱؎ (79-النازعات:27) ’ کیا تمہاری پیدائش زیادہ مشکل ہے یا آسمان کی ، اسے اللہ نے بنایا ہے ۔ ‘ پھر فرمان ہوتا ہے کہ یہ جھٹلانے اور انکار کرنے والے جو کہتے ہیں اسے صبر سے سنتے رہو اور انہیں مہلت دو ان کو چھوڑ دو اور سورج نکلنے سے پہلے اور ڈوبنے سے پہلے اور رات کو اللہ کی پاکی اور تعریف کیا کرو ۔ معراج سے پہلے صبح اور عصر کی نماز فرض تھی اور اس کے بعد آپ کی امت سے اس کا وجوب منسوخ ہو گیا اس کے بعد معراج والی رات پانچ نمازیں فرض ہوئیں جن میں فجر اور عصر کی نمازیں جوں کی توں رہیں ۔ پس سورج نکلنے سے پہلے اور ڈوبنے سے پہلے مراد فجر کی اور عصر کی نماز ہے ۔ مسند احمد میں ہے ہم { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے آپ نے چودہویں رات کے چاند کو دیکھا اور فرمایا : ” تم اپنے رب کے سامنے پیش کئے جاؤ گے اور اسے اس طرح دیکھو گے جیسے اس چاند کو دیکھ رہے ، وہ جس کے دیکھنے میں کوئی دھکا پیلی نہیں ، پس اگر تم سے ہو سکے تو خبردار سورج نکلنے سے پہلے کی اور سورج ڈوبنے سے پہلے کی نمازوں سے غافل نہ ہو جایا کرو “ } ۔ پھر آپ نے آیت «وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِہَا وَمِنْ آنَاءِ اللَّیْلِ فَسَبِّحْ وَأَطْرَافَ النَّہَارِ لَعَلَّکَ تَرْضَی» ۱؎ (20-طہ:130) پڑھی یہ حدیث بخاری و مسلم میں بھی ہے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:554) رات کو بھی اس کی تسبیح بیان کر یعنی نماز پڑھ جیسے فرمایا «وَمِنَ اللَّیْلِ فَتَہَجَّدْ بِہِ نَافِلَۃً لَّکَ عَسَی أَن یَبْعَثَکَ رَبٰکَ مَقَامًا مَّحْمُودًا» ۱؎ (17-الإسراء:79) یعنی ’ رات کو تہجد کی نماز پڑھا کر یہ زیادتی خاص تیرے لیے ہی ہے ، تجھے تیرا رب مقام محمود میں کھڑا کرنے والا ہے ‘ ، سجدوں کے پیچھے سے بقول سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نماز کے بعد اللہ کی پاکی بیان کرنا ہے ۔ بخاری و مسلم میں ابوہریرہ سے مروی ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مفلس مہاجر آئے اور کہا یا رسول اللہ ! مالدار لوگ بلند درجے اور ہمیشہ والی نعمتیں حاصل کر چکے آپ نے فرمایا : ” یہ کیسے ؟ “ ، جواب دیا کہ ہماری طرح نماز روزہ بھی تو وہ بھی کرتے ہیں لیکن وہ صدقہ دیتے ہیں جو ہم نہیں دے سکتے وہ غلام آزاد کرتے ہیں جو ہم نہیں کر سکتے آپ نے فرمایا : ” آؤ تمہیں ایک ایسا عمل بتلاؤں کہ جب تم اسے کرو تو سب سے آگے نکل جاؤ اور تم سے افضل کوئی نہ نکلے لیکن جو اس عمل کو کرے ۔ تم ہر نماز کے بعد تینتیس مرتبہ «سبحان اللہ» ، تینتیس مرتبہ «الحمداللہ» ، تینتیس مرتبہ «اللہ اکبر» پڑھ لیا کرو “ ، پھر وہ آئے اور کہا یا رسول اللہ ! ہمارے مالدار بھائیوں نے بھی آپ کی اس حدیث کو سنا اور وہ بھی اس عمل کو کرنے لگے ۔ آپ نے فرمایا : ” پھر یہ تو اللہ کا فضل ہے جسے چاہے دے “ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:841) دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد مغرب کے بعد کی دو رکعت ہیں ۔ سیدنا عمر ، سیدنا علی ، سیدنا حسن بن علی ، سیدنا ابن عباس ، سیدنا ابوہریرہ ، سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہم کا یہی فرمان ہے اور یہی قول ہے مجاہد عکرمہ شعبی نخعی قتادہ رحمہ اللہ علیہم وغیرہ کا ۔ مسند احمد میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر فرض نماز کے بعد دو رکعت پڑھا کرتے تھے بجز فجر اور عصر کی نماز کے ، عبدالرحمٰن رحمہ اللہ فرماتے ہیں ہر نماز کے پیچھے ۔ (مسند احمد:124/1:ضعیف) ابن ابی حاتم میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ { میں نے ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں گزاری آپ نے فجر کے فرضوں سے پہلے دو ہلکی رکعت ادا کیں ، پھر گھر سے نماز کیلئے نکلے اور فرمایا : ” اے ابن عباس ! فجر کے پہلے کی دو رکعت «وَمِنَ الَّیْلِ فَسَبِّحْہُ وَاِدْبَار النٰجُوْمِ» ۱؎ (52-الطور:49) ہیں اور مغرب کے بعد کی دو رکعت «وَمِنَ الَّیْلِ فَسَبِّحْہُ وَاَدْبَار السٰجُوْدِ» ہیں ۔ } ۱؎ (50-ق:40) ۱؎ (سنن ترمذی:3275،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) یہ اسی رات کا ذکر ہے جس رات سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے تہجد کی نماز کی تیرہ رکعت آپ کی اقتداء میں ادا کی تھیں اور اس رات آپ کی خالہ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کی باری تھی ۔ لیکن اوپر جو بیان ہوا یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے اور امام ترمذی رحمہ اللہ اسے غریب بتلاتے ہیں ہاں اصل حدیث تہجد کی تو بخاری و مسلم میں ہے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1198) ممکن ہے کہ پچھلا کلام سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا اپنا ہو ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ق
37 ق
38 ق
39 ق
40 ق
41 جب ہم سب قبروں سے نکل کھڑے ہوں گے سیدنا کعب احبار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ ایک فرشتے کو حکم دے گا کہ بیت المقدس کے پتھر پر کھڑا ہو کر یہ آواز لگائے کہ اے سڑی گلی ہڈیوں اور اے جسم کے متفرق اجزاؤ ، اللہ تمہیں جمع ہو جانے کا حکم دیتا ہے تاکہ تمہارے درمیان فیصلہ کر دے ، پس مراد اس سے صور ہے ، یہ حق اس شک و شبہ اور اختلاف کو مٹا دے گا جو اس سے پہلے تھا یہ قبروں سے نکل کھڑے ہونے کا دن ہو گا ، ابتداء پیدا کرنا پھر لوٹانا اور تمام خلائق کو ایک جگہ لوٹانا یہ ہمارے ہی بس کی بات ہے ۔ اس وقت ہر ایک کو اس کے عمل کا بدلہ ہم دیں گے تمام بھلائی برائی کا عوض ہر ہر شخص کو پا لے گا زمین پھٹ جائے گی اور سب جلدی جلدی اٹھ کھڑے ہوں گے ۔ اللہ تعالیٰ آسمان سے بارش برسائے گا ، جس سے مخلوقات کے بدن اگنے لگیں گے جس طرح کیچڑ میں پڑا ہوا دانہ بارش سے اگ جاتا ہے ۔ جب جسم کی پوری نشوونما ہو جائے گی تو اللہ تعالیٰ اسرافیل کو صور پھونکنے کا حکم دے گا ۔ تمام روحیں صور کے سوراخ میں ہوں گی ، ان کے صور پھونکتے ہی روحیں آسمان کے درمیان پھرنے لگ جائیں گی ، اس وقت اللہ تعالیٰ فرمائے گا میرے عزت و جلال کی قسم ہر روح اپنے اپنے جسم میں چلی جائے جسے اس نے دنیا میں آباد رکھا تھا ۔ پس ہر روح اپنے اپنے اصلی جسم میں جا ملے گی اور جس طرح زہریلے جانور کا اثر چوپائے کے رگ و ریشہ میں بہت جلد پہنچ جاتا ہے اس طرح اس جسم کے رگ و ریشے میں فوراً روح دوڑ جائے گی اور «مٰہْطِعِینَ إِلَی الدَّاعِ یَقُولُ الْکَافِرُونَ ہٰذَا یَوْمٌ عَسِرٌ» ۱؎ (54-القمر:8) ساری مخلوق اللہ کے فرمان کے ماتحت دوڑتی ہوئی جلد از جلد میدان محشر میں حاضر ہو جائے گی یہ وقت ہو گا جو کافروں پر بہت ہی سخت ہو گا ۔ فرمان باری ہے «یَوْمَ یَدْعُوْکُمْ فَتَسْتَجِیْبُوْنَ بِحَمْدِہٖ وَتَظُنٰوْنَ اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا قَلِیْلًا» ۱؎ (17-الإسراء:52) یعنی ’ جس دن وہ تمہیں پکارے گا تم اس کی تعریفیں کرتے ہوئے جواب دو گے اور سمجھتے ہو گے کہ تم بہت ہی کم ٹھہرے ‘۔ صحیح مسلم میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” سب سے پہلے میری قبر کی زمین شق ہو گی “ } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2278-3) فرماتا ہے کہ یہ دوبارہ کھڑا کرنا ہم پر بہت ہی سہل اور بالکل آسان ہے جیسے اللہ جل جلالہ نے فرمایا «وَمَآ اَمْرُنَآ اِلَّا وَاحِدَۃٌ کَلَمْحٍ بِالْبَصَرِ» ۱؎ (54-القمر:50) ’ یعنی ہمارا حکم اس طرح یکبارگی ہو جائے گا جیسے آنکھ کا جھپکنا ‘ ۔ اور آیت میں ہے «مَا خَلْقُکُمْ وَلَا بَعْثُکُمْ اِلَّا کَنَفْسٍ وَّاحِدَۃٍ اِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ بَصِیْرٌ» ۱؎ (31-لقمان:28) ’ یعنی تم سب کا پیدا کرنا اور پھر مارنے کے بعد زندہ کرنا ایسا ہی ہے جیسے اللہ تعالیٰ ایک شخص کو سننے دیکھنے والا ہے ۔ ‘ پھر جناب باری کا ارشاد ہوتا ہے کہ اے نبی ! یہ جو کچھ کہہ رہے ہیں ہمارے علم سے باہر نہیں تو اسے اہمیت نہ دے ہم خود نپٹ لیں گے ۔ جیسے اور جگہ ہے «وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّکَ یَضِیقُ صَدْرُکَ بِمَا یَقُولُونَ» * «فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَکُن مِّنَ السَّاجِدِینَ» * «وَاعْبُدْ رَبَّکَ حَتَّی یَأْتِیَکَ الْیَقِینُ» ۱؎ (15-الحجر:99-97) ’ واقعی ہمیں معلوم ہے کہ یہ لوگ جو باتیں بناتے ہیں ، اس سے آپ تنگ دل ہوتے ہیں ، سو اس کا علاج یہ ہے کہ آپ اپنے پروردگار کی پاکی اور تعریف کرتے رہئیے اور نمازوں میں رہئیے اور موت آ جانے تک اپنے رب کی عبادت میں لگے رہئیے ۔ ‘ پھر فرماتا ہے تو انہیں ہدایت پر جبرًا نہیں لا سکتا ، نہ ہم نے تجھے اس کا مکلف بنایا ہے ۔ یہ بھی معنی ہیں کہ ان پر جبر نہ کرو ، لیکن پہلا قول اولیٰ ہے کیونکہ الفاظ میں یہ نہیں کہ تم ان پر جبر نہ کرو بلکہ یہ ہے کہ تم ان پر جبار نہیں ہو یعنی آپ مبلغ ہیں تبلیغ کر کے اپنے فریضے سے سبکدوش ہو جائیے ۔ جبر معنی میں اجبر کے بھی آتا ہے ۔ آپ نصیحت کرتے رہیے جس کے دل میں خوف اللہ ہے جو اس کے عذابوں سے ڈرتا ہے اور اس کی رحمتوں کا امیدوار ہے وہ ضرور اس تبلیغ سے نفع اٹھائے گا اور راہ راست پر آ جائے گا جیسے فرمایا ہے «وَاِنْ مَّا نُرِیَنَّکَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُہُمْ اَوْ نَتَوَفَّیَنَّکَ فَاِنَّمَا عَلَیْکَ الْبَلٰغُ وَعَلَیْنَا الْحِسَابُ» ۱؎ (13-الرعد:40) ’ یعنی تجھ پر صرف پہنچا دینا ہے حساب تو ہمارے ذمے ہے ‘ اور آیت میں ہے «فَذَکِّرْ إِنَّمَا أَنتَ مُذَکِّرٌ لَّسْتَ عَلَیْہِم بِمُصَیْطِرٍ» ۱؎ (88-الغاشیۃ:22-21) ’ تو نصیحت کرنے والا ہے کچھ ان پر داروغہ نہیں ‘ ۔ اور جگہ ہے «لَّیْسَ عَلَیْکَ ہُدَاہُمْ وَلَـکِنَّ اللہَ یَہْدِی مَن یَشَآءُ» ۱؎ (2-البقرۃ:272) ’ تمہارے ذمہ ان کی ہدایت نہیں بلکہ اللہ جسے چاہے ہدایت کرتا ہے ‘ اور جگہ ہے «اِنَّکَ لَا تَہْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَہْدِیْ مَنْ یَّشَاءُ وَہُوَ اَعْلَمُ بالْمُہْتَدِیْنَ» ۱؎ (28-القصص:56) ’ یعنی تم جسے چاہو ہدایت نہیں دے سکتے بلکہ اللہ جسے چاہے راہ راست پر لا کھڑا کرتا ہے ‘ اسی مضمون کو یہاں بھی بیان فرمایا ہے ۔ قتادہ رحمہ اللہ اس آیت کو سن کر یہ دعا کرتے «اللھم اجعلنا ممن یخاف وعیدک ویرجو موعدک یا بار یا رحیم » یعنی اے اللہ ! تو ہمیں ان میں سے کر جو تیری سزاؤں کے ڈراوے سے ڈرتے ہیں اور تیری نعمتوں کے وعدے کی امید لگائے ہوئے ہیں ، اے بہت زیادہ احسان کرنیوالے اور اے بہت زیادہ رحم کرنے والے ۔ سورۃ ق کی تفسیر ختم ہوئی ۔ «والحمدللہ وحدہ وحسبنا اللہ ونعم الوکیل» ق
42 ق
43 ق
44 ق
45 ق
0 الذاريات
1 1 خلیفۃ المسلمین سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کوفے کے منبر پر چڑھ کر ایک مرتبہ فرمانے لگے کہ ” قرآن کریم کی جس آیت کی بابت اور جس سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت تم کوئی سوال کرنا چاہتے ہو کر لو “ ، اس پر ابن الکواء نے کھڑے ہو کر پوچھا کہ «الذَّارِیَاتِ» سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا : ” ہوا “ ، پوچھا : «الْحَامِلَات» سے ؟ فرمایا : ” ابر “ ، کہا : «الْجَارِیَات» سے ؟ فرمایا : ” کشتیاں “ ، کہا : «الْمُقَسِّمَات» سے ؟ فرمایا : ” فرشتے “ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:442/11) اس بارے میں ایک مرفوع حدیث بھی آئی ہے ۔ مسند بزار میں ہے صبیغ تمیمی ، امیر المؤمنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا : بتاؤ «الذَّارِیَاتِ» سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا : ” ہوا “ ، اور اسے اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہوا نہ ہوتا تو میں کبھی یہ مطلب نہ کہتا ۔ پوچھا : «الْمُقَسِّمَات» سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا : ” فرشتے “ اور اسے بھی میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سن رکھا ہے ۔ پوچھا : «الْجَارِیَات» سے کیا مطلب ہے ؟ فرمایا : ” کشتیاں“ ۔ یہ بھی میں نے اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ سنا ہوتا تو تجھ سے نہ کہتا ۔ پھر حکم دیا کہ اسے سو کوڑے لگائے جائیں ، چنانچہ اسے درے مارے گئے اور ایک مکان میں رکھا گیا ، جب زخم اچھے ہو گئے ، تو بلوا کر پھر کوڑے پٹوائے ، اور سوار کرا کر سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کو لکھ بھیجا کہ یہ کسی مجلس میں نہ بیٹھنے پائے کچھ دنوں بعد یہ سیدنا موسیٰ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور بڑی سخت تاکیدی قسمیں کھا کر انہیں یقین دلایا کہ اب میرے خیالات کی پوری اصلاح ہو چکی ، اب میرے دل میں بدعقیدگی نہیں رہی جو پہلے تھی ۔ چنانچہ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے سیدنا امیر المومنین کی خدمت میں اس کی اطلاع دی اور ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ میرا خیال ہے کہ اب وہ واقعی ٹھیک ہو گیا ہے۔ اس کے جواب میں دربار خلافت سے فرمان پہنچا کہ پھر انہیں مجلس میں بیٹھنے کی اجازت دے دی جائے۔ ۱؎ (مسند بزار:2259:ضعیف) امام ابوبکر بزار رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اس کے دو راویوں میں کلام ہے پس یہ حدیث ضعیف ہے ۔ ٹھیک بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ حدیث بھی موقوف ہے یعنی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا اپنا فرمان ہے مرفوع حدیث نہیں ۔ امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ نے اسے جو پٹوایا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کی بد عقیدگی آپ پر ظاہر ہو چکی تھی اور اس کے یہ سوالات ازروئے انکار اور مخالفت کے تھے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» صبیغ کے باپ کا نام عسل تھا اور اس کا یہ قصہ مشہور ہے جسے پورا پورا حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ لائے ہیں ۔ یہی تفسیر سیدنا ابن عباس ، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہم ، مجاہد ، سعید بن جبیر ، حسن ، قتادہ ، سدی رحمہم اللہ وغیرہ سے مروی ہے ۔ امام ابن جریر اور امام ابن ابی حاتم رحمہا اللہ نے ان آیتوں کی تفسیر میں اور کوئی قول وارد ہی نہیں کیا «حَامِلَاتِ» سے مراد ابر ہونے کا محاورہ اس شعر میں بھی پایا جاتا ہے ۔ «وَاَسْلَمْتُ نَفْسِیْ لـمَنْ اَسْلَمْتُ » *** «لَہُ الْـمُـزْنُ تَحْمِلُ عَذْبًا زُلَالاً» یعنی ” میں اپنے آپ کو اس اللہ کا تابع فرمان کرتا ہوں جس کے تابع فرمان وہ بادل ہیں جو صاف شفاف میٹھے اور ہلکے پانی کو اٹھا کر لے جاتے ہیں “ ۔ ۱؎ (سیرۃ ابن ھشام:231/1) «الْجَارِیَات» سے مراد بعض نے ستارے لیے ہیں جو آسمان پر چلتے پھرتے رہتے ہیں ، یہ معنی لینے میں یعنی ادنیٰ سے اعلیٰ کی طرف ہو گی ۔ اولًا ہوا ، پھر بادل ، پھر ستارے ، پھر فرشتے ، جو کبھی اللہ کا حکم لے کر اترتے ہیں ، کبھی کوئی سپرد کردہ کام بجا لانے کے لیے تشریف لاتے ہیں ۔ چونکہ یہ سب قسمیں اس بات پر ہیں کہ قیامت ضرور آنی ہے اور لوگ دوبارہ زندہ کئے جائیں گے ، اس لیے ان کے بعد ہی فرمایا کہ ’ تمہیں جو وعدہ دیا جاتا ہے وہ سچا ہے اور حساب کتاب جزا سزا ضرور واقع ہونے والی ہے ‘ ۔ پھر آسمان کی قسم کھائی جو خوبصورتی رونق حسن اور برابری والا ہے ، بہت سے سلف نے یہی معنی «حُبُکْ» کے بیان کئے ہیں ۔ ضحاک رحمہ اللہ وغیرہ فرماتے ہیں کہ پانی کی موجیں ، ریت کے ذرے ، کھیتیوں کے پتے ، ہوا کے زور سے جب لہراتے ہیں اور پرشکن لہرائے دار ہو جاتے ہیں اور گویا ان میں راستے پڑ جاتے ہیں ، اسی کو «حُبُکْ» کہتے ہیں ۔ ابن جریر کی ایک حدیث میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” تمہارے پیچھے کذاب بہکانے والا ہے ، اس کے سر کے بال پیچھے کی طرف سے «حُبُکْ حُبُکْ» ہیں یعنی گھونگر والے “ } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:445/11) ابوصالح رحمہ اللہ فرماتے ہیں «حُبُکْ» سے مراد شدت والا ، «خصیف» سے مراد خوش منظر ہے ۔ حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس کی خوبصورتی اس کے ستارے ہیں ۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اس سے مراد ساتواں آسمان ہے ۔ ممکن ہے آپ کا مطلب یہ ہو کہ قائم رہنے والے ستارے اس آسمان میں ہیں اکثر علماء ہیئت کا بیان ہے کہ یہ آٹھویں آسمان میں ہیں جو ساتویں کے اوپر ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ان تمام اقوال کا ماحصل ایک ہی ہے یعنی حسن و رونق والا آسمان ، اس کی بلندی ، صفائی ، پاکیزگی ، بناوٹ کی عمدگی ، اس کی مضبوطی ، اس کی چوڑائی اور کشادگی ، اس کا ستاروں کا جگمگانا ، جن میں سے بعض چلتے پھرتے رہتے ہیں اور بعض ٹھہرے ہوئے ہیں ، اس کا سورج اور چاند جیسے سیاروں سے مزین ہونا یہ سب اس کی خوبصورتی اور عمدگی کی چیزیں ہیں ۔ پھر فرماتا ہے ’ اے مشرکو ! تم اپنے ہی اقوال میں مختلف اور مضطرب ہو تم کسی صحیح نتیجے پر اب تک خود اپنے طور پر بھی نہیں پہنچے ہو ، کسی رائے پر تمہارا اجتماع نہیں ‘ ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ان میں سے بعض تو قرآن کو سچا جانتے تھے بعض اس کی تکذیب کرتے تھے ۔ پھر فرماتا ہے ’ یہ حالت اسی کی ہوتی ہے جو خود گمراہ ہو ‘ ، وہ اپنے ایسے باطل اقوال کی وجہ سے بہک اور بھٹک جاتا ہے صحیح سمجھ اور سچا علم اس سے فوت ہو جاتا ہے ۔ جیسے اور آیت میں ہے «فَإِنَّکُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ» * «مَا أَنْتُمْ عَلَیْہِ بِفَاتِنِینَ» * «إِلَّا مَنْ ہُوَ صَالِ الْجَحِیمِ» (37-الصافات:163-161) یعنی ’ تم لوگ مع اپنے معبودان باطل کے سوائے جہنمی لوگوں کے کسی کو بہکا نہیں سکتے ، بجز اس کے جو جہنمی ہی ہے ‘ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے گمراہ وہی ہوتا ہے جو خود بہکا ہوا ہو ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے دور وہی ہوتا ہے جو بھلائیوں سے دور ڈال دیا گیا ہے ۔ امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں قرآن سے وہی ہٹتا ہے جو اسے پہلے ہی سے جھٹلانے پر کمر کس لیے ہو پھر فرماتا ہے کہ ’بے سند باتیں کہنے والے ہلاک ہوں ‘ یعنی جھوٹی باتیں بنانے والے جنہیں یقین نہ تھا جو کہتے تھے کہ ہم اٹھائے نہیں جائیں گے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یعنی شک کرنے والے ملعون ہیں ۔ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ بھی اپنے خطبے میں یہی فرماتے تھے ، ” یہ دھوکے والے اور بدگمان لوگ ہیں “ ۔ پھر فرمایا ’ جو لوگ اپنے کفر و شک میں غافل اور بےپرواہ ہیں ‘ یہ لوگ ازروئے انکار پوچھتے ہیں کہ جزا کا دن کب آئے گا ؟ اللہ فرماتا ہے ’ اس دن تو یہ آگ میں تپائے جائیں گے ، جس طرح سونا تپایا جاتا ہے ، یہ اس میں جلیں گے اور ان سے کہا جائے گا کہ جلنے کا مزہ چکھو ۔ اپنے کرتوت کے بدلے برداشت کرو ‘ ۔ پھر ان کی اور زیادہ حقارت کے لیے ان سے بطور ڈانٹ ڈپٹ کے کہا جائے گا ’ یہی ہے جس کی جلدی مچا رہے تھے کہ کب آئے گا ، کب آئے گا ‘ ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» الذاريات
2 الذاريات
3 الذاريات
4 الذاريات
5 الذاريات
6 الذاريات
7 الذاريات
8 الذاريات
9 الذاريات
10 الذاريات
11 الذاريات
12 الذاريات
13 الذاريات
14 الذاريات
15 حسن کارکردگی کے انعامات پرہیزگار اللہ سے ڈرنے والے لوگوں کا انجام بیان ہو رہا ہے کہ یہ قیامت کے دن جنتوں میں اور نہروں میں ہوں گے بخلاف ان بدکرداروں کے جو عذاب و سزا ، طوق و زنجیر ، سختی اور مار پیٹ میں ہوں گے ۔ جو فرائض الٰہی ان کے پاس آئے تھے یہ ان کے عامل تھے اور ان سے پہلے بھی وہ اخلاص سے کام کرنے والے تھے ۔ لیکن اس تفسیر میں ذرا تامل ہے دو وجہ سے اول تو یہ کہ یہ تفسیر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی کہی جاتی ہے لیکن سند صحیح سے ان تک نہیں پہنچتی بلکہ اس کی یہ سند بالکل ضعیف ہے ۔ دوسرے یہ کہ «اٰخِذِیْنَ» کا لفظ حال ہے ، اگلے جملے سے تو یہ مطلب ہوا کہ متقی لوگ جنت میں اللہ کی دی ہوئی نعمتیں حاصل کر رہے ہوں گے اس سے پہلے وہ بھلائی کے کام کرنے والے تھے یعنی دنیا میں جیسے اللہ تعالیٰ جل جلالہ نے اور آیتوں میں فرمایا «کُلُوا وَاشْرَ‌بُوا ہَنِیئًا بِمَا أَسْلَفْتُمْ فِی الْأَیَّامِ الْخَالِیَۃِ» ۱؎ (69-الحاقۃ:24) یعنی ’ دار دنیا میں تم نے جو نیکیاں کی تھیں ان کے بدلے اب تم یہاں شوق سے پاکیزہ و پسندیدہ کھاتے پیتے رہو ‘ ۔ الذاريات
16 الذاريات
17 1 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ ان کے عمل کے اخلاص یعنی ان کے احسان کی تفصیل بیان فرما رہا ہے کہ یہ رات کو بہت کم سویا کرتے تھے ۔ بعض مفسرین کہتے ہیں یہاں «مَا» نافیہ ہے تو بقول سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ یہ مطلب ہو گا کہ ” ان پر کوئی رات ایسی نہ گزرتی تھی جس کا کچھ حصہ یاد الٰہی میں نہ گزارتے ہوں خواہ اول وقت میں کچھ نوافل پڑھ لیں خواہ درمیان میں “ یعنی ” کچھ نہ کچھ کسی نہ کسی وقت نماز عموماً ہر رات پڑھ ہی لیا کرتے تھے ساری رات سوتے سوتے نہیں گزارتے تھے “ ۔ ابوالعالیہ رحمہ اللہ وغیرہ فرماتے ہیں ” یہ لوگ مغرب عشاء کے درمیان کچھ نوافل پڑھ لیا کرتے تھے “ ۔ امام ابو جعفر باقر رحمہ اللہ فرماتے ہیں مراد یہ ہے کہ ” عشاء کی نماز پڑھنے سے پہلے نہیں سوتے تھے “ ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ «مَا» یہاں موصولہ ہے یعنی ” ان کی نیند رات کی کم تھی کچھ سوتے تھے کچھ جاگتے تھے اور اگر دل لگ گیا تو صبح ہو جاتی تھی اور پھر پچھلی رات کو جناب باری میں گڑگڑا کر توبہ استغفار کرتے تھے “ ۔ احنف بن قیس رحمہ اللہ اس آیت کا یہ مطلب بیان کر کے پھر فرماتے تھے ” افسوس مجھ میں یہ بات نہیں “ ۔ آپ کے شاگرد حسن بصری رحمہ اللہ کا قول ہے کہ آپ اکثر فرمایا کرتے تھے ، جنتیوں کے جو اعمال اور جو صفات بیان ہوئے ہیں ، میں جب کبھی اپنے اعمال و صفات کو ان کے مقابلے میں رکھتا ہوں تو بہت کچھ فاصلہ پاتا ہوں ۔ ” لیکن «اَلْحَمْدُ لِلہِ» جہنمیوں کے عقائد کے بالمقابل جب میں اپنے عقائد کو لاتا ہوں تو میں دیکھتا ہوں کہ وہ لوگ تو بالکل ہی خیر سے خالی تھے وہ کتاب اللہ کے منکر ، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منکر ، وہ موت کے بعد کی زندگی کے منکر ، پس ہماری تو حالت وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے لوگوں کی بتائی ہے «خَلَطُوا عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ‌ سَیِّئًا عَسَی اللہُ أَن یَتُوبَ عَلَیْہِمْ إِنَّ اللہَ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِیمٌ» ۱؎ (9-التوبۃ:102) یعنی ’ جنہوں نے ملے جلے عمل کیے تھے ، کچھ بھلے اور کچھ برے۔ اللہ سے امید ہے کہ ان کی توبہ قبول فرمائے۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت والا بڑی رحمت والا ہے ‘ ۔ زید بن اسلم رحمہ اللہ سے قبیلہ بنو تمیم کے ایک شخص نے کہا : اے ابوسلمہ! یہ صفت تو ہم میں نہیں پائی جاتی کہ ہم رات کو بہت کم سوتے ہوں بلکہ ہم تو بہت کم وقت عبادت اللہ میں گزارتے ہیں ، تو آپ نے فرمایا : ” وہ شخص بھی بہت ہی خوش نصیب ہے جو نیند آئے تو سو جائے اور جاگے تو اللہ سے ڈرتا رہے “ ۔ { سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب شروع شروع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ شریف میں تشریف لائے تو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے لیے ٹوٹ پڑے اور اس مجمع میں میں بھی تھا ، واللہ ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک چہرہ پر نظر پڑتے ہی اتنا تو میں نے یقین کر لیا کہ یہ نورانی چہرہ کسی جھوٹے انسان کا نہیں ہو سکتا ۔ سب سے پہلی بات جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی میرے کان میں پڑی یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا : ” اے لوگو! کھانا کھلاتے رہو اور صلہ رحمی کرتے رہو اور سلام کیا کرو اور راتوں کو جب لوگ سوئے ہوئے ہوں نماز ادا کرو تو تم سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے “ } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2485،قال الشیخ الألبانی:صحیح) مسند احمد میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ” جنت میں ایسے بالاخانے ہیں جن کے اندر کا حصہ باہر سے اور باہر کا حصہ اندر سے نظر آتا ہے “ ، یہ سن کر ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے فرمایا : یا رسول اللہ ! یہ کن کے لیے ہیں ؟ فرمایا : ” ان کے لیے جو نرم کلام کریں اور دوسروں کو کھلاتے پلاتے رہیں اور جب لوگ سوتے ہوں یہ نمازیں پڑھتے رہیں “ } ۔ ۱؎ (مسند احمد:173/2:حسن لغیرہ) زہری اور حسن رحمہ اللہ علیہم فرماتے ہیں اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ ” وہ رات کا اکثر حصہ تہجد گزاری میں نکالتے ہیں “ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور ابراہیم نخعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ ” رات کا بہت کم حصہ وہ سوتے ہیں “ ۔ ضحاک رحمہ اللہ «کَانُوْا قَلِیلًا» کو اس سے پہلے کے جملے کے ساتھ ملاتے ہیں اور «مِنَ اللَّیْلِ» سے ابتداء بتاتے ہیں لیکن اس قول میں بہت دوری اور تکلف ہے ۔ پھر اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے ’ سحر کے وقت وہ استغفار کرتے ہیں ‘ ۔ مجاہد رحمہ اللہ وغیرہ فرماتے ہیں یعنی ” نماز پڑھتے ہیں “ اور مفسرین فرماتے ہیں ” راتوں کو قیام کرتے ہیں اور صبح کے ہونے کے وقت اپنے گناہوں کی معافی طلب کرتے ہیں “ ۔ جیسے اور جگہ فرمان باری ہے «وَالْمُسْـتَغْفِرِیْنَ بالْاَسْحَارِ» ۱؎ (3-آل عمران:17) یعنی ’ سحر کے وقت یہ لوگ استغفار کرنے لگ جاتے ہیں ‘ ۔ اگر یہ استغفار نماز میں ہی ہو تو بھی بہت اچھا ہے ، صحاح وغیرہ میں صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت کی کئی روایتوں سے ثابت ہے کہ { رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جب آخری تہائی رات باقی رہ جاتی ہے اس وقت اللہ تبارک و تعالیٰ ہر رات کو آسمان دنیا کی طرف اترتا ہے اور فرماتا ہے کوئی گنہگار ہے ؟ جو توبہ کرے اور میں اس کی توبہ قبول کروں ، کوئی استغفار کرنے والا ہے ؟ جو استغفار کرے اور میں اسے بخشوں ، کوئی مانگنے والا ہے ؟ جو مانگے اور میں اسے دوں ، فجر کے طلوع ہونے تک یہی فرماتا ہے “ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1145) اکثر مفسرین نے فرمایا کہ اللہ کے نبی یقعوب علیہ السلام نے اپنے لڑکوں سے جو فرمایا تھا «سَوْفَ اَسْتَغْفِرُ لَکُمْ رَبِّیْ اِنَّہٗ ہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ » ۱؎ (12-یوسف:98) ’ میں اب عنقریب تمہارے لیے استغفار کروں گا ‘ ، اس سے بھی مطلب یہی تھا کہ سحر کا وقت جب آئے گا تب استغفار کروں گا ۔ پھر ان کا یہ وصف بیان کیا جاتا ہے کہ جہاں یہ نمازی ہیں اور حق اللہ ادا کرتے ہیں وہاں لوگوں کے حق بھی نہیں بھولتے ، زکوٰۃ دیتے ہیں ، سلوک احسان اور صلہ رحمی کرتے ہیں ، ان کے مال میں ایک مقررہ حصہ مانگنے والوں اور ان حقداروں کا ہے جو سوال سے بچتے ہیں ۔ ابوداؤد وغیرہ میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ” سائل کا حق ہے گو وہ گھوڑ سوار ہو ، «مَحْرُوْمٌ» وہ ہے جس کا کوئی حصہ بیت المال میں نہ ہو خود اس کے پاس کوئی کام کاج نہ ہو صنعت و حرفت یاد نہ ہو جس سے روزی کما سکے “ } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:1665،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ” اس سے مراد وہ لوگ ہیں کہ کچھ سلسلہ کمانے کا کر رکھا ہے لیکن اتنا نہیں پاتے کہ انہیں کافی ہو جائے “ ۔ ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” وہ شخص جو مالدار تھا لیکن مال تباہ ہو گیا “ ، چنانچہ یمامہ میں جب پانی کی طغیانی آئی اور ایک شخص کا تمام مال اسباب بہا لے گئی تو ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ” یہ «مَحْرُوْمٌ» ہے “ ۔ اور بزرگ مفسرین فرماتے ہیں «مَحْرُوْمٌ» سے مراد وہ شخص ہے جو حاجت کے باوجود کسی سے سوال نہیں کرتا ۔ ایک حدیث میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ” مسکین صرف وہی لوگ نہیں جو گھومتے پھرتے ہیں اور جنہیں ایک دو لقمے یا ایک دو کھجوریں تم دے دیا کرتے وہ بلکہ حقیقتًا وہ لوگ بھی مسکین ہیں جو اتنا نہیں پاتے کہ انہیں حاجت نہ رہے اپنا حال قال ایسا رکھتے ہیں کہ کسی پر ان کی حاجت و افلاس ظاہر ہو اور کوئی انہیں صدقہ دے “ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1479) عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ مکے شریف جا رہے تھے کہ راستے میں ایک کتا پاس آ کر کھڑا ہو گیا آپ نے ذبح کردہ بکری کا ایک شانہ کاٹ کر اس کی طرف ڈال دیا اور فرمایا : لوگ کہتے ہیں یہ بھی «مَحْرُوْمٌ» میں سے ہے ۔ شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں تو عاجز آ گیا لیکن «مَحْرُوْمٌ» معنی معلوم نہ کر سکا ۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں «مَحْرُوْمٌ» وہ ہے جس کے پاس مال نہ رہا ہو خواہ وجہ کچھ بھی ہو ۔ یعنی حاصل ہی نہ کر سکا کمانے کھانے کا سلیقہ ہی نہ ہو یا کام ہی نہ چلتا ہو یا کسی آفت کے باعث جمع شدہ مال ضائع ہو گیا ہو وغیرہ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:458/11) ایک مرتبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چھوٹا سا لشکر کافروں کی سرکوبی کے لیے روانہ فرمایا ، اللہ نے انہیں غلبہ دیا اور مال غنیمت بھی ملا پھر کچھ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وہ بھی آ گئے جو غنیمت حاصل ہونے کے وقت موجود نہ تھے پس یہ آیت اتری ۔ اس کا اقتضاء تو یہ ہے کہ یہ مدنی ہو لیکن دراصل ایسا نہیں بلکہ یہ آیت مکی ہے ۔ پھر فرماتا ہے ’ یقین رکھنے والوں کے لیے زمین میں بھی بہت سے نشانات قدرت موجود ہیں ‘ ، جو خالق کی عظمت و عزت ہیبت و جلالت پر دلالت کرتے ہیں دیکھو کہ کس طرح اس میں حیوانات اور نباتات کو پھیلا دیا ہے اور کس طرح اس میں پہاڑوں ، میدانوں ، سمندروں اور دریاؤں کو رواں کیا ہے ۔ پھر انسان پر نظر ڈالو ان کی زبانوں کے اختلاف کو ان کے رنگ و روپ کے اختلاف کو ان کے ارادوں اور قوتوں کے اختلاف ہو ان کی عقل و فہم کے اختلاف کو ان کی حرکات و سکنات کو ان کی نیکی بدی کو دیکھو ان کی بناوٹ پر غور کرو کہ ہر عضو کیسی مناسب جگہ ہے ۔ اسی لیے اس کے بعد ہی فرمایا ’ خود تمہارے وجود میں ہی اس کی بہت سی نشانیاں ہیں ، کیا تم دیکھتے نہیں ہو ؟ ‘ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں جو شخص اپنی پیدائش میں غور کرے گا اپنے جوڑوں کی ترکیب پر نظر ڈالے گا وہ یقین کر لے گا کہ بیشک اسے اللہ نے ہی پیدا کیا اور اپنی عبادت کے لیے ہی بنایا ہے ۔ پھر فرماتا ہے ’ آسمان میں تمہاری روزی ہے یعنی بارش اور وہ بھی جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے یعنی جنت ‘ ۔ واصل احدب رحمہ اللہ نے اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا : ” افسوس میرا رزق تو آسمانوں میں ہے اور میں اسے زمین میں تلاش کر رہا ہوں ؟ “ یہ کہہ کر بستی چھوڑی اجاڑ جنگل میں چلے گئے ۔ تین دن تک تو انہیں کچھ بھی نہ ملا لیکن تیسرے دن دیکھتے ہیں کہ تر کھجوروں کا ایک خوشہ ان کے پاس رکھا ہوا ہے ۔ ان کے بھائی ساتھ ہی تھے دونوں بھائی آخری دم تک اسی طرح جنگلوں میں رہے ۔ پھر اللہ کریم خود اپنی قسم کھا کر فرماتا ہے کہ ’ میرے جو وعدے ہیں مثلاً قیامت کے دن دوبارہ جلانے کا ، جزا سزا کا ، یہ یقیناً سراسر سچے اور قطعًا بے شبہ ہو کر رہنے والے ہیں ، جیسے تمہاری زبان سے نکلے ہوئے الفاظ میں شک نہیں ہوتا اسی طرح تمہیں ان میں بھی کوئی شک ہرگز ہرگز نہ کرنا چاہیئے ‘ ۔ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ جب کوئی بات کہتے تو فرماتے : یہ بالکل حق ہے جیسے کہ تیرا یہاں ہونا حق ہے ۔ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” اللہ انہیں برباد کرے جو اللہ کی قسم کو بھی نہ مانیں “ } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:32191:مرسل و ضعیف) یہ حدیث مرسل ہے یعنی تابعی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ۔ صحابی رضی اللہ عنہ کا نام نہیں لیتے ۔ الذاريات
18 الذاريات
19 الذاريات
20 الذاريات
21 الذاريات
22 الذاريات
23 الذاريات
24 مہمان اور میزبان ؟ یہ واقعہ سورۃ ہود اور سورۃ الحجر میں بھی گزر چکا ہے یہ مہمان فرشتے تھے جو بشکل انسان آئے تھے جنہیں اللہ نے عزت و شرافت دے رکھی ہے ۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور دیگر علمائے کرام کی ایک جماعت کہتی ہے کہ مہمان کی ضیافت کرنا واجب ہے ۔ حدیث میں بھی یہ آیا ہے اور قرآن کریم کے ظاہری الفاظ بھی یہی ہیں ۔ انہوں نے سلام کیا جس کا جواب خلیل اللہ علیہ السلام نے بڑھا کر دیا اس کا ثبوت دوسرے سلام پر دو پیش کا ہونا ہے ۔ اور یہی فرمان باری تعالیٰ ہے فرماتا ہے «وَإِذَا حُیِّیتُم بِتَحِیَّۃٍ فَحَیٰوا بِأَحْسَنَ مِنْہَا أَوْ رُ‌دٰوہَا إِنَّ اللہَ کَانَ عَلَیٰ کُلِّ شَیْءٍ حَسِیبًا» ۱؎ (4-النساء:86) یعنی ’ جب کوئی تمہیں سلام کرے تو تم اس سے بہتر جواب دو یا کم از کم اتنا ہی ‘ ۔ پس خلیل اللہ علیہ السلام نے افضل صورت کو اختیار کیا ابراہیم علیہ السلام چونکہ اس سے ناواقف تھے کہ یہ دراصل فرشتے ہیں اس لیے کہا کہ یہ لوگ تو ناشناسا ہیں ۔ یہ فرشتے جبرائیل ، میکائیل اور اسرافیل علیہم السلام تھے ۔ جو خوبصورت نوجوان انسانوں کی شکل میں آئے تھے ان کے چہروں پر ہیبت و جلال تھا ۔ ابراہیم علیہ السلام اب ان کے لیے کھانے کی تیاری میں مصروف ہو گئے اور چپ چاپ بہت جلد اپنے گھر والوں کی طرف گئے اور ذرا سی دیر میں تیار بچھڑے کا گوشت بھنا بھنایا ہوا لے آئے اور ان کے سامنے رکھ دیا اور فرمایا ” آپ کھاتے کیوں نہیں ؟ “ اس سے ضیافت کے آداب معلوم ہوئے کہ مہمان سے پوچھے بغیر ہی ان پر شروع سے احسان رکھنے سے پہلے آپ چپ چاپ انہیں خبر کئے بغیر ہی چلے گئے اور بہ عجلت بہتر سے بہتر جو چیز پائی اسے تیار کر کے لے آئے ۔ تیار فربہ کم عمر بچھڑے کا بھنا ہوا گوشت لے آئے اور کہیں اور رکھ کر مہمان کی کھینچ تان نہ کی بلکہ ان کے سامنے ان کے پاس لا کر رکھا ۔ پھر انہیں یوں نہیں کہتے کہ کھاؤ کیونکہ اس میں بھی ایک حکم پایا جاتا ہے بلکہ نہایت تواضع اور پیار سے فرماتے ہیں : آپ تناول فرمانا شروع کیوں نہیں کرتے ؟ جیسے کوئی شخص کسی سے کہے کہ اگر آپ فضل و کرم ، احسان و سلوک کرنا چاہیں تو کیجئے ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ’ خلیل اللہ [ علیہ السلام ] اپنے دل میں ان سے خوفزدہ ہو گئے ‘ ۔ جیسے کہ اور آیت میں ہے «فَلَمَّا رَ‌أَیٰ أَیْدِیَہُمْ لَا تَصِلُ إِلَیْہِ نَکِرَ‌ہُمْ وَأَوْجَسَ مِنْہُمْ خِیفَۃً قَالُوا لَا تَخَفْ إِنَّا أُرْ‌سِلْنَا إِلَیٰ قَوْمِ لُوطٍ وَامْرَ‌أَتُہُ قَائِمَۃٌ فَضَحِکَتْ فَبَشَّرْ‌نَاہَا بِإِسْحَاقَ وَمِن وَرَ‌اءِ إِسْحَاقَ یَعْقُوبَ» (11-ہود:71-70) ، یعنی ’ آپ [ علیہ السلام ] نے جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف بڑھتے نہیں تو دہشت زدہ ہو گئے اور دل میں خوف کھانے لگے اس پر مہمانوں نے کہا : ڈرو مت ہم اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں جو قوم لوط کی ہلاکت کے لیے آئے ہیں ‘ ، آپ کی بیوی صاحبہ جو کھڑی ہوئی سن رہی تھیں وہ سن کر ہنس دیں تو فرشتوں نے انہیں خوشخبری سنائی کہ ’ تمہارے ہاں اسحاق پیدا ہوں گے اور ان کے ہاں یعقوب ‘ ۔ اس پر بیوی صاحبہ کو تعجب ہوا اور کہا : ہائے افسوس ! اب میرے ہاں بچہ کیسے ہو گا ؟ میں تو بڑھیا پھوس ہو گئی ہوں اور میرے شوہر بھی بالکل بوڑھے ہو گئے ۔ یہ سخت تر تعجب کی چیز ہے ، فرشتوں نے کہا : ” کیا تم اللہ کے کاموں سے تعجب کرتی ہو ؟ خصوصاً تم جیسی ایسی پاک گھرانے کی عورت ؟ تم پر اللہ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں ۔ جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ تعریفوں کے لائق اور بڑی بزرگی اور اعلیٰ شان والا ہے “ ۔ یہاں یہ فرمایا گیا ہے کہ ’ بشارت ابراہیم علیہ السلام کو دی گئی کیونکہ بچے کا ہونا دونوں کی خوشی کا موجب ہے ‘۔ پھر فرماتا ہے ’ یہ بشارت سن کر آپ کی اہلیہ صاحبہ کے منہ سے زور کی آواز نکل گئی اور اپنے تئیں دو ہتڑ مار کر ایسی عجیب و غریب خبر کو سن کر حیرت کے ساتھ کہنے لگیں کہ جوانی میں تو میں بانجھ رہی اب میاں بیوی دونوں بوڑھے ہو گئے تو مجھے حمل ٹھہرے گا ؟ ‘ اس کے جواب میں فرشتوں نے کہا کہ یہ خوشخبری کچھ ہم اپنی طرف سے نہیں دے رہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں فرمایا ہے کہ ہم تمہیں یہ خبر پہنچائیں ، وہ حکمت والا اور علم والا ہے ، تم جس عزت و کرامت کے مستحق ہو وہ خوب جانتا ہے اور اس کا فرمان ہے کہ تمہارے ہاں اس عمر میں بچہ ہو گا اس کا کوئی کام الحکمت سے خالی نہیں نہ اس کا کوئی فرمان حکمت سے خالی ہے ۔ «اَلْحَمْدُ لِلہِ» ! «اَلْحَمْدُ لِلہِ»! اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کے لطف و رحم سے تفسیر محمدی کا چھبیسواں پارہ حم بھی ختم ہوا ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے کلام پاک کا صحیح اور حقیقی مطلب سمجھائے اور پھر اس پر عمل کرنے کی توفیق دے ۔ اے پروردگار علم جس طرح تو نے مجھ پر اپنا یہ فضل کیا ہے کہ اپنے کلام کی خدمت مجھ سے لی اسی طرح یہ بھی فضل کر کہ اسے قبول فرما اور میرے لیے باقیات صالحات میں اسے کر لے ۔ اور اس تفسیر کو میری تقصیر کی معافی کا سبب بنا دے اپنے تمام بندوں کو اس سے فائدہ پہنچا اور سب کو عمل صالح کی توفیق عطا فرما ۔ «آمین» الذاريات
25 الذاريات
26 الذاريات
27 الذاريات
28 الذاريات
29 الذاريات
30 الذاريات
31 ابراھیم علیہ السلام کے پاس فرشتوں کی آمد پہلے بیان ہو چکا ہے کہ ’ جب ان نووارد مہمانوں سے ابراہیم علیہ السلام کا تعارف ہوا اور دہشت جاتی رہی ‘ ، بلکہ ان کی زبانی ایک بہت بڑی خوشخبری بھی سن چکے اور اپنی بردباری ، اللہ ترسی اور دردمندی کی وجہ سے اللہ کی جناب میں قوم لوط کی سفارش بھی کر چکے اور اللہ کے ہاں کے حتمی وعدے کا اعلان بھی سن چکے ، اس کے بعد جو ہوا اس کا بیان یہاں ہو رہا ہے کہ خلیل اللہ نے ان فرشتوں سے دریافت فرمایا کہ آپ لوگ کس مقصد سے آئے ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ قوم لوط کے گنہگاروں کو تاخت تاراج کرنے کے لیے ہمیں بھیجا گیا ہے ہم ان پر سنگ باری اور پتھراؤ کریں گے ان پتھروں کو ان پر برسائیں گے جن پر اللہ کے حکم سے پہلے ہی ان کے نام لکھے جا چکے ہیں اور ہر ایک گنہگار کے لیے الگ الگ پتھر مقرر کر دئیے گئے ہیں ۔ سورۃ العنکبوت میں گزر چکا ہے کہ «قَالَ إِنَّ فِیہَا لُوطًا قَالُوا نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَن فِیہَا لَنُنَجِّیَنَّہُ وَأَہْلَہُ إِلَّا امْرَ‌أَتَہُ کَانَتْ مِنَ الْغَابِرِ‌ینَ» ۱؎ (29-العنکبوت:32) یہ سن کر خلیل الرحمن علیہ السلام نے فرمایا کہ وہاں تو لوط ہیں پھر وہ بستی کی بستی کیسے غارت کر دی جائے گی ؟ فرشتوں نے کہا اس کا علم ہمیں بھی ہے ہمیں حکم مل چکا ہے کہ ہم انہیں اور ان کے ساتھ کے گھرانے کے تمام ایمان داروں کو بچا لیں ہاں ان کی بیوی نہیں بچ سکتی وہ بھی مجرموں کے ساتھ اپنے جرم کے بدلے ہلاک کر دی جائے گی ۔ اسی طرح یہاں بھی ارشاد ہے کہ ’ اس بستی میں جتنے بھی مومن تھے سب کو بچا لیا گیا ‘ ، اس سے بھی مراد لوط علیہ السلام اور ان کے گھرانے کے لوگ ہیں سوائے ان کی بیوی کے ، جو ایمان نہیں لائی تھیں ۔ چنانچہ فرما دیا گیا کہ ’ وہاں سوائے ایک گھر کے اور گھر مسلمان تھا ہی نہیں ‘ ۔ یہ دونوں آیتیں دلیل ہیں ان لوگوں کی جو کہتے ہیں کہ ایمان و اسلام کی «مسمٰی» ایک ہی ہے ۔ اس لئے کہ یہاں انہی لوگوں کو مومن کہا گیا ہے اور پھر انہی کو مسلمان کہا گیا ہے۔ معتزلہ کا مذہب بھی یہی ہے کہ ایک ہی چیز ہے جسے ایمان بھی کہا جاتا ہے اور اسلام بھی ، لیکن یہ استدلال ضعیف ہے اس لیے کہ یہ لوگ مومن تھے اور یہ تو ہم بھی مانتے ہیں کہ ہر مومن مسلمان ہوتا ہے لیکن ہر مسلمان مومن نہیں ہوتا ۔ پس حال کی خصوصیت کی وجہ سے انہیں مومن مسلم کہا گیا ہے اس سے عام طور پر یہ بات نہیں ہوتا کہ ہر مسلم مومن ہے ۔ [ امام بخاری اور دیگر محدثین کا مذہب ہے کہ جب اسلام حقیقی اور سچا اسلام ہو تو وہی اسلام ایمان ہے اور اس صورت میں ایمان اسلام ایک ہی چیز ہے ہاں جب اسلام حقیقی طور پر نہ ہو تو بیشک اسلام ایمان میں فرق ہے صحیح بخاری شریف کتاب الایمان ملاحظہ ہو ۔ مترجم ] پھر فرماتا ہے کہ ’ ان کی آباد و شاد بستیوں کو عذاب سے برباد کر کے انہیں سڑے ہوئے بدبودار کھنڈر بنا دینے میں مومنوں کے لیے عبرت کے پورے سامان ہیں جو عذاب الٰہی سے ڈر رکھتے ہیں وہ ان نمونہ کو دیکھ کر اور اس زبردست نشان کو ملاحظہ کر کے پوری عبرت حاصل کر سکتے ہیں ‘ ۔ الذاريات
32 الذاريات
33 الذاريات
34 الذاريات
35 الذاريات
36 الذاريات
37 الذاريات
38 انجام تکبر ارشاد ہوتا ہے کہ ’ جس طرح قوم لوط کے انجام کو دیکھ کر لوگ عبرت حاصل کر سکتے ہیں اسی قسم کا فرعونیوں کا واقعہ ہے ہم نے ان کی طرف اپنے کلیم پیغمبر موسیٰ علیہ السلام کو روشن دلیلیں اور واضح برہان دے کر بھیجا لیکن ان کے سردار فرعون نے جو تکبر کا مجسمہ تھا حق کے ماننے سے عناد کیا اور ہمارے فرمان کو بےپرواہی سے ٹال دیا ‘ ۔ اس دشمن الٰہی نے اپنی طاقت و قوت کے گھمنڈ پر اپنے راج لشکر کے بل بوتے پر رب کے فرمان کی عزت نہ کی اور اپنے لوگوں کو اپنے ساتھ ملا کر موسیٰ علیہ السلام کی ایذاء رسانی پر اتر آیا اور کہنے لگا کہ موسیٰ یا تو جادوگر ہے یا دیوانہ ہے ’ پس اس ملامتی کافر ، فاجر ، معاند ، متکبر شخص کو ہم نے اس کے لاؤ لشکر سمیت دریا برد کر دیا ‘ ۔ ’ اسی طرح عادیوں کے سراسر عبرتناک واقعات بھی تمہارے گوش گزار ہو چکے ہیں جن کی سیاہ کاریوں کے وبال میں ان پر بے برکت ہوائیں بھیجی گئیں جن ہواؤں نے سب کے حلیے بگاڑ دئیے ایک لپٹ جس چیز کو لگ گئی وہ گلی سڑی ہڈی کی طرح ہو گئی ‘ ۔ ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ” ہوا دوسری زمین میں مسخر ہے جب اللہ تعالیٰ نے عادیوں کو ہلاک کرنا چاہا تو ہوا کے داروغہ کو حکم دیا کہ ان کی تباہی کے لیے ہوائیں چلا دو ، فرشتے نے کہا : کیا ہواؤں کے خزانے میں اتنا وزن کر دوں جتنا بیل کا نتھنا ہوتا ہے ، اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : نہیں ، اگر اتنا وزن کر دیا تو زمین کو اور اس کائنات کو الٹ دے گی بلکہ اتنا وزن کرو جتنا انگوٹھی کا حلقہ ہوتا ہے یہ تھیں وہ ہوائیں جو کہ جہاں جہاں سے گزر گئیں تمام چیزوں کو تہ و بالا کرتی گئیں “ } ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:433/22:ضعیف) اس حدیث کا فرمان رسول ہونا تو منکر ہے سمجھ سے زیادہ قریب بات یہی ہے کہ یہ سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کا قول ہے یرموک کی لڑائی میں انہیں دو بورے اہل کتاب کی کتابوں کے ملے تھے ممکن ہے انہی میں سے یہ بات آپ نے بیان فرمائی ہو ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» یہ ہوائیں جنوبی تھیں ، { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” میری مدد پروا ہواؤں سے کی گئی ہے اور عادی پچھوا ہواؤں سے ہلاک ہوئے ہیں “ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4105) ٹھیک اسی طرح ثمودیوں کے حالات پر اور ان کے انجام پر غور کرو کہ ان سے کہہ دیا گیا کہ ایک وقت مقررہ تک تو تم فائدہ اٹھاؤ جیسے اور جگہ فرمایا «وَأَمَّا ثَمُودُ فَہَدَیْنَـہُمْ فَاسْتَحَبٰواْ الْعَمَی عَلَی الْہُدَی فَأَخَذَتْہُمْ صَـعِقَۃُ الْعَذَابِ الْہُونِ» ۱؎ (41-فصلت:17) یعنی ’ ثمودیوں کو ہم نے ہدایت دی لیکن انہوں نے ہدایت پر ضلالت کو پسند کیا جس کے باعث ذلت کے عذاب کی ہولناک چیخ نے ان کے پتے پانی کر دئیے اور کلیجے پھاڑ دئیے یہ صرف ان کی سرکشی سرتابی نافرمانی اور سیاہ کاری کا بدلہ تھا ‘ ۔ ان پر ان کے دیکھتے دیکھتے عذاب الٰہی آ گیا تین دن تک تو یہ انتظار میں رہے عذاب کے آثار دیکھتے رہے ، آخر چوتھے دن صبح ہی صبح رب کا عذاب دفعۃً آ پڑا ، حواس باختہ ہو گئے کوئی تدبیر نہ بن پڑی ، اتنی بھی مہلت نہ ملی کہ کھڑے ہو کر بھاگنے کی کوشش تو کرتے یا کسی اور طرح اپنے بچاؤ کی کچھ تو فکر کر سکتے اسی طرح ان سے پہلے قوم نوح بھی ہمارے عذاب چکھ چکی ہے اپنی بدکاری اور کھلی نافرمانی کا خمیازہ وہ بھی بھگت چکی ہے یہ تمام مفصل واقعات فرعونیوں ، عادیوں ، ثمودیوں اور قوم نوح کے اس سے پہلے کی سورتوں کی تفسیر میں کئی بار بیان ہو چکے ۔ الذاريات
39 گناہ گاروں کا انجام no tafseer no tafseer no tafseer الذاريات
40 الذاريات
41 الذاريات
42 الذاريات
43 الذاريات
44 الذاريات
45 الذاريات
46 الذاريات
47 تخلیق کائنات زمین و آسمان کی پیدائش کا ذکر فرما رہا ہے کہ ’ ہم نے آسمان کو اپنی قوت سے پیدا کیا ہے اسے محفوظ اور بلند چھت بنا دیا ہے ‘ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما ، مجاہد ، قتادہ ، ثوری رحمہ اللہ علیہم اور بہت سے مفسرین نے یہی کہا ہے کہ ’ ہم نے آسمانوں کو اپنی قوت سے بنایا ہے اور ہم کشادگی والے ہیں اس کے کنارے ہم نے کشادہ کئے ہیں اور بےستون اسے کھڑا کر دیا ہے اور قائم رکھا ہے ، زمین کو ہم نے اپنی مخلوقات کے لیے بچھونا بنا دیا ہے اور بہت ہی اچھا بچھونا ہے ، تمام مخلوق کو ہم نے جوڑ جوڑ پیدا کیا ہے ، جیسے آسمان زمین ، دن رات ، خشکی تری ، اجالا اندھیرا ، ایمان کفر ، موت حیات ، بدی نیکی ، جنت دوزخ ، یہاں تک کہ حیوانات اور نباتات کے بھی جوڑے ہیں یہ اس لیے کہ تمہیں نصیحت حاصل ہو تم جان لو کہ ان کا سب کا خالق اللہ ہی ہے اور وہ لاشریک اور یکتا ہے پس تم اس کی طرف دوڑو اپنی توجہ کا مرکز صرف اسی کو بناؤ اپنے تمام تر کاموں میں اسی کی ذات پر اعتماد کرو تو تم سب کو صاف صاف آگاہ کر دینے والا ہوں خبردار اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا میرے کھلم کھلا خوف دلانے کا لحاظ رکھنا ‘ ۔ الذاريات
48 الذاريات
49 الذاريات
50 الذاريات
51 الذاريات
52 تبلیغ میں صبر و ضبط کی اہمیت اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو تسلی دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ کفار جو آپ کو کہتے ہیں وہ کوئی نئی بات نہیں ان سے پہلے کا کافروں نے بھی اپنے اپنے زمانہ کے رسولوں سے یہی کہا ہے ، کافروں کا یہ قول سلسلہ بہ سلسلہ یونہی چلا آیا ہے ، جیسے آپس میں ایک دوسرے کو وصیت کر کے جاتا ہو سچ تو یہ ہے کہ سرکشی اور سرتابی میں یہ سب یکساں ہیں اس لیے جو بات پہلے والوں کے منہ سے نکلی وہی ان کی زبان سے نکلتی ہے کیونکہ سخت دلی میں سب ایک سے ہیں پس آپ چشم پوشی کیجئے یہ مجنون کہیں ، جادوگر کہیں آپ صبر و ضبط سے سن لیں ہاں نصیحت کی تبلیغ نہ چھوڑئیے ، اللہ کی باتیں پہچاتے چلے جائیے ۔ جن دلوں میں ایمان کی قبولیت کا مادہ ہے وہ ایک نہ ایک روز راہ پر لگ جائیں گے ۔ پھر اللہ تعالیٰ جل جلالہ کا فرمان ہے کہ میں نے انسانوں اور جنوں کو کسی اپنی ضرورت کے لیے نہیں پیدا کیا بلکہ صرف اس لیے کہ میں انہیں ان کے نفع کے لیے اپنی عبادت کا حکم دوں وہ خوشی ناخوشی میرے معبود برحق ہونے کا اقرار کریں مجھے پہچانیں ۔ سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں بعض عبادتیں نفع دیتی ہیں اور بعض عبادتیں بالکل نفع نہیں پہنچاتیں جیسے قرآن میں ایک جگہ ہے کہ «وَلَئِن سَأَلْتَہُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَیَقُولُنَّ اللہُ» ۔ ۱؎ (31-لقمان:25) اور دوسری آیت میں ہے کہ «وَلَئِن سَأَلْتَہُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَیَقُولُنَّ اللہُ» ۱؎ (29-العنکبوت:61) ’ اگر تم ان کافروں سے پوچھو کہ آسمان و زمین کو کس نے پیدا کیا ہے ؟ تو یہ جواب دیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے ‘ ، تو گو یہ بھی عبادت ہے مگر مشرکوں کو کام نہ آئے گی ۔ غرض عابد سب ہیں خواہ عبادت ان کے لیے نافع ہو یا نہ ہو ۔ اور ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے مراد مسلمان انسان اور ایمان والے جنات ہیں ۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے { سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں پڑھایا ہے «إِنِّی أَنَا الرَّزَّاقُ ذُو القُوَّۃِ المَتِینُ» } یہ حدیث ابوداؤد ترمذی اور نسائی میں بھی ہے ، امام ترمذی رحمہ اللہ اسے حسن صحیح بتاتے ہیں ۔۱؎ (سنن ترمذی:2940،قال الشیخ الألبانی:صحیح) غرض اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو بندگی کیلئے پیدا کیا ہے ، اب اس کی عبادت یکسوئی کے ساتھ جو بجا لائے گا کسی کو اس کا شریک نہ کرے گا وہ اسے پوری پوری جزا عنایت فرمائے گا اور جو اس کی نافرمانی کرے گا اور اس کے ساتھ کسی کو شریک کرے گا وہ بدترین سزائیں بھگتے گا ، اللہ کسی کا محتاج نہیں بلکہ کل مخلوق ہر حال اور ہر وقت میں اس کی پوری محتاج ہے بلکہ محض بے دست و پا اور سراسر فقیر ہے ، خالق رزاق اکیلا اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ مسند احمد میں { حدیث قدسی ہے کہ اے ابن آدم ! میری عبادت کے لیے فارغ ہو جا میں تیرا سینہ تونگری اور بے نیازی سے پر کر دونگا اور تیری فقیری روک دوں گا اور اگر تو نے ایسا نہ کیا تو میں تیرے سینے کو اشغال سے بھر دوں گا اور تیری فقیری کو ہرگز بند نہ کروں گا } ۔ ۱؎ (مسند احمد:358/2:صحیح) ترمذی اور ابن ماجہ میں بھی یہ حدیث شریف ہے ، امام ترمذی اسے حسن غریب کہتے ہیں ۔ { خالد کے دونوں لڑکے حبہ اور سواء رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں ” ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کام میں مشغول تھے یا کوئی دیوار بنا رہے تھے یا کسی چیز کو درست کر رہے تھے ہم بھی اسی کام میں لگ گئے جب کام ختم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دعا دی “ اور فرمایا : ” سر ہل جانے تک روزی سے مایوس نہ ہونا ، دیکھو انسان جب پیدا ہوتا ہے ایک سرخ بوٹی ہوتا ہے بدن پر ایک چھلکا بھی نہیں ہوتا پھر اللہ تعالیٰ اسے سب کچھ دیتا ہے “ } ۔ ۱؎ (مسند احمد:469/3:ضعیف) بعض آسمانی کتابوں میں ہے اے ابن آدم میں نے تجھے اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے اس لیے تو اس سے غفلت نہ کر ، تیرے رزق کا میں ضامن ہوں ، تو اس میں بےجا تکلیف نہ کر ، مجھے ڈھونڈ تاکہ مجھے پا لے ، جب تو نے مجھے پا لیا ، تو یقین مان کہ تو نے سب کچھ پا لیا اور اگر میں تجھے نہ ملا ، تو سمجھ لے کہ تمام بھلائیاں تو کھو چکا ، سن تمام چیزوں سے زیادہ محبت تیرے دل میں میری ہونی چاہیئے ۔ پھر فرماتا ہے یہ کافر میرے عذاب کو جلدی کیوں مانگ رہے ہیں ؟ وہ عذاب تو انہیں اپنے وقت پر پہنچ کر ہی رہیں گے جیسے ان سے پہلے کا کافروں کو پہنچے قیامت کے دن جس دن کا ان سے وعدہ ہے انہیں بڑی خرابی ہو گی ۔ «اَلْحَمْدُ لِلہِ» سورۃ ذاریات کی تفسیر ختم ہوئی ۔ الذاريات
53 الذاريات
54 الذاريات
55 الذاريات
56 الذاريات
57 الذاريات
58 الذاريات
59 الذاريات
60 الذاريات
0 الطور
1 تفسیر سورۂ طور اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں سے ان چیزوں کی قسم کھا کر جو اس کی عظیم الشان قدرت کی نشانیاں ہیں فرماتا ہے کہ اس کا عذاب ہو کر ہی رہے گا ، جب وہ آئے گا کسی کی مجال نہ ہو گی کہ اسے ہٹا سکے ۔ «طور» اس پہاڑ کو کہتے ہیں جس پر درخت ہوں جیسے وہ پہاڑ جس پر اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے کلام کیا اور جہاں سے عیسیٰ علیہ السلام کو بھیجا تھا اور جو خشک پہاڑ ہو اسے «جبل» کہا جاتا ہے «طور» نہیں کہا جاتا ۔ «کِتَابٍ مَسْطُور» سے مراد یا تو لوح محفوظ ہے یا اللہ کی اتاری ہوئی ، لکھی ہوئی کتابیں ہیں جو انسانوں پر پڑھی جاتی ہیں اسی لیے ساتھ ہی فرما دیا کھلے ہوئے اوراق میں ۔ «الْبَیْتِ الْمَعْمُور» کی بابت معراج والی حدیث میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” ساتویں آسمان سے آگے بڑھنے کے بعد مجھے بیت المعمور دکھلایا گیا جس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے عبادت اللہ کے لیے جاتے ہیں ، دوسرے دن اتنے ہی اور لیکن جو آج گئے ان کی باری پھر قیامت تک نہیں آتی ۔ “ } (صحیح بخاری:3207) جس طرح زمین پر کعبتہ اللہ کا طواف ہوتا ہے اسی طرح آسمانوں کے طواف کی اور عبادت کی جگہ وہ ہے ۔ اسی حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا کہ بیت العمور سے کمر لگائے بیٹھے ہیں اس میں ایک باریک نکتہ یہ ہے کہ چونکہ خلیل اللہ بانی بیت اللہ تھے جن کے ہاتھوں زمین میں کعبۃ اللہ بنا تھا تو انہیں وہاں بھی اس کے کعبے سے لگے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا ۔ تو گویا اس عمل کی جزا اسی جیسی پروردگار نے اپنے خلیل کو دی ، یہ بیت المعمور ٹھیک خانہ کعبہ کے اوپر ہے اور ہے ساتویں آسمان پر ، یوں تو ہر آسمان میں ایک ایسا گھر ہے جہاں اس آسمان کے فرشتے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں پہلے آسمان جو اسی جگہ ہے اس کا نام بیت العزت ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ابن ابی حاتم میں حدیث ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” آسمان میں ایک گھر ہے جسے «معمور» کہتے ہیں جو کعبہ کی سمت میں ہے ، چوتھے آسمان میں ایک نہر ہے جس کا نام نہر «حیوان» ہے ، جبرائیل علیہ السلام ہر روز اس میں غوطہٰ لگاتے ہیں اور نکل کر بدن جھاڑتے ہیں ، جس سے ستر ہزار قطرے جھڑتے ہیں ایک ایک قطرے سے اللہ تعالیٰ ایک ایک فرشتہ پیدا کرتا ہے جنہیں حکم ہوتا ہے کہ وہ بیت المعمور میں جائیں اور نماز ادا کریں ، پھر وہ وہاں سے نکل آتے ہیں اب انہیں دوبارہ جانے کی نوبت نہیں آتی ، ان کا ایک سردار ہوتا ہے جسے حکم دیا جاتا ہے کہ انہیں لے کر کسی جگہ کھڑا ہو جائے پھر وہ اللہ کی تسبیح کے بیان میں لگ جاتے ہیں ، قیامت تک ان کا یہی شغل رہتا ہے ، } (الموضاعات لابن الجوزی:147/1،موضوع) یہ حدیث بہت ہی غریب ہے اس کے راوی روح بن صباح اس میں منفرد ہیں ، حافظوں کی ایک جماعت نے ان پر ایک حدیث کا انکار کیا ہے ، جیسے جوزجانی ، عقیلی ، حاکم وغیرہ امام حاکم ابوعبداللہ نیشاپوری رحمہ اللہ اسے بالکل بے اصل بتاتے ہیں سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے پوچھا کہ بیت المعمور کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : وہ آسمان میں ہے ، اسے «صراح» کہا جاتا ہے کعبہ کے ٹھیک اوپر ہے جس طرح زمین کا کعبہ حرمت کی جگہ ہے اسی طرح وہ آسمانوں میں حرمت کی جگہ ہے ، ہر روز اس میں ستر ہزار فرشتے نماز ادا کرتے ہیں لیکن جو آج گئے ہیں ان کی باری قیامت تک دوبارہ نہیں آتی کیونکہ فرشتوں کی تعداد ہی اس قدر ہے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:480/11:مرسل) ایک روایت میں ہے یہ پوچھنے والے ابن کواء رحمہ اللہ تھے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ { یہ عرش کے محاذ میں سے ہے ایک مرفوع روایت میں ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کو ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” بیت المعمور کو جانتے ہو ؟ “ انہوں نے کہا : اللہ اور اس کا رسول جانتے ہیں ، فرمایا : ” وہ آسمانی کعبہ ہے اور زمینی کعبہ کے بالکل اوپر ہے ایسا کہ اگر وہ گرے تو اسی پر گرے اس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے نماز ادا کرتے ہیں جن کی باری قیامت تک پھر نہیں آتی ۔ } (تفسیر ابن جریر الطبری:32297:مرسل) ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ فرشتے ابلیس کے قبیلے کے جنات میں سے ہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» اونچی چھت سے مراد آسمان ہے جیسے اور جگہ ہے «وَجَعَلْنَا السَّمَاءَ سَقْفًا مَّحْفُوْظًا وَّہُمْ عَنْ اٰیٰـتِہَا مُعْرِضُوْنَ» (21-الأنبیاء:32) ربیع بن انس رحمہ اللہ فرماتے ہیں مراد اس سے عرش ہے اس لیے کہ وہ تمام مخلوق کی چھت ہے ، اس قول کی توجیہ اس طرح ہو سکتی ہے کہ مراد عام ہو ، «الْبَحْرِ الْمَسْجُورِ» [ «بحر مسجور» سے مراد وہ پانی ہے جو عرش تلے ہے ، جو بارش کی طرح برسے گا ، جس سے قیامت کے دن مردے اپنی اپنی قبروں سے اٹھیں گے ] ۔ جمہور کہتے ہیں یہی دریا مراد ہیں ، انہیں جو «الْمَسْجُور» کہا گیا ہے یہ اس لیے قیامت کے دن ان میں آگ لگا دی جائے گی جیسے اور جگہ ہے «وَاِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ» (81-التکویر:6) جبکہ دریا بھڑکا دیئے جائیں اور ان میں آگ لگ جائے گی ، جو پھیل کر تمام اہل محشر کو گھیر لے گی - علاء بن بدر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ بھڑکتے ہوئے دریا اس لیے کہا گیا کہ نہ اس کا پانی پینے کے کام میں آئے اور نہ کھیتی کو دیا جائے یہی حال قیامت کے دن دریاؤں کا ہو گا ، یہ معنی بھی کئے گئے ہیں کہ دریا بہتا ہوا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ دریا پرُشُدہ ادھر ادھر جاری ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں «مسجور» سے مراد فارغ یعنی خالی ہے ، کوئی لونڈی پانی لینے کو جائے پھر لوٹ کر کہے کہ حوض «مسجور» ہے اس سے مراد یہی ہے کہ خالی ہے ، یہ بھی کہا گیا ہے کہ معنی یہ ہیں کہ اسے زمین سے روک دیا گیا ہے ، اس لیے کہ ڈبو نہ سکے ۔ مسند احمد کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ { ہر رات تین مرتبہ دریا اللہ تعالیٰ سے اجازت طلب کرتا ہے کہ اگر حکم ہو تو تمام لوگوں کو ڈبو دوں لیکن اللہ تعالیٰ اسے روک دیتا ہے ۔ } (مسند احمد:43/1:ضعیف) دوسری روایت میں ہے کہ ایک بزرگ مجاہد جو سمندر کی سرحد کے لشکروں میں تھے وہ جہاد کی تیاری میں وہیں رہتے تھے ، فرماتے ہیں : ایک رات میں چوکیداری کے لیے نکلا ، اس رات کوئی اور پہرے پر نہ تھا ، میں گشت کرتا ہوا میدان میں پہنچا اور وہاں سے سمندر پر نظریں ڈالیں ، تو ایسا معلوم ہوا کہ گویا سمندر پہاڑ کی چوٹیوں سے ٹکرا رہا ہے ، باربار یہی نظارہ میں نے دیکھا ۔ میں نے ابوصالح سے یہ واقعہ بیان کیا انہوں نے بروایت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اوپر والی حدیث مجھے سنائی لیکن اس کی سند میں ایک راوی مبہم ہے جس کا نام نہیں لیا گیا ۔ ان قسموں کے بعد اب جس چیز پر قسمیں کھائی گئی تھیں ان کا بیان ہو رہا ہے کہ کافروں کو جو عذاب الہٰی ہونے والا ہے وہ یقینی طور پر آنے والا ہی ہے ، جب وہ آئے گا کسی کے بس میں اس کا روکنا نہ ہو گا ۔ ابن ابی الدنیا میں ہے کہ ایک رات سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ شہر کی دیکھ بھال کے لیے نکلے تو ایک مکان سے کسی مسلمان کی قرآن خوانی کی آواز کان میں پڑی وہ سورۃ والطور پڑھ رہے تھے ، آپ نے سواری روک لی اور کھڑے ہو کر قرآن سننے لگے ، جب وہ اس آیت پر پہنچے تو زبان سے نکل گیا کہ ”رب کعبہ کی قسم سچی ہے “ ، پھر اپنے گدھے سے اتر پڑے اور دیوار سے تکیہ لگا کر بیٹھ گئے ، چلنے پھرنے کی طاقت نہ رہی ، دیر تک بیٹھے رہنے کے بعد جب ہوش و حواس ٹھکانے آئے ، وہ اپنے گھر پہنچے لیکن اللہ کے کلام کی اس ڈراؤنی آیت کے اثر سے دل کی کمزوری کی یہ حالت تھی کہ مہینہ بھر تک بیمار پڑے رہے اور ایسے کہ لوگ بیمار پرسی کو آتے تھے گو کسی کو معلوم نہ تھا کہ بیماری کیا ہے ؟ ۔ ایک روایت میں ہے آپ رضی اللہ عنہ کی تلاوت میں ایک مرتبہ یہ آیت آئی ، اسی وقت ہچکی بندھ گئی اور اس قدر قلب پر اثر پڑا کہ بیمار ہو گئے ، چنانچہ بیس دن تک عیادت کی جاتی رہی ۔ اس دن آسمان تھرتھرائے گا ، پھٹ جائے گا ، چکر کھانے لگے گا ، پہاڑ اپنی جگہ سے ہل جائیں گے ، ہٹ جائیں گے ، ادھر کے ادھر ہو جائیں گے ، کانپ کانپ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو کر پھر ریزہ ریزہ ہو جائیں گے ، آخر روئی کے گالوں کی طرح ادھر ادھر اتر جائیں گے اور بےنام و نشان ہو جائیں گے اس دن ان لوگوں پر جو اس دن کو نہ مانتے تھے ویل، و حسرت ،خرابی ہلاکت ہو گی ۔ الطور
2 الطور
3 الطور
4 الطور
5 الطور
6 الطور
7 الطور
8 الطور
9 الطور
10 الطور
11 الطور
12 1 اللہ کا عذاب ، فرشتوں کی مار ، جہنم کی آگ ان کے لیے ہو گی جو دنیا میں مشغول تھے اور دین کو ایک کھیل تماشہ مقرر کر رکھا تھا ، اس دن انہیں دھکے دے کر نار جہنم کی طرف دھکیلا جائے گا اور داروغہ جہنم ان سے کہے گا کہ یہ وہ جہنم ہے جسے تم نہیں مانتے تھے پھر مزید ڈانٹ ڈپٹ کے طور پر کہیں گے ، اب بولو ! کیا یہ جادو ہے یا تم اندھے ہو ؟ جاؤ ! اس میں ڈوب جاؤ ، یہ تمہیں چاروں طرف سے گھیر لے گی ، اب اس کے عذاب کی تمہیں سہار ہو یا نہ ہو ، ہائے وائے کرو ، خواہ خاموش رہو ، اسی میں پڑے جھلستے رہو گے ، کوئی ترکیب فائدہ نہ دے گی ، کسی طرح چھوٹ نہ سکو گے ، یہ اللہ کا ظلم نہیں بلکہ صرف تمہارے اعمال کا بدلہ ہے ۔ الطور
13 الطور
14 الطور
15 الطور
16 الطور
17 جنت کے مناظر اللہ تعالیٰ نیک بختوں کا انجام بیان فرما رہا ہے کہ عذاب و سزا جو ان بدبختوں کو ہو رہا ہے یہ اس سے محفوظ کر کے جنتوں میں پہنچا دئیے گئے ، جہاں کی بہترین نعمتوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور ہر طرح خوش حال ، خوش دل ہیں ، قسم قسم کے کھانے ، طرح طرح کے پینے ، بہترین لباس ، عمدہ عمدہ سواریاں ، بلند و بالا مکانات اور ہر طرح کی نعمتیں انہیں مہیا ہیں ، کسی قسم کا ڈر خوف نہیں اللہ فرما چکا ہے کہ تمہیں میرے عذابوں سے نجات مل گئی ، غرض دکھ سے دور ، سکھ سے مسرور ، راحت و لذت میں مخمور ہیں ، جو چیز سامنے آتی ہے وہ ایسی ہے جسے نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہو ، نہ کسی کان نے سنا ہو ، نہ کسی دل پر خیال تک گزرا ہو ، پھر اللہ کی طرف سے باربار مہمان نوازی کے طور پر ان سے کہا جاتا ہے «کُلُوا وَاشْرَبُوا ہَنِیئًا بِمَا أَسْلَفْتُمْ فِی الْأَیَّامِ الْخَالِیَۃِ» (69-الحاقۃ:24) کھاتے پیتے رہو ، خوش گوار ، خوش ذائقہ ، بےتکلف مزید مرغوب چیزیں تمہارے لیے مہیا ہیں ۔ پھر ان کا دل خوش کرنے حوصلہ بڑھانے اور طبیعت میں امنگ پیدا کرنے کے لیے ساتھ ہی اعلان ہوتا ہے کہ یہ تو تمہارے اعمال کا بدلہ ہے جو تم اس جہان میں کر آئے ہو «عَلَیٰ سُرُرٍ مٰتَقَابِلِینَ» (37-الصفات:45) مرصع اور جڑاؤ شاہانہ تخت پر بڑی بےفکری اور فارغ البالی سے تکئے لگائے بیٹھے ہوں گے ، ستر ستر سال گزر جائیں گے انہیں ضرورت نہ ہو گی کہ اٹھیں یا ہلیں جلیں ، بےشمار سلیقہ شعار ، ادب دان خدام ہر طرح کی خدمت کے لیے کمربستہ جس چیز کو جی چاہے آن کی آن میں موجود ، آنکھوں کا نور ، دل کا سرور ، وافر و موفور سامنے بے انتہاء خوبصورت ، خوب سیرت ، گورے گورے پنڈے والی ، بڑی بڑی رسیلی آنکھوں والی ، بہت سی حوریں پاک دل ، عفت مآب عصمت ، خوش دل بہلانے اور خواہش پوری کرنے کے لیے سامنے کھڑی ہر ایک نعمت و رحمت چاروں طرف بکھری ہوئی ، پھر بھلا انہیں کس چیز کی کمی ۔ ستر سال کے بعد جب دوسری طرف مائل ہوتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ وہاں اور ہی منظر ہے ، ہر چیز نئی ہے ، ہر نعمت جوبن پر ہے ، اس طرف کی حوروں پر نظریں ڈالتے ہیں تو ان کے نور کی چکا چوند حیرت میں ڈال دیتی ہے ، ان کی پیاری پیاری ، بھولی بھالی شکلیں ، اچھوتے پنڈے اور کنوار پن کی شرمیلی نظریں اور جوانی کا بانکپن دل پر مقناطیسی اثر ڈالتا ہے جنتی کچھ کہے اس سے پہلے ہی وہ اپنی شیریں کلامی سے عجیب انداز سے کہتی ہیں ، شکر ہے کہ آپ کا التفات ہماری طرف بھی ہوا ، غرض اسی طرح من مانی نعمتوں سے مست ہو رہے ہیں ۔ پھر ان جنتیوں کے تخت باوجود قطار وار ہونے کے اس طرح نہ ہوں گے کہ کسی کو کسی کی پیٹھ ہو بلکہ آمنے سامنے ہوں گے جیسے اور جگہ ہے «وَنَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِہِمْ مِّنْ غِلٍّ اِخْوَانًا عَلٰی سُرُرٍ مٰتَقٰبِلِیْنَ» (15-الحجر:47) تختوں پر ہوں گے اور ایک دوسرے کے سامنے ہوں گے ۔ پھر فرماتا ہے ہم نے ان کے نکاح میں حوریں دے رکھی ہیں جو کبھی دل میلا نہ کریں ، جب آنکھ پڑے ، جی خوش ہو جائے اور ظاہری خوبصورتی کی تو کسی سے تعریف ہی کیا ہو سکتی ہے ؟ ان کے اوصاف کے بیان کی حدیثیں وغیرہ کئی مقامات پر گزر چکی ہیں اس لئے انہیں یہاں وارد کرنا کچھ چنداں ضروری نہیں ۔ الطور
18 الطور
19 الطور
20 الطور
21 صالح اولاد انمول اثاثہ اللہ تعالیٰ جل شانہ اپنے فضل و کرم اور لطف و رحم اپنے احسان اور انعام کا بیان فرماتا ہے کہ جن مومنوں کی اولاد بھی ایمان میں اپنے باپ دادا کی راہ میں لگ جائے لیکن اعمال صالحہ میں اپنے بڑوں سے کم ہو پروردگار ان کے نیک اعمال کا بدلہ بڑھا چڑھا کر انہیں ان کے بڑوں کے درجے میں پہنچا دے گا تاکہ بڑوں کی آنکھیں چھوٹوں کو اپنے پاس دیکھ کر ٹھنڈی رہیں اور چھوٹے بھی اپنے بڑوں کے پاس ہشاش بشاش رہیں ۔ ان کے عملوں کی بڑھوتری ان کے بزرگوں کے اعمال کی کمی سے نہ کی جائے گی بلکہ محسن و مہربان اللہ انہیں اپنے معمور خزانوں میں سے عطا فرمائے گا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت کی تفسیر یہی فرماتے ہیں ۔ ایک مرفوع حدیث بھی اس مضمون کی مروی ہے ایک اور روایت میں ہے کہ جب جنتی شخص جنت میں جائے گا اور اپنے ماں باپ اور بیوی بچوں کو نہ پائے گا تو دریافت کرے گا کہ وہ کہاں ہیں جواب ملے گا کہ وہ تمہارے مرتبہ تک نہیں پہنچے یہ کہے گا باری تعالیٰ میں نے تو اپنے لیے اور ان کے لیے نیک اعمال کئے تھے چنانچہ حکم دیا جائے گا اور انہیں بھی ان کے درجے میں پہنچا دیا جائے گا ۔ یہ بھی مروی ہے کہ جنتیوں کے بچوں نے ایمان قبول کیا اور نیک کام کئے وہ تو ان کے ساتھ ملا دئیے جائیں گے لیکن ان کے جو چھوٹے بچے بچپن ہی میں انتقال کر گئے تھے وہ بھی ان کے پاس پہنچا دئیے جائیں گے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما ، شعبی ، سعید بن جبیر ، ابراہیم ، قتادہ ، ابوصالح ، ربیع بن انس ، ضحاک بن زید رحمہم اللہ بھی یہی کہتے ہیں امام ابن جریر رحمہ اللہ بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں ۔ مسند احمد میں ہے کہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے دو بچوں کی نسبت دریافت کیا جو زمانہ جاہلیت میں مرے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” وہ دونوں جہنم میں ہیں “ ، پھر جب مائی صاحبہ کو غمگین دیکھا تو فرمایا اگر تم ان کی جگہ دیکھ لیتیں تو تمہارے دل میں ان کا بغض پیدا ہو جاتا ، مائی صاحبہ نے پوچھا : یا رسول اللہ ! میرا بچہ جو آپ سے ہوا وہ کہاں ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” وہ جنت میں ہے مومن مع اپنی اولاد کے جنت میں ہیں “ ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی ۔ یہ تو ہوئی ماں باپ کے اعمال صالحہ کی وجہ سے اولاد کی بزرگی اب اولاد کی دعا خیر کی وجہ سے ماں باپ کی بزرگی ملاحظہ ہو۔ مسند احمد میں حدیث ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندے کا درجہ جنت میں دفعۃً بڑھاتا ہے ، وہ دریافت کرتا ہے کہ اللہ میرا یہ درجہ کیسے بڑھ گیا ؟ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ تیری اولاد نے تیرے لیے استغفار کیا اس بنا پر میں نے تیرا درجہ بڑھا دیا “ } ۔ (مسند احمد:509/2:حسن) اس حدیث کی اسناد بالکل صحیح ہیں گو بخاری مسلم میں ان لفظوں سے نہیں آئی ۔ لیکن اس جیسی ایک روایت صحیح مسلم میں اسی طرح مروی ہے کہ { ابن آدم کے مرتے ہی اس کے اعمال موقوف ہو جاتے ہیں لیکن تین عمل کہ وہ مرنے کے بعد بھی ثواب پہنچاتے رہتے ہیں ، صدقہ جاریہ ، علم دین جس سے نفع پہنچتا ہے ، نیک اولاد جو مرنے والے کے لیے دعائے خیر کرتی رہے } ۔ (صحیح مسلم:1631) چونکہ یہاں بیان ہوا تھا کہ مومنوں کی اولاد کے درجے بےعمل بڑھا دئیے گئے تھے تو ساتھ ہی ساتھ اپنے اس فضل کے بعد اپنے عدل کا بیان فرماتا ہے کہ کسی کو کسی کے اعمال میں پکڑا نہ جائے گا بلکہ ہر شخص اپنے اپنے عمل میں رہن ہو گا ، باپ کا بوجھ بیٹے پر اور بیٹے کا باپ پر نہ ہو گا ۔ جیسے اور جگہ ہے «کُلٰ نَفْسٍ بِمَا کَسَبَتْ رَہِینَۃٌ» * «إِلَّا أَصْحَابَ الْیَمِینِ» * «فِی جَنَّاتٍ یَتَسَاءَلُونَ» * «عَنِ الْمُجْرِمِینَ» (74-المدثر:41-38) ہر شخص اپنے اعمال کے بدلے میں گروی ہے مگر وہ جن کے دائیں ہاتھ میں نامہ اعمال پہنچے وہ جنتوں میں بیٹھے ہوئے گنہگاروں سے دریافت کرتے ہیں ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ان جنتیوں کو قسم قسم کے میوے اور طرح طرح کے گوشت دئیے جاتے ہیں ، جس چیز کو جی چاہے ، جس پر دل آئے وہ یک لخت موجود ہو جاتی ہے ، شراب طہور کے چھلکتے ہوئے جام ایک دوسرے کو پلا رہے ہیں ، جس کے پینے سے سرور اور کیف لطف اور بہار حاصل ہوتا ہے لیکن بدزبانی بےہودہ گوئی نہیں ہوتی ، ہذیان نہیں بکتے ، بیہوش نہیں ہوتے ، سچا سرور اور پوری خوشی حاصل ، بک جھک سے دور ، گناہ سے غافل ، باطل وکذب سے دور ، غیبت و گناہ سے نفور ، دنیا میں شرابیوں کی حالت دیکھی ہو گی کہ ان کے سر میں چکر ، پیٹ میں درد ، عقل زائل ، بکواس بہت ، بو بری ، چہرے بے رونق ، اسی طرح شراب کے بدذائقہ اور بدبو یہاں جنت کی شراب ان تمام گندگیوں سے کوسوں دور ہے «بَیْضَاءَ لَذَّۃٍ لِّلشَّارِبِینَ» * «لَا فِیہَا غَوْلٌ وَلَا ہُمْ عَنْہَا یُنزَفُونَ» (37-الصافات:46،47) یہ رنگ میں سفید ، پینے میں خوش ذائقہ ، نہ اس کے پینے سے حواس معطل ہوں ، نہ بک جھک ہو ، نہ بہکیں ، نہ بھٹکیں ، نہ مستی ہو ، نہ اور کسی طرح ضرر پہنچائے ، ہنسی خوشی اس پاک شراب کے جام پلا رہے ہوں گے ۔ الطور
22 الطور
23 الطور
24 1 ان کے غلام کمسن نوعمر بچے جو حسن و خوبی میں ایسے ہیں جیسے مروارید ہوں اور وہ بھی ڈبے میں بند رکھے گئے ہوں ، کسی کا ہاتھ بھی نہ لگا ہو اور ابھی ابھی تازے تازے نکالے ہوں ، ان کی آبداری ، صفائی ، چمک دمک ، روپ رنگ کا کیا پوچھنا ؟ لیکن ان غلمان کے حسین چہرے انہیں بھی ماند کر دیتے ہیں اور جگہ یہ مضمون ان الفاظ میں ادا کیا گیا ہے «یَطُوفُ عَلَیْہِمْ وِلْدَانٌ مٰخَلَّدُونَ» * «بِأَکْوَابٍ وَأَبَارِیقَ وَکَأْسٍ مِّن مَّعِینٍ» (56-الواقعۃ:18،17) یعنی ہمیشہ نوعمر اور کمسن رہنے والے بچے آبخورے آفتابے اور ایسی شراب صاف کے جام کہ جن کے پینے سے نہ سر میں درد ہو ، نہ بہکیں اور جس قسم کا میوہ یہ پسند کریں اور جس پرند کا گوشت یہ چاہیں ان کے پاس باربار لانے کے لیے چاروں طرف کمربستہ چل رہے ہیں اس دور شراب کے وقت آپس میں گھل مل کر طرح طرح کی باتیں کریں گے ، دنیا کے احوال یاد آئیں گے ، کہیں گے کہ ہم دنیا میں جب اپنے والوں میں تھے ، تو اپنے رب کے آج کے دن کے عذاب سے سخت لرزاں و ترساں تھے ، الحمداللہ رب نے ہم پر خاص احسان کیا اور ہمارے خوف کی چیز سے ہمیں امن دیا ، ہم اسی سے دعائیں اور التجائیں کرتے رہے ، اس نے ہماری دعائیں قبول فرمائیں اور ہمارا قول پورا کر دیا یقیناً وہ بہت ہی نیک سلوک اور رحم والا ہے ۔ مسند بزار میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جنتی اپنے دوستوں سے ملنا چاہے گا تو ادھر دوست کے دل میں بھی یہی خواہش پیدا ہو گی اس کا تخت اڑے گا اور راستہ میں دونوں مل جائیں گے ، اپنے اپنے تختوں پر آرام سے بیٹھے ہوئے باتیں کرنے لگیں گے ، دنیا کے ذکر کو چھیڑیں گے اور کہیں گے کہ فلاں دن فلاں جگہ ہم نے اپنی بخشش کی دعا مانگی تھی اللہ نے اسے قبول فرمایا } ۔ (مسند بزار:3553:ضعیف) اس حدیث کی سند کمزور ہے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے جب اس آیت کی تلاوت کی تو یہ دعا پڑھی «اللَّہُمَّ مُنَّ عَلَیْنَا وَقِنَا عَذَاب السَّمُوم إِنَّک أَنْتَ الْبَرّ الرَّحِیم» اعمش راوی حدیث سے پوچھا گیا کہ اس آیت کو پڑھ کر یہ دعا ام المؤمنین نے نماز میں مانگی تھی ؟ جواب دیا ہاں ۔ الطور
25 الطور
26 الطور
27 الطور
28 الطور
29 کاہن کی پہچان اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ اللہ کی رسالت اللہ کے بندوں تک پہنچاتے رہیں ، ساتھ ہی بدکاروں نے جو بہتان آپ پر باندھ رکھے تھے ان سے آپ کی صفائی کرتا ہے ۔ «کاہن» اسے کہتے ہیں جس کے پاس کبھی کبھی کوئی خبر جن پہنچا دیتا ہے تو ارشاد ہوا کہ دین حق کی تبلیغ کیجئے ۔ «الحمداللہ» آپ نہ تو جنات والے ہیں ، نہ جنوں والے ۔ پھر کافروں کا قول نقل فرماتا ہے کہ یہ کہتے ہیں کہ آپ [ صلی اللہ علیہ وسلم ] ایک شاعر ہیں انہیں کہنے دو جو کہہ رہے ہیں ان کے انتقال کے بعد ان کی سی کون کہے گا ؟ ان کا یہ دین ان کے ساتھ ہی فنا ہو جائے گا ، پھر اپنے نبی کو اس کا جواب دینے کو فرماتا ہے کہ اچھا ادھر تم انتظار کرتے ہو ، ادھر میں بھی منتظر ہوں ، دنیا دیکھ لے گی کہ انجام کار غلبہ اور غیر فانی کامیابی کسے حاصل ہوتی ہے ؟ دارالندوہ میں قریش کا مشورہ ہوا کہ آپ [ صلی اللہ علیہ وسلم ] بھی مثل اور شاعروں کے ایک شعر گو ہیں انہیں قید کر لو ، وہیں یہ ہلاک ہو جائیں گے جس طرح زہیر اور نابغہ شاعروں کا حشر ہوا ۔ اس پر یہ آیتیں اتریں ۔ پھر فرماتا ہے کیا ان کی دانائی انہیں یہی سمجھاتی ہے کہ باوجود جاننے کے پھر بھی تیری نسبت غلط افواہیں اڑائیں اور بہتان بازی کریں ، حقیقت یہ ہے کہ یہ بڑے سرکش گمراہ اور عناد رکھنے والے لوگ ہیں ، دشمنی میں آ کر واقعات سے چشم پوشی کر کے آپ کو مفت میں برا بھلا کہتے ہیں ، کیا یہ کہتے ہیں کہ اس قرآن کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بنا لیا ہے ؟ فی الواقع ایسا تو نہیں لیکن ان کا کفر ان کے منہ سے یہ غلط اور جھوٹ بات نکلوا رہا ہے اگر یہ سچے ہیں تو پھر یہ خود بھی مل جل کر ہی ایک ایسی بات بنا کر دکھا دیں ، یہ کفار قریش تو کیا ؟ اگر ان کے ساتھ روئے زمین کے جنات و انسان مل جائیں جب بھی اس قرآن کی نظیر سے وہ سب عاجز رہیں گے اور پورا قرآن تو بڑی چیز ہے اس جیسی دس سورتیں بلکہ ایک سورت بھی قیامت تک بنا کر نہیں لا سکتے ۔ الطور
30 الطور
31 الطور
32 الطور
33 الطور
34 الطور
35 توحید ربوبیت اور الوہیت توحید ربوبیت اور توحید الوہیت کا ثبوت دیا جا رہا ہے ، فرماتا ہے کیا یہ بغیر موجد کے موجود ہو گئے ؟ یا یہ خود اپنے موجد آپ ہی ہیں ؟ دراصل دونوں باتیں نہیں بلکہ ان کا خالق اللہ تعالیٰ ہے ، یہ کچھ نہ تھے اللہ تعالیٰ نے انہیں پیدا کر دیا ۔ { سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مغرب کی نماز میں سورۃ والطور کی تلاوت کر رہے تھے میں کان لگائے سن رہا تھا جب آپ آیت «أَمْ عِندَہُمْ خَزَائِنُ رَبِّکَ أَمْ ہُمُ الْمُصَیْطِرُونَ» ’ یا کیا ان کے پاس تیرے رب کے خزانے ہیں؟ یا (ان خزانوں کے) یہ داروغہ ہیں ‘ (52-الطور:37) تک پہنچے تو میری حالت ہو گئی کہ گویا میرا دل اڑا جا رہا ہے } ۔ (صحیح بخاری:4854) بدری قیدیوں میں ہی یہ سیدنا جبیر رضی اللہ عنہ آئے تھے یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب یہ کافر تھے ، قرآن پاک کی ان آیتوں کا سننا ان کے لیے اسلام کا ذریعہ بن گیا ۔ پھر فرمایا ہے کیا آسمان و زمین کے پیدا کرنے والے یہ ہیں ؟ یہ بھی نہیں بلکہ یہ جانتے ہوئے کہ خود ان کا اور کل مخلوقات کا بنانے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے پھر بھی یہ اپنی بےیقینی سے باز نہیں آتے ، پھر فرماتا ہے کیا دنیا میں تصرف ان کا ہے ؟ کیا ہر چیز کے خزانوں کے مالک یہ ہیں ؟ یا مخلوق کے محاسب یہ ہیں حقیقت میں ایسا نہیں بلکہ مالک و متصرف صرف اللہ عزوجل ہی ہے وہ قادر ہے جو چاہے کر گزرے ۔ پھر فرماتا ہے کیا اونچے آسمانوں تک چڑھ جانے کا کوئی زینہ ان کے پاس ہے ؟ اگر یوں ہے تو ان میں سے جو وہاں پہنچ کر کلام سن آتا ہے وہ اپنے اقوال و افعال کی کوئی آسمانی دلیل پیش کرے لیکن نہ وہ پیش کر سکتا ہے ، نہ وہ کسی حقانیت کے پابند ہیں ، یہ بھی ان کی بڑی بھاری غلطی ہے کہ کہتے ہیں فرشتے اللہ کی لڑکیاں ہیں ، کیا مزے کی بات ہے کہ اپنے لیے تو لڑکیاں ناپسند ہیں اور اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت کریں ، انہیں اگر معلوم ہو جائے کہ ان کے ہاں لڑکی ہوئی تو غم کے مارے چہرہ سیاہ پڑ جائے اور اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتوں کو اس کی لڑکیاں بتائیں ، اتنا ہی نہیں بلکہ ان کی پرستش کریں ، پس نہایت ڈانٹ ڈپٹ کے ساتھ فرماتا ہے کیا اللہ کی لڑکیاں ہیں اور تمہارے لڑکے ہیں ؟ پھر فرمایا کیا تو اپنی تبلیغ پر ان سے کچھ معاوضہ طلب کرتا ہے جو ان پر بھاری پڑے ؟ یعنی نبی اللہ ، دین اللہ کے پہنچانے پر کسی سے کوئی اجرت نہیں مانگتے پھر انہیں یہ پہنچانا کیوں بھاری پڑتا ہے ؟ کیا یہ لوگ غیب دان ہیں ؟ نہیں ! بلکہ زمین و آسمان کی تمام مخلوق میں سے کوئی بھی غیب کی باتیں نہیں جانتا ۔ کیا یہ لوگ دین اللہ اور رسول اللہ کی نسبت بکواس کر کے خود رسول کو مومنوں اور عام لوگوں کو دھوکا دینا چاہتے ہیں ؟ یاد رکھو یہی دھوکے باز دھوکے میں رہ جائیں گے اور اخروی عذاب سمیٹیں گے ۔ پھر فرمایا کیا اللہ کے سوا ان کے اور معبود ہیں ؟ اللہ کی عبادت میں بتوں کو اور دوسری چیزوں کو یہ کیوں شریک کرتے ہیں ؟ اللہ تو شرکت سے مبرا ، شرک سے پاک اور مشرکوں کے اس فعل سے سخت بیزار ہے ۔ الطور
36 الطور
37 الطور
38 الطور
39 الطور
40 الطور
41 الطور
42 الطور
43 الطور
44 طے شدہ بدنصیب اور نشست و برخواست کے آداب مشرکوں اور کافروں کے عناد کا بیان ہو رہا ہے کہ یہ اپنی سرکشی ، ضد اور ہٹ دھرمی میں اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ اللہ کے عذاب کو محسوس کر لینے کے بعد بھی انہیں ایمان کی توفیق نہ ہو گی ، یہ اگر دیکھ لیں گے کہ آسمان کا کوئی ٹکڑا اللہ کا عذاب بن کر ان کے سروں پر گر رہا ہے ، تو بھی انہیں تصدیق و یقین نہ ہو گا بلکہ صاف کہہ دیں گے کہ غلیظ ابر ہے جو پانی برسانے کو آ رہا ہے ۔ جیسے اور جگہ فرمایا «وَلَوْ فَتَحْنَا عَلَیْہِم بَابًا مِّنَ السَّمَاءِ فَظَلٰوا فِیہِ یَعْرُجُونَ» * «لَقَالُوا إِنَّمَا سُکِّرَتْ أَبْصَارُنَا بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَّسْحُورُونَ» (15-الحجر:15،14) ’ اور اگر ہم ان پر آسمان کا دروازہ کھول بھی دیں اور یہ وہاں چڑھنے بھی لگ جائیں ، تب بھی یہی کہیں گے کہ ہماری نظر بندی کر دی گئی ہے بلکہ ہم لوگوں پر جادو کر دیا گیا ہے ‘ ، یعنی معجزات جو یہ طلب کر رہے ہیں اگر ان کی چاہت کے مطابق ہی دکھا دئیے جائیں بلکہ خود انہیں آسمانوں پر چڑھا دیا جائے جب بھی یہ کوئی بات بنا کر ٹال دیں گے اور ایمان نہ لائیں گے ۔ اے نبی ! آپ انہیں چھوڑ دیجئیے قیامت والے دن خود انہیں معلوم ہو جائے گا اس دن ان کی ساری فریب کاریاں دھری کی دھری رہ جائیں گی ، کوئی مکاری وہاں کام نہ دے گی ، چوکڑی بھول جائیں گے اور چالاکی بھول جائیں گے ۔ آج جن جن کو یہ پکارتے ہیں اور اپنا مددگار جانتے ہیں اس دن سب کے منہ تکیں گے اور کوئی نہ ہو گا جو ان کی ذرا سی بھی مدد کر سکے بلکہ ان کی طرف سے کچھ عذر بھی پیش کر سکے یہی نہیں کہ انہیں صرف قیامت کے دن ہی عذاب ہو اور یہاں اطمینان و آرام کے ساتھ زندگی گزار لیں بلکہ ان ناانصافوں کے لیے اس سے پہلے دنیا میں بھی عذاب تیار ہیں ۔ الطور
45 الطور
46 الطور
47 ظالموں کا حال جیسے اور جگہ فرمان ہے «وَلَنُذِیقَنَّہُم مِّنَ الْعَذَابِ الْأَدْنَی دُونَ الْعَذَابِ الْأَکْبَرِ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُونَ» (32-السجدۃ:21) یعنی ’ بالیقین ہم انہیں قریب کے چھوٹے سے بعض عذاب اس بڑے عذاب کے سوا چکھائیں گے تاکہ وہ لوٹ آئیں ‘ لیکن ان میں سے اکثر بےعلم ہیں نہیں جانتے کہ یہ دنیوی مصیبتوں میں بھی مبتلا ہوں گے اور اللہ کی نافرمانیاں رنگ لائیں گی ۔ یہی بےعلمی ہے جو انہیں اس بات پر آمادہ کرتی ہے کہ گناہ پر گناہ ، ظلم پر ظلم کرتے جائیں ۔ پکڑے جانے پر عبرت حاصل ہوتی ہے لیکن جیسے ہی پکڑ ہٹی یہ پھر ویسے کے ویسے ، سخت دل بدکار بن گئے ۔ بعض احادیث میں ہے کہ منافق کی مثال اونٹ کی سی ہے جس طرح اونٹ نہیں جانتا کہ اسے کیوں باندھا اور کیوں کھولا ؟ (سنن ابوداود:3089،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) اسی طرح منافق بھی نہیں جانتا کہ کیوں بیمار کیا گیا ؟ اور کیوں تندرست کر دیا گیا ؟ اثر الٰہی میں ہے کہ میں کتنی ایک تیری نافرمانیاں کروں گا اور تو مجھے سزا نہ دے گا اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے میرے بندے کتنی مرتبہ میں نے تجھے عافیت دی اور تجھے علم بھی نہ ہوا ۔ الطور
48 حمد باری کا حکم پھر فرماتا ہے کہ اے نبی ! آپ صبر کیجئے ان کی ایذاء دہی سے تنگ دل نہ ہو جائیے ، ان کی طرف سے کوئی خطرہ بھی دل میں نہ لائیے ، سنئیے آپ ہماری حفاظت میں ہیں ، آپ ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں ، آپ کی نگہبانی کے ذمہ دار ہم ہیں ، تمام دشمنوں سے آپ کو بچانا ہمارے سپرد ہے ، پھر حکم دیتا ہے کہ جب آپ کھڑے ہوں تو اللہ کی پاکی اور تعریف بیان کیجئے اس کا ایک مطلب یہ کیا گیا ہے کہ جب رات کو جاگیں ۔ دونوں مطلب درست ہیں چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ { نماز کو شروع کرتے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے «سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ وَبِحَمْدِکَ ، وَتَبَارَکَ اسْمُکَ ، وَتَعَالٰی جَدٰکَ ، وَلَا اِلٰہَ غَیْرُکَ» یعنی اے اللہ تو پاک ہے تمام تعریفوں کا مستحق ہے تیرا نام برکتوں والا ہے تیری بزرگی بہت بلند و بالا ہے ، تیرے سوا معبود برحق کوئی اور نہیں } ۔ مسند احمد اور سنن میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ کہنا مروی ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جو شخص رات کو جاگے اور کہے «لا إلہ إلا اللہ وحدہ لا شریک لہ،‏‏‏‏ لہ الملک،‏‏‏‏ ولہ الحمد،‏‏‏‏ وہو علی کل شیء قدیر‏.‏ الحمد للہ،‏‏‏‏ وسبحان اللہ،‏‏‏‏ ولا إلہ إلا اللہ،‏‏‏‏ واللہ أکبر،‏‏‏‏ ولا حول ولا قوۃ إلا باللہ‏» پھر خواہ اپنے لیے بخشش کی دعا کرے خواہ جو چاہے طلب کرے اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول فرماتا ہے پھر اگر اس نے پختہ ارادہ کیا اور وضو کر کے نماز بھی ادا کی تو وہ نماز قبول کی جاتی ہے ۔ یہ حدیث صحیح بخاری شریف میں اور سنن میں بھی ہے “ } ۔ (صحیح بخاری:1154) مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں اللہ کی تسبیح اور حمد کے بیان کرنے کا حکم ہر مجلس سے کھڑے ہونے کے وقت ہے ۔ ابوالاحوص رحمہ اللہ کا قول بھی یہی ہے کہ جب مجلس سے اٹھنا چاہے یہ پڑھے «سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ وَبِحَمْدِکَ» عطا بن ابورباح رحمہ اللہ بھی یہی فرماتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اگر اس مجلس میں نیکی ہوئی ہے تو وہ اور بڑھ جاتی ہے اور اگر کچھ اور ہوا ہے تو یہ کلمہ اس کا کفارہ ہو جاتا ہے ۔ جامع عبدالرزاق میں ہے کہ { جبرائیل علیہ السلام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تعلیم دی کہ جب کبھی کسی مجلس سے کھڑے ہوں تو «سُبْحَانَکَ اللہُمَّ وبَحَمْدکَ أشْہدُ أنْ لا إلہَ إلا أنْتَ أَسْتَغْفِرُکَ وأتُوبُ إِلَیْکَ» پڑھو ۔ اس کے راوی معمر رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں نے یہ بھی سنا ہے کہ یہ قول اس مجلس کا کفارہ ہو جاتا ہے } ۔ (عبدالرزاق:19796مرسل) یہ حدیث تو مرسل ہے لیکن مسند حدیثیں بھی اس بارے میں بہت سی مروی ہیں جن کی سندیں ایک دوسری کو تقویت پہنچاتی ہیں ۔ ایک حدیث میں ہے { جو شخص کسی مجلس میں بیٹھے وہاں کچھ بک جھک ہو اور کھڑا ہونے سے پہلے ان کلمات کو کہہ لے تو اس مجلس میں جو کچھ ہوا ہے اس کا کفارہ ہو جاتا ہے } ۔ (سنن ترمذی:3433،قال الشیخ الألبانی:حسن) اس حدیث کو امام ترمذی حسن صحیح کہتے ہیں ۔ امام حاکم اسے مستدرک میں روایت کر کے فرماتے ہیں اس کی سند شرط مسلم پر ہے ، ہاں امام بخاری نے اس میں علت نکالی ہے ، میں کہتا ہوں امام احمد ، امام مسلم ، امام ابوحاتم ، امام ابوزرعہ، امام دارقطنی رحمہم اللہ وغیرہ نے بھی اسے معلول کہا ہے اور وہم کی نسبت ابن جریج کی طرف کی ہے مگر یہ روایت ابوداؤد میں جس سند سے مروی ہے اس میں ابن جریج رحمہ اللہ ہیں ہی نہیں ، اور حدیث میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی آخری عمر میں جس مجلس سے کھڑے ہوتے ان کلمات کو کہتے بلکہ ایک شخص نے پوچھا بھی کہ یا رسول اللہ ! آپ اس سے پہلے تو اسے نہیں کہتے تھے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” مجلس میں جو کچھ ہوا ہو یہ کلمات اس کا کفارہ ہو جاتے ہیں “ } ، یہ روایت مرسل سند سے بھی ابوالعالیہ رحمہ اللہ سے مروی ہے «واللہ اعلم» نسائی وغیرہ ۔(سنن ابوداود:4859،قال الشیخ الألبانی:صحیح) سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں یہ کلمات ایسے ہیں کہ جو انہیں مجلس سے اٹھتے وقت تین مرتبہ کہہ لے اس کے لیے یہ کفارہ ہو جاتے ہیں ، مجلس خیر اور مجلس ذکر میں انہیں کہنے سے یہ مثل مہر کے ہو جاتے ہیں ( ابوداؤد وغیرہ ) الحمداللہ میں نے ایک علیحدہ جزو میں ان تمام احادیث کو ان کے الفاظ کو اور ان کی سندوں کو جمع کر دیا ہے اور ان کی علتیں بھی بیان کر دی ہیں اور اس کے متعلق جو کچھ لکھنا تھا لکھ دیا ہے ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ رات کے وقت اس کی یاد اور اس کی عبادت تلاوت اور نماز کے ساتھ کرتے رہو جیسے فرمان ہے «وَمِنَ اللَّیْلِ فَتَہَجَّدْ بِہِ نَافِلَۃً لَّکَ عَسَی أَن یَبْعَثَکَ رَبٰکَ مَقَامًا مَّحْمُودًا» (17-الإسراء:79) رات کے وقت تہجد پڑھا کرو ، یہ تیرے لیے نفل ہے ، ممکن ہے تیرا رب تجھے مقام محمود پر اٹھائے ۔ ستاروں کے ڈوبتے وقت سے مراد صبح کی فرض نماز سے پہلے کی دو رکعتیں ہیں کہ وہ دونوں ستاروں کے غروب ہونے کے لیے جھک جانے کے وقت پڑھی جاتی ہیں چنانچہ ایک مرفوع حدیث میں ہے ان سنتوں کو نہ چھوڑو گو تمہیں گھوڑے کچل ڈالیں ۔ (سنن ابوداود:1258،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) اسی حدیث پر نظریں رکھ کر امام احمد رحمہ اللہ کے بعض اصحاب نے تو انہیں واجب کہا ہے لیکن یہ ٹھیک نہیں ، اس لیے کہ حدیث میں ہے دن رات میں پانچ نمازیں ہیں ، سننے والے نے کہا : کیا مجھ پر اس کے سوا اور کچھ بھی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” نہیں مگر یہ کہ تو نفل ادا کرے “ ۔ (صحیح بخاری:1891) بخاری و مسلم میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نوافل میں سے کسی نفل کی بہ نسبت صبح کی دو سنتوں کے زیادہ پابندی اور نگرانی نہ کرتے تھے ۔ (صحیح بخاری:1169) صحیح مسلم شریف میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” صبح کے فرضوں سے پہلے یہ دو سنتیں ساری دنیا سے اور جو کچھ اس میں ہے اس سے بہتر ہیں “ } ۔ (صحیح مسلم:96) «الحمداللہ» سورۃ الطور کی تفسیر پوری ہوئی ۔ الطور
49 الطور
0 النجم
1 تفسیر سورۂ النجم شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں خالق تو اپنی مخلوق میں سے جس کی چاہے قسم کھا لے لیکن مخلوق سوائے اپنے خالق کے کسی اور کی قسم نہیں کھا سکتی (ابن ابی حاتم) ستارے کے جھکنے سے مراد فجر کے وقت ثریا ستارے کا غائب ہونا ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:503/11) بعض کہتے ہیں مراد زہرہ نامی ستارہ ہے ۔ ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں مراد اس کا جھڑ کر شیطان کی طرف لپکنا ہے اس قول کی اچھی توجیہ ہو سکتی ہے ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس جملے کی تفسیر یہ ہے کہ قسم ہے قرآن کی جب وہ اترے ۔ اس آیت جیسی ہی آیت «فَلَا أُقْسِمُ بِمَوَاقِعِ النٰجُومِ» * «وَإِنَّہُ لَقَسَمٌ لَّوْ تَعْلَمُونَ عَظِیمٌ» * «إِنَّہُ لَقُرْآنٌ کَرِیمٌ» * «فِی کِتَابٍ مَّکْنُونٍ» * «لَّا یَمَسٰہُ إِلَّا الْمُطَہَّرُونَ» * «تَنزِیلٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِینَ» ۱؎ (56-الواقعۃ:80-75) ہے ۔ 1 پھر جس بات پر قسم کھا رہا ہے اس کا بیان ہے کہ نبی [ صلی اللہ علیہ وسلم ] نیکی اور رشد و ہدایت اور تابع حق ہیں ، وہ بے علمی کے ساتھ کسی غلط راہ لگے ہوئے یا باوجود علم کے ٹیڑھا راستہ اختیار کئے ہوئے نہیں ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گمراہ نصرانیوں اور جان بوجھ کر خلاف حق کرنے والے یہودیوں کی طرح نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا علم کامل آپ کا عمل مطابق علم آپ کا راستہ سیدھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم عظیم الشان شریعت کے شارع ، آپ اعتدال والی راہ حق پر قائم ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی قول ، کوئی فرمان اپنے نفس کی خواہش اور ذاتی غرض سے نہیں ہوتا بلکہ جس چیز کی تبلیغ کا آپ کو حکم الٰہی ہوتا ہے آپ اسے ہی زبان سے نکالتے ہیں جو وہاں سے کہا جائے وہی آپ کی زبان سے ادا ہوتا ہے ، کمی بیشی زیادتی نقصان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام پاک ہوتا ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ایک شخص کی شفاعت سے جو نبی نہیں ہیں ، مثل دو قبیلوں کے یا دو میں سے ایک قبیلے کی گنتی کے ، برابر لوگ جنت میں داخل ہوں گے ، قبیلہ ربیعہ اور قبیلہ مضر “ ۔ اس پر ایک شخص نے کہا : کیا ربیعہ مضر میں سے نہیں ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” میں تو وہی کہتا ہوں جو کہتا ہوں ۔ “ } ۱؎ (مسند احمد:257/5:صحیح بطرقہ و شواھد) مسند کی اور حدیث میں ہے { عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ سنتا تھا ، اسے حفظ کرنے کے لیے لکھ لیا کرتا تھا پس بعض قریشیوں نے مجھے اس سے روکا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انسان ہیں ، کبھی کبھی غصے اور غضب میں بھی کچھ فرما دیا کرتے ہیں ، چنانچہ میں لکھنے سے رک گیا پھر میں نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” لکھ لیا کرو ، اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میری زبان سے سوائے حق بات کے اور کوئی کلمہ نہیں نکلتا ۔ “ } ۱؎ (مسند احمد:192/2،صحیح) یہ حدیث ابوداؤد ۱؎ (سنن ابوداود:3646،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اور ابن ابی شیبہ میں بھی ہے ۔ بزار میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” میں تمہیں جس امر کی خبر اللہ تعالیٰ کی طرف سے دوں اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہوتا۔ “ } ۱؎ (مسند بزار:121) مسند احمد میں ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” میں سوائے حق کے اور کچھ نہیں کہتا “ اس پر بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا : یا رسول اللہ ! کبھی کبھی آپ ہم سے خوش طبعی بھی کرتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اس وقت بھی میری زبان سے ناحق نہیں نکلتا ۔“ } ۱؎ (مسند احمد:340/2:حسن) النجم
2 النجم
3 النجم
4 النجم
5 تعارف جبرائیل امین علیہ السلام اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’ محمد رسول اللہ [ صلی اللہ علیہ وسلم ] کے معلم جبرائیل علیہ السلام ہیں ۔‘ جیسے اور جگہ فرمایا ہے «إِنَّہُ لَقَوْلُ رَسُولٍ کَرِیمٍ ذِی قُوَّۃٍ عِندَ ذِی الْعَرْشِ مَکِینٍ مٰطَاعٍ ثَمَّ أَمِینٍ» ۱؎ (81-التکویر:19-21) ’ یہ قرآن ایک بزرگ زور آور فرشتے کا قول ہے جو مالک عرش کے ہاں باعزت سب کا مانا ہوا ہے وہاں معتبر ہے ۔ ‘ یہاں بھی فرمایا ’ وہ قوت والا ہے ۔ ‘ آیت «ذُو مِرَّۃٍ فَاسْتَوَیٰ» کی ایک تفسیر تو یہی ہے دوسری یہ ہے کہ وہ خوش شکل ہے ۔ حدیث میں بھی «مِرَّۃٍ» کا لفظ آیا ہے ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ” «لَا تَحِلٰ الصَّدَقَۃُ لِغَنِیَ وَلَا لِذِی مِرَّۃٍ سَوِی» صدقہ مالدار پر اور قوت والے تندرست پر حرام ہے ۔ “ } ۱؎ (سنن ابوداود:1634،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ’ پھر وہ سیدھے کھڑے ہو گئے ‘ یعنی جبرائیل علیہ السلام ، ’ اور وہ بلند آسمان کے کناروں پر تھے جہاں سے صبح چڑھتی ہے جو سورج کے طلوع ہونے کی جگہ ہے ۔‘ ابن ابی حاتم میں ہے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام کو ان کی اصلی صورت میں صرف دو دفعہ دیکھا ہے ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش پر امین اللہ اپنی صورت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھائی دئیے آسمانوں کے تمام کنارے ان کے جسم سے ڈھک گئے تھے ۔ دوبارہ اس وقت جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر جبرائیل علیہ السلام اوپر چڑھے تھے ۔ یہ مطلب آیت «وَہُوَ بالْاُفُقِ الْاَعْلٰی» ۱؎ (53-النجم:7) کا ۔ (ضعیف) امام ابن جریر رحمہ اللہ نے اس تفسیر میں ایک ایسا قول کہا ہے جو کسی نے نہیں کہا اور خود انہوں نے بھی اس قول کی اضافت دوسرے کی طرف نہیں کی ان کے فرمان کا ماحصل یہ ہے کہ جبرائیل علیہ السلام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دونوں آسمانوں کے کناروں پر سیدھے کھڑے ہوئے تھے اور یہ واقعہ معراج کی رات کا ہے ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ کی اس تفسیر کی تائید کسی نے نہیں کی گو امام صاحب نے عربیت کی حیثیت سے اسے ثابت کیا ہے اور عربی قواعد سے یہ بھی ہو سکتا ہے لیکن ہے یہ واقعہ کے خلاف اس لیے کہ یہ دیکھنا معراج سے پہلے کا ہے اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زمین پر تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جبرائیل علیہ السلام اترے تھے اور قریب ہو گئے تھے اور اپنی اصلی صورت میں تھے چھ سو پر تھے پھر اس کے بعد دوبارہ سدرۃ المنتہیٰ کے پاس معراج والی رات دیکھا تھا ۔ یہ تو دوسری مرتبہ کا دیکھنا تھا لیکن پہلی مرتبہ کا دیکھنا تو شروع رسالت کے زمانہ کے وقت کا ہے پہلی وحی «اِقْرَاْ باسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ» ۱؎ (96-العلق:1) کی چند آیتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہو چکی تھیں پھر وحی بند ہو گئی تھی جس کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑا خیال بلکہ بڑا ملال تھا یہاں تک کہ کئی دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارادہ ہوا کہ پہاڑ سے گر پڑوں لیکن بروقت آسمان کی طرف سے جبرائیل علیہ السلام کی یہ ندا سنائی دیتی کہ اے محمد [ صلی اللہ علیہ وسلم ] ! آپ اللہ کے سچے رسول ہیں اور میں جبرائیل ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غم غلط ہو جاتا ، دل پرسکون اور طبیعت میں قرار ہو جاتا واپس چلے آتے ۔ ۱؎ (فتح الباری:360/12) لیکن پھر کچھ دنوں کے بعد شوق دامن گیر ہوتا اور وحی الٰہی کی لذت یاد آتی تو نکل کھڑے ہوتے اور پہاڑ پر سے اپنے آپ گرا دینا چاہتے اور اسی طرح جبرائیل علیہ السلام تسکین و تسلی کر دیا کرتے ۔ یہاں تک کہ ایک مرتبہ ابطح میں جبرائیل اپنی اصلی صورت میں ظاہر ہو گئے ، چھ سو پر تھے جسامت کے آسمان کے تمام کنارے ڈھک لیے تھے اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قریب آ گئے اور اللہ عزوجل کی وحی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچائی ۔ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس فرشتے کی عظمت و جلالت معلوم ہوئی اور جان گئے کہ اللہ کے نزدیک یہ کس قدر بلند مرتبہ ہے ۔ مسند بزار کی ایک روایت امام ابن جریر رحمہ اللہ کے قول کی تائید میں پیش ہو سکتی ہے مگر اس کے راوی صرف حارث بن عبید ہیں جو بصرہ کے رہنے والے شخص ہیں ۔ ابو قدامہ ایادی ان کی کنیت ہے مسلم میں ان سے روایتیں آئی ہیں لیکن امام ابن معین انہیں ضعیف کہتے ہیں اور فرماتے ہیں یہ کوئی چیز نہیں ۔ امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ مضطرب الحدیث ہیں امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ ان کی حدیثیں لکھ لی جاتی ہیں لیکن ان سے دلیل نہیں لی جا سکتی ۔ ابن حبان فرماتے ہیں یہ بڑے وہمی تھے ان سے احتجاج درست نہیں ، پس یہ حدیث صرف ان ہی کی روایت سے ہے تو علاوہ غریب ہونے کے منکر ہے اور اگر ثابت ہو بھی جائے تو ممکن ہے یہ واقعہ کسی خواب کا ہو ۔ اس میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ” میں بیٹھا تھا کہ ایک درخت ہے جس میں پرندوں کے آشیانوں کی طرح بیٹھنے کی جگہیں بنی ہوئی ہیں ، ایک میں تو جبرائیل بیٹھ گئے اور دوسرے میں میں بیٹھ گیا ۔ پھر وہ درخت بلند ہونے لگا یہاں تک کہ میں آسمان سے بالکل قریب پہنچ گیا میں دائیں بائیں کروٹیں بدلتا تھا اور اگر میں چاہتا تو ہاتھ بڑھا کر آسمان کو چھو لیتا ، میں نے دیکھا کہ جبرائیل ،اس وقت ہیبت الٰہی سے مثل بورئیے کے پیچھے جا رہے تھے ، اس وقت میں سمجھ گیا کہ اللہ کی جلالت و قدر کے علم میں انہیں مجھ پر فضیلت ہے ۔ آسمان کے دروازوں میں سے ایک دروازہ مجھ پر کھل گیا ، میں نے بہت بڑا عظیم الشان نور دیکھا اور پردے کے پاس در و یاقوت کو ہلتے اور حرکت کرتے دیکھا ، پھر اللہ تعالیٰ نے جو وحی فرمانی چاہی وہ فرمائی ۔} ۱؎ (مسند احمد:395/1:اسنادہ ضعیف) مسند میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل کو اپنی اصلی صورت میں دیکھا ہے ان کے چھ سو پر تھے ہر ایک ایسا جس میں آسمان کے کنارے پر کر دئیے تھے ان سے زمرد ، موتی اور مروارید جھڑ رہے تھے ۔ اور روایت میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام سے خواہش کی کہ میں آپ کو آپ کی اصلی صورت میں دیکھنا چاہتا ہوں۔ جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا : اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی تو مشرق کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی چیز اونچی اٹھتی ہوئی اور پھیلتی ہوئی نظر آئی جسے دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیہوش ہو گئے ، جبرائیل علیہ السلام فوراً آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوش میں لائے اور آپ کی رخساروں سے لعاب مبارک دور کیا ۔} ۱؎ (مسند احمد:322/1:ضعیف) ابن عساکر میں ہے کہ ابولہب اور اس کا بیٹا عتبہ شام کے سفر کی تیاریاں کرنے لگے اس کے بیٹے نے کہا : سفر میں جانے سے پہلے ایک مرتبہ ذرا محمد [صلی اللہ علیہ وسلم] کے اللہ کو ان کے سامنے گالیاں تو دے آؤں چنانچہ یہ آیا اور کہا اے محمد ! جو قریب ہوا اور اترا اور دو کمانوں کے برابر بلکہ اس سے بھی زیادہ نزدیک آ گیا میں تو اس کا منکر ہوں [ چونکہ یہ ناہنجار سخت بے ادب تھا اور باربار گستاخی سے پیش آتا تھا ] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے اس کے لیے بد دعا نکل گئی کہ باری تعالیٰ اپنے کتوں میں سے ایک کتا اس پر مقرر کر دے ۔ یہ جب لوٹ کر اپنے باپ کے پاس آیا اور ساری باتیں کہہ سنائیں تو اس نے کہا : بیٹا اب مجھے تو تیری جان کا اندیشہ ہو گیا اس کی دعا رد نہ جائے گی ، اس کے بعد یہ قافلہ یہاں سے روانہ ہوا شام کی سر زمین میں ایک راہب کے عبادت خانے کے پاس پڑاؤ کیا ، راہب نے ان سے کہا : یہاں تو بھیڑئیے اس طرح پھرتے ہیں جیسے بکریوں کے ریوڑ تم یہاں کیوں آ گئے ؟ ابولہب یہ سن کر ٹھٹک گیا اور تمام قافلے والوں کو جمع کر کے کہا : دیکھو میرے بڑھاپے کا حال تمہیں معلوم ہے اور تم جانتے ہو کہ میرے کیسے کچھ حقوق تم پر ہیں آج میں تم سے ایک عرض کرتا ہوں امید کرتا ہوں کہ تم سب اسے قبول کرو گے بات یہ ہے کہ مدعی نبوت نے میرے جگر گوشے کے لیے بد دعا کی ہے اور مجھے اس کی جان کا خطرہ ہے ، تم اپنا سب اسباب اس عبادت خانے کے پاس جمع کرو اور اس پر میرے پیارے بچے کو سلاؤ اور تم سب اس کے اردگرد پہرا دو۔ لوگوں نے اسے منظور کر لیا ۔ یہ اپنے سب جتن کر کے ہوشیار رہے کہ اچانک شیر آیا اور سب کے منہ سونگھنے لگا ، جب سب کے منہ سونگھ چکا اور گویا جسے تلاش کر رہا تھا ، اسے نہ پایا تو پچھلے پیروں ہٹ کر بہت زور سے جست کی اور ایک چھلانگ میں اس مچان پر پہنچ گیا وہاں جا کر اس کا بھی منہ سونگھا اور گویا وہی اس کا مطلوب تھا ، پھر تو اس نے اس کے پرخچے اڑا دئیے ، چیر پھاڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا ، اس وقت ابولہب کہنے لگا ، اس کا تو مجھے پہلے ہی یقین تھا کہ محمد [ صلی اللہ علیہ وسلم] کی بد دعا کے بعد یہ بچ نہیں سکتا ۔۱؎ (مستدرک حاکم:539/2:صحیح) النجم
6 النجم
7 النجم
8 جبرائیل علیہ السلام کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبب ہونا پھر فرماتا ہے کہ ’ جبرائیل ، نبی [ صلی اللہ علیہ وسلم ] سے قریب ہوئے اور زمین کی طرف اترے یہاں تک کہ نبی [ صلی اللہ علیہ وسلم ] کے اور جبرائیل کے درمیان صرف دو کمانوں کے برابر فاصلہ رہ گیا بلکہ اس سے بھی زیادہ نزدیکی ہو گئی ۔ ‘ یہاں لفظ «أَوْ» جس کی خبر دی جاتی ہے اس کے ثابت کرنے کے لیے آیا ہے اور اس پر جو زیادتی ہو اس کے نفی کے لیے ۔ جیسے اور جگہ ہے ’ پھر اس کے بعد تمہارے دل سخت ہو گئے پس وہ مثل پتھروں کے ہیں ‘ «ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُکُمْ مِّن بَعْدِ ذلِکَ فَہِیَ کَالْحِجَارَۃِ أَوْ أَشَدٰ قَسْوَۃً» ۱؎ (2-البقرۃ:74) ’ بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت‘ «أَوْ أَشَدٰ قَسْوَۃً» یعنی ’ پتھر سے کم کسی صورت میں نہیں بلکہ اس سے بھی سختی میں بڑھے ہوئے ہیں ۔ ‘ ایک اور فرمان ہے «یَخْشَوْنَ النَّاسَ کَخَشْیَۃِ اللہِ أَوْ أَشَدَّ خَشْیَۃً» ۱؎ (4-النساء:77) ’ وہ لوگوں سے ایسا ڈرتے ہیں جیسا کہ اللہ سے ‘ «أَوْ أَشَدَّ خَشْیَۃً» ’ بلکہ اس سے بھی زیادہ ۔ ‘ اور جگہ ہے «وَأَرْسَلْنَـہُ إِلَی مِاْئَۃِ أَلْفٍ أَوْ یَزِیدُونَ» ۱؎ (37-الصفات:147) ’ ہم نے انہیں ایک لاکھ کی طرف بھیجا بلکہ زیادہ کی طرف ‘ یعنی وہ ایک لاکھ سے کم تو تھے ہی نہیں بلکہ حقیقتًا وہ ایک لاکھ تھے یا «أَوْ یَزِیدُونَ» ’ اس سے زیادہ ہی زیادہ ۔ ‘ پس اپنی خبر کی تحقیق ہے شک و تردّد کے لیے نہیں ۔ خبر میں اللہ کی طرف سے شک کے ساتھ بیان نہیں ہو سکتا ۔ یہ قریب آنے والے جبرائیل علیہ السلام تھے جیسے ام المؤمنین عائشہ ، ابن مسعود ، ابوذر ابوہریرہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا فرمان ہے اور اس بابت کی حدیثیں بھی عنقریب ہم وارد کریں گے ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ صحیح مسلم میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دل سے اپنے رب کو دو دفعہ دیکھا جن میں سے ایک کا بیان اس آیت «ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰی» ۱؎ (53-النجم:8) میں ہے ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:286) سیدنا انس رضی اللہ عنہ والی معراج کی حدیث میں ہے پھر اللہ تعالیٰ رب العزت قریب ہوا اور نیچے آیا اور اسی لیے محدثین نے اس میں کلام کیا ہے اور کئی ایک غرابتیں ثابت کی ہیں اور اگر ثابت ہو جائے کہ یہ صحیح ہے تو بھی دوسرے وقت اور دوسرے واقعہ پر محمول ہو گی اس آیت کی تفسیر نہیں کہی جا سکتی ۔ یہ واقعہ تو اس وقت کا ہے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زمین پر تھے نہ کہ معراج والی رات کا ۔ کیونکہ اس کے بیان کے بعد ہی فرمایا ہے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک مرتبہ اور بھی سدرۃ المنتہیٰ کے پاس دیکھا ہے ۔ پس یہ سدرۃ المنتہیٰ کے پاس دیکھنا تو واقعہ معراج کا ذکر ہے اور پہلی مرتبہ کا دیکھنا یہ زمین پر تھا ۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” میں نے جبرائیل کو دیکھا ان کے چھ سو پر تھے ۔“ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:508/11:) ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ابتداء نبوت کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں جبرائیل علیہ السلام کو دیکھا ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ضروری حاجت سے فارغ ہونے کے لیے نکلے تو سنا کہ کوئی آپ کا نام لے کر آپ کو پکار رہا ہے ہر چند دائیں بائیں دیکھا لیکن کوئی نظر نہ آیا ، تین مرتبہ ایسا ہی ہوا ۔ تیسری بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اوپر کی طرف دیکھا ، تو دیکھا کہ جبرائیل علیہ السلام اپنے دونوں پاؤں میں سے ایک کو دوسرے سمیت موڑے ہوئے آسمان کے کناروں کو روکے ہیں ، قریب تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دہشت زدہ ہو جائیں کہ فرشتے نے کہا : میں جبرائیل ہوں ، میں جبرائیل ہوں ڈرو نہیں ، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ضبط نہ ہو سکا ، بھاگ کر لوگوں میں چلے آئے ، اب جو نظریں ڈالیں تو کچھ دکھائی نہ دیا ، پھر یہاں سے نکل کر باہر گئے اور آسمان کی طرف نظر ڈالی تو پھر جبرائیل علیہ السلام اسی طرح نظر آئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر خوف زدہ لوگوں کے مجمع میں آ گئے تو یہاں کچھ بھی نہیں باہر نکل کر پھر جو دیکھا تو وہی سماں نظر آیا ، پس اسی کا ذکر ان آیتوں میں ہے ۔ «قَابَ» آدھی انگلی کو بھی کہتے ہیں اور بعض کہتے ہیں صرف دو ہاتھ کا فاصلہ رہ گیا تھا ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:32448:ضعیف) ایک اور روایت میں ہے کہ اس وقت جبرائیل علیہ السلام پر دو ریشمی حلے تھے ۔ پھر فرمایا ’ اس نے وحی کی ‘ اس سے مراد یا تو یہ ہے کہ جبرائیل علیہ السلام نے اللہ کے بندے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وحی کی یا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کی طرف جبرائیل کی معرفت اپنی وحی نازل فرمائی ۔ دونوں معنی صحیح ہیں ۔ سعید بن جبیر فرماتے ہیں اس وقت کی وحی آیت «اَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیْمًـا فَاٰوٰی» ۱؎ (93-الضحی:6) اور آیت «وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ» ۱؎ (94-الشرح:4) تھی اور حضرات سے مروی ہے کہ اس وقت یہ وحی نازل ہوئی تھی کہ نبیوں پر جنت حرام ہے ، جب تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں نہ جائیں اور امتوں پر جنت حرام ہے ، جب تک کہ پہلے اس کی امت داخل نہ ہو جائے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دل سے اللہ کو دو دفعہ دیکھا ہے ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:286) سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے دیکھنے کو مطلق رکھا ہے یعنی خواہ دل کا دیکھنا ہو ، خواہ ظاہری آنکھوں کا یہ ممکن ہے کہ اس مطلق کو بھی مقید پر محمول کریں یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دل سے دیکھا ۔ جن بعض حضرات نے کہا ہے کہ اپنی ان آنکھوں سے دیکھا انہوں نے ایک غریب قول کہا ہے ، اس لیے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم سے اس بارے میں کوئی چیز صحت کے ساتھ مروی نہیں ۔ امام بغوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ایک جماعت اس طرف گئی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ، جیسے انس رضی اللہ عنہ ، حسن اور عکرمہ رحمہم اللہ ان کے اس قول میں نظر ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ترمذی میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ۔ عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ، میں نے یہ سن کر کہا : پھر یہ آیت کہاں جائے گی جس میں فرمان ہے «لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ ۡ وَہُوَ یُدْرِکُ الْاَبْصَارَ وَہُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ» ۱؎ (6-الانعام:103) ’ اسے کوئی نگاہ نہیں پا سکتی اور وہ سب نگاہوں کو پا لیتا ہے ۔ ‘ آپ نے جواب دیا کہ یہ اس وقت ہے جبکہ وہ اپنے نور کی پوری تجلی کرے ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو دفعہ اپنے رب کو دیکھا ۔۱؎ (سنن ترمذی:3279،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) یہ حدیث غریب ہے ۔ ترمذی کی اور روایت میں ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی ملاقات سیدنا کعب رضی اللہ عنہ سے ہوئی اور انہیں پہچان کر ان سے ایک سوال کیا جو ان پر بہت گراں گزرا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : ہمیں بنو ہاشم نے یہ خبر دی ہے تو کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے اپنا دیدار اور اپنا کلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور موسیٰ علیہ السلام کے درمیان تقسیم کر دیا ، موسیٰ علیہ السلام سے دو مرتبہ باتیں کیں اور نبی کریم کو دو مرتبہ اپنا دیدار کرایا ۔ ایک مرتبہ مسروق رحمہ اللہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اور پوچھا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے ؟ آپ نے فرمایا : تو نے تو ایسی بات کہہ دی کہ جس سے میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے ، میں نے کہا : مائی صاحبہ قرآن کریم فرماتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کی نشانیاں دیکھیں آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : کہاں جا رہے ہو ؟ سنو اس سے مراد جبرائیل علیہ السلام کا دیکھنا ہے جو تم سے کہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے کسی فرمان کو چھپا لیا یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان پانچ باتوں میں سے کوئی بات جانتے تھے یعنی قیامت کب قائم ہو گی ؟ بارش کب اور کتنی برسے گی ؟ ماں کے پیٹ میں نر ہے یا مادہ ؟ کون کل کیا کرے گا ؟ کون کہاں مرے گا ؟ اس نے بڑی جھوٹ بات کہی اور اللہ پر بہتان باندھا ، بات یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ اللہ کے اس جبرائیل امین علیہ السلام کو دیکھا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اصلی صورت میں دیکھا ہے ایک تو سدرۃ المنتہیٰ کے پاس اور ایک مرتبہ جیاد میں ان کے چھ سو پر تھے اور آسمان کے کل کنارے انہوں نے بھر رکھے تھے ۔ (سنن ترمذی:3278،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) نسائی میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ کیا تمہیں تعجب معلوم ہوتا ہے کہ خلت ابراہیم علیہ السلام کے لیے تھی اور کلام موسی علیہ السلام کے لیے اور دیدار محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ۔۱؎ (سنن نسائی:11539،قال الشیخ الألبانی:صحیح) صحیح مسلم میں سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ { میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” وہ سراسر نور ہے ، میں اسے کیسے دیکھ سکتا ہوں ؟ “ } ۱؎ (صحیح مسلم:291) ایک روایت میں ہے { میں نے نور دیکھا ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:291) ابن ابی حاتم میں ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے اس سوال کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” میں نے اپنے دل سے اپنے رب کو دو دفعہ دیکھا ہے “ پھر آپ نے آیت «مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰی» ۱؎ (53-النجم:11) پڑھی ۔ } (ضعیف) اور روایت میں ہے { میں نے اپنی ان آنکھوں سے نہیں دیکھا ، ہاں دل سے دو دفعہ دیکھا ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت «ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰی» ۱؎ (53-النجم:8) پڑھی ۔ } ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:32452:ضعیف) عکرمہ رحمہ اللہ سے آیت «مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰی» ۱؎ (53-النجم:11) کی بابت سوال ہوا تو آپ نے فرمایا : ہاں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا اور پھر دیکھا ۔ سائل نے پھر حسن رحمہ اللہ سے بھی سوال کیا تو آپ نے فرمایا : اس کے جلال عظمت اور چادر کبریائی کو دیکھا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک مرتبہ یہ جواب دینا بھی مروی ہے کہ میں نے نہر دیکھی اور نہر کے پیچھے پردہ دیکھا اور پردے کے پیچھے نور دیکھا اس کے سوا میں نے کچھ نہیں دیکھا ۔ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:258/12:ضعیف و مرسل) یہ حدیث بھی بہت غریب ہے ۔ ایک حدیث مسند احمد میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” میں نے اپنے رب عزوجل کو دیکھا ہے ۔ “ } اس کی اسناد شرط صحیح پر ہے لیکن یہ حدیث حدیث خواب کا مختصر ٹکڑا ہے ۔ ۱؎ (مسند احمد:285/1:صحیح) چنانچہ مطول حدیث میں ہے کہ { میرے پاس میرا رب بہت اچھی صورت میں آج کی رات آیا [ راوی کہتا ہے میرے خیال میں ] خواب میں آیا اور فرمایا : اے محمد ! جانتے ہو بلند مقام والے فرشتے کس مسئلہ پر گفتگو کر رہے ہیں ؟ میں نے کہا : نہیں پس اللہ تعالیٰ نے اپنا ہاتھ میرے دو بازوؤں کے درمیان رکھا جس کی ٹھنڈک مجھے میرے سینے میں محسوس ہوئی ، پس زمین و آسمان کی ہر چیز مجھے معلوم ہو گئی ، پھر مجھ سے وہی سوال کیا ، میں نے کہا اب مجھے معلوم ہو گیا ، وہ ان نیکیوں کے بارے میں جو گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہیں اور جو درجے بڑھاتی ہیں ، آپس میں پوچھ گچھ کر رہے ہیں ، مجھ سے حق جل شانہ نے پوچھا : اچھا پھر تم بھی بتاؤ ، کفارے کی نیکیاں کیا کیا ہیں ؟ میں نے کہا نمازوں کے بعد میں ، مسجدوں میں رکے رہنا ، جماعت کے لیے چل کر آنا ۔ جب وضو ناگوار گزرتا ہو اچھی طرح مل مل کر وضو کرنا ۔ جو ایسا کرے گا وہ بھلائی کے ساتھ زندگی گزارے گا اور خیر کے ساتھ انتقال ہو گا اور گناہوں سے اس طرح الگ ہو جائے گا جیسے آج دنیا میں آیا ۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے مجھ سے فرمایا : اے محمد ! جب نماز پڑھو یہ کہو « اللہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ فِعْلَ الْخَیْرَاتِ ، وَتَرْکَ الْمُنْکَرَاتِ ، وَحُبَّ الْمَسَاکِینِ ، وَأَنْ تَغْفِرَ لِی ، وَتَرْحَمَنِی ، وَإِذَا أَرَدْتَ فِتْنَۃَ قَوْمٍ فَتَوَفَّنِی غَیْرَ مَفْتُونٍ» یعنی یا اللہ ! میں تجھ سے نیکیوں کے کرنے برائیوں کے چھوڑنے مسکینوں سے محبت رکھنے کی توفیق طلب کرتا ہوں ، تو جب اپنے بندوں کو فتنے میں ڈالنا چاہے ، تو مجھے فتنے میں پڑنے سے پہلے ہی اپنی طرف اٹھا لینا ، فرمایا اور درجے بڑھانے والے اعمال یہ ہیں ، کھانا کھلانا ، سلام پھیلانا ، لوگوں کی نیند کے وقت رات کو تہجد کی نماز پڑھنا } ۱؎ (مسند احمد:368/1:صحیح) اسی کی مثل روایت سورۃ ص مکی کی تفسیر کے خاتمے پر گزر چکی ہے ۔ ابن جریر میں یہ روایت دوسری سند سے مروی ہے جس میں غربت والی زیادتی اور بھی بہت سی ہے اس میں کفارے کے بیان میں ہے کہ { جمعہ کی نماز کے لیے پیدل چلنے کے قدم ، ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار ، میں نے کہا : یا اللہ ! تو نے ابراہیم علیہ السلام کو اپنا خلیل بنایا اور موسیٰ علیہ السلام کو اپنا کلیم بنایا اور یہ کیا ۔ پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا : میں نے تیرا سینہ کھول نہیں دیا اور تیرا بوجھ ہٹا نہیں دیا ؟ اور فلاں اور فلاں احسان تیرے اوپر نہیں کئے ؟ اور دیگر ایسے ایسے احسان بتائے کہ تمہارے سامنے ان کے بیان کی مجھے اجازت نہیں ۔ اسی کا بیان ان آیتوں «ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰی» الخ ۱؎ (53-النجم:8) ، میں ہے پس اللہ تعالیٰ نے میری آنکھوں کا نور میرے دل میں پیدا کر دیا اور میں نے اللہ تعالیٰ کو اپنے دل سے دیکھا ۔} ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:12463:ضعیف) اس کی اسناد ضعیف ہے ۔ اوپر عتبہ بن ابولہب کا یہ کہنا کہ ” میں اس قریب آنے اور نزدیک ہونے والے کو نہیں مانتا “ اور پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس کے لیے بد دعا کرنا اور شیر کا اسے پھاڑ کھانا بیان ہو چکا ہے ۔ یہ واقعہ زرقا میں یا سراۃ میں ہوا تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرما دی تھی کہ یہ اس طرح ہلاک ہو گا ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جبرائیل علیہ السلام کو دوبارہ دیکھنا بیان ہو رہا ہے جو معراج والی رات کا واقعہ ہے ۔ معراج کی حدیثیں نہایت تفصیل کے ساتھ سورۃ سبحٰان کی شروع آیت کی تفسیر میں گزر چکی ہیں جن کے دوبارہ یہاں وارد کرنے کی ضرورت نہیں ۔ یہ بھی بیان گزر چکا ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما معراج والی رات دیدار باری تعالیٰ کے ہونے کے قائل ہیں۔ ایک جماعت سلف و خلف کا قول بھی یہی ہے اور صحابہ رضی اللہ عنہم کی بہت سی جماعتیں اس کے خلاف ہیں اسی طرح تابعین اور دوسرے بھی اس کے خلاف ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جبرائیل علیہ السلام کو پروں سمیت دیکھنا وغیرہ اس قسم کی روایتیں اوپر گزر چکی ہیں ۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مسروق رضی اللہ عنہ کا پوچھنا اور آپ رضی اللہ عنہا کا جواب بھی ابھی بیان ہوا ہے ۔ ایک روایت میں ہے کہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اپنے اس جواب کے بعد آیت «لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ ۡ وَہُوَ یُدْرِکُ الْاَبْصَارَ وَہُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ» ۱؎ (6-الأنعام:103) ، کی تلاوت کی اور آیت «وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ أَن یُکَلِّمَہُ اللہُ إِلَّا وَحْیًا أَوْ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ» ۱؎ (42-الشوری:51) کی بھی تلاوت فرمائی یعنی ’ کوئی آنکھ اسے نہیں دیکھ سکتی اور وہ سب نگاہوں کو پا لیتا ہے کسی انسان سے اللہ کا کلام کرنا ممکن نہیں ۔ ‘ ہاں وحی سے یا پردے کے پیچھے سے ہو تو اور بات ہے ۔ پھر فرمایا جو تم سے کہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کل کی بات کا علم تھا اس نے غلط اور جھوٹ کہا ، پھر آیت «إِنَّ اللہَ عِندَہُ عِلْمُ السَّاعَۃِ وَیُنَزِّلُ الْغَیْثَ وَیَعْلَمُ مَا فِی الْأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِی نَفْسٌ مَّاذَا تَکْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِی نَفْسٌ بِأَیِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللہَ عَلِیمٌ خَبِیرٌ» ۱؎ (31-لقمان:34) آخر تک پڑھی ۔ اور فرمایا جو کہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی کسی بات کو چھپا لیا اس نے بھی جھوٹ کہا اور تہمت باندھی اور پھر آیت «یَا أَیٰہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَیْکَ مِن رَّبِّکَ» ۱؎ (5-المائدہ:67) پڑھی یعنی ’ اے رسول ! جو تمہاری جانب تمہارے رب کی طرف نازل کیا گیا ہے اسے پہنچا دو ۔ ‘ ہاں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام کو ان کی اصلی صورت میں دو مرتبہ دیکھا ہے ۔۱؎ (مسند احمد:49/6:صحیح) مسند احمد میں ہے کہ { مسروق رضی اللہ عنہ نے ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے سورۃ النجم کی آیت «وَہُوَ بالْاُفُقِ الْاَعْلٰی» ۱؎ (53-النجم:7) اور «وَلَقَدْ رَآہُ بِالْأُفُقِ الْمُبِینِ» ۱؎ (81-التکویر:23) پڑھیں اس کے جواب میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : ” اس امت میں سب سے پہلے ان آیتوں کے متعلق خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے سوال کیا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اس سے مراد میرا جبرائیل علیہ السلام کو دیکھنا ہے ۔ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف دو دفعہ اس امین اللہ کو ان کی اصلی صورت میں دیکھا ہے ، ایک مرتبہ آسمان سے زمین پر آتے ہوئے اس وقت تمام خلاء ان کے جسم سے پر تھا ۔ “ } یہ حدیث بخاری و مسلم میں بھی ہے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4855) مسند احمد میں ہے { عبداللہ بن شفیق نے سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ” اگر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک بات ضرور پوچھتا۔ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا : ” کیا پوچھتے ؟“ کہا : ” یہ کہ آپ نے اپنے رب عزوجل کو دیکھا ہے ؟ “ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ” یہ سوال تو خود میں نے جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ ” میں نے اسے نور دیکھا وہ تو نور ہے میں اسے کیسے دیکھ سکتا ؟ “ } ۱؎ (مسند احمد:147/5:صحیح) صحیح مسلم میں بھی یہ حدیث دو سندوں سے مروی ہے دونوں کے الفاظ میں کچھ ہیر پھیر ہے ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:186) امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں نہیں سمجھ سکتا کہ اس حدیث کی کیا توجیہ کروں دل اس پر مطمئن نہیں ۔ ابن ابی حاتم میں سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ ” نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دل سے دیدار کیا ہے آنکھوں سے نہیں ۔“ امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں عبداللہ بن شفیق رحمہ اللہ اور سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے ، اور امام ابن جوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ممکن ہے سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کا یہ سوال معراج کے واقعہ سے پہلے کا ہو اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت یہ جواب دیا ہو ۔ اگر یہ سوال معراج کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا جاتا تو ضرور آپ اس کے جواب میں ہاں فرماتے انکار نہ کرتے ۔ لیکن یہ قول سرتاپا ضعیف ہے اس لیے کہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا سوال قطعاً معراج کے بعد تھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب اس وقت بھی انکار میں ہی رہا ۔ بعض حضرات نے فرمایا کہ ان سے خطاب ان کی عقل کے مطابق کیا گیا یا یہ کہ ان کا یہ خیال غلط ہے چنانچہ ابن خزیمہ نے کتاب التوحید میں یہی لکھا ہے دراصل یہ محض خطا ہے اور بالکل غلطی ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» سیدنا انس اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ” نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو دل سے تو دیکھا ہے لیکن اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا ، ہاں جبرائیل علیہ السلام کو اپنی آنکھوں سے ان کی اصلی صورت میں دو مرتبہ دیکھا ہے ۔ سدرۃ المنتہیٰ پر اس وقت فرشتے بکثرت تھے اور نور ربانی اس پر جگمگا رہا تھا اور قسم قسم کے رنگ جنہیں سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں جان سکتا ۔“ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں معراج والی رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچے جو ساتویں آسمان پر ہے ، زمین سے جو چیزیں چڑھتی ہیں وہ یہیں تک چڑھتی ہیں ، پھر یہاں سے اٹھا لی جاتی ہیں اسی طرح جو چیزیں اللہ کی طرف سے نازل ہوتی ہیں یہیں تک پہنچتی ہیں پھر یہاں سے پہنچائی جاتی ہیں اس وقت اس درخت پر سونے کی ٹڈیاں لدی ہوئی تھیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وہاں تین چیزیں عطا فرمائی گئیں پانچوں وقت کی نمازیں سورۃ البقرہ کی خاتمہ کی آیتیں اور آپ کی امت میں سے جو مشرک نہ ہو اس کے گناہوں کی بخشش ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:279) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یا کسی اور صحابی سے روایت ہے کہ جس طرح کوے کسی درخت کو گھیر لیتے ہیں ، اسی طرح اس وقت سدرۃ المنتہیٰ پر فرشتے چھا رہے تھے ، وہاں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ ’ جو مانگنا ہو مانگو ۔‘ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:32524) مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس درخت کی شاخیں مروارید ، یاقوت اور زبرجد کی تھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھا اور اپنے دل کی آنکھوں سے اللہ کی بھی زیارت کی ۔ { ابن زید رحمہ اللہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ آپ نے سدرہ پر کیا دیکھا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اسے سونے کی ٹڈیاں ڈھانکے ہوئے تھیں اور ہر ایک پتے پر ایک ایک فرشتہ کھڑا ہوا اللہ کی تسبیح کر رہا تھا ۔ “ } ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:32519) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہیں دائیں بائیں نہیں ہوئیں جس چیز کے دیکھنے کا حکم تھا وہیں لگی رہیں ۔ ثابت قدمی اور کامل اطاعت کی یہ پوری دلیل ہے کہ جو حکم تھا وہی بجا لائے ، جو دئیے گئے وہی لے کر خوش ہوئے ، اسی کو ایک ناظم نے تعریفاً کہا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی بڑی بڑی نشانیاں ملاحظہ فرمائیں جیسے اور جگہ ہے «لِنُرِیَکَ مِنْ اٰیٰتِنَا الْکُبْرٰی» ۱؎ (20-طہ:23) ’ اس لیے کہ ہم تجھے اپنی بڑی بڑی نشانیاں دکھائیں جو ہماری کامل قدرت اور زبردست عظمت پر دلیل بن جائیں ۔‘ ان دونوں آیتوں کو دلیل بنا کر اہل سنت کا مذہب ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رات اللہ کا دیدار اپنی آنکھوں سے نہیں کیا کیونکہ ارشاد باری ہے کہ آپ نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں ، اگر خود اللہ کا دیدار ہوا ہوتا ، تو اسی دیدار کا ذکر ہوتا اور لوگوں پر سے اسے ظاہر کیا جاتا ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول گزر چکا ہے کہ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش پر دوسری دفعہ آسمان پر چڑھتے وقت جبرائیل علیہ السلام کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اصلی صورت میں دیکھا ۔ پس جبکہ جبرائیل علیہ السلام نے اپنے رب عزوجل کو خبر دی اپنی اصلی صورت میں عود کر گئے اور سجدہ ادا کیا ، پس سدرۃ المنتہیٰ کے پاس دوبارہ دیکھنے سے انہی کا دیکھنا مراد ہے یہ روایت مسند احمد میں ہے اور غریب ہے ۔ (مسند احمد:407/1:ضعیف) النجم
9 النجم
10 النجم
11 النجم
12 النجم
13 النجم
14 النجم
15 النجم
16 النجم
17 النجم
18 النجم
19 بت کدے کیا تھے؟ ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ مشرکین کو ڈانٹ رہا ہے کہ وہ بتوں کی اور اللہ کے سوا دوسروں کی پرستش کرتے ہیں اور جس طرح خلیل اللہ نے بحکم اللہ بیت اللہ بنایا ہے یہ لوگ اپنے اپنے معبودان باطل کے پرستش کدے بنا رہے ہیں ۔ «لات» ایک سفید پتھر منقش تھا جس پر قبہ بنا رکھا تھا ، غلاف چڑھائے جاتے تھے ، مجاور محافظ اور جاروب کش مقرر تھے ، اس کے آس پاس کی جگہ مثل حرم کی حرمت و بزرگی والی جانتے تھے ، اہل طائف کا یہ بت کدہ تھا ، قبیلہ ثقیف اس کا پجاری اور اس کا متولی تھا ۔ قریش کے سوا باقی اور سب پر یہ لوگ اپنا فخر جتایا کرتے تھے ۔ ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں ان لوگوں نے لفظ اللہ سے لفظ «لات» بنایا تھا ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:520/11) گویا اس کا مؤنث بنایا تھا ۔ اللہ کی ذات تمام شریکوں سے پاک ہے ایک قرأت میں لفظ «لات» تا کی تشدید کے ساتھ ہے یعنی گھولنے والا اسے «لات» اس معنی میں اس لیے کہتے تھے کہ یہ ایک نیک شخص تھا ، موسم حج میں حاجیوں کو ستو گھول گھول کر پلاتا تھا ، اس کے انتقال کے بعد لوگوں نے اس کی قبر پر مجاورت شروع کر دی رفتہ رفتہ اسی کی عبادت کرنے لگے ۔ اسی طرح لفظ «عزیٰ» لفظ «عزیز» سے لیا گیا ہے مکے اور طائف کے درمیان نخلہ میں یہ ایک درخت تھا اس پر بھی قبہ بنا ہوا تھا چادریں چڑھی ہوئی تھیں قریش اس کی عظمت کرتے تھے ۔ ابوسفیان نے احد والے دن بھی کہا تھا ہمارا «عزیٰ» ہے اور تمہارا نہیں ، جس کے جواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہلوایا تھا { اللہ ہمارا والی ہے اور تمہاری والی کوئی نہیں ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:3039) صحیح بخاری میں ہے { جو شخص لات عزیٰ کی قسم کھا بیٹھے اسے چاہیئے کہ فوراً «لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ» کہہ لے اور جو اپنے ساتھی سے کہہ دے کہ آو جوا کھیلیں اسے صدقہ کرنا چاہیئے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:4860) مطلب یہ ہے کہ جاہلیت کے زمانہ میں چونکہ اسی کی قسم کھائی جاتی تھی تو اب اسلام کے بعد اگر کسی کی زبان سے اگلی عادت کے موافق یہ الفاظ نکل جائیں تو اسے کلمہ پڑھ لینا چاہیئے ۔ { سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ اسی طرح لات و عزیٰ کی قسم کھا بیٹھے جس پر لوگوں نے انہیں متنبہ کیا ، یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” «لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَحدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ» پڑھ لو اور تین مرتبہ «اعُوذُ بِاللّہِ مِن الشِّیطانِ الرَّجِیمِ» پڑھ کر اپنی بائیں جانب تھوک دو اور آئندہ سے ایسا نہ کرنا ۔ “ } ۱؎ (سنن ابن ماجہ:2097،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) مکے اور مدینے کے درمیان قدید کے پاس مثلل میں «مناۃ» تھا ۔ قبیلہ خزاعہ ، اوس ، اور خزرج جاہلیت میں اس کی بہت عظمت کرتے تھے یہیں سے احرام باندھ کر وہ حج کعبہ کے لیے جاتے تھے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4861) اسی طرح ان تین کی شہرت بہت زیادہ تھی اس لیے یہاں صرف ان تین کا ہی بیان فرمایا ۔ ان مقامات کا یہ لوگ طواف بھی کرتے تھے قربانیوں کے جانور وہاں لے جاتے تھے ان کے نام پر جانور چڑھائے جاتے تھے باوجود اس کے یہ سب لوگ کعبہ کی حرمت و عظمت کے قائل تھے اسے مسجد ابراہیم مانتے تھے اور اس کی خاطر خواہ توقیر کرتے تھے ۔ سیرۃ ابن اسحاق میں ہے کہ قریش اور بنو کنانہ عزیٰ کے پجاری تھے جو نخلہ میں تھا ۔ اس کا نگہبان اور متولی قبیلہ بنو شیبان تھا جو قبیلہ سلیم کی شاخ تھا اور بنو ہاشم کے ساتھ ان کا بھائی چارہ تھا ۔ ۱؎ (سیرۃ ابن ھشام:83/1) اس بت کے توڑنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو بھیجا تھا جنہوں نے اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور کہتے جاتے تھے «یَا عُزَّی کُفْرَانَکِ لَا سُبْحَانَک» *** «اِنِّیْ رَاَیْتُ اللہَ قَدْ اَہانَکِ» اے عزیٰ میں تیرا منکر ہوں تیری پاکی بیان کرنے والا نہیں ہوں میرا ایمان ہے کہ تیری عزت کو اللہ نے خاک میں ملا دیا۔ یہ ببول کے تین درختوں پر تھا جو کاٹ ڈالے گئے اور قبہ ڈھا دیا اور واپس آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تم نے کچھ نہیں کیا ، لوٹ کر پھر دوبارہ جاؤ ۔ “ خالد رضی اللہ عنہ کے دوبارہ تشریف لے جانے پر وہاں کے محافظ اور خدام نے بڑے بڑے مکر و فریب کئے اور خوب غل مچا مچا کر ” یا عزیٰ ، یا عزیٰ “ کے نعرے لگائے ، خالد رضی اللہ عنہ نے جو دیکھا تو معلوم ہوا کہ ایک ننگی عورت ہے جس کے بال بکھرے ہوئے ہیں اور اپنے سر پر مٹی ڈال رہی ہے ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے تلوار کے ایک ہی وار میں اس کا کام تمام کیا اور واپس آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” عزیٰ یہی تھی ۔“ ۱؎ (سنن نسائی:567:حسن) «لات» قبیلہ ثقیف کا بت تھا جو طائف میں تھا ۔ اس کی تولیت اور مجاورت بنو معتب میں تھی یہاں اس کے ڈھانے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مغیرہ بن شعبہ اور ابوسفیان صخر بن حرب رضی اللہ عنہم کو بھیجا تھا جنہوں نے اسے معدوم کر کے اس کی جگہ مسجد بنا دی ۔ «مناۃ» اوس و خزرج اور اس کے ہم خیال لوگوں کا بت تھا یہ مثلل کی طرف سے سمندر کے کنارے قدید میں تھا یہاں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسفیان رضی اللہ عنہ کو بھیجا اور آپ نے اس کے ریزے ریزے کر دئیے ۔ بعض کا قول ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں یہ کفرستان فنا ہوا ۔ «ذوالخلصہ» نامی بت خانہ دوس اور خشعم اور بجیلہ کا تھا اور جو لوگ اس کے ہم وطن تھے یہ تبالہ میں تھا اور اسے یہ لوگ کعبہ یمانیہ کہتے تھے اور مکہ کے کعبہ کو کعبہ شامیہ کہتے تھے یہ جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے فنا ہوا «فلس» نامی بت خانہ قبیلہ طے اور ان کے آس پاس کے عربوں کا تھا یہ جبل طے میں سلمیٰ اور اجا کے درمیان تھا اس کے توڑنے پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ مامور ہوئے تھے آپ رضی اللہ عنہ نے اسے توڑ دیا اور یہاں سے دو تلواریں لے گئے تھے ایک رسوب دوسری مخزم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دونوں تلواریں انہی کو دے دیں ۔ قبیلہ حمیر اہل یمن نے اپنا بت خانہ صنعاء میں «ریام» نامی بنا رکھا تھا مذکور ہے کہ اس میں ایک سیاہ کتا تھا اور وہ دو حمیری جو تبع کے ساتھ نکلے تھے انہوں نے اسے نکال کر قتل کر دیا اور اس بت خانہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور «رضا» نامی بت کدہ بنو ربیعہ بن سعد کا تھا اس کو مستوغر بن ربیعہ بن کعب بن اسد نے اسلام میں ڈھایا ۔ ابن ہشام رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ان کی عمر تین سو تیس سال کی ہوئی تھی جس کا بیان خود انہوں نے اپنے اشعار میں کیا ہے ۔ «ذوالکعبات» نامی صنم خانہ بکر تغلب اور ایاد قبیلے کا سنداد میں تھا ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ تمہارے لیے لڑکے ہوں اور اللہ کی لڑکیاں ہوں ؟‘ کیونکہ مشرکین اپنے زعم باطل میں فرشتوں کو اللہ کی لڑکیاں سمجھتے تھے ، تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’ اگر تم آپس میں تقسیم کرو اور کسی کو صرف لڑکیاں اور کسی کو صرف لڑکے دو تو وہ بھی راضی نہ ہو گا اور یہ تقسیم نامنصفی کی سمجھی جائے گی چہ جائیکہ تم اللہ کے لیے لڑکیاں ثابت کرو اور خود تم اپنے لیے لڑکے پسند کرو ‘ ۔ النجم
20 النجم
21 النجم
22 النجم
23 1 پھر فرماتا ہے ان کو تم نے اپنی طرف سے بغیر کسی دلیل کے مضبوط ٹھہرا کر جو چاہا نام گھڑ لیا ہے ، ورنہ نہ وہ معبود ہیں ، نہ کسی ایسے پاک نام کے مستحق ہیں ۔ خود یہ لوگ بھی ان کی پوجا پاٹ پر کوئی دلیل پیش نہیں کر سکتے صرف اپنے بڑوں پر حسن ظن رکھ کر جو انہوں نے کیا تھا یہ بھی کر رہے ہیں ، مکھی پر مکھی مارتے چلے جاتے ہیں ، مصیبت تو یہ ہے کہ دلیل آ جانے ، اللہ کی باتیں واضح ہو جانے کے باوجود بھی باپ دادا کی غلط راہ کو نہیں چھوڑتے ۔ پھر فرماتا ہے کیا ہر انسان کی ہر تمنا خواہ مخواہ پوری ہو ہی جاتی ہے؟ جو کہے میں حق پر ہوں تو کیا وہ حق پر ہو ہی گیا؟ تم گو دعوے لمبے چوڑے کرو لیکن دعوؤں سے مراد اور مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ ‘ { نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” تمنا کرتے وقت سوچ لیا کرو کہ کیا تمنا کرتے ہو؟ تمہیں نہیں معلوم کہ اس تمنا پر تمہارے لئے کیا لکھا جائے گا؟ “ } ۱؎ (سلسلۃ احادیث ضعیفہ البانی:2255،) تمام امور کا مالک اللہ تعالیٰ ہے دنیا اور آخرت میں تصرف اسی کا ہے جو اس نے جو چاہا ہو رہا ہے اور جو چاہے گا ہو گا ۔ پھر فرماتا ہے کہ اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی بڑے سے بڑا فرشتہ بھی کسی کے لیے سفارش کا لفظ بھی نہیں نکال سکتا ، جیسے فرمایا «مَن ذَا الَّذِی یَشْفَعُ عِندَہُ إِلاَّ بِإِذْنِہِ» ۱؎ (2-البقرۃ:255) ’ کون ہے جو اس کے پاس اس کی اجازت کے بغیر سفارش پیش کر سکے ۔‘ «وَلاَ تَنفَعُ الشَّفَـعَۃُ عِندَہُ إِلاَّ لِمَنْ أَذِنَ لَہُ» ۱؎ (34-سبأ:23) ’ اس کے فرمان کے بغیر کسی کو کسی کی سفارش نفع نہیں دے سکتی ۔ ‘ جبکہ بڑے بڑے قریبی فرشتوں کا یہ حال ہے تو پھر اے ناوافقو ! تمہارے یہ بت اور تھان کیا نفع پہنچا دیں گے ؟ ان کی پرستش سے اللہ روک رہا ہے ، تمام رسول علیہ السلام اور کل آسمانی کتابیں اللہ کے سوا اوروں کی عبادت سے روکنا اپنا عظیم الشان مقصد بتاتی ہیں پھر تم ان کو اپنا سفارشی سمجھ رہے ہو کس قدر غلط راہ ہے ۔ النجم
24 النجم
25 النجم
26 النجم
27 آخرت کا گھر اور دنیا اللہ تعالیٰ مشرکین کے اس قول کی تردید فرماتا ہے کہ اللہ کے فرشتے اس کی لڑکیاں ہیں ۔ جیسے اور جگہ ہے «وَجَعَلُوا الْمَلَائِکَۃَ الَّذِینَ ہُمْ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ إِنَاثًا أَشَہِدُوا خَلْقَہُمْ سَتُکْتَبُ شَہَادَتُہُمْ وَیُسْأَلُونَ» ۱؎ (43-الزخرف:19) یعنی ’ اللہ کے مقبول بندوں اور فرشتوں کو انہوں نے اللہ کی لڑکیاں ٹھہرا دیا ہے کیا ان کی پیدائش کے وقت یہ موجود تھے ؟ ان کی شہادت لکھی جائے گی اور ان سے پرسش کی جائے گی ۔ ‘ یہاں بھی فرمایا کہ یہ لوگ فرشتوں کے زنانہ نام رکھتے ہیں جو ان کی بےعلمی کا نتیجہ ہے ۔ محض جھوٹ ، کھلا بہتان بلکہ صریح شرک ہے یہ صرف ان کی اٹکل ہے اور یہ ظاہر ہے کہ اٹکل پچو کی باتیں حق کے قائم مقام نہیں ہو سکتیں ۔ حدیث شریف میں ہے { گمان سے بچو گمان بدترین جھوٹ ہے ۔} ۱؎ (صحیح بخاری:6066) پھر اللہ تعالیٰ اپنے نبی [ صلی اللہ علیہ وسلم ] سے فرماتا ہے کہ حق سے اعراض کرنے والوں سے آپ بھی اعراض کر لیں ، ان کا مطمع نظر صرف دنیا کی زندگی ہے ، اور جس کی غایت یہ سفلی دنیا ہو اس کا انجام کبھی نیک نہیں ہوتا ان کے علم کی غایت بھی یہی ہے کہ دنیا طلبی اور کوشش دنیا میں ہر وقت منہمک رہیں ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” دنیا اس کا گھر ہے جس کا [ آخرت میں ] گھر نہ ہو اور دنیا اس کا مال ہے جس کا مال [ آخرت میں ] کنگال ہو اسے جمع کرنے کی دھن میں وہ رہتا ہے۔ “ } ۱؎ (سلسلۃ احادیث ضعیفہ البانی:1933،) ایک منقول دعا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ بھی آئے ہیں { « اَللّٰھُمَّ لاَ تَجْعَلِ الدٰنْیَا أَکْبَرَ ہَمِّنَا وَ لاَ مَبْلَغَ عِلْمِنَا» پروردگار ! تو ہماری اہم تر کوشش اور مطمع نظر اور مقصد معلومات صرف دنیا ہی کو نہ کر ۔ } ۱؎ (سنن ترمذی:3502،قال الشیخ الألبانی:حسن) پھر فرماتا ہے کہ جمیع مخلوقات کا خالق صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے اپنے بندوں کی مصلحتوں سے صحیح طور پر وہی واقف ہے ، جسے چاہے ہدایت دے ، جسے چاہے ضلالت دے ، سب کچھ اس کی قدرت علم اور حکمت سے ہو رہا ہے وہ عادل ہے اپنی شریعت میں اور انداز مقرر کرنے میں ظلم و بے انصافی نہیں کرتا ۔ النجم
28 النجم
29 النجم
30 النجم
31 گناہ اور ضابطہ الہٰی مالک آسمان و زمین ، بے پرواہ ، مطلق شہنشاہ ، حقیقی عادل ، خالق ، حق و حق کار اللہ تعالیٰ ہی ہے ، ہر کسی کو اس کے اعمال کا بدلہ دینے والا ، نیکی پر نیک جزا اور بدی پر بری سزا وہی دے گا ۔ اس کے نزدیک بھلے لوگ وہ ہیں جو اس کی حرام کردہ چیزوں اور کاموں سے بڑے بڑے گناہوں اور بدکاریوں و نالائقیوں سے الگ رہیں ان سے بتقاضائے بشریت اگر کبھی کوئی چھوٹا سا گناہ سرزد ہو بھی جائے تو پروردگار پردہ پوشی کرتا ہے اور معاف فرما دیتا ہے جیسے اور آیت میں ہے «إِن تَجْتَنِبُوا کَبَائِرَ‌ مَا تُنْہَوْنَ عَنْہُ نُکَفِّرْ‌ عَنکُمْ سَیِّئَاتِکُمْ وَنُدْخِلْکُم مٰدْخَلًا کَرِ‌یمًا» ۱؎ (4-النساء:31) ’ اگر تم ان کبیرہ گناہوں سے پاکدامن رہے جن سے تمہیں روک دیا گیا ہے تو ہم تمہاری برائیاں معاف فرما دیں گے ‘ ۔ یہاں بھی فرمایا : مگر چھوٹی چھوٹی لغزشیں اور انسانیت کی کمزوریاں معاف ہیں ۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں «لَـمَـمَ» کی تفسیر میرے خیال میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ اس حدیث سے زیادہ اچھی کوئی نہیں کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ نے ابن آدم پر اس کا زنا کا حصہ لکھ دیا ہے جسے وہ یقیناً پا کر ہی رہے گا ، آنکھوں کا زنا دیکھنا ہے ، زبان کا زنا بولنا ہے ، دل امنگ اور آرزو کرتا ہے ، اب شرمگاہ خواہ اسے سچا کر دکھائے یا جھوٹا ۔ “ } ۱؎ (صحیح بخاری:2643) سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں آنکھوں کا زنا نظر کرنا ہے اور ہونٹوں کا بوسہ لینا ہے اور ہاتھوں کا زنا پکڑنا ہے اور پیروں کا زنا چلنا ہے اور شرمگاہ اسے سچا کرتی ہے یا جھوٹا کر دیتی ہے یعنی اگر شرمگاہ کو نہ روک سکا اور بدکاری کر بیٹھا تو سب اعضاء کا زنا ثابت اور اگر اپنے اس عضو کو روک لیا تو وہ سب «لَـمَـمَ» میں داخل ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:516/11) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ «لَـمَـمَ» بوسہ لینا ، چھیڑنا ، دیکھنا ، مس کرنا ہے اور جب شرمگاہیں مل گئیں تو غسل واجب ہو گیا اور زناکاری کا گناہ ثابت ہو گیا ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس جملہ کی تفسیر یہی مروی ہے یعنی جو پہلے گزر چکا ، مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں گناہ سے آلودگی ہو پھر چھوڑ دے تو «لَـمَـمَ» میں داخل ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:528/11) شاعر کہتا ہے «إِنْ تَغْفِرْ اللہُمَّ تَغْفِرْ جَمًّا» *** «أَیّ عَبْدٍ لَک مَا أَلَمَّا» اے اللہ ! جبکہ تو معاف فرماتا ہے تو سب کچھ ہی معاف فرما دے ورنہ یوں آلودہ عصیاں تو ہر انسان ہے ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں اہل جاہلیت اپنے طواف میں عموماً اس شعر کو پڑھا کرتے تھے ۔ ابن جریر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس شعر کو پڑھنا بھی مروی ہے ، ترمذی میں بھی یہ مروی ہے اور امام ترمذی اسے حسن صحیح غریب کہتے ہیں ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3284،قال الشیخ الألبانی:صحیح) بزار رحمہ اللہ فرماتے ہیں ہمیں اس کی اور سند معلوم نہیں صرف اسی سند سے مرفوعاً مروی ہے ابن ابی حاتم اور بغوی نے بھی اسے نقل کیا ہے بغوی نے اسے سورۃ تنزیل میں روایت کیا ہے لیکن اس مرفوع کی صحت میں نظر ہے ۔ ایک روایت میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” مراد یہ ہے کہ زنا سے نزدیکی ہونے کے بعد توبہ کرے اور پھر نہ لوٹے ، چوری کے قریب ہو جانے کے بعد چوری نہ کی اور توبہ کر کے لوٹ آیا ، اسی طرح شراب پینے کے قریب ہو کر شراب نہ پی اور توبہ کر کے لوٹ گیا ، یہ سب «المام» ہیں جو ایک مومن کو معاف ہیں “ } ۔ حسن بصری رحمہ اللہ سے بھی یہی مروی ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:32569) ایک روایت میں ہے صحابہ رضی اللہ عنہم سے عمومًا اس کا مروی ہونا بیان کیا گیا ہے ۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں مراد اس سے شرک کے علاوہ گناہ ہیں ۔ ابن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں دو حدوں کے درمیان حد زنا اور عذاب آخرت ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ہر وہ چیز جو دو حدوں کے درمیان حد دنیا اور حد آخرت نمازیں اس کا کفارہ بن جاتی ہیں اور وہ ہر واجب کر دینے والی سے کم ہے ، حد دنیا تو وہ ہے جو کسی گناہ پر اللہ نے دنیاوی سزا مقرر کر دی ہے اور اس کی سزا دنیا میں مقرر نہیں کی ۔ تیرے رب کی بخشش بہت وسیع ہے ہر چیز کو گھیر لیا ہے اور تمام گناہوں پر اس کا احاطہٰ ہے جیسے فرمان ہے «قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِینَ أَسْرَفُوا عَلَی أَنفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَۃِ اللہِ إِنَّ اللہَ یَغْفِرُ الذٰنُوبَ جَمِیعًا إِنَّہُ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ» ۱؎ (39-الزمر:53) ’ اے میرے وہ بندو ! جنہوں نے اپنی جان پر اسراف کیا ہے اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہونا اللہ تعالیٰ تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے اور وہ بڑی بخشش والا اور بڑے رحم والا ہے ۔ ‘ پھر فرمایا وہ تمہیں دیکھنے والا اور تمہارے ہر حال کا علم رکھنے والا اور تمہارے ہر کلام کو سننے والا اور تمہارے تمام تر اعمال سے واقف ہے جبکہ اس نے تمہارے باپ آدم کو زمین سے پیدا کیا اور ان کی پیٹھ سے ان کی اولاد نکالی جو چیونٹیوں کی طرح پھیل گئی پھر ان کی تقسیم کر کے دو گروہ بنا دئیے ایک جنت کے لیے اور ایک جہنم کے لیے اور جب تم اپنی ماں کے پیٹ میں بچے تھے اس کی مقرر کردہ فرشتے نے روزی ، عمر ، عمل ، نیکی ، بدی لکھ لی ۔ بہت سے بچے پیٹ سے ہی گر جاتے ہیں ، بہت سے دودھ پینے کی حالت میں فوت ہو جاتے ہیں ، بہت سے دودھ چھٹنے کے بعد بلوغت سے پہلے ہی چل بستے ہیں ، بہت سے عین جوانی میں دار دنیا خالی کر جاتے ہیں ، اب جبکہ ہم تمام منازل کو طے کر چکے اور بڑھاپے میں آ گئے جس کے بعد کوئی منزل موت کے سوا نہیں اب بھی اگر ہم نہ سنبھلیں تو ہم سے بڑھ کر غافل کون ہے ؟ خبردار تم اپنے نفس کو پاک نہ کہو اپنے نیک اعمال کی تعریفیں کرنے نہ بیٹھ جاؤ ، اپنے آپ سراہنے نہ لگو ، جس کے دل میں رب کا ڈر ہے اسے رب ہی خوب جانتا ہے ۔ اور آیت میں ہے «أَلَمْ تَرَ‌ إِلَی الَّذِینَ یُزَکٰونَ أَنفُسَہُم بَلِ اللہُ یُزَکِّی مَن یَشَاءُ وَلَا یُظْلَمُونَ فَتِیلًا» ۱؎ (4-النساء:49) ’ کیا تو نے ان لوگوں کو نہ دیکھا جو اپنے نفس کی پاکیزگی آپ بیان کرتے ہیں وہ نہیں جانتے کہ یہ اللہ کے ہاتھ ہے جسے وہ چاہے برتر اعلیٰ اور پاک صاف کر دے کسی پر کچھ بھی ظلم نہ ہو گا ۔‘ محمد بن عمرو بن عطا رحمہ اللہ فرماتے ہیں { میں نے اپنی لڑکی کا نام برہ رکھا تو مجھ سے زینب بنت ابوسلمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نام سے منع فرمایا ہے خود میرا نام بھی برہ تھا جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تم خود اپنی برتری اور پاکی آپ نہ بیان کرو تم میں سے نیکی والوں کا علم پورے طور پر اللہ ہی کو ہے ۔ “ لوگوں نے کہا : پھر ہم اس کا کیا نام رکھیں ؟ فرمایا : ” زینب نام رکھو “ } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2142) مسند احمد میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کسی ایک شخص کی بہت تعریفیں بیان کیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” افسوس تو نے اس کی گردن ماری ، کئی مرتبہ یہی فرما کر ارشاد فرمایا کہ اگر کسی کی تعریف ہی کرنی ہو تو یوں کہو ، میرا گمان فلاں کے بارے میں ایسا ہے حقیقی علم اللہ کو ہی ہے پھر اپنی معلومات بیان کرو خود کسی کی پاکیزگیاں بیان کرنے نہ بیٹھ جاؤ “ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2662) ابوداؤد اور مسلم میں ہے کہ { ایک شخص نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے سامنے ان کی تعریفیں بیان کرنا شروع کر دیں اس پر مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ اس کے منہ میں مٹی بھرنے لگے اور فرمایا : ” ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ تعریفیں کرنے والوں کے منہ مٹی سے بھر دیں ۔“ } ۱؎ (صحیح مسلم:7431) النجم
32 النجم
33 منافق و کافر کا نفسیاتی تجزیہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی مذمت کر رہا ہے جو اللہ کی فرمانبرداری سے منہ موڑ لیں ، سچ نہ کہیں ، نہ نماز ادا کریں بلکہ جھٹلائیں ، اعراض کریں ، راہ اللہ بہت ہی کم خرچ کریں ، دل کو نصیحت قبول کرنے والا نہ بنائیں ، کبھی کچھ کہنا مان لیا پھر رسیاں کاٹ کر الگ ہو گئے ۔ عرب «اَکْدیٰ» اس وقت کہتے ہیں مثلًا کچھ لوگ کنواں کھود رہے ہوں درمیان میں کوئی سخت چٹان آ جائے اور وہ دستبردار ہو جائیں ۔ فرماتا ہے کیا اس کے پاس علم غیب ہے جس سے اس نے جان لیا کہ اگر میں راہ للہ اپنا زر و مال دوں گا تو خالی ہاتھ رہ جاؤں گا ؟ یعنی دراصل یوں نہیں بلکہ یہ صدقے ، نیکی اور بھلائی سے ازروئے بخل ، طمع ، خود غرضی ، نامردی و بےدلی کے رک رہا ہے ۔ حدیث میں ہے { اے بلال ! خرچ کر اور عرش والے سے فقیر بنا دینے کا ڈر نہ رکھ ۔ } ۱؎ (طبرانی:1020:ضعیف) خود قرآن میں ہے آیت «وَمَا أَنفَقْتُم مِّن شَیْءٍ فَہُوَ یُخْلِفُہُ وَہُوَ خَیْرُ‌ الرَّ‌ازِقِینَ» ۱؎ (34-سبأ:39) ’ تم جو کچھ خرچ کرو گے اللہ تعالیٰ تمہیں اس کا بدلہ دے گا اور وہی بہترین رازق ہے ۔ ‘ «وَفَّیٰ» کے معنی ایک تو یہ کئے گئے ہیں کہ انہیں حکم کیا گیا تھا وہ سب انہوں نے پہنچا دیا ، دوسرے معنی یہ کئے گئے ہیں کہ جو حکم ملا اسے بجا لائے ۔ ٹھیک یہ ہے کہ یہ دونوں ہی معنی درست ہیں جیسے اور آیت میں ہے «وَإِذِ ابْتَلَیٰ إِبْرَ‌اہِیمَ رَ‌بٰہُ بِکَلِمَاتٍ فَأَتَمَّہُنَّ قَالَ إِنِّی جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ إِمَامًا» ۱؎ (2-البقرۃ:124) ، ’ ابراہیم [ علیہ السلام ] کو جب کبھی جس کسی آزمائش کے ساتھ اس کے رب نے آزمایا آپ نے کامیابی کے ساتھ اس میں نمبر لیے ۔ ‘ یعنی ہر حکم کو بجا لائے ، ہر منع سے رکے رہے ، رب کی رسالت پوری طرح پہنچا دی پس اللہ نے انہیں امام بنا کر دوسروں کا ان کا تابعدار بنا دیا ۔ جیسے ارشاد ہوا ہے «ثُمَّ أَوْحَیْنَا إِلَیْکَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّۃَ إِبْرَاہِیمَ حَنِیفًا وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِینَ» ۱؎ (16-النحل:123) ’ پھر ہم نے تیری طرف وحی کی کہ ملت ابراہیم حنیف کی پیروی کر جو مشرک نہ تھا ۔ ‘ ابن جریر کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ { ہر روز وہ دن نکلتے ہی چار رکعت ادا کیا کرتے تھے یہی ان کی وفا داری تھی ۔ } ۱؎ (ضعیف جدا) ترمذی میں ایک حدیث قدسی ہے کہ { اے ابن آدم ! اول دن میں تو میرے لئے چار رکعت ادا کر لے میں آخر دن تک تیری کفایات کروں گا۔} ۱؎ (سنن ترمذی:385،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابن ابی حاتم کی ایک حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ابراہیم علیہ السلام کے لیے لفظ «وَفَّی» اس لیے فرمایا کہ وہ ہر صبح شام ان کلمات کو پڑھا کرتے تھے آیت «فَسُـبْحٰنَ اللّٰہِ حِیْنَ تُمْسُوْنَ وَحِیْنَ تُصْبِحُوْنَ» ۱؎ (30-الروم:17) یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت ختم کی ۔ } ۱؎ (سنن ترمذی:1358،قال الشیخ الألبانی:صحیح) پھر بیان ہورہا ہے کہ «صحف ابراہیم و موسیٰ» میں کیا تھا؟ ان میں یہ تھا کہ جس کسی نے اپنی جان پر ظلم کیا مثلاً شرک و کفر کیا یا گناہ صغیرہ یا کبیرہ کیا تو اس کا وبال خود اس پر ہے اس کا یہ بوجھ کوئی اور نہ اٹھائے گا ۔ جیسے قرآن کریم میں ہے «وَاِنْ تَدْعُ مُثْقَلَۃٌ اِلٰی حِمْلِہَا لَا یُحْمَلْ مِنْہُ شَیْءٌ وَّلَوْ کَانَ ذَا قُرْبٰی اِنَّمَا تُنْذِرُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ بالْغَیْبِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَمَنْ تَزَکّٰی فَاِنَّمَا یَتَزَکّٰی لِنَفْسِہٖ وَاِلَی اللّٰہِ الْمَصِیْرُ» ۱؎ (35-فاطر:18) ، ’ اگر کوئی بوجھل اپنے بوجھ کی طرف کسی کو بلائے گا تو اس میں سے کچھ نہ اٹھایا جائے گا اگرچہ وہ قرابت دار ہو ۔ ‘ ان صحیفوں میں یہ بھی تھا کہ انسان کے لیے صرف وہی ہے جو اس نے حاصل کیا یعنی جس طرح اس پر دوسرے کا بوجھ نہیں لادا جائے گا ، دوسروں کی بداعمالیوں میں یہ بھی نہیں پکڑا جائے گا اور اسی طرح دوسرے کی نیکی بھی اسے کچھ فائدہ نہ دے گی ۔ امام شافعی رحمہ اللہ اور ان کے متعبین نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ قرآن خوانی کا ثواب مردوں کا پہنچایا جائے تو نہیں پہنچتا اس لیے کہ نہ تو یہ ان کا عمل ہے ، نہ کسب ، یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ اس کا جواز بیان کیا ، نہ اپنی امت کو اس پر رغبت دلائی ، نہ انہیں اس پر آمادہ کیا ، نہ تو کسی صریح فرمان کے ذریعہ سے ، نہ کسی اشارے کنائیے سے ، ٹھیک اسی طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کسی ایک سے یہ ثابت نہیں کہ انہوں نے قرآن پڑھ کر اس کے ثواب کا ہدیہ میت کے لیے بھیجا ہو اگر یہ نیکی ہوتی اور مطابق شرع عمل ہوتا تو ہم سے بہت زیادہ سبقت نیکیوں کی طرف کرنے والے صحابہ کرام تھے [ رضی اللہ عنہم اجمعین ] ۔ ساتھ ہی یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیئے کہ نیکیوں کے کام قرآن حدیث کے صاف فرمان صحیح ثابت ہوتے ہیں کسی قسم کے رائے اور قیاس کا ان میں کوئی دخل نہیں ، ہاں دعا اور صدقہ کا ثواب میت کو پہنچتا ہے ، اس پر اجماع ہے اور شارع علیہ السلام کے الفاظ سے ثابت ہے جو حدیث صحیح مسلم شریف میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے مروی ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” انسان کے مرنے پر اس کے اعمال منقطع ہو جاتے ہیں لیکن تین چیزیں نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی رہے یا وہ صدقہ جو اس کے انتقال کے بعد بھی جاری رہے یا وہ علم جس سے نفع اٹھایا جاتا رہے “ } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1631) اس کا یہ مطلب ہے کہ درحقیقت یہ تینوں چیزیں بھی خود میت کی سعی اس کی کوشش اور اس کا عمل ہیں ، یعنی کسی اور کے عمل کا اجر اسے نہیں پہنچ رہا ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ { سب سے بہتر انسان کا کھانا وہ ہے جو اس نے اپنے ہاتھوں سے حاصل کیا ہو ، اس کی اپنی کمائی ہو اور انسان کی اولاد بھی اسی کی کمائی اور اسی کی حاصل کردہ چیز ہے ۔ } ۱؎ (سنن ترمذی:1357،قال الشیخ الألبانی:صحیح) پس ثابت ہوا کہ نیک اولاد جو اس کے مرنے کے بعد اس کے لیے دعا کرتی ہے وہ دراصل اسی کا عمل ہے ، اسی طرح صدقہ جاریہ مثلاً وقف وغیرہ کہ وہ بھی اسی کے عمل کا اثر ہے اور اسی کا کیا ہوا وقف ہے ۔ خود قرآن فرماتا ہے آیت «اِنَّا نَحْنُ نُـحْیِ الْمَوْتٰی وَنَکْتُبُ مَا قَدَّمُوْا وَاٰثَارَہُمْ وَکُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰہُ فِیْٓ اِمَامٍ مٰبِیْنٍ» ۱؎ (36-یس:12) ، یعنی ’ ہم مردوں کا زندہ کرتے ہیں اور لکھتے ہیں جو آگے بھیج چکے اور جو نشان ان کے پیچھے رہے ۔ ‘ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کے اپنے پیچھے چھوڑے ہوئے نشانات نیک کا ثواب انہیں پہنچتا رہتا ہے ، رہا وہ علم جسے اس نے لوگوں میں پھیلایا اور اس کے انتقال کے بعد بھی لوگ اس پر عامل اور کاربند رہے وہ بھی اصل اسی کی سعی اور اسی کا عمل ہے جو اس کے تابعداری کریں ان سب کے برابر اجر کے اسے اجر ملتا ہے درآنحالیکہ ان کے اجر گھٹتے نہیں ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2674) پھر فرماتا ہے اس کی کوشش قیامت کے دن جانچی جائے گی اس دن اس کا عمل دیکھا جائے گا جیسے فرمایا «وَقُلِ اعْمَلُوْا فَسَیَرَی اللّٰہُ عَمَلَکُمْ وَرَسُوْلُہٗ وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَسَتُرَدٰوْنَ اِلٰی عٰلِمِ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ فَیُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ» ۱؎ (9-التوبۃ:105) ، یعنی ’ کہہ دے کہ تم عمل کئے جاؤ گے پھر وہ تمہیں تمہارے اعمال سے خبردار کرے گا ‘ یعنی ہر نیکی کی جزا اور ہر بدی کی سزا دے گا یہاں بھی فرمایا پھر اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا ۔ النجم
34 النجم
35 النجم
36 النجم
37 النجم
38 النجم
39 النجم
40 النجم
41 النجم
42 سب کی آخری منزل اللہ تعالٰی ادراک سے بلند ہے فرمان ہے کہ بازگشت آخر اللہ کی طرف ہے ۔ قیامت کے دن سب کو لوٹ کر اسی کے سامنے پیش ہونا ہے ۔ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے قبیلہ بنی اود میں خطبہ پڑھتے ہوئے فرمایا : ” اے بنی اود ! میں اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد بن کر تمہاری طرف آیا ہوں تم یقین کرو کہ تمہارا سب کا لوٹنا اللہ کی طرف ہے ، پھر یا تو جنت میں پہنچائے جاؤ یا جہنم میں دھکیلے جاؤ ۔ “ بغوی میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا : ” اللہ تعالیٰ کی ذات میں فکر کرنا جائز نہیں “ } ۔ ۱؎ (بغوی فی التفسیر:232/4:ضعیف) جیسے اور حدیث میں ہے { مخلوق پر غور بھری نظریں ڈالو لیکن ذات خالق میں گہرے نہ اترو ، اسے عقل و ادراک فکر و ذہن نہیں پا سکتا ۔ } ۱؎ (بغوی فی التفسیر:232/4:ضعیف) گو ان لفظوں سے یہ حدیث محفوظ نہیں ، مگر صحیح حدیث میں یہ بھی مضمون موجود ہے ، اس میں ہے کہ { شیطان کسی کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے اسے کس نے پیدا کیا ؟ پھر اسے کس نے پیدا کیا ؟ یہاں تک کہ کہتا ہے اللہ تعالیٰ کو کس نے پیدا کیا ؟ جب تم میں سے کسی کے دل میں یہ وسوسہ پیدا ہوا تو «اعُوذُ بِاللّہِ مِن الشِّیطانِ الرَّجِیمِ» پڑھ لے اور اس خیال کو دل سے دور کر دے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:3276) سنن کی ایک حدیث میں ہے { مخلوقات اللہ میں غور و فکر کرو لیکن ذات اللہ میں غور و فکر نہ کرو ، سنو اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتہ پیدا کیا ہے جس کے کان کی لو سے لے کر مونڈھے تک تین سو سال کا راستہ ہے او کما قال ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:134) پھر فرماتا ہے کہ بندوں میں ہنسنے رونے کا مادہ اور ان کے اسباب بھی اسی نے پیدا کئے ہیں جو بالکل مختلف ہیں وہی موت و حیات کا خالق ہے ۔ جیسے فرمایا «الَّذِی خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیَاۃَ» ۱؎ (67-الملک:2) ’ اس نے موت و حیات کو پیدا کیا اسی نے نطفہ سے ہر جاندار کو جوڑ جوڑ بنایا ‘ ۔ النجم
43 النجم
44 النجم
45 النجم
46 1 جیسے اور جگہ فرمان ہے «أَیَحْسَبُ الْإِنسَانُ أَن یُتْرَکَ سُدًی أَلَمْ یَکُ نُطْفَۃً مِّن مَّنِیٍّ یُمْنَیٰ ثُمَّ کَانَ عَلَقَۃً فَخَلَقَ فَسَوَّیٰ فَجَعَلَ مِنْہُ الزَّوْجَیْنِ الذَّکَرَ وَالْأُنثَیٰ أَلَیْسَ ذٰلِکَ بِقَادِرٍ عَلَیٰ أَن یُحْیِیَ الْمَوْتَیٰ» ۱؎ (75-القیامۃ:40-36) ، ’ کیا انسان سمجھتا ہے کہ وہ بےکار چھوڑ دیا جائے گا ؟ ، کیا وہ منی کا قطرہ نہ تھا ، جو [ رحم میں ] ٹپکایا جاتا ہے ؟ ، پھر کیا وہ بستہ خون نہ تھا ؟ ، پھر اللہ نے اسے پیدا کیا اور درست کیا اور اس سے جوڑے یعنی نرو مادہ بنائے ، کیا [ ایسی قدرتوں والا ] اللہ اس بات پر قادر نہیں کہ مردوں کو زندہ کر دے ۔‘ پھر فرماتا ہے اسی پر دوبارہ زندہ کرنا ، یعنی جیسے اس نے ابتداء پیدا کیا اسی طرح مار ڈالنے کے بعد دوبارہ کی پیدائش بھی اسی کے ذمہ ہے ، اسی نے اپنے بندوں کو غنی بنا دیا اور مال ان کے قبضہ میں دے دیا ہے جو ان کے پاس ہی بطور پونجی کے رہتا ہے ۔ اکثر مفسرین کے کلام کا خلاصہ اس مقام پر یہی ہے گو بعض سے مروی ہے کہ اس نے مال دیا اور غلام دئیے ، اس نے دیا اور خوش ہوا ، اسے غنی بنا کر اور مخلوق کو اس کا دست نگر بنا دیا ، جسے چاہا غنی کیا ، جسے چاہا فقیر لیکن یہ پچھلے دونوں قول لفظ سے کچھ زیادہ مطابقت نہیں رکھتے ۔ «شعریٰ» اس روشن ستارے کا نام ہے جسے «مِرْزَم الْجَوْزَاء» بھی کہتے ہیں بعض عرب اس کی پرستش کرتے تھے ۔ عاد و اولیٰ یعنی قوم ہود کو جسے عاد بن ارم بن سام بن نوح بھی کہا جاتا ہے اسی نے ان کی نافرمانی کی بنا پر تباہ کر دیا ۔ جیسے فرمایا «أَلَمْ تَرَ کَیْفَ فَعَلَ رَبٰکَ بِعَادٍ إِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ الَّتِی لَمْ یُخْلَقْ مِثْلُہَا فِی الْبِلَادِ» ۱؎ (89-الفجر:6-8) ، یعنی ’ کیا تو نے نہیں دیکھا کہ تیرے رب نے عاد کے ساتھ کیا کیا ؟ ‘ یعنی ارم کے ساتھ جو بڑے قدآور تھے جن کا مثل شہروں میں پیدا نہیں کیا گیا تھا یہ قوم بڑی قوی اور زور آور تھی ساتھ ہی اللہ کی بڑی نافرمان اور رسول سے بڑی سرتاب تھی۔ «وَأَمَّا عَادٌ فَأُہْلِکُوا بِرِیحٍ صَرْصَرٍ عَاتِیَۃٍ سَخَّرَہَا عَلَیْہِمْ سَبْعَ لَیَالٍ وَثَمَانِیَۃَ أَیَّامٍ حُسُومًا» ۱؎ (69-الحاقۃ:6،7) ان پر ہوا کا عذاب آیا جو سات راتیں اور آٹھ دن برابر رہا ، اسی طرح ثمودیوں کو بھی اس نے ہلاک کر دیا جس میں سے ایک بھی باقی نہ بچا اور ان سے پہلے قوم نوح تباہ ہو چکی ہے جو بڑے ناانصاف اور شریر تھے اور لوط کی بستیاں جنہیں رحمن و قہار نے زیر و زبر کر دیا اور آسمانی پتھروں سے سب بدکاروں کا ہلاک کر دیا انہیں ایک چیز نے ڈھانپ لیا یعنی [ پتھروں نے ] اور آیت میں ہے «وَأَمْطَرْنَا عَلَیْہِم مَّطَرًا فَسَاءَ مَطَرُ الْمُنذَرِینَ» ۱؎ (26-الشعراء:173) ’ جن کا مینہ ان پر برسا اور برے حالوں تباہ ہوئے ۔ ‘ ان بستیوں میں چار لاکھ آدمی آباد تھے ، آبادی کی کل زمین کی آگ اور گندھک اور تیل بن کر ان پر بھڑک اٹھی ۔ قتادہ رحمہ اللہ کا یہی قول ہے جو بہت غریب سند سے ابن ابی حاتم میں مروی ہے ۔ پھر فرمایا : ’ پھر تو اے انسان ! اپنے رب کی کس کس نعمت پر جھگڑے گا ؟ ‘ بعض کہتے ہیں خطاب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے لیکن خطاب کو عام رکھنا بہت اولیٰ ہے ابن جریر رحمہ اللہ بھی عام رکھنے کو ہی پسند فرماتے ہیں ۔۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:540/11) النجم
47 النجم
48 النجم
49 النجم
50 النجم
51 النجم
52 النجم
53 النجم
54 النجم
55 النجم
56 ”نذیر“ کا مفہوم ، نذیر کہتے کسے ہیں یہ خوف اور ڈر سے آگاہ کرنے والے ہیں ۔ یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت بھی ایسی ہی ہے جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے رسولوں کی رسالت تھی ۔ جیسے اور آیت میں ہے «قُلْ مَا کُنْتُ بِدْعًا مِّنَ الرٰسُلِ وَمَآ اَدْرِیْ مَا یُفْعَلُ بِیْ وَلَا بِکُمْ اِنْ اَتَّبِــعُ اِلَّا مَا یُوْحٰٓی اِلَیَّ وَمَآ اَنَا اِلَّا نَذِیْرٌ مٰبِیْنٌ» ۱؎ (46-الأحقاف:9) یعنی ’ میں کوئی نیا رسول تو ہوں نہیں رسالت مجھ سے شروع نہیں ہوئی بلکہ دنیا میں مجھ سے پہلے بھی بہت سے رسول آ چکے ہیں ، قریب آنے والی کا وقت آئے گا یعنی قیامت قریب آ گئی ، نہ تو اسے کوئی دفع کر سکے ، نہ اس کے آنے کے صحیح وقت معین کا کسی کو علم ہے ۔‘ «نذیر» عربی میں اسے کہتے ہیں مثلاً ایک جماعت ہے جس میں سے ایک شخص نے کوئی ڈراؤنی چیز دیکھی اور اپنی قوم کو اس سے آگاہ کرتا ہے یعنی ڈر اور خوف سنانے والا ۔ جیسے اور آیت میں ہے «اِنْ ہُوَ اِلَّا نَذِیْرٌ لَّکُمْ بَیْنَ یَدَیْ عَذَابٍ شَدِیْدٍ» ۱؎ (34-سبأ:46) ’ میں تمہیں سخت عذاب سے مطلع کرنے والا ہوں۔ ‘ حدیث میں ہے { تمہیں کھلم کھلا ڈرانے والا ہوں ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:9482) یعنی جس طرح کوئی شخص کسی برائی کو دیکھ لے کہ وہ قوم کے قریب پہنچ چکی ہے اور پھر جس حالت میں ہو اسی میں دوڑا بھاگا آ جائے اور قوم کو دفعۃً متنبہ کر دے کہ دیکھو وہ بلا آ رہی ہے ، فوراً تدارک کر لو اسی طرح قیامت کے ہولناک عذاب بھی لوگوں کی غفلت کی حالت میں ان سے بالکل قریب ہو گئے ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان عذابوں سے ہوشیار کر رہے ہیں جیسے اس کے بعد کی سورت میں ہے «اِقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ» ۱؎ (54-القمر:1) ’ قیامت قریب آ چکی ۔‘ مسند احمد کی حدیث میں ہے { لوگو ! گناہوں کو چھوٹا اور حقیر جاننے سے بچو ، سنو چھوٹے چھوٹے گناہوں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک قافلہ کسی جگہ اترا سب ادھر ادھر چلے گئے اور لکڑیاں سمیٹ کر تھوڑی تھوڑی لے آئے ، تو چاہے ہر ایک کے پاس لکڑیاں کم کم ہیں لیکن جب وہ سب جمع کر لی جائیں تو ایک انبار لگ جاتا ہے جس سے دیگیں پک جائیں اسی طرح چھوٹے چھوٹے گناہ جمع ہو کر ڈھیر لگ جاتا ہے اور اچانک اس گنہگار کو پکڑ لیتا ہے اور ہلاک ہو جاتا ہے ۔ } اور حدیث میں ہے { میری اور قیامت کی مثال ایسی ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی شہادت کی اور درمیان کی انگلی اٹھا کر ان کا فاصلہ دکھایا میری اور قیامت کی مثال دو ساعتوں کی سی ہے میری اور آخرت کے دن کی مثال ٹھیک اسی طرح ہے جس طرح ایک قوم نے کسی شخص کو اطلاع لانے کے لیے بھیجا اس نے دشمن کے لشکر کو بالکل نزدیک کی کمین گاہ میں چھاپہ مارنے کے لیے تیار دیکھا یہاں تک کہ اسے ڈر لگا کہ میرے پہنچنے سے پہلے ہی کہیں یہ نہ پہنچ جائیں تو وہ ایک ٹیلے پر چڑھ گیا اور وہیں کپڑا ہلا ہلا کر انہیں اشارے سے بتا دیا کہ خبردار ہو جاؤ دشمن سر پر موجود ہے پس میں ایسا ہی ڈرانے والا ہوں ۔ } ۱؎ (مسند احمد:331/5:صحیح) اس حدیث کی شہادت میں اور بھی بہت سی حسن اور صحیح حدیثیں موجود ہیں ۔ پھر مشرکین کے اس فعل پر انکار فرمایا کہ وہ قرآن سنتے ہیں مگر اعراض کرتے ہیں اور بےپرواہی برتتے ہیں ، بلکہ اس کی رحمت سے تعجب کے ساتھ انکار کر بیٹھتے ہیں اور اس سے مذاق سنتے اور ہنسی کرنے لگتے ہیں ۔ چاہیئے یہ تھا کہ مثل ایمان داروں کے اسے سن کر روتے عبرت حاصل کرتے جیسے مومنوں کی حالت بیان فرمائی کہ وہ اس کلام اللہ شریف کو سن کر روتے دھوتے سجدہ میں گر پڑتے ہیں اور خشوع وخضوع میں بڑھ جاتے ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں «سَمَد» گانے کو کہتے ہیں یہ یمنی لغت ہے آپ سے «سَامِدُوْنَ» کے معنی اعراض کرنے والے اور تکبر کرنے والے بھی مروی ہیں ، علی اور حسن رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں غفلت کرنے والے ۔ پھر اپنے بندوں کا حکم دیتا ہے کہ ’ توحید و اخلاص کے پابند رہو خضوع ، خلوص اور توحید کے ماننے والے بن جاؤ ‘ ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ، مسلمانوں نے ، مشرکوں نے اور جن و انس نے سورۃ النجم کے سجدے کے موقعہ پر سجدہ کیا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:7462) مسند احمد میں ہے کہ { مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ النجم پڑھی پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا اور ان لوگوں نے بھی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے } ، راوی حدیث مطلب بن ابی وداعہ کہتے ہیں میں نے اپنا سر اٹھایا اور سجدہ نہ کیا ، یہ اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے اسلام کے بعد جس کسی کی زبانی اس سورۃ مبارکہ کی تلاوت سنتے سجدہ کرتے ۔ (مسند احمد:400/6:حسن) یہ حدیث نسائی شریف میں بھی ہے ۔ ۱؎ (سنن نسائی:959:حسن) النجم
57 النجم
58 النجم
59 النجم
60 النجم
61 النجم
62 النجم
0 القمر
1 قیامت قریب آ چکی اللہ تعالیٰ قیامت کے قرب کی اور دنیا کے خاتمہ کی اطلاع دیتا ہے جیسے اور آیت میں ہے «أَتَیٰ أَمْرُ اللہِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوہُ سُبْحَانَہُ وَتَعَالَیٰ عَمَّا یُشْرِکُونَ» ۱؎ (16-النحل:1) یعنی ’ اللہ کا امر آ چکا اب تو اس کی طلب کی جلدی چھوڑ دو ‘ ۔ اور فرمایا «اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُہُمْ وَہُمْ فِی غَفْلَۃٍ مُعْرِضُونَ» ۱؎ (21-الأنبیاء:1) یعنی ’ لوگوں کے حساب کا وقت ان کے سروں پر آ پہنچا اور وہ اب تک غفلت میں ہیں ‘ ۔ اس مضمون کی حدیثیں بھی بہت سی ہیں ، مسند بزار میں ہے { سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں سورج کے ڈوبنے کے وقت جبکہ وہ تھوڑا سا ہی باقی رہ گیا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم کو خطبہ دیا جس میں فرمایا : ” اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، دنیا کے گزرے ہوئے حصے میں اور باقی ماندہ حصے میں وہی نسبت ہے جو اس دن کے گزرے ہوئے اور باقی بچے ہوئے حصے میں ہے } ۔ اس حدیث کے راویوں میں خلف بن موسیٰ کو امام ابن حبان ثقہ راویوں میں گنتے تو ہیں لیکن فرماتے ہیں کبھی کبھی خطا بھی کر جاتے تھے ۔ ۱؎ (مسند بزار343/2) 0 دوسری روایت جو اس کی تقویت بلکہ تفسیر بھی کرتی ہے وہ مسند احمد میں { سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت سے ہے کہ عصر کے بعد جب کہ سورج بالکل غروب کے قریب ہو چکا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تمہاری عمریں گزشتہ لوگوں کی عمروں کے مقابلہ میں اتنی ہی ہیں جتنا یہ باقی کا دن گزرے ہوئے دن کے مقابلہ میں ہے “ } ۔ ۱؎ (مسند احمد:116/2:حسن) مسند کی اور حدیث میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کلمہ کی اور درمیانی انگلی سے اشارہ کر کے فرمایا کہ میں اور قیامت اس طرح مبعوث کئے گئے ہیں اور روایت میں اتنی زیادتی ہے کہ قریب تھا وہ مجھ سے آگے بڑھ جائے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:338/5:صحیح) ولید بن عبدالملک کے پاس جب سیدنا انس رضی اللہ عنہ پہنچے تو اس نے قیامت کے بارے میں حدیث کا سوال کیا جس پر { آپ نے فرمایا : ” میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ تم اور قربتِ قیامت ان دونوں انگلیوں کی طرح ہو “ } ۔ ۱؎ (مسند احمد:223/3:صحیح) اس کی شہادت اس حدیث سے ہو سکتی ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ناموں میں سے ایک نام «حاشر» آیا ہے اور «حاشر» وہ ہے جس کے قدموں پر لوگوں کا حشر ہو ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3532) بہز کی روایت سے مروی ہے کہ { سیدنا عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ نے اپنے خطبہ میں فرمایا اور کبھی کہتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ سناتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا : دنیا کے خاتمہ کا اعلان ہو چکا ، یہ پیٹھ پھیرے بھاگے جا رہی ہے اور جس طرح برتن کا کھانا کھا لیا جائے اور کناروں میں کچھ باقی لگا لپٹا رہ جائے ، اسی طرح دنیا کی عمر کا کل حصہ نکل چکا ، صرف برائے نام باقی رہ گیا ہے ، تم یہاں سے ایسے جہان کی طرف جانے والے ہو جسے فنا نہیں ، پس تم سے جو ہو سکے بھلائیاں اپنے ساتھ لے کر جاؤ ، سنو ! ہم سے ذکر کیا گیا ہے کہ جہنم کے کنارے سے ایک پتھر پھینکا جائے گا جو برابر ستر سال تک نیچے کی طرف جاتا رہے گا لیکن تلے تک نہ پہنچے گا اللہ کی قسم جہنم کا یہ گہرا گڑھا انسانوں سے پر ہونے والا ہے تم اس پر تعجب نہ کرو ہم نے یہ بھی ذکر سنا ہے کہ جنت کی چوکھٹ کی دو لکڑیوں کے درمیان چالیس سال کا راستہ ہے اور وہ بھی ایک دن اس حالت پر ہو گی کہ بھیڑ بھاڑ نظر آئے گی } ۔ (صحیح مسلم:2967) ابوعبدالرحمٰن سلمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں اپنے والد کے ہمراہ مدائن گیا اور بستی سے تین میل کے فاصلے پر ہم ٹھہرے ۔ جمعہ کے لیے میں بھی اپنے والد کے ہمراہ گیا سیدنا حذیفہ خطیب رضی اللہ عنہ تھے آپ نے اپنے خطبے میں فرمایا : لوگو سنو ! اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ قیامت قریب آ گئی اور چاند دو ٹکرے ہو گیا ۔ بیشک قیامت قریب آ چکی ہے ، بیشک چاند پھٹ گیا ہے ، بیشک دنیا جدائی کا الارم بجا چکی ہے ، آج کا دن کوشش اور تیاری کا ہے ، کل تو دوڑ بھاگ کر کے آگے بڑھ جانے کا دن ہو گا ، میں نے اپنے باپ سے دریافت کیا کہ کیا کل دوڑ ہو گی ؟ جس میں آگے نکلنا ہو گا ؟ میرے باپ نے مجھ سے فرمایا : تم نادان ہو ، یہاں مراد نیک اعمال میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانا ہے ۔ دوسرے جمعہ کو جب ہم آئے تو بھی سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کو اسی کے قریب فرماتے ہوئے سنا اس کے آخر میں یہ بھی فرمایا کہ «غایت» آگ ہے اور «سابق» وہ ہے جو جنت میں پہلے پہنچ گیا ۔ چاند کا دو ٹکڑے ہو جانا یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کا ذکر ہے جیسے کہ متواتر احادیث میں صحت کے ساتھ مروی ہے ، { سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ پانچوں چیزیں «اللزام» بدر کی لڑائی کی ہلاکت ، «الروم» غلبہ روم ، «البطشۃ» سخت پکڑ ، «القمر» چاند کے ٹکڑے ہونا اور «والدخان‏» دھواں یہ سب گزر چکا ہے ۔ } (صحیح بخاری:4825) اس بارے کی حدیثیں سنئے ۔ مسند احمد میں ہے کہ { اہل مکہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے معجزہ طلب کیا جس پر دو مرتبہ چاند شق ہو گیا جس کا ذکر ان دونوں آیتوں میں ہے } ۔ (صحیح مسلم:2802) بخاری میں ہے کہ { انہیں چاند کے دو ٹکڑے دکھا دئیے ، ایک حراء کے اس طرف ، ایک اس طرف } (صحیح بخاری:3285) ۔ مسند میں ہے { ایک ٹکڑا ایک پہاڑ پر دوسرا دوسرے پہاڑ پر ۔ اسے دیکھ کر بھی جن کی قسمت میں ایمان نہ تھا بول پڑے کہ محمد نے ہماری آنکھوں پر جادو کر دیا ہے ۔ لیکن سمجھداروں نے کہا کہ اگر مان لیا جائے کہ ہم پر جادو کر دیا ہے تو تمام دنیا کے لوگوں پر تو نہیں کر سکتا } ۔ (مسند احمد:81/4:صحیح) اور روایت میں ہے کہ یہ واقعہ ہجرت سے پہلے کا ہے اور روایتیں بھی بہت سی ہیں ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ بھی مروی ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں چاند گرہن ہوا کافر کہنے لگے چاند پر جادو ہوا ہے اس پر یہ آیتیں مستمر تک اتریں } ۔ (طبرانی کبیر:11642:ضعیف) { سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں جب چاند پھٹا اور اس کے دو ٹکڑے ہوئے ایک پہاڑ کے پیچھے اور ایک آگے اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اے اللہ ! تو گواہ رہ “ ، مسلم اور ترمذی وغیرہ میں یہ حدیث موجود ہے ۔ (صحیح مسلم:2801-44) سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں سب لوگوں نے اسے بخوبی دیکھا اور { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :” دیکھو یاد رکھنا اور گواہ رہنا “ } ۔ (صحیح مسلم:48) آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ہم سب منیٰ میں تھے (تفسیر ابن جریر الطبری:32697:ضعیف) اور روایت میں ہے کہ مکہ میں تھے ۔ ابوداؤد طیالسی میں ہے کہ کفار نے یہ دیکھ کر کہا یہ ابن ابی کبشہ ( یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کا جادو ہے لیکن ان کے سمجھداروں نے کہا مان لو ، ہم پر جادو کیا ہے لیکن ساری دنیا پر تو نہیں کر سکتا ، اب جو لوگ سفر سے آئیں ان سے دریافت کرنا کہ کیا انہوں نے بھی اس رات کو چاند کو دو ٹکڑے دیکھا تھا چنانچہ وہ آئے ان سے پوچھا انہوں نے بھی تصدیق کی کہ ہاں فلاں شب ہم نے چاند کو دو ٹکڑے ہوتے دیکھا ہے ، کفار کے مجمع نے یہ طے کیا تھا کہ اگر باہر کے لوگ آ کر یہی کہیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی میں کوئی شک نہیں ، اب جو باہر سے آیا ، جب کبھی آیا ، جس طرف سے آیا ، ہر ایک نے اس کی شہادت دی کہ ہاں ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اسی کا بیان اسی آیت میں ہے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:545/11:) { سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں پہاڑ چاند کے دو ٹکڑوں کے درمیان دکھائی دیتا تھا } ۔ (مسند احمد:413/1:صحیح) اور روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصاً سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اے ابوبکر ! تم گواہ رہنا اور مشرکین نے اس زبردست معجزے کو بھی جادو کہہ کر ٹال دیا ، اسی کا ذکر اس آیت میں ہے (تفسیر ابن جریر الطبری:32714:مرسل) کہ جب یہ دلیل حجت اور برہان دیکھتے ہیں سہل انکاری سے کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو چلتا ہوا جادو ہے اور مانتے ہیں بلکہ حق کو جھٹلا کر احکام نبوی کے خلاف اپنی خواہشات نفسانی کے پیچھے پڑے رہتے ہیں ، اپنی جہالت اور کم عقلی سے باز نہیں آتے ۔ ہر امر مستقر ہے یعنی خیر خیر والوں کے ساتھ اور شر شر والوں کے ساتھ ۔ اور یہ بھی معنی ہیں کہ قیامت کے دن ہر امر واقع ہونے والا ہے اگلے لوگوں کے وہ واقعات جو دل کو ہلا دینے والے اور اپنے اندر کامل عبرت رکھنے والے ہیں ان کے پاس آ چکے ہیں ، ان کی تکذیب کے سلسلہ میں ان پر جو بلائیں اتریں اور ان کے جو قصے ان تک پہنچے وہ سراسر عبرت و نصیحت کے خزانے ہیں اور وعظ و ہدایت سے پر ہیں ، اللہ تعالیٰ جسے ہدایت کرے اور جسے گمراہ کرے اس میں بھی اس کی حکمت بالغہ موجود ہے ان پر شقاوت لکھی جا چکی ہے جن کے دلوں پر مہر لگ چکی ہے انہیں کوئی ہدایت پر نہیں لا سکتا ۔ جیسے فرمایا «قُلْ فَلِلہِ الْحُجَّۃُ الْبَالِغَۃُ فَلَوْ شَاءَ لَہَدَاکُمْ أَجْمَعِینَ» (6-الانعام:149) ’ اللہ تعالیٰ کی دلیلیں ہر طرح کامل ہیں اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت پر لا کھڑا کرتا ‘ ۔ اور جگہ ہے «وَمَا تُغْنِی الْآیَاتُ وَالنٰذُرُ عَن قَوْمٍ لَّا یُؤْمِنُونَ» (10-یونس:101) ’ بے ایمانوں کو کسی معجزے نے اور کسی ڈرنے اور ڈر سنانے والے نے کوئی نفع نہ پہنچایا ‘ ۔ ٖ القمر
2 القمر
3 القمر
4 القمر
5 القمر
6 معجزات بھی بےاثر رشاد ہوتا ہے کہ اے نبی ! تم ان کافروں کو جنہیں معجزہ وغیرہ بھی کارآمد نہیں ، چھوڑ دو ، ان سے منہ پھیر لو اور انہیں قیامت کے انتظار میں رہنے دو ، اس دن انہیں حساب کی جگہ ٹھہرنے کے لیے ایک پکارنے والا پکارے گا جو ہولناک جگہ ہو گی ، جہاں بلائیں اور آفات ہوں گی ، ان کے چہروں پر ذلت اور کمینگی برس رہی ہو گی ، مارے ندامت کے آنکھیں نیچے کو جھکی ہوئی ہوں گی اور قبروں سے نکلیں گے ، پھر جس طرح ٹڈی دل چلتا ہے یہ بھی انتشار و سرعت کے ساتھ میدان حساب کی طرف بھاگیں گے ، پکارنے والے کی پکار پر کان ہوں گے اور تیز تیز چل رہے ہوں گے ، نہ مخالفت کی تاب ہے ، نہ دیر لگانے کی طاقت «ذَلِکَ یَوْمَئِذٍ یَوْمٌ عَسِیرٌ» * «عَلَی الْکَافِرِینَ غَیْرُ یَسِیرٍ » (74-المدثر:9،10) اس سخت ہولناکی کے سخت دن کو دیکھ کر کافر چیخ اٹھیں گے کہ یہ تو بڑا بھاری اور بےحد سخت دن ہے ۔ القمر
7 القمر
8 القمر
9 دیرینہ انداز کفر یعنی اے نبی ! آپ کی اس امت سے پہلے امت نوح نے بھی اپنے نبی کو جو ہمارے بندے نوح تھے تکذیب کی ، اسے مجنون کہا اور ہر طرح ڈانٹا ، ڈپٹا اور دھمکایا ، صاف کہہ دیا تھا کہ «قَالُوا لَئِن لَّمْ تَنتَہِ یَا نُوحُ لَتَکُونَنَّ مِنَ الْمَرْجُومِینَ» (26-الشعراء:116) ’ اے نوح علیہ السلام اگر تم باز نہ رہے تو ہم تجھے پتھروں سے مار ڈالیں گے ‘ ، ہمارے بندے اور رسول نوح نے ہمیں پکارا کہ پروردگار میں ان کے مقابلہ میں محض ناتواں اور ضعیف ہوں ، میں کسی طرح نہ اپنی ہستی کو سنبھال سکتا ہوں نہ تیرے دین کی حفاظت کر سکتا ہوں ، تو ہی میری مدد فرما اور مجھے غلبہ دے ، ان کی یہ دعا قبول ہوتی ہے اور ان کی کافر قوم پر مشہور طوفان نوح بھیجا گیا ۔ القمر
10 القمر
11 القمر
12 طوفان نوح موسلا دھار بارش کے دروازے آسمان سے اور ابلتے ہوئے پانی کے چشمے زمین سے کھول دئیے جاتے ہیں یہاں تک کہ جو پانی کی جگہ نہ تھی مثلاً تنور وغیرہ وہاں سے زمین پانی اگل دیتی ہے ، ہر طرف پانی بھر جاتا ہے ، نہ آسمان سے برسنا رکتا ہے ، نہ زمین سے ابلنا تھمتا ہے ، پس حد حکم تک پہنچ جاتا ہے ۔ ہمیشہ پانی ابر سے برستا ہے لیکن اس وقت آسمان سے پانی کے دروازے کھول دئیے گئے تھے اور عذاب الٰہی پانی کی شکل میں برس رہا تھا ، نہ اس سے پہلے کبھی اتنا پانی برسا ، نہ اس کے بعد کبھی ایسا برسے ، ادھر سے آسمان کی یہ رنگت ، ادھر سے زمین کو حکم کہ پانی اگل دے پس ریل پیل ہو گئی ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آسمان کے دہانے کھول دئیے گئے اور ان میں سے براہ راست پانی برسا ۔ اس طوفان سے ہم نے اپنے بندے کو بچا لیا انہیں کشتی پر سوار کر لیا جو تختوں میں کیلیں لگا کر بنائی گئی تھی ۔ «دُسُر» کے معنی کشتی کے دائیں بائیں طرف کا حصہ اور ابتدائی حصہ جس پر موج تھپیڑے مارتی ہے اور اس کے جوڑے اور اس کی اصل کے بھی کئے گئے ہیں ، وہ ہمارے حکم سے ہماری آنکھوں کے سامنے ہماری حفاظت میں چل رہی تھی اور صحیح و سالم آرپار جار ہی تھی ۔ نوح علیہ السلام کی مدد تھی اور کفار سے یہ انتقام تھا ہم نے اسے نشانی بنا کر چھوڑا ۔ یعنی اس کشتی کو بطور عبرت کے باقی رکھا ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس امت کے اوائل لوگوں نے بھی اسے دیکھا ہے لیکن ظاہر معنی یہ ہیں کہ اس کشتی کے نمونے پر اور کشتیاں ہم نے بطور نشان کے دنیا میں قائم رکھیں ۔ جیسے اور آیت میں ہے «وَآیَۃٌ لَّہُمْ أَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّیَّتَہُمْ فِی الْفُلْکِ الْمَشْحُونِ» * «وَخَلَقْنَا لَہُم مِّن مِّثْلِہِ مَا یَرْکَبُونَ» (36-یس:42،41) یعنی ’ ان کے لیے نشانی ہے کہ ہم نے نسل آدم کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کرایا اور کشتی کے مانند اور بھی ایسی سواریاں دیں جن پر وہ سوار ہوں ‘ ۔ اور جگہ ہے «إِنَّا لَمَّا طَغَی الْمَاءُ حَمَلْنَاکُمْ فِی الْجَارِیَۃِ» * «لِنَجْعَلَہَا لَکُمْ تَذْکِرَۃً وَتَعِیَہَا أُذُنٌ وَاعِیَۃٌ» (69-الحاقۃ:12،11) یعنی ’ جب پانی نے طغیانی کی ہم نے تمہیں کشتی میں لے لیا تاکہ تمہارے لیے نصیحت و عبرت ہو اور یاد رکھنے والے کان اسے محفوظ رکھ سکیں ، پس کوئی ہے جو ذکر و وعظ حاصل کرے ؟ ‘ ۔ { سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے «مُدَّکِرٍ» پڑھایا ہے ، خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اس لفظ کی قرأت اسی طرح مروی ہے } ۔ (مسند احمد:395/1:صحیح) اسود رحمہ اللہ سے سوال ہوتا ہے کہ یہ لفظ دال سے ہے یا ذال سے ؟ { فرمایا : میں نے سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے دال کے ساتھ سنا ہے } ۔ (صحیح بخاری:4874) اور وہ فرماتے تھے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دال کے ساتھ سنا ہے ۔ پھر فرماتا ہے میرا عذاب میرے ساتھ کفر کرنے اور میرے رسولوں کو جھوٹا کہنے اور میری نصیحت سے عبرت نہ حاصل کرنے والوں پر کیسا ہوا ؟ میں نے کس طرح اپنے رسولوں کے دشمنوں سے بدلہ لیا اور کس طرح ان دشمنان دین حق کو نیست و نابود کر دیا ۔ ہم نے قرآن کریم کے الفاظ اور معانی کو ہر اس شخص کے لیے آسان کر دیا جو اس سے نصیحت حاصل کرنے کا ارادہ رکھے ۔ جیسے فرمایا «کِتَابٌ أَنزَلْنَاہُ إِلَیْکَ مُبَارَکٌ لِّیَدَّبَّرُوا آیَاتِہِ وَلِیَتَذَکَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ» (38-ص:29) ’ ہم نے تیری طرف سے یہ مبارک کتاب نازل فرمائی ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں تدبر کریں اور اس لیے کہ عقلمند لوگ یاد رکھ لیں ’ ۔ اور جگہ ہے «فَإِنَّمَا یَسَّرْنَاہُ بِلِسَانِکَ لِتُبَشِّرَ بِہِ الْمُتَّقِینَ وَتُنذِرَ بِہِ قَوْمًا لٰدًّا» (19-مریم:97) یعنی ’ ہم نے اسے تیری زبان پر اس لیے آسان کیا ہے کہ تو پرہیزگار لوگوں کو خوشی سنا دے اور جھگڑالو لوگوں کو ڈرا دے ‘ ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس کی قرأت اور تلاوت اللہ تعالیٰ نے آسان کر دی ہے ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اگر اللہ تعالیٰ اس میں آسانی نہ رکھ دیتا تو مخلوق کی طاقت نہ تھی کہ اللہ عزوجل کے کلام کو پڑھ سکے ۔ میں کہتا ہوں انہی آسانیوں میں سے ایک آسانی وہ ہے جو پہلے حدیث میں گزر چکی کہ { یہ قرآن سات قرأتوں پر نازل کیا گیا ہے } ۔ (صحیح بخاری:2419) اس حدیث کے تمام طرق و الفاظ ہم نے پہلے جمع کر دئیے ہیں ، اب دوبارہ یہاں وارد کرنے کی ضرورت نہیں ۔ پس اس قرآن کو بہت ہی سادہ کر دیا ہے کوئی طالب علم جو اس الٰہی علم کو حاصل کرے اس کے لیے بالکل آسان ہے ۔ القمر
13 القمر
14 القمر
15 القمر
16 القمر
17 القمر
18 کفار کی بدترین روایات اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ قوم ہود نے بھی اللہ کے رسولوں کو جھوٹا کہا اور بالکل قوم نوح کی طرح سرکشی پر اتر آئے ، تو ان پر سخت ٹھنڈی مہلک ہوا بھیجی گئی ، وہ دن ان کے لیے سراسر منحوس تھا ، برابر ان پر ہوائیں چلتی رہیں اور انہیں تہ و بالا کرتی رہیں ، دنیوی اور اخروی عذاب میں گرفتار کر لیے گئے ، ہوا کا جھونکا آتا ان میں سے کسی کو اٹھا کر لے جاتا ، یہاں تک کہ زمین والوں کی حد نظر سے وہ بالا ہو جاتا ، پھر اسے زمین پر اوندھے منہ پھینک دیتا ، سر کچل جاتا ، بھیجا نکل پڑتا ، سر الگ ، دھڑ الگ ، ایسا معلوم ہوتا گویا کھجور کے درخت کے بن سرے ٹنڈ ہیں ، دیکھو میرا عذاب کیسا ہوا ؟ میں نے قرآن کو آسان کر دیا جو چاہے نصیحت و عبرت حاصل کر لے ۔ القمر
19 القمر
20 القمر
21 القمر
22 القمر
23 فریب نظر کا شکار لوگ ثمودیوں نے اللہ کے رسول صالح علیہ السلام کو جھٹلایا اور تعجب کے طور پر محال سمجھ کر کہنے لگے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم ، ہمیں میں سے ایک شخص کے تابعدار بن جائیں ؟ آخر اس کی اتنی بڑی فضیلت کی کیا وجہ ؟ پھر اس سے آگے بڑھے اور کہنے لگے ، ہم نہیں مان سکتے کہ ہم سب میں سے صرف اسی ایک پر اللہ کی باتیں نازل کی جائیں ، پھر اس سے بھی قدم بڑھایا اور نبی اللہ علیہ السلام کو کھلے لفظوں میں جھوٹا اور پرلے سرے کا جھوٹا کہا ، بطور ڈانٹ کے اللہ فرماتا ہے : اب تو جو چاہو کہہ لو لیکن کل کھل جائے گا کہ دراصل جھوٹا اور جھوٹ میں حد سے بڑھ جانے والا کون تھا ؟ ، ان کی آزمائش کے لیے فتنہ بنا کر ہم ایک اونٹنی بھیجنے والے ہیں چنانچہ ان لوگوں کی طلب کے موافق پتھر کی ایک سخت چٹان میں سے ایک چکلے چوڑے اعضاء والی گابھن اونٹنی نکلی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے فرمایا کہ تم اب دیکھتے رہو کہ ان کا انجام کیا ہوتا ہے اور ان کی سختیوں پر صبر کرو ، دنیا اور آخرت میں انجام کار غلبہ آپ ہی کا رہے گا ، اب ان سے کہہ دیجئیے کہ پانی پر ایک دن تو ان کا اختیار ہو گا اور ایک دن اس اونٹنی کا ۔ جیسے اور آیت میں ہے «قَالَ ہَـذِہِ نَاقَۃٌ لَّہَا شِرْبٌ وَلَکُمْ شِرْبُ یَوْمٍ مَّعْلُومٍ» (26-الشعراء:155) ہر باری موجود کی گئی ہے یعنی جب اونٹنی نہ ہو تو پانی موجود ہے اور جب اونٹنی ہو تو اس کا دودھ حاضر ہے انہوں نے مل جل کر اپنے رفیق قدار بن سالف کو آواز دی اور یہ بڑا ہی بدبخت تھا ۔ جیسے اور آیت میں ہے «ذِ انبَعَثَ أَشْقَاہَا» (91-الشمس:12) ان کا بدترین آدمی اٹھا ، اس نے آ کر اسے پکڑا اور زخمی کیا ، پھر تو ان کے کفر و تکذیب کا میں نے بھی پورا بدلہ لیا اور جس طرح کھیتی کے کٹے ہوئے سوکھے پتے اڑ اڑ کر کافور ہو جاتے ہیں انہیں بھی ہم نے بے نام و نشان کر دیا ، خشک چارہ جس طرح جنگل میں اڑتا پھرتا ہے اسی طرح انہیں بھی برباد کر دیا ۔ یا یہ مطلب ہے کہ عرب میں دستور تھا کہ اونٹوں کو خشک کانٹوں دار باڑے میں رکھ لیا کرتے تھے ۔ جب اس باڑھ کو روندھ دیا جائے اس وقت اس کی جیسی حالت ہو جاتی ہے وہی حالت ان کی ہو گئی کہ ایک بھی نہ بچا ، نہ بچ سکا ۔ جیسے مٹی دیوار سے جھڑ جاتی ہے اسی طرح ان کے بھی پر پرزے اکھڑ گئے یہ سب اقوال مفسرین کے اس جملہ کی تفسیریں ہیں لیکن اوّل قوی ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» القمر
24 القمر
25 القمر
26 القمر
27 القمر
28 القمر
29 القمر
30 القمر
31 القمر
32 القمر
33 ہم جنس پرستوں کی ہلاکت و بربادی لوطیوں کا واقعہ بیان ہو رہا ہے کہ کس طرح انہوں نے اپنے رسولوں کا انکار کیا اور ان کی مخالفت کر کے کس مکروہ کام کو کیا جسے ان سے پہلے کسی نے نہ کیا تھا یعنی اغلام بازی ، اسی لیے ان کی ہلاکت کی صورت بھی ایسی ہی انوکھی ہوئی ، اللہ تعالیٰ کے حکم سے جبرائیل علیہ السلام نے ان کی بستیوں کو اٹھا کر آسمان کے قریب پہنچا کر اوندھی مار دیں اور ان پر آسمان سے ، ان کے نام کے پتھر برسائے مگر لوط علیہ السلام کے ماننے والوں کو سحر کے وقت یعنی رات کی آخری گھڑی میں بچا لیا ، انہیں حکم دیا گیا کہ تم اس بستی سے چلے جاؤ ، لوط علیہ السلام پر ان کی قوم میں سے کوئی بھی ایمان نہ لایا تھا یہاں تک کہ خود لوط علیہ السلام کی بیوی بھی کافرہ ہی تھی ، قوم میں سے ایک بھی شخص کو ایمان نصیب نہ ہوا ۔ پس عذاب الٰہی سے بھی کوئی نہ بچا آپ کی بیوی بھی قوم کے ساتھ ہی ساتھ ہلاک ہوئی ، صرف آپ علیہ السلام اور آپ کی لڑکیاں اس نحوست سے بچا لیے گئے ، شاکروں کو اللہ اسی طرح برے اور آڑے وقت میں کام آتا ہے اور انہیں ان کی شکر گزاری کا پھل دیتا ہے ۔ عذاب کے آنے سے پہلے لوط علیہ السلام انہیں آگاہ کر چکے تھے لیکن انہوں نے توجہ تک نہ کی بلکہ شک و شبہ اور جھگڑا کیا ، اور ان کے مہمانوں کے بارے میں انہیں چکما دینا چاہا ۔ جبرائیل علیہ السلام ، میکائیل علیہ السلام ، اسرافیل علیہ السلام ، وغیرہ فرشتے انسانی صورتوں میں لوط علیہ السلام کے گھر مہمان بن کر آئے تھے ، نہایت خوبصورت چہرے ، پیاری پیاری شکلیں اور عنفوان شباب کی عمر ۔ ادھر یہ رات کے وقت لوط علیہ السلام کے گھر اترے ان کی بیوی کافرہ تھی قوم کو اطلاع دی کہ آج لوط علیہ السلام کے ہاں مہمان آئے ہیں ان لوگوں کو اغلام بازی کی بد عادت تو تھی ہی ، دوڑ بھاگ کر لوط علیہ السلام کے مکان کو گھیر لیا ۔ لوط علیہ السلام نے دروازے بند کر لیے انہوں نے ترکیبیں شروع کیں کہ کسی طرح مہمان ہاتھ لگیں ، جس وقت یہ سب کچھ ہو رہا تھا ، شام کا وقت تھا ، لوط علیہ السلام انہیں سمجھا رہے تھے ان سے کہہ رہے تھے کہ «قَالَ ہٰؤُلَاءِ بَنَاتِی إِن کُنتُمْ فَاعِلِینَ» (15-الحجر:71) یہ میری بیٹیاں یعنی جو تمہاری جوروئیں موجود ہیں تم اس بدفعلی کو چھوڑو اور حلال چیز سے فائدہ اٹھاؤ ۔ لیکن ان سرکشوں کا جواب تھا کہ «قَالُوا لَقَدْ عَلِمْتَ مَا لَنَا فِی بَنَاتِکَ مِنْ حَقٍّ وَإِنَّکَ لَتَعْلَمُ مَا نُرِیدُ» (11-ہود:79) آپ کو معلوم ہے کہ ہمیں عورتوں کی چاہت نہیں ہمارا جو ارادہ ہے وہ آپ سے مخفی نہیں ، آپ ہمیں اپنے مہمان سونپ دو ۔ جب اسی بحث و مباحثہ میں بہت وقت گزر چکا اور وہ لوگ مقابلہ پر تل گئے اور لوط علیہ السلام بےحد زچ آ گئے اور بہت ہی تنگ ہوئے ، تب جبرائیل علیہ السلام باہر نکلے اور اپنا پر ان کی آنکھوں پر پھیرا سب اندھے بن گئے ، آنکھیں بالکل جاتی رہیں ، اب تو لوط علیہ السلام کو برا کہتے ہوئے ، دیواریں ٹٹولتے ہوئے ، صبح کا وعدہ دے کر ، پچھلے پاؤں واپس ہوئے لیکن صبح کے وقت ہی ان پر عذاب الٰہی آ گیا ، جس میں سے نہ بھاگ سکے ، نہ اس سے پیچھا چھڑا سکے ، عذاب کے مزے اور ڈراوے کی طرف دھیان نہ دینے کا وبال انہوں نے چکھ لیا ، یہ قرآن تو بہت ہی آسان ہے جو چاہے نصیحت حاصل کر سکتا ہے کوئی ہے جو بھی اس سے پند و وعظ حاصل کر لے ؟ القمر
34 القمر
35 القمر
36 القمر
37 القمر
38 القمر
39 القمر
40 القمر
41 سچائی کے دلائل سے اعراض کرنے والی اقوام فرعون اور اس کی قوم کا قصہ بیان ہو رہا ہے کہ ان کے پاس اللہ کے رسول موسیٰ اور ہارون علیہما السلام بشارت اور ڈراوے لے کر آتے ہیں ، بڑے بڑے معجزے اور زبردست نشانیاں اللہ کی طرف سے انہیں دی جاتی ہیں ، جو ان کی نبوت کی حقانیت پر پوری پوری دلیل ہوتی ہیں ۔ لیکن یہ فرعونی ان سب کو جھٹلاتے ہیں جس کی بدبختی میں ان پر عذاب الٰہی نازل ہوتے ہیں اور انہیں بالکل ہی سوکھے تنکوں کی طرح اڑا دیا جاتا ہے ۔ پھر فرماتا ہے : اے مشرکین قریش ! اب بتلاؤ تم ان سے کچھ بہتر ہو ؟ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ تمہارے لیے اللہ نے اپنی کتابوں میں چھوٹ دے رکھی ہے کہ ان کے کفر پر تو انہیں عذاب کیا جائے لیکن تم کفر کئے جاؤ اور تمہیں کوئی سزا نہ دی جائے ؟ پھر فرماتا ہے : کیا ان کا یہ خیال ہے کہ ہم ایک جماعت کی جماعت ہیں ، آپس میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہیں گے اور ہمیں کوئی برائی ہماری کثرت اور جماعت کی وجہ سے نہیں چھوئے گی ؟ اگر یہ خیال ہو تو انہیں یقین کر لینا چاہیے کہ ان کی یہ بدبختی توڑ دی جائے گی ، ان کی جماعت کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے گا ، انہیں ہزیمت دی جائے گی اور یہ پیٹھ دکھا کر بھاگتے پھریں گے ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ { بدر والے دن اپنی قیام گاہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعا فرما رہے تھے ” اے اللہ ! تجھے تیرا عہد و پیمان یاد دلاتا ہوں ، اے اللہ ! اگر تیری چاہت یہی ہے کہ آج کے دن کے بعد سے تیری عبادت و وحدانیت کے ساتھ زمین پر کی ہی نہ جائے “ ، بس اتنا ہی کہا تھا کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا : یا رسول اللہ ! بس کیجئے ، آپ نے بہت فریاد کر لی ۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خیمے سے باہر آئے اور زبان پر دونوں آیتیں «سَیُہْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلٰونَ الدٰبُرَ» * «بَلِ السَّاعَۃُ مَوْعِدُہُمْ وَالسَّاعَۃُ أَدْہَی وَأَمَرٰ» (54-القمر:46،45) جاری تھیں } ۔ (صحیح بخاری:4877) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس آیت کے اترنے کے وقت میں سوچ رہا تھا کہ اس سے مراد کون سی جماعت ہو گی ؟ جب بدر والے دن میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ زرہ پہنے ہوئے اپنے خیمہ سے باہر تشریف لائے اور یہ آیت پڑھ رہے تھے ، اس دن میری سمجھ میں اس کی تفسیر آ گئی ۔ صحیح بخاری میں ہے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میری چھوٹی سی عمر تھی ، اپنی ہمجولیوں میں کھیلتی پھرتی تھی اس وقت یہ آیت «بَلِ السَّاعَۃُ مَوْعِدُہُمْ وَالسَّاعَۃُ أَدْہَی وَأَمَرٰ» (54-القمر:46) اتری ہے ۔ یہ روایت بخاری میں فضائل القرآن کے موقعہ پر مطول مروی ہے (صحیح بخاری:4993) مسلم میں یہ حدیث نہیں ۔ القمر
42 القمر
43 القمر
44 القمر
45 القمر
46 القمر
47 شکوک و شبہات کے مریض لوگ بدکار لوگ گمراہ ہو چکے ہیں راہ حق سے بھٹک چکے ہیں اور شکوک و اضطراب کے خیالات میں ہیں ۔ یہ لوگ خواہ کفار ہوں ، خواہ اور فرقوں کے بدعتی ہوں ۔ ان کا یہ فعل انہیں اوندھے منہ جہنم کی طرف گھسیٹوائے گا اور جس طرح یہاں غافل ہیں وہاں اس وقت بھی بے خبر ہوں گے کہ نہ معلوم کس طرف لیے جاتے ہیں ۔ اس وقت انہیں ڈانٹ ڈپٹ کے ساتھ کہا جائے گا کہ اب آتش دوزخ کے لگنے کا مزہ چکھو ہم نے ہر چیز کو طے شدہ منصوبہ سے پیدا کیا ہے ۔ جیسے اور آیت میں ہے «وَخَلَقَ کُلَّ شَیْءٍ فَقَدَّرَہُ تَقْدِیراً» (25-الفرقان:2) ’ ہر چیز کو ہم نے پیدا کیا پھر اس کا مقدر مقرر کیا ‘ ۔ اور جگہ فرمایا «سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلَی» * «الَّذِی خَلَقَ فَسَوَّی» * «وَالَّذِی قَدَّرَ فَہَدَی» (87-سورۃالأعلی:1-3) ’ اپنے رب کی جو بلند و بالا ہے پاکی بیان کر جس نے پیدا کیا اور درست کیا اور محور عمل مقرر کیا اور راہ دکھائی ‘ ۔ یعنی تقدیر مقرر کی پھر اس کی طرف رہنمائی کی ائمہ اہل سنت نے اس سے استدلال کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی تقدیر ان کی پیدائش سے پہلے ہی لکھ دی ہے یعنی ہر چیز اپنے ظہور سے پہلے اللہ کے ہاں لکھی جا چکی ہے ۔ فرقہ قدریہ اس کا منکر ہے یہ لوگ صحابہ رضی اللہ عنہم کے آخر زمانہ میں ہی نکل چکے تھے ۔ اہل سنت ان کے مسلک کے خلاف اس قسم کی آیتوں کو پیش کرتے ہیں اور اس مضمون کی احادیث بھی اور اس مسئلہ کی مفصل بحث میں ہم نے صحیح بخاری کتاب الایمان کی شرح میں لکھ دی ہیں یہاں صرف وہ حدیثیں لکھتے ہیں جو مضمون آیت کے متعلق ہیں ، { سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مشرکین قریش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تقدیر کے بارے میں بحث کرنے لگے اس پر یہ آیتیں اتریں } (صحیح مسلم:6696) بروایت «عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ» مروی ہے کہ یہ آیتیں منکرین تقدیر کی تردید ہی میں اتری ہیں ۔ (مسند بزار:2265ضعیف) ابن ابی حاتم کی روایت میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھ کر فرمایا : ” یہ میری امت کے ان لوگوں کے حق میں اتری ہے جو آخر زمانہ میں پیدا ہوں گے اور تقدیر کو جھٹلائیں گے “ } ۔ (طبرانی کبیر:5316صحیح) عطاء بن ابو رباح رحمہ اللہ فرماتے ہیں { میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس آیا آپ اس وقت چاہ زمزم سے پانی نکال رہے تھے ، آپ کے کپڑوں کے دامن بھیگے ہوئے تھے ، میں نے کہا تقدیر کے بارے میں اختلاف کیا گیا ہے ، لوگ اس مسئلہ میں موافق و مخالف ہو رہے ہیں ۔ آپ نے فرمایا : کیا لوگوں نے واقعی ایسا ہی کیا ہے ؟ میں نے کہا : ہاں ایسا ہو رہا ہے ، تو آپ نے فرمایا : اللہ کی قسم یہ آیتیں انہی لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہیں «یَوْمَ یُسْحَبُونَ فِی النَّارِ عَلَی وُجُوہِہِمْ ذُوقُوا مَسَّ سَقَرَ» * «إِنَّا کُلَّ شَیْءٍ خَلَقْنَاہُ بِقَدَرٍ» ۔ (54-سورۃالقمر:48،49) یاد رکھو یہ لوگ اس امت کے بدترین لوگ ہیں ان کے بیماروں کی تیمارداری نہ کرو ان کے مردوں کے جنازے نہ پڑھو ان میں سے اگر کوئی مجھے مل جائے تو میں اپنی ان انگلیوں سے اس کی آنکھیں نکال دوں } ۔ ایک روایت میں ہے کہ { سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے سامنے ذکر آیا کہ آج ایک شخص آیا ہے جو منکر تقدیر ہے فرمایا : اچھا مجھے اس کے پاس لے چلو ، لوگوں نے کہا : آپ نابینا ہیں ، آپ اس کے پاس چل کر کیا کریں گے ؟ فرمایا : اللہ کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر میرا بس چلا تو میں اس کی ناک توڑ دوں گا اور اگر اس کی گردن میرے ہاتھ میں آ گئی تو مروڑ دوں گا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ بنو فہر کی عورتیں خزرج کے اردگرد طواف کرتی پھرتی ہیں ان کے جسم حرکت کرتے ہیں وہ مشرکہ عورتیں ہیں اس امت کا پہلا شرک یہی ہے اس رب کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس کی بےسمجھی یہاں تک بڑھے گی کہ اللہ تعالیٰ کو بھلائی کا مقرر کرنے والا بھی نہ مانیں گے جس طرح برائی کا مقدر کرنے والا نہ مانا } ۔ (مسند احمد:333/1:ضعیف) { سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا ایک دوست شامی تھا ، جس سے آپ کی خط و کتابت تھی ، سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہیں سے سن پایا کہ وہ تقدیر کے بارے میں کچھ موشگافیاں کرتا ہے ، آپ نے جھٹ سے اسے خط لکھا کہ میں نے سنا ہے تو تقدیر کے مسئلہ میں کچھ کلام کرتا ہے ، اگر یہ سچ ہے تو بس مجھ سے خط و کتابت کی امید نہ رکھنا ، آج سے بند سمجھنا ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ میری امت میں تقدیر کو جھٹلانے والے لوگ ہوں گے } ۔ (سنن ابوداود:4613،قال الشیخ الألبانی:حسن) { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہر امت کے مجوس ہوتے ہیں میری امت کے مجوسی وہ لوگ ہیں جو تقدیر کے منکر ہوں اگر وہ بیمار پڑیں تو ان کی عیادت نہ کرو اور اگر وہ مر جائیں تو ان کے جنازے نہ پڑھو } ۔ (مسند احمد:86/2:ضعیف) { اس امت میں مسخ ہو گا یعنی لوگوں کی صورتیں بدل دی جائیں گی یاد رکھو یہ ان میں ہو گا جو تقدیر کو جھٹلائیں اور زندیقیت کریں } ۔ (سنن ترمذی:2153،قال الشیخ الألبانی:حسن) { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ہر ایک کی تقدیر مقرر کردہ اندازے سے ہے یہاں تک کہ نادانی اور عقلمندی بھی “ ۔ (صحیح مسلم:2655) صحیح حدیث میں ہے { اللہ سے مدد طلب کر اور عاجز و بیوقوف نہ بن ، پھر اگر کوئی نقصان پہنچ جائے تو کہہ دے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا مقرر کیا ہوا تھا اور جو اللہ نے چاہا کیا پھر یوں نہ کہہ کہ اگر یوں کرتا تو یوں ہوتا اس لیے کہ اس طرح ”اگر“ کہنے سے شیطانی عمل کا دروازہ کھل جاتا ہے ۔ (صحیح مسلم:2664) { نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے فرمایا کہ جان رکھ اگر تمام امت جمع ہو کر تجھے وہ نفع پہنچانا چاہے جو اللہ تعالیٰ نے تیری قسمت میں نہیں لکھا تو نہیں پہنچا سکتی اور اگر سب اتفاق کر کے تجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہیں اور تیری تقدیر میں وہ نہ ہو تو نہیں پہنچا سکتے ، قلمیں خشک ہو چکیں اور دفتر لپیٹ کر تہہ کر دئیے گئے } ۔ (مسند احمد:293/1) { سیدنا ولید بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے اپنے باپ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی بیماری میں جبکہ ان کی حالت بالکل غیر تھی کہا کہ ابا جی ! ہمیں کچھ وصیت کر جائیے آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اچھا مجھے بٹھا دو ، جب لوگوں نے آپ کو بٹھا دیا ، تو آپ نے فرمایا : اے میرے پیارے بچے ! ایمان کا لطف تجھے حاصل نہیں ہو سکتا اور اللہ تعالیٰ کے متعلق جو علم تجھے ہے اس کی تہہ تک تو نہیں پہنچ سکتا جب تک تیرا ایمان تقدیر کی بھلائی برائی پر پکا نہ ہو ، میں نے پوچھا : ابا جی ! میں یہ کیسے معلوم کر سکتا ہوں کہ میرا ایمان تقدیر کے خیر و شر پر پختہ ہے ؟ فرمایا : اس طرح کہ تجھے یقین ہو کہ جو تجھے نہ ملا ، وہ ملنے والا ہی نہیں اور جو تجھے پہنچا ، وہ ٹلنے والا ہی نہ تھا ، میرے بچو سنو ! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا اور اسے فرمایا ” لکھ“ پس وہ اسی وقت چل پڑا اور قیامت تک جو ہونے والا تھا سب لکھ ڈالا ، اے بیٹے ! اگر تو انتقال کے وقت تک اس عقیدے پر نہ رہے تو تو جہنم میں داخل ہو گا } ۔ (سنن ترمذی:2155،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ترمذی میں یہ حدیث ہے اور امام ترمذی فرماتے ہیں حسن صحیح غریب ہے ۔ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” تم میں سے کوئی شخص ایماندار نہیں ہو سکتا جب تک کہ چار باتوں پر اس کا ایمان نہ ہو ، گواہی دے کہ معبود برحق صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے اور میں اللہ کا رسول ہوں جسے اس نے حق کے ساتھ بھیجا ہے اور مرنے کے بعد جینے پر ایمان رکھے اور تقدیر کی بھلائی برائی منجانب اللہ ہونے کو مانے “ ۔ (سنن ترمذی:2145،قال الشیخ الألبانی:صحیح) صحیح مسلم میں ہے { اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کی پیدائش سے پچاس ہزار برس پہلے مخلوقات کی تقدیر لکھی «وَکَانَ عَرْشُہُ عَلَی الْمَاءِ» (11-ہود:7) جبکہ اس کا عرش پانی پر تھا } ۔ (صحیح مسلم:2653) امام ترمذی اسے حسن صحیح غریب کہتے ہیں ۔ پھر پروردگار عالم اپنی چاہت اور احکام کے بےروک و ٹوک جاری اور پورا ہونے کو بیان فرماتا ہے کہ جس طرح جو کچھ میں نے مقدر کیا ہے وہ اگر وہی ہوتا ہے ، تو ٹھیک اسی طرح ، جس کام کا میں ارادہ کروں صرف ایک دفعہ کہہ دینا کافی ہوتا ہے ، دوبارہ تاکیدًا حکم دینے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے ، ایک آنکھ جھپکنے کے برابر وہ کام میری حسب چاہت ہو جاتا ہے ۔ عرب شاعر نے کیا ہی اچھا کہا ہے «اذا ما اراد اللہ امرا فانما یقول لہ کن قولۃً فیکون» یعنی اللہ تعالیٰ جب کبھی جس کسی کام کا ارادہ کرتا ہے صرف فرما دیتا ہے کہ ہو جا وہ اسی وقت ہو جاتا ہے ۔ القمر
48 القمر
49 القمر
50 القمر
51 1 ہم نے تم جیسوں کو تم سے پہلے ان کی سرکشی کے باعث فنا کے گھاٹ اتار دیا ہے پھر تم کیوں عبرت حاصل نہیں کرتے ؟ ان کے عذاب اور ان کی رسوائی کے واقعات میں کیا تمہارے لیے نصیحت و تذکیر نہیں ؟ جیسے اور آیت میں فرمایا «وَحِیلَ بَیْنَہُمْ وَبَیْنَ مَا یَشْتَہُونَ کَمَا فُعِلَ بِأَشْیَاعِہِم مِّن قَبْلُ إِنَّہُمْ کَانُوا فِی شَکٍّ مٰرِیبٍ» (34-سورۃسبا:54) یعنی ’ ان کے اور ان کی چاہ کے درمیان پردہ ڈال دیا گیا ہے جیسے کہ ہم نے ان جیسے پہلے والوں کے ساتھ کیا تھا ‘ ۔ جو کچھ انہوں نے کیا وہ ان کے نامہ اعمال میں مکتوب ہے جو اللہ کے امین فرشتوں کے ہاتھ میں محفوظ ہے ۔ ان کا ہر چھوٹا بڑا عمل جمع شدہ ہے اور لکھا ہوا ہے ۔ ایک بھی تو ایسا نہیں رہا جو تحریر میں رہ گیا ہو ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” صغیرہ گناہ کو بھی ہلکا نہ سمجھو ، اللہ عزوجل کی طرف سے اس کا بھی مطالبہ پورا ہونے والا ہے “ } ۔ (سنن ابن ماجہ:4242،قال الشیخ الألبانی:صحیح) سلیمان بن مغیرہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں { ایک مرتبہ مجھ سے ایک گناہ سرزد ہو گیا جسے میں نے حقیر سمجھا ، رات کو خواب میں دیکھتا ہوں کہ ایک آنے والا آیا ہے اور مجھ سے کہہ رہا ہے ، اے سلیمان ! «لا تحقرن من الذنوب صغیرا ان الصغیر غدا یعود کبیرا ان الصغیر ولو تقادم عھدہ عند اللہ مسطر تسطیرا فازجر ھواک عندالبطالتہ لا تکن صعب القیاد وشمرن تشمیرا ان للحب اذا احب الھہ طار الفواد والھم التفکیر فاسال ہدایتک الا لہ فتئد فکفی بربک ھادیا ونصیرا» یعنی ” صغیرہ گناہوں کو بھی حقیر اور ناچیز نہ سمجھ ، یہ صغیرہ کل کبیرہ ہو جائیں گے ، گو گناہ چھوٹے چھوٹے ہوں اور انہیں کئے ہوئے بھی عرصہ گزر چکا ہو ۔ اللہ کے پاس وہ صاف صاف لکھے ہوئے موجود ہیں ، بدی سے اپنے نفس کو روکے رکھ اور ایسا نہ ہو جا کہ مشکل سے نیکی کی طرف آئے ، بلکہ اونچا دامن کر کے بھلائی کی طرف لپک ، جب کوئی شخص سچے دل سے اللہ کی محبت کرتا ہے تو اس کا دل اڑنے لگتا ہے اور اسے اللہ کی جانب سے غور و فکر کی عادت الہام ہو جاتی ہے اپنے رب سے ہدایت طلب کر اور نرمی اور ملائمت کر ، ہدایت اور نصرت کرنے والا رب تجھے کافی ہو گا “ ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ان بدکاروں کے خلاف نیک کار لوگوں کی حالت ہو گی وہ تو ضلالت و تکلیف میں تھے اور اوندھے منہ جہنم کی طرف گھسیٹے گئے اور سخت ڈانٹ ڈپٹ ہوئی ، لیکن یہ نیک کار جنتوں میں ہوں گے بہتے ہوئے خوشگوار صاف شفاف چشموں کے مالک ہوں گے اور عزت و کرام ، رضوان و فضیلت ، جود و احسان ، فضل و امتنان ، نعمت و رحمت آسائش و راحت کے مکان میں خوش خوش رہیں گے باری تعالیٰ مالک و قادر کا قرب انہیں نصیب ہو گا ، جو تمام چیزوں کا خالق ہے ، سب کے انداز مقرر کرنے والا ہے ، ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ، وہ ان پرہیزگار رحم دل لوگوں کی ایک ایک خواہش پوری کرے گا ، ایک ایک چاہت عطا فرمائے گا ۔ مسند احمد میں { رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” عدل و انصاف کرنے والے نیک کردار لوگ اللہ کے پاس نور کے منبروں پر رحمٰن کی دائیں جانب ہوں گے ، اللہ کے دونوں ہاتھ داہنے ہی ہیں ، یہ عادل لوگ وہ ہیں ، جو اپنے احکام میں اپنے اہل و عیال میں اور جو چیز ان کے قبضے میں ہو ، اس میں اللہ تعالٰی کے فرمان کے خلاف نہیں کرتے بلکہ عدل و انصاف سے ہی کام لیتے ہیں “ } ۔ (صحیح مسلم:1827) «الحمداللہ» اللہ تعالیٰ کی توفیق سے سورۃ اقتربت کی تفسیر بھی ختم ہوئی اللہ ہمیں نیک توفیق دے اور برائیوں سے بچائے ۔ القمر
52 القمر
53 القمر
54 القمر
55 القمر
0 الرحمن
1 تفسیر سورۂ رحمٰن اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کاملہ کا بیان فرماتا ہے کہ اس نے اپنے بندوں پر قرآن کریم نازل فرمایا اور اپنے فضل و کرم سے اس کا حفظ کرنا بالکل آسان کر دیا ، اسی نے انسان کو پیدا کیا اور اسے بولنا سکھایا۔ انسان پر اللہ تعالیٰ کے احسانات کی ایک جھلک قتادہ رحمہ اللہ وغیرہ کہتے ہیں «بیان» سے مراد خیر و شر ہے لیکن بولنا ہی مراد لینا یہاں بہت اچھا ہے۔ حسن رحمہ اللہ کا قول بھی یہی ہے اور ساتھ ہی تعلیم قرآن کا ذکر ہے جس سے مراد تلاوت قرآن ہے اور تلاوت موقوف ہے بولنے کی آسانی پر ہر حرف اپنے مخرج سے بےتکلف زبان ادا کرتی رہتی ہے ، خواہ حلق سے نکلتا ہو ، خواہ دونوں ہونٹوں کے ملانے سے مختلف مخرج اور مختلف قسم کے حروف کی ادائیگی اللہ تعالیٰ نے انسان کو سکھا دی «لاَ الشَّمْسُ یَنبَغِی لَہَآ أَن تدْرِکَ القَمَرَ وَلاَ الَّیْلُ سَابِقُ النَّہَارِ وَکُلٌّ فِی فَلَکٍ یَسْبَحُونَ» (36-یس:40) سورج اور چاند ایک دوسرے کے پیچھے اپنے اپنے مقررہ حساب کے مطابق گردش میں ہیں ، نہ ان میں اختلاف ہو ، نہ اضطراب ، نہ یہ آگے بڑھے ، نہ وہ اس پر غالب آئے ہر ایک اپنی اپنی جگہ تیرتا پھرتا ہے ۔ اور جگہ فرمایا ہے «فَالِقُ الْإِصْبَاحِ وَجَعَلَ اللَّیْلَ سَکَنًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْبَانًا ذَلِکَ تَقْدِیرُ الْعَزِیزِ الْعَلِیمِ» (6-الانعام:96) الخ، اللہ صبح کو نکالنے والا ہے اور اسی نے رات کو تمہارے لیے آرام کا وقت بنایا ہے اور سورج چاند کو حساب پر رکھا ہے یہ مقررہ محور غالب و دانا اللہ کا طے کردہ ہے۔ عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں تمام انسانوں، جنات، چوپایوں، پرندوں کی آنکھوں کی بصارت ایک ہی شخص کی آنکھوں میں سمودی جائے پھر بھی سورج کے سامنے جو ستر پردے ہیں ان میں سے ایک پردہ ہٹا دیا جائے تو ناممکن ہے کہ یہ شخص پھر بھی اس کی طرف دیکھ سکے باوجود یہ کہ سورج کا نور اللہ کی کرسی کے نور کا سترواں حصہ ہے اور کرسی کا نور عرش کے نور کا سترواں حصہ ہے اور عرش کے نور کے جو پردے اللہ کے سامنے ہیں اس کے ایک پردے کے نور کا سترواں حصہ ہے پس خیال کر لو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے جنتی بندوں کی آنکھوں میں کس قدر نور دے رکھا ہو گا کہ وہ اپنے رب تبارک و تعالیٰ کے چہرے کو کھلم کھلا اپنی آنکھوں سے بےروک دیکھیں گے (ابن ابی حاتم) اس پر تو مفسرین کا اتفاق ہے کہ «شجر» اس درخت کو کہتے ہیں جو تنے والا ہوʻ لیکن «نجم» کے معنی کئی ایک ہیں بعض تو کہتے ہیں «نجم» سے مراد بیلیں ہیں جن کا تنہ نہیں ہوتا اور زمین پر پھیلی ہوئی ہوتی ہیں ۔ بعض کہتے ہیں مراد اس سے ستارے ہیں جو آسمان میں ہیں۔ یہی قول زیادہ ظاہر ہے ، گو اول قول امام ابن جریر رحمہ اللہ کا اختیار کردہ ہے۔ «واللہ اعلم» قرآن کریم کی یہ آیت بھی اس دوسرے قول کی تائید کرتی ہے۔ فرمان ہے «أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللہَ یَسْجُدُ لَہُ مَن فِی السَّمَاوَاتِ وَمَن فِی الْأَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنٰجُومُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَابٰ وَکَثِیرٌ مِّنَ النَّاسِ وَکَثِیرٌ حَقَّ عَلَیْہِ الْعَذَابُ وَمَن یُہِنِ اللہُ فَمَا لَہُ مِن مٰکْرِمٍ إِنَّ اللہَ یَفْعَلُ مَا یَشَاءُ» (22-الحج:18) الخ، ’ کیا تو نہیں دیکھ رہا کہ اللہ کے سامنے سجدہ میں ہیں سب آسمانوں والے اور سب زمینوں والے اور سورج اور چاند اور ستارے اور پہاڑ اور درخت اور جانور اور بہت سے انسان بھی۔ ہاں بہت سے وہ بھی ہیں جن پر عذاب کا مقولہ ﺛابت ہو چکا ہے، جسے رب ذلیل کردے اسے کوئی عزت دینے واﻻ نہیں، اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے ‘ ۔ الرحمن
2 الرحمن
3 الرحمن
4 الرحمن
5 الرحمن
6 الرحمن
7 1 پھر فرماتا ہے آسمان کو اس نے بلند کیا ہے اور اسی میں میزان قائم کی ہے یعنی عدلʻ جیسے اور آیت میں ہے «لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاس بالْقِسْطِ» ‏‏‏‏ (57-الحدید:25) یعنی ’ یقیناً ہم نے اپنے پیغمبروں کو کھلی دلیلیں دے کر بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان [ ترازو] نازل فرمایا تاکہ لوگ عدل پر قائم رہیں ‘ یہاں بھی اس کے ساتھ ہی فرمایا تاکہ تم ترازو میں حد سے نہ گزر جاؤ یعنی اس اللہ نے آسمان و زمین کو حق اور عدل کے ساتھ پیدا کیا تاکہ تمام چیزیں حق و عدل کے ساتھ ہو جائیں۔ پس فرماتا ہے جب وزن کرو تو سیدھی ترازو سے عدل و حق کے ساتھ وزن کرو کمی زیادتی نہ کرو کہ لیتے وقت بڑھتی تول لیا اور دیتے وقت کم دے دیا ۔ اور جگہ ارشاد ہے «‏‏‏‏وَزِنُوْا بالْقِسْطَاسِ الْمُسْـتَقِیْمِ» ‏‏‏‏ (26-الشعراء:182) صحت کے ساتھ کھرے پن سے تول کیا کرو، آسمان کو تو اس نے بلند و بالا کیا اور زمین کو اس نے نیچی اور پست کر کے بچھا دیا اور اس میں مضبوط پہاڑ مثل میخ کے گاڑ دئیے کہ وہ ہلے جلے نہیں اور اس پر جو مخلوق بستی ہے وہ باآرام رہے۔ پھر زمین کی مخلوق کو دیکھو ان کی مختلف قسموں ، مختلف شکلوں ، مختلف رنگوں ، مختلف زبانوں ، مختلف عادات واطوار پر نظر ڈال کر اللہ کی قدرت کاملہ کا اندازہ کرو۔ ساتھ ہی زمین کی پیداوار کو دیکھو کہ رنگ برنگ کے کھٹے میٹھے ، پھیکے سلونے طرح طرح کی خوشبوؤں والے میوے پھل فروٹ اور خاصۃً کھجور کے درخت جو نفع دینے والا اور لگنے کے وقت سے خشک ہو جانے تک اور اس کے بعد بھی کھانے کے کام میں آنے والا عام میوہ ہے، اس پر خوشے ہوتے ہیں جنہیں چیر کر یہ باہر آتا ہے پھر گدلا ہو جاتا ہے پھر تر ہو جاتا ہے پھر پک کر ٹھیک ہو جاتا ہے بہت نافع ہے، ساتھ ہی اس کا درخت بالکل سیدھا اور بےضرر ہوتا ہے۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ قیصر نے امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ میرے قاصد جو آپ کے پاس سے واپس آئے ہیں وہ کہتے ہیں کہ آپ کے ہاں ایک درخت ہوتا ہے جس کی سی خو خصلت کسی اور میں نہیں، وہ جانور کے کان کی طرح زمین سے نکلتا ہے پھر کھل کر موتی کی طرح ہو جاتا ہے پھر سبز ہو کر زمرد کی طرح ہو جاتا ہے ، پھر سرخ ہو کر یاقوت جیسا بن جاتا ہے اور تیار ہو کر بہترین فالودے کے مزے کا ہو جاتا ہے ، پھر خشک ہو کر مقیم لوگوں کے بچاؤ کی اور مسافروں کے توشے بھتے کی چیز بن جاتا ہے ، پس اگر میرے قاصد کی یہ روایت صحیح ہے تو میرے خیال سے تو یہ درخت جنتی درخت ہے ۔ اس کے جواب میں شاہ اسلام سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے لکھا کہ یہ خط ہے اللہ کے غلام مسلمانوں کے بادشاہ عمر کی طرف سے شاہ روم قیصر کے نام ، آپ کے قاصدوں نے جو خبر آپ کو دی ہے وہ سچ ہے اس قسم کے درخت ملک عرب میں بکثرت ہیں یہی وہ درخت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مریم علیہا السلام کے پاس اگایا تھا جبکہ ان کے لڑکے عیسیٰ علیہ السلام ان کے بطن سے پیدا ہوئے تھے پس اے بادشاہ! اللہ سے ڈر اور عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ نہ سمجھ اللہ ایک ہی ہے۔ عیسیٰ علیہ السلام کی مثال اللہ تعالیٰ کے نزدیک آدم علیہ السلام جیسی ہے کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے مٹی سے پیدا کیا پھر فرمایا ہو جا پس وہ ہو گئے ، اللہ کی طرف سے سچی اور حق بات یہی ہے ، تجھے چاہیئے کہ شک و شبہ کرنے والوں میں نہ رہے ۔ (3-آل عمران:59-60) «اَکَمَامِ» کے معنی «لیف» کے بھی کئے گئے ہیں جو درخت کھجور کی گردن پر پوست کی طرح ہوتا ہے اور اس نے زمین میں بھوسی اور اناج پیدا کیا ۔ «عَصف» کے معنی کھیتی کے وہ سبز پتے جو اوپر سے کاٹ دئیے گئے ہوں پھر سکھا لئے گئے ہوں۔ «رَ̛یحان» سے مراد پتے یا یہی ریحان جو اسی نام سے مشہور ہے یا کھیتی کے سبز پتے، مطلب یہ ہے کہ گیہوں جو وغیرہ کے وہ دانے جو خوشہ میں بھوسی سمیت ہوتے ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ کھیتی سے پہلے ہی اگے ہوئے پتوں کو تو «عَصف» کہتے ہیں اور جب دانے نکل آئیں بالیں پیدا ہو جائیں تو انہیں «رَ̛یحان» کہتے ہیں جیسے کہ زید بن عمرو بن نفیل کے مشہور قصیدے میں ہے۔ پھر فرماتا ہے ، اے جنو اور انسانو ! تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے یعنی تم اس کی نعمتوں میں سر سے پیر تک ڈوبے ہوئے ہو اور مالا مال ہو رہے ہو ، ناممکن ہے کہ حقیقی طور پر تم کسی نعمت کا انکار کر سکو اور اسے جھوٹ بتا سکو، ایک دو نعمتیں ہوں تو خیر یہاں تو سر تا پا اس کی نعمتوں سے دبے ہوئے ہو ، اسی لیے مومن جنوں نے اسے سن کر جھٹ سے جواب دیا «اللھم ولا بشئی من الائک ربنا نکذب فلک الحمد» ‏‏‏‏ ابن عباس رضی اللہ عنہما اس کے جواب میں فرمایا کرتے تھے «لا فایھا یارب» ‏‏‏‏ یعنی اے رب ! ہم ان میں سے کسی نعمت کا انکار نہیں کر سکتے۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی اسماء رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ شروع شروع رسالت کے زمانہ میں ابھی امر اسلام کا پوری طرح اعلان نہ ہوا تھا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیت اللہ میں رکن کی طرف نماز پڑھتے ہوئے دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس نماز میں اس سورت کی تلاوت فرما رہے تھے اور مشرکین بھی سن رہے تھے۔ الرحمن
8 الرحمن
9 الرحمن
10 الرحمن
11 الرحمن
12 الرحمن
13 الرحمن
14 انسان اور جنات کی پیدائش میں فرق یہاں بیان ہو رہا ہے کہ انسان کی پیدائش بجنے والی ٹھیکری جیسی مٹی سے ہوئی ہے اور جنات کی پیدائش آگ کے شعلے سے ہوئی ہے جو خالص اور احسن تھا ۔ مسند کی حدیث میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” فرشتے نور سے، جنات نار سے اور انسان اس مٹی سے جس کا ذکر تمہارے سامنے ہو چکا ہے پیدا کئے گئے ہیں ۔ (صحیح مسلم:2996-60) پھر اپنی کسی نعمت کے نہ جھٹلانے کی ہدایت کر کے فرماتا ہے جاڑے اور گرمی کے ، دو سورج کے نکلنے اور ڈوبنے کے مقامات کا رب اللہ ہی ہے، دو سے مراد سورج نکلنے اور ڈوبنے کی دو مختلف جگہیں ہیں کہ وہاں سے سورج چڑھتا اترتا ہے اور موسم کے لحاظ سے یہ بدلتی رہتی ہیں ، ہر دن انقلاب لاتا ہے۔ جیسے دوسری آیت میں ہے «رَبٰ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ فَاتَّخِذْہُ وَکِیلًا» (73-المزمل:9) مشرق و مغرب کا رب وہی ہے تو اسی کو اپنا وکیل سمجھ۔، تو یہاں مراد جنس مشرق و مغرب ہے اور دوسری مشرق مغرب سے مراد طلوع و غرب کی دو جگہ ہیں، اور چونکہ طلوع و غروب کی جگہ جدا جدا ہونے میں انسانی منفعت اور اس کی مصلحت بینی تھی اس لیے پھر فرمایا کہ کیا اب بھی تم اپنے رب کی نعمتوں کے منکر ہی رہو گے؟ اس کی قدرت کا مظاہرہ دیکھو کہ دو سمندر برابر چل رہے ہیں ۔ ایک کھاری پانی کا ہے ، دوسرا میٹھے پانی کا لیکن نہ اس کا پانی اس میں مل کر اسے کھاری کرتا ہے ، نہ اس کا میٹھا پانی اس میں مل کر اسے میٹھا کر سکتا ہے بلکہ دونوں اپنی رفتار میں چل رہے ہیں، دونوں کے درمیان ایک پردہ حائل ہے، نہ وہ اس میں مل سکے ، نہ وہ اس میں جا سکے ، یہ اپنی حد میں ہے ، وہ اپنی حد میں اور قدرتی فاصلہ انہیں الگ الگ کئے ہوئے ہے، حالانکہ دونوں پانی ملے ہوئے ہیں۔ سورۃ الفرقان کی آیت «‏‏‏‏وَہُوَ الَّذِیْ مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ ھٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَّھٰذَا مِلْحٌ اُجَاجٌ وَجَعَلَ بَیْنَہُمَا بَرْزَخًا وَّحِجْرًا مَّحْجُوْرًا» ‏‏‏‏(25- الفرقان:53)، الخ، کی تفسیر میں اس کی پوری تشریح گزر چکی ہے- امام ابن جریر رحمہ اللہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ آسمان میں جو پانی کا قطرہ ہے اور «صدف» جو زمین کے دریا میں ہے ان دونوں سے مل کر «لؤلؤ» پیدا ہوتا ہے، واقعہ تو یہ ٹھیک ہے لیکن اس آیت کی تفسیر اس طرح کرنی کچھ مناسب معلوم نہیں ہوتی ، اس لیے کہ آیت میں ان دونوں کے درمیان برزخ یعنی آڑ کا ہونا بیان فرمایا گیا ہے جو اس کو اس سے اور اس کو اس سے روکے ہوئے ہیں ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں زمین میں ہی ہیں بلکہ ایک دوسرے سے لگے لگے چلتے ہیں ، مگر قدرت انہیں جدا رکھتی ہے، آسمان و زمین کے درمیان جو فاصلہ ہے وہ برزخ اور حجر نہیں کہا جاتا اس لیے صحیح قول یہی ہے کہ یہ زمین کے دو دریاؤں کا ذکر ہے نہ کہ آسمان اور زمین کے دریا کا۔ ان دونوں میں سے یعنی دونوں میں سے ایک میں سے۔ جیسے اور جگہ جن و انس کو خطاب کر کے سوال ہوا ہے کہ کیا تمہارے پاس تمہیں میں سے رسول نہیں آئے تھے؟ ظاہر ہے کہ رسول صرف انسانوں میں سے ہی ہوئے ہیں جنات میں کوئی جن رسول نہیں آیا- تو جیسے یہاں اطلاع صحیح ہے حالانکہ وقوع ایک میں ہی ہے- 2اسی طرح اس آیت میں بھی اطلاق دونوں دریا پر ہے اور وقوع ایک میں ہی ہے «لؤلؤ» یعنی موتی تو ایک مشہور و معروف چیز ہے- «مرجان» کی نسبت کہا گیا ہے کہ چھوٹے موتی کو کہتے ہیں کو کہتے ہیں (تفسیر ابن جریر الطبری589/11) اور کہا گیا ہے کہ بہترین اور عمدہ موتی کو «مرجان» کہتے ہیں- بعض کہتے ہیں سرخ رنگ جواہر کو کہتے ہیں، بعض کہتے ہیں سرخ مہرے کا نام ہے ۔ اور آیت میں ہے «وَمِنْ کُلٍّ تَاْکُلُوْنَ لَحـْـمًا طَرِیًّا وَّتَسْتَخْرِجُوْنَ حِلْیَۃً تَلْبَسُوْنَہَا وَتَرَی الْفُلْکَ فِیْہِ مَوَاخِرَ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِہٖ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ» (35- فاطر:12) یعنی تم ہر ایک میں سے نکلا ہوا گوشت کھاتے ہو جو تازہ ہوتا ہے اور پہننے کے زیور نکالتے ہو تو خیر مچھلی تو کھاری اور میٹھے دونوں پانی سے نکلتی ہے اور موتی مونگے صرف کھاری پانی میں سے نکلتے ہیں میٹھے میں سے نہیں نکلتے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ آسمان کا جو قطرہ سمندر کی سیپ کے منہ میں سیدھا جاتا ہے وہ لؤلؤ بن جاتا ہے، اور جب صدف میں نہیں جاتا تو اس سے عنبر پیدا ہوتا ہے، مینہ برستے وقت سیپ اپنا منہ کھول دیتی ہے پس اس نعمت کو بیان فرما کر پھر دریافت فرماتا ہے کہ ایسی ہی بےشمار نعمتیں جس رب کی ہیں تم بھلا کس کس نعمت کی تکذیب کرو گے؟ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ سمندر میں چلنے والے بڑے بڑے بادلوں والے جہاز جو دور سے نظر پڑتے ہیں اور پہاڑوں کی طرح کھڑے دکھائی دیتے ہیں ، جو ہزاروں من مال اور سینکڑوں انسانوں کو ادھر سے ادھر لے جاتے ہیں ، یہ بھی تو اس اللہ کی ملکیت میں ہیں اس عالیشان نعمت کو یاد دلا کر پوچھتا ہے کہ اب بتاؤ انکار کئے کیسے بن آئے گی؟ عمیرہ بن سعد رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں اللہ کے شیر سیدنا علی مرتضٰی رضی اللہ عنہ کے ساتھ دریائے فرات کے کنارے پر تھا ایک بلند و بالا بڑا جہاز آ رہا تھا ، اسے دیکھ کر آپ نے اس کی طرف اپنے ہاتھ سے اشارہ کر کے اس آیت کی تلاوت کی پھر فرمایا : اس اللہ کی قسم جس نے پہاڑوں جیسی ان کشتیوں کو امواج سمندر میں جاری کیا ہے ، نہ میں نے عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کیا ، نہ ان کے قتل کا ارادہ کیا ، نہ قاتلوں کے ساتھ شریک ہوا ، نہ ان سے خوش ، نہ ان پر نرم۔ الرحمن
15 الرحمن
16 الرحمن
17 الرحمن
18 الرحمن
19 الرحمن
20 الرحمن
21 الرحمن
22 الرحمن
23 الرحمن
24 الرحمن
25 الرحمن
26 اللہ تعالیٰ کے سوا باقی سب فنا فرماتا ہے کہ زمین کی کل مخلوق فنا ہونے والی ہے ایک دن آئے گا کہ اس پر کچھ نہ ہو گا ، کل جاندار مخلوق کو موت آ جائے گی ، اسی طرح کل آسمان والے بھی موت کا مزہ چکھیں گے ، مگر جسے اللہ چاہے صرف اللہ کی ذات باقی رہ جائے گی جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ تک رہے گی، جو موت و فوت سے پاک ہے، قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں اولاً تو پیدائش عالم کا ذکر فرمایا پھر ان کی فنا کا بیان کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک منقول دعا میں یہ بھی ہے «یا حی یا قیوم یا بدیع السموات والارض یا ذا الجلال والاکرام لا الہ الا انت برحمتک نستغیث اصلح لنا شاننا کلہ ولا تکلنا الی انفسنا طرفتہ عین ولا الی احد من خلقک» ‏‏‏‏ یعنی اے ہمیشہ جینے اور ابدالآباد تک باقی اور تمام قائم رہنے والے اللہ! اے آسمان و زمین کے ابتداءً پیدا کرنے والے۔ اے رب جلال اور بزرگی والے پروردگار تیرے سوا کوئی معبود نہیں ، ہم تیری رحمت ہی سے استغاثہ کرتے ہیں ہمارے تمام کام تو بنا دے اور آنکھ جھپکنے کے برابر بھی تو ہماری طرف نہ سونپ اور نہ اپنی مخلوق میں سے کسی کی طرف۔ شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں جب تو آیت «کُلٰ مَنْ علَیْہَا فَانٍ» ‏‏‏‏ پڑھے تو ٹھہر نہیں اور ساتھ ہی آیت «‏‏‏‏وَّیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُوْ الْجَلٰلِ وَالْاِکْرَامِ» (55- الرحمن:27) پڑھ لے۔ اس آیت کا مضمون دوسری آیت میں ان الفاظ سے ہے «کُلٰ شَیْءٍ ہَالِکٌ اِلَّا وَجْہَہٗ ۭ لَہُ الْحُکْمُ وَاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ» (28- القص:88) سوائے ذات باری کے ہر چیز ناپید ہونے والی ہے، پھر اپنے چہرے کی تعریف میں فرماتا ہے وہ ذوالجلال ہے یعنی اس قابل ہے کہ اس کی عزت کی جائے اس کا جاہ و جلال مانا جائے اور اس کے احکام کی پوری اطاعت کی جائے اور اس کے فرمان کی خلاف ورزی سے رکا جائے۔ جیسے اور جگہ ہے «‏‏‏‏وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ بالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْہَہٗ وَلَا تَعْدُ عَیْنٰکَ عَنْہُمْ» (18- الکہف:28)، جو لوگ صبح شام اپنے پروردگار کو پکارتے رہتے ہیں اور اسی کی ذات کے مرید ہیں تو انہی کے ساتھ اپنے نفس کو وابستہ رکھ ۔ اور آیت میں ارشاد ہوتا ہے کہ «إِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللہِ » (76-الانسان:9) نیک لوگ صدقہ دیتے وقت سمجھتے ہیں کہ ہم محض اللہ کی رضا کے لیے کھلاتے پلاتے ہیں ، وہ کبریائی بڑائی عظمت اور جلال والا ہے، پس اس بات کو بیان فرما کر کہ تمام اہل زمین فوت ہونے میں اور پھر اللہ کے سامنے قیامت کے دن پیش ہونے میں برابر ہیں ، اور اس دن وہ بزرگی والا اللہ ان کے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ حکم فرمائے گا ۔ ساتھ ہی فرمایا : اب تم اے جن و انس رب کی کون سی نعمت کا انکار کرتے ہو؟ پھر فرماتا ہے کہ وہ ساری مخلوق سے بےنیاز ہے اور کل مخلوق اس کی یکسر محتاج ہے- سب کے سب سائل ہیں اور وہ غنی ہے ، سب فقیر ہیں اور وہ سب کے سوال پورے کرنے والا ہے، ہر مخلوق اپنے حال و قال سے اپنی حاجتیں اس کی بارگاہ میں لے جاتی ہے اور ان کے پورا ہونے کا سوال کرتی ہے۔ وہ ہر دن نئی شان میں ہے، اس کی شان ہے کہ ہر پکارنے والے کو جواب دے۔ مانگنے والے کو عطا فرمائے، تنگ حالوں کو کشادگی دے، مصیبت و آفات والوں کو رہائی بخشے ، بیماروں کو تندرستی عنایت فرمائے، غم و وہم دور کرے، بےقرار کی بےقراری کے وقت کی دعا کو قبول فرما کر اسے قرار اور آرام عنایت فرمائے۔ گنہگاروں کے واویلا پر متوجہ ہو کر خطاؤں سے درگزر فرمائے ، گناہوں کو بخشے، زندگی وہ دے، موت وہ دے ، تمام زمین والے ، کل آسمان والے اس کے آگے ہاتھ پھیلائے ہوئے اور دامن پھیلائے ہوئے ہیں ، چھوٹوں کو بڑا وہ کرتا ہے ، قیدیوں کو رہائی وہ دیتا ہے، نیک لوگوں کی حاجتوں کو پورا کرنے والا، ان کی پکار کا مدعا، ان کے شکوے شکایت کا مراجع وہی ہے، غلاموں کو آزاد کرنے کی رغبت وہی دلانے والا اور ان کو اپنی طرف سے عطیہ وہی عطا فرماتا ہے یہی اس کی شان ہے ۔ ابن جریر رحمہ اللہ میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ ! وہ شان کیا ہے؟ فرمایا : ” گناہوں کو بخشنا، دکھ کو دور کرنا، لوگوں کو ترقی اور تنزلی پر لانا“ ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:592/11،ضعیف) ابن ابی حاتم میں اور ابن عساکر میں بھی اسی کے ہم معنی ایک حدیث ہے۔ صحیح بخاری میں یہ روایت معلقاً سیدنا ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کے قول سے مروی ہے (مسند ابویعلی:ضعیف،2268) بزار میں بھی کچھ کمی کے ساتھ مرفوعًا مروی ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ کو سفید موتی سے پیدا کیا اس کے دونوں تختے سرخ یاقوت کے ہیں- اس کا علم نوری ہے، اس کی چوڑائی آسمان و زمین کے برابر ہے۔ ہر روز تین سو ساٹھ مرتبہ اسے دیکھتا ہے ، ہر نگاہ پر کسی کو زندگی دیتا ہے اور مارتا اور کسی کو عزت و ذلت دیتا ہے اور جو چاہے کرتا ہے۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:592/11) الرحمن
27 الرحمن
28 الرحمن
29 الرحمن
30 الرحمن
31 1 فارغ ہونے کے یہ معنی نہیں کہ اب وہ کسی مشغولیت میں ہے بلکہ یہ بطور تنبیہہ کے فرمایا گیا ہے کہ صرف تمہاری طرف پوری توجہ فرمانے کا زمانہ قریب آ گیا ہے، اب کھرے کھرے فیصلے ہو جائیں گے ، اسے کوئی اور چیز مشغول نہ کرے گی بلکہ صرف تمہارا حساب ہی ہو گا۔ محاورہ عرب کے مطابق یہ کلام کیا گیا ہے، جیسے غصہ کے وقت کوئی کسی سے کہتا ہے اچھا فرصت میں تجھ سے نپٹ لوں گا، تو یہ معنی نہیں کہ اس وقت مشغول ہوں بلکہ یہ مطلب ہے کہ ایک خاص وقت تجھ سے نپٹنے کو نکالوں گا اور تیری غفلت میں تجھے پکڑ لوں گا۔ «الثَّقَلَان» سے مراد انسان اور جن ہیں جیسے ایک حدیث میں ہے اسے سوائے «‏‏‏‏ثقلین» کے ہر چیز سنتی ہے اور دوسری حدیث میں ہے سوائے انسانوں اور جنوں کے ۔ (صحیح بخاری:1338) اور حدیث «صور» میں صاف ہے کہ «ثقلین» یعنی جن و انس، پھر تم اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس نعمت کا انکار کر سکتے ہو؟ اے جنو اور انسانو! تم اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی مقرر کردہ تقدیر سے بھاگ کر بچ نہیں سکتے بلکہ وہ تم سب کو گھیرے میں لیے ہوئے ہے ، اس کا ہر ہر حکم تم پر بےروک جاری ہے جہاں جاؤ اسی کی سلطنت ہے حقیقتاً یہ میدان محشر میں واقع ہو گا کہ مخلوقات کو ہر طرف سے فرشتے احاطہٰ کئے ہوئے ہوں گے چاروں جانب ان کی سات سات صفیں ہوں گی کوئی شخص بغیر دلیل کے ادھر سے ادھر نہ ہو سکے گا اور دلیل سوائے امر الٰہی یعنی حکم اللہ کے اور کچھ نہیں «یَقُولُ الْإِنسَانُ یَوْمَئِذٍ أَیْنَ الْمَفَرٰ» * «کَلَّا لَا وَزَرَ» * «إِلَی رَبِّکَ یَوْمَئِذٍ الْمُسْتَقَرٰ» (75-القیامۃ:10-12) ’ انسان اس دن کہے گا کہ بھاگنے کی جگہ کدھر ہے؟ لیکن جواب ملے گا کہ آج تو رب کے سامنے ہی کھڑا ہونے کی جگہ ہے‘ ۔ اور آیت میں ہے «‏‏‏‏وَالَّذِیْنَ کَسَبُوا السَّیِّاٰتِ جَزَاءُ سَـیِّئَۃٍ بِمِثْلِہَا وَتَرْہَقُھُمْ ذِلَّۃٌ» (10-یونس:27) یعنی بدیاں کرنے والوں کو ان کی برائیوں کے مانند سزا ملے گی ان پر ذلت سوار ہو گی اور اللہ کی پکڑ سے پناہ دینے والا کوئی نہ ہو گا ان کے منہ مثل اندھیری رات کے ٹکڑوں کے ہوں گے یہ جہنمی گروہ ہے جو ہمیشہ جہنم میں ہی رہے گا۔ «شُوَاظٌ» کے معنی آگ کے شعلے جو دھواں ملے ہوئے سبز رنگ کے جھلسا دینے والے ہوں گے۔ بعض کہتے ہیں بےدھویں کا آگ کے اوپر کا شعلہ جو اس طرح لپکتا ہے کہ گویا پانی کی موج ہے۔ «‏‏‏‏نُحَاسٌ» کہتے ہیں دھویں کو، یہ لفظ نون کے زبر سے بھی آتا ہے لیکن یہاں قرأت نون کے پیش سے ہی ہے۔ نابغہ کے شعر میں بھی یہ لفظ اسی معنی میں ہے۔ ہاں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ «شواظ» سے مراد وہ شعلہ ہے جس میں دھواں نہ ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی سند میں امیہ بن صلت کا شعر پڑھ کر سنایا۔ اور «‏‏‏‏نُحَاسٌ» کے معنی آپ نے کئے ہیں محض دھواں جس میں شعلہ نہ ہو اور اس کی شہادت میں بھی ایک عربی شعر نابغہ کا پڑھ کر سنایا۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:597/11) مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں «نُحَاسٌ» سے مراد پیتل ہے جو پگھلایا جائے گا اور ان کے سروں پر بہایا جائے گا۔ بہر صورت مطلب یہ ہے کہ اگر تم قیامت کے دن میدان محشر سے بھاگنا چاہو تو میرے فرشتے اور جہنم کے داروغے تم پر آگ برسا کر دھواں چھوڑ کر تمہارے سر پر پگھلا ہوا پیتل بہا کر تمہیں واپس لوٹا لائیں گے ، تم نہ ان کا مقابلہ کر سکتے ہو، نہ انہیں دفع کر سکتے ہو ، نہ ان سے انتقام لے سکتے ہو۔ پس تم اپنے رب کی کس کس نعمت سے انکار کرو گے؟۔ الرحمن
32 الرحمن
33 الرحمن
34 الرحمن
35 الرحمن
36 الرحمن
37 آسمان پھٹ جائے گا وقت احتساب ہو گا تتتتت الرحمن
38 الرحمن
39 الرحمن
40 الرحمن
41 الرحمن
42 الرحمن
43 الرحمن
44 الرحمن
45 الرحمن
46 فکر آخرت اور انسان ابن شوذب اور عطا خراسانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں آیت «‏‏‏‏وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ» ‏‏‏‏ (55- الرحمن:46) صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ عطیہ بن قیس رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ آیت اس شخص کے بارے میں نازل ہوئی ہے جس نے کہا تھا مجھے آگ میں جلا دینا تاکہ میں اللہ تعالیٰ کو ڈھونڈانے پر نہ ملوں ، یہ کلمہ کہنے کے بعد ایک رات ایک دن توبہ کی اللہ تعالیٰ نے قبول فرما لی اور اسے جنت میں لے گیا۔ (الدر المنشور-202/6) لیکن صحیح بات یہ ہے کہ یہ آیت عام ہے، ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ کا قول بھی یہی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ «وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہِ وَنَہَی النَّفْسَ عَنِ الْہَوَیٰ» (النازعات:40) جو شخص قیامت کے دن اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے کا ڈر اپنے دل میں رکھتا ہے اور اپنے آپ کو نفس کی خواہشوں سے بچاتا ہے اور سرکشی نہیں کرتا زندگانی دنیا کے پیچھے پڑ کر آخرت سے غفلت نہیں کرتا بلکہ آخرت کی فکر زیادہ کرتا ہے اور اسے بہتر اور پائیدار سمجھتا ہے ، فرائض بجا لاتا ہے ، محرمات سے رکتا ہے ، قیامت کے دن اسے ایک چھوڑ دو دو جنتیں ملیں گی۔ صحیح بخاری میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ دو جنتیں چاندی کی ہوں گی اور ان کا تمام سامان بھی چاندی کا ہی ہو گا اور دو جنتیں سونے کی ہوں گی ان کے برتن اور جو کچھ ان میں ہے سب سونے کا ہو گا ، ان جنتیوں میں اور دیدار باری میں کوئی چیز حائل نہ ہو گی سوائے اس کبریائی کے پردے کے جو اللہ عزوجل کے چہرے پر ہے یہ جنت عدن میں ہوں گے } ، (صحیح بخاری:4878) یہ حدیث صحاح کی اور کتابوں میں بھی ہے بجز ابوداؤد کے راوی حدیث حماد رحمہ اللہ فرماتے ہیں میرے خیال میں تو یہ حدیث مرفوع ہے۔ تفسیر ہے اللہ تعالیٰ کے فرمان «‏‏‏‏وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ» (55-الرحمن:46) اور آیت «‏‏‏‏وَمِنْ دُوْنِہِمَا جَنَّتٰنِ» (55-الرحمن:62) کی۔ سونے کی دو جنتیں مقربین کے لیے اور چاندی کی دو جنتیں اصحاب یمین کے لیے ۔ ابوالدرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ اس آیت کی تلاوت کی تو میں نے کہا اگرچہ زنا اور چوری بھی اس سے ہو گئی ہو ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اسی آیت کی تلاوت کی میں نے پھر یہی کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر یہی آیت پڑھی میں نے پھر یہی سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگرچہ ابوالدرداء کی ناک خاک آلود ہو جائے ۔ (نسائی فی التفسیر:580،قال الشیخ الألبانی:صحیح) بعض سند سے یہ روایت موقوف بھی مروی ہے اور سیدنا ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ جس دل میں اللہ کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف ہو گا ناممکن ہے کہ اس سے زنا ہو یا وہ چوری کرے۔ یہ آیت عام ہے انسانوں اور جنات دونوں کو شامل ہے اور اس بات کی بہترین دلیل ہے کہ جنوں میں بھی جو ایمان لائیں اور تقویٰ کریں ، وہ جنت میں جائیں گے ، اسی لیے جن و انس کو اس کے بعد خطاب کر کے فرماتا ہے کہ اب تم اپنے رب کی کس کس نعمت کی تکذیب کرو گے؟ پھر ان دونوں جنتوں کے اوصاف بیان فرماتا ہے کہ یہ نہایت ہی سرسبز و شاداب ہیں ، بہترین اعلیٰ خوش ذائقہ عمدہ اور تیار پھل ہر قسم کے ان میں موجود ہیں۔ تمہیں یہ زیب نہیں دیتا کہ تم اپنے پروردگار کی کسی نعمت کا انکار کرو۔ «افنان» شاخوں اور ڈالیوں کو کہتے ہیں- یہ اپنی کثرت سے ایک دوسری سے ملی جلی ہوئی ہوں گی اور سایہ دار ہوں گی جن کا سایہ دیواروں پر بھی چڑھا ہوا ہو گا، عکرمہ رضی اللہ عنہ یہی معنی بیان کرتے ہیں اور عربی کے شعر کو اس پر دلیل میں وارد کرتے ہیں، یہ شاخیں سیدھی اور پھیلی ہوئی ہوں گی، رنگ برنگ کی ہوں گی۔ یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے کہ ان میں طرح طرح کے میوے ہوں گی، کشادہ اور گھنے سایہ والی ہوں گی۔ یہ تمام اقوال صحیح ہیں اور ان میں کوئی منافاۃ نہیں یہ تمام اوصاف ان شاخوں میں ہوں گے۔ اسماء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سدرۃ المنتہیٰ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ” اس کی شاخوں کا سایہ اس قدر دراز ہے کہ سوار سو سال تک اس میں چلا جائے “ ۔ یا فرمایا کہ سو سوار اس کے تلے سایہ حاصل کر لیں۔ سونے کی ٹڈیاں اس پر چھائی ہوئی تھیں اس کے پھل بڑے بڑے مٹکوں اور بہت بڑی گول جتنے تھے- (سنن ترمذی:2541،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) پھر ان میں نہریں بہہ رہی ہیں تاکہ ان درختوں اور شاخوں کو سیراب کرتی رہیں اور بکثرت اور عمدہ پھل لائیں۔ اب تو تمہیں اپنے رب کی نعمتوں کی قدر کرنی چاہیئے ایک کا نام «تسنیم» ہے، دوسری کا «سلسبیل» ہے- یہ دونوں نہریں پوری روانگی کے ساتھ بہہ رہی ہیں۔ ایک ستھرے پانی کی دوسری لذت والے بےنشے کے شراب کی، ان میں ہر قسم کے پھلوں کے جوڑے بھی موجود ہیں اور پھل بھی وہ جن سے تم صورت شناس تو ہو لیکن لذت شناس نہیں ہو کیونکہ وہاں کی نعمتیں نہ کسی آنکھ نے دیکھی ہیں ، نہ کسی کان نے سنی ہیں ، نہ کسی دماغ میں آ سکتی ہیں، تمہیں رب کی نعمتوں کی ناشکری سے رک جانا چاہیئے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں دنیا میں جتنے بھی کڑوے میٹھے پھل ہیں ، وہ سب جنت میں ہوں گے یہاں تک کہ «حنظل» یعنی اندرائن بھی۔ ہاں دنیا کی ان چیزوں اور جنت کی ان چیزوں کے نام تو ملتے جلتے ہیں حقیقت اور لذت بالکل ہی جداگانہ ہے یہاں تو صرف نام ہیں اصلیت تو جنت میں ہے، اس فضیلت کا فرق وہاں جانے کے بعد ہی معلوم ہو سکتا ہے۔ الرحمن
47 الرحمن
48 الرحمن
49 الرحمن
50 الرحمن
51 الرحمن
52 الرحمن
53 الرحمن
54 جنت یافتہ لوگ جنتی لوگ بےفکری سے تکئیے لگائے ہوئے ہوں گے، خواہ لیٹے ہوئے ہوں خواہ باآرام بیٹھے ہوئے تکیہ سے لگے ہوئے ہوں، ان کے بچھاؤنے بھی اتنے بڑھیا ہوں گے کہ ان کے اندر کا استر بھی دبیز اور خالص زرین ریشم کا ہو گا ، پھر اوپر کا ابرا کچھ ایسا ہو گا، اسے تم خود سوچ لو ۔ مالک بن دینار اور سفیان ثوری رحمہ اللہ علیہم فرماتے ہیں استر کا یہ حال ہے اور ابرا تو محض نورانی ہو گا- جو سراسر اظہار رحمت و نور ہو گا ۔ پھر اس پر بہترین گلکاریاں ہوں گی ، جنہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ان جنتوں کے پھل جنتیوں سے بالکل قریب ہیں ۔ جب چاہے جس حال میں چاہیں وہاں سے لے لیں ، لیٹے ہوں تو بیٹھا ہونے کی اور بیٹھے ہوں تو کھڑا ہونے کی ضرورت نہیں، خودبخود شاخیں جھوم جھوم کر جھکتی رہتی ہیں ۔ جیسے فرمایا «‏‏‏‏قُطُوْفُہَا دَانِیَۃٌ» (69- الحاقۃ:23) اور فرمایا «‏‏‏‏وَدَانِیَۃً عَلَیْہِمْ ظِلٰلُہَا وَذُلِّـلَتْ قُـطُوْفُہَا تَذْلِیْلًا» ‏‏‏‏ (76- الإنسان:14) الخ ، یعنی بے حد قریب میوے ہیں لینے والے کو کوئی تکلیف یا تکلف کی ضرورت نہیں ، خود شاخیں جھک جھک کر انہیں میوے دے رہی ہیں پس تم اپنے رب کی نعمتوں کے انکار سے باز رہو ۔ الرحمن
55 الرحمن
56 حوروں کے اوصاف چونکہ فروش کا بیان ہوا تھا تو ساتھ ہی فرمایا کہ ان فروش پر ان کے ساتھ ان کی بیویاں ہوں گی، جو عفیفہ، پاکدامن، شرمیلی نگاہوں والی ہوں گی اپنے خاوندوں کے سوا کسی پر نظریں نہ ڈالیں گی اور ان کے خاوند بھی ان پر سو جان سے مائل ہوں گے۔ یہ بھی جنت کی کسی چیز کو اپنے ان مومن خاوندوں سے بہتر نہ پائیں گی۔ یہ بھی وارد ہوا ہے کہ یہ حوریں اپنے خاوندوں سے کہیں گی اللہ کی قسم ساری جنت میں میرے لیے تم سے بہتر کوئی چیز نہیں، اللہ خوب جانتا ہے کہ میرے دل میں جنت کی کسی چیز کی خواہش و محبت اتنی نہیں جتنی آپ کی ہے، اللہ کا شکر ہے کہ اس نے آپ کو میرے حصے میں کر دیا اور مجھے آپ کی خدمت کا شرف بخشا۔ یہ حوریں کنواری اچھوتی نوجوان ہوں گی ان جنتیوں سے پہلے ان کے پاک جسم کو کسی انس و جن کا ہاتھ بھی نہ لگا۔ یہ آیت بھی مومن جنوں کے جنت میں جانے کی دلیل ہے۔ ضمرہ بن حبیب رحمہ اللہ سے سوال ہوتا ہے کہ کیا مومن جن بھی جنت میں جائیں گے؟ آپ نے فرمایا ہاں اور جنیہ عورتوں سے ان کے نکاح ہوں گے جیسے انسان کے انسان عورتوں سے۔ پھر یہی آیتیں تلاوت کیں پھر ان حوروں کی تعریف بیان ہو رہی ہے کہ وہ اپنی صفائی خوبی اور حسن میں ایسی ہو گی جیسے یاقوت و مرجان، یاقوت سے صفائی میں تشبیہ دی اور مرجان سے بیاض میں، پس مرجان سے مراد یہاں لؤلؤ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ” اہل جنت کی بیویوں میں سے ہر ایک ایسی ہے کہ ان کی پنڈلی کی سفیدی ستر ستر حلوں کے پہننے کے بعد بھی نظر آتی ہے یہاں تک کہ اندر کا گودا بھی“ ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت «کَاَنَّہُنَّ الْیَاقُوْتُ وَالْمَرْجَانُ» (55- الرحمن:58) پڑھی اور فرمایا : ” دیکھو یاقوت ایک پتھر ہے لیکن قدرت نے اس کی صفائی اور جوت ایسی رکھی ہے کہ اس کے بیچ میں دھاگہ پرو دو تو باہر سے نظر آتا ہے “ (ابن ابی حاتم) یہ روایت ترمذی میں بھی موقوفاً عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور امام ترمذی اس کو زیادہ صحیح بتاتے ہیں۔ (سنن ترمذی:2533،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) مسند احمد میں ہے پیغمبر مدنی احمد مجتبیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ہر اہل جنت کی دو بیویاں اس صفت کی ہوں گی کہ ستر ستر حلے پہن لینے کے بعد بھی ان کی پنڈلیوں کی جھلک نمودار رہے گی بلکہ اندر کا گودا بھی بوجہ صفائی کے دکھائی دے گا۔ (مسند احمد:34/2) صحیح مسلم میں ہے کہ { یا تو فخر کے طور پر یا مذاکراہ کے طور پر یہ بحث چھڑ گئی کہ جنت میں عورتیں زیادہ ہوں گی یا مرد؟ تو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیا ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا؟ کہ پہلی جماعت جو جنت میں جائے گی وہ چاند جیسی صورتوں والی ہو گی ان کے پیچھے جو جماعت ہو گی وہ آسمان کے بہترین چمکیلے تاروں جیسے چہروں والی ہو گی۔ ان میں سے ہر شخص کی دو بیویاں ایسی ہوں گی جن کی پنڈلی کا گودا گوشت کے پیچھے سے نظر آئے گا اور جنت میں کوئی بغیر بیوی کے نہ ہو گا۔ } (صحیح مسلم:2834-14) اس حدیث کی اصل بخاری میں بھی ہے- مسند احمد میں ہے { نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ کی راہ کی صبح اور شام ساری دنیا سے اور جو اس میں ہے سب سے بہتر ہے۔ جنت میں جو جگہ ملے گی اس میں سے ایک کمان یا ایک کوڑے کے برابر کی جگہ ساری دنیا اور اس کی ساری چیزوں سے افضل ہے ، اگر جنت کی عورتوں میں سے ایک عورت دنیا میں جھانک لے تو زمین و آسمان کو جگمگا دے اور خوشبو سے تمام عالم مہک اٹھے۔ ان کے سر کا دوپٹہ بھی دنیا اور دنیا کی ہر چیز سے گراں ہے، } صحیح بخاری میں یہ حدیث بھی ہے- (صحیح بخاری:2796) پھر ارشاد ہے کہ جس نے دنیا میں نیکی کی اس کا بدلہ آخرت میں سلوک و احسان کے سوا اور کچھ نہیں، جیسے ارشاد ہے «‏‏‏‏لِلَّذِیْنَ اَحْسَـنُوا الْحُسْنٰی وَزِیَادَۃٌ» (10-یونس:26) نیکی کرنے والے کے لیے نیکی ہے اور زیادتی یعنی جنت اور دیدار باری ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت کر کے اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم سے پوچھا : ” جانتے ہو تمہارے رب نے کیا کہا؟ “ انہوں نے کہا : اللہ اور اس کے رسول کو ہی علم ہے ۔ آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں جس پر اپنی توحید کا انعام دنیا میں کروں اس کا بدلہ آخرت میں جنت ہے (بغوی فی التفسیر:41/251،ضعیف) اور چونکہ یہ بھی ایک عظیم الشان نعمت ہے جو دراصل کسی عمل کے بدلے نہیں بلکہ صرف اسی کا احسان اور فضل و کرم ہے اس لیے اس کے بعد ہی فرمایا اب تم میری کس کس نعمت سے لاپرواہی برتو گے ؟ رب کے مقام سے ڈرنے والے کی بشارت کے متعلق ترمذی شریف کی یہ حدیث بھی خیال میں رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جو ڈرے گا وہ رات کے وقت ہی کوچ کرے گا اور جو اندھیری رات میں چل پڑا وہ منزل مقصود تک پہنچ جائے گا خبردار ہو جاؤ اللہ کا سودا بہت گراں ہے یاد رکھو! وہ سودا جنت ہے، “ امام ترمذی رحمہ اللہ اس حدیث کو غریب بتاتے ہیں } (سنن ترمذی:2450،قال الشیخ الألبانی:صحیح) سیدنا ابو الدرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے منبر پر وعظ بیان فرماتے ہوئے سنا کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت «‏‏‏‏وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ» ‏‏‏‏ (55-الرحمن:46) پڑھی تو میں نے کہا اگرچہ زنا کیا ہو؟ اگرچہ چوری کی ہو؟ باقی حدیث اوپر گزر چکی ہے ۔ الرحمن
57 الرحمن
58 الرحمن
59 الرحمن
60 الرحمن
61 الرحمن
62 اصحاب یمین اور مقربین یہ دونوں جنتیں ہیں جن کا ذکر ان آیتوں میں ہے ان جنتوں سے کم مرتبہ ہیں جن کا ذکر پہلے گزرا اور وہ حدیث بھی بیان ہو چکی جس میں ہے دو جنتیں سونے کی اور دو چاندی کی۔ پہلی دو تو مقربین خاص کی جگہ ہیں اور یہ دوسری دو اصحاب یمین کی- الغرض درجے اور فضیلت میں یہ دو ان دو سے کم ہیں، جس کی دلیلیں بہت سی ہیں- ایک یہ کہ ان کا ذکر اور صفت ان سے پہلے بیان ہوئی اور یہ تقدیم بیان بھی دلیل ہے ان کی فضیلت کی ۔ پھر یہاں آیت «‏‏‏‏وَمِنْ دُوْنِہِمَا جَنَّتٰنِ» (55-الرحمن:62) فرمانا صاف ظاہر کرتا ہے کہ یہ ان سے کم مرتبہ ہیں وہاں ان کی تعریف میں آیت «‏‏‏‏ذَوَاتَآ اَفْنَانٍ» ‏‏‏‏(55-الرحمن:48) کہا تھا یعنی بکثرت مختلف مزے کے میووں والی شاخوں دار۔ یہاں فرمایا آیت «‏‏‏‏مُدْہَامَّتٰنِ» (55-الرحمن:64) یعنی پانی کی پوری تری سے سیاہ۔ الرحمن
63 الرحمن
64 الرحمن
65 الرحمن
66 الرحمن
67 الرحمن
68 جنت کے میوے ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں سبز ، محمد بن کعب فرماتے ہیں سبزی سے پُر، قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس قدر پھل پکے ہوئے تیار ہیں کہ وہ ساری جنت سر سبز معلوم ہو رہی ہے، الغرض وہاں شاخوں کی پھیلاوٹ بیان ہوئی یہاں درختوں کی کثرت بیان فرمائی گئی تو ظاہر ہے کہ اس میں اور اس میں بھی بہت فرق ہے، ان کی نہروں کی بابت لفظ «تَجْرِیَانِ» ‏‏‏‏ ہے اور یہاں لفظ «نَضَّاخَتٰنِ» ہے یعنی ابلنے والی ، اور یہ ظاہر ہے کہ «نضخ» سے «جری» یعنی ابلنے سے بہنا بہت برتری والا ہے ۔ ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں یعنی پُر ہیں ، پانی رکتا نہیں اور لیجئے وہاں فرمایا تھا کہ ہر قسم کے میووں کے جوڑے ہیں اور یہاں فرمایا اس میں میوے اور کھجوریں اور انار ہیں تو ظاہر ہے کہ پہلے کے الفاظ عمومیت کے لیے ہوئے ہیں وہ قسم کے اعتبار سے اور کمیت کے اعتبار سے بھی اس سے افضیلت رکھتے ہیں، کیونکہ یہاں لفظ «‏‏‏‏فَاکِہَۃ» گو نکرہ ہے لیکن سیاق میں اثبات کے ہے اس لیے عام نہ ہو گا، اسی لیے بطور تفسیر کے بعد میں «‏‏‏‏نَخْلٌ وَرُمَّانٌ» کہہ دیا۔ جیسے عطف خاص عام پر ہوتا ہے- امام بخاری رحمہ اللہ وغیرہ کی تحقیق بھی یہی ہے ۔ کھجور اور انار کو «خاصۃ» اس لیے ذکر کیا کہ اور میووں پر انہیں شرف ہے۔ مسند عبد بن حمید میں ہے یہودیوں نے آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ کیا جنت میں میوے ہیں؟ آپ نے اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا : ” ہاں ہیں “ ، انہوں نے پوچھا کیا جنتی دنیا کی طرح وہاں بھی کھائیں گے پئیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ہاں بلکہ بہت کچھ زیادہ اور بہت کچھ زیادہ“ ، انہوں نے کہا پھر وہاں فضلہ بھی نکلے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” نہیں نہیں بلکہ پسینہ آ کر سب ہضم ہو جائے گا“ ۔ (ضعیف الترغیب:242/2،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ابن ابی حاتم کی ایک مرفوع حدیث میں ہے جنتی کھجور کے درختوں کے ریش کا جنتیوں کا لباس بنائیں گے۔ یہ سرخ رنگ سونے کے ہوں گے، اس کے تنے سبز زمردیں ہوں گے ، اس کے پھل شہد سے زیادہ میٹھے اور مکھن سے زیادہ نرم ہوں گے ، گٹھلی بالکل نہ ہو گی۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ میں نے جنت کے انار دیکھے اتنے بڑے تھے جیسے اونٹ مع ہودج (ضعیف)- «خیرات» کے معنی بہ کثرت اور بہت حسین نہایت نیک خلق اور بہتر خلق- ایک مرفوع حدیث میں بھی یہ معنی مروی ہیں۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:33172،ضعیف) الرحمن
69 الرحمن
70 جنت کی نعمتیں ایک اور حدیث میں ہے کہ حورعین جو گانا گائیں گی ان میں یہ بھی ہو گا ہم خوش خلق خوبصورت ہیں ، جو بزرگ خاوندوں کے لیے پیدا کی گئی ہیں، یہ پوری حدیث سورۃ الواقعہ کی تفسیر میں ابھی آئے گی۔ «ان شاء اللہ تعالیٰ» یہ لفظ تشدید سے بھی پڑھا گیا ہے ۔ پھر سوال ہوتا ہے کہ اب تم اپنے رب کی کس کس نعمت کی تکذیب کرتے ہو؟ حوریں جو خیموں میں رہتی ہیں، یہاں بھی وہی فرق ملاحظہ ہو کہ وہاں تو فرمایا تھا کہ خود وہ حوریں اپنی نگاہ نیچی رکھتی ہیں اور یہاں فرمایا ان کی نگاہیں نیچی کی گئی ہیں، پس اپنے آپ ایک کام کرنا اور دوسرے سے کرایا جانا ان دونوں میں کس قدر فرق ہے ، گو پردہ دونوں صورتوں میں حاصل ہے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہر مسلمان کے لیے خیرہ یعنی نیک اور بہترین نورانی حور اور ہر خیرہ کے لیے خیمہ ہے اور خیمہ کے چار دروازے ہیں جن میں سے ہر روز تحفہ کرامت ہدیہ اور انعام آتا رہتا ہے۔ نہ وہاں کوئی فساد ہے، نہ سختی، نہ گندگی، نہ بدبو۔ حوروں کی صحبت ہے جو اچھوتے صاف سفید چمکیلے موتیوں جیسی ہیں۔ صحیح بخاری شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” جنت میں ایک خیمہ ہے درمجوف، جس کا عرض ساٹھ میل کا ہے اس کے ہر ہر کونے میں جنتی کی بیویاں ہیں جو دوسرے کونے والیوں کو نظر نہیں آتیں مومن ان سب کے پاس آتا جاتا رہے گا۔ (صحیح بخاری:4879) دوسری روایت میں چوڑائی کا تیس میل ہونا مروی ہے ، یہ حدیث صحیح مسلم شریف میں بھی ہے- سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں خیمہ ایک ہی لؤلؤ کا ہے جس میں ستر دروازے موتی کے ہیں ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں جنت میں ایک خیمہ ہو گا جو ایک موتی کا بنا ہوا ہو گا، چار فرسخ چوڑا ، جس کے چار ہزار دروازے ہوں گے اور چوکھٹیں کی سونے کی ہوں گی۔ ایک مرفوع حدیث میں ہے ادنیٰ درجے کے جنتی کے اسی (80) ہزار خادم ہوں گے اور بہتر (72) بیویاں ہوں گی اور لؤلؤ زبرجد کا محل ہو گا جو جابیہ سے صنعا تک پہنچے ۔ (سنن ترمذی:2562،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) پھر فرماتا ہے ان بےمثل حسینوں کے پنڈے اچھوتے ہیں کسی جن و انس کا گزر ان کے پاس سے نہیں ہوا۔ پہلے بھی اس قسم کی آیت مع تفسیر گزر چکی ہے ، ہاں پہلے جنت کی حوروں کے اوصاف میں اتنا جملہ وہاں تھا کہ وہ یاقوت و مرجان جیسی ہیں، یہاں ان کے لیے یہ نہیں فرمایا گیا، پھر سوال ہوا کہ تمہیں رب کی کس کس نعمت کا انکار ہے؟ یعنی کسی نعمت کا انکار نہ کرنا چاہیئے، یہ جنتی سبز رنگ، اعلیٰ قیمتی فرشوں، غالیچوں اور تکیوں پر ٹیک لگائے بیٹھے ہوئے ہوں گے ، تخت ہوں گے اور تختوں پر پاکیزہ اعلیٰ فرش ہوں گے اور بہترین منقش تکئے لگے ہوئے ہوں گے، یہ تخت، یہ فرش، یہ تکئے جنت کے باغیچوں اور ان کی کیاریوں پر ہوں گے اور یہی ان کے فرش ہوں گے، کوئی سرخ رنگ ہو گا ، کوئی زرد رنگ اور کوئی سبز رنگ، جنتیوں کے کپڑے بھی ایسے ہی اعلیٰ اور بالا ہوں گے، دنیا میں کوئی ایسی چیز نہیں جس سے انہیں تشبیہ دی جا سکے ، یہ بسترے مخملی ہوں گے ، جو بہت نرم اور بالکل خالص ہوں گے، کئی کئی رنگ کے ملے جلے نقش ان میں بنے ہوئے ہوں گے، ابوعبیدہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں عبقر ایک جگہ کا نام ہے جہاں منقش بہترین کپڑے بنے جاتے تھے، خلیل بن احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ہر نفیس اور اعلیٰ چیز کو عرب عبقری کہتے ہیں۔ چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی نسبت فرمایا ” میں نے کسی عبقری کو نہیں دیکھا جو عمر کی طرح پانی کے بڑے بڑے ڈول کھینچتا ہو “ ۔ (صحیح بخاری:3682) یہاں یہ بھی خیال فرمائیے کہ پہلی دو جنتوں کے فرش و فروش اور وہاں کے تکیوں کی جو صفت بیان کی گئی ہے وہ ان سے اعلیٰ ہے، وہاں بیان فرمایا گیا تھا کہ ان کے استر یعنی اندر کا کپڑا خالص دبیز ریشم ہو گا پھر اوپر کے کپڑے کا بیان نہیں ہوا تھا اس لیے کہ جس کا استر اتنا اعلیٰ ہے اس کے ابرے یعنی اوپر کے کپڑے کا تو کہنا ہی کیا ہے؟ پھر اگلی دو جنتوں کے اوصاف کے خاتمے پر فرمایا تھا کہ اطاعت کا صلہ سوا عنایت کے اور کیا ہو سکتا ہے؟ تو اہل جنت کے اوصاف میں احسان کو بیان فرمایا جو اعلیٰ مرتبہ اور غایت ہے۔ جیسے کہ جبرائیل علیہ السلام والی حدیث میں ہے کہ انہوں نے اسلام کے بارے میں سوال کیا پھر ایمان کے بارے میں، پھر احسان کے بارے میں، پس یہ کئی کئی وجوہ ہیں جن سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ پہلے کی دو جنتوں کو ان دو جنتوں پر بہترین فضیلت حاصل ہے، اللہ تعالیٰ کریم و وہاب سے ہمارا سوال ہے کہ وہ ہمیں بھی ان جنتیوں میں سے کرے جو ان دو جنتوں میں ہوں گے جن کے اوصاف پہلے بیان ہوئے ہیں۔ «آمین» وہی مستحق احترام و اکرام ہے پھر فرماتا ہے تیرے رب ذوالجلال والاکرام کا نام بابرکت ہے وہ جلال والا ہے یعنی اس لائق ہے کہ اس کا جلال مانا جائے اور اس کی بزرگی کا پاس کر کے اس کی نافرمانی نہ کی جائے بلکہ کامل اطاعت گزاری کی جائے اور وہ اس قابل ہے کہ اس کا اکرام کیا جائے یعنی اس کی عبادت کی جائے اس کے سوا دوسرے کی عبادت نہ کی جائے اس کا شکر کیا جائے ناشکری نہ کی جائے اس کا ذکر کیا جائے اور اسے بھلایا نہ جائے۔ وہ عظمت اور کبریائی والا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کا اجلال کرو اس کی عظمت کو مانو وہ تمہیں بخش دے گا ۔ (مسند احمد:199/5،ضعیف) ایک اور حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ کی عظمت ماننے میں یہ بھی داخل ہے کہ بوڑھے مسلمان کی اور بادشاہ کی اور عامل قرآن جو قرآن میں کمی زیادتی نہ کرتا ہو یعنی نہ اس میں غلو کرتا ہو نہ کمی کرتا ہو عزت کی جائے۔ (سنن ابوداود:4843،قال الشیخ الألبانی:حسن) ابویعلی میں ہے «یا ذَالجَلالِ وَ اْلاِکْرام» ‏‏‏‏ کے ساتھ چمٹ جاؤ ترمذی میں بھی یہ حدیث ہے، امام ترمذی رحمہ اللہ اس کی سند کو غیر محفوظ اور غریب بتاتے ہیں (سنن ترمذی:3525،قال الشیخ الألبانی:صحیح) مسند احمد میں دوسری سند کے ساتھ یہ حدیث مروی ہے اس میں «یا» کا لفظ نہیں (مسند احمد:177/4،حسن) جوہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب کوئی کسی کو چمٹ جائے اسے تھام لے تو عرب کہتے ہیں «اَلَظَّ» ‏‏‏‏ یہی لفظ اس حدیث میں آیا ہے، تو مطلب یہ ہے کہ الحاح و خلوص عاجزی اور مسکینی کے ساتھ ہمیشگی اور لزوم سے دامن الہیہ میں لٹک جاؤ صحیح مسلم اور سنن اربعہ میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے سلام پھیرنے کے بعد صرف اتنی ہی دیر بیٹھتے تھے کہ یہ کلمات کہہ لیں «اَللّٰہُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ، وَمِنْکَ السَّلَامُ، تَباَرَکْتَ یَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِکْرَامِ» «الحمداللہ» اللہ کے فضل و کرم سے سورۃ الرحمن کی تفسیر ختم ہوئی۔ اللہ کا شکر ہے۔ الرحمن
71 الرحمن
72 الرحمن
73 الرحمن
74 الرحمن
75 الرحمن
76 الرحمن
77 الرحمن
78 الرحمن
0 الواقعة
1 تفسیر سورۂ واقعہ «واقعہ» قیامت کا نام ہے کیونکہ اس کا ہونا یقینی امر ہے ۔ جیسے اور آیت میں ہے «فَیَوْمَیِٕذٍ وَّقَعَتِ الْوَاقِعَۃُ» (69-الحاقۃ:15) ’ اس دن ہو پڑے گی ‘ ، اس کا واقعہ ہونا حتمی امر ہے ، نہ اسے کوئی ٹال سکے ، نہ ہٹا سکے ، وہ اپنے مقررہ وقت پر آ کر ہی رہے گی ۔ جیسے اور آیت میں ہے «اِسْتَجِیْبُوْا لِرَبِّکُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ یَوْمٌ لَّا مَرَدَّ لَہٗ مِنَ اللّٰہِ مَا لَکُمْ مِّنْ مَّلْجَاٍ یَّوْمَیِٕذٍ وَّمَا لَکُمْ مِّنْ نَّکِیْرٍ» (42-الشوری:47) ’ اپنے پروردگار کی باتیں مان لو اس سے پہلے کہ وہ دن آئے جسے کوئی دفع کرنے والا نہیں ‘ ۔ اور جگہ فرمایا «سَاَلَ سَایِٕلٌ بِعَذَابٍ وَّاقِعٍ» (70-المعارج:1) ’ سائل کا سوال اس کے متعلق ہے جو یقیناً آنے والا ہے ‘ ، جسے کوئی روک نہیں سکتا ۔ یقینی امر اور آیت میں ہے «وَیَوْمَ یَقُوْلُ کُنْ فَیَکُوْنُ قَوْلُہُ الْحَقٰ وَلَہُ الْمُلْکُ یَوْمَ یُنْفَخُ فِی الصٰوْرِ عٰلِمُ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ وَہُوَ الْحَکِیْمُ الْخَبِیْرُ» (6-الانعام:73) ’ جس دن اللہ تعالیٰ فرمائے گا ہو جا تو ہو جائے گی ۔ وہ عالم غیب و ظاہر ہے اور وہ حکیم و خبیر ہے ‘ ۔ قیامت «کاذبہ» نہیں یعنی برحق ہے ضرور ہونے والی ہے اس دن نہ تو دوبارہ آنا ہے ، نہ وہاں سے لوٹنا ہے ، نہ واپس آنا ہے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:622/11) «کاذبہ» مصدر ہے جیسے «عاقبۃ» اور «عافیہ» وہ دن پست کرنے والا اور ترقی دینے والا ہے ، بہت لوگوں کو پست کر کے جہنم میں پہنچا دے گا ، جو دنیا میں بڑے ذی عزت و وقعت تھے اور بہت سے لوگوں کو وہ اونچا کر دے گا ، اعلیٰ علیین ہو کر جنتی ہو جائیں گے ، متکبرین کو وہ ذلیل کر دے گی اور متواضعین کو وہ عزیز کر دے گی ، وہی نزدیک و دور والوں کو سنا دے گی اور ہر اک کو چوکنا کر دے گی ، وہ نیچا کرے گی اور قریب والوں کو سنائے گی ، پھر اونچی ہو گی اور دور والوں کو سنائے گی ، زمین ساری کی ساری لرزنے لگے گی ، چپہ چپہ کپکپانے لگے گا ، طول و عرض زمین میں زلزلہ پڑ جائے گا ، اور بےطرح ہلنے لگے گی ، یہ حالت ہو جائے گی کہ گویا چھلنی میں کوئی چیز ہے جسے کوئی ہلا رہا ہے اور آیت میں ہے «اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَہَا» ۔ (99-الزلزلۃ:1) اور جگہ ہے «یٰٓاَیٰہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمْ اِنَّ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَیْءٌ عَظِیْمٌ» (22-الحج:1) ’ لوگو اللہ سے ڈرو جو تمہارا رب ہے یقین مانو کہ قیامت کا زلزلہ بہت بڑی چیز ہے ‘ ۔ پھر فرمایا کہ پہاڑ اس دن ریزہ ریزہ ہو جائیں گے اور جگہ «یَوْمَ تَرْجُفُ الْاَرْضُ وَالْجِبَالُ وَکَانَتِ الْجِبَالُ کَثِیْبًا مَّہِیْلًا» (73-المزمل:14) آئے ہیں ، پس وہ مثل غبار پریشان کے ہو جائیں گے جسے ہوا ادھر ادھر بکھیر دے اور کچھ نہ رہے ۔ «ہَبَاءً» ان شراروں کو بھی کہتے ہیں جو آگ جلاتے وقت پتنگوں کی طرح اڑتے ہیں ، نیچے گرنے پر وہ کچھ نہیں رہتے ۔ «مُنْبَث» اس چیز کو کہتے ہیں جسے ہوا اوپر کر دے اور پھیلا کر نابود کر دے جیسے خشک پتوں کے چورے کو ہوا ادھر سے ادھر کر دیتی ہے ۔ اس قسم کی اور آیتیں بھی بہت سی ہیں ، جن سے ثابت ہے کہ پہاڑ اپنی جگہ ٹل جائیں گے ، ٹکڑے ہو جائیں گے پھر ریزہ ریزہ ہو کر بےنام و نشان ہو جائیں گے ۔ لوگ اس دن تین قسموں میں منقسم ہو جائیں گے ۔ ایک جماعت عرش کے دائیں ہو گی اور یہ لوگ وہ ہوں گے جو آدم کی دائیں کروٹ سے نکلے تھے نامہ اعمال داہنے ہاتھ دیئے جائیں گے اور دائیں جانب چلائے جائیں گے ، یہ جنتیوں کا عام گروہ ہے ۔ دوسری جماعت عرش کے بائیں جانب ہو گی یہ وہ لوگ ہوں گے جو آدم کی بائیں کروٹ سے نکالے گئے تھے ، انہیں نامہ اعمال بائیں ہاتھ میں دیئے گئے تھے اور بائیں طرف کی راہ پر لگائے گئے تھے ۔ یہ سب جہنمی ہیں ، اللہ تعالیٰ ہم سب کو محفوظ رکھے ۔ «آمین» تیسری جماعت اللہ عزوجل کے سامنے ہو گی یہ خاص الخاص لوگ ہیں ، یہ اصحاب «یمین» سے بھی زیادہ باوقعت اور خاص قرب کے مالک ہیں ۔ یہ اہل جنت کے سردار ہیں ان میں رسول علیہ السلام ہیں ، انبیاء علیہ السلام ہیں ، صدیق و شہداء ہیں ۔ یہ تعداد میں دائیں ہاتھ والوں کی بہ نسبت کم ہیں ۔ پس تمام اہل محشر کی تین قسمیں ہو جائیں گی جیسے کہ اس سورت کے آخر میں بھی اختصار کے ساتھ ان کی یہی تقسیم کی گئی ہے ۔ اسی طرح سورۃ فاطر میں فرمایا ہے «ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْکِتٰبَ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَا فَمِنْہُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِہٖ وَمِنْہُمْ مٰقْتَصِدٌ وَمِنْہُمْ سَابِقٌ بِالْخَــیْرٰتِ بِاِذْنِ اللّٰہِ ذٰلِکَ ہُوَ الْــفَضْلُ الْکَبِیْرُ» (35-فاطر:32) یعنی ’ پھر ہم نے اپنی کتاب کا وارث اپنے چیدہ بندوں کو بنایا پس ان میں سے بعض تو اپنے اوپر ظلم کرنے والے ہیں اور بعض میانہ روش ہیں اور بعض اللہ کے حکم سے نیکیوں کی طرف آگے بڑھنے والے ہیں ‘ ۔ پس یہاں بھی تین قسمیں ہیں یہ اس وقت جبکہ آیت «ظَالِمٌ لِّنَفْسِہِ وَمِنْہُم مٰقْتَصِدٌ» (35-فاطر:32) کی وہ تفسیر لیں جو اس کے مطابق ہے ، ورنہ ایک دوسرا قول بھی ہے جو اس آیت کی تفسیر کے موقعہ پر گزر چکا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ بھی یہی فرماتے ہیں ۔ دو گروہ تو جنتی اور ایک جہنمی ۔ ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں «وَاِذَا النٰفُوْسُ زُوِّجَتْ» (81-التکویر:7) ’ جب لوگوں کے جوڑے ملائے جائیں ‘ ، فرمایا : قسم قسم کی یعنی ہر عمل کے عامل کی ایک جماعت ۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : تم تین قسم پر ہو جاؤ گے ، یعنی اصحاب یمین ، اصحاب شمال اور سابقین ۔ مسند احمد میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی اور اپنے دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں بند کر لیں اور فرمایا : ” یہ جنتی ہیں ، مجھے کوئی پرواہ نہیں ، یہ سب جہنمی ہیں اور مجھے کوئی پرواہ نہیں “ ۔ (مسند احمد:239/5:ضعیف) مسند احمد میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جانتے ہو اللہ تعالیٰ کے سائے کی طرف قیامت کے دن سب سے پہلے کون لوگ جائیں گے ؟ “ انہوں نے کہا : اللہ اور اس کے رسول خوب جانتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” وہ لوگ جو جب اپنا حق دیئے جائیں تو قبول کر لیں اور جو حق ان پر ہو جب مانگا جائے ادا کر دیں اور لوگوں کے لیے بھی وہی حکم کریں جو خود اپنے لیے کرتے ہیں “ ۔ (مسند احمد:69/6:ضعیف) «سابقین» کون لوگ ہیں ؟ اس کے بارے میں بہت سے اقوال ہیں ، مثلاً انبیاء علیہ السلام ، اعلٰی علیین ، یوشع بن نون جو موسیٰ علیہ السلام پر سب سے پہلے ایمان لائے تھے ، وہ مومن جن کا ذکر سورۃ یٰسین میں ہے ، جو عیسیٰ علیہ السلام پر پہلے ایمان لائے تھے ، علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سبقت کر گئے تھے ، وہ لوگ جنہوں نے دونوں قبلوں کی طرف نماز پڑھی تھی ، ہر امت کے وہ لوگ جو اپنے اپنے نبیوں پر پہلے پہل ایمان لائے تھے ، وہ لوگ جو مسجد میں سب سے پہلے جاتے ہیں ، جو جہاد میں سب سے آگے نکلتے ہیں ۔ یہ سب اقوال دراصل صحیح ہیں یعنی یہ سب لوگ سابقین ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان کو آگے بڑھ کر دوسروں پر سبقت کر کے قبول کرنے والے سب اس میں داخل ہیں ، قرآن کریم میں اور جگہ ہے «وَسَارِعُوْٓا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَ» (3-آل عمران:133) ’ اپنے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف جلدی کرو جس کا عرض مثل آسمان و زمین کے ہے ‘ ، پس جس شخص نے اس دنیا میں نیکیوں کی طرف سبقت کی وہ آخرت میں اللہ کی نعمتوں کی طرف بھی سابق ہی رہے گا ، ہر عمل کی جزا اسی جنس سے ہوتی ہے ، جیسا جو کرتا ہے ویسا ہی پاتا ہے ، اسی لیے یہاں ان کی نسبت فرمایا گیا یہ مقربین اللہ ہیں یہ نعمتوں والی جنت میں ہیں ۔ ابن ابی حاتم میں سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ فرشتوں نے اللہ کی جناب میں عرض کی کہ پروردگار ! تو نے ابن آدم کے لیے تو دنیا بنا دی ہے وہ وہاں کھاتے پیتے ہیں اور بیوی بچوں سے لطف اٹھاتے ہیں پس ہمارے لیے آخرت کر دے جواب ملا کہ میں ایسا نہیں کروں گا ، انہوں نے تین مرتبہ یہی دعا کی ، پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا : میں نے جسے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا ، اسے ان جیسا ہرگز نہ کروں گا جنہیں میں نے صرف لفظ «کن» سے پیدا کیا ۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے بھی اس اثر کو اپنی کتاب «الرد علی الجہمیہ» میں وارد کیا ہے ، اس کے الفاظ یہ ہیں کہ اللہ عزوجل نے فرمایا : جسے میں نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا ہے اس کی نیک اولاد کو میں اس جیسا نہ کروں گا جسے میں نے کہا ہو جا تو وہ ہو گیا ۔ الواقعة
2 الواقعة
3 الواقعة
4 الواقعة
5 الواقعة
6 الواقعة
7 الواقعة
8 الواقعة
9 الواقعة
10 الواقعة
11 الواقعة
12 الواقعة
13 مقربین کون ہیں اور اولین کون؟ ارشاد ہوتا ہے کہ مقربین خاص بہت سے پہلوں میں ہیں اور کچھ پچھلوں میں سے بھی ہیں ، ان اوّلین و آخرین کی تفسیر میں کئی قول ہیں ، مثلاً اگلی امتوں میں سے اور اس امت میں سے ، امام ابن جریر رحمہ اللہ اسی قول کو پسند کرتے ہیں اور اس حدیث کو بھی اس قول کی پختگی میں پیش کرتے ہیں کہ نبی علیہ السلام نے فرمایا : ” ہم پچھلے ہیں اور قیامت کے دن پہلے ہیں “ ، اور اس قول کی تائید ابن ابی حاتم کی اس روایت سے بھی ہو سکتی ہے کہ جب یہ آیت اتری تو اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت گراں گزری ، پس یہ آیت اتری «ثُلَّۃٌ مِّنَ الْأَوَّلِینَ» * «وَثُلَّۃٌ مِّنَ الْآخِرِینَ» (56-الواقعۃ:39،40) تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” مجھے امید ہے کہ کل اہل جنت کی چوتھائی تم ہو ، بلکہ تہائی تم ہو ، بلکہ آدھوں آدھ تم ہو ، تم آدھی جنت کے مالک ہو گے اور باقی آدھی تمام امتوں میں تقسیم ہو گی جن میں تم بھی شریک ہو “ ۔ یہ حدیث مسند احمد میں بھی ہے ۔(مسند احمد:391/2:حسن لغیرہ و اسناد ضعیف) ابن عساکر رحمہ اللہ میں ہے { سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس آیت کو سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! کیا اگلی امتوں میں سے بہت لوگ سابقین میں داخل ہوں گے اور ہم میں سے کم لوگ ؟ اس کے ایک سال کے بعد یہ آیت نازل ہوئی کہ اگلوں میں سے بھی بہت اور پچھلوں میں سے بھی بہت ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بلا کر کہا : ” سنو ! آدم سے لے کر مجھ تک «ثلۃ» ہے اور صرف میری امت «ثلۃ» ہے ، ہم اپنے «ثلۃ» کو پورا کرنے کے لیے ان حبشیوں کو بھی لے لیں گے جو اونٹ کے چرواہے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کے واحد اور لاشریک ہونے کی شہادت دیتے ہیں } ۔ (ابن عساکر فی تاریخ دمشق555/11) لیکن اس روایت کی سند میں نظر ہے ، ہاں بہت سی سندوں کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ثابت ہے کہ مجھے امید ہے کہ تم اہل جنت کی چوتھائی ہو آخر تک ۔ پس «الحمداللہ» یہ ایک بہترین خوشخبری ہے ۔ امام ابن جریر نے جس قول کو پسند فرمایا ہے اس میں ذرا غور کرنے کی ضرورت ہے بلکہ دراصل یہ قول بہت کمزور ہے ۔ کیونکہ الفاظ قرآن سے اس امت کا اور تمام امتوں سے افضل و اعلیٰ ہونا ثابت ہے ، پھر کیسے ہو سکتا ہے ؟ کہ مقربین بارگاہ صمدیت اور امتوں میں سے تو بہت سے ہوئے اور اس بہترین امت میں سے کم ہوں ، ہاں یہ توجیہ ہو سکتی ہے کہ ان تمام امتوں کے مقرب مل کر صرف اس ایک امت کے مقربین کی تعداد سے بڑھ جائیں ، لیکن بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ کل امتوں کے مقربین سے صرف اس امت کے مقربین کی تعداد زیادہ ہو گی ۔ آگے اللہ کو علم ہے ۔ دوسرا قول اس جملہ کی تفسیر میں یہ ہے کہ اس امت کے شروع زمانے کے لوگوں میں سے مقربین کی تعداد بہت زیادہ ہے اور بعد کے لوگوں میں کم ، یہی قول رائج ہے ۔ چنانچہ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا : سابقین تو گزر چکے ، اے اللہ ! تو ہمیں اصحاب یمین میں کر دے ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اس امت میں سے جو گزر چکے ان میں مقربین بہت تھے } ۔ امام ابن سیرین رحمہ اللہ بھی یہی فرماتے ہیں ، کوئی شک نہیں کہ ہر امت میں یہی ہوتا چلا آیا ہے کہ شروع میں بہت سے مقربین ہوتے ہیں اور بعد والوں میں یہ تعداد کم ہو جاتی ہے ، تو یہ بھی ممکن ہے کہ مراد یونہی ہو یعنی ہر امت کے اگلے لوگ سبقت کرنے والے زیادہ ہوتے ہیں بہ نسبت ہر امت کے پچھلے لوگوں کے ۔ چنانچہ صحاح وغیرہ کی احادیث سے ثابت ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” سب زمانوں میں بہتر زمانہ میرا زمانہ ہے ، پھر اس کے بعد والا ، پھر اس کا متصل زمانہ } الخ ۔ (صحیح بخاری:3650) ۔ ہاں ایک حدیث میں یہ بھی آیا { میری امت کی مثال بارش جیسی ہے ، نہ معلوم کہ شروع زمانے کی بارش بہتر ہو یا آخر زمانے کی } ۔ (مسند احمد:319/4:حسن بالشواھد) تو یہ حدیث جبکہ اس کی اسناد کو صحت کا حکم دے دیا جائے اس امر پر محمول ہے کہ جس طرح دین کو شروع کے لوگوں کی ضرورت تھی جو اس کی تبلیغ اپنے بعد والوں کو کریں ، اسی طرح آخر میں بھی اسے قائم رکھنے والوں کی ضرورت ہے ، جو لوگوں کو سنت رسول پر جمائیں اس کی روایتیں کریں ، اسے لوگوں پر ظاہر کریں ، لیکن فضیلت اوّل والوں کی ہی رہے گی ۔ ٹھیک اسی طرح ، جس طرح کھیت کو شروع بارش کی اور آخری بارش کی ضرورت ہوتی ہے لیکن بڑا فائدہ ابتدائی بارش سے ہی ہوتا ہے ، اس لیے کہ اگر شروع شروع بارش نہ ہو تو دانے اگیں ہی نہیں ، نہ ان کی جڑیں جمیں ۔ اسی لیے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” ایک جماعت میری امت میں سے ہمیشہ حق پر رہ کر غالب رہے گی ان کے دشمن انہیں ضرر نہ پہنچا سکیں گے ، ان کے مخالف انہیں رسوا اور پست نہ کر سکیں گے یہاں تک کہ قیامت قائم ہو جائے گی اور وہ اس طرح ہوں “ } ۔ (صحیح مسلم247) الغرض یہ امت باقی تمام امتوں سے افضل و اشرف ہے اور اس میں مقربین الٰیہہ بہ نسبت اور امتوں کے بہت ہیں ، اور بہت بڑے مرتبے والے کیونکہ دین کے کامل ہونے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عالی مرتبہ ہونے کے لحاظ سے یہ سب بہتر ہیں ۔ تواتر کے ساتھ یہ حدیث ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اس امت میں سے ستر ہزار لوگ بغیر حساب کے جنت میں جائیں گے اور ہر ہزار کے ساتھ ستر ہزار اور ہوں گے “ } ۔ (صحیح مسلم369-370) طبرانی میں ہے { اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، تم میں سے ایک بہت بڑی جماعت قیامت کے روز کھڑی کی جائے گی ، جو اس قدر بڑی اور گنتی میں زائد ہو گی کہ گویا رات آ گئی زمین کے تمام کناروں کو گھیر لے گی ، فرشتے کہنے لگیں گے ، سب نبیوں کے ساتھ جتنے لوگ آئے ہیں ان سے بہت ہی زیادہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہیں } ۔ (طبرانی کبیر3455:ضعیف) مناسب مقام یہ ہے کہ بہت بڑی جماعت اگلوں میں سے اور بہت ہی بڑی پچھلوں میں سے والی آیت کی تفسیر کے موقع پر یہ حدیث ذکر کر دی جائے جو حافظ ابوبکر بیہقی رحمہ اللہ نے دلائل النبوۃ میں وارد کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب صبح کی نماز پڑھتے پاؤں موڑے ہوئے ہی ستر مرتبہ یہ پڑھتے دعا «سُبْحَانَ اللَّہِ وَبِحَمْدِہِ اَسْتَغْفِرُ اﷲَ إِنَّ اللّہَ کَانَ تَوَّابًا» پھر فرماتے : ” ستر کے بدلے سات سو ہیں ، جس کے ایک دن کے گناہ سات سو سے بھی بڑھ جائیں وہ بےخبر ہے “ ، پھر دو مرتبہ اسی کو فرماتے ، پھر لوگوں کی طرف منہ کر کے بیٹھتے اور چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب اچھا معلوم ہوتا تھا اس لیے پوچھتے کہ کیا تم میں سے کسی نے کوئی خواب دیکھا ہے ؟ سیدنا ابوزمل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ایک دن اسی طرح حسب عادت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا : تو میں نے کہا ہاں یا رسول اللہ ! میں نے ایک خواب دیکھا ہے ، فرمایا : ” اللہ خیر سے ملائے ، شر سے بچائے ، ہمارے لیے بہتر بنائے اور ہمارے دشمنوں کے لیے بدتر بنائے ، ہر قسم کی تعریفوں کا مستحق وہ اللہ ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے ، اپنا خواب بیان کرو “ ، میں نے کہا : یا رسول اللہ ! میں نے دیکھا کہ ایک راستہ ہے کشادہ ، آسان ، نرم ، صاف اور بےشمار لوگ اس راستے میں چلے جا رہے ہیں یہ راستہ جاتے جاتے ایک سرسبز باغ کو نکلتا ہے کہ میری آنکھوں نے ایسا لہلہاتا ہوا ہرا بھرا باغ کبھی نہیں دیکھا ، پانی ہر سو رواں ہے ، سبزے سے اٹا پڑا ہے ، انواع و اقسام کے درخت خوشنما پھلے پھولے کھڑے ہیں ، اب میں نے دیکھا کہ پہلی جماعت جو آئی اور اس باغ کے پاس پہنچی تو انہوں نے اپنی سواریاں تیز کر لیں دائیں بائیں نہیں گئے اور تیز رفتاری کے ساتھ یہاں سے گزر گئے ۔ پھر دوسری جماعت آئی جو تعداد میں بہت زیادہ تھی ، جب یہاں پہنچے تو بعض لوگوں نے اپنے جانوروں کو چرانا چگانا شروع کیا اور بعضوں نے کچھ لے لیا اور چل دیئے ، پھر تو بہت زیادہ لوگ آئے جب ان کا گزران گل و گلزار پر ہوا تو یہ تو بھول گئے اور کہنے لگے یہ سب سے اچھی جگہ ہے گویا میں انہیں دیکھ رہا ہوں کہ وہ دائیں بائیں جھک پڑے ، میں نے یہ دیکھا لیکن میں تو چلتا ہی رہا ، جب دور نکل گیا تو میں نے دیکھا کہ ایک منبر سات سیڑھیوں کا بچھا ہوا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے اعلیٰ درجہ پر تشریف فرما ہیں اور آپ کی دائیں جانب ایک صاحب ہیں گندم گوں رنگ بھری انگلیوں والے ، دراز قد جب کلام کرتے ہیں تو سب خاموشی سے سنتے ہیں اور لوگ اونچے ہو ہو کر توجہ سے ان کی باتیں سنتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں طرف ایک شخص ہیں بھرے جسم کے درمیانہ قد کے جن کے چہرہ پر بکثرت تل ہیں ، ان کے بال گویا پانی سے تر ہیں جب وہ بات کرتے ہیں ، تو ان کے اکرام کی وجہ سے سب لوگ جھک جاتے ہیں پھر اس سے آگے ایک شخص ہیں ، جو اخلاق و عادات میں اور چہرے نقشے میں بالکل آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہت رکھتے ہیں ، آپ لوگ سب ان کی طرف پوری توجہ کرتے ہیں اور ان کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ ان سے آگے ایک دبلی پتلی بڑھیا اونٹنی ہے میں نے دیکھا کہ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے اٹھا رہے ہیں ، یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ متغیر ہو گیا تھوڑی دیر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حالت بدل گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” سیدھے سچے اور صحیح راستے سے مراد تو وہ دین ہے جسے میں لے کر اللہ کی طرف سے آیا ہوں اور جس ہدایت پر تم ہو ، ہرا بھرا سبز باغ جو تم نے دیکھا ہے وہ دنیا ہے اور اس کی عیش و عشرت کا دل لبھانے والا سامان ، میں اور میرے اصحاب تو اس سے گزر جائیں گے نہ تم اس میں مشغول ہو گے ، نہ وہ ہمیں چمٹے گی ، نہ ہمارا تعلق اس سے ہو گا ، نہ اس کا تعلق ہم سے ، نہ ہم اس کی چاہت کریں گے ، نہ وہ ہمیں لپٹے گی ، پھر ہمارے بعد دوسری جماعت آئے گی جو ہم سے تعداد میں بہت زیاددہ ہو گی ان میں سے بعض تو اس دنیا میں پھنس جائیں گے اور بعض بقدر حاجت لے لیں گے اور چل دیں گے اور نجات پا لیں گے ، پھر ان کے بعد زبردست جماعت آئے جو اس دنیا میں بالکل مستغرق ہو جائے گی اور دائیں بائیں بہک جائے گی «فإِنَّا لِلہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ» ۔ اب رہے تم سو تم اپنی سیدھی راہ چلتے رہو گے یہاں تک کہ مجھ سے تمہاری ملاقات ہو جائے گی ، جس منبر کے آخری ساتوں درجہ پر تم نے مجھے دیکھا اس کی تعبیر یہ ہے کہ دنیا کی عمر سات ہزار سال کی ہے میں آخری ہزارویں سال میں ہوں ، میرے دائیں جس گندمی رنگ موٹی ہتھیلی والے انسان کو تم نے دیکھا وہ موسیٰ علیہ السلام ہیں ، جب وہ کلام کرتے ہیں تو لوگ اونچے ہو جاتے ہیں اس لیے کہ انہیں اللہ تعالیٰ سے شرف ہم کلامی ہو چکا ہے اور جنہیں تم نے میرے بائیں دیکھا جو درمیانہ قد کے بھرے جسم کے بہت سے تلوں والے جن کے بال پانی سے تر نظر آتے تھے وہ عیسیٰ بن مریم علیہ السلام ہیں چونکہ ان کا اکرام اللہ تعالیٰ نے کیا ہے ہم سب بھی ان کی بزرگی کرتے ہیں اور جن شیخ کو تم نے بالکل مجھ سا دیکھا وہ ہمارے باپ ابراہیم علیہ السلام ہیں ہم سب ان کا قصد کرتے ہیں اور ان کی اقتداء اور تابعداری کرتے ہیں اور جس اونٹنی کو تم نے دیکھا کہ میں اسے کھڑی کر رہا ہوں اور اس سے مراد قیامت ہے ، جو میری امت پر قائم ہو گی نہ میرے بعد کوئی نبی آئے گا ، نہ میری امت کے بعد کوئی امت ہے ۔ فرماتے ہیں اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پوچھنا چھوڑ دیا کہ کسی نے خواب دیکھا ہے ؟ ہاں اگر کوئی شخص اپنے آپ اپنا خواب بیان کر دے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تعبیر دے دیا کرتے تھے ۔ (دلائل النبوۃ للبیہقی36/7:موضوع) ان کے بیٹھنے کے تخت اور آرام کرنے کے پلنگ سونے کے تاروں سے بنے ہوئے ہوں گے ، جن میں جگہ جگہ موتی ٹکے ہوئے ہوں گے درو یاقوت جڑے ہوئے ہوں گے ۔ یہ «فعیل» معنی میں مفعول کے ہے اسی لیے اونٹنی کے پیٹ کے نیچے والے کو «وضین» کہتے ہیں ۔ سب کے منہ ایک دوسرے کے سامنے ہوں گے کوئی کسی کی طرف پیٹھ دیئے ہوئے نہ ہو گا ، وہ غلمان ان کی خدمت گزاری میں مشغول ہوں گے جو عمر میں ویسے ہی چھوٹے رہیں گے ، نہ بڑے ہوں ، نہ بوڑھے ہوں ، نہ ان میں تغیر تبدیل آئے ۔ «اکواب» کہتے ہیں ان کوزوں کو جن کی ٹونٹی اور پکڑنے کی چیز نہ ہو اور «اباریق» وہ آفتابے جو ٹنٹی دار اور پکڑے جانے کے قابل ہوں ۔ یہ سب شراب کی جاری نہر سے چھلکتے ہوئے ہوں گے جو شراب نہ ختم ہو ، نہ کم ہو کیونکہ اس کے چشمے بہہ رہے ہیں ، جام چھلکتے ہوئے ہر وقت اپنے نازک ہاتھوں میں لیے ہوئے یہ گل اندام ساقی ادھر ادھر گشت کر رہے ہوں گے ۔ الواقعة
14 الواقعة
15 الواقعة
16 الواقعة
17 الواقعة
18 الواقعة
19 جنت کی نعمتیں اس شراب سے انہیں درد سر ہو نہ ان کی عقل زائل ہو بلکہ باوجود پورے سرور اور کیف کے عقل و حواس اپنی جگہ قائم رہیں گے اور کامل لذت حاصل ہو گی ۔ شراب میں چار صفتیں ہیں نشہ ، سر درد ، قے اور پیشاب ، پس پروردگار عالم نے جنت کی شراب کا ذکر کر کے ان چاروں نقصانوں کی نفی کر دی کہ وہ شراب ان نقصانات سے پاک ہے ۔ پھر قسم قسم کے میوے اور طرح طرح کے پرندوں کے گوشت انہیں ملیں گے جس میوے کو جی چاہے اور جس طرح کے گوشت کی طرف دل کی رغبت ہو موجود ہو جائے گا ، یہ تمام چیزیں لیے ہوئے ان کے سلیقہ شعار خدام ہر وقت ان کے اردگرد گھومتے رہیں گے تاکہ جس چیز کی جب کبھی خواہش ہو لے لیں ، اس آیت میں دلیل ہے کہ آدمی میوے چن چن کر اپنی خواہش کے مطابق کھا سکتا ہے ۔ مسند ابو یعلیٰ موصلی میں ہے { سیدنا عکراش بن ذویب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اپنی قوم کے صدقہ کے مال لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم مہاجرین اور انصار میں تشریف فرما تھے ، میرے ساتھ زکوٰۃ کے بہت سے اونٹ تھے گویا کہ وہ ریت کے درختوں کے چرئے ہوئے نوجوان اونٹ ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تم کون ہو ؟ “ ، میں نے کہا : عکراش بن ذویب فرمایا : ” اپنا نسب نامہ دور تک بیان کر دو “ ، میں نے مرہ بن عبید تک کہہ سنایا اور ساتھ ہی کہا کہ زکوٰۃ مرہ بن عبید کی ہے پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمانے لگے یہ میری قوم کے اونٹ ہیں ، یہ میری قوم کے صدقہ کا مال ہے ، پھر حکم دیا کہ صدقے کے اونٹوں کے نشان ان پر کر دو اور ان کے ساتھ انہیں بھی ملا دو ، پھر میرا ہاتھ پکڑ کر ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لائے اور فرمایا : ” کچھ کھانے کو ہے ؟ “ جواب ملا کہ ہاں چنانچہ ایک بڑے لگن میں ٹکڑے ٹکڑے کی ہوئی روٹی آئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور میں نے کھانا شروع کیا ۔ میں ادھر ادھر سے نوالے لینے لگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے میرا داہنا ہاتھ تھام لیا ، اور فرمایا : ” اے عکراش ! یہ تو ایک قسم کا کھانا ہے ، ایک جگہ سے کھاؤ “ ، پھر ایک سینی تر کھجوروں خشک کھجوروں کی آئی میں نے صرف میرے سامنے جو تھیں انہیں کھانا شروع کیا ، ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سینی کے ادھر ادھر سے جہاں سے جو پسند آتی تھی لے لیتے تھے اور مجھ سے بھی فرمایا : ” اے عکراش ! اس میں ہر طرح کی کھجوریں ہیں جہاں سے چاہو کھاؤ ، جس قسم کی کھجور چاہو لے لو “ ، پھر پانی آیا پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ دھوئے اور وہی تر ہاتھ اپنے چہرے پر اور دونوں بازوؤں اور سر پر تین دفعہ پھیر لیے اور فرمایا : ” اے عکراش ! یہ وضو ہے اس چیز سے جسے آگ نے متغیر کیا ہو “ } ۔ ( ترمذی اور ابن ماجہ ) امام ترمذی اسے غریب بتاتے ہیں ۔ (سنن ترمذی:1848،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) مسند احمد میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب پسند تھا بسا اوقات آپ صلی اللہ علیہ وسلم پوچھ لیا کرتے تھے کہ کسی نے خواب دیکھا ہے ؟ اگر کوئی ذکر کرتا اور پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس خواب سے خوش ہوتے تو اسے بہت اچھا لگتا ۔ ایک مرتبہ ایک عورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں کہا : یا رسول اللہ ! میں نے آج ایک خواب دیکھا ہے کہ گویا میرے پاس کوئی آیا اور مجھے مدینہ سے لے چلا اور جنت میں پہنچا دیا پھر میں نے یکایک دھماکا سنا جس سے جنت میں ہل چل مچ گئی ، میں نے جو نظر اٹھا کر دیکھا تو فلاں بن فلاں اور فلاں بن فلاں کو دیکھا ، بارہ شخصوں کے نام لیے انہیں بارہ شخصوں کا ایک لشکر بنا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی دن ہوئے ایک مہم پر روانہ کیا ہوا تھا ، فرماتی ہیں انہیں لایا گیا یہ اطلس کے کپڑے پہنچے ہوئے تھے ان کی رگیں جوش مار رہی تھیں ، حکم ہوا کہ انہیں نہر بیدج میں لے جاؤں یا بیذک کہا ، جب ان لوگوں نے اس نہر میں غوطہٰ لگایا تو ان کے چہرے چودہویں رات کے چاند کی طرح چمکنے لگ گئے ، پھر ایک سونے کی سینی میں گدری کھجوریں آئیں جو انہوں نے اپنی حسب منشا کھائیں اور ساتھ ہی ہر طرح کے میوے جو چاروں طرف چنے ہوئے تھے جس میوے کو ان کا جی چاہتا تھا لیتے تھے اور کھاتے تھے ، میں نے بھی ان کے ساتھ شرکت کی اور وہ میوے کھائے ، مدت کے بعد ایک قاصد آیا اور کہا : فلاں فلاں اشخاص جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لشکر میں بھیجا تھا ، شہید ہو گئے ٹھیک بارہ شخصوں کے نام لیے اور یہ وہی نام تھے جنہیں اس بیوی صاحبہ رضی اللہ عنہا نے اپنے خواب میں دیکھا تھا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان نیک بخت صحابیہ کو پھر بلوایا اور فرمایا : ” اپنا خواب دوبارہ بیان کرو ، اس نے پھر بیان کیا اور انہیں لوگوں کے نام لیے جن کے نام قاصد نے لیے تھے “ } ۔ (مسند احمد:135/3:صحیح) طبرانی میں ہے کہ { جنتی جس میوے کو درخت سے توڑے گا وہیں اس جیسا اور پھل لگ جائے گا } ۔ (طبرانی کبیر1449:ضعیف) مسند احمد میں ہے کہ جنتی پرند بختی اور اونٹ کے برابر ہیں جو جنت میں چرتے چگتے رہتے ہیں ، سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا : یا رسول اللہ ! یہ پرند تو نہایت ہی مزے کے ہوں گے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ان کے کھانے والے ان سے بھی زیادہ ناز و نعمت والے ہوں گے “ ۔ تین مرتبہ یہی جملہ ارشاد فرما کر پھر فرمایا : ” مجھے اللہ سے امید ہے کہ اے ابوبکر ! تم ان میں سے ہو جو ان پرندوں کا گوشت کھائیں گے } ۔ (مسند احمد:221/3:صحیح وھذا اسناد ضعیف) حافظ ابوعبداللہ مقدسی کی کتاب صفۃ الجنۃ میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے طوبی ٰ کا ذکر ہو پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے دریافت فرمایا کہ جانتے ہو طوبیٰ کیا ہے ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا اللہ اور اس کے رسول کو پورا علم ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” جنت کا ایک درخت ہے جس کی طولانی کا علم سوائے اللہ کے اور کسی کو نہیں ، اس کی ایک ایک شاخ تلے تیز سوار ستر ستر سال تک چلا جائے گا ۔ پھر بھی اس کا سایہ ختم نہ ہو ، اس کے پتے بڑے چوڑے ہیں ، ان پر بختی اونٹنی کے برابر پرند آ کر بیٹھتے ہیں ، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : پھر تو یہ پرند بڑی ہی نعمتوں والے ہوں گے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ان سے زیادہ نعمتوں والے ان کے کھانے والے ہوں گے اور ان شاءاللہ تم بھی انہی میں سے ہو “ } ۔ قتادہ رحمہ اللہ سے بھی یہ پچھلا حصہ مروی ہے ۔ (سلسلۃ احادیث صحیحہ البانی:2514) ابن ابی الدنیا میں حدیث ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوثر کی بابت سوال ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” وہ جنتی نہر ہے جو مجھے اللہ عزوجل نے عطا فرمائی ہے ، دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا اس کا پانی ہے ، اس کے کنارے بختی اونٹوں کی گردنوں جیسے پرند ہیں ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : وہ پرند تو بڑے مزے میں ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ان کا کھانے والا ان سے زیادہ مزے میں ہے “ } ۔ امام ترمذی اسے حسن کہتے ہیں ۔ (سنن ترمذی:2542،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابن ابی حاتم میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” جنت میں ایک پرند ہے جس کے ستر ہزار پر ہیں ، جنتی کے دستر خوان پر وہ آئے گا اور اس کے ہر پر سے ایک قسم نکلے گی جو دودھ سے زیادہ سفید اور مکھن سے زیادہ نرم اور شہد سے زیادہ میٹھی ، پھر دوسرے پر سے دوسری قسم نکلے گی اسی طرح ہر پر سے ایک دوسرے سے جداگانہ ، پھر وہ پرند اڑ جائے گا } ۔ یہ حدیث بہت ہی غریب ہے اور اس کے راوی رصافی اور ان کے استاد دونوں ضعیف ہیں ۔ (ابو نعیم فی صفۃ الجنۃ:340ضعیف) ابن ابی حاتم میں { سیدنا کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جنتی پرند مثل بختی اونٹوں کے ہیں جو جنت کے پھل کھاتے ہیں اور جنت کی نہروں کا پانی پیتے ہیں ، جنتیوں کا دل جس پرند کے کھانے کو چاہے گا وہ اس کے سامنے آ جائے گا وہ جتنا چاہے گا جس پہلو کا گوشت پسند کرے گا کھائے گا ، پھر وہ پرند اڑ جائے گا اور جیسا تھا ویسا ہی ہو گا ۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جنت کے جس پرند کو تو چاہے گا وہ بھنا بھنایا تیرے سامنے آ جائے گا } ۔ (ابو نعیم فی صفۃ الجنۃ:341ضعیف) الواقعة
20 الواقعة
21 الواقعة
22 حور العین «حور» کی دوسری قرأت «ر» کے زیر سے بھی ہے ۔ پیش سے تو مطلب ہے کہ جنتیوں کے لیے حوریں ہوں گی اور زیر سے یہ مطلب ہے کہ گویا اگلے اعراب کی ماتحتی میں یہ اعراب بھی ہے جیسے «وَامْسَحُوْا بِرُءُوْسِکُمْ وَاَرْجُلَکُمْ اِلَی الْکَعْبَیْنِ» (5-المآئدہ:6) میں زبر کی قرأت ہے اور جیسے کہ «عٰلِیَہُمْ ثِیَابُ سُـنْدُسٍ خُضْرٌ وَّاِسْتَبْرَقٌ» (76-الإنسان:21) ہیں ۔ اور یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ غلمان اپنے ساتھ حوریں بھی لیے ہوئے ہوں گے لیکن ان کے محلات میں اور خیموں میں نہ کہ عام طور پر ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» یہ حوریں ایسی ہوں گی جیسے تروتازہ سفید صاف موتی ہوں ، جیسے سورۃ الصافات میں ہے «کَاَنَّہُنَّ بَیْضٌ مَّکْنُوْنٌ» (37-الصافات:49) سورۃ الرحمن میں بھی یہ وصف مع تفسیر گزر چکا ہے ۔ یہ ان کے نیک اعمال کا صلہ اور بدلہ ہے یعنی یہ تحفے ان کی حسن کارگزاری کا انعام ہے ۔ یہ جنت میں لغو بیہودہ بے معنی خلاف طبع کوئی کلمہ بھی نہ سنیں گے ، حقارت اور برائی کا ایک لفظ بھی کان میں نہ پڑے گا ، جیسے اور آیت میں ہے «لَّا تَسْمَعُ فِیْہَا لَاغِیَۃً» (88-الغاشیۃ:11) فضول کلامی سے ان کے کان محفوظ رہیں گے ، نہ کوئی قبیح کلام کان میں پڑے گا ۔ ہاں صرف سلامتی بھرے سلام کے کلمات ایک دوسروں کو کہیں گے ، جیسے اور جگہ ارشاد فرمایا «تَحِیَّتُہُمْ فِیْہَا سَلٰمٌ» (14-ابراھیم:23) ان کا تحفہ آپس میں ایک دوسرے کو سلام کرنا ہو گا ۔ ان کی بات چیت لغویت اور گناہ سے پاک ہو گی ۔ الواقعة
23 الواقعة
24 الواقعة
25 الواقعة
26 الواقعة
27 اصحاب یمین اور ان پر انعامات الٰہی سابقین کا حال بیان کر کے اللہ تعالیٰ اب ابرار کا حال بیان فرماتا ہے جو سابقین سے کم مرتبہ ہیں ۔ ان کا کیا حال ہے کیا نتیجہ ہے اسے سنو ، یہ ان جنتوں میں ہیں ، جہاں بیری کے درخت ہیں ، لیکن کانٹے دار نہیں ۔ اور پھل بکثرت اور بہترین ہیں ، دنیا میں بیری کے درخت زیادہ کانٹوں والے اور کم پھلوں والے ہوتے ہیں ۔ جنت کے یہ درخت زیادہ پھلوں والے اور بالکل بےخار ہوں گے ، پھلوں کے بوجھ سے درخت کے تنے جھکے جاتے ہوں گے ابوبکر بن سلمان نجاد رحمہ اللہ نے ایک روایت وارد کی ہے کہ { صحابہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ اعرابیوں کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آنا اور آپ سے مسائل پوچھنا ہمیں بہت نفع دیتا تھا ۔ ایک مرتبہ ایک اعرابی نے آ کر کہا : یا رسول اللہ ! قرآن میں ایک ایسے درخت کا بھی ذکر ہے جو ایذاء دیتا ، آپ نے پوچھا : ” وہ کون سا “ ، اس نے کہا بیری کا درخت ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” پھر تو نے اس کے ساتھ ہی لفظ «مَخْضُود» نہیں پڑھا ؟ اس کے کانٹے اللہ تعالیٰ نے دور کر دیئے ہیں اور ان کے بدلے پھل پیدا کر دیئے ہیں ہر ایک بیری میں بہتر قسم کے ذائقے ہوں گے جن کا رنگ و مزہ مختلف ہو گا “ } ۔ (مستدرک حاکم476/2صحیح) یہ روایت دوسری کتابوں میں بھی مروی ہے اس میں لفظ «طَلْح» ہے اور ستر ذائقوں کا بیان ہے ۔ (طبرانی کبیر:130/17صحیح) «طَلْح» ایک بڑا درخت ہے جو حجاز کی سر زمین میں ہوتا ہے ، یہ کانٹے دار درخت ہے اس میں کانٹے بہت زیادہ ہوتے ہیں ۔ چنانچہ ابن جریر نے اس کی شہادت عربی کے ایک شعر سے بھی دی ہے ۔ «مَنْضُود» کے معنی تہہ بہ تہہ پھل والا ، پھل سے لدا ہوا ۔ ان دونوں کا ذکر اس لیے ہوا کہ عرب ان درختوں کی گہری اور میٹھی چھاؤں کو پسند کرتے تھے ، یہ درخت بظاہر دنیوی درخت جیسا ہو گا لیکن بجائے کانٹوں کے اس میں شیرین پھل ہوں گے ۔ جوہری فرماتے ہیں «طلح» بھی کہتے ہیں اور «طلع» بھی ، سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بھی یہ مروی ہے ، تو ممکن ہے کہ یہ بھی بیری کی ہی صفت ہو ، یعنی وہ بیریاں بے خار اور بکثرت پھلدار ہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» اور حضرات نے «طلح» سے مراد کیلے کا درخت کہا ہے ، اہل یمن کیلے کو «طَلْح» کہتے ہیں اور اہل حجاز «موز» کہتے ہیں ۔ لمبے لمبے سایوں میں یہ ہوں گے ۔ صحیح بخاری میں { رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جنت کے درخت کے سائے تلے تیز سوار سو سال تک چلتا رہے گا لیکن سایہ ختم نہ ہو گا ۔ اگر تم چاہو اس آیت کو پڑھو “ } ۔ (صحیح بخاری4881) مسلم میں بھی یہ روایت موجود ہے اور مسند احمد ، مسند ابو یعلیٰ میں بھی ، مسند کی اور حدیث میں شک کے ساتھ ہے یعنی ستر یا سو اور یہ بھی ہے کہ یہ «شجرۃ الخلد» ہے ۔ (مسند احمد:455/2:صحیح) ابن جریر اور ترمذی میں بھی یہ حدیث ہے پس یہ حدث متواتر اور قطعاً صحیح ہے اس کی اسناد بہت ہیں اور اس کے راوی ثقہ ہیں ، ابن ابی حاتم وغیرہ میں بھی یہ حدیث ہے ، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے جب یہ روایت بیان کی اور سیدنا کعب رضی اللہ عنہ کے کانوں تک پہنچی ، تو آپ نے فرمایا : اس اللہ کی قسم جس نے تورات موسیٰ علیہ السلام پر اور قرآن محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اتارا کہ اگر کوئی شخص نوجوان اونٹنی پر سوار ہو کر اس وقت چلتا رہے جب تک وہ بوڑھا ہو کر گر جائے تو بھی اس کی انتہاء کو نہیں پہنچ سکتا ۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے ہاتھ سے بویا ہے اور خود آپ اس میں اپنے پاس کی روح پھونکی ہے ، اس کی شاخیں جنت کی دیواروں سے باہر نکلی ہوئی ہیں ، جنت کی تمام نہریں اسی درخت کی جڑ سے نکلتی ہیں ۔ ابوحصین کہتے ہیں کہ ایک موضع میں ایک دروازے پر ہم تھے ہمارے ساتھ ابوصالح اور شفیق جہنی بھی تھے اور ابوصالح رحمہ اللہ نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ والی اوپر کی حدیث بیان کی اور کہا : کیا تو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو جھٹلاتا ہے ؟ اس نے کہا : نہیں ، انہیں تو نہیں تجھے جھٹلاتا ہوں ۔ پس یہ قاریوں پر بہت گراں گزرا ۔ میں کہتا ہوں اس ثابت ، صحیح اور مرفوع حدیث کو جو جھٹلائے وہ غلطی پر ہے ۔ ترمذی میں ہے جنت کے ہر درخت کا تنا سونے کا ہے ۔ (سنن ترمذی:2525،قال الشیخ الألبانی:صحیح) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں جنت میں ایک درخت ہے جس کے ہر طرف سو سو سال کے راستے تک سایہ پھیلا ہوا ہے ۔ جنتی لوگ اس کے نیچے آ کر بیٹھتے ہیں اور آپس میں باتیں کرتے ہیں ۔ کسی کو دنیوی کھیل تماشے اور دل بہلاوے یاد آتے ہیں تو اسی وقت ایک جنتی ہوا چلتی ہے اور اس درخت میں سے تمام راگ راگنیاں ، باجے گاجے اور کھیل تماشوں کی آوازیں آنے لگتی ہیں ، یہ اثر غریب ہے اور اس کی سند قوی ہے ۔ عمرو بن میمون رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ سایہ ستر ہزار سال کی طولانی میں ہو گا ۔ آپ سے مرفوع حدیث میں ایک سو سال مروی ہے یہ سایہ گھٹتا ہی نہیں ، نہ سورج آئے ، نہ گرمی ستائے ، فجر کے طلوع ہونے سے پیشتر کا سماں ہر وقت اس کے نیچے رہتا ہے ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جنت میں ہمیشہ وہ وقت رہے گا جو صبح صادق کے بعد سے لے کر آفتاب کے طلوع ہونے کے درمیان درمیان رہتا ہے سایہ کے مضمون کی روایتیں بھی اس سے پہلے گزر چکی ہیں ، جیسے آیت «وَّنُدْخِلُھُمْ ظِلًّا ظَلِیْلًا» (4-النسآء:57) اور آیت «اُکُلُہَا دَایِٕمٌ وَّظِلٰہَا» (13-الرعد:35) اور آیت «اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ ظِلٰلٍ وَّعُیُوْنٍ» (77-المرسلات:41) وغیرہ پانی ہو گا بہتا ہوا مگر نہروں کے گڑھے اور کھدی ہوئی زمین نہ ہو گی ، اس کی پوری تفسیر آیت «فِیْہَآ اَنْہٰرٌ مِّنْ مَّاءٍ غَیْرِ اٰسِنٍ» (47-محمد:15) میں گزر چکی ہے ۔ ان کے پاس بکثرت طرح طرح کے لذیذ میوے ہیں جو نہ کسی آنکھ نے دیکھے ، نہ کسی کان نے سنے ، نہ کسی انسانی دل پر ان کا وہم و خیال گزرا ۔ جیسے اور آیت میں ہے جب وہاں پھلوں سے روزی دیئے جائیں گے تو کہیں گے کہ یہ تو ہم پہلے بھی دئیے گئے تھے کیونکہ بالکل ہم شکل ہوں گے ، لیکن جب کھائیں گے تو ذائقہ اور ہی پائیں گے ۔ بخاری و مسلم میں سدرۃ المنتہیٰ کے ذکر میں ہے کہ اس کے پتے مثل ہاتھی کے کانوں کے ہوں گے اور پھل مثل ہجر کے بڑے بڑے مٹکوں کے ہوں گے ، (صحیح بخاری:3207) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی اس حدیث میں جس میں آپ نے سورج کے گرہن ہونے کا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سورج گرہن کی نماز ادا کرنے کا واقعہ تفصیل سے بیان کیا ہے یہ بھی ہے کہ { بعد فراغت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کے نمازیوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا : اے اللہ کے رسول ! ہم نے آپ کو اس جگہ آگے بڑھتے اور پیچھے ہٹتے دیکھا کیا بات تھی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” میں نے جنت دیکھی ، جنت کے میوے کا خوشہ لینا چاہا اگر میں لے لیتا تو رہتی دنیا تک وہ رہتا اور تم کھاتے رہتے “ } ۔ (صحیح بخاری:1052-3202) ابو یعلیٰ میں ہے { ظہر کی فرض نماز پڑھاتے ہوئے آگے بڑھ گئے اور ہم بھی ، پھر آپ نے گویا کوئی چیز لینی چاہی ، پھر پیچھے ہٹ آئے ، نماز سے فارغ ہو کر سیدنا ابی کعب رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ! آج تو آپ نے ایسی بات کی جو اس سے پہلے کبھی نہیں کی تھی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” میرے سامنے جنت لائی گئی اور جو اس میں تروتازگی اور سبزی ہے میں نے اس میں سے ایک انگور کا خوشہ توڑنا چاہا تاکہ لا کر تمہیں دوں ، پس میرے اور اس کے درمیان پردہ حائل کر دیا گیا اور اگر اس میں اسے تمہارے پاس لے آتا تو زمین و آسمان کے درمیان کی مخلوق اسے کھاتی رہتی تاہم اس میں ذرا سی بھی کمی نہ آتی “ } ۔ اسی کے مثل سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے صحیح مسلم شریف میں بھی مروی ہے ۔(صحیح مسلم:904) مسند امام احمد میں ہے کہ ایک اعرابی نے آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حوض کوثر کی بابت سوال کیا اور جنت کا بھی ذکر کیا پوچھا کہ کیا اس میں میوے بھی ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ہاں ، وہاں طوبیٰ نامی درخت بھی ہے ؟ “ پھر کچھ کہا جو مجھے یاد نہیں ، پھر پوچھا : وہ درخت ہماری زمین کے کس درخت سے مشابہت رکھتا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” تیرے ملک کی زمین میں کوئی درخت اس کا ہم شکل نہیں ۔ کیا تو شام میں گیا ہے ؟ “ ، اس نے کہا نہیں ، فرمایا : شام میں ایک درخت ہوتا ہے جسے جوزہ کہتے ہیں ، ایک ہی تنا ہوتا ہے اور اوپر کا حصہ پھیلا ہوا ہوتا ہے وہ البتہ اس کے مشابہ ہے ، اس نے پوچھا : جنتی خوشے کتنے بڑے ہوتے ہیں ؟ فرمایا : ” کالا کوا مہینہ بھر تک اڑتا رہے اتنے بڑے “ ۔ وہ کہنے لگا : اس درخت کا تنا کس قدر موٹا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اگر تو اپنی اونٹنی کے بچے کو چھوڑ دے اور وہ چلتا رہے یہاں تک کہ بوڑھا ہو کر گر پڑے تب بھی اس کے تنے کا چکر پورا نہیں کر سکتا “ ۔ اس نے کہا : اس میں انگور بھی لگتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ہاں “ ، پوچھا : کتنے بڑے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ کیا کبھی تیرے باپ نے اپنے ریوڑ میں سے کوئی موٹا تازہ بکرا ذبح کر کے اس کی کھال کھینچ کر تیری ماں کو دے کر کہا ہے کہ اس کا ڈول بنا لو ؟ اس نے کہا : ہاں ، فرمایا : ” بس اتنے ہی بڑے بڑے انگور کے دانے ہوتے ہیں “ ۔ اس نے کہا : پھر تو ایک ہی دانہ مجھ کو اور میرے گھر والوں کو کافی ہے ، آپ نے فرمایا : ” بلکہ ساری برادری کو “ ۔ (مسند احمد:183/4:ضعیف) پھر یہ میوے بھی ہمیشہ رہنے والے ہیں ، نہ کبھی ختم ہوں ، نہ کبھی ان سے روکا جائے ۔ یہ نہیں کہ جاڑے میں ہیں اور گرمیوں میں نہیں ، یا گرمیوں میں ہیں اور جاڑوں میں نہیں ، بلکہ یہ میوے دوام والے اور ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں جب طلب کریں پا لیں اللہ کی قدرت سے ہر وقت وہ موجود رہیں گے ، بلکہ کسی کانٹے اور کسی شاخ کو بھی آڑ نہ ہو گی ، نہ دوری ہو گی ، نہ حاصل کرنے میں تکلف اور تکلیف ہو گی ۔ بلکہ ادھر پھل توڑا ادھر اس کے قائم مقام دوسرا پھل لگ گیا ، جیسے کہ اس سے پہلے حدیث میں گزر چکا ۔ ان کے فرش بلند و بالا نرم اور گدے راحت و آرام دینے والے ہوں گے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ان کی اونچائی اتنی ہو گی جتنی زمین و آسمان کی یعنی پانچ سو سال کی ۔ (سنن ترمذی:3294،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) یہ حدیث غریب ہے ۔ بعض اہل علم نے کہا ہے کہ مطلب اس حدیث شریف کا یہ ہے کہ فرش کی بلندی درجے کی آسمان و زمین کے برابر ہے یعنی ایک درجہ دوسرے درجے سے اس قدر بلند ہے ۔ ہر دو درجوں میں پانچ سو سال کی راہ کا فاصلہ ہے ، پھر یہ بھی خیال رہے کہ یہ روایت صرف رشد بن سعد سے مروی ہے اور وہ ضعیف ہیں ۔ یہ روایت ابن جریر، ابن ابی حاتم وغیرہ میں بھی ہے ۔ حسن رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ ان کی اونچائی اسی سال کی ہے ۔ اس کے بعد ضمیر لائے جس کا مرجع پہلے مذکور نہیں اس لیے کہ قرینہ موجود ہے ۔ بستر کا ذکر آیا جس پر جنتیوں کی بیویاں ہوں گی پس ان کی طرف ضمیر پھیر دی ۔ جیسے سلیمان علیہ السلام کے ذکر میں تورات کا لفظ آیا ہے اور «شمس» کا لفظ اس سے پہلے نہیں پس قرینہ کافی ہے ۔ لیکن ابوعبیدہ کہتے ہیں پہلے مذکورہ ہو چکا «وَحُوْرٌ عِیْنٌ» (56-الواقعۃ:22) الواقعة
28 الواقعة
29 الواقعة
30 الواقعة
31 الواقعة
32 الواقعة
33 الواقعة
34 الواقعة
35 اہل جنت کی بیویوں کا حسن و جمال پس فرماتا ہے کہ ہم نے ان بیویوں کو نئی پیدائش میں پیدا کیا ہے ، اس کے بعد کہ وہ بلکل پھوس بڑھیا تھیں ہم نے انہیں نوعمر کنواریاں کر کے ایک خاص پیدائش میں پیدا کیا ۔ وہ اپنے ظرافت و ملاحت ، حسن و صورت و جسامت سے خوش خلقی اور حلاوت کی وجہ سے اپنے خاوندوں کی بڑی پیاریاں ہیں ۔ بعض کہتے ہیں «عرباء» کہتے ہیں ناز و کرشمہ والیوں کو ۔ حدیث میں ہے کہ { یہ وہ عورتیں ہیں جو دنیا میں بڑھیا تھیں اور اب جنت میں گئی ہیں تو انہیں نوعمر وغیرہ کر دیا ہے } ۔ (سنن ترمذی:3296،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) اور روایت میں ہے کہ خواہ یہ عورتیں کنواری تھیں یا ثیبہ تھیں اللہ ان سب کو ایسی کر دے گا ، (تفسیر ابن جریر الطبری:3393:ضعیف) ایک بڑھیا عورت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہتی ہے کہ یا رسول اللہ ! میرے لیے دعا کیجیئے کہ اللہ تعالیٰ مجھے جنت میں داخل کر دے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ام فلاں ! جنت میں کوئی بڑھیا نہیں جائے گی ، وہ روتی ہوئی واپس لوٹیں ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جاؤ ، انہیں سمجھا دو “ ، مطلب یہ ہے کہ جب وہ جنت میں جائیں گی ، بڑھیا نہ ہوں گی ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم انہیں نئی پیدائش میں پیدا کریں گے پھر باکرہ کر دیں گے شمائل ترمذی وغیرہ ۔ (شمائل ترمذی:240ضعیف) طبرانی میں ہے سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں نے کہا : یا رسول اللہ ! حورعین کی خبر مجھے دیجئیے ، آپ نے فرمایا : ” وہ گورے رنگ کی ہیں ، بڑی بڑی آنکھوں والی ہیں ، سخت سیاہ اور بڑے بڑے بالوں والی ہیں جیسے گدھ کا پر “ ۔ میں نے کہا «اللٰؤْلُـہ الْمَکْنُوْنِ» (56-الواقعۃ:23) کی بابت خبر دیجئیے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ” دن کی صفائی اور جوت مثل اس موتی کے ہے جو سیپ سے ابھی ابھی نکلا ہو جسے کسی کا ہاتھ بھی نہ لگا ہو “ ، میں نے کہا «خَیراتٌ حِسانٌ» (33-الأحزاب:70) کی کیا تفسیر ہے ؟ فرمایا : ” خوش خلق خوبصورت “ میں نے کہا «کَاَنَّہُنَّ بَیْضٌ مَّکْنُوْنٌ» (37-الصافات:49) سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا : ” ان کی نزاکت اور نرمی انڈے کی اس جھلی کی مانند ہو گی جو اندر ہوتی ہے “ ، میں نے «عُرُبًا أَترابًا» (56-الواقعۃ:37) کے معنی دریافت کئے ، فرمایا : ” اس سے مراد دنیا کی مسلمان جنتی عورتیں ہیں جو بالکل بڑھیا پھوس تھیں ، اللہ تعالیٰ نے انہیں نئے سرے سے پیدا کیا اور کنواریاں اور خاوندوں کی چہیتیاں اور خاوندوں سے عشق رکھنے والیاں اور ہم عمر بنا دیں “ ، میں نے پوچھا : یا رسول اللہ ! دنیا کی عورتیں افضل ہیں یا حورعین ؟ فرمایا : ” دنیا کی عورتیں حورعین سے بہت افضل ہیں ، جیسے استر سے ابرا ہوتا ہے “ ، میں نے کہا : اس فضیلت کی کیا وجہ ہے ؟ فرمایا : ” نمازیں ، روزے اور اللہ تعالیٰ کی عبادتیں ، اللہ نے ان کے چہرے نور سے ، ان کے جسم ریشم سے سنوار دیئے ہیں ، سفید ریشم ، سبز ریشم اور زرد سنہرے ریشم اور زرد سنہرے زیور بخوردان موتی کے کنگھیاں سونے کی یہ کہتی رہیں گی ۔ «نحن الخالدات فلا نموت ابدا» *** «ونحن الناعمات فلا نباس ابدا» *** «ونحن المقیمات فلانطعن ابدا» *** «ونحن الراضیات فلا نسخط ابدا» *** «طوبی لمن کنا لہ وکان لنا» یعنی ہم ہمیشہ رہنے والی ہیں کبھی مریں گی نہیں ، ہم ناز اور نعمت والیاں ہیں کہ کبھی سفر میں نہیں جائیں گی ہم اپنے خاوندوں سے خوش رہنے والیاں ہیں کہ کبھی روٹھیں گی نہیں ۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کے لیے ہم ہیں اور خوش نصیب ہیں ہم کہ ان کے لیے ہیں ۔ میں نے پوچھا : یا رسول اللہ ! بعض عورتوں کے دو دو تین تین چار چار خاوند ہو جاتے ہیں اس کے بعد اسے موت آتی ہے مرنے کے بعد اگر یہ جنت میں گئی اور اس کے سب خاوند بھی گئے تو یہ کسے ملے گی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اسے اختیار دیا جائے گا کہ جس کے ساتھ چاہے رہے “ ، چنانچہ یہ ان میں سے اسے پسند کرے گی جو اس کے ساتھ بہترین برتاؤ کرتا رہا ہو ، اللہ تعالیٰ سے کہے گی ، پروردگار ! یہ مجھ سے بہت اچھی بودوباش رکھتا تھا اسی کے نکاح میں مجھے دے “ ، اے ام سلمہ ! حسن خلق دنیا اور آخرت کی بھلائیوں کو لیے ہوئے ہے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:33402:ضعیف) «صور» کی مشہور مطول حدیث میں ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمام مسلمانوں کو جنت میں لے جانے کی سفارش کریں گے جس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے آپ کی شفاعت قبول کی اور آپ کو انہیں جنت میں پہنچانے کی اجازت دی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” پھر میں انہیں جنت میں لے جاؤں گا ، اللہ کی قسم ! تم جس قدر اپنے گھربار اور اپنی بیویوں سے واقف ہو اس سے بہت زیادہ اہل جنت اپنے گھروں اور بیویوں سے واقف ہوں گے ۔ پس ایک ایک جنتی کی بہتّر بہتّر بیویاں ہوں گی جو اللہ کی بنائی ہوئی ہیں اور دو دو بیویاں عورتوں میں سے ہوں گی کہ انہیں بوجہ اپنی عبادت کے ان سب عورتوں پر فضیلت حاصل ہو گی جنتی ان میں سے ایک کے پاس جائے گا ، یہ اس بالاخانے میں ہو گی ، جو یاقوت کا بنا ہوا ہو گا ، اس پلنگ پر ہو گی جو سونے کی تاروں سے بنا ہوا ہو گا اور جڑاؤ جڑا ہوا ہو گا ، ستر جوڑے پہنے ہوئے ہوں گے جو سب باریک اور سبز چمکیلے خالص ریشم کے ہوں گے ، یہ بیوی اس قدر نازک نورانی ہو گی کہ اس کی کمر پر ہاتھ رکھ کر سینے کی طرف سے دیکھے گا تو صاف نظر آ جائے گا ، کہ کپڑے گوشت ہڈی کوئی چیز روک نہ ہو گی اس قدر اس کا جسم صاف اور آئینہ نما ہو گا جس طرح مروارید میں سوراخ کر کے ڈورا ڈال دیں تو وہ ڈورا باہر سے نظر آتا ہے اسی طرح اس کی پنڈلی کا گودا نظر آئے گا ۔ ایسا ہی نورانی بدن اس جنتی کا بھی ہو گا ، الغرض یہ اس کا آئینہ ہو گی ، اور وہ اس کا یہ اس کے ساتھ عیش و عشرت میں مشغول ہو گا ، نہ یہ تھکے ، نہ وہ اس کا دل بھرے ، نہ اس کا ، جب کبھی نزدیکی کرے گا تو کنواری پائے گا ، نہ اس کا عضو سست ہو ، نہ اسے گراں گزرے مگر خاص پانی وہاں نہ ہو گا جس سے گھن آئے ، یہ یونہی مشغول ہو گا جو کان میں ندا آئے گی کہ یہ تو ہمیں خوب معلوم ہے کہ نہ آپ کا دل ان سے بھرے گا نہ ان کا آپ سے مگر آپ کی دوسری بیویاں بھی ہیں ، اب یہ یہاں سے باہر آئے گا اور ایک ایک کے پاس جائے گا جس کے پاس جائے گا اسے دیکھ کر بےساختہ اس کے منہ سے نکل جائے گا کہ رب کی قسم تجھ سے بہتر جنت میں کوئی چیز نہیں نہ میری محبت کسی سے تجھ سے زیادہ ہے ۔ «بیھقی فی البعث والنشور669:ضعیف» سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھتے ہیں کہ یا رسول اللہ ! کیا جنت میں جنتی لوگ جماع بھی کریں گے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ہاں ، قسم اس اللہ کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے خوب اچھی طرح ، بہترین طریق پر جب الگ ہو گا وہ اسی وقت پھر پاک صاف اچھوتی باکرہ بن جائے گی “ ۔ «حسن» نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مومن کو جنت میں اتنی اتنی عورتوں کے پاس جانے کی قوت عطا کی جائے گی ، سیدنا انس رضی اللہ عنہا نے پوچھا : یا رسول اللہ ! کیا اتنی طاقت رکھے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ایک سو آدمیوں کے برابر اسے قوت ملے گی “ ۔ (سنن ترمذی:2536،قال الشیخ الألبانی:حسن) طبرانی کی حدیث میں ہے ایک سو کنواریوں کے پاس ایک ایک دن میں ہو آئے گا ۔ (طبرانی اوسط:5236:ضعیف) حافظ عبداللہ مقدسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں میرے نزدیک یہ حدیث شرط صحیح پر ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما «عربا» کی تفسیر میں فرماتے ہیں یہ اپنے خاوندوں کی محبوبہ ہوں گی ، یہ اپنے خاوندوں کی عاشق اور خاوند ان کے عاشق ۔ عکرمہ رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ اس کا معنی ناز و کرشمہ والی ہے اور سند سے مروی ہے کہ معنی نزاکت والی ہے ، تمیم بن حدلم کہتے ہیں «عربا» اس عورت کو کہتے ہیں جو اپنے خاوند کا دل مٹھی میں رکھے ۔ زید بن اسلم رحمہ اللہ وغیرہ سے مروی ہے کہ مراد خوش کلام ہے اپنی باتوں سے اپنے خاوندوں کا دل مول لیتی ہیں جب کچھ بولیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ پھول جھڑتے ہیں اور نور برستا ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ انہیں عرب اس لیے کہا گیا ہے کہ ان کی بول چال عربی زبان میں ہو گی ۔ «ضعیف و منقطع» «اتراب» کے معنی ہیں ہم عمر یعنی تینتیس برس کی اور معنی ہیں کہ خاوند کی اور ان کی طبیعت اور خلق بالکل یکساں ہے جس سے وہ خوش یہ خوش جو اسے ناپسند اسے بھی ناپسند ۔ یہ معنی بھی بیان کئے گئے ہیں کہ آپس میں ان میں بیر ، بغض ، سوتیا ، ڈاہ ، حسد اور رشک نہ ہو گا ۔ یہ سب آپس میں بھی ہم عمر ہوں گی تاکہ بےتکلف ایک دوسری سے ملیں جلیں ، کھیلیں کودیں ۔ ترمذی کی حدیث میں ہے کہ یہ جنتی حوریں ایک روح افزا باغ میں جمع ہو کر نہایت پیارے گلے سے گانا گائیں گی کہ ایسی سریلی اور رسیلی آواز مخلوق نے کبھی نہ سنی ہو گی ۔ (سنن ترمذی:2564،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ان کا گانا وہی ہو گا جو اوپر بیان ہوا ابو یعلیٰ میں ہے ان کے گانے میں یہ بھی ہو گا «نحن خیرات حسان» *** «خبئنا لازواج کرام» ہم پاک صاف خوش وضع خوبصورت عورتیں ہیں جو بزرگ اور ذی عزت شوہروں کے لیے چھپا کر رکھی گئی تھیں ۔ (ابو نعیم فی صفۃ الجنۃ:280/2) اور روایت میں «خیرات» کے بدلے «جوار» کا لفظ آیا ہے ۔ پھر فرمایا یہ اصحاب یمین کے لیے پیدا کی گئی ہیں اور انہی کے لیے محفوظ و مصؤن رکھی گئی تھیں ۔ لیکن زیادہ ظاہر یہ ہے کہ یہ متعلق ہے «اِنَّآ اَنْشَاْنٰہُنَّ اِنْشَاءً» (56-الواقعۃ:35) کے یعنی ہم نے انہیں ان کے لیے پیدا کیا ہے ۔ ابوسلیمان دارانی رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ میں نے ایک رات تہجد کی نماز کے بعد دعا مانگنی شروع کی ، چونکہ سخت سردی تھی ، بڑے زور کا پالا پڑ رہا تھا ، ہاتھ اٹھائے نہیں جاتے تھے اس لیے میں نے ایک ہی ہاتھ سے دعا مانگی اور اسی حالت میں دعا مانگتے مانگتے مجھے نیند آ گئی خواب میں میں نے ایک حور کو دیکھا کہ اس جیسی خوبصورت نورانی شکل کبھی میری نگاہ سے نہیں گزری اس نے مجھ سے کہا : اے ابوسلیمان ! ایک ہی ہاتھ سے دعا مانگنے لگے اور یہ خیال نہیں کہ پانچ سو سال سے اللہ تعالیٰ مجھے تمہارے لیے اپنی خاص نعمتوں میں پرورش کر رہا ہے ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ «لام» متعلق «اَترَاباً» کے ہو یعنی ان کی ہم عمر ہوں گی جیسے کہ بخاری مسلم وغیرہ کی حدیث میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں پہلی جماعت جو جنت میں جائے گی ان کے چہرے چودہویں رات جیسے روشن ہوں گے ان کے بعد والی جماعت کے بہت چمکدار ستارے جیسے روشن ہوں گے ۔ یہ پاخانے ، پیشاب ، تھوک ، رینٹ سے پاک ہوں گے ان کی کنگھیاں سونے کی ہوں گی ان کے پسینے مشک کی خوشبو والے ہوں گے ان کی انگیٹھیاں لؤلؤ کی ہوں گی ان کی بیویاں حورعین ہوں گی ان سب کے اخلاق مثل ایک ہی شخص کے ہوں گے ، یہ سب اپنے باپ آدم علیہ السلام کی شکل پر ساٹھ ہاتھ کے لمبے قد کے ہوں گے } ۔ (صحیح بخاری:3327) طبرانی میں ہے اہل جنت بےبال اور بےریش ، گورے رنگ والے ، خوش خلق اور خوبصورت سرمگیں آنکھوں والے تینتیس برس کی عمر کے ، سات ہاتھ لمبے اور سات ہاتھ چوڑے چکلے مضبوط بدن والے ہوں گے ۔ (مسند احمد:295/2:حسن) اس کا کچھ حصہ ترمذی میں بھی مروی ہے ۔ (سنن ترمذی:2545،قال الشیخ الألبانی:حسن) اور حدیث میں ہے کہ گو کسی عمر میں انتقال ہوا ہو دخول جنت کے وقت تینتیس سالہ عمر کے ہوں گے اور اسی عمر میں ہمیشہ رہیں گے ، اسی طرح جہنمی بھی (سنن ترمذی:2562،قال الشیخ الألبانی:حسن) اور روایت میں ہے کہ ان کے قد سات ہاتھ فرشتے کے ہاتھ کے اعتبار سے ہوں گے قد آدم علیہ السلام ، حسن یوسف علیہ السلام ، عمر عیسیٰ علیہ السلام یعنی تینتیس سال اور زبان محمد صلی اللہ علیہ وسلم یعنی عربی والے ہوں گے ، بےبال اور سرمگیں آنکھوں والے (ابن ابی الدنیا:ضعیف) اور روایت میں ہے کہ دخول جنت کے ساتھ ہی انہیں ایک جنتی درخت کے پاس لایا جائے گا اور وہاں انہیں کپڑے پہنائے جائیں گے ان کے کپڑے نہ گلیں ، نہ سڑیں ، نہ پرانے ہوں ، نہ میلے ہوں ان کی جوانی نہ ڈھلے ، نہ جائے ، نہ فنا ہو ۔ (ابونعیم فی صفۃالجنۃ:255ضعیف) اصحاب یمین گزشتہ امتوں میں سے بھی بہت ہیں اور پچھلوں میں سے بھی بہت ہیں ، ابن ابی حاتم میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم سے بیان فرمایا میرے سامنے انبیاء مع اپنے تابعدار امتیوں کے پیش ہوئے بعض نبی گزرتے تھے اور بعض نبی کے ساتھ ایک جماعت ہوتی تھی اور بعض نبی کے ساتھ صرف تین آدمی ہوتے تھے اور بعض کے ساتھ ایک بھی نہ تھا راوی حدیث قتادہ رحمہ اللہ نے اتنا بیان فرمایا کہ یہ آیت پڑھی «اَلَیْسَ مِنْکُمْ رَجُلٌ رَّشِیْدٌ» (11-ھود:78) کیا تم میں سے ایک بھی رشد و سمجھ والا نہیں ؟ یہاں تک کہ موسیٰ بن عمران علیہ السلام گزرے جو بنی اسرائیل کی ایک بڑی جماعت ساتھ لیے ہوئے تھے ، میں نے پوچھا : ” پروردگار یہ کون ہیں ؟ “ جواب ملا یہ تمہارے بھائی موسیٰ بن عمران علیہ السلام ہیں اور ان کے ساتھ ان کی تابعداری کرنے والی امت ہے ، میں نے پوچھا : ” الٰہی پھر میری امت کہاں ہے ؟ “ فرمایا : اپنی داہنی جانب نیچے کی طرف دیکھو میں نے دیکھا تو بہت بڑی جماعت نظر آئی لوگوں کے بکثرت چہرے دمک رہے تھے ، پھر مجھ سے پوچھا : کہو اب تو خوش ہو ، میں نے کہا : ” ہاں الٰہی میں خوش ہوں “ ، مجھ سے فرمایا : اب اپنی بائیں جانب کناروں کی طرف دیکھو میں نے دیکھا وہ وہاں بےشمار لوگ تھے پھر مجھ سے پوچھا اب تو راضی ہو گئے ؟ میں نے کہا : ” ہاں میرے رب میں راضی ہوں “ ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا اور سنو ان کے ساتھ ستر ہزار اور لوگ ہیں جو بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے یہ سن کر سیدنا عکاشہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے ، یہ قبیلہ بنو اسد سے محصن کے لڑکے تھے بدر کی لڑائی میں موجود تھے عرض کی کہ یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ اللہ تعالٰی مجھے بھی انہی میں سے کرے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی پھر ایک اور شخص کھڑے ہوئے اور کہا اے اللہ کے رسول ! میرے لیے بھی دعا کیجئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” عکاشہ تجھ پر سبقت کر گئے “ ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” لوگو ! تم پر میرے ماں باپ فدا ہوں اگر تم سے ہو سکے تو ان ستر ہزار میں سے بنو ، جو بے حساب جنت میں جائیں گے ، ورنہ کم سے کم دائیں جانب والوں میں سے ہو جاؤ گے ، یہ بھی نہ ہو سکے تو کنارے والوں میں سے بن جاؤ ، میں نے اکثر لوگوں کو دیکھا ہے کہ اپنے حال میں ہی لٹک جاتے ہیں “ ۔ پھر فرمایا : ” مجھے امید ہے کہ تمام اہل جنت کی چوتھائی تعداد صرف تمہاری ہی ہو گی “ ۔ پس ہم نے تکبیر کہی پھر فرمایا : ” بلکہ مجھے امید ہے کہ تم تمام جنت کی تہائی والے ہو گے “ ۔ ہم نے پھر تکبیر کہی ۔ فرمایا : ” اور سنو ! تم آدھوں آدھ اہل جنت کے ہو گے “ ، ہم نے پھر تکبیر کہی اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی آیت «ثُلَّۃٌ مِّنَ الْأَوَّلِینَ» * «وَثُلَّۃٌ مِّنَ الْآخِرِینَ» (56-الواقعۃ:39،40) کی تلاوت کی ۔ اب ہم میں آپس میں مذاکرہ شروع ہو گیا کہ یہ ستر ہزار کون لوگ ہوں گے ؟ پھر ہم نے کہا وہ لوگ جو اسلام میں پیدا ہوئے اور شرک کیا ہی نہیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو داغ نہیں لگواتے اور جھاڑ پھونک نہیں کرواتے اور فال نہیں لیتے اور اپنے رب پر بھروسہ رکھتے ہیں “ } ۔ (مسند احمد:401/1:صحیح) یہ حدیث بہت سی سندوں سے صحابہ رضی اللہ عنہم کی روایت سے بہت سی کتابوں میں صحت کے ساتھ مروی ہے ۔ ابن جریر میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس آیت میں پہلوں پچھلوں سے مراد میری امت کے اگلے پچھلے ہی ہیں ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:646/11:ضعیف) الواقعة
36 الواقعة
37 الواقعة
38 الواقعة
39 الواقعة
40 الواقعة
41 اصحاب شمال اور عذاب الٰہی اصحاب یمین کا ذکر کرنے کے بعد اصحاب شمال کا ذکر ہو رہا ہے فرماتا ہے ان کا کیا حال ہے یہ کس عذاب میں ہوں گے ؟ پھر ان عذابوں کا بیان فرماتا ہے کہ یہ گرم ہوا کے تھپیڑوں اور کھولتے ہوئے گرم پانی میں ہیں اور دھوئیں کے سخت سیاہ سائے میں جیسے اور جگہ «انطَلِقُوا إِلَی مَا کُنتُم بِہِ تُکَذِّبُونَ» * «انطَلِقُوا إِلَی ظِلٍّ ذِی ثَلَاثِ شُعَبٍ» * «لَّا ظَلِیلٍ وَلَا یُغْنِی مِنَ اللہَبِ» * «إِنَّہَا تَرْمِی بِشَرَرٍ کَالْقَصْرِ» * «کَأَنَّہُ جِمَالَتٌ صُفْرٌ» * «وَیْلٌ یَوْمَئِذٍ لِّلْمُکَذِّبِینَ» (77-المرسلات:34-29) فرمایا ہے یعنی ’ اس دوزخ کی طرف چلو جسے تم جھٹلاتے تھے ۔ چلو تین شاخوں والے سایہ کی طرف جو نہ گھنا ہے نہ آگ کے شعلے سے بچا سکتا ہے ، وہ دوزخ محل کی اونچائی کے برابر چنگاریاں پھینکتی ہے ، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا وہ سرد اونٹنیاں ہیں ۔ آج تکذیب کرنے والوں کی خرابی ہے ‘ ۔ اسی طرح یہاں بھی فرمان ہے کہ یہ لوگ جن کے بائیں ہاتھ میں عمل نامہ دیا گیا ہے یہ سخت سیاہ دھوئیں میں ہوں گے جو نہ جسم کو اچھا لگے ، نہ آنکھوں کو بھلا معلوم ہو ، یہ عرب کا محاورہ ہے کہ جس چیز کی زیادہ برائی بیان کر لی ہو وہاں اس کا ہر ایک برا وصف بیان کر کے اس کے بعد «وَلَا کَرِیمٍ» کہہ دیتے ہیں ۔ پھر اللہ تعالیٰ بیان فرمایا ہے یہ لوگ ان سزاؤں کے مستحق اس لیے ہوئے کہ دنیا میں جو اللہ کی نعمتیں انہیں ملی تھیں ان میں یہ سست ہو گئے ۔ رسولوں کی باتوں کی طرف نظر بھی نہ اٹھائی ۔ بدکاریوں میں پڑ گئے اور پھر توبہ کی طرف دلی توجہ بھی نہ رہی ۔ «الْحِنْثِ الْعَظِیمِ» سے مراد بقول سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کفر شرک ہے ، بعض کہتے ہیں جھوٹی قسم ہے ، پھر ان کا ایک اور عیب بیان ہو رہا ہے کہ یہ قیامت کا ہونا بھی محال جانتے تھے ، اس کی تکذیب کرتے تھے اور عقلی استدلال پیش کرتے تھے کہ مر کر مٹی میں مل کر پھر بھی کہیں کوئی جی سکتا ہے ؟ انہیں جواب مل رہا ہے کہ «إِنَّ فِی ذَلِکَ لَآیَۃً لِّمَنْ خَافَ عَذَابَ الْآخِرَۃِ ذَلِکَ یَوْمٌ مَّجْمُوعٌ لَّہُ النَّاسُ وَذَلِکَ یَوْمٌ مَّشْہُودٌ» * «وَمَا نُؤَخِّرُہُ إِلَّا لِأَجَلٍ مَّعْدُودٍ» * «یَوْمَ یَأْتِ لَا تَکَلَّمُ نَفْسٌ إِلَّا بِإِذْنِہِ فَمِنْہُمْ شَقِیٌّ وَسَعِیدٌ» (11-ھود:103-105) تمام اولاد آدم قیامت کے دن نئی زندگی میں پیدا ہو کر اور ایک میدان میں جمع ہو گی ، کوئی ایک وجود بھی ایسا نہ ہو گا جو دنیا میں آیا ہو اور یہاں نہ ہو ۔ جیسے اور جگہ ہے اس دن سب جمع کر دیئے جائیں گے یہ حاضر باشی کا دن ہے ، تمہیں دنیا میں چند روز مہلت ہے ، قیامت کے دن کون ہے جو بلا اجازت اللہ لب بھی ہلا سکے ؟ انسان دو قسم پر تقسیم کر دیئے جائیں گے نیک الگ اور بد علیحدہ ۔ وقت قیامت محدود اور مقرر ہے ، کمی زیادتی تقدیم تاخیر اس میں بالکل نہ ہو گی ۔ پھر تم اے گمراہو اور جھٹلانے والو ! زقوم کے درخت کھلوائے جاؤ گے ، انہیں سے پیٹ بوجھل کرو گے کیونکہ جبراً وہ تمہارے حلق میں ٹھونسا جائے گا ،پھر اس پر کھولتا ہوا پانی تمہیں پینا پڑے گا اور وہ بھی اس طرح جیسے پیاسا اونٹ پی رہا ہو ۔ «ہِیمِ» جمع ہے اس کا واحد «اہِیم» ہے مونث «ہیماء» ہے «ہائم» اور «ہائمہ» بھی کہا جاتا ہے ۔ سخت پیاس والے اونٹ کو کہتے ہیں جسے پیاس کی بیماری ہوتی ہے پانی چوستا رہتا ہے لیکن سیرابی نہیں ہوتی اور نہ اس بیماری سے اونٹ جانبر ہوتا ہے ، اسی طرح یہ جہنمی جبراً سخت گرم پانی پلائے جائیں گے جو خود ایک بدترین عذاب ہو گا بھلا اس سے پیاس کیا رکتی ہے ؟ سیدنا خالد بن معدان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک ہی سانس میں پانی پینا یہ بھی پیاس والے اونٹ کا سا پینا ہے اس لیے مکروہ ہے پھر فرمایا ان مجرموں کی ضیافت آج جزا کے دن یہی ہے ، جیسے متقین کے بارے میں اور جگہ ہے «إِنَّ الَّذِینَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّـلِحَاتِ کَانَتْ لَہُمْ جَنَّـتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلاً» (18-الکھف:107) ان کی مہمانداری جنت الفردوس ہے ۔ الواقعة
42 الواقعة
43 الواقعة
44 الواقعة
45 الواقعة
46 الواقعة
47 الواقعة
48 الواقعة
49 الواقعة
50 الواقعة
51 الواقعة
52 الواقعة
53 منکرین قیامت کو جواب اللہ تعالیٰ قیامت کے منکرین کو لاجواب کرنے کے لیے قیامت کے قائم ہونے اور لوگوں کے دوبارہ جی اٹھنے کی دلیل دے رہا ہے ، فرماتا ہے کہ جب ہم نے پہلی مرتبہ جبکہ تم کچھ نہ تھے تمہیں پیدا کر دیا تو اب فنا ہونے کے بعد جبکہ کچھ نہ کچھ تو تم رہو گے ہی ۔ تمہیں دوبارہ پیدا کرنا ہم پر کیا گراں ہو گا ؟ جب ابتدائی اور پہلی پیدائش کو مانتے ہو تو پھر دوسری مرتبہ کے پیدا ہونے سے کیوں انکار کرتے ہو ؟ دیکھو انسان کے خاص پانی کے قطرے تو عورت کے بچہ دان میں پہنچ جاتے ہیں اتنا کام تو تمہارا تھا لیکن اب ان قطروں کو بصورت انسان پیدا کرنا یہ کس کا کام ہے ؟ ظاہر ہے کہ تمہارا اس میں کوئی دخل نہیں کوئی ہاتھ نہیں کوئی قدرت نہیں کوئی تدبیر نہیں ، پیدا کرنا یہ صفت صرف خالق کل اللہ رب العزت کی ہی ہے ٹھیک اسی طرح مار ڈالنے پر بھی وہی قادر ہے ۔ کل آسمان و زمین والوں کی موت کا متصرف بھی اللہ ہی ہے ۔ پھر بھلا اتنی بڑی قدرتوں کا مالک کیا یہ نہیں کر سکتا کہ قیامت کے دن تمہاری پیدائش میں تبدیلی کر کے جس صفت اور جس حال میں چاہے تمہیں از سر نو پیدا کر دے ۔ پس جبکہ جانتے ہو ، مانتے ہو کہ ابتدائے آفرینش اسی نے کی ہے اور عقل باور کرتی ہے کہ پہلی پہلی پیدائش دوسری پیدائش سے مشکل ہے پھر دوسری پیدائش کا انکار کیوں کرتے ہو ؟ یہی اور جگہ ہے «وَہُوَ الَّذِیْ یَبْدَؤُا الْخَــلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہٗ وَہُوَ اَہْوَنُ عَلَیْہِ وَلَہُ الْمَثَلُ الْاَعْلٰی فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ» (30-الروم:27) اللہ ہی نے پہلی مرتبہ پیدا کیا ہے اور وہی دوبارہ دوہرائے گا اور یہ اس پر بہت ہی آسان ہے ، سورۃ یاسین میں «أَوَلَمْ یَرَ الْإِنسَانُ أَنَّا خَلَقْنَاہُ مِن نٰطْفَۃٍ فَإِذَا ہُوَ خَصِیمٌ مٰبِینٌ» * «وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَنَسِیَ خَلْقَہُ قَالَ مَن یُحْیِی الْعِظَامَ وَہِیَ رَمِیمٌ» * «قُلْ یُحْیِیہَا الَّذِی أَنشَأَہَا أَوَّلَ مَرَّۃٍ وَہُوَ بِکُلِّ خَلْقٍ عَلِیمٌ» (36-یس:77-79) تک ارشاد فرمایا یعنی ’ ہم انسان کو نطفے سے پیدا کرتے ہیں پھر وہ حجت بازیاں کرنے لگتا ہے اور ہمارے سامنے مثالیں بیان کرنے لگتا ہے اور کہتا پھرتا ہے ان بوسیدہ گلی سڑی ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا تم اے نبی ! ہماری طرف سے جواب دو کہ انہیں وہ زندہ کرے گا جس نے انہیں پہلے پہل پیدا کیا ہے وہ ہر پیدائش کا علم رکھنے والا ہے ‘ ۔ سورۃ القیامہ میں فرمایا «أَیَحْسَبُ الْإِنسَانُ أَن یُتْرَکَ سُدًی» * «أَلَمْ یَکُ نُطْفَۃً مِّن مَّنِیٍّ یُمْنَی» * «ثُمَّ کَانَ عَلَقَۃً فَخَلَقَ فَسَوَّی» * «فَجَعَلَ مِنْہُ الزَّوْجَیْنِ الذَّکَرَ وَالْأُنثَی» * «أَلَیْسَ ذَلِکَ بِقَادِرٍ عَلَی أَن یُحْیِیَ الْمَوْتَی» (75-القیامۃ:40-36) سے آخر سورۃ تک ، یعنی ’ کیا انسان یہ سمجھ بیٹھا ہے کہ اسے یونہی آوارہ چھوڑ دیا جائے گا ؟ کیا یہ ایک غلیظ پانی کے نطفے کی شکل میں نہ تھا ، پھر خون کے لوتھڑے کی صورت میں نمایاں ہوا تھا ؟ پھر اللہ نے اسے پیدا کیا درست کیا مرد عورت بنایا ایسا اللہ مُردوں کے زندہ کرنے پر قادر نہیں ؟ ‘ الواقعة
54 الواقعة
55 الواقعة
56 الواقعة
57 الواقعة
58 الواقعة
59 الواقعة
60 الواقعة
61 الواقعة
62 الواقعة
63 آگ اور پانی کا خالق کون؟ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ تم جو کھیتیاں بوتے ہو ، زمین کھود کر بیج ڈالتے ہو ، پھر ان بیجوں کو اگانا بھی کیا تمہارے بس میں ہے ؟ نہیں نہیں بلکہ انہیں اگانا ، انہیں پھل پھول دینا ہمارا کام ہے ۔ ابن جریر میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا «ذَرْعَتُ» نہ کہا کرو بلکہ «حَرَثْتُ» کہا کرو یعنی یوں کہو میں نے بویا یوں نہ کہو کہ میں نے اگایا ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث سنا کر پھر اسی آیت کی تلاوت کی ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:33492) امام حجر مدری رحمہ اللہ ان آیتوں کے ایسے سوال کے موقعوں کو جب پڑھتے تو کہتے «بَلْ اَنْتَ یَا رَبَّی» ہم نے نہیں بلکہ اے ہمارے رب تو نے ہی ۔ پھر فرماتا ہے کہ پیدا کرنے کے بعد بھی ہماری مہربانی ہے کہ ہم اسے بڑھائیں اور پکائیں ورنہ ہمیں قدرت ہے کہ سکھا دیں اور مضبوط نہ ہونے دیں برباد کر دیں اور بے نشان دنیا بنا دیں ۔ اور تم ہاتھ ملتے اور باتیں بناتے ہی رہ جاؤ ۔ کہ ہائے ہم پر آفت آ گئی ، ہائے ہماری تو اصل بھی ماری گئی ، بڑا نقصان ہو گیا ، نفع ایک طرف پونجی بھی غارت ہو گئی ، غم و رنج سے نہ جانیں کیا کیا بھانت بھانت کی بولیاں بولنے لگ جاؤ ۔ کبھی کہو کاش کہ اب کی مرتبہ بوتے ہی نہیں کاش کہ یوں کرتے ووں کرتے ، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ مطلب ہو کہ اس وقت تم اپنے گناہوں پر نادم ہو جاؤ «تَفَکَّہ» کا لفظ اپنے میں دونوں معنی رکھتا ہے نفع کے اور غم کے ۔ «مُزْن» بادل کو کہتے ہیں ۔ پھر اپنی پانی جیسی اعلیٰ نعمت کا ذکر کرتا ہے کہ دیکھو اس کا برسانا بھی میرے قبضہ میں ہے کوئی ہے جو اس بادل سے اتار لائے ؟ اور جب اتر آیا پھر بھی اس میں مٹھاس ، کڑواہٹ پیدا کرنے پر مجھے قدرت ہے ۔ یہ میٹھا پانی بیٹھے بٹھائے میں تمہیں دوں جس سے تم نہاؤ ، دھوؤ ، کپڑے صاف کرو ، کھیتیوں اور باغوں کو سیراب کرو ، جانوروں کو پلاؤ پھر کیا تمہیں یہی چاہیئے کہ میرا شکر بھی ادا نہ کرو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پانی پی کر فرمایا کرتے «الْحَمْدُ لِلہِ الَّذِی سَقَانَا عَذْبًا فُرَاتًا بِرَحْمَتِہِ ، وَلَمْ یَجْعَلْہُ مِلْحًا أُجَاجًا بِذُنُوبِنَا» یعنی اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں میٹھا اور عمدہ پانی اپنی رحمت سے لایا اور ہمارے گناہوں کے باعث اسے کھاری اور کڑوا نہ بنا دیا ۔ عرب میں دو درخت ہوتے ہیں مرخ اور عفار ان کی سبز شاخیں جب ایک دوسری سے رگڑی جائیں تو آگ نکلتی ہے اس نعمت کو یاد دلا کر فرماتا ہے کہ یہ آگ جس سے تم پکاتے رہتے ہو اور سینکڑوں فائدے حاصل کر رہے ہو بتاؤ کہ اصل یعنی درخت اس کے پیدا کرنے والے تم ہو یا میں ؟ اس آگ کو ہم نے تذکرہ بنایا ہے یعنی اسے دیکھ کر جہنم کی آگ کو یاد کرو اور اس سے بچنے کی راہ لو ۔ قتادہ رحمہ اللہ کی ایک مرسل حدیث میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تمہاری یہ دنیا کی آگ دوزخ کی آگ کا سترواں حصہ ہے “ ، لوگوں نے کہا اے اللہ کے رسول ! یہی بہت کچھ ہے آپ نے فرمایا : ” ہاں پھر یہ سترواں حصہ بھی دو مرتبہ پانی سے بجھایا گیا ہے ، اب یہ اس قابل ہوا کہ تم اس سے نفع اٹھا سکو اور اس کے قریب جا سکو “ ۔ یہ مرسل حدیث مسند میں مروی ہے اور باکل صحیح ہے ۔ (مسند احمد244/2:صحیح) «مُقْوِینَ» مراد مسافر ہیں ، بعض نے کہا ہے جنگل میں رہنے سہنے والے لوگ مراد ہیں ۔ بعض نے کہا ہے ہر بھوکا مراد ہے ۔ غرض دراصل ہر وہ شخص مراد ہے جسے آگ کی ضرورت ہو اور وہ اس سے فائدہ حاصل کرنے کا محتاج ہو ، ہر امیر ، فقیر ، شہری ، دیہاتی ، مسافر ، مقیم کو اس کی حاجت ہوتی ہے ، پکانے کے لیے ، تاپنے کیلئے ، روشنی کیلئے وغیرہ ۔ پھر اللہ کی کریمی کو دیکھئے کہ پتھروں میں لوہے میں اس نے اسے رکھ دیا تاکہ مسافر اپنے ساتھ لے جا سکے اور ضرورت کے وقت اپنا کام نکال سکے ۔ ابوداؤد وغیرہ میں حدیث ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تین چیزوں میں تمام مسلمانوں کا برابر کا حصہ ہے آگ گھاس اور پانی “ ۔ (سنن ابوداود:3477،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابن ماجہ میں ہے یہ تینوں چیزیں روکنے کا کسی کو حق نہیں ۔ (سنن ابن ماجہ:2473،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ایک روایت میں ان کی قیمت کا ذکر بھی ہے ۔ لیکن اس کی سند ضعیف ہے (سنن ابن ماجہ:2472،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» پھر فرماتا ہے تم سب کو چاہیئے کہ اس بہت بڑی قدرتوں کے مالک اللہ کی ہر وقت پاکیزگی بیان کرتے رہو جس نے آگ جیسی جلا دینے والی چیز کو تمہارے لیے نفع دینے والی بنا دیا ۔ جس نے پانی کو کھاری اور کڑوا نہ کر دیا کہ تم پیاس کے مارے تکلیف اٹھاؤ بلکہ اسے میٹھا صاف شفاف اور مزیدار بنایا ، دنیا میں رب کی ان نعمتوں سے فائدے اٹھاؤ اور اس کا شکر بجا لاؤ تو پھر آخرت میں بھی فائدے ہی فائدے ہیں ۔ دنیا میں یہ آگ اس نے تمہارے فائدہ کے لیے بنائی ہے اور ساتھ ہی اس لیے کہ آخرت کی آگ کا بھی اندازہ تم کر سکو اور اس سے بچنے کے لیے اللہ کے فرمانبردار بن جاؤ ۔ الواقعة
64 الواقعة
65 الواقعة
66 الواقعة
67 الواقعة
68 الواقعة
69 الواقعة
70 الواقعة
71 الواقعة
72 الواقعة
73 الواقعة
74 الواقعة
75 قرآن کا مقام ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں اللہ کی یہ قسمیں کلام کو شروع کرنے کے لیے ہوا کرتی ہیں ۔ لیکن یہ قول ضعیف ہے ۔ جمہور فرماتے ہیں یہ قسمیں ہیں اور ان میں ان چیزوں کی عظمت کا اظہار بھی ہے ، بعض مفسرین کا قول ہے کہ یہاں پر «لا» زائد ہے اور «إِنَّہُ لَقُرْآنٌ کَرِیمٌ» (56-الواقعہ:77) جواب قسم ہے اور لوگ کہتے ہیں «لا» کو زائد بتانے کی کوئی وجہ نہیں ، کلام عرب کے دستور کے مطابق وہ قسم کے شروع میں آتا ہے ، جبکہ جس چیز پر قسم کھائی جائے وہ منفی ہو ، جیسے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس قول میں ہے «لا واللہ ما مست ید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ید امراۃ قط» یعنی اللہ کی قسم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ کسی عورت کے ہاتھ سے لگایا نہیں یعنی بیعت میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کیا ۔ (صحیح مسلم:1866) اسی طرح یہاں بھی «لا» قسم کے شروع میں مطابق قاعدہ ہے نہ کہ زائد ۔ تو کلام کا مقصود یہ ہے کہ تمہارے جو خیالات قرآن کریم کی نسبت ہیں یہ جادو ہے یا کہانت ہے غلط ہیں ۔ بلکہ یہ پاک کتاب کلام اللہ ہے ۔ بعض عرب کہتے ہیں کہ «لا» سے ان کے کلام کا انکار ہے پھر اصل امر کا اثبات الفاظ میں ہے «فَلَآ اُقْسِمُ بِمَوٰقِعِ النٰجُوْمِ» (56-الواقعۃ:75) سے مراد قرآن کا بتدریج اترنا ہے ، لوح محفوظ سے تو لیلۃ القدر میں ایک ساتھ آسمان اوّل پر اترا آیا پھر حسب ضروت تھوڑا تھوڑا وقت بروقت اترتا رہا یہاں تک کہ کئی برسوں میں پورا اتر آیا ۔ حضرت مجاہدرحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے مراد ستاروں کے طلوع اور ظاہر ہونے کی آسمان کی جگہیں ہیں ۔ «مَوَاقِعِ» سے مراد منازل ہیں ۔ حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں قیامت کے دن ان کا منتشر ہو جانا ہے ۔ ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے مراد وہ ستارے ہیں جن کی نسبت مشرکین عقیدہ رکھتے تھے کہ فلاں فلاں تارے کی وجہ سے ہم پر بارش برسی ۔ پھر بیان ہوتا ہے کہ یہ بہت بڑی قسم ہے اس لیے کہ جس امر پر یہ قسم کھائی جا رہی ہے وہ بہت بڑا امر ہے یعنی یہ قرآن بڑی عظمت والی کتاب ہے معظم و محفوظ اور مضبوط کتاب میں ہے ۔ جسے صرف پاک ہاتھ ہی لگتے ہیں یعنی فرشتوں کے ہاں یہ اور بات ہے کہ دنیا میں اسے سب کے ہاتھ لگتے ہیں ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی قرأت میں «مَا یَمَسٰہُ» ہے ۔ ابوالعالیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں یہاں پاک سے مراد انسان نہیں انسان تو گنہگار ہے ۔ یہ کفار کا جواب ہے وہ کہتے تھے کہ اس قرآن کو لے کر شیطان اترتے ہیں ۔ جیسے اور جگہ فرمایا «وَمَا تَنَزَّلَتْ بِہِ الشَّیَاطِینُ» * «وَمَا یَنبَغِی لَہُمْ وَمَا یَسْتَطِیعُونَ» * «إِنَّہُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ» (26-الشعراء:212-210) یعنی اسے نہ تو شیطان لے کر اترے ہیں ، نہ ان کے یہ لائق ، نہ ان کی یہ مجال بلکہ وہ تو اس کے سننے سے بھی الگ ہیں ‘ ۔ یہی قول اس آیت کی تفسیر میں دل کو زیادہ لگتا ہے ۔ اور اقوال بھی اس کے مطابق ہو سکتے ہیں ۔ فراء نے کہا ہے اس کا ذائقہ اور اس کا لطف صرف باایمان لوگوں کو ہی میسر آتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں مراد جنابت اور حدث سے پاک ہونا ہے گو یہ خبر ہے لیکن مراد اس سے انشاء ہے ۔ اور قرآن سے مراد یہاں پر مصحف ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ مسلمان ناپاکی کی حالت میں قرآن کو ہاتھ نہ لگائے ۔ ایک حدیث میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن ساتھ لے کر حربی کافروں کے ملک میں جانے سے منع فرمایا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ اسے دشمن کچھ نقصان پہنچائے } ۔ (صحیح مسلم:4816) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمان سیدنا عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کو لکھ کر دیا تھا اس میں یہ بھی تھا کہ قرآن کو نہ چھوئے مگر پاک ۔ (موطامالک 199/1) مراسیل ابوداؤد میں ہے زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں نے خود اس کتاب کو دیکھا ہے اور اس میں یہ جملہ پڑھا ہے گو اس روایت کی بہت سی سندیں ہیں لیکن ہر ایک قابل غور ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» پھر ارشاد ہے کہ یہ قرآن شعر و سخن جادو اور فن نہیں بلکہ اللہ کا کلام ہے اور اسی کی جانب سے اترا ہے ، یہ سراسر حق ہے بلکہ صرف یہی حق ہے اس کے سوا اس کے خلاف جو ہے باطل اور یکسر مردود ہے ۔ پھر تم ایسی پاک بات سے کیوں انکار کرتے ہو ؟ کیوں اس سے ہٹنا اور یکسو ہو جانا چاہتے ہو ؟ کیا اس کا شکر یہی ہے کہ تم اسے جھٹلاؤ ؟ قبیلہ ازد کے کلام میں رزق شکر کے معنی میں آتا ہے ۔ مسند کی ایک حدیث میں بھی رزق کا معنی شکر کیا ہے ۔ مسند کی ایک حدیث میں بھی رزق کا معنی شکر ہے ۔ یعنی تم کہتے ہو کہ فلاں ستارے کی وجہ سے ہمیں پانی ملا اور فلاں ستارے سے فلاں چیز ۔ (سنن ترمذی:3295،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہر بارش کے موقعہ پر بعض لوگ کفریہ کلمات بک دیتے ہیں کہ بارش کا باعث فلاں ستارہ ہے ۔ موطا میں ہے ہم حدیبیہ کے میدان میں تھے رات کو بارش ہوئی ، صبح کی نماز کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا جانتے بھی ہو آج شب تمہارے رب نے کیا فرمایا ؟ لوگوں نے کہا اللہ کو اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ۔ آپ نے فرمایا سنو ! یہ فرمایا کہ آج میرے بندوں میں سے بہت سے میرے ساتھ کافر ہو گئے اور بہت سے ایماندار بن گئے ۔ جس نے کہا کہ ہم پر اللہ کے فضل و کرم سے پانی برسا وہ میری ذات پر ایمان رکھنے والا اور ستاروں سے کفر کرنے والا ہوا ۔ اور جس نے کہا فلاں فلاں ستارے سے بارش برسی اس نے میرے ساتھ کفر کیا اور اس ستارے پر ایمان لایا ۔ (صحیح بخاری:810) مسلم کی حدیث میں عموم ہے کہ آسمان سے جو برکت نازل ہوتی ہے وہ بعض کے ایمان کا اور بعض کے کفر کا باعث بن جاتی ہے ۔ (صحیح مسلم72-126) ہاں یہ خیال رہے کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا تھا کہ ثریا ستارہ کتنا باقی ہے ؟ پھر کہا تھا کہ اس علم والوں کا خیال ہے کہ یہ اپنے ساقط ہو جانے کے ہفتہ بھر بعد افق پر نمودار ہوتا ہے چنانچہ یہی ہوا بھی کہ اس سوال جواب اور استسقاء کو سات روز گزرے تھے جو پانی برسا ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:662/11) یہ واقعہ محمول ہے عادت اور تجربہ پر نہ یہ کہ اس ستارے میں ہے اور اس ستارے کو ہی اثر کا موجد جانتے ہوں ۔ اس قسم کا عقیدہ تو کفر ہے ہاں تجربہ سے کوئی چیز معلوم کر لینا یا کوئی بات کہہ دینا دوسری چیز ہے ، اس بارے کی بہت سی حدیثیں آیت « مَا یَفْتَحِ اللّٰہُ للنَّاسِ مِنْ رَّحْمَۃٍ فَلَا مُمْسِکَ لَہَا ۚ وَمَا یُمْسِکْ ۙ فَلَا مُرْسِلَ لَہٗ مِنْۢ بَعْدِہٖ ۭ وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ » ( 35- فاطر : 2 ) کی تفسیر میں گزر چکی ہیں ۔ ایک شخص کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہتے ہوئے سن لیا کہ فلاں ستارے کے اثر سے بارش ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو جھوٹا ہے یہ تو اللہ کی برسائی ہوئی ہے ، یہ رزق الٰہی ہے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:33560:ضعیف) ایک مرفوع حدیث میں ہے لوگوں کو نہ جانے کیا ہو گیا ہے اگر سات سال قحط سالی رہے اور پھر اللہ اپنے فضل و کرم سے بارش برسائے تو بھی یہ جھٹ سے زبان سے نکالنے لگیں گے کہ فلاں تارے نے برسایا ۔ (مسند احمد:7/3:حسن) مجاہد فرماتے ہیں اپنی روزی تکذیب کو ہی نہ بنا لو یعنی یوں نہ کہو کہ فلاں فراخی کا سبب فلاں چیز ہے بلکہ یوں کہو کہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے ۔ پس یہ بھی مطلب ہے اور یہ بھی کہ قرآن میں ان کا حصہ کچھ نہیں بلکہ ان کا حصہ یہی ہے کہ یہ اسے جھوٹا کہتے رہیں اور اسی مطلب کی تائید اس سے پہلے کی آیت سے بھی ہوتی ہے ۔ الواقعة
76 الواقعة
77 الواقعة
78 الواقعة
79 الواقعة
80 الواقعة
81 الواقعة
82 الواقعة
83 عالم نزع کی بےبسی اسی مضمون کی آیتیں سورۃ القیامہ میں بھی ہیں «کَلَّا إِذَا بَلَغَتِ التَّرَاقِیَ» * «وَقِیلَ مَنْ رَاقٍ» * «وَظَنَّ أَنَّہُ الْفِرَاقُ» * «وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ» * «إِلَی رَبِّکَ یَوْمَئِذٍ الْمَسَاقُ» (75-القیامۃ:26-30) فرماتا ہے کہ ایک شخص اپنے آخری وقت میں ہے نزع کا عالم ہے روح پرواز کر رہی ہے تم سب پاس بیٹھے دیکھ رہے ہو کوئی کچھ نہیں کر سکتا ہمارے فرشتے جنہیں تم دیکھ نہیں سکتے تم سے بھی زیادہ قریب اس مرنے والے سے ہیں ۔ جیسے اور جگہ ہے «وَہُوَ الْقَاہِرُ فَوْقَ عِبَادِہِ وَیُرْسِلُ عَلَیْکُمْ حَفَظَۃً حَتَّی إِذَا جَاءَ أَحَدَکُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْہُ رُسُلُنَا وَہُمْ لَا یُفَرِّطُونَ» * «ثُمَّ رُدٰوا إِلَی اللہِ مَوْلَاہُمُ الْحَقِّ أَلَا لَہُ الْحُکْمُ وَہُوَ أَسْرَعُ الْحَاسِبِینَ» (6-الانعام:62،61) اللہ اپنے بندوں پر غالب ہے وہ تم پر اپنے پاس سے محافظ بھیجتا ہے جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آ جاتا ہے تو ہمارے بھیجے ہوئے اسے ٹھیک طور پر فوت کر لیتے ہیں پھر وہ سب کے سب اللہ تعالیٰ مولائے حق کی طرف بازگشت کرائے جائیں گے جو حاکم ہے اور جلد حساب لے لینے والا ہے ۔ یہاں فرماتا ہے اگر سچ مچ تم لوگ کسی کے زیر فرمان نہیں ہو اگر یہ حق ہے کہ تم دوبارہ جینے اور میدان قیامت میں حاضر ہونے کے قائل نہیں ہو اور اس میں تم حق پر ہو اگر تمہیں حشر و نشر کا یقین نہیں اگر تم عذاب نہیں کئے جاؤ گے وغیرہ ۔ تو ہم کہتے ہیں اس روح کو جانے ہی کیوں دیتے ہو ؟ اگر تمہارے بس میں ہے تو حلق تک پہنچی ہوئی روح کو واپس اس کی اصلی جگہ پہنچا دو ۔ پس یاد رکھو جیسے اس روح کو اس جسم میں ڈالنے پر ہم قادر تھے اور اس کو بھی تم نے بہ چشم خود دیکھ لیا یقین مانو اسی طرح ہم دوبارہ اسی روح کو اس جسم میں ڈال کر نئی زندگی دینے پر بھی قادر ہیں ۔ تمہارا اپنی پیدائش میں دخل نہیں تو مرنے میں پھر دوبارہ جی اٹھنے میں تمہارا دخل کہاں سے ہو گیا ؟ پھر کیوں تم کہتے پھرتے ہو کہ ہم مر کر زندہ نہیں ہوں گے ۔ الواقعة
84 الواقعة
85 الواقعة
86 الواقعة
87 الواقعة
88 احوال موت یہاں وہ احوال بیان ہو رہے ہیں جو موت کے وقت ، سکرات کے وقت ، دنیا کی آخری ساعت میں ، انسانوں کے ہوتے ہیں کہ یا تو وہ اعلیٰ درجہ کا اللہ کا مقرب ہے یا اس سے کم درج کا ہے جن کے داہنے ہاتھ میں نامہ اعمال دیا جائے گا ۔ یا بالکل بدنصیب ہے جو اللہ سے جاہل رہا اور راہ حق سے غافل رہا ۔ فرماتا ہے کہ جو مقربین بارگاہ الٰہی ہیں ، جو احکام کے عامل تھے ، نافرمانیوں کے تارک تھے انہیں تو فرشتے طرح طرح کی خوشخبریاں سناتے ہیں ۔ جیسے کہ پہلے سیدنا براء رضی اللہ عنہ کی حدیث گزری کہ «أَیَّتُہَا الرٰوحُ الطَّیِّبَۃُ فِی الْجَسَدِ الطَّیِّبِ کُنْتِ تَعْمُرِینَہ ، اخْرُجِی إِلَی رَوْحٍ وَرَیْحَانٍ وَرَبَ غَیْرِ غَضْبَان» رحمت کے فرشتے اس سے کہتے ہیں اے پاک روح ! پاک جسم والی روح ! چل راحت و آرام کی طرف ، چل کبھی نہ ناراض ہونے والے رحمن کی طرف ۔ «رَوْحٍ» سے مرد راحت ہے اور «رَیْحَانٍ» سے مراد آرام ہے ۔ غرض دنیا کے مصائب سے راحت مل جاتی ہے ابدی سرور اور سچی خوشی اللہ کے غلام کو اسی وقت حاصل ہوتی ہے وہ ایک فراخی اور وسعت دیکھتا ہے اس کے سامنے رزق اور رحمت ہوتی ہے وہ جنت عدن کی طرف لپکتا ہے ۔ ابوالعالیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں جنت کی ایک ہری بھری شاخ آتی ہے اور اس وقت مقرب اللہ کی روح قبض کی جاتی ہے ۔ محمد بن کعب رحمہ اللہ فرماتے ہیں مرنے سے پہلے ہی ہر مرنے والے کو معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ جنتی ہے یا جہنمی ہے [ یا اللہ ! ہمارے اس وقت میں تو ہماری مدد کر ہمیں ایمان سے اٹھا اور اپنی رضا مندی کی خوشخبری سنا کر سکون و راحت کے ساتھ یہاں سے لے جا آمین ] گو سکرات کے وقت کی احادیث ہم سورۃ ابراہیم کی آیت « یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیٰوۃِ الدٰنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ» (14-ابراھیم:27) کی تفسیر میں وارد کر چکے ہیں لیکن چونکہ یہ ان کا بہترین موقعہ ہے اس لیے یہاں ایک ٹکڑا بیان کرتے ہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ ملک الموت سے فرماتا ہے میرے فلاں بندے کے پاس جا اور اسے میرے دربار میں لے آ ، میں نے اسے رنج ، راحت و آرام تکلیف ، خوشی ، ناخوشی غرض ہر آزمائش میں آزما لیا اور اپنی مرضی کے مطابق پایا بس اب میں اسے ابدی راحت دینا چاہتا ہوں ، جا اسے میرے خاص دربار میں پیش کر ۔ ملک الموت علیہ السلام پانچ سو رحمت کے فرشتے اور جنت کے کفن اور جنتی خوشبوئیں ساتھ لے کر اس کے پاس آتے ہیں گو ریحان ایک ہی ہوتا ہے لیکن سرے پر بیس قسمیں ہوتی ہیں ہر ایک کی جداگانہ مہک ہوتی ہے ، سفید ریشم ساتھ ہوتا ہے ، جس میں مشک کی لپٹیں آتی ہیں ، الخ ۔ مسند احمد میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت «فَرُوْحٌ» راء کے پیش سے تھی ۔ (سنن ابوداود:3991،قال الشیخ الألبانی:صحیح) لیکن تمام قاریوں کی قرأت رے کے زبر سے ہے یعنی «فَرُوْحٌ» ۔ مسند میں ہے سیدہ ام ہانی رضی اللہ عنہا نے رسول مقبول علیہ السلام سے پوچھا کیا مرنے کے بعد ہم آپس میں ایک دوسرے سے ملیں گے ؟ اور ایک دوسرے کو دیکھیں گے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” روح ایک پرند ہو جائے گی ، جو درختوں کے میوے چگے گی ، یہاں تک کہ قیامت قائم ہو اس وقت اپنے اپنے جسم میں چلی جائے گی ۔ (مسند احمد:425/6:صحیح) اس حدیث میں ہر مومن کے لیے بہت بڑی بشارت ہے ۔ مسند احمد میں بھی اس کی شاہد ایک حدیث ہے جس کی اسناد بہت بہتر ہے اور متن بھی بہت قوی ہے (مسند احمد:455/3:صحیح) اور صحیح روایت میں ہے شہیدوں کی روحیں سبز رنگ پرندوں کے قالب میں ہیں ، ساری جنت میں جہاں چاہیں کھاتی پیتی رہتی ہیں اور عرش تلے لٹکی ہوئی قندیلوں میں آ بیٹھتی ہیں ۔ (صحیح مسلم:121-1887) مسند احمد میں ہے کہ عبدالرحمٰن بن ابو یعلیٰ رحمہ اللہ ایک جنازے میں گدھے پر سوار جا رہے تھے آپ رحمہ اللہ کی عمر اس وقت بڑھاپے کی تھی ، سر اور داڑھی کے بال سفید تھے ، اسی اثناء میں آپ نے یہ حدیث بیان فرمائی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جو اللہ کی ملاقات کو پسند کرتا ہے ، اللہ بھی اس سے ملنا چاہتا ہے اور جو اللہ سے ملنے کو برا جانتا ہے ، اللہ بھی اس کی ملاقات سے کراہت کرتا ہے “ ، صحابہ رضی اللہ عنہم یہ سن کر سر جھکائے رونے لگے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” روتے کیوں ہوں ؟ “ ، صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا : اے اللہ کے رسول ! بھلا موت کون چاہتا ہے ؟ فرمایا : ” سنو سنو مطلب سکرات کے وقت سے ہے ، اس وقت نیک مقرب بندے کو تو راحت و انعام اور آرام دہ جنت کی خوشخبری سنائی جاتی ہے جس پر وہ تڑپ اٹھتا ہے اور چاہتا ہے کہ جہاں تک ممکن ہو جلد اللہ سے ملے تاکہ ان نعمتوں سے مالا مال ہو جائے ، پس اللہ بھی اس کی ملاقات کی تمنا کرتا ہے اور اگر بد بندہ ہے تو اسے موت کے وقت گرمی پانی اور جہنم کی مہمانی کی خبر دی جاتی ہے جس سے یہ بےزار ہو جاتا ہے اور اس کی روح روئیں روئیں میں چھپنے اور اٹکنے لگتی ہے اور یہ دل چاہتا ہے کہ کسی طرح اللہ کے حضور میں حاضر نہ ہوؤں پس اللہ بھی اس کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے “ ۔ (مسند احمد:259/4:حسن) پھر فرماتا ہے اگر وہ سعادت مندوں سے ہے تو موت کے فرشتے اسے سلام کہتے ہیں ، تجھ پر سلامتی ہو ، تو اصحاب یمین میں سے ہے ، اللہ کے عذاب سے تو سلامتی پائے گا اور خود فرشتے بھی اسے سلام کرتے ہیں ۔ جیسے اور آیت میں ہے «إِنَّ الَّذِینَ قَالُوا رَبٰنَا اللہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَیْہِمُ الْمَلَائِکَۃُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّۃِ الَّتِی کُنتُمْ تُوعَدُونَ» * «نَحْنُ أَوْلِیَاؤُکُمْ فِی الْحَیَاۃِ الدٰنْیَا وَفِی الْآخِرَۃِ وَلَکُمْ فِیہَا مَا تَشْتَہِی أَنفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیہَا مَا تَدَّعُونَ» * «نُزُلًا مِّنْ غَفُورٍ رَّحِیمٍ» (41-فصلت:30-32) یعنی ’ سچے پکے توحید والوں کے پاس ان کے انتقال کے وقت رحمت کے فرشتے آتے ہیں اور انہیں بشارت دیتے ہیں کہ کچھ ڈر خوف نہیں ، کچھ رنج و غم نہ کر ، جنت تیرے لیے حسب وعدہ تیار ہے ، دنیا اور آخرت میں ہم تیری حمایت کے لیے موجود ہیں ، جو تمہارا جی چاہے تمہارے لیے موجود ہے ، جو تمنا تم کرو گے پوری ہو کر رہے گی ، غفور و رحیم اللہ کے تم ذی عزت مہمان ہو ‘ ۔ بخاری میں ہے یعنی تیرے لیے مسّلم ہے کہ تو اصحاب یمین میں سے ہے ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سلام یہاں دعا کے معنی میں ہو ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» اور اگر مرنے والا حق کی تکذیب کرنے والا اور ہدایت سے کھویا ہوا ہے تو اس کی ضیافت اس گرم «حَمِیم» سے ہو گی جو آنتیں اور کھال تک جھلسا دے ، پھر چاروں طرف سے جہنم کی آگ گھیر لے گی جس میں جلتا بھنتا رہے گا ۔ * پھر فرمایا یہ یقینی باتیں ہیں جن کے حق ہونے میں کوئی شبہ نہیں ۔ پس اپنے بڑے رب کے نام کی تسبیح کرتا رہے ۔ مسند میں ہے اس آیت «فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّکَ الْعَظِیمِ» (الواقعہ:96) کے اترنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اسے رکوع میں رکھو “ اور «سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلَی» (سورۃالأعلی87:1) اترنے پر فرمایا : ” اسے سجدے میں رکھو “ ۔ (سنن ابوداود:869،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ” جس نے «سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیمِ وَبِحَمْدِہِ» کہا اس کے لیے جنت میں ایک درخت لگایا جاتا ۔ (سنن ترمذی:3464،قال الشیخ الألبانی:صحیح) صحیح بخاری کے ختم پر یہ حدیث ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” دو کلمے ہیں جو زبان پر ہلکے ہیں ، میزان میں بوجھ ہیں اللہ کو بہت پیارے ہیں ۔ «سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہِ سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیمِ» (صحیح بخاری:6406) «الحمدللہ» سورۃ الواقعہ کی تفسیر ختم ہوئی اللہ قبول فرمائے [ اور ہمارے کل واقعات کا انجام بھلا کرے ] ۔ الواقعة
89 الواقعة
90 الواقعة
91 الواقعة
92 الواقعة
93 الواقعة
94 الواقعة
95 الواقعة
96 الواقعة
0 الحديد
1 کل کائنات ثنأ خواں ہے تمام حیوانات ، سب نباتات اس کی پاکی بیان کرتے ہیں ، «تُسَبِّحُ لَہُ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَالْأَرْضُ وَمَن فِیہِنَّ وَإِن مِّن شَیْءٍ إِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِہِ وَلٰکِن لَّا تَفْقَہُونَ تَسْبِیحَہُمْ إِنَّہُ کَانَ حَلِیمًا غَفُورًا» ۱؎ (17-الإسراء:44) ’ ساتوں آسمان ، زمینیں ، ان کی مخلوق اور ہر ایک چیز اس کی ستائش کرنے میں مشغول ہے گو تم ان کی تسبیح نہ سمجھ سکو اللہ حلیم و غفور ہے ۔ ‘ اس کے سامنے ہر کوئی پست و عاجز و لاچار ہے ، اس کی مقرر کردہ شریعت اور اس کے احکام الحکمت سے پر ہیں ۔ حقیقی بادشاہ جس کی ملکیت میں آسمان و زمین ہیں وہی ہے ، خلق میں متصرف وہی ہے ، زندگی موت اسی کے قبضے میں ہے ، وہی فنا کرتا ہے ، وہی پیدا کرتا ہے ۔ جسے جو چاہے عنایت فرماتا ہے ، ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ، جو چاہتا ہے ہو جاتا ہے ، جو نہ چاہے نہیں ہو سکتا ۔ اس کے بعد کی آیت «ہُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاہِرُ وَالْبَاطِنُ وَہُوَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیمٌ» ‏‏‏‏ ۱؎ (57-الحدید:3) وہ آیت ہے جس کی بابت اوپر کی حدیث میں گزرا کہ ایک ہزار آیتوں سے افضل ہے ۔ ابوزمیل رحمہ اللہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہتے ہیں کہ میرے دل میں ایک کھٹکا ہے لیکن زبان پر لانے کو جی نہیں چاہتا اس پر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے مسکرا کر فرمایا شاید کچھ شک ہو گا جس سے کوئی نہیں بچا یہاں تک کہ قرآن میں ہے «‏‏‏‏فَاِنْ کُنْتَ فِیْ شَکٍّ مِّمَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ فَسْــــَٔـلِ الَّذِیْنَ یَقْرَءُوْنَ الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکَ لَقَدْ جَاءَکَ الْحَقٰ مِنْ رَّبِّکَ فَلَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ» ‏‏‏‏ ۱؎ (10-یونس:94) ، یعنی ’ اگر تو جو کچھ تیری طرف نازل کیا گیا ہے اس میں شک میں ہو تو تجھ سے پہلے جو کتاب پڑھتے ہیں ان سے پوچھ لے ۔‘ پھر فرمایا جب تیرے دل میں کوئی شک ہو تو اس آیت کو پڑھ لیا کر «‏‏‏‏ہُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاہِرُ وَالْبَاطِنُ وَہُوَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ»‏‏‏‏ ۱؎ (57-الحدید:3) اس آیت کی تفسیر میں دس سے اوپر اوپر اقوال ہیں ۔ بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں یحییٰ کا قول ہے کہ ظاہر باطن سے مراد از روئے علم ہر چیز پر ظاہر اور پوشیدہ ہونا ہے ۔ یہ یحییٰ زیاد فراء کے لڑکے ہیں ان کی ایک تصنیف ہے جس کا نام معانی القرآن ہے ۔ مسند احمد میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سونے کے وقت یہ دعا پڑھا کرتے «اللْہُمَّ رَبَّ السَّموَاتِ السَّبْعِ ، وَرَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ ، رَبَّنَا وَرَبَّ کُلِّ شَیْءٍ ، مُنْزِلَ التَّوْرَاۃِ وَالْإِنْجِیلِ وَالْفُرْقَانِ ، فَالِقَ الْحَبِّ وَالنَّوَی ، لَا إِلہَ إِلَّا أَنْتَ ، أَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ کُلِّ شَیْءٍ أَنْتَ آخِذٌ بِنَاصِیَتِہِ ، أَنْتَ الْأَوَّلُ لَیْسَ قَبْلَکَ شَیْءٌ ، وَأَنْتَ الْاخِرُ لَیْسَ بَعْدَکَ شَیْءٌ ، وَأَنْتَ الظَّاہِرُ لَیْسَ فَوْقَکَ شَیْءٌ ، وَأَنْتَ الْبَاطِنُ لَیْسَ دُونَکَ شَیْءٌ. اقْضِ عَنَّا الدَّیْنَ ، وَأَغْنِنَا مِنَ الْفَقْر» ” اے اللہ ، اے ساتوں آسمانوں کے اور عرش عظیم کے رب ، اے ہمارے اور ہر چیز کے رب ! اے تورات و انجیل کے اتارنے والے ! اے دانوں اور گٹھلیوں کو اگانے والے ، تیرے سوا کوئی لائق عبادت نہیں میں تیری پناہ میں آتا ہوں ہر اس چیز کی برائی سے کہ اس کی چوٹی تیرے ہاتھ میں ہے تو اول ہے تجھ سے پہلے کچھ نہ تھا تو ہی آخر ہے تیرے بعد کچھ نہیں تو ظاہر ہے تجھ سے اونچی کوئی چیز نہیں تو باطن ہے تجھ سے چھپی کوئی چیز نہیں ہمارے قرض ادا کرا دے اور ہمیں فقیری سے غنا دے “ } ۔ ۱؎ (مسند احمد:404/2:صحیح) ابوصالح اپنے متعلقین کو یہ دعا سکھاتے اور فرماتے سوتے وقت داہنی کروٹ پر لیٹ کر یہ دعا پڑھ لیا کرو ، الفاظ میں کچھ ہیر پھیر ہے ۔ ملاحظہ ہو مسلم ۔۱؎ (صحیح مسلم:2813) ابو یعلیٰ میں ہے ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ” نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بسترہ قبلہ رخ بچھایا جاتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم آ کر اپنے داہنے ہاتھ پر تکیہ لگا کر آرام فرماتے ، پھر آہستہ آہستہ کچھ پڑھتے رہتے لیکن آخر رات میں با آواز بلند یہ دعا پڑھتے [ جو اوپر بیان ہوئی ] “ الفاظ میں کچھ ہیر پھیر ہے ۔ ۱؎ (مسند ابویعلیٰ:4774ضعیف) اس آیت کی تفسیر میں جامع ترمذی میں ہے کہ { نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم سمیت تشریف فرما تھے کہ ایک بادل سر پر آ گیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جانتے ہو یہ کیا ہے ؟ “ ، صحابہ رضی اللہ عنہم نے با ادب جواب دیا اللہ اور اس کے رسول زیادہ جاننے والے ہیں ۔ فرمایا : ” اسے عنان کہتے ہیں ، یہ زمین کو سیراب کرنے والے ہیں ان لوگوں پر بھی یہ برسائے جاتے ہیں جو نہ اللہ کے شکر گزار ہیں ، نہ اللہ کے پکارنے والے “ ، پھر پوچھا : ” معلوم ہے تمہارے اوپر کیا ہے؟ “ ، انہوں نے کہا : اللہ اور اس کا رسول زیادہ باخبر ہے ، فرمایا: ” بلند محفوظ چھت اور لپٹی ہوئی موج ، جانتے ہو تم میں اس میں کس قدر فاصلہ ہے؟ “ ، وہی جواب ملا ، فرمایا : ” پانچ سو سال کا راستہ “ ، پھر پوچھا : ” جانتے ہو اس کے اوپر کیا ہے ؟ “ صحابہ رضی اللہ عنہم نے پھر اپنی لاعلمی ان ہی الفاظ میں ظاہر کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” اس کے اوپر پھر دوسرا آسمان ہے اور ان دونوں آسمانوں میں بھی پانچ سو سال کا فاصلہ ہے اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سات آسمان گنوائے اور ہر دو میں اتنی ہی دوری بیان فرمائی “ پھر سوال کر کے جواب سن کر فرمایا : ” اس ساتویں کے اوپر اتنے ہی فاصلہ سے عرش ہے “ ، پھر پوچھا : ” جانتے ہو تمہارے نیچے کیا ہے “ اور جواب وہی سن کر فرمایا : ” دوسری زمین ہے “ ، پھر سوال جواب کے بعد فرمایا : ” اس کے نیچے دوسری زمین ہے اور دونوں زمینوں کے درمیان پانچ سو سال کا فاصلہ ہے ، اسی طرح سات زمینیں اسی فاصلہ کے ساتھ ایک دوسرے کے نیچے بتائیں “ ، پھر فرمایا: ” اس کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے اگر تم کوئی رسی سب سے نیچے کی زمین کی طرف لٹکاؤ تو وہ بھی اللہ کے پاس پہنچے گی “ ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی آیت کی تلاوت کی } ۔ لیکن یہ حدیث غریب ہے اس کے راوی حسن رحمہ اللہ کا اپنے استاد سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سننا ثابت نہیں جیسے کہ ایوب، یونس اور علی بن زید رحمہ اللہ علیہم محدثین کا قول ہے ۔ بعض اہل علم نے اس حدیث کی شرح میں کہا ہے کہ اس سے مراد رسی کا اللہ تعالیٰ کے علم قدرت اور غلبے تک پہنچنا ہے [ نہ کہ ذات باری تعالیٰ ] اللہ تعالیٰ کا علم ، اس کی قدرت اور اس کا غلبہ اور سلطنت بیشک ہر جگہ ہے لیکن وہ اپنی ذات سے عرش پر ہے جیسے کہ اس نے اپنا یہ وصف اپنی کتاب میں خود بیان فرمایا ہے ۔ مسند احمد میں بھی یہ حدیث ہے اور اس میں دو دو زمینوں کے درمیان کا فاصلہ سات سو سال کا بیان ہوا ۔ ابن ابی حاتم اور بزار میں بھی یہ حدیث ہے لیکن ابن ابی حاتم میں رسی لٹکانے کا جملہ نہیں اور ہر دو زمین کے درمیان کی دوری اس میں بھی پانچ سو سال کی بیان ہوئی ہے ۔ امام بزار رحمہ اللہ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اس روایت کا راوی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بغیر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے اور کوئی نہیں ۔ ابن جریر میں یہ حدیث مرسلاً مروی ہے یعنی قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ہم سے یوں ذکر کیا گیا ہے پھر حدیث بیان کرتے ہیں صحابی کا نام نہیں لیتے ۔ ممکن ہے یہی ٹھیک ہو ۔«وَاللہُ اَعْلَمُ» سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے مسند بزار اور کتاب الاسماء و الصفات بیہقی میں یہ حدیث مروی ہے لیکن اس کی اسناد میں نظر ہے اور متن میں غربت و نکارت ہے ۔ «وَاللہُ سُبْحَانَہُ وَ تَعَالیٰ اَعْلَمُ» امام ابن جریر رحمہ اللہ آیت «وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَہُنّ» ۱؎ (65-الطلاق:12) کی تفسیر میں قتادہ رحمہ اللہ کا قول لائے ہیں کہ آسمان و زمین کے درمیان چار فرشتوں کی ملاقات ہوئی ۔ آپس میں پوچھا کہ تم کہاں سے آ رہے ہو ؟ تو ایک نے کہا ساتویں آسمان سے مجھے اللہ عزوجل نے بھیجا ہے اور میں نے اللہ کو وہیں چھوڑا ہے ۔ دوسرے نے کہا ساتویں زمین سے مجھے اللہ نے بھیجا تھا اور اللہ وہیں تھا ، تیسرے نے کہا میرے رب نے مجھے مشرق سے بھیجا ہے جہاں وہ تھا ، چوتھے نے کہا مجھے مغرب سے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے اور میں اسے وہیں چھوڑ کر آ رہا ہوں ۔ لیکن یہ روایت بھی غریب ہے بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قتادہ رحمہ اللہ والی اوپر کی روایت جو مرسلاً بیان ہوئی ہے ممکن ہے وہ بھی قتادہ رحمہ اللہ کا اپنا قول ہو جیسے یہ قول خود قتادہ رحمہ اللہ کا اپنا ہے۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» الحديد
2 الحديد
3 الحديد
4 ہر چیز کا خالق و مالک اللہ ہے اللہ تعالیٰ کا زمین و آسمان کو چھ دن میں پیدا کرنا اور عرش پر قرار پکڑنا «ہُوَ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِی سِتَّۃِ أَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَی عَلَی الْعَرْشِ» ۱؎ (57-الحدید:4) سورۃ الاعراف کی تفسیر میں پوری طرح بیان ہو چکا ہے اس لیے یہاں دوبارہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں ۔ «یَعْلَمُ مَا یَلِجُ فِی الْأَرْضِ وَمَا یَخْرُجُ مِنْہَا وَمَا یَنْزِلُ مِنَ السَّمَاءِ وَمَا یَعْرُجُ فِیہَا» ۱؎ (57-الحدید:4) ’ اسے بخوبی علم ہے کہ کس قدر بارش کی بوندیں زمین میں گئیں ، کتنے دانے زمین میں پڑے اور کیا چارہ پیدا ہوا کس قدر کھیتیاں ہوئیں اور کتنے پھل کھلے ۔‘ جیسے اور آیت میں ہے «وَعِندَہُ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لاَ یَعْلَمُہَآ إِلاَّ ہُوَ وَیَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَا تَسْقُطُ مِن وَرَقَۃٍ إِلاَّ یَعْلَمُہَا وَلاَ حَبَّۃٍ فِی ظُلُمَـتِ الاٌّرْضِ وَلاَ رَطْبٍ وَلاَ یَابِسٍ إِلاَّ فِی کِتَـبٍ مٰبِینٍ » ۱؎ (6-الأنعام:59) ، ’ غیب کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں جنہیں سوائے اس کے اور کوئی جانتا ہی نہیں وہ خشکی اور تری کی تمام چیزوں کا عالم ہے ، کسی پتے کا گرنا بھی اس کے علم سے باہر نہیں ، زمین کے اندھیروں میں پوشیدہ دانہ اور کوئی تر و خشک چیز ایسی نہیں جو کھلی کتاب میں موجود نہ ہو۔‘ اسی طرح آسمان سے نازل ہونے والی بارش ، اولے ، برف ، تقدیر اور احکام جو برتر فرشتوں کے بذریعہ نازل ہوتے ہیں ، سب اس کے علم میں ہیں ۔ سورۃ البقرہ کی تفسیر میں یہ گزر چکا ہے کہ اللہ کے مقرر کردہ فرشتے بارش کے ایک ایک قطرے کو اللہ کی بتائی ہوئی جگہ پہنچا دیتے ہیں ، آسمان سے اترنے والے فرشتے اور اعمال بھی اس کے وسیع علم میں ہیں ۔ جیسے صحیح حدیث میں ہے { رات کے اعمال دن سے پہلے اور دن کے اعمال رات سے پہلے اس کی جناب میں پیش کر دیئے جاتے ہیں } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:293) اور آیت میں ہے «وَ اللہُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیرٌ» ۱؎ (3-آل عمران:156) وہ تمہارے ساتھ ہے یعنی تمہارا نگہبان ہے ۔ تمہارے اعمال و افعال کو دیکھ رہا ہے جیسے بھی ہوں جو بھی ہوں اور تم بھی خواہ خشکی میں ہو خواہ تری میں ، راتیں ہوں یا دن ہوں ، تم گھر میں ہو یا جنگل میں ، ہر حالت میں اس کے علم کے لیے یکساں ہر وقت اس کی نگاہیں اور اس کا سننا تمہارے ساتھ ہے ۔ وہ تمہارے تمام کلمات سنتا رہتا ہے تمہارا حال دیکھتا رہتا ہے ، تمہارے چھپے کھلے کا اسے علم ہے ۔ جیسے فرمایا ہے کہ «أَلا إِنَّہُمْ یَثْنُونَ صُدُورَہُمْ لِیَسْتَخْفُواْ مِنْہُ أَلا حِینَ یَسْتَغْشُونَ ثِیَابَہُمْ یَعْلَمُ مَا یُسِرٰونَ وَمَا یُعْلِنُونَ إِنَّہُ عَلِیمٌ بِذَاتِ الصٰدُورِ» (11-ہود:5) یعنی ’ اس سے جو چھپنا چاہے اس کا وہ فعل فضول ہے بھلا ظاہر باطن بلکہ دلوں کے ارادے تک سے واقفیت رکھنے والے سے کوئی کیسے چھپ سکتا ہے ؟ ‘ ایک اور آیت میں «سَوَآءٌ مِّنْکُمْ مَّنْ أَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَنْ جَہَرَ بِہِ وَمَنْ ہُوَ مُسْتَخْفٍ بِالَّیْلِ وَسَارِبٌ بِالنَّہَارِ» ۱؎ (13-الرعد:10) ہے ’ پوشیدہ باتیں ظاہر باتیں راتوں کو دن کو جو بھی ہوں سب اس پر روشن ہیں ۔‘ یہ سچ ہے وہی رب ہے وہی معبود برحق ہے ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ جبرائیل کے سوال پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” احسان یہ ہے کہ تو اللہ کی عبادت اس طرح کر کہ گویا تو اللہ کو دیکھ رہا ہے ۔ پس اگر تو اسے نہیں دیکھ رہا تو وہ تو تجھے دیکھ رہا ہے “ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:50) { ایک شخص آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کرتا ہے کہ ” یا رسول اللہ ! مجھے کوئی ایسا حکمت کا توشہ دیجئیے کہ میری زندگی سنور جائے “ ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” اللہ تعالیٰ کا لحاظ کر اور اس سے اس طرح شرما جیسے کہ تو اپنے کسی نزدیکی نیم قرابتدار سے شرماتا ہو جو تجھ سے کبھی جدا نہ ہوتا ہو “ } ۔ ۱؎ (بیہقی فی شعب الایمان:145/6:ضعیف) یہ حدیث ابوبکر اسماعیلی نے روایت کی ہے سند غریب ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے { جس نے تین کام کر لیے اس نے ایمان کا مزہ اٹھا لیا ۔ ایک اللہ کی عبادت کی اور اپنے مال کی زکوٰۃ ہنسی خوشی راضی رضا مندی سے ادا کی ۔ جانور اگر زکوٰۃ میں دینے ہیں تو بوڑھے بیکار دبلے پتلے اور بیمار نہ دئیے بلکہ درمیانہ راہ اللہ میں دیا اور اپنے نفس کو پاک کیا “ ۔ اس پر ایک شخص نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ ! نفس کو پاک کرنے کا کیا مطلب ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” اس بات کو دل میں محسوس کرے اور یقین و عقیدہ رکھے کہ ہر جگہ اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ہے “ } ۔ ۱؎ (ابونعیم) اور حدیث میں ہے { افضل ایمان یہ ہے کہ تو جان رکھے کہ تو جہاں کہیں ہے اللہ تیرے ساتھ ہے۔ } ۱؎ (ابونعیم فی الحلیۃ:124/6) امام احمد رحمہ اللہ علیہ اکثر ان دو شعروں کو پڑھتے رہتے تھے «إِذَا مَا خَلَوْت الدَّہْر یَوْمًا فَلَا تَقُلْ» * «خَلَوْت وَلَکِنْ قُلْ عَلَیَّ رَقِیبُ» * «وَلَا تَحْسَبَنَّ اللَّہ یَغْفُل سَاعَۃ» * «وَلَا أَنَّ مَا تُخْفِی عَلَیْہِ یَغِیبُ» یعنی جب تو بالکل تنہائی اور خلوت میں ہو اس وقت بھی یہ نہ کہہ کہ میں اکیلا ہی ہوں بلکہ کہتا رہ کہ تجھ پر ایک نگہبان ہے یعنی اللہ تعالیٰ ، کسی ساعت اللہ تعالیٰ کو بے خبر نہ سمجھ اور مخفی سے مخفی کام کو اس پر مخفی نہ مان ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ دنیا اور آخرت کا مالک وہی ہے۔ ‘ جیسے اور آیت میں ہے «وَاِنَّ لَنَا لَـلْاٰخِرَۃَ وَالْاُوْلٰی» ۱؎ (92-اللیل:13) ’ دنیا آخرت کی ملکیت ہماری ہی ہے ۔‘ اس کی تعریف اس بادشاہت پر بھی کرنی ہمارا فرض ہے ۔ فرماتا ہے «وَہُوَ اللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ لَہُ الْحَمْدُ فِی الْاُوْلٰی وَالْاٰخِرَۃِ ۡ وَلَہُ الْحُکْمُ وَاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ» ۱؎ (28-القصص:70) یعنی ’ وہی معبود برحق ہے اور وہی حمد و ثناء کا مستحق ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ ‘ ایک اور آیت میں ہے «الْحَمْدُ لِلہِ الَّذِی لَہُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ وَلَہُ الْحَمْدُ فِی الْآخِرَۃِ وَہُوَ الْحَکِیمُ الْخَبِیرُ» ۱؎ (34-سبأ:1) ’ اللہ کے لیے تمام تعریفیں ہیں جس کی ملکیت میں آسمان و زمین کی تمام چیزیں ہیں اور اسی کی حمد ہے آخرت میں اور وہ دانا خبردار ہے ۔‘ پس ہر وہ چیز جو آسمان و زمین میں ہے اس کی بادشاہت میں ہے ۔ ساری آسمان و زمین کی مخلوق اس کی غلام اور اس کی خدمت گزار اور اس کے سامنے پست ہے ۔ جیسے فرمایا «اِنْ کُلٰ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اِلَّآ اٰتِی الرَّحْمٰنِ عَبْدًا لَّقَدْ أَحْصَاہُمْ وَعَدَّہُمْ عَدًّا وَکُلٰہُمْ آتِیہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَرْدًا» ۱؎ (19-مریم:95-93) ’ آسمان و زمین کی کل مخلوق رحمن کے سامنے غلامی کی حیثیت میں پیش ہونے والی ہے ان سب کو اس نے گھیر رکھا ہے اور سب کو ایک ایک کر کے گن رکھا ہے ، اسی کی طرف تمام امور لوٹائے جاتے ہیں ، اپنی مخلوق میں جو چاہے حکم دیتا ہے ‘ ۔ «إِنَّ اللہَ لَا یَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ وَإِن تَکُ حَسَنَۃً یُضَاعِفْہَا وَیُؤْتِ مِن لَّدُنْہُ أَجْرًا عَظِیمًا » (4-النسأ:40) ’ وہ عدل ہے ظلم نہیں کرتا ، بلکہ ایک نیکی کو دس گنا بڑھا کر دیتا ہے اور پھر اپنے پاس سے اجر عظیم عنایت فرماتا ہے ‘ ۔ ارشاد ہے «وَنَضَعُ الْمَوَازِینَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیَامَۃِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْئًا وَإِن کَانَ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ أَتَیْنَا بِہَا وَکَفَیٰ بِنَا حَاسِبِینَ» (21-الأنبیاء:47) ’ قیامت کے روز ہم عدل کی ترازو رکھیں گے اور کسی پر ظلم نہ کیا جائے گا ، رائی کے برابر کا عمل بھی ہم سامنے لا رکھیں گے اور ہم حساب کرنے اور لینے میں کافی ہیں ‘ ۔ پھر فرمایا ’ خلق میں تصرف بھی اسی کا چلتا ہے ، دن رات کی گردش بھی اسی کے ہاتھ ہے اپنی حکمت سے گھٹاتا بڑھاتا ہے کبھی دن لمبے ، کبھی راتیں اور کبھی دونوں یکساں ، کبھی جاڑا ، کبھی گرمی ، کبھی بارش ، کبھی بہار ، کبھی خزاں اور یہ سب بندوں کی خیر خواہی اور ان کی مصلحت کے لحاظ سے ہے ۔ وہ دلوں کی چھوٹی سے چھوٹی باتوں اور دور کے پوشیدہ رازوں سے بھی واقف ہے ‘ ۔ الحديد
5 الحديد
6 الحديد
7 ایمان لانے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا حکم اللہ تبارک و تعالیٰ خود اپنے اوپر اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے اور اس پر مضبوطی اور ہمیشگی کے ساتھ جم کر رہنے کی ہدایت فرماتا ہے اور اپنی راہ میں خیرات کرنے کی رغبت دلاتا ہے جو مال ہاتھوں ہاتھ تمہیں اس نے پہنچایا ہو تم اس کی اطاعت گزاری میں اسے خرچ کرو اور سمجھ لو کہ جس طرح دوسرے ہاتھوں سے تمہیں ملا ہے اسی طرح عنقریب تمہارے ہاتھوں سے دوسرے ہاتھوں میں چلا جائے گا اور تم پر حساب اور عتاب رہ جائے گا اور اس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ تیرے بعد تیرا وارث ممکن ہے نیک ہو اور وہ تیرے ترکے کو میری راہ میں خرچ کر کے مجھ سے قربت حاصل کرے اور ممکن ہے کہ وہ بد اور اپنی مستی اور سیاہ کاری میں تیرا اندوختہ فنا کر دے اور اس کی بدیوں کا باعث تو بنے ، نہ تو چھوڑتا ، نہ اڑاتا ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سورۃ «أَلْہَاکُمُ التَّکَاثُرُ » الخ پڑھ کر فرمانے لگے ” انسان گو کہتا رہتا ہے یہ بھی میرا مال ہے ، یہ بھی میرا مال ہے حالانکہ دراصل انسان کا مال وہ ہے جو کھا لیا پہن لیا صدقہ کر دیا کھایا ہوا فنا ہو گیا ، پہنا ہوا پرانا ہو کر برباد ہو گیا ، ہاں راہ اللہ دیا ہوا بطور خزانہ کے جمع رہا۔ “ } (صحیح مسلم:2985) اور جو باقی رہے گا وہ تو اوروں کا مال ہے تو تو اسے جمع کر کے چھوڑ جانے والا ہے ۔ پھر ان ہی دونوں باتوں کی ترغیب دلاتا ہے اور بہت بڑے اجر کا وعدہ دیتا ہے ۔ پھر فرماتا ہے «وَمَا لَکُمْ لَا تُؤْمِنُونَ بِ اللہِ وَالرَّسُولُ یَدْعُوکُمْ لِتُؤْمِنُوا بِرَبِّکُمْ» ۱؎ (57-الحدید:8) یعنی تمہیں ایمان سے کون سی چیز روکتی ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تم میں موجود ہیں وہ تمہیں ایمان کی طرف بلا رہے ہیں دلیلیں دے رہے ہیں اور معجزے دکھا رہے ہیں ۔ صحیح بخاری کی شرح کے ابتدائی حصہ کتاب الایمان میں ہم یہ حدیث بیان کر آئے ہیں کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : ” سب سے زیادہ اچھے ایمان والے تمہارے نزدیک کون ہیں ؟ “ کہا فرشتے ، فرمایا : ” وہ تو اللہ کے پاس ہی ہیں پھر ایمان کیوں نہ لاتے ؟ “ ، کہا پھر انبیاء علیہ السلام ، فرمایا : ” ان پر تو وحی اور کلام اللہ اترتا ہے وہ کیسے ایمان نہ لاتے ؟ “ کہا پھر ہم ، فرمایا : ” واہ تم ایمان سے کیسے رک سکتے تھے ، میں تم میں زندہ موجود ہوں ، سنو بہترین اور عجیب تر ایماندار وہ لوگ ہیں جو تمہارے بعد آئیں گے ، صحیفوں میں لکھا دیکھیں گے اور ایمان قبول کریں گے “ } ۔ ۱؎ (تخریج احادیث و آثار کتاب فی ظلال القرآن:290حسن لغیرہ) سورۃ البقرہ کے شروع میں آیت «الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بالْغَیْبِ وَ یُـقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ» (2-البقرۃ:3) کی تفسیر میں بھی ہم ایسی احادیث لکھ آئے ہیں ۔ پھر انہیں روز میثاق کا قول و قرار یاد دلاتا ہے جیسے اور آیت میں ہے «وَاذْکُرُوا نِعْمَۃَ اللہِ عَلَیْکُمْ وَمِیثَاقَہُ الَّذِی وَاثَقَکُم بِہِ إِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا وَاتَّقُوا اللہَ إِنَّ اللہَ عَلِیمٌ بِذَاتِ الصٰدُورِ» (5-المائدۃ:7) اس سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرنا ہے اور امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں مراد وہ میثاق ہے جو آدم کی پیٹھ میں ان سے لیا گیا تھا ، مجاہد رحمہ اللہ کا بھی یہی مذہب ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» الحديد
8 الحديد
9 اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنا وہ اللہ جو اپنے بندے [رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم] پر روشن حجتیں اور بہترین دلائل اور عمدہ تر آیتیں نازل فرماتا ہے تاکہ ظلم و جہل کی گھنگھور گھٹاؤں اور رائے قیاس کی بدترین اندھیریوں سے تمہیں نکال کر نورانی اور روشن صاف اور سیدھی راہ حق پر لا کھڑا کر دے ۔ اللہ رؤف ہے ساتھ ہی رحیم ہے یہ اس کا سلوک اور کرم ہے کہ لوگوں کی رہنمائی کے لیے کتابیں اتاریں ، رسول بھیجے ، شکوک و شبہات دور کر دیئے ، ہدایت کی وضاحت کر دی ۔ ایمان اور خیرات کا حکم کر کے پھر ایمان کی رغبت دلا کر اور یہ بیان فرما کر کہ ’ ایمان نہ لانے کا اب کوئی عذر میں نے باقی نہیں رکھا ‘ ۔ پھر صدقات کی رغبت دلائی ، اور فرمایا ’ میری راہ میں خرچ کرو اور فقیری سے نہ ڈرو ، اس لیے کہ جس کی راہ میں تم خرچ کر رہے ہو وہ زمین و آسمان کے خزانوں کا تنہا مالک ہے ، عرش و کرسی اسی کی ہے اور وہ تم سے اس خیرات کے بدلے انعام کا وعدہ کر چکا ہے ۔‘ فرماتا ہے «وَمَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَہُوَ یُخْلِفُہٗ وَہُوَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ» ۱؎ (34-سبأ:39) ’ جو کچھ تم راہ اللہ دو گے اس کا بہترین بدلہ وہ تمہیں دے گا اور روزی رساں درحقیقت وہی ہے۔ ‘ اور فرماتا ہے «مَا عِنْدَکُمْ یَنْفَدُ وَمَا عِنْدَ اللّٰہِ بَاقٍ» ۱؎ (16-النحل:96) ’ اگر یہ فانی مال تم خرچ کرو گے وہ اپنے پاس کا ہمیشگی والا مال تمہیں دے گا ۔‘ توکل والے خرچ کرتے رہتے ہیں اور مالک عرش انہیں تنگی ترشی سے محفوظ رکھتا ہے ، انہیں اس بات کا اعتماد ہوتا ہے کہ ہمارے فی سبیل اللہ خرچ کردہ مال کا بدلہ دونوں جہان میں ہمیں قطعاً مل کر رہے گا ۔ پھر اس امر کا بیان ہو رہا ہے کہ فتح مکہ سے پہلے جن لوگوں نے راہ اللہ خرچ کیا اور جہاد کیا اور جن لوگوں نے یہ نہیں کیا گو بعد فتح مکہ کیا ہو یہ دونوں برابر نہیں ہیں ۔ اس وجہ سے بھی کہ اس وقت تنگی ترشی زیادہ تھی اور قوت طاقت کم تھی اور اس لیے بھی کہ اس وقت ایمان وہی قبول کرتا تھا جس کا دل ہر میل کچیل سے پاک ہوتا تھا ۔ فتح مکہ کے بعد تو اسلام کو کھلا غلبہ ملا اور مسلمانوں کی تعداد بہت زیادہ ہو گئی اور فتوحات کی وسعت ہوئی ساتھ ہی مال بھی نظر آنے لگا ، پس اس وقت اور اس وقت میں جتنا فرق ہے اتنا ہی ان لوگوں اور ان لوگوں کے اجر میں فرق ہے ، انہیں بہت بڑے اجر ملیں گے گو دونوں اصل بھلائی اور اصل اجر میں شریک ہیں ۔ بعض نے کہا ہے فتح سے مراد صلح حدیبیہ ہے ۔ اس کی تائید مسند احمد کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے کہ { سیدنا خالد بن ولید اور سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہما میں کچھ اختلاف ہو گیا جس میں سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” تم اسی پر اکڑ رہے ہو کہ ہم سے کچھ دن پہلے اسلام لائے ۔“ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” میرے صحابہ کو میرے لیے چھوڑ دو ، اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم احد کے یا کسی اور پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرو تو بھی ان کے اعمال کو پہنچ نہیں سکتے “ } ۔ ۱؎ (مسند احمد:266/3:صحیح) ظاہر ہے کہ یہ واقعہ سیدنا خالد رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہو جانے کے بعد کا ہے اور آپ صلح حدیبیہ کے بعد اور فتح مکہ سے پہلے ایمان لائے تھے اور یہ اختلاف جس کا ذکر اس روایت میں ہے بنو جذیمہ کے بارے میں ہوا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد خالد کی امارت میں اس کی طرف ایک لشکر بھیجا تھا جب وہاں پہنچے تو ان لوگوں نے پکارنا شروع کیا ، ہم مسلمان ہو گئے ہم «صابی» ہوئے یعنی بےدین ہوئے ، اس لیے کہ کفار مسلمانوں کو یہی لفظ کہا کرتے تھے سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے غالباً اس کلمہ کا اصلی مطلب نہ سمجھ کر ان کے قتل کا حکم دے دیا بلکہ ان کے جو لوگ گرفتار کئے گئے تھے انہیں قتل کر ڈالنے کا حکم دیا اس پر سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف اور سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم نے ان کی مخالفت کی اس واقعہ کا مختصر بیان اوپر والی حدیث میں ہے ۔ صحیح حدیث میں ہے { میرے صحابہ کو برا نہ کہو اس کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرے تو بھی ان کے تین پاؤ اناج کے ثواب کو نہیں پہنچے گا بلکہ ڈیڑھ پاؤ کو بھی نہ پہنچے گا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3673) ابن جریر میں ہے حدیبیہ والے سال ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جب عسفان میں پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” ایسے لوگ بھی آئیں گے کہ تم اپنے اعمال کو ان کے اعمال کے مقابلہ میں حقیر سمجھنے لگو گے“ ۔ ہم نے کہا کیا قریشی ؟ فرمایا : ” نہیں بلکہ یمنی نہایت نرم دل نہایت خوش اخلاق سادہ مزاج “ ہم نے کہا : یا رسول اللہ ! پھر کیا وہ ہم سے بہتر ہوں گے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ اگر ان میں سے کسی کے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا بھی ہو اور وہ اسے راہ اللہ خرچ کرے تو تم میں سے ایک کے تین پاؤ بلکہ ڈیڑھ پاؤ اناج کی خیرات کو بھی نہیں پہنچ سکتا ۔ یاد رکھو کہ ہم میں اور دوسرے تمام لوگوں میں یہی فرق ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی آیت «لَا یَسْتَوِی مِنکُم مَّنْ أَنفَقَ مِن قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ» کی تلاوت کی ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:674/11) لیکن یہ روایت غریب ہے ۔ بخاری و مسلم میں ابو سعید خدری کی روایت میں خارجیوں کے ذکر میں ہے کہ { تم اپنی نمازیں ان کی نمازوں کے مقابلہ اور اپنے روزے ان کے روزوں کے مقابلہ پر حقیر اور کمتر شمار کرو گے ۔ وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار سے۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:1064) ابن جریر میں ہے { عنقریب ایک قوم آئے گی کہ تم اپنے اعمال کو کمتر سمجھنے لگو گے جب ان کے اعمال کے سامنے رکھو گے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا : کیا وہ قریشیوں میں سے ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” نہیں وہ سادہ مزاج نرم دل یہاں والے ہیں “ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کی طرف اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا۔ پھر فرمایا: ” وہ یمنی لوگ ہیں ایمان تو یمن والوں کا ایمان ہے اور حکمت یمن والوں کی حکمت ہے۔ “ ہم نے پوچھا : کیا وہ ہم سے بھی افضل ہوں گے ؟ فرمایا: ” اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر ان میں سے کسی کے پاس سونے کا پہاڑ ہو اور اسے وہ راہ اللہ دے ڈالے تو بھی تمہارے ایک مد یا آدھے مد کو بھی نہیں پہنچ سکتا “ ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیاں تو بند کر لیں اور چھنگلیا کو دراز کر کے فرمایا : ” خبردار رہو یہ ہے فرق ہم میں اور دوسرے لوگوں میں “ ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی آیت تلاوت فرمائی ۔ } پس اس حدیث میں حدیبیہ کا ذکر نہیں ۔ پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ممکن ہے فتح مکہ سے پہلے ہی فتح مکہ کے بعد کی خبر اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دی ہو ، جیسے کہ سورۃ مزمل میں جو ان ابتدائی سورتوں میں سے ہے جو مکہ شریف میں نازل ہوئی تھیں پروردگار نے خبر دی تھی کہ «وَآخَرُونَ یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِ اللہِ فَاقْرَءُوا مَا تَیَسَّرَ مِنْہُ» ۱؎ (73-المزمل:20) یعنی ’ کچھ اور لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں۔‘ پس جس طرح اس آیت میں ایک آنے والے واقعہ کا تذکرہ ہے اسی طرح اس آیت کو اور حدیث کو بھی سمجھ لیا جائے۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ پھر فرماتا ہے کہ «لاَّ یَسْتَوِی الْقَـعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ غَیْرُ أُوْلِی الضَّرَرِ وَالْمُجَـہِدُونَ فِی سَبِیلِ اللہِ بِأَمْوَلِہِمْ وَأَنفُسِہِمْ فَضَّلَ اللہُ الْمُجَـہِدِینَ بِأَمْوَلِہِمْ وَأَنفُسِہِمْ عَلَی الْقَـعِدِینَ دَرَجَۃً وَکُـلاًّ وَعَدَ اللہُ الْحُسْنَی وَفَضَّلَ اللہُ الْمُجَـہِدِینَ عَلَی الْقَـعِدِینَ أَجْراً عَظِیماً » ۱؎ (4-النساء:95) ’ اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے مومن اور بغیر عذر کے بیٹھ رہنے والے مومن برابر نہیں، اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر اللہ تعالیٰ نے درجوں میں بہت فضیلت دے رکھی ہے اور یوں تو اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کو خوبی اور اچھائی کا وعدہ دیا ہے لیکن مجاہدین کو بیٹھ رہنے والوں پر بہت بڑے اجر کی فضیلت دے رکھی ہے۔‘ جیسے اور جگہ ہے کہ ’ مجاہد اور غیر مجاہد جو عذر والے بھی نہ ہوں درجے میں برابر نہیں گو بھلے وعدے میں دونوں شامل ہیں ۔‘ صحیح حدیث میں ہے { قوی مومن اللہ کے نزدیک ضعیف مومن سے افضل ہے لیکن بھلائی دونوں میں ہے ۔} ۱؎ (صحیح مسلم:2664) اگر یہ فقرہ اس آیت میں نہ ہوتا تو ممکن تھا کہ کسی کو ان بعد والوں کی سبکی کا خیال گزرے اس لیے فضیلت بیان فرما کر پھر عطف ڈال کر اصل اجر میں دونوں کو شریک بتایا ۔ پھر فرمایا ’ تمہارے تمام اعمال کی تمہارے رب کو خبر ہے وہ درجات میں جو تفاوت رکھتا ہے وہ بھی انداز سے نہیں بلکہ صحیح علم سے ۔‘ حدیث شریف میں ہے { ایک درہم ایک لاکھ درہم سے بڑھ جاتا ہے ۔ } ۱؎ (سنن نسائی:2528،قال الشیخ الألبانی:حسن) یہ بھی یاد رہے کہ اس آیت کے بڑے حصہ دار سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔ اس لئے کہ اس پر عمل کرنے والے تمام نبیوں کی امت کے سردار ہیں ، آپ رضی اللہ عنہ نے ابتدائی تنگی کے وقت اپنا کل مال راہ اللہ دے دیا تھا جس کا بدلہ سوائے اللہ کے کسی اور سے مطلوب نہ تھا ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں دربار رسالت مآب میں تھا اور سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ بھی تھے ۔ صرف ایک عبا آپ رضی اللہ عنہ کے جسم پر تھی ، گریبان کانٹے سے اٹکائے ہوئے تھے جو جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے اور پوچھا کیا بات ہے جو ابوبکر نے فقط ایک عبا پہن رکھی ہے اور کانٹا لگا رکھا ہے ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” انہوں نے اپنا کل مال میرے کاموں میں فتح سے پہلے ہی راہ اللہ خرچ کر ڈالا ہے اب ان کے پاس کچھ نہیں “ ۔ جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا : ان سے کہو کہ اللہ انہیں سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ اس فقیری میں تم مجھ سے خوش ہو یا ناخوش ہو ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ کو یہ سب کہہ کر سوال کیا ۔ جواب ملا کہ اپنے رب عزوجل سے ناراض کیسے ہو سکتا ہوں میں اس حال میں بہت خوش ہوں ۔ ۱؎ (بغوی فی التفسیر:229/4:ضعیف) یہ حدیث سنداً ضعیف ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» الحديد
10 الحديد
11 اللہ کو قرض دینا پھر فرماتا ہے «مَنْ ذَا الَّذِی یُقْرِضُ اللہَ قَرْضًا حَسَنًا» ۱؎ (57-الحدید:11) ’ کون ہے جو اللہ کو اچھا قرض دے ۔ ‘ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے خرچ کرنا ہے ۔ بعض نے کہا ہے بال بچوں کو کھلانا پلانا وغیرہ خرچ مراد ہے ہو سکتا ہے کہ آیت اپنے عموم کے لحاظ سے دونوں صورتوں کو شامل ہو ۔ پھر اس پر وعدہ فرماتا ہے کہ ’ اسے بہت بڑھا چڑھا کر بدلہ ملے گا اور جنت میں پاکیزہ تر روزی ملے گی ۔ ‘ اس آیت کو سن کر ابودحداح انصاری رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا : کیا ہمارا رب ہم سے قرض مانگتا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” ہاں “ ، کہا : ذرا اپنا ہاتھ تو دیجئیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ بڑھایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر فرمایا : میرا باغ جس میں کھجور کے چھ سو درخت ہیں وہ میں نے اپنے رب کو دیا۔ آپ رضی اللہ عنہ کے بیوی بچے بھی اسی باغ میں تھے آپ آئے اور باغ کے دروازے پر کھڑے رہ کر اپنی بیوی صاحبہ کو آواز دی ، وہ لبیک کہتی ہوئی آئیں تو فرمانے لگے ، بچوں کو لے کر چلی آؤ میں نے یہ باغ اپنے رب عزوجل کو قرض دے دیا ہے ۔ وہ خوش ہو کر کہنے لگیں آپ نے بہت نفع کی تجارت کی اور بال بچوں کو اور گھر کے اثاثے کو لے کر باہر چلی آئیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے ” جنتی درخت وہاں کے باغات جو میوؤں سے لدے ہوئے اور جن کی شاخیں یاقوت اور موتی کی ہیں ابو دحداح رضی اللہ عنہ کو اللہ نے دے دیں “ ۔ ۱؎ (مسند بزار:402/5:ضعیف) الحديد
12 اعمال کے مطابق بدلہ دیا جائے گا یہاں بیان ہو رہا ہے کہ مسلمانوں کے نیک اعمال کے مطابق انہیں نور ملے گا جو قیامت کے دن کے ان کے ساتھ ساتھ رہے گا ۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ان میں بعض کا نور پہاڑوں کے برابر ہو گا اور بعض کا کھجوروں کے درختوں کے برابر اور بعض کا کھڑے انسان کے قد کے برابر سب سے کم نور جس گنہگار مومن کا ہو گا اس کے پیر کے انگوٹھے پر نور ہو گا جو کبھی روشن ہوتا ہو گا اور کبھی بجھ جاتا ہو گا ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:672/11) قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ہم سے ذکر کیا گیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ” بعض مومن ایسے بھی ہوں گے جن کا نور اس قدر ہو گا کہ جس قدر مدینہ سے عدن دور ہے اور ابین دور ہے اور صنعاء دور ہے ۔ بعض اس سے کم بعض اس سے کم یہاں تک کہ بعض وہ بھی ہوں گے جن کے نور سے صرف ان کے دونوں قدموں کے پاس ہی اجالا ہو گا “ } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:676/11) جنادہ بن ابوامیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” لوگو ! تمہارے نام مع ولدیت کے اور خاص نشانیوں کے اللہ کے ہاں لکھے ہوئے ہیں اسی طرح تمہارا ہر ظاہر باطن عمل بھی وہاں لکھا ہوا ہے قیامت کے دن نام لے کر پکار کر کہہ دیا جائے گا کہ اے فلاں یہ تیرا نور ہے اور اے فلاں تیرے لیے کوئی نور ہمارے ہاں نہیں ۔ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی ۔“ ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں اول اول تو ہر شخص کو نور عطا ہو گا لیکن جب پل صراط پر جائیں گے تو منافقوں کا نور بجھ جائے گا اسے دیکھ کر مومن بھی ڈرنے لگیں گے کہ ایسا نہ ہو ہمارا نور بھی بجھ جائے تو اللہ سے دعائیں کریں گے کہ یا اللہ ہمارا نور ہمارے لیے پورا پورا کر ۔ حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس آیت سے مراد پل صراط پر نور کا ملنا ہے تاکہ اس اندھیری جگہ سے باآرام گزر جائیں ۔ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ” سب سے پہلے سجدے کی اجازت قیامت کے دن مجھے دی جائے گی اور اسی طرح سب سے پہلے سجدے سے سر اٹھانے کا حکم بھی مجھے ہو گا میں آگے پیچھے دائیں بائیں نظریں ڈالوں گا اور اپنی امت کو پہچان لوں گا “ ۔ تو ایک شخص نے کہا اے اللہ کے رسول ! نوح علیہ السلام سے لے کر آپ کی امت تک کی تمام امتیں اس میدان میں اکٹھی ہوں گی ، ان میں سے آپ اپنی امت کی شناخت کیسے کریں گے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” بعض مخصوص نشانیوں کی وجہ سے میری امت کے اعضاء وضو چمک رہے ہوں گے یہ وصف کسی اور امت میں نہ ہو گا اور «فَمَنْ أُوتِیَ کِتَابَہُ بِیَمِینِہِ» ۱؎ (17-الإسراء:71) انہیں ان کے نامہ اعمال ان کے داہنے ہاتھوں میں دیئے جائیں گے اور ان کے چہرے چمک رہے ہوں گے اور ان کا نور ان کے آگے آگے چلتا ہو گا اور ان کی اولاد ان کے ساتھ ہی ہو گی “ } ۔ ۱؎ (مستدرک حاکم:478/2:ضعیف) ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں ان کے دائیں ہاتھ میں ان کا عمل نامہ ہو گا جیسے اور آیتوں میں تشریح ہے ۔ ان سے کہا جائے گا کہ آج تمہیں ان جنتوں کی بشارت ہے جن کے چپے چپے پر چشمے جاری ہیں جہاں سے کبھی نکلنا نہیں ، یہ زبردست کامیابی ہے ۔ اس کے بعد کی آیت میں میدان قیامت کے ہولناک دل شکن اور کپکپا دینے والے واقعہ کا بیان ہے کہ سوائے سچے ایمان اور کھرے اعمال والوں کے نجات کسی کو منہ دکھائے گی ۔ سلیم بن عامر رحمہ اللہ فرماتے ہیں ہم ایک جنازے کے ساتھ باب دمشق میں تھے جب جنازے کی نماز ہو چکی اور دفن کا کام شروع ہوا تو ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” لوگو ! تم اس دنیا کی منزل میں آج صبح شام کر رہے ہو نیکیاں برائیاں کر سکتے ہو اس کے بعد ایک اور منزل کی طرف تم سب کوچ کرنے والے ہو وہ منزل یہی قبر کی ہے جو تنہائی کا ، اندھیرے کا ، کیڑوں کا اور تنگی اور تاریکی والا گھر ہے مگر جس کے لیے اللہ تعالیٰ اسے وسعت دیدے ۔ یہاں سے تم پھر میدان قیامت کے مختلف مقامات پر وارد ہو گے ۔ ایک جگہ بہت سے لوگوں کے چہرے سفید ہو جائیں گے اور بہت سے لوگوں کے سیاہ پڑ جائیں گے ، پھر ایک اور میدان میں جاؤ گے جہاں سخت اندھیرا ہو گا وہاں ایمانداروں کو نور تقسیم کیا جائے گا اور کافر و منافق بے نور رہ جائے گا ، اسی کا ذکر آیت «أَوْ کَظُلُمَاتٍ فِی بَحْرٍ لٰجِّیٍّ» ۱؎ (24-النور:40) میں ہے، «یَجْعَلِ اللہُ لَہُ نُورًا فَمَا لَہُ مِن نٰورٍ » ۱؎ (24-النور:40) پس جس طرح آنکھوں والے کی بصارت سے اندھا کوئی نفع حاصل نہیں کر سکتا منافق و کافر ایماندار کے نور سے کچھ فائدہ نہ اٹھا سکے گا ۔ تو منافق ایمانداروں سے آرزو کریں گے کہ اس قدر آگے نہ بڑھ جاؤ کچھ تو ٹھہرو جو ہم بھی تمہارے نور کے سہارے چلیں تو جس طرح یہ دنیا میں مسلمانوں کے ساتھ مکر و فریب کرتے تھے آج ان سے کہا جائے گا کہ لوٹ جاؤ اور نور تلاش کر لاؤ یہ واپس نور کی تقسیم کی جگہ جائیں گے لیکن وہاں کچھ نہ پائیں گے ، یہی اللہ کا وہ مکر ہے جس کا بیان آیت «إِنَّ الْمُنَافِقِینَ یُخَادِعُونَ اللہَ وَہُوَ خَادِعُہُمْ وَإِذَا قَامُوا إِلَی الصَّلَاۃِ قَامُوا کُسَالَیٰ یُرَاءُونَ النَّاسَ وَلَا یَذْکُرُونَ اللہَ إِلَّا قَلِیلًا» ۱؎ (4-النساء:142) ، میں ہے ۔ اب لوٹ کر یہاں جو آئیں گے تو دیکھیں گے کہ مومنوں اور ان کے درمیان ایک دیوار حائل ہو گئی ہے جس کے اس طرف رحمت ہی رحمت ہے اور اس طرف عذاب و سزا ہے ۔ پس منافق نور کی تقسیم کے وقت تک دھوکے میں ہی پڑ رہے گا نور مل جانے پر بھید کھل جائے گا تمیز ہو جائے گی اور یہ منافق اللہ کی رحمت سے مایوس ہو جائیں گے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب کامل اندھیرا چھایا ہوا ہو گا کہ کوئی انسان اپنا ہاتھ بھی نہ دیکھ سکے اس وقت اللہ تعالیٰ ایک نور ظاہر کرے گا مسلمان اس طرف جانے لگیں گے تو منافق بھی پیچھے لگ جائیں گے ۔ جب مومن زیادہ آگے نکل جائیں گے تو یہ انہیں ٹھہرانے کے لیے آواز دیں گے اور یاد دلائیں گے کہ دنیا میں ہم سب ساتھ ہی تھے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ قیامت کے دن لوگوں کو ان کی پردہ پوشی کے لیے ان کے ناموں سے پکارا جائے گا لیکن پل صراط پر تمیز ہو جائے گی ، مومنوں کو نور ملے گا اور منافقوں کو بھی ملے گا لیکن جب درمیان میں پہنچ جائیں گے منافقوں کا نور بجھ جائے گا یہ مومنوں کو آواز دیں گے لیکن اس وقت خود مومن خوف زدہ ہو رہے ہوں گے } یہ وہ وقت ہو گا کہ ہر ایک آپا دھاپی میں ہو گا ۔ جس دیوار کا یہاں ذکر ہے یہ جنت و دوزخ کے درمیان حد فاصل ہو گی اسی کا ذکر آیت «وَبَیْنَہُمَا حِجَابٌ وَعَلَی الْأَعْرَافِ رِجَالٌ یَعْرِفُونَ کُلًّا بِسِیمَاہُمْ وَنَادَوْا أَصْحَابَ الْجَنَّۃِ أَن سَلَامٌ عَلَیْکُمْ لَمْ یَدْخُلُوہَا وَہُمْ یَطْمَعُونَ» ۱؎ (7-الاعراف:46) میں ہے ۔ پس جنت میں رحمت اور جہنم میں عذاب ۔ ٹھیک بات یہی ہے لیکن بعض کا قول ہے کہ اس سے مراد بیت المقدس کی دیوار ہے جو جہنم کی وادی کے پاس ہو گی ۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ یہ دیوار بیت المقدس کی شرقی دیوار ہے جس کے باطن میں مسجد وغیرہ ہے اور جس کے ظاہر میں وادی جہنم ہے اور بعض بزرگوں نے بھی یہی کہا ہے ، لیکن یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ ان کا مطلب یہ نہیں کہ بعینہ یہی دیوار اس آیت میں مراد ہے بلکہ اس کا ذکر بطور قرب کے معنی میں آیت کی تفسیر میں ان حضرات نے کر دیا ہے اس لیے کہ جنت آسمانوں میں اعلیٰ علیین میں ہے اور جہنم اسفل السافلین میں۔ سیدنا کعب احبار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جس دروازے کا ذکر اس آیت میں ہے اس سے مراد مسجد کا باب الرحمت ہے یہ بنو اسرائیل کی روایت ہے جو ہمارے لیے سند نہیں بن سکتی ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دیوار قیامت کے دن مومنوں اور منافقوں کے درمیان علیحدگی کے لیے کھڑی کی جائے گی مومن تو اس کے دروازے میں سے جا کر جنت میں پہنچ جائیں گے پھر دروازہ بند ہو جائے گا اور منافق حیرت زدہ ظلمت و عذاب میں رہ جائیں گے ۔ جیسے کہ دنیا میں بھی یہ لوگ کفر و جہالت شک و حیرت کی اندھیروں میں تھے ۔ الحديد
13 الحديد
14 منافقین کا واویلہ اب یہ یاد دلائیں گے کہ دیکھو دنیا میں ہم تمہارے ساتھ تھے جمعہ جماعت ادا کرتے تھے عرفات اور غزوات میں موجود رہتے تھے واجبات ادا کرتے تھے ۔ ایماندار کہیں گے ہاں بات تو ٹھیک ہے لیکن اپنے کرتوت تو دیکھو ، گناہوں میں ، نفسانی خواہشوں میں ، اللہ کی نافرمانیوں میں عمر بھر تم لذتیں اٹھاتے رہے اور آج توبہ کر لیں گے کل بد اعمالیوں چھوڑ دیں گے اسی میں رہے ۔ انتظار میں ہی عمر گزاری دی کہ دیکھیں مسلمانوں کا نتیجہ کیا ہوتا ہے ؟ اور تمہیں یہ بھی یقین نہ آیا کہ قیامت آئے گی بھی یا نہیں ؟ اور پھر اس آرزو میں رہے کہ اگر آئے گی پھر تو ہم ضرور بخش دیئے جائیں گے اور مرتے دم تک اللہ کی طرف یقین خلوص کے ساتھ جھکنے کی توفیق میسر نہ آئی اور اللہ کے ساتھ تمہیں دھوکے باز شیطان نے دھوکے میں ہی رکھا ۔ یہاں تک کہ آج تم جہنم واصل ہو گئے ۔ مطلب یہ ہے کہ جسموں سے تو تم ہمارے ساتھ تھے لیکن دل اور نیت سے ہمارے ساتھ نہ تھے بلکہ حیرت و شک میں ہی پڑے رہے ریا کاری میں رہے اور دل لگا کر یاد الٰہی کرنا بھی تمہیں نصیب نہ ہوا ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ منافق مومنوں کے ساتھ تھے ، نکاح بیاہ مجلس مجمع موت زیست میں شریک رہے ۔ لیکن اب یہاں بالکل الگ کر دیئے گئے ۔ سورۃ المدثر کی آیتوں میں ہے کہ «کُلٰ نَفْسٍ بِمَا کَسَبَتْ رَہِینَۃٌ إِلَّا أَصْحَابَ الْیَمِینِ فِی جَنَّاتٍ یَتَسَاءَلُونَ عَنِ الْمُجْرِمِینَ مَا سَلَکَکُمْ فِی سَقَرَ قَالُوا لَمْ نَکُ مِنَ الْمُصَلِّینَ وَلَمْ نَکُ نُطْعِمُ الْمِسْکِینَ وَکُنَّا نَخُوضُ مَعَ الْخَائِضِینَ وَکُنَّا نُکَذِّبُ بِیَوْمِ الدِّینِ حَتَّیٰ أَتَانَا الْیَقِینُ» ۱؎ (74-المدثر:38-47) ’ مسلمان مجرموں سے انہیں جہنم میں دیکھ کر پوچھیں گے کہ آخر تم یہاں کیسے پھنس گئے اور وہ اپنے بداعمال گنوائیں گے ۔‘ تو یاد رہے کہ یہ سوال صرف بطور ڈانٹ ڈپٹ کے اور انہیں شرمندہ کرنے کے لیے ہو گا ورنہ حقیقت حال سے مسلمان خوب آگاہ ہوں گے ۔ پھر جیسے وہاں فرمایا تھا «فَمَا تَنفَعُہُمْ شَفَاعَۃُ الشَّافِعِینَ» ۱؎ (74-المدثر:48) ’ کسی کی سفارش انہیں نفع نہ دے گی ۔ ‘ یہاں فرمایا ’ آج ان سے فدیہ نہ لیا جائے گا گو زمین بھر کر سونا دیں قبول نہ کیا جائے گا ، نہ منافقوں سے ، نہ کافروں سے ان کا مرجع و ماویٰ جہنم ہے وہی ان کے لائق ہے اور ظاہر ہے کہ وہ بدترین جگہ ہے ۔‘ الحديد
15 الحديد
16 ایمان والوں سے سوال پروردگار عالم فرماتا ہے کیا مومنوں کے لیے اب تک وہ وقت نہیں آیا کہ ذکر اللہ ، وعظ نصیحت ، آیات قرآنی اور احادیث نبوی سن کر ان کے دل موم ہو جائیں ؟ سنیں اور مانیں احکام بجا لائیں ممنوعات سے پرہیز کریں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں قرآن نازل ہوتے ہی تیرہ سال کا عرصہ نہ گزرا تھا کہ مسلمانوں کے دلوں کو اس طرف نہ جھکنے کی دیر کی شکایت کی گئی ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں چار ہی سال گزرے تھے جو ہمیں یہ عتاب ہوا۔ ۱؎ (صحیح مسلم:3028) اصحاب رسول پر ملال ہو کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے ہیں کچھ بات تو بیان فرمائیے پس یہ آیت اترتی ہے ۔ «نَحْنُ نَقُصٰ عَلَیْکَ اَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَآ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ وَاِنْ کُنْتَ مِنْ قَبْلِہٖ لَمِنَ الْغٰفِلِیْنَ» ۱؎ (12-یوسف:3) ایک مرتبہ کچھ دنوں بعد یہی عرض کرتے ہیں تو آیت اترتی ہے ۔ «اَللّٰہُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ کِتٰبًا مٰتَشَابِہًا مَّثَانِیَ تَــقْشَعِرٰ مِنْہُ جُلُوْدُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُوْدُہُمْ وَقُلُوْبُہُمْ اِلٰی ذِکْرِاللّٰہِ ذٰلِکَ ہُدَی اللّٰہِ یَہْدِیْ بِہٖ مَنْ یَّشَاءُ وَمَنْ یٰضْلِلِ اللّٰہُ فَمَا لَہٗ مِنْ ہَادٍ» ۱؎ (39-الزمر:23) پھر ایک عرصہ بعد یہی کہتے ہیں تو یہ آیت «أَلَمْ یَأْنِ لِلَّذِینَ آمَنُوا أَن تَخْشَعَ قُلُوبُہُمْ لِذِکْرِ اللہِ » ۱؎ (57-الحدید:16) اترتی ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { سب سے پہلے خیر جو میری امت سے اٹھ جائے گی وہ خشوع ہو گا ۔} ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:681/11:ضعیف) پھر فرمایا تم یہود و نصاریٰ کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے کتاب اللہ کو بدل دیا تھوڑے تھوڑے مول پر اسے فروخت کر دیا ۔ پس کتاب اللہ کو پس پشت ڈال کر رائے و قیاس کے پیچھے پڑھ گئے اور از خود ایجاد کردہ اقوال کو ماننے لگ گئے اور اللہ کے دین میں دوسروں کی تقلید کرنے لگے ، اپنے علماء اور درویشوں کی بے سند باتیں دین میں داخل کر لیں ، ان بداعمالیوں کی سزا میں اللہ نے ان کے دل سخت کر دیئے ، کتنی ہی اللہ کی باتیں کیوں نہ سناؤ ان کے دل نرم نہیں ہوتے ، کوئی وعظ و نصیحت ان پر اثر نہیں کرتا ، کوئی وعدہ وعید ان کے دل اللہ کی طرف موڑ نہیں سکتا ، بلکہ ان میں کے اکثر و بیشتر فاسق اور کھلے بدکار بن گئے ، دل کے کھوٹے اور اعمال کے بھی کچے ۔ جیسے اور آیت میں ہے ۔ «فَبِمَا نَقْضِہِمْ مِّیْثَاقَہُمْ لَعَنّٰہُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوْبَہُمْ قٰسِـیَۃً» ۱؎ (5-المائدۃ:13) ’ ان کی بدعہدی کی وجہ سے ہم نے ان پر لعنت نازل کی اور ان کے دل سخت کر دیئے۔ ‘ یہ کلمات کو اپنی جگہ سے تحریف کر دیتے ہیں اور ہماری نصیحت کو بھلا دیتے ہیں ، یعنی ان کے دل فاسد ہو گئے ، اللہ کی باتیں بدلنے لگ گئے ، نیکیاں چھوڑ دیں ، برائیوں میں منہمک ہو گئے ۔ اسی لیے رب العالمین اس امت کو متنبہ کر رہا ہے کہ خبردار ان کا رنگ تم پر نہ چڑھ جائے ، اصل و فرع میں ان سے بالکل الگ رہو ۔ ابن ابی حاتم میں ہے ربیع بن ابوعمیلہ فرماتے ہیں قرآن حدیث کی مٹھاس تو مسلم ہی ہے لیکن میں نے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ایک بہت ہی پیاری اور میٹھی بات سنی ہے جو مجھے بے حد محبوب اور مرغوب ہے آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” جب بنو اسرائیل کی الہامی کتاب پر کچھ زمانہ گزر گیا تو ان لوگوں نے کچھ کتابیں خود تصنیف کر لیں اور ان میں وہ مسائل لکھے جو انہیں پسند تھے اور جو ان کے اپنے ذہن سے انہوں نے تراش لیے تھے ، اب مزے لے لے کر زبانیں موڑ موڑ کر انہیں پڑھنے لگے ، ان میں سے اکثر مسائل اللہ کی کتاب کے خلاف تھے ، جن جن احکام کے ماننے کو ان کا جی نہ چاہتا تھا انہوں نے بدل ڈالے تھے اور اپنی کتاب میں اپنی طبیعت کے مطابق مسائل جمع کر لیے تھے اور انہی پر عامل بن گئے ۔ “ ” اب انہیں سوجھی کہ اور لوگوں کو بھی منوائیں اور انہیں بھی آمادہ کریں کہ ان ہی ہماری لکھی ہوئی کتابوں کو شرعی کتابیں سمجھیں اور مدار عمل انہیں پر رکھیں اب لوگوں کو اسی کی دعوت دینے لگے اور زور پکڑتے گئے ، یہاں تک کہ جو ان کی ان کتابوں کو نہ مانتا اسے یہ ستاتے تکلیف دیتے مارتے پیٹتے بلکہ قتل کر ڈالتے ۔ “ ” ان میں ایک شخص اللہ والے پورے عالم اور متقی تھے ، انہوں نے ان کی طاقت سے اور زیادتی سے مرعوب ہو کر کتاب اللہ کو ایک لطیف چیز پر لکھ کر ایک نرسنگھے میں ڈال کر اپنی گردن میں اسے ڈال لیا ، ان لوگوں کا شر و فساد روز بروز بڑھتا جا رہا تھا یہاں تک کہ بہت سے ان لوگوں کو جو کتاب اللہ پر عامل تھے انہوں نے قتل کر دیا ، پھر آپس میں مشورہ کیا کہ دیکھو یوں ایک ایک کو کب تک قتل کرتے رہیں گے ؟ ان کا بڑا عالم اور ہماری اس کتاب کو بالکل نہ ماننے والا تمام بنی اسرائیل میں سب سے بڑھ کر کتاب اللہ کا عامل فلاں عالم ہے اسے پکڑو اور اس سے اپنی یہ رائے قیاس کی کتاب منواؤ اگر وہ مان لے گا تو پھر ہماری چاندی ہی چاندی ہے اور اگر وہ نہ مانے تو اسے قتل کر دو پھر تمہاری اس کتاب کا مخالف کوئی نہ رہے گا اور دوسرے لوگ خواہ مخواہ ہماری ان کتابوں کو قبول کر لیں گے اور انہیں ماننے لگیں گے ۔“ ” چنانچہ ان رائے قیاس والوں نے کتاب اللہ کے عالم و عامل اس بزرگ کو پکڑوا منگوایا اور اس سے کہا کہ دیکھ ہماری اس کتاب میں جو ہے اسے سب کو تو مانتا ہے یا نہیں ؟ ان پر تیرا ایمان ہے یا نہیں ؟ “ اس اللہ ترس کتاب اللہ کے ماننے والے عالم نے کہا اس میں تم نے کیا لکھا ہے ؟ ذرا مجھے سناؤ تو ، انہوں نے سنایا اور کہا اس کو تو مانتا ہے ؟ اس بزرگ کو اپنی جان کا ڈر تھا اس لیے جرأت کے ساتھ یہ تو نہ کہہ سکا کہ نہیں مانتا بلکہ اپنے اس نرسنگھے کی طرف اشارہ کر کے کہا میرا اس پر ایمان ہے وہ سمجھ بیٹھے کہ اس کا اشارہ ہماری اس کتاب کی طرف ہے ۔ چنانچہ اس کی ایذاء رسانی سے باز رہے لیکن تاہم اس کے اطوار و افعال سے کھٹکتے ہی رہے یہاں تک کہ جب اس کا انتقال ہوا تو انہوں نے تفتیش شروع کی کہ ایسا نہ ہو اس کے پاس کتاب اللہ اور دین کے سچے مسائل کی کوئی کتاب ہو ، آخر وہ نرسنگھا ان کے ہاتھ لگ گیا ، پڑھا تو اس میں اصلی مسائل کتاب اللہ کے موجود تھے ، اب بات بنا لی کہ ہم نے تو کبھی یہ مسائل نہیں سنے ، ایسی باتیں ہمارے دین کی نہیں چنانچہ زبردست فتنہ برپا ہو گیا اور بہتر گروہ ہو گئے ان سب میں بہتر گروہ جو راستی پر اور حق پر تھا ، وہ تھا جو اس نرسنگھے والے مسائل پر عامل تھا ۔“ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے یہ واقعہ بیان فرما کر کہا ” لوگو تم میں سے بھی جو باقی رہے گا وہ ایسے ہی امور کا معائنہ کرے گا اور وہ بالکل بے بس ہو گا ان بری کتابوں کے مٹانے کی اس میں قدرت نہ ہو گی ، پس ایسے مجبوری اور بے کسی کے وقت بھی اس کا یہ فرض تو ضرور ہے کہ اللہ تعالیٰ پر یہ ثابت کر دے کہ وہ ان سب کو برا جانتا ہے ۔“ امام ابو جعفر طبری رحمتہ اللہ علیہ نے بھی یہ روایت نقل کی ہے کہ عتریس بن عرقوب سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہنے لگے اے ابوعبداللہ جو شخص بھلائی کا حکم نہ کرے اور برائی سے نہ روکے وہ ہلاک ہوا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” ہلاک وہ ہو گا جو اپنے دل سے اچھائی کو اچھائی نہ سمجھے اور برائی کو برائی نہ جانے ، پھر آپ رضی اللہ عنہ نے بنی اسرائیل کا یہ واقعہ بیان فرمایا ۔“ پھر ارشاد باری ہے کہ ’ جان رکھو مردہ زمین کو اللہ زندہ کر دیتا ہے۔ ‘ اس میں اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ سخت دلوں کے بعد بھی اللہ انہیں نرم کرنے پر قادر ہے ۔ گمراہیوں کی تہہ میں اتر جانے کے بعد بھی اللہ راہ راست پر لاتا ہے جس طرح بارش خشک زمین کو تر کر دیتی ہے اسی طرح کتاب اللہ مردہ دلوں کو زندہ کر دیتی ہے ۔ دلوں میں جبکہ گھٹا ٹوپ اندھیرا چھا گیا ہو کتاب اللہ کی روشنی اسے دفعتاً منور کر دیتی ہے ، اللہ کی وحی دل کے قفل کی کنجی ہے ، سچا ہادی وہی ہے ، گمراہی کے بعد راہ پر لانے والا ، جو چاہے کرنے والا ، حکمت و عدل والا ، لطیف و خیر والا ، کبر و جلال والا ، بلندی و علو والا وہی ہے ۔ الحديد
17 الحديد
18 صدقہ و خیرات کرنے والوں کے لئے اجر و ثواب فقیر مسکین محتاجوں اور حاجت مندوں کو خالص اللہ کی مرضی کی جستجو میں جو لوگ اپنے حلال مال نیک نیتی سے اللہ کی راہ میں صدقہ دیتے ہیں ان کے بدلے بہت کچھ بڑھا چڑھا کر اللہ تعالیٰ انہیں عطا فرمائے گا ۔ دس دس گنا اور اس سے بھی زیادہ سات سات سو تک بلکہ اس سے بھی سوا ، ان کے ثواب بےحساب ہیں ان کے اجر بہت بڑے ہیں ۔ اللہ و رسول اللہ پر ایمان رکھنے والے ہی صدیق و شہید ہیں ، ان دونوں اوصاف کے مستحق صرف باایمان لوگ ہیں ، بعض حضرات نے «الشٰہَدَاءُ» کو الگ جملہ مانا ہے ، غرض تین قسمیں ہوئیں مصدقین صدیقین شہداء جیسے اور آیت میں ہے «وَمَن یُطِعِ اللہَ وَالرَّسُولَ فَأُولٰئِکَ مَعَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللہُ عَلَیْہِم مِّنَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشٰہَدَاءِ وَالصَّالِحِینَ» ۱؎ (4-النساء:69) ’ اللہ اور اس کے رسول کا اطاعت گزار انعام یافتہ لوگوں کے ساتھ ہے جو نبی ، صدیق ، شہید اور صالح لوگ ہیں ۔ ‘ پس صدیق و شہید میں یہاں بھی فرق کیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دو قسم کے لوگ ہیں ، صدیق کا درجہ شہید سے یقیناً بڑا ہے ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ” جنتی لوگ اپنے سے اوپر کے بالاخانے والوں کو اس طرح دیکھیں گے جیسے چمکتے ہوئے مشرقی یا مغربی ستارے کو تم آسمان کے کنارے پر دیکھتے ہو ۔ “ لوگوں نے کہا : یہ درجے تو صرف انبیاء علیہ السلام کے ہوں گے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” ہاں قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ پر ایمان لائے اور رسولوں کی تصدیق کی “ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3265) ایک غریب حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ شہید اور صدیق دونوں وصف اس آیت میں اسی مومن کے ہیں ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ” میری امت کے مومن شہید ہیں ، پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی ۔} ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:33653:ضعیف) عمرو بن میمون رحمہ اللہ کا قول ہے یہ دونوں ان دونوں انگلیوں کی طرح قیامت کے دن آئیں گے ، بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے { شہیدوں کی روحیں سبز رنگ پرندوں کے قالب میں ہوں گی جنت میں جہاں چاہیں کھاتی پیتی پھریں گی اور رات کو قندیلوں میں سہارا لیں گی ان کے رب نے ان کی طرف ایک بار دیکھا اور پوچھا تم کیا چاہتے ہو ؟ انہوں نے کہا یہ کہ تو ہمیں دنیا میں دوبارہ بھیج تا کہ ہم پھر تیری راہ میں جہاد کریں اور شہادت حاصل کریں اللہ نے جواب دیا یہ تو میں فیصلہ کر چکا ہوں کہ کوئی لوٹ کر پھر دنیا میں نہیں جائے گا} ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1887) پھر فرماتا ہے کہ انہیں اجر و نور ملے گا جو نور ان کے سامنے رہے گا اور ان کے اعمال کے مطابق ہو گا ۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے { شہیدوں کی چار قسمیں ہیں ۔ [۱] وہ پکے ایمان والا مومن جو دشمن اللہ سے بھڑ گیا اور لڑتا رہا یہاں تک کہ ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا اس کا وہ درجہ ہے کہ اہل محشر اس طرح سر اٹھا اٹھا کر اس کی طرف دیکھیں گے ، اور یہ فرماتے ہوئے آپ نے اپنا سر اس قدر بلند کیا کہ ٹوپی نیچے گر گئی اور اس حدیث کے راوی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اسے بیان کرنے کے وقت اتنا ہی اپنا سر بلند کیا کہ آپ رضی اللہ عنہ کی ٹوپی بھی زمین پر جا پڑی ۔ [۲] دوسرا وہ ایماندار ، نکلا جہاد میں ، لیکن دل میں جرات کم ہے کہ یکایک ایک تیر آ لگا اور روح پرواز کر گئی یہ دوسرے درجہ کا شہید جنتی ہے ۔ [۳] تیسرا وہ جس کے بھلے برے اعمال تھے لیکن رب نے اسے پسند فرما لیا اور میدان جہاد میں کفار کے ہاتھوں شہادت نصیب ہوئی تیسرے درجے میں ہے ۔ [۴] چوتھا وہ جس کے گناہ بہت زیادہ ہیں جہاد میں نکلا اور اللہ نے شہادت نصیب فرما کر اپنے پاس بلوا لیا ۔} ۱؎ (سنن ترمذی:1644،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) «وَالَّذِینَ کَفَرُوا وَکَذَّبُوا بِآیَاتِنَا أُولٰئِکَ أَصْحَابُ الْجَحِیمِ» ان نیک لوگوں کا انجام بیان کر کے اب بد لوگوں کا نتیجہ بیان کیا کہ یہ جہنمی ہیں ۔ الحديد
19 الحديد
20 دنیا کی زندگی صرف کھیل تماشا ہے امر دنیا کی تحقیر و توہین بیان ہو رہی ہے کہ ’ اہل دنیا کو سوائے لہو و لعب زینت و فخر اور اولاد و مال کی کثرت کی چاہت کے اور ہے بھی کیا ؟‘ جیسے اور آیت میں ہے «زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبٰ الشَّہَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِینَ وَالْقَنَاطِیرِ الْمُقَنطَرَۃِ مِنَ الذَّہَبِ وَالْفِضَّۃِ وَالْخَیْلِ الْمُسَوَّمَۃِ وَالْأَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ذٰلِکَ مَتَاعُ الْحَیَاۃِ الدٰنْیَا وَ اللہُ عِندَہُ حُسْنُ الْمَآبِ» ۱؎ (3-آل عمران:14) ، یعنی ’ لوگوں کے لیے ان کی خواہش کی چیزوں کو مزین کر دیا گیا ہے جیسے عورتیں بچے وغیرہ پھر حیات دنیا کی مثال بیان ہو رہی ہے کہ اس کی تازگی فانی ہے اور یہاں کی نعمتیں زوال پذیر ہیں ۔‘ «غَیْثٍ» کہتے ہیں اس بارش کو جو لوگوں کی ناامیدی کے بعد برسے ۔ جیسے فرمان ہے آیت «وَہُوَ الَّذِی یُنَزِّلُ الْغَیْثَ مِن بَعْدِ مَا قَنَطُوا وَیَنشُرُ رَحْمَتَہُ وَہُوَ الْوَلِیٰ الْحَمِیدُ» ۱؎ (42-الشوری:28)، ’ اللہ وہ ہے جو لوگوں کی ناامیدی کے بعد بارش برساتا ہے ۔ ‘ پس جس طرح بارش کی وجہ سے زمین سے کھیتیاں پیدا ہوتی ہیں اور وہ لہلہاتی ہوئی کسان کی آنکھوں کو بھی بھلی معلوم ہوتی ہیں ، اسی طرح اہل دنیا اسباب دنیوی پر پھولتے ہیں ، لیکن نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہی ہری بھری کھیتی خشک ہو کر زرد پڑ جاتی ہے پھر آخر سوکھ کر ریزہ ریزہ ہو جاتی ہے ۔ ٹھیک اسی طرح دنیا کی تروتازگی اور یہاں کی بہبودی اور ترقی بھی خاک میں مل جانے والی ہے ، دنیا کی بھی یہی صورتیں ہوتی ہیں کہ ایک وقت جوان ہے پھر ادھیڑ ہے پھر بڑھیا ہے ، ٹھیک اسی طرح خود انسان کی حالت ہے اس کے بچپن جوانی ادھیڑ عمر اور بڑھاپے کو دیکھتے جائیے پھر اس کی موت اور فنا کو سامنے رکھے ، کہاں جوانی کے وقت اس کا جوش و خروش زور طاقت اور کس بل ؟ اور کہاں بڑھاپے کی کمزوری جھریاں پڑا ہوا جسم خمیدہ کمر اور بےطاقت ہڈیاں ؟ جیسے ارشاد باری ہے آیت « اللہُ الَّذِی خَلَقَکُم مِّن ضَعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِن بَعْدِ ضَعْفٍ قُوَّۃً ثُمَّ جَعَلَ مِن بَعْدِ قُوَّۃٍ ضَعْفًا وَشَیْبَۃً یَخْلُقُ مَا یَشَاءُ وَہُوَ الْعَلِیمُ الْقَدِیرُ » ۱؎ (30-سورۃالروم:54) ’ اللہ وہ ہے جس نے تمہیں کمزوری کی حالت میں پیدا کیا پھر اس کمزوری کے بعد قوت دی پھر اس وقت کے بعد کمزوری اور بڑھاپا کر دیا وہ جو چاہے پیدا کرتا ہے اور وہ عالم اور قادر ہے ۔‘ اس مثال سے دنیا کی فنا اور اس کا زوال ظاہر کر کے پھر آخرت کے دونوں منظر دکھا کر ایک سے ڈراتا ہے اور دوسرے کی رغبت دلاتا ہے ۔ پس فرماتا ہے عنقریب آنے والی قیامت اپنے ساتھ عذاب اور سزا کو لائے گی اور مغفرت اور رضا مندی رب کو لائے گی ، پس تم وہ کام کرو کہ ناراضگی سے بچ جاؤ اور رضا حاصل کر لو ، سزاؤں سے بچ جاؤ اور بخشش کے حقدار بن جاؤ ، دنیا صرف دھوکے کی ٹٹی ہے ، اس کی طرف جھکنے والے پر آخر وہ وقت آ جاتا ہے کہ یہ اس کے سوا کسی اور چیز کا خیال ہی نہیں کرتا اسی کی دھن میں روز و شب مشغول رہتا ہے بلکہ اس کمی والی اور زوال والی کمینی دنیا کو آخرت پر ترجیح دینے لگتا ہے ، شدہ شدہ یہاں تک نوبت پہنچ جاتی ہے کہ بسا اوقات آخرت کا منکر بن جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { ایک کوڑے برابر جنت کی جگہ ساری دنیا اور اس کی تمام چیزوں سے بہتر ہے } ۔ پڑھو قرآن فرماتا ہے کہ دنیا تو صرف دھوکے کا سامان ہے۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:685/11:صحیح) ۔ آیت کی زیادتی بغیر یہ حدیث صحیح میں بھی ہے۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3250) «وَاللہُ اَعْلَمُ» الحديد
21 مغفرت کی جستجو مسند احمد کی مرفوع حدیث میں ہے { تم میں سے ہر ایک سے جنت اس سے بھی زیادہ قریب ہے جتنا تمہارا جوتی کا تسمہ اور اسی طرح جہنم بھی۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:6488) پس معلوم ہوا کہ خیر و شر انسان سے بہت نزدیک ہے اور اس لیے اسے چاہیئے کہ بھلائیوں کی طرف سبقت کرے اور برائیوں سے منہ پھیر کر بھاگتا رہے ۔ تاکہ گناہ اور برائیاں معاف ہو جائیں اور ثواب اور درجے بلند ہو جائیں ۔ اسی لیے اس کے ساتھ ہی فرمایا دوڑو اور اپنے رب کی بخشش کی طرف اور جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان و زمین کی جنس کے برابر ہے ۔ جیسے اور آیت میں ہے «وَسَارِعُوا إِلَیٰ مَغْفِرَۃٍ مِّن رَّبِّکُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُہَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِینَ» ۱؎ (3-آل عمران:133) ’ اپنے رب کی مغفرت کی طرف اور جنت کی طرف سبقت کرو جس کی کشادگی کل آسمان اور ساری زمینیں ہیں جو پارسا لوگوں کے لیے بنائی گی ہیں ۔ ‘ یہاں فرمایا ’ یہ اللہ رسول پر ایمان لانے والوں کے لیے تیار کی گئی ہے ، یہ لوگ اللہ کے اس فضل کے لائق تھے ، اسی لیے اس بڑے فضل و کرم والے نے اپنی نوازش کے لیے انہیں چن لیا اور ان پر اپنا پورا احسان اور اعلیٰ انعام کیا ۔‘ پہلے ایک صحیح حدیث بیان ہو چکی ہے کہ مہاجرین کے فقراء نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا یا رسول اللہ ! مالدار لوگ تو جنت کے بلند درجوں کو اور ہمیشہ رہنے والی نعمتوں کو پا گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” یہ کیسے ؟ “ کہا نماز روزہ تو وہ اور ہم سب کرتے ہیں لیکن مال کی وجہ سے وہ صدقہ کرتے ہیں غلام آزاد کرتے ہیں جو مفلسی کی وجہ سے ہم سے نہیں ہو سکتا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” آؤ میں تمہیں ایک ایسی چیز بتاؤں کہ اس کے کرنے سے تم ہر شخص سے آگے بڑھ جاؤ گے مگر ان سے جو تمہاری طرح خود بھی اس کو کرنے لگیں ، دیکھو تم ہر فرض نماز کے بعد تینتیس مرتبہ «سُبْحَانَ اللّٰہِ» کہو اور اتنی ہی بار «اَللّٰہُ أَکْبَرُ» اور اسی طرح «اَلْحَمْدُ لِلہِ» } ، کچھ دنوں بعد یہ بزرگ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور کہا : یا رسول اللہ ! ہمارے مالدار بھائیوں کو بھی اس وظیفہ کی اطلاع مل گئی اور انہوں نے بھی اسے پڑھنا شروع کر دیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے دے ۔“ ۱؎ (صحیح بخاری:843) الحديد
22 تنگی اور آسانی کی طرف سے ہے اللہ تعالیٰ اپنی اس قدرت کی خبر دے رہا ہے جو اس نے مخلوقات کی پیدائش سے پہلے ہی اپنی مخلوق کی تقدیر مقرر کی تھی ، فرمایا کہ زمین کے جس حصے میں کوئی برائی آئے یا جس کسی شخص کی جان پر کچھ آ پڑے اسے یقین رکھنا چاہیئے کہ خلق کی پیدائش سے پہلے ہی یہ علم اللہ میں مقرر تھا اور اس کا ہونا یقینی تھا ۔ بعض کہتے ہیں مصیبت کی پیدائش سے پہلے ہے ، لیکن زیادہ ٹھیک بات یہ ہے کہ مخلوق کی پیدائش سے پہلے ہے ۔ امام حسن رحمہ اللہ سے اس آیت کی بابت سوال ہوا تو فرمانے لگے سبحان اللہ ہر مصیبت جو آسمان و زمین میں ہے وہ نفس کی پیدائش سے پہلے ہی رب کی کتاب میں موجود ہے اس میں کیا شک ہے ؟ زمین کی مصیبتوں سے مراد خشک سالی ، قحط وغیرہ ہے اور جانوں کی مصیبت درد دکھ اور بیماری ہے ، جس کسی کو کوئی خراش لگتی ہے یا لغزش پا سے کوئی تکلیف پہنچتی ہے یا کسی سخت محنت سے پسینہ آ جاتا ہے یہ سب اس کے گناہوں کی وجہ سے ہے اور ابھی تو بہت سے گناہ ہیں جنہیں وہ غفور و رحیم اللہ بخش دیتا ہے ۔ یہ آیت بہترین اور بہت اعلیٰ دلیل ہے قدریہ کی تردید میں جس کا خیال ہے کہ سابق علم کوئی چیز نہیں اللہ انہیں ذلیل کرے ۔ صحیح مسلم ہے { اللہ تعالیٰ نے تقدیر مقرر آسمان و زمین کی پیدائش سے پچاس ہزار برس پہلے کی۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:34) اور رویات میں ہے اس کا عرش پانی پر تھا ۱؎ (سنن ترمذی:2156،قال الشیخ الألبانی:صحیح) پھر فرماتا ہے کاموں کے وجود میں آنے سے پہلے ان کا اندازہ کر لینا ، ان کے ہونے کا علم حاصل کر لینا اور اسے لکھ دینا اللہ پر کچھ مشکل نہیں ۔ وہی تو ان کا پیدا کرنے والا ہے ۔ جس کا محیط علم ہونے والی ، ہو رہی ، ہو چکی ، ہو گی تمام چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے ہم نے تمہیں یہ خبر اس لیے دی ہے کہ تم یقین رکھو کہ جو تمہیں پہنچا وہ ہرگز کسی صورت ٹلنے والا نہ تھا ، پس مصیبت کے وقت صبر و شکر تحمل و ثابت قدمی مضبوط ولی اور روحانی طاقت تم میں موجود رہے ، ہائے وائے بے صبری اور بےضبطی تم سے دور رہے ۔ جزع فزع تم پر چھا نہ جائے تم اطمینان سے رہو کہ یہ تکلیف تو آنے والی تھی ہی ، اسی طرح اگر مال دولت غلبہ وغیرہ مل جائے تو اس وقت آپے سے باہر نہ ہو جاؤ ، اسے عطیہ الٰہی مانو ، تکبر اور غرور تم میں نہ آ جائے ، ایسا نہ ہو کہ دولت و مال وغیرہ کے نشے میں پھول جاؤ اور اللہ کو بھول جاؤ اس لیے کہ اس وقت بھی ہماری یہ تعلیم تمہارے سامنے ہو گی کہ یہ میرے دست و بازو کا ، میری عقل و ہوش کا نتیجہ نہیں بلکہ اللہ کی عطا ہے ۔ ایک قرأت اس کی «آتٰکمْ» ہے دوسری «اتٰکُمْ» ہے اور دونوں میں تلازم ہے ، اسی لیے ارشاد ہوتا ہے کہ اپنے جی میں اپنے آپ کو بڑا سمجھنے والے دوسروں پر فخر کرنے والے اللہ کے دشمن ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ ” رنج و راحت ، خوشی و غم تو ہر شخص پر آتا ہے خوشی کو شکر میں اور غم کو صبر میں گزار دو ۔ “ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ یہ لوگ خود بھی بخیل اور خلاف شرع کام کرنے والے ہیں اور دوسروں کو بھی یہی برا راستہ بتاتے ہیں ۔ جو شخص اللہ کی حکم برداری سے ہٹ جائے وہ اللہ کا کچھ نہیں بگاڑے گا کیونکہ وہ تمام مخلوق سے بے نیاز ہے اور ہر طرح سزا اور حمد ہے ۔ جیسے موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا «وَقَالَ مُوسَیٰ إِن تَکْفُرُوا أَنتُمْ وَمَن فِی الْأَرْضِ جَمِیعًا فَإِنَّ اللہَ لَغَنِیٌّ حَمِیدٌ» ۱؎ (14-ابراھیم:8) یعنی ’ اگر تم اور تمام روئے زمین کے انسان کافر ہو جائیں تو بھی اللہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے اللہ ساری مخلوق سے غنی ہے اور مستحق حمد ہے ‘ ۔ الحديد
23 الحديد
24 الحديد
25 لوہے کے فوائد اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ ہم نے اپنے پیغمبروں کو ظاہر حجتیں اور بھرپور دلائل دے کر دنیا میں مبعوث فرمایا ، پھر ساتھ ہی انہیں کتاب بھی دی جو کھری اور صاف سچی ہے اور عدل و حق دیا جس سے ہر عقلمند انسان ان کی باتوں کے قبول کر لینے پر فطرتاً مجبور ہو جاتا ہے ، ہاں بیمار رائے والے اور خلاف عقل والے اس سے محروم رہ جاتے ہیں ۔ جیسے اور جگہ ہے «اَفَمَنْ کَانَ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنْ رَّبِّہٖ وَیَتْلُوْہُ شَاہِدٌ مِّنْہُ وَمِنْ قَبْلِہٖ کِتٰبُ مُوْسٰٓی اِمَامًا وَّرَحْمَۃً» ۱؎ (11-ھود:17) ’ جو شخص اپنے رب کی طرف دلیل پر ہو اور ساتھ ہی اس کے شاہد بھی ہو ۔‘ ایک اور جگہ ہے «فِطْرَتَ اللہِ الَّتِی فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْہَا» ۱؎ (30-الروم:30) ’ اللہ کی یہ فطرت ہے جس پر مخلوق کو اس نے پیدا کیا ہے۔ ‘ اور فرماتا ہے «وَالسَّمَاءَ رَفَعَہَا وَوَضَعَ الْمِیزَانَ» (55-الرحمن:7) ’ آسمان کو اس نے بلند کیا اور میزان رکھ دی ۔ ‘ پس یہاں فرمان ہے یہ اس لیے کہ لوگ حق و عدل پر قائم ہو جائیں ، یعنی اتباع رسول کرنے لگیں امر رسول بجا لائیں ۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی تمام باتوں کو حق سمجھیں کیونکہ اس کے سوا حق کسی اور کا کلام نہیں ۔ جیسے فرمان ہے «وَتَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ صِدْقًا وَعَدْلًا لَّا مُبَدِّلَ لِکَلِمَاتِہِ وَہُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ» ۱؎ (6-الانعام:115) ’ تیرے رب کا کلمہ جو اپنی خبروں میں سچا اور اپنے احکام میں عدل والا ہے پورا ہو چکا ۔‘ یہی وجہ ہے کہ جب ایماندار جنتوں میں پہنچ جائیں گے اللہ کی نعمتوں سے مالا مال ہو جائیں گے تو کہیں گے «الْحَمْدُ لِلہِ الَّذِی ہَدَانَا لِہٰذَا وَمَا کُنَّا لِنَہْتَدِیَ لَوْلَا أَنْ ہَدَانَا اللہُ لَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ» ۱؎ (7-الأعراف:43) ’ اللہ کا شکر ہے جس نے ہمیں ہدایت دی اگر اس کی ہدایت نہ ہوتی تو ہم اس راہ نہیں لگ سکتے تھے ہمارے رب کے رسول ہمارے پاس حق لائے تھے ۔‘ پھر فرماتا ہے ’ ہم نے منکرین حق کی سرکوبی کے لیے لوہا بنایا ہے ۔ ‘ یعنی اولاً تو کتاب و رسول اور حق سے حجت قائم کی پھر ٹیڑھے دل والوں کی کجی نکالنے کے لیے لوہے کو پیدا کر دیا تاکہ اس کے ہتھیار بنیں اور اللہ دوست حضرات ، اللہ کے دشمنوں کے دل کا کانٹا نکال دیں ، یہی نمونہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بالکل عیاں نظر آتا ہے کہ مکہ شریف کے تیرہ سال مشرکین کو سمجھانے ، توحید و سنت کی دعوت دینے ، ان کے عقائد کی اصلاح کرنے میں گزارے ۔ خود اپنے اوپر مصیبتیں جھیلیں لیکن جب یہ حجت ختم ہو گئی تو شرع نے مسلمانوں کو ہجرت کی اجازت دی ، پھر حکم دیا کہ اب ان مخالفین سے جنہوں نے اسلام کی اشاعت کو روک رکھا ہے مسلمانوں کو تنگ کر رکھا ہے ان کی زندگی دو بھر کر دی ہے ان سے باقاعدہ جنگ کرو ، ان کی گردنیں مارو اور ان مخالفین وحی الٰہی سے زمین کو پاک کرو ۔ مسند احمد اور ابوداؤد میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ” میں قیامت کے آگے تلوار کے ساتھ بھیجا گیا ہوں ، یہاں تک کہ اللہ «وَحدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ» کی ہی عبادت کی جائے اور میرا رزق میرے نیزے کے سایہ تلے رکھا گیا ہے اور کمینہ پن اور ذلت ان لوگوں پر ہے جو میرے حکم کی مخالفت کریں اور جو کسی قوم کی مشابہت کرے وہ انہی میں سے ہے “ } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4031،قال الشیخ الألبانی:حسن صحیح) پس لوہے سے لڑائی کے ہتھیار بنتے ہیں جیسے تلوار ، نیزے ، چھریاں ، تیز زرہیں وغیرہ اور لوگوں کے لیے اس کے علاوہ بھی بہت سے فائدے ہیں ۔ جیسے سکے ، کدال ، پھاوڑے ، آرے ، کھیتی کے آلات ، بننے کے آلات ، پکانے کے برتن ، توے وغیرہ وغیرہ اور بھی بہت سی ایسی ہی چیزیں جو انسانی زندگی کی ضروریات سے ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ” تین چیزیں آدم علیہ السلام کے ساتھ جنت سے آئیں نہائی ، سنی اور ہتھوڑا۔ (ابن جریر) پھر فرمایا تاکہ اللہ جان لے کہ ان ہتھیاروں کے اٹھانے سے اللہ رسول کی مدد کرنے کا نیک ارادہ کس کا ہے ؟ اللہ قوت و غلبہ والا ہے ، اس کے دین کی جو مدد کرے وہ اس کی مدد کرتا ہے ، دراصل اپنے دین کو وہی قوی کرتا ہے اس نے جہاد تو صرف اپنے بندوں کی آزمائش کے لیے مقرر فرمایا ہے ورنہ غلبہ و نصرت تو اسی کی طرف سے ہے ۔ الحديد
26 نوح علیہ السلام اور ابراہیم علیہ السلام کی فضیلت نوح علیہ السلام اور ابراہیم علیہ السلام کی اس فضیلت کو دیکھئے کہ نوح علیہ السلام کے بعد سے لے کر ابراہیم علیہ السلام تک جتنے پیغمبر آئے سب آپ علیہ السلام ہی کی نسل سے آئے اور پھر ابراہیم علیہ السلام کے بعد جتنے نبی اور رسول آئے سب کے سب آپ علیہ السلام ہی کی نسل سے ہوئے ۔ جیسے اور آیت میں ہے «وَجَعَلْنَا فِی ذُرِّیَّتِہِ النٰبُوَّۃَ وَالْکِتَابَ» ۱؎ (29-العنکبوت:27) یہاں تک کہ بنو اسرائیل کے آخری پیغمبر عیسیٰ بن مریم علیہ السلام نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشخبری سنائی ۔ پس نوح اور ابراہیم صلوات اللہ علیہما کے بعد برابر رسولوں کا سلسلہ رہا عیسیٰ علیہ السلام تک جنہیں انجیل ملی اور جن کی تابع فرمان امت رحمدل اور نرم مزاج واقع ہوئی ، خشیت الٰہی اور رحمت خلق کے پاک اوصاف سے متصف ۔ پھر نصرانیوں کی ایک بدعت کا ذکر ہے جو ان کی شریعت میں تو نہ تھی لیکن انہوں نے خود اپنی طرف سے اسے ایجاد کر لی تھی ، اس کے بعد کے جملے کے دو مطلب بیان کئے گئے ہیں ایک تو یہ ان کا مقصد نیک تھا کہ اللہ کی رضا جوئی کے لیے یہ طریقہ نکالا تھا ۔ سیدنا سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ قتادہ رحمہ اللہ وغیرہ کا یہی قول ہے ۔ دوسرا مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ ہم نے ان پر اسے واجب نہ کیا تھا ہاں ہم نے ان پر صرف اللہ کی رضا جوئی واجب کی تھی ۔ پھر فرماتا ہے یہ اسے بھی نبھا نہ سکے جیسا چاہیئے تھا ویسا اس پر بھی نہ جمے ۔ پس دوہری خرابی آئی ایک اپنی طرف سے ایک نئی بات دین اللہ میں ایجاد کرنے کی ، دوسرے اس پر بھی قائم نہ رہیں کی ، یعنی جسے وہ خود قرب اللہ کا ذریعہ اپنے ذہن سے سمجھ بیٹھے تھے بالآخر اس پر بھی پورے نہ اترے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو پکارا آپ رضی اللہ عنہ نے لبیک کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” سنو بنی اسرائیل کے بہتر گروہ ہو گئے جن میں سے تین نے نجات پائی ، پہلے فرقہ نے تو بنی اسرائیل کی گمراہی دیکھ کر ان کی ہدایت کے لیے اپنی جانیں ہتھیلیوں پر رکھ کر ان کے بڑوں کو تبلیغ شروع کی لیکن آخر وہ لوگ جدال و قتال پر اترے آئے اور بادشاہ اور امراء نے جو اس تبلیغ سے بہت گھبراتے تھے ، ان پر لشکر کشی کی اور انہیں قتل بھی کیا ، قید بھی کیا ، ان لوگوں نے تو نجات حاصل کر لی ، پھر دوسری جماعت کھڑی ہوئی ان میں مقابلہ کی طاقت تو نہ تھی تاہم اپنے دین کی قوت سے سرکشوں اور بادشاہوں کے دربار میں حق گوئی شروع کی اور اللہ کے سچے دین اور عیسیٰ کے اصلی مسلک کی طرف انہیں دعوت دینے لگے ، ان بدنصیبوں نے انہیں قتل بھی کرایا ، آروں سے بھی چیرا اور آگ میں بھی جلایا جسے اس جماعت نے صبر و شکر کے ساتھ برداشت کیا اور نجات حاصل کی ، پھر تیسری جماعت اٹھی یہ ان سے بھی زیادہ کمزور تھے ان میں طاقت نہ تھی کہ اصل دین کے احکام کی تبلیغ ان ظالموں میں کریں ، اس لیے انہوں نے اپنے دین کا بچاؤ اسی میں سمجھا کہ جنگلوں میں نکل جائیں اور پہاڑوں پر چڑھ جائیں ، عبادت میں مشغول ہو جائیں اور دنیا کو ترک کر دیں انہی کا ذکر رہبانیت والی آیت «وَرَہْبَانِیَّۃً ابْتَدَعُوہَا مَا کَتَبْنَاہَا» ۱؎ (57-الحدید:27) میں ہے ۔ } ۱؎ (طبرانی کبیر:10357:ضعیف) یہی حدیث دوسری سند سے بھی مروی ہے اس میں تہتر فرقوں کا بیان ہے اور اس میں یہ بھی ہے کہ اجراء نہیں ملے گا جو مجھ پر ایمان لائیں اور میری تصدیق کریں اور ان میں سے اکثر فاسق ہیں ایسے ہیں جو مجھے جھٹلائیں اور میرا خلاف کریں ۔۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:33677:ضعیف) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ بنی اسرائیل کے بادشاہوں نے عیسیٰ علیہ السلام کے بعد توریت و انجیل میں تبدیلیاں کر لیں ، لیکن ایک جماعت ایمان پر قائم رہی اور اصلی تورات و انجیل ان کے ہاتھوں میں رہی جسے وہ تلاوت کیا کرتے تھے ، ایک مرتبہ ان لوگوں نے [ جنہوں نے کتاب اللہ میں رد و بدل کر لیا تھا ] اپنے بادشاہوں سے ان سچے مومنوں کی شکایت کی کہ یہ لوگ کتاب اللہ کہہ کر جس کتاب کو پڑھتے ہیں اس میں تو ہمیں گالیاں لکھی ہیں۔ اس میں لکھا ہوا ہے جو کوئی اللہ کی نازل کردہ کتاب کے مطابق حکم نہ کرے وہ کافر ہے اور اسی طرح کی بہت سی آیتیں ہیں ، پھر یہ لوگ ہمارے اعمال پر بھی عیب گیری کرتے رہتے ہیں ۔ پس آپ انہیں دربار میں بلوایئے اور انہیں مجبور کیجئے کہ یا تو وہ اسی طرح پڑھیں جس طرح ہم پڑھتے ہیں اور ویسا ہی عقیدہ ایمان رکھیں جیسا ہمارا ہے ورنہ انہیں بدترین عبرت ناک سزا دیجئیے ۔ چنانچہ ان سچے مسلمانوں کو دربار میں بلوایا گیا اور ان سے کہا گیا کہ یا تو ہماری اصلاح کردہ کتاب پڑھا کرو اور تمہارے اپنے ہاتھوں میں جو الہامی کتابیں انہیں چھوڑ دو ورنہ جان سے ہاتھ دھو لو اور قتل گاہ کی طرف قدم بڑھاؤ ۔ اس پر ان پاک بازوں کی ایک جماعت نے کہا کہ تم ہمیں ستاؤ نہیں تم اونچی عمارت بنا دو ہمیں وہاں پہنچا دو اور ڈوری چھڑی دیدو ہمارا کھانا پینا اس میں ڈال دیا کرو ہم اوپر سے گھسیٹ لیا کریں گے نیچے اتریں گے ہی نہیں اور تم میں آئیں گے ہی نہیں ۔ ایک جماعت نے کہا سنو ہم یہاں سے ہجرت کر جاتے ہیں جنگلوں اور پہاڑوں میں نکل جاتے ہیں تمہاری بادشاہت کی سر زمین سے باہر ہو جاتے ہیں چشموں ، نہروں ، ندیوں ، نالوں اور تالابوں سے جانوروں کی طرح منہ لگا کر پانی پیا کریں گے اور جو پھول پات مل جائیں گے ان پر گزارہ کر لیں گے ۔ اس کے بعد اگر تم ہمیں اپنے ملک میں دیکھ لو تو بیشک گردن اڑا دینا ۔ تیسری جماعت نے کہا ہمیں اپنی آبادی کے ایک طرف کچھ زمین دیدو اور وہاں حصار کھینچ دو وہیں ہم کنویں کھود لیں گے اور کھیتی کر لیا کریں گے تم میں ہرگز نہ آئیں گے ۔ چونکہ اس اللہ پرست جماعت سے ان لوگوں کی قریبی رشتہ داریاں تھیں اس لیے یہ درخواستیں منظور کر لی گئیں اور یہ لوگ اپنے اپنے ٹھکانے چلے گئے ، لیکن ان کے ساتھ بعض اور لوگ بھی لگ گئے جنہیں دراصل علم و ایمان نہ تھا تقلیداً ساتھ ہو لیے ، ان کے بارے میں یہ آیت «وَرَہْبَانِیَّۃً ابْتَدَعُوہَا مَا کَتَبْنَاہَا عَلَیْہِمْ إِلَّا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللہِ »الخ ۱؎ (57-الحدید:27) نازل ہوئی ۔ پس جب اللہ تعالیٰ نے حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا اس وقت ان میں سے بہت کم لوگ رہ گئے تھے آپ کی بعثت کی خبر سنتے ہی خانقاہوں والے اپنی خانقاہوں سے اور جنگلوں والے اپنے جنگلوں سے اور حصار والے اپنے حصاروں سے نکل کھڑے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کی جس کا ذکر اس آیت میں ہے «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَآمِنُوا بِرَسُولِہِ یُؤْتِکُمْ کِفْلَیْنِ مِن رَّحْمَتِہِ وَیَجْعَل لَّکُمْ نُورًا تَمْشُونَ بِہِ وَیَغْفِرْ لَکُمْ وَ اللہُ غَفُورٌ رَّحِیمٌ» ۱؎ (57-سورۃالحدید:28) ، یعنی ’ ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ تمہیں اللہ اپنی رحمت کا دوہرا حصہ دے گا [ یعنی عیسیٰ پر ایمان لانے کا اور پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا ] اور تمہیں نور دے گا جس کی روشنی میں تم چلو پھرو [ یعنی قرآن و سنت ] تاکہ اہل کتاب جان لیں [ جو تم جیسے ہیں ] کہ اللہ کے کسی فضل کا انہیں اختیار نہیں اور سارا فضل اللہ کے ہاتھ ہے جسے چاہے دیتا ہے اور اللہ بڑے فضل کا مالک ہے ۔‘ یہ سیاق غریب ہے اور ان دونوں پچھلی آیتوں کی تفسیر اس آیت کے بعد ہی آ رہی ہے ، ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ ابویعلیٰ میں ہے کہ لوگ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس مدینہ میں عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی خلافت کے زمانہ میں آئے ، آپ اس وقت امیر مدینہ تھے جب یہ آئے اس وقت سیدنا انس رضی اللہ عنہ نماز ادا کر رہے تھے اور بہت ہلکی نماز پڑھ رہے تھے ، جیسے مسافرت کی نماز ہو یا اس کے قریب قریب جب سلام پھیرا تو لوگوں نے آپ سے پوچھا کہ کیا آپ نے فرض نماز پڑھی یا نفل ؟ فرمایا : فرض اور یہی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تھی ، میں نے اپنے خیال سے اپنی یاد برابر تو اس میں کوئی خطا نہیں کی ، ہاں اگر کچھ بھول گیا ہوں تو اس کی بابت نہیں کہہ سکتا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ { اپنی جانوں پر سختی نہ کرو ورنہ تم پر سختی کی جائے گی } ، ایک قوم نے اپنی جانوں پر سختی کی اور ان پر بھی سختی کی گئی پس ان کی بقیہ خانقاہوں میں اور ایسے ہی گھروں میں اب بھی دیکھ لو ، ترک دنیا کی ہی وہی سختی تھی جسے اللہ نے ان پر واجب نہیں کیا تھا ۔ دوسرے دن ہم لوگوں نے کہا آیئے سواریوں پر چلیں اور دیکھیں اور عبرت حاصل کریں ۔ انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” بہت اچھا “ ہم سوار ہو کر چلے اور کئی ایک بستیاں دیکھیں جو بالکل اجڑ گئی تھیں اور مکانات اوندھے پڑے ہوئے تھے تو ہم نے کہا ان شہروں سے آپ واقف ہیں؟ فرمایا : خوب اچھی طرح بلکہ ان کے باشندوں سے بھی انہیں سرکشی اور حسد نے ہلاک کیا۔ حسد نیکیوں کے نور کو بجھا دیتا ہے اور سرکشی اس کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے۔ آنکھ کا بھی زنا ہے ، ہاتھ اور قدم اور زبان کا بھی زنا ہے اور شرمگاہ اسے سچ ثابت کرتی ہے یا جھٹلاتی ہے۔ (سنن ابوداود:4904،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) مسند احمد میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ” ہر نبی کیلئے رہبانیت تھی اور میری امت کی رہبانیت اللہ عزوجل کی راہ میں جہاد کرنا ہے “ } ۔ ۱؎ (مسند احمد:266/3:ضعیف) ایک شخص ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے کچھ وصیت کیجئے ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : تم نے مجھ سے وہ سوال کیا جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تھا ۔ میں تجھے وصیت کرتا ہوں اللہ سے ڈرتے رہنے کی ، یہی تمام نیکیوں کا سر ہے اور تو جہاد کو لازم پکڑے رہ یہی اسلام کی رہبانیت ہے اور ذکر اللہ اور تلاوت قرآن پر مداومت کر ۔ وہی آسمان میں ، زمین میں ، تیری راحت و روح ہے اور تیری یاد ہے ۔ یہ روایت مسند احمد میں ہے۔ ۱؎ (مسند احمد:82/3:صحیح) «وَاللہُ اَعْلَمُ» الحديد
27 الحديد
28 مسلمانوں اور یہود و نصاریٰ کی مثال اس سے پہلے کی آیت میں بیان ہو چکا ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ” جن مومنوں کا یہاں ذکر ہے اس سے مراد اہل کتاب کے مومن ہیں اور انہیں دوہرا اجر ملے گا ۔“ جیسے کہ سورۃ قصص کی آیت میں ہے اور جیسے کہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ { تین شخصوں کو اللہ تعالیٰ دوہرا اجر دے گا ایک وہ اہل کتاب جو اپنے نبی علیہ السلام پر ایمان لایا پھر مجھ پر بھی ایمان لایا اسے دوہرا اجر ہے اور وہ غلام جو اپنے آقا کی تابعداری کرے اور اللہ کا حق بھی ادا کرے اسے بھی دو دو اجر ہیں اور وہ شخص جو اپنی لونڈی کو ادب سکھائے اور بہت اچھا ادب سکھائے یعنی شرعی ادب پھر اسے آزاد کر دے اور نکاح کر دے وہ بھی دوہرے اجر کا مستحق ہے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:97) سیدنا سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب اہل کتاب اس دوہرے اجر پر فخر کرنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اس امت کے حق میں نازل فرمائی ۔ پس انہیں دوہرے اجر کے بعد نور ہدایت دینے کا بھی وعدہ کیا اور مغفرت کا بھی پس نور اور مغفرت انہیں زیادہ ملی (ابن جریر) اسی مضمون کی ایک آیت «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِن تَتَّقُوا اللہَ یَجْعَل لَّکُمْ فُرْقَانًا وَیُکَفِّرْ عَنکُمْ سَیِّئَاتِکُمْ وَیَغْفِرْ لَکُمْ وَ اللہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیمِ» ۱؎ (8-الانفال:29) ہے یعنی ’ اے ایمان والو ! اگر تم اللہ سے ڈرتے رہے تو وہ تمہارے لیے فرقان کرے گا اور تم سے تمہاری برائیاں دور کر دے گا اور تمہیں معاف فرما دے گا اللہ بڑے فضل والا ہے ۔‘ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے یہودیوں کے ایک بہت بڑے عالم سے دریافت فرمایا کہ ” تمہیں ایک نیکی پر زیادہ سے زیادہ کس قدر فضیلت ملتی ہے اس نے کہا ساڑھے تین سو تک ۔ “ آپ رضی اللہ عنہ نے اللہ کا شکر کیا اور فرمایا ” ہمیں تم سے دوہرا اجر ملا ہے ۔“ سعید رحمہ اللہ نے اسے بیان فرما کر یہی آیت پڑھی اور فرمایا ” اسی طرح جمعہ کا دوہرا اجر ہے ۔ “ مسند احمد کی حدیث میں ہے { تمہاری اور یہود و نصاریٰ کی مثال اس شخض جیسی ہے جس نے چند مزدور کسی کام پر لگانے چاہے اور اعلان کیا کہ کوئی ہے جو مجھ سے ایک قیراط لے اور صبح کی نماز سے لے کر آدھے دن تک کام کرے ؟ پس یہود تیار ہو گئے ، اس نے پھر کہا ظہر سے عصر تک اب جو کام کرے اسے میں ایک قیراط دوں گا ، اس پر نصرانی تیار ہوئے کام کیا اور اجرت لی اس نے پھر کہا اب عصر سے مغرب تک جو کام کرے میں اسے دو قیراط دوں گا پس وہ تم مسلمان ہو ، اس پر یہود و نصاریٰ بہت بگڑے اور کہنے لگے کام ہم نے زیادہ کیا اور دام انہیں زیادہ ملے ۔ ہمیں کم دیا گیا ۔ تو انہیں جواب ملا کہ میں نے تمہارا کوئی حق تو نہیں مارا ؟ انہوں نے کہا ایسا تو نہیں ہوا ۔ جواب ملا کہ پھر یہ میرا فضل ہے جسے چاہوں دوں ۔} ۱؎ (صحیح بخاری:2268) صحیح بخاری میں ہے { مسلمانوں اور یہود نصرانیوں کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے چند لوگوں کو کام پر لگایا اجرت ٹھہرا لی اور انہوں نے ظہر تک کام کر کے کہہ دیا کہ اب ہمیں ضرورت نہیں جو ہم نے کیا اس کی اجرت بھی نہیں چاہتے اور اب ہم کام بھی نہیں کریں گے ، اس نے انہیں سمجھایا بھی کہ ایسا نہ کرو کام پورا کرو اور مزدوری لے جاؤ لیکن انہوں نے صاف انکار کر دیا اور کام ادھورا چھوڑ کر اجرت لیے بغیر چلتے بنے ، اس نے اور مزدور لگائے اور کہا کہ باقی کام شام تک تم پورا کرو اور پورے دن کی مزدوری میں تمہیں دوں گا ، یہ کام پر لگے ، لیکن عصر کے وقت یہ بھی کام سے ہٹ گئے اور کہہ دیا کہ اب ہم سے نہیں ہو سکتا ہمیں آپ کی اجرت نہیں چاہیئے اس نے انہیں بھی سمجھایا کہ دیکھو اب دن باقی ہی کیا رہ گیا ہے تم کام پورا کرو اور اجرت لے جاؤ لیکن یہ نہ مانے اور چلے گئے ، اس نے پھر اوروں کو بلایا اور کہا لو تم مغرب تک کام کرو اور دن بھر کی مزدوری لے جاؤ چنانچہ انہوں نے مغرب تک کام کیا اور ان دونوں جماعتوں کی اجرت بھی یہی لے گئے ۔ پس یہ ہے ان کی مثال اور اس نور کی مثال جسے انہوں نے قبول کیا ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:2271) پھر فرماتا ہے یہ اس لیے کہ اہل کتاب یقین کر لیں کہ اللہ جسے دے یہ اس کے لوٹانے کی اور جسے نہ دے اسے دینے کی کچھ بھی قدرت نہیں رکھتے اور اس بات کو بھی وہ جان لیں کہ فضل و کرم کا مالک صرف وہی پروردگار ہے ، اس کے فضل کا کوئی اندازہ و حساب نہیں لگا سکتا ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں «لِئَلَّا یَعْلَمَ» کا معنی «لِیَعْلَمَ» ہے ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی قرأت میں «لِکَیْ یَعْلَمَ» ہے ، اسی طرح عطابن عبداللہ رحمہ اللہ اور سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے بھی یہی قرأت مروی ہے ۔ غرض یہ ہے کہ کلام عرب میں «لا» صلہ کیلئے آتا ہے جو کلام کے اول آخر میں آ جاتا ہے اور وہاں سے انکار مراد نہیں ہوتا جیسے آیت «مَا مَنَعَکَ اَلَّا تَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُکَ» ۱؎ (7-الأعراف:12) میں ہے اور آیت «وَمَا یُشْعِرُکُمْ اَنَّہَآ اِذَا جَاءَتْ لَا یُؤْمِنُوْنَ» ۱؎ (6-الأنعام:109) میں اور آیت «وَحَرٰمٌ عَلٰی قَرْیَۃٍ اَہْلَکْنٰہَآ اَنَّہُمْ لَا یَرْجِعُوْنَ» ۱؎ (21-الأنبیاء:95) میں ۔ «اَلْحَمْدُ لِلہِ» سورۃ الحدید کی تفسیر ختم ہوئی ۔ اللہ تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر ہے کہ اس ستائیسویں پارے کی تفسیر بھی ختم ہوئی ۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے اور ہمیں اپنے پاک کلام کی صحیح سمجھ دے اور اس پر عمل کی توفیق دے ۔ میرے مہربان اللہ ! میرے عاجز ہاتھوں سے اس پاک تفسیر کو پوری کرا ، اسے مکمل مطبوع مجھے دکھا دے ، مقبولیت عطا فرما اور اس پر ہمیں عمل نصیب فرما ۔ اے دلوں کے بھید سے آگاہ اللہ ! میری عاجزانہ التماس ہے کہ میرے نامہ اعمال میں اسے ثبت فرما اور میرے تمام گناہوں کا کفارہ اسے کر دے اور اس کے پڑھنے والوں پر رحم فرما اور ان کے دل میں ڈال کہ وہ میرے لیے بھی رحم کی دعا کریں ۔ یا رب اپنے سچے دین کی اور اپنے غلاموں کی تائید کر اور اپنے نبی کے کلام کو سب کے کلاموں پر غالب رکھ ۔ آمین ! الحديد
29 الحديد
0 المجادلة
1 1 { سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : اللہ تعالیٰ کی ذات حمد و ثناء کے لائق ہے جس کے سننے نے تمام آوازوں کو گھیر رکھا ہے ، یہ شکایت کرنے والی خاتون آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طرح چپکے چپکے باتیں کر رہی تھیں کہ باوجود اسی گھر میں موجود ہونے کے میں مطلقاً نہ سن سکی کہ وہ کیا کہہ رہی ہیں ؟ اللہ تعالیٰ نے اس پوشیدہ آواز کو بھی سن لیا اور یہ آیت اتری } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:7386) اور روایت میں آپ کا یہ فرمان اس طرح منقول ہے کہ بابرکت ہے وہ اللہ جو ہر اونچی نیچی آواز کو سنتا ہے ، یہ شکایت کرنے والی بی بی صاحبہ سیدہ خولہ بنت ثعلبہ رضی اللہ عنہا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو اس طرح سرگوشیاں کر رہی تھیں کہ کوئی لفظ تو کان تک پہنچ جاتا تھا ورنہ اکثر باتیں باوجود اسی گھر میں موجود ہونے کے میرے کانوں تک نہیں پہنچتی تھیں ۔ اپنے میاں کی شکایت کرتے ہوئے فرمایا کہ یا رسول اللہ ! میری جوانی تو ان کے ساتھ کٹی ، بچے ان سے ہوئے ، اب جبکہ میں بڑھیا ہو گئی ، بچے پیدا کرنے کے قابل نہ رہی ، تو میرے میاں نے مجھ سے ظہار کر لیا ، اے اللہ میں تیرے سامنے اپنے اس دکھڑے کا رونا روتی ہوں ، ابھی یہ بی بی صاحبہ گھر سے باہر نہیں نکلی تھیں کہ جبرائیل علیہ السلام یہ آیت لے کر اترے ، ان کے خاوند کا نام سیدنا اوس بن صامت رضی اللہ عنہ تھا ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:33727:صحیح) [ ابن ابی حاتم ] انہیں بھی کچھ جنون سا ہو جاتا تھا اس حالت میں اپنی بیوی صاحبہ سے ظہار کر لیتے پھر جب اچھے ہو جاتے تو گویا کچھ کہا ہی نہ تھا ، یہ بی بی صاحبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے فتویٰ پوچھنے اور اللہ کے سامنے اپنی التجا بیان کرنے کو آئیں تھیں جس پر یہ آیت اتری ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2219،قال الشیخ الألبانی:صحیح) یزید رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اپنی خلافت کے زمانے میں اور لوگوں کے ساتھ جا رہے تھے کہ ایک عورت نے آواز دے کر ٹھہرا لیا ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فوراً ٹھہر گئے اور ان کے پاس جا کر توجہ اور ادب سے سر جھکائے ان کی باتیں سننے لگے ، جب وہ اپنی فرمائش کی تعمیل کرا چکیں اور خود لوٹ گئیں تب امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ بھی واپس ہمارے پاس آئے ، ایک شخص نے کہا : امیر المؤمنین ایک بڑھیا کے کہنے سے آپ رک گئے اور اتنے آدمیوں کو آپ کی وجہ سے اب تک رکنا پڑا ، آپ نے فرمایا : افسوس ! جانتے بھی ہو یہ کون تھیں ؟ اس نے کہا : نہیں ، فرمایا : یہ وہ عورت ہیں جن کی شکایت اللہ تعالیٰ نے ساتویں آسمان پر سنی یہ خولہ بنت ثعلبہ رضی اللہ عنہا ہیں اگر یہ آج صبح سے شام چھوڑ رات کر دیتیں اور مجھ سے کچھ فرماتی رہتیں تو بھی میں ان کی خدمت سے نہ ٹلتا ، ہاں نماز کے وقت نماز ادا کر لیتا اور پھر کمربستہ خدمت کیلئے حاضر ہو جاتا [ ابن ابی حاتم ] اس کی سند منقطع ہے اور دوسرے طریق سے بھی مروی ہے ، ایک روایت میں ہے کہ یہ سیدہ خولہ بن صامت رضی اللہ عنہا تھیں اور ان کی والدہ کا نام سیدہ معاذہ رضی اللہ عنہا تھا جن کے بارے میں آیت «وَلَا تُکْرِہُوْا فَتَیٰتِکُمْ عَلَی الْبِغَاۗءِ اِنْ اَرَدْنَ تَحَصٰنًا لِّتَبْتَغُوْا عَرَضَ الْحَیٰوۃِ الدٰنْیَا» ۱؎ (24-النور:33) نازل ہوئی تھی ، لیکن ٹھیک بات یہ ہے کہ خولہ رضی اللہ عنہا اوس بن صامت رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں ، اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو ۔ المجادلة
2 خولہ اور خویلہ بنت ثعلبہ رضی اللہ عنہا اور مسئلہ ظہار سیدہ خولہ بنت ثعلبہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اللہ کی قسم میرے اور میرے خاوند اوس بن صامت رضی اللہ عنہ کے بارے میں اس سورۃ المجادلہ کی شروع کی چار آیتیں اتری ہیں ، میں ان کے گھر میں تھی ، یہ بوڑھے اور بڑی عمر کے تھے اور کچھ اخلاق کے بھی اچھے نہ تھے ، ایک دن باتوں ہی باتوں میں میں نے ان کی کسی بات کے خلاف کہا اور انہیں کچھ جواب دیا ، جس پر وہ بڑے غضب ناک ہوئے اور غصے میں فرمانے لگے ، تو مجھ پر میری ماں کی پیٹھ کی طرح ہے پھر گھر سے چلے گئے اور قومی مجلس میں کچھ دیر بیٹھے رہے پھر واپس آئے اور مجھ سے خاص بات چیت کرنی چاہی ، میں نے کہا : اس اللہ کی قسم ! جس کے ہاتھ میں خولہ کی جان ہے تمہارے اس کہنے کے بعد اب یہ بات ناممکن ہے یہاں تک کہ اللہ اور اس کے رسول کا فیصلہ ہمارے بارے میں نہ ہو ، لیکن وہ نہ مانے اور زبردستی کرنے لگے مگر چونکہ کمزور اور ضعیف تھے میں ان پر غالب آ گئی اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکے ، میں اپنی پڑوسن کے ہاں گئی اور اس سے کپڑا مانگ کر اوڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچی ، اس واقعہ کو بیان کیا اور بھی اپنی مصیبتیں اور تکلیفیں بیان کرنی شروع کر دیں ، آپ یہی فرماتے جاتے تھے خولہ ! اپنے خاوند کے بارے میں اللہ سے ڈرو ، وہ بوڑھے بڑے ہیں ، ابھی یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی کیفیت طاری ہوئی ، جب وحی اتر چکی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اے خولہ ! تیرے اور تیرے خاوند کے بارے میں قرآن کریم کی آیتیں نازل ہوئی ہیں “ ، پھر آپ نے آیات «قَدْ سَمِعَ اللہُ قَوْلَ الَّتِی تُجَادِلُکَ فِی زَوْجِہَا وَتَشْتَکِی إِلَی اللہِ وَ اللہُ یَسْمَعُ تَحَاوُرَکُمَا ۚ إِنَّ اللہَ سَمِیعٌ بَصِیرٌ» (58-المجادلۃ:1) سے «وَلِلْکَافِرِینَ عَذَابٌ أَلِیمٌ » (58-المجادلۃ:4) تک پڑھ سنائیں۔ اور فرمایا : ” جاؤ اپنے میاں سے کہو کہ ایک غلام آزاد کریں “ ، میں نے کہا : یا رسول اللہ ! ان کے پاس غلام کہاں ؟ وہ تو بہت مسکین شخص ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اچھا تو دو مہینے کے لگاتار روزے رکھ لیں “ ، میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! وہ تو بڑی عمر کے بوڑھے ناتواں کمزور ہیں انہیں دو ماہ کے روزوں کی بھی طاقت نہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” پھر ساٹھ مسکینوں کو ایک وسق [ تقریباً چار من پختہ ] کھجوریں دے دیں “ ، میں نے کہا : یا رسول اللہ ! ” اس مسکین کے پاس یہ بھی نہیں “ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اچھا آدھا وسق کھجوریں میں اپنے پاس سے انہیں دیدوں گا “ میں نے کہا : بہتر آدھا وسق میں دیدوں گی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” یہ تم نے بہت اچھا کیا اور خوب کام کیا ، جاؤ یہ ادا کر دو اور اپنے خاوند کے ساتھ جو تمہارے چچا کے لڑکے ہیں محبت ، پیار ، خیر خواہی اور فرمانبرداری سے گزارا کرو ۔“ (سنن ابوداود:2214،قال الشیخ الألبانی:حسن) ان کا نام بعض روایتوں میں خویلہ کے بجائے خولہ رضی اللہ عنہا بھی آیا ہے اور بنت ثعلبہ کے بدلے بنت مالک بن ثعلبہ رضی اللہ عنہا بھی آیا ہے ، ان اقوال میں کوئی ایسا اختلاف نہیں جو ایک دوسرے کے خلاف ہو ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» اس سورت کی ان شروع کی آیتوں کا صحیح شان نزول یہی ہے ۔ المجادلة
3 المجادلة
4 ظہار کے احکام سیدنا سلمہ بن صخر رضی اللہ عنہ کا واقعہ جو اب آ رہا ہے وہ اس کے اترنے کا باعث نہیں ہوا ہاں البتہ جو حکم ظہار ان آیتوں میں تھا انہیں بھی دیا گیا یعنی غلام آزاد کرنا یا روزے رکھنا یا کھانا دینا ، سیدنا سلمہ بن صخر انصاری رضی اللہ عنہ کا واقعہ خود ان کی زبانی یہ ہے کہ مجھے جماع کی طاقت اوروں سے بہت زیادہ تھی ، رمضان میں اس خوف سے کہ کہیں ایسا نہ ہو دن میں روزے کے وقت میں بچ نہ سکوں میں نے رمضان بھر کیلئے اپنی بیوی سے ظہار کر لیا ، ایک رات جبکہ وہ میری خدمت میں مصروف تھی بدن کے کسی حصہ پر سے کپڑا ہٹ گیا پھر تاب کہاں تھی ؟ اس سے بات چیت کر بیٹھا صبح اپنی قوم کے پاس آ کر میں نے کہا رات ایسا واقعہ ہو گیا ہے تم مجھے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھو کہ اس گناہ کا بدلہ کیا ہے ؟ سب نے انکار کیا اور کہا کہ ہم تو تیرے ساتھ نہیں جائیں گے ایسا نہ ہو کہ قرآن کریم میں اس کی بابت کوئی آیت اترے یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوئی ایسی بات فرما دیں کہ ہمیشہ کیلئے ہم پر عار باقی رہ جائے ، تو جانے تیرا کام ، تو نے ایسا کیوں کیا ؟ ہم تیرے ساتھی نہیں ، میں نے کہا اچھا پھر میں اکیلا جاتا ہوں ۔ چنانچہ میں گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تمام واقعہ بیان کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تم نے ایسا کیا ؟ “ میں نے کہا : جی ہاں ، اے اللہ کے رسول ! مجھ سے ایسا ہو گیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا : ” تم نے ایسا کیا ؟ “ میں نے پھر یہی عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! مجھ سے یہ خطا ہو گئی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری دفعہ بھی یہی فرمایا میں نے پھر اقرار کیا اور کہا کہ اے اللہ کے رسول ! میں موجود ہوں جو سزا میرے لیے تجویز کی جائے میں اسے صبر سے برداشت کروں گا آپ صلی اللہ علیہ وسلم حکم دیجئیے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جاؤ ایک غلام آزاد کرو ، میں نے اپنی گردن پر ہاتھ رکھ کر کہا اے اللہ کے رسول ! میں تو صرف اس کا مالک ہوں اللہ کی قسم مجھے غلام آزاد کرنے کی طاقت نہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” پھر دو مہینے کے پے در پے روزے رکھو “ ، میں نے کہا : یا رسول اللہ ! روزوں ہی کی وجہ سے تو یہ ہوا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” پھر جاؤ صدقہ کرو “ میں نے کہا : اس اللہ کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میرے پاس کچھ نہیں بلکہ آج کی شب سب گھر والوں نے فاقہ کیا ہے ، پھر فرمایا : ” اچھا بنو رزیق کے قبیلے کے صدقے والے کے پاس جاؤ اور اس سے کہو کہ وہ صدقے کا مال تمہیں دیدیں تم اس میں سے ایک وسق کھجور تو ساٹھ مسکینوں کو دے دو اور باقی تم آپ اپنے اور اپنے بال بچوں کے کام میں لاؤ “ ، میں خوش خوش لوٹا اور اپنی قوم کے پاس آیا اور ان سے کہا کہ تمہارے پاس تو میں نے تنگی اور برائی پائی اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس میں نے کشادگی اور برکت پائی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ اپنے صدقے تم مجھے دے دو چنانچہ انہوں نے مجھے دے دیئے ۔(سنن ابوداود:3299،قال الشیخ الألبانی:حسن) بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ سیدنا اوس بن صامت رضی اللہ عنہ اور ان کی بیوی صاحبہ سیدہ خویلہ بنت ثعلبہ رضی اللہ عنہا کے واقعہ کے بعد کا ہے ، چنانچہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے کہ ظہار کا پہلا واقعہ سیدنا اوس بن صامت رضی اللہ عنہ کا ہے جو عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے بھائی تھے ، ان کی بیوی صاحبہ کا نام سیدہ خولہ بنت ثعلبہ بن مالک رضی اللہ عنہا تھا ، اس واقعہ سے سیدہ خولہ رضی اللہ عنہا کو ڈر تھا کہ شاید طلاق ہو گئی ، انہوں نے آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ میرے میاں نے مجھ سے ظہار کر لیا ہے اور اگر ہم علیحدہ علیحدہ ہو گئے تو دونوں برباد ہو جائیں گے میں اب اس لائق بھی نہیں رہی کہ مجھے اولاد ہو ہمارے اس تعلق کو بھی زمانہ گزر چکا اور بھی اسی طرح کی باتیں کہتی جاتی تھیں اور روتی جاتی تھیں ، اب تک ظہار کا کوئی حکم اسلام میں نہ تھا اس پر یہ آیتیں شروع سورت سے «وَلِلْکَافِرِینَ عَذَابٌ أَلِیمٌ» (58-المجادلۃ:4) تک اتریں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا اوس رضی اللہ عنہ کو بلوایا اور پوچھا کہ کیا تم غلام آزاد کر سکتے ہو ؟ انہوں نے قسم کھا کر انکار کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کیلئے رقم جمع کی انہوں نے اس سے غلام خرید کر آزاد کیا اور اپنی بیوی صاحبہ سے رجوع کیا ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:33730) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے علاوہ اور بھی بہت سے بزرگوں کا یہ فرمان ہے کہ یہ آیتیں انہی کے بارے میں نازل ہوئی ہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» لفظ «ظِّہَار» «ظَّہْر» سے مشتق ہے چونکہ اہل جاہلیت اپنی بیوی سے ظہار کرتے وقت یوں کہتے تھے کہ «أَنْتِ عَلَیَّ کَظَہْرِ أُمِّی» یعنی تو مجھ پر ایسی ہے جیسے میری ماں کی پیٹھ ، شریعت میں حکم یہ ہے کہ اس طرح خواہ کسی عضو کا نام لے ظہار ہو جائے گا ، ظہار جاہلیت کے زمانے میں طلاق سمجھا جاتا تھا اللہ تعالیٰ نے اس امت کیلئے اس میں کفارہ مقرر کر دیا اور اسے طلاق شمار نہیں کیا جیسے کہ جاہلیت کا دستور تھا ۔ سلف میں سے اکثر حضرات نے یہی فرمایا ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما جاہلیت کے اس دستور کا ذکر کر کے فرماتے ہیں اسلام میں جب سیدہ خویلہ رضی اللہ عنہا والا واقعہ پیش آیا اور دونوں میاں بیوی پچھتانے لگے تو سیدنا اوس رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی صاحبہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا یہ جب آئیں تو دیکھا کہ آپ کنگھی کر رہے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واقعہ سن کر فرمایا : ” ہمارے پاس اس کا کوئی حکم نہیں “ اتنے میں یہ آیتیں اتریں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ خویلہ رضی اللہ عنہا کو اس کی خوشخبری دی اور پڑھ سنائیں ، جب غلام کو آزاد کرنے کا ذکر کیا تو عذر کیا کہ ہمارے پاس غلام نہیں ، پھر روزوں کا ذکر سن کر کہا اگر ہر روز تین مرتبہ پانی نہ پئیں تو بوجہ اپنے بڑھاپے کے فوت ہو جائیں ، جب کھانا کھلانے کا ذکر سنا تو کہا چند لقموں پر تو سارا دن گزرتا ہے تو اوروں کو دینا کہاں ؟ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آدھا وسق تیس صاع منگوا کر انہیں دیئے اور فرمایا اسے صدقہ کر دو اور اپنی بیوی سے رجوع کر لو (تفسیر ابن جریر الطبری:33717ضعیف) اس کی اسناد قوی اور پختہ ہے ، لیکن ادائیگی غربت سے خالی نہیں ۔ ابوالعالیہ رحمہ اللہ سے بھی اسی طرح مروی ہے ، فرماتے ہیں خولہ بنت دلیج ایک انصاری کی بیوی تھیں جو کم نگاہ والے ، مفلس اور کج خلق تھے ، کسی دن کسی بات پر میاں بیوی میں جھگڑا ہو گیا تو جاہلیت کی رسم کے مطابق ظہار کر لیا جو ان کی طلاق تھی ۔ یہ بیوی صاحبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچیں اس وقت آپ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں تھے اور ام المؤمنین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر دھو رہی تھیں ، جا کر سارا واقعہ بیان کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اب کیا ہو سکتا ہے ، میرے علم میں تو تو اس پر حرام ہو گئی “ یہ سن کر کہنے لگیں ، اللہ ! میری عرض تجھ سے ہے ، اب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا آپ کے سر مبارک کا ایک طرف کا حصہ دھو کر گھوم کر دوسری جانب آئیں اور ادھر کا حصہ دھونے لگیں تو سیدہ خولہ رضی اللہ عنہا بھی گھوم کر اس دوسری طرف آ بیٹھیں اور اپنا واقعہ دوہرایا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر یہی جواب دیا ، ام المؤمنین رضی اللہ عنہا نے دیکھا کہ آپ کے چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا ہے تو ان سے کہا کہ دور ہٹ کر بیٹھو ، یہ دور کھسک گئیں ادھر وحی نازل ہونی شروع ہوئی جب اتر چکی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” وہ عورت کہاں ہے ؟ “ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا نے انہیں آواز دے کر بلایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جاؤ ، اپنے خاوند کو لے آؤ “ ، یہ دوڑتی ہوئی گئیں اور اپنے شوہر کو بلا لائیں تو واقعی وہ ایسے ہی تھے جیسے انہوں نے کہا تھا ، آپ نے «أَسْتَعِیذ بِاَللَّہِ السَّمِیع الْعَلِیم ، بِسْمِ اللَّہ الرَّحْمَن الرَّحِیم» پڑھ کر اس سورت کی یہ آیتیں سنائیں «قَد سَمِعَ اللہُ قَولَ الَّتی تُجادِلُکَ فی زَوجِہا وَتَشتَکی إِلَی اللہِ وَ اللہُ یَسمَعُ تَحاوُرَکُما إِنَّ اللہَ سَمیعٌ بَصیرٌ» (58-المجادلۃ:1) ، اور فرمایا : ” تم غلام آزاد کر سکتے ہو ؟ “ انہوں نے کہا : نہیں ، کہا : ” دو مہینے کے لگاتار ایک کے پیچھے ایک روزے رکھ سکتے ہو ؟ “ انہوں نے قسم کھا کر کہا کہ اگر دو تین دفعہ دن میں نہ کھاؤں تو بینائی بالکل جاتی رہتی ہے ، فرمایا : ” کیا ساٹھ مسکینوں کو کھانا دے سکتے ہو ؟ “ انہوں نے کہا : نہیں ، لیکن اگر آپ میری امداد فرمائیں تو اور بات ہے ، پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اعانت کی اور فرمایا : ” ساٹھ مسکینوں کو کھلا دو اور جاہلیت کی اس رسم طلاق کو ہٹا کر اللہ تعالیٰ نے اسے ظہار مقرر فرمایا “ ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:33714:مرسل) سعید بن جبیر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں «ایلا» اور «ظہار» جاہلیت کے زمانہ کی طلاقیں تھیں ، اللہ تعالیٰ نے «ایلا» میں تو چار مہینے کی مدت مقرر فرمائی اور «ظہار» میں کفارہ مقرر فرمایا ۔ امام مالک رحمتہ اللہ علیہ نے لفظ «مِنکُم» سے استدلال کیا ہے کہ چونکہ یہاں خطاب مومنوں سے ہے اس لیے اس حکم میں کافر داخل نہیں ۔ جمہور کا مذہب اس کے برخلاف ہے وہ اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ یہ بہ اعتبار غلبہ کے کہہ دیا گیا ہے اس لیے بطور قید کے اس کا مفہوم مخالف مراد نہیں لے سکتے ۔ لفظ «مِّن نِّسَائِہِم» سے جمہور نے استدلال کیا ہے کہ لونڈی سے ظہار نہیں ، نہ وہ اس خطاب میں داخل ہے ۔ پھر فرماتا ہے اس کہنے سے کہ تو مجھ پر میری ماں کی طرح ہے یا میرے لیے تو مثل میری ماں کے ہے یا مثل میری ماں کی پیٹھ کے ہے یا اور ایسے ہی الفاظ اپنی بیوی کو کہہ دینے سے وہ سچ مچ ماں نہیں بن جاتی ، حقیقی ماں تو وہی ہے جس کے بطن سے یہ تولد ہوا ہے ، یہ لوگ اپنے منہ سے فحش اور باطل قول بول دیتے ہیں ، اللہ تعالیٰ درگزر کرنے والا اور بخشنے والا ہے ۔ اس نے جاہلیت کی اس تنگی کو تم سے دور کر دیا ، اسی طرح ہر وہ کلام جو ایک دم زبان سے بغیر سوچے سمجھے اور بلا قصد نکل جائے ۔ چنانچہ ابوداؤد وغیرہ میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا کہ ایک شخص اپنی بیوی سے کہہ رہا ہے اے میری بہن ! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” یہ تیری بہن ہے ؟ “ (سنن ابوداود:2210،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) غرض یہ کہنا برا لگا اسے روکا مگر اس سے حرمت ثابت نہیں کی کیونکہ دراصل اس کا مقصود یہ نہ تھا یونہی زبان سے بغیر قصد کے نکل گیا تھا ورنہ ضرور حرمت ثابت ہو جاتی ، کیونکہ صحیح قول یہی ہے کہ اپنی بیوی کو جو شخض اس نام سے یاد کرے جو محرمات ابدیہ ہیں مثلاً بہن یا پھوپھی یا خالہ وغیرہ تو وہ بھی حکم میں ماں کہنے کے ہیں ۔ جو لوگ ظہار کریں پھر اپنے کہنے سے لوٹیں اس کا مطلب ایک تو یہ بیان کیا گیا ہے کہ ظہار کیا پھر مکرر اس لفظ کو کہا لیکن یہ ٹھیک نہیں ۔ بقول امام شافعی رحمہ اللہ مطلب یہ ہے کہ ظہار کیا پھر اس عورت کو روک رکھا یہاں تک کہ اتنا زمانہ گزر گیا کہ اگر چاہتا تو اس میں باقاعدہ طلاق دے سکتا تھا لیکن طلاق نہ دی ۔ امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ پھر لوٹے جماع کی طرف یا ارادہ کرے تو یہ حلال نہیں تاوقتیکہ مذکورہ کفارہ ادا نہ کرے ۔ امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مراد اس سے جماع کا ارادہ یا پھر بسانے کا عزم یا جماع ہے ۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ وغیرہ کہتے ہیں مراد ظہار کی طرف لوٹنا ہے اس کی حرمت اور جاہلیت کے حکم کے اٹھ جانے کے بعد ، پس جو شخص اب ظہار کرے گا اس پر اس کی بیوی حرام ہو جائے گی جب تک کہ یہ کفارہ ادا نہ کرے ۔ سعید رحمہ اللہ فرماتے ہیں مراد یہ ہے کہ جس چیز کو اس نے اپنی جان پر حرام کر لیا تھا اب پھر اس کام کو کرنا چاہے تو اس کا کفارہ ادا کرے ۔ حسن بصری رحمہ اللہ کا قول ہے کہ مجامعت کرنا چاہے ورنہ اور طرح چھونے میں ، قبل کفارہ کے بھی ، ان کے نزدیک کوئی حرج نہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ فرماتے ہیں یہاں اس سے مراد صحبت کرنا ہے ۔(تفسیر ابن جریر الطبری:231/32:) زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہاتھ لگانا ، پیار کرنا بھی کفارہ کی ادائیگی سے پہلے جائز نہیں ۔ سنن میں ہے کہ ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ! میں نے اپنی بیوی سے ظہار کیا تھا پھر کفارہ ادا کرنے سے پہلے میں اس سے مل لیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اللہ تجھ پر رحم کرے ایسا تو نے کیوں کیا ؟ “ کہنے لگا یا رسول اللہ ! چاندنی رات میں اس کے خلخال کی چمک نے مجھے بیتاب کر دیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اب اس سے قربت نہ کرنا جب تک کہ اللہ کے فرمان کے مطابق کفارہ ادا نہ کر دے “ ، (سنن ابوداود:2221،قال الشیخ الألبانی:صحیح) نسائی میں یہ حدیث مرسلاً مروی ہے اور امام نسائی رحمتہ اللہ علیہ مرسل ہونے کو اولیٰ بتاتے ہیں ۔ پھر کفارہ بیان ہو رہا ہے کہ ایک غلام آزاد کرے ، ہاں یہ قید نہیں کہ مومن ہی ہو جیسے قتل کے کفارے میں غلام کے مومن ہونے کی قید ہے ۔ امام شافعی رحمہ اللہ تو فرماتے ہیں یہ مطلق اس مقید پر محمول ہو گی کیونکہ غلام کو آزاد کرنے کی شرط جیسی وہاں ہے ایسی ہی یہاں بھی ہے ، اس کی دلیل یہ حدیث بھی ہے کہ ایک سیاہ فام لونڈی کی بابت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا : ” اسے آزاد کر دو یہ مومنہ ہے “ ، (صحیح مسلم:537) اوپر واقعہ گزر چکا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ظہار کر کے پھر کفارہ سے قبل واقع ہونے والے کو آپ نے دوسرا کفارہ ادا کرنے کو نہیں فرمایا ۔ پھر فرماتا ہے اس سے تمہیں نصیحت کی جاتی ہے یعنی دھمکایا جا رہا ہے ۔ اللہ تعالیٰ تمہاری مصلحتوں سے خبردار ہے اور تمہارے احوال کا عالم ہے ۔ جو غلام کو آزاد کرنے پر قادر نہ ہو وہ دو مہینے کے لگاتار روزے رکھنے کے بعد اپنی بیوی سے اس صورت میں مل سکتا ہے اور اگر اس کا بھی مقدور نہ ہو تو پھر ساٹھ مسکینوں کو کھانا دینے کے بعد ، پہلے حدیثیں گزر چکیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ مقدم پہلی صورت پھر دوسری پھر تیسری ، جیسے کہ بخاری و مسلم کی اس حدیث میں بھی ہے جس میں آپ نے رمضان میں اپنی بیوی سے جماع کرنے والے کو فرمایا تھا ۔ (صحیح بخاری:1936) ہم نے یہ احکام اس لیے مقرر کئے ہیں کہ تمہارا کامل ایمان اللہ پر اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ہو جائے ۔ یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں اس کے محرمات ہیں ! خبردار اس حرمت کو نہ توڑنا ۔ جو کافر ہوں یعنی ایمان نہ لائیں حکم برداری نہ کریں شریعت کے احکام کی بےعزتی کریں ان سے لاپرواہی برتیں انہیں بلاؤں سے بچنے والا نہ سمجھو بلکہ ان کیلئے دنیا اور آخرت میں درد ناک عذاب ہیں ۔ المجادلة
5 احکامات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ہم فرمان ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرنے والے اور احکام شرعی سے سرتابی کرنے والے ذلت ادبار نحوست اور پھٹکار کے لائق ہیں جس طرح ان سے اگلے انہی اعمال کے باعث برباد اور رسوا کر دیئے گئے ، اسی طرح یہ بھی اس سرکشی کے باعث برباد اور رسوا کر دئیے گئے ، اسی طرح واضح ، اس قدر ظاہر ، اتنی صاف اور ایسی کھلی ہوئی آیتیں بیان کر دی ہیں اور نشانیاں ظاہر کر دی ہیں کہ سوائے اس کے جس کے دل میں سرکشی ہو کوئی ان سے انکار کر نہیں سکتا اور جو ان کا انکار کرے وہ کافر ہے اور ایسے کفار کیلئے یہاں کی ذلت کے بعد وہاں کے بھی اہانت والے عذاب ہیں ، یہاں ان کے تکبر نے اللہ کی طرف جھکنے سے روکا وہاں اس کے بدلے انہیں بے انتہا ذلیل کیا جائے گا ، خوب روندا جائے گا ، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تمام اگلوں پچھلوں کو ایک ہی میدان میں جمع کرے گا اور جو بھلائی برائی جس کسی نے کی تھی اس سے اسے آگاہ کرے گا ۔ گو یہ بھول گئے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے تو اسے یاد رکھا تھا اس کے فرشتوں نے اسے لکھ رکھا تھا ۔ نہ تو اللہ پر کوئی چیز چھپ سکے نہ اللہ تعالیٰ کسی چیز کو بھولے ۔ پھر بیان فرماتا ہے کہ تم جہاں ہو جس حالت میں ہو نہ تمہاری باتیں اللہ کے سننے سے رہ سکیں نہ تمہاری حالتیں اللہ کے دیکھنے سے پوشیدہ رہیں اس کے علم نے ساری دنیا کا احاطہ کر رکھا ہے اسے ہر زبان و مکان کی اطلاع ہر وقت ہے ، وہ زمین و آسمان کی تمام تر کائنات سے باعلم ہے ۔ تین شخص آپس میں مل کر نہایت پوشیدگی ، رازداری کے ساتھ اپنی باتیں ظاہر کریں انہیں وہ سنتا ہے اور وہ اپنے آپ کو تین ہی نہ سمجھیں بلکہ اپنا چوتھا اللہ کو گنیں اور جو پانچ شخص تنہائی میں رازداریاں کر رہے ہیں وہ چھٹا اللہ کو جانیں پھر جو اس سے کم ہوں یا اس سے زیادہ ہوں ، وہ بھی یقین رکھیں کہ وہ جہاں کہیں بھی ہیں ان کے ساتھ ان کا اللہ ہے یعنی ان کے حال و قال سے مطلع ہے ان کے کلام کو سن رہا ہے اور ان کی حالتوں کو دیکھ رہا ہے پھر ساتھ ہی ساتھ اس کے فرشتے بھی لکھتے جا رہے ہیں ۔ جیسے اور جگہ ہے «اَلَمْ یَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ سِرَّہُمْ وَنَجْوٰیہُمْ وَاَنَّ اللّٰہَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ» (9-التوبہ:78) ’ کیا لوگ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ ان کی پوشیدہ باتوں کو اور ان کی سرگوشیوں کو بخوبی جانتا ہے اور اللہ تعالیٰ تمام غیبوں پر اطلاع رکھنے والا ہے ‘ ، اور جگہ ارشاد ہے «اَمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّا لَا نَسْمَعُ سِرَّہُمْ وَنَجْوٰیہُمْ ۭ بَلٰی وَرُسُلُنَا لَدَیْہِمْ یَکْتُبُوْنَ» (43-الزخرف:80) ’ کیا ان کا یہ گمان ہے کہ ہم ان کی پوشیدہ باتوں اور خفیہ مشوروں کو سن نہیں رہے ؟ برابر سن رہے ہیں اور ہمارے بھیجے ہوئے ان کے پاس موجود ہیں جو لکھتے جا رہے ہیں ‘ ، اکثر بزرگوں نے اس بات پر اجماع نقل کیا ہے کہ اس آیت سے مراد معیت علمی ہے یعنی اللہ تعالیٰ کا وجود نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا علم ہر جگہ ہے ، ہر تین کے مجمع میں چوتھا اس کا علم ہے تبارک و تعالیٰ ۔ بیشک و شبہ اس بات پر ایمان کامل اور یقین راسخ رکھنا چاہیئے کہ یہاں مراد ذات سے ساتھ ہونا نہیں بلکہ علم سے ہر جگہ موجود ہونا ہے ، ہاں بیشک اس کا سننا دیکھنا بھی اسی طرح اس کے علم کے ساتھ ساتھ ہے ، اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنی تمام مخلوق پر مطلع ہے ان کا کوئی کام اس سے پوشیدہ نہیں ، پھر قیامت کے دن انہیں ان کے تمام اعمال پر تنبیہ کرے گا ، اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جاننے والا ہے ۔ امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس آیت کو شروع بھی اپنے علم کے بیان سے کیا تھا اور ختم بھی اللہ کے علم کے بیان پر کیا [ مطلب یہ ہے کہ درمیان میں اللہ کا ساتھ ہونا جو بیان کیا تھا اس سے بھی ازروئے علم کے ساتھ ہونا ہے نہ کہ ازروئے ذات کے ۔مترجم ] المجادلة
6 المجادلة
7 معاشرتی آداب کا ایک پہلو اور قیامت کا ایک منظر کانا پھوسی سے یہودیوں کو روک دیا گیا تھا اس لیے کہ ان میں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں جب صلح صفائی تھی تو یہ لوگ یہ حرکت کرنے لگے کہ جہاں کسی مسلمان کو دیکھا اور جہاں کوئی ان کے پاس گیا یہ ادھر ادھر جمع ہو ہو کر چپکے چپکے اشاروں کنایوں میں اس طرح کانا پھوسی کرنے لگتے کہ اکیلا دکیلا مسلمان یہ گمان کرتا کہ شاید یہ لوگ میرے قتل کی سازشیں کر رہے ہیں یا میرے خلاف اور ایمانداروں کے خلاف کچھ مخفی ترکیبیں سوچ رہے ہیں اسے ان کی طرف جاتے ہوئے بھی ڈر لگتا ، جب یہ شکایتیں عام ہوئیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کو اس سفلی حرکت سے روک دیا ، لیکں انہوں نے پھر بھی یہی کرنا شروع کیا ۔ ابن ابی حاتم کی ایک حدیث میں ہے کہ ہم لوگ باری باری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رات کو حاضر ہوتے کہ اگر کوئی کام کاج ہو تو کریں ، ایک رات کو باری والے آ گئے اور کچھ اور لوگ بھی بہ نیت ثواب آ گئے چونکہ لوگ زیادہ جمع ہو گئے تو ہم ٹولیاں ٹولیاں بن کر ادھر ادھر بیٹھ گئے اور ہر جماعت آپس میں باتیں کرنے لگی ، اتنے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا : ” یہ سرگوشیاں کیا ہو رہی ہیں ؟ کیا تمہیں اس سے روکا نہیں گیا ؟ “ ہم نے کہا : اے اللہ کے رسول ! ہماری توبہ ہم مسیح دجال کا ذکر کر رہے تھے کیونکہ اس سے کھٹکا لگا رہتا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” سنو میں تمہیں اس سے بھی زیادہ خوف کی چیز بتاؤں وہ پوشیدہ شرک ہے اس طرح کہ ایک شخص اٹھ کھڑا ہو اور دوسروں کے دکھانے کیلئے کوئی دینی کام کرے [ یعنی ریاکاری ] “ اس کی اسناد غریب ہے اور اس میں بعض راوی ضعیف ہیں ۔(تفسیر ابن ابی حاتم:ضعیف) پھر بیان ہوتا ہے کہ ان کی خانگی سرگوشیاں یا تو گناہ کے کاموں پر ہوتی ہیں جس میں ان کا ذاتی نقصان ہے ، یا ظلم پر ہوتی ہیں جس میں دوسروں کے نقصان کی ترکیبیں سوچتے ہیں یا پیغمبر علیہ السلام کی مخالفت پر ایک دوسروں کو پختہ کرتے ہیں اور آپ کی نافرمانیوں کے منصوبے گانٹھتے ہیں ۔ پھر ان بدکاروں کی ایک بدترین خصلت بیان ہو رہی ہے کہ سلام کے الفاظ کو بھی یہ بدل دیتے ہیں ، سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ایک مرتبہ یہودی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا «السَّام عَلَیْک یَا أَبَا الْقَاسِم» ، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے رہا نہ گیا فرمایا «وَعَلَیْکُمْ السَّام» ، «سَّام» کے معنی موت کے ہیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اے عائشہ ! اللہ تعالیٰ برے الفاظ اور سخت کلامی کو ناپسند فرماتا ہے ۔ میں نے کہا : کیا آپ نے نہیں سنا ۔ انہوں نے آپ کو «السلام» نہیں کہا بلکہ «السام» کہا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” کیا تم نے نہیں سنا ؟ میں نے کہہ دیا «وَعَلَیْکُمْ» “ ۔ (صحیح مسلم:2165) اسی کا بیان یہاں ہو رہا ہے ۔ دوسری روایت میں ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان کے جواب میں فرمایا تھا «عَلَیْکُمْ السَّامُ وَالذَّامُ وَاللَّعْنَتَہُ» اور آپ نے عائشہ رضی اللہ عنہا کو روکتے ہوئے فرمایا کہ ہماری دعا ان کے حق میں مقبول ہے اور ان کا ہمیں کوسنا نامقبول ہے ۔ (ابن ابی حاتم وغیرہ) (صحیح بخاری:6030) ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے مجمع میں تشریف فرما تھے کہ ایک یہودی نے آ کر سلام کیا ،صحابہ نے جواب دیا ، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے پوچھا : ” معلوم بھی ہے اس نے کیا کہا تھا ؟ “ انہوں نے کہا اے اللہ کے رسول ! سلام کیا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” نہیں اس نے کہا تھا «سَام عَلَیْکُمْ» یعنی تمہارا دین مغلوب ہو کر مٹ جائے “ ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اس یہودی کو بلاؤ جب وہ آ گیا تو آپ نے فرمایا : ” سچ سچ بتا کیا تو نے «سَام عَلَیْکُمْ» نہیں کہا تھا ؟ “ اس نے کہا : ہاں ، میں نے یہی کہا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” سنو جب کبھی کوئی اہل کتاب تم میں سے کسی کو سلام کرے تو تم صرف «عَلَیْک» کہہ دیا کرو یعنی جو تو نے کہا ہو وہ تجھ پر ۔ (سنن ابن ماجہ:3697،قال الشیخ الألبانی:صحیح) پھر یہ لوگ اپنے اس کرتوت پر خوش ہو کر اپنے دل میں کہتے کہ اگر یہ نبی برحق ہوتا تو اللہ تعالیٰ ہماری اس چالبازی پر ہمیں دنیا میں ضرور عذاب کرتا اس لیے کہ اللہ تعالیٰ تو ہمارے باطنی حال سے بخوبی واقف ہے ۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’ انہیں دار آخرت کا عذاب ہی کافی ہے جہاں یہ جہنم میں جائیں گے اور بری جگہ پہنچیں گے ‘ ۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ اس آیت کا شان نزول یہودیوں کا اس طریقے کا سلام ہے ، (مسند احمد:170/2:صحیح) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ منافق اسی طرح سلام کرتے تھے ۔ المجادلة
8 المجادلة
9 مومن کی سرگوشی پھر اللہ تعالیٰ مومنوں کو ادب سکھاتا ہے کہ تم ان منافقوں اور یہودیوں کے سے کام نہ کرنا تم گناہ کے کاموں اور حد سے گزر جانے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نہ ماننے کے مشورے نہ کرنا بلکہ تمہیں ان کے برخلاف نیکی اور اپنے بچاؤ کے مشورے کرنے چاہئیں ۔ تمہیں ہر وقت اس اللہ سے ڈرتے رہنا چاہیئے جس کی طرف تمہیں جمع ہونا ہے ، جو اس وقت تمہیں ہر نیکی بدی کی جزا سزا دے گا اور تمام اعمال و اقوال سے متنبہ کرے گا گو تم بھول گئے لیکن اس کے پاس سب محفوظ اور موجود ہیں ۔ صفوان رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا ہاتھ تھامے ہوا تھا کہ ایک شخص آیا اور پوچھا : آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مومن کی جو سرگوشی قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے ہو گی اس کے بارے میں کیا سنا ہے ؟ آپ نے فرمایا : رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ مومن کو اپنے قریب بلائے گا اور اس قدر قریب کہ اپنا بازو اس پر رکھ دے گا اور لوگوں سے اسے پردے میں کر لے گا اور اس سے اس کے گناہوں کا اقرار کرائے گا اور پوچھے گا یاد ہے ؟ فلاں گناہ تم نے کیا تھا ، فلاں کیا تھا ، فلاں کیا تھا ، یہ اقرار کرتا جائے گا اور دل دھڑک رہا ہو گا کہ اب ہلاک ہوا ، اتنے میں اللہ تعالیٰ فرمائے گا دیکھ دنیا میں بھی میں نے تیری پردہ پوشی کی اور آج بھی میں نے بخشش کی ، پھر اسے اس کی نیکیوں کا نامہ اعمال دیا جائے گا لیکن کافر و منافق کے بارے میں تو گواہ پکار کر کہہ دیں گے کہ یہ اللہ پر جھوٹ بولنے والے لوگ ہیں خبردار ہو جاؤ ان ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے ۔ (صحیح بخاری:2441) پھر فرمان ہے کہ اس قسم کی سرگوشی جس سے مسلمان کو تکلیف پہنچے اور اسے بدگمانی ہو شیطان کی طرف سے ہے ، شیطان ان منافقوں سے یہ کام اس لیے کراتا ہے کہ مومنوں کو غم و رنج ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی شیطان یا کوئی اور انہیں کوئی ضرر نہیں پہنچا سکتا ، جسے کوئی ایسی حرکت معلوم ہو اسے چاہیئے کہ «اعوذ» پڑھے اللہ کی پناہ لے اور اللہ پر بھروسہ رکھے ، ان شاءاللہ اسے کوئی نقصان نہ پہنچے گا ۔، ایسی کانا پھوسی جو کسی مسلمان کو ناگوار گزرے ، حدیث میں بھی منع آئی ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جب تم تین آدمی ہو تو دو مل کر کان میں منہ ڈال کر باتیں کرنے نہ بیٹھ جاؤ اس سے اس تیسرے کا دل میلا ہو گا “ (صحیح بخاری:6290) اور روایت میں ہے کہ ہاں اگر اس کی اجازت ہو تو کوئی حرج نہیں ۔ (صحیح مسلم:2183) المجادلة
10 المجادلة
11 آداب مجلس باہم معاملات اور علمائے حق و باعمل کی توقیر یہاں ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ مجلسی آداب سکھاتا ہے ۔ انہیں حکم دیتا ہے کہ نشست و برخاست میں بھی ایک دوسرے کا خیال و لحاظ رکھو ۔ تو فرماتا ہے کہ جب مجلس جمع ہو اور کوئی آئے تو ذرا ادھر ادھر ہٹ ہٹا کر اسے بھی جگہ دو ۔ مجلس میں کشادگی کرو ۔ اس کے بدلے اللہ تعالیٰ تمہیں کشادگی دے گا ۔ اس لیے کہ ہر عمل کا بدلہ اسی جیسا ہوتا ہے ۔ چنانچہ ایک حدیث میں ہے { جو شخص اللہ تعالیٰ کیلئے مسجد بنا دے اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں گھر بنا دے گا ۔ } (صحیح بخاری:450) ایک اور حدیث میں ہے کہ { جو کسی سختی والے پر آسانی کرے اللہ تعالیٰ اس پر دنیا اور آخرت میں آسانی کرے گا ، جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی مدد میں لگا رہے اللہ تعالیٰ خود اپنے اس بندے کی مدد پر رہتا ہے ۔ } (صحیح مسلم:2699) اور بھی اسی طرح کی بہت سی حدیثیں ہیں ۔ قتادہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ آیت مجلس ذکر کے بارے میں اتری ہے مثلاً وعظ ہو رہا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کچھ نصیحت کی باتیں بیان فرما رہے ہیں لوگ بیٹھے سن رہے ہیں ، اب جو دوسرا کوئی آیا تو کوئی اپنی جگہ سے نہیں سرکتا تاکہ اسے بھی جگہ مل جائے ، قرآن کریم نے حکم دیا کہ ایسا نہ کرو ادھر ادھر کھل جایا کرو تاکہ آنے والے کی جگہ ہو جائے ۔ مقاتل رحمہ اللہ فرماتے ہیں جمعہ کے دن یہ آیت اتری ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس دن صفہ میں تھے یعنی مسجد کے ایک چھپر تلے جگہ تنگ تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک تھی کہ جو مہاجر اور انصاری بدر کی لڑائی میں آپ کے ساتھ تھے آپ ان کی بڑی عزت اور تکریم کیا کرتے تھے ، اس دن اتفاق سے چند بدری صحابہ رضی اللہ عنہم دیر سے آئے ، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آس پاس کھڑے ہو گئے ، آپ سے سلام علیک ہوئی ، آپ نے جواب دیا پھر اور اہل مجلس کو سلام کیا ، انہوں نے بھی جواب دیا ، اب یہ اسی امید پر کھڑے رہے کہ مجلس میں ذرا کشادگی دیکھیں تو بیٹھ جائیں لیکن کوئی شخص اپنی جگہ سے نہ ہلا جو ان کیلئے جگہ ہوتی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ دیکھا تو نہ رہا گیا ، نام لے لے کر بعض لوگوں کو ان کی جگہ سے کھڑا کیا اور ان بدری صحابیوں کو بیٹھنے کو فرمایا ، جو لوگ کھڑے کرائے گئے تھے انہیں ذرا بھاری پڑا ادھر منافقین کے ہاتھ میں ایک مشغلہ لگ گیا ، کہنے لگے ، لیجئے یہ عدل کرنے کے مدعی نبی ہیں کہ جو لوگ شوق سے آئے ، پہلے آئے ، اپنے نبی کے قریب جگہ لی ، اطمینان سے اپنی اپنی جگہ بیٹھ گئے ، انہیں تو ان کی جگہ سے کھڑا کر دیا اور دیر سے آنے والوں کو ان کی جگہ دلوا دی کس قدر ناانصافی ہے ، ادھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے ان کے دل میلے نہ ہوں دعا کی کہ اللہ اس پر رحم کرے جو اپنے مسلمان بھائی کیلئے مجلس میں جگہ کر دے ۔ اس حدیث کو سنتے ہی صحابہ رضی اللہ عنہم نے فوراً خود بخود اپنی جگہ سے ہٹنا اور آنے والوں کو جگہ دینا شروع کر دیا اور جمعہ ہی کے دن یہ آیت اتری ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:244/23:مرسل) بخاری ، مسلم ، مسند وغیرہ میں حدیث ہے کہ { کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو اس کی جگہ سے ہٹا کر وہاں نہ بیٹھے بلکہ تمہیں چاہیئے کہ ادھر ادھر سرک کر اس کیلئے جگہ بنا دو ۔ } (صحیح بخاری:911) مسند شافعی میں ہے ، تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کو جمعہ کے دن اس کی جگہ سے ہرگز نہ اٹھائے بلکہ کہہ دے کہ گنجائش کرو ۔(مسند شافعی:159/1ضعیف) اس مسئلہ میں علماء کا اختلاف ہے کہ کسی آنے والے کیلئے کھڑے ہو جانا جائز ہے یا نہیں ؟ بعض لوگ تو اجازت دیتے ہیں اور یہ حدیث پیش کرتے ہیں کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اپنے سردار کیلئے کھڑے ہو جاؤ ۔ ” } (صحیح بخاری:2550) بعض علماء منع کرتے ہیں اور یہ حدیث پیش کرتے ہیں کہ { جو شخص یہ چاہے کہ لوگ اس کیلئے سیدھے کھڑے ہوں وہ جہنم میں اپنی جگہ بنا لے ۔ } (سنن ترمذی:2755،قال الشیخ الألبانی:حسن) بعض بزرگ تفصیل بیان کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ سفر سے اگر کوئی آیا ہو تو حاکم کیلئے عہدہ حکمرانی کے سبب لوگوں کا کھڑے ہو جانا درست ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جن کیلئے کھڑا ہونے کو فرمایا تھا یہ سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ تھے ۔ بنو قریظہ کے آپ حاکم بنائے گئے تھے جب انہیں آتا ہوا دیکھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اپنے سردار کیلئے کھڑے ہو جاؤ اور یہ [ بطور تعظیم کے نہ تھا بلکہ ] صرف اس لیے تھا کہ ان کے احکام کو بخوبی جاری کرائے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ہاں اسے عادت بنا لینا کہ مجلس میں جہاں کوئی بڑا آدمی آیا اور لوگ کھڑے ہو گئے یہ عجمیوں کا طریقہ ہے ، سنن کی حدیث میں ہے کہ { صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ محبوب اور باعزت کوئی نہ تھا لیکن تاہم آپ کو دیکھ کر وہ کھڑے نہیں ہوا کرتے تھے ، جانتے تھے کہ آپ اسے مکروہ سمجھتے ہیں ۔ } (سنن ترمذی:2754،قال الشیخ الألبانی:صحیح) سنن کی اور حدیث میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آتے ہی مجلس کے خاتمہ پر بیٹھ جایا کرتے تھے اور جہاں آپ تشریف فرما ہو جاتے وہی جگہ صدارت کی جگہ ہو جاتی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنے اپنے مراتب کے مطابق مجلس میں بیٹھ جاتے ۔ سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ کے آپ دائیں جانب ، سیدنا فاروق رضی اللہ عنہ آپ کے بائیں اور عموماً سیدنا عثمان و سیدنا علی رضی اللہ عنہما آپ کے سامنے بیٹھتے تھے کیونکہ یہ دونوں بزرگ کاتب وحی تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے فرماتے اور یہ وحی کو لکھ لیا کرتے تھے ۔ } صحیح مسلم میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان تھا کہ مجھ سے قریب ہو کر عقلمند ، صاحب فراست لوگ بیٹھیں پھر درجہ بدرجہ ۔ } (صحیح مسلم:432) اور یہ انتظام اس لیے تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ارشادات یہ حضرات سنیں اور بخوبی سمجھیں ، یہی وجہ تھی کہ صفہ والی مجلس میں جس کا ذکر ابھی ابھی گزرا ہے آپ نے اور لوگوں کو ان کی جگہ سے ہٹا کر وہ جگہ بدری صحابہ رضی اللہ عنہم کو دلوائی ، گو اس کے ساتھ اور وجوہات بھی تھیں مثلاً ان لوگوں کو خود چاہیئے تھا کہ ان بزرگ صحابہ رضی اللہ عنہم کا خیال کرتے اور لحاظ و مروت برت کر خود ہٹ کر انہیں جگہ دیتے ، جب انہوں نے از خود ایسا نہیں کیا تو پھر حکماً ان سے ایسا کرایا گیا ، اسی طرح پہلے کے لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سے کلمات پوری طرح سن چکے تھے اب یہ حضرات آئے تھے تو آپ نے چاہا کہ یہ بھی باآرام بیٹھ کر میری حدیثیں سن لیں اور دینی تعلیم حاصل کر لیں ، اسی طرح امت کو اس بات کی تعلیم بھی دینی تھی کہ وہ اپنے بڑوں اور بزرگوں کو امام کے پاس بیٹھنے دیں اور انہیں اپنے سے مقدم رکھیں ۔ مسند احمد میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کی صفوں کی درستی کے وقت ہمارے مونڈھے خود پکڑ پکڑ کر ٹھیک ٹھاک کرتے اور زبانی بھی فرماتے جاتے سیدھے رہو ، ٹیڑھے ترچھے نہ کھڑے ہوا کرو ، دانائی اور عقلمندی والے مجھ سے بالکل قریب رہیں پھر درجہ بہ درجہ دوسرے لوگ ۔ سیدنا ابومسعود رضی اللہ عنہ اس حدیث کو بیان فرما کر فرماتے اس حکم کے باوجود افسوس کہ اب تم بڑی ٹیڑھی صفیں کرتے ہو ۔ } (صحیح مسلم:432) مسلم ، ابوداؤد ، نسائی اور ابن ماجہ میں بھی یہ حدیث ہے ظاہر ہے کہ جب آپ کا یہ حکم نماز کیلئے تھا تو نماز کے سوا کسی اور وقتوں میں تو بطور اولیٰ یہی حکم رہے گا ، ابوداؤد میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” صفوں کو درست کرو ، مونڈھے ملائے رکھو ، صفوں کے درمیان خالی جگہ نہ چھوڑو ، اپنے بھائیوں کے پاس صف میں نرم بن جایا کرو ، صف میں شیطان کیلئے سوراخ نہ چھوڑو صف ملانے والے کو اللہ تعالیٰ ملاتا ہے اور صف توڑنے والے کو اللہ تعالیٰ کاٹ دیتا ہے ۔ } (سنن ابوداود:666،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اسی لیے سید القراء سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ جب پہنچتے تو صف اول میں سے کسی ضعیف العقل شخص کو پیچھے ہٹا دیتے اور خود پہلی صف میں کھڑے ہو جاتے اور اسی حدیث کو دلیل میں لاتے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : ” مجھ سے قریب ذی رائے اور اعلیٰ عقلمند کھڑے ہوں پھر درجہ بہ درجہ دوسرے لوگ ۔ “ } (مسند احمد:140/5:صحیح) سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھ کر اگر کوئی شخص کھڑا ہو جاتا تو آپ اس کی جگہ پر نہ بیٹھتے ۔ (صحیح بخاری:6280) اور اس حدیث کو پیش کرتے جو اوپر گزری کہ کسی کو اٹھا کر اس کی جگہ میں کوئی اور نہ بیٹھے ، یہاں بطور نمونے کے یہ چند مسائل اور تھوڑی حدیثیں لکھ کر ہم آگے چلتے ہیں بسط و تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں ، نہ یہ موقع ہے ۔ ایک صحیح حدیث میں ہے کہ { ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے کہ تین شخص آئے ایک تو مجلس کے درمیان جگہ خالی دیکھ کر وہاں آ کر بیٹھ گئے دوسرے نے مجلس کے آخر میں جگہ بنا لی تیسرے واپس چلے گئے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” لوگوں میں تمہیں تین شخصوں کی بابت خبر دوں ، ایک نے تو اللہ کی طرف جگہ لی اور اللہ تعالیٰ نے اسے جگہ دی ، دوسرے نے شرم کی ۔ اللہ نے بھی اس سے حیاء کی ، تیسرے نے منہ پھیر لیا تو اللہ تعالیٰ نے بھی اس سے منہ پھیر لیا ۔ “ } (صحیح بخاری:66) مسند احمد میں ہے کہ { کسی کو حلال نہیں کہ دو شخصوں کے درمیان تفریق کرے ، ہاں ان کی خوشنودی سے ہو تو اور بات ہے ۔ } (سنن ابوداود:4845،قال الشیخ الألبانی:صحیح) امام ترمذی رحمہ اللہ نے اسے حسن کہا ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما ، حسن بصری وغیرہ فرماتے ہیں مجلسوں کی کشادگی کا حکم جہاد کے بارے میں ہے ، اسی طرح اٹھ کھڑے ہونے کا حکم بھی جہاد کے بارے میں ہے ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں یعنی جب تمہیں بھلائی اور کارخیر کی طرف بلایا جائے تو تم فوراً آ جاؤ ، مقاتل رحمہ اللہ فرماتے ہیں ، مطلب یہ ہے کہ جب تمہیں نماز کیلئے بلایا جائے تو اٹھ کھڑے ہو جایا کرو ، عبدالرحمٰن بن زید رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں آتے تو جاتے وقت ہر ایک کی چاہت یہ ہوتی کہ سب سے آخر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا میں ہوں ، بسا اوقات آپ کو کوئی کام کاج ہوتا تو بڑا حرج ہوتا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم مروت سے کچھ نہ فرماتے اس پر یہ حکم ہوا کہ جب تم سے کھڑے ہونے کو کہا جائے تو کھڑے ہو جایا کرو ، جیسے اور جگہ ہے «وَإِن قیلَ لَکُمُ ارجِعوا فَارجِعوا ہُوَ أَزکیٰ لَکُم وَ اللہُ بِما تَعمَلونَ عَلیمٌ» (24-النور:28) ’ اگر تم سے لوٹ جانے کو کہا جائے تو لوٹ جاؤ ‘ ۔ پھر فرماتا ہے کہ مجلسوں میں جگہ دینے کو جب کہا جائے تو جگہ دینے میں اور جب چلے جانے کو کہا جائے تو چلے جانے میں اپنی ہتک نہ سمجھو بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مرتبہ بلند کرنا اور اپنی توقیر کرانا ہے ، اسے اللہ ضائع نہ کرے گا بلکہ اس پر دنیا اور آخرت میں نیک بدلہ دے گا ، جو شخص احکام الٰہیہ پر تواضع سے گردن جھکا دے اللہ تعالیٰ اس کی عزت بڑھاتا ہے اور اس کی شہرت نیکی کے ساتھ کرتا ہے ۔ ایمان والوں اور صحیح علم والوں کا یہی کام ہوتا ہے کہ اللہ کے احکام کے سامنے گردن جھکا دیا کریں اور اس سے وہ بلند درجوں کے مستحق ہو جاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کو بخوبی علم ہے کہ بلند مرتبوں کا مستحق کون ہے اور کون نہیں ؟ نافع بن عبدالحارث رحمہ اللہ سے امیر المؤمنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی ملاقات عسفان میں ہوئی ہے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں مکہ کا عامل بنایا تھا تو ان سے پوچھا کہ تم مکہ میں اپنی جگہ کسے چھوڑ آئے ہو ؟ جواب دیا کہ ابن ابزیٰ کو ، سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا : وہ تو ہمارے مولیٰ ہیں یعنی آزاد کردہ غلام ، انہیں تم اہل مکہ کا امیر بنا کر چلے آئے ہو ؟ کہا : ہاں ، اس لیے کہ وہ اللہ کی کتاب کا ماہر اور فرائض کا جاننے والا اور اچھا وعظ کہنے والا ہے ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس وقت فرمایا : سچ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ { اللہ تعالیٰ اس کتاب کی وجہ سے ایک قوم کو عزت پر پہنچا کر بلند مرتبہ کرے گا اور بعض کو پست و کم مرتبہ بنا دے گا } ۔ (صحیح مسلم:817) علم اور علماء کی فضیلت ، جو اس آیت اور دیگر آیات و احادیث سے ظاہر ہے میں نے ان سب کو بخاری شریف کی کتاب العلم کی شرح میں جمع کر دیا ہے ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» المجادلة
12 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سرگوشی کی منسوخ شرط اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو حکم دیتا ہے کہ میرے نبی [ صلی اللہ علیہ وسلم ] سے جب تم کوئی راز کی بات کرنا چاہو تو اس سے پہلے میری راہ میں خیرات کرو تاکہ تم پاک صاف ہو جاؤ اور اس قابل بن جاؤ کہ میرے پیغمبر سے مشورہ کر سکو ، ہاں اگر کوئی غریب مسکین شخص ہو تو خیر ۔ اسے اللہ تعالیٰ کی بخشش اور اس کے رحم پر نظریں رکھنی چاہئیں یعنی یہ حکم صرف انہیں ہے جو مالدار ہوں ۔ پھر فرمایا شاید تمہیں اس حکم کے باقی رہ جانے کا اندیشہ تھا اور خوف تھا کہ یہ صدقہ نہ جانے کب تک واجب رہے ۔ جب تم نے اسے ادا نہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے بھی تمہیں معاف فرما دیا ، اب تو اور مذکورہ بالا فرائض کا پوری طرح خیال رکھو ، کہا جاتا ہے کہ سرگوشی سے پہلے صدقہ نکالنے کا شرف صرف سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو حاصل ہوا پھر یہ حکم ہٹ گیا ، ایک دینار دے کر آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوشیدہ باتیں کیں دس مسائل پوچھے ۔ پھر تو یہ حکم ہی ہٹ گیا ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:33788:ضعیف) سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے خود بھی یہ واقعہ بہ تفصیل مروی ہے کہ آپ نے فرمایا : اس آیت پر مجھ سے پہلے کسی نے عمل کیا نہ میرے بعد کوئی عمل کر سکا ، میرے پاس ایک دینار تھا جسے بھنا کر میں نے دس درہم لے لیے ایک درہم اللہ کے نام پر کسی مسکین کو دے دیا پھر آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ سے سرگوشی کی پھر تو یہ حکم اٹھ گیا تو مجھ سے پہلے بھی کسی نے اس پر عمل نہیں کیا اور نہ میرے بعد کوئی اس پر عمل کر سکتا ہے ۔ پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی ۔(تفسیر ابن جریر الطبری:33790:مرسل) ابن جریر میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا : کیا صدقہ کی مقدار ایک دینار مقرر کرنی چاہیئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” یہ تو بہت ہوئی “ ، فرمایا : پھر آدھا دینار کہا : ” ہر شخص کو اس کی بھی طاقت نہیں “ آپ نے فرمایا : ” اچھا تم ہی بتاؤ کس قدر ؟ “ فرمایا ایک جو برابر سونا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” واہ واہ تم تو بڑے ہی زاہد ہو “ ، سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں پس میری وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس امت پر تخفیف کر دی ، (سنن ترمذی:3300،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ترمذی میں بھی یہ روایت ہے اور اسے حسن غریب کہا ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں مسلمان برابر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے راز داری کرنے سے پہلے صدقہ نکالا کرتے تھے لیکن زکوٰۃ کے حکم نے اسے اٹھا دیا ، آپ فرماتے ہیں صحابہ رضی اللہ عنہم نے کثرت سے سوالات کرنے شروع کر دیئے ، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر گراں گزرتے تھے ، تو اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دے کر آپ پر تخفیف کر دی کیونکہ اب لوگوں نے سوالات چھوڑ دیئے ، پھر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر کشادگی کر دی اور اس حکم کو منسوخ کر دیا ، عکرمہ رحمہ اللہ اور حسن بصری رحمہ اللہ کا بھی یہی قول ہے کہ یہ حکم منسوخ ہے ، قتادہ رحمہ اللہ اور مقاتل رحمہ اللہ بھی یہی فرماتے ہیں ۔ قتادہ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ صرف دن کی چند ساعتوں تک یہ حکم رہا سیدنا علی رضی اللہ عنہ بھی یہی فرماتے ہیں کہ صرف میں ہی عمل کر سکا تھا اور دن کا تھوڑا ہی حصہ اس حکم کو نازل ہوئے تھا کہ منسوخ ہو گیا ۔ المجادلة
13 المجادلة
14 دوغلے لوگوں کا کردار منافقوں کا ذکر ہو رہا ہے کہ یہ اپنے دل میں یہود کی محبت رکھتے ہیں گو وہ اصل میں ان کے بھی حقیقی ساتھی نہیں ہیں ، حقیقت میں نہ ادھر کے ہیں ، نہ ادھر کے ہیں صاف جھوٹی قسمیں کھا جاتے ہیں ، ایمانداروں کے پاس آ کر ان کی سے کہنے لگتے ہیں ، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر قسمیں کھا کر اپنی ایمانداری کا یقین دلاتے ہیں اور دل میں اس کے خلاف جذبات پاتے ہیں اور اپنی اس غلط گوئی کا علم رکھتے ہوئے بے دھڑک قسمیں کھا لیتے ہیں ، ان کی ان بداعمالیوں کی وجہ سے انہیں سخت تر عذاب ہوں گے ، اس دھوکہ بازی کا برابر بدلہ انہیں دیا جائے گا ، یہ تو اپنی قسموں کو اپنی ڈھالیں بنائے ہوئے ہیں اور اللہ کی راہ سے رک گئے ہیں ، ایمان ظاہر کرتے ہیں ، کفر دل میں رکھتے ہیں اور قسموں سے اپنی باطنی بدی کو چھپاتے ہیں اور ناواقف لوگوں پر اپنی سچائی کا ثبوت اپنی قسموں سے پیش کر کے انہیں اپنا مداح بنا لیتے ہیں اور پھر رفتہ رفتہ انہیں بھی اپنے رنگ میں رنگ لیتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روک دیتے ہیں ، چونکہ انہوں نے جھوٹی قسموں سے اللہ تعالیٰ کے پر از صد ہزار تکریم نام کی بےعزتی کی تھی «مٰذَبْذَبِینَ بَیْنَ ذٰلِکَ لَا إِلَیٰ ہٰؤُلَاءِ وَلَا إِلَیٰ ہٰؤُلَاءِ وَمَن یُضْلِلِ اللہُ فَلَن تَجِدَ لَہُ سَبِیلًا» (4-النساء:143) اس لیے انہیں ذلت و اہانت والے عذاب ہوں گے ، جن عذابوں کو نہ ان کے مال دفع کر سکیں ، نہ اس وقت ان کی اولاد انہیں کچھ کام دے سکے گی یہ تو جہنمی بن چکے اور وہاں سے ان کا نکلنا بھی کبھی نہ ہو گا ۔ قیامت والے دن جب ان کا حشر ہو گا اور ایک بھی اس میدان میں آئے بغیر نہ رہے گا ، سب جمع ہو جائیں گے تو چونکہ زندگی میں ان کی عادت تھی کہ اپنی جھوٹ بات کو قسموں سے سچ بات کر دکھاتے تھے ، آج اللہ کے سامنے بھی اپنی ہدایت و استقامت پر بڑی بڑی قسمیں کھا لیں گے اور سمجھتے ہوں گے کہ یہاں بھی یہ چالاکی چل جائے گی مگر ان جھوٹوں کی بھلا اللہ کے سامنے چال بازی کہاں چل سکتی ہے ؟ وہ تو ان کا جھوٹا ہونا یہاں بھی مسلمانوں سے بیان فرما چکا ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حجرے کے سائے میں تشریف فرما تھے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی آس پاس بیٹھے تھے سایہ دار جگہ کم تھی بمشکل لوگ اس میں پناہ لیے بیٹھے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” دیکھو ابھی ایک شخص آئے گا جو شیطانی نگاہ سے دیکھتا ہے وہ آئے تو اس سے بات نہ کرنا “ ، تھوڑی دیر میں ایک کیری آنکھوں والا شخص آیا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے پاس بلا کر فرمایا : ” کیوں بھئی تو اور فلاں اور فلاں مجھے کیوں گالیاں دیتے ہو ؟ “ یہ یہاں سے چلا گیا اور جن جن کا نام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لیا تھا انہیں لے کر آیا اور پھر تو قسموں کا تانتا باندھ دیا کہ ہم میں سے کسی نے آپ کی کوئی بے ادبی نہیں کی ۔ اس پر یہ آیت اتری کہ یہ جھوٹے ہیں ۔ (مسند احمد:267/1:حسن) یہی حال مشرکوں کا بھی دربار الٰہی میں ہو گا « ثُمَّ لَمْ تَکُن فِتْنَتُہُمْ إِلَّا أَن قَالُوا وَ اللہِ رَبِّنَا مَا کُنَّا مُشْرِکِینَ انظُرْ کَیْفَ کَذَبُوا عَلَیٰ أَنفُسِہِمْ وَضَلَّ عَنْہُم مَّا کَانُوا یَفْتَرُونَ» (6-الانعام:23،24) قسمیں کھا جائیں گے کہ ہمیں اللہ کی قسم جو ہمارا رب ہے کہ ہم نے شرک نہیں کیا ۔ پھر فرماتا ہے ان پر شیطان نے غلبہ پا لیا ہے اور ان کے دل کو اپنی مٹھی میں کر لیا ہے ، یاد اللہ ، ذکر اللہ سے انہیں دور ڈال دیا ہے ۔ ابوداؤد کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” جس کسی بستی یا جنگل میں تین شخص بھی ہوں اور ان میں نماز نہ قائم کی جاتی ہو تو شیطان ان پر چھا جاتا ہے پس تو جماعت کو لازم پکڑے رہ ، بھیڑیا اسی بکری کو کھاتا ہے جو ریوڑ سے الگ ہو “ ۔ سائب رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہاں مراد جماعت سے نماز کی جماعت ہے ۔ (سنن ابوداود:547،قال الشیخ الألبانی:حسن) پھر فرماتا ہے کہ اللہ کے ذکر کو فراموش کرنے والے اور شیطان کے قبضے میں پھنس جانے والے شیطانی جماعت کے افراد ہیں ، شیطان کا یہ لشکر یقیناً نامراد اور زیاں کار ہے ۔ المجادلة
15 المجادلة
16 المجادلة
17 المجادلة
18 المجادلة
19 المجادلة
20 جو حق سے پھرا وہ ذلیل و خوار ہوا اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ جو لوگ حق سے برگشتہ ہیں ، ہدایت سے دور ہیں ، اللہ اور اس کے رسول کے مخالف ہیں ، احکام شرع کی اطاعت سے الگ ہیں ، یہ لوگ انتہا درجے کے ذلیل ، بےوقار اور خستہ حال ہیں ۔ رحمت رب سے دور ، اللہ کی مہربانی بھری نظروں سے اوجھل اور دنیا و آخرت میں برباد ہیں ۔ اللہ تعالیٰ تو فیصلہ کر چکا ہے بلکہ اپنی پہلی کتاب میں ہی لکھ چکا ہے اور مقدر کر چکا ہے جو تقدیر اور جو تحریر نہ مٹے ، نہ بدلے ، نہ اسے ہیر پھیر کرنے کی کسی میں طاقت کہ وہ اور اس کی کتاب اور اس کے رسول اور اس کے مومن بندے دنیا اور آخرت میں غالب رہیں گے ۔ جیسے اور جگہ ہے «إِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِینَ آمَنُوا فِی الْحَیَاۃِ الدٰنْیَا وَیَوْمَ یَقُومُ الْأَشْہَادُ یَوْمَ لَا یَنفَعُ الظَّالِمِینَ مَعْذِرَتُہُمْ وَلَہُمُ اللَّعْنَۃُ وَلَہُمْ سُوءُ الدَّارِ» (40-غافر:52-51) ’ ہم اپنے رسولوں کی اور ایماندار بندوں کی ضرور ضرور مدد کریں گے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی جس دن گواہ قائم ہو جائیں گے اور جس دن گنہگاروں کو کوئی عذر و معذرت فائدہ نہ پہنچائے گی ان پر لعنت برستی ہو گی اور ان کے لیے برا گھر ہو گا ‘ ۔ یہ لکھنے والا اللہ قوی ہے اور اس کا لکھا ہوا اٹل ہے وہ غالب و قہار ہے ۔ اپنے دشمنوں پر ہر وقت قابو رکھنے والا ہے اس کا یہ اٹل فیصلہ اور طے شدہ امر ہے کہ دونوں جہان میں انجام کے اعتبار سے غلبہ و نصرت مومنوں کا حصہ ہے ۔ المجادلة
21 المجادلة
22 اللہ کے دشمنوں سے عداوت پھر فرماتا کہ یہ ناممکن ہے کہ اللہ کے دوست اللہ کے دشمنوں سے محبت رکھیں ، ایک اور جگہ ہے «لَّا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْکَافِرِینَ أَوْلِیَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِینَ وَمَن یَفْعَلْ ذٰلِکَ فَلَیْسَ مِنَ اللہِ فِی شَیْءٍ إِلَّا أَن تَتَّقُوا مِنْہُمْ تُقَاۃً وَیُحَذِّرُکُمُ اللہُ نَفْسَہُ» (3-آل عمران:28) مسلمانوں کو چاہیئے کہ مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دلی دوست نہ بنائیں ایسا کرنے والے اللہ کے ہاں کسی گنتی میں نہیں ، ہاں ڈر خوف کے وقت عارضی دفع کے لیے ہو تو اور بات ہے اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی گرامی ذات سے ڈرا رہا ہے ۔ اور جگہ ہے «قُلْ إِن کَانَ آبَاؤُکُمْ وَأَبْنَاؤُکُمْ وَإِخْوَانُکُمْ وَأَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیرَتُکُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوہَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَمَسَاکِنُ تَرْضَوْنَہَا أَحَبَّ إِلَیْکُم مِّنَ اللہِ وَرَسُولِہِ وَجِہَادٍ فِی سَبِیلِہِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّیٰ یَأْتِیَ اللہُ بِأَمْرِہِ وَ اللہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْفَاسِقِینَ» (9-التوبہ:24) اے نبی ! آپ اعلان کر دیجئیے کہ اگر تمہارے باپ ، دادا ، بیٹے ، پوتے ، بچے ، کنبہ ، قبیلہ ، مال دولت ، تجارت حرفت ، گھربار وغیرہ تمہیں اللہ تعالیٰ ، اس کے رسول کے ، اس کی راہ میں جہاد کی نسبت زیادہ عزیز اور محبوب ہیں تو تم اللہ کے عنقریب برس پڑنے والے عذاب کا انتظار کرو ، اس قسم کے فاسقوں کی رہبری بھی اللہ کی طرف سے نہیں ہوتی ۔ سعید بن عبدالعزیز رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ آیت سیدنا ابوعبیدہ عامر بن عبداللہ بن جراح رضی اللہ عنہ کے بارے میں اتری ہے ، جنگ بدر میں ان کے والد کفر کی حمایت میں مسلمانوں کے مقابلے پر آئے آپ نے انہیں قتل کر دیا ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے آخری وقت میں جبکہ خلافت کے لیے ایک جماعت کو مقرر کیا کہ یہ لوگ مل کر جسے چاہیں خلیفہ بنا لیں اس وقت سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کی نسبت فرمایا تھا کہ اگر یہ ہوتے تو میں انہی کو خلیفہ مقرر کرتا (مستدرک حاکم 268/3:منقطع) اور یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ ایک ایک صفت الگ الگ بزرگوں میں تھی ، مثلاً سیدنا ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے تو اپنے والد کو قتل کیا تھا اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے عبدالرحمٰن کے قتل کا ارادہ کیا تھا اور سیدنا معصب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے اپنے بھائی عبید بن عمیر کو قتل کیا تھا اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدنا عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ نے اپنے قریبی رشتہ داروں عتبہ ، شیبہ اور ولید بن عتبہ کو قتل کیا تھا ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» اسی ضمن میں یہ واقعہ بھی داخل ہو سکتا ہے کہ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدری قیدیوں کی نسبت مسلمانوں سے مشورہ کیا تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے تو فرمایا کہ ان سے فدیہ لے لیا جائے تاکہ مسلمانوں کی مالی مشکلات دور ہو جائیں ، مشرکوں سے جہاد کرنے کے لیے آلات حرب جمع کر لیں اور یہ چھوڑ دیئے جائیں ، کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ ان کے دل اسلام کی طرف پھیر دے ، آخر ہیں تو ہمارے ہی کنبے رشتے کے ، لیکن سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنی رائے اس کے بالکل برخلاف پیش کی کہ یا رسول اللہ ! جس مسلمان کا جو رشتہ دار مشرک ہے اس کے حوالے کر دیا جائے اور اسے حکم دیا جائے کہ وہ اسے قتل کر دے ہم اللہ تعالیٰ کو دکھانا چاہتے ہیں کہ ہمارے دلوں میں ان مشرکوں کی کوئی محبت نہیں ، مجھے فلاں رشتہ دار سونپ دیجئیے اور علی کے حوالے عقیل کر دیجئیے اور فلاں صحابی کو فلاں کافر دے دیجئیے وغیرہ ۔ پھر فرماتا ہے کہ جو اپنے دل کو دشمنان اللہ کی محبت سے خالی کر دے اور مشرک رشتہ داروں سے بھی محبت چھوڑ دے وہ کامل الایمان شخص ہے جس کے دل میں ایمان نے جڑیں جما لی ہیں اور جن کی قسمت میں سعادت لکھی جا چکی ہے اور جن کی نگاہ میں ایمان کی زینت جچ گئی ہے اور ان کی تائید اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس کی روح سے کی ہے یعنی انہیں قوی بنا دیا ہے اور یہی بہتی ہوئی نہروں والی جنت میں جائیں گے جہاں سے کبھی نہ نکالے جائیں ، اللہ تعالیٰ ان سے راضی یہ اللہ سے خوش ، چونکہ انہوں نے اللہ کے رشتہ کنبہ والوں کو ناراض کر دیا تھا ، اللہ تعالیٰ اس کے بدلے ان سے راضی ہو گیا اور انہیں اس قدر دیا کہ یہ بھی خوش خوش ہو گئے ۔ اللہ کا لشکر یہی ہے اور کامیاب گروہ بھی یہی ہے ، جو شیطانی لشکر اور ناکام گروہ کے مقابل ہے ۔ ابوحازم اعرج رحمہ اللہ نے زہری رحمہ اللہ کو لکھا کہ جاہ دو قسم کی ہے ایک وہ جسے اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء کے ہاتھوں پر جاری کرتا ہے ، جو حضرات عام لوگوں کی نگاہوں میں نہیں جچتے جن کی عام شہرت نہیں ہوتی جن کی صفت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بیان فرمائی ہے ، کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو دوست رکھتا ہے جو گمنام متقی نیکوکار ہیں ، اگر وہ نہ آئیں تو پوچھ گچھ نہ ہو اور آ جائیں تو آؤ بھگت نہ ہو ان کے دل ہدایت کے چراغ ہیں ، ہر سیاہ رنگ اندھیرے والے فتنے سے نکلتے ہیں ، یہ ہیں وہ اولیاء جنہیں اللہ نے اپنا لشکر فرمایا ہے اور جن کی کامیابی کا اعلان کیا ہے ۔ (ابن ابی حاتم) نعیم بن حماد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعا میں فرمایا : ” اے اللہ کسی فاسق فاجر کا کوئی احسان اور سلوک مجھ پر نہ رکھ کیونکہ میں نے تیری نازل کردہ وحی میں پڑھا ہے کہ ایماندار اللہ کے مخالفین کے دوست نہیں ہوتے “ ۔ (سلسلۃ احادیث ضعیفہ البانی:2975،ضعیف) سفیان رحمہ اللہ فرماتے ہیں علمائے سلف کا خیال ہے کہ یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں اتری ہے جو بادشاہ سے خلط ملط رکھتے ہوں ۔ (ابواحمدعسکری) «الحمداللہ» سورۃ المجادلہ کی تفسیر ختم ہوئی ۔ المجادلة
0 الحشر
1 یہودیوں کی جلا وطنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آسمانوں اور زمین کی ہر ایک چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح تقدیس تمجید تکبیر توحید میں مشغول ہے ۔ جیسے اور جگہ فرمان ہے «وَاِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّایُسَبِّحُ بِحَمْدِہٖ وَلٰکِنْ لَّا تَفْقَہُوْنَ تَسْبِیْحَہُمْ ۭ اِنَّہٗ کَانَ حَلِــیْمًا غَفُوْرًا» ۱؎ (17-الإسراء:44) یعنی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی اور ثناء خوانی کرتی ہے ، وہ غلبہ والا اور بلند جناب والا اور عالی سرکار والا ہے اور اپنے تمام احکام و فرمان میں حکمت والا ہے ۔ جس نے اہل کتاب کے کافروں یعنی قبیلہ بنو نضیر کے یہودیوں کو ان کے گھروں سے نکالا۔ اس کا مختصر قصہ یہ ہے کہ مدینہ میں آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان یہودیوں سے صلح کر لی تھی کہ نہ آپ ان سے لڑیں ، نہ یہ آپ سے لڑیں ، لیکن ان لوگوں نے اس عہد کو توڑ دیا جن کی وجہ سے اللہ کا غضب ان پر نازل ہوا ، اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان پر غالب کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہاں سے نکال دیا ، مسلمانوں کو کبھی اس کا خیال تک نہ تھا ، خود یہ یہود بھی سمجھ رہے تھے کہ ان مضبوط قلعوں کے ہوتے ہوئے کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ، لیکن جب اللہ کی پکڑ آئی یہ سب چیزیں یونہی رکھی کی رکھی رہ گئیں اور اچانک اس طرح گرفت میں آ گئے کہ حیران رہ گئے اور آپ نے انہیں مدینہ سے نکلوا دیا ۔ بعض تو شام کی زراعتی زمینوں میں چلے گئے جو حشر و نشر کی جگہ ہے اور بعض خیبر کی طرف جا نکلے ، ان سے کہہ دیا گیا تھا کہ اپنے اونٹوں پر لاد کر جو لے جا سکو اپنے ساتھ لے جاؤ ، اس لیے انہوں نے اپنے گھروں کو توڑ پھوڑ کر جو چیزیں لے جا سکتے تھے اپنے ساتھ اٹھا لیں ، جو رہ گئیں وہ مسلمانوں کے ہاتھ لگیں ۔ اس واقعہ کو بیان کر کے فرماتا ہے کہ اللہ کے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفین کا انجام دیکھو اور اس سے عبرت حاصل کرو کہ کس طرح ان پر عذاب الٰہی اچانک آ پڑا اور دنیا میں بھی تباہ و برباد کئے گئے اور آخرت میں بھی ذلیل و رسوا ہو گئے اور درد ناک عذاب میں جا پڑے ۔ ابوداؤد میں ہے کہ ابن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو جو قبیلہ اوس و خزرج میں سے تھے کفار قریش نے خط لکھا یہ خط انہیں حضور علیہ السلام کے میدان بدر سے واپس لوٹنے سے پہلے مل گیا تھا اس میں تحریر تھا کہ تم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے شہر میں ٹھہرایا ہے پس یا تو تم اس سے لڑائی کرو اور اسے نکال کر باہر کرو یا ہم تمہیں نکال دیں گے اور اپنے تمام لشکروں کو لے کر تم پر حملہ کریں گے اور تمہارے تمام لڑنے والوں کو ہم تہ تیغ کر دیں گے اور تمہاری عورتوں ، لڑکیوں کو لونڈیاں بنا لیں گے اللہ کی قسم یہ ہو کر ہی رہے گا اب تم سوچ سمجھ لو ۔ عبداللہ بن ابی اور اس کے بت پرست ساتھیوں نے اس خط کو پا کر آپس میں مشورہ کیا اور خفیہ طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑائی کرنے کی تجویز بالاتفاق منظور کر لی ، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبریں معلوم ہوئیں تو آپ خود ان کے پاس گئے اور ان سے فرمایا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ قریشیوں کا خط کام کر گیا اور تم لوگ اپنی موت کے سامان اپنے ہاتھوں کرنے لگے ہو ، تم اپنی اولادوں اور اپنے بھائیوں کو اپنے ہاتھوں ذبح کرنا چاہتے ہو میں تمہیں پھر ایک مرتبہ موقع دیتا ہوں کہ سوچ سمجھ لو اور اپنے اس بد ارادے سے باز آؤ ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد نے ان پر اثر کیا اور وہ لوگ اپنی اپنی جگہ چلے گئے لیکن قریش نے بدر سے فارغ ہو کر انہیں پھر ایک خط لکھا اور اسی طرح دھمکایا انہیں ان کی قوت ان کی تعداد اور ان کے مضبوط قلعے یاد دلائے مگر یہ پھر اکڑ میں آ گئے اور بنو نضیر نے صاف طور پر بدعہدی پر کمر باندھ لی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قاصد بھیجا کہ آپ تیس آدمی لے کر آیئے ہم میں سے بھی تیس ذی علم آدمی آتے ہیں ، ہمارے تمہارے درمیان کی جگہ پر یہ ساٹھ آدمی ملیں اور آپس میں بات چیت ہو اگر یہ لوگ آپ کو سچا مان لیں اور ایمان لے آئیں تو ہم بھی آپ کے ساتھ ہیں ۔ اس بدعہدی کی وجہ سے دوسرے دن صبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا لشکر لے جا کر ان کا محاصرہ کر لیا اور ان سے فرمایا کہ اب اگر تم نئے سرے سے امن و امان کا عہد و پیمان کرو تو خیر ورنہ تمہیں امن نہیں۔ انہوں نے صاف انکار کر دیا اور لڑنے مرنے پر تیار ہو گئے ، چنانچہ دن بھر لڑائی ہوتی رہی ، دوسری صبح کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنو قریظہ کی طرف لشکر لے کر بڑھے اور بنو نضیر کو یونہی چھوڑا ان سے بھی یہی فرمایا کہ تم نئے سرے سے عہد و پیمان کرو۔ انہوں نے منظور کر لیا اور معاہدہ ہو گیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے فارغ ہو کر پھر بنو نضیر کے پاس آئے لڑائی شروع ہوئی ، آخر یہ ہارے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ تم مدینہ خالی کر دو جو اسباب لے جانا چاہو اور اونٹوں پر لاد کر لے جاؤ چنانچہ انہوں نے گھربار کا اسباب یہاں تک کہ دروازے اور لکڑیاں بھی اونٹوں پر لادیں اور جلا وطن ہو گئے ، ان کے کھجوروں کے درخت خاصتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہو گئے اللہ تعالیٰ نے یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی دلوا دیئے ۔ جیسے آیت «وَمَآ اَفَاۗءَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ مِنْہُمْ فَمَآ اَوْجَفْتُمْ عَلَیْہِ مِنْ خَیْلٍ وَّلَا رِکَابٍ وَّلٰکِنَّ اللّٰہَ یُسَلِّــطُ رُسُلَہٗ عَلٰی مَنْ یَّشَاۗءُ ۭ وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ» ۱؎ (59-الحشر:6) میں ہے ، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اکثر حصہ مہاجرین کو دے دیا وہاں انصاریوں میں سے صرف دو ہی حاجت مندوں کو حصہ دیا باقی سب مہاجرین میں تقسیم کر دیا ۔ تقسیم کے بعد جو باقی رہ گیا تھا یہی وہ مال تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صدقہ تھا اور جو بنو فاطمہ کے ہاتھ لگا ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2590،قال الشیخ الألبانی:صحیح) غزوہ بنو نضیر کا مختصر قصہ اور سبب یہ ہے کہ مشرکوں نے دھوکہ بازی سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بیئر معونہ میں شہید کر دیا ان کی تعداد ستر تھی ان میں سے ایک سیدنا عمرو بن امیہ ضمری رضی اللہ عنہ بچ کر بھاگ نکلے ، مدینہ شریف کی طرف آئے ، آتے آتے موقعہ پا کر انہوں نے قبیلہ بنو عامر کے دو شخصوں کو قتل کر دیا حالانکہ یہ قبیلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے معاہدہ کر چکا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں امن و امان دے رکھا تھا لیکن اس کی خبر عمرو رضی اللہ عنہ کو نہ تھی ۔ جب یہ مدینے پہنچے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” تم نے انہیں قتل کر ڈالا اب مجھے ان کے وارثوں کو دیت یعنی جرمانہ قتل ادا کرنا پڑے گا ۔ “ بنو نضیر اور بنو عامر میں بھی حلف و عقد اور آپس میں مصالحت تھی اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف چلے تاکہ کچھ یہ دیں کچھ آپ دیں اور بنو عامر کو راضی کر لیا جائے ۔ قبیلہ بنو نضیر کی گڑھی مدینہ کے مشرق کی جانب کئی میل کے فاصلے پر تھی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہاں پہنچے تو انہوں نے کہا : ہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں موجود ہیں ، ابھی ابھی جمع کر کے اپنے حصے کے مطابق آپ کی خدمت میں حاضر کرتے ہیں۔ ادھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہٹ کر یہ لوگ آپس میں مشورہ کرنے لگے کہ اس سے بہتر موقعہ کب ہاتھ لگے گا ۔ اس وقت آپ قبضے میں ہیں آؤ کام تمام کر ڈالو ، چنانچہ یہ مشورہ ہوا کہ جس دیوار سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم لگے بیٹھے ہیں اس گھر پر کوئی چڑھ جائے اور وہاں سے بڑا سا پتھر آپ پر پھینک دے کہ آپ دب جائیں ، عمرو بن مجاش بن کعب اس کام پر مقرر ہوا اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان لینے کا بیڑا اٹھایا اور چھت پر چڑھ گیا چاہتا تھا کہ پتھر لڑھکا دے ، اتنے میں اللہ تعالیٰ نے جبرائیل علیہ السلام کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا اور حکم دیا کہ آپ یہاں سے اٹھ کھڑے ہوں، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوراً ہٹ گئے اور یہ بدباطن اپنے برے ارادے میں ناکام رہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس وقت چند صحابہ رضی اللہ عنہم تھے مثلاً ابوبکر صدیق ، عمر فاروق ، علی رضی اللہ عنہم وغیرہ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہاں سے فوراً مدینہ شریف کی طرف چل پڑے ، ادھر جو صحابہ رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہ تھے اور مدینہ میں آپ کے منتظر تھے انہیں دیر لگنے کے باعث خیال ہوا اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈھونڈنے کے لیے نکل کھڑے ہوئے لیکن ایک شخص سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ شریف پہنچ گئے ہیں چنانچہ یہ لوگ وہیں آئے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیا واقعہ ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سارا قصہ کہہ سنایا اور حکم دیا کہ جہاد کی تیاری کرو مجاہدین نے کمریں باندھ لیں اور اللہ کی راہ میں نکل کھڑے ہوئے ۔ یہودیوں نے لشکروں کو دیکھ کر اپنے قلعہ کے پھاٹک بند کر دیئے اور پناہ گزین ہو گئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محاصرہ کر لیا پھر حکم دیا کہ ان کے کھجور کے درخت جو آس پاس ہیں وہ کاٹ دیئے جائیں اور جلا دیئے جائیں ، اب تو یہود چیخنے لگے کہ یہ کیا ہو رہا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو زمین میں فساد کرنے سے اوروں کو روکتے تھے اور فسادیوں کو برا کہتے تھے پھر یہ کیا ہونے لگا ؟ پس ادھر تو درخت کٹنے کا غم ، ادھر جو کمک آنے والی تھی اس کی طرف سے مایوسی ان دونوں چیزوں نے ان یہودیوں کی کمر توڑ دی ۔ کمک کا واقعہ یہ ہے کہ بنو عوف بن خزرج کا قبیلہ جس میں عبداللہ بن ابی بن سلول اور ودیعہ بن مالک ، ابن ابوقوقل اور سوید اور داعس وغیرہ تھے ان لوگوں نے بنو نضیر کو کہلوا بھیجا تھا کہ تم مقابلے پر جمے رہو اور قلعہ خالی نہ کرو ہم تمہاری مدد پر ہیں تمہارا دشمن ہمارا دشمن ہے ، ہم تمہارے ساتھ مل کر اس سے لڑیں گے اور اگر تم نکلے تو ہم بھی نکلیں گے ، لیکن اب تک ان کا یہ وعدہ پورا نہ ہوا اور انہوں نے یہودیوں کی کوئی مدد نہ کی ، ادھر ان کے دل مرعوب ہو گئے تو انہوں نے درخواست کی کہ یا رسول اللہ ! ہماری جان بخشی کیجئے ہم مدینہ چھوڑ جاتے ہیں لیکن ہم اپنا جو مال اونٹوں پر لاد کر لے جا سکیں وہ ہمیں دے دیا جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر رحم کھا کر ان کی یہ درخواست منظور فرما لی اور یہ لوگ یہاں سے چلے گئے جاتے وقت اپنے دروازں تک کو اکھیڑ کر لے گئے گھروں کو گرا گئے اور شام اور خیبر میں جا کر آباد ہو گئے ، ان کے باقی کے اہل خاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہو گئے کہ آپ جس طرح چاہیں انہیں خرچ کریں چنانچہ آپ نے مہاجرین اولین کو یہ مال تقسیم کر دیا ، ہاں انصار میں سے صرف دو شخصوں کو یعنی سہل بن حنیف اور ابودجانہ سماک بن خرشہ کو دیا اس لیے کہ یہ دونوں حضرات مساکین تھے ۔ بنو نضیر میں سے صرف دو شخص مسلمان ہوئے جن کے مال انہی کے پاس رہے ایک تو یامین بن عمیر رضی اللہ عنہ جو عمرو بن حجاش کے چچا کے لڑکے کا لڑکا تھا یہ عمرو وہ ہے جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر پتھر پھینکنے کا بیڑا اٹھایا تھا ، دوسرے ابوسعد بن وہب رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یامین رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اے یامین ! تیرے اس چچا زاد بھائی نے دیکھ تو میرے ساتھ کس قدر برا برتاؤ برتا اور مجھے نقصان پہنچانے کی کس بے باکی سے کوشش کی ؟ یامین رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو کچھ دینار دے کر عمرو کو قتل کرا دیا ۔ سورۃ الحشر اسی واقعہ بنو نضیر کے بارے میں اتری ہے ۔ ۱؎ (سیرۃ ابن ھشام:101/3:مرسل) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں جسے اس میں شک ہو کہ محشر کی زمین شام کا ملک ہے وہ اس آیت کو پڑھ لے ۔ ان یہودیوں سے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم یہاں سے نکل جاؤ۔ تو انہوں نے کہا ہم کہاں جائیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” محشر کی زمین کی طرف نکل جاؤ۔ “ ۱؎ (مسند بزار:3426:ضعیف) حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نضیر کو جلا وطن کیا تو فرمایا یہ اول حشر ہے اور ہم بھی اس کے پیچھے ہی پیچھے ہیں ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:33821:مرسل) بنو نضیر کے ان قلعوں کا محاصرہ صرف چھ روز رہا تھا ، محاصرین کو قلعہ کی مضبوطی ، یہودیوں کی زیادتی ، یکجہتی ، منافقین کی سازشیں اور خفیہ چالیں وغیرہ دیکھ کر ہرگز یہ یقین نہ تھا کہ اس قدر جلد یہ قلعہ خالی کر دیں گے ادھر خود یہود بھی اپنے قلعہ کی مضبوطی پر نازاں تھے اور جانتے تھے کہ وہ ہر طرح محفوظ ہیں ، لیکن امر اللہ ایسی جگہ سے آ گیا جو ان کے خیال میں بھی نہ تھی ، یہی دستور اللہ کا ہے کہ مکار اپنی مکاری میں ہی رہتے ہیں اور بےخبر ان پر عذاب الٰہی آ جاتا ہے ، ان کے دلوں میں رعب چھا گیا بھلا رعب کیوں نہ چھاتا محاصرہ کرنے والے وہ تھے جنہیں اللہ کی طرف سے رعب دیا گیا تھا کہ دشمن مہینہ بھر کی راہ پر ہو اور وہیں اس کا دل دہلنے لگا تھا ۔ «صلوات اللہ وسلامہ علیہ» یہودی اپنے ہاتھوں اپنے گھروں کو برباد کرنے لگے چھتوں کی لکڑی اور دروازے لے جانے کے لیے توڑنے پھوڑنے شروع کر دیئے ، مقاتل فرماتے ہیں مسلمانوں نے بھی ان کے گھر توڑے اس طرح کہ جیسے جیسے آگے بڑھتے گئے ان کے جو جو مکانات وغیرہ قبضے میں آتے گئے میدان کشادہ کرنے کے لیے انہیں ڈھاتے گئے ، اسی طرح خود یہود بھی اپنے مکانوں کو آگے سے تو محفوظ کرتے جاتے تھے اور پیچھے سے نقب لگا کر نکلنے کے راستے بناتے جاتے تھے ۔ پھر فرماتا ہے ، ’ اے آنکھوں والو ! عبرت حاصل کرو اور اس اللہ سے ڈرو جس کی لاٹھی میں آواز نہیں ۔‘ اگر ان یہودیوں کے مقدر میں جلا وطنی نہ ہوتی تو انہیں اس سے بھی سخت عذاب دیا جاتا ، یہ قتل ہوتے اور قید کر لیے جاتے وغیرہ وغیرہ ، پھر آخرت کے بدترین عذاب بھی ان کے لیے تیار ہیں ۔ بنو نضیر کی یہ لڑائی جنگ بدر کے چھ ماہ بعد ہوئی ، مال جو اونٹوں پر لد جائیں انہیں لے جانے کی اجازت تھی مگر ہتھیار لے جانے کی اجازت نہ تھی ، یہ اس قبیلے کے لوگ تھے جنہیں اس سے پہلے کبھی جلا وطنی ہوئی ہی نہ تھی بقول سیدنا عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ شروع سورت سے «فَبِإِذْنِ اللہِ وَلِیُخْزِیَ الْفَاسِقِینَ» (59-الحشر:5) تک آیتیں اسی واقعہ کے بیان میں نازل ہوئی ہیں ۔ «جَلَاءَ» کے معنی قتل و فنا کے بھی کئے گئے ہیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جلا وطنی کے وقت تین تین میں ایک ایک اونٹ اور ایک ایک مشک دی تھی ، اس فیصلہ کے بعد بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کو ان کے پاس بھیجا تھا اور انہیں اجازت دی تھی کہ تین دن میں اپنا سامان ٹھیک کر کے چلے جائیں ۔ اس دنیوی عذاب کے ساتھ ہی اخروی عذاب کا بھی بیان ہو رہا ہے کہ وہاں بھی ان کے لیے حتمی اور لازمی طور پر جہنم کی آگ ہے ۔ ان کی اس درگت کی اصلی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا خلاف کیا اور ایک اعتبار سے تمام نبیوں کو جھٹلایا اس لیے کہ ہر نبی نے آپ کی بابت پیش گوئی کی تھی ، یہ لوگ آپ کو پوری طرح جانتے تھے بلکہ اولاد کو ان کا باپ جس قدر پہچانتا ہے اس سے بھی زیادہ یہ لوگ نبی آخری الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کو جانتے تھے لیکن تاہم سرکشی اور حسد کی وجہ سے مانے نہیں ، بلکہ مقابلے پر تل گئے اور یہ ظاہر بات ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی اپنے مخالفوں پر سخت عذاب نازل فرماتا ہے ۔ «لِیْنَہُ» کہتے ہیں اچھی کھجوروں کے درختوں کو عجوہ اور برفی جو کھجور کی قسمیں ہیں بقول بعض وہ «لِیْنَہُ» میں داخل نہیں اور بعض کہتے ہیں صرف عجوہ نہیں اور بعض کہتے ہیں ہر قسم کی کھجوریں اس میں داخل ہیں جن میں بویرہ بھی داخل ہے ، یہودیوں نے جو بطور طعنہ کے کہا تھا کہ کھجوروں کے درخت کٹوا کر اپنے قول کے خلاف فعل کر کے زمین میں فساد کیوں پھیلاتے ہیں ؟ یہ اس کا جواب ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ حکم رب سے اور اجازت اللہ سے دشمنان اللہ کو ذلیل و ناکام کرنے اور انہیں پست و بدنصیب کرنے کے لیے ہو رہا ہے جو درخت باقی رکھے جائیں وہ اجازت سے اور جو کاٹے جاتے ہیں وہ بھی مصلحت کے ساتھ ۔ یہ بھی مروی ہے کہ بعض مہاجرین نے بعض کو ان درختوں کے کاٹنے سے منع کیا تھا کہ آخر کار تو یہ مسلمانوں کو بطور مال غنیمت ملنے والے ہیں پھر انہیں کیوں کاٹا جائے ؟ جس پر یہ آیت اتری کہ روکنے والے بھی حق بجانب ہیں اور کاٹنے والے بھی برحق ہیں ان کی نیت مسلمانوں کے نفع کی ہے اور ان کی نیت کافروں کو غیظ و غضب میں لانے اور انہیں ان کی شرارت کا مزہ چکھانے کی ہے ۔ اور یہ بھی ارادہ ہے کہ اس سے جل کر وہ غصے میں پھر کر میدان میں آئیں تو پھر دو دو ہاتھ ہو جائیں اور اعداء دین کو کیفرکردار تک پہنچا دیا جائے ، صحابہ رضی اللہ عنہم نے یہ فعل کر تو لیا پھر ڈرے کہ ایسا نہ ہو کاٹنے میں یا باقی چھوڑنے میں اللہ کی طرف سے کوئی مواخذہ ہو تو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا اور یہ آیت نازل ہوئی ۔ ۱؎ (مسند ابویعلیٰ:2189:ضعیف) یعنی دونوں باتوں پر اجر ہے کاٹنے پر بھی اور چھوڑنے پر بھی ، بعض روایتوں میں ہے کٹوائے بھی تھے اور جلوائے بھی تھے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4032) بنو قریظہ کے یہودیوں پر اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احسان کیا اور ان کو مدینہ شریف میں ہی رہنے دیا لیکن بالآخر جب یہ بھی مقابلے پر آئے اور منہ کی کھائی تو ان کے لڑنے والے مرد تو قتل کئے گئے اور عورتیں ، بچے اور مال مسلمانوں میں تقسیم کر دیئے گئے ہاں جو لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گئے اور ایمان لائے وہ بچ رہے ، پھر مدینہ سے تمام یہودیوں کو نکال دیا بنو قینقاع کو بھی جن میں سے عبداللہ بن سلام تھے اور بنو حارثہ کو بھی اور کل یہودیوں کو جلا وطن کیا ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4028) ان تمام واقعات کو عرب شاعروں نے اپنے اشعار میں بھی نہایت خوبی سے ادا کیا ہے ، جو سیرۃ ابن اسحاق میں مروی ہیں یہ واقعہ بقول ابن اسحاق کے احد اور بیر معونہ کے بعد کا ہے اور بقول عروہ رحمہ اللہ بدر کے چھ مہینے بعد کا ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» الحشر
2 الحشر
3 الحشر
4 الحشر
5 الحشر
6 مال فے کی تعریف وضاحت اور حکم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعمیل ہی اصل ایمان ہے «فے» کس مال کو کہتے ہیں ؟ ، اس کی صفت کیا ہے ؟ ، اس کا حکم کیا ہے ؟ ، یہ سب یہاں بیان ہو رہا ہے ۔ «فے» اس مال کو کہتے ہیں جو دشمن سے لڑے بھڑے بغیر مسلمانوں کے قبضے میں آ جائے ، جیسے بنو نضیر کا یہ مال تھا جس کا ذکر اوپر گزر چکا کہ مسلمانوں نے اپنے گھوڑے یا اونٹ اس پر نہیں دوڑائے تھے یعنی ان کفار سے آمنے سامنے کوئی مقابلہ اور لڑائی نہیں ہوئی بلکہ ان کے دل اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہیبت سے بھر دیئے اور وہ اپنے قلعہ خالی کر کے قبضہ میں آ گئے ، اسے «فے» کہتے ہیں اور یہ مال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہو گیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس طرح چاہیں اس میں تصرف کریں ، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نیکی اور اصلاح کے کاموں میں اسے خرچ کیا جس کا بیان اس کے بعد والی اور دوسری آیت میں ہے ۔ پس فرماتا ہے کہ بنو نضیر کا جو مال بطور «فے» کے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو دلوایا جس پر مسلمانوں نے اپنے گھوڑے یا اونٹ دوڑائے نہ تھے ، بلکہ صرف اللہ نے اپنے فضل سے اپنے رسول کو اس پر غلبہ دے دیا تھا اور اللہ پر یہ کیا مشکل ہے ؟ وہ تو ہر اک چیز پر قدرت رکھتا ہے نہ اس پر کسی کا غلبہ نہ اسے کوئی روکنے والا بلکہ سب پر غالب وہی ، سب اس کے تابع فرمان ۔ پھر فرمایا کہ جو شہر اس طرح فتح کئے جائیں ان کے مال کا یہی حکم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے اپنے قبضہ میں کریں گے پھر انہیں دیں گے ، جن کا بیان اس آیت میں ہے اور اس کے بعد والی آیت میں ہے ، یہ ہے «فے» کے مال کا مصرف اور اس کے خرچ کا حکم ۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ { بنو نضیر کے مال بطور «فے» کے خاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہو گئے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے اپنے گھر والوں کو سال بھر تک کا خرچ دیتے تھے اور جو بچ رہتا اسے آلات جنگ اور سامان حرب میں خرچ کرتے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2904) ابوداؤد میں مالک بن اوس رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ امیر المؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مجھے دن چڑھے بلایا میں گھر گیا تو دیکھا کہ آپ ایک چوکی پر جس پر کوئی کپڑا وغیرہ نہ تھا بیٹھے ہوئے ہیں ، مجھے دیکھ کر فرمایا ” تمہاری قوم کے چند لوگ آئے ہیں ، میں نے انہیں کچھ دیا ہے تم اسے لے کر ان میں تقسیم کر دو۔ میں نے کہا اچھا ہوتا اگر جناب کسی اور کو یہ کام سونپتے آپ نے فرمایا : نہیں تم ہی کرو میں نے کہا بہت بہتر ۔ اتنے میں آپ کا داروغہ یرفا آیا اور کہا : اے امیر المؤمنین ! سیدنا عثمان بن عفان، سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف، سیدنا زبیر بن عوام اور سیدنا سعد بن وقاص رضی اللہ عنہم تشریف لائے ہیں، کیا انہیں اجازت ہے؟ آپ نے فرمایا : ” ہاں انہیں آنے دو “ ، چنانچہ یہ حضرات تشریف لائے، یرفا پھر آیا اور کہا : اے امیر المؤمنین ! سیدنا عباس اور سیدنا علی رضی اللہ عنہما اجازت طلب کررہے ہیں، آپ نے فرمایا : ” اجازت ہے۔ “ یہ دونوں حضرات بھی تشریف لائے، سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے کہا : ” اے امیرالمؤمنین ! میرا اور ان کا فیصلہ کیجئے یعنی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا “ ، تو پہلے جو چاروں بزرگ آئے تھے ان میں سے بھی بعض نے کہا : ” ہاں امیر المؤمنین ان دونوں کے درمیان فیصلہ کر دیجئیے اور انہیں راحت پہنچایئے ۔ “ مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس وقت میرے دل میں خیال آیا کہ ان چارں بزرگوں کو ان دونوں حضرات نے ہی اپنے سے پہلے یہاں بھیجا ہے ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ٹھہرو ، پھر ان چاروں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا : تمہیں اس اللہ کی قسم جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ” ہمارا ورثہ بانٹا نہیں جاتا ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔ “ ان چاروں نے اس کا اقرار کیا ، پھر آپ ان دونوں کی طرف متوجہ ہوئے اور اسی طرح قسم دے کر ان سے بھی یہی سوال کیا اور انہوں نے بھی اقرار کیا ۔ پھر آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک خاصہ کیا تھا جو اور کسی کے لیے نہ تھا پھر آپ نے یہی آیت «وَمَا أَفَاءَ اللہُ عَلَیٰ رَسُولِہِ مِنْہُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَیْہِ مِنْ خَیْلٍ وَلَا رِکَابٍ وَلٰکِنَّ اللہَ یُسَلِّطُ رُسُلَہُ عَلَیٰ مَن یَشَاءُ وَ اللہُ عَلَیٰ کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ» (59-الحشر:6) ، پڑھی اور فرمایا : بنو نضیر کے مال اللہ تعالیٰ نے بطور «فے» کے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیئے تھے اللہ کی قسم نہ تو میں نے تم پر اس میں کسی کو ترجیح دی اور نہ ہی خود ہی اس میں سے کچھ لے لیا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا اور اپنے اہل کا سال بھر کا خرچ اس میں سے لے لیتے تھے اور باقی مثل بیت المال کے کر دیتے تھے پھر ان چاروں بزرگوں کو اسی طرح قسم دے کر پوچھا کہ کیا تمہیں یہ معلوم ہے ؟ انہوں نے کہا : ہاں ، پھر ان دونوں سے قسم دے کر پوچھا اور انہوں نے ہاں کہی ۔ پھر فرمایا : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فوت ہونے کے بعد سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ والی بنے اور تم دونوں خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ، اے عباس ! تم تو اپنی قرابت داری جتا کر اپنے چچا زاد بھائی کے مال میں سے اپنا ورثہ طلب کرتے تھے اور یہی یعنی سیدنا علی رضی اللہ عنہ اپنا حق جتا کر اپنی بیوی یعنی فاطمہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے ان کے والد کے مال سے ورثہ طلب کرتے تھے جس کے جواب میں تم دونوں سے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ، ” ہمارا ورثہ بانٹا نہیں جاتا ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے ۔ “ ” اللہ خوب جانتا ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ یقیناً راست گو ، نیک کار ، رشد و ہدایت والے اور تابع حق تھے ، چنانچہ اس مال کی ولایت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فوت ہو جانے کے بعد آپ کا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ میں بنا اور وہ مال میری ولایت میں رہا ، پھر آپ دونوں ایک صلاح سے میرے پاس آئے اور مجھ سے اسے مانگا ، جس کے جواب میں میں نے کہا کہ اگر تم اس شرط سے اس مال کو اپنے قبضہ میں کرو کہ جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے خرچ کرتے تھے تم بھی کرتے رہو گے تو میں تمہیں سونپ دیتا ہوں ، تم نے اس بات کو قبول کیا اور اللہ کو بیچ میں دے کر تم نے اس مال کی ولایت لی ، پھر تم جو اب آئے ہو تو کیا اس کے سوا کوئی اور فیصلہ چاہتے ہو ؟ قسم اللہ کی قیامت تک اس کے سوا اس کا کوئی فیصلہ میں نہیں کر سکتا ، ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ اگر تم اپنے وعدے کے مطابق اس مال کی نگرانی اور اس کا صرف نہیں کر سکتے تو تم اسے پھر لوٹا دو تاکہ میں خود اسے اسی طرح خرچ کروں جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے اور جس طرح خلافت صدیقی میں اور آج تک ہوتا رہا ۔“ ۱؎ (صحیح بخاری:3094) مسند احمد میں ہے کہ { لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے کھجوروں کے درخت وغیرہ دے دیا کرتے تھے یہاں تک کہ بنو قریظہ اور بنو نضیر کے اموال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قبضہ میں آئے تو اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو ان کو دیئے ہوئے مال واپس دینے شروع کئے ۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کو بھی ان کے گھر والوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا کہ ہمارا دیا ہوا بھی سب یا جتنا چاہیں ہمیں واپس کر دیں میں نے جا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد دلایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ سب واپس کرنے کو فرمایا ، لیکن یہ سب سیدہ ام ایمن رضی اللہ عنہا کو اپنی طرف سے دے چکے تھے انہیں جب معلوم ہوا کہ یہ سب میرے قبضے سے نکل جائے گا تو انہوں نے آ کر میری گردن میں کپڑا ڈال دیا اور مجھ سے فرمانے لگیں اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم تجھے یہ نہیں دیں گے آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو مجھے وہ سب کچھ دے چکے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” ام ایمن تم نہ گھبراؤ ہم تمہیں اس کے بدلے اتنا اتنا دیں گے۔ “ لیکن وہ نہ مانیں اور یہی کہے چلی گئیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” اچھا اور اتنا اتنا ہم تمہیں دیں گے۔ “ لیکن وہ اب بھی خوش نہ ہوئیں اور وہی فرماتی رہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” لو ہم تمہیں اتنا اتنا اور دیں گے یہاں تک کہ جتنا انہیں دے رکھا تھا اس سے جب تقریباً دس گنا زیادہ دینے کا وعدہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ “ تب آپ رضی اللہ عنہا راضی ہو کر خاموش ہو گئیں اور ہمارا مال ہمیں مل گیا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4120) یہ «فے» کا مال جن پانچ جگہوں میں صرف ہو گا یہی جگہیں غنیمت کے مال کے صرف کرنے کی بھی ہیں اور سورۃ الانفال میں ان کی پوری تشریح و توضیح کے ساتھ کامل تفسیر «الْحَمْدُ لِلّٰہ» گزر چکی ہے اس لیے ہم یہاں بیان نہیں کرتے ۔ پھر فرماتا ہے کہ مال فے کے یہ مصارف ہم نے اس لیے وضاحت کے ساتھ بیان کر دیئے کہ یہ مالداروں کے ہاتھ لگ کر کہیں ان کا لقمہ نہ بن جائے اور اپنی من مانی خواہشوں کے مطابق وہ اسے اڑائیں اور مسکینوں کے ہاتھ نہ لگے ۔ پھر فرماتا ہے کہ جس کام کے کرنے کو میرے پیغمبر تم سے کہیں تم اسے کرو اور جس کام سے وہ تمہیں روکیں تم اس سے رک جاؤ ۔ یقین مانو کہ جس کا وہ حکم کرتے ہیں وہ بھلائی کا کام ہوتا ہے اور جس سے وہ روکتے ہیں وہ برائی کا کام ہوتا ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ ایک عورت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آئی اور کہا آپ گودنے سے [ یعنی چمڑے پر یا ہاتہوں پر عورتیں سوئی وغیرہ سے گدوا کر جو تلوں کی طرح نشان وغیرہ بنا لیتی ہیں] اس سے اور بالوں میں بال ملا لینے سے [ جو عورتیں اپنے بالوں کو لمبا ظاہر کرنے کے لیے کرتی ہیں ] منع فرماتے ہیں تو کیا یہ ممانعت کتاب اللہ میں ہے یا حدیث رسول میں ؟ آپ نے فرمایا : کتاب اللہ میں بھی اور حدیث رسول میں بھی ، دونوں میں اس ممانعت کو پاتا ہوں ، اس عورت نے کہا : اللہ کی قسم دونوں لوحوں کے درمیان جس قدر قرآن شریف ہے میں نے سب پڑھا ہے اور خوب دیکھ بھال کی ہے لیکن میں نے تو کہیں اس ممانعت کو نہیں پایا آپ نے فرمایا : کیا تم نے آیت «وَمَا آتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانتَہُوا وَاتَّقُوا اللہَ إِنَّ اللہَ شَدِیدُ الْعِقَابِ» ۱؎ (59-الحشر:7) نہیں پڑھی ؟ اس نے کہا ہاں یہ تو پڑھی ہے ۔ فرمایا : ” قرآن سے ثابت ہوا کہ حکم رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ممانعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم قابل عمل ہیں ، اب سنو خود میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ نے گودنے سے اور بالوں میں بال ملانے سے اور پیشانی اور چہرے کے بال نوچنے سے منع فرمایا ہے [ یہ بھی عورتیں اپنی خوبصورتی ظاہر کرنے کے لیے کرتی ہیں اور اس زمانے میں تو مرد بھی بکثرت کرتے ہیں ] اس عورت نے کہا یہ تو آپ کی گھر والیاں بھی کرتی ہیں آپ نے فرمایا : جاؤ دیکھو ، وہ گئیں اور دیکھ کر آئیں اور کہنے لگیں معاف کیجئے غلطی ہوئی ان باتوں میں سے کوئی بات آپ کے گھرانے والیوں میں میں نے نہیں دیکھی ۔ آپ نے فرمایا : کیا تم بھول گئیں کہ اللہ کے نیک بندے [ شعیب علیہ السلام] نے کیا فرمایا تھا «وَمَا أُرِیدُ أَنْ أُخَالِفَکُمْ إِلَیٰ مَا أَنْہَاکُمْ عَنْہُ» ۱؎ (11-ہود:88) یعنی ’ میں یہ نہیں چاہتا کہ تمہیں جس چیز سے روکوں خود میں اس کا خلاف کروں ۔‘ ۱؎ (مسند احمد:415/1:اسنادہ قوی) مسند احمد اور بخاری و مسلم میں ہے کہ { سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ لعنت بھیجتا ہے اس عورت پر جو گدوائے اور جو گودے اور جو اپنی پیشانی کے بال لے اور جو خوبصورتی کے لیے اپنے سامنے کے دانتوں کی کشادگی کرے اور اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی پیدائش کو بدلنا چاہے ، یہ سن کر بنو اسد کی ایک عورت جن کا نام ام یعقوب تھا آپ کے پاس آئیں اور پوچھا کہ کیا آپ نے اس طرح فرمایا ہے ؟ آپ نے جواب دیا کہ ہاں میں اس پر لعنت کیوں نہ کروں جس پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی ہے ؟ اور جو قرآن میں موجود ہے ، اس نے کہا میں نے پورا قرآن جتنا بھی دونوں پٹھوں کے درمیان ہے اول سے آخر تک پڑھا ہے لیکن میں نے تو یہ حکم کہیں نہیں پایا ۔ آپ نے فرمایا : اگر تم سوچ سمجھ کر پڑھتیں تو ضرور پاتیں کیا تم نے آیت «وَمَا آتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانتَہُوا» ۱؎ (59-الحشر:7) نہیں پڑھی ؟ اس نے کہا : ہاں یہ تو پڑھی ہے پھر آپ نے وہ حدیث سنائی ، اس نے آپ کے گھر والوں کی نسبت کہا پھر دیکھ کر آئیں اور عذر خواہی کی اس وقت آپ نے فرمایا : اگر میری گھر والی ایسا کرتی تو میں اس سے ملنا چھوڑ دیتا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4886) بخاری و مسلم میں { سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” جب میں تمہیں کوئی حکم دوں تو جہاں تک تم سے ہو سکے اسے بجا لاؤ اور جب میں تمہیں کسی چیز سے روکوں تو رک جاؤ۔ “ } ۱؎ (صحیح بخاری:7288) نسائی میں { سیدنا عمر اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کدو کے برتن میں ، سبز ٹھلیا میں ، کھجور کی لکڑی کے کریدے ہوئے برتن میں اور رال کی رنگی ہوئی ٹھلیا میں نبیذ بنانے سے یعنی کھجور یا کشمش وغیرہ کے بھگو کر رکھنے سے منع فرمایا ہے۔ } پھر اسی آیت کی تلاوت کی۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1997) [ یاد رہے کہ یہ حکم اب باقی نہیں ہے ۔ مترجم ] پھر فرماتا ہے اللہ کے عذاب سے بچنے کے لیے اس کے احکام کی ممنوعات سے بچتے رہو ، یاد رکھو کہ اس کی نافرمانی مخالفت انکار کرنے والوں کو اور اس کے منع کئے ہوئے کاموں کے کرنے والوں کو وہ سخت سزا اور درد ناک عذاب دیتا ہے ۔ الحشر
7 الحشر
8 مال فے کے حقدار اوپر بیان ہوا تھا کہ «فے» کا مال یعنی کافروں کا جو مال مسلمانوں کے قبضے میں میدان جنگ میں لڑے بھڑے بغیر آ گیا ہو اس کے مالک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ مال کسے دیں گے ؟ اس کا بیان ہو رہا ہے کہ اس کے حقدار وہ غریب مہاجر ہیں ، جنہوں نے اللہ کو رضامند کرنے کے لیے اپنی قوم کو ناراض کر لیا ، یہاں تک کہ انہیں اپنا وطن عزیز اور اپنے ہاتھ کا مشکلوں سے جمع کیا ہوا مال وغیرہ سب چھوڑ چھاڑ کر چل دینا پڑا ، اللہ کے دین اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد میں برابر مشغول ہیں ، اللہ کے فضل و خوشنودی کے متلاشی ہیں ، یہی سچے لوگ ہیں جنہوں نے اپنا فعل اپنے قول کے مطابق کر دکھایا ، یہ اوصاف سادات مہاجرین میں تھے ۔ پھر انصار کی مدح بیان ہو رہی ہے اور ان کی فضیلت ، شرافت ، کرم اور بزرگی کا اظہار ہو رہا ہے ، ان کی کشادہ دلی ، نیک نفسی ، ایثار اور سخاوت کا ذکر ہو رہا ہے کہ انہوں نے مہاجرین سے پہلے ہی دارالہجرت مدینہ میں اپنی بود و باش رکھی اور ایمان پر قیام رکھا ، مہاجرین کے پہنچنے سے پہلے ہی یہ ایمان لا چکے تھے بلکہ بہت سے مہاجرین سے بھی پہلے یہ ایماندار بن گئے تھے ۔ صحیح بخاری میں اس آیت کی تفسیر کے موقعہ پر یہ روایت ہے کہ { سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” میں اپنے بعد کے خلیفہ کو وصیت کرتا ہوں کہ مہاجرین اولین کے حق ادا کرتا رہے ، ان کی خاطر مدارت میں کمی نہ کرے اور میری وصیت ہے کہ انصار کے ساتھ بھی نیکی اور بھلائی کرے جنہوں نے مدینہ میں جگہ بنائی اور ایمان میں جگہ حاصل کی ، ان کے بھلے لوگوں کی بھلائیاں قبول کرے اور ان کی خطاؤں سے درگزر اور چشم پوشی کر لے ۔“ } ۱؎ (صحیح بخاری:4888) ان کی شرافت طبعی ملاحظہ ہو کر جو بھی راہ اللہ میں ہجرت کر کے آئے یہ اپنے دل میں اسے گھر دیتے ہیں اور اپنا جان و مال ان پر سے نثار کرنا اپنا فخر جانتے ہیں ۔ مسند احمد میں ہے کہ { مہاجرین نے ایک مرتبہ کہا : یا رسول اللہ ! ہم نے تو دنیا میں ان انصار جیسے لوگ نہیں دیکھے تھوڑے میں سے تھوڑا اور بہت میں سے بہت ، برابر ہمیں دے رہے ہیں ، مدتوں سے ہمارا کل خرچ اٹھا رہے ہیں بلکہ ناز برداریاں کر رہے ہیں اور کبھی چہرے پر شکن بھی نہیں بلکہ خدمت کرتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں ، دیتے ہیں اور احسان نہیں رکھتے کام کاج خود کریں اور کمائی ہمیں دیں ، اے اللہ کے رسول ! ہمیں تو ڈر ہے کہ کہیں ہمارے اعمال کا سارا کا سارا اجر انہی کو نہ مل جائے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” نہیں ، نہیں جب تک تم ان کی ثناء اور تعریف کرتے رہو گے اور ان کے لیے دعائیں مانگتے رہو گے ۔ “ } ۱؎ (مسند احمد:201/3:صحیح) صحیح بخاری میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصاریوں کو بلا کر فرمایا کہ میں بحرین کا علاقہ تمہارے نام لکھ دیتا ہوں ۔ انہوں نے کہا : یا رسول اللہ ! جب تک آپ ہمارے مہاجر بھائیوں کو بھی اتنا ہی نہ دیں ہم اسے نہ لیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” اچھا ، اگر نہیں لیتے تو دیکھو آئندہ بھی صبر کرتے رہنا میرے بعد ایسا وقت بھی آئے گا کہ اوروں کو دیا جائے گا اور تمہیں چھوڑ دیا جائے گا ۔ “ } ۱؎ (صحیح بخاری:3894) صحیح بخاری کی اور حدیث میں ہے کہ { انصاریوں نے کہا کہ یا رسول اللہ ! ہمارے کھجوروں کے باغات ہم میں اور ہمارے مہاجر بھائیوں میں تقسیم کر دیجئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” نہیں “ ، پھر فرمایا : ” سنو ! کام کاج بھی تم ہی کرو اور ہم سب کو تم پیداوار میں شریک رکھو “ ، انصار نے جواب دیا یا رسول اللہ ! ہمیں یہ بھی بخوشی منظور ہے ۔“ } (صحیح بخاری:2325) پھر فرماتا ہے یہ اپنے دلوں میں کوئی حسد ان مہاجرین کی قدر و منزلت اور ذکر و مرتبت پر نہیں کرتے ، جو انہیں مل جائے انہیں اس پر رشک نہیں ہوتا ۔ اسی مطلب پر اس حدیث کی دلالت بھی ہے جو مسند احمد میں انس رضی اللہ عنہ کی روایت سے مروی ہے کہ { ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” ابھی ایک جنتی شخص آنے والا ہے “ ، تھوڑی دیر میں ایک انصاری رضی اللہ عنہ اپنے بائیں ہاتھ میں اپنی جوتیاں لیے ہوئے تازہ وضو کر کے آ رہے تھے ، داڑھی پر سے پانی ٹپک رہا تھا ، دوسرے دن بھی اسی طرح ہم بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا اور وہی شخص اسی طرح آئے تیسرے دن بھی یہی ہوا سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ آج دیکھتے بھالتے رہے اور جب مجلس نبوی ختم ہوئی اور یہ بزرگ وہاں سے اٹھ کر چلے تو یہ بھی ان کے پیچھے ہو لیے اور انصاری رضی اللہ عنہ سے کہنے لگے مجھ میں اور میرے والد میں کچھ بول چال ہو گئی ہے جس پر میں قسم کھا بیٹھا ہوں کہ تین دن تک اپنے گھر نہیں جاؤں گا پس اگر آپ مہربانی فرما کر مجھے اجازت دیں تو میں یہ تین دن آپ کے ہاں گزار دوں ، انہوں نے کہا بہت اچھا چنانچہ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے یہ تین راتیں ان کے گھر ان کے ساتھ گزاریں ، دیکھا کہ وہ رات کو تہجد کی لمبی نماز بھی نہیں پڑھتے صرف اتنا کرتے ہیں کہ جب آنکھ کھلے اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اس کی بڑائی اپنے بستر پر ہی لیٹے لیٹے کر لیتے ہیں یہاں تک کہ صبح کی نماز کے لیے اٹھیں ، ہاں یہ ضروری بات تھی کہ میں نے ان کے منہ سے سوائے کلمہ خیر کے اور کچھ نہیں سنا ، جب تین راتیں گزر گئیں تو مجھے ان کا عمل بہت ہی ہلکا سا معلوم ہونے لگا ، اب میں نے ان سے کہا کہ دراصل نہ تو میرے اور میرے والد صاحب کے درمیان کوئی ایسی باتیں ہوئی تھیں ، نہ میں نے ناراضگی کے باعث گھر چھوڑا تھا بلکہ واقعہ یہ ہوا کہ تین مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابھی ایک جنتی شخص آ رہا ہے اور تینوں مرتبہ آپ ہی آئے تو میں نے ارادہ کیا کہ آپ کی خدمت میں کچھ دن رہ کر دیکھوں تو سہی کہ آپ ایسی کون سی عبادتیں کرتے ہیں جو جیتے جی بہ زبان رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے جنتی ہونے کی یقینی خبر ہم تک پہنچ گئی۔ چنانچہ میں نے یہ بہانہ کیا اور تین رات تک آپ کی خدمت میں رہا تاکہ آپ کے اعمال دیکھ کر میں بھی ویسے ہی عمل شروع کر دوں لیکن میں نے تو آپ کو نہ تو کوئی نیا اور اہم عمل کرتے ہوئے دیکھا ، نہ عبادت میں ہی اوروں سے زیادہ بڑھا ہوا دیکھا ، اب جا رہا ہوں لیکن زبانی ایک سوال ہے کہ آپ ہی بتائیے آخر وہ کون سا عمل ہے جس نے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی جنتی بنایا ؟ آپ نے فرمایا : بس تم میرے اعمال تو دیکھ چکے ان کے سوا اور کوئی خاص پوشیدہ عمل تو ہے نہیں چنانچہ میں ان سے رخصت ہو کر چلا تھوڑی ہی دور نکلا تھا جو انہوں نے مجھے آواز دی اور فرمایا : ہاں میرا ایک عمل سنتے جاؤ وہ یہ کہ میرے دل میں کبھی کسی مسلمان سے دھوکہ بازی ، حسد اور بغض کا ارادہ بھی نہیں ہوا ، میں کبھی کسی مسلمان کا بدخواہ نہیں بنا ، سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرمایا کہ بس اب معلوم ہو گیا اسی عمل نے آپ کو اس درجہ تک پہنچایا ہے اور یہی وہ چیز ہے جو ہر ایک کے بس کی نہیں امام نسائی بھی اپنی کتاب «عمل الیوم واللیلہ» میں اس حدیث کو لائے ہیں ۔ } ۱؎ (مسند احمد:166/3:صحیح) غرض یہ ہے کہ ان انصار میں یہ وصف تھا کہ مہاجرین کو اگر کوئی مال وغیرہ دیا جائے اور انہیں نہ ملے تو یہ برا نہیں مانتے تھے ، بنو نضیر کے مال جب مہاجرین ہی میں تقسیم ہوئے تو کسی انصاری نے اس میں کلام کیا جس پر آیت «مَّا أَفَاءَ اللہُ عَلَیٰ رَسُولِہِ مِنْ أَہْلِ الْقُرَیٰ فَلِلہِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِی الْقُرْبَیٰ وَالْیَتَامَیٰ وَالْمَسَاکِینِ وَابْنِ السَّبِیلِ» ۱؎ (59-الحشر:7) اتری ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” تمہارے مہاجر بھائی مال و اولاد چھوڑ کر تمہاری طرف آتے ہیں “ ، انصار نے کہا : پھر اے اللہ کے رسول ! ہمارا مال ان میں اور ہم میں برابر بانٹ دیجئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” اس سے بھی زیادہ ایثار کر سکتے ہو ؟ “ انہوں نے کہا جو آپ کا ارشاد ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” مہاجر کھیت اور باغات کا کام نہیں جانتے تم خود اپنے مال کو قبضہ میں رکھو ، خود کام کرو ، خود باغات میں محنت کرو اور پیداوار میں انہیں شریک کر دو۔ انصار نے اسے بھی بہ کشادہ پیشانی منظور کر لیا ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:33874:مرسل) پھر فرماتا ہے کہ خود کو حاجت ہونے کے باوجود بھی اپنے دوسرے بھائیوں کی حاجت کو مقدم رکھتے ہیں اپنی ضرورت خواہ باقی رہ جائے ۔ لیکن دوسرے مسلمان کی ضرورت جلد پوری ہو جائے ، یہ ان کی ہر وقت کی خواہش ہے ۔ ایک صحیح حدیث میں بھی ہے کہ { جس کے پاس کمی اور قلت ہو خود کو ضرورت ہو اور پھر بھی صدقہ کرے اس کا صدقہ افضل اور بہتر ہے ۔ } ۱؎ (سنن ابوداود:1677،قال الشیخ الألبانی:صحیح) یہ درجہ ان لوگوں کے درجہ سے بھی بڑھا ہوا ہے جن کا ذکر اور جگہ ہے کہ مال کی چاہت کے باوجود اسے راہ اللہ خرچ کرتے ہیں لیکن یہ لوگ تو خود اپنی حاجت ہوتے ہوئے صرف کرتے ہیں ، محبت ہوتی ہے اور حاجت نہیں ہوتی ، اس وقت کا خرچ اس درجہ کو نہیں پہنچ سکتا کہ خود کو ضرورت ہو اور پھر بھی راہ اللہ دے دینا۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا صدقہ اسی قسم سے ہے کہ { آپ نے اپنا کل مال لا کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ڈھیر لگا دیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا بھی ” ابوبکر ! کچھ باقی بھی رکھ آئے ہو ؟ “ جواب دیا ، اللہ اور اس کے رسول کو باقی رکھ آیا ہوں ۔ } ۱؎ (سنن ابوداود:1678،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اسی طرح وہ واقعہ ہے جو جنگ یرموک میں عکرمہ رحمہ اللہ اور ان کے ساتھیوں کو پیش آیا تھا کہ میدان جہاد میں زخم خوردہ پڑے ہوئے ہیں ریت اور مٹی زخموں میں بھر رہی ہے کہ کراہ رہے ہیں ، تڑپ رہے ہیں ، سخت تیز دھوپ پڑ رہی ہے ، پیاس کے مارے حلق چیخ رہا ہے ، اتنے میں ایک مسلمان کندھے پر مشک لٹکائے آ جاتا ہے اور ان مجروح مجاہدین کے سامنے پیش کرتا ہے ۔ لیکن ایک کہتا ہے اس دوسرے کو پلاؤ ، دوسرا کہتا ہے اس تیسرے کو پہلے پلاؤ وہ ابھی تیسرے تک پہنچا بھی نہیں کہ ایک شہید ہو جاتا ہے ، دوسرے کو دیکھتا ہے کہ وہ بھی پیاسا ہی چل بسا ، تیسرے کے پاس آتا ہے لیکن دیکھتا ہے کہ وہ بھی سوکھے ہونٹوں ہی اللہ سے جا ملا ۔ اللہ تعالیٰ ان بزرگوں سے خوش ہو اور انہیں بھی اپنی ذات سے خوش رکھے ۔ (مستدرک حاکم:232/3:ضعیف) صحیح بخاری میں ہے کہ { ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا : یا رسول اللہ! میں سخت حاجت مند ہوں مجھے کچھ کھلوایئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھروں میں آدمی بھیجا لیکن تمام گھروں سے جواب ملا کہ حضور ہمارے پاس خود کچھ نہیں۔ یہ معلوم کر کے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور لوگوں سے کہا کہ کوئی ہے جو آج کی رات انہیں اپنا مہمان رکھے ؟ ایک انصاری اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا : یا رسول اللہ ! میں انہیں اپنا مہمان رکھوں گا چنانچہ یہ لے گئے اور اپنی بیوی سے کہا : دیکھو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان ہیں ، آج گو ہمیں کچھ بھی کھانے کو نہ ملے لیکن یہ بھوکے نہ رہیں ، بیوی صاحبہ نے کہا : آج گھر میں بھی برکت ہے ، بچوں کے لیے البتہ کچھ ٹکڑے رکھے ہوئے ہیں ، انصاری نے فرمایا : اچھا بچوں کو تو بھلا پھسلا کر بھوکا سلا دو اور ہم تم دونوں اپنے پیٹ پر کپڑا باندھ کر فاقے سے رات گزار دیں گے ، کھاتے وقت چراغ بجھا دینا تاکہ مہمان یہ سمجھے کہ ہم کھا رہے ہیں اور دراصل ہم کھائیں گے نہیں ۔ چنانچہ ایسا ہی کیا صبح جب یہ شخص انصاری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس شخص کے اور اس کی بیوی کے رات کے عمل سے اللہ تعالیٰ خوش ہوا اور ہنس دیا انہی کے بارے میں «وَیُؤْثِرُونَ عَلَیٰ أَنفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ» ۱؎ (59-الحشر:9) نازل ہوئی ۔ } صحیح مسلم کی روایت ہے میں ان انصاری کا نام ہے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ ہے۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3798) پھر فرماتا ہے ’ جو اپنے نفس کی بخیلی ، حرص اور لالچ سے بچ گیا اس نے نجات پا لی ۔‘ مسند احمد اور مسلم میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” لوگو ! ظلم سے بچو ، قیامت کے دن یہ ظلم اندھیرا بن جائے گا ، لوگو ! بخیلی اور حرص سے بچو یہی وہ چیز ہے جس نے تم سے پہلے لوگوں کو برباد کر دیا اسی کی وجہ سے انہوں نے خونریزیاں کیں اور حرام کو حلال بنا لیا۔ “ } ۱؎ (صحیح مسلم:2528) اور سند سے یہ بھی مروی ہے کہ فحش سے بچو ، اللہ تعالیٰ فحش باتوں اور بے حیائی کے کاموں کو ناپسند فرماتا ہے ۔ حرص اور بخیلی کی مذمت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ { اسی کے باعث اگلوں نے ظلم کئے فسق و فجور کئے اور قطع رحمی کی ۔ } ۱؎ (سنن ابوداود:1698،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابوداؤد وغیرہ میں ہے { اللہ کی راہ کا غبار اور جہنم کا دھواں کسی بندے کے پیٹ میں جمع ہو ہی نہیں سکتا اسی طرح بخیلی اور ایمان بھی کسی بندہ کے دل میں جمع نہیں ہو سکتے ۔ } ۱؎ (سنن نسائی:0000،قال الشیخ الألبانی:صحیح) یعنی راہ اللہ کی گرد جس پر پڑی وہ جہنم سے آزاد ہو گیا اور جس کے دل میں بخیلی نے گھر کر لیا اس کے دل میں ایمان کی رہنے کی گنجائش ہی نہیں رہتی ۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کے پاس آ کر ایک شخص نے کہا : اے ابو عبدالرحمٰن میں تو ہلاک ہو گیا آپ نے فرمایا : کیا بات ہے ؟ کہا : قرآن میں تو ہے جو اپنے نفس کی بخیلی سے بچا دیا گیا اس نے فلاح پا لی اور میں تو مال کو بڑا روکنے والا ہوں ، خرچ کرتے ہوئے دل رکتا ہے ، آپ نے فرمایا اس کنجوسی کا ذکر اس آیت میں نہیں ، یہاں مراد بخیلی سے یہ ہے کہ تو اپنے کسی مسلمان بھائی کا مال ظلم سے کھا جائے ، ہاں بخیلی بہ معنی کنجوسی بھی ہے بہت بری چیز ہے۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:29/28:) ابولہیاج اسدی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے میں نے دیکھا کہ ایک صاحب صرف یہی دعا پڑھ رہے ہیں « اللہُمَّ قِنِی شُحّ نَفْسِی» الٰہی مجھے میرے نفس کی حرص و آڑ سے بچا لے۔ آخر مجھ سے نہ رہا گیا میں نے کہا آپ صرف یہی دعا کیوں مانگ رہے ہیں ؟ اس نے کہا جب اس سے بچاؤ ہو گیا تو پھر نہ تو زنا کاری ہو سکے گی ، نہ چوری اور نہ کوئی برا کام ، اب جو میں نے دیکھا تو وہ سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ تھے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:41/12:) الحشر
9 الحشر
10 رافضی کو مال فے نہیں ملے گا ایک حدیث میں ہے { جس نے زکوٰۃ ادا کی اور مہمانداری کی اور اللہ کی راہ کے ضروری کاموں میں دیا وہ اپنے نفس کی بخیلی سے دور ہو گیا ۔ } ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:33883) پھر مال فے کے مستحقین لوگوں کی تیسری قسم کا بیان ہو رہا ہے کہ انصار اور مہاجر کے فقراء کے بعد ان کے تابع جو ان کے بعد کے لوگ ہیں ان میں سے مساکین بھی اس مال کے مستحق ہیں جو اللہ تعالیٰ سے اپنے سے اگلے باایمان لوگوں کے لیے مغفرت کی دعائیں کرتے رہتے ہیں جیسے کہ سورۃ برات میں ہے «وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُہَاجِرِینَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِینَ اتَّبَعُوہُم بِإِحْسَانٍ رَّضِیَ اللہُ عَنْہُمْ وَرَضُوا عَنْہُ وَأَعَدَّ لَہُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِی تَحْتَہَا الْأَنْہَارُ خَالِدِینَ فِیہَا أَبَدًا ذَلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ» ۱؎ (9-التوبۃ:100) یعنی ’ اول اول سبقت کرنے والے مہاجر و انصار اور ان کے بعد کے وہ لوگ جو احسان میں ان کے متبع ہیں اللہ تعالیٰ ان سب سے خوش ہے اور یہ سب اللہ تعالیٰ سے راضی ہیں۔ ‘ یعنی یہ بعد کے لوگ ان اگلوں کے آثار حسنہ اور اوصاف جمیلہ کی اتباع کرنے والے اور انہیں نیک دعاؤں سے یاد رکھنے والے ہیں گویا ظاہر باطن ان کے تابع ہیں ۔ اس دعا سے امام مالک رحمتہ اللہ علیہ نے کتنا پاکیزہ استدلال کیا ہے کہ رافضی کو مال فے سے امام وقت کچھ نہ دے کیونکہ وہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دعا کرنے کی بجائے انہیں گالیاں دیتے ہیں ۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ” ان لوگوں کو دیکھو کس طرح قرآن کے خلاف کرتے ہیں قرآن حکم دیتا ہے کہ مہاجر و انصار کے لیے دعائیں کرو اور یہ گالیاں دیتے ہیں“ ، پھر یہی آیت «وَالَّذِینَ جَاءُوا مِن بَعْدِہِمْ یَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِینَ سَبَقُونَا بِالْإِیمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِی قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِینَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّکَ رَءُوفٌ رَّحِیمٌ» ۱؎ (59-الحشر:10) آپ نے تلاوت فرمائی ۔ (ابن ابی حاتم:ضعیف) اور روایت میں اتنا اور بھی ہے کہ میں نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ یہ امت ختم نہ ہو گی یہاں تک کہ ان کے پچھلے ان کے پہلوں کو لعنت کریں گے (بغوی فی التفسیر:321/4:اسنادہ ضعیف) ابوداؤد میں ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا «وَمَا أَفَاءَ اللہُ عَلَی رَسُولِہِ مِنْہُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَیْہِ مِنْ خَیْلٍ وَلَا رِکَابٍ وَلَـکِنَّ اللہَ یُسَلِّطُ رُسُلَہُ عَلَی مَن یَشَاءُ وَ اللہُ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ » ۱؎ (59-الحشر:6) میں جس مال فے کا بیان ہے وہ تو خاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے ۔ اسی طرح اس کے بعد کی «مَّا أَفَاءَ اللہُ عَلَی رَسُولِہِ مِنْ أَہْلِ الْقُرَی فَلِلہِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِی الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِینِ وَابْنِ السَّبِیلِ» ۱؎ (59-الحشر:7) والی نے عام کر دیا ہے تمام مسلمانوں کو اس میں شامل کر لیا ہے اب ایک مسلمان بھی ایسا نہیں جس کا حق اس مال میں نہ ہو سوائے تمہارے غلاموں کے ، اس حدیث کی سند میں انقطاع ہے ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2966،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابن جریر میں ہے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے «نَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاکِینِ وَالْعَامِلِینَ عَلَیْہَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوبُہُمْ وَفِی الرِّقَابِ وَالْغَارِمِینَ وَفِی سَبِیلِ اللہِ وَابْنِ السَّبِیلِ فَرِیضَۃً مِّنَ اللہِ وَ اللہُ عَلِیمٌ حَکِیمٌ» ۱؎ (9-التوبۃ:60) تک پڑھ کر فرمایا ” مال زکوٰۃ کے مستحق تو یہ لوگ ہیں“ ۔ پھر «وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَیْءٍ فَأَنَّ لِلہِ خُمُسَہُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِی الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِینِ وَابْنِ السَّبِیلِ» ۱؎ (8-الأنفال:41) والی پوری آیت کو پڑھ کر فرمایا مال غنیمت کے مستحق یہ لوگ ہیں ۔ پھر یہ «مَّا أَفَاءَ اللہُ عَلَی رَسُولِہِ مِنْ أَہْلِ الْقُرَی فَلِلہِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِی الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِینِ وَابْنِ السَّبِیلِ کَیْ لَا یَکُونَ دُولَۃً بَیْنَ الْأَغْنِیَاءِ مِنکُمْ وَمَا آتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانتَہُوا وَاتَّقُوا اللہَ إِنَّ اللہَ شَدِیدُ الْعِقَابِ» ۱؎ (59-الحشر:7) پڑھ کر فرمایا ” مال فے کے مستحقین کو بیان فرماتے ہوئے اس آیت نے تمام مسلمانوں کو اس مال فے کا مستحق کر دیا ہے ، سب اس کے مستحق ہیں ۔ اگر میں زندہ رہا تو تم دیکھو گے کہ گاؤں گوٹھوں کے چرواہے کو بھی اس کا حصہ دوں گا جس کی پیشانی پر اس مال کے حاصل کرنے کے لیے پسینہ تک نہ آیا ہو ۔“ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:33861:صحیح) الحشر
11 کفر بزدلی کی گود ہے تلبیس ابلیس کا ایک انداز عبداللہ بن ابی اور اسی جیسے منافقین کی چالبازی اور عیاری کا ذکر ہو رہا ہے کہ انہوں نے یہودیان بنو نضیر کو سبز باغ دکھا کر جھوٹا دلاسا دلا کر غلط وعدہ کر کے مسلمانوں سے لڑوا دیا ، ان سے وعدہ کیا کہ ہم تمہارے ساتھی ہیں لڑنے میں تمہاری مدد کریں گے اور اگر تم ہار گئے اور مدینہ سے دیس نکالا ملا تو ہم بھی تمہارے ساتھ اس شہر کو چھوڑ دیں گے ، لیکن بوقت وعدہ ہی ایفا کرنے کی نیت نہ تھی اور یہ بھی کہ ان میں اتنا حوصلہ بھی نہیں کہ ایسا کر سکیں ، نہ لڑائی میں ان کی مدد کر سکیں ، نہ برے وقت ان کا ساتھ دیں ۔ اگر بدنامی کے خیال سے میدان میں آ بھی جائیں تو یہاں آتے ہی تیر و تلوار کی صورت دیکھتے رونگٹے کھڑے ہو جائیں اور نامردی کے ساتھ بھاگتے ہی بن پڑے ۔ پھر مستقل طور پر پیش گوئی فرماتا ہے کہ ان کی تمہارے مقابلہ میں امداد نہ کی جائے گی ، یہ اللہ سے بھی اتنا نہیں ڈرتے جتنا تم سے خوف کھاتے ہیں ۔ جیسے اور جگہ بھی ہے ۔ «ذَا فَرِیْقٌ مِّنْھُمْ یَخْشَوْنَ النَّاسَ کَخَشْیَۃِ اللّٰہِ اَوْ اَشَدَّ خَشْـیَۃً » ۱؎ (4-النساء:77) یعنی ’ ان کا ایک فریق لوگوں سے اتنا ڈرتا ہے جتنا اللہ سے بلکہ اس سے بھی بہت زیادہ۔ ‘ بات یہ ہے کہ یہ بےسمجھ لوگ ہیں ، ان کی نامردی اور بزدلی کی یہ حالت ہے کہ یہ میدان کی لڑائی کبھی لڑ نہیں سکتے ہاں اگر مضبوط اور محفوظ قلعوں میں بیٹھے ہوئے ہوں یا مورچوں کی آڑ میں چھپ کر کچھ کاروائی کرنے کا موقعہ ہو تو خیر بسبب ضرورت کر گزریں گے لیکن میدان میں آ کر بہادری کے جوہر دکھانا یہ ان سے کوسوں دور ہے ، یہ آپس ہی میں ایک دوسرے کے دشمن ہیں ۔ جیسے اور جگہ ہے «وَّیُذِیْقَ بَعْضَکُمْ بَاْسَ بَعْضٍ» ۱؎ (6-الأنعام:65) یعنی ’ بعض کو بعض سے لڑائی کا مزہ چکھاتا ہے۔ ‘ تم انہیں مجتمع اور متفق و متحد سمجھ رہے ہو لیکن دراصل یہ متفرق و مختلف ہیں ایک کا دل دوسرے سے نہیں ملتا ، منافق اپنی جگہ اور اہل کتاب اپنی جگہ ایک دوسرے کے دشمن ہیں ، وجہ یہ ہے کہ بےعقل لوگ ہیں ۔ پھر فرمایا ’ ان کی مثال ان سے کچھ ہی پہلے کے کافروں جیسی ہے جنہوں نے یہاں بھی اپنے کئے کا بدلہ بھگتا اور وہاں کا بھگتنا ابھی باقی ہے ۔ ‘ اس سے مراد یا تو کفار قریش ہیں کہ بدر والے دن ان کی کمر کبڑی ہو گئی اور سخت نقصان اٹھا کر کشتوں کے پشتے چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے ، یا بنو قینقاع کے یہود ہیں کہ وہ بھی شرارت پر اتر آئے، اللہ نے ان پر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو غالب کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مدینہ سے خارج البلد کرا دیا یہ دونوں واقعے ابھی ابھی کے ہیں اور تمہاری عبرت کا صحیح سبق ہیں لیکن اس وقت کہ کوئی عبرت حاصل کرنے والا انجام کو سوچنے والا ہو بھی ، زیادہ مناسب مقام بنو قینقاع کے یہود کا واقعہ ہی ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» منافقین کے وعدوں پر ان یہودیوں کا شرارت پر آمادہ ہونا اور ان کے بھرے میں آ کر معاہدہ توڑ ڈالنا پھر ان منافقین کا انہیں موقعہ پر کام نہ آنا ، نہ لڑائی کے وقت مدد پہنچانا ، نہ جلا وطنی میں ساتھ دینا ، ایک مثال سے سمجھایا جاتا ہے کہ دیکھو شیطان بھی اسی طرح انسان کو کفر پر آمادہ کرتا ہے اور جب یہ کفر کر چکتا ہے تو خود بھی اسے ملامت کرنے لگتا ہے اور اپنا اللہ والا ہونا ظاہر کرنے لگتا ہے ۔ اسی مثال کا ایک واقعہ بھی سن لیجئے ، بنی اسرائیل میں ایک عابد تھے ساٹھ سال اسے عبادت الٰہی میں گزر چکے تھے شیطان نے اسے ورغلانا چاہا لیکن وہ قابو میں نہ آیا اس نے ایک عورت پر اپنا اثر ڈالا اور یہ ظاہر کیا کہ گویا اسے جنات ستا رہے ہیں ، ادھر اس عورت کے بھائیوں کو یہ وسوسہ ڈالا کہ اس کا علاج اسی عابد سے ہو سکتا ہے ، یہ اس عورت کو اس عابد کے پاس لائے ، اس نے علاج معالجہ یعنی دم کرنا شروع کیا اور یہ عورت یہیں رہنے لگی ، ایک دن عابد اس کے پاس ہی تھا جو شیطان نے اس کے خیالات خراب کرنے شروع کئے یہاں تک کہ وہ زنا کر بیٹھا اور وہ عورت حاملہ ہو گئی ۔ اب رسوائی کے خوف سے شیطان نے چھٹکارے کی یہ صورت بتائی کہ اس عورت کو مار ڈال ورنہ راز کھل جائے گا ۔ چنانچہ اس نے اسے قتل کر ڈالا ، ادھر اس نے جا کر عورت کے بھائیوں کو شک دلوایا وہ دوڑے آئے ، شیطان راہب کے پاس آیا اور کہا وہ لوگ آ رہے ہیں اب عزت بھی جائے گی اور جان بھی جائے گی ۔ اگر مجھے خوش کر لے اور میرا کہا مان لے تو عزت اور جان دونوں بچ سکتی ہیں ۔ شیطان نے کہا مجھے سجدہ کر ، عابد نے اسے سجدہ کر لیا ، یہ کہنے لگا تف ہے تجھ پر کم بخت میں تو اب تجھ سے بےزار ہوں میں تو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں ، جو رب العالمین ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:48/12:صحیح) ایک اور روایت میں اس طرح ہے کہ ایک عورت بکریاں چرایا کرتی تھی اور ایک راہب کی خانقاہ تلے رات گزرا کرتی تھی ، اس کے چار بھائی تھے ، ایک دن شیطان نے راہب کو گدگدایا اور اس سے زنا کر بیٹھا اسے حمل رہ گیا۔ شیطان نے راہب کے دل میں ڈالا کہ اب بڑی رسوائی ہو گی اس سے بہتر یہ ہے کہ اسے مار ڈال اور کہیں دفن کر دے ، تیرے تقدس کو دیکھتے ہوئے ، تیری طرف تو کسی کا خیال بھی نہ جائے گا اور اگر بالفرض پھر بھی کچھ پوچھ گچھ ہو تو جھوٹ موٹ کہ دینا ، بھلا کون ہے جو تیری بات کو غلط جانے ؟ اس کی سمجھ میں بھی یہ بات آ گئی ، ایک روز رات کے وقت موقعہ پا کر اس عورت کو جان سے مار ڈالا اور کسی اجاڑ جگہ زمین میں دبا دیا ۔ اب شیطان اس کے چاروں بھائیوں کے پاس پہنچا اور ہر ایک کے خواب میں اسے سارا واقعہ کہہ سنایا اور اس کے دفن کی جگہ بھی بتا دی ، صبح جب یہ جاگے تو ایک نے کہا : آج کی رات تو میں نے ایک عجیب خواب دیکھا ہے ہمت نہیں پڑتی کہ آپ سے بیان کروں دوسروں نے کہا : نہیں کہو تو سہی چنانچہ اس نے اپنا پورا خواب بیان کیا کہ اس طرح فلاں عابد نے اس سے بدکاری کی پھر جب حمل ٹھہر گیا تو اسے قتل کر دیا اور فلاں جگہ اس کی لاش دبا آیا ہے ، ان تینوں میں سے ہر ایک نے کہا مجھے بھی یہی خواب آیا ہے ، اب تو انہیں یقین ہو گیا کہ سچا خواب ہے ، چنانچہ انہوں نے جا کر اطلاع دی اور بادشاہ کے حکم سے اس راہب کو اس خانقاہ سے ساتھ لیا اور اس جگہ پہنچ کر زمین کھود کر اس کی لاش برآمد کی ۔ کامل ثبوت کے بعد اب اسے شاہی دربار میں لے چلے اس وقت شیطان اس کے سامنے ظاہر ہوتا ہے اور کہتا ہے یہ سب میرے کرتوت ہیں اب بھی اگر تو مجھے راضی کر لے تو جان بچا دوں گا اس نے کہا جو تو کہے کروں گا ، کہا مجھے سجدہ کر لے ، اس نے یہ بھی کر دیا ، پس پورا بے ایمان بنا کر شیطان کہتا ہے ، میں تو تجھ سے بری ہوں ، میں تو اللہ تعالیٰ سے جو تمام جہانوں کا رب ہے ڈرتا ہوں ، چنانچہ بادشاہ نے حکم دیا اور پادری صاحب کو قتل کر دیا گیا ، مشہور ہے کہ اس پادری کا نام برصیصا تھا ۔ سیدنا علی ، سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم ، طاؤس ، مقاتل بن حیان رحمہ اللہ علیہم وغیرہ سے یہ قصہ مختلف الفاظ سے کمی بیشی کے ساتھ مروی ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» اس کے بالکل برعکس جریج عابد کا قصہ ہے کہ { ایک بدکار عورت نے اس پر تہمت لگا دی کہ اس نے میرے ساتھ زنا کیا ہے اور یہ بچہ جو مجھے ہوا ہے وہ اسی کا ہے ، چنانچہ لوگوں نے جریج کے عبادت خانے کو گھیر لیا اور انہیں نہایت بے ادبی سے زد و کوب کرتے ہوئے گالیاں دیتے ہوئے باہر لے آئے اور عبادت خانے کو ڈھا دیا۔ یہ بیچارے گھبرائے ہوئے ہر چند پوچھتے ہیں کہ آخر واقعہ کیا ہے ؟ لیکن مجمع آپے سے باہر ہے آخر کسی نے کہا کہ اللہ کے دشمن ، اولیاء اللہ کے لباس میں یہ شیطانی حرکت ؟ اس عورت سے تو نے بدکاری کی ۔ جریج نے فرمایا : اچھا ٹھہرو ، صبر کرو اس بچے کو لاؤ چنانچہ وہ دودھ پیتا چھوٹا سا بچہ لایا گیا جریج نے اپنی عزت کی بقا کی اللہ سے دعا کی پھر اس بچے سے پوچھا : اے بچے بتا تیرا باپ کون ہے ؟ اس بچے کو اللہ نے اپنے ولی کی عزت بچانے کے لیے اپنی قدرت سے گویائی کی قوت عطا فرما دی اور اس نے اس صاف فصیح زبان میں اونچی آواز سے کہا میرا باپ ایک چرواہا ہے ۔ یہ سنتے ہی بنی اسرائیل کے ہوش جاتے رہے یہ اس بزرگ کے سامنے عذر معذرت کرنے لگے معافی مانگنے لگے انہوں نے کہا بس اب مجھے چھوڑ دو لوگوں نے کہا ہم آپ کی عابدت گاہ سونے کی بنا دیتے ہیں آپ نے فرمایا بس اسے جیسی وہ تھی ویسے ہی رہنے دو ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:3426) پھر فرماتا ہے کہ آخر انجام کفر کے کرنے اور حکم دینے والے کا یہی ہوا کہ دونوں ہمیشہ کے لیے جہنم واصل ہوئے ، ہر ظالم کئے کی سزا پا ہی لیتا ہے ۔ الحشر
12 الحشر
13 الحشر
14 الحشر
15 الحشر
16 الحشر
17 الحشر
18 اجتماعی اور خیر کی ایک نوعیت اور انفرادی اعمال خیر سیدنا جریر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم دن چڑھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ کچھ لوگ آئے جو ننگے بدن اور کھلے پیر تھے ۔ صرف چادروں یا عباؤں سے بدن چھپائے ہوئے تلواریں گردنوں میں حمائل کئے ہوئے تھے یہ تمام لوگ قبیلہ مضر میں سے تھے ، ان کی اس فقرہ فاقہ کی حالت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کی رنگت کو متغیر کر دیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں گئے پھر باہر آئے پھر سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو اذان کہنے کا حکم دیا اذان ہوئی پھر اقامت ہوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی پھر خطبہ شروع کیا اور آیت «یَا أَیٰہَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّکُمُ الَّذِی خَلَقَکُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَۃٍ وَخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالًا کَثِیرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللہَ الَّذِی تَسَاءَلُونَ بِہِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیبًا » ۱؎ (4-النساء:1) ، تلاوت کی پھر سورۃ الحشر کی آیت «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَلْتَنظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللہَ إِنَّ اللہَ خَبِیرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ» ۱؎ (59-الحشر:18) ، پڑھی اور لوگوں کو خیرات دینے کی رغبت دلائی جس پر لوگوں نے صدقہ دینا شروع کیا بہت سے درہم دینار کپڑے لتے کھجوریں وغیرہ آ گئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم برابر تقریر کئے جاتے تھے یہاں تک کہ فرمایا: ” اگر آدھی کھجور بھی دے سکتے ہو تو لے آؤ ۔ “ ایک انصاری ایک تھیلی نقدی کی بھری ہوئی بہت وزنی جسے بمشکل اٹھا سکتے تھے لے آئے ، پھر تو لوگوں نے لگاتار جو کچھ پایا لانا شروع کر دیا یہاں تک کہ ہر چیز کے ڈھیر لگ گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اداس چہرہ بہت کھل گیا اور مثل سونے کے چمکنے لگا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” جو بھی کسی اسلامی کار خیر کو شروع کرے اسے اپنا بھی اور اس کے بعد جو بھی اس کام کو کریں سب کا بدلہ ملتا ہے لیکن بعد والوں کے اجر گھٹ کر نہیں ، اسی طرح جو اسلام میں کسی برے اور خلاف شرع طریقے کو جاری کرے اس پر اس کا اپنا گناہ بھی ہوتا ہے اور پھر جتنے لوگ اس پر کاربند ہوں سب کو جتنا گناہ ملے گا اتنا ہی اسے بھی ملتا ہے مگر ان کے گناہ گھٹتے نہیں “ ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1017) آیت میں پہلے حکم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچاؤ کی صورت پیدا کرو ، یعنی اس کے احکام بجا لا کر اور اس کی نافرمانیوں سے بچ کر ، پھر فرمان ہے کہ وقت سے پہلے اپنا حساب آپ لیا کرو دیکھتے رہو کہ قیامت کے دن جب اللہ کے سامنے پیش ہو گے ، تب کام آنے والے نیک اعمال کا کتنا کچھ ذخیرہ تمہارے پاس ہے ۔ پھر تاکید ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو اور جان رکھو کہ تمہارے تمام اعمال و احوال سے اللہ تعالیٰ پورا باخبر ہے نہ کوئی چھوٹا کام اس سے پوشیدہ ، نہ بڑا نہ چھپا نہ کھلا ۔ پھر فرمان ہے کہ اللہ کے ذکر کو نہ بھولو ورنہ وہ تمہارے نیک اعمال جو آخرت میں نفع دینے والے ہیں بھلا دے گا۔ اس لیے کہ ہر عمل کا بدلہ اسی کے جنس سے ہوتا ہے اسی لیے فرمایا کہ یہی لوگ فاسق ہیں ، یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے نکل جانے والے اور قیامت کے دن نقصان پہنچانے والے اور ہلاکت میں پڑنے والے یہی لوگ ہیں ۔ جیسے اور جگہ ارشاد ہے «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تُلْہِکُمْ أَمْوَالُکُمْ وَلَا أَوْلَادُکُمْ عَن ذِکْرِ اللہِ وَمَن یَفْعَلْ ذٰلِکَ فَأُولٰئِکَ ہُمُ الْخَاسِرُونَ» ۱؎ (63-المنافقون:9) یعنی ’ مسلمانو ! تمہیں تمہارے مال و اولاد یاد اللہ سے غافل نہ کریں جو ایسا کریں وہ سخت زیاں کار ہیں ۔‘ طبرانی میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ایک خطبہ کا مختصر سا حصہ یہ منقول ہے کہ آپ نے فرمایا ، ” کیا تم نہیں جانتے ؟ کہ صبح شام تم اپنے مقررہ وقت کی طرف بڑھ رہے ہو ، پس تمہیں چاہیئے کہ اپنی زندگی کے اوقات اللہ عزوجل کی فرمانبرداری میں گزارو ، اور اس مقصد کو سوائے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کے کوئی شخص صرف اپنی طاقت و قوت سے حاصل نہیں کر سکتا ، جن لوگوں نے اپنی عمر اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے سوا اور کاموں میں کھپائی ان جیسے تم نہ ہونا ، اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان جیسے بننے سے منع فرمایا ہے «وَلَا تَکُونُوا کَالَّذِینَ نَسُوا اللہَ فَأَنسَاہُمْ أَنفُسَہُمْ أُولٰئِکَ ہُمُ الْفَاسِقُونَ» ۱؎ (59-الحشر:19) خیال کرو کہ تمہاری جان پہچان کے تمہارے بھائی آج کہاں ہیں ؟ انہوں نے اپنے گزشتہ ایام میں جو اعمال کئے تھے ان کا بدلہ لینے یا ان کی سزا پانے کے لیے وہ دربار الٰہیہ میں جا پہنچے ، یا تو انہوں نے سعادت اور خوش نصیبی پائی یا نامرادی اور شقاوت حاصل کر لی ، کہاں ہیں ؟ وہ سرکش لوگ جنہوں نے بارونق شہر بسائے اور ان کے مضبوط قلعے کھڑے کئے ، آج وہ قبروں کے گڑھوں میں پتھروں تلے دبے پڑے ہیں ، یہ ہے کتاب اللہ قرآن کریم تم اس نور سے مضبوط قلعے کھڑے کئے ، آج وہ قبروں کے گڑھوں میں پتھروں تلے دبے پڑے ہیں ، یہ ہے کتاب اللہ قرآن کریم تم اس نور سے روشنی حاصل کرو جو تمہیں قیامت کے دن کی اندھیروں میں کام آ سکے ، اس کی خوبی بیان سے عبرت حاصل کرو اور بن سنور جاؤ ، دیکھو اللہ تعالیٰ نے زکریا اور ان کی اہل بیت کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرمایا «إِنَّہُمْ کَانُوا یُسَارِعُونَ فِی الْخَیْرَاتِ وَیَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَہَبًا وَکَانُوا لَنَا خَاشِعِینَ» ۱؎ (21-الأنبیاء:90) یعنی ’ وہ نیک کاموں میں سبقت کرتے تھے اور بڑے لالچ اور سخت خوف کے ساتھ ہم سے دعائیں کیا کرتے تھے اور ہمارے سامنے جھکے جاتے تھے‘ ، سنو وہ بات بھلائی سے خالی ہے جس سے اللہ کی رضا مندی مقصود نہ ہو ، وہ مال خیرو و برکت والا نہیں جو اللہ کی راہ میں خرچ نہ کیا جاتا ہو ، وہ شخص نیک بختی سے دور ہے جس کی جہالت بردباری پر غالب ہو اس طرح وہ شخص بھی نیکی سے خالی ہاتھ ہے جو اللہ کے احکام کی تعمیل میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خوف کھائے ۔“ اس کی اسناد بہت عمدہ ہیں اور اس کے راوی ثقہ ہیں ، گو اس کے ایک راوی نعیم بن نمحہ ثقاہت یا عدم ثقاہت سے معروف نہیں ، لیکن امام ابوداؤد سجستانی رحمتہ اللہ علیہ کا یہ فیصلہ کافی ہے کہ جریر بن عثمان کے تمام استاد ثقہ ہیں اور یہ بھی آپ ہی کے اساتذہ میں سے ہیں اور اس خطبہ کے اور شواہد بھی مروی ہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» پھر ارشاد ہوتا ہے کہ جہنمی اور جنتی اللہ تعالیٰ کے نزدیک یکساں نہیں ، جیسے فرمان ہے «أَمْ حَسِبَ الَّذِینَ اجْتَرَحُوا السَّیِّئَاتِ أَن نَّجْعَلَہُمْ کَالَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَوَاءً مَّحْیَاہُمْ وَمَمَاتُہُمْ سَاءَ مَا یَحْکُمُونَ» ۱؎ (45-الجاثیۃ:21) ، یعنی ’ کیا بدکاروں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم انہیں باایمان نیک کار لوگوں کے مثل کر دیں گے ان کا جینا اور مرنا یکساں ہے ان کا یہ دعویٰ بالکل غلط اور برا ہے۔ ‘ اور جگہ ہے «وَمَا یَسْتَوِی الْأَعْمَیٰ وَالْبَصِیرُ وَالَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَلَا الْمُسِیءُ» ۱؎ (40-غافر:58) ، یعنی ’ اندھا اور دیکھتا ، ایماندار صالح اور بدکار برابر نہیں ، تم بہت ہی کم نصیحت حاصل کر رہے ہو ۔ ‘ اور «أَمْ نَجْعَلُ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ کَالْمُفْسِدِینَ فِی الْأَرْضِ أَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِینَ کَالْفُجَّارِ » ۱؎ (38-ص:28) یعنی ’ کیا ہم ایمان لانے اور نیک اعمال کرنے والوں کو فساد کرنے والوں جیسا بنا دیں گے یا پرہیزگاروں کو مثل فاجروں کے بنا دیں گے ؟‘ اور بھی اس مضمون کی بہت سی آیتیں ہیں ، مطلب یہ ہے کہ نیک کار لوگوں کا اکرام ہو گا اور بدکار لوگوں کو رسوا کن عذاب ہو گا ۔ یہاں بھی ارشاد ہوتا ہے کہ ’ جنتی لوگ فائز بمرام اور مقصدور ، کامیاب اور فلاح و نجات یافتہ ہیں اللہ عزوجل کے عذاب سے بال بال بچ جائیں گے ۔‘ الحشر
19 الحشر
20 الحشر
21 بلند و عظیم مرتبہ قرآن مجید قرآن کریم کی بزرگی بیان ہو رہی ہے کہ فی الواقع یہ پاک کتاب اس قدر بلند مرتبہ ہے کہ دل اس کے سامنے جھک جائیں ، رونگٹے کھڑے ہو جائیں ، کلیجے کپکپائیں ، اس کے سچے وعدے اور اس کی حقانی ڈانٹ ڈپٹ ہر سننے والے کو بید کی طرح تھرا دے ، اور دربار اللہ میں سر بسجود کرا دے ، اگر یہ قرآن جناب باری کسی سخت بلند اور اونچے پہاڑ پر بھی نازل فرماتا اور اسے غور و فکر اور فہم و فراست کی حس بھی دیتا تو وہ بھی اللہ کے خوف سے ریزہ ریزہ ہو جاتا ، پھر انسانوں کے دلوں پر جو نسبتاً بہت نرم اور چھوٹے ہیں ۔ جنہیں پوری سمجھ بوجھ ہے ، اس کا بہت بڑا اثر پڑنا چاہیئے ۔ ان مثالوں کو لوگوں کے سامنے ان کے غور و فکر کے لیے اللہ تعالیٰ نے بیان فرما دیا ، مطلب یہ ہے کہ انسانوں کو بھی ڈر اور عاجزی چاہیئے ۔ متواتر حدیث میں ہے کہ { منبر تیار ہونے سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک کھجور کے تنے پر ٹیک لگا کر خطبہ پڑھا کرتے تھے جب منبر بن گیا ، بچھ گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس پر خطبہ پڑھنے کو کھڑے ہوئے اور وہ تنا دور ہو گیا ، تو اس میں سے رونے کی آواز آنے لگی اور اس طرح سسکیاں لے لے کر وہ رونے لگا جیسے کوئی بچہ بلک بلک کر روتا ہو اور اسے چپ کرایا جا رہا ہو کیونکہ وہ ذکر وحی کے سننے سے کچھ دور ہو گیا تھا ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:60/1) امام بصریٰ رحمہ اللہ اس حدیث کو بیان کر کے فرماتے تھے کہ ”لوگو ایک کھجور کا تنا اس قدر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا شائق ہو تو تمہیں چاہیئے کہ اس سے بہت زیادہ شوق اور چاہت تم رکھو ۔ “۱؎ (صحیح بخاری:3583) اسی طرح کی یہ آیت ہے «لَوْ أَنزَلْنَا ہٰذَا الْقُرْآنَ عَلَیٰ جَبَلٍ لَّرَأَیْتَہُ خَاشِعًا» ۱؎ (59-الحشر:21) کہ ’ جب ایک پہاڑ کا یہ حال ہو تو تمہیں چاہیئے کہ تم تو اس حالت میں اس سے آگے رہو۔ ‘ اور جگہ فرمانِ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہے «وَلَوْ أَنَّ قُرْآنًا سُیِّرَتْ بِہِ الْجِبَالُ أَوْ قُطِّعَتْ بِہِ الْأَرْضُ أَوْ کُلِّمَ بِہِ الْمَوْتَیٰ» ۱؎ (13-الرعد:31) یعنی ’ اگر کوئی قرآن ایسا ہوتا کہ اس کے باعث پہاڑ چلا دیئے جائیں یا زمین کاٹ دی جائے یا مردے بول پڑیں ‘ [ تو اس کے قابل یہی قرآن تھا ، مگر پھر بھی ان کفار کو ایمان نصیب نہ ہوتا ] ۔ اور جگہ فرمان عالی شان ہے «وَإِنَّ مِنَ الْحِجَارَۃِ لَمَا یَتَفَجَّرُ مِنْہُ الْأَنْہَارُ وَإِنَّ مِنْہَا لَمَا یَشَّقَّقُ فَیَخْرُجُ مِنْہُ الْمَاءُ وَإِنَّ مِنْہَا لَمَا یَہْبِطُ مِنْ خَشْیَۃِ اللہِ وَمَا اللہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ » ۱؎ (2-البقرۃ:74) ، یعنی ’ بعض پتھر ایسے ہیں جن میں سے نہریں بہہ نکلتی ہیں ، بعض وہ ہیں کہ پھٹ جاتے ہیں اور ان میں سے پانی نکلتا ہے ، بعض اللہ کے خوف سے گر پڑتے ہیں ۔‘ پھر فرماتا ہے اللہ تعالیٰ کے سوا نہ تو کوئی پالنے اور پرورش کرنے والا ہے ، نہ اس کے سوا کسی کی ایسی نشانیاں ہیں کہ اس کی کسی قسم کی عبادت کوئی کرے اس کے سوا جن جن کی لوگ پرستش اور پوجا کرتے ہیں وہ سب باطل ہیں ، وہ تمام کائنات کا علم رکھنے والا ہے ، جو چیزیں ہم پر ظاہر ہیں اور جو چیزیں ہم سے پوشیدہ ہیں سب اس پر عیاں ہیں ، خواہ آسمان میں ہوں، خواہ زمین میں ہوں ، خواہ چھوٹی ہوں ، خواہ بڑی ہوں ، یہاں تک کہ اندھیریوں کے ذرے بھی اس پر ظاہر ہیں ، وہ اتنی بڑی وسیع رحمت والا ہے کہ اس کی رحمت تمام مخلوق پر محیط ہے ، وہ دنیا اور آخرت میں رحمان بھی ہے اور رحیم بھی ہے ۔ ہماری تفسیر کے شروع میں ان دونوں ناموں کی پوری تفسیر گزر چکی ہے ۔ قرآن کریم میں اور جگہ ہے «وَرَحْمَتِی وَسِعَتْ کُلَّ شَیْءٍ» ۱؎ (7-الأعراف:156) یعنی ’ میری رحمت نے تمام چیزوں کو گھیر لیا ہے۔ ‘ اور جگہ فرمان ہے «کَتَبَ رَبٰکُمْ عَلَیٰ نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ» ۱؎ (6-الأنعام:54) یعنی ’ تمہارے رب نے اپنی ذات پر رحم و رحمت لکھ لی ہے ۔‘ اور فرمان ہے «قُلْ بِفَضْلِ اللہِ وَبِرَحْمَتِہِ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوا ہُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُونَ» ۱؎ (10-یونس:58) ’ کہدو کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت کے ساتھ ہی خوش ہونا چاہیئے تمہاری جمع کردہ چیز سے بہتر یہی ہے ۔ ‘ الحشر
22 الحشر
23 اللہ تعالیٰ کی صفات اس مالک رب معبود کے سوا اور کوئی ان اوصاف والا نہیں ، تمام چیزوں کا تنہا وہی مالک و مختار ہے ، ہر چیز کا ہیر پھیر کرنے والا ، سب پر قبضہ اور تصرف رکھنے والا بھی وہی ہے ، کوئی نہیں جو اس کی مزاحمت یا مدافعت کر سکے یا اسے ممانعت کر سکے ، وہ قدوس ہے ، یعنی طاہر ہے ، مبارک ہے ، ذاتی اور صفاتی نقصانات سے پاک ہے ، تمام بلند مرتبہ فرشتے اور سب کی سب اعلیٰ مخلوق اس کی تسبیح و تقدیس میں علی الدوام مشغول ہے ، کل عیبوں اور نقصانوں سے مبرا اور منزہ ہے ، اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ، اپنے افعال میں بھی اس کی ذات ہر طرح کے نقصان سے پاک ہے ، وہ «مومن» ہے یعنی تمام مخلوق کو اس نے اس بات سے بے خوف رکھا ہے کہ ان پر کسی طرح کا کسی وقت اپنی طرف سے ظلم ہو ، اس نے یہ فرما کر کہ یہ حق ہے سب کو امن دے رکھا ہے ، اپنے ایماندار بندوں کے ایمان کی تصدیق کرتا ہے ۔ وہ «المہیمن» ہے یعنی اپنی تمام مخلوق کے اعمال کا ہر وقت یکساں طور شاہد ہے اور نگہبان ہے ، جیسے فرمان ہے «وَ اللہُ عَلَیٰ کُلِّ شَیْءٍ شَہِیدٌ» ۱؎ (85-البروج:9) ’ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر شاہد ہے ۔‘ اور فرمان ہے «ثُمَّ اللہُ شَہِیدٌ عَلَیٰ مَا یَفْعَلُونَ» ۱؎ (10-یونس:46) ’ اللہ تعالیٰ ان کے تمام افعال پر گواہ ہے‘ اور جگہ فرمایا «أَفَمَنْ ہُوَ قَائِمٌ عَلَیٰ کُلِّ نَفْسٍ بِمَا کَسَبَتْ» ۱؎ (13-الرعد:33) ، مطلب یہ ہے کہ ’ ہر نفس جو کچھ کر رہا ہے اسے اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے۔ ‘ وہ «عزیز» ہے ہر چیز اس کے تابع فرمان ہے ، کل مخلوق پر وہ غالب ہے پس اس کی عزت عظمت ، جبروت کبریائی کی وجہ سے اس کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا ، وہ «جبار» اور «متکبر» ہے ، جبریت اور کبر صرف اسی کے شایان شان ہے۔ صحیح حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے { عظمت میرا تہبند ہے اور کبریائی میری چادر ہے جو مجھ سے ان دونوں میں سے کسی کو چھیننا چاہے گا میں اسے عذاب کروں گا ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:2660) اپنی مخلوق کو جس چیز پر چاہے وہ رکھ سکتا ہے ، کل کاموں کی اصلاح اسی کے ہاتھ ہے ، وہ ہر برائی سے نفرت اور دوری رکھنے والا ہے ، جو لوگ اپنی کم سمجھی کی وجہ سے دوسروں کو اس کا شریک ٹھہرا رہے ہیں وہ ان سب سے بیزار ہے ، اس کی الوہیت شرکت سے مبرا ہے ، اللہ تعالیٰ خالق ہے یعنی مقدر مقرر کرنے والا ، پھر باری ہے یعنی اسے جاری اور ظاہر کرنے والا ، کوئی ایسا نہیں کہ جو تقدیر اور تنقید دونوں پر قادر ہو ، جو چاہے اندازہ مقرر کرے اور پھر اسی کے مطابق اسے چلائے بھی ، کبھی بھی اس میں فرق نہ آنے دے ، بہت سے ترتیب دینے والے اور اندازہ کرنے والے ہیں ، جو پھر اسے جاری کرنے اور اسی کے مطابق برابر جاری رکھنے پر قادر نہیں ، تقدیر کے ساتھ ایجاد اور تنقید پر بھی قدرت رکھنے والی اللہ کی ہی ذات ہے ، پس «خلق» سے مراد تقدیر اور «برء» سے مراد تنفیذ ہے ۔ عرب میں یہ الفاظ ان معنوں میں برابر بطور مثال کے بھی مروج ہیں ، اسی کی شان ہے کہ جس چیز کو جب جس طرح کرنا چاہے کہہ دیتا ہے کہ ہو جا وہ اسی طرح اسی صورت میں ہو جاتی ہے جیسے فرمان ہے «فِی أَیِّ صُورَۃٍ مَّا شَاءَ رَکَّبَکَ» ۱؎ (82-الإنفطار:8) ’ جس صورت میں اس نے چاہا تجھے ترکیب دی ۔ ‘ اسی لیے یہاں فرماتا ہے وہ مصور بےمثل ہے یعنی جس چیز کی ایجاد جس طرح کی چاہتا ہے کہ گزرتا ہے ۔ پیارے پیارے بہترین اور بزرگ تر ناموں والا وہی ہے ، سورۃ الاعراف میں اس جملہ کی تفسیر گزر چکی ہے ، نیز وہ حدیث بھی بیان ہو چکی ہے جو بخاری مسلم میں بروایت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ کے ننانوے یعنی ایک کم ایک سو نام ہیں جو انہیں شمار کر لے یاد رکھ لے وہ جنت میں داخل ہو گا وہ وتر ہے یعنی واحد ہے اور اکائی کو دوست رکھتا ہے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:6410) ترمذی میں ان ناموں کی صراحت بھی آئی ہے جو نام یہ ہیں ۔ «ہُوَ اللَّہ الَّذِی لَا إِلَہ إِلَّا ہُوَ الرَّحْمَن الرَّحِیم الْمَلِک الْقُدٰوس السَّلَام الْمُؤْمِن الْمُہَیْمِن الْعَزِیز الْجَبَّار الْمُتَکَبِّر الْخَالِق الْبَارِئ الْمُصَوِّر الْغَفَّار الْقَہَّار الْوَہَّاب الرَّزَّاق الْفَتَّاح الْعَلِیم الْقَابِض الْبَاسِط الْخَافِض الرَّافِع الْمُعِزّ الْمُذِلّ السَّمِیع الْبَصِیر الْحَکَم الْعَدْل اللَّطِیف الْخَبِیر الْحَلِیم الْعَظِیم الْغَفُور الشَّکُور الْعَلِیّ الْکَبِیر الْحَفِیظ الْمُقِیت الْحَسِیب الْجَلِیل الْکَرِیم الرَّقِیب الْمُجِیب الْوَاسِع الْحَکِیم الْوَدُود الْمَجِید الْبَاعِث الشَّہِید الْحَقّ الْوَکِیل الْقَوِیّ الْمَتِین الْوَلِیّ الْحَمِید الْمُحْصِی الْمُبْدِئ الْمُعِید الْمُحْیِی الْمُمِیت الْحَیّ الْقَیٰوم الْوَاجِد الْمَاجِد الْوَاحِد الصَّمَد الْقَادِر الْمُقْتَدِر الْمُقَدِّم الْمُؤَخِّر الْأَوَّل الْآخِر الظَّاہِر الْبَاطِن الْوَالِی الْمُتَعَالِی الْبَرّ التَّوَّاب الْمُنْتَقِم الْعَفُوّ الرَّءُوف مَالِک الْمُلْک ذُو الْجَلَال وَالْإِکْرَام الْمُقْسِط الْجَامِع الْغَنِیّ الْمُغْنِی الْمُعْطِی الْمَانِع الضَّارّ النَّافِع النٰور الْہَادِی الْبَدِیع الْبَاقِی الْوَارِث الرَّشِید الصَّبُور» ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3507،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ابن ماجہ میں بھی یہ حدیث ہے اور اس میں کچھ تقدیم تاخیر کمی زیادتی بھی ہے ، الغرض ان تمام احادیث وغیرہ کا بیان پوری طرح سورۃ الاعراف میں گزر چکا ہے ، اس لیے یہاں صرف اتنا لکھ دینا کافی ہے باقی سب کو دوبارہ وارد کرنے کی ضرورت نہیں ۔ آسمان و زمین کی کل چیزیں اس کی تسبیح بیان کرتی ہیں ۔ جیسے اور جگہ فرمان ہے «تُسَبِّحُ لَہُ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَالْأَرْضُ وَمَن فِیہِنَّ وَإِن مِّن شَیْءٍ إِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِہِ وَلٰکِن لَّا تَفْقَہُونَ تَسْبِیحَہُمْ إِنَّہُ کَانَ حَلِیمًا غَفُورًا» (17-الإسراء:44) یعنی ’ اس کی پاکیزگی بیان کرتے ہیں ، ساتوں آسمان اور زمینیں اور ان میں جو مخلوق ہے اور کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی تسبیح حمد کے ساتھ بیان نہ کرتی ہو لیکن تم ان کی تسبیح کو سمجھ نہیں سکتے ، بیشک وہ بردبار اور بخشش کرنے والا ہے ۔‘ وہ عزیز ہے اس کی حکمت والی سرکار اپنے احکام اور تقدیر کے تقدر میں ایسی نہیں کہ کسی طرح کی کمی نکالی جائے یا کوئی اعتراض قائم کیا جا سکے ۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے { جو شخص صبح کو تین مرتبہ «أَعُوذ بِاَللَّہِ السَّمِیع الْعَلِیم مِنْ الشَّیْطَان الرَّجِیم» پڑھ کر سورۃ الحشر کے آخر کی [ان] تین آیتوں «ہُوَ اللہُ الَّذِی لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ عَالِمُ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ ہُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیمُ ہُوَ اللہُ الَّذِی لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ الْمَلِکُ الْقُدٰوسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُہَیْمِنُ الْعَزِیزُ الْجَبَّارُ الْمُتَکَبِّرُ سُبْحَانَ اللہِ عَمَّا یُشْرِکُونَ ہُوَ اللہُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَہُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَیٰ یُسَبِّحُ لَہُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَہُوَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ» (59-الحشر:22-24) کو پڑھ لے اللہ تعالیٰ اس کے لیے ستر ہزار فرشتے مقرر کرتا ہے جو شام تک اس پر رحمت بھیجتے ہیں اور اگر اسی دن اس کا انتقال ہو جائے تو شہادت کا مرتبہ پاتا ہے اور جو شخص ان کی تلاوت شام کے وقت کرے وہ بھی اسی حکم میں ہے ۔ } ترمذی میں بھی یہ حدیث ہے اور امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ اسے غریب بتاتے ہیں ۔ (سنن ترمذی:2922،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) «الْحَمْدُ لِلّٰہ» سورۃ الحشر کی تفسیر ختم ہوئی ۔ الحشر
24 الحشر
0 الممتحنة
1 حاطب رضی اللہ عنہ کا قصہ سیدنا حاطب بن ابوبلتہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں اس سورت کی شروع کی آیتیں نازل ہوئی ہیں ، واقعہ یہ ہوا کہ حاطب رضی اللہ عنہ مہاجرین میں سے تھے بدر کی لڑائی میں بھی آپ نے مسلمانوں کے لشکر میں شرکت کی تھی ان کے بال بچے اور مال و دولت مکہ میں ہی تھا اور یہ خود قریش سے نہ تھے صرف سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے حلیف تھے اس وجہ سے مکہ میں انہیں امن حاصل تھا ، اب یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ شریف میں تھے یہاں تک کہ جب اہل مکہ نے عہد توڑ دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر چڑھائی کرنا چاہی تو آپ کی خواہش یہ تھی کہ انہیں اچانک دبوچ لیں تاکہ خونریزی نہ ہونے پائے اور مکہ شریف پر قبضہ ہو جائے ، اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کی کہ باری تعالیٰ ہماری تیاری کی خبریں ہمارے پہنچنے تک اہل مکہ کو نہ پہنچیں ، ادھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو تیاری کا حکم دیا سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ نے اس موقعہ پر ایک خط اہل مکہ کے نام لکھا اور ایک قریشیہ عورت کے ہاتھ اسے چلتا کیا جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارادے اور مسلمانوں کی لشکر کشی کی خبر درج تھی ، آپ کا ارادہ اس سے صرف یہ تھا کہ میرا کوئی احسان قریش پر رہ جائے جس کے باعث میرے بال بچے اور مال دولت محفوظ رہیں ، چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا قبول ہو چکی تھی ناممکن تھا کہ قریشیوں کو کسی ذریعہ سے بھی اس ارادے کا علم ہو جائے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پوشیدہ راز سے مطلع فرما دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کے پیچھے اپنے سوار بھیجے راستہ میں اسے روکا گیا اور خط اس سے حاصل کر لیا گیا ، یہ مفصل واقعہ صحیح احادیث میں پوری طرح آ چکا ہے ۔ مسند احمد میں ہے سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مجھے اور زبیر رضی اللہ عنہ اور مقداد رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلوا کر فرمایا تم یہاں سے فوراً کوچ کرو روضہ خاخ میں جب تم پہنچو گے تو تمہیں ایک سانڈنی سوار عورت ملے گی جس کے پاس ایک خط ہے تم اسے قبضہ میں کر کے یہاں لے آؤ ، ہم تینوں گھوڑوں پر سوار ہو کر بہت تیز رفتاری سے روانہ ہو گئے ، روضہ خاخ میں جب پہنچے تو فی الواقع ہمیں ایک سانڈنی سوار عورت دکھائی دی ہم نے اس سے کہا کہ جو خط تیرے پاس ہے وہ ہمارے حوالے کر ، اس نے صاف انکار کر دیا کہ میرے پاس کوئی خط نہیں ، ہم نے کہا غلط کہتی ہے تیرے پاس یقیناً خط ہے اگر تو راضی خوشی نہ دے گی تو ہم جامہ تلاشی کر کے جبراً وہ خط تجھ سے چھینیں گے ، اب تو وہ عورت سٹ پٹائی اور آخر اس نے اپنی چٹیا کھول کر اس میں سے وہ پرچہ نکال کر ہمارے حوالے کیا ہم اسی وقت وہاں سے واپس روانہ ہوئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اسے پیش کر دیا ، پڑھنے پر معلوم ہوا کہ حاطب نے اسے لکھا ہے اور یہاں کی خبر رسانی کی ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارادوں سے کفار مکہ کو آگاہ کیا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا : حاطب ! یہ کیا حرکت ہے ؟ سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ نے فرمایا یا رسول اللہ ! جلدی نہ کیجئے ، میری بھی سن لیجئے ، میں قریشیوں میں ملا ہوا تھا خود قریشیوں میں سے نہ تھا ، پر آپ پر ایمان لا کر آپ کے ساتھ ہجرت کی جتنے اور مہاجرین ہیں ان سب کے قرابت دار مکہ میں موجود ہیں جو ان کے بال بچے وغیرہ مکہ میں رہ گئے ہیں وہ ان کی حمایت کرتے ہیں لیکن میرا کوئی رشتہ دار نہیں جو میرے بچوں کی حفاظت کرے اس لیے میں نے چاہا کہ قریشیوں کے ساتھ کوئی سلوک و احسان کروں جس سے میرے بچوں کی حفاظت وہ کریں اور جس طرح اوروں کے نسب کی وجہ سے ان کا تعلق ہے میرے احسان کی وجہ سے میرا تعلق ہو جائے ۔ یا رسول اللہ ! میں نے کوئی کفر نہیں کیا نہ ، اپنے دین سے مرتد ہوا ہوں ، نہ اسلام کے بعد کفر سے راضی ہوا ہوں ، بس اس خط کی وجہ سے صرف اپنے بچوں کی حفاظت کا حیلہ تھا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” لوگو تم سے جو واقعہ حاطب بیان کرتے ہیں وہ بالکل حرف بہ حرف سچا ہے کہ اپنے نفع کی خاطر ایک غلطی کر بیٹھے ہیں نہ کہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانا یا کفار کی مدد کرنا ان کے پیش نظر ہو “ ، فاروق اعظم رضی اللہ عنہ اس موقعہ پر موجود تھے اور یہ واقعات آپ کے سامنے ہوئے آپ کو بہت غصہ آیا اور فرمانے لگے یا رسول اللہ ! مجھے اجازت دیجئیے کہ اس منافق کی گردن اڑا دوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تمہیں کیا معلوم نہیں ؟ کہ یہ بدری صحابی ہیں اور بدر والوں پر اللہ تعالیٰ نے جھانکا اور فرمایا جو چاہو عمل کرو میں نے تمہیں بخش دیا “ ، یہ روایت اور بھی بہت سی حدیث کی کتابوں میں ہے ۔(صحیح بخاری:4274) صحیح بخاری شریف کتاب المغازی میں اتنا اور بھی ہے کہ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ سورت اتاری اور کتاب التفسیر میں ہے کہ عمرو رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اسی بارے میں آیت «یا أَیٰہَا الَّذینَ آمَنوا لا تَتَّخِذوا عَدُوّی وَعَدُوَّکُم أَولِیاءَ تُلقونَ إِلَیہِم بِالمَوَدَّۃِ وَقَد کَفَروا بِما جاءَکُم مِنَ الحَقِّ یُخرِجونَ الرَّسولَ وَإِیّاکُم أَن تُؤمِنوا بِ اللہِ رَبِّکُم إِن کُنتُم خَرَجتُم جِہادًا فی سَبیلی وَابتِغاءَ مَرضاتی تُسِرّونَ إِلَیہِم بِالمَوَدَّۃِ وَأَنا أَعلَمُ بِما أَخفَیتُم وَما أَعلَنتُم وَمَن یَفعَلہُ مِنکُم فَقَد ضَلَّ سَواءَ السَّبیلِ» (60-الممتحنۃ:1) ، اتری لیکن راوی کو شک ہے کہ آیت کے اترنے کا بیان سیدنا عمرو رضی اللہ عنہ کا ہے یا حدیث میں ہے ، امام علی بن مدینی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں سفیان رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ یہ آیت اسی میں اتری ہے ؟ تو سفیان رحمہ اللہ نے فرمایا یہ لوگوں کی بات میں ہے میں نے اسے سیدنا عمرو رضی اللہ عنہ سے حفظ کیا ہے اور ایک حرف بھی نہیں چھوڑا اور میرا خیال ہے کہ میرے سوا کسی اور نے اسے حفظ بھی نہیں رکھا ۔ بخاری مسلم کی ایک روایت میں سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ کے نام کے بدلے سیدنا ابومرثد رضی اللہ عنہ کا نام ہے اس میں یہ بھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی بتا دیا تھا کہ اس عورت کے پاس حاطب کا خط ہے ، اس عورت کی سواری کو بٹھا کر اس کے انکار پر ہر چند ٹٹولا گیا لیکن کوئی پرچہ ہاتھ نہ لگا آخر جب ہم عاجز آ گئے اور کہیں سے پرچہ نہ ملا تو ہم نے اس عورت سے کہا کہ اس میں تو مطلق شک نہیں کہ تیرے پاس پرچہ ہے گو ہمیں نہیں ملتا لیکن تیرے پاس ہے ضرور ، یہ ناممکن ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات غلط ہو اب اگر تو نہیں دیتی تو ہم تیرے کپڑے اتار کر ٹٹولیں گے ، جب اس نے دیکھ لیا کہ انہیں پختہ یقین ہے اور یہ لئے بغیر نہ ٹلیں گے تو اس نے اپنا سر کھول کر اپنے بالوں میں سے پرچہ نکال کر ہمیں دے دیا ہم اسے لے کر واپس خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئے ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ واقعہ سن کر فرمایا : اس نے اللہ ، اس کے رسول کی اور مسلمانوں کی خیانت کی مجھے اس کی گردن مارنے کی اجازت دیجئیے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حاطب رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا اور انہوں نے وہ جواب دیا جو اوپر گزر چکا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے فرما دیا کہ انہیں کچھ نہ کہو اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے بھی وہ فرمایا جو پہلے بیان ہوا کہ بدری صحابہ میں سے ہیں جن کے لیے اللہ تعالیٰ نے جنت واجب کر دی ہے جسے سن کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ رو دیئے اور فرمانے لگے اللہ کو اور اس کے رسول کو ہی کامل علم ہے ، (صحیح بخاری:6939) یہ حدیث ان الفاظ سے صحیح بخاری کتاب المغازی میں غزوہ بدر کے ذکر میں ہے ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مکہ جانے کا ارادہ اپنے چند ہم راز صحابہ کبار رضی اللہ عنہم کے سامنے تو ظاہر کیا تھا جن میں سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ بھی تھے باقی عام طور پر مشہور تھا کہ خیبر جا رہے ہیں ، اس روایت میں یہ بھی ہے کہ جب ہم خط کو سارے سامان میں ٹٹول چکے اور نہ ملا تو سیدنا ابومرثد رضی اللہ عنہ نے کہا شاید اس کے پاس کوئی پرچہ ہی نہیں اس پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ناممکن ہے نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جھوٹ بول سکتے ہیں ، نہ ہم نے جھوٹ کہا ، جب ہم نے اسے دھمکایا تو اس نے ہم سے کہا : تمہیں اللہ کا خوف نہیں ؟ کیا تم مسلمان نہیں ؟ ایک روایت میں ہے کہ اس نے پرچہ اپنے جسم میں سے نکالا ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے فرمان میں یہ بھی ہے کہ آپ نے فرمایا : یہ بدر میں موجود تو ضرور تھے لیکن عہد شکنی کی اور دشمنوں میں ہماری خبر رسانی کی اور روایت میں ہے کہ یہ عورت قبیلہ مزینہ کی عورت تھی ، بعض کہتے ہیں اس کا نام سارہ تھا ، اولاد عبدالمطلب کی آزاد کردہ لونڈی تھی ، سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ نے اسے کچھ دینا کیا تھا اور اس نے اپنے بالوں تلے کاغذ رکھ کر اوپر سے سرگوندھ لیا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھوڑ سواروں سے فرما دیا تھا کہ اس کے پاس حاطب کا دیا ہوا اس مضمون کا خط ہے ، آسمان سے اس کی خبر اے اللہ کے رسول ! کے پاس آئی تھی ، بنو احمد کے حلیفہ میں یہ عورت پکڑی گئی تھی ، اس عورت نے ان سے کہا تھا کہ تم منہ پھیر لو میں نکال دیتی ہوں انہوں نے منہ پھیر لیا پھر اس نے نکال کر حوالہ کیا ، اس روایت میں سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ کے جواب میں یہ بھی ہے کہ اللہ کی قسم میں اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہوں کوئی تغیر تبدل میرے ایمان میں نہیں ہوا ، اور اسی بارے میں اس سورت کی آیتیں ابراہیم کے قصہ «قَد کانَت لَکُم أُسوَۃٌ حَسَنَۃٌ فی إِبراہیمَ وَالَّذینَ مَعَہُ إِذ قالوا لِقَومِہِم إِنّا بُرَآءُ مِنکُم وَمِمّا تَعبُدونَ مِن دونِ اللہِ کَفَرنا بِکُم وَبَدا بَینَنا وَبَینَکُمُ العَداوَۃُ وَالبَغضاءُ أَبَدًا حَتّیٰ تُؤمِنوا بِ اللہِ وَحدَہُ إِلّا قَولَ إِبراہیمَ لِأَبیہِ لَأَستَغفِرَنَّ لَکَ وَما أَملِکُ لَکَ مِنَ اللہِ مِن شَیءٍ رَبَّنا عَلَیکَ تَوَکَّلنا وَإِلَیکَ أَنَبنا وَإِلَیکَ المَصیرُ» (60-الممتحنۃ:4) ، کے ختم تک اتریں ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ اس عورت کو اس کی اجرت کے دس درہم سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ نے دیئے تھے ، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خط کے حاصل کرنے کے لیے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا تھا اور حجفہ میں یہ ملی تھی ۔ مطلب آیتوں کا یہ ہے کہ اے مسلمانو ! مشرکین اور کفار کو جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مومن بندوں سے لڑنے والے ہیں ، جن کے دل تمہاری عداوت سے پر ہیں تمہیں ہرگز لائق نہیں کہ ان سے دوستی اور محبت میل ملاپ اور اپنایت رکھو تمہیں اس کے خلاف حکم دیا گیا ہے ارشاد ہے «یا أَیٰہَا الَّذینَ آمَنوا لا تَتَّخِذُوا الیَہودَ وَالنَّصاریٰ أَولِیاءَ بَعضُہُم أَولِیاءُ بَعضٍ وَمَن یَتَوَلَّہُم مِنکُم فَإِنَّہُ مِنہُم إِنَّ اللہَ لا یَہدِی القَومَ الظّالِمینَ» (5-المائدۃ:52) ، اے ایماندارو ! یہود و نصاریٰ سے دوستی مت گانٹھو وہ آپس میں ہی ایک دوسروں کے دوست ہیں تم میں سے جو بھی ان سے موالات و محبت کرے وہ انہی میں سے شمار ہو گا اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا ۔ اس میں کس قدر ڈانٹ ڈپٹ کے ساتھ ممانعت فرمائی ہے اور جگہ ہے «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِینَ اتَّخَذُوا دِینَکُمْ ہُزُوًا وَلَعِبًا مِّنَ الَّذِینَ أُوتُوا الْکِتَابَ مِن قَبْلِکُمْ وَالْکُفَّارَ أَوْلِیَاءَ ۚ وَاتَّقُوا اللہَ إِن کُنتُم مٰؤْمِنِینَ» ۱؎ (5-المائدہ:57) مسلمانو ! ان اہل کتاب اور کفار سے دوستیاں نہ کرو جو تمہارے دین کا مذاق اڑاتے ہیں اور اسے کھیل کود سمجھ رہے ہیں اگر تم میں ایمان ہے تو ذات باری سے ڈرو ۔ ایک اور جگہ ارشاد ہے «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْکَافِرِینَ أَوْلِیَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِینَ ۚ أَتُرِیدُونَ أَن تَجْعَلُوا لِلہِ عَلَیْکُمْ سُلْطَانًا مٰبِینًا» (4-النساء:144) مسلمانو ! مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں سے دوستیاں نہ کرو کیا تم چاہتے ہو کہ اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کا کھلا الزام ثابت کر لو ۔ ایک اور جگہ فرمایا «لا یَتَّخِذِ المُؤمِنونَ الکافِرینَ أَولِیاءَ مِن دونِ المُؤمِنینَ وَمَن یَفعَل ذٰلِکَ فَلَیسَ مِنَ اللہِ فی شَیءٍ إِلّا أَن تَتَّقوا مِنہُم تُقاۃً وَیُحَذِّرُکُمُ اللہُ نَفسَہُ وَإِلَی اللہِ المَصیرُ» (3-آل عمران:28) ’ مسلمانوں کو چاہیئے کہ اپنوں کے علاوہ کافروں سے دوستیاں نہ کریں جو ایسا کرے گا وہ اللہ کی طرف سے کسی چیز میں نہیں ہاں بطور دفع الوقتی اور بچاؤ کے ہو تو اور بات ہے اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے آپ سے ڈرا رہا ہے اور اللہ کی طرف ہی تم کو لوٹ کر جانا ہے ‘ ، اسی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ کا عذر قبول فرما لیا کہ اپنے مال و اولاد کے بچاؤ کی خاطر یہ کام ان سے ہو گیا تھا ۔ مسند احمد میں ہے کہ { ہمارے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی مثالیں بیان فرمائیں ایک اور تین اور پانچ اور سات اور نو اور گیارہ پھر ان میں سے یہ تفصیل صرف ایک ہی بیان کی باقی سب چھوڑ دیں ، فرمایا : ” ایک ضعیف مسکین قوم تھی جس پر زور آور ظالم قوم چڑھائی کر کے آ گئی ، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کمزوروں کی مدد کی اور انہیں اپنے دشمن پر غالب کر دیا ، غالب آ کر ان میں رعونت سما گئی اور انہوں نے ان پر مظالم شروع کر دیئے جس پر اللہ تعالیٰ ان سے ہمیشہ کے لیے ناراض ہو گیا “ } ۔ (مسند احمد:407/5:ضعیف) پھر مسلمانوں کو ہوشیار کرتا ہے کہ تم ان دشمنان دین سے کیوں موّدت و محبت رکھتے ہو ؟ حالانکہ یہ تم سے بدسلوکی کرنے میں کسی موقعہ پر کمی نہیں کرتے کیا یہ تازہ واقعہ بھی تمہارے ذہن سے ہٹ گیا کہ انہوں نے تمہیں بلکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی جبراً وطن سے نکال باہر کیا اور اس کی کوئی اور وجہ نہ تھی سوائے اس کے کہ تمہاری توحید اور فرمانبرداریِ رسول ان پر گراں گزرتی تھی ۔ جیسے اور جگہ ہے «وَمَا نَقَمُوا مِنْہُمْ إِلَّا أَن یُؤْمِنُوا بِ اللہِ الْعَزِیزِ الْحَمِیدِ» (85-البروج:8) یعنی ’ مومنوں سے صرف اس بنا پر مخاصمت اور دشمنی ہے کہ وہ اللہ برتر بزرگ پر ایمان رکھتے ہیں ‘ ۔ اور جگہ ہے «الَّذِینَ أُخْرِجُوا مِن دِیَارِہِم بِغَیْرِ حَقٍّ إِلَّا أَن یَقُولُوا رَبٰنَا اللہُ» (22-الحج:40) ’ یہ لوگ محض اس وجہ سے ناحق جلا وطن کئے گئے کہ وہ کہتے تھے ہمارا رب اللہ ہے ‘ ۔ پھر فرماتا ہے ’ اگر سچ مچ تم میری راہ کے جہاد کو نکلے ہو اور میری رضا مندی کے طالب ہو تو ہرگز ان کفار سے جو تمہارے اور میرے دشمن ہیں میرے دین کو اور تمہارے جان و مال کو نقصان پہنچا رہے ہیں دوستیاں نہ پیدا کرو ، بھلا کس قدر غلطی ہے کہ تم ان سے پوشیدہ طور پر دوستانہ رکھو ؟ کیا یہ پوشیدگی اللہ سے بھی پوشیدہ رہ سکتی ہے ؟ جو ظاہر و باطن کا جاننے والا ہے ، دلوں کے بھید اور نفس کے وسوسے بھی جس کے سامنے کھلے ہوئے ہیں ‘ ۔ بس سن لو جو بھی ان کفار سے موالات و محبت رکھے وہ سیدھی راہ سے بھٹک جائے گا ۔ تم نہیں دیکھ رہے ؟ کہ ان کافروں کا اگر بس چلے ، اگر انہیں کوئی موقعہ مل جائے تو نہ اپنے ہاتھ پاؤں سے تمہیں نقصان پہنچانے میں دریغ کریں ، نہ برا کہنے سے اپنی زبانیں روکیں ، جو ان کے امکان میں ہو گا وہ کر گزریں گے بلکہ تمام تر کوشش اس امر پر صرف کر دیں گے کہ تمہیں بھی اپنی طرح کافر بنا لیں ، پس جب کہ ان کی اندرونی اور بیرونی دشمنی کا حال تمہیں بخوبی معلوم ہے ، پھر کیا اندھیر ہے ؟ کہ تم اپنے دشمنوں کو دوست سمجھ رہے ہو اور اپنی راہ میں خود کانٹے بو رہے ہو ، غرض یہ ہے کہ مسلمانوں کو کافروں پر اعتماد کرنے اور ان سے ایسے گہرے تعلقات رکھنے اور دلی میل رکھنے سے روکا جا رہا ہے اور وہ باتیں یاد دلائی جا رہی ہیں جو ان سے علیحدگی پر آمادہ کر دیں ۔ تمہاری قرابتیں اور رشتہ داریاں تمہیں اللہ کے ہاں کچھ کام نہ آئیں گی ، اگر تم اللہ کو ناراض کر کے انہیں خوش کرو اور چاہو کہ تمہیں نفع ہو یا نقصان ہٹ جائے یہ بالکل خام خیالی ہے ، نہ اللہ کی طرف کے نقصان کو کوئی ٹال سکے ، نہ اس کے دیئے ہوئے نفع کو کوئی روک سکے ، اپنے والوں سے ان کے کفر پر جس نے موافقت کی وہ برباد ہوا ، گو رشتہ دار کیسا ہی ہو کچھ نفع نہیں ۔ مسند احمد میں ہے کہ { ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ! میرا باپ کہاں ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جہنم میں “ ، جب وہ جانے لگا تو آپ نے اسے بلایا اور فرمایا : ” «إِنَّ أَبِی وَأَبَاک فِی النَّار» سن میرا باپ اور تیرا باپ دونوں ہی جہنمی ہیں “ ۔ یہ حدیث صحیح مسلم شریف میں اور سنن ابوداؤد میں بھی ہے ۔ (صحیح مسلم:203) الممتحنة
2 الممتحنة
3 الممتحنة
4 عصبیت دین ایمان جز لاینفک ہیں اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو کفار سے موالات اور دوستی نہ کرنے کی ہدایت فرما کر ان کے سامنے اپنے خلیل اور ان کے اصحاب کا نمونہ پیش کر رہا ہے کہ انہوں نے صاف طور پر اپنے رشتہ کنبے اور قوم کے لوگوں سے برملا فرما دیا کہ ہم تم سے اور جنہیں تم پوجتے ہو ان سے بیزار ، بری الذمہ اور الگ تھلگ ہیں ، ہم تمہارے دین اور طریقے سے متنفر ہیں ، جب تک تم اسی طریقے اور اسی مذہب پر ہو ، تم ہمیں اپنا دشمن سمجھو ، ناممکن ہے کہ برادری کی وجہ سے ہم تمہارے اس کفر کے باوجود تم سے بھائی چارہ اور دوستانہ تعلقات رکھیں ، ہاں یہ اور بات ہے کہ اللہ تمہیں ہدایت دے اور تم اللہ وحدہ لاشریک لہ پر ایمان لے آؤ اس کی توحید کو مان لو اور اسی ایک کی عبادت شروع کر دو اور جن جن کو تم نے اللہ کا شریک اور ساجھی ٹھہرا رکھا ہے اور جن جن کی پوجا پاٹ میں مشغول ہو ان سب کو ترک کر دو اپنی اس روش کفر اور طریق شرک سے ہٹ جاؤ ، تم پھر بیشک ہمارے بھائی ہو ، ہمارے عزیز ہو ، ورنہ ہم میں تم میں کوئی اتحاد و اتفاق نہیں ، ہم تم سے اور تم ہم سے علیحدہ ہو ، ہاں یہ یاد رہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے اپنے والد سے جو استغفار کا وعدہ کیا تھا اور پھر اسے پورا کیا اس میں ان کی اقتداء نہیں ، اس لیے کہ یہ استغفار اس وقت تک رہا جس وقت تک کہ اپنے والد کا دشمن اللہ ہونا ان پر وضاحت کے ساتھ ظاہر نہ ہوا تھا جب انہیں یقینی طور پر اس کی اللہ سے دشمنی کھل گئی تو اس سے صاف بیزاری ظاہر کر دی ، بعض مومن اپنے مشرک ماں باپ کے لیے دعا و استغفار کرتے تھے اور سند میں ابراہیم علیہ السلام کا اپنے والد کے لیے دعا مانگنا پیش کرتے تھے اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنا فرمان «مَا کَانَ لِلنَّبِیِّ وَالَّذِینَ آمَنُوا أَن یَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِکِینَ وَلَوْ کَانُوا أُولِی قُرْبَیٰ مِن بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّہُمْ أَصْحَابُ الْجَحِیمِ وَمَا کَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَاہِیمَ لِأَبِیہِ إِلَّا عَن مَّوْعِدَۃٍ وَعَدَہَا إِیَّاہُ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہُ أَنَّہُ عَدُوٌّ لِّلَّـہِ تَبَرَّأَ مِنْہُ ۚ إِنَّ إِبْرَاہِیمَ لَأَوَّاہٌ حَلِیمٌ» (9-التوبہ:113-114) پوری دو آیتوں تک نازل فرمایا اور یہاں بھی اسوہ ابراہیمی میں سے اس کا استثناء کر لیا کہ اس بات میں ان کی پیروی تمہارے لیے ممنوع ہے اور ابراہیم علیہ السلام کے اس استغفار کی تفصیل بھی کر دی اور اس کا خاص سبب اور خاص وقت بھی بیان فرما دیا ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما ، مجاہد ، قتادہ ، مقاتل بن حیان ، ضحاک رحمہا اللہ علیہم وغیرہ نے بھی یہی مطلب بیان کیا ہے ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ قوم سے براءت کر کے اب اللہ کی بارگاہ میں آتے ہیں اور جناب باری میں عاجزی اور انکساری سے عرض کرتے ہیں کہ باری تعالیٰ تمام کاموں میں ہمارا بھروسہ اور اعتماد تیری ہی پاک ذات پر ہے ، ہم اپنے تمام کام تجھے سونپتے ہیں ، تیری طرف رجوع و رغبت کرتے ہیں ، دار آخرت میں بھی ہمیں تیری ہی جانب لوٹنا ہے ۔ الممتحنة
5 مومنوں کی دعا پھر کہتے ہیں الٰہی تو ہمیں کافروں کے لیے فتنہ نہ بنا ، یعنی ایسا نہ ہو کہ یہ ہم پر غالب آ کر ہمیں مصیبت میں مبتلا کر دیں ، اسی طرح یہ بھی نہ ہو کہ تیری طرف سے ہم پر کوئی عتاب و عذاب نازل ہو اور وہ ان کے اور بہکنے کا سبب بنے کہ اگر یہ حق پر ہوتے تو اللہ انہیں عذاب کیوں کرتا ؟ اگر یہ کسی میدان میں جیت گئے تو بھی ان کے لیے یہ فتنہ کا سبب ہو گا وہ سمجھیں گے کہ ہم اس لیے غالب آئے کہ ہم ہی حق پر ہیں ، اسی طرح اگر یہ ہم پر غالب آ گئے تو ایسا نہ ہو کہ ہمیں تکلیفیں پہنچا پہنچا کر تیرے دین سے برگشتہ کر دیں ۔ پھر دعا مانگتے ہیں کہ الٰہی ہمارے گناہوں کو بھی بخش دے ، ہماری پردہ پوشی کر اور ہمیں معاف فرما ، تو عزیز ہے تیری جناب میں پناہ لینے والا نامراد نہیں پھرتا ، تیرے در پر دستک دینے والا خالی ہاتھ نہیں جاتا ، تو اپنی شریعت کے تقرر میں ، اپنے اقوال و افعال میں اور قضاء و قدر کے مقدر کرنے میں حکمتوں والا ہے ، تیرا کوئی کام الحکمت سے خالی نہیں ۔ پھر بطور تاکید کے وہی پہلی بات دہرائی جاتی ہے کہ ان میں تمہارے لیے نیک نمونہ ہے جو بھی اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے آنے کی حقانیت پر ایمان رکھتا ہو اسے ان کی اقتداء میں آگے بڑھ کر قدم رکھنا چاہیئے اور جو احکام اللہ سے روگردانی کرے وہ جان لے کہ اللہ اس سے بےپرواہ ہے ، وہ لائق حمد و ثناء ہے ، مخلوق اس خالق کی تعریف میں مشغول ہے ، جیسے اور جگہ ہے «إِن تَکْفُرُوا أَنتُمْ وَمَن فِی الْأَرْضِ جَمِیعًا فَإِنَّ اللہَ لَغَنِیٌّ حَمِیدٌ » (14-ابراھیم:8) ” اگر تم اور تمام روئے زمین کے لوگ کفر پر اور اللہ کے نہ ماننے پر اتر آئیں تو اللہ تعالیٰ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے اللہ تعالیٰ سب سے غنی سب سے بے نیاز اور سب سے بےپرواہ ہے اور وہ تعریف کیا گیا ہے “ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں غنی اسے کہا جاتا ہے جو اپنی غنا میں کامل ہو ۔ اللہ تعالیٰ ہی کی یہ صفت ہے کہ وہ ہر طرح سے بے نیاز اور بالکل بےپرواہ ہے کسی اور کی ذات ایسی نہیں ، اس کا کوئی ہمسر نہیں اس کے مثل کوئی اور نہیں ، وہ پاک ہے ، اکیلا ہے ، سب پر حاکم ، سب پر غالب ، سب کا بادشاہ ہے ، حمید ہے یعنی مخلوق اسے سراہ رہی ہے ، اپنے جمیع اقوال میں تمام افعال میں وہ ستائشوں اور تعریفوں والا ہے ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں اس کے سوا کوئی پالنے والا نہیں ، رب وہی ہے معبود وہی ہے ۔ الممتحنة
6 الممتحنة
7 کفار سے محبت کی ممانعت کی دوبارہ تاکید کافروں سے محبت رکھنے کی ممانعت اور ان کی بغض و عداوت کے بیان کے بعد اب ارشاد ہوتا ہے کہ بسا اوقات ممکن ہے کہ ابھی ابھی اللہ تم میں اور ان میں میل ملاپ کرا دے ، بغض ، نفرت اور فرقت کے بعد محبت موّدت اور الفت پیدا کر دے ، کون سی چیز ہے جس پر اللہ قادر نہ ہو ؟ وہ متبائن اور مختلف چیزوں کو جمع کر سکتا ہے ، عداوت و قساوت کے بعد دلوں میں الفت و محبت پیدا کر دینا اس کے ہاتھ ہے ۔ جیسے اور جگہ انصار پر اپنی نعمت بیان فرماتے ہوئے ارشاد ہوا ہے «وَاذْکُرُوا نِعْمَتَ اللہِ عَلَیْکُمْ إِذْ کُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَیْنَ قُلُوبِکُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِہِ إِخْوَانًا وَکُنتُمْ عَلَیٰ شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَکُم مِّنْہَا» (3-آل عمران:103) الخ ’ تم پر جو اللہ کی نعمت ہے اسے یاد کرو کہ تمہاری دلی عداوت کو اس نے الفت قلبی سے بدل دیا اور تم ایسے ہو گئے جیسے ماں جائے بھائی ہوں تم آگ کے کنارے پہنچ چکے تھے لیکن اس نے تمہیں وہاں سے بچا لیا ۔ ‘ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصاریوں سے فرمایا : ” کیا میں نے تمہیں گمراہی کی حالت میں نہیں پایا تھا ؟ پھر اللہ تعالیٰ نے میری وجہ سے تمہیں ہدایت دی اور تم متفرق تھے میری وجہ سے اللہ تعالیٰ نے تمہیں جمع کر دیا ۔ “ } (صحیح بخاری:4330) قرآن کریم میں ہے «ہُوَ الَّذِی أَیَّدَکَ بِنَصْرِہِ وَبِالْمُؤْمِنِینَ وَأَلَّفَ بَیْنَ قُلُوبِہِمْ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِی الْأَرْضِ جَمِیعًا مَّا أَلَّفْتَ بَیْنَ قُلُوبِہِمْ وَلٰکِنَّ اللہَ أَلَّفَ بَیْنَہُمْ إِنَّہُ عَزِیزٌ حَکِیمٌ» (8-الأنفال:63) ’ اللہ تعالیٰ نے اپنی مدد سے مومنوں کو ساتھ کر کے ، اے نبی ! تیری مدد کی اور ایمان داروں میں آپس میں وہ محبت اور یکجہتی پیدا کر دی کہ اگر روئے زمین کی دولت خرچ کرتے اور یگانگت پیدا کرنا چاہتے تو وہ نہ کر سکتے یہ الفت منجانب اللہ تھی جو عزیز و حکیم ہے ‘ ۔ { ایک حدیث میں ہے دوستوں کی دوستی کے وقت بھی اس بات کو پیش نظر رکھو کہ کیا عجب اس سے کسی وقت دشمنی ہو جائے اور دشمنوں کی دشمنی میں بھی حد سے تجاوز نہ کرو کیا خبر کب دوستی ہو جائے ۔ } (سنن ترمذی:1997،قال الشیخ الألبانی:صحیح) عرب شاعر کہتا ہے «وَقَدْ یَجْمَع اللَّہ الشَّتِیتَیْنِ بَعْد مَا»« یَظُنَّانِ کُلّ الظَّنّ أَنْ لَا تَلَاقِیَا» یعنی ایسے دو دشمنوں میں بھی جو ایک سے ایک جدا ہوں اور اس طرح کہ دل میں گرہ دے لی ہو کہ ابد الآباد تک اب کبھی نہ ملیں گے اللہ تعالیٰ اتفاق و اتحاد پیدا کر دیتا ہے اور اس طرح ایک ہو جاتے ہیں کہ گویا کبھی دو نہ تھے ، اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے ، کافر جب توبہ کریں تو اللہ قبول فرما لے گا جب وہ اس کی طرف جھکیں وہ انہیں اپنے سائے میں لے لے گا ، کوئی سا گناہ ہو اور کوئی سا گنہگار ہو مالک کی طرف جھکا ادھر اس کی رحمت کی آغوش کھلی ۔ مقاتل بن حیان رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ آیت ابوسفیان صخر بن حرب رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے ان کی صاحبزادی صاحبہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کر لیا تھا اور یہی مناکحت حجت کا سبب بن گئی ، لیکن یہ قول کچھ جی کو نہیں لگتا اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ نکاح فتح مکہ سے بہت پہلے ہوا تھا اور سیدنا ابوسفیان رضی اللہ عنہ کا اسلام بالاتفاق فتح مکہ کی رات کا ہے ، بلکہ اس سے بہت اچھی توجیہ تو وہ ہے جو ابن ابی حاتم میں مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوسفیان صخر بن حرب رضی اللہ عنہ کو کسی باغ کے پھلوں کا عامل بنا رکھا تھا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد یہ آ رہے تھے کہ راستے میں ذوالحمار مرتد مل گیا ، آپ نے اس سے جنگ کی اور باقاعدہ لڑے ، پس مرتدین سے پہلے پہل لڑائی لڑنے والے مجاہد فی الدین آپ رضی اللہ عنہ ہیں ، ابن شہاب رحمہ اللہ کا قول ہے کہ انہی کے بارے میں یہ آیت « عَسَی اللہُ أَن یَجْعَلَ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَ الَّذِینَ عَادَیْتُم مِّنْہُم مَّوَدَّۃً وَ اللہُ قَدِیرٌ وَ اللہُ غَفُورٌ رَّحِیمٌ » (الممتحنہ:7) ، اتری ہے ۔ صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ { سیدنا ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کرنے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ یا رسول اللہ! میری تین درخواستیں ہیں اگر اجازت ہو تو عرض کروں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” کہو “ اس نے کہا ، اول تو یہ کہ مجھے اجازت دیجئیے کہ جس طرح میں کفر کے زمانے میں مسلمانوں سے مسلسل جنگ کرتا رہا اب اسلام کے زمانہ میں کافروں سے برابر لڑائی جاری رکھوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے منظور فرمایا ، پھر کہا : میرے لڑکے معاویہ کو اپنا منشی بنا لیجئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بھی منظور فرمایا ( اس پر جو کلام ہے وہ پہلے گزر چکا ہے ) اور میری بہترین عرب بچی ام حبیبہ کو آپ اپنی زوجیت میں قبول فرمائیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی منظور فرما لیا ۔ } (صحیح مسلم:2501) ( اس پر بھی کلام پہلے گزر چکا ہے ) ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ جن کفار نے تم سے مذہبی لڑائی نہیں کی ، نہ تمہیں جلا وطن کیا جیسے عورتیں اور کمزور لوگ وغیرہ ان کے ساتھ سلوک و احسان اور عدل و انصاف کرنے سے اللہ تبارک و تعالیٰ تمہیں نہیں روکتا بلکہ وہ تو ایسے باانصاف لوگوں سے محبت رکھتا ہے ، بخاری مسلم میں ہے کہ { سیدہ اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہما کے پاس ان کی مشرک ماں آئیں یہ اس زمانہ کا ذکر ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مشرکین مکہ کے درمیان صلح نامہ ہو چکا تھا ، سیدہ اسماء رضی اللہ عنہما خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہو کر مسئلہ پوچھتی ہیں کہ میری ماں آئی ہوئی ہیں اور اب تک وہ اس دین سے الگ ہیں کیا مجھے جائز ہے کہ میں ان کے ساتھ صلہ رحمی کروں ؟ آپ نے فرمایا : ” ہاں ،جاؤ ان سے صلہ رحمی کرو۔ “ (صحیح بخاری:2620) مسند کی اس روایت میں ہے کہ ان کا نام قتیلہ تھا ، یہ مکہ سے گوہ ، پنیر اور گھی بطور تحفہ لے کر آئی تھیں ، لیکن سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے اپنی مشرکہ ماں کو نہ تو اپنے گھر میں آنے دیا ، نہ یہ تحفہ ہدیہ قبول کیا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت پر ہدیہ بھی لیا اور اپنے ہاں ٹھہرایا بھی ، بزار کی حدیث میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا نام بھی ہے لیکن یہ ٹھیک نہیں اس لیے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی والدہ کا نام ام رومان تھا اور وہ اسلام لا چکی تھیں اور ہجرت کر کے مدینہ میں تشریف لائی تھیں ، ہاں سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کی والدہ ام رومان نہ تھیں ، چنانچہ ان کا نام قتیلہ اوپر کی حدیث میں مذکور ہے ۔ (مسندبزار2/365ضعیف) «وَاللہُ اَعْلَمُ» «مُقْسِطِینَ» کی تفسیر سورۃ الحجرات میں گزر چکی ہے جنہیں اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے ، حدیث میں ہے «مُقْسِطِینَ» وہ لوگ ہیں جو عدل کے ساتھ حکم کرتے ہیں گو اہل و عیال کا معاملہ ہو یا زیر دستوں کا یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے عرش کے دائیں جانب نور کے منبروں پر ہوں گے ۔ (صحیح مسلم:1827) پھر فرماتا ہے کہ اللہ کی ممانعت تو ان لوگوں کی دوستی سے ہے جو تمہاری عداوت سے تمہارے مقابل نکل کھڑے ہوئے ، تم سے صرف تمہارے مذہب کی وجہ سے لڑے جھگڑے ، تمہیں تمہارے شہروں سے نکال دیا ، تمہارے دشمنوں کی مدد کی ۔ پھر مشرکین سے اتحاد و اتفاق ، دوستی ، یکجہتی رکھنے والے کو دھمکاتا ہے اور اس کا گناہ بتاتا ہے کہ ایسا کرنے والے ظالم گناہ گار ہیں اور جگہ فرمایا «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْیَہُودَ وَالنَّصَارَیٰ أَوْلِیَاءَ ۘ بَعْضُہُمْ أَوْلِیَاءُ بَعْضٍ وَمَن یَتَوَلَّہُم مِّنکُمْ فَإِنَّہُ مِنْہُمْ إِنَّ اللہَ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ» (5-المائدہ:51) یہودیوں نصرانیوں سے دوستی کرنے والا ہمارے نزدیک انہی جیسا ہے ۔ الممتحنة
8 الممتحنة
9 الممتحنة
10 مہاجر خواتین کے حوالے سے بعض ہدایات سورۃ الفتح کی تفسیر میں صلح حدیبیہ کا واقعہ مفصل بیان ہو چکا ہے ، اس صلح کے موقعہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور کفار قریش کے درمیان جو شرائط ہوئی تھیں ان میں ایک یہ بھی تھی کہ جو کافر مسلمان ہو کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلا جائے آپ اسے اہل مکہ کو واپس کر دیں ، لیکن قرآن کریم نے ان میں سے ان عورتوں کو مخصوص کر دیا کہ جو عورت ایمان قبول کر کے آئے اور فی الواقع ہو بھی وہ سچی ایماندار تو مسلمان اسے کافروں کو واپس نہ دیں ، حدیث شریف کی تخصیص قرآن کریم سے ہونے کی یہ ایک بہترین مثال ہے اور بعض سلف کے نزدیک یہ آیت اس حدیث کی ناسخ ہے ۔ اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ ام کلثوم بنت عقبہ بن ابومیط رضی اللہ عنہا مسلمان ہو کر ہجرت کر کے مدینہ چلی آئیں ، ان کے دونوں بھائی عمارہ اور ولید ان کے واپس لینے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے کہا سنا ، پس یہ آیت امتحان نازل ہوئی اور مومنہ عورتوں کو واپس لوٹانے سے ممانعت کر دی گئی ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سوال ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان عورتوں کا امتحان کس طرح لیتے تھے ؟ فرمایا : اس طرح کہ اللہ کی قسم کھا کر سچ سچ کہے کہ وہ اپنے خاوند کی ناچاقی کی وجہ سے نہیں چلی آئی ، صرف آب و ہوا اور زمین کی تبدیلی کرنے کے لیے بطور سیر و سیاحت نہیں آئی ، کسی دنیا طلبی کے لیے نہیں آئی بلکہ صرف اللہ کی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں اسلام کی خاطر ترک وطن کیا ہے اور کوئی غرض نہیں ، قسم دے کر ان سوالات کا کرنا اور خوب آزما لینا یہ کام سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے سپرد تھا ۔(تفسیر ابن جریر الطبری:33958:ضعیف) اور روایت میں ہے کہ امتحان اس طرح ہوتا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے معبود برحق اور لاشریک ہونے کی گواہی دیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اللہ کے بندے اور اس کے بھیجے ہوئے رسول ہونے کی شہادت دیں ، اگر آزمائش میں کسی غرض دنیوی کا پتہ چل جاتا تو انہیں واپس لوٹا دینے کا حکم تھا ۔ مثلاً یہ معلوم ہو جائے کہ میاں بیوی کی ان بن کی وجہ سے یا کسی اور شخص کی محبت میں چلی آئی ہے وغیرہ ۔ اس آیت کے اس جملہ سے کہ اگر تمہیں معلوم ہو جائے کہ یہ باایمان عورت ہے تو پھر اسے کافروں کی طرف مت لوٹاؤ ، ثابت ہوتا ہے کہ ایمان پر بھی یقینی طور پر مطلع ہو جانا ممکن امر ہے ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ مسلمان عورتیں کافروں پر اور کافر مرد مسلمان عورتوں کے لیے حلال نہیں ، اس آیت نے اس رشتہ کو حرام کر دیا ورنہ اس سے پہلے مومنہ عورتوں کا نکاح کافر مردوں سے جائز تھا ، جیسے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی زینب رضی اللہ عنہا کا نکاح ابوالعاص بن ربیع سے ہوا تھا حالانکہ یہ اس وقت کافر تھے اور بنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم مسلمہ تھیں ، بدر کی لڑائی میں یہ بھی کافروں کے ساتھ تھے اور جو کافر زندہ پکڑے گئے تھے ان میں یہ بھی گرفتار ہو کر آئے تھے زینب رضی اللہ عنہا نے اپنی والدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کا ہار ان کے فدیئے میں بھیجا تھا کہ یہ آزاد ہو کر آئیں جسے دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بڑی رقت طاری ہوئی اور آپ نے مسلمانوں سے فرمایا : ” اگر میری بیٹی کے قیدی کو چھوڑ دینا تم پسند کرتے ہو تو اسے رہا کر دو “ ، مسلمانوں نے بہ خوشی بغیر فدیہ کے انہیں چھوڑ دینا منظور کیا چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آزاد کر دیا اور فرما دیا کہ آپ کی صاحبزادی کو آپ کے پاس مدینہ میں بھیج دیں انہوں نے اسے منظور کر لیا اور سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھیج بھی دیا ۔ (سنن ابوداود:2692،قال الشیخ الألبانی:حسن) یہ واقعہ سنہ 2 ہجری کا ہے ، سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے مدینہ میں ہی اقامت فرمائی اور یونہی بیٹھی رہیں یہاں تک کہ سنہ ۸ ہجری میں ان کے خاوند ابوالعاص کو اللہ تعالیٰ نے توفیق اسلام دی اور وہ مسلمان ہو گئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اسی اگلے نکاح بغیر نئے مہر کے اپنی صاحبزادی کو ان کے پاس رخصت کر دیا ۔ (دلائل النبوۃ للبیھقی:154/3) اور روایت میں ہے کہ دو سال کے بعد ابوالعاص رضی اللہ عنہ مسلمان ہو گئے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی پہلے نکاح پر سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کو لوٹا دیا تھا یہی صحیح حدیث ہے ۔ (سنن ترمذی:1143،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اس لیے کہ مسلمان عورتوں کے مشرک مردوں پر حرام ہونے کے دو سال بعد یہ مسلمان ہو گئے تھے ، ایک اور روایت میں ہے کہ ان کے اسلام کے بعد نئے سرے سے نکاح ہوا اور نیا مہر بندھا ۔ (مسند احمد:208/2:ضعیف) امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یزید رحمہ اللہ نے فرمایا ہے پہلی روایت کے راوی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما ہیں اور وہ روایت ازروئے اسناد کے بہت اعلیٰ اور دوسری روایت کے راوی عمرو بن شعیب رحمہ اللہ ہیں اور عمل اسی پر ہے ، لیکن یہ یاد رہے کہ عمرو بن شعیب رحمہ اللہ والی روایت کے ایک راوی حجاج بن ارطاۃ کو امام احمد رحمتہ اللہ علیہ وغیرہ ضعیف بتاتے ہیں ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما والی حدیث کا جواب جمہور دیتے ہیں کہ یہ شخصی واقعہ ہے ممکن ہے کہ ان کی عدت ختم ہی نہ ہوئی ہو ، اکثر حضرات کا مذہب یہ ہے کہ اس صورت میں جب عورت نے عدت کے دن پورے کر لیے اور اب تک اس کا کافر خاوند مسلمان نہیں ہوا تو وہ نکاح فسخ ہو جاتا ہے ، ہاں بعض حضرات کا مذہب یہ بھی ہے کہ عدت پوری کر لینے کے بعد عورت کو اختیار ہے اگر چاہے اپنے اس نکاح کو باقی رکھے اگر چاہے فسخ کر کے دوسرا نکاح کر لے اور اسی پر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما والی روایت کو محمول کرتے ہیں ۔ پھر حکم ہوتا ہے کہ ان مہاجر عورتوں کے کافر خاوندوں کو ان کے خرچ اخراجات جو ہوئے ہیں وہ ادا کر دو جیسے کہ مہر ۔ پھر فرمان ہے کہ اب انہیں ان کے مہر دے کر ان سے نکاح کر لینے میں تم پر کوئی حرج نہیں ، عدت کا گزر جانا ولی کا مقرر کرنا وغیرہ جو امور نکاح میں ضروری ہیں ان شرائط کو پورا کر کے ان مہاجرہ عورتوں سے جو مسلمان نکاح کرنا چاہے کر سکتا ہے ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ تم پر بھی اے مسلمانو ان عورتوں کا اپنے نکاح میں باقی رکھنا حرام ہے جو کافرہ ہیں ، اسی طرح کافر عورتوں سے نکاح کرنا بھی حرام ہے اس حکم کے نازل ہوتے ہی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی دو کافرہ بیویوں کو فوراً طلاق دے دی جن میں سے ایک نے تو معاویہ بن سفیان سے نکاح کر لیا اور دوسری نے صفوان بن امیہ سے ۔ (مسند احمد:328/4:صحیح) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کافروں سے صلح کی اور ابھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ کے نیچے کے حصے میں ہی تھے کہ یہ آیت «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِذَا جَاءَکُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُہَاجِرَاتٍ فَامْتَحِنُوہُنَّ» (الممتحنہ:10) الخ ، نازل ہوئی اور مسلمانوں سے کہہ دیا گیا کہ جو عورت مہاجرہ آئے اس کا باایمان ہونا اور خلوص نیت سے ہجرت کرنا بھی معلوم ہو جائے تو اس کے کافر خاوندوں کو ان کے دیئے ہوئے مہر واپس کر دو ، اسی طرح کافروں کو بھی یہ حکم سنا دیا گیا ، اس حکم کی وجہ وہ عہد نامہ تھا جو ابھی ابھی مرتب ہوا تھا ۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنی جن دو کافرہ بیویوں کو طلاق دی ان میں سے پہلی کا نام قریبہ تھا یہ ابوامیہ بن مغیرہ کی لڑکی تھی اور دوسری کا نام ام کلثوم تھا جو عمرو بن حرول خزاعی کی لڑکی تھی سیدنا عبیداللہ رضی اللہ عنہ کی والدہ یہ ہی تھیں ، اس سے ابوجہم بن حذیفہ بن غانم خزاعی نے نکاح کر لیا یہ بھی مشرک تھا ، اسی طرح اس حکم کے ماتحت سیدنا طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ نے اپنی کافرہ بیوی ارویٰ بنت ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب کو طلاق دے دی ، اس سے خالد بن سعید بن عاص نے نکاح کر لیا ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے تمہاری بیویوں پر جو تم نے خرچ کیا ہے اسے کافروں سے لے لو جبکہ وہ ان میں چلی جائیں اور کافروں کی عورتیں جو مسلمان ہو کر تم میں آ جائیں انہیں تم ان کا کیا ہوا خرچ دے دو ۔ صلح کے بارے میں اور عورتوں کے بارے میں اللہ کا فیصلہ بیان ہو چکا جو اس نے اپنی مخلوق میں کر دیا ، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی تمام تر مصلحتوں سے باخبر ہے اور اس کا کوئی حکم حکمت سے خالی نہیں ہوتا اس لیے کہ «علی الاطلاق حکیم» وہی ہے ۔ اس کے بعد کی آیت «وَإِن فاتَکُم شَیءٌ مِن أَزواجِکُم إِلَی الکُفّارِ فَعاقَبتُم فَآتُوا الَّذینَ ذَہَبَت أَزواجُہُم مِثلَ ما أَنفَقوا وَاتَّقُوا اللہَ الَّذی أَنتُم بِہِ مُؤمِنونَ» (الممتحنہ:11) ، کا مطلب قتادہ رحمتہ اللہ علیہ یہ بیان فرماتے ہیں کہ جن کفار سے تمہارا عہد و پیمان صلح و صفائی نہیں ، اگر کوئی عورت کسی مسلمان کے گھر سے جا کر ان میں جا ملے تو ظاہر ہے کہ وہ اس کے خاوند کا کیا ہوا خرچ نہیں دیں گے تو اس کے بدلے تمہیں بھی اجازت دی جاتی ہے کہ اگر ان میں سے کوئی عورت مسلمان ہو کر تم میں چلی آئے تو تم بھی اس کے خاوند کو کچھ نہ دو جب تک وہ نہ دیں ۔ زہری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں مسلمانوں نے تو اللہ کے اس حکم کی تعمیل کی اور کافروں کی جو عورتیں مسلمان ہو کر ہجرت کر کے آئیں ان کے لیے ہوئے مہر ان کے خاوندوں کو واپس کئے لیکن مشرکوں نے اس حکم کے ماننے سے انکار کر دیا اس پر یہ آیت اتری اور مسلمانوں کو اجازت دی گئی کہ اگر تم میں سے کوئی عورت ان کے ہاں چلی گئی ہے اور انہوں نے تمہاری خرچ کی ہوئی رقم ادا نہیں کی تو جب ان میں سے کوئی عورت تمہارے ہاں آ جائے تو تم اپنا وہ خرچ نکال کر باقی اگر کچھ بچے تو دے دو ورنہ معاملہ ختم ہوا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس کا یہ مطلب مروی ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا جاتا ہے کہ جو مسلمان عورت کافروں میں جا ملے اور کافر اس کے خاوند کو اس کا کیا ہوا خرچ ادا نہ کریں تو مال غنیمت میں سے آپ اس مسلمان کو بقدر اس کے خرچ کے دے دیں ، پس «فَعَاقَبْتُمْ» کے معنی یہ ہوئے کہ پھر تمہیں قریش یا کسی اور جماعت کفار سے مال غنیمت ہاتھ لگے تو ان مردوں کو جن کی عورتیں کافروں میں چلی گئی ہیں ان کا کیا ہوا خرچ ادا کر دو ، یعنی مہر مثل ، ان اقوال میں کوئی تضاد نہیں اور خلاف نہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ پہلی صورت اگر ناممکن ہو تو وہ سہی ورنہ مال غنیمت میں سے اسے اس کا حق دے دیا جائے دونوں باتوں میں اختیار ہے اور حکم میں وسعت ہے ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ اس تطبیق کو پسند فرماتے ہیں ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» الممتحنة
11 الممتحنة
12 خواتین کا طریقہ بیعت صحیح بخاری میں ہے { سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : جو مسلمان عورتیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہجرت کر کے آتی تھیں ان کا امتحان اسی آیت سے ہوتا تھا ، جو عورت ان تمام باتوں کا اقرار کر لیتی اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم زبانی فرما دیتے کہ میں نے تم سے بیعت کی یہ نہیں کہ آپ ان کے ہاتھ سے ہاتھ ملاتے ہوں اللہ کی قسم آپ نے کبھی بیعت کرتے ہوئے کسی عورت کے ہاتھ کو ہاتھ نہیں لگایا صرف زبانی فرما دیتے کہ ان باتوں پر میں نے تیری بیعت لی } ۔ (صحیح بخاری:4891) ترمذی، نسائی ابن ماجہ مسند احمد وغیرہ میں ہے کہ سیدہ امیمہ بنت رقیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کئی ایک عورتوں کے ساتھ میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرنے کے لیے حاضر ہوئی تو قرآن کی اس آیت کے مطابق آپ نے ہم سے عہد و پیمان لیا اور ہم بھلی باتوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی نہ کریں گی کے اقرار کے وقت فرمایا یہ بھی کہہ لو کہ جہاں تک تمہاری طاقت ہے ، ہم نے کہا : اللہ کو اور اس کے رسول کو ہمارا خیال ہم سے بہت زیادہ ہے اور ان کی مہربانی بھی ہم پر خود ہماری مہربانی سے بڑھ چڑھ کر ہے ، پھر ہم نے کہا : یا رسول اللہ ! آپ ہم سے مصافحہ نہیں کرتے ؟ فرمایا : ” نہیں ، میں غیر عورتوں سے مصافحہ نہیں کیا کرتا میرا ایک عورت سے کہہ دینا سو عورتوں کی بیعت کے لیے کافی ہے ، بس بیعت ہو چکی “ ، امام ترمذی رحمہ اللہ اس حدیث کو حسن صحیح کہتے ہیں ، مسند احمد میں اتنی زیادتی اور بھی ہے کہ ہم میں سے کسی عورت کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مصافحہ نہیں کیا ، (سنن ترمذی:1598،قال الشیخ الألبانی:صحیح) یہ سیدہ امیمہ ، خدیجہ رضی اللہ عنہا کی بہن اور فاطمہ رضی اللہ عنہا کی خالہ ہیں ، مسند احمد میں سیدہ سلمیٰ بنت قیس رضی اللہ عنہا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خالہ تھیں اور دونوں قبلوں کی طرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کی تھی ، جو بنو عدی بن نجار کے قبیلہ میں سے تھیں ، فرماتی ہیں : انصار کی عورتوں کے ساتھ خدمت نبوی میں بیعت کرنے کے لیے میں بھی آئی تھی اور اس آیت میں جن باتوں کا ذکر ہے ان کا ہم نے اقرار کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اس بات کا بھی اقرار کرو کہ اپنے خاوندوں کی خیانت اور ان کے ساتھ دھوکہ نہ کرو گی “ ، ہم نے اس کا بھی اقرار کیا بیعت کی اور جانے لگیں پھر مجھے خیال آیا اور ایک عورت کو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا کہ وہ دریافت کر لیں کہ خیانت و دھوکہ نہ کرنے سے آپ کا کیا مطلب ہے ؟ آپ نے فرمایا : ” یہ کہ اس کا مال چپکے سے کسی اور کو نہ دو “ ۔ (مسند احمد:6/379ضعیف) مسند کی حدیث میں ہے { سیدہ عائشہ بنت قدامہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں اپنی والدہ رایطہ بنت سفیان نزاعیہ کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرنے والیوں میں تھی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان باتوں پر بیعت لے رہے تھے اور عورتیں ان کا اقرار کرتی تھیں میری والدہ کے فرمان سے میں نے بھی اقرار کیا اور بیعت والیوں میں شامل ہوئی } ، (صحیح بخاری:4892) صحیح بخاری میں { سیدہ ام عطیہ سے منقول ہے کہ ہم نے ان باتوں پر اور اس امر پر کہ ہم کسی مرے پر نوحہ نہ کریں گی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی ، اسی اثناء میں ایک عورت نے اپنا ہاتھ سمیٹ لیا اور کہا میں نوحہ کرنے سے باز رہنے پر بیعت نہیں کرتی اس لیے کہ فلاں عورت نے میرے فلاں مرے پر نوحہ کرنے میں میری مدد کی ہے تو میں اس کا بدلہ ضرور اتاروں گی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے سن کر خاموش ہو رہے اور کچھ نہ فرمایا وہ چلی گئیں لیکن پھر تھوڑی ہی دیر میں واپس آئیں اور بیعت کر لی ۔ مسلم شریف میں بھی یہ حدیث ہے اور اتنی زیادتی بھی ہے کہ اس شرط کو صرف اس عورت نے اور سیدہ ام سلیم بنت ملحان رضی اللہ عنہا نے ہی پورا کیا ، (صحیح بخاری:4892) بخاری کی اور روایت میں ہے کہ { پانچ عورتوں نے اس عہد کو پورا کیا ، ام سلیم ، ام علام ، ابوسبرہ کی بیٹی جو سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں اور دو عورتیں اور یا ابوسبرہ کی بیٹی اور سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کی بیوی اور ایک عورت اور ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید والے دن بھی عورتوں سے اس بیعت کا معاہدہ لیا کرتے تھے } ، (صحیح بخاری:1306) صحیح بخاری میں ہے { سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رمضان کی عید کی نماز میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور ابوبکر ، عمر ، عثمان رضی اللہ عنہم کے ساتھ پڑھی ہے سب کے سب خطبے سے پہلے نماز پڑھتے تھے ، پھر نماز کے بعد خطبہ کہتے تھے ، ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبے سے اترے گویا وہ نقشہ میری نگاہ کے سامنے ہے کہ لوگوں کو بٹھایا جاتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے درمیان سے تشریف لا رہے تھے ، یہاں تک کہ عورتوں کے پاس آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ تھے یہاں پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی آیت «یَا أَیٰہَا النَّبِیٰ إِذَا جَاءَکَ الْمُؤْمِنَاتُ یُبَایِعْنَکَ عَلَیٰ أَن لَّا یُشْرِکْنَ بِ اللہِ شَیْئًا وَلَا یَسْرِقْنَ وَلَا یَزْنِینَ وَلَا یَقْتُلْنَ أَوْلَادَہُنَّ وَلَا یَأْتِینَ بِبُہْتَانٍ یَفْتَرِینَہُ بَیْنَ أَیْدِیہِنَّ وَأَرْجُلِہِنَّ وَلَا یَعْصِینَکَ فِی مَعْرُوفٍ فَبَایِعْہُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَہُنَّ اللہَ إِنَّ اللہَ غَفُورٌ رَّحِیمٌ» (الممتحنہ:12) کی تلاوت کی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ کیا تم اپنے اس اقرار پر ثابت قدم ہو ایک عورت نے کھڑے ہو کر جواب دیا کہ ہاں ، اے اللہ کے رسول ! اس پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہیں کسی اور نے جواب نہیں دیا ، راوی حدیث حسن رحمہ اللہ کو یہ معلوم نہیں کہ یہ جواب دینے والی کون سی عورت تھیں ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اچھا خیرات کرو “ اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے اپنا کپڑا پھیلا دیا چنانچہ عورتوں نے اس پر بےنگینہ کی اور نگینہ دار انگوٹھیاں راہ اللہ ڈال دیں } ۔ (صحیح بخاری:4895) مسند احمد کی روایت میں { سیدہ امیمہ رضی اللہ عنہا کی بیعت کے ذکر میں آیت کے علاوہ اتنا اور بھی ہے کہ نوحہ کرنا اور جاہلیت کے زمانہ کی طرح اپنا بناؤ سنگھار غیر مردوں کو نہ دکھانا } ،(مسند احمد:196/2:صحیح) بخاری مسلم کی حدیث میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں سے بھی ایک مجلس میں فرمایا کہ مجھ سے ان باتوں پر بیعت کرو جو اس آیت میں ہیں ، جو شخص اس بیعت کو نبھا دے اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے اور جو اس کے خلاف کر گزرے اور وہ مسلم حکومت سے پوشیدہ رہے اس کا حساب اللہ کے پاس ہے اگر چاہے بخش دے اور اگر چاہے عذاب کرے } ۔ (صحیح بخاری:18) سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عقبہ اولیٰ میں ہم بارہ شخصوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی اور انہی باتوں پر جو اس آیت میں مذکور ہیں آپ نے ہم سے بیعت لی اور فرمایا : ” اگر تم اس پر پورے اترے تو یقیناً تمہارے لیے جنت ہے “ ، یہ واقعہ جہاد کی فرضیت سے پہلے کا ہے ۔ ابن جریر کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ عورتوں سے کہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم سے اس بات پر بیعت لیتے ہیں کہ تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو ، ان کی بیعت کے لیے آنے والیوں میں سیدہ ہندہ رضی اللہ عنہا تھیں ، عقبہ بن ربیعہ کی بیٹی اور سفیان کی بیوی یہی تھیں جنہوں نے اپنے کفر کے زمانہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کا پیٹ چیر دیا تھا اس وجہ سے یہ ان عورتوں میں ایسی حالت سے آئی تھیں کہ کوئی انہیں پہچان نہ سکے اس نے جب فرمان سنا تو کہنے لگی میں کچھ کہنا چاہتی ہوں لیکن اگر بولوں گی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے پہچان لیں گے اور اگر پہچان لیں گے تو میرے قتل کا حکم دے دیں گے ، میں اسی وجہ سے اس طرح آئی ہوں کہ نہ پہچانی جاؤں ، مگر اور عورتیں سب خاموش رہیں اور ان کی بات اپنی زبان سے کہنے سے انکار کر دیا ، آخر ان ہی کو کہنا پڑا کہ یہ ٹھیک ہے جب شرک کی ممانعت مردوں کو ہے تو عورتوں کو کیوں نہ ہو گی ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف دیکھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ نہ فرمایا ، پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہا ان سے کہہ دو کہ دوسری بات یہ ہے کہ یہ چوری نہ کریں ، اس پر ہندہ رضی اللہ عنہا نے کہا میں ابوسفیان کی معمولی سی چیز کبھی کبھی لے لیا کرتی ہوں کیا یہ بھی چوری میں دخل ہے یا نہیں ؟ اور میرے لیے یہ حلال بھی ہے یا نہیں ؟ سیدنا ابوسفیان رضی اللہ عنہ بھی اسی مجلس میں موجود تھے ، یہ سنتے ہی کہنے لگے ، میرے گھر میں جو کچھ بھی تو نے لیا ہو خواہ وہ خرچ میں آ گیا ہو یا اب بھی باقی ہو وہ سب میں تیرے لیے حلال کرتا ہوں ، اب تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف پہچان لیا کہ یہ میرے چچا حمزہ رضی اللہ عنہ کی قاتلہ اور اس کے کلیجے کو چیرنے والی پھر اسے چبانے والی عورت ہندہ رضی اللہ عنہا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پہچان کر اور ان کی یہ گفتگو دیکھ کر مسکرا دیئے اور انہیں اپنے پاس بلایا انہوں نے آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ تھام کر معافی مانگی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تم وہی ہندہ ہو ؟ “ انہوں نے کہا : گزشتہ گناہ اللہ تعالیٰ نے معاف فرما دیئے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو رہے اور بیعت کے سلسلہ میں پھر لگ گئے اور فرمایا : ” تیسری بات یہ ہے کہ ان عورتوں میں سے کوئی بدکاری نہ کرے “ ، اس پر سیدہ ہندہ رضی اللہ عنہا نے کہا : کیا کوئی آزاد عورت بھی بدکاری کرتی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ٹھیک ہے ، اللہ کی قسم آزاد عورتیں اس برے کام سے ہرگز آلود نہیں ہوتیں “ ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا : ” چوتھی بات یہ ہے کہ اپنی اولاد کو قتل نہ کریں “ ہندہ رضی اللہ عنہا نے کہا : آپ نے انہیں بدر کے دن قتل کیا ہے ، آپ جانیں اور وہ ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” پانچویں بات یہ ہے کہ خود اپنی ہی طرف سے جوڑ کر بےسر پیر کا کوئی خاص بہتان نہ تراش لیں اور چھٹی بات یہ ہے کہ میری شرعی باتوں میں میری نافرمانی نہ کریں “ اور ساتواں عہد آپ نے ان سے یہ بھی لیا کہ وہ نوحہ نہ کریں اہل جاہلیت اپنے کسی کے مر جانے پر کپڑے پھاڑ ڈالتے تھے منہ نوچ لیتے تھے بال کٹوا دیتے تھے اور ہائے وائے کیا کرتے تھے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:34013:ضعیف) یہ اثر غریب ہے اور اس کے بعض حصے میں نکارت بھی ہے اس لیے کہ سیدنا ابوسفیان رضی اللہ عنہ اور ان کی بیوی سیدہ ہندہ رضی اللہ عنہا کے اسلام کے وقت انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کوئی اندیشہ نہ تھا بلکہ اس سے بھی آپ نے صفائی اور محبت کا اظہار کر دیا تھا ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ایک اور روایت میں ہے کہ فتح مکہ والے دن بیعت والی یہ آیت نازل ہوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صفا پر مردوں سے بیعت لی اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عورتوں سے بیعت لی اس میں اتنا اور بھی ہے کہ اولاد کے قتل کی ممانعت سن کر ہندہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ہم نے تو انہیں چھٹپنے پال پوس کر بڑا کیا لیکن ان بڑوں کو تم نے قتل کیا ، اس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ مارے ہنسی کے لوٹ لوٹ گئے ۔ ابن ابی حاتم کی روایت میں ہے کہ جب سیدہ ہندہ رضی اللہ عنہا بیعت کرنے آئیں تو ان کے ہاتھ مردوں کی طرح سفید تھے ، آپ نے فرمایا : ” جاؤ ان کا رنگ بدل لو “ چنانچہ وہ مہندی لگا کر حاضر ہوئیں ، ان کے ہاتھ میں دو سونے کے کڑے تھے انہوں نے پوچھا کہ ان کی نسبت کیا حکم ہے ؟ فرمایا : ” جہنم کی آگ کے دو انگارے ہیں “ ، (مسند ابویعلیٰ194/8:ضعیف) [ یہ حکم اس وقت ہے جب ان کی زکوٰۃ نہ ادا کی جائے ] اس بیعت کے لینے کے وقت آپ کے ہاتھ میں ایک کپڑا تھا ، جب اولادوں کے قتل کی ممانعت پر ان سے عہد لیا گیا تو ایک عورت نے کہا ، ان کے باپ دادوں کو تو قتل کیا اور ان کی اولاد کی وصیت ہمیں ہو رہی ہے ، یہ شروع شروع میں صورت بیعت کی تھی لیکن پھر اس کے بعد آپ نے یہ دستور کر رکھا تھا کہ جب بیعت کرنے کے لیے عورتیں جمع ہو جاتیں تو آپ یہ سب باتیں ان پر پیش فرماتے ، وہ ان کا اقرار کرتیں اور واپس لوٹ جاتیں ۔ پس فرمان اللہ ہے کہ جو عورت ان امور پر بیعت کرنے کے لیے آئے تو اس سے بیعت لے لو کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا ، غیر لوگوں کے مال نہ چرانا ، ہاں اس عورت کو جس کا خاوند اپنی طاقت کے مطابق کھانے پینے پہننے اوڑھنے کو نہ دیتا ہو جائز ہے کہ اپنے خاند کے مال سے مطابق دستور اور بقدر اپنی حاجت کے لے گو خاوند کو اس کا علم نہ ہو اس کی دلیل ہندہ رضی اللہ عنہا والی حدیث ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ! میرے خاوند ابوسفیان بخیل آدمی ہیں وہ مجھے اتنا خرچ نہیں دیتے جو مجھے اور میری اولادوں کو کافی ہو سکے تو کیا میں اگر ان کی بےخبری میں اور ان کے مال میں لے لوں تو مجھے جائز ہے ؟ آپ نے فرمایا بطریق معروف اس کے مال سے اتنا لے لے جو تجھے اور تیرے بال بچوں کو کفایت کرے ۔ (صحیح بخاری:2211) اور زناکاری نہ کریں ، جیسے اور جگہ ہے «وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَیٰ إِنَّہُ کَانَ فَاحِشَۃً وَسَاءَ سَبِیلًا» (17-الاسراء:32) کے قریب نہ جاؤ وہ بے حیائی ہے اور بری راہ ہے ، سیدہ سمرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث میں زنا کی سزا اور درد ناک عذاب جہنم بیان کیا گیا ہے ، (صحیح بخاری:7047) مسند احمد میں ہے کہ سیدہ فاطمہ بنت عقبہ رضی اللہ عنہا جب بیعت کے لیے آئیں اور اس آیت کی تلاوت ان کے سامنے کی گئی تو انہوں نے شرم سے اپنا ہاتھ اپنے سر پر رکھ لیا آپ کو ان کی یہ حیاء اچھی معلوم ہوئی ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا انہی شرطوں پر ہم سب نے بیعت کی ہے یہ سن کر انہوں نے بھی بیعت کر لی ، (مسند احمد:151/6:صحیح) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کے طریقے اوپر بیان ہو چکے ہیں ، اولاد کو قتل نہ کرنے کا حکم عام ہے ، پیدا شدہ اولاد کو مار ڈالنا بھی اسی ممانعت میں ہے جیسے کہ جاہلیت کے زمانے والے اس خوف سے کرتے تھے کہ انہیں کہاں سے کھلائیں گے پلائیں گے ، اور حمل کا گرا دینا بھی اسی ممانعت میں ہے خواہ اس طرح ہو کہ ایسے علاج کئے جائیں جس سے حمل ٹھہرے ہی نہیں یا ٹھہرے ہوئے حمل کو کسی طرح گرا دیا جائے ۔ بری غرض وغیرہ سے ، بہتان نہ باندھنے کا ایک مطلب تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ بیان فرمایا ہے کہ دوسرے کی اولاد کو اپنے خاوند کے سر چپکا دینا ۔ ابوداؤد کی حدیث میں ہے کہ «ملاعنہ» کی آیت کے نازل ہونے کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جو عورت کسی قوم میں اسے داخل کرے جو اس قوم کا نہیں وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کسی گنتی شمار میں نہیں اور جو شخص اپنی اولاد سے انکار کر جائے حالانکہ وہ اس کے سامنے موجود ہو اللہ تعالیٰ اس سے آڑ کر لے گا اور تمام اگلوں پچھلوں کے سامنے اسے رسوا و ذلیل کرے گا “ ، (سنن ابوداود:2263،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی نہ کریں یعنی آپ کے احکام بجا لائیں اور آپ کے منع کئے ہوئے کاموں سے رک جایا کریں ، یہ شرط یعنی معروف ہونے کی عورتوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے لگا دی ہے ، میمون رحمہ اللہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی اطاعت بھی فقط معروف میں رکھی ہے اور معروف ہی طاعت ہے ۔ سیدنا ابن زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں دیکھ لو کہ بہترین خلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کا حکم بھی معروف میں ہی ہے ، اس بیعت والے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے نوحہ نہ کرنے کا اقرار بھی لیا تھا جیسے سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں پہلے گزر چکا ، قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ہم سے ذکر کیا گیا ہے ۔ اس بیعت میں یہ بھی تھا کہ عورتیں غیر محرموں سے بات چیت نہ کریں ، اس پر سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے فرمایا یا رسول اللہ ! بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم گھر پر موجود نہیں ہوتے اور مہمان آ جاتے ہیں ، آپ نے فرمایا : ” میری مراد ان سے بات چیت کرنے کی ممانعت سے نہیں ، میں ان سے کام کی بات کرنے سے نہیں روکتا “ (تفسیر ابن جریر الطبری:34014:مرسل) ابن ابی حاتم میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بیعت کے موقعہ پر عورتوں کو نامحرم مردوں سے باتیں کرنے سے منع فرمایا (تفسیر ابن ابی حاتم:ضعیف) اور فرمایا بعض لوگ وہ بھی ہوتے ہیں کہ پرائی عورتوں سے باتیں کرنے میں ہی مزہ لیا کرتے ہیں یہاں تک کہ مذی نکل جاتی ہے ۔ اوپر حدیث بیان ہو چکی ہے کہ نوحہ نہ کرنے کی شرط پر ایک عورت نے کہا فلاں قبیلے کی عورتوں نے میرا ساتھ دیا ہے تو ان کے نوحے میں میں بھی ان کا ساتھ دے کر بدلہ ضرور اتاروں گی چنانچہ وہ گئیں بدلہ اتارا پھر آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی ۔ سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا جن کا نام ان عورتوں میں ہے جنہوں نے نوحہ نہ کرنے کی بیعت کو پورا کیا یہ ملحان کی بیٹی اور سیدنا انس رضی اللہ عنہا کی والدہ ہیں ۔ (صحیح بخاری:4892) اور روایت میں ہے کہ جس عورت نے بدلے کے نوحے کی اجازت مانگی تھی خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اجازت دی تھی یہی وہ معروف ہے جس میں نافرمانی منع ہے ، بیعت کرنے والی عورتوں میں سے ایک کا بیان ہے کہ معروف میں ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی نہ کریں اس سے مطلب یہ ہے کہ مصیبت کے وقت منہ نہ نوچیں ، بال نہ منڈوائیں ، کپڑے نہ پھاڑیں ، ہائے وائے نہ کریں ۔ ابن جریر میں سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ہاں مدینہ میں تشریف لائے تو ایک دن آپ نے حکم دیا کہ سب انصاریہ عورتیں فلاں گھر میں جمع ہوں ، پھر سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو وہاں بھیجا آپ دروازے پر کھڑے ہو گئے اور سلام کیا ہم نے آپ کے سلام کا جواب دیا ، پھر فرمایا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد ہوں ہم نے کہا : رسول اللہ کو بھی مرحبا ہو اور آپ کے قاصد کو بھی ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : مجھے حکم ہوا ہے کہ میں تمہیں حکم کروں کہ تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک نہ کرنے پر ، چوری اور زناکاری سے بچنے پر بیعت کرو ، ہم نے کہا ہم سب حاضر ہیں اور اقرار کرتی ہیں ، چنانچہ آپ نے وہیں باہر کھڑے کھڑے اپنا ہاتھ اندر کی طرف بڑھا دیا اور ہم نے اپنے ہاتھ اندر سے اندر ہی اندر بڑھائے ، پھر آپ نے فرمایا : اے اللہ گواہ رہے ۔ پھر حکم ہوا کہ دونوں عیدوں میں ہم اپنی خانضہ عورتوں اور جوان کنواری لڑکیوں کو لے جایا کریں ، ہم پر جمعہ فرض نہیں ، ہمیں جنازوں کے ساتھ نہ جانا چاہیئے ۔ اسماعیل راوی حدیث فرماتے ہیں میں نے اپنی دادی صاحبہ سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ عورتیں معروف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی نہ کریں اس سے کیا مطلب ہے ؟ فرمایا یہ کہ نوحہ نہ کریں ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:34029:ضعیف) بخاری و مسلم میں ہے کہ { جو کوئی مصیبت کے وقت اپنے گالوں پر تھپڑ مارے ، دامن چاک کرے اور جاہلیت کے وقت کی ہائی دہائی مچائے ، وہ ہم میں سے نہیں } (صحیح بخاری:1294) اور روایت میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بری ہیں ، جو گلا پھاڑ پھاڑ کر ہائے وائے کرے ، بال نوچے یا منڈوائے اور کپڑے پھاڑے یا دامن چیرے } ۔ (صحیح مسلم:104) ابویعلی میں ہے کہ { میری امت میں چار کام جاہلیت کے ہیں جنہیں وہ نہ چھوڑیں گے ، حسب نسب پر فخر کرنا ، انسان کو اس کے نسب کا طعنہ دینا ، ستاروں سے بارش طلب کرنا اور میت پر نوحہ کرنا اور فرمایا : ” نوحہ کرنے والی عورت اگر بغیر توبہ کئے مر جائے تو اسے قیامت کے دن گندھک کا پیراہن پہنایا جائے گا اور کھجلی کی چادر اڑھائی جائے گی “ } ۔ (صحیح مسلم:934) ابوداؤد میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نوحہ کرنے والیوں پر اور نوحے کو کان لگا کر سننے والیوں پر لعنت فرمائی } ، (سنن ابوداود:3128،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ابن جریر کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ { معروف میں نافرمانی نہ کرنے سے مراد نوحہ کو کان لگا کر سننے والیوں پر لعنت فرمائی } ، ابن جریر کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ { معروف میں نافرمانی نہ کرنے سے مراد نوحہ نہ کرنا ہے ، یہ حدیث ترمذی کی کتاب التفسیر میں بھی ہے اور امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ اسے حسن غریب کہتے ہیں } ۔ (سنن ابن ماجہ:1579،قال الشیخ الألبانی:حسن) الممتحنة
13 کفار سے دلی دوستی کی ممانعت اس سورت کی ابتداء میں جو حکم تھا وہی انتہا میں بیان ہو رہا ہے کہ یہود و نصاریٰ اور دیگر کفار سے جن پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت اتر چکی ہے اور اللہ کی رحمت اور اس کی شفاعت سے دور ہو چکے ہیں تم ان سے دوستانہ اور میل ملاپ نہ رکھو ، وہ آخرت کے ثواب سے اور وہاں کی نعمتوں سے ایسے ناامید ہو چکے ہیں جیسے قبروں والے کافر ، اس پچھلے جملے کے دو معنی کئے گئے ہیں ایک تو یہ کہ جیسے زندہ کافر اپنے مردہ کافروں کے دوبارہ زندہ ہونے سے مایوس ہو چکے ہیں ، دوسرے یہ کہ جس طرح مردہ کافر ہر بھلائی سے ناامید ہو چکے ہیں وہ مر کر آخرت کے احوال دیکھ چکے اور اب انہیں کسی قسم کی بھلائی کی توقع نہیں رہی ۔ «الحمداللہ» سورۃ الممتحنہ کی تفسیر ختم ہوئی ۔ الممتحنة
0 الصف
1 ایفائے عہد ایمان کی علامت ہے اور صف اتحاد کی علامت پہلی آیت کی تفسیر کئی بار گزر چکی ہے اب پھر اس کا اعادہ کرنے کی ضرورت نہیں ۔ پھر ان لوگوں کا ذکر ہوتا ہے جو کہیں اور نہ کریں ، وعدہ کریں اور وفا نہ کریں ، بعض علماء سلف نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ وعدہ کا پورا کرنا مطلقاً واجب ہے جس سے وعدہ کیا ہے خواہ وہ تاکید کرے یا نہ کرے ، ان کی دلیل بخاری و مسلم کی یہ حدیث بھی ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” منافق کی تین عادتیں ہوتی ہیں ( ۱ ) جب وعدہ کرے خلاف کرے ، ( ۲ ) جب بات کرے جھوٹ بولے ، ( ۳ ) جب امانت دیا جائے خیانت کرے ۔ “ } ۱؎ (صحیح بخاری:33) دوسری صحیح حدیث میں ہے { چار باتیں جس میں ہوں وہ خالص منافق ہے اور جس میں ان چار میں سے ایک ہو اس میں ایک خصلت نفاق کی ہے جب تک اسے نہ چھوڑے ۔ ان میں ایک عادت وعدہ خلافی کی ہے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:24) شرح صحیح بخاری کی ابتداء میں ہم نے ان دونوں احادیث کی پوری شرح کر دی ہے ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» اسی لیے یہاں بھی اس کی تاکید میں فرمایا گیا ، اللہ تعالیٰ کو یہ بات سخت ناپسند ہے کہ تم وہ کہو جو خود نہ کرو ، مسند احمد اور ابوداؤد میں عبداللہ بن عامر بن ربیعہ سے روایت ہے کہ { ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے میں اس وقت چھوٹا بچہ تھا کھیل کود کے لیے جانے لگا تو میری والدہ نے مجھے آواز دے کر کہا ادھر آ کچھ دوں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” کچھ دینا بھی چاہتی ہو ؟ “ میری والدہ نے کہا : ہاں ، یا رسول اللہ ! کھجوریں دوں گی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” پھر تو خیر ورنہ یاد رکھو کچھ نہ دینے کا ارادہ ہوتا اور یوں کہتیں تو تم پر ایک جھوٹ لکھا جاتا۔“ } ۱؎ (سنن ابوداود:4991،قال الشیخ الألبانی:۔صحیح) امام مالک رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب وعدے کے ساتھ وعدہ پورا کرنے کی تاکید کا تعلق ہو تو اس وعدے کو وفا کرنا واجب ہو جاتا ہے ، مثلاً کسی شخص نے کسی سے کہہ دیا کہ تو نکاح کر لے اور اتنا اتنا ہر روز میں تجھے دیتا رہوں گا اس نے نکاح کر لیا تو جب نکاح باقی ہے اس شخص پر واجب ہے کہ اسے اپنے وعدے کے مطابق دیتا رہے اس لیے کہ اس میں آدمی کے حق کا تعلق ثابت ہو گیا جس پر اس سے باز پرس سختی کے ساتھ ہو سکتی ہے ۔ کیا ایفائے عہد واجب ہے؟ جمہور کا مذہب یہ ہے کہ ایفاء عہد مطلق واجب ہی نہیں ، اس آیت کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ جب لوگوں نے جہاد کی فرضیت کی خواہش کی اور فرض ہو گیا تو اب بعض لوگ دیکھنے لگے جس پر یہ آیت اتری ، جیسے اور جگہ ہے «أَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِینَ قِیلَ لَہُمْ کُفٰوا أَیْدِیَکُمْ وَأَقِیمُوا الصَّلَاۃَ وَآتُوا الزَّکَاۃَ فَلَمَّا کُتِبَ عَلَیْہِمُ الْقِتَالُ إِذَا فَرِیقٌ مِّنْہُمْ یَخْشَوْنَ النَّاسَ کَخَشْیَۃِ اللہِ أَوْ أَشَدَّ خَشْیَۃً ۚ وَقَالُوا رَبَّنَا لِمَ کَتَبْتَ عَلَیْنَا الْقِتَالَ لَوْلَا أَخَّرْتَنَا إِلَیٰ أَجَلٍ قَرِیبٍ ۗ قُلْ مَتَاعُ الدٰنْیَا قَلِیلٌ وَالْآخِرَۃُ خَیْرٌ لِّمَنِ اتَّقَیٰ وَلَا تُظْلَمُونَ فَتِیلًا أَیْنَمَا تَکُونُوا یُدْرِککٰمُ الْمَوْتُ وَلَوْ کُنتُمْ فِی بُرُوجٍ مٰشَیَّدَۃٍ ۗ وَإِن تُصِبْہُمْ حَسَنَۃٌ یَقُولُوا ہٰذِہِ مِنْ عِندِ اللہِ ۖ وَإِن تُصِبْہُمْ سَیِّئَۃٌ یَقُولُوا ہٰذِہِ مِنْ عِندِکَ ۚ قُلْ کُلٌّ مِّنْ عِندِ اللہِ ۖ فَمَالِ ہٰؤُلَاءِ الْقَوْمِ لَا یَکَادُونَ یَفْقَہُونَ حَدِیثًا» ۱؎ (4-النساء:77،78) یعنی ’ کیا تو نے انہیں نہ دیکھا جن سے کہا گیا تم اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز و زکوٰۃ کا خیال رکھو ، پھر جب ان پر جہاد فرض کیا گیا تو ان میں ایسے لوگ بھی نکل آئے جو لوگوں سے اس طرح ڈرنے لگے جیسے اللہ سے ڈرتے ہیں بلکہ اس سے بھی بہت زیادہ ، کہنے لگے پروردگار تو نے ہم پر جہاد کیوں فرض کر دیا ؟ کیوں ہمیں ایک وقت مقرر تک اس حکم کو مؤخر نہ کیا جو قریب ہی تو ہے ۔ تو کہہ دے کہ اسباب دنیا تو بہت ہی کم ہیں ہاں پرہیزگاروں کے لیے آخرت بہترین چیز ہے ۔ تم پر کچھ بھی ظلم نہ کیا جائے گا تم کہیں بھی ہو تمہیں موت ڈھونڈ نکالے گی گو تم مضبوط محلوں میں ہو ۔‘ اور جگہ ہے «وَیَقُولُ الَّذِینَ آمَنُوا لَوْلَا نُزِّلَتْ سُورَۃٌ ۖ فَإِذَا أُنزِلَتْ سُورَۃٌ مٰحْکَمَۃٌ وَذُکِرَ فِیہَا الْقِتَالُ ۙ رَأَیْتَ الَّذِینَ فِی قُلُوبِہِم مَّرَضٌ یَنظُرُونَ إِلَیْکَ نَظَرَ الْمَغْشِیِّ عَلَیْہِ مِنَ الْمَوْتِ» ۱؎ (47-محمد:20) الخ ، یعنی ’ مسلمان کہتے ہیں کیوں کوئی سورت نہیں اتاری جاتی ؟ پھر جب کوئی محکم سورت اتاری جاتی ہے اور اس میں لڑائی کا ذکر ہوتا ہے تو دیکھے گا کہ بیمار دل والے تیری طرف اس طرح دیکھیں گے جیسے وہ دیکھتا ہے جس پر موت کی بیہوشی ہو ‘ ۔ اسی طرح کی یہ آیت بھی ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ بعض مومنوں نے جہاد کی فرضیت سے پہلے کہا کہ کیا ہی اچھا ہوتا اللہ تعالیٰ ہمیں وہ عمل بتاتا جو اسے سب سے زیادہ پسند ہوتا تاکہ ہم اس پر عامل ہوتے ، پس اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر کی کہ ’ سب سے زیادہ پسندیدہ عمل میرے نزدیک ایمان ہے جو شک شبہ سے پاک ہو اور بےایمانوں سے جہاد کرنا ہے ‘ ، تو بعض مسلمانوں پر یہ گراں گزرا جس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ ’ وہ باتیں زبان سے کیوں نکالتے ہو جنہیں کرتے نہیں ۔ ‘ امام ابن جریر رحمہ اللہ اسی کو پسند فرماتے ہیں ۔ مقاتل بن حیان رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مسلمانوں نے کہا اگر ہمیں معلوم ہو جاتا کہ کس عمل کو اللہ تعالیٰ بہت پسند فرماتا ہے تو ہم ضرور وہ عمل بجا لاتے اس پر اللہ عزوجل نے وہ عمل بتایا کہ ’ میری راہ میں صفیں باندھ کر مضبوطی کے ساتھ جم کر جہاد کرنے والوں کو میں بہت پسند فرماتا ہوں ‘ ، پھر احد والے دن ان کی آزمائش ہو گئی اور لوگ پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوئے جس پر یہ فرمان عالیشان اترا کہ ’ کیوں وہ کہتے ہو جو کہ نہیں دکھاتے ؟‘ ۔ منافق جو کرتے نہیں وہ کہتے ہیں بعض حضرات فرماتے ہیں یہ ان کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو کہیں ہم نے جہاد کیا اور حالانکہ جہاد نہ کیا ہو منہ سے کہیں کہ ہم زخمی ہوئے اور زخمی نہ ہوئے ہوں ، کہیں کہ ہم پر مار پڑی اور مار نہ پڑی ہو ، منہ سے کہیں کہ ہم قید کئے گئے اور قید نہ کئے گئے ہوں ۔ ابن زید رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے مراد منافق ہیں کہ مسلمانوں کی مدد کا وعدہ کرتے لیکن وقت پر پورا نہ کرتے ، زید بن اسلم رحمہ اللہ جہاد مراد لیتے ہیں ، مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ان کہنے والوں میں عبداللہ بن رواحہ انصاری رضی اللہ عنہ بھی تھے جب آیت اتری اور معلوم ہوا کہ جہاد سب سے زیادہ عمدہ عمل ہے تو آپ نے عہد کر لیا کہ میں تو اب سے لے کر مرتے دم تک اللہ کی راہ میں اپنے آپ کو وقف کر چکا چنانچہ اسی پر قائم بھی رہے یہاں تک کہ فی سبیل اللہ شہید ہو گئے ۔ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے بصرہ کے قاریوں کو ایک مرتبہ بلوایا تو تین سو قاری ان کے پاس آئے جن میں سے ہر ایک قاری قرآن تھا ۔ پھر فرمایا تم اہل بصرہ کے قاری اور ان میں سے بہترین لوگ ہو ، سنو ہم ایک سورت پڑھتے تھے جو مسبحات کی سورتوں کے مشابہ تھی ، پھر ہم اسے بھلا دیئے گئے ، ہاں مجھے اس میں سے اتنا یاد رہ گیا «یَا أَیّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ فَتُکْتَب شَہَادَۃ فِی أَعْنَاقِکُمْ فَتُسْأَلُونَ عَنْہَا یَوْم الْقِیَامَۃ» یعنی ’ اے ایمان والو وہ کیوں کہو جو نہ کرو پھر وہ لکھا جائے اور تمہاری گردنوں میں بطور گواہ کے لٹکا دیا جائے پھر قیامت کے دن اس کی بابت باز پرس ہو ۔‘ پھر فرمایا ’ اللہ تعالیٰ کے محبوب وہ لوگ ہیں جو صفیں باندھ کر دشمنان اللہ کے مقابلے میں ڈٹ جاتے ہیں تاکہ اللہ کا بول بالا ہو ، اسلام کی حفاظت ہو اور دین کا غلبہ ہو۔ ‘ مسند احمد میں ہے تین قسم کے لوگوں کی تین حالتیں ہیں جنہیں دیکھ کر اللہ تبارک و تعالیٰ خوش ہوتا ہے اور ہنس دیتا ہے رات کو اٹھ کر تہجد پڑھنے والے ، نماز کے لیے صفیں باندھنے والے ، میدان جنگ میں صف بندی کرنے والے ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:200،قال الشیخ الألبانی:۔ضعیف) ابن ابی حاتم میں ہے مطرف رحمہ اللہ فرماتے ہیں مجھے بروایت ابوذر ایک حدیث پہنچی تھی میرے جی میں تھا کہ خود سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے مل کر یہ حدیث آمنے سامنے سن لوں ، چنانچہ ایک مرتبہ جا کر آپ سے ملاقات کی اور واقعہ بیان کیا ، آپ نے خوشنودی کا اظہار فرما کر کہا وہ حدیث کیا ہے ؟ میں نے کہا یہ کہ اللہ تعالیٰ تین شخصوں کو دشمن جانتا ہے اور تین کو دوست رکھتا ہے فرمایا : ہاں میں اپنے خلیل محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ نہیں بول سکتا فی الواقع آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے یہ حدیث بیان فرمائی ہے ، میں نے پوچھا : وہ تین کون ہیں ؟ جنہیں اللہ تعالیٰ محبوب جانتا ہے فرمایا : ایک تو وہ جو اللہ کی راہ میں جہاد کرے خالص خوشنودی اللہ کی نیت سے نکلے دشمن سے جب مقابلہ ہو تو دلیرانہ جہاد کرے تم اس کی تصدیق خود کتاب اللہ میں بھی دیکھ سکتے ہو پھر آپ نے یہی آیت «إِنَّ اللہَ یُحِبٰ الَّذِینَ یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِہِ صَفًّا کَأَنَّہُم بُنْیَانٌ مَّرْصُوصٌ» ۱؎ (61-الصف:4) تلاوت فرمائی اور پھر پوری حدیث بیان کی ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2568،قال الشیخ الألبانی:۔ضعیف) ابن ابی حاتم میں یہ حدیث اسی طرح ان ہی الفاظ میں اتنی ہی آئی ہے ہاں ترمذی اور نسائی میں پوری حدیث ہے اور ہم نے بھی اسے دوسری جگہ مکمل وارد کیا ہے ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» صف بندی تعلیم ربانی کعب احبار رضی اللہ عنہ سے ابن ابی حاتم میں منقول ہے اللہ تعالیٰ اپنے نبی سے فرماتا ہے : آپ میرے بندے متوکل اور پسندیدہ ہیں بدخلق ، بدزبان ، بازاروں میں شور و غل کرنے والے نہیں ، برائی کا بدلہ برائی سے نہیں لیتے بلکہ درگزر کر کے معاف کر دیتے ہیں ۔ آپ کی جائے پیدائش مکہ ہے ، جائے ہجرت طابہ ہے ، ملک آپ کا شام ہے ، امت آپ کی بکثرت حمد اللہ کرنے والی ہے ، ہر حال میں اور ہر منزل میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کرتے رہتے ہیں ۔ صبح کے وقت ذکر اللہ میں ان کی پست آوازیں برابر سنائی دیتی ہیں جیسے شہد کی مکھیوں کی بھن بھناہٹ اپنے ناخن اور مچھیں کترتے ہیں اور اپنے تہبند اپنی آدھی پنڈلیوں تک باندھتے ہیں ان کی صفیں میدان جہاد میں ایسی ہوتی ہیں جیسی نماز میں ۔‘ پھر کعب رضی اللہ عنہ نے اسی آیت کی تلاوت کی پھر فرمایا : سورج کی نگہبانی کرنے والے ، جہاں وقت نماز آ جائے نماز ادا کر لینے والے ، گو سواری پر ہوں ، سعید بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں جب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صفیں نہ بنوا لیتے دشمن سے لڑائی شروع نہیں کرتے تھے ، پس صف بندی کی تعلیم مسلمانوں کو اللہ کی دی ہوئی ہے ، ایک دوسرے سے ملے کھڑے رہیں ، ثابت قدم رہیں اور ٹلیں نہیں تم نہیں دیکھتے کہ عمارت کا بنانے والا نہیں چاہتا کہ اس کی عمارت میں کہیں اونچ نیچ ہو ٹیڑھی ترچھی ہو یا سوراخ رہ جائیں ، اسی طرح اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ اس کے امر میں اختلاف ہو میدان جنگ میں اور بوقت نماز مسلمانوں کی صف بندی خود اس نے کی ہے ، پس تم اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرو جو احکام بجا لائے گا یہ اس کے لیے عصمت اور بچاؤ ثابت ہے ۔ ابوبحریہ فرماتے ہیں مسلمان گھوڑوں پر سوار ہو کر لڑنا پسند نہیں کرتے تھے انہیں تو یہ اچھا معلوم ہوتا تھا کہ زمین پر پیدل صفیں بنا کر آمنے سامنے کا مقابلہ کریں ، آپ فرماتے ہیں جب تم مجھے دیکھو کہ میں نے صف میں سے ادھر ادھر توجہ کی تو تم جو چاہو ملامت کرنا اور برا بھلا کہنا ۔ الصف
2 الصف
3 الصف
4 الصف
5 عیسیٰ علیہ السلام کی طرف سے خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشن گوئی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’ کلیم اللہ موسیٰ بن عمران نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تم میری رسالت کی سچائی جانتے ہو پھر کیوں میرے درپے آزار ہو رہے ہو ؟ ‘ اس میں گویا ایک طرح سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی جاتی ہے ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی جب ستائے جاتے تو فرماتے : ” «رَحْمَۃ اللَّہ عَلَی مُوسَیٰ» اللہ تعالیٰ موسیٰ علیہ السلام پر رحمت نازل فرمائے ، وہ اس سے زیادہ ستائے گئے لیکن پھر بھی صابر رہے۔“ ۱؎ (صحیح بخاری:4335) اور ساتھ ہی اس میں مومنوں کو ادب سکھایا جا رہا ہے کہ وہ اللہ کے نبی کو ایذاء نہ پہنچائیں ایسا نہ کریں جس سے آپ کا دل دکھتا ہو ، جیسے اور جگہ ہے «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَکُونُوا کَالَّذِینَ آذَوْا مُوسَیٰ فَبَرَّأَہُ اللہُ مِمَّا قَالُوا ۚ وَکَانَ عِندَ اللہِ وَجِیہًا» ۱؎ (33-الأحزاب:69) ’ ایمان والو تم ایسے نہ ہونا جیسے موسیٰ کو ایذاء دینے والے تھے اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ذی عزت بندے کو اس کے بہتانوں سے پاک کیا ۔ ‘ پس جبکہ یہ لوگ علم کے باوجود اتباع حق سے ہٹ گئے اور ٹیڑھے چلنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان کے دل ہدایت سے ہٹا دیئے شک و حیرت ان میں سما گئی ۔ جیسے اور جگہ ہے «وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَہُمْ وَأَبْصَارَہُمْ کَمَا لَمْ یُؤْمِنُوا بِہِ أَوَّلَ مَرَّۃٍ وَنَذَرُہُمْ فِی طُغْیَانِہِمْ یَعْمَہُونَ» ۱؎ (6-الأنعام:110) یعنی ’ ہم ان کے دل اور آنکھیں الٹ دیں گے جس طرح یہ ہماری آیتوں پر پہلی دفعہ ایمان نہیں لائے اور ہم انہیں ان کی سرکشی کی حالت میں چھوڑ دیں گے جس میں وہ سرگرداں رہیں گے ‘ اور جگہ ہے «وَمَن یُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْہُدَی وَیَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیلِ الْمُؤْمِنِینَ نُوَلِّہِ مَا تَوَلَّی وَنُصْلِہِ جَہَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِیرًا» ۱؎ (4-النساء:115) ’ جو رسول کی مخالفت کرے ہدایت ظاہر ہو جانے کے بعد اور مومنوں کے راستے کے سوا کسی دوسرے کی تابعداری کرے ہم اسے اسی طرف متوجہ کریں گے جس طرف وہ متوجہ ہوا ہے اور بالاخر اسے ہم جہنم میں ڈال دیں گے اور وہ بہت بری جگہ ہے۔ ‘ یہاں بھی ارشاد ہوتا ہے اللہ تعالیٰ فاسقوں کی رہبری نہیں کرتا ، پھر عیسیٰ علیہ السلام کا خطبہ بیان ہوتا ہے جو آپ علیہ السلام نے بنی اسرائیل میں پڑھا تھا جس میں فرمایا تھا کہ ” توراۃ میں میری خوشخبری دی گئی تھی اور اب میں تمہیں اپنے بعد آنے والے ایک رسول کی پیش گوئی سناتا ہوں جو نبی امی ، عربی مکی ، احمد مجتبیٰ ، محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔“ پس عیسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کے نبیوں کے ختم کرنے والے ہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم انبیاء اور مرسلین کے خاتم ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ تو کوئی نبی آئے نہ رسول ، نبوت و رسالت سب آپ پر من کل الوجوہ ختم ہو گئی ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صفاتی نام صحیح بخاری میں ایک نہایت پاکیزہ حدیث وارد ہوئی ہے جس میں ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” «إِنَّ لِی أَسْمَاء أَنَا مُحَمَّد وَأَنَا أَحْمَد وَأَنَا الْمَاحِی الَّذِی یَمْحُو اللَّہ بِہِ الْکُفْر وَأَنَا الْحَاشِر الَّذِی یُحْشَر النَّاس عَلَی قَدَمِی وَأَنَا الْعَاقِب» میرے بہت سے نام ہیں محمد ، احمد ، ماحی جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے کفر کو مٹا دیا اور میں حاشر ہوں جس کے قدموں پر لوگوں کا حشر کیا جائے گا اور میں عاقب ہوں “ ، یہ حدیث مسلم شریف میں بھی ہے ۔} ۱؎ (صحیح بخاری:4896) ابوداؤد میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے اپنے بہت سے نام بیان فرمائے جو ہمیں محفوظ رہے ان میں سے چند یہ ہیں ، فرمایا : ” «أَنَا مُحَمَّد وَأَنَا أَحْمَد وَالْحَاشِر وَالْمُقَفِّی وَنَبِیّ الرَّحْمَۃ وَالتَّوْبَۃ وَالْمَلْحَمَۃ» میں محمد ہوں ، میں احمد ہوں ، میں حاشر ہوں ، میں مقفی ہوں ، میں نبی الرحمتہ ہوں ، میں نبی التوبہ ہوں ، میں نبی الْمَلْحَمَۃ ہوں “ ، یہ حدیث بھی صحیح مسلم شریف میں ہے ۔} ۱؎ (صحیح مسلم:2355) قرآن کریم میں ہے «الَّذِینَ یَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِیَّ الْأُمِّیَّ الَّذِی یَجِدُونَہُ مَکْتُوبًا عِندَہُمْ فِی التَّوْرَاۃِ وَالْإِنجِیلِ» ۱؎ (7-الأعراف:157) ’ جو پیروی کرتے ہیں اس رسول نبی امی کی جنہیں اپنے پاس لکھا ہوا پاتے ہیں توراۃ میں بھی اور انجیل میں بھی ۔ ‘ اور جگہ فرمان ہے «وَإِذْ أَخَذَ اللَّہ مِیثَاق النَّبِیِّینَ لَمَا آتَیْتُکُمْ مِنْ کِتَاب وَحِکْمَۃ ثُمَّ جَاءَکُمْ رَسُول مُصَدِّق لِمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہِ وَلْتَنْصُرُنَّہُ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَی ذَلِکُمْ إِصْرِی قَالُوا أَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْہَدُوا وَأَنَا مَعَکُمْ مِنْ الشَّاہِدِینَ» ۱؎ (3-آلعمران:81) الخ ، ’ اللہ تعالیٰ نے جب نبیوں سے عہد لیا کہ جب کبھی میں تمہیں کتاب و حکمت دوں پھر تمہارے پاس میرا رسول آئے جو اسے سچ کہتا ہو جو تمہارے ساتھ ہے تو تم اس پر ضرور ایمان لاؤ گے اور اس کی ضرور مدد کرو گے کیا تم اس کا اقرار کرتے ہو اور اس پر میرا عہد لیتے ہو ؟ سب نے کہا ہمیں اقرار ہے فرمایا بس گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں ہوں ۔‘ ہر نبی سے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کا عہد سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کوئی نبی اللہ تعالیٰ نے ایسا مبعوث نہیں فرمایا جس سے یہ اقرار نہ لیا ہو کہ ان کی زندگی میں اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث کئے جائیں تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری کرے بلکہ ہر نبی سے یہ وعدہ بھی لیا جاتا رہا کہ وہ اپنی اپنی امت سے بھی عہد لے لیں ۔ ایک مرتبہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول ! آپ ہمیں اپنی خبر سنایئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” میں اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہوں اور عیسیٰ علیہ السلام کی خوشخبری ہوں ، میری والدہ کا جب پاؤں بھاری ہوا تو خواب میں دیکھا کہ گویا ان میں سے ایک نور نکلا ہے جس سے شام کے شہر بصریٰ کے محلات چمک اٹھے۔ “ } ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:2057) اس کی سند عمدہ ہے اور دوسری سندوں سے اس کے شواہد بھی ہیں ۔ مسند احمد میں ہے { میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک خاتم الانبیاء تھا درآنحالیکہ آدم علیہ السلام اپنی مٹی میں گندھے ہوئے تھے ۔ میں تمہیں اس کی ابتداء سناؤں ۔ میں اپنے والد ابراہیم علیہ السلام کی دعا ، عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت اور اپنی ماں کا خواب ہوں ۔ انبیاء کی والدہ اسی طرح خواب دکھائی جاتی ہیں۔ } ۱؎ (مسند احمد:127/4:صحیح لغیرہ) مسند احمد میں اور سند سے بھی اسی کے قریب روایت مروی ہے۔ ۱؎ (مسند احمد:262/5:صحیح لغیرہ) نجاشی کا دربار مسند کی اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نجاشی بادشاہ حبشہ کے ہاں بھیج دیا تھا ہم تقریباً اسی آدمی تھے ۔ ہم میں عبداللہ بن مسعود ، جعفر ، عبداللہ بن رواحہ ، عثمان بن مطعون ، ابوموسیٰ رضی اللہ عنہم وغیرہ بھی تھے ۔ ہمارے یہاں پہنچنے پر قریش نے یہ خبر پا کر ہمارے پیچھے اپنی طرف سے بادشاہ کے پاس اپنے دو سفیر بھیجے عمرو بن العاص اور عمارہ بن ولید ان کے ساتھ دربار شاہی کے لیے تحفے بھی بھیجے ، جب یہ آئے تو انہوں نے بادشاہ کے سامنے سجدہ کیا پھر دائیں بائیں گھوم کر بیٹھ گئے ، پھر اپنی درخواست پیش کی کہ ہمارے کنبے قبیلے کے چند لوگ ہمارے دین کو چھوڑ کر ہم سے بھاگ کر آپ کے ملک میں چلے آئے ہیں ہماری قوم نے ہمیں اس لیے آپ کی خدمت میں بھیجا ہے کہ آپ انہیں ہمارے حوالے کر دیجئیے ۔“ نجاشی نے پوچھا وہ کہاں ہیں ؟ انہوں نے کہا یہیں اسی شہر میں ہیں ، حکم دیا کہ انہیں حاضر کرو ، چنانچہ یہ مسلمان صحابہ رضی اللہ عنہم دربار میں آئے ان کے خطیب اس وقت جعفر رضی اللہ عنہ تھے باقی لوگ ان کے ماتحت تھے ، یہ جب آئے تو انہوں نے سلام تو کیا لیکن سجدہ نہیں کیا درباریوں نے کہا تم بادشاہ کے سامنے سجدہ کیوں نہیں کرتے ؟ جواب ملا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو سجدہ نہیں کرتے ، پوچھا گیا کیوں ؟ فرمایا اللہ تعالیٰ نے اپنا رسول ہماری طرف بھیجا اور اس رسول نے ہمیں حکم دیا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو سجدہ نہ کریں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم نمازیں پڑھتے رہیں زکوٰۃ ادا کرتے رہیں ۔ اب عمرو بن العاص سے نہ رہا گیا کہ ایسا نہ ہو ان باتوں کا اثر بادشاہ پر پڑے درباریوں اور بادشاہ کو بھڑکانے کے لیے وہ بیچ میں بول پڑا کہ حضور ان کے اعتقاد عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے بارے میں آپ لوگوں سے بالکل مختلف ہیں ، اس پر بادشاہ نے پوچھا : بتاؤ تم عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ کے بارے میں کیا عقیدہ رکھتے ہو ؟ انہوں نے کہا : ہمارا عقیدہ اس بارے میں وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی پاک کتاب میں ہمیں تعلیم فرمایا کہ وہ کلمتہ اللہ ہیں ، روح اللہ ہیں ، جس روح کو اللہ تعالیٰ کنواری مریم بتول کی طرف القا کیا جو کنواری تھیں ، جنہیں کسی انسان نے ہاتھ بھی نہیں لگایا تھا ، نہ انہیں بچہ ہونے کا کوئی موقعہ تھا۔ بادشاہ نے یہ سن کر زمین سے ایک تنکا اٹھایا اور کہا : اے حبشہ کے لوگو اور اے واعظو عالمو اور درویشو ان کا اور ہمارا اس کے بارے میں ایک ہی عقیدہ ہے اللہ کی قسم ان کے اور ہمارے عقیدے میں اس تنکے جتنا بھی فرق نہیں ۔ اے جماعت مہاجرین ! تمہیں مرحبا ہو اور اس رسول کو بھی مرحبا ہو جن کے پاس سے تم آئے ہو ، میری گواہی ہے کہ وہ اللہ کے سچے رسول ہیں ، یہ وہی ہیں جن کی پیش گوئی ہم نے انجیل میں پڑھی ہے اور یہ وہی ہیں جن کی بشارت ہمارے پیغمبر عیسیٰ علیہ السلام نے دی ہے میری طرف سے تمہیں عام اجازت ہے جہاں چاہو رہو سہو ، اللہ کی قسم اگر ملک کی اس جھنجٹ سے میں آزاد ہوتا تو میں یقیناً نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جوتیاں اٹھاتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرتا اور آپ کو وضو کراتا ، اتنا کہہ کر حکم دیا کہ یہ دونوں قریشی جو تحفہ لے کر آئے ہیں وہ انہیں اپس کر دیا جائے ۔ ان مہاجرین کرام میں سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تو جلد ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آ ملے ، جنگ بدر میں بھی آپ نے شرکت کی ۔ اس شاہ حبشہ کے انتقال کی خبر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے ان کے لیے بخشش کی دعا مانگی ۔ ۱؎ (مسند احمد:461/1:ضعیف) یہ پورا واقعہ سیدنا جعفر اور ام سلمہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے ۔ ۱؎ (مسند احمد:201/1:ضعیف) تفسیری موضوع سے چونکہ یہ الگ چیز ہے اس لیے ہم نے اسے یہاں مختصراً وارد کر دیا مزید تفصیل سیرت کی کتابوں میں ملاحظہ ہو ۔ ہمارا مقصود یہ ہے کہ عالی جناب حضور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت اگلے انبیاء کرام علیہم السلام برابر پشین گوئیاں کرتے رہے اور اپنی امت کو اپنی کتاب میں سے آپ کی صفتیں سناتے رہے اور آپ کی اتباع اور نصرت کا انہیں حکم کرتے رہے ، ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے امر کی شہرت ابراہیم خلیل اللہ کی دعا کے بعد ہوئی جو تمام انبیاء کے باپ تھے اسی طرح مزید شہرت کا باعث عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت ہوئی جس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سائل کے سوال پر اپنے امر نبوت کی نسبت دعا خلیل اللہ اور نوید مسیح کی طرف کی ہے ، اس سے یہی مراد ہے ان دونوں کے ساتھ آپ کا اپنی والدہ محترمہ کے خواب کا ذکر کرنا اس لیے تھا کہ اہل مکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شروع شہرت کا باعث یہ خواب تھا ، اللہ تعالیٰ آپ پر بےشمار درود و رحمت بھیجے ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ’ باوجود اس قدر شہرت اور باوجود انبیاء کی متواتر پیش گوئیوں کے بھی جب آپ روشن دلیلیں لے کر آئے تو مخالفین نے اور کافروں نے کہہ دیا کہ یہ تو صاف صاف جاود ہے ۔‘ الصف
6 الصف
7 پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا ارشاد ہے کہ ’ جو شخص اللہ تعالیٰ پر جھوٹ افترا باندھے اور اس کے شریک و سہیم مقرر کرے اس سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیں۔ ‘ اگر یہ شخص بےخبر ہوتا جب بھی ایک بات تھی یہاں تو یہ حالت ہے کہ وہ توحید اور اخلاص کی طرف برابر بلایا جا رہا ہے ، بھلا ایسے ظالموں کی قسمت میں ہدایت کہاں ؟ ان کفار کی چاہت تو یہ ہے کہ حق کو باطل سے رد کر دیں ، ان کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے کوئی سورج کی شعاع کو اپنے منہ کی پھونک سے بے نور کرتا ہے ، جس طرح اس کے منہ کی پھونک سے سورج کی روشنی کا جاتا رہنا محال ہے ۔ اسی طرح یہ بھی محال ہے کہ اللہ کا دین ان کفار سے رد ہو جائے ، اللہ تعالیٰ فیصلہ کر چکا ہے کہ وہ اپنے نور کو پورا کر کے ہی رہے گا ، کافر برا مانیں تو مانتے رہیں ۔ اس کے بعد اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اپنے دین کی حقانیت کو واضح فرمایا ، ان دونوں آیتوں کی پوری تفسیر سورۃ برأت میں گزر چکی ہے ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» الصف
8 الصف
9 الصف
10 سو فیصد نفع بخش تجارت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ والی حدیث پہلے گزر چکی ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ پوچھنا چاہا کہ سب سے زیادہ محبوب عمل اللہ تعالیٰ کو کون سا ہے ؟ اس پر اللہ عزوجل نے یہ سورت نازل فرمائی ، جس میں فرما رہا ہے کہ آؤ میں تمہیں ایک سراسر نفع والی تجارت بتاؤں جس میں گھاٹے کی کوئی صورت ہی نہیں ، جس سے مقصود حاصل اور ڈر زائل ہو جائے گا وہ یہ ہے کہ تم اللہ کی وحدانیت اور اس کے رسول [ صلی اللہ علیہ وسلم ] کی رسالت پر ایمان لاؤ ، اپنا جان مال اس کی راہ میں قربان کرنے پر تل جاؤ ، جان لو کہ یہ دنیا کی تجارت اور اس کے لیے کدو کاوش کرنے سے بہت ہی بہتر ہے ، اگر میری اس بتائی ہوئی تجارت کے تاجر تم بن گئے تو تمہاری ہر لغزش سے ہر گناہ سے میں درگزر کر لوں گا اور جنتوں کے پاکیزہ محلات میں اور بلند و بالا درجوں میں تمہیں پہنچاؤں گا ، تمہارے بالا خانوں اور ان ہمیشگی والے باغات کے درختوں تلے سے صاف شفاف نہریں پوری روانی سے جاری ہوں گی ، یقین مانو کہ زبردست کامیابی اور اعلیٰ مقصد روی یہی ہے ۔ اچھا اس سے بھی زیادہ سنو تم جو ہمیشہ دشمنوں کے مقابلہ پر میری مدد طلب کرتے رہتے ہو اور اپنی فتح چاہتے ہو میرا وعدہ ہے کہ یہ بھی تمہیں دوں گا ادھر مقابلہ ہوا ، ادھر فتح ہوئی ، ادھر سامنے آئے ، ادھر فتح و نصرت نے رکاب بوسی کی ۔ ‘ اور جگہ ارشاد ہوتا ہے «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِن تَنصُرُوا اللہَ یَنصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ أَقْدَامَکُمْ» ۱؎ (47-محمد:7) ’ ایمان والو اگر تم اللہ کے دین کی مدد کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرے گا اور تمیں ثابت قدمی عنایت فرمائے گا ۔ ‘ اور فرمان ہے «وَلَیَنصُرَنَّ اللہُ مَن یَنصُرُہُ إِنَّ اللہَ لَقَوِیٌّ عَزِیزٌ» ۱؎ (22-الحج:40) یعنی ’ یقیناً اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرے گا جو اللہ کے دین کی مدد کرے بیشک اللہ تعالیٰ بڑی قوت والا اور غیر فانی عزت والا ہے ۔ ‘ یہ مدد اور یہ فتح دنیا میں اور وہ جنت اور نعمت آخرت میں ان لوگوں کے حصہ میں ہے جو اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں لگے رہیں اور دین اللہ کی خدمت میں جان و مال سے دریغ نہ کریں اسی لیے فرما دیا کہ اے نبی ان ایمان والوں کو میری طرف سے یہ خوشخبری پہنچا دو ۔ الصف
11 الصف
12 الصف
13 الصف
14 عیسیٰ علیہ السلام کے ۱۲ حواریوں کی روداد اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ ہر آن اور ہر لحظہ جان مال ، عزت آبرو ، قول فعل ، نقل و حرکت سے دل اور زبان سے اللہ کی اور اس کے رسول کی تمام تر باتوں کی تعمیل میں رہیں ۔ پھر مثال دیتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کے تابعداروں کو دیکھو کہ عیسیٰ علیہ السلام کی آواز پر فوراً لبیک پکار اٹھے اور ان کے اس کہنے پر کہ کوئی ہے جو اللہ کی باتوں میں میری امداد کرے انہوں نے بلا غور علی الفور کہہ دیا کہ ہم سب آپ کے ساتھی ہیں اور دین اللہ کی امداد میں آپ کے تابع ہیں ۔ چنانچہ روح اللہ علیہ صلوالت اللہ نے اسرائیلیوں اور یونانیوں میں انہیں مبلغ بنا کر شام کے شہروں میں بھیجا ، حج کے دنوں میں سرور رسل صلی اللہ علیہ وسلم بھی فرمایا کرتے تھے کہ { کوئی ہے جو مجھے جگہ دے تاکہ میں اللہ کی رسالت کو پہنچا دوں قریش تو مجھے رب کا پیغام پہنچانے سے روک رہے ہیں۔ } ۱؎ (سنن ابوداود:4734،قال الشیخ الألبانی:۔صحیح) ۔ چنانچہ اہل مدینہ کے قبیلے اوس و خزرج کو اللہ تعالیٰ نے یہ سعادت ابدی بخشی انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں قبول کیں اور مضبوط عہد و پیمان کئے کہ اگر آپ ہمارے ہاں آ جائیں تو پھر کسی سرخ و سیاہ کی طاقت نہیں جو آپ کو دکھ پہنچائے ، ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جانیں لڑا دیں گے اور آپ پر کوئی آنچ نہ آنے دیں گے ۔ پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو لے کر ہجرت کر کے ان کے ہاں گئے تو فی الواقع انہوں نے اپنے کہے کو پورا کر دکھایا اور اپنی زبان کی پاسداری کی اسی لیے انصار کے معزز لقب سے ممتاز ہوئے اور یہ لقب گویا ان کا امتیازی نام بن گیا ، اللہ ان سے خوش ہو اور انہیں بھی راضی کرے آمین ! جبکہ حواریوں کو لے کر آپ علیہ السلام دین اللہ کی تبلیغ کے لیے کھڑے ہوئے تو بنی اسرائیل کے کچھ لوگ تو راہ راست پر آ گئے اور کچھ لوگ نہ آئے بلکہ آپ علیہ السلام کو اور آپ علیہ السلام کی والدہ ماجدہ طاہرہ کو بدترین برائی کی طرف منسوب کیا ان یہودیوں پر اللہ کی پھٹکار پڑی اور ہمیشہ کے لیے راندہ درگاہ بن گئے ۔ پھر ماننے والوں میں سے بھی ایک جماعت ماننے میں ہی حد سے گزر گئی اور انہیں ان کے درجہ سے بہت بڑھا دیا ، پھر اس گروہ میں بھی کئی گروہ ہو گئے ، بعض تو کہنے لگے کہ سیدنا عیسیٰ [ علیہ السلام ] اللہ کے بیٹے ہیں بعض نے کہا تین میں کے تیسرے ہیں یعنی باپ بیٹا اور روح القدس اور بعض نے تو آپ علیہ السلام کو اللہ ہی مان لیا ، ان سب کا ذکر سورۃ نساء میں مفصل ملاحظہ ہو ۔ سچے عیسائی سچے ایمان والوں کی جناب باری نے اپنے آخر الزماں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے تائید کی ان کے دشمن نصرانیوں پر انہیں غالب کر دیا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں جب اللہ کا ارادہ ہوا کہ عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر چڑھا لے ، آپ علیہ السلام نہا دھو کر اپنے اصحاب کے پاس آئے ، سر سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے ، یہ بارہ صحابہ تھے جو ایک گھر میں بیٹھے ہوئے تھے آتے ہی فرمایا ” تم میں وہ بھی ہیں جو مجھ پر ایمان لا چکے ہیں لیکن پھر میرے ساتھ کفر کریں گے اور ایک دو دفعہ نہیں بلکہ بارہ بارہ مرتبہ ۔ “ پھر فرمایا ” تم میں سے کون اس بات پر آمادہ ہے کہ اس پر میری مشابہت ڈالی جائے اور وہ میرے بدلے قتل کیا جائے اور جنت میں میرے درجے میں میرا ساتھی بنے ۔ “ ایک نوجوان جو ان سب میں کم عمر تھا ، اٹھ کھڑا ہوا اور اپنے آپ کو پیش کیا ، آپ نے فرمایا ” تم بیٹھ جاؤ “ ، پھر وہی بات کہی اب کی مرتبہ بھی کم عمر نوجوان صحابی کھڑے ہوئے ، عیسیٰ علیہ السلام نے اب کی مرتبہ بھی انہیں بٹھا دیا ، پھر تیسری مرتبہ یہی سوال کیا ، اب کی مرتبہ بھی یہی نوجوان کھڑے ہوئے آپ نے فرمایا بہت بہتر ، اسی وقت ان کی شکل و صورت بالکل عیسیٰ علیہ السلام جیسی ہو گئی اور خود عیسیٰ علیہ السلام اس گھر کے ایک روزن سے آسمان کی طرف اٹھا لیے گئے ۔ اب یہودیوں کی فوج آئی اور انہوں نے اس نوجوان کو عیسیٰ علیہ السلام سمجھ کر گرفتار کر لیا اور قتل کر دیا اور سولی پر چڑھا دیا اور عیسیٰ علیہ السلام کی پیشین گوئی کے مطابق ان باقی کے گیارہ لوگوں میں سے بعض نے بارہ بارہ مرتبہ کفر کیا ، حالانکہ وہ اس سے پہلے ایماندار تھے ۔ سچے عیسائی پھر بنی اسرائیل کے ماننے والے گروہ کے تین فرقے ہو گئے ، ایک فرقے نے تو کہا کہ خود اللہ ہمارے درمیان بصورت مسیح تھا ، جب تک چاہا رہا ، پھر آسمان پر چڑھ گیا ، انہیں یعقوبیہ کہا جاتا ہے ۔ ایک فرقے نے کہا : ہم میں اللہ کا بیٹا تھا ، جب تک اللہ نے چاہا اسے ہم میں رکھا اور جب چاہا اپنی طرف چڑھا لیا ، انہیں سطوریہ کہا جاتا ہے ۔ تیسری جماعت حق پر قائم رہی ان کا عقیدہ ہے کہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول عیسیٰ علیہ السلام ہم میں تھے ، جب تک اللہ کا ارادہ رہا آپ ہم میں موجود رہے پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف اٹھا لیا ، یہ جماعت مسلمانوں کی ہے ۔ پھر ان دونوں کافر جماعتوں کی طاقت بڑھ گئی اور انہوں نے ان مسلمانوں کو مار پیٹ کر قتل و غارت کرنا شروع کیا اور یہ دبے بھی ہوئے اور مغلوب ہی رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا ، پس بنی اسرائیل کی وہ مسلمان جماعت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ایمان لائی اور ان کافر جماعتوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کفر کیا ، ان ایمان والوں کی اللہ تعالیٰ نے مدد کی اور انہیں ان کے دشمنوں پر غالب کر دیا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا غالب آ جانا اور دین اسلام کا تمام ادیان کو مغلوب کر دینا ہی ان کا غالب آنا اور اپنے دشمنوں پر فتح پانا ہے ۔ ملاحظہ ہو تفسیر ابن جریر اور سنن نسائی ۔ ۱؎ (نسائی فی السنن الکبری:489/6) پس یہ امت حق پر قائم رہ کر ہمیشہ تک غالب رہے گی یہاں تک کہ امر اللہ یعنی قیامت آ جائے اور یہاں تک کہ اس امت کے آخری لوگ عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہو کر مسیح دجال سے لڑائی کریں گے جیسے کہ صحیح احادیث میں موجود ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے سورۃ صف کی تفسیر ختم ہوئی ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» الصف
0 الجمعة
1 قرآن حکیم آفاقی کتاب ہدایت ہے ہر بے زبان اور ناطق چیز اللہ تعالیٰ عزوجل کی پاکیزگی بیان کرتی رہتی ہے جیسے اور جگہ بھی فرمایا ہے کہ «وَإِن مِّن شَیْءٍ إِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِہِ» ’ کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی تسبیح اس کی حمد کے ساتھ نہ کرتی ہو ‘ ، (17-الاسراء:44) تمام مخلوق خواہ آسمان کی ہو ، خواہ زمین کی ، اس کی تعریفوں اور پاکیزگیوں کے بیان میں مصروف و مشغول ہے ، وہ آسمان و زمین کا بادشاہ اور ان دونوں میں اپنا پورا تصرف اور اٹل حکم جاری کرنے والا ہے ، وہ تمام نقصانات سے پاک اور بےعیب ہے ، تمام صفات کمالیہ کے ساتھ موصوف ہے ، وہ عزیز و حکیم ہے ۔ اس کی تفسیر کئی بار گزر چکی ہے ۔ «الْأُمِّیٰونَ» سے مراد عرب ہیں ۔ جیسے اور جگہ فرمان باری ہے «وَقُلْ لِلَّذِینَ أُوتُوا الْکِتَاب وَالْأُمِّیِّینَ أَأَسْلَمْتُمْ فَإِنْ أَسْلَمُوا فَقَدْ اِہْتَدَوْا وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَیْک الْبَلَاغ وَاَللَّہ بَصِیر بِالْعِبَادِ» (3-آل عمران:20) ، یعنی ’ تو اہل کتاب اور ان پڑھ لوگوں سے کہہ دے کہ کیا تم نے اسلام قبول کیا ؟ اور وہ مسلمان ہو جائیں تو وہ راہ راست پر ہیں اور اگر منہ پھیر لیں تو تجھ پر تو صرف پہنچا دینا ہے اور بندوں کی پوری دیکھ بھال کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے ۔ ‘ یہاں عرب کا ذکر کرنا اس لیے نہیں کہ غیر عرب کی نفی ہو بلکہ صرف اس لیے کہ ان پر احسان و اکرام بہ نسبت دوسروں کے بہت زیادہ ہے ۔ جیسے اور جگہ ہے «وَإِنَّہُ لَذِکْر لَک وَلِقَوْمِک» (43-الزخرف:44) یعنی ’ یہ تیرے لیے بھی نصیحت ہے اور تیری قوم کے لیے بھی ‘ ، یہاں بھی قوم کی خصوصیت نہیں کیونکہ قرآن کریم سب جہان والوں کے لیے نصیحت ہے ۔ اسی طرح اور جگہ فرمان ہے «وَأَنْذِرْ عَشِیرَتک الْأَقْرَبِینَ» (26-الشعراء:214) ’ اپنے قرابت دار اور کنبہ والوں کو ڈرا دے ‘ ، یہاں بھی یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ کی تنبیہہ صرف اپنے گھر والوں کے ساتھ ہی مخصوص ہے بلکہ عام ہے ، ارشاد باری ہے «قُلْ یَا أَیّہَا النَّاس إِنِّی رَسُول اللَّہ إِلَیْکُمْ جَمِیعًا» (7-الأعراف:158) ’ لوگو میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں ‘ اور جگہ فرمان ہے «لِأُنْذِرکُمْ بِہِ وَمَنْ بَلَغَ» (6-الأنعام:19) یعنی ’ اس کے ساتھ میں تمہیں خبردار کر دوں اور ہر اس شخص کو جسے یہ پہنچے ‘ ، اسی طرح قرآن کی بابت فرمایا «وَمَنْ یَکْفُر بِہِ مِنْ الْأَحْزَاب فَالنَّار مَوْعِدہ» (11-ھود:17) ’ تمام گروہ میں سے جو بھی اس کا انکار کرے وہ جہنمی ہے ‘ ، اسی طرح کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں ، جن سے صاف ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت روئے زمین کی طرف تھی ، کل مخلوق کے آپ پیغمبر تھے ، ہر سرخ و سیاہ کی طرف آپ نبی بنا کر بھیجے گئے تھے ۔ «صَلَوَات اللَّہ وَسَلَامہ عَلَیْہِ» سورۃ الانعام کی تفسیر میں اس کا پورا بیان ہم کر چکے ہیں اور بہت سی آیات و احادیث وہاں وارد کی ہیں ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» میں دعائے ابراہیمی بن کر آیا یہاں یہ فرمانا کہ ان پڑھوں یعنی عربوں میں اپنا رسول بھیجا اس لیے ہے کہ خلیل اللہ کی دعا کی قبولیت معلوم ہو جائے ، آپ نے اہل مکہ کے لیے دعا مانگی تھی کہ اے اللہ ! ان میں ایک رسول ان ہی میں سے بھیج جو انہیں اللہ کی آیتیں پڑھ کر سنائے ، انہیں پاکیزگی سکھائے اور کتاب و حکمت کی تعلیم دے ، پس اللہ تعالیٰ نے آپ کی یہ دعا قبول فرمائی اور جبکہ مخلوق کو نبی اللہ کی سخت حاجت تھی سوائے چند اہل کتاب کے جو عیسیٰ علیہ السلام کے سچے دین پر قائم تھے اور افراط تفریط سے الگ تھی باقی تمام دنیا دین حق کو بھلا بیٹھی تھی اور اللہ کی مرضی کے خلاف کاموں میں مبتلا تھی اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا ، آپ نے ان اَن پڑھوں کو اللہ کے کلام کی آیتیں پڑھ سنائیں انہیں پاکیزگی سکھائی اور کتاب و حکمت کا معلم بنا دیا حالانکہ اس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں تھے ، سنئیے عرب ابراہیم علیہ السلام کے دین کے دعویدار تھے لیکن حالت یہ تھی کہ اصل دین کو خورد برد کر چکے تھے اس میں اس قدر تبدل و تغیر کر دیا تھا کہ توحید شرک سے اور یقین شک سے بدل چکا تھا ، ساتھ ہی بہت سی اپنی ایجاد کردہ بدعتیں دین اللہ میں شامل کر دی تھیں ، اسی طرح اہل کتاب نے بھی اپنی کتابوں کو بدل دیا تھا ان میں تحریف کر لی تھی اور متغیر کر دیا تھا ساتھ ہی معنی میں بھی الٹ پھیر کر لیا تھا پس اللہ پاک نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو عظیم الشان شریعت اور کامل مکمل دین دے کر دنیا والوں کی طرف بھیجا کہ اس فساد کی آپ اصلاح کریں ، اہل دنیا کو اصل احکام الٰہی پہنچائیں اللہ کی مرضی اور نامرضی کے احکام لوگوں کو معلوم کرا دیں ، جنت سے قریب کرنے والے عذاب سے نجات دلوانے والے تمام اعمال بتائیں ، ساری مخلوق کے ہادی بنیں اصول و فروع سب سکھائیں ، کوئی چھوٹی بڑی بات باقی نہ چھوڑیں ۔ تمام تر شکوک و شبہات سب کے دور کر دیں اور ایسے دین پر لوگوں کو ڈال دیں جن میں ہر بھلائی موجود ہو ، اس بلند و بالا خدمت کے لیے آپ میں وہ برتریاں اور بزرگیاں جمع کر دیں جو نہ آپ سے پہلے کسی میں تھیں ، نہ آپ کے بعد کسی میں ہو سکیں ، اللہ تعالیٰ آپ پر ہمیشہ ہمیشہ درود و سلام نازل فرماتا رہے آمین ! اہل فارس کی عظمت دوسری آیت کی تفسیر میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے صحیح بخاری میں مروی ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سورۃ الجمعہ نازل ہوئی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت فرمائی تو لوگوں نے پوچھا کہ «وَآخَرِینَ مِنْہُمْ» سے کیا مراد ہے تین مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا ، تب آپ نے اپنا ہاتھ سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے سر پر رکھا اور فرمایا : ” اگر ایمان ثریا ستارے کے پاس ہوتا تو بھی ان لوگوں میں سے ایک یا کئی ایک پا لیتے “ ۔ (صحیح بخاری:4898) اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورت مدنی ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیغمبری تمام دنیا والوں کی طرف ہے صرف عرب کے لیے مخصوص نہیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر میں فارس والوں کو فرمایا ۔ اسی عام بعثت کی بناء پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فارس و روم کے بادشاہوں کے نام اسلام قبول کرنے کے فرامین بھیجے ۔ مجاہد رحمہ اللہ وغیرہ بھی فرماتے ہیں اس سے مراد عجمی لوگ ہیں یعنی عرب کے سوا کے جو لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں اور آپ کی وحی کی تصدیق کریں ۔ ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے کہ «إِنَّ فِی أَصْلَاب أَصْلَاب أَصْلَاب رِجَال وَنِسَاء مِنْ أُمَّتِی یَدْخُلُونَ الْجَنَّۃ بِغَیْرِ حِسَاب» اب سے تین تین پشتوں کے بعد آنے والے میرے امتی بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے ( طبرانی:6005) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی آیت کی تلاوت کی ۔ «وَآخَرِینَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوا بِہِمْ ۚ وَہُوَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ» (الجمعہ:3) ۔ وہ اللہ عزت و حکمت والا ہے ، اپنی شریعت اور اپنی تقدیر میں غالب با حکمت ہے ۔ پھر فرمان ہے یہ اللہ کا فضل ہے یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسی زبردست عظیم الشان نبوت کے ساتھ سرفراز فرمانا ، اور اس امت کو اس فضل عظیم سے بہرہ ور کرنا ، یہ خاص اللہ کا فضل ہے ، اللہ اپنا فضل جسے چاہے دے ، وہ بہت بڑے فضل و کرم والا ہے ۔ الجمعة
2 الجمعة
3 الجمعة
4 الجمعة
5 کتابوں کا بوجھ لادا گدھا اور بےعمل عالم ان آیتوں میں یہودیوں کی مذمت بیان ہو رہی ہے کہ انہیں تورات دی گئی اور عمل کرنے کے لیے انہوں نے اسے لیا پھر عمل نہ کیا ، فرمایا جاتا ہے کہ ان کی مثال گدھے کی سی ہے کہ اگر اس پر کتابوں کا بوجھ لاد دیا جائے تو اسے یہ تو معلوم ہے کہ اس پر کوئی بوجھ ہے لیکن یہ نہیں جانتا کہ اس میں کیا ہے ؟ اسی طرح یہ یہود ہیں کہ ظاہری الفاظ تو خوب رٹے ہوئے ہیں لیکن نہ تو یہ معلوم ہے کہ مطلب کیا ہے ؟ نہ اس پر ان کا عمل ہے بلکہ اور تبدیل و تحریف کرتے رہتے ہیں ، پس دراصل یہ اس بےسمجھ جانور سے بھی بدترین ہیں ، کیونکہ اسے تو قدرت نے سمجھ ہی نہیں دی لیکن یہ سمجھ رکھتے ہوئے پھر بھی اس کا استعمال نہیں کرتے ۔ اسی لیے دوسری آیت میں فرمایا گیا ہے «أُولٰئِکَ کَالْأَنْعَامِ بَلْ ہُمْ أَضَلٰ ۚ أُولٰئِکَ ہُمُ الْغَافِلُونَ» (7-الاعراف:179) یہ لوگ مثل چوپایوں کے ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ بہکے ہوئے ، یہ غافل لوگ ہیں ۔ یہاں فرمایا اللہ کی آیتوں کو جھٹلانے والوں کی بری مثال ہے ، ایسے ظالم اللہ کی رہنمائی سے محروم رہتے ہیں ۔ «وَقَالَ الْإِمَام أَحْمَد رَحِمَہُ اللَّہ حَدَّثَنَا اِبْن نُمَیْر عَنْ مُجَالِد عَنْ الشَّعْبِیّ عَنْ اِبْن عَبَّاس قَالَ : قَالَ رَسُول اللَّہ صَلَّی اللَّہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ” مَنْ تَکَلَّمَ یَوْم الْجُمُعَۃ وَالْإِمَام یَخْطُب فَہُوَ کَمَثَلِ الْحِمَار یَحْمِل أَسْفَارًا وَاَلَّذِی یَقُول لَہُ أَنْصِتْ لَیْسَ لَہُ جُمْعَۃ“» مسند احمد میں ہے { جو شخص جمعہ کے دن امام کے خطبہ کی حالت میں بات کرے ، وہ مثل گدھے کے ہے جو کتابیں اٹھائے ہوئے ہو اور جو اسے کہے کہ چپ رہ اس کا بھی جمعہ جاتا رہا ۔ } (مسند احمد:230/1:ضعیف) الجمعة
6 یہودیوں کو دعوت مباہلہ پھر فرماتا ہے ، اے یہودیو ! اگر تمہارا دعویٰ ہے کہ تم حق پر ہو اور نبی اور آپ کے اصحاب حق پر نہیں تو آؤ اور دعا مانگو کہ ہم دونوں میں سے جو حق پر نہ ہو اللہ اسے موت دے ، پھر فرماتا ہے کہ انہوں نے جو اعمال آگے بھیج رکھے ہیں وہ ان کے سامنے ہیں مثلاً کفر ، فجور ، ظلم ، نافرمانی وغیرہ اس وجہ سے ہماری پیشین گوئی ہے کہ وہ اس پر آمادگی نہیں کریں گے ، ان ظالموں کو اللہ بخوبی جانتا ہے ۔ سورۃ البقرہ کی آیت «قُلْ إِن کَانَتْ لَکُمُ الدَّارُ الْآخِرَۃُ عِندَ اللہِ خَالِصَۃً مِّن دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إِن کُنتُمْ صَادِقِینَ وَلَن یَتَمَنَّوْہُ أَبَدًا بِمَا قَدَّمَتْ أَیْدِیہِمْ ۗ وَ اللہُ عَلِیمٌ بِالظَّالِمِینَ وَلَتَجِدَنَّہُمْ أَحْرَصَ النَّاسِ عَلَیٰ حَیَاۃٍ وَمِنَ الَّذِینَ أَشْرَکُوا ۚ یَوَدٰ أَحَدُہُمْ لَوْ یُعَمَّرُ أَلْفَ سَنَۃٍ وَمَا ہُوَ بِمُزَحْزِحِہِ مِنَ الْعَذَابِ أَن یُعَمَّرَ ۗ وَ اللہُ بَصِیرٌ بِمَا یَعْمَلُونَ» (2-البقرہ:94-96) ، کی تفسیر میں یہودیوں کے اس مباہلے کا پورا ذکر ہم کر چکے ہیں اور وہیں یہ بھی بیان کر دیا ہے کہ مراد یہ ہے کہ اپنے اوپر اگر خود گمراہ ہوں تو ان پر تو یا اپنے مقابل پر اگر وہ گمراہ ہوں موت کی بد دعا کریں ، جیسے کہ نصرانیوں کے مباہلہ کا ذکر سورۃ آل عمران میں گزر چکا ہے ، ملاحظہ ہو تفسیر «فَمَنْ حَاجَّکَ فِیہِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَکَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَکُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَکُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَہِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللہِ عَلَی الْکَاذِبِینَ» (3-آل عمران:61) ، مشرکین سے بھی مباہلہ کا اعلان کیا گیا ملاحظہ ہو تفسیر سورۃ مریم آیت «قُلْ مَنْ کَانَ فِی الضَّلٰلَۃِ فَلْیَمْدُدْ لَہُ الرَّحْمٰنُ مَدًّا» (19-مریم:75) ، یعنی ’ اے نبی ! ان سے کہہ دے کہ جو گمراہی میں ہو رحمٰن اسے اور بڑھا دے ‘ ۔ مسند احمد میں { سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ابوجہل لعنتہ اللہ علیہ نے کہا کہ اگر میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کعبہ کے پاس دیکھوں گا تو اس کی گردن ناپوں گا جب یہ خبر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اگر یہ ایسا کرتا تو سب کے دیکھتے ہوئے فرشتے اسے پکڑ لیتے اور اگر یہود میرے مقابلہ پر آ کر موت طلب کرتے تو یقیناً وہ مر جاتے اور اپنی جگہ جہنم میں دیکھ لیتے اور اگر مباہلہ کے لیے لوگ نکلتے تو وہ لوٹ کر اپنے اہل و مال کو ہرگز نہ پاتے “ } ۔ یہ حدیث بخاری ترمذی اور نسائی میں بھی موجود ہے ۔ (صحیح بخاری:4958) الجمعة
7 الجمعة
8 موت سے مضر نہیں پھر فرماتا ہے موت سے تو کوئی بچ ہی نہیں سکتا ، جیسے سورۃ نساء میں ہے «أَیْنَمَا تَکُونُوا یُدْرِککٰمُ الْمَوْتُ وَلَوْ کُنتُمْ فِی بُرُوجٍ مٰشَیَّدَۃٍ» (4-النساء:78) یعنی تم جہاں کہیں بھی ہو وہاں تمہیں موت پا ہی لے گی گو مضبوط محلوں میں ہو ، معجم طبرانی کی ایک مرفوع حدیث میں ہے { موت سے بھاگنے والے کی مثال ایسی ہے جیسے ایک لومڑی ہو جس پر زمین کا کچھ قرض ہو وہ اس خوف سے کہ کہیں یہ مجھ سے مانگ نہ بیٹھے ، بھاگے ، بھاگتے بھاگتے جب تھک جائے تب اپنے بھٹ میں گھس جائے ، جہاں گھسی اور زمین نے پھر اس سے تقاضا کیا کہ لومڑی میرا قرض ادا کر دو پھر وہاں سے دم دبائے ہوئے تیزی سے بھاگی آخر یونہی بھاگتے بھاگتے ہلاک ہو گئی ۔ } (طبرانی6922ضعیف) الجمعة
9 جمعہ کا دن کیا ہے ، اس کی اہمیت کیوں ہے؟ «جمعہ» کا لفظ جمع سے مشتق ہے ، وجہ اشتقاق یہ ہے کہ اس دن مسلمان بڑی بڑی مساجد میں اللہ کی عبادت کے لیے جمع ہوتے ہیں اور یہ بھی وجہ ہے کہ اسی دن تمام مخلوق کامل ہوئی ، چھ دن میں ساری کائنات بنائی گئی ہے ، چھٹا دن جمعہ کا ہے ، اسی دن آدم علیہ السلام پیدا کئے گئے ، اسی دن جنت میں بسائے گئے اور اسی دن وہاں سے نکالے گئے ، اسی دن میں قیامت قائم ہو گی ، اس دن میں ایک ایسی ساعت ہے کہ اس وقت مسلمان بندہ اللہ تعالیٰ سے جو طلب کرے اللہ تعالیٰ اسے عنایت فرماتا ہے ، جیسے کہ صحیح احادیث میں آیا ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ سے پوچھا : ” جانتے ہو جمعہ کا دن کیا ہے ؟ “ انہوں نے کہا : اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اسی دن تیرے ماں باپ ( یعنی آدم و حواء ) کو اللہ تعالیٰ نے جمع کیا “ ، یا یوں فرمایا : کہ تمہارے باپ کو جمع کیا ۔ اسی طرح ایک موقوف حدیث میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ۔ «فاللہ اعلم» پہلے اسے «یومِ العروبہ» کہا جاتا تھا ، پہلی امتوں کو بھی ہر سات دن میں ایک دن دیا گیا تھا ، لیکن جمعہ کی ہدایت انہیں نہیں ہوئی ، یہودیوں نے ہفتہ پسند کیا جس میں مخلوق کی پیدائش شروع بھی نہ ہوئی تھی ، نصاریٰ نے اتوار اختیار کیا جس میں مخلوق کی پیدائش کی ابتداء ہوئی ہے اور اس امت کے لیے اللہ تعالیٰ نے جمعہ کو پسند فرمایا ، جس دن اللہ تعالیٰ نے جمعہ کو پسند فرمایا ، جس دن اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پورا کیا تھا ، جیسے صحیح بخاری کی حدیث میں ہے کہ ہم دنیا میں آنے کے اعتبار سے تو سب کے پیچھے ہیں لیکن قیامت کے دن سب سے پہلے ہوں گے ، سوائے اس کے کہ انہیں ہم سے پہلے کتاب اللہ دی گئی ، پھر ان کے اس دن میں انہوں نے اختلاف کیا اللہ تعالیٰ نے ہمیں راہ راست دکھائی پس لوگ اس میں بھی ہمارے پیچھے ہیں ، یہودی کل اور نصرانی پرسوں ۔ (صحیح بخاری:876) مسلم میں اتنا اور بھی ہے کہ قیامت کے دن تمام مخلوق میں سب سے پہلے فیصلہ ہمارے بارے میں کیا جائے گا ۔ (صحیح مسلم:856) یہاں اللہ تعالیٰ مومنوں کو جمعہ کے دن اپنی عبادت کے لیے جمع ہونے کا حکم دے رہا ہے ، «سعی» سے مراد یہاں دوڑنا نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ ذکر اللہ یعنی نماز کے لیے قصد کرو ، چل پڑو ، کوشش کرو ، کام کاج چھوڑ کر اٹھ کھڑے ہو جاؤ ، جیسے اس آیت میں سعی کوشش کے معنی میں ہے «وَمَنْ أَرَادَ الْآخِرَۃ وَسَعَی لَہَا سَعْیہَا وَہُوَ مُؤْمِن» (17-الاسراء:19) یعنی جو شخص آخرت کا ارادہ کرے پھر اس کے لیے کوشش بھی کرے ، سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی قراءت میں بجائے «فَاسْعَوْا» کے «فَامْضُوا» ہے ۔ یہ یاد رہے کہ نماز کے لیے دوڑ کر جانا منع ہے ۔ بخاری و مسلم میں ہے { جب تم اقامت سنو تو نماز کیلئے سکینت اور وقار کے ساتھ چلو ، دوڑو نہیں ، جو پاؤ پڑھ لو ، جو فوت ہو ادا کر لو ۔ } (صحیح بخاری:636) ایک اور روایت میں ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں تھے کہ لوگوں کے پاؤں کی آہٹ زور زور سے سنی ، فارغ ہو کر فرمایا : ” کیا بات ہے ؟ “ لوگوں نے کہا : ہم جلدی جلدی نماز میں شامل ہوئے ، فرمایا : ” ایسا نہ کرو نماز کو اطمینان کے ساتھ چل کر آؤ جو پاؤ پڑھ لو جو چھوٹ جائے پوری کر لو “ } ۔ (صحیح مسلم:603) حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں اللہ کی قسم یہاں یہ حکم نہیں کہ دوڑ کر نماز کے لیے آؤ یہ تو منع ہے بلکہ مراد دل اور نیت اور خشوع خضوع ہے ، قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں اپنے دل اور اپنے عمل سے کوشش کرو ، جیسے اور جگہ ہے «فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّعْی» (37-الصافات:102) ذبیح اللہ علیہ السلام جب خلیل اللہ علیہ السلام کے ساتھ چلنے پھرنے کے قابل ہو گئے ۔ غسلِ جمعہ اور آداب جمعہ جمعہ کے لیے آنے والے کو غسل بھی کرنا چاہیئے ، بخاری مسلم میں ہے کہ { جب تم میں سے کوئی جمعہ کی نماز کے لیے جانے کا ارادہ کرے وہ غسل کر لیا کرے ۔ } (صحیح بخاری:877) اور حدیث میں ہے { جمعہ کے دن کا غسل ہر بالغ پر واجب ہے ۔ } (صحیح بخاری:858) اور روایت میں ہے کہ { ہر بالغ پر ساتویں دن سر اور جسم کا دھونا ہے ۔ } (صحیح مسلم:849) صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ { وہ دن جمعہ کا دن ہے ۔ } (سنن نسائی:1379،قال الشیخ الألبانی:صحیح) سنن اربعہ میں ہے { جو شخص جمعہ کے دن اچھی طرح غسل کرے اور سویرے سے ہی مسجد کی طرف چل دے ، پیدل جائے ، سوار نہ ہو اور امام سے قریب ہو کر بیٹھے ، خطبے کو کان لگا کر سنے ، لغو کام نہ کرے ، تو اسے ہر ایک قدم کے بدلے سال بھر کے روزوں اور سال بھر کے قیام کا ثواب ہے ۔ } (سنن ترمذی:496،قال الشیخ الألبانی:صحیح) بخاری مسلم میں ہے { جو شخص جمعہ کے دن جنابت کے غسل کی طرح غسل کرے ، اول ساعت میں جائے ، اس نے گویا ایک اونٹ اللہ کی راہ میں قربان کیا ، دوسری ساعت میں جانے والا مثل گائے کی قربانی کرنے والے کے ہے ، تیسری ساعت میں جانے والا مثل بھیڑ کی قربانی کرنے والے کے ہے ، چوتھی ساعت میں جانے والا مرغ راہ اللہ میں تصدق کرنے والے کی طرح ہے ، پانچویں ساعت میں جانے والا انڈا راہ اللہ دینے والے جیسا ہے ، پھر جب امام آئے فرشتے خطبہ سننے کے لیے حاضر ہو جاتے ہیں ۔ } (صحیح بخاری:881) مستحب ہے کہ جعہ کے دن اپنی طاقت کے مطابق اچھا لباس پہنے ، خوشبو لگائے ، مسواک کرے اور صفائی اور پاکیزگی کے ساتھ جمعہ کی نماز کے لیے آئے ، ایک حدیث میں غسل کے بیان کے ساتھ ہی مسواک کرنا اور خوشبو ملنا بھی ہے ، (صحیح بخاری:880) مسند احمد میں ہے { جو شخص جمعہ کے دن غسل کرے اور اپنے گھر والوں کو خوشبو ملے اگر ہو اور اچھا لباس پہنے پھر مسجد میں آئے اور کچھ نوافل پڑھے اگر جی چاہے اور کسی کے ایذاء نہ دے [ یعنی گردنیں پھلانگ کر نہ آئے نہ کسی بیٹھے ہوئے کو ہٹائے ] پھر جب امام آ جائے اور خطبہ شروع ہو خاموشی سے سنے تو اس کے گناہ جو اس جمعہ سے لے کر دوسرے جمعہ تک کے ہوں سب کا کفارہ ہو جاتا ہے ۔ } (سنن ابوداود:1078،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابوداؤد اور ابن ماجہ میں ہے { سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منبر پر بیان فرماتے ہوئے سنا کہ تم میں سے کسی پر کیا حرج ہے اگر وہ اپنے روزمرہ کے محنتی لباس کے علاوہ دو کپڑے خرید کر جمعہ کے لیے مخصوص رکھے ۔ } (سنن ابن ماجہ:1096،قال الشیخ الألبانی:صحیح) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمان اس وقت فرمایا جب لوگوں پر وہی معمولی چادریں دیکھیں تو فرمایا کہ اگر طاقت ہو تو ایسا کیوں نہ کر لو ۔ جمعہ کی پہلی آذان جس اذان کا یہاں اس آیت میں ذکر ہے اس سے مراد وہ اذان ہے جو امام کے منبر پر بیٹھ جانے کے بعد ہوتی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہی اذان تھی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے تشریف لاتے منبر پر جاتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹھ جانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ اذان ہوتی تھی ، اس سے پہلے کی اذان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نہ تھی اسے امیر المؤمنین سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے صرف لوگوں کی کثرت کو دیکھ کر زیادہ کیا ۔ صحیح بخاری میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، سیدنا ابوبکر صدیق اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہما کے زمانے میں جمعہ کی اذان صرف اسی وقت ہوتی تھی جب امام منبر پر خطبہ کہنے کے لیے بیٹھ جاتا ، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جب لوگ بہت زیادہ ہو گئے تو آپ نے دوسری اذان ایک الگ مکان پر کہلوائی ، زیادہ کی ، اس مکان کا نام زورا تھا (صحیح بخاری:912) مسجد سے قریب سب سے بلند یہی مکان تھا ۔ مکحول رحمہ اللہ سے ابن ابی حاتم میں رویات ہے کہ اذان صرف ایک ہی تھی جب امام آتا تھا اس کے بعد صرف تکبیر ہوتی تھی ، جب نماز کھڑی ہونے لگے ، اسی اذان کے وقت خرید و فروخت حرام ہوتی ہے ، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اس سے پہلے کی اذان کا حکم صرف اس لیے دیا تھا کہ لوگ جمع ہو جائیں ۔ جمعہ میں آنے کا حکم آزاد مردوں کو ہے عورتوں ، غلاموں اور بچوں کو نہیں ، مسافر ، مریض اور تیمار دار اور ایسے ہی اور عذر والے بھی معذور گنے گئے ہیں جیسے کہ کتب فروغ میں اس کا ثبوت موجود ہے ۔ جمعہ کے وقت خرید و فروخت حرام ہے پھر فرماتا ہے «بیع» کو چھوڑ دو یعنی ذکر اللہ کے لیے چل پڑو تجارت کو ترک کر دو ، جب نماز جمعہ کی اذان ہو جائے ، علماء کرام رحمہ اللہ علیہم کا اتفاق ہے کہ اذان کے بعد خرید و فروخت حرام ہے ، اس میں اختلاف ہے کہ دینے والا اگر دے تو وہ بھی صحیح ہے یا نہیں ؟ ظاہر آیت سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی صحیح نہ ٹھہرے گا ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» پھر فرماتا ہے «بیع» کو چھوڑ کر ذکر اللہ اور نماز کی طرف تمہارا آنا ہی تمہارے حق میں دین دنیا کی بہتری کا باعث ہے اگر تم میں علم ہو ۔ ہاں جب نماز سے فراغت ہو جائے تو اس مجمع سے چلے جانا اور اللہ کے فضل کی تلاش میں لگ جانا ، تمہارے لیے حلال ہے ۔ سیدنا عراک بن مالک رضی اللہ عنہ جمعہ کی نماز سے فارغ ہو کر لوٹ کر مسجد کے دروازے پر کھڑے ہو جاتے اور یہ دعا پڑھتے « اللہُمَّ إِنِّی أَجَبْت دَعْوَتک وَصَلَّیْت فَرِیضَتک وَانْتَشَرْت کَمَا أَمَرْتَنِی فَارْزُقْنِی مِنْ فَضْلک وَأَنْتَ خَیْر الرَّازِقِینَ» یعنی اے اللہ ! میں نے تیری آواز پر حاضری دی اور تیری فرض کردہ نماز ادا کی ، پھر تیرے حکم کے مطابق اس مجمع سے اٹھ آیا ، اب تو مجھے اپنا فضل نصیب فرما ، تو سب سے بہتر روزی رساں ہے (ابن ابی حاتم) اس آیت کو پیش نظر رکھ کر بعض سلف صالحین نے فرمایا ہے کہ جو شخص جمعہ کے دن نماز جمعہ کے بعد خرید و فروخت کرے اسے اللہ تعالیٰ ستر حصے زیادہ برکت دے گا ۔ پھر فرماتا ہے کہ خرید فروخت کی حالت میں بھی ذکر اللہ کیا کرو ، دنیا کے نفع میں اس قدر مشغول نہ ہو جاؤ کہ آخروی نفع بھول بیٹھو ۔ حدیث شریف میں ہے جو شخص کسی بازار جائے اور وہاں «لَا إِلَہ إِلَّا اللَّہ وَحْدہ لَا شَرِیک لَہُ لَہُ الْمُلْک وَلَہُ الْحَمْد وَہُوَ عَلَی کُلّ شَیْء قَدِیر» پڑھے اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایک لاکھ نیکیاں لکھتا ہے اور ایک لاکھ برائیاں معاف فرماتا ہے ۔ (سنن ابن ماجہ:2235،قال الشیخ الألبانی:حسن) مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں بندہ کثیر الذکر اسی وقت کہلاتا ہے جبکہ کھڑے ، بیٹھے ، لیٹے ہر وقت اللہ کی یاد کرتا رہے ۔ الجمعة
10 الجمعة
11 تجارت عبادت اور صلوۃ جمعہ مدینہ میں جمعہ والے دن تجارتی مال کے آ جانے کی وجہ سے جو حضرات خطبہ چھوڑ کر اٹھ کھڑے ہوئے تھے ، انہیں اللہ تعالیٰ عتاب کر رہا ہے کہ یہ لوگ جب کوئی تجارت یا کھیل تماشہ دیکھ لیتے ہیں تو اس کی طرف چل کھڑے ہوتے ہیں اور تجھے خطبہ میں ہی کھڑا چھوڑ دیتے ہیں ، مقاتل بن حیان رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ مال تجارت دحیہ بن خلیفہ کا تھا جمعہ والے دن آیا اور شہر میں خبر کے لیے طبل بجنے لگا ، دحیہ اس وقت تک مسلمان نہ ہوئے تھے ، طبل کی آواز سن کر سب لوگ اٹھ کھڑے ہوئے صرف چند آدمی رہ گئے ، مسند احمد میں ہے صرف بارہ آدمی رہ گئے باقی لوگ اس تجارتی قافلہ کی طرف چل دیئے جس پر یہ آیت اتری ۔ (صحیح بخاری:4899) مسند ابو یعلیٰ میں اتنا اور بھی ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اگر یہ بھی باقی نہ رہتے اور سب اٹھ کر چلے جاتے تو تم سب پر یہ وادی آگ بن کر بھڑک اٹھتی “ ، جو لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے نہیں گئے تھے ، ان میں سیدنا ابوبکر صدیق اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہما بھی تھے ۔ } (مسند ابویعلیٰ1979) اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جمعہ کا خطبہ کھڑے ہو کر پڑھنا چاہیئے ، صحیح مسلم میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن دو خطبے پڑھتے تھے درمیان میں بیٹھ جاتے تھے قرآن شریف پڑھتے تھے اور لوگوں کو تذکیر و نصیحت فرماتے تھے ۔ } (صحیح مسلم:862) یہاں یہ بات بھی معلوم رہنی چاہیئے کہ یہ واقعہ بقول بعض کے اس وقت کا ہے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کی نماز کے بعد خطبہ پڑھا کرتے تھے ۔ مراسیل ابوداؤد میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ سے پہلے جمعہ کی نماز پڑھا کرتے تھے جیسے عیدین میں ہوتا ہے ، یہاں تک کہ ایک مرتبہ آپ خطبہ سنا رہے تھے کہ ایک شخص نے آن کر کہا : دحیہ بن خلیفہ مال تجارت لے کر آ گیا ہے ، یہ سن کر سوائے چند لوگوں کے اور سب اٹھ کھڑے ہو گئے ۔ } (ابوداؤد فی المراسیل:59ضعیف) پھر فرماتا ہے اے نبی ! انہیں خبر سنا دو کہ دار آخرت کا ثواب عند اللہ ہے وہ کھیل تماشوں سے خرید و فروخت سے بہت ہی بہتر ہے ، اللہ پر توکل رکھ کر ، طلب رزق اوقات اجازت میں جو کرے اللہ اسے بہترین طریق پر روزیاں دے گا ۔ «الحمداللہ» سورۃ الجمعہ کی تفسیر پوری ہوئی ۔ الجمعة
0 المنافقون
1 منافقین کی قسمیں کھانا اللہ تعالیٰ منافقوں کے نفاق کو ظاہر کرتا ہے کہ ’ گو یہ تیرے پاس آ کر قسمیں کھا کھا کر اپنے اسلام کا اظہار کرتے ہیں تیری رسالت کا اقرار کرتے ہیں مگر دراصل دل کے کھوٹے ہیں ، فی الواقع آپ رسول اللہ بھی ہیں ، ان کا یہ قول بھی ہے مگر چونکہ دل میں اس کا کوئی اثر نہیں ، لہٰذا یہ جھوٹے ہیں ۔ یہ تجھے رسول اللہ مانتے ہیں ، اس بارے میں اگر یہ سچے ہونے کے لیے قسمیں بھی کھائیں لیکن آپ یقین نہ کیجئے ۔ یہ قسمیں تو ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے یہ تو اپنے جھوٹ کو سچ بنانے کا ایک ذریعہ ہیں ‘ ۔ مقصد یہ ہے کہ مسلمان ان سے ہوشیار رہیں کہیں انہیں سچا ایماندار سمجھ کر کسی بات میں ان کی تقلید نہ کرنے لگیں کہ یہ اسلام کے رنگ میں تم کو کفر کا ارتکاب کرا دیں ، یہ بداعمال لوگ اللہ کی راہ سے دور ہیں ۔ ضحاک رحمہ اللہ کی قرأت میں «أَیْمَانَہُمْ» ‏‏‏‏الف کی زیر کے ساتھ ہے تو مطلب یہ ہو گا کہ انہوں نے اپنی ظاہری تصدیق کو اپنے لیے تقیہ بنا لیا ہے کہ قتل سے اور حکم کفر سے دنیا میں بچ جائیں ۔ یہ نفاق ان کے دلوں میں اس گناہ کی شومی کے باعث رچ گیا ہے کہ ایمان سے پھر کر کفر کی طرف اور ہدایت سے ہٹ کر ضلالت کی جانب آ گئے ہیں ، اب دلوں پر مہر الٰہی لگ چکی ہے اور بات کی تہہ کو پہنچنے کی قابلیت سلب ہو چکی ہے ، بظاہر تو خوش رو ، خوش گو ہیں اس فصاحت اور بلاغت سے گفتگو کرتے ہیں کہ خواہ مخواہ دوسرے کے دل کو مائل کر لیں ، لیکن باطن میں بڑے کھوٹے بڑے کمزور دل والے نامرد اور بدنیت ہیں ، جہاں کوئی بھی واقعہ رونما ہوا اور سمجھ بیٹھے کہ ہائے مرے ۔ اور جگہ ہے «‏‏‏‏أَشِحَّۃً عَلَیْکُمْ فَإِذَا جَاءَ الْخَوْفُ رَأَیْتَہُمْ یَنظُرُونَ إِلَیْکَ تَدُورُ أَعْیُنُہُمْ کَالَّذِی یُغْشَیٰ عَلَیْہِ مِنَ الْمَوْتِ» ۱؎ (33-الأحزاب:19) الخ ، ’ تمہارے مقابلہ میں بخل کرتے ہیں ، پھر جس وقت خوف ہوتا ہے تو تمہاری طرف اس طرح آنکھیں پھیر پھیر کر دیکھتے ہیں گویا کسی شخص پر موت کی بیہوشی طاری ہے ، پھر جب خوف چلا جاتا ہے تو تمہیں اپنی بدکلامی سے ایذاء دیتے ہیں اور مال غنیمت کی حرص میں نہ کہنے کی باتیں کہہ گزرتے ہیں یہ بے ایمان ہیں ، ان کے اعمال غارت ہیں ، اللہ پر یہ امر نہایت ہی آسان ہے ‘ ۔ پس ان کی یہ آوازیں خالی پیٹ کے ڈھول کی بلند بانگ سے زیادہ وقعت نہیں رکھتیں یہی تمہارے دشمن ہیں ان کی چکنی چپڑی باتوں اور ثقہ اور مسکین صورتوں کے دھوکے میں نہ آ جانا ، اللہ انہیں برباد کرے ذرا سوچیں تو کیوں ہدایت کو چھوڑ کر بے راہی پر چل رہے ہیں ؟ المنافقون
2 المنافقون
3 المنافقون
4 علامات منافقین مسند احمد میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :” منافقوں کی بہت سی علامتیں ہیں جن سے وہ پہچان لیے جاتے ہیں ان کا سلام لعنت ہے ، ان کی خوراک لوٹ مار ہے ، ان کی غنیمت حرام اور خیانت ہے ، وہ مسجدوں کی نزدیکی ناپسند کرتے ہیں ، وہ نمازوں کے لیے آخری وقت آتے ہیں ، تکبر اور نحوت والے ہوتے ہیں ، نرمی اور سلوک تواضع اور انکساری سے محروم ہوتے ہیں ، نہ خود ان کاموں کو کریں ، نہ دوسروں کے ان کاموں کو وقعت کی نگاہ سے دیکھیں رات کی لکڑیاں اور دن کے شور و غل کرنے والے اور روایت میں ہے دن کو خوب کھانے پینے والے اور رات کو خشک لکڑیوں کی طرح پڑ رہنے والے “ } ۔ ۱؎ (مسند احمد:293/2:ضعیف) المنافقون
5 منافقوں کی محرومی سعادت کے اسباب ملعون منافقوں کا ذکر ہو رہا ہے کہ ’ ان کے گناہوں پر جب ان سے سچے مسلمان کہتے ہیں کہ آؤ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے لیے استغفار کریں گے تو اللہ تعالیٰ تمہاے گناہ معاف فرما دے گا تو یہ تکبر کے ساتھ سر ہلانے لگتے ہیں اور اعراض کرتے ہیں اور رک جاتے ہیں اور اس بات کو حقارت کے ساتھ رد کر دیتے ہیں ، اس کا بدلہ یہی ہے کہ اب ان کے لیے بخشش کے دروازے بند ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا استغفار بھی انہیں کچھ نفع نہ دے گا ، بھلا ان فاسقوں کی قسمت میں ہدیات کہاں ؟ ‘ سورۃ براۃ میں بھی اسی مضمون کی آیت گزر چکی ہے اور وہیں اس کی تفسیر اور ساتھ ہی اس کے متعلق کی حدیثیں بھی بیان کر دی گئی ہیں ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ سفیان راوی نے اپنا منہ دائیں جانب پھیر لیا تھا اور غضب و تکبر کے ساتھ ترچھی آنکھ سے گھور کر دکھایا تھا اسی کا ذکر اس آیت میں ہے اور سلف میں سے اکثر حضرات کا فرمان ہے کہ یہ سب کا سب بیان عبداللہ بن ابی بن سلول کا ہے جیسے کہ عنقریب آ رہا ہے ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ المنافقون
6 عبداللہ بن ابی۔رئیس المنافقین سیرت محمد بن اسحاق میں ہے کہ عبداللہ بن ابی بن سلول اپنی قوم کا بڑا اور شریف شخص تھا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن خطبہ کے لیے منبر پر بیٹھتے تھے تو یہ کھڑا ہو جاتا تھا اور کہتا ، تھا لوگو ! یہ ہیں اللہ کے رسول جو تم میں موجود ہیں جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے تمہارا کرام کیا اور تمہیں عزت دی اب تم پر فرض ہے کہ تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کرو اور آپ کی عزت و تکریم کرو آپ کا فرمان سنو اور جو فرمائیں بجا لاؤ یہ کہہ کر بیٹھ جایا کرتا تھا ۔ احد کے میدان میں اس کا نفاق کھل گیا اور یہ وہاں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کھلی نافرمانی کر کے تہائی لشکر کو لے کر مدینہ کو واپس لوٹ آیا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ احد سے فارغ ہوئے اور مدینہ میں مع الخیر تشریف لائے جمعہ کا دن آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر چڑھے تو حسب عادت یہ آج بھی کھڑا ہوا اور کہنا چاہتا ہی تھا کہ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ادھر ادھر سے کھڑے ہو گئے اور اس کے کپڑے پکڑ کر کہنے لگے ، دشمن اللہ بیٹھ جا ، تو اب یہ کہنے کا منہ نہیں رکھتا ، تو نے جو کچھ کیا وہ کسی سے مخفی نہیں ، اب تو اس کا اہل نہیں کہ زبان سے جو جی میں آئے بک دے ۔ یہ ناراض ہو کر لوگوں کی گردنیں پھلانگتا ہوا باہر نکل گیا اور کہتا جاتا تھا کہ گویا میں کسی بدیات کے کہنے کے لیے کھڑا ہوا تھا میں تو اس کا کام اور مضبوط کرنے کے لیے کھڑا ہوا تھا جو چند اصحاب رضی اللہ عنہم اجمعین مجھ پر اچھل کر آ گئے مجھے گھسیٹنے لگے اور ڈانٹ ڈپٹ کرنے لگے گویا کہ میں کسی بڑی بات کے کہنے کے لیے کھڑا ہوا تھا حالانکہ میری نیت یہ تھی کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کی تائید کروں انہوں نے کہا خیر اب تم واپس چلو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کریں گے آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے لیے اللہ سے بخشش چاہیں گے اس نے کہا مجھے کوئی ضرورت نہیں ۔ ۱؎ (سیرۃ ابن ہشام:69/3:مرسل) قتادہ رحمہ اللہ اور سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” یہ آیت عبداللہ بن ابی کے بارے میں اتری ہے واقعہ یہ تھا کہ اسی کی قوم کے ایک نوجوان مسلمان نے اس کی ایسی ہی چند بری باتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچائی تھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلوایا تو یہ صاف انکار کر گیا اور قسمیں کھا گیا ، انصاریوں نے صحابی کو ملامت اور ڈانٹ ڈپٹ کی اور اسے جھوٹا سمجھا اس پر یہ آیتیں اتریں اور اس منافق کی جھوٹی قسموں اور اس نوجوان صحابی کی سچائی کا اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ۔ اب اس سے کہا گیا کہ تو چل اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے استغفار کرا تو اس نے انکار کے لہجے میں سر ہلا دیا اور نہ گیا “ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:34160:مرسل) ابن ابی حاتم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک تھی کہ جس منزل میں اترتے وہاں سے کوچ نہ کرتے جب تک نماز نہ پڑھ لیں ، غزوہ تبوک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر پہنچی کہ عبداللہ بن ابی کہہ رہا ہے کہ ہم عزت والے ان ذلت والوں کو مدینہ پہنچ کر نکال دیں گے پس آپ نے آخری دن میں اترنے سے پہلے ہی کوچ کر دیا ۔ اسے کہا گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر اپنی خطا کی معافی اللہ سے طلب کر اس کا بیان اس آیت میں ہے ، اس کی اسناد سعید بن جبیر تک صحیح ہے لیکن یہ کہنا کہ یہ واقعہ غزوہ تبوک کا ہے اس میں نظر ہے بلکہ یہ ٹھیک نہیں ہے اس لیے کہ عبداللہ بن ابی بن سلول تو اس غزوہ میں تھا ہی نہیں بلکہ لشکر کی ایک جماعت کو لے کر یہ تو لوٹ گیا تھا ۔ کتب سیر و مغازی کے مصنفین میں تو یہ مشہور ہے کہ یہ واقعہ غزوہ مریسیع یعنی غزوہ بنو المصطلق کا ہے چنانچہ اس قصہ میں محمد بن حییٰ بن حبان اور عبداللہ بن ابوبکر اور عاصم بن عمر بن قتادہ سے مروی ہے کہ اس لڑائی کے موقعہ پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک جگہ قیام تھا ، وہاں جھجاہ بن سعید غفاری اور سنان بن یزید کا پانی کے ازدہام پر کچھ جھگڑا ہو گیا ، جھجاہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے کارندے تھے ، جھگڑے نے طول پکڑا سنان نے انصاریوں کو اپنی مدد کے لیے آواز دی اور جھجاہ نے مہاجرین کو اس وقت زید بن ارقم وغیرہ انصاری کی ایک جماعت عبداللہ بن ابی کے پاس بیٹھی ہوئی تھی ، اس نے جب یہ فریاد سنی تو کہنے لگا ، لو ہمارے ہی شہروں میں ان لوگوں نے ہم پر حملے شروع کر دیئے ، اللہ کی قسم ! ہماری اور ان قریشویں کی مثال وہی ہے جو کسی نے کہا ہے کہ اپنے کتے کو موٹا تازہ کرتا کہ تجھے ہی کاٹے ، اللہ کی قسم ! اگر ہم لوٹ کر مدینہ گئے تو ہم ذی مقدور لوگ ان بے مقدروں کو وہاں سے نکال دیں گے پھر اس کی قوم کے جو لوگ اس کے پاس بیٹھے تھے ان سے کہنے لگا یہ سب آفت تم نے خود اپنے ہاتھوں اپنے اوپر لی ہے تم نے انہیں اپنے شہر میں بسایا تم نے انہیں اپنے مال آدھوں آدھ حصہ دیا اب بھی اگر تم ان کی مالی امداد نہ کرو تو یہ خود تنگ آ کر مدینہ سے نکل بھاگیں گے ۔ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے یہ تمام باتیں سنیں آپ اس وقت بہت کم عمر تھے سیدھے سرکار نبوت صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئے اور کل واقعہ بیان فرمایا اس وقت آپ کے پاس سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی بیٹھے ہوئے تھے غضبناک ہو کر فرمانے لگے یا رسول اللہ ! عباد بن بشیر کو حکم فرمایئے کہ اس کی گردن الگ کر دے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” پھر تو لوگوں میں یہ مشہور ہو جائے گا کہ محمد اپنے ساتھیوں کی گردنیں مارتے ہیں یہ ٹھیک نہیں جاؤ لوگوں میں کوچ کی منادی کر دو “ ۔ عبداللہ بن ابی کو جب یہ معلوم ہوا کہ اس کی گفتگو کا علم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہو گیا تو بہت سٹ پٹایا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عذر معذرت اور حیلے حوالے تاویل اور تحریف کرنے لگا اور قسمیں کھا گیا کہ میں نے ایسا ہرگز نہیں کہا ، چونکہ یہ شخص اپنی قوم میں ذی عزت اور باوقعت تھا اور لوگ بھی کہنے لگے اے اللہ کے رسول ! شاید اس بچے نے ہی غلطی کی ہو اسے وہم ہو گیا ہو واقعہ ثابت تو ہوتا نہیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہاں سے جلدی ہی کوچ کے وقت سے پہلے ہی تشریف لے چلے راستے میں اسید بن نضیر رضی اللہ عنہ ملے انہوں نے آپ کی شان نبوت کے قابل با ادب سلام کیا پھر عرض کی کہ یا رسول اللہ ! آج کیا بات ہے کہ وقت سے پہلے ہی آپ نے کوچ کیا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” کیا تمہیں معلوم نہیں کہ تمہارے ساتھی ابن ابی نے کیا کہا ، وہ کہتا ہے کہ مدینہ جا کر ہم عزیز ان ذلیلوں کو نکال دیں گے “ ، اسید نے کہا یا رسول اللہ ! عزت والے آپ ہیں اور ذلیل وہ ہے یا رسول اللہ ! آپ اس کی ان باتوں کا خیال بھی نہ فرمایئے ، دراصل یہ بہت جلا ہوا ہے سنئیے ، اہل مدینہ نے اسے سردار بنانے پر اتفاق کر لیا تھا تاج تیار ہو رہا تھا کہ اللہ رب العزت آپ کو لایا اس کے ہاتھ سے ملک نکل گیا پس یہ چراغ پا ہو رہا ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چلتے رہے ، دوپہر کو ہی چل دیئے تھے ، شام ہوئی ، رات ہوئی ، صبح ہوئی یہاں تک کہ دھوپ میں تیزی آ گئی تب آپ نے پڑاؤ کیا تاکہ لوگ اس بات میں پھر نہ الجھ جائیں ، چونکہ تمام لوگ تھکے ہارے اور رات کے جاگے ہوئے تھے اترتے ہی سب سو گئے ادھر یہ سورت نازل ہوئی ۔ ۱؎ (دلائل النبوۃ للبیھقی:4/52-53:مرسل) بیہقی میں ہے کہ { ہم ایک غزوے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ایک مہاجر نے ایک انصار کو پتھر مار دیا اس پر بات بڑھ گئی اور دونوں نے اپنی اپنی جماعت سے فریاد کی اور انہیں پکارا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سخت ناراض ہوئے اور فرمانے لگے : ” یہ کیا جاہلیت کی ہانک لگانے لگے اس فضول خراب عادت کو چھوڑو “ ، عبداللہ بن ابی بن سلول کہنے لگا : اب مہاجر یہ کرنے لگ گئے ، اللہ کی قسم ! مدینہ پہنچتے ہی ہم ذی عزت ان ذلیلوں کو وہاں سے نکال باہر کریں گے ، اس وقت مدینہ شریف میں انصار کی تعداد مہاجرین سے بہت زیادہ تھی گو بعد میں مہاجرین بہت زیادہ ہو گئے تھے ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو جب ابن ابی سلول کے اس قول کا علم ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے قتل کرنے کی اجازت چاہی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روک دیا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4904) مسند احمد میں زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ { غزوہ تبوک میں میں نے جب اس منافق کا یہ قول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیان کیا اور اس نے آ کر انکار کیا اور قسمیں کھا گیا اس وقت میری قوم نے مجھے بہت کچھ برا کہا اور ہر طرح ملامت کی کہ میں نے ایسا کیوں کیا ؟ میں نہایت غمگین دل ہو کر وہاں سے چل دیا اور سخت رنج و غم میں تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یاد فرمایا اور فرمایا : ” اللہ تعالیٰ نے تیرا عذر نازل فرمایا ہے اور تیری سچائی ظاہر کی ہے اور یہ آیت اتری «ہُمُ الَّذِینَ یَقُولُونَ لَا تُنفِقُوا عَلَیٰ مَنْ عِندَ رَسُولِ اللہِ حَتَّیٰ یَنفَضٰوا وَلِلہِ خَزَائِنُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلٰکِنَّ الْمُنَافِقِینَ لَا یَفْقَہُونَ» ۱؎ ‏‏‏‏(63-المنافقون:7) “ } یہ حدیث اور بھی بہت سی کتابوں میں ہے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:902) مسند احمد میں ہے { زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کا یہ بیان اس طرح ہے کہ میں اپنے چچا کے ساتھ ایک غزوے میں تھا اور میں نے عبداللہ بن ابی کی یہ دونوں باتیں سنیں میں نے اپنے چچا سے بیان کیں اور میرے چچا نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلایا اس نے انکار کیا اور قسمیں کھا گیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سچا اور مجھے جھوٹا جانا ، میرے چچا نے بھی مجھے برا بھلا کہا ، مجھے اس قدر غم اور ندامت ہوئی کہ میں نے گھر سے باہر نکلنا چھوڑ دیا یہاں تک کہ یہ سورت اتری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری تصدیق کی اور مجھے یہ پڑھ سنائی } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4091) مسند کی اور روایت میں ہے کہ { ایک سفر کے موقعہ پر جب صحابہ رضی اللہ عنہم کو تنگی پہنچی تو اس نے انہیں کچھ دینے کی ممانعت کر دی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں اس لیے بلوایا کہ آپ ان کے لیے استغفار کریں تو انہوں نے اس سے بھی منہ پھیر لیا } ۔ ۱؎ (مسند احمد:373/4:صحیح) { قرآن کریم نے انہیں ٹیک لگائی ہوئی لکڑیاں اس لیے کہا ہے کہ یہ لوگ اچھے جمیل جسم والے تھے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4900) ترمذی وغیرہ میں زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ { ہم ایک غزوے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے ہمارے ساتھ کچھ اعراب لوگ بھی تھے ، پانی کی جگہ وہ پہلے پہنچنا چاہتے تھے ، اسی طرح ہم بھی اسی کی کوشش میں رہتے تھے ایک مرتبہ ایک اعرابی نے جا کر پانی پر قبضہ کر کے حوض پر کر لیا اور اس کے ارد گرد پتھر رکھ دیئے اور اوپر سے چمڑا پھیلا دیا ایک انصاری نے آ کر اس حوض میں سے اپنے اونٹ کو پانی پلانا چاہا اس نے روکا انصاری نے پلانے پر زور دیا اس نے ایک لکڑی اٹھا کر انصاری کے سر پر ماری جس سے اس کا سر زخمی ہو گیا ۔ یہ چونکہ عبداللہ بن ابی کا ساتھی تھا سیدھا اس کے پاس آیا اور تمام ماجرا کہہ سنایا ، عبداللہ بہت بگڑا اور کہنے لگا ان اعرابیوں کو کچھ نہ دو یہ خود بھوکے مرتے بھاگ جائیں گے ، یہ اعرابی کھانے کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ جاتے تھے اور کھا لیا کرتے تھے ، تو عبداللہ بن ابی نے کہا تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کھانا لے کر ایسے وقت جاؤ جب یہ لوگ نہ ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کے ساتھ کھا لیں گے یہ رہ جائیں گے یونہی بھوکوں مرتے بھاگ جائیں گے اور اب ہم مدینہ جا کر ان کمینوں کو نکال باہر کریں گے ۔ میں اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ردیف تھا اور میں نے یہ سب سنا اپنے چچا سے ذکر کیا چچا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلوایا یہ انکار کر گیا اور حلف اٹھا لیا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سچا سمجھا اور مجھے جھوٹا قرار دیا ، میرے چچا میرے پاس آئے اور کہا تم نے یہ کیا حرکت کی ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تجھ پر ناراض ہو گئے اور تجھے جھوٹا جانا اور دیگر مسلمانوں نے بھی تجھے جھوٹا سمجھا مجھ پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا سخت غم و اندوہ کی حالت میں سر جھکائے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جا رہا تھا تھوڑی ہی دیر گزری ہو گی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے ، میرا کان پکڑا ، جب میں نے سر اٹھا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور چل دیئے ، اللہ کی قسم مجھے اس قدر خوشی ہوئی کہ بیان سے باہر ہے اگر دنیا کی ابدی زندگی مجھے مل جاتی جب بھی میں اتنا خوش نہ ہو سکتا تھا ۔ پھر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے اور پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تم سے کیا کہا ؟ میں نے کہا ؟ فرمایا تو کچھ بھی نہیں مسکراتے ہوئے تشریف لے گئے ، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا بس پھر خوش ہو ، آپ کے بعد ہی سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ تشریف لائے وہی سوال مجھ سے کیا اور میں نے یہی جواب دیا صبح کو سورۃ المنافقون نازل ہوئی } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3313،قال الشیخ الألبانی:صحیح) دوسری روایت میں اس سورت کا «یَقُولُونَ لَئِن رَّجَعْنَا إِلَی الْمَدِینَۃِ لَیُخْرِجَنَّ الْأَعَزٰ مِنْہَا الْأَذَلَّ» ۱؎ (63-المنافقون:8) تک پڑھنا بھی مروی ہے ۔ ۱؎ (مستدرک حاکم:488/2:حسن) عبداللہ بن لہیعہ اور موسیٰ بن عقبہ نے بھی اسی حدیث کو مغازی میں بیان کیا ہے لیکن ان دونوں کی روایت میں خبر پہنچانے والے کا نام اوس بن اقرم ہے جو قبیلہ بنو حارث بن خزرج میں سے تھے ، ممکن ہے کہ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے بھی خبر پہنچائی ہو اور اوس رضی اللہ عنہ نے بھی اور یہ بھی ممکن ہے کہ راوی سے نام میں غلطی ہو گئی ہو ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» خالد رضی اللہ عنہ ابن ابی حاتم میں ہے کہ یہ واقعہ غزوہ مریسیع کا ہے یہ وہ غزوہ ہے جس میں خالد رضی اللہ عنہ کو بھیج کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مناۃ بت کو تڑوایا تھا جو قفا مثلل اور سمندر کے درمیان تھا ، اسی غزوہ میں دو شخصوں کے درمیان جھگڑا ہو گیا تھا ایک مہاجر تھا دوسرا قبیلہ بہز کا تھا اور قبیل بہز انصاریوں کا حلیف تھا ، بہزی نے انصاریوں کو اور مہاجر نے مہاجرین کو آواز دی ، کچھ لوگ دونوں طرف کھڑے ہو گئے اور جھگڑا ہونے لگا ، جب ختم ہوا تو منافق اور بیمار دل لوگ عبداللہ بن ابی کے پاس جمع ہوئے اور کہنے لگے ، ہمیں تو تم سے بہت کچھ امیدیں تھیں ، تم ہمارے دشمنوں سے ہمارا بچاؤ تھے ، اب تو بے کار ہوگئے ہو ، نفع کا خیال ، نہ نقصان کا ، تم نے ہی ان جلالیب کو اتنا چڑھا دیا کہ بات بات پر یہ ہم پر چڑھ دوڑیں ، نئے مہاجرین کو یہ لوگ جلالیب کہتے تھے ۔ اس دشمن اللہ نے جواب دیا کہ اب مدینے پہنچتے ہی ان سب کو وہاں سے دیس نکالا دیں گے ، مالک بن وخشن جو منافق تھا اس نے کہا : میں تو تمہیں پہلے ہی سے کہتا ہوں کہ ان لوگوں کے ساتھ سلوک کرنا چھوڑ دو خودبخود منتشر ہو جائیں گے ، یہ باتیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سن لیں اور خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں آ کر عرض کرنے لگے کہ اس بانی فتنہ عبداللہ بن ابی کا قصہ پاک کرنے کی مجھے اجازت دیجئیے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اچھا اگر اجازت دوں تو کیا تم اسے قتل کر ڈالو گے ؟ “ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : یا رسول اللہ ! اللہ کی قسم ابھی اپنے ہاتھ سے اس کی گردن ماروں گا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اچھا بیٹھ جاؤ “ ۔ اتنے میں اسید بن حفیر رضی اللہ عنہ بھی یہی کہتے ہوئے آئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے بھی یہی پوچھا اور انہیں نے بھی یہی جواب دیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بھی بٹھا لیا ، پھر تھوڑی دیر گزری ہو گی کہ کوچ کرنے کا حکم دیا اور وقت سے پہلے ہی لشکر نے کوچ کیا ۔ وہ دن رات دوسری صبح برابر چلتے ہی رہے جب دھوپ میں تیزی آ گئی ، اترنے کو فرمایا ، پھر دوپہر ڈھلتے ہی جلدی سے کوچ کیا اور اسی طرح چلتے رہے تیسرے دن صبح کو قفا مثلل سے مدینہ شریف پہنچ گئے ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بلوایا ان سے پوچھا کہ کیا میں اس کے قتل کا تجھے حکم دیتا تو تو اسے مار ڈالتا ؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یقیناً ، میں اس کا سر تن سے جدا کر دیتا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اگر تو اسے اس دن قتل کر ڈالتا تو بہت سے لوگوں کے ناک خاک آلودہ ہو جاتے ۔ میں اگر انہیں کہتا تو وہ بھی اسے مار ڈالنے میں تامل نہ کرتے پھر لوگوں کو باتیں بنانے کا موقعہ ملتا کہ محمد اپنے ساتھیوں کو بھی بیدردی کے ساتھ مار ڈالتا ہے “ ۔ اسی واقعہ کا بیان ان آیتوں میں ہے ، یہ سیاق بہت غریب ہے اور اس میں بہت سی ایسی عمدہ باتیں ہیں جو دوسری روایتوں میں نہیں ۔ سیرۃ محمد بن اسحاق میں ہے کہ عبداللہ بن ابی منافق کے بیٹے عبداللہ رضی اللہ عنہ جو پکے سچے مسلمان تھے ، اس واقعہ کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور گزارش کی کہ یا رسول اللہ ! میں نے سنا ہے کہ میرے باپ نے جو بکواس کی ہے اس کے بدلے آپ اسے قتل کرنا چاہتے ہیں اگر یونہی ہے تو اس کے قتل کا حکم آپ کسی اور کو نہ کیجئے میں خود جاتا ہوں اور ابھی اس کا سر آپ کے قدموں تلے ڈالتا ہوں ، قسم اللہ کی ! قبیلہ خزرج کا ایک ایک شخص جانتا ہے کہ مجھ سے زیادہ کوئی بیٹا اپنے باپ سے احسان و سلوک اور محبت و عزت کرنے والا نہیں [ لیکن میں نے فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنے پیارے باپ کی گردن مارنے کو تیار ہوں ] ۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی اور کو یہ حکم دیا اور اس نے اسے مارا تو مجھے ڈر ہے کہ کہیں جوش انتقام میں ، میں اسے نہ مار بیٹھوں اور ظاہر ہے کہ اگر یہ حرکت مجھ سے ہو گئی تو میں ایک کافر کے بدلے ایک مسلمان کو مار کر جہنمی بن جاؤں گا آپ میرے باپ کے قتل کا حکم دیجئیے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” نہیں ، نہیں میں اسے قتل کرنا نہیں چاہتا ہم تو اس سے اور نرمی برتیں گے اور اس کے ساتھ حسن سلوک کریں گے جب تک وہ ہمارے ساتھ ہے “ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:34179:مرسل) مسلمان بیٹے کا منافق باپ کا راستہ روکنا عکرمہ اور ابن زید رحمہا اللہ کا بیان ہے کہ ” جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے لشکروں سمیت مدینے پہنچے تو اس منافق عبداللہ بن ابی کے لڑکے عبداللہ رضی اللہ عنہ مدینہ شریف کے دروازے پر کھڑے ہو گئے تلوار کھینچ لی ، لوگ مدینہ میں داخل ہونے لگے یہاں تک کہ ان کا باپ آیا تو یہ فرمانے لگے پرے رہو ، مدینہ میں نہ جاؤ ، اس نے کہا : کیا بات ہے ؟ مجھے کیوں روک رہا ہے ؟ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : تو مدینہ میں نہیں جا سکتا ، جب تک کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تیرے لیے اجازت نہ دیں ، عزت والے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں اور تو ذلیل ہے ۔ یہ رک کر کھڑا ہو گیا یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک تھی کہ لشکر کے آخری حصہ میں ہوتے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر اس مناق نے اپنے بیٹے کی شکایت کی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ اسے کیوں روک رکھا ہے ؟ انہوں نے کہا : قسم ہے اللہ کی ! جب تک آپ کی اجازت نہ ہو یہ اندر نہیں جا سکتا چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی اب عبداللہ نے اپنے باپ کو شہر میں داخل ہونے دیا ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:34171:مرسل) مسند حمیدی میں ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے والد سے کہا جب تک تو اپنی زبان سے یہ نہ کہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عزت والے اور میں ذلیل تو مدینہ میں نہیں جا سکتا اور اس سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا تھا کہ یا رسول اللہ ! اپنے باپ کی ہیبت کی وجہ سے میں نے آج تک نگاہ اونچی کر کے ان کے چہرے کو بھی نہیں دیکھا ، لیکن آپ اگر اس پر ناراض ہیں تو مجھے حکم دیجئیے ابھی اس کی گردن حاضر کرتا ہوں کسی اور کو اس کے قتل کا حکم نہ دیجئیے ایسا نہ ہو کہ میں اپنے باپ کے قاتل کو اپنی آنکھوں سے چلتا پھرتا نہ دیکھ سکوں ۔ ۱؎ (مسند حمیدی:520/2) المنافقون
7 المنافقون
8 المنافقون
9 مال و دولت کی خود سپردگی خرابی کی جڑ ہے اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو حکم دیتا ہے کہ ’ وہ بکثرت ذکر اللہ کیا کریں اور تنبیہ کرتا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ مال و اولاد کی محبت میں پھنس کر ذکر اللہ سے غافل ہو جاؤ ‘ ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ جو ذکر اللہ سے غافل ہو جائے اور دنیا کی زینت ہی کو سب کچھ سمجھ بیٹھے ، اپنے رب کی اطاعت میں سست پڑ جائے ، وہ اپنا نقصان آپ کرنے والا ہے ‘ ۔ پھر اپنی اطاعت میں مال خرچ کرنے کا حکم دے رہا ہے کہ ’ اپنی موت سے پہلے خرچ کر لو ، موت کے وقت کی بے بس دیکھ کر نادم ہونا اور امیدیں باندھنا کچھ نفع نہ دے گا ، اس وقت انسان چاہے گا کہ تھوڑی سی دیر کے لیے بھی اگر چھوڑ دیا جائے تو جو کچھ نیک عمل ہو سکے کر لے اور اپنا مال بھی دل کھول کر راہ اللہ دے لے ، لیکن آہ اب وقت کہاں ، آنے والی مصیبت آن پڑی اور نہ ٹلنے والی آفت سر پر کھڑی ہو گئی ‘ ۔ اور جگہ فرمان ہے «وَأَنْذِرْ النَّاسَ یَوْمَ یَأْتِیہِمْ الْعَذَاب فَیَقُول الَّذِینَ ظَلَمُوا رَبَّنَا أَخِّرْنَا إِلَی أَجَل قَرِیب نُجِبْ دَعْوَتَک وَنَتَّبِعْ الرٰسُل أَوَلَمْ تَکُونُوا أَقْسَمْتُمْ مِنْ قَبْل مَا لَکُمْ مِنْ زَوَال» ۱؎ (14-ابراھیم:44) الخ ، یعنی ’ لوگوں کو ہوشیار کر دے جس دن ان کے پاس عذاب آئے گا تو یہ ظالم کہنے لگیں گے ، اے ہمارے رب ہمیں تھوڑی سی مہلت مل جائے تاکہ ہم تیری دعوت قبول کر لیں اور تیرے رسولوں کی اتباع کریں ‘ ۔ المنافقون
10 موت کے وقت خواہش اعمال اس آیت میں تو کافروں کی مذمت کا ذکر ہے ، دوسری آیت میں نیک عمل میں کمی کرنے والوں کے افسوس کا بیان اس طرح ہوا ہے ، «حَتَّی إِذَا جَاءَ أَحَدہمْ الْمَوْت قَالَ رَبّ اِرْجِعُونِ لَعَلِّی أَعْمَلُ صَالِحًا فِیمَا تَرَکْت کَلَّا إِنَّہَا کَلِمَۃٌ ہُوَ قَائِلُہَا وَمِنْ وَرَائِہِمْ بَرْزَخٌ إِلَی یَوْمِ یُبْعَثُونَ» ۱؎ (23-المؤمنون:99-100) یعنی ’ جب ان میں سے کسی کو موت آنے لگتی ہے ، تو کہتا ہے ، میرے رب ! مجھے لوٹا دے ، تو میں نیک اعمال کر لوں ‘ ۔ یہاں فرماتا ہے ’ موت کا وقت آگے پیچھے نہیں ہوتا ، اللہ خود خبر رکھنے والا ہے کہ کون اپنے قول میں صادق ہے اور اپنے سوال میں حق بجانب ہے یہ لوگ تو اگر لوٹائے جائیں تو پھر ان باتوں کو بھول جائیں گے اور وہی کچھ کرنے لگ جائیں گے جو اس سے پہلے کرتے رہے ‘ ۔ ترمذی میں { سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ہر وہ شخص جو مالدار ہو اور اس نے حج نہ کیا ہو یا زکوٰۃ نہ دی ہو وہ موت کے وقت دنیا میں واپس لوٹنے کی آرزو کرتا ہے ، ایک شخص نے کہا : اللہ کا خوف کیجئے واپسی کی آرزو تو کافر کرتے ہیں ، آپ نے فرمایا : جلدی کیوں کرتے ہو ؟ سنو ! قرآن فرماتا ہے : پھر آپ نے یہ پورا رکوع تلاوت کر سنایا اس نے پوچھا : زکوٰۃ کتنے میں واجب ہے فرمایا : دو سو اور اس سے زیادہ میں ، پوچھا : حج کب فرض ہو جاتا ہے ، فرمایا : جب راہ خرچ اور سواری خرچ کی طاقت ہو ۔ } ۱؎ (سنن ترمذی:3316،قال الشیخ الألبانی:-ضعیف) ایک مرفوع روایت بھی اسی طرح مروی ہے لیکن موقوف ہی زیادہ صحیح ہے ، ضحاک رحمہ اللہ کی روایت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما والی بھی منقطع ہے ، دسری سند میں ایک راوی ابوجناب کلبی ہے وہ بھی ضعیف ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ابن ابی حاتم میں ہے کہ { ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے زیادتی عمر کا ذکر کیا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جب اجل آ جائے پھر مؤخر نہیں ہوتی ، زیادتی عمر صرف اس طرح ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی بندے کو نیک صالح اولاد دے ، جو اس کے لیے اس کے مرنے کے بعد دعا کرتی رہے اور دعا اسے اس کی قبر میں پہنچتی رہے “ } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:اسنادہ موضوع) اللہ کے فضل و کرم اور لطف و رحم سے سورۃ المنافقون کی تفسیر ختم ہوئی ۔ «فَالْحَمْدُ لِلہِ» المنافقون
11 المنافقون
0 التغابن
1 تفسیر التغابن مسبحات کی سورتوں میں سب سے آخری سورت یہی ہے ، مخلوقات کی تسبیح الٰہی کا بیان کئی دفعہ ہو چکا ہے ، ملک و حمد والا اللہ ہی ہے ہر چیز پر اس کی حکومت کام میں اور ہر چیز کا اندازہ مقرر کرنے میں ۔ وہ تعریف کا مستحق ، جس چیز کا ارادہ کرے اس کو پورا کرنے کی قدرت بھی رکھتا ہے ، نہ کوئی اس کا مزاحم بن سکے ، نہ اسے کوئی روک سکے وہ اگر نہ چاہے تو کچھ بھی نہ ہو ، وہی تمام مخلوق کا خالق ہے اس کے ارادے سے بعض انسان کافر ہوئے بعض مومن ، وہ بخوبی جانتا ہے کہ مستحق ہدایت کون ہے ؟ اور مستحق ضلالت کون ہے ؟ وہ اپنے بندوں کے اعمال پر شاہد ہے اور ہر ایک عمل کا پورا پورا بدلے دے گا ، اس نے عدل و حکمت کے ساتھ آسمان و زمین کی پیدائش کی ہے ، اسی نے تمہیں پاکیزہ اور خوبصورت شکلیں دے رکھی ہیں ۔ جیسے اور جگہ ارشاد ہے «یَا أَیٰہَا الْإِنسَانُ مَا غَرَّکَ بِرَبِّکَ الْکَرِیمِ الَّذِی خَلَقَکَ فَسَوَّاکَ فَعَدَلَکَ فِی أَیِّ صُورَۃٍ مَّا شَاءَ رَکَّبَکَ» ۱؎ (82-الانفطار:6-8) ’ اے انسان تجھے تیرے رب کریم سے کس چیز نے غافل کر دیا ، اسی نے تجھے پیدا کیا ، پھر درست کیا ، پھر ٹھیک ٹھاک کیا اور جس صورت میں چاہا تجھے ترکیب دی ‘ ۔ اور جگہ ارشاد ہے « اللہُ الَّذِی جَعَلَ لَکُمُ الْأَرْضَ قَرَارًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَصَوَّرَکُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَکُمْ وَرَزَقَکُم مِّنَ الطَّیِّبَاتِ» ۱؎ (40-غافر:64) ، ’ اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو قرار گاہ اور آسمان کو چھت بنایا اور تمہیں بہترین صورتیں دیں اور پاکیزہ چیزیں کھانے کو عنایت فرمائیں ‘ ۔ آخر سب کو اسی کی طرف لوٹنا ہے ، آسمان و زمین اور ہر نفس اور کل کائنات کا علم اسے حاصل ہے یہاں تک کہ دل کے ارادوں اور پوشیدہ باتوں سے بھی وہ واقف ہے ۔ التغابن
2 التغابن
3 التغابن
4 التغابن
5 سابقہ واقعات سے سبق لو یہاں گزشتہ کافروں کے کفر اور ان کی بری سزا اور بدترین بدلے کا ذکر ہو رہا ہے کہ ’ کیا تمہیں تم سے پہلے منکروں کا حال معلوم نہیں ؟ کہ رسولوں کی مخالفت اور حق کی تکذیب کیا رنگ لائی ؟ دنیا اور آخرت میں برباد ہو گئے یہاں بھی اپنے بدافعال کا خمیازہ بھگتا اور وہاں کا بھگتنا ابھی باقی ہے جو نہایت الم انگیز ہے ‘ ۔ اس کی وجہ سوا اس کے کچھ بھی نہیں کہ دلائل و براہین اور روشن نشان کے ساتھ جو انبیاء اللہ علیہ السلام ان کے پاس آئے انہوں نے انہیں نہ مانا اور اپنے نزدیک اسے محال جانا کہ انسان پیغمبر ہو ، اور انہی جیسے ایک آدم زاد کے ہاتھ پر انہیں ہدایت دی جائے ، پس انکار کر بیٹھے اور عمل چھوڑ دیا ، اللہ تعالیٰ نے بھی ان سے بےپرواہی برتی وہ تو غنی ہے ہی اور ساتھ ہی حمد و ثناء کے لائق بھی ۔ التغابن
6 التغابن
7 منکرین قیامت مشرکین و ملحدین اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’ کفار مشرکین ملحدین کہتے ہیں کہ مرنے کے بعد نہیں اٹھیں گے ، اے نبی! تم ان سے کہہ دو کہ ہاں اٹھو گے ، پھر تمہارے تمام چھوٹے بڑے ، چھپے کھلے اعمال کا اظہار تم پر کیا جائے گا ، سنو تمہارا دوبارہ پیدا کرنا تمہیں بدلے دینا وغیرہ تمام کام اللہ تعالیٰ پر بالکل آسان ہیں ‘ ۔ یہ تیسری آیت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قسم کھا کر قیامت کی حقانیت کے بیان کرنے کو فرمایا ہے ۔ پہلی آیت تو سورۃ یونس میں ہے «وَیَسْتَنبِئُونَکَ أَحَقٌّ ہُوَ قُلْ إِی وَرَبِّی إِنَّہُ لَحَقٌّ وَمَا أَنتُم بِمُعْجِزِینَ» ۱؎ (10-یونس:53) یعنی ’ یہ لوگ تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا وہ حق ہے ؟ تو کہہ میرے رب کی قسم وہ حق ہے اور تم اللہ کو ہرا نہیں سکتے ‘ ۔ دوسری آیت سورۃ سبا میں ہے «وَقَالَ الَّذِینَ کَفَرُوا لَا تَأْتِینَا السَّاعَۃُ قُلْ بَلَیٰ وَرَبِّی لَتَأْتِیَنَّکُمْ» ۱؎ (34-سبأ:3) ’ کافر کہتے ہیں ہم پر قیامت نہ آئے گی تو کہہ دے کہ ہاں میرے رب کی قسم یقیناً اور بالضرور آئے گی ‘ ۔ اور تیسری آیت یہی «زَعَمَ الَّذِینَ کَفَرُوا أَن لَّن یُبْعَثُوا قُلْ بَلَیٰ وَرَبِّی لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ وَذٰلِکَ عَلَی اللہِ یَسِیرٌ» ۱؎ (64-التغابن:7) پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ’ اللہ پر ، رسول پر ، نور منزل یعنی قرآن کریم پر ایمان لاؤ تمہارا کوئی خفیہ عمل بھی اللہ تعالیٰ پر پوشیدہ نہیں ۔ قیامت والے دن اللہ تعالیٰ تم سب کو جمع کرے گا اور اسی لیے اس کا نام «یوم الجمع» ہے ‘ ۔ جیسے اور جگہ ہے «ذٰلِکَ یَوْمٌ مَّجْمُوعٌ لَّہُ النَّاسُ وَذٰلِکَ یَوْمٌ مَّشْہُودٌ» ۱؎ (11-ھود:103) ’ یہ لوگوں کے جمع کئے جانے اور ان کے حاضر باش ہونے کا دن ہے ‘ ۔ اور جگہ ہے «قُلْ إِنَّ الْأَوَّلِینَ وَالْآخِرِینَ لَمَجْمُوعُونَ إِلَی مِیقَاتِ یَوْمٍ مَعْلُومٍ» ۱؎ (56-الواقعۃ:49-50) یعنی ’ قیامت والے دن تمام اولین اور آخرین جمع کئے جائیں گے ‘ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ” «یوم التغابن» قیامت کا ایک نام ہے ، اس نام کی وجہ یہ ہے کہ اہل جنت ، اہل دوزخ کو نقصان میں ڈالیں گے “ ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” اس سے زیادہ «تغابن» کیا ہو گا کہ ان کے سامنے انہیں جنت میں اور ان کے سامنے انہیں جہنم میں لے جائیں گے “ ۔ گویا اسی کی تفسیر اس کے بعد والی آیت میں ہے کہ ایماندار ، نیک اعمال والوں کے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے اور بہتی نہروں والی ہمیشہ رہنے والی جنت میں انہیں داخل کیا جائے گا اور پوری کامیابی کو پہنچ جائے گا اور کفر و تکذیب کرنے والے جہنم کی آگ میں جائیں گے جہاں ہمیشہ جلنے کا عذاب پاتے رہیں گے بھلا اس سے برا ٹھکانا اور کیا ہو سکتا ہے ؟ التغابن
8 التغابن
9 التغابن
10 التغابن
11 وہی مختار مطلق ہے ناقابل تردید سچائی سورۃ الحدید میں بھی یہ مضمون گزر چکا ہے کہ جو کچھ ہوتا ہے وہ اللہ کی اجازت اور اس کے حکم سے ہوتا ہے اس کی قدر و مشیت کے بغیر نہیں ہو سکتا ، اب جس شخص کو کوئی تکلیف پہنچے وہ جان لے کہ اللہ تعالیٰ کی قضاء و قدر سے مجھے یہ تکلیف پہنچی ، پھر صبر و تحمل سے کام لے ، اللہ کی مرضی پر ثابت قدم رہے ، ثواب اور بھلائی کی امید رکھے ، رضا بہ قضاء کے سوا لب نہ ہلائے ، تو اللہ تعالیٰ اس کے دل کی رہبری کرتا ہے اور اسے بدلے کے طور پر ہدایت قلبی عطا فرماتا ہے ۔ وہ دل میں یقین صادق کی چمک دیکھتا ہے اور بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس مصیبت کا بدلہ یا اس سے بھی بہتر دنیا میں ہی عطا فرما دیتا ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ ” اس کا ایمان مضبوط ہو جاتا ہے ، اسے مصائب ڈگمگا نہیں سکتے ، وہ جانتا ہے کہ جو پہنچا وہ خطا کرنے والا نہ تھا اور جو نہ پہنچا وہ ملنے والا ہی نہ تھا “ ۔ آسان ترین افضل عمل سیدنا علقمہ رضی اللہ عنہ کے سامنے یہ آیت «مَا أَصَابَ مِن مٰصِیبَۃٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللہِ وَمَن یُؤْمِن بِ اللہِ یَہْدِ قَلْبَہُ وَ اللہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیمٌ» (64-التغابن-11) پڑھی جاتی ہے اور آپ رضی اللہ عنہ سے اس کا مطلب دریافت کیا جاتا ہے تو فرماتے ہیں ” اس سے مراد وہ شخص ہے جو ہر مصیبت کے وقت اس بات کا عقیدہ رکھے کہ یہ منجانب اللہ ہے پھر راضی خوشی اسے برداشت کر لے “ ۔ یہ بھی مطلب ہے کہ ” وہ «إِنَّا لِلہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ» ۱؎ (2-البقرہ:156) پڑھ لے “ ۔ متفق علیہ حدیث میں ہے کہ { مومن پر تعجب ہے ہر ایک بات میں اس کے لیے بہتری ہوتی ہے نقصان پر صبر و ضبط کر کے نفع اور بھلائی پر شکر و احسان مندی کر کے بہتری سمیٹ لیتا ہے ، یہ دو طرفہ بھلائی مومن کے سوا کسی اور کے حصے میں نہیں } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2999) مسند احمد میں ہے کہ { ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ! سب سے افضل عمل کون سا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا ، اس کی تصدیق کرنا اس کی راہ میں جہاد کرنا “ ۔ اس نے کہا یا رسول اللہ ! میں کوئی آسان کام چاہتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جو فیصلہ قسمت کا تجھ پر جاری ہو تو اس میں اللہ تعالیٰ کا گلہ شکوہ نہ کر ، اس کی رضا پر راضی رہ یہ اس سے ہلکا امر ہے “ } ۔ (مسند احمد:318/5:ضعیف) پھر اپنی اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیتا ہے کہ ’ امور شرعی میں ان اطاعتوں سے سر منہ تجاوز نہ کرو جس کا حکم ملے بجا لاؤ ، جس سے روکا جائے رک جاؤ ، اگر تم اس کے ماننے سے اعراض کرتے تو ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی بوجھ نہیں ، ان کے ذمہ صرف تبلیغ تھی جو وہ کر چکے اب عمل نہ کرنے کی سزا تمہیں اٹھانا پڑے گی ‘ ۔ پھر فرمان ہے کہ ’ اللہ تعالیٰ واحد و صمد ہے اس کے سوا کسی کی ذات کسی طرح کی عبادت کے لائق نہیں ‘ ، یہ خبر معنی میں طلب کے ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی توحید مانو اخلاص کے ساتھ صرف اسی کی عبادت کرو ۔ پھر فرماتا ہے ’ چونکہ توکل اور بھروسے کے لائق بھی وہی ہے تم اسی پر بھروسہ رکھو ‘ ۔ جیسے اور جگہ ارشاد ہے «رَّبٰ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ فَاتَّخِذْہُ وَکِیلًا» ۱؎ (73-المزمل:9) ’ مشرق اور مغرب کا رب وہی ہے ، معبود حقیقی بھی اس کے سوا کوئی نہیں تو اسی کو اپنا کار ساز بنا لے ‘ ۔ التغابن
12 التغابن
13 التغابن
14 اللہ کی یاد اور اولاد و مال کی محبت ارشاد ہوتا ہے کہ ’ بعض عورتیں اپنے مردوں کو اور بعض اولاد اپنے ماں باپ کو یاد اللہ اور نیک عمل سے روک دیتی ہے جو درحقیقت دشمنی ہے ‘ ۔ جس سے پہلے تنبیہ ہو چکی ہے کہ «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تُلْہِکُمْ أَمْوَالُکُمْ وَلَا أَوْلَادُکُمْ عَن ذِکْرِ اللہِ وَمَن یَفْعَلْ ذٰلِکَ فَأُولٰئِکَ ہُمُ الْخَاسِرُونَ» ۱؎ (63-المنافقون:9) ’ ایسا نہ ہو تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہیں یاد اللہ سے غافل کر دیں ، اگر ایسا ہو گیا تو تمہیں بڑا گھاٹا رہے گا ‘ ۔ یہاں بھی فرماتا ہے کہ ’ ان سے ہوشیار رہو ، اپنے دین کی نگہبانی ان کی ضروریات اور فرمائشات کے پورا کرنے پر مقدم رکھو ‘ ۔ بیوی بچوں اور مال کی خاطر انسان قطع رحمی کر گزرتا ہے اللہ کی نافرمانی پر تل جاتا ہے ان کی محبت میں پھنس کر احکام اسلامی کو پس پشت ڈال دیتا ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ” بعض اہل مکہ اسلام قبول کر چکے تھے مگر زن و فرزند کی محبت نے انہیں ہجرت سے روک دیا ، پھر جب اسلام کا خوب افشأ ہو گیا ، تب یہ لوگ حاضر ہوئے دیکھا کہ ان سے پہلے کے مہاجرین نے بہت کچھ علم دین حاصل کر لیا ہے ، اب جی میں آیا کہ اپنے بال بچوں کو سزا دیں جس پر یہ فرمان ہوا کہ «وَإِن تَعْفُوا وَتَصْفَحُوا وَتَغْفِرُوا فَإِنَّ اللہَ غَفُورٌ رَّحِیمٌ» ۱؎ (64-التغابن:14) ، یعنی ’ اب درگزر کرو ، آئندہ کے لیے ہوشیار رہو ، اللہ تعالیٰ مال و اولاد دے کر انسان کو پرکھ لیتا ہے کہ معصیت میں مبتلا ہونے والے کون ہیں اور اطاعت گزار کون ہیں ؟ اللہ کے پاس جو اجر عظیم ہے تمہیں چاہیئے کہ اس پر نگاہیں رکھو ‘ ۔ جیسے اور جگہ فرمان ہے «زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبٰ الشَّہَوَات مِنْ النِّسَاء وَالْبَنِینَ وَالْقَنَاطِیر الْمُقَنْطَرَۃ مِنْ الذَّہَب وَالْفِضَّۃ وَالْخَیْل الْمُسَوَّمَۃ وَالْأَنْعَام وَالْحَرْث ذَلِکَ مَتَاع الْحَیَاۃ الدٰنْیَا وَاَللَّہ عِنْدہ حُسْن الْمَآب» ۱؎ (3-آل عمران:14-15) ، یعنی ’ بطور آزمائش کے لوگوں کے لیے دنیوی خواہشات یعنی بیویاں اور اولاد ، سونے چاندی کے بڑے بڑے لگے ہوئے ڈھیر ، شائستہ گھوڑے ، مویشی ، کھیتی کی محبت کو زینت دی گئی ہے مگر یہ سب دنیا کی چند روزہ زندگی کا سامان ہے اور ہمیشہ رہنے والا اچھا ٹھکانا تو اللہ ہی کے پاس ہے ‘ ۔ اولاد ایک فتنہ بھی مسند احمد میں ہے کہ { ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ فرما رہے تھے کہ سیدنا حسن اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہما لمبے لمبے کرتے پہنے آ گئے ، دونوں بچے کرتوں میں الجھ الجھ کر گرتے پڑتے آ رہے تھے یہ کرتے سرخ رنگ کے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظریں جب ان پر پڑیں تو منبر سے اتر کر انہیں اٹھا کر لائے اور اپنے سامنے بٹھا لیا پھر فرمانے لگے : ” اللہ تعالیٰ سچا ہے اور اس کے رسول نے بھی سچ فرمایا ہے کہ تمہارے مال اولاد فتنہ ہیں ، میں ان دونوں کو گرتے پڑتے آتے دیکھ کر صبر نہ کر سکا آخر خطبہ چھوڑ کر انہیں اٹھانا پڑا “ } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3774،قال الشیخ الألبانی:صحیح) مسند میں ہے { سیدنا اشعت بن قیس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : کندہ قبیلے کے وفد میں ، میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا : ” تمہاری کچھ اولاد بھی ہے “ ۔ میں نے کہا : ہاں ، اب آتے ہوئے ایک لڑکا ہوا ہے ، کاش کہ اس کے بجائے کوئی درندہ ہی ہوتا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” خبردار ، ایسا نہ کہو ، ان میں آنکھوں کی ٹھنڈک ہے اور انتقال کر جائیں تو اجر ہے “ ، پھر فرمایا : ” ہاں ہاں یہی بزدلی اور غم کا سبب بھی بن جاتے ہیں یہ بزدلی اور غم و رنج بھی ہیں ۔ “ } (مسند احمد:211/5:صحیح اسناد ضعیف) بزاز میں ہے { اولاد دل کا پھل ہے اور یہ بخل و نامردی اور غمگینی کا باعث بھی ہے } ۔ (مسند بزار:1819:ضعیف) طبرانی میں ہے { تیرا دشمن صرف وہی نہیں جو تیرے مقابلہ میں کفر پر جم کر لڑائی کے لیے آیا کیونکہ اگر تو نے اسے قتل کر دیا تو تیرے لیے باعث نور ہے اور اگر اس نے تجھے قتل کر دیا تو قطعاً جنتی ہو گیا ۔ پھر فرمایا : ” شاید تیرا دشمن تیرا بچہ ہے ، جو تیری پیٹھ سے نکلا ، پھر تجھ سے دشمنی کرنے لگا ، تیرا پورا دشمن تیرا مال ہے ، جو تیری ملکیت میں ہے ، پھر دشمنی کرتا ہے “ } ۔ (طبرانی:3445:ضعیف) التغابن
15 التغابن
16 اللہ سے طاقت کے مطابق ڈرنا پھر فرماتا ہے ’ اپنے مقدور بھر اللہ کا خوف رکھو اس کے عذاب سے بچنے کی کوشش کرو ‘ ۔ بخاری و مسلم میں ہے { جو حکم میں کروں اسے اپنی مقدور بھر بجا لاؤ , جس سے میں روک دوں رک جاؤ } ۔ (صحیح بخاری:7288) بعض مفسرین کا فرمان ہے کہ سورۃ آل عمران کی آیت «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللہَ حَقَّ تُقَاتِہِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مٰسْلِمُونَ» ۱؎ (3-آل عمران:102) کی ناسخ یہ آیت ہے ، یعنی پہلے فرمایا تھا ’ اللہ تعالیٰ سے اس قدر ڈرو جتنا اس سے ڈرنا چاہیئے ‘ ، لیکن اب فرما دیا کہ ’ اپنی طاقت کے مطابق ‘ ۔ چنانچہ سعید بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” پہلی آیت لوگوں پر بڑی بھاری پڑی تھی اس قدر لمبے قیام کرتے تھے کہ پیروں پر ورم آ جاتا تھا اور اتنے لمبے سجدے کرتے تھے کہ پیشانیاں زخمی ہو جاتی تھیں “ ۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتار کر تخفیف کر دی اور بھی بعض مفسرین نے یہی فرمایا ہے اور پہلی آیت کو منسوخ اور اس دوسری آیت کو ناسخ بتایا ہے ۔ پھر فرماتا ہے ’ اللہ اور اس کے رسول کے فرمانبردار بن جاؤ , ان کے فرمان سے ایک انچ ادھر ادھر نہ ہٹو , نہ آگے بڑھو , نہ پیچھے سرکو ، نہ امر کو چھوڑو , نہ نہی کے خلاف کرو ، جو اللہ نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے رشتہ داروں کو , فقیروں ، مسکینوں کو اور حاجت مندوں کو دیتے رہو ، اللہ نے تم پر احسان کیا تم دوسری مخلوق پر احسان کرو تاکہ اس جہان میں بھی اللہ کے احسان کے مستحق بن جاؤ اور اگر یہ نہ کیا تو دونوں جہان کی بربادی اپنے ہاتھوں آپ مول لو گے ‘ ۔ «وَمَن یُوقَ شُحَّ نَفْسِہِ فَأُولٰئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ» ۱؎ (59-الحشر:9) کی تفسیر اس آیت میں گزر چکی ہے ۔ ’ جب تم کوئی چیز راہ اللہ دو گے اللہ اس کا بدلہ دے گا ہر صدقے کی جزا عطا فرمائے گا ، تمہارا مسکینوں کے ساتھ سلوک کرنا گویا اللہ کو قرض دینا ہے ‘ ۔ بخاری مسلم کی حدیث میں ہے { اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’ کون ہے ؟ جو ایسے کو قرض دے جو نہ تو ظالم ہے ، نہ مفلس ، نہ نادہندہ ‘ } ۔ (صحیح مسلم:758) پس فرماتا ہے ’ وہ تمہیں بہت کچھ بڑھا چڑھا کر پھیر دے گا ‘ ، جیسے سورۃ البقرہ میں بھی فرمایا ہے «فَیُضَاعِفَہُ لَہُ أَضْعَافًا کَثِیرَۃً» ۱؎ (2-البقرۃ:245) ’ کئی کئی گنا بڑھا کر دے گا ‘ ۔ ساتھ ہی خیرات سے تمہارے گناہ معاف فرما کر دے گا ، اللہ بڑا قدر دان ہے ، تھوڑی سی نیکی کا بہت بڑا اجر دیتا ہے ، وہ بردبار ہے ، درگزر کرتا ہے ، بخش دیتا ہے ، گناہوں سے اور لغزشوں سے چشم پوشی کر لیتا ہے ، خطاؤں اور برائیوں کو معاف فرما دیتا ہے ، چھپے کھلے کا عالم ہے اور وہ غالب اور باحکمت ہے ، ان اسماء حسنیٰ کی تفسیر کئی کئی مرتبہ اس سے پہلے گزر چکی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور لطف و رحم سے سورۃ التغابن کی تفسیر ختم ہوئی ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» ۔ التغابن
17 التغابن
18 التغابن
0 الطلاق
1 طلاق کے مسائل اولاً تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شرافت و کرامت کے طور پر خطاب کیا گیا پھر تبعاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت سے خطاب کیا گیا اور طلاق کے مسئلہ کو سمجھایا گیا ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کو طلاق دی وہ اپنے میکے آ گئیں اس پر یہ آیت اتری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا گیا کہ ’ ان سے رجوع کر لو ، وہ بہت زیادہ روزہ رکھنے والی اور بہت زیادہ نماز پڑھنے والی ہیں اور وہ یہاں بھی آپ کی بیوی ہیں اور جنت میں بھی آپ کی ازواج میں داخل ہیں } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:24244:ضعیف و مرسل) یہی روایت مرسلاً ابن جریر میں بھی ہے اور سندوں سے بھی آئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کو طلاق دی پھر رجوع کر لیا ۔ صحیح بخاری میں ہے کہ { سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی بیوی صاحبہ کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ واقعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہوئے اور فرمایا : ” اسے چاہیئے کہ رجوع کر لے ، پھر حیض سے پاک ہونے تک روکے رکھے ، پھر دوسرا حیض آئے اور اس سے نہا لیں پھر اگر جی چاہے طلاق دیں “ ، یعنی اس پاکیزگی کی حالت میں بات چیت کرنے سے پہلے ، یہی وہ عدت ہے جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4908) یہ حدیث اور بھی بہت سی کتابوں میں بہت سی سندوں کے ساتھ مذکور ہے ۔ { عبدالرحمٰن بن ایمن رحمہ اللہ نے جو عزہ کے مولیٰ ہیں ابوالزبیر رحمہ اللہ کے سنتے ہوئے ، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سوال کیا کہ اس شخص کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں جس نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دی ؟ ، تو آپ نے فرمایا ” سنو ! ابن عمر نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں طلاق دی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اسے لوٹا لے ، چنانچہ ابن عمر نے رجوع کر لیا اور یہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ” اس سے پاک ہو جانے کے بعد اسے اختیار ہے خواہ طلاق دے خواہ بسا لے “ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی «یَا أَیٰہَا النَّبِیٰ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوہُنَّ لِعِدَّتِہِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّۃَ» } ۱؎ (65-الطلاق:1) ۱؎ (صحیح مسلم:1471) دوسری روایت میں «‏‏‏‏فَطَلِّقُوہُنَّ لِعِدَّتِہِنَّ» یعنی طہر کی حالت میں جماع سے پہلے ، بہت سے بزرگوں نے یہی فرمایا ہے ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یعنی حیض میں طلاق نہ دو ، نہ اس طہر میں طلاق دو جس میں جماع ہو چکا ہو بلکہ اس وقت تک چھوڑ دے جب حیض آ جائے پھر اس سے نہا لے تب ایک طلاق دے ۔ عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” «عدت» سے مراد طہر ہے “ ۔ «قرء» سے مراد حیض ہے یا حمل کی حالت میں ، جب حمل ظاہر ہو ، جس طہر میں مجامعت کر چکا ہے اس میں طلاق نہ دے نہ معلوم حاملہ ہے یا نہیں ، یہیں سے باسمجھ علماء نے احکام طلاق لیے ہیں اور طلاق کی دو قسمیں کی ہیں طلاق سنت اور طلاق بدعت ۔ طلاق سنت تو یہ ہے کہ طہر کی یعنی پاکیزگی کی حالت میں جماع کرنے سے پہلے طلاق دے دے یا حالت حمل میں طلاق دے اور بدعی طلاق یہ ہے کہ حالت حیض میں طلاق دے یا طہر میں دے لیکن مجامعت کر چکا ہو اور معلوم نہ ہو کہ حمل ہے یا نہیں ؟ طلاق کی تیسری قسم بھی ہے جو نہ طلاق سنت ہے نہ طلاق بدعت اور وہ نابالغہ کی طلاق ہے اور اس عورت کی جسے حیض کے آنے سے ناامیدی ہو چکی ہو اور اس عورت کی جس سے دخول نہ ہوا ۔ ان سب کے احکام اور تفصیلی بحث کی جگہ کتب فروغ ہیں نہ کہ تفسیر ۔ «وَاللہُ سُبْحَانَہُ وَ تَعَالَیٰ اَعْلَمُ» عدت کی حفاظت کرو پھر فرمان ہے ’ عدت کی حفاظت کرو اور اس بارے میں اپنے ابتداء انتہا کی دیکھ بھال رکھو ایسا نہ ہو کہ عدت کی لمبائی عورت کو دوسرا خاوند کرنے سے روک دے اور اس بارے میں اپنے معبود حقیقی پروردگار عالم سے ڈرتے رہو ‘ ۔ عدت کے زمانہ میں مطلقہ عورت کی رہائش کا مکان خاوند کے ذمہ ہے وہ اسے نکال نہ دے اور نہ خود اسے نکلنا جائز ہے کیونکہ وہ اپنے خاوند کے حق میں رکی ہوئی ہے ۔ «فَاحِشَۃٍ مٰبَیِّنَۃٍ» زنا کو بھی شامل ہے اور اسے بھی کہ عورت اپنے خاوند کو تنگ کرے ، اس کا خلاف کرے اور ایذاء پہنچائے ، یا بدزبانی و کج خلقی شروع کر دے اور اپنے کاموں سے اور اپنی زبان سے سسرال والوں کو تکلیف پہنچائے تو ان صورتوں میں بیشک خاوند کو جائز ہے کہ اسے اپنے گھر سے نکال باہر کرے ، یہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدیں ہیں اس کی شریعت اور اس کے بتائے ہوئے احکام ہیں ۔ جو شخص ان پر عمل نہ کرے انہیں بے حرمتی کے ساتھ توڑ دے ان سے آگے بڑھ جائے وہ اپنا ہی برا کرنے والا اور اپنی جان پر ظلم ڈھانے والا ہے شاید کہ اللہ کو نئی بات پیدا کر دے اللہ کے ارادوں کو اور ہونے والی باتوں کو کوئی نہیں جان سکتا ۔ عدت کا زمانہ مطلقہ عورت کو خاوند کے گھر گزارنے کا حکم دینا اس مصلحت سے ہے کہ ممکن ہے اس مدت میں اس کے خاوند کے خیالات بدل جائیں ، طلاق دینے پر نادم ہو ، دل میں لوٹا لینے کا خیال پیدا ہو جائے اور پھر رجوع کر کے دونوں میاں بیوی امن و امان سے گزارا کرنے لگیں ، نیا کام پیدا کرنے سے مراد بھی رجعت ہے ۔ اسی بنا پر بعض سلف اور ان کے تابعین مثلاً امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہم وغیرہ کا مذہب ہے کہ «مبتوتہ» یعنی وہ عورت جس کی طلاق کے بعد خاوند کو رجعت کا حق باقی نہ رہا ہو اس کے لیے عدت گزارنے کے زمانے تک مکان کا دینا خاوند کے ذمہ نہیں ، اسی طرح جس عورت کا خاوند فوت ہو جائے اسے بھی رہائشی مکان عدت تک کے لیے دینا اس کے وارثوں پر نہیں ۔ ان کی اعتمادی دلیل فاطمہ بنت قیس فہریہ رضی اللہ عنہا والی حدیث ہے کہ جب ان کے خاوند ابوعمر بن حفص رضی اللہ عنہ نے ان کو تیسری آخری طلاق دی اور وہ اس وقت یہاں موجود نہ تھے بلکہ یمن میں تھے اور وہیں سے طلاق دی تھی تو ان کے وکیل نے ان کے پاس تھوڑے سے جو بھیج دیئے تھے کہ یہ تمہاری خوراک ہے یہ بہت ناراض ہوئیں اس نے کہا بگڑتی کیوں ہو ؟ تمہارا نفقہ کھانا پینا ہمارے ذمہ نہیں ، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ٹھیک ہے تیرا نفقہ اس پر نہیں “ ۔ مسلم میں ہے { نہ تیرے رہنے سہنے کا گھر اور ان سے فرمایا : ” تم ام شریک کے گھر اپنی عدت گزارو “ ، پھر فرمایا : ” وہاں تو میرے اکثر صحابہ آیا جایا کرتے ہیں تم عبداللہ بن ام مکتوم کے ہاں اپنی عدت کا زمانہ گزارو وہ ایک نابینا آدمی ہیں تم وہاں آرام سے اپنے کپڑے بھی رکھ سکتی ہو “ } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1480) مسند احمد میں ہے کہ { ان کے خاوند کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی جہاد پر بھیجا تھا ، انہوں نے وہیں سے انہیں طلاق بھیج دی ، ان کے بھائی نے ان سے کہا کہ ہمارے گھر سے چلی جاؤ ، انہوں نے کہا : نہیں ! جب تک عدت ختم نہ ہو جائے میرا کھانا پینا اور رہنا سہنا میرے خاوند کے ذمہ ہے ۔ اس نے انکار کیا ، آخر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہ معاملہ پہنچا ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ یہ آخری تیسری طلاق ہے تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا : ” نان نفقہ ، گھربار خاوند کے ذمہ اس صورت میں ہے کہ اسے حق رجعت حاصل ہو جب یہ نہیں تو وہ بھی نہیں ، تم یہاں سے چلی جاؤ اور فلاں عورت کے گھر اپنی عدت گزارو } ۔ پھر فرمایا : ” وہاں تو صحابہ کی آمد و رفت ہے تم ابن ام مکتوم کے گھر عدت کا زمانہ گزارو وہ نابینا ہیں تمہیں دیکھ نہیں سکتے “ } ۔ ۱؎ (مسند احمد:373/6:ضعیف) طبرانی میں ہے یہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا ضحاک بن قیس قرشی رضی اللہ عنہ کی بہن تھیں ان کے خاوند مخزومی قبیلہ کے تھے ، طلاق کی خبر کے بعد ان کے نفقہ طلب کرنے پر ان کے خاوند کے اولیاء نے کہا تھا ، نہ تو تمہارے میاں نے کچھ بھیجا ہے ، نہ ہمیں دینے کو کہا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان میں یہ بھی مروی ہے کہ ” جب عورت کو وہ طلاق مل جائے جس کے بعد وہ اپنے اگلے خاوند پر حرام ہو جاتی ہے ، جب تک دوسرے سے نکاح اور پھر طلاق نہ ہو جائے ، تو اس صورت میں عدت کا نان نفقہ اور رہنے کا مکان اس کے خاوند کے ذمہ نہیں “ } ۔ ۱؎ (سنن نسائی:3432،قال الشیخ الألبانی:صحیح) الطلاق
2 عائلی قوانین ارشاد ہوتا ہے کہ ’ عدت والی عورتوں کی عدت جب پوری ہونے کے قریب پہنچ جائے تو ان کے خاوندوں کو چاہیئے کہ دو باتوں میں سے ایک کر لیں یا تو انہیں بھلائی اور سلوک کے ساتھ اپنے ہی نکاح میں روک رکھیں یعنی طلاق جو دی تھی اس سے رجوع کر کے باقاعدہ اس کے ساتھ بود و باش رکھیں یا انہیں طلاق دے دیں ، لیکن برا بھلا کہے بغیر ، گالی گلوچ دیئے بغیر ، سرزنش اور ڈانٹ ڈپٹ بغیر ، بھلائی اچھائی اور خوبصورتی کے ساتھ ‘ ۔ [ یہ یاد رہے کہ رجعت کا اختیار اس وقت ہے جب ایک طلاق ہوئی ہو یا دو ہوئی ہوں ] ۔ پھر فرمایا ہے ’ اگر رجعت کا ارادہ ہو اور رجعت کرو ، یعنی لوٹا لو تو اس پر دو عادل مسلمان گواہ رکھ لو ‘ ۔ ابوداؤد اور اور ابن ماجہ میں ہے کہ سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا گیا کہ ایک شخص اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہے پھر اس سے جماع کرتا ہے نہ طلاق پر گواہ رکھتا ہے نہ رجعت پر تو آپ نے فرمایا ” اس نے خلاف سنت طلاق دی اور خلاف سنت رجوع کیا ، طلاق پر بھی گواہ رکھنا چاہیئے اور رجعت پر بھی ، اب دوبارہ ایسا نہ کرنا “ ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2186،قال الشیخ الألبانی:صحیح) عطاء رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ” نکاح ، رجعت بغیر دو عادل گواہوں کے جائز نہیں ، جیسے فرمان اللہ ہے ہاں مجبوی ہو تو اور بات ہے “ ۔ پھر فرماتا ہے ’ گواہ مقرر کرنے اور سچی شہادت دینے کا حکم انہیں ہو رہا ہے ، جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہوں ، اللہ کی شریعت کے پابند اور عذاب آخرت سے ڈرنے والے ہوں ‘ ۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” رجعت پر گواہ رکھنا واجب ہے “ ، گو آپ رحمہ اللہ سے ایک دوسرا قول بھی مروی ہے ، اسی طرح نکاح پر گواہ رکھنا بھی آپ واجب بتاتے ہیں ۔ ایک اور جماعت کا بھی یہی قول ہے ، اس مسئلہ کو ماننے والی علماء کرام کی جماعت یہ بھی کہتی ہے کہ رجعت زبانی کہے بغیر ثابت نہیں ہوتی کیونکہ گواہ رکھنا ضروری ہے اور جب تک زبان سے نہ کہے گواہ کیسے مقرر کئے جائیں گے ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ جو شخص احکام اللہ بجا لائے اس کی حرام کردہ چیزوں سے پرہیز کرے ، اللہ تعالیٰ اس کے لیے مخلصی پیدا کر دیتا ہے ایک اور جگہ ہے اس طرح رزق پہنچاتا ہے کہ اس کے خواب و خیال میں بھی نہ ہو ‘ ۔ مسند احمد میں ہے { سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک مرتبہ میرے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی پھر فرمایا : ” اے ابوذر ! اگر تمام لوگ صرف اسے ہی لے لیں تو کافی ہے “ ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باربار اس کی تلاوت شروع کی یہاں تک کہ مجھے اونگھ آنے لگی ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ابوذر ! تم کیا کرو گے جب تمہیں مدینہ سے نکال دیا جائے گا ؟ “ جواب دیا کہ میں اور کشادگی اور رحمت کی طرف چلا جاؤں گا ، یعنی مکہ شریف کو ، وہیں کا کبوتر بن کر رہ جاؤں گا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” پھر کیا کرو گے ، جب تمہیں وہاں سے بھی نکالا جائے ؟ “ میں نے کہا : شام کی پاک زمین میں چلا جاؤ گا ۔ فرمایا : ” جب شام سے نکالا جائے گا تو کیا کرے گا ؟ “ میں نے کہا : یا رسول اللہ ! اللہ کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ پیغمبر بنا کر بھیجا ہے پھر تو اپنی تلوار اپنے کندھے پر رکھ کر مقابلہ پر اتر آؤں گا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” کیا میں تجھے اس سے بہتر ترکیب بتاؤں ؟ “ میں نے کہا : ہاں ، اے اللہ کے رسول ! ضرور ارشاد فرمائیے ، فرمایا : ” سنتا رہ اور مانتا رہ اگرچہ حبشی غلام ہو “ } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:4220،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ابن ابی حاتم میں ہے کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ” قرآن کریم میں بہت ہی جامع آیت «‏‏‏‏إِنَّ اللہَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ» ۱؎ (16-النحل:90) ہے اور سب سے زیادہ کشادگی کا وعدہ اس آیت «وَمَن یَتَّقِ اللہَ یَجْعَل لَّہُ مَخْرَجًا» ۱؎ (65-الطلاق:2) ، میں ہے “ ۔ مسند احمد میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ { جو شخص بکثرت استغفار کرتا رہے ، اللہ تعالیٰ اسے ہر غم سے نجات اور ہر تنگی سے فراخی دے گا اور ایسی جگہ سے رزق پہنچائے گا جہاں کا اسے خیال و گمان تک نہ ہو } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:1518،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ” اسے اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت کے ہر کرب و بے چینی سے نجات دے گا “ ۔ ربیع رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” لوگوں پر کام بھاری ہو اس پر آسان ہو جائے گا “ ۔ عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” مطلب یہ ہے کہ جو شخص اپنی بیوی کو اللہ کے حکم کے مطابق طلاق دے گا اللہ اسے نکاسی اور نجات دے گا “ ۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ وغیرہ سے مروی ہے کہ ” وہ جانتا ہے کہ اللہ اگر چاہے دے اگر نہ چاہے نہ دے “ ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” تمام امور کے شبہ سے اور موت کی تکلیف سے بچا لے گا اور روزی ایسی جگہ سے دے گا جہاں کا گمان بھی نہ ہو “ ۔ سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” یہاں اللہ سے ڈرنے کے یہ معنی ہیں کہ سنت کے مطابق طلاق دے اور سنت کے مطاق رجوع کرے “ ۔ آپ فرماتے ہیں عوف بن مالک رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے کو کفار گرفتار کر کے لے گئے اور انہیں جیل خانہ میں ڈال دیا ان کے والد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اکثر آتے اور اپنے بیٹے کی حالت اور حاجت مصیبت اور تکلیف بیان کرتے رہتے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں صبر کرنے کی تلقین کرتے اور فرماتے ” عنقریب اللہ تعالیٰ ان کے چھٹکارے کی سبیل بنا دے گا “ ، تھوڑے ہی دن گزرے ہوں گے کہ ان کے بیٹے دشمنوں میں سے نکل بھاگے ، راستہ میں دشمنوں کی بکریوں کا ریوڑ مل گیا جسے اپنے ساتھ ہنکا لائے اور بکریاں لیے ہوئے اپنے والد کی خدمت میں جا پہنچے پس یہ آیت اتری کہ ’ متقی بندوں کو اللہ نجات دے دیتا ہے اور اس کا گمان بھی نہ ہو وہاں سے اسے روزی پہنچاتا ہے ‘ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:34287) مسند احمد میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ گناہ کی وجہ سے انسان اپنی روزی سے محروم ہو جاتا ہے ، تقدیر کو لوٹانے والی چیز صرف دعا ہے ، عمر میں زیادتی کرنے والی چیز صرف نیکی اور خوش سلوکی ہے } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:4022،قال الشیخ الألبانی:حسن دون الجملۃ) سیرت ابن اسحاق میں ہے کہ { سیدنا مالک بن اشجعی رضی اللہ عنہ کے لڑکے عوف رضی اللہ عنہ جب کافروں کی قید میں تھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ان سے کہلوا دو کہ بکثرت «لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاﷲِ» پڑھتا رہے “ ، ایک دن اچانک بیٹھے بیٹھے ان کی قید کھل گئی اور یہ وہاں سے نکل بھاگے اور ان لوگوں کی ایک اونٹنی ہاتھ لگ گئی جس پر سوار ہو لیے راستے میں ان کے اونٹوں کے ریوڑ ملے انہیں بھی اپنے ساتھ ہنکا لائے ، وہ لوگ پیچھے دوڑے لیکن یہ کسی کے ہاتھ نہ لگے ، سیدھے اپنے گھر آئے اور دروازے پر کھڑے ہو کر آواز دی ، باپ نے آواز سن کر فرمایا : اللہ کی قسم ! یہ تو عوف ہے ، ماں نے کہا : ہائے ، وہ کہاں ، وہ تو قید و بند کی مصیبتیں جھیل رہا ہو گا ۔ اب دونوں ماں باپ اور خادم دروازے کی طرف دوڑے ، دروازہ کھولا تو ان کے لڑکے عوف رضی اللہ عنہ ہیں اور تمام انگنائی اونٹوں سے بھری پڑی ہے پوچھا کہ یہ اونٹ کیسے ہیں ، انہوں نے واقعہ بیان فرمایا کہا اچھا ٹھہرو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی بابت مسئلہ دریافت کر آؤں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” وہ سب تمہارا مال ہے ، جو چاہو کرو “ اور یہ آیت اتری کہ اللہ سے ڈرنے والوں کی مشکل اللہ آسان کرتا ہے اور بےگمان روزی پہنچاتا ہے } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:34288:مرسل) جو اللہ کا، اللہ اس کا ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے { جو شخص ہر طرف سے کھچ کر اللہ کا ہو جائے ، اللہ اس کی ہر مشکل میں اسے کفایت کرتا ہے اور بے گمان روزیاں دیتا ہے اور جو اللہ سے ہٹ کر دنیا ہی کا ہو جائے اللہ بھی اسے اسی کے حوالے کر دیتا ہے } ۔ ۱؎ (طبرانی صغیر:321:ضعیف) مسند احمد میں ہے کہ { ایک مرتبہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کی سواری پر آپ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” بچے ! میں تمہیں چند باتیں سکھاتا ہوں سنو ، تم اللہ کو یاد رکھو وہ تمہیں یاد رکھے گا ، اللہ کے احکام کی حفاظت کرو تو اللہ کو اپنے پاس بلکہ اپنے سامنے پاؤ گے ، جب کچھ مانگنا ہو اللہ ہی سے مانگو ، جب مدد طلب کرنی ہو اسی سے مدد چاہو ۔ تمام امت مل کر تمہیں نفع پہنچانا چاہے اور اللہ کو منظور نہ ہو تو ذرا سا بھی نفع نہیں پہنچا سکتی اور اسی طرح سارے کے سارے جمع ہو کر تجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہیں تو بھی نہیں پہنچا سکتے اگر تقدیر میں نہ لکھا ہو ، قلمیں اٹھ چکیں اور صحیفے خشک ہو گئے ۔ “ } ۱؎ (سنن ترمذی:2516،قال الشیخ الألبانی:حسن صحیح) ترمذی میں بھی یہ حدیث ہے ، امام ترمذی رحمہ اللہ اسے حسن صحیح کہتے ہیں ۔ مسند احمد کی اور حدیث میں ہے { جسے کوئی حاجت ہو اور وہ لوگوں کی طرف لے جائے تو بہت ممکن ہے کہ وہ سختی میں پڑ جائے اور کام مشکل ہو جائے اور جو اپنی حاجت اللہ کی طرف لے جائے اللہ تعالیٰ ضرور اس کی مراد پوری کرتا ہے یا تو جلدی اسی دنیا میں ہی یا دیر کے ساتھ موت کے بعد } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:1645،قال الشیخ الألبانی:صحیح) پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ’ اللہ تعالیٰ اپنے قضاء اور احکام جس طرح اور جیسے چاہے اپنی مخلوق میں پورے کرنے والا اور اچھی طرح جاری کرنے والا ہے ، ہر چیز کا اس نے اندازہ مقرر کیا ہوا ہے ‘ ۔ جیسے اور جگہ ہے « اللہُ یَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ کُلٰ أُنثَیٰ وَمَا تَغِیضُ الْأَرْحَامُ وَمَا تَزْدَادُ وَکُلٰ شَیْءٍ عِندَہُ بِمِقْدَارٍ» ۱؎ (13-الرعد:8) ’ ہر چیز اس کے پاس ایک اندازے سے ہے ‘ ۔ الطلاق
3 الطلاق
4 مسائل عدت جن بڑھیا عورتوں کی اپنی بڑی عمر کی وجہ سے ایام بند ہو گئے ہوں یہاں ان کی عدت بتائی جاتی ہے کہ تین مہینے کی عدت گزاریں ، جیسے کہ ایام والی عورتوں کی عدت تین حیض ہے ۔ ملاحظہ ہو سورۃ البقرہ کی آیت «وَالَّذِینَ یُتَوَفَّوْنَ مِنکُمْ وَیَذَرُونَ أَزْوَاجًا یَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِہِنَّ أَرْبَعَۃَ أَشْہُرٍ وَعَشْرًا» ۱؎ (2-البقرۃ:234) ’ تم میں سے جو لوگ فوت ہو جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں ، وہ عورتیں اپنے آپ کو چار مہینے اور دس [ دن ] عدت میں رکھیں ‘ ۔ اسی طرح وہ لڑکیاں جو اس عمر کو نہیں پہنچیں کہ انہیں حیض آئے ، ان کی عدت بھی یہی تین مہینے رکھی ، اگر تمہیں شک ہو ، اس کی تفسیر میں دو قول ہیں ایک تو یہ کہ خون دیکھ لیں اور تمہیں شبہ گزرے کہ آیا حیض کا خون ہے یا استخاضہ کی بیماری کا ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ ” ان کی عدت کے حکم میں تمہیں شک باقی رہ جائے اور تم اسے نہ پہچان سکو تو تین مہینے یاد رکھو لو “ ۔ یہ دوسرا قول ہی زیادہ ظاہر ہے ، اس کی دلیل یہ روایت بھی ہے کہ { سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا تھا یا رسول اللہ ! بہت سی عورتوں کی عدت ابھی بیان نہیں ہوئی ، کمسن لڑکیاں ، بوڑھی بڑی عورتیں اور حمل والی عورتیں اس کے جواب میں یہ آیت اتری } ۔ ۱؎ (مستدرک حاکم:392/4:منقطع ضعیف) پھر حاملہ کی عدت بیان فرمائی کہ ’ وضع حمل اس کی عدت ہے ، گو طلاق یا خاوند کی موت کے ذرا سی دیر بعد ہی ہو جائے ‘ ، جیسے کہ اس آیت کریمہ کے الفاظ ہیں اور احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور جمہور علماء سلف و خلف کا قول ہے ۔ ہاں سیدنا علی ابن طالب اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ سورۃ البقرہ کی آیت اور اس آیت کو ملا کر ان کا فتویٰ یہ ہے کہ ان دونوں میں سے جو زیادہ دیر میں ختم ہو وہ عدت یہ گزارے یعنی اگر بچہ تین مہینے سے پہلے پیدا ہو گیا تو تین مہینے کی عدت ہے اور تین مہینے گزر چکے اور بچہ نہیں ہوا تو بچے کے ہونے تک عدت ہے “ ۔ صحیح بخاری میں سیدنا ابوسلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ { ایک شخص سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس آیا اور اس وقت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بھی وہیں موجود تھے اس نے سوال کیا کہ اس عورت کے بارے میں آپ کا کیا فتویٰ ہے جسے اپنے خاوند کے انتقال کے بعد چالیسویں دن بچہ ہو جائے ؟ آپ نے فرمایا : ” دونوں عدتوں میں سے آخری عدت اسے گزارنی پڑے گی “ یعنی اس صورت میں تین مہینے کی عدت اس پر ہے ۔ ابوسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا : ” قرآن میں تو ہے کہ حمل والیوں کی عدت بچہ کا ہو جانا ہے ؟ “ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ” میں بھی اپنے چچا زاد بھائی ابوسلمہ کے ساتھ ہوں “ یعنی میرا بھی یہی فتویٰ ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اسی وقت اپنے غلام کریب کو ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجا کہ جاؤ ان سے یہ مسئلہ پوچھ آؤ انہوں نے فرمایا : ” سبیعہ اسلمیہ رضی اللہ عنہا کے شوہر قتل کئے گئے اور یہ اس وقت امید سے تھیں ، چالیس راتوں کے بعد بچہ ہو گیا ، اسی وقت نکاح کا پیغام آیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کر دیا پیغام دینے والوں میں ابوالسنابل بھی تھے “ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4909) یہ حدیث قدرے طوالت کے ساتھ اور کتابوں میں بھی ہے ۔ { عبداللہ بن عتبہ رحمہ اللہ نے عمر بن عبداللہ بن ارقم زہری رحمہ اللہ کو لکھا کہ وہ سبیعہ بنت حارث اسلمیہ رضی اللہ عنہا کے پاس جائیں اور ان سے ان کا واقعہ دریافت کر کے انہیں لکھ بھیجیں ، یہ گئے ، دریافت کیا اور لکھا کہ ان کے خاوند سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ تھے یہ بدری صحابی تھے حجتہ الوداع میں فوت ہو گئے اس وقت یہ حمل سے تھیں ، تھوڑے ہی دن کے بعد انہیں بچہ پیدا ہو گیا ، جب نفاس سے پاک ہوئیں تو اچھے کپڑے پہن کر بناؤ سنگھار کر کے بیٹھ گئیں ابوالسنابل بن بعلک رضی اللہ عنہ جب ان کے پاس آئے تو انہیں اس حالت میں دیکھ کر کہنے لگے تم جو اس طرح بیٹھی ہو تو کیا نکاح کرنا چاہتی ہو ، واللہ ! تم نکاح نہیں کر سکتیں جب تک کہ چار مہینے دس دن نہ گزر جائیں ۔ میں یہ سن کر چادر اوڑھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” بچہ پیدا ہوتے ہی تم عدت سے نکل گئیں اب تمہیں اختیار ہے اگر چاہو تو اپنا نکاح کر لو “ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3991) صحیح بخاری میں اس آیت کے تحت اس حدیث کے وارد کرنے کے بعد یہ بھی ہے کہ محمد بن سیرین رحمہ اللہ ایک مجلس میں تھے ، جہاں عبدالرحمٰن بن ابو یعلیٰ بھی تھے ، جن کی تعظیم تکریم ان کے ساتھی بہت ہی کیا کرتے تھے ، انہوں نے حاملہ کی عدت آخری دو عدتوں کی میعاد بتائی ، اس پر میں نے سبیعہ رضی اللہ عنہا والی حدیث بیان کی ، اس پر میرے بعض ساتھی مجھے ٹہوکے لگانے لگے ، میں نے کہا : پھر تو میں نے بڑی جرأت کی اگر عبداللہ پر میں نے بہتان باندھا حالانکہ وہ کوفہ کے کونے میں زندہ موجود ہیں ، پس وہ ذرا شرما گئے اور کہنے لگے لیکن ان کے چچا تو یہ نہیں کہتے ، میں ابوعطیہ مالک بن عامر سے ملا ، انہوں نے مجھے سبیعہ رضی اللہ عنہا والی حدیث پوری سنائی ، میں نے کہا : تم نے اس بابت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے بھی کچھ سنا ہے ؟ فرمایا : یہ عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے تھے ، آپ نے فرمایا : کیا تم اس پر سختی کرتے ہو اور رخصت نہیں دیتے ؟ سورۃ نساء قصریٰ یعنی سورۃ الطلاق سورۃ نساء طولی کے بعد اتری ہے اور اس میں فرمان ہے کہ ’ حاملہ عورت کی عدت وضع حمل ہے ‘ ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4910) ابن جریر میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جو «ملاعنہ» کرنا چاہے ، میں اس سے «ملاعنہ» کرنے کو تیار ہوں یعنی میرے فتوے کے خلاف جس کا فتویٰ ہو میں تیار ہوں کہ وہ میرے مقابلہ میں آئے اور جھوٹے پر اللہ لعنت کرے ، میرا فتویٰ یہ ہے کہ حمل والی کی عدت بچہ کا پیدا ہو جانا ہے ، پہلے عام الحکم تھا کہ جن عورتوں کے خاوند مر جائیں وہ چار مہینے دس دن عدت گزاریں اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی کہ حمل والیوں کی عدت بچے کا پیدا ہو جانا ہے پس یہ عورتیں ان عورتوں میں سے مخصوص ہو گئیں اب مسئلہ یہی ہے کہ جس عورت کا خاوند مر جائے اور وہ حمل سے ہو تو جب حمل سے فارغ ہو جائے ، عدت سے نکل گئی ۔ ابن ابی حاتم کی روایت میں ہے کہ { سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے یہ اس وقت فرمایا تھا جب انہیں معلوم ہوا کہ سیدنا علی ابن طالب رضی اللہ عنہ کا فتویٰ یہ ہے کہ اس کی عدت ان دونوں عدتوں میں سے جو آخری ہو وہ ہے ۔ } ۱؎ (سنن ابوداود:2307،قال الشیخ الألبانی:صحیح) مسند احمد میں ہے کہ { ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ حمل والیوں کی عدت جو وضع حمل ہے یہ تین طلاق والیوں کی عدت ہے یا فوت شدہ خاوند والیوں کی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” دونوں کی “ } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:34317:ضعیف) یہ حدیث بہت غریب ہے بلکہ منکر ہے اس لیے کہ اس کی اسناد میں مثنی بن صباح ہے اور وہ بالکل متروک الحدیث ہے ، لیکن اس کی دوسری سندیں بھی ہیں ۔ پھر فرماتا ہے ’ اللہ تعالیٰ متقیوں کے لیے ہر مشکل سے آسانی اور ہر تکلیف سے راحت عنایت فرما دیتا ہے ، یہ اللہ کے احکام اور اس کی پاک شریعت ہے جو اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے تمہاری طرف اتار رہا ہے اللہ سے ڈرنے والوں کو اللہ تعالیٰ اور چیزوں کے ڈر سے بچا لیتا ہے اور ان کے تھوڑے عمل پر بڑا اجر دیتا ہے ‘ ۔ الطلاق
5 الطلاق
6 طلاق کے بعد بھی سلوک کی ہدایت اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو حکم دیتا ہے کہ ’ جب ان میں سے کوئی اپنی بیوی کو طلاق دے تو عدت کے گزر جانے تک اس کے رہنے سہنے کو اپنا مکان دے ‘ ۔ یہ جگہ اپنی طاقت کے مطابق ہے یہاں تک کہ فتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” اگر زیادہ وسعت نہ ہو تو اپنے ہی مکان کا ایک کونہ اسے دے دے “ ، اسے تکلیفیں پہنچا کر اس قدر تنگ نہ کرو کہ وہ مکان چھوڑ کر چلی جائے یا تم سے چھوٹنے کے لیے اپنا حق مہر چھوڑ دے یا اس طرح کہ طلاق دی دیکھا کہ دو ایک روز عدت کے رہ گئے ہیں رجوع کا اعلان کر دیا پھر طلاق دے دی اور عدت کے ختم ہونے کے قریب رجعت کر لی تاکہ نہ وہ بیچاری سہاگن رہے نہ رانڈ ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ’ اگر طلاق والی عورت حمل سے ہو تو بچہ ہونے تک اس کا نان نفقہ اس کے خاوند کے ذمہ ہے ‘ ۔ اکثر علماء کا فرمان ہے کہ یہ خصوصاً ان عورتوں کے لیے بیان ہو رہا ہے جنہیں آخری طلاق دے دی گئی ہو جس سے رجوع کرنے کا حق ان کے خاوندوں کو نہ رہا ہو اس لیے کہ جن سے رجوع ہو سکتا ہے ان کی عدت تک کا خرچ تو خاوند کے ذمہ ہے ہی وہ حمل سے ہوں تب اور بے حمل ہوں تو بھی ۔ اور حضرات علماء فرماتے ہیں ، یہ حکم بھی انہیں عورتوں کا بیان ہو رہا ہے جن سے رجعت کا حق حاصل ہے کیونکہ اوپر بھی انہی کا بیان تھا ، اسے الگ اس لیے بیان کر دیا کہ عموماً حمل کی مدت لمبی ہوتی ہے ، اس لمحے کوئی یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ عدت کے زمانے جتنا نفقہ تو ہمارے ذمہ ہے پھر نہیں ، اس لیے صاف طور پر فرما دیا کہ ’ رجعت والی طلاق کے وقت اگر عورت حمل سے ہو تو جب تک بچہ نہ ہو اس کا کھلانا پلانا خاوند کے ذمہ ہے ‘ ۔ پھر اس میں بھی علماء کا اختلاف ہے کہ خرچ اس کے لیے حمل کے واسطے سے ہے یا حمل کے لیے ہے ، امام شافعی رحمہ اللہ وغیرہ سے دونوں قول مروی ہیں اور اس بناء پر بہت سے فروعی مسائل میں بھی اختلاف رونما ہوا ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ جب یہ مطلقہ عورتیں حمل سے فارغ ہو جائیں تو اگر تمہاری اولاد کو وہ دودھ پلائیں تو تمہیں ان کی دودھ پلائی دینی چاہیئے ‘ ۔ ہاں عورت کو اختیار ہے خواہ دودھ پلائے یا نہ پلائے لیکن اول دفعہ کا دودھ اسے ضرور پلانا چاہیئے ، گو پھر دودھ نہ پلائے کیونکہ عموماً بچہ کی زندگی اس دودھ کے ساتھ وابستہ ہے اگر وہ بعد میں بھی دودھ پلاتی رہے تو ماں باپ کے درمیان جو اجرت طے ہو جائے وہ ادا کرنی چاہیئے ۔ فرمایا ’ تم میں آپس میں جو کام ہوں وہ بھلائی کے ساتھ باقاعدہ دستور کے مطابق ہونے چاہئیں نہ اس کے نقصان کے درپے رہے نہ وہ اسے ایذاء پہنچانے کی کوشش کرے ‘ ، جیسے سورۃ البقرہ میں فرمایا «لَا تُضَارَّ وَالِدَۃٌ بِوَلَدِہَا وَلَا مَوْلُودٌ لَّہُ بِوَلَدِہِ» ۱؎ (2-البقرۃ:233) یعنی ’ بچہ کے بارے میں نہ اس کی ماں کو ضرور پہنچایا جائے نہ اس کے باپ کو ‘ ۔ پھر فرماتا ہے ’ اگر آپس میں اختلاف بڑھ جائے مثلاً لڑکے کا باپ کم دینا چاہتا ہے اور اس کی ماں کو منظور نہیں یا ماں زائد مانگتی ہے جو باپ پر گراں ہے اور موافقت نہیں ہو سکتی دونوں کسی بات پر رضامند نہیں ہوتے تو اختیار ہے کہ کسی اور دایہ کو دیں ہاں جو اور دایہ کو دیا جانا منظور کیا جاتا ہے اگر اسی پر اس بچہ کی ماں رضامند ہو جائے تو زیادہ مستحق یہی ہے ‘ ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ بچے کا باپ یا ولی جو ہو اسے چاہیئے کہ بچے پر اپنی وسعت کے مطابق خرچ کرے ، تنگی والا اپنی طاقت کے مطابق دے ، طاقت سے بڑھ کر تکلیف کسی کو اللہ نہیں دیتا ‘ ۔ تفسیر ابن جریر میں ہے کہ ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کی بابت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ وہ موٹا کپڑا پہنتے ہیں اور ہلکی غذا کھاتے ہیں آپ رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ انہیں ایک ہزار دینار بھجوا دو اور جس کے ہاتھ بھجوائے ان سے کہہ دیا کہ ” دیکھنا وہ ان دیناروں کو پا کر کیا کرتے ہیں ؟ “ جب یہ اشرفیاں انہیں مل گئیں تو انہوں نے باریک کپڑے پہننے اور نہایت نفیس غذائیں کھانی شروع کر دیں ، قاصد نے واپس آ کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے واقعہ بیان کیا آپ نے فرمایا ” اللہ اس پر رحم کرے اس نے اس آیت پر عمل کیا کہ کشادگی والا اپنی کشادگی کے مطابق خرچ کرے اور تنگی و ترشی والا اپنی حالت کے موافق “ ۔ طبرانی کی ایک غریب حدیث میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ایک شخص کے پاس دس دینار تھے ، اس نے ان میں سے ایک راہ اللہ صدقہ کیا ، دوسرے کے پاس دس اوقیہ تھے ، اس نے اس میں سے ایک اوقیہ یعنی چالیس درہم خرچ کئے ، تیسرے کے پاس سو اوقیہ تھے ، جس میں سے اس نے اللہ کے نام پر دس اوقیہ خرچ کئے ، تو یہ سب اجر میں اللہ کے نزدیک برابر ہیں اس لیے کہ ہر ایک نے اپنے مال کا دسواں حصہ فی سبیل اللہ دیا ہے ، پھر اللہ تعالیٰ سچا وعدہ دیتا ہے کہ وہ تنگی کے بعد آسانی کر دے گا “ } ۱؎ (طبرانی:3439:ضعیف) جیسے اور جگہ فرمایا «إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا» ۱؎ (94-الشرح:6) ’ بیشک مشکل کے ساتھ آسانی ہے ‘ ۔ اللہ پر توکل کا نتیجہ مسند احمد کی حدیث اس جگہ وارد کرنے کے قابل ہے جس میں ہے کہ { سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اگلے زمانہ میں ایک میاں بیوی تھے جو فقر و فاقہ سے اپنی زندگی گزار رہے تھے پاس کچھ بھی نہ تھا ، ایک مرتبہ یہ شخص سفر سے آیا اور سخت بھوکا تھا ، بھوک کے مارے بے تاب تھا ، آتے ہی اپنی بیوی سے پوچھا : کچھ کھانے کو ہے ؟ اس نے کہا : آپ خوش ہو جایئے ، اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی روزی ہمارے ہاں آ پہنچی ہے ، اس نے کہا : پھر لاؤ ، جو کچھ ہو دے دو ، میں بہت بھوکا ہوں ۔ بیوی نے کہا اور ذرا سی دیر صبر کر لو ، اللہ کی رحمت سے ہمیں بہت کچھ امید ہے ، پھر جب کچھ دیر اور ہو گئی ، اس نے بے تاب ہو کر کہا : جو کچھ تمہارے پاس ہے دیتی کیوں نہیں ؟ مجھے تو بھوک سے سخت تکلیف ہو رہی ہے ، بیوی نے کہا : اتنی جلدی کیوں کرتے ہو ؟ اب تنور کھولتی ہوں ۔ تھوڑی دیر گزرنے کے بعد جب بیوی نے دیکھا کہ یہ اب پھر تقاضہ کرنا چاہتے ہیں ، تو خودبخود کہنے لگیں ، اب اٹھ کر تنور کو دیکھتی ہوں ، اٹھ کر جو دیکھتی ہیں تو قدرت اللہ سے ان کے توکل کے بدلے وہ بکری کے پہلو کے گوشت سے بھرا ہوا ہے ، دیکھتی ہیں کہ گھر کی دونوں چکیاں از خود چل رہی ہیں اور برابر آٹا نکل رہا ہے ، انہوں نے تنور میں سے سب گوشت نکال لیا اور چکیوں میں سارا آٹا اٹھا لیا اور جھاڑ دیں ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ قسم کھا کر فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اگر وہ صرف آٹا لے لیتیں اور چکی نہ جھاڑتیں تو وہ قیامت تک چلتی رہتیں ۔ ۱؎ (مسند احمد:421/2:ضعیف) اور روایت میں ہے کہ { ایک شخص اپنے گھر پہنچا دیکھا کہ بھوک کے مارے گھر والوں کا برا حال ہے ، آپ جنگل کی طرف نکل کھڑے ہوئے ، یہاں ان کی نیک بخت بیوی صاحبہ نے جب دیکھا کہ میاں بھی پریشان حال ہیں اور یہ منظر دیکھ نہیں سکے اور چل دیئے تو چکی کو ٹھیک ٹھاک کیا ، تنور سلگایا اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے لگیں ، اے اللہ ! ہمیں روزی دے ، دعا کر کے اٹھیں تو دیکھا کہ ہنڈیا گوشت سے پر ہے ، تنور میں روٹیاں لگ رہی ہیں اور چکی سے برابر آٹا ابلا چلا آتا ہے ، اتنے میں میاں صاحب بھی تشریف لائے ، پوچھا کہ میرے بعد تمہیں کچھ ملا ؟ بیوی صاحبہ نے کہا : ہاں ! ہمارے رب نے ہمیں بہت کچھ عطا فرما دیا اس نے جا کر چکی کے دوسرے پاٹ کو اٹھا لیا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ واقعہ بیان ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اگر وہ اسے نہ اٹھاتا تو قیامت تک یہ چکی چلتی ہی رہتی “ ۔ ۱؎ (مسند احمد:513/2:ضعیف) الطلاق
7 الطلاق
8 شریعت پر چلنا ہی روشنی کا انتخاب ہے جو لوگ اللہ کے امر کا خلاف کریں ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ مانیں ، اس کی شریعت پر نہ چلیں انہیں ڈانٹا جا رہا ہے کہ دیکھو گزشتہ لوگوں میں سے بھی جو اس روش پر چلے وہ تباہ و برباد ہو گئے جنہوں نے سرتابی ، سرکشی اور تکبر کیا حکم اللہ اور اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پرواہی برتی آخر انہیں سخت حساب دینا پڑا اور اپنی بدکرداری کا مزہ چکھنا پڑا ۔ انجام کار نقصان اٹھایا ، اس وقت نادم ہونے لگے ، لیکن اب ندامت کس کام کی ؟ پھر دنیا کے اس عذاب سے ہی اگر پلا پاک ہو جاتا تو جب بھی ایک بات تھی ، نہیں تو پھر ان کے لیے آخرت میں بھی سخت تر عذاب اور بے پناہ مار ہے ، اب اے سوچ سمجھ والو ! چاہیئے کہ ان جیسے نہ بنو اور ان کے انجام سے عبرت حاصل کرو ، اے عقلمند ایماندارو اللہ نے تمہاری طرف قرآن کریم نازل فرما دیا ہے ۔ «ذکر» سے مراد قرآن ہے جیسے اور جگہ فرمایا «إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ» ‏‏‏‏ ۱؎ (15-الحجر:9) ، ’ ہم نے اس قرآن کو نازل فرمایا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ‘ ۔ اور بعض نے کہا ہے ذکر سے مراد یہاں رسول ہے چنانچہ ساتھ ہی فرمایا ہے «رَسُولًا» تو یہ بدل اشتمال ہے ، چونکہ قرآن کے پہنچانے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں تو اس مناسبت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لفظ «ذکر» سے یاد کیا گیا ، امام ابن جریر رحمہ اللہ بھی اسی مطلب کو درست بتاتے ہیں ۔ پھر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت بیان فرمائی کہ ’ وہ اللہ کی واضح اور روشن آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتے ہیں تاکہ مسلمان اندھیرں سے نکل آئیں اور روشنیوں میں پہنچ جائیں ‘ ، جیسے اور جگہ «‏‏‏‏الر کِتَابٌ أَنزَلْنَاہُ إِلَیْکَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظٰلُمَاتِ إِلَی النٰورِ بِإِذْنِ رَبِّہِمْ إِلَیٰ صِرَاطِ الْعَزِیزِ الْحَمِیدِ» ۱؎ (14-ابراھیم:1) ’ اس کتاب کو ہم نے تجھے دیا ہے تاکہ تو لوگوں کو تاریکیوں سے روشنی میں لائے ‘ ۔ ایک اور جگہ ارشاد ہے « اللہُ وَلِیٰ الَّذِینَ آمَنُوا یُخْرِجُہُم مِّنَ الظٰلُمَاتِ إِلَی النٰورِ وَالَّذِینَ کَفَرُوا أَوْلِیَاؤُہُمُ الطَّاغُوتُ یُخْرِجُونَہُم مِّنَ النٰورِ إِلَی الظٰلُمَاتِ أُولٰئِکَ أَصْحَابُ النَّارِ ہُمْ فِیہَا خَالِدُونَ» ۱؎ (2-البقرۃ:257) ، ’ اللہ ایمان والوں کا کارساز ہے وہ انہیں اندھیروں سے اجالے کی طرف لاتا ہے ‘ ، یعنی کفر و جہالت سے ایمان و علم کی طرف ، چنانچہ اور آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی نازل کردہ وحی کو نور فرمایا ہے کیونکہ اس سے ہدایت اور راہ راست حاصل ہوتی ہے اور اسی کا نام روح بھی رکھا ہے کیونکہ اس سے دلوں کی زندگی ملتی ہے ۔ چنانچہ ارشاد باری ہے «وَکَذٰلِکَ أَوْحَیْنَا إِلَیْکَ رُوحًا مِّنْ أَمْرِنَا مَا کُنتَ تَدْرِی مَا الْکِتَابُ وَلَا الْإِیمَانُ وَلٰکِن جَعَلْنَاہُ نُورًا نَّہْدِی بِہِ مَن نَّشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا وَإِنَّکَ لَتَہْدِی إِلَیٰ صِرَاطٍ مٰسْتَقِیمٍ» ‏‏‏‏۱؎ (42-الشوریٰ:52) یعنی ’ ہم نے اسی طرح تیری طرف اپنے حکم سے روح کی وحی کی تو نہیں جانتا تھا کہ کتاب کیا ہے اور ایمان کیا ہے ؟ لیکن ہم نے اسے نور کر دیا جس کے ساتھ ہم اپنے جس بندے کو چاہیں ہدایت کرتے ہیں ، یقیناً تو صحیح اور سچی راہ کی رہبری کرتا ہے ‘ ۔ پھر ایمانداروں اور نیک اعمال والوں کا بدلہ بہتی نہروں والی ہمیشہ رہنے والی جنت بیان ہوا ہے جس کی تفسیر بارہا گزر چکی ہے ۔ الطلاق
9 الطلاق
10 الطلاق
11 الطلاق
12 حیرت، افزا شان ذوالجلال اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ اور اپنی عظیم الشان سلطنت کا ذکر فرماتا ہے تاکہ مخلوق اس کی عظمت و عزت کا خیال کر کے اس کے فرمان کو قدر کی نگاہ سے دیکھے اور اس پر عامل بن کر اسے خوش کرے ، تو فرمایا کہ ’ ساتوں آسمانوں کا خلاق اللہ تعالیٰ ہے ‘ ، جیسے نوح علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا «‏‏‏‏أَلَمْ تَرَوْا کَیْفَ خَلَقَ اللہُ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا» ۱؎ (71-نوح:15) ’ کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ پاک نے ساتوں آسمانوں کس طرح اوپر تلے پیدا کیا ہے ؟ ‘ اور جگہ ارشاد ہے «‏‏‏‏تُسَبِّحُ لَہُ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَالْأَرْضُ وَمَن فِیہِنَّ» ۱؎ (17-الاسراء:44) یعنی ’ ساتوں آسمان اور زمین اور ان میں جو کچھ ہے سب اس اللہ کی تسبیح پڑھتے رہتے ہیں ‘ ۔ پھر فرماتا ہے ’ اسی کے مثال زمینیں ہیں ‘ ۔ جیسے کہ بخاری و مسلم کی صحیح حدیث میں ہے { جو شخص ظلم کر کے کسی کی ایک بالشت بھر زمین لے لے گا اسے ساتوں زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3196) صحیح بخاری میں ہے { اسے ساتویں زمین تک دھنسایا جائے گا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3196) میں نے اس کی تمام سندیں اور کل الفاظ ابتداء اور انتہا میں زمین کی پیدائش کے ذکر میں بیان کر دیئے ہیں ۔ «فَالْحَمْدُ لِلہِ» جن بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اس سے مراد ہفت اقلیم ہے انہوں نے بے فائدہ دوڑ بھاگ کی ہے اور اختلاف بے جا میں پھنس گئے ہیں اور بلا دلیل قرآن حدیث کا صریح خلاف کیا ہے ۔ سورۃ الحدید میں آیت «ہُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاہِرُ وَالْبَاطِنُ وَہُوَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ» ۱؎ (57- الحدید:3) ، کی تفسیر میں ساتوں زمینوں کا اور ان کے درمیان کی دوری کا اور ان کی موٹائی کا جو پانچ سو سال کی ہے پورا بیان ہو چکا ہے ، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ وغیرہ بھی یہی فرماتے ہیں ۔ ایک اور حدیث میں بھی ہے { ساتوں آسمان اور جو کچھ ان میں اور ان کے درمیان ہے اور ساتوں زمینیں اور جو کچھ ان میں اور ان کے درمیان ہے کرسی کے مقابلہ میں ایسے ہیں جیسے کسی لمبے چوڑے بہت بڑے چٹیل میدان میں ایک چھلا پڑا ہو } ۔ ۱؎ (البدایۃ و والنہایۃ:14/1) ابن جریر میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ” اگر میں اس کی تفسیر تمہارے سامنے بیان کروں تو اسے نہ مانو گے اور نہ ماننا جھوٹا جاننا ہے “ ۔ اور روایت میں ہے کہ کسی شخص نے اس آیت کا مطلب پوچھا تھا اس پر آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ ” میں کیسے باور کر لوں کہ جو میں تجھے بتاؤں گا تو اس کا انکار کرے گا ؟ “ اور روایت میں مروی ہے کہ ہر زمین میں مثل ابراہیم علیہ السلام کے اور اس زمین کی مخلوق کے ہے اور ابن مثنی والی اس روایت میں آیا ہے ہر آسمان میں مثل ابراہیم علیہ السلام کے ہے ۔ بیہقی کی کتاب «الْاَسْمَاءُ والصَّفَات» میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ ساتوں زمینوں میں سے ہر ایک میں نبی ہے مثل تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اور آدم ہیں مثل آدم علیہ السلام کے اور نوح ہیں مثل نوح علیہ السلام کے اور ابراہیم ہیں مثل ابراہیم علیہ السلام کے اور عیسیٰ ہیں مثل عیسیٰ علیہ السلام کے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:145/12) پھر امام بیہقی نے ایک اور روایت بھی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی وارد کی ہے اور فرمایا ہے اس کی اسناد صحیح ہے لیکن یہ بالکل شاذ ہے ابوالضحیٰ جو اس کے ایک راوی ہیں میرے علم میں تو ان کی متابعت کوئی نہیں کرتا ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» مخلوق خدا میں غور و خوض ایک مرسل اور بہت ہی منکر روایت ابن ابی الدنیا لائے ہیں جس میں مروی ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے مجمع میں تشریف لائے دیکھا کہ سب کسی غور و فکر میں چپ چاپ ہیں ، پوچھا : ” کیا بات ہے ؟ “ جواب ملا ، اللہ کی مخلوق کے بارے میں سوچ رہے ہیں ۔ فرمایا : ” ٹھیک ہے مخلوقات پر نظریں دوڑاؤ لیکن کہیں اللہ کی بابت غور و خوض میں نہ پڑ جانا ، سنو اس مغرب کی طرف ایک سفید زمین ہے اس کی سفیدی اس کا نور ہے “ یا فرمایا ” اس کا نور اس کی سفیدی ہے ، سورج کا راستہ چالیس دن کا ہے ، وہاں اللہ کی ایک مخلوق ہے جس نے ایک آنکھ جھکپنے کے برابر بھی کبھی اس کی نافرمانی نہیں کی “ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے کہا : پھر شیطان ان سے کہاں ہیں ؟ فرمایا : ” انہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ شیطان پیدا بھی کیا گیا ہے یا نہیں ؟ “ پوچھا : کیا وہ بھی انسان ہیں ؟ فرمایا : ” انہیں آدم علیہ السلام کی پیدائش کا بھی علم نہیں “ } (کتابہ التفکر والاعتبار:منکر) «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» سورۃ الطلاق کی تفسیر بھی پوری ہوئی ۔ الطلاق
0 التحريم
1 خلت و حرمت اللہ کے قبضے میں ہے اس سورت کی ابتدائی آیتوں کے شان نزول میں مفسرین کے اقوال یہ ہیں : بعض تو کہتے ہیں یہ سیدہ ماریہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں نازل ہوئی ہے انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اوپر حرام کر لیا تھا جس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں ۔ نسائی میں یہ روایت موجود ہے کہ { سیدہ عائشہ اور سیدہ حفصہ «رَضِیَ اللہُ عَنْہُنَّ وَأَرْضَاہُنَّ» کے کہنے سننے سے ایسا ہوا تھا کہ ایک لونڈی کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں } ۔ (سنن نسائی:3411،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابن جریر میں ہے کہ ام ابراہیم رضی اللہ عنہا کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کسی بیوی صاحبہ کے گھر میں بات چیت کی جس پر انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! میرے گھر میں اور میرے بستر پر ؟ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے اوپر حرام کر لیا تو انہوں نے کہا : یا رسول اللہ ! حلال آپ پر حرام کیسے ہو جائے گا ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم کھائی کہ اب ان سے اس قسم کی بات چیت نہ کروں گا ۔ اس پر یہ آیت اتری ۔ زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ کسی کا یہ کہہ دینا کہ تو مجھ پر حرام ہے لغو اور فضول ہے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:34382:مرسل) زید بن اسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ { تو مجھ پر حرام ہے اللہ کی قسم میں تجھ سے صحبت داری نہ کروں گا } ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:34385:مرسل) مسروق رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” پس حرام کرنے کے باب میں تو آپ پر عتاب کیا گیا اور قسم کے کفارے کا حکم ہوا “ ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:34383:مرسل) ابن جریر میں ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ یہ دونوں عورتیں کون تھیں ؟ فرمایا ” سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا اور ابتداءً ام ابراہیم قبطیہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں ہوئی ۔ سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں ان کی باری والے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان سے ملے تھے ۔ جس پر سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کو رنج ہوا کہ میری باری کے دن میرے گھر اور میرے بستر پر ؟ حضو رصلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں رضامند کرنے اور منانے کے لیے کہہ دیا کہ میں اسے اپنے اوپر حرام کرتا ہوں ، اب تم اس واقعہ کا ذکر کسی سے نہ کرنا ، لیکن سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے واقعہ کہہ دیا ، اللہ نے بھی اس کی اطلاع اپنے نبی کو دے دی اور یہ کل آیتیں نازل فرمائیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفارہ دے کر اپنی قسم توڑ دی اور اس لونڈی سے ملے جلے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:34397:صحیح) بیوی یا لونڈی کو حرام کہنے پر کفارہ اسی واقعہ کو دلیل بنا کر سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا فتویٰ ہے کہ ” جو کہے فلاں چیز مجھ پر حرام ہے اسے قسم کا کفارہ دینا چاہیئے “ ، ایک شخص نے آپ سے یہی مسئلہ پوچھا کہ میں اپنی عورت کو اپنے اوپر حرام کر چکا ہوں ؟ تو آپ نے فرمایا ” وہ تجھ پر حرام نہیں ، سب سے زیادہ سخت کفارہ اس کا تو راہ اللہ میں غلام آزاد کرنا ہے “ ۔ امام احمد رحمہ اللہ اور بہت سے فقہاء کا فتویٰ ہے کہ ” جو شخص اپنی بیوی ، لونڈی یا کسی کھانے پینے ، پہننے اوڑھنے کی چیز کو اپنے اوپر حرام کر لے تو اس پر کفارہ واجب ہو جاتا ہے “ ۔ امام شافعی رحمہ اللہ وغیرہ فرماتے ہیں ” صرف بیوی اور لونڈی کے حرام کرنے پر کفارہ ہے کسی اور پر نہیں ، اور اگر حرام کہنے سے نیت طلاق کی رکھی تو بیشک طلاق ہو جائے گی ، اسی طرح لونڈی کے بارے میں اگر آزادگی کی نیت حرام کا لفظ کہنے سے رکھی ہے تو وہ آزاد ہو جائے گی “ ۔ [۲] ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ یہ آیت اس عورت کے بارے میں نازل ہوئی ہے جس نے اپنا نفس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہبہ کیا تھا ، لیکن یہ غریب ہے ، (مسند بزار:2274) بالکل صحیح بات یہ ہے کہ ان آیتوں کا اترنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شہد حرام کر لینے پر تھا ۔ [۳] صحیح بخاری میں اس آیت کے موقعہ پر کہ { زینب بنت بخش رضی اللہ عنہا کے گھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہد پیتے تھے اور اس کی خاطر ذرا سی دیر وہاں ٹھہرتے بھی تھے اس پر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے آپس میں مشورہ کیا کہ ہم میں سے جس کے ہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آئیں وہ کہے کہ یا رسول اللہ ! کہ آج تو آپ کے منہ سے گوند کی سی بدبو آتی ہے شاید آپ نے مغافیر کھایا ہو گا ۔ چنانچہ ہم نے یہی کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” نہیں ، میں نے تو زینب کے گھر شہد پیا ہے اب قسم کھاتا ہوں کہ نہ پیوں گا یہ کسی سے کہنا مت “ } ۔ (صحیح بخاری:4912) امام بخاری اس حدیث کو «کتاب الایمان والندوہ» میں بھی کچھ زیادتی کے ساتھ لائے ہیں جس میں ہے کہ دونوں عورتوں سے یہاں مراد سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا ہیں اور چپکے سے بات کہنا یہی تھا کہ میں نے شہد پیا ہے ، کتاب الطلاق میں امام صاحب رحمتہ اللہ علیہ اس حدیث کو لائے ہیں ۔ (صحیح بخاری:5267) پھر فرمایا ہے مغافیر گوند کے مشابہ ایک چیز ہے جو شور گھاس میں پیدا ہوتی ہے اس میں قدرے مٹھاس ہوتی ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کا آپس میں خفیہ مشورہ صحیح بخاری کی کتاب الطلاق میں یہ حدیث سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ان الفاظ میں مروی ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مٹھاس اور شہد بہت پسند تھا ، عصر کی نماز کے بعد اپنی بیویوں کے گھر آتے اور کسی سے نزدیکی کرتے ۔ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے ہاں گئے اور جتنا وہاں رکتے تھے اس سے زیادہ رکے مجھے غیرت سوار ہوئی ، تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ ان کی قوم کی ایک عورت نے ایک کپی شہد کی انہیں بطور ہدیہ کے بھیجی ہے ، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو شہد کا شربت پلایا اور اتنی دیر روک رکھا ، میں نے کہا : خیر اسے کسی حیلے سے ٹال دوں گی ۔ چنانچہ میں نے سیدہ سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے پاس جب آئیں اور قریب ہوں تو تم کہنا کہ آج کیا آپ نے مغافیر کھایا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمائیں گے نہیں ، تم کہنا پھر یہ بدبو کیسی آتی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمائیں گے ، مجھے حفصہ نے شہد پلایا تھا تو تم کہنا کہ شاید شہد کی مکھی نے عرفط نامی خار دار درخت چوسا ہو گا ، میرے پاس آئیں گے میں بھی یہی کہوں گی ، پھر اے صفیہ تمہارے پاس جب آئیں تو تم بھی یہی کہنا ۔ سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر آئے ، ابھی تو دروازے ہی پر تھے جو میں نے ارادہ کیا کہ تم نے جو مجھ سے کہا ہے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہہ دوں کیونکہ میں تم سے بہت ڈرتی تھی ، لیکن خیر اس وقت تو خاموش رہی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے ، میں نے تمہارا تمام کہنا پورا کر دیا ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے میں نے بھی یہی کہا ، پھر صفیہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے انہوں نے بھی یہی کہا ، پھر جب حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر گئے تو سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے شہد کا شربت پلانا چاہا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” مجھے اس کی حاجت نہیں “ ، سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا فرمانے لگیں افسوس ہم نے اسے حرام کرا دیا میں نے کہا خاموش رہو ۔ } (صحیح بخاری:5268) صحیح مسلم کی اس حدیث میں اتنی زیادتی اور ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بدبو سے سخت نفرت تھی } ۔ (صحیح مسلم:1474) اسی لیے ان بیویوں نے کہا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغافیر کھایا ہے اس میں بھی قدرے بدبو ہوتی ہے ، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ نہیں ! میں نے تو شہد پیا ہے ، تو انہوں نے کہہ دیا کہ پھر اس شہد کی مکھی نے عرفط درخت کو چوسا ہو گا جس کے گوند کا نام مغافیر ہے اور اس کے اثر سے اس شہد میں اس کی بو رہ گئی ہو گی ۔ اس روایت میں لفظ «جَرَسَتْ» ہے جس کے معنی جوہری نے کئے ہیں کھایا اور شہد کی مکھیوں کو بھی «جَوَارِسُ» کہتے ہیں اور «جَرْسَ» مدہم ہلکی آواز کو کہتے ہیں ۔ عرب کہتے ہیں «سَمِعْتُ جَرَسَ الطِّیْرِ» جبکہ پرند دانہ چگ رہا ہو اور اس کی چونچ کی آواز سنائی دیتی ہو ۔ ایک حدیث میں ہے { «فَیَسْمَعُونَ جَرْشَ طَیْرِ الْجَنَّۃِ» پھر وہ جنتی پرندوں کی ہلکی اور میٹھی سہانی آوازیں سنیں گے } ، یہاں بھی عربی میں لفظ «جَرْسَ» ہے ۔ اصمعی رحمہ اللہ کہتے ہیں میں شعبہ رحمہ اللہ کی مجلس میں تھا وہاں انہوں نے اس لفظ «جَرْسَ» کو «جَرْشَ» بڑی «شین» کے ساتھ پڑھا میں نے کہا چھوٹے «سین» سے ہے ، شعبہ رحمہ اللہ نے میری طرف دیکھا اور فرمایا : ” یہ ہم سے زیادہ اسے جانتے ہیں یہی ٹھیک ہے تم اصلاح کر لو “ ۔ الغرض شہد نوشی کے واقعہ میں شہد پلانے والیوں میں دو نام مروی ہیں ایک سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کا دوسرا سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کا ، بلکہ اس امر پر اتفاق کرنے والیوں میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کا نام ہے پس ممکن ہے یہ دو واقعہ ہوں ، یہاں تک تو ٹھیک ہے لیکن ان دونوں کے بارے میں اس آیت کا نازل ہونا ذرا غور طلب ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» طلاق کی جھوٹی افواہ بزبان آپس میں اس قسم کا مشورہ کرنے والی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا تھیں یہ اس حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے جو مسند امام احمد میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے فرماتے ہیں مجھے مدتوں سے آرزو تھی کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ان دونوں بیوی صاحبان کا نام معلوم کروں جن کا ذکر آیت «إِن تَتُوبَا إِلَی اللہِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُکُمَا» ۱؎ (66-التحریم:4) الخ ، میں ہے پس حج کے سفر میں جب خلیفتہ الرسول چلے تو میں بھی ہم رکاب ہو لیا ایک راستے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ راستہ چھوڑ کر جنگل کی طرف چلے میں ڈولچی لیے ہوئے پیچھے پیچھے گیا ۔ آپ حاجت ضروری سے فارغ ہو کر آئے میں نے پانی ڈلوایا اور وضو کرایا ، اب موقعہ پا کر سوال کیا کہ اے امیر المؤمنین ! جن کے بارے میں یہ آیت ہے وہ دونوں کون ہیں ؟ آپ نے فرمایا ” ابن عباس ! افسوس “ ، زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو ان کا یہ دریافت کرنا برا معلوم ہوا لیکن چھپانا جائز نہ تھا اس لیے جواب دیا ، اس سے مراد سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا ہیں ۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے واقعہ بیان کرنا شروع کیا کہ ہم قریش تو اپنی عورتوں کو اپنے زیر فرمان رکھتے تھے لیکن مدینہ والوں پر عموماً ان کی عورتیں حاوی تھیں جب ہم ہجرت کر کے مدینہ آئے تو ہماری عورتوں نے بھی ان کی دیکھا دیکھی ہم پر غلبہ حاصل کرنا چاہا ۔ میں مدینہ شریف کے بالائی حصہ میں امیہ بن زید رضی اللہ عنہ کے گھر میں ٹھہرا ہوا تھا ایک مرتبہ میں اپنی بیوی پر کچھ ناراض ہوا اور کچھ کہنے سننے لگا تو پلٹ کر اس نے مجھے جواب دینے شروع کئے ، مجھے نہایت برا معلوم ہوا کہ یہ کیا حرکت ہے ؟ یہ نئی بات کیسی ؟ اس نے میرا تعجب دیکھ کر کہا کہ آپ کس خیال میں ہیں ؟ اللہ کی قسم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں بھی آپ کو جواب دیتی ہیں اور بعض مرتبہ تو دن دن بھر بول چال چھوڑ دیتی ہیں اب میں تو ایک دوسری الجھن میں پڑ گیا ، سیدھا اپنی بیٹی حفصہ کے گھر گیا اور دریافت کیا کہ کیا یہ سچ ہے کہ تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دیتی ہو اور کبھی کبھی سارا سارا دن روٹھی رہتی ہو ؟ جواب ملا کہ سچ ہے ۔ میں نے کہا کہ برباد ہوئی اور نقصان میں پڑی جس نے ایسا کیا ۔ کیا تم اس سے غافل ہو گئیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غصہ کی وجہ سے ایسی عورت پر اللہ ناراض ہو جائے اور وہ کہیں کی نہ رہے ؟ خبردار ! آئندہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی جواب نہ دینا ، نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ طلب کرنا ، جو مانگنا ہو مجھ سے مانگ لیا کرو ، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو دیکھ کر تم ان کی حرص نہ کرنا وہ تم سے اچھی اور تم سے بہت زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی منظور نظر ہیں ۔ اب اور سنو میرا پڑوسی ایک انصاری تھا اس نے اور میں نے باریاں مقرر کر لی تھیں ، ایک دن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گزارتا اور ایک دن وہ ، میں اپنی باری والے دن کی تمام حدیثیں آیتیں وغیرہ انہیں آ کر سنا دیتا اور یہ بات ہم میں اس وقت مشہور ہو رہی تھی کہ غسانی بادشاہ اپنے فوجی گھوڑوں کے نعل لگوا رہا ہے اور اس کا ارادہ ہم پر چڑھائی کرنے کا ہے ، ایک مرتبہ میرے ساتھی اپنی باری والے دن گئے ہوئے تھے ، عشاء کے وقت آ گئے اور میرا دروازہ کھٹکھٹا کر مجھے آوازیں دینے لگے ، میں گھبرا کر باہر نکلا دریافت کیا خیریت تو ہے ؟ اس نے کہا : آج تو بڑا بھاری کام ہو گیا ، میں نے کہا کیا غسانی بادشاہ آ پہنچا ؟ اس نے کہا : اس سے بھی بڑھ کر ، میں نے پوچھا : وہ کیا ؟ کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی میں نے کہا : افسوس حفصہ برباد ہو گئی اور اس نے نقصان اٹھایا ، مجھے پہلے ہی سے اس امر کا کھٹکا تھا ، صبح کی نماز پڑھتے ہی کپڑے پہن کر میں چلا سیدھا حفصہ کے پاس گیا ، دیکھا کہ وہ رو رہی ہیں ، میں نے کہا : کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں طلاق دے دی ؟ جواب دیا یہ تو کچھ معلوم نہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے الگ ہو کر اپنے اس بالا خانہ میں تشریف فرما ہیں ۔ میں وہاں گیا دیکھا کہ ایک حبشی غلام پہرے پر ہے ، میں نے کہا : جاؤ میرے لیے اجازت طلب کرو ، وہ گیا پھر آ کر کہنے لگا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ جواب نہیں دیا ، میں وہاں سے واپس چلا آیا ، مسجد میں گیا دیکھا کہ منبر کے پاس ایک گروہ صحابہ رضی اللہ عنہم کا بیٹھا ہوا ہے اور بعض بعض کے تو آنسو نکل رہے ہیں ، میں تھوڑی سی دیر بیٹھا لیکن چین کہاں ؟ پھر اٹھ کھڑا ہوا اور وہاں جا کر غلام سے کہا کہ میرے لیے اجازت طلبب کرو ، اس نے پھر آ کر یہی کہا کہ کچھ جواب نہیں ملا ، میں دوبارہ مسجد چلا گیا پھر وہاں سے گھبرا کر نکلا یہاں آیا پھر غلام سے کہا غلام گیا آیا اور وہی جواب دیا میں واپس مڑا ہی تھا کہ غلام نے مجھے آواز دی کہ آیئے آپ کو اجازت مل گئی ۔ میں گیا دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک بورے پر ٹیک لگائے بیٹھے ہوئے ہیں جس کے نشان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک پر ظاہر ہیں میں نے کہا یا رسول اللہ ! کیا آپ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھا کر میری طرف دیکھا اور فرمایا : نہیں ، میں نے کہا : اللہ اکبر ! یا رسول اللہ ! بات یہ ہے کہ ہم قوم قریش تو اپنی بیویوں کو اپنے دباؤ میں رکھا کرتے تھے لیکن مدینے والوں پر ان کی بیویاں غالب ہیں یہاں آ کر ہماری عورتوں نے بھی ان کی دیکھا دیکھی یہی حرکت شروع کر دی ، پھر میں نے اپنی بیوی کا واقعہ سنایا اور میرا یہ خبر پا کر کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں بھی ایسا کرتی ہیں ، یہ کہنا کہ کیا انہیں ڈر نہیں تھا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے غصہ کی وجہ سے اللہ بھی ان سے ناراض ہو جائے اور وہ ہلاک ہو جائیں بیان کیا ، اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دیئے ۔ میں نے پھر اپنا سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس جانا اور انہیں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی ریس کرنے سے روکنا بیان کیا اس پر دوبارہ مسکرائے ، میں نے کہا : اگر اجازت ہو تو ذرا سی دیر اور رک جاؤں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی میں بیٹھ گیا اب جو سر اٹھا کر چاروں طرف نظریں دوڑائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹھک [ دربار خاص ] میں سوائے تین خشک کھالوں کے اور کوئی چیز نہ دیکھی ، آزردہ دل ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی امت پر کشادگی کرے ، دیکھئے تو فارسی اور رومی جو اللہ کی عبادت ہی نہیں کرتے انہیں کس قدر دنیا کی نعمتوں میں وسعت دی گئی ہے ؟ یہ سنتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سنبھل بیٹھے اور فرمانے لگے ” اے ابن خطاب ! کیا تو شک میں ہے ؟ اس قوم کی اچھائیاں انہیں بہ عجلت دنیا میں ہی دے دی گئیں “ ۔ میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! میرے لیے اللہ سے بخشش طلب کیجئے ، بات یہ تھی کہ آپ نے سخت ناراضگی کی وجہ سے قسم کھا لی تھی کہ مہینہ بھر تک اپنی بیویوں کے پاس نہ جاؤں گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تنبیہ کی ، یہ حدیث بخاری مسلم ترمذی اور نسائی میں بھی ہے ۔ (صحیح بخاری:5191) بخاری مسلم کی حدیث میں ہے { سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں سال بھر اسی امید میں گزر گیا کہ موقعہ ملے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ان دونوں کے نام دریافت کروں لیکن ہیبت فاروقی سے ہمت نہیں پڑتی تھی یہاں تک کہ حج کی واپسی میں پوچھا پھر پوری حدیث بیان کی جو اوپر گزر چکی } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4931) صحیح مسلم میں ہے کہ { طلاق کی شہرت کا واقعہ پردہ کی آیتوں کے نازل ہونے سے پہلے کا ہے ، اس میں یہ بھی ہے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جس طرح سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس جا کر انہیں سمجھا آئے تھے اسی طرح سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھی ہو آئے تھے ، اور یہ بھی ہے کہ اس غلام کا نام جو ڈیوڑھی پر پہرہ دے رہے تھے رباح رضی اللہ عنہ تھا } ۔ التحريم
2 التحريم
3 التحريم
4 1 یہ بھی ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا : آپ عورتوں کے بارے میں اس مشقت میں کیوں پڑتے ہیں ؟ اگر آپ انہیں طلاق بھی دے دیں تو آپ کے ساتھ اللہ تعالیٰ ، اس کے فرشتے ، جبرائیل علیہ السلام ، میکائیل علیہ السلام اور میں اور ابوبکر اور جملہ مومن ہیں ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : الحمداللہ ! میں اس قسم کی جو بات کہتا مجھے امید لگی رہتی کہ اللہ تعالیٰ میری بات کی تصدیق نازل فرمائے گا ، پس اس موقعہ پر بھی آیت تخییر یعنی «عَسَی رَبٰہُ إِن طَلَّقَکُنَّ أَن یُبْدِلَہُ أَزْوَاجًا خَیْرًا مِّنکُنَّ مُسْلِمَاتٍ مٰؤْمِنَاتٍ قَانِتَاتٍ تَائِبَاتٍ عَابِدَاتٍ سَائِحَاتٍ ثَیِّبَاتٍ وَأَبْکَارًا» ۱؎ (66-التحریم:5) اور «وَإِن تَظَاہَرَا عَلَیْہِ فَإِنَّ اللہَ ہُوَ مَوْلَاہُ وَجِبْرِیلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمَلَائِکَۃُ بَعْدَ ذَلِکَ ظَہِیرٌ» ۱؎ (66-التحریم:4) ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئیں ، مجھے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے معلوم ہوا کہ آپ نے اپنی ازواج مطہرات کو طلاق نہیں دی تو میں نے مسجد میں آ کر دروازے پر کھڑا ہو کر اونچی آواز سے سب کو اطلاع دے دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات کو طلاق نہیں دی ۔ اسی کے بارے میں آیت «وَإِذَا جَاءَہُمْ أَمْرٌ مِّنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِہِ وَلَوْ رَدٰوہُ إِلَی الرَّسُولِ وَإِلَیٰ أُولِی الْأَمْرِ مِنْہُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِینَ یَسْتَنبِطُونَہُ مِنْہُمْ» ۱؎ (4-النساء:83) آخر تک اتری یعنی ’ جہاں انہیں کوئی امن کی یا خوف کی خبر پہنچی کہ یہ اسے شہرت دینے لگتے ہیں اگر یہ اس خبر کو رسول [ صلی اللہ علیہ وسلم ] یا ذی عقل و علم مسلمانوں تک پہنچا دیتے تو بیشک ان میں سے جو لوگ محقق ہیں وہ اسے سمجھ لیتے ‘ ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ یہاں تک اس آیت کو پڑھ کر فرماتے ” پس اس امر کا استنباط کرنے والوں میں سے میں ہوں “ ، اور بھی بہت سے بزرگ مفسرین سے مروی ہے کہ «صالح المؤمنین» سے مراد سیدنا ابوبکر ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہما ہیں ، بعض نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا نام بھی لیا لیا ہے بعض نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا ۔ ایک ضعیف حدیث میں مرفوعاً صرف سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا نام ہے لیکن سند ضعیف ہے اور بالکل منکر ہے ۔ عمر اور موافقت قرانی صحیح بخاری میں ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں غیرت میں آ گئیں جس پر میں نے ان سے کہا کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں طلاق دے دیں گے تو اللہ تعالیٰ تم سے بہتر بیویاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دے گا ، پس میرے لفظوں ہی میں قرآن کی یہ آیت اتری } ۱؎ (صحیح بخاری:4916) پہلے یہ بیان ہو چکا ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بہت سی باتوں میں قرآن کی موافقت کی جیسے پردے کے بارے میں ، بدری قیدیوں کے بارے میں ، مقام ابراہیم کو قبلہ ٹھہرانے کے بارے میں ، ابن ابی حاتم کی روایت میں ہے کہ مجھے جب امہات المؤمنین رضی اللہ عنھن کی اس رنجش کی خبر پہنچی تو ان کی خدمت میں میں گیا اور انہیں بھی کہنا شروع کیا یہاں تک کہ آخری ام المؤمنین رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچا تو مجھے جواب ملا کہ کیا ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود نصیحت کرنے کے لیے کم ہیں جو تم آ گئے ؟ اس پر میں خاموش ہو گیا لیکن قرآن میں آیت «عَسَیٰ رَبٰہُ إِن طَلَّقَکُنَّ أَن یُبْدِلَہُ أَزْوَاجًا خَیْرًا مِّنکُنَّ مُسْلِمَاتٍ مٰؤْمِنَاتٍ قَانِتَاتٍ تَائِبَاتٍ عَابِدَاتٍ سَائِحَاتٍ ثَیِّبَاتٍ وَأَبْکَارًا» ۱؎ (66-التحریم:5) نازل ہوئی ۔ صحیح بخاری میں ہے کہ { جواب دینے والی ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا تھیں } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4913) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں { جو بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چپکے سے اپنی بیوی صاحبہ سے کہی تھی اس کا واقعہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کی گھر میں تھے وہ تشریف لائیں اور سیدہ ماریہ رضی اللہ عنہا سے آپ کو مشغول پایا تو آپ نے انہیں فرمایا : ” تم عائشہ کو خبر نہ کرنا ، میں تمہیں ایک بشارت سناتا ہوں میرے انتقال کے بعد میری خلافت ابوبکر کے بعد تمہارے والد آئیں گے ۔ سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو خبر کر دی پس سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا : اس کی خبر آپ کو کس نے پہنچائی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” مجھے علیم و خبیر اللہ نے خبر پہنچائی “ ، سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا : میں آپ کی طرف نہ دیکھوں گی جب تک آپ ماریہ کو اپنے اوپر حرام نہ کر لیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام کر لی اس پر آیت «یَا أَیٰہَا النَّبِیٰ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللہُ لَکَ تَبْتَغِی مَرْضَاتَ أَزْوَاجِکَ وَ اللہُ غَفُورٌ رَّحِیمٌ» ۱؎ (66-التحریم:1) ، نازل ہوئی } ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:12640:ضعیف) لیکن اس کی سند مخدوش ہے ، مقصد یہ ہے کہ ان تمام روایات سے ان پاک آیتوں کی تفسیر ظاہر ہو گئی ۔ «مُسْلِمَاتٍ مٰؤْمِنَاتٍ قَانِتَاتٍ تَائِبَاتٍ عَابِدَاتٍ» کی تفسیر تو ظاہر ہی ہے ۔ «سَائِحَاتٍ» کی تفسیر ایک تو یہ ہے کہ روزے رکھنے والیاں ایک مرفوع حدیث میں بھی یہی تفسیر اس لفظ کی آئی ہے جو حدیث سورۃ برات کے اس لفظ کی تفسیر میں گزر چکی ہے کہ اس امت کی سیاحت روزے رکھنا ہے ، (تفسیر ابن جریر الطبری:508/14) دوسری تفسیر یہ ہے کہ مراد اس ہجرت کرنے والیاں ، لیکن اول قول ہی اولیٰ ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» جنت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں پھر فرمایا ’ ان میں سے بعض بیوہ ہوں گی اور بعض کنواریاں اس لیے کہ جی خوش رہے ‘ ، قسموں کی تبدیلی نفس کو بھلی معلوم ہوتی ہے ۔ معجم طبرانی میں ابن یزید رحمہ اللہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت میں جو وعدہ فرمایا ہے اس سے مراد بیوہ سے تو سیدہ آسیہ علیہ السلام ہیں جو فرعون کی بیوی تھیں اور کنواری سے مراد سیدہ مریم علیہ السلام ہیں جو عمران کی بیٹی تھیں ۔ ابن عساکر میں ہے کہ جبرائیل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اس وقت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں تو جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا : اللہ تعالیٰ خدیجہ [ رضی اللہ عنہا ] کو سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ انہیں خوشی ہو جنت کے ایک چاندی کے گھر کی جہاں نہ گرمی ہے ، نہ تکلیف ہے ، نہ شورو غل جو چھیدے ہوئے موتی کا بنا ہوا ہے جس کے دائیں بائیں مریم بنت عمران علیہا السلام اور آسیہ بنت مزاحم علیہا السلام کے مکانات ہیں ۔ ۱؎ (ابن عساکر فی تاریخ دمشق،543/19:ضعیف) اور روایت میں ہے کہ { سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے انتقال کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اے خدیجہ ! اپنی سوکنوں سے میرا سلام کہنا “ ۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا : یا رسول اللہ ! کیا مجھ سے پہلے بھی کسی سے نکاح کیا تھا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” نہیں ، مگر اللہ تعالیٰ نے مریم بنت عمران اور آسیہ زوجہ فرعون اور کلثوم بہن موسیٰ کی ان تینوں کو میرے نکاح میں دے رکھا ہے “ } ۔ (ابن عساکر فی تاریخ دمشق،543/19:ضعیف) یہ حدیث بھی ضعیف ہے ۔ ابوامامہ سے ابو یعلیٰ میں مروی ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” کیا جانتے ہو اللہ تعالیٰ نے جنت میں میرا نکاح مریم بنت عمران ، کلثوم اخت موسیٰ اور آسیہ زوجہ فرعون سے کر دیا ہے “ ، میں نے کہا : یا رسول اللہ ! آپ کو مبارک ہو } ۔ ۱؎ (ابن عدی فی الکامل،180/7:ضعیف) یہ حدیث بھی ضعیف ہے اور ساتھ ہی مرسل بھی ہے ۔ التحريم
5 التحريم
6 ہمارا گھرانہ ہماری ذمہ داریاں سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ارشاد ربانی ہے کہ ’ اپنے گھرانے کے لوگوں کو علم و ادب سکھاؤ ‘ ۔ (مستدرک حاکم:494/2:ضعیف) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ” اللہ کے فرمان بجا لاؤ ، اس کی نافرمانیاں مت کرو ، اپنے گھرانے کے لوگوں کو ذکر اللہ کی تاکید کرو تاکہ اللہ تمہیں جہنم سے بچا لے “ ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” اللہ سے ڈرو اور اپنے گھر والوں کو بھی یہی تلقین کرو “ ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” اللہ کی اطاعت کا انہیں حکم دو اور نافرمانیوں سے روکتے رہو ، ان پر اللہ کے حکم قائم رکھو اور انہیں احکام اللہ بجا لانے کی تاکید کرتے رہو ، نیک کاموں میں ان کی مدد کرو اور برے کاموں پر انہیں ڈانٹو ڈپٹو “ ۔ ضحاک و مقاتل رحمہا اللہ فرماتے ہیں ” ہر مسلمان پر فرض ہے کہ اپنے رشتے ، کنبے کے لوگوں کو اور اپنے لونڈی ، غلام کو اللہ کے فرمان بجا لانے کی اور اس کی نافرمانیوں سے رکنے کی تعلیم دیتا رہے “ ۔ مسند احمد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ { جب بچے سات سال کے ہو جائیں انہیں نماز پڑھنے کو کہتے سنتے رہا کرو ، جب دس سال کے ہو جائیں اور نماز میں سستی کریں تو انہیں مار کر دھمکا کر پڑھاؤ } ، یہ حدیث ابوداؤد اور ترمذی میں بھی ہے ۔ (مسند احمد:404/3:صحیح) جہنم کا ایندھن فقہاء کا فرمان ہے کہ ” اسی طرح روزے کی بھی تاکید اور تنبیہ اس عمر سے شروع کر دینی چاہیئے تاکہ بالغ ہونے تک پوری طرح نماز روزے کی عادت ہو جائے ، اطاعت کے بجا لانے اور معصیت سے بچنے رہنے اور برائی سے دور رہنے کا سلیقہ پیدا ہو جائے “ ۔ ان کاموں سے تم اور وہ جہنم کی آگ سے بچ جاؤ گے جس آگ کا ایندھن انسانوں کے جسم اور پتھر ہیں ، ان چیزوں سے یہ آگ سلگائی گئی ہے ، پھر خیال کر لو کہ کس قدر تیز ہو گی ؟ پتھر سے مراد یا تو وہ پتھر ہے جن کی دنیا میں پرستش ہوتی رہی جیسے اور جگہ ہے «إِنَّکُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللہِ حَصَبُ جَہَنَّمَ أَنتُمْ لَہَا وَارِدُونَ» ۱؎ (21-الانبیاء:98) ’ تم اور تمہارے معبود جہنم کی لکڑیاں ہو ‘ ، یا گندھک کے نہایت ہی بدبودار پتھر ہیں ۔ ایک رویات میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَکُمْ وَأَہْلِیکُمْ نَارًا وَقُودُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ» ۱؎ (66-التحریم:6) الخ کی تلاوت کی اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بعض اصحاب رضی اللہ عنہم تھے جن میں سے ایک شخص نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ! کیا جہنم کے پتھر دنیا کے پتھروں جیسے ہیں ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ہاں ، اللہ کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ جہنم کا ایک پتھر ساری دنیا کے تمام پتھروں سے بڑا ہے “ ، انہیں یہ سن کر غشی آ گئی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے دل پر ہاتھ رکھا تو وہ دل دھڑک رہا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آواز دی کہ اے شیخ کہو «لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ» اس نے اسے پڑھا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جنت کی خوشخبری دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم نے کہا : کیا ہم سب کے درمیان صرف اسی کو یہ خوشخبری دی جا رہی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ہاں ، دیکھو قرآن میں ہے «ذٰلِکَ لِمَنْ خَافَ مَقَامِی وَخَافَ وَعِیدِ» ۱؎ (14-ابراھیم:14) یہ اس کے لیے ہے جو میرے سامنے کھڑا ہونے اور میرے دھمکیوں کا ڈر رکھتا ہو “ } ، یہ حدیث غریب اور مرسل ہے ۔ جہنم کے فرشتے پھر ارشاد ہوتا ہے ’ اس آگ سے عذاب کرنے والے فرشتے سخت طبیعت والے ہیں جن کے دلوں میں کافروں کے لیے اللہ نے رحم رکھا ہی نہیں اور جو بدترین ترکیبوں میں بڑی بھاری سزائیں کرتے ہیں ، جن کے دیکھنے سے بھی پتہ پانی اور کلیجہ چھلنی ہو جائے ‘ ۔ عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” جب دوزخیوں کا پہلا جتھا جہنم کو چلا جائے گا تو دیکھے گا کہ پہلے دروازے پر چار لاکھ فرشتے عذاب کرنے والے تیار ہیں جن کے چہرے بڑے ہیبت ناک اور نہایت سیاہ ہیں ، کچلیاں باہر کو نکلی ہوئی ہیں ، سخت بے رحم ہیں ، ایک ذرے کے برابر بھی اللہ نے ان کے دلوں میں رحم نہیں رکھا ، اس قدر جسیم ہیں کہ اگر کوئی پرند ان کے ایک کھوے سے اڑ کر دوسرے کھوے تک پہنچنا چاہے تو کئی مہینے گزر جائیں ، پھر دروازے پر انیس فرشتے پائیں گے جن کے سینوں کی چوڑائی ستر سال کی راہ ہے پھر ایک دروازے سے دوسرے دروازے کی طرف دھکیل دیئے جائیں گے ، پانچ سو سال تک گرتے رہنے کے بعد دوسرا دروازہ آئے گا وہاں بھی اسی طرح ایسے ہی اور اتنے ہی فرشتوں کو موجود پائیں گے اسی طرح ہر ایک دروازہ پر یہ فرشتے اللہ کے فرمان کے تابع ہیں ادھر فرمایا گیا ادھر انہوں نے عمل شروع کر دیا ان کا نام زبانیہ ہے اللہ ہمیں اپنے عذاب سے پناہ دے آمین “ ۔ قیامت کے دن کوئی عذر قبول نہیں قیامت کے دن کفار سے فرمایا جائے گا کہ ’ آج تم بے کار عذر پیش نہ کرو ، کوئی معذرت ہمارے سامنے نہ چل سکے گی ، تمہارے کرتوت کا مزہ تمہیں چکھنا ہی پڑے گا ‘ ۔ پھر ارشاد ہے کہ ’ اے ایمان والو تم سچی اور خالص توبہ کرو جس سے تمہارے اگلے گناہ معاف ہو جائیں میل کچیل دھل جائے ، برائیوں کی عادت ختم ہو جائے ‘ ۔ نعمان بن بشیر رحمہ اللہ نے اپنے ایک خطبے میں بیان فرمایا کہ ” لوگو ! میں نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے سنا ہے کہ خالص توبہ یہ ہے کہ انسان گناہ کی معافی چاہے اور پھر اس گناہ کو نہ کرے “ ۔ ۱؎ (مستدرک حاکم490/2:ضعیف) اور روایت میں ہے پھر اس کے کرنے کا ارادہ بھی نہ کرے ، سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے بھی اسی کے قریب مروی ہے ایک مرفوع حدیث میں بھی یہی آیا ہے جو ضعیف ہے اور ٹھیک یہی ہے کہ وہ بھی موقوف ہی ہے ۔ (مسند احمد:446/1:ضعیف) «وَاللہُ اَعْلَمُ» التحريم
7 التحريم
8 خالص توبہ سلف فرماتے ہیں ” توبہ خالص یہ ہے کہ گناہ کو اس وقت چھوڑ دے ، جو ہو چکا ہے اس پر نادم ہو اور آئندہ کے لیے نہ کرنے کا پختہ عزم ہو ، اور اگر گناہ میں کسی انسان کا حق ہے تو چوتھی شرط یہ ہے کہ وہ حق باقاعدہ ادا کر دے “ ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” نادم ہونا بھی توبہ کرنا ہے “ } ۔ (مسند احمد:33/1:صحیح) سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” ہمیں کہا گیا تھا کہ اس امت کے آخری لوگ قیامت کے قریب کیا کیا کام کریں گے ؟ ان میں ایک یہ ہے کہ انسان اپنی بیوی یا لونڈی سے اس کے پاخانہ کی جگہ میں وطی کرے گا جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مطلق حرام کر دیا ہے اور جس فعل پر اللہ اور اس کے رسول کی ناراضگی ہوتی ہے ، اسی طرح مرد مرد سے بدفعلی کریں گے جو حرام اور اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی کا باعث ہے ، ان لوگوں کی نماز بھی اللہ کے ہاں مقبول نہیں جب تک کہ یہ «توبتہ النصوح» نہ کریں “ ۔ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابی رضی اللہ عنہ سے پوچھا «توبتہ النصوح» کیا ہے ؟ فرمایا : میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی سوال کیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” قصور سے گناہ ہو گیا ، پھر اس پر نادم ہونا ، اللہ تعالیٰ سے معافی چاہنا اور پھر اس گناہ کی طرف مائل نہ ہونا “ ۔ حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” «توبتہ النصوح» یہ ہے کہ جیسے گناہ کی محبت تھی ویسا ہی بغض دل میں بیٹھ جائے اور جب وہ گناہ یاد آئے اس سے استغفار ہو ، جب کوئی شخص توبہ کرنے پر پختگی کر لیتا ہے اور اپنی توبہ پر جما رہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی تمام اگلی خطائیں مٹا دیتا ہے ، جیسے کہ صحیح حدیث میں ہے کہ { اسلام لانے سے پہلے کی تمام برائیاں اسلام فنا کر دیتا ہے اور توبہ سے پہلے کی تمام خطائیں توبہ سوخت کر دیتی ہے } ۔ (صحیح مسلم:121) اب رہی یہ بات کہ «توبتہ النصوح» میں یہ شرط بھی ہے کہ توبہ کرنے والا پھر مرتے دم تک یہ گناہ نہ کرے ۔ جیسے کہ احادیث و آثار ابھی بیان ہوئے جن میں ہے کہ پھر کبھی نہ کرے ، یا صرف اس کا عزم راسخ کافی ہے کہ اسے اب کبھی نہ کروں گا گو پھر بہ متضائے بشریت بھولے چوکے ہو جائے ، جیسے کہ ابھی حدیث گزری کہ توبہ اپنے سے پہلے گناہوں کو بالکل مٹا دیتی ہے ، تو تنہا توبہ کے ساتھ ہی گناہ معاف ہو جاتے ہیں یا پھر مرتے دم تک اس کام کا نہ ہونا گناہ کی معافی کی شرط کے طور پر ہے ؟ پس پہلی بات کی دلیل تو یہ صحیح حدیث ہے کہ { جو شخص اسلام میں نیکیاں کرے وہ اپنی جاہلیت کی برائیوں پر پکڑا نہ جائے گا اور جو اسلام لا کر بھی برائیوں میں مبتلا رہے وہ اسلام اور جاہلیت کی دونوں برائیوں میں پکڑا جائے گا } ۔ (صحیح بخاری:6921) پس اسلام جو کہ گناہوں کو دور کرنے میں توبہ سے بڑھ کر ہے ، جب اس کے بعد بھی اپنی بدکرداریوں کی وجہ سے پہلی برائیوں میں بھی پکڑ ہوئی ، تو توبہ کے بعد بطور اولیٰ ہونی چاہیئے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» لفظ «عَسٰی» گو تمنا ، امید اور امکان کے معنی دیتا ہے لیکن کلام اللہ میں اس کے معنی تحقیق کے ہوتے ہیں پس فرمان ہے کہ خالص توبہ کرنے والے قطعاً اپنے گناہوں کو معاف کروا لیں گے اور سرسبز و شاداب جنتوں میں آئیں گے ۔ پھر ارشاد ہے ’ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ایماندار ساتھیوں کو ہرگز شرمندہ نہ کرے گا ، انہیں اللہ کی طرف سے نور عطا ہو گا جو ان کے آگے آگے اور دائیں طرف ہو گا ، اور سب اندھیروں میں ہوں گے اور یہ روشنی میں ہوں گے ‘ ، جیسے کہ پہلے سورۃ الحدید کی تفسیر میں گزر چکا ، جب یہ دیکھیں گے کہ منافقوں کو جو روشنی ملی تھی عین ضرورت کے وقت وہ ان سے چھین لی گئی اور وہ اندھیروں میں بھٹکتے رہ گئے تو دعا کریں گے کہ اے اللہ ہمارے ساتھ ایسا نہ ہو ہماری روشنی تو آخر وقت تک ہمارے ساتھ ہی رہے ہمارا نور ایمان بجھنے نہ پائے ۔ بنو کنانہ کے ایک صحابی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں { فتح مکہ والے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے میں نے نماز پڑھی تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعا کو سنا ” «الَّلہُمَّ لاَ تُخْزِنِیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃ» میرے اللہ ! مجھے قیامت کے دن رسوا نہ کرنا “ } ۔ ۱؎ (مسند احمد:234/4:صحیح) ایک حدیث میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” قیامت کے دن سب سے پہلے سجدے کی اجازت مجھے دی جائے گی اور اسی طرح سب سے پہلے سجدے سے سر اٹھانے کی اجازت بھی مجھ ہی کو مرحمت ہو گی میں اپنے سامنے اور دائیں بائیں نظریں ڈال کر اپنی امت کو پہچان لوں گا “ ایک صحابی نے کہا : یا رسول اللہ ! آپ انہیں کیسے پہچانیں گے ؟ وہاں تو بہت سی امتیں مخلوط ہوں گی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” میری امت کے لوگوں کی ایک نشانی تو یہ ہے کہ ان کے اعضاء وضو منور ہوں گے ، چمک رہے ہوں گے کسی اور امت میں یہ بات نہ ہو گی دوسری پہچان یہ ہے کہ ان کے نامہ اعمال ان کے دائیں ہاتھ میں ہوں گے ، تیسری نشانی یہ ہو گی کہ سجدے کے نشان ان کی پیشانیوں پر ہوں گے جن سے میں پہچان لوں گا چوتھی علامت یہ ہے کہ ان کا نور ان کے آگے آگے ہو گا “ } ۔ (مسند احمد:199/5:ضعیف) التحريم
9 تحفظ قانون کے لئے حکم جہاد اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ ’ کافروں سے جہاد کر ہتھیاروں کے ساتھ اور منافقوں سے جہاد کر حدود اللہ جاری کرنے کے ساتھ ، ان پر دنیا میں سختی کرو ، آخرت میں بھی ان کا ٹھکانا جہنم ہے جو بدترین باز گشت ہے ‘ ۔ پھر مثال دے کر سمجھایا کہ ’ کافروں کا مسلمانوں سے ملنا جلنا ، خلط ملط رہنا انہیں ان کے کفر کے باوجود اللہ کے ہاں کچھ نفع نہیں دے سکتا ، دیکھو دو پیغمبروں کی عورتیں نوح علیہ السلام اور لوط علیہ السلام کی جو ہر وقت ان نبیوں کی صحبت میں رہنے والی اور دن رات ساتھ اٹھنے بیٹھنے والی اور ساتھ ہی کھانے پینے بلکہ سونے جاگنے والی تھیں ، لیکن چونکہ ایمان میں ان کی ساتھی نہ تھیں اور اپنے کفر پر قائم تھیں ، پس پیغمبروں کی آٹھ پہر کی صحبت انہیں کچھ کام نہ آئی ، انبیاء اللہ علیہم السلام انہیں آخروی نفع نہ پہنچا سکے اور نہ آخروی نقصان سے بچا سکے ، بلکہ ان عورتوں کو بھی دوزخیوں کے ساتھ جہنم میں جانے کو کہہ دیا گیا ‘ ۔ یہ یاد رہے کہ خیانت کرنے سے مراد بدکاری نہیں ، انبیاء علیہم السلام کی حرمت و عصمت اس سے بہت اعلیٰ اور بالا ہے کہ ان کی گھر والیاں فاحشہ ہوں ، ہم اس کا پورا بیان سورۃ النور کی تفسیر میں کر چکے ہیں ، بلکہ یہاں مراد «خیانت فی الدین» ہے ، یعنی دین میں اپنے خاوندوں کی خیانت کی ان کا ساتھ نہ دیا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ” ان کی خیانت زنا کاری نہ تھی بلکہ یہ تھی کہ نوح علیہ السلام کی بیوی تو لوگوں سے کہا کرتی تھی کہ یہ مجنوں ہیں اور لوط علیہ السلام کی بیوی جو مہمان لوط کے ہاں آتے تو کافروں کو خبر کر دیتی تھی “ ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:169/28:ضعیف) یہ دونوں بد دین تھیں نوح علیہ السلام کی راز داری اور پوشیدہ طور پر ایمان لانے والوں کے نام کافروں پر ظاہر کر دیا کرتی تھی ، اسی طرح لوط علیہ السلام کی بیوی بھی اپنے خاوند اللہ کے رسول علیہ السلام کی مخالف تھی اور جو لوگ آپ کے ہاں مہمان بن کر ٹھہرتے یہ جا کر اپنی کافر قوم کو خبر کر دیتی جنہیں بدعمل کی عادت تھی ، بلکہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ” کسی پیغمبر کی کسی عورت نے کبھی بدکاری نہیں کی “ ۔ اسی طرح عکرمہ ، سعید بن جبیر ، ضحاک رحمہم اللہ وغیرہ سے بھی مروی ہے ، اس سے استدلال کر کے بعض علماء نے کہا ہے کہ وہ جو عام لوگوں میں مشہور ہے کہ حدیث میں ہے ” جو شخص کسی ایسے کے ساتھ کھائے جو بخشا ہوا ہو اسے بھی بخش دیا جاتا ہے “ ، یہ حدیث بالکل ضعیف ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ یہ حدیث محض بے اصل ہے ۔ ہاں ایک بزرگ سے مروی ہے کہ انہوں نے خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی اور پوچھا کہ کیا آپ نے یہ حدیث ارشاد فرمائی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” نہیں ، لیکن اب میں کہتا ہوں “ ۔ (سلسلۃ احادیث ضعیفہ البانی:315) التحريم
10 التحريم
11 سعادت مند آسیہ (فرعون کی بیوی) یہاں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے لیے مثال بیان فرما کر ارشاد فرماتا ہے کہ ’ اگر یہ اپنی ضرورت پر کافروں سے خلط ملط ہوں تو انہیں کچھ نقصان نہ ہو گا ‘ ۔ جیسے اور جگہ ہے «لَّا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْکَافِرِینَ أَوْلِیَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِینَ وَمَن یَفْعَلْ ذٰلِکَ فَلَیْسَ مِنَ اللہِ فِی شَیْءٍ إِلَّا أَن تَتَّقُوا مِنْہُمْ تُقَاۃً» ۱؎ (3-آل عمران:28) الخ ’ ایمانداروں کو چاہیئے کہ مسلمانوں کے سوا اوروں سے دوستیاں نہ کریں ، جو ایسا کرے گا وہ اللہ کی طرف سے کسی بھلائی میں نہیں ، ہاں اگر بطور بچاؤ اور دفع الوقتی کے ہو تو اور بات ہے ‘ ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” روئے زمین کے تمام تر لوگوں میں سب سے زیادہ سرکش فرعون تھا لیکن اس کے کفر نے بھی اس کی بیوی کو کچھ نقصان نہ پہنچایا اس لیے کہ وہ اپنے زبردست ایمان پر پوری طرح قائم تھیں اور رہیں ۔ جان لو کہ اللہ تعالیٰ عادل حاکم ہے وہ ایک گناہ پر دوسرے کو نہیں پکڑتا “ ۔ سلمان رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” فرعون اس نیک بخت بیوی کو طرح طرح سے ستاتا تھا ، سخت گرمیوں میں انہیں دھوپ میں کھڑا کر دیتا لیکن پروردگار اپنے فرشتوں کے پروں کا سایہ ان پر کر دیتا اور انہیں گرمی کی تکلیف سے بچا لیتا بلکہ ان کے جنتی مکان کو دکھا دیتا جس سے ان کی روح کی تازگی اور ایمان کی زیادتی ہو جاتی ، فرعون اور موسیٰ علیہ السلام کی بابت یہ دریافت کرتی رہتی تھیں کہ کون غالب رہا تو ہر وقت یہی سنتیں کہ موسیٰ علیہ السلام غالب رہے ، بس یہی ان کے ایمان کا باعث بنا اور یہ پکار اٹھیں کہ میں موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کے رب پر ایمان لائی ۔ فرعون کو جب یہ معلوم ہوا تو اس نے کہا کہ جو بڑی سے بڑی پتھر کی چٹان تمہیں ملے اسے اٹھا لاؤ اسے چت لٹاؤ اور اسے کہو کہ اپنے اس عقیدے سے باز آئے اگر باز آ جائے تو میری بیوی ہے عزت و حرمت کے ساتھ واپس لاؤ اور اگر نہ مانے تو وہ چٹان اس پر گرا دو اور اس کا قیمہ قیمہ کر ڈالو ، جب یہ لوگ پتھر لائے انہیں لے گئے لٹایا اور پتھر ان پر گرانے کے لیے اٹھایا تو انہوں نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی پروردگار نے حجاب ہٹا دیئے اور جنت کو اور وہاں جو مکان ان کے لیے بنایا گیا تھا اسے انہوں نے اپنی آنکھوں دیکھ لیا اور اسی میں ان کی روح پرواز کر گئی جس وقت پتھر پھینکا گیا اس وقت ان میں روح تھی ہی نہیں ، اپنی شہادت کے وقت دعا مانگتی ہیں کہ ” اللہ ! جنت میں اپنے قریب کی جگہ مجھے عنایت فرما “ ، اس دعا کی اس باریکی پر بھی نگاہ ڈالئے کہ پہلے اللہ کا پڑوس مانگا جا رہا ہے پھر گھر کی درخواست کی جا رہی ہے “ ۔ اس واقعہ کے بیان میں مرفوع حدیث بھی وارد ہوئی ہے ۔ (طبرانی:4379:ضعیف) پھر دعا کرتی ہیں کہ ” مجھے فرعون اور اس کے عمل سے نجات دے میں اس کی کفریہ حرکتوں سے بیزار ہوں ، مجھے اس ظالم قوم سے عافیت میں رکھ “ ، ان بیوی صاحبہ کا نام آسیہ رضی اللہ عنہا بنت مزاحم تھا ۔ ان کے ایمان لانے کا واقعہ ابوالعالیہ رحمہ اللہ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ ” فرعون کے داروغہ کی عورت کا ایمان ان کے ایمان کا باعث بنا ، وہ ایک روز فرعون کی لڑکی کا سر گوندھ رہی تھی ، اچانک کنگھی ہاتھ سے گر گئی اور ان کے منہ سے نکل گیا کہ کفار برباد ہوں اس پر فرعون کی لڑکی نے پوچھا کہ کیا میرے باپ کے سوا تو کسی اور کو اپنا رب مانتی ہے ؟ اس نے کہا : میرا اور تیرے باپ کا اور ہر چیز کا رب اللہ تعالیٰ ہے ، اس نے غصہ میں آ کر انہیں خوب مارا پیٹا اور اپنے باپ کو اس کی خبر دی ، فرعون نے انہیں بلا کر خود پوچھا کہ کیا تم میرے سوا کسی اور کی عبادت کرتی ہو ؟ جواب دیا کہ ہاں میرا اور تیرا اور تمام مخلوق کا رب اللہ ہے ، میں اسی کی عبادت کرتی ہوں ، فرعون نے حکم دیا اور انہیں چت لٹا کر ان کے ہاتھ پیروں پر میخیں گڑوا دیں اور سانپ چھوڑ دیئے جو انہیں کاٹتے رہیں ، پھر ایک دن آیا اور کہا : اب تیرے خیالات درست ہوئے ؟ وہاں سے جواب ملا کہ میرا اور تیرا اور تمام مخلوق کا رب اللہ ہی ہے ، فرعون نے کہا : اب تیرے سامنے میں تیرے لڑکے کو ٹکڑے ٹکڑے کر دوں گا ورنہ اب بھی میرا کہا مان لے اور اس دین سے باز آ جا ، انہوں نے جواب دیا کہ جو کچھ تو کر سکتا ہو کر ڈال ، اس ظالم نے ان کے لڑکے کو منگوایا اور ان کے سامنے اسے مار ڈالا ، جب اس بچہ کی روح نکلی تو اس نے کہا : اے ماں ! خوش ہو جا ، تیرے لیے اللہ تعالیٰ نے بڑے بڑے ثواب تیار کر رکھے ہیں اور فلاں فلاں نعمتیں تجھے ملیں گی ۔ انہوں نے اس روح فرسا سانحہ کو بچشم خود دیکھا لیکن صبر کیا اور راضی بہ قضاء ہو کر بیٹھی رہیں ، فرعون نے انہیں پھر اسی طرح باندھ کر ڈلوا دیا اور سانپ چھوڑ دیئے پھر ایک دن آیا اور اپنی بات دہرائی بیوی صاحبہ نے پھر نہایت صبر و استقلال سے وہی جواب دیا اس نے پھر وہی دھمکی دی اور ان کے دوسرے بچے کو بھی ان کے سامنے ہی قتل کرا دیا ۔ اس کی روح نے بھی اسی طرح اپنی والدہ کو خوشخبری دی اور صبر کی تلقین کی ، فرعون کی بیوی صاحبہ نے بڑے بچہ کی روح کی خوشخبری سنی تھی ، اب اس چھوٹے بچے کی روح کی بھی خوشخبری سنی اور ایمان لے آئیں ، ادھر ان بیوی صاحبہ کی روح اللہ تعالیٰ نے قبض کر لی اور ان کی منزل و مرتبہ جو اللہ تعالیٰ کے ہاں تھا وہ حجاب ہٹا کر فرعون کی بیوی کو دکھا دیا گیا ۔ یہ اپنے ایمان و یقین میں بہت بڑھ گئیں یہاں تک کہ فرعون کو بھی ان کے ایمان کی خبر ہو گئی ، اس نے ایک روز اپنے درباریوں سے کہا تمہیں کچھ میری بیوی کی خبر ہے ؟ تم اسے کیا جانتے ہو ؟ سب نے بڑی تعریف کی اور ان کی بھلائیاں بیان کیں فرعون نے کہا : تمہیں نہیں معلوم وہ بھی میرے سوا دوسرے کو اللہ مانتی ہے ، پھر مشورہ ہوا کہ انہیں قتل کر دیا جائے ، چنانچہ میخیں گاڑی گئیں اور ان کے ہاتھ پاؤں باندھ کر ڈال دیا گیا ، اس وقت آسیہ علیہ السلام نے اپنے رب سے دعا کی کہ ” پروردگار میرے لیے اپنے پاس جنت میں مکان بنا “ ، اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور حجاب ہٹا کر انہیں ان کا جنتی درجہ دکھا دیا جس پر یہ ہنسنے لگیں ، ٹھیک اسی وقت فرعون آ گیا اور انہیں ہنستا ہوا دیکھ کر کہنے لگا ، لوگو ! تمہیں تعجب نہیں معلوم ہوتا کہ اتنی سخت سزا میں یہ مبتلا ہے اور پھر ہنس رہی ہے یقیناً اس کا دماغ ٹھکانے نہیں ، الغرض انہی عذابوں میں یہ بھی شہید ہوئیں “ «رضی اللہ عنہا» ۔ التحريم
12 مریم علیہا السلام پھر دوسری مثال مریم بنت عمران علیہا السلام کی بیان کی جاتی ہے کہ ’ وہ نہایت پاک دامن تھیں ، ہم نے اپنے فرشتے جبرائیل علیہ السلام کی معرفت ان میں روح پھونکی ‘ ۔ جبرائیل علیہ السلام کو انسانی صورت میں اللہ تعالیٰ نے بھیجا تھا اور حکم دیا تھا کہ وہ اپنے منہ سے ان کے کرتے کے گریبان میں پھونک مار دیں ، اسی سے حمل رہ گیا اور عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے ۔ پس فرمان ہے کہ ’ میں نے اس میں اپنی روح پھونکی ‘ ، پھر مریم علیہ السلام کی اور تعریف ہو رہی ہے کہ وہ ’ اپنے رب کی تقدیر اور شریعت کو سچ ماننے والی تھیں اور پوری فرمانبردار تھیں ‘ ۔ مسند احمد میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین پر چار لکیریں کھینچیں اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے دریافت کیا کہ جانتے ہو کہ یہ کیا ہے ؟ ، انہوں نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ہی کو پورا علم ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” سنو تمام جنتی عورتوں میں سے افضل خدیجہ بنت خویلد اور فاطمہ بنت محمد [ صلی اللہ علیہ وسلم ] اور مریم بنت عمران اور آسیہ بنت مزاحم ہیں جو فرعون کی بیوی تھیں “ } ۔ (مسند احمد:293/1:صحیح) صحیح بخاری ، صحیح مسلم میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” مردوں میں سے تو صاحب کمال بہت سارے ہوئے ہیں ، لیکن عورتوں میں سے کامل عورتیں صرف آسیہ ہیں جو فرعون کی بیوی تھیں اور مریم بنت عمران ہیں اور خدیجہ بنت خویلد ہیں اور عائشہ کی فضیلت عورتوں پر ایسی ہی ہے جیسے سالن میں چوری ہوئی روٹی کی فضیلت باقی کھانوں پر “ } ۔ (صحیح بخاری:3769) ہم نے اپنی کتاب البدایہ والنہایہ میں عیسیٰ علیہ السلام کے قصے کے بیان کے موقعہ پر اس حدیث کی سندیں اور الفاظ بیان کر دیئے ہیں ۔ «فالحمداللہ» اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اسی سورت کی آیت کے الفاظ «سَائِحَاتٍ ثَیِّبَاتٍ وَأَبْکَارًا» ۱؎ (66-التحریم:5) کی تفسیر کے موقعہ پر وہ حدیث بھی ہم بیان کر چکے ہیں جس میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جنتی بیویوں میں ایک آسیہ رضی اللہ عنہا بنت مزاحم بھی ہیں } ۔ الحمداللہ سورۃ التحریم کی تفسیر ختم ہوئی ۔ اللہ کے فضل و کرم اور لطف و رحم سے اٹھائیسویں پارے «قد سمع اللہ» کی تفسیر ختم ہوئی ، پروردگار ہمیں اپنے کلام کی سچی سمجھ عطا فرمائے اور عمل کی توفیق دے ۔ باری تعالیٰ تو اسے قبول فرما اور میرے لیے باقیات صالحات میں کر لے «آمین !» ۔ التحريم
0 الملك
1 بہتر عمل کی آزمائش کا نام زندگی ہے اللہ تعالیٰ اپنی تعریف بیان فرما رہا ہے اور خبر دے رہا ہے کہ ’ تمام مخلوق پر اسی کا قبضہ ہے جو چاہے کرے ۔ کوئی اس کے احکام کو ٹال نہیں سکتا اس کے غلبہ اور حکمت اور عدل کی وجہ سے اس سے کوئی بازپرس بھی نہیں کر سکتا وہ تمام چیزوں پر قدرت رکھنے والا ہے ‘ ۔ پھر خود موت و حیات کا پیدا کرنا بیان کر رہا ہے ، اس آیت سے ان لوگوں نے استدلال کیا ہے کہ موت ایک وجودی امر ہے کیونکہ وہ بھی پیدا کردہ شدہ ہے ، آیت کا مطلب یہ ہے کہ تمام مخلوق کو عدم سے وجود میں لایا تاکہ اچھے اعمال والوں کا امتحان ہو جائے ۔ جیسے اور جگہ ہے «‏‏‏‏کَیْفَ تَکْفُرُوْنَ باللّٰہِ وَکُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْیَاکُم» ۱؎ (2-البقرۃ:28) ’ تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیوں کفر کرتے ہو ؟ تم تو مردہ تھے پھر اس نے تمہیں زندہ کر دیا ‘ ‘ ، پس پہلے حال یعنی عدم کو یہاں بھی موت کہا گیا اس پیدائش کو حیات کہا گیا اسی لیے اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے «ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ» ۱؎ (2-البقرۃ:28) ’ وہ پھر تمہیں مار ڈالے گا اور پھر زندہ کر دے گا ‘ ۔ ابن ابی حاتم میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ بنی آدم موت کی ذلت میں تھے ، دنیا کو اللہ تعالیٰ نے حیات کا گھر بنا دیا پھر موت کا اور آخرت کو جزا کا پھر بقا کا قلعہ } ۔ لیکن یہی روایت اور جگہ قتادہ رحمہ اللہ کا اپنا قول ہونا بیان کی گئی ہے ۔ اچھے عمل والا کون؟ آزمائش اس امر کی ہے کہ تم میں سے اچھے عمل والا کون ہے ؟ اکثر عمل والا نہیں بلکہ بہتر عمل والا ، وہ باوجود غالب اور بلند جناب ہونے کے پھر عاصیوں اور سرتاب لوگوں کے لیے ، جب وہ رجوع کریں اور توبہ کریں معاف کرنے اور بخشنے والا بھی ہے ۔ جس نے سات آسمان اوپر تلے پیدا کئے ایک پر ایک کو ۔ بعض لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ایک پر ایک ملا ہوا ہے لیکن دوسرا قول یہ ہے کہ درمیان میں جگہ ہے اور ایک دوسرے کے اوپر فاصلہ ہے ، زیادہ صحیح یہی قول ہے ، اور حدیث معراج وغیرہ سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے ، پروردگار کی مخلوق میں تو کوئی نقصان نہ پائے گا بلکہ تو دیکھے گا کہ وہ برابر ہے ، نہ ہیر پھیر ہے نہ مخالفت اور بےربطی ہے ، نہ نقصان اور عیب اور خلل ہے ۔ اپنی نظر آسمان کی طرف ڈال اور غور سے دیکھ کہ کہیں کوئی ، عیب ٹوٹ پھوٹ ، جوڑ توڑ ، شگاف و سوراخ دکھائی دیتا ہے ؟ پھر بھی اگر شک رہے تو دو دفعہ دیکھ لے کوئی نقصان نظر نہ آئے گا تو نے خوب نظریں جما کر ٹٹول کر دیکھا ہو پھر بھی ناممکن ہے کہ تجھے کوئی شکست و ریخت نظر آئے تیری نگاہیں تھک کر اور ناکام ہو کر نیچی ہو جائیں گی ۔ نقصان کی نفی کرکے اب کمال اثبات ہو رہا ہے ۔ الملك
2 الملك
3 الملك
4 الملك
5 1 تو فرمایا ’ آسمان دنیا کو ہم نے ان قدرتی چراغوں یعنی ستاروں سے بارونق بنا رکھا ہے جن میں بعض چلنے پھرنے والے ہیں اور بعض ایک جا ٹھہرے رہنے والے ہیں ‘ ۔ پھر ان کا ایک اور فائدہ بیان ہو رہا ہے کہ ’ ان سے شیطانوں کو مارا جاتا ہے ان میں سے شعلے نکل کر ان پر گرتے ہیں ‘ یہ نہیں کہ خود ستارہ ان پر ٹوٹے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» شیاطین کی دنیا میں یہ رسوائی تو دیکھتے ہی ہو آخرت میں بھی ان کے لیے جلانے والا عذاب ہے ۔ جیسے سورۃ صافات کے شروع میں ہے کہ «إِنَّا زَیَّنَّا السَّمَاءَ الدٰنْیَا بِزِینَۃٍ الْکَوَاکِبِ وَحِفْظًا مِّن کُلِّ شَیْطَانٍ مَّارِدٍ لَّا یَسَّمَّعُونَ إِلَی الْمَلَإِ الْأَعْلَیٰ وَیُقْذَفُونَ مِن کُلِّ جَانِبٍ دُحُورًا وَلَہُمْ عَذَابٌ وَاصِبٌ إِلَّا مَنْ خَطِفَ الْخَطْفَۃَ فَأَتْبَعَہُ شِہَابٌ ثَاقِبٌ» ۱؎ (37-الصافات:6-10) ’ ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں سے زینت دی ہے اور سرکش شیطانوں کی حفاظت میں انہیں رکھا ہے ، وہ بلند و بالا فرشتوں کی باتیں سن نہیں سکتے اور چاروں طرف سے حملہ کر کے بھگا دیئے جاتے ہیں اور ان کے لیے دائمی عذاب ہے اگر کوئی ان میں سے ایک آدھ بات اچک کر لے بھاگتا ہے تو اس کے پیچھے چمکدار تیز شعلہ لپکتا ہے ‘ ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” ستارے تین فائدے کے لیے پیدا کئے گئے ہیں ، آسمان کی زینت ، شیطانوں کی مار اور راہ پانے کے نشانات ۔ جس شخص نے اس کے سوا کوئی اور بات تلاش کی اس نے رائے کی پیروی کی اور اپنا صحیح حصہ کھو دیا اور باوجود علم نہ ہونے کے تکلف کیا “ ۔ (ابن جریر اور ابن ابی حاتم) الملك
6 جہنم کا داروغہ سوال کرے گا اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’ جو بھی اس کے ساتھ کفر کرے ، وہ جہنمی ہے اس کا انجام اور جگہ بد سے بد ہے ‘ ۔ یہ بلند اور مکروہ گدھے کی سی آوازیں مارنے والی جہنم ہے جو ان پر جل رہی ہے ، اور جوش و غضب سے اس طرح کچ کچا رہی ہے کہ گویا ابھی ٹوٹ پھوٹ جائے گی ، اور دوزخیوں کو زیادہ ذلیل کرنے اور آخری حجت قائم کرنے اور اقبالی مجرم بنانے کے لیے داروغہ جہنم ان سے پوچھتے ہیں کہ ” بدنصیبو ! کیا اللہ کے رسولوں نے تمہیں اس سے ڈرایا نہ تھا ؟ “ تو یہ ہائے وائے کرتے ہوئے اپنی جانوں کو کوستے ہوئے جواب دیتے ہیں آئے تو تھے لیکن وائے بدنصیبی کہ ہم نے انہیں جھوٹا جانا اور اللہ کی کتاب کو بھی نہ مانا اور پیغمبروں کو بےراہ بتایا ۔ اب عدل اللہ صاف ثابت ہو چکا ہے اور فرمان باری پورا اترتا ہے جو اس نے فرمایا «وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلًا» ۱؎ (17-الإسراء:15) ’ ہم جب تک رسول نہ بھیج دیں عذاب نہیں کرتے ‘ ۔ اور جگہ ارشاد ہے «‏‏‏‏وَسِیْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِلٰی جَہَنَّمَ زُمَرًا حَتّیٰٓ اِذَا جَاءُوْہَا فُتِحَتْ اَبْوَابُہَا وَقَالَ لَہُمْ خَزَنَــتُہَآ اَلَمْ یَاْتِکُمْ رُسُلٌ مِّنْکُمْ یَتْلُوْنَ عَلَیْکُمْ اٰیٰتِ رَبِّکُمْ وَیُنْذِرُوْنَکُمْ لِقَاءَ یَوْمِکُمْ ھٰذَا قَالُوْا بَلٰی وَلٰکِنْ حَقَّتْ کَلِمَۃُ الْعَذَابِ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ» ‏‏‏۱؎ (39-الزمر:71) الخ ’ جب جہنمی جہنم کے پاس پہنچ جائیں گے ، اور جہنم کے دروازے کھول دیئے جائیں گے اور داروغہ جہنم ان سے پوچھیں گے کہ کیا تمہارے پاس تم میں سے ہی رسول نہیں آئے تھے ؟ جو تم پر تمہارے رب کی آیتیں پڑھتے تھے اور تمہیں اس دن کی ملاقات سے ڈراتے تھے تو کہیں گے ہاں آئے تو تھے اور ڈرا بھی دیا تھا لیکن کافروں پر کلمہ عذاب حق ہو گیا ‘ ۔ اب اپنے آپ کو ملامت کریں گے اور کہیں گے کہ اگر ہمارے کان ہوتے ، اگر ہم میں عقل ہوتی تو دھوکے میں نہ پڑے رہتے ، اپنے خالق مالک کے ساتھ کفر نہ کرتے ، نہ رسولوں کو جھٹلاتے ، نہ ان کی تابعداری سے منہ موڑتے ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’ اب تو انہوں نے خود اپنے گناہوں کا اقرار کر لیا ان کے لیے لعنت ہو ، دوری ہو ‘ ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ” لوگ جب تک دنیا میں اپنے آپ میں غور کریں گے اور اپنی برائیوں کو خود دیکھ لیں گے ہلاک نہ ہوں گے “ ۔ (سنن ابوداود:4347،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اور حدیث میں ہے کہ { قیامت والے دن اس طرح حجت قائم کی جائے گی کہ خود انسان سمجھ لے گا کہ میں دوزخ میں جانے کے ہی قابل ہوں } ۔ (مسند احمد:موضوع) [ حافظ زبیر علی زئی فرماتے ہیں ہمیں یہ روایت نہیں ملی ] الملك
7 الملك
8 الملك
9 الملك
10 الملك
11 الملك
12 نافرمانی سے خائف ہی مستحق ثواب ہیں اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو خوشخبری دے رہا ہے جو اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتے رہتے ہیں ، گو تنہائی میں ہوں جہاں کسی کی نگاہیں ان پر نہ پڑ سکیں ۔ تاہم خوف اللہ سے کسی نافرمانی کے کام کو نہیں کرتے نہ اطاعت و عبادت سے جی چراتے ہیں ، ان کے گناہ بھی معاف فرما دیتا ہے اور زبردست ثواب اور بہترین اجر عنایت فرمائے گا ۔ جیسے بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ { جن سات شخصوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے عرش کا سایہ اس دن دے گا جس دن اس کے سوا کوئی سایہ نہ ہو گا ان میں ایک وہ ہے جسے کوئی مال و جمال والی عورت زناکاری کی طرف بلائے اور وہ کہہ دے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں اور اسے بھی جو اس طرح پوشیدگی سے صدقہ کرے کہ دائیں ہاتھ کے خرچ کی خبر بائیں ہاتھ کو بھی نہ لگے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:660) مسند بزار میں ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے ایک مرتبہ کہا یا رسول اللہ! ہمارے دلوں کی جو کیفیت آپ کے سامنے ہوتی ہے ، آپ کے بعد وہ نہیں رہتی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” یہ بتاؤ رب کے ساتھ تمہارا کیا خیال رہتا ہے ؟ “ جواب ملا کہ ظاہر باطن اللہ ہی کو ہم رب مانتے ہیں ، فرمایا : ” جاؤ پھر یہ نفاق نہیں “ ۔ (مسند ابویعلیٰ:ضعیف) پھر فرماتا ہے کہ ’ تمہاری چھپی کھلی باتوں کا مجھے علم ہے دلوں کے خطروں سے بھی آگاہ ہوں ‘ ، یہ ناممکن ہے کہ جو خالق ہو وہ عالم نہ ہو ، مخلوق سے خالق بے خبر ہو ، وہ تو بڑا باریک بین اور بے حد خبر رکھنے والا ہے ۔ بعد ازاں اپنی نعمت کا اظہار کرتا ہے کہ ’ زمین کو اس نے تمہارے لیے مسخر کر دیا وہ سکون کے ساتھ ٹھہری ہوئی ہے ہل جل کر تمہیں نقصان نہیں پہنچاتی ، پہاڑوں کی میخیں اس میں گاڑ دی ہیں ، پانی کے چشمے ان میں جاری کر دیئے ہیں ، راستے اس میں مہیا کر دیئے ہیں ، قسم قسم کے نفع اس میں رکھ دیئے ہیں ، پھل اور اناج اس میں سے نکل رہا ہے ، جس جگہ تم جانا چاہو جا سکتے ہو ، طرح طرح کی لمبی چوڑی سود مند تجارتیں کر رہے ہو ، تمہاری کوششیں وہ بار آور کرتا ہے اور تمہیں ان اسباب سے روزی دے رہا ہے ‘ ، معلوم ہوا کہ اسباب کے حاصل کرنے کی کوشش توکل کے خلاف نہیں ۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے { اگر تم اللہ کی ذات پر پورا پورا بھرسہ کرو تو وہ تمہیں اس طرح رزق دے جس طرح پرندوں کو دے رہا ہے کہ اپنے گھونسلوں سے خالی پیٹ نکلتے ہیں اور آسودہ حال واپس جاتے ہیں } ۔ (سنن ترمذی:2344،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ۔ پس ان کا صبح شام آنا جانا اور رزق کو تلاش کرنا بھی توکل میں داخل سمجھا گیا کیونکہ اسباب کا پیدا کرنے والا انہیں آسان کرنے والا وہی رب واحد ہے ، اسی کی طرف قیامت کے دن لوٹنا ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ «مَنَاکِبِ» سے مراد کونے اور ادھر ادھر کی جگہیں لیتے ہیں ، قتادہ رحمہ اللہ وغیرہ سے مروی ہے کہ مراد پہاڑ ہیں ۔ بشیر بن کعب رحمتہ اللہ علیہ نے اس آیت کی تلاوت کی اور اپنی لونڈی سے جس سے انہیں اولاد ہوئی تھی فرمایا کہ اگر «مَنَاکِبِ» کی صحیح تفسیر تم بتا دو تو تم آزاد ہو اس نے کہا اس سے مراد پہاڑ ہیں آپ نے ابودرداء رضی اللہ عنہ سے پوچھا جواب ملا کہ یہ تفسیر صحیح ہے ۔ الملك
13 الملك
14 الملك
15 الملك
16 وہ لا انتہا عفو و مغفرت کا مالک بھی اور گرفت پر قادر بھی ہے ان آیتوں میں بھی اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے لطف و رحمت کا بیان فرما رہا ہے کہ ’ لوگوں کے کفر و شرک کی بناء پر وہ طرح طرح کے دنیوی عذاب پر بھی قادر ہے لیکن اس کا علم اور عفو ہے کہ وہ عذاب نہیں کرتا ‘ ۔ جیسے اور جگہ فرمایا «‏‏‏‏وَلَوْ یُؤَاخِذُ اللّٰہُ النَّاسَ بِمَا کَسَبُوْا مَا تَرَکَ عَلٰی ظَہْرِہَا مِنْ دَابَّۃٍ وَّلٰکِنْ یٰؤَخِّرُہُمْ اِلٰٓی اَجَلٍ مٰسَمًّی فَاِذَا جَاءَ اَجَلُہُمْ فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِعِبَادِہٖ بَصِیْرًا» ۱؎ (35-فاطر:45) الخ ، یعنی ’ اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو ان کی برائیوں پر پکڑ لیتا تو روئے زمین پر کسی کو باقی نہ چھوڑتا لیکن وہ ایک مقررہ وقت تک انہیں مہلت دیئے ہوئے ہے ، جب ان کا وہ وقت آ جائے گا تو اللہ تعالیٰ ان مجرموں سے آپ سمجھ لے گا ‘ ۔ یہاں بھی فرمایا کہ ’ زمین ادھر ادھر ہو جاتی ، ہلنے اور کانپنے لگ جاتی اور یہ سارے کے سارے اس میں دھنسا دیئے جاتے ، یا ان پر ایسی آندھی بھیج دی جاتی جس میں پتھر ہوتے اور ان کے دماغ توڑ دیئے جاتے ‘ ۔ جیسے اور جگہ ہے «‏‏‏‏اَفَاَمِنْتُمْ اَنْ یَّخْسِفَ بِکُمْ جَانِبَ الْبَرِّ اَوْ یُرْسِلَ عَلَیْکُمْ حَاصِبًا ثُمَّ لَا تَجِدُوْا لَکُمْ وَکِیْلًا» ۱؎ (17-الإسراء:68) الخ ، یعنی ’ کیا تم نڈر ہو گئے ہو کہ زمین کے کسی کنارے میں تم دھنس جاؤ یا تم پر وہ پتھر برسائے اور کوئی نہ ہو جو تمہاری وکالت کر سکے ‘ ۔ یہاں بھی فرمان ہے کہ ’ اس وقت تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ میری دھمکیوں کو نہ ماننے کا انجام کیا ہوتا ہے ؟ تم خود دیکھ لو کہ پہلے لوگوں نے بھی نہ مانا اور انکار کر کے میری باتوں کی تکذیب کی تو ان کا کس قدر برا اور عبرتناک انجام ہوا ۔ کیا تم میری قدرتوں کا روزمرہ کا یہ مشاہدہ نہیں کر رہے کہ پرند تمہارے سروں پر اڑتے پھرتے ہیں کبھی دونوں پروں سے کبھی کسی کو روک کر ، پھر کیا میرے سوا کوئی اور انہیں تھامے ہوئے ہے ؟ میں نے ہواؤں کو مسخر کر دیا ہے اور یہ معلق اڑتے پھرتے یہیں یہ بھی میرا لطف و کرم اور رحمت و نعمت ہے ۔ مخلوقات کی حاجتیں ضرورتیں ان کی اصلاح اور بہتری کا نگراں اور کفیل میں ہی ہوں ‘ ۔ جیسے اور جگہ ہے «‏‏‏‏اَلَمْ یَرَوْا اِلَی الطَّیْرِ مُسَخَّرٰتٍ فِیْ جَوِّ السَّمَاءِ» ۱؎ (16-النحل:79) الخ ، ’ کیا انہوں نے ان پرندوں کو نہیں دیکھا جو آسمان و زمین کے درمیان مسخر ہیں جن کا تھامنے والا سوائے ذات باری کے اور کوئی نہیں یقیناً اس میں ایمانداروں کے لیے بڑی بڑی نشانیاں ہیں ‘ ۔ الملك
17 الملك
18 الملك
19 الملك
20 رزاق صرف رب قدیر ہے اللہ تعالیٰ مشرکوں کے اس عقیدے کی تردید کر رہا ہے جو وہ خیال رکھتے تھے کہ جن بزرگوں کی وہ عبادت کرتے ہیں وہ ان کی امداد کر سکتے ہیں اور انہیں روزیاں پہنچا سکتے ہیں فرماتا ہے کہ ’ سوائے اللہ کے نہ تو کوئی مدد دے سکتا ہے ، نہ روزی پہنچا سکتا ہے ، نہ بچا سکتا ہے ، کافروں کا یہ عقیدہ محض ایک دھوکہ ہے ‘ ۔ اگر اب اللہ تبارک و تعالیٰ تمہاری روزیاں روک لے تو پھر کوئی بھی انہیں جاری نہیں کر سکتا ، دینے لینے پر ، پیدا کرنے اور فنا کرنے پر ، رزق دینے اور مدد کرنے پر صرف اللہ عزوجل «وَحدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ» کو ہی قدرت ہے ۔ یہ لوگ خود اسے دل سے جانتے ہیں ، تاہم اعمال میں اس کے ساتھ دوسروں کو شریک کرتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ کفار اپنی گمراہی ، کج روی ، گناہ اور سرکشی میں بہے چلے جاتے ہیں ان کی طبیعتوں میں ضد ، تکبر اور حق سے انکار بلکہ حق کی عداوت بیٹھ چکی ہے ، یہاں تک کہ پہلی باتوں کا سننا بھی انہیں گوارا نہیں عمل کرنا تو کہاں ؟ پھر مومن و کافر کی مثال بیان فرماتا ہے کہ ’ کافر کی مثال تو ایسی ہے جیسے کوئی شخص کمر کبڑی کر کے سر جھکائے نظریں نیچی کئے چلا جا رہا ہے نہ راہ دیکھتا ہے ، نہ اسے معلوم ہے کہ کہاں جا رہا ہے بلکہ حیران ، پریشان ، راہ بھولا اور ہکا بکا ہے ۔ اور مومن کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص سیدھی راہ پر ، سیدھا کھڑا ہوا چل رہا ہے ، راستہ خود صاف اور بالکل سیدھا ہے یہ شخص خود اسے بخوبی جانتا ہے اور برابر صحیح طور پر اچھی چال سے چل رہا ہے ، یہی حال ان کا قیامت کے دن ہو گا کہ کافر تو اوندھے منہ جہنم کی طرف جمع کئے جائیں گے اور مسلمان عزت کے ساتھ جنت میں پہنچائے جائیں گے ‘ ۔ جیسے اور جگہ ہے «‏‏‏‏اُحْشُرُوا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا وَاَزْوَاجَہُمْ وَمَا کَانُوْا یَعْبُدُوْنَ مِن دُونِ اللہِ فَاہْدُوہُمْ إِلَیٰ صِرَاطِ الْجَحِیمِ» ۱؎ (37-الصافات:23،22) الخ ، ’ ظالموں کو اور ان جیسوں کو اور ان کے ان معبودوں کو جو اللہ کے سوا تھے جمع کر کے جہنم کا راستہ دکھا دو ‘ ۔ مجرموں کا منہ کے بل چلایا جانا مسند احمد میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول! لوگ منہ کے بل چل کر کس طرح حشر کئے جائیں گے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جس نے انہیں اپنے پیروں کے بل چلایا ہے وہ منہ کے بل چلانے پر بھی قادر ہے “ } ۔ بخاری و مسلم میں بھی یہ روایت ہے ۔ (صحیح بخاری:4760) اللہ وہ ہے جس نے تمہیں پہلی مرتبہ جب کہ تم کچھ نہ تھے پیدا کیا تمہیں کان آنکھ اور دل دیئے یعنی عقل و ادراک تم میں پیدا کیا لیکن تم بہت ہی کم شکر گزاری کرتے ہو یعنی اپنی ان قوتوں کو اللہ تعالیٰ کی حکم برداری میں اور اس کی نافرمانیوں سے بچنے میں بہت ہی کم خرچ کرتے ہو ۔ اللہ ہی ہے جس نے تمہیں زمین پر پھیلا دیا ، تمہاری زبانیں جدا ، تمہارے رنگ روپ جدا ، تمہاری شکلوں صورتوں میں اختلاف ۔ اور تم زمین کے چپہ چپہ پر بسا دیئے گئے ، پھر اس پراگندگی اور بکھرنے کے بعد وہ وقت بھی آئے گا کہ تم سب اس کے سامنے لا کر کھڑے کر دیئے جاؤ گے اس نے جس طرح تمہیں ادھر ادھر پھیلا دیا ہے ، اسی طرح ایک طرف سمیٹ لے گا اور جس طرح اولاً اس نے تمہیں پیدا کیا دوبارہ تمہیں لوٹائے گا ۔ دوبارہ بٹھایا جانا پھر بیان ہوتا ہے کہ ’ کافر مر کر دوبارہ جینے کے قائل نہیں وہ اس دوسری زندگی کو محال اور ناممکن سمجھتے ہیں اس کا بیان سن کر اعتراض کرتے ہیں کہ اچھا پھر وہ وقت کب آئے گا جس کی ہمیں خبر دے رہے ہو ، تو بتا دو کہ اس پراگندگی کے بعد اجتماع کب ہو گا ؟ ‘ اللہ تعالیٰ اپنے نبی سے فرماتا ہے کہ ’ ان کو جواب دو کہ اس کا علم مجھے نہیں کہ قیامت کب قائم ہو گی ؟ اسے تو صرف وہی علام الغیوب جانتا ہے ، ہاں اتنا مجھے کہا گیا ہے کہ وہ وقت آئے گا ضرور ، میری حیثیت صرف یہ ہے کہ میں تمہیں خبردار کر دوں اور اس دن کی ہولناکیوں سے مطلع کر دوں ، میرا فرض صرف تمہیں پہنچا دینا تھا جسے بحمد للہ میں ادا کر چکا ‘ ۔ پھر ارشاد باری ہوتا ہے کہ ’ جب قیامت قائم ہونے لگے گی اور کفار اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے کہ اب وہ قریب آ گئی کیونکہ ہر آنے والی چیز آ کر ہی رہتی ہے ، گو دیر سویر سے آئے ، جب اسے آیا ہوا پا لیں گے ، جسے اب تک جھٹلاتے رہے تو انہیں بہت برا لگے گا کیونکہ اپنی غفلت کا نتیجہ سامنے دیکھنے لگیں گے اور قیامت کی ہولناکیاں بدحواس کئے ہوئے ہوں گی ، آثار سب سامنے ہوں گے ‘ ، اس وقت ان سے بطور ڈانٹ کے اور بطور تذلیل کرنے کے کہا جائے گا یہی ہے ’ جس کی تم جلدی مچا رہے تھے ‘ ۔ الملك
21 الملك
22 الملك
23 الملك
24 الملك
25 الملك
26 الملك
27 الملك
28 زمین سے پانی ابلنا بند ہو جائے تو؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’ اے نبی ! ان مشرکوں سے کہو جو اللہ کی نعمتوں کا انکار کر رہے ہیں کہ تم جو اس بات کی تمنا کر رہے ہو کہ ہمیں نقصان پہنچے تو فرض کرو کہ ہمیں اللہ کی طرف سے نقصان پہنچا یا اس نے مجھ پر اور میرے ساتھیوں پر رحم کیا لیکن اس سے تمہیں کیا ؟ صرف اس امر سے تمہارا چھٹکارا تو نہیں ہو سکتا ؟ تمہاری نجات کی صورت یہ تو نہیں ۔ نجات تو موقوف ہے توبہ کرنے پر ، اللہ کی طرف جھکنے پر ، اس کے دین کو مان لینے پر ، ہمارے بچاؤ یا ہلاکت پر تمہاری نجات نہیں ، تم ہمارا خیال چھوڑ کر اپنی بخشش کی صورتیں تلاش کرو ‘ ۔ پھر فرمایا ’ ہم رب العالمین رحمن و رحیم پر ایمان لا چکے اپنے تمام امور میں ہمارا بھروسہ اور توکل اسی کی پاک ذات پر ہے ‘ ، ارشاد ہے «فَاعْبُدْہُ وَتَوَکَّلْ عَلَیْہِ وَمَا رَبٰکَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ» ۱؎ (11-ھود:123) ’ اسی کی عبادت کر اور اسی پر بھروسہ کر ۔ اب تم عنقریب جان لو گے کہ دنیا اور آخرت میں فلاح و بہبود کسے ملتی ہے اور نقصان و خسر ان میں کون پڑتا ہے ؟ رب کی رحمت کس پر ہے ؟ اور ہدایت پر کون ہے ؟ اللہ کا غضب کس پر ہے ؟ اور بری راہ پر کون ہے ؟ ‘ پھر فرماتا ہے ’ اگر اس پانی کو جس کے پینے پر انسانی زندگی کا مدار ہے زمین چوس لے یعنی زمین سے نکلے نہیں گو تم کھودتے کھودتے تھک جاؤ تو سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی ہے جو بہنے والا ، ابلنے والا اور جاری ہونے والا پانی تمہیں دے سکے ؟ ‘ یعنی اللہ کے سوا اس پر قادر کوئی نہیں وہی ہے جو اپنے فضل و کرم سے صاف نتھرے ہوئے اور صاف پانی کو زمین پر جاری کرتا ہے جو ادھر سے ادھر تک پھر جاتا ہے اور بندوں کی حاجتوں کو پورا کرتا ہے ، ضرورت کے مطابق ہر جگہ بآسانی مہیا ہو جاتا ہے ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے سورۃ الملک کی تفسیر ختم ہوئی ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ رَبِّ الْعَالَمِینَ» ۔ [ حدیث میں ہے کہ اس آیت کے جواب میں « اللہُ رَبِّ الْعَالَمِینَ» کہنا چاہیئے ، مترجم ] ۔ الملك
29 الملك
30 الملك
0 القلم
1 نون سے کیا مراد ہے؟ نون وغیرہ جیسے حروف ہجا کا مفصل بیان سورۃ البقرہ کے شروع میں گزر چکا ہے اس لیے یہاں دوہرانے کی ضرورت نہیں ، کہا گیا ہے کہ یہاں ” ن “ سے مراد وہ بڑی مچھلی ہے جو ایک محیط عالم پانی پر ہے جو ساتوں زمینوں کو اٹھائے ہوئے ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ” سب سے پہلے اللہ نے قلم کو پیدا کیا اور اس سے فرمایا ’ لکھ ‘ اس نے کہا : کیا لکھوں ؟ فرمایا ’ تقدیر لکھ ڈال ‘ پس اس دن سے لے کر قیامت تک جو کچھ ہونے والا ہے اس پر قلم جاری ہو گیا پھر اللہ تعالیٰ نے مچھلی پیدا کی اور پانی کے بخارات بلند کئے ، جس سے آسمان بنے اور زمین کو اس مچھلی کی پیٹھ پر رکھا مچھلی نے حرکت کی جس سے زمین بھی ہلنے لگی پس زمین پر پہاڑ گاڑ کر اسے مضبوط اور ساکن کر دیا “ ، پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:14/29:قال امام حاکم:صحیح) مطلب یہ ہے کہ یہاں ” ن “ سے مراد یہ مچھلی ہے ۔ طبرانی میں مرفوعاً مروی ہے کہ ” سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے قلم کو اور مچھلی کو پیدا کیا ، قلم نے دریافت کیا میں کیا لکھوں ؟ حکم ہوا ، ہر وہ چیز جو قیامت تک ہونے والی ہے “ ، پھر آپ نے پہلی آیت کی تلاوت کی ، پس نون سے مراد یہ مچھلی ہے اور قلم سے مراد یہ قلم ہے ۔ ۱؎ (طبرانی:8652-8653:ضعیف) ابن عساکر کی حدیث میں ہے { سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے قلم کو پیدا کیا پھر نون یعنی دوات کو پھر قلم سے فرمایا : ’ لکھ ‘ اس نے پوچھا : کیا ؟ فرمایا ’ جو ہو رہا ہے اور جو ہونے والا ہے ‘ عمل ، رزق ، عمر ، موت وغیرہ ، پس قلم نے سب کچھ لکھ لیا } ۔ اس آیت میں یہی مراد ہے ، پھر قلم پر مہر لگا دی اب وہ قیامت تک نہ چلے گا ، پھر عقل کو پیدا کیا اور فرمایا ’ مجھے اپنی عزت کی قسم اپنے دوستوں میں تو میں تجھے کمال تک پہنچاؤں گا اور اپنے دشمنوں میں تجھے ناقص رکھوں گا ‘ ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” یہ مشہور تھا کہ نون سے مراد وہ مچھلی ہے جو ساتویں زمین کے نیچے ہے “ ، بغوی رحمہ اللہ وغیرہ مفسرین فرماتے ہیں کہ ” اس مچھلی کی پیٹھ پر ایک چٹان ہے جس کی موٹائی آسمان و زمین کے برابر ہے اس پر ایک بیل ہے جس کے چالیس ہزار سینگ ہیں اس کی پیٹھ پر ساتوں زمینیں اور ان پر تمام مخلوق ہے “ ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» اور تعجب تو یہ ہے کہ ان بعض مفسرین نے اس حدیث کو بھی انہی معنی پر محمول کیا ہے جو مسند احمد وغیرہ میں ہے کہ { جب سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کو خبر ملی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آ گئے ہیں تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور بہت کچھ سوالات کئے ـ کہا کہ میں وہ باتیں پوچھنا چاہتا ہوں جنہیں نبیوں کے سوا اور کوئی نہیں جانتا بتائیے قیامت کے پہلی نشانی کیا ہے ؟ اور جنتیوں کا پہلا کھانا کیا ہے ؟ اور کیا وجہ ہے کہ کبھی بچہ اپنے باپ کی صورت میں ہوتا ہے کبھی ماں کی صورت پر ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” یہ باتیں ابھی ابھی جبرائیل علیہ السلام نے مجھے بتا دیں “ ، سیدنا ابن سلام رضی اللہ عنہ کہنے لگے فرشتوں میں سے یہی فرشتہ ہے جو یہودیوں کا دشمن ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” سنو ! قیامت کی پہلی نشانی ایک آگ کا نکلنا ہے جو لوگوں کو مشرق کی طرف سے مغرب کی طرف لے جائے گی اور جنتیوں کا پہلا کھانا مچھلی کی کلیجی کی زیادتی ہے اور مرد کا پانی عورت کے پانی پر سابق آ جائے تو لڑکا ہوتا ہے اور جب عورت کا پانی مرد کے پانی پر سبقت کر جائے تو وہی کھینچ لیتی ہے “ } ۔ ۱؎ (مسند احمد:108/3:صحیح) دوسری حدیث میں اتنی زیادتی ہے کہ { پوچھا جنتیوں کے اس کھانے کے بعد انہیں کیا ملے گا ؟ فرمایا : ” جنتی بیل ذبح کیا جائے گا جو جنت میں چرتا چگتا رہا تھا “ ، پوچھا : انہیں پانی کون سا ملے گا ؟ فرمایا : ” «سلسبیل» نامی نہر کا “ } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:315) یہ بھی کہا گیا ہے کہ ” مراد «ن» سے نور کی تختی ہے “ ۔ ایک مرسل غریب حدیث میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھ کر فرمایا کہ اس سے مراد نور کی تختی اور نور کا حکم ہے جو قیامت تک کے حال پر چل چکا ہے ۔ } ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:34540:مرسل و ضعیف) ابن جریج رحمہ اللہ فرماتے ہیں مجھے خبر دی گئی ہے کہ ” یہ نورانی قلم سو سال کی طولانی رکھتا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ «ن» سے مراد دوات ہے اور «قلم» سے مراد قلم ہے “ ۔ ۱؎ (ضعیف) حسن اور قتادہ رحمہ اللہ علیہما بھی یہی فرماتے ہیں ۔ ایک بہت ہی غریب مرفوع حدیث میں بھی یہ مروی ہے جو ابن ابی حاتم میں ہے کہ { اللہ نے «نون» کو پیدا کیا اور وہ دوات ہے } ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ” اللہ تعالیٰ نے «نون» یعنی دوات کو پیدا کیا اور قلم کو پیدا کیا ، پھر فرمایا ’ لکھ ‘ اس نے پوچھا : ” کیا لکھوں ؟ “ فرمایا : ’ جو قیامت تک ہونے والا ہے ‘ ، اعمال خواہ نیک ہوں ، خواہ بد ، روزی خواہ حلال ہو ، خواہ حرام ، پھر یہ بھی کہ کون سی چیز دنیا میں کب آئے گی کس قدر رہے گی ، کیسے نکلے گی ، پھر اللہ تعالیٰ نے بندوں پر محافظ فرشتے مقرر کئے اور کتاب پر داروغے مقرر کئے ، محافظ فرشتے ہر دن ان کے عمل خازن فرشتوں سے دریافت کر کے لکھ لیتے ہیں جب رزق ختم ہو جاتا ہے عمر پوری ہو جاتی ہے اجل آ پہنچتی ہے تو محافظ فرشتے داروغہ فرشتوں کے پاس آ کر پوچھتے ہیں بتاؤ آج کے دن کا کیا سامان ہے ؟ وہ کہتے ہیں بس اس شخص کے لیے ہمارے پاس اب کچھ بھی نہیں رہا ، یہ سن کر یہ فرشتے نیچے اترتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ وہ مر گیا “ ـ اس بیان کے بعد سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا ” تم تو عرب ہو کیا تم نے قرآن میں محافظ فرشتوں کی بابت یہ نہیں پڑھا ؟ “ «اِنَّا کُنَّا نَسْتَنْسِخُ مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ» ‏‏‏‏ ۱؎ (45-الجاثیۃ:29) مطلب یہ ہے کہ ہم تمہارے اعمال کو اصل سے نقل کر لیا کرتے تھے ۔ قلم سے کیا مراد ہے؟ یہ تو تھا لفظ «ن» کے متعلق بیان ، اب «قلم» کی نسبت سنئے ۔ بظاہر مراد یہاں عام قلم ہے جس سے لکھا جاتا ہے جیسے اور جگہ فرمان عالیشان ہے «‏‏‏‏الَّذِیْ عَلَّمَ بالْقَلَمِ»‏‏‏‏ ۱؎ (96-العلق:4) یعنی ’ اس اللہ نے قلم سے لکھنا سکھایا ‘ ، پس اس کی قسم کھا کر اس بات پر آگاہی کی جاتی ہے کہ مخلوق پر میری ایک نعمت یہ بھی ہے کہ میں نے انہیں لکھنا سکھایا جس سے علوم تک ان کے رسائی ہو سکے ۔ اس لیے اس کے بعد فرمایا «ن وَالْقَلَمِ وَمَا یَسْطُرُوْنَ» ‏‏‏‏ ۱؎ (68- القلم:1) یعنی ’ اس چیز کی قسم جو لکھتے ہیں ‘ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس کی تفسیر یہ بھی مروی ہے کہ اس چیز کی جو جانتے ہیں ، سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” مراد اس سے فرشتوں کا لکھنا ہے جو بندوں کے اعمال لکھتے ہیں “ اور مفسرین کہتے ہیں ” اس سے مراد وہ قلم ہے جو قدرتی طور پر چلا اور تقدیریں لکھیں آسمان و زمین کی پیدائش سے پچاس ہزار سال پہلے “ ، اور اس قول کی دلیل میں یہ جماعت وہ حدیثیں وارد کرتی ہے جو قلم کے ذکر میں مروی ہیں ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ قلم سے مراد وہ قلم ہے جس سے ذکر لکھا گیا ۔ نبی دیوانہ نہیں ہوتا پھر فرماتا ہے کہ ’ اے نبی ! تو بحمد اللہ دیوانہ نہیں جیسے کہ تیری قوم کے جاہل منکرین حق کہتے ہیں بلکہ تیرے لیے اجر عظیم ہے اور ثواب بے پایاں ہے جو نہ ختم ہو ، نہ ٹوٹے ، نہ کٹے کیونکہ تو نے حق رسالت ادا کر دیا ہے اور ہماری راہ میں سخت سے سخت مصیبتیں جھیلی ہیں ہم تجھے بے حساب بدلہ دیں گے ، تو بہت بڑے خلق پر ہے یعنی دین اسلام پر اور بہترین ادب پر ہے ‘ ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے اخلاق نبوی کے بارے میں سوال ہوتا ہے تو آپ جواب دیتی ہیں کہ ” آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلق قرآن تھا “ ، سعید رحمہ اللہ فرماتے ہیں یعنی جیسے کہ قرآن میں ہے ـ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:34559) اور حدیث میں ہے کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا کہ کیا تو نے قرآن نہیں پڑھا ؟ سائل سعید بن ہشام نے کہا ہاں پڑھا ہے آپ نے فرمایا : بس تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلق قرآن کریم تھا ۔ ۱؎ (عبد الرزاق فی التفسیر:3275) مسلم میں یہ حدیث پوری ہے جسے ہم سورۃ مزمل کی تفسیر میں بیان کریں گے ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ خلق رسول صلی اللہ علیہ وسلم بنو سواد کے ایک شخص نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہی سوال کیا تھا تو آپ نے یہی فرما کر پھر آیت «‏‏‏‏وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ»‏‏‏‏ ۱؎ (68-القلم:4) پڑھی اس نے کہا : کوئی ایک آدھ واقعہ تو بیان کیجئے ، ام المؤمنین رضی اللہ عنہا نے فرمایا : ” سنو ! ایک مرتبہ میں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کھانا پکایا اور حفصہ نے بھی ، میں نے اپنی لونڈی سے کہا : دیکھ اگر میرے کھانے سے پہلے حفصہ کے ہاں کا کھانا آ جائے تو برتن گرا دینا چنانچہ اس نے یہی کیا اور برتن بھی ٹوٹ گیا ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم بکھرے ہوئے کھانے کو سمیٹنے لگے اور فرمایا : ” اس برتن کے بدلے ثابت برتن تم دو “ واللہ ! اور کچھ ڈانٹا ڈپٹا نہیں ۔ ۱؎ (مسند احمد:111/6:ضعیف) مطلب اس حدیث کا جو کئی طریق سے مختلف الفاظ میں کئی کتابوں میں ہے ، یہ ہے کہ ایک تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جبلت اور پیدائش میں ہی اللہ نے پسندیدہ اخلاق ، بہترین خصلتیں اور پاکیزہ عادتیں رکھی تھیں اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل قرآن کریم پر ایسا تھا کہ گویا احکام قرآن کا مجسم عملی نمونہ ہیں ، ہر حکم کو بجا لانے اور ہر نہی سے رک جانے میں آپ کی حالت یہ تھی کہ گویا قرآن میں جو کچھ ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادتوں اور آپ کے کریمانہ اخلاق کا بیان ہے ۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ { میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دس سال تک خدمت کی لیکن کسی دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اف تک نہیں کہا ، کسی کرنے کے کام کو نہ کروں یا نہ کرنے کے کام کر گزروں تو بھی ڈانٹ ڈپٹ تو کجا اتنا بھی نہ فرماتے کہ ایسا کیوں ہوا ؟ } ۱؎ (صحیح بخاری:6038) { نبی صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ خوش خلق تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلی سے زیادہ نرم ، نہ تو ریشم ہے ، نہ کوئی اور چیز ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پسینہ سے زیادہ خوشبو والی چیز میں نے تو کوئی نہیں سونگھی نہ مشک اور نہ عطر } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1973) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ مبارک صحیح بخاری میں ہے سیدنا براء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ خوبصورت اور سب سے زیادہ خلیق تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قد نہ تو بہت لمبا تھا نہ آپ پست قامت تھے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3549) اس بارے میں اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں ۔ شمائل ترمذی میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایات ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے نہ تو کبھی کسی خادم یا غلام کو مارا ، نہ بیوی بچوں کو ، نہ کسی اور کو ، ہاں اللہ کی راہ کا جہاد الگ چیز ہے ، جب کبھی دو کاموں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار دیا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے پسند کرتے جو زیادہ آسان ہوتا ، ہاں یہ اور بات ہے کہ اس میں کچھ گناہ ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بہت دور ہو جاتے ، کبھی بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا بدلہ کسی سے نہیں لیا ہاں یہ اور بات ہے کہ کوئی اللہ کی حرمتوں کو توڑتا ہو تو آپ اللہ کے احکام جاری کرنے کے لیے ضرور انتقام لیتے } ۱؎ (صحیح بخاری:3560) مسند احمد میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں : ” میں بہترین اخلاق اور پاکیزہ ترین عادتوں کو پورا کرنے کے لیے آیا ہوں “ } ۔ ۱؎ (مسند احمد:2/381:صحیح) پھر فرماتا ہے کہ ’ اے نبی ! آپ اور آپ کے مخالف اور منکر ابھی ابھی جان لیں گے کہ دراصل بہکا ہوا اور گمراہ کون تھا ؟ ‘ جیسے اور جگہ ہے «‏‏‏‏سَیَعْلَمُوْنَ غَدًا مَّنِ الْکَذَّابُ الْاَشِرُ»‏‏‏‏ ۱؎ (54-القمر:26) ’ انہیں ابھی کل ہی معلوم ہو جائے گا کہ جھوٹا اور شیخی باز کون تھا ؟ ‘ جیسے اور جگہ ہے «وَاِنَّآ اَوْ اِیَّاکُمْ لَعَلٰی ہُدًی اَوْ فِیْ ضَلٰلٍ مٰبِیْنٍ»‏‏‏‏ ۱؎ (34-سبأ:24) ’ ہم یا تم ہدایت پر ہیں یا کھلی گمراہی پر ‘ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ” یعنی یہ حقیقت قیامت کے دن کھل جائے گی “ ، آپ سے مروی ہے کہ ” «مَفْتُونُ» مجنون کو کہتے ہیں “ ۔ مجاہد رحمہ اللہ کا بھی یہی قول ہے ۔ قتادہ رحمہ اللہ وغیرہ فرماتے ہیں یعنی کون شیطان سے نزدیک تر ہے ؟ «مَفْتُونُ» کے ظاہری معنی یہ ہیں کہ جو حق سے بہک جائے اور گمراہ ہو جائے ۔ «أَییِّکُمُ» پر ” ب “ کو اس لیے داخل کیا گیا ہے کہ دلالت ہو جائے کہ «‏‏‏‏فَسَتُبْصِرُ وَیُبْصِرُوْنَ»‏‏‏‏ ۱؎ (68-القلم:5) میں تضمین فعل ہے تو تقدیری عبارت کو ملا کر ترجمہ یوں ہو جائے گا کہ ’ تو بھی اور وہ بھی عنقریب جان لیں گے ‘ اور تو بھی اور وہ سب بھی بہت جلدی «مَفْتُونُ» کی خبر دے دیں گے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» پھر فرمایا کہ ’ تم میں سے بہکنے والے اور راہ راست والے سب اللہ پر ظاہر ہیں اسے خوب معلوم ہے کہ راہ راست سے کس کا قدم پھسل گیا ہے ‘ ۔ القلم
2 القلم
3 القلم
4 القلم
5 القلم
6 القلم
7 القلم
8 زیادہ قسمیں کھانے والے زیادہ جھوٹ بولتے ہیں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ ’ اے نبی ! جو نعمتیں ہم نے تجھے دیں ، جو صراط مستقیم اور خلق عظیم ہم نے تجھے عطا فرمایا اب تجھے چاہیئے کہ ہماری نہ ماننے والوں کی تو نہ مان ، ان کی تو عین خوشی ہے کہ آپ ذرا بھی نرم پڑیں تو یہ کھل کر کھیلیں ‘ ۔ اور یہ بھی مطلب ہے کہ ’ یہ چاہتے ہیں کہ آپ ان کے معبودان باطل کی طرف کچھ تو رخ کریں حق سے ذرا سا تو ادھر ادھر ہو جائیں ‘ ۔ پھر فرماتا ہے ’ زیادہ قسمیں کھانے والے کمینے شخص کی بھی نہ مان ‘ - چونکہ جھوٹے شخصوں کو اپنی ذلت اور کذب بیانی کے ظاہر ہو جانے کا ڈر رہتا ہے ، اس لیے وہ قسمیں کھا کھا کر دوسرے کو اپنا یقین دلانا چاہتا ہے لگاتار قسموں پر قسمیں کھائے چلا جاتا ہے اور اللہ کے ناموں کو بے موقعہ استعمال کرتا پھرتا ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں «مَّہِینٍ» سے مراد «کاذب» ہے ۔ مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں ضعیف دل والا ۔ حسن رحمہ اللہ کہتے ہیں «حَلَّافٍ» مکابرہ کرنے والا اور «مَّہِینٍ» ضعیف ، «ہَمَّازٍ» غیب کرنے والا ، چغل خور جو ادھر کی ادھر لگائے اور ادھر کی ادھر تاکہ فساد ہو جائے ۔ طبیعتوں میں نفرت اور دل میں دشمنی آ جائے ۔ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے میں دو قبریں آ گئیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ان دونوں کو عذاب ہو رہا اور کسی بڑے امر پر نہیں ایک تو پیشاب کرنے میں پردے کا خیال نہ رکھتا تھا ۔ دوسرا چغل خور تھا “ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:216) فرماتے ہیں ” چغل خور جنت میں نہ جائے گا “ ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6056) دوسری روایت میں ہے کہ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث اس وقت سنائی تھی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ یہ شخص خفیہ پولیس کا آدمی ہے ۔ ۱؎ (مسند احمد:389/5:صحیح) سب سے بہتر اور برتر شخص مسند احمد کی حدیث میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” کیا میں تمہیں نہ بتاؤں کہ تم میں سب سے بھلا شخص کون ہے ؟ “ لوگوں نے کہا ضرور ارشاد فرمایئے ، فرمایا : ” وہ کہ جب انہیں دیکھا جائے اللہ یاد آ جائے اور سن لو سب سے بدتر شخص وہ ہے جو چغل خور ہو دوستوں میں فساد ڈلوانے والا ہو پاک صاف لوگوں کو تہمت لگانے والا ہو “ } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:4119،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ترمذی میں بھی یہ روایت ہے ۔ پھر ان بد لوگوں کے ناپاک خصائل بیان ہو رہے ہیں کہ ’ بھلائیوں سے باز رہنے والا اور باز رکھنے والا ہے ، حلال چیزوں اور حلال کاموں سے ہٹ کر حرام خوری اور حرام کاری کرتا ہے ، گنہگار ، بدکردار ، محرمات کو استعمال کرنے والا ، بدخو ، بدگو ، جمع کرنے والا اور نہ دینے والا ہے ‘ ۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جنتی لوگ گرے پڑے عاجز و ضعیف ہیں جو اللہ کے ہاں اس بلند مرتبہ پر ہیں کہ اگر وہ قسم کھا بیٹھیں تو اللہ پوری کر دے اور جہنمی لوگ سرکش متکبر اور خودبین ہوتے ہیں “ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4918) اور حدیث میں ہے { جمع کرنے والے اور نہ دینے والے بدگو اور سخت خلق } ۔ ۱؎ (مسند احمد:169/2:صحیح) ایک روایت میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا «عُتُلٍّ بَعْدَ ذٰلِکَ زَنِیمٍ» ۱؎ (68-القلم:13) کون ہے ؟ فرمایا : ” بدخلق خوب کھانے پینے والا لوگوں پر ظلم کرنے والا پیٹو آدمی “ } ۔ ۱؎ (مسند احمد:4/227:صحیح) لیکن اس روایت کو اکثر راویوں نے مرسل بیان کیا ہے ۔ ایک اور حدیث میں ہے { اس نالائق شخص پر آسمان روتا ہے جسے اللہ نے تندرستی دی ، پیٹ بھر کھانے کو دیا ، مال و جاہ بھی عطا فرمائی پھر بھی لوگوں پر ظلم و ستم کر رہا ہے } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:34603:مرسل) یہ حدیث بھی دو مرسل طریقوں سے مروی ہے ۔ غرض «عُتُلٍّ» کہتے ہیں جس کا بدن صحیح ہو ، طاقتور ہو اور خوب کھانے پینے والا زور دار شخص ہو ۔ «زَنِیمٍ» سے مراد بدنام ہے جو برائی میں مشہور ہو ، لغت عرب میں «زَنِیمٍ» اسے کہتے ہیں جو کسی قوم میں سمجھا جاتا ہو لیکن دراصل اس کا نہ ہو ، عرب شاعروں نے اسے اسی معنی میں باندھا ہے یعنی جس کا نسب صحیح نہ ہو ، کہا گیا ہے کہ مراد اس سے اخنس بن شریق ثقفی ہے جو بنو زہرہ کا حلیف تھا اور بعض کہتے ہیں یہ اسود بن عبد یغوث زہری ہے ۔ عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ولد الزنا مراد ہے ، یہ بھی بیان ہوا ہے کہ جس طرح ایک بکری جو تمام بکریوں میں سے الگ تھلگ اپنا چرا ہوا کان اپنی گردن پر لٹکائے ہوئے ہو بیک نگاہ پہچان لی جاتی ہے اسی طرح کافر مومنوں میں پہچان لیا جاتا ہے ۔ اسی طرح کے اور بھی بہت سے اقوال ہیں لیکن خلاصہ سب کا صرف اسی قدر ہے کہ «زنیم» وہ شخص ہے جو برائی سے مشہور ہو اور عموماً ایسے لوگ ادھر ادھر سے ملے ہوئے ہوتے ہیں جن کے صحیح نسب کا اور حقیقی باپ کا پتہ نہیں ہوتا ایسوں پر شیطان کا غلبہ بہت زیادہ رہا کرتا ہے ۔ جیسے حدیث میں ہے { زنا کی اولاد جنت میں نہیں جائے گی } ۔ ۱؎ (مجمع الزوائد:275/6:موضوع) اور روایت میں ہے کہ { زنا کی اولاد تین برے لوگوں کی برائی کا مجموعہ ہے ، اگر وہ بھی اپنے ماں باپ کے سے کام کرے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:6/109:ضعیف) پھر فرمایا ’ اس کی ان شرارتوں کی وجہ یہ ہے کہ یہ مالدار اور بیٹوں کا باپ بن گیا ہے ہماری اس نعمت کا گن گانا تو کہاں ہماری آیتوں کو جھٹلاتا ہے اور توہین کر کے کہتا پھرتا ہے کہ یہ تو پرانے افسانے ہیں ‘ ۔ اور جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے «‏‏‏‏ذَرْنِی وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِیدًا وَجَعَلْتُ لَہُ مَالًا مَّمْدُودًا وَبَنِینَ شُہُودًا وَمَہَّدتٰ لَہُ تَمْہِیدًا ثُمَّ یَطْمَعُ أَنْ أَزِیدَ کَلَّا إِنَّہُ کَانَ لِآیَاتِنَا عَنِیدًا سَأُرْہِقُہُ صَعُودًا إِنَّہُ فَکَّرَ وَقَدَّرَ فَقُتِلَ کَیْفَ قَدَّرَ ثُمَّ قُتِلَ کَیْفَ قَدَّرَ ثُمَّ نَظَرَ ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَ ثُمَّ أَدْبَرَ وَاسْتَکْبَرَ فَقَالَ إِنْ ہٰذَا إِلَّا سِحْرٌ یُؤْثَرُ إِنْ ہٰذَا إِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ سَأُصْلِیہِ سَقَرَ» ۱؎ (74-المدثر:26-11) ’ مجھے چھوڑ دے اور اسے جسے میں نے یکتا پیدا کیا ہے اور بہت سا مال دیا ہے اور حاضر باش لڑکے دیئے ہیں اور بھی بہت کشادگی دے رکھی ہے پھر بھی اس کی طمع ہے کہ میں اسے اور دوں ہرگز ایسا نہیں ہو سکتا یہ تو میری آیتوں کا مخالف ہے میں اسے عنقریب بدترین مصیبت میں ڈالوں گا اس نے غور و فکر کرکے اندازہ لگایا یہ تباہ ہو ۔ کتنی بری تجویز اس نے سوچی میں پھر کہتا ہوں ، یہ برباد ہو اس نے کیسی بری تجویز کی اس نے پھر نظر ڈالی اور ترش رو ہو کہ منہ بنا لیا ، پھر منہ پھیر کر اینٹھنے لگا اور کہہ دیا کہ یہ کلام اللہ تو پرانا نقل کیا ہوا جادو ہے ، صاف ظاہر ہے کہ یہ انسانی کلام ہے ، اس کی اس بات پر میں بھی اسے «سَقَرَ» میں ڈالوں گا تجھے کیا معلوم کہ «سَقَرَ» کیا ہے نہ وہ باقی رکھے نہ چھوڑے بدن پر لپٹ جاتی ہے اس پر انیس فرشتے متعین ہیں ‘ ۔ اسی طرح یہاں بھی فرمایا کہ ’ اس کی ناک پر ہم داغ لگائیں گے ‘ یعنی اسے ہم اس قدر رسوا کریں گے کہ اس کی برائی کسی پر پوشیدہ نہ رہے ہر ایک اسے جان پہچان لے جیسے نشان دار ناک والے کو بیک نگاہ ہزاروں میں لوگ پہچان لیتے ہیں اور جو داغ چھپائے نہ چھپ سکے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ بدر والے دن اس کی ناک پر تلوار لگے گی اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ قیامت والے دن جہنم کی مہر لگے گی یعنی منہ کالا کر دیا جائے گا تو ناک سے مراد پورا چہرہ ہوا ۔ امام ابو جعفر ابن جریر نے ان تمام اقوال کو وارد کر کے فرمایا ہے کہ ” ان سب میں تطبیق اس طرح ہو جاتی ہے کہ یہ کل امور اس میں جمع ہو جائیں یہ بھی ہو وہ بھی ہو ، دنیا میں رسوا ہو سچ مچ ناک پر نشان لگے آخرت میں بھی نشاندار مجرم بنے “ ، فی الواقع یہ بہت درست ہے ۔ ابن ابی حاتم میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ { بندہ ہزارہا برس تک اللہ کے ہاں مومن لکھا رہتا ہے لیکن مرتا اس حالت میں ہے کہ اللہ اس پر ناراض ہوتا ہے اور بندہ اللہ کے ہاں کافر ہزارہا سال تک لکھا رہتا ہے پھر مرتے وقت اللہ اس سے خوش ہو جاتا ہے جو شخص عیب گوئی اور چغل خوری کی حالت میں مرے جو لوگوں کو بدنام کرنے والا ہو قیامت کے دن اس کی ناک پر دونوں ہونٹوں کی طرف سے نشان لگا دیا جائے جو اس مجرم کی علامت بن جائے گا } ۔ ۱؎ (طبرانی اوسط:8801:ضعیف) القلم
9 القلم
10 القلم
11 القلم
12 القلم
13 القلم
14 القلم
15 القلم
16 القلم
17 سیاہ رات اور کٹی ہوئی کھیتی یہاں ان کافروں کی جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو جھٹلا رہے تھے مثال بیان ہو رہی ہے کہ جس طرح یہ باغ والے تھے کہ اللہ کی نعمت کی ناشکری کی اور اللہ کے عذابوں میں اپنے آپ کو ڈل دیا ، یہی حالت ان کافروں کی ہے کہ اللہ کی نعمت یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیغمبری کی ناشکری یعنی انکار نے انہیں بھی اللہ کی ناراضگی کا مستحق کر دیا ہے ۔ تو فرماتا ہے کہ ’ ہم نے انہیں بھی آزما لیا جس طرح ہم نے باغ والوں کو آزمایا تھا جس باغ میں طرح طرح کے پھل میوے وغیرہ تھے ، ان لوگوں نے آپس میں قسمیں کھائیں کہ صبح سے پہلے ہی پہلے رات کے وقت پھل اتار لیں گے تاکہ فقیروں مسکینوں اور سائلوں کو پتہ نہ چلے جو وہ آ کھڑے ہوں اور ہمیں ان کو بھی دینا پڑے بلکہ کل پھل اور میوے خود ہی لے آئیں گے ، اپنی اس تدبیر کی کامیابی پر انہیں غرور تھا اور اس خوشی میں پھولے ہوئے تھے یہاں تک کہ اللہ کو بھی بھول گئے ان شاء اللہ تک کسی کی زبان سے نہ نکلا اس لیے ان کی یہ قسم پوری نہ ہوئی ، رات ہی رات میں ان کے پہنچنے سے پہلے آسمانی آفت نے سارے باغ کو جلا کر خاکستر کر دیا ایسا ہو گیا جیسے سیاہ رات اور کٹی ہوئی کھیتی ‘ ۔ اسی لیے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ لوگو گناہوں سے بچو گناہوں کی شامت کی وجہ سے انسان اس روزی سے بھی محروم کر دیا جاتا ہے جو اس کے لیے تیار کر دی گئی ہے “ ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو آیتوں کی تلاوت کی کہ ’ یہ لوگ بہ سبب اپنے گناہ کے اپنے باغ کے پھل اور اس کی پیداوار سے بے نصیب ہو گئے ‘ } ۔ ۱؎ (الدار المنثور للسیوطی:395/6:ضعیف) صبح کے وقت یہ آپس میں ایک دوسرے کو آوازیں دینے لگے کہ اگر پھل اتارنے کا ارادہ ہے تو اب دیر نہ لگاؤ سویرے ہی چل پڑو ، سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یہ باغ انگور کا تھا ، اب یہ چپکے چپکے باتیں کرتے ہوئے چلے تاکہ کوئی سن نہ لے اور غریب غرباء کو پتہ نہ لگ جائے ، چونکہ ان کی سرگوشیاں اس اللہ سے تو پوشیدہ نہیں رہ سکتی تھیں جو دلی ارادوں سے بھی پوری طرح واقف رہتا ہے وہ بیان فرماتا ہے کہ ’ ان کی وہ خفیہ باتیں یہ تھیں کہ دیکھو ہوشیار رہو کوئی مسکین بھنک پا کر کہیں آج آ نہ جائے ہرگز کسی فقیر کو باغ میں گھسنے ہی نہ دینا ‘ ۔ اب قوت و شدت کے ساتھ پختہ ارادے اور غریبوں پر غصے کے ساتھ اپنے باغ کو چلے ۔ سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں «حَرْد» ان کی بستی کا نام تھا ، لیکن یہ کچھ زیادہ ٹھیک نہیں معلوم ہوتا ۔ یہ جانتے تھے کہ اب ہم پھلوں پر قابض ہیں ابھی اتار کر سب لے آئیں گے ۔ القلم
18 القلم
19 القلم
20 القلم
21 القلم
22 القلم
23 القلم
24 القلم
25 القلم
26 1 لیکن جب وہاں پہنچے تو ہکا بکا رہ گئے ، کہ لہلہاتا ہوا ہرا بھرا باغ میوؤں سے لدے ہوئے درخت اور پکے ہوئے پھل سب غارت اور برباد ہو چکے ہیں سارے باغ میں آندھی پھر گئی ہے اور کل باغ میوؤں سمیت جل کر کوئلہ ہو گیا ہے ، کوئی پھل نصف دام کا بھی نہیں رہا ، ساری تروتازگی پژمردگی سے بدل گئی ہے ، باغ سارا کا سارا جل کر راکھ ہو گیا ہے درختوں کے کالے کالے ڈراؤنے ٹنڈ کھڑے ہوئے ہیں ، پہلے تو سمجھے کہ ہم راہ بھول گئے کسی اور باغ میں چلے آئے اور یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ ہمارا طریقہ کار غلط تھا جس کا یہ نتیجہ ہے ۔ پھر بغور دیکھنے سے جب یقین ہو گیا کہ باغ تو ہمارا ہی ہے تب سمجھ گئے اور کہنے لگے ، ہے تو یہی لیکن ہم بدقسمت ہیں ، ہمارے نصیب میں ہی اس کا پھل اور فائدہ نہیں ، ان سب میں جو عدل و انصاف والا اور بھلائی اور بہتری والا تھا وہ بول پڑا کہ دیکھو میں تو پہلے ہی تم سے کہتا تھا کہ تم ان شاء اللہ کیوں نہیں کہتے ۔ سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ان کے زمانہ میں سبحان اللہ کہنا بھی ان شاء اللہ کہنے کے قائم مقام تھا ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس کے معنی ہی ان شاء اللہ کہنے کے ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کے بہتر شخص نے ان سے کہا کہ دیکھو میں نے تو تمہیں پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ تم کیوں اللہ کی پاکیزگی اور اس کی حمد و ثناء نہیں کرتے ؟ یہ سن کر اب وہ کہنے لگے ہمارا رب پاک ہے ، بیشک ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ، اب اطاعت بجا لائے جبکہ عذاب پہنچ چکا ، اب اپنی تقصیر کو مانا جب سزا دے دی گئی ، اب تو ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے کہ ہم نے بہت ہی برا کیا کہ مسکینوں کا حق مارنا چاہا اور اللہ کی فرمانبرداری سے رک گئے ، پھر سب نے کہا کہ کوئی شک نہیں ہماری سرکشی حد سے بڑھ گئی اسی وجہ سے اللہ کا عذاب آیا ، پھر کہتے ہیں شاید ہمارا رب ہمیں اس سے بہتر بدلہ دے یعنی دنیا میں اور یہ بھی ممکن ہے کہ آخرت کے خیال سے انہوں نے یہ کہا ہو ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» بعض سلف کا قول ہے کہ یہ واقعہ اہل یمن کا ہے ، سعید بن جیبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ لوگ ضروان کے رہنے والے تھے جو صنعاء سے چھ میل کے فاصلہ پر ایک بستی ہے اور مفسرین کہتے ہیں کہ یہ اہل حبشہ تھے ۔ مذہباً اہل کتاب تھے یہ باغ انہیں ان کے باپ کے ورثے میں ملا تھا اس کا یہ دستور تھا کہ باغ کی پیداوار میں سے باغ کا خرچ نکال کر اپنے اور اپنے بال بچوں کے لیے سال بھر کا خرچ رکھ کر باقی نفع اللہ کے نام صدقہ کر دیتا تھا اس کے انتقال کے بعد ان بچوں نے آپس میں مشورہ کیا اور کہا کہ ہمارا باپ تو بے وقوف تھا جو اتنی بڑی رقم ہر سال ادھر ادھر دے دیتا تھا ہم ان فقیروں کو اگر نہ دیں اور اپنا مال باقاعدہ سنبھالیں تو بہت جلد دولت مند بن جائیں یہ ارادہ انہوں نے پختہ کر لیا تو ان پر وہ عذاب آیا جس نے اصل مال بھی تباہ کر دیا اور بالکل خالی ہاتھ رہ گئے ۔ پھر فرماتا ہے ’ جو شخص بھی اللہ کے حکموں کے خلاف کرے اور اللہ کی نعمتوں میں بخل کرے اور مسکینوں محتاجوں کا حق ادا نہ کرے اور اللہ کی نعمت کی ناشکری کرے اس پر اسی طرح کے عذاب نازل ہوتے ہیں اور یہ تو دنیوی عذاب ہیں آخرت کے عذاب تو ابھی باقی ہیں جو سخت تر اور بدتر ہیں ‘ ۔ بیہقی کی ایک حدیث میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے وقت کھیتی کاٹنے اور باغ کے پھل اتارنے سے منع فرما دیا ہے } ۔ ۱؎ (السنن الکبری للبیھقی:9/298-290:مرسل و ضعیف) القلم
27 القلم
28 القلم
29 القلم
30 القلم
31 القلم
32 القلم
33 القلم
34 گنہگار اور نیکو کار دونوں کی جزاء کا مختلف ہونا لازم ہے اوپر چونکہ دنیوی جنت والوں کا حال بیان ہوا تھا اور اللہ کی نافرمانی اور اس کے حکم کے خلاف کرنے سے ان پر جو بلا اور آفت آئی اس کا ذکر ہوا تھا اس لیے اب ان متقی پرہیزگار لوگوں کا حال ذکر کیا گیا جنہیں آخرت میں جنتیں ملیں گی جن کی نعمتیں نہ فنا ہوں ، نہ گھٹیں ، نہ ختم ہوں ، نہ سڑیں ، نہ گلیں ۔ پھر فرماتا ہے ’ کیا ہو سکتا ہے کہ مسلمان اور گنہگار جزا میں یکساں ہو جائیں ؟ قسم ہے زمین و آسمان کے رب کی کہ یہ نہیں ہو سکتا ، کیا ہو گیا ہے تم کس طرح یہ چاہتے ہو ؟ کیا تمہارے ہاتھوں میں اللہ کی طرف سے اتری ہوئی کوئی ایسی کتاب ہے جو خود تمہیں بھی محفوظ ہو اور گزشتہ لوگوں کے ہاتھوں تم پچھلوں تک پہنچتی ہو اور اس میں وہی ہو جو تمہاری چاہت ہے اور تم کہہ رہے ہو کہ ہمارا کوئی مضبوط وعدہ اور عہد تم سے ہے کہ تم جو کہہ رہے ہو وہی ہو گا اور تمہاری بے جا اور غلط خواہشیں پوری ہو کر ہی رہیں گی ؟ ان سے ذرا پوچھو تو کہ اس بات کا کون ضامن ہے اور کس کے ذمے یہ کفالت ہے ؟ نہ سہی تمہارے جو جھوٹے معبود ہیں انہی کو اپنی سچائی کے ثبوت میں پیش کرو ‘ ۔ القلم
35 القلم
36 القلم
37 القلم
38 القلم
39 القلم
40 القلم
41 القلم
42 سجدہ اس وقت منافقوں کے بس میں نہیں ہو گا اوپر بیان ہو چکا ہے کہ ’ پرہیزگار لوگوں کے لیے نعمتوں والی جنتیں ہیں ‘ ، اس لئے یہاں بیان ہو رہا ہے کہ یہ جنتیں انہیں کب ملیں گی ؟ تو فرمایا کہ ’ اس دن جس دن پنڈلی کھول دی جائے گی ‘ ۔ یعنی قیامت کے دن ، جو دن بڑی ہولناکیوں والا ، زلزلوں والا ، امتحان والا اور آزمائش والا اور بڑے بڑے اہم امور کے ظاہر ہونے کا دن ہو گا ۔ صحیح بخاری میں اس جگہ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث ہے کہ { میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، فرماتے تھے ” ہمارا رب اپنی پنڈلی کھول دے گا پس ہر مومن مرد اور ہر مومنہ عورت سجدے میں گر پڑے گی ہاں دنیا میں جو لوگ دکھاوے سناوے کے لیے سجدہ کرتے تھے وہ بھی سجدہ کرنا چاہیں گے لیکن ان کی کمر تختہ کی طرف ہو جائے گی ، یعنی ان سے سجدے کے لیے جھکا نہ جائے گا “ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4919) یہ حدیث بخاری مسلم دونوں میں ہے اور دوسری کتابوں میں بھی ہے کئی کئی سندوں سے الفاظ کے ہیر پھیر کے ساتھ مروی ہے اور یہ حدیث مطول ہے اور مشہور ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ” یہ دن تکلیف دکھ درد اور شدت کا دن ہے “ ۔ (ابن جریر) اور ابن جریر اسے دوسری سند سے شک کے ساتھ بیان کرتے ہیں وہ سیدنا ابن مسعود یا سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہم سے «‏‏‏‏یَوْمَ یُکْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَّیُدْعَوْنَ اِلَی السٰجُوْدِ فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ» ۱؎ (68-القلم:42) کی تفسیر میں بہت بڑا عظیم الشان امر مروی ہے ۔ جیسے شاعر کا قول ہے «وَقَامَتِ الْحَرْبُ بِنَا عَنْ سَاقٍ» یہاں بھی لڑائی کی عظمت اور بڑائی بیان کی گئی ہے ، مجاہد رحمہ اللہ سے بھی یہی مروی ہے ۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں قیامت کے دن کی یہ گھڑی بہت سخت ہو گی ، آپ فرماتے ہیں یہ امر بہت سخت بڑی گھبراہٹ والا اور ہولناک ہے ، آپ فرماتے ہیں جس وقت امر کھول دیا جائے گا اعمال ظاہر ہو جائیں گے اور یہ کھلنا آخرت کا آ جاتا ہے اور اس سے کام کا کھل جانا ہے ۔ یہ سب روایتیں ابن جریر میں ہیں ۔ اس کے بعد یہ حدیث ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تفسیر میں فرمایا : ” مراد بہت بڑا نور ہے لوگ اس کے سامنے سجدے میں گر پڑیں گے “ } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:42/29:ضعیف) یہ حدیث ابویعلیٰ میں بھی ہے اور اس کی اسناد میں ایک مبہم راوی ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» [ یاد رہے کہ صحیح تفسیر وہی ہے جو بخاری مسلم کے حوالے سے اوپر مرفوع حدیث میں گزری کہ اللہ عزوجل اپنی پنڈلی کھولے گا ، دوسری حدیث بھی مطلب کے لحاظ سے ٹھیک ہے کیونکہ اللہ خود نور اور اقوال بھی اس طرح ٹھیک ہیں کہ جہانوں کے پروردگار کی پنڈلی بھی ظاہر ہو گی اور ساتھ ہی وہ ہولناکیاں اور شدتیں بھی ہوں گی ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» مترجم ] دنیا میں سجدہ نہ کرنے والے کی قیامت کو حالت پھر فرمایا ’ جس دن ان لوگوں کی آنکھیں اوپر کو نہ اٹھیں گی اور ذلیل و پست ہو جائیں گے کیونکہ دنیا میں بڑے سرکش اور کبر و غرور والے تھے ، صحت اور سلامتی کی حالت میں دنیا میں جب انہیں سجدے کے لیے بلایا جاتا تھا تو رک جاتے تھے جس کی سزا یہ ملی کہ آج سجدہ کرنا چاہتے ہیں لیکن نہیں کر سکتے پہلے کر سکتے تھے لیکن نہیں کرتے تھے ، اللہ تعالیٰ کی تجلی دیکھ کر مومن سب سجدے میں گر پڑیں گے لیکن کافر و منافق سجدہ نہ کر سکیں گے ، کمر تختہ ہو جائے گی ، جھکے گی ہی نہیں بلکہ پیٹھ کے بل چت گر پڑیں گے ، یہاں بھی ان کی حالت مومنوں کے خلاف تھی ، وہاں بھی خلاف ہی رہے گی ‘ ۔ پھر فرمایا ’ مجھے اور میری اس حدیث یعنی قرآن کو جھٹلانے والوں کو تو چھوڑ دے ، اس میں بڑی وعید ہے اور سخت ڈانٹ ہے کہ تو ٹھہر جا میں خود ان سے نپٹ لوں گا ، دیکھ تو سہی کہ کس طرح بتدریج انہیں پکڑتا ہوں یہ اپنی سرکشی اور غرور میں پڑتے جائیں گے ، میری ڈھیل کے راز کو نہ سمجھیں گے اور پھر ایک دم یہ پاپ کا گھڑا پھوٹے گا اور میں اچانک انہیں پکڑ لوں گا ۔ میں انہیں بڑھاتا رہوں گا یہ بدمست ہوتے چلے جائیں گے وہ اسے کرامت سمجھیں گے حالانکہ وہ اہانت ہو گی ‘ ۔ جیسے اور جگہ ہے «‏‏‏‏أَیَحْسَبُونَ أَنَّمَا نُمِدٰہُم بِہِ مِن مَّالٍ وَبَنِینَ نُسَارِعُ لَہُمْ فِی الْخَیْرَاتِ بَل لَّا یَشْعُرُونَ» ۱؎ (23-المؤمنون:56،55) ، یعنی ’ کیا ان کا گمان ہے کہ مال و اولاد کا بڑھنا ان کے لیے ہماری جانب سے کسی بھلائی کی بنا پر ہے ، نہیں بلکہ یہ بے شعور ہیں ‘ ۔ اور جگہ فرمایا «‏‏‏‏فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُکِّرُوْا بِہٖ فَتَحْنَا عَلَیْہِمْ اَبْوَابَ کُلِّ شَیْءٍ حَتّٰی اِذَا فَرِحُوْا بِمَآ اُوْتُوْٓا اَخَذْنٰہُمْ بَغْتَۃً فَاِذَا ہُمْ مٰبْلِسُوْنَ» ۱؎ (6-الأنعام:44) ’ جب یہ ہمارے وعظ و پند کو بھلا چکے تو ہم نے ان پر تمام چیزوں کے دروازے کھول دیئے یہاں تک کہ انہیں جو دیا گیا تھا اس پر اترانے لگے تو ہم نے انہیں ناگہانی پکڑ لیا اور ان کی امیدیں منقطع ہو گئیں ‘ ۔ یہاں بھی ارشاد ہوتا ہے ’ میں انہیں ڈھیل دوں گا ، بڑھاؤں گا اور اونچا کروں گا یہ میرا داؤ ہے اور میری تدبیر میرے مخالفوں اور میرے نافرمانوں کے ساتھ بہت بڑی ہے ‘ ۔ بخاری مسلم میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ ظالم کو مہلت دیتا ہے پھر جب پکڑتا ہے تو چھوڑتا نہیں “ ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4686) «‏‏‏‏وَکَذٰلِکَ اَخْذُ رَبِّکَ اِذَآ اَخَذَ الْقُرٰی وَہِیَ ظَالِمَۃٌ ۭ اِنَّ اَخْذَہٗٓ اَلِیْمٌ شَدِیْدٌ» ۱؎ (11-ھود:102) یعنی ’ اسی طرح ہے تیرے رب کی پکڑ جبکہ وہ کسی بستی والوں کو پکڑتا ہے جو ظالم ہوتے ہیں اس کی پکڑ بڑی درد ناک اور بہت سخت ہے ‘ ۔ پھر فرمایا ’ تو کچھ ان سے اجرت اور بدلہ تو مانگتا ہی نہیں جو ان پر بھاری پڑتا ہو جس تاوان سے یہ جھکے جاتے ہوں ، نہ ان کے پاس کوئی علم غیب ہے جسے یہ لکھ رہے ہوں ‘ ۔ ان دونوں جملوں کی تفسیر سورۃ والطور میں گزر چکی ہے خلاصہ مطلب یہ ہے کہ اے نبی ! آپ انہیں اللہ عزوجل کی طرف بغیر اجرت اور بغیر مال طلبی کے اور بغیر بدلے کی چاہت کے بلا رہے ہیں آپ کی غرض سوائے ثواب حاصل کرنے کے اور کوئی نہیں اس پر بھی یہ لوگ صرف اپنی جہالت اور کفر اور سرکشی کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلا رہے ہیں ۔ القلم
43 القلم
44 القلم
45 القلم
46 القلم
47 القلم
48 مصائب سے نجات دلانے والی دعا، نظر، فال اور شگون اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’ اے نبی ! اپنی قوم کی ایذاء پر اور ان کے جھٹلانے پر صبر و ضبط کرو عنقریب اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہونے والا ہے ، انجام کار آپ کا اور آپ کے ماتحتوں کا ہی غلبہ ہو گا دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی دیکھو تم مچھلی والے نبی کی طرح نہ ہونا ‘ ۔ اس سے مراد یونس بن متی علیہ السلام ہیں جبکہ وہ اپنی قوم پر غضب ناک ہو کر نکل کھڑے ہوئے پھر جو ہوا سو ہوا ، یعنی آپ علیہ السلام کا جہاز میں سوار ہونا مچھلی کا آپ کو نگل جانا اور سمندر کی تہہ میں بیٹھ جانا اور ان تہ بہ تہ اندھیروں میں اس قدر نیچے آپ کا سمندر میں اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی بیان کرتے ہوئے سننا اور خود آپ کا بھی پکارنا اور «‏‏‏‏لَّا إِلٰہَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَکَ إِنِّی کُنتُ مِنَ الظَّالِمِینَ» ۱؎ (21-الأنبیاء:87) پڑھنا پھر آپ کی دعا کا قبول ہونا ، اس غم سے نجات پانا وغیرہ جس واقعہ کا مفصل بیان پہلے گزر چکا ہے ۔ جس کے بیان کے بعد اللہ سبحان و تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ «‏‏‏‏فَاسْتَجَبْنَا لَہُ وَنَجَّیْنَاہُ مِنَ الْغَمِّ وَکَذٰلِکَ نُنجِی الْمُؤْمِنِینَ» ۱؎ (21-الأنبیاء:88) ’ ہم اسی طرح ایمانداروں کو نجات دیا کرتے ہیں ‘ اور فرماتا ہے کہ «فَلَوْلَا أَنَّہُ کَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِینَ لَلَبِثَ فِی بَطْنِہِ إِلَیٰ یَوْمِ یُبْعَثُونَ» ۱؎ (37-الصافات:143-144) ’ اگر وہ تسبیح نہ کرتے تو قیامت تک اسی کے پیٹ میں پڑے رہتے ‘ ۔ یہاں بھی فرمان ہے کہ ’ جب اس نے غم اور دکھ کی حالت میں ہمیں پکارا ‘ ، پہلے بیان ہو چکا ہے کہ یونس علیہ السلام کی زبان سے نکلتے ہی یہ کلمہ عرش پر پہنچا ، فرشتوں نے کہا یا رب اس کمزور غیر معروف شخص کی آواز تو ایسی معلوم ہوتی ہے جیسے پہلے کی سنی ہوئی ہو ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ’ کیا تم نے اسے پہچانا نہیں ؟ ‘ فرشتوں نے عرض کیا نہیں ، جناب باری نے فرمایا : ’ یہ میرے بندے یونس کی آواز ہے ‘ ۔ فرشتوں نے کہا پروردگار ! پھر تو تیرا یہ بندہ وہ ہے جس کے اعمال صالحہ ہر روز آسمانوں پر چڑھتے رہے جس کی دعائیں ہر وقت قبولیت کا درجہ پاتی رہیں ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ’ سچ ہے ‘ ، فرشتوں نے کہا پھر اے ارحم الراحمین ! ان کی آسانیوں کے وقت کے نیک اعمال کی بنا پر انہیں اس سختی سے نجات عطا فرما ، چنانچہ فرمان باری ہوا کہ ’ اے مچھلی ! تو انہیں اگل دے ‘ اور مچھلی نے انہیں کنارے پر آ کر اگل دیا ۔ یہاں بھی یہی بیان ہو رہا ہے کہ ’ اللہ نے اسے پھر برگزیدہ بنا لیا اور نیک کاروں میں کر دیا ‘ ۔ مسند احمد میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ” کسی کو لائق نہیں کہ وہ اپنے آپ کو یونس بن متی سے افضل بتائے “ } ۔ بخاری و مسلم میں بھی یہ حدیث ہے ، ۱؎ (صحیح بخاری:3395) اگلی آیت کا مطلب یہ ہے کہ ’ تیرے بغض و حسد کی وجہ سے یہ کفار تو اپنی آنکھوں سے گھور گھور کر تجھے پھسلا دینا چاہتے ہیں اگر اللہ کی طرف سے حمایت اور بچاؤ نہ ہوتا تو یقیناً یہ ایسا کر گزرتے ‘ ، اس آیت میں دلیل ہے اس امر پر کہ نظر کا لگنا اور اس کی تاثیر کا اللہ کے حکم سے ہونا حق ہے جیسا کہ بہت سی احادیث میں بھی ہے جو کئی کئی سندوں سے مروی ہے ۔ ابوداؤد میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” دم جھاڑا صرف نظر کا اور زہریلے جانوروں کا اور نہ تھمنے والے خون کا ہے “ } ۱؎ (سنن ابوداود:3889،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) بعض سندوں میں نظر کا لفظ نہیں یہ حدیث ابن ماجہ میں بھی ہے ۱؎ (سنن ابن ماجہ:3513،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اور صحیح مسلم میں بھی ایک قصہ کے ساتھ موقوفاً مروی ہے ، ۱؎ (صحیح مسلم:200) اور بخاری اور ترمذی میں بھی ہے ۔ ایک غریب حدیث ابویعلیٰ میں ہے کہ { نظر میں کچھ بھی حق نہیں } ۔ ۱؎ (مسند احمد:5/146:صحیح) { سب سے سچا شگون فال ہے } ، یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے اور امام ترمذی رحمہ اللہ اسے غریب کہتے ہیں ۱؎ (سنن ترمذی:2061،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) اور روایت میں ہے کہ { کوئی ڈر ، خوف ، الو اور نظر نہیں اور نیک فالی سب سے زیادہ سچا فال ہے } ۔ اور روایت میں ہے کہ { نظر حق ہے ، نظر حق ہے ، وہ بلندی والے کو بھی اتار دیتی ہے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:294/1:حسن) نظر لگنا حق ہے صحیح مسلم میں ہے { نظر حق ہے اگر کوئی چیز تقدیر سے سبقت کرنے والی ہوتی تو نظر کر جاتی جب تم سے غسل کرایا جائے تو غسل کر لیا کرو } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2188) عبدالرزاق میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کو ان الفاظ کے ساتھ پناہ میں دیتے «أُعِیذکُمَا بِکَلِمَاتِ اللَّہ التَّامَّۃ مِنْ کُلّ شَیْطَان وَہَامَۃ وَمِنْ کُلّ عَیْن لَامَّۃ» یعنی تم دونوں کو اللہ تعالیٰ کے بھرپور کلمات کی پناہ میں سونپتا ہوں ہر شیطان سے اور ہر ایک زہریلے جانور سے اور ہر ایک لگ جانے والی نظر سے ، اور فرماتے کہ ابراہیم علیہ السلام بھی اسحاق اور اسماعیل کو انہی الفاظ سے اللہ کی پناہ میں دیا کرتے تھے } ، یہ حدیث سنن میں اور بخاری شریف میں بھی ہے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3371) ابن ماجہ میں ہے کہ { سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ غسل کر رہے تھے عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے میں نے تو آج تک ایسا بدن کسی پردہ نشین کا بھی نہیں دیکھا بس ذرا سی دیر میں وہ بیہوش ہو کر گر پڑے لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا : یا رسول اللہ ! ان کی خبر لیجئے یہ تو بیہوش ہو گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” کسی پر تمہارا شک بھی ہے ؟ “ لوگوں نے کہا ، ہاں ، عامر بن ربیعہ پر ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تم میں سے کیوں کوئی اپنے بھائی کو قتل کرتا ہے جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی کی کسی ایسی چیز کو دیکھے کہ اسے بہت اچھی لگے تو اسے چاہیئے کہ اس کے لیے برکت کی دعا کرے “ ، پھر پانی منگوا کر عامر سے فرمایا : ” تم وضو کرو ، منہ اور کہنیوں تک ہاتھ اور گھٹنے اور تہمبد کے اندر کا حصہ جسم دھو ڈالو “ } ۔ دوسری روایت میں ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” برتن کو اس کی پیٹھ کے پیچھے سے اوندھا دو “ } ۔ نسائی وغیرہ میں بھی یہ روایت موجود ہے ۔ ۱؎ (سنن نسائی:7617،قال الشیخ الألبانی:صحیح) نظر لگنے کا دم ابوسعید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنات کی اور انسانوں کی نظر بد سے پناہ مانگا کرتے تھے ، جب سورۃ معوذتیں نازل ہوئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں لے لیا اور سب کو چھوڑ دیا } ، ۱؎ (سنن ابن ماجہ:3511،قال الشیخ الألبانی:صحیح) مسند وغیرہ میں ہے کہ { جبرائیل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا اے نبی ! کیا آپ بیمار ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ہاں “ تو جبرائیل علیہ السلام نے کہا «بِسْمِ اللَّہ أَرْقِیک مِنْ کُلّ شَیْء یُؤْذِیک مِنْ شَرّ کُلّ نَفْس أَوْ عَیْن حَاسِد اللَّہ یَشْفِیک بِسْمِ اللَّہ أَرْقِیک» } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2186) بعض روایات میں کچھ الفاظ کا ہیر پھیر بھی ہے ، بخاری مسلم کی حدیث میں ہے کہ { یقیناً نظر کا لگ جانا برحق ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5740) مسند کی ایک حدیث میں ہے کہ { اس کا سبب شیطان ہے اور ابن آدم کا حسد ہے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:2/439:ضعیف) مسند کی اور روایت میں ہے { سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا تم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ شگون تین چیزوں میں ہے گھر ، گھوڑا اور عورت تو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : پھر تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وہ کہوں گا جو آپ نے نہیں فرمایا ، ہاں ، میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ تو سنا ہے کہ آپ نے فرمایا : ” سب سے سچا شگون نیک فالی ہے اور نظر کا لگنا حق ہے “ } ۔ ۱؎ (مسند احمد:289/2:صحیح لغیرہ) ترمذی وغیرہ میں ہے کہ { سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا یا رسول اللہ ! سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ کے بچوں کو نظر لگ جایا کرتی ہے تو کیا میں کچھ دم کرا لیا کروں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ہاں ، اگر کوئی چیز تقدیر سے سبقت کر جانے والی ہوتی تو وہ نظر تھی “ } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2059،قال الشیخ الألبانی:صحیح) { { سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نظر بد سے دم کرنے کا حکم مروی ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5738) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نظر لگانے والے کو حکم کیا جاتا تھا کہ وہ وضو کرے اور جس کو نظر لگی ہے اسے اس پانی سے غسل کرایا جاتا تھا ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:3880،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اور حدیث میں ہے { نہیں ہے الو اور نظر حق ہے اور سب سے سچا شگون فال ہے } ۔ مسند احمد میں بھی سیدنا سہل اور سیدنا عامر رضی اللہ عنہما والا قصہ جو اوپر بیان ہوا قدرے تفصیل کے ساتھ مروی ہے ، ۱؎ (مسند احمد:486/3:صحیح) بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ { یہ دونوں بزرگ غسل کے ارادے سے چلے اور سیدنا عامر رضی اللہ عنہ پانی میں غسل کے لیے اترے اور ان کا بدن دیکھ کر سیدنا سہل رضی اللہ عنہ کی نظر لگ گئی اور وہ وہیں پانی میں خرخراہٹ کرنے لگے میں نے تین مرتبہ آوازیں دیں لیکن جواب نہ ملا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ، اور واقعہ سنایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود تشریف لائے اور تھوڑے سے پانی میں کھچ کھچ کرتے ہوئے ، تہمبد اونچا اٹھائے ہوئے ، وہاں تک پہنچے اور ان کے سینے میں ہاتھ مارا اور دعا کی « اللہُمَّ اِصْرِفْ عَنْہُ حَرّہَا وَبَرْدہَا وَوَصَبہَا» ” اے اللہ ! تو اس سے اس کی گرمی اور سردی اور تکلیف دور کر دے “ } ۔ ۱؎ (مسند احمد:447/3:ضعیف) مسند بزار میں ہے کہ { میری امت کی قضاء و قدر کے بعد اکثر موت نظر سے ہو گی } ۔ ۱؎ (مسند بزار:3052:ضعیف) فرماتے ہیں { نظر حق ہے انسان کو قبر تک پہنچا دیتی ہے اور اونٹ کو ہنڈیا تک ، میری امت کی اکثر ہلاکی اسی میں ہے } ۔ ۱؎ (ضعیف) ایک اور صحیح سند سے بھی یہ روایت مروی ہے ، ۱؎ (ابو نعیم فی الحیلۃ:90/7) فرمان رسالت ہے کہ { ایک کی بیماری دوسرے کو نہیں لگتی اور نہ الو کی وجہ سے بربادی کا یقین کر لینا کوئی حقیقت رکھتا ہے اور نہ حسد کوئی چیز ہے ، ہاں نظر سچ ہے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:2/222:صحیح) ابن عساکر میں ہے کہ { جبرائیل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت غمزدہ تھے جب پوچھا تو فرمایا : ” حسن اور حسین کو نظر لگ گئی ہے “ ، فرمایا : یہ سچائی کے قابل چیز ہے نظر واقعی لگتی ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کلمات پڑھ کر انہیں پناہ میں کیوں نہ دیا ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : ” وہ کلمات کیا ہیں ؟ “ فرمایا : یوں کہیئے «للَّہُمَّ ذَا السٰلْطَان الْعَظِیم وَالْمَنّ الْقَدِیم ذَا الْوَجْہ الْکَرِیم وَلِیّ الْکَلِمَات التَّامَّات وَالدَّعَوَات الْمُسْتَجَابَات عَافِ الْحَسَن وَالْحُسَیْن مِنْ أَنْفُس الْجِنّ وَأَعْیُن الْإِنْس» یعنی اے اللہ ! اے بہت بڑی بادشاہی والے ، اے زبردست قدیم احسانوں والے ، اے بزرگ تر چہرے والے ، اے پورے کلموں والے اور اے دعاؤں کو قبولیت کا درجہ دینے والے تو حسن اور حسین کو تمام جنات کی ہواؤں سے اور تمام انسان کی آنکھوں سے اپنی پناہ دے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا پڑھی وہیں دونوں بچے اٹھ کھڑے ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھیلنے کودنے لگے تو حضور علیہ السلام نے فرمایا : ” لوگو اپنی جانوں کو اپنی بیویوں کو اور اپنی اولاد کو اسی پناہ کے ساتھ پناہ دیا کرو ، اس جیسی اور کوئی پناہ کی دعا نہیں “ } ۔ ۱؎ (ابن عساکر فی تاریخہ:503/8) پھر فرماتا ہے کہ ’ جہاں یہ کافر اپنی حقارت بھری نظریں آپ پر ڈالتے ہیں وہاں اپنی طعنہ آمیز زبان بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کھولتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو قرآن لانے میں مجنون ہیں ‘ ۔ اللہ تعالیٰ ان کے جواب میں فرماتا ہے ’ قرآن تو اللہ ان کی طرف سے تمام عالم کے لیے نصیحت نامہ ہے ‘ ۔ «اَلْحَمْدُ لِلہِ» سورۃ نون کی تفسیم ختم ہوئی ۔ القلم
49 القلم
50 القلم
51 القلم
52 القلم
0 الحاقة
1 حاقہ «حَاقَّہ» قیامت کا ایک نام ہے اور اس نام کی وجہ یہ ہے کہ وعدے وعید کی عملی تعبیر اور حقیقت کا دن وہی ہے ، اسی لیے اس دن کی ہولناکی بیان کرتے ہوئے فرمایا : ’ تم اس «حاقہ» کی صحیح کیفیت سے بے خبر ہو ‘ ، پھر ان لوگوں کا ذکر فرمایا جن لوگوں نے اسے جھٹلایا اور خمیازہ اٹھایا تھا تو فرمایا : ’ ثمودیوں کو دیکھو ایک طرف سے فرشتے کے دہاڑنے اور کلیجوں کو پاش پاش کر دینے والی آواز آتی ہے تو دوسری جانب سے زمین میں غضبناک بھونچال آتا ہے اور سب تہ و بالا ہو جاتے ہیں ۔ ‘ پس بقول قتادہ رحمہ اللہ «طَّاغِیَۃِ» کے معنی چنگھاڑ کے ہیں ، اور مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں اسے مراد گناہ ہیں یعنی وہ اپنے گناہوں کے باعث برباد کر دیئے گئے ۔ سیدنا ربیع بن انس اور سیدنا ابن زید رضی اللہ عنہم کا قول ہے کہ اس سے مراد ان کی سرکشی ہے ۔ سیدنا ابن زید نے اس کی شہادت میں یہ آیت پڑھی «کَذَّبَتْ ثَمُوْدُ بِطَغْوٰیہَآ» ۱؎ (91-الشمس:11) یعنی ’ ثمودیوں نے اپنی سرکشی کے باعث جھٹلایا ۔ ‘ یعنی اونٹنی کی کوچیں کاٹ دیں اور قوم عاد کی ٹھنڈی ہواؤں کے تیز جھونکوں سے دل چھید دیئے اور وہ نیست و نابود کر دیئے گئے ۔ الحاقة
2 الحاقة
3 الحاقة
4 الحاقة
5 الحاقة
6 1 یہ آندھیاں جو خیر و برکت سے خالی تھیں اور فرشتوں کے ہاتھوں سے نکلتی تھیں برابر پے درپے لگاتار سات راتیں اور آٹھ دن تک چلتی رہیں ، ان دنوں میں ان کے لیے سوائے نحوست و بربادی کے اور کوئی بھلائی نہ تھی اور جیسے اور جگہ ہے «فَاَرْسَلْنَا عَلَیْہِمْ رِیْحًا صَرْصَرًا فِیْٓ اَیَّامٍ نَّحِسَاتٍ لِّنُذِیْقَہُمْ عَذَابَ الْخِــزْیِ فِی الْحَیٰوۃِ الدٰنْیَا ۭ وَلَعَذَابُ الْاٰخِرَۃِ اَخْزٰی وَہُمْ لَا یُنْصَرُوْنَ» ۱؎ (41-فصلت:16) ربیع رحمہ اللہ فرماتے ہیں جمعہ کے دن سے یہ شروع ہوئی تھیں ۔ بعض کہتے ہیں بدھ کے دن ۔ ان ہواؤں کو عرب «اعجاز» اس لیے بھی کہتے ہیں کہ قرآن نے فرمایا ہے ’ قوم عاد کی حالت «اعجاز» یعنی کھجوروں کے کھوکھلے تنوں جیسی ہو گئی ‘ ، دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ عموماً یہ ہوائیں جاڑوں کے آخر میں چلا کرتی ہیں اور عجز کہتے ہیں آخر کو ، اور یہ وجہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ قوم عاد کی ایک بڑھیا ایک غار میں گھس گئی تھی جو ان ہواؤں سے آٹھویں روز وہیں تباہ ہو گئی اور بڑھیا کو عربی میں «عجوز» کہتے ہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» «خَاوِیَۃٍ» کے معنی ہیں خراب ، گلا ، سڑا ، کھوکھلا ، مطلب یہ ہے کہ ہواؤں نے انہیں اٹھا اٹھا کر الٹا ان کے سر پھٹ گئے سروں کا چورا چورا ہو گیا اور باقی جسم ایسا رہ گیا جیسے کھجور کے درختوں کا پتوں والا سرا کاٹ کر صرف تنا رہنے دیا ہو ۔ بخاری مسلم کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” صبا کے ساتھ میری مدد کی گئی یعنی مشرقی ہوا کے ساتھ اور عادی ہلاک کئے گئے دبور سے یعنی مغربی ہوا سے ۔ “ } ۱؎ (صحیح بخاری:1035) ابن ابی حاتم میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” عادیوں کو ہلاک کرنے کے لیے ہواؤں کے خزانے میں سے صرف انگوٹھی کے برابر جگہ کشادہ کی گئی تھی جس سے ہوائیں نکلیں اور پہلے وہ گاؤں اور دیہات والوں پر آئی ان تمام مردوں عورتوں کو چھوٹے بڑوں کو ان کے مالوں اور جانوروں سمیت لے کر آسمان و زمین کے درمیان معلق کر دیا ، شہریوں کو بوجہ بہت بلندی اور کافی اونچائی کے یہ معلوم ہونے لگا کہ یہ سیاہ رنگ بادل چڑھا ہوا ہے خوش ہونے لگے کہ گرمی کے باعث جو ہماری بری حالت ہو رہی ہے اب پانی برس جائے گا اتنے میں ہواؤں کو حکم ہوا اور اس نے ان تمام کو ان شہریوں پر پھینک دیا یہ اور وہ سب ہلاک ہو گئے ۔ “ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس ہوا کے پر اور دم تھی ۔ پھر فرماتا ہے ’ بتاؤ کہ ان میں سے یا ان کی نسل میں سے کسی ایک کا نشان بھی تم دیکھ رہے ہو ؟ ‘ یعنی سب کے سب تباو و برباد کر دیئے گئے کوئی نام لینے والا پانی دینے والا بھی باقی نہ رہا ۔ پھر فرمایا ’ فرعون اور اس سے اگلے خطاکار ، اور رسولوں کے نافرمانوں کا یہی انجام ہوا ‘ ۔ «قَبْلَہُ» کی دوسری قرأت «قِبْلَہُ» بھی ہے تو معنی یہ ہوں گے کہ فرعون اور اس کے پاس اور ساتھ کے لوگ یعنی فرعونی ، قبطی ، کفار ۔ «مُؤْتَفِکَاتُ» سے مراد بھی پیغمبروں کی جھٹلانے والی اگلی امتیں ہیں ، «خَاطِئَۃِ» سے مطلب معصیت اور خطائیں ہیں ۔ پس فرمایا ’ ان میں سے ہر ایک نے اپنے اپنے زمانے کے رسول کی تکذیب کی ۔ ‘ جیسے اور جگہ ہے «کُلٌّ کَذَّبَ الرٰسُلَ فَحَقَّ وَعِیدِ» ۱؎ (50-ق:14) یعنی ’ ان سب نے رسولوں کی تکذیب کی اور ان پر عذاب نازل ہوئے ۔ ‘ اور یہ بھی یاد رہے کہ ایک پیغمبر کا انکار گویا تمام انبیاء کا علیہ السلام انکار ہے جیسے قرآن نے فرمایا «کَذَّبَتْ قَوْمُ نُوْحِۨ الْمُرْسَلِیْنَ» ۱؎ (26-الشعراء:105) اور فرمایا «کَذَّبَتْ عَادُۨ الْمُرْسَلِیْنَ» ۱؎ (26-الشعراء:123) اور فرمایا «کَذَّبَتْ ثَمُوْدُ الْمُرْسَلِیْنَ» ۱؎ (26-الشعراء:141) یعنی قوم نوح نے عادیوں نے ثمودیوں نے رسولوں کو جھٹلایا ، حالانکہ سب کے پاس یعنی ہر ہر امت کے پاس ایک ہی رسول آیا تھا ، یہی مطلب یہاں بھی ہے کہ انہوں نے اپنے رب کے پیغامبر کی نافرمانی کی ، پس اللہ نے انہیں سخت تر مہلک بڑی درد ناک المناک پکڑ میں پکڑ لیا ۔ طوفان نوح بعد ازاں اپنا احسان جتاتا ہے کہ ’ دیکھو جب نوح کی دعا کی وجہ سے زمین پر طوفان آیا اور پانی حد سے گزر گیا چاروں طرف ریل پیل ہو گئی نجات کی کوئی جگہ نہ رہی اس وقت ہم نے تمہیں کشتی میں چڑھا لیا ۔ ‘ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب قوم نوح نے اپنے نبی کو جھٹلایا اور ان کی مخالفت اور ایذاء رسانی شروع کی اللہ کے سوا دوسروں کی عبادت کرنے لگے اس وقت نوح علیہ السلام نے تنگ آ کر ان کی ہلاکت کی دعا کی جسے اللہ تعالیٰ نے قبول فرما لیا اور مشہور طوفان نوح نازل فرمایا جس سے سوائے ان لوگوں کے جو نوح علیہ السلام کی کشتی میں تھے روئے زمین پر کوئی نہ بچا پس سب لوگ نوح علیہ السلام کی نسل اور آپ علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں پانی کا ایک ایک قطرہ بہ اجازت اللہ پانی کے داروغہ فرشتہ کے ناپ تول سے برستا ہے اسی طرح ہوا کا ہلکا سا جھونکا بھی بے ناپے تولے نہیں چلتا لیکن ہاں عادیوں پر جو ہوائیں چلیں اور قوم نوح پر جو طوفان آیا وہ تو بے حد ، بے شمار اور بغیر ناپ تول کے تھا اللہ کی اجازت سے پانی اور ہوا نے وہ زور باندھا کہ نگہبان فرشتوں کی کچھ نہ چلی ۔ اسی لیے قرآن میں «اِنَّا لَمَّا طَغَا الْمَاءُ حَمَلْنٰکُمْ فِی الْجَارِیَۃِ» ۱؎ (69-الحاقۃ:11) اور «وَاَمَّا عَادٌ فَاُہْلِکُوْا بِرِیْحٍ صَرْصَرٍ عَاتِیَۃٍ» ۱؎ (69-الحاقۃ:6) کے الفاظ ہیں ، اسی لیے اس اہم احسان کو اللہ تعالیٰ یاد دلا رہا ہے کہ ’ ایسے پُر خطر موقعہ پر ہم نے تمہیں چلتی کشتی پر سوار کرا دیا تا کہ یہ کشتی تمہارے لیے نمونہ بن جائے چنانچہ آج بھی ویسی ہی کشتیوں پر سوار ہو کر سمندر کے لمبے چوڑے سفر طے کر رہے ہو ۔ ‘ جیسے اور جگہ ہے «وَالَّذِی خَلَقَ الْأَزْوَاجَ کُلَّہَا وَجَعَلَ لَکُم مِّنَ الْفُلْکِ وَالْأَنْعَامِ مَا تَرْکَبُونَ لِتَسْتَوُوا عَلَیٰ ظُہُورِہِ ثُمَّ تَذْکُرُوا نِعْمَۃَ رَبِّکُمْ إِذَا اسْتَوَیْتُمْ عَلَیْہِ وَتَقُولُوا سُبْحَانَ الَّذِی سَخَّرَ لَنَا ہٰذَا وَمَا کُنَّا لَہُ مُقْرِنِینَ» ۱؎ (43-الزخرف:13،12) ، یعنی ’ تمہاری سواری کے لیے کشتیاں اور چوپائے جانور بنائے تاکہ تم ان پر سواری کرو اور سوار ہو کر اپنے رب کی نعمت یاد کرو ۔ ‘ اور جگہ فرمایا «وَآیَۃٌ لَّہُمْ أَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّیَّتَہُمْ فِی الْفُلْکِ الْمَشْحُونِ وَخَلَقْنَا لَہُم مِّن مِّثْلِہِ مَا یَرْکَبُونَ» ۱؎ (36-یس:42،41) یعنی ’ ان کے لیے ایک نشان قدرت یہ بھی ہے کہ ہم نے ان کی نسل کو بھری کشتی میں چڑھا لیا اور بھی ہم نے اس جیسی ان کی سواریاں پیدا کر دیں ۔ ‘ قتادہ رحمہ اللہ نے اوپر کی اس آیت کا یہ مطلب بھی بیان کیا ہے کہ وہی کشتی نوح باقی رہی یہاں تک کہ اس امت کے اگلوں نے بھی اسے دیکھا ، لیکن زیادہ ظاہر مطلب پہلا ہی ہے ۔ پھر فرمایا ’ یہ اس لیے بھی کہ یاد رکھنے اور سننے والا کان اسے یاد کرے اور محفوظ رکھ لے اور اس نعمت کو نہ بھولے ‘ ، یعنی صحیح سمجھ اور سچی سماعت والے ، عقل سلیم اور فہم مستقیم رکھنے والے ، جو اللہ کی باتوں اور اس کی نعمتوں سے بےپرواہی اور لاابالی نہیں برتتے ان کی پندو نصیحت کا ایک ذریعہ یہ بھی بن گیا ۔ ابن ابی حاتم میں ہے مکحول فرماتے ہیں جب یہ الفاظ اترے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” میں نے اپنے رب سے سوال کیا کہ وہ علی کو ایسا ہی بنا دے ۔ “ } ۱؎ ، چنانچہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی چیز سن کر پھر میں نے فراموش نہیں کی ، یہ روایت ابن جریر میں بھی ہے لیکن مرسل ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:34771:مرسل) ابن ابی حاتم کی ایک اور حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : ” مجھے حکم کیا گیا ہے کہ میں تجھے نزدیک کروں ، دور نہ کروں اور تجھے تعلیم دوں اور تو بھی یاد رکھے اور یہی تجھے بھی چاہیئے ۔ “ اس پر یہ آیت اتری ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:34772:ضعیف) یہ روایت دوسری سند سے بھی ابن جریر میں مروی ہے لیکن وہ بھی صحیح نہیں ۔ الحاقة
7 الحاقة
8 الحاقة
9 الحاقة
10 الحاقة
11 الحاقة
12 الحاقة
13 آواز کا بم صور اسرافیل قیامت کی ہولناکیوں کا بیان ہو رہا ہے جس میں سب سے پہلے گھبراہٹ پیدا کرنے والی چیز صور کا پھونکا جانا ہو گا جس سے سب کے دل ہل جائیں گے پھر «نفخہ» پھونکا جائے گا جس سے تمام زمین و آسمان کی مخلوق بیہوش ہو جائے گی مگر جسے اللہ چاہے ۔ پھر صور پھونکا جائے گا جس کی آواز سے تمام مخلوق اپنے رب کے سامنے کھڑی ہو جائے گی یہاں اسی پہلے «نفخہ» کا بیان ہے ۔ یہاں بطور تاکید کے یہ بھی فرمایا کہ یہ اٹھ کھڑے ہونے کا «نفخہ» ایک ہی ہے اس لیے کہ جب اللہ کا حکم ہو گیا پھر نہ تو اس کا خلاف ہو سکتا ہے نہ وہ ٹل سکتا ہے نہ دوبارہ فرمان کی ضرورت ہے اور نہ تاکید کی ، امام ربیع رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے مراد آخری «نفخہ» ہے لیکن ظاہر قول وہی ہے جو ہم نے کہا ۔ اسی لیے یہاں اس کے ساتھ ہی فرمایا کہ ’ زمین و آسمان اٹھا لیے جائیں گے اور کھال کی طرح پھیلا دیئے جائیں گے اور زمین بدل دی جائے گی اور قیامت واقع ہو جائے گی ۔ ‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں آسمان ہر کھلنے کی جگہ سے پھٹ جائے گا ، جیسے سورۃ نبا میں ہے «وَّفُتِحَتِ السَّمَاءُ فَکَانَتْ اَبْوَابًا» ۱؎ (78-النبأ:19) یعنی ’ آسمان کھول دیا جائے گا اور اس میں دروازے کھول دیے جائیں گے ۔ ‘ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں آسمان میں سوراخ اور غاریں پڑ جائیں گی اور شق ہو جائے گی عرش اس کے سامنے ہو گا فرشتے اس کے کناروں پر ہوں گے جو کنارے اب تک ٹوٹے نہ ہوں گے اور دوازوں پر ہوں گے آسمان کی لمبائی میں پھیلے ہوئے ہوں گے اور زمین والوں کو دیکھ رہے ہوں گے ۔ اللہ کا عرش اٹھانے والے فرشتے پھر فرمایا ’ قیامت والے دن آٹھ فرشتے اللہ تعالیٰ کا عرش اپنے اوپر اٹھائے ہوئے ہوں گے ۔ ‘ پس یا تو مراد عرش عظیم کا اٹھانا ہے یا اس عرش کا اٹھانا مراد ہے جس پر قیامت کے دن اللہ تعالیٰ لوگوں کے فیصلوں کے لیے ہو گا ۔ «وَاللہُ سُبْحَانَہُ وَ تَعَالیٰ اَعْلَمُ» سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں یہ فرشتے پہاڑی بکروں کی صورت میں ہوں گے ، سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ان کی آنکھ کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک کا ایک سو سال کا راستہ ہے ۔ ابن ابی حاتم کی مرفوع حدیث میں ہے کہ { مجھے اجازت دی گئی ہے کہ میں تمہیں عرش کے اٹھانے والے فرشتوں میں سے ایک کی نسبت خبر دوں کہ اس کی گردن اور کان کے نیچے کے لَو کے درمیان اتنا فاصلہ ہے کہ اڑنے والا پرندہ سات سو سال تک اڑتا چلا جائے ۔ } اس کی اسناد بہت عمدہ ہے اور اس کے سب راوی ثقہ ہیں ، اسے امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے بھی اپنی سنن میں روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح فرمایا ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4727،قال الشیخ الألبانی:حسن) سعید بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے مراد فرشتوں کی آٹھ صفیں ہیں اور بھی بہت سے بزرگوں سے یہ مروی ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ” اعلیٰ فرشتوں کے آٹھ حصے ہیں جن میں سے ہر ایک حصہ کی گنتی تمام انسانوں جنوں اور سب فرشتوں کے برابر ہے ۔“ پھر فرمایا : ’ قیامت کے روز تم اس اللہ کے سامنے کئے جاؤ گے جو پوشیدہ کو اور ظاہر کو بخوبی جانتا ہے جس طرح کھلی سے کھلی چیز کا وہ عالم ہے اس طرح چھپی سے چھپی چیز کو بھی وہ جانتا ہے ، اسی لیے فرمایا تمہارا کوئی بھید اس روز چھپ نہ سکے گا ۔ ‘ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا قول ہے ” لوگو اپنی جانوں کا حساب کر لو اس سے پہلے کہ تم سے حساب لیا جائے اور اپنے اعمال کا آپ اندازہ کر لو اس سے پہلے کہ ان اعمال کا وزن کیا جائے تاکہ کل قیامت والے دن تم پر آسانی ہو جس دن کو تمہارا پورا پورا حساب لیا جائے گا اور بڑی پیشی میں خود اللہ جل شانہ کے سامنے تم پیش کر دیئے جاؤ گے ۔ “ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” قیامت کے دن لوگ تین مرتبہ اللہ کے سامنے پیش کئے جائیں گے پہلی اور دوسری بار تو عذر ، معذرت اور جھگڑا بحث کرتے رہیں گے لیکن تیسری پیشی جو آخری ہو گی اس وقت نامہ اعمال اڑائے جائیں گے ، کسی کے دائیں ہاتھ میں آئے گا اور کسی کے بائیں ہاتھ میں ۔ “ یہ حدیث ابن ماجہ میں بھی ہے ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2425،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کے قول سے بھی یہی روایت ابن جریر میں مروی ہے اور قتادہ رحمہ اللہ سے بھی اس جیسی روایت مرسل مروی ہے ۔ الحاقة
14 الحاقة
15 الحاقة
16 الحاقة
17 الحاقة
18 الحاقة
19 دائیں ہاتھ اور نامہ اعمال یہاں بیان ہو رہا ہے کہ جو خوش نصیب لوگ قیامت کے دن اپنا نامہ اعمال اپنے دائیں ہاتھ میں دیئے جائیں گے وہ سعادت مند حضرات بے حد خوش ہوں گے اور جوش مسرت میں بےساختہ ہر ایک سے کہتے پھریں گے کہ میرا نامہ اعمال تو پڑھو اور یہ اس لیے کہ جو گناہ بتقاضائے بشریت ان سے ہو گئے وہ بھی ان کی توبہ سے نامہ اعمال میں سے مٹا دیئے گئے ہیں اور نہ صرف مٹا دیئے گئے ہیں بلکہ ان کے بجائے نیکیاں لکھ دی گئی ہیں ۔ پس یہ سراسر نیکیوں کا نامہ اعمال ایک ایک کو پورے سرور اور سچی خوشی سے دکھاتے پھرتے ہیں ۔ عبدالرحمٰن بن زید رحمہ اللہ فرماتے ہیں «ھَا» کے بعد لفظ «ؤُمُ» زیادہ ہے لیکن ظاہر بات یہ ہے کہ «ہَاؤُمُ» معنی میں «ھَاکُمْ» کے ہے ۔ ابوعثمان رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ چپکے سے حجاب میں مومن کو اس کا نامہ اعمال دیا جاتا ہے جس میں اس کے گناہ لکھے ہوئے ہوتے ہیں یہ اسے پڑھتا ہے اور ہر ایک گناہ پر اس کے ہوش اڑ اڑ جاتے ہیں چہرے کی رنگت پھیکی پڑ جاتی ہے اتنے میں اب اس کی نگاہ اپنی نیکیوں پر پڑتی ہے جب انہیں پڑھنے لگتا ہے تب ذرا چین پڑتا ہے ہوش و حواس درست ہوتے ہیں اور چہرہ کھل جاتا ہے پھر نظریں جما کر پڑھتا ہے تو دیکھتا ہے کہ اس کی برائیاں بھی بھلائیوں سے بدل دی گئی ہیں ہر برائی کی جگہ بھلائی لکھی ہوئی ہے ۔ اب تو اس کی باچھیں کھل جاتی ہیں اور خوشی خوشی نکل کھڑا ہوتا ہے اور جو ملتا ہے اس سے کہتا ہے ذرا میرا نامہ اعمال تو پڑھنا ۔ عبداللہ بن حنظلہ رضی اللہ عنہ جنہیں فرشتوں نے ان کی شہادت کے بعد غسل دیا تھا ان کے لڑکے عبداللہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو قیامت والے دن اپنے سامنے کھڑا کرے گا اور اس کی برائیاں اس کے نامہ اعمال کی پشت پر لکھی ہوئی ہوں گی جو اس پر ظاہر کی جائیں گی اور اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا کہ ’ بتا کیا تو نے یہ اعمال کئے ہیں ؟ ‘ وہ اقرار کرے گا کہ ہاں بیشک اللہ یہ برائیاں مجھ سے ہوئی ہیں اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’ دیکھ میں نے دنیا میں بھی تجھے رسوا نہیں کیا ، نہ فضیحت کیا ، اب یہاں بھی میں تجھ سے درگزر کرتا ہوں اور تیرے تمام گناہوں کو معاف کرتا ہوں ۔ ‘ جب یہ اس سے فارغ ہو گا تب اپنا نامہ اعمال لے کر خوشی سے ایک ایک کو دکھاتا پھرے گا ۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما والی صحیح حدیث پہلے بیان ہو چکی ہے جس میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے بندے کو اپنے پاس بلائے گا اور اس سے اس کے گناہوں کی بابت پوچھے گا کہ فلاں گناہ کیا ہے ؟ فلاں گناہ کیا ؟ یہ اقرار کرے گا یہاں تک کہ سمجھ لے گا کہ اب ہلاک ہوا اس وقت جناب باری تعالیٰ فرمائے گا ’ اے میرے بندے دنیا میں میں نے تیری ان برائیوں پر پردہ ڈال رکھا تھا اب آج تجھے کیا رسوا کروں جا میں نے تجھے بخشا ‘ ، پھر اس کا نامہ اعمال اس کے داہنے ہاتھ میں دیا جاتا ہے جس میں صرف نیکیاں ہی نیکیاں ہوتی ہیں لیکن کافروں اور منافقوں کے بارے میں تو گواہ پکار اٹھتے ہیں کہ «ہٰؤُلَاءِ الَّذِینَ کَذَبُوا عَلَیٰ رَبِّہِمْ أَلَا لَعْنَۃُ اللہِ عَلَی الظَّالِمِینَ» ۱؎ (11-ھود:18) ’ یہ لوگ ہیں جنہوں نے اس کے بارے میں جھوٹ کہا ‘ لوگو سنو ! ان ظالموں پر اللہ کی پھٹکار ہے “ } ۱؎ (صحیح بخاری:2441) ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ یہ داہنے ہاتھ کے نامہ اعمال والا کہتا ہے کہ مجھے تو دنیا میں ہی یقین کامل تھا کہ یہ حساب کا دن قطعاً آنے والا ہے ‘ ، جیسے اور جگہ فرمایا «الَّذِینَ یَظُنٰونَ أَنَّہُم مٰلَاقُو رَبِّہِمْ» ۱؎ (2-البقرۃ:46) یعنی ’ انہیں یقین تھا کہ یہ اپنے رب سے ملنے والے ہیں ‘ ۔ فرمایا ’ ان کی جزا یہ ہے کہ یہ پسندیدہ اور دل خوش کن زندگی پائیں گے اور بلند و بالا بہشت میں رہیں گے ، جس کے محلات اونچے اونچے ہوں گے جن میں حوریں قبول صورت اور نیک سیرت ہوں گی جو گھر نعمتوں کے بھرپور خزانے ہوں گے اور یہ تمام نعمتیں نہ ٹلنے والی ، نہ ختم ہونے والی بلکہ کمی سے بھی محفوظ ہوں گی ‘ ۔ { ایک شیخ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا یا رسول اللہ ! کیا اونچے نیچے مرتبے والے جنتی آپس میں ایک دوسرے سے ملاقاتیں بھی کریں گے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ہاں بلند مرتبہ لوگ کم مرتبہ لوگوں کے پاس ملاقات کے لیے اتر آئیں گے اور خوب محبت و اخلاص سے سلام مصافحے اور آؤ بھگت ہو گی ہاں البتہ نیچے والے بہ سبب اپنے اعمال کی کمی کے اوپر نہ چڑھیں گے “ } ۔ ۱؎ (المیزان:3298:ضعیف) ۔ ایک اور صحیح حدیث میں ہے { جنت میں ایک سو درجے ہیں ہر دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا زمین و آسمان میں } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2790) پھر فرماتا ہے ’ اس کے پھل نیچے نیچے ہوں گے ‘ ، براء بن عازب وغیرہ فرماتے ہیں ” اس قدر جھکے ہوئے ہوں گے کہ جنتی اپنے چھپر کھٹ پر لیٹے ہی لیٹے ان میوؤں کو توڑ لیا کریں گے “ ۔ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” ہر جنتی کو اللہ کی طرف سے ایک لکھا ہوا پروانہ ملے گا جس میں لکھا ہوا ہو گا «بِسْمِ اللَّہ الرَّحْمَن الرَّحِیم ہَذَا کِتَاب مِنْ اللَّہ لِفُلَانِ بْن فُلَان أَدْخِلُوہُ جَنَّۃ عَالِیَۃ قُطُوفہَا دَانِیَۃ» یعنی اللہ رحمن و رحیم کے نام سے شروع یہ پروانہ ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے فلاں شخص کے لیے جو فلاں کا بیٹا ہے اسے بلند و بالا جھکی ہوئی شاخوں اور لدے پھندے ہوئے خوشوں والی خوشگوار جنت میں جانے دو “ } ۔ (طبرانی کبیر:6191:ضعیف) بعض روایتوں میں ہے یہ پروانہ پل صراط پر حوالے کر دیا جائے گا ۔ ۱؎ (العلل المتناہیہ لا ابن جوزی:1548:ضعیف) پھر فرمایا ’ انہیں بطور احسان اور مزید لطف و کرم کے زبانی بھی کھانے پینے کی رخصت مرحمت ہو گی اور کہا جائے گا کہ یہ تمہارے نیک اعمال کا بدلہ ہے ‘ ۔ اعمال کا بدلہ کہنا صرف بطور لطف کے ہے ورنہ صحیح حدیث میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” عمل کرتے جاؤ سیدھے اور قریب قریب رہو اور جان رکھو کہ صرف اعمال جنت میں لے جانے کے لیے کافی نہیں ۔ “ ، لوگوں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! آپ کے اعمال بھی نہیں ؟ فرمایا: ” نہ میرے ، ہاں یہ اور بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم اور اس کی رحمت شامل حال ہو “ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6467) الحاقة
20 الحاقة
21 الحاقة
22 الحاقة
23 الحاقة
24 الحاقة
25 بائیں ہاتھ اور نامہ اعمال یہاں گنہگاروں کا حال بیان ہو رہا ہے کہ جب میدان قیامت میں انہیں ان کا نامہ اعمال ان کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا یہ نہایت ہی پریشان اور پشیمان ہوں گے اور حسرت و افسوس سے کہیں گے کاش کہ ہمیں عمل نامہ ملتا ہی نہ اور کاش کہ ہم اپنے حساب کی اس کیفیت سے آگاہ ہی نہ ہوتے کاش کہ موت نے ہمارا کام ختم کر دیا ہوتا اور یہ دوسری زندگی سرے سے ہمیں ملتی ہی نہ ، جس موت سے دنیا میں بہت ہی گھبراتے تھے آج اس کی آرزوئیں کریں گے ۔ یہ کہیں گے کہ ہمارے مال و جاہ نے بھی آج ہمارا ساتھ چھوڑ دیا اور ہماری ان چیزوں نے بھی عذاب ہم سے نہ ہٹائے ، تنہا ہماری ذات پر یہ وبال آ پڑے نہ کوئی مددگار ہمیں نظر آتا ہے نہ بچاؤ کی کوئی صورت دکھائی دیتی ہے ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرشتوں کو حکم دے گا کہ ’ اسے پکڑ لو اور اس کے گلے میں طوق ڈالو اور اسے جہنم میں لے جاؤ اور اس میں پھینک دو ۔ ‘ منہال بن عمرو رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے اس فرمان کو سنتے ہی کہ اسے پکڑو ، ستر ہزار فرشتے اس کی طرف لپکیں گے جن میں سے اگر فرشتے بھی اس طرح اللہ تعالیٰ حکم کرے تو ایک چھوڑ ستر ہزار لوگوں کو پکڑ کر جہنم میں پھینک دے ۔ ابن ابی الدنیا میں ہے کہ چار لاکھ فرشتے اس کی طرف دوڑیں گے اور کوئی چیز باقی نہ رہے گی مگر اسے توڑ پھوڑ دیں گے یہ کہے گا تمہیں مجھ سے تعلق ؟ وہ کہیں گے اللہ تعالیٰ تجھ پر غضبناک ہے اور اس وجہ سے ہر چیز تجھ پر غصے میں ہے ۔ فضیل بن عیاض رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ عزوجل کے اس فرمان کے سرزد ہوتے ہی ستر ہزار فرشتے اس کی طرف غصے سے دوڑیں گے جن میں سے ہر ایک دوسرے پر سبقت کر کے چاہے گا کہ اسے میں طوق پہناؤں ، پھر اسے جہنم کی آگ میں غوطہٰ دینے کا حکم ہو گا ، پھر ان زنجیروں میں جکڑا جائے گا جن کا ایک ایک حلقہ بقول کعب احبار رضی اللہ عنہ کے دنیا بھر کے لوہے کے برابر ہو گا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ ناپ فرشتوں کے ہاتھ کا ہے ۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے کہ یہ زنجیریں اس کے جسم میں پرو دی جائیں گی پاخانے کے راستے سے ڈال دی جائیں گی اور منہ سے نکالی جائیں گی اور اس طرح آگ میں بھونا جائے گا جیسے سیخ میں کباب اور تیل میں ٹڈی ۔ یہ بھی مروی ہے کہ پیچھے سے یہ زنجیریں ڈالی جائیں گی اور ناک کے دونوں نتھنوں سے نکالی جائیں گی ۔ جس سے کہ وہ پیروں کے بل کھڑا ہی نہ ہو سکے گا ۔ مسند احمد کی مرفوع حدیث میں ہے کہ { اگر کوئی بڑا سا پتھر آسمان سے پھینکا جائے تو زمین پر وہ ایک رات میں آ جائے لیکن اگر اس کو جہنمیوں کے باندھنے کی زنجیر کے سرے پر سے چھوڑا جائے تو دوسرے سرے تک پہنچے میں چالیس سال لگ جائیں ۔ } یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے اور امام ترمذی رحمہ اللہ اسے حسن بتاتے ہیں ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2588،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) پھر فرمایا کہ ’ یہ اللہ عظیم پر ایمان نہ رکھتا تھا نہ مسکین کو کھانا کھلا دینے کی رغبت دیتا تھا ۔ ‘ یعنی نہ تو اللہ کی عبادت و اطاعت کرتا تھا نہ اللہ کی مخلوق کے حق ادا کر کے اسے نفع پہنچاتا تھا ۔ اللہ کا حق یہ ہے کہ ایک دوسرے سے احسان و سلوک کریں اور بھلے کاموں میں آپس میں امداد پہنچاتے رہیں ، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان دونوں حقوق کو عموماً ایک ساتھ بیان فرمایا ہے جیسے نماز پڑھو اور زکوٰۃ دو ۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انتقال کے وقت میں ان دونوں کو ایک ساتھ بیان فرمایا کہ { نماز کی حفاظت کرو اور اپنے ماتحتوں کے ساتھ نیک سلوک کرو ۔ } ۱؎ (سنن ابوداود:5156،قال الشیخ الألبانی:صحیح) پھر فرمان ہوتا ہے کہ ’ یہاں پر آج کے دن اس کا کوئی خالص دوست ایسا نہیں نہ کوئی قریبی رشتہ دار یا سفارشی ایسا ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ کے عذابوں سے بچا سکے ، اور نہ اس کے لیے کوئی غذا ہے سوائے بدترین سڑی بسی بے کار چیز کے جس کا نام «غِسْلِیْنٍ» ہے ‘ ۔ یہ جہنم کا ایک درخت ہے اور ممکن ہے کہ اسی کا دوسرا نام «زقوم» ہو ، اور «غِسْلِیْنٍ» کے یہ معنی بھی کئے گئے ہیں کہ جہنمیوں کے بدن سے جو خون اور پانی بہتا ہے وہ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کی پیپ وغیرہ ۔ الحاقة
26 الحاقة
27 الحاقة
28 الحاقة
29 الحاقة
30 الحاقة
31 الحاقة
32 الحاقة
33 الحاقة
34 الحاقة
35 الحاقة
36 الحاقة
37 الحاقة
38 ظاہر و باطن آیات الٰہی اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں سے اپنی ان نشانیوں کی قسم کھا رہا ہے جنہیں لوگ دیکھ رہے ہیں اور ان کی بھی جو لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ ہیں ، اس بات پر کہ قرآن کریم اس کا کلام اور اس کی وحی ہے جو اس نے اپنے بندے اور اپنے برگزیدہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اتاری ہے ، جسے اس نے ادائے امانت اور تبلیغ رسالت کے لیے پسند فرما لیا ہے ۔ رسول اللہ سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ، اس کی اضافت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اس لیے کئی گئی کہ اس کے مبلغ اور پہنچانے والے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں ۔ اسی لیے لفظ رسول لائے کیونکہ رسول تو پیغام اپنے بھیجنے والے کا پہنچاتا ہے گو زبان اس کی ہوتی ہے لیکن کہا ہوا بھیجنے والے کا ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ سورۃ التکویر میں اس کی نسبت اس رسول کی طرف کی گئی ہے جو فرشتوں میں سے ہیں فرمان ہے «إِنَّہُ لَقَوْلُ رَسُولٍ کَرِیمٍ ذِی قُوَّۃٍ عِندَ ذِی الْعَرْشِ مَکِینٍ مٰطَاعٍ ثَمَّ أَمِینٍ وَمَا صَاحِبُکُم بِمَجْنُونٍ وَلَقَدْ رَآہُ بِالْأُفُقِ الْمُبِینِ وَمَا ہُوَ عَلَی الْغَیْبِ بِضَنِینٍ وَمَا ہُوَ بِقَوْلِ شَیْطَانٍ رَّجِیمٍ» (81-التکویر:19-25) ، یعنی ’ یہ قول اس بزرگ رسول کا ہے جو قوت والا اور مالک عرش کے پاس رہنے والا ہے وہاں اس کا کہنا مانا جاتا ہے اور ہے بھی وہ امانت دار۔ ‘ ، اس سے مراد جبرائیل علیہ السلام ہیں ، اسی لیے اس کے بعد فرمایا ’ تمہارے ساتھی یعنی محمد [ صلی اللہ علیہ وسلم ] مجنون نہیں بلکہ آپ نے جبرائیل کو ان کی اصلی صورت میں صاف کناروں پر دیکھا بھی ہے اور وہ پوشیدہ علم پر بخیل بھی نہیں ، نہ یہ شیطان رجیم کا قول ہے ۔ ‘ اسی طرح یہاں بھی ارشاد ہوتا ہے کہ ’ نہ تو یہ شاعر کا کلام ہے ، نہ کاہن کا قول ہے البتہ تمہارے ایمان میں اور نصیحت حاصل کرنے میں کمی ہے ۔ ‘ پس کبھی تو اپنے کلام کی نسبت رسول انسی کی طرف کی اور کبھی رسول ملکی کی طرف ، اس لیے کہ یہ اس کے پہنچانے والے لانے والے اور اس پر امین ہیں ، ہاں دراصل کلام کس کا ہے ؟ اسے بھی ساتھ ہی ساتھ بیان فرما دیا کہ ’ یہ اتارا ہوا رب العالمین کا ہے ۔ ‘ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اپنے اسلام لانے سے پہلے کا اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ” میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا دیکھا کہ آپ مسجد حرم میں پہنچ گئے ہیں ، میں بھی گیا اور آپ کے پیچھے کھڑا ہو گیا آپ نے سورۃ الحاقہ شروع کی جسے سن کر مجھے اس کی پیاری نشست الفاظ اور بندش مضامین اور فصاحت و بلاغت پر تعجب آنے لگا آخر میں میرے دل میں خیال آیا کہ قریش ٹھیک کہتے ہیں یہ شخص شاعر ہے ابھی میں اسی خیال میں تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیتیں تلاوت کیں کہ ’ یہ قول رسول اللہ کا ہے ، شاعر کا نہیں ، تم میں ایمان ہی کم ہے ‘ تو میں نے کہا اچھا شاعر نہ سہی ، کاہن تو ضرور ہے ، ادھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاوت میں یہ آیت آئی کہ ’ یہ کاہن کا قول بھی نہیں تم نے نصیحت ہی کم لی ہے ‘ ، اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھتے چلے گئے یہاں تک کہ پوری سورت ختم کی ۔ فرماتے ہیں یہ پہلا موقعہ تھا کہ میرے دل میں اسلام پوری طرح گھر کر گیا اور روئیں روئیں میں اسلام کی سچائی گھس گئی “ ۔ ۱؎ (سلسلۃ احادیث ضعیفہ البانی:6531) پس یہ بھی منجملہ ان اسباب کے جو عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام کا باعث ہوئے ایک خاص سبب ہے ، ہم نے آپ کے اسلام لانے کی پوری کیفیت سیرت عمر میں لکھ دی ہے ۔ «وَلِلہِ الْحَمْد وَالْمِنَّۃ» الحاقة
39 الحاقة
40 الحاقة
41 الحاقة
42 الحاقة
43 الحاقة
44 ہدایت اور شفا قرآن حکیم یہاں فرمان باری ہے کہ ’ جس طرح تم کہتے ہو اگر فی الواقع ہمارے یہ رسول ایسے ہی ہوتے کہ ہماری رسالت میں کچھ کمی بیشی کر ڈالتے یا ہماری نہ کہی ہوئی بات ہمارے نام سے بیان کر دیتے تو یقیناً اسی وقت ہم انہیں بدترین سزا دیتے ۔ ‘ یعنی ’ اپنے دائیں ہاتھ سے اس کا دائیاں ہاتھ تھام کر اس کی وہ رگ کاٹ ڈالتے جس پر دل معلق ہے اور کوئی ہمارے اس کے درمیان بھی نہ آ سکتا کہ اسے بچانے کی کوشش کرے ۔ ‘ پس مطلب یہ ہوا کہ حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سچے پاک باز رشد و ہدایت والے ہیں اسی لیے اللہ نے زبردست تبلیغی خدمت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سونپ رکھی ہے اور اپنی طرف سے بہت سے زبردست معجزے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صدق کی بہترین بڑی بڑی نشانیاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عنایت فرما رکھی ہیں ۔ پھر فرمایا یہ قرآن متقیوں کے لیے تذکرہ ہے ، جیسے اور جگہ ہے «قُلْ ہُوَ لِلَّذِینَ آمَنُوا ہُدًی وَشِفَاءٌ وَالَّذِینَ لَا یُؤْمِنُونَ فِی آذَانِہِمْ وَقْرٌ وَہُوَ عَلَیْہِمْ عَمًی» ۱؎ (41-فصلت:44) یعنی ’ کہہ دو یہ قرآن ایمانداروں کے لیے ہدایت اور شفاء ہے اور بے ایمان تو اندھے بہرے ہیں ہی ۔ ‘ پھر فرمایا باوجود اس صفائی اور کھلے حق کے ہمیں بخوبی معلوم ہے کہ تم میں سے بعض اسے جھوٹا بتلاتے ہیں ، یہ تکذیب ان لوگوں کے لیے قیامت کے دن باعث حسرت و افسوس ہو گی ، یا یہ مطلب کہ یہ قرآن اور اس پر ایمان حقیقتاً کفار پر حسرت کا باعث ہو گا ، جیسے اور جگہ ہے «کَذٰلِکَ سَلَکْنَاہُ فِی قُلُوبِ الْمُجْرِمِینَ لَا یُؤْمِنُونَ بِہِ حَتَّیٰ یَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِیمَ» ۱؎ (26-الشعراء:200،201) ’ اسی طرح ہم نے گناہگاروں کے دلوں میں اس انکار کو داخل کر دیا ہے وہ جب تک درد ناک عذابوں کو ملاحظہ نہ کر لیں ایمان نہ لائیں گے ۔‘ اور جگہ ہے «وَحِیلَ بَیْنَہُمْ وَبَیْنَ مَا یَشْتَہُونَ» ۱؎ (34-سبأ:54) ’ ان میں اور ان کی خواہش میں حجاب ڈال دیا گیا ہے ۔ ‘ پھر فرمایا ’ یہ خبر بالکل سچ حق اور بیشک و شبہ ہے ۔ ‘ پھر اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ ’ اس قرآن کے نازل کرنے والے رب عظیم کے نام کی بزرگی اور پاکیزگی بیان کرتے رہو ۔‘ اللہ کے فضل سے سورۃ الحاقہ کی تفسیر ختم ہوئی ۔ الحاقة
45 الحاقة
46 الحاقة
47 الحاقة
48 الحاقة
49 الحاقة
50 الحاقة
51 الحاقة
52 الحاقة
0 المعارج
1 کافروں کا عذاب الٰہی طلب کرنا «بِعَذَابٍ» میں جو «ب» ہے وہ بتا رہا ہے کہ یہاں فعل کی تضمین ہے گویا کہ فعل مقدر ہے یعنی یہ کافر عذاب کے واقع ہونے کی طلب میں جلدی کر رہے ہیں ، جیسے اور جگہ ہے «‏‏‏‏وَیَسْتَعْجِلُوْنَکَ بالْعَذَابِ وَلَنْ یٰخْلِفَ اللّٰہُ وَعْدَہٗ وَاِنَّ یَوْمًا عِنْدَ رَبِّکَ کَاَلْفِ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدٰوْنَ» ‏‏‏‏۱؎ (22-الحج:47) یعنی ’ یہ عذاب مانگنے میں عجلت کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہرگز وعدہ خلافی نہیں کرتا ‘ ، یعنی اس کا عذاب یقیناً اپنے وقت مقررہ پر آ کر ہی رہے گا ۔ نسائی میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے وارد ہے کہ ” کافروں نے اللہ کا عذاب مانگا جو ان پر یقیناً آنے والا ہے “ ، یعنی آخرت میں ۔ ان کی اس طلب کے الفاظ بھی دوسری جگہ قرآن میں منقول ہیں کہتے ہیں «اللّٰہُمَّ اِنْ کَانَ ہٰذَا ہُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِکَ فَاَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَۃً مِّنَ السَّمَاءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ» ‏‏‏‏۱؎ (8-الإنفال:32) یعنی ’ الٰہی اگر یہ تیرے پاس سے حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا یا ہمارے پاس کوئی درد ناک عذاب لا ‘ ۔ ابن جریر رحمہ اللہ وغیرہ کہتے ہیں کہ ” اس سے مراد وہ عذاب کی وادی ہے جو قیامت کے دن عذابوں سے بہہ نکلے گی “ ، لیکن یہ قول ضعیف ہے اور مطلب سے بہت دور ہے صحیح قول پہلا ہی ہے جس پر روش کلام کی دلالت ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ وہ عذاب کافروں کے لیے تیار ہے اور ان پر آ پڑنے والا ہے جب آ جائے گا تو اسے دور کرنے والا نہیں اور نہ کسی میں اتنی طاقت ہے کہ اسے ہٹا سکے ‘ ۔ معارج سے مراد «‏‏‏‏مِّنَ اللّٰہِ ذِی الْمَعَارِجِ» ۱؎ (70-المعارج:3) کے معنی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی تفسیر کے مطابق ” درجوں والا ہے “ ، یعنی بلندیوں اور بزرگیوں والا اور مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” مراد معارج سے آسمان کی سیڑھیاں ہیں “ ، قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں ” فضل و کرم اور نعمت و رحم والا “ ، یعنی یہ عذاب اس اللہ کی طرف سے ہے جو ان صفتوں والا ہے ، اس کی طرف فرشتے اور روح چڑھتے ہیں ۔ روح کی تفسیر میں ابوصالح رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ قسم کی مخلوق ہے انسان تو نہیں لیکن انسانوں سے بالکل مشابہ ہے ، میں کہتا ہوں ممکن ہے اس سے مراد جبرائیل علیہ السلام ہوں اور یہ عطف ہو عام پر خاص کا ، اور ممکن ہے کہ اس سے مراد بنی آدم کی روحیں ہوں ، اس لیے کہ وہ بھی قبض ہونے کے بعد آسمانوں کی طرف چڑھتی ہیں ، جیسے کہ سیدنا براء رضی اللہ عنہ والی لمبی حدیث میں ہے کہ { جب فرشتے پاک روح نکالتے ہیں تو اسے لے کر ایک آسمان سے دوسرے پر چڑھتے جاتے ہیں یہاں تک کہ ساتویں آسمان پر پہنچتے ہیں } ، گو اس کے بعض راویوں میں کلام ہے لیکن یہ حدیث مشہور ہے اور اس کی شہادت میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث بھی ہے جیسے کہ پہلے بروایت امام احمد ، ترمذی اور ابن ماجہ گزر چکی ہے جس کی سند کے راوی ایک جماعت کی شرط پر ہیں ، پہلی حدیث بھی مسند احمد ، ابوداؤد ، و نسائی اور ابن ماجہ میں ہے ، ہم نے اس کے الفاظ اور اس کے طرق کا بسیط بیان آیت «‏‏‏‏یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیٰوۃِ الدٰنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ وَیُضِلٰ اللّٰہُ الظّٰلِمِیْن وَیَفْعَلُ اللّٰہُ مَا یَشَاءُ» ۱؎ (14-ابراھیم:27) کی تفسیر میں کر دیا ہے ۔ روز قیامت کتنا بڑا ہے پھر فرمایا ’ اس دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہے ‘ ، اس میں چار قول ہیں ایک تو یہ کہ ” اس سے مراد وہ دوری ہے جو «أَسْفَلَ سَافِلِینَ» سے عرش معلی تک ہے اور اسی طرح عرش کے نیچے سے اوپر تک کا فاصلہ بھی اتنا ہی ہے اور عرش معلی سرخ یاقوت کا ہے “ ، جیسے کہ امام ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ” صفتہ العرش “ میں ذکر کیا ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ” اس کے حکم کی انتہاء نیچے کی زمین سے آسمانوں کے اوپر تک کی پچاس ہزار سال کی ہے اور ایک دن ایک ہزار سال کا ہے یعنی آسمان سے زمین تک اور زمین سے آسمان تک ایک دن میں جو ایک ہزار سال کے برابر ہے ، اس لیے کہ آسمان و زمین کا فاصلہ پانچ سو سال کا ہے “ ۔ یہی روایت دوسرے طریق سے مجاہد رحمہ اللہ کے قول سے مروی ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے قول سے نہیں ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ابن ابی حاتم میں روایت ہے کہ ” ہر زمین کی موٹائی پانچ سو سال کے فاصلہ کی ہے اور ایک زمین سے دوسری زمین تک پانچ سو سال کی دوری ہے تو سات ہزار سال یہ ہو گئے ، اسی طرح آسمان ، تو چودہ ہزار سال یہ ہوئی اور ساتویں آسمان سے عرش عظیم تک چھتیس ہزار سال کا فاصلہ ہے ، یہی معنی ہیں اللہ کے اس فرمان کے کہ ’ اس دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کے برابر ہے ‘ ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ ” مراد اس سے یہ ہے کہ جب سے اللہ تعالیٰ نے اس عالم کو پیدا کیا ہے تب سے لے کر قیامت تک کہ اس کی بقاء کی آخر تک مدت پچاس ہزار سال کی ہے “ ، چنانچہ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” دنیا کی کل عمر پچاس ہزار سال کی ہے ، اور یہی ایک دن ہے جو اس آیت میں مراد لیا گیا ہے “ ۔ عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” دنیا کی پوری مدت یہی ہے لیکن کسی کو معلوم نہیں کہ کس قدر گزر گئی اور کتنی باقی ہے سوائے اللہ تبارک و تعالیٰ کے “ ـ تیسرا قول یہ ہے کہ ” یہ دن وہ ہے جو دنیا اور آخرت میں فاصلے کا ہے “ ، سیدنا محمد بن کعب رضی اللہ عنہ یہی فرماتے ہیں لیکن یہ قول بہت ہی غریب ہے ۔ چوتھا قول یہ ہے کہ ” اس سے مراد قیامت کا دن ہے “ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ بہ سند صحیح مروی ہے ، عکرمہ رحمہ اللہ بھی یہی فرماتے ہیں ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ ” قیامت کے دن کو اللہ تعالیٰ کافروں پر پچاس ہزار سال کا کر دے گا “ ۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا یہ دن تو بہت ہی بڑا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یہ مومن پر اس قدر ہلکا ہو جائے گا کہ دنیا کی ایک فرض نماز کی ادائیگی میں جتنا وقت لگتا ہے اس سے بھی کم ہو گا “ } ، یہ حدیث ابن جریر میں بھی ہے اس کے دو راوی ضعیف ہیں ۔ ۱؎ (مسند احمد:75/3:ضعیف) «وَاللہُ اَعْلَمُ» بے زکوۃ جانور قیامت کے دن وبال جان مسند کی ایک اور حدیث میں ہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس سے قبیلہ بنو عامر کا ایک شخص گزرا لوگوں نے کہا حضرت یہ اپنے قبیلے میں سب سے بڑا مالدار ہے آپ نے اسے بلوایا اور فرمایا ” کیا واقع میں تم سب سے زیادہ مالدار ہو ؟ “ ، اس نے کہا : ہاں ، میرے پاس رنگ برنگ سینکڑوں اونٹ ، قسم قسم کے غلام ، اعلیٰ اعلیٰ درجہ کے گھوڑے وغیرہ ہیں ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : دیکھو خبردار ایسا نہ ہو کہ یہ جانور اپنے پاؤں سے تمہیں روندیں اور اپنے سینگوں سے تمہیں ماریں ، باربار یہی فرماتے رہے یہاں تک کہ عامری کے چرے کا رنگ اڑ گیا اور اس نے کہا حضرت یہ کیوں ؟ آپ نے فرمایا سنو! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جو اپنے اونٹوں کا حق ادا نہ کرے ان کی سختی میں اور ان کی آسانی میں اسے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ایک چٹیل لمبے چوڑے صاف میدان میں چت لٹائے گا اور ان تمام جانوروں کو خوب موٹا تازہ کر کے حکم دے گا کہ اسے روندتے ہوئے چلو چنانچہ ایک ایک کر کے اسے کچلتے ہوئے گزریں گے جب آخر والا گزر جائے گا تو اول والا لوٹ کر آ جائے گا یہی عذاب اسے ہوتا رہے گا اس دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہے یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے پھر وہ اپنا راستہ دیکھ لے گا ، اسی طرح گائے گھوڑے بکری وغیرہ یہی سینگ دار جانور اپنے سینگوں سے بھی اسے مارتے جائیں گے کوئی ان میں بےسینگ کا یا ٹوٹے ہوئے سینگ والا نہ ہو گا ۔ عامری نے پوچھا : اے ابوہریرہ فرمایئے اونٹوں میں اللہ کا حق کیا ہے ؟ فرمایا : ” مسکنیوں کو سواری کے لیے تحفتًہ دینا غرباء کے ساتھ سلوک کرنا دودھ پینے کے لیے جانور دینا ، ان کے نروں کی ضرورت جنہیں مادہ کے لیے ہو ، انہیں مانگا ہوا بے قیمت دینا “ ، یہ حدیث ابوداؤد اور نسائی میں بھی دسرے سند سے مذکور ہے ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:1660،قال الشیخ الألبانی:حسن لغیرہ) زکوۃ کے بغیر مال کی سزا مسند کی ایک حدیث میں ہے کہ { جو سونے چاندی کے خزانے والا اس کا حق ادا نہ کرے اس کا سونا چاندی کی تختیوں کی صورت میں بنایا جائے گا اور جہنم کی آگ میں تپا کر اس کی پیشانی ، کروٹ اور پیٹھ داغی جائے گی یہاں تک کہ اللہ اپنے بندوں کے فیصلے کر لے اس دن میں جس کی مقدار تمہاری گنتی سے پچاس ہزار سال کی ہو گی پھر وہ اپنا راستہ جنت کی طرف یا جہنم کی طرف دیکھ لے گا } ۔ پھر آگے بکریوں اور اونٹوں کا بیان ہے جیسے اوپر گزرا ، اور یہ بھی بیان ہے کہ { گھوڑے تین قسم کے لوگوں کے لیے ہیں ، ایک تو اجر دلانے والے ، دوسری قسم کے پردہ پوشی کرنے والے ، تیسری قسم کے بوجھ ڈھونے والے } ۔ یہ حدیث پوری پوری صحیح مسلم شریف میں بھی ہے ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:987) ان روایتوں کے پورا بیان کرنے کی اور ان کی سندوں اور الفاظ کے تمام تر نقل کرنے کی مناسب جگہ احکام کی کتاب الزکوٰۃ ہے ، یہاں ان کے وارد کرنے سے ہماری غرض صرف ان الفاظ سے ہے کہ یہاں تک کہ اللہ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کرے گا ، اس دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہے ۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا سے ایک شخص پوچھتا ہے کہ وہ دن کیا ہے ، جس کی مقدار ایک ہزار سال کی ہے ؟ آپ فرماتے ہیں ” اور وہ دن کیا ہے جو پچاس ہزار سال کا ہے ؟ “ اس نے کہا حضرت میں تو خود دریافت کرنے آیا ہوں ؟ آپ نے فرمایا ” سنو ! یہ دو دن ہیں جن کا ذکر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی کتاب میں کیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہی کو ان کی حقیقت کا بخوبی علم ہے میں تو باوجود نہ جاننے کے کتاب اللہ میں کچھ کہنا مکروہ جانتا ہوں “ ۔ پھر فرماتا ہے ’ اے نبی ! تم اپنی قوم کو جھٹلانے پر اور عذاب کے مانگنے کی جلدی پر جسے وہ اپنے نزدیک نہ آنے والا جانتے ہیں صبر و تحمل کرو ‘ ۔ جیسے اور جگہ ہے «‏‏‏‏یَسْتَعْجِلُ بِہَا الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِہَا وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مُشْفِقُوْنَ مِنْہَا وَیَعْلَمُوْنَ اَنَّہَا الْحَقٰ اَلَآ اِنَّ الَّذِیْنَ یُمَارُوْنَ فِی السَّاعَۃِ لَفِیْ ضَلٰلٍ بَعِیْدٍ» ۱؎ (42-الشوری:18) ، یعنی ’ بے ایمان تو قیامت کے جلد آنے کی تمنائیں کرتے ہیں اور ایماندار اس کے آنے کو حق جان کر اس سے ڈر رہے ہیں ‘ ۔ اسی لیے یہاں بھی فرمایا کہ ’ یہ تو اسے دور جان رہے ہیں بلکہ محال اور واقع نہ ہونے والا مانتے ہیں لیکن ہم اسے قریب ہی دیکھ رہے ہیں ‘ ، یعنی مومن تو اس کا آنا حق جانتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اب آیا ہی چاہتی ہے ، نہ جانے کب قیامت قائم ہو جائے اور کب عذاب آ پڑیں ، کیونکہ اس کے صحیح وقت کو تو سوائے اللہ کے اور کوئی جانتا ہی نہیں ، پس ہر وہ چیز جس کے آنے اور ہونے میں کوئی شک نہ ہو اس کا آنا قریب ہی سمجھا جاتا ہے اور اس کے ہو پڑنے کا ہر وقت کھٹکا ہی رہتا ہے ۔ المعارج
2 المعارج
3 المعارج
4 المعارج
5 المعارج
6 المعارج
7 المعارج
8 عذاب کے طالب عذاب دیئے جائیں گے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’ جس عذاب کو یہ طلب کر رہے ہیں وہ عذاب ان طلب کرنے والے کافروں پر اس دن آئے گا جس دن آسمان مثل «مُہْلِ» کے ہو جائے ‘ ، یعنی زیتون کی تلچھٹ جیسا ہو جائے ، ’ اور پہاڑ ایسے ہو جائیں جیسے دھنی ہوئی اون ‘ ، یہی فرمان اور جگہ ہے «‏‏‏‏وَتَکُونُ الْجِبَالُ کَالْعِہْنِ الْمَنفُوشِ» ۱؎ (101-القارعۃ:5) ۔ پھر فرماتا ہے ’ کوئی قریبی رشتہ دار کسی اپنے قریبی رشتہ دار سے پوچھ گچھ بھی نہ کرے گا حالانکہ ایک دوسرے کو بری حالت میں دیکھ رہے ہوں گے لیکن خود ایسے مشغول ہوں گے کہ دوسرے کا حال پوچھنے کا بھی ہوش نہیں ، سب آپا دھاپی میں پڑے ہیں ‘ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ” ایک دوسرے کو دیکھے گا پہچانے لگا لیکن پھر بھاگ کھڑا ہو گا “ ، جیسے اور جگہ ہے «لِکُلِّ امْرِئٍ مِّنْہُمْ یَوْمَئِذٍ شَأْنٌ یُغْنِیہِ» (80-عبس:37) یعنی ’ ہر ایک ایسے مشغلے میں لگا ہوا ہو گا جو دوسرے کی طرف متوجہ ہونے کا موقعہ ہی نہ دے گا ‘ ۔ ایک اور جگہ فرمان ہے «یَا أَیٰہَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّکُمْ وَاخْشَوْا یَوْمًا لَّا یَجْزِی وَالِدٌ عَن وَلَدِہِ وَلَا مَوْلُودٌ ہُوَ جَازٍ عَن وَالِدِہِ شَیْئًا إِنَّ وَعْدَ اللہِ حَقٌّ» ۱؎ (31-لقمان:33) ’ لوگو اپنے رب سے ڈرو اور اس دن کا خوف کرو جس دن باپ اپنی اولاد کے اور اولاد اپنے باپ کے کچھ کام نہ آئے گا ‘ ۔ اور جگہ ارشاد ہے «وَإِن تَدْعُ مُثْقَلَۃٌ إِلَیٰ حِمْلِہَا لَا یُحْمَلْ مِنْہُ شَیْءٌ وَلَوْ کَانَ ذَا قُرْبَیٰ» ۱؎ (35-فاطر:18) ’ کوئی کسی کا بوجھ نہ بٹائے گا ، گو قرابت دار ہوں ‘ ۔ اور جگہ فرمان ہے «فَاِذَا نُفِخَ فِی الصٰوْرِ فَلَآ اَنْسَابَ بَیْنَہُمْ یَوْمَیِٕذٍ وَّلَا یَتَسَاءَلُوْنَ» ۱؎ (23-المؤمنون:101) یعنی ’ صور پھونکتے ہی سب آپس کے رشتے ناتے اور پوچھ گچھ ختم ہو جائے گی ‘ ۔ اور جگہ فرمان ہے «یَوْمَ یَفِرٰ الْمَرْءُ مِنْ أَخِیہِ وَأُمِّہِ وَأَبِیہِ وَصَاحِبَتِہِ وَبَنِیہِ لِکُلِّ امْرِئٍ مِّنْہُمْ یَوْمَئِذٍ شَأْنٌ یُغْنِیہِ» ‏‏‏‏۱؎ (80- عبس:34-37) یعنی ’ اس دن انسان اپنے بھائی ، ماں ، باپ ، بیوی اور فرزند سے بھاگتا پھرے گا ‘ ۔ ہر شخص اپنی پریشانیوں کی وجہ سے دوسرے سے غافل ہو گا ، یہ وہ دن ہو گا کہ اس دن ہر گنہگار دل سے چاہے گا کہ اپنی اولاد کو اپنے فدیہ میں دے کر جہنم کے آج کے عذاب سے چھوٹ جائے اور اپنی بیوی ، بھائی ، اپنے رشتے کنبے ، اپنے خاندان اور قبیلے کو بلکہ چاہے گا کہ تمام روئے زمین کے لوگوں کو جہنم میں ڈال دیا جائے لیکن اسے آزاد کر دیا جائے ۔ آہ ! کیا ہی دل گداز منظر ہے کہ انسان اپنے کلیجے کے ٹکڑوں کو ، اپنی شاخوں ، اپنی جڑوں سب کو آج فدا کرنے پر تیار ہے تاکہ خود بچ جائے ۔ «فَصِیلَتِہِ» کے معنی ماں کے بھی کئے گئے ہیں ، غرض تمام تر محبوب ہستیوں کو اپنی طرف سے بھینٹ میں دینے پر دل سے رضامند ہو گا ، لیکن کوئی چیز کام نہ آئے گی کوئی بدلہ اور فدیہ نہ کھپے گا ، کوئی عوض اور معاوضہ قبول نہ کیا جائے گا بلکہ اس آگ کے عذاب میں ڈالا جائے گا جو اونچے اونچے اور تیز تیز شعلے پھینکنے والی اور سخت بھڑکنے والی ہے ، جو سر کی کھال تک جھلسا کر کھینچ لاتی ہے ، بدن کی کھال دور کر دیتی ہے اور کھوپڑی پلپلی کر دیتی ہے ، ہڈیوں کو گوشت سے الگ کر دیتی ہے ، رگ پٹھے کھنچنے لگتے ہیں ، ہاتھ پاؤں اینٹھنے لگتے ہیں ، پنڈلیاں کٹی جاتی ہیں ، چہرہ بگڑ جاتا ہے ، ہر ایک عضو بدل جاتا ہے ، چیخ پکار کرتا رہتا ہے ، ہڈیوں کا چورا کرتی رہتی ہے ، کھالیں جلائی جاتی ہے ۔ یہ آگ اپنی فصیح زبان اور اونچی آواز سے اپنے والوں کو جنہوں نے دنیا میں بدکاریاں اور اللہ کی نافرمانیاں کی تھیں پکارتی ہے پھر جس طرح پرند جانور دانہ چگتا ہے اسی طرح میدان محشر میں سے ایسے بدلوگوں کو ایک ایک کر کے دیکھ بھال کر چن لیتی ہے ، اب ان کی بداعمالیاں بیان ہو رہی ہیں کہ یہ دل سے جھٹلانے والے اور بدن سے عمل چھوڑ دینے والے تھے ، یہ مال کو جمع کرنے والے اور سربند کر کے رکھ چھوڑنے والے تھے ، اللہ تعالیٰ کے ضروری احکام میں بھی مال خرچ کرنے سے بھاگتے تھے بلکہ زکوٰۃ تک ادا نہ کرتے تھے ۔ حدیث شریف میں ہے { سمیٹ سمیٹ کر سینت سینت کر نہ رکھ ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تجھ سے روک لے گا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1434) عبداللہ بن حکیم رحمہ اللہ تو اس آیت پر عمل کرتے ہوئے کبھی تھیلی کا منہ ہی نہ باندھتے تھے ۔ امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” اے ابن آدم اللہ تعالیٰ کی وعید سن رہا ہے پھر مال سمیٹتا جا رہا ہے ؟ “ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” مال کو جمع کرنے میں حلال حرام کا پاس نہ رکھتا تھا اور فرمان اللہ ہوتے ہوئے بھی خرچ کی ہمت نہیں کرتا تھا “ ۔ المعارج
9 المعارج
10 المعارج
11 المعارج
12 المعارج
13 المعارج
14 المعارج
15 المعارج
16 المعارج
17 المعارج
18 المعارج
19 انسان بےصبرا، بخیل اور کنجوس بھی ہے یہاں انسانی جبلت کی کمزوری بیان ہو رہی ہے کہ ’ یہ بڑا ہی بے صبرا ہے ‘ ، مصیبت کے وقت تو مارے گھبراہٹ اور پریشانی کے باؤلا سا ہو جاتا ہے ، گویا دل اڑ گیا اور گویا اب کوئی آس باقی نہیں رہی ، اور راحت کے وقت بخیل کنجوس بن جاتا ہے اللہ تعالیٰ کا حق بھی ڈکار جاتا ہے ۔ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ” بدترین چیز انسان میں بے حد بخیلی اور اعلیٰ درجہ کی نامردی ہے “ ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2511،قال الشیخ الألبانی:صحیح) پھر فرمایا کہ ’ ہاں اس مذموم خصلت سے وہ لوگ دور ہیں جن پر خاص فضل الٰہی ہے اور جنہیں توفیق خیر ازل سے مل چکی ہے ، جن کی صفتیں یہ ہیں کہ وہ پورے نمازی ہیں ، وقتوں کی نگہبانی کرنے ، واجبات نماز کو اچھی طرح بجا لانے ، سکون اطمینان اور خشوع خضوع سے پابندی کے ساتھ نماز ادا کرنے والے ‘ ۔ جیسے فرمایا «‏‏‏‏قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ الَّذِینَ ہُمْ فِی صَلَاتِہِمْ خَاشِعُونَ» ۱؎ (23-المؤمنون:2-1) ، ’ ان ایمان داروں نے نجات پا لی جو اپنی نماز خوف اللہ سے ادا کرتے ہیں ‘ ۔ ٹھہرے ہوئے بے حرکت کے پانی کو بھی عرب «الْمَاءُ الدَّائِمُ» کہتے ہیں اس سے ثابت ہوا کہ نماز میں اطمینان واجب ہے ، جو شخص اپنے رکوع سجدے پوری طرح ٹھہر کر بااطمینان ادا نہیں کرتا وہ اپنی نماز پر دائم نہیں کیونکہ نہ وہ سکون کرتا ہے ، نہ اطمینان بلکہ کوئے کی طرح ٹھونگیں مار لیتا ہے اس کی نماز اسے نجات نہیں دلوائے گی ، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد ہر نیک عمل پر مداوت اور ہمیشگی کرنا ہے ۔ جیسے کہ نبی علیہ صلوات اللہ کا فرمان ہے کہ { اللہ کو سب سے زیادہ پسند وہ عمل ہے جس پر مداوت کی جائے گو کم ہو } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6464) خود حضور علیہ السلام کی عادت مبارک بھی یہی تھی کہ جس کام کو کرتے اس پر ہمیشگی کرتے ۔ قتادہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ” ہم سے ذکر کیا گیا کہ دانیال علیہ السلام پیغمبر نے امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ ” وہ ایسی نماز پڑھے گی کہ اگر قوم نوح ایسی نماز پڑھتی تو ڈوبتی نہیں اور قوم عاد کی اگر ایسی نماز ہوتی تو ان پر بے برکتی کی ہوائیں نہ بھیجی جاتیں اور اگر قوم ثمود کی نماز ایسی ہوتی تو انہیں چیخ سے ہلاک نہ کیا جاتا ، پس اے لوگو ! نماز کو اچھی طرح پابندی سے پڑھا کرو مومن کا یہ زیور اور اس کا بہترین خلق ہے “ ۔ پھر فرماتا ہے ’ ان کے مالوں میں حاجت مندوں کا بھی مقررہ حصہ ہے ‘ ، سائل اور محروم کی پوری تفسیر سورۃ ذاریات میں گزر چکی ہے ۔ یہ لوگ حساب اور جزا کے دن پر بھی یقین کامل اور پورا ایمان رکھتے ہیں اسی وجہ سے وہ اعمال کرتے ہیں جن سے ثواب پائیں اور عذاب سے چھوٹیں ، پھر ان کی صفت بیان ہوتی ہے کہ وہ اپنے رب کے عذاب سے ڈرتے اور خوف کھانے والے ہیں ، جس عذاب سے کوئی عقلمند انسان بے خوف نہیں رہ سکتا ہاں جسے اللہ امن دے اور یہ لوگ اپنی شرمگاہوں کو حرام کاری سے روکتے ہیں جہاں اللہ کی اجازت نہیں اس جگہ سے بچاتے ہیں ، ہاں اپنی بیویوں اور اپنی ملکیت کی لونڈیوں سے اپنی خواہش پوری کرتے ہیں سو اس میں ان پر کوئی ملامت اور عیب نہیں ، لیکن جو شخص ان کے علاوہ اور جگہ یا اور طرح اپنی شہوت رانی کر لے وہ یقیناً حدود اللہ سے تجاوز کرنے والا ہے ۔ ان دونوں آیتوں کی پوری تفسیر «‏‏‏‏قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ» ۱؎ (23-المؤمنون:1) میں گزر چکی ہے یہاں دوبارہ لانے کی ضرورت نہیں ۔ یہ لوگ امانت کے ادا کرنے والے وعدوں اور وعیدوں قول اور قرار کو پورا کرنے والے اور اچھی طرح نباہنے والے ہیں ، نہ خیانت کریں نہ بدعہدی اور وعدہ شکنی کریں ۔ یہ کل صفتیں مومنوں کی ہیں اور ان کا خلاف کرنے والا منافق ہے ۔ جیسے کہ صحیح حدیث میں ہے { منافق کی تین خصلتیں ہیں جب کبھی بات کرے جھوٹ بولے ، جب کبھی وعدہ کرے خلاف کرے ، جب امانت دیا جائے خیانت کرے } ـ ۱؎ (صحیح بخاری:33) اور ایک روایت میں { جب کبھی عہد کرے توڑ دے اور جب بھی جھگڑے گالیاں بولے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:33) یہ اپنی شہادتوں کی بھی حفاظت کرنے والے ہیں ‘ یعنی نہ اس میں کمی کریں نہ زیادتی نہ شہادت دینے سے بھاگیں نہ اسے چھپائیں ، «وَمَنْ یَکْتُمْہَا فَإِنَّہُ آثِمٌ قَلْبُہُ» ’ جو چھپا لے وہ گنہگار دل والا ہے ‘ ۔ ۱؎ (2-البقرۃ:283) پھر فرمایا ’ وہ اپنی نماز کی پوری چوکسی کرتے ہیں ‘ یعنی وقت پر ارکان اور واجبات اور مستجات کو پوری طرح بجا لا کر نماز پڑھتے ہیں ، یہاں یہ بات خاص توجہ کے لائق ہے کہ ان جنتیوں کے اوصاف بیان کرتے ہوئے شروع وصف میں بھی نماز کی ادائیگی کا بیان کیا اور ختم بھی اسی پر کیا پس معلوم ہوا کہ نماز امر دین میں عظیم الشان کام ہے اور سب سے زیادہ شرافت اور فضیلت والی چیز بھی یہی ہے اس کا ادا کرنا سخت ضروری ہے اور اس کا بندوبست نہایت ہی تاکید والا ہے ۔ سورۃ «‏‏‏‏قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ» ۱؎ (23-المؤمنون:1) میں بھی ٹھیک اسی طرح بیان ہوا ہے اور وہاں ان اوصاف کے بعد بیان فرمایا ہے کہ ’ یہی لوگ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے وارث فردوس ہیں ‘ اور یہاں فرمایا ’ یہی لوگ جنتی ہیں اور قسم قسم کی لذتوں اور خوشبوؤں سے عزت و اقبال کے ساتھ مسرور و محفوظ ہیں ‘ ۔ المعارج
20 المعارج
21 المعارج
22 المعارج
23 المعارج
24 المعارج
25 المعارج
26 المعارج
27 المعارج
28 المعارج
29 المعارج
30 المعارج
31 المعارج
32 المعارج
33 المعارج
34 المعارج
35 المعارج
36 مرکز نور و ہدایت سے مفرور انسان اللہ تعالیٰ عزوجل ان کافروں پر انکار کر رہا ہے جو حضور علیہ السلام کے مبارک زمانہ میں تھے خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ دیکھ رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو ہدایت لے کر آئے وہ ان کے سامنے تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کھلے معجزے بھی اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے پھر باوجود ان تمام باتوں کے وہ بھاگ رہے تھے اور ٹولیاں ٹولیاں ہو کر دائیں بائیں کترا جاتے تھے ۔ جیسے اور جگہ «‏‏‏‏فَمَا لَہُمْ عَنِ التَّذْکِرَۃِ مُعْرِضِیْنَ کَأَنَّہُمْ حُمُرٌ مٰسْتَنفِرَۃٌ فَرَّتْ مِن قَسْوَرَۃٍ» ‏‏‏‏۱؎ (74-المدثر:51-49) ، ’ یہ نصیحت سے منہ پھیر کر ان گدھوں کی طرح جو شیر سے بھاگ رہے ہوں کیوں بھاگ رہے ہیں ؟ ‘ یہاں بھی اسی طرح فرما رہا ہے کہ ’ ان کفار کو کیا ہو گیا ہے یہ نفرت کر کے کیوں تیرے پاس سے بھاگے جا رہے ہیں ؟ کیونکہ دائیں بائیں سرکتے جاتے ہیں ؟ اور کیا وجہ ہے کہ متفرق طور پر اختلاف کے ساتھ ادھر ادھر ہو رہے ہیں ‘ ۔ امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ نے خواہش نفس پر عمل کرنے والوں کے حق میں یہی فرمایا ہے کہ ” وہ کتاب اللہ کے مخالف ہوتے ہیں اور آپس میں بھی مختلف ہوتے ہیں ۔ ہاں کتاب اللہ کی مخالفت میں سب متفقہ ہوتے ہیں “ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بروایت عوفی رحمہ اللہ مروی ہے کہ ” وہ ٹولیاں ہو کر بے پرواہی کے ساتھ تیرے دائیں بائیں ہو کر تجھے مذاق سے گھورتے ہیں “ ۔ حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” یعنی دائیں بائیں الگ ہو جاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ اس شخص نے کیا کہا ؟ “ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” دائیں بائیں ٹولیاں ٹولیاں ہو کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد پھرتے رہتے ہیں نہ کتاب اللہ کی چاہت ہے نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رغبت ہے “ ۔ ایک حدیث میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے پاس آئے اور وہ متفرق طور پر حلقے حلقے تھے تو فرمایا : ” میں تمہیں الگ الگ جماعتوں کی صورتوں میں کیسے دیکھ رہا ہوں ؟ “ } ۱؎ (صحیح مسلم:430) ابن جریر میں اور سند سے بھی مروی ہے ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ’ کیا ان کی چاہت ہے کہ جنت نعیم میں داخل کئے جائیں ؟ ایسا نہ ہو گا ‘ ، یعنی جب ان کی یہ حالت ہے کہ کتاب اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دائیں بائیں کترا جاتے ہیں پھر ان کی یہ چاہت پوری نہیں ہو سکتی بلکہ یہ جہنمی گروہ ہے ، اب جس چیز کو یہ محال جانتے تھے اس کا بہترین ثبوت ان ہی کی معلومات اور اقرار سے بیان ہو رہا ہے کہ ’ جس نے تمہیں ضعیف پانی سے پیدا کیا ہے جیسے کہ خود تمہیں بھی معلوم ہے پھر کیا وہ تمہیں دوبارہ نہیں پیدا کر سکتا ؟ ‘ جیسے اور جگہ ہے «‏‏‏‏اَلَمْ نَخْلُقْکٰمْ مِّنْ مَّاءٍ مَّہِیْنٍ» ۱؎ ‏‏‏‏(77-المرسلات:20) ’ کیا ہم نے تمہیں ناقدرے پانی سے پیدا نہیں کیا ؟ ‘ فرمان ہے «الْإِنسَانُ مِمَّ خُلِقَ خُلِقَ مِن مَّاءٍ دَافِقٍ یَخْرُجُ مِن بَیْنِ الصٰلْبِ وَالتَّرَائِبِ إِنَّہُ عَلَیٰ رَجْعِہِ لَقَادِرٌ یَوْمَ تُبْلَی السَّرَائِرُ فَمَا لَہُ مِن قُوَّۃٍ وَلَا نَاصِرٍ» ۱؎ ‏‏‏‏(86-الطارق:10-5) ، ’ انسان کو دیکھنا چاہیئے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے ، اچھلنے والے پانی سے پیدا کیا گیا ہے جو پیٹھ اور چھاتی کے درمیان سے نکلتا ہے ، یقیناً وہ اللہ اس کے لوٹانے پر قادر ہے جس دن پوشیدگیاں کھل جائیں گی اور کوئی طاقت نہ ہو گی نہ مددگار ‘ ۔ پس یہاں بھی فرماتا ہے ’ مجھے قسم ہے اس کی جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اور مشرق و مغرب متعین کی اور ستاروں کے چھپنے اور ظاہر ہونے کی جگہیں مقرر کر دیں ‘ ، مطلب یہ ہے کہ اے کافرو ! جیسا تمہارا گمان ہے ویسا معاملہ نہیں کہ نہ حساب کتاب ہو ، نہ حشر نشر ہو بلکہ یہ سب یقیناً ہونے والی چیزیں ہیں ۔ اسی لیے قسم سے پہلے ان کے باطل خیال کی تکذیب کی اور اسے اس طرح ثابت کیا کہ اپنی قدرت کاملہ کے مختلف نمونے ان کے سامنے پیش کئے ، مثلاً آسمان و زمین کی ابتدائی پیدائش اور حیوانات ، جمادات اور مختلف قسم کی مخلوق کی موجودگی ۔ جیسے اور جگہ ہے «‏‏‏‏لَخَــلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَکْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ» ۱؎ ‏‏‏‏(40-غافر:57) یعنی ’ آسمان و زمین کا پیدا کرنا لوگوں کے پیدا کرنے سے بہت بڑا ہے لیکن اکثر لوگ بےعلم ہیں ‘ ، مطلب یہ ہے کہ جب بڑی بڑی چیزوں کو پیدا کرنے پر اللہ قادر ہے تو چھوٹی چیزوں کی پیدائش پر کیوں قادر نہ ہو گا ؟ جیسے اور جگہ ہے «‏‏‏‏اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّ اللّٰہَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَلَمْ یَعْیَ بِخَلْقِہِنَّ بِقٰدِرٍ عَلٰٓی اَنْ یٰحْیِۦ الْمَوْتٰی بَلٰٓی اِنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ» ‏‏‏‏۱؎ (46-الأحقاف:33) یعنی ’ کیا یہ نہیں دیکھتے کہ جس نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا اور ان کی پیدائش میں نہ تھکا کیا وہ مردوں کو زندہ کرنے پر قادر نہیں ؟ بیشک وہ قادر ہے اور ایک اس پر کیا ہر ایک چیز پر اسے قدرت حاصل ہے ‘ ۔ اور جگہ ارشاد ہے «أَوَلَیْسَ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِقَادِرٍ عَلَیٰ أَن یَخْلُقَ مِثْلَہُم بَلَیٰ وَہُوَ الْخَلَّاقُ الْعَلِیمُ إِنَّمَا أَمْرُہُ إِذَا أَرَادَ شَیْئًا أَن یَقُولَ لَہُ کُن فَیَکُونُ» ۱؎ (36-یس:82،81) ، یعنی ’ کیا زمین و آسمان کو پیدا کرنے والا ، ان کے مثل پیدا کرنے پر قادر نہیں ؟ ہاں ہے اور وہی پیدا کرنے والا اور جاننے والا ہے ، وہ جس چیز کا ارداہ کرے کہہ دیتا ہے کہ ہو جا وہ اسی وقت ہو جاتی ہے ‘ ۔ یہاں ارشاد ہو رہا ہے کہ ’ مشرق اور مغرب کے پروردگار کی قسم ہم ان کے ان جسموں کو جیسے یہ اب ہیں اس سے بھی بہتر صورت میں بدل ڈالنے پر پورے پورے قادر ہیں کوئی چیز کوئی شخص اور کوئی کام ہمیں عاجز اور درماندہ نہیں کر سکتا ‘ ۔ جیسے اور جگہ ارشاد ہے «أَیَحْسَبُ الْإِنسَانُ أَلَّن نَّجْمَعَ عِظَامَہُ بَلَیٰ قَادِرِینَ عَلَیٰ أَن نٰسَوِّیَ بَنَانَہُ» ۱؎ ‏‏‏‏(75-القیامۃ:4،3) ، ’ کیا کسی شخص کا یہ گمان ہے کہ ہم اس کی ہڈیاں جمع نہ کر سکیں گے ؟ غلط گمان ہے بلکہ ہم تو اس کی پور پور جمع کر کے ٹھیک ٹھاک بنا دیں گے ‘ ، اور فرمایا «‏‏‏‏نَحْنُ قَدَّرْنَا بَیْنَکُمُ الْمَوْتَ وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوقِینَ عَلَیٰ أَن نٰبَدِّلَ أَمْثَالَکُمْ وَنُنشِئَکُمْ فِی مَا لَا تَعْلَمُونَ» ‏‏‏‏۱؎ (56-الواقعۃ:61،60) ، ’ ہم نے تمہارے درمیان موت مقدر کر دی ہے اور ہم اس سے عاجز نہیں کہ تم جیسوں کو بدل ڈالیں اور تمہیں اس نئی پیدائش میں پیدا کریں جسے تم جانتے بھی نہیں ‘ ۔ پس ایک مطلب تو آیت مندرجہ بالا کا یہ ہے ، دوسرا مطلب امام ابن جریر رحمہ اللہ نے یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ ’ ہم قادر ہیں اس امر پر کہ تمہارے بدلے ایسے لوگ پیدا کر دیں جو ہمارے مطیع و فرمانبردار ہوں اور ہماری نافرمانیوں سے رکے رہنے والے ہوں ‘ ۔ جیسے اور جگہ فرمان ہے «وَإِن تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ ثُمَّ لَا یَکُونُوا أَمْثَالَکُم» ‏‏‏‏۱؎ (47-محمد:38) یعنی ’ اگر تم نے منہ موڑا تو اللہ تمہارے سوا اور قوم کو لائے گا اور وہ تم جیسی نہ ہو گی ‘ ، لیکن پہلا مطلب دوسری آیتوں کی صاف دلالت کی وجہ سے زیادہ ظاہر ہے ۔ «وَاللہُ سُبْحَانَہُ وَ تَعَالیٰ اَعْلَمُ» المعارج
37 المعارج
38 المعارج
39 المعارج
40 المعارج
41 المعارج
42 دنیا میں ڈھیل پھر فرماتا ہے ’ اے نبی ! انہیں ان کے جھٹلانے ، کفر کرنے ، سرکشی میں بڑھنے ہی میں چھوڑ دو ، جس کا وبال ان پر اس دن آئے گا جس کا ان سے وعدہ ہو چکا ہے ، جس دن اللہ تعالیٰ انہیں بلائے گا اور یہ میدان محشر کی طرف جہاں انہیں حساب کے لیے کھڑا کیا جائے گا اس طرح لپکتے ہوئے جائیں گے جس طرح دنیا میں کسی بت یا علم ، تھان اور چلے کو چھونے اور ڈنڈوت کرنے کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھتے ہوئے جاتے ہیں ، مارے شرم و ندامت کے نگاہیں زمین میں گڑی ہوئی ہوں گی اور چہروں پر پھٹکار برس رہی ہو گی ، یہ ہے دنیا میں اللہ کی اطاعت سے سرکشی کرنے کا نتیجہ ! اور یہ ہے وہ دن جس کے ہونے کو آج محال جانتے ہیں اور ہنسی مذاق میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، کی اور شریعت اور کلام الٰہی کی حقارت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ قیامت کیوں قائم نہیں ہوتی ؟ ہم پر عذاب کیوں نہیں آتا ؟ ‘ ۔ «اَلْحَمْدُ لِلہِ» سورۃ المعارج کی تفسیر ختم ہوئی ۔ المعارج
43 المعارج
44 المعارج
0 نوح
1 عذاب سے پہلے نوح علیہ السلام کا قوم سے خطاب اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ اس نے نوح علیہ السلام کو ان کی قوم کی طرف اپنا رسول بنا کر بھیجا اور حکم دیا کہ عذاب کے آنے سے پہلے اپنی قوم کو ہوشیار کر دو اگر وہ توبہ کر لیں گے اور اللہ کی طرف جھکنے لگیں گے تو اللہ کا عذاب ان سے اٹھ جائے گا ۔ نوح علیہ السلام نے اللہ کا پیغام اپنی امت کو پہنچا دیا اور صاف کہہ دیا کہ ” دیکھو میں کھلے لفظوں میں تمہیں آگاہ کئے دیتا ہوں ، میں صاف صاف کہہ رہا ہوں کہ اللہ کی عبادت اس کا ڈر اور میری اطاعت لازمی چیزیں ہیں جو کام رب نے تم پر حرام کئے ہیں ان سے بچو ، گناہ کے کاموں سے الگ تھلگ رہو ، جو میں کہوں بجا لاؤ جس سے روکوں رک جاؤ ، میری رسالت کی تصدیق کرو تو اللہ تمہاری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا ۔“ آیت «یَغْفِرْ لَکُم مِّن ذُنُوبِکُمْ وَیُؤَخِّرْکُمْ إِلَیٰ أَجَلٍ مٰسَمًّی إِنَّ أَجَلَ اللہِ إِذَا جَاءَ لَا یُؤَخَّرُ لَوْ کُنتُمْ تَعْلَمُونَ» ۱؎ (71-نوح:4) میں لفظ «مِّنْ» یہاں زائد ہے ، اثبات کے موقعہ پر بھی کبھی لفظ «مِّنْ» زائد آ جاتا ہے جیسے عرب کے مقولے «قَدْ کَانَ مِنْ مَّطَرٍ» میں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ معنی میں «عن» کے ہو بلکہ ابن جریر رحمہ اللہ تو اسی کو پسند فرماتے ہیں اور یہ قول بھی ہے کہ «مِّنْ» «إِنَّہَا لِلتَّبْعِیضِ أَیْ یَغْفِر لَکُمْ الذٰنُوب الْعِظَام الَّتِی وَعَدَکُمْ عَلَی اِرْتِکَابکُمْ إِیَّاہَا الِانْتِقَام» کے لیے ہے یعنی ’ تمہارے کچھ گناہ معاف فرما دے گا ۔ ‘ یعنی وہ گناہ جن پر سزا کا وعدہ ہے اور وہ بڑے بڑے گناہ ہیں ، اگر تم نے یہ تینوں کام کئے تو وہ معاف ہو جائیں گے اور جس عذاب کے ذریعے وہ تمہیں اب تمہاری ان خطاؤں اور غلط کاریوں کی وجہ سے برباد کرنے والا ہے اس عذاب کو ہٹا دے گا اور تمہاری عمریں بڑھا دے گا ۔ اس آیت سے یہ استدلال بھی کیا گیا ہے کہ اللہ کی اطاعت اور نیک سلوک اور صلہ رحمی سے حقیقتاً عمر بڑھ جاتی ہے ، حدیث میں یہ بھی ہے کہ { صلہ رحمی عمر بڑھاتی ہے ۔} ۱؎ (سلسلۃ احادیث صحیحہ البانی:1908) پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ’ نیک اعمال اس سے پہلے کر لو کہ اللہ کا عذاب آ جائے اس لیے جب وہ آ جاتا ہے پھر نہ اسے کوئی ہٹا سکتا ہے نہ روک سکتا ہے ، اس بڑے کی بڑائی نے ہر چیز کو پست کر رکھا ہے اس کی عزت و عظمت کے سامنے تمام مخلوق پست ہے ۔‘ نوح
2 نوح
3 نوح
4 نوح
5 نو سو سال صدا بصحرا کے بعد بھی ایک پیغمبرانہ کوشش یہاں بیان ہو رہا ہے کہ ساڑھے نو سو سال تک کی لمبی مدت میں کس کس طرح نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو رشد و ہدایت کی طرف بلایا ، قوم نے کس کس طرح اعراض کیا ، کیسی کیسی تکلیفیں اللہ کے پیارے پیغمبر علیہ السلام کو پہنچائیں اور کس طرح اپنی ضد پر اڑ گئے ، تو نوح علیہ السلام بطور شکایت کے جناب باری میں عرض کرتے ہیں کہ ” الٰہی میں نے تیرے حکم کی پوری طرح سرگرمی سے تعمیل کی ، تیرے فرمان عالیشان کے مطابق نہ دن کو دن سمجھا ، نہ رات کو رات ، بلکہ مسلسل ہر وقت انہیں راہ راست کی دعوت دیتا رہا لیکن کیا کروں کہ جس دل سوزی سے میں انہیں نیکی کی طرف بلاتا رہا وہ اسی سختی سے مجھ سے بھاگتے رہے حق سے روگردانی کرتے رہے ، یہاں تک ہوا کہ میں نے ان سے کہا آؤ رب کی سنو تاکہ رب تمہیں بخشے لیکن انہوں نے میرے ان الفاظ کا سننا بھی گوارا نہ کیا ، کان بند کر لیے ۔ “ یہی حال کفار قریش کا تھا کہ کلام اللہ کو سننا بھی پسند نہیں کرتے تھے جیسے ارشاد ہے «وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَا تَسْمَعُوْا لِھٰذَا الْقُرْاٰنِ وَالْـغَوْا فِیْہِ لَعَلَّکُمْ تَغْلِبُوْنَ» ۱؎ (41-فصلت:26) یعنی ’ کافرو نے کہا ، اس قرآن کو نہ سنو اور جب یہ پڑھا جاتا ہو تو شور غل کرو تاکہ تم غالب رہو ۔ ‘ قوم نوح نے جہاں اپنے کانوں میں انگلیاں ڈالیں وہاں اپنے منہ میں کپڑوں سے چھپا لیے تاکہ وہ پہچانے بھی نہ جائیں اور نہ کچھ سنیں اپنے شرک و کفر پر ضد کے ساتھ اڑ گئے اور اتباع حق سے نہ صرف انکار کر دیا بلکہ اس سے بےپرواہی کی اور اسے حقیر جان کر تکبر سے پیٹھ پھیر لی ۔ نوح علیہ السلام فرماتے ہیں ” عام لوگوں کے مجمع میں بھی میں نے انہیں کہا سنا با آواز بلند ان کے کان کھول دیئے اور بسا اوقات ایک ایک کو چپکے چپکے بھی سمجھایا غرض تمام جتن کر لیے کہ یوں نہیں یوں سمجھ جائیں اور اور یوں نہیں تو یوں راہ راست پر آ جائیں ۔ میں نے ان سے کہا کہ کم از کم تم اپنی بدکاریوں سے توبہ ہی کر لو وہ اللہ غفار ہے ، ہر جھکنے والے کی طرف توجہ فرماتا ہے اور خواہ اس سے کیسے ہی بد سے بدتر اعمال سرزد ہوئے ہوں ایک آن میں معاف فرما دیتا ہے ، یہی نہیں بلکہ دنیا میں بھی وہ تمہیں تمہارے استغفار کی وجہ سے طرح طرح کی نعمتیں عطا فرمائے گا اور درد و دکھ سے بچا لے گا وہ تم پر خوب موسلا دھار بارش برسائے گا ۔“ یہ یاد رہے کہ قحط سالی کے موقعہ پر جب نماز استسقاء کے لیے مسلمان نکلیں تو مستحب ہے کہ اس نماز میں اس سورت کو پڑھیں ، اس کی ایک دلیل تو یہی آیت ہے دوسرے خلیفتہ المسلمین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا فعل بھی یہی ہے ۔ آپ سے مروی ہے کہ بارش مانگنے کے لیے جب آپ نکلے تو منبر پر چڑھ کر آپ نے خوب استغفار کیا اور استغفار والی آیتوں کی تلاوت کی ، جن میں ایک آیت یہ «فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّکُمْ إِنَّہُ کَانَ غَفَّارًا» ۱؎ (71-نوح:10) بھی تھی ۔ پھر فرمانے لگے کہ بارش کو میں نے بارش کی تمام راہوں سے جو آسمان میں ہیں طلب کر لیا ہے یعنی وہ احکام ادا کئے ہیں ، جن سے اللہ بارش نازل فرمایا کرتا ہے ۔ نوح
6 نوح
7 نوح
8 نوح
9 نوح
10 نوح
11 استغفار اور باران رحمت نوح علیہ السلام فرماتے ہیں ” اے میری قوم کے لوگو تم اگر استغفار کرو گے تو بارش کے ساتھ ہی ساتھ رزق کی برکت بھی تمہیں ملے گی ، زمین و آسمان کی برکتوں سے تم مالا مال ہو جاؤ گے ، کھیتیاں خوب ہوں گی ، جانوروں کے تھن دودھ سے پر رہیں گے ، مال و اولاد میں ترقی ہو گی ، قسم قسم کے پھلوں سے لدے پھندے باغات تمہیں نصیب ہوں گے ، جن کے درمیان چاروں طرف اور بابرکت پانی کی ریل پیل ہو گی ، ہر طرف نہریں اور دریا جاری ہو جائیں گے ۔“ اس طرح رغبت دلا کر پھر ذرا خوف زدہ بھی کرتے ہیں اور فرماتے ہیں ” تم اللہ کی عظمت کے قائل کیوں نہیں ہوتے ؟ اس کے عذاب سے بےباک کیوں ہو گئے ہو ؟ دیکھتے نہیں کہ اللہ نے تمہیں کن کن حالات میں کس کس طرح حالت بدل بدل کر ساتھ پیدا کیا ہے ؟ پہلے پانی کی بوند ، پھر جامد خون ، پھر گوشت کا لوتھڑا ، پھر اور صورت ، پھر اور حالت وغیرہ ۔ “ اسی طرح دیکھو تو سہی کہ اس نے ایک پر ایک اس طرح آسمان پیدا کئے خواہ وہ صرف سننے سے ہی معلوم ہوئے ہوں یا ان وجوہ سے معلوم ہوئے ہوں جو محسوس ہیں جو ستاروں کی چال اور ان کے کسوف سے سمجھی جا سکتی ہیں ، جیسے کہ اس علم والوں کا بیان ہے ، گو اس میں بھی ان کا سخت تر اختلاف ہے کہ کواکب چلنے پھرنے والے بڑے بڑے سات ہیں ۔ ایک ایک کو بے نور کر دیتا ہے ، سب سے قریب آسمان دنیا میں چاند ہے جو دوسروں کو ماند کئے ہوئے ہے اور دوسرے آسمان پر عطارد ہے ، تیسرے میں زہرہ ہے ، چوتھے میں سورج ہے ، پانچویں میں مریخ ہے ، چھٹے میں مشتری ، ساتویں میں زحل اور باقی کواکب جو ثوابت ہیں وہ آٹھویں میں ہیں جس کا نام یہ لوگ فلک ثوابت رکھتے ہیں اور ان میں سے جو شرع والے ہیں وہ اسے کرسی کہتے ہیں اور نواں فلک ان کے نزدیک اطلس اور اثیر ہے جس کی حرکت ان کے خیال میں افلاک کی حرکت کے خلاف ہے اس لیے کہ دراصل اس کی حرکت اور حرکتوں کو مبداء ہے وہ مغرب سے مشرق کی طرف حرکت کرتا ہے اور باقی سب آسمان مشرق سے مغرب کی طرف اور انہی کے ساتھ کواکب بھی گھومتے پھرتے رہتے ہیں ۔ لیکن سیاروں کی حرکت افلاک کی حرکت کے بالکل برعکس ہے وہ سب مغرب سے مشرق کی طرف حرکت کرتے ہیں اور ان میں کا ہر ایک اپنے آسمان کا پھیر اپنے مقدور کے مطابق کرتا ہے ، چاند تو ہر ماہ میں ایک بار سورج ہر سال میں ایک بار زحل ہر تیس سال میں ایک مرتبہ ۔ مدت کی یہ کمی بیشی با اعتبار آسمان کی لمبائی چوڑائی کے ہے ورنہ سب کی حرکت سرعت میں بالکل مناسبت رکھتی ہے ۔ یہ خلاصہ ہے ان کی تمام تر باتوں کا جس میں ان میں آپس میں بھی بہت کچھ اختلاف ہے نہ ہم اسے یہاں وارد کرنا چاہتے ہیں نہ اس کی تحقیق و تفتیش سے اس وقت کوئی غرض ہے مقصود صرف اس قدر ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے سات آسمان بنائے ہیں اور وہ اوپر تلے ہیں ، پھر ان میں سورج چاند پیدا کیا ہے ، دونوں کی چمک دمک اور روشنی اور اجالا الگ الگ ہے جس سے دن رات کی تمیز ہو جاتی ہے ، پھر چاند کی مقررہ منزلیں اور بروج ہیں پھر اس کی روشنی گھٹتی بڑھتی رہتی ہے اور ایسا وقت بھی آتا ہے کہ وہ بالکل چھپ جاتا ہے اور ایسا وقت بھی آتا ہے کہ وہ اپنی پوری روشنی کے ساتھ نمودار ہوتا ہے جس سے مہینے اور سال معلوم ہوتے ہیں ۔ جیسے فرمان ہے «ھُوَ الَّذِیْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَاۗءً وَّالْقَمَرَ نُوْرًا وَّقَدَّرَہٗ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّـنِیْنَ وَالْحِسَابَ ۭ مَا خَلَقَ اللّٰہُ ذٰلِکَ اِلَّا بالْحَقِّ ۚ یُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ» ۱؎ (10-یونس:5) ’ اللہ وہ ہے جس نے سورج ، چاند خوب روشن چمکدار بنائے اور چاند کی منزلیں مقرر کر دیں تاکہ تمہیں سال اور حساب معلوم ہو جائیں ان کی پیدائش حق کے ساتھ ہے ، عالموں کے سامنے اللہ کی قدرت کے یہ نمونے الگ الگ موجود ہیں ۔‘ انسان مٹی سے پیدا ہوا پھر فرمایا ’ اللہ نے تمہیں زمین سے اگایا ۔ ‘ اس مصدر نے مضمون کو بے حد لطیف کر دیا ۔ پھر تمہیں مار ڈالنے کے بعد اسی میں لوٹائے گا ، پھر قیامت کے دن اسی سے تمہیں نکالے گا ، جیسے اول دفعہ پیدا کیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے زمین کو تمہارا فرش بنا دیا اور وہ ہلے جلے نہیں اس لیے اس پر مضبوط پہاڑ گاڑ دیئے ، اسی زمین کے کشادہ راستوں پر تم چلتے پھرتے ہو اسی پر رہتے سہتے ہو ادھر سے ادھر جاتے آتے ہو ۔ غرض نوح علیہ السلام کی ہر ممکن کوشش یہ ہے کہ عظمت رب اور قدرت اللہ کے نمونے اپنی قوم کے سامنے رکھ کر انہیں سمجھا رہے ہیں کہ زمین و آسمان کی برکتوں کے دینے والے ہر چیز کے پیدا کرنے والے عالی شان قدرت کے رکھنے والے رازق خالق اللہ کا کیا تم پر اتنا بھی حق نہیں کہ تم اسے پوجو اس کا لحاظ رکھو اور اس کے کہنے سے اس کے سچے نبی علیہ السلام کی راہ اختیار کرو ، تمیں ضرور چاہیئے کہ صرف اسی کی عبادت کرو کسی اور کو نہ پوجو ، اس جیسا اس کا شریک ، اس کا ساجھی ، اس کا مثیل کسی کو نہ جانو ، اسے بیوی اور ماں سے ، بیٹوں پوتوں ، وزیر و مشیر سے ، عدیل و نظیر سے پاک مانو اسی کو بلند و بالا اسی کو عظیم و اعلیٰ جانو ۔ نوح
12 نوح
13 نوح
14 نوح
15 نوح
16 نوح
17 نوح
18 نوح
19 نوح
20 نوح
21 نوح علیہ السلام کی بارگاہ الٰہی میں روداد غم نوح علیہ السلام نے اپنی گزشتہ شکایتوں کے ساتھ ہی جناب باری تعالیٰ میں اپنی قوم کے لوگوں کی اس روش کو بھی بیان کیا کہ ” میری پکار کو جو ان کے لیے سراسر نفع بخش تھی انہوں نے کان تک نہ لگایا ہاں اپنے مالداروں اور بےفکروں کی مان لی جو تیرے امر سے بالکل غافل تھے اور مال و اولاد کے پیچھے مست تھی ، گو فی الواقع وہ مال و اولاد بھی ان کے لیے سراسر وبال جان تھی ، کیونکہ ان کی وجہ سے وہ پھولتے تھے اور اللہ کو بھولتے تھے اور زیادہ نقصان میں اترتے جاتے تھے ۔ “ «وَلَدُہُ» کی دوسری قرأت «وَلَدَہُ» بھی ہے اور ان رئیسوں نے جو مال و جاہ والے تھے ان سے بڑی مکاری کی ۔ «کُبَّارِ» اور «کِبَّار» دونوں معنی میں «کَِبْیر» کے ہیں یعنی بہت بڑا ۔ قیامت کے دن بھی یہ لوگ یہی کہیں گے کہ «بَلْ مَکْرُ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ إِذْ تَأْمُرُونَنَا أَن نَّکْفُرَ بِ اللہِ وَنَجْعَلَ لَہُ أَندَادًا» ۱؎ (34-سبأ:33) ’ تم دن رات مکاری سے ہمیں کفر و شرک کا حکم کرتے رہے اور انہی بڑوں نے ان چھوٹوں سے کہا کہ اپنے ان بتوں کو جنہیں تم پوجتے رہے ہرگز نہ چھوڑنا ۔ ‘ صحیح بخاری میں ہے کہ قوم نوح کے بتوں کو کفار عرب نے لے لیا دومتہ الجندل میں قبیلہ کلب ود کو پوجتے تھے ، ہذیل قبیلہ سواع کا پرستار تھا اور قبیلہ مراد پھر قبیلہ بنو غطیف جو صرف کے رہنے والے تھے یہ شہر سبا بستی کے پاس ہے یغوث کی پوجا کرتا تھا ، ہملان قبیلہ یعقوب کا پجاری تھا ، آل ذی کلاع کا ، قبیلہ حمیر نسر بت کا ماننے والا تھا ، یہ سب بت دراصل قوم نوح کے صالح بزرگ اولیاء اللہ لوگ تھے ان کے انتقال کے بعد شیطان نے اس زمانہ کے لوگوں کے دلوں میں ڈالی کہ ان بزرگوں کی عبادت گاہوں میں ان کی کوئی یادگار قائم کریں ، چنانچہ انہوں نے وہاں نشان بنا دیئے اور ہر بزرگ کے نام پر انہیں مشہور کیا جب تک یہ لوگ زندہ رہے تب تک تو اس جگہ کی پرستش نہ ہوئی لیکن ان نشانات اور یادگار قائم کرنے والے لوگوں کو مر جانے کے بعد اور علم کے اٹھ جانے کے بعد جو لوگ آئے جہالت کی وجہ سے انہوں نے باقاعدہ ان جگہوں کی اور ان ناموں کی پوجا پاٹ شروع کر دی ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4920) عکرمہ رحمہ اللہ ، ضحاک رحمہ اللہ ، قتادہ رحمہ اللہ ، ابن اسحاق رحمہ اللہ بھی یہی فرماتے ہیں ۔ قوم نوح میں شرک کی ابتدأ محمد بنی قیس رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ بزرگ عابد ، اللہ والے ، اولیاء اللہ ، آدم علیہ السلام ، اور نوح علیہ السلام کے سچے تابع فرمان صالح لوگ تھے جن کی پیروی اور لوگ بھی کرتے تھے جب یہ مر گئے تو ان کے مقتدیوں نے کہا کہ اگر ہم ان کی تصویریں بنا لیں تو ہمیں عبادت میں خوب دلچسپی رہے گی اور ان بزرگوں کی صورتیں دیکھ کر شوق عبادت بڑھتا رہے گا چنانچہ ایسا ہی کیا جب یہ لوگ بھی مر کھپ گئے اور ان کی نسلیں آئیں تو شیطان نے انہیں یہ گھٹی پلائی کہ تمہارے بڑے ان کی پوجا پاٹ کرتے تھے اور انہیں سے بارش وغیرہ مانگتے تھے چنانچہ انہوں نے اب باقاعدہ ان بزرگوں کی تصویروں کی پرستش شروع کر دی ۔ حافظ ابن عساکر رحمتہ اللہ علیہ شیث علیہ السلام کے قصے میں بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا آدم علیہ السلام کے چالیس بچے تھے ، بیس لڑکے ، بیس لڑکیاں ان میں سے جن کی بڑی عمریں ہوئیں ان میں ہابیل ، قابیل ، صالح اور عبدالرحمٰن تھے جن کا پہلا نام عبدالحارث تھا اور ود تھا جنہیں شیث اور ھبتہ اللہ بھی کہا جاتا ہے ۔ تمام بھائیوں نے سرداری انہیں کو دے رکھی تھی ۔ ان کی اولاد یہ چاروں تھے یعنی سواع ، یغوث ، یعوق اور نسر ۔ عروہ بن زبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ آدم علیہ السلام کی بیماری کے وقت ان کی اولاد ود ، یغوث ، یعوق ، سواع اور نسر تھی ۔ ود ان سب میں بڑا اور سب سے نیک سلوک کرنے والا تھا ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ ابو جعفر رحمتہ اللہ علیہ نماز پڑھ رہے تھے اور لوگوں نے یزید بن مہلب کا ذکر کیا آپ نے فارغ ہو کر فرمایا سنو وہ وہاں قتل کیا گیا جہاں اب سے پہلے غیر اللہ کی پرستش ہوئی ۔ واقعہ یہ ہوا کہ ایک دیندار ولی اللہ مسلمان جسے لوگ بہت چاہتے تھے اور بڑے معتقد تھے وہ مر گیا ، یہ لوگ مجاور بن کر اس کی قبر پر بیٹھ گئے اور رونا پیٹنا اور اسے یاد کرنا شروع کیا اور بڑے بے چین اور مصیبت زدہ ہو گئے ، ابلیس لعین نے یہ دیکھ کر انسانی صورت میں ان کے پاس آ کر ان سے کہا کہ اس بزرگ کی یادگار کیوں قائم نہیں کر لیتے ؟ جو ہر وقت تمہارے سامنے رہے اور تم اسے نہ بھولو سب نے اس رائے کو پسند کیا ، ابلیس نے اس بزرگ کی تصویر بنا کر ان کے پاس کھڑی کر دی جسے دیکھ دیکھ کر یہ لوگ اسے یاد کرتے تھے اور اس کی عبادت کے تذکرے رہتے تھے ، جب وہ سب اس میں مشغول ہو گئے تو ابلیس نے کہا تم سب کو یہاں آنا پڑتا ہے اس لیے یہ بہتر ہو گا کہ میں اس کی بہت سی تصویریں بنا دوں تم انہیں اپنے اپنے گھروں میں ہی رکھ لو وہ اس پر بھی راضی ہوئے اور یہ بھی ہو گیا ، اب تک صرف یہ تصویریں اور یہ بت بطور یادگار کے ہی تھے مگر ان کی دوسری پشت میں جا کر براہ راست ان ہی کی عبادت ہونے لگی اصل واقعہ سب فراموش کر گئے اور اپنے باپ دادا کو بھی ان کی عبادت کرنے والا سمجھ کر خود بھی بت پرستی میں مشغول ہو گئے ، ان کا نام ود تھا اور یہی پہلا وہ بت ہے جس کی پوجا اللہ کے سوا کی گئی ۔ انہوں نے بہت مخلوق کو گمراہ کیا اس وقت سے لے کر اب تک عرب عجم میں اللہ کے سوا دوسروں کی پرستش شروع ہو گئی اور اللہ کی مخلوق بہک گئی ۔ چنانچہ خلیل اللہ علیہ السلام اپنی دعا میں عرض کرتے ہیں «وَاجْنُبْنِی وَبَنِیَّ أَن نَّعْبُدَ الْأَصْنَامَ رَبِّ إِنَّہُنَّ أَضْلَلْنَ کَثِیرًا مِّنَ النَّاسِ» ۱؎ (14-إبراہیم:36-35) ’ میرے رب مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے بچا ۔ یا الٰہی انہوں نے اکثر مخلوق کو بے راہ کر دیا ۔‘ پھر نوح علیہ السلام اپنی قوم کے لیے بد دعا کرتے ہیں کیونکہ ان کی سرکشی ضد اور عداوت حق خوب ملاحظہ فرما چکے تھے ، تو کہتے ہیں کہ الٰہی انہیں گمراہی میں اور بڑھا دے ، جیسے کہ موسیٰ علیہ السلام نے فرعون اور فرعونیوں کے لیے بد دعا کی تھی کہ «رَبَّنَا اطْمِسْ عَلَیٰ أَمْوَالِہِمْ وَاشْدُدْ عَلَیٰ قُلُوبِہِمْ فَلَا یُؤْمِنُوا حَتَّیٰ یَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِیمَ» ۱؎ (10-یونس:88) ’ پروردگار ان کے مال تباہ کر دے اور ان کے دل سخت کر دے انہیں ایمان لانا نصیب نہ ہو جب تک کہ درد ناک عذاب نہ دیکھ لیں ۔ ‘ چنانچہ دعا نوح قبول ہوتی ہے اور قوم نوح بہ سبب اپنی تکذیب کے غرق کر دی جاتی ہے ۔ نوح
22 نوح
23 نوح
24 نوح
25 کثرت گناہ تباہی کو دعوت دیتا ہے «خَطِیئَاتِہِمْ» کی دوسری قرأت «خَطَایَاھُمْ» بھی ہے فرماتا ’ اپنے گناہوں کی کثرت کی وجہ سے یہ لوگ ہلاک کر دیئے گئے ان کی سرکشی ، ضد اور ہٹ دھرمی ان کی مخالفت و دشمنی رسول حد سے گزر گئی تو انہیں پانی میں ڈبو دیا گیا ، اور یہاں سے آگ کے گڑھے میں دھکیل دیئے گئے اور کوئی نہ کھڑا ہوا جو انہیں ان عذابوں سے بچا سکتا ۔ ‘ جیسے فرمان ہے «قَالَ لَا عَاصِمَ الْیَوْمَ مِنْ اَمْرِ اللّٰہِ اِلَّا مَنْ رَّحِمَ وَحَالَ بَیْنَہُمَا الْمَوْجُ فَکَانَ مِنَ الْمُغْرَقِیْنَ» ۱؎ (11-ھود:43) یعنی ’ آج کے دن عذاب اللہ سے کوئی نہیں بچا سکتا صرف وہی نجات یافتہ ہو گا جس پر اللہ رحم کرے ۔ ‘ نوح علیہ السلام ان بدنصیبوں کی اپنے قادر و ذوالجلال اللہ کی چوکھٹ پر اپنا ماتھا رکھ کر فریاد کرتے ہیں اور اس مالک سے ان پر آفت و عذاب نازل کرنے کی درخواست پیش کرتے ہیں کہ ” اللہ اب تو ان ناشکروں میں سے ایک کو بھی زمین پر چلتا پھرتا نہ چھوڑ ۔ “ اور یہی ہوا بھی کہ سارے کے سارے غرق کر دیئے گئے یہاں تک کہ نوح علیہ السلام کا سگا بیٹا جو باپ سے الگ رہا تھا وہ بھی نہ بچ سکا ، سمجھا تو یہ تھا کہ پانی میرا کیا بگاڑ لے گا میں کسی بڑے پہاڑ پر چڑھ جاؤں گا لیکن وہ پانی تو نہ تھا ، وہ تو غضب الٰہی تھا ، وہ تو بد دعائے نوح تھا ، اس سے بھلا کون بچا سکتا تھا ؟ پانی نے اسے وہیں جا لیا اور اپنے باپ کے سامنے باتیں کرتے کرتے ڈوب گیا ۔ ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” اگر طوفان نوح میں اللہ تعالیٰ کسی پر رحم کرتا تو اس کے لائق وہ عورت تھی جو پانی کو ابلتے اور برستے دیکھ کر اپنے بچے کو لے کر اٹھ کھڑی ہوئی اور پہاڑ پر چڑھ گئی جب پانی وہاں بھی آ گیا ہے تو بچے کو اٹھا کر اپنے مونڈھے پر بٹھا لیا جب پانی وہاں پہنچا تو اس نے بچے کو سر پر اٹھا لیا ، جب پانی سر تک جا چڑھا تو اپنے بچے کو اپنے ہاتھوں میں لے کر سر سے بلند کر لیا لیکن آخر پانی وہاں تک جا پہنچا اور ماں بیٹا ڈوب گئے ، اگر اس دن زمین کے کافروں میں سے کوئی بھی قابل رحم ہوتا تو یہ عورت تھی مگر یہ بھی نہ بچ سکی نہ ہی بیٹے کو بچا سکی ۔ “ ۱؎ (سلسلۃ احادیث ضعیفہ البانی:5985:منکر) یہ حدیث غریب ہے لیکن راوی اس کے سب ثقہ ہیں ۔ الغرض روئے زمین کے کافر غرق کر دیئے گئے ۔ صرف وہ باایمان ہستیاں باقی رہیں جو نوح علیہ السلام کے ساتھ ان کی کشتی میں تھیں اور نوح علیہ السلام نے انہیں اپنے ساتھ اپنی کشتی میں سوار کر لیا تھا ۔ چونکہ نوح علیہ السلام کو سخت تلخ اور دیرینہ تجربہ ہو چکا تھا اس لیے اپنی ناامیدی کو ظاہر فرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ ” یا الٰہی میری چاہت ہے کہ ان تمام کفار کو برباد کر دیا جائے ، ان میں سے جو بھی باقی بچ رہا وہی دوسروں کی گمراہی کا باعث بنے گا اور جو نسل اس کی پھیلے گی وہ بھی اسی جیسی بدکار اور کافر ہو گی ۔ “ ساتھ ہی اپنے لیے بخشش طلب کرتے ہیں اور عرض کرتے ہیں ” میرے رب ! مجھے بخش میرے والدین کو بخش اور ہر اس شخص کو جو میرے گھر میں آ جائے اور ہو بھی وہ باایمان ۔ “ گھر سے مراد مسجد بھی لی ہے لیکن عام مراد یہی ہے ۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ” مومن ہی کے ساتھ بیٹھو ، رہو ، سہو اور صرف پرہیزگار ہی تیرا کھانا کھائیں ۔ “ یہ حدیث ابوداؤد اور ترمذی میں بھی ہے ، امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں صرف اسی اسناد سے یہ حدیث معروف ہے ۔ پھر اپنی دعا کو عام کرتے ہیں اور کہتے ہیں ” تمام ایماندار مرد و عورت کو بھی بخش خواہ زندہ ہوں خواہ مردہ ۔ “ اسی لیے مستحب ہے کہ ہر شخص اپنی دعا میں دوسرے مومنوں کو بھی شامل رکھے تاکہ نوح علیہ السلام کی اقتدأ بھی ہو اور ان احادیث پر بھی عمل ہو جائے جو اس بارے میں ہیں اور وہ دعائیں بھی آ جائیں جو منقول ہیں ۔ پھر دعا کے خاتمے پر کہتے ہیں کہ باری تعالیٰ ان کافروں کو تو تباہی ، بربادی ، ہلاکت اور نقصان میں ہی بڑھاتا رہ ، دنیا و آخرت میں برباد ہی رہیں ۔ «الْحَمْدُ لِلّٰہ» سورۃ نوح کی تفسیر بھی ختم ہو گئی ۔ نوح
26 نوح
27 نوح
28 نوح
0 الجن
1 جنات پر قرآن حکیم کا اثر اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے رسول محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ اپنی قوم کو اس واقعہ کی اطلاع دو کہ جنوں نے قرآن سنا اسے سچا مانا اس پر ایمان لائے اور اس کے مطیع بن گئے ، تو فرماتا ہے کہ ’ اے نبی ! تم کہو میری طرف وحی کی گئی کہ جنوں کی ایک جماعت نے قرآن سنا اور اپنی قوم میں جا کر خبر دی کہ آج ہم نے عجیب و غریب کتاب سنی جو سچا اور نجات کا راستہ بتاتی ہے ، ہم تو اسے مان چکے ، ناممکن ہے کہ اب ہم اللہ کے ساتھ کسی اور کی عبادت کریں ‘ ۔ یہی مضمون آیتوں میں گزر چکا ہے «وَإِذْ صَرَفْنَا إِلَیْکَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ یَسْتَمِعُونَ الْقُرْآنَ» ۱؎ (46-الأحقاف:29) الخ ، یعنی ’ جبکہ ہم نے جنوں کی ایک جماعت کو تیری طرف لوٹایا کہ وہ قرآن سنیں ‘ اور اس کی تفسیر احادیث سے وہیں ہم بیان کر چکے ہیں یہاں لوٹانے کی ضرورت نہیں ۔ پھر یہ جنات اپنی قوم سے فرماتے ہیں کہ ہمارے رب کے کام قدرت والے ، اس کے احکام بہت بلند و بالا ، بڑا ذیشان اور ذی عزت ہے ، اس کی نعمتیں ، قدرتیں اور مخلوق پر مہربانیاں بہت باوقعت ہیں اس کی جلالت و عظمت بلند پایہ ہے اس کا جلال و اکرام بڑھا چڑھا ہے اس کا ذکر بلند رتبہ ہے اس کی شان اعلیٰ ہے ۔ ایک روایت میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ «جَدٰ» کہتے ہیں باپ کو ۔ اگر جنات کو یہ علم ہوتا کہ انسانوں میں «جَدٰ» ہوتا ہے تو وہ اللہ کی نسبت یہ لفظ نہ کہتے ، یہ قول سنداً قوی ہے لیکن کلام بنتا نہیں اور کوئی مطلب سمجھ میں نہیں آتا ممکن ہے اس میں کچھ کلام چھوٹ گیا ہو ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» اللہ تعالیٰ کی یکتائی پر جنات کی گواہی پھر اپنی قوم سے کہتے ہیں کہ اللہ اس سے پاک اور برتر ہے کہ اس کی بیوی ہو یا اس کی اولاد ہو ، پھر کہتے ہیں کہ ہمارا بیوقوف یعنی شیطان اللہ پر جھوٹ تہمت رکھتا ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مراد اس سے عام ہو یعنی جو شخص اللہ کی اولاد اور بیوی ثابت کرتا ہے بے عقل ہے ، جھوٹ بکتا ہے ، باطل عقیدہ رکھتا ہے اور ظالمانہ بات منہ سے نکالتا ہے ۔ جنات کے بہکنے کا سبب پھر فرماتے ہیں کہ ہم تو اسی خیال میں تھے کہ جن و انس اللہ پر جھوٹ نہیں باندھ سکتے لیکن قرآن سن کر معلوم ہوا کہ یہ دونوں جماعتیں رب العالمین پر تہمت رکھتی تھیں ، دراصل اللہ کی ذات اس عیب سے پاک ہے ۔ پھر کہتے ہیں کہ جنات کے زیادہ بہکنے کا سبب یہ ہوا کہ وہ دیکھتے تھے کہ انسان جب کبھی کسی جنگل یا ویرانے میں جاتے ہیں تو جنات کی پناہ طلب کیا کرتے ہیں ، جیسے کہ جاہلیت کے زمانہ کے عرب کی عادت تھی کہ جب کبھی کسی پڑاؤ پر اترتے تو کہتے کہ اس جنگل کے بڑے جن کی پناہ میں ہم آتے ہیں اور سمجھتے تھے کہ ایسا کہہ لینے کے بعد تمام جنات کے شر سے ہم محفوظ ہو جاتے ہیں جس طرح کسی شہر میں جاتے تو وہاں کے بڑے رئیس کی پناہ لے لیتے تاکہ شہر کے اور دشمن لوگ انہیں ایذاء نہ پہنچائیں ۔ جنوں نے جب یہ دیکھا کہ انسان بھی ہماری پناہ لیتے ہیں تو ان کی سرکشی اور بڑھ گئی اور انہوں نے اور بری طرح انسانوں کو ستانا شروع کیا اور یہ بھی مطلب ہو سکتا ہے کہ جنات نے یہ حالت دیکھ کر انسانوں کو اور خوف زدہ کرنا شروع کیا اور انہیں طرح طرح سے ستانے لگے ۔ پہلے جنات انسانوں سے ڈرتے تھے دراصل جنات انسانوں سے ڈرا کرتے تھے جیسے کہ انسان جنوں سے بلکہ اس سے بھی زیادہ یہاں تک کہ جس جنگل بیابان میں انسان جا پہنچتا تھا وہاں سے جنات بھاگ کھڑے ہوتے تھے لیکن جب سے اہل شرک نے خود ان سے پناہ مانگنی شروع کی اور کہنے لگے کہ اس وادی کے سردار جن کی پناہ میں ہم آتے ہیں اس سے کہ ہمیں ہماری اولاد و مال کو کوئی ضرر نہ پہنچے ، اب جنوں نے سمجھا کہ یہ تو خود ہم سے ڈرتے ہیں تو ان کی جرات بڑھ گئی اور اب طرح طرح سے ڈرانا ستانا اور چھیڑنا انہوں نے شروع کیا ، وہ گناہ ، خوف ، طغیانی اور سرکشی میں اور بڑھ گئے ۔ کردم بن ابوسائب انصاری کہتے ہیں میں اپنے والد کے ہمراہ مدینہ سے کسی کام کے لیے باہر نکلا اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہو چکی تھی اور مکہ شریف میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت پیغمبر ظاہر ہو چکے تھے رات کے وقت ہم ایک چرواہے کے پاس جنگل میں ٹھہر گئے آدھی رات کے وقت ایک بھیڑیا آیا اور بکری اٹھا کر لے بھاگا ، چرواہا اس کے پیچھے دوڑا اور پکار کر کہنے لگا ” اے اس جنگل کے آباد رکھنے والے تیری پناہ میں آیا ہوا ایک شخص لٹ گیا “ ، ساتھ ہی ایک آواز آئی حالانکہ کوئی شخص نظر نہ آتا تھا کہ اے بھیڑیئے اس بکری کو چھوڑ دے ، تھوڑی دیر میں ہم نے دیکھا کہ وہی بکری بھاگی بھاگی آئی اور ریوڑ میں مل گئی اسے زخم بھی نہیں لگا تھا یہی بیان اس آیت میں ہے جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر مکہ میں اتری کہ ’ بعض لوگ جنات کی پناہ مانگا کرتے تھے ‘ ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:191/19،قال الشیخ زبیرعلی زئی:ضعیف) ممکن ہے کہ یہ بھیڑیا بن کر آنے والا بھی جن ہی ہو اور بکری کے بچے کو پکڑ کر لے گیا ہو اور چرواہے کی اس دہائی پر چھوڑ دیا ہو تاکہ چرواہے کو اور پھر اس کی بات سن کر اوروں کو اس بات کا یقین کامل ہو جائے کہ جنات کی پناہ میں آ جانے سے نقصانات سے محفوظ رہتے ہیں اور پھر اس عقیدے کے باعث وہ اور گمراہ ہوں اور اللہ کے دین سے خارج ہو جائیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» یہ مسلمان جن اپنی قوم سے کہتے ہیں کہ ’ اے جنو ! جس طرح تمہارا گمان تھا اسی طرح انسان بھی اسی خیال میں تھے کہ اب اللہ تعالیٰ کسی رسول کو نہ بھیجے گا ‘ ۔ الجن
2 الجن
3 الجن
4 الجن
5 الجن
6 الجن
7 الجن
8 بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جنات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے جنات آسمانوں پر جاتے کسی جگہ بیٹھتے اور کان لگا کر فرشتوں کی باتیں سنتے اور پھر آ کر کاہنوں کو خبر دیتے تھے اور کاہن ان باتوں کو بہت کچھ نمک مرچ لگا کر اپنے ماننے والوں سے کہتے ۔ اب جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغمبر بنا کر بھیجا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل ہونا شروع ہوا تو آسمان پر زبردست پہرے بٹھا دیئے گئے اور ان شیاطین کو پہلے کی طرح وہاں جا بیٹھنے اور باتیں اڑا لانے کا موقعہ نہ رہا ، تاکہ قرآن اور کاہنوں کا کلام خلط ملط نہ ہو جائے اور حق کے متلاشی کو دقت واقع نہ ہو ۔ یہ مسلمان جنات اپنی قوم سے کہتے ہیں کہ پہلے تو ہم آسمان پر جا بیٹھتے تھے مگر اب تو سخت پہرے لگے ہوئے ہیں اور آگ کے شعلے تاک لگائے ہوئے ہیں ایسے چھوٹ کر آتے ہیں کہ خطا ہی نہیں کرتے جلا کر بھسم کر دیتے ہیں ، اب ہم نہیں کہہ سکتے کہ اس سے حقیقی مراد کیا ہے ؟ اہل زمین کی کوئی برائی چاہی گئی ہے یا ان کے ساتھ ان کے رب کا ارادہ نیکی اور بھلائی کا ہے ؟ خیال کیجئے کہ یہ مسلمان جن کس قدر ادب داں تھے کہ برائی کی اسناد کے لیے کسی فاعل کا ذکر نہیں کیا اور بھلائی کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف کی اور کہا کہ دراصل آسمان کی اس نگرانی اس حفاظت سے کیا مطلب ہے ، اسے ہم نہیں جانتے ۔ ستارے کیوں جھڑتے ہیں؟ اسی طرح حدیث شریف میں بھی آیا ہے کہ { الہٰی تیری طرف سے شر اور برائی نہیں } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:771) ستارے اس سے پہلے بھی کبھی کبھی جھڑتے تھے لیکن اس طرح کثرت سے ان کا آگ برسانا قرآن کریم کی حفاظت و صیانت کے باعث ہوا تھا ، چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ { ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ناگہاں ایک ستارہ ٹوٹا اور بڑی روشنی ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے دریافت فرمایا کہ پہلے اسے جھڑتا دیکھ کر تم کیا کہا کرتے تھے ؟ ہم نے کہا اے اللہ کے رسول ! ہمارا خیال تھا کہ یا تو یہ کسی برے آدمی کے تولد پر ٹوٹتا ہے یا کسی بڑے کی موت پر ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” نہیں ، نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ جب کبھی کسی کام کا آسمان پر فیصلہ کرتا ہے “ } الخ ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2229) یہ حدیث پورے طور پر سورۃ سباء کی تفسیر میں گزر چکی ہے ۔ دراصل ستاروں کا بکثرت گرنا ، جنات کا ان سے ہلاک ہونا ، آسمان کی حفاظت کا بڑھ جانا ، ان کا آسمان کی خبروں سے محروم ہو جانا ہی اس امر کا باعث بنا کر یہ نکل کھڑے ہوئے اور انہوں نے چاروں طرف تلاش کر دی کہ کیا وجہ ہوئی کہ ہمارا آسمانوں پر جانا موقوف ہوا چنانچہ ان میں سے ایک جماعت کا گزر عرب میں ہوا اور یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صبح کی نماز میں قرآن شریف پڑھتے ہوئے سنا اور سمجھ گئے کہ اس نبی کی بعثت اور اس کلام کا نزول ہی ہماری بندش کا سبب ہے ، پس خوش نصیب سمجھدار جن تو مسلمان ہو گئے ، باقی جنات کو ایمان نصیب نہ ہوا ۔ سورۃ الأحقاف کی آیت «‏‏‏‏وَاِذْ صَرَفْنَآ اِلَیْکَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ یَسْتَمِعُوْنَ الْقُرْاٰنَ فَلَمَّا حَضَرُوْہُ قَالُوْٓا اَنْصِتُوْا فَلَمَّا قُضِیَ وَلَّوْا اِلٰی قَوْمِہِمْ مٰنْذِرِیْنَ» ‏‏‏‏ ۱؎ (46-الأحقاف:29) میں اس کا پورا بیان گزر چکا ہے ۔ ستاروں کا ٹوٹنا آسمان کا محفوظ ہو جانا جنات ہی کے لیے نہیں بلکہ انسانوں کے لیے بھی ایک خوفناک علامت تھی ، وہ گھبرا رہے تھے اور منتظر تھے کہ دیکھئیے نتیجہ کیا ہوتا ہے ؟ اور عموماً انبیاء علیہم السلام کی تشریف آوری اور دین اللہ کے اظہار کے وقت ایسا ہوتا بھی تھا ۔ سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ شیاطین اس سے پہلے آسمانی بیٹکھوں میں بیٹھ کر فرشتوں کی آپس کی باتیں اڑا لایا کرتے تھے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم پیغمبر بنائے گئے تو ایک رات ان شیاطین پر بڑی شعلہ باری ہوئی جسے دیکھ کر اہل طائف گھبرا گئے کہ شاید آسمان والے ہلاک ہو گئے انہوں نے دیکھا کہ تابڑ توڑ ستارے ٹوٹ رہے ہیں ، شعلے اڑ رہے ہیں اور دور دور تک تیزی کے ساتھ جا رہے ہیں انہوں نے اپنے غلام آزاد کرنے ، اپنے جانور راہ اللہ چھوڑنے شروع کر دیئے ۔ آخر عبد یا لیل بن عمرہ بن عمیر نے ان سے کہا کہ اے طائف والو ! تم کیوں اپنے مال برباد کر رہے ہو ؟ تم نجوم دیکھو اگر ستاروں کو اپنی اپنی جگہ پاؤ تو سمجھ لو کہ آسمان والے تباہ نہیں ہوئے بلکہ یہ سب کچھ انتظامات صرف ابن ابی کبشہ کے لیے ہو رہے ہیں [ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ] اور اگر تم دیکھو کہ فی الحقیقت ستارے اپنی مقررہ جگہ پر نہیں تو بیشک اہل آسمان کو ہلاک شدہ مان لو ، انہوں نے نجوم دیکھا تو ستارے سب اپنی اپنی مقررہ جگہ پر نظر آئے تب انہیں چین آیا ۔ شیاطین میں بھاگ دوڑ مچ گئی یہ ابلیس کے پاس آئے واقعہ کہہ سنایا تو ابلیس نے کہا ، میرے پاس ہر ہر علاقے کی مٹی لاؤ ، چنانچہ لائی گئی ، اس نے سونگھی اور سونگھ کر بتایا کہ اس کا انقلاب کا سبب مکہ میں ہے ، سات جنات نصیبین کے رہنے والے مکہ پہنچے یہاں حضور علیہ السلام مسجد الحرام میں نماز پڑھا رہے تھے اور قرآن کریم کی تلاوت کر رہے تھے جسے سن کر ان کے دل نرم ہو گئے بہت ہی قریب ہو کر قرآن سنا پھر اس کے اثر سے مسلمان ہوگئے اور اپنی قوم کو بھی دعوت اسلام دی ۔ «اَلْحَمْدُ لِلہِ» ہم نے اس تمام واقعہ کو پورا پورا اپنی کتاب ” السیرۃ “ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے آغاز کے بیان میں لکھا ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» الجن
9 الجن
10 الجن
11 جنات میں بھی کافر اور مسلمان موجود ہیں جنات اپنی قوم کا اختلاف بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ” ہم میں نیک بھی ہیں اور بد بھی ہیں ہم مختلف راہوں پر لگے ہوئے تھے “ ۔ اعمش رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ” ایک جن ہمارے پاس آیا کرتا تھا ، میں نے ایک مرتبہ اس سے پوچھا کہ تمام کھانوں میں سے تمہیں کون سا کھانا پسند ہے ؟ اس نے کہا چاول ۔ میں نے لا کر دیئے تو دیکھا کہ لقمہ برابر اٹھ رہا ہے لیکن کھانے والا کوئی نظر نہیں آتا ۔ میں نے پوچھا جو خواہشات ہم میں ہیں کیا تم بھی ہیں ؟ اس نے کہا ہاں ، میں نے پھر پوچھا کہ رافضی تم میں کیسے گنے جاتے ہیں ؟ کہا بدترین ۔ حافظ ابوالحجاج مذنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس کی سند صحیح ہے ۔ ابن عساکر میں ہے عباس بن احمد دمشقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں نے رات کے وقت ایک جن کو اشعار میں یہ کہتے سنا کہ دل اللہ کی محبت سے لبریز ہو گئے ہیں ۔ یہاں تک کہ مشرق و مغرب میں اس کی جڑیں جم گئی ہیں اور اللہ کی محبت میں حیران و پریشان ادھر ادھر پھر رہے ہیں جو ان کا رب ہے انہوں نے مخلوق سے تعلقات کاٹ کر اپنے تعلقات اللہ سے وابستہ کر لیے ہیں ۔ پھر ہم کہتے ہیں ہمیں معلوم ہو چکا کہ اللہ کی قدرت ہم پر حاکم ہے ہم اس سے نہ بھاگ کر بچ سکیں نہ کسی اور طرح اسے عاجز کر سکیں ۔ اب فخریہ کہتے ہیں کہ ہم تو ہدایت نامے کو سنتے ہی اس پر ایمان لا چکے ہیں ، فی الواقع ہے بھی یہ فخر کا مقام ۔ اس سے زیادہ شرف اور فضیلت اور کیا ہو سکتی ہے کہ رب کا کلام فوری اثر کرے ۔ الجن
12 الجن
13 1 پھر کہتے ہیں مومن کے نہ تو عمل نیک ضائع ہوں ، نہ اس پر خواہ مخواہ کی برائیاں لا دی جائیں ، جیسے اور جگہ ہے «فَلَا یَخٰفُ ظُلْمًا وَّلَا ہَضْمًا» ۱؎ (20-طہ:112) یعنی ’ نیک مومن کو ظلم و نقصان کا ڈر نہیں ‘ ۔ پھر کہتے ہیں ہم میں بعض تو مسلمان ہیں اور بعض حق سے ہٹے ہوئے عدل کو چھوڑے ہوئے ہیں ۔ مسلمان تو نجات کے متلاشی ہیں اور ظالم جہنم کی لکڑیاں ہیں ۔ اس کے بعد کی آیت «‏‏‏‏وَّاَنْ لَّوِ اسْتَــقَامُوْا عَلَی الطَّرِیْقَۃِ لَاَسْقَیْنٰہُمْ مَّاءً غَدَقًا» ‏‏‏‏ ۱؎ (72- الجن:16) ، کے دو مطلب بیان کئے گئے ہیں ایک تو یہ کہ اگر تمام لوگ اسلام پر اور راہ راست پر اور اطاعت الٰہی پر جم جاتے تو ہم ان پر بکثرت بارشیں برساتے اور خوب وسعت سے روزی دیتے ۔ جیسے اور جگہ ہے «وَلَوْ اَنَّہُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰیۃَ وَالْاِنْجِیْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِمْ مِّنْ رَّبِّہِمْ لَاَکَلُوْا مِنْ فَوْقِہِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِہِمْ مِنْہُمْ اُمَّۃٌ مٰقْتَصِدَۃٌ وَکَثِیْرٌ مِّنْہُمْ سَاءَ مَا یَعْمَلُوْنَ» ۱؎ (5-المائدۃ:66) یعنی ’ اگر یہ توراۃ وانجیل اور آسمانی کتابوں پر سیدھے اترتے تو انہیں آسمان و زمین سے روزیاں ملتیں ‘ ۔ اور فرمان ہے «‏‏‏‏وَلَوْ اَنَّ اَہْلَ الْقُرٰٓی اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْہِمْ بَرَکٰتٍ مِّنَ السَّمَاءِ وَالْاَرْضِ وَلٰکِنْ کَذَّبُوْا فَاَخَذْنٰہُمْ بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ» ۱؎ (7-الأعراف:96) ، یعنی ’ اگر بستی والے ایمان لاتے متقی بن جاتے تو ہم ان پر آسمان و زمین کی برکتیں کھول دیتے یہ اس لیے کہ ان کی پختہ جانچ ہو جائے کہ ہدایت پر کون جما رہتا ہے اور کون پھر سے گمراہی کی طرف لوٹ جاتا ہے ‘ ۔ مقاتل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” یہ آیت کفار قریش کے بارے میں اتری ہے جبکہ ان پر سات سال کا قحط پڑا تھا “ ، دوسرا مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ اگر یہ سب کے سب گمراہی پر جم جاتے تو ان پر رزق کے دروازے کھول دیئے جاتے تاکہ یہ خوب مست ہو جائیں اور اللہ کو بالکل بھول جائیں اور بدترین سزاؤں کے قابل ہو جائیں ۔ جیسے فرمان باری ہے «فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُکِّرُوْا بِہٖ فَتَحْنَا عَلَیْہِمْ اَبْوَابَ کُلِّ شَیْءٍ حَتّٰی اِذَا فَرِحُوْا بِمَآ اُوْتُوْٓا اَخَذْنٰہُمْ بَغْتَۃً فَاِذَا ہُمْ مٰبْلِسُوْنَ» ۱؎ (6-الأنعام:44) ، یعنی ’ جب وہ نصیحتیں بھلا بیٹھے تو ہم نے بھی ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیئے جس وہ مست بن گئے کہ ناگہاں ہم نے انہیں پکڑ لیا اور وہ مایوس ہو گئے ‘ ۔ اسی طرح کی آیت «‏‏‏‏اَیَحْسَبُوْنَ اَنَّمَا نُمِدٰہُمْ بِہٖ مِنْ مَّالٍ وَّبَنِیْنَ نُسَارِعُ لَہُمْ فِی الْخَیْرَاتِ بَل لَّا یَشْعُرُونَ نُسَارِعُ لَہُمْ فِی الْخَیْرَاتِ بَل لَّا یَشْعُرُونَ» ۱؎ (23-المؤمنون:56-55) ، بھی ہے ۔ پھر فرماتا ہے ’ جو بھی اپنے رب کے ذکر سے بے پرواہی برتے اس کا رب اسے درد ناک سخت اور مہلک عذابوں میں مبتلا کرتا ہے ‘ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ «صَعَدًا» جہنم کے ایک پہاڑ کا نام ہے اور سعید بن جبیر رحمہ اللہ کہتے ہیں جہنم کے ایک کنوئیں کا نام ہے ۔ الجن
14 الجن
15 الجن
16 الجن
17 الجن
18 آداب سجدہ اور جنات کا اسلام لانا اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو حکم دیتا ہے کہ ’ اس کی عبادت کی جگہوں کو شرک سے پاک رکھیں ، وہاں کسی دوسرے کا نام نہ پکاریں ، نہ کسی اور کو اللہ کی عبادت میں شریک کریں ‘ ۔ قتادہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہود و نصاریٰ اپنے گرجوں اور کنیسوں میں جا کر اللہ کے ساتھ اوروں کو بھی شریک کرتے تھے تو اس امت کو حکم ہو رہا ہے کہ وہ ایسا نہ کریں بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اور امت بھی سب توحید والے رہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اس آیت کے نزول کے وقت صرف مسجد الاقصیٰ تھی اور مسجد الحرام ۔ اعمش رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر یہ بیان بھی کی ہے کہ جنات نے حضور علیہ السلام سے اجازت چاہی کہ آپ کی مسجد میں اور انسانوں کے ساتھ نماز ادا کریں ، گویا ان سے کہا جا رہا ہے کہ نماز پڑھو لیکن انسانوں کے ساتھ خلط ملط نہ ہو ۔ سعید بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں جنوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ ہم تو دور دراز رہتے ہیں نمازوں میں آپ کی مسجد میں کیسے پہنچ سکیں گے ؟ تو انہیں کہا جاتا ہے کہ مقصود نماز کا ادا کرنا اور صرف اللہ ہی کی عبادت بجا لانا ہے خواہ کہیں ہو “ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری: 35128:مرسل) عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ آیت عام ہے اس میں سبھی مساجد شامل ہیں ۔ سعید بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت اعضاء سجدہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے یعنی جن اعضاء پر تم سجدہ کرتے ہو وہ سب اللہ ہی کے ہیں پس تم پر ان اعضاء سے دوسرے کے لیے سجدہ کرنا حرام ہے ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ مجھے { سات ہڈیوں پر سجدہ کرنے کا حکم کیا گیا ہے ، پیشانی اور ہاتھ کے اشارے سے ناک کو بھی اس میں شامل کر لیا اور دونوں ہاتھ ، دونوں گھٹنے اور دونوں پانچے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:812) آیت «‏‏‏‏لَمَّا قَامَ» کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ جنات نے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی تلاوت قرآن سنی تو اس طرح آگے بڑھ بڑھ کر عقیدت کا اظہار کرنے لگے کہ گویا ایک دوسرے کے سروں پر چڑھے چلے جاتے ہیں ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ جنات اپنی قوم سے کہہ رہے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم کی اطاعت و چاہت کی حالت یہ ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز کو کھڑے ہوتے ہیں اور اصحاب اصحاب پیچھے ہوتے ہیں تو برابر اطاعت و اقتداء میں آخر تک مشغول رہتے ہیں گویا ایک حلقہ ہے ۔ تیسرا قول یہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم توحید کا اعلان لوگوں میں کرتے ہیں تو کافر لوگ دانت چبا چبا کر الجھ جاتے ہیں ، جنات و انسان مل جاتے ہیں کہ اس امر دین کو مٹا دیں اور اس کی روشنی کو چھپا لیں مگر اللہ کا ارادہ اس کے خلاف ہو چکا ہے ۔ میں تو کسی کے نفع نقصان کا مالک نہیں یہ تیسرا قول ہی زیادہ ظاہر معلوم ہوتا ہے کیونکہ اس کے بعد ہے کہ ’ میں تو صرف اپنے رب کا نام ورد زبان رکھتا ہوں اور کسی اور کی عبادت نہیں کرتا ‘ ، یعنی جب دعوت حق اور توحید کی آواز ان کے کان میں پڑی جو مدتوں سے غیر مانوس ہو چکی تھی تو ان کفار نے ایذاء رسانی مخالفت اور تکذیب پر کمر باندھ لی حق کو مٹا دینا چاہا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عداوت پر سب متحد ہو گئے اس وقت ان سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ میں تو اپنے پالنے والے «‏‏‏‏وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ» کی عبادت میں مشغول ہوں میں اسی کی پناہ میں ہوں اسی پر میرا توکل ہے وہ ہی میرا سہارا ہے مجھ سے یہ توقع ہرگز نہ رکھو کہ میں کسی اور کے سامنے جھکوں یا اس کی پرستش کروں ، میں تم جیسا انسان ہوں ، تمہارے نفع نقصان کا مالک میں نہیں ہوں ، میں تو اللہ کا ایک غلام ہوں اللہ کے بندوں میں سے ایک ہوں ، تمہاری ہدایت ضلالت کا مختار و مالک میں نہیں ، سب چیزیں اللہ کے قبضے میں ہیں ، میں تو صرف پیغام رساں ہوں ، اگر میں خود بھی اللہ کی معصیت کروں تو یقیناً اللہ مجھے عذاب دے گا اور کسی سے نہ ہو سکے گا کہ مجھے بچا لے ، مجھے کوئی پناہ کی جگہ اس کے سوا نظر ہی نہیں آتی ، میری حیثیت صرف مبلغ اور رسول کی ہے ۔ بعض تو کہتے ہیں «الا» کا استثنا «لَا أَمْلِکُ» سے ہے یعنی میں نفع نقصان ہدایت ضلالت کا مالک نہیں میں تو صرف تبلیغ کرنے والا پیغام پہنچانے والا ہوں اور ہو سکتا ہے کہ «لَن یُجِیرَنِی» سے یہ استثناء ہو یعنی اللہ کے عذابوں سے مجھے صرف میری رسالت کی ادائیگی ہی بچا سکتی ہے ۔ جیسے اور جگہ ہے «‏‏‏‏یٰٓاَیٰھَا الرَّسُوْلُ بَلِّــغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗ وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَ» ۱؎ (5-المائدۃ:67) ، یعنی ’ اے رسول تیری طرف جو تیرے رب کی طرف سے اتارا گیا ہے اسے پہنچا دے اور اگر تو نے یہ نہ کیا تو تو نے حق رسالت ادا نہیں کیا اللہ تعالیٰ تجھے لوگوں سے بچا لے گا ۔ نافرمانوں کے لیے ہمیشہ والی جہنم کی آگ ہے جس میں سے نہ نکل سکیں نہ بھاگ سکیں ‘ ۔ جب یہ مشرکین جن و انس قیامت والے دن ڈراؤنے عذابوں کو دیکھ لیں گے اس وقت ظاہر ہو جائے گا کہ کمزور مددگاروں اور بے وقعت گنتی والوں میں کون کون شامل تھا ؟ یعنی مومن موحد یا یہ مشرک ، حقیقت یہ ہے کہ اس دن مشرکوں کا برائے نام بھی کوئی مدد کرنے والا نہیں ہو گا اور اللہ کے لشکروں کے مقابلہ پر ان کی گنتی بھی کچھ نہ ہو گی ۔ الجن
19 الجن
20 الجن
21 الجن
22 الجن
23 الجن
24 الجن
25 اللہ کے سوا قیامت کب ہوگی کسی کو نہیں معلوم اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ ’ لوگوں سے کہہ دیں کہ قیامت کب ہو گی ، اس کا علم مجھے نہیں ، بلکہ میں یہ بھی نہیں جانتا کہ اس کا وقت قریب ہے یا دور ہے اور لمبی مدت کے بعد آنے والی ہے ‘ ۔ اس آیت کریمہ میں دلیل ہے اس امر کی کہ اکثر جاہلوں میں جو مشہور ہے کہ حضور علیہ الصلوۃ و السلام زمین کی اندر کی چیزوں کا بھی علم رکھتے ہیں وہ بالکل غلط ہے اس روایت کی کوئی اصل نہیں محض جھوٹ ہے اور بالکل بے اصل روایت ہے ہم نے تو اسے کسی کتاب میں نہیں پایا ، ہاں اس کے خلاف صاف ثابت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قیامت کے قائم ہونے کا وقت پوچھا جاتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی معین وقت سے اپنی لاعلمی ظاہر کرتے تھے ، اعرابی کی صورت میں جبرائیل علیہ السلام نے بھی آ کر جب قیامت کے بارے میں سوال کیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف فرمایا تھا کہ اس کا علم نہ پوچھنے والے کو ہے نہ اسے جس سے پوچھا جا رہا ہے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:50) ایک اور حدیث میں ہے کہ { ایک دیہات کے رہنے والے نے باآواز بلند آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول! قیامت کب آئے گی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” وہ آئے گی ضرور مگر یہ بتا کہ تو نے اس کے لیے کیا تیاری کر رکھی ہے ؟ “ اس نے کہا : میرے پاس روزے نماز کی کثرت تو نہیں البتہ اللہ اور رسول کی محبت ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” پھر تو اس کے ساتھ ہو گا جس کی تجھے محبت ہے “ ، سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مسلمان کسی حدیث سے اس قدر خوش نہیں ہوئے جتنے اس حدیث سے } ۱؎ (صحیح بخاری:6167) اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ قیامت کا ٹھیک وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم نہ تھا ، ابن ابی حاتم میں ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اے لوگو ! اگر تم میں علم ہے تو اپنے تئیں مردوں میں شمار کیا کرو اللہ کی قسم جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ یقیناً ایک وقت آنے والی ہے “ } ۱؎ (ابن ابی الدنیا فی قصر الامل ص:28-29:ضعیف) یہاں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی مقررہ وقت نہیں بتاتے ، ابوداؤد میں ہے کہ { اللہ تعالیٰ اس امت کو کیا عجب کہ آدھے دن تک کی مہلت دیدے } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4349،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اور روایت میں اتنا اور بھی ہے کہ سعد سے پوچھا گیا کہ آدھے دن سے کیا مراد ہے فرمایا : پانچ سو سال ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4350،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اللہ ہی عالم الغیب ہے پھر فرماتا ہے ’ اللہ عالم الغیب ہے وہ اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا مگر مرسلین میں سے جسے چن لے ‘ ۔ جیسے اور جگہ ہے «وَلَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْءٍ مِّنْ عِلْمِہٖٓ اِلَّا بِمَا شَاءَ» ۱؎ (2-البقرۃ:255) یعنی ’ اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہٰ نہیں کر سکتے مگر جو اللہ چاہے ‘ ۔ یعنی رسول خواہ انسانوں میں سے ہوں خواہ فرشتوں میں سے ہوں جسے اللہ جتنا چاہتا ہے بتا دیتا ہے بس وہ اتنا ہی جانتے ہیں ۔ پھر اس کی مزید تخصیص یہ ہوتی ہے کہ اس کی حفاظت اور ساتھ ہی اس علم کی اشاعت کے لیے جو اللہ نے اسے دیا ہے اس کے آس پاس ہر وقت نگہبان فرشتے مقرر رہتے ہیں ۔ «لِّیَعْلَمَ» کی ضمیر بعض نے تو کہا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہے یعنی جبرائیل علیہ السلام کے آگے پیچھے چار چار فرشتے ہوتے تھے تاکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یقین آ جائے کہ انہوں نے اپنے رب کا پیغام صحیح طور پر مجھے پہنچایا ہے اور بعض کہتے ہیں مرجع ضمیر کا اہل شرک ہے یعنی باری باری آنے والے فرشتے نبی اللہ کی حفاظت بھی کرتے ہیں شیطان سے اور اس کی ذریات سے تاکہ اہل شرک جان لیں کہ رسولوں نے رسالت اللہ ادا کر دی ، یعنی رسولوں کو جھٹلانے والے بھی رسولوں کی رسالت کو جان لیں مگر اس میں کچھ اختلاف ہے ۔ امام یعقوب کی قرأت پیش کے ساتھ ہے یعنی لوگ جان لیں کہ رسولوں نے تبلیغ کر دی اور ممکن ہے کہ یہ مطلب ہو کہ اللہ تعالیٰ جان لے یعنی وہ اپنے رسولوں کی اپنے فرشتے بھیج کر حفاظت کرتا ہے تاکہ وہ رسالت ادا کر سکیں اور وحی الٰہی محفوظ رکھ سکیں اور اللہ جان لے کہ انہوں نے رسالت ادا کر دی ۔ جیسے فرمایا «وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الَّتِی کُنتَ عَلَیْہَا إِلَّا لِنَعْلَمَ مَن یَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن یَنقَلِبُ عَلَیٰ عَقِبَیْہِ» ۱؎ (2-البقرہ:143) یعنی ’ جس قبیلے پر تو تھا اسے ہم نے صرف اس لیے مقرر کیا تھا کہ ہم رسول کے سچے تابعداروں اور مرتدوں کو جان لیں ‘ ۔ اور جگہ ہے «‏‏‏‏وَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَیَعْلَمَنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ»‏‏‏‏ ۱؎ (29-العنکبوت:11) یعنی ’ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو اور منافقوں کو برابر جان لے گا ‘ اور بھی اس قسم کی آیتیں ہیں مطلب یہ ہے کہ اللہ پہلے ہی سے جانتا ہے لیکن اسے ظاہر کر کے بھی جان لیتا ہے ، اسی لیے یہاں اس کے بعد ہی فرمایا کہ ’ ہر چیز اور سب کی گنتی اللہ کے علم کے احاطہٰ میں ہے ‘ ۔ «اَلْحَمْدُ لِلہِ» سورۃ الجن کی تفسیر ختم ہوئی ۔ الجن
26 الجن
27 الجن
28 الجن
0 المزمل
1 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قیام اللیل اور ترتیل قرآن کا حکم اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو حکم دیتا ہے کہ راتوں کے وقت کپڑے لپیٹ کر سو رہنے کو چھوڑیں اور تہجد کی نماز کے قیام کو اختیار کر لیں ، جیسے فرمان ہے « تَتَجَافَیٰ جُنُوبُہُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُونَ رَ‌بَّہُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَ‌زَقْنَاہُمْ یُنفِقُونَ» ۱؎ (32-السجدۃ:16) ، یعنی ’ ان کے پہلو بستروں سے الگ ہوتے ہیں اور اپنے رب کو خوف اور لالچ سے پکارتے ہیں اور ہمارے دیئے ہوئے میں سے دیتے رہتے ہیں ۔ ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پوری عمر اس حکم کی بجا آوری کرتے رہے تہجد کی نماز صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر واجب تھی یعنی امت پر واجب نہیں ہے ، جیسے اور جگہ ہے «وَمِنَ اللَّیْلِ فَتَہَجَّدْ بِہِ نَافِلَۃً لَّکَ عَسَیٰ أَن یَبْعَثَکَ رَبٰکَ مَقَامًا مَّحْمُودًا» ۱؎ (17-الإسراء:79) ، یعنی ’ راتوں کو تہجد پڑھا کر یہ حکم صرف تجھے ہے تیرا رب تجھے مقام محمود میں پہچانے والا ہے ۔ ‘ یہاں اس حکم کے ساتھ ہی مقدار بھی بیان فرما دی کہ آدھی رات یا کچھ کم و بیش ۔ 0 «مُزَّمِّلُ» کے معنی سونے والے اور کپڑا لپیٹنے والے کے ہیں ، اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی چادر اوڑھے لیٹے ہوئے تھے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’ اے قرآن کے مفہوم کو اچھی طرح اخذ کرنے والے تو آدھی رات تک تہجد میں مشغول رہا کر ، یا کچھ بڑھا گھٹا دیا کر اور قرآن کو آہستہ آہستہ ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کر تاکہ خوب سمجھتا جائے ۔ ‘ اس حکم کے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عامل تھے ، ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کریم کو ترتیل کے ساتھ پڑھتے تھے جس سے بڑی دیر میں سورت ختم ہوتی تھی گویا چھوٹی سی سورت بڑی سے بڑی ہو جاتی تھی ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:733) صحیح بخاری شریف میں ہے کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت کا وصف پوچھا جاتا ہے تو آپ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خوب مد کر کے پڑھا کرتے تھے پھر آیت «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ » پڑھ کر سنائی جس میں لفظ «اللہ» پر لفظ «رحمن» پر لفظ «رحیم» پر مد کیا ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:5046) ابن جریج میں ہے کہ { ہر ہر آیت پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پورا پورا وقف کرتے تھے ، جیسے «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ » پڑھ کر وقف کرتے ، آیت «الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ» پڑھ کر وقف کرتے ، آیت «الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» پڑھ کر وقف کرتے ، آیت «مَالِکِ یَوْمِ الدِّینِ» پڑھ کر ٹھہرتے ۔} یہ حدیث مسند احمد ابوداؤد اور ترمذی میں بھی ہے ۔۱؎ (سنن ترمذی:2927،قال الشیخ الألبانی:صحیح) مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے کہ { قرآن کے قاری سے قیامت والے دن کہا جائے گا کہ پڑھتا جا اور چڑھتا جا اور ترتیل سے پڑھ جیسے دنیا میں ترتیل سے پڑھا کرتا تھا تیرا درجہ وہ ہے جہاں تیری آخری آیت ختم ہو ۔ } یہ حدیث ابوداؤد و ترمذی اور نسائی میں بھی ہے اور امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ اسے حسن صحیح کہتے ہیں ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:1464،قال الشیخ الألبانی:حسن صحیح) ہم نے اس تفسیر کے شروع میں وہ احادیث وارد کر دی ہیں ، جو ترتیل کے مستحب ہونے اور اچھی آواز سے قرآن پڑھنے پر دلالت کرتی ہیں ، جیسے وہ حدیث جس میں ہے { قرآن کو اپنی آوازوں سے مزین کرو } ۱؎ (سنن ابوداود:1468،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ، اور { ہم میں سے وہ نہیں جو خوش آوازی سے قرآن نہ پڑھے } ۱؎ (صحیح بخاری:2527) اور ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ { اسے آل داؤد کی خوش آوازی عطا کی گئی ہے } ۱؎ (صحیح بخاری:5048) اور ابوموسیٰ کا فرمانا کہ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ ” آپ صلی اللہ علیہ وسلم سن رہے ہیں تو میں اور اچھے گلے سے زیادہ عمدگی کے ساتھ پڑھتا ۔ “ ۱؎ (صحیح مسلم:793) سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا فرمان کہ ریت کی طرح قرآن کو نہ پھیلاؤ اور شعروں کی طرح قرآن کو بے ادبی سے نہ پڑھو اس کی عجائب پر غور کرو اور دلوں میں اثر لیتے جاؤ اور اس میں دوڑ نہ لگاؤ کہ جلد سورت ختم ہو ۔ (بغوی) ایک شخص آ کر سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے کہتا ہے میں نے مفصل کی تمام سورتیں آج کی رات ایک ہی رکعت میں پڑھ ڈالیں ۔ آپ نے فرمایا : پھر تو تو نے شعروں کی طرح جلدی جلدی پڑھا ہو گا مجھے برابر برابر کی سورتیں خوب یاد ہیں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ملا کر پڑھا کرتے تھے پھر مفصل کی سورتوں میں سے بیس سورتوں کے نام لیے کہ ان میں سے دو دو سورتیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایک رکعت میں پڑھا کرتے تھے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:775) پھر فرماتا ہے ’ ہم تجھ پر عنقریب بھاری بوجھل بات اتاریں گے ۔ ‘ یعنی عمل میں ثقیل ہو گی اور اترتے وقت بوجہ اپنی عظمت کے گراں قدر ہو گی ۔ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ { ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اتری اس وقت آپ کا گھٹنا میرے گھٹنے پر تھا وحی کا اتنا بوجھ پڑا کہ میں تو ڈرنے لگا کہ میری ران کہیں ٹوٹ نہ جائے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:4592) مسند احمد میں ہے سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ” میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ وحی کا احساس بھی آپ کو ہوتا ہے ؟ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” میں ایسی آواز سنتا ہوں جیسے کسی زنجیر کے بجنے کی آواز ہو میں چپکا ہو جاتا ہوں جب بھی وحی نازل ہوتی ہے مجھ پر اتنا بوجھ پڑتا ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ میری جان نکل جائے گی ۔ “ ۱؎ (مسند احمد:222/2:ضعیف) صحیح بخاری کے شروع میں ہے حارث بن ہشام رضی اللہ عنہ پوچھتے ہیں ” یا رسول اللہ ! آپ کے پاس وحی کس طرح آتی ہے ؟ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” کبھی تو گھنٹی کی آواز کی طرح ہوتی ہے جو مجھ پر بہت بھاری پڑتی ہے اور وہ گنگناہٹ کی آواز ختم ہو جاتی ہے تو میں اس میں جو کچھ کہا گیا وہ مجھے خوب محفوظ ہو جاتا ہے اور کبھی فرشتہ انسانی صورت میں میرے پاس آتا ہے اور مجھ سے کلام کرتا ہے اور میں یاد کر لیتا ہوں “ ۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں { میں نے دیکھا ہے کہ سخت جاڑے والے دن میں بھی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اتر چکتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی مبارک سے پسینے کے قطرے ٹپکتے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:4592) مسند احمد میں ہے کہ کبھی اونٹنی پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوتے اور اسی طاقت میں وحی آتی تو اونٹنی جھک جاتی ۔ ۱؎ (مسند احمد:118/6:صحیح) ابن جریر میں یہ بھی ہے کہ پھر جب تک وحی ختم نہ ہو لے اونٹنی سے قدم نہ اٹھایا جاتا ، نہ اس کی گردن اونچی ہوتی ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:127/29:مرسل) مطلب یہ ہے کہ خود وحی کا اترنا بھی اہم اور بوجھل تھا پھر احکام کا بجا لانا اور ان کا عامل ہونا بھی اہم اور بوجھل تھا ۔ یہی قول امام ابن جریر رحمہ اللہ کا ہے ۔ عبدالرحمٰن رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ جس طرح دنیا میں یہ ثقیل کام ہے اسی طرح آخرت میں اجر بھی بڑا بھاری ملے گا ۔ رات کا اٹھنا نفس کی درستگی پھر فرماتا ہے رات کا اٹھنا نفس کو زیر کرنے کے لیے اور زبان کو درست کرنے کے لیے اکسیر ہے ، «نشاء» کے معنی حبشی زبان میں قیام کرنے کے ہیں ، رات بھر میں جب اٹھے اسے «نَاشِئَتۃَ الَّلیَلِ» کہتے ہیں ، تہجد کی نماز کی خوبی یہ ہے کہ دل اور زبان ایک ہو جاتا ہے اور تلاوت کے جو الفاظ زبان سے نکلتے ہیں دل میں گڑ جاتے ہیں اور بہ نسبت دن کے رات کی تنہائی میں معنی خوب ذہن نشین ہوتا جاتا ہے کیونکہ دن بھیڑ بھاڑ کا ، شورغل کا ، کمائی دھندے کا وقت ہوتا ہے ۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے آیت «أَقْوَمُ قِیلًا» ۱؎ (73-المزمل:6) کو «اَصْوَبُ قِیْلًا» پڑھا تو لوگوں نے کہا ہم تو «أَقْوَمُ» پڑھتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا «اَصْوَبُ اَقُوَمُ اَھْیَأ» اور ان جیسے سب الفاظ ہم معنی ہیں ۔ المزمل
2 المزمل
3 المزمل
4 المزمل
5 المزمل
6 المزمل
7 1 پھر فرماتا ہے ’ دن میں تجھے بہت فراغت ہے ، نیند کر سکتے ہو ، سو بیٹھ سکتے ہو ، راحت حاصل کر سکتے ہو ، نوافل بکثرت ادا کر سکتے ہو ، اپنے دنیوی کام کاج پورے کر سکتے ہو، پھر رات کو آخرت کے کام کے لیے خاص کر لو ۔ ‘ اس بناء پر یہ حکم اس وقت تھا جب رات کی نماز فرض تھی پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بندوں پر احسان کیا اور بطور تخفیف کے اس میں کمی کر دی اور فرمایا ’ تھوڑی سی رات کا قیام کرو ۔ ‘ اس فرمان کے بعد عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم نے آیت «إِنَّ رَبَّکَ یَعْلَمُ أَنَّکَ تَقُومُ» سے «فَاقْرَءُوا مَا تَیَسَّرَ مِنْہُ» ۱؎ (73-المزمل:20) تک پڑھا اور آیت «وَمِنَ اللَّیْلِ فَتَہَجَّدْ بِہِ نَافِلَۃً لَّکَ عَسَیٰ أَن یَبْعَثَکَ رَبٰکَ مَقَامًا مَّحْمُودًا» ۱؎ (17-الإسراء:79) ، کی بھی تلاوت کی ۔ آپ کا یہ قول ہے بھی ٹھیک ۔ مسند احمد میں ہے کہ سعید بن ہشام رحمہ اللہ نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور مدینہ کی طرف چلے تاکہ وہاں کے اپنے مکانات بیچ ڈالیں اور ان کی قیمت سے ہتھیار وغیرہ خرید کر جہاد میں جائیں اور رومیوں سے لڑتے رہیں یہاں تک کہ یا تو روم فتح ہو یا شہادت ملے ، مدینہ شریف میں اپنی قوم والوں سے ملے اور اپنا ارادہ ظاہر کیا تو انہوں نے کہا ” سنو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی قوم میں سے چھ شخصوں نے بھی ارادہ کیا تھا کہ عورتوں کو طلاق دے دیں مکانات وغیرہ بیچ ڈالیں اور راہ اللہ کھڑے ہو جائیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ معلوم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا : ” کیا جس طرح میں کرتا ہوں کیا اس طرح کرنے میں تمہارے لیے اچھائی نہیں ہے ؟ خبردار ایسا نہ کرنا اپنے اس ارادے سے باز آ جاؤ ۔ “ یہ حدیث سن کر سعید رحمہ اللہ نے بھی اپنا ارادہ ترک کیا اور وہیں اسی جماعت سے کہا کہ تم گواہ رہنا میں نے اپنی بیوی سے رجوع کر لیا ۔ اب سعید چلے گئے پھر جب اس جماعت سے ملاقات ہوئی تو کہا کہ یہاں سے جانے کے بعد میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس گیا اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر پڑھنے کی کیفیت دریافت تو انہوں نے کہا اس مسئلے کو سب سے زیادہ بہتر طور پر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بتا سکتی ہیں تم وہیں جاؤ اور ام المؤمنین ہی سے دریافت کرو اور ام المؤمنین سے جو سنو وہ ذرا مجھ سے کہہ جانا ۔ میں حکیم بن افلح رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور ان سے میں نے کہا تم مجھے ام المؤمنین کی خدمت میں لے چلو ۔ انہوں نے فرمایا : میں وہاں نہیں جاؤں گا اس لیے کہ میں نے انہیں مشورہ دیا کہ آپس میں لڑنے والی جماعتوں یعنی سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور ان کے مقابلین کے بارے میں آپ دخل نہ دیجئیے لیکن انہوں نے نہ مانا اور دخل دیا ۔ میں نے انہیں قسم دی اور کہا کہ نہیں آپ مجھے ضرور وہاں لے چلئے خیر بمشکل تمام وہ راضی ہوئے اور میں ان کے ساتھ گیا ۔ ام المومنین رضی اللہ عنہا صاحبہ نے حکیم رضی اللہ عنہ کی آواز پہچان لی اور کہا : کیا حکیم ہے ؟ جواب دیا گیا کہ ہاں! میں حکیم بن افلح ہوں۔ پوچھا : تمہارے ساتھ کون ہیں ؟ کہا : سعید بن ہشام پوچھا : ہشام کون ؟ عامر کے لڑکے ؟ کہا : ہاں ! عامر کے لڑکے ۔ تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے عامر کے لیے دعائے رحمت کی اور فرمایا عامر بہت اچھا آدمی تھا اللہ اس پر رحم کرے ، میں نے کہا ام المومنین مجھے بتائیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کیا تھے ؟ آپ نے فرمایا : کیا تم قرآن نہیں پڑھتے ؟ میں نے کہا کیوں نہیں ؟ فرمایا : بس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خلق قرآن تھا ۔ اب میں نے اجازت مانگنے کا قصد کیا لیکن فوراً ہی یاد آ گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز کا حال بھی دریافت کر لوں ، اس سوال کے جواب میں ام المومنین رضی اللہ عنہا نے فرمایا : کیا تم نے سورۃ مزمل نہیں پڑھی ؟ میں نے کہا : ہاں پڑھی ہے ۔ فرمایا : سنو اس سورت کے اول حصے میں قیام الیل فرض ہوا اور سال بھر تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم تہجد کی نماز بطور فرضیت کے ادا کرتے رہے یہاں تک کہ قدموں پر ورم آ گیا ، بارہ ماہ کے بعد اس سورت کے خاتمہ کی آیتیں اتریں اور اللہ تعالیٰ نے تخفیف کر دی فرضیت اٹھ گئی اور عملی صورت باقی رہ گئی ۔ میں نے پھر اٹھنے کا ارادہ کیا لیکن خیال آیا کہ وتر کا مسئلہ بھی دریافت کر لوں تو میں نے کہا : ام المؤمنین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر پڑھنے کی کیفیت سے بھی آگاہ فرمایئے ۔ آپ نے فرمایا : ہاں ، سنو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسواک وضو کا پانی وغیرہ تیار ایک طرف رکھ دیا کرتے تھے جب بھی اللہ چاہتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ کھلتی اٹھتے مسواک کرتے وضو کرتے اور آٹھ رکعت پڑھتے بیچ میں تشہد میں بالکل نہ بیٹھتے آٹھویں رکعت پوری کر کے آپ التحیات میں بیٹھتے اللہ تبارک و تعالیٰ کا ذکر کرتے دعا کرتے اور زور سے سلام پھیرتے کہ ہم بھی سن لیں پھر بیٹھے بیٹھے ہی دو رکعت اور ادا کرتے [ اور ایک وتر پڑھتے ] بیٹا یہ سب مل کر گیارہ رکعت ہوئیں ، اب جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عمر رسیدہ ہوئے اور بدن بھاری ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سات وتر پڑھے پھر سلام پھیرنے کے بعد بیٹھ کر دو رکعت ادا کیں بس بیٹا یہ نو رکعت ہوئیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک تھی کہ جب کسی نماز کو پڑھتے تو پھر اس پر مداومت کرتے ہاں اگر کسی شغل یا نیند یا دکھ تکلیف اور بیماری کی وجہ سے رات کو نماز نہ پڑھ سکتے تو دن کو بارہ رکعت ادا فرما لیا کرتے میں نہیں جانتی کہ کسی ایک رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پورا قرآن صبح تک پڑھا ہو اور نہ رمضان کے سوا کسی اور مہینے کے پورے روزے رکھے ۔ اب میں ام المؤمنین سے رخصت ہو کر ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس آیا اور وہاں کے تمام سوال جواب دوہرائے آپ نے سب کی تصدیق کی اور فرمایا اگر میری بھی آمد و رفت ام المؤمنین کے پاس ہوتی تو جا کر خود اپنے کانوں سن آتا ۔ یہ حدیث صحیح مسلم شریف میں بھی ہے ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:746) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تہجد ابن جریر میں ہے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ” میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بوریا رکھ دیا کرتی جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تہجد کی نماز پڑھتے لوگوں نے کہیں یہ خبر سن لی اور رات کی نماز میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کرنے کے لیے وہ بھی آ گئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غضبناک ہو کر باہر نکلے چونکہ شفقت و رحمت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو امت پر تھی اور ساتھ ہی ڈر تھا کہ ایسا نہ ہو یہ نماز فرض ہو جائے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے فرمانے لگے کہ لوگو ! ان ہی اعمال کی تکلیف اٹھاؤ جن کی تم میں طاقت ہو اللہ تعالیٰ ثواب دینے سے نہ تھکے گا البتہ تم عمل کرنے سے تھک جاؤ گے سب سے بہتر عمل وہ ہے جس پر دوام ہو سکے ۔ ادھر قرآن کریم میں یہ آیتیں اتریں اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے قیام الیل شروع کیا یہاں تک کہ رسیاں باندھنے لگے کہ نیند نہ آ جائے ، آٹھ مہینے اسی طرح گزر گئے ان کی اس کوشش کو جو وہ اللہ کی رضا مندی کی طلب میں کر رہے تھے دیکھ کر اللہ نے بھی ان پر رحم کیا اور اسے فرض عشاء کی طرف لوٹا دیا اور قیام الیل چھوڑ دیا ۔ یہ روایت ابن ابی حاتم میں بھی ہے لیکن اس کا راوی موسیٰ بن عبیدہ زبیدی ضعیف ہے اصل حدیث بغیر سورۃ مزمل کے نازل ہونے کے ذکر کی صحیح میں بھی ہے اور اس حدیث کے الفاظ کے تسلسل سے تو یہ پایا جاتا ہے کہ یہ سورت مدینہ میں نازل ہوئی حالانکہ دراصل یہ سورت مکہ شریف میں اتری ہے ، اسی طرح اس روایت میں ہے کہ آٹھ مہینے کے بعد اس کی آخری آیتیں نازل ہوئیں یہ قول بھی غریب ہے ، صحیح وہی ہے جو بحوالہ مسند پہلے گزر چکا کہ سال بھر کے بعد آخری آیتیں نازل ہوئیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی ابن ابی حاتم میں منقول ہے کہ سورۃ مزمل کی ابتدائی آیتوں کے اترنے کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مثل رمضان شریف کے قیام کے قیام کرتے رہے اور اس سورت کی اول آخر کی آیتوں کے اترنے میں تقریباً سال بھر کا فاصلہ تھا ۔ ابواسامہ سے بھی ابن جریر میں اسی طرح مروی ہے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہما اور تہجد ابو عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ابتدائی آیتوں کے اترنے کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سال بھر تک قیام کیا یہاں تک کہ ان کے قدم اور پنڈلیوں پر ورم آ گیا پھر آیت «فَاقْرَءُوْا مَا تَیَسَّرَ مِنْہ» ۱؎ (73-المزمل:20) ، نازل ہوئی اور لوگوں نے راحت پائی ۔ حسن بصری اور سدی رحمہ اللہ علیہم کا بھی یہی قول ہے ۔ ابن ابی حاتم میں بہ روایت ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سولہ مہینے کا فاصلہ مروی ہے ، قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ایک سال یا دو سال تک قیام کرتے رہے پنڈلیاں اور قدم سوج گئے پھر آخری سورت کی آیتیں اتریں اور تخفیف ہو گئی ۔ سعید بن جبیر رحمتہ اللہ علیہ دس سال کا فاصلہ بتاتے ہیں ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:35174:مرسل) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ پہلی آیت کے حکم کے مطابق ایمانداروں نے قیام الیل شروع کیا لیکن بڑی مشقت پڑتی تھی پھر اللہ تعالیٰ نے رحم کیا اور آیت «عَلِمَ اَنْ سَیَکُوْنُ مِنْکُمْ مَّرْضٰی» سے «فَاقْرَءُوا مَا تَیَسَّرَ مِنْہُ» (73-المزمل:20) تک آیتیں نازل فرما کر وسعت کر دی اور تنگی نہ رکھی ۔ «فَلَہُ الْحَمْدُ» پھر فرمان ہے ’ اپنے رب کے نام کا ذکر کرتا رہ اور اس کی عبادت کے لیے فارغ ہو جا ۔ ‘ یعنی امور دنیا سے فارغ ہو کر دل جمعی اور اطمینان کے ساتھ بہ کثرت اس کا ذکر کر ، اس کی طرف مائل اور سراسر راغب ہو جا ، جیسے اور جگہ ہے «فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ» ۱؎ (94-الشرح:7) ، یعنی ’ جب اپنے شغل سے فارغ ہو تو ہماری عبادت محنت سے بجا لاؤ ، اخلاص ، فارغ البالی ، کوشش ، محنت ، دل لگی اور یکسوئی سے اللہ کی طرف جھک جاؤ ۔ ‘ ایک حدیث میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے «تتبل» سے منع فرمایا } یعنی بال بچے اور دنیا کو چھوڑ دینے سے ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:1082،قال الشیخ الألبانی:حسن لغیرہ) یہاں مطلب یہ ہے کہ علائق دنیوی سے کٹ کر اللہ کی عبادت میں توجہ اور انہماک کا وقت بھی ضرور نکالا کرو ۔ وہ مالک ہے ، وہ متصرف ہے مشرق مغرب سب اس کے قبضہ میں ہے اس کے سوا عبادت کے لائق کوئی نہیں ، تو جس طرح صرف اسی اللہ کی عبادت کرتا ہے اسی طرح صرف اسی پر بھروسہ بھی رکھ ۔ جیسے اور آیت میں ہے «فَاعْبُدْہُ وَتَوَکَّلْ عَلَیْہِ» ۱؎ (11-ھود:123) ’ اسی کی عبادت کر اور اسی پر بھروسہ کر ۔ ‘ یہی مضمون آیت «إِیَّاکَ نَعْبُدُ وَإِیَّاکَ نَسْتَعِینُ» ۱؎ (1-الفاتحۃ:5) میں بھی ہے ، اس معنی کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں کہ عبادت ، اطاعت ، توکل اور بھروسہ کے لائق ایک اس کی پاک ذات ہے ۔ المزمل
8 المزمل
9 المزمل
10 نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حوصلہ افزائی اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی کو کفار کی طعن آمیز باتوں پر صبر کرنے کی ہدایت کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ ’ ان کے حال پر بغیر ڈانٹ ڈپٹ کے ہی چھوڑ دے ، میں خود ان سے نمٹ لوں گا ۔ میرے غضب اور غصے کے وقت دیکھ لوں گا کہ کیسے یہ لوگ نجات پاتے ہیں ۔ ہاں ان کے مالدار خوش حال لوگوں کو جو بے فکر ہیں اور تجھے ستانے کے لیے باتیں بنا رہے ہیں جن پر دوہرے حقوق ہیں مال کے اور جان کے اور یہ ان میں سے ایک بھی ادا نہیں کرتے تو ان سے بے تعلق ہو جا پھر دیکھ کہ میں ان کے ساتھ کیا کرتا ہوں۔ ‘ «نُمَتِّعُہُمْ قَلِیلًا ثُمَّ نَضْطَرٰہُمْ إِلَیٰ عَذَابٍ غَلِیظٍ » ۱؎ (31-لقمان:24) ’ تھوڑی دیر دنیا میں تو چاہے یہ فائدہ اٹھا لیں گے مگر انجام کار عذابوں میں پھنسیں گے ‘ ، اور عذاب بھی کون سے ؟ سخت قید و بند کے ، بدترین بھڑکتی ہوئی نہ بجھنے والی اور نہ کم ہونے والی آگ کے اور ایسا کھانا جو حلق میں جا کر اٹک جائے نہ نگل سکیں نہ اگل سکیں اور بھی طرح طرح کے المناک عذاب ہوں گے ، پھر وہ وقت بھی ہو گا جب زمینوں میں اور پہاڑوں پر زلزلہ طاری ہو گا سخت اور بڑی چٹانوں والے پہاڑ آپس میں ٹکرا ٹکرا کر چور چور ہو گئے ہوں گے جیسے بھربھری ریت کے بکھرے ہوئے ذرے ہوں جنہیں ہوا ادھر سے ادھر لے جائے گی اور نام و نشان تک مٹا دے گی اور زمین ایک چٹیل صاف میدان کی طرح رہ جائے گی جس میں کہیں اونچ نیچ نظر نہ آئے گی ۔ اہل فرعون کی طرح نہ بنو پھر فرماتا ہے اے لوگو اور خصوصاً اے کافرو ہم نے تم پر گواہی دینے والا اپنا سچا رسول تم میں بھیج دیا ہے جیسے کہ فرعون کے پاس بھی ہم نے اپنے احکام کے پہنچا دینے کے لیے اپنے ایک رسول کو بھیجا تھا ، اس نے جب اس رسول کی نہ مانی تو تم جانتے ہو کہ ہم نے اسے بری طرح برباد کیا اور سختی سے پکڑ لیا ۔ ‘ اسی طرح یاد رکھو اگر اس نبی کی تم نے بھی نہ مانی تو تمہاری خیر نہیں اللہ کے عذاب تم پر بھی اتر آئیں گے اور نیست و نابود کر دیئے جاؤ گے کیونکہ یہ رسول رسولوں کے سردار ہیں ان کے جھٹلانے کا وبال بھی اور وبالوں سے بڑا ہے ۔ اس کے بعد کی آیت کے دو معنی ہیں ایک تو یہ کہ ’ اگر تم نے کفر کیا تو بتاؤ تو سہی کہ اس دن کے عذابوں سے کیسے نجات حاصل کرو گے ؟ جس دن کی ہیبت خوف اور ڈر بچوں کو بوڑھا کر دے گا ۔ ‘ اور دوسرے معنی یہ کہ ’ اگر تم نے اتنے بڑے ہولناک دن کا بھی کفر کیا اور اس کے بھی منکر رہے تو تمہیں تقویٰ اور اللہ کا ڈر کیسے حاصل ہو گا ؟ ‘ گو یہ دونوں معنی نہایت عمدہ ہیں لیکن اول اولیٰ ہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» جنتیوں اور جہنمیوں کی نسبت طبرانی میں ہے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا : { یہ قیامت کا دن ہے جس دن اللہ تعالیٰ آدم علیہ السلام سے فرمائے گا اٹھو اور اپنی اولاد میں سے دوزخیوں کو الگ الگ کرو ، وہ پوچھیں گے اے اللہ ! کتنی تعداد میں سے کتنے ؟ حکم ہو گا ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے۔ یہ سنتے ہی مسلمانوں کے تو ہوش اڑ گئے اور گھبرا گئے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے چہرے دیکھ کر سمجھ گئے اور بطور تشفی کے فرمایا : ” سنو بنو آدم بہت سے ہیں یاجوج ماجوج بھی اولاد آدم میں سے ہیں جن میں سے ہر ایک نسلی تسلسل میں خاص اپنی صلبی اولاد ایک ایک ہزار چھوڑ کر جاتا ہے پس ان میں اور ان حبشیوں میں مل کر دوزخیوں کی یہ تعداد ہو جائے گی اور جنت تمہارے لیے اور تم جنت کے لیے ہو جاؤ گے ۔ “ ۱؎ (طبرانی کبیر:12034:ضعیف) یہ حدیث غریب ہے اور سورۃ الحج کی تفسیر کے شروع میں اس جیسی احادیث کا تذکرہ گزر چکا ہے ۔ اس دن کی ہیبت اور دہشت کے مارے آسمان بھی پھٹ جائے گا ، بعض نے ضمیر کا مرجع اللہ کی طرف کیا ہے لیکن یہ قوی نہیں اس لیے کہ یہاں ذکر ہی نہیں ، اس دن کا وعدہ یقیناً سچ ہے اور ہو کر ہی رہے گا اس دن کے آنے میں کوئی شک نہیں ۔ المزمل
11 المزمل
12 المزمل
13 المزمل
14 المزمل
15 المزمل
16 المزمل
17 المزمل
18 المزمل
19 پیغام نصیحت و عبرت اور قیام الیل فرماتا ہے کہ ’ یہ سورۃ عقلمندوں کے لیے سراسر نصیحت و عبرت ہے جو بھی طالب ہدایت ہو وہ مرضی مولا سے ہدایت کا راستہ پا لے گا اور اپنے رب کی طرف پہنچ جانے کا ذریعہ حاصل کر لے گا ۔ ‘ جیسے دوسری سورۃ میں فرمایا «وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَن یَشَاءَ اللہُ إِنَّ اللہَ کَانَ عَلِیمًا حَکِیمًا» ۱؎ (76-الإنسان:30) ’ تمہاری چاہت کام نہیں آتی وہی ہوتا ہے جو اللہ چاہے ، صحیح علم والا اور پوری حکمت والا اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ ‘ پھر فرماتا ہے کہ ’ اے نبی! آپ کا اور آپ کے اصحاب کی ایک جماعت کا کبھی دو تہائی رات تک قیام میں مشغول رہنا ، کبھی آدھی رات اسی میں گزرنا ، کبھی تہائی رات تک تہجد پڑھنا اللہ تعالیٰ کو بخوبی معلوم ہے گو تمہارا مقصد ٹھیک اس وقت کو پورا کرنا نہیں ہوتا اور ہے بھی وہ مشکل کام ۔ ‘ کیونکہ رات دن کا صحیح اندازہ اللہ ہی کو ہے کبھی دونوں برابر ہوتے ہیں کبھی رات چھوٹی دن بڑا ، کبھی دن چھوٹا رات بڑی ، اللہ جانتا ہے کہ اس کو بنانے کی طاقت تم میں نہیں تو اب رات کی نماز اتنی ہی پڑھو جتنی تم باآسانی پڑھ سکو کوئی وقت مقرر نہیں کہ فرضاً اتنا وقت تو لگانا ہی ہو گا ۔ یہاں صلٰوۃ کی تعبیر قرأت سے کی ہے جیسے سورۃ سبحان میں کی ہے «وَلَا تَجْـہَرْ بِصَلَاتِکَ وَلَا تُخَافِتْ بِہَا وَابْتَغِ بَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیْلًا » ۱؎ (17-الإسراء:110) ’ نہ تو بہت بلند کر نہ بالکل پست کر ۔‘ نماز میں سورۂ فاتحہ امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ کے اصحاب نے اس آیت سے استدلال کر کے یہ مسئلہ لیا ہے کہ نماز میں سورۃ فاتحہ ہی کا پڑھنا متعین نہیں اسے پڑھے خواہ اور کہیں سے پڑھ لے گو ایک ہی آیت پڑھے کافی ہے اور پھر اس مسئلہ کی مضبوطی اس حدیث سے کی ہے جس میں ہے کہ بہت جلدی جلدی نماز ادا کرنے والے کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ” پھر پڑھ جو آسان ہو تیرے ساتھ قرآن سے ۔ “ ۱؎ (صحیح بخاری:397) یہ مذہب جمہور کے خلاف ہے اور جمہور نے انہیں یہ جواب دیا ہے کہ بخاری و مسلم کی عبادہ بن صامت والی حدیث میں آ چکا ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز نہیں ہے مگر یہ کہ تو سورۃ فاتحہ پڑھے ۔ } (صحیح بخاری:756) اور صحیح مسلم شریف میں بروایت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ہر وہ نماز جس میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی جائے وہ بالکل ادھوری محض ناکارہ ناقص اور ناتمام ہے ۔ “ } ۱؎ (صحیح مسلم:385) صحیح ابن خزیمہ میں بھی ان ہی کی روایت سے ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جو سورۃ فاتحہ نہ پڑھے ۔ } ۱؎ (صحیح ابن خریمہ:490:صحیح) [ پس ٹھیک قول جمہور کا ہی ہے کہ ہر نماز کی ہر ایک رکعت میں سورۃ فاتحہ کا پڑھنا لازمی اور متعین ہے ] ۔ مکہ میں جہاد کی پیشن گوئی پھر فرماتا ہے کہ ’ اللہ کو معلوم ہے کہ اس امت میں عذر والے لوگ بھی ہیں جو قیام الیل کے ترک پر معذور ہیں ۔ ‘ مثلاً بیمار کہ جنہیں اس کی طاقت نہیں ، مسافر جو روزی کی تلاش میں ادھر ادھر جا رہے ہیں ، مجاہد جو اہم تر شغل میں مشغول ہیں ۔ یہ آیت بلکہ یہ پوری سورت مکی ہے ، مکہ شریف میں نازل ہوئی اس وقت جہاد فرض نہیں تھا بلکہ مسلمان نہایت پست حالت میں تھے پھر غیب کی یہ خبر دینا اور اسی طرح ظہور میں بھی آنا کہ مسلمانوں جہاد میں پوری طرح مشغول ہوئے یہ نبوت کی اعلیٰ اور بہترین دلیل ہے ۔ تو ان معذورات کے باعث تمہیں رخصت دی جاتی ہے کہ جتنا قیام تم سے با آسانی کیا جا سکے کر لیا کرو ۔ ابورجاء محمد رحمہ اللہ نے حسن رحمتہ اللہ علیہ سے پوچھا کہ ” اے ابوسعید ! اس شخص کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں جو پورے قرآن کا حافظ ہے لیکن تہجد نہیں پڑھتا صرف فرض نماز پڑھتا ہے ؟ “ آپ نے فرمایا ” اس نے قرآن کو تکیہ بنا لیا اس پر اللہ کی لعنت ہو ، اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک غلام کے لیے فرمایا کہ «وَإِنَّہُ لَذُو عِلْمٍ لِّمَا عَلَّمْنَاہُ» (12-یوسف:68) ’ وہ ہمارے علم کو جاننے والا ہے ‘ اور فرمایا «وَعُلِّمْتُم مَّا لَمْ تَعْلَمُوا أَنتُمْ وَلَا آبَاؤُکُمْ» ۱؎ (6-الأنعام:91) ’ تم وہ سکھائے گئے ہو جسے نہ تم جانتے تھے نہ تمہارے باپ دادا ۔ ‘ میں نے کہا ، ابوسعید ! اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے ’ جو قرآن آسانی سے تم پڑھ سکو پڑھو ۔ ‘ فرمایا : ” ہاں ٹھیک تو ہے پانچ آیتیں ہی پڑھ لو ۔ “ پس بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ حافظ قرآن کا رات کی نماز میں کچھ نہ کچھ قیام کرنا امام حسن بصری رحمہ اللہ کے نزدیک حق و واجب تھا ، ایک حدیث بھی اس پر دلالت کرتی ہے جس میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس شخص کے بارے میں سوال ہوا جو صبح تک سویا رہتا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” یہ وہ شخص ہے جس کے کان میں شیطان پیشاب کر جاتا ہے ۔ “ ۱؎ (صحیح بخاری:1144) اس کا تو ایک تو یہ مطلب بیان کیا گیا ہے کہ اس سے مراد وہ شخص ہے جو عشاء کے فرض بھی نہ پڑھے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ جو رات کو نفلی قیام نہ کرے ۔ سنن کی حدیث میں ہے { اے قرآن والو وتر پڑھا کرو ۔ } ۱؎ (سنن ابوداود:1416،قال الشیخ الألبانی:صحیح) دوسری روایت میں ہے { جو وتر نہیں پڑھے وہ ہم میں سے نہیں ۔ } ۱؎ (سنن ابوداود:1419،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) حسن بصری رحمہ اللہ کے قول سے بھی زیادہ غریب قول ابوبکر بن عبدالعزیز حنبلی رحمہ اللہ کا ہے جو کہتے ہیں کہ رمضان کے مہینے کا قیام فرض ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» [ یہ یاد رہے کہ صحیح مسلک یہی ہے کہ تہجد کی نماز نہ تو رمضان میں واجب ہے ، نہ غیر رمضان میں ۔ رمضان کی بابت بھی حدیث شریف میں صاف آ چکا ہے «وَقِیَامَ لَیُلِہٖ تَطَوٰعاً» یعنی اللہ نے اس کے قیام کو نفلی قرار دیا ہے وغیرہ ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» مترجم ] طبرانی کی حدیث میں اس آیت کی تفسیر میں بہت مرفوعاً مروی ہے کہ { گو سو ہی آیتیں ہوں ۔ } ۱؎ (طبرانی کبیر:10940:ضعیف) لیکن یہ حدیث بہت غریب ہے صرف معجم طبرانی میں ہی میں نے اسے دیکھا ہے ۔ پھر ارشاد ہے کہ ’ فرض نمازوں کی حفاظت کرو اور فرض زکوٰۃ کی ادائیگی کیا کرو ۔ ‘ یہ آیت ان حضرات کی دلیل ہے جو فرماتے ہیں فرضیت زکوٰۃ کا حکم مکہ شریف میں ہی نازل ہو چکا تھا ہاں کتنی نکالی جائے ؟ نصاب کیا ہے ؟ وغیرہ یہ سب مدینہ میں بیان ہوا ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما ،عکرمہ مجاہد ، حسن ، قتادہ رحمہ اللہ علیہم وغیرہ سلف کا فرمان ہے کہ ” اس آیت نے اس سے پہلے کے حکم رات کے قیام کو منسوخ کر دیا ۔ “ ان دونوں حکموں کے درمیان کس قدر مدت تھی ؟ اس میں جو اختلاف ہے اس کا بیان اوپر گزر چکا ۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے فرمایا : ” پانچ نمازیں دن رات میں فرض ہیں ۔ “ اس نے پوچھا : اس کے سوا بھی کوئی نماز مجھ پر فرض ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” باقی سب نوافل ہیں ۔ “ } ۱؎ (صحیح بخاری:46) پھر فرماتا ہے ’ اللہ تعالیٰ کو اچھا قرض دو ۔ ‘ یعنی راہ اللہ صدقہ خیرات کرتے رہو جس پر اللہ تعالیٰ تمہیں بہت بہتر اور اعلیٰ اور پورا بدلہ دے گا ۔ جیسے اور جگہ ہے «مَّن ذَا الَّذِی یُقْرِضُ اللہَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضَاعِفَہُ لَہُ أَضْعَافًا کَثِیرَۃً» ۱؎ (2-البقرۃ:245) ’ ایسا کون ہے کہ اللہ تعالیٰ کو قرض حسن دے اور اللہ اسے بہت کچھ بڑھائے چڑھائے ۔‘ تم جو بھی نیکیاں کر کے بھیجو گے وہ تمہارے لیے اس چیز سے جسے تم اپنے پیچھے چھوڑ کر جاؤ گے بہت ہی بہتر اور اجر و ثواب میں بہت ہی زیادہ ہے ۔ ابو یعلیٰ موصلی کی روایت میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم سے ایک مرتبہ پوچھا : ” تم میں سے ایسا کون ہے جسے اپنے وارث کا مال اپنے مال سے زیادہ محبوب ہو ؟ “ لوگوں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! ہم میں سے تو ایک بھی ایسا نہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: : ” اور سوچ لو “ ، انہوں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! یہی بات ہے فرمایا: ” سنو تمہارا مال وہ ہے جسے تم راہ اللہ دے کر اپنے لیے آگے بھیج دو اور جو چھوڑ جاؤ گے وہ تمہارا مال نہیں وہ تو تمہارے وارثوں کا مال ہے “ ۔ } یہ حدیث بخاری شریف اور نسائی میں بھی مروی ہے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6442) پھر فرمان ہے کہ اللہ کا ذکر بکثرت کیا کرو اور اپنے تمام کاموں میں استغفار کیا کرو جو استغفار کرے وہ مغفرت حاصل کر لیتا ہے کیونکہ اللہ مغفرت کرنے والا اور مہربانیوں والا ہے ۔ «اَلْحَمْدُ لِلہِ» اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے سورۃ مزمل کی تفسیر ختم ہوئی ۔ المزمل
20 المزمل
0 المدثر
1 ابتدائے وحی سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے صحیح بخاری میں مروی ہے کہ سب سے پہلے قرآن کریم کی یہی آیت «‏‏‏‏یٰٓاَیٰہَا الْمُدَّثِّرُ» ۱؎ (74-المدثر:1) نازل ہوئی ہے ، لیکن جمہور کا قول یہ ہے کہ سب سے پہلی وحی «‏‏‏‏اِقْرَاْ باسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ» ۱؎ (96-العلق:1) کی آیتیں ہیں جیسے اسی سورت کی تفسیر کے موقعہ پر آئے گا ۔ «ان شاء اللہ تعالیٰ» یحییٰ بن ابو کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن رحمہ اللہ سے سوال کیا کہ سب سے پہلے قرآن کریم کی کون سی آیتیں نازل ہوئیں ؟ تو فرمایا «‏‏‏‏یٰٓاَیٰہَا الْمُدَّثِّرُ» ۱؎ (74-المدثر:1) میں نے کہا لوگ تو آیت «‏‏‏‏اِقْرَاْ باسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ» ۱؎ (96-العلق:1) بتاتے ہیں فرمایا ” میں نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے پوچھا تھا انہوں نے وہی جواب دیا جو میں نے تمہیں دیا اور میں نے بھی وہی کہا جو تم نے مجھے کہا اس کے جواب میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تو تم سے وہی کہتا ہوں جو ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ { میں حرا میں اللہ کی یاد سے جب فارغ ہوا اور اترا تو میں نے سنا کہ گویا مجھے کوئی آواز دے رہا ہے میں نے اپنے آگے پیچھے دائیں بائیں دیکھا مگر کوئی نظر نہ آیا تو میں نے سر اٹھا کر اوپر کو دیکھا تو آواز دینے والا نظر آیا ۔ میں خدیجہ کے پاس آیا اور کہا مجھے چادر اڑھا دو اور مجھ پر ٹھنڈا پانی ڈالو انہوں نے ایسا ہی کیا اور آیت «‏‏‏‏یٰٓاَیٰہَا الْمُدَّثِّرُ» ‏‏‏‏۱؎ (74-المدثر:1) کی آیتیں اتریں } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4922) صحیح بخاری مسلم میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی کے رک جانے کی حدیث بیان فرماتے ہوئے فرمایا کہ ایک مرتبہ میں چلا جا رہا تھا کہ ناگہاں آسمان کی طرف سے مجھے آواز سنائی دی ۔ میں نے نگاہ اٹھا کر دیکھا کہ جو فرشتہ میرے پاس غار حرا میں آیا تھا وہ آسمان و زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہے میں مارے ڈر اور گھبراہٹ کے زمین کی طرف جھک گیا اور گھر آتے ہی کہا کہ مجھے کپڑوں سے ڈھانک دو چنانچہ گھر والوں نے مجھے کپڑے اوڑھا دیئے اور سورۃ المدثر کی «‏‏‏‏وَالرٰجْزَ فَاہْجُرْ» ۱؎ (74-المدثر:5) تک کی آیتیں اتریں } ۔ ابوسلمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں «رٰجْزَ» سے مراد بت ہیں ۔ { پھر وحی برابر تابڑ توڑ گرما گرمی سے آنے لگی ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:4926) یہ لفظ بخاری کے ہیں اور یہی سیاق محفوظ ہے ۔ اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ اس سے پہلے بھی کوئی وحی آئی تھی کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان موجود ہے کہ یہ وہی تھا جو غار حرا میں میرے پاس آیا تھا یعنی جبرائیل علیہ السلام جبکہ غار میں سورۃ اقراء کی آیتیں «‏‏‏‏عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ» ۱؎ (96-العلق:5) تک پڑھا گئے تھے ۔ پھر اس کے بعد وحی کچھ زمانہ تک نہ آئی پھر جو اس کی آمد شروع ہوئی اس میں سب سے پہلے وحی سورۃ المدثر کی ابتدائی آیتیں تھیں اور اس طرح ان دونوں احادیث میں تطبیق بھی ہو جاتی ہے کہ دراصل سب سے پہلے وحی تو اقراء کی آیتیں ہیں پھر وحی کے رک جانے کے بعد کی سب سے پہلی وحی اس سورت کی آیتیں ہیں اس کی تائید مسند احمد وغیرہ کی احادیث سے بھی ہوتی ہے جن میں ہے کہ { وحی رک جانے کے بعد کی پہلی وحی اس کی ابتدائی آیتیں ہیں } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3238) طبرانی میں اس سورت کا شان نزول یہ مروی ہے کہ ولید بن مغیرہ نے قریشیوں کی دعوت کی جب سب کھا پی چکے تو کہنے لگا تم اس شخص کی بابت کیا کہتے ہو ؟ تو بعض نے کہا جادوگر ہے بعض نے کہا نہیں ہے ، بعض نے کہا کاہن ہے کسی نے کہا کاہن نہیں ہے ، بعض نے کہا شاعر ہے ، بعض نے کہا شاعر نہیں ہے ، بعض نے کہا اس کا یہ کلام یعنی قرآن منقول جادو ہے چنانچہ اس پر اجماع ہو گیا کہ اسے منقول جادو کہا جائے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ اطلاع پہنچی تو غمگین ہوئے اور سر پر کپڑا ڈال لیا اور کپڑا اوڑھ بھی لیا جس پر یہ آیتیں «وَلِرَبِّکَ فَاصْبِرْ» ۱؎ (74-المدثر:7) تک اتریں ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:11250،قال الشیخ زبیرعلی زئی:ضعیف) دعوت دین کے لوازمات پھر فرمایا ہے کہ ’ کھڑے ہو جاؤ ، یعنی عزم اور قومی ارادے کے ساتھ کمربستہ اور تیار ہو جاؤ اور لوگوں کو ہماری ذات سے ، جہنم سے ، اور ان کے بداعمال کی سزا سے ڈراؤ ۔ ان کو آگاہ کر دو ، ان سے غفلت کو دور کر دو ‘ ۔ پہلی وحی سے نبوت کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ممتاز کیا گیا اور اس وحی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم رسول بنائے گئے اور اپنے رب ہی کی تعظیم کرو اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھو یعنی معصیت ، بدعہدی ، وعدہ شکنی وغیرہ سے بچتے رہو ، جیسے کہ شاعر کے شعر میں ہے کہ «إَنِّی بِحَمْدِ اللہِ لَا ثَوْبَ فَاجِرٍ لَبِسْتُ وَلَا مِنْ غَدْرَۃٍ أَتَقَنَّعُ» بحمد للہ میں فسق و فجور کے لباس سے اور غدر کے رومال سے عاری ہوں ۔ عربی محاورے میں یہ برابر آتا ہے کہ کپڑے پاک صاف رکھو یعنی گناہ چھوڑ دو ، اعمال صالح کر لو ۔ یہ بھی مطلب کہا گیا ہے کہ ’ دراصل آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ تو کاہن ہیں ، نہ جادوگر ہیں یہ لوگ کچھ ہی کہا کریں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرواہ بھی نہ کریں ‘ ۔ عربی محاورے میں جو معصیت آلود ، بدعہد ہو اسے میلے اور گندے کپڑوں والا اور جو عصمت مآب ، پابند وعدہ ہو اسے پاک کپڑوں والا کہتے ہیں ۔ شاعر کہتا ہے «إِذَا الْمَرْءُ لَمْ یَدْنَسْ مِنَ اللٰؤْمِ عِرْضُہُ» *** «فَکُلٰ رِدَاءٍ یَرْتَدِیہِ جَمِیلُ» یعنی انسان جبکہ سیاہ کاریوں سے الگ ہے تو ہر کپڑے میں وہ حسین ہے اور یہ مطلب بھی ہے کہ غیر ضروری لباس نہ پہنو اپنے کپڑوں کو معصیت آلود نہ کرو ۔ کپڑے پاک صاف رکھو ، میلوں کو دھو ڈالا کرو ، مشرکوں کی طرح اپنا لباس ناپاک نہ رکھو ۔ دراصل یہ سب مطالب ٹھیک ہیں یہ بھی وہ بھی ۔ ساتھ ہی دل بھی پاک ہو دل پر بھی کپڑے کا اطلاق کلام عرب میں پایا جاتا ہے جیسے امرؤ القیس کے شعر میں ہے «أَفَاطِمَ مَہْلًا بَعْضَ ہَذَا التَّدَلٰلِ» *** «وَإِنْ کُنْتِ قَدْ أَزْمَعْتِ ہَجْرِی فَأَجْمِلِی» *** «وَإِنْ تَکُ قَدْ سَاءَتْکِ مِنِّی خَلِیقَۃٌ» *** «فَسُلِّی ثِیَابِی مِنْ ثِیَابِکِ تَنْسُلِ» اور سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے اس آیت کی تفسیر میں مروی ہے کہ ” اپنے دل کو اور اپنی نیت کو صاف رکھو “ ، محمد بن کعب قرظی اور حسن رحمہ اللہ علیہما سے یہ بھی مروی ہے کہ اپنے اخلاق کو اچھا رکھو ۔ گندگی کو چھوڑ دو یعنی بتوں کو اور اللہ کی نافرمانی چھوڑ دو ۔ جیسے اور جگہ فرمان ہے «‏‏‏‏یٰٓاَیٰہَا النَّبِیٰ اتَّقِ اللّٰہَ وَلَا تُطِـعِ الْکٰفِرِیْنَ وَالْمُنٰفِقِیْنَ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیْمًا حَکِیْمًا» ۱؎ (33-الأحزاب:1) ’ اے نبی ! اللہ سے ڈرو اور کافروں اور منافقوں کی نہ مانو ‘ ۔ موسیٰ علیہ السلام نے اپنے بھائی ہارون علیہ السلام سے فرمایا تھا «قَالَ مُوسَیٰ لِأَخِیہِ ہَارُونَ اخْلُفْنِی فِی قَوْمِی وَأَصْلِحْ وَلَا تَتَّبِعْ سَبِیلَ الْمُفْسِدِینَ» ۱؎ (7-الأعراف:142) ’ اے ہارون میرے بعد میری قوم میں تم میری جانشینی کرو اصلاح کے درپے رہو اور مفسدوں کی راہ اختیار نہ کرو ‘ ۔ نیکی کر دریا میں ڈال پھر فرماتا ہے ’ عطیہ دے کر زیادتی کے خواہاں نہ رہو ‘ ۔ ابن مسعود کی قرأت میں «وَلَا تَمْنُنْ أَنْ تَسْتَکْثِرَ» ہے ۔ یہ بھی مطلب بیان کیا گیا ہے کہ ’ اپنے نیک اعمال کا احسان اللہ پر رکھتے ہوئے حد سے زیادہ تنگ نہ کرو ‘ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’ طلب خیر میں غفلت نہ برتو ‘ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’ اپنی نبوت کا بار احسان لوگوں پر رکھ کر اس کے عوض دنیا طلبی نہ کرو ‘ ، یہ چار قول ہوئے ، لیکن اول اولیٰ ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» پھر فرماتا ہے ’ ان کی ایذاء پر جو راہ اللہ میں تجھے پہنچے تو رب کی رضا مندی کی خاطر صبر و ضبط کر ، اللہ تعالیٰ نے جو تجھے منصب دیا ہے اس پر لگا رہ اور جما رہ ‘ ۔ «نَّاقُورِ» سے مراد صور ہے ، مسند احمد ابن ابی حاتم وغیرہ میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” میں کیسے راحت سے رہوں ؟ حالانکہ صور والے فرشتے نے اپنے منہ میں صور لے رکھا ہے اور پیشانی جھکائے ہوئے حکم اللہ کا منتظر ہے کہ کب حکم ہو اور وہ صور پھونک دے “ ، اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا :یا رسول اللہ ! پھر ہمیں کیا ارشاد ہوتا ہے ؟ فرمایا : ” کہو «حَسْبنَا اللَّہ وَنِعْمَ الْوَکِیل عَلَی اللَّہ تَوَکَّلْنَا» “ } ۱؎ (مسند احمد:1/326:صحیح) پس صور کے پھونکے جانے کا ذکر کر کے یہ فرما کر جب صور پھونکا جائے گا پھر فرماتا ہے کہ ’ وہ دن اور وہ وقت کافروں پر بڑا سخت ہو گا جو کسی طرح آسان نہ ہو گا ‘ ۔ جیسے اور جگہ خود کفار کا قول مروی ہے کہ «یَقُولُ الْکَافِرُونَ ہٰذَا یَوْمٌ عَسِرٌ» ۱؎ (54-القمر:8) ’ یہ آج کا دن تو بے حد گراں اور سخت مشکل کا دن ہے ‘ ۔ زرارہ بن اوفی رحمتہ اللہ علیہ جو بصرہ کے قاضی تھے وہ ایک مرتبہ اپنے مقتدیوں کو صبح کی نماز پڑھا رہے تھے اسی سورت کی تلاوت تھی جب اس آیت پر پہنچے تو بےساختہ زور کی ایک چیخ منہ سے نکل گئی اور گر پڑے لوگوں نے دیکھا روح پرواز ہو چکی تھی ، اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمت نازل فرمائے ۔ المدثر
2 المدثر
3 المدثر
4 المدثر
5 المدثر
6 المدثر
7 المدثر
8 المدثر
9 المدثر
10 المدثر
11 جہنم کی ایک وادی، صعود اور ولید بن مغیرہ جس خبیث شخص نے اللہ کی نعمتوں کا کفر کیا اور قرآن کو انسانی قول کہا اس کی سزاؤں کا ذکر ہو رہا ہے ، پہلے جو نعمتیں اس پر انعام ہوئی ہیں ان کا بیان ہو رہا ہے کہ ’ یہ تن تنہا ، خالی ہاتھ دنیا میں آیا تھا ، مال اولاد دیا اور کچھ اس کے پاس نہ تھا پھر اللہ نے اسے مالدار بنا دیا ، ہزاروں لاکھوں دینار ، زر ، زمین وغیرہ عنایت فرمائی اور باعتبار بعض اقوال کے تیرہ اور بعض اور اقوال کے دس لڑکے دیئے جو سب کے سب اس کے پاس بیٹھے رہتے تھے نوکر ، چاکر ، لونڈی ، غلام کام کاج کرتے رہتے اور یہ مزے سے اپنی زندگی اپنی اولاد کے ساتھ گزارتا ، غرض دھن دولت لونڈی غلام بال بچے آرام آسائش ہر طرح کی مہیا تھی ، پھر بھی خواہش نفس پوری نہیں ہوتی تھی اور چاہتا تھا کہ اللہ اور بڑھا دے ، حالانکہ ایسا اب نہ ہو گا ، یہ ہمارے احکامات کے علم کے بعد بھی کفر اور سرکشی کرتا ہے اسے «صعود» پر چڑھایا جائے گا ‘ ۔ المدثر
12 المدثر
13 المدثر
14 المدثر
15 المدثر
16 1 مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ { «ویل» جہنم کی ایک وادی کا نام ہے جس میں کافر گرایا جائے گا چالیس سال تک اندر ہی اندر جاتا رہے گا لیکن پھر بھی تہ تک نہ پہنچے گا اور «صعود» جہنم کے ایک ناری پہاڑ کا نام ہے جس پر کافر کو چڑھایا جائے گا ستر سال تک تو چڑھتا ہی رہے گا پھر وہاں سے نیچے گرا دیا جائے گا ستر سال تک نیچے لڑھکتا رہے گا اور اسی ابدی سزا میں گرفتار رہے گا } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3164،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے اور امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ اسے غریب کہتے ہیں ، ساتھ ہی یہ حدیث منکر ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ «صعود» جہنم کے ایک پہاڑ کا نام ہے جو آگ کا ہے اسے مجبور کیا جائے گا اس پر چڑھے ہاتھ رکھتے ہی رکھتے ہی راکھ ہو جائے گا اور اٹھاتے ہی بدستور ویسا ہی ہو جائے گا اسی طرح پاؤں بھی ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : جہنم کی ایک چٹان کا نام ہے جس پر کافر اپنے منہ کے بل گھسیٹتا جائے گا ۔ سدی رحمہ اللہ کہتے ہیں یہ پتھر بڑا پھسلنا ہے ۔ مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں مطلب آیت کا یہ ہے کہ ہم اسے مشقت والا عذاب دیں گے ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ایسا عذاب جس میں اور جس سے کبھی بھی راحت نہ ہو ۔ امام جریر رحمہ اللہ اسی کو پسند فرماتے ہیں ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ ہم نے اسے اس تکلیف دہ عذاب سے اس لیے قریب کر دیا کہ وہ ایمان سے بہت دور تھا وہ سوچ سوچ کر خود ساختہ دنیا میں رہتا تھا کہ وہ قرآن کی مانند کہے اور بات بنائے پھر اس پر افسوس کیا جاتا ہے ‘ ، اور محاورہ عرب کے مطابق اس کی ہلاکت کے کلمے کہے جاتے ہیں کہ یہ غارت کر دیا جائے ، یہ برباد کر دیا جائے کتنا بدکلام ، بری سوچ ، کتنی بے حیائی سے جھوٹ بات گھڑلی ، اور بار بار غور و فکر کے بعد پیشانی پر بل ڈال کر ، منہ بگاڑ کر ، حق سے ہٹ کر ، بھلائی سے منہ موڑ کر ، اطاعت اللہ سے منہ پھیر کر ، دل کڑا کر کے کہہ دیا کہ یہ قرآن اللہ کا کلام نہیں بلکہ محمد اپنے سے پہلے لوگوں کا جادو کا منتر نقل کر لیا کرتے ہیں اور اسی کو سنا رہے ہیں یہ کلام اللہ کا نہیں بلکہ انسانی قول ہے اور جادو ہے جو نقل کیا جاتا ہے ، اس ملعون کا نام ولید بن مغیرہ مخزومی تھا ، قریش کا سردار تھا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں واقعہ یہ ہے کہ ” ایک مرتبہ یہ ولید پلید سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور خواہش ظاہر کی کہ آپ کچھ قرآن سنائیں ۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے چند آیتیں پڑھ سنائیں جو اس کے دل میں گھر کر گئیں ۔ جب یہاں سے نکلا اور کفار قریش کے مجمع میں پہنچا تو کہنے لگا ، لوگو ! تعجب کی بات ہے محمد جو قرآن پڑھتے ہیں اللہ کی قسم نہ تو وہ شعر ہے ، نہ جادو کا منتر ہے ، نہ مجنونانہ بڑ ہے بلکہ واللہ ! وہ تو خاص اللہ تعالیٰ ہی کا کلام ہے اس میں کوئی شک نہیں ، قریشیوں نے یہ سن کر سر پکڑ لئے اور کہنے لگے اگر یہ مسلمان ہو گیا تو بس پھر قریش میں سے ایک بھی بغیر اسلام لائے باقی نہ رہے گا ۔ ابوجہل کو جب یہ خبر پہنچی تو اس نے کہا گھبراؤ نہیں دیکھو میں ایک ترکیب سے اسے اسلام سے پھیر دوں گا یہ کہتے ہی اپنے ذہن میں ایک ترکیب سوچ کر یہ ولید کے گھر پہنچا اور کہنے لگا آپ کی قوم نے آپ کے لیے چندہ کر کے بہت سا مال جمع کر لیا ہے اور وہ آپ کو صدقہ میں دینے والے ہیں ، اس نے کہا واہ ! کیا مزے کی بات ہے مجھے ان کے چندوں اور صدقوں کی کیا ضرورت ہے دنیا جانتی ہے کہ ان سب میں مجھ سے زیادہ مال و اولاد والا کوئی نہیں ۔ ابوجہل نے کہا یہ تو ٹھیک ہے لیکن لوگوں میں ایسی باتیں ہو رہی ہیں کہ آپ جو ابوبکر کے پاس آتے جاتے ہیں وہ صرف اس لیے کہ ان سے کچھ حاصل و صول ہو ، ولید کہنے لگا اوہو ! میرے خاندان میں میری نسبت یہ چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں مجھے مطلق معلوم نہ تھا اب قسم اللہ کی نہ میں ابوبکر کے پاس جاؤں نہ عمر کے پاس نہ رسول [ صلی اللہ علیہ وسلم ] کے پاس اور وہ جو کچھ کہتے ہیں وہ صرف جادو ہے جو نقل کیا جاتا ہے ، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں یعنی «‏‏‏‏ذَرْنِیْ وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِیْدًا» ۱؎ (74-المدثر:11) سے «لَا تُبْقِی وَلَا تَذَرُ» (74-المدثر:28) تک ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:35420:ضعیف) قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس نے کہا تھا قرآن کے بارے میں بہت کچھ غور و خوض کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ یہ شعر تو نہیں اس میں حلاوت ہے ، اس میں چمک ہے ، یہ غالب ہے مغلوب نہیں لیکن ہے یقینًا جادو ۔ اس پر یہ آیتیں اتریں ۔ ابن جریر میں ہے کہ ولید حضور علیہ السلام کے پاس آیا تھا اور قرآن سن کر اس کا دل نرم پڑ گیا تھا اور پورا اثر ہو چکا تھا ۔ جب ابوجہل کو یہ معلوم ہوا تو دوڑا بھاگا آیا اور اس ڈر سے کہ کہیں یہ کھلم کھلا مسلمان نہ ہو جائے اسے بھڑکانے کے لیے جھوٹ موٹ کہنے لگا کہ چچا آپ کی قوم آپ کے لیے مال جمع کرنا چاہتی ہے پوچھا کیوں ؟ کہا اس لیے کہ آپ کو دین اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آپ کا جانا چھڑوائیں کیونکہ آپ وہاں مال حاصل کرنے کی غرض سے ہی جاتے آتے ہیں اس نے غصہ میں آ کر کہا میری قوم کو معلوم نہیں کہ میں ان سب سے زیادہ مالدار ہوں ؟ ابوجہل نے کہا یہ ٹھیک ہے لیکن اس وقت تو لوگوں کا یہ خیال پختہ ہو گیا کہ محمد سے مال حاصل کرنے کی غرض سے آپ اسی کے ہو گئے ہیں اگر آپ چاہتے ہیں کہ یہ بات لوگوں کے دلوں سے اٹھ جائے تو آپ اس کے بارے میں کچھ سخت الفاظ کہیں تاکہ لوگوں کو یقین ہو جائے کہ آپ اس کے مخالف ہیں اور آپ کو اس سے کوئی طمع نہیں ۔ اس نے کہا : بھئی بات تو یہ ہے کہ اس نے جو قرآن مجھے سنایا ہے قسم ہے اللہ کی نہ وہ شعر ہے ، نہ قصیدہ ہے اور نہ رجز ہے ، نہ جنات کا قول اور نہ ان کے اشعار ہیں ۔ تمہیں خوب معلوم ہے کہ جنات اور انسان کا کلام مجھے خوب یاد ہے میں خود نامی گرامی شاعر ہوں ، کلام کے حسن و قبح سے خوب واقف ہوں لیکن اللہ کی قسم محمد کا کلام اس میں سے کچھ بھی نہیں اللہ جانتا ہے اس میں عجب حلاوت مٹھاس لذت شیفتگی اور دلیری ہے وہ تمام کلاموں کا سردار ہے اس کے سامنے اور کوئی کلام جچتا نہیں وہ سب پر چھا جاتا ہے اس میں کشش ، بلندی اور جذب ہے اب تم ہی بتاؤ کہ میں اس کلام کی نسبت کیا کہوں ؟ ابوجہل نے کہا سنو ! جب تک تم اسے برائی کے ساتھ یاد نہ کرو گے تمہاری قوم کے خیالات تمہاری نسبت صاف نہیں ہوں گے، اس نے کہا : اچھا تو مجھے مہلت دو میں سوچ کر اس کی نسبت کوئی ایسا کلمہ کہہ دوں گا چنانچہ سوچ سوچ کر قومی حمیت اور ناک رکھنے کی خاطر اس نے کہہ دیا کہ یہ تو جادو ہے جسے وہ نقل کرتا ہے اس پر «ذَرْنِی وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِیدًا» سے «عَلَیْہَا تِسْعَۃَ عَشَرَ» ‏‏‏‏(المدثر:11۔30) تک کی آیتیں اتریں۔ سدی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ دارالندوہ میں بیٹھ کر ان سب لوگوں نے مشورہ کیا کہ موسم حج پر چاروں طرف سے لوگ آئیں گے تو بتاؤ انہیں محمد کی نسبت کیا کہیں ؟ کوئی ایسی تجویز کرو کہ سب بیک زبان وہی بات کہیں تاکہ عرب بھر میں اور پھر ہر جگہ بھی وہی مشہور ہو جائے تو اب کسی نے شاعر کہا ، کسی نے جادوگر کہا ، کسی نے کاہن اور نجومی کہا ، کسی نے مجنون اور دیوانہ کہا ولید بیٹھا سوچتا رہا اور غور و فکر کر کے دیکھ بھال کر تیوری چڑھا اور منہ بنا کر کہنے لگا جادوگروں کا قول ہے جسے یہ نقل کر رہا ہے، قرآن کریم میں اور جگہ ہے «‏‏‏‏اُنْظُرْ کَیْفَ ضَرَبُوْا لَکَ الْاَمْثَالَ فَضَلٰوْا فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ سَبِیْلًا» (17-الإسراء:48) یعنی ’ ذرا دیکھ تو سہی تیری کیسی کیسی مثالیں گھڑتے ہیں لیکن بہک بہک کر رہ جاتے ہیں اور کسی نتیجہ تک نہیں پہنچ سکتے ‘ ۔ ولید کے لئے جہنم کی سزا اب اس کی سزا کا ذکر ہو رہا ہے کہ ’ میں انہیں جہنم کی آگ میں غرق کر دوں گا جو زبردست خوفناک عذاب کی آگ ہے جو گوشت پوست کے رگ پٹھوں کو کھا جاتی ہے پھر یہ سب تازہ پیدا کئے جاتے ہیں اور پھر زندہ کئے جاتے ہیں ، نہ موت آئے ، نہ راحت والی زندگی لے ، کھال ادھیڑ دینے والی وہ آگ ہے ایک ہی لپک میں جسم کو رات سے زیادہ سیاہ کر دیتی وہ جسم و جلد کو بھون بھلس دیتی ہے ، انیس انیس داروغے اس پر مقرر ہیں جو نہ تھکیں نہ رحم کریں ‘ ۔ سیدنا براء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ چند یہودیوں نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے پوچھا : بتاؤ تو جہنم کے داروغوں کی تعداد کتنی ہے ؟ انہوں نے کہا اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں ، پھر کسی شخص نے آ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ واقعہ بیان کیا اسی وقت آیت «‏‏‏‏عَلَیْہَا تِسْعَۃَ عَشَرَ» ۱؎ (74-المدثر:30) نازل ہوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو سنا دی اور کہا : ” ذرا انہیں میرے پاس تو لاؤ میں بھی ان سے پوچھوں کہ جنت کی مٹی کیا ہے ؟ سنو وہ سفید میدہ کی طرح ہے “ ، پھر یہودی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ جہنم کے داروغوں کی تعداد کتنی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں دو دفعہ جھکائیں دوسری دفعہ میں انگوٹھا روک لیا یعنی انیس ۔ پھر فرمایا : ” تم بتلاؤ کے جنت کی مٹی کیا ہے ؟ “ انہوں نے ابن سلام رضی اللہ عنہ سے کہا آپ ہی کہئے ابن سلام رضی اللہ عنہ نے کہا : گویا وہ سفید روٹی ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” یاد رکھو یہ سفید روٹی وہ جو خالص میدے کی ہو “ ۔ ۱؎ (بہیقی فی النشور:509:ضعیف) مسند بزار میں ہے کہ { جس شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو صحابہ رضی اللہ عنہم کے لاجواب ہونے کی خبر دی اس نے آ کر کہا کہ آج تو آپ کے اصحاب ہار گئے پوچھا : ” کیسے ؟ “ اس نے کہا : ان سے جواب نہ بن پڑا اور کہنا پڑا کہ ہم اپنے نبی سے پوچھ لیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” بھلا وہ ہارے ہوئے کیسے کہے جا سکتے ہیں ؟ جن سے جو بات پوچھی جاتی ہے اگر وہ نہیں جانتے تو کہتے ہیں کہ ہم اپنے نبی سے پوچھ کر جواب دیں گے ۔ ان یہودیوں کو دشمنان الٰہی کو ذرا میرے پاس تو لاؤ ہاں انہوں نے اپنے نبی سے اللہ کو دیکھنے کا سوال کیا تھا اور ان پر عذاب بھیجا گیا تھا “ } ۔ اب یہود بلوائے گئے جواب دیا گیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سوال پر یہ بڑے چکرائے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3327،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) المدثر
17 المدثر
18 المدثر
19 المدثر
20 المدثر
21 المدثر
22 المدثر
23 المدثر
24 المدثر
25 المدثر
26 المدثر
27 المدثر
28 المدثر
29 المدثر
30 المدثر
31 سخت دل بےرحم فرشتے اور ابو جہل اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’ عذاب دینے پر اور جہنم کی نگہبانی پر ہم نے فرشتے ہی مقرر کئے ہیں جو سخت بے رحم اور سخت کلامی کرنے والے ہیں ‘ ۔ اس میں مشرکین قریش کی تردید ہے انہیں جس وقت جہنم کے داروغوں کی گنتی بتلائی گئی تو ابوجہل نے کہا : اے قریشیوں یہ اگر انیس ہیں تو زیادہ سے زیادہ ایک سو نوے ہم مل کر انہی ہرا دیں گے اس پر کہا جاتا ہے کہ ’ وہ فرشتے ہیں انسان نہیں انہیں نہ تم ہرا سکو ، نہ تھکا سکو ‘ ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ابو الاشدین جس کا نام کلدہ بن اسید بن خلف تھا اس نے اس گنتی کو سن کر کہا کہ قریشیو ! تم سب مل کر ان میں سے دو کو روک لینا باقی سترہ کو میں کافی ہوں ، یہ بڑا مغرور شخص تھا اور ساتھ ہی بڑا قوی تھا یہ گائے کے چمڑے پر کھڑا ہو جاتا پھر دس طاقتور شخص مل کر اسے اس کے پیروں تلے سے نکالنا چاہتے کھال کے ٹکڑے اڑ جاتے لیکن اس کے قدم جنبش بھی نہ کھاتے ۔ یہی شخص ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آ کر کہا تھا کہ آپ مجھ سے کشتی لڑیں اگر آپ نے مجھے گرا دیا تو میں آپ کی نبوت کو مان لوں گا ، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کشتی کی اور کئی بار گرایا لیکن اسے ایمان لانا نصیب نہ ہوا ۔ امام ابن اسحاق رحمہ اللہ نے کشتی والا واقعہ رکانہ بن عبد یزید بن ہاشم بن عبدالمطلب کا بتایا ہے ، میں کہتا ہوں ان دونوں میں کچھ تفاوت نہیں [ ممکن ہے اس سے اور اس سے دونوں سے کشتی ہوئی ہو] ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» پھر فرمایا کہ ’ اس گنتی کا ذکر تھا ہی امتحان کے لیے ‘ ، ایک طرف کافروں کا کفر کھل گیا ، دوسری جانب اہل کتاب کا یقین کامل ہو گیا ، کہ اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت حق ہے کیونکہ خود ان کی کتاب میں بھی یہی گنتی ہے ، تیسری طرف ایماندار اپنے ایمان میں مزید توانا ہو گئے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کی تصدیق کی اور ایمان بڑھایا ، اہل کتاب اور مسلمانوں کو کوئی شک شبہ نہ رہا بیمار دل اور منافق چیخ اٹھے کہ بھلا بتاؤ کہ اسے یہاں ذکر کرنے میں کیا حکمت ہے ؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’ ایسی ہی باتیں بہت سے لوگوں کے ایمان کی مضبوطی کا سبب بن جاتی ہے اور بہت سے لوگوں کے شبہ والے دل اور ڈانوا ڈول ہو جاتے ہیں اللہ کے یہ سب کام حکمت سے اور اسرار سے پر ہیں ، تیرے رب کے لشکروں کی گنتی اور ان کی صحیح تعداد اور ان کی کثرت کا کسی کو علم نہیں وہی خوب جانتا ہے ‘ ۔ یہ نہ سمجھ لینا کہ بس انیس ہی ہیں ، جیسے یونانی فلسفیوں اور ان کے ہم خیال لوگوں نے اپنی جہالت و ضلالت کی وجہ سے سمجھ لیا کہ اس سے مراد «الْعُقُولِ الْعَشَرَۃِ» اور «النٰفُوسِ التِّسْعَۃِ» ہیں حالانکہ یہ مجرد ان کا دعویٰ ہے جس پر دلیل قائم کرنے سے وہ بالکل عاجز ہیں ۔ افسوس کہ آیت کے اول پر تو ان کی نظریں ہیں لیکن آخری حصہ کے ساتھ وہ کفر کر رہے ہیں جہاں صاف الفاظ موجود ہیں کہ ’ تیرے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا پھر صرف انیس کے کیا معنی ؟ ‘ بخاری و مسلم کی معراج والی حدیث میں ثابت ہو چکا ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المعمور کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ ساتویں آسمان پر ہے اور اس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے جاتے ہیں اسی طرح دوسرے روز دوسرے ستر ہزار فرشتے اسی طرح ہمیشہ تک لیکن فرشتوں کی تعداد اس قدر کثیر ہے کہ جو آج گئے ان کی باری پھر قیامت تک نہیں آنے کی } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3207) مسند احمد میں ہے { رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” میں وہ دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے اور وہ سنتا ہوں جو تم نہیں سنتے آسمان چرچرا رہے ہیں اور انہیں چرچرانے کا حق ہے ۔ ایک انگلی ٹکانے کی جگہ ایسی خالی نہیں جہاں کوئی نہ کوئی فرشتہ سجدے میں نہ پڑا ہو ۔ اگر تم وہ جان لیتے جو میں جانتا ہوں تم بہت کم ہنستے ، بہت زیادہ روتے اور بستروں پر اپنی بیویوں کے ساتھ لذت نہ پا سکتے بلکہ فریاد و زاری کرتے ہوئے جنگلوں کی طرف نکل کھڑے ہوتے } ۔ اس حدیث کو بیان فرما کر سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کی زبان سے بے ساختہ یہ نکل جاتا کاش ! کہ میں کوئی درخت ہوتا جو کاٹ دیا جاتا ، یہ حدیث ترمذی اور ابن ماجہ میں بھی ہے ـ ۱؎ (سنن ترمذی:2312،قال الشیخ الألبانی:حسن) اور امام ترمذی اسے حسن غریب بتاتے ہیں اور سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے موقوفاً بھی روایت کی گئی ہے ۔ طبرانی میں ہے { ساتوں آسمانوں میں قدم رکھنے کی بالشت بھر یا ہتھیلی جتنی جگہ بھی ایسی نہیں جہاں کوئی نہ کوئی فرشتہ قیام کی یا رکوع کی یا سجدے کی حالت میں نہ ہو پھر بھی یہ سب کل قیامت کے دن کہیں گے کہ اللہ تو پاک ہے ہمیں جس قدر تیری عبادت کرنی چاہیئے تھی اس قدر ہم سے ادا نہیں ہو سکتی ، البتہ ہم نے تیرے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا } ۱؎ (طبرانی اوسط:3592:ضعیف) امام محمد بن نصر مروزی رحمہ اللہ کی کتاب الصلوۃ میں ہے کہ { حضور علیہ السلام نے ایک مرتبہ صحابہ رضی اللہ عنہم سے سوال کیا : ” کیا جو میں سن رہا ہوں تم بھی سن رہے ہو ؟ “ انہوں نے جواب میں کہا : یا رسول اللہ ! ہمیں تو کچھ سنائی نہیں دیتا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” آسمانوں کا چرچر بولنا میں سن رہا ہوں اور وہ اس چرچراہٹ پر ملامت نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس پر اس قدر فرشتے ہیں کہ ایک بالشت بھر جگہ خالی نہیں کہیں کوئی رکوع میں ہے اور کہیں کوئی سجدے میں “ } ۔ ۱؎ (سلسلۃ احادیث صحیحہ البانی:1060:صحیح) دوسری روایت میں ہے { آسمان دنیا میں ایک قدم رکھنے کی جگہ بھی ایسی نہیں جہاں سجدے میں یا قیام میں کوئی فرشتہ نہ ہو ، اسی لیے فرشتوں کا یہ قول قرآن کریم میں موجود ہے «وَمَا مِنَّا إِلَّا لَہُ مَقَامٌ مَّعْلُومٌ وَإِنَّا لَنَحْنُ الصَّافٰونَ وَإِنَّا لَنَحْنُ الْمُسَبِّحُونَ» ۱؎ (37-الصافات:166-164) یعنی ’ ہم میں سے ہر ایک کے لیے مقرر جگہ ہے اور ہم صفیں باندھنے اور اللہ کی تسبیح بیان کرنے والے ہیں ‘ } ۔ اس حدیث کا مرفوع ہونا بہت ہی غریب ہے ، دوسری روایت میں یہ قول سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان کیا گیا ہے ، ایک اور سند سے یہ روایت سیدنا ابن علاء بن سعد رضی اللہ عنہ سے بھی مرفوعاً مروی ہے یہ صحابی فتح مکہ میں اور اس کے بعد کے جہادوں میں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ، لیکن سنداً یہ بھی غریب ہے ۔ ایک اور بہت ہی غریب بلکہ سخت منکر حدیث میں ہے کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ آئے نماز کھڑی ہوئی تھی اور تین شخص بیٹھے ہوئے تھے جن میں کا ایک ابوحجش لیثی تھا آپ نے فرمایا اٹھو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز میں شامل ہو جاؤ تو دو شخص تو کھڑے ہو گئے لیکن ابوجحش کہنے لگا اگر کوئی ایسا شخص آئے جو طاقت و قوت میں مجھ سے زیادہ ہو اور مجھ سے کشتی لڑے اور مجھے گرا دے پھر میرا منہ مٹی میں ملا دے تو میں اٹھوں گا ورنہ بس اٹھ چکا ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اور کون آئے گا آ جا میں تیار ہوں چنانچہ کشتی ہونے لگی اور میں نے اسے پچھاڑا پھر اس کے منہ کو مٹی میں مل دیا اور اتنے میں عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ آ گئے اور اسے میرے ہاتھ سے چھڑا دیا ، میں بڑا بگڑا اور اسی غصہ کی حالت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھتے ہی فرمایا : ” ابوحفص آج کیا بات ہے ؟ “ میں نے کل واقعہ کہہ سنایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اگر عمر اس سے خوش ہوتا تو اس پر رحم کرتا اللہ کی قسم میرے نزدیک تو اس خبیث کا سر اتار لیتا تو اچھا تھا “ ، یہ سنتے ہی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ یونہی وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے اور اس کی طرف لپکے ۔ خاصی دور نکل چکے تھے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آواز دی اور فرمایا : ” بیٹھو سن تو لو کہ اللہ ابوجحش کی نماز سے بالکل بے نیاز ہے آسمان دنیا میں خشوع و خضوع والے بے شمار فرشتے اللہ کے سامنے سجدے میں پڑے ہوئے ہیں جو قیامت کو سجدے سے سر اٹھائیں گے اور یہ کہتے ہوئے حاضر ہوں گے کہ اب بھی ہمارے رب ہم سے تیری عبادت کا حق ادا نہیں ہو سکا ، اسی طرح دوسرے آسمان میں بھی یہی حال ہے “ ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ ! ان کی تسبیح کیا ہے ؟ فرمایا : ” آسمان دنیا کے فرشتے تو کہتے ہیں «سُبْحَان ذِی الْمُلْک وَالْمَلَکُوت» اور دوسرے آسمان کے فرشتے کہتے ہیں «سُبْحَان ذِی الْعِزَّۃ وَالْجَبَرُوت» اور تیسرے آسمان کے فرشتے کہتے ہیں «سُبْحَان الْحَیّ الَّذِی لَا یَمُوت» ، عمر ! تو بھی اپنی نماز میں اسے کہا کر “ ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : یا رسول اللہ ! اس سے پہلے جو پڑھنا آپ نے سکھایا ہے اور جس کے پڑھنے کو فرمایا ہے اس کا کیا ہو گا ؟ کہا ” کبھی یہ کہو ، کبھی وہ پڑھو “ پہلے جو پڑھنے کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا وہ یہ تھا «‏‏‏‏أَعُوذ بِعَفْوِک مِنْ عِقَابک وَأَعُوذ بِرِضَاک مِنْ سَخَطک وَأَعُوذ بِک مِنْک جَلَّ وَجْہک» یعنی اللہ ! تیرے عذابوں سے میں تیری معافی کی پناہ میں آتا ہوں اور تیری ناراضگی سے تیری رضا مندی کی پناہ چاہتا ہوں اور تجھ سے تیری ہی پناہ پکڑتا ہوں اور تیرا چہرہ جلال والا ہے ۔ ۱؎ (تعظیم قدر الصلاۃ،256:ضعیف) اور اسحاق مروزی رحمہ اللہ جو راوی حدیث ہے اس سے امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں اور امام ابن حبان رحمتہ اللہ علیہ بھی انہیں ثقہ راویوں میں گنتے ہیں لیکن امام ابوداؤد ، امام نسائی ، امام عقیلی اور امام دارقطنی رحمہ اللہ علیہم انہیں ضعیف کہتے ہیں ۔ امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں تھے تو یہ سچے مگر نابینا ہو گئے تھے اور کبھی کبھی تلقین قبول کر لیا کرتے تھے ہاں ان کی کتابوں کی مرویات صحیح ہیں ۔ ان سے یہ بھی مروی ہے کہ یہ مضطرب ہیں اور ان کے استاد عبدالملک بن قدامہ ابوقتادہ جمعی میں بھی کلام ہے ۔ تعجب ہے کہ امام محمد بن نصر رحمتہ اللہ علیہ نے ان کی اس حدیث کو کیسے روایت کر دیا ؟ اور نہ تو اس پر کلام کیا ، نہ اس کے حال کو معلوم کرایا ، نہ اس کے بعض راویوں کے ضعف کو بیان کیا ۔ ہاں اتنا تو کیا ہے کہ اسے دوسری سند سے مرسلاً روایت کر دیا ہے اور مرسل کی دو سندیں لائے ہیں ایک سعید بن جبیر سے دوسری حسن بصری رحمہ اللہ علیہم سے ۔ پھر ایک اور روایت لائے ہیں کہ عدی بن ارطاۃ رحمہ اللہ نے مدائن کی جامع مسجد میں اپنے خطبہ میں فرمایا کہ میں نے ایک صحابی سے سنا ہے انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ کے بہت سے ایسے فرشتے ہیں جو ہر وقت خوف اللہ سے کپکپاتے رہتے ہیں ان کے آنسو گرتے رہتے ہیں اور وہ ان فرشتوں پر ٹپکتے ہیں جو نماز میں مشغول ہیں اور ان میں ایسے فرشتے بھی ہیں جو ابتداء دنیا سے رکوع میں ہی ہیں اور بعض سجدے میں ہی ہیں قیامت کے دن اپنی پیٹھ اور اپنا سر اٹھائیں گے اور نہایت عاجزی سے جناب باری تعالیٰ میں عرض کریں گے کہ اللہ تو پاک ہے ہم سے تیری عبادت کا حق ادا نہیں ہو سکا “ ۔ ۱؎ (تعظیم قدر الصلاۃ،260:ضعیف) اس حدیث کی اسناد میں کوئی حرج نہیں ۔ پھر فرماتا ہے ’ یہ آگ جس کا وصف تم سن چکے یہ لوگوں کے لیے سراسر باعث عبرت و نصیحت ہے ‘ ۔ پھر چاند کی رات کے جانے کی صبح کے روشن ہونے کی قسمیں کھا کر فرماتا ہے کہ ’ وہ آگ ایک زبردست اور بہت بڑی چیز ہے ، جو اس ڈراوے کو قبول کر کے حق کی راہ لگنا چاہے لگ جائے ، جو چاہے اس کے باوجود حق کو پیٹھ ہی دکھاتا رہے ، اس سے دور بھاگتا رہے ، یا اسے رد کرتا رہے ‘ ۔ المدثر
32 المدثر
33 المدثر
34 المدثر
35 المدثر
36 المدثر
37 المدثر
38 جنتیوں اور دوزخیوں میں گفتگو ہو گی اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ ’ ہر شخص اپنے اعمال میں قیامت کے دن جکڑا بندھا ہو گا لیکن جن کے دائیں ہاتھ میں اعمال نامہ آیا وہ جنت کے بالا خانوں میں چین سے بیٹھے ہوئے جہنمیوں کو بدترین عذابوں میں دیکھ کر ان سے پوچھیں گے کہ تم یہاں کیسے پہنچ گئے ؟ وہ جواب دیں گے کہ ہم نے نہ تو رب کی عبادت کی نہ مخلوق کے ساتھ احسان کیا بغیر علم کے جو زبان پر آیا بکتے رہے جہاں کسی کو اعتراض کرتے سنا ہم بھی ساتھ ہو گئے اور باتیں بنانے لگ گئے اور قیامت کے دن کی تکذیب ہی کرتے رہے یہاں تک کہ موت آ گئی ‘ ۔ «یقین» کے معنی موت کے اس آیت میں بھی ہیں «‏‏‏‏وَاعْبُدْ رَبَّکَ حَتّٰی یَاْتِیَکَ الْیَقِیْنُ» ۱؎ (15-الحجر:99) یعنی ’ موت کے وقت تک اللہ کی عبادت میں لگا رہ ‘ اور سیدنا عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی وفات کی نسبت حدیث میں بھی یقین کا لفظ آیا ہے ۔ ۱؎ ‏‏‏‏(صحیح بخاری:3929) المدثر
39 المدثر
40 المدثر
41 المدثر
42 المدثر
43 المدثر
44 المدثر
45 المدثر
46 المدثر
47 1 اب اللہ مالک الملک فرماتا ہے کہ ’ ایسے لوگوں کو کسی کی سفارش اور شفاعت نفع نہ دے گی اس لیے کہ شفاعت وہاں نافع ہو جاتی ہے جہاں محل شفاعت ہو لیکن جن کا دم ہی کفر پر نکلا ہو ان کے لیے شفاعت کہاں ؟ وہ ہمیشہ کے لیے «ھاویہ» میں گئے ‘ ۔ پھر فرمایا : ’ کیا بات ہے کہ کون سی وجہ ہے کہ یہ کافر تیری نصیحت اور دعوت سے منہ پھیر رہے ہیں اور قرآن و حدیث سے اس طرح بھاگتے ہیں جیسے جنگلی گدھے شکاری شیر سے ‘ ۔ فارسی زبان میں جسے شیر کہتے ہیں اسے عربی میں «اسد» کہتے ہیں اور حبشی زبان میں «قَسْوَرَۃٍ» کہتے ہیں اور نبطی زبان میں «رویا» ۔ پھر فرماتا ہے ’ یہ مشرکین تو چاہتے ہیں کہ ان میں کے ہر شخص پر علیحدہ علیحدہ کتاب اترے ‘ ۔ جیسے اور جگہ ان کا مقولہ ہے «حَتّٰی نُؤْتٰی مِثْلَ مَآ اُوْتِیَ رُسُلُ اللّٰہِ» ۱؎ (6-الأنعام:124) یعنی ’ جب ان کے پاس کوئی آیت آتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم تو ہرگز ایمان نہ لائیں گے جب تک کہ وہ نہ دیئے جائیں جو اللہ کے رسولوں کو دیا گیا ہے ‘ ۔ ’ اللہ تعالیٰ کو بخوبی علم ہے کہ رسالت کے قابل کون ہے ؟ ‘ اور یہ بھی مطلب ہو سکتا ہے کہ ’ ہم بغیر عمل کے چھٹکارا دے دیئے جائیں ‘ ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’ دراصل وجہ یہ ہے کہ انہیں آخرت کا خوف ہی نہیں کیونکہ انہیں اس کا یقین نہیں اس پر ایمان نہیں بلکہ اسے جھٹلاتے ہیں تو پھر ڈرتے کیوں ؟ ۔ پھر فرمایا ’ سچی بات تو یہ ہے کہ یہ قرآن محض نصیحت و موعظت ہے جو چاہے عبرت حاصل کر لے اور نصیحت پکڑ لے ‘ ۔ جیسے فرمان ہے «وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَن یَشَاءَ اللہُ» ۱؎ (76-الإنسان:30) یعنی ’ تمہاری چاہتیں اللہ کی چاہت کی تابع ہیں ‘ ۔ پھر فرمایا ’ اسی کی ذات اس قابل ہے کہ اس سے خوف کھایا جائے اور وہی ایسا ہے کہ ہر رجوع کرنے والے کی توبہ قبول فرمائے ‘ ۔ مسند احمد میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا کہ تمہارا رب فرماتا ہے میں اس کا حقدار ہوں کہ مجھ سے ڈرا جائے اور میرے ساتھ دوسرا معبود نہ ٹھہرایا جائے جو میرے ساتھ شریک بنانے سے بچ گیا تو وہ میری بخشش کا مستحق ہو گیا ۔ } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3328،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ابن ماجہ اور نسائی اور ترمذی وغیرہ میں بھی یہ حدیث ہے ، اور امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ اسے حسن غریب کہتے ہیں ، سہیل اس کا راوی قوی نہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے احسان سے سورۃ المدثر کی تفسیر بھی ختم ہوئی ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» المدثر
48 المدثر
49 المدثر
50 المدثر
51 المدثر
52 المدثر
53 المدثر
54 المدثر
55 المدثر
56 المدثر
0 القيامة
1 ہم سب اپنے اعمال کا خود آئینہ ہیں یہ کئی دفعہ بیان ہو چکا ہے کہ جس چیز پر قسم کھائی جائے اگر وہ رد کرنے کی چیز ہو تو قسم سے پہلے «لا» کا کلمہ نفی کی تائید کے لیے لانا جائز ہوتا ہے یہاں قیامت کے ہونے پر اور جاہلوں کے اس قول کی تردید پر قیامت نہ ہو گی قسم کھائی جا رہی ہے تو فرماتا ہے ’ قسم ہے قیامت کے دن کی اور قسم ہے ملامت کرنے والی جان کی ‘ ۔ حسن رحمہ اللہ تو فرماتے ہیں قیامت کی قسم ہے اور ملامت کرنے والے نفس کی قسم نہیں ہے ، قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں دونوں کی قسم ہے ، حسن اور اعرج رحمہ اللہ علیہم کی قرأت «لَأُقْسِمُ بِیَوْمِ الْقِیَامَۃِ» ہے اس سے بھی حسن رحمہ اللہ کے قول کی تائید ہوتی ہے اس لیے کہ ان کے نزدیک پہلے کی قسم ہے اور دوسرے کی نہیں ، لیکن صحیح قول یہی ہے کہ دونوں کی قسم کھائی ہے جیسے کہ قتادہ رحمہ اللہ کا فرمان ہے ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور سعید بن جبیر رضی اللہ عنہما سے بھی یہی مروی ہے اور امام ابن جریر رحمہ اللہ کا مختار قول بھی یہی ہے ۔ یوم قیامت کو تو ہر شخص جانتا ہی ہے ۔ «نفس لوامہ» کی تفسیر میں حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ اس سے مراد مومن کا نفس ہے وہ ہر وقت اپنے تئیں ملامت ہی کرتا رہتا ہے کہ یوں کیوں کہہ دیا ؟ ، یہ کیوں کھا لیا ؟ ، یہ خیال دل میں کیوں آیا ؟ ہاں فاسق ، فاجر ، غافل ہوتا ہے اسے کیا پڑی جو اپنے نفس کو روکے ۔ یہ بھی مروی ہے کہ زمین و آسمان کی تمام مخلوق قیامت کے دن اپنے تئیں ملامت کرے گی ، خیر والے خیر کی کمی پر اور شر والے شر کے سرزد ہونے پر ، یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد مذموم نفس ہے جو نافرمان ہو ، فوت شدہ پر نادم ہونے والا اور اس پر ملامت کرنے والا ۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں ” یہ سب اقوال قریب قریب ہیں مطلب یہ ہے کہ وہ نفس والا ہے جو نیکی کی کمی پر برائی کے ہو جانے پر اپنے نفس کو ملامت کرتا ہے اور فوت شدہ پر ندامت کرتا ہے “ ۔ پھر فرماتا ہے ’ کیا انسان یہ سوچے ہوئے ہے کہ ہم قیامت کے دن اس کی ہڈیوں کے جمع کرنے پر قادر نہ ہوں گے ، یہ تو نہایت غلط خیال ہے ہم اسے متفرق جگہ سے جمع کر کے دوبارہ کھڑا کریں گے اور اس کی بالشت بالشت بنا دیں گے ‘ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ فرماتے ہیں یعنی ” ہم قادر ہیں کہ اسے اونٹ یا گھوڑے کے تلوے کی طرح بنا دیں “ ، امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں یعنی ” دنیا میں بھی اگر ہم چاہتے اسے ایسا کر دیتے “ ۔ آیت کے لفظوں سے تو ظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ «قَادِرِینَ» حال ہے «نَّجْمَعَ» سے یعنی کیا انسان یہ گمان کرتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیاں جمع نہ کریں گے ہاں ہاں ہم عنقریب جمع کریں گے درآنحالیکہ ہمیں ان کے جمع کرنے کی قدرت ہے بلکہ اگر ہم چاہیں تو جتنا یہ تھا اس سے بھی کچھ زیادہ بنا کر اسے اٹھائیں اس کی انگلیوں کے سرے تک برابر کر کے پیدا کریں ۔ ابن قتیبہ اور زجاج کے قول کے یہی معنی ہیں ۔ پھر فرماتا ہے کہ انسان اپنے آگے فسق و فجور کرنا چاہتا ہے یعنی قدم بہ قدم بڑھ رہا ہے ، امیدیں باندھے ہوئے ہے ، کہتا جاتا ہے کہ گناہ کر تو لوں توبہ بھی ہو جائے گی قیامت کے دن سے جو اس کے آگے ہے کفر کرتا ہے ، وہ گویا اپنے سر پر سوار ہو کر آگے بڑھ رہا ہے ، ہر وقت یہی پایا جاتا ہے کہ ایک ایک قدم اپنے نفس کو اللہ کی معصیت کی طرف بڑھاتا جاتا ہے مگر جن پر رب کا رحم ہے ۔ اکثر سلف کا قول اس آیت کی تفسیر میں یہی ہے کہ گناہوں میں جلدی کرتا ہے اور توبہ میں تاخیر کرتا ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ” جو یوم حساب کا منکر ہے “ ، ابن زید رحمہ اللہ بھی یہی کہتے ہیں اور یہی زیادہ ظاہر مراد ہے کیونکہ اس کے بعد ہی ہے کہ وہ پوچھتا ہے قیامت کب ہوگی ، اس کا یہ سوال بھی بطور انکار کے ہے یہ جانتا ہے کہ قیامت کا آنا محال ہے ۔ جیسے اور جگہ ہے «وَیَقُولُونَ مَتَیٰ ہٰذَا الْوَعْدُ إِن کُنتُمْ صَادِقِینَ قُل لَّکُم مِّیعَادُ یَوْمٍ لَّا تَسْتَأْخِرُونَ عَنْہُ سَاعَۃً وَلَا تَسْتَقْدِمُونَ» ۱؎ (34-سبأ:29،30) ، ’ کہتے ہیں کہ اگر تم سچے ہو تو بتا دو کہ قیامت کب آئے گی ؟ ان سے کہہ دے کہ اس کا ایک دن مقرر ہے جس سے نہ تم ایک ساعت آگے بڑھ سکو گے نہ پیچھے ہٹ سکو گے ‘ ۔ القيامة
2 القيامة
3 القيامة
4 القيامة
5 القيامة
6 القيامة
7 القيامة
8 القيامة
9 1 یہاں بھی فرماتا ہے کہ ’ جب آنکھیں پتھرا جائیں گی ‘ ، جیسے اور جگہ ہے «لَا یَرْتَدٰ اِلَیْہِمْ طَرْفُہُمْ وَاَفْــِٕدَتُہُمْ ہَوَاءٌ» ۱؎ (14-إبراھیم:43) ، یعنی ’ پلکیں جھپکیں گی نہیں بلکہ رعب و دہشت خوف و وحشت کے مارے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ادھر ادھر دیکھتے رہیں گے ‘ ۔ «بَرِقَ» کی دوسری قرأت «بَرَقَ» بھی ہے ، معنی قریب قریب ہیں اور چاند کی روشنی بالکل جاتی رہے گی اور سورج چاند جمع کر دیئے جائیں گے یعنی دونوں کو بے نور کر کے لپیٹ لیا جائے گا ۔ جیسے فرمایا «إِذَا الشَّمْسُ کُوِّرَتْ وَإِذَا النٰجُومُ انکَدَرَتْ» ۱؎ (81-التکویر:2،1) سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی قرأت میں «وَجُمِعَ بَیْنَ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ» ہے ۔ انسان جب یہ پریشانی ، شدت ہول ، گھبراہٹ اور انتظام عالم کی یہ خطرناک حالت دیکھے گا تو بھاگا جائے گا اور کہے گا کہ جائے پناہ یعنی بھاگنے کی جگہ کہاں ہے ؟ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو ملے گا کہ کوئی پناہ نہیں رب کے سامنے اور اس کے پاس ٹھہرنے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ، جیسے اور جگہ ہے «مَا لَکُمْ مِّنْ مَّلْجَاٍ یَّوْمَیِٕذٍ وَّمَا لَکُمْ مِّنْ نَّکِیْرٍ» ۱؎ (42-الشوری:47) یعنی ’ آج نہ تو کوئی جائے پناہ ہے ، نہ ایسی جگہ کہ وہاں جا کر تم انجان اور بے پہچان بن جاؤ ، آج ہر شخص کو اس کے اگلے پچھلے نئے پرانے چھوٹے بڑے اعمال سے مطلع کیا جائے گا ‘ ۔ جیسے فرمان ہے «وَوَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًا» ۱؎ (18-الکہف:49) ’ جو کیا تھا ، موجود پا لیں گے اور تیرا رب کسی پر ظلم نہ کرے گا ‘ ۔ انسان اپنے آپ کو بخوبی جانتا ہے اپنے اعمال کا خود آئینہ ہے گو انکار کرے اور عذر معذرت پیش کرتا پھرے ۔ جیسے فرمان ہے «اِقْرَاْ کِتٰبَکَ کَفٰی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیْبًا» ۱؎ (17-الإسراء:14) ’ اپنا نامہ اعمال خود پڑھ لے اور اپنے تئیں آپ ہی جانچ لے ، اس کے کان آنکھ ، پاؤں اور دیگر اعضاء ہی اس پر شہادت دینے کافی ہیں ، لیکن افسوس کہ یہ دوسروں کے عیبوں اور نقصانوں کو دیکھتا ہے اور اپنے کیڑے چننے سے غافل ہے ‘ ۔ کہا جاتا ہے کہ توراۃ میں لکھا ہوا ہے اے ابن آدم تو دوسروں کی آنکھوں کا تو تنکا دیکھتا ہے اور اپنی آنکھ کا شہتیر بھی تجھے دکھائی نہیں دیتا ؟ قیامت کے دن چاہے انسان فضول بہانے بنائے گا اور جھوٹی دلیلیں دے گا ، بے کار عذر پیش کرے گا مگر ایک بھی قبول نہ کیا جائے گا ۔ اس آیت کے معنی یہ بھی کئے گئے ہیں کہ وہ پردے ڈالے ۔ اہل یمن پردے کو «الْمِعْذَارَ» کہتے ہیں ، لیکن صحیح معنی اوپر والے ہیں جیسے اور جگہ ہے کہ «ثُمَّ لَمْ تَکُن فِتْنَتُہُمْ إِلَّا أَن قَالُوا وَ اللہِ رَبِّنَا مَا کُنَّا مُشْرِکِینَ» ۱؎ (6-الأنعام:23) ’ کوئی معقول عذر نہ پا کر اپنے شرک کا سرے سے انکار ہی کر دیں گے کہ اللہ کی قسم ہم مشرک تھے ہی نہیں ‘ ۔ اور جگہ ہے کہ «یَوْمَ یَبْعَثُہُمُ اللہُ جَمِیعًا فَیَحْلِفُونَ لَہُ کَمَا یَحْلِفُونَ لَکُمْ وَیَحْسَبُونَ أَنَّہُمْ عَلَیٰ شَیْءٍ أَلَا إِنَّہُمْ ہُمُ الْکَاذِبُونَ» ۱؎ (58-المجادلہ:18) ’ قیامت کے دن اللہ کے سامنے بھی قسمیں کھا کھا کر سچا ہونا چاہیں گے جیسے دنیا میں تمہارے سامنے ان کی حالت ہے لیکن اللہ پر تو ان کا جھوٹ ظاہر ہے چاہے کتنا ہی وہ اپنی تئیں کچھ بھی سمجھتے رہیں ‘ ، غرض عذر معذرت انہیں قیامت کے دن کچھ کار آمد نہ ہو گا ۔ جیسے اور جگہ فرماتا ہے «یَوْمَ لَا یَنْفَعُ الظّٰلِمِیْنَ مَعْذِرَتُہُمْ وَلَہُمُ اللَّعْنَۃُ وَلَہُمْ سُوْءُ الدَّارِ» ۱؎ (40-غافر:52) ’ ظالموں کو ان کی معذرت کچھ کام نہ آئے گی یہ تو اپنے شکر کے ساتھ اپنی تمام بداعمالیوں کا بھی انکار کردیں گے لیکن بے سود ہوگا ‘ ۔ القيامة
10 القيامة
11 القيامة
12 القيامة
13 القيامة
14 القيامة
15 القيامة
16 حفظ قرآن، تلاوت و تفسیر کا ذمہ دار اللہ تعالیٰ یہاں اللہ عزوجل اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تعلیم دیتا ہے کہ فرشتے سے وحی کس طرح حاصل کریں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کو اخذ کرنے میں بہت جلدی کرتے تھے اور قرأت میں فرشتے کے بالکل ساتھ ساتھ رہتے تھے ، پس اللہ عزوجل حکم فرماتا ہے کہ ’ جب فرشتہ وحی لے کر آئے آپ سنتے رہیں ، پھر جس ڈر سے آپ ایسا کرتے تھے اسی طرح اس کا واضح کرانا اور تفسیر اور بیان آپ سے کرانے کے ذمہ داری بھی ہم ہی پر ہے ‘ ۔ پس پہلی حالت یاد کرانا ، دوسری تلاوت کرانا ، تیسری تفسیر ، مضمون اور توضیح مطلب کرانا تینوں کی کفالت اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لی ، جیسے اور جگہ ہے «لَا تَعْجَلْ بالْقُرْاٰنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ یٰقْضٰٓی اِلَیْکَ وَحْیُہٗ ۡ وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا» ۱؎ (20-طہ:114) یعنی ’ جب تک تیرے پاس وحی پوری نہ آئے تو پڑھنے میں جلدی نہ کیا کر ہم سے دعا مانگ کہ میرے رب میرے علم کو زیادہ کرتا رہے ‘ ۔ پھر فرماتا ہے ’ اسے تیرے سینے میں جمع کرنا اور اسے تجھ سے پڑھوانا ہمارا ذمہ ہے جب ہم اسے پڑھیں [ یعنی ہمارا نازل کردہ فرشتہ جب اسے تلاوت کرے تو ] تو سن لے جب وہ پڑھ چکے تب تو پڑھ ہماری مہربانی سے تجھے پورا یاد ہو گا اتنا ہی نہیں بلکہ حفظ کرانے تلاوت کرانے کے بعد ہم تجھے اس کی معنی مطالب تعین و توضیح کے ساتھ سمجھا دیں گے تاکہ ہماری اصلی مراد اور صاف شریعت سے تو پوری طرح آگاہ ہو جائے ‘ ۔ مسند میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے پہلے وحی کو دل میں اتارنے کی سخت تکلیف ہوتی تھی اس ڈر کے مارے کہ کہیں میں بھول نہ جاؤں فرشتے کے ساتھ ساتھ پڑھتے جاتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہونٹ ہلتے جاتے تھے چنانچہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما راوی حدیث نے اپنے ہونٹ ہلا کر دکھایا کہ اس طرح اور ان کے شاگرد سعید رحمہ اللہ نے بھی اپنے استاد کی طرح ہلا کر اپنے شاگرد کو دکھائے اس پر یہ آیت اتری کہ ’ اتنی جلدی نہ کرو اور ہونٹ نہ ہلاؤ اسے آپ کے سینے میں جمع کرنا اور آپ کی زبان سے اس کی تلاوت کرانا ہمارے سپرد ہے جب ہم اسے پڑھیں تو آپ سنئے اور چپ رہئے جبرائیل کے چلے جانے کے بعد انہی کی طرح ان کا پڑھایا ہوا پڑھنا بھی ہمارے سپرد ہے ‘ } ۔ بخاری و مسلم میں بھی یہ روایت ہے، ۱؎ (صحیح بخاری:50) القيامة
17 القيامة
18 1 بخاری شریف میں یہ بھی ہے کہ { پھر جب وحی اترتی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نظریں نیچی کر لیتے اور جب وحی چلی جاتی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھتے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4927) ۔ ابن ابی حاتم میں بھی بروایت ابن عباس یہ حدیث مروی ہے اور بہت سے مفسرین سلف صالحین نے یہی فرمایا ہے یہ بھی مروی ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر وقت تلاوت فرمایا کرتے تھے کہ ایسا نہ ہو میں بھول جاؤں اس پر یہ آیتیں اتریں } ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور عطیہ عوفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس کا بیان ہم پر ہے یعنی حلال حرام کا واضح کرنا ۔ قتادہ رحمہ اللہ کا قول بھی یہی ہے ۔ پھر فرمان ہوتا ہے کہ ’ ان کافروں کو قیامت کے انکار ، اللہ کی پاک کتاب کو نہ ماننے اور اللہ کے عظیم الشان رسول کی اطاعت نہ کرنے پر آمادہ کرنے والی چیز حب دنیا اور غفلت آخرت ہے ، حالانکہ آخرت کا دن بڑی اہمیت والا دن ہے ، اس دن بہت سے لوگ تو وہ ہوں گے جن کے چہرے ہشاش بشاش ، تروتازہ ، خوش و خرم ہوں گے اور اپنے رب کے دیدار سے مشرف ہو رہے ہوں گے ‘ ۔ جیسے کہ صحیح بخاری میں ہے کہ { عنقریب تم اپنے رب کو صاف صاف کھلم کھلا اپنے سامنے دیکھو گے } ۱؎ (صحیح بخاری:7434) ، بہت سی صحیح احادیث سے متواتر سندوں سے جو ائمہ حدیث نے اپنی کتابوں میں وارد کی ہیں ثابت ہو چکا ہے کہ ایمان والے اپنے رب کے دیدار سے قیامت کے دن مشرف ہوں گے ان احادیث کو نہ تو کوئی ہٹا سکے نہ ان کا کوئی انکار کر سکے ۔ صحیح بخاری و صحیح مسلم میں ابوسعید اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ { لوگوں نے پوچھا : یا رسول اللہ ! کیا ہم اپنے رب کو قیامت کے دن دیکھیں گے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” سورج اور چاند کو جبکہ آسمان صاف بے ابر ہو دیکھنے میں تمہیں کوئی مزاحمت یا رکاوٹ ہوتی ہے ؟ “ ، انہوں نے کہا نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اسی طرح تم اللہ تعالیٰ کو دیکھو گے “ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:7437) بخاری و مسلم میں ہے سیدنا جریر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” چودہویں رات کے چاند کو دیکھ رہے ہو پس اگر تم سے ہو سکے تو سورج نکلنے سے پہلے کی نماز [ یعنی صبح کی نماز ] اور سورج ڈوبنے سے پہلے کی نماز [ یعنی عصر کی نماز ] میں کسی طرح کی سستی نہ کرو “ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:573) ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے انہی دونوں متبرک کتابوں میں مروی ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” دو جنتیں سونے کی ہیں وہاں کے برتن اور ہر چیز سونے کی ہے اور دو جنتیں چاندی کی ہیں اور ان کے برتن اور ہر چیز چاندی ہی کی ہے سوائے کبریائی کی چادروں کے اور کوئی آڑ نہیں “ یہ جنت عدن کا ذکر ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4878) صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ { جب جنتی جنت میں پہنچ جائیں گے تو اللہ تعالیٰ ان سے دریافت فرمائے گا ’ کچھ چاہتے ہو کہ بڑھا دوں ؟ ‘ وہ کہیں گے الٰہی تو نے ہمارے چہرے سفید نورانی کر دیئے ، ہمیں جنت میں پہنچا دیا جہنم سے بچا لیا اب ہمیں کس چیز کی ضرورت ہے ؟ اسی وقت حجاب ہٹا دیئے جائیں گے اور ان اہل جنت کی نگاہیں جمال باری سے منور ہوں گی اس میں انہیں جو سرور و لذت حاصل ہو گی وہ کسی چیز میں نہ حاصل ہو گی سب سے زیادہ محبوب انہیں دیدار باری ہو گا اسی کو اس آیت میں لفظ «الزِّیَادَۃُ» سے تعبیر کیا گیا ہے } پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی «لِلَّذِیْنَ اَحْسَـنُوا الْحُسْنٰی وَزِیَادَۃٌ وَلَا یَرْہَقُ وُجُوْہَھُمْ قَتَرٌ وَّلَا ذِلَّۃٌ اُولٰیِٕکَ اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ ھُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ» ۱؎ (10-یونس:26) یعنی ’ احسان کرنے والوں کو جنت بھی ملے گی اور دیدار رب بھی ‘ ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:181) صحیح مسلم کی سیدنا جابر رضی اللہ عنہ والی روایت میں ہے کہ { اللہ تعالیٰ مومنوں پر قیامت کے میدان میں مسکراتا ہوا تجلی فرمائے گا } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:191) پس معلوم ہوا کہ ایماندار قیامت کے عرصات میں اور جنتوں میں دیدار الٰہی سے مشرف کئے جائیں گے ۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” سب سے ہلکے درجہ کا جنتی اپنے ملک اور اپنی ملکیت کو دو ہزار سال دیکھتا رہے گا دور اور نزدیک کی چیزیں یکساں نگاہ میں ہوں گی ہر طرف اور ہر جگہ اسی کی بیویاں اور خادم نظر آئیں گے اور اعلیٰ درجہ کے جنتی ایک ایک دن میں دو دو مرتبہ اللہ تعالیٰ کے بزرگ چہرے کو دیکھیں گے “ } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3330،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ترمذی شریف میں بھی یہ حدیث ہے ، یہ حدیث بروایت ابن عمر مرفوعًا بھی مروی ہے ۔ ہمیں ڈر ہے کہ اگر اس قسم کی تمام حدیثیں اور روایتیں اور ان کی سندیں اور ان کے مختلف الفاظ یہاں جمع کریں گے تو مضمون بہت طویل ہو جائے گا بہت ہی صحیح اور حسن حدیثیں بہت سی مسند اور سنن کی کتابوں میں مروی ہیں جن میں اکثر ہماری اس تفسیر میں متفرق مقامات پر آ بھی گئی ہیں ، ہاں توفیق اللہ کے ہاتھ میں ہے ، اللہ کا شکر ہے کہ اس مسئلہ میں یعنی اللہ تعالیٰ کا دیدار مومنوں کو قیامت کے دن ہونے میں صحابہ ، تابعین اور سلف امت کا اتفاق اور اجماع ہے ائمہ اسلام اور ہداۃ انام سب اس پر متفق ہیں ، جو لوگ اس کی تاویل کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مراد اس سے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو دیکھنا جیسے مجاہد اور ابوصالح رحمہ اللہ علیہم سے تفسیر ابن جریر میں مروی ہے ان کا قول حق سے دور اور سراسر تکلف سے معمور ہے ، ان کے پاس اس آیت کا کیا جواب ہے جہاں بدکاروں کی نسبت فرمایا گیا ہے «کَلَّآ اِنَّہُمْ عَنْ رَّبِّہِمْ یَوْمَیِٕذٍ لَّمَحْجُوْبُوْنَ» ۱؎ (83-المطففین:15) یعنی ’ فاجر قیامت کے دن اپنے پروردگار سے پردے میں کر دیئے جائیں گے ‘ ۔ امام شافعی فرماتے ہیں کہ ” فاجروں کے دیدار الٰہی سے محروم رہنے کا صاف مطلب یہی ہے کہ «ابرار» یعنی نیک کار لوگ دیدار الٰہی سے مشرف کئے جائیں گے “ اور متواتر احادیث سے ثابت ہو چکا ہے اور اسی پر اس آیت کی روانگی الفاظ صاف دلالت کرتی ہے کہ ایماندار دیدار باری سے محظوظ ہوں گے ۔ حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ چہرے حسن و خوبی والے ہوں گے کیونکہ دیدار رب پر ان کی نگاہیں پڑتی ہوں گی پھر بھلا یہ منور و حسین کیوں نہ ہوں اور بہت سے منہ اس دن بگڑے ہوئے ہوں گے ، بدشکل ہو رہے ہوں گے ، بے رونق اور اداس ہوں گے ، انہیں یقین ہو گا کہ ہم کوئی ہلاکت اور اللہ کی پکڑ آئی ، ابھی ہمیں جہنم میں جانے کا حکم ہوا ۔ جیسے اور جگہ ہے «یَّوْمَ تَبْیَضٰ وُجُوْہٌ وَّتَسْوَدٰ وُجُوْہٌ فَاَمَّا الَّذِیْنَ اسْوَدَّتْ وُجُوْھُھُمْ اَکَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا کُنْتُمْ تَکْفُرُوْنَ» ۱؎ (3-آل عمران:106) ’ جس دن بعض چہرے سفید ہوں گے اور بعض سیاہ ، سیاہ چہرے والوں [ سے کہا جائے گا ] کہ کیا تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا ؟ اب اپنے کفر کا عذاب چکھو ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وُجُوہٌ یَوْمَئِذٍ مٰسْفِرَۃٌ ضَاحِکَۃٌ مٰسْتَبْشِرَۃٌ وَوُجُوہٌ یَوْمَئِذٍ عَلَیْہَا غَبَرَۃٌ تَرْہَقُہَا قَتَرَۃٌ أُولٰئِکَ ہُمُ الْکَفَرَۃُ الْفَجَرَۃُ» ۱؎ (80-عبس:38-42) یعنی ’ اس دن بعض چہرے گورے چٹے خوبصورت اور حسین ہوں گے اور بعض کالے منہ والے ہوں گے ‘ ۔ اور جگہ سے «وُجُوْہٌ یَّوْمَیِٕذٍ خَاشِعَۃٌ عَامِلَۃٌ نَّاصِبَۃٌ تَصْلَیٰ نَارًا حَامِیَۃً تُسْقَیٰ مِنْ عَیْنٍ آنِیَۃٍ لَّیْسَ لَہُمْ طَعَامٌ إِلَّا مِن ضَرِیعٍ لَّا یُسْمِنُ وَلَا یُغْنِی مِن جُوعٍ» (88-الغاشیۃ:7-2) ، یعنی ’ قیامت کے دن بہت سے چہرے خوف زدہ دہشت اور ڈر والے ، بدرونق اور ذلیل ہوں گے جو عمل کرتے رہے ، تکلیف اٹھاتے رہے لیکن آج بھڑکتی ہوئی آگ میں جا گھسے ‘ ۔ پھر فرمایا «وُجُوْہٌ یَّوْمَیِٕذٍ نَّاعِمَۃٌلِّسَعْیِہَا رَاضِیَۃٌ فِی جَنَّۃٍ عَالِیَۃٍ» ۱؎ (88-الغاشیۃ:10-8) ، یعنی ’ بعض چہرے ان دن نعتموں والے خوش و خرم چمکیلے اور شادان و فرحان بھی ہوں گے ، جو اپنے گزشتہ اعمال سے خوش ہوں گے اور بلند و بالا جنتوں میں اقامت رکھتے ہوں گے ‘ ، اسی مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں ۔ القيامة
19 القيامة
20 القيامة
21 القيامة
22 القيامة
23 القيامة
24 القيامة
25 القيامة
26 جب ہماری روح حلق تک پہنچ جاتی ہے اور اس کے بعد کیا ہوتا ہے یہاں موت کا اور سکرات کی کیفیت کا بیان ہو رہا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں اس وقت حق پر ثابت قدم رکھے ۔ «کَلَّا» کو اگر یہاں ڈانٹ کے معنی میں لیا جائے تو یہ معنی ہوں گے کہ ’ اے ابن آدم ! تو جو میری خبروں کو جھٹلاتا ہے یہ درست نہیں بلکہ ان کے مقدمات تو تو روزمرہ کھلم کھلا دیکھ رہا ہے ‘ اور اگر اس لفظ کو «حقا» کے معنی میں لیں تو مطلب اور زیادہ ظاہر ہے یعنی ’ یہ بات یقینی ہے کہ جب تیری روح تیرے جسم سے نکلنے لگے اور تیرے نرخرے تک پہنچ جائے ‘ ۔ «تَّرَاقِیَ» جمع ہے «تَرْقُوّٰۃُ» کی ان ہڈیوں کو کہتے ہیں جو سینے پر اور مونڈھوں کے درمیان میں ہیں جسے ہانس کی ہڈی کہتے ہیں ۔ جیسے اور جگہ ہے «فَلَوْلَا إِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُومَ وَأَنتُمْ حِینَئِذٍ تَنظُرُونَ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَیْہِ مِنکُمْ وَلٰکِن لَّا تُبْصِرُونَ فَلَوْلَا إِن کُنتُمْ غَیْرَ مَدِینِینَ تَرْجِعُونَہَا إِن کُنتُمْ صَادِقِینَ» ۱؎ (56-الواقعۃ:87-83) فرمایا ہے یعنی ’ جبکہ روح حلق تک پہنچ جائے اور تم دیکھ رہے ہو اور ہم تم سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں لیکن تم نہیں دیکھ سکتے پس اگر تم حکم الٰہی کے ماتحت نہیں ہو اور اپنے اس قول میں سچے ہو تو اس روح کو کیوں نہیں لوٹا لاتے ؟ ‘ اس مقام پر اس حدیث پر بھی نظر ڈال لی جائے جو بشر بن حجاج کی روایت سے سورۃ یٰسین کی تفسیر میں گزر چکی ہے ۔ «تَّرَاقِیَ» جو جمع ہے «تَرْقُوّٰۃُ» کی ان ہڈیوں کو کہتے ہیں جو «حلقوم» کے قریب ہیں اس وقت ہائی دہائی ہوتی ہے کہ کوئی ہے جو جھاڑ پھونک کرے یعنی کسی طبیب وغیرہ کے ذریعہ شفاء ہو سکتی ہے ؟ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ فرشتوں کا قول ہے یعنی اس روح کو لے کر کون چڑھے گا رحمت کے فرشتے یا عذاب کے ؟ اور پنڈلی سے پنڈلی کے رگڑا کھانے کا ایک مطلب تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ سے یہ مروی ہے کہ ” دنیا اور آخرت اس پر جمع ہو جاتی ہے دنیا کا آخری دن ہوتا ہے اور آخرت کا پہلا دن ہوتا ہے جس سے سختی اور سخت ہو جاتی ہے مگر جس پر رب رحیم کا رحم و کرم ہو “ ۔ دوسرا مطلب عکرمہ رحمہ اللہ سے یہ مروی ہے کہ ایک بہت بڑا امیر دوسرے بہت بڑے امیر سے مل جاتا ہے بلا پر بلا آ جاتی ہے ، تیسرا مطلب حسن بصری رحمہ اللہ وغیرہ سے مروی ہے کہ خود مرنے والے کی بے قراری ، شدت درد سے پاؤں پر پاؤں کا چڑھ جانا مراد ہے ۔ پہلے تو ان پیروں پر چلتا پھرتا تھا اب ان میں جان کہاں ؟ اور یہ بھی مروی ہے کہ کفن کے وقت پنڈلی سے پنڈلی کامل جانا مراد ہے ۔ چوتھا مطلب ضحاک رحمہ اللہ سے یہ بھی مروی ہے کہ دو کام دو طرف جمع ہو جاتے ہیں ادھر تو لوگ اس کے جسم کو نہلا دھلا کر سپرد خاک کرنے کو تیار ہیں ، ادھر فرشتے اس کی روح لے جانے میں مشغول ہیں ، اگر نیک ہے تو عمدہ تیاری اور دھوم کے ساتھ ، اگر بد ہے تو نہایت ہی برائی اور بدتر حالت کے ساتھ ، اب لوٹنے ، قرار پانے ، رہنے سہنے ، پہنچ جانے ، کھچ کر اور چل کر پہنچنے کی جگہ اللہ ہی کی طرف ہے روح آسمان کی طرف چڑھائی جاتی ہے پھر وہاں سے حکم ہوتا ہے کہ اسے زمین کی طرف واپس لے جاؤ میں نے ان سب کو اسی سے پیدا کیا ہے اسی میں لوٹا کر لے جاؤں گا اور پھر اسی سے انہیں دوبارہ نکالوں گا “ ۔ جیسے کہ سیدنا براء رضی اللہ عنہ کی مطول حدیث میں آیا ہے ، یہی مضمون اور جگہ بیان ہوا ہے «وَہُوَ الْقَاہِرُ فَوْقَ عِبَادِہِ وَیُرْسِلُ عَلَیْکُمْ حَفَظَۃً حَتَّیٰ إِذَا جَاءَ أَحَدَکُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْہُ رُسُلُنَا وَہُمْ لَا یُفَرِّطُونَ ثُمَّ رُدٰوا إِلَی اللہِ مَوْلَاہُمُ الْحَقِّ أَلَا لَہُ الْحُکْمُ وَہُوَ أَسْرَعُ الْحَاسِبِینَ» ۱؎ (6-الأنعام:62،61) ، ’ وہی اپنے بندوں پر غالب ہے وہی تمہاری حفاظت کے لیے تمہارے پاس فرشتے بھیجتا ہے یہاں تک کہ تم میں سے کسی کی موت کا وقت آ جائے تو ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے اسے فوت کر لیتے ہیں اور وہ کوئی قصور نہیں کرتے پھر سب کے سب اپنے سچے مولا کی طرف لوٹائے جاتے ہیں یقین مانو کہ حکم اسی کا چلتا ہے اور وہ سب سے جلد حساب لینے والا ہے ‘ ۔ پھر اس کافر انسان کا حال بیان ہو رہا ہے جو اپنے دل اور عقیدے سے حق کا جھٹلانے والا اور اپنے بدن اور عمل سے حق سے روگردانی کرنے والا تھا جس کا ظاہر باطن برباد ہو چکا تھا اور کوئی بھلائی اس میں باقی نہیں رہی تھی ، نہ وہ اللہ کی باتوں کی دل سے تصدیق کرتا تھا نہ جسم سے عبادت اللہ بجا لاتا تھا یہاں تک کہ نماز کا بھی چور تھا ۔ القيامة
27 القيامة
28 القيامة
29 القيامة
30 القيامة
31 القيامة
32 القيامة
33 1 ہاں جھٹلانے اور منہ موڑنے میں بے باک تھا اور اپنے اس ناکارہ عمل پر اتراتا اور پھولتا ہوا بے ہمتی اور بد عملی کے ساتھ اپنے والوں میں جا ملتا تھا ، جیسے اور جگہ ہے «وَإِذَا انقَلَبُوا إِلَیٰ أَہْلِہِمُ انقَلَبُوا فَکِہِینَ» ۱؎ (83-المطففین:31) یعنی ’ جب اپنے والوں کی طرف لوٹتے ہیں تو خوب باتیں بناتے ہوئے مزے کرتے ہوئے خوش خوش جاتے ہیں ‘ ۔ اور جگہ ہے «إِنَّہُ کَانَ فِی أَہْلِہِ مَسْرُورًا إِنَّہُ ظَنَّ أَن لَّن یَحُورَ بَلَیٰ إِنَّ رَبَّہُ کَانَ بِہِ بَصِیرًا» ۱؎ (84-الإنشقاق:13-15) یعنی ’ یہ اپنے گھرانے والوں میں شادمان تھا اور سمجھ رہا تھا کہ اللہ کی طرف اسے لوٹنا ہی نہیں ۔ اس کا یہ خیال محض غلط تھا اس کے رب کی نگاہیں اس پر تھیں ‘ ۔ پھر اسے اللہ تبارک و تعالیٰ دھمکاتا ہے اور ڈر سناتا ہے اور فرماتا ہے ’ خرابی ہو تجھے اللہ کے ساتھ کفر کر کے پھر اتراتا ہے ‘ ۔ جیسے اور جگہ ہے «ذُقْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْکَرِیْمُ» ۱؎ (44-الدخان:49) یعنی قیامت کے دن کافر سے بطور ڈانٹ اور حقارت کے کہا جائے گا کہ ’ لے اب مزہ چکھ تو تو بڑی عزت اور بزرگی والا تھا ‘ ۔ اور فرمان ہے «کُلُوْا وَتَمَتَّعُوْا قَلِیْلًا اِنَّکُمْ مٰجْرِمُوْنَ» ۱؎ (77-المرسلات:46) ’ کچھ کھا پی لو آخر تو بدکار گنہگار ہو ‘ ۔ اور جگہ ہے «فَاعْبُدُوْا مَا شِئْتُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ» ۱؎ (39-الزمر:15) ’ جاؤ اللہ کے سوا جس کی چاہو عبادت کرو ‘ وغیرہ وغیرہ غرض یہ ہے کہ ان تمام جگہوں میں یہ احکام بطور ڈانٹ ڈپٹ کے ہیں ۔ سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے جب یہ آیت «اَوْلٰی لَکَ فَاَوْلٰی» ۱؎ (75-القیامۃ:34) ، کی بابت پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا ” رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ابوجہل کو فرمایا تھا پھر قرآن میں بھی یہی الفاظ نازل ہوئے “ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:35734:مرسل) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی اسی کے قریب قریب نسائی میں موجود ہے ، ۱؎ (سنن نسائی:658،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابن ابی حاتم میں قتادہ رحمہ اللہ کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان پر اس دشمن رب نے کہا کہ کیا تو مجھے دھمکاتا ہے ؟ اللہ کی قسم تو اور تیرا رب میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ، ان دونوں پہاڑیوں کے درمیان چلنے والوں میں سب سے زیادہ ذی عزت میں ہوں ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:35731:مرسل) کیا انسان یہ سمجھتا ہے کہ اسے یونہی چھوڑ دیا جائے گا ؟ اسے کوئی حکم اور کسی چیز کی ممانعت نہ کی جائے گی ؟ ایسا ہرگز نہیں بلکہ دنیا میں اسے حکم و ممانعت اور آخرت میں اپنے اپنے اعمال کے بموجب جزاء و سزا ضرور ملے گی ، مقصود یہاں پر قیامت کا اثبات اور منکرین قیامت کا رد ہے ، اسی لیے دلیل کے طور پر کہا جاتا ہے کہ انسان دراصل نطفہ کی شکل میں بے جان و بے بنیاد تھا پانی کا ذلیل قطرہ تھا جو پیٹھ سے رحم میں آیا پھر خون کی پھٹکی بنی ، پھر گوشت کا لوتھڑا ہوا ، پھر اللہ تعالیٰ نے شکل و صورت دے کر روح پھونکی اور سالم اعضاء والا انسان بنا کر مرد یا عورت کی صورت میں پیدا کیا ۔ کیا اللہ جس نے نطفہ ضعیف کو ایسا صحیح القامت قوی انسان بنا دیا وہ اس بات پر قادر نہیں کہ اسے فنا کر کے پھر دوبارہ پیدا کر دے ؟ یقیناً پہلی مرتبہ کا پیدا کرنے والا دوبارہ بنانے پر بہت زیادہ اور بطور اولیٰ قادر ہے ، یا کم از کم اتنا ہی جتنا پہلی مرتبہ تھا ۔ جیسے فرمایا «وَہُوَ الَّذِیْ یَبْدَؤُا الْخَــلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہٗ وَہُوَ اَہْوَنُ عَلَیْہِ» ۱؎ (30-الروم:27) ’ اس نے ابتداء پیدا کیا وہی پھر لوٹائے گا اور وہ اس پر بہت زیادہ آسان ہے ‘ ۔ اس آیت کے مطلب میں بھی دو قول ہیں ، لیکن پہلا قول ہی زیادہ مشہور ہے جیسے کہ سورۃ الروم کی تفسیر میں اس کا بیان اور تقریر گزر چکی ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ابن ابی حاتم میں ہے کہ { ایک صحابی رضی اللہ عنہ اپنی چھت پر باآواز بلند قرآن شریف پڑھ رہے تھے جب اس سورت کی آخری آیت کی تلاوت کی تو فرمایا «سُبْحَانک اللَّہُمَّ فَبَلَی» یعنی ” اے اللہ تو پاک ہے اور بیشک قادر ہے “ ، لوگوں نے اس کہنے کا باعث پوچھا : تو فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس آیت کا یہی جواب دیتے ہوئے سنا ہے } ۔ ابوداؤد میں بھی یہ حدیث ہے ۱؎ (سنن ابوداود:884،قال الشیخ الألبانی:صحیح) لیکن دونوں کتابوں میں اس صحابی کا نام نہیں گو یہ نام نہ ہونا مضر نہیں ۔ ابوداؤد کی اور حدیث میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جو شخص تم میں سے سورۃ والتین کی آخری آیت «اَلَیْسَ اللّٰہُ بِاَحْکَمِ الْحٰکِمِیْنَ» ۱؎ (95-التین:8) پڑھے وہ «بَلَی وَأَنَا عَلَی ذَلِکَ مِنْ الشَّاہِدِینَ» کہے یعنی ’ ہاں اور میں بھی اس پر گواہ ہوں ‘ اور جو شخص سورۃ قیامت کی آخری آیت «اَلَیْسَ ذٰلِکَ بِقٰدِرٍ عَلٰٓی اَنْ یٰحْیِۦ الْمَوْتٰی» ۱؎ (75-القیامۃ:40) پڑھے تو وہ کہے «بَلَی» اور جو سورۃ والمرسلات کی آخری آیت «فَبِاَیِّ حَدِیْثٍۢ بَعْدَہٗ یُؤْمِنُوْنَ» ۱؎ (77-المرسلات:50) پڑھے وہ «آمَنَّا بِاَللَّہِ» کہے “ } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:887،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) یہ حدیث مسند احمد اور ترمذی میں بھی ہے ۔ ابن جریر میں قتادہ رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس آخری آیت کے بعد فرماتے «سُبْحَانک وَبَلَی» } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:35738:) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس آیت کے جواب میں یہ کہنا ابن ابی حاتم میں مروی ہے ۔ سورۃ القیامہ کی تفسیر «اَلْحَمْدُ لِلہِ» ختم ہوئی ۔ القيامة
34 القيامة
35 القيامة
36 القيامة
37 القيامة
38 القيامة
39 القيامة
40 القيامة
0 الإنسان
1 اے انسان اپنے فرائض پہچان اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ ’ اس نے انسان کو پیدا کیا حالانکہ اس سے پہلے وہ اپنی حقارت اور ضعف کی وجہ سے ایسی چیز نہ تھا کہ ذکر کیا جائے ۔ اسے مرد و عورت کے ملے جلے پانی سے پیدا کیا اور عجب عجب تبدیلیوں کے بعد یہ موجودہ شکل و صورت اور ہئیت پر آیا ، اسے ہم آزما رہے ہیں ‘ ۔ جیسے اور جگہ ہے «لِیَبْلُوَکُمْ اَیٰکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا» ۱؎ (67-الملک:2) ’ تاکہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے اچھے عمل کرنے والا کون ہے ؟ ‘ پس اس نے تمہیں کان اور آنکھیں عطا فرمائیں تاکہ اطاعت اور معصیت میں تمیز کر سکو ۔ ہم نے اسے راہ دکھا دی خوب واضح اور صاف کر کے اپنا سیدھا راستہ اس پر کھول دیا ۔ جیسے اور جگہ ہے «‏‏‏‏وَاَمَّا ثَمُوْدُ فَہَدَیْنٰہُمْ فَاسْتَــحَبٰوا الْعَمٰی عَلَی الْہُدٰی فَاَخَذَتْہُمْ صٰعِقَۃُ الْعَذَابِ الْہُوْنِ بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ» ۱؎ (41-فصلت:17) یعنی ’ ثمودیوں کو ہم نے ہدایت کی لیکن انہوں نے اندھے پن کو ہدایت پر ترجیح دی ‘ ۔ اور جگہ ہے «‏‏‏‏وَہَدَیْنٰہُ النَّجْدَیْنِ» ۱؎ (90- البلد:10) ’ ہم نے انسان کو دونوں راہیں دکھا دیں ‘ ، یعنی بھلائی برائی کی ، اس آیت کی تفسیر میں مجاہد ابوصالح ضحاک اور سدی رحمہ اللہ علیہم سے مروی ہے کہ ” اسے ہم نے راہ دکھائی “ یعنی ماں کے پیٹ سے باہر آنے کی ، لیکن یہ قول غریب ہے اور صحیح قول پہلا ہی ہے اور جمہور سے یہی منقول ہے ۔ «‏‏‏‏شاکراً» اور «کفوراً» ‏‏‏‏کا نصب حال کی وجہ سے ذوالحال «لا» کی ضمیر ہے جو «‏‏‏‏اِنَّا ہَدَیْنٰہُ السَّبِیْلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّاِمَّا کَفُوْرًا» (76-الإنسان:3) میں ہے ، یعنی ’ وہ اس حالت میں یا تو شقی ہے یا سعید ہے ‘ ۔ جیسے صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ { ہر شخص صبح کے وقت اپنے نفس کی خرید و فروخت کرتا ہے یا تو اسے ہلاک کر دیتا ہے یا آزاد کرا لیتا ہے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:223) مسند احمد میں ہے کہ { سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اللہ تجھے بیوقوفوں کی سرداری سے بچائے “ ۔ سیدنا کعب رضی اللہ عنہ نے کہا :یا رسول اللہ ! وہ کیا ہے ؟ فرمایا : ” وہ میرے بعد کے سردار ہوں گے جو میری سنتوں پر نہ عمل کریں گے ، نہ میرے طریقوں پر چلیں گے پس جو لوگ ان کی جھوٹ کی تصدیق کریں اور ان کے ظلم کی امداد کریں وہ نہ میرے ہیں اور نہ میں ان کا ہوں یاد رکھو وہ میرے حوض کوثر پر بھی نہیں آ سکتے اور جو ان کے جھوٹ کو سچا نہ کرے اور ان کے ظلموں میں ان کا مددگار نہ بنے وہ میرا ہے اور میں اس کا ہوں یہ لوگ میرے حوض کوثر پر مجھے ملیں گے ۔ اے کعب ! روزہ ڈھال ہے اور صدقہ خطاؤں کو مٹا دیتا ہے اور نماز قرب اللہ کا سبب ہے “ یا فرمایا ” دلیل نجات ہے ۔ اے کعب ! وہ گوشت پوست جنت میں نہیں جا سکتا جو حرام سے پلا ہو وہ تو جہنم میں ہی جانے کے قابل ہے ، اے کعب ! لوگ ہر صبح اپنے نفس کی خرید و فروخت کرتے ہیں کوئی تو اسے آزاد کرا لیتا ہے اور کوئی ہلاک کر گزرتا ہے “ } ۔ ۱؎ (مسند احمد:321/3:اسنادہ قوی) سورۃ الروم کی آیت «فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْہَا لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْـقَیِّمُ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ» ۱؎ (30-الروم:30) کی تفسیر میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی روایت سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی گزر چکا ہے کہ { ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے یہاں تک کہ زبان چلنے لگتی ہے ، پھر یا تو شکر گزار بنتا ہے یا ناشکرا } ۔ مسند احمد کی اور حدیث میں ہے کہ { جو نکلنے والا نکلتا ہے اس کے دروازے پر دو جھنڈے ہوتے ہیں ایک فرشتے کے ہاتھ میں ، دوسرا شیطان کے ہاتھ میں ، پس اگر وہ اس کام کے لیے نکلا جو اللہ کی مرضی کا ہے تو فرشتہ اپنا جھنڈا لیے ہوئے اس کے ساتھ ہو لیتا ہے اور یہ واپسی تک فرشتے کے جھنڈے تلے ہی رہتا ہے اور اگر اللہ کی ناراضگی کے کام کے لیے نکلا ہے تو شیطان اپنا جھنڈا لگائے اس کے ساتھ ہو لیتا ہے اور واپسی تک یہ شیطانی جھنڈے تلے رہتا ہے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:323/2:ضعیف) الإنسان
2 الإنسان
3 الإنسان
4 زنجیریں طوق اور شعلے یہاں اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ ’ اس کی مخلوق میں سے جو بھی اس سے کفر کرے اس کے لیے زنجیریں ، طوق اور شعلوں والی بھڑکتی ہوئی تیز آگ تیار ہے ‘ ۔ جیسے اور جگہ ہے «إِذِ الْأَغْلَالُ فِی أَعْنَاقِہِمْ وَالسَّلَاسِلُ یُسْحَبُونَ فِی الْحَمِیمِ ثُمَّ فِی النَّارِ یُسْجَرُونَ» ۱؎ (40-غافر:71-72) ’ جبکہ طوق ان کی گردنوں میں ہوں گے اور بیڑیاں ان کے پاؤں میں ہوں گی اور یہ «حمیم» میں گھسیٹے جائیں گے پھر جہنم میں جلائے جائیں گے ‘ ۔ ان بدنصیبوں کی سزا کا ذکر کر کے اب نیک لوگوں کی جزا کا ذکر ہو رہا ہے کہ ’ انہیں وہ جام پلائے جائیں گے جن کا مشروب کافور نامی نہر کے پانی کا ہو گا ، ذائقہ بھی اعلیٰ ، خوشبو بھی عمدہ اور فائدہ بھی بہتر کافور کی سی ٹھنڈک اور سونٹھ کی سو خوشبو ‘ ۔ کافور ایک نہر کا نام ہے جس سے اللہ کے خاص بندے پانی پیتے ہیں اور صرف اسی سے آسودگی حاصل کرتے ہیں اسی لیے یہاں اسے «ب» سے متعدی کیا اور تمیز کی بنا پر «عَیْناً» پر نصب دیا ، یہ پانی اپنی خوشبو میں مثل کافور کے ہے یا یہ ٹھیک کافور ہی ہے اور «عَیْناً» کا زبر «یشرب» کی وجہ سے ہے پھر اس نہر تک انہیں آنے کی ضرورت نہیں یہ اپنے باغات ، مکانات ، مجلسوں اور بیٹھکوں میں جہاں بھی جائیں گے اس لے جائیں گے اور وہیں وہ پہنچ جائے گی ۔ «تَفْجِیرً» کے معنی روانی اور اجرا کے ہیں ، جیسے آیت «وَقَالُوا لَن نٰؤْمِنَ لَکَ حَتَّیٰ تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْأَرْضِ یَنبُوعًا» ۱؎ (17-الإسراء:90) میں اور «وَفَجَّرْنَا خِلَالَہُمَا نَہَرًا» ۱؎ (18-الکھف:33) میں ۔ پھر ان لوگوں کی نیکیاں بیان ہو رہی ہیں کہ جو عبادت اللہ کی طرف سے ان کے ذمہ تھی وہ بجا لاتے تھے بلکہ جو چیز یہ اپنے اوپر کر لیتے اسے بھی بجا لاتے یعنی نذر بھی پوری کرتے ۔ حدیث میں ہے { جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی نذر مانے وہ پوری کرے اور جو نافرمانی کی نذر مانے اسے پورا نہ کرے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6696) امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے امام مالک رحمہ اللہ کی روایت سے بیان فرمایا ہے ـ اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں سے بھاگتے رہتے ہیں ، کیونکہ قیامت کے دن کا ڈر ہے جس کی گھبراہٹ عام طور پر سب کو گھیر لے گی اور ہر ایک الجھن میں پڑ جائے گا مگر جس پر اللہ کا رحم و کرم ہو ، زمین و آسمان تک ہول رہے ہوں گے ۔ «استطار» کے معنی پھیل جانے والی اور اطراف کو گھیر لینے والی کے ہیں ، یہ نیکوکار اللہ کی محبت میں مستحق لوگوں پر اپنی طاقت کے مطابق خرچ بھی کرتے رہتے تھے اور «لا» کی ضمیر کا مرجع بعض لوگوں نے طَعام کو بھی کہا ہے لفظاً زیادہ ظاہر بھی یہی ہے ، یعنی طَعام کی محبت اور خواہش ضرورت کے باوجود راہ اللہ غرباء اور حاجت مندوں کو دے دیتے ہیں ۔ جیسے اور جگہ ہے «وَآتَی الْمَالَ عَلَیٰ حُبِّہِ» ۱؎ (2-البقرۃ:177) یعنی ’ مال کی چاہت کے باوجود اسے راہ اللہ دیتے رہتے ہیں ‘ ۔ اور فرمان ہے «لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّیٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبٰونَ» ۱؎ (3-آل عمران:92) یعنی ’ تم ہرگز بھلائی حاصل نہیں کر سکتے جب تک اپنی چاہت کی چیزیں راہ اللہ خرچ نہ کرو ‘ ۔ نافع رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ { سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیمار ہوئے آپ کی بیماری میں انگور کا موسم آیا جب انگور بکنے لگے تو آپ کا دل بھی چاہا کہ میں انگور کھاؤں ، آپ کی بیوی صاحبہ سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا نے ایک درہم کے انگور منگائے ، آدمی لے کر آیا اس کے ساتھ ہی ساتھ ایک سائل بھی آ گیا اور اس نے آواز دی کہ میں سائل ہوں سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ” یہ سب اسی کو دے دو “ ، چنانچہ دے دیئے گئے پھر دوبارہ آدمی گیا اور انگور خرید لایا اب کی مرتبہ بھی سائل آ گیا اور اس کے سوال پر اسی کو سب کے سب انگور دے دیئے گئے ، لیکن اب کی مرتبہ سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا نے سائل کو کہلوا بھیجا کہ اگر اب آئے تو تمہیں کچھ نہ ملے گا چنانچہ تیسری مرتبہ ایک درہم کے انگور منگوائے گئے ۔ } (بیہقی) اور صحیح حدیث میں ہے کہ { افضل صدقہ وہ ہے جو تو اپنی صحت کی حالت میں ، مال کی محبت ، امیری کی چاہت اور افلاس کے خوف کے باوجود راہ اللہ دے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1419) یعنی مال کی حرص ، حب بھی اور چاہت و ضرورت بھی ہو پھر بھی راہ اللہ اسے قربان کر دے ۔ یتیم اور مسکین کسے کہتے ہیں ؟ اس کا مفصل بیان پہلے گزر چکا ہے ، قیدی کی نسبت سعید رحمہ اللہ وغیرہ تو فرماتے ہیں مسلمان اہل قبلہ قیدی مراد ہے ، لیکن سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ کا فرمان ہے اس وقت قیدیوں میں سوائے مشرکین کے اور کوئی مسلم نہ تھا ، اور اسی کی تائید اس حدیث شریف سے بھی ہوتی ہے جس میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدری قیدیوں کے بارے میں اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم کو فرمایا تھا کہ { ان کا اکرام کرو چنانچہ کھانے پینے میں صحابہ رضی اللہ عنہم خود اپنی جان سے بھی زیادہ ان کا خیال رکھتے تھے ۔ عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے مراد غلام ہیں ، امام ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ بسبب آیت کے عام ہونے کے اسی کو پسند کرتے ہیں اور مسلم مشرک سب کو شامل کرتے ہیں ، غلاموں اور ماتحتوں کے ساتھ احسان و سلوک کرنے کی تاکید بہت سی احادیث میں آئی ہے ، بلکہ رسول اکرم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری وصیت اپنی امت کو یہی ہے کہ { نمازوں کی نگہبانی کرو اور اپنے ماتحتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور ان کا پورا خیال رکھو } ۔ ۱؎ (مسند احمد:3/117:صحیح) یہ اس نیک سلوک کا نہ تو ان لوگوں سے کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ ، بلکہ اپنے حال سے گویا اعلان کر دیتے ہیں کہ ہم تمہیں صرف راہ اللہ دیتے ہیں اس میں ہماری ہی بہتری ہے کہ اس سے رضائے رب اور مرضی مولا ہمیں حاصل ہو جائے ، ہم ثواب اور اجر کے مستحق ہو جائیں ۔ سعید رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ” اللہ کی قسم یہ بات وہ لوگ منہ سے نہیں نکالتے یہ دلی ارادہ ہوتا ہے جس کا علم اللہ کو ہے تو اللہ نے اس ظاہر فرما دیا کہ اور لوگوں کی رغبت کا باعث بنے ، یہ پاک باز جماعت خیرات و صدقات کر کے اس دن کے عذاب اور ہولناکیوں سے بچنا چاہتی ہے جو ترش رو ، تنگ و تاریک اور طویل طویل ہے ، ان کا عقیدہ ہے کہ اس بنا پر اللہ ان پر رحم کرے گا اور اس محتاجی اور بے کسی والے دن ہماری نیکیاں ہمارے کام آئیں گی “ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے «عَبُوسً» کے معنی تنگی والا اور «قَمْطَرِیرً» کے معنی طویل طویل مروی ہے ۔ عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” کافر کا منہ اس دن بگڑ جائے گا اس کے تیوری چڑھ جائے گی اور اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان سے عرق بہنے لگے گا جو مثل روغن گندھک کے ہو گا “ ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” ہونٹ چڑھ جائیں گے اور چہرہ سمٹ جائے گا “ ، سعید اور قتادہ رحمہ اللہ علیہم کا قول ہے کہ ” بوجہ گھبراہٹ اور ہولناکیوں کے صورت بگڑ جائے گی پیشانی تنگ ہو جائے گی “ ۔ ابن زید رحمہ اللہ فرماتے ہیں برائی اور سختی والا دن ہو گا ، لیکن سب سے واضح بہتر نہایت مناسب بالکل ٹھیک قول سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ہے ۔ «قَمْطَرِیرً» ‏‏‏‏کے لغوی معنی امام ابن جریر رحمہ اللہ نے شدید کے کئے ہیں یعنی بہت سختی والا ۔ ان کی اس نیک نیتی اور پاک عمل کی وجہ سے اللہ نے انہیں اس دن کی برائی سے بال بال بچا لیا اور اتنا ہی نہیں بلکہ انہیں بجائے ترش روئی کے خندہ پیشانی اور بجائے دل کی ہولناکی کے اطمینان و سرور قلب عطا فرمایا ، خیال کیجئے کہ یہاں عبارت میں کس قدر بلیغ تجانس کا استعمال کیا گیا ہے ۔ اور جگہ ہے «وُجُوہٌ یَوْمَئِذٍ مٰسْفِرَۃٌ ضَاحِکَۃٌ مٰسْتَبْشِرَۃٌ» ۱؎ (80-عبس:38-39) ’ اس دن بہت سے چہرے چمکدار ہوں گے ، جو ہنستے ہوئے اور خوشیاں مناتے ہوئے ہوں گے ‘ ۔ یہ ظاہر ہے کہ جب دل مسرور ہو گا تو چہرہ کھلا ہوا ہو گا ۔ سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی لمبی حدیث میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کبھی کوئی خوشی ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ چمکنے لگتا اور ایسا معلوم ہوتا گویا چاند کا ٹکڑا ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4418) ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی لمبی حدیث میں ہے کہ { ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے چہرہ خوشی سے منور ہو رہا تھا اور مکھڑے مبارک کی رگیں چمک رہی تھیں } الخ ۔ ، ۱؎ (صحیح بخاری:3555) پھر فرماتا ہے ’ ان کے صبر کے اجر میں انہیں رہنے سہنے کو وسیع جنت پاک زندگی اور پہننے اوڑھنے کو ریشمی لباس ملا ‘ ۔ ابن عساکر میں ہے کہ ابو سلیمان دارانی رحمہ اللہ کے سامنے اس سورت کی تلاوت ہوئی جب قاری نے اس آیت کو پڑھا تو آپ نے فرمایا انہوں نے دنیاوی خواہشوں کو چھوڑ رکھا تھا پھر یہ اشعار پڑھے ۔ «کَمْ قَتِیل لِشَہْوَۃٍ وَأَسِیر» «‏‏‏‏أُفّ مِنْ مُشْتَہًی خِلَاف الْجَمِیل» *** «‏‏‏‏شَہَوَات الْإِنْسَان تُورِثہُ الذٰلّ» *** «‏‏‏‏وَتُلْقِیہ فِی الْبَلَاء الطَّوِیل» افسوس شہوت نفس نے اور بھلائیوں کے خلاف برائیوں کی چاہت نے بہت سے گواہوں کا گلا گھونٹ دیا اور کئی ایک کو پابجولاں کر دیا ، نفسانی خواہشیں ہی ہیں جو انسان کو بدترین ذلت و رسوائی اور بلا و مصیبت میں ڈال دیتی ہیں ۔ الإنسان
5 الإنسان
6 الإنسان
7 الإنسان
8 الإنسان
9 الإنسان
10 الإنسان
11 الإنسان
12 الإنسان
13 دائمی خوشگوار موسم اور مسرتوں سے بھرپور زندگی اہل جنت کی نعمت ، راحت ، ان کے ملک و مال اور جاہ و منال کا ذکر ہو رہا ہے کہ ’ یہ لوگ بہ آرام تمام پورے اطمینان اور خوش دلی کے ساتھ جنت کے مرصع ، مزین ، جڑاؤ تختوں پر بےفکری سے تکیے لگائے سرور اور راحت سے بیٹھے مزے لوٹ رہے ہوں گے ‘ ۔ سورۃ الصافات کی تفسیر میں اس کی پوری شرح گزر چکی ہے ، وہیں یہ بھی بیان ہو چکا ہے کہ «اِتکَّاً» سے مراد لیٹنا ہے یا کہنیاں ٹکانا ہے یا چار زانو بیٹھنا ہے یا کمر لگا کر ٹیک لگانا ہے ، اور یہ بھی بیان ہو چکا ہے کہ «اَرَائِک» چھپرکھٹوں کو کہتے ہیں ۔ پھر ایک اور نعمت بیان ہو رہی ہے کہ ’ وہاں نہ تو سورج کی تیز شعاعوں سے انہیں کوئی تکلیف پہنچے نہ جاڑے کی بہت سرد ہوائیں انہیں ناگوار گزریں بلکہ بہار کا موسم ہر وقت اور ہمیشہ رہتا ہے گرمی سردی کے جھمیلوں سے الگ ہیں ، جنتی درختوں کی شاخیں جھوم جھوم کر ان پر سایہ کئے ہوئے ہوں گی اور میوے ان سے بالکل قریب ہوں گے چاہے لیٹے لیٹے توڑ کر کھا لیں ، چاہے بیٹھے بیٹھے لے لیں چاہے کھڑے ہو کر لے لیں درختوں پر چڑھنے اور تکلیف کی کوئی حاجت نہیں سروں پر میوے دار گچھے اور لدے ہوئے لچھے لٹک رہے ہیں توڑا اور کھا لیا اگر کھڑے ہیں تو میوے اتنے اونچے ہیں بیٹھے تو قدرے جھک گئے لیٹے تو اور قریب آ گئے ، نہ تو کانٹوں کی رکاوٹ نہ دوری کی سردردی ہے ‘ ۔ مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں جنت کی زمین چاندی کی ہے اور اس کی مٹی مشک خالص ہے ، اس کے درختوں کے تنے سونے چاندی کے ہیں ، ڈالیاں لولو زبرجد اور یاقوت کی ہیں، ان کے درمیان پتے اور پھل ہیں جن کے توڑنے میں کوئی دقت اور مشکل نہیں چاہو بیٹھے بیٹھے توڑ لو ، چاہو کھڑے کھڑے ، بلکہ اگر چاہیں لیٹے لیٹے ـ ایک طرف خوش خرام، خوش دل، خوبصورت، با ادب، سلیقہ شعار، فرمانبردار خادم قسم قسم کے کھانے چاندی کی کشتیوں میں لگائے لیے کھڑے ہیں ۔ دوسری جانب شراب طہور سے چھلکتے ہوئے بلوریں جام لیے ساقیان مہوش اشارے کے منتظر ہیں، یہ گلاس صفائی میں شیشے جیسے اور سفیدی میں چاندی جیسے ہوں گے، دراصل ہوں گے چاندی کے لیکن شیشے کی طرح شفاف ہوں گے کہ اندر کی چیز باہر سے نظر آئے، جنت کی تمام چیزوں کی یونہی سی برائے نام مشابہت دنیا کی چیزوں میں بھی پائی جاتی ہے لیکن ان چاندی کے بلوریں گلاسوں کی کوئی نظیر نہیں ملتی، ہاں یہ یاد رہے کہ پہلے کے لفظ «قواریر» پر زبر تو اس لیے ہے کہ وہ «کان» کی خبر ہے اور دوسرے پر زبر یا تو بدلیت کی بنا پر ہے یا تمیز کی بنا پر، پھر یہ جام نپے تلے ہوئے ہیں ساقی کے ہاتھ میں بھی زیب دیں اور ان کی ہتھیلیوں پر بھلے معلوم ہوں اور پینے والوں کے حسب خواہش شراب طہور اس میں سما جائے جو نہ بچے نہ گھٹے۔ ان نایاب گلاسوں میں جو پاک خوش ذائقہ اور سرور والی بے نشے کی شراب انہیں ملے گی وہ جنت کی نہر «سلسبیل» کے پانی سے مخلوط کر کے دی جائے گی، اوپر گزر چکا ہے کہ نہر کافور کے پانی سے مخلوط کر کے دی جائے گی تو مطلب یہ ہے کبھی اسی ٹھنڈک والے سرد مزاج پانی سے ، کبھی اس نفیس گرم مزاج پانی سے تاکہ اعتدال قائم رہے، یہ ابرار لوگوں کا ذکر ہے اور خاص مقربین خالص اس نہر کا شربت پئیں گے ۔ الإنسان
14 الإنسان
15 الإنسان
16 الإنسان
17 1 «سَلْسَبِیْلً» بقول عکرمہ رحمہ اللہ جنت کے ایک چشمے کا نام ہے کیونکہ وہ تیزی کے ساتھ مسلسل روانگی سے لہر یا چال بہہ رہا ہے ، اس کا پانی بڑا ہلکا ، نہایت شیریں ، خوش ذائقہ اور خوشبو ہے جو آسانی سے پیا جائے اور ہضم اور جزو بدن ہوتا رہے ۔ ان نعمتوں کے ساتھ ہی خوبصورت حسین نوخیز کم عمر لڑکے ان کی خدمت کے لیے کمربستہ ہوں گے ، یہ غلمان جنتی جس سن و سال میں ہوں گے اسی میں رہیں گے یہ نہیں کہ سن بڑھ کر صورت بگڑ جائے ، نفیس پوشاکیں اور بیش قیمت جڑاؤ زیور پہنے بہ تعداد کثیر ادھر ادھر مختلف کاموں پر بٹے ہوئے ہوں گے جنہیں دوڑ بھاگ کر مستعدی اور چالاکی سے انجام دے رہے ہوں گے ایسا معلوم ہو گا گویا سفید آب دار موتی ادھر ادھر جنت میں بکھرے پڑے ہیں ۔ حقیت میں اس سے زیادہ اچھی تشبیہ ان کے لیے کوئی اور نہ تھی کہ یہ صاحب جمال خوش خصال ، بوٹے سے قد والے ، سفید نورانی چہروں والے ، پاک صاف سجی ہوئی پوشاکیں پہنے ، زیور میں لدے اپنے مالک کی فرمانبرداری میں دوڑتے بھاگتے ادھر ادھر پھرتے ایسے بھلے معلوم ہوں گے سجے سجائے پرتکلف فرش پر سفید چمکیلے سچے موتی ادھر ادھر لڑھک رہے ہوں ۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ہر ہر جنتی کے ایک ہزار خادم ہوں گے جو مختلف کام کاج میں لگے ہوئے ہوں گے ۔ پھر فرماتا ہے ’ اے نبی ! تم جنت کی جس جگہ نظر ڈالو تمہیں نعمتیں اور عظیم الشان سلطنت ہی سلطنت نظر آئے گی تم دیکھو گے کہ راحت و سرور نعمت و نور سے چپہ چپہ معمور ہے ‘ ۔ چنانچہ صحیح حدیث میں ہے کہ { سب سے آخر میں جو جہنم میں سے نکالا جائے گا اور جنت میں بھیجا جائے گا اس سے جناب باری تبارک و تعالیٰ فرمائے گا ’ جا میں نے تجھے جنت میں وہ دیا جو مثل دنیا کے ہے ، بلکہ اس سے بھی دس حصے زیادہ دیا ‘ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6571) اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت سے وہ حدیث بھی پہلے گزر چکی ہے جس میں ہے کہ { ادنیٰ جنتی کی ملکیت و ملک دو ہزار سال تک ہو گا ہر قریب و بعید کی چیز پر اس کی بیک نظر ، یکساں نگاہیں ہوں گی } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3330،قال الشیخ الألبانی:ضیف) یہ حال تو ہے ادنیٰ جنتی کا پھر سمجھ لو کہ اعلیٰ جنتی کا درجہ کیا ہو گا ؟ اور اس کی نعمتیں کیسی ہوں گی ۔ [ اے اللہ ! اے بغیر ہماری دعا اور عمل کے ہمیں شیر مادر کے چشمے عنایت کرنے والے ، ہم بہ عاجزی و الحاج تیری پاک جناب میں عرض گزار ہیں کہ تو ہمارے مشتاق دل کے ارمان پورے کر اور ہمیں بھی جنت الفردوس نصیب فرما ۔ گو ایسے اعمال نہ ہوں لیکن ایمان ہے کہ تیری رحمت اعمال پر ہی موقوف نہیں ، آمین ۔ مترجم] طبرانی کی ایک بہت ہی غریب حدیث میں وارد ہے کہ { ایک حبشی دربار رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا : ” تمہیں جو کچھ پوچھنا ہو جس بات کو سمجھنا ہو پوچھ لو “ ۔ اس نے کہا : یا رسول اللہ ! صورت ، شکل ، رنگ ، روپ ، نبوۃ و رسالت میں آپ کو ہم پر فضیلت دی گئی ہے ، اب یہ تو فرمایئے کہ اگر میں بھی ان چیزوں پر ایمان لاؤں جن پر آپ ایمان لائے ہیں اور جن پر آپ عمل کرتے ہیں اگر میں بھی اسی پر عمل کروں تو کیا جنت میں آپ کے ساتھ ہو سکتا ہوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ہاں ! قسم ہے اس اللہ کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ سیاہ رنگ لوگوں کو جنت میں وہ سفید رنگ دیا جائے گا کہ ایک ہزار سال کے فاصلے سے دکھائی دے گا “ پھر حضور علیہ الصلوۃ و السلام نے فرمایا : ” جو شخص «لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ» کہے اس کے لیے اللہ کے پاس عہد مقرر ہو جاتا ہے اور جو شخص «‏‏‏‏سُبْحَانَ اللہ وَ بِحَمْدِہٖ» کہے اس کے لیے ایک لاکھ چوبیس ہزار نیکیاں لکھی جاتی ہیں “ } ۔ تو ایک شخص نے کہا : پھر یا رسول اللہ ! ہم کیسے ہلاک ہوں گے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” سنو ایک شخص اتنی نیکیاں لائے گا کہ اگر کسی بڑے پہاڑ پر رکھی جائیں تو اس پر بوجھل پڑیں لیکن پھر جو اللہ کی نعمتیں اس کے مقابل آئیں گی تو قریب ہو گا کہ سب فنا ہو جائیں مگر یہ اور بات ہے کہ رحمت رب توجہ فرمائے “ } ۔ اس وقت یہ سورۃ «وَإِذَا رَأَیْتَ ثَمَّ رَأَیْتَ نَعِیمًا وَمُلْکًا کَبِیرًا» ۱؎ (76-الإنسان:20) تک اتری اسی حبشی نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ! جو کچھ آپ کی آنکھیں جنت میں دیکھیں گی کیا میری آنکھیں بھی دیکھیں گی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ہاں ہاں “ ، بس وہ رونے لگا یہاں تک کہ اس کی روح پرواز کر گئی ۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اسے دفن کیا } ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:13595،قال الشیخ زبیر علی زئی:ضعیف) پھر اہل جنت کے لباس کا ذکر ہو رہا ہے کہ ’ وہ سبز ہرے رنگ کا مہین اور چمکدار ریشم ہو گا ، «سُندُسٍ» اعلیٰ درجہ کا خالص نرم ریشم جو بدن سے لگا ہوا ہو گا ، اور «اِسْتَبْرَقْ» عمدہ ، بیش بہا ، گراں قدر ریشم جس میں چمک دمک ہو گی جو اوپر پہنایا جائے گا ، ساتھ ہی چاندی کے کنگن ہاتھوں میں ہوں گے ، یہ لباس «ابرار» کا ہے ‘ ۔ اور مقربین خاص کے بارے میں اور جگہ ارشاد ہے «یُحَلَّوْنَ فِیْہَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَہَبٍ وَّلُؤْلُؤًا وَلِبَاسُہُمْ فِیْہَا حَرِیْرٌ» ۱؎ (22-الحج:23) ’ انہیں سونے کے کنگن ہیرے جڑے ہوئے پہنائے جائیں گے اور خالص نرم ریشمی لباس ہو گا ‘ ۔ ان ظاہری جسمانی استعمالی نعمتوں کے ساتھ ہی انہیں پرکیف ، بالذت ، سرور والی ، پاک اور پاک کرنے والی شراب پلائی جائے گی جو تمام ظاہری باطنی برائی دور کر دے ، حسد ، کینہ ، بدخلقی ، غصہ وغیرہ سب دور کر دے ، جیسے امیر المؤمنین سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ” جب اہل جنت جنت کے دروازے پر پہنچیں گے تو انہیں دو نہریں نظر آئیں گی اور انہیں ازخود خیال پیدا ہو گا ، ایک کا وہ پانی پئیں گے تو ان کے دلوں میں جو کچھ تھا سب دور ہو جائے گا دوسری میں غسل کریں گے جس سے چہرے تروتازہ ہشاش بشاش ہو جائیں گے ، ظاہری اور باطنی خوبی دونوں انہیں بدرجہ کمال حاصل ہوں گی جس کا بیان یہاں ہو رہا ہے “ ۔ پھر ان سے ان کے دل خوش کرنے اور ان کی خوشی دوبالا کرنے کو باربار کہا جائے گا تمہارے نیک اعمال کا بدلہ اور تمہاری بھلی کوششوں کی قدردانی ہے ، جیسے اور جگہ ہے «‏‏‏‏کُلُوْا وَاشْرَبُوْا ہَنِیْئًا بِمَآ اَسْلَفْتُمْ فِی الْاَیَّامِ الْخَالِیَۃِ» ۱؎ (69-الحاقۃ:24) ’ دنیا میں جو اعمال تم نے کئے ان کی نیک جزا میں آج تم خوب لطیف و لذیذ بہ آرام و اطمینان کھاتے پیتے رہو ‘ ۔ اور فرمان ہے «وَنُودُوا أَن تِلْکُمُ الْجَنَّۃُ أُورِثْتُمُوہَا بِمَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ» ۱؎ (7-الأعراف:43) یعنی ’ منادی کئے جائیں گے کہ ان جنتوں کا وارث تمہیں تمہارے نیک کردار کی بنا پر بنایا گیا ہے ‘ ۔ یہاں بھی فرمایا ہے ’ تمہاری سعی مشکور ہے تھوڑے عمل پر بہت اجر ہے ‘ ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان میں سے کرے آمین ۔ الإنسان
18 الإنسان
19 الإنسان
20 الإنسان
21 الإنسان
22 الإنسان
23 اللہ تعالیٰ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا باہم عہد و معاملات اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی پر اپنا جو خاص کرم کیا ہے اسے یاد دلاتا ہے کہ ’ ہم نے تجھ پر بتدریج تھوڑا تھوڑا کر کے یہ قرآن کریم نازل فرمایا اب اس اکرام کے مقابلہ میں تمہیں بھی چاہیئے کہ میری راہ میں صبر و ضبط سے کام لو ، میری قضاء و قدر پر صابر شاکر رہو ، دیکھو تو سہی کہ میں اپنے حسن تدبیر سے تمہیں کہاں سے کہاں پہنچاتا ہوں ۔ ان کافروں منافقوں کی باتوں میں نہ آنا گویہ تبلیغ سے روکیں لیکن تم نہ رکنا بلا روک و رعایت ، بغیر مایوسی اور تکان کے ہر وقت وعظ ، نصیحت ، ارشاد و تلقین سے غرض رکھو میری ذات پر بھروسہ رکھو میں تمہیں لوگوں کی ایذاء سے بچاؤں گا ، تمہاری عصمت کا ذمہ دار میں ہوں ‘ ۔ ، «فاجر» کہتے ہیں ، بداعمال عاصی کو اور «کفور» کہتے ہیں دل کے منکر کو ، ’ دن کے اول آخر حصے میں رب کا نام لیا کرو ، راتوں کو تہجد کی نماز پڑھو اور دیر تک اللہ کی تسبیح کرو ‘ ۔ جیسے اور جگہ فرمایا «‏‏‏‏وَمِنَ الَّیْلِ فَتَہَجَّدْ بِہٖ نَافِلَۃً لَّکَ عَسٰٓی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبٰکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا» ۱؎ (17-الإسراء:79) ’ رات کو تہجد پڑھو عنقریب تمہیں تمہارا رب مقام محمود میں پہنچائے گا ‘ ۔ سورۃ مزمل کے شروع میں فرمایا «یَا أَیٰہَا الْمُزَّمِّلُ قُمِ اللَّیْلَ إِلَّا قَلِیلًا نِّصْفَہُ أَوِ انقُصْ مِنْہُ قَلِیلًا أَوْ زِدْ عَلَیْہِ وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِیلًا» ۱؎ (73-المزمل:1-4) ’ اے لحاف اوڑھنے والے رات کا قیام کر مگر تھوڑی رات ، آدھی یا اس سے کچھ کم یا کچھ زیادہ اور قرآن کو ترتیل سے پڑھ ‘ ـ پھر کفار کو روکتا ہے کہ ’ حب دنیا میں پھنس کر آخرت کو ترک نہ کرو وہ بڑا بھاری دن ہے ، اس فانی دنیا کے پیچھے پڑھ کر اس خوفناک دن کی دشواریوں سے غافل ہو جانا عقلمندی کا کام نہیں ‘ ۔ پھر فرماتا ہے ’ سب کے خالق ہم ہیں اور سب کی مضبوط پیدائش اور قوی اعضاء ہم نے ہی بنائے ہیں اور ہم بالکل ہی قادر ہیں کہ قیامت کے دن انہیں بدل کر نئی پیدائش میں پیدا کر دیں ‘ ۔ یہاں ابتداء آفرنیش کو اعادہ کی دلیل بنائی اور اس آیت کا یہ مطلب بھی ہے کہ ’ اگر ہم چاہیں اور جب چاہیں ہمیں قدرت حاصل ہے کہ انہیں فنا کر دیں ، انہیں مٹا دیں اور ان جیسے دوسرے انسانوں کو ان کے قائم مقام کر دیں ‘ ۔ جیسے اور جگہ ہے «‏‏‏‏اِنْ یَّشَاْ یُذْہِبْکُمْ اَیٰھَا النَّاسُ وَیَاْتِ بِاٰخَرِیْنَ وَکَان اللّٰہُ عَلٰی ذٰلِکَ قَدِیْرًا» ۱؎ (4-النساء:133) ’ اگر اللہ چاہے تو اے لوگو تم سب کو برباد کر دے اور دوسرے لے آئے ۔ اللہ تعالیٰ اس پر ہر آن قادر ہے ‘ ۔ اور جگہ فرمایا «أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللہَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ إِن یَشَأْ یُذْہِبْکُمْ وَیَأْتِ بِخَلْقٍ جَدِیدٍ وَمَا ذٰلِکَ عَلَی اللہِ بِعَزِیزٍ» ۱؎ (14-إبراہیم:19-20) ’ اگر چاہے تمہیں فنا کر دے اور نئی مخلوق لائے اللہ پر یہ گراں نہیں ‘ ۔ پھر فرماتا ہے ’ یہ سورت سراسر عبرت و نصیحت ہے ، جو چاہے اس سے نصیحت حاصل کر کے اللہ سے ملنے کی راہ پر گامزن ہو جائے ‘ ۔ جیسے اور جگہ فرمان ہے «‏‏‏‏وَمَاذَا عَلَیْہِمْ لَوْ اٰمَنُوْا باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَاَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقَھُمُ اللّٰہُ وَکَان اللّٰہُ بِہِمْ عَلِــیْمًا» ۱؎ (4-النساء:39) ’ ان پر کیا بوجھ پڑھ جاتا اگر یہ اللہ کو ، قیامت کو مان لیتے ‘ ۔ پھر فرمایا ’ بات یہ ہے کہ جب تک اللہ نہ چاہے تمہیں ہدایت کی چاہت نصیب نہیں ہو سکتی ، اللہ علیم و حکیم ہے مستحقین ہدایت کے لیے وہ ہدایت کی راہیں آسان کر دیتا ہے اور ہدایت کے اسباب مہیا کر دیتا ہے اور جو اپنے آپ کو مستحق ضلالت بنا لیتا ہے اسے وہ ہدایت سے ہٹا دیتا ہے ہر کام میں اس کی حکمت بالغہ اور حجت تامہ ہے ‘ ۔ جسے چاہے اپنی رحمت تلے لے لے اور راہ راست پر کھڑا کر دے اور جسے چاہے بے راہ چلنے دے اور راہ راست نہ سمجھائے ، اس کی ہدایت نہ تو کوئی کھو سکے ، نہ اس کی گمراہی کو کوئی راستی سے بدل سکے ، اس کے عذاب ظالموں اور نا انصافوں سے ہی مخصوص ہیں ۔ «اَلْحَمْدُ لِلہِ» سورۃ انسان کی تفسیر بھی ختم ہوئی ، اللہ کا شکر ہے ۔ الإنسان
24 الإنسان
25 الإنسان
26 الإنسان
27 الإنسان
28 الإنسان
29 الإنسان
30 الإنسان
31 الإنسان
0 المرسلات
1 فرشتوں اور ہواؤں کی قسم بعض بزرگ صحابہ تابعین وغیرہ سے تو مروی ہے کہ مذکورہ بالا قسمیں ان اوصاف والے فرشتوں کی کھائی ہیں ، بعض کہتے ہیں پہلے کی چار قسمیں تو ہواؤں کی ہیں اور پانچویں قسم فرشتوں کی ہے ۔ بعض نے توقف کیا ہے کہ «وَالْمُرْسَلَاتِ» سے مراد یا تو فرشتے ہیں یا ہوائیں ہیں ، ہاں «والْعَاصِفَاتِ» میں کہا ہے کہ اس سے مراد تو ہوائیں ہی ہیں ، بعض «عاصفات» میں یہ فرماتے ہیں اور «نَّاشِرَاتِ» میں کوئی فیصلہ نہیں کرتے ، یہ بھی مروی ہے کہ «نَّاشِرَاتِ» سے مراد بارش ہے ، بہ ظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ «مُُرْسَلَاتِ» سے مراد ہوائیں ہے ۔ جیسے اور جگہ فرمان باری «‏‏‏‏وَاَرْسَلْنَا الرِّیٰحَ لَوَاقِحَ فَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَاَسْقَیْنٰکُمُوْہُ وَمَآ اَنْتُمْ لَہٗ بِخٰزِنِیْنَ» ۱؎ (15-الحجر:22) یعنی ’ ہم نے ہوائیں چلائیں جو ابر کو بوجھل کرنے والی ہیں ‘ ۔ اور جگہ ہے «وَمِنْ اٰیٰتِہٖٓ اَنْ یٰرْسِلَ الرِّیَاحَ مُبَشِّرٰتٍ وَّلِیُذِیْقَکُمْ مِّنْ رَّحْمَتِہٖ وَلِتَجْرِیَ الْفُلْکُ بِاَمْرِہٖ وَلِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِہٖ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ» ۱؎ (30-الروم:46) الخ ’ اپنی رحمت سے پیشتر اس کی خوشخبری دنیے والی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں وہ چلاتا ہے ‘ ۔ «عَاصِفَاتِ» سے بھی مراد ہوائیں ہیں ، وہ نرم ہلکی اور بھینی بھینی ہوائیں تھیں یہ ذرا تیز جھونکوں والی اور آواز والی ہوائیں ہیں ۔ «نَّاشِرَاتِ» سے مراد بھی ہوائیں ہیں جو بادلوں کو آسمان میں ہر چار سو پھیلا دیتی ہیں اور جدھر اللہ کا حکم ہوتا ہے انہیں لے جاتی ہیں ۔ «فَارِقَاتِ» اور «مُلْقِیَاتِ» سے مراد البتہ فرشتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے رسولوں پر وحی لے کر آتے ہیں جس سے حق و باطل ، حلال و حرام میں ، ضالت و ہدایت میں امتیاز اور فرق ہو جاتا ہے تاکہ لوگوں کے عذر ختم ہو جائیں اور منکرین کو تنبیہ ہو جائے ۔ ان قسموں کے بعد فرمان ہے کہ ’ جس قیامت کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے جس دن تم سب کے سب اول آخر والے اپنی اپنی قبروں سے دوبارہ زندہ کئے جاؤ گے اور اپنے کرتوت کا پھل پاؤ گے نیکی کی جزا اور بدی کی سزا پاؤ گے ، صور پھونک دیا جائے گا اور ایک چٹیل میدان میں تم سب جمع کر دئیے جاؤ گے یہ وعدہ یقیناً حق ہے اور ہو کر رہنے والا اور لازمی طور پر آنے والا ہے ، اس دن ستاروں کا نور اور ان کی چمک دمک ماند پڑ جائے گی‘ ۔ جیسے فرمایا «‏‏‏‏وَاِذَا النٰجُوْمُ انْکَدَرَتْ» ۱؎ (81-التکویر:2) اور جگہ فرمایا «‏‏‏‏وَاِذَا الْکَوَاکِبُ انْتَثَرَتْ» ۱؎ (82-الإنفطار:2) ’ ستارے بے نور ہو کر گر جائیں گے اور آسمان پھٹ جائے گا ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر اڑ جائیں گے یہاں تک کہ نام نشان بھی باقی نہ رہے گا ‘ ۔ جیسے اور جگہ ہے «‏‏‏‏وَیَسْــَٔـلُوْنَکَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ یَنْسِفُہَا رَبِّیْ نَسْفًا» ۱؎ (20-طہ:105) اور فرمایا «وَیَوْمَ نُسَیِّرُ الْجِبَالَ وَتَرَی الْاَرْضَ بَارِزَۃً وَّحَشَرْنٰہُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْہُمْ اَحَدًا» ۱؎ (18-الکہف:47) ، یعنی ’ پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر اڑ جائیں گے اور اس دن وہ چلنے لگیں گے بالکل نام و نشان مٹ جائے گا اور زمین ہموار بغیر اونچ نیچے کی رہ جائے گی اور رسولوں کو جمع کیا جائے گا اس وقت مقررہ پر انہیں لایا جائے گا ‘ ۔ جیسے اور جگہ ہے «‏‏‏‏یَوْمَ یَجْمَعُ اللّٰہُ الرٰسُلَ فَیَقُوْلُ مَاذَآ اُجِبْتُمْ» ۱؎ (5-المائدۃ:109) ’ اس دن اللہ تعالیٰ رسولوں کو جمع کرے گا اور ان سے شہادتیں لے گا ‘ ۔ جیسے اور جگہ ہے «‏‏‏‏وَاَشْرَقَتِ الْاَرْضُ بِنُوْرِ رَبِّہَا وَوُضِعَ الْکِتٰبُ وَجِایْءَ بالنَّـبِیّٖنَ وَالشٰہَدَاءِ وَقُضِیَ بَیْنَہُمْ بالْحَــقِّ وَہُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ» ۱؎ (39-الزمر:69) ’ زمین اپنے رب کے نور سے چمک اٹھے گی ، نامہ اعمال دے دیئے جائیں گے ، نبیوں کو اور گواہوں کو لایا جائے گا اور حق و انصاف کے ساتھ فیصلے کئے جائیں گے اور کسی پر ظلم نہ ہو گا ‘ ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ ان رسولوں کو ٹھہرایا گیا تھا اس لیے کہ قیامت کے دن فیصلے ہوں گے ‘ ۔ جیسے فرمایا «‏‏‏‏فَلَا تَحْسَبَنَّ اللّٰہَ مُخْلِفَ وَعْدِہٖ رُسُلَہٗ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ ذو انْتِقَامٍ» ۱؎ (14-إبراھیم:47) ’ یہ خیال نہ کر کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں سے وعدہ خلافی کرے گا ، نہیں نہیں اللہ تعالیٰ بڑے غلبہ والا اور انتقام والا ہے ، جس دن یہ زمین بدل دی جائے گی اور آسمان بھی اور سب کے سب اللہ واحد و قہار کے سامنے پیش ہو جائیں گے ‘ ۔ اسی کو یہاں فیصلے کا دن کہا گیا ، پھر اس دن کی عظمت ظاہر کرنے کے لیے فرمایا : ’ میرے معلوم کرائے بغیر اے نبی کریم تم بھی اس دن کی حقیقت سے باخبر نہیں ہو سکتے ، اس دن ان جھٹلانے والوں کے لیے سخت خرابی ہے ‘ ۔ ایک غیر صحیح حدیث میں یہ بھی گزر چکا ہے کہ { ویل جہنم کی ایک وادی کا نام ہے } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3164،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) المرسلات
2 المرسلات
3 المرسلات
4 المرسلات
5 المرسلات
6 المرسلات
7 المرسلات
8 المرسلات
9 المرسلات
10 المرسلات
11 المرسلات
12 المرسلات
13 المرسلات
14 المرسلات
15 المرسلات
16 حسرت و افسوس کا وقت آنے سے پہلے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’ تم سے پہلے بھی جن لوگوں نے میرے رسولوں کی رسالت کو جھٹلایا میں نے انہیں نیست و نابود کر دیا پھر ان کے بعد اور لوگ آئے انہوں نے بھی ایسا ہی کیا اور ہم نے بھی انہیں اسی طرح غارت کر دیا ہم مجرموں کی غفلت کا یہی بدلہ دیتے چلے آئے ہیں ، اس دن ان جھٹلانے والوں کی درگت ہو گی ‘ ۔ پھر اپنی مخلوق کو اپنا احسان یاد دلاتا ہے اور منکرین قیامت کے سامنے دلیل پیش کرتا ہے کہ ’ ہم نے اسے حقیر اور ذلیل قطرے سے پیدا کیا جو خالق کائنات کی قدرت کے سامنے ناچیز محض تھا ‘ ، جیسے سورۃ یس کی تفسیر میں گزر چکا ہے کہ ’ اے ابن آدم بھلا تو مجھے کیا عاجز کر سکے گا میں نے تو تجھے اسی جیسی چیز سے پیدا کیا ہے ، پھر اس قطرے کو ہم نے رحم میں جمع کیا جو اس پانی کے جمع ہونے کی جگہ ہے اسے بڑھاتا ہے اور محفوظ رکھتا ہے ، مدت مقررہ تک وہ وہیں رہا یعنی چھ مہینے یا نو مہینے ، ہمارے اس اندازے کو دیکھو کہ کس قدر صحیح اور بہترین ہے ، پھر بھی اگر تم اس آنے والے دن کو نہ مانو گے تو یقین جانو کہ تمہیں قیامت کے دن بڑی حسرت اور سخت افسوس ہو گا ‘ ۔ پھر فرمایا ’ کیا ہم نے زمین کو یہ خدمت سپرد نہیں کی ؟ کہ وہ تمہیں زندگی میں بھی اپنی پیٹھ پر چلاتی رہے اور موت کے بعد بھی تمہیں اپنے پیٹ میں چھپا رکھے ، پھر زمین کے نہ ہلنے جلنے کے لیے ہم نے مضبوط وزنی بلند پہاڑ اس میں گاڑ دیئے اور بادلوں سے برستا ہوا اور چشموں سے رستا ہوا ہلکا زود ہضم ، خوش گوار پانی ہم نے تمہیں پلایا ، ان نعمتوں کے باوجود بھی اگر تم میری باتوں کو جھٹلاتے ہی رہے تو یاد رکھو وہ وقت آ رہا ہے جب حسرت و افسوس کرو گے اور کچھ کام نہ آئے ‘ ۔ المرسلات
17 المرسلات
18 المرسلات
19 المرسلات
20 المرسلات
21 المرسلات
22 المرسلات
23 المرسلات
24 المرسلات
25 المرسلات
26 المرسلات
27 المرسلات
28 المرسلات
29 جہنم کے شعلے سیاہ اونٹوں اور دہکتے تانبے کے ٹکڑوں کی مانند ہوں گے جو کفار قیامت ، جزا سزا اور جنت دوزخ کو جھٹلاتے تھے ان سے قیامت کے دن کہا جائے گا کہ لو جسے سچا نہ مانتے تھے وہ سزا اور وہ دوزخ یہ موجود ہے اس میں جاؤ ، اس کے شعلے بھڑک رہے ہیں اور اونچے ہو ہو کر ان میں تین پھانکیں کھل جاتی ہیں ، تین حصے ہو جاتے ہیں اور ساتھ ہی دھواں بھی اوپر کو چڑھتا ہے جس سے نیچے کی طرف چھاؤں پڑتی ہے اور سایہ معلوم ہوتا ہے ۔ لیکن فی الواقع نہ تو وہ سایہ ہے ، نہ آگ کی حرارت کو کم کرتا ہے یہ جہنم اتنی تیز تند سخت اور بکثرت آگ والی ہے کہ اس کی چنگاریاں جو اڑتی ہیں وہ بھی مثل قلعہ کے اور تناور درخت کے مضبوط لمبے چوڑے تنے کے ہیں ، دیکھنے والے کو یہ لگتا ہے کہ گویا وہ سیاہ رنگ اونٹ ہیں یا کشتیوں کے رسے ہیں یا تانبے کے ٹکڑے ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ہم جاڑے کے موسم میں تین تین ہاتھ کی یا کچھ زیادہ لمبی لکڑیاں لے کر انہیں بلند کر لیتے اسے ہم «قصر» کہا کرتے تھے ، کشتی کی رسیاں جب اکٹھی ہو جاتی ہیں تو خاصی اونچی قد آدم کے برابر ہو جاتی ہیں ، اسی کو یہاں مراد لیا گیا ہے ، ان جھٹلانے والوں پر حسرت و افسوس ہے ، آج نہ یہ بول سکیں گے اور نہ انہیں عذر و معذرت کرنے کی اجازت ملے گی کیونکہ ان پر حجت قائم ہو چکی اور ظالموں پر اللہ کی بات ثابت ہو گئی اب انہیں بولنے کی اجازت نہیں ، یہ یاد رہے کہ قرآن کریم میں ان کا بولنا ، مکرنا ، چھپانا ، عذر کرنا بھی بیان ہوا ہے ۔ تو مطلب یہ ہے کہ حجت قائم ہونے سے پہلے عذر معذرت وغیرہ پیش کریں گے جب سب توڑ دیا جائے گا اور دلیلیں پیش ہو جائیں گی تو اب بول چال ، عذر معذرت ، ختم ہو جائے گی ، غرض میدان حشر کے مختلف مواقع اور لوگوں کی مختلف مواقع اور لوگوں کی مختلف حالتیں ہیں کسی وقت یہ ، کسی وقت وہ ، اسی لیے یہاں ہر کلام کے خاتمہ پر جھٹلانے والوں کی خرابی کی خبر دے دی جاتی ہے ۔ پھر فرماتا ہے ’ یہ فیصلے کا دن ہے اگلے پچھلے سب یہاں جمع ہیں اگر تم کسی چالاکی ، مکاری ، ہوشیاری اور فریب دہی سے میرے قبضے سے نکل سکتے ہو تو نکل جاؤ پوری کوشش کر لو ‘ ۔ خیال فرمایئے کہ کس قدر دل ہلا دینے والا فقرہ ہے ، پروردگار عالم خود قیامت کے دن ان منکروں سے فرمائے گا کہ ’ اب خاموش کیوں ہو ؟ وہ عیاری ، چالاکی اور بے باکی کیا ہوئی ؟ دیکھو میں نے تم سب کو ایک میدان میں حسب وعدہ جمع کر دیا آج اگر کسی حکمت سے مجھ سے چھوٹ سکتے ہو تو کمی نہ کرو ‘ ۔ جیسے اور جگہ ہے «‏‏‏‏یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْـطَار السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ فَانْفُذُوْا ۭ لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطٰنٍ» ۱؎ (55-الرحمن:33) یعنی ’ اے جن و انس کے گروہ اگر تم آسان و زمین کے کناروں سے باہر چلے جانے کی طاقت رکھتے ہو تو نکل جاؤ مگر اتنا سمجھ لو کہ بغیر قوت کے تم باہر نہیں جا سکتے اور وہ تم میں نہیں ‘ ۔ اور جگہ ہے «وَلَا تَضُرٰوْنَہٗ شَـیْـــًٔـا اِنَّ رَبِّیْ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ حَفِیْظٌ» ‏‏‏‏ ۱؎ (11-ھود:57) یعنی ’ تم اللہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ‘ ۔ حدیث شریف میں ہے کہ { اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’ اے میرے بندو نہ تو تمہیں ، مجھے نفع پہنچانے کا اختیار ہے ، نہ نقصان پہنچانے کا ، نہ تم مجھے کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہو ، نہ میرا کچھ بگاڑ سکتے ہو ‘ } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2577) سیدنا ابوعبداللہ جدلی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں بیت المقدس گیا دیکھا کہ وہاں عبادہ ، عبداللہ اور کعب احبار رضی اللہ عنہما بیٹھے ہوئے باتیں کر رہے ہیں میں بھی بیٹھ گیا ، تو میں نے سنا کہ سیدنا عبادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تمام اگلوں پچھلوں کو ایک چٹیل صاف میدان میں جمع کرے گا ، آواز دینے والا آواز دے کر سب کو ہوشیار کر دے گا ، پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’ آج کا دن فیصلوں کا دن ہے تم سب اگلے پچھلوں کو میں نے جمع کر دیا ہے ، اب میں تم سے کہتا ہوں کہ اگر میرے ساتھ کوئی دغا فریب ، مکر حیلہ کر سکتے ہو تو کر لو ، سنو ! متکبر ، سرکش ، منکر اور جھٹلانے والا آج میری پکڑ سے بچ نہیں سکتا اور نہ کوئی نافرمان شیطان میرے عذابوں سے نجات پا سکتا ہے ‘ “ ۔ ” سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” لو ایک حدیث میں بھی سنا دوں “ ، اس دن جہنم اپنی گردن دراز کر کے لوگوں کے بیچوں بیچ پہنچا کر باآواز بلند کہے گی ، اے لوگو ! تین قسم کے لوگوں کو ابھی ہی پکڑ لینے کا مجھے حکم مل چکا ہے ، میں انہیں خوب پہچانتی ہوں کوئی باپ اپنی اولاد کو اور کوئی بھائی اپنے بھائی کو اتنا نہ جانتا ہو گا جتنا میں انہیں پہچانتی ہوں ، آج نہ تو وہ مجھ سے کہیں چھپ سکتے ہیں ، نہ کوئی انہیں چھپا سکتا ہے ۔ ایک تو وہ جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کیا ہو ، دوسرے وہ جو منکر اور متکبر ہو اور تیسرے وہ جو نافرمان شیطان ہو ، پھر وہ مڑ مڑ کر چن چن کر ان اوصاف کے لوگوں کو میدان حشر میں چھانٹ لے گی اور ایک ایک کو پکڑ کر نکل جائے گی اور حساب سے چالیس سال پہلے ہی یہ جہنم واصل ہو جائیں گے ۔ [ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں محفوظ رکھے ] ۔ آمین المرسلات
30 المرسلات
31 المرسلات
32 المرسلات
33 المرسلات
34 المرسلات
35 المرسلات
36 المرسلات
37 المرسلات
38 المرسلات
39 المرسلات
40 المرسلات
41 دنیا اور آخرت کے فائدوں کا موازنہ اوپر چونکہ بدکاروں کی سزاؤں کا بیان ہوا تھا یہاں نیک کاروں کی جزا کا بیان ہو رہا ہے کہ ’ جو لوگ متقی پرہیزگار تھے ، اللہ کے عبادت گزار تھے ، فرائض اور واجبات کے پابند تھے ، اللہ کی نافرمانیوں سے حرام کاریوں سے بچتے تھے وہ قیامت کے دن جنتوں میں ہوں گے ، جہاں قسم قسم کی نہریں چل رہی ہیں ۔ گنہگار سیاہ بدبودار دھوئیں میں گھرے ہوئے ہوں گے اور یہ نیک کردار جنتوں کے گھنے ٹھنڈے اور پرکیف سایوں میں باآرام تمام لیٹے بیٹھے ہوں گے ۔ سامنے صاف شفاف چشمے اپنی پوری پوری روانی سے جاری ہیں ۔ قسم قسم کے پھل میوے اور ترکاریاں موجود ہیں ، جسے جب جی چاہے کھائیں ، نہ روک ٹوک ہے ، نہ کمی اور نقصان کا اندیشہ ہے ، نہ فنا ہونے اور ختم ہونے کا خطرہ ہے ‘ ۔ پھر حوصلہ بڑھانے اور دل میں خوشی کو دوبالا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے باربار فرمایا جاتا ہے کہ اے میرے پیارے بندو ! تم باخوشی اور با فراغت لذیذ پر کیف طَعام خوب کھاؤ پیو ، ہم ہر نیک کار پرہیزگار مخلص انسان کو اسی طرح بھلا بدلہ اور نیک جزا دیتے ہیں ۔ ہاں جھٹلانے والوں کی تو آج بڑی خرابی ہے ‘ ۔ ان جھٹلانے والوں کو دھمکایا جاتا ہے کہ ’ اچھا دنیا میں تو تم کچھ کھا پی لو ، برت برتا لو ، فائدے اٹھا لو ، عنقریب یہ نعمتیں بھی فنا ہو جائیں گی اور تم بھی موت کے گھاٹ اترو گے ۔ پھر تمہارا نتیجہ جہنم ہی ہے ‘ ۔ جس کا ذکر اوپر گزر چکا ہے ۔ ’ تمہاری بد اعمالیوں اور سیاہ کاریوں کی سزا ہمارے پاس تیار ہے کوئی مجرم ہماری نگاہ سے باہر نہیں ، قیامت کو ، ہمارے نبی کو ، ہماری وحی کو ، نہ ماننے والا ، اسے جھوٹا جاننے والا ، قیامت کے دن سخت نقصان میں اور پورے خسارے میں ہو گا ۔ اسی کی سخت خرابی ہے ‘ ۔ جیسے اور جگہ ارشاد ہے «‏‏‏‏نُمَـتِّعُہُمْ قَلِیْلًا ثُمَّ نَضْطَرٰہُمْ اِلٰی عَذَابٍ غَلِیْظٍ» ۱؎ (31-لقمان:24) ’ دنیا میں ہم انہیں تھوڑا سا فائدہ پہنچا دیں گے پھر تو ہم انہیں سخت عذاب کی طرف بے بس کردیں گے ‘ ۔ اور جگہ فرمان ہے «‏‏‏‏قُلْ اِنَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ لَا یُفْلِحُوْنَ» ۱؎ (10-یونس:69) یعنی ’ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے والے کامیاب نہیں ہو سکتے ۔ دنیا میں یونہی سا فائدہ اٹھا لیں پھر ان کا لوٹنا تو ہماری ہی طرف ہے ، ہم انہیں ان کے کفر کی سزا میں سخت تر عذاب چکھائیں گے ‘ ۔ پھر فرمایا کہ ’ ان نادان منکروں کو جب کہا جاتا ہے کہ آؤ اللہ کے سامنے جھک تو لو ، جماعت کے ساتھ نماز تو ادا کر لو تو ان سے یہ بھی نہیں ہو سکتا ، اس سے بھی جی چراتے ہیں بلکہ اسے حقارت سے دیکھتے ہیں اور تکبر کے ساتھ انکار کر دیتے ہیں ، ان کے لیے جو جھٹلانے میں عمریں گزار دیتے ہیں قیامت کے دن بڑی مصیبت ہو گی ‘ ۔ پھر فرمایا ’ جب یہ لوگ اس پاک کلام پر بھی ایمان نہیں لاتے تو پھر کس کلام کو مانیں گے ؟ ۔ جیسے اور جگہ ہے «فَبِاَیِّ حَدِیْثٍۢ بَعْدَ اللّٰہِ وَاٰیٰتِہٖ یُؤْمِنُوْنَ» ۱؎ (45-الجاثیۃ:6) یعنی ’ اللہ تعالیٰ پر اور اس کی آیتوں پر جب یہ ایمان نہ لائے تو اب کس بات پر ایمان لائیں گے ؟ ‘ ، ابن ابی حاتم میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جو شخص اس سورت کی اس آیت کو پڑھے اسے اس کے جواب میں «آمَنْت بِاَللَّہِ وَبِمَا أَنْزَلَ» کہنا چاہیئے ۔ یعنی میں اللہ تعالیٰ پر اور اس کی اتاری ہوئی کتابوں پر ایمان لایا “ } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:887،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) یہ حدیث سورۃ القیامہ کی تفسیر میں بھی گزر چکی ہے ۔ سورۃ والمرسلات کی تفسیر ختم ہوئی ۔ اللہ تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر ہے کہ انتیسویں پارے کی تفسیر بھی پوری ہوئی ۔ یہ محض اسی کا فضل و کرم اور لطف و رحم ہے ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» المرسلات
42 المرسلات
43 المرسلات
44 المرسلات
45 المرسلات
46 المرسلات
47 المرسلات
48 المرسلات
49 المرسلات
50 المرسلات
0 النبأ
1 پہاڑیوں کی تنصیب ، زمین کی سختی اور نرمی دعوت فکر ہے جو مشرک اور کفار قیامت کے آنے کے منکر تھے اور بطور انکار کے آپس میں سوالات کیا کرتے تھے اور مرنے کے بعد جی اٹھنے پر تعجب کرتے تھے ان کے جواب میں اور قیامت کے قائم ہونے کی خبر میں اور اس کے دلائل میں پروردگار عالم فرماتا ہے کہ ’ یہ لوگ آپس میں کس چیز کے بارے میں سوالات کر رہے ہیں ؟ ‘ پھر خود فرماتا ہے کہ ’ یہ قیامت کے قائم ہونے کی بابت سوالات کرتے ہیں جو بڑا بھاری دن ہے اور نہایت دل ہلا دینے والا امر ہے ‘ ۔ مگر مجاہد رحمہ اللہ سے یہ مروی ہے کہ ” اس سے مراد قرآن ہے “ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:12/395) لیکن بظاہر ٹھیک بات یہی ہے کہ اس سے مراد مرنے کے بعد جینا ہے جیسے کہ قتادہ اور ابن زید رحمہ اللہ علیہم کا قول ہے ۔ پھر اس آیت «‏‏‏‏الَّذِیْ ہُمْ فِیْہِ مُخْـتَلِفُوْنَ»‏‏‏‏ ۱؎ (78-النبأ:3) ’ جس میں یہ لوگ آپس میں اختلاف رکھتے ہیں ‘ ، میں جس اختلاف کا ذکر ہے وہ یہ ہے کہ لوگ اس کے بارے میں مختلف محاذوں پر ہیں ان کا اختلاف یہ تھا کہ مومن تو مانتے ہیں کہ قیامت ہو گی لیکن کفار اس کے منکر تھے ، پھر ان منکروں کو اللہ تعالیٰ دھمکاتا ہے کہ ’ تمہیں عنقریب اس کا علم حاصل ہو جائے گا اور تم ابھی ابھی معلوم کر لو گے ‘ ، اس میں سخت ڈانٹ ڈپٹ ہے ، پھر اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کی عجیب و غریب نشانیاں بیان فرما رہا ہے جن سے قیامت کے قائم کرنے پر ، اس کی قدرت کا ہونا صاف طور پر ظاہر ہو رہا ہے کہ اول مرتبہ پیدا کرنے پر قادر ہے تو فنا کے بعد دوبارہ ان کا پیدا کرنا اس پر کیا مشکل ہو گا ؟ زمین کا تذکرہ: تو فرماتا ہے ’ دیکھو کیا ہم نے زمین کو لوگوں کے لیے فرش نہیں بنایا کہ وہ بچھی ہوئی ہے ، ٹھہری ہوئی ہے حرکت نہیں کرتی تمہاری فرماں بردار ہے اور مضبوطی کے ساتھ جمی ہوئی ہے اور پہاڑوں کو میخیں بنا کر زمین میں ہم نے گاڑ دئیے ہیں ، تاکہ نہ وہ ہل سکے ، نہ اپنے اوپر کی چیزوں کو ہلا سکے ‘ ۔ انسان کی جوڑا جوڑا تخلیق: ’ زمین اور پہاڑوں کی پیدائش پر ایک نظر ڈال کر پھر تم اپنے آپ کو دیکھو کہ ہم نے تمہیں جوڑا جوڑا پیدا کیا یعنی مرد و عورت کہ آپس میں ایک دوسرے سے نفع اٹھاتے ہو اور توالد و تناسل ہوتا ہے بال بچے پیدا ہو رہے ہیں ‘ ۔ جیسے اور جگہ فرمایا ہے «‏‏‏‏وَمِنْ اٰیٰتِہٖٓ اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوْٓا اِلَیْہَا وَجَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّۃً وَّرَحْمَۃً اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّــقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ»‏‏‏‏ ۱؎ (30-الروم:21) ’ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے خود تم ہی میں سے تمہارے جوڑے پیدا کئے تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اس نے اپنی مہربانی سے تم میں آپس میں محبت اور رحم ڈال دیا ‘ ۔ النبأ
2 النبأ
3 النبأ
4 النبأ
5 النبأ
6 النبأ
7 النبأ
8 النبأ
9 1 پھر فرماتا ہے ’ ہم نے تمہاری نیند کو حرکت کے ساکن ہونے کا سبب بنایا تاکہ آرام اور اطمینان حاصل کر لو ، اور دن بھر کی تھکان کسل اور ماندگی دور ہو جائے ‘ ، اسی معنی کی اور آیت سورۃ الفرقان میں بھی گزر چکی ہے ، ’ رات کو ہم نے لباس بنایا کہ اس کا اندھیرا اور سیاہی سب لوگوں پر چھا جاتی ہے ‘ ۔ جیسے اور جگہ ارشاد فرمایا «وَاللَّیْلِ إِذَا یَغْشَاہَا» ۱؎ (91-الشمس:4) ’ قسم ہے رات کی جبکہ وہ ڈھانپ لے ‘ ۔ عرب شاعر بھی اپنے شعروں میں رات کو لباس کہتے ہیں ۔ قتادہ رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ ” رات سکون کا باعث بن جاتی ہے “ اور برخلاف رات کے دن کو ہم نے روشن ، اجالے والا اور بغیر اندھیرے کے بنایا ہے ، تاکہ تم اپنا کام دھندا اس میں کر سکو جا آ سکو ۔ بیوپار ، تجارت ، لین دین کر سکو اور اپنی روزیاں حاصل کر سکو ، ہم نے جہاں تمہیں رہنے سہنے کو زمین بنا دی وہاں ہم نے تمہارے اوپر سات آسمان بنائے جو بڑے لمبے چوڑے پختہ عمدہ اور زینت والے ہیں ، تم دیکھتے ہو کہ اس میں ہیروں کی طرح چمکتے ہوئے ستارے لگ رہے ہیں بعض چلتے پھرتے رہتے ہیں اور بعض ایک جگہ قائم ہیں ۔ پھر فرمایا ’ ہم نے سورج کو چمکتا چراغ بنایا جو تمام جہان کو روشن کر دیتا ہے ہر چیز کو جگمگا دیتا ہے اور دنیا کو منور کر دیتا ہے اور دیکھو کہ ہم نے پانی کی بھری بدلیوں سے بکثرت پانی برسایا ‘ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ” ہوائیں چلتی ہیں ، ادھر سے ادھر بادلوں کو لے جاتی ہیں اور پھر ان بادلوں سے خوب بارش برستی ہے اور زمین کو سیراب کرتی ہے “ اور بھی بہت سے مفسرین نے یہی فرمایا ہے ۔ «الْمُعْصِرَاتِ» سے مراد بعض نے تو ہوا مراد لی ہے اور بعض نے بادل جو ایک ایک قطرہ پانی برساتے رہتے ہیں ۔ «امْرَأَۃٌ مُعْصِرٌ» ‏‏‏‏عرب میں اس عورت کو کہتے ہیں جس کے حیض کا زمانہ بالکل قریب آ گیا ہو ، لیکن اب تک حیض جاری نہ ہوا ہو ۔ حسن اور قتادہ رحمہ اللہ علیہم نے فرمایا «مُعْصِرَاتِ» سے مراد آسمان ہے ، لیکن یہ قول غریب ہے سب سے زیادہ ظاہر قول یہ ہے کہ مراد اس سے بادل ہیں ۔ جیسے اور جگہ ہے «‏‏‏‏اَللّٰہُ الَّذِیْ یُرْسِلُ الرِّیٰحَ فَتُثِیْرُ سَحَابًا» ۱؎ (30-الروم:48) ’ اللہ تعالیٰ ہواؤں کو بھیجتا ہے جو بادلوں کو ابھارتی ہیں اور انہیں پروردگار کی منشاء کے مطابق آسمان میں پھیلا دیتی ہیں اور انہیں وہ ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے پھر تو دیکھتا ہے کہ ان کے درمیان سے پانی نکلتا ہے ‘ ۔ «ثَجَّاجًا» ‏‏‏‏کے معنی خوب لگاتار بہنے کے ہیں جو بکثرت بہہ رہا ہو اور خوب برس رہا ہو ، ۱؎ ‏‏‏‏ (تفسیر ابن جریر الطبری:400/12) «ثَجّاجًا» کی تشریح: ایک حدیث میں ہے { «أَفْضَلُ الْحَجِّ الْعَجٰ وَالثَّجٰ» افضل حج وہ ہے جس میں «لبیک» خوب پکاری جائے اور خون بکثرت بہایا جائے یعنی قربانیاں زیادہ کی جائیں } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:827،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اس حدیث میں بھی لفظ «ثَّجٰ» ہے ۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ { استحاضہ کا مسئلہ پوچھنے والی ایک صحابیہ عورت رضی اللہ عنہا سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ { تم روئی کا پھایا رکھ لو } ، اس نے کہا کہ یا رسول اللہ ! وہ تو بہت زیادہ ہے میں تو ہر وقت خون بکثرت بہاتی رہتی ہوں۔ } ۱؎ (سنن ابوداود:287،قال الشیخ الألبانی:حسن) اس روایت میں بھی لفظ «‏‏‏‏أَثُجّ ثَجًّا» ‏‏‏‏ہے یعنی بےروک برابر خون آتا رہتا ہے ، تو یہاں اس آیت میں بھی مراد یہی ہے کہ پانی ابر سے بکثرت برستا رہتا ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ’ پھر ہم اس پانی سے جو پاک ، صاف ، بابرکت ، نفع بخش ہے ، اناج اور دانے پیدا کرتے ہیں جو انسان حیوان سب کے کھانے میں آتے ہیں اور سبزیاں اگاتے ہیں جو تروتازہ کھائی جاتی ہیں اور اناج کھلیان میں رکھا جاتا ہے پھر کھایا جاتا ہے اور باغات اس پانی سے پھلتے پھولتے ہیں اور قسم قسم کے ذائقوں ، رنگوں ، خوشبوؤں والے میوے اور پھل پھول پیدا ہوتے ہیں گو کہ زمین کے ایک ہی ٹکڑے پر وہ ملے جلے ہیں ‘ ۔ «أَلْفَافًا» ‏‏‏‏کے معنی جمع کے ہیں اور جگہ ہے «‏‏‏‏وَفِی الْاَرْضِ قِطَعٌ مٰتَجٰوِرٰتٌ وَّجَنّٰتٌ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّزَرْعٌ وَّنَخِیْلٌ صِنْوَانٌ وَّغَیْرُ صِنْوَانٍ یٰسْقٰی بِمَاءٍ وَّاحِدٍ وَنُفَضِّلُ بَعْضَہَا عَلٰی بَعْضٍ فِی الْاُکُلِ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ» ۱؎ (13-الرعد:4) ’ زمین میں مختلف ٹکڑے ہیں جو آپس میں ملے جلے ہیں اور انگور کے درخت ، کھیتیاں ہیں ، کھجور کے درخت ، بعض شاخ دار ، بعض زیادہ شاخوں کے بغیر ، اور وہ سب ایک ہی پانی سے سیراب کئے جاتے ہیں اور ہم ایک سے ایک کو بڑھ کر میوہ میں زیادہ کرتے ہیں یقیناً عقلمندوں کے لیے اس میں نشانیاں ہیں ‘ ۔ النبأ
10 النبأ
11 النبأ
12 النبأ
13 النبأ
14 النبأ
15 النبأ
16 النبأ
17 جماعت در جماعت حاضری یعنی قیامت کا دن ہمارے علم میں مقرر دن ہے ، نہ وہ آگے ہو ، نہ پیچھے ٹھیک وقت پر آ جائے گا ۔ کب آئے گا اس کا صحیح علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو نہیں ۔ جیسے اور جگہ ہے ۔ ‏‏‏‏«‏‏‏‏وَمَا نُؤَخِّرُہٗٓ اِلَّا لِاَجَلٍ مَّعْدُوْدٍ» ۱؎ (11-ھود:104) ’ نہیں ڈھیل دیتے ہم انہیں لیکن وقت مقرر کے لیے ‘ ۔ اس دن صور میں پھونک ماری جائے گی اور لوگ جماعتیں جماعتیں بن کر آئیں گے ، ہر ایک امت اپنے اپنے نبی کے ساتھ الگ الگ ہو گی ۔ جیسے فرمایا «‏‏‏‏یَوْمَ نَدْعُوْا کُلَّ اُنَاسٍ بِاِمَامِہِمْ» ۱؎ (17-الإسراء:71) ’ جس دن ہم تمام لوگوں کو ان کے اماموں سمیت بلائیں گے ‘ ۔ صحیح بخاری میں حدیث ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ” دونوں صور کے درمیان چالیس ہوں گے “ ، لوگوں نے پوچھا چالیس دن ؟ کہا ” میں نہیں کہہ سکتا “ ، پوچھا : چالیس مہینے ؟ کہا ” مجھے خبر نہیں “ ۔ پوچھا : چالیس سال ؟ کہا ” میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا ، پھر اللہ تعالیٰ آسمان سے پانی برسائے گا اور جس طرح درخت اگتے ہیں لوگ زمین سے اگیں گے ، انسان کا تمام بدن گل سڑ جاتا ہے لیکن ایک ہڈی اور وہ کمر کی ریڑھ کی ہڈی ہے اسی سے قیامت کے دن مخلوق مرکب کی جائے گی “ ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4935) آسمان کھول دیئے جائیں گے اور اس میں فرشتوں کے اترنے کے راستے اور دورازے بن جائیں گے ، پہاڑ چلائے جائیں گے اور بالکل ریت کے ذرے بن جائیں گے ۔ جیسے اور جگہ ہے «وَتَرَی الْجِبَالَ تَحْسَبُہَا جَامِدَۃً وَّہِیَ تَمُــرٰ مَرَّ السَّحَابِ صُنْعَ اللّٰہِ الَّذِیْٓ اَتْقَنَ کُلَّ شَیْءٍ اِنَّہٗ خَبِیْرٌ بِمَا تَفْعَلُوْنَ» ۱؎ (27-النمل:88) یعنی ’ تم پہاڑوں کو دیکھ رہے ہو ، جان رہے ہو وہ پختہ مضبوط اور جامد ہیں لیکن یہ بادلوں کی طرح چلنے پھرنے لگیں گے ‘ ۔ اور جگہ ہے‏‏‏‏ «وَتَکُونُ الْجِبَالُ کَالْعِہْنِ الْمَنفُوشِ» ۱؎ (101-القارعۃ:5) ’ پہاڑ مثل دھنی ہوئی اون کے ہو جائیں گے ‘ ۔ یہاں فرمایا ’ پہاڑ سراب ہو جائیں گے ‘ یعنی دیکھنے والا کہتا ہے کہ وہ کچھ ہے حالانکہ دراصل کچھ نہیں ۔ آخر میں بالکل برباد ہو جائیں گے ، نام و نشان تک نہ رہے گا ۔ جیسے اور جگہ ہے «‏‏‏‏وَیَسْأَلُونَکَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ یَنسِفُہَا رَبِّی نَسْفًا فَیَذَرُہَا قَاعًا صَفْصَفًا لَّا تَرَیٰ فِیہَا عِوَجًا وَلَا أَمْتًا» ۱؎ ‏‏‏‏(20-طہ:107-105) ’ لوگ تجھ سے پہاڑوں کے بارے میں دریافت کرتے ہیں تو کہہ انہیں میرا رب پراگندہ کر دے گا اور زمین بالکل ہموار میدان میں رہ جائے گی جس میں نہ کوئی موڑ ہو گا نہ ٹیلا ‘ ۔ اور جگہ ہے ‏‏‏‏«‏‏‏‏وَیَوْمَ نُسَیِّرُ الْجِبَالَ وَتَرَی الْاَرْضَ بَارِزَۃً وَّحَشَرْنٰہُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْہُمْ اَحَدًا» ۱؎ (18-الکہف:47) ’ جس دن ہم پہاڑوں کو چلائیں گے اور تو دیکھے گا کہ زمین بالکل کھل گئی ہے ‘ ۔ النبأ
18 النبأ
19 النبأ
20 النبأ
21 1 پھر فرماتا ہے ’ سرکش ، نافرمان ، مخالفین رسول کی تاک میں جہنم لگی ہوئی ہے ان کے لوٹنے اور رہنے سہنے کی جگہ ہے ‘ ۔ اس کے معنی حسن اور قتادہ رحمہ اللہ علیہم نے یہ بھی کیے ہیں کہ ” کوئی شخص جنت میں بھی نہیں جا سکتا ، جب تک جہنم پر سے نہ گزرے ، اگر اعمال ٹھیک ہیں تو نجات پا لی اور اگر اعمال بد ہیں تو روک لیا گیا اور جہنم میں جھونک دیا گیا “ ۔ سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” اس پر تین تین پل ہیں “ ۔ پھر فرمایا ’ وہ اس میں مدتوں اور قرنوں پڑے رہیں گے ‘ ۔ «أَحْقَابًا» جمع ہے «حُقْبٍ» کی ایک لمبے زمانے کو «حُقْبٍ» کہتے ہیں ۔ بعض کہتے ہیں «حُقْبٍ» اسی سال کا ہوتا ہے سال بارہ ماہ کا ۔ مہینہ تیس دن اور ہر دن ایک ہزار سال کا ، بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین سے یہ مروی ہے ۔ بعض کہتے ہیں ستر سال کا «حُقْبٍ» ہوتا ہے ، کوئی کہتا ہے چالیس سال کا ہے ، جس میں ہر دن ایک ہزار سال کا ۔ بشیر بن کعب رحمہ اللہ تو کہتے ہیں ایک ایک دن اتنا بڑا اور ایسے تین سو ساٹھ سال کا ایک «حُقْبٍ» ۔ ایک مرفوع حدیث میں ہے { «حُقْبٍ» مہینہ کا ، مہینہ تیس دن کا ، سال بارہ مہینوں کا ، سال کے دن تین سو ساٹھ ہر دن تمہاری گنتی کے اعتبار سے ایک ہزار سال کا } ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:7957:ضعیف) لیکن یہ حدیث سخت منکر ہے اس کے راوی قاسم جو جابر بن زبیر کے لڑکے ہیں ، یہ دونوں متروک ہیں ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ ابوعلاء سلیمان بن مسلم نے سلیمان تیمی رحمہ اللہ سے پوچھا کہ کیا جہنم میں سے کوئی نکلے گا بھی ؟ تو جواب دیا کہ میں نے نافع سے انہوں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے سنا کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اللہ کی قسم جہنم میں سے کوئی بھی بغیر مدت دراز رہے نہ نکلے گا “ } پھر کہا «حُقْبٍہ» اسی سے اوپر کچھ سال کا ہوتا ہے اور ہر سال تین سو ساٹھ دن کا جو تم گنتے ہو ۔ ۱؎ (مسند بزار:5303:موضوع و باطل) سدی رحمہ اللہ کہتے ہیں ” سات سو «حقب» رہیں گے ہر «حقب» ستر سال کا ہر سال تین سو ساٹھ دن کا اور ہر دن دنیا کے ایک ہزار سال کے برابر کا “ ۔ مقاتل بن حیان رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” یہ آیت «فَذُوقُوا فَلَنْ نَزِیدَکُمْ إِلَّا عَذَابًا» ۱؎ (78-النبأ:30) کی آیت سے منسوخ ہو چکی ہے “ ۔ خالد بن معدان رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت اور آیت «‏‏‏‏إِلَّا مَا شَاءَ رَبٰکَ» ۱؎ (11-ھود:107) یعنی ’ جہنمی جب تک اللہ چاہے جہنم میں رہیں گے ‘ ، یہ دونوں آیتیں توحید والوں کے بارے میں ہیں ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ بھی ممکن ہے کہ «احقاب» تک رہنا متعلق ہو آیت «إِلَّا حَمِیمًا وَغَسَّاقًا» ۱؎ (78-النبإ:25) کے ساتھ یعنی ’ وہ ایک ہی عذاب گرم پانی اور بہتی پیپ کا مدتوں رہے گا ‘ ، پھر دوسری قسم کا عذاب شروع ہو گا لیکن صحیح یہی ہے کہ اس کا خاتمہ ہی نہیں ۔ حسن سے جب یہ سوال ہوا تو کہا کہ ” «أَحْقَابً» سے مراد ہمیشہ جہنم میں رہنا ہے لیکن «حقب» کہتے ہیں ستر سال کو جس کا ہر دن دنیا کے ایک ہزار برس کے برابر ہوتا ہے “ ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” «أَحْقَابً» کبھی ختم نہیں ہوتے ایک «حقب» ختم ہوا دوسرا شروع ہو گیا ان «أَحْقَابً» کی صحیح مدت کا اندازہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہے ، ہاں یہ ہم نے سنا ہے کہ ایک «حقب» اسی سال کا ، ایک سال تین سو ساٹھ دن کا ہر دن دنیا کے ایک ہزار سال کا ، ان دوزخیوں کو نہ تو کلیجے کی ٹھنڈک ہو گی نہ کوئی اچھا پانی ملے گا ، ہاں ٹھنڈک کے بدلے گرم کھولتا ہوا پانی ملے گا اور کھانے پینے کی چیز بہتی ہوئی پیپ ملے گی ۔ «حَمِیمً» اس سخت گرم کو کہتے ہیں جس کے بعد حرارت کا کوئی درجہ نہ ہو ، اور «غَسَّاقً» کہتے ہیں جہنمی لوگوں کے لہو ، پیپ ، پسینہ ، آنسو اور زخموں سے بہے ہوئے خون ، پیپ وغیرہ کو ، اس گرم چیز کے مقابلہ میں یہ اس قدر سرد ہو گی جو بجائے خود عذاب ہے اور بے حد بدبودار ہے ۔ سورۃ ص میں «غَسَّاقً» کی پوری تفسیر بیان ہو چکی ہے اب یہاں دوبارہ اس کے بیان کی چنداں ضرورت نہیں ، اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ہمیں اپنے ہر عذاب سے بچائے ۔ بعض نے کہا ہے «بَرْدً» سے مراد نیند ہے ، عرب شاعروں کے شعروں میں بھی «بَرْدً» نیند کے معنی میں پایا جاتا ہے ۔ پھر فرمایا ’ یہ ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ ہے ‘ ، ان کی بد اعمالیاں بھی تو دیکھو کہ ان کا عقیدہ تھا کہ حساب کا کوئی دن آنے ہی کا نہیں ، ہم نے جو جو دلیلیں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمائی تھیں یہ ان سب کو جھٹلاتے تھے ۔ «کِذَّابًا» مصدر ہے اس وزن پر اور مصدر بھی آتے ہیں ، پھر فرمایا کہ ’ ہم نے اپنے بندوں کے تمام اعمال و افعال کو گن رکھا ہے اور شمار کر رکھا ہے وہ سب ہمارے پاس لکھے ہوئے ہیں اور سب کا بدلہ بھی ہمارے پاس تیار ہے ‘ ۔ ان اہل جہنم سے کہا جائے گا کہ ’ اب ان عذابوں کا مزہ چکھو ، ایسے ہی اور اس سے بھی بدترین عذاب تمہیں بکثرت ہوتے رہیں گے ‘ ۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ” دوزخیوں کے لیے اس سے زیادہ سخت اور مایوس کن اور کوئی آیت نہیں ، ان کے عذاب ہر وقت بڑھتے ہی رہیں گے “ ۔ سیدنا ابوبردہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے سوال ہوا کہ دوزخیوں کے لیے اس سے زیادہ سخت آیت کونسی ہے ؟ تو فرمایا نبی علیہ السلام نے اس آیت «فَذُوقُوا فَلَن نَّزِیدَکُمْ إِلَّا عَذَابًا» ۱؎ (78-النبأ:30) کو پڑھ کر فرمایا : ” ان لوگوں کو اللہ کی نافرمانیوں نے تباہ کر دیا “ ، لیکن اس حدیث کے راوی جسر بن فرقد بالکل ضعیف ہیں ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:11/30:ضعیف) النبأ
22 النبأ
23 النبأ
24 النبأ
25 النبأ
26 النبأ
27 النبأ
28 النبأ
29 النبأ
30 النبأ
31 فضول اور گناہوں سے پاک دنیا نیک لوگوں کے لیے اللہ کے ہاں جو نعمتیں و رحمتیں ہیں ان کا بیان ہو رہا ہے کہ یہ کامیاب مقصد کو پانے والے اور نصیب دار ہیں کہ جہنم سے نجات پائی اور جنت میں پہنچ گئے ۔ «حَدَائِقَ» کہتے ہیں کھجور وغیرہ کے باغات کو ، انہیں نوجوان کنواری حوریں بھی ملیں گی جو ابھرے ہوئے سینے والیاں اور ہم عمر ہوں گی ، جیسے کہ سورۃ الواقعہ کی تفسیر میں اس کا پورا بیان گزر چکا ۔ ایک حدیث میں ہے کہ { جنتیوں کے لباس ہی اللہ کی رضا مندی کے ہوں گے ، بادل ان پر آئیں گے اور ان سے کہیں گے کہ بتاؤ ہم تم پر کیا برسائیں ؟ پھر جو وہ فرمائیں گے ، بادل ان پر برسائیں گے یہاں تک کہ نوجوان کنواری لڑکیاں بھی ان پر برسیں گی } ۔ ۱؎ (بیھقی البعث و النشور:ص318:ضعیف) انہیں شراب طہور کے چھلکتے ہوئے ، پاک صاف ، بھرپور جام پر جام ملیں گے جس میں نشہ نہ ہو گا کہ بے ہودہ گوئی اور لغو باتیں منہ سے نکلیں اور کان میں پڑیں ، جیسے اور جگہ ہے «لَّا لَغْوٌ فِیْہَا وَلَا تَاْثِیْمٌ» ‏‏‏‏ ۱؎ (52-الطور:23) ’ اس میں نہ لغو ہو گا نہ فضول گوئی اور نہ گناہ کی باتیں ‘ ، کوئی بات جھوٹ اور فضول نہ ہو گی ، وہ دارالسلام ہے جس میں کوئی عیب کی اور برائی کی بات ہی نہیں ، یہ ان پارسا بزرگوں کو جو کچھ بدلے ملے ہیں یہ ان کے نیک اعمال کا نتیجہ ہے جو اللہ کے فضل و کرم احسان و انعام کی بناء پر ملے ہیں ، جو بے حد کافی ، بکثرت اور بھرپور ہیں ۔ عرب کہتے ہیں «‏‏‏‏أَعْطَانِی فَأَحْسَبنِی» ‏‏‏‏انعام دیا اور بھرپور دیا اسی طرح کہتے ہیں «حَسْبِی اللَّہ» ‏‏‏‏یعنی اللہ مجھے ہر طرح کافی وافی ہے ۔ النبأ
32 النبأ
33 النبأ
34 النبأ
35 النبأ
36 النبأ
37 روح الامین علیہ السلام اللہ تعالیٰ اپنی عظمت و جلال کی خبر دے رہا ہے کہ ’ آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی تمام مخلوق کا پالنے پوسنے والا ہے ، وہ رحمان ہے ، جس کے رحم نے تمام چیزوں کو گھیر لیا ہے ، جب تک اس کی اجازت نہ ہو کوئی اس کے سامنے لب نہیں ہلا سکتا ‘ ۔ جیسے اور جگہ ہے «مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗٓ اِلَّا بِاِذْنِہٖ» ۱؎ (2-البقرۃ:255) یعنی ’ کون ہے جو اس کی اجازت بغیر اس کے سامنے سفارش لے جا سکے ‘ ۔ اور جگہ ہے «‏‏‏‏یَوْمَ یَأْتِ لَا تَکَلَّمُ نَفْسٌ إِلَّا بِإِذْنِہِ» ۱؎ (11-ھود:105) ’ جس دن وہ آ جائے گا کوئی بھی بلا اجازت اس سے بات نہ کر سکے گا ‘ ۔ روح سے مراد یا تو کل انسانوں کی روحیں ہیں یا کل انسان ہیں یا ایک قسم کی خاص مخلوق ہے جو انسانوں کی سی صورتوں والے ہیں کھاتے پیتے ہیں نہ وہ فرشتے ہیں نہ انسان ، یا مراد جبرائیل علیہ السلام ہیں ، جبرائیل علیہ السلام کو اور جگہ بھی «روح» کہا گیا ہے ، ارشاد ہے «‏‏‏‏نَزَلَ بِہِ الرٰوحُ الْأَمِینُ عَلَیٰ قَلْبِکَ لِتَکُونَ مِنَ الْمُنذِرِینَ» (‏‏‏‏26-الشعراء:194،193) ’ اسے امانت دار «روح» نے تیرے دل پر اتارا ہے تاکہ تو ڈرانے والا بن جائے ‘ ، یہاں مراد «روح» سے یقیناً جبرائیل علیہ السلام ہیں ۔ مقاتل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” تمام فرشتوں سے بزرگ ، اللہ کے مقرب اور وحی لے کر آنے والے بھی ہیں ، یا مراد «روح» سے قرآن ہے ، اس کی دلیل میں یہ آیت پیش کی جاسکتی ہے «‏‏‏‏وَکَذٰلِکَ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا» ‏‏‏‏ ۱؎ (42-الشوری:52) یعنی ’ ہم نے اپنے حکم سے تیری طرف روح اتاری ‘ ، یہاں «روح» سے مراد قرآن ہے ۔ چھٹا قول یہ ہے کہ یہ ایک فرشتہ ہے جو تمام مخلوق کے برابر ہے ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ” یہ فرشتہ تمام فرشتوں سے بہت بڑا ہے “ ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ” یہ روح نامی فرشتہ چوتھے آسمان میں ہے ، تمام آسمانوں ، کل پہاڑوں اور سب فرشتوں سے بڑا ہے ، ہر دن بارہ ہزار تسبیحات پڑھتا ہے ہر ایک تسبیح سے ایک ایک فرشتہ پیدا ہوتا ہے ، قیامت کے دن وہ اکیلا ایک صف بن کر آئے گا “ ۔ لیکن یہ قول بہت ہی غریب ہے ، ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:22/30:ضعیف) طبرانی میں حدیث ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ” فرشتوں میں ایک فرشتہ وہ بھی ہے کہ اگر اسے حکم ہو کہ تمام آسمانوں اور زمینوں کو لقمہ بنا لے تو وہ ایک لقمہ میں سب کو لے لے اس کی تسبیح یہ ہے «سُبْحَانک حَیْثُ کُنْتَ» اللہ تو جہاں کہیں بھی ہے پاک ہے “ } ۱؎ (طبرانی کبیر:11476،قال الشیخ زبیرعلی زئی:ضعیف) یہ حدیث بھی بہت غریب ہے بلکہ اس کے فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہونے میں بھی کلام ہے ، ممکن ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہو ، اور وہ بھی بنی اسرائیل سے لیا ہو ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» امام ابن جریر رحمہ اللہ نے یہ سب اقوال وارد کئے ہیں لیکن کوئی فیصلہ نہیں کیا ۔ میرے نزدیک ان تمام اقوال میں سے بہتر قول یہ ہے کہ یہاں «روح» سے مراد کل انسان ہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» پھر فرمایا ’ صرف وہی اس دن بات کر سکے گا جسے وہ رحمن اجازت دے ‘ ۔ جیسے فرمایا «یَوْمَ یَاْتِ لَا تَکَلَّمُ نَفْسٌ اِلَّا بِاِذْنِہٖ» ۱؎ (11-ھود:105) یعنی ’ جس دن وہ وقت آئے گا کوئی نفس بغیر اس کی اجازت کے کلام بھی نہیں کر سکے گا ‘ ۔ صحیح حدیث میں بھی ہے کہ { اس دن سوائے رسولوں کے کوئی بات نہ کر سکے گا} ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:806) پھر فرمایا کہ ’ اس کی بات بھی ٹھیک ٹھاک ہو ‘ ، سب سے زیادہ حق بات «لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ» ہے ۔ پھر فرمایا کہ ’ یہ دن حق ہے یقیناً آنے والا ہے ، جو چاہے اپنے رب کے پاس اپنے لوٹنے کی جگہ اور وہ راستہ بنا لے جس پر چل کر وہ اس کے پاس سیدھا جا پہنچے ، ہم نے تمہیں بالکل قریب آئی ہوئی آفت سے آگاہ کر دیا ہے ، آنے والی چیز تو آ گئی ہوئی سمجھنی چاہیئے ، اس دن نئے پرانے چھوٹے بڑے اچھے برے کل اعمال انسان کے سامنے ہوں گے ‘ ۔ جیسے فرمایا «وَوَجَدُوا مَا عَمِلُوا حَاضِرًا» ۱؎ (18-الکھف:49) ’ جو کیا اسے سامنے پا لیں گے ‘ اور جگہ ہے ، «‏‏‏‏یُنَبَّؤُا الْاِنْسَانُ یَوْمَیِٕذٍ بِمَا قَدَّمَ وَاَخَّرَ» ‏‏‏‏۱؎ (75-القیامۃ:13) ’ ہر انسان کو اس کے اگلے پچھلے اعمال سے متنبہ کیا جائے گا ‘ ۔ اس دن کافر آرزو کرے گا کاش کہ وہ مٹی ہوتا پیدا ہی نہ کیا جاتا وجود میں ہی نہ آتا ، اللہ کے عذاب کو آنکھ سے دیکھ لے گا اپنی بدکاریاں سامنے ہوں گی جو پاک فرشتوں کے منصف ہاتھوں کی لکھی ہوئی ہیں ، پس ایک معنی تو یہ ہوئے کہ دنیا میں ہی مٹی ہونے کی یعنی پیدا نہ ہونے کی آرزو کرے گا ۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ جب جانوروں کا فیصلہ ہو گا اور ان کے قصاص دلوائے جائیں گے یہاں تک کہ بے سینگ والی بکری کو اگر سینگ والی بکری نے مارا ہو گا تو اس سے بھی بدلہ دلوایا جائے گا پھر ان سے کہا جائے گا کہ مٹی ہو جاؤ وہ مٹی ہو جائیں گے ، اس وقت یہ کافر انسان بھی کہے گا کہ ہائے کاش میں بھی حیوان ہوتا اور اب مٹی بن جاتا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی لمبی حدیث میں بھی یہ مضمون وارد ہوا ہے اور سیدنا ابوہریرہ اور سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے بھی یہی مروی ہے ۔ «اَلْحَمْدُ لِلہِ» سورۃ النباء کی تفسیر ختم ہوئی ۔ «فالْحَمْدُ لِلہِ وَالْمِنَّۃ وَبِہِ التَّوْفِیْقُ وَالْعِصْمَۃ» النبأ
38 النبأ
39 النبأ
40 النبأ
0 النازعات
1 فرشتے موت اور ستارے اس سے مراد فرشتے ہیں جو بعض لوگوں کی روحوں کو سختی سے گھسیٹتے ہیں اور بعض روحوں کو بہت آسانی سے نکالتے ہیں جیسے کسی کے بند کھول دیئے جائیں ، کفار کی روحیں کھینچی جاتی ہیں پھر بند کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم میں ڈبو دیئے جاتے ہیں ، یہ ذکر موت کے وقت کا ہے ۔ بعض کہتے ہیں «وَالنَّازِعَاتِ غَرْقًا» سے مراد موت ہے ، بعض کہتے ہیں ، دونوں آیتوں سے مطلب ستارے ہیں ، بعض کہتے ہیں سخت لڑائی کرنے والے ہیں ، لیکن صحیح بات پہلی ہی ہے ، یعنی روح نکالنے والے فرشتے ، اسی طرح تیسری آیت کی نسبت بھی یہ تینوں تفسیریں مروی ہیں یعنی فرشتے ، موت اور ستارے ۔ عطاء رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” مراد کشتیاں ہیں “ ۔ اسی طرح «سَّابِقَاتِ» کی تفسیر میں بھی تینوں قول ہیں ، معنی یہ ہیں کہ ایمان اور تصدیق کی طرف آگے بڑھنے والے ، عطا رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” مجاہدین کے گھوڑے مراد ہیں ، پھر حکم اللہ کی تعمیل تدبیر سے کرنے والے ، اس سے مراد بھی فرشتے ہیں “ جیسے سیدنا علی رضی اللہ عنہ وغیرہ کا قول ہے ، ” آسمان سے زمین کی طرف اللہ عزوجل کے حکم سے تدبیر کرتے ہیں “ ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ نے ان اقوال میں کوئی فیصلہ نہیں کیا ، کانپنے والی کے کانپنے اور اس کے پیچھے آنے والی کے پیچھے آنے سے مراد دونوں نفخہ ہیں ، پہلے نفخہ کا بیان اس آیت میں بھی ہے «یَوْمَ تَرْجُفُ الْأَرْضُ وَالْجِبَالُ» ۱؎ (73-المزمل:14) ’ جس دن زمین اور پہاڑ کپکپا جائیں گے ‘ ۔ دوسرے نفخہ کا بیان اس آیت میں ہے «وَحُمِلَتِ الْأَرْضُ وَالْجِبَالُ فَدُکَّتَا دَکَّۃً وَاحِدَۃً» ۱؎ (69-الحاقۃ:14) ’ اور زمین اور پہاڑ اٹھا لیے جائیں گے ، پھر دونوں ایک ہی دفعہ چور چور کر دیئے جائیں گے ‘ ۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کانپنے والی آئے گی اس کے پیچھے ہی پیچھے آنے والی ہو گی یعنی موت اپنے ساتھ اپنی آفتیں لیے ہوئے آئے گی ، ایک شخص نے کہا اے اللہ کے رسول ! اگر میں اپنے وظیفہ کا تمام وقت آپ پر درود پڑھنے میں گزاروں تو ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” پھر تو اللہ تعالیٰ تجھے دنیا اور آخرت کے تمام غم و رنج سے بچا لے گا “ } ۔ ۱؎ (مسند احمد:5/136:حسن) ترمذی میں ہے کہ { وہ تہائی رات گزرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوتے اور فرماتے ” لوگو! اللہ کو یاد کرو کپکانے والی آ رہی ہے پھر اس کے پیچھے ہی اور آ رہی ہے ، موت اپنے ساتھ کی تمام آفات کو لیے ہوئے چلی آ رہی ہے “ } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2457،قال الشیخ الألبانی:حسن) اس دن بہت سے دل ڈر رہے ہوں گے ، ایسے لوگوں کی نگاہیں ذلت و حقارت کے ساتھ پست ہوں گی کیونکہ وہ اپنے گناہوں اور اللہ کے عذاب کا معائنہ کر چکے ہیں ، مشرکین جو روز قیامت کے منکر تھے اور کہا کرتے تھے کہ کیا قبروں میں جانے کے بعد بھی ہم زندہ کئے جائیں گے ؟ وہ آج اپنی اس زندگی کو رسوائی اور برائی کے ساتھ آنکھوں سے دیکھ لیں گے ۔ «حَافِرَۃِ» کہتے ہیں قبروں کو بھی ، یعنی قبروں میں چلے جانے کے بعد جسم کے ریزے ریزے ہو جانے کے بعد ، جسم اور ہڈیوں کے گل سڑ جانے اور کھوکھلی ہو جانے کے بعد بھی کیا ہم زندہ کئے جائیں گے ؟ پھر تو یہ دوبار کی زندگی خسارے اور گھاٹے والی ہو گی ۔ کفار قریش کا یہ مقولہ تھا ۔ «حَافِرَۃِ» کے معنی موت کے بعد کی زندگی کے بھی مروی ہیں ، اور جہنم کا نام بھی ہے اس کے نام بہت سے ہیں جیسے «جحیم» ، «سقر» ، «جہنم» ، «ہاویہ» ، «حافرہ» ، «لظی» ، «حطمہ» وغیرہ ۔ اب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’ جس چیز کو یہ بڑی بھاری ، انہونی اور ناممکن سمجھے ہوئے ہیں وہ ہماری قدرت کاملہ کے ماتحت ایک ادنٰی سی بات ہے ، ادھر ایک آواز دی ادھر سب زندہ ہو کر ایک میدان میں جمع ہو گئے ‘ ، یعنی اللہ تعالیٰ سیدنا اسرافیل علیہ السلام کو حکم دے گا وہ صور پھونک دیں گے بس ان کے صور پھونکتے ہی تمام اگلے پچھلے جی اٹھیں گے اور اللہ کے سامنے ایک ہی میدان میں کھڑے ہو جائیں گے ، جیسے اور جگہ ہے «‏‏‏‏یَوْمَ یَدْعُوْکُمْ فَتَسْتَجِیْبُوْنَ بِحَمْدِہٖ وَتَظُنٰوْنَ اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا قَلِیْلًا» ۱؎ (17-الإسراء:52) ، ’ جس دن وہ تمہیں پکارے گا اور تم اس کی تعریفیں کرتے ہوئے اسے جواب دو گے اور جان لو گے کہ بہت ہی کم ٹھہرے ‘ ۔ اور جگہ فرمایا «وَمَآ اَمْرُنَآ اِلَّا وَاحِدَۃٌ کَلَمحٍ بِالْبَصَرِ» ۱؎ (54-القمر:50) ’ ہمارا حکم بس ایسا ایک بارگی ہو جائے گا جیسے آنکھ کا جھپکنا ‘ ۔ اور جگہ ہے «وَمَآ اَمْرُ السَّاعَۃِ اِلَّا کَلَمْحِ الْبَصَرِ اَوْ ہُوَ اَقْرَبُ» ۱؎ ‏‏‏‏(16-النحل:77) ’ امر قیامت مثل آنکھ جھپکنے کے ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ قریب ‘ ۔ یہاں بھی یہی بیان ہو رہا ہے کہ ’ صرف ایک آواز ہی کی دیر ہے اس دن پروردگار سخت غضبناک ہو گا ‘ ۔ یہ آواز بھی غصہ کے ساتھ ہو گی ، یہ آخری نفخہ ہے جس کے پھونکے جانے کے بعد ہی تمام لوگ زمین کے اوپر آ جائیں گے ، حالانکہ اس سے پہلے نیچے تھے ۔ «سَّاہِرَۃِ» روئے زمین کو کہتے ہیں اور سیدھے صاف میدان کو بھی کہتے ہیں ۔ ثوری رحمہ اللہ کہتے ہیں ” اس سے مراد شام کی زمین ہے “ ۔ عثمان بن ابوعاتکہ رحمہ اللہ کا قول ہے ” اس سے مراد بیت المقدس کی زمین ہے “ ۔ وہب بن منبہ رحمہ اللہ کہتے ہیں ” بیت المقدس کے ایک طرف یہ ایک پہاڑ ہے “ ۔ قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں ” جہنم کو بھی «سَّاہِرَۃِ» کہتے ہیں “ ۔ لیکن یہ اقوال سب غریب ہیں ، ٹھیک قول پہلا ہی ہے یعنی روئے زمین کے سب لوگ زمین پر جمع ہو جائیں گے ، جو سفید ہو گی اور بالکل صاف اور خالی ہو گی جیسے میدے کی روٹی ہوتی ہے ۔ اور جگہ ہے «‏‏‏‏یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَیْرَ الْاَرْضِ»‏‏‏‏ ۱؎ (14-إبراھیم:48) ، یعنی ’ جس دن یہ زمین بدل کر دوسری زمین ہو گی اور آسمان بھی بدل جائیں گا اور سب مخلوق اللہ تعالیٰ واحد و قہار کے روبرو ہو جائے گی ‘ ۔ اور جگہ ہے «وَیَسْأَلُونَکَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ یَنسِفُہَا رَبِّی نَسْفًا فَیَذَرُہَا قَاعًا صَفْصَفًا»‏‏‏‏ ۱؎ (20-طہ:105-106) ’ لوگ تجھ سے پہاڑوں کے بارے پوچھتے ہیں تو کہہ دے کہ انہیں میرا رب ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا اور زمین بالکل ہموار میدان بن جائے گی جس میں کوئی موڑ توڑ نہ ہو گا ، نہ اونچی نیچی جگہ ‘ ۔ اور جگہ ہے «‏‏‏‏وَیَوْمَ نُسَیِّرُ الْجِبَالَ وَتَرَی الْأَرْضَ بَارِزَۃً» ‏‏‏‏۱؎ (18-الکہف:47) ’ ہم پہاڑوں کو چلنے والا کر دیں گے اور زمین صاف ظاہر ہو جائے گی ‘ ۔ غرض ایک بالکل نئی زمین ہو گی جس پر نہ کبھی کوئی خطا ہوئی نہ قتل و گناہ ۔ النازعات
2 النازعات
3 النازعات
4 النازعات
5 النازعات
6 النازعات
7 النازعات
8 النازعات
9 النازعات
10 النازعات
11 النازعات
12 النازعات
13 النازعات
14 النازعات
15 معفرت دل حق کا مطیع و فرماں بردار ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دیتا ہے کہ ’ اس نے اپنے بندے اور رسول موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کی طرف بھیجا اور معجزات سے ان کی تائید کی ، لیکن باوجود اس کے فرعون اپنی سرکشی اور اپنے کفر سے باز نہ آیا بالاخر اللہ کا عذاب اترا اور برباد ہو گیا ، اسی طرح اے پیغمبر آخر الزمان آپ کے مخالفین کا بھی حشر ہو گا ‘ ۔ اسی لیے اس واقعہ کے خاتمہ پر فرمایا ڈر والوں کے لیے اس میں عبرت ہے ، پس فرماتا ہے کہ ’ تجھے خبر بھی ہے ؟ موسیٰ علیہ السلام کو اس کے رب نے آواز دی جبکہ وہ ایک مقدس میدان میں تھے جس کا نام طویٰ ہے ‘ ۔ اس کا تفصیل سے بیان سورۃ طہٰ میں گزر چکا ہے ، آواز دے کر فرمایا کہ ’ فرعون نے سرکشی تکبر ، تجبر اور تمرد اختیار کر رکھا ہے تم اس کے پاس پہنچو اور اسے میرا یہ پیغام دو کہ کیا تو چاہتا ہے کہ میری بات مان کر اس راہ پر چلے جو پاکیزگی کی راہ ہے ، میری سن میری مان ، سلامتی کے ساتھ پاکیزگی حاصل کر لے گا ، میں تجھے اللہ کی عبادت کے وہ طریقے بتاؤں گا جس سے تیرا دل نرم اور روشن ہو جائے اس میں خشوع و خضوع پیدا ہو اور دل کی سختی اور بدبختی دور ہو ‘ ۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام فرعون کے پاس پہنچے اللہ کا فرمان پہنچایا ، حجت ختم کی ، دلائل بیان کئے ، یہاں تک کہ اپنی سچائی کے ثبوت میں معجزات بھی دکھائے لیکن وہ برابر حق کی تکذیب کرتا رہا اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی باتوں کی نافرمانی پر جما رہا چونکہ دل میں کفر جاگزیں ہو چکا تھا اس سے طبیعت نہ ہٹی اور حق واضح ہو جانے کے باوجود ایمان و تسلیم نصیب نہ ہوئی ۔ یہ اور بات ہے کہ دل سے جانتا تھا کہ یہ حق برحق نبی علیہ السلام ہیں اور ان کی تعلیم بھی برحق ہے ۔ لیکن دل کی معرفت اور چیز ہے اور ایمان اور چیز ہے ، دل کی معرفت پر عمل کرنے کا نام ایمان ہے کہ حق کا تابع فرمان بن جائے اور اللہ رسول کی باتوں پر عمل کرنے کے لیے جھک جائے ۔ پھر اس نے حق سے منہ موڑ لیا اور خلاف حق کوشش کرنے لگا جادوگروں کو جمع کر کے ان کے ہاتھوں سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو نیچا دکھانا چاہا ۔ اپنی قوم کو جمع کیا اور اس میں منادی کی کہ تم سب میں بلند و بالا میں ہی ہوں ۔ اس سے چالیس سال پہلے وہ کہہ چکا تھا کہ آیت «مَا عَلِمْتُ لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرِیْ» ۱؎ (28-القصص:38) یعنی ’ میں نہیں جانتا کہ میرے سوا تمہارا معبود کوئی اور بھی ہو ‘ ۔ اب تو اس کی طغیانی حد سے بڑھ گئی اور صاف کہہ دیا کہ میں ہی رب ہوں ، بلندیوں والا اور سب پر غالب میں ہی ہوں ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’ ہم نے بھی اس سے وہ انتقام لیا جو اس جیسے تمام سرکشوں کے لیے ہمیشہ ہمیشہ سبب عبرت بن جائے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ، بدترین عذاب تو ابھی باقی ہیں ‘ ۔ جیسے فرمایا «‏‏‏‏وَجَعَلْنٰہُمْ اَیِٕمَّۃً یَّدْعُوْنَ اِلَی النَّارِ وَیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ لَا یُنْصَرُوْنَ»‏‏‏‏ ۱؎ (28-القصص:41) یعنی ’ ہم نے انہیں جہنم کی طرف بلانے والے پیش رو بنائے قیامت کے دن یہ مدد نہ کئے جائیں گے ‘ ۔ پس صحیح تر معنی آیت کے یہی ہیں کہ آخرت اور اولیٰ سے مراد دنیا اور آخرت ہے ، بعض نے کہا ہے اول آخر سے مراد اس کے دونوں قول ہیں یعنی پہلے یہ کہنا کہ میرے علم میں میرے سوا تمہارا کوئی اللہ نہیں ، پھر یہ کہنا کہ تمہارا سب کا بلند رب میں ہوں ، بعض کہتے ہیں مراد کفر و نافرمانی ہے ، لیکن صحیح قول پہلا ہی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ، اس میں ان لوگوں کے لیے عبرت و نصیحت ہے جو نصیحت حاصل کریں اور باز آ جائیں ۔ النازعات
16 النازعات
17 النازعات
18 النازعات
19 النازعات
20 النازعات
21 النازعات
22 النازعات
23 النازعات
24 النازعات
25 النازعات
26 النازعات
27 موت و حیات کی سرگزشت جو لوگ مرنے کے بعد زندہ ہونے کے منکر تھے ، انہیں پروردگار دلیلیں دیتا ہے کہ ’ تمہاری پیدائش سے تو بہت زیادہ مشکل پیدائش آسمانوں کی ہے ‘ ۔ جیسے اور جگہ ہے «‏‏‏‏لَخَــلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَکْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ» ۱؎ ‏‏‏‏ (40-غافر:57) یعنی ’ زمین و آسمان کی پیدائش انسانوں کی پیدائش سے زیادہ بھاری ہے ‘ ۔ اور جگہ ہے آیت «أَوَلَیْسَ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِقَادِرٍ عَلَیٰ أَن یَخْلُقَ مِثْلَہُم بَلَیٰ وَہُوَ الْخَلَّاقُ الْعَلِیمُ» ‏‏‏‏۱؎ (36-یس:81) ’ کیا جس نے زمین و آسمان پیدا کر دیا ہے ان جیسے انسانوں کو دوبارہ پیدا کرنے پر قدرت نہیں رکھتا ؟ ضرور وہ قادر ہے اور وہ ہی بڑا پیدا کرنے والا اور خوب جاننے والا ہے ‘ ۔ آسمانوں کو اس نے بنایا یعنی بلند و بالا خوب چوڑا اور کشادہ اور بالکل برابر بنایا پھر اندھیری راتوں میں خوب چمکنے والے ستارے اس میں جڑ دیئے ، رات کو سیاہ اور اندھیرے والی بنایا اور دن کو روشن اور نور والا بنایا اور اس کے بعد زمین کو بچھا دیا یعنی پانی اور چارہ نکالا ۔ سورۃ حم سجدہ میں یہ بیان گزر چکا ہے کہ زمین کی پیدائش تو آسمان سے پہلے ہے ہاں اس کی برکات کا اظہار آسمانوں کی پیدائش کے بعد ہوا جس کا بیان یہاں ہو رہا ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور بہت سے مفسرین سے یہی مروی ہے ، امام ابن جریر رحمہ اللہ بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں ، اس کا تفصیلی بیان گزر چکا ہے اور پہاڑوں کو اس نے خوب مضبوط گاڑ دیا ہے وہ حکمتوں والا صحیح علم والا ہے اور ساتھ ہی اپنی مخلوق پر بے حد مہربان ہے ۔ مسند احمد میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ” جب اللہ تعالیٰ نے زمین کو پیدا کیا وہ ہلنے لگی پروردگار نے پہاڑوں کو پیدا کر کے زمین پر گاڑ دیا جس سے وہ ٹھہر گئی فرشتوں کو اس سے سخت تر تعجب ہوا اور پوچھنے لگے : اے اللہ ! تیری مخلوق میں ان پہاڑوں سے بھی زیادہ سخت چیز کوئی اور ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ہاں لوہا ، پوچھا : اس سے بھی زیادہ سخت ؟ فرمایا : آگ ، پوچھا : اس سے بھی زیادہ سخت ؟ فرمایا : ہاں پانی ، پوچھا : اس سے بھی زیادہ سخت ؟ فرمایا : ہوا ۔ پوچھا : پروردگار کیا تیری مخلوق میں اس سے بھاری کوئی اور چیز ہے ؟ فرمایا : ہاں ابن آدم وہ یہ ہے کہ اپنے دائیں ہاتھ سے جو خرچ کرتا ہے اس کی خبر پائیں ہاتھ کو بھی نہیں ہوتی “ } ۱؎ (مسند احمد:124/3:ضعیف) ابن جریر میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ” جب زمین کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا تو وہ کانپنے لگی اور کہنے لگی مجھ پر تو آدم اور اس کی اولاد کو پیدا کرنے والا ہے جو اپنی گندگی مجھ پر ڈالیں گے اور میری پیٹھ پر تیری نافرمانیاں کریں گے ۔ اللہ تعالیٰ نے پہاڑ گاڑ کر زمین کو ٹھہرا دیا بہت سے پہاڑ تم دیکھ رہے ہو اور بہت سے تمہاری نگاہوں سے اوجھل ہیں ، زمین کا پہاڑوں کے بعد سکون حاصل کرنا بالکل ایسا ہی تھا جیسے اونٹ کو ذبح کرتے ہی اس کا گوشت تھرکتا رہتا ہے پھر کچھ دیر بعد ٹھہر جاتا ہے “ ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ یہ سب تمہارے اور تمہارے جانوروں کے فائدے کے لیے ہے ‘ ، یعنی زمین سے چشموں اور نہروں کا جاری کرنا ، زمین کے پوشیدہ خزانوں کو ظاہر کرنا ، کھیتیاں اور درخت اگانا ، پہاڑوں کا گاڑنا تاکہ زمین سے پورا پورا فائدہ تم اٹھا سکو ، یہ سب باتیں انسانوں کے فائدے کیلئے ہیں اور ان کے جانوروں کے فائدے کے لیے پھر وہ جانور بھی انہی کے فائدے کے لیے ہیں کہ بعض کا گوشت کھاتے ہیں بعض پر سواریاں لیتے ہیں اور اپنی عمر اس دنیا میں سکھ چین سے بسر کر رہے ہیں ۔ النازعات
28 النازعات
29 النازعات
30 النازعات
31 النازعات
32 النازعات
33 النازعات
34 انتہائی ہولناک لرزہ خیز لمحات «طَّامَّۃُ الْکُبْرَیٰ» سے مراد قیامت کا دن ہے اس لیے کہ وہ ہولناک اور بڑے ہنگامے والا دن ہو گا ۔ جیسے اور جگہ ہے «وَالسَّاعَۃُ اَدْہٰی وَاَمَرٰ» ۱؎ ‏‏‏‏(54-القمر:46) یعنی ’ قیامت بڑی سخت اور ناگوار چیز ہے ‘ ، اس دن ابن آدم اپنے بھلے برے اعمال کو یاد کرے گا اور کافی نصیحت حاصل کر لے گا ۔ جیسے اور جگہ ہے «یَوْمَیِٕذٍ یَّتَذَکَّرُ الْاِنْسَانُ وَاَنّٰی لَہُ الذِّکْرٰی» ۱؎ ‏‏‏‏(89-الفجر:23) یعنی ’ اس دن آدمی نصیحت حاصل کر لے گا لیکن آج کی نصیحت اسے کچھ فائدہ نہ دے گی ، لوگوں کے سامنے جہنم لائی جائے گی اور وہ اپنی آنکھوں سے اسے دیکھ لیں گے ‘ ۔ النازعات
35 النازعات
36 النازعات
37 النازعات
38 1 اس دن سرکشی کرنے والوں اور دنیا کو دین پر ترجیح دینے والوں کا ٹھکانا جہنم ہو گا ، ان کی خوراک زقوم ہو گا ، اور ان کا پانی حمیم ہو گا ، ہاں ہمارے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتے رہنے والوں اور اپنے آپ کو نفسانی خواہشوں سے بچاتے رہنے والوں ، خوف اللہ دل میں رکھنے والوں اور برائیوں سے باز رہنے والوں کا ٹھکانا جنت ہے اور وہاں کی تمام نعمتوں کے حصہ دار یہی ہیں ۔ پھر فرمایا کہ ’ قیامت کے بارے میں تم سے سوال ہو رہے ہیں تم کہہ دو کہ نہ مجھے اس کا علم ہے نہ مخلوق میں سے کسی اور کو صرف اللہ ہی جانتا ہے کہ قیامت کب آئے گی ‘ ۔ اس کا صحیح وقت کسی کو معلوم نہیں وہ زمین و آسمان پر بھاری پڑ رہی ہے ، حالانکہ دراصل اس کا علم سوائے اللہ تبارک و تعالیٰ کے اور کسی کو نہیں ۔ { سیدنا جبرائیل علیہ السلام بھی جس وقت انسانی صورت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کچھ سوالات کئے جن کے جوابات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیئے پھر یہی قیامت کے دن کے تعیین کا سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جس سے پوچھتے ہو ، نہ وہ اسے جانتا ہے نہ خود پوچھنے والے کو اس کا علم ہے “ } ۱؎ (صحیح بخاری:50) پھر فرمایا کہ ’ اے نبی ! تم تو صرف لوگوں کے ڈرانے والے ہو ، اور اس سے نفع انہیں کو پہنچے گا جو اس خوفناک دن کا ڈر رکھتے ہیں اور تیاری کر لیں گے اور اس دن کے خطرے سے بچ جائیں گے ، باقی جو لوگ ہیں وہ آپ کے فرمان سے عبرت حاصل نہیں کریں گے بلکہ مخالفت کریں گے اور اس دن بدترین نقصان اور مہلک عذابوں میں گرفتار ہوں گے ‘ ۔ لوگ جب اپنی اپنی قبروں سے اٹھ کر محشر کے میدان میں جمع ہوں گے ، اس وقت اپنی دنیا کی زندگی انہیں بہت ہی تھوڑی نظر آئے گی اور ایسا معلوم ہوگا کہ صرف صبح کا یا صرف شام کا حصہ دنیا میں گزارا ہے ۔ ظہر سے لے کر آفتاب کے غروب ہونے کے وقت کو «عَشِیَّۃً» کہتے ہیں اور سورج نکلنے سے لے کر آدھے دن تک کے وقت کو «ضُحٰہَا» کہتے ہیں ، مطلب یہ ہے کہ آخرت کو دیکھ کر دنیا کی لمبی عمر بھی اتنی کم محسوس ہونے لگی ۔ سورۃ النازعات کی تفسیر ختم ہوئی ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ رَبِّ الْعَالَمِینَ» النازعات
39 النازعات
40 النازعات
41 النازعات
42 النازعات
43 النازعات
44 النازعات
45 النازعات
46 النازعات
0 عبس
1 تبلیغ دین میں فقیر و غنی سب برابر بہت سے مفسرین سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ قریش کے سرداروں کو اسلامی تعلیم سمجھا رہے تھے اور مشغولیت کے ساتھ ان کی طرف متوجہ تھے دل میں خیال تھا کہ کیا عجب اللہ انہیں اسلام نصیب کر دے ناگہاں سیدنا عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ، پرانے مسلمان تھے عموماً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے رہتے تھے اور دنیا اسلام کی تعلیم سیکھتے رہتے تھے اور مسائل دریافت کیا کرتے تھے ، آج بھی حسب عادت آتے ہی سوالات شروع کئے اور آگے بڑھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ اس وقت ایک اہم امر دینی میں پوری طرح مشغول تھے ان کی طرف توجہ نہ فرمائی بلکہ ذرا گراں خاطر گزرا اور پیشانی پر بل پڑ گئے اس پر یہ آیات نازل ہوئیں کہ ’ آپ کی بلند شان اور اعلیٰ اخلاق کے لائق یہ بات نہ تھی کہ اس نابینا سے جو ہمارے خوف سے دوڑتا بھاگتا آپ کی خدمت میں علم دین سیکھنے کے لیے آئے اور آپ اس سے منہ پھیر لیں اور ان کی طرف متوجہ ہوں جو سرکش ہیں ، اور مغرور و متکبر ہیں ، بہت ممکن ہے کہ یہی پاک ہو جائے اور اللہ کی باتیں سن کر برائیوں سے بچ جائے اور احکام کی تعمیل میں تیار ہو جائے ، یہ کیا ہے کہ آپ ان بے پرواہ لوگوں کی جانب تمام تر توجہ فرما لیں ؟ آپ پر کوئی ان کو راہ راست پر لا کھڑا کرنا ضروری تھوڑے ہی ہے ؟ وہ اگر آپ کی باتیں نہ مانیں تو آپ پر ان کے اعمال کی پکڑ ہرگز نہیں ‘ ۔ مطلب یہ ہے کہ تبلیغ دین میں شریف و ضعیف ، فقیر و غنی ، آزاد و غلام ، مرد و عورت ، چھوٹے بڑے سب برابر ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب کو یکساں نصیحت کیا کریں ہدایت اللہ کے ہاتھ ہے ، وہ اگر کسی کو راہ راست سے دور رکھے تو اس کی حکمت وہی جانتا ہے جسے اپنی راہ لگا لے اسے بھی وہی خوب جانتا ہے ۔ سیدنا ابن ام مکتوم کے آنے کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مخاطب ابی بن خلف تھا اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کی بڑی تکریم اور آؤ بھگت کیا کرتے تھے ۔ (مسند ابویعلیٰ) سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” میں نے سیدنا ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو قادسیہ کی لڑائی میں دیکھا ہے ، زرہ پہنے ہوئے تھے اور سیاہ جھنڈا لیے ہوئے تھے “ ۱؎ (مسند ابو یعلی:3123:صحیح) ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ” جب یہ آئے اور کہنے لگے کہ حضور مجھے بھلائی کی باتیں سکھایئے اس وقت رؤساء قریش آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف پوری توجہ نہ فرمائی انہیں سمجھاتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے ” کہو میری بات ٹھیک ہے “ وہ کہتے جاتے تھے ہاں حضرت درست ہے “ ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3331،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ان لوگوں میں عتبہ بن ربیعہ ، ابوجہل بن ہشام ، عباس بن عبدالمطلب تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی کوشش تھی اور پوری حرص تھی کہ کسی طرح یہ لوگ دین حق کو قبول کر لیں ادھر یہ آ گئے اور کہنے لگے اے اللہ کے نبی! قرآن پاک کی کوئی آیت مجھے سنایئے اور اللہ کی باتیں سکھایئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت ان کی بات ذرا بے موقع لگی اور منہ پھیر لیا اور ادھر ہی متوجہ رہے ۔ جب ان سے باتیں پوری کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر جانے لگے تو آنکھوں تلے اندھیرا چھا گیا اور سر نیچا ہو گیا اور یہ آیتیں اتریں ۔ پھر تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی بڑی عزت کیا کرتے تھے اور پوری توجہ سے کان لگا کر ان کی باتیں سنا کرتے تھے آتے جاتے ہر وقت پوچھتے کہ کچھ کام ہے کچھ حاجت ہے کچھ کہتے ہو کچھ مانگتے ہو ؟ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:36319:ضعیف) یہ روایت غریب اور منکر ہے اور اس کی سند میں بھی کلام ہے ۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ بلال رات رہتے ہوئے اذان دیا کرتے ہیں تو تم سحری کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ ابن ام مکتوم کی اذان سنو یہ وہ نابینا ہیں جن کے بارے میں «عَبَسَ وَتَوَلّیٰٓ اَنْ جَاءَہُ الْاَعْمٰی» ، یہ بھی مؤذن تھے بینائی میں نقصان تھا جب لوگ صبح صادق دیکھ لیتے اور اطلاع کرتے کہ صبح ہوئی تب یہ اذان کہا کرتے تھے ۱؎ (اسنادہ ضعیف ولہ شواھد صحیح بخاری:617) سیدنا ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کا مشہور نام تو عبداللہ ہے بعض نے کہا ہے ان کا نام عمرو ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» «إِنَّہَا تَذْکِرَۃٌ» یعنی یہ نصیحت ہے اس سے مراد یا تو یہ سورت ہے یا یہ مساوات کہ تبلیغ دین میں سب یکساں ہیں مراد ہے ۔ سدی رحمہ اللہ کہتے ہیں ” مراد اس سے قرآن ہے ، جو شخص چاہے اسے یاد کر لے یعنی اللہ کو یاد کرے اور اپنے تمام کاموں میں اس کے فرمان کو مقدم رکھے ، یا یہ مطلب ہے کہ وحی الٰہی کو یاد کر لے ، یہ سورت اور وعظ و نصیحت بلکہ سارے کا سارا قرآن موقر معزز اور معتبر صحیفوں میں ہے جو بلند قدر اور اعلیٰ مرتبہ والے ہیں جو میل کچیل اور کمی زیادتی سے محفوظ اور پاک صاف ہیں ، جو فرشتوں کے پاک ہاتھوں میں ہیں “ ، اور یہ بھی مطلب ہو سکتا ہے کہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاکیزہ ہاتھوں میں ہے ۔ قتادہ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ ” اس سے مراد قاری ہیں “ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ یہ نبطی زبان کا لفظ ہے معنی ہیں قاری ، امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” صحیح بات یہی ہے کہ اس سے مراد فرشتے ہیں جو اللہ تعالیٰ اور مخلوق کے درمیان سفیر ہیں “ ۔ سفیر اسے کہتے ہیں کہ جو صلح اور بھلائی کے لیے لوگوں میں کوشش کرتا پھرے ، عرب شاعر کے شعر میں یہی معنی پائے جاتے ہیں ۔ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” اس سے مراد فرشتے ہیں جو فرشتے اللہ کی جانب سے وحی وغیرہ لے کر آتے ہیں وہ ایسے ہی ہیں جیسے لوگوں میں صلح کرانے والے سفیر ہوتے ہیں “ ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4937) وہ ظاہر باطن میں پاک ہیں ، وجیہ ، خوش رو ، شریف اور بزرگ ظاہر میں ، اخلاق و افعال کے پاکیزہ باطن میں ۔ یہاں سے یہ بھی معلوم کرنا چاہیئے کہ قرآن کے پڑھنے والوں کو اعمال و اخلاق اچھے رکھنے چاہئیں ۔ مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ” جو قرآن کو پڑھے اور اس کی مہارت حاصل کرے وہ بزرگ لکھنے والے فرشتوں کے ساتھ ہو گا اور جو باوجود مشقت کے بھی پڑھے اسے دوہرا اجر ملے گا “ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4937) عبس
2 عبس
3 عبس
4 عبس
5 عبس
6 عبس
7 عبس
8 عبس
9 عبس
10 عبس
11 عبس
12 عبس
13 عبس
14 عبس
15 عبس
16 عبس
17 ریڑھ کی ہڈی اور تخلیق ثانی جو لوگ مرنے کے بعد جی اٹھنے کے انکاری تھے ان کی یہاں مذمت بیان ہو رہی ہے ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ” یعنی انسان پر لعنت ہو یہ کتنا بڑا ناشکر گزار ہے “ ، اور یہ بھی معنی بیان کئے گئے ہیں کہ عموماً تمام انسان جھٹلانے والے ہیں بلا دلیل محض اپنے خیال سے ایک چیز کو ناممکن جان کر باوجود علمی سرمایہ کی کمی کے جھٹ سے اللہ کی باتوں کی تکذیب کر دیتے ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسے اس جھٹلانے پر کون سی چیز آمادہ کرتی ہے ؟ اس کے بعد اس کی اصلیت جتائی جاتی ہے کہ وہ خیال کرے کہ کس قدر حقیر اور ذلیل چیز سے اللہ نے اسے بنایا ہے ، کیا وہ اسے دوبارہ پیدا کرنے پر قدرت نہیں رکھتا ؟ اس نے انسان کو منی کے قطرے سے پیدا کیا پھر اس کی تقدیر مقدر کی یعنی عمر ، روزی ، عمل اور نیک و بد ہونا لکھا ۔ پھر اس کے لیے ماں کے پیٹ سے نکلنے کا راستہ آسان کر دیا ، اور یہ بھی معنی ہیں کہ ہم نے اپنے دین کا راستہ آسان کر دیا یعنی واضح اور ظاہر کر دیا ۔ جیسے اور جگہ ہے «‏‏‏‏اِنَّا ہَدَیْنٰہُ السَّبِیْلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّاِمَّا کَفُوْرًا» ۱؎ (76-الإنسان:3) یعنی ’ ہم نے اسے راہ دکھائی پھر یا تو وہ شکر گزار بنے یا ناشکرا ‘ ۔ حسن اور ابن زید رحمہ اللہ علیہم اسی کو راجح بتاتے ہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» اس کی پیدائش کے بعد پھر اسے موت دی اور پھر قبر میں لے گیا ۔ عرب کا محاورہ ہے کہ وہ جب کسی کو دفن کریں تو کہتے ہیں «قبرت الرَّجُلَ» اور کہتے ہیں «اقبَرُہُ اللہ» اسی طرح کے اور بھی محاورے ہیں مطلب یہ ہے کہ ’ اب اللہ نے اسے قبر والا بنا دیا ‘ ۔ پھر جب اللہ چاہے گا اسے دوبارہ زندہ کر دے گا ، اسی کی زندگی کو «بعث» بھی کہتے ہیں اور «نشور» بھی ، جیسے اور جگہ ہے «‏‏‏‏وَمِنْ اٰیٰتِہٖٓ اَنْ خَلَقَکُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ اِذَآ اَنْتُمْ بَشَرٌ تَنْتَشِرُوْنَ»‏‏‏‏ ۱؎ (30-الروم:20) ’ اس کی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا پھر تم انسان بن کر اٹھ بیٹھے ‘ ۔ اور جگہ ہے «کَیْفَ نُنْشِزُھَا ثُمَّ نَکْسُوْھَا لَحْــمًا»‏‏‏‏ ۱؎ (2-البقرۃ:259) ’ ہڈیوں کو دیکھو کہ ہم کس طرح انہیں اٹھاتے بٹھاتے ہیں ، پھر کس طرح انہیں گوشت چڑھاتے ہیں ‘ ۔ ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ انسان کے تمام اعضاء وغیرہ کو مٹی کھا جاتی ہے مگر ریڑھ کی ہڈی کو نہیں کھاتی ، لوگوں نے کہا ، وہ کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” رائی کے دانے کے برابر ہے اسی سے پھر تمہاری پیدائش ہوگی “ } ۔ ۱؎ (اسنادہ ضعیف ولہ اصل صحیح:صحیح بخاری:4935) یہ حدیث بغیر سوال و جواب کی زیادتی کے بخاری مسلم میں بھی ہے کہ { ابن آدم گل سڑ جاتا ہے مگر ریڑھ کی ہڈی کہ اسی سے پیدا کیا گیا ہے اور اسی سے پھر ترکیب دیا جائے گا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4935) پھر اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’ جس طرح یہ ناشکرا اور بے قدر انسان کہتا ہے کہ اس نے اپنی جان و مال میں اللہ کا جو حق تھا وہ ادا کر دیا لیکن ایسا ہرگز نہیں ۔ بلکہ ابھی تو اس نے فرائض اللہ سے بھی سبکدوشی حاصل نہیں کی ‘ ۔ مجاہد رحمہ اللہ کا فرمان ہے کہ ” کسی شخص سے اللہ تعالیٰ کے فرائض کی پوری ادائیگی نہیں ہو سکتی “ ۔ حسن بصری رحمہ اللہ سے بھی ایسے ہی معنی مروی ہیں ، متقدمین میں سے میں نے تو اس کے سوا کوئی اور کلام نہیں پایا ، ہاں مجھے اس کے یہ معنی معلوم ہوتے ہیں کہ فرمان باری کا یہ مطلب ہے کہ پھر جب چاہے دوبارہ پیدا کرے گا ، اب تک اس کے فیصلے کے مطابق وقت نہیں آیا ۔ یعنی ابھی ابھی وہ ایسا نہیں کرے گا یہاں تک کہ مدت ختم ہو اور بنی آدم کی تقدیر پوری ہو ۔ ان کی قسمت میں اس دنیا میں آنا اور یہاں برا بھلا کرنا وغیرہ جو مقدر ہو چکا ہے ۔ وہ سب اللہ کے اندازے کے مطابق پورا ہو چکے اس وقت وہ خلاق کل دوبارہ زندہ کر دے گا اور جیسے کہ پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا اب دوسری دفعہ پھر پیدا کر دے گا ۔ ابن ابی حاتم میں وہب بن منبہ رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ عزیز علیہ السلام نے فرمایا ” میرے پاس ایک فرشتہ آیا اور اس نے مجھ سے کہا کہ قبریں زمین کا پیٹ ہیں اور زمین مخلوق کی ماں ہے جب کہ کل مخلوق پیدا ہو چکے گی پھر قبروں میں پہنچ جائے گی اس وقت دنیا کا سلسلہ ختم ہو جائے گا اور جو بھی زمین پر ہوں گے سب مر جائیں گے ۔ اور زمین میں جو کچھ ہے اسے زمین اگل دے گی اور قبروں میں جو مردے ہیں سب باہر نکال دئیے جائیں گے “ ۔ یہ قول ہم اپنی اس تفسیر کی دلیل میں پیش کر سکتے ہیں ۔ «وَاللہُ سُبْحَانَہُ وَ تَعَالیٰ اَعْلَمُ» پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ’ میرے اس احسان کو دیکھیں کہ میں نے انہیں کھانا دیا ، اس میں بھی دلیلیں ہے موت کے بعد جی اٹھنے کی کہ جس طرح خشک غیر آباد زمین سے ہم نے تروتازہ درخت اگائے اور ان سے اناج وغیرہ پیدا کر کے تمہارے لیے کھانا مہیا کیا اسی طرح گلی سڑی کھوکھلی اور چورا چورا ہڈیوں کو بھی ہم ایک روز زندہ کر دیں گے اور انہیں گوشت پوست پہنا کر دوبارہ تمہیں زندہ کر دیں گے ۔ تم دیکھ لو کہ ہم نے آسمان سے برابر پانی برسایا پھر اسے ہم نے زمین میں پہنچا کر ٹھہرا دیا وہ بیج میں پہنچا اور زمین میں پڑے ہوئے دانوں میں سرایت کی جس سے وہ دانے اگے ، درخت پھوٹا ، اونچا ہوا اور کھیتیاں لہلہانے لگیں ، کہیں اناج پیدا ہوا ، کہیں انگور اور کہیں ترکاریاں ‘ ۔ «حَبًّ» کہتے ہیں کہ ہر دانے کو ، «عِنَبً» کہتے ہیں انگور کو اور «قَضْبً» کہتے ہیں اس سبز چارے کو جسے جانور کھاتے ہیں اور زیتون پیدا کیا جو روٹی کے ساتھ سالن کا کام دیتا ہے ، جلایا جاتا ہے ، تیل نکالا جاتا ہے ، اور کھجوروں کے درخت پیدا کئے جو گدرائی ہوئی بھی کھائی جاتی ہیں ، تر بھی کھائی جاتی ہے اور خشک بھی کھائی جاتی ہے اور پکی بھی اور اس کا شیرہ اور سرکہ بھی بنایا جاتا ہے اور باغات پیدا کئے ۔ «غُلْبًا» کے معنی کھجوروں کے بڑے بڑے میوہ دار درخت ہیں ۔ «حَدَائِقَ» کہتے ہیں ہر اس باغ کو جو گھنا ، خوب ہرا بھرا ، گہرے سائے والا اور بڑے بڑے درختوں والا ہو ، موٹی گردن والے آدمی کو بھی عرب «اغلب» کہتے ہیں ، اور میوے پیدا کئے اور «أَبًّ» کہتے ہیں زمین کی اس سبزی کو جسے جانور کھاتے ہیں اور انسان اسے نہیں کھاتے ، جیسے گھاس پات وغیرہ ، «أَبًّ» جانوروں کے لیے ایسا ہی ہے جیسا انسان کے لیے «فَاکِہَۃً» یعنی پھل ، میوہ ۔ عطاء رحمہ اللہ کا قول ہے کہ ” زمین پر جو کچھ اگتا ہے اسے «أَبًّ» کہتے ہیں “ ۔ ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” سوائے میوؤں کے باقی سب «أَبًّ» ‏‏‏‏ہے “ ۔ ابو السائب رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” «أَبًّ» آدمی کے کھانے میں بھی آتا ہے اور جانور کے کھانے میں بھی “ ۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے اس بابت سوال ہوتا ہے تو فرماتے ہیں ” کون سا آسمان مجھے اپنے تلے سایہ دے گا اور کون سی زمین مجھے اپنی پیٹھ پر اٹھائے گی ، اگر میں کتاب اللہ میں کہوں جس کا مجھے علم نہ ہو “ ، لیکن یہ اثر منقطع ہے ، ابراہیم تیمی نے سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ کو نہیں پایا ۔ ہاں البتہ صحیح سند سے ابن جریر میں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے منبر پر سورۃ عبس پڑھی اور یہاں تک پہنچ کر کہا کہ «فَاکِہَۃً» کو تو ہم جانتے ہیں لیکن یہ «أَبًّ» ‏‏‏‏ کیا چیز ہے ؟ پھر خود ہی فرمانے لگے ” اس تکلیف کو چھوڑ “ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:451/12) اس سے مراد یہ ہے کہ اس کی شکل و صورت اور اس کی تعیین معلوم نہیں ورنہ اتنا تو صرف آیت کے پڑھنے سے ہی صاف طور پر معلوم ہو رہا ہے کہ یہ زمین سے اگنے والی ایک چیز ہے کیونکہ پہلے یہ لفظ موجود ہے «‏‏‏‏فَاَنْبَتْنَا فِیْہَا» ۱؎ ‏‏‏‏ (31-لقمان:10) ۔ پھر اللہ فرماتا ہے ’ تمہاری زندگی کے قائم رکھنے ، تمہیں فائدہ پہنچانے اور تمہارے جانووں کے لیے ہے کہ قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا اور تم اس سے فیضیاب ہوتے رہو گے ‘ ۔ عبس
18 عبس
19 عبس
20 عبس
21 عبس
22 عبس
23 عبس
24 عبس
25 عبس
26 عبس
27 عبس
28 عبس
29 عبس
30 عبس
31 عبس
32 عبس
33 ننگے پاؤں، ننگے بدن ، پسینے کا لباس سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ «صَّاخَّۃُ» قیامت کا نام ہے اور اس نام کی وجہ یہ ہے کہ اس کے نفخہ کی آواز اور ان کا شوروغل کانوں کے پردے پھاڑ دے گا ۔ اس دن انسان اپنے ان قریبی رشتہ داروں کو دیکھے گا لیکن بھاگتا پھرے گا کوئی کسی کے کام نہ آئے گا ، میاں بیوی کو دیکھ کر کہے گا کہ بتا تیرے ساتھ میں نے دنیا میں کیسا کچھ سلوک کیا وہ کہے گی کہ بے شک آپ نے میرے ساتھ بہت ہی اچھا سلوک کیا بہت پیار محبت سے رکھا یہ کہے گا کہ آج مجھے ضرورت ہے صرف ایک نیکی دے دو تاکہ اس آفت سے چھوٹ جاؤں ، تو وہ جواب دے گی کہ سوال تھوڑی سی چیز کا ہی ہے مگر کیا کروں یہی ضرورت مجھے درپیش ہے اور اسی کا خوف مجھے لگ رہا ہے میں تو نیکی نہیں دے سکتی ، بیٹا باپ سے ملے گا یہی کہے گا اور یہی جواب پائے گا ۔ عبس
34 عبس
35 عبس
36 عبس
37 1 صحیح حدیث میں شفاعت کا بیان فرماتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ” اولولعزم پیغمبروں سے لوگ شفاعت کی طلب کریں گے اور ان میں سے ہر ایک یہی کہے گا «نَفْسِی نَفْسِی» یہاں تک کہ عیسیٰ روح اللہ علیہ صلوات اللہ بھی یہی فرمائیں گے کہ آج میں اللہ کے سوائے اپنی جان کے اور کسی کے لیے کچھ نہ کہوں گا میں تو آج اپنی والدہ مریم علیہا السلام کیلئے بھی کچھ نہ کہوں گا جن کے بطن سے میں پیدا ہوا ہوں ، الغرض دوست دوست سے ، رشتہ دار رشتہ دار سے منہ چھپاتا پھرے گا ۔ ہر ایک آپا دھاپی میں لگا ہو گا ، کسی کو دوسرے کا ہوش نہ ہوگا “ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ” تم ننگے پیروں ننگے بدن اور بے ختنہ اللہ کے ہاں جمع کیے جاؤ گے “ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی صاحبہ رضی اللہ عنہا نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ! پھر تو ایک دوسروں کی شرمگاہوں پر نظریں پڑیں گی ؟ فرمایا : ” اس روز گھبراہٹ کا حیرت انگیز ہنگامہ ہر شخص کو مشغول کیے ہوئے ہو گا ، بھلا کسی کو دوسرے کی طرف دیکھنے کا موقعہ اس دن کہاں ؟ “ ۱؎ (نسائی فی التفسیر:667:صحیح) بعض روایات میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اسی آیت «لِکُلِّ امرِئٍ مِنہُم یَومَئِذٍ شَأنٌ یُغنیہِ» کی تلاوت فرمائی ۱؎ (سنن ترمذی:3332،قال الشیخ الألبانی:حسن صحیح) دوسری روایت میں ہے کہ یہ بیوی صاحبہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھیں (تفسیر ابن جریر الطبری:36392:ضعیف) اور روایت میں ہے کہ { ایک دن سیدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا : یا رسول اللہ ! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں میں ایک بات پوچھتی ہوں ذرا بتا دیجئیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اگر میں جانتا ہوں تو ضرور بتاؤں گا “ ۔ پوچھا : اے اللہ کے رسول! لوگوں کا حشر کس طرح ہو گا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ننگے پیروں اور ننگے بدن “ ، تھوڑی دیر کے بعد پوچھا : کیا عورتیں بھی اسی حالت میں ہوں گی ؟ فرمایا : ” ہاں “ ، یہ سن کر ام المؤمنین رضی اللہ عنہا افسوس کرنے لگیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” عائشہ ! اس آیت کو سن لو پھر تمہیں اس کا کوئی رنج و غم نہ رہے گا کہ کپڑے پہنے یا نہیں ؟ “ پوچھا : اے اللہ کے رسول! وہ آیت کون سی ہے فرمایا : ” «لِکُلِّ امْرِئٍ مِّنْہُمْ یَوْمَئِذٍ شَأْنٌ یُغْنِیہِ» “ (80-عبس:37) } ۱؎ (سنن نسائی:2083:صحیح) ایک روایت میں ہے کہ { ام المؤمنین سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا : یہ سن کر کہ لوگ اس طرح ننگے بدن ، ننگے پاؤں ، بے ختنہ جمع کیے جائیں گے پسینے میں غرق ہوں گے کسی کے منہ تک پسینہ پہنچ جائے گا اور کسی کے کانوں تک تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھ کر سنائی } ۔ ۱؎ (مستدرک حاکم:564/2:ضعیف) پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ’ وہاں لوگوں کے دو گروہ ہوں گے بعض تو وہ ہوں گے جن کے چہرے خوشی سے چمک رہے ہوں گے ، دل خوشی سے مطمئن ہوں گے ، منہ خوبصورت اور نورانی ہوں گے یہ تو جنتی جماعت ہے ، دوسرا گروہ جہنمیوں کا ہو گا ان کے چہرے سیاہ ہوں گے ، گرد آلود ہوں گے ‘ ۔ حدیث میں ہے کہ { ان کا پسینہ مثل لگام کے ہو رہا ہو گا پھر گردوغبار پڑا ہوا ہو گا } ۔ ۱؎ (ضعیف) ’ جن کے دلوں میں کفر تھا اور اعمال میں بدکاری تھی ‘ ، جیسے اور جگہ ہے «وَلَا یَلِدُوْٓا اِلَّا فَاجِرًا کَفَّارًا» ۱؎ (71-نوح:27) یعنی ’ ان کفار کی اولاد بھی بدکار کافر ہی ہوگی ‘ ۔ سورۃ عبس کی تفسیر ختم ہوئی ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» عبس
38 عبس
39 عبس
40 عبس
41 عبس
42 عبس
0 التكوير
1 یعنی سورج بے نور ہو گا یعنی سورج بے نور ہو گا ، جاتا رہے گا ، اوندھا کر کے لپیٹ کر زمین پر پھینک دیا جائے گا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ” سورج ، چاند اور ستاروں کو لپیٹ کر بے نور کر کے سمندروں میں ڈال دیا جائے گا اور پھر مغربی ہوائیں چلیں گی اور آگ لگ جائے گی “ ۔ ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ { اس کو تہہ کر کے جہنم میں ڈال دیا جائے گا } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:ضعیف) اور ایک حدیث میں سورج چاند کا ذکر بھی ہے لیکن وہ ضعیف ہے ۔ ۱؎ (مسند ابو یعلی:4116:ضعیف) صحیح بخاری میں یہ حدیث الفاظ کی تبدیلی سے مروی ہے ، اس میں ہے کہ { سورج اور چاند قیامت کے دن لپیٹ لیے جائیں گے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3200) امام بخاری رحمہ اللہ اسے «کِتَابِ بِدْءِ الْخَلْقِ» میں لائے ہیں لیکن یہاں لانا زیادہ مناسب تھا یا مطابق عادت وہاں اور یہاں دونوں جگہ لاتے جیسے امام صاحب کی عادت ہے ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے جب یہ حدیث بیان کی کہ قیامت کے دن یہ ہو گا ، تو حسن رحمہ اللہ کہنے لگے ان کا کیا گناہ ہے ؟ فرمایا ” میں نے حدیث کہی اور تم اس پر باتیں بناتے ہو ، سورج کی قیامت والے دن یہ حالت ہو گی ستارے سارے متغیر ہو کر جھڑ جائیں گے جیسے اور جگہ ہے «وَاِذَا الْکَوَاکِبُ انْـتَثَرَتْ» ۱؎ (82-الإنفطار:2) یہ بھی گدلے اور بے نور ہو کر بجھ جائیں گے ۔ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ” قیامت سے پہلے چھ نشانیاں ہوں گی لوگ اپنے بازاروں میں ہوں گے کہ اچانک سورج کی روشنی جاتی رہے گی اور پھر ناگہاں ستارے ٹوٹ ٹوٹ کر گرنے لگیں گے پھر اچانک پہاڑ زمین پر گر پڑیں گے اور زمین زور زور سے جھٹکے لینے لگے گی اور بے طرح ہلنے لگے گی بس پھر کیا انسان ، کیا جنات ، کیا جانور اور کیا جنگلی جانور سب آپس میں خلط ملط ہو جائیں گے ، جانور بھی جو انسانوں سے بھاگے پھرتے ہیں انسانوں کے پاس آ جائیں گے لوگوں کو اس قدر بدحواسی اور گھبراہٹ ہو گی کہ بہتر سے بہتر مال اونٹنیاں جو بیاہنے والیاں ہوں گی ان کی بھی خیر خبر نہ لیں گے ۔ جنات کہیں گے کہ ہم جاتے ہیں کہ تحقیق کریں کیا ہو رہا ہے لیکن وہ آئیں گے تو دیکھیں گے کہ سمندروں میں بھی آگ لگ رہی ہے ، اسی حال میں ایک دم زمین پھٹنے لگے گی اور آسمان بھی ٹوٹنے لگیں گے ، ساتوں زمینیں اور ساتوں آسمانوں کا یہی حال ہو گا ادھر سے ایک تند ہوا چلے گی جس سے تمام جاندار مر جائیں گے ۔ ۱؎ (ابن ابی حاتم) ایک اور روایت میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ” سارے ستارے اور جن جن کی اللہ کے سوا عبادت کی گئی ہے سب جہنم میں گرا دیئے جائیں صرف عیسیٰ علیہ السلام اور مریم سلام اللہ علیہا بچ رہیں گے اگر یہ بھی اپنی عبادت سے خوش ہوتے تو یہ بھی جہنم میں داخل کر دئیے جاتے “ } ۔ ۱؎ (ابن ابی حاتم:) پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل جائیں گے اور بے نام و نشان ہو جائیں گے ، زمین چٹیل اور ہموار میدان رہ جائے گی ، اونٹنیاں بے کار چھوڑ دی جائیں گی ، نہ ان کی کوئی نگرانی کرے گا نہ چرائے چگائے گا ، نہ دودھ نکالے گا نہ سواری لے گا ۔ «عِشَارُ» جمع ہے «عُشَرَاءُ» کی ، جو حاملہ اونٹنی دسویں مہینے میں لگ جائے اسے «عُشَرَاءُ» کہتے ہیں مطلب یہ ہے کہ گھبراہٹ اور بدحواسی بےچینی اور پریشانی اس قدر ہو گی کہ بہتر سے بہتر مال کی بھی پرواہ نہ رہے گی قیامت کی ان بلاؤں نے دل اڑا دیا ہو گا کلیجے منہ کو آئیں گے ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ قیامت کے دن ہو گا اور لوگوں کو اس سے کچھ سروکار نہ ہو گا ہاں ان کے دیکھنے میں یہ ہو گا ، اس قول کے قائل «عِشَارُ» کے کئی معنی بیان کرتے ہیں ، ایک تو یہ کہتے ہیں اس سے مراد بادل ہیں جو دنیا کی بربادی کی وجہ سے آسمان و زمین کے درمیان پھرتے پھریں گے ۔ بعض کہتے ہیں اس سے مراد وہ زمین ہے جس کا عشر دیا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں اس سے مراد گھر ہیں جو پہلے آباد تھے اب ویران ہیں ۔ امام قرطبی رحمہ اللہ ان اقوال کو بیان کر کے ترجیح اسی کو دیتے ہیں کہ مراد اس سے اونٹنیاں ہیں اور اکثر مفسرین کا یہی قول ہے اور میں تو یہی کہتا ہوں کہ سلف سے اور ائمہ سے اس کے سوا کچھ وارد ہی نہیں ہوا ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» اور وحشی جانور جمع کیے جائیں گے ، جیسے فرمان ہے «وَمَا مِنْ دَابَّۃٍ فِی الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ یَطِیرُ بِجَنَاحَیْہِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُکُمْ مَا فَرَّطْنَا فِی الْکِتَابِ مِنْ شَیْءٍ ثُمَّ إِلَیٰ رَبِّہِمْ یُحْشَرُونَ» ۱؎ ۱؎ (6-الأنعام:38) یعنی ’ زمین پر چلنے والے کل جانور اور ہوا میں اڑنے والے کل پرند بھی تمہاری طرح گروہ ہیں ، ہم نے اپنی کتاب میں کوئی چیز نہیں چھوڑی ، پھر یہ سب اپنے رب کی طرف جمع کیے جائیں گے ‘ ۔ سب جانداروں کا حشر اسی کے پاس ہو گا یہاں تک کہ مکھیاں بھی ، ان سب میں اللہ تعالیٰ انصاف کے ساتھ فیصلے کرے گا ، ان جانوروں کا حشر ان کی موت ہی ہے ، البتہ جن و انس اللہ کے سامنے کھڑے کیے جائیں گے اور ان سے حساب کتاب ہو گا ۔ ربیع بن خثیم نے کہا مراد وحشیوں کے حشر سے ان پر اللہ کا امر آنا ہے لیکن سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ سن کر فرمایا کہ ” اس سے مراد موت ہے ، یہ تمام جانور بھی ایک دوسرے کے ساتھ اور انسانوں کے ساتھ ہو جائیں گے “ ۔ خود قرآن میں اور جگہ ہے «وَالطَّیْرَ مَحْشُورَۃً کُلٌّ لَہُ أَوَّابٌ» ۱؎ (38-ص:19) یعنی ’ پرند جمع کیے ہوئے ‘ ، پس ٹھیک مطلب اس آیت کا بھی یہی ہے کہ ’ وحشی جانور جمع کیے جائیں گے ‘ ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ایک یہودی سے پوچھا : جہنم کہاں ہے ؟ اس نے کہا سمندر میں ، آپ نے فرمایا : ” میرے خیال میں یہ سچا ہے قرآن کہتا ہے «وَالْبَحْرِ الْمَسْجُوْرِ» ۱؎ (52-الطور:6) اور فرماتا ہے «وَاِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ» ۱؎ (81-التکویر:6) “ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ فرماتے ہیں ” اللہ تعالیٰ مغربی ہوائیں بھیجے گا وہ اسے بھڑکا دیں گی اور شعلے مارتی ہوئی آگ بن جائے گا “ ۔ «وَالْبَحْرِ الْمَسْجُوْرِ» ۱؎ (52-الطور:6) کی تفسیر میں اس کا مفصل بیان گزر چکا ہے ۔ سیدنا معاویہ بن سعید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” بحر روم میں برکت ہے یہ زمین کے درمیان میں ہے ، سب نہریں اس میں گرتی ہیں اور بحر کبیر بھی اس میں پڑتا ہے ، اس کے نیچے کنویں ہیں جن کے منہ تانبہ سے بند کیے ہوئے ہیں قیام کے دن وہ سلگ اٹھیں گے “ ۔ یہ اثر عجیب ہے اور ساتھ ہی غریب بھی ہے ۔ ہاں ابوداؤد میں ایک حدیث ہے کہ { سمندر کا سفر صرف حاجی کریں اور عمرہ کرنے والے یا جہاد کرنے والے غازی اس لیے کہ سمندر کے نیچے آگ ہے اور آگ کے نیچے پانی ہے } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2489،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) اس کا بیان بھی سورۃ فاطر کی تفسیر میں گزر چکا ہے ۔ «سُجِّرَتْ» کے معنی یہ بھی کیے گئے ہیں کہ خشک کر دیا جائے گا ، ایک قطرہ بھی باقی نہ رہے گا ۔ یہ معنی بھی کیے گئے ہیں کہ بہا دیا جائے گا اور ادھر ادھر بہ نکلے گا ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ ہر قسم کے لوگ یکجا جمع کر دئیے جائیں گے ‘ ۔ جیسے اور جگہ ہے «اُحْشُرُوا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا وَاَزْوَاجَہُمْ وَمَا کَانُوْا یَعْبُدُوْنَ» ۱؎ (37-الصافات:22) یعنی ’ ظالموں کو اور ان کے جوڑوں یعنی ان جیسوں کو جمع کرو ‘ ۔ حدیث میں ہے { ہر شخص کا اس قوم کے ساتھ حشر کیا جائے گا جو اس جیسے اعمال کرتی ہو ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے «وَکُنْتُمْ أَزْوَاجًا ثَلَاثَۃً» * «فَأَصْحَابُ الْمَیْمَنَۃِ مَا أَصْحَابُ الْمَیْمَنَۃِ» * «وَأَصْحَابُ الْمَشْأَمَۃِ مَا أَصْحَابُ الْمَشْأَمَۃِ» * «وَالسَّابِقُونَ السَّابِقُونَ» ۱؎ (56-الواقعۃ:10-7) یعنی ’ تم تین طرح کے گروہ ہو جاؤ گے کچھ وہ جن کے داہنے ہاتھ میں نامہ اعمال ہوں گے کچھ بائیں ہاتھ والے کچھ سبقت کرنے والے ‘ } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:36451:ضعیف) ابن ابی حاتم میں ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے خطبہ پڑھتے ہوئے اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا : ” ہر جماعت اپنے جیسوں میں مل جائیگی “ ۔ دوسری روایت میں ہے کہ ” وہ دو شخص جن کے عمل ایک جیسے ہوں وہ یا تو جنت میں ساتھ رہیں گے یا جہنم میں ساتھ جلیں گے “ ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے اس آیت کی تفسیر پوچھی گئی تو فرمایا : ” نیک نیکوں کے ساتھ مل جائیں گے اور بد بدوں کے ساتھ آگ میں ۔ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ لوگوں سے اس آیت کی تفسیر پوچھی تو سب خاموش رہے ، آپ نے فرمایا : ” لو میں بتاؤں ، آدمی کا جوڑا جنت میں اسی جیسا ہو گا اسی طرح جہنم میں بھی “ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ” مطلب اس سے یہی ہے کہ تین قسم کے لوگ ہو جائیں گے یعنی «أَصْحَابُ الْمَیْمَنَ» ، «اصحاب الشمال» اور «لسَّابِقُینَ» ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ہر قسم کے لوگ ایک ساتھ ہوں گے یہی قول امام ابن جریر رحمہ اللہ بھی پسند کرتے ہیں اور یہی ٹھیک بھی ہے ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ ” عرش کے پاس سے پانی کا ایک دریا جاری ہو گا جو چالیس سال تک بہتا رہے گا اور بڑی نمایاں چوڑان میں ہو گا ، اس سے تمام مرے ، سڑے ، گلے اگنے لگیں گے اس طرح کے ہو جائیں گے کہ جو انہیں پہچانتا ہو وہ اگر انہیں اب دیکھ لے تو بیک نگاہ پہچان لے پھر روحیں چھوڑی جائیں گی اور ہر روح اپنے جسم میں آ جائے گی یہی معنی ہیں آیت «وَاِذَا النٰفُوْسُ زُوِّجَتْ» ۱؎ (81-التکویر:7) کے یعنی ’ روحیں جسموں میں ملا دی جائیں گی ‘ ۔ اور یہ معنی بھی بیان کیے گئے ہیں کہ ’ مومنوں کا جوڑا حوروں سے لگایا جائے گا اور کافروں کا شیطانوں کے ساتھ ‘ ۔ ( تذکرہ قرطبی ) پھر ارشاد ہوتا ہے «وَاِذَا الْمَوْءٗدَۃُ سُیِٕلَتْ» ۱؎ (81-التکویر:8) جمہور کی قراءت یہی ہے اہل جاہلیت لڑکیوں کو ناپسند کرتے تھے اور انہیں زندہ درگور کر دیا کرتے تھے ، ان سے قیامت کے دن سوال ہو گا کہ یہ کیوں قتل کی گئیں ؟ تاکہ ان کے قاتلوں کو زیادہ ڈانٹ ڈپٹ اور شرمندگی ہو اور یہ بھی سمجھ لیجئے کہ جب مظلوم سے سوال ہوا تو ظالم کا تو کہنا ہی کیا ہے ؟ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ خود پوچھیں گی کہ انہیں کس بنا پر زندہ درگور کیا گیا ؟ اس کے متعلق احادیث سنئے مسند احمد میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ” میں نے قصد کیا کہ لوگوں کو حالت حمل کی مجامعت سے روک دوں لیکن میں نے دیکھا کہ رومی اور فارسی یہ کام کرتے ہیں اور ان کی اولاد کو اس سے کچھ نقصان نہیں پہنچتا “ ۔ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عزل کے بارے میں سوال کیا یعنی بروقت نطفہ کو باہر ڈال دینے کے بارے میں ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ درپردہ زندہ گاڑ دینا ہے اور اسی کا بیان «وَإِذَا الْمَوْءُودَۃُ سُئِلَتْ» (81-التکویر:8) میں ہے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1442:صحیح) سیدنا سلمہ بن یزید رضی اللہ عنہ اور ان کے بھائی سرکار نبوت میں حاضر ہو کر سوال کرتے ہیں کہ ہماری ماں امیر زادی تھیں وہ صلہ رحمی کرتی تھیں مہمان نوازی کرتی تھیں اور بھی نیک کام بہت کچھ کرتی تھیں ، لیکن جاہلیت میں ہی مر گئی ہیں تو کیا اس کے یہ نیک کام اسے کچھ نفع دیں گے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” نہیں “ ، انہوں نے کہا کہ اس نے ہماری ایک بہن کو زندہ دفن کر دیا ہے کیا وہ بھی اسے کچھ نفع دے گی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” زندہ گاڑی ہوئی اور زندہ گاڑنے والی جہنم میں ہیں ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ اسلام کو قبول کرلے “ ۔ ۱؎ (مسند احمد:478/3:صحیح) ابن ابی حاتم میں ہے { زندہ دفن کرنے والی اور جسے دفن کیا ہے دونوں جہنم میں ہیں } ایک صحابیہ رضی اللہ عنہا کے سوال پر کہ جنت میں کون جائے گا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” نبی ، شہید ، بچے اور زندہ درگور کی ہوئی “ ۔ ۱؎ (مسند احمد:409/5:صحیح) یہ حدیث مرسل ہے ، حسن رحمہ اللہ سے جسے بعض محدثین نے قبولیت کا مرتبہ دیا ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ” مشرکوں کے چھوٹی عمر میں مرے ہوئے بچے جنتی ہیں جو انہیں جہنمی کہے وہ جھوٹا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے «وَاِذَا الْمَوْءٗدَۃُ سُیِٕلَتْ» “ (81-التکویر:8) (ابن ابی حاتم) { سیدنا قیس بن عاصم رضی اللہ عنہ سوال کرتے ہیں کہ یا رسول اللہ ! میں نے جاہلیت کے زمانے میں اپنی بچیوں کو زندہ دبا دیا ہے میں کیا کروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ہر ایک کے بدلے ایک غلام آزاد کرو “ ، انہوں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! غلام والا تو میں ہوں نہیں ، البتہ میرے پاس اونٹ ہیں فرمایا : ” ہر ایک کے بدلے ایک اونٹ اللہ کے نام پر قربان کرو “ ۔ ۱؎ (مسند بزار:2280:حسن) دوسری روایت میں ہے کہ میں نے اپنی آٹھ لڑکیاں اس طرح زندہ دبا دی ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اگر چاہے تو یوں کر ۔ ۱؎ (ابن مندہ:3/353:حسن) اور روایت میں ہے کہ { بارہ تیرہ لڑکیاں زندہ دفن کر دی ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ان کی گنتی کے مطابق غلام آزاد کرو “ ، انہوں نے کہا بہت بہتر میں یہی کروں گا ، دوسرے سال وہاں ایک سو اونٹ لے کر آئے اور کہنے لگے ، اے اللہ کے رسول ! یہ میری قوم کا صدقہ ہے جو اس کے بدلے ہے جو میں نے مسلمانوں کے ساتھ کیا ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم ان اونٹوں کو لے جاتے تھے اور ان کا قیسیہ رکھ چھوڑا تھا } ۔ ۱؎ (طبرانی:138/18،قال الشیخ زبیرعلی زئی:ضعیف) پھر ارشاد ہے کہ ’ نامہ اعمال بانٹے جائیں گے کسی کے داہنے ہاتھ میں اور کسی کے بائیں ہاتھ میں ، اے ابن آدم ! تو لکھوا رہا ہے جو لپیٹ کر پھیلا کر تجھے دیا جائے گا دیکھ لے گا کہ کیا لکھوا کے لایا ہے ، آسمان گھسیٹ لیا جائے گا اور کھینچ لیا جائے گا اور سمیٹ لیا جائے گا اور برباد ہو جائے گا جہنم بھڑکائی جائے گی ، اللہ کے غضب اور بنی آدم کے گناہوں سے اس کی آگ تیز ہو جائے گی ، جنت جنتیوں کے پاس آ جائے گی ، جب یہ تمام کام ہو چکیں گے اس وقت ہر شخص جان لے گا کہ اس نے اپنی دنیا کی زندگی میں کیا کچھ اعمال کیے تھے ، وہ سب عمل اس کے سامنے موجود ہوں گے ‘ ۔ جیسے اور جگہ ہے «یَوْمَ تَجِدُ کُلٰ نَفْسٍ مَا عَمِلَتْ مِنْ خَیْرٍ مُحْضَرًا وَمَا عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ تَوَدٰ لَوْ أَنَّ بَیْنَہَا وَبَیْنَہُ أَمَدًا بَعِیدًا» ۱؎ (3-آل عمران:30) الخ یعنی ’ جس دن ہر شخص اپنے کیے ہوئے اعمال کو پا لے گا نیک ہیں تو سامنے دیکھ لے گا اور بد ہیں تو اس دن وہ آرزو کرے گا کہ کاش ! اس کے اور اس کے درمیان بہت دوری ہوتی ‘ ۔ اور جگہ ہے «یُنَبَّأُ الْإِنْسَانُ یَوْمَئِذٍ بِمَا قَدَّمَ وَأَخَّرَ» ۱؎ (75-القیامۃ:13) یعنی ’ اس دن انسان کو اس کے تمام اگلے پچھلے اعمال سے تنبیہہ کی جائے گی ‘ ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اس سورت کو سنتے رہے اور اس کو سنتے ہی فرمایا : ” اگلی تمام باتیں اسی لیے بیان ہوئی تھیں “ ۔ التكوير
2 التكوير
3 التكوير
4 التكوير
5 التكوير
6 التكوير
7 التكوير
8 التكوير
9 التكوير
10 التكوير
11 التكوير
12 التكوير
13 التكوير
14 التكوير
15 ستارے، نیل گائے اور ہرن سیدنا عمرو بن حریث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ { میں نے صبح کی نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سورۃ کی تلاوت کرتے ہوئے سنا اس نماز میں میں بھی مقتدیوں میں شامل تھا } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:456) یہ ستاروں کی قسمیں کھائی گئی ہیں ، جو دن کے وقت پیچھے ہٹ جاتے ہیں یعنی چھپ جاتے ہیں ، اور رات کو ظاہر ہوتے ہیں ، سیدنا علی رضی اللہ عنہ یہی فرماتے ہیں اور بھی صحابہ تابعین وغیرہ سے اس کی یہی تفسیر مروی ہے - بعض ائمہ نے فرمایا ہے طلوع کے وقت ستاروں کو «خُنَّسِ» کہا جاتا ہے اور اپنی اپنی جگہ پر انہیں «جَوَارِ» کہا جاتا ہے اور چھپ جانے کے وقت انہیں «کُُنَّسِ» کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے اس سے مراد جنگلی گائے ہے ، یہ بھی مروی ہے کہ مراد ہرن ہے ۔ ابراہیم رحمہ اللہ نے مجاہد رحمہ اللہ سے اس کے معنی پوچھے تو مجاہد رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ” ہم نے اس بارے میں کچھ نہیں سنا البتہ لوگ کہتے ہیں کہ اس سے مراد ستارے ہیں “ ۔ انہوں نے پھر سوال کیا کہ جو تم نے سنا ہو وہ کہو تو فرمایا ” ہم سنتے ہیں کہ اس سے مراد نیل گائے ہے ، جبکہ وہ اپنی جگہ چھپ جائے “ ۔ ابراہیم رحمہ اللہ نے فرمایا ” وہ مجھ پر جھوٹ باندھتے ہیں ، جیسے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے «أَسْفَلَ» کو اعلیٰ اور اعلی کو «أَسْفَلَ» کا ضامن بنایا “ ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ نے اس میں سے کسی کی تعیین نہیں کی اور فرمایا ہے ” ممکن ہے تینوں چیزیں مراد ہوں یعنی ستارے ، نیل گائے اور ہرن “ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:12/467) «عَسْعَسَ» کے معنی ہیں اندھیری والی ہوئی اور اٹھ کھڑی ہوئی ، اور لوگوں کو ڈھانپ لیا اور جانے لگی ۔ صبح کی نماز کے وقت سیدنا علی رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ نکلے اور فرمانے لگے کہ ” وتر کے بارے میں پوچھنے والے کہاں ہیں ؟ “ پھر یہ آیت پڑھی ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ اسی کو پسند فرماتے ہیں کہ معنی یہ ہیں کہ رات جب جانے لگے کیونکہ اس کے مقابلہ میں ہے کہ جب صبح چمکنے لگے ۔ شاعروں نے «عَسْعَسَ» کو «أَدْبَرَ» کے معنی میں باندھا ہے میرے نزدیک ٹھیک معنی یہ ہیں کہ قسم ہے رات کی جب وہ آئے اور اندھیرا پھیلائے اور قسم ہے دن کی جب وہ آئے اور روشنی پھیلائے ۔ جیسے اور جگہ ہے «‏‏‏‏وَاللَّیْلِ إِذَا یَغْشَیٰ وَالنَّہَارِ إِذَا تَجَلَّیٰ»‏‏‏‏ ۱؎ (92-اللیل:2،1) اور جگہ ہے «وَالضٰحَیٰ وَاللَّیْلِ إِذَا سَجَیٰ» ۱؎ (93-الضحی:2،1) اور جگہ ہے «‏‏‏‏فَالِقُ الْاِصْبَاحِ وَجَعَلَ الَّیْلَ سَکَنًا وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْـبَانًا ذٰلِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ» ۱؎ (6-الأنعام:96) اور بھی اس قسم کی آیتیں بہت سی ہیں مطلب سب کا یکساں ہے ، ہاں بیشک اس لفظ کے معنی پیچھے ہٹنے کے ہی ہیں ۔ علماء اصول نے فرمایا ہے کہ یہ لفظ آگے آنے اور پیچھے جانے کے دونوں معنی میں آتا ہے ۔ اس بناء پر دونوں معنی ٹھیک ہو سکتے ہیں ۔ «واللہ اعلم» ’ اور قسم ہے صبح کی جبکہ وہ طلوع ہو اور روشنی کے ساتھ آئے ‘ ۔ پھر ان قسموں کے بعد فرمایا ہے کہ ’ یہ قرآن ایک بزرگ ، شریف ، پاکیزہ رو ، خوش منظر فرشتے کا کلام ہے [ یعنی جبرائیل علیہ السلام کا ] ، وہ قوت والے ہیں ‘ ۔ جیسے کہ اور جگہ ہے «عَلَّمَہُ شَدِیدُ الْقُوَیٰ ذُو مِرَّۃٍ فَاسْتَوَیٰ»‏‏‏‏ ۱؎ (53-النجم:6،5) یعنی ’ سخت مضبوط اور سخت پکڑ اور فعل والا فرشتہ ، وہ اللہ عز و جل کے پاس جو عرش والا ہے بلند پایہ اور ذی مرتبہ ہے ‘ ۔ وہ نور کے ستر پردوں میں جا سکتے ہیں اور انہیں عام اجازت ہے ۔ ان کی بات وہاں سنی جاتی ہے ، برتر فرشتے ان کے فرمانبردار ہیں ، آسمانوں میں ان کی سرداری ہے اور فرشتے ان کے تابع فرمان ہیں ۔ وہ اس پیغام رسانی پر مقرر ہیں کہ اللہ کا کلام اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچائیں ، یہ فرشتے اللہ کے امین ہیں ۔ التكوير
16 التكوير
17 التكوير
18 التكوير
19 التكوير
20 التكوير
21 1 مطلب یہ ہے کہ فرشتوں میں سے جو اس رسالت پر مقرر ہیں وہ بھی پاک صاف ہیں اور انسانوں میں جو رسول مقرر ہیں وہ بھی پاک اور برتر ہیں ۔ اس لیے اس کے بعد فرمایا ، ’ تمہارے ساتھی یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم دیوانے نہیں ، یہ پیغمبر اس فرشتے کو اس کی اصلی صورت میں بھی دیکھ چکے ہیں جبکہ وہ اپنے چھ سو پروں سمیت ظاہر ہوئے تھے ‘ ۔ یہ واقعہ بطحاء کا ہے اور یہ پہلی مرتبہ دیکھنا تھا آسمان کے کھلے کناروں پر یہ دیدار جبرائیل علیہ السلام حاصل ہوا تھا ، اسی کا بیان اس آیت میں ہے «عَلَّمَہُ شَدِیدُ الْقُوَیٰ ذُو مِرَّۃٍ فَاسْتَوَیٰ وَہُوَ بِالْأُفُقِ الْأَعْلَیٰ ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّیٰ فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ أَوْ أَدْنَیٰ فَأَوْحَیٰ إِلَیٰ عَبْدِہِ مَا أَوْحَیٰ» ۱؎ (53-النجم:10-5) یعنی ’ انہیں ایک فرشتہ تعلیم کرتا ہے جو بڑا طاقتور ہے قوی ہے ، جو اصلی صورت پر آسمان کے بلند و بالا کناروں پر ظاہر ہوا تھا پھر وہ نزدیک آیا اور بہت قریب آ گیا صرف دو کمانوں کا فاصلہ رہ گیا بلکہ اس سے بھی کم پھر جو وحی اللہ نے اپنے بندے پر نازل کرنی چاہی نازل فرمائی ‘ ۔ اس آیت کی تفسیر سورۃ النجم میں گزر چکی ہے ۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورت معراج سے پہلے اتری ہے اس لیے کہ اس میں صرف پہلی مرتبہ کا دیکھنا ذکر ہوا ہے اور دوبارہ کا دیکھنا اس آیت میں مذکور ہے «وَلَقَدْ رَآہُ نَزْلَۃً أُخْرَیٰ عِندَ سِدْرَۃِ الْمُنتَہَیٰ عِندَہَا جَنَّۃُ الْمَأْوَیٰ إِذْ یَغْشَی السِّدْرَۃَ مَا یَغْشَیٰ» ۱؎ (53-النجم:16-13) یعنی ’ انہوں نے اس کو ایک مرتبہ اور بھی سدرۃ المنتہیٰ کے پاس دیکھا ہے جس کے قریب جنت الماویٰ ہے ۔ جبکہ اس درخت سدرہ کو ایک عجیب و غریب چیز چھپائے ہوئی تھی ‘ ۔ اس آیت میں دوسری مرتبہ کے دیکھنے کا ذکر ہے ۔ یہ سورت واقعہ معراج کے بعد نازل ہوئی تھی ۔ «‏‏‏‏بِضَنِینٍ» کی دوسری قرأت «بِـظَنِـیْنٍ» بھی مروی ہے ۔ یعنی ان پر کوئی تہمت نہیں ، اور «ضاد» سے جب پڑھو تو معنی ہوں گے یہ بخیل نہیں ہیں ، بلکہ ہر شخص کو جو غیب کی باتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی طرف سے معلوم کرائی جاتی ہیں یہ سکھا دیا کرتے ہیں یہ دونوں قراءتیں مشہور ہیں ، اور صحیح ہیں ۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ تو تبلیغ احکام میں کمی کی ، نہ تہمت لگی ، یہ قرآن شیطان مردود کا کلام نہیں ، نہ شیطان اسے لے سکے ، نہ اس کے مطلب کی یہ چیز ، نہ اس کے قابل ۔ جیسے اور جگہ ہے «وَمَا تَنَزَّلَتْ بِہِ الشَّیَاطِینُ وَمَا یَنبَغِی لَہُمْ وَمَا یَسْتَطِیعُونَ إِنَّہُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ» ۱؎ (26-الشعراء:210-212) ’ نہ اسے لے کر شیطان اترے نہ انہیں یہ لائق ہے نہ اس کی انہیں طاقت ہے وہ تو اس کے سننے سے بھی محروم اور دور ہے ‘ ۔ پھر فرمایا ’ تم کہاں جا رہے ہو ؟ ‘ یعنی قرآن کی حقانیت اس کی صداقت ظاہر ہو چکنے کے بعد بھی تم کیوں اسے جھٹلا رہے ہو ؟ تمہاری عقلیں کہاں جاتی رہیں ؟ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس جب بنو حنفیہ قبیلے کے لوگ مسلمان ہو کر حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا ” مسلمیہ جس نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کر رکھا ہے جسے تم آج تک مانتے رہے اس نے جو کلام گھڑ رکھا ہے ذرا اسے تو سناؤ “ ۔ جب انہوں نے سنایا تو دیکھا کہ نہایت رکیک الفاظ ہیں بلکہ بکواس محض ہے تو ، آپ نے فرمایا ” تمہاری عقلیں کہاں جاتی رہیں ؟ ذرا تو سوچو کہ ایک فضول بکواس کو تم کلام اللہ جانتے رہے ناممکن ہے کہ ایسا بے معنی اور بے نور کلام اللہ کا کلام ہو “ ۔ یہ بھی مطلب بیان کیا گیا ہے کہ تم کتاب اللہ سے اور اطاعت اللہ سے کہاں بھاگ رہے ہو ؟ پھر فرمایا ’ یہ قرآن تمام لوگوں کے لیے پند و نصیحت ہے ‘ ۔ ہر ایک ہدایت کے طالب کو چاہیئے کہ اس قرآن کا عامل بن جائے یہی نجات اور ہدایت کا کفیل ہے ، اس کے سوا دوسرے کلام میں ہدایت نہیں ، تمہاری چاہتیں کام نہیں آتیں کہ جو چاہے گمراہ ہو جائے بلکہ یہ سب کچھ منجانب اللہ ہے وہ رب العالمین جو چاہے کرتا ہے اسی کی چاہت چلتی ہے ، اس سے اگلی آیت کو سن کر ابوجہل نے کہا تھا کہ پھر تو ہدایت و ضلالت ہمارے بس کی بات ہے اس کے جواب میں یہ آیت اتری ۔ سورۃ التکویر کی تفسیر ختم ہوئی ۔ «فالحمداللہ» التكوير
22 التكوير
23 التكوير
24 التكوير
25 التكوير
26 التكوير
27 التكوير
28 التكوير
29 التكوير
0 الإنفطار
1 اور قبریں پھوٹ پڑیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’ قیامت کے دن آسمان ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گے ‘ ۔ جیسے فرمایا «السَّماءُ مُنفَطِرٌ بِہِ» ۱؎ (73-المزمل:18) ’ اور ستارے سب کے سب گر پڑیں گے اور کھاری اور میٹھے سمندر آپس میں خلط ملط ہو جائیں گے ۔ اور پانی سوکھ جائے گا قبریں پھٹ جائیں گی ، ان کے شق ہونے کے بعد مردے بھی جی اٹھیں گے ، پھر ہر شخص اپنے اگلے پچھلے اعمال کو بخوبی جان لے گا ‘ ۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو دھمکاتا ہے کہ ’ تم کیوں مغرور ہو گئے ہو ؟ ‘ یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کا جواب طلب کرتا ہو یا سکھاتا ہو ، بعض نے یہ بھی کہا ہے بلکہ انہوں نے جواب دیا ہے کہ اللہ کے کرم نے غافل کر رکھا ہے ، یہ معنی بیان کرنے غلط ہیں ۔ صحیح مطلب یہی ہے کہ ’ اے ابن آدم ! اپنے باعظمت اللہ سے تو نے کیوں بے پرواہی برت رکھی ہے ، کس چیز نے تجھے اس کی نافرمانی پر اکسا رکھا ہے ؟ اور کیوں تو اس کے مقابلے پر آمادہ ہو گیا ہے ؟ ‘ حدیث شریف میں ہے کہ { قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائے گا ، اے ابن آدم ! تجھے میری جانب سے کسی چیز نے مغرور کر رکھا تھا ؟ ابن آدم ! بتا تو نے میرے نبیوں کو کیا جواب دیا ؟ } سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو اس آیت کی تلاوت کرتے ہوئے سنا تو فرمایا کہ ” انسانی جہالت نے اسے غافل بنا رکھا ہے “ ، سیدنا ابن عمر ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہم وغیرہ سے بھی یہی مروی ہے ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” اسے بہکانے والا شیطان ہے “ ۔ فضیل ابن عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” اگر مجھ سے یہ سوال ہو تو میں جواب دوں گا کہ تیرے لٹکائے ہوئے پروں نے “ ۔ ابوبکر وراق رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” میں تو کہوں گا کہ «الْکَرِیمِ» کے کرم نے بے فکر کر دیا “ ۔ بعض سخن شناس فرماتے ہیں کہ یہاں پر «الْکَرِیمِ» کا لفظ لانا گویا جواب کی طرف اشارہ سکھانا ہے ، لیکن یہ قول کچھ فائدے مند نہیں ، بلکہ مطلب صحیح یہ ہے کہ کرم والوں کو اللہ کے کرم کے مقابلہ میں بدافعال اور برے اعمال نہ کرنے چاہئیں ۔ سیدنا کلبی اور مقاتل رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ” اخنس بن شریق کے بارے میں یہ نازل ہوئی ہے ۔ اس خبیث نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مارا تھا اور اسی وقت چونکہ اس پر کچھ عذاب نہ آیا تو وہ پھول گیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی “ ۔ ۱؎ (بغوی:4/424:ضعیف) پھر فرماتا ہے ’ وہ اللہ جس نے تجھے پیدا کیا ، پھر درست بنایا ، پھر درمیانہ قد و قامت بخشا ، خوش شکل اور خوبصورت بنایا ‘ ۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ہتھیلی میں تھوکا پھر اس پر اپنی انگلی رکھ کر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ، اے ابن آدم ! کیا تو مجھے عاجز کر سکتا ہے ؟ حالانکہ میں نے تجھے اس جیسی چیز سے پیدا کیا ہے پھر ٹھیک ٹھاک کیا ، پھر صحیح قامت بنایا ، پھر تجھے پہنا اوڑھا کر چلنا پھرنا سکھایا ، آخر کار تیرا ٹھکانہ زمین کے اندر ہے تو نے خوب دولت جمع کی اور میری راہ میں دینے سے باز رہا یہاں تک کہ جب دم حلق میں آ گیا تو کہنے لگا میں صدقہ کرتا ہوں ۔ بھلا اب صدقے کا وقت کہاں ؟ } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:2707،قال الشیخ الألبانی:حسن) جس صورت میں چاہا ترکیب دی یعنی باپ کی ، ماں کی ، ماموں کی ، چچا کی صورت پر پیدا کیا ۔ { ایک شخص سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تیرے ہاں بچہ کیا ہو گا ؟ “ اس نے کہا : یا لڑکا یا لڑکی ، فرمایا : ” کس کے مشابہ ہو گا ؟ “ کہا : یا میرے یا اس کی ماں کے ، فرمایا ! : ” خاموش ایسا نہ کہہ ، نطفہ جب رحم میں ٹھہرتا ہے تو آدم تک کا نسب اس کے سامنے ہوتا ہے “ ۔ پھر آپ نے «فِی أَیِّ صُورَۃٍ مَّا شَاءَ رَکَّبَکَ» (82-الإنفطار:2) پڑھی اور فرمایا : ” جس صورت میں اس نے چاہا تجھے چلایا “ } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:36567:ضعیف) یہ حدیث اگر صحیح ہوتی تو آیت کے معنی کرنے کے لیے کافی تھی لیکن اس کی سند ثابت نہیں ہے ۔ مظہرین ہثیم جو اس کے راوی ہیں یہ متروک الحدیث ہیں ، ان پر اور جرح بھی ہے ۔ بخاری و مسلم کی ایک اور حدیث میں ہے کہ { ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا میری بیوی کو جو بچہ پیدا ہوا ہے وہ سیاہ فام ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تیرے پاس اونٹ بھی ہیں ؟ “ کہا : جی ہاں ، فرمایا : ” کس رنگ کے ؟ “ کہا : سرخ رنگ کے ، فرمایا : ” ان میں کوئی چتکبرا بھی ہے ؟ “ کہا : ہاں ، فرمایا : ” اس رنگ کا بچہ سرخ نر و مادہ کے درمیان کیسے پیدا ہو گیا ؟ “ کہنے لگا شاید اس کی نسل کی طرف کوئی رگ کھینچ لے گئی ہو ، آپ نے فرمایا : ” اسی طرح تیرے بچے کے سیاہ رنگ کے ہونے کی وجہ بھی شاید یہی ہو “ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5305) عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں اگر چاہے بندر کی صورت بنا دے اگر چاہے سور کی ۔ ابوصالح رحمہ اللہ فرماتے ہیں اگر چاہے کتے کی صورت میں بنا دے اگر چاہے گدھے کی اگر چاہے سور کی ، قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ سب سچ ہے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے لیکن وہ مالک ہمیں بہترین ، عمدہ ، خوش شکل اور دل لبھانے والی پاکیزہ پاکیزہ شکلیں صورتیں عطا فرماتا ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ اس کریم اللہ کی نافرمانیوں پر تمہیں آمادہ کرنے والی چیز صرف یہی ہے کہ تمہارے دلوں میں قیامت کی تکذیب ہے تم اس کا آنا ہی برحق نہیں جانتے اس لیے اس سے بےپرواہی برت رہے ہو ، تم یقین مانو کہ تم پر بزرگ محافظ اور کاتب فرشتے مقرر ہیں تمہیں چاہیئے کہ ان کا لحاظ رکھو وہ تمہارے اعمال لکھ رہے ہیں ، تمہیں برائی کرتے ہوئے شرم آنی چاہیئے ۔ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ کے یہ بزرگ فرشتے تم سے جنابت اور پاخانہ کی حالت کے سوا کسی وقت الگ نہیں ہوتے ۔ تم انکا احترام کرو ، غسل کے وقت بھی پردہ کر لیا کرو ، دیوار سے یا اوٹ سے ہی سہی یہ بھی نہ تو اپنے کسی ساتھی کو کھڑا کر لیا کرو تاکہ وہی پردہ ہو جائے } ۔ ۱؎ (تفسیر قرطبی:19/248:مرسل) [ ابن ابی حاتم ] بزار کی اس حدیث کے الفاظ میں کچھ تغیر و تبدل ہے اور اس میں یہ بھی ہے کہ { اللہ تعالیٰ تمہیں ننگا ہونے سے منع کرتا ہے ، اللہ کے ان فرشتوں سے شرماؤ ، اس میں یہ بھی ہے کہ غسل کے وقت بھی یہ فرشتے دور ہو جاتے ہیں } ۔ ۱؎ (مختصر زوائد البزار:1/181:اسناد ضعیف) ایک حدیث میں ہے کہ { جب یہ کراماً کاتبین بندے کے روزانہ اعمال اللہ کے سامنے پیش کرتے ہیں تو اگر شروع اور آخر میں استغفار ہو تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کے درمیان کی سب خطائیں میں نے اپنے غلام کی بخش دیں } ۔ ۱؎ (مسند بزار:3252،،قال الشیخ زبیرعلی زئی:اسناد ضعیف) ایک اور ضعیف حدیث میں ہے کہ { اللہ تعالیٰ کے بعض فرشتے انسانوں کو اور ان کے اعمال جو جانتے پہنچانتے ہیں جب کسی بندے کو نیکی میں مشغول پاتے ہیں تو آپس میں کہتے ہیں کہ آج کی رات فلاں شخص نجات پا گیا فلاح حاصل کر گیا اور اس کے خلاف دیکھتے ہیں تو آپس میں ذکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آج کی رات فلاں ہلاک ہوا } ۔ ۱؎ (مسند بزار:3214:ضعیف) الإنفطار
2 الإنفطار
3 الإنفطار
4 الإنفطار
5 الإنفطار
6 الإنفطار
7 الإنفطار
8 الإنفطار
9 الإنفطار
10 الإنفطار
11 الإنفطار
12 الإنفطار
13 ابرار کا کردار جو لوگ اللہ تعالیٰ کے اطاعت گزار فرمانبردار ہیں، گناہوں سے دور رہتے ہیں، انہیں اللہ تعالیٰ جنت کی خوشخبری دیتا ہے۔ { حدیث میں ہے کہ انہیں «ابرار» اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ اپنے ماں باپ کے فرمانبردار تھے اور اپنی اولاد کے ساتھ نیک سلوک کرتے تھے } ۔ ۱؎ (سلسلۃ احادیث ضعیفہ البانی:3221) بدکار لوگ دائمی عذاب میں پڑیں گے ، قیامت کے دن جو حساب کا اور بدلے کا دن ہے ان کا داخلہ اس میں ہو گا ایک ساعت بھی ان پر عذاب ہلکا نہ ہو گا ، نہ موت آئے گی ، نہ راحت ملے گی ، نہ ایک ذرا سی دیر اس سے الگ ہوں گے ۔ پھر قیامت کی بڑائی اور اس دن کی ہولناکی ظاہر کرنے کے لیے دو دو بار فرمایا کہ تمہیں کس چیز نے معلوم کرایا کہ وہ دن کیسا ہے ؟ پھر خود ہی بتلایا کہ اس دن کوئی کسی کو کچھ بھی نفع نہ پہنچا سکے گا ، نہ عذاب سے نجات دلوا سکے گا ۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ کسی کی سفارش کی اجازت خود ہی اللہ تبارک و تعالیٰ عطا فرمائے ۔ اس موقعہ پر یہ حدیث وارد کرنی بالکل مناسب ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اے بنو ہاشم ! اپنی جانوں کو جہنم سے بچانے کے لیے نیک اعمال کی تیاریاں کر لو میں تمہیں اس دن اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچانے کا اختیار نہیں رکھتا “ } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:204) یہ حدیث سورۃ الشعراء کی تفسیر میں گزر چکی ہے ۔ یہاں بھی فرمایا کہ اس دن امر محض اللہ کا ہی ہو گا ۔ جیسے اور جگہ ہے «لِمَنِ المُلکُ الیَومَ لِلہِ الواحِدِ القَہّارِ» ۱؎ (40-غافر:16) اور جگہ ارشاد ہے «الْمُلْکُ یَوْمَئِذٍ الْحَقٰ لِلرَّحْمٰنِ» ۱؎ (25-الفرقان:26) اور فرمایا «مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ» ۱؎ (1-الفاتحۃ:4) مطلب سب کا یہی ہے کہ ملک و ملکیت اس دن صرف اللہ واحد و قہار و رحمن کی ہی ہو گی ، گو آج بھی اسی کی ملکیت ہے وہ ہی تنہا مالک ہے اسی کا حکم چلتا ہے مگر وہاں ظاہر داری حکومت ، ملکیت اور امر والا بھی نہ ہو گا ۔ سورۃ انفطار کی تفسیر ختم ہوئی ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» الإنفطار
14 الإنفطار
15 الإنفطار
16 الإنفطار
17 الإنفطار
18 الإنفطار
19 الإنفطار
0 المطففين
1 ناپ تول میں کمی کے نتائج نسائی اور ابن ماجہ میں ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ” جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے اس وقت اہل مدینہ ناپ تول کے اعتبار سے بہت برے تھے ۔ جب یہ آیت اتری پھر انہوں نے ناپ تول بہت درست کر لیا ۔ “ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:2223،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابن ابی حاتم میں ہے کہ ہلال بن طلق نے ایک مرتبہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا کہ ” مکے مدینے والے بہت ہی عمدہ ناپ تول رکھتے ہیں ۔ “ آپ نے فرمایا ” وہ کیوں نہ رکھتے جب کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے «وَیْلٌ لِّـلْمُطَفِّفِیْنَ» ۱؎ (83-المطففین:1) ہے ۔ “ پس «تَّطْفِیفِ» سے مراد ناپ تول کی کمی ہے خواہ اس صورت میں کہ اوروں سے لیتے وقت زیادہ لے لیا اور دیتے وقت کم دیا ۔ اسی لیے انہیں دھمکایا کہ ’ یہ نقصان اٹھانے والے ہیں کہ جب اپنا حق لیں تو پورا لیں بلکہ زیادہ لے لیں اور دوسروں کو دینے بیٹھیں تو کم دیں ۔ ‘ ٹھیک یہ ہے کہ «کَالُوْا» اور «وَزَنُوْا» کو متعدی مانیں اور «ھُمْ» کو محلاً منصوب کہیں گو بعض نے اسے ضمیر موکد مانا ہے ۔ جو «کَالُوْا» اور «وَّزَنُوْا» کی پوشیدہ ضمیر کی تاکید کے لیے ہے اور مفعول محذوف مانا ہے جس پر دلالت کلام موجود ہے دونوں طرح مطلب قریب قریب ایک ہی ہے ۔ قرآن کریم نے ناپ تول درست کرنے کا حکم اس آیت میں بھی دیا ہے «وَاَوْفُوا الْکَیْلَ اِذَا کِلْتُمْ وَزِنُوْا بالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَــقِیْمِ ۭ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِیْلًا» ۱؎ (17-الإسراء:35) یعنی ’ جب ناپو تو ناپ پورا کرو اور وزن سیدھے ترازو سے تول کر دیا کرو ۔ ‘ اور جگہ حکم ہے «اَوْفُوا الْکَیْلَ وَالْمِیْزَان بالْقِسْطِ ۚ لَا نُکَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا» ۱؎ (6-الأنعام:152) ’ ناپ تول انصاف کے ساتھ برابر کر دیا کرو ، ہم کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے ۔ ‘ اور جگہ فرمایا «وَاَقِیْمُوا الْوَزْنَ بالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِیْزَانَ» ۱؎ (55-الرحمن:9) یعنی ’ تول کو قائم رکھو اور میزان کو گھٹاؤ نہیں ۔ ‘ شعیب علیہ السلام کی قوم کو اسی بد عادت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے غارت و برباد کر دیا یہاں بھی اللہ تعالیٰ ڈرا رہا ہے کہ ’ لوگوں کے حق مارنے والے کیا قیامت کے دن سے نہیں ڈرتے جس دن یہ اس ذات پاک کے سامنے کھڑے ہو جائیں گے ۔ جس پر نہ کوئی پوشیدہ بات پوشیدہ ہے نہ ظاہر ، وہ دن بھی نہایت ہولناک و خطرناک ہو گا ۔ بڑی گھبراہٹ اور پریشانی والا دن ہو گا ، اس دن یہ نقصان رساں لوگ جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہوں گے وہ جگہ بھی نہایت تنگ و تاریک ہو گی اور میدان آفات و بلیات سے پر ہو گا اور وہ مصائب نازل ہو رہے ہوں گے کہ دل پریشان ہوں گے حواس بگڑے ہوئے ہوں گے ہوش جاتا رہے گا ‘ ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ { آدھے آدھے کانوں تک پسینہ پہنچ گیا ہوگا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6531) مسند احمد کی حدیث میں ہے اس دن رحمان عزوجل کی عظمت کے سامنے سب کھڑے کپکپا رہے ہوں گے۔ ۱؎ (مسند احمد:31/2:صحیح) اور حدیث میں ہے کہ { قیامت کے دن بندوں سے سورج اس قدر قریب ہو جائے گا کہ ایک یا دو نیزے کے برابر اونچا ہو گا اور سخت تیز ہو گا ہر شخص اپنے اپنے اعمال کے مطابق اپنے پسینے میں غرق ہو گا بعض کی ایڑیوں تک پسینہ ہو گا بعض کے گھٹنوں تک بعض کی کمر تک بعض کو تو ان کا پسینہ لگام بنا ہوا ہو گا۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:2864) اور حدیث میں ہے { دھوپ اس قدر تیز ہو گی کہ کھوپڑی بھنا اٹھے گی اور اس طرح اس میں جوش اٹھنے لگے گا جس طرح ہنڈیا میں ابال آتا ہے۔} ۱؎ (مسند احمد:254/5:صحیح) اور روایت میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے منہ پر اپنی انگلیاں رکھ کر بتایا کہ اس طرح پسینہ کی لگام چڑھی ہوئی ہو گی پھر آپ نے ہاتھ سے اشارہ کر کے بتایا کہ بعض بالکل ڈوبے ہوئے ہوں گے۔ } ۱؎ (مسند احمد:157/4:صحیح) اور حدیث میں ہے ستر سال تک بغیر بولے چالے کھڑے رہیں گے یہ بھی کہا گیا ہے کہ تین سو سال تک کھڑے رہیں گے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ چالیس ہزار سال تک کھڑے رہیں گے اور دس ہزار سال میں فیصلہ کیا جائے گا ۔ صحیح مسلم میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ ” اس دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہو گی۔“ ۱؎ (صحیح مسلم:987) ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بشیر غفاری رضی اللہ عنہ سے فرمایا : ” تو کیا کرے گا جس دن لوگ اللہ رب العالمین کے سامنے تین سو سال تک کھڑے رہیں گے نہ تو کوئی خبر آسمان سے آئیگی نہ کوئی حکم کیا جائے گا۔ “ بشیر رضی اللہ عنہ کہنے لگے ، اللہ ہی مددگار ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” سنو جب بستر پر جاؤ تو اللہ تعالیٰ سے قیامت کے دن کی تکلیفوں اور حساب کی برائی سے پناہ مانگ لیا کرو ۔“ } ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:34290:ضعیف) سنن ابوداؤد میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے دن کے کھڑے ہونے کی جگہ کی تنگی سے پناہ مانگا کرتے تھے ۔ } ۱؎ (سنن ابوداود:766،قال الشیخ الألبانی:حسن) سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ چالیس سال تک لوگ اونچا سر کیے کھڑے رہیں گے کوئی بولے گا نہیں نیک و بد کو پسینے کی لگامیں چڑھی ہوئی ہوں گی ۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں سو سال تک کھڑے رہیں گے۔ ( ابن جریر ) ابوداؤد ، نسائی ابن ماجہ میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو اٹھ کر تہجد کی نماز شروع کرتے تو دس مرتبہ «اﷲُ اَکْبَرُ» ، دس مرتبہ «الْحَمْدُ لِلہِ» کہتے ، دس مرتبہ «سُبْحَانَ اﷲِ» کہتے ، دس مرتبہ «اَسْتَغْفِرُ اﷲَ» ، پھر کہتے دعا « اللہُمَّ اِغْفِرْ لِی وَاہْدِنِی وَارْزُقْنِی وَعَافِنِی» اے اللہ مجھے بخش ، مجھے ہدایت دے ، مجھے روزیاں دے اور عافیت عنایت فرما پھر اللہ تعالیٰ سے قیامت کے دن کے مقام کی تنگی سے پناہ مانگتے ۔} ۱؎ (سنن ابن ماجہ:1356،قال الشیخ الألبانی:حسن) المطففين
2 المطففين
3 المطففين
4 المطففين
5 المطففين
6 المطففين
7 انتہائی المناک اور دکھ درد کی جگہ مطلب یہ ہے کہ برے لوگوں کا ٹھکانا «سِجِّینٍ» ہے یہ لفظ «فِعِّیْلٌ» کے وزن پر «سِجْنٌ» سے ماخوذ ہے «سِجْنٌ» کہتے ہیں لغتاً تنگی کو «ضِّیق» ، «فِسِّیقٌ» ، «وَشِرِّیبٌ» «وَخِمِّیرٌ» ، «وَسِکِّیرٌ» وغیرہ کی طرح یہ لفظ بھی «سِجِّینٌ» ہے ۔ پھر اس کی مزید برائیاں بیان کرنے کے لیے فرمایا کہ ’ تمہیں اس کی حقیقت معلوم نہیں وہ المناک اور ہمیشہ کے دکھ درد کی جگہ ہے ۔ ‘ مروی ہے کہ یہ جگہ ساتوں زمینوں کے نیچے ہے ۔ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی ایک مطول حدیث میں یہ گزر چکا ہے کہ کافر کی روح کے بارے میں جناب باری ارشاد ہوتا ہے کہ ’ اس کی کتاب «سجین» میں لکھ لو ۔ ‘ ۱؎ (سلسلۃ احادیث صحیحہ البانی:1676:صحیح) اور «سجین» ساتویں زمین کے نیچے ہے ۔ کہا گیا ہے کہ یہ ساتویں زمین کے نیچے سبز رنگ کی ایک چٹان ہے اور کہا گیا ہے کہ جہنم میں ایک گڑھا ہے ۔ ابن جریر کی ایک غریب منکر اور غیر صحیح حدیث میں ہے کہ «فلق» جہنم کا ایک منہ بند کردہ کنواں ہے اور «سجین» کھلے منہ والا گڑھا ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:36614:ضعیف) صحیح بات یہ ہے کہ اس کے معنی ہیں تنگ جگہ جیل خانہ کے نیچے کی مخلوق میں تنگی ہے اور اوپر کی مخلوق میں کشادگی آسمانوں میں ہر اوپر والا آسمان نیچے والے آسمان سے کشادہ ہے اور زمینوں میں ہر نیچے کی زمین اوپر کی زمین سے تنگ ہے یہاں تک کہ بالکل نیچے کی تہہ بہت تنگ ہے اور سب سے زیادہ تنگ جگہ ساتویں زمین کا وسطی مرکز ہے چونکہ کافروں کے لوٹنے کی جگہ جہنم ہے اور وہ سب سے نیچے ہے ۔ اور جگہ ہے «ثُمَّ رَدَدْنَاہُ أَسْفَلَ سَافِلِینَ إِلَّا الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ» ۱؎ (95-التین:6،5) یعنی ’ ہم نے اسے پھر نیچوں کا نیچ کر دیا ہاں جو ایمان والے اور نیک اعمال والے ہیں ۔ ‘ غرض «سجین» ایک تنگ اور تہہ کی جگہ ہے جیسے قرآن کریم نے اور جگہ فرمایا ہے «وَاِذَآ اُلْقُوْا مِنْہَا مَکَانًا ضَیِّقًا مٰقَرَّنِیْنَ دَعَوْا ہُنَالِکَ ثُبُوْرًا» ۱؎ (25-الفرقان:13) ’ جب وہ جہنم کی کسی تنگ جگہ میں ہاتھ پاؤں جکڑ کر ڈال دئیے جائیں گے تو وہاں موت ہی موت پکاریں گے ۔ ‘ «کِتَابٌ مَّرْقُوْمٌ» یہ «سجین» کی تفسیر نہیں بلکہ یہ اس کی تفسیر ہے جو ان کے لیے لکھا جا چکا ہے کہ آخرش جہنم میں پہنچیں گے ان کا یہ نتیجہ لکھا جا چکا ہے اور اس سے فراغت حاصل کر لی گئی ہے نہ اب اس میں کچھ زیادتی ہو نہ کمی ، تو فرمایا ’ ان کا انجام «سجین» ہونا ہماری کتاب میں پہلے سے ہی لکھا جا چکا ہے ان جھٹلانے والوں کی اس دن خرابی ہو گی انہیں جہنم کا قید خانہ اور رسوائی والے المناک عذاب ہوں گے ۔ ‘ «ویل» کی مکمل تفسیر اس سے پہلے گزر چکی ہے خلاصہ مطلب یہ ہے کہ ان کی ہلاکی بربادی اور خرابی ہے جیسے کہا جاتا ہے «وَیْلٌ لِّفُـلَانٍ» ۔ مسند اور سنن کی حدیث میں ہے { «ویل» ہے اس شخص کے لیے جو کوئی جھوٹی بات کہہ کر لوگوں کو ہنسانا چاہے اور اسے «ویل» ہے اسے «ویل» ہے ۔ } ۱؎ (سنن ابوداود:4990،قال الشیخ الألبانی:حسن) پھر ان جھٹلانے والے بدکار کافروں کی مزید تشریح کی اور فرمایا ’ یہ وہ لوگ ہیں جو روز جزاء کو نہیں مانتے اسے خلاف عقل کہہ کر اس کے واقع ہونے کو محال جانتے ہیں ۔ ‘ پھر فرمایا کہ ’ قیامت کا جھٹلانا انہی لوگوں کا کام ہے جو اپنے کاموں میں حد سے بڑھ جائیں اسی طرح اپنے اقوال میں گنہگار ہوں جھوٹ بولیں وعدہ خلافی کریں گالیاں بکیں وغیرہ ۔ ‘ یہ لوگ ہیں کہ ہماری آیتوں کو سن کر انہیں جھٹلاتے ہیں بدگمانی کرتے ہیں اور کہہ گزرتے ہیں کہ پہلی کتابوں سے کچھ جمع اکٹھا کر لیا ہے ۔ جیسے اور جگہ فرمایا «وَاِذَا قِیْلَ لَہُمْ مَّاذَآ اَنْزَلَ رَبٰکُمْ ۙ قَالُوْٓا اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ» ۱؎ (16-النحل:24) ’ جب انہیں کہا جاتا ہے کہ تمہارے رب نے کیا کچھ نازل فرمایا تو کہتے ہیں اگلوں کے افسانے ہیں۔ ‘ اور جگہ ہے آیت «وَقَالُوا أَسَاطِیر الْأَوَّلِینَ اِکْتَتَبَہَا فَہِیَ تُمْلَی عَلَیْہِ بُکْرَۃ وَأَصِیلًا» ۱؎ (25-الفرقان:5) یعنی ’ یہ کہتے ہیں کہ اگلوں کے قصے ہیں جو اسے صبح شام لکھوائے جا رہے ہیں۔ ‘ اللہ تعالیٰ انہیں جواب میں فرماتا ہے کہ ’ واقعہ ان کے قول اور ان کے خیال کے مطابق نہیں بلکہ دراصل یہ قرآن کلام الٰہی ہے اس کی وحی ہے جو اس نے اپنے بندے پر نازل کی ہے ہاں ان کے دلوں پر ان کے بداعمال نے پردے ڈال دئیے ہیں گناہوں اور خطاؤں کی کثرت نے ان کے دلوں کو زنگ آلود کر دیا ہے کافروں کے دلوں پر «رین» ہوتا ہے اور نیک کار لوگوں کے دلوں پر «غَیْم» ہوتا ہے ۔‘ ترمذی نسائی ابن ماجہ وغیرہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ { بندہ جب گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نکتہ ہو جاتا ہے اگر توبہ کر لیتا ہے تو اس کی صفائی ہو جاتی ہے اور اگر گناہ کرتا ہے تو وہ سیاہی پھیلتی جاتی ہے ۔ } ۱؎ اسی کا بیان «کَّلا بَلْ رَانَ» میں ہے ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3334،قال الشیخ الألبانی:حسن) نسائی کے الفاظ میں کچھ اختلاف بھی ہے مسند احمد میں بھی یہ حدیث ہے ۔ ۱؎ (مسند احمد:297/2:حسن) حسن بصری رحمہ اللہ وغیرہ کا فرمان ہے کہ گناہوں پر گناہ کرنے سے دل اندھا ہو جاتا ہے اور پھر مر جاتا ہے پھر فرمایا کہ یہ لوگ ان عذابوں میں مبتلا ہو کر دیدار باری سے بھی محروم اور محجوب کر دئیے جائیں گے ۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس میں دلیل ہے کہ مومن قیامت کے دن دیدار باری تعالیٰ سے مشرف ہوں گے ۔ امام صاحب کا یہ فرمان بالکل درست ہے اور آیت کا صاف مفہوم یہی ہے اور دوسری جگہ کھلے الفاظ میں بھی یہ بیان موجود ہے فرمان ہے آیت «وُجُوہٌ یَوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ إِلَیٰ رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ» ۱؎ (75-القیامۃ:23،22) یعنی ’ اس دن بہت سے چہرے تروتازہ ہوں گے اور اپنے رب کو دیکھ رہے ہوں گے ۔ ‘ صحیح اور متواتر احادیث سے بھی یہ ثابت ہے کہ { ایماندار قیامت والے دن اپنے رب عزوجل کو اپنی آنکھوں سے قیامت کے میدان میں اور جنت کے نفیس باغیچوں میں دیکھیں گے ۔ } حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حجاب ہٹ جائیں گے اور مومن اپنے رب کو دیکھیں گے اور کافر پھر کافروں کو پردوں کے پیچھے کر دیا جائے گا البتہ مومن ہر صبح و شام پروردگار عالم کا دیدار حاصل کریں گے یا اسی جیسا اور کلام ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ برے لوگ نہ صرف دیدار الٰہی سے ہی محروم رہیں گے بلکہ یہ لوگ جہنم میں جھونک دئیے جائیں گے اور انہیں حقارت ذلت اور ڈانٹ ڈپٹ کے طور پر غصہ کے ساتھ کہا جائے گا کہ یہی وہ جسے تم جھٹلاتے رہے ۔ ‘ المطففين
8 المطففين
9 المطففين
10 المطففين
11 المطففين
12 المطففين
13 المطففين
14 المطففين
15 المطففين
16 المطففين
17 المطففين
18 نعمتوں، راحتوں اور عزت و جاہ کی جگہ بدکاروں کا حشر بیان کرنے کے بعد اب نیک لوگوں کا بیان ہو رہا ہے کہ ان کا ٹھکانا «عِلِّیِّینَ» ہے جو کہ «سِجِّینٍ» کے بالکل برعکس ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے سیدنا کعب رضی اللہ عنہ سے «سِجِّینٍ» کا سوال کیا تو فرمایا کہ ” وہ ساتویں زمین ہے اور اس میں کافروں کی روحیں ہیں۔ “ اور «عِلِّیِّینَ» کے سوال کے جواب میں فرمایا ” یہ ساتواں آسمان ہے اور اس میں مومنوں کی روحیں ہیں۔ “ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں مراد اس سے جنت ہے ۔ عوفی رحمہ اللہ آپ سے روایت کرتے ہیں کہ ان کے اعمال اللہ کے نزدیک آسمان میں ہیں۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ عرش کا داہنا پایہ ہے ، اور لوگ کہتے ہیں یہ سدرۃ المنتہیٰ کے پاس ہے۔ ظاہر یہ ہے کہ لفظ «علو» یعنی بلندی سے ماخوذ ہے ۔ جس قدر کوئی چیز اونچی اور بلند ہو گی اسی قدر بڑی اور کشادہ ہو گی اس لیے اس کی عظمت و بزرگی کے اظہار کے لیے فرمایا ’ تمہیں اس کی حقیقت معلوم ہی نہیں۔ ‘ پھر اس کی تاکید کی کہ ’ یہ یقینی چیز ہے کتاب میں لکھی جا چکی ہے کہ یہ لوگ علیین میں جائیں گے جس کے پاس ہر آسمان کے مقرب فرشتے جاتے ہیں۔ ‘ پھر فرمایا کہ ’ قیامت کے دن یہ نیکوکار دائمی والی نعمتوں اور باغات میں ہوں گے یہ مسہریوں پر بیٹھے ہوں گے اپنے ملک و مال نعمتوں راحتوں عزت و جاہ مال و متاع کو دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہے ہوں گے یہ خیر و فضل یہ نعمت و رحمت نہ کبھی کم ہو ، نہ گم ہو ، نہ گھٹے ، نہ مٹے۔ ‘ اور یہ بھی معنی ہیں کہ ’ اپنی آرام گاہوں میں تخت سلطنت پر بیٹھے دیدار اللہ سے مشرف ہوتے رہیں گے۔ ‘ تو گویا کہ فاجروں کے بالکل برعکس ہوں گے ان پر دیدار باری حرام تھا ان کے لیے ہر وقت اجازت ہے جیسے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے جو پہلے بیان ہو چکی کہ سب سے نیچے درجے کا جنتی اپنے ملک اور ملکیت کو دو ہزار سال کی راہ تک دیکھے گا اور سب سے آخر کی چیزیں اس طرح اس کی نظروں کے سامنے ہوں گی جس طرح سب سے اول چیز ۔ اور اعلیٰ درجہ کے جنتی تو دن بھر میں دو دو مرتبہ دیدار باری کی نعمت سے اپنے دل کو مسرور اور اپنی آنکھوں کو پر نور کریں گے ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3330،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ان کے چہرے پر کوئی نظر ڈالے تو بیک نگاہ آسودگی اور خوش حالی ، جاہ و حشمت ، شوکت و سطوت ، خوشی و سرور ، بہشت و نور دیکھ کر ان کا مرتبہ تاڑ لے اور سمجھ لے کہ راحت و آرام میں خوش و خرم ہیں جنتی شراب کا دور چلتا رہتا ہے ۔ «رحیق» جنت کی ایک قسم کی شراب ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { جو کسی پیاسے مسلمان کو پانی پلائے گا اللہ تعالیٰ اسے رحیق مختوم پلائے گا یعنی جنت کی مہر والی شراب اور جو کسی بھوکے مسلمان کو کھانا کھلائے اسے اللہ تعالیٰ جنت کے میوے کھلائے گا اور جو کسی ننگے مسلمان کو کپڑا پہنائے اللہ تعالیٰ اسے جنتی سبز ریشم کے جوڑے پہنائے گا ۔ } ۱؎ (سنن ترمذی:2449،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) «خِتٰمُ» کے معنی ملونی اور آمیزش کے ہیں اسے اللہ نے پاک صاف کر دیا ہے اور مشک کی مہر لگا دی ہے یہ بھی معنی ہیں کہ انجام اس کا مشک ہے یعنی کوئی بدبو نہیں بلکہ مشک کی سی خوشبو ہے چاندی کی طرح سفید رنگ شراب ہے جس قدر مہر لگے گی یا ملاوٹ ہو گی اس قدر خوشبو والی ہے کہ اگر کسی اہل دنیا کی انگلی اس میں تر ہو جائے پھر چاہے اسی وقت اسے وہ نکال لے لیکن تمام دنیا اس کی خوشبو سے مہک جائے اور «ختام» کے معنی خوشبو کے بھی کیے گئے ہیں ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ حرص کرنے والے فخر و مباہات کرنے والے کثرت اور سبقت کرنے والوں کو چاہیئے کہ اس کی طرف تمام تر توجہ کریں‘ جیسے اور جگہ ہے «لِمِثْلِ ہٰذَا فَلْیَعْمَلِ الْعَامِلُونَ» ۱؎ (37-الصافات:61) ’ ایسی چیزوں کے لیے عمل کرنے والوں کو عمل کرنا چاہیئے ۔ ‘ «تسنیم» جنت کی بہترین شراب کا نام ہے یہ ایک نہر ہے جس سے سابقین لوگ تو برابر پیا کرتے ہیں اور داہنے ہاتھ والے اپنی شراب رحیق میں ملا کر پیتے ہیں ۔ المطففين
19 المطففين
20 المطففين
21 المطففين
22 المطففين
23 المطففين
24 المطففين
25 المطففين
26 المطففين
27 المطففين
28 المطففين
29 گنہگار لوگ روز قیامت رسوا ہوں گے یعنی دنیا میں تو ان کافروں کی خوب بن آئی تھی ایمان داروں کو مذاق میں اڑاتے رہے ، چلتے پھرتے آواز کستے رہے اور حقارت و تذلیل کرتے رہے اور اپنے والوں میں جا کر خوب باتیں بناتے تھے جو چاہتے تھے پاتے تھے لیکن شکر تو کہاں اور کفر پر آمادہ ہو کر مسلمانوں کی ایذا رسانی کے درپے ہو جاتے تھے اور چونکہ مسلمان ان کی مانتے نہ تھے تو یہ انہیں گمراہ کہا کرتے تھے ۔ اللہ فرماتا ہے ’ کچھ یہ لوگ محافظ بنا کر تو نہیں بھیجے گئے انہیں مومنوں کی کیا پڑی کیوں ہر وقت ان کے پیچھے پڑے ہیں اور ان کے اعمال افعال کی دیکھ بھال رکھتے ہیں اور طعنہ آمیز باتیں بناتے رہتے ہیں ؟ ‘ جیسے اور جگہ ہے «قَالَ اخْسَئُوا فِیہَا وَلَا تُکَلِّمُونِ إِنَّہُ کَانَ فَرِیقٌ مِّنْ عِبَادِی یَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَأَنتَ خَیْرُ الرَّاحِمِینَ فَاتَّخَذْتُمُوہُمْ سِخْرِیًّا حَتَّیٰ أَنسَوْکُمْ ذِکْرِی وَکُنتُم مِّنْہُمْ تَضْحَکُونَ إِنِّی جَزَیْتُہُمُ الْیَوْمَ بِمَا صَبَرُوا أَنَّہُمْ ہُمُ الْفَائِزُونَ» ۱؎ (23-المؤمنون:108-111) یعنی ’ اس جہنم میں پڑے جھلستے رہو مجھ سے بات نہ کرو میرے بعض خاص بندے کہتے تھے کہ اے ہمارے پروردگار ہم ایمان لائے تو ہمیں بخش اور ہم پر رحم کر تو سب سے بڑا رحم و کرم کرنے والا ہے تو تم نے انہیں مذاق میں اڑایا اور اس قدر غافل ہوئے کہ میری یاد بھلا بیٹھے اور ان سے ہنسی مذاق کرنے لگے دیکھو آج میں نے انہیں ان کے صبر کا یہ بدلا دیا ہے کہ وہ ہر طرح کامیاب ہیں ۔ ‘ یہاں بھی اس کے بعد ارشاد فرماتا ہے کہ ’ آج قیامت کے دن ایماندار ان بدکاروں پر ہنس رہے ہیں اور تختوں پر بیٹھے اپنے اللہ کو دیکھ رہے ہیں جو اس کا صاف ثبوت ہے کہ یہ گمراہ نہ تھے گو تم انہیں گم کردہ راہ کہا کرتے تھے بلکہ یہ دراصل اولیاء اللہ تھے مقربین اللہ تھے اسی لیے آج اللہ کا دیدار ان کی نگاہوں کے سامنے ہے یہ اللہ کے مہمان ہیں اور اس کے بزرگی والے گھر میں ٹھہرے ہوئے ہیں جیسا کچھ ان کافروں نے مسلمانوں کے ساتھ دنیا میں کیا تھا اس کا پورا بدلہ انہیں آخرت میں مل گیا یا نہیں ؟ ان کے مذاق کے بدلے آج ان کی ہنسی اڑائی گئی یہ ان کا مرتبہ گھٹاتے تھے اللہ نے ان کا مرتبہ بڑھایا ۔ غرض پورا پورا تمام و کمال بدلہ دے دیا ۔ ‘ «الْحَمْدُ لِلّٰہ» سورۃ المطففین کی تفسیر ختم ہوئی ۔ المطففين
30 المطففين
31 المطففين
32 المطففين
33 المطففين
34 المطففين
35 المطففين
36 المطففين
0 الانشقاق
1 زمین مردے اگل دے گی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’ قیامت کے دن آسمان پھٹ جائے گا وہ اپنے رب کے حکم پر کاربند ہونے کے لیے اپنے کان لگائے ہوئے ہو گا پھٹنے کا حکم پاتے ہی پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا۔ ‘ اسے بھی چاہیئے کہ امر اللہ بجا لائے اس لیے کہ یہ اس اللہ کا حکم ہے جسے کوئی روک نہیں سکتا جس سے بڑا اور کوئی نہیں جو سب پر غالب ہے اس پر غالب کوئی نہیں ، ہر چیز اس کے سامنے پست و لاچار ہے بےبس و مجبور ہے اور زمین پھیلا دی جائیگی بچھا دی جائیگی اور کشادہ کر دی جائیگی ۔ حدیث میں ہے { قیامت کے دن اللہ تعالیٰ زمین کو چمڑے کی طرح کھینچ لے گا یہاں تک کہ ہر انسان کو صرف دو قدم ٹکانے کی جگہ ملے گی سب سے پہلے مجھے بلایا جائے گا ، جبرائیل علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی دائیں جانب ہوں گے اللہ کی قسم اس سے پہلے اس نے کبھی اسے نہیں دیکھا تو میں کہوں گا ، اے اللہ ! جبرائیل نے مجھ سے کہا تھا کہ یہ تیرے بھیجے ہوئے میرے پاس آتے ہیں اللہ فرمائے گا سچ کہا تو میں کہوں گا اللہ پھر مجھے شفاعت کی اجازت ہو چنانچہ مقام محمود میں کھڑا ہو کر میں شفاعت کروں گا اور کہوں گا کہ اللہ تیرے ان بندوں نے زمین کے گوشتے گوشتے پر تیری عبادت کی ہے۔ } ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:36725:مرسل) پھر فرماتا ہے کہ ’ زمین اپنے اندر کے کل مردے اگل دے گی اور خالی ہو جائے گی یہ بھی رب کے فرمان کی منتظر ہو گی اور اسے بھی یہی لائق ہے۔ ‘ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ’ اے انسان تو کوشش کرتا رہے گا اور اپنے رب کی طرف آگے بڑھتا رہے گا ، اعمال کرتا رہے گا یہاں تک کہ ایک دن اس سے مل جائے گا اور اس کے سامنے کھڑا ہو گا اور اپنے اعمال اور اپنی سعی و کوشش کو اپنے سامنے دیکھ لے گا۔ ‘ ابوداؤد طیالسی میں ہے کہ جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا : اے محمد [ صلی اللہ علیہ وسلم ] جی لے جب تک چاہے بالآخر موت آنے والی ہے جس سے چاہ و دل بستگی پیدا کر لے ایک دن اس سے جدائی ہونی ہے جو چاہے عمل کر لے ایک دن اس کی ملاقات ہونے والی ہے ۔ ۱؎ (مسند طیالسی:1755:حسن) «مُلَاقِیہِ» کی ضمیر کا مرجع بعض نے لفظ رب کو بھی بتایا ہے تو معنی یہ ہوں گے کہ اللہ سے تیری ملاقات ہونے والی ہے وہ تجھے تیرے کل اعمال کا بدلہ دے گا اور تیری تمام کوشش و سعی کا پھل تجھے عطا فرمائے گا دونوں ہی باتیں آپس میں ایک دوسری کو لازم و ملزوم ہیں۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” اے ابن آدم تو کوشش کرنے والا ہے لیکن اپنی کوشش میں کمزور ہے جس سے یہ ہو سکے کہ اپنی تمام تر سعی و کوشش نیکیوں کی کرے تو وہ کر لے دراصل نیکی کی قدرت اور برائیوں سے بچنے کی طاقت بجز امداد الٰہی حاصل نہیں ہو سکتی ۔“ الانشقاق
2 الانشقاق
3 الانشقاق
4 الانشقاق
5 الانشقاق
6 الانشقاق
7 1 پھر فرمایا ’ جس کے داہنے ہاتھ میں اس کا اعمال نامہ مل جائے گا اس کا حساب سختی کے بغیر نہایت آسانی سے ہو گا اس کے چھوٹے اعمال معاف بھی ہو جائیں گے اور جس سے اس کے تمام اعمال کا حساب لیا جائے گا وہ ہلاکت سے نہ بچے گا۔ ‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ { جس سے حساب کا مناقشہ ہو گا وہ تباہ ہو گا ، تو ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : قرآن میں تو ہے کہ نیک لوگوں کا بھی حساب ہو گا «فَسَوْفَ یُحَاسَبُ حِسَابًا یَّسِیْرًا» ۱؎ (84-الإنشقاق:8) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” دراصل یہ وہ حساب نہیں یہ تو صرف پیشی ہے جس سے حساب میں پوچھ گچھ ہو گی وہ برباد ہو گا ۔ “ ۱؎ (صحیح بخاری:4939) دوسری روایت میں ہے کہ { یہ بیان فرماتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی اپنے ہاتھ پر رکھ کر جس طرح کوئی چیز کریدتے ہیں اس طرح اسے ہلا جلا کر بتایا مطلب یہ ہے کہ جس سے باز پرس اور کرید ہو گی وہ عذاب سے بچ نہیں سکتا۔ } (ضعیف) خود ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ { جس سے باقاعدہ حساب ہو گا وہ تو بے عذاب پائے نہیں رہ سکتا اور «حساب یسیر» سے مراد صرف پیشی ہے حالانکہ اللہ خوب دیکھتا رہا ہے۔ } ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ { میں نے ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں یہ دعا مانگ رہے تھے « اللہُمَّ حَاسِبْنِی حِسَابًا یَسِیرًا» جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فارغ ہوئے تو میں نے پوچھا اے اللہ کے رسول! یہ آسان حساب کیا ہے ؟ فرمایا: ” صرف نامہ اعمال پر نظر ڈال لی جائیگی اور کہہ دیا جائے گا کہ جاؤ ہم نے درگزر کیا لیکن اے عائشہ جس سے اللہ حساب لینے پر آئے گا وہ ہلاک ہو گا۔ “ } ۱؎ (مسند احمد:48/6:صحیح) غرض جس کے دائیں ہاتھ میں نامہ اعمال آئے گا وہ اللہ کے سامنے پیش ہوتے ہی چھٹی پا جائے گا اور اپنے والوں کی طرف خوش خوش جنت میں واپس آئے گا ۔ طبرانی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ” تم لوگ اعمال کر رہے ہو اور حقیقت کا علم کسی کو نہیں عنقریب وہ وقت آنے والا ہے کہ تم اپنے اعمال کو پہچان لو گے بعض وہ لوگ ہوں گے جو ہنسی خوشی اپنوں سے آ ملیں گے اور بعض ایسے ہوں کہ رنجیدہ افسردہ اور ناخوش واپس آئیں گے اور جسے پیٹھ پیچھے سے بائیں ہاتھ میں ہاتھ موڑ کر نامہ اعمال دیا جائے گا وہ نقصان اور گھاٹے کی پکار پکارے گا ہلاکت اور موت کو بلائے گا اور جہنم میں جائے گا دنیا میں خوب ہشاش بشاش تھا بے فکری سے مزے کر رہا تھا آخرت کا خوف عاقبت کا اندیشہ مطلق نہ تھا اب اس کو غم و رنج ، یاس محرومی و رنجیدگی اور افسردگی نے ہر طرف سے گھیر لیا یہ سمجھ رہا تھا کہ موت کے بعد زندگی نہیں ۔ اسے یقین نہ تھا کہ لوٹ کر اللہ کے پاس بھی جانا ہے۔ “ پھر فرماتا ہے کہ ’ ہاں ہاں اسے اللہ ضرور دوبارہ زندہ کر دے گا جیسے کہ پہلی مرتبہ اس نے اسے پیدا کیا پھر اس کے نیک و بد اعمال کی جزا و سزا دے گا بندوں کے اعمال و احوال کی اسے اطلاع ہے اور وہ انہیں دیکھ رہا ہے ۔‘ الانشقاق
8 الانشقاق
9 الانشقاق
10 الانشقاق
11 الانشقاق
12 الانشقاق
13 الانشقاق
14 الانشقاق
15 الانشقاق
16 پیشین گوئی «شفق» سے مراد وہ سرخی ہے جو غروب آفتاب کے بعد آسمان کے مغربی کناروں پر ظاہر ہوتی ہے سیدنا علی، ابن عباس، عبادہ بن صامت ، ابوہریرہ ، شداد بن اوس، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم ، محمد بن علی بن حسین، مکحول ، بکر بن عبداللہ مزنی ، بکیر بن الشیخ ، مالک بن ابی ذئب ، عبدالعزیز بن ابوسلمہ ، ماجشون رحمہ اللہ علیہم یہی فرماتے ہیں کہ «شفق» اس سرخی کو کہتے ہیں۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ مراد سفیدی ہے ، پس «شفق» کناروں کی سرخی کو کہتے ہیں وہ طلوع سے پہلے ہو یا غروب کے بعد اور اہل سنت کے نزدیک مشہور یہی ہے ۔ خلیل رحمہ اللہ کہتے ہیں عشاء کے وقت تک یہ «شفق» باقی رہتی ہے ، جوہری رحمہ اللہ کہتے ہیں سورج کے غروب ہونے کے بعد جو سرخی اور روشنی باقی رہتی ہے اسے «شفق» کہتے ہیں ۔ یہ اول رات سے عشاء کے وقت تک رہتی ہے ۔ عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں مغرب سے لے کر عشاء تک ، صحیح مسلم کی حدیث میں ہے { مغرب کا وقت شفق غائب ہونے تک ہے ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:612) مجاہد رحمہ اللہ سے البتہ یہ مروی ہے کہ اس سے مراد سارا دن ہے ۔ اور ایک روایت میں ہے کہ مراد سورج ہے ، غالباً اس مطلب کی وجہ اس کے بعد کا جملہ ہے تو گویا روشنی اور اندھیرے کی قسم کھائی ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں دن کے جانے اور رات کے آنے کی قسم ہے ۔ اوروں نے کہا ہے سفیدی اور سرخی کا نام «شَّفَقِ» ہے اور قول ہے کہ یہ لفظ ان دونوں مختلف معنوں میں بولا جاتا ہے ۔ «وَسَقَ» کے معنی ہیں جمع کیا یعنی رات کے ستاروں اور رات کے جانوروں کی قسم ، اسی طرح رات کے اندھیرے میں تمام چیزوں کا اپنی اپنی جگہ چلے جانا ، اور چاند کی قسم جبکہ وہ پورا ہو جائے اور پوری روشنی والا بن جائے ، «لَتَرْکَبُنَّ طَبَقًا عَن طَبَقٍ» ۱؎ (84-الإنشقاق:17) کی تفسیر بخاری میں مرفوع حدیث سے مروی ہے کہ ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف چڑھتے چلے جاؤ گے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4940) سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں { جو سال آئے گا وہ اپنے پہلے سے زیادہ برا ہو گا ۔ میں نے اسی طرح تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:7068) اس حدیث سے اور اوپر والی حدیث کے الفاظ بالکل یکساں ہیں ۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ مرفوع حدیث ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» اور یہ مطلب بھی اسی حدیث کا بیان کیا گیا ہے کہ اس سے مراد ذات نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور اس کی تائید سیدنا عمر ، ابن مسعود ، ابن عباس رضی اللہ عنہم اور عام اہل مکہ اور اہل کوفہ کی قرأت سے بھی ہوتی ہے ۔ ان کی قرأت ہے «لَتَرْکَبَنَّ» ۔ شعبی کہتے ہیں مطلب یہ ہے کہ اے نبی ! تم ایک آسمان کے بعد دوسرے آسمان پر چڑھو گے ، مراد اس سے معراج ہے ، یعنی منزل بمنزل چڑھتے چلے جاؤ گے ۔ سدی رحمہ اللہ کہتے ہیں مراد یہ ہے کہ اپنے اپنے اعمال کے مطابق منزلیں طے کرو گے ۔ جیسے حدیث میں ہے کہ { تم اپنے سے اگلے لوگوں کے طریقوں پر چڑھو گے بالکل برابر برابر یہاں تک کہ اگر ان میں سے کوئی گوہ کے سوراخ میں داخل ہوا ہو تو تم بھی یہی کرو گے ۔ لوگوں نے کہا اگلوں سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا یہود و نصرانی ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” پھر اور کون ؟ “ } ۱؎ (صحیح بخاری:7320) مکحول رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” ہر بیس سال کے بعد تم کسی نہ کسی ایسے کام کی ایجاد کرو گے جو اس سے پہلے نہ تھا ۔ “ عبداللہ فرماتے ہیں ” آسمان پھٹے گا پھر سرخ رنگ ہو جائے گا ۔ پھر بھی رنگ بدلتے چلے جائیں گے ۔“ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کبھی تو آسمان دھواں بن جائے گا پھر پھٹ جائے گا ۔ سعید بن جیبر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں یعنی بہت سے لوگ جو دنیا میں پست و ذلیل تھے آخرت میں بلند و ذی عزت بن جائیں گے ، اور بہت سے لوگ دنیا میں مرتبے اور عزت والے تھے وہ آخرت میں ذلیل و نامراد ہو جائیں گے ۔ عکرمہ رضی اللہ عنہ یہ مطلب بیان کرتے ہیں کہ پہلے دودھ پیتے تھے پھر غذا کھانے لگے ، پہلے جوان تھے پھر بڈھے ہوئے ۔ حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں نرمی کے بعد سختی ، سختی کے بعد نرمی ، امیری کے بعد فقیری ، فقیری کے بعد امیری ، صحت کے بعد بیماری ، بیماری کے بعد تندرستی ۔ ایک مرفوع حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ” ابن آدم غفلت میں ہے وہ پرواہ نہیں کرتا کہ کس لیے پیدا کیا گیا ہے ، اللہ تعالیٰ جب کسی کو پیدا کرنا چاہتا ہے تو فرشتے سے کہتا ہے اس کی روزی اس کی اجل ، اس کی زندگی ، اس کا بد یا نیک ہونا لکھ لے پھر وہ فارغ ہو کر چلا جاتا ہے ، اور دوسرا فرشتہ آتا ہے اور اس کی حفاظت کرتا ہے یہاں تک کہ اسے سمجھ آ جائے پھر وہ فرشتہ اٹھ جاتا ہے پھر دو فرشتے اس کا نامہ اعمال لکھنے والے آ جاتے ہیں ۔ موت کے وقت وہ بھی چلے جاتے ہیں اور ملک الموت آ جاتے ہیں اس کی روح قبض کرتے ہیں پھر قبر میں اس کی روح لوٹا دی جاتی ہے ، ملک الموت چلے جاتے ہیں قیامت کے دن نیکی بدی کے فرشتے آ جائیں گے اور اس کی گردن سے اس کا نامہ اعمال کھول لیں گے ، پھر اس کے ساتھ ہی رہیں گے ، ایک سائق ہے دوسرا شہید ہے ۔ “ } { پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا «لَقَدْ کُنْتَ فِیْ غَفْلَۃٍ مِّنْ ھٰذَا» ۱؎ (50-ق:22) ’ تو اس سے غافل تھا ‘ ، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت «لَتَرْکَبُنَّ طَبَقًا عَن طَبَقٍ» ۱؎ (84-الإنشقاق:19) پڑھی یعنی ’ ایک حال سے دوسرا حال ‘ ، پھر فرمایا: ” لوگو تمہارے آگے بڑے بڑے ہم امور آ رہے ہیں جن کی برداشت تمہارے بس کی بات نہیں لہٰذا اللہ تعالیٰ بلند و برتر سے مدد چاہو } ۔ یہ حدیث ابن ابی حاتم میں ہے ، منکر حدیث ہے اور اس کی سند میں ضعیف راوی ہیں لیکن اس کا مطلب بالکل صحیح اور درست ہے ۔ «وَاللہُ سُبْحَانَہُ وَ تَعَالیٰ اَعْلَمُ» امام ابن جریر نے ان تمام اقوال کو بیان کر کے فرمایا ہے کہ صحیح مطلب یہ ہے کہ ’ آپ اے محمد [ صلی اللہ علیہ وسلم ] سخت سخت کاموں میں ایک کے بعد ایک سے گزرنے والے ہیں ‘ اور گو خطاب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی ہے لیکن مراد سب لوگ ہیں کہ وہ قیامت کی ایک کے بعد ایک ہولناکی دیکھیں گے ۔ الانشقاق
17 الانشقاق
18 الانشقاق
19 الانشقاق
20 الانشقاق
21 1 پھر فرمایا کہ ’ انہیں کیا ہو گیا یہ کیوں نہیں ایمان لاتے ؟ اور انہیں قرآن سن کر سجدے میں گر پڑنے سے کون سی چیز روکتی ہے ، بلکہ یہ کفار تو الٹا جھٹلاتے ہیں اور حق کی مخالفت کرتے ہیں اور سرکشی میں اور برائی میں پھنسے ہوئے ہیں ، اللہ تعالیٰ ان کے دلوں کی باتوں کو جنھیں یہ چھپا رہے ہیں بخوبی جانتا ہے ، تم اے نبی انہیں خبر پہنچا دو کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے عذاب تیار کر رکھے ہیں ۔ ‘ پھر فرمایا کہ ’ ان عذابوں سے محفوط ہونے والے بہترین اجر کے مستحق ایماندار نیک کردار لوگ ہیں ، انہیں پورا پورا بغیر کسی کمی کے حساب اور اجر ملے گا ‘ ، جیسے اور جگہ ہے «عَطَاءً غَیْرَ مَجْذُوْذٍ» ۱؎ (11-ھود:108) یعنی ’ یہ بے انتہا بخشش ہے ‘ بعض لوگوں نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ بلا احسان لیکن یہ معنی ٹھیک نہیں ہر آن پر لحظہ اور ہر وقت اللہ تعالیٰ عزوجل کے اہل جنت پر احسان و انعام ہوں گے بلکہ صرف اس کے احسان اور اس کے فعل و کرم کی بنا پر انہیں جنت نصیب ہوئی نہ کہ ان کے اعمال کی وجہ سے پس اس مالک کا تو ہمیشہ اور مدام والا احسان اپنی مخلوق پر ہے ہی ، اس کی ذات پاک ہر طرح کی ہر وقت کی تعریفوں کے لائق ہمیشہ ہمیشہ ہے ، اسی لیے اہل جنت پر اللہ کی تسبیح اور اس کی حمد کا الہام اسی طرح کیا جائے جس طرح سانس بلا تکلیف اور بے تکلف بلکہ بے ارادہ چلتا رہتا ہے ۔ قرآن فرماتا ہے «وَآخِرُ دَعْوَاہُمْ أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ» ۱؎ (10-یونس:10) یعنی ’ ان کا آخری قول یہی ہو گا کہ سب تعریف جہانوں کے پالنے والے اللہ کے لیے ہی ہے ۔ ‘ «الْحَمْدُ لِلّٰہ» سورۃ الانشقاق کی تفسیر ختم ہوئی ۔ اللہ ہمیں توفیق خیر دے اور برائی سے بچائے ، آمین ۔ الانشقاق
22 الانشقاق
23 الانشقاق
24 الانشقاق
25 الانشقاق
0 البروج
1 سب سے افضل اور اعلیٰ دن اور ذکر ایک موحد کا «بروج» سے مراد بڑے بڑے ستارے ہیں جیسے کہ آیت «جَعَلَ فِی السَّمَاءِ بُرُوْجًا وَّجَعَلَ فِیْہَا سِرٰجًا وَّقَمَرًا مٰنِیْرًا» ۱؎ (25-الفرقان:61) کی تفسیر میں گزر چکا ہے ۔ مجاہد رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ «بروج» وہ ہیں جن میں حفاطت کرنے والے رہتے ہیں ۔ یحییٰ رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ آسمانی محل ہے ، منہال بن عمرو رحمہ اللہ کہتے ہیں مراد اچھی بناوٹ والے آسمان ہیں ، ابن خیثمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے مراد سورج چاند کی منزلیں ہیں جو بارہ ہیں کہ سورج ان میں سے ہر ایک میں ایک مہینہ چلتا رہتا ہے اور چاند ان میں سے ہر ایک میں دو دن اور ایک تہائی دن چلتا ہے تو یہ اٹھائیس دن ہوئے اور دو راتوں تک وہ پوشیدہ رہتا ہے ، نہیں نکلتا ۔ ابن ابی حاتم کی حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { «وَالْیَوْمِ الْمَوْعُودِ» سے مراد قیامت کا دن ہے اور «شَاہِدٍ» سے مراد جمعہ کا دن ہے ، سورج جن جن دنوں میں نکلتا اور ڈوبتا ہے ان میں سے سب سے اعلیٰ اور افضل دن جمعہ کا دن ہے اس میں ایک ساعت ایسی ہے کہ اس میں بندہ جو بھلائی طلب کرے مل جاتی ہے اور جس برائی سے پناہ چاہے ٹل جاتی ہے اور «مَشْہُودٍ» سے مراد عرفہ کا دن ہے ۔ } ابن خزیمہ میں بھی یہ حدیث ہے موسیٰ بن عبید زیدی اس کے راوی ہیں اور یہ ضعیف ہیں یہ روایت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے خود ان کے قول سے مروی ہے اور یہی زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے ۔ ۱؎ (ضعیف) مسند میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی یہی مروی ہے اور حضرات سے بھی یہ تفسیر مروی ہے اور ان میں اختلاف نہیں «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» ۔ ۱؎ (مسند احمد:298/2:ضعیف) اور روایت میں مرفوعاً مروی ہے کہ { جمعے کے دن کو جسے یہاں شاہد کہا گیا ہے یہ خاص ہمارے لیے بطور خزانے کے چھپا رکھا گیا تھا ۔ } ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:36840:ضعیف) اور حدیث میں ہے کہ { تمام دنوں کا سردار جمعہ کا دن ہے ۔ } ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:36850:مرسل) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ بھی مروی ہے کہ شاہد سے مراد خود ذات محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور «مشہود» سے مراد قیامت کا دن ہے پھر آپ نے یہ آیت پڑھی «ذٰلِکَ یَوْمٌ مَّجْمُوْعٌ لَّہُ النَّاسُ وَذٰلِکَ یَوْمٌ مَّشْہُوْدٌ» ۱؎ (11-ھود:103) یعنی ’ اس دن کے لیے لوگ جمع کئے گئے ہیں اور یہ دن «مشہود» یعنی حاضر کیا گیا ہے‘ ۔ ایک شخص نے سیدنا امام حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے سوال کیا کہ «شاہد» اور «مشہود» کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا ” تم نے کسی اور سے بھی پوچھا ؟ “ اس نے کہا ہاں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما اور سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہما سے ، فرمایا ” انہوں نے کیا جواب دیا ؟ “ کہا قربانی کا دن اور جمعہ کا دن ، کہا ” نہیں بلکہ مراد «شاہد» سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جیسے قرآن میں اور جگہ ہے «فَکَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ بِشَہِیْدٍ وَّجِئْنَا بِکَ عَلٰی ہٰٓؤُلَاءِ شَہِیْدًا» ۱؎ (4-النساء:41) یعنی ’ کیا حال ہو گا جب ہم ہر امت میں سے گواہ لائیں گے اور تجھے ان پر گواہ بنائیں گے ‘ اور «مشہود» سے مراد قیامت کا دن ہے قرآن کہتا ہے «وَذٰلِکَ یَوْمٌ مَّشْہُوْدٌ» ۔ “ یہ بھی مروی ہے کہ «شاہد» سے مراد ابن آدم اور «مشہود» سے مراد قیامت کا دن اور «مشہود» سے مراد جمعہ بھی مروی ہے اور «شاہد» سے مراد خود اللہ بھی ہے اور عرفہ کا دن بھی ہے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { جمعہ کے دن مجھ پر بکثرت درود پڑھا کرو وہ «مشہود» دن ہے جس پر فرشتے حاضر ہوتے ہیں ۔ } ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:36867:ضعیف) سعید بن جیبر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں «شاہد» اللہ ہے قرآن کہتا ہے «وَکَفٰی باللّٰہِ شَہِیْدًا » ۱؎ (48-الفتح:28) اور «مشہود» ہم ہیں قیامت کے دن ہم سب اللہ کے سامنے حاضر کر دئیے جائیں گے اکثر حضرات کا یہ فرمان ہے کہ «شاہد» جمعہ کا دن ہے اور «مشہود» عرفے کا دن ہے ۔ ان قسموں کے بعد ارشاد ہوتا ہے کہ ’ خندقوں والوں پر لعنت ہو۔ ‘ یہ کفار کی ایک قوم تھی جنہوں نے ایمان داروں کو مغلوب کر کے انہیں دین سے ہٹانا چاہا اور ان کے انکار پر زمین میں گڑھے کھود کر ان میں لکڑیاں بھر کر آگ بھڑکائی پھر ان سے کہا کہ اب بھی دین سے پلٹ جاؤ لیکن ان با خدا لوگوں نے انکار کیا اور ان ناخدا ترس کفار نے ان مسلمانوں کو اس بھڑکتی ہوئی آگ میں ڈال دیا ، اسی کو بیان کیا جاتا ہے کہ ’ یہ لوگ ہلاک ہوئے یہ ایندھن بھری بھڑکتی ہوئی آگ کی خندقوں کے کناروں پر بیٹھے ان مومنوں کے جلنے کا تماشا دیکھ رہے تھے ۔‘ البروج
2 البروج
3 البروج
4 البروج
5 البروج
6 البروج
7 البروج
8 1 اور اس عداوت و عذاب کا سبب ان مومنوں کا کوئی قصور نہ تھا ، انہیں تو صرف ان کی ایمان داری پر غضب و غصہ تھا دراصل غلبہ رکھنے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے اس کی پناہ میں آ جانے والا کبھی برباد نہیں ہوتا وہ اپنے تمام اقوال افعال شریعت اور تقدیر میں قابل تعریف ہے وہ اگر اپنے خاص بندوں کو کسی وقت کافروں کے ہاتھ سے تکلیف بھی پہنچا دے اور اس کا راز کسی کو معلوم نہ ہو سکے تو نہ ہو لیکن دراصل وہ مصلحت و حکمت کی بنا پر ہی ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے پاکیزہ اوصاف میں سے یہ بھی ہے کہ وہ زمینوں ، آسمانوں اور کل مخلوقات کا مالک ہے ، اور وہ ہر چیز پر حاضر ناظر ہے ، کوئی چیز اس سے مخفی نہیں ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ” یہ واقعہ اہل فارس کا ہے ان کے بادشاہ نے یہ قانون جاری کرنا چاہا کہ محرمات ابدیہ یعنی ماں بہن بیٹی وغیرہ سب حلال ہیں اس وقت کے علماء کرام نے اس کا انکار کیا اور روکا ، اس پر اس نے خندقیں کھدوا کر اس میں آگ جلا کر ان حضرات کو اس میں ڈال دیا ، چنانچہ یہ اہل فارس آج تک ان عورتوں کو حلال ہی جانتے ہیں۔ “ یہ بھی مروی ہے کہ یہ لوگ یمنی تھے ، مسلمانوں اور کافروں میں لڑائی ہوئی مسلمان غالب آ گئے پھر دوسری لڑائی میں کافر غالب آ گئے تو انہوں نے گڑھے کھدوا کر ایمان والوں کو جلا دیا ، یہ بھی مروی ہے کہ یہ واقعہ اہل حبش کا ہے یہ بھی مروی ہے کہ یہ واقعہ بنی اسرائیل کا ہے انہوں نے دانیال اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ یہ سلوک کیا تھا اور اقوال بھی ہیں ۔ مسند احمد میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگلے زمانے میں ایک بادشاہ تھا اس کے ہاں ایک جادوگر تھا ، جب جادوگر بوڑھا ہو گیا تو اس نے بادشاہ سے کہا کہ اب میں بوڑھا ہو گیا ہوں اور میری موت کا وقت آ رہا ہے مجھے کوئی بچہ سونپ دو تو میں اسے جادو سکھا دوں چنانچہ ایک ذہین لڑکے کو وہ تعلیم دینے لگا لڑکا اس کے پاس جاتا تو راستے میں ایک راہب کا گھر پڑتا جہاں وہ عبادت میں اور کبھی وعظ میں مشغول ہوتا یہ بھی کھڑا ہو جاتا اور اس کے طریق عبادت کو دیکھتا اور وعظ سنتا آتے جاتے یہاں رک جایا کرتا تھا ، جادوگر بھی مارتا اور ماں باپ بھی کیونکہ وہاں بھی دیر میں پہنچتا اور یہاں بھی دیر میں آتا ، ایک دن اس بچے نے راہب کے سامنے اپنی یہ شکایت بیان کی راہب نے کہا کہ جب جادوگر تجھ سے پوچھے کہ کیوں دیر لگ گئی تو کہہ دینا گھر والوں نے روک لیا تھا اور گھر والے پوچھیں تو کہہ دینا کہ آج جادوگر نے روک لیا تھا ، یونہی ایک زمانہ گزر گیا کہ ایک طرف تو جادو سیکھتا تھا اور دوسری جانب کلام اللہ اور دین اللہ سیکھتا تھا ایک دن وہ دیکھتا ہے کہ راستے میں ایک زبردست ہیبت ناک جانور پڑا ہوا ہے ، اس نے لوگوں کی آمد و رفت بند کر رکھی ہے ادھر والے ادھر اور ادھر والے ادھر نہیں آ سکتے ، اور سب لوگ ادھر ادھر حیران و پریشان کھڑے ہیں اس نے اپنے دل میں سوچا کہ آج موقعہ ہے کہ میں امتحان کر لوں کہ راہب کا دین اللہ کو پسند ہے یا جادوگر کا ؟ اس نے ایک پتھر اٹھایا اور یہ کہہ کر اس پر پھینکا کہ اللہ اگر تیرے نزدیک راہب کا دین اور اس کی تعلیم جادوگر کے امر سے زیادہ محبوب ہے تو تو اس جانور کو اس پتھر سے ہلاک کر دے تاکہ لوگوں کو اس بلا سے نجات ملے پتھر کے لگتے ہی وہ جانور مر گیا اور لوگوں کا آنا جانا شروع ہو گیا پھر جا کر راہب کو خبر دی اس نے کہا پیارے بچے تو مجھ سے افضل ہے اب اللہ کی طرف سے تیری آزمائش ہو گی اگر ایسا ہوا تو تو کسی کو میری خبر نہ کرنا ، اب اس بچے کے پاس حاجت مند لوگوں کو تانتا لگ گیا اور اس کی دعا سے مادر زاد اندھے کوڑھی جذامی اور ہر قسم کے بیمار اچھے ہونے لگے ۔} { بادشاہ کے ایک نابینا وزیر کے کان میں بھی یہ آواز پڑی وہ بڑے تحائف لے کر حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ اگر تو مجھے شفاء دیدے تو یہ سب تجھے دے دوں گا اس نے کہا شفاء میرے ہاتھ نہیں میں کسی کو شفاء نہیں دے سکتا شفاء دینے والا اللہ «وَحدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ» ہے اگر تو اس پر ایمان لانے کا وعدہ کرے تو میں اس سے دعا کروں اس نے اقرار کیا بچے نے اس کے لیے دعا کی اللہ نے اسے شفاء دے دی اور بادشاہ کے دربار میں آیا اور جس طرح اندھا ہونے سے پہلے کام کرتا تھا کرنے لگا ، اور آنکھیں بالکل روشن تھیں بادشاہ نے متعجب ہو کر پوچھا کہ تجھے آنکھیں کس نے دیں ؟ اس نے کہا میرے رب نے بادشاہ نے کہا ، ہاں یعنی میں نے ، وزیر نے کہا ، نہیں نہیں ، میرا اور تیرا رب اللہ ہے ، بادشاہ نے کہا ، اچھا تو کیا میرے سوا تیرا کوئی اور بھی رب ہے ؟ وزیر نے کہا ہاں میرا اور تیرا رب اللہ عزوجل ہے ۔ اب اس نے اسے مار پیٹ شروع کر دیا اور طرح طرح کی تکلیفیں اور ایذائیں پہنچانے لگا اور پوچھنے لگا کہ تجھے یہ تعلیم کس نے دی ؟ آخر اس نے بتا دیا کہ اس بچے کے ہاتھ پر میں نے اسلام قبول کیا اور اس نے اسے بلوایا اور کہا اب تو تم جادو میں خوب کامل ہو گئے ہو کہ اندھوں کو دیکھتا اور بیماروں کو تندرست کرنے لگ گئے اس نے کہا غلط ہے نہ میں کسی کو شفاء دے سکتا ہوں نہ جادو ، شفاء تو اللہ عزوجل کے ہاتھ میں ہے کہنے لگا ہاں یعنی میرے ہاتھ میں ہے ، کیونکہ اللہ تو میں ہی ہوں اس نے کہا ہرگز نہیں ، کہا پھر کیا تو میرے سوا کسی اور کو رب مانتا ہے ؟ تو وہ کہنے لگا ہاں ! میرا اور تیرا رب اللہ تعالیٰ ہے اس نے اب اسے بھی طرح طرح کی سزائیں دینی شروع کیں یہاں تک کہ راہب کا پتہ لگا لیا راہب کو بلا کر اس نے کہا کہ تو اسلام کو چھوڑ دے اور اس دین سے پلٹ جا ، اس نے انکار کیا تو اس بادشاہ نے آرے سے اس کے چہرے کو چیر دیا اور ٹھیک دو ٹکڑے کر کے پھینک دیا پھر اس نوجوان سے کہا کہ تو بھی دین سے پھر جا مگر اس نے بھی انکار کر دیا تو بادشاہ نے حکم دیا کہ ہمارے سپاہی اسے فلاں فلاں پہاڑ پر لے جائیں اور اس کی بلند چوٹی پر پہنچ کر پھر اسے اس کے دین چھوڑ دینے کو کہیں اگر مان لے تو اچھا ورنہ وہیں سے لڑھکا دیں ۔} { چنانچہ یہ لوگ اسے لے گئے جب وہاں سے دھکا دینا چاہا تو اس نے اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا کی « اللہُمَّ اِکْفِنِیہِمْ بِمَا شِئْت» اللہ جس طرح چاہ مجھے ان سے نجات دے ، اس دعا کے ساتھ پہاڑ ہلا اور وہ سب سپاہی لڑھک گئے صرف وہ بچہ بچا رہا ، وہاں سے وہ اترا اور ہنسی خوشی پھر اس ظالم بادشاہ کے پاس آ گیا ، بادشاہ نے کہا یہ کیا ہوا میرے سپاہی کہاں ہیں ؟ فرمایا : میرے اللہ نے مجھے ان سے بچا لیا اس نے کچھ اور سپاہی بلوائے اور ان سے بھی یہی کہا کہ اسے کشتی میں بٹھا کر لے جاؤ ، اور بیچوں بیچ سمندر میں ڈبو کر چلے آؤ یہ اسے لے کر چلے اور بیچ میں پہنچ کر جب سمندر میں پھینکنا چاہا تو اس نے پھر وہی دعا کی کہ بار الٰہی جس طرح چاہ مجھے ان سے بچا ، موج اٹھی اور وہ سپاہی سارے کے سارے سمندر میں ڈوب گئے صرف وہ بچہ ہی باقی رہ گیا یہ پھر بادشاہ کے پاس آیا ، اور کہا میرے رب نے مجھے ان سے بھی بچا لیا ، اے بادشاہ تو چاہے تمام تدبیریں کر ڈال لیکن مجھے ہلاک نہیں کر سکتا ہاں جس طرح میں کہوں اس طرح اگر کرے تو البتہ میری جان نکل جائے گی ۔ اس نے کہا کیا کروں فرمایا تو لوگوں کو ایک میدان میں جمع کر پھر کھجور کے تنے پر سولی چڑھا اور میرے ترکش میں سے ایک تنکا نکال میری کمان پر چڑھا اور «بِسْمِ اللَّہ رَبّ ھٰذا الْغُلَام» یعنی اسی اللہ کے نام سے جو اس بچے کا رب ہے کہہ کر وہ تیر میری طرف پھینک وہ مجھے لگے اور اس سے میں مروں گا چنانچہ بادشاہ نے یہی کیا تیر بچے کی کنپٹی میں لگا اس نے اپنا ہاتھ اس جگہ رکھ لیا اور شہید ہو گیا ۔ اس کے اس طرح شہید ہوتے ہی لوگوں کو اس کے دین کی سچائی کا یقین آ گیا چاروں طرف سے یہ آوازیں اٹھنے لگیں کہ ہم سب اس بچے کے رب پر ایمان لا چکے یہ حال دیکھ کر بادشاہ کے مصاحب گھبرائے اور بادشاہ سے کہنے لگے اس لڑکے کی ترکیب ہم سمجھے ہی نہیں دیکھئیے اس کا یہ اثر پڑا کہ یہ تمام لوگ اس کے مذہب پر ہو گئے ہم نے تو اسی لیے قتل کیا تھا کہ کہیں یہ مذہب پھیل نہ جائے لیکن وہ ڈر تو سامنے ہی آ گیا اور سب مسلمان ہو گئے ۔ بادشاہ نے کہا اچھا یہ کرو کہ تمام محلوں اور راستوں میں خندقیں کھدواؤ ان میں لکڑیاں بھرو اور اس میں آگ لگا دو جو اس دین سے پھر جائے اسے چھوڑ دو اور جو نہ مانے اسے اس آگ میں ڈال دو ان مسلمانوں نے صبر و ضبط کے ساتھ آگ میں جلنا منظور کر لیا اور اس میں کود کود گرنے لگے ، البتہ ایک عورت جس کی گود میں دودھ پیتا چھوٹا بچہ تھا وہ ذرا ہچکچائی تو اس بچہ کو اللہ نے بولنے کی طاقت دی اس نے کہا اماں کیا کر رہی ہو تم تو حق پر ہو صبر کرو اور اس میں کود پڑو ۔} ۱؎ (صحیح مسلم:3005) یہ حدیث مسند احمد میں بھی ہے اور صحیح مسلم کے آخر میں بھی ہے اور نسائی میں بھی قدرے اختصار کے ساتھ ہے ۔ ترمذی شریف کی حدیث میں ہے سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز کے بعد عموماً زیر لب کچھ فرمایا کرتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ آپ کیا فرماتے ہیں ، فرمایا : ” نبیوں میں سے ایک نبی تھے جو اپنی امت پر فخر کرتے تھے کہنے لگے کہ ان کی دیکھ بھال کون کرے گا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ انہیں اختیار ہے خواہ اس بات کو پسند کریں کہ میں خود ان سے انتقام لوں خواہ اس بات کو پسند کریں کہ میں ان پر ان کے دشمنوں کو مسلط کروں ، انہوں نے انتقام کو پسند کیا چنانچہ ایک ہی دن میں ان میں سے ستر ہزار مر گئے “ ۔ } اس کے ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث بھی بیان کی جو اوپر گزری پھر آخیر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے «قُتِلَ أَصْحَابُ الْأُخْدُودِ» سے «ذُو الْعَرْشِ الْمَجِیدُ» ۱؎ (85-البروج:4-15) تک کی آیتوں کی تلاوت فرمائی ۔ یہ نوجوان شہید دفن کر دئیے گئے تھے اور سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی خلافت کے زمانہ میں ان کی قبر سے انہیں نکالا گیا تھا ان کی انگلی اسی طرح ان کی کنپٹی پر رکھی ہوئی تھی جس طرح بوقت شہادت تھی ، امام ترمذی اسے حسن غریب بتلاتے ہیں۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3340،قال الشیخ الألبانی:صحیح) لیکن اس روایت میں یہ صراحت نہیں کہ یہ واقعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا تو ممکن ہے کہ صہیب رومی رضی اللہ عنہ نے ہی اس واقعہ کو بیان فرمایا ہو ان کے پاس نصرانیوں کی ایسی حکایتیں بہت ساری تھیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» امام محمد بن اسحاق رحمہ اللہ نے بھی اس قصہ کو دوسرے الفاظ میں بیان فرمایا ہے ، جو اس کے خلاف ہے وہ کہتے ہیں کہ نجرانی لوگ بت پرست مشرک تھے ، اور نجران کے پاس ایک چھوٹا سا گاؤں تھا ۔ جس میں ایک جادوگر تھا ، نجرانیوں کو جادو سکھایا کرتا تھا ۔ فیمون نامی ایک بزرگ عالم یہاں آئے اور نجران اور اس کے گاؤں کے درمیان انہوں نے اپنا پڑاؤ ڈالا ۔ شہر کے لڑکے جو جادوگر سے جادو سیکھنے جایا کرتے تھے ان میں تاجر کا ایک لڑکا عبداللہ نامی بھی تھا اسے آتے جاتے راہب کی عبادت اور اس کی نماز وغیرہ کے دیکھنے کا موقعہ ملتا اس پر غور و خوض کرتا اور دل میں اس کے مذہب کی سچائی جگہ کرتی جاتی پھر تو اس نے یہاں آنا جانا شروع کر دیا ۔ اور مذہبی تعلیم بھی اس راہب سے لینے لگا ۔ کچھ دنوں بعد اس مذہب میں داخل ہو گیا اور اسلام قبول کر لیا توحید کا پابند ہو گیا اور ایک اللہ کی عبادت کرنے لگا اور علم دین اچھی طرح حاصل کر لیا وہ راہب اسم اعظم بھی جانتا تھا اس نے ہر چند خواہش کی کہ اسے بتا دے لیکن اس نے نہ بتایا اور کہہ دیا کہ ابھی تم میں اس کی صلاحیت نہیں آئی تم ابھی کمزور دل والے ہو اس کی طاقت میں تم میں نہیں پاتا ۔ عبداللہ کے باپ تامر کو اپنے بیٹے کے مسلمان ہو جانے کی مطلق خبر نہ تھی وہ اپنے نزدیک یہی سمجھ رہا تھا کہ میرا بیٹا جادو سیکھ رہا ہے ، اور وہیں جاتا آتا رہتا ہے۔ عبداللہ نے جب دیکھا کہ راہب مجھے اسم اعظم نہیں سکھاتے اور انہیں میری کمزوری کا خوف ہے تو ایک دن انہوں نے تیر لیے اور جتنے نام اللہ تبارک و تعالیٰ کے انہیں یاد تھے ہر تیر پر ایک نام لکھا پھر آگ جلا کر بیٹھ گیا اور ایک ایک تیر کو اس میں ڈالنا شروع کیا جب وہ تیر آیا جس پر اسم اعظم تھا تو وہ آگ میں پڑتے ہی اچھل کر باہر نکل آیا اور اس پر آگ نے بالکل اثر نہ کیا سمجھ لیا کہ یہی اسم اعظم ہے ۔ اپنے استاد کے پاس آئے اور کہا اسم اعظم کا علم مجھے ہو گیا استاد نے پوچھا بتاؤ کیا ہے ؟ اس نے بتایا راہب نے پوچھا کیسے معلوم ہوا تو اس نے سارا واقعہ کہہ سنایا فرمایا بھئی تم نے خوب معلوم کر لیا واقعی یہی اسم اعظم ہے ۔ اسے اپنے ہی تک رکھو لیکن مجھے تو ڈر ہے کہ تم کھل جاؤ گے ۔ ان کی یہ حالت ہوئی کہ یہ نجران میں آئے یہاں جس بیمار پر ، جس دکھی پر ، جس ستم رسیدہ پر نظر پڑی اس سے کہا کہ اگر تم موحد بن جاؤ اور دین اسلام قبول کر لو تو میں رب سے دعا کرتا ہوں وہ تمہیں شفاء اور نجات دیدے گا ، اور دکھ بلا کو ٹال دے گا ، وہ اسے قبول کر لیتا یہ اسم اعظم کے ساتھ دعا کرتے اللہ اسے بھلا چنگا کر دیتا اب تو نجرانیوں کے ٹھٹھ لگنے لگے اور جماعت کی جماعت روزانہ مشرف بہ اسلام اور فائزالمرام ہونے لگی۔ آخر بادشاہ کو اس کا علم ہوا اس نے اسے بلا کر دھمکایا کہ تو نے میری رعیت کو بگاڑ دیا اور میرے اور میرے باپ دادا کے مذہب پر حملہ کیا میں اس کی سزا میں تیرے ہاتھ پاؤں کاٹ کر تجھے چوراہے پر رکھوا دوں گا ۔ عبداللہ بن تامر نے جواب دیا کہ تو ایسا نہیں کر سکتا اب بادشاہ نے اسے پہاڑ پر سے گرا دیا لیکن وہ نیچے آ کر صحیح سلامت رہا جسم پر کہیں چوٹ بھی نہ آئی نجران کے ان طوفان خیز دریاؤں میں گرداب کی جگہ انہیں لا ڈالا جہاں سے کوئی بچ نہیں سکتا لیکن یہ وہاں سے بھی صحت و سلامتی کے ساتھ واپس آ گئے۔ غرض ہر طرح عاجز آ گیا تو پھر عبداللہ بن تامر نے فرمایا سن اے بادشاہ تو میرے قتل پر کبھی قادر نہ ہو گا یہاں تک کہ تو اس دین کو مان لے جسے میں مانتا ہوں اور ایک اللہ کی عبادت کرنے لگے اگر یہ کر لے گا تو پھر تو مجھے قتل کر سکتا ہے ، بادشاہ نے ایسا ہی کیا اس نے عبداللہ کا بتلایا ہوا کلمہ پڑھا اور مسلمان ہو کر جو لکڑی اس کے ہاتھ میں تھی اس سے عبداللہ کو مارا جس سے کچھ یونہی سے خراش آئی اور اسی سے وہ شہید ہو گئے اللہ ان سے خوش ہو اور اپنی خاص رحمتیں انہیں عنایت فرمائے ان کے ساتھ ہی بادشاہ بھی مر گیا۔ اس واقعہ نے لوگوں کے دلوں میں یہ بات پیوست کر دی کہ دین ان کا ہی سچا ہے چنانچہ نجران کے تمام لوگ مسلمان ہو گئے اور عیسیٰ علیہ السلام کے سچے دین پر قائم ہو گئے اور وہی مذہب اس وقت برحق بھی تھا ۔ ابھی تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نبی بن کر دنیا میں آئے نہ تھے لیکن پھر ایک زمانہ کے بعد ان میں بدعتیں پیدا ہونے لگیں اور پھیل گئیں اور دین حق کا نور چھن گیا غرض نجران میں عیسائیت کے پھیلنے کا اصلی سبب یہ تھا ۔ اب ایک زمانہ کے بعد ذونواس یہودی نے اپنے لشکر سمیت ان نصرانیوں پر چڑھائی کی اور غالب آ گیا پھر ان سے کہا یا تو یہودیت قبول کر لو یا موت ، انہوں نے قتل ہونا منظور کیا اس نے خندقیں کھدوا کر آگ سے پر کر کے ان کو جلا دیا بعض کو قتل بھی کیا بعض کے ہاتھ پاؤں ناک کان کاٹ دئیے وغیرہ ۔ تقریباً بیس ہزار مسلمانوں کو سرکش نے قتل کیا اور اس کا ذکر آیت «قُتِلَ أَصْحَابُ الْأُخْدُودِ» ۱؎ (85-البروج:4) میں ہے ۔ ذونواس کا نام زرعہ تھا اس کی بادشاہت کے زمانہ میں اسے یوسف کہا جاتا تھا اس کے باپ کا نام بیان اسعد ابی کریب تھا جو تبع مشہور ہے جس نے مدینہ میں غزوہ کیا اور کعبہ کو پردہ چڑھایا اس کے ساتھ دو یہودی عالم تھے ، یمن والے ان کے ہاتھ پر یہودی مذہب میں داخل ہوئے ذونواس نے ایک ہی دن میں صرف صبح کے وقت ان کھائیوں میں بیس ہزار ایمان والوں کو قتل کیا ان میں سے صرف ایک ہی شخص بچ نکلا جس کا نام دوس ذی ثعلبان تھا یہ گھوڑے پر بھاگ کھڑا ہوا گو اس کے پیچھے بھی گھوڑے سوار دوڑائے لیکن یہ ہاتھ نہ لگا ، یہ سیدھا شاہ روم قیصر کے پاس گیا اس نے حبشہ کے بادشاہ نجاشی کو لکھا چنانچہ دوس وہاں سے حبشہ کے نصرانیوں کا لشکر لے کر یمن آیا اس کے سردار اریاط اور ابرہہ تھے یہودی مغلوب ہوئے یمن یہودیوں کے ہاتھ سے نکل گیا ۔ ذونواس بھاگ نکلا لیکن وہ پانی میں غرق ہو گیا پھر ستر سال تک یہاں حبشہ کے نصرانیوں کا قبضہ رہا بالاخر سیف بن ذی یزن حمیری نے فارس کے بادشاہ سے امدادی فوجیں اپنے ساتھ لیں اور سات سو قیدی لوگوں سے اس پر چڑھائی کر کے فتح حاصل کی اور پھر سلطنت حمیری قائم کی اس کا کچھ بیان سورۃ الفیل میں بھی آئے گا ، ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ سیرۃ ابن اسحاق میں ہے کہ ایک نجرانی نے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں نجران کی ایک بنجر غیر آباد زمین اپنے کسی کام کے لیے کھودی تو دیکھا کہ عبداللہ بن تامر رحمہ اللہ کا جسم اس میں ہے آپ بیٹھے ہوئے ہیں سر پر جس جگہ چوٹ آئی تھی وہیں ہاتھ ہے ، ہاتھ اگر ہٹاتے ہیں تو خون بہنے لگتا ہے پھر ہاتھ کو چھوڑ دیتے ہیں تو ہاتھ اپنی جگہ چلا جاتا ہے ، اور خون تھم جاتا ہے ہاتھ کی انگلی میں انگوٹھی ہے جس پر «رَبِّیَ اللہُ» لکھا ہوا ہے یعنی میرا رب اللہ ہے ۔ چنانچہ اس واقعہ کی اطلاع قصر خلافت میں دی گئی ، یہاں سے سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا فرمان گیا کہ ” اسے یونہی رہنے دو اور اوپر سے مٹی وغیرہ جو ہٹائی ہے ، وہ ڈال کر جس طرح تھا اسی طرح بے نشان کر دو “ چنانچہ یہی کیا گیا ۔ ابن ابی الدنیا نے لکھا ہے کہ جب سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے اصفہان فتح کیا تو ایک دیوار دیکھی کہ وہ گر پڑی ہے ان کے حکم پر وہ بنا دی گئی لیکن پھر گر پڑی پھر بنوائی پھر گر پڑی آخر معلوم ہوا کہ اس کے نیچے کوئی نیک بخت شخص مدفون ہیں جب زمین کھودی تو دیکھا کہ ایک شخص کا جسم کھڑا ہوا ہے ساتھ ہی ایک تلوار ہے جس پر لکھا ہے میں حارث بن مضاض ہوں میں نے کھائیوں والوں کا انتقام لیا ۔ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے اس لاشے کو نکال لیا اور وہاں دیوار کھڑی کرا دی جو برابر رہی ، میں کہتا ہوں یہ حارث بن مضاض بن عمرو جرہی ہے جو کعبۃ اللہ کے متولی ہوئے تھے ، ثابت بن اسمٰعیل بن ابراہیم کی اولاد کے بعد اس کا لڑکا عمرو بن حاث بن مضاض تھا جو مکہ میں جرہم خاندان کا آخری بادشاہ تھا ، جس وقت کہ خزاعہ قبیلے نے انہیں یہاں سے نکال اور یمن کی طرف جلا وطن کیا ۔ یہی وہ شخص ہے جس نے پہلے پہلے عرب میں شعر کہا جس شعر میں ویران مکہ کو اپنا آباد کرنا اور زمانہ کے ہیر پھیر اور انقلابات سے پھر وہاں سے نکالا جانا اس نے بیان کیا ۔ اس واقعہ سے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ قصہ اسماعیل علیہ السلام کے کچھ زمانہ کے بعد کا اور بہت پرانا ہے جو کہ اسماعیل علیہ السلام کے تقریباً پانچ سو سال کے بعد کا معلوم ہوتا ہے ۔ لیکن ابن اسحاق کی اس مطول روایت سے جو پہلے گزری ہے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ یہ قصہ عیسیٰ علیہ السلام کے بعد کا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کا ہے زیادہ ٹھیک بھی یہی معلوم ہوتا ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ واقعہ دنیا میں کئی بار ہوا ہو ، جیسے کہ ابن ابی حاتم کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ عبد الرحمن بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ تبع کے زمانہ میں یمن میں خندقیں کھدوائی گئی تھیں اور قسطنطین کے زمانہ میں قسطنطنیہ میں بھی مسلمانوں کے یہی عذاب دیا گیا تھا ۔ جبکہ نصرانیوں نے اپنا قبلہ بدل دیا دین مسیح میں بدعتیں ایجاد کر لیں توحید کو چھوڑ بیٹھے اس وقت جو سچے دیندار تھے انہوں نے ان کا ساتھ نہ دیا اور اصلی دین پر قائم رہے تو ان ظالموں نے خندقیں آگ سے بھروا کر انہیں جلا دیا اور یہی واقعہ بابل کی زمین پر عراق میں بخت نصر کے زمانہ میں ہوا جس نے ایک بت بنا لیا تھا اور لوگوں سے اسے سجدہ کراتا تھا ، دانیال اور ان کے دونوں ساتھی عزریا اور مشایل نے اس سے انکار کر دیا تو اس نے انہیں اس آگ کی خندق میں ڈال دیا۔ اللہ تعالیٰ نے آگ کو ان پر ٹھنڈا کر دیا انہیں سلامتی عطا فرمائی صاف نجات دی اور اس سرکش کافروں کو ان خندقوں میں ڈال دیا یہ نو قبیلے تھے سب جل کر خاک ہو گئے ۔ سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں تین جگہ یہ معاملہ ہوا عراق میں شام میں اور یمن میں ۔ مقاتل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ خندقیں تین جگہ تھیں ایک تو یمن کے شہر نجران میں ، دوسری شام میں ، تیسری فارس میں ۔ شام میں اس کا بانی انطنانوس رومی تھا اور فارس میں بخت نصر اور زمین عرب پر یوسف ذونواس ، فارس اور شام کی خندقیوں کا ذکر قرآن میں نہیں یہ ذکر نجران کا ہے ۔ ربیع بن انس رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم نے سنا ہے فترۃ کے زمانے میں یعنی عیسیٰ علیہ السلام اور پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان کے زمانہ میں ایک قوم تھی انہوں نے جب دیکھا کہ لوگ فتنے اور شر میں گرفتار ہو گئے ہیں اور گروہ گروہ بن گئے ہیں اور ہر گروہ اپنے خیالات میں خوش ہے تو ان لوگوں نے انہیں چھوڑ دیا یہاں سے ہجرت کر کے الگ ایک جگہ بنا کر وہیں رہنا سہنا شروع کیا اور اللہ کی مخلصانہ عبادت میں یکسوئی کے ساتھ مشغول ہو گئے نمازوں کی پابندی زکوٰتوں کی ادائیگی میں لگ گئے اور ان سے الگ تھلگ رہنے لگے یہاں تک کہ ایک سرکش بادشاہ کو اس اللہ والی جماعت کا پتہ لگ گیا اس نے ان کے پاس اپنے آدمی بھیجے اور انہیں سمجھایا کہ تم بھی ہمارے ساتھ مل جاؤ اور بت پرستی شروع کر دو ان سب نے بالکل انکار کیا کہ ہم سے یہ نہیں ہو سکتا کہ اللہ «وَحدَہُ لَا شَرِیکَ لَہُ» کے سوا کسی اور کی بندگی کریں ۔ بادشاہ نے کہلوایا کہ اگر یہ تمہیں منظور نہیں تو میں تمہیں قتل کرا دوں گا ، جواب ملا کہ جو چاہو کرو لیکن ہم سے دین نہیں چھوڑا جائے گا ، اس ظالم نے خندقیں کھدوائیں آگ جلوائی اور ان سب مرد و عورتوں اور بچوں کو جمع کر لیا اور ان خندقوں کے کنارے کھڑا کر کے کہا بولو یہ آخری سوال جواب ہے آیا بت پرستی قبول کرتے ہو یا آگ میں گرنا قبول کرتے ہو انہوں نے کہا ہمیں جل مرنا منظور ہے ، لیکن چھوٹے چھوٹے بچوں نے چیخ و پکار شروع کر دی بڑوں نے انہیں سمجھایا کہ بس آج کے بعد آگ نہیں ۔ نہ گھبراؤ اور اللہ کا نام لے کر کود پڑو چنانچہ سب کے سب کود پڑے انہیں آنچ بھی نہیں لگنے پائی تھی کہ اللہ نے ان کی روحیں قبض کر لیں اور آگ خندقوں سے باہر نکل پڑی اور ان بدکردار سرکشوں کو گھیر لیا اور جتنے بھی تھے سارے کے سارے جلا دئیے گئے ان کی خبر ان آیتوں «قُتِلَ أَصْحَابُ الْأُخْدُودِ» الخ میں ہے ۔ تو اس بنا پر «فَتَنُوا» کے معنی ہوئے کہ جلایا ۔ تو فرماتا ہے کہ ’ ان لوگوں نے مسلمان مردوں عورتوں کو جلا دیا ہے اگر انہوں نے توبہ نہ کی یعنی اپنے اس فعل سے باز نہ آئے ، نہ اپنے اس کئے پر نادم ہوئے تو ان کے لیے جہنم ہے اور جلنے کا عذاب ہے تاکہ بدلہ بھی ان کے عمل جیسا ہو ۔ ‘ حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ بزرگ و برتر کے کرم و رحم اس کی مہربانی اور عنایت کو دیکھو کہ جب بدکاروں نے اس کے پیارے بندوں کو ایسے بدترین عذابوں سے مارا انہیں بھی وہ توبہ کرنے کو کہتا ہے اور ان سے بھی مغفرت اور بخشش کا وعدہ کرتا ہے ۔ اللہ ہمیں بھی اپنے وسیع رحمتوں سے بھرپور حصہ عطا فرمائے ۔ آمین ۔ البروج
9 البروج
10 البروج
11 عرش کا مالک اپنے بندوں سے بہت پیار کرتا ہے اپنے دشمنوں کا انجام بیان کر کے اپنے دوستوں کا نتیجہ بیان فرما رہا ہے کہ ’ ان کے لیے جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں ان جیسی کامیابی اور کسے ملے گی ؟ ‘ پھر فرمایا ہے کہ ’ تیرے رب کی پکڑ بڑی سخت ہے وہ اپنے ان دشمنوں کو جو اس کے رسولوں کو جھٹلاتے رہے اور ان کی نافرمانیوں میں لگے رہے سخت تر قوت کے ساتھ اس طرح پکڑے گا کہ کوئی راہ نجات ان کے لیے باقی نہ رہے ، وہ بڑی قوتوں والا ہے جو چاہا کیا جو کچھ چاہتا ہے وہ ایک لمحہ میں ہو جاتا ہے اس کی قدرتوں اور طاقتوں کو دیکھ کر اس نے تمہیں پہلے بھی پیدا کیا اور پھر بھی مار ڈالنے کے بعد دوبارہ پیدا کر دے گا نہ اسے کوئی روکے نہ آگے آئے نہ سامنے پڑے وہ اپنے بندوں کے گناہوں کو معاف کرنے والا ہے بشرطیکہ وہ اس کی طرف جھکیں اور توبہ کریں اور اس کے سامنے ناک رگڑیں پھر چاہے کیسی ہی خطائیں ہوں ایک دم میں سب معاف ہو جاتی ہیں ، اپنے بندوں سے وہ پیار و محبت رکھتا ہے وہ عرش والا ہے جو عرش تمام مخلوق سے بلند و بالا ہے اور تمام خلائق کے اوپر ہے ۔ ‘ مجید کی دو قرأتیں ہیں دال کا پیش بھی اور دال کا زیر بھی پیش کے ساتھ وہ اللہ کی صفت بن جائے گا اور زیر کے ساتھ عرش کی صفت ہے معنی دونوں کے بالکل صحیح اور ٹھیک بیٹھتے ہیں وہ جس کام کا جب ارادہ کرے کرنے پر قدرت رکھتا ہے اس کی عظمت عدالت حکمت کی بنا پر نہ کوئی اسے روک سکے نہ اس سے پوچھ سکے ۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے ان کی اس بیماری میں جس میں آپ کا انتقال ہوتا ہے لوگ سوال کرتے ہیں کہ کسی طبیب نے بھی آپ کو دیکھا فرمایا : ہاں پوچھا : پھر کیا جواب دیا فرمایا کہ جواب دیا «إِنِّی فَعَّال لِمَا أُرِید» پھر فرماتا ہے کہ ’ کیا تجھے خبر بھی ہے کہ فرعونیوں اور ثمودیوں پر کیا کیا عذاب آئے اور کوئی ایسا نہ تھا کہ ان کی کسی طرح کی مدد کر سکتا نہ کوئی اور اس عذاب کو ہٹا سکا ۔ ‘ مطلب یہ ہے کہ اس کی پکڑ سخت ہے جب وہ کسی ظالم کو پکڑتا ہے تو دردناکی اور سختی سے بڑی زبردست پکڑ پکڑتا ہے ، ابن ابی حاتم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلے جا رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا کوئی بیوی صاحبہ قرآن پاک کی یہ آیت پڑھ رہی ہیں ۔ «ہَلْ اَتٰیکَ حَدِیْثُ الْجُــنُوْدِ» ۱؎ (85-البروج:17) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے رہ گئے اور کان لگا کر سنتے رہے اور فرمایا : { «نَعَمْ قَدْ جَاءَنِی» یعنی ہاں میرے پاس وہ خبریں آ گئیں ۔ } ۱؎ (ضعیف جدا) یعنی قرآن کی اس آیت کا جواب دیا کہ ’ کیا تجھے فرعونیوں اور ثمودیوں کی خبر پہنچی ہے ؟ ‘ پھر فرمایا کہ ’ بلکہ کافر شک و شبہ میں کفر و سرکشی میں ہیں اور اللہ ان پر قادر اور غالب ہے نہ یہ اس سے گم ہو سکیں نہ اسے عاجز کر سکیں بلکہ یہ قرآن عزت اور کرامت والا ہے وہ لوح محفوظ کا نوشتہ ہے بلند مرتبہ فرشتوں میں ہے زیادتی کمی سے پاک اور سرتاپا محفوظ ہے نہ اس میں تبدیلی ہو نہ تحریف ۔ ‘ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ لوح محفوظ اسرافیل کی پیشانی پر ہے ، عبدالرحمٰن بن سلمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ دنیا میں جو کچھ ہوا ، ہو رہا ہے اور ہو گا وہ سب لوح محفوظ میں موجود ہے اور لوح محفوظ اسرافیل کی دونوں آنکھوں کے سامنے ہے لیکن جب تک انہیں اجازت نہ ملے وہ اسے دیکھ نہیں سکتے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ { لوح محفوظ کی پیشانی پر یہ عبارت ہے ، کوئی معبود نہیں بجز اللہ تعالیٰ کے ، وہ اکیلا ہے اس کا دین اسلام ہے ، محمد اس کے بندے ہیں اور اس کے رسول ہیں [ صلی اللہ علیہ وسلم ] ، جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اس کے وعدے کو سچا جانے اس کے رسولوں کی تابعداری کرے اللہ عالم اسے جنت میں داخل کرے گا۔} فرماتے ہیں یہ لوح سفید موتی کی ہے اس کا طول آسمان و زمین کے درمیان کے برابر ہے اور اس کی چوڑائی مشرق و مغرب کے برابر ہے ، اس کے دونوں کنارے موتی اور یاقوت کے ہیں اس کے دونوں پٹھے سرخ یاقوت کے ہیں اس کا قلم نور ہے اس کا کلام عرش کے ساتھ وابستہ ہے اس کی اصل فرشتہ کی گود میں ہے۔ ۱؎ (لا اصل لہُ) مقاتل رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ اللہ کے عرش کے دائیں طرف ہے۔ طبرانی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ { «إِنَّ اللَّہ تَعَالَی خَلَقَ لَوْحًا مَحْفُوظًا مِنْ دُرَّۃ بَیْضَاء صَفَحَاتہَا مِنْ یَاقُوتَۃ حَمْرَاء قَلَمہ نُور وَکِتَابہ نُور لِلہِ فِیہِ فِی کُلّ یَوْم سِتٰونَ وَثَلَاثمِائَۃِ لَحْظَۃ یَخْلُق وَیَرْزُق وَیُمِیت وَیُحْیِی وَیُعِزّ وَیُذِلّ وَیَفْعَل مَا یَشَاء» اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ کو سفید موتی سے پیدا کیا اس کے صفحے سرخ یاقوت کے ہیں اس کا قلم نور کا ہے اس کی کتابت نور کی ہے اللہ تعالیٰ ہر دن تین سو ساٹھ مرتبہ اسے دیکھتا ہے وہ پیدا کرتا ہے روزی دیتا ہے مارتا ہے زندگی دیتا ہے عزت دیتا ہے ذلت دیتا ہے اور جو چاہے کرتا ہے ۔} (طبرانی کبیر:12511:ضعیف) «الْحَمْدُ لِلّٰہ» سورۂ بروج کی تفسیر ختم ہوئی ۔ البروج
12 البروج
13 البروج
14 البروج
15 البروج
16 البروج
17 البروج
18 البروج
19 البروج
20 البروج
21 البروج
22 البروج
0 الطارق
1 تخلیق انسان اللہ تعالیٰ آسمانوں کی اور ان کے روشن ستاروں کی قسم کھاتا ہے «طارق» کی تفسیر چمکتے ستارے سے کی ہے وجہ یہ ہے کہ دن کو چھپے رہتے ہیں اور رات کو ظاہر ہو جاتے ہیں ۔ ایک صحیح حدیث میں ہے کہ «نَہَی أَنْ یَطْرُقَ الرَّجُلُ أَہْلَہُ طُرُوقًا» { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ کوئی اپنے گھر رات کے وقت بے خبر آ جائے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1801) یہاں بھی لفظ «طُرُوقً» ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دعا «إِلَّا طَارِقًا یَطْرُقُ بِخَیْرٍ یَا رَحْمَنُ» میں بھی «طَارِقً» کا لفظ آیا ہے ۔ ۱؎ (مسند احمد:419/3:حسن) «ثَّاقِبُ» کہتے ہیں چمکیلے اور روشن ستارے کو جو شیطان پر گرتا ہے اور اسے جلا دیتا ہے ، ہر شخص پر اللہ کی طرف سے ایک محافظ مقرر ہے جو اسے آفات سے بچاتا ہے ۔ جیسے اور جگہ ہے «لَہُ مُعَقِّبَاتٌ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہِ یَحْفَظُونَہُ مِنْ أَمْرِ اللہِ » ۱؎ (13-الرعد:11) الخ یعنی ’ آگے پیچھے سے باری باری آنے والے فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کے حکم سے بندے کی حفاظت کرتے ہیں ‘ ۔ انسان کی ضعیفی کا بیان ہو رہا ہے کہ دیکھو تو اس کی اصل کیا ہے اور گویا اس میں نہایت باریکی کے ساتھ قیامت کا یقین دلایا گیا ہے کہ جو ابتدائی پیدائش پر قادر ہے وہ لوٹانے پر قادر کیوں نہ ہو گا ۔ جیسے فرمایا «وَہُوَ الَّذِی یَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیدُہُ وَہُوَ أَہْوَنُ عَلَیْہِ» ۱؎ (30-الروم:27) الخ یعنی ’ جس نے پہلے پیدا کیا وہ ہی دوبارہ لوٹائے گا اور یہ اس پر بہت ہی آسان ہے ‘ ۔ انسان اچھلنے والے پانی یعنی عورت ، مرد کی منی سے پیدا کیا گیا ہے جو مرد کی پیٹھ سے اور عورت کی چھاتی سے نکلتی ہے ، عورت کا یہ پانی زرد رنگ کا اور پتلا ہوتا ہے اور دونوں سے بچہ کی پیدائش ہوتی ہے ۔ «تَّرَائِبُ» کہتے ہیں ہار کی جگہ کو کندھوں سے لے کر سینے تک کو بھی کہا گیا ہے اور نرخرے سے نیچے کو بھی کہا گیا ہے اور چھاتیوں سے اوپر کے حصہ کو بھی کہا گیا ہے اور نیچے کی طرف چار پسلیوں کو بھی کہا گیا ہے اور دونوں چھاتیوں اور دونوں پیروں اور دونوں آنکھوں کے درمیان کو بھی کہا گیا ہے ، دل کے نچوڑ کو بھی کہا گیا ہے ، سینہ اور پیٹھ کے درمیان کو بھی کہا جاتا ہے وہ اس کے لوٹانے پر قادر ہے یعنی نکلے ہوئے پانی کو اس کی جگہ واپس پہنچا دینے پر اور یہ مطلب کہ اسے دوبارہ پیدا کر کے آخرت کی طرف لوٹانے پر بھی پچھلا قول ہی اچھا ہے ۔ اور یہ دلیل کئی مرتبہ بیان ہو چکی ہے پھر فرمایا کہ قیامت کے دن پوشیدگیاں کھل جائیں گی راز ظاہر ہو جائیں گے بھید آشکار ہو جائیں گے ۔ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” ہر غدار کی رانوں کے درمیان اس کے غدار کا جھنڈا گاڑ دیا جائے گا اور اعلان ہو جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی غداری ہے “ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6178) اس دن نہ تو خود انسان کو کوئی قوت حاصل ہو گی نہ اس کا کوئی مددگار کوئی اور کھڑا ہو گا یعنی نہ تو خود اپنے آپ کو عذابوں سے بچا سکے گا نہ کوئی اور ہو گا جو اسے اللہ کے عذاب سے بچا سکے ۔ الطارق
2 الطارق
3 الطارق
4 الطارق
5 الطارق
6 الطارق
7 الطارق
8 الطارق
9 الطارق
10 الطارق
11 صداقت قرآن کا ذکر «رَجْعِہِ» کے معنی بارش ، بارش والے بادل ، برسنے ، ہر سال بندوں کی روزی لوٹانے والے ، جس کے بغیر انسان اور ان کے جانور ہلاک ہو جائیں ، سورج ، چاند اور ستاروں کے ادھر ادھر لوٹنے کے مروی ہیں ، زمین پھٹتی ہے تو دانے گھاس اور چارہ نکلتا ہے ۔ یہ قرآن حق ہے عدل کا مظہر ہے یہ کوئی عذر قصہ باتیں نہیں کافر اسے جھٹلاتے ہیں اللہ کی راہ سے لوگوں کو روکتے ہیں طرح طرح کے مکر و فریب سے لوگوں کو قرآن کے خلاف اکساتے ہیں ۔ اے نبی ! تو انہیں ذرا سی ڈھیل دے پھر عنقریب دیکھ لے گا کہ کیسے کیسے بدترین عذابوں میں پکڑے جاتے ہیں جیسے اور جگہ ہے «نُمَتِّعُہُمْ قَلِیلًا ثُمَّ نَضْطَرٰہُمْ إِلَیٰ عَذَابٍ غَلِیظٍ» ۱؎ (31-لقمان:24) یعنی ’ ہم انہیں کچھ یونہی سا فائدہ دیں گے پھر نہایت سخت عذاب کی طرف انہیں بے بس کر دیں گے ‘ ۔ «الْحَمْدُ لِلّٰہ» سورۃ الطارق کی تفسیر ختم ہوئی ۔ الطارق
12 الطارق
13 الطارق
14 الطارق
15 الطارق
16 الطارق
17 الطارق
0 الأعلى
1 1 مسند احمد میں ہے { عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب آیت «فَسَبِّحْ باسْمِ رَبِّکَ الْعَظِیْمِ» ۱؎ (56-الواقعۃ:74) اتری تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اسے تم اپنے رکوع میں کر لو “ جب «سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلَی» ۱؎ (87-الأعلی:1) اتری تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اسے اپنے سجدے میں کر لو “ } ۱؎ (سنن ابوداود:869،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ابوداؤد وغیرہ کی حدیث میں ہے کہ { جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم «سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلَی» ۱؎ (87-الأعلی:1) پڑھتے تو کہتے «سُبْحَان رَبِّی الْأَعْلَی» } ۱؎ (سنن ابوداود:883،قال الشیخ الألبانی:صحیح) سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بھی یہ مروی ہے ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی یہ مروی ہے ۔ اور آپ جب «لَا أُقْسِم بِیَوْمِ الْقِیَامَۃ» ۱؎ (75-القیامۃ:1) پڑھتے اور آخری آیت «أَلَیْسَ ذٰلِکَ بِقَادِرٍ عَلَیٰ أَنْ یُحْیِیَ الْمَوْتَیٰ» ۱؎ (75-القیامۃ:40) پر پہنچتے تو فرماتے «سُبْحَانک وَبَلَی» ۱؎ (75-القیامۃ:40) اللہ تعالیٰ یہاں ارشاد فرماتا ہے ’ اپنے بلندیوں والے ، پرورش کرنے والے ، اللہ کے پاک نام کی پاکیزگی اور تسبیح بیان کرو جس نے تمام مخلوق کو پیدا کیا اور سب کو اچھی ہیئت بخشی ، انسان کو سعادت شقاوت کے چہرے دکھا دئیے اور جانور کو چرنے چگنے وغیرہ کے سامان مہیا کیے ‘ ۔ جیسے اور جگہ ہے «رَبٰنَا الَّذِی أَعْطَیٰ کُلَّ شَیْءٍ خَلْقَہُ ثُمَّ ہَدَیٰ» ۱؎ (20-طہ:50) یعنی ’ ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی پیدائش عطا فرمائی پھر رہبری کی ‘ ۔ صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ { زمین آسمان کی پیدائش سے پچاس ہزار سال پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی تقدیر لکھی اس کا عرش پانی پر تھا ۱؎ (سنن ترمذی:2134،قال الشیخ الألبانی:صحیح) جس میں ہر قسم کے نباتات اور کھیت نکالے پھر ان سرسبز چاروں کو خشک اور سیاہ رنگ کر دیا } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2653) بعض عارفان کلام عرب نے کہا ہے کہ یہاں بعض الفاظ جو ذکر میں مؤخر ہیں معنی کے لحاظ سے مقدم ہیں ، یعنی مطلب یہ ہے کہ جس نے گھاس چارہ سبز رنگ سیاہی مائل پیدا کیا پھر اسے خشک کر دیا ، گویہ معنی بھی بن سکتے ہیں لیکن کچھ ٹھیک نظر نہیں آتے کیونکہ مفسرین کے اقوال کے خلاف ہیں ۔ الأعلى
2 الأعلى
3 الأعلى
4 الأعلى
5 الأعلى
6 1 پھر فرماتا ہے کہ ’ تجھے ہم اے محمد [ صلی اللہ علیہ وسلم ] ایسا پڑھائیں گے جسے تو بھولے نہیں ہاں اگر خود اللہ کوئی آیت بھلا دینا چاہے تو اور بات ہے ‘ ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ تو اسی مطلب کو پسند کرتے ہیں ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:544/12) اور مطلب اس آیت کا یہ ہے کہ جو قرآن تجھے پڑھاتے ہیں اسے نہ بھول ، ہاں جسے ہم خود منسوخ کر دیں اس کی اور بات ہے ، اللہ پر بندوں کے چھپے ، کھلے اعمال ، احوال ، عقائد سب ظاہر ہیں ۔ ہم تجھے بھلائی کے کام ، اچھی باتیں ، شرعی امر آسان کر دیں گے نہ اس میں کجی ہو گی ، نہ سختی ، نہ جرم ہو گا ، تو نصیحت کر اگر نصیحت فائدے دے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ نالائقوں کو نہ سکھانا چاہیئے جیسے کہ امیر المؤمنین سیدنا علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ اگر تم دوسروں کے ساتھ وہ باتیں کرو گے جو ان کی عقل میں نہ آ سکیں تو نتیجہ یہ ہو گا کہ تمہاری بھلی باتیں ان کے لیے بری بن جائیں گی اور باعث فتنہ ہو جائیں گی ، بلکہ لوگوں سے ان کی سمجھ کے مطابق بات چیت کرو تاکہ لوگ اللہ اور رسول کو نہ جھٹلائیں ۔ پھر فرمایا کہ اس سے نصیحت وہ حاصل کرے گا جس کے دل میں اللہ کا خوف ہے جو اس کی ملاقات پر یقین رکھتا ہے اور اس سے عبرت و نصیحت حاصل نہیں کر سکتا جو بدبخت ہو ، جو جہنم میں جانے والا ہو ، جہاں نہ تو راحت کی زندگی ہے ، نہ بھلی موت ہے ، بلکہ وہ لازوال عذاب اور دائمی برائی ہے اس میں طرح طرح کے عذاب اور بدترین سزائیں ہیں ۔ مسند احمد میں ہے کہ { جو اصلی جہنمی ہیں انہیں نہ تو موت آئے گی نہ کارآمد زندگی ملے گی ۔ ہاں جن کے ساتھ اللہ کا ارادہ رحمت کا ہے وہ آگ میں گرتے ہی جل کر مر جائیں گے ، پھر سفارشی لوگ جائیں گے اور ان میں سے اکثر کو چھڑا لائیں گے ، پھر نہر حیات میں ڈال دئیے جائیں گے جنتی نہروں کا پانی ان پر ڈالا جائے گا اور وہ اس طرح جی اٹھیں گے جس طرح دانہ نالی کے کنارے کوڑے پر اگ آتا ہے کہ پہلے سبز ہوتا ہے ، پھر زرد ، پھر ہرا ۔ لوگ کہنے لگے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو اس طرح بیان فرماتے ہیں جیسے آپ جنگل سے واقف ہوں } ۱؎ (سنن ابن ماجہ:4309،قال الشیخ الألبانی:صحیح) یہ حدیث مختلف الفاظ سے بہت سی کتب میں مروی ہے ۔ قرآن کریم میں اور جگہ وارد ہے «وَنَادَوْا یَا مَالِکُ لِیَقْضِ عَلَیْنَا رَبٰکَ قَالَ إِنَّکُمْ مَاکِثُونَ» ۱؎ (43-الزخرف:77) یعنی ’ جہنمی لوگ پکار پکار کر کہیں گے کہ اے مالک داروغہ جہنم اللہ سے کہہ وہ ہمیں موت دیدے جواب ملے گا تم تو اب اسی میں پڑے رہنے والے ہو ‘ ۔ اور جگہ ہے «لَا یُقْضَیٰ عَلَیْہِمْ فَیَمُوتُوا وَلَا یُخَفَّفُ عَنْہُمْ مِنْ عَذَابِہَا کَذٰلِکَ نَجْزِی کُلَّ کَفُورٍ» ۱؎ (35-فاطر:36) الخ یعنی ’ نہ تو ان کی موت آئے گی نہ عذاب کم ہوں گے ‘ اس معنی کی آیتیں اور بھی ہیں ۔ الأعلى
7 الأعلى
8 الأعلى
9 الأعلى
10 الأعلى
11 الأعلى
12 الأعلى
13 الأعلى
14 جس نے صلوٰۃ کو بروقت ادا کیا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’ جس نے رذیل اخلاق سے اپنے تئیں پاک کر لیا ، احکام اسلام کی تابعداری کی ، نماز کو ٹھیک وقت پر قائم رکھا ، صرف اللہ تعالیٰ کی رضا مندی اور اس کی خوشنودی طلب کرنے کے لیے اس نے نجات اور فلاح پا لی ‘ ۔ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کر کے فرمایا کہ ” جو شخص اللہ تعالیٰ کے «وَحدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ» ہونے کی گواہی دے اس کے سوال کسی کی عبادت نہ کرے اور میری رسالت کو مان لے اور پانچوں وقت کی نمازوں کی پوری طرح حفاظت کرے وہ نجات پا گیا “ } ۔ ۱؎ (مسند بزار:2284،ضعیف) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اس سے مراد پانچ وقت کی نماز ہے ۔ ابوالعالیہ رحمہ اللہ نے ایک مرتبہ ابوخلدہ رحمہ اللہ سے فرمایا کہ کل جب عید گاہ جاؤ تو مجھ سے ملتے جانا ، جب میں گیا تو مجھ سے کہا : کچھ کھا لیا ہے ؟ میں نے کہا : ہاں ، فرمایا : نہا چکے ہو ؟ میں نے کہا ہاں ، فرمایا : زکوٰۃ فطر ادا کر چکے ہو ؟ میں نے کہا ہاں ، فرمایا : بس یہی کہنا تھا کہ اس آیت میں یہی مراد ہے ۔ اہل مدینہ فطرہ سے اور پانی پلانے سے افضل اور کوئی صدقہ نہیں جانتے تھے ، عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ بھی لوگوں کو فطرہ ادا کرنے کا حکم کرتے پھر اسی آیت کی تلاوت کرتے ، ابوالاحواص رحمہ اللہ فرماتے ہیں جب تم میں سے کوئی نماز کا ارادہ کرے اور کوئی سائل آ جائے تو اسے خیرات دے دے ، پھر یہی آیت پڑھی ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس نے اپنے مال کو پاک کر لیا اور اپنے رب کو راضی کر لیا ، پھر ارشاد ہے کہ تم دنیا کی زندگی کو آخرت کی زندگی پر ترجیح دے رہے ہو اور دراصل تمہاری مصلحت تمہارا نفع اخروی زندگی کو دنیوی زندگی پر ترجیح دینے میں ہے ۔ دنیا ذلیل ہے ، فانی ہے ، آخرت شریف ہے ، باقی ہے ۔ کوئی عاقل ایسا نہیں کر سکتا کہ فانی کو باقی کی جگہ اختیار کر لے اور اس فانی کے انتظام میں پڑ کر اس باقی کے اہتمام کو چھوڑ دے ۔ مسند احمد میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” دنیا اس کا گھر ہے جس کا آخرت میں نہ ہو ، دنیا اس کا مال ہے جس کا مال وہاں نہ ہو ۔ اسے جمع کرنے کے پیچھے وہ لگتے ہیں جو بیوقوف ہیں } ۔ ۱؎ (مسند احمد:81/6،ضعیف) ابن جریر میں ہے کہ عرفجہ ثقفی اس سورت کو سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس پڑھ رہے تھے جب یہ اس آیت پر پہنچے تو تلاوت چھوڑ کر اپنے ساتھیوں سے فرمانے لگے کہ سچ ہے ہم نے دنیا کو آخرت پر ترجیح دی ، لوگ خاموش رہے تو آپ نے پھر فرمایا کہ اس لیے کہ ہم دنیا کے گرویدہ ہو گئے کہ یہاں کی زینت کو ، یہاں کی عورتوں کو ، یہاں کے کھانے پینے کو ، ہم نے دیکھ لیا آخرت نظروں سے اوجھل ہے اس لیے ہم نے اس سامنے والی کی طرف توجہ کی اور اس نظر نہ آنے والی سے آنکھیں پھیر لیں ۔ یا تو یہ فرمان سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کا بطور تواضع کے ہے یا جنس انسان کی بابت فرماتے ہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” جس نے دنیا سے محبت کی اس نے اپنی آخرت کو نقصان پہنچایا اور جس نے آخرت سے محبت رکھی اس نے دنیا کو نقصان پہنچایا ، تم ، اے لوگو ! باقی رہنے والی کو فنا ہونے والی پر ترجیح دو } ۔ ۱؎ (مسند احمد:412/4،حسن لغیرہ) پھر فرماتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام کے صحیفوں میں بھی یہ تھا { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ یہ سب بیان ان صحیفوں میں بھی تھا } ۔ ۱؎ (مسند بزار:2285،ضعیف) نسائی میں سیدنا عباس رضی اللہ عنہما سے یہ مروی ہے اور جب آیت «وَإِبْرَاہِیمَ الَّذِی وَفَّیٰ» ۱؎ (53-النجم:37) نازل ہوئی تو فرمایا کہ «أَلَّا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِزْرَ أُخْرَیٰ» ۱؎ (53-النجم:38) اس سے مراد یہ ہے کہ ایک کا بوجھ دوسرے کو نہ اٹھانا ہے ۔ سورۃ النجم میں ہے «أَمْ لَمْ یُنَبَّأْ بِمَا فِی صُحُفِ مُوسَیٰ» * «وَإِبْرَاہِیمَ الَّذِی وَفَّیٰ» * «أَلَّا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِزْرَ أُخْرَیٰ» * «وَأَنْ لَیْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَیٰ» * «وَأَنَّ سَعْیَہُ سَوْفَ یُرَیٰ» * «ثُمَّ یُجْزَاہُ الْجَزَاءَ الْأَوْفَیٰ» * «وَأَنَّ إِلَیٰ رَبِّکَ الْمُنْتَہَیٰ» * «وَأَنَّہُ ہُوَ أَضْحَکَ وَأَبْکَیٰ» * «وَأَنَّہُ ہُوَ أَمَاتَ وَأَحْیَا» ۱؎ (53-النجم:42-36) آخری مضمون تک کی تمام آیتیں یعنی یہ سب احکام اگلی کتابوں میں بھی تھے اسی طرح یہاں بھی مراد «سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلَی» کی یہ آیتیں ہیں ۔ بعض نے پوری سورت کہی ہے بعض نے «قَدْ أَفْلَحَ» ۱؎ (87-الأعلی:14) سے «خَیْرٌ وَأَبْقَیٰ» (87-الأعلی:17) تک کہا ہے زیادہ قوی بھی یہی قول معلوم ہوتا ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» «الْحَمْدُ لِلّٰہ» سورۃ سبح کی تفسیر ختم ہوئی ۔ «وَلِلہِ الْحَمْد وَالْمِنَّۃ وَبِہِ التَّوْفِیق وَالْعِصْمَۃ» الأعلى
15 الأعلى
16 الأعلى
17 الأعلى
18 الأعلى
19 الأعلى
0 الغاشية
1 سب کو ڈھانپنے والی حقیقت «غَاشِیَۃُ» قیامت کا نام ہے اس لئے کہ وہ سب پر آئیگی سب کو گھیرے ہوئے ہو گی اور ہر ایک کو ڈھانپ لے گی ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہیں جا رہے تھے کہ ایک عورت کی قرآن پڑھنے کی آواز آئی آپ کھڑے ہو کر سننے لگے اس نے یہی آیت «ہَلْ أَتَاکَ» پڑھی یعنی ’ کیا تیرے پاس ڈھانپ لینے والی قیامت کی بات پہنچی ہے ؟ ‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواباً فرمایا : ” «نَعَمْ ، قَدْ جَاءَنِی» یعنی ہاں میرے پاس پہنچ چکی ہے ۔“ } اس دن بہت سے لوگ ذلیل چہروں والے ہوں گے پستی ان پر برس رہی ہو گی ان کے اعمال غارت ہو گئے ہوں گے انہوں نے تو بڑے بڑے عمل کئے تھے ، سخت تکلیفیں اٹھائی تھیں وہ آج بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہو گئے ۔ ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ایک خانقاہ کے پاس سے گزرے وہاں کے راہب کو آواز دی وہ حاضر ہوا آپ اسے دیکھ کر روئے لوگوں نے پوچھا : حضرت کیا بات ہے ؟ تو فرمایا : ” اسے دیکھ کر یہ آیت یاد آ گئی کہ عبادت اور ریاضت کرتے ہیں لیکن آخر جہنم میں جائیں گے “ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ” اس سے مراد نصرانی ہیں “ ۔ عکرمہ اور سدی رحمہ اللہ علیہم فرماتے ہیں کہ ” دنیا میں گناہوں کے کام کرتے رہے اور آخرت میں عذاب کی اور مار کی تکلیفیں برداشت کریں گے یہ سخت بھڑکنے والی جلتی تپتی آگ میں جائیں گے جہاں سوائے «ضَرِیعٍ» کے اور کچھ کھانے کو نہ ملے گا جو آگ کا درخت ہے یا جہنم کا پتھر ہے یہ تھوہر کی بیل ہے اس میں زہریلے کانٹے دار پھل لگتے ہیں یہ بدترین کھانا ہے اور نہایت ہی برا نہ بدن بڑھائے نہ بھوک مٹائے یعنی نہ نفع پہنچے نہ نقصان دور ہو “ ۔ الغاشية
2 الغاشية
3 الغاشية
4 الغاشية
5 الغاشية
6 الغاشية
7 الغاشية
8 ہر طرف سلام ہی سلام اوپر چونکہ بدکاروں کا بیان اور ان کے عذابوں کا ذکر ہوا تھا تو یہاں نیک کاروں اور ان کے ثوابوں کا بیان ہو رہا ہے ۔ چنانچہ فرمایا کہ ’ اس دن بہت سے چہرے ایسے بھی ہوں گے جن پر خوشی اور آسودگی کے آثار ظاہر ہوں گے یہ اپنے اعمال سے خوش ہوں گے ، جنتوں کے بلند بالا خانوں میں ہوں گے جس میں کوئی لغو بات کان میں نہ پڑے گی ‘ ۔ جیسے فرمایا : «لَا یَسْمَعُوْنَ فِیْہَا لَغْوًا اِلَّا سَلٰمًا» ۱؎ (19-مریم:62) الخ یعنی ’ اس میں سوائے سلامتی اور سلام کے کوئی بری بات نہ سنیں گے ‘ ۔ اور فرمایا : «لَا لَغْوٌ فِیہَا وَلَا تَأْثِیمٌ» ۱؎ (52-الطور:23) الخ یعنی ’ نہ اس میں بیہودگی ہے ، نہ گناہ کی باتیں ‘ ۔ اور فرمایا ہے «لَا یَسْمَعُونَ فِیہَا لَغْوًا وَلَا تَأْثِیمًا» * «إِلَّا قِیلًا سَلَامًا سَلَامًا» ۱؎ (56-الواقعۃ:25-26) یعنی ’ نہ اس میں فضول گوئی سنیں گے ، نہ بری باتیں ، سوائے سلام ہی سلام کے اور کچھ نہ ہو گا ‘ ، اس میں بہتی ہوئی نہریں ہوں گی یہاں نکرہ اثبات کے سیاق میں ہے ایک ہی نہر مراد نہیں بلکہ جنس نہر مراد ہے یعنی نہریں بہتی ہوں گی ۔ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” جنت کی نہریں مشک کے پہاڑوں اور ٹیلوں سے نکلتی ہیں ان میں اونچے اونچے بلند و بالا تخت ہیں جن پر بہترین فرش ہیں } ۔ ۱؎ (صحیح ابن حبان:7408:ضعیف) اور ان کے پاس حوریں بیٹھی ہوئی ہیں گویہ تخت بہت اونچے اور ضخامت والے ہیں لیکن جب یہ اللہ کے دوست ان پر بیٹھنا چاہیں گے تو وہ جھک جائیں گے ، شراب کے بھرپور جام ادھر ادھر قرینے سے چنے ہوئے ہیں جو چاہے جس قسم کا چاہے جس مقدار میں چاہے لے لے اور پی لے ، اور تکیے ایک قطار میں لگے ہوئے اور ادھر ادھر بہترین بستر اور فرش باقاعدہ بچھے ہوئے ہیں ۔ ابن ماجہ وغیرہ میں حدیث ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کوئی ہے جو تہبند چڑھائے جنت کی تیاری کرے اس جنت کی جس کی لمبائی چوڑائی بے حساب ہے رب کعبہ کی قسم وہ ایک چمکتا ہوا نور ہے وہ ایک لہلہاتا ہوا سبزہ ہے وہ بلند و بالا محلات ہیں وہ بہتی ہوئی نہریں ہیں وہ بکثرت ریشمی حلے ہیں وہ پکے پکائے عمدہ پھل ہیں وہ ہمیشگی والی جگہ ہے وہ سراسر میوہ جات سبزہ راحت اور نعمت ہے وہ تروتازہ بلند و بالا جگہ ہے “ ، سب لوگ بول اٹھے کہ ہم سب اس کے خواہشمند ہیں اور اس کے لیے تیاری کریں گے ، فرمایا : ” ان شاءاللہ کہو “ ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان شاءاللہ کہا ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:4332:ضعیف) الغاشية
9 الغاشية
10 الغاشية
11 الغاشية
12 الغاشية
13 الغاشية
14 الغاشية
15 الغاشية
16 الغاشية
17 کائنات پر غور و تدبر کی دعوت اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ اس کی مخلوقات پر تدبر کے ساتھ نظریں ڈالیں اور دیکھیں کہ اس کی بے انتہا قدرت ان میں سے ہر ایک چیز سے کس طرح ظاہر ہوتی ہے اس کی پاک ذات پر ہر ہر چیز کس طرح دلالت کر رہی ہے اونٹ کو ہی دیکھو کہ کس عجیب و غریب ترکیب اور ہیئت کا ہے کتنا مضبوط اور قوی ہے اور اس کے باوجود کس طرح نرمی اور آسانی سے بوجھ لاد لیتا ہے اور ایک بچے کے ساتھ کس طرح اطاعت گزار بن کر چلتا ہے ۔ اس کا گوشت بھی تمہارے کھانے میں آئے اس کے بال بھی تمہارے کام آئیں اس کا دودھ تم پیو اور طرح طرح کے فائدے اٹھاؤ ، اونٹ کا حال سب سے پہلے اس لیے بیان کیا گیا کہ عموماً عرب کے ملک میں اور عربوں کے پاس یہی جانور تھا ۔ شریح قاضی فرمایا کرتے تھے ” آؤ چلو چل کر دیکھیں کہ اونٹ کی پیدائش کس طرح ہے “ ، وغیرہ ۔ اور جگہ ارشاد ہے «أَفَلَمْ یَنْظُرُوا إِلَی السَّمَاءِ فَوْقَہُمْ کَیْفَ بَنَیْنَاہَا وَزَیَّنَّاہَا وَمَا لَہَا مِنْ فُرُوجٍ» ۱؎ (50-ق:6) یعنی ’ کیا ان لوگوں نے اپنے اوپر آسمان کو نہیں دیکھا کہ ہم نے اسے کس طرح بنایا ، کیسے مزین کیا اور ایک سوراخ نہیں چھوڑا ‘ ۔ پھر پہاڑوں کو دیکھو کہ کیسے گاڑ دئیے گئے تاکہ زمین ہل نہ سکے اور پہاڑ بھی اپنی جگہ نہ چھوڑ سکیں پھر اس میں جو بھلائی اور نفع کی چیزیں پیدا کی ہیں ان پر بھی نظر ڈالو زمین کو دیکھو کہ کس طرح پھیلا کر بچھا دی گئی ہے ۔ غرض یہاں ان چیزوں کا بیان ہے جو قرآن کے مخاطب عربوں کے ہر وقت پیش نظر رہا کرتی ہیں ایک بدوی جو اپنے اونٹ پر سوار ہو کر نکلتا ہے زمین اس کے نیچے ہوتی ہے آسمان اس کے اوپر ہوتا ہے پہاڑ اس کی نگاہوں کے سامنے ہوتے ہیں اور اونٹ پر خود سوار ہے ان باتوں سے خالق کی قدرت کاملہ اور صنعت ظاہرہ بالکل ہویدا ہے اور صاف ظاہر ہے کہ خالق ، صانع ، رب عظمت و عزت والا مالک اور متصرف معبود برحق اور اللہ حقیقی صرف وہی ہے اس کے سوا کوئی ایسا نہیں جس کے سامنے اپنی عاجزی اور پستی کا اظہار کریں جسے ہم حاجتوں کے وقت پکاریں جس کا نام جپیں اور جس کے سامنے سر خم ہوں ۔ سیدنا ضحام رضی اللہ عنہ نے جو سوالات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کئے تھے وہ اس طرح کی قسمیں دے کر کہے تھے ۔ بخاری ، مسلم ، ترمذی ، نسائی ، مسند احمد وغیرہ میں حدیث ہے { سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمیں باربار سوالات کرنے سے روک دیا گیا تھا تو ہماری یہ خواہش رہتی تھی کہ باہر کا کوئی عقلمند شخص آئے وہ سوالات کرے ہم بھی موجود ہوں اور پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی جوابات سنیں چنانچہ ایک دن بادیہ نشین آئے اور کہنے لگے : اے محمد [ صلی اللہ علیہ وسلم ] آپ کے قاصد ہمارے پاس آئے اور ہم سے کہا آپ فرماتے ہیں کہ اللہ نے آپ کو اپنا رسول بنایا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اس نے سچ کہا “ ، وہ کہنے لگا : بتائیے آسمان کو کس نے پیدا کیا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اللہ نے “ ، کہا : زمین کس نے پیدا کی ؟ ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اللہ نے “ کہا : ان پہاڑوں کو کس نے گاڑ دیا ؟ ان سے یہ فائدے کی چیزیں کس نے پیدا کیں ؟ ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اللہ نے “ ۔ کہا : پس آپ کو قسم ہے ، اس اللہ کی جس نے آسمان و زمین پیدا کئے اور ان پہاڑوں کو گاڑ دیا ، اللہ نے آپ کو اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے ؟ ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ہاں “ ۔ کہنے لگے آپ کے قاصد نے یہ بھی کہا ہے کہ ہم پر رات دن میں پانچ نمازیں فرض ہیں فرمایا : ” اس نے سچ کہا “ ۔ کہا اس اللہ کی آپ کو قسم ہے جس نے آپ کو بھیجا کہ کیا یہ اللہ کا حکم ہے ؟ آپ نے فرمایا : ” ہاں “ ۔ کہنے لگے ، آپ کے قاصد نے یہ بھی کہا کہ ہمارے مالوں میں ہم پر زکوٰۃ فرض ہے ، فرمایا : ” سچ ہے “ ، پھر کہا : آپ کو اپنے بھیجنے والے اللہ کی قسم ! کیا اللہ نے آپ کو یہ حکم دیا ہے ؟ ، فرمایا : ” ہاں “ ، مزید کہا کہ آپ کے قاصد نے ہم میں سے طاقت رکھنے والے لوگوں کو حج کا حکم بھی دیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : ” ہاں “ ، اس نے سچ کہا “ ۔ وہ یہ سن کر یہ کہتا ہوا چل دیا کہ اس اللہ واحد کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے نہ میں ان پر کچھ زیادتی کروں گا نہ ان میں کوئی کمی کروں گا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اگر اس نے سچ کہا ہے تو یہ جنت میں داخل ہو گا “ } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:12) بعض روایات میں ہے کہ اس نے کہا میں ضحام بن ثعلبہ ہوں بنو سعد بن بکر کا بھائی ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:63) ابو یعلیٰ میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اکثر یہ حدیث سنایا کرتے تھے کہ ” زمانہ جاہلیت میں ایک عورت پہاڑ پر تھی اس کے ساتھ اس کا ایک چھوٹا سا بچہ تھا یہ عورت بکریاں چرایا کرتی تھی اس کے لڑکے نے اس سے پوچھا کہ اماں جان تمہیں کس نے پیدا کیا ؟ اس نے کہا : اللہ نے ، پوچھا : میرے ابا جی کو کس نے پیدا کیا ؟ اس نے کہا : اللہ نے ، پوچھا : مجھے ؟ کہا : اللہ نے ، پوچھا : آسمان کو ؟ کہا : اللہ نے ، پوچھا : زمین کو ؟ کہا : اللہ نے ، پوچھا : پہاڑوں کو ؟ بتایا کہ انہیں بھی اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے ۔ بچے نے پھر سوال کیا کہ اچھا ان بکریوں کو کس نے پیدا کیا ؟ ماں نے کہا انہیں بھی اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے ، بچے کے منہ سے بے اختیار نکلا کہ اللہ تعالیٰ بڑی شان والا ہے ، اس کا دل عظمت اللہ سے بھر گیا وہ اپنے نفس پر قابو نہ رکھ سکا اور پہاڑ پر سے گر پڑا ، ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا “ } ۔ ابن دینار فرماتے ہیں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بھی یہ حدیث ہم سے اکثر بیان فرمایا کرتے تھے اس حدیث کی سند میں عبداللہ بن جعفر مدینی ضعیف ہیں ۔ امام علی بن مدینی جو ان کے صاحبزادے اور جرح و تعدیل کے امام ہیں وہ انہیں یعنی اپنے والد کو ضعیف بتلاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ پھر فرماتا ہے کہ ’ اے نبی ! تم اللہ کی رسالت کی تبلیغ کیا کرو ، تمہارے ذمہ صرف «بلاغ» ہے حساب ہمارے ذمہ ہے آپ ان پر مسلط نہیں ہیں جبر کرنے والے نہیں ہیں ان کے دلوں میں آپ ایمان پیدا نہیں کر سکتے ، آپ انہیں ایمان لانے پر مجبور نہیں کر سکتے ‘ ۔ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” مجھے حکم کیا ہے کہ میں لوگوں سے لڑوں یہاں تک کہ وہ «لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ» کہیں جب وہ اسے کہہ لیں تو انہوں نے اپنے جان و مال مجھ سے بچا لئے مگر حق اسلام کے ساتھ اور ان کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے “ ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی آیت کی تلاوت کی } ۱؎ ۔ (صحیح مسلم:21) پھر فرماتا ہے ’ مگر وہ جو منہ موڑے اور کفر کرے یعنی نہ عمل کرے نہ ایمان لائے نہ اقرار کرے ‘ ۔ جیسے فرمان ہے «فَلَا صَدَّقَ وَلَا صَلَّیٰ» * «وَلٰکِنْ کَذَّبَ وَتَوَلَّیٰ» ۱؎ (75-القیامۃ:31-32) یعنی ’ نہ تو سچائی کی تصدیق کی ، نہ نماز پڑھی بلکہ جھٹلایا اور منہ پھیر لیا اسی لیے اسے بہت بڑا عذاب ہو گا ‘ ۔ سیدنا ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ سیدنا خالد بن یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تو کہا کہ تم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو آسانی والی حدیث سنی ہو اسے مجھے سناؤ ، تو آپ نے فرمایا : میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ { تم میں سے ہر ایک جنت میں جائے گا مگر وہ جو اس طرح کی سرکشی کرے جیسے شریر اونٹ اپنے مالک سے کرتا ہے } ۔ ۱؎ (نسائی فی السنن الکبری:11673:صحیح) ان سب کا لوٹنا ہماری ہی جانب ہے اور پھر ہم ہی ان سے حساب لیں گے اور انہیں بدلہ دیں گے ، نیکی کا نیک بدی کا بد ۔ سورۃ الغاشیہ کی تفسیر ختم ہوئی ۔ الغاشية
18 الغاشية
19 الغاشية
20 الغاشية
21 الغاشية
22 الغاشية
23 الغاشية
24 الغاشية
25 الغاشية
26 الغاشية
0 الفجر
1 شفع اور وتر سے کیا مراد ہے اور قوم عاد کا قصہ «فجر» تو ہر شخص جانتا ہے یعنی صبح اور یہ مطلب بھی ہے کہ بقر عید کے دن کی صبح ، اور یہ مراد بھی ہے کہ صبح کے وقت کی نماز ، اور پورا دن اور دس راتوں سے مراد ذی الحجہ مہینے کی پہلی دس راتیں ۔ چنانچہ صحیح بخاری کی حدیث میں ہے کہ { کوئی عبادت ان دس دنوں کی عبادت سے افضل نہیں ، لوگوں نے پوچھا : اللہ کی راہ کا جہاد بھی نہیں ؟ ، فرمایا : ” یہ بھی نہیں مگر وہ شخص جو جان مال لے کر نکلا اور پھر کچھ بھی ساتھ لے کر نہ پلٹا “ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:969) بعض نے کہا ہے محرم کے پہلے دس دن مراد ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں رمضان شریف کے پہلے دس دن لیکن صحیح قول پہلا ہی ہے یعنی ذی الحجہ کی شروع کی دس راتیں ۔ مسند احمد میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ «عَشَرُ» سے مراد عید الاضحی کے دس دن ہیں اور «وَتْرُ» سے مراد عرفے کا دن ہے اور «شَّفْعُ» سے مراد قربانی کا دن ہے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:327/3:مرفوعاً ضعیف) اس کی اسناد میں تو کوئی مضائقہ نہیں لیکن متن میں نکارت ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» «وَتْرُ» سے مراد عرفے کا دن ہے یہ نویں تاریخ ہوتی ہے تو «شَّفْعُ» سے مراد دسویں تاریخ یعنی بقر عید کا دن ہے وہ طاق ہے یہ جفت ہے واصل بن سائب رحمہ اللہ نے عطاء رحمہ اللہ سے پوچھا کہ کیا «وَتْرُ» سے مراد یہی وتر نماز ہے ؟ آپ نے فرمایا : نہیں ، «شَّفْعُ» عرفہ کا دن ہے اور «وَتْرُ» عید الاضحی کی رات ہے ۔ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما خطبہ پڑھ رہے تھے کہ ایک شخص نے کھڑے ہو کر پوچھا کہ «شَّفْعُ» کیا ہے اور «وَتْرُ» کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : «فَمَنْ تَعَجَّلَ فِی یَوْمَیْنِ فَلَا إِثْمَ عَلَیْہِ» ۱؎ (2-البقرۃ:203) میں جو دو دن کا ذکر ہے وہ «شَّفْعُ» ہے اور «وَمَن تَأَخَّرَ فَلَا إِثْمَ عَلَیْہِ» ۱؎ (2-البقرۃ:203) میں جو ایک دن ہے وہ «وَتْرُ» ہے یعنی گیارہویں ، بارہویں ذی الحجہ کی «شَّفْعُ» اور تیرھویں «وَتْرُ» ہے ۔ آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ایام تشریق کا درمیانی دن «شَّفْعُ» ہے اور آخری دن «وَتْرُ» ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:37102:ضعیف) بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے { اللہ تعالیٰ کے ایک کم ایک سو نام ہیں جو انہیں یاد کر لے جنتی ہے وہ وتر ہے ، وتر کو دوست رکھتا ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6410) زید بن اسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” اس سے مراد تمام مخلوق ہے اس میں «شَّفْعُ» بھی ہے اور «وَتْرُ» بھی “ ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ مخلوق «شَّفْعُ» اور اللہ «وَتْرُ» ہے یہ بھی کہا گیا ہے کہ «شَّفْعُ» صبح کی نماز ہے اور «وَتْرُ» مغرب کی نماز ہے یہ بھی کہا گیا ہے کہ «شَّفْعُ» سے مراد جوڑ جوڑ اور «وَتْرُ» سے مراد اللہ عزوجل جیسے آسمان ، زمین ، تری ، خشکی ، جن ، انس ، سورج ، چاند وغیرہ ۔ قرآن میں ہے «وَمِنْ کُلِّ شَیْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ» ۱؎ (51-الذاریات:49) یعنی ’ ہم نے ہر چیز کو جوڑ جوڑ پیدا کیا ہے تاکہ تم عبرت حاصل کر لو ‘ یعنی جان لو کہ ان تمام چیزوں کا خالق اللہ واحد ہے جس کا کوئی شریک نہیں ، یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد گنتی ہے جس میں جفت بھی ہے اور طاق بھی ہے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ «شَّفْعُ» سے مراد دو دن ہیں اور «وَتْرُ» سے مراد تیسرا دن ہے ۔ یہ حدیث اس حدیث کے مخالف ہے جو اس سے پہلے گزر چکی ہے ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مراد نماز ہے کہ اس میں «شَّفْعُ» ہے جیسے صبح کی دو ، ظہر ، عصر اور عشاء کی چار ، چار اور وتر ہے جیسے مغرب کی تین رکعتیں جو دن کے «وَتْرُ» ہیں اور اسی طرح آخری رات کا «وَتْرُ» ۔ ایک مرفوع حدیث میں مطلق نماز کے لفظ کے ساتھ مروی ہے ، بعض صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرض نماز مروی ہے لیکن یہ مرفوع حدیث نہیں ۔ زیادہ ٹھیک یہی معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ پر موقوف ہے ۔ ۱؎ (مسند احمد:437/4:ضعیف) «وَاللہُ اَعْلَمُ» امام ابن جریر رحمہ اللہ نے ان آٹھ نو اقوال میں سے کسی کو فیصل قرار نہیں دیا ۔ پھر فرماتا ہے رات کی قسم جب جانے لگے اور یہ بھی معنی کیے گئے ہیں کہ جب آنے لگے بلکہ یہی معنی زیادہ مناسب اور «وَالْفَجْرِ» سے زیادہ مناسبت رکھتے ہیں ۔ «فجر» کہتے ہیں رات کے جانے کو اور دن کے آنے کو تو یہاں رات کا آنا اور دن کا جانا مراد ہو گا ۔ جیسے آیت «وَاللَّیْلِ إِذَا عَسْعَسَ» * «وَالصٰبْحِ إِذَا تَنَفَّسَ» ۱؎ (81-التکویر:17-18) میں عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں مراد مزدلفہ کی رات ہے «حِجْرٍ» سے مراد عقل ہے ، «حِجْرٍ» کہتے ہیں روک کو چونکہ عقل بھی غلط کاریوں اور جھوٹی باتوں سے روک دیتی ہے اس لیے اسے عقل کہتے ہیں ۔ حطیم کو بھی «حجر البیت» اسی لیے کہتے ہیں کہ وہ طواف کرنے والے کو کعبۃ اللہ کی شامی دیوار سے روک دیتا ہے اسی سے ماخوذ ہے «حِجْرُ الْیَمَامَۃِ» اور اسی لیے عرب کہتے ہیں «وَحَجَرَ الْحَاکِمُ عَلَی فُلَانٍ» جبکہ کسی شخص کو بادشاہ تصرف سے روک دے اور کہتے ہیں کہ «وَیَقُولُونَ حِجْرًا مَحْجُورًا» ۱؎ (25-الفرقان:22) تو فرماتا ہے کہ ’ ان میں عقلمندوں کے لیے قابل عبرت قسم ہے ‘ ، کہیں تو قسمیں ہیں عبادتوں کی کہیں عبادت کے وقتوں کی جیسے حج نماز وغیرہ کہ جن سے اس کے نیک بندے اس کا قرب اور اس کی نزدیکی حاصل کرتے ہیں اور اس کے سامنے اپنی پستی اور خود فراموشی ظاہر کرتے ہیں جب ان پرہیزگار نیک کار لوگوں کا اور ان کی عاجزی و تواضع خشوع و خضوع کا ذکر کیا تو اب ان کے ساتھ ہی ان کے خلاف جو سرکش اور بدکار لوگ ہیں ان کا ذکر ہو رہا ہے ۔ تو فرماتا ہے کہ ’ کیا تم نے نہ دیکھا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے عادیوں کو غارت کر دیا جو کہ سرکش اور متکبر تھے ، اللہ کی نافرمانی کرتے ، رسول کی تکذیب کرتے اور بدیوں پر جھک پڑتے تھے ان میں اللہ کے رسول ہود علیہ السلام آئے تھے ‘ ۔ یہ عاد اولیٰ ہیں جو عاد بن ارم بن سام بن نوح کی اولاد میں تھے ، اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ایمانداروں کو تو نجات دے دی اور باقی بےایمانوں کو تیز و تند اور ہلاک آفریں ہواؤں سے ہلاک کیا ۔ سات راتیں اور آٹھ دن تک یہ غضب ناک آندھی چلتی رہی اور یہ سارے کے سارے اس طرح غارت ہو گئے کہ ان کے سر الگ تھے اور دھڑ الگ تھے ان میں سے ایک بھی باقی نہ رہا جس کا مفصل بیان قرآن کریم میں کئی جگہ ہے ۔ سورۃ الحاقہ میں بھی یہ بیان ہے «سَخَّرَہَا عَلَیْہِمْ سَبْعَ لَیَالٍ وَثَمَانِیَۃَ أَیَّامٍ حُسُومًا فَتَرَی الْقَوْمَ فِیہَا صَرْعَیٰ کَأَنَّہُمْ أَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِیَۃٍ» * «فَہَلْ تَرَیٰ لَہُمْ مِنْ بَاقِیَۃٍ» ۱؎ (69-الحاقہ:7-8) ۔ «إِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ» ۱؎ (89-الفجر:7) یہ عاد کی تفسیر بطور عطف بیان کے ہے تاکہ بخوبی وضاحت ہو جائے ، یہ لوگ مضبوط اور بلند ستونوں والے گھروں میں رہتے تھے اور اپنے زمانے مکے اور لوگوں سے بہت بڑے تن و توش والے قوت و طاقت والے تھے اسی لیے ہود علیہ السلام نے انہیں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا «وَاذْکُرُوا إِذْ جَعَلَکُمْ خُلَفَاءَ مِنْ بَعْدِ قَوْمِ نُوحٍ وَزَادَکُمْ فِی الْخَلْقِ بَسْطَۃً فَاذْکُرُوا آلَاءَ اللہِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ» ۱؎ (7-الأعراف:69) الخ یعنی ’ یاد کرو کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں قوم نوح کے بعد زمین پر خلیفہ بنایا ہے اور تمہیں جسمانی قوت پوری طرح دی ، تمہیں چاہیئے کہ اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو اور زمین میں فسادی بن کر نہ رہو ‘ ۔ اور جگہ ہے کہ «فَأَمَّا عَادٌ فَاسْتَکْبَرُوا فِی الْأَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَقَالُوا مَنْ أَشَدٰ مِنَّا قُوَّۃً أَوَلَمْ یَرَوْا أَنَّ اللہَ الَّذِی خَلَقَہُمْ ہُوَ أَشَدٰ مِنْہُمْ قُوَّۃً» (41-فصلت:15) یعنی ’ عادیوں نے زمین میں ناحق سرکشی کی اور بول اٹھے کہ ہم سے زیادہ قوت والا اور کون ہے ؟ کیا وہ بھول گئے کہ ان کا پیدا کرنے والا ان سے بہت ہی زبردست اور طاقت و قوت والا ہے ‘ ۔ یہاں بھی ارشاد ہوتا ہے کہ اس قبیلے جیسے طاقتور اور شہروں میں نہ تھے بڑے طویل القامت قوی الجثہ تھے ، ارم ان کا دار السلطنت تھا ۔ انہیں ستونوں والے کہا جاتا تھا اس لیے بھی کہ یہ لوگ بہت دراز قد تھے بلکہ صحیح وجہ یہی ہے ۔ «مِثْلُہَا» کی ضمیر کا مرجع «عِمَادِ» بتایا گیا ہے ان جیسے اور شہروں میں نہ تھے یہ احقاف میں بنے ہوئے لمبے لمبے ستون تھے اور بعض نے ضمیر کا مرجع قبیلہ بتایا ہے یعنی اس قبیلے جیسے لوگ اور شہروں میں نہ تھے اور یہی قول ٹھیک ہے اور اگلا قول ضعیف ہے اسی لیے بھی کہ یہی مراد ہوتی تو «لَمْ یَجْعَلٌ» کہا جاتا نہ کہ «لَمْ یُخْلَقْ» ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” ان میں اس قدر زور و طاقت تھی کہ ان میں سے کوئی اٹھتا اور اور ایک بڑی ساری چٹان لے کر کسی قبیلے پر پھینک دیتا تو بیچارے سب کے سب دب کر مر جاتے } ۱؎ ۔ (الدر المنثور للسیوطی:583/6:ضعیف) ثور بن زید دیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک ورق پر یہ لکھا ہوا پڑھا ہے کہ میں شداد بن عاد ہوں ، میں نے ستون بلند کیے ہیں ، میں نے ہاتھ مضبوط کیے ہیں ، میں نے سات ذرائع کے خزانے جمع کیے ہیں ، جو امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نکالے گی ، غرض خواہ یوں کہو کہ وہ عمدہ اونچے اور مضبوط مکانوں والے تھے خواہ یوں کہو کہ وہ بلند و بالا ستونوں والے تھے یا یوں کہو کہ وہ بہترین ہتھیاروں والے تھے یا یوں کہو لمبے لمبے قد والے مطلب یہ ہے کہ ایک قوم تھی جن کا ذکر قرآن کریم میں کئی جگہ ثمودیوں کے ساتھ آ چکا ہے ، یہاں بھی اسی طرح عادیوں اور ثمودیوں کا دونوں کا ذکر ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» بعض حضرات نے یہ بھی کہا کہ «إِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ» ایک شہر ہے یا تو دمشق یا اسکندریہ لیکن یہ قول ٹھیک نہیں معلوم ہوتا اس لیے کہ عبارت کا ٹھیک مطلب نہیں بنتا کیونکہ یا تو یہ بدل ہو سکتا ہے یا عطف بیان ۔ دوسرے اس لیے بھی کہ یہاں یہ بیان مقصود ہے کہ ہر ایک سرکش قبیلے کو اللہ نے برباد کیا جن کا نام عادی تھا ، نہ کہ کسی شہر کو میں نے اس بات کو یہاں اس لیے بیان کر دیا ہے تاکہ جن مفسرین کی جماعت نے یہاں یہ تفسیر کی ہے کہ ان سے کوئی شخص دھوکے میں نہ پڑے وہ لکھتے ہیں کہ یہ ایک شہر کا نام ہے جس کی ایک اینٹ سونے کی ہے دوسری چاندی کی اس کے مکانات ، باغات وغیرہ سب چاندی سونے کے ہیں کنکر لولو اور جواہر ہیں ، مٹی مشک ہے نہریں بہہ رہی ہیں ، پھل تیار ہیں ، کوئی رہنے سہنے والا نہیں ہے ، در و دیوار خالی ہیں ، کوئی ہاں ہوں کرنے والا بھی نہیں ، یہ شہر جگہ بدلتا رہتا ہے کبھی شام میں ، کبھی یمن میں ، کبھی عراق میں ، کبھی کہیں ، کبھی کہیں ، وغیرہ یہ سب خرافات بنو اسرائیل کی ہیں ان کے بددینوں نے یہ خود ساختہ روایت تیار کی ہے تاکہ جاہلوں میں باتیں بنائیں ۔ ثعلبی وغیرہ نے بیان کیا ہے کہ ایک اعرابی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں اپنے گمشدہ اونٹوں کو ڈھونڈ رہا تھا کہ جنگل بیابان میں اس نے اسی صفت کا ایک شہر دیکھا اور اس میں گیا ، گھوما پھرا ، پھر لوگوں سے آ کر ذکر کیا لوگ بھی وہاں گئے لیکن پھر کچھ نظر نہ آیا ۔ ابن ابی حاتم نے یہاں ایسے قصے بہت سے لمبے چوڑے نقل کیے ہیں یہ حکایت بھی صحیح نہیں اور اگر یہ اعرابی والا قصہ سنداً صحیح مان لیں تو ممکن ہے کہ اسے ہوس اور خیال ہو اور اپنے خیال میں اس نے یہ نقشہ جما لیا ہو اور خیالات کی پختگی اور عقل کی کمی نے اسے یقین دلایا ہو کہ وہ صحیح طور پر یہی دیکھ رہا ہے اور فی الواقع یوں نہ ہو - ٹھیک اسی طرح جو جاہل حریص اور خیالات کے کچے ہوں سمجھتے ہیں کہ کسی خاص زمین تلے سونے چاندی کے پل ہیں اور قسم قسم کے جواہر یاقوت لولو اور موتی ہیں اکسیر کبیر ہے لیکن ایسے چند موانع ہیں کہ وہاں لوگ پہنچ نہیں سکتے مثلا خزانے کے منہ پر کوئی اژدھا بیٹھا ہے کسی جن کا پہرہ ہے وغیرہ یہ سب فضول قصے اور بناوٹی باتیں ہیں انہیں گھڑ گھڑا کر بیوقوفوں اور مال کے حریصوں کو اپنے دام میں پھانس کر ان سے کچھ وصول کرنے کے لیے مکاروں نے مشہور کر رکھے ہیں ، پھر کبھی چلے کھینچنے کے بہانے سے ، کبھی بخور کے بہانے سے ، کبھی کسی اور طرح سے ، ان سے یہ مکار روپے وصول کر لیتے ہیں اور اپنا پیٹ پالتے ہیں ، ہاں یہ ممکن ہے کہ زمین میں سے جاہلیت کے زمانے کا یا مسلمانوں کے زمانے کا کسی کا گاڑا ہوا مال نکل آئے تو اس کا پتہ جسے چل جائے وہ اس کے ہاتھ لگ جاتا ہے نہ وہاں کوئی مار گنج ہوتا ہے ، نہ کوئی دیو ، بھوت ، جن ، پری جس طرح ان لوگوں نے مشہور کر رکھا ہے یہ بالکل غیر صحیح ہے یہ ایسے ہی لوگوں کی خود ساختہ بات ہے یا ان جیسے ہی لوگوں سے سنی سنائی ہے ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نیک سمجھ دے ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ نے بھی فرمایا ہے کہ ممکن ہے اس سے قبیلہ مراد ہو اور ممکن ہے شہر مراد و لیکن ٹھیک نہیں ، یہاں تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ایک قوم کا ذکر ہے نہ کہ شہر کا ، اسی لیے اس کے بعد ہی ثمودیوں کا ذکر کیا کہ وہ ثمودی جو پتھروں کو تراش لیا کرتے تھے ۔ جیسے اور جگہ ہے «وَتَنْحِتُوْنَ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا فٰرِہِیْنَ» ۱؎ (26-الشعراء:149) یعنی ’ تم پہاڑوں میں اپنے کشادہ آرام دہ مکانات اپنے ہاتھوں پتھروں میں تراش لیا کرتے ہو ‘ ۔ اس کے ثبوت میں کہ اس کے معنی تراش لینے کے ہیں ، عربی شعر بھی ہیں ۔ ابن اسحاق رحمہ اللہ فرماتے ہیں ثمودی عرب تھے وادی القری میں رہتے تھے عادیوں کا قصہ پورا پورا سورۃ الاعراف میں ہم بیان کر چکے ہیں ، اب اعادہ کی ضرورت نہیں ، پھر فرمایا : میخوں والا فرعون ، «أَوْتَادُ» کے معنی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے لشکروں کے کیے ہیں جو کہ اس کے کاموں کو مضبوط کرتے رہتے تھے ۔ یہ بھی مروی ہے کہ فرعون غصے کے وقت لوگوں کے ہاتھ پاؤں میں میخیں گڑوا کر مروا ڈالتا تھا ، چورنگ کر کے اوپر سے بڑا پتھر پھینکتا تھا جس سے اس کا کچومر نکل جاتا تھا ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ رسیوں اور میخوں وغیرہ سے اس کے سامنے کھیل کیے جاتے تھے اس کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ اس نے اپنی بیوی صاحبہ کو جو مسلمان ہو گئی تھیں لٹا کر دونوں ہاتھوں اور دونوں پاؤں میں میخیں گاڑیں پھر بڑا سا چکی کا پتھر ان کی پیٹھ پر مار کر جان لے لی ، اللہ ان پر رحم کرے ۔ پھر فرمایا کہ ان لوگوں نے سرکشی پر کمر باندھ لی تھی اور فسادی لوگ تھے ، لوگوں کو حقیر و ذلیل جانتے تھے اور ہر ایک کو ایذاء پہنچاتے تھے نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ کے عذاب کا کوڑا برس پڑا ۔ وہ وبال آیا جو ٹالے نہ ٹلا ، ہلاک و برباد اور نیست و نابود ہو گئے ، تیرا رب گھات میں ہے دیکھ رہا ہے ، سن رہا ہے ، سمجھ رہا ہے ، وقت مقررہ پر ہر برے بھلے کو نیکی ، بدی کی جزاء سزا دے گا یہ سب لوگ اس کے پاس جانے والے تن تنہا اس کے سامنے کھڑے ہونے والے ہیں اور وہ عدل و انصاف کے ساتھ ان میں فیصلے کرے گا اور ہر شخص کو پورا پورا بدلہ دے گا جس کا وہ مستحق تھا وہ ظلم و جور سے پاک ہے ۔ یہاں ابن ابی حاتم نے ایک حدیث وارد کی ہے جو بہت غریب ہے جس کی سند میں کلام ہے اور صحت میں بھی نظر ہے اس میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اے معاذ ! مومن حق کا قیدی ہے ، اے معاذ ! مومن تو امید وہم کی حالت میں ہی رہتا ہے ، جب تک کہ پل صراط سے پار نہ ہو جائے ۔ اے معاذ ! مومن کو قرآن نے بہت سی دلی خواہشوں سے روک رکھا ہے تاکہ وہ ہلاکت سے بچ جائے ، قرآن اس کی دلیل ہے ، خوف اس کی حجت ہے ، شوق اس کی سواری ہے ، نماز اس کی پناہ ہے ، روزہ اس کی ڈھال ہے ، صدقہ اس کا چھٹکارا ہے ، سچائی اس کی امیر ہے ، شرم اس کا وزیر ہے اور اس کا رب ان سب کے بعد اس پر واقف و آگاہ ہے وہ تیز تیز نگاہوں سے اسے دیکھ رہا ہے “ } ، اس کے راوی یونس حذاء اور ابوحمزہ مجہول ہیں پھر اس میں ارسال بھی ہے ممکن ہے یہ ابوحمزہ ہی کا کلام ہو ۔ ۱؎ (ضعیف و منقطع) اسی ابن ابی حاتم میں ہے کہ ابن عبدالکلاعی نے اپنے ایک وعظ میں کہا : لوگو ! جہنم کے سات پل ہیں ان سب پر پل صراط ہے پہلے ہی پل پر لوگ روکے جائیں گے یہاں نماز کا حساب کتاب ہو گا یہاں سے نجات مل گئی تو دوسرے پل پر روک ہو گی ، یہاں امانتداری کا سوال ہو گا جو امانت دار ہو گا اس نے نجات پائی اور جو خیانت والا نکلا ہلاک ہوا ، تیسرے پل پر صلہ رحمی کی پرسش ہو گی اس کے کاٹنے والے یہاں سے نجات نہ پا سکیں گے اور ہلاک ہوں گے رشتہ داری یعنی صلہ رحمی وہیں موجود ہو گی اور یہ کہہ رہی ہو گی کہ اللہ جس نے مجھے جوڑا تو اسے جوڑ اور جس نے مجھے توڑا تو اسے توڑ یہی معنی ہیں «إِنَّ رَبَّکَ لَبِالْمِرْصَادِ» ۱؎ (89-الفجر:14) یہ اثر اتنا ہی ہے پورا نہیں ۔ الفجر
2 الفجر
3 الفجر
4 الفجر
5 الفجر
6 الفجر
7 الفجر
8 الفجر
9 الفجر
10 الفجر
11 الفجر
12 الفجر
13 الفجر
14 الفجر
15 وسعت رزق کو اکرام نہ سمجھو بلکہ امتحان سمجھو مطلب یہ ہے کہ جو لوگ وسعت اور کشادگی پا کر یوں سمجھ بیٹھتے ہیں کہ اللہ نے ان کا اکرام کیا یہ غلط ہے بلکہ دراصل یہ امتحان ہے جیسے اور جگہ ہے «أَیَحْسَبُونَ أَنَّمَا نُمِدٰہُمْ بِہِ مِنْ مَالٍ وَبَنِینَ» * «نُسَارِعُ لَہُمْ فِی الْخَیْرَاتِ بَلْ لَا یَشْعُرُونَ» ۱؎ (23-المؤمنون:55-56) الخ یعنی ’ مال و اولاد کے بڑھ جانے کو یہ لوگ نیکیوں کی زیادتی سمجھتے ہیں دراصل یہ ان کی بےسمجھی ہے ‘ ۔ اسی طرح اس کے برعکس بھی یعنی تنگ ترشی کو انسان اپنی اہانت سمجھ بیٹھتا ہے حالانکہ دراصل یہ بھی اللہ کی طرف سے آزمائش ہے اسی لیے یہاں «کَلَّا» کہہ کر ان دونوں خیالات کی تردید کی کہ یہ واقعہ نہیں جسے اللہ مال کی وسعت دے اس سے وہ خوش ہے اور جس میں تنگی کرے اس سے ناخوش ہے بلکہ خوشی اور ناخوشی کا مدار ان دونوں حالتوں میں عمل پر ہے غنی ہو کر شکر گزاری کرے تو اللہ کا محبوب اور فقیر ہو کر صبر کرے تو اللہ کا محبوب اللہ تعالیٰ اس طرح اور اس طرح آزماتا ہے ۔ پھر یتیم کی عزت کرنے کا حکم دیا ، حدیث میں ہے کہ { سب سے اچھا گھر وہ ہے جس میں یتیم ہو اور اس کی اچھی پرورش ہو رہی ہو اور بدترین گھر وہ ہے جس میں یتیم ہو اور اس سے بدسلوکی کی جاتی ہو پھر آپ نے انگلی اٹھا کر فرمایا : ” میں اور یتیم کو پالنے والا جنت میں ایسے ہوں گے یعنی قریب قریب “ } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:3679:ضعیف) ابوداؤد کی حدیث میں ہے کہ { کلمہ کی اور بیچ کی انگلی ملا کر انہیں دکھایا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اور یتیم کا پالنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے “ } ۱؎ (صحیح بخاری:6005) پھر فرمایا کہ یہ لوگ فقیروں اور مسکینوں کے ساتھ احسان کرنے ، انہیں کھانا پینا دینے کی ، ایک دوسرے کو رغبت و لالچ نہیں دلاتے اور یہ عیب بھی ان میں ہے کہ میراث کا مال حلال ہو یا حرام ہضم کر جاتے ہیں اور مال کی محبت بھی ان میں بے حد ہے ۔ الفجر
16 الفجر
17 الفجر
18 الفجر
19 الفجر
20 الفجر
21 سجدوں کی برکتیں قیامت کے ہولناک حالات کا بیان ہو رہا ہے کہ ’ بالیقین اس دن زمین پست کر دی جائے گی اونچی نیچی زمین برابر کر دی جائے گی اور بالکل صاف ہموار ہو جائے گی پہاڑ زمین کے برابر کر دئیے جائیں گے ، تمام مخلوق قبر سے نکل آئے گی ، خود اللہ تعالیٰ مخلوق کے فیصلے کرنے کے لیے آ جائے گا ‘ ۔ یہ اس عام شفاعت کے بعد جو تمام اولاد آدم کے سردار محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہو گی اور یہ شفاعت اس وقت ہو گی جبکہ تمام مخلوق ایک ایک بڑے بڑے پیغمبر علیہ السلام کے پاس ہو آئے گی اور ہر نبی کہہ دے گا کہ میں اس قابل نہیں ، پھر سب کے سب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمائیں گے کہ ” ہاں ہاں میں اس کے لیے تیار ہوں “ ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم جائیں گے اور اللہ کے سامنے سفارش کریں گے کہ وہ پروردگار لوگوں کے درمیان فیصلے کرنے کے لیے تشریف لائے یہی پہلی شفاعت ہے اور یہی وہ مقام محمود ہے جس کا مفصل بیان سورۃ سبحان میں گزر چکا ہے پھر اللہ تعالیٰ رب العالمین فیصلے کے لیے تشریف لائے گا اس کے آنے کی کیفیت وہی جانتا ہے ، فرشتے بھی اس کے آگے آگے صف بستہ حاضر ہوں گے جہنم بھی لائی جائے گی ۔ صحیح مسلم میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” جہنم کی اس روز ستر ہزار لگامیں ہوں گی ہر لگام پر ستر ہزار فرشتے ہوں گے جو اسے گھسیٹ رہے ہوں گے “ } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2842) یہی روایت خود سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے اس دن انسان اپنے نئے پرانے تمام اعمال کو یاد کرنے لگے گا ، برائیوں پر پچھتائے گا نیکیوں کے نہ کرنے یا کم کرنے پر افسوس کرے گا ، گناہوں پر نادم ہو گا ۔ مسند احمد میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” اگر کوئی بندہ اپنے پیدا ہونے سے لے کر مرتے دم تک سجدے میں پڑا رہے اور اللہ کا پورا اطاعت گزار رہے پھر بھی اپنی اس عبادت کو قیامت کے دن حقیر اور ناچیز سمجھے گا اور چاہے گا کہ اگر میں دنیا کی طرف لوٹایا جاؤں تو اجر و ثواب کے کام اور زیادہ کروں “ } ۔ ۱؎ (مسند احمد:185/4:صحیح) پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’ اس دن اللہ کے عذاب جیسا عذاب کسی اور کا نہ ہو گا ۔ جو وہ اپنے نافرمان اور نافرجام بندوں کو کرے گا ، نہ اس جیسی زبردست پکڑ اور قید و بند کسی کی ہو سکتی ہے ، زبانیہ فرشتے بدترین بیڑیاں اور ہتھکڑیاں انہیں پہنائے ہوئے ہوں گے ‘ ۔ یہ تو ہوا بدبختوں کا انجام ، اب نیک بختوں کا حال سنئے جو روحیں سکون اور اطمینان والی ہیں پاک اور ثابت ہیں حق کی ساتھی ہیں ان سے موت کے وقت اور قبر سے اٹھنے کے وقت کہا جائے گا کہ تو اپنے رب کی طرف ، اس کے پڑوس کی طرف ، اس کے ثواب اور اجر کی طرف ، اس کی جنت اور رضا مندی کی طرف لوٹ چل ، یہ اللہ سے خوش ہے اور اللہ اس سے راضی ہے اور اتنا دے گا کہ یہ بھی خوش ہو جائے گا ، ’ تو میرے خاص بندوں میں آ جا اور میری جنت میں داخل ہو جا ‘ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ یہ آیت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے بارے میں اتری ہے ، بریدہ فرماتے ہیں حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے بارے میں اتری ہے ۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ بھی مروی ہے کہ قیامت کے دن اطمینان والی روحوں سے کہا جائے گا کہ تو اپنے رب یعنی اپنے جسم کی طرف لوٹ جا جسے تو دنیا میں آباد کیے ہؤے تھی تم دونوں آپس میں ایک دوسرے سے راضی و رضامند ہو ۔ یہ بھی مروی ہے کہ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ اس آیت کو «فَاْدخُلِیْ فِیْ عَبْدِیْ» پڑھتے تھے یعنی ’ اے روح میرے بندے میں ‘ یعنی ’ اس کے جسم میں چلی جا ‘ ، لیکن یہ غریب ہے اور ظاہر قول پہلا ہی ہے جیسے اور جگہ ہے « ثُمَّ رُدٰوا إِلَی اللہِ مَوْلَاہُمُ الْحَقِّ» ۱؎ (6-الأنعام:62) یعنی ’ پھر سب کے سب اپنے سچے مولا کی طرف لوٹائے جائیں گے ‘ ۔ اور جگہ ہے «وَأَنَّ مَرَدَّنَا إِلَی اللَّہِ» ۱؎ (40-غافر:43) یعنی ’ ہمارا لوٹنا اللہ کی طرف یعنی اس کے حکم کی طرف اور اس کے سامنے ہے ‘ ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ { یہ آیتیں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں اتریں تو آپ نے کہا کتنا اچھا قول ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :” تمہیں بھی یہی کہا جائے گا “ } ۔ ۱؎ (ابونعیم فی الحلیہ:283/4:ضعیف) دوسری روایت میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سیدنا سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ نے یہ آیتیں پڑھیں تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ فرمایا : جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خوشخبری سنائی کہ تجھے فرشتہ موت کے وقت یہی کہے گا } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:37213:ضعیف و مرسل) ابن ابی حاتم میں یہ روایت بھی ہے کہ ” جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما مفسر القرآن کا طائف میں انتقال ہوا تو ایک پرندہ آیا جس طرح کا پرندہ کبھی زمین پر دیکھا نہیں گیا وہ نعش میں چلا گیا پھر نکلتے ہوئے دیکھا گیا جب آپ کو دفن کر دیا گیا تو قبر کے کونے سے اسی آیت کی تلاوت کی آواز آئی اور یہ نہ معلوم ہو سکا کہ کون پڑھ رہا ہے “ ، یہ روایت طبرانی میں بھی ہے ۔ ابوہاشم قباث بن رزین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” جنگ روم میں ہم دشمنوں کے ہاتھ قید ہو گئے ، شاہ روم نے ہمیں اپنے سامنے بلایا اور کہا یا تو تم اس دین کو چھوڑ دو یا قتل ہونا منظور کر لو ایک ایک کو وہ یہ کہتا کہ ہمارا دین قبول کرو ورنہ جلاد کو حکم دیتا ہوں کہ تمہاری گردن مارے تین شخص تو مرتد ہو گئے جب چوتھا آیا تو اس نے صاف انکار کیا بادشاہ نے حکم سے اس کی گردن اڑا دی گئی اور سر کو نہر میں ڈال دیا گیا وہ نیچے ڈوب گیا اور ذرا سی دیر میں پانی پر آ گیا اور ان تینوں کی طرف دیکھنے لگا کہ اے فلاں اور اے فلاں اور اے فلاں ان کے نام لے کر انہیں آواز دی جب یہ متوجہ ہوئے سب درباری لوگ دیکھ رہے تھے اور خود بادشاہ بھی تعجب کے ساتھ سن رہا تھا اس مسلمان شہید کے سر نے کہا : سنو ! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے «یَا أَیَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ» * «ارْجِعِی إِلَیٰ رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَرْضِیَّۃً» * «فَادْخُلِی فِی عِبَادِی» * «وَادْخُلِی جَنَّتِی» ۱؎ (89-الفجر:27-30) اتنا کہہ کر وہ سر پھر پانی میں غوطہٰ لگا گیا اس واقعہ کا اتنا اچھا اثر ہوا کہ قریب تھا کہ نصرانی اسی وقت مسلمان ہو جاتے بادشاہ نے اسی وقت دربار برخاست کرا دیا اور وہ تینوں پھر مسلمان ہو گئے اور ہم سب یونہی قید میں رہے آخر خلیفہ ابو جعفر منصور کی طرف سے ہمارا فدیہ آ گیا اور ہم نے نجات پائی ۔ ابن عساکر میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے کہا : ” یہ دعا پڑھا کر « اللہُمَّ إِنِّی أَسْأَلک نَفْسًا بِک مُطْمَئِنَّۃ تُؤْمِن بِلِقَائِک وَتَرْضَی بِقَضَائِک وَتَقْنَع بِعَطَائِک» الخ یعنی الٰہی میں تجھ سے ایسا نفس طلب کرتا ہوں جو تیری ذات پر اطمینان اور بھروسہ رکھتا ہو ، تیری ملاقات پر ایمان رکھتا ہو ، تیری قضاء پر راضی ہو ، تیرے دئیے ہوئے پر قناعت کرنے والا ہو “ } ۔ ۱؎ (مجمع الزوائد:180/10:ضعیف) سورۃ والفجر کی تفسیر ختم ہوئی ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» الفجر
22 الفجر
23 الفجر
24 الفجر
25 الفجر
26 الفجر
27 الفجر
28 الفجر
29 الفجر
30 الفجر
0 البلد
1 مکہ مکرمہ کی قسم اللہ تبارک و تعالیٰ مکہ مکرمہ کی قسم کھاتا ہے درآں حالیکہ وہ آباد ہے اس میں لوگ بستے ہیں اور وہ بھی امن چین میں ہیں ، «لا» سے ان پر رد کیا پھر قسم کھائی اور فرمایا کہ ’ اے نبی ! تیرے لیے یہاں ایک مرتبہ لڑائی حلال ہونے والی ہے ، جس میں کوئی گناہ اور حرج نہ ہو گا اور اس میں جو ملے وہ حلال ہو گا صرف اسی وقت کے لیے یہ حکم ہے ‘ ۔ صحیح حدیث میں بھی ہے کہ { اس بابرکت شہر مکہ کو پروردگار عالم نے اول دن سے ہی حرمت والا بنایا ہے اور قیامت تک اس کی یہ حرمت و عزت باقی رہنے والی ہے اس کا درخت نہ کاٹا جائے اس کے کانٹے نہ اکھیڑے جائیں میرے لیے بھی صرف ایک دن ہی کی ایک ساعت کے لیے حلال کیا گیا تھا آج پھر اس کی حرمت اسی طرح لوٹ آئی جیسے کل تھی ہر حاضر کو چاہیئے کہ غیر حاضر کو پہنچا دے } ۔ ایک روایت میں ہے کہ { اگر یہاں کے جنگ و جدال کے جواز کی دلیل میں کوئی میری لڑائی پیش کرے تو کہہ دینا کہ اللہ نے اپنے رسول کو اجازت دی تھی اور تمہیں نہیں دی } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1832) پھر قسم کھاتا ہے باپ کی اور اولاد کی بعض نے تو کہا ہے کہ «مَا وَلَدَ» میں «مَا» نافیہ ہے یعنی قسم ہے اس کی جو اولاد والا ہے اور قسم ہے اس کی جو بے اولاد ہے یعنی عیالدار اور بانجھ ۔ «مَا» کو موصولہ مانا جائے تو معنی یہ ہوئے کہ باپ کی اور اولاد کی قسم ، باپ سے مراد آدم اور اولاد سے مراد کل انسان ، زیادہ قوی اور بہتر بات یہی معلوم ہوتی ہے کیونکہ اس سے پہلے قسم ہے مکہ کی جو تمام زمین اور کل بستیوں کی ماں ہے تو اس کے بعد اس کے رہنے والوں کی قسم کھائی اور رہنے والوں یعنی انسان کے اصل اور اس کی جڑ یعنی آدم کی پھر ان کی اولاد کی قسم کھائی ۔ ابوعمران رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” مراد ابراہیم علیہ السلام اور آپ علیہ السلام کی اولاد ہے “ ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” عام ہے یعنی ہر باپ اور ہر اولاد “ ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ ہم نے انسان کو بالکل درست قامت جچے تلے اعضاء والا ٹھیک ٹھاک پیدا کیا ہے اس کی ماں کے پیٹ میں ہی اسے یہ پاکیزہ ترتیب اور عمدہ ترکیب دے دی جاتی ہے ‘ ۔ جیسے فرمایا «یَا أَیٰہَا الْإِنسَانُ مَا غَرَّکَ بِرَبِّکَ الْکَرِیمِ الَّذِی خَلَقَکَ فَسَوَّاکَ فَعَدَلَکَ» ۱؎ (82-الانفطار:6،7) ، یعنی ’ اس اللہ نے تجھے پیدا کیا درست کیا ٹھیک ٹھاک بنایا اور پھر جس صورت میں چاہا ترکیب دی ‘ ۔ اور جگہ ہے «لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِی أَحْسَنِ تَقْوِیمٍ» ۱؎ (95-التین:4) ’ ہم نے انسان کو بہترین صورت پر بنایا ہے ‘ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ” قوت طاقت والا پیدا کیا ہے خود اسے دیکھو اس کی پیدائش کی طرف غور کرو اس کے دانتوں کا نکلنا دیکھو وغیرہ “ ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” پہلے نطفہ پھر خون بستہ پھر گوشت کا لوتھڑا غرض اپنی پیدائش میں خوب مشقتیں اٹھاتا ہے “ ۔ جیسے اور جگہ ہے «حَمَلَتْہُ أُمٰہُ کُرْہًا وَوَضَعَتْہُ کُرْہًا» ۱؎ (46-الأحقاف:15) ’ اس کی ماں نے اسے تکلیف جھیل کر پیٹ میں رکھا اور تکلیف برداشت کر کے اسے جنا ‘ ، بلکہ دودھ پلانے میں بھی مشقت اور معیشت میں بھی تکلیف ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” سختی اور طلب کسب میں پیدا کیا گیا ہے “ ۔ عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” شدت اور طول میں پیدا ہوا ہے “ ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں مشقت میں یہ بھی مروی ہے اعتدال اور قیام میں دنیا اور آخرت میں سختیاں سہنی پڑتی ہیں آدم چونکہ آسمان میں پیدا ہوئے تھے اس لیے یہ کہا گیا کہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس کے مال کے لینے پر کوئی قادر نہیں اس پر کسی کا بس نہیں کیا وہ نہ پوچھا جائے گا کہ کہاں سے مال لایا اور کہاں خرچ کیا ؟ یقیناً اس پر اللہ کا بس ہے اور وہ پوری طرح اس پر قادر ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ میں نے بڑے وارے نیارے کیے ہزاروں لاکھوں خرچ کر ڈالے کیا وہ یہ خیال کرتا ہے کہ اسے کوئی دیکھ نہیں رہا ؟ ‘ یعنی اللہ کی نظروں سے وہ اپنے آپ کو غائب سمجھتا ہے ۔ ’ کیا ہم نے اس انسان کو دیکھنے والی آنکھیں نہیں دیں ؟ اور دل کی باتوں کے اظہار کے لیے زبان عطا نہیں فرمائی ؟ اور دو ہونٹ نہیں دئیے ؟ جن سے کلام کرنے میں مدد ملے کھانا کھانے میں مدد ملے اور چہرے کی خوبصورتی بھی ہو اور منہ کی بھی ‘ ۔ ابن عساکر میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے ابن آدم میں نے بڑی بڑی بے حد نعمتیں تجھ پر انعام کیں جنہیں تو گن بھی نہیں سکتا نہ اس کے شکر کی تجھ میں طاقت ہے میری ہی یہ نعمت بھی ہے کہ میں نے تجھے دیکھنے کو دو آنکھیں دیں پھر میں نے ان پر پلکوں کا غلاف بنا دیا ہے پس ان آنکھوں سے میری حلال کردہ چیزیں دیکھ اگر حرام چیزیں تیرے سامنے آئیں تو ان دونوں کو بند کر لے میں نے تجھے زبان دی ہے اور اس کا غلاف بھی عنایت فرمایا ہے میری مرضی کی باتیں زبان سے نکال اور میری منع کی ہوئی باتوں سے زبان بند کر لے میں نے تجھے شرمگاہ دی ہے اور اس کا پردہ بھی عطا فرمایا ہے حلال جگہ تو بیشک استعمال کر لیکن حرام جگہ پردہ ڈال لے ۔ اے ابن آدم تو میری ناراضگی نہیں اٹھا سکتا اور میرے عذاب کے سہنے کی طاقت نہیں رکھتا } ۔ ۱؎ (تاریخ دمشق لا بن عساکر:46/19:مرسل و ضعیف) پھر فرمایا کہ ’ ہم نے اسے دونوں راستے دکھا دئیے بھلائی کا اور برائی کا ‘ ۔ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ” دو راستے ہیں پھر تمہیں برائی کا راستہ بھلائی کے راستے سے زیادہ اچھا کیوں لگتا ہے ؟ “ } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:200/30:ضعیف) یہ حدیث بہت ضعیف ہے ۔ یہ حدیث مرسل طریقے سے بھی مروی ہے سیدنا ابن عباس فرماتے ہیں ” مراد اس سے دونوں دودھ ہیں “ اور مفسرین نے بھی یہی کہا ہے امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں ٹھیک قول پہلا ہی ہے جیسے اور جگہ ہے «إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن نٰطْفَۃٍ أَمْشَاجٍ نَّبْتَلِیہِ فَجَعَلْنَاہُ سَمِیعًا بَصِیرًا إِنَّا ہَدَیْنَاہُ السَّبِیلَ إِمَّا شَاکِرًا وَإِمَّا کَفُورًا» ۱؎ (76-الإنسان:2-3) یعنی ’ ہم نے انسان کو ملے جلے نطفے سے پیدا کیا پھر ہم نے اسے سنتا دیکھتا کیا ہم نے اس کی رہبری کی اور راستہ دکھا دیا پس یا تو شکر گزار ہے یا ناشکرا ‘ ۔ البلد
2 البلد
3 البلد
4 البلد
5 البلد
6 البلد
7 البلد
8 البلد
9 البلد
10 البلد
11 صدقات اور اعمال صالحہ جہنم سے نجات کے ضامن ہیں ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ” «عَقَبَۃَ» جہنم کے ایک پھسلنے پہاڑ کا نام ہے “ ۔ کعب احبار رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” اس کے جہنم میں ستر درجے ہیں “ ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” یہ داخلے کی سخت گھاٹی ہے اس میں اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری سے داخل ہو جاؤ پھر اس کا داخلہ بتایا یہ کہہ کر کہ تمہیں کس نے بتایا کہ یہ گھاٹی کیا ہے ؟ تو فرمایا غلام آزاد کرنا اور اللہ کے نام کھانا دینا “ ۔ ابن زید رحمہ اللہ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ ” یہ نجات اور خیر کی راہوں میں کیوں نہ چلا ؟ پھر ہمیں تنبیہ کی اور فرمایا ’ تم کیا جانو «عَقَبَۃَ» کیا ہے ؟ ‘ آزادگی گردن یا صدقہ طعام «فَکٰ رَقَبَۃٍ» جو اضافت کے ساتھ ہے اسے «فَکَّ رَقَبَۃً» بھی پڑھا گیا یعنی فعل و فاعل دونوں قرأتوں کا مطلب قریباً ایک ہی ہے ۔ مسند احمد میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو کسی مسلمان کی گردن چھڑوائے اللہ تعالیٰ اس کا ہر ایک عضو اس کے ہر عضو کے بدلے جہنم سے آزاد کر دیتا ہے یہاں تک کہ ہاتھ کے بدلے ہاتھ پاؤں کے بدلے پاؤں اور شرمگاہ کے بدلے شرمگاہ } ۔ علی بن حسین یعنی امام زید العابدین رحمہ اللہ نے جب یہ حدیث سنی تو سعید بن مرجانہ رحمہ اللہ راوی حدیث سے پوچھا کہ کیا تم نے خود سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی زبانی یہ حدیث سنی ہے ؟ آپ نے فرمایا : ہاں تو آپ نے اپنے غلام سے فرمایا کہ مطرف کو بلا لو جب وہ سامنے آیا تو آپ نے فرمایا جاؤ تم اللہ کے نام پر آزاد ہو ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2517) بخاری ، مسلم ، ترمذی اور نسائی میں بھی یہ حدیث ہے صحیح مسلم میں یہ بھی ہے کہ یہ غلام دس ہزار درہم کا خریدا ہوا تھا اور حدیث میں ہے کہ { جو مسلمان کسی مسلمان غلام کو آزاد کرے اللہ تعالیٰ اس کی ایک ایک ہڈی کے بدلے اس کی ایک ایک ہڈی جہنم سے آزاد ہو جاتی ہے } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:3965،قال الشیخ الألبانی:صحیح) مسند میں ہے { جو شخص اللہ تعالیٰ کے ذکر کے لیے مسجد بنائے اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں گھر بناتا ہے اور جو مسلمان غلام کو آزاد کرے اللہ تعالیٰ اسے اس کا فدیہ بنا دیتا ہے اور اسے جہنم سے آزاد کر دیتا ہے جو شخص اسلام میں بوڑھا ہو اسے قیامت کے دن نور ملے گا } ۔ ۱؎ (مسند احمد:386/4:صحیح) اور روایت میں یہ بھی ہے کہ { جو شخص اللہ کی راہ میں تیر چلائے خواہ وہ لگے یا نہ لگے اسے اولاد اسمٰعیل میں سے ایک غلام کے آزاد کرنے کا ثواب ملے گا } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:3966،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اور حدیث میں ہے { جس مسلمان کے تین بچے بلوغت سے پہلے مر جائیں اسے اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے جنت میں داخل کرے گا اور جو شخص اللہ کی راہ میں جوڑے دے ، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دے گا جس سے چاہے چلا جائے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:386/4:صحیح لغیرہ) ان تمام احادیث کی سندیں نہایت عمدہ ہیں ۔ ابوداؤد میں ہے کہ { ایک مرتبہ ہم نے سیدنا واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ہمیں کوئی ایسی حدیث سنائیے جس میں کوئی کمی زیادتی نہ ہو تو ، آپ بہت ناراض ہوئے اور فرمانے لگے تم میں سے کوئی پڑھے اور اس کا قرآن شریف اس کے گھر میں ہو تو کیا وہ کمی زیادتی کرتا ہے ؟ ہم نے کہا ہمارا مطلب یہ نہیں ہم تو یہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی حدیث ہمیں سنائیے ، آپ نے فرمایا : ہم ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنے ایک ساتھی کے بارے میں حاضر ہوئے جس نے قتل کی وجہ سے اپنے اوپر جہنم واجب کرلی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اس کی طرف سے غلام آزاد کرو ، اللہ تعالیٰ اس کے ایک ایک عضو کے بدلے اس کا ایک ایک عضو جہنم کی آگ سے آزاد کر دے گا “ } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:3964،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ، یہ حدیث نسائی شریف میں بھی ہے ۔ اور حدیث میں ہے { جو شخص کسی کی گردن آزاد کرائے اللہ تعالیٰ اسے اس کا فدیہ بنا دیتا ہے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:150/4:صحیح لغیرہ وہذا اسناد ضعیف لا نقطاعہ) ایسی اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں ۔ مسند احمد میں ہے کہ { ایک اعرابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا اے اللہ کے رسول! کوئی ایسا کام بتا دیجئیے جس سے میں جنت میں جا سکوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تھوڑے سے الفاظ میں بہت ساری باتیں تو پوچھ بیٹھا ، «نسمہ» آزاد کر ، «رقبتہ» چھڑا “ ، اس نے کہا کیا یہ دونوں ایک چیز نہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” نہیں «نسمہ» کی آزادی کے معنی تو ہیں اکیلا ایک غلام آزاد کرے اور «فَکٰ رَقَبَۃٍ» کے معنی ہیں کہ تھوڑی بہت مدد کرے ، دودھ والا جانور دودھ پینے کے لیے کسی مسکین کو دینا ، ظالم رشتہ دار سے نیک سلوک کرنا ، یہ جنت کے کام ہیں ، اگر اس کی تجھے طاقت نہ ہو تو بھوکے کو کھلا ، پیاسے کو پلا ، نیکیوں کا حکم کر ، برائیوں سے روک ، اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو سوائے بھلائی کے اور نیک بات کے اور کوئی کلمہ زبان سے نہ نکال “ } ۔ ۱؎ (مسند احمد:299/4:صحیح) «ذِی مَسْغَبَۃٍ» کے معنی ہیں بھوک والا ، جبکہ کھانے کی اشتہا ہو ، غرض بھوک کے وقت کا کھلانا اور وہ بھی اسے جو نادان بچہ ہے سر سے باپ کا سایہ اٹھ چکا ہے اور اس کا رشتہ دار بھی ہے ۔ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ” مسکین کو صدقہ دینا اکہرا ثواب رکھتا ہے ، اور رشتے ادر کو دینا دوہرا اجر دلواتا ہے “ } ۱؎ (سنن ترمذی:658،قال الشیخ الألبانی:صحیح) یا ایسے مسکین کو دینا جو خاک آلود ہو ، راستے میں پڑا ہوا ہو ، گھر ور نہ ہو ، بر بستر نہ ہو ، بھوک کی وجہ سے پیٹھ زمین دوز ہو رہی ہو ، اپنے گھر سے دور ہو ، مسافرت میں ہو ، فقیر ، مسکین ، محتاج ، مقروض ، مفلس ہو ، کوئی پرسان حال بھی نہ ہو ، اہل و عیال والا ہو ، یہ سب معنی قریب قریب ایک ہی ہیں ۔ پھر یہ شخص باوجود ان نیک کاموں کے دل میں ایمان رکھتا ہو ان نیکیوں پر اللہ سے اجر کا طالب ہو جیسے اور جگہ ہے «وَمَنْ أَرَادَ الْآخِرَۃَ وَسَعَیٰ لَہَا سَعْیَہَا وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولٰئِکَ کَانَ سَعْیُہُم مَّشْکُورًا» ۱؎ (17-الإسراء:19) ’ جو شخص آخرت کا ارادہ رکھے اور اس کے لیے کوشش کرے اور ہو بھی با ایمان تو ان کی کوشش اللہ کے ہاں مشکور ہے ‘ ۔ اور جگہ ہے «مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَکَرٍ أَوْ أُنثَیٰ وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہُ حَیَاۃً طَیِّبَۃً» ۱؎ (16-النحل:97) الخ ، ’ ایمان والوں میں سے جو مرد عورت مطابق سنت عمل کرے یہ جنت میں جائیں گے اور وہاں بے حساب روزیاں پائیں گے ‘ ۔ پھر ان کا وصف بیان ہو رہا ہے کہ ’ لوگوں کے صدمات سہنے اور ان پر رحم و کرم کرنے کی یہ آپس میں ایک دوسرے کو وصیت کرتے ہیں ‘ ۔ جیسے کہ حدیث میں ہے { «الرَّاحِمُونَ یَرْحَمہُمْ الرَّحْمَن اِرْحَمُوا مَنْ فِی الْأَرْض یَرْحَمکُمْ مَنْ فِی السَّمَاء» رحم کرنے والوں پر رحمان بھی رحم کرتا ہے ، تم زمین والوں پر رحم کرو آسمانوں والا تم پر رحم کرے گا } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4941،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اور حدیث میں ہے { «لَا یَرْحَم اللَّہ مَنْ لَا یَرْحَم النَّاس» جو رحم نہ کرے اس پر رحم نہیں کیا جاتا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:7376) ابوداؤد میں ہے { «مَنْ لَمْ یَرْحَم صَغِیرنَا وَیَعْرِف حَقّ کَبِیرنَا فَلَیْسَ مِنَّا» جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور بڑوں کے حق کو نہ سمجھے وہ ہم میں سے نہیں } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3350) پھر فرمایا کہ ’ یہ لوگ وہ ہیں جن کے داہنے ہاتھ میں اعمال نامہ دیا جائے گا اور ہماری آیتوں کے جھٹلانے والوں کے بائیں ہاتھ میں اعمال نامہ ملے گا ، اور سر بند تہہ بہ تہہ آگ میں جائیں گے ، جس سے نہ کبھی چھٹکارا ملے گا نہ نجات نہ راحت نہ آرام ، اس آگ کے دروازے ان پر بند رہیں گے ‘ ۔ مزید بیان اس کا سورۃ «وَیْلٌ لِّکُلِّ ہُمَزَۃٍ لٰمَزَۃٍ» (104-الہمزۃ:1) ، میں آئے گا ان شاءاللہ ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” مطلب یہ ہے کہ نہ اس میں روشنی ہو گی ، نہ سوراخ ہو گا ، نہ کبھی وہاں سے نکلنا ملے گا “ ۔ ابوعمران جوئی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” جب قیامت کا دن آئے گا ، اللہ حکم دے گا اور ہر سرکش کو ، ہر ایک شیطان کو اور ہر اس شخص کو جس کی شرارت سے لوگ دنیا میں ڈرتے رہتے تھے ، لوہے کی زنجیروں سے مضبوط باندھ دیا جائے گا ، پھر جہنم میں جھونک دیا جائے گا پھر جہنم بند کر دی جائے گی ۔ اللہ کی قسم کبھی ان کے قدم ٹکیں گے ہی نہیں اللہ کی قسم انہیں کبھی آسمان کی صورت ہی دکھائی نہ دے گی اللہ کی قسم کبھی آرام سے ان کی آنکھ لگے گی ہی نہیں اللہ کی قسم انہیں کبھی کوئی مزے کی چیز کھانے پینے کو ملے گی ہی نہیں “ ۔ ( ابن ابی حاتم ) سورۃ البلد کی تفسیر ختم ہوئی ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» «وَلِلہِ الْحَمْد وَالْمِنَّۃ» البلد
12 البلد
13 البلد
14 البلد
15 البلد
16 البلد
17 البلد
18 البلد
19 البلد
20 البلد
0 الشمس
1 کامیابی کے لیے کیا ضروری ہے؟ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” «الضٰحَیٰ» سے مراد روشنی ہے “ ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” پورا دن مراد ہے “ ۔ امام جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” ٹھیک بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورج کی اور دن کی قسم کھائی ہے اور چاند جبکہ اس کے پیچھے آئے یعنی سورج چھپ جائے اور چاند چمکنے لگے “ ۔ ابن زید رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” مہینہ کے پہلے پندرہ دن میں تو چاند سورج کے پیچھے رہتا ہے اور پچھلے پندرہ دنوں میں آگے ہوتا ہے “ ۔ زید بن اسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” مراد اس سے لیلۃ القدر ہے “ ۔ پھر دن کی قسم کھائی جبکہ وہ منور ہو جائے یعنی سورج دن کو گھیر لے ، بعض عربی دانوں نے یہ بھی کہا ہے کہ دن جبکہ اندھیرے کو روشن کر دے لیکن اگر یوں کہا جاتا کہ پھیلاوٹ کو وہ جب چمکا دے تو اور اچھا ہوتا ہے تاکہ «یَغْشَاہَا» میں بھی یہ معنی ٹھیک بیٹھتے ، اسی لیے مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” دن کی قسم جبکہ وہ اسے روشن کر دے “ ، امام ابن جریر رحمہ اللہ اس قول کو پسند فرماتے ہیں کہ ان سب میں ضمیر «ھَا» کا مرجع «شَّمْسِ» ہے کیونکہ اسی کا ذکر چل رہا ہے ، رات جبکہ اسے ڈھانپ لے یعنی سورج کو ڈھانپ لے اور چاروں طرف اندھیرا پھیل جائے ۔ یزید بن ذی حمایہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ” جب رات آتی ہے تو اللہ تعالیٰ جل جلالہ فرماتا ہے ’ میرے بندوں کو میری ایک بہت بڑی خلق نے چھپا لیا ‘ پس مخلوق رات سے ہیبت کرتی ہے حالانکہ اس کے پیدا کرنے والے سے زیادہ ہیبت کرنی چاہیئے ۔ (ابن ابی حاتم) پھر آسمان کی قسم کھاتا ہے یہاں جو «مَا» ہے یہ مصدر یہ بھی ہو سکتا ہے ، یعنی آسمان اور اس کی بناوٹ کی قسم ۔ قتادہ رحمہ اللہ کا قول یہی ہے اور یہ «مَا» معنی میں «مَنْ» کے بھی ہو سکتا ہے تو مطلب یہ ہو گا کہ ’ آسمان کی قسم اور اس کے بنانے والے کی قسم ‘ ، یعنی خود اللہ کی ۔ مجاہد رحمہ اللہ یہی فرماتے ہیں یہ دونوں معنی ایک دوسرے کو لازم ملزوم ہیں ۔ «بَنا» کے معنی بلندی کے ہیں جیسے اور جگہ ہے «وَالسَّمَاء بَنَیْنَاہَا بِأَیْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ وَالْأَرْضَ فَرَشْنَاہَا فَنِعْمَ الْمَاہِدُونَ» ۱؎ (51-الذریات:48-47) ، یعنی ’ آسمان کو ہم نے قوت کے ساتھ بنایا اور ہم کشادگی والے ہیں ہم نے زمین کو بچھایا اور کیا ہی اچھا ہم بچھانے والے ہیں ‘ ۔ اس طرح یہاں بھی فرمایا کہ ’ زمین کی اور اس کی ہمواری کی اسے بچھانے ، پھیلانے کی اس کی تقسیم کی ، اس کی مخلوق کی قسم ‘ ۔ زیادہ مشہور قول اس کی تفسیر میں پھیلانے کا ہے ، اہل لغت کے نزدیک بھی یہی معروف ہے ۔ جوہری فرماتے ہیں «طَحَوْتُہٗ» مثل «ودحَوْتُہٗ» کے ہے اور اس کے معنی پھیلانے کے ہیں اکثر مفسرین کا یہی قول ہے ۔ پھر فرمایا ’ نفس کی اور اسے ٹھیک ٹھاک بنانے کی قسم ‘ یعنی اسے پیدا کیا اور آنحالیکہ یہ ٹھیک ٹھاک اور فطرت پر قائم تھا ۔ جیسے اور جگہ ہے «فَأَقِمْ وَجْہَکَ لِلدِّینِ حَنِیفًا فِطْرَتَ اللہِ الَّتِی فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْہَا لَا تَبْدِیلَ لِخَلْقِ اللہِ » ۱؎ (30-الروم:30) ، ’ اپنے چہرے کو قائم رکھ دین حنیف کے لیے فطرت ہے ، اللہ کی جس پر لوگوں کو بنایا اللہ کی خلق کی تبدیل نہیں ‘ ۔ حدیث میں ہے { ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا لیتے ہیں جیسے چوپائے جانور کا بچہ صحیح سالم پیدا ہوتا ہے کوئی ان میں کن کٹا نہ پاؤ گے } ۔ (صحیح بخاری:1358) صحیح مسلم شریف کی ایک حدیث میں ہے کہ { اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں نے اپنے بندے یکسوئی والے پیدا کئے ان کے پاس شیطان پہنچا اور دین سے ورغلا لیا } ۔ (صحیح مسلم:2865) پھر فرماتا ہے کہ ’ اللہ نے اس کے لیے بدکاری و پرہیزگاری کو بیان کر دیا اور جو چیز اس کی قسمت میں تھی اس کی طرف اس کی رہبری ہوئی ‘ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ” یعنی خیر و شر ظاہر کر دیا “ ۔ ابن جریر میں ہے ابوالاسود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ” سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہما نے پوچھا : ذرا بتاؤ تو لوگ جو کچھ اعمال کرتے ہیں اور تکلیفیں اٹھا رہے ہیں یہ کیا ان کے لیے اللہ کی جانب سے مقرر ہو چکی ہیں اور ان کی تقدیر میں لکھی جا چکی ہیں یا یہ خود آئندہ کے لیے اپنے طور پر کر رہے ہیں اس بنا پر کہ انبیاء علیہم السلام ان کے پاس آ چکے اور اللہ کی حجت ان پر پوری ہوئی ؟ میں نے جواب میں کہا نہیں نہیں بلکہ یہ چیز پہلے سے فیصل شدہ ہے اور مقدر ہو چکی ہے ۔ سیدنا عمران رضی اللہ عنہ نے کہا پھر یہ ظلم تو نہ ہو گا میں تو اسے سن کر کانپ اٹھا اور گھبرا کر کہا کہ ہر چیز کا خالق مالک وہی اللہ ہے تمام ملک اسی کے ہاتھ میں ہے اس کے افعال کی باز پرس کوئی نہیں کر سکتا وہ سب سے سوال کر سکتا ہے میرا یہ جواب سن کر سیدنا عمران رضی اللہ عنہ بہت خوش ہوئے اور کہا اللہ تجھے درستگی عنایت فرمائے میں نے تو یہ سوالات اسی لیے کئے تھے کہ امتحان ہو جائے ، سنو ایک شخص مزینہ یا جہینہ قبیلے کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہی سوال کیا جو میں نے پہلے تم سے کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی وہی جواب دیا جو تم نے دیا تو اس نے کہا پھر ہمارے اعمال سے کیا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواباً ارشاد فرمایا کہ جس کسی کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے جس منزل کے لیے پیدا کیا ہے اس سے ویسے ہی کام ہو کر رہیں گے اگر جنتی ہے تو اعمال جنت اور اگر دوزخی لکھا گیا ہے تو ویسے ہی اعمال اس پر آسان ہوں گے ، سنو قرآن میں اس کی تصدیق موجود ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے «وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاہَا فَأَلْہَمَہَا فُجُورَہَا وَتَقْوَاہَا» ۱؎ (91-الشمس:7،8) یہ حدیث مسلم شریف میں بھی ہے ۔ (صحیح مسلم:2650) مسند احمد میں بھی ہے کہ { جس نے اپنے نفس کو پاک کیا وہ بامراد ہوا } ، یعنی اطاعت رب میں لگا رہا نکمے اعمال رذیل اخلاق چھوڑ دئیے ۔ جیسے اور جگہ ہے «دْ أَفْلَحَ مَن تَزَکَّیٰ وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہِ فَصَلَّیٰ» ۱؎ (87-الاعلیٰ:14-15) ’ جس نے پاکیزگی اختیار کی اور اپنے رب کا نام یاد کیا پھر نماز پڑھی اس نے کامیابی پا لی اور جس نے اپنے ضمیر کا ستیاناس کیا اور ہدایت سے ہٹا کر اسے برباد کیا ، نافرمانیوں میں پڑ گیا اطاعت اللہ کو چھوڑ بیٹھا یہ ناکام اور نامراد ہوا ‘ ۔ اور یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ ’ جس کے نفس کو اللہ تعالیٰ نے پاک کیا اور بامراد ہوا اور جس کے نفس کو اللہ نے نیچے گرا دیا وہ برباد ، خائب اور خاسر رہا ‘ ۔ عوفی اور علی بن ابوطلحہ رحمہ اللہ علیہم سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہی روایت کرتے ہیں ، ابن ابی حاتم کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت «قَدْ أَفْلَحَ مَن زَکَّاہَا» پڑھ کر فرمایا کہ جس نفس کو اللہ نے پاک کیا اس نے چھٹکارا پا لیا } ۔ لیکن اس حدیث میں ایک علت تو یہ ہے کہ جویبربن سعید متروک الحدیث ہے دوسری علت یہ ہے کہ ضحاک جو عبداللہ سے روایت کرتے ہیں ان کی ملاقات ثابت نہیں ۔ طبرانی کی حدیث میں ہے کہ { «فَأَلْہَمَہَا فُجُورَہَا وَتَقْوَاہَا» پڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا پڑھی « اللہُمَّ آتِ نَفْسِی تَقْوَاہَا أَنْتَ وَلِیّہَا وَمَوْلَاہَا وَخَیْر مَنْ زَکَّاہَا» } ۱؎ (طبرانی کبیر:11191:ضعیف) ابن ابی حاتم کی حدیث میں یہ دعا یوں وارد ہوئی ہے « اللہُمَّ آتِ نَفْسِی تَقْوَاہَا وَزَکِّہَا أَنْتَ خَیْر مَنْ زَکَّاہَا أَنْتَ وَلِیّہَا وَمَوْلَاہَا» ۔ ۱؎ (ابن ابی عاصم فی السنۃ:318:ضعیف) مسند احمد کی حدیث میں ہے { ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رات کو ایک مرتبہ میری آنکھ کھلی میں نے دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بستر پر نہیں ، اندھیرے کی وجہ سے میں گھر میں اپنے ہاتھوں سے ٹٹولنے لگی تو میرے ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پڑے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت سجدے میں تھے اور یہ دعا پڑھ رہے تھے «رَبّ أَعْطِ نَفْسِی تَقْوَاہَا وَزَکِّہَا أَنْتَ خَیْر مَنْ زَکَّاہَا أَنْتَ وَلِیّہَا وَمَوْلَاہَا» } یہ حدیث صرف مسند احمد میں ہی ہے ۔ ۱؎ (مسند احمد:209/6:ضعیف) مسلم شریف اور مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا مانگتے تھے « اللہُمَّ إِنِّی أَعُوذ بِک مِنْ الْعَجْز وَالْکَسَل وَالْہَرَم وَالْجُبْن وَالْبُخْل وَعَذَاب الْقَبْر اللہُمَّ آتِ نَفْسِی تَقْوَاہَا وَزَکِّہَا أَنْتَ خَیْر مَنْ زَکَّاہَا أَنْتَ وَلِیّہَا وَمَوْلَاہَا اللہُمَّ إِنِّی أَعُوذ بِک مِنْ قَلْب لَا یَخْشَع وَمِنْ نَفْس لَا تَشْبَع وَعِلْم لَا یَنْفَع وَدَعْوَۃ لَا یُسْتَجَاب لَہَا» یا اللہ ! میں عاجزی ، بیچارگی ، سستی ، تھکاوٹ ، بڑھاپے ، نامردی سے اور بخیلی اور عذاب قبر سے تیری پناہ چاہتا ہوں ، اے اللہ میرے دل کو اس کا تقویٰ عطا فرما اور اسے پاک کر دے تو ہی اسے بہتر پاک کرنے والا ہے تو ہی اس کا والی اور مولیٰ ہے ۔ اے اللہ ! مجھے ایسے دل سے بچا جس میں تیرا ڈر نہ ہو اور ایسے نفس سے بچا جو آسودہ نہ ہو اور ایسے علم سے بچا جو نفع نہ دے اور ایسی دعا سے بچا جو قبول نہ کی جائے } ۔ راوی حدیث میں زید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ دعا سکھائی اور ہم تمہیں سکھاتے ہیں ۔ (صحیح مسلم:2722) الشمس
2 الشمس
3 الشمس
4 الشمس
5 الشمس
6 الشمس
7 الشمس
8 الشمس
9 الشمس
10 الشمس
11 الشمس
12 آل ثمود کی تباہی کے اسباب اللہ تعالیٰٰ بیان فرما رہا ہے کہ ثمودیوں نے اپنی سرکشی ، تکبر و تجّبر کی بناء پر اپنے رسول کی تصدیق نہ کی ۔ محمد بن کعب رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” «بِطَغْوَاہَا» کا مطلب یہ ہے کہ ان سب نے تکذیب کی “ لیکن پہلی بات ہی زیادہ اولیٰ ہے ۔ مجاہد اور قتادہ رحمہ اللہ علیہم نے بھی یہی بیان کیا ہے ، اس سرکشی اور تکذیب کی شامت سے یہ اس قدر بدبخت ہو گئی کہ ان میں سے جو زیادہ بد شخص تھا وہ تیار ہو گیا اس کا نام قدار بن سالف تھا اسی نے صالح علیہ السلام کی اونٹنی کی کوچیں کاٹی تھیں ۔ اسی کے بارے میں فرمان ہے «فَنَادَوْا صَاحِبَہُمْ فَتَعَاطَیٰ فَعَقَرَ» ۱؎ (54-القمر:29) ثمودیوں کی آواز پر یہ آ گیا اور اس نے اونٹنی کو مار ڈالا ، یہ شخص اس قوم میں ذی عزت تھا شریف تھا ذی نسب تھا قوم کا رئیس اور سردار تھا ۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ اپنے خطبے میں اس اونٹنی کا اور اس کے مار ڈالنے والے کا ذکر کیا اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا کہ جیسے ابوزمعہ تھا اسی جیسا یہ شخص بھی اپنی قوم میں شریف عزیز اور بڑا آدمی تھا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4942) امام بخاری رحمہ اللہ بھی اسے تفسیر میں اور امام مسلم رحمہ اللہ جہنم کی صفت میں لائے ہیں اور سنن ترمذی ، سنن نسائی میں بھی یہ روایت تفسیر میں ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ میں تجھے دنیا بھر کے بدبخت ترین دو شخص بتاتا ہوں ایک تو احیمر ثمود جس نے اونٹنی کو مار ڈالا اور دوسرا وہ شخص جو تیری پیشانی پر زخم لگائے گا یہاں تک کہ داڑھی خون سے تربتر ہو جائے گی } ۔ (مسند احمد:263/4:حسن لغیرہ) اللہ کے رسول صالح علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا کہ ” اے قوم اللہ کی اونٹنی کو برائی پہنچانے سے ڈرو ، اس کے پانی پینے کے مقرر دن میں ظلم کر کے اسے پانی سے نہ روکو تمہاری اور اس کی باری مقرر ہے “ ۔ لیکن ان بدبختوں نے پیغمبر علیہ السلام کی نہ مانی جس گناہ کے باعث ان کے دل سخت ہو گئے اور پھر یہ صاف طور پر مقابلہ کے لیے تیار ہو گئے اور اس اونٹنی کی کوچیں کاٹ دیں ، جسے اللہ تعالیٰ نے بغیر ماں باپ کے پتھر کی ایک چٹان سے پیدا کیا تھا جو صالح علیہ السلام کا معجزہ اور اللہ کی قدرت کی کامل نشانی تھی اللہ بھی ان پر غضبناک ہو گیا اور ہلاکت ڈال دی ، اور سب پر ابر سے عذاب اترا ۔ یہ اس لیے کہ احیمر ثمود کے ہاتھ پر اس کی قوم کے چھوٹے بڑوں نے مرد و عورت نے بیعت کر لی تھی اور سب کے مشورے سے اس نے اس اونٹنی کو کاٹا تھا اس لیے عذاب میں بھی سب پکڑے گئے ۔ «وَلَا یَخَافُ» کو «فَلَا یَخَافُ» بھی پڑھا گیا ہے ، مطلب یہ ہے کہ اللہ کسی کو سزا کرے تو اسے یہ خوف نہیں ہوتا کہ اس کا انجام کیا ہو گا ؟ کہیں یہ بگڑ نہ بیٹھیں ، یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ اس بدکار ، احیمر نے اونٹنی کو مار تو ڈالا لیکن انجام سے نہ ڈرا ، مگر پہلا قول ہی اولیٰ ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» «اَلْحَمْدُ لِلہِ» سورۃ الشمس کی تفسیر ختم ہوئی ۔ الشمس
13 الشمس
14 الشمس
15 الشمس
0 الليل
1 نیکی کے لیے قصد ضروری ہے مسند احمد میں ہے علقمہ رحمہ اللہ شام میں آئے اور دمشق کی مسجد میں جا کر دو رکعت نماز ادا کی اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ الٰہی مجھے نیک ساتھی عطا فرما پھر چلے تو سیدنا ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی پوچھا کہ تم کہاں کے ہو تو علقمہ رحمہ اللہ نے کہا میں کوفے والا ہوں پوچھا ام عبد رضی اللہ عنہ اس سورت کو کس طرح پڑھتے تھے ؟ میں نے کہا «والذَّکَرَ وَالْأُنثَیٰ» پڑھتے تھے ، سیدنا ابو الدرداء رضی اللہ عنہ فرمانے لگے میں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یونہی سنا ہے اور یہ لوگ مجھے شک و شبہ میں ڈال رہے ہیں پھر فرمایا کیا تم میں تکئے والے یعنی جن کے پاس سفر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بسترہ رہتا تھا اور راز دان ایسے بھیدوں سے واقف جن کا علم اور کسی کو نہیں وہ جو شیطان سے بہ زبان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بچا لئے گئے تھے وہ نہیں ؟ (مسند احمد:449/6:صحیح) یعنی سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ۔ یہ حدیث بخاری میں ہے اس میں یہ ہے کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کے شاگرد اور ساتھی سیدنا ابوالدردا رضی اللہ عنہ کے پاس آئے آپ بھی انہیں ڈھونڈتے ہوئے پہنچے پھر پوچھا کہ تم میں عبداللہ رضی اللہ عنہ کی قرأت پر قرآن پڑھنے والا کون ہے ؟ کہا کہ ہم سب ہیں ، پھر پوچھا کہ تم سب میں سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کی قرأت کو زیادہ یاد رکھنے والا کون ہے ؟ لوگوں نے سیدنا علقمہ رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ کیا تو ان سے سوال کیا کہ «وَاللَّیْلِ إِذَا یَغْشَیٰ» کو سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے تم نے کس طرح سنا ؟ تو کہا وہ «وَالذَّکَر وَالْأُنْثَی» پڑھتے تھے کہا میں نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح سنا ہے اور یہ لوگ چاہتے ہیں کہ میں «وَمَا خَلَقَ الذَّکَر وَالْأُنْثَی» پڑھوں اللہ کی قسم میں تو ان کی مانوں گا نہیں ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4944) الغرض سیدنا ابن مسعود اور ابو الدرداء رضی اللہ عنہم کی قرأت یہی ہے اور ابوالدرداء رضی اللہ عنہ نے تو اسے مرفوع بھی کہا ہے ۔ باقی جمہور کی قرأت وہی ہے جو موجودہ قرآن میں ہے ۔ پس اللہ تعالیٰ رات کی قسم کھاتا ہے جبکہ اس کا اندھیرا تمام مخلوق پر چھا جائے ، اور دن کی قسم کھاتا ہے جبکہ وہ تمام چیزوں کو روشنی سے منور کر دے اور اپنی ذات کی قسم کھاتا ہے جو نر و مادہ کا پیدا کرنے والا ہے ۔ جیسے فرمایا «وَخَلَقْنَاکُمْ أَزْوَاجًا» ۱؎ (78-النبأ:8) ’ ہم نے تمہیں جوڑا جوڑا پیدا کیا ہے ‘ اور فرمایا «وَمِنْ کُلّ شَیْء خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ» ۱؎ (51-الذاریات:49) ’ ہم نے ہر چیز کے جوڑے پیدا کئے ہیں ‘ ۔ ان متضاد اور ایک دوسری کے خلاف قسمیں کھا کر اب فرماتا ہے کہ ’ تمہاری کوششیں اور تمہارے اعمال بھی متضاد اور ایک دوسرے کے خلاف ہیں ۔ بھلائی کرنے والے بھی ہیں اور برائیوں میں مبتلا رہنے والے بھی ہیں ‘ ۔ پھر فرمایا ہے کہ ’ جس نے دیا ‘ یعنی اپنے مال کو اللہ کے حکم کے ماتحت خرچ کیا اور پھونک پھونک کر قدم رکھا ہر ایک امر میں خوف اللہ کرتا رہا اور اس کے بدلے کو سچا جانتا رہا اس کے ثواب پر یقین رکھا ۔ حسنیٰ کے معنی «لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ» کے بھی کئے گئے ہیں ۔ اللہ کی نعمتوں کے بھی کئے گئے ہیں ، نماز زکوٰۃ صدقہ فطر جنت کے بھی مروی ہیں ۔ [ ضعیف:شیخ عبدالرزاق مہدی فرماتے ہیں کہ اس کی سند ضعیف ہے اور اس کی دو علتیں ہیں ۔ ایک یہ کہ اس میں زھیر بن محمد راوی اھل شام سے منکر رواتیں بیان کرتا ہے ۔ اور دوسرا یہ کہ اس میں ایک راوی مجہول ہے ] ۔ پھر فرمایا ہے کہ ’ ہم آسانی کی راہ آسان کر دیں گے ‘ یعنی بھلائی ، جنت اور نیک بدلے کی اور جس نے اپنے مال کو راہ اللہ میں نہ دیا اور اللہ تعالیٰ سے بے نیازی برتی اور حسنٰی کی یعنی قیامت کے بدلے کی تکذیب کی تو اس پر ہم برائی کا راستہ آسان کر دیں گے ۔ جیسے فرمایا «وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَہُمْ وَأَبْصَارَہُمْ» ۱؎ (6-الأنعام:110) الخ ، یعنی ’ ہم ان کے دل اور ان کی آنکھیں الٹ دیں گے جس طرح وہ پہلی بار قرآن پر ایمان نہ لائے تھے اور ہم انہیں ان کی سرکشی میں ہی بہکنے دیں گے ‘ ۔ اس مطلب کی آیتیں قرآن کریم میں کئی جگہ موجود ہیں کہ ’ ہر عمل کا بدلہ اسی جیسا ہوتا ہے خیر کا قصد کرنے والے کو توفیق خیر ملتی ہے اور شر کا قصد رکھنے والوں کو اسی کی توفیق ہوتی ہے ‘ ۔ اس معنی کی تائید میں یہ حدیثیں بھی ہیں { سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہما نے ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ ہمارے اعمال فارغ شدہ تقدیر کے ماتحت ہیں یا نوپید ہماری طرف سے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” بلکہ تقدیر کے لکھے ہوئے کے مطابق “ ، کہنے لگے پھر عمل کی کیا ضرورت ؟ فرمایا : ” ہر شخص پر وہ عمل آسان ہوں گے جس چیز کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے “ } ۔ (مسند احمد:6/1:حسن لغیرہ) { سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بقیع غرقد میں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک جنازے میں تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” سنو تم میں سے ہر ایک کی جگہ جنت و دوزخ میں مقرر کردہ ہے ، اور لکھی ہوئی ہے “ ۔ لوگوں نے کہا : پھر ہم اس پر بھروسہ کر کے بیٹھ کیوں نہ رہیں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” عمل کرتے رہو ہر شخص سے وہی اعمال صادر ہوں گے جن کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے “ ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی آیتیں تلاوت فرمائیں } ۔ (صحیح بخاری:4945) اسی روایت کے اور طریق میں ہے کہ اس بیان کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ایک تنکا تھا اور سر نیچا کئے ہوئے زمین پر اسے پھیر رہے تھے ۔ الفاظ میں کچھ کمی بیشی بھی ہے ۔ (صحیح بخاری:1362) مسند احمد میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا بھی ایسا ہی سوال جیسا اوپر کی حدیث میں سیدنا صدیق رضی اللہ عنہما کا گزرا مروی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب بھی تقریباً ً ایسا ہی مروی ہے ۔ (مسند احمد:52/2:صحیح) ابن جریر میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہما سے بھی ایسی ہی روایت مروی ہے ۔ (صحیح مسلم:2648) ابن جریر کی ایک حدیث میں دو نوجوانوں کا ایسا ہی سوال اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسا ہی جواب مروی ہے ، اور پھر ان دونوں حضرات کا یہ قول بھی ہے کہ یا رسول اللہ ! ہم بہ کوشش نیک اعمال کرتے رہیں گے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:37479:مرسل) سیدنا ابو الدرداء رضی اللہ عنہما سے بھی اسی طرح مروی ہے ۔ (مسند احمد:446/6:حسن لغیرہ) { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ” ہر دن غروب کے وقت سورج کے دونوں طرف دو فرشتے ہوتے ہیں اور وہ با آواز بلند دعا کرتے ہیں جسے تمام چیزیں سنتی ہیں سوائے جنات اور انسان کے کہ اے اللہ ! سخی کو نیک بدلہ دے اور بخیل کا مال تلف کر “ یہی معنی ہیں قرآن کی ان چاروں آیتوں کے “ } ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:37456:ضعیف) ابن ابی حاتم کی ایک بہت ہی غریب حدیث میں اس پوری سورت کا شان نزول یہ لکھا ہے کہ ایک شخص کا کھجوروں کا باغ تھا ان میں سے ایک درخت کی شاخیں ایک مسکین شخص کے گھر میں جا کر وہاں کی کھجوریں اتارتا اس میں جو کھجوریں نیچے گرتیں انہیں اس غریب شخص کے بچے چن لیتے تو یہ آ کر ان سے چھین لیتا بلکہ اگر کسی بچے نے منہ میں ڈال لی ہے تو انگلی ڈال کر اس کے منہ سے نکلوا لیتا ، اس مسکین نے اس کی شکایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرما دیا کہ ” اچھا تم جاؤ “ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس باغ والے سے ملے اور فرمایا ” تو اپنا وہ درخت جس کی شاخیں فلاں مسکین کے گھر میں ہیں مجھے دیدے ، اللہ تعالیٰ اس کے بدلے تجھے جنت کا ایک درخت دے گا “ ۔ وہ کہنے لگا اچھا میں نے دیا مگر مجھے اس کی کھجوریں بہت اچھی لگتی ہیں میرے تمام باغ میں ایسی کھجوریں کسی اور درخت کی نہیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر خاموشی کے ساتھ واپس تشریف لے گئے ۔ ایک شخص جو یہ بات چیت سن رہا تھا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا اگر یہ درخت میرا ہو جائے اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کر دوں تو کیا مجھے اس کے بدلے جنتی درخت مل سکتا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ہاں “ ۔ یہ شخص اس باغ والے کے پاس آئے ان کا بھی باغ کھجوروں کا تھا یہ پہلا شخص ان سے وہ ذکر کرنے لگا کہ مجھے فلاں درخت کھجور کے بدلے جنت کا ایک درخت دینے کو کہہ رہے تھے ۔ میں نے یہ جواب دیا یہ سن کر خاموش ہو رہے پھر تھوڑی دیر بعد فرمایا کہ کیا تم اسے بیچنا چاہتے ہو ؟ اس نے کہا : نہیں ۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ جو قیمت اس کی مانگوں وہ کوئی مجھے دیدے ۔ لیکن کون دے سکتا ہے ؟ پوچھا کیا قیمت لینا چاہتے ہو ؟ کہا چالیس درخت خرما کے ۔ اس نے کہا یہ تو بڑی زبردست قیمت لگا رہے ہو ایک کے چالیس ؟ پھر اور باتوں میں لگ گئے پھر کہنے لگے اچھا میں اسے اتنے ہی میں خریدتا ہوں اس نے کہا اچھا اگر سچ مچ خریدنا ہے تو گواہ کر لو ، اس نے چند لوگوں کو بلا لیا اور معاملہ طے ہو گیا گواہ مقرر ہو گئے ۔ پھر اسے کچھ سوجھی تو کہنے لگا کہ دیکھئیے صاحب جب تک ہم تم الگ نہیں ہوئے یہ معاملہ طے نہیں ہوا ۔ اس نے بھی کہا بہت اچھا میں بھی ایسا احمق نہیں ہوں کہ تیرے ایک درخت کے بدلے جو خم کھایا ہوا ہے اپنے چالیس درخت دے دوں تو یہ کہنے لگا کہ اچھا اچھا مجھے منظور ہے ۔ لیکن درخت جو میں لوں گا وہ تنے والے بہت عمدہ لوں گا اس نے کہا اچھا منظور ۔ چنانچہ گواہوں کے روبرو یہ سودا فیصل ہوا اور مجلس برخاست ہوئی ۔ یہ شخص خوشی خوشی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ ! اب وہ درخت میرا ہو گیا اور میں نے اسے آپ کو دے دیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس مسکین کے پاس گئے اور فرمانے لگے ” یہ درخت تمہارا ہے اور تمہارے بال بچوں کا “ ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اس پر یہ سورت نازل ہوئی ۔ (الدر المنشور للسیوطی:26/6:ضعیف) ابن جریر میں مروی ہے کہ ” یہ آیتیں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہما کے بارے میں نازل ہوئی ہیں ۔ آپ مکہ شریف میں ابتداء میں اسلام کے زمانے میں بڑھیا عورتوں اور ضعیف لوگوں کو جو مسلمان ہو جاتے تھے آزاد کر دیا کرتے تھے اس پر ایک مرتبہ آپ کے والد ابوقحافہ نے جو اب تک مسلمان نہیں ہوئے تھے کہا کہ بیٹا تم جو ان کمزور ہستیوں کو آزاد کرتے پھرتے ہو اس سے تو یہ اچھا ہو کہ نوجوان طاقت والوں کو آزاد کراؤ تاکہ وقت پر وہ تمہارے کام آئیں ، تمہاری مدد کریں اور دشمنوں سے لڑیں ۔ تو سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ ابا جی میرا ارادہ دنیوی فائدے کا نہیں میں تو صرف رضائے رب اور مرضی مولا چاہتا ہوں ۔ اس بارے میں یہ آیت نازل ہوئیں ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:37457) «تَرَدَّی» کے معنی مرنے کے بھی مروی ہیں اور آگ میں گرنے کے بھی ۔ الليل
2 الليل
3 الليل
4 الليل
5 الليل
6 الليل
7 الليل
8 الليل
9 الليل
10 الليل
11 الليل
12 مومن کی منزل اللہ تعالیٰ کی رضا یعنی ’ حلال و حرام کا ظاہر کر دینا ہمارے ذمہ ہے ‘ ، یہ بھی معنی ہیں کہ ’ جو ہدایت پر چلا وہ یقیناً ہم تک پہنچ جائیگا ‘ ۔ جیسے فرمایا «وَعَلَی اللہِ قَصْدُ السَّبِیلِ» ۱؎ (16-النحل:9) ’ آخرت اور دنیا کی ملکیت ہماری ہی ہے ‘ ۔ ’ میں نے بھڑکتی ہوئی آگ سے تمہیں ہوشیار کر دیا ہے ‘ ۔ مسند احمد میں ہے کہ { سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نے اپنے خطبہ میں فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے خطبہ کی حالت میں سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت بلند آواز سے فرما رہے تھے یہاں تک کہ میری اس جگہ سے بازار تک آواز پہنچے اور باربار فرماتے جاتے تھے ” لوگو ! میں تمہیں جہنم کی آگ سے ڈرا چکا ۔ لوگو ! میں تمہیں جہنم کی آگ سے ڈرا رہا ہوں “ ، باربار یہ فرما رہے تھے یہاں تک کہ چادر مبارک کندھوں سے سرک کر پیروں میں گر پڑی } ۔ (مسند احمد:272/4:حسن) صحیح بخاری شریف میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” سب سے ہلکے عذاب والا جہنمی قیامت کے دن وہ ہو گا جس کے دونوں قدموں تلے دو انگارے رکھ دئیے جائیں جس سے اس کا دماغ ابل رہا ہو “ } ۔ (صحیح بخاری:6561) مسلم شریف کی حدیث میں ہے { ہلکے عذاب والا ہے جہنمی ہو گا جس کی دونوں جوتیاں اور دونوں تسمے آگ کے ہوں گے جن سے اس کا دماغ اس طرح ابل رہا وہ گا جس طرح ہنڈیا جوش کھا رہی ہو باوجود یہ کہ سب سے ہلکے عذاب والا یہی ہے لیکن اس کے خیال میں اس سے زیادہ عذاب والا اور کوئی نہ ہو گا } ۔ (صحیح مسلم:213) اس جہنم میں صرف وہی لوگ گھیر گھار کر بدترین عذاب کیے جائیں گے جو بدبخت تر ہوں جن کے دل میں کذب بغض ہو اور اسلام پر عمل نہ ہو ۔ مسند احمد کی حدیث میں بھی ہے کہ { جہنم میں صرف شقی لوگ جائیں گے ۔ لوگوں نے پوچھا وہ کون ہیں ؟ فرمایا : ” جو اطاعت گزار نہ ہوں اور نہ اللہ کے خوف سے کوئی بدی چھوڑتا ہو “ } ۔ (مسند احمد:349/2:ضعیف) مسند کی اور حدیث میں ہے { میری ساری امت جنت میں جائیگی سوائے اس کے جو جنت میں جانے سے انکار کریں ، لوگوں نے پوچھا جنت میں جانے سے انکار کرنے والا کون ہے ؟ فرمایا : جو میری اطاعت کرے وہ جنت میں گیا اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے گویا جنت میں جانے سے انکار کر دیا } ۔ (صحیح بخاری:7280) اور فرمایا ’ جہنم سے دوری اسے ہو گی جو تقویٰ شعار ، پرہیزگار اور اللہ کے ڈر والا ہو گا جو اپنے مال کو اللہ کی راہ میں دے تاکہ خود بھی پاک ہو جائے اور اپنی چیزوں کو بھی پاک کر لے اور دین دنیا میں پاکیزگی حاصل کر لے کیونکہ یہ شخص اس کے لیے کسی کے ساتھ سلوک نہیں کرتا کہ اس کا کوئی احسان اس پر ہے بلکہ اس لیے کہ آخرت میں جنت ملے اور وہاں اللہ کا دیدار نصیب ہو ‘ ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ بہت جلد بالیقین ایسی پاک صفتوں والا شخص راضی ہو جائے گا ‘ ۔ اکثر مفسرین کہتے ہیں یہ آیتیں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں اتری ہیں یہاں تک کہ بعض مفسرین نے تو اس پر اجماع نقل کیا ہے بے شک سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اس میں داخل ہیں اور اس کی عمومیت میں ساری امت سے پہلے ہیں گو الفاظ آیت کے عام ہیں لیکن آپ سے اول اس کے مصداق ہیں ان تمام اوصاف میں اور کل کی کل نیکیوں میں سب سے پہلے اور سب سے آگے اور سب سے بڑھے چڑھے ہوئے آپ ہی تھے ۔ آپ صدیق تھے ، پرہیزگار تھے ، بزرگ تھے ، سخی تھے ۔ آپ مالوں کو اپنے مولا کی اطاعت میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امداد میں دل کھول کر خرچ کرتے رہتے تھے ہر ایک کے ساتھ احسان و سلوک کرتے اور کسی دنیوی فائدے کی چاہت پر نہیں کسی کے احسان کے بدلے نہیں بلکہ صرف اللہ کی مرضی کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کے لیے جتنے لوگ تھے خواہ بڑے ہوں خواہ چھوٹے سب پر سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے احسانات کے بار تھے یہاں تک کہ سیدنا عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہما جو قبیلہ ثقیف کا سردار تھا صلح حدیبیہ کے موقعہ پر جبکہ صدیق رضی اللہ عنہما نے اسے ڈانٹا ڈپٹا اور دو باتیں سنائیں تو اس نے کہا کہ اگر آپ کے احسان مجھ پر نہ ہوتے جس کا بدلہ میں نہیں دے سکا تو میں آپ کو ضرور جواب دیتا ۔ (صحیح بخاری:2731) پس جبکہ عرب کے سردار اور قبائل عرب کے بادشاہ کے اوپر آپ کے اس قدر احسان تھے کہ وہ سر نہیں اٹھا سکتا تھا تو بھلا اور تو کہاں ؟ اسی لیے یہاں بھی فرمایا گیا کہ ’ کسی پر احسان کا بدلہ انہیں دینا نہیں بلکہ صرف دیدار اللہ کی خواہش ہے ‘ ۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے { جو شخص جوڑا اللہ کی راہ میں خرچ کرے اسے جنت کے داروغے پکاریں گے کہ ” اے اللہ کے بندے ادھر سے آؤ یہ سب سے اچھا ہے “ ، تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا یا رسول اللہ ! کوئی ضرورت تو ایسی نہیں لیکن فرمائیے تو کیا کوئی ایسا بھی ہے جو جنت کے تمام دروازوں سے بلایا جائے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ہاں ہے اور مجھے اللہ سے امید ہے کہ تم ان میں سے ہو “ ۔ (صحیح بخاری:1897) «اَلْحَمْدُ لِلہِ» سورۃ اللیل کی تفسیر ختم ہوئی ۔ اللہ کا احسان ہے اور اس کا شکر ہے ۔ الليل
13 الليل
14 الليل
15 الليل
16 الليل
17 الليل
18 الليل
19 الليل
20 الليل
21 الليل
0 الضحى
1 1 صحیح البخاری میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہو گئے اور ایک یا دو راتوں تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم تہجد کی نماز کے لیے نہ اٹھ سکے تو ایک عورت کہنے لگی کہ تجھے تیرے شیطان نے چھوڑ دیا اس پر یہ اگلی آیتیں نازل ہوئیں } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1124) سیدنا جندب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ { جبرائیل علیہ السلام کے آنے میں کچھ دیر ہوئی تو مشرکین کہنے لگے کہ یہ تو چھوڑ دئیے گئے تو اللہ تعالیٰ نے «وَالضٰحَی» سے «وَمَا قَلَی» تک کی آیتیں اتاریں } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1797) اور روایت میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلی پر پتھر مارا گیا تھا جس سے خون نکلا اور جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” «ہَلْ أَنْتِ إِلَّا أُصْبُع دَمِیتِ وَفِی سَبِیل اللَّہ مَا لَقِیت ؟» یعنی تو صرف ایک انگلی ہے اور راہ اللہ میں تجھے یہ زخم لگا ہے ۔ “ طبعیت کچھ ناساز ہو جانے کی وجہ سے دو تین رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار نہ ہوئے جس پر اس عورت نے وہ ناشائستہ الفاظ نکالے اور یہ آیتیں نازل ہوئیں } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6146) کہا گیا ہے کہ یہ عورت ابولہب کی بیوی ام جمیل تھی اس پر اللہ کی مار ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلی کا زخمی ہونا ، اور اس موزوں کلام کا بےساختہ زبان مبارک سے ادا ہونا تو بخاری و مسلم میں بھی ثابت ہے ۔ لیکن ترک قیام کا سبب اسے بتانا اور اس پر ان آیتوں کا نازل ہونا یہ غریب ہے ۔ ابن جریر میں ہے کہ { ام المؤمنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا تھا کہ آپ کا رب آپ سے کہیں ناراض نہ ہو گیا ہو ؟ اس پر یہ آیتیں اتریں } ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:37512:مرسل) اور روایت میں ہے کہ { جبرائیل علیہ السلام کے آنے میں دیر ہوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بہت گھبرائے اس پر سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے یہ سبب بیان کیا اور اس پر یہ آیتیں اتریں } ، یہ دونوں روایات مرسل ہیں اور سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کا نام تو اس میں محفوظ نہیں معلوم ہوتا ہاں یہ ممکن ہے کہ ام المومنین نے افسوس اور رنج کے ساتھ یہ فرمایا ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ ابن اسحاق اور بعض سلف رحمہ اللہ علیہم نے فرمایا ہے کہ جب جبرائیل علیہ السلام اپنی اصلی صورت میں ظاہر ہوئے تھے اور بہت ہی قریب ہو گئے تھے اس وقت اسی سورت کی وحی نازل فرمائی تھی ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ وحی کے رک جانے کی بنا پر مشرکین کے اس ناپاک قول کی تردید میں یہ آیتیں اتریں ۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے دھوپ پڑنے کے وقت ، دن کی روشنی ، اور رات کے سکون اور اندھیرے کی قسم کھائی جو قدرت اور خلق خالق کی صاف دلیل ہے ۔ جیسے اور جگہ ہے «وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰی وَالنَّہَارِ إِذَا تَجَلَّیٰ» ۱؎ (92-اللیل:2-1) اور جگہ ہے «فَالِقُ الْإِصْبَاحِ وَجَعَلَ اللَّیْلَ سَکَنًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْبَانًا ذٰلِکَ تَقْدِیرُ الْعَزِیزِ الْعَلِیمِ» ۱؎ (6-الأنعام:96) ، مطلب یہ ہے کہ اپنی اس قدرت کا یہاں بھی بیان کیا ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ تیرے رب نے نہ تو تجھے چھوڑا ، نہ تجھ سے دشمنی کی ، تیرے لیے آخرت اس دنیا سے بہت بہتر ہے ‘ ۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں سب سے زیادہ زاہد تھے ۔ اور سب سے زیادہ تارک دنیا تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا مطالعہ کرنے والے پر یہ بات ہرگز مخفی نہیں رہ سکتی ۔ مسند احمد میں ہے { سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بورئیے پر سوئے ، جسم مبارک پر بورئیے کے نشان پڑ گئے ۔ جب بیدار ہوئے تو میں آپ کی کروٹ پر ہاتھ پھیرنے لگا اور کہا اے اللہ کے رسول! ہمیں کیوں اجازت نہیں دیتے کہ اس بورئیے پر کچھ بچھا دیا کریں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” مجھے دنیا سے کیا واسطہ ؟ میں کہاں ، دنیا کہاں ؟ میری اور دنیا کی مثال تو اس راہرو سوار کی طرح ہے جو کسی درخت تلے ذرا سی دیر ٹھہر جائے پھر اسے چھوڑ کر چل دے “ } ۔ یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے اور حسن ہے ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2377،قال الشیخ الألبانی:صحیح) پھر فرمایا ’ تیرا رب تجھے آخرت میں تیری امت کے بارے میں اس قدر نعمتیں دے گا کہ تو خوش ہو جائے ، ان کی بڑی تکریم ہو گی اور آپ کو خاص کر کے حوض کوثر عطا فرمایا جائے گا ۔ جس کے کنارے کھوکھلے موتیوں کے خیمے ہوں گے جس کی مٹی خالص مشک کی ہو گی ‘ ۔ یہ حدیثیں عنقریب آ رہی ہیں ۔ ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ ایک روایت میں ہے کہ جو خزانے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو ملنے والے تھے وہ ایک ایک کر کے آپ کو بتا دئیے گئے ۔ آپ بہت خوش ہوئے اس پر یہ آیت اتری ۔ جب ایک ہزار محل آپ کو دئیے گئے ہر ہر محل میں پاک بیویاں اور بہترین غلام ہیں ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:37513) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما تک اس کی سند صحیح ہے اور بہ ظاہر ایسی بات بغیر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنے روایت نہیں ہو سکتی ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ” نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا مندی میں سے یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت میں سے کوئی دوزخ میں نہ جائے “ ۔ حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے مراد شفاعت ہے ۔ الضحى
2 الضحى
3 الضحى
4 الضحى
5 الضحى
6 1 ابن ابی شیبہ میں ہے ، { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ہم وہ لوگ ہیں جن کے لیے اللہ تعالیٰ نے آخرت دنیا پر پسند کر لی ہے “ ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے «وَلَسَوْفَ یُعْطِیکَ رَبٰکَ فَتَرْضَیٰ» کی تلاوت فرمائی } ۔ ۱؎ (ابن ابی شیبہ377/7:ضعیف) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یتیمی کی حالت میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کا بچاؤ کیا ۔ اور آپ کی حفاظت کی اور پرورش کی اور مقام و مرتبہ عنایت فرمایا ۔ آپ کے والد کا انتقال تو آپ کی پیدائش سے پہلے ہی ہو چکا تھا بعض کہتے ہیں ولادت کے بعد ہوا چھ سال کی عمر میں والدہ صاحبہ کا بھی انتقال ہو گیا ۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دادا کی کفالت میں تھے لیکن جب آٹھ سال کی آپ کی عمر ہوئی تو دادا کا سایہ بھی اٹھ گیا ۔ اب آپ اپنے چچا ابوطالب کی پرورش میں آئے ، ابوطالب دل و جان سے آپ کی نگرانی اور امداد میں رہے ۔ آپ کی پوری عزت و توقیر کرتے اور قوم کی مخالفت کے چڑھتے طوفان کو روکتے رہتے تھے اور اپنی جان کو بطور ڈھال کے پیش کر دیا کرتے تھے ۔ کیونکہ چالیس سال کی عمر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت مل چکی تھی اور قریش سخت تر مخالفت بلکہ دشمن جان ہو گئے تھے ابوطالب باوجود بت پرست مشرک ہونے کے آپ کا ساتھ دیتا تھا ۔ اور مخالفین سے لڑتا بھڑتا رہتا تھا ۔ یہ تھی منجانب اللہ حسن تدبیر کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یتیمی کے ایام اسی طرح گزرے اور مخالفین سے آپ کی خدمت اس طرح لی ، یہاں تک کہ ہجرت سے کچھ پہلے ابوطالب بھی فوت ہو گئے ۔ اب سفہاء و جہلا قریش اٹھ کھڑے ہوئے تو پروردگار عالم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ شریف کی طرف ہجرت کرنے کی رخصت عطا فرمائی اور اوس و خزرج جیسی قوموں کو آپ کا انصار بنا دیا ۔ ان بزرگوں نے آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو جگہ دی ۔ مدد کی ، حفاظت کی اور مخالفین سے سینہ سپر ہو کر مردانہ وار لڑائیاں کیں ۔ اللہ ان سب سے خوش رہے ۔ یہ سب کا سب اللہ کی حفاظت اور اس کی عنایت احسان اور اکرام سے تھا ۔ پھر فرمایا کہ ’ راہ بھولا پا کر صحیح راستہ دکھا دیا ‘ ۔ جیسے اور جگہ ہے «مَا کُنتَ تَدْرِی مَا الْکِتَابُ وَلَا الْإِیمَانُ» ۱؎ (42-الشوری:52) الخ ، یعنی ’ اسی طرح ہم نے اپنے حکم سے تمہاری طرف روح کی وحی کی ۔ تم یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ ایمان کیا ہے ؟ تمہیں نہ کتاب کی خبر تھی بلکہ ہم نے اسے نور بنا کر جسے چاہا ہدایت کر دی ‘ ۔ بعض کہتے ہیں کہ مراد یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بچپن میں مکہ کی گلیوں میں گم ہو گئے تھے اس وقت اللہ نے لوٹا دیا ۔ بعض کہتے ہیں شام کی طرف اپنے چچا کے ساتھ جاتے ہوئے رات کو شیطان نے آپ کی اونٹنی کی نکیل پکڑ کر راہ سے ہٹا کر جنگل میں ڈال دیا ۔ پس جبرائیل علیہ السلام آئے اور پھونک مار کر شیطان کو تو حبشہ میں ڈال دیا اور سواری کو راہ لگا دیا ۔ بغوی نے یہ دونوں قول نقل کئے ہیں ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ بال بچوں والے ہوتے ہوئے تنگ دست پا کر ہم نے آپ کو غنی کر دیا ‘ ، پس فقیر صابر اور غنی شاکر ہونے کے درجات آپ کو مل گئے ۔ «صَلَوَاتُ اللہِ وَسَلَامُہُ عَلَیْہِ» ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” یہ سب حال نبوت سے پہلے کے ہیں “ ۔ بخاری و مسلم وغیرہ میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :” تونگری مال و اسباب کی زیادتی سے نہیں بلکہ حقیقی تونگری وہ ہے جس کا دل بے پرواہ ہو “ } ۔ (صحیح بخاری:6446) صحیح مسلم شریف میں ہے { اس نے فلاح پا لی جسے اسلام نصیب ہوا اور جو کافی ہوا ، اتنا رزق بھی ملا اللہ کے دئیے ہوئے پر قناعت کی توفیق بھی ملی } ۔ (صحیح مسلم:1054) پھر فرماتا ہے کہ ’ یتیم کو حقیر جان کر نہ ڈانٹ ڈپٹ کر بلکہ اس کے ساتھ احسان و سلوک کر اور اپنی یتیمی کو نہ بھول ‘ ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” یتیم کے لیے ایسا ہو جانا چاہیئے جیسے سگا باپ اولاد پر مہربان ہوتا ہے “ ۔ ’ سائل کو نہ جھڑک جس طرح تم بے راہ تھے اور اللہ نے ہدایت دی تو اب جو تم سے علمی باتیں پوچھے صحیح راستہ دریافت کرے تو تم اسے ڈانٹ ڈپٹ نہ کرو ، غریب مسکین ضعیف بندوں پر تکبر تجبر نہ کرو ، انہیں ڈانٹو ڈپٹو نہیں برا بھلا نہ کہو سخت سست نہ بولو ، اگر مسکین کو کچھ نہ دے سکے تو بھی بھلا اچھا جواب دے ۔ نرمی اور رحم کا سلوک کر ‘ ۔ پھر فرمایا کہ ’ اپنے رب کی نعمتیں بیان کرتے رہو ‘ ۔ یعنی جس طرح تمہاری فقیری کو ہم نے تونگری سے بدل دیا ، تم بھی ہماری ان نعمتوں کو بیان کرتے رہو ، اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں میں یہ بھی تھا { «وَاجْعَلْنَا شَاکِرِینَ لِنِعْمَتِک مُثْنِینَ بِہَا عَلَیْک قَابِلِیہَا وَأَتِمَّہَا عَلَیْنَا» یعنی اللہ ہمیں اپنی نعمتوں کی شکر گزاری کرنے والا ، ان کی وجہ سے تیری ثنا بیان کرنے والا ، ان کا اقرار کرنے والا کر دے اور ان نعمتوں کو ہم پر پورا کر دے } ۔ (سنن ابوداود:969،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابونضرہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کا یہ خیال تھا کہ نعمتوں کی شکر گزاری میں یہ بھی داخل ہے کہ ان کا بیان ہو ۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے { جس نے تھوڑے پر شکر نہ ادا کیا اس نے زیادہ پر بھی شکر نہیں کیا ۔ جس نے لوگوں کی شکر گزاری نہ کی اس نے اللہ کا شکر بھی ادا نہیں کیا ۔ نعمتوں کا بیان بھی شکر ہے اور ان کا بیان نہ کرنا بھی ناشکری ہے ، جماعت کے ساتھ رہنا رحمت کا سبب ہے اور تفرقہ عذاب کا باعث ہے } ۔ (مسند احمد:375/4:حسن) اس کی اسناد ضعیف ہے ۔ بخاری و مسلم میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ { مہاجرین نے کہا یا رسول اللہ ! انصار سارا کا سارا اجر لے گئے ۔ فرمایا : ” نہیں جب تک کہ تم ان کے لیے دعا کیا کرو اور ان کی تعریف کرتے رہو “ } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4812،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابوداؤد میں ہے { اس نے اللہ کا شکر ادا نہ کیا جس نے بندوں کا شکر ادا نہ کیا } ۔ (سنن ابوداود:4811،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابوداؤد کی حدیث میں ہے کہ { جسے کوئی نعمت ملی اور اس نے اسے بیان کیا تو وہ شکر گزار ہے اور جس نے اسے چھپایا اس نے ناشکری کی } ۔ (سنن ابوداود:4810،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اور روایت میں ہے کہ { جسے کوئی عطیہ دیا جائے اسے چاہیئے کہ اگر ہو سکے تو بدلہ اتار دے اگر نہ ہو سکے تو اس کی ثناء بیان کرے جس نے ثناء کی وہ شکر گزار ہوا اور جس نے اس نعمت کا اظہار نہ کیا اس نے ناشکری کی } ۔ (سنن ابوداود:4814،قال الشیخ الألبانی:صحیح) مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” یہاں نعمت سے مراد نبوت ہے “ ۔ ایک روایت میں ہے کہ ” قرآن مراد ہے “ ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” طلب یہ ہے کہ جو بھلائی کی باتیں آپ کو معلوم ہیں وہ اپنے بھائیوں سے بھی بیان کرو “ ۔ محمد بن اسحاق کہتے ہیں ” جو نعمت و کرامت نبوت کی تمہیں ملی ہے اسے بیان کرو ، اس کا ذکر کرو اور اس کی طرف لوگوں کو دعوت دو “ ۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے والوں میں سے جن پر آپ کو اطمینان ہوتا در پردہ سب سے پہلے پہل دعوت دینی شروع کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نماز فرض ہوئی جو آپ نے ادا کی ۔ سورۃ الضحیٰ کی تفسیر ختم ہوئی اللہ کے احسان پر اس کا شکر ہے ۔ الضحى
7 الضحى
8 الضحى
9 الضحى
10 الضحى
11 الضحى
0 الشرح
1 1 یعنی ’ ہم نے تیرے سینے کو منور کر دیا چوڑا کشادہ اور رحمت و کرم والا کر دیا ‘ ۔ اور جگہ ہے «فَمَن یُرِدِ اللہُ أَن یَہْدِیَہُ یَشْرَحْ صَدْرَہُ لِلْإِسْلَامِ» ۱؎ (6-الأنعام:125) الخ ، یعنی ’ جسے اللہ ہدایت دینا چاہتا ہے اس کے سینے کو اسلام کے لیے کھول دیتا ہے ‘ ۔ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سینہ کشادہ کر دیا گیا تھا ۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت بھی کشادگی والی ، نرمی اور آسانی والی بنا دی ، جس میں نہ تو کوئی حرج ہے ، نہ تنگی ، نہ ترشی ، نہ تکلیف اور سختی اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد معراج والی رات سینے کا شق کیا جانا ہے ۔ جیسے کہ مالک بن صعصعہ کی روایت سے پہلے گزر چکا ، امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو یہیں وارد کیا ہے ۔ (سنن ترمذی:3346،قال الشیخ الألبانی:صحیح) لیکن یہ یاد رہے کہ یہ دونوں واقعات مراد ہو سکتے ہیں یعنی معراج کی رات سینے کا شق کیا جانا اور سینہ کو راز اللہ کا گنجینہ بنا دینا ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ { ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بڑی دلیری سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ باتیں پوچھ لیا کرتے تھے جسے دوسرے نہ پوچھ سکتے تھے ایک مرتبہ سوال کیا کہ یا رسول اللہ ! امر نبوت میں سب سے پہلے آپ نے کیا دیکھا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سنبھل بیٹھے اور فرمانے لگے ” ابوہریرہ میں دس سال کچھ ماہ کا تھا جنگل میں کھڑا تھا کہ میں نے اوپر آسمان کی طرف سے کچھ آواز سنی کہ ایک شخص دوسرے سے کہہ رہا ہے کیا یہ وہی ہیں ؟ اب دو شخص میرے سامنے آئے جن کے منہ ایسے منور تھے کہ میں نے ایسے کبھی نہیں دیکھے اور ایسی خوشبو آ رہی تھی کہ میرے دماغ نے ایسی خوشبو کبھی نہیں سونگھی اور ایسے کپڑے پہنے ہوئے تھے کہ میں نے کبھی کسی پر ایسے کپڑے نہیں دیکھے اور آ کر انہوں نے میرے دونوں بازو تھام لیے لیکن مجھے یہ بھی نہیں معلوم ہوتا تھا کہ کوئی میرے بازو تھامے ہوئے ہے ۔ پھر ایک نے دوسرے سے کہا کہ انہیں لٹا دو چنانچہ اس نے لٹا دیا لیکن اس میں بھی نہ مجھے تکلیف ہوئی ، نہ برا محسوس ہوا ۔ پھر ایک نے دوسرے سے کہا ان کا سینہ شق کرو چنانچہ میرا سینہ چیر دیا لیکن نہ تو مجھے اس میں کچھ دکھ ہوا اور نہ میں نے خود دیکھا پھر کہا اس میں سے غل و غش ، حسد و بغض سب نکال دو ، چنانچہ اس نے ایک خون بستہ جیسی کوئی چیز نکالی اور اسے پھینک دیا پھر اس نے کہا اس میں رافت و رحمت رحم و کرم بھر دو پھر ایک چاندی جیسی چیز جتنی نکالی تھی اتنی ڈال دی پھر میرے دائیں پاؤں کا انگوٹھا ہلا کر کہا جائیے اور سلامتی سے زندگی گزارئیے اب میں چلا تو میں نے دیکھا کہ ہر چھوٹے پر میرے دل میں شفقت ہے اور ہر بڑے پر رحمت ہے “ } ۔ (مسند احمد:139/5:ضعیف) پھر فرمان ہے کہ ’ ہم نے تیرا بوجھ اتار دیا ‘ ۔ یہ اسی معنی میں ہے کہ اللہ عزوجل نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اگلے پچھلے گناہ معاف فرما دئیے ۔ جس بوجھ نے تیری کمر سے آواز نکلوا دی تھی یعنی جس نے تیری کمر کو بوجھل کر دیا تھا ۔ ہم نے تیرا ذکر بلند کیا ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں یعنی ” جہاں میرا ذکر کیا جائے گا وہاں تیرا ذکر کیا جائے گا جیسے «أَشْہَد أَنْ لَا إِلَہ إِلَّا اللَّہ وَأَشْہَد أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُول اللَّہ» “ ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” دنیا اور آخرت میں اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر بلند کر دیا کوئی خطیب ، کوئی واعظ ، کوئی کلمہ گو ، کوئی نمازی ایسا نہیں جو اللہ کی وحدانیت کا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا کلمہ نہ پڑھتا ہو ۔ ابن جریر میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے اور فرمایا کہ میرا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رب فرماتا ہے کہ میں آپ کا ذکر کس طرح بلند کروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اللہ ہی کو پورا علم ہے “ فرمایا : جب میں ذکر کیا جاؤں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی ذکر کیا جائے گا } ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:37533:ضعیف) ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” میں نے اپنے رب سے ایک سوال کیا لیکن نہ کرتا تو اچھا ہوتا میں نے کہا ، اللہ مجھ سے پہلے نبیوں میں سے کسی کے لیے تو نے ہوا کو تابعدار کر دیا تھا کسی کے ہاتھوں مردوں کو زندہ کر دیا تھا ، تو اللہ تعالیٰ نے مجھ سے فرمایا : کیا تجھے میں نے یتیم پا کر جگہ نہیں دی ؟ میں نے کہا ” بیشک “ ، فرمایا : راہ گم کردہ پا کر میں نے تجھے ہدایت نہیں کی ؟ ، میں نے کہا ” بیشک “ ، فرمایا : کیا فقیر پا کر غنی نہیں بنا دیا ؟ ، میں نے کہا ” بیشک “ ، فرمایا : کیا میں نے تیرا سینہ کھول نہیں دیا ؟ کیا میں نے تیرا ذکر بلند نہیں کیا ؟ میں نے کہا ” بیشک “ کیا ہے “ ۔ (حسن:شیخ عبدالرزاق فرماتے ہیں کہ اس کی سند حسن ہے) ابونعیم دلائل النبوۃ میں لائے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جب میں فارغ ہوا اس چیز سے جس کا حکم مجھے میرے رب عزوجل نے کیا تھا آسمان اور زمین کے کام سے تو میں نے کہا ” اللہ مجھ سے پہلے جتنے انبیاء علیہم السلام ہوئے اب سب کی تو نے تکریم کی ، ابراہیم علیہ السلام کو خلیل بنایا ، موسیٰ علیہ السلام کو کلیم بنایا ، داؤد علیہ السلام کے لیے پہاڑوں کو مسخر کیا ، سلیمان علیہ السلام کے لیے ہواؤں اور شیاطین کو بھی تابعدار بنایا اور عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ پر مردے زندہ کرائے ، پس میرے لیے کیا کیا ہے ؟ “ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’ کیا میں نے تجھے ان سب سے افضل چیز نہیں دی کہ میرے ذکر کے ساتھ ہی تیرا ذکر بھی کیا جاتا ہے اور میں نے تیری امت کے سینوں کو ایسا کر دیا کہ وہ قرآن کو قرأت سے پڑھتے ہیں ۔ یہ میں نے کسی اگلی امت کو نہیں دیا اور میں نے تجھے اپنے عرش کے خزانوں میں سے خزانہ دیا جو «لَا حَوْل وَلَا قُوَّۃ إِلَّا بِاَللَّہِ الْعَلِیّ الْعَظِیم» ہے ‘ ۔ ۱؎ (اسنادہ ضعیف) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” اس سے مراد اذان ہے “ یعنی اذان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہے ، جس طرح حسان رحمہ اللہ کے شعروں میں ہے ۔ «اأَغَرّ عَلَیْہِ لِلنٰبُوَّۃِ خَاتَم » «مِنْ اللَّہ مِنْ نُور یَلُوح وَیَشْہَد» «وَضَمَّ الْإِلَہ اِسْم النَّبِیّ إِلَی اِسْمہ » «إِذَا قَالَ فِی الْخَمْس الْمُؤَذِّن أَشْہَد» «وَشَقَّ لَہُ مِنْ اِسْمہ لِیُجِلَّہُ » «فَذُو الْعَرْش مَحْمُود وَہَذَا مُحَمَّد» یعنی اللہ تعالیٰ نے مہر نبوت کو اپنے پاس کا ایک نور بنا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ثبت فرمایا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہ ہے اپنے نام کے ساتھ اپنے نبی کا نام ملا لیا جبکہ پانچویں وقت «اشھد» کہتا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و جلال کے اظہار کے لیے اپنے نام میں سے آپ کا نام نکالا دیکھو وہ عرش والا محمود ہے اور آپ محمد ہیں صلی اللہ علیہ وسلم ۔ اور لوگ کہتے ہیں کہ اگلوں پچھلوں میں اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر بلند کیا اور تمام انبیاء علیہم السلام سے روز میثاق میں عہد لیا گیا کہ وہ آپ پر ایمان لائیں اور اپنی اپنی امتوں کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا حکم کریں پھر آپ کی امت میں آپ کے ذکر کو مشہور کیا کہ اللہ کے ذکر کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا جائے ۔ صرصری رحمہ اللہ نے کتنی اچھی بات بیان فرمائی ہے ، فرماتے ہیں کہ ” فرضوں کی اذان صحیح نہیں ہوتی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے اور میٹھے نام سے جو پسندیدہ اور اچھے منہ سے ادا ہو “ ۔ اور فرماتے ہیں کہ ” تم نہیں دیکھتے کہ ہماری اذان اور ہمارا فرض صحیح نہیں ہوتا جب تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر باربار اس میں نہ آئے “ ۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ تکرار اور تاکید کے ساتھ دو دو دفعہ فرماتا ہے کہ ’ سختی کے ساتھ آسانی ، دشواری کے ساتھ سہولت ہے ‘ ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے اور آپ کے سامنے ایک پتھر تھا پس لوگوں نے کہا اور سختی آئے اور اس پتھر پر گھس جائے تو آسانی ہی آئے گی اور اسی میں جائے گی ، اور اسے نکال لائے گی اس پر یہ آیت اتری ۔ مسند بزار میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگر دشواری اس پتھر میں داخل ہو جائے تو آسانی آ کر اسے نکالے گی ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی } ۔ (مسند بزار:2288:ضعیف) یہ حدیث صرف عائز بن شریح انس سے روایت کرتے ہیں اور ان کے بارے میں ابوحاتم رازی کا فیصلہ ہے کہ ان کی حدیث میں ضعف ہے اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے یہ موقوف مروی ہے ۔ حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں : لوگ کہتے تھے کہ ایک سختی دو آسانیوں پر غالب نہیں آ سکتی ، حسن رحمہ اللہ سے ابن جریر میں مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن شادان اور فرحاں آئے اور ہنستے ہوئے فرمانے لگے ” ہرگز ایک دشواری پر دو نرمیوں پر غالب نہیں آ سکتی “ ۔ پھر اس آیت کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلاوت کی ، یہ حدیث مرسل ہے ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم سے ذکر کیا گیا ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم کو خوشخبری سنائی کہ دو آسانیوں پر ایک سختی غالب نہیں آ سکتی } ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:37533) مطلب یہ ہے کہ «عُسْرِہ» کے لفظ کو تو دونوں جگہ معرفہ لائے ہیں تو وہ مفرد ہوا اور «یُسْرً» کے لفظ کو نکرہ لائے ہیں تو وہ متعدد ہو گیا ۔ ایک حدیث میں ہے کہ «نَزَّلَ الْمَعُونَۃَ مِنَ السَّمَاءِ عَلَی قَدْرِ الْمَؤُونَۃِ ، وَنَزَّلَ الصَّبْرَ عَلَی قَدْرِ الْمُصِیبَۃِ» «الْمَعُونَۃَ» یعنی امداد الٰہی بقدر «الْمَؤُونَۃِ» یعنی تکلیف کے آسمان سے نازل ہوتی ہے یعنی صبر مصیبت کی مقدار پر نازل ہوتا ہے ۔ (مسند بزار::1506:صحیح) امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : «صَبْرًا جَمِیلًا مَا أَقْرَبَ الْفَرَجَا» «مَنْ رَاقَبَ اللہَ فِی الْأُمُورِ نَجَا» *** «مَنْ صَدَقَ اللہَ لَمْ یَنَلْہُ أَذًی» *** «وَمَنْ رَجَاہُ یَکُونُ حَیْثُ رَجَا» یعنی اچھا صبر آسانیوں سے کیا ہی قریب ہے ؟ اپنے کاموں میں اللہ تعالیٰ لحاظ رکھنے والا ، نجات یافتہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی باتوں کی تصدیق کرنے والے کو کوئی ایذاء نہیں پہنچتی اس سے بھلائی کی امید رکھنے والا اسے اپنی امید کے ساتھ ہی پاتا ہے ۔ ابوحاتم سجستانی رحمہ اللہ کے اشعار ہیں کہ «إِذَا اشْتَمَلَتْ عَلَی الْیَأْسِ الْقُلُوبُ» *** «وَضَاقَ لِمَا بِہِ الصَّدْرُ الرَّحِیبُ» *** «وَأَوْطَأَتِ الْمَکَارِہُ وَاطْمَأَنَّتْ » *** «وَأَرْسَتْ فِی أَمَاکِنِہَا الْخُطُوبُ» *** «وَلَمْ تَرَ لِانْکِشَافِ الضٰرِّ وَجْہًا» *** «وَلَا أَغْنَی بِحِیلَتِہِ الْأَرِیبُ» *** «أَتَاکَ عَلَی قُنُوطٍ مِنْکَ غَوْثٌ» *** «یَمُنٰ بِہِ اللَّطِیفُ الْمُسْتَجِیبُ» *** «وَکُلٰ الْحَادِثَاتِ إِذَا تَنَاہَتْ» «فَمَوْصُولٌ بِہَا الْفَرَجُ الْقَرِیبُ» جب مایوسی دل پر قبضہ کر لیتی ہے اور سینہ باوجود کشادگی کے تنگ ہو جاتا ہے تکلیفیں گھیر لیتی ہیں اور مصیبتیں ڈیرہ جما لیتی ہیں کوئی چارہ سجھائی نہیں دیتا اور کوئی تدبیر نجات کارگر نہیں ہوتی اس وقت اچانک اللہ کی مدد آ پہنچتی ہے ۔ اور وہ دعاؤں کا سننے والا باریک بین اللہ اس سختی کو آسانی سے اور اس تکلیف کو راحت میں بدل دیتا ہے ۔ تنگیاں جب کہ بھرپور آ پڑی ہیں پروردگار وسعتیں نازل فرما کر نقصان کو فائدے سے بدل دیتا ہے ۔ کسی اور شاعر نے کہا ہے : «وَلَرُبَّ نَازِلَۃٍ یَضِیقُ بِہَا الْفَتَی » *** «ذَرْعًا وَعِنْدَ اللہِ مِنْہَا الْمَخْرَجُ» *** «کَمُلَتْ فَلَمَّا اسْتَحْکَمَتْ حَلْقَاتُہَا» *** «فُرِجَتْ وَکَانَ یَظُنٰہَا لَا تُفْرَجُ» یعنی بہت سی ایسی مصیبتیں انسان پر نازل ہوتی ہیں جن سے وہ تنگ دل ہو جاتا ہے حالانکہ اللہ کے پاس ان سے چھٹکارا بھی ہے جب یہ مصیبتیں کامل ہو جاتی ہیں اور اس زنجیر کے حلقے ، مضبوط ہو جاتے ہیں اور انسان گمان کرنے لگتا ہے کہ بھلا یہ کیا ہٹیں گی کہ اچانک اس رحیم و کریم اللہ کی شفقت بھری نظریں پڑتی ہیں اور اس مصیبت کو اس طرح ودر کرتا ہے کہ گویا آئی ہی نہ تھی ۔ اس کے بعد ارشاد باری ہوتا ہے کہ ’ جب تو دنیوی کاموں سے اور یہاں کے اشغال سے فرصت پائے تو ہماری عبادتوں میں لگ جا اور فارغ البال ہو کر دلی توجہ کے ساتھ ہمارے سامنے عاجزی میں لگ جا ، اپنی نیت خالص کر لے اپنی پوری رغبت کے ساتھ ہماری جناب کی طرف متوجہ ہو جا ‘ ۔ اسی معنی کی وہ حدیث ہے جس کی صحت پر اتفاق ہے جس میں ہے کہ { کھانا سامنے موجود ہونے کے وقت نماز نہیں اور اس حالت میں بھی کہ انسان کو پاخانہ پیشاب کی حاجت ہو } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:560) اور حدیث میں ہے کہ { جب نماز کھڑی کی جائے اور شام کا کھانا سامنے موجود ہو تو پہلے کھانے سے فراغت حاصل کر لو } ۔ (صحیح بخاری:5463) مجاہد رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ جب امر دنیا سے فارغ ہو کر نماز کے لیے کھڑے ہو تو محنت کے ساتھ عبادت کرو اور مشغولیت کے ساتھ رب کی طرف توجہ کر ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب فرض نماز سے فارغ ہو تو تہجد کی نماز میں کھڑا ہو ۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نماز سے فارغ ہو کر بیٹھے ہوئے اپنے رب کی طرف توجہ کر ۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ” یعنی دعا کر “ ، زید بن اسلم رحمہ اللہ اور ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ” جہاد سے فارغ ہو کر اللہ کی عبادت میں لگ جا “ ۔ ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ” اپنی نیت اور اپنی رغبت اللہ ہی کی طرف رکھ “ ۔ سورۃ الم نشرح کی تفسیر اللہ کے فضل و کرم سے ختم ہوئی ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» الشرح
2 الشرح
3 الشرح
4 الشرح
5 الشرح
6 الشرح
7 الشرح
8 الشرح
0 التين
1 1 «وَالتِّینِ» سے مراد کسی کے نزدیک تو مسجد دمشق ہے ، کوئی کہتا ہے خود دمشق مراد ہے ، کسی کے نزدیک دمشق کا ایک پہاڑ مراد ہے ، بعض کہتے ہیں کہ اصحاب کہف کی مسجد مراد ہے ، کوئی کہتا ہے کہ جودی پہاڑ پر مسجد نوح علیہ السلام ہے وہ مراد ہے ۔ بعض کہتے ہیں انجیر مراد ہے ، «زیتون» سے کوئی کہتا ہے مسجد بیت المقدس مراد ہے ۔ کسی نے کہا کہ وہ زیتون جسے نچوڑتے ہو ، «طور سِینِینَ» وہ پہاڑ ہے جس پر موسیٰ علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا تھا «الْبَلَدِ الْأَمِینِ» سے مراد مکہ شریف ہے اس میں کسی کو اختلاف نہیں ۔ بعض کا قول یہ ہے کہ یہ تینوں وہ جگہیں ہیں جہاں تین اولو العزم صاحب شریعت پیغمبر علیہم السلام بھیجے گئے تھے ۔ «وَالتِّینِ» سے مراد تو بیت المقدس ہے ۔ جہاں پر عیسیٰ علیہ السلام کو نبی بنا کر بھیجا گیا تھا اور «وَطُورِ سِینِینَ» سے مراد طور سینا ہے جہاں موسیٰ بن عمران علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا تھا اور «الْبَلَدِ الْأَمِینِ» سے مراد مکہ مکرمہ جہاں ہمارے سردار محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھیجے گئے ۔ تورات کے آخر میں بھی ان تینوں جگہوں کا نام ہے اس میں ہے کہ طور سینا سے اللہ تعالیٰ آیا یعنی وہاں پر موسیٰ علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا اور «ساعیر» یعنی بیت المقدس کے پہاڑ سے اس نے اپنا نور چمکایا یعنی عیسیٰ علیہ السلام کو وہاں بھیجا اور فاران کی چوٹیوں پر وہ بلند ہوا یعنی مکہ کے پہاڑوں سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا ، پھر ان تینوں زبردست بڑے مرتبے والے پیغمبروں کی زمانی اور وجودی ترتیب بیان کر دی ۔ اسی طرح یہاں بھی پہلے جس کا نام لیا اس سے زیادہ شریف چیز کا نام پھر لیا اور پھر ان دونوں سے بزرگ تر چیز کا نام آخر میں لیا ۔ پھر ان قسموں کے بعد بیان فرمایا کہ ’ انسان کو اچھی شکل و صورت میں صحیح قد و قامت والا ، درست اور سڈول اعضاء والا خوبصورت اور سہانے چہرے والا پیدا کیا پھر اسے نیچوں کا نِیچ کر دیا یعنی جہنمی ہو گیا ، اگر اللہ کی اطاعت اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع نہ کی تو اسی لیے ایمان والوں کو اس سے الگ کر لیا ‘ ۔ بعض کہتے ہیں کہ مراد انتہائی بڑھاپے کی طرف لوٹا دینا ہے ۔ سیدنا عکرمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” جس نے قرآن جمع کیا وہ رذیل عمر کو نہ پہنچے گا “ ۔ امام ابن جریر اسی کو پسند فرماتے ہیں ، لیکن اگر یہی بڑھاپا مراد ہوتا تو مومنوں کا استشناء کیوں ہوتا ؟ بڑھاپا تو بعض مومنوں پر بھی آتا ہے پس ٹھیک بات وہی ہے جو اوپر ہم نے ذکر کی ۔ جیسے اور جگہ سورۃ والعصر میں ہے کہ «وَالْعَصْر إِنَّ الْإِنْسَان لَفِی خُسْر إِلَّا الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَات» ۱؎ (103-العصر:1-3) ’ تمام انسان نقصان میں ہیں سوائے ایمان اور اعمال صالح والوں کے کہ انہیں ایسی نیک جزا ملے گی جس کی انتہا نہ ہو ‘ ۔ جیسے پہلے بیان ہو چکا ہے ۔ پھر فرماتا ہے ’ اے انسان جبکہ تو اپنی پہلی اور اول مرتبہ کی پیدائش کو جانتا ہے تو پھر جزا و سزا کے دن کے آنے پر اور تیرے دوبارہ زندہ ہونے پر تجھے کیوں یقین نہیں ؟ کیا وجہ ہے کہ تو اسے نہیں مانتا حالانکہ ظاہر ہے کہ جس نے پہلی دفعہ پیدا کر دیا اس پر دوسری دفعہ کا پیدا کرنا کیا مشکل ہے ؟ ‘ ۔ مجاہد رحمہ اللہ ایک مرتبہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھ بیٹھے کہ اس سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ؟ آپ نے فرمایا : ” معاذاللہ اس سے مراد مطلق انسان ہے “ ۔ عکرمہ رحمہ اللہ وغیرہ کا بھی یہی قول ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ کیا اللہ حکم الحاکمین نہیں ہے وہ نہ ظلم کرے نہ بے عدلی کرے اسی لیے وہ قیامت قائم کرے گا اور ہر ایک ظالم سے مظلوم کا انتقام لے گا ‘ ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوع حدیث میں یہ گزر چکا ہے کہ جو شخص «وَالتِّینِ وَالزَّیْتُونِ» پڑھے اور اس کے آخر کی آیت «أَلَیْسَ اللہُ بِأَحْکَمِ الْحَاکِمِینَ» پڑھے تو کہہ دے «بَلَی وَأَنَا عَلَی ذَلِکَ مِنْ الشَّاہِدِینَ» یعنی ہاں اور میں اس پر گواہ ہوں ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3347،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) اللہ کے فضل و کرم سے سورۃ التین کی تفسیر ختم ہوئی ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» التين
2 التين
3 التين
4 التين
5 التين
6 التين
7 التين
8 التين
0 العلق
1 1 ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی کی ابتداء سچے خوابوں سے ہوئی اور جو خواب دیکھتے وہ صبح کے ظہور کی طرح ظاہر ہو جاتا ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گوشہ نشینی اور خلوت اختیار کی ۔ ام المؤمنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے توشہ لے کر غار میں چلے جاتے اور کئی کئی راتیں وہیں عبادت میں گزارا کرتے پھر آتے اور توشہ لے کر چلے جاتے یہاں تک کہ ایک مرتبہ اچانک وہیں ، شروع شروع میں وحی آئی ، فرشتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا «اقْرَأْ» یعنی پڑھئیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” میں نے کہا میں پڑھنا نہیں جانتا “ ۔ فرشتے نے مجھے دوبارہ دبوچا یہاں تک کہ مجھے تکلیف ہوئی پھر چھوڑ دیا اور فرمایا : پڑھو ! میں نے پھر یہی کہا کہ میں پڑھنے والا نہیں ۔ اس نے مجھے تیسری مرتبہ پکڑ کر دبایا اور تکلیف پہنچائی ، پھر چھوڑ دیا اور «اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِی خَلَقَ» ۱؎ (96-العلق:1) سے «عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ» ۱؎ (96-العلق:5) تک پڑھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان آیتوں کو لیے ہوئے کانپتے ہوئے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور فرمایا : ” مجھے کپڑا اڑھا دو “ ، چنانچہ کپڑا اڑھا دیا یہاں تک کہ ڈر خوف جاتا رہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے سارا واقعہ بیان کیا اور فرمایا : ” مجھے اپنی جان جانے کا خوف ہے “ ۔ ام المؤمنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا حضور آپ خوش ہو جائیے اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ آپ کو ہرگز رسوا نہ کرے گا ۔ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں ، سچی باتیں کرتے ہیں ، دوسروں کا بوجھ خود اٹھاتے ہیں ، مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق پر دوسروں کی مدد کرتے ہیں ۔ پھر سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبدالعزیٰ بن قصی کے پاس آئیں ، جاہلیت کے زمانہ میں یہ نصرانی ہو گئے تھے عربی کتاب لکھتے تھے اور عبرانی میں انجیل لکھتے تھی بہت بڑی عمر کے انتہائی بوڑھے تھے آنکھیں جا چکی تھیں ۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ان سے کہا کہ اپنے بھتیجے کا واقعہ سنئے ۔ ورقہ نے پوچھا بھتیجے ! آپ نے کیا دیکھا ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سارا واقعہ کہہ سنایا ۔ ورقہ نے سنتے ہی کہا کہ یہی وہ رازداں فرشتہ ہے جو عیسیٰ علیہ السلام کے پاس بھی اللہ کا بھیجا ہوا آیا کرتا تھا ، کاش کہ میں اس وقت جوان ہوتا ، کاش کہ میں اس وقت زندہ ہوتا جبکہ آپ کو آپ کی قوم نکال دے گی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعجب سے سوال کیا کہ کیا وہ مجھے نکال دیں گے ؟ ورقہ نے کہا : ہاں ، ایک آپ کیا جتنے بھی لوگ آپ کی طرح نبوت سے سرفراز ہو کر آئے ان سب سے دشمنیاں کی گئیں ۔ اگر وہ وقت میری زندگی میں آ گیا تو میں آپ کی پوری پوری مدد کروں گا لیکن اس واقعہ کے بعد ورقہ بہت کم زندہ رہے ۔ ادھر وحی بھی رک گئی اور اس کے رکنے کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑا قلق تھا کئی مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہار کی چوٹی پر سے اپنے تئیں گرا دینا چاہا لیکن ہر وقت جبرائیل علیہ السلام آ جاتے اور فرما دیتے کہ ” اے محمد آپ اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں “ ۔ اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قلق اور رنج و غم جاتا رہتا اور دل میں قدرے اطمینان پیدا ہو جاتا اور آرام سے گھر واپس آ جاتے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4956) یہ حدیث صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں بھی بروایت زہری مروی ہے ۔ (صحیح بخاری:3) اس کی سند میں ، اس کے متن میں ، اس کے معانی میں جو کچھ بیان کرنا چاہیئے تھا وہ ہم نے اپنی شرح بخاری میں پورے طور پر بیان کر دیا ہے ۔ اگر جی چاہا وہیں دیکھ لیا جائے ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» پس قرآن کریم کی باعتبار نزول کے سب سے پہلی آیتیں یہی ہیں ، یہی پہلی نعمت ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر انعام کی اور یہی وہ پہلی رحمت ہے جو اس ارحم الراحمین نے اپنے رحم و کرم سے ہمیں دی اس میں تنبیہ ہے انسان کی اول پیدائش پر کہ وہ ایک جمے ہوئے خون کی شکل میں تھا اللہ تعالیٰ نے اس پر یہ احسان کیا اسے اچھی صورت میں پیدا کیا پھر علم جیسی اپنی خاص نعمت اسے مرحمت فرمائی اور وہ سکھایا جسے وہ نہیں جانتا تھا علم ہی کی برکت تھی کہ کل انسانوں کے باپ آدم علیہ السلام فرشتوں میں بھی ممتاز نظر آئے علم کبھی تو ذہن میں ہی ہوتا ہے اور کبھی زبان پر ہوتا ہے اور کبھی کتابی صورت میں لکھا ہوا ہوتا ہے ۔ پس علم کی تین قسمیں ہوئیں ذہنی ، لفظی اور رسمی اور رسمی علم ذہنی اور لفظی کو مستلزم ہے لیکن وہ دونوں اسے مستلزم نہیں اسی لیے فرمایا کہ پڑھ ! تیرا رب تو بڑے اکرام والا ہے جس نے قلم کے ذریعہ علم سکھایا اور آدمی کو جو وہ نہیں جانتا تھا معلوم کرا دیا ۔ ایک اثر میں وارد ہے کہ علم کو لکھ لیا کرو ۔ (مستدرک حاکم:106/1:ضعیف جدا) اور اسی اثر میں ہے کہ { جو شخص اپنے علم پر عمل کرے اسے اللہ تعالیٰ اس علم کا بھی وارث کر دیتا ہے جسے وہ نہیں جانتا تھا } ۔ (ابو نعیم15/10-14:لا اصل لہ فی المرفوع) العلق
2 العلق
3 العلق
4 العلق
5 العلق
6 طالب علم اور طالب دنیا فرماتا ہے کہ ’ انسان کے پاس جہاں دو پیسے ہوئے ذرا فارغ البال ہوا کہ اس کے دل میں کبر و غرور ، عجب و خود پسندی آئی اسے ڈرتے رہنا چاہیئے اور خیال رکھنا چاہیئے کہ اسے ایک دن اللہ کی طرف لوٹنا ہے وہاں جہاں اور حساب ہوں گے ۔ مال کی بابت بھی سوال ہو گا کہ لایا کہاں سے ، خرچ کہاں کیا ؟ ‘ عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” دو لالچی ایسے ہیں جن کا پیٹ ہی نہیں بھرتا ایک طالبعلم اور دوسرا طالب دنیا ۔ ان دونوں میں بڑا فرق ہے ۔ علم کا طالب تو اللہ کی رضا مندی کے حاصل کرنے میں بڑھتا رہتا ہے اور دنیا کا لالچی سرکشی اور خودپسندی میں بڑھتا رہتا ہے “ ، پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی جس میں دنیا داروں کا ذکر ہے پھر طالب علموں کی فضیلت کے بیان کی یہ آیت تلاوت کی «إِنَّمَا یَخْشَی اللہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَاءُ» (35-فاطر:28) ۔ یہ حدیث مرفوعاً یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے بھی مروی ہے کہ { دو لالچی ہیں جو شکم پر نہیں ہوتے طالب علم اور طالب دنیا } ۔ (طبرانی کبیر:10388:صحیح) اس کے بعد کی آیات ابوجہل ملعون کے بارے میں نازل ہوئی ہیں کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بیت اللہ میں نماز پڑھنے سے روکتا تھا ۔ پس پہلے تو اسے بہترین طریقہ سمجھا گیا کہ جنھیں تو روکتا ہے یہی اگر سیدھی راہ پر ہوں انہی کی باتیں تقوے کی طرف بلاتی ہوں ، پھر تو انہیں پر تشدد کرے اور خانہ اللہ سے روکے تو تیری بد قسمتی کی انتہا ہے یا نہیں ؟ کیا یہ روکنے والا جو نہ صرف خود حق کی راہنمائی سے محروم ہے بلکہ راہ حق سے روکنے کے درپے ہے اتنا بھی نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ اسے دیکھ رہا ہے اس کا کلام سن رہا ہے اور اس کے کلام اور کام پر اسے سزا دے گا ۔ اس طرح سمجھا چکنے کے بعد اب اللہ ڈرا رہا ہے کہ اگر اس نے مخالفت ، سرکشی اور ایذاء دہی نہ چھوڑی تو ہم بھی اس کی پیشانی کے بال پکڑ کر گھسیٹیں گے جو اقوال میں جھوٹا اور افعال میں بدکار ہے یہ اپنے مدد گاروں ، ہم نشینوں قرابت داروں اور کنبہ قبیلے والوں کو بلا لے ۔ دیکھیں تو کون اس کی مدافعت کر سکتا ہے ۔ ہم بھی اپنے عذاب کے فرشتوں کو بلا لیتے ہیں پھر ہر ایک کو کھل جائے گا کہ کون جیتا اور کون ہارا ؟ صحیح بخاری میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ابوجہل نے کہا کہ اگر میں محمد کو کعبہ میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھوں گا تو گردن سے دبوچوں گا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی خبر پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ { اگر یہ ایسا کرے گا تو اللہ کے فرشتے پکڑ لیں گے } ۔ (صحیح بخاری:4958) دوسری روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مقام ابراہیم کے پاس بیت اللہ میں نماز پڑھ رہے تھے کہ یہ ملعون آیا اور کہنے لگا کہ میں نے تجھے منع کر دیا پھر بھی تو باز نہیں آیا اگر اب میں نے تجھے کعبے میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو سخت سزا دوں گا وغیرہ ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی سے جواب دیا اس کی بات کو ٹھکرا دیا اور اچھی طرح ڈانٹ دیا ، اس پر وہ کہنے لگا کہ تو مجھے ڈانٹتا ہے اللہ کی قسم میری ایک آواز پر یہ ساری وادی آدمیوں سے بھر جائے گی اس پر یہ آیت اتری کہ اچھا تو اپنے حامیوں کو بلا ہم بھی اپنے فرشتوں کو بلا لیتے ہیں ۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اگر وہ اپنے والوں کو پکارتا تو اسی وقت عذاب کے فرشتے اسے لپک لیتے ۔ (مسند احمد:256/1:صحیح) مسند احمد میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ابوجہل نے کہا اگر میں آپ کو بیت اللہ میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھ لوں گا تو اس کی گردن توڑ دوں گا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اگر وہ ایسا کرتا تو اسی وقت لوگوں کے دیکھتے ہوئے عذاب کے فرشتے اسے پکڑ لیتے اور اسی طرح جبکہ یہودیوں سے قرآن نے کہا تھا کہ اگر تم سچے ہو تو موت مانگو اگر وہ اسے قبول کر لیتے اور موت طلب کرتے تو سارے کے سارے مر جاتے اور جہنم میں اپنی جگہ دیکھ لیتے اور جن نصرانیوں کو مباہلہ کی دعوت دی گئی تھی اگر یہ مباہلہ کے لیے نکلتے تو لوٹ کر نہ اپنا مال پاتے ، نہ اپنے بال بچوں کو پاتے “ ۔ (مسند احمد:248/1:صحیح) ابن جریر میں ہے کہ ابوجہل نے کہا اگر میں آپ کو مقام ابراہیم کے پاس نماز پڑھتا ہوا دیکھ لوں گا تو جان سے مار ڈالوں گا اس پر یہ سورت اتری ۔ حضور علیہ السلام تشریف لے گئے ابوجہل موجود تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہیں نماز ادا کی تو لوگوں نے اس بدبخت سے کہا کہ کیوں بیٹھا رہا ؟ اس نے کہا : کیا بتاؤں کون میرے اور ان کے درمیان حائل ہو گئے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اگر ذرا بھی ہلتا جلتا تو لوگوں کے دیکھتے ہوئے فرشتے اسے ہلاک کر ڈالتے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:37688) ۔ ابن جریر کی اور روایت میں ہے کہ ابوجہل نے پوچھا کہ کیا محمد تمہارے سامنے سجدہ کرتے ہیں ؟ لوگوں نے کہا : ہاں ، تو کہنے لگا کہ اللہ کی قسم اگر میرے سامنے اس نے یہ کیا تو اس کی گردن روند دوں گا اور اس کے منہ کو مٹی میں ملا دوں گا ادھر اس نے یہ کہا ادھر { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و بارک علیہ نے نماز شروع کی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں گئے تو یہ آگے بڑھا لیکن ساتھ ہی اپنے ہاتھ سے اپنے آپ کو بچاتا ہوا پچھلے پیروں نہایت بدحواسی سے پیچھے ہٹا ۔ لوگوں نے کہا کیا ہوا ہے ؟ کہنے لگا کہ میرے اور آپ کے درمیان آگ کی خندق ہے اور گھبراہٹ کی خوفناک چیزیں ہیں اور فرشتوں کے پر ہیں وغیرہ ۔ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اگر یہ ذرا قریب آ جاتا تو فرشتے اس کا ایک ایک عضو الگ الگ کر دیتے “ } ۔ پس یہ آیتیں «کَلَّا إِنَّ الْإِنسَانَ لَیَطْغَیٰ» ۱؎ (96-العلق:6) سے آخر تک سورت تک نازل ہوئیں ۔ اللہ ہی کو علم ہے کہ یہ کلام سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے یا نہیں ؟ یہ حدیث مسند ، مسلم ، نسائی ابن ابی حاتم میں بھی ہے ۔ (صحیح مسلم:2797) العلق
7 العلق
8 العلق
9 العلق
10 العلق
11 العلق
12 العلق
13 1 پھر فرمایا کہ ’ اے نبی ! تم اس مردود کی بات نہ ماننا ، عبادت پر مداومت کرنا اور بکثرت عبادت کرتے رہنا اور جہاں جی چاہے نماز پڑھتے رہنا اور اس کی مطلق پرواہ نہ کرنا ۔ اللہ تعالیٰ خود تیرا حافظ و ناصر ہے ۔ وہ تجھے دشمنوں سے محفوظ رکھے گا ، تو سجدے میں اور قرب اللہ کی طلب میں مشغول رہ ‘ ۔ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” سجدہ کی حالت میں بندہ اپنے رب تبارک و تعالیٰ سے بہت ہی قریب ہوتا ہے پس تم بکثرت سجدوں میں دعائیں کرتے رہو “ } ۔ (صحیح مسلم:482) پہلے یہ حدیث بھی گزر چکی ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سورۃ الانشقاق میں اور اس سورت میں سجدہ کیا کرتے تھے } ۔ (صحیح مسلم:578) اللہ تعالیٰ کی توفیق سے سورۃ اقراء کی تفسیر ختم ہوئی ، اللہ کا شکر و احسان ہے ۔ العلق
14 العلق
15 العلق
16 العلق
17 العلق
18 العلق
19 العلق
0 القدر
1 غیر متعلقہ روایات اور بحث مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو لیلۃ القدر میں نازل فرمایا ہے ، اسی کا نام «اللَّیْلَۃُ الْمُبَارَکَۃُ» بھی ہے ۔ اور جگہ ارشاد ہے «إِنَّا أَنزَلْنَاہُ فِی لَیْلَۃٍ مٰبَارَکَۃٍ» ۱؎ (44-الدخان:3) اور یہ بھی قرآن سے ثابت ہے کہ یہ رات رمضان المبارک کے مہینے میں ہے ، جیسے فرمایا «شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِی أُنزِلَ فِیہِ الْقُرْآنُ» ۱؎ (2-البقرۃ:185) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ کا قول ہے کہ ” پورا قرآن پاک لوح محفوظ سے آسمان اول پر بیت العزت میں اس رات اترا ، پھر تفصیل وار واقعات کے مطابق بتدریج تئیس سال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا “ ۔ پھر اللہ تعالیٰ لیلۃ القدر کی شان و شوکت کا اظہار فرماتا ہے کہ اس رات کی ایک زبردست برکت تو یہ ہے کہ قرآن کریم جیسی اعلیٰ نعمت اسی رات اتری ، تو فرماتا ہے کہ ’ تمہیں کیا خبر کہ لیلۃ القدر کیا ہے ؟ ‘ پھر خود ہی بتاتا ہے کہ ’ یہ ایک رات ایک ہزار مہینہ سے افضل ہے ‘ ۔ امام ابوعیسیٰ ترمذی رحمہ اللہ ترمذی شریف میں اس آیت کی تفسیر میں ایک روایت لائے ہیں کہ { یوسف بن سعد سے کہ ایک آدمی نے سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے جبکہ آپ نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کر لی کہا کہ ” تم نے ایمان والوں کے منہ کالے کر دئیے “ یا یوں کہا کہ ” اے مومنوں کے منہ سیاہ کرنے والے “ ، تو آپ نے فرمایا : ” اللہ تجھ پر رحم کرے ، مجھ پر خفا نہ ہو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھلایا گیا کہ گویا آپ کے منبر پر بنو امیہ ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ برا معلوم ہوا تو «إِنَّا أَعْطَیْنَاکَ الْکَوْثَرَ» ۱؎ (108-الکوثر:1) نازل ہوئی یعنی جنت کی نہر کوثر آپ کو عطا کیے جانے کی خوشخبری ملی اور «إِنَّا أَنزَلْنَاہُ» اتری ، پس ہزار مہینے سے وہ مراد ہیں جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بنو امیہ کی مملکت رہے گی ، قاسم بن فضل حدانی کہتے ہیں ہم نے حساب لگایا تو وہ پورے ایک ہزار دن ہوئے ، نہ ایک دن زیادہ ، نہ ایک دن کم } ۔ (سنن ترمذی:3350،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) امام ترمذی رحمہ اللہ اس روایت کو غریب بتلاتے ہیں اور اس کی سند میں یوسف بن سعد ہیں جو مجہول ہیں اور صرف اسی سند سے یہ مروی ہے ۔ مستدرک حاکم میں بھی یہ روایت ہے امام ترمذی رحمہ اللہ کا یہ فرمانا کہ یہ یوسف مجہول ہیں اس میں ذرا تذبذب ہے اس کے بہت سے شاگرد ہیں ۔ یحییٰ بن معین کہتے ہیں یہ مشہور ہیں اور ثقہ ہیں اور اس کی سند میں کچھ اضطراب ہے جیسا بھی ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» بہر صورت یہ بہت ہی منکر روایت ہے ۔ ہمارے شیخ حافظ حجت ابوالحجاج مزی بھی اس روایت کو منکر بتلاتے ہیں [ یہ یاد رہے کہ قاسم کا قول جو ترمذی کے حوالے سے بیان ہوا ہے کہ وہ کہتے ہیں ہم نے حساب لگایا تو بنو امیہ کی سلطنت ٹھیک ایک ہزار دن تک رہی یہ نسخے کی غلطی ہے ۔ ایک ہزار مہینے لکھنا چاہیئے تھا ، میں نے ترمذی شریف میں دیکھا تو وہاں بھی ایک ہزار مہینے ہیں اور آگے بھی یہی آتا ہے ۔ مترجم ] قاسم بن فضل حدانی کا یہ قول کہ بنو امیہ کی سلطنت کی ٹھیک مدت ایک ہزار مہینے تھی یہ بھی صحیح نہیں اس لیے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی مستقل سلطنت سنہ ۴٠ ہجری میں قائم ہوئی جبکہ سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور امر خلافت آپ کو سونپ دیا اور سب لوگ بھی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیعت پر جمع ہو گئے اور اس سال کا نام ہی عام الجماعہ مشہور ہوا ۔ پھر شام وغیرہ میں برابر بنو امیہ کی سلطنت قائم رہی ہاں تقریباً نو سال تک حرمین شریفین اور اہواز اور بعض شہروں پر سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی سلطنت ہو گئی تھی لیکن تاہم اس مدت میں بھی کلیۃً ان کے ہاتھ سے حکومت نہیں گئی ۔ البتہ بعض شہروں پر سے حکومت ہٹ گئی تھی ، ہاں سنہ ۱۳۲ ھ میں بنوالعباس نے ان سے خلافت اپنے قبضہ میں کر لی پس ان کی سلطنت کی مدت بانوے برس ہوئی اور یہ ایک ہزار ماہ سے بہت زیادہ ہے ایک ہزار مہینے کے تراسی سال چار ماہ ہوتے ہیں ۔ ہاں قاسم بن فضل کا یہ حساب اس طرح تو تقریباً ٹھیک ہو جاتا ہے کہ سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ کی مدت خلافت اس گنتی میں سے نکال دی جائے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» اس روایت کے ضعیف ہونے کی ایک یہ وجہ بھی ہے کہ بنو امیہ کی سلطنت کے زمانہ کی تو برائی اور مذمت بیان کرنی مقصود ہے اور لیلتہ القدر کی اس زمانہ پر فضیلت کا ثابت ہونا کچھ ان کے زمانے کی مذمت کی دلیل نہیں ، لیلۃ القدر تو ہر طرح بزرگی والی ہے ہی اور یہ پوری سورت اس مبارک رات کی مدح و ستائش بیان کر رہی ہے ، پس بنو امیہ کے زمانہ کے دنوں کی مذمت سے لیلۃ القدر کی کون سی فضیلت ثابت ہو جائے گی ؟ یہ تو بالکل وہی مثل اصل ہو جائے گی کہ کوئی شخص تلوار کی تعریف کرتے ہوئے کہے کہ لکڑی سے بہت تیز ہے ، کسی بہترین فضیلت والے شخص کو کسی کم درجہ کے ذلیل شخص پر فضیلت دینا تو اس شریف بزرگ کی توہین کرنا ہے ۔ اور وجہ سنئے اس روایت کی بنا پر یہ ایک ہزار مہینے وہ ہوئے جن میں بنو امیہ کی سلطنت رہے گی اور یہ سورت اتری ہے مکہ شریف میں تو اس میں ان مہینوں کا حوالہ کیسے دیا جا سکتا ہے جو بنو امیہ کے زمانہ کے ہیں اس پر نہ تو کوئی لفظ دلالت کرتا ہے ، نہ معنی کے طور پر یہ سمجھا جا سکتا ہے ، منبر تو مدینہ میں قائم ہوتا ہے اور ہجرت کی ایک مدت بعد منبر بنایا جاتا ہے اور رکھا جاتا ہے ۔ پس ان تمام وجوہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت ضعیف اور منکر ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ماہِ رمضان اور لیلتہ القدر کی فضیلت ابن ابی حاتم میں ہے مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا ذکر کیا جو ایک ہزار ماہ تک اللہ کی راہ میں یعنی جہاد میں ہتھیار بند رہا مسلمانوں کو یہ سن کر تعجب معلوم ہوا تو اللہ عزوجل نے یہ سورت اتاری کہ لیلۃ القدر کی عبادت اس شخص کی ایک ہزار مہینے کی عبادت سے افضل ہے ۔ (بیہقی فی السنن:306/4:ضیعف و مرسل) ابن جریر میں ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص تھا جو رات کو قیام کرتا تھا صبح تک اور دن میں دشمنان دین سے جہاد کرتا تھا شام تک ایک ہزار مہینے تک یہی کرتا رہا پس اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمایا کہ اس امت کے کسی شخص کا صرف لیلۃ القدر کا قیام اس عابد کی ایک ہزار مہینے کی اس عبادت سے افضل ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل کے چار عابدوں کا ذکر کیا جنہوں نے اسی سال تک اللہ تعالیٰ کی عبادت کی تھی ایک آنکھ جھپکنے کے برابر بھی اللہ کے نافرمانی نہیں کی تھی ایوب علیہ السلام ، زکریا علیہ السلام ، حزقیل بن عجوز ، یوشع بن نون علیہم السلام “ ، اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت تعجب ہوا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے اور کہا کہ ” اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی امت نے اس جماعت کی اس عبادت پر تعجب کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس سے بھی افضل چیز آپ پر نازل فرمائی اور فرمایا کہ یہ افضل ہے اس سے جن پر آپ اور آپ کی امت نے تعجب ظاہر کیا تھا ۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم بے حد خوش ہوئے } ۔ (باطل لا اصل لہ فی المرفوع) مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” مطلب یہ ہے کہ اس رات کا نیک عمل اس کا روزہ اس کی نماز ایک ہزار مہینوں کے روزے اور نماز سے افضل ہے جن میں لیلۃ القدر نہ ہو “ اور مفسرین کا بھی یہ قول ہے ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ نے بھی اسی کو پسند فرمایا ہے کہ ” وہ ایک ہزار مہینے جن میں لیلۃ القدر نہ ہو “ یہی ٹھیک ہے اس کے سوا اور کوئی قول ٹھیک نہیں ۔ جیسے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ایک رات کی جہاد کی تیاری اس کے سوا ایک ہزار راتوں سے افضل ہے } ۔ (مسند احمد:75/1:حسن) اسی طرح اور حدیث میں ہے کہ { جو شخص اچھی نیت اور اچھی حالت سے جمعہ کی نماز کے لیے جائے اس کے لیے ایک سال کے اعمال کا ثواب لکھا جاتا ہے سال بھر کے روزوں کا اور سال بھر کی نمازوں کا } ۔ (سنن ترمذی:496،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اسی طرح کی اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں پس مطلب یہ ہے کہ مراد ایک ہزار مہینے سے وہ مہینے ہیں جن میں لیلۃ القدر نہ آئے جیسے ایک ہزار راتوں سے مراد وہ راتیں ہیں جن میں کوئی رات اس عبادت کی نہ ہو اور جیسے جمعہ کی طرف جانے والے کو ایک سال کی نیکیاں یعنی وہ سال جس میں جمعہ نہ ہو ۔ مسند احمد میں ہے { سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب رمضان آ گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” لوگو تم پر رمضان کا مہینہ آ گیا یہ بابرکت مہینہ آ گیا اس کے روزے اللہ نے تم پر فرض کیے ہیں اس میں جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں شیاطین قید کر لیے جاتے ہیں اس میں ایک رات ہے جو ایک ہزار مہینے سے افضل ہے اس کی بھلائی سے محروم رہنے والا حقیقی بد قسمت ہے “ } ۔ (مسند احمد230/2:صحیح) نسائی شریف میں بھی یہ روایت ہے چونکہ اس رات کی عبادت ایک ہزار مہینے کی عبادت سے افضل ہے اس لیے بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جو شخص لیلۃ القدر کا قیام ایمانداری اور نیک نیتی سے کرے اس کے تمام سابقہ گناہ بخش دئیے جاتے ہیں “ } ۔ (صحیح بخاری:2014) پھر فرماتا ہے کہ اس رات کی برکت کی زیادتی کی وجہ سے بکثرت فرشتے اس میں نازل ہوتے ہیں ۔ فرشتے تو ہر برکت اور رحمت کے ساتھ نازل ہوتے رہتے ہیں جیسے تلاوت قرآن کے وقت اترتے ہیں اور ذکر کی مجلسوں کو گھیر لیتے ہیں اور علم دین کے سیکھنے والوں کے لیے راضی خوشی اپنے پر بچھا دیا کرتے ہیں اور اس کی عزت و تکریم کرتے ہیں «روح» سے مراد یہاں جبرائیل علیہ السلام ہیں ، یہ خاص کا عطف ہے عام پر ۔ بعض کہتے ہیں «روح» کے نام کے ایک خاص قسم کے فرشتے ہیں جیسے کہ سورۃ «عَمَّ یَتَسَاءَلُونَ» ۱؎ (78-النبأ:1) کی تفسیر میں تفصیل سے گزر چکا ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» پھر فرمایا وہ سراسر سلامتی والی رات ہے جس میں شیطان نہ تو برائی کر سکتا ہے نہ ایذاء پہنچا سکتا ہے ۔ قتادہ رحمہ اللہ وغیرہ فرماتے ہیں ” اس میں تمام کاموں کا فیصلہ کیا جاتا ہے عمر اور رزق مقدر کیا جاتا ہے “ ۔ جیسے اور جگہ ہے «فِیہَا یُفْرَقُ کُلٰ أَمْرٍ حَکِیمٍ» ۱؎ (44-الدخان:4) یعنی ’ اسی رات میں ہر حکمت والے کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے ‘ ۔ شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” اس رات میں فرشتے مسجد والوں پر صبح تک سلام بھیجتے رہتے ہیں “ ۔ امام بیہقی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب فضائل اوقات میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا ایک غریب اثر فرشتوں کے نازل ہونے میں اور نمازیوں پر ان کے گزرنے میں اور انہیں برکت حاصل ہونے میں وارد کیا ہے ۔ ابن ابی حاتم میں کعب احبار رضی اللہ عنہ سے ایک عجیب و غریب بہت طول طویل اثر وارد کیا ہے جس میں فرشتوں کا سدرۃ المنتہیٰ سے جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ زمین پر آنا اور مومن مردوں اور مومن عورتوں کے لیے دعائیں کرنا وارد ہے ۔ ابوداؤد طیالسی فرماتے ہیں کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں لیلۃ القدر ستائیسویں ہے یا انتیسویں اس رات میں فرشتے زمین پر سنگریزوں کی گنتی سے بھی زیادہ ہوتے ہیں } ۔ (مسند طیالسی:2545:حسن) عبدالرحمٰن بن ابو یعلیٰ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” اس رات میں ہر امر سے سلامتی ہے یعنی کوئی نئی بات پیدا نہیں ہوتی “ ۔ قتادہ رحمہ اللہ اور ابن زید رحمہ اللہ کا قول ہے کہ ” یہ رات سراسر سلامتی والی ہے کوئی برائی صبح ہونے تک نہیں ہوتی “ ۔ مسند احمد میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” لیلۃ القدر آخری دس راتوں میں ہے جو ان میں طلب ثواب کی نیت سے قیام کرے اللہ تعالیٰ اس کے اگلے اور پچھلے گناہ معاف فرما دیتا ہے یہ رات اکائی کی ہے یعنی اکیسویں یا تیسویں یا پچیسویں یا ستائیسویں یا آخری رات “ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” یہ رات بالکل صاف اور ایسی روشن ہوتی ہے کہ گویا چاند چڑھا ہوا ہے اس میں سکون اور دلجمعی ہوتی ہے ، نہ سردی زیادہ ہوتی ہے ، نہ گرمی ، صبح تک ستارے نہیں جھڑتے ایک نشانی اس کی یہ بھی ہے کہ اس صبح کو سورج تیز شعاؤں کے ساتھ نہیں نکلتا بلکہ وہ چودہویں رات کی طرح صاف نکلتا ہے ۔ اس دن اس کے ساتھ شیطان بھی نہیں نکلتا } ۔ (مسند احمد:323/5:حسن) یہ اسناد تو صحیح ہے لیکن متن میں غرابت ہے ۔ اور بعض الفاظ میں نکارت بھی ہے اور ابوداؤد طیالسی میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” لیلۃ القدر صاف پر سکون سردی گرمی سے خالی رات ہے اس کی صبح مدھم روشنی والا سرخ رنگ نکلتا ہے “ } ۔ (مسند طیالسی :2680:صحیح) ابوعاصم نبیل اپنی اسناد سے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا : ” میں لیلۃ القدر دکھلایا گیا پھر بھلا دیا گیا یہ آخری دس راتوں میں ہے یہ صاف شفاف سکون و وقار والی رات ہے نہ زیادہ سردی ہوتی ہے نہ زیادہ گرمی اس قدر روشنی رات ہوتی ہے کہ یہ معلوم ہوتا ہے گویا چاند چڑھا ہوا ہے سورج کے ساتھ شیطان نہیں نکلتا یہاں تک کہ دھوپ چڑھ جائے “ } ۔ (صحیح ابن خریمہ:2190) فصل اس بات میں علماء کا اختلاف ہے کہ لیلۃ القدر اگلی امتوں میں بھی تھی یا صرف اسی امت کو خصوصیت کے ساتھ عطا کی گئی ہے ۔ پس ایک حدیث میں تو یہ آیا ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب نظریں ڈالیں اور یہ معلوم کیا کہ سابقہ لوگوں کی عمریں بہت زیادہ ہوتی تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خیال گزرا کہ میری امت کی عمریں ان کے مقابلہ میں کم ہیں تو نیکیاں بھی کم رہیں گیں اور پھر درجات اور ثواب میں بھی کمی رہیں گی ، تو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ رات عنایت فرمائی اور اس کا ثواب ایک ہزار مہینے کی عبادت سے زیادہ دینے کا وعدہ فرمایا } ۔ (مؤطا:321/1:مرسل) اس حدیث سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ صرف اسی امت کو یہ رات دی گئی ہے بلکہ صاحب عدۃ نے جو شافعیہ میں سے ایک امام ہیں جمہور علماء کا یہی قول نقل کیا ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» اور خطابی نے تو اس پر اجماع نقل کیا ہے لیکن ایک اور حدیث ہے جس سے یہ معلوم ہوتا کہ یہ رات جس طرح اس امت میں ہے ، اگلی امتوں میں بھی تھی ، چنانچہ مرثد رحمہ اللہ فرماتے ہیں { میں نے سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ نے لیلۃ القدر کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا سوال کیا تھا ؟ آپ نے فرمایا : سنو ! میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اکثر باتیں دریافت کرتا رہتا تھا ایک مرتبہ میں نے کہا : یا رسول اللہ ! یہ تو فرمائیے کہ لیلۃ القدر رمضان میں ہی ہے یا اور مہینوں میں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” رمضان میں “ ۔ میں نے کہا : اچھا یا رسول اللہ ! یہ انبیاء علیہم السلام کے ساتھ ہی ہے کہ جب تک وہ ہیں یہ بھی ہے جب انبیاء علیہم السلام قبض کئے جاتے ہیں تو یہ اٹھ جاتی ہیں یا یہ قیامت تک باقی رہیں گی ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا ” نہیں وہ قیامت تک باقی رہے گی “ ، میں نے کہا : اچھا رمضان کے کس حصہ میں ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اسے رمضان کے پہلے اور آخری عشرہ میں ڈھونڈ “ ۔ پھر میں خاموش ہو گیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اور باتوں میں مشغول ہو گئے ۔ میں نے پھر موقع پا کر سوال کیا کہ یا رسول اللہ ! ان دونوں عشروں میں سے کس عشرے میں اس رات کو تلاش کروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” آخری عشرے میں ، بس کچھ نہ پوچھنا “ ۔ میں پھر چپکا ہو گیا لیکن پھر موقعہ پا کر میں نے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول ! آپ کی قسم ہے میرا بھی کچھ حق آپ پر ہے فرما دیجئیے کہ وہ کون سی رات ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سخت غصے ہوئے میں نے تو کبھی آپ کو اپنے اوپر اتنا غصہ ہوتے ہوئے دیکھا ہی نہیں اور فرمایا : ” آخری ہفتہ میں تلاش کرو ، اب کچھ نہ پوچھنا “ } ۔ (مسند احمد:171/5:ضعیف) یہ روایت نسائی میں بھی مروی ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ رات اگلی امتوں میں بھی تھی ، اور اس حدیث سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی قیامت تک ہر سال آتی رہے گی ۔ بعض شیعہ حضرات کا قول ہے کہ یہ رات بالکل اٹھ گئی ، یہ قول غلط ہے ان کو غلط فہمی اس حدیث سے ہوئی ہے جس میں ہے کہ وہ اٹھا لی گئی اور ممکن ہے کہ تمہارے لیے اسی میں بہتری ہو یہ حدیث پوری بھی آئے گی ۔ مطلب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے یہ ہے کہ اس رات کی تعین اور اس کا تقرر بھی اٹھ گیا ، نہ یہ کہ سرے سے لیلۃ القدر ہی اٹھ گئی مندرجہ بالا حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ رات رمضان شریف میں آتی ہے کسی اور مہینہ میں نہیں ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ اور علماء کوفہ کا قول ہے کہ سارے سال میں ایک رات ہے اور ہر مہینہ میں اس کا ہو جانا ممکن ہے ۔ یہ حدیث اس کے خلاف ہے سنن ابوداؤد میں باب ہے کہ اس شخص کی دلیل جو کہتا ہے لیلۃ القدر سارے رمضان میں ہے ۔ پھر حدیث لائے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لیلۃ القدر کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سارے رمضان میں ہے } ۔ (سنن ابوداود:1387،قال الشیخ الألبانی:ضعیف و الصحیح موقوف) اس کی سند کے کل راوی ثقہ ہیں یہ موقوف بھی مروی ہیں ۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے ایک روایت میں ہے کہ ” رمضان المبارک کے سارے مہینہ میں اس رات کا ہونا ممکن ہے “ غزالی رحمہ اللہ نے اسی کو نقل کیا ہے لیکن رافعی رحمہ اللہ اسے بالکل غریب بتلاتے ہیں ۔ فصل ابو زرین رحمہ اللہ تو فرماتے ہیں کہ ” رمضان کی پہلی رات ہی لیلۃ القدر ہے “ ۔ امام محمد بن ادریس شافعی رحمہ اللہ کا فرمان ہے کہ ” یہ سترھویں شب ہے “ ۔ ابوداؤد میں اس مضمون کی ایک حدیث مرفوع مروی ہے ۔ (سنن ابوداود:1384،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) اور سیدنا ابن مسعود ، سیدنا زید بن ارقم اور عثمان بن العاص رضی اللہ عنہم سے موقوف بھی مروی ہے ۔ حسن بصری کا مذہب بھی یہی نقل کیا گیا ہے ۔ اس کی ایک دلیل یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ رمضان المبارک کی یہی سترھویں رات شب جمعہ تھی اور یہی رات بدر کی رات تھی اور سترھویں تاریخ کو جنگ بدر واقع ہوئی تھی جس دن کو قرآن نے یوم الفرقان کہا ہے ۔ سیدنا علی اور ابن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ” انیسویں رات لیلۃ القدر ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اکیسویں رات ہے “ ۔ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان شریف کے دس پہلے دن کا اعتکاف کیا ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی اعتکاف بیٹھے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے اور فرمایا کہ ” جسے آپ ڈھونڈتے ہیں وہ تو آپ کے آگے ہے “ ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس سے بیس تک کا اعتکاف کیا اور ہم نے بھی ۔ پھر جبرائیل علیہ السلام آئے اور یہی فرمایا کہ ” جسے آپ ڈھونڈتے ہیں وہ تو ابھی بھی آگے ہے یعنی لیلۃ القدر “ ۔ پس رمضان کی بیسویں تاریخ کی صبح کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر خطبہ فرمایا اور فرمایا کہ ” میرے ساتھ اعتکاف کرنے والوں کو چاہیئے کہ وہ پھر اعتکاف میں بیٹھ جائیں میں نے لیلۃ القدر دیکھ لی لیکن میں بھول گیا ، لیلۃ القدر آخری عشرے کی طاق راتوں میں ہے ، میں نے دیکھا ہے کہ گویا میں کیچڑ میں سجدہ کر رہا ہوں “ ۔ راوی حدیث فرماتے ہیں کہ مسجد نبوی کی چھت صرف کھجور کے پتوں کی تھی آسمان پر اس وقت ابر کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا بھی نہ تھا ، پھر ابر اٹھا اور بارش ہوئی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خواب سچا ہوا اور میں نے خود دیکھا کہ نماز کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی پر تر مٹی لگی ہوئی تھی اسی روایت کے ایک طریق میں ہے کہ یہ اکیسویں رات کا واقعہ ہے } ۔ (صحیح بخاری:2018) یہ حدیث صحیح بخاری ، صحیح مسلم دونوں میں ہے ۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” تمام روایتوں میں سے زیادہ صحیح یہی حدیث ہے “ ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ لیلۃ القدر رمضان شریف کی تئیسویں رات ہے اور اس کی دلیل عبداللہ بن انیس کی صحیح مسلم والی ایسی ہی ایک روایت ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ چوبیسویں رات ہے ۔ ابوداؤد طیالسی میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” لیلۃ القدر چوبیسویں شب ہے “ } ۔ (مسند طیالسی:2167) اس کی سند بھی صحیح ہے مسند احمد میں بھی یہ روایت ہے ۔ (مسند احمد:12/6:ضعیف) لیکن اس کی سند میں ابن لہیعہ ہیں جو ضعیف ہیں ۔ بخاری میں سیدنا بلال رضی اللہ عنہ سے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مؤذن ہیں مروی ہے کہ یہ پہلی ساتویں ہے آخری دس میں سے ، یہ موقوف روایت ہی صحیح ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» سیدنا ابن مسعود ابن عباس جابر رضی اللہ عنہم حسن ، قتادہ عبداللہ بن وہب رحمہ اللہ علیہم بھی فرماتے ہیں کہ چوبیسویں رات لیلۃ القدر ہے ۔ سورۃ البقرہ کی تفسیر میں واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ کی روایت کی ہوئی مرفوع حدیث بیان ہو چکی ہے کہ قرآن کریم رمضان شریف کی چوبیسویں رات کو اترا ۔ بعض کہتے ہیں پچیسویں رات لیلۃ القدر ہے ان کی دلیل بخاری شریف کی یہ حدیث ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اسے رمضان کے آخری عشرے میں ڈھونڈو ۔ نو باقی رہیں تب ، سات باقی رہیں تب ، پانچ باقی رہیں تب “ } ۔ (صحیح بخاری:2021) اکثر محدثین نے اس کا یہی مطلب بیان کیا ہے کہ اس سے مراد طاق راتیں ہیں یہی زیادہ ظاہر ہے اور زیادہ مشہور ہے گو بعض اوروں نے اسے جفت راتوں پر بھی محمول کیا ہے جیسے کہ صحیح مسلم شریف میں ہے کہ سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ نے اسے جفت پر محمول کیا ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ ستائیسویں رات ہے اس کی دلیل صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے جس میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” یہ ستائیسویں رات ہے “ } ۔ (صحیح مسلم:762) مسند احمد میں ہے { سیدنا زر رضی اللہ عنہ نے ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ کے بھائی عبداللہ بن مسعود تو فرماتے ہیں جو شخص سال بھر راتوں کو قیام کرے گا وہ لیلۃ القدر کو پائے گا آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرے وہ جانتے ہیں کہ یہ رات رمضان میں ہی ہے یہ ستائیسویں رات رمضان کی ہے پھر اس بات پر سیدنا ابی رضی اللہ عنہ نے قسم کھائی میں نے پوچھا : آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا ؟ جواب دیا کہ ان نشانیوں کو دیکھنے سے جو ہم بتائے گئے ہیں کہ اس دن سورج شعاعوں بغیر نکلتا ہے } ۔ (صحیح مسلم:762) اور روایت میں ہے کہ { ابی رضی اللہ عنہ نے کہا : اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں کہ یہ رات رمضان میں ہی ہے ، آپ نے اس پر ان شاءاللہ بھی نہیں فرمایا اور پختہ قسم کھا لی پھر فرمایا : مجھے خوب معلوم ہے کہ وہ کون سی رات ہے جس میں قیام کرنے کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے یہ ستائیسویں رات ہے اس کی نشانی یہ ہے کہ اس کی صبح کو سورج سفید رنگ نکلتا ہے اور تیزی زیادہ نہیں ہوتی “ } ۔ (صحیح مسلم:762) سیدنا معاویہ ، ابن عمر ، ابن عباس رضی اللہ عنہم وغیرہ سے بھی مروی ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” یہ رات ستائیسویں رات ہے “ } ۔ سلف کی ایک جماعت نے بھی یہی کہا ہے اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا مختار مسلک بھی یہی ہے اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے ایک روایت اسی قول کی منقول ہے ۔ بعض سلف نے قرآن کریم کے الفاظ سے بھی اس کے ثبوت کا حوالہ دیا ہے اس طرح کہ «ہِیَ» اس سورت میں ستائیسواں کلمہ ہے اور اس کے معنی ہیں ” یہ “ ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» طبرانی میں ہے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جمع کیا اور ان سے لیلۃ القدر کی بابت سوال کیا تو سب کا اجماع اس امر پر ہوا کہ یہ رمضان کے آخری عشرہ میں ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس وقت فرمایا کہ میں تو یہ بھی جانتا ہوں کہ وہ کون سی رات ہے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا پھر کہو وہ کون سی رات ہے ؟ فرمایا اس آخری عشرے میں سات گزرنے پر یا سات باقی رہنے پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا یہ کیسے معلوم ہوا تو جواب دیا کہ دیکھو اللہ تعالیٰ نے آسمان بھی سات پیدا کیے اور زمین بھی سات بنائیں ، مہینہ بھی ہفتوں پر ہے ، انسان کی پیدائش بھی سات پر ہے ، کھانا بھی سات ہے ، سجدہ بھی سات پر ہے ، طواف بیت اللہ کی تعداد بھی سات کی ہے ، رمی جمار کی کنکریاں بھی سات ہیں اور اسی طرح کی سات کی گنتی کی بہت سی چیزیں اور گنوا دیں ۔ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا : تمہاری سمجھ وہاں پہنچی جہاں تک ہمارے خیالات کو رسائی نہ ہو سکی یہ جو فرمایا سات ہی کھانا ہے اس سے قرآن کریم کی آیتیں «فَاَنْبَتْنَا فِیْہَا حَبًّا» ۱؎ (80-عبس:27) ، مراد ہیں جن میں سات چیزوں کا ذکر ہے جو کھائی جاتی ہیں ۔ اس کی اسناد بھی جید اور قوی ہے کہ انتیسویں رات ہے ۔ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے سوال کے جواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ { اسے آخری عشرے میں ڈھونڈو طاق راتوں میں ، اکیس ، تیئس ، پچیس ستائیس اور انتیس یا آخری رات } ۔ (مسند احمد:318/5:حسن دون الجملۃ) مسند میں ہے کہ { لیلۃ القدر ستائیسویں رات ہے ، یا انتیسویں ۔ اس رات فرشتے زمین پر سنگریزوں کی گنتی سے بھی زیادہ ہوتے ہیں } ۔ (مسند احمد:519/2:حسن) اس کی اسناد بھی اچھی ہے ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ آخری رات لیلۃ القدر ہے کیونکہ ابھی جو حدیث گزری اس میں ہے اور ترمذی اور نسائی میں بھی ہے کہ { جب نو باقی رہ جائیں یا سات یا پانچ یا تین یا آخری رات یعنی ان راتوں میں لیلۃ القدر کی تلاش کرو } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:794،قال الشیخ الألبانی:حسن صحیح) امام ترمذی اسے حسن صحیح کہتے ہیں مسند میں ہے { یہ آخری رات ہے } ۔ فصل امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ان مختلف احادیث میں تطبیق یوں ہو سکتی ہے کہ یہ سوالوں کا جواب ہے کسی نے کہا : ہم اسے فلاں رات میں تلاش کریں تو آپ نے فرما دیا ” ہاں حقیقت یہ ہے کہ لیلۃ القدر مقرر ہے اور اس میں تبدیلی نہیں ہوتی “ ۔ امام ترمذی نے امام شافعی کا اسی معنی کا قول نقل کیا ہے ابوقلابہ فرماتے ہیں کہ آخری عشرے کی راتوں میں یہ پھیر بدل ہوا کرتی ہے ۔ امام مالک ، امام ثوری ، امام احمد بن حنبل ، امام اسحاق بن راہویہ ، ابوثور مزنی ، ابوبکر بن خزیمہ رحمہ اللہ علیہم وغیرہ نے بھی یہی فرمایا ہے ۔ امام شافعی رحمہ اللہ سے بھی قاضی نے یہی نقل کیا ہے اور یہی ٹھیک بھی ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» اس قول کی تھوڑی بہت تائید بخاری و مسلم کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ { چند اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم خواب میں لیلۃ القدر رمضان کی سات پچھلی راتوں میں دکھائے گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” میں دیکھتا ہوں کہ تمہارے خواب اس بارے میں موافق ہیں ہر طلب کرنے والے کو چاہیئے کہ لیلۃ القدر کو ان سات آخری راتوں میں تلاش کرے “ } ۔ (صحیح بخاری:2015) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی بخاری و مسلم میں مروی ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں شب قدر کی جستجو کرو “ } ۔ (صحیح بخاری:2020) امام شافعی رحمہ اللہ کے اس فرمان پر کہ لیلۃ القدر ہر رمضان میں ایک معین رات ہے اور اس کا ہیر پھیر نہیں ہوتا یہ حدیث دلیل بن سکتی ہے جو صحیح بخاری میں عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی روایت سے مروی ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں لیلۃ القدر کی خبر دینے کے لیے [ کہ فلاں رات لیلۃ القدر ہے ] نکلے ۔ دو مسلمان آپس میں جھگڑ رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں لیلۃ القدر کی خبر دینے کے لیے آیا تھا لیکن فلاں فلاں کی لڑائی کی وجہ سے وہ اٹھا لی گئی اور ممکن ہے کہ اسی میں تمہاری بہتری ہو اب اسے نویں ساتویں اور پانچویں میں ڈھونڈو } ۔ (صحیح بخاری:2023) وجہ دلالت یہ ہے کہ اگر اس کا تعین ہمیشہ کے لیے نہ ہوتا تو ہر سال کی لیلۃ القدر کا علم حاصل نہ ہوتا اگر لیلۃ القدر کا تغیر و تبدل ہوتا رہتا تو صرف اس سال کے لیے تو معلوم ہو جاتا کہ فلاں رات ہے لیکن اور برسوں کے لیے تعین نہ ہوتی ۔ ہاں یہ ایک جواب اس کا ہو سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف اسی سال کی اس مبارک رات کی خبر دینے کے لیے تشریف لائے تھے اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ لڑائی جھگڑا خیر و برکت اور نفع دینے والے علم کو غارت کر دیتا ہے ایک اور صحیح حدیث میں ہے کہ { بندہ اپنے گناہ کے باعث اللہ کی روزی سے محروم رکھ دیا جاتا ہے } ۔ (سنن ابن ماجہ:4022،قال الشیخ الألبانی:حسن دون الجملۃ) یہ یاد رہے کہ اس حدیث میں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ اٹھالی گئی ، اس سے مراد اس کے تعین کے علم کا اٹھا لیا جانا ہے نہ یہ کہ بالکل لیلۃ القدر ہی دنیا سے اٹھا لی گئی جیسے کہ جاہل شیعہ کا قول ہے اس پر بڑی دلیل یہ ہے کہ اس لفظ کے بعد ہی یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اسے نویں ، ساتویں اور پانچویں میں ڈھونڈو “ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ ممکن ہے اسی میں تمہاری بہتری ہو ، یعنی اس کی مقررہ تعین کا علم نہ ہونے میں اس کا مطلب یہ ہے کہ جب یہ مبہم ہے تو اس کا ڈھونڈنے والا جن جن راتوں میں اس کا ہونا ممکن دیکھے گا ان تمام راتوں میں کوشش و خلوص کے ساتھ عبادت میں لگا رہے گا ۔ بخلاف اس کے کہ معلوم ہو جائے کہ فلاں رات ہی ہے تو وہ صرف اسی ایک رات کی عبادت کرے گا کیونکہ ہمتیں پست ہیں اس لیے حکمت حکیم کا تقاضا یہی ہوا کہ اس رات کے تعین کی خبر نہ دی جائے تاکہ اس رات کے پا لینے کے شوق میں اس مبارک مہینہ میں جی لگا کر اور دل کھول کر بندے اپنے معبود برحق کی بندگی کریں اور آخری عشرے میں تو پوری کوشش اور خلوص کے ساتھ عبادتوں میں مشغول رہیں ۔ اسی لیے خود محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے انتقال تک رمضان شریف کے آخری عشرے کا اعتکاف کرتے رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کی ازواج مطہرات نے اعتکاف کیا یہ حدیث بخاری مسلم دونوں میں ہے ۔ (صحیح بخاری:2026) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان شریف کے آخری عشرے کا اعتکاف کیا کرتے تھے } ۔ (صحیح بخاری:2025) ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ { جب آخری دس راتیں رمضان شریف کی رہ جاتیں تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ساری رات جاگتے اپنے گھر والوں کو بھی جگاتے اور کمر کس لیتے } ۔ (صحیح بخاری:2024) مسلم شریف میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان دنوں میں جس محنت کے ساتھ عبادت کرتے اتنی محنت سے عبادت آپ کی اور دنوں میں نہیں ہوتی تھی } ۔ (صحیح مسلم:1175) یہی معنی ہیں اوپر والی حدیث کے اس جملہ کے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تہبند مضبوط باندھ لیا کرتے ، یعنی کمر کس لیا کرتے ، یعنی عبادت میں پوری کوشش کرتے ، گو اس کے یہ معنی بھی کیے گئے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیویوں سے نہ ملتے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دونوں ہی باتیں مراد ہوں یعنی بیویوں سے ملنا بھی ترک کر دیتے تھے اور عبادت کی مشغولی میں بھی کمر باندھ لیا کرتے تھے ۔ چنانچہ مسند احمد کی حدیث کے یہ الفاظ ہیں کہ { جب رمضان کا آخری عشرہ باقی رہ جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تہبند مضبوط باندھ لیتے اور عورتوں سے الگ رہتے } ۔ (مسند احمد:67/6:صحیح دون الجملۃ) امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” رمضان کی آخری دس راتوں میں لیلۃ القدر کی یکساں جستجو کرے کسی ایک رات کو دوسری رات پر ترجیح نہ دے “ ۔ (شرح رافعی) یہ بھی یاد رہے کہ یوں تو ہر وقت دعا کی کثرت مستحب ہے لیکن رمضان میں اور زیادتی کرے اور خصوصاً آخری عشرے میں اور بالخصوص طاق راتوں میں اس دعا کو بکثرت پڑھے « اللہُمَّ إِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبٰ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّی» ، اللہ تو درگزر کرنے والا اور درگزر کو پسند فرمانے والا ہے مجھ سے بھی درگزر فرما ۔ (مسند احمد:183/6:صحیح) مسند احمد میں ہے کہ { ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اگر مجھے لیلۃ القدر مل جائے تو میں کیا دعا پڑھوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی دعا « اللہُمَّ إِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبٰ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّی» بتائی } یہ حدیث ترمذی نسائی اور ابن ماجہ میں بھی ہے ۔ (سنن ابن ماجہ:3850،قال الشیخ الألبانی:صحیح) امام ترمذی اسے حسن صحیح کہتے ہیں مستدرک حاکم میں بھی یہ مروی ہے اور امام حاکم اسے شرط بخاری و مسلم پر صحیح بتاتے ہیں ۔ ایک عجیب و غریب اثر جس کا تعلق لیلۃ القدر سے ہے ، امام ابو محمد بن ابوحاتم رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں ، اس سورت کی تفسیر میں ، سیدنا کعب رضی اللہ عنہ سے اس روایت کے ساتھ وارد کیا ہے کہ سدرۃ المنتہیٰ جو ساتویں آسمان کی حد پر جنت سے متصل ہے جو دنیا اور آخرت کے فاصلہ پر ہے اس کی بلندی جنت میں ہے ، اس کی شاخیں اور ڈالیں کرسی تلے ہیں ، اس میں اس قدر فرشتے ہیں جن کی گنتی اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا اس کی ہر ایک شاخ پر بےشمار فرشتے ہیں ، ایک بال برابر بھی جگہ ایسی نہیں جو فرشتوں سے خالی ہو ، اس درخت کے بیچوں بیچ جبرائیل علیہ السلام کا مقام ہے ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے جبرائیل کو آواز دی جاتی ہے کہ اے جبرائیل ! لیلۃ القدر میں اس درخت کے تمام فرشتوں کو لے کر زمین پر جاؤ یہ کل کے کل فرشتے رافت و رحمت والے ہیں جن کے دلوں میں ہر ہر مومن کے لیے رحم کے جذبات موجزن ہیں سورج غروب ہوتے ہی یہ کل کے کل فرشتے جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ لیلۃ القدر میں اترتے ہیں ، تمام روئے زمین پر پھیل جاتے ہیں ، ہر ہر جگہ پر سجدے میں قیام میں مشغول ہو جاتے ہیں اور تمام مومن مردوں اور مومن عورتوں کے لیے دعائیں مانگتے رہتے ہیں ۔ ہاں گرجا گھر میں ، مندر میں ، آتش کدے میں ، بت خانے میں ، غرض اللہ کے سوا اوروں کی جہاں پرستش ہوتی ہے وہاں تو یہ فرشتے نہیں جاتے اور ان جگہوں میں بھی جن میں تم گندی چیزیں ڈالتے ہو اور اس گھر میں بھی جہاں نشے والا شخص ہو یا نشہ والی چیز ہو یا جس گھر میں کوئی بت گڑا ہوا ہو یا جس گھر میں باجے گاجے گھنٹیاں ہوں یا مجسمہ ہو یا کوڑا کرکٹ ڈالنے کی جگہ ہو وہاں تو یہ رحمت کے فرشتے جاتے نہیں باقی چپے چپے پر گھوم جاتے ہیں اور ساری رات مومن مردوں عورتوں کے لیے دعائیں مانگنے میں گزارتے ہیں جبرائیل علیہ السلام تمام مومنوں سے مصافحہ کرتے ہیں اس کی نشانی یہ ہے کہ روئیں جسم پر کھڑے ہو جائیں دل نرم پڑ جائے آنکھیں بہہ نکلیں اس وقت آدمی کو سمجھ لینا چاہیئے کہ اس وقت میرا ہاتھ جبرائیل علیہ السلام کے ہاتھ میں ہے ۔ سیدنا کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جو شخص اس رات میں تین مرتبہ «لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ» پڑھے اس کی پہلی مرتبہ کے پڑھنے پر گناہوں کی بخشش ہو جاتی ہے دوسری مرتبہ کے کہنے پر آگ سے نجات مل جاتی ہے تیسری مرتبہ کے کہنے پر جنت میں داخل ہو جاتا ہے , راوی نے پوچھا کہ اے ابواسحاق جو اس کلمہ کو سچائی سے کہے اس کے ؟ فرمایا : یہ تو نکلے گا ہی اس کے منہ سے جو سچائی سے اس کا کہنے والا ہو اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ لیلۃ القدر کافر و منافق پر تو اتنی بھاری پڑتی ہے کہ گویا اس کی پیٹھ پر پہاڑ آ پڑا ۔ غرض فجر ہونے تک فرشتے اسی طرح رہتے ہیں پھر سب سے پہلے جبرائیل علیہ السلام چڑھتے ہیں اور بہت اونچے چڑھ کر اپنے پروں کو پھیلا دیتے ہیں بالخصوص ان دو سبز پروں کو جنہیں اس رات کے سوا وہ کبھی نہیں پھیلاتے یہی وجہ ہے کہ سورج کی تیزی ماند پڑ جاتی ہے اور شعائیں جاتی رہتی ہیں پھر ایک ایک فرشتے کو پکارتے ہیں اور سب کے سب اوپر چڑھتے ہیں پس فرشتوں کا نور اور جبرائیل علیہ السلام کے پروں کا نور مل کر سورج کو ماند کر دیتا ہے اس دن سورج متحیر رہ جاتا ہے جبرائیل اور یہ سارے کے سارے بےشمار فرشتے اس دن آسمان و زمین کے درمیان مومن مردوں اور مومن عورتوں کے لیے رحمت کی دعائیں مانگتے ہیں اور ان کے گناہوں کی بخشش طلب کرنے میں گزار دیتے ہیں ۔ نیک نیتی کے ساتھ روزے رکھنے والوں کے لیے اور ان لوگوں کے لیے بھی جن کا یہ خیال رہا کہ اگلے سال بھی اگر اللہ نے زندگی رکھی تو رمضان کے روزے عمدگی کے ساتھ پورے کریں گے یہی دعائیں مانگتے رہتے ہیں شام کو دنیا کے آسمان پر چڑھ جاتے ہیں وہاں کے تمام فرشتے حلقے باندھ باندھ کر ان کے پاس جمع ہو جاتے ہیں اور ایک ایک مرد اور ایک ایک عورت کے بارے میں ان سے سوال کرتے ہیں اور یہ جواب دیتے ہیں ۔ یہاں تک کہ وہ پوچھتے ہیں کہ فلاں شخص کو امسال تم نے کس حالت میں پایا تو یہ کہتے ہیں کہ گزشتہ سال تو ہم نے اسے عبادتوں میں پایا تھا لیکن اس سال تو وہ بدعتوں میں مبتلا تھا اور فلاں شخص گزشتہ سال بدعتوں میں مبتلا تھا لیکن اس سال ہم نے اسے سنت کے مطابق عبادتوں میں پایا پس یہ فرشتے اس سے پہلے شخص کے لیے بخشش کی دعائیں مانگنی موقوف کر دیتے ہیں اور اس دوسرے شخص کے لیے شروع کر دیتے ہیں اور یہ فرشتے انہیں سناتے ہیں کہ فلاں فلاں کو ہم نے ذکر اللہ میں پایا اور فلاں کو رکوع میں اور فلاں کو سجدے میں اور فلاں کو کتاب اللہ کی تلاوت میں غرض ایک رات دن یہاں گزار کر دوسرے آسمان پر جاتے ہیں یہاں بھی یہی ہوتا ہے یہاں تک کہ سدرۃ المنتہیٰ میں اپنی اپنی جگہ پہنچ جاتے ہیں اس وقت سدرۃ المنتہیٰ ان سے پوچھتا ہے کہ مجھ میں بسنے والو ! میرا بھی تم پر حق ہے میں بھی ان سے محبت رکھتا ہوں جو اللہ سے محبت رکھیں ذرا مجھے بھی تو لوگوں کی حالت کی خبر دو اور ان کے نام بتاؤ ۔ سیدنا کعب احبار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ” اب فرشتے اس کے سامنے گنتی کر کے اور ایک ایک مرد و عورت کا مع ولدیت کے نام بتاتے ہیں پھر جنت سدرۃ المنتہیٰ کی طرف متوجہ ہو کر پوچھتی ہے کہ تجھ میں رہنے والے فرشتوں نے جو خبریں تجھے دی ہیں مجھ سے بھی تو بیان کر چنانچہ سدرہ اس سے ذکر کرتا ہے یہ سن کر وہ کہتی ہے اللہ کی رحمت ہو فلاں مرد اور فلاں عورت پر اللہ انہیں جلدی مجھ سے ملا ۔ جبرائیل علیہ السلام سب سے پہلے اپنی جگہ پہنچ جاتے ہیں انہیں الہام ہوتا ہے اور یہ عرض کرتے ہیں پروردگار میں نے تیرے فلاں فلاں بندوں کو سجدے میں پایا تو انہیں بخش ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں نے انہیں بخشا ۔ جبرائیل علیہ السلام اسے عرش کے اٹھانے والے فرشتوں کو سناتے ہیں پھر سب کہتے ہیں فلاں فلاں مرد و عورت پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہوئی اور مغفرت ہوئی پھر جبرائیل علیہ السلام خبر دیتے ہیں کہ باری تعالیٰ فلاں شخص کو گزشتہ سال تو عامل سنت اور عابد چھوڑا تھا لیکن امسال تو بدعتوں میں پڑ گیا اور تیرے احکام سے روگردانی کر لی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے جبرائیل اگر یہ مرنے سے تین ساعت پہلے بھی توبہ کر لے گا تو میں اسے بخش دوں گا ۔ اس وقت جبرائیل علیہ السلام بےساختہ کہہ اٹھتے ہیں اللہ تیرے ہی لیے سب تعریفیں سزاوار ہیں الٰہی تو اپنی مخلوق پر سب سے زیادہ مہربان ہے بندوں پر تیری مہربانی خود ان کی مہربانی سے بھی بڑھی ہوئی ہے ۔ اس وقت عرش اور اس کے آس پاس کی چیزیں پردے اور تمام آسمان جنبش میں آ جاتے ہیں اور کہہ اٹھتے ہیں «الْحَمْدُ لِلہِ الرَّحِیمِ» ، «الْحَمْدُ لِلہِ الرَّحِیمِ» ۔ سیدنا کعب رضی اللہ عنہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ ” جو شخص رمضان شریف کے روزے پورے کرے اور اس کی نیت یہ ہو کہ رمضان کے بعد بھی میں گناہوں سے بچتا رہوں گا وہ بغیر سوال و جواب کے اور بغیر حساب کتاب کے جنت میں داخل ہو گا “ ۔ سورۃ لیلۃ القدر کی تفسیر «اَلْحَمْدُ لِلہِ» ختم ہوئی ۔ القدر
2 القدر
3 القدر
4 القدر
5 القدر
0 البينة
1 سات قرأت اور قرآن حکیم اہل کتاب سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں اور مشرکین سے مراد بت پوجنے والے عرب اور آتش پرست عجمی ہیں ۔ فرماتا ہے یہ لوگ بغیر دلیل حاصل کیے باز رہنے والے نہ تھے ، پھر بتایا کہ وہ دلیل اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو پاک صحیفے یعنی قرآن کریم پڑھ سناتے ہیں ۔ جو اعلیٰ فرشتوں نے پاک اوراق میں لکھا ہوا ہے ۔ جیسے اور جگہ ہے «فِی صُحُفٍ مُکَرَّمَۃٍ» * «مَرْفُوعَۃٍ مُطَہَّرَۃٍ» * «بِأَیْدِی سَفَرَۃٍ» * «کِرَامٍ بَرَرَۃٍ» ۱؎ (80-عبس:13-16) الخ یعنی ’ وہ نامی گرامی بلند و بالا ، پاک صاف اوراق میں پاک باز نیکوکار بزرگ فرشتوں کے ہاتھوں لکھے ہوئے ہیں ‘ ۔ پھر فرماتا ہے «فِیہَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ» ’ ان پاک صحیفوں میں اللہ کی لکھی ہوئی باتیں عدل و استقامت والی موجود ہیں ‘ ۔ جن کے اللہ کی جانب سے ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ، نہ ان میں کوئی خطا اور غلطی ہوئی ہے ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں «رَسُولٌ مِنَ اللہِ یَتْلُو صُحُفًا مُطَہَّرَۃً» کہ وہ رسول [ صلی اللہ علیہ وسلم ] عمدگی کے ساتھ قرآنی وعظ کہتے ہیں اور اس کی اچھی تعریفیں بیان کرتے ہیں ۔ ابن زید فرماتے ہیں «فِیہَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ» ان صحیفوں میں کتابیں ہیں ، استقامت اور عدل و انصاف والی ۔ پھر فرمایا «وَمَا تَفَرَّقَ الَّذِینَ أُوتُوا الْکِتَابَ إِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَتْہُمُ الْبَیِّنَۃُ» ۱؎ (98-البینۃ:4) یعنی ’ اگلی کتابوں والے اللہ کی حجتیں قائم ہو چکنے اور دلیلیں پانے کے بعد اللہ کے کلام کے مطالب میں اختلاف کرنے لگے اور جدا جدا راہوں میں بٹ گئے ‘ ۔ جیسے کہ آیت میں ہے «وَلَا تَکُونُوا کَالَّذِینَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَہُمُ الْبَیِّنَاتُ وَأُولٰئِکَ لَہُمْ عَذَابٌ عَظِیمٌ» ۱؎ (3-آل عمران:105) یعنی ’ تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے اپنے پاس روشن دلیلیں آ جانے کے بعد بھی تفرقہ ڈلا ، اور اختلاف کیا ، انہیں لوگوں کے لیے بڑا عذاب ہے ‘ ۔ جیسے کہ اس حدیث میں ہے جو مختلف طریقوں سے مروی ہے کہ { یہودیوں کے اکہتر فرقے ہو گئے اور نصرانیوں کے بہتر اور اس امت کے تہتر فرقے ہو جائیں گے ، ایک کے سب جہنم میں جائیں گے ، لوگوں نے پوچھا : وہ ایک کون ہے ؟ فرمایا : ” وہ جو اس پر ہو جس پر میں اور میرے اصحاب ہیں “ } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2641،قال الشیخ الألبانی:حسن) پھر فرمایا : «وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِیَعْبُدُوا اللہَ مُخْلِصِینَ لَہُ الدِّینَ» ۱؎ (98-البینۃ:5) الخ یعنی ’ انہیں صرف اتنا ہی حکم تھا کہ خلوص اور اخلاص کے ساتھ صرف اپنے سچے معبود کی عبادت میں لگے رہیں ‘ ۔ جیسے اور جگہ فرمایا «وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا نُوحِی إِلَیْہِ أَنَّہُ لَا إِلٰہَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ» ۱؎ (21-الأنبیاء:25) یعنی ’ تجھ سے پہلے بھی ہم نے جتنے رسول بھیجے سب کی طرف یہی وحی کی کہ میرے سوا کوئی معبود برحق نہیں تم سب صرف میری ہی عبادت کرتے رہو ‘ ، اسی لیے یہاں بھی فرمایا کہ یکسو ہو کر یعنی شرک سے دور اور توحید میں مشغول ہو کر ۔ جیسے اور جگہ ہے «وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِی کُلِّ أُمَّۃٍ رَسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللہَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ» ۱؎ (16-النحل:36) الخ یعنی ’ ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو اور اللہ کے سوا دوسروں کی عبادت سے بچو ‘ ۔ «حنیف» کی پوری تفسیر سورۃ الانعام میں گزر چکی ہے جسے لوٹانے کی اب ضرورت نہیں ۔ پھر فرمایا «وَیُقِیمُوا الصَّلَاۃَ» ’ نمازوں کو قائم کریں ‘ ، جو کہ بدن کی تمام عبادتوں میں سب سے اعلیٰ عبادت ہے ، «وَیُؤْتُوا الزَّکَاۃَ» ‘ اور زکوٰۃ دیتے رہیں ‘ یعنی فقیروں اور محتاجوں کے ساتھ سلوک کرتے رہیں ، «وَذَلِکَ دِینُ الْقَیِّمَۃِ» ‘ یہی دین مضبوط ، سیدھا ، درست ، عدل والا اور عمدگی والا ہے ‘ ۔ بہت سے ائمہ کرام نے جیسے امام زہری ، امام شافعی رحمہ اللہ علیہم نے اس آیت سے اس امر پر استدلال کیا ہے کہ اعمال ایمان میں داخل ہیں کیونکہ ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ کی خلوص اور یکسوئی کے ساتھ کی عبادت اور نماز و زکوٰۃ کو دین فرمایا گیا ہے ۔ البينة
2 البينة
3 البينة
4 البينة
5 البينة
6 ساری مخلوق سے بہتر اور بدتر کون ہے؟ اللہ تعالیٰ کافروں کا انجام بیان فرماتا ہے ’ وہ کافر خواہ یہود و نصاریٰ ہوں یا مشرکین عرب و عجم ہوں جو بھی انبیاء اللہ کے مخالف ہوں اور کتاب اللہ کے جھٹلانے والے ہوں وہ قیامت کے دن جہنم کی آگ میں ڈال دئیے جائیں گے اور اسی میں پڑے رہیں گے ، نہ وہاں سے نکلیں گے ، نہ رہا ہوں گے ، یہ لوگ تمام مخلوق سے بدتر اور کمتر ہیں ‘ ۔ پھر اپنے نیک بندوں کے انجام کی خبر دیتا ہے ’ جن کے دلوں میں ایمان ہے اور جو اپنے جسموں سے سنت کی بجا آوری میں ہر وقت مصروف رہتے ہیں کہ یہ ساری مخلوق سے بہتر اور بزرگ ہیں ‘ ۔ اس آیت سے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور علماء کرام کی ایک جماعت نے استدلال کیا ہے کہ ایمان والے انسان فرشتوں سے بھی افضل ہیں ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ان کا نیک بدلہ ان کے رب کے پاس ان لازوال جنتوں کی صورت میں ہے ، جن کے چپے چپے پر پاک صاف پانی کی نہریں بہہ رہی ہیں ، جن میں دوام اور ہمیشہ کی زندگی کے ساتھ رہیں گے ، نہ وہاں سے نکالے جائیں ، نہ وہ نعمتیں ان سے جدا ہوں ، نہ کم ہوں ، نہ اور کوئی کھٹکا ہے ، نہ غم ، پھر ان سب سے بڑھ چڑھ کر نعمت و رحمت یہ ہے کہ رضائے رب مرضی مولا انہیں حاصل ہو گئی ہے اور انہیں اس قدر نعمتیں باری تعالیٰ نے عطا فرمائی ہیں کہ یہ بھی دل سے راضی ہو گئے ہیں ۔ پھر ارشاد فرماتا ہے کہ یہ بہترین بدلہ یہ بہت بڑی جزاء یہ اجر عظیم دنیا میں اللہ سے ڈرتے رہنے کا عوض ہے ، ہر وہ شخص جس کے دل میں ڈر ہو ، جس کی عبادت میں اخلاص ہو ، جو جانتا ہو کہ اللہ کی اس پر نظریں ہیں بلکہ عبادت کے وقت اس مشغولی اور دلچسپی سے عبادت کر رہا ہو کہ گویا وہ اپنی آنکھوں سے اپنے خالق ، مالک ، سچے رب اور حقیقی اللہ کو دیکھ رہا ہے ۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” میں تمہیں بتاؤں کہ سب سے بہتر شخص کون ہے ؟ “ لوگوں نے کہا ضرور ، فرمایا : ” وہ شخص جو اپنے گھوڑے کی لگام تھامے ہوئے ہے کہ کب جہاد کی آواز بلند ہو اور کب میں کود کر اس کی پیٹھ پر سوار ہو جاؤں اور گرجتا ہوا دشمن کی فوج میں گھسوں اور داد شجاعت دوں ، لو میں تمہیں ایک اور بہترین مخلوق کی خبر دوں ، وہ شخص جو اپنی بکریوں کے ریوڑ میں ہے ، نہ نماز کو چھوڑتا ہے ، نہ زکوٰۃ سے جی چراتا ہے ۔ آؤ اب میں بدترین مخلوق بتاؤں وہ شخص کہ اللہ کے نام سے سوال کرے اور پھر نہ دیا جائے “ } ۔ ۱؎ (مسند احمد:169/2،حسن) سورۃ «لم یکن» کی تفسیر ختم ہوئی ، اللہ تعالیٰ کا شکر و احسان ہے ۔ البينة
7 البينة
8 البينة
0 الزلزلة
1 مرحلہ وار قیامت زمین اپنے نیچے سے اوپر تک کپکپانے لگے گی اور جتنے مردے اس میں ہیں سب نکال پھینکے گی ۔ جیسے اور جگہ ہے «یَا أَیٰہَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّکُمْ إِنَّ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَیْءٌ عَظِیمٌ» ۱؎ (22-الحج:1) یعنی ’ لوگو اپنے رب سے ڈرو یقین مانو کہ قیامت کا زلزلہ اس دن کا بھونچال بڑی چیز ہے ‘ ۔ اور جگہ ارشاد ہے «وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ» * «وَأَلْقَتْ مَا فِیہَا وَتَخَلَّتْ» ۱؎ (84-الانشقاق:3-4) یعنی ’ جبکہ زمین کھینچ کھانچ کر برابر ہموار کر دی جائیگی اور اس میں جو کچھ ہے وہ اسے باہر ڈال دے گی اور بالکل خالی ہو جائیگی ‘ ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” زمین اپنے کلیجے کے ٹکڑوں کو اگل دے گی ، سونا چاندی مثل ستونوں کے باہر نکل پڑے گا ، قاتل اسے دیکھ کر افسوس کرتا ہوا کہے گا کہ ہائے اسی مال کے لیے میں نے فلاں کو قتل کیا تھا ، آج یہ یوں ادھر ادھر بکھر رہا ہے کوئی آنکھ بھر کر دیکھتا بھی نہیں ، اسی طرح صلہ رحمی توڑنے والا بھی کہے گا کہ اسی کی محبت میں آ کر رشتہ داروں سے میں سلوک نہیں کرتا تھا ، چور بھی کہے گا کہ اسی کی محبت میں میں نے ہاتھ کٹوا دئیے تھے غرض وہ مال یونہی بکھرا پھرے گا کوئی نہیں لے گا “ ۱؎ (صحیح مسلم:1013) ، انسان اس وقت ہکا بکا رہ جائے گا اور کہے گا یہ تو ہلنے جلنے والی نہ تھی بلکہ ٹھہری ہوئی بوجھل اور جمی ہوئی تھی اسے کیا ہو گیا کہ یوں بید کی طرح تھرانے لگی اور ساتھ ہی جب دیکھے گا کہ تمام پہلی پچھلی لاشیں بھی زمین نے اگل دیں تو اور حیران و پریشان ہو جائے گا کہ آخر اسے کیا ہو گیا ہے ؟ پس زمین بالکل بدل دی جائے گی اور آسمان بھی اور سب لوگ اس قہار اللہ کے سامنے کھڑے ہو جائیں گے زمین کھلے طور پر صاف صاف گواہی دے گی کہ فلاں فلاں شخص نے فلاں فلاں زیادتی اس شخص پر کی ہے ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کر کے فرمایا : ” جانتے بھی ہو کہ زمین کی بیان کردہ خبریں کیا ہوں گی “ ، لوگوں نے کہا : اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ہی کو علم ہے ، تو آپ نے فرمایا : ” جو جو اعمال بنی آدم نے زمین پر کیے ہیں وہ تمام وہ ظاہر کر دے گی کہ فلاں فلاں شخص نے فلاں نیکی یا بدی فلاں جگہ فلاں وقت کی ہے “ } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3353:قال الشیخ الألبانی:ضعیف الإسناد) امام ترمذی اس حدیث کو حسن صحیح غریب بتلاتے ہیں معجم طبرانی میں ہے کہ { آپ نے فرمایا : ” زمین سے بچو یہ تمہاری ماں ہے جو شخص جو نیکی بدی اس پر کرتا ہے یہ سب کھول کھول کر بیان کر دے گی “ } ۔ ۱؎ (طبرانی:4596:ضعیف) یہاں «وحی» سے مراد حکم دینا ہے «اوحی» اور اس کے ہم معنی افعال کا صلہ حرف «لام» بھی آتا ہے «الی» بھی ۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ اسے فرمائے گا کہ بتا اور وہ بتاتی جائیگی اس دن لوگ حساب کی جگہ سے مختلف قسموں کی جماعتیں بن بن کر لوٹیں گے کوئی بد ہو گا کوئی نیک کوئی جنتی بنا ہو گا کوئی جہنمی ۔ یہ معنی بھی ہیں کہ یہاں سے جو الگ الگ ہوں گے تو پھر اجتماع نہ ہو گا یہ اس لیے کہ وہ اپنے اعمال کو جان لیں اور بھلائی برائی کا بدلہ پا لیں گے اسی لیے آخر میں بھی بیان فرما دیا ۔ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ گھوڑوں والے تین قسم کے ہیں ، ایک اجر پانے والا ، ایک پردہ پوشی والا اور ایک بوجھ اور گناہ والا اجر والا تو وہ ہے جو گھوڑا پالتا ہے جہاد کی نیت سے اگر اس کے گھوڑے کی اگاڑی پچھاڑی ڈھیلی ہو گئی اور یہ ادھر ادھر سے چرتا رہا تو یہ بھی گھوڑے والے کے لیے اجر کا باعث ہے اور اگر اس کی رسی ٹوٹ گئی اور یہ ادھر ادھر چلا گیا تو اس کے نشان قدم اور لید کا بھی اسے ثواب ملتا ہے اگر یہ کسی نہر پر جا کر پانی پی لے چاہے پلانے کا ارادہ نہ ہو تو بھی ثواب مل جاتا ، یہ گھوڑا تو اس کے لیے سراسر اجر و ثواب ہے دوسرا وہ شخص جس نے اس لیے پال رکھا ہے کہ دوسروں سے بےپرواہ اور کسی سے سوال کی ضرورت نہ ہو لیکن اللہ کا حق نہ تو اس بارے میں بھولتا ہے نہ اس کی سواری میں پس یہ اس کے لیے پردہ ہے تیسرا وہ شخص ہے جس نے فخر و ریا کاری اور ظلم و ستم کے لیے پال رکھا ہے پس یہ اس کے ذمہ بوجھ اور اس پر گناہ کا بار ہے ، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ گدھوں کے بارے میں کیا حکم ہے آپ نے فرمایا : ” مجھ پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے سوائے تنہا اور جامع آیت کے اور کچھ نازل نہیں ہوا کہ ذرہ برابر نیکی یا بدی ہر شخص دیکھ لے گا “ } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:987) سیدنا صعصعہ بن مالک رضی اللہ عنہ نے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی یہ آیت سن کر کہہ دیا کہ صرف یہی آیت کافی ہے اور زیادہ اگر نہ بھی سنوں تو کوئی ضرورت نہیں ۔ (مسند احمد:59/5:صحیح) صحیح بخاری میں بروایت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ { آگ سے بچو اگرچہ آدھی کھجور کا صدقہ ہی ہو } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1413) اسی طرح صحیح حدیث میں ہے کہ { نیکی کے کام کو ہلکا نہ سمجھو گو اتنا ہی کام ہو کہ تو اپنے ڈول میں سے ذرا سا پانی کسی پیاسے کو پلوا دے یا اپنے کسی مسلمان بھائی سے کشادہ روئی اور خندہ پیشانی سے ملاقات کر لے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:63/5:صحیح) دوسری ایک صحیح حدیث میں ہے ، { اے ایمان والی عورتو ! تم پڑوسن کے بھیجے ہوئے تحفے یا ہدئے کو حقیر نہ سمجھو گو ایک کھر ہی آیا ہو } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2566) اور حدیث میں ہے کہ { سائل کو کچھ نہ کچھ دے دو گو جلا ہوا کھر ہی ہو } ۔ ۱؎ (مسند احمد:435/6) مسند احمد کی حدیث میں ہے ، { اے عائشہ ! گناہوں کو حقیر نہ سمجھو یاد رکھو کہ ان کا بھی حساب لینے والا ہے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:70/6) ابن جریر میں ہے کہ { سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے کہ یہ آیت اتری تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کھانے سے ہاتھ اٹھا لیا اور پوچھنے لگے کہ یا رسول اللہ ! کیا میں ایک ایک ذرے برابر کا بدلہ دیا جاؤں گا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اے صدیق دنیا میں جو جو تکلیفیں تمہیں پہنچی ہیں یہ تو اس میں آ گئیں اور نیکیاں تمہارے لیے اللہ کے ہاں ذخیرہ بنی ہوئی ہیں اور ان سب کا پورا پورا بدلہ قیامت کے دن تمہیں دیا جائے گا “ } ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:37747) ابن جریر کی ایک اور روایت میں ہے کہ { یہ سورت سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں نازل ہوئی تھی آپ اسے سن کر بہت روئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سبب پوچھا : تو آپ نے فرمایا : مجھے یہ سورت رلا رہی ہے آپ نے فرمایا : ” اگر تم خطا اور گناہ نہ کرتے کہ تمہیں بخشا جائے اور معاف کیا جائے تو اللہ تعالیٰ کسی اور امت کو پیدا کرتا جو خطا اور گناہ کرتے اور اللہ انہیں بخشتا “ } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:37760:حسن) { سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ آیت سن کر پوچھا : اے اللہ کے رسول ! کیا مجھے اپنے سب اعمال دیکھنے پڑیں گے آپ نے فرمایا : ” ہاں “ ، پوچھا : بڑے بڑے ، فرمایا : ” ہاں “ ، پوچھا : اور چھوٹے چھوٹے بھی ، فرمایا : ” ہاں “ ، میں نے کہا ، ہائے افسوس ! آپ نے فرمایا : ” ابوسعید خوش ہو جاؤ ، نیکی تو دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک بلکہ اس سے بھی زیادہ تک اللہ جسے چاہے دے گا ہاں گناہ اسی کے مثل ہوں گے یا اللہ تعالیٰ اسے بھی بخش دے گا ، سنو ! کسی شخص کو صرف اس کے اعمال نجات نہ دے سکیں گے “ ، میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! کیا آپ کو بھی نہیں ؟ فرمایا : ” نہ مجھے ہی مگر یہ کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی رحمت سے مجھے ڈھانپ لے “ } ۔ [ اسنادہ ضعیف : اس کی سند ابن لہیعہ کی وجہ سے ضعیف ہے ـ ] اس کے راویوں میں ایک ابن لہیعہ ہیں یہ روایت صرف انہی سے مروی ہے ۔ سعید بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : جب آیت «وَیُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَیٰ حُبِّہِ مِسْکِینًا وَیَتِیمًا وَأَسِیرًا» (76-الإنسان:8) نازل ہوئی یعنی مال کی محبت کے باوجود مسکین ، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں تو لوگ یہ سمجھ گئے کہ اگر ہم تھوڑی سی چیز راہ اللہ دیں گے تو کوئی ثواب نہ ملے گا مسکین ان کے دروازے پر آتا لیکن ایک آدھ کھجور یا روٹی کا ٹکڑا وغیرہ دینے کو حقارت خیال کر کے یونہی لوٹا دیتے تھے کہ اگر دیں تو کوئی اچھی محبوب و مرغوب چیز دیں ادھر تو ایک جماعت یہ تھی ، دوسری جماعت وہ تھی جنہیں یہ خیال پیدا ہو گیا تھا کہ چھوٹے چھوٹے گناہوں پر ہماری پکڑ نہ ہو گی مثلا کبھی کوئی جھوٹ بات کہہ دی کبھی ادھر ادھر نظریں ڈال لیں ، کبھی غیبت کر لی وغیرہ جہنم کی وعید تو کبیرہ گناہوں پر ہے تو یہ آیت «فَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَرَہُ» (99-الزلزلہ:7) نازل ہوئی ۔ اور انہیں بتایا گیا کہ چھوٹی سی نیکی کو حقیر نہ سمجھو یہ بڑی ہو کر ملے گی اور تھوڑے سے گناہ کو بھی بےجان نہ سمجھو کہیں تھوڑا تھوڑا مل کر بہت نہ بن جائے «ذرہ» کے معنی چھوٹی چیونٹی کے ہیں ، یعنی نیکیوں اور برائیوں کو چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی اپنے نامہ اعمال میں دیکھ لے گا بدی تو ایک ہی لکھی جاتی ہے نیکی ایک کے بدلے دس بلکہ جس کے لیے اللہ چاہے اس سے بھی بہت زیادہ بلکہ ان نیکیوں کے بدلے برائیاں بھی معاف ہو جاتی ہیں ایک ایک کے بدلے دس دس بدیاں معاف ہو جاتی ہیں پھر یہ بھی ہے کہ جس کی نیکی برائی سے ایک ذرے کے برابر بڑھ گئی وہ جنتی ہو گیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” گناہوں کو ہلکا نہ سمجھا کرو یہ سب جمع ہو کر آدمی کو ہلاک کر ڈالتے ہیں “ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان برائیوں کی مثال بیان کی کہ جیسے کچھ لوگ کسی جگہ اترے پھر ایک ایک دو دو لکڑیاں چن لائے تو لکڑیوں کا ڈھیر لگ جائے گا پھر اگر انہیں سلگایا جائے تو اس وقت اس آگ پر جو چاہیں پکا سکتے ہیں [ اسی طرح تھوڑے تھوڑے گناہ بہت زیادہ ہو کر آگ کا کام کرتے ہیں اور انسان کو جلا دیتے ہیں ] } ۱؎ ۔ (مسند احمد:402/1:صحیح لغیرہ) سورۃ اذازلزلت کی تفسیر ختم ہوئی ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» الزلزلة
2 الزلزلة
3 الزلزلة
4 الزلزلة
5 الزلزلة
6 الزلزلة
7 الزلزلة
8 الزلزلة
0 العاديات
1 انسان کا نفسیاتی تجزیہ مجاہدین کے گھوڑے جبکہ اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے ہانپتے اور ہنہناتے ہوئے دوڑتے ہیں ان کی اللہ تبارک و تعالیٰ قسم کھاتا ہے پھر اس تیزی میں دوڑتے ہوئے پتھروں کے ساتھ ان کے نعل کا ٹکرانا اور اس رگڑ سے آگ کی چنگاڑیاں اڑنا پھر صبح کے وقت دشمن پر ان کا چھاپہ مارنا اور دشمنان رب کو تہہ و بالا کرنا ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی عادت مبارک تھی کہ دشمن کی کسی بستی پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم جاتے تو وہاں رات کو ٹھہر کر کان لگا کر سنتے اگر اذان کی آواز آ گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم رک جاتے ، نہ آتی تو لشکر کو حکم دیتے کہ بزن بول دیں } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:382) پھر ان گھوڑوں کا گردو غبار اڑانا اور ان سب کا دشمنوں کے درمیان گھس جانا ان سب چیزوں کی قسم کھا کر پھر مضمون شروع ہوتا ہے ۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ «وَالْعَادِیَاتِ» سے مراد اونٹ ہیں سیدنا علی رضی اللہ عنہ بھی یہی فرماتے ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول کہ ” اس سے مراد گھوڑے ہیں “ ، جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا : ” گھوڑے ہمارے بدر والے دن تھے ہی کب ، یہ تو اس چھوٹے لشکر میں تھے جو بھیجا گیا تھا “ ۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ایک مرتبہ حطیم میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص نے آ کر اس آیت کی تفسیر پوچھی تو آپ نے فرمایا : ” اس سے مراد مجاہدین کے گھوڑے ہیں جو بوقت جہاد دشمنوں پر دھاوا بولتے ہیں پھر رات کے وقت یہ گھڑ سوار مجاہد اپنے کیمپ میں آ کر کھانے پکانے کے لیے آگ جلاتے ہیں “ ۔ وہ یہ پوچھ کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس گیا آپ اس وقت زمزم کا پانی لوگوں کو پلا رہے تھے اس نے آپ سے بھی یہی سوال کیا آپ نے فرمایا : ” مجھ سے پہلے کسی اور سے بھی تم نے پوچھا ہے ؟ “ کہا ہاں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا ہے تو انہوں نے فرمایا ” مجاہدین کے گھوڑے ہیں جو اللہ کی راہ میں دھاوا بولیں “ ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ” جانا ذرا انہیں میرے پاس بلانا “ ، جب وہ آ گئے تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ” تمہیں معلوم نہیں اور تم لوگوں کو فتوے دے رہے ہو ، اللہ کی قسم پہلا غزوہ اسلام میں بدر کا ہوا اس لڑائی میں ہمارے ساتھ صرف دو گھوڑے تھے ایک زبیر رضی اللہ عنہ کا دوسرا مقداد رضی اللہ عنہ کا ، تو «عَادِیَاتِ ضَبْحًا» یہ کیسے ہو سکتے ہیں اس سے مراد تو عرفات سے مزدلفہ کی طرف جانے والے اور پھر مزدلفہ سے منیٰ کی طرف جانے والے ہیں “ ۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” یہ سن کر میں نے اپنے اگلے قول سے رجوع کر لیا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے جو فرمایا تھا وہی کہنے لگا “ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:272/30:حسن) مزدلفہ میں پہنچ کر حاجی بھی اپنی ہنڈیا روٹی کے لیے آگ سلگاتے ہیں ، غرض سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا فرمان یہ ہوا کہ اس سے مراد اونٹ ہیں اور یہی قول ایک جماعت کا ہے ۔ جن میں ابراہیم عبید بن عمیر وغیرہ ہیں اور ابن عباس رضی اللہ عنہما سے گھوڑے مروی ہیں ۔ مجاہد ، عکرمہ ، عطاء ، قتادہ اور ضحاک رحمہ اللہ علیہم بھی یہی کہتے ہیں اور امام ابن جریر رحمہ اللہ بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں بلکہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور عطا رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ «ضَبْحً» یعنی ہانپنا کسی جانور کے لیے نہیں ہوتا سوائے گھوڑے اور کتے کے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ” ان کے منہ سے ہانپتے ہوئے جو آواز [ اح اح ] کی نکلتی ہے یہی «ضَبْحً» ہے اور دوسرے جملے کے ایک تو معنی یہ کیے گئے ہیں کہ ان گھوڑوں کی ٹاپوں کا پتھر سے ٹکرا کر آگ پیدا کرنا اور دوسرے معنی یہ بھی کیے گئے ہیں کہ ان کے سواروں کا لڑائی کی آگ کو بھڑکانا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ لڑائی میں مکر و دھوکہ کرنا اور یہ بھی مروی ہے کہ راتوں کو اپنی قیام گاہ پر پہنچ کر آگ روشن کرنا اور مزدلفہ میں حاجیوں کا بعد از مغرب پہنچ کر آگ جلانا ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” میرے نزدیک سب سے زیادہ ٹھیک قول یہی ہے کہ گھوڑوں کی ٹاپوں اور سموں کا پتھر سے رگڑ کھا کر آگ پیدا کرنا پھر صبح کے وقت مجاہدین کا دشمنوں پر اچانک ٹوٹ پڑنا “ ، اور جن صاحبان نے اس سے مراد اونٹ لیے ہیں وہ فرماتے ہیں ” اس سے مراد مزدلفہ سے منیٰ کی طرف صبح کو جانا ہے “ ۔ پھر یہ سب کہتے ہیں کہ پھر ان کا جس مکان میں یہ اترے ہیں خواہ جہاد میں ہوں ، خواہ حج میں غبار اڑانا ، پھر ان مجاہدین کا کفار کی فوجوں میں مردانہ گھس جانا اور چیرتے پھاڑتے مارتے پچھاڑتے ان کے بیچ لشکر میں پہنچ جانا اور یہ بھی مراد ہو سکتی ہے کہ سب جمع ہو کر اس جگہ درمیان میں آ جاتے ہیں تو اس صورت میں «جَمْعاً» حال موکد ہونے کی وجہ سے منصوب ہو گا ابوبکر بزار میں اس جگہ ایک غریب حدیث ہے جس میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر بھیجا تھا ایک مہینہ گزر گیا لیکن اس کی کوئی خبر نہ آئی اس پر یہ آیتیں اتریں اور اس لشکر کی اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ ان کے گھوڑے ہانپتے ہوئے تیز چال سے گئے ان کے سموں کی ٹکر سے چنگاڑیاں اڑ رہی تھیں انہوں نے صبح ہی صبح دشمنوں پر پوری یلغار کے ساتھ حملہ کر دیا ان کی ٹاپوں سے گرد اڑ رہی تھی پھر غالب آ کر سب جمع ہو کر بیٹھ گئے } ۔ ۱؎ (مسند بزار:2291:ضعیف) ان قسموں کے بعد اب وہ مضمون بیان ہو رہا ہے جس پر قسمیں کھائیں گئی تھیں کہ انسان اپنے رب کی نعمتوں کا قدردان نہیں اگر کوئی دکھ درد کسی وقت آ گیا ہے تو وہ تو بخوبی یاد رکھتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی ہزارہا نعمتیں جو ہیں سب کو بھلائے ہوئے ہے ۔ ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے کہ { «کَنُوْد» وہ ہے جو تنہا کھائے غلاموں کو مارے اور آسان سلوک نہ کرے } ۔ ۱؎ (طبرانی:3778:مرفوعا ضعیف) اس کی اسناد ضعیف ہے ۔ پھر فرمایا ’ اللہ اس پر شاہد ہے ‘ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ خود اس بات پر اپنا گواہ آپ ہے اس کی ناشکری اس کے افعال و اقوال سے صاف ظاہر ہے ۔ جیسے اور جگہ ہے «مَا کَانَ لِلْمُشْرِکِینَ أَن یَعْمُرُوا مَسَاجِدَ اللہِ شَاہِدِینَ عَلَیٰ أَنفُسِہِم بِالْکُفْرِ» ۱؎ (9-التوبۃ:17) یعنی ’ مشرکین سے اللہ تعالیٰ کی مسجدوں کی آبادی نہیں ہو سکتی جبکہ یہ اپنے فکر کے آپ گواہ ہیں ‘ ۔ پھر فرمایا ’ یہ مال کی چاہت میں بڑا سخت ہے ‘ یعنی اسے مال کی بے حد محبت ہے اور یہ بھی معنی ہیں کہ اس کی محبت میں پھنس کر ہماری راہ میں دینے سے جی چراتا اور بخل کرتا ہے ۔ پھر پروردگار عالم اسے دنیا سے بے رغبت کرنے اور آخرت کی طرف متوجہ کرنے کے لیے فرما رہا ہے کہ کیا انسان کو یہ معلوم نہیں کہ ایک وقت وہ آ رہا ہے کہ جب تمام مردے قبروں سے نکل کھڑے ہوں گے اور جو کچھ باتیں چھپی لگی ہوئی تھیں سب ظاہر ہو جائیں گی ، سن لو ان کا رب ان کے تمام کاموں سے باخبر ہے اور ہر ایک عمل کا بدلہ پورا پورا دینے والا ہے ایک ذرے کے برابر ظلم وہ روا نہیں رکھتا اور نہ رکھے ۔ سورۃ العادیات کی تفسیر اللہ کے فضل و احسان سے ختم ہوئی ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» العاديات
2 العاديات
3 العاديات
4 العاديات
5 العاديات
6 العاديات
7 العاديات
8 العاديات
9 العاديات
10 العاديات
11 العاديات
0 القارعة
1 اعمال کا ترازو «قارعہ» بھی قیامت کا ایک نام ہے جیسے «الْحَاقَّۃِ» ، «الطَّامَّۃِ» ، «الصَّاخَّۃِ» ، «الْغَاشِیَۃِ» وغیرہ اس کی بڑائی اور ہولناکی کے بیان کے لیے سوال ہوتا ہے کہ وہ کیا چیز ہے ؟ اس کا علم بغیر میرے بتائے کسی کو حاصل نہیں ہو سکتا ، پھر خود بتاتا ہے کہ اس دن لوگ منتشر اور پراگندہ حیران و پریشان ادھر ادھر گھوم رہے ہوں گے ، جس طرح پروانے ہوتے ہیں ۔ اور جگہ فرمایا ہے «کَأَنَّہُمْ جَرَادٌ مٰنتَشِرٌ» ۱؎ (54-القمر:7) گویا وہ ٹڈیاں ہیں پھیلی ہوئیں ۔ پھر فرمایا : پہاڑوں کا یہ حال ہو گا کہ وہ دھنی ہوئی اون کی طرح ادھر ادھر اڑتے نظر آئیں گے ، پھر فرماتا ہے اس دن ہر نیک و بد کا انجام ظاہر ہو جائے گا ، نیکوں کی بزرگی اور بروں کی اہانت کھل جائے گی ، جس کی نیکیاں وزن میں برائیوں سے بڑھ گئیں وہ عیش و آرام کی زندگی جنت میں بسر کرے گا ، اور جس کی بدیاں نیکیوں پر چھا گئیں ، بھلائیوں کا پلڑا ہلکا ہو گیا وہ جہنمی ہو جائے گا ، وہ منہ کے بل اوندھا جہنم میں گرا دیا جائے گا ۔ «ام» سے مراد دماغ ہے یعنی سر کے بل «ہاویہ» میں جائے گا اور یہ بھی معنی ہیں کہ فرشتے جہنم میں اس کے سر پر عذابوں کی بارش برسائیں گے اور یہ بھی مطلب ہے کہ اس کا اصلی ٹھکانا وہ جگہ ہے جہاں اس کے لیے قرار گاہ مقرر کیا گیا ہے وہ جہنم ہے ۔ «ہَاوِیَۃٌ » جہنم کا نام ہے اسی لیے اس کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ تمہیں نہیں معلوم کہ «ہاویہ» کیا ہے ؟ اب میں بتاتا ہوں کہ وہ شعلے مارتی بھڑکتی ہوئی آگ ہے ۔ اشعث بن عبداللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مومن کی موت کے بعد فرشے اس کی روح کو ایمانداروں کی روحوں کی طرف لے جاتے ہیں اور فرتے ان سے کہتے ہیں کہ اپنے بھائی کی دلجوئی اور تسکین کرو یہ دنیا کے رنج و غم میں مبتلا تھا ، اب وہ نیک روحیں اس سے پوچھتی ہیں کہ فلاں کا کیا حال ہے ؟ وہ کہتا ہے کہ وہ تو مر چکا تمہارے پاس نہیں آیا تو یہ سمجھ لیتے ہیں اور کہتے ہیں پھونکو اسے وہ تو اپنی ماں «ہاویہ» میں پہنچا ۔ ابن مردویہ کی ایک مرفوع حدیث میں یہ بیان خوب سبط سے ہے اور ہم نے بھی اسے کتاب «صفتہ النار» میں وارد کیا ہے ، اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے فضل و کرم سے اس آگ جہنم سے نجات دے ، آمین ! پھر فرماتا ہے کہ وہ سخت تیز حرارت والی آگ ہے بڑے شعلے مارنے والی جھلسا دینے والی ۔ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” تمہاری یہ آگ تو اس کا سترھواں حصہ ہے “ ، لوگوں نے کہا : یا رسول اللہ ! ہلاکت کو تو یہی کافی ہے ، آپ نے فرمایا : ” ہاں ، لیکن آتش دوزخ تو اس سے انہتر حصے تیز ہے “ } ۔ صحیح بخاری میں یہ حدیث ہے اور اس میں یہ بھی ہے کہ { ہر ایک حصہ اس آگ جیسا ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3265) مسند احمد میں بھی یہ روایت موجود ہے ۔ ۱؎ (مسند احمد:467/2:صحیح) مسند احمد کی ایک حدیث میں اس کے ساتھ یہ بھی ہے کہ { یہ آگ باوجود اس آگ کا سترھواں حصہ ہونے کے پھر بھی دو مرتبہ سمندر کے پانی میں بجھا کر بھیجی گئی ہے اگر یہ نہ ہوتا تو اس سے بھی نفع نہ اٹھا سکتے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:244/2:صحیح) اور حدیث میں ہے { یہ آگ سوواں حصہ ہے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:379/2:اسنادہ قوی) طبرانی میں ہے { جانتے ہو کہ تمہاری اس آگ اور جہنم کی آگ کے درمیان کیا نسبت ہے ؟ تمہاری اس آگ کے دھوئیں سے بھی ستر حصہ زیادہ سیاہ خود وہ آگ ہے } ۔ ۱؎ (طبرانی اوسط:489:صحیح) ترمذی اور ابن ماجہ میں حدیث ہے کہ { جہنم کی آگ ایک ہزار سال تک جلائی گئی تو سرخ ہوئی پھر ایک ہزار سال تک جلائی گئی تو سفید ہو گئی پھر ایک ہزار سال تک جلائی گئی تو سیاہ ہو گئی ، پس وہ سخت سیاہ اور بالکل اندھیرے والی ہے } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:4320،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ { سب سے ہلکے عذاب والا جہنمی وہ ہے ، جس کے پیروں میں آگ کی دو جوتیاں ہوں گی ، جس سے اس کا دماغ کھدبدا رہا ہو گا } ۔ ۱؎ (مسند احمد:432/2:صحیح لغیرہ) بخاری و مسلم میں ہے کہ { آگ نے اپنے رب سے شکایت کی کہ اے اللہ ! میرا ایک حصہ دوسرے کو کھائے جا رہا ہے تو پروردگار نے اسے دو سانس لینے کی اجازت دی ایک جاڑے میں ، ایک گرمی میں ، پس سخت جاڑا جو تم پاتے ہو اس کا سرد سانس ہے اور سخت گرمی جو پڑتی ہے یہ اس کے گرم سانس کا اثر ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3657) اور حدیث میں ہے کہ { جب گرمی شدت کی پڑے تو نماز ٹھنڈی کر کے پڑھو گرمی کی سختی جہنم کے جوش کی وجہ سے ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:536) «الْحَمْدُ لِلّٰہ» سورۃ القارعہ کی تفسیر ختم ہوئی ۔ القارعة
2 القارعة
3 القارعة
4 القارعة
5 القارعة
6 القارعة
7 القارعة
8 القارعة
9 القارعة
10 القارعة
11 القارعة
0 التکاثر
1 مال و دولت اور اعمال ارشاد ہوتا ہے کہ دنیا کی محبت ، اس کے پا لینے کی کوشش نے تمہیں آخرت کی طلب اور نیک کاموں سے بےپرواہ کر دیا ، تم اسی دنیا کی ادھیڑ بن میں رہے کہ اچانک موت آ گئی اور تم قبروں میں پہنچ گئے ۔ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” اطاعت پروردگار سے تم نے دنیا کی جستجو میں پھنس کر بےرغبتی کر لی اور مرتے دم تک غفلت برتی “ } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:ضعیف ولا اصل لہ) حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں مال اور اولاد کی زیادتی کی ہوس میں موت کا خیال پرے پھینک دیا صحیح بخاری کتاب الرقاق میں ہے کہ { سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم «لَوْ کَانَ لِابْنِ آدَم وَادٍ مِنْ ذَہَب» یعنی اگر ابن آدم کے پاس ایک جنگل بھر کر سونا ہو } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6440) اسے قرآن کی آیت ہی سمجھتے رہے ، یہاں تک کہ «أَلْہَاکُمُ التَّکَاثُرُ» ۱؎ (102-التکاثر:1) نازل ہوئی ۔ مسند احمد میں ہے { سیدنا عبداللہ بن شخیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جب آیا تو آپ اس آیت کو پڑھ رہے تھے آپ نے فرمایا : ” ابن آدم کہتا رہتا ہے کہ میرا مال ، میرا مال ، حالانکہ تیرا مال صرف وہ ہے جسے تو نے کھا کر فنا کر دیا یا پہن کر پھاڑ دیا یا صدقہ دے کر باقی رکھ لیا “ } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2958) صحیح مسلم میں اتنا اور زیادہ ہے کہ { اس کے سوا جو کچھ ہے اسے تو تو لوگوں کے لیے چھوڑ چھاڑ کر چل دے گا } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2959) صحیح بخاری کی حدیث میں ہے کہ { میت کے ساتھ تین چیزیں جاتی ہیں جن میں سے دو تو پلٹ آتی ہیں صرف ایک ساتھ رہ جاتی ہے ، گھر والے ، مال اور اعمال ۔ اہل و مال لوٹ آئے عمل ساتھ رہ گئے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6514) مسند احمد کی حدیث میں ہے { ابن آدم بوڑھا ہو جاتا ہے لیکن دو چیزیں اس کے ساتھ باقی رہ جاتی ہیں لالچ اور امنگ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6421) ضحاک رحمہ اللہ نے ایک شخص کے ہاتھ میں ایک درہم دیکھ کر پوچھا یہ درہم کس کا ہے ؟ اس نے کہا میرا ، فرمایا : تیرا تو اس وقت ہو گا کہ کسی نیک کام میں تو خرچ کر دے یا بطور شکر رب کے خرچ کر ۔ احنف رحمہ اللہ نے اس واقعہ کو بیان کر کے پھر یہ شعر پڑھا : «أَنْتَ لِلْمَالِ إِذَا أَمْسَکْتہ *** فَإِذَا أَنْفَقْتہ فَالْمَال لَک» یعنی ” جب کہ تو مال کو لیے بیٹھا ہے ، تو تو مال کی ملکیت ہے ہاں جب اسے خرچ کر دے گا اس وقت مال تیری ملکیت میں ہو جائے گا “ ۔ ابن بریدہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں بنو حارثہ اور بنو حارث انصار کے قبائل آپس میں فخر و غرور کرنے لگے ایک کہتا دیکھو ہم میں فلاں شخص ایسا بہادر ایسا جیوٹ یا اتنا بڑا مالدار وغیرہ ہے، دوسرے قبیلے والے اپنے میں سے ایسوں کو پیش کرتے تھے جب زندوں کے ساتھ یہ فخر و مباہات کر چکے تو کہنے لگے آؤ قبرستان میں چلیں وہاں جا کر اپنے اپنے مردوں کی قبروں کی طرف اشارے کر کے کہنے لگے بتلاؤ اس جیسا بھی تم میں کوئی گزرا ہے ؟ وہ انہیں اپنے مردوں کے ساتھ الزام دینے لگے اس پر یہ دونوں ابتدائی آیتیں اتریں کہ تم فخر و مباہات کرتے ہوئے قبرستان میں پہنچ گئے اور اپنے مردوں پر بھی فخر و غرور کرنے لگے ، چاہیئے تھا کہ یہاں آ کر عبرت حاصل کرتے اپنا مرنا اور سڑنا گلنا یاد کرتے ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ لوگ اپنی زیادتی اور اپنی کثرت پر گھمنڈ کرتے تھے یہاں تک کہ ایک ایک ہو کر قبروں میں پہنچ گئے ۔ مطلب یہ ہے کہ بہتات کی چاہت نے غفلت میں ہی رکھا یہاں تک کہ مر گئے اور قبروں میں دفن ہو گئے ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک اعرابی کی بیمار پرسی کو گئے اور حسب عادت فرمایا : ” کوئی ڈر خوف نہیں ان شاءاللہ گناہوں سے پاکیزگی حاصل ہو گی “ ، تو اس نے کہا : آپ اسے خوب پاک بتلا رہے ہیں یہ تو وہ بخار ہے جو بوڑھے بڑوں پر جوش مارتا ہے اور قبرستان تک پہنچا کر رہتا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اچھا پھر یوں ہی سہی “ } ۱؎ ۔ (صحیح بخاری:5656) اس حدیث میں بھی لفظ «تُزِیرہُ الْقُبُور» ہے اور یہاں قرآن میں بھی «زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ» ہے پس معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد مر کر قبر میں دفن ہونا ہی ہے ۔ ترمذی میں ہے { سیدنا علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ جب تک یہ آیت نہ اتری ہم عذاب قبر کے بارے میں شک میں ہی رہے } ۱؎ ۔ (سنن ترمذی:3355،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) یہ حدیث غریب ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اس آیت کی تلاوت کی پھر کچھ دیر سوچ کر فرمانے لگے : میمون ! قبروں کا دیکھنا تو صرف بطور زیارت ہے اور ہر زیارت کرنے والا اپنی جگہ لوٹ جاتا ہے یعنی خواہ جنت کی طرف خواہ دوزخ کی طرف ، ایک اعرابی نے بھی ایک شخص کی زبانی ان دونوں آیتوں کی تلاوت سن کر یہی فرمایا تھا کہ اصل مقام اور ہی ہے ۔ پھر اللہ تعالیٰ دھمکاتے ہوئے دو دو مرتبہ فرماتا ہے کہ حقیقت حال کا علم تمہیں ابھی ہو جائے گا یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے کہ پہلے مراد کفار ہیں دوبارہ مومن مراد ہیں پھر فرماتا ہے کہ اگر تم علم یقینی کے ساتھ اسے معلوم کر لیتے یعنی اگر ایسا ہوتا تو تم غفلت میں نہ پڑتے اور مرتے دم تک اپنی آخری منزل آخرت سے غافل نہ رہتے پھر جس چیز سے پہلے دھمکایا تھا اسی کا بیان کر رہا ہے کہ تم جہنم کو ان آنکھوں سے دیکھ لو گے کہ اس کی ایک ہی جنبش کے ساتھ اور تو اور انبیاء علیہم السلام بھی ہیبت و خوف کے مارے گھٹنوں کے بل گر جائیں گے ، اس کی عظمت اور دہشت ہر دل پر چھائی ہوئی ہو گی ، جیسے کہ بہت سی احادیث میں بہ تفصیل مروی ہے ۔ پھر فرمایا کہ اس دن تم سے نعمتوں کی باز پرس ہو گی ، صحت ، امن ، رزق وغیرہ تمام نعمتوں کی نسبت سوال ہو گا کہ ان کا شکر کہاں تک ادا کیا ۔ ابن ابی حاتم کی ایک غریب حدیث میں ہے کہ { ٹھیک دوپہر کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر سے چلے دیکھا تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی مسجد میں آ رہے ہیں پوچھا : کہ ” اس وقت کیسے نکلے ہو ؟ “ کہا : اے اللہ کے رسول ! جس چیز نے آپ کو نکالا ہے اسی نے مجھے بھی نکالا ہے ، اتنے میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی آ گئے ان سے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی سوال کیا اور آپ نے بھی یہی جواب دیا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں بزرگوں سے باتیں کرنی شروع کیں ، پھر فرمایا : ” اگر ہمت ہو تو اس باغ تک چلے چلو کھانا پینا مل ہی جائے گا اور سائے دار جگہ بھی ، ہم نے کہا بہت اچھا “ ، پس آپ ہمیں لے کر سیدنا ابوالہیشم انصاری رضی اللہ عنہ کے باغ کے دروازہ پر آئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کیا اور اجازت چاہی ، سیدہ ام ہیثم انصاریہ رضی اللہ عنہا دروازے کے پیچھے ہی کھڑی تھیں سن رہی تھیں لیکن اونچی آواز سے جواب نہیں دیا اور اس لالچ سے کہ اللہ کے رسول اور زیادہ سلامتی کی دعا کریں اور کئی کئی مرتبہ آپ کا سلام سنیں جب تین مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سلام کر چکے اور کوئی جواب نہ ملا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس چلے دئیے ، اب تو ابوالہیشم کی بیوی صاحبہ دوڑیں اور کہا : اے اللہ کے نبی ! میں آپ کی آواز سن رہی تھی لیکن میرا ارادہ تھا کہ اللہ کرے آپ کئی کئی مرتبہ سلام کریں اس لیے میں نے اپنی آواز آپ کو نہ سنائی ، آپ آئیے تشریف لے چلئے ، آپ نے ان کے اس فعل کو اچھی نظروں سے دیکھا پھر پوچھا کہ خود ابوالہیشم کہاں ہیں مائی صاحبہ نے فرمایا : اے اللہ کے نبی ! وہ بھی یہیں قریب ہی پانی لینے گئے ہیں ، آپ تشریف لائیے ، ان شاءاللہ آتے ہی ہوں گے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باغ میں رونق افروز ہوئے ، مائی صاحبہ نے ایک سایہ دار درخت تلے کچھ بچھا دیا جس پر آپ بیٹھ گئے، اتنے میں ہی ابوالہیشم رضی اللہ عنہ بھی آ گئے بےحد خوش ہوئے آنکھوں کو ٹھنڈک اور دل کو سکون نصیب ہوا اور جلدی جلدی ایک کھجور کے درخت پر چڑھ گئے اور اچھے اچھے خوشے اتار اتار کر دینے لگے یہاں تک کہ خود آپ نے روک دیا ، صحابی نے کہا : یا رسول اللہ ! گیلی اور تر اور بالکل پکی اور جس طرح کی چاہیں تناول فرمائیں ، جب کھجوریں کھا چکے تو میٹھا پانی لائے جسے پیا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے یہی وہ نعمتیں ہیں جن کے بارے میں اللہ کے ہاں پوچھے جاؤ گے } ۔ ۱؎ (اسنادہ ضعیف) ابن جریر کی اسی حدیث میں ہے کہ { سیدنا ابوبکر ، اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور پوچھا کہ ” یہاں کیسے بیٹھے ہو ؟ “ دونوں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! بھوک کے مارے گھر سے نکل کھڑے ہوئے ہیں ، فرمایا : ” اس اللہ کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ بھیجا ہے میں بھی اسی وجہ سے اس وقت نکلا ہوں “ اب آپ انہیں لے کر چلے اور ایک انصاری کے گھر آئے ان کی بیوی صاحبہ مل گئیں پوچھا کہ ” تمہارے میاں کہاں گئے ہیں ؟ “ کہا : گھر کے لیے میٹھا پانی لانے گئے ہیں ، اتنے میں تو وہ مشک اٹھائے ہوئے آ ہی گئے ، خوش ہو گئے اور کہنے لگے مجھ جیسا خوش قسمت آج کوئی بھی نہیں جس کے گھر اللہ کے نبی تشریف لائے ہیں ، مشک تو لٹکا دی اور خود جا کر کھجوروں کے تازہ تازہ خوشے لے آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” چن چن کر الگ کر کے لاتے “ تو جواب دیا کہ اے اللہ کے رسول ! میں نے چاہا کہ آپ اپنی طبیعت کے مطابق اپنی پسند سے چن لیں اور نوش فرمائیں ، پھر چھری ہاتھ میں اٹھائی کہ کوئی جانور ذبح کر کے گوشت پکائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” دودھ دینے والے جانور ذبح نہ کرنا “ چنانچہ اس نے ذبیحہ کیا آپ نے وہیں کھانا کیا ، پھر فرمانے لگے : ” دیکھو ! بھوکے گھر سے نکلے اور پیٹ بھرے جا رہے ہیں یہی وہ نعمتیں ہیں جن کے بارے میں قیامت کے دن سوال ہو گا “ } ۱؎ (صحیح مسلم:2038) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد غلام سیدنا ابوعسیب رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ { رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے آواز دی میں نکلا پھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بلایا ، پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بلایا پھر کسی انصاری کے باغ میں گئے اور اس سے فرمایا :” لاؤ بھائی کھانے کو دو “ ، وہ انگور کے خوشے اٹھا لائے اور آپ کے سامنے رکھ دئیے آپ نے اور آپ کے ساتھیوں نے کھائے ، پھر فرمایا : ” ٹھنڈا پانی پلاؤ “ ، وہ لائے آپ نے پیا پھر فرمانے لگے : ” قیامت کے دن اس سے باز پرس ہو گی “ ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے وہ خوشہ اٹھا کر زمین پر دے مارا اور کہنے لگے اس کے بارے میں بھی اللہ کے ہاں پرسش ہو گی ۔ آپ نے فرمایا : ” ہاں صرف تین چیزوں کی پرسش نہیں ۔ پردہ پوشی کے لائق کپڑا ، بھوک روکنے کے قابل ٹکڑا اور سردی گرمی میں سر چھپانے کے لیے مکان “ } ۔ ۱؎ ( مسند احمد:81/5:حسن) مسند کی ایک اور حدیث میں ہے کہ { جب یہ سورت نازل ہوئی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھ کر سنائی تو صحابہ رضی اللہ عنہم کہنے لگے ہم سے کس نعمت کا سوال ہو گا ؟ کھجوریں کھا رہے ہیں اور پانی پی رہے ہیں ، تلواریں گردنوں میں لٹکا رہے ہیں اور دشمن سر پر کھڑا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” گھبراؤ نہیں عنقریب نعمتیں آ جائیں گی “ } ۔ ۱؎ (مسند احمد:429/5:حسن) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ { ایک مرتبہ ہم بیٹھے ہوئے تھے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور نہائے ہوئے معلوم ہوتے تھے ہم نے کہا : یا رسول اللہ ! اس وقت تو آپ خوش و خرم نظر آتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ہاں “ ، پھر لوگ تونگری کا ذکر کرنے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جس کے دل میں اللہ کا خوف ہو اس کے لیے تونگری کوئی بری چیز نہیں اور یاد رکھو متقی شخص کے لیے صحت تونگری سے بھی اچھی ہے اور خوش نفسی بھی اللہ کی نعمت ہے “ } ۔ ۱؎ (مسند احمد::375/5:صحیح) ابن ماجہ میں بھی یہ حدیث ہے ۔ ترمذی شریف میں ہے { نعمتوں کے سوال میں قیامت والے دن سب سے پہلے یہ کہا جائے گا کہ ہم نے تجھے صحت نہیں دی تھی اور ٹھنڈے پانی سے تجھے آسودہ نہیں کیا کرتے تھے ؟ } ۱؎ (سنن ترمذی:3358،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابن ابی حاتم کی روایت میں ہے کہ { اس آیت «ثُمَّ لَتُسْأَلُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِیمِ» (102-التکاثر:8) کو سنا کر صحابہ رضی اللہ عنہم کہنے لگے کہ یا رسول اللہ ! ہم تو جو کی روٹی اور وہ بھی آدھا پیٹ کھا رہے ہیں تو اللہ کی طرف سے وحی آئی کہ کیا تم پیر بچانے کے لیے جوتیاں نہیں پہنتے اور کیا تم ٹھنڈے پانی نہیں پیتے ؟ یہی قابل پرسش نعمتیں ہیں } ۔ ۱؎ (الدر المنثور السیوطی:661/6:اسنادہ ضعیف) اور روایت میں ہے کہ { امن اور صحت کے بارے میں سوال ہو گا } ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:285/30:اسنادہ ضعیف) { پیٹ بھر کھانے ٹھنڈے پانی سائے دار گھروں میٹھی نیند کے بارے میں بھی سوال ہو گا } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:اسنادہ ضعیف) شہد پینے ، لذت حاصل کرنے ، صبح و شام کے کھانے ، گھی شہد اور میدے کی روٹی وغیرہ ، غرض ان تمام نعمتوں کے بارے میں اللہ کے ہاں سوال ہو گا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ بدن کی صحت ، کانوں اور آنکھوں کی صحت کے بارے میں بھی سوال ہو گا کہ ان طاقتوں سے کیا کیا کام کیے ۔ جیسے قرآن کریم میں ہے «إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلٰ أُولٰئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُولًا» ۱؎ (17-الاسراء:36) یعنی ’ ہر شخص سے اس کے کان ، اس کی آنکھ اور اس کے دل کے بارے میں بھی پوچھ ہو گی ‘ ۔ صحیح بخاری وغیرہ کی حدیث میں ہے { دو نعمتوں کے بارے میں لوگ بہت ہی غفلت برت رہے ہیں ۔ صحت اور فراغت } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6421) یعنی نہ تو ان کا پورا شکر ادا کرتے ہیں اور ان کی عظمت کو جانتے ہیں نہ انہیں اللہ کی مرضی کے مطابق صرف کرتے ہیں ۔ مسند بزار میں ہے { تہ بند کے سوا ، سائے دار دیواروں کے سوا اور روٹی کے ٹکڑے کے سوا ہر چیز کا قیامت کے دن حساب دینا پڑے گا } ۔ ۱؎ (مسند بزار:3643:ضعیف) مسند احمد کی مرفوع حدیث میں ہے کہ { اللہ عزوجل قیامت کے دن کہے گا ، اے ابن آدم ! میں نے تجھے گھوڑوں پر اور اونٹوں پر سوار کرایا ۔ عورتیں تیرے نکاح میں دیں تجھے مہلت دی کہ تو ہنسی خوشی آرام و راحت سے زندگی گزارے اب بتا کہ اس کا شکریہ کہاں ہے } ؟ ۱؎ (صحیح مسلم:2968) اللہ کے فضل و کرم سے سورۃ اتکاثر کی تفسیر ختم ہوئی ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» التکاثر
2 التکاثر
3 التکاثر
4 التکاثر
5 التکاثر
6 التکاثر
7 التکاثر
8 التکاثر
0 العصر
1 مسیلمہ کذاب اور عمرو بن عاص میں مکالمہ (سورۃ العصر کی ابتدائی تفسیر دیکھئیے)۔ مختصر نقصان اور اصحاب فلاح و نجات «عصر» سے مراد زمانہ ہے جس میں انسان نیکی بدی کے کام کرتا ہے ، زید بن اسلم رحمہ اللہ نے اس سے مراد عصر کی نماز یا عصر کی نماز کا وقت بیان کیا ہے لیکن مشہور پہلا قول ہی ہے ۔ اس قسم کے بعد بیان فرماتا ہے کہ انسان نقصان میں ، ٹوٹے میں اور ہلاکت میں ہے ، ہاں اس نقصان سے بچنے والے وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں ایمان ہو ، اعمال میں نیکیاں ہوں ، حق کی وصیتیں کرنے والے ہوں یعنی نیکی کے کام کرنے کی ، حرام کاموں سے رکنے کی ایک دوسرے کو تاکید کرتے ہوں ، قسمت کے لکھے پر ، مصیبتوں کی برداشت پر صبر کرتے ہوں اور دوسروں کو بھی اسی کی تلقین کرتے ہوں ۔ ساتھ ہی بھلی باتوں کا حکم کرنے اور بری باتوں سے روکنے میں لوگوں کی طرف سے جو بلائیں اور تکلیفیں پہنچیں تو ان کو بھی برداشت کرتے ہوں اور اسی کی تلقین اپنے ساتھیوں کو بھی کرتے ہوں یہ ہیں جو اس صریح نقصان سے مستثنیٰ ہیں ۔ سورۃ والعصر کی تفسیر بحمدللہ ختم ہوئی ۔ العصر
2 العصر
3 العصر
0 الهمزة
1 وزنی بیڑیاں اور قید و بند کو یاد رکھو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے زبان سے لوگوں کی عیب گیری کرنے والا ، اپنے کاموں سے دوسروں کی حقارت کرنے والا ، خرابی والا شخص ہے ۔ «ہَمَّاز مَشَّاء بِنَمِیمٍ» ۱؎ (68-القلم:11) کی تفسیر بیان ہو چکی ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ اس سے مراد طعنہ دینے والا غیبت کرنے والا ہے ۔ ربیع بن انس رحمہ اللہ کہتے ہیں سامنے برا کہنا تو «ہُمَزَ» ہے اور پیٹھ پیچھے عیب بیان کرنا «لٰمَزَ» ہے ۔ قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں زبان سے اور آنکھ کے اشاروں سے بندگان اللہ کو ستانا اور چڑانا مراد ہے کہ کبھی تو ان کا گوشت کھائے یعنی غیبت کرے اور کبھی ان پر طعنہ زنی کرے ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں «ہُمَزَ» ہاتھ اور آنکھ سے ہوتا ہے اور «لٰمَزَ» زبان سے بعض کہتے ہیں اس سے مراد اخنس بن شریق کافر ہے ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں آیت عام ہے ۔ پھر فرمایا : جو جمع کرتا ہے اور گن گن کر رکھتا جاتا ہے ، جیسے اور جگہ ہے «وَجَمَعَ فَأَوْعَیٰ» ۱؎ ۔ (70-المعارج:18) سیدنا کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں پھر تو مال کمانے کی ہائے وائے میں لگا رہا اور رات کو سڑی بھسی لاش کی طرح پڑ رہا اس کا خیال یہ ہے کہ اس کا مال اسے ہمیشہ دنیا میں رکھے گا حالانکہ واقعہ یوں نہیں بلکہ یہ بخیل اور لالچی انسان جہنم کے اس طبقے میں گرے گا جو ہر اس چیز کو جو اس میں گرے چور چور کر دیتا ہے ۔ پھر فرماتا ہے یہ توڑ پھوڑ کرنے والی کیا چیز ہے ؟ اس کا حال اے نبی ! تمہیں معلوم نہیں یہ اللہ کی سلگائی ہوئی آگ ہے جو دلوں پر چڑھ جاتی ہے جلا کر بھسم کر دیتی ہے لیکن مرتے نہیں ۔ ثابت بنانی رحمہ اللہ جب اس آیت کی تلاوت کر کے اس کا یہ معنی بیان کرتے تو رو دیتے اور کہتے انہیں عذاب نے بڑا ستایا ۔ محمد بن کعب رحمہ اللہ فرماتے ہیں آگ جلاتی ہوئی حلق تک پہنچ جاتی ہے پھر لوٹتی پھر پہنچی ہے یہ آگ ان پر چاروں طرف سے بند کر دی گئی ہے جیسے کہ سورۃ البلد کی تفسیر میں گزرا ۔ ایک مرفوع حدیث میں بھی یہ ہے ۔ ۱؎ (ابن مردودیہ:اسنادہ ضعیف) اور دوسرا طریق اس کا موقوف ہے لوہا جو مثل آگ کے ہے اس کے ستونوں میں یہ لمبے لمبے دروازے ہیں ۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی قرات میں «بِعَمَدٍ» مروی ہے ، ان دوزخیوں کی گردنوں میں زنجیریں ہوں گی یہ لمبے لمبے ستونوں میں جکڑے ہوئے ہوں گے اور اوپر سے دروازے بند کر دئیے جائیں گے ان آگ کے ستونوں میں انہیں بدترین عذاب کیے جائیں گے ۔ ابوصالح رحمہ اللہ فرماتے ہیں یعنی وزنی بیڑیاں اور قید و بند ان کے لیے ہو گی ۔ اس سورت کی تفسیر بھی اللہ کے فضل و کرم سے پوری ہوئی ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» الهمزة
2 الهمزة
3 الهمزة
4 الهمزة
5 الهمزة
6 الهمزة
7 الهمزة
8 الهمزة
9 الهمزة
0 الفیل
1 ابرہہ اور اس کا حشر اللہ رب العزت نے قریش پر جو اپنی خاص نعمت انعام فرمائی تھی اس کا ذکر کر رہا ہے کہ جس لشکر نے ہاتھیوں کو ساتھ لے کر کعبے کو ڈھانے کے لیے چڑھائی کی تھی اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے کہ وہ کعبے کے وجود کو مٹائیں ان کا نام و نشان مٹا دیا ۔ ان کی تمام فریب کاریاں ان کی تمام قوتیں سلب کر لیں انہیں برباد و غارت کر دیا ۔ یہ لوگ مذہباً نصرانی تھے لیکن دین مسیح کو مسخ کر دیا تھا قریباً بت پرست ہو گئے تھے انہیں اس طرح نامراد کرنا یہ گویا پیش خیمہ تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا اور اطلاع تھی آپ کی آمد آمد کی نبی علیہ السلام اسی سال تولد ہوئے تھے ۔ اکثر تاریخ داں حضرات کا یہی قول ہے تو گویا رب العالمین فرما رہا ہے کہ اے قریشیو ! حبشہ کے اس لشکر پر تمہیں فتح تمہاری بھلائی کی وجہ سے نہیں دی گئی تھی بلکہ اس میں ہمارے گھر کا بچاؤ تھا جسے ہم شرف بزرگی عظمت و عزت میں اپنے آخر الزمان پیغمبر محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے بڑھانے والے تھے ۔ غرض اصحاب فیل کا مختصر واقعہ تو یہ ہے جو بیان ہوا اور مطول واقعہ اصحاب الاخدود کے بیان میں گزر چکا ہے کہ قبیلہ حمیر کا آخری بادشاہ ذونواس جو مشرک تھا جس نے اپنے زمانے کے مسلمانوں کو کھائیوں میں قتل کیا تھا جو سچے نصرانی تھے اور تعداد میں تقریباً بیس ہزار تھے ، سارے کے سارے شہید کر دئیے گئے تھے صرف دوس ذوثعلبان ایک بچا جو ملک شام جا پہنچا اور قیصر روم سے فریاد رسی چاہی ۔ یہ بادشاہ نصرانی مذہب پر تھا اس نے حبشہ کے بادشاہ شاہ نجاشی کو لکھا کہ اس کے ساتھ اپنی پوری فوج کر دو اس لیے کہ یہاں سے دشمن کا ملک قریب تھا ۔ اس بادشاہ نے ارباط اور ابویکسوم ابرہہ بن صباح کو امیر لشکر بنا کر بہت بڑا لشکر دے کر دونوں کو اس کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا یہ لشکر یمن پہنچا اور یمن کو اور یمنیوں کو تاخت و تاراج کر دیا ۔ ذونواس بھاگ کھڑا ہوا اور دریا میں ڈوب کر مر گیا اور ان لوگوں کی سلطنت کا خاتمہ ہو گیا اور سارے یمن پر شاہ حبشہ کا قبضہ ہو گیا اور یہ دونوں سردار یہاں رہنے سہنے لگے لیکن کچھ تھوڑی مدت کے بعد ان میں ناچاقی ہو گئی آخر نوبت یہاں تک پہنچی کہ دونوں نے آمنے سامنے صفیں باندھ لیں اور لڑنے کے لیے نکل آئے ۔ عام حملہ ہو اس سے بیشتر ان دونوں سرداروں نے آپس میں کہا کہ فوجوں کو لڑانے اور لوگوں کو قتل کرانے کی کیا ضرورت ، آؤ ہم تم دونوں میدان میں نکلیں اور ایک دوسرے سے لڑ کر فیصلہ کر لیں جو زندہ بچ جائے ملک و فوج اس کی ۔ چنانچہ یہ بات طے ہو گئی اور دونوں میدان میں نکل آئے ارباط نے ابرہہ پر حملہ کیا اور تلوار کے ایک ہی وار سے چہرہ خونا خون کر دیا ناک ہونٹ اور منہ کٹ گیا ، ابرہہ کے غلام عتودہ نے اس موقعہ پر ارباط پر ایک بےپناہ حملہ کیا اور اسے قتل کر دیا ابرہہ زخمی ہو کر میدان سے زندہ واپس گیا ، علاج معالجہ سے زخم اچھے ہو گئے اور یمن کا یہ مستقل بادشاہ بن بیٹھا ۔ نجاشی شاہ حبشہ کو جب یہ واقعہ معلوم ہوا تو وہ سخت غصہ ہوا اور ایک خط ابرہہ کو لکھا اسے بڑی لعنت ملامت کی اور کہا کہ قسم اللہ کی میں تیرے شہروں کو پامال کر دوں گا ۔ اور تیری چوٹی کاٹ لاؤں گا ، ابرہہ نے اس کا جواب نہایت عاجزی سے لکھا اور قاصد کو بہت سارے ہدئیے دئیے اور ایک تھیلی میں یمن کی مٹی بھر دی اور اپنی پیشانی کے بال کاٹ کر اس میں رکھ دئیے ۔ اور اپنے خط میں اپنے قصوروں کی معافی طلب کی اور لکھا کہ یہ یمن کی مٹی حاضر ہے اور چوٹی کے بال بھی ، آپ اپنی قسم پوری کیجئے اور ناراضی معاف فرمائیے اس سے شاہ حبشہ خوش ہو گیا اور یہاں کی سرداری اسی کے نام کر دی ، اب ابرہہ نے نجاشی کو لکھا کہ میں یہاں یمن میں آپ کے لیے ایک ایسا گرجا تعمیر کر رہا ہوں کہ اب تک دنیا میں ایسا نہ بنا ہو اور پھر اس نے گرجا گھر کا بنانا شروع کیا ۔ بڑے اہتمام اور کروفر سے بہت اونچا بہت مضبوط بےحد خوبصورت اور منقش و مزین گرجا بنایا ۔ اس قدر بلند تھا کہ چوٹی تک نظر ڈالنے والے کی ٹوپی گر پڑتی تھی اسی لیے عرب اسے «قلیس» کہتے یعنی ٹوپی پھینک دینے والا ۔ اب ابرہہ اشرم کو یہ سوجھی کہ لوگ بجائے کعبۃ اللہ کے حج کے اس کا حج کریں ، اپنی ساری مملکت میں اس کی منادی کرا دی ، عدنانیہ اور قحطانیہ عرب کو یہ بہت برا لگا ، ادھر سے قریش بھی بھڑک اٹھے ، تھوڑے دن میں کوئی شخص رات کے وقت اس کے اندر گھس گیا اور وہاں پاخانہ کر کے چلا آیا چوکیداروں نے جب یہ دیکھا تو بادشاہ کو خبر پہنچائی اور کہا کہ یہ کام قریشیوں کا ہے چونکہ آپ نے ان کا کعبہ روک دیا ہے ۔ لہٰذا انہوں نے جوش اور غضب میں آ کر یہ حرکت کی ہے ابرہہ نے اسی وقت قسم کھا لی کہ میں مکہ پہنچوں گا اور بیت اللہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دوں گا ۔ اور ایک روایت میں یوں بھی ہے کہ چند ملے جلے نوجوان قریشیوں نے اس گرجا میں آ ۤگ لگا دی تھی اور اس وقت ہوا بھی بہت تیز تھی سارا گرجا جل گیا اور منہ کے بل زمین پر گر گیا اس پر ابرہہ نے بہت بڑا لشکر ساتھ لے کر مکہ پر چڑھائی کی تاکہ کوئی روک نہ سکے اور اپنے ساتھ ایک بڑا اونچا اور موٹا ہاتھی لیا جسے محمود کہا جاتا تھا ۔ اس جیسا ہاتھی اور کوئی نہ تھا شاہ حبشہ نے یہ ہاتھی اس کے پاس اسی غرض سے بھیجا تھا آٹھ یا بارہ ہاتھی اور بھی ساتھ تھے یہ کعبے کے ڈھانے کی نیت سے چلا یہ سوچ کر کہ کعبہ کی دیواروں میں مضبوط زنجیریں ڈال دوں گا اور ہاتھیوں کی گردنوں میں ان زنجیروں کو باندھ دوں گا ہاتھی ایک ہی جھٹکے میں چاروں دیواریں بیت اللہ کی جڑ سے گرا دیں گے ۔ جب اہل عرب کو یہ خبریں معلوم ہوئیں تو ان پر بڑا بھاری اثر ہوا انہوں نے مصمم ارادہ کر لیا کہ خواہ کچھ بھی ہو ہم ضرور اس سے مقابلہ کریں گے اور اسے اس کی اس بدکرداری سے روکیں گے ایک یمنی شریف سردار جو وہاں کے بادشاہوں کی اولاد میں سے تھا جسے ”ذونفر“ کہا جاتا تھا یہ کھڑا ہو گیا اپنی قوم کو اور کل آس پاس کے عرب کو جمع کیا اور اس بدنیت بادشاہ سے مقابلہ کیا لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا عربوں کو شکست ہوئی اور ذونفر اس خبیث کے ہاتھ میں قید ہو گیا اس نے اسے بھی ساتھ لیا اور مکہ شریف کی طرف بڑھا ۔ خثم قبیلے کی زمین پر جب یہ پہنچا تو یہاں نفیل بن حبیب خثعمی نے اپنے لشکروں سے اس کا مقابلہ کیا لیکن ابرہہ نے انہیں بھی مغلوب کر لیا اور نفیل بھی قید ہو گیا پہلے تو اس ظالم نے اسے قتل کرنا چاہا لیکن پھر قتل نہ کیا اور قید کر کے ساتھ لے لیا تاکہ راستہ بنائے ۔ جب طائف کے قریب پہنچا تو قبیلہ ثقیف نے اس سے صلح کر لی کہ ایسا نہ ہو ان کے بت خانوں کو جس میں لات نامی بت تھا یہ توڑ دے اس نے بھی ان کی بڑی آؤ بھگت کی انہوں نے ابورغال کو اس کے ساتھ کر دیا کہ یہ تمہیں وہاں کا راستہ بتائے گا ۔ ابرہہ جب مکے کے بالکل قریب مغمس کے پہنچا تو اس نے یہاں پڑاؤ کیا اس کے لشکر نے آس پاس مکہ والوں کے جو جانور اونٹ وغیرہ چر چگ رہے تھے سب کو اپنے قبضہ میں کیا ان جانوروں میں دو سو اونٹ تو صرف عبدالمطلب کے تھے اسود بن مقصود جو اس کے لشکر کے ہراول کا سردار تھا اس نے ابرہہ کے حکم سے ان جانوروں کو لوٹا تھا ، جس پر عرب شاعروں نے اس کی ہجو میں اشعار تصنیف کئے ہوئے ہیں جو سیرۃ ابن اسحاق میں موجود ہیں ۔ اب ابرہہ نے اپنا قاصد حناطہٰ حمیری مکہ والوں کے پاس بھیجا کہ مکہ کے سب سے بڑے سردار کو میرے پاس لاؤ اور یہ بھی اعلان کر دو کہ میں مکہ والوں سے لڑنے نہیں آیا میرا ارادہ صرف بیت اللہ کو گرانے کا ہے ہاں اگر مکہ والے اس کے بچانے کے درپے ہوئے تو لامحالہ مجھے ان سے لڑائی کرنی پڑے گی ، حناطہٰ جب مکہ میں آیا اور لوگوں سے ملا جلا تو معلوم ہوا کہ یہاں کا بڑا سردار عبدالمطلب بن ہاشم ہے ، یہ عبدالمطلب سے ملا اور شاہی پیغام پہنچایا ۔ جس کے جواب میں عبدالمطلب نے کہا : واللہ ! نہ ہمارا ارادہ اس سے لڑنے کا ہے نہ ہم میں اتنی طاقت ہے یہ اللہ کا حرمت والا گھر ہے اس کے خلیل ابراہیم علیہ السلام کی زندہ یادگار ہے اللہ اگر چاہے گا تو اپنے گھر کی آپ حفاظت کرے گا ، ورنہ ہم میں تو ہمت و قوت نہیں ۔ حناطہٰ نے کہا : اچھا تو آپ میرے ساتھ بادشاہ کے پاس چلے چلئیے عبدالمطلب ساتھ ہو لئے ، بادشاہ نے جب انہیں دیکھا تو ہیبت میں آ گیا عبدالمطلب گورے چٹے سڈول اور مضبوط قوی والے حسین و جمیل انسان تھے ، دیکھتے ہی ابرہہ تخت سے نیچے اتر آیا اور فرش پر عبدالمطلب کے ساتھ بیٹھ گیا اور اپنے ترجمان سے کہا کہ ان سے پوچھ کہ کیا چاہتا ہے ؟ عبدالمطلب نے کہا میرے دو سو اونٹ جو بادشاہ نے لے لیے ہیں انہیں واپس کر دیا جائے بادشاہ نے کہا ان سے کہہ دے کہ پہلی نظر میں تیرا رعب مجھ پر پڑا تھا اور میرے دل میں تیری وقعت بیٹھ گئی تھی لیکن پہلے ہی کلام میں تو نے سب کچھ کھو دی ، اپنے دو سو اونٹ کی تو تجھے فکر ہے اور اپنے اور اپنی قوم کے دین کی تجھے فکر نہیں میں تو تم لوگوں کا عبادت خانہ توڑنے اور اسے خاک میں ملانے کے لیے آیا ہوں ۔ عبدالمطلب نے جواب دیا کہ سن بادشاہ اونٹ تو میرے ہیں اس لیے انہیں بچانے کی کوشش میں میں ہوں اور خانہ کعبہ اللہ کا ہے وہ خود اسے بچا لے گا اس پر یہ سرکش کہنے لگا کہ اللہ بھی آج اسے میرے ہاتھ سے نہیں بچا سکتا ، عبدالمطلب نے کہا : بہتر ہے وہ جانے اور تو جان ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:37989) یہ بھی مروی ہے کہ اہل مکہ نے تمام حجاز کا تہائی مال ابرہہ کو دینا چاہا کہ وہ اپنے اس بد ارادہ سے باز آئے لیکن اس نے قبول نہ کیا خیر عبدالمطلب تو اپنے اونٹ لے کر چل دئیے اور آ کر قریش کو حکم دیا کہ مکہ بالکل خالی کر دو اور پہاڑوں میں چلے جاؤ ، اب عبدالمطلب اپنے ساتھ قریش کے چیدہ چیدہ لوگوں کو لے کر بیت اللہ میں آیا اور بیت اللہ کے دروازہ کا کنڈا تھام کر رو رو کر اور گڑگڑا گڑگڑا کر دعائیں مانگنی شروع کیں کہ باری تعالیٰ ابرہہ اور اس کے خونخوار لشکر سے اپنے پاک اور ذی عزت گھر کو بچا لے ۔ عبدالمطلب نے اس وقت یہ دعائیہ اشعار پڑھے ۔ «لَاہُمَّ إِنَّ الْمَرْء یَمْ نَع رَحْلَہُ فَامْنَعْ رِحَالک» *** «لَا یَغْلِبَنَّ صَلِیبُہُمْ وَمِحَالُہُمْ أَبَدًا مِحَالَک» یعنی ہم بےفکر ہیں ہم جانتے ہیں کہ ہر گھر والا اپنے گھر کا بچاؤ آپ کرتا ہے ۔ اے اللہ ! تو بھی اپنے گھر کو اپنے دشمنوں سے بچا یہ تو ہرگز نہیں ہو سکتا کہ ان کی صلیب اور ان کی ڈولیں تیری ڈولوں پر غالب آ جائیں ۔ اب عبدالمطلب نے بیت اللہ کے دروازے کا کنڈا ہاتھ سے چھوڑ دیا اور اپنے تمام ساتھیوں کو لے کر آس پاس کے پہاڑوں کی چوٹیوں پر چڑھ گیا ، یہ بھی مذکور ہے کہ جاتے ہوئے قربانی کے سو اونٹ بیت اللہ کے ارد گرد نشان لگا کر چھوڑ دئیے تھے اس نیت سے کہ اگر یہ بد دین آئے اور انہوں نے اللہ کے نام کی قربانی کے ان جانوروں کو چھیڑا تو عذاب الٰہی ان پر اترے گا ، دوسری صبح ابرہہ کے لشکر میں مکہ جانے کی تیاریاں ہونے لگیں اپنا خاص ہاتھی جس کا نام محمود تھا اسے تیار کیا لشکر میں کمر بندی ہو چکی تھی اور مکہ شریف کی طرف منہ اٹھا کر چلنے کی تیاری کی اس وقت نفیل بن حبیب جو اس سے راستے میں لڑا تھا اور اب بطور قیدی کے اس کے ساتھ تھا وہ آگے بڑھا اور شاہی ہاتھی کا کان پکڑ لیا اور کہا محمود بیٹھ جا اور جہاں سے آیا ہے وہیں خیریت کے ساتھ چلا جا تو اللہ تعالیٰ کے محترم شہر میں ہے یہ کہہ کر کان چھوڑ دیا اور بھاگ کر قریب کی پہاڑی میں جا چھپا ۔ محمود ہاتھی یہ سنتے ہی بیٹھ گیا ، اب ہزار جتن فیل بان کر رہے ہیں لشکری بھی کوششیں کرتے کرتے تھک گئے لیکن ہاتھی اپنی جگہ سے ہلتا ہی نہیں ، سر پر آنکس مار رہے ہیں ادھر ادھر سے بھالے اور برچھے مار رہے ہیں آنکھوں میں آنکس ڈال رہے ہیں غرض تمام جتن کر لیے لیکن ہاتھی جنبش بھی نہیں کرتا پھر بطور امتحان کے اس کا منہ یمن کی طرف کر کے چلانا چاہا تو جھٹ سے کھڑا ہو کر دوڑتا ہوا چل دیا شام کی طرف چلانا چاہا تو بھی پوری طاقت سے آگے بڑھ گیا ، مشرق کی طرف لے جانا چاہا تو بھی بھاگا بھاگا گیا پھر مکہ شریف کی طرف منہ کر کے آگے بڑھانا چاہا وہیں بیٹھ گیا - انہوں نے پھر اسے مارنا شروع کیا دیکھا کہ ایک گھٹا ٹوپ پرندوں کا جھرمٹ بادل کی طرح سمندر کے کنارے کی طرف سے امڈا چلا آ رہا ہے ابھی پوری طرح دیکھ بھی نہیں پائے تھے کہ وہ جانور سر پر آ گئے چاروں طرف سے سارے لشکر کو گھیر لیا اور ان میں ہر ایک کی چونچ میں ایک مسور یا ماش کے دانے برابر کنکری تھی ، اور دونوں پنجوں میں دو دو کنکریاں تھیں یہ ان پر پھینکنے لگے جس پر یہ کنکری آن پڑی وہ وہیں ہلاک ہو گیا ۔ اب تو اس لشکر میں بھاگڑ پڑ گئی ہر ایک نفیل نفیل کرنے لگا کیونکہ اسے ان لوگوں نے اپنا راہبر اور راستے بتانے والا سمجھ رکھا تھا ، نفیل تو ہاتھی کو کہہ کر پہاڑ پر چڑھ گیا اور دیگر اہل مکہ ان لوگوں کی یہ درگت اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے اور نفیل وہیں کھڑا یہ اشعار پڑھ رہا تھا ۔ «این المفر والا لہ الطالب» *** «والاشرم المغلوب لیس الغالب» اب جائے پناہ کہاں ہے ؟ جبکہ اللہ خود تاک میں لگ گیا ہے سنو اشرم بدبخت مغلوب ہو گیا اب یہ پنپنے کا نہیں ۔ اور بھی نفیل نے اس واقعہ کے متعلق بہت سے اشعار کہے ہیں جن میں اس واقعہ کو بیان کیا ہے اور کہا ہے کاش کہ تو اس وقت موجود ہوتا جبکہ ان ہاتھی والوں کی شامت آئی ہے اور وادی محصب میں ان پر عذاب کے سنگریزے برسے ہیں تو اس وقت تو اس اللہ کے لشکر یعنی پرندوں کو دیکھ کر قطعاً سجدے میں گر پڑتا ہم تو وہاں کھڑے حمد رب کی راگنیاں الاپ رہے تھے گو کلیجے ہمارے بھی اونچے ہو گئے تھے کہ کہیں کوئی کنکری ہمارا کام بھی تمام نہ کر دے نصرانی منہ موڑے بھاگ رہے تھے اور نفیل نفیل پکار رہے تھے ۔ گویا کہ نفیل پر ان کے باپ دادوں کا کوئی قرض تھا ۔ واقدی فرماتے ہیں یہ پرندے زرد رنگ کے تھے کبوتر سے کچھ چھوٹے تھے ان کے پاؤں سرخ تھے اور روایت میں ہے کہ جب محمود ہاتھی بیٹھ گیا اور پوری کوشش کے باوجود بھی نہ اٹھا تو انہوں نے دوسرے ہاتھی کو آگے کیا اس نے قدم بڑھایا ہی تھا کہ اس کی پیشانی پر کنکری پڑی اور بلبلا کر پیچھے ہٹا اور پھرا اور ہاتھی بھی بھاگ کھڑے ہوئے ادھر برابر کنکریاں آنے لگیں اکثر تو وہیں ڈھیر ہو گئے ۔ اور بعض جو ادھر ادھر بھاگ نکلے گا ان میں سے کوئی جانبر نہ ہوا بھاگتے بھاگتے ان کے اعضاء کٹ کٹ کر گرتے جاتے تھے اور بالآخر جان سے جاتے تھے ۔ ابرہہ بادشاہ بھی بھاگا لیکن ایک ایک عضو بدن جھڑنا شروع ہوا یہاں تک کہ خثعم کے شہروں میں سے صنعاء میں جب وہ پہنچا تو بالکل گوشت کا لوتھڑا بنا ہوا تھا وہیں بلک بلک کر دم توڑا اور کتے کی موت مرا ، دل تک پھٹ گیا قریشیوں کو بڑا مال ہاتھ لگا ۔ عبدالمطلب نے تو سونے سے ایک کنواں پر کر لیا تھا ، زمین عرب میں آبلہ اور چیچک اسی سال پیدا ہوتے ہوئے دیکھے گئے اور اسی سال سپند اور حنظل وغیرہ کے کڑوے درخت بھی اسی سال زمین عرب میں دیکھے گئے ہیں پس اللہ تعالیٰ بزبان رسول معصوم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی یہ نعمت یاد دلاتا ہے اور گویا فرمایا جا رہا ہے کہ اگر تم میرے گھر کی اسی طرح عزت و حرمت کرتے رہتے اور میرے رسول کو مانتے تو میں بھی اسی طرح تمہاری حفاظت کرتا اور تمہیں دشمنوں سے نجات دیتا ۔ «أَبَابِیلَ» جمع کا صیغہ ہے اس کا واحد لغت عرب میں پایا نہیں گیا ، «سجیل» کے معنی ہیں بہت ہی سخت اور بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ دو فارسی لفظوں سے مرکب ہے یعنی «سنگ» اور «گل» سے یعنی مٹی اور پتھر ۔ غرض «سِجِّیلٍ» وہ ہے جس میں پتھر معہ مٹی کے ہو ۔ «عَصْفٍ» جمع ہے «عَصْفَۃٌ» کی کھیتی کے ان پتوں کو کہتے ہیں جو پک نہ گئے ہوں ۔ «أَبَابِیلَ» کے معنی ہیں گروہ گروہ جھنڈ بہت سارے پے در پے جمع شدہ ادھر ادھر سے آنے والے ، بعض نحوی کہتے ہیں اس کا واحد «ابیل» ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ان پرندوں کی چونچ تھی پرندوں جیسی اور پنجے کتوں جیسے ۔ عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ سبز رنگ کے پرند تھے جو سمندر سے نکلے تھے ان کے سر درندوں جیسے تھے اور اقوال بھی ہیں یہ پرند باقاعدہ ان لشکریوں کے سروں پر ، پر باندھ کر کھڑے ہو گئے اور پھر چیخنے لگے پھر پتھراؤ کیا ، جس کے سر میں لگا اس کے نیچے سے نکل گیا اور دو ٹکڑے ہو کر زمین پر گرا جس کے جس عضو پر گرا وہ عضو ساقط ہو گیا ساتھ ہی تیز آندھی آئی جس سے اور آس پاس کے کنکر بھی ان کی آنکھوں میں گھس گئے اور سب تہہ و بالا ہو گئے ۔ «عَصْفٍ» کہتے ہیں چارے کو اور کٹی کھیتی کو اور گیہوں کے درخت کے پتوں کو اور «مَّأْکُولٍ» سے مراد ٹکڑے ٹکڑے کیا ہوا ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ «عصف» کہتے ہیں بھوسی کو جو اناج کے دانوں کے اوپر ہوتی ہے ۔ ابن زید رحمہ اللہ فرماتے ہیں مراد کھیتوں کے وہ پتے ہیں جنہیں جانور چر چکے ہوں مطلب یہ ہے کہ اللہ نے ان کو تہس نہس کر دیا اور عام خاص کو ہلاک کر دیا اس کی ساری تدبیریں الٹ ہو گئیں کوئی بھلائی انہیں نصیب نہ ہوئی ایسا بھی کوئی ان میں صحیح سالم نہ رہا جو کہ ان کی خبر پہنچائے ، جو بھی بچا وہ زخمی ہو کر اور اس زخم سے پھر جاں بر نہ ہو سکا ، خود بادشاہ بھی گو وہ ایک گوشت کے لوتھڑے کی طرح ہو گیا تھا جوں توں صنعاء میں پہنچا لیکن وہاں جاتے ہی اس کا کلیجہ پھٹ گیا اور واقعہ بیان کر ہی چکا تھا کہ مر گیا ۔ اس کے بعد اس کا لڑکا یکسوم یمن کا بادشاہ بنا پھر اس کے دوسرے بھائی مسروق بن ابرہہ کو سلطنت ملی اب سیف بن ذی یذن حمیری کسریٰ کے دربار میں پہنچا اور اس سے مدد طلب کی تاکہ وہ اہل حبشہ سے لڑے اور یمن ان سے خالی کرا لے کسریٰ نے اس کے ساتھ ایک لشکر جرار کر دیا اس لشکر نے اہل حبشہ کو شکست دی اور ابرہہ کے خاندان سے سلطنت نکل گئی اور پھر قبیلہ حمیر یہاں کا بادشاہ بن گیا عربوں نے اس پر بڑی خوشی منائی اور چاروں طرف سے مبارکبادیاں وصول ہوئیں ۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ ابرہہ کے لشکر کے فیل بان اور چرکٹے کو میں نے مکہ شریف میں دیکھا دونوں اندھے ہو گئے تھے چل پھر نہیں سکتے تھے اور بھیک مانگا کرتے تھے ۔ سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں اساف اور نائلہ بتوں کے پاس یہ بیٹھے رہتے تھے جہاں مشرکین اپنی قربانیاں کرتے تھے اور لوگوں سے بھیک مانگتے پھرتے تھے اس فیل بان کا نام انیسا تھا ۔ بعض تاریخوں میں یہ بھی ہے کہ ابرہہ خود اس چڑھائی میں نہ تھا بلکہ اس نے اپنے لشکر کو بہ ماتختی شمس بن مقصود کے بھیجا تھا یہ لشکر بیس ہزار کا تھا اور یہ پرند ان کے اوپر رات کے وقت آئے تھے اور صبح تک ان سب کا ستیاناس ہو چکا تھا لیکن یہ روایت بہت غریب ہے اور صحیح بات یہ ہے کہ خود ابرہہ اشرم حبشی ہی اپنے ساتھ لشکر لے کر آیا تھا یہ ممکن ہے کہ اس کے ہراول کے دستہ پر یہ شخص سردار ہو ، اس واقعہ کو بہت سے عرب شاعروں نے اپنے شعروں میں بھی بسط کے ساتھ بیان کیا ہے ۔ سورۃ الفتح کی تفسیر میں ہم اس واقعہ کو مفصل بیان کر آئے ہیں جس میں ہے کہ { جب حدیبیہ والے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس ٹیلے پر چڑھے جہاں سے آپ قریشیوں پر جانے والے تھے تو آپ کی اونٹنی بیٹھ گئی لوگوں نے اسے ڈانٹا ڈپٹا لیکن وہ نہ اٹھی لوگ کہنے لگے قصواء تھک گئی آپ نے فرمایا : ” نہ یہ تھکی نہ اس میں اڑنے کی عادت ہے اسے اس اللہ نے روک لیا ہے جس نے ہاتھیوں کو روک لیا تھا “ ، پھر فرمایا : ” اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے مکے والے جن شرائط پر مجھ سے صلح چاہیں گے میں سب مان لوں گا بشرطیکہ اللہ کی حرمتوں کی ہتک اس میں نہ ہو “ پھر آپ نے اسے ڈانٹا تو وہ فوراً اٹھ کھڑی ہو گئی } ۱؎۔ (صحیح بخاری:2781) یہ حدیث صحیح بخاری میں ہے۔ اور ایک حدیث میں ہے کہ { اللہ تعالیٰ نے مکہ پر سے ہاتھیوں کو روک لیا اور اپنے نبی کو وہاں کا قبضہ دیا اور اپنے ایماندار بندوں کو ، سنو آج اس کی حرمت ویسی ہی لوٹ کر آ گئی ہے جیسے کل تھی ، خبردار ہر حاضر کو چاہیئے کہ غیر حاضر کو پہنچا دے } ۱؎ ۔ (صحیح بخاری:112) اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے سورۃ الفیل کی تفسیر ختم ہوئی ۔ الفیل
2 الفیل
3 الفیل
4 الفیل
5 الفیل
0 قریش
1 امن و امان کی ضمانت موجودہ عثمانی قرآن کی ترتیب میں یہ سورت سورۃ الفیل سے علیحدہ ہے اور دونوں کے درمیان «بسم اللہ» کی آیت کا فاصلہ ہے ، مضمون کے اعتبار سے یہ سورت پہلی سے ہی متعلق ہے جیسے کہ محمد بن اسحاق عبدالرحمن بن زید بن اسلم رحمہ اللہ وغیرہ نے تصریح کی ہے اس بنا پر معنی یہ ہوں گے کہ ہم نے مکہ سے ہاتھیوں کو روکا اور ہاتھی والوں کو ہلاک کیا ۔ یہ قریشیوں کو الفت دلانے اور انہیں اجتماع کے ساتھ باامن اس شہر میں رہنے سہنے کے لیے تھا ۔ اور یہ مراد بھی کی گئی ہے کہ یہ قریشی جاڑوں اور گرمیوں میں کیا دور دراز کے سفر امن و امان سے طے کر سکتے تھے کیونکہ مکہ جیسے محترم شہر میں رہنے کی وجہ سے ہر جگہ ان کی عزت ہوتی تھی بلکہ ان کے ساتھ بھی جو ہوتا تھا امن و امان سے سفر طے کر لیتا تھا اسی طرح وطن میں ہر طرح کا امن انہیں حاصل ہوتا تھا ۔ جیسے اور جگہ قرآن کریم میں ہے «أَوَلَمْ یَرَوْا أَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا آمِنًا وَیُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِہِمْ» ۱؎ (29-العنکبوت:67) الخ یعنی ’ کیا یہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے حرم کو امن والی جگہ بنا دیا ہے اس کے آس پاس تو لوگ اچک لیے جاتے ہیں ‘ ، لیکن یہاں کے رہنے والے نڈر ہیں ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں «لِإِیلَافِ» ، میں پہلا «لام» تعجب کا «لام» ہے اور دونوں سورتیں بالکل جداگانہ ہیں جیسا کہ مسلمانوں کا اجماع ہے ۔ تو گویا یوں فرمایا جا رہا ہے کہ تم قریشیوں کے اس اجتماع اور الفت پر تعجب کرو کہ میں نے انہیں کیسی بھاری نعمت عطا فرما رکھی ہے انہیں چاہیئے کہ میری اس نعمت کا شکر اس طرح ادا کریں کہ صرف میری ہی عبادت کرتے رہیں ۔ جیسے اور جگہ ہے «إِنَّمَا أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ رَبَّ ہٰذِہِ الْبَلْدَۃِ الَّذِی حَرَّمَہَا وَلَہُ کُلٰ شَیْءٍ وَأُمِرْتُ أَنْ أَکُونَ مِنَ الْمُسْلِمِینَ» ۱؎ (27-النمل:91) ، یعنی ’ اے نبی تم کہہ دو کہ مجھے تو صرف یہی حکم دیا گیا ہے کہ میں اس شہر کے رب کی عبادت کروں جس نے اسے حرم بنایا جو ہر چیز کا مالک ہے مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اس کا مطیع اور فرمانبردار رہوں ‘ ۔ پھر فرماتا ہے وہ رب بیت جس نے انہیں بھوک میں کھلایا اور خوف میں نڈر رکھا انہیں چاہیئے کہ اس کی عبادت میں کسی چھوٹے بڑے کو شریک نہ ٹھہرائیں جو اللہ کے اس حکم کی بجا آوری کرے گا وہ تو دنیا کے اس امن کے ساتھ آخرت کے دن بھی امن و امان سے رہے گا ، اور اس کی نافرمانی کرنے سے یہ امن بھی بےامنی ہے اور آخرت کا امن بھی ڈر خوف اور انتہائی مایوسی سے بدل جائے گا ۔ جیسے اور جگہ فرمایا : «وَضَرَبَ اللہُ مَثَلًا قَرْیَۃً کَانَتْ آمِنَۃً مُطْمَئِنَّۃً یَأْتِیہَا رِزْقُہَا رَغَدًا مِنْ کُلِّ مَکَانٍ فَکَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللہِ فَأَذَاقَہَا اللہُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا کَانُوا یَصْنَعُونَ» * «وَلَقَدْ جَاءَہُمْ رَسُولٌ مِنْہُمْ فَکَذَّبُوہُ فَأَخَذَہُمُ الْعَذَابُ وَہُمْ ظَالِمُونَ» ۱؎ (16-النحل:112-113) یعنی ’ اللہ تعالیٰ ان بستی والوں کی مثال بیان فرماتا ہے جو امن و اطمینان کے ساتھ تھے ہر جگہ سے بافراغت روزیاں کھچی چلی آتی تھیں لیکن انہیں اللہ کی ناشکری کرنے کی سوجھی چنانچہ اللہ تعالیٰ نے بھی انہیں بھوک اور خوف کا لباس چکھا دیا یہی ان کے کرتوت کا بدلہ تھا ان کے پاس ان ہی میں سے اللہ کے بھیجے ہوئے آئے لیکن انہوں نے انہیں جھٹلایا اس ظلم پر اللہ کے عذابوں نے انہیں گرفتار کر لیا ‘ ۔ ایک حدیث میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” قریشیو ! تمہیں تو اللہ یوں راحت و آرام پہنچائے گھر بیٹھے کھلائے پلائے چاروں طرف بدامنی کی آگ کے شعلے بھڑک رہے ہوں اور تمہیں امن و امان سے میٹھی نیند سلائے پھر تم پر کیا مصیبت ہے جو تم اپنے اس پروردگار کی توحید سے جی چراؤ اور اس کی عبادت میں دل نہ لگاؤ بلکہ اس کے سوا دو سروں کے آگے سر جھکاؤ “} ۱؎ ۔ (مسند احمد:460/6:اسناد ضعیف) «الْحَمْدُ لِلّٰہ» سورۃ قریش کی تفسیر ختم ہوئی ۔ قریش
2 قریش
3 قریش
4 قریش
0 الماعون
1 نماز میں غفلت اور یتیموں سے نفرت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے محمد ! تم نے اس شخص کو دیکھا جو قیامت کے دن کو جو جزا سزا کا دن ہے جھٹلاتا ہے ، یتیم پر ظلم و ستم کرتا ہے ، اس کا حق مارتا ہے ، اس کے ساتھ سلوک و احسان نہیں کرتا ، مسکینوں کو خود تو کیا دیتا دوسروں کو بھی اس کار خیر پر آمادہ نہیں کرتا ۔ جیسے اور جگہ ہے «کَلَّا بَلْ لَا تُکْرِمُونَ الْیَتِیمَ» * «وَلَا تَحَاضٰونَ عَلَیٰ طَعَامِ الْمِسْکِینِ» ۱؎ (89-الفجر:17-18) یعنی ’ جو برائی تمہیں پہنچتی ہے وہ تمہارے اعمال کا نتیجہ ہے کہ نہ تم یتیموں کی عزت کرتے ہو نہ مسکینوں کو کھانا دینے کی رغبت دلاتے ہو‘ یعنی اس فقیر کو جو اتنا نہیں پاتا کہ اسے کافی ہو ۔ پھر فرمان ہوتا ہے کہ غفلت برتنے والے نمازیوں کے لیے «ویل» ہے یعنی ان منافقوں کے لیے جو لوگوں کے سامنے نماز ادا کریں ورنہ ہضم کر جائیں یہی معنی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کیے ہیں اور یہ بھی معنی ہیں کہ مقرر کردہ وقت ٹال دیتے ہیں جیسے کہ مسروق اور ابوالضحی کہتے ہیں ۔ عطاء بن دینار رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اللہ کا شکر ہے کہ فرمان باری میں «عَن صَلَاتِہِمْ» ہے «فِیْ صَلاَتِہِمْ» نہیں ، یعنی نمازوں سے غفلت کرتے ہیں فرمایا ، نمازوں میں غفلت برتتے ہیں نہیں فرمایا ، اسی طرح یہ لفظ شامل ہے ، ایسے نمازی کو بھی جو ہمیشہ نماز کو آخری وقت ادا کرے یا عموماً آخری وقت پڑھے یا ارکان و شروط کی پوری رعایت نہ کرے یا خشوع و خضوع اور تدبر و غور وفکر نہ کرے ، لفظ قرآن ان میں سے ہر ایک کو شامل ہے یہ سب باتیں جس میں ہوں وہ تو پورا پورا بدنصیب ہے اور جس میں جتنی ہوں اتنا ہی وہ «ویل» والا ہے اور نفاق عملی کا حقدار ہے ۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” یہ نماز منافق کی ہے ، یہ نماز منافق کی ہے ، یہ نماز منافق کی ہے کہ بیٹھا ہوا سورج کا انتظار کرتا رہے جب وہ غروب ہونے کے قریب پہنچے اور شیطان اپنے سینگ اس میں ملا لے ، تو کھڑا ہو اور مرغ کی طرح چار ٹھونگیں مار لے جس میں اللہ کا ذکر بہت ہی کم کرے “ } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:622) یہاں مراد عصر کی نماز ہے جو «صلوۃ وسطیٰ» ہے جیسے کہ حدیث کے لفظوں سے ثابت ہے یہ شخص مکروہ وقت میں کھڑا ہوتا اور کوے کی طرح چونچیں مار لیتا ہے جس میں اطمینان ارکان بھی نہیں ہوتا نہ خشوع و خضوع ہوتا ہے بلکہ ذکر اللہ بھی بہت ہی کم ہوتا ہے اور کیا عجب کہ یہ نماز محض دکھاوے کی نماز ہو تو پڑھی نہ پڑھی یکساں ہے ۔ انہی منافقین کے بارے میں اور جگہ ارشاد ہے «إِنَّ الْمُنَافِقِینَ یُخَادِعُونَ اللہَ وَہُوَ خَادِعُہُمْ وَإِذَا قَامُوا إِلَی الصَّلَاۃِ قَامُوا کُسَالَیٰ یُرَاءُونَ النَّاسَ وَلَا یَذْکُرُونَ اللہَ إِلَّا قَلِیلًا» ۱؎ (4-النساء:142) یعنی ’ منافق اللہ کو دھوکہ دیتے ہیں اور وہ انہیں یہ جب بھی نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو تھکے ہارے بادل ناخواستہ صرف لوگوں کے دکھاو کے لیے نماز پڑھتے ہیں اللہ کی یاد بہت ہی کم کرتے ہیں‘ ۔ یہاں بھی فرمایا یہ ریا کاری کرتے ہیں لوگوں میں نمازی بنتے ہیں ۔ طبرانی کی حدیث میں ہے { «ویل» جہنم کی ایک وادی کا نام ہے جس کی آگ اس قدر تیز ہے اور آگ جہنم کی ہر دن اس سے چار سو مرتبہ پناہ مانگتی ہے یہ «ویل» اس امت کے ریاکار علماء کے لیے ہے اور ریاکاری کے طور پر صدقہ خیرات کرنے والوں کے لیے ہے اور ریا کاری کے طور پر حج کرنے والوں کے لیے ہے اور ریا کاری کے طور پر جہاد کرنے والوں کے لیے ہے } ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:12803:ضعیف و منقطع) مسند احمد میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” جو شخص دوسروں کو سنانے کے لیے کوئی نیک کام کرے اللہ تعالیٰ بھی لوگوں کو سنا کر عذاب کرے گا اور اسے ذلیل و حقیر کرے گا “ } ۔ ۱؎ (مسند احمد:212/2:صحیح) ہاں اس موقعہ پر یہ یاد رہے کہ اگر کسی شخص نے بالکل نیک نیتی سے کوئی اچھا کام کیا اور لوگوں کو اس کی خبر ہو گئی اس پر سے بھی خوشی ہوئی تو یہ ریا کاری نہیں اس کی دلیل مسند ابو یعلیٰ موصلی کی یہ حدیث ہے کہ { ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے سرکار نبوی میں ذکر کیا کہ اے اللہ کے رسول ! میں تو تنہا نوافل پڑھتا ہوں لیکن اچانک کوئی آ جاتا ہے تو ذرا مجھ بھی یہ اچھا معلوم ہونے لگتا ہے ، آپ نے فرمایا : ” تجھے دو اجر ملیں گے ایک اجر پوشیدگی کا اور دوسرا ظاہر کرنے کا “ } ۱؎ (سنن ابن ماجہ:4226،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ابن مبارک رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے یہ حدیث ریا کاروں کے لیے بھی اچھی چیز ہے یہ حدیث بروئے اسناد غریب ہے لیکن اسی معنی کی حدیث اور سند سے بھی مروی ہے ۔ ابن جریر کی ایک بہت ہی ضعیف سند والی حدیث میں ہے کہ { جب یہ آیت اتری تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اللہ اکبر یہ تمہارے لیے بہتر ہے اس سے کہ تم میں سے ہر شخص کو مثل تمام دنیا کے دیا جائے اس سے مراد وہ شخص ہے کہ نماز پڑھے تو اس کی بھلائی سے اسے کچھ سروکار نہ ہو اور نہ پڑھے تو اللہ کا خوف اسے نہ ہو “ } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:38055:ضعیف) اور روایت میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کا مطلب پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : ” یہ وہ لوگ ہیں جو نماز کو اس کے وقت سے مؤخر کرتے ہیں “ } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:38034:ضعیف مرفوعا) اس کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ سرے سے پڑھتے ہی نہیں ، دوسرے معنی یہ ہیں کہ شرعی وقت نکال دیتے ہیں پھر پڑھتے ہیں یہ معنی بھی ہیں کہ اول وقت میں ادا نہیں کرتے ۔ ایک موقوف روایت میں سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ تنگ وقت کر ڈالتے ہیں زیادہ صحیح موقوف روایت ہی ہے ۔ امام بیہقی رحمہ اللہ بھی فرماتے ہیں کہ مرفوع تو ضعیف ہے ہاں موقوف صحیح ہے ۔ امام حاکم رحمہ اللہ کا قول بھی یہی ہے پس جس طرح یہ لوگ عبادت رب میں سست ہیں اسی طرح لوگوں کے حقوق بھی ادا نہیں کرتے یہاں تک کہ برتنے کی کم قیمت چیزیں لوگوں کو اس لیے بھی نہیں دتے کہ وہ اپنا کام نکال لیں اور پھر وہ چیز جوں کی توں واپس کر دیں ۔ پس ان خسیس لوگوں سے یہ کہاں بن آئے کہ وہ زکوٰۃ ادا کریں یا اور نیکی کے کام کریں ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے «مَاعُونَ» کا مطلب ادائیگی زکوٰۃ بھی مروی ہے اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی ، اور دیگر حضرات مفسرین معتبرین سے بھی ، امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس کی نماز میں ریا کاری ہے اور مال کے صدقہ میں ہاتھ روکنا ہے ، زید بن اسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ منافق لوگ ہیں نماز تو چونکہ ظاہر ہے پڑھنی پڑتی ہے اور زکوٰۃ چونکہ پوشیدہ ہے اس لیے اسے ادا نہیں کرتے ۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں «ماعون» ہر وہ چیز ہے جو لوگ آپس میں ایک دوسرے سے مانگ لیا کرتے ہیں جیسے کدال ، پھاوڑا دیگچی ڈول وغیرہ ۔ دوسری روایت میں ہے کہ { اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کا یہی مطلب بیان کرتے ہیں اور روایت میں ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور ہم اس کی تفسیر یہی کرتے تھے } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:38130) نسائی کی حدیث میں ہے { ہر نیک چیز صدقہ ہے ڈول اور ہنڈیا یا پتیلی مانگے پر دینے کو ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں «ماعون» سے تعبیر کرتے تھے } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:1657،قال الشیخ الألبانی:حسن) غرض اس کے معنی زکوٰۃ نہ دینے کے اطاعت نہ کرنے کے مانگی چیز نہ دینے کے ہیں ، چھوٹی چھوٹی بےجان چیزیں کوئی دو گھڑی کے لیے مانگنے آئے اس سے ان کا انکار کر دینا مثلا چھلنی ڈول سوئی سل بٹا کدال ، پھاؤڑا ، پتیلی ، دیگچی وغیرہ ۔ ایک غریب حدیث میں ہے کہ { قبیلہ نمیر کے وفد نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ ہمیں خاص حکم کیا ہوتا ہے ؟ آپ نے فرمایا : ” «ماعون» سے منع کرنا “ انہوں نے پوچھا : «ماعون» کیا ؟ فرمایا : ” پتھر ، لوہا ، پانی “ انہوں نے پوچھا : لوہے سے مراد کون سا لوہا ہے ؟ فرمایا : ” یہی تمہاری تانبے کی پتیلیاں اور کدال وغیرہ “ پوچھا : پتھر سے کیا مراد ؟ فرمایا : ” یہی دیگچی “ وغیرہ } ۱؎ ۔ (الدرالمنشور للسیوطی:684/6:ضعیف) یہ حدیث بہت ہی غریب ہے بلکہ مرفوع ہونا منکر ہے اور اس کی اسناد میں وہ راوی ہیں جو مشہور نہیں ۔ علی نمیری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے سنا ہے آپ نے فرمایا : ” مسلمان کا مسلمان بھائی ہے جب ملے سلام کرے جب سلام کرے تو بہتر جواب دے اور «ماعون» کا انکار نہ کرے “ ، میں نے پوچھا : اے اللہ کے نبی ! «ماعون» کیا ؟ فرمایا : ” پتھر ، لوہا اور اسی جیسی اور چیزیں “ } ۱؎ ۔ (اسدالغابۃ:127/4:ضعیف) ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» «الحمداللہ» تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس کے احسان اور رحم سے اس سورت کی تفسیر بھی ختم ہوئی ۔ الماعون
2 الماعون
3 الماعون
4 الماعون
5 الماعون
6 الماعون
7 الماعون
0 الكوثر
1 شہد سے زیادہ میٹھی اور دودھ سے زیادہ سفید نہر مسند احمد میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر غنودگی سی طاری ہو گئی اور دفعتہ سر اٹھا کر مسکرائے پھر یا تو خود آپ نے فرمایا ، یا لوگوں کے اس سوال پر کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کس لیے مسکرائے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” مجھ پر اس وقت ایک سورت اتری “ پھر آپ نے «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمَـنِ الرَّحِیمِ» پڑھ کر اس پوری سورت «إِنَّا أَعْطَیْنَاکَ الْکَوْثَرَ» * «فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ» * «إِنَّ شَانِئَکَ ہُوَ الْأَبْتَرُ» ۱؎ (108-الکوثر:1-2-3) کی تلاوت کی اور فرمایا : ” جانتے ہو کہ کوثر کیا ہے ؟ “ لوگوں نے کہا اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جانتے ہیں فرمایا : ” وہ ایک جنت کی نہر ہے جس پر بہت بھلائی ہے جو میرے رب نے مجھے عطا فرمائی ہے جس پر میری امت قیامت والے دن آئے گی اس کے برتن آسمان کے ستاروں کی گنتی کے برابر ہیں بعض لوگ اس سے ہٹائے جائیں گے تو میں کہوں گا ، اے میرے رب یہ بھی میرے امتی ہیں تو کہا جائے گا آپ کو نہیں معلوم کہ ان لوگوں نے آپ کے بعد کیا کیا بدعتیں نکالی تھیں “ } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:400) اور حدیث میں وارد ہوا ہے کہ { اس میں دو پرنالے آسمان سے گرتے ہوں گے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2301) نسائی کی حدیث میں ہے { یہ واقعہ مسجد میں گزرا } ۔ ۱؎ (سنن نسائی:905،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اسی سے اکثر قاریوں کا استدلال ہے کہ یہ سورت مدنی ہے اور اکثر فقہاء نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمَـنِ الرَّحِیمِ» ہر سورت میں اس کے ساتھ ہی نازل ہوئی تھی اور ہر سورت کی ایک مستقل آیت ہے ۔ مسند کی اور حدیث میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کر کے فرمایا کہ ” مجھے کوثر عنایت کی گئی ہے جو ایک جاری نہر ہے لیکن گڑھا نہیں ہے اس کے دونوں جانب موتی کے خیمے ہیں اس کی مٹی خالص مشک ہے اس کے کنکر بھی سچے موتی ہیں “ } ۔ ۱؎ (مسند احمد:152/3:صحیح) اور روایت میں ہے کہ { معراج والی رات آپ نے آسمان پر جنت میں اس نہر کو دیکھا اور جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا کہ یہ کون سی نہر ہے تو جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ کوثر ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو دے رکھی ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4964) اور اس قسم کی بہت سی حدیثیں ہیں اور بہت سی ہم نے سورۃ اسراء کی تفسیر میں بیان بھی کر دی ہیں ۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ { اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید ہے اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے جس کے کنارے دراز گردن والے پرندے بیٹھے ہوئے ہیں ۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سن کر فرمایا : وہ پرندے تو بہت ہی خوبصورت ہوں گے ، آپ نے فرمایا : ” کھانے میں بھی وہ بہت ہی لذیذ ہیں “ } ۱؎ ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:38174:اسناد قوی) اور روایت میں ہے کہ { سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ کوثر کیا ہے ؟ اس پر آپ نے یہ حدیث بیان کی تو عمر رضی اللہ عنہ نے ان پرندوں کی نسبت یہ فرمایا } ۔ ۱؎ (مسند احمد:221/3:صحیح) سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں یہ نہر جنت کے درمیان میں ہے ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:321/30) ایک منقطع سند سے { سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ کوثر کے پانی کے گرنے کی آواز جو سننا چاہے وہ اپنے دونوں کانوں میں اپنی دونوں انگلیاں ڈال لے اولاً تو اس کی سند ٹھیک نہیں دوسرے اس کے معنی یہ ہیں کہ اس جیسی آواز آتی ہے نہ کہ خاص اسی کی آواز ہو } ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:321/30:ضعیف و منقطع) «وَاللہُ اَعْلَمُ» صحیح بخاری میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ کوثر سے مراد وہ بھلائی اور خیر ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمائی ہے ۔ ابوبشر کہتے ہیں کہ میں نے سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے یہ سن کر کہا کہ لوگ تو کہتے ہیں کہ یہ جنت کی ایک نہر ہے تو سعید نے فرمایا : وہ بھی ان بھلائیوں اور خیر میں سے ہے جو آپ کو اللہ کی طرف سے عنایت ہوئی ہیں ۔ اور بھی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ اس سے مراد بہت سی خیر ہے تو یہ تفسیر شامل ہے حوض کوثر وغیرہ سب کو ۔ «کوثر» ماخوذ ہے کثرت سے جس سے مراد خیر کثیر ہے اور اسی خیر کثیر میں حوض جنت بھی ہے جیسے کہ بہت سے مفسرین سے مروی ہے ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں دنیا اور آخرت کی بہت بہت بھلائیاں مراد ہے ۔ عکرمہ فرماتے ہیں نبوت ، قرآن ، ثواب ، آخرت کوثر ہے اور یہ بھی یاد رہے کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے کوثر کی تفسیر نہر کوثر سے بھی مروی ہے جیسے کہ ابن جریر میں سنداً مروی ہے کہ آپ نے فرمایا : کوثر جنت کی ایک نہر ہے جس کے دونوں کنارے سونا چاندی ہے جو یاقوت اور موتیوں پر بہہ رہی ہے جس کا پانی برف سے زیادہ سفید ہے اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے ۱؎ ۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی یہ تفسیر مروی ہے ابن جریر ترمذی اور ابن ماجہ وغیرہ میں یہ روایت مرفوع بھی آئی ہے ۱؎ ۔ (مسند احمد:87/2:صحیح) امام ترمذی رحمہ اللہ اسے حسن صحیح بتاتے ہیں ۔ ابن جریر میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لے گئے آپ اس وقت گھر پر نہ تھے آپ کی بیوی صاحبہ جو قبیلہ بنو نجار سے تھیں انہوں نے کہا کہ یا نبی اللہ ! وہ تو ابھی ابھی آپ ہی کی طرف گئے ہیں شاید بنو نجار میں رک گئے ہوں آپ تشریف لائیے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں گئے تو مائی صاحبہ نے آپ کے سامنے مالیدہ رکھا جو آپ نے تناول فرمایا مائی صاحبہ خوش ہو کر فرمانے لگیں اللہ تعالیٰ اسے جزو جسم بنائے ، اچھا ہوا خود تشریف لے آئے میں تو حاضر دربار ہونے کا ارادہ کر چکی تھی کہ آپ کو حوض کوثر ملنے کی مبارک باد دوں مجھ سے ابھی ابھی ابوعمارہ نے کہا تھا ، آپ نے فرمایا : ” ہاں اس حوض کی زمین یاقوت مرجان زبرجد اور موتیوں کی ہے “ } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:38183) اس کے ایک راوی حرام بن عثمان ضعیف ہیں لیکن واقعہ حسن ہے اور اصل تو تواتر سے ثابت ہو چکی ہے ، بہت سے صحابہ اور تابعین وغیرہ سے ثابت ہے کہ کوثر نہر کا نام ہے ۔ پھر ارشاد ہے کہ جیسے ہم نے تمہیں خیر کثیر عنایت فرمائی اور ایسی پرشوکت نہر دی تو تم بھی صرف میری ہی عبادت کرو خصوصاً نفل فرض نماز اور قربانی اسی «وحدہ لا شریک لہ» کے نام کی کرتے رہو ۔ جیسے فرمایا «قُلْ إِنَّ صَلَاتِی وَنُسُکِی وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِی لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ» * «لَا شَرِیکَ لَہُ وَبِذٰلِکَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِینَ» ۱؎ (6-الأنعام:162-163) مراد قربانی سے اونٹوں کا نحر کرنا وغیرہ ہے ۔ مشرکین سجدے اور قربانیاں اللہ کے سوا اوروں کے نام کی کرتے تھے تو یہاں حکم ہوا کہ تم صرف اللہ ہی کے نام کی مخلصانہ عبادتیں کیا کرو ۔ اور جگہ ہے «وَلَا تَأْکُلُوا مِمَّا لَمْ یُذْکَرِ اسْمُ اللہِ عَلَیْہِ وَإِنَّہُ لَفِسْقٌ» ۱؎ (6-الأنعام:121) الخ یعنی ’ جس جانور پر اللہ کا نام نہ لیا جائے اسے نہ کھاؤ یہ تو «فسق» ہے ‘ اور کہا گیا ہے کہ مراد «وانحر» سے دائیں ہاتھ کا بائیں ہاتھ پر نماز میں سینے پر رکھنا ہے یہی سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے غیر صحیح سند کے ساتھ مروی ہے ، شعبی رحمہ اللہ اس لفظ کی یہی تفسیر کرتے ہیں ۔ ابو جعفر باقر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد نماز کے شروع کے وقت رفع یدین کرنا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مطلب یہ ہے کہ اپنے سینے سے قبلہ کی طرف متوجہ ہو یہ تینوں قول ابن جریر میں منقول ہیں ۔ ابن ابی حاتم میں اس جگہ ایک بہت منکر حدیث مروی ہے جس میں ہے کہ { جب یہ سورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اتری تو آپ نے فرمایا : ” اے جبرائیل «وانحر» سے مراد کیا ہے ؟ جو مجھے میرے پروردگار کا حکم ہو رہا ہے“ ، تو جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا : اس سے مراد قربانی نہیں بلکہ اللہ کا آپ کو حکم ہو رہا ہے کہ نماز کی تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین کرو اور رکوع کے وقت بھی اور جب رکوع سے سر اٹھاؤ تب اور جب سجدہ کرو یہی ہماری نماز ہے اور ان فرشتوں کی نماز ہے جو ساتوں آسمانوں میں ہیں ہر چیز کی زینت ہوتی ہے اور نماز کی زینت ہر تکبیر کے وقت رفع یدین کرنا ہے } ۔ ۱؎ (مستدرک حاکم:538/2:اسناد ضعیف جدا والمتن باطل) یہ حدیث اسی طرح مستدرک حاکم میں بھی ہے ۔ عطاء خراسانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں «وانحر» سے مراد یہ ہے کہ اپنی پیٹھ رکوع سے اٹھاؤ تو اعتدال کرو اور سینے کو ظاہر کرو یعنی اطمینان حاصل کرو ۔ [ابن ابی حاتم] یہ سب اقوال غریب ہیں اور صحیح پہلا قول ہے کہ مراد «نحر» سے قربانیوں کا ذبح کرنا ہے اسی لیے { رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نماز عید سے فارغ ہو کر اپنی قربانی ذبخ کرتے تھے اور فرماتے تھے ” جو شخص ہماری نماز پڑھے اور ہم جیسی قربانی کرے اس نے شرعی قربانی کی اور جس نے نماز سے پہلے ہی جانور ذبح کر لیا اس کی قربانی نہیں ہوئی “ ، ابوبردہ بن نیار رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر کہا کہ یا رسول اللہ ! میں نے نماز عید سے پہلے ہی قربانی کر لی یہ سمجھ کر کہ آج کے دن گوشت کی چاہت ہو گی ، آپ نے فرمایا : ” بس وہ تو کھانے کا گوشت ہو گیا “ صحابی نے کہا : اچھا ، یا رسول اللہ ! اب میرے پاس ایک بکری کا بچہ ہے جو مجھے دو بکریوں سے بھی زیادہ محبوب ہے کیا یہ کافی ہو گا آپ نے فرمایا : ” ہاں تجھے تو کافی ہے لیکن تیرے بعد چھ مہینے کا بکری کا بچہ کوئی اور قربانی نہیں دے سکتا “} ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:955) امام ابو جعفر بن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں ٹھیک قول اس کا ہے جو کہتا ہے کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ اپنی تمام نمازیں خالص اللہ ہی کے لیے ادا کر ، اس کے سوا کسی اور کے لیے نہ کر ، اسی طرح اسی کی راہ میں خون بہا کسی اور کے نام پر قربانی نہ کر ، اس کا شکر بجا لا جس نے تجھے یہ بزرگی دی اور وہ نعمت دی جس جیسی کوئی اور نعمت نہیں تجھی کو اس کے ساتھ خاص کیا یہی قول بہت اچھا ہے ۔ محمد بن کعب قرظی اور عطا کا بھی یہی فرمان ہے ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اے نبی ! تجھ سے اور تیری طرف اتری ہوئی وحی سے دشمنی رکھنے والا ہی قلت و ذلت والا بے برکتا اور دم بریدہ ہے یہ آیت عاص بن وائل کے بارے میں اتری ہے یہ پاجی جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر سنتا تو کہتا اسے چھوڑو وہ دم کٹا ہے ، اس کے پیچھے اس کی نرینہ اولاد نہیں اس کے انتقال کرتے ہی اس کا نام دنیا سے اٹھ جائے گا ۔ اس پر یہ مبارک سورت نازل ہوئی ہے شمر بن عطیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عقبہ بن ابومعیط کے حق میں یہ آیت اتری ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ فرماتے ہیں کعب بن اشرف اور جماعت قریش کے بارے میں یہ نازل ہوئی ہے ۔ بزار میں ہے کہ جب کعب بن اشرف مکے میں آیا تو قریشیوں نے اس سے کہا کہ آپ تو ان کے سردار ہیں آپ اس بچہ کی طرف نہیں دیکھتے جو اپنی ساری قوم سے الگ تھلک ہے اور خیال کرتا ہے کہ وہ افضل ہے حالانکہ ہم حاجیوں کے اہل میں سے ہیں بیت اللہ ہمارے ہاتھوں میں ہے زمزم پر ہمارا قبضہ ہے ، تو یہ خبیث کہنے لگا بیشک تم اس سے بہتر ہو اس پر یہ آیت اتری اس کی سند صحیح ہے ۔ عطا فرماتے ہیں ابولہب کے بارے میں یہ آیت اتری ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے انتقال ہوا تو یہ بدنصیب مشرکین سے کہنے لگا کہ آج کی رات محمد کی نسل کٹ گئی [صلی اللہ علیہ وسلم] اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی یہ منقول ہے آپ یہ بھی فرماتے ہیں کہ اس سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر دشمن ہے جن جن کے نام لیے گئے وہ بھی اور جن کا ذکر نہیں ہوا وہ بھی «ابتر» کے معنی ہیں ، تنہا عرب کا یہ بھی محاورہ ہے کہ جب کسی کی نرینہ اولاد مر جاتے تو کہتے ہیں «ابتر» نبی علیہ السلام کے صاحبزادہ کے انتقال پر بھی انہوں نے دشمنی کی وجہ سے یہی کہا جس پر یہ آیت اتری تو مطلب یہ ہوا کہ «ابتر» وہ ہے جس کے مرنے کے بعد اس کا نام مٹ جائے ان مشرکین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت بھی یہی خیال کیا تھا کہ ان کے لڑکے تو انتقال کر گئے وہ نہ رہے جن کی وجہ سے ان کے انتقال کے بعد بھی ان کا نام رہتا «حاشا و کلا» اللہ تعالیٰ آپ کا نام رہتی دنیا تک رکھے گا آپ کی شریعت ابدالآباد تک باقی رہے گی آپ کی اطاعت ہر ایک پر فرض کر دی گئی ہے ، آپ کا پیارا اور پاک نام ہر ایک مسلم کے دل و زبان پر ہے اور قیام تک فضائے آسمانی میں عروج و اقبال کے ساتھ گونجتا رہے گا ، بحر و بر میں ہر وقت اس کی منادی ہوتی رہے گی ، اللہ تعالیٰ آپ پر اور آپ کی آل و اولاد پر اور ازواج و اصحاب پر قیامت تک درود سلام بےحد و بکثرت بھیجتا رہے ۔ «آمین» «الحمداللہ» اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس کے احسان و رحم سے سورۃ الکوثر کی تفسیر بھی ختم ہوئی ۔ «وللہ الحمد والمنہ» الكوثر
2 الكوثر
3 الكوثر
0 الكافرون
1 مشرک سے براۃ اور بیزاری اس سورۃ مبارکہ میں مشرکین کے عمل سے بیزاری کا اعلان ہے اور اللہ کی عبادت کے اخلاص کا حکم ہے گو یہاں خطاب مکہ کے کفار قریش سے ہے لیکن دراصل روئے زمین کے تمام کافر مراد ہیں اس کی شان نزول یہ ہے کہ ان کافروں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا کہ ایک سال آپ ہمارے معبودوں کی عبادت کریں تو اگلے سال ہم بھی اللہ کی عبادت کریں گے اس پر یہ سورت نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی برحق صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ ان کے دین سے اپنی پوری بیزاری کا اعلان فرما دیں کہ میں تمہارے ان بتوں کو اور جن جن کو تم اللہ کا شریک مان رہے ہو ہرگز نہ پوجوں گا گو تم بھی میرے معبود برحق اللہ «وحدہ لا شریک لہ» کو نہ پوجو ۔ پس «مَا» یہاں پر معنی میں «من» کے ہے پھر دوبارہ یہی فرمایا کہ میں تم جیسی عبادت نہ کروں گا تمہارے مذہب پر میں کاربند نہیں ہو سکتا نہ میں تمہارے پیچھے لگ سکتا ہوں بلکہ میں تو صرف اپنے رب کی عبادت کروں گا اور وہ بھی اس طریقے پر جو اسے پسند ہو اور جیسے وہ چاہے اسی لیے فرمایا کہ نہ تم میرے رب کے احکام کے آگے سر جھکاؤ گے نہ اس کی عبادت اس کے فرمان کے مطابق بجا لاؤ گے بلکہ تم نے تو اپنی طرف سے طریقے مقرر کر لیے ہیں ۔ جیسے اور جگہ ہے «إِنْ یَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَہْوَی الْأَنْفُسُ وَلَقَدْ جَاءَہُمْ مِنْ رَبِّہِمُ الْہُدَیٰ» ۱؎ (53-النجم:23) الخ یعنی ’یہ لوگ صرف وہم و گمان اور خواہش نفسانی کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں حالانکہ ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے ہدایت پہنچ چکی ہے‘ ۔ پس نبی اللہ احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر طرح اپنا دامن ان سے چھڑا لیا اور صاف طور پر ان کے معبودوں سے اور ان کی عبادت کے طریقوں سے علیحدگی اور ناپسندیدگی کا اعلان فرما دیا ظاہر ہے کہ ہر عابد کا معبود ہو گا اور طریقہ عبادت ہو گا پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی امت صرف اللہ ہی کی عبادت کرتے ہیں اور طریقہ عبادت ان کا وہ ہے جو سرور رسل صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم فرمایا ہے ۔ اسی لیے کلمہ اخلاص «لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ ، مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللہِ » ہے یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اس کا راستہ وہی ہے جس کے بتانے والے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو اللہ کے پیغمبر ہیں اور مشرکین کے معبود بھی اللہ کے سوا غیر ہیں اور طریقہ عبادت بھی اللہ کا بتلایا ہوا نہیں اسی لیے فرمایا کہ تمہارا دین تمہارے لیے ، میرا میرے لیے ۔ جیسے اور جگہ ہے «وَإِنْ کَذَّبُوکَ فَقُلْ لِی عَمَلِی وَلَکُمْ عَمَلُکُمْ أَنْتُمْ بَرِیئُونَ مِمَّا أَعْمَلُ وَأَنَا بَرِیءٌ مِمَّا تَعْمَلُونَ» ۱؎ (10-یونس:41) یعنی ’اگر یہ تجھے جھٹلائیں تو تو کہہ دے کہ میرے لیے میرا عمل اور تمہارے لیے تمہارا عمل ہے ، تم میرے اعمال سے الگ ہو اور میں تمہارے کاموں سے بیزار ہوں‘ ۔ اور جگہ فرمایا : «لَنَا أَعْمَالُنَا وَلَکُمْ أَعْمَالُکُمْ» ۱؎ (28-القصص:55) الخ یعنی ’ہمارے عمل ہمارے ساتھ اور تمہارے تمہارے ساتھ‘ ۔ صحیح بخاری میں اس آیت کی تفسیر میں ہے تمہارے لیے تمہارا دین ہے یعنی کفر اور میرے لیے میرا دین ہے یعنی اسلام یہ لفظ اصل میں «دِینِی» تھا لیکن چونکہ اور آیتوں کا وقف «نون» پر ہے اس لیے اس میں بھی «یَاءُ» کو حذف کر دیا جیسے «فَہُوَ یَہْدِینِ» ۱؎ (26-الشعراء:78) میں اور «یَشْفِینِ» ۱؎ (26-الشعراء:80) میں بعض مفسرین نے کہا ہے مطلب یہ ہے کہ میں اب تو تمہارے معبودوں کی پرستش کرتا نہیں اور آگے کے لیے بھی تمہیں ناامید کر دیتا ہوں کہ عمر بھر میں کبھی بھی یہ کفر مجھ سے نہ ہو سکے گا اسی طرح نہ تم اب میرے اللہ کو پوجتے ہو نہ آئندہ اس کی عبادت کرو گے اس سے مراد وہ کفار ہیں جن کا ایمان نہ لانا اللہ کو معلوم تھا جیسے قرآن میں اور جگہ ہے «وَلَیَزِیدَنَّ کَثِیرًا مِنْہُمْ مَا أُنْزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ طُغْیَانًا وَکُفْرًا» (5-المائدۃ:64) ۱؎ الخ یعنی ’تیری طرف جو اترتا ہے اس سے ان میں سے اکثر تو سرکشی اور کفر میں بڑھ جاتے ہیں‘ ۔ ابن جریر رحمہ اللہ نے بعض عربی دان حضرات سے نقل کیا ہے کہ دو مرتبہ اس جملے کا لانا صرف تاکید کے لیے ہے جیسے «فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا» * «إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا» ۱؎ (94-الشرح:5-6) میں اور جیسے «لَتَرَوُنَّ الْجَحِیمَ» * «ثُمَّ لَتَرَوُنَّہَا عَیْنَ الْیَقِینِ» ۱؎ (102-التکاثر:6-7) پس ان دونوں جملوں کو دو مرتبہ لانے کی حکمت میں یہ تین قول ہوئے ایک تو یہ کہ پہلے جملے سے مراد معبود دوسرے سے مراد طریق عبادت دوسرے یہ کہ پہلے جملے سے مراد حال دوسرے سے مراد استقبال یعنی آئندہ تیسرے یہ کہ پہلے جملے کی تاکید دوسرے جملے سے ہے ۔ لیکن یہ یاد رہے کہ یہاں ایک چوتھی توجیہ بھی ہے جسے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اپنی بعض تصنیفات میں قوت دیتے ہیں وہ یہ کہ پہلے تو جملہ فعلیہ ہے اور دوبارہ جملہ اسمیہ ہے تو مراد یہ ہوئی کہ نہ تو میں غیر اللہ کی عبادت کرتا ہوں نہ مجھ سے کبھی بھی کوئی امید رکھ سکتا ہے یعنی واقعہ کی بھی نفی ہے اور شرعی طور پر ممکن ہونے کا بھی انکار ہے یہ قول بھی بہت اچھا ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» امام ابوعبداللہ شافعی رحمہ اللہ نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ کفر ایک ہی ملت ہے اس لیے یہود نصرانی کا اور نصرانی یہود کا وارث ہو سکتا ہے جبکہ ان دونوں میں نسب یا سبب ورثے کا پایا جائے اس لیے کہ اسلام کے سوا کفر کی جتنی راہیں ہیں وہ سب باطل ہونے میں ایک ہی ہیں ۱؎ (سنن ابوداود:2911،قال الشیخ الألبانی:حسن صحیح) امام احمد رحمہ اللہ اور ان کے موافقین کا مذہب اس کے برخلاف ہے کہ نہ یہودی نصرانی کا وارث ہو سکتا ہے نہ نصرانی یہود کا کیونکہ حدیث ہے دو مختلف مذہب والے آپس میں ایک دوسرے کے وارث نہیں ہو سکتے سورۃ الکافرون کی تفسیر ختم ہوئی ۔ «فالحمداللہ احسانہ» الكافرون
2 الكافرون
3 الكافرون
4 الكافرون
5 الكافرون
6 الكافرون
0 النصر
1 گناہوں کی بخشش مانگو اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کرو سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ { بڑی عمر والے بدری مجاہدین کے ساتھ ساتھ عمر فاروق رضی اللہ عنہ مجھے بھی شامل کر لیا کرتے تھے تو شاید کسی کے دل میں اس کی کچھ ناراضگی پیدا ہوئی ہو گی اس نے کہا کہ یہ ہمارے ساتھ نہ آیا کریں ، ان جتنے تو ہمارے بچے ہیں خلیقۃ المسلمین رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم انہیں خوب جانتے ہو ایک دن سب کو بلایا اور مجھے بھی یاد فرمایا میں سمجھ گیا کہ آج انہیں کچھ دکھانا چاہتے ہیں جب ہم سب جا پہنچے تو امیرالمومنین رضی اللہ عنہ نے ہم سے پوچھا کہ سورۃ «إِذَا جَاءَ» کی نسبت تمہیں کیا علم ہے ؟ بعض نے کہا اس میں ہمیں اللہ کی حمد و ثناء بیان کرنے اور گناہوں کی بخشش چاہنے کا حکم کیا گیا ہے کہ جب مدد اللہ آ جائے اور ہماری فتح ہو تو ہم یہ کریں اور بعض بالکل خاموش رہے تو آپ نے میری طرف توجہ فرمائی اور کہا کیا تم بھی یہی کہتے ہو ؟ میں نے کہا نہیں ، فرمایا : پھر اور کیا کہتے ہو ؟ میں نے کہا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کا پیغام ہے آپ کو معلوم کرایا جا رہا ہے کہ اب آپ کی دنیوی زندگی ختم ہونے کو ہے آپ تسبیح ، حمد اور استفغار میں مشغول ہو جائیے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا : یہی میں بھی جانتا ہوں ۱؎ ۔ (صحیح بخاری:4970) جب یہ سورت اتری تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اب اسی سال میرا انتقال ہو جائے گا مجھے میرے انتقال کی خبر دی گئی ہے } ۱؎ ۔ (مسند احمد:217/1) مجاہد ، ابوالعالیہ ، ضحاک رحمہ اللہ علیہم وغیرہ بھی یہی تفسیر بیان کرتے ہیں ۔ ایک روایت میں ہے کہ {نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ شریف میں تھے فرمانے لگے : ”اللہ اکبر ، اللہ اکبر اللہ کی مدد آ گئی اور فتح بھی یمن والے آ گئے“ ، پوچھا گیا : اے اللہ کے رسول! یمن والے کیسے ہیں ؟ فرمایا : ”وہ نرم دل لوگ ہیں سلجھی ہوئی طبیعت والے ہیں ایمان تو اہل یمن کا ہے اور سمجھ بھی اہل یمن کی ہے اور حکمت بھی اہل یمن والوں کی ہے“} ۱؎ ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:38230:ضعیف) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ { جب یہ سوت اتری چونکہ اس میں آپ کے انتقال کی خبر تھی تو آپ نے اپنے کاموں میں اور کمر کس لی } اور تقریباً وہی فرمایا جو اوپر گزرا ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:11903) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ بھی مروی ہے کہ { سورتوں میں پوری سورت نازل ہونے کے اعتبار سے سب سے آخری سورت یہی ہے } ۱؎ ۔ (طبرانی کبیر:10736) اور حدیث میں ہے کہ {جب یہ سورت اتری آپ نے اس کی تلاوت کی اور فرمایا : ”لوگ ایک کنارہ ہوں ، میں اور میرے اصحاب ایک کنارہ میں ہیں ، سنو فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں البتہ جہاد اور نیت ہے“} ۔ مروان کو جب یہ حدیث سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے سنائی تو یہ کہنے لگا ، جھوٹ کہتا ہے اس وقت مروان کے ساتھ اس کے تخت پر سیدنا رافع بن خدیج اور سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہما بھی بیٹھے تھے ، تو سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ فرمانے لگے ان دونوں کو بھی اس حدیث کی خبر ہے یہ بھی اس حدیث کو بیان کر سکتے ہیں لیکن ایک کو تو اپنی سرداری چھن جانے کا خوف ہے اور دوسرے کو زکوٰۃ کی وصولی کے عہدے سے سبکدوش ہو جانے کا ڈر ہے مروان نے یہ سن کر کوڑا اٹھا کر سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ کو مارنا چاہا ان دونوں بزرگوں نے جب یہ دیکھا تو کہنے لگے مروان سن ابوسعید نے سچ بیان فرمایا ۱؎ (مسند احمد:22/3:صحیح لغیرہ دون الجملۃ) یہ حدیث ثابت ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ {نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن فرمایا : ”ہجرت نہیں رہی ہاں جہاد اور نیت ہے جب تمہیں چلنے کو کہا جائے اٹھ کھڑے ہو جایا کرو“} ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1834) صحیح بخاری اور صحیح مسلم شریف میں یہ حدیث موجود ہے ہاں یہ بھی یاد رہے کہ جن بعض صحابہ نے سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے سامنے اس سورت کا یہ مطلب بیان کیا کہ جب ہم پر اللہ تعالیٰ شہر اور قلعے فتح کر دے اور ہماری مدد فرمائے تو ہمیں حکم مل رہا ہے کہ ہم اس کی تعریفیں بیان کریں اس کا شکر کریں اور اس کی پاکیزگی بیان کریں ، نماز ادا کریں اور اپنے گناہوں کی بخشش طلب کریں یہ مطلب بھی بالکل صحیح ہے ۔ اور یہ تفسیر بھی نہایت پیاری ہے دیکھو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ والے دن ضحیٰ کے وقت آٹھ رکعت نماز ادا کی ۱؎ (صحیح بخاری:1103) گو لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ ضحیٰ کی نماز تھی لیکن ہم کہہ سکتے ہیں کہ ضحیٰ کی نماز آپ ہمیشہ نہیں پڑھتے تھے پھر اس دن جبکہ شغل اور کام بہت زیادہ تھا مسافرت تھی یہ کیسے پڑھی ؟ آپ کی اقامت فتح کے موقعہ پر مکہ شریف میں رمضان شریف کے آخر تک انیس دن رہی آپ فرض نماز کو بھی قصر کرتے رہے روزہ بھی نہیں رکھا اور تمام لشکر جو تقریباً دس ہزار تھا اسی طرح کرتا رہا ان حقائق سے یہ بات صاف ثابت ہو جاتی ہے کہ یہ نماز فتح کے شکریہ کی نماز تھی اسی لیے سردار لشکر امام وقت پر مستحب ہے کہ جب کوئی شہر فتح ہو تو داخل ہوتے ہی دو رکعت نماز ادا کرے سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے فتح مدائن والے دن ایسا ہی کیا تھا ان آٹھ رکعت کو دو دو رکعت کر کے ادا کرے گو بعض کا یہ قول بھی ہے کہ آٹھوں ایک ہی سلام سے پڑھ لے لیکن ابوداؤد کی حدیث میں صراحتاً مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نماز میں ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرا ہے ۱؎ ۔ (سنن ابوداود:1290،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) دوسری تفسیر بھی صحیح ہے جو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ نے کی ہے کہ اس میں آپ کو آپ کے وصال کی خبر دی گئی کہ جب آپ اپنی بستی مکہ فتح کر لیں جہاں سے ان کفار نے آپ کو نکل جانے پر مجبور کیا تھا اور آپ اپنی آنکھوں اپنی محنت کا پھل دیکھ لیں کہ فوجوں کی فوجیں آپ کے جھنڈے تلے آ جائیں جوق در جوق لوگ حلقہ بگوش اسلام ہو جائیں تو ہماری طرف آنے کی اور ہم سے ملاقات کی تیاریوں میں لگ جاؤ سمجھ لو کہ جو کام ہمیں تم سے لینا تھا پورا ہو چکا اب آخرت کی طرف نگاہیں ڈالو جہاں آپ کے لیے بہت بہتری ہے اور اس دنیا سے بہت زیادہ بھلائی آپ کے لیے وہاں ہے وہیں آپ کی مہمانی تیار ہے اور مجھ جیسا میزبان ہے تم ان نشانات کو دیکھ کر بکثرت میری حمد و ثناء کرو اور توبہ استغفار میں لگ جاؤ ۔ صحیح بخاری کی حدیث میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ {نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رکوع ، سجدے میں بکثرت «سُبْحَانک اللہُمَّ رَبّنَا وَبِحَمْدِک اللہُمَّ اِغْفِرْ لِی» پڑھا کرتے تھے آپ قرآن کی اس آیت «فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْہُ إِنَّہُ کَانَ تَوَّابًا» ۱؎ (110-النصر:3) پر عمل کرتے تھے} ۱؎ (صحیح بخاری:794) اور روایت میں ہے کہ {نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی آخری عمر میں ان کلمات کا اکثر ورد کرتے تھے «سُبْحَان اللَّہ وَبِحَمْدِہِ أَسْتَغْفِر اللَّہ وَأَتُوب إِلَیْہِ» اللہ کی ذات پاک ہے اسی کے لیے سب تعریفیں مختص ہیں میں اللہ سے استغفار کرتا ہوں اور اس کی طرف جھکتا ہوں اور فرمایا کرتے تھے کہ ”میرے رب نے مجھے حکم دے رکھا ہے کہ جب میں یہ علامت دیکھ لوں کہ مکہ فتح ہو گیا اور دین اسلام میں فوجیں کی فوجیں داخل ہونے لگیں تو میں ان کلمات کو بکثرت کہوں چنانچہ بحمد اللہ میں اسے دیکھ چکا لہٰذا اب اس وظیفے میں مشغول ہوں“} ۱؎ ۔ (صحیح مسلم:484) [مسند احمد] ابن جریر میں سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ {نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی آخری عمر میں بیٹھتے اٹھتے چلتے پھرتے آتے جاتے «سُبْحَان اللَّہ وَبِحَمْدِہِ» پڑھا کرتے میں نے ایک مرتبہ پوچھا کہ اے اللہ کے رسول ! اس کی کیا وجہ ہے تو آپ نے اس سورت کی تلاوت کی اور فرمایا : ”مجھے حکم الٰہی یہی ہے“} ہے ۱؎ ، (تفسیر ابن جریر الطبری:38248:ضعیف) کسی مجلس میں بیٹھیں پھر وہ مجلس برخاست ہو تو کیا پڑھنا چاہیئے اسے ہم اپنی ایک مستقل تصنیف میں لکھ چکے ہیں ۔ مسند احمد میں ہے کہ {جب یہ سورت اتری تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے اکثر اپنی نماز میں تلاوت کرتے اور رکوع میں تین مرتبہ یہ پڑھتے «سُبْحَانک اللہُمَّ رَبّنَا وَبِحَمْدِک اللہُمَّ اِغْفِرْ لِی إِنَّک أَنْتَ التَّوَّاب الرَّحِیم»} ۔ ۱؎ (مسند احمد:410/1:حسن لغیرہ) فتح سے مراد یہاں فتح مکہ ہے اس پر اتفاق ہے عموماً عرب قبائل اسی کے منتظر تھے کہ اگر یہ اپنی قوم پر غالب آ جائیں اور مکہ ان کے زیر نگیں آ جائے تو پھر ان کے نبی ہونے میں ذرا سا بھی شک شبہ نہیں اب جبکہ اللہ نے اپنے حبیب کے ہاتھوں مکہ فتح کرا دیا تو یہ سب اسلام میں آ گئے اس کے بعد دو سال بھی پورے نہیں ہوئے تھے کہ سارا عرب مسلمان ہو گیا اور ہر ایک قبیلے میں اسلام اپنا راج کرنے لگا ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» صحیح بخاری میں بھی سیدنا عمرو بن سلمہ کا یہ مقولہ موجود ہے کہ {مکہ فتح ہوتے ہی ہر قبیلے نے اسلام کی طرف سبقت کی ان سب کو اسی بات کا انتظار تھا اور کہتے تھے کہ انہیں اور ان کی قوم کو چھوڑو دیکھو اگر یہ نبی برحق ہیں تو اپنی قوم پر غالب آ جائیں گے اور مکہ پر ان کا جھنڈا نصب ہو جائے گا} ۱؎ ۔ (صحیح بخاری:4302) ہم نے غزوہ فتح مکہ کا پورا واقعہ تفصیل کے ساتھ اپنی سیرۃ کی کتاب میں لکھا ہے جو صاحب تفصیلات دیکھنا چاہیں وہ اس کتاب کو دیکھ لیں “ ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» مسند احمد میں ہے کہ {سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کے پڑوسی جب اپنے کسی سفر سے واپس آئے تو سیدنا جابر رضی اللہ عنہ ان سے ملاقات کرنے کے لیے گئے انہوں نے لوگوں کی پھوٹ اور ان کے اختلاف کا حال بیان کیا اور ان کی نو ایجاد بدعتوں کا تذکرہ کیا تو صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے اور روتے ہوئے فرمانے لگے کہ میں نے اللہ کے حبیب شافع روز جزاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ لوگوں کی فوجوں کی فوجیں اللہ کے دین میں داخل ہوئیں لیکن عنقریب جماعتوں کی جماعتیں ان میں سے نکلنے بھی لگ جائیں گی} ۱؎ ۔ (مسند احمد:343/3:ضعیف) اس سورت کی تفسیر ختم ہوئی ۔ «فالحمدللہ علی احسانہ» النصر
2 النصر
3 النصر
0 الہب
1 بدترین اور بدنصیب میاں بیوی صحیح بخاری میں ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بطحاء میں جا کر ایک پہاڑی پر چڑھ گئے اور اونچی آواز سے «یَا صَبَاحَاہُ ، یَا صَبَاحَاہُ» کہنے لگے قریش سب جمع ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اگر میں تم سے کہوں کہ صبح یا شام دشمن تم پر چھاپہ مارنے والا ہے تو کیا تم مجھے سچا سمجھو گے ؟“ سب نے جواب دیا جی ہاں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”سنو ! میں تمہیں اللہ کے سخت عذاب کے آنے کی خبر دے رہا ہوں“ ، تو ابولہب نے کہا : تجھے ہلاکت ہو ، کیا اسی لیے تو نے ہمیں جمع کیا تھا ؟ اس پر یہ سورت اتری} ۱؎ (صحیح بخاری:4972) دوسری روایت میں ہے کہ یہ ہاتھ جھاڑتا ہوا یوں کہتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا ۔ «تَبَّتْ» بد دعا ہے اور «تَبَّ» خبر ہے ، یہ ابولہب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چچا تھا اس کا نام عبدالعزیٰ بن عبدالمطلب تھا ۔ اس کی کنیت ابوعتبہ تھی اس کے چہرے کی خوبصورتی اور چمک دمک کی وجہ سے اسے ابولہب یعنی شعلے والا کہا جاتا تھا ، یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بدترین دشمن تھا ہر وقت ایذا دہی تکلیف رسانی اور نقصان پہنچانے کے درپے رہا کرتا تھا ۔ سیدنا ربیعہ بن عباد دیلی رضی اللہ عنہ اپنے اسلام لانے کے بعد اپنا جاہلیت کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ { میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خود ذوالمجاز کے بازار میں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے ہیں : ” لوگو ! «لَا إِلَہ إِلَّا اللَّہ» کہو تو فلاح پاؤ گے“ ، لوگوں کا مجمع آپ کے آس پاس لگا ہوا تھا میں نے دیکھا کہ آپ کے پیچھے ہی ایک گورے چٹے چمکتے چہرے والا بھینگی آنکھ والا جس کے سر کے بڑے بالوں کے دو مینڈھیاں تھیں ۔ آیا اور کہنے لگا : لوگو ! یہ بےدین ہے ، جھوٹا ہے ۔ غرض آپ لوگوں کے مجمع میں جا کر اللہ کی توحید کی دعوت دیتے تھے اور یہ دشمن پیچھے پیچھے یہ کہتا ہوا چلا جا رہا تھا ۔ میں نے لوگوں سے پوچھا یہ کون ہے ؟ لوگوں نے کہا یہ آپ کا چچا ابولہب ہے ۔ «لعنہ اللہ» [مسند احمد] ابو الزیاد نے راوی حدیث ربیعہ سے کہا کہ آپ تو اس وقت بچہ ہوں گے ؟ فرمایا : نہیں میں اس وقت خاصی عمر کا تھا مشک لاد کر پانی بھر لایا کرتا تھا } ۔ ۱؎ (مسند احمد:341/4:صحیح لغیرہ) دوسری روایت میں ہے {میں اپنے باپ کے ساتھ تھا میری جوان عمر تھی اور میں نے دیکھا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایک قبیلے کے پاس جاتے اور فرماتے : لوگو ! میں تمہاری طرف اللہ کا رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں میں تم سے کہتا ہوں کہ ایک اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو ، مجھے سچا جانو مجھے میرے دشمنوں سے بچاؤ تاکہ میں اس کا کام بجا لاؤں جس کا حکم مجھے دے کر اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے ، آپ یہ پیغام پہنچا کر فارغ ہوتے تو آپ کا چچا ابولہب پیچھے سے پہنچتا اور کہتا ، اے فلاں قبیلے کے لوگو ! یہ شخص تمہیں لات و عزیٰ سے ہٹانا چاہتا ہے اور بنو مالک بن اقیش کے تمہارے حلیف جنوں سے تمہیں دور کر رہا ہے اور اپنی نئی لائی ہوئی گمراہی کی طرف تمہیں گھسیٹ رہا ہے ، خبردار نہ اس کی سننا نہ ماننا} ۔ ۱؎ (مسند احمد:492/3:ضعیف) اللہ تعالیٰ اس سورت میں فرماتا ہے کہ ابولہب برباد ہوا اس کی کوشش غارت ہوئی اس کے اعمال ہلاک ہوئے بالیقین اس کی بربادی ہو چکی ، اس کی اولاد اس کے کام نہ آئی ۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم کو اللہ کی طرف بلایا تو ابولہب کہنے لگا اگر میرے بھتیجے کی باتیں حق ہیں تو میں قیامت کے دن اپنا مال و اولاد اللہ کو فدیہ میں دے کر اس عذاب سے چھوٹ جاؤں گا اس پر آیتیں «مَا أَغْنَیٰ عَنْہُ مَالُہُ وَمَا کَسَبَ» ۱؎ (111-المسد:2) ، اتری ۔ پھر فرمایا : کہ یہ شعلے مارنے والی آگ میں جو سخت جلانے والی اور بہت تیز ہے داخل ہو گا ، اور اس کی بیوی بھی جو قریش عورتوں کی سردار تھی اس کی کنیت ام جمیل تھی نام ارویٰ تھا ، حرب بن امیہ کی لڑکی تھی ابوسفیان کی بہن تھی اور اپنے خاوند کے کفر و عناد اور سرکشی و دشمنی میں یہ بھی اس کے ساتھ تھی اس لیے قیامت کے دن عذابوں میں بھی اسی کے ساتھ ہو گی ، لکڑیاں اٹھا اٹھا کر لائے گی اور جس آگ میں اس کا خاوند جل رہا ہو گا ڈالتی جائے گی اس کے گلے میں آگ کی رسی ہو گی ۔ یہ معنی بھی کئے گئے ہیں کہ «حَمَّالَۃَ الْحَطَبِ» سے مراد اس کا غیب گو ہونا ہے ، امام ابن جریر رحمہ اللہ اسی کو پسند کرتے ہیں ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ نے یہ مطلب بیان کیا ہے کہ یہ جنگل سے خار دار لکڑیاں چن لاتی تھی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ میں بچھا دیا کرتی تھی ، یہ بھی کہا گیا ہے کہ چونکہ یہ عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فقیری کا طعنہ دیا کرتی تھی تو اسے اس کا لکڑیاں چننا یاد دلایا گیا ، لیکن صحیح قول پہلا ہی ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» سعید بن مسیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس کے پاس ایک نفیس ہار تھا کہتی تھی کہ اسے میں فروخت کر کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت میں خرچ کروں گی تو یہاں فرمایا گیا کہ اس کے بدلے اس کے گلے میں آگ کا طوق ڈالا جائے گا ۔ «مسد» کے معنی کھجور کی رسی کے ہیں ۔ عروہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : یہ جہنم کی زنجیر ہے جس کی ایک ایک کڑی ستر ستر گز کی ہے ۔ ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ جہنم کا طوق ہے جس کی لمبائی ستر ہاتھ ہے ۔ جوہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ اونٹ کی کھال کی اور اونٹ کے بالوں کی بنائی جاتی ہے ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں یعنی لوہے کا طوق ۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ { جب یہ سورت اتری تو یہ بھینگی عورت ام جمیل بنت کرب اپنے ہاتھ میں نوکدار پتھر لیے یوں کہتی ہوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی ۔ «مُذَمَّمَا اَبَیْنَا ... وَدِیْنَہ قَلَیْنَا ... وَاَمْرَہ عَصَیْنَا» یعنی ہم مذمم کے منکر ہیں ... اور اس کے دین کے دشمن ہیں ... اور اس کے نافرمان ہیں ۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کعبۃ اللہ میں بیٹھے ہوئے تھے ، آپ کے ساتھ میرے والد سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی تھے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اسے اس حالت میں دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! یہ آ رہی ہے ایسا نہ ہو آپ کو دیکھ لے ، آپ نے فرمایا : ”صدیق بےغم رہو یہ مجھے نہیں دیکھ سکتی“ ، پھر آپ نے قرآن کریم کی تلاوت شروع کر دی تاکہ اس سے بچ جائیں ، خود قرآن فرماتا ہے «وَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ جَعَلْنَا بَیْنَکَ وَبَیْنَ الَّذِینَ لَا یُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَۃِ حِجَابًا مَّسْتُورًا » ۱؎ (17-الإسراء:45) یعنی ’جب تو قرآن پڑھتا ہے تو ہم تیرے اور ایمان نہ لانے والوں کے درمیان پوشیدہ پردہ ڈال دیتے ہیں‘ ۔ یہ ڈائن آ کر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس کھڑی ہو گئی گو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس ہی بالکل ظاہر بیٹھے ہوئے تھے لیکن حجابوں نے اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ سکی ۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہنے لگی مجھے معلوم ہوا ہے کہ تیرے ساتھی نے میری ہجو کی ہے یعنی شعروں میں میری مذمت کی ہے ۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : نہیں ، نہیں ، رب البیت کی قسم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیری کوئی ہجو نہیں کی تو یہ کہتی ہوئی لوٹ گئی کہ قریش تو جانتے ہیں کہ میں ان کے سردار کی بیٹی ہوں } ۔ ۱؎ (مستدرک حاکم:361/2:صحیح) [ابن ابی حاتم] ایک مرتبہ یہ اپنی چادر اوڑھے طواف کر رہی تھی پیر چادر میں الجھ گیا اور پھسل پڑی تو کہنے لگی مذمم غارت ہو ۔ ام حکیم بنت عبدالطلب نے کہا میں تو پاک دامن عورت ہوں اپنی زبان نہیں بگاڑوں گی اور دوست پسند ہوں پس داغ نہ لگاؤں گی اور ہم سب ایک ہی دادا کی اولاد میں سے ہیں اور قریش ہی زیادہ جاننے والے ہیں ۔ بزار میں ہے کہ { اس نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تیرے ساتھی نے میری ہجو کی ہے تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے قسم کھا کر جواب دیا کہ نہ تو آپ شعر گوئی جانتے ہیں نہ کبھی آپ نے شعر کہے ، اس کے جانے کے بعد سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ! کیا اس نے آپ کو دیکھا نہیں ؟ آپ نے فرمایا : ”فرشتہ آڑ بن کر کھڑا ہوا تھا جب تک وہ واپس چلی نہ گئی“ } ۱؎ ۔ (مسند ابویعلی:23585:حسن) بعض اہل علم نے کہا ہے کہ اس کے گلے میں جہنم کی آگ کی رسی ہو گی جس سے اسے کھینچ کر جہنم کے اوپر لایا جائے گا پھر ڈھیلی چھوڑ کر جہنم کی تہہ میں ڈال دیا جائے گا یہی عذاب اسے ہوتا رہے گا ، ڈول کی رسی کو عرب «مسد» کہہ دیا کرتے ہیں ۔ عربی شعروں میں بھی یہ لفظ اسی معنی میں لایا گیا ہے ۔ ہاں یہ یاد رہے کہ یہ بابرکت سورت ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی ایک اعلیٰ دلیل ہے کیونکہ جس طرح ان کی بدبختی کی خبر اس سورت میں دی گئی تھی اسی طرح واقعہ بھی ہوا ان دونوں کو ایمان لانا آخر تک نصیب ہی نہ ہوا نہ تو وہ ظاہر میں مسلمان ہوئے ، نہ باطن میں ، نہ چھپے ، نہ کھلے ، پس یہ سورت زبردست بہت صاف اور روشن دلیل ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی ۔ اس سورت کی تفسیر بھی ختم ہوئی ۔ اللہ ہی کے لیے سب تعریفیں ہیں اور اسی کے فضل و کرم اور اسی کے احسان و انعام کی یہ برکت ہے ۔ الہب
2 الہب
3 الہب
4 الہب
5 الہب
0 الاخلاص
1 اپنی حکمت و تدبر میں وحدہ لا شریک اس کے نازل ہونے کی وجہ پہلے بیان ہو چکی ہے ، عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہود کہتے تھے ہم عزیز [علیہ السلام] کو پوجتے ہیں جو اللہ کے بیٹے ہیں اور نصرانی کہتے تھے ہم مسیح [علیہ السلام] کو پوجتے ہیں جو اللہ کے بیٹے ہیں اور مجوسی کہتے تھے ہم سورج چاند کی پرستش کرتے ہیں اور مشرک کہتے تھے ہم بت پرست ہیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ سورت اتاری کہ اے نبی ! تم کہہ دو کہ ہمارا معبود تو اللہ تعالیٰ ہے جو واحد اور احد ہے جس جیسا کوئی نہیں، جس کا کوئی وزیر نہیں، جس کا کوئی شریک نہیں، جس کا کوئی ہمسر نہیں، جس کا کوئی ہم جنس نہیں، جس کا برابر اور کوئی نہیں، جس کے سوا کسی میں الوہیت نہیں ۔ اس لفظ کا اطلاق صرف اسی کی ذات پاک پر ہوتا ہے وہ اپنی صفتوں میں اور اپنے حکمت بھرے کاموں میں یکتا اور بےنظیر ہوتا ہے ۔ وہ «صمد» ہے یعنی ساری مخلوق اس کی محتاج ہے اور وہ سب سے بے نیاز ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ «صمد» وہ ہے جو اپنی سرداری میں ، اپنی شرافت میں ، اپنی بندگی اور عظمت میں ، اپنے علم و علم میں ، اپنی حکمت و تدبر میں سب سے بڑھا ہوا ہے ۔ یہ صفتیں صرف اللہ تعالیٰ جل شانہ میں ہی پائی جاتی ہیں ۔ اس کا ہمسر اور اس جیسا کوئی اور نہیں وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ سب پر غالب ہے اور اپنی ذات و صفات میں یکتا اور بینظیر ہے ، «صمد» کے یہ معنی بھی کئے گئے ہیں کہ جو تمام مخلوق کے فنا ہو جانے کے بعد بھی باقی رہے ، جو ہمیشہ کی بقا والا ، سب کی حفاظت کرنے والا ہو جس کی ذات لازول اور غیر فانونی ہو ۔ عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں «صمد» وہ ہے جو نہ کچھ کھائے نہ اس میں سے کچھ نکلے ۔ یہ معنی بھی بیان کئے گئے ہیں کہ «صمد» کی تفسیر اس کے بعد ہے یعنی نہ اس میں سے کچھ نکلے نہ وہ کسی میں سے نکلے یعنی نہ اس کی اولاد ہو نہ ماں باپ ، یہ تفسیر بہت اچھی اور عمدہ ہے اور ابن جریر رحمہ اللہ کی روایت سے سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے صراحتاً یہ مروی ہے جیسے کہ پہلے گزرا ، اور بہت سے صحابہ اور تابعین سے مروی ہے کہ «صمد» کہتے ہیں ٹھوس چیز کو جو کھوکھلی نہ ہو جس کا پیٹ نہ ہو ۔ شعبی رحمہ اللہ کہتے ہیں جو نہ کھاتا ہو نہ پیتا ہو ، عبداللہ بن بریدہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں «صمد» وہ نور ہے جو روشن ہو اور چمک دمک والا ہو ، ایک مرفوع حدیث میں بھی ہے کہ «صمد» میں ہے جس کا پیٹ نہ ہو ۱؎ ، (طبرانی:1162:ضعیف) لیکن اس کا مرفوع ہونا ٹھیک نہیں ، صحیح یہ ہے کہ یہ موقوف ہے ۔ حافظ ابوالقاسم طبرانی رحمہ اللہ اپنی کتاب «السنہ» میں لفظ «صمد» کی تفسیر میں ان تمام اقوال وغیرہ کو وارد کر کے لکھتے ہیں کہ دراصل یہ سب سچے ہیں اور صحیح ہیں ۔ کل صفتیں ہمارے رب عزوجل میں ہیں اس کی طرف سب محتاج بھی ہیں وہ سب سے بڑھ کر سردار اور سب سے بڑا ہے اسے نہ پیٹ ہے، نہ وہ کھوکھلا ہے، نہ وہ کھائے، نہ پئے، سب فانی ہیں اور وہ باقی ہے ۔ وغیرہ پھر فرمایا : اس کی اولاد نہیں نہ اس کے ماں باپ ہیں نہ بیوی ۔ جیسے اور جگہ ہے : «بَدِیعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَنَّیٰ یَکُونُ لَہُ وَلَدٌ وَلَمْ تَکُنْ لَہُ صَاحِبَۃٌ وَخَلَقَ کُلَّ شَیْءٍ» ۱؎ (6-الأنعام:101) الخ یعنی ’وہ زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا ہے اسے اولاد کیسے ہو گی ؟ اس کی بیوی نہیں ہر چیز کو اسی نے پیدا کیا ہے‘ ، یعنی وہ ہر چیز کا خالق مالک ہے، پھر اس کی مخلوق اور ملکیت میں سے اس کی برابری اور ہمسری کرنے والا کون ہو گا ؟ وہ ان تمام عیوب اور نقصان سے پاک ہے ۔ جیسے اور جگہ فرمایا : «وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا» * «لَقَدْ جِئْتُمْ شَیْئًا إِدًّا» * «تَکَادُ السَّمَاوَاتُ یَتَفَطَّرْنَ مِنْہُ وَتَنْشَقٰ الْأَرْضُ وَتَخِرٰ الْجِبَالُ ہَدًّا» * «أَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمٰنِ وَلَدًا» * «وَمَا یَنْبَغِی لِلرَّحْمٰنِ أَنْ یَتَّخِذَ وَلَدًا» * «إِنْ کُلٰ مَنْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِی الرَّحْمٰنِ عَبْدًا» * «لَقَدْ أَحْصَاہُمْ وَعَدَّہُمْ عَدًّا» * «وَکُلٰہُمْ آتِیہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَرْدًا» ۲؎ (19-مریم:88-95) یعنی ’یہ کفار کہتے ہیں کہ اللہ کی اولاد ہے تم تو ایک بڑی بری چیز لائے قریب ہے کہ آسمان پھٹ جائیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ پارہ پارہ ہو کر گر پڑیں ، اس بنا پر کہ انہوں نے کہا کہ اللہ کی اولاد ہے حالانکہ اللہ کو یہ لائق ہی نہیں کہ اس کی اولاد ہو تمام زمین و آسمان میں کے کل کے کل اللہ کے غلام ہی بن کر آنے والے ہیں اللہ کے پاس تمام کا شمار ہے اور انہیں ایک ایک کر کے گن رکھا ہے اور یہ سب کے سب تنہا تنہا اس کے پاس قیامت کے دن حاضر ہونے والے ہیں‘ ۔ اور جگہ ہے : «وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا سُبْحَانَہُ بَلْ عِبَادٌ مُکْرَمُونَ» * «لَا یَسْبِقُونَہُ بِالْقَوْلِ وَہُمْ بِأَمْرِہِ یَعْمَلُونَ» ۳؎ (21-الأنبیاء:26) یعنی ’ان کافروں نے کہا کہ رحمان کی اولاد ہے اللہ اس سے پاک ہے بلکہ وہ تو اللہ کے باعزت بندے ہیں بات میں بھی اس سے سبقت نہیں کرتے اسی کے فرمان پر عامل ہیں‘ ۔ اور جگہ ہے : «وَجَعَلُوا بَیْنَہُ وَبَیْنَ الْجِنَّۃِ نَسَبًا وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّۃُ إِنَّہُمْ لَمُحْضَرُونَ» * «سُبْحَانَ اللہِ عَمَّا یَصِفُونَ» ۴؎ (37-الصافات:158-159) یعنی ’انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اور جنات کے درمیان نسب قائم کر رکھا ہے حالانکہ جنات تو خود اس کی فرمانبرداری میں حاضر ہیں اللہ تعالیٰ ان کے بیان کردہ عیوب سے پاک و برتر ہے‘ ۔ صحیح بخاری میں ہے کہ {ایذاء دینے والی باتوں کو سنتے ہوئے صبر کرنے میں اللہ سے زیادہ صابر کوئی نہیں لوگ اس کی اولاد بتاتے ہیں اور پھر بھی وہ انہیں روزیاں دیتا ہے اور عافیت و تنگ دستی عطا فرماتا ہے} ۱؎ ۔ (صحیح بخاری:7378) بخاری کی اور روایت میں ہے کہ {اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ابن آدم مجھے جھٹلاتا ہے حالانکہ اسے ایسا نہ چاہیئے مجھے گالیاں دیتا ہے اور اسے یہ بھی لائق نہ تھا اس کا مجھے جھٹلاتا تو یہ ہے کہ وہ کہتا ہے جس طرح اولاً اللہ نے مجھے پیدا کیا ایسے ہی پھر نہیں لوٹائے گا حالانکہ پہلی مرتبہ کی پیدائش دوسری مرتبہ کی پیدائش سے کچھ آسان تو نہ تھی جب میں اس پر قادر ہوں تو اس پر کیوں نہیں ؟ اور اس کا مجھے گالیاں دینا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے اللہ کی اولاد ہے حالانکہ میں تنہا ہوں میں ایک ہی ہوں میں صمد ہوں نہ میری اولاد نہ میرے ماں باپ نے مجھ جیسا کوئی اور} ۲؎ (صحیح بخاری:4974) «الحمداللہ» سورۃ الاخلاص کی تفسیر اللہ کے فضل و کرم اور اس کے لطف و رحم سے ختم ہوئی ۔ الاخلاص
2 الاخلاص
3 الاخلاص
4 الاخلاص
0 الفلق
1 بیماری، وبا، جادو اور ان دیکھی بلاؤں سے بچاؤ کی دعا سیدنا جابر رضی اللہ عنہ وغیرہ فرماتے ہیں «فَلَقِ» کہتے ہیں صبح کو ، خود قرآن میں اور جگہ ہے «فَالِقُ الْإِصْبَاحِ» ۱؎ (6-الأنعام:96) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے «فَلَقِ» سے مراد مخلوق ہے ۔ سیدنا کعب احبار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں «فَلَقِ» جہنم میں ایک جگہ ہے جب اس کا دروازہ کھلتا ہے تو اس کی آگ گرمی اور سختی کی وجہ سے تمام جہنمی چیخنے لگتے ہیں ۔ ایک مرفوع حدیث میں بھی اسی کے قریب قریب مروی ہے ، لیکن وہ حدیث منکر ہے ۔ یہ بھی بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ جہنم کا نام ہے ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سب سے زیادہ ٹھیک قول پہلا ہی ہے یعنی مراد اس سے صبح ہے ۔ امام بخاری رحمہ اللہ بھی یہی فرماتے ہیں اور یہی صحیح ہے ۔ تمام مخلوق کی برائی سے جس میں جہنم بھی داخل ہے اور ابلیس اور اولاد ابلیس بھی ۔ «غَاسِقٍ» سے مراد رات ہے ۔ «إِذَا وَقَبَ» سے مراد سورج کا غروب ہو جانا ہے ، یعنی رات جب اندھیرا لیے ہوئے آ جائے ، ابن زید رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ عرب ثریا ستارے کے غروب ہونے کو «غَاسِقٍ» کہتے ہیں ۱؎ ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:38375:ضعیف) بیماریاں اور وبائیں اس کے واقع ہونے کے وقت بڑھ جاتی تھیں اور اس کے طلوع ہونے کے وقت اٹھ جاتی تھیں ۔ ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ ستارہ «غَاسِقٍ» ہے ، لیکن اس کا مرفوع ہونا صحیح نہیں ، بعض مفسرین کہتے ہیں مراد اس سے چاند ہے ۔ ان کی دلیل مسند احمد کی یہ حدیث ہے جس میں ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا ہاتھ تھامے ہوئے چاند کی طرف اشارہ کر کے فرمایا : «تَعَوَّذِی بِاَللَّہِ مِنْ شَرّ ہَذَا الْغَاسِق إِذَا وَقَبَ» ’اللہ تعالیٰ سے اس غاسق کی برائی سے پناہ مانگ‘} ۱؎ (سنن ترمذی:3366،قال الشیخ الألبانی:حسن صحیح) اور روایت میں ہے کہ «غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ» سے یہی مراد ہے ، دونوں قولوں میں باآسانی یہ تطبیق ہو سکتی ہے کہ چاند کا چڑھنا اور ستاروں کا ظاہر ہونا وغیرہ ، یہ سب رات ہی کے وقت ہوتا ہے جب رات آ جائے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» گرہ لگا کر پھونکنے والیوں سے مراد جادوگر عورتیں ہیں ، مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں شرک کے بالکل قریب وہ منتر ہیں جنہیں پڑھ کر سانپ کے کاٹے پر دم کیا جاتا ہے اور آسیب زدہ پر ۔ دوسری حدیث میں ہے کہ {جبرائیل علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا : کیا آپ بیمار ہیں ؟ آپ نے فرمایا : ”ہاں“ ، تو جبرائیل علیہ السلام نے یہ دعا پڑھی «بِسْمِ اللَّہ أَرْقِیک مِنْ کُلّ دَاء یُؤْذِیک وَمِنْ شَرّ کُلّ حَاسِد وَعَیْن اللَّہ یَشْفِیک» یعنی ”اللہ تعالیٰ کے نام سے میں دم کرتا ہوں ہر اس بیماری سے جو تجھے دکھ پہنچائے اور ہر حاسد کی برائی اور بدی سے اللہ تجھے شفاء دے“} ۲؎ ۔ (سنن ترمذی:972،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اس بیماری سے مراد شاید وہ بیماری ہے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا گیا تھا پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو عافیت اور شفاء بخشی اور حاسد یہودیوں کے جادوگر کے مکر کو رد کر دیا اور ان کی تدبیروں کو بےاثر کر دیا اور انہیں رسوا اور فضیحت کیا ، لیکن باوجود اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی اپنے اوپر جادو کرنے والے کو ڈانٹا ڈپٹا تک نہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کی کفایت کی اور آپ کو عافیت اور شفاء عطا فرمائی ۔ مسند احمد میں ہے {نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک یہودی نے جادو کیا جس سے کئی دن تک آپ بیمار رہے پھر جبرائیل علیہ السلام نے آ کر بتایا کہ فلاں یہودی نے آپ جادو کیا ہے اور فلاں فلاں کنوئیں میں گرہیں لگا کر کر رکھا ہے آپ کسی کو بھیج کر اسے نکلوا لیجئے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آدمی بھیجا اور اس کنوئیں سے وہ جادو نکلوا کر گرہیں کھول دیں سارا اثر جاتا رہا پھر نہ تو آپ نے اس یہودی سے کبھی اس کا ذکر کیا اور نہ کبھی اس کے سامنے غصہ کا اظہار کیا} ۳؎ ۔ (مسند احمد:367/4:صحیح بغیر ھذا سیاق) صحیح بخاری کتاب الطب میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا گیا آپ سمجھتے تھے کہ آپ ازواج مطہرات کے پاس آئے حالانکہ نہ آئے تھے ۔ سفیان فرماتے ہیں یہی سب سے بڑا جادو کا اثر ہے ، جب یہ حالت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہو گئی ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : ”عائشہ میں نے اپنے رب سے پوچھا اور میرے پروردگار نے بتا دیا ، دو شخص آئے ایک میرے سرہانے بیٹھا ایک پائینتی کی طرف ، سرہانے والے نے اس دوسرے سے پوچھا : ان کا کیا حال ہے ؟ دوسرے نے کہا ان پر جادو کیا گیا ہے پوچھا : کس نے جادو کیا ہے ؟ کہا لبید بن اعصم نے جو بنو رزیق کے قبیلے کا ہے جو یہود کا حلیف ہے اور منافق شخص ہے ، کہا کس چیز میں ؟ کہا سر کے بالوں اور کنگھی میں، پوچھا : دکھا کہاں ہے ؟ کہا تر کھجور کے درخت کی چھال میں پتھر کی چٹان تلے ذروان کے کنوئیں میں“ ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کنوئیں کے پاس آئے اور اس میں سے وہ نکلوایا اس کا پانی ایسا تھا گویا مہندی کا گدلا پانی اس کے پاس کے کھجوروں کے درخت شیطانوں کے سر جیسے تھے ، میں نے کہا بھی کہ اے اللہ کے رسول ! ان سے بدلہ لینا چاہیئے ، آپ نے فرمایا : ”الحمداللہ ، اللہ تعالیٰ نے مجھے تو شفاء دے دی اور میں لوگوں میں برائی پھیلانا پسند نہیں کرتا“} ۱؎ ۔ (صحیح بخاری:5765) دوسری روایت میں یہ بھی ہے کہ {ایک کام کرتے نہ تھے اور اس کے اثر سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ گویا میں کر چکا ہوں اور یہ بھی ہے کہ اس کنوئیں کو آپ کے حکم سے بند کر دیا گیا} ۱؎ ، (صحیح بخاری:6064) یہ بھی مروی ہے کہ چھ مہینے تک آپ کی یہی حالت رہی ، تفسیر ثعلبی میں سیدنا ابن عباس اور ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ یہود کا ایک بچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا اسے یہودیوں نے بہلا سکھا کر آپ کے چند بال اور آپ کی کنگھی کے چند دندانے منگوا لیے اور ان میں جادو کیا اس کام میں زیادہ تر کوشش کرنے والا لبید بن اعصم تھا پھر ذروان نامی کنوئیں میں جو بنوزریق کا تھا اسے ڈال دیا پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہو گئے سر کے بال جھڑنے لگے ، خیال آتا تھا کہ میں عورتوں کے پاس ہو آیا حالانکہ آتے نہ تھے ، گو آپ اسے دور کرنے کی کوشش میں تھے لیکن وجہ معلوم نہ ہوتی تھی چھ ماہ تک یہی حال رہا پھر وہ واقعہ ہوا جو اوپر بیان کیا کہ فرشتوں کے ذریعے آپ کو اس کا تمام حال علم ہو گیا اور آپ نے سیدنا علی ، سیدنا زبیر اور سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہم کو بھیج کر کنوئیں میں سے وہ سب چیزیں نکلوائیں ان میں ایک تانت تھی جس میں میں بارہ گرہیں لگی ہوئی تھیں اور ہر گرہ پر ایک سوئی چبھی ہوئی تھی ، پھر اللہ تعالیٰ نے یہ دونوں سورتیں اتاریں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایک آیت ان کی پڑھتے جاتے تھے اور ایک ایک گرہ اس کی خودبخود کھلتی جاتی تھی ، جب یہ دونوں سورتیں پوری ہوئیں وہ سب گرہیں کھل گئیں اور آپ بالکل شفایاب ہو گئے ۔ ادھر جبرائیل علیہ السلام نے وہ دعا پڑھی جو اوپر گزر چکی ہے ، لوگوں نے کہا : اے اللہ کے نبی ! ہمیں اجازت دیجئیے کہ ہم اس خبیث کو پکڑ کر قتل کر دیں آپ نے فرمایا : ”نہیں ، اللہ نے مجھے تو تندرستی دے دی اور میں لوگوں میں شر و فساد پھیلانا نہیں چاہتا“ ۔ یہ روایت تفسیر ثعلبی میں بلا سند مروی ہے اس میں غربات بھی ہے اور اس کے بعض حصے میں سخت نکارت ہے اور بعض کے شواہد بھی ہیں جو پہلے بیان ہو چکے ہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» الفلق
2 الفلق
3 الفلق
4 الفلق
5 الفلق
0 الناس
1 خالق، پرورش کنندہ، مالک، حکمران، معبود حقیقی اور پناہ دہندہ اس میں اللہ تعالیٰ عزوجل کی تین صفتیں بیان ہوئی ہیں ، پالنے اور پرورش کرنے کی ، مالک اور شہنشاہ ہونے کی ، معبود اور لائق عبادت ہونے کی تمام چیزیں اسی کی پیدا کی ہوئی ہیں اسی کی ملکیت میں ہیں اور اسی کی غلامی میں مشغول ہیں ، پس وہ حکم دیتا ہے کہ ان پاک اور برتر صفات والے اللہ کی پناہ میں آ جائے جو بھی پناہ اور بچاؤ کا طالب ہو ، شیطان جو انسان پر مقرر ہے اس کے وسوسوں سے وہی بچانے والا ہے ، شیطان ہر انسان کے ساتھ ہے ۔ برائیوں اور بدکاریوں کو خوب زینت دار کر کے لوگوں کے سامنے وہ پیش کرتا رہتا ہے اور بہکانے میں راہ راست سے ہٹانے میں کوئی کمی نہیں کرتا ۔ اس کے شر سے وہی محفوظ رہ سکتا ہے جسے اللہ بچا لے ۔ صحیح حدیث میں ہے {تم میں سے ہر شخص کے ساتھ ایک شیطان ہے لوگوں نے کہا کیا آپ کے ساتھ بھی آپ نے فرمایا : ” ہاں ! لیکن اللہ تعالیٰ نے اس پر میری مدد فرمائی ہے پس میں سلامت رہتا ہوں وہ مجھے صرف نیکی اور اچھائی کی بات ہی کہتا ہے “ } ۱؎ ۔ (صحیح مسلم:2814) بخاری و مسلم کی اور حدیث میں {سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی زبانی ایک واقعہ منقول ہے جس میں بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اعتکاف میں تھے تو ام المؤمنین سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا آپ کے پاس رات کے وقت آئیں جب واپس جانے لگیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی پہنچانے کے لیے ساتھ چلے راستے میں دو انصاری صحابی مل گئے جو آپ کو بیوی صاحبہ کے ساتھ دیکھ کر جلدی چل دیے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آواز دے کر ٹھہرایا اور فرمایا : ”سنو ! میرے ساتھ میری بیوی صفیہ بنت حی ہیں“ ، انہوں نے کہا سبحان اللہ یا رسول اللہ ! اس فرمان کی ضرورت ہی کیا تھی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”انسان کے خون کے جاری ہونے کی جگہ شیطان گھومتا پھرتا رہتا ہے ، مجھے خیال ہوا کہ کہیں تمہارے دلوں میں وہ کوئی بدگمانی نہ ڈال دے“} ۱؎ (صحیح بخاری:2035) حافظ ابو یعلیٰ موصلی رحمہ اللہ نے ایک حدیث وارد کی ہے جس میں ہے کہ {نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ شیطان اپنا ہاتھ انسان کے دل پر رکھے ہوئے ہے اگر یہ اللہ کا ذکر کرتا ہے تب اس کا ہاتھ ہٹ جاتا ہے اور اگر یہ ذکر اللہ بھول جاتا ہے تو وہ اس کے دل پر پورا قبضہ کر لیتا ہے ، یہی «وَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ» ہے ۔} ۲؎ (سلسلۃ احادیث ضعیفہ البانی:1367) ، یہ حدیث غریب ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گدھے پر سوار ہو کر کہیں جا رہے تھے ایک صحابی آپ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے گدھے نے ٹھوکر کھائی تو ان کے منہ سے نکلا شیطان برباد ہو ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” یوں نہ کہو اس سے شیطان پھول کر بڑا ہو جاتا ہے ۳؎ ، (مسند احمد:71/5:صحیح) اور کہتا ہے کہ میں نے اپنی قوت سے گرا دیا اور جب تم «بسم اللہ» کہو تو وہ گھٹ جاتا ہے یہاں تک مکھی کہ برابر ہو جاتا ہے “ ، اس سے ثابت ہوا کہ ذکر اللہ سے شیطان پست اور مغلوب ہو جاتا ہے اور اس کے چھوڑ دینے سے وہ بڑا ہو جاتا ہے اور غالب آ جاتا ہے} ۔ مسند احمد میں ہے {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ”جب تم میں سے کوئی مسجد میں ہوتا ہے اس کے پاس شیطان آتا ہے اور اسے تھپکتا اور بہلاتا ہے جیسے کوئی شخص اپنے جانور کو بہلاتا ہو پھر اگر وہ خاموش رہا تو وہ ناک میں نکیل یا منہ میں لگام چڑھا دیتا ہے“ } ، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث بیان فرما کر فرمایا : تم خود اسے دیکھتے ہو نکیل والا تو وہ ہے جو ایک طرف جھکا کھڑا ہو اور اللہ کا ذکر نہ کرتا ہو ۱؎ (مسند احمد:330/2:اسنادہ قوی) اور لگام والا وہ ہے جو منہ کھولے ہوئے ہو اور اللہ کا ذکر نہ کرتا ہو ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: شیطان ابن آدم کے دل پر چٹکی مارے ہوئے ہے جہاں یہ بھولا اور غفلت کی کہ اس نے وسوسے ڈالنے شروع کئے اور جہاں اس نے ذکر اللہ کیا اور یہ پیچھے ہٹا ۔ سلیمان رحمہ اللہ فرماتے ہیں مجھ سے یہ بیان کیا گیا ہے کہ شیطان راحت و رنج کے وقت انسان کے دل میں سوراخ کرنا چاہتا ہے یعنی اسے بہکانا چاہتا ہے اگر یہ اللہ کا ذکر کرے تو یہ بھاگ کھڑا ہوتا ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ بھی مروی ہے کہ شیطان برائی سکھاتا ہے جہاں انسان نے اس کی مان لی پھر ہٹ جاتا ہے ۔ پھر فرمایا : جو وسوسے ڈالتا ہے لوگوں کے سینے میں ، لفظ «ناس» جو انسان کے معنی میں ہے اس کا اطلاق جنوں پر بھی بطور غلبہ کے آ جاتا ہے ۔ قرآن میں اور جگہ ہے «بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ» ۲؎ (72-الجن:6) کہا گیا ہے تو جنات کو لفظ «ناس» میں داخل کر لینے میں کوئی قباحت نہیں ، غرض یہ ہے کہ شیطان جنات کے اور انسان کے سینے میں وسوسے ڈالتا رہتا ہے ۔ اس کے بعد کے جملے میں «مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ» کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ جن کے سینوں میں شیطان وسوسے ڈالتا ہے وہ جن بھی ہیں اور انسان بھی اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ وہ وسواس ڈالنے والا خواہ کوئی جن ہو خواہ کوئی انسان۔ جیسے اور جگہ ہے «وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیَاطِینَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ یُوحِی بَعْضُہُمْ إِلَیٰ بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا وَلَوْ شَاءَ رَبٰکَ مَا فَعَلُوہُ فَذَرْہُمْ وَمَا یَفْتَرُونَ» ۱؎ (6-الأنعام:112) یعنی ’اسی طرح ہم نے ہر نبی کے دشمن انسانی اور جناتی شیطان بنائے ہیں ایک دوسرے کے کان میں دھوکے کی باتیں بنا سنوار کر ڈالتے رہتے ہیں‘ ۔ مسند احمد میں ہے {سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مسجد میں آیا اور بیٹھ گیا ، آپ نے فرمایا : ”نماز پڑھی ؟“ میں نے کہا نہیں ، فرمایا : ”کھڑے ہو جاؤ اور دو رکعت ادا کر لو“ ، میں اٹھا اور دو رکعت پڑھ کر بیٹھ گیا ، آپ نے فرمایا : ”اے ابوذر ! اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگو انسان شیطانوں اور جن شیطانوں سے“ ، میں نے کہا : یا رسول اللہ ! کیا انسانی شیطان بھی ہوتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : ”ہاں“ ، ۱؎ (سنن نسائی:5509،قال الشیخ الألبانی:ضعیف الإسناد) میں نے کہا : یا رسول اللہ ! نماز کیسی چیز ہے ، آپ نے ارشاد فرمایا : ”بہترین چیز ہے ، جو چاہے کم کرے جو چاہے اس عمل کو زیادہ کرے“ ، میں نے پوچھا : روزہ ؟ فرمایا : ”کافی ہونے والا فرض ہے اور اللہ کے پاس اجر و ثواب لا انتہا ہے“ ، میں نے پھر پوچھا : صدقہ ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”بہت ہی بڑھا چڑھا کر کئی گنا کر کے بدلہ دیا جائے گا“ ، میں نے پھر عرض کی : یا رسول اللہ ! کون سا صدقہ افضل ہے ؟ فرمایا : ”باوجود مال کی کمی کے صدقہ کرنا یا چپکے سے چھپا کر کسی مسکین فقیر کے ساتھ سلوک کرنا“ ، میں نے سوال کیا : یا رسول اللہ ! سب سے پہلے نبی کون تھے ؟ آپ نے فرمایا : ”آدم علیہ السلام“ ، میں نے پوچھا کیا وہ نبی تھے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”ہاں وہ نبی تھے اور وہ بھی وہ جن سے اللہ تعالیٰ نے بات چیت کی“ ، میں نے کہا : یا رسول اللہ ! رسول کتنے ہوئے ؟ فرمایا : ”تین سو کچھ اوپر دس بہت بڑی جماعت“ اور کبھی فرمایا : ”تین سو پندرہ“ ، میں نے کہا : یا رسول اللہ ! جو کچھ آپ پر نازل کیا گیا ان سب سے بڑی عظمت والی آیت کون سی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”آیت الکرسی « اللہُ لَا إِلَـہَ إِلَّا ہُوَ الْحَیٰ الْقَیٰومُ لَا تَأْخُذُہُ سِنَۃٌ وَلَا نَوْمٌ لَّہُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ مَن ذَا الَّذِی یَشْفَعُ عِندَہُ إِلَّا بِإِذْنِہِ یَعْلَمُ مَا بَیْنَ أَیْدِیہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ وَلَا یُحِیطُونَ بِشَیْءٍ مِّنْ عِلْمِہِ إِلَّا بِمَا شَاءَ وَسِعَ کُرْسِیٰہُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَلَا یَئُودُہُ حِفْظُہُمَا وَہُوَ الْعَلِیٰ الْعَظِیمُ» } ۲؎ (2-البقرۃ:255)} ۳؎ (مسند احمد:178/5:ضعیف) یہ حدیث نسائی میں بھی ہے اور ابوحاتم بن حبان کی صحیح ابن حبان میں تو دوسری سند سے دوسرے الفاظ کے ساتھ یہ حدیث بہت بڑی ہے ۔ «فَاللہُ اَعْلَمُ» مسند احمد کی ایک اور حدیث شریف میں ہے کہ {ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میرے دل میں تو ایسے ایسے خیالات آتے ہیں کہ ان کا زبان سے نکالنا مجھ پر آسمان سے گر پڑنے سے بھی زیادہ برا ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”«اللہُ اکبر اللہُ اکبر» اللہ ہی کے لیے حمد و ثناء ہے جس نے شیطان کے مکر و فریب کو وسوسے میں ہی لوٹا دیا“} ، یہ حدیث ابوداؤد اور نسائی میں بھی ہے ۱؎ ۔ (سنن ابوداود:5112،قال الشیخ الألبانی:صحیح) «الْحَمْدُ لِلّٰہ» اللہ تعالیٰ کے احسان سے یہ تفسیر ختم ہوئی ۔ «وَالْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ» اللہ کے فضل و کرم سے تیسویں پارے کی تفسیر بھی ختم ہوئی اور تفسیر ابن کثیر کا ترجمہ تفسیر محمدی بالکل کامل ہو گیا ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے پاک کلام کی صحیح سمجھ دے اور اس پر عمل نصیب فرمائے اور پھر قبول کرے ۔ «آمین» «وَالْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ . وَصَلَّی اللہُ عَلَی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہِ وَصَحْبِہِ أَجْمَعِینَ . وَرَضِیَ اللہُ عَنِ الصَّحَابَۃِ أَجْمَعِینَ» الناس
2 الناس
3 الناس
4 الناس
5 الناس
6 الناس
Flag Counter